Language: UR
سال 1947ء کے حالات پر مشتمل شعبہ تاریخ احمدیت قادیان
ty تاریخ احمدیت بھارت جلد 1 مولف محمد حمید کوثر انچارج شعبہ تاریخ احمدیت قادیان
تاریخ احمدیت بھارت جلد اول (1) سال 1947ء کے حالات پر مشتمل مولفه محمد حمید کوثر انچارج شعبه تاریخ احمدیت قادیان
نام کتاب مؤلفہ تاریخ احمدیت بھارت جلد اوّل محمدحمید کوثر انچارج شعبہ تاریخ احمدیت بھارت پہلی اشاعت جولائی 2019 تعداد 1000 مطبع نظارت نشر و اشاعت قادیان 143516 ضلع گورداسپور، پنجاب، بھارت فضل عمر پر نٹنگ پریس قادیان Taareekh-e-Ahmadiyyat Bharat (History of Ahmadiyyat)Vol-1(Urdu) By: Muhammad Hameed Kausar First Published: July 2019 Copies:1000 Published By: Nazarat Nashr-o-ishaat Qadian, 143516 Distt.Gurdaspur,Punjab,India Printed at: Fazl-e-umar printing press Qadian
بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ عرض ناشر قادیان جماعت احمد یہ عالمگیر کا دائی مرکز ہے.تقسیم ملک کے بعد قادیان اور ہندوستان میں احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہورہی تھی تاکہ تقسیم ملک سے لے کر اب تک کے حالات و واقعات اور جماعتی تاریخ اور بھارت میں جماعتوں کے قیام، ان کے استحکام اور ترقیات کو ایک جگہ مستند طور پر جمع کیا جاسکے.چنانچہ اس غرض کے لئے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 20 جون 2010 کو شعبہ تاریخ احمدیت بھارت کے نام سے ایک شعبہ قائم کرنے کی از راہ شفقت منظوری عطا فرمائی اور مکرم مولا نا محمد حمید کوثر صاحب کو اس کا انچارج مقرر فرمایا.یہ شعبہ اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے انتہائی کوشش کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس شعبہ کے تحت سال 1947 کے حالات پر مشتمل " تاریخ احمدیت بھارت کی پہلی جلد سید نا حضور انور کی منظوری سے طبع کی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت ہر لحاظ سے مبارک کرے اور اس سلسلہ میں کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی بہترین جزاء عطا فرمائے.آمین.حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان
تاریخ احمدیت بھارت = III جلد اول نمبر شمار فہرست مضامین تاریخ احمدیت بھارت جلد اول 1 تاریخ احمدیت بھارت بعد از تقسیم ملک 2 حضرت مسیح موعود کے مختصر خاندانی حالات مضامین باب اول 1 1 7 3 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آباؤ اجداد کی قادیان سے بیگو وال کی طرف ہجرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی بیگو وال سے قادیان واپسی اور آپ کی پیدائش 8 5 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارادہ ہجرت حواشی باب اول 9 14 باب دوم قادیان سے ہجرت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات وكشوف اور حضرت 15 المصلح الموعود کا انتباہ الہام داغ ہجرت 9 حفاظت مرکز کے لئے دولاکھ روپے چندہ کی تحریک 10 تحریک وقف جائیداد 15 18 22 11 قادیان کے غیر از جماعت افراد کوحضرت مصلح موعود کی طرف سے حفاظت کی یقین دہانی 25 12 ہندوستان کی آزادی کے بل کا منظر عام پر آنا 28
جلد اوّل IV 13 ہندوستان کی آزادی کا اعلان اور پاکستان کا قیام 14 حفاظت مرکز کے لئے احتیاطی اقدام اور احمدی نوجوانوں کا عدیم المثال ایثار تاریخ احمدیت بھارت 28 28 36 15 مستقل خدام کی ڈیوٹیاں 16 حواشی باب دوم باب سوم 39 40 17 پنجاب میں خون ریز فسادات کا آغاز ، شر پسندوں کے حملے، حضرت مصلح موعود کی ہجرت 43 اور قادیان کی احمدی آبادی کا لاہور منتقل ہونا 18 قادیان کی ریل گاڑی پر شر پسندوں کا حملہ 19 حضرت مصلح موعودؓ کا روح پرور پیغام اپنی جماعت کے نام اور شکستہ دلوں کو حوصلہ افزائی | 20 ہجرت سے قبل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دو اہم پیغام 21 سانحہ داغ ہجرت آپہنچا 22 حضرت مصلح موعودؓ کی قادیان سے ہجرت کے حالات 23 اسیروں کا رستگار 44 #4 48 52 53 56 656 قادیان کی احمدی آبادی خصوصاً مستورات اور احمدی بچوں کے لاہور بھجوائے جانے کی کوشش 57 25 انخلاء آبادی کا نقشہ حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے الفاظ میں 26 احمدی خواتین کی حفاظت کا شاندار کارنامہ 27 | قادیان سے عورتوں اور بچوں کا بحفاظت نکالا جانا حضرت مصلح موعودؓ کا ایک عظیم کارنامہ 28 سید نا اصلح الموعود کی جانب سے قافلوں کی حفاظت کے لئے صدقہ کا انتظام 29 قادیان اور اس کے گردونواح میں بربریت کی خود ساختہ وجہ 60 64 72 73 74 156 30 خدا تعالیٰ کی طرف سے فسادات کے ایام میں احمدیوں کے ساتھ دوسروں کی نسبت امتیازی سلوک | 75 31 قادیان سے لوائے احمدیت کالا ہور منتقل کیا جانا 76
تاریخ احمدیت بھارت 32 احباب کی ذاتی امانتوں کا لا ہور منتقل کیا جانا 33 قادیان سے دفاتر کا عملہ ریکارڈ اور دستاویزات کا لاہور منتقل کیا جانا حواشی باب سوم باب چهارم جلداول 77 79 85 35 حضرت مصلح موعودؓ کی ہجرت کے بعد کے اہم واقعات 36 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے دو اہم مکتوب 37 مظالم قادیان کا خونی روز نامچہ صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی ڈائری میں درج واقعات 87 87 93 103 39 تقسیم ملک کے وقت رونما ہونے والے واقعات از : حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ 106 41 قادیان پر جبر و تشدد کے متفرق خونی واقعات کا جامع نقشہ 42 بہشتی مقبرہ کی حفاظت 43 2 اور 3 اکتوبر 1947ء کے چشم دید حالات دہلی کے فسادات اور احمدی شہداء کا ذکر 45 سروعہ کا معرکہ اور احمدی شہداء 46 | معرکہ سٹھیالی اور احمدی شہید 47 موضع و نجواں میں پچاس شہادتیں 48 موضع تلونڈی جھنگلاں کا دفاع 49 موضع مراد پورہ کا واقعہ 50 کیڑی افغاناں اور علاقہ بیٹ پر مفسدہ پردازوں کے حملے 51 موضع تغلوال میں سات احمدیوں کی شہادت 52 معرکہ موضع کھارا 113 135 137 145 148 153 154 156 162 164 165 168
جلد اوّل VI تاریخ احمدیت بھارت 53 حواشی باب چهارم باب پنجم 170 قادیان پر حملہ اور خونریز واقعات کی تفصیلات اور سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے اہم مضامین 181 وتذكره شهداء 55 سیدنا حضرت مصلح موعود کا پہلا مضمون بعنوان ” قادیان“ 56 سیدنا حضرت مصلح موعود کا دوسرا مضمون بعنوان ” قادیان 57 سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا تیسرا مضمون بعنوان ” قادیان کی خونریز جنگ“ 58 سید نا حضرت مصلح موعودؓ کی پنڈت جواہر لال نہرو وزیر اعظم بھارت سے ملاقات لمصلح 59 سیدنا حضرت اصلح الموعود کے خطبہ جمعہ میں شہدائے قادیان کا دردانگیز ذکر کادر المصل 60 قادیان کے حالات سے متعلق حضرت امصلح الموعود کی پریس کانفرنس 181 187 191 196 198 200 61 قادیان کے المناک کوائف اور جماعت احمدیہ کی مظلومیت اور ملی خدمات کا چر چاعالمی پریس میں 202 62 بھارت کے اخبارات میں فسادات قادیان کا ذکر 63 برما کے اخبارات 64 | ایران کے اخبارات 65 ارجنٹائن کے اخبارات 66 برطانوی پریس میں ذکر 67 پاکستانی اخبارات 68 خدائی رعب اور حملہ آوروں کی پسپائی 69 بذریعہ خوف و ہراس احمدیوں کو نکالنے کی کوشش لمصل 202 203 204 205 206 207 239 241 70 قادیان میں مقیم اپنے جسمانی اور روحانی بچوں کے نام حضرت اصلح الموعود کا دردبھرا پیغام 244 71 حفاظت شعائر اللہ کے بارے میں عہدیداران جماعت کی اہم میٹنگ 247
تاریخ احمدیت بھارت VII 72 | جماعت احمدیہ کے عہدیداران اور سرکاری افسران کی گفت وشنید اور باہمی معاہدہ 73 مرکزی حکومت کی طرف سے اعلیٰ سطح کے وفد کی قادیان میں آمد جلد اوّل 248 250 حکومت کی طرف سے تین سو تیرہ احمدیوں کو قادیان میں رہنے کی اجازت اور درویشان کا انتخاب 252 75 درویشان کے انتخاب کے سلسلہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک مکتوب لمصلہ 76 سیدنا حضرت الصلح الموعود کا قادیان میں رہنے والے درویشان کے تعلق سے اہم فیصلہ 253 256 257 77 درویشوں کے انتخاب کا اولین مرحلہ 78 قادیان میں رہنے والے درویشان کے لئے حضرت مصلح الموعود کی زریں ہدایات اور اہم فیصلے 260 لمصل 79 16 نومبر 1947 ء ہجرت کرنے والوں کے آخری قافلہ کا رقت امیز منظر 80 شہدائے احمدیت 1947ء کا ذکر خیر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع” کے الفاظ میں 81 جمعدار محمد اشرف صاحب شہید 2 میاں علم الدین صاحب شہید 83 سید محبوب عالم صاحب بہاری شہید 84 مکرم پیر سلطان عالم صاحب شہید 85 مکرم مرزا احمد شفیع صاحب شہید 86 مکرم ملک حمید علی صاحب شہید 87 مکرم ماسٹر عبدالعزیز صاحب شہید 88 مکرم غلام محمد صاحب شہید اور مکرم عبد الحق صاحب شہید 89 مکرم محمد رمضان صاحب شہید آف کھارا اور انکا خاندان 90 مکرم نیاز علی صاحب شہید 91 مکرم عبدالمجید خان صاحب شہید 92 مکرم بدردین صاحب شہید، گلاب بی بی صاحبہ اور محمد اسماعیل صاحب شہید 93 مکرم عبدالرحمن صاحب شہید 266 269 269 270 272 273 274 275 276 276 279 280 282 282 283
جلد اوّل VIII 94 مکرم چوہدری فقیر محمد صاحب شہید اور محمد اسماعیل صاحب شہید آف و نجواں 95 مکرم محمد منیر صاحب شامی شہید قادیان 96 مکرمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اور عزیزم عظیم احمد شہید ولد پنڈت عبد اللہ صاحب قادیان 97 مکرم با بوعبد الکریم صاحب اور دیگر شہدائے پونچھ 98 خواجہ محمد عبد الله لون صاحب شہید آسنور کن 99 حواشی باب پنجم تاریخ احمدیت بھارت 285 286 287 288 289 290 باب ششم 100 دور درویشی کا آغاز اور اس دور میں رونما ہونے والے اہم واقعات 101 اولین خوش نصیب درویشان کرام 102 عہد درویشی کا سفر اور درویشان کی قابل رشک زندگی 103 درویشان قادیان اور ان کی تنظیم 104 درویشان کی نظم ونسق کے اعتبار سے تقسیم 105 درویشان بمطابق نمبر 2 ( مقامی درویشان کرام ) کی تنظیم 106 درویشان کا محلہ احمدیہ میں محدود ہونا 107 ایک حملہ کی سازش اور خدائی رعب 108 قادیان کے گردو نواح کے غیر احمدی مسلمانوں کی محلہ احمدیہ میں آمد 109 | قرآن مجید اور دینی کتب کا تحفظ 110 درویشان قادیان کے لیل ونہار 295 295 321 329 330 330 333 335 335 337 337 111 صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی جانب سے قادیان کے انتظامی امور سے متعلق اہم خطوط 340 112 بہشتی مقبرہ قادیان کی حفاظت کے لئے چاردیواری کی تعمیر 113 محلہ احمدیہ کے راستوں میں تبدیلی 347 351
تاریخ احمدیت بھارت IX جلد اوّل 114 ہجرت کے بعد قادیان میں پہلا جلسہ سالانہ 1947ء 353 115 تقسیم ملک کے بعد دور درویشی کے ابتدائی ایام میں صدر انجمن احمد یہ قادیان کے اولین ممبران 361 116 تقسیم ملک کے بعد بھارت میں تبلیغ حق میں مصروف مبلغین 117 حواشی باب ششم حرف آخر 362 363 367
اِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَآتُكَ إِلى مَعَادٍ وہ خدا جس نے خدمتِ قرآن تجھے سپر د کی ہے پھر تجھے قادیان میں واپس لائے گا (تذکره 257) سید نا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام 1908-1835 | 1326-1250
اللہ تعالیٰ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں الہانا فرمایا: ”وہ وہ اولو العزم ہو گا.“ (امیر جمیل حقیقی) (اشتہار تبلیغ) شبیہ مبارک سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفة المسیح الائی (1889تا1965) آپ کے عہد خلافت میں داغ بجرت“ کا الہام پورا ہوا.آپ 31 / اگست 1947ء کو قادیان سے ہجرت فرما کر لاہور تشریف لے گئے.
تاریخ احمدیت بھارت XI جلد اوّل بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود پیش لفظ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ البقرہ کی (31) اکتسویں آیت سے بنی نوع انسان کو مخاطب کرنے کا سلسلہ بایں الفاظ شروع فرمایا وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ ، یعنی اے انسان تو اس وقت کو یاد کر.پھر اسی طرز کلام کو اکتالیسویں آیت میں ان الفاظ میں بیان فرمایا.يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا یعنی اے بنی اسرائیل یاد کرو.اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید میں بعض ایسے انبیاء کا تذکرہ فرمایا گیا جو کہ ماضی میں گزر چکے تھے.مثلاً حضرت یعقوب اور یوسف عليهما السلام کے بارے میں ایک مکمل سورۃ (یوسف) نازل فرمائی اور اس سورۃ میں جو تاریخی واقعات حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بیان کئے گئے اسے أَحْسَنَ الْقَصَصِ ( سورۃ یوسف آیت 4) کہا گیا، نیز اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی سلامی ایام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے جو یہ قرآن تجھ پر وحی کیا اس کے ذریعہ ہم تیرے سامنے ثابت شدہ تاریخی حقائق میں سے بہترین ( حقائق ) بیان کرتے ہیں.مزید فرمایا ألم تر كيف فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ (الفیل آیت 2) کیا تو نہیں جانتا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں سے کیا سلوک کیا ؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت محمد مصطفی سالی نے اسلام کے ذریعہ قاری قرآن مجید کو اصحاب فیل کی تاریخ معلوم کرنے کی تلقین فرمائی.مزید برآں قوم نملہ.اصحاب الکھف.عاد ثمود کے تاریخی حقائق بھی قرآن مجید میں مذکور ہیں.سید نا حضرت محمد مصطفی سائنسی ایتم گذشتہ اقوام کے بعض تاریخی ایمان افروز وعبرتناک واقعات بیان فرمایا کرتے تھے.مثلاً آپ نے فرمایا.
جلد اوّل XII تاریخ احمدیت بھارت كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُم یعنی تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا جس نے ننانوے قتل کئے.(صحیح مسلم کتاب التوبه ) اللہ تبارک تعالیٰ اور سید الوریٰ حضرت محمد مصطفی صلی یا یتیم کا تاریخی حقائق کا ذکر فرمانا تاریخ کی اہمیت کو واضح کرتا ہے.تاریخ وہ قیمتی سرمایہ ہے جس سے آنے والی نسلیں استفادہ کرتی ہیں اور اس سے نور حاصل کر کے اپنے مستقبل کو مزید روشن اور منور بنا سکتی ہیں.اور اگر اسلاف میں سے کسی سے کہیں کوئی غلطی ہوئی تو اس سے عبرت وسبق حاصل کرتے ہوئے اس طرح کی غلطی کے اعادہ سے اجتناب کر سکتی ہیں اور اس کے بد انجام و نتائج سے بچ سکتی ہیں.مخبر صادق سید نا حضرت محمد مصطفی صلی یا یہ تم نے امت محمدیہ میں اپنی بعثت ثانیہ کے مظہر حضرت امام مهدی مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی تھی.اس تعلق سے آپ کی پیشگوئی کمال وضاحت اور صفائی سے پوری ہوئی.تاریخ کا فرض ہے کہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ہر ایک پیشگوئی کے پورا ہونے کی تفصیلات کو محفوظ کرے.یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان پیشگوئیوں کا کمال صفائی سے پورا ہونا ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی صفت کلیم کا بین ثبوت ہے.اور دوسری طرف سیدنا حضرت محمد مصطفی سنی اتم کی صداقت کا نا قابل تردید ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تیرہ چودہ صدیاں قبل جو خبریں دیں وہ بعینہ پوری ہوئیں.اور عصر حاضر میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے ” جماعت احمدیہ سلمہ کی بنیاد 20 رجب 1309 هجری بمطابق 23 مارچ 1889ء میں رکھی.اس جماعت کی ایک سنہری و روشن تاریخ ہے.سیدنا الصلح الموعود نے اپنے درج ذیل مکتوب گرامی کے ذریعہ (جو کہ اخبار المصلح 20 مئی 1953ء میں طبع شدہ ہے ) جماعت احمدیہ کی تاریخ مرتب کرنے کا اعلان فرمایا.اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ احباب کرام! خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته آپ کو علم ہے کہ ہماری جماعت کی تاریخ اب تک غیر محفوظ ہے.حضرت مسیح موعود کے سوانح
تاریخ احمدیت بھارت XIII جلد اوّل بعض لوگوں نے مرتب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بھی نامکمل ہیں.پس سلسلہ کی اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تاریخ سلسلہ احمدیہ کے مکمل کرانے کا انتظام کیا گیا ہے.سب سے پہلے قریب کے زمانہ کی تاریخ مرتب کی جائے گی تا کہ ضروری واقعات محفوظ ہو سکیں.سلسلہ کی تاریخ کئی جلدوں میں مکمل ہوگی.تین سال تک کام کا اندازہ ہے.اس کی چھپوائی اور لکھوائی وغیرہ پر کم از کم تیس پینتیس ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ ہے.صدر انجمن احمد یہ پر چونکہ اس وقت کافی بار ہے اس لئے اس کام کا علیحدہ انتظام کرنے کے لئے میں احباب جماعت میں سر دست صرف مبلغ بارہ ہزار روپیہ کی تحریک اس کام کے لئے کر رہا ہوں.جب یہ روپیہ خرچ ہونے کو ہوگا پھر اور اپیل کی جائے گی.جماعت کے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے انہیں سلسلہ کی اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے تایہ کام جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جائے.دفتر محاسب صدر انجمن احمد یہ ربوہ میں اس تحریک کے لئے مدکھول دی گئی ہے جو احباب اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں وہ اپنی رقوم محاسب صاحب صدر انجمن احمد یہ ربوہ کو ” بر تصنیف تاریخ سلسلہ احمدیہ بھجوادیں.یہ رقم میرے اختیار میں رہے گی اور میرے ہی دستخطوں سے برآمد ہو سکے گی.والسلام مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی امام جماعت احمد یہ تاریخ احمدیت جلد 16 صفحہ نمبر 44،43) حضور کے ارشادات کے مطابق محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مرحوم و مغفور نے جون 1953ء میں تدوین تاریخ کا کام شروع کیا.اور زندگی بھر اس فریضہ کو کما حقہ ادا کیا.شعبہ تاریخ احمدیت قادیان کا قیام مورخہ 15 اگست 1947ء کو ہمارا ملک ہندوستان آزاد ہوا.مگر اس کے ساتھ ہی دوحصوں میں تقسیم ہو گیا.ایک نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا.دونوں ملکوں کے درمیان حدیں اور سرحدیں
جلد اوّل میں باتہ لمصل XIV تاریخ احمدیت بھارت روز اول سے بلند ہونا شروع ہو ئیں اوراتنی بلند ہوگئیں کہ ایک دوسرے کے تفصیلی حالات معلوم کرنا بھی دشوار ہو گیا.حضرت امصلح الموعود 31 / اگست 1947ء کو قادیان سے ہجرت فرما کر لا ہور تشریف لے لاہور گئے.قادیان اور مشرقی پنجاب کی احمدی آبادی کی اکثریت پاکستان کی طرف ہجرت کر گئی.مگر قادیان بدستور صدر انجمن احمد یہ قائم و دائم رہی اور اپنے فرائض ادا کرتی رہی درویشان کرام قادیان میں مقیم رہے.حضرت الصلح الموعود کی ہدایات کی روشنی میں صدر انجمن احمد یہ قادیان اور بھارت کے صوبہ جات میں موجود افراد جماعت کو از سر نو منظم کرنے لگی.جس کی ایک علیحدہ تاریخ ہے.سرحد کے اس پار شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ کے لئے اس کا جمع کرنا دشوار ہوتا چلا گیا.تاریخ احمدیت کو یکجا کرنا بھی مشکل ہوتا چلا گیا.چنانچہ حالات کا تقاضا تھا کہ ” تاریخ احمدیت بھارت کے نام سے جماعتہائے احمد یہ بھارت کی تاریخ مدون کی جائے اور اس کی ابتداء ملک کی آزادی اور ہجرت سے کی جائے.چنانچہ اس غرض کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفقت سے شعبہ تاریخ احمدیت قادیان کا قیام سال 2010 میں عمل میں آیا.اس شعبہ کے قیام کا پس منظر یہ ہیکہ مورخہ یکم مئی 2010 کو محترم مولانا محمد انعام غوری صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ قادیان نے مکرم انچارج صاحب انڈیاڈیسک کی خدمت میں ایک مکتوب ارسال کیا.اس مکتوب میں یہ ذکر کیا کہ :.” اب اس امر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ قادیان میں ایک شعبہ تاریخ احمدیت ہندوستان قائم کیا جانا مناسب ہوگا.جو تقسیم ملک کے بعد سے اب تک کے حالات کو جمع کرنے کا کام کرے تا کہ قادیان کے ابتدائی حالات.درویشان قادیان کی قربانیاں اور خلافت ثانیہ کے دور سے اب تک ہندوستان کی جماعتوں کے درجہ بدرجہ استحکام اور ترقیات اور صد سالہ جشن تشکر 1989 اور خلافت جوبلی 2008 کے دوران جماعتہائے ہندوستان کی مساعی وغیرہ کو تاریخی نکتہ نظر سے جمع کرنے کا کام شروع ہو.“ اس مکتوب میں محترم ناظر صاحب اعلیٰ قادیان نے ایک کمیٹی کی بھی تجویز دی اور ایک فل ٹائم مربی اس شعبہ کو دئے جانے کی بھی تجویز پیش کی.سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت اس کی منظوری عنایت فرمائی.
تاریخ احمدیت بھارت XV جلد اول سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ارشاد موصول ہونے پر محترم ناظر صاحب اعلیٰ قادیان نے مورخہ 22 مئی 2010 کو شعبہ تاریخ احمدیت کے تعلق سے ایک رپورٹ تیار کر کے بھجوائی جس میں شعبہ تاریخ احمدیت کے مربی کے لئے مکرم مامون الرشید صاحب تبریز مربی سلسله ( سابق اُستاد جامعہ احمدیہ قادیان) کا نام بھجوایا گیا.شعبہ تاریخ احمدیت کا بجٹ تجویز کر کے بھجوایا گیا.نیز شعبہ تاریخ کے دفتر کے لئے جدید مرکزی لائبریری کی بلڈنگ میں ایک کمرہ مختص کرنے اور ضروری فرنیچر لائبریری سے ہی مہیا کرنے کی سفارش کی گئی.جسے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت منظور فرمایا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ ارشا وزیر ریزولیوشن نمبر 63-خ/10-05-26 صدر انجمن احمد یہ قادیان میں ریکارڈ ہوا.اور مورخہ 20 جون 2010 ء سے شعبہ تاریخ احمدیت قادیان میں کام کا آغاز ہوا.شعبہ تاریخ احمدیت قادیان کے قیام کے اغراض و مقاصد الف.شعبہ تاریخ احمدیت قادیان کے اغراض و مقاصد میں سے سب سے اول یہ ھیکہ تقسیم ملک سے اب تک کے بھارت کے حالات جمع کر کے مرتب کئے جائیں.قادیان کے ابتدائی حالات درویشان قادیان کی قربانیاں اور خلافت ثانیہ کے دور سے اب تک ہندوستان کی جماعتوں کے درجہ بدرجہ استحکام اور ترقیات کا ذکر ہو.ب شعبہ تاریخ احمدیت قادیان کے قیام کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اسکو ایسا دفتر بنایا جائے.جہاں سے ہر قسم کا تاریخی ریکارڈ حسب ضرورت مل سکے.ج.ایک اور مقصد اس شعبہ کے قیام کا صحابہ کرام کے حالات جمع کرنا اور ان کی قبور کی تلاش کا ہے.و.شعبہ تاریخ احمدیت قادیان کے قیام کے مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ ہندوستان کی لائبریریوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے اخبارات.رسائل و گشب کو جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے بارہ میں مثبت یا منفی رنگ میں اشاعت ہوئی ہو تلاش کیا جائے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے پیش نظر شعبہ ھذا کے مربیان کو دورہ پر بھجوایا جاتا ہے.تا کہ ہندوستان کی لائبریریوں سے ایسے اخبارات و رسائل اور کتب حاصل کی جاسکیں.اس
جلد اوّل XVI تاریخ احمدیت بھارت سلسلہ میں اب تک اخبار منشور محمدی بنگلور کی متعد دجلدیں حاصل کی جاچکی ہیں.علاوہ ازیں وقتاً فوقتاً سید نا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جانب سے موصول ہونے والے قابل تحقیق تاریخی امور پر تحقیق کرتے ہوئے اس کی رپورٹ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ارسال کرنا نیز مختلف ایسی تصنیفات جو تاریخی نوعیت کی ہوں انکا بغور جائزہ لے کر ان میں تاریخی اغلاط کی نشاندہی کرنا اور قادیان اور بیرون قادیان میں ہونے والی جماعتی تاریخی اور مقدس مقامات کے تعمیری کاموں کے وقت ان کی فوٹو گرافی کا کام بھی شعبہ ھذا کی جانب سے ہو رہا ہے.شعبہ تاریخ احمدیت قادیان کی کمیٹی جس کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منظوری مرحمت فرمائی ہے درج ذیل ہے.ا.خاکسار محمد حمید کوثر (صدر کمیٹی ) مکرم مولا نا محمد کریم الدین صاحب شاہد ( ممبر ) مکرم مولا نامنیر احمد صاحب خادم (ممبر ) مکرم مولاناعبدالوکیل صاحب نیاز (ممبر ) مکرم مولا نا قریشی محمد فضل اللہ صاحب (ممبر ) مکرم مولانا عطاء المجیب صاحب لون ( ممبر ) شعبہ ہذا تدوین تاریخ کے لئے ہر ممکن کوشش و محنت کرتے ہوئے بفضلہ تعالیٰ تاریخ احمدیت بھارت کی پہلی جلد قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے.اللھم وفق و اعن فانك انت الموفق والمستعان اس جلد کی تدوین و ترتیب اور جائزہ میں شعبہ تاریخ حمدیت قادیان کی کمیٹی اور ہر دمر بیان مکرم مامون الرشید تبریز صاحب نائب انچارج شعبہ تاریخ احمدیت و کرم ریحان احمد شیخ شاہد صاحب مربی سلسلہ نے ہر ممکن کوشش اور محنت کی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اس کی جزائے خیر عطا فرمائے اور مزید خدمات دین کی توفیق عطافرمائے.آمین.خاکسار محمد حمید کوثر انچارج شعبہ تاریخ احمدیت قادیان
تاریخ احمدیت بھارت جلد اول باب اول تاریخ احمدیت بھارت بعد از تقسیم ملک حضرت مسیح موعود کے مختصر خاندانی حالات اللہ تعالیٰ نے سورۃ الجمعہ آیت 4 میں سیدنا حضرت محمد مصطفی اصلی تم کو خبر دی تھی کہ آپ کے ایک ظل کامل کا ظہور ” آخرین“ میں ہوگا.جو آپ کی بعثت ثانیہ کا مظہر اتم ہوگا جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا.وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ( سورة الجمعة آيت نمبر 4 ) ( یعنی ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اسے بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں ) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے.حضور نے اس سوال کا جواب نہ دیا.اس آدمی نے تین دفعہ یہی سوال دہرایا.راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی ہم میں بیٹھے تھے.آنحضرت سی ایم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا یعنی زمین میں سے اُٹھ گیا تو ان میں سے کچھ لوگ اس کو واپس لے آئیں گے.ایک دوسری حدیث میں ذکر ہے کہ (الف) لَوْ كَانَ الدِّينُ عِنْدَ القُرَيَّا لَذَهَبَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ أَوْ قَالَ مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ حتَّى يَتَنَاوَلَة (1) یعنی ایمان اگر کسی زمانے میں ثریا (ستارے) تک بھی پہنچ گیا تو اہل فارس میں ایک مرد اس کو واپس لے آئے گا.اس حدیث سے واضح ہے کہ آنے والے مسیح موعود و مہدی معہود کا فارسی الاصل ہونا ازل سے مقدر تھا.دوسری طرف آنحضرت نے اسی مسیح موعود و مہدی معہود کے بارے میں یہ بھی خبر دی تھی کہ (ب) إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فينزل عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَ دِمَشْقَ (2) یعنی اللہ تعالی مثیل مسیح ابن مریم کو مشق کے مشرقی جانب کسی ابھی علاقہ میں بھیجے گا.اور وہ ایک
جلد اوّل 2 تاریخ احمدیت بھارت سفید منارہ کے پاس نزول فرمائے گا.(ج) عَنْ أَنَسٍ قَالَ سَمِعْتُ خَلِيلِي يَقُولُ لَا يَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّى يَبْعَثَ اللَّهُ عَصَابَتَيْنِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا النَّارَ عَصَابَةُ تَغْرُ والهِندَ وَ هِيَ تَكُونُ مَعَ الْمَهْدِى اِسْمُهُ أَحْمَدُ (3) یعنی حضرت انس نے فرمایا میں نے اپنے خلیل رسول اللہ سے سنا کہ قیامت اس وقت تک بر پا نہیں ہوگی جب تک اللہ تعالیٰ دو جماعتوں کو نہ بھیجے.اللہ تعالی نے ان دونوں پر دوزخ حرام کر دی ہے.ان میں سے ایک جماعت جو ہندوستان میں (روحانی و دینی ) جہاد کرے گی اور وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ ہوگی جن کا نام احمد ہوگا.(د).يَخْرُجُ الْمَهْدِئُ مِنْ قَرْيَةٍ يُقَالُ لَهَا كَدَعَهَ (4) مہدی کا ظہور ایسی بستی سے ہوگا جسے ”کدعہ کہا جائے گا.علاوہ ازیں دسویں صدی ہجری کے ایک بزرگ نے رسالہ ” تلخیص البیان فی علامات مہدی آخر الزمان میں لکھا ہے کہ " يَبْعَثُ جَيْساً مِنَ الْهِنْدِ کہ حضرت مہدی ہندوستان سے لشکر بھیجیں گے.یہ رسالہ در اصل حضرت علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی 911ھ ) حضرت یوسف بن سکی المقدی (متوفی 685ھ ) اور حضرت ابن حجر الیشمی (متوفی 974ھ) کے رسائل کا خلاصہ ہے جس کا ایک قدیم قلمی نسخہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے نادر مخطوطات میں محفوظ ہے.ان احادیث کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مخبر صادق سید نا حضرت محمد مصطفے سلیم نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کا ظہور ایک فارسی خاندان سے ہوگا اور ان کا ظہور غیر عربی علاقے ہندوستان میں ہوگا.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے 1891ء میں مسیح موعود و مہدی معہود ہونے کا اعلان فرما یا تب یہ عقدہ کھلا کہ اللہ تعالی نے کس طرح سیدنا حضرت محمد مصطفے صلی ایتم ک زبان مبارک سے نکلے ہوئے کلمات کو سچ کر دکھایا ورنہ عقل اس عقدہ کو حل کرنے سے قاصر تھی کہ آنے والا مسیح موعود و مہدی معہود فارسی الاصل ہو اور پھر ہندوستان میں اس کا ظہور کس طرح ممکن ہوگا.
تاریخ احمدیت بھارت جلد اول مزید برآں مخبر صادق سید نا حضرت محمد مصطفی سالی یا یہ تم نے امت محمدیہ میں آنے والے مسیح موعود کو سیح ابن مریم کے صفاتی نام سے موسوم فرما کر یہ پیشگوئی بھی فرما دی کہ جس طرح شریعت موسویہ کے بانی حضرت موسی کے بعد چودھویں صدی میں مسیح ابن مریم کی بعثت ہوئی تھی (ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا آف برٹینکا زیر لفظ Moses) بعینہ شریعت محمدیہ کے بانی حضرت محمد مصطفے سلیم کے بعد چودھویں صدی ہجری کے شروع میں اللہ تعالی مثیل مسیح ابن مریم مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو مبعوث فرمائے گا.خلاصہ کلام یہ کہ سید نا حضرت محمد مصطفے ستم کی پیشگوئیوں کے مطابق امت محمدیہ میں آنے والے مسیح موعود و مہدی معہود (علیہ السلام) کا ابناء فارس میں سے ہونا یقینی تھا.اور اس کا ظہور ہندوستان میں ہونا بھی مقدر تھا.پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود و امام مہدی کے ظہور کا وقت جوں جوں قریب آتا چلا جا رہا تھا.اللہ تعالیٰ ہر وہ راہ ہموار کرتا چلا جارہا تھا جس کی ضرورت تھی یہ تمام وعدے کیسے پورے ہوئے اس کی مختصر تفصیل کچھ اس طرح ہے.ہر وہ انسان جو ہندوستان اور افغانستان کے حکمرانوں اور بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کرے گا.وہ ہندوستان میں مغلیہ بادشاہت کے بانی ظہیر الدین بابر کے اہم کردار کو فراموش نہ کر سکے گا.ہندوستان پر اس کی حکومت 1526ء سے 1530 ء تک رہی.اس کے والد کا نام عمر شیخ تھا جو کہ وسط ایشیا میں فرغانہ کی چھوٹی سی ریاست کا حکمران تھا.وہ 6 محرم 888ھ (14 فروری 1483ء) کو پیدا ہوا.رمضان المبارک 899ھ جون 1449ء میں بطور میرزاے فرغانہ اپنے والد کا جانشین ہوا.905-1499ء میں بابر سمرقند“ شہر پر اچانک حملہ کرنا چاہتا تھا مگر شیبانی خان اور بک نے سبقت کر کے شہر پر قبضہ کرلیا مگر آئندہ سال بابر نے شہر پر اچانک ہلہ بول دیا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا.بابر نے تین بار سمرقند پر حملہ کیا، لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس کے دشمن غالب آجاتے اور قبضہ برقرار نہ رہتا.دہلی میں اس وقت ابراہیم لودھی کی حکومت تھی.اس کے چا عالم خان اور لاہور کے دولت خان لودھی نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی.چنانچہ بابر 932ھ اپریل 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کی فوج کا قلع قمع کر کے دہلی اور آگرہ پر قبضہ کر لیا.
جلد اوّل تاریخ احمدیت بھارت اس طرح ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کا آغاز ہوا.بابر کا دور حکومت اس کی وفات کے ساتھ مورخہ 6 جمادی الاولیٰ 937ھ.26 دسمبر 1530ء کو ختم ہوا.(5) جیسا کہ تحریر کیا جا چکا ہے کہ بابر نے سمرقند پر تین بار قبضہ کیا.مگر وہ قبضہ برقرار نہ رہ سکا.آخر اس نے ہندوستان کا رُخ کیا.چنانچہ بابر کے دور حکومت میں ہی سید نا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی (علیہ السلام) کے اجداد میں ایک بزرگ مرزا ہادی بیگ صاحب سمرقند سے قریباً دوسو آدمیوں کے ساتھ ہندوستان پہنچے چنانچہ تذکرہ رؤساء پنجاب (Punjab (Chief ( جسے سر لیپل گریفن نے تالیف کرنا شروع کیا اور مسٹر میسی اور مسٹر کریک نے پائے تکمیل تک پہنچایا ) میں ذکر آتا ہے کہ :.شہنشاہ بابر کے عہد حکومت کے آخری سال یعنی 1530ء میں ایک مغل بادی بیگ باشندہ سمرقند اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں بود و باش اختیار کی.“ (6) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جد امجد مرزا ہادی بیگ صاحب پنجاب میں اس جگہ آباد ہوئے جہاں آج کل قادیان آباد ہے.لیکن ابتداء میں انہوں نے اس کا نام اسلام پور رکھا تھا.چنانچہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آمد کے تعلق سے تحریر فرماتے ہیں:.واضح ہو کہ ان کا غذات اور پرانی تحریرات سے کہ جوا کا بر اس خاندان کے چھوڑ گئے ہیں ثابت ہوتا ہے کہ بابر بادشاہ کے وقت میں کہ جو چغتائی سلطنت کا مورث اعلیٰ تھا بزرگ اجداد اس نیاز مند الہی کے خاص سمرقند سے ایک جماعت کثیر کے ساتھ کسی سبب سے جو بیان نہیں کیا گیا ہجرت اختیار کر کے دہلی میں پہنچے اور دراصل یہ بات ان کا غذات سے اچھی طرح واضح نہیں ہوتی کہ کیا وہ بابر کے ساتھ ہی ہندوستان میں داخل ہوئے تھے یا بعد اس کے بلا توقف اس ملک میں پہنچ گئے لیکن یہ امر ا کثر کا غذات کے دیکھنے سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ گو وہ ساتھ پہنچے ہوں یا کچھ دن پیچھے سے آئے ہوں مگر انہیں شاہی خاندان سے کچھ ایسا خاص تعلق تھا جس کی وجہ سے وہ اس گورنمنٹ کی نظر میں معزز سرداروں میں سے شمار کئے گئے تھے چنانچہ بادشاہ وقت سے پنجاب میں بہت سے دیہات بطور جاگیر کے انہیں ملے اور ایک بڑی زمینداری کے وہ تعلق دار ٹھہرائے گئے اور ان دیہات کے وسط میں ایک میدان میں انہوں نے قلعہ کے طور پر ایک قصبہ اپنی سکونت کے لئے آباد کیا جس کا نام اسلام پور قاضی ما جبھی رکھا یہی اسلام پور ہے جواب قادیان کے نام سے
تاریخ احمدیت بھارت جلد اول مشہور ہے.اس قصبہ کے گردا گرد ایک فصیل تھی جس کی بلندی 20 فٹ کے قریب ہوگی اور عرض اس قدر تھا کہ تین چھکڑے ایک دوسرے کے برابر اس پر چل سکتے تھے، چار بڑے بڑے برج تھے.جن میں قریب ایک ہزار کے سوار و پیادہ فوج رہتی تھی اور اس جگہ کا نام جو اسلام پور قاضی ماجھی تھا تو اس کی یہ وجہ تھی کہ ابتداء میں شاہان دہلی کی طرف سے اس تمام علاقہ کی حکومت ہمارے بزرگوں کو دی گئی تھی اور منصب قضا یعنی رعایا کے مقدمات کا تصفیہ کرنا انکے سپر دتھا اور یہ طرز حکومت اس وقت تک قائم و برقرار رہی کہ جس وقت تک پنجاب کا ملک دہلی کے تخت کا خراج گزار رہا لیکن بعد اس کے رفتہ رفتہ چغتائی گورنمنٹ میں باعث کا ہلی وستی و عیش پسندی و نالیاقتی تخت نشینوں کے بہت سافتور آگیا اور کئی ملک ہاتھ سے نکل گئے انہیں دنوں میں اکثر حصہ پنجاب کا گورنمنٹ چغتائی سے منقطع ہو کر یہ ملک ایک ایسی بیوہ عورت کی طرح ہو گیا جس کے سر پر کوئی سر پرست نہ ہو اور خدائے تعالیٰ کے اعجوبہ قدرت نے سکھوں کی قوم کو جو دہقان بے تمیز بھی ترقی دینا چاہا چنانچہ ان کی ترقی اور تنزل کے دونوں زمانے پچاس برس کے اندر اندر ختم ہو کر ان کا قصہ بھی خواب خیال کی طرح ہو گیا.غرض اس زمانہ میں کہ جب چغتا ئی سلطنت نے اپنی نالیاقتی اور اپنی بدانتظامی سے پنجاب کے اس حصہ سے بکلی دست برداری اختیار کی تو ان دنوں میں بڑے بڑے زمیندار اس نواح کے خود مختار بن کر اپنے اقتدار کامل کا نقشہ جمانے لگے.سو انہیں ایام میں بفضل و احسان الہی اس عاجز کے پڑدادا صاحب مرزا گل محمد مرحوم اپنے تعلقہ زمینداری کے ایک مستقل رئیس اور طوائف الملوک میں سے بن کر ایک چھوٹے سے علاقہ جوصرف چوراسی (84) یا پچاسی (85) گاؤں رہ گئے تھے کامل اقتدار کے ساتھ فرماں روا ہو گئے اور اپنی مستقل ریاست کا پورا پورا انتظام کر لیا اور دشمنوں کے حملے روکنے کے لئے کافی فوج اپنے پاس رکھ لی اور تمام زندگی ان کی ایسی حالت میں گزری کہ کسی دوسرے بادشاہ کے ماتحت نہیں تھے اور نہ کسی کے خراج گزار.بلکہ اپنی ریاست میں خود مختار حاکم تھے اور قریب ایک ہزار سوار و پیادہ ان کی فوج تھی اور تین تو ہیں بھی تھیں اور تین چار سو آدمی عمدہ عمدہ عقلمندوں اور علماء میں سے ان کے مصاحب تھے اور پانچ سو (500) کے قریب قرآن شریف کے حافظ وظیفہ خوار تھے جو اس جگہ قادیان میں رہا کرتے تھے اور تمام مسلمانوں کو سخت تقید سے صوم و صلوۃ کی پابندی اور دین اسلام کے احکام پر چلنے کی تاکید تھی اور منکرات شرعی کو اپنی حدود میں رائج ہونے نہیں دیتے تھے اور اگر کوئی مسلمان ہو کر خلاف شعار اسلام کوئی لباس یا وضع رکھتا تھا تو وہ سخت
جلداول تاریخ احمدیت بھارت موردعتاب ہوتا تھا اور سقیم الحال اور غربا اور مساکین کی خبر گیری اور پرورش کے لئے ایک خاص سرمایہ نقد اور جنس کا جمع رہتا تھا جو وقتا فوقتا اکوتقسیم ہوتا تھا.یہ ان تحریرات کا خلاصہ ہے جو اس وقت کی لکھی ہوئی ہم کوملی ہیں جن کی زبانی طور پر بھی شہادتیں بطریق مسلسل اب تک پائی جاتی ہیں.یہ بھی لکھا ہے کہ ان دنوں میں ایک وزیر سلطنت مغلیہ کا غیاث الدولہ نام قادیان میں آیا اور مرزاگل محمد صاحب مرحوم کے استقلال وحسن تدبیر و تقوی وطہارت و شجاعت و استقامت کو دیکھ کر چشم پر آب ہو گیا اور کہا کہ اگر مجھے پہلے سے خبر ہوتی کہ خاندان مغلیہ میں سے ایک ایسا مرد پنجاب کے ایک گوشہ میں موجود ہے تو میں کوشش کرتا کہ تا وہی دہلی میں تخت نشین ہو جاتا اور خاندان مغلیہ تباہ ہونے سے بچ جاتا.غرض مرزا صاحب مرحوم ایک مرد اولی العزم اور متقی اور غایت درجہ کے بیدار مغز اور اول درجہ کے بہادر تھے اگر اس وقت مشیت الہی مسلمانوں کے مخالف نہ ہوتی تو بہت امید تھی کہ ایسا بہادر اور اولی العزم آدمی سکھوں کی بلند شورش سے پنجاب کا دامن پاک کر کے ایک وسیع سلطنت اسلام کی اس ملک میں قائم کر دیتا.جس حالت میں رنجیت سنگھ نے باوجود اپنی تھوڑی سی پدری ملکیت کے جو صرف نو (9) گاؤں تھے.تھوڑے ہی عرصہ میں اس قدر پیر پھیلا لئے تھے جو پشاور سے لدھیانہ تک خالصہ ہی خالصہ نظر آتا تھا اور ہر جگہ ٹڈیوں کی طرح سکھوں کی ہی فوجیں دکھائی دیتی تھیں تو کیا ایسے شخص کے لئے یہ فتوحات قیاس سے بعید تھیں؟ جس کی گمشدہ ملکیت میں سے ابھی چوراسی یا پچاسی گاؤں باقی تھے اور ہزار کے قریب فوج کی جمعیت بھی تھی اور اپنی ذاتی شجاعت میں ایسے مشہور تھے کہ اس وقت کی شہادتوں سے بہ بداہت ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں ان کا کوئی نظیر نہ تھا لیکن چونکہ خدائے تعالیٰ نے یہی چاہا تھا مسلمانوں پر ان کی بے شمار غفلتوں کی وجہ سے تنبیہ نازل ہو اس لئے میرزا صاحب مرحوم اس ملک کے مسلمانوں کی ہمدردی میں کامیاب نہ ہو سکے اور میرزا صاحب مرحوم کے حالات عجیبہ میں سے ایک یہ ہے کہ مخالفین مذہب بھی ان کی نسبت ولایت کا گمان رکھتے تھے اور ان کی بعض خوارق عادت امور عام طور پر دلوں میں نقش ہو گئے تھے یہ بات شاذ و نادر ہوتی ہے کہ کوئی مذہبی مخالف اپنے دشمن کی کرامات کا قائل ہو لیکن اس راقم نے مرزا صاحب مرحوم کے بعض خارق عادت ان سکھوں کے منہ سے سنے ہیں جن کے باپ دادا مخالف گروہ میں شامل ہو کر لڑتے تھے.اکثر آدمیوں کا بیان ہے کہ بسا اوقات مرزا صاحب مرحوم صرف اکیلے ہزار ہزار آدمی کے مقابل پر میدان جنگ میں نکل کر ان پر فتح پالیتے تھے اور کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ ان کے
تاریخ احمدیت بھارت 7 جلد اوّل نزدیک آسکے اور ہر چند جان تو ڑ کر دشمن کا لشکر کوشش کرتا تھا کہ توپوں یا بندوقوں کی گولیوں سے ان کو مار دیں مگر کوئی گولی یا گولہ ان پر کارگر نہیں ہوتا تھا.یہ کرامت ان کی صد با موافقین اور مخالفین بلکہ سکھوں کے منہ سے سنی گئی ہے جنہوں نے اپنے لڑنے والے باپ دادوں سے سند بیان کی تھی.لیکن میرے نزدیک یہ کچھ تعجب کی بات نہیں اکثر لوگ ایک زمانہ دراز تک فوجوں میں نو کر رہ کر بہت سا حصہ اپنی عمر کا لڑائیوں میں بسر کرتے ہیں اور قدرت حق سے کبھی ایک خفیف سا زخم بھی تلوار یا بندوق کا ان کے بدن کو نہیں پہنچتا.سو یہ کرامت اگر معقول طور پر بیان کی جائے کہ خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل سے دشمنوں کے حملوں سے انہیں بچاتا رہا تو کچھ حرج کی بات نہیں اس میں کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ مرزا صاحب مرحوم دن کے وقت ایک پر ہیبت بہادر اور رات کے وقت ایک با کمال عابد تھے اور معمور الاوقات اور متشرع تھے.اس زمانہ میں قادیان میں وہ نور اسلام چمک رہا تھا کہ ارد گرد کے مسلمان اس قصبہ کو مکہ کہتے تھے“.(7) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آباؤ اجداد کی قادیان سے بیگووال کی طرف ہجرت کم و بیش تین سوستر (370) سال بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آباؤ اجداد نے اپنے بسائے ہوئے شہر میں امن وسکون سے زندگی بسر کی.مرزا گل محمد صاحب کی وفات 1800ء میں ہو گئی.ان کے بعد ان کے بیٹے ( یعنی حضرت مسیح موعود کے دادا) مرزا عطا محمد صاحب نے ریاست قادیان کی زمام حکومت سنبھالی 1802ء یا 1803ء میں سکھوں کا ایک گروہ جو رام گڑھیہ کہلاتا تھا دھوکہ سے قادیان جو اس وقت ایک قلعہ کی صورت میں تھا داخل ہوا اور اس پر قبضہ کر لیا.مرزا عطاء محمد صاحب اپنے افراد خاندان سمیت بیگووال ریاست کپور تھلہ ہجرت کر گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آباؤ اجداد کی قادیان سے ہجرت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:." مرزا گل محمد صاحب مرحوم کے عہد ریاست کے بعد مرزا عطا محمد صاحب کے عہد ریاست میں جو اس عاجز کے دادا صاحب تھے یک دفعہ ایک سخت انقلاب آگیا اور ان سکھوں کی بے ایمانی اور بد ذاتی اور عہد شکنی کی وجہ سے جنہوں نے مخالفت کے بعد محض نفاق کے طور پر مصالحہ اختیار کر لیا تھا انواع
جلد اوّل 8 تاریخ احمدیت بھارت اقسام کی مصیبتیں ان پر نازل ہوئیں اور بجز قادیان اور چند دیہات کے تمام دیہات ان کے قبضہ سے نکل گئے.بالآ خرسکھوں نے قادیان پر بھی قبضہ کر لیا اور دادا صاحب مرحوم مع اپنے تمام لواحقین کے جلا وطن کئے گئے اس روز سکھوں نے پانچسو کے قریب قرآن شریف آگ سے جلا دیا اور بہت سی کتابیں چاک کر دیں اور مساجد میں سے بعض مسمار کیں بعض میں اپنے گھر بنائے اور بعض کو دھرم سالہ بنا کر قائم رکھا جواب تک موجود ہیں اس فتنہ کے وقت میں جس قدر فقراء وعلماء وشر فاو نجباء قادیان میں موجود تھے.سب نکل گئے اور مختلف بلا دوامصار میں جا کر آباد ہو گئے اور یہ جگہ ان شریروں اور یزیدی الطبع لوگوں سے پر ہوگئی جن کے خیالات میں بجز بدی اور بدکاری کے اور کچھ نہیں پھر انگریزی سلطنت کے عہد سے کچھ عرصہ پہلے یعنی ان دنوں میں جب کہ رنجیت سنگھ کا عام تسلط پنجاب پر ہو گیا تھا اس عاجز کے والد صاحب یعنی مرز اغلام مرتضیٰ صاحب مرحوم دوبارہ اس قصبہ میں آکر آباد ہوئے “(8) ایک اور مقام پر حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی قوم کی طرح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے اور ان کے مال و متاع سب لوٹی گئی.کئی مسجد میں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا اور بعض مسجدیں جن میں سے اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے دھرم سالہ یعنی سکھوں کا معبد بنایا گیا.اس دن ہمارے بزرگوں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا جس میں سے پانسونسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا.اور آخرسکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا.چنانچہ تمام مردوزن چھکڑوں میں بیٹھا کر نکالے گئے اور پنجاب کی ایک ریاست ( کپورتھلہ.ناقل ) میں پناہ گزین ہوئے“.(9) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی بیگو وال سے قادیان واپسی اور آپ کی پیدائش تقریباً تیس (30) سال کی ہجرت کے بعد 35-1834 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان دوبارہ قادیان میں واپس آیا.اس وقت حضرت مرزا گل محمد صاحب کے زمانے کا قادیان ویران
Talwandi Bhindran نقشہ نمبر 1 حضرت مرزا عطاء محمد صاحب ( دادا حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے 1802 یا 1803ء میں قادیان سے بیگو وال مجبور اہجرت کی قادیان بیگووال کا راستہ نقشہ میں نمایاں کیا گیا ہے Narowal نارووال پاکستان دریائے راوی تلونڈی بھنڈران Baddomalhi Bhanian Gujjran Ra Dera Baba Nanak Bara Manga Fathoi Chak ਬਾਬਾ 25 Kalanaur ਕਲਾਨਰ 25 ਨਾਨਕ Ramdas Satrah Khurdi ਰਾਮਦਾਸ ਸਹ ਖੁਰਦੀ Fatehgarh Churian ਫਤਿਹਗੜ Kala Afghana ਕਲਾ ਅਰਮਾਨਾ Ajnala ਅਜਨਾਲਾ ਚੂੜੀਆਂ بٹالہ Batala Riali Kalan ਬਟਾਲਾ 25) Majitha ਮਜੀਠਾ Lopoke ਲੋਪੋਕੇ Raja Sansi Abdal ਅਬਦਾਲ 54 ਰਾਜਾ ari Khasa ਖਾਸਾ AH1 Sarai Amanat Khan ਸਰਾਏ ਅਮਾਨਤ ਖਾਨ ਸਾਂਸੀ Amritsar ਅੰਮ੍ਰਿਤਸਰ Jethuwal ਜੇਠੂਵਾਲ Nizampur ਨਿਜ਼ਾਮਪੁਰ 54 54 44 Indora Barot Jawal ज्वाली इन्दौरा बारोट Dinanagar ਦੀਨਾਨਗਰ Sahowal ਸਾਹੋਵਾਲ Harse Mansar Gurdaspur ਗੁਰਦਾਸਪੁਰ ਹਰਸੇ ਮਾਨਸਰ ,,, Tibri 54 ਤਿਬਰੀ 25 44 Dhariwal ਧਾਰੀਵਾਲ Kahnuwan ਕਾਹਨੂੰਵਾਨ ہر جووال قادیان Harchowal ਹਰਚੋਵਾਲ سری ہم کو بند پور Ghoman Shri Hargobindpur Mehta Chowk ਮਹਿਤਾ ਚੌਂਕ ਘੁਮਾਣ ਹਰਗੋਬਿੰਦਪੁਰ 21 AHI Jandiala ਜੰਡਿਆਲਾ بیگووال Chabba ਥਾ 54 Bandala ਥੰਡਾਲਾ Rayya ਰੋਯਾ Nadala Bholath ਨਡਾਲਾ ਭੋਲਾਥ AH1 Google Tarn Taran --- دریائے بیاس Sihal सिहल Bea Mukerian ਮੁਕੇਰੀਆਂ Talwara Twp 25 Datarpur ਦਾਤਾਰਪੁਰ 44 Pandori ਪੰਡੋਰੀ ਤਲਵਾਰਾ ਟਾਊਨਸ਼ਿਪ Dasuya Forest Division Dasuya ਦਸੂਹਾ Garhdiwala 44 ਗੜ੍ਹਦੀਵਾਲਾ Urmar Tanda ਉਰਮਰ ਟਾਂਡਾ Bhogpur ਭੋਗਪੁਰ 22 24 Hariana ਹਰਿਆਣਾ ਦਸੂਹਾ ਜੰਗਲਾਤ ਡਿਵੀਜ਼ਨ Daulatpur दौलतपुर 24 Chohal ਚੋਹਲ 3 ہوشیار پور Hoshiarpur Govind ਹੁਸ਼ਿਆਰਪੁਰ ਗੋਵਿੰਦਪੁ 44 344B
تاریخ احمدیت بھارت جلد اوّل پڑا تھا.اس خاندان کے مکانات مسمار کر دیئے گئے تھے.مسجدیں منہدم کر دی گئی تھیں.کتب خانے جلا کر خاکستر کر دیئے گئے تھے.ہر طرف ویرانی اور بربادی کے سوا کچھ نہ تھا.ایک (اسلام پور) قادیان وہ تھا جس کی بنیاد مرزا ہادی بیگ صاحب نے 1530ء میں رکھی.ایک قادیان یہ تھا جس کے کھنڈرات پر ایک نیا قادیان تعمیر کرنے کی ابتداء حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم و مغفور ( والد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) نے کی.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قادیان سے ہجرت کا سلسلہ یہاں ہی ختم نہیں ہوا.بلکہ بیگووال سے واپسی کے بعد بھی بعض ایسے مواقع آئے جب حضرت مسیح موعود نے قادیان سے ہجرت کا ارادہ ظاہر فرمایا.لیکن پھر اسے کسی الہی تفہیم کے تحت ملتوی فرما دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارادہ ہجرت قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1882ء میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ماموریت کا اعلان فرمایا.پھر 1885ء میں مجدد ہونے کا اعلان فرمایا بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مثیل مسیح ابن مریم بنایا اور خلعت مہدویت سے نوازا لیکن براہو، ان ابلیسی طاقتوں کا.جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں پیدا کرنی شروع کر دیں تبلیغ اسلام کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کی بھر پور کوششیں کیں.آپ کی زندگی میں دو ایسے مواقع آئے جب آپ نے قادیان سے ہجرت کا ارادہ ظاہر فرمایا ایک تو وہ موقعہ تھا جب کہ 1887ء میں قادیان کے بعض آریہ سماج والوں نے آپ کی شدید مخالفت شروع کر دی.اور اس کی وجہ براہین احمدیہ اور سرمہ چشم آریہ کتابوں کی تصنیف و اشاعت تھی.مخالفین اسلام ”اسلام“ کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے انتظار میں تھے.اور توقع رکھتے تھے کہ چند سالوں میں ہی وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ تسلیم کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ان کے آباؤ اجداد ہندو تھے اس لئے وہ ” شُدھ ہو کر واپس اپنے دھرم میں آجائیں.ایسے امید افزاء ماحول میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے براہین احمدیہ اور سرمہ چشم آریہ تصنیف فرمائی جس سے دشمنان اسلام نے اپنی
جلد اوّل 10 تاریخ احمدیت بھارت امیدوں پر پانی پھرتے دیکھا تو مخالفت وعداوت کو انتہاء تک پہنچادیا.ان کی طرف سے آپ کو اشتعال انگیز اشتہارات و رسائل بھجوائے جانے لگے.آپ کے قتل کی سازشیں ہونے لگیں.آپ نہیں چاہتے تھے کہ قادیان کا امن وسکون برباد ہو.اور ساکنین قادیان کسی مصیبت میں مبتلاء ہو جائیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان سے ہجرت کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.” ناظرین پر واضح رہے کہ ہمارا ہر گز یہ طریق نہیں کہ مناظرات و مجادلات میں یا اپنی تالیفات میں کسی نوع کے سخت الفاظ کو اپنے مخاطب کے لئے پسند رکھیں یا کوئی دل دکھانے والا لفظ اس کے حق میں یا اس کے کسی بزرگ کے حق میں بولیں، کیونکہ یہ طریق علاوہ خلاف تہذیب ہونے کے ان لوگوں کے لئے مضر بھی ہے جو مخالفت رائے کی حالت میں فریق ثانی کی کتاب کو دیکھنا چاہتے ہیں، وجہ یہ کہ جب کسی کتاب کو دیکھتے ہی دل کو رنج پہنچ جائے تو پھر برہمی بیعت کی وجہ سے کس کا جی چاہتا ہے کہ ایسی دل آزار کتاب پر نظر بھی ڈالے لیکن ہم افسوس سے لکھتے ہیں کہ ہمیں اس رسالہ میں ایک ایسے یاوہ گو کی تحریر کا جواب لکھنا پڑا جس نے اپنے افتراء سے سوالات ہی ایسے کئے تھے جن کا پورا پورا اور واقعی سچا بھی وہی جواب تھا جو ہم نے لکھا ہے.ہر چند ہم نے حتی الوسع رفق اور نرمی کو ہاتھ سے نہیں دیا اور وہی الفاظ لکھے جو واقعی صحیح اور اپنے محل پر چسپاں ہیں.لیکن ہماری کانشنس اور حفظ مراتب کے جوش نے اس بات سے بھی ہم کو منع کیا کہ ہم سفلہ مزاج اور گندی طبیعت کے لوگوں کے لئے وہ آداب استعمال کریں جو ایک شریف اور مہذب جنٹلمین کے لئے واجب ہیں.ان آریوں نے ہم سے کس قسم کی تہذیب کا برتاؤ کیا؟ یہ ہم ابھی بیان کریں گے اور ہمیں یقین ہے کہ شریف آریہ ان حرکات بیجا کو بالکل روا نہیں رکھتے ہوں گے جو ہماری نسبت اپنے اقوال پر مخش سے بعض دل چلے آریوں نے اپنے وحشیانہ جوش سے ظاہر کئے ہیں.انہوں نے میری نسبت ایسے گندے اشتہار چھاپے ہیں.ایسے پر دشنام گمنام خط بھیجے ہیں.ایسی غائبانہ گندیاں باتیں کہیں ہیں کہ مجھے ہرگز امید نہیں کہ کوئی نیک ذات آریہ اس صلاح اور مشورہ میں داخل ہوگا.اور پھران نیک بختوں نے اسی پر کفایت نہیں کی بلکہ بار بار خطوط اور اشتہاروں کے ذریعہ سے مجھے قتل کرنے کی بھی دھمکی دی ہے لیکھ رام پشاوری نے جس قدر گندے اور بد بو سے بھرے ہوئے ہماری طرف خط لکھے وہ سب ہمارے پاس موجود ہیں.اور گمنام خطوط جو جان سے ماردینے کے بارے میں کسی پر جوش آریہ کی طرف سے پہنچے گو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کس آریہ کی طرف سے ہیں مگر یہ ہم جانتے ہیں کہ شورہ پشتوں کے گروہ
تاریخ احمدیت بھارت 11 جلد اول میں سے کوئی ایک ہے.ایسا ہی جن اشتہاروں کو یہ لوگ وقتا فوقتاً جاری کرتے ہیں ان کے پڑھنے سے ہر یک شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں کیا کچھ بھرا ہوا ہے.گمنام خط جس قدر آریوں کی طرف سے آتے ہیں وہ اکثر بیرنگ ہوتے ہیں اور علاوہ ایک آنہ محصول ضائع کرنے کے جب اندر سے کھولا جاتا ہے تو نری گالیاں اور نہایت گندی باتیں ہوتی ہیں ایسے خط معلوم ہوتا ہے کہ کسی لڑکے بدخط سے لکھائے جاتے ہیں عبارت وہی معمولی ان گنده زبان آریوں کی ہوتی ہے اور خط بچوں کا سا.ہم نہیں جانتے کہ ہم نے ان کا کیا گناہ کیا ہے راستی کو تہذیب اور نرمی سے بیان کرنا ہمارا شیوہ ہے ہاں چونکہ یہ لوگ کسی طور سے ناراستی کو چھوڑ نا نہیں چاہتے اسلئے سچ کہنے والے کے جانی دشمن ہو جاتے ہیں سو چونکہ ہمارے نزدیک کلمہ حق سے خاموش رہنے اور جو کچھ خدائے تعالیٰ نے صاف اور روشن علم دیا ہے وہ خلق اللہ کونہ پہنچانا سب گناہوں سے بدتر گناہ ہے اس لئے ہم ان کی قتل کی دھمکیوں سے تو نہیں ڈرتے اور نہ بجز ارادہ الہی قتل کر دینا ان کے اختیار میں ہے لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ کسی ظالم آریہ کے اقدام قتل سے ہمارے ہموطن اور ہم شہر آریہ پولیس کی کشاکشی میں پھنس جائیں.اس لئے اول تو انہیں ہم یہ نصیحت کرتے ہیں کہ اس سرحدی شخص سے جس کا نام لیکھرام یا لیکھ راج ہے پر ہیز رکھیں.اس کے ساتھ ان کی در پردہ خط و کتابت اچھی نہیں اس کی تحریریں جو ہمارے نام آئی ہیں سخت خطر ناک ہیں اور دوسرے ہم یہ بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ اب ہم اپنے پیارے زاد بوم قادیان کو مصلحت مذکورہ بالا کے لحاظ سے چھوڑ دیں اور کسی دور کے شہر میں جا کر مسکن اختیار کریں کیوں کہ جس جگہ میں ہمارا رہنا ہمارے حاسدوں کے لئے دکھ کا موجب ہوان کا رفع تکلیف کرنا بہتر ہے.کیونکہ بخدا ہم دشمنوں کے دلوں کو بھی تنگ کرنا نہیں چاہتے اور ہمارا خدا ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں لیکن میں کہتا ہوں کہ نہ صرف نبی بلکہ بجز اپنے وطن کے کوئی راستباز بھی دوسری جگہ ذلت نہیں اٹھاتا اور اللہ جل شانہ فرماتا ہے و مَنْ يُهَاجِرُ في سَبِيلِ اللهِ يَجِدُ فِي الْأَرْضِ مُرغَماً كَثِير أَو سَعَةً (10) یعنی جو شخص اطاعت الہی میں اپنے وطن کو چھوڑے تو خدائے تعالیٰ کی زمین میں ایسے آرام گاہ پائیگا جن میں بلا حرج دینی خدمت بجا لا سکے.سوائے ہم وطنو ہم تمہیں عنقریب الوداع کہنے والے ہیں.(11) بہر حال اس وقت کسی الہی تفہیم کے پیش نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان سے ہجرت کا ارادہ معرض التواء میں ڈال دیا.
جلد اوّل 12 تاریخ احمدیت بھارت دوسری مرتبہ آپ نے 1900ء میں قادیان سے ہجرت کا ارادہ فرمایا.اس کی وجہ آپ کے جدی بھائیوں کی طرف سے ایذا رسانیاں تھیں آپ کے پاس دور دراز سے مہمان آتے انہیں طرح طرح سے تنگ کیا جاتا.یہ مخالفت و عداوت اس وقت اپنے انتہاء کو پہنچ گئی جب انہوں نے مسجد مبارک جانے والے راستے میں دیوار بنا کر راستہ روک دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں ہر طرح سے سمجھانے کی کوششیں کیں مگر ان پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا.آخر آپ نے جماعت کے افراد کا ایک وفد ڈ پٹی کمشنر گورداسپور کے پاس بھجوایا.جو کہ قادیان متصل موضع ہر چووال میں آئے ہوئے تھے.تاکہ وہ دیوار کو منہدم کروائیں.ڈپٹی کمشنر کا رویہ بھی انتہائی تلخ اور متعصبانہ تھا.اس سارے واقعہ کا ذکر چوہدری حاکم علی صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ اس طرح بیان فرما یا:.حضرت صاحب نے ہمارے ساتھ اور بعض مہمانوں کو ملا دیا اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر کے پاس جاؤ اور اس سے جا کر ساری حالت بیان کرو اور کہو کہ ہم لوگ دور دراز سے دین کی خاطر یہاں آتے ہیں اور یہ ایک ایسا فعل کیا جا رہا ہے جس سے ہم کو بہت تکلیف ہوگی کیونکہ مسجد کا راستہ بند ہو جائیگا.ان دنوں میں قادیان کے قریب ایک گاؤں میں کوئی سخت واردات ہو گئی تھی اور ڈپٹی کمشنر اور کپتان پولیس سب وہاں آئے ہوئے تھے.چنانچہ ہم لوگ وہاں گئے اور ذرا دور یکے ٹھہرا کر آگے بڑھے.ڈپٹی کمشنر اس وقت باہر میدان میں کپتان کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا.ہم میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور کہا کہ ہم قادیان سے آئے ہیں اور اپنا حال بیان کرنا شروع کیا.مگر ڈپٹی کمشنر نے نہایت غصہ کے لہجہ میں کہا کہ تم بہت سے آدمی جمع ہو کر مجھ پر رعب ڈالنا چاہتے ہو.میں تم لوگوں کو خوب جانتا ہوں اور میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ جماعت کیوں بن رہی ہے.اور میں تمہاری باتوں سے ناواقف نہیں اور میں اب جلد تمہاری خبر لینے والا ہوں اور تم کو پتہ لگ جائے گا کہ کس طرح ایسی جماعت بنایا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ.چوہدری صاحب کہتے ہیں ہم ناچار وہاں سے بھی ناکام واپس آگئے اور حضرت صاحب کو سارا ماجرا سنایا.چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ ان دنوں میں مخالفت کا سخت زور تھا اور انگریز حکام بھی جماعت پر بہت بدظن تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ کوئی سازش کے لئے سیاسی جماعت بن رہی ہے.اور بٹالہ میں ان دنوں پولیس کے افسر بھی سخت معاند و مخالف تھے اور طرح طرح سے تکلیف دیتے رہتے تھے اور قادیان کے اندر بھی مرزا امام الدین اور مرزا نظام
تاریخ احمدیت بھارت 13 جلد اوّل الدین وغیرہ اور ان کی انگیخت سے قادیان کے ہندو اور سکھ اور غیر احمدی سخت ایذا رسانی پر تلے ہوئے تھے اور قادیان میں احمدیوں کو سخت ذلت اور تکلیف سے رہنا پڑتا تھا اور ان دنوں میں قادیان میں احمدیوں کی تعداد بھی معمولی تھی اور احمدی سوائے حضرت کے خاندان کے قریباً سب ایسے تھے جو باہر سے دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہوئے تھے یا مہمان ہوتے تھے.حضرت صاحب نے یہ حالات دیکھے اور جماعت کی تکلیف کا مشاہدہ کیا تو جماعت کے آدمیوں کو جمع کر کے مشورہ کیا اور کہا کہ اب یہاں ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہاں رہنا مشکل ہو گیا ہے اور ہم نے تو کام کرنا ہے.یہاں نہیں تو کہیں اور سہی.اور ہجرت بھی انبیاء کی سنت ہے.پس میرا ارادہ ہے کہ کہیں باہر چلے جائیں.چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ اس پر پہلے حضرت خلیفہ اول نے عرض کیا کہ حضور بھیرہ تشریف لے چلیں.وہاں میرے مکانات حاضر ہیں اور کسی طرح کی تکلیف نہیں.مولوی عبد الکریم صاحب نے سیالکوٹ کی دعوت دی، شیخ رحمت اللہ صاحب نے کہا لاہور میرے پاس تشریف لے چلیں.میرے دل میں بھی بار بار اٹھتا تھا کہ میں اپنا مکان پیش کر دوں مگر میں شرم سے رک جاتا تھا آخر میں نے بھی کہا کہ حضور میرے گاؤں میں تشریف لے چلیں.وہ سالم گاؤں ہمارا ہے اور کسی کا دخل نہیں اور اپنے مکان موجود ہیں اور وہ ایک ایسی جگہ ہے کہ حکام کا بھی کم فضل ہے.اور زمیندارہ رنگ میں گویا حکومت بھی اپنی ہے، حضرت صاحب نے پوچھا وہاں ضروریات مل جاتی ہیں میں نے کہا.رسد وغیرہ سب گھر کی اپنی کافی ہوتی ہے.اور ویسے وہاں سے ایک قصبہ تھوڑے فاصلہ پر ہے جہاں سے ہر قسم کی ضروریات مل سکتی ہیں.حضرت صاحب نے کہا ! اچھا وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا.جہاں اللہ لے جائے وہیں جائیں گے“.(12) بعد ازاں اس دیوار کے انہدام کے لئے عدالت کی طرف رجوع کیا گیا.ایک سال آٹھ ماہ کے بعد مورخہ 12 اگست 1901 ء عدالت نے دیوار گرانے کا فیصلہ صادر کیا.یہ خوشخبری جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچی تو آپ نے فرمایا :.گویا ایک سال آٹھ ماہ کا رمضان تھا جس کی آج عید ہوئی (13) چنانچہ مخالفانہ حالات بدل جانے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوسری مرتبہ بھی ہجرت کا ارادہ ملتوی فرما دیا.
جلد اوّل 14 تاریخ احمدیت بھارت -1 -2 -3 4 _5 -6 -7 -8 _9 حواشی باب اول صحیح مسلم.کتاب الفضائل.باب فضل فارس صحیح مسلم كتاب الفتن و اشراط الساعة بخاری فی تاریخہ والرافعی فی کتاب المھدی وابن مردویہ وابن شاهین وابن ابی الدنیا جواھر الاسرار از حضرت علی بن حمزہ - اشارات فریدی حصہ سوم صفحہ 70 ملفوظات حضرت خواجہ غلام فرید چاچڑاں شریف مطبوعہ آگرہ 1320ھ بحوالہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، زیر لفظ بابر، جلد 3 صفحہ 813 تا 815 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 29 مطبوعہ 2007ء ازالہ اوہام حصہ اول روحانی خزائن جلد 3 حاشیہ صفحہ 160 تا 164 مطبوعہ 2008ء ازالہ اوہام، جلد اول صفحہ 165 ، روحانی خرائن جلد 3 صفحہ 165 مطبوعہ 2008ء حاشیہ کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحه 75-174 10 - سورة النساء آیت 101.11 شحنه حق روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 324 تا 326 مطبوعہ 2008ء 12 - بحوالہ سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 125 تا 127 روایت نمبر 135 مطبوعہ جولائی 2008ء 13 - بحوالہ اخبار الحکم مؤرخہ 17 راگست 1901 ، صفحه 12
تاریخ احمدیت بھارت 15 جلد اول باب دوم قادیان سے ہجرت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات و کشوف اور حضرت اصلح الموعود کا انتباہ الہام داغ ہجرت مورخہ 18 ستمبر 1894ء کواللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما فر مایا.داغ ہجرت (1) نیز ہجرت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مدت ہوئی کہ کوئی پچیس چھبیس سال کا عرصہ گزرا ہے ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں لکھا ہے.انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رؤیا نبی کے اپنے زمانہ میں پورے ہوئے اور بعض اولا د یا کسی متبع کے ذریعہ پورے ہوئے.مثلاً آنحضرت صلی ایتم کو قیصر و کسری کی کنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمر کے زمانہ میں فتح ہوئے“.(2) پھر ایک اور الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ القُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ (3) یعنی وہ قادر خدا جس نے تیرے پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا.الغرض اسی طرح کے اور بھی الہامات و کشوف جماعت کے برگزیدہ احباب کے لئے باعث فکر بنے رہتے تھے.اگر چہ بظاہر حالات سے اس کا امکان نظر نہیں آتا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ﷺ نے تقریبا ہجرت سے نو سال قبل 26 اپریل 1938ء کو حضرت مصلح موعود خلیفہ مسیح الثانی کی خدمت اقدس میں درج ذیل مکتوب گرامی تحریر فرمایا :.
جلد اوّل 16 تاریخ احمدیت بھارت سیدنا ! بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آج کل میں تذکرہ کا کسی قدر بغور مطالعہ کر رہا ہوں.مجھے بعض الہامات وغیرہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید جماعت پر یہ وقت آنے والا ہے کہ اسے عارضی طور پر مرکز سلسلہ سے نکلنا پڑے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورت حال غالباً گورنمنٹ کی طرف سے پیدا کی جائے گی.اگر یہ میرا خیال درست ہو تو اس وقت کے پیش نظر ہمیں کچھ تیاری کرنی چاہیئے.مثلاً مذہبی اور قومی یادگاروں اور شعائر اللہ کی حفاظت کا انتظام وغیرہ تا کہ اگر ایسا وقت مقدر ہے تو جماعت کے پیچھے ان کی حفاظت رہے.اور نشانات محفوظ رہیں.اسی طرح دوسری باتیں سوچ رکھنی چاہئیں.فقط والسلام (دستخط) خاکسار مرزا بشیر احمد (4)-26-4-1938 اس محمد پر حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسی ثانی نے اپنے قلم مبارک سے حسب میل نوٹ تحریر فرمایا.عزیزم مکرم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ میں تو بیس سال سے یہ بات کہہ رہا ہوں حق یہ ہے کہ جماعت اب تک اپنی پوزیشن کو نہیں سمجھی.ابھی ایک ماہ ہوا میں اس سوال پر غور کر رہا تھا کہ مسجد اقصیٰ وغیرہ کے لئے گہرے زمین دوز نشان لگائے جائیں جن سے دوبارہ مسجد تعمیر ہو سکے.اسی طرح چاروں کونوں پر دُور دُور مقامات پر مستقل زمین دوز نشانات رکھے جائیں جن کا راز مختلف ممالک میں محفوظ کر دیا جائے تا کہ اگر ان مقامات پر دشمن حملہ کرے تو ان کو از سرنو اپنی اصل جگہ پر تعمیر کیا جاسکے.پاسپورٹوں کا سوال بھی اسی پر مبنی تھا.(دستخط ) مرزا محموداحمد (خلیفتہ امسیح) 5 ہر دو خطوط کی اشاعت کے وقت سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنا درج ذیل نوٹ شامل کیا: اس میں جو یہ فقرہ ہے کہ پاسپورٹوں کا سوال بھی اسی پر مبنی تھا.اس کا اشارہ اس طرف ہے کہ انہی پیشگوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے حکم دیا تھا کہ تمام خاندان کے اور سلسلہ کے بڑے بڑے کارکنوں
تاریخ احمدیت بھارت 17 جلد اوّل کے غیر ممالک کے پاسپورٹ ہر وقت تیار رہنے چاہئیں تا کہ جب ہجرت کا وقت آئے پاسپورٹ بنوانے پر وقت نہ لگے.اسی طرح اسی وقت سے میں نے یہ حکم دیا ہوا تھا کہ ایک ایک سیٹ سلسلہ کی کتب کا سات آٹھ مختلف ملکوں میں بھجوا کر سلسلہ کا لٹریچر محفوظ کر لیا جائے.(1) مرزا محمود احمد (خلیفہ مسیح)"(6) 22/5/1948 حضرت خلیفہ المسح الثاني الصلح الموعود نے مجلس مشاورت 1946 کے موقعہ پر فرمایا: میں نے قدم بقدم جماعت میں ان قربانیوں کا احساس پیدا کرنے کے لئے وقف جائیداد کا طریق جاری کیا تھا.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری جماعت کے تمام افراد کم سے کم یہ احساس اپنے اندر پیدا کریں کہ ہم سے جب بھی کسی قربانی کا مطالبہ کیا جائیگا ہم اس کو پیش کر دیں گے اور اپنے دل میں سے نکال دیں کہ بار بار جانی اور مالی قربانی کا مطالبہ کرنے کے باوجود ابھی تک جان اور مال کو قربان کرنے کا وقت نہیں آیا.زمانہ اس وقت کو قریب سے قریب تر لا رہا ہے.میں نہیں کہ سکتا کہ آج سے دس سال بعد یا ہیں سال بعد یا پچاس سال بعد وہ زمانہ آنے والا ہے.مگر بہر حال وہ منزل ہمارے قریب آرہی ہے.اور جب تک ہماری جماعت اس دروازہ میں سے نہیں گزرے گی وہ صحیح معنوں میں ایک مامور کی جماعت کہلانے کی بھی حقدار نہیں ہوسکتی.یہ قطعی اور یقینی اور لازمی بات ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کو پھیلاتے ہوئے خطروں کے طوفانوں سے گزریں گے.اسی طرح یہ قطعی اور یقینی اور لازمی بات ہے کہ ہمیں ایک دفعہ ہجرت کرنی پڑے اور اپنے مکانوں اور جائیدادوں سے محض اللہ کے لئے دست بردار ہونا پڑے.مگر ابھی تک ہم اس امتحان سے بھی نہیں گزرے.بہر حال یہ دن جلد یا بدیر آنے والا ہے اور ہماری جماعت کے افراد کو اس دن کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیئے.ہمیں کیا معلوم کہ وہ دن کب آنے والا ہے“.(7) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے مؤرخہ 25 فروری 1947ء کو افراد جماعت کو لمصل حفاظت مرکز قادیان کے لئے چندہ دینے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: ان ہولناک ایام کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی بچائے تو بچائے
جلد اوّل 18 تاریخ احمدیت بھارت مسلمانوں کی وہ تیاری نہیں ہے اور نہ ہی وہ قربانی کا جذبہ ان میں پایا جاتا ہے جو ایک زندہ رہنے والی قوم میں ہونا چاہیئے.عام مسلمانوں کو جانے دو ابھی آپ لوگوں میں بھی وہ بیداری پیدا نہیں ہوئی جو مومن کے شایان شان ہے.مومن اپنے کاموں میں بہت محتاط ہوتا ہے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں بھی اپنے ہزاروں روپے صرف کرنے سے دریغ نہیں کرتا مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس ضمن میں ایمان کا مظاہرہ نہیں کیا اور مرکز احمدیت کی حفاظت کے لئے جس رقم کا جماعت سے مطالبہ کیا گیا تھا اس میں جماعت نے بہت کم حصہ لیا ہے بلکہ اکثروں نے تو بالکل اس کی اہمیت کو ہی نہیں سمجھا.اگر ایک شخص کو کوئی مقدمہ آپڑے تو وہ ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتا ہے.بیماری گھر میں آجائے توسینکڑوں صرف ہو جاتے ہیں مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ تم اپنی حفاظت کیلئے اور اپنے عزیزوں کے لئے تو ہزاروں روپے صرف کردو لیکن دین کی حفاظت کے لئے چند سوبھی قربان نہ کر سکو.(8) حفاظت مرکز کے لئے دولاکھ روپے چندہ کی تحریک حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ہجرت سے تقریباً ساڑھے 5ماہ قبل مورخہ 15اپریل 1947ء کو مجلس مشاورت کے اجلاس میں جو بعد نماز مغرب وعشاء منعقد ہوا دولاکھ روپیہ حفاظت مرکز کے لئے جمع کرنے کی تحریک فرمائی.اس بارے میں حضور نے فرمایا: حفاظت مرکز کے لئے جماعت سے دولاکھ کی رقم کا مطالبہ کیا گیا تھا.مگر اس وقت تک صرف 36 ہزار کے قریب رقم جمع ہوئی ہے.میں حیران ہوں کہ موجودہ ہولناک تباہیوں اور خونریزیوں کے دیکھتے ہوئے جماعت نے کس طرح اتنی رقم پر اکتفا کیا.کیا کوئی عقلمند یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ حقیر رقم شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے کافی ہے.اور ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہو گئے ہیں.اس سے سینکڑوں گنا زیادہ تو تم سال بھر میں اپنے بیماروں پر خرچ کر دیتے ہو.کیا شعائر اللہ کو اتنی اہمیت بھی حاصل نہیں؟ اب آپ مجھے بتائیں کہ بقیہ رقم کس طرح پوری ہو سکتی ہے؟ (9) دو تاریخ اسلام میں صلح حدیبیہ کے واقعات میں ذکر آتا ہے کہ جب ” معاہدہ صلح“ طے پا گیا تو
تاریخ احمدیت بھارت 19 جلد اول آنحضرت سی ایم نے صحابہ کو قربانیوں کو ذبح کرنے کا حکم دیا.مگر انہوں نے تعمیل ارشاد میں تھوڑی تاخیر کردی تو جب آنحضرت مسلم سلیم نے خود اپنے جانور کی قربانی کر دی تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا.اور وہ جلدی سے جانور ذبح کرنے لگے.بعینہ اس موقعہ پر افراد جماعت نے حضور کی توقعات کے مطابق حفاظت مرکز کے لئے پہلی مرتبہ قربانیاں پیش نہیں کیں.مگر جب حضور نے نصائح کیں اور ان نصائح کے بعد انہیں جو احساس ہوا ان کے جذبات ندامت کی ترجمانی کرتے ہوئے شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت لاہور نے فرمایا:.پیارے آقا! یہ درست ہے کہ ہم نے حفاظت مرکز کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور اس طرف توجہ نہیں کی.اس کی وجہ یہ تھی اول تو ہمیں صحیح طور پر آگاہ نہیں کیا گیا.دوسرے ہمیں وہ بصیرت اور پیش بینی حاصل نہیں جوحضور کو حاصل ہے.حضور نے بیشک ہمیں قبل از وقت خطرے سے آگاہ کر دیا تھا.مگر ہم سے کوتاہی ہوئی کہ ہم نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور غفلت سے بیدار نہ ہوئے.اب جبکہ خطرہ ہماری آنکھوں کے سامنے آگیا ہے.تباہیوں اور خونریزی کا ہولناک منظر ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزر چکا ہے تو آج ہماری حالت وہ نہیں ہے جو پہلے تھی.آج ہم محسوس کر چکے ہیں کہ ہم اور ہمارے عزیزوں کی جانیں اور ہماری مقدس ومحبوب ترین چیزیں خطرہ میں ہیں.ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ قربانی کا وقت آن پہنچا ہے اور اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے مال و دولت کو شمار کرنے کی گھڑی آ پہنچی ہے ہم سے جو غفلت اور کوتاہی ہوئی اس کے لئے معذرت خواہ ہیں.اور آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ آئندہ ہم آپ کے ادنی اشارے پر اپنا سب کچھ لٹا دینے کیلئے تیار ہیں اور انشاء اللہ آئندہ کبھی شکایت کا موقعہ پیدا نہ ہونے دیں گے.موجودہ وقت ہم سے تقاضہ کرتا ہے کہ ہم اپنی ساری آمد نہیں اور جائداد میں حضور کے قبضہ میں دیدیں اور حضور ہمیں معمولی سا گزارہ دیکر باقی رقوم کو جہاں چاہیں خرچ کر دیں ہمیں کوئی عذر نہ ہوگا“.(10) جماعت کی طرف سے اس اظہار ندامت پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا :.اگر یہ سلسلہ انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوتا تو میں یہ سمجھتا کہ جماعت کی اس معاملہ میں عدم توجہی حقیقی کمزوری ایمان کے نتیجہ میں ہے.لیکن جبکہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور وہ خود اس کا محافظ ہے تو میں یہ نہیں خیال کر سکتا کہ موجودہ ستی حقیقی غفلت کے نتیجہ میں ہوئی ہے جیسا کہ آپ میں سے اکثر نے اپنی عدم توجہی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے احساس ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے، میرا مقصد بھی یہی تھا کہ اس نازک
جلد اوّل 20 تاریخ احمدیت بھارت دور کا احساس ہو.اور آپ اپنی غفلت کو چھوڑ کر آنے والے مصائب کے لئے تیار ہو جائیں.قبل از وقت میں آپ کو جو کچھ کہہ رہا تھا.وہ اللہ تعالیٰ کے علم کی بناء پر تھا.اور خدا کی باتیں جھوٹی نہیں ہوسکتیں.اس کی طرف سے دی ہوئی غیب کی خبریں ایک ایک کر کے پوری ہو رہی ہیں.اور جس جس طرح بدلنے والے حالات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا وہ بعینہ پورے ہو رہے ہیں.دنیا میں ہر شخص کے لئے آزادی ہے سوائے ہمارے کہ ہم اپنے مقدس مقامات کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی حفاظت کر سکتے ہیں.ایک عمارت جو مٹی اور اینٹوں کی بنی ہوئی ہے اس سے ایک مومن کی جان کہیں قیمتی ہوتی ہے لیکن جب وہ عمارت اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے لگے اور شعائر اللہ بن جائے تو اس کی حفاظت کے لئے سینکڑوں مومنوں کی جان بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور انہیں خوشی سے قربان کیا جا سکتا ہے.پس جماعت نے اگر ان باتوں کو مدنظر نہیں رکھا تھا تو میرا فرض تھا کہ میں انہیں احساس ذمہ داری دلاؤں اور ان کے مونہوں سے کہلواؤں کہ ہم سے غفلت ہوئی.سو میں سمجھتا ہوں کہ وہ غرض پوری ہوگئی ہے.اب سوال یہ ہے کہ وہ کمی کس طرح پوری کی جائے.ہمارے عام چندے تو ان اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے ہمیں کوئی اور ہی طریق اختیار کرنے ہوں گے.سو اس کے لئے جماعت سے میرا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ دوست جن کی رقوم باہر بنکوں میں جمع ہیں وہ بطور امانت قادیان بھیجد یں تا کہ سلسلہ کو اگر کوئی فوری ضرورت پڑے تو اس میں سے خرچ کر سکے.اور پھر آہستہ آہستہ اس کمی کو پورا کر دے.یہ رقوم بطور امانت کے ہوں گی اور بوقت ضرورت واپس مل سکیں گی.اس طرح سلسلہ کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اور آپ لوگوں کے ایمان کا امتحان بھی ہو جائے گا.جو دوست اس تحریک پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہوں وہ اپنے نام اور رقوم لکھا دیں“.حضور کی زبان سے ان الفاظ کا نکلنا ہی تھا کہ مخلصین نے نہایت ذوق و شوق سے اپنے نام لکھانے شروع کر دیئے.ہر چہرہ سے یہی اضطراب ظاہر ہوتا تھا وہ دوسروں سے سبقت لینا چاہتا ہے اور ہر دل مضطر تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رقوم اپنے آقا کے قدموں میں ڈال دے.قریباً نصف گھنٹہ کے عرصہ میں -/371000 روپے کے وعدے ہوئے جس کا حضور نے کھڑے ہو کر اعلان کیا اور فرمایا کبھی کچھ دوست رہتے ہیں جو سوچ رہے ہونگے اور اکثر ایسے بھی ہیں جنہوں نے مشورہ وغیرہ کرنا ہوگا.اور ابھی ہزاروں ہزار دوست ایسے ہیں جو ہم سے کسی طرح
تاریخ احمدیت بھارت 21 جلداول اخلاص میں کم نہیں ہیں مگر وہ اس وقت دور بیٹھے ہیں.جب آپ لوگ جا کر ان کو اطلاع دیں گے تو وہ کبھی بھی آپ سے پیچھےنہ رہیں گے اور ممکن ہے مطلوبہ رقم سے بہت زیادہ روپیہ جمع ہو جائے.“ اس کے بعد فرمایا ”سب سے پہلے میں جائیداد کے وقف کو لیتا ہوں جو خدا تعالیٰ کے الہام کے ماتحت جاری کیا گیا ہے.مگر میں نہایت افسوس سے کہتا ہوں کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی.اور صرف دو ہزار آدمیوں نے اس وقت تک اس میں حصہ لیا ہے.حالانکہ لاکھوں کی جماعت ہے اور لاکھوں کی جماعت میں سے لاکھوں ہی کو وقف کرنا چاہیئے تھا.آپ میں سے جن دوستوں نے اپنی آمد یا جائیدا د وقف کی ہوئی ہے وہ کھڑے ہو جائیں (اس پر 455 میں سے جو ہال میں تھے صرف 167 کھڑے ہوئے ) فرمایا " یہ تعداد ہے جو 35 فیصدی کے قریب بنتی ہے.اس پر دوسری جماعت کا بھی اندازہ کر لیں.آپ میں سے جو لوگ اس وقت وقف کرنا چاہیں وہ بھی اپنے نام اور جائیداد کی قیمت وغیرہ لکھا دیں.اس پر ہر طرف سے ناموں کی آواز آنے لگی اور کارکنوں نے نام لکھنے شروع کئے.اس سلسلہ کے ختم ہونے پر حضور نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ جماعتوں میں جا کر دوسرے لوگوں کو بھی اس کارخیر میں شریک کریں.ہم اس بات سے خوش نہیں ہو سکتے کہ ہم میں سے اتنے لوگوں نے حصہ لیا.بلکہ ہمیں سبھی خوشی ہو سکتی ہے کہ جب جماعت کے ہر فرد نے اس میں شرکت کی ہواور کوئی بھی اس سے باہر نہ رہا ہو یہی زندہ جماعتوں کی علامت ہے اس ضمن میں فرمایا اس وقت میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ وقف جائیداد والے دوست اپنی جائیداد کی کل قیمت کا ایک فیصدی چھ ماہ کے اندراندر مرکز میں جمع کرا دیں اور وہ جنہوں نے ایک ماہ یا دو ماہ کی آمد وقف کی ہوئی ہے وہ ایک ماہ کی آمد بھیجد ہیں.اور جن لوگوں نے وقف نہیں کی وہ بھی اس چندہ میں حصہ ضرور لیں.وہ اپنی کل جائیداد کی قیمت کا2/ 1 فیصدی اور اپنی ایک ماہ کی آمد کا نصف چھ ماہ کے اندراندر یہاں بھیجد میں“.بالآخر حضور نے نہایت پر جوش کلمات میں نمائندگان کو خطاب کرتے ہوئے فرما یا :.پس جاؤ اور کوئی فرد باقی نہ رہنے دو جو اپنی جائیداد یا آمد وقف نہ کرلے اور وہ لوگ جو انکار کریں ان سے کہہ دو کہ ہم تمہارے حرام مال سے اپنے پاکیزہ مال کو ملوث نہیں کرنا چاہتے.تیسری تجویز یہ ہے کہ وصیتوں کی تحریک کی جائے اور جماعت کا کوئی فرد نہ رہے جس نے وصیت نہ کی ہو.وصیت بے شک
جلد اوّل 22 تاریخ احمدیت بھارت طوعی چیز ہے مگر اب وقت آ رہا ہے جب طوعی چیز میں بھی فرضی بن جاتی ہیں.چوتھی تجویز یہ ہے کہ جو لوگ پہلے ہی موصی ہیں وہ اپنی وصیتوں کو بڑھائیں.جو 1/10 کے موصی ہیں وہ 1/9 دیں.اور جو 9 / 1 دیتے ہیں وہ 1/8 دیں.وعلی ھذا.چوتھی تجویز قادیان کی جائیدادوں کے متعلق ہے کہ جب وہ بیچی جائیں تو جو نفع ہو اس نفع کا 50/100 سلسلہ کو دیا جائے.اور جن کے پاس پہلی جائیدادیں ہیں وہ منافع کا 1/10 فی صدی سلسلہ کو دیں.میں آئندہ کے لئے یہ قانون مقرر کرتا ہوں کہ کوئی جائیداد امور عامہ کے علم اور مرضی کے خلاف فروخت نہ ہو.اس حکم کا اطلاق آج سے شروع ہو گا.سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا ”اب رہا یہ سوال که اگر ان تجاویز کے باوجود مطلوبہ رقم جس کی اس وقت سلسلہ کے کام چلانے اور مرکز کی حفاظت کے لئے ضرورت ہے پوری نہ ہو تو میری کوٹھی دارالحمد کو بیچ کر کمی پوری کی جائے.کوٹھی کے ساتھ بہت سی زمین اور باغ بھی ہے جس کی مالیت چند لاکھ کے قریب ہے.میرے پاس نقد روپیہ نہیں ہے.جماعت کے دوست یہ کریں کہ اسے خرید لیں“.(11) تحریک وقف جائیداد وقف جائیداد ایک ایسی تحریک تھی جس کی بعید از قیاس حکمت کو بعض افراد جماعت قلت فہم کی وجہ سے سمجھ نہیں پارہے تھے.مگر اس کے غیر معمولی فوائد و برکات کی وجہ سے سیدنا مصلح موعودؓ نے اپنے خطبہ میں اس تحریک کو دوبارہ واضح کرتے ہوئے فرمایا:.میں سمجھتا ہوں کہ یہ تحریک بھی ہمارے سلسلہ کی اور تحریکوں کی طرح اپنے اندر خدا تعالیٰ کی بہت بڑی حکمتیں رکھتی ہے اور اس کی خوبیاں صرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ایک بنیاد ہے آئندہ بہت بڑے اور عظیم الشان کا موں کو سرانجام دینے کی.اور میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ کوئی اتفاقی تحریک نہیں بلکہ اس تحریک کے ذریعہ ہماری جماعت کی ترقی اور سلسلہ کے مفاد کے لئے بعض نہایت ہی عظیم الشان کاموں کی بنیاد رکھی جارہی ہے.گو اب تک لوگ اس تحریک کی اہمیت کو نہیں سمجھے لیکن دو چار سال تک اس کے کئی عظیم
تاریخ احمدیت بھارت 23 جلداول الشان فوائد جماعت کے سامنے آنے شروع ہو جائیں گے جیسے تحریک جدید کو جب شروع کیا گیا تھا تو اس تحریک کی خوبیاں جماعت کی نگاہ سے مخفی تھیں مگر اب نظر آرہا ہے کہ اس تحریک کے ذریعہ دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کا کام نہایت وسیع پیمانے پر جاری ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے جتنے کام مجھ سے لئے ہیں ان تمام کاموں کے متعلق میں دیکھتا ہوں کہ درحقیقت وہ بنیاد ہوتے ہیں بعض آئندہ عظیم الشان کاموں کی.اسی طرح یہ تحریک بنیاد ہوگی آئندہ تعمیر ہونے والی عظیم الشان اسلامی عمارات کی.جس طرح میں نے وقف جائیداد کی تحریک کی تھی جو در حقیقت بنیاد تھی آج کی تحریک کے لئے مگر اس وقت لوگ اس تحریک کی حقیقت کو نہیں سمجھے تھے.کچھ لوگوں نے تو اپنی جائیداد میں وقف کر دی تھیں مگر باقی لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی جائیدادیں وقف کی تھیں وہ بھی بار بار مجھے لکھتے تھے کہ آپ نے وقف کی تو تحریک کی ہے اور ہم اس میں شامل بھی ہو گئے ہیں لیکن آپ ہم سے مانگتے کچھ نہیں.انہیں میں کہتا تھا کہ تم کچھ عرصہ انتظار کرو.اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ وقت بھی آجائے گا.جب تم سے جائیدادوں کا مطالبہ کیا جائیگا.چنانچہ دیکھ لو اس تحریک سے خدا تعالیٰ نے کتنا عظیم الشان کام لیا ہے.اگر عام چندہ کے ذریعہ اس وقت جماعت میں حفاظت مرکز کے لئے تحریک کی جاتی تو میں سمجھتا ہوں کہ لاکھ دولاکھ روپیہ کا اکٹھا ہونا بھی بہت مشکل ہوتا.مگر چونکہ آج سے تین سال پہلے وقف جائیداد کی تحریک کے ذریعہ ایک بنیاد قائم ہو چکی تھی.اس لئے وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں اس وقت حصہ لیا تھا وہ اس وقت مینار کے طور پر ساری جماعت کے سامنے آگئے.اور انہوں نے اپنے عملی نمونہ سے جماعت کو بتایا کہ جو کام ہم کر سکتے ہیں وہ تم کیوں نہیں کر سکتے.چنانچہ جب ان کی قربانی پیش کی گئی تو ہزاروں ہزار لوگ ایسے نکل آئے جنہوں نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جائیدادیں وقف کر دیں.پس جس طرح تحریک جدید بنیاد تھی بعض اور عظیم الشان کاموں کے لئے اسی طرح حفاظت مرکز کے متعلق جو تحریک چندہ کے لئے کی گئی ہے یہ بھی آئندہ بعض عظیم الشان کاموں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور جس وقت یہ تحریک اپنی تکمیل کو پہنچے گی اس وقت مالی لحاظ سے جماعت کی قربانیاں اپنے کمال کو پہنچ جائینگی در حقیقت جانی قربانی کا مطالبہ وقف زندگی کے ذریعہ کیا جا رہا ہے، اور مالی قربانی کے ایک بہت ہی بلند مقام پر کھڑا کیا جارہا ہے.پھر شاید وہ وقت بھی آجائے کہ سلسلہ ہر شخص سے اس کی جان کا بھی مطالبہ کرے اور جماعت میں یہ تحریک کی جائے کہ ہر شخص نے جس طرح اپنی
جلد اوّل 24 تاریخ احمدیت بھارت جائیداد خدا تعالیٰ کے لئے وقف کی ہوئی ہے.اسی طرح وہ اپنی زندگی بھی خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دے تا کہ ضرورت کے وقت اس سے کام لیا جا سکے.“ (12) اس کے بعد ایک اور خطبہ میں دوبارہ یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا :.دو جن خطرات میں سے اس وقت ہمارا ملک گزررہا ہے اور جن خطرات میں سے اس وقت ہماری جماعت گزر رہی ہے، ان میں سے جو خطرات ظاہر ہیں وہ سب دوستوں کو معلوم ہیں.مگر بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جو آپ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور میں ان باتوں کو اس لئے ظاہر نہیں کرتا تاکہ کہیں کمز ور لوگ دل نہ چھوڑ بیٹھیں ورنہ ان دنوں ہماری جماعت ایسے خطرات میں سے گزر رہی ہے کہ ان کے تصور سے مضبوط سے مضبوط انسان کا دل بیٹھ جاتا ہے اور اس کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں.صرف جماعت کے کمزور لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے اور بعض دوسرے مصالح کی وجہ سے میں وہ باتیں پردہ اخفاء میں رکھتا ہوں ورنہ ان دنوں میں بعض اوقات اس طرح محسوس کرتا ہوں جیسے کسی عظیم الشان محل کی دیوار میں نکل جائیں.اور اس کی چھت کے سہارے کے لئے ایک سرکنڈا کھڑا کر دیا جائے.تو جو حال اس سرکنڈے کا ہو سکتا ہے.یہی حال بسا اوقات ان دنوں میں اپنا محسوس کرتا ہوں.وہ بوجھ جو اس وقت مجھ پر پڑ رہا ہے اور وہ خطرات جو جماعت کے مستقبل کے متعلق مجھے نظر آرہے ہیں وہ ایسے ہیں کہ ان کا اظہار ہی مشکل ہے اور ان کا اٹھانا بھی کسی انسان کی طاقت میں نہیں محض اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے میں اس بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہوں.ورنہ کوئی انسان ایسا نہیں ہوسکتا جس کے کندھے اتنے مضبوط ہوں کہ وہ اس بوجھ کو سہار سکیں اور ان تفکرات کا مقابلہ کر سکیں.ہماری جماعت کے حصے میں تو صرف چندے ہی ہیں.تفکرات میں اس کا کوئی حصہ نہیں بلکہ تفکرات ان تک پہنچتے ہی نہیں.جیسے خطرہ کے وقت ماں اپنے بچے کو گود میں سلا لیتی ہے اور سارا بوجھ خود اٹھا لیتی ہے ایسی ہی حالت اس وقت میری ہے کہ اُن خطرات سے جو اس وقت مجھے نظر آرہے ہیں جماعت کو آگاہ نہیں کر سکتا اور سارا بوجھ اپنے دل پر لے لیتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے کام تو بہر حال خدا تعالیٰ نے ہی سرانجام دینے ہیں میں جماعت کے لوگوں کو کیوں پریشان کروں.اللہ تعالیٰ جس رنگ میں چاہے گا اس کی مشیت پوری ہو کر رہے گی.در حقیقت جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے
تاریخ احمدیت بھارت 25 25 جلداول جو رتبہ مجھے عطا کیا گیا ہے، اس کے لحاظ سے سب سے پہلا اور آخری ذمہ دار میں ہی ہوں.اور جماعت کے بوجھ اٹھانے کا حق میرا ہی ہے جیسے قرآن کریم میں ذوالقرنین کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس نے کہا تھا أتُونِي زُبُرَ الْحَدِيدِ یعنی لوہے کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ وہی بات میں نے بھی پیش کر دی ہے کہ تم اپنی جائیدادوں کا ایک فیصدی قربانی میں پیش کر دو.وہ خود جماعت کی حفاظت کے سامان پیدا کر دیگا.اس وقت تمہارا کام صرف زبر الحدید پیش کرنا ہے ورنہ اصل اور اہم کام تو خدا تعالیٰ اور اس کے مقرر کردہ افراد نے ہی کرنا ہے بلکہ افراد نے بھی کیا کرنا ہے خدا نے خود ہی کرنا ہے.جماعت تو ان مصائب اور مشکلات کے مقابلہ کی طاقت ہی نہیں رکھتی کیونکہ ان کو دور کرنا انسانی طاقت سے بالا ہے.پس سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے اور کوئی ہستی ان کو دور کر ہی نہیں سکتی.لیکن جو چھوٹا سا کام ہماری جماعت کے ذمہ ہے اگر جماعت اس میں بھی سستی اور غفلت سے کام لے تو یہ نہایت ہی افسوسناک امر ہوگا“.(13) قادیان کے غیر از جماعت افراد کو حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے حفاظت کی یقین دہانی 1947ء کے اخبارات سے علم ہوتا ہے کہ جب انگریزوں نے ہندوستان چھوڑنے کا اعلان کر دیا تو ملک میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی.ہر ایک اپنے مستقبل کو تاریک و مہم دیکھ رہا تھا.بعض مقامات پر ایک پڑوسی اپنے پڑوسی سے خطرہ محسوس کر رہا تھا.اس پر مستزاد وہ افواہیں تھیں جو حالات کو مزید تشویشناک بناتی چلی جا رہی تھیں.قادیان اور اس کے نواحی علاقوں میں جماعت احمدیہ کی اکثریت تھی.اور یہاں کی غیر مسلم آبادی احمدیوں سے کسی قسم کا خطرہ محسوس نہیں کرتی تھی.مگر افواہوں نے ان کو بھی خوفزدہ کر دیا اور انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی تشویش کا اظہار کیا.اس پر حضور نے انہیں مکمل حفاظت کا یقین دلایا.اور مزید برآں 23 مئی 1947 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ:.یہ ایک حقیقت ہے کہ قادیان کے امن کی ذمہ داری در حقیقت مجھ پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ قادیان کی 85 فیصدی آبادی احمدی ہے یعنی انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے اور ان کا دعوی ہے کہ وہ ہر حکم میں میری اطاعت کرینگے.ان حالات میں قادیان کے امن کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور میں ایک انسان ہوں.غیب کا علم نہیں رکھتا.یہ ہو سکتا ہے کہ جماعت کا کوئی فرد کسی وقت اشتعال میں
جلداول 26 تاریخ احمدیت بھارت آکر کوئی غلطی کر بیٹھے.اور اگر کوئی شخص ایسا کرے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہوگا.جماعت اس کے اس فعل سے بیزار ہوگی.ہماری جماعت کی انتہائی کوشش یہی ہوگی کہ قادیان میں مکمل طور پر امن رہے.لیکن اگر کوئی شخص میری ہدایات کے باوجود غلطی کرتا ہے تو یہ اس کی جزوی اور انفرادی غلطی ہوگی.جماعت اس سے بری الذمہ ہوگی.ہاں چونکہ میں امن کی تعلیم دیتا ہوں، یہ نہیں ہو سکتا کہ جماعت کی اکثریت فساد میں مبتلا ہو جائے لیکن اس کے ساتھ ہی جو باقی پندرہ فی صدی لوگ ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ وہ ارد گرد کے لوگوں کو سمجھا ئیں کہ وہ فساد نہ کریں.اور اگر ان تمام باتوں کے باوجود خدانخواستہ باہر کے لوگ کوئی فساد کھڑا کریں تو اس فساد کی ذمہ داری ہم پر نہیں بلکہ دوسروں پر ہوگی.جو شخص کسی کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے وہ اس کا مستحق ہوتا ہے کہ اس کے منہ پر تھپڑ مارا جائے.مگر ظالم کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف ظلم بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی توقع رکھتا ہے کہ میرے منہ پر تھپڑ نہ مارا جائے.ہم اللہ تعالیٰ سے دعا تو کرتے ہیں کہ وہ ہمیں فساد سے محفوظ رکھے لیکن اگر خدانخواستہ فساد ہو گیا تو شرعاً اور اخلاقاً جماعت احمدیہ کا حق ہوگا کہ ظالم کے منہ پر اس طرح تھپڑ مارے جیسا کہ اس نے مارا.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض مواقع پر ہم نے امن کو قائم رکھنے کے لئے بہت زیادہ نرمی اختیار کی ہے.احرار کی شورش کے ایام میں ہی میں نے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس کے باپ یا بھائی کو مارا جا رہا ہے تو وہ بھی چپ کر کے گزر جائے لیکن اسلامی قانون یہ تقاضا نہیں کرتا کہ ہر موقع پر تم ایک ہی طریق اختیار کرو.نہ ہی اسلامی تمدن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر موقع پر خاموشی اختیار کی جائے.بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ مناسب حال جو موقع ہو ویسا کرو.پس میرا فرض ہے کہ میں قادیان میں امن قائم رکھوں.لیکن اگر دشمن کی طرف سے حملہ ہو اور جماعت اس کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرے تو اس کا ذمہ دار دشمن ہوگا نہ جماعت احمدیہ.اور اس فساد کی ذمہ داری اس پر ہوگی نہ کہ جماعت احمدیہ پر.رسول کریم این سیستم فرماتے ہیں الْبَادِی أَظْلَمُ اصل ظالم وہ ہوتا ہے جو فساد کی ابتداء کرتا ہے.پس گو ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے صلح اور امن کو قائم رکھا جائے، اور ہم اردگرد کے علاقہ میں بھی یہی کوشش کر رہے ہیں، اور دور ونزدیک کے سب لوگوں کو سمجھارہے ہیں کہ کوئی فریق ابتداء نہ کرے.لیکن اس امر کو ہندو سکھ سب کو یادرکھنا چاہیئے کہ اگر فساد ہوا تو صرف ہمارے لئے نہیں ہوگا بلکہ سب کے لئے ہوگا اور سب کو مل کر امن قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئیے.لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود ہم وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ فساد نہیں ہوگا اور ہماری کوششیں ضرور کامیاب ہوں گی.یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی
تاریخ احمدیت بھارت 27 جلد اوّل جوشیلا فریق اشتعال میں آکر اخلاق اور روحانیت کا ظلم و استبداد کے ستھان پر چڑھاوا چڑھاوے.ایسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ قادیان فساد کی لپیٹ میں آجائے.ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ایسا وقت نہ آئے.لیکن اگر خدانخواستہ فساد ہو جائے تو میں قادیان کے احمدی سے کہوں گا بہادری اور جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے جان دے دو اور یہ ثابت کر دو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانی سب سے آسان قربانی ہے.ہم کسی سے لڑنے کی خواہش نہیں رکھتے اور نہ کبھی اس قسم کا خیال ہمارے دلوں میں آنا چاہیئے.رسول کریم مسالا این فرماتے ہیں لَا تَتَمَنوا لِقَاء العدو تم دشمن سے لڑائی کی خواہش بھی نہ کرو اپنے خیالات امن و صلح والے رکھو.کیونکہ جس شخص کے دل میں لڑائی کے خیالات موجزن ہوں گے، وہ ذراسی بات سے ہی مشتعل ہو جائیگا.اور جس شخص کے دل میں صلح و آشتی کے خیالات ہوں گے وہ جلدی مشتعل نہیں ہوگا.یہ قدرت کا ایک قانون ہے کہ انسان اپنی حالت کو یکدم نہیں بدل سکتا.فرض کرو کوئی شخص قہقہہ مار کر ہنس رہا ہو اور اسے یہ خبر دی جائے کہ تمہارا بیٹا مر گیا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ اسی وقت یکدم رونا شروع کر دے.بلکہ اس کی جنسی تھوڑی دیر میں رکے گی پھر وہ کچھ دیر کے بعد افسردہ ہوگا.پھر آنسو بہانا شروع کر دے گا.اسی طرح جس شخص کے دل میں صلح و آشتی کے خیالات ہوں وہ یکدم مشتعل نہیں ہوسکتا.جب ریل اپنا کا نشا بدل لیتی ہے تو وہ بھی آہستہ ہو جاتی ہے اور ست رفتار ہو کر اس جگہ سے گزرتی ہے.اگر وہ تیزی سے کانٹا بدلے تو اس کے الٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فطرت انسانی کے لئے یہ قانون بنایا ہے کہ وہ اپنی حالت کو آہستہ آہستہ بدلتی ہے.اگر فور أحالت بدل جاتی تو ہسٹیریا یا جنون ہو جانے کا اندیشہ تھا.پس جو دماغ پہلے سے لڑائی کے خیالات میں منہمک ہوتا ہے وہ فور مشتعل ہو جاتا ہے.لیکن جس دماغ میں صلح اور امن کے خیالات ہوتے ہیں وہ کچھ دیر کے بعد مشتعل ہوتا ہے اور اتنی دیر میں مجرم کا جرم ثابت ہو جاتا ہے.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ فسا دہی سے نہ بچو بلکہ جھگڑے والے خیالات بھی اپنے دماغ میں پیدا نہ ہونے دو لیکن ہماری تمام کوششوں کے باوجود جو ہم صلح اور امن کے قیام کے لئے کر رہے ہیں اگر کوئی ایسا واقعہ ہو جائے جو فساد کی بنیادرکھنے والا ہو تو یا درکھو کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ یہ حرام اور نا جائز ہے کہ جرم کوئی کرے اور سزا کسی کو دی جائے.ہماری شریعت ہمیں یہ حکم دیتی ہے کہ جہاں تم رہتے ہو وہاں تم ایک دوسرے کے لئے امانت ہو.اس لحاظ سے قادیان کے ہند وسکھ اور غیر احمدی ہمارے لئے بمنزلہ امانت ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ان کی حفاظت کریں.اور ہندو
جلد اول 28 تاریخ احمدیت بھارت سکھ اور احمدی، غیر احمدیوں کے لئے بمنزلہ امانت ہیں اور ان کا فرض ہے کہ ان کی حفاظت کریں.اسی طرح جہاں ہندو یا سکھ زیادہ طاقت ور ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت کریں کیونکہ مسلمان ان کے پاس بطور امانت ہیں.اسلامی شریعت کے لحاظ سے ہر شریف انسان کا فرض ہے کہ وہ امانت کو دیانتداری سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے.پس اگر خدانخواستہ قادیان خطرے میں پڑے تو میں قادیان کے ہندوؤں اور سکھوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان کی اپنے عزیزوں سے بڑھ کر حفاظت کرینگے اور اپنی طاقت کے مطابق ہر ممکن ذریعہ سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گئے“.(14) ہندوستان کی آزادی کے بل کا منظر عام پر آنا مؤرخہ 4 جولائی 1947 ء کو ہندوستان کی آزادی کا مسودہ قانون جس کا ایک عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا برطانوی پارلیمنٹ کے دارالعوام میں پیش ہوا.اس بل کے مطابق 15 راگست 1947ء کو ہندوستان سے برطانوی اقتدار کا دستبردار ہونا اور دو آزاد حکومتوں کا قائم ہونا مقدر تھا جو بھارت اور پاکستان کے نام سے موسوم ہو ئیں.اس بل کے مطابق 15 اگست 1947 ء سے ہندوستان کی ریاستوں اور آزاد قبائلی علاقوں کے درمیان حکومت برطانیہ کے تمام معاہدے ختم ہو گئے.دونوں ملکوں کے لئے علیحدہ علیحدہ گورنر جنرل مقرر کئے گئے.برطانوی حکومت کا کوئی بھی قانون ان دونوں نئی حکومتوں میں قائم نہیں رہا.دونوں آزاد حکومتوں کے دستور ساز اداروں کو اپنا اپنا آئین بنانے کی مکمل آزادی دی گئی.اس کے ساتھ ہی اس بل میں بنگال اور پنجاب کی تقسیم کو منظور کر لیا گیا جو بعد میں بہت بڑے فساد اور کشت وخون کا پیش خیمہ ثابت ہوئی.اور ہزاروں ہی نہیں بلکہ لاکھوں نفوس کی زندگیوں پر اس کا اثر پڑا.(15) ہندوستان کی آزادی کا اعلان اور پاکستان کا قیام دوسری عالمگیر جنگ کے اختتام کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ برطانوی حکومت کسی وقت بھی ہندوستان کی آزادی کی معین تاریخ اور لائحہ عمل کا اعلان کر دے گی.امید اور ناامیدی کی کیفیات میں ہی مزید
تاریخ احمدیت بھارت 29 جلد اول دو سال گزر گئے.آخر 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب کو ہندوستان کی آزادی کا اعلان کر دیا گیا.اور اس اعلان کے ساتھ ہی مملکت پاکستان معرض وجود میں آگئی.چند مہینوں سے ملک اور خاص طور پر متحدہ پنجاب میں جو حالات رونما ہوتے چلے جا رہے تھے ان سے یہ خدشہ تھا کہ عنقریب قتل و غارت کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہو جائے گا.چنانچہ اپنی اس تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:.اس آزادی کے ساتھ ساتھ خونریزی اور ظلم کے آثار بھی نظر آتے ہیں.خصوصاً ان علاقوں میں جن کے ہم باشندے ہیں.وسطی پنجاب اس وقت لڑائی جھگڑے اور فساد کا مرکز بنا ہوا ہے.ان فسادات کے متعلق روزانہ جو خبریں آرہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں آدمی روزانہ موت کے گھاٹ اُتارے جا رہے ہیں.اور ایک بڑی جنگ میں جتنے آدمی روزانہ مارے جاتے تھے اتنے آج کل اس چھوٹے سے علاقہ میں قتل ہورہے ہیں.اور ایک بھائی دوسرے بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے.پس ان حالات کے ماتحت جیسے عید کے دن اس عورت کے دل میں خوشی نہیں ہو سکتی جس کے اکلوتے بچے کی لاش اس کے گھر میں پڑی ہوئی ہے، اور جیسے کسی قومی فتح کے دن ان لوگوں کے دل فتح کی خوشی میں شامل نہیں ہو سکتے جن کی نسل فتح سے پیشتر اس لڑائی میں ماری گئی.اسی طرح آج ہندوستان کا سمجھ دار طبقہ با وجود خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کے اپنے دل میں پوری طرح خوش نہیں ہوسکتا.“ اسی اظہار تاسف کے بعد حضور نے فرمایا:.وو یہ دو حکومتیں جو آج قائم ہوئی ہیں ہمیں ان دونوں سے ہی تعلق ہے کیونکہ مذہبی جماعتیں کسی ایک ملک یا حکومت سے وابستہ نہیں ہوتیں.ہماری جماعت کے افراد پاکستان میں بھی ہیں اور ہماری جماعت کے افراد انڈیا میں بھی ہیں....گو ہماری جماعت کے افراد پہلے بھی غیر ملکوں میں رہتے تھے مگر وہ تو پہلے ہی ہم سے الگ رہتے تھے.مگر اب جو ہمارے بھائی ہم سے الگ ہورہے ہیں وہ ایک عرصہ سے اکٹھے رہتے آرہے تھے.اب ہم ایک دوسرے سے اس طرح ملا کریں گے جیسے غیر ملکی لوگ آپس میں ملتے ہیں.پس ہم اس آزادی اور جدائی کے موقعہ پر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں ہی کو ترقی بخشے.ان دونوں ملکوں کو عدل و انصاف پر قائم رہنے کی توفیق بخشے اور ان دونوں ملکوں کے لوگوں کے دلوں میں محبت اور پیار کی روح بھر دے.یہ دونوں ملک ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش
جلد اوّل 30 تاریخ احمدیت بھارت کریں، مگر برادرانہ طور پر اور ہمدردانہ طور پر اور مخلصانہ طور پر.اور جہاں ان میں روح مقابلہ پائی جائے وہاں ان میں تعاون اور ہمدردی کی روح بھی پائی جائے.اور یہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک حال ہوں.خدا تعالیٰ انہیں ہر شر سے بچائے اور اپنے فضل سے امن اور صلح اور سمجھوتے کے ذریعہ سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہم....اس کو اسلام کی روشنی کے پھیلانے کا مرکز بنا سکیں.اللّهُم 66 امين “.(16) جب تقسیم ملک اور پاکستان کا اعلان کیا گیا تو قادیان کو پاکستان میں شامل کیا گیا تھا.اور اسی اعلان کی وجہ سے قادیان کی سرکاری عمارتوں، ڈاکخانہ، پولیس چوکی پر پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا.دو دن کے بعد مورخہ 17 / اگست 1947ء کو ریڈ کلف کے فیصلہ میں بٹالہ، گورداسپور ، پٹھانکوٹ کی تحصیلوں کو بھارت میں شامل کر دیا گیا (ریڈ کلف کمیشن کا قیام دونوں ملکوں کی حدود کا تعین کرنے کے لئے کیا گیا تھا چونکہ قادیان تحصیل بٹالہ اور ضلع گورداسپور میں واقع تھا لہذا دوسرے اعلان کے مطابق یہ بھارت کا حصہ بن گیا.جس دن یہ اعلان ہوا حسب معمول حضرت مصلح موعود مغرب کی نماز کے لئے مسجد مبارک میں تشریف لائے اور نماز مغرب کے بعد مجلس علم و عرفان میں فرمایا:.ہم تم تو شطرنج پر ایک مہرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے.سلسلہ احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی تاریخ کا مالک ہے.اور اسلام قیامت تک کی تاریخ کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے.اگر اس دنیا کے دو پرت فرض کر لئے جائیں تو یوں سمجھنا چاہیئے کہ ایک پرت قبل از اسلام اور احمدیت کا ہے اور ایک پرت اسلام اور احمدیت کا ہے.گو یا ورق عالم کا ایک صفح قبل از اسلام اور احمدیت کا ہے.اور دوسرا صفحہ اسلام اور احمدیت کا ہے.اور اس صفحہ پر ہماری حیثیت زیر اور زبر بلکہ نقطہ کی بھی نہیں کیونکہ کروڑوں کروڑ احمدیوں کے مقابلہ میں چند لاکھ کی کیا حیثیت ہے.ہم نہیں جانتے کہ آئندہ کیا نتائج نکلنے والے ہیں اور ہم میں سے کون زندہ رہ کر دیکھے گا اور کون مرجائے گا لیکن فتح بہر حال احمدیت کی ہوگی.پس خدا تعالیٰ کے اس فعل کو اپنے لئے مضر نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کوئی فعل ہمارے لئے مضر نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ہماری ترقیات کا پیش خیمہ ثابت ہو گا اور اللہ تعالیٰ مخالف حالات میں ہماری تائید اور نصرت فرما کر یہ بات واضح کر دے گا کہ وہ ہماری جماعت کیسا تھ ہے.ممکن ہے خدا تعالیٰ ہمارے ایمانوں کی آزمائش کرنا
افغانستان AFGHANISTAN پاکستان PAKISTAN JAMMU & KASHMIR PUNJAB Karachi RAJASTHAN GUJARAT 2 چین CHINA TIBET UTTAR PRADESH NEPAL New Delhi بھارت Lhasa SIKKIM BHUTAN ASSAM بنگلہ دیش MADHYA BIHAR W.PRADESH BENGAL BANGLA DESH INDIA MAHARASHTRA Arabian Sea GOA Amindiul is.Laccadive Islands Minicoy ANDHRA PRADESH KARANATAKA KERALA TAMIL NADU ORISSA سری لنکا SRI LANKA Indian Ocean نقشه تقسیم ہندوستان (بھارت و پاکستان) $1947 NAGALAND MANIPUR BURMA برما Bay of Bengal Rangoon Andaman Islands Nicobar Islands
افغانستان AFGHANISTAN PAKISTAN مغربی پنجاب WEST PUNJAB Redcliffe Line نقش نمبر 3 جموں وے JAMMU & KASHMIR مشرقی پنجاب EAST PUNJAB CHINA نیپال بھارت INDIA NEPAL ریڈ کلف لائن نقشه تقسیم پنجاب و ریڈ کلف لائن 1947ء چین
تاریخ احمدیت بھارت 31 جلد اول چاہتا ہے اور ہمیں ابتلاؤں میں ڈال کر یہ دیکھنا چاہتا ہو کہ ہم میں سے کون اپنے ایمان میں کچے ہیں اور کون ہیں جو مجھ پر اور میری نصرت پر کامل ایمان رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر حال میں ہمارا حامی و ناصر ہو اور اپنے فضل کے دروازے ہم پر کھول دے اور ہمیں ہر ابتلاء میں ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے.(17) قادیان کے بھارت میں شامل ہونے کے اگلے روز مورخہ 18 اگست 1947ء کو عید الفطر تھی.حضرت مصلح موعودؓ نے عید کی نماز پڑھانے کے بعد خطبہ عید میں فرمایا:.” جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اور جب سے اللہ تعالیٰ کے رسول دنیا میں آنے شروع ہوئے ہیں یہ الہی سنت چلی آتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے درخت ہمیشہ آندھیوں اور طوفانوں کے اندر ہی ترقی کیا کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی جماعت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ان آندھیوں اور طوفانوں کو صبر سے برداشت کرے اور کبھی ہمت نہ ہارے.جس کام کے لئے الہی جماعت کھڑی ہوتی ہے وہ کام خدا تعالیٰ کا ہوتا ہے بندوں کا نہیں ہوتا.پس وہ آندھیاں اور طوفان جو بظاہر اس کام پر چلتے نظر آتے ہیں درحقیقت وہ بندوں پر چل رہے ہوتے ہیں.اس کام پر نہیں چل رہے ہوتے.اور یہ محض نظر کا دھوکہ ہوتا ہے.جیسے تم نے ریل کے سفر میں دیکھا ہوگا کہ چل تو ریل رہی ہوتی ہے مگر تمہیں نظریہ آتا ہے کہ درخت چل رہے ہیں.اسی طرح جب آندھیاں اور طوفان الہی سلسلوں پر آتے ہیں تو جماعتیں یہ خیال کرتی ہیں کہ یہ آندھیاں اور طوفان ہم پر نہیں بلکہ سلسلہ پر چل رہے ہیں.حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ سلسلہ پر نہیں آرہے ہوتے بلکہ افراد پر آ رہے ہوتے ہیں.اُن افراد پر جو اس سلسلہ پر ایمان لانے والے ہوتے ہیں.ان آندھیوں اور طوفانوں کو بھیج کر اللہ تعالٰی مومنوں کے ایمان کا امتحان لیتا ہے.خدا تعالیٰ کے کلام اور خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم کا امتحان لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ امتحان تو انسانوں کا لیا جاتا ہے.پس یہ آندھیاں اور طوفان انسانوں پر آتے ہیں.مگر انسان کم عقلی سے یہ سمجھتا ہے کہ کسی اور پر آرہے ہیں.اور وہ طوفان جو اس کو ہلا رہے ہوتے ہیں ان کے متعلق وہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ خدائی سلسلہ کو ہلا رہے ہیں...پس ہماری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ پودا جو خدا تعالیٰ نے لگایا ہے وہ بڑھے گا پھلے گا اور پھو لے گا اور اس کو کوئی آندھی تباہ نہیں کر سکتی.ہاں ہماری غفلتوں یا ہماری بستیوں یا ہماری لغزشوں کی وجہ سے اگر کوئی
جلد اوّل 32 32 تاریخ احمدیت بھارت ٹھوکر آ جائے تو وہ ہمارے لئے ہوگی سلسلہ کے لئے نہیں ہوگی.جب ہم اپنے توازن کو درست کر لیں گے اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کر لیں گے تو وہ حوادث خود بخود دُور ہوتے چلے جائیں گے، بلکہ وہ حوادث ہمارے لئے رحمت اور برکت کا موجب بن جائیں گے.رسول کریم صلی یا تم نے جب مکہ سے ہجرت کی تو لوگوں نے سمجھا کہ ہم نے ان کے کام کا خاتمہ کر دیا ہے.اور یہ حادثہ محمدرسول اللہ یا ایمن اوران کے ساتھیوں کے لئے زبردست حادثہ ہے.لیکن جس کو لوگ حادثہ سمجھتے تھے کیا وہ حادثہ ثابت ہوا یا برکت؟ دنیا جانتی ہے کہ وہ حادثہ ثابت نہ ہوا بلکہ وہ الہی برکت بن گیا اور اسلام کی ترقیات کی بنیاد اسی پر پڑی.پس ہماری جماعت کو اپنے ایمانوں کی فکر کرنی چاہئیے.اگر تم اپنے ایمانوں کو بڑھالو گے اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کر لو گے تو تمہارے لئے سال میں صرف دو عید میں ہی نہیں آئیں گی بلکہ ہر نیا دن تمہارے لئے عید ہوگا اور ہرنئی رات تمہارے لئے نیا چاند لے کر آئے گی تم خدا تعالی کی برگزیدہ جماعت ہو اور خدا تعالیٰ اپنی برگزیدہ جماعت کو اٹھانے اور بڑھانے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے.(18) حضرت مصلح موعود نے اپنے اس خطبہ عید الفطر ) کے آخر میں جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو یہ نصیحت بھی فرمائی کہ تم اپنے متعلق صرف یہ سمجھو کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں قربانی کا بکرا بنایا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عیدان بکروں کی وجہ سے ہوتی ہے.عید بالکل الگ چیز ہے اور بکرے الگ چیز ہیں.پس تم اپنے دلوں کے اندر یہ یقین رکھو کہ تم صرف قربانی کے بکرے ہو اور جو کچھ ہے وہ تمہارا خدا ہی ہے تم کچھ بھی نہیں.جس دن تم اس انکسار کے مقام پر کھڑے ہو جاؤ گے اور جس دن تم اعتراف نصرت باری کا مقام حاصل کر لو گے تو گو نصرت الہی اب بھی تمہارے شامل حال ہے مگر اس وقت جو اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے لئے آئے گی وہ اس سے کہیں بالا ہوگی.پس تم اپنے آپ کو الہی قدرتوں کا آلہ بنالو....تم خدا تعالیٰ کی تلوار بن جاؤ.ہتھیار بے شک ایک بے جان چیز ہے مگر یہ نہ سمجھو کہ تم بے جان ہو کر گر جاؤ گے.اگر ایک بادشاہ کی جوتی یا کسی بادشاہ کا قلم یا شکسپیئر کی کتابیں کچھ حیثیت رکھتی ہیں تو تم سمجھ لو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا ہتھیار بن جائے اس کی کیا حیثیت ہوگی.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر اور بڑائی کا خیال چھوڑ دو اور اپنے نفسوں پر ایک موت وارد کر لو تا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا ہتھیار بنالے.“(19)
تاریخ احمدیت بھارت 33 جلد اوّل پانچ دریاؤں کا صوبہ دوحصوں میں تقسیم ہو چکا تھا.مشرقی پنجاب ہندوستان اور مغربی پنجاب پاکستان کے حصے آیا تقسیم ملک سے قبل ہی مشرقی پنجاب کے ایک طبقہ نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ مشرقی پنجاب میں کسی بھی ایک مسلمان فرد کو رہنے نہیں دیا جائے گا.ان کو پاکستان جانے پر مجبور کیا جائے گا.اور اگر یہ انکار کریں تو ان کا صفایا کر دیا جائے گا.اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے ہر جائز و ناجائز طریق استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا.دوسری طرف مسلمانوں کا نظریہ یہ تھا کہ جس زمین پر ان کے آباؤ اجداد صدیوں سے رہتے چلے آرہے ہیں وہ اسے ہرگز نہیں چھوڑیں گے.اپنی مادر وطن ، اپنی مٹی ، اپنے کھیتوں، اور کھلیانوں سے وہ کبھی دستبردار نہیں ہوں گے.لیکن مشکل یہ تھی کہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کا کوئی معین و معاون نہ تھا.بڑی بڑی ڈینگیں مارنے والے لیڈر و مولوی پاکستان فرار ہو چکے تھے.ان مفلوک الحال مسلمانوں کا بازو پکڑنے والا کوئی نہیں تھا.ان کے قلع قمع کے لئے بھیڑ یا صفت خونخوار دہشت گردگروہ تیار بیٹھے تھے.انہیں خونریزی کے لئے خاص قسم کی گوریلا غارت گری کی ٹریننگ دی گئی تھی.انہیں اس وقت کی عسکری انتظامیہ کی بھر پور پشت پناہی حاصل تھی.کیونکہ وہ بھی یہ چاہتی تھی کہ مشرقی پنجاب کو جلد از جلد مسلمانوں سے خالی کرایا جائے.خاکسار راقم الحروف یکم نمبر 1973ء کو مدرسہ احمدیہ قادیان سے فارغ التحصیل ہو کر نظارت دعوت و تبلیغ میں حاضر ہوا تو اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم و مغفور ناظر دعوت و تبلیغ تھے.انہوں نے خاکسار کو کچھ عرصہ کے لئے نظارت علیا میں بھجوادیا.تا کہ صدر انجمن احمدیہ کے معاملات اور دفتری طریقہ کار کو سمجھ سکوں.اس وقت وہاں حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ بطور ناظر اعلیٰ و امیر جماعت احمد یہ قادیان اور (سابق صوبیدار ) محترم برکت علی صاحب درویش بطور نائب ناظر اعلیٰ اپنے فرائض انجام دے رہے تھے.تاریخ احمدیت جلد 10 میں مستقل خدام کی جو فہرست طبع شدہ ہے اس میں صوبیدار محترم برکت علی صاحب کا نام تیسرے نمبر پر درج ہیں.موصوف 1947 ء کے شروع میں ہی قادیان آگئے تھے اور تقسیم ملک کے تمام حالات و واقعات سے بخوبی واقف تھے.دفتری امور کے علاوہ مجھے بعض ایسے حیرت انگیز واقعات سناتے تھے کہ جن کو سن کر میں ورطہ حیرت میں پڑ جاتا تھا.نیز بعض اور درویشان کرام (سابق حوالدار ) مکرم محمد عبد اللہ صاحب درویش نائب ناظر دعوة وتبلیغ ، خاکسار کے والد محترم محمد شریف گجراتی صاحب درویش اور مکرم محمد یوسف صاحب گجراتی درویش ، کرم فضل الہی خان صاحب درویش ، مکرم ملک صلاح
جلد اوّل 34 تاریخ احمدیت بھارت الدین صاحب ایم.اے درویش نے جو کوائف بتائے ان میں سے ایک یہ تھا کہ مشرقی پنجاب میں مفسدہ پردازوں نے بمعاونت عسکری اداروں کے مسلمانوں کے جو علاقے اور دیہات خالی کروانے ہوتے تو وہ درج ذیل ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے.1.ہر روز معین علاقوں اور دیہاتوں کو خالی کروانے کے لئے منظم منصوبہ بندی کی جائے.2.جن دیہاتوں کوخالی کروانا مقصود ہوتا وہاں پولیس جاتی اور مسلمانوں سے ہر قسم کا اسحہ و ہتھیار چھین لیتی.3.ان کا محاصرہ کر لیا جاتا تا کہ وہ بھوک و افلاس کی تاب نہ لا کر چلے جائیں.4.رات کے اندھیرے میں مسلمان گھرانوں پر اچانک ہلہ بول دیا جا تا.ان کی لڑکیوں اور عورتوں کو اغواء کر لیا جاتا.اور بعض اوقات والدین کے سامنے ان کی عزت کو تار تار کیا جاتا.عورتوں کے اغواء اور ان کے ننگ و ناموس اور عزت و حرمت کو پامال کرنے کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا.سینکڑوں مسلمان لڑکیاں اور عورتیں فسادیوں نے اغواء کر لیں ان کے حساس اعضاء کو کاٹ دیا.5.مسلمانوں کے معصوم بچوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا جاتا.بعض مقامات پر انہیں نیزوں پر لٹایا گیا.6.زبردستی ان کے زیورات مال و اسباب کو لوٹ لیا جاتا.عورتوں اور بچیوں کے زیورات اتروائے جاتے اگر کوئی عورت انکار کرتی اس کا ہاتھ ، کان زیور سمیت کاٹ کر لے جاتے.7.دیہاتوں کو آگ لگا کر خاکستر کر دیتے اور کہتے اب تمہارے لئے یہاں رہنے کی کوئی جگہ نہیں.عینی شاہدین بتا یا کرتے تھے جب لئے ہوئے ستم رسیدہ مسلمانوں کی وہ حالت ہو جاتی جو نچوڑے ہوئے نیبو کی ہوتی ہے انہیں پناہ گزینوں کے لئے بنائے ہوئے خستہ حال کیمپوں میں بھجوا دیا جاتا.وہاں جب وہ اور انہی کی طرح مصیبت کے مارے مسلمان مختلف علاقوں سے لاکھ ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں جمع ہو جاتے تو انہیں پولیس کی نگرانی میں جانوروں کی طرح ہانک کر پاکستانی سرحد کی طرف لے جایا جاتا.یادر ہے پنجاب میں اگست ستمبر اکتوبر میں شدید دھوپ اور برسات کا موسم ہوتا ہے،اس لئے شدید موسم میں ہفتوں کی مسافت طے کرتے ہوئے ہزاروں بوڑھے، بیمار عورتیں اور بچے راستے میں ہی دم توڑ جاتے تھے.شائد تین فیصدی ہی پاکستان پہنچ پاتے تھے.راقم الحروف کو مشرقی پنجاب (ہماچل ہریانہ ) میں تقسیم ملک کے وقت کے ہر فسادز دہ علاقے میں جانے
تاریخ احمدیت بھارت 35 جلد اول کا موقعہ ملا.خاکسار ہر جگہ عمر رسیدہ چشم دید بڑی عمر کے لوگوں سے ملا.اور ان اندوہ ناک ایام کے دوران ہونے والی ہلاکتوں اور تباہیوں کے بارے میں تفصیل سے دریافت کیا.ہر جگہ یکساں کہانی سننے کوملی.ایک دفعه خاکسار سبحان پور پیره (حال صوبہ ہماچل گیا.وہاں معمر بزرگوں نے بتایا کہ ہمارے اس علاقے میں ہزاروں لٹے ہوئے مسلمان مرد عورتیں اکٹھے ہو کر پاکستان کے لئے پیدل روانہ ہوئے.ان میں سے اکثر یہاں اور پھر راستے میں قتل کر دئے گئے تھے.اور ان کی لاشیں دریائے بیاس میں پھینک دی گئی تھیں.یہ بیان کرتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں.ہر جگہ یہ سننے کوملا کہ مفسدہ پرداز ہمارے ان اضلاع کے نہیں تھے بلکہ پنجاب کے دوسرے علاقوں کے تھے.اور بڑی بے دردی اور ظالمانہ طریق پر مسلمانوں کو چن چن کر قتل کرتے تھے اور جو کچھ ان کے پاس ہوتا وہ زبردستی چھین لیتے.اس قسم کے المناک واقعات ہر جگہ سننے کو ملتے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت احمدیہ کے افرادان مصیبتوں سے بچائے گئے.اس میں شک نہیں کہ ان کا بھی مالی نقصان ہوا.جائیداد میں چھین لی گئیں.مگر جانی نقصان بہت کم ہوا.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ احمدی خواتین ہر لحاظ سے محفوظ رہیں.فالحمدللہ علی ذلک.یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مصلح موعود وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور حکومت کو ان خطرات سے آگاہ فرماتے چلے آرہے تھے جو مسلمانوں کو پیش آنے والے تھے.آزادی کے اعلان سے تقریباً چون (54) دن بعد آپ نے ایک تازہ آفیشل رپورٹ کے بارے میں فرمایا ( اس رپورٹ کا تفصیلی ذکر آئندہ صفحات پر آئے گا ): ”ہمارے حساب سے تو یہ اندازہ بھی غلط ہے.مسلمان ساڑھے سولہ لاکھ نہیں 25، 26 لاکھ کے قریب مشرقی پنجاب (انڈیا.ناقل ) میں پڑے ہیں اور خطرہ ہے کہ اپنے حقوق کو استقلال کے ساتھ نہ مانگنے کے نتیجہ میں یہ سات لاکھ غیر مسلم بھی جلدی سے اُدھر (انڈیا.ناقل ) نکل جائے گا.اور 25 لاکھ مسلمانوں میں سے بمشکل ایک دولاکھ ادھر ( پاکستان.ناقل ) پہنچے گا، یا کوئی اتفاقی بچکر نکلا تو نکلا ورنہ جو کچھ....(مفسدہ پرداز ) جتھے اور...ملٹری اور پولیس ان سے کر رہی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی اُمیدان کے بچنے کی نظر نہیں آتی.بعض چھوٹے افسر یہ کہتے بھی سنے گئے ہیں کہ مغربی پنجاب ( پاکستان.ناقل ) اتنے پناہ گزینوں کو سنبھال نہیں سکتا.پس جتنے مسلمان ادھر مرتے ہیں اس سے آبادی کا 66 کام آسان ہو رہا ہے.یہ ایک نہایت ہی خطر ناک خیال ہے.20
جلد اوّل 36 تاریخ احمدیت بھارت بعد کے حقائق نے حضرت مصلح موعودؓ کے اندازے کو صحیح ثابت کر دیا.مشرقی پنجاب یعنی انڈین پنجاب سے بہت کم تعداد پاکستان پہنچ پائی اکثر تباہ و برباد ہو گئے.اس کے بالمقابل جماعت احمدیہ کے افراد خلافت کے زیر سایہ اللہ تعالیٰ کے حفظ وامان میں مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف ایک انتظام کے ماتحت ہجرت کر گئے.اور دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کا مالی نقصان بہت کم ہوا.خلافت احمدیہ کی بے شمار برکات میں سے یہ ایک عظیم الشان برکت تھی جس کو افراد جماعت نے محسوس کیا.الحمد للہ علی ذلک.حفاظت مرکز کے لئے احتیاطی اقدام اور احمدی نوجوانوں کا عدیم المثال ایثار جیسا کہ قبل ازیں تحریر کیا جا چکا ہے کہ مشرقی پنجاب میں اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو محفوظ رکھا.دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کا نقصان بہت کم ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی بعض رؤیا و کشوف کی بنا پر آنے والے خطرات کے جم کا اندازہ لگالیا تھا.آپ کی دور بین نگاہیں ان مہیب مصائب کو دیکھ چکی تھیں جو قادیان اور اس کے گردونواح کی طرف بڑھ رہے تھے.حضور افراد جماعت کو کبھی اشارہ اور کبھی صراحتاً ان سے آگاہ فرماتے چلے آرہے تھے.چند ارشادات درج ذیل ہیں.شعائر اللہ اور قومی شعائر کی حفاظت کے لئے تمہیں ہر وقت تیار رہنا چاہئے جولوگ قومی اور ملی مفاد کے لئے قربانی کرتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کو ابدی جہان عطا کرتا ہے.پس جہاں تمہیں شعائر اللہ اور قومی شعائر کی حفاظت کے لئے جانیں قربان کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا اور اس کے دین کے لئے تمہیں بلایا جائے اسوقت تم اپنی جانوں کی اتنی قیمت بھی نہ سمجھو جتنی ایک مری ہوئی مکھی کی ہوتی ہے.“ 21 ”ہماری جماعت کے لئے فتنہ وفساد اور جنگ و جدال کا زمانہ قریب سے قریب تر آ رہا ہے.اس لئے نہایت ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں جماعت مرکز کے پاس جمع ہو جائے.اور اپنے اندر وہ جذ بہ اور روح پیدا کرے جو انبیاء کی جماعتوں کا خاصہ ہے.اگر آپ لوگ ایسا کریں گے تو خواہ کتنے بڑے خطرات پیش آئیں خدا تعالیٰ ان کو دور کر دے گا.بلکہ ان کو آپ لوگوں کی کامیابی کا ذریعہ بنادے گا.22
تاریخ احمدیت بھارت وو بچائے.23 37 جلد اوّل ان ہولناک ایام کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی بچائے تو اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے ، اے لوگو! جو ایمان لائے ہو خُذُوا حِذْرَكُمْ (النساء آیت 72) اپنے بچاؤ کے سامان رکھا کرو.جماعت کے عہدیداران نے قرآنی تعلیم اور حضور کی ہدایت کی روشنی میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لئے بہت سے منصوبے بنائے تھے.ان میں سے ایک تجویز یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کے ان نوجوانوں کو قادیان بلایا جائے جو فوج میں ملازمت کر رہے ہیں.کیونکہ انہیں خطرات سے نبرد آزما ہونے کی خاص ٹریننگ دی جاتی ہے.اگر قادیان اور اس کے قرب وجوار میں مخدوش حالات پیدا ہوئے تو ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جائے گا.چنانچہ اس تجویز کے مطابق فوج میں ملازمت کرنے والے نوجوانوں کو قادیان آنے کی تحریک کی گئی.چنانچہ عبدالغفور عبدل صاحب اس تحریک کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ : چند یوم بعد جب میں (ساہیوال میں.نا قل) مغرب کی نماز کے لئے احمد یہ مسجد گیا تو چو ہدری صاحب ( چوہدری محمد شریف صاحب امیر جماعت احمد یہ ساہیوال.ناقل ) نے فرائض کی ادائیگی کے بعد فرمایا سب دوست سنتیں ادا کرنے کے بعد ٹھہر جائیں.حضرت صاحب کی چٹھی آئی ہے میں وہ پڑھ کر سناؤں گا.سنتوں کے بعد چوہدری صاحب نے حضرت مصلح موعود کی چٹھی پڑھ کر سنائی.ہر شخص ہمہ تن گوش تھا.حضرت صاحب کی چٹھی کا ہر لفظ پر اثر اور درد میں ڈوبا ہوا تھا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور خود پڑھ کر سنا رہے ہیں.لب لباب اس خط کا یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان کے ارد گرد کے علاقہ میں...(مفسدہ پردازوں) کے جتھے جگہ جگہ ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں.اور حملہ کرنے کے لئے کسی موقعہ کا انتظار کر رہے ہیں.لہذا میں جماعت کے سب دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ حضرت مسیح پاک کی تخت گاہ اور جماعت کے مرکز قادیان کی حفاظت کے لئے نوجوان فوراً قادیان پہنچیں.بالخصوص فوجی نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں.24 ایسے نوجوان جو فوجی ملازمت چھوڑ کر قادیان پہنچے تھے انہیں کیپٹن شیر ولی صاحب کے سپر د کر دیا تھا.کیپٹن شیر ولی صاحب خود ایک فوج میں کیپٹن کے عہدہ پر فائز تھے تقسیم ملک سے کچھ ماہ قبل قادیان آگئے تھے.کیپٹن صاحب آنے والے نوجوان کو مزید ٹریننگ دیتے اور متوقع خطرات کی تفصیل سے آگاہ کرتے ، قادیان اور اس کے قرب و جوار کا جغرافیہ ونقشہ سمجھاتے.اور ہر ڈیوٹی کے لئے تیار رہنے کے لئے
جلداول وو 38 تاریخ احمدیت بھارت ہدایت دیتے.چنانچہ عبد الغفور صاحب اپنے قادیان پہنچنے کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ : " قادیان پہنچنے پر ہم سب نے خدا کا شکر ادا کیا اور عصر اور ظہر کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں.احمد یہ بورڈنگ ہاؤس (نز دمسجد نور ) میں ہم کو چائے پیش کی گئی.اتنے میں کیپٹن بابا شیر ولی صاحب تشریف لائے اور پوچھا کہ جو ان کیا حال ہے؟ تھک تو گئے ہوگے؟ میں نے کہا جناب ہمیں کوئی تھکاوٹ نہیں.آپ ہمیں یہ بتلائیں کہ ہماری ڈیوٹی کہاں ہوگی؟ ظاہر ہے کہ ہم ریسٹ کرنے تو نہیں آئے.آپ کو جہاں بھی ضرورت ہے آپ ابھی ڈیوٹی لگائیں.کیپٹن صاحب مسکرائے اور کہا جوانو! مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی.میں آپ کے جذبات کو سمجھتا ہوں مجھے تو آپ جیسے ہی جوانوں کی ضرورت ہے.مگر ذرا ٹھہر وتحمل سے کام لو.کل کا دن تم ریسٹ کرو اور بازار سے کوئی ہلکا پھلکا بیگ خرید وجس میں ڈرائی راشن یا ایمونیشن رکھ سکو.پرسوں رات آپ کی ڈیوٹی لگ جائے گی.یہ سن کر ہمیں خوشی اور اطمینان ہوا.21 اگست 1947 ء کو ہم بازار گئے.ایک ایک بیگ خریدا.25 کیپٹن شیر ولی صاحب کی زیر قیادت خدمت بجالانے والوں میں سے دونو جوانوں کا ذکر ہفت " روزہ بدر میں درج ذیل الفاظ میں تحریر ہے: ” 1947 ء کے شروع میں خاکسار کے والد محترم محمد شریف صاحب گجراتی درویش نے سیدنا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اپنی زندگی وقف کرنے کی درخواست بھجوائی.دفتر کی طرف سے ارشاد موصول ہوا قادیان حاضر ہو جائیں.چنانچہ انہوں نے اور مکرم غلام قادر صاحب درویش نے 25 / مارچ 1947 ء کو انبالہ چھاؤنی میں اپنا اپنا استعفیٰ پیش کیا اور ساتھ ہی استعفیٰ منظور ہونے تک ایک ہفتہ کی رخصت حاصل کر کے اپنے گاؤں گئے اور ایک ہفتہ قیام کے بعد یکم اپریل 1947ء کو ہر دو افراد قادیان حاضر ہو گئے.اسی روز سے انہیں کیپٹن شیر ولی صاحب مرحوم کے ماتحت خدمت بجالانے کا حکم ہوا.26 الغرض ایسے نوجوانوں کو خدمات بجالانے کے لئے کیپٹن شیر ولی صاحب کے سپرد کر دیا جاتا تھا.وہ افسران بالا کی ہدایت کے مطابق انہیں مختلف مقامات کی طرف بھجواتے رہتے تھے.اور حسب ضرورت ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی بھی ہدایت بھجواتے رہتے.ایسے فوجی نو جوانوں کو 16 نومبر 1947ء کی تقسیم میں ” درویشان نمبر 1 “ یا ” مستقل خدام کے نام سے موسوم کیا گیا.
تاریخ احمدیت بھارت 39 مستقل خدام کی ڈیوٹیاں جلد اوّل 1947ء کے ابتدائی مہینوں میں ہی پنجاب کے مختلف علاقوں میں فسادات کی آگ بھڑکنا شروع ہوگئی تھی.مارچ 1947ء میں امرتسر کے پچاس ہزار مسلمانوں پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی.اسی طرح اس آگ کے شعلے باقی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگے تھے.اعلان آزادی کے بعد تین ہفتوں کے اندر اندر ان فسادات کے شعلوں نے قادیان کے قرب و جوار کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا.ایسے سنگین اور صبر آزما حالات میں مستقل خدام کے سپرد یہ ذمہ داری کی گئی کہ قرب و جوار کے تمام دیہاتوں سے احمدی اور مسلم خواتین کو قادیان لایا جائے.چنانچہ جماعت کے جانفروشوں نے یہ ذمہ سانے پر داری اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے انتہائی کامیابی سے نبھائی.نبھاتے بھی کیوں نہ سیدنا حضرت اصلح الموعود اور تمام افراد جماعت کی دعائیں ان کے ساتھ تھیں.باقی مسلمانوں کے لئے ایسی دعائیں کرنے والا کوئی نہیں تھا.
جلد اوّل 40 40 تاریخ احمدیت بھارت -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 حواشی باب دوم تذکره صفحه 218 مطبوعہ دسمبر 2006 ء تذکرہ صفحہ 477 مطبوعہ دسمبر 2006 ء - الحکم 8 ستمبر 1905 ء ص 3 /البدر 23 ستمبر 1905ء صفحہ 2 الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام تذکرہ صفحہ 256 مطبوعہ دسمبر 2006ء بحواله الفضل 25 مئی 1948 صفحہ 3 بحوالہ الفضل 25 مئی 1948 ء صفحہ 3 بحوالہ الفضل 25 رمئی 1948 ء صفحہ 3 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 481 تا 482 مطبوعہ 2007ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 580 - 581 مطبوعہ 2007ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 643 مطبوعہ 2007ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 655 تا 656 مطبوعہ 2007ء 10 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 656 تا 657 مطبوعہ 2007ء -11 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 657 تا 660 مطبوعہ 2007ء - الفضل 9 اپریل 1947 ، صفحہ 2,1 12 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 661 تا662 مطبوعہ 2007ء 13 بحوالہ الفضل 21 جولا ئی 1947 صفحہ 3 تا 4 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 662 تا 663 مطبوعہ 2007ء بحوالہ الفضل 29 مئی 1947 صفحہ 4 و تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 677تا680 مطبوعہ 2007ء -14 15 - بحوالہ الفضل 5 جولائی 1947 ء صفحہ 8 16 - بحوالہ الفضل 16 اگست 1947 ء صفحہ 1 ، 2 و تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 714،713 مطبوعہ 2007ء 17 - بحوالہ الفضل 5 فروری 1948 ء صفحہ 5 و تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 715 تا 716 مطبوعہ 2007 ء 18 - بحوالہ الفضل 25 اگست 1947 ، صفحہ 1، 2 و تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 716 تا 718 مطبوعہ 2007ء -19 بحواله الفضل 25 /اگست 1947 ، صفحہ 2، 3 و تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 718 مطبوعہ 2007ء 20 بحوالہ الفضل 9 اکتوبر 1947 ء صفحہ 2 و تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 185,184 مطبوعہ 2007 بحواله الفضل 31 اکتوبر 1943ء -21
تاریخ احمدیت بھارت -22 - الفضل 23 اپریل 1946ء -23 بحوالہ الفضل 27 فروری 1947 ، صفحہ 2 41 جلد اول 24 - بحوالہ کتاب "احمدیت کا نور ہمارے گھر میں صفحہ 119 تصنیف مکرم عبد الغفور عبدل صاحب سابق درویش 25 بحوالہ کتاب احمدیت کا نور ہمارے گھر میں صفحہ 124 125 تصنیف مکرم عبد الغفور عبدل صاحب سابق درویش بحوالہ ہفت روزه بدر قادیان 24 اگست 2004 صفحه 7 -26
جلد اوّل 42 تاریخ احمدیت بھارت
تاریخ احمدیت بھارت 43 جلد اول باب سوم پنجاب میں خون ریز فسادات کا آغاز ، شر پسندوں کے حملے، حضرت مصلح موعودؓ کی ہجرت اور قادیان کی احمدی آبادی کا لا ہور منتقل ہونا دوراندیش ہندوستانیوں نے 1947ء کے شروع میں ہی یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ انگریز حکمران ذہنی طور پر ہندوستان کی حکمرانی سے دستبردار ہو چکے ہیں.جولائی 1947ء میں برطانیہ کی پارلیمنٹ نے انڈیپنڈنس آف انڈیا ایکٹ پاس کر دیا.اس طرح ہندوستان میں اقتدار اور حکومت منتقل کرنے کی کاروائی کا آغاز ہو چکا تھا.بایں وجہ انگریز ارباب حکومت کی توجہ ملک کے امن و امان کی طرف نہ کے برابر تھی.آئندہ معرض وجود میں آنے والی حکومت کے خد و خال واضح نہ تھے.غیر یقینی کی کیفیت نے حالات کو حد درجہ تشویشناک بنا دیا تھا.احمد آباد، بمبئی، کلکتہ وغیرہ علاقوں میں خون ریز فسادات شعلوں کی طرح بھڑک اُٹھے تھے جو خشک موسم میں سوکھے ہوئے جنگل میں لگی آگ کی طرح ملک کے بیشتر حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر خاکستر کر دینے کے درپے تھے.خونی تصادم فرقہ وارانہ تشدد کی چنگاریاں متحدہ پنجاب کے کئی شہروں تک پہنچ چکی تھیں.لاہور، امرتسر، ملتان، گوجرانوالہ اور گوڑ گاؤں مذہبی منافرت کے آتش فشاں کی لپیٹ میں آگئے تھے.ہر مذہب کے مفاد پرست عناصر مبہم صورتحال سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے تھے.متحدہ مشرقی پنجاب کے بعض....(مفسدہ پرداز ) مفادات پرست عناصر کی یہ کوششیں تھیں کہ مشرقی پنجاب سے مسلمان آبادی کو پاکستان جانے پر مجبور کر دیا جائے.اور مغربی پنجاب میں مسلمان مفاد پرست اس تاک میں تھے کہ یہاں کے ہندو سکھ کب ملک چھوڑ کر جائیں اور ہم ان کی جائیداد و املاک پر قابض ہو جائیں.اس حرص اور لالچ نے انسان سے صفت انسانیت کو چھین لیا تھا.شر پسند عناصر حیوان اور درندوں کی طرح
جلد اول 44 تاریخ احمدیت بھارت انسانوں کو چیر پھاڑ رہے تھے.مشرقی پنجاب کو مسلمانوں سے خالی کروانے کے لئے....(مفسدہ پرداز) مفادات پرست اور مفسدہ پرداز عناصر کی تیاریاں مئی 1947 ء میں ہی مکمل ہو چکی تھیں.ان عناصر کے عزائم اور ارادوں کے بارے میں ایک کتاب....جو سول ملٹری گزٹ لمیٹیڈ لا ہور نے شائع کی اسکے صفحہ 16 میں تحریر ہے کہ :.مہینے کے آخر میں....(مفسدہ پردازوں) کی تیاریاں موگا ، مالوہ اور دوآبہ میں مکمل ہو گئیں.ماجھا ابھی تیار نہ تھا لیکن علاقہ تھانہ سرہالی ، ترمنتارن بیاس اور ویرووال کے باشندوں کو مسلح کرنے کی طرف توجہ کی گئی.قادیان کے آس پاس رہنے والے....(مفسدہ پرداز ) بالکل تیار ہو چکے تھے لیکن تحصیل بٹالہ میں ان کی تیاری اب تک پوری نہ ہوئی تھی.(1) جیسا کہ مذکورہ کتاب کے اقتباس میں ذکر ہے کہ مئی 1947ء میں قادیان کے آس پاس رہنے والے....(مفسدہ پرداز ) بالکل تیار ہو چکے تھے.افسوس اس بات کا ہے کہ 1947ء میں جماعت احمدیہ کی تاسیس پر قریباً (58) سال گزر چکے تھے.اس جماعت کی اٹھاون سالہ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ایک امن پسند جماعت ہے.اس جماعت کا ہر فرد بیعت کرتے وقت یہ عہد کرتا ہے کہ.....ہر ایک فسق و فجور اور ظلم و خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا“.ایسی بے ضرر جماعت کے بارے میں کوئی صاحب بصیرت سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ کسی کو ضرر یا نقصان پہنچائے گی.مگر صد افسوس یہ جماعت بھی شر پسند عناصر کے خونی حملوں سے محفوظ نہ رہ سکی.قادیان کی ریل گاڑی پر شر پسندوں کا حملہ آزادی سے قریباً 19 سال قبل مورخہ 19 دسمبر 1928ء کو بٹالہ سے قادیان ریل چلنا شروع ہوئی تھی.یہ ریل بٹالہ سے قادیان آتے وقت راستے میں وڈ الہ گرنتھیاں ریلوے اسٹیشن پر رکتی تھی اور اب بھی رکتی ہے.اس ریل کے اکثر مسافر احمدی مرد، عورتیں ، اور بچے ہوا کرتے تھے.اس ریل میں انیس سال تک مسافر بڑے امن و امان اور آرام سے سفر کرتے رہے.مگر شر پسند عناصر کو امن و امان کا ماحول پسند نہ
4 وڈالہ گر نتھیاں ریلوے اسٹیشن کے نزدیک قادیان آنے والی ریل گاڑی پر مفسدہ پردازوں نے مورخہ 24 اور 25 جولائی 1947 ء کی درمیانی شب کو حملہ کیا.مقام نقشہ میں ظاہر کیا گیا ہے.ਭਲਾ Ghuman Khurd ਘੁੰਮਣ ਖੁਰਦ Chhina ਛਿੰਨਾ agowal ਭਾਗੋਵਾਲ Johal Nangal ਜੋਹਲ ਨੰਗਲ Gadrian ਗਦਰੀਆਂ Balewal ਬਲੇਵਾਲ 54 54 Satkoha ਸਕੋਹਾ Kahnuwan Road Kala Bala ਭਲਾ ਬਾਲਾ Kahnuwan Road Jogi Cheema ਜੋਗੀ Gurdaspur Road ਕਾਹਨੂੰਵਾਨ Kiri Afga ਕੀੜੀ ਅਫਗਾਨ Mulianwali ਮੂਲੀਆਂਵਾਲੀ Mubarak ਮੈਦ ਮਾਰਕ Vadda Hassanpura ਵੱਡਾ ਹਾÅਪੁਰਾ 54 EBatala - ਬਟਾਲਾ Sodhpur ਸੋਧਪੁਰ GT Road Kahnuwan Kahnuwan Road بھاگی منگل وڈالہ گرنتھیاں 貝 Wadala Granthian ਵਡਾਲਾ ਗ੍ਰੰਥਿਆਂ Mata Gujri Gate 66 Masanian ਮਸਾਣੀਆਂ Khojewal ਖੋਜੇਵਾਲ Panjgarain Jaito Sarja ਜੀਤੋ ਸਰਜਾ Phulke ਫੁਲਕੇ Beas Batala Rd Thirewal ਥਿਰੋਵਾਲ Karnama ਕਾਰਨਾਮਾ Bhagian ਭਾਗੀਆਂ Thindh विय Muradpura ਮੁਰਾਦਪੁਰਾ TATTLEY ਤੰਤਲੀ ਚੀਮਾ Buttar Kalan ਬੁੱਟਰ Qadian Rd Qadian قادیان CHII Batala - Qadian - Harchowal Rd Raw Road Basrai ਬਾਸਰੀ Ghot Khurd ਘੋਟ ਖੁਰਦ Tugalwal ਤਗਾਲ Bhamari ਭਾਮਰੀ Harchow ਹਰਚੋਵਾਲ Ghas ਘਾਸ Kazampur ਤਜ਼ਾਮਪੁਰ Khujala Khojala Mathola Cheena ਮਥੈਲਾ ਜੀਨਾ Gurdaspur - Shri Ha
وڈالہ گرنتھیاں کا ریلوے اسٹیشن جہاں مورخہ 24 اور 25 جولائی 1947ء کی درمیانی شب بٹالہ سے قادیان جارہی ریل گاڑی پر مفسدہ پردازوں کی جانب سے حملہ کیا گیا.
تاریخ احمدیت بھارت 45 جلد اوّل تھا.لہذا انہوں نے اس پر امن ماحول کو اس وقت پارہ پارہ کر دیا جب 24 اور 25 جولائی 1947ء کی درمیانی شب کو ریل گاڑی کے مسافروں پر (30-25) پچیس تیس بلوائیوں نے حملہ کر دیا.ان میں بعض ہتھیاروں سے مسلح تھے.اخبار الفضل نے اس حملے کی خبر درج ذیل الفاظ میں شائع کی :.امرتسر 25 / جولائی آج رات کو جب گاڑی بٹالہ سے قادیان آ رہی تھی تو وڈالہ گرنتھیاں ریلوے سٹیشن کے قریب پچیس تیس اشخاص نے جن میں سے بعض مسلح تھے گاڑی کو روک کر اس پر حملہ کر دیا.جس کی وجہ سے ڈرائیور اور پانچ چھ اشخاص زخمی ہوئے.فائر مین نے نہایت ہوشیاری سے گاڑی چلا دی اور اس طرح گاڑی کو قادیان لے آنے میں کامیاب ہو گیا“.(2) آزادی کا اعلان 15 اگست 1947ء کو ہوا.مگر اس سے(20) بیس روز قبل قادیان آنے والی ریل گاڑی پر قاتلانہ حملہ جملہ آوروں کے عزائم اور ارادوں کی غمازی کر رہا تھا.جس کے اسرار بعد میں کھلتے چلے گئے.یہ حملہ در اصل یک طرفہ اعلان جنگ تھا.جس کے ذریعہ حملہ کروانے والوں نے یہ واضح کر دیا تھا کہ مشرقی پنجاب کے افراد جماعت اور قادیان ان کے نشانے کی زد میں ہیں.اور بعد کے حالات اس کا بین ثبوت تھے.حضرت مصلح موعود کا روح پرور پیغام اپنی جماعت کے نام اور شکستہ دلوں کو حوصلہ افزائی تقسیم ملک کے اعلان کے بعد سے ہی جماعت احمد یہ مشرقی پنجاب میں کسی ایسے خطرے کی طرف پیش رفت کر رہی تھی جس سے اسے گہرا زخم لگنے والا تھا.اور اس کا داغ “ تادیر رہنے والا تھا.اور یہ مفہوم جماعت کے اولوالالباب بخوبی سمجھ رہے تھے.حالات دن بدن تشویشناک ہوتے چلے جا رہے تھے.قادیان کے گرد محاصرے کا دائرہ دن بدن تنگ سے تنگ کیا جا رہا تھا.اس کے رابطے بیرونی دنیا سے کاٹنے کے لئے ڈاک و تار کا سلسلہ منقطع کر دیا گیا تھا.قادیان سے امرتسر آنے اور جانے والی ریل گاڑی بند کر دی گئی.کسی بس یا ٹرک یا گاڑی کو قادیان میں داخلہ کی اجازت نہ دی جاتی.اگر دی جاتی تو تلاشی کے لئے کئی کئی گھنٹے کھڑا رکھا جاتا.اور بسا اوقات یہ عذر پیش کیا جاتا کہ حالات مخدوش ہیں اس لئے شہر کے اندر جانے کی داخل ہونے کی اجازت نہیں قتل و غارت کے وسیع سمندر میں قادیان ایک جزیرہ کی شکل اختیار
جلداول 46 تاریخ احمدیت بھارت کر گیا تھا کبھی کبھی خونی حملوں کی لہریں جزیرے کے کنارے عبور کرنے لگی تھیں.حضرت المصلح الموعودؓ نے ان حالات کا تذکرہ اپنے مکتوب گرامی میں کچھ اس طرح فرمایا ہے:.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ” برادران جماعت احمدیہ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته فسادات بڑھ رہے ہیں.قادیان کے گرد دشمن گھیرا ڈال رہا ہے.آج سنا گیا ہے.ایک احمدی گاؤں پوری طرح تباہ کر دیا گیا ہے.اس گاؤں کی آبادی چھ سو سے اوپر تھی.ریل ، تار، ڈاک بند ہے.ہم وقت پر نہ آپ کو اطلاع دے سکتے ہیں اور نہ جو لوگ قادیان سے باہر ہوں اپنے مرکز کے لئے کوئی قربانی ہی کر سکتے ہیں.میں نے احتیاطاً خزانہ قادیان سے باہر بھجوا دیا ہے.پھر بھی اگر ان فسادوں کی وجہ سے بعض کو روپیہ ملنے میں دیر ہو تو انہیں صبر سے کام لینا چاہیئے کہ یہی وقت ایمان کی آزمائش کے ہوتے ہیں.مجھے بعض لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں.ان لوگوں کے اخلاص میں شبہ نہیں لیکن میری جگہ قادیان ہے.اس میں کوئی شک نہیں تفسیر کا کام اور کئی اور کام پڑے ہیں.لیکن ان کاموں کے لئے خدا تعالیٰ اور آدمی پیدا کر دے گا یا وہ مجھے قادیان میں ہی دشمن کے حملہ سے بچالے گا.لیڈر کو اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہیئے.یہ خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے.مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے گا اور ہمیں فتح دے گا مگر پھر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت اور احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض مستورات کو باہر بھجوانے کا ارادہ ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ نے انتظام کر دیا.اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے وعدوں کے مطابق آگئی تو یہ سب خدشات صرف ایک احمقانہ ڈر ثابت ہوں گے.لیکن اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے سمجھنے میں غلطی کی ہے تو یہ احتیاطیں ہمارے لئے ثواب کا موجب ہوں گی.آخر میں میں جماعت کو محبت بھر اسلام بھجواتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.اگر ابھی میرے ساتھ مل کر کام کرنے کا وقت ہو تو آپ کو وفاداری سے اور مجھے دیانت داری سے کام کرنے کی توفیق ملے اور اگر ہمارے تعاون کا وقت ختم ہو چکا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کے قدم کو ڈگمگانے
تاریخ احمدیت بھارت 47 جلد اول سے محفوظ رکھے.سلسلہ کا جھنڈا نیچا نہ ہو.اسلام کی آواز پست نہ ہو.خدا تعالیٰ کا نام ماند نہ پڑے.قرآن سیکھو اور حدیث سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ اور خود عمل کرو اور دوسروں سے عمل کراؤ.زندگیاں وقف کرنے والے ہمیشہ تم میں سے ہوتے رہیں اور ہر ایک اپنی جائیداد کے وقف کا عہد کرنے والا ہو.خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لئے ہر مومن آمادہ کھڑا ہو.صداقت تمہارا زیور ، امانت تمہارا حسن ، تقویٰ تمہارا لباس ہو.خدا تعالیٰ تمہارا ہو اور تم اس کے ہو.آمین.ا میرا یہ پیغام ہندوستان کے باہر کی جماعتوں کو بھی پہنچادو اور انہیں اطلاع دو کہ تمہاری محبت میرے دل میں ہندوستان کے احمدیوں سے کم نہیں.تم میری آنکھ کا تارا ہو.میں یقین رکھتا ہوں کہ جلد سے جلد اپنے اپنے ملکوں میں احمدیت کا جھنڈا گاڑ کر آپ لوگ دوسرے ملکوں کی طرف توجہ دیں گے اور ہمیشہ خلیفہ وقت کے جو ایک وقت میں ایک ہی ہو سکتا ہے فرماں بردار رہیں گے اور اس کے حکموں کے مطابق اسلام کی خدمات کریں گے.والسلام خاکسار مرز امحموداحمد (3) 22/8/47 اس روح پرور پیغام نے شکستہ دلوں کو حوصلہ دیا افراد جماعت نے ایک بار پھر یہ محسوس کیا کہ خلیفہ اسیح نصرہ اللہ تعالیٰ وہ وجود ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ خوف کو زائل کر کے امن وسکون عطاء فرماتا ہے.وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً ( 4 ) یعنی ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا.اس ولولہ انگیز پیغام سے افراد جماعت میں آئندہ آنے والے مصائب و ابتلاء برداشت کرنے کی ہمت و عزم پیدا ہو گیا.
جلد اوّل 48 ہجرت سے قبل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دو اہم پیغام تاریخ احمدیت بھارت قادیان سے ہجرت کے متعلق تمام الہامات ورڈ یا کے پورا ہونے کا وقت قریب سے قریب آتا چلا جا رہا تھا.اس تعلق سے تمام پیشگوئیاں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی کے مبارک وجود کے ذریعہ پوری ہوتی ہوئی نظر آنے لگیں.چنانچہ مؤرخہ 30 اگست 1947ء کو آپ نے جماعت احمد یہ قادیان اور ضلع گورداسپور کے نام درج ذیل الوداعی پیغام تحریر فرمایا.اور بعض مصلحتوں کی بناء پر یہ ارشاد فرمایا کہ آپ کی قادیان سے ہجرت کے اگلے روز اسے سنادیا جائے.پیغام کا متن درج ذیل ہے: (الف).پہلا پیغام اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی تمام پریذیڈنشان انجمن احمد یہ قادیان و محلہ جات و دیہات ملحقہ قادیان ودیہات تحصیل بٹالہ تحصیل گورداسپور کو اطلاع دیتا ہوں کہ متعدد دوستوں کے متواتر اصرار اور لمبے غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیام امن کے اغراض کے لئے مجھے چند دن کے لئے لاہور ضرور جانا چاہیئے.کیونکہ قادیان سے بیرونی دنیا کے تعلقات منقطع ہیں اور ہم ہندوستان کی حکومت سے کوئی بھی بات نہیں کر سکے.حالانکہ ہمارا معاملہ اس سے ہے لیکن لاہور اور دہلی کے تعلقات ہیں.تار اور فون بھی جاسکتا ہے.ریل بھی جاتی ہے اور ہوائی جہاز بھی جاسکتا ہے.میں مان نہیں سکتا کہ اگر ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال صاحب پر یہ امر کھولا جائے کہ ہماری جماعت مذہباً حکومت کی وفادار جماعت ہے تو وہ ایسا انتظام نہ کریں کہ ہماری جماعت اور دوسرے لوگوں کی جو ہمارے ارد گر درہتے ہیں حفاظت نہ کی جائے.جہاں تک مجھے معلوم ہے بعض لوگ حکام پر یہ اثر ڈال رہے ہیں کہ مسلمان جو ہندوستان میں آئے ہیں ہندوستان سے دشمنی رکھتے ہیں.حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں اپنے جذبات کے اظہار کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا.ادھر اعلان ہوا اور اُدھر فساد شروع ہو گیا.ورنہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ مسلمان مسٹر جناح کو اپنا سیاسی لیڈر تسلیم کرنے کے باوجودان کے اس مشورہ کے خلاف جاتے کہ اب جو مسلمان ہندوستان میں گئے ہیں انہیں ہندوستان کا وفادار رہنا چاہئیے.غرض ساری غلط نہی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ یکدم فسادات ہو گئے اور صوبائی حکام اور ہندوستان کی حکام پر
تاریخ احمدیت بھارت 49 جلد اول حقیقت نہیں کھلی.ان حالات میں میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی جگہ جانا چاہیئے جہاں سے دہلی وشملہ سے تعلقات آسانی سے قائم کئے جاسکیں اور ہندوستان کے وزراء اور مشرقی پنجاب کے وزراء پر اچھی طرح سب معاملہ کھولا جا سکے.اگر ایسا ہو گیا تو وہ زور سے ان فسادات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے.اسی طرح لاہور میں سکھ لیڈروں سے بھی بات چیت ہو سکتی ہے جہاں وہ ضرورتاً آتے جاتے رہتے ہیں اور اس سے بھی فساد دور کرنے میں مددمل سکتی ہے.ان امور کو مد نظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں چند دن کے لئے لاہور جا کر کوشش کروں.شاید اللہ تعالیٰ میری کوششوں میں برکت ڈالے.اور یہ شور وشر جو اس وقت پیدا ہو رہا ہے دور ہو جائے.میں نے اس امر کے مد نظر آپ لوگوں سے پوچھا تھا کہ ایسے وقت میں اگر میرا جانا عارضی طور پر زیادہ مفید ہو تو اس کا فیصلہ آپ لوگوں نے کرنا ہے یا میں نے ، اگر آپ نے کرنا ہے تو پھر آپ لوگ حکم دیں تو میں اسے مانوں گا.لیکن میں ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گا.اور اگر فیصلہ میرے اختیار میں ہے، تو پھر آپ کو حق نہ ہو گا کہ چوں و چراں کریں.اس پر آپ سب لوگوں نے لکھا کہ فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے.سو میں نے چند دن کے لئے اپنی سکیم کے مطابق کوشش کرنے کا فیصلہ کیا ہے.آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں اور حوصلہ نہ ہاریں.دیکھو مسیح کے حواری کتنے کمزور تھے مگر مسیح انہیں چھوڑ کر کشمیر کی طرف چلا گیا.اور مسیحیوں پر اس قدر مصائب آئے کہ تم پر ان دنوں میں اس کا سوواں حصہ بھی نہیں آئے.لیکن انہوں نے ہمت اور بشاشت سے ان کو برداشت کیا.ان کی جدائی تو دائمی تھی مگر تمہاری جدائی تو عارضی ہے.اور خود تمہارے اور سلسلہ کے کام کے لئے ہے.مبارک وہ جو بدظنی سے بچتا ہے اور ایمان پر سے اس کا قدم لڑکھڑاتا نہیں ، وہی جو آخر تک صبر کرتا ہے.خدا تعالیٰ کا انعام پاتا ہے.پس صبر کرو اور اپنی عمر کے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے وفادار رہو.اور ثابت قدمی اور نرمی اور عقل اور سوجھ بوجھ اور اتحاد و اطاعت کا ایسا نمونہ دکھاؤ کہ دنیا عش عش کر اٹھے.جو تم میں سے مصائب سے بھاگے گا وہ یقینا دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگا.اور خدا تعالیٰ کی لعنت کا مستحق.تم نے نشان پر نشان دیکھے اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا منور جلوہ دیکھا ہے اور تمہارا دل دوسروں سے زیادہ بہادر ہونا چاہیئے.میرے سب لڑکے اور داماد اور دونوں بھائی اور بھتیجے قادیان میں ہی رہیں گے.اور میں اپنی غیر حاضری کے ایام میں عزیز مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنا قائمقام ضلع گورداسپور اور قادیان کے لئے مقرر کرتا ہوں.ان کی فرماں برداری اور اطاعت کرو اور ان
جلد اول 50 تاریخ احمدیت بھارت کے ہر حکم پر اس طرح قربانی کرو جس طرح محمد رسول اللہ صلی الی السلام نے فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں.مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَى أَمِيرِى فَقَدْ عَصَانِي یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.پس جو ان کی اطاعت کرے گا وہ میری اطاعت کرے گا.اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کرے گا وہ رسول کریم سنای ایتم کی اطاعت کرے گا اور وہی مومن کہلا سکتا ہے دوسرا نہیں.اے عزیز و! احمدیت کی آزمائش کا وقت اب آئے گا.اور اب معلوم ہوگا کہ سچا مومن کونسا ہے.پس اپنے ایمانوں کا ایسا نمونہ دکھاؤ کہ پہلی قوموں کی گردنیں تمہارے سامنے جھک جائیں اور آئندہ نسلیں تم پر فخر کریں.شاید مجھے تنظیم کی غرض سے کچھ اور آدمی قادیان سے باہر بھجوانے پڑیں.مگر وہ میرے خاندان میں سے نہ ہوں گے بلکہ علماء میں سے ہوں گے.اس سے پہلے بھی میں کچھ علماء باہر بھجوا چکا ہوں.تم ان پر بدظنی نہ کرو وہ بھی تمہاری طرح اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں.لیکن خلیفہ وقت کا حکم انہیں مجبور کر کے لے گیا.پس وہ ثواب میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں اور قربانی میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں.ہاں وہ لوگ جو آنوں بہانوں سے اجازت لے کر بھاگنا چاہتے ہیں وہ یقیناً کمزور ہیں.خدا تعالیٰ ان کے گناہ بخشے اور بچے ایمان کی حالت میں جان دینے کی توفیق دے.اے عزیز و! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر وقت تمہارے ساتھ رہے اور مجھے جب تک زندہ ہوں بچے طور پر اور اخلاص سے تمہاری خدمت کی توفیق بخشے اور تم کو مومنوں والے اخلاص اور بہادری سے میری رفاقت کی توفیق بخشے.خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور آسمان کی آنکھ تم میں سے ہر مرد ہر عورت اور ہر بچہ کوسچا خلص دیکھے اور خدا تعالیٰ میری اولاد کو بھی اخلاص اور بہادری سے سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے.والسلام خاکسار (دستخط) مرزا محموداحمد (خلیفہ مسیح (5) 30/8/1947
تاریخ احمدیت بھارت دوسرا پیغام 51 جلد اول مؤرخہ 30 /اگست 1947ء کو ہی حضور نے ایک دوسرا پیغام بیرونی جماعتوں کی طرف ارسال فرمایا ، جس کا متن درج ذیل ہے.اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر جماعت کو ہدایات جو فوراً شائع کر دی جائیں.باوجود بار بار زور دینے کے لاہور کی جماعت نے کنوائے نہیں بھجوائے جس کی وجہ سے قادیان کا بوجھ حد سے زیادہ ہو گیا.اگر کنوائے آتے تو شاید میں بھی چلا جاتا اور جب مسٹر جناح اور پنڈت جی آئے تھے.ان سے کوئی مشورہ کرتا مگر افسوس کہ فرض شناسی نہیں کی گئی.1- اگر قادیان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو پہلا فرض جماعت کا یہ ہے کہ شیخو پورہ یا سیالکوٹ میں ریل کے قریب لیکن نہایت سستی زمین لے کر ایک مرکزی گاؤں بسائے مگر قادیان والی غلطی نہیں کہ کوٹھیوں پر زور ہو.سادہ عمارات ہوں.فوراً ہی کالج اور سکول اور مدرسہ احمدیہ اور جامعہ کی تعلیم کو جاری کیا جائے.دینیات کی تعلیم اور اس پر عمل کرنے پر ہمیشہ زور ہو.علماء بڑے سے بڑے پیدا کرتے رہنے کی کوشش کی جائے.2 تبلیغ کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے.وقف کے اصول پر جلد سے جلد کافی مبلغ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.3- اگر میں مارا جاؤں یا اور کسی طرح جماعت سے الگ ہو جاؤں تو پہلی صورت میں فوراً خلیفہ کا انتخاب ہو اور دوسری صورت میں ایک نائب خلیفہ کا.4- جماعت باوجود ان تلخ تجربات کے شورش اور قانون شکنی سے بچتی رہے اور اپنی نیک نامی کے ورثہ کو ضائع نہ کرے.5- ہمارے کاموں میں ایک حد تک مغربیت کا اثر آگیا تھا.یعنی محکمانہ کاروائی زیادہ ہوگئی تھی.اسے چھوڑ
جلد اول 52 99 تاریخ احمدیت بھارت کر سادگی کو اپنانا چاہیئے اور تصوف اور سادہ زندگی اور نماز و روزہ کی طرف توجہ اور دعاؤں کا شغف جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.6 - قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر انگریزی وار دو جلد جلد شائع ہوں.میں نے اپنے مختصر نوٹ بھجوادیئے ہیں.اس وقت تک جو تر جمہ ہو چکا ہے اس کی مدد سے اور تیار کیا جا سکتا ہے.ترجمہ کرنے والا دعا ئیں بہت کرے.7- ان مصائب کی وجہ سے خدا تعالیٰ پر بدظنی نہ کرنا.اللہ تعالیٰ جماعت کو کبھی ضائع نہ کر دیگا.پہلے نبیوں کو بڑی بڑی تکالیف پہنچ چکی ہیں.عزت وہی ہے جو خدا اور بندے کے تعلق سے پیدا ہوتی ہے.مادی اشیاء سب فانی ہیں خواہ وہ کتنی ہی بزرگ یا قیمتی ہوں.ہاں خدا تعالیٰ کا فضل مانگتے رہو شاید کہ وہ یہ پیالہ ٹلا دے.والسلام خاکسار (دستخط) مرزامحموداحمد خلیفه امسیح) (6) سانحہ داغ ہجرت آپہنچا 30/8/47 احمدیت کی تاریخ میں ذکر آتا ہے کہ مورخہ 27 اپریل 1908ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان سے لاہور ( جو آپ کا آخری سفر ثابت ہوا ) تشریف لے جانے لگے تو دارا سیح کے ایک حجرے کو قفل لگاتے ہوئے آپ نے فرمایا ”اب ہم اس کمرہ کو نہیں کھولیں گے“ (7) مورخہ 31 اگست 1947ء کو تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دوہرا رہی تھی.اس روز حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کو قصر خلافت میں بلا یا اور کمرہ ان کے سپر دکیا.اور اس میں قیام پذیر ہونے کی ہدایت فرمائی.گو یا تقدیر الہی سمجھا رہی تھی کہ آپ وانا الْمَسِيحُ المَوْعُوْدُ مَثِيْلُه وخَلِيفَتُهُ رض کے مصداق ہیں.آپ کا بھی قادیان سے لاہور کا یہ سفر، آخری سفر ہی ہوگا.اور آپ اس کمرہ کو نہیں کھولیں گے.
تاریخ احمدیت بھارت 53 جلد اوّل حضور قریباً ایک بجے مسجد مبارک کے نیچے تشریف لائے اور احمد یہ چوک میں موٹر گاڑی میں سوار ہوئے.سوا ایک بجے حضرت نواب محمد علی صاحب کی کوٹھی (دارالسلام واقع محلہ دارالعلوم ) پہنچے.جہاں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب،صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ،صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور نواب زادہ میاں عباس احمد خان صاحب اور ان کے علاوہ خاندان مسیح موعود کے بعض اور افراد نے حضور کو الوداع کہا اور حضور یہاں سے بذریعہ موٹر روانہ ہوکر ساڑھے چار بجے کے قریب لاہور پہنچ گئے.الحمد للہ علی ذالک.اس تاریخی سفر میں حضرت سید ہ ام متین صاحبہ اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبه (حرم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ) بھی حضور کے ہمراہ تھیں.(8) حضرت مصلح موعود کی قادیان سے ہجرت کے حالات حضرت المصلح الموعودؓ نے قادیان سے ہجرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جماعتی طور پر ایک بہت بڑا ابتلاء 1947ء میں آیا اور الہی تقدیر کے ماتحت ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا.شروع میں میں سمجھتا تھا کہ جماعت کا جرنیل ہونے کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ قادیان میں لڑتا ہوا مارا جاؤں ورنہ جماعت میں بزدلی پھیل جائے گی.اور اس کے متعلق میں نے باہر کی جماعتوں کو چٹھیاں بھی لکھ دی تھیں.لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کے مطالعہ سے مجھ پر یہ امر منکشف ہوا کہ ہمارے لئے ایک ہجرت مقدر ہے.اور ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے.ویسے تو لوگ اپنی جگہیں بدلتے ہی رہتے ہیں مگر اسے کوئی ہجرت نہیں کہتا.ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے.پس میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی مصلحت یہی ہے کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کے مطالعہ سے میں نے سمجھا کہ ہماری ہجرت یقینی ہے.اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجھے قادیان چھوڑ دینا چاہیئے تو اس وقت لاہور فون کیا گیا کسی نہ کسی طرح ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے ،لیکن
جلد اوّل 54 تاریخ احمدیت بھارت آٹھ دس دن تک کوئی جواب نہ آیا.اور جواب آیا بھی تو یہ کہ حکومت کسی قسم کی ٹرانسپورٹ مہیا کرنے سے انکار کرتی ہے.اس لئے کوئی گاڑی نہیں مل سکتی.میں اس وقت حضرت مسیح موعود کے الہامات کا مطالعہ کر رہا تھا.الہامات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایک الہام نظر آیا ” بعد گیارہ میں نے خیال کیا کہ گیارہ سے مراد گیارہ تاریخ ہے اور میں نے سمجھا کہ شاید ٹرانسپورٹ کا انتظام قمری گیارہ تاریخ کے بعد ہوگا.مگر انتظار کرتے کرتے عیسوی ماہ کی 28 تاریخ آگئی لیکن گاڑی کا کوئی انتظام نہ ہوسکا.28 تاریخ کو اعلان ہو گیا کہ 31 اگست کے بعد ہر ایک حکومت اپنے اپنے علاقہ کی حفاظت کی خود ذمہ دار ہوگی.اس کا مطلب یہ تھا کہ انڈین یونین اب مکمل طور پر قادیان پر قابض ہو گئی ہے.میں نے اس وقت خیال کیا کہ اگر مجھے جانا ہے تو اس کے لئے فوراً کوشش کرنی چاہیئے ورنہ قادیان سے نکلنا محال ہو جائے گا اور اس کام میں کامیابی نہیں ہو سکے گی.ان لوگوں کے مخالفانہ ارادوں کا اس سے پتہ چل سکتا ہے کہ انگریز کرنل جو بٹالہ لگا ہوا تھا میرے پاس آیا اور اس نے کہا مجھے ان لوگوں کے منصوبوں کا علم ہے.جو کچھ یہ 31 اگست کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کریں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.یہ باتیں کرتے وقت اس پر رقت طاری ہوگئی.لیکن اس نے جذبات کود بالیا اور منہ ایک طرف پھیر لیا.جب میں نے دیکھا کہ گاڑی وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں ہوسکتا اور میں سوچ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے الہام بعد گیارہ سے کیا مراد ہے تو مجھے میاں بشیر احمد صاحب کا پیغام ملا کہ میجر جنرل نذیر احمد صاحب کے بھائی میجر بشیر احمد صاحب ملنے کے لئے آئے ہیں.دراصل یہ ان کی غلطی تھی وہ میجر بشیر احمد صاحب نہیں تھے بلکہ ان کے دوسرے بھائی کیپٹن عطاء اللہ صاحب تھے.جب وہ ملاقات کے لئے آئے تو میں حیران تھا کہ یہ تو میجر بشیر احمد نہیں ان کے چہرے پر تو چیچک کے داغ ہیں.مگر چونکہ مجھے ان کا نام میجر بشیر احمد ہی بتایا گیا تھا اس لئے میں نے دوران گفتگو میں جب انہیں میجر کہا تو انہوں نے کہا میں میجر نہیں ہوں کیپٹن ہوں اور میرا نام بشیر احمد نہیں بلکہ عطاء اللہ ہے.کیپٹن عطاء اللہ صاحب کے متعلق پہلے سے میرا یہ خیال تھا کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں سے زیادہ مخلص ہیں.اور میں سمجھتا تھا کہ اگر خدمت کا موقعہ مل سکتا ہے تو اپنے بھائیوں میں سے یہی اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں.میں نے انہیں حالات بتائے اور کہا کہ کیا وہ سواری اور حفاظت کا کوئی انتظام کر سکتے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں آج ہی واپس جا کر کوشش کرتا ہوں.ایک جیپ میجر جنرل نذیر احمد کو ملی ہوئی ہے.اگر وہ مل سکی
مشرق شمال + مغرب ----------- نقشہ نمبر 5 ( قدیم وجدید قادیان) محلہ دارالسعت کھارا ( محلہ بھگت پورہ) محلہ دار الصنعت فارم جدید محلہ دار الفضل راسته بطرف ٹھیکری راسته بطرف بر کلاں بٹالہ محلہ دار الیسر (محله دھرم پوره ) محلہ دار البرکات ریلوے اسٹیشن 30 راستہ بطرف بھنگواں محلہ دار البرکات راسته بطرف بھینی با نگر کوٹھی فتح محمد سیال کوئی ڈپٹی شریف احمد பட ☐ ( محله سنت نگر ) ریلوے لامین محلہ دارالشکر کوٹھی نواب محمد علی صاحب تعلیم الاسلام کالج احمد یہ فارم کوٹھی مرزا شریف احمد صاحب مسجد نور پرانا دار الفضل محلہ دارا محله سنت نگر ) ریلوے روڈ دفتر بلد جلسه گاه پولیس اسٹیشن ( محله کرشن نگر ) پرانا جامعہ احمدیہ فضل عمر ہوٹل 7 بورڈ نگ تحریک جدید محلہ دار العلوم ( محمد اکراشن نگر ) : کالج روڈ نصرت گرلز ہائی اسکول اسرانا نور ہسپتال ریتی چھلہ نیا نور ہسپتال ڈاکخانہ محلہ دار الفتوح وہائٹ ایونیو باب الابواب (محله ارجن پوره ) چار منزله فلیٹس باب الابواب کوئی سرظفر اللہ خان صاحب محل دار الرحمت (محله و هرم پوره) غیر مسلم آبادی رجا دا روڈ ڈی اے وی اسکول ٹیلیفون اینچ رامپورا روڈ غیرمسلم آبادی قدیمیم قادیان نیست و یک آف انڈیا جر خانم (محله ارجن پورہ) نصورت گرلز ہائی سکول زنانه جلسه گاه مردانه جلسه گاه دفتر انصار الله راسته بطرف عیدگاه و آبائی قبرستان موجودہ منڈی محلہ دار الصحت آئی ٹی آئی گراؤنڈ ڈھاب حلہ پریم نگر) راسته بطرف بسراواں راسته بطرف بسراواں النصرات ☐ ☐ ی گینس دار الانوار ہوٹل تعلیم الاسلام ہائی اسکول لورچین روانی پلاٹ گیسٹ ہاؤسز سرائے طاہر جامعہ احمدیہ کبار انوار ول لائنز پرانا دفتر خدام الاحمدیہ محلہ دار الانوار کوٹھی عبدالہاشم گورونانک دیوا کیڈمی اسکول تر کھانہ والی فضل عمر پریس سڑک ہر چووال قبرستان بہشتی مقبره کالوی منگل باغباناں مسجد پٹرول پمپ 1 سول ہسپتال راستہ بطرف کاہلواں راستہ بطرف لیل کلاں ا بٹالہ مورخہ 31 اگست 1947ء کو سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نقشہ میں ظاہر حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کی کوٹھی دارالسلام سے لاہور ہجرت فرمائی
Kamoki پاکستان نقشه نمبر 6 مورخہ 31 اگست 1947ء کو سید نا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے نقشہ میں ظاہر راستہ کے مطابق قادیان سے لاہور ہجرت کی Narowal Dera Baba نارووال Nanak ਬਾਬਾ alba کامونکے Fatehgarh Narang Mandi Churian N5 نارنگ منڈی Muridke مرید کے دریائے راوی Ajnala ਫਤਿਹਗੜ ਅਜਨਾਲਾ ਚੂੜੀਆਂ Raiwind L-20 Attari ਅਟਾਰੀ Lahore لاہور LAHORE CANTT.لاہور کیست Amritsar ਅੰਮ੍ਰਿਤਸਰ Tarn Taran ਤਰਨਤਾਰਨ Bhikhiwind ਭਿੱਖੀਵਿੰਡ Patti 54 ਨਗਰ Gurdaspur ਗੁਰਦਾਸਪੁਰ گورداسپور Dhariwal 54 بٹالہ Batala ਧਾਰੀਵਾਲ Mehta Chowk ਮਹਿਤਾ ਚੌਕ Sultanpur AH1 Qadian دریائے بیاس जापा Mukerian ਮੁਕੇਰੀਆਂ Dasuya Forest Division ਦਸੂਹਾ Dasuya ਜੰਗਲਾਤ Chintpu ਦਸੂਹਾ ਡਿਵੀਜ਼ਨ चिंतपूर्ण Urmar Tanda ਉਰਮਰ ਟਾਂਡਾ Hariana ਹਰਿਆਣਾ 44 3 جالندھر Kapurthala aydast Jalandhar ਜਲੰਧਰ 344B ہوشیار پور Hoshiarpur ਹੁਸ਼ਿਆਰਪੁਰ 344B 103A Aml अम्ब 103A
حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کی کوٹھی دارالسلام جہاں سے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے لاہور ہجرت فرمائی کوٹھی دار السلام کی حالیہ تصویر
تقسیم ملک کے وقت ہجرت کرتے ہوئے قافلے
5024 تقسیم ملک کے وقت ہجرت کرتے ہوئے قافلے H.22 3 PLAT ΠΕ H.22
H.22 تقسیم ملک کے وقت ہجرت کرتے ہوئے قافلے NWR 4912
تقسیم ملک کے وقت ہجرت کرتے ہوئے قافلے
تقسیم ملک کے وقت ہجرت کرتے ہوئے قافلے
تقسیم ملک کے وقت ہجرت کرتے ہوئے قافلے
تقسیم ملک کے وقت فسادات کے روح فرسا مناظر ERTIFICATES SENALLICK AUTOGRAPH MEDIA CALE INDUSTRIES APH COTALIN GRAPH
تقسیم ملک کے وقت فسادات کے روح فرسا مناظر
تاریخ احمدیت بھارت 55 جلد اوّل تو دو اور کا انتظام کر کے میں آؤں گا.کیونکہ تین گاڑیوں کے بغیر پوری طرح حفاظت کا ذمہ نہیں لیا جا سکتا.کیونکہ ایک جیپ خراب بھی ہو سکتی ہے اور اس پر حملہ بھی ہو سکتا ہے.لیکن ضرورت ہے کہ تین گاڑیاں ہوں تا سب خطرات کا مقابلہ کیا جاسکے.یہ باتیں کر کے وہ واپس لاہور گئے اور گاڑی کے لئے کوشش کی.مگر میجر جنرل نذیر احمد صاحب کی جیپ انہیں نہ مل سکی.وہ خود کہیں باہر گئے ہوئے تھے.آخر انہوں نے نواب محمد دین صاحب مرحوم کی کارلی اور عزیز منصور احمد کی جیپ ، اسی طرح بعض اور دوستوں کی کاریں حاصل کیں اور قادیان چل پڑے.دوسرے دن ہم نے اپنی طرف سے ایک اور انتظام کرنے کی بھی کوشش کی اور چاہا کہ ایک احمدی کی معرفت کچھ گاڑیاں مل جائیں.اس دوست کا وعدہ تھا کہ وہ ملٹری کو ساتھ لے کر آٹھ نو بجے قادیان پہنچ جائیں گے.لیکن وہ نہ پہنچ سکے یہاں تک کہ دس بج گئے.اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ شاید گیارہ سے مراد گیارہ بجے ہوں اور یہ انتظام گیارہ بجے کے بعد ہو.میاں بشیر احمد صاحب جن کے سپردان دنوں ایسے انتظام تھے.ان کے بار بار پیغام آتے تھے کہ سب انتظام رہ گئے ہیں اور کسی میں بھی کامیابی نہیں ہوئی.میں نے انہیں فون کیا کہ حضرت مسیح موعود کے الہام ” بعد گیارہ “ سے میں سمجھتا ہوں کہ گیارہ بجے کے بعد کوئی انتظام ہو سکے گا.پہلے میں سمجھتا تھا کہ اس سے گیارہ تاریخ مراد ہے لیکن اب میرا خیال ہے کہ شاید اس سے مراد گیارہ بجے کا وقت ہے.میرے لڑکے ناصر احمد نے بھی جس کے سپر د باہر کا انتظام تھا ، مجھے فون کیا کہ تمام انتظامات فیل ہو گئے ہیں.ایک بدھ فوجی افسر نے کہا تھا کہ خواہ مجھے سزا ہو جائے میں ضرور کوئی نہ کوئی انتظام کروں گا اور اپنی گار دساتھ روا نہ کروں گا.لیکن عین وقت پر اسے بھی کہیں اور جگہ جانے کا آرڈر آ گیا اور اس نے کہا میں اب مجبور ہوں اور کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتا.آخر گیارہ بج کر پانچ منٹ پر میں نے فون اٹھایا اور چاہا کہ ناصر احمد کو فون کروں کہ ناصر احمد نے کہا کہ میں فون کرنے ہی والا تھا کہ کیپٹن عطاء اللہ یہاں پہنچ چکے ہیں اور گاڑیاں بھی آگئی ہیں.چنانچہ ہم کیپٹن عطاء اللہ صاحب کی گاڑیوں میں قادیان سے لاہور پہنچے.یہاں پہنچ کر میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے.ہمیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ فوراً ایک نیا مرکز بنایا جائے اور مرکزی دفاتر بھی بنائے جائیں.‘(9)
جلد اوّل 56 تاریخ احمدیت بھارت اسیروں کا رستگار حضور کی ہجرت کے بعد قادیان کے حالات روز بروز سنگین ہوتے چلے جا رہے تھے.نواحی علاقوں میں ہزاروں ہزار ہا مسلمان قتل کئے جاچکے تھے.اور ان کے پاس جو کچھ تھوڑا بہت زیور اور رقم یا سامان تھا لوٹا جا رہا تھا.غیر احمدی مسلمانوں کی سینکڑوں عورتیں اور لڑکیاں شر پسند عناصر نے اغوا کرلیں اور بے بس مسلمان اپنی آنکھوں سے یہ مکروہ نظارے دیکھتے رہے مگر کچھ کرنے کی نہ ہمت تھی نہ طاقت.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب قمر الانبیاء رضی اللہ عنہ ( جو 23 ستمبر 1947 ء تک قادیان میں مقیم رہے بعد ازاں لا ہور تشریف لے گئے ) تحریر فرماتے ہیں: مفسده پردازوں کی سکیم صرف قتل و غارت یا لوٹ مار یا مسلمان آبادی سے ضلع ( گورداسپور ) کو خالی کرانے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں مسلمان عورتوں کے ننگ و ناموس کو برباد کرنا بھی شامل ہے.چنانچہ میری موجودگی میں ہی ماحول قادیان کی (غیر احمدی پناہ گزین ، ناقل ) اغوا شدہ عورتوں کی تعداد سات سو تک پہنچ چکی تھی.اور بہت سی معصوم عورتوں کی عصمت دری کے نظارے گو یا ہماری آنکھوں کے سامنے تھے.‘ (10) غیر از جماعت مسلمانوں کی خواتین کے اغوا اور زبردستی چھینے کے یہ محدود اعداد و شمار صرف ضلع گورداسپور کے نواحی علاقوں کے ہیں ورنہ ایسی مظلوم خواتین کی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ ہے.حضرت الصلح الموعود 31 اگست 1947ء کو قادیان سے لا ہور تشریف لے گئے تھے.لاہوراس وقت متحدہ پنجاب کا دارالحکومت تھا.وہاں پہنچنے کے ساتویں دن مورخہ 7 ستمبر 1947 ء کو مجلس مشاورت میں طے پایا کہ قادیان سے احمدی عورتوں اور بچوں کو فوری طور پر نکال کر لاہور بھجوانے کا انتظام کیا جائے.ہیں پچیس ہزار عورتوں اور بچوں کو اتنے خطرناک اور مخدوش حالات میں بحفاظت لاہور پہنچانا کوئی آسان کام نہ تھا.مگر وہ انسان عظیم " جس کے بارے میں رب کریم نے قبل از وقت بتایا تھا کہ وہ ”اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا زمانہ شاہد و گواہ ہے حضرت اصلح الموعود کا وجود ہزاروں اسیروں و مجبوروں اور بے بس عورتوں بچوں اور انسانوں کی رستگاری اور رہائی کا موجب بنا.
تاریخ احمدیت بھارت 57 جلداول قادیان کی احمدی آبادی خصوصاً مستورات اور احمدی بچوں کے لاہور بھجوائے جانے کی کوشش 7 ستمبر 1947 ء کی مشاورت میں طے پایا کہ قادیان سے احمدی عورتوں اور احمدی بچوں کو لاہور پہنچانے کا فوری بندو بست کیا جائے.یہ معاملہ جتنا سنگین ، اہم اور فوری توجہ کا مستحق تھا اتنا ہی مشکل اور کٹھن بھی تھا مگر حضرت مصلح موعودؓ نے اس مقصد کی تکمیل کے لئے اپنی کوششوں کو انتہاء تک پہنچادیا.پہلے تو انفرادی طور پر پاکستان کے احمدیوں کو قادیان جانے اور عورتوں اور بچوں کو وہاں سے لانے کی تلقین کی.بعد ازاں 12 ستمبر 1947ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کے سامنے تحریک عام فرمائی کہ ہمیں قادیان کی عورتوں اور بچوں کو نکالنے کے لئے کم از کم دو سو ٹرکوں کی فوری ضرورت ہے جو دوست بھی ٹرک لے جا سکتے ہوں وہ اطلاع دیں تا ان کو ایک انتظام کے ماتحت قادیان بھجوایا جا سکے.چنانچہ فرمایا:.”ہماری جماعت کے وہ دوست جو فوج میں ملازم ہیں اور جنہیں ٹرک مل سکتے ہیں ان کو چاہئیے کہ جس طرح بھی ہو سکے ٹرکوں کا انتظام کر کے قادیان پہنچیں اور وہاں سے عورتوں اور بچوں کو نکالنے کی کوشش کریں.فوجیوں کو اپنے اپنے رشتہ دار لانے کے لئے عام طور پر ٹرک مل جایا کرتے ہیں 20-25 دوست اس وقت اپنے اپنے رشتہ داروں کو قادیان سے لاچکے ہیں وہاں آٹھ نو ہزار عورتیں اور بچے ہیں جو نکالنے کے قابل ہیں.ورنہ غذا کی حالت حفاظت کے انتظامات میں سخت وقتیں پیدا ہو جائیں گی.جو فوجی دوست ہوں یہاں لاہور میں یا باہر کسی اور مقام پر اور ان کو ٹرک مل سکتا ہو ان سب کو چاہیے کہ وہ فورا ٹرکوں کا انتظام کر کے ہمیں اطلاع دیں.فوجیوں کو ٹرک ملنے میں عام طور پر آسانی ہوتی ہے.اور چونکہ اکثر لوگوں کے کوئی نہ کوئی رشتہ دار قادیان میں موجود ہیں.اس لئے ہم ٹرکوں کے ذریعہ ایک نظام کے ماتحت عورتوں اور بچوں کو لا سکتے ہیں.پس جن دوستوں کو کوئی ٹرک مل سکتا ہو وہ فوراً انتظام کر کے ٹرک قادیان لے جائیں اور وہاں سے عورتوں اور بچوں کو نکال لا ئیں.اور اگر کوئی شخص خود ٹرک کا انتظام نہ کر سکتا ہولیکن اس کے علم میں کوئی ایسے دوست ہوں جو یہ انتظام کر سکتے ہوں تو وہ اطلاع دے دیں.ہمیں کم از کم اس وقت دو سوٹرکوں کی ضرورت ہے تب کہیں قادیان سے عورتوں اور بچوں کو نکالا جاسکتا ہے.چونکہ کچھ عورتیں اور بچے
جلد اوّل 58 تاریخ احمدیت بھارت وہاں سے آگئے ہیں اس لئے باقی عورتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے.کچھ عورتیں تو ایسی دلیر ہیں کہ وہ نکلنے سے انکار کر دیتی ہیں.لیکن اکثر عورتیں اور بچے ان عورتوں اور بچوں کو دیکھ کر جو وہاں سے نکل آئے ہیں گھبرا ر ہے ہیں.اور یوں بھی وہاں کی غذائی حالت خراب ہے.نمک مرچ سب ختم ہو چکا ہے.گو میں نے یہاں سے انتظام کر کے یہ چیز میں وہاں کچھ بھجوائی ہیں.مگر پھر بھی وہاں کی غذائی حالت تشویشناک ہے.آٹے کا انتظام نہیں ہو سکتا.گھی ختم ہے.لکڑی ختم ہے.اس لئے عورتوں اور بچوں کو قادیان سے نکالنا قادیان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے.پس جس جس دوست کی طاقت میں ہو اور وہ ٹرک کا انتظام کر سکتے ہوں انہیں چاہیے کہ وہ ٹرکوں کا انتظام کر کے میاں بشیر احمد صاحب کو ملیں تا کہ ایک نظام کے ماتحت عورتوں اور بچوں کو وہاں سے نکالا جا سکے.جو دوست یہاں موجود ہیں ان کا اگر کوئی فوجی دوست واقف ہو تو اسے فوراً یہ اعلان پہنچا دیں اور اگر وہ خود انتظام کر سکتے ہوں تو خود ٹرکوں کا انتظام کر کے ہمیں اطلاع دیں.پنجاب اور سندھ میں جہاں جہاں فوجی افسر یا کمشنر افسر ہیں جن کو ٹرکیں مل سکتی ہیں.ان سب کو چاہئیے کہ وہ ٹرکوں کے متعلق پوری کوشش کریں اور جلد سے جلد ہمیں اس بارہ میں اطلاع دیں تا کہ ہم ٹرک قادیان بھجواسکیں اور عورتوں اور بچوں کو وہاں سے نکالا جائے“.(11) اللہ تعالیٰ نے حضور کی اس تحریک میں زبر دست برکت ڈالی اور لاہور سے قادیان جانے والے فوجی ٹرکوں کا ایک تانتا بندھ گیا.اور (ان ایام کے سوا جن میں خود حکومت مشرقی پنجاب نے بعض بہانوں کا سہارا لے کر مگر در پردہ قادیان پر حملہ کرنے کی نیت سے ٹرکوں کو قادیان جانے سے روک دیا تھا) کنوائے کا یہ سلسلہ قریباً دو ماہ تک جاری رہا.سب سے بڑا کنوائے جس کے ذریعہ سے قادیان کی تمام احمدی مستورات اور بچے بحفاظت لاہور پہنچ گئے 11 / 12 ماہ اکتوبر کا تھا جس میں پہلے روز اٹھارہ (18) ٹرک اور دوسرے روز بہتر (72) ٹرک تھے جو پاکستان فوج کے میجر آرنسن کی سرکردگی میں قادیان گیا تھا اس جگہ یہ بیان کرنا مناسب ہوگا کہ میجر آرنسن ایک یوروپین یہودی افسر تھے جو قادیان کے احمدی جوانوں کا بلند حوصلہ، مضبوط کیریکٹر اوران کی غیر معمولی بہادری دیکھ کر بیحد متاثر ہوئے.اور انہوں نے سیدنا امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ ”میں نے قادیان میں جو نو جوان دیکھے ہیں وہ ان یہودی نو جوانوں سے بھی زیادہ بہادر ہیں جنہیں فوجی طور پر ٹرینڈ کیا گیا ہے اور جو ہر قسم کے
تاریخ احمدیت بھارت 59 59 جلد اوّل ہتھیاروں سے مسلح ہیں، نیز عرض کیا :.آپ کے نوجوانوں نے اگر اپنی جانیں دے دیں تو بیشک ان کی موت شاندار موت ہوگی لیکن میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ انہیں مرنے نہ دیں کیونکہ اگر وہ زندہ رہے تو ان کی زندگی ان کی موت سے بھی زیادہ شاندار ہوگی“.(12) آخری کنوائے 16 / ماہ نومبر 1947 ء کو روانہ ہوا.یہ سب کنوائے لاہور میں جو دھامل بلڈنگ اور رتن باغ کے سامنے آکر کھڑے ہوتے تھے.اور ان کے ذریعہ نہ صرف قادیان کی سب احمدی عورتیں اور سب احمدی بچے دشمنوں کے تمام معاندانہ اور اخلاق سوز منصوبوں کو خاک میں ملاتے ہوئے ہر طرح صحیح و سالم لاہور منتقل ہوئے بلکہ قادیان کی بقیہ احمدی آبادی بھی پوری حفاظت کے ساتھ پاکستان منتقل ہوئی.اس سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب امیر مقامی قادیان کا وہ سرکلر درج کیا جانا ضروری ہے جو آپ نے اگست 1947ء کو صدر صاحبان حلقہ جات قادیان کے نام تحریر فرمایا.اور جس کے بعد قادیان کی آبادی کا با قاعدہ انخلاء شروع ہوا.آپ نے تحریر فرمایا:.بخدمت صدر صاحبان! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ موجودہ خطرے کے ایام میں جو احمدی عورتیں اور چھوٹی عمر کے بچے قادیان سے باہر پاکستان کے علاقہ میں جانا چاہیں انہیں اس کی اجازت ہے.بشرطیکہ لاہور میں ان کی رہائش کا انتظام ہو سکے یا لاہور سے آگے جانے کا انتظام موجود ہو.نیز یہ بھی ضروری ہے کہ قادیان سے باہر پاکستان کے علاقہ تک پہنچنے کے لئے مسلم ملٹری گارد کا انتظام موجود ہو.مگر قادیان کا کوئی احمدی مرد آج کل بغیر اجازت باہر نہیں جاسکتا.جس شخص کو کوئی مجبوری پیش ہو وہ اپنی مجبوری بیان کر کے اجازت حاصل کرے.یہ بات بھی قابل وضاحت ہے کہ سلسلہ کی طرف سے مسلم کنوائے کا انتظام کیا جارہا ہے جو کبھی کبھی قادیان آیا کرے گا اور اس میں حسب گنجائش مستورات اور بچوں اور اجازت والے مردوں کو موقع دیا جائے گا.مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ چونکہ گنجائش محدود ہوتی ہے اس لئے باری باری ہی موقع مل سکتا ہے جو غیر احمدی اصحاب باہر جانا چاہیں وہ بھی اس انتظام میں شامل ہو سکتے ہیں.اگر گورنمنٹ کا کانوائے آئے تو وہ بلا
جلد اوّل 60 تاریخ احمدیت بھارت کرایہ لے جائے گا لیکن اگر اپنے کانوائے کا استعمال کیا جائے تو اس کے لئے مناسب کرایہ لگے گا مگر غرباء کو سہولت دی جائے گی.صدر صاحبان اپنے اپنے محلہ میں یہ بھی بتادیں کہ ایسے بچوں عورتوں مردوں کی فہرست شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی، اے ( سابق ناظر بیت المال قادیان ، ناقل ) کی نگرانی میں تیار ہوتی ہے.پس تمام درخواستیں ان کے پاس جانی چاہئیں جو بعد منظوری نظارت باری باری لوگوں کو موقعہ دیں گے.صدر صاحبان کو یہ بھی چاہئیے کہ اس کام میں گھبراہٹ کا رنگ پیدا نہ ہونے دیں بلکہ وقار اور انتظام کے ماتحت سارا کام سرانجام پائے.(13) انخلاء آبادی کا نقشہ حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے الفاظ میں انخلاء آبادی کا یہ عظیم معرکہ سر کرنے کے لئے کتنی زبردست اور فقید المثال جدو جہد سے کام لینا پڑا.اس کا نقشہ حضرت قمرالانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب سے بڑھ کر بھلا کون کھینچ سکے گا.آپ تحریر فرماتے ہیں.”ہماری آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ قادیان اور اس کے ماحول میں فتنہ دن بدن بڑھ رہا ہے.اور ضلع گورداسپور کے ایک ایک مسلمان گاؤں کو خالی یا تباہ کر کے قادیان کے اردگرد خطرہ کا دائرہ روز بروز تنگ کیا جارہا ہے.اور دوسری طرف قریباً پچاس ہزار بیرونی پناہ گزینوں نے قادیان میں جمع ہو کر ہماری مشکلات میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا.......ہم نے دوستوں کے مشورہ اور حضرت صاحب کی اصولی ہدایت کے ماتحت یہ فیصلہ کیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو عورتوں اور بچوں کو جلد از جلد قادیان سے باہر بھجوادیا جائے.اور اس کے لئے ہم مجنونانہ جد و جہد کے ساتھ دن رات لگے ہوئے تھے.(4-14) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس سکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مندرجہ ذیل حضرات پر مشتمل ایک مرکزی کمیٹی مقرر فرما دی تھی : حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب.مولا نا جلال الدین صاحب شمس.مولوی ابوالعطاء صاحب، مرزا عبدالحق صاحب.یہ کمیٹی 18 ستمبر کو قائم ہوئی اور اسی روز اس کا مشورہ سید نا حضرت امیر المومنین کے حضور بھجوادیا گیا.اور اس کے لئے دن رات مجنونانہ کوششیں کی جانے لگیں.(B-14)
تاریخ احمدیت بھارت 61 جلد اوّل حضرت میاں صاحب نے مفوضہ ذمہ داریوں کی بجا آوری کے لئے ایک نہایت عمدہ نظام قائم کر رکھا تھا اور مختلف سر بر آوردہ اصحاب کو اپنے نائب کی حیثیت سے مختلف کام سپر د کر دیئے تھے.اس تعلق میں آپ نے 15 نومبر کو حضور کی خدمت میں لکھا کہ ”میرے ساتھ نائب کے طور پر ملک غلام فرید صاحب اور مرزا عبدالحق صاحب اور عبدالحمید صاحب عاجز اور دوسرے بھی دوست لگے ہوئے ہیں اور بچے بھی ہاتھ بٹاتے رہتے ہیں اکثر اوقات رات کے دو تین بجے تک اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ کام ہوتا ہے“.اسی طرح حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کو اطلاع دی کہ قادیان میں ڈاک کی وصولی اور روانگی کے متعلق میں نے عزیز مرزا وسیم احمد صاحب کو مقرر کیا ہے...موقع پر شیخ مبارک احمد صاحب یا میاں ناصر احمد صاحب یا چوہدری محمد علی صاحب یا چوہدری ظہور احمد صاحب وصول کرتے ہیں اور پھر آگے میرے پاس بھجوا دیتے ہیں اور پھر میری نگرانی میں عزیز وسیم احمد صاحب کھول کر تقسیم کر وا دیتے ہیں“.(15) اس بارہ میں مزید فرمایا کہ "حتی کہ ایک دن میں نے انتہائی بے بسی کی حالت میں حضرت صاحب کو خط لکھا کہ ہمارے اردگرد خطرہ کا دائرہ بڑی سرعت کے ساتھ تنگ ہوتا جارہا ہے اور آپ کی ہدایت یہ ہے کہ کسی صورت میں بھی حکومت کا مقابلہ نہ کیا جائے (اور حکومت کا مقابلہ ہماری تعلیم کے بھی خلاف ہے اور ہماری طاقت سے بھی باہر.گو حق یہ ہے کہ اس وقت....(مفسدہ پرداز ) جتھے اور حکومت گویا ایک معجون مرکب بنے ہوئے ہیں.اور ایک کو دوسرے سے جدا رکھنا مشکل ہے ) اور آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ مومن کی جان کو حتی الوسع بچاؤ کیونکہ ضائع شدہ جائیدادیں اور سامان تو پھر بھی مل جائیں گے مگر مومنوں کی ضائع شدہ جانیں جو گو یا حضرت مسیح موعود کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودے ہیں پھر نہیں ملیں گے.تو اب مجھے بتائیں کہ میں ان ہزاروں ننگ و ناموس رکھنے والی عورتوں کے متعلق جو قادیان میں موجود ہیں، کروں تو کیا کروں.مال کے مقابل پر بیشک قیمتی جان بچائی جاسکتی ہے اور مومن کی جان واقعی بہت بڑی چیز ہے.مگر کیا میں اپنی آنکھوں کے سامنے احمدی عورتوں کے ننگ و ناموس کو خطرہ میں ڈال دوں اور سامنے سے ہاتھ نہ اٹھاؤں.حضرت صاحب نے مجھے تسلی کا خط لکھا اور بعض ہدایتیں بھی دیں اور فرمایا کہ میں ان مشکلات کو سمجھتا ہوں.مگر ادھر ہم زیادہ سے زیادہ ٹرک بھجوانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے.( گو پاکستان حکومت کے پاس ٹرک محدود ہیں اور اس نے سارے مشرقی پنجاب میں سے مسلمانوں کو نکالنا ہے ) اور ادھر تم جس طرح بھی ہو ہر ٹرک
جلد اوّل 62 تاریخ احمدیت بھارت میں زیادہ سے زیادہ عورتیں اور بچے لدوا کر انہیں جلد سے جلد باہر بھجوا دو.اور جب عورتیں محفوظ ہوجائیں تو پھر باقی معاملہ جو ہماری طاقت سے باہر ہے خدا پر چھوڑ دو.وَلِلْبَيْتِ ربُّ يَمْنَعُهُ اب لڑکوں کا حال یہ تھا کہ قادیان میں دو قسم کے ٹرک پہنچتے تھے.ایک وہ پرائیویٹ ٹرک جو بعض احمدی فوجی افسر اپنے اہل و عیال اور اپنے ذاتی سامان کو لے جانے کے لئے اپنے فوجی حق کی بناء پر حاصل کر کے قادیان لے جاتے تھے.اور دوسرے وہ جماعتی ٹرک جو جماعتی کوشش سے جماعتی انتظام کے ماتحت حکومت کے حکم سے قادیان بھجوائے جاتے تھے.جہاں تک پہلی قسم کے لڑکوں کا سوال ہے.ظاہر ہے کہ یہ پرائیویٹ چیز تھی اور مجھے یا کسی اور کو دخل دینے کا حق نہیں تھا.ان کے متعلق صدر صاحبان محلہ جات قادیان کو میری ہدایت صرف اس قدر تھی کہ اس بات کی نگرانی رکھیں کہ ان پر ائیو یٹ ٹرکوں کے اندر بیٹھ کر کوئی احمدی مرد بلا اجازت باہر نہ چلا جائے.نیز یہ کہ پرائیویٹ ٹرک والے فوجی افسر سے پوچھ لیا کریں کہ کیا اس ٹرک میں کسی زائد سواری کی گنجائش ہے، اور اگر گنجائش ہوا کرے تو مجھے بتا دیا کریں تامیں ایسے لڑکوں میں زائد احمدی عورتیں بھیجو اسکوں.اور اس طرح ہماری سکیم کی جلد تر تکمیل میں مدد ملے.چنانچہ ایسا ہوتا رہا اور جہاں تک ممکن تھا میں حکمت عملی اور سمجھوتہ کے طریق پر پرائیویٹ ٹرکوں میں بھی زائد عورتیں بھجواتا رہا.مگر ظاہر ہے کہ یہ ٹرک میرے کنٹرول میں نہیں تھے اور جہاں تک سامان کا تعلق ہے ان لڑکوں کے مالک جتنا سامان چاہتے تھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور میں اس میں دخل نہیں دے سکتا تھا.اور میں جانتا ہوں کہ بعض ایسے پرائیویٹ ٹرکوں والوں نے اپنا سارے کا سارا سامان باہر نکال لیا.مگر یہ ان کا قانونی حق تھا جس میں میں دخل نہ دے سکتا تھا.البتہ دوسرے ٹرک جو جماعتی انتظام کے ماتحت جاتے تھے.وہ بیشک کلینہ ہمارے انتظام میں تھے (سوائے اس دخل اندازی کے جو ملٹری کی طرف سے ہوتی رہتی تھی اور دن بدن بڑھتی جاتی تھی اور میں نے ایسے جماعتی لڑکوں کے لئے ایک مستعد عملہ اور کچھ اصولی ہدا یتیں مقرر کر رکھی تھیں اور ہر باہر جانے والی پارٹی کو با قاعدہ ٹکٹ ملتا تھا...جس میں باہر جانے والی عورتوں اور بچوں کی تعداد اور سامان کی مقدار درج ہوتی تھی جس کے مطابق مقررہ عملہ چیک کر کے سواریاں بٹھاتا تھا.سامان کا اصول سب پر یکساں چسپاں ہوتا تھا اور اس میں ضروریات زندگی کی چیزوں کو مقدم رکھا گیا تھا.مثلاً بستر اور پہننے کے کپڑے یا بعض صورتوں میں اقل
تاریخ احمدیت بھارت 63 جلد اول تعداد میں کھانے کے برتن وغیرہ اور پارٹی کی تعداد کے مطابق سامان میں کمی بیشی کا اصول بھی مقرر تھا.البتہ دو چیزوں کے متعلق استثناء رکھی تھی.ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرکات اور دوسرے نایاب تبلیغی یا علمی کتابیں اور بعد میں اس میں ایک تیسری چیز کا بھی اضافہ کر دیا گیا یعنی ایسی اشیاء جو کسی شخص کی روزی کا ذریعہ ہوں.مثلاً درزی کے لئے سینے کی مشین یا بڑھئی کے لئے اوزار وغیرہ.یہ اصول امیر وغریب سب پر یکساں چسپاں ہوتا تھا.گو ظاہر ہے کہ نسبتی لحاظ سے اس اصول سے غرباء کو ہی زیادہ فائدہ پہنچتا تھا بلکہ غرباء کے متعلق تو میری یہاں تک ہدایت تھی کہ صرف صدر صاحبان کی سفارش پر ہی معاملہ نہ چھوڑا جائے.بلکہ میرے دفتر کے مرکزی کارکن خود جستجو کر کے یتامی اور بیوگان اور ایسے مساکین کو تلاش کر کے میرے نوٹس میں لائیں جن کا حق ان کی غربت اور بے بسی کے سوا اور کوئی نہ ہو.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میری اس ہدایت کی وجہ سے مجھے ملک غلام فرید صاحب نے رات کے دو بجے دارالفضل سے فون کیا کہ میں نے محلہ دار البرکات میں ایک ایسی بیکس اور بے بس عورت تلاش کی ہے جس کے ٹکٹ کے لئے ابھی تک کسی نے سفارش نہیں کی.میں نے فوراً ہدایت دی کہ اسے اس کے ضروری سامان کے ساتھ دوسرے دن کے کنوائے میں بھجوا دیا جائے.الغرض جب تک میں قادیان میں رہا میں نے بلا امتیاز غریب و امیر سب کے واسطے ایک جیسا اصول رکھا.اور عموماً صدر صاحبان کی تصدیق پر فیصلہ ہوتا تھا.اور سامان کے متعلق بھی سب کے لئے ایک جیسا اصول تھا.گو یا علیحدہ بات ہے کہ بعض بے اصول لوگ چوری یا سینہ زوری کے ذریعہ زیادہ فائدہ اٹھا لیتے ہوں.مگر یہ ناگوار رخنے جن کی تعداد بہر حال کم ہوتی ہے، ہر انتظام میں ہو جاتے ہیں اور ہنگامی حالات میں تو لازمی ہوتے ہیں مگر ان زبردستی کی استثناؤں کی وجہ سے سارے نظام پر اعتراض کرنا درست نہیں.حقیقت یہی ہے کہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت جو کچھ بھی کیا گیا وہ حالات اور موقعہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بالکل درست بلکہ ضروری تھا اور یہ سب کچھ نیک نیتی کے ساتھ اپنے آپ کو دن رات انتہائی کوفت میں مبتلا کر کے خالصة لوجہ اللہ کیا گیا.مجھے یاد ہے کہ جب لاہور سے کنوائے پہنچتا تھا تو اس کی تیاری کے لئے میں اور میر اعملہ بسا اوقات رات کے تین تین بجے تک مسلسل کام میں لگے رہتے تھے اور بعض راتیں تو ہم ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں سوئے.مگر یہ ہمارا کسی پر احسان نہیں ہے بلکہ خدا کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ان خطرہ
جلد اوّل 64 تاریخ احمدیت بھارت کے ایام میں خدمت کا موقعہ دیا.ان ایام میں بعض دوست میرے پاس آتے تھے کہ ہمیں زیادہ سامان بھیجوانے کی اجازت دی جائے.میں انہیں سمجھا تا تھا کہ دیکھو اس وقت حال یہ ہے کہ خطرہ بالکل قریب آگیا ہے اور ٹرکوں کی تعداد تھوڑی ہے.اب چاہو تو احمدی عورتوں اور بچوں کی جان بچالو اور چاہو تو اپنا سامان محفوظ کر لو.اکثر دوست میرے اشارہ کو سمجھ جاتے تھے.بعض کو تاہ بین لوگ دل برداشتہ بھی نظر آتے تھے.لیکن میں مجبور تھا کہ بہر حال مومنوں کی جانوں اور خصوصاً عورتوں کی جانوں کو ( جن کی جانوں کے ساتھ ان کے ناموس کا سوال بھی وابستہ تھا) سامان پر مقدم کروں.آخر ہر ٹرک کی گنجائش اور بوجھ اٹھانے کی طاقت محدود ہوتی ہے.اگر ہم ایک ٹرک پر سامان زیادہ لاد دیں گے تو لازماً سواریاں کم بیٹھ سکمینگی اور اگر سامان کم ہوگا تو لازماسواریوں کے لئے زیادہ گنجائش نکل آئے گی.ہماری اس تدبیر کا نتیجہ عملی صورت میں بھی ظاہر ہے کہ مشرقی پنجاب کی تمام دوسری جگہوں کی نسبت قادیان میں جانی نقصان نسبتی طور پر بہت کم ہوا ہے اور اغوا کے کیس تو خدا کے فضل سے بہت ہی کم ہوئے ہیں بلکہ جہاں تک میرا اعلم ہے قادیان کے احمدی مہاجرین میں سے کوئی ایک عورت بھی اغواشدہ نہیں ہے جو ظاہری لحاظ سے ( کیونکہ اصل حفاظت تو خدا کی ہے ) اسی تد بیر کا نتیجہ تھا کہ اکثر عورتوں کو خطرہ سے پہلے نکال لیا گیا.اور جو تعداد حملہ کے وقت قادیان میں موجود تھی وہ اتنی محدود تھی کہ خطرہ پیدا ہوتے ہی ہمارے آدمی انہیں فوراً سمیٹ کر محفوظ جگہوں میں لے آئے ورنہ اگر زیادہ تعداد ہوتی تو انہیں اتنے قلیل نوٹس پر سمیٹنا ناممکن ہوتا اور ان کا اتنی محدود جگہ میں سمانا بھی ناممکن تھا.‘ (16) احمدی خواتین کی حفاظت کا شاندار کارنامہ احمدی خواتین کو قادیان سے بحفاظت پاکستان پہنچا دینا سید المصلح الموعود کا ایک شاندار پہنچادینا نا کارنامہ ہے.اس عظیم الشان اور بے مثال کارنامہ کا ایک جامع خا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم سے سطور بالا میں لکھا جا چکا ہے.جناب خواجہ غلام نبی صاحب سابق ایڈیٹر الفضل“ اس کے بعض حیرت انگیز پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی ذاتی واقفیت اور چشمد ید حالات کی بنا پر تحریر کرتے ہیں :.
تاریخ احمدیت بھارت 65 جلد اوّل قادیان کے اردگرد کے مسلمان دیہات میں....مفسدہ پردازوں) کے مظالم جب روز بروز بڑھنے لگے.لوٹ مار قتل و غارت اور آتش زنی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہونے لگا.ملٹری اور پولیس لٹیروں اور غنڈوں کی زیادہ سے زیادہ امداد کرنے اور مسلمانوں کی تباہی کو انتہا تک پہنچانے میں منہمک ہوگئی اور خطرات کا سیلاب زیادہ سے زیادہ شدت کے ساتھ قادیان کے قریب سے قریب تر پہنچنے لگا تو حفاظتی اور دفاعی انتظامات کے سلسلہ میں خواتین اور بچوں کی حفاظت کی طرف حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاص توجہ مبذول فرمائی.اور حضور کے ارشاد کے ماتحت لجنہ اماءاللہ کی کارکن خواتین نے ایسی مستورات کی فہرست تیار کی جنہیں ضعف قلب کی تکلیف یا کوئی اور عارضہ لاحق تھا تا کہ سب سے پہلے ان کو قادیان سے باہر محفوظ مقام پر پہنچانے کی کوشش کی جائے.مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ پہلے پہل اس قسم کی فہرست میں نام درج کرانے سے بہت سی ایسی خواتین نے انکار کر دیا جنہیں کوئی نہ کوئی عارضہ لاحق تھا لیکن دل مضبوط تھے.ان کی خواہش تھی جس کا انہوں نے باصرار اظہار بھی کیا کہ موت کے خطرہ سے انہیں قادیان سے باہر نہ بھیجا جائے.اگر اب موت ہی مقدر ہے، تو قادیان سے بہتر جگہ اور کونسی ہو سکتی ہے؟ پھر ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ خطرہ کے وقت ممکن خدمات سرانجام دینے کے موقع سے انہیں کیوں محروم کیا جاتا ہے.لیکن جب بتایا گیا کہ ان کی موجودگی مردوں کی سرگرمیوں میں مشکلات اور رکاوٹیں پیدا کرنے کا موجب ہوگی اور دشمن کا مقابلہ اس اطمینان اور انہماک سے نہ ہو سکے گا جو ان کے چلے جانے کے بعد کیا جاسکتا ہے تو وہ بادل ناخواستہ قادیان سے باہر جانے پر آمادہ ہو سکیں.چونکہ خواتین اور بچوں کو محفوظ طریق سے باہر بھیجنے میں سخت مشکلات در پیش تھیں.ذرائع آمد و رفت بالکل مفقود تھے.اور راستہ کے خطرات بے شمار سر کاری حفاظت میں لاریوں اور ٹرکوں کا ملنا نہایت دشوار ( تھا).ان حالات میں تجویز یہ کی گئی کہ جوں جوں ٹرک میسر آتے جائیں پہلے بیمار، کمزور اور گود میں بچہ رکھنے والی عورتوں کو لڑکیوں اور چھوٹے بچوں کو بھیجا جائے.اس کے لئے محلوں کے پریذیڈنٹوں سے فہرستیں طلب کی جائیں.اور آمدہ ٹرکوں میں گنجائش کے مطابق نہایت چھان بین اور غور و خوض کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنے دستخطوں سے ٹکٹ جاری فرماتے.اور ساری ساری رات اپنے عملہ سمیت اس کام میں مصروف رہتے.اس کا اندازہ مجھے اس سے ہوا کہ پہلی دفعہ میرے گھر کی مستورات کا ٹکٹ رات کے قریب دو بجے پہنچا مگر
جلد اوّل 66 تاریخ احمدیت بھارت بارش کی وجہ سے سوار نہ کرایا جا سکا.دوسری دفعہ بھی ٹکٹ رات کے بارہ بجے کے بعد پہنچا.جب چند ٹرک پہنچتے تو ان کی واپسی کے انتظامات شروع کر دیئے جاتے.اور روز بروز نازک سے نازک تر ہوتے جانے والے حالات کے پیش نظر اس بات کی انتہائی کوشش کی جاتی کہ زیادہ سے زیادہ عورتوں اور بچوں کو بھیجا جا سکے.اس وجہ سے کم از کم اور نہایت ضروری سامان عام طور پر پہننے کے کچھ کپڑے اور ایک آدھ بستر لے جانے کی تاکید کی جاتی.چونکہ اردگرد کے دیہات کے بے شمار پناہ گزین بھی جمع تھے.اور وہ ٹرکوں میں سوار ہونے کے لئے بے تحاشہ یورش کر دیتے تھے.اس لئے جن کو ٹکٹ دیئے جاتے ان کا سوار ہونا بہت مشکل ہو جاتا اور انتظامات میں بہت گڑ بڑ پیدا ہوجاتی.اس کے علاوہ مسلح ملٹری کی دخل اندازی مشکلات کو انتہا تک پہنچا دیتی.مگر باوجود اس کے حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے صاحبزادگان ہر قسم کی مشکلات پر غالب آنے اور خواتین کو سوار کرانے کے لئے بذات خود نہایت تندہی سے مصروف ہوتے.اس طرح یہ نہایت مشکل کام سرانجام پاسکتا تھا.لیکن جہاں دوسرے پہلوؤں سے ملٹری اور پولیس کا ظلم و تشدد بڑھتا گیا.وہاں خواتین کی روانگی میں بھی ملٹری نے انتہائی مشکلات پیدا کرنی شروع کر دیں اور بات بات میں مداخلت کرنے اور جبر و ستم کا مظاہرہ کرنے پر تل گئی.ایک دن جبکہ انتظام کے ماتحت ہمارے اپنے دس بارہ ٹرک احمدی عورتوں کو لے جانے کے لئے آئے ہوئے تھے.عورتیں اور بچے ان میں سوار ہو چکے تھے کہ ملٹری نے حکم دے دیا کہ آدھے ٹرک فوراً خالی کر دیئے جائیں.ان میں ہم اپنی مرضی سے لوگوں کو سوار کرائیں گے.اس پر جب صدائے احتجاج بلند کی گئی تو ہندو ملٹری نے سب لڑکوں پر قبضہ کر کے نہایت بیدردی اور سفا کی سے پردہ دار عورتوں اور چھوٹے بچوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر پھینک دیا.اور اس طرح ٹرک خالی کر کے لے گئی.ملٹری کے اس طریق عمل سے نہ صرف سلسلہ کے انتظام کے ماتحت اور احمدی ملٹری افسروں کی حفاظت میں آئے ہوئے لڑکوں میں سوار ہونے سے احمدی خواتین اور احمدی بیچے رہ گئے بلکہ کئی ایک کو چوٹیں بھی آئیں اور تھوڑا بہت سامان جوان کے ساتھ تھا وہ برباد ہو گیا.پھر حکومت کی طرف سے تو اس قسم کے اعلانات کئے جارہے تھے کہ پناہ گزینوں کی نہ تو تلاشی لی جاتی ہے سوائے اسلحہ کی تلاشی کے اور نہ ان سے کوئی اسباب چھینا جاتا ہے لیکن قادیان میں اس تشدد اور سختی
تاریخ احمدیت بھارت 67 جلد اول سے ایک ایک بستر اور ایک ایک ٹرنک کھول کر دیکھا جاتا اور چھان بین کی جاتی کہ کوئی کام کی چیز باقی نہ رہ جاتی اور اس میں اتنی سرگرم اور انہماک کا اظہار کیا جاتا کہ کئی بار تھوڑے تھوڑے لڑکوں کو محض اس لئے رات بھر وہیں رکنا پڑا کہ ان کی تلاشی ختم نہ ہوسکی.اس طرح عورتوں اور بچوں کو نہ صرف ساری رات کھلے میدان میں خوف وخطر کے اندر پڑے رہنا پڑا بلکہ کھانے پینے اور حوائج ضرور یہ پورا کرنے میں بھی انتہائی تکلیف اٹھانی پڑتی.عورتیں اور بچے صبح کے 5،4 بجے ٹرکوں پر سوار ہونے کے لئے گھروں سے نکل کر مقررہ جگہوں پر جمع ہونے شروع ہو جاتے اور پناہ گزینوں کے بے پناہ ہجوم کی وجہ سے بڑی مشکلوں سے منتظمین جن میں زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے صاحبزادگان ہوتے سوار کر اسکتے.ابتدائی ایام میں دھوپ میں کافی حدت تھی.جب عورتیں بچے لڑکوں میں کھچا کھچ بھر جاتے تو پھر ٹرک ملٹری کے احکام کی انتظار میں دھوپ میں کھڑے رہتے.آخر خدا خدا کر کے چلتے تو تلاشی کی خاطر ریلوے لائن کے قریب کھلے میدان میں ان کو روک دیا جاتا.پھر اس بری طرح ایک ایک چیز کو کھولا اور بکھیر ا جاتا کہ باقی بچی کچھی اشیاء کا سمیٹنا بھی سخت مشکل ہو جاتا.خاص کر اس لئے کہ عام طور پر صرف مستورات اور بچے جا رہے ہوتے مرد ان کے ساتھ نہ ہوتے.اس طرح اس قدر دیر ہو جاتی کہ قافلہ روانہ نہ ہوسکتا اور اسی جگہ عورتوں اور بچوں کو ایسی حالت میں رات گزارنی پڑتی جبکہ ایک طرف غنڈے....(مفسدہ پردازوں ) اور ملٹری و پولیس سے شدید خطرہ میں گھرے ہوتے اور دوسری طرف بھوک پیاس اور دن بھر کی کوفت سے نڈھال ہو رہے ہوتے اس قسم کے دو قافلے مجھے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا.ہمارے نوجوانوں نے ان گرفتاران مصیبت کو کھانا اور پانی پہنچانے کی پوری کوشش کی اور خدا تعالیٰ نے خاص فضل یہ کیا کہ ان دونوں قافلوں کے ساتھ مسلمان ملٹری جن میں ہمارے احمدی نوجوان بھی شامل تھے کافی تعداد میں کافی اسلحہ کے ساتھ موجود تھی اور اس نے حفاظت کا پورا پورا حق ادا کیا.آخری قافلہ جس میں ہزاروں عورتیں اور بچے شامل تھے بہت بڑا قافلہ تھا اور انچارج ایک نہایت فرض شناس انگریز افسر تھا.اس کے قافلہ کے دس ٹرک غیر مسلم پناہ گزینوں کو گورداسپور لے کر گئے تھے اور ان کو حکم تھا کہ گورداسپور سے خالی ٹرک لے کر بڑے کنوائے کے ساتھ قادیان آملیں تا کہ ان پر بھی قادیان سے عورتوں اور بچوں کو سوار کرایا جائے.لیکن جب ٹرک وقت
تاریخ احمدیت بھارت جلد اوّل 68 مقررہ کے بعد بھی قادیان نہ پہنچے تو مذکورہ بالا فرض شناس انگریز خود جیپ کار پر سوار ہو کر گورداسپور گیا اور وہاں سے خالی ٹرک ساتھ لے کر قادیان پہنچا.معلوم ہوا کہ گورداسپور کے افسر خالی ٹرک واپس نہیں آنے دیتے تھے بلکہ وہاں سے ہی لوگوں کو سوار کر کے بھیجنا چاہتے تھے.مگر اس انگریز افسر کی کوشش کامیاب ہوئی اور وہ اپنے ساتھ خالی ٹرک لے کر قادیان پہنچا اور ان پر عورتوں اور بچوں کو دوسرے دن سوار کرایا.قادیان کے حالات چونکہ اسے بھی بیحد خطر ناک نظر آ رہے تھے.ہر طرف تباہی و بربادی پھیلی ہوئی تھی.....(مفسدہ پردازوں) کے مسلح جتھے ادھر ادھر منڈلا رہے تھے.ملٹری اور پولیس بھی قابل اعتماد نظر نہ آتی تھی.اس لئے اس نے ضروری سمجھا کہ ہزاروں عورتیں اور بچے جن کی حفاظت کا فرض اس پر عائد ہو چکا ہے.ان کی حفاظت اور سلامتی کے لئے ہر ممکن کوشش اور انتظام کرے اور کہنا پڑتا ہے کہ جہاں تک ظاہری کوشش اور سامان کا تعلق ہے اس نے نہایت ہوشیاری اور عقلمندی سے یہ فرض ادا کیا.سو کے قریب ملٹری ٹرک تھے جن کو دائرہ کی شکل میں کھڑا کر دیا اور اندر کی طرف ہر ایک کی سواریوں کو اتار کر آرام کرنے کے لئے کہہ دیا.باہر کی طرف کڑا پہرہ قائم کر دیا.اس کے علاوہ قریب قریب کے مکانوں پر مضبوط پلٹیں قائم کر دیں.افسروں کو نگرانی پر کھڑا کر دیا.خود بھی مسلح کار پر چکر لگاتار ہا.ملٹری جو قریباً ساری کی ساری احمدی نوجوانوں پر مشتمل تھی ، بڑے سے بڑے خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ساری رات بالکل تیار رہی.اس طرح رات امن اور خیریت سے گزرگئی اور صبح کو قافلہ روانہ ہو گیا.یہ اس قافلہ کا ذکر ہے جس میں قادیان کی تمام عورتیں اور بچے آخری بار روانہ ہو گئے.اس سے قبل پرائیویٹ لا ریوں کا ایک اور کنوائے ملٹری کی حفاظت میں اس وقت پہنچا تھا جبکہ ابھی قادیان میں رہنے والوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالا گیا تھا اس پر سوار ہونے والوں پر بھی انتہائی تشدد کیا گیا.ابھی وہ کنوائے رکا ہی ہوا تھا کہ اگلے دن صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب میجر ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی سرکردگی میں چند ملٹری پر مشتمل ایک اور کنوائے پہنچ گیا.جب یہ کنوائے تیار ہو کر اس جگہ پہنچا جہاں ہندوستانی ملٹری تلاشی لیتی تھی تو پہلا کنوائے وہیں رکا پڑا تھا.اور ملٹری کی مار دھاڑ کا شکار ہورہا تھا.اس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب نے عورتوں اور بچوں کی سہولت کی خاطر اپنے رتبہ اور درجہ کی کوئی پروانہ کرتے ہوئے ایک ایسا طریق اختیار کیا جو نہایت کامیاب ثابت ہوا.اور ان کے زیر حفاظت کنوائے تھوڑی دیر کے بعد ہی روانہ ٹرکوں پر
تاریخ احمدیت بھارت 69 جلد اوّل ہو گیا.اس وقت موقعہ پر تلاشی لینے والا بڑا افسر موجود نہ تھا.وہ گورداسپور گیا ہوا تھا اور انچارج صاحبزادہ صاحب کے مقابلہ میں کوئی بہت چھوٹے درجہ کا افسر تھا.میں نے دیکھا صاحبزادہ صاحب نے بے تکلفانہ گفتگو کرتے ہوئے اپنا بازو اس کی کمر میں ڈال دیا.اسے ساتھ لئے ہوئے ادھر ادھر ٹہلنے لگے اور وہ آپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگا.آپ کی یہ ادا دیکھ کر میرا دل خوشی اور مسرت سے بھر گیا کہ حضرت مسیح موعود کی اولاد ہمارے لئے کیا کیا کوشش کر رہی ہے.چند ہی منٹ بعد آپکے کنوائے کو بغیر تلاشی لئے روانگی کی اجازت مل گئی اور اس طرح آپ نے حسین تدبیر سے خواتین اور بچوں کو بڑی تکلیف سے بچالیا بحالیکہ آپ سے پہلے آنے والا قافلہ اس دن بھی نہ جاسکا جو اگلے دن روانہ ہوا.ٹرکوں میں سوار ہونے کے سلسلہ میں عورتوں کو ایک بڑی تکلیف یہ بھی در پیش تھی کہ ہندو ملٹری کا قریباً ہر سپاہی اور افسر چند ایک بیرونی پناہ گزین مردوں اور عورتوں کو اپنے ساتھ لگائے پھرتا اور ہر ٹرک میں جو پہلے ہی عورتوں اور بچوں سے لبالب بھرا ہوتا نہ صرف عورتوں کو بلکہ مردوں کو بھی زبردستی ٹھونسنا چاہتا اور با وجود بار بار صدائے احتجاج بلند کرنے کے ٹھونس کر ہی رہتا.یہ کون لوگ تھے ، وہی خانماں برباد جواپنی رہی سہی پونجی ان بھیڑیوں کی نذر کر دیتے تا کہ جان بچا کر ان کے نرغہ سے نکل سکیں.ان ہولناک اور تباہ کن ایام میں جبکہ مشرقی پنجاب کے ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک لاکھوں مسلمان انتہائی مظالم کا شکار ہو رہے اور سفاکوں کے ظلم وستم سے بچنے اور اپنے تنگ و ناموس کو بچانے کی کوئی صورت نہ پاتے تھے.چنانچہ اب تک لاکھوں ہی موت کے گھاٹ اتر چکے اور لاکھوں ابھی تک مخلصی پانے کا کوئی ذریعہ میسر نہ آنے کی وجہ سے موت کے پنجہ میں گرفتار ہیں.یہ انتظامات...، قادیان سے ہزاروں عورتوں اور بچوں کو صحیح سلامت نکال لانے کے انتظامات...خواتین کے ننگ و ناموس اور عزت وحرمت کو محفوظ رکھنے کے یہ انتظامات...حضرت امیر المومنین خلیفہ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی دن رات کی ان کوششوں اور مساعی کا ہی نتیجہ ہے جنہیں خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے شرف قبول بخشا اور جن کی کامیابی کی مثال ، جان و مال عزت و آبرو کی تباہی کے اس غیر معمولی سیلاب میں اور کہیں نہیں مل سکتی.اور جب یہ دیکھا جائے کہ ہمارے راستہ میں جس قدر مشکلات حائل تھیں.ہمارے مقابلہ میں رکاوٹوں کے جس قدر پہاڑ کھڑے تھے اور ہم بے سروسامانی کی جس حد کو پہنچے ہوئے تھے اس کی
جلد اوّل 70 تاریخ احمدیت بھارت مثال بھی کسی اور جگہ نہیں مل سکتی تو اس کامیابی اور کامرانی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے.(17) اپنے اسی مضمون میں خواجہ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ نے بیحد و حساب مشکلات اور رکاوٹوں کے دوران میں قادیان کے ہزاروں بچوں عورتوں اور مردوں کو قادیان سے نکالنے کا جو انتظام فرمایاوہ اتنا شاندار اور اس قدر کامیاب تھا کہ اس کی مثال سارے مشرقی پنجاب میں اور کہیں نہیں مل سکتی.اس انتظام کی کامیابی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس کی پابندی کرنے والے اور اس کے ماتحت قادیان سے آنے والے ہزار ہا نفوس میں سے خطرات اور خدشات سے پر طویل راستہ میں نہ تو کوئی ایک بھی تنفس ضائع ہوا اور نہ ظالم اور جفا کار....(مفسدہ پردازوں) کے ہاتھ پڑا.حالانکہ راستہ تو الگ رہا خود قادیان میں ہندو فوج ، ہند و پولیس اور....(مفسدہ پرداز ) لٹیروں اور قاتلوں کے جتھوں کی یہ حالت تھی کہ جس کو چاہتے بے دریغ اور بلا وجہ گولیوں کا نشانہ بنا دیتے.جسے چاہتے بلا خوف و خطر لوٹ لیتے اور دن دہاڑے دیہاتی پناہ گزینوں کے مجمع میں گھس کر عورتوں کو اٹھالے جاتے اور مزاحمت کرنے والوں کو گولیوں یا کر پانوں سے موت کے گھاٹ اتار دیتے.ان حالات میں کئی دنوں تک گھری ہوئی قادیان کی احمد یہ جماعت کی ہزاروں عورتوں، بچوں اور مردوں کو ایک بھی جان کے ضائع یا گم ہونے کے بغیر درندہ صفت دشمنوں کے پنجہ ستم سے نکال کر صحیح و سلامت منزل مقصود تک لے جانا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے.میں تو قادیان میں بیٹھا ہوا جوں جوں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس انتظام کو اور اس کی کامیابی کو دیکھتا اس کی مثال ڈھونڈھنے سے قاصر ہوتا جاتا.میرے دماغ میں موت اور تباہی کے نہایت وسیع طوفان سے انسانوں کو بچا کر محفوظ مقام پر پہنچانے کی بڑی سے بڑی مثال ڈنکرک کے واقعہ کی آئی جبکہ گزشتہ جنگ عظیم کے دوران میں انگریزی اور ہندوستانی بہت بڑی سپاہ اس مقام پر جرمنی کی قہرمانی فوجوں کے گھیرے میں گھر گئی تھی اور انگریزوں نے اپنی تمام مساعی اس کو نکال کر لے جانے میں صرف کر دی تھیں.آخر بہت بڑا جانی و مالی نقصان برداشت کر کے جس قدر جانوں کو بھی انگریز بچا کر لے جانے میں کامیاب ہوئے اسے بہت بڑا کارنامہ سمجھا گیا اور فی الواقعہ یہ بڑا شاندار کارنامہ ہی تھا.لیکن میری نگاہ میں قادیان سے بچوں ،عورتوں اور آخر میں مردوں کو موت کے منہ سے نکال کر لے جانے کا واقعہ اس سے بھی بڑھ کر شاندار اور اہم ہے کسی
تاریخ احمدیت بھارت 71 جلد اول خوش فہمی کی بناء پر نہیں بلکہ دلائل کی بناء پر سنئے (1) ڈنکرک میں وقتی طور پر بیشک دشمن کو غلبہ حاصل ہو گیا تھا.اور اس کی طاقت زیادہ تھی مگر باوجود اس کے مقابلہ میں انگریز بھی بالکل بے دست و پا نہ تھے.ان کے پاس بھی جنگ کا ہر قسم کا سامان موجود تھا.جسے حتی الامکان انہوں نے استعمال کیا اور اس سے انہیں بچ کر نکلنے میں بڑی مددملی.لیکن یہاں یہ حالت تھی کہ ادھر تو....(مفسدہ پردازوں) کے پاس بندوقیں مشین گئیں، برین گنین اور بم تک تھے.لیکن ادھر احمد یوں کے پاس لاٹھیاں بھی نہ تھیں اور الفاظ کے اصل مفہوم کے مطابق وہ بالکل خالی ہاتھ تھے.ا پھر وہاں تو نرغے سے نکالنے کے بیسیوں ذرائع ان کے پاس تھے.ہر قسم کے جہاز ، کشتیاں وغیرہ لیکن یہاں اس لحاظ سے بھی کچھ نہ تھا.ہماری ذاتی اور سلسلہ کی کاریں اور ٹرک چھین لئے گئے.گھوڑے، خچریں، گدھے تک....( تخریب کار) ڈاکو دن دہاڑے جبر آلے گئے.باہر سے آئے ہوئے پناہ گزینوں کے گڑوں کے بیل ملٹری اور پولیس بندوقوں کے ذریعہ ہتیا کر لے گئی.غرض قادیان میں رہنے والوں کی نقل و حرکت کے نہایت معمولی سے معمولی ذرائع کا بھی خاتمہ کر کے انہیں مکمل طور پر نرغہ میں لے لیا گیا.ڈنکرک سے انگریزی اور ہندوستانی فوجوں کو نکالنے کا بیڑا ایک عظیم الشان حکومت نے اٹھایا تھا.اور یہ انتظام ایک وسیع سلطنت کے ہاتھ میں تھا.لیکن قادیان کی جماعت احمدیہ کے بچوں، عورتوں اور مردوں کو سیلاب بلا سے بچانے کا کام انگلیوں پر گنے جاسکنے والے چند افراد کے کمزور اور نحیف ہاتھوں میں تھا.وہاں نرغے سے نکلنے والے جانباز جنگ جو اور بہادر سپاہی تھے جو جنگ کی صعوبتیں جھیلنے کے عادی اور خطرات میں سے گزرنے کے عادی تھے.لیکن یہاں زیادہ تر کم بن حتی کہ دودھ پیتے بچے، پردہ میں رہنے والی خواتین ، بیمار اور کمز ور عورتیں اور مرد تھے جن کا اس قسم کے مصائب اور مشکلات میں سے گزرنا تو الگ رہا کبھی ان کے خیال میں بھی نہ آیا تھا.ڈنکرک سے بچ کر جانے والوں کے لئے ان کا اپنا وطن اور اپنا ملک الفت اور محبت کی گود پھیلائے اور اپنے ہم وطن اور عزیز اپنے سر آنکھوں پر بیٹھانے کے لئے موجود تھے.لیکن قادیان سے سب کچھ لٹا کر آنے والوں کے لئے ایک محد و دسی جگہ مہیا ہوسکتی تھی.
جلد اوّل 72 تاریخ احمدیت بھارت وہاں سے نکل کر آنے والوں کے لئے ہر قسم کے آرام و آسائش کے سامان با افراط مہیا تھے.لیکن یہاں بیٹھنے تک کے لئے جگہ کا میسر آنا بھی مشکل تھا اور کھانے پینے کے انتظامات میں شدید مشکلات حائل تھیں.باوجود ان تمام مشکلات کے حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ایسا انتظام فرمایا کہ تمام کے تمام بچے، تمام کی تمام خواتین اور تمام کے تمام مرد بغیر کسی استثناء کے بخیر و عافیت اس سیل بلا سے نکل آئے.راستہ کے تمام خطرات کو کامیابی سے عبور کر کے نکل آئے اور کسی ایک جان کے نقصان کے بغیر ہزاروں انسان نکل آئے.حالانکہ وہ مسلسل ایک لمبے عرصہ تک گھروں پر رہتے ہوئے خوف وخطر میں گھرے رہے.پھر گھروں سے باہر نکالے جانے کے بعد کئی دنوں تک جان اور آبرو کے خطرہ میں مبتلاء رہے دشمنوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ خطرات اور مصائب سے بچ کر نکلنے کے تمام راستے مسدود کر دے.پھر ہزاروں بچوں اور عورتوں کو قادیان کی آخری رات کھلے میدان میں....ملٹری اور پولیس اور گردونواح کے ڈاکو اور لٹیرے....(مفسدہ پردازوں) کے شدید نرغہ میں گزارنی پڑی.پھر رستہ کا چپہ چپہ خطرات سے پر تھا اور جابجا ظالم اور کمینہ صفت دشمنوں کے مظالم کے نشانات قبروں کی شکل میں موجود تھے لیکن خدا تعالیٰ نے حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ذریعہ جماعت پر اتنا عظیم الشان فضل کیا کہ اس نے ان تمام خوفناک مراحل کو بخیریت عبور کرلیا.‘ (18) قادیان سے عورتوں اور بچوں کا بحفاظت نکالا جانا حضرت مصلح موعود کا ایک عظیم کارنامہ اس سے قبل جو واقعات آپ نے پڑھے اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ قادیان کی احمدی خواتین اور احمدی بچوں کا بحفاظت نکالا جانا سید نا اصلح الموعود کا ایک عظیم کارنامہ ہے جو دنیا میں ہمیشہ یادگار رہے گا.حضور فرماتے ہیں:.لمصلہ ”ہمارا قادیان سے آنا ہی لے لو.میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ اسی وجہ سے ٹھوکریں کھا رہے ہیں.حالانکہ اس حادثہ کی وجہ سے ہمارے ایمان تو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں.اول تو جس
تاریخ احمدیت بھارت 73 جلداول رنگ میں ہماری قادیان کی جماعت کے افراد دشمن کے حملوں سے محفوظ رہ کر پاکستان پہنچے ہیں، اس کی نظیر مشرقی پنجاب کی کسی اور جماعت میں نہیں ملتی.جس طرح ہماری عورتیں محفوظ پہنچی ہیں ، جس طرح ہمارے مرد محفوظ پہنچے ہیں اور جس طرح بیسیوں لوگوں کے سامان بھی ان کے ساتھ آئے ہیں.اس کی کوئی ایک مثال بھی مشرقی پنجاب میں نظر نہیں آسکتی.نہ لدھیانہ کے قافلوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے ، نہ جالندھر کے قافلوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے اور نہ فیروز پور کے قافلوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے.لدھیانہ اور جالندھر کے قافلوں کے ساتھ فوجیں تھیں.حفاظت کا سامان تھا مگر پھر بھی ان میں سے ہزاروں لوگ مارے گئے.لیکن قادیان کے لوگوں کے ساتھ کوئی فوج نہیں تھی.پھر بھی وہ سب کے سب سلامتی کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے.پس اول تو یہی کتنا بڑا نشان ہے کہ ہزاروں افراد کی جماعت قادیان سے نکلی.اور سلامتی کے ساتھ یہاں پہنچ گئی.کوئی ایک مثال بھی تو پیش نہیں کی جاسکتی جس میں اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک اور مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہو.پھر چاہے بعض کو ٹھوکریں لگیں.مگر یہ کتنا بڑا انشان ہے کہ ہماری انجمن کا اتنا بڑا محکمہ قادیان سے اٹھ کر لا ہور آ گیا اور یہاں آتے ہی چالو ہو گیا.گورنمنٹ محکموں کے سوا کوئی ایک مثال ہی بتائی جائے کہ کسی جماعت کے وہاں اس قدر محکمے ہوں اور پھر وہ اسی طرح آتے ہی چل پڑے ہوں جس طرح پہلے چل رہے تھے.یہ تو بالکل الہ دین کے چراغ والی بات ہو گئی جس طرح اس چراغ سے آنا فانا ایک محل تیار ہو جا تا تھا.اسی طرح یہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہوا کہ قادیان سے احمدیت اٹھی اور لاہور میں آکر قائم ہوگئی اور قائم بھی ایسی شان سے ہوئی کہ آج دنیا میں احمدیت کا نام جس قدر بلند ہے.جس قدر عظمت اسے حاصل ہے یہ بلندی اور عظمت اس سے بہت زیادہ ہے جو اسے قادیان میں حاصل تھی“.(19) سیدنا ا ید تا مصلح الموعود کی جانب سے قافلوں کی حفاظت کے لئے صدقہ کا انتظام یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ حضرت مصلح موعود بے شک قادیان کی آبادی کو پاکستان منتقل کرنے کے لئے مادی ذرائع کو کام میں لاتے.مگر دراصل آپ کا کامل توکل اور انحصار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا.یعنی آپ مسلسل لاہور سے کنوائے بھی بھیجوانے کا انتظام فرماتے اور ساتھ ہی دعاؤں
جلد اوّل 74 تاریخ احمدیت بھارت اور صدقات پر بھی زور دیتے تھے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.میں جب قادیان سے آیا ہوں تو میں نے خیال کیا کہ جو لوگ وہاں بیٹھے ہیں ان کے لئے صدقہ دیتے رہنا چاہیئے.چنانچہ جب تک آخری قافلہ نہیں آیا میں پچیس روپیہ روزانہ صدقہ دیتا تھا اور یہ ساڑھے سات سو ماہوار بنتا ہے.جب قافلے آگئے اب سو روپے ماہوار صدقہ دیتا ہوں تا خدا تعالیٰ وہاں کے رہنے والوں کو محفوظ رکھے.“ (20) قادیان اور اس کے گرد و نواح میں بربریت کی خود ساختہ وجہ تاریخ احمدیت کے مطالعہ کرنے والا طبقہ زیادہ تر ان نو جوانوں پر مشتمل ہے جسے تقسیم ملک کے حالات کا علم نہیں.اور ان کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو ناقدرتی ہے کہ آخر اس بربریت و وحشت کی وجہ کیا تھی؟ اس سوال کے جواب کا اختصار یہ ہے کہ مورخہ 20 فروری 1947ء کو برطانوی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ جون 1948ء میں ملک کے اختیارات ہندوستانیوں کے سپر د کر دیں گے.مگر حالات نے انہیں اتنا مجبور کر دیا کہ انہوں نے 15 اگست 1947ء کو ہی ہندوستان کی آزادی کا اعلان کر دیا.مورخہ 3 رجون 1947ء کو مؤنٹ بیٹن سکیم کا اعلان ہندوستان کی تقسیم کے بارے میں ہو گیا.10 جون 1947ء کو بنگال اور 23 جون 1947ء کو پنجاب کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا.چنانچہ پنجاب کے دو حصے ہو گئے ، مغربی حصہ پاکستان اور مشرقی حصہ ہندوستان میں شامل کر دیا گیا.مشرقی حصے سے مسلمانوں کو زبر دستی ان کے گھروں سے نکالنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا.ان کے گھر و جائیداد پر قبضے شروع ہو گئے ، ان کے مال زیورات لوٹ لئے گئے اکثر کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا.لڑکیوں وعورتوں کو اغوا کیا جانے لگا.اتنی دہشت پیدا کر دی گئی کہ مسلمان سب کچھ چھوڑ کر پاکستان بھاگنے لگے.اسی طرح مغربی حصے سے ہندؤں اور سکھوں کو مشرقی حصے کی طرف زبر دستی روانہ کیا جانے لگا.قادیان میں افراد جماعت احمدیہ پر مظالم کے پہاڑ توڑے جانے لگے.انہیں مجبور کیا جانے لگا کہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی طرح وہ بھی اپنے شہر ( قادیان) چھوڑ کر چلے جائیں.جب کہ جماعت احمدیہ کا مؤقف یہ تھا کہ قادیان حضرت بانی جماعت احمدیہ کا مولد ہمسکن و مدفن ہے اس میں جماعت کے
تاریخ احمدیت بھارت 75 جلد اول مقدس تاریخی مقامات ہیں.حضرت بانی جماعت احمدیہ کے آباؤ اجداد نے تقریباً چار صدیاں قبل قادیان کی بنیاد رکھی، اسے آباد کیا اس زمانے میں یہ علاقہ جنگل و بیابان تھا.کوئی انسانوں کی آبادی یہاں نہ تھی.(اس وقت سے لے کر اب تک خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس میں مقیم اور رہائش پذیر ہے درمیان میں کچھ عرصہ کے لئے اس خاندان کے افراد کو بیگو وال جانا پڑا مگر ملکیتی حقوق اور آمد و رفت کا سلسلہ برقرار رہا.بایں وجہ جماعت یہاں سے ہرگز نہیں جاسکتی اور اسے کسی صورت میں خالی نہیں کر سکتی.نیز جماعت کی قادیان میں اکثریت ہے.اسے کہیں اور منتقل کرنا ممکن نہیں ہے.مگر اس وقت کی حکومت اس مؤقف کو تسلیم کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھی.ان کے بعض ذمہ داران نے دہشت گرد عناصر کو انخلاء قادیان کے لئے تیار کیا.وہ احمدیوں کو بزور شمشیر ان کے آبائی گھروں سے نکالنے مال و اسباب لوٹنے اور جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے لئے گھات لگائے بیٹھے تھے.جماعت سے بلاوجہ کا بغض وعناد ر کھنے والے گروہوں اور ابن الوقت اور منافقانہ خصلت رکھنے والوں نے حملہ آوروں کی راہنمائی اور خفیہ مدد کے لئے اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور وہ اس میں پیش پیش تھے.تا کہ مال و اسباب کی لوٹ مار میں ان کا بھی وافر حصہ ہو.خدا تعالیٰ کی طرف سے فسادات کے ایام میں احمدیوں کے ساتھ دوسروں کی نسبت امتیازی سلوک دو تاریخ احمدیت میں درج ہے کہ :.ماہ اگست 1947ء میں قتل و غارت کا جو بازار گرم ہوا تھا وہ ماہ ستمبر میں انتہا کو پہنچ گیا.لاکھوں مسلمان چھوٹے یا بڑے ڈیروں میں یا تو دہشت زدہ ہو کر سکڑے بیٹھے تھے یا سڑکوں پر پاکستان کا رُخ کئے جارہے تھے.ظلم وستم کی حد یہ تھی کہ وہ ظالم حملہ آور جنہوں نے ان کے گاؤں جلائے.ان کی عورتوں کو بے آبرو کیا اور بچے کھچے بدنصیبوں کو بھگا دیا ، اب بھی ان کا تعاقب کر کے ان کو رستے ہی میں تہ تیغ کر رہے تھے......نہایت مستند واقعات کی روشنی میں ان حملوں کا ذکر ہے جو انبالہ، جالندھر، امرتسر ، فیروز پور اور جالندھر کے پیدل قافلوں پر کئے گئے اور جن میں بے شمار جانیں ضائع
جلد اول 76 تاریخ احمدیت بھارت ہو ئیں.بہت سے مسلمان جن میں شیر خوار، کم عمر بچے اور بوڑھی عورتیں اور مرد شامل تھے، آتشین اسلحہ برچھیوں....سے شدید زخمی ہوئے.اگر چه مشرقی پنجاب کے دوسرے مسلمانوں کی طرح احمد یوں کو بھی اس قیامت صغریٰ سے دو چار ہونا پڑا اور واہگہ سے لیکر دہلی تک کا علاقہ ان کے لئے میدان کرب و بلا بن گیا.مگر خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت اور حفاظت کا ہاتھ ہر جگہ ان کے لئے کارفرمارہا.چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ (چند مستثنیات کے سوا) جہاں خدا کے فضل و کرم سے احمدی خواتین کا دامن عصمت و حرمت ،منگ انسانیت ، ظالموں اور بد سگالوں کی چیرہ دستیوں سے بالکل محفوظ رہا وہاں جماعت احمدیہ کا جانی نقصان بھی نسبتاً بہت ہی کم ہوا.اکثر و بیشتر جماعتیں پیدل یا فوجی ٹرکوں یا گاڑیوں میں بحفاظت پاکستان پہنچیں.بعض جماعتوں (مثلاً کپورتھلہ وغیرہ) کی نسبت افواہ پھیل گئی کہ ان کے اکثر افراد مار دیئے گئے ہیں مگر تحقیقات سے معلوم ہوا کہ صرف ایک احمدی شہید ہوا ہے ( اور قادیان اس کے مضافات ہر وعہ اور دہلی وغیرہ کے سوا) چند ہی ایسی جماعتیں ہوں گی جس کے دو تین حد چار سے زیادہ احمدیوں کو سانحہ شہادت پیش آیا ہو (21) قادیان سے ”لوائے احمدیت کالا ہور منتقل کیا جانا قبل اس کے کہ ہم آگے رونما ہونے والے حالات پر روشنی ڈالیں یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ کس طرح قادیان سے ”لوائے احمدیت ، اور قادیان میں موجود لوگوں کی ذاتی امانتوں، دفاتر کا عملہ، ریکار ڈ اور دستاویزات لا ہور منتقل کئے گئے.سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی ہجرت کے تیسرے دن یعنی 3 ستمبر 1947ء کو حضرت مرزا عزیز احمد صاحب نائب ناظر اعلیٰ قادیان نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے امیر مقامی قادیان کی خصوصی ہدایت پر " لوائے احمدیت کا بکس لاہور بھجوادیا.یہ یادگار بکس مکرم مرزا عبد الغنی صاحب محاسب صدر انجمن احمد یہ قادیان سے لاہور لائے تھے.(22)
تاریخ احمدیت بھارت 77 جلد اول احباب کی ذاتی امانتوں کالا ہور منتقل کیا جانا لا ہور ہجرت کے بعد سید نا حضرت الصلح الموعود کو ایک فکر یہ بھی تھی کہ کس طرح قادیان میں موجود لوگوں کی ذاتی امانتوں کو لاہور منتقل کیا جائے.چونکہ حالات ایسے نہ تھے کہ بآسانی یہ کام ممکن ہو سکے.پنجاب کو فسادات کی آگ نے گھیر رکھا تھا.حالات نہایت مخدوش اور راستہ نہایت پر خطر.ایسے میں لوگوں کی امانتوں کو قادیان سے لاہور منتقل کرنا محالات میں سے تھا.مگر اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور حضور کی خصوصی توجہ کی بدولت مؤرخہ 20 ستمبر 1947ء کولوگوں کی امانتیں قادیان سے لاہور منتقل کرنے میں کامیابی مل گئی.اور یہ خدمت حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی نے انجام دی.اس ایمان افروز واقعہ کی تفصیل حضرت شیخ صاحب مرحوم کے قلم سے یہاں درج کی جاتی ہے:.اگست 1947ء میں تقسیم ملک ہوئی اور قادیان سے نکلنے کا سامان ہونے لگا.یہ بڑی مصیبت کے دن تھے.مگر خدا تعالیٰ نے ہمارے دلوں پر اپنی رحمت کے مرہم کا پھاہارکھا.حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی لاہور تشریف لے گئے اور وہاں سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو (جو قادیان میں بحیثیت امیر تمام امور کے منتظم تھے) پیغامات بھیجے کہ قادیان میں جولوگوں کی امانتیں ہیں لاہور بھجوائی جائیں.اس پر حضرت مدوح نے مجھے حکم دیا کہ میں وہ امانتیں لاہور لے جاؤں.ان دنوں حضرت خلیفہ اسیح لاہور سے ٹرک بھجوایا کرتے تھے.جن میں قادیان کے مستورات اور بچے لاہور جاتے تھے مگر ان ٹرکوں میں لاہور جانا کارےداردوالا معاملہ تھا.قادیان کے غیر احمدی لوگ بڑا بڑا کرایہ دے کر ٹرک والوں سے جگہ لے لیتے تھے اور بہت سے احمدی جگہ نہ پا کر واپس آجاتے تھے.یہی حالت میری تھی.میں صبح کو امانتوں کے ٹرنک دفتر سے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی کوٹھی پر لاتا.جگہ نہ ملی تو شام کو واپس خزانہ صدر انجمن میں لے جاتا.آخر 20 ستمبر کو مجھے جگہ مل گئی اور میں یہ ٹرنک لے کر قادیان سے روانہ ہوا.جب ہم قادیان سے ایک میل باہر آئے تو اس چھ بسوں والے قافلہ کو روکا گیا اور سامان اور ٹرنک وغیرہ چیک ہونے کا انتظار کرنا پڑا.اتنے میں میاں روشن دین صاحب زرگر میرے پاس آئے اور منت سماجت سے کہنے لگے کہ یہ میرا پارسل لاہور لے جائیں.اس میں سونے کی تین سلاخیں ہیں.میں نے مان لیا اور ان کا پارسل اپنے کیش بکس میں رکھ لیا.اتنے میں ایک ڈوگرہ لیفٹیننٹ آ گیا اور سامان چیک کرنے لگا.اس نے مجھ سے پوچھا کہ اس کیش بکس میں کیا رکھا ہے.میں نے کہا
جلد اوّل 78 تاریخ احمدیت بھارت کہ مجھے ایک شخص نے یہ کہہ کر پارسل بطور امانت دیا ہے کہ اس میں تین سلاخیں سونے کی ہیں.اس نے پارسل کھولا اور میری طرف مخاطب ہو کر کہا یہ دیکھ لی میں آپ کی سونے کی سلاخیں آپ کو واپس دے رہا ہوں“.اور پھر بس کے اندر دوسرے سامان کو چیک کرنے لگا.اس میں فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے جستی ٹرنک اور بڑے بڑےصندوق تھے.ان میں کتابیں ہی کتابیں تھیں.وہ جس صندوق کو کھولتا اوپر سے نیچے تک چیک کرتا کہ کتابوں کے علاوہ کوئی اور چیز اسلحہ وغیرہ تو نہیں.جب وہ دو تین ٹرنک دیکھ چکا اور اس کو اطمینان ہو گیا تو میری طرف آیا اور جہاں میرے والے امانتوں کے جستی ٹرنک تھے ان کو دیکھ کر از خودہی کہنے لگا یہ بھی ریسرچ کا ہی سامان ہے اور اس نے قافلہ کو جانے کی اجازت دے دی.بسیں روانہ ہوئیں.میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.کیونکہ میرے ساتھ جو امانت کے ٹرنک جارہے تھے ان میں لاکھوں روپے کی ڈبیاں اور پارسل تھے.کسی کے زرو جواہر کسی کے زیورات کسی میں پونڈ وغیرہ واللہ اعلم کیا کچھ نہ تھا.اور اگر اس افسر کو شبہ بھی ہو جاتا کہ ان ٹرنکوں میں لاکھوں کا مال ہے تو وہ ضرور روک لیتا اور ٹرنک کھلواتا اور اندر سے ہر ایک ڈبا کھولتا تو خدا جانے وہ لالچ میں آکر کہتا کہ ہم جانے نہیں دیں گے.بھارت سرکار کور پورٹ ہوگی.اگر سرکار نے اجازت دی تو یہ مال جائے گا ورنہ نہیں.یہ ایسی مصیبت تھی جس کے تصور سے ہی میری جان پر بن جاتی تھی کہ کسی کو میری بات کا یقین کیسے آئے گا کہ یہ مال فلاں نے لے لیاہے نہ مجھے کوئی رسید دی جائے گی نہ کوئی اور صورت اطمینان کی ہوگی.مگر میں اپنے خدا پر قربان جاؤں کہ حضرت خلیفہ اسیح کی توجہ سے یہ مشکل یوں ہل ہوئی کہ فوجی افسر نے بغیر دیکھے ہی سمجھ لیا کہ یہ ریسرچ کا سامان ہے اور چونکہ وہ ریسرچ کے ٹرنک دیکھ کر اطمینان کر چکا تھا کہ ان میں کتابیں ہیں اور کچھ نہیں اس لئے اس نے یہی گمان کیا کہ ان میں بھی کتابیں ہیں.یہ کس قسم کا زمانہ تھا اور کسی مصیبت کا وقت تھا.جن لوگوں نے وہ مصیبت نہیں دیکھی وہ اس کا قیاس بھی نہیں کر سکتے اور میں نے چونکہ یہ نظارے دیکھے تھے اس لئے میرے دل پر یہی اثر ہے کہ یہ محض خدا کا رحم اور فضل تھا جو حضرت خلیفہ ثانی کی توجہ اور دعاؤں سے مجھ پر ہوا.کیونکہ حضور چاہتے تھے کہ امانتیں لاہور پہنچ جائیں اور اس پر زور دیتے تھے.جیسا کہ میں نے سنا ہے یہ کہتے ہوئے کہ حضرت نبی کریم سالی تم نے جب ہجرت فرمائی تو حضرت علی کو حکم دیا تھا کہ امانتیں جلد مدینہ بھجوائی جائیں.یہ تڑپ تھی جو احمدیوں کا مال بچا کر لانے کا ذریعہ بن گئی ورنہ بظاہر مجھے کوئی صورت نظر نہ آتی جب ہمارا قافلہ موضع مقتلے کی نہر کے پل پر پہنچا تو بس کے کلینر نے شور کرنا شروع کر دیا کہ سر
تاریخ احمدیت بھارت 79 جلد اول نیچے کرو ، سامنے....(مفسدہ پرداز ) بندوقیں لے کر مورچے بنائے بیٹھے ہیں.قریب ہے کہ قافلہ پر حملہ کردیں.ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا پڑ گئی اور یہ کیسی میرے اللہ نئی ! بیں جب پل سے پار ہوئیں تو قافلہ کے انچارج حوالدار نے حکم دیا کہ بسیں اسی جگہ ٹھہر جائیں.اس نے اتر کر اپنی برین گن سیٹ کی.اسی طرح اس کے ایک ماتحت نے بھی.....(مفسدہ پردازوں) نے جو کھیتوں کی منڈیروں کی اوٹ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ایک قسم کے مورچہ بنائے ہوئے تھے گولیاں چلانی شروع کر دیں.مگر خدا تعالیٰ نے بچالیا.قافلہ کے کسی فرد پر نہ گی.اور حوالدار اور اس کے ساتھی نے فائر کرنے شروع کئے.کہا جاتا تھا کہ تمیں بنتیں....(مفسدہ پرداز ) مارے گئے اور باقی بھاگ گئے.واللہ اعلم.غرض قافلہ وہاں سے روانہ ہوا.اور کچھ دور ہی گیا تھا کہ سامنے سے..(غیر مسلم) کے فوج کے افسر ایک جیپ میں آرہے تھے.ہمیں خیال آیا کہ جب وہ....(مفسدہ پردازوں) کی تھے.لاشیں دیکھیں گے تو ہمارے قافلہ کا تعاقب کر کے ہمیں روک لیں گے.مگر خدا تعالیٰ نے رحم کیا اور ہم بٹالہ پہنچ گئے.وہاں سڑک پر دیکھا کہ ایک ڈھیر لگا ہوا ہے اور اس میں سینکڑوں قرآن شریف پڑے ہوئے ہیں.ہم نے وہاں سے چند قرآن شریف اٹھائے.بٹالہ میں قافلہ کوروکا گیا.بڑی دیر میں چلنے کی اجازت ملی.ہم نے خدا تعالیٰ کا شکر کیا اور روانہ ہوئے.امرتسر پہنچے تو وہاں بڑی دیر لگی.وہاں سے چلے تو راستہ میں چھ بسوں میں سے ایک خراب ہو گئی.غرض خدا خدا کر کے لاہور بارڈر پر پہنچے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا جنت میں آگئے ہیں.رات کے دس بجے ہم جو دھامل بلڈنگ پہنچے.الحمد للہ ثم لحمد للہ.(23) قادیان سے دفاتر کا عملہ ریکارڈ اور دستاویزات کا لا ہور منتقل کیا جانا شروع شروع میں جب سید نا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نے لاہور ہجرت کی اس وقت دفتر محاسب کے چند رجسٹروں یا بعض دیگر ضروری کاغذات کے سوا کوئی خاص ریکارڈ قادیان سے نہیں لا یا گیا تھا.اب جب کہ صدر انجمن احمد یہ پاکستان کا قیام لاہور میں ہو گیا تو اس بات کی بھی ضرورت ہوئی کہ قادیان سے مزید عملہ اور ریکارڈ منگوایا جائے.گو کہ ماہ ستمبر کے دوران مختلف وقتوں میں سلسلہ کے مرکزی دفاتر کے بعض
جلد اول 80 تاریخ احمدیت بھارت کارکن مع ریکارڈ لاہور بھجوائے گئے مگر حقیقی معنوں میں عملہ دفاتر اور ریکارڈ منگوانے کا آغاز 24 ستمبر 1947 ء کو ہوا اور دو مراحل میں یہ کام انجام دیا گیا.پہلا مرحلہ المصل حضرت سید نام مصلح الموعود کی خاص ہدایت پر حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نے سیدناا صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب امیر مقامی قادیان کے نام حسب ذیل مراسلہ بھیجا." بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم جو دھامل بلڈنگ 24 ستمبر 1947ء مکرمی مرزا صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم حضور نے ارشاد فرمایا ہے کہ سید محمدحسین شاہ ناظم جائیداد، بہاءالحق صاحب ناظم تجارت ،مولوی عبد المغنی خاں صاحب اور ایک ایک کلرک ریکارڈ سمیت، برکت علی صاحب فنانشل سیکرٹری تحریک جدید مع حساب امانت و وعدہ جات وغیرہ، شیخ نور الحق صاحب جو سندھ کی زمینوں میں کام کرتے ہیں اور پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر کے اوپر کے کمرہ میں بیٹھتے ہیں، ان سب ( کو.ناقل ) تاکید کی جائے کہ اپنا اپنا مکمل ریکارڈ یا بحالت مجبوری ضروری ریکارڈ لیکر آئیں.شیخ نور الحق صاحب اور شاہ صاحب خرید کردہ زمینوں کے قبالے بھی لائیں.اگر سر کاری کنوائے کا انتظام نہ ہو تو ان کو پرائیویٹ کنوائے میں ہی بھجوانے کا انتظام کریں.مگر یہ دیکھ لیں کہ ساتھ حفاظت کے لئے اسکورٹ کافی ہے کہ نہیں.دفتر پرائیویٹ سکرٹری کے آدمی رفیق احمد صاحب کو بھجوا دیا جائے وہ پہرہ یا حفاظت کے قابل نہیں.ان کے ساتھ ایک اور تجربہ کار کارکن منشی فتح الدین صاحب یا اور کوئی جس کو حفاظت والے بخوشی فارغ کر سکیں.عطاء الرحمن صاحب پر وفیسر فزکس تعلیم الاسلام کالج کو کہا جائے کہ جس قدر سامان کالج کالا یا جا سکتا ہے لے کر لاہور پہنچیں.زیادہ اہم اور ضروری سامان کو مقدم کیا جائے جس کا دوسری جگہ ملنا مشکل ہوگا.اور حضور نے فرمایا ہے کہ فیملی شیخ محمد حسین صاحب آف کلکتہ والد حافظ بشیر احمد صاحب اور شیخ دوست
تاریخ احمدیت بھارت 81 جلد اوّل محمد صاحب آف کلکتہ کی فیملیوں کو بھی بھجوانے کا انتظام کیا جائے.اسی طرح شیخ محمد صدیق صاحب کلکتہ کی فیملی کو یعنی جب کنوائے آئے یا کسی ٹرک میں جگہ خالی ہو.دیہاتی مبلغین یا زیر تعلیم دیہاتی مبلغین ، دعوۃ و التبلیغ کے مبلغین ، انجمن کے محصلوں میں سے جن کو عملہ حفاظت آسانی سے فارغ کر سکے ان کو بھی بھجوایا جائے تا یہاں کام شروع کیا جاسکے.کیانی صاحب لیگل ریمبر نس کے چپڑاسی کی فیملی فیروز دین پٹواری کے ہاں رہتی ہے اس کو بھی بھیجوانے کا انتظام کریں اگر وہ ابھی تک آنہیں چکی.کلیدی کاموں پر جولوگ مامور ہیں جن کا ابتداء نام لے کر ذکر کیا گیا ہے.باقیوں کے متعلق حضور نے فرمایا ہے کہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے مشورہ سے ان کارکنوں کو بھجوایا جائے جن کی ضرورت نہ ہوتا سلسلہ کے کاموں کا تسلسل جاری رہے.لیکن بہر حال آپ کی ضروریات قادیان مقدم ہیں.پس ان کوملحوظ رکھیں.عبد الباری نائب ناظر بیت المال قادیان میں حراست میں لے لئے گئے ہیں.ان کو ضمانت پر چھڑانے کی کوشش کی جائے.ان کے پاس لاہور کے حسابات کی رسیدات پیشگی رقوم کا حساب ہے.اگر ممکن ہو سکے حاصل کر کے فوراً بھجوانے کا انتظام فرما دیں.دس بارہ ہزار روپیہ کا ان کے پاس حساب اور رسیدات ہیں.اس ضمن میں پوری کوشش وسعی ہونی چاہئیے.ممنون ہوں گا.خاکسار محمد عبداللہ خاں مکرر آنکہ سائیکلو سٹائل پریس قادیان میں تین ہیں.ایک ریسرچ میں ، دوسرا تحریک جدید میں، تیسرا محکمہ دعوۃ التبلیغ کے صیغہ اطلاعات میں ہے.ان تینوں کو جلدی بھجوانے کا انتظام کریں.کم از کم ایک تو فوری طور پر آجانا چاہیئے.یہاں ان کی اشد ضرورت ہے.حضور نے کسی کنوائے یا پرائیویٹ کنوائے کے آنے ( پر.ناقل ) حضرت پیر منظور محمد صاحب کو بھیجوانے کا ارشاد بھی فرمایا.اسکو بھی ملحوظ رکھا جائے.ان کو خاص نگرانی میں آرام سے بھجوایا جائے.ضرورت ہو تو کوئی شخص راستہ میں افیون کا ٹیکا دیتا لائے تا تکلیف نہ ہو.ان سے کہہ دیا جائے اس وقت جانوں کا لیجانا اسباب سے مقدم ہے.ہاں بار بار لکھا جا چکا ہے کہ الفضل، الحکم، بدر، ریویو، پیغام صلح کا ایک ایک مکمل سیٹ شروع سے آخر تک کا فوراً بھجوایا جائے.تا سلسلہ کی تاریخ غائب نہ ہو جائے مگر اب تک توجہ نہیں ہوئی.انور صاحب خود یہ کام کریں.“ (24)
جلد اوّل دوسرا مرحله 82 تاریخ احمدیت بھارت المصل عملہ اور ریکارڈ کے پاکستان منتقل کئے جانے کا دوسرا مرحلہ 28 ستمبر 1947ء کو شروع ہوا.جبکہ صدر انجمن حمدیہ پاکستان کا اس تعلق سے خاص اجلاس منعقد ہوا.اور اس میں قادیان سے بلائے جانے والے کارکنان کا انتخاب کر کے اس کی روئیداد حضرت الصلح الموعودؓ کی خدمت میں آخری منظوری کے لئے بھیجی.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نے حسب فیصلہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان سید نا حضرت المصلح الموعودؓ سے رہنمائی حاصل کرنے کے بعد ناظر صاحب اعلیٰ قادیان کو معین ہدایات بھجوانے کے لئے مکتوب کا ایک مسودہ تیار کیا جسے انہوں نے آخری منظوری کے لئے دوبارہ حضور کی خدمت میں رکھا اور بعد منظوری قادیان بھجوایا.اس مسودہ کے الفاظ یہ ہیں :.دو بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد و نصلی علی رسول الكريم وعلى عبد المسیح الموعود بخدمت مکرم جناب ناظر صاحب اعلی صدر انجمن احمد یہ قادیان السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته مندرجہ ذیل کارکنان صدر انجمن احمد یہ قادیان دفاتر صدرانجمن احمد یہ لا ہور (پاکستان) میں کام کرنے کے لئے لاہور بھجوادیے جائیں.لیکن پہلے یہ فہرست میاں ناصر احمد صاحب اور آپ بغور دیکھ لیں تو ان میں سے جو لوگ حفاظت کی غرض سے یا دفاتر صدر انجمن احمد یہ قادیان کی ضرورت کی غرض سے قادیان رکھے جانے ضروری ہوں ان کے نام اس فہرست سے خارج کر دیئے جائیں.اور ان کی بجائے متعلقہ دفاتر کے دیگر کارکن لاہور بھجوا دیئے جائیں.-1 (الف) عملہ نظارت دعوة وتبلیغ.پیر خلیل احمد صاحب کلرک کے علاوہ ایک اور کلرک (ب) عملہ مبلغین.مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ.مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی.مہالہ محمد عمر صاحب.مولوی محمد حسین صاحب مبلغ پونچھ.گیانی واحد حسین صاحب.مہاشہ فضل حسین صاحب مبلغ.مولوی عبد العزیز صاحب مبلغ.حافظ عبدالسمیع صاحب امروہی نیز دیہاتی مبلغین میں سے منسلکہ فہرست میں سے جو قادیان میں ڈیوٹی دے رہے ہیں یا ڈیوٹی کے قابل ہوں ان کے سوا باقی سب کو بھجوا دیا جائے.(ج) عمله الفضل.امیر محمد صاحب کلرک مینجر معہ ٹائپ مشین و رجسٹر امپرسٹ.محمد اسلم
تاریخ احمدیت بھارت 83 جلد اوّل صاحب کلرک.میجر عبد الرشید صاحب.نصیب احمد صاحب.عبد الحامد صاحب.امیر محمد صاحب مددگار کارکنان.دو کا تب حسب انتخاب.منیر احمد صاحب و منس.(د) عملہ اطلاعات.عنایت اللہ صاحب ٹائٹیسٹ معہ رو سینوسیٹ اور ٹائپ مشین.تعلیم و تربیت.ماسٹر خیر دین صاحب.قاری محمد امین صاحب کلرک.سید محمد شاہ صاحب کلرک.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی (اگر آنا چاہیں ).قاضی عزیز احمد صاحب مع لاؤڈ اسپیکر.حافظ محمد رمضان صاحب.حافظ فتح محمد صاحب اور حافظ کرم الہی صاحب.امور عامه و خارجہ.مولوی فضل الدین صاحب وکیل مینشی کظیم الرحمن صاحب.سید سردار علی شاہ صاحب رشتہ ناطہ.ایک مددگار کار کن امور عامہ جو سائیکل چلانا جانتے ہوں.نور ہسپتال.ایک ڈسپنسر مطابق انتخاب مرزا منور احمد صاحب یہاں بھجوادیا جائے.امور خارجہ.عبدالقدیر صاحب اور نیم احد صاحب میں سے حسب انتخاب مولوی برکات احمد صاحہ -4 دار الافتاء.رجسٹرات افتاء 5- نظارت بیت المال.چوہدری عبد الرحیم صاحب کا ٹھگردی.مرزا عبدالحمید صاحب کلرک.عطاء الرحمن صاحب کلرک - مختار احمد صاحب ہاشمی.محمد اسلم صاحب کلرک ( تابع مرضی شعبہ حفاظت ).مولوی عبد العزیز صاحب شرقپوری اور شجاعت علی صاحب انسپکٹر ان.امام دین صاحب مدد گار کارکن اور محمد اسماعیل صاحب دفتری.محاسب منشی سردار محمد صاحب شیخ فیض اللہ صاحب منشی غلام نبی صاحب منشی عبد الغنی صاحب.پیر مظہر الحق صاحب خزانچی مینشی رشید احمد صاحب منشی غلام احمد صاحب.چوہدری عبد المجید صاحب.عطاء اللہ صاحب.عبدالستار صاحب دفتری.-7.آڈیٹر.سید محمود عالم شاہ صاحب.-8 نظارت علیا.قاضی عبد الرحمن صاحب یا محمد عبد اللہ صاحب پرویز وسعید اللہ صاحب تابع انتخاب مرضی مرزا عزیز احمد صاحب.میاں محمد بخش صاحب مددگار کارکن نیز عارضی عملہ میں سے ایک دو کلرک جو حفاظت سے فارغ ہوسکیں.-9 صیغہ جائیداد منشی محمد دین صاحب معہ رجسٹرات قبالہ جات.
جلد اوّل 84 تاریخ احمدیت بھارت 10.بہشتی مقبرہ.دو کلرک تابع ضروریات حفاظت (اگر ایسے ہوں جن کے اہل وعیال باہر آچکے ہوں اور ان کی وہاں ضرورت نہ ہو اور کام سنبھال سکتے ہوں تو بہتر ہوگا) دو والسلام خاکسار دستخط.( محمد عبداللہ خاں) ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمد یہ لا ہور 28/9/1947 اس مسودہ میں جہاں دیہاتی مبلغین کا تذکرہ تھا وہاں حضور نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا:.یہ کل مبلغ 127 ہیں ان میں سے جن کو مرزا ناصر احمد اور مرز اعزیز احمد صاحب اور مولوی شمس صاحب سہولت سے تھیں جن کو وہ بہ خوشی فارغ کر سکیں بھجوا دیں.تاکہ ان سے تبلیغ اور چندہ کا کام لیا جائے.یہ شرط نہیں کہ وہ فارغ شدہ ہے خواہ نئے طالب علموں سے ہوں خواہ پرانے پاس شدوں میں سے.اس طرح مشورہ کر کے بہ شرح صدر اور قادیان کے فائدہ کو مدنظر رکھ کر اطلاع دیں کہ اور کتنے ان مبلغوں میں سے بغیر ذرہ سے بھی خطرہ کے فارغ کر سکتے ہیں.ہمارے احساس کا کسی صورت میں خیال نہ رکھیں.سو فیصدی مقدم قادیان کے فائدہ اور کام کا خیال رکھیں.“ (25)
تاریخ احمدیت بھارت جلد اول 85 حواشی باب سوم -1 -2 -3 -4 -5 -6.7 -8 -9 -10 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 719 مطبوعہ 2007ء بحوالہ الفضل 28 / جولائی 1947 صفحہ 8 تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 722 تا 723 مطبوعہ 2007 ء سورة النور آیت نمبر 56 بحوالہ الفضل 8 جون 1948 ء صفحه 3 و تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 742 تا 744 مطبوعہ 2007ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 734 تا 735 مطبوعہ 2007ء بحوالہ سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت 883 بحواله الفضل 8 جون 1948 ء صفحہ 3 بحوالہ الفضل 31 جولائی 1949 ء صفحہ 5، 6 و تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 746 تا748 مطبوعہ 2007ء بحوالہ الفضل 12 نومبر 1947 ، صفحہ 3 11 - بحوالہ الفضل 30 ستمبر 1947ء صفحہ 8 کالم 3 ،4، تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 59 تا 61 مطبوعہ 2007ء 12 - بحوالہ الفضل 15 اکتوبر 1947 صفحہ 3 کالم 1 13 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحه 62 تا 63 حاشیہ -14 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 63 مطبوعہ 2007ء B-14 - بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 63 مطبوعہ 2007ء 15 -16 بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 64 مطبوعہ 2007ء ( مکتوب 9 ستمبر 1947ء) بحوالہ الفضل 12 نومبر 1947 ء صفحہ 4،3 و تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 64 تا 67 مطبوعہ 2007ء بحوالہ الفضل 5 دسمبر 1947 صفحہ 5 ، 6 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 68 تا 73 مطبوعہ 2007ء 18 - بحوالہ الفضل 17 دسمبر 1947 ء صفحہ 5، و تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 74 تا 76 مطبوعہ 2007ء 19 - بحوالہ الفضل 13 اکتوبر 1949 ء صفحہ 6، تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 77،76 مطبوعہ 2007ء 20 - بحوالہ الفضل 26 فروری 1949 ء ( خطبہ جمعہ ) صفحہ 6 کالم 1
جلد اوّل 86 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 78 مطبوعہ 2007ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 79,78 مطبوعہ 2007ء بحوالہ الفضل 25 اکتوبر 1947 صفحه 3 22- بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 39 مطبوعہ 2007ء 23 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 104 تا 107 مطبوعہ 2007ء -24 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 109 تا 111 مطبوعہ 2007ء 25 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 111 تا 114 مطبوعہ 2007ء تاریخ احمدیت بھارت
تاریخ احمدیت بھارت 87 باب چهارم حضرت مصلح موعودؓ کی ہجرت کے بعد کے اہم واقعات سیدنا جلد اول سید نا حضرت لمصلح الموعود کی ہجرت کے بعد قادیان دارالامان میں امارت کی تمام تر ذمہ داری حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کے کندھوں پر تھی اور آپ نے اس ذمہ داری کو اس قدر خوش اسلوبی سے نبھایا کہ تاریخ ہمیشہ اسے یادر کھے گی.ย حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت مصلح موعود کی ہجرت ( 31 اگست 1947ء ) سے لیکر 16 نومبر 1947 ء تک (یعنی قادیان سے آنے والے آخری کنوائے تک) کے حالات وواقعات کا ایک جامع نقشہ روز نامچہ کی صورت میں کھینچا ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے دوا ہم مکتوب اس سے پہلے کہ اس روز نامچہ کو درج کیا جائے خاکسار حضرت صاحبزادہ صاحب کے دو اہم مکتوب جو حضرت مصلح موعودؓ کے نام ہیں یہاں درج کئے جاتے ہیں.ہر دو مکتوب اس زمانہ کے ہیں جب کہ آپ حضرت مصلح موعودؓ کے حکم سے قادیان میں امیر مقامی کے فرائض بجالا رہے تھے.ان میں سے ย ایک مکتوب آپ کے دور امارت کا پہلا یادگار خط ہے اور دوسرا آخری خط جس کے بعد آپ بھی حضور کے حکم سے پاکستان ہجرت کر گئے.پہلا مکتوب قادیان دارالامان بسم اللہ الرحمن الرحیم سیدنا ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.کل ساڑھے چھ بجے کے قریب حضور کی خیریت سے
جلد اوّل 88 تاریخ احمدیت بھارت لاہور پہنچ جانے کی اطلاع مل گئی تھی.جس سے بھاری فکر دور ہوا.آج وقیع الزمان صاحب کے ذریعہ زبانی پیغام بھی ملا.آج قادیان کے ماحول میں پھر....مفسدہ پردازوں) کی نقل و حرکت زیادہ رہی.کیونکہ ایک تو راستے خشک ہیں اور دوسرے مسلمان ملٹری واپس جارہی ہے......آج دو احمدی جو سیکھواں سے قادیان آرہے تھے تلے اور سکھواں کے درمیان....(مفسدہ پردازوں) کے ہاتھ سے مارے گئے اور سٹھیالی پر بھی حملے کا آغاز ہے.کڑی متصل کا ہنو ان کو سخت خطرہ لاحق تھا.ملٹری نے ہمت کر کے پناہ گزینوں کو گورداسپور پہنچا دیا.بھا مڑی میں کافی وسیع....( آگ.ناقل ) مینار سے دیکھی گئی.عالمے کا گاؤں جلا دیا گیا اور لوگ اُٹھ کر پھیر پیچی میں گئے مگر ملٹری کی واپسی کی وجہ ( سے ) وہاں بھی بہت ہراساں ہیں.آج کپٹن رائے ( مسلمان ملٹری کے انچارج.ناقل ) بٹالے گیا ہوا ہے اور ابھی تک ملٹری عملاً واپس نہیں ہوئی کیونکہ اس سے چارج لینے والی ملٹری ابھی تک نہیں پہنچی.شاہ صاحب (حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب.ناقل ) واپس قادیان آگئے ہیں انہیں صبح گورداسپور مرزا صاحب (1) کو لانے اور ضلع کے حکام سے ملاپ ( ملاقات ) کرنے کے لئے بھیجا جائے گا.حضور کا خط حضور کے تشریف لے جانے کے تین گھنٹے بعد شمس صاحب اور مولوی ابو العطاء صاحب کو پڑھا دیا گیا تھا اور شام کو جملہ صدر صاحبان کو پڑھا دیا گیا.اور آج دوپہر کو مساجد میں سنا دیا گیا.اثر بہت اچھا ہے اور اس کی وجہ سے کوئی گھبراہٹ نہیں.مگر تعجب کر رہے ہیں کہ کس طرح علم ہونے کے بغیر حضور تشریف لے گئے.باقی سب خیریت ہے اور ہم سب دعا کے طالب ہیں.فقط والسلام ( دستخط) خاکسار مرزا بشیر احمد (2) 2/09/1947 نوٹ : حضرت مصلح موعود کے جس خط کا ذکر مندرجہ بالاستور میں کیا گیا ہے وہ پیغام کی صورت میں پہلے آچکا ہے.
تاریخ احمدیت بھارت دوسرا مکتوب 99 89 وو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ سید نا حضرت امیر المؤمنین اید کم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ امید ہے حضور کی طبیعت اچھی ہوگی.آج کا دن کچھ ہنگامی رنگ میں گزرا.صبح چھ بجے ہی پولیس اور ملٹری احمد یہ چوک میں پہنچ گئی اور بڑے گیٹ کھلوانے کے لئے آواز دی.اور جب اس میں کچھ دیر ہوئی تو ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے مکان کی ساتھ والی دکانوں کی چھتوں پر سے کود کر احمد یہ چوک میں پہنچ گئے اور ہمارے مکانات کا چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا.اور اس کے ساتھ ہی تحریک جدید کے دفاتر اور سید ناصر شاہ صاحب کے مکان کا بھی اور چاروں طرف نظر رکھنے ( والی ) فوج کی ایک مسلح پارٹی مینار پر چڑھ گئی.تھوڑی دیر میں ہی سید ناصر شاہ صاحب کے مکان اور سیدہ ام طاہر احمد مرحومہ کے مکان میں ملٹری اور پولیس گھس گئی اور چابیاں منگوا کر تلاشی شروع کر دی اور اس کے بعد تھوڑی دیر میں ام طاہر مرحومہ کے اوپر والے صحن اور خلیل والے مکان اور لجنہ کے دفاتر میں بھی پولیس اور ملٹری پہنچ گئی اور پھر میرے مکان سے ہوتے ہوئے عزیز حمید احمد کے چوبارے میں جا پہنچی اور نگرانی کے لئے میرے مکان کے صحن میں ایک فوجی متعین کر دیا گیا.اور اس کے ساتھ ہی پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے پولیس اور ملٹری نے داخل ہو کر مطالبہ کیا کہ حضور کا اوپر والا دفتر کھلوایا جائے کہ اس کی بھی تلاشی لی جائے گی.چنانچہ عزیز منور احمد کو بھیج کر دفتر کھلوادیا گیا.اور مرزا عبد الحق صاحب اور عزیزم منور احمد کی موجودگی میں حضور کے تینوں کمروں کی تلاشی ہوئی مگرکوئی چیز قابل اعتراض برآمد نہیں ہوئی.ام طاہر مرحومہ کے مکان میں سے حضور کی بندوق تلاش کرنے والوں نے طاہر (خلیفہ اسیح الرابع.ناقل ) کے پاس سے اپنے قبضہ میں کر لی اور لائیسنس کا مطالبہ کیا اور چونکہ اس وقت تک لائیسنس نہیں ملا تھا ( جو تھوڑی دیر بعد عزیز داؤد نے لاہور سے پہنچایا) اس لئے بندوق اپنے ساتھ رکھ لی اور کہا کہ لائیسنس دیکھنے کے بعد فیصلہ کریں گے.اسی طرح عزیز حمید احمد کے چوبارے میں سے میاں محمد احمد کی 22 / بور بندوق تلاشی والوں نے اپنے قبضہ میں کر لی اور باوجود اس کے کہ لائیسنس موجود تھا، یہ جواب دیا کہ کپتان صاحب لائیسنس دیکھ کر فیصلہ کریں گے.عزیز حمید احمد کے جلد اول
جلد اوّل 90 تاریخ احمدیت بھارت چوبارے سے صاحبزادہ عبد الحمید ٹوپی کے سوٹ کیس میں سے ایک ریوالور بھی برآمد ہوئی ، جس کا لائیسنس بھی موجود تھا.مگر سرسری مقابلہ میں ریوالور کا نمبر لائیسنس کے درج شدہ نمبر سے نہیں ملتا تھا.یہ بھی ملٹری اور پولیس نے اپنے قبضہ میں کر لیا.سید ناصر شاہ صاحب والے مکان میں انگیٹھی کے اندر سے برچھیوں کے بھالے نکلے اور چند بندوق کے کارتوس، یہ بھی قبضہ میں کرلئے گئے.تحریک جدید کے دفتر میں سے چند فوجی تھیلے برآمد ہوئے جو غالباً ڈسپوزل سے خریدے ہوئے تھے.ان پر بھی قبضہ کر لیا گیا ان کے علاوہ کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی جن مکانوں کی تلاشی ہوئی وہ یہ ہیں :.1.سیدہ ام طاہر احمد کا سارا مکان مع مکان خلیل احمد 2.میرا مردانہ اور عزیز احمد کا بالاخانہ 3 - مکان ام وسیم احمد 4.مکان سید ناصر شاہ صاحب 5.حضور کا دفتر 6.پرائیویٹ سیکرٹری کا دفتر 7- تحریک جدید کا دفتر 8.لجنہ کا دفتر 8.مولوی عبد اللہ صاحب اعجاز کا مکان (غالباً ) ( عبارت میں 8 نمبر دو مرتبہ آیا ہے جسے نقل مطابق اصل درج کیا جارہا ہے ) 9- محمد امین خاں بخارائی صاحب کا مکان 10.بابونو ر احمد سابق ریویو ( کا) مکان اور 11.مہر دین آتش باز کامکان تلاشی میں دو برچھیاں پرائیویٹ سیکرٹری کے پہریدار کے کمرہ سے نکلیں جو باہر سے مکفل تھا سیدہ ام طاہر کے بالا خانہ ، عزیز ظفر احمد اور میاں شریف احمد کا اسباب آیا ہوا تھا.اس کے کھلوانے میں کچھ دیر ہوئی تو پولیس اور ملٹری نے بعض کفل توڑ دیئے.لجنہ کے دفتر میں سے ایک pruning knife نکلا اور لجنہ کے دفتر کے ساتھ والے کمرہ میں ڈیڑھ دوفٹ زمین کھود کر تسلی کرنی چاہی کہ یہاں کچھ دبایا ہوا تو
تاریخ احمدیت بھارت 91 جلد اول نہیں.مگر کچھ نہیں ملا.غرض یہ تلاش قریباً 11 بجے تک ہوتی رہی اور حضرت اماں جان اور ام ناصر احمد صاحب کے مکان کے علاوہ پولیس اور ملٹری ہر جگہ پہنچی.ہمارے آدمی مرزا عبد الحق صاحب اور مولوی عبد الرحمن جٹ صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب اور محمد عبد اللہ خان صاحب سب انسپکٹر اور ملک غلام فرید صاحب اور بعض بچے ساتھ تھے.فوجی کپتان اور...سردار ہزارہ سنگھ بھی تلاشی میں ساتھ تھے گوسارا وقت ساتھ نہیں رہے.فوجی صو بیدار عموماً ہمدرد رہا.اور اس قسم کے ریمارکس کئے کہ بات کچھ نہیں یونہی شرفاء کو تنگ کرنے والی بات ہے.تلاشی کے وقت پولیس نے لالہ ہری رام کو بلا کر ساتھ رکھا تھا اور اس کا رویہ بظاہر اچھا رہا بلکہ بعد میں مجھے پیغام بھیجا کہ مجھے پولیس مجبور کر کے اور مار کر ساتھ لائی.الغرض چار گھنٹے تک یہ ہنگامہ رہا پولیس کے سپاہیوں میں سے بھی بعض کا رویہ اچھا تھا اور بعض کا خراب.میں اور میاں ناصر احمد اور مرزا عزیز احمد صاحب اور بعض دوسرے بچے اس وقت مصلحتا حضرت اماں جان کے مکان میں رہے اور پولیس اور ملٹری ادھر اُدھر جاتے ہمیں دیکھتی رہی.مگر اس طرف نہیں آئی.چونکہ بعد میں حضور کا لائیسنس پہنچ گیا تھا اس لئے مرزا عبدالحق صاحب کے ہاتھ یہ لائیسنس اور میاں محمد احمد صاحب والا لائیسنس پولیس اسٹیشن میں بھجوا دیئے گئے تا کہ مقابلہ کر کے تسلی کر لیں.صاحبزادہ عبد الحمید والا لائیسنس پہلے سے دے دیا گیا تھا مگر ابھی تک کوئی ہتھیار واپس نہیں ملا.اور آئندہ کا علم نہیں.یہ ہتھیار ملٹری کیمپ میں ہیں.کچھ عرصہ بعد ایک ذریعہ سے جو بظاہر پختہ تھا اطلاع ملی کہ میری گرفتاری کے احکام جاری ہو چکے ہیں.مگر یہ معلوم نہیں ہوا کہ الزام کیا رکھا گیا ہے.بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شاید صاحبزادہ عبدالحمید کے ریوالور کے تعلق میں کوئی بات ہو یا SAFETY ORDINANCE کے ماتحت کوئی حکم ہو یا کوئی اور بات بنالی گئی ہو اور ساتھ ہی اطلاع ملی کہ بٹالہ کا D.S.P ایک گارد کے ساتھ قادیان پہنچ رہا ہے.اور اس کے ساتھ ہی مقامی پولیس نے کہلا بھیجا کہ D.S.P چار بجے قادیان پہنچ رہے ہیں.جماعت کے نمائندے پولیس اسٹیشن میں آکر ملیں.چنانچہ مرزا عبد الحق صاحب ، راجہ علی محمد صاحب، سید محمود اللہ شاہ صاحب ، مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ اور ملک غلام فرید صاحب پولیس اسٹیشن میں کافی عرصہ انتظار کرتے رہے اور اس عرصہ میں بٹالہ سے پولیس کی ایک موٹر بھی آئی مگر وہ سیدھی ملٹری کیمپ میں چلی گئی.معلوم نہیں اس میں کون تھا.البتہ اس میں کچھ ایڈیشنل پولیس تھی.اس کے بعد اب تک کوئی مزید کا روائی نہیں ہوئی.گو میں نے مرزا عزیز احمد صاحب کو امارت کا چارج سمجھا دیا تھا اور بچوں کی تسلی کے لئے بھی
جلد اوّل 92 تاریخ احمدیت بھارت انہیں نصیحت کی گئی.اور جو دوست موجود تھے یا یہ خبر سن کر آگئے ، انہیں تسلی دی گئی اور ان کی ہمدردی کی گئی دوستوں پر اس خبر کا بہت بھاری اثر تھا.اور سب نے استقلال اور رضا بقضاء کا ثبوت دیا اور تضرع کے ساتھ دعا کی.رات کے 10:30 بجے میں کرفیو لگا ہوا ہے.مگر بعض دوست آج میرے مکان پر ہی ٹھیر گئے ہیں.تا اگر رات کو کوئی واقعہ ہو تو دعا کے ساتھ رخصت کر سکیں.باقی میں خدا کے فضل سے خدا کی رضا میں راضی ہوں اور حضور سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر یہی خدا کی مرضی ہے تو مجھے اس امتحان میں ثابت قدمی اور سرخ روئی کے ساتھ گزرنے کی توفیق عطا فرمائے.آج معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ شام کو چوہدری عبد الباری صاحب نائب ناظر بیت المال کو گرفتار کر لیا گیا ہے(3) جو اپنی موٹر لے کر کنوائے کے ساتھ باہر جانا چاہتے تھے.الزام کا یقینی طور پر علم نہیں ہو سکا.لیکن سنا ہے کہ مور کالا ئیسنس اور پرمٹ نہیں تھا.یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کے ساتھ 15-20 / ہزار روپیہ کا زیور بھی تھا جس کا کچھ پتہ نہیں چلتا.مگر یہ خبر ابھی تک مصدقہ نہیں ہے.میں حضور کی خدمت میں یہ لکھنا بھول گیا کہ چار دن ہوئے سید محبوب عالم صاحب بہاری برادر اکبر سید محمود عالم صاحب صبح کی نماز کے بعد اپنے گھر سے سیر کے لئے نکلے تھے اور ابھی تک باوجود تلاش کے لا پتہ ہیں.یہ جمعہ کے دن صبح کی بات ہے.غالب گمان ہے کہ....(مفسدہ پردازوں ) کے ہاتھ سے قتل ہو چکے ہیں.عزیز داؤ د احمد دوٹرک لے کر آیا ہوا ہے اور صبح واپس جائے گا.میرا خیال ہے کہ اگر میں آج رات گرفتاری سے محفوظ رہا تو داؤد کے ساتھ میاں ناصر احمد صاحب اور بعض دوسرے بچوں کو جن کا باہر جانے کا قرعہ نکلا ہوا ہے لاہور بھجوا دیا جائے گا.دوستوں کا اب یہی مشورہ ہے اور بہر حال جب حضور کی سکیم پر عمل کرنا ہے تو پھر قرعوں کا بھی نتیجہ یہی ہے.دوسرے بچوں کے قرعہ کے نتیجہ میں میں نے عارضی طور پر کچھ تبدیلی کی ہے.قرعہ میں رہنے والے یہاں یہ نکلے تھے.عزیز ظفر احمد ، عزیز مجید احمد ، عزیز حفیظ احمد ، عزیز طاہر احمد ، عزیز انور احمد ، عزیز مسعود احمد اور عزیز محمد احمد خاں.میں نے اس میں حضور کے ارشاد کی وجہ سے محمد احمد کی تبدیلی کے علاوہ دوستوں اور بچوں کے مشورہ سے مندرجہ ذیل تبدیلی سمجھوتہ کے ساتھ کر دی ہے اور اب یہاں کم از کم عارضی طور پر ذیل کے بچے یہاں ٹھہریں گے.عزیز مبارک احمد عزیز منور احمد، عزیز ظفر احمد ، عزیز مجید احمد ، عزیز میر داؤ د احمد ، گوفی الحال عزیز
تاریخ احمدیت بھارت 93 جلد اول اظہر احمد اور طاہر احمد کو بھجوا رہا ہوں یا حضور کے ارشاد کے ماتحت محمد احمد کو.باقی انشاء اللہ آہستہ آہستہ تکمیل اسکیم کے لئے روانہ کئے جائیں گے.بالآخر دعا کے لئے عرض ہے.یہ خط ساڑھے گیارہ بجے شب تحریر کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ یہاں کا اور وہاں کا حافظ و ناصر ہو.والسلام خاکسار (دستخط) مرزا بشیر احمد (4) 22/09/47 نوٹ: اس خط کے بعد مؤرخہ 23 ستمبر 1947ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے بھی بحکم حضرت مصلح موعود لا ہور تشریف لے گئے.مظالم قادیان کا خونی روز نامچہ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے مظالم قادیان کا خونی روز نامچہ کے نام سے ہر روز ہونے والے مظالم کی المناک روئیداد اخبار الفضل میں شائع کروائی.اس کی کتابچہ کی شکل میں بزبان اردو بھی اشاعت ہوئی.اور انگریزی میں Qadian Diary“ کے نام سے اسے شائع کروایا گیا ذیل میں یہ روز نامچہ درج کیا جا رہا ہے.2 ستمبر 1947ء مسلمان گاؤں سٹھیالی پر جہاں خود حفاظتی کے خیال سے علاقہ کے اور کئی مسلمان دیہات بھی جمع تھے....مفسدہ پردازوں) کے حملہ کا آغاز ہوا جس میں جمعدار محمد اشرف احمدی شہید ہوئے.(5) 4 ستمبر 1947ء قادیان کے مشرقی جانب مواضعات بگول اور خوشحال پور وغیرہ کے سات احمدی نہر کے پل پر کا ہنوان کی پولیس نے گولی مار کر شہید کر دیئے.
جلداول 94 HE تاریخ احمدیت بھارت 6 ستمبر 1947ء قادیان کے جنوبی جانب مراد پورہ گاؤں کا ایک احمدی....(مفسدہ پردازوں) نے شہید کر دیا اور بعض دوسرے احمدیوں کے اموال لوٹ لئے.7 ستمبر 1947ء بٹالہ میں قادیان کے تین احمدی نوجوان جوڈ پٹی کمشنر گورداسپور کو ایک چٹھی پہنچانے کے لئے جا رہے تھے خا کی لباس پہنے کی وجہ سے گرفتار کر لئے گئے اور ان کے موٹر سائیکل چھین لئے گئے.(6) 9 ستمبر 1947ء قادیان کے گرد و نواح میں جیپ گاڑیوں کی نقل وحرکت ممنوع قرار دے دی گئی اور چونکہ ہمارے پاس زیادہ تر جیپ گاڑیاں ہی تھیں اس لئے قادیان کے احمدیوں کی نقل وحرکت بالکل بند ہو گئی.11-12 ستمبر 1947ء ماحول قادیان کے بہت سے دیہات خالی ہو کر قادیان پہنچ گئے جس سے بالآخر قادیان میں پناہ گزینوں کی تعداد 50 ہزار تک جا پہنچی اور قادیان کا ہر مکان اور ہر باغ ہر میدان اور ہر راستہ عملاً پناہ گزینوں کا کیمپ بن گیا.(7) 12 ستمبر 1947ء قادیان میں متعینہ فوج نے باہر جانے والے پناہ گزینوں کی تلاشی شروع کر دی اور جلد بعد اس تلاشی کے دوران میں لائسینس والے اسلحہ کو بھی چھینا شروع کر دیا.(8) 13 ستمبر 1947ء چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے.ایم.ایل.اے ناظر مقامی تبلیغ کو بے بنیاد الزام پر دفعہ 302 تعزیرات ہند کے ماتحت گرفتار کر لیا گیا.(9) 14 ستمبر 1947ء سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ جماعت احمدیہ کو بے بنیاد الزام پر دفعہ 302 تعزیرات ہند کے ماتحت گرفتار کر لیا گیا.(10)
تاریخ احمدیت بھارت 16 ستمبر 1947ء احمدی کو شہید کر دیا.95 جلد اوّل محله اسلام آباد متصل آریہ سکول قادیان پر....مفسدہ پردازوں) نے حملہ کیا اورمحمد شریف 17 ستمبر 1947ء مقامی امیر نے صحابہ کی جماعت کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے مزار پر جا کر اجتماعی دعا کی کہ اے خدا تو جماعت کے مقدس مرکز کو دشمنوں کے حملہ سے محفوظ رکھ اور اگر تیرے ازلی علم میں یہ حملہ کسی وجہ سے مقدر ہے تو ہمیں صبر ورضا کے مقام پر قائم رکھ.(11) 18 ستمبر 1947ء عزیزم مکرم میاں شریف احمد صاحب کو ان کی علالت کی وجہ سے موٹر کنوائے میں لاہور بھجوادیا گیا.19 ستمبر 1947ء محله دارالسعتہ قادیان پر پولیس کی امداد سے....(مفسدہ پرداز ) جتھوں نے حملہ کیا اور اسے زبر دستی خالی کرالیا گیا.(12) بہشتی مقبرہ کے ملحقہ گاؤں منگل باغباناں کو....(مفسدہ پردازوں) نے خالی کرالیا.20 ستمبر 1947ء موضع قادر آباد مشمولہ قادیان پر....( مفسدہ پرداز ) جتھوں نے حملہ کیا اور پولیس کی امداد سے خالی کرالیا.قادیان میں متعینہ ہندو ملٹری نے ان ٹرکوں کی سواریوں میں دخل اندازی شروع کر دی جو پاکستان حکومت کی طرف سے قادیان بھجوائے جاتے تھے.جس کے نتیجہ میں کئی کنوائے جزواً اور ایک کنوائے کلیہ ہمارے ہاتھ سے چھین لیا گیا.21 ستمبر 1947ء چوہدری عبدالباری صاحب بی اے نائب ناظر بیت المال کو بے بنیاد الزام پر سیفٹی آرڈی ننس کے ماتحت قادیان سے لاہور آتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا اور ان کی پرائیویٹ موٹر کار معہ قیمتی سامان کے
جلداول ضبط کر لی گئی.96 96 تاریخ احمدیت بھارت قادیان میں بلا کسی جائز وجہ کے کرفیوں گا دیا گیا جو شروع میں 4 بجے شام سے لے کر 6 بجے صبح تک رہتا تھا مگر بعد میں وسیع کر دیا گیا اور پھر تو یہ حال تھا کہ پولیس جب چاہتی تھی کسی مصلحت سے دن کے اوقات میں بھی کر فیول گا دیتی تھی مگر ہندو سکھ عملاً آزاد ہوتے تھے.(13) 22 ستمبر 1947 پولیس اور ملٹری نے حضرت امیر المومنین خلیفہ الحی الثانی ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز کے مکانات اور دفتر اور خاکسار مرزا بشیر احمد کے مکان کی تلاشی لی.اور یہ تلاشی صبح 6 بجے سے لے کر دن کے گیارہ بجے تک جاری رہی اور ہمارے مکانات کے تمام حصوں اور ملحقہ رستوں میں مسلح پولیس اور ملٹری کا پہرہ لگا دیا گیا.تلاشی میں ٹرنکوں ، بیٹیوں اور الماریوں وغیرہ کے قفل تو ڑ تو ڑ کر ہر چیز کوغور سے دیکھا گیا اور بعض کمروں کے فرشوں کو اکھیڑ اکھیڑ کر بھی تسلی کی گئی کہ وہاں کوئی قابل اعتراض چیز تو دہائی ہوئی نہیں.پولیس اور ملٹری جیسا کہ قاعدہ ہے اپنی تلاشی دینے کے بغیر اور زنانہ مکانوں میں پردہ کرانے کے بغیر جس حصہ میں چاہتی تھی گھس جاتی تھی.مگر کوئی قابل اعتراض چیز برآمد نہیں کر سکی.البتہ لائیسنس والا ہتھیار جو بھی نظر آیا اسے اٹھا کر لے گئی.چنانچہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک شارٹ گن، خان محمد احمد خان کی ایک بائیس (22) بور رائفل اور عزیز مرزا حمید احمد کا ایک پستول لائیسنس دکھانے کے باوجود ابھی تک واپس نہیں کیا گیا.23 ستمبر 1947ء حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے حکم کے ماتحت خاکسار مرزا بشیر احمد عزیز میجر داؤد احمد کی اسکورٹ میں قادیان سے روانہ ہو کر لاہور آ گیا (14).میرے پیچھے حضرت صاحب کے ارشاد کے ماتحت مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے مقامی امیر مقرر ہوئے.24 ستمبر 1947ء عزیز مرزا ناصر احمد سلمہ ایم.اے پرنسپل تعلیم الاسلام کالج قادیان اور حضرت امیر المومنین ایده (رضی اللہ عنہ ) کے بڑے صاحبزادے کے مکان ”النصرۃ واقعہ دارالانوار قادیان کی تلاشی لی گئی مگر کوئی قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی.
تاریخ احمدیت بھارت 24 ستمبر 1947ء 97 جلد اول پولیس نے محلہ دارالشکر قادیان کے متعدد مکانات کی تلاشی لی اور گو کوئی قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی.مگر ہزاروں روپے کے زیورات اور نقدی اور دیگر اشیاء اٹھا کر لے گئی اور پناہ گزینوں کی پانچ لڑکیاں بھی پکڑ کر ساتھ لے گئی جنہیں بعد میں واپس کر دیا گیا.25 ستمبر 1947ء چار مسلمان پناہ گزینوں کو جو مکان آشیانہ مبارک محلہ دارالانوار میں پناہ لے کر بیٹھے ہوئے تھے پولیس نے گولی کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا اور ان کی عورتوں کو پکڑ کر لے گئی.اس کے علاوہ دو مزید آدمی لا پتہ ہو گئے اور بعض زخمی ہوئے.یہ واقعہ 25 اور 26 ستمبر کی درمیانی شب کو ہوا.27 ستمبر 1947ء قادیان میں ٹھہرے ہوئے پناہ گزینوں کے علاوہ مقامی احمدیوں کے قریباً پانچ ہزار مویشی مالیتی قریباً 20 لاکھ روپیہ ) پولیس کی امداد کے ساتھ....(مفسدہ پردازوں) نے لوٹ لئے اور ان کے گڑے اور چھکڑے بھی لے گئے.جس کی وجہ سے وہ آئندہ چلنے والے پیدل قافلہ میں اپنا سامان ساتھ رکھنے کے ناقابل ہو گئے.پناہ گزینوں کے علاوہ مقامی احمدیوں کے متعدد مویشی بھی....(مفسدہ پرداز ) حملہ آور لوٹ کر لے گئے.27 ستمبر 1947 ء تا یکم اکتوبر 1947ء سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر واقع محلہ دارالانوار قادیان کا تمام سامان (سوائے کچھ معمولی فرنیچر کے ) ملٹری نے لوٹ لیا اور یہ لوٹ برابر پانچ دن تک جاری رہی.ملٹری کے ٹرک رات کو آتے تھے اور کوٹھی کا سامان سمیٹ سمیٹ کر لے جاتے تھے.کوٹھی کے مویشی بھی لوٹ لئے گئے.(15) 29 ستمبر 1947ء مولوی احمد خان صاحب نیم مولوی فاضل انچارج مقامی تبلیغ اور مولوی عبدالعزیز صاحب (بھامڑی) مولوی فاضل انچارج شعبہ خبر رسانی جماعت احمدیہ کو پولیس نے دفعہ 396و397 تعزیرات ہند کے ماتحت گرفتار کر لیا.اور معلوم ہوا ہے کہ انہیں پولیس کی حراست میں سخت تکلیف دی جاتی رہی ہے.(16)
جلد اوّل 98 تاریخ احمدیت بھارت محله دارالانوار قادیان کے متعدد مکانوں کو لوٹا گیا.ان مکانوں میں کرنل ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب اسسٹنٹ ڈائرکٹر جنرل میڈیکل سروس پاکستان اور خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان ایم ،اے ریٹائرڈ انسپکٹر آف سکولز اور مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم، اے سابق امام مسجد لندن کے مکانات بھی شامل تھے.30 ستمبر 1947ء پولیس نے مقامی خاکروبوں کو حکم دے دیا کہ مسلمانوں کے گھروں میں صفائی کے لئے نہ جائیں جس کی وجہ سے احمدیوں کے گھر نجاست سے اٹ گئے اور احمدیوں کو خود اپنے ہاتھ سے صفائی کا کام کرنا پڑا.یکم اکتوبر تا6/اکتوبر 1947ء بٹالہ کی ملٹری نے پاکستان کی حکومت کے بھیجوائے ہوئے لڑکوں کو یہ بہانہ رکھ کر قادیان جانے سے روک دیا کہ قادیان کی سڑک زیر مرمت ہے.اور جب ہمارے ٹرک بٹالہ میں رُکے تو اس پر....(مفسدہ پرداز ) جتھوں اور غیر مسلم ملٹری نے مل کر فائر کئے جس کے نتیجہ میں کئی آدمی زخمی ہوئے اور بعض لا پتہ ہیں اور ٹرک بھی جلا دیا گیا.اس کنوائے میں میر الڑ کا مرزا منیر احمد بھی شامل تھا جو بٹالہ میں دو دن تک قیامت کا نمونہ دیکھنے کے بعد لاہور واپس پہنچا ( 17).رستہ کے زیر تعمیر ہونے کا عذر محض بہانہ تھا اور غرض یہ تھی کہ ان ایام میں بیرونی دنیا سے قادیان کا تعلق بالکل کاٹ کر قادیان کے احمدیوں کولوٹا اور ختم کیا جاسکے.چنانچہ جیسا کہ بعد کے واقعات بتائیں گے قادیان پر بڑا حملہ انہی تاریخوں میں ہوا.یکم اکتوبر 1947ء حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا مکان بیت الحمد واقع محلہ دارالانوار قادیان جس میں حضور کے بعض بچے رہائش رکھتے تھے ہملٹری نے زبر دستی خالی کراکے اپنے قبضہ میں کرلیا.2 /اکتوبر 1947ء پولیس نے احمدیوں کی آٹا پیسنے کی چکیاں حکماً بند کرا دیں.جس کے نتیجہ میں قادیان کے محصور شدہ ہزاروں احمدیوں کو ( جن میں بچے ، عورتیں اور بوڑھے شامل تھے ) کئی دن تک گندم کے دانے اُبال اُبال کر کھانے پڑے اور اس وجہ سے بیشمار لوگ پیچش کی مرض کا شکار ہو گئے.
تاریخ احمدیت بھارت 99 جلد اول 2 /اکتوبر 1947ء تعلیم الاسلام ڈگری کالج قادیان اور فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان کی عمارت اور سامان پر ملٹری نے جبراً قبضہ کر لیا اور احمدیوں کوزبر دستی باہر نکال دیا.....(مفسده پرداز) جتھوں نے پولیس کی امداد سے محلہ دار الراحت ( یہ محلہ دار لرحمت نہیں ہے بلکہ قادیان کی پرانی آبادی کے ساتھ جنوب مغربی جانب دارالصحت کے قریب ایک اور محلہ ہے ) پر حملہ کیا اور حملہ آوروں کا ایک جتھہ محلہ مجد فضل قادیان میں بھی گھس آیا اور لوٹ مچائی.موضع بھینی بانگر متصل دار البرکات و دار الانوار قادیان پر....(مفسدہ پرداز ) جتھوں نے حملہ کیا.ہند وملٹری موقعہ پر موجود تھی مگر ہوا میں فائر کرنے کے سوا اس نے حملہ کے روکنے میں کوئی حصہ نہیں لیا.اور 2 - 3 /اکتوبر کی درمیانی شب قریباً ساری رات گولیاں چلتی رہیں.بھینی کی کئی مسلمان عورتیں اغوا کر لی گئیں اور گاؤں خالی کرالیا گیا.2 /اکتوبر 1947ء 2 اور 3 راکتو بر کی درمیانی شب کو قادیان کی مسجد اقصیٰ (یعنی منارة المسیح والی جامع مسجد ) میں بم پھینکا گیا جو ایک قریب کے ہندو مکان کی طرف سے آیا تھا.اس بم سے موذن مسجد کا لڑکا بری طرح زخمی ہوا.اور دشمن نے ہمیں بتادیا کہ ہم مسلمانوں کے جان مال اور عزت ہی کے پیاسے نہیں بلکہ ان کی مقدس جگہوں کی بے حرمتی کے واسطے بھی تیار ہیں.(18) 3 اکتوبر 1947ء یہ دن قادیان کی تاریخ میں خصوصیت سے یادگار رہے گا کیونکہ اس دن دشمنوں کے مظالم اپنی انتہاء کو پہنچ گئے.اور لوٹ مار اور قتل و غارت اور اغوا کے واقعات بھیانک ترین صورت میں ظاہر ہوئے.سب سے پہلے آٹھ اور نو بجے صبح کے درمیان قادیان کی غربی جانب سے محلہ مسجد فضل پر ہزار ہا....(مفسدہ پردازوں) نے پولیس کی معیت میں حملہ کیا اور قتل و غارت کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے عقب تک پہنچ گئے اور جو ( غیر احمدی ) عورتیں مسجد کے پچھواڑے پناہ لینے کے لئے جمع تھیں ان میں سے کئی ایک کو اغوا کر لیا گیا.اور جب احمدی نوجوان عورتوں کی آہ و پکار سن کر ان کی طرف بڑھے تو دونو جوانوں
جلد اوّل 100 تاریخ احمدیت بھارت کو خود پولیس نے گولیاں چلا کر مسجد کی دیوار کے ساتھ شہید کر دیا.عین اس وقت اطلاع ملی کہ قادیان کے محلہ دار الفتوح اور محلہ دار الرحمت پر بھی ہزار ہا....(مفسدہ پردازوں) نے حملہ کر دیا ہے اور ساتھ ہی ان کے حملہ کو کامیاب بنانے کے لئے پولیس نے کرفیو کا اعلان کر دیا.چنانچہ اس حملہ میں دوسو کے قریب مسلمان ( احمدی اور غیر احمدی، مرد اور عورتیں، بچے اور بوڑھے ) یا شہید ہو گئے اور یا لا پتہ ہوکر اب تک مفقودالخبر ہیں.شہید ہونے والوں میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک حرم محترم کے حقیقی ماموں مرزا احمد شفیع صاحب بی.اے بھی تھے ( 19 ).جو اپنے مکان کی ڈیوڑھی میں پولیس کے ہاتھوں گولی کا نشانہ بنے.مگر ظالم دشمنوں نے شہید احمدیوں کی لاشیں تک نہیں لینے دیں تا کہ ان کی شناخت اور صحیح تعداد کو مخفی رکھا جا سکے اس دن حملہ آوروں نے لاکھوں روپے کا سامان احمدیوں کے گھروں سے لوٹا.اس قسم کے نازک حالات میں بیرونی محلہ جات کے صدر صاحبان نے جماعت کی حفاظت (خصوصاً عورتوں اور بچوں کی حفاظت ) کے خیال سے یہ ضروری سمجھا کہ قادیان کی احمدی آبادی کو بعض مخصوص جگہوں میں سمیٹ کر محفوظ کر لیا جائے.چنانچہ ایک حصہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں جمع ہو گیا اور دوسرا دارا مسیح اور مدرسہ احمدیہ اور اس کے ملحقہ مکانات میں بند ہو گیا.ہزار ہا انسانوں کے تھوڑی سی جگہ میں محصور ہو جانے سے صفائی کی حالت نہایت درجہ ابتر ہوگئی.اور بعض جگہ پر ایک ایک فٹ تک نجاست جمع ہوگئی.جسے احمدی خدام نے خود خاکروبوں کی طرح کام کر کے گڑھوں میں بند کیا.دوسری طرف آٹے کی مشینوں کے بند ہونے کی وجہ سے جہاں اکثر حصہ آبادی کا گندم اُبال اُبال کر کھار ہا تھا وہاں بیماروں اور دودھ پلانے والی عورتوں اور چھوٹے بچوں کے واسطے آنا مہیا کرنے کے لئے بہت سے معزز احمدی مردوں کو اپنے ہاتھ سے چکیاں چلانی پڑیں.یہ دن وہ تھے جبکہ دار مسیح اور مدرسہ احمد یہ میں ٹھہرے ہوئے لوگ ان احمد یوں سے بالکل کٹے ہوئے تھے جو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں محصور تھے.کیونکہ درمیانی راستہ بالکل بند اور خطر ناک طور پر مخدوش تھا.انہی ایام میں نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کی کوٹھی دار السلام اور عزیزم مکرم میاں شریف احمد صاحب کی کوٹھی پر جبر أقبضہ کر لیا گیا.
تاریخ احمدیت بھارت 101 جلد اوّل 4/اکتوبر 1947ء قادیان میں جمع شدہ (غیر احمدی) پناہ گزینوں میں سے چالیس ہزار انسانوں کا پہلا پیدل قافلہ قادیان سے علی الصبح روانہ ہوا.ہندو ملٹری ساتھ تھی لیکن ابھی یہ قافلہ قادیان کی حد سے نکلا ہی تھا کہ....(مفسدہ پرداز ) جتھوں نے حملہ کر دیا اور چھ میل کے اندر اندر کئی سو مسلمان شہید کر دیئے گئے.اور بہت سی عورتیں اغوا کر لی گئیں اور جو ر ہا سہا سامان مسلمانوں کے پاس تھا وہ لوٹ لیا گیا.دیکھنے والے کہتے ہیں کہ کئی دن بعد تک نہر کے ساتھ ساتھ میل ہا میل تک لاشوں کے نشان نظر آتے تھے.(20) 4/اکتوبر 1947ء کو کرفیو اٹھنے کے بعد جب بیرونی محلوں میں رہنے والے احمدی اپنے مکانوں کی دیکھ بھال کے لئے باہر جانے لگے تو بڑے بازار کے اختتام پر جو ریتی چھلہ سے ملتا ہے، عین دن دہاڑے برسر بازارسات احمدیوں کو گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا.ان لوگوں میں میاں سلطان عالم بی اے معاون ناظر ضیافت بھی تھے اور جب بعض لوگ شہید ہونے والے احمدیوں کی لاشوں کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھے تو وہ بھی گولی کا نشانہ بنا دیئے گئے.(21) 4/اکتوبر 1947ء سٹار ہوزری قادیان کے مال کو لوٹ لیا گیا جس میں بیش قیمت اون اور لا تعداد جرا ہیں اور سویٹر اور کمبل وغیرہ شامل تھے اور یہ لوٹ مار مقامی مجسٹریٹ کی آنکھوں کے سامنے ہوئی.5 اکتوبر 1947ء بیرونی (غیر احمدی ) پناہ گزینوں کا دوسرا پیدل قافلہ قادیان سے روانہ ہوا.اس قافلہ میں قریباً دس ہزار مسلمان شامل تھے.اور کچھ 3 اکتو بر والے حملہ میں قادیان میں شہید ہو چکے تھے.یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس قافلہ پر راستہ میں کیا گزری.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں محصور شدہ احمدیوں سے ہند و ملٹری نے جبراً بیگار لی اور ان کے سر پر کھڑے ہو کر پناہ گزینوں کے چھوڑے ہوئے سامانوں کو اکٹھا کروا کر مختلف مقامات پر پہنچانے کے لئے مجبور کیا.اس قسم کی بیگار کئی دن لی جاتی رہی.تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت پر معہ اس کے سامان کے قبضہ کر لیا گیا.
جلد اوّل 102 تاریخ احمدیت بھارت جماعت احمدیہ کا مردانہ اور زنانہ نور ہسپتال جبراً خالی کروالیا گیا اور بیماروں اور زخمیوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ باہر نکال کر ہسپتال کا قبضہ ایک ہندو ڈاکٹر کو دے دیا گیا اور بعد میں ایک سکھ ڈاکٹر کو اس کا انچارج بنادیا گیا.(22) 10 اکتوبر 1947ء مسجد اقصیٰ پر پھر بمباری کی گئی.چار بموں میں سے دو نے پھٹ کر مسجد کے فرش کو نقصان پہنچایا.اور ایک بم حضرت مسیح موعود کے والد بزرگوار کی عین قبر کے پاس گرامگر خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ پھٹا نہیں.(23) 14 اکتوبر 1947ء حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے، کرنل ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کی اسکورٹ میں لاہور آگئے اور ان کی جگہ قادیان میں مولوی جلال الدین صاحب شمس سابق امام مسجد لنڈن کو امیر مقامی مقرر کیا گیا.(24) 15 اکتوبر 1947ء جماعت احمدیہ کا پریس جس میں جماعت کا مرکزی اخبار ” الفضل ، چھپتا تھا اور اسی طرح حضرت بنت المسح اول کی لائبریری اور اس کے ساتھ شامل شدہ دیگر لائبریریوں پر قبضہ کر کے ان پر مہریں لگادی گئیں.اس مرکزی لائبریری میں تیس ہزار کے قریب علمی کتا بیں تھیں.جو زیادہ تر عربی اور فارسی میں تھیں.اور کئی نایاب کتب اور بیش قیمتی قلمی نسخے بھی لائبریری میں موجود تھے جن سے احمدی علماءا اپنی علمی خلیفةا تحقیقاتوں میں فائدہ اُٹھاتے تھے.30 اکتوبر 1947ء اس دن معلوم ہوا کہ حملہ کے ایام میں اور اس کے بعد قادیان کی تین مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی ہے.یعنی مسجد محلہ دار الرحمت کے مینار مسمار کر دیئے گئے تاکہ مسجد کی علامت کو مٹادیا جائے.مسجد خوجیاں ( جو قادیان کے دوسرے مسلمانوں کی مسجد تھی ) پر یہ بورڈ لگا دیا گیا کہ یہ آریہ سماج کا مندر ہے.اور محلہ دار العلوم کی مسجد نور جو تعلیم الاسلام کالج کے ساتھ ملحق تھی اسے غیر مسلموں نے اپنی جلسہ گاہ بنالیا اور محن مسجد کے نلکوں پر....(غیر مسلموں) نے کپڑے دھونے شروع کر دیئے.
تاریخ احمدیت بھارت 16 /نومبر 1947ء 103 جلد اول حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مولوی جلال الدین صاحب شمس اور عزیزم مرزا ناصر احمد صاحب قادیان سے لاہور آ گئے.اور شمس صاحب کی جگہ قادیان میں مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی اور عزیزم مرزا ظفر احمد صاحب ناظر اعلیٰ مقرر ہوئے.(25) صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی ڈائری میں درج واقعات مظالم قادیان کے خونی روز نامچہ کے علاوہ ہمیں تاریخ احمدیت سے بعض اور واقعات ملتے ہیں جو کہ صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی ڈائری سے ملخصاً اخذ کئے گئے ہیں ، جو آپ ان ایام میں لکھا کرتے تھے.ذیل میں اس ڈائری سے بعض واقعات درج کئے جاتے ہیں :.18 / ماہ اکتوبر 1947ء بورڈ نگ تحریک جدید سے احمدی احباب واپس آنے شروع ہو گئے تا سب احمدی شہر ہی میں اکٹھے ہو جائیں.26 / ماه اکتوبر صبح نو بجے نماز عید ہوئی جو مولانا جلال الدین صاحب شمس نے مسجد اقصیٰ میں پڑھائی.تقریباً بارہ تیرہ سو احمدی نماز میں شامل ہوئے.ان دنوں مسلمان فوج کے بعض سپاہی بھی قادیان میں متعین تھے جن میں سے بعض مسجد اقصیٰ کی چھت پر ڈیوٹی دیتے رہے.جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے مسلمان فوج کے سپاہیوں کے اعزاز میں (حضرت ام طاہر کے مکان کے اوپر صحن میں ) عشائیہ دیا گیا.اس تقریب پر کچھ نظمیں بھی پڑھی گئیں اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے ایک مختصر تقریر بھی فرمائی جس میں جماعت احمدیہ کے قادیان سے گہرے تعلق پر
جلد اوّل 104 تاریخ احمدیت بھارت اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی.27 /ماه اکتوبر اس دن قادیان کے ماحول سے متواتر اطلاعات موصول ہوئیں کہ....(مفسدہ پرداز ) وغیرہ حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.یہ بھی خبر پہنچی ہے کہ بٹالہ اور امرتسر کے غیر مسلم یہ سازش کر رہے ہیں کہ قادیان سے آنے والے کنوائے پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا جائے.28 / ماه اکتوبر اطلاع ملی کہ....(مفسدہ پرداز ) کافی تعداد میں آریہ ( موجودہ D.A.V اسکول) سکول میں اکٹھے ہورہے ہیں.شاید حملہ کریں.مگر کچھ دیر بعد یہ لوگ منتشر ہو گئے.31 / ماه اکتوبر صبح گیارہ بجے کنوائے تقریباً چار سوا چار سو آدمی کو لے کر روانہ ہو گیا.جماعت کا ریکارڈ اور کتب وغیرہ کے چڑھانے میں دقت پیدا ہوگئی تھی.مجسٹریٹ صاحب علاقہ (مسٹر سوہنی ) نے انکار کر دیا کہ سامان کوئی نہیں چڑھنے دوں گا.آخر مرزا عبد الحق صاحب اور کنوائے کے ساتھ آنے والے کیپٹن گلزار صاحب کی کوشش سے مجسٹریٹ صاحب مان گئے اور بمشکل یہ جماعتی سامان جاسکا.مجسٹریٹ صاحب نے بعض لوگوں کے سامان کی تلاشی بھی لی.مگر پھر کیپٹن گلزار (صاحب) نے کہا.آپ تلاشی نہیں لے سکتے کیونکہ دونوں حکومتوں کا معاہدہ ہے کہ تلاشی نہیں ہوگی اگر آپ تلاشی لینا چاہتے ہیں تو لکھ کر دے دیں.اس پر مجسٹریٹ صاحب نے تلاشی کا ارادہ ترک کر دیا.2 / ماہ نومبر شام پانچ بجے تین احمدی نوجوان دارالا نوار کی سڑک پر سیر کرنے گئے تھے.کہ وہاں فوج کے ایک سپاہی نے ان کو مشتبہ قرار دیکر پکڑ لیا.اور بُری طرح لاٹھیوں سے زدوکوب کیا.آخر مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ اور فضل الہی صاحب پولیس چوکی گئے....اور کچھ دیر بعد ان تینوں نوجوانوں کو لے آئے.
تاریخ احمدیت بھارت 3 / ماہ نومبر 105 جلد اوّل قبل ازیں مجسٹریٹ صاحب نے مولوی جلال الدین صاحب شمس کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی تھی مگر اس روز مقامی فون کے اپریٹر نے چوہدری ظہور احمد صاحب کو بتایا کہ گزشتہ رات ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کا فون مجسٹریٹ صاحب قادیان کو آیا تھا کہ کسی کو گرفتار وغیرہ بالکل نہیں کرنا.یہ سن کر احمد یوں کو بہت خوشی ہوئی کہ اب مجسٹریٹ صاحب شمس صاحب پر ہاتھ نہیں ڈال سکیں گے.4/ ماہِ نومبر لا ہور سے بذریعہ فون یہ اطلاع ملی کہ مرزا مظفر احمد صاحب نے ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کو فون کیا اور مجسٹریٹ صاحب کی دھمکی کی نسبت بات ہوئی.ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا کہ شمس صاحب کو گرفتار نہیں کیا جائے گا.ور ماه نومبر ساڑھے آٹھ بجے شب کے قریب ایک کنوائے قادیان آیا جس میں مرز اظفر احمد صاحب اور مرزا اخلیل احمد صاحب بھی تھے.10 / ماہِ نومبر لمصل تقریباً ایک بج کر بیس منٹ پر قادیان کی چوکی پولیس کے انچارج صاحب اور مجسٹریٹ صاحب (امولک سنگھ ) اور بعض سپاہیوں کے ہمراہ الدار میں آئے اور حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے اور حضرت خلیفہ امسیح الثانی المصلح الموعود کے مکان کی درمیانی پرائیویٹ گلی میں مٹی کے ان ڈھیروں کو الٹ پلٹ کے دیکھنا شروع کر دیا جو فسادات شروع ہونے سے پہلے آگ بجھانے کے لئے رکھے ہوئے تھے.پولیس کے سپاہی پندرہ بیس منٹ تک یہ کام کرتے رہے.پتہ چلا کہ مجسٹریٹ صاحب کو الیں.پی پھل کا سنگھ صاحب نے بھجوایا ہے کہ جا کر ان ڈھیروں کے نیچے سے ناجائز اسلحہ برآمد کریں.آخر جب کچھ نہ نکلا تو یہ لوگ واپس چلے گئے.
جلد اوّل 11 / ماہ نومبر 106 تاریخ احمدیت بھارت اس دن ایک مسلمان عورت مع اپنے دو بچوں کے موضع ظفر وال سے بھاگ کر آئی.جس نے بتایا کہ وہاں....(مفسدہ پردازوں) کے قبضہ میں تھی.کئی دن سے بھاگنے کا ارادہ کر رہی تھی.آخر آدھی رات کے وقت بھاگ کے قادیان میں پناہ لینے کا موقعہ مل گیا.اور اس کو کنوائے میں پاکستان بھجوادیا گیا.ایک درد ناک سانحہ یہ دیکھنے میں آیا کہ اس روز نو دس سال کی ایک معصوم بچی قادیان کے ایک محلہ سے ملی جو قریباً دس دن سے وہاں پڑی تھی.بے چاری کی صرف ہڈیاں رہ گئی تھیں ، جسم دوہرا ہو گیا تھا اور فاقوں نے اس کا دماغ مختل کر دیا تھا.اس بچی کی خوراک اور علاج معالجہ کا انتظام کیا گیا.(26) نسیم ملک کے وقت رونما ہونے والے واقعات از : حضرت خلیفہ المسح الرابع رحم الله تعالی جناب آئن ایڈم سن نے ایک کتاب بزبان انگریزی A MAN OF GOD کے نام سے تحریر کی ہے.اس کا اردو ترجمہ محترم چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے نے ایک مرد خدا حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ (رحمہ اللہ تعالی ) کے عنوان سے رقم فرمایا ہے.اس کتاب کے مصنف صاحب کی تحریر اور حضور کے فرمودات درج ذیل ہیں :.نانچہ ہندوستان کی تقسیم کا عمل کچھ اس اذیت ناک طریقے سے شروع ہوا کہ ہمسایہ ہمسائے کا دشمن بن گیا.کیا چھوٹا اور کیا بڑا، کوئی بھی محفوظ نہ رہا.جگہ جگہ لوگ اپنے آپ کو مسلح کرنے لگے صاحبزادہ طاہر احمد ان دنوں خدام الاحمدیہ کے رکن تھے.یہ نوجوانوں کی ایک اصلاحی تنظیم تھی.نوجوانوں اور بچوں کی صرف اخلاقی اور روحانی تربیت اس کا مقصد تھا.اس نئی صورت حال کے پیش نظر اسے قادیان کے دفاع کے لئے از سر نو منظم کیا گیا.شہر کو مختلف سیکٹروں میں تقسیم کر دیا گیا اور اہل شہر کی کمپنی وار اور بٹالین وار گروہ بندی کی گئی تقسیم ہند کے وقت قادیان کے گرد و نواح سے کم از کم ستر ہزار مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر قادیان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے.تشدد پسند....( شر پسند عناصر ) اور....(مفسدہ
تاریخ احمدیت بھارت 107 جلد اول پردازوں ) کے جنھوں نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال رکھا تھا.مسلمان کے خون سے ہولی کھیلی جارہی تھی.آپ (حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع.ناقل ) فرماتے ہیں: بندوق چلانا تو ہمیں بچپن ہی سے آتا تھا.منظم طریقہ سے کام کرنے اور حکم ماننے کی عادت تو ہماری گھٹی میں داخل تھی یہی وجہ تھی کہ ہم اپنے دفاعی نظام کو مکمل کرنے میں نسبتا جلد کامیاب ہو گئے.اس نظام میں کوئی درجہ بندی نہ تھی ہمیں اتنا بتا دیا جاتا تھا کہ فلاں شخص تمہارا افسر ہے اور بس.بعد میں کچھ تربیت یافتہ فوجیوں نے بھی ہماری مدد کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں.چنانچہ ان کو سیکٹر وار کمان سونپ دی گئی.پھر ان کے ماتحت افسر مقرر کر دیئے گئے.ہمیں صرف اتنا علم ہوتا تھا کہ ہمارا اپنا افسر کون ہے جس کے حکم کی تعمیل ہم پر فرض تھی.ہم اور کسی کو نہیں جانتے تھے.باقی افسران کا ہمیں کچھ علم نہیں ہونے پاتا تھا.مقصد اس احتیاط کا یہ تھا کہ اگر ہم کبھی پکڑے جائیں اور ہم سے پوچھ گچھ کی جائے تو ہم بتا ہی نہ سکیں کہ ہمارے علاقے کا کمانڈرکون ہے.دراصل اپنے تحفظ کے لئے یہ ایک بڑی موثر احتیاطی تدبیر تھی.ویسے بھی افسری ماتحتی تو تھی ہی نہیں.بس اتنا پتہ تھا کہ حکم کون دے گا اور کس کو دے گا.“ صاحبزادہ طاہر احمد کھیل کے میدان میں اپنا لوہا منوا چکے تھے.نشانچی بھی اچھے تھے.اس لئے بلا تکلف ایک دستے کے انچارج مقرر ہو گئے.جو کام ان کے سپر د ہوا وہ یہ تھا کہ کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں قادیان کے مرکزی حصے کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہوگی.فرماتے ہیں:.وو یہ ایک بہت اہم اور بڑی ذمہ داری کا کام تھا لیکن میں اس مفوضہ ڈیوٹی پر بہت خوش بھی نہیں تھا.میں جانتا تھا اور اب بھی سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ مجھے زیر نگرانی اور قابو میں رکھنے کے لئے کیا گیا تھا تا کہ میں خواہ مخواہ اپنے لئے کوئی خطرہ مول نہ لے سکوں.“ خطرے سے میری اپنی ذات کے لئے کسی قسم کا خطرہ مراد نہیں.مراد یہ تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حملے کی صورت میں میں نوجوانی کے جوش میں بچاؤ کی بجائے براہ راست ٹکراؤ کو دعوت دے دوں.اس لئے قادیان کی بیرونی سرحدوں پر جہاں خطرے کا زیادہ احتمال تھا مجھ سے بڑی عمر والوں کا تقرر کیا گیا اور مجھے شہر کے مرکز ہی میں رکھا گیا.ذمہ داری تو بہر حال ذمہ داری تھی لیکن اس محدود ذمہ داری پر میں مطمئن نہیں تھا.چنانچہ وہی کچھ ہوا جس کا مجھے اندیشہ تھا یعنی مجھے کسی دفاعی معرکے میں حصہ لینے کی حسرت ہی رہی.لیکن یہ بھی نہیں کہ کچھ بھی نہ ہوا ہو.خطرے کے الارم بھی ہوتے رہتے تھے.کچھ دفاعی مشقیں بھی
جلد اوّل 108 تاریخ احمدیت بھارت ہوا کرتی تھیں.زیادہ تر یہ مشقیں ان بندوقوں سے متعلق ہوتیں جو ہم نے قادیان میں جمع کر لی تھیں ان میں سے ایک ایک بندوق با قاعدہ سرکاری طور پر لائسنس یافتہ تھی البتہ ان کا ایک جگہ رکھنا قانون سے ہلکا ساہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ لفظاً انحراف ضرور تھا.مقصد صرف اتنا تھا کہ اگر حملہ ہو تو بر وقت فوری طور پر یہ بندوقیں مل جایا کریں اور خطرہ ٹل جانے پر بلا توقف انہیں ٹھکانے لگایا جاسکے.بہت کم لوگوں کو علم تھا کہ یہ بندوقیں رکھی کہاں گئی ہیں.چنانچہ میرے مفوضہ فرائض میں یہ امر بھی شامل تھا کہ ان بندوقوں کو اپنی حفاظت میں رکھوں.ایک دفعہ یوں ہوا کہ خاصی بڑی تعداد میں کچھ اور بندوقیں پہنچ گئیں.ان کو چھپانے کے لئے میرے کمرے کے فرش میں گڑھا کھودا گیا اور بندوقیں اس میں رکھ کر اسے پر کر دیا گیا اور مجھے حکم دیا گیا کہ بلا اجازت ان بندوقوں کو ہاتھ تک نہ لگاؤں اور اس سارے معاملے کو یکسر دماغ سے نکال دوں اور بھول جاؤں.چنانچہ کمرے کو مقفل کر دیا گیا اور سب لوگ وہاں سے چلے گئے.جب پہلے پہل میں نے اسلحہ چھپانے کے لئے جگہ کی تلاش شروع کی تو میں نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ طلب کیا کہ کوئی ایسی جگہ بتائیں جس کا کسی کو پتہ نہ چل سکے.چنانچہ طرح طرح کے مشورے دیئے گئے بالآخر میں نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ کیا کوئی ایسی جگہ بھی ہے جس کا مشورہ ابھی تک کسی نے نہ دیا ہو.پتہ چلا کہ صرف ایک ایسی جگہ تھی جس کا کسی کو خیال نہیں آیا تھا اور وہ میرے کمرے کی انگیٹھی کی چیمنی تھی.چنانچہ فیصلہ ہوا کہ یہ ہتھیار انگیٹھی ہی میں رکھے جائینگے.چنانچہ انگیٹھی کو کھول کر اس کے اندر ریک بنا دیئے گئے تا کہ بوقت ضرورت بندوقوں کو آسانی سے رکھا اور نکالا جا سکے.یہ احتیاط کی گئی کہ اس خوش قسمت انگیٹھی کو ہمہ وقت فعال اور زندہ رکھا جائے اور اس میں رات دن ہلکی آگ جلتی رہے ایک دن بادل چھائے ہوئے تھے اور بارش کا قوی امکان تھا.میں نے ایک رضا کار کو حکم دیا کہ کمرے کی چھت پر جا کر چمنی کا منہ بند کر دے تا کہ بارش کا پانی چمنی کے اندر نہ آنے پائے اور بندوقیں نقصان سے بچ جائیں.جس وقت چھت پر یہ کام ہو رہا تھا تو میں نے محسوس کیا کہ ایک...(غیر مسلم ) عورت یہ سارا عمل بہت مشتبہ نظروں سے دیکھ رہی ہے.اس پر مجھے کچھ گھبراہٹ ضرور ہوئی.چنانچہ جتنی جلد ہو سکا میں نے تمام بندوقیں چمنی سے نکلوا کر اپنی آئندہ ہونے والی خوش دامن کے ہاں پہنچا دیں.چونکہ مجھے اپنی ڈیوٹی پر فوری طور پر واپس پہنچنا تھا اس لئے اپنی نگرانی میں بندوقوں کو چھپانے کا وقت تو نہیں تھا لیکن حالات کے مطابق اپنی طرف سے انہیں چھپا دیا.یہ بندوقیں چھپانے کی بھی ایک ہی رہی بندوقیں کیا تھیں ایک انبار تھا جسے میں پلنگ پر
تاریخ احمدیت بھارت 109 جلد اوّل کھلا چھوڑ آیا تھا.اگلے دن علی الصبح باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قدم قدم پر انڈین آرمی کے سپاہی موجود ہیں.مرہٹوں اور ڈوگروں کے یہ بڑے ہی سخت قسم کے آرمی یونٹ تھے جن کی خاص طور پر قادیان میں تقرری کی گئی تھی.ان میں بہت سے سپاہی ایسے تھے جو مسلمانوں کے جانی دشمن تھے.جلد ہی حکومت کی طرف سے یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ اسلحہ کی بازیافت کے سلسلے میں ایک ایک گھر کی تلاشی لی جائے گی.یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارا مکان ہی ان اولین مکانوں میں سے تھا جو ان کے زیر نظر تھا اور جہاں سے انہوں نے اس تازہ ترین خانہ تلاشی کی ابتداء کی.میں بے حد فکر مند تھا.اس کی کئی وجوہ تھیں سب سے پہلے تو یہ کہ میرے کمرے کے فرش میں بندوقیں مدفون تھیں.دوسرے میرے کمرے کی چمنی میں لگے ہوئے رائفل کے ریک تھے جہاں بندوقیں رکھی ہوئی تھیں اور یہ امر بھی خارج از امکان نہ تھا کہ اگر وہاں سے بندوقیں ہٹا بھی لی گئی ہوں تو پھر بھی مجبلت میں کوئی بندوق رہ نہ گئی ہو.تیسرا فکر مجھے یہ تھا کہ میرے اپنے سونے کے کمرے میں کارتوس بھی خاصی تعداد میں موجود تھے.جہاں میں چھروں کے سائز تبدیل کیا کرتا تھا.الغرض تلاشی شروع ہوئی تو سپاہی سیدھے اس کمرے میں گئے جہاں بندوقیں مدفون تھیں اور جاتے ہی کمرے کے فرش کو کھودنا شروع کر دیا.لیکن کچھ بھی تو نہیں ملا.بندوقیں سب غائب تھیں.میں خود بھی حیران تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ در حقیقت ہوا یوں اور جس کا مجھے بعد میں پتہ چلا کہ کچھ عرصہ پہلے ان مدفون بندوقوں کی کہیں اور اچانک ضرورت پڑ گئی تھی اور جب انہیں کمرے کا فرش کھود کر نکالا گیا تو میں وہاں موجود نہیں تھا بلکہ دوسری بندوقوں کو سنبھالنے کے لئے گھر سے باہر گیا ہوا تھا.یعنی میری غیر حاضری میں بندوقیں غائب ہو چکی تھیں.یہ مخبری ہمارے ایک....(غیر مسلم ) ہمسائے نے کی تھی جس نے میرے کمرے میں کھدائی کی آواز سن کر انڈین آرمی کو مطلع کر دیا تھا کہ کمرے میں کچھ دفن کیا جا رہا ہے.کمرے کے فرش کی تلاشی کے بعد ناکام ہو کر سپاہیوں نے سیدھا میرے کمرے کی چمنی کا رخ کیا.معلوم ہوتا ہے کہ اس...(غیر مسلم ) خاتون نے واقعی فوج کو جابتایا تھا.کہ ہم لوگ چمنی میں کچھ ردو بدل کر رہے ہیں.چنانچہ ایک سپاہی چھت پر چڑھ کر چمنی میں اتر گیا.لیکن وہاں بھی سوائے پچیس کارتوسوں کے ایک ڈبے کے کچھ نہ ملا.چونکہ ہمارے پاس لائسنس تھا اس لئے قانونا ہمیں ان کارتوسوں کو رکھنے کا حق حاصل تھا.یہ اور بات ہے کہ ان کو رکھنے کے لئے جس جگہ کا ہم نے انتخاب کیا تھا وہ انوکھی اور عجیب وغریب ضرور تھی.اب سپاہی میرے سونے کے کمرے میں گئے جہاں میری میز کی دراز میں کارتوسوں کے ڈبے
جلداول 110 تاریخ احمدیت بھارت پڑے تھے.ایک سپاہی نے ایک دراز کو کھولا ایک ڈبہ اٹھایا اسے زور سے ہلا یا اور کہنے لگا.اخروٹ ہیں اخروٹ اور دراز کو بند کر دیا.بس صحیح معنوں میں یہی ایک نازک لمحہ تھا جس کا ان دنوں مجھے سامنا کرنا پڑا اگر چہ قادیان چاروں طرف سے حملہ آوروں میں گھرا ہوا تھا لیکن جہاں میری ڈیوٹی تھی وہاں کبھی براہ راست حملہ نہیں ہوا.“ انہی دنوں صاحبزادہ طاہر احمد نے ایک خط میں جو انہوں نے اپنی آنٹی کو لکھا تھا اپنے اور اپنے ساتھیوں کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا:.یہ قادیان کے دفاع کا معاملہ ہے ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں اس خدمت کا موقع مل رہا ہے.اس کے لئے ہم نہ صرف مرنے کے لئے تیار ہیں بلکہ موت کا خوف بھی دل سے نکال چکے ہیں.بے شک ہم سخت خطر ناک حالات میں رہ رہے ہیں.لیکن اس پر ہمیں کسی قسم کی گھبراہٹ یا افسوس نہیں ہے.نہ ہی ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی بڑی قربانی دے رہے ہیں یہ جان تو اللہ تعالیٰ کی دین ہے.جان دی دی ہوئی اسی کی ہے اور ہم تو یہ احساس تک دل سے نکال چکے ہیں کہ ہم اس دنیا میں کبھی اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے مل سکیں گے.“ آگے چل کر آپ نے لکھا: کم و بیش ہر تین ہفتے کے بعد ہم میں سے کچھ لوگوں کو واپس جانے کے لئے فراغت مل جاتی ہے اور انہیں پاکستان بھیج دیا جاتا ہے.یہ لوگ جنہیں یہاں سے واپسی کا حکم ملتا ہے.وہ ساری رات اس غم میں رورو کر گزارتے ہیں کہ اب انہیں قادیان چھوڑ کر واپس جانا پڑ رہا ہے.پھر فرماتے ہیں: 66 میں نے خط میں اتنا کھل کر اور لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا اور میری آنٹی اس سے اتنا متاثر ہوئیں کہ وہ خط کی نقل جماعت احمدیہ کے اخبار روز نامہ الفضل کے ایڈیٹر صاحب کے پاس لے گئیں.آنٹی کا خیال تھا کہ اخبار کے قارئین بہت شوق سے جاننا چاہیں گے کہ چاروں طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے ایک سترہ اٹھارہ سالہ نوجوان کی سوچ کا انداز کیا ہے.لیکن ایڈیٹر نے یہ کہہ کر خط چھاپنے سے انکار کر دیا کہ یہ خط تو بہت ہی بے لاگ اور بے باک ہے.سالوں بعد جب میں اس خط کے مندرجات کو بالکل بھول چکا تھا.آنٹی کو یہ خط ایک ڈبے میں پڑامل گیا.انہوں نے مجھے دکھایا تو اپنے
تاریخ احمدیت بھارت 111 جلد اول لکھے ہوئے اس خط کو پڑھ کر مجھے بھی حیرت ہوئی.لیکن اس خط کے بعض بہت ہی غیر متوقع نتائج نکلے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ خط (حضرت) خلیفہ ثانی کے ملاحظے میں بھی آیا ہوگا جسے پڑھ کر وہ ضرور فکرمند ہوئے ہوں گے.وہ مجھے اور میری طبیعت کو خوب جانتے تھے اس لئے عین ممکن ہے انہیں خیال آیا ہو کہ میں کہیں جان بوجھ کر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر بلا سبب موت کو دعوت نہ دے دوں چنانچہ ہوا یہ کہ ایک مہینے کے اندراندر مجھے قادیان سے لاہور بلوالیا گیا.مجھے خوب یاد ہے کہ اس فیصلے سے مجھے کتنا دکھ ہوا تھا.میرا پہلا رد عمل تو یہ تھا کہ مجھے قادیان سے واپس اس لئے بلایا گیا ہے کہ شاید میرے بزرگوں کو مجھ میں کوئی خامی نظر آئی ہے.جس کی مجھے سزا دی جا رہی ہے یا پھر انہوں نے مجھے اپنے مفوضہ فرائض کی ادائیگی کا اہل نہیں سمجھا.بہر حال میری زندگی کے یہ نہایت تکلیف دہ لمحات تھے.“ خدام الاحمدیہ کی تنظیم کو اب خود حفاظتی کی خاصی ٹریننگ مل چکی تھی یہی وجہ ہے کہ تقسیم ملک کے وقت اس تنظیم نے بے شمار مسلمانوں کی جانیں بچائیں.لیکن غور کریں تو اصل میں یہ کارنامہ ( حضرت ) خلیفہ ثانی کی دور اندیش نگاہوں ہی کا مرہون منت تھا.پنجاب کے دیہات میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا.پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے قافلوں پر حملے جاری تھے.لوٹ مار اور قتل وغارت کا بازار گرم تھا.جو مسلمان حملہ آوروں کے ہتھے چڑھ جاتے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کر دیئے جاتے.یہ احمدی رضا کاروں ہی کا دل گردہ تھا کہ وہ اپنی جان پر کھیل کر قادیان کے قرب و جوار میں تیس تیس میل دور تک واقع دیہات کے دورے کرتے اور وہاں کے رہنے والے مسلمانوں کو حملہ آوروں سے بچانے کی اپنی سی کوشش میں اپنی نیندیں حرام کر رہے تھے.پھر یہ بھی ہوا کہ اتنے بڑے ہنگامے میں کوئی بھوکوں نہیں مرنے پایا.قادیان جو محض ہیں ہزار نفوس پر مشتمل ایک چھوٹا سا قصبہ تھا یہاں اب اسی ہزار سے زائد پناہ گزین جمع تھے.ان کو خوراک مہیا کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا.فرماتے ہیں: ” میرے والد محترم ( حضرت ) خلیفہ ثانی نے پہلے سے حکم دے دیا تھا کہ ایک جلسہ سالانہ کی بجائے دو تین جلسوں کے لئے گندم خرید کر سٹاک کر لی جائے انہیں اندیشہ تھا کہ پناہ گزینوں کا ایک سیلاب آنے والا ہے جن کے لئے خوراک کی ضرورت ہوگی.لیکن اب الٹی گنگا بہہ رہی تھی یعنی اب گندم بھرے ہوئے ٹرک قادیان آنے کی بجائے قادیان سے امرتسر جیسے بڑے بڑے شہروں کی طرف جا رہے تھے.ان دنوں مسلمان اخبارات نے بڑی سچائی سے اس بر وقت امداد کا کھل کر اعتراف کیا جو جماعت
جلد اوّل 112 تاریخ احمدیت بھارت احمدیہ کی طرف سے مسلمانوں کو اس موقع پر دی جارہی تھی انہوں نے صاف لکھا کہ یہ بڑے بڑے شہر نہیں ہیں جو اس وقت اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے آگے آئے ہیں بلکہ یہ ایک دور افتادہ گاؤں قادیان کے رہنے والے لوگ ہیں جنہیں ہم ماضی میں کافر کہتے رہے ہیں.جو اس نازک وقت میں بے قرار ہو کر ہماری مدد کے لئے پہنچے ہیں.ان دنوں سونے کی مہلت کم ہی ملتی تھی.دو ہی کام تھے ٹرکوں پر گندم لا دنا یا پھر پہرہ کی ڈیوٹی.“ اگست 1947ء جماعت احمدیہ کے لئے ایک غیر متوقع مصیبت بن کر آیا.قادیان اور اس کا نواحی علاقہ اب ہندوستان میں شامل کیا جا چکا تھا.بڑے غور و فکر کے بعد (حضرت) خلیفہ ثانی نے فیصلہ فرمایا کہ اب قادیان سے انخلا ناگزیر ہو گیا ہے یعنی وہی قادیان جہاں جماعت احمدیہ کے بانی پیدا ہوئے، پہلے بڑھے اور وفات کے بعد دفن ہوئے ، وہی قادیان جو جماعت کا مقدس مرکز اور ہر احمدی کے دل کی دھڑکن ہے.اب اگر چہ جماعت کے مستقبل کا پاکستان سے ایک گہرا تعلق قائم ہو چکا تھا یعنی وہ ملک جس کی تخلیق میں جماعت احمدیہ نے اتنا بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور اتنی قربانیاں دی تھیں بایں ہمہ (حضرت) خلیفہ ثانی نے بڑے وثوق سے جماعت کو یقین دلایا کہ جماعت ایک نہ ایک دن قادیان ضرور واپس جائے گی.31 اگست کو حکومت کی طرف سے قادیان کی مساجد، مدارس، دفتری عمارات اور نجی مکانات کو سر بمہر کر کے مقفل کر دیا گیا تھا.قادیان کے احمدی دوسرے مسلمانوں کی طرح پاکستان میں پناہ لینے کے لئے ہجرت کر رہے تھے.چنانچہ ٹرکوں کا ایک عظیم قافلہ پاکستان کے فوجی دستوں کی حفاظت میں قادیان سے روانہ ہوا.جانے والوں نے جاتے وقت عجلت میں تھوڑا بہت ضرورت کا جو سامان ہاتھ لگا ساتھ لے لیا.یہ قافلہ روانہ تو ہو گیا لیکن پناہ گزینوں کے اس قافلے کو نوزائیدہ مملکت پاکستان کی سرحد تک قدم قدم پر حملہ آور جتھوں کا سامنا کرنا پڑا.قادیان خالی ہو گیا.صرف تین سو تیرہ احمدی پیچھے رہ گئے.یہ وہ درویش تھے جنہوں نے خطرات کی پروانہ کرتے ہوئے اپنی خدمات حفاظت مرکز کے لئے پیش کر دی تھیں اور یہ عہد کیا تھا کہ جانے والوں کی واپسی تک وہ جماعت کے مقامات مقدسہ اور املاک کی حتی الامکان حفاظت اور دیکھ بھال کی کوشش کریں گے.عجیب بات یہ ہے کہ ان مجاہدین کی تعداد بھی تین سو تیرہ ہی تھی جو ( حضرت ) محمد اللہ کی عظیم قیادت میں بدر کے معرکے میں شامل ہوئے تھے.(27)
تاریخ احمدیت بھارت 113 جلد اوّل قادیان پر جبر و تشدد کے متفرق خونی واقعات کا جامع نقشہ مکرم خواجہ غلام نبی صاحب بلانوی سابق ایڈیٹر الفضل نے قادیان کے حالات پر ایک مفصل مضمون تحریر کیا تھا جو اخبار الفضل میں آٹھ قسطوں میں ” قادیان کے المناک اور خونچکاں حادثات میں سے کچھ“ کے عنوان سے شائع ہوا جسکے ایک حصہ کو قبل ازیں قارئین نے ملاحظہ کر لیا ہے.اس مستند اور مبسوط مضمون کا مزید حصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.آپ لکھتے ہیں: میں حال ہی میں اس قافلہ کے ساتھ قادیان سے لاہور پہنچا ہوں جس میں پچاس سال سے زائد عمر کے اصحاب کو بھیجا گیا ہے.میں نے قادیان میں شروع سے لے کر 20 اکتوبر تک اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا اور کانوں سے سناوہ اگر چہ مقامی پولیس اور ملٹری کی عائد کردہ پابندیوں اور انتہائی خطرات کی وجہ سے جو سیلاب کی طرح امرے چلے آتے تھے.ایک نہایت ہی محدود اور مختصر حلقہ سے تعلق رکھتا ہے.تاہم اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ ان ایام میں قادیان کی مقدس بستی اور اس کے امن پسند ساکنین جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان میں آبیٹھے تھے اور جن کی زندگی کا مقصد اپنے خالق و مالک کی عبادت اور رضا جوئی اور اسکی مخلوق کی خواہ وہ کسی مذہب وملت کی ہو خدمت گزاری اور خیر خواہی تھی اور جو گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے اپنے قول اور فعل سے اس بات کا ناقابل تردید ثبوت دُنیا کے سامنے پیش کرتے چلے آرہے ہیں، ان پر کیا کچھ گزری.کیسے کیسے شرمناک اور انسانیت سوز مظالم کا انہیں نشانہ بنایا گیا اور حکومت کے ان کا رندوں نے جو قیام امن کے ذمہ دار، قانون کے محافظ اور رعایا کی جان و مال اور عزت و آبرو کے نگہبان سمجھے جاتے ہیں.امن پسند ، قانون کے پابند اور مخلوق خدا کے حقیقی خیر خواہ اور ہمدرد انسانوں کو بلا وجہ اور بغیر قصور کس طرح انتہائی مصائب اور آلام کا نشانہ بنایا اور اس وقت تک چین نہ لیا جب تک گلستان کی طرح پھلے پھولے قادیان کو اور اس کے بے شرر ساکنین کو بے گھر نہ کر دیا اور بستے گھروں کو اُجاڑ کر وحشی لٹیروں کی تحویل میں نہ دے دیا چونکہ میرا مکان محلہ دارالرحمت میں واقع تھا اور آبادی کے مغرب میں اسی طرف تھا جدھر سے سوچی سمجھی ہوئی سکیم کے مطابق انتہائی شدت اور پورے انتظام کے ساتھ....(مفسدہ پرداز ) غنڈوں نے کثیر تعداد میں جمع ہو کر پولیس اور ملٹری کی امداد کے
جلد اوّل 114 تاریخ احمدیت بھارت ساتھ 3 اکتوبرکو حملہ کیا اور میں اپنے مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر کسی قدر ان کی نقل و حرکت دیکھ سکا.اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ میں چشم دید واقعات اور دوسرے حالات جو براہ راست شنید سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی صداقت میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں، احباب کے سامنے پیش کروں.(1) - بلا وجہ کرفیو قادیان میں تشدد تو اسی دن سے شروع کر دیا گیا تھا جس دن کہ مسلمان ملٹری کو واپس بلا لیا گیا تھا.گواردگرد کے مسلمانوں کے دیہات اس سے پہلے ہی....(مفسدہ پردازوں ) کے ظلم وستم کا نشانہ بن کر اور اپنا سب کچھ لٹا کر ہزاروں کی تعداد میں روزانہ قادیان آنے لگ گئے تھے.لیکن 21 ستمبر کو جب قادیان میں بلا وجہ کر فیو لگا دیا گیا.بلا وجہ اس لئے کہ فرقہ وارانہ فساد تو رہا ایک طرف کوئی معمولی لڑائی جھگڑے کا واقعہ بھی تو رونما نہ ہوا تھا اور نہ اس بات کا امکان تھا.کیونکہ جماعت احمدیہ کو نہ صرف پر امن رہنے اور قانون کی پوری پوری پابندی کرنے کے متعلق حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ تعالیٰ احکام جاری کر چکے تھے جن کی تعمیل ہر احمدی اپنے لئے باعث سعادت یقین کرتا تھا.خواہ اس کے لئے اپنی جان اور مال ہی کیوں نہ قربان کرد دینا پڑتا.بلکہ یہ بھی ارشاد فرما چکے تھے کہ ان مصیبت اور افراتفری کے ایام میں ہر اس شخص کو امداد دو جو تمہاری امداد کا محتاج ہو.خواہ وہ کسی مذہب کا ہو.اور ہر وہ امداد و جوتم دے سکتے ہو.اس ارشاد کی تعمیل بھی ہر احمدی کے فرائض میں داخل تھی.ان حالات میں یہ کس طرح ممکن تھا کہ قادیان میں کوئی احمدی کسی قانون کی خواہ وہ ہنگامی ہوتا یا مستقل ، خلاف ورزی کرتا.اور کسی لڑائی جھگڑے کی خواہ وہ کیسا ہی مجبور کن ہوتا ، طرح ڈالتا.ہاں اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے قانون شکن حملہ آوروں کا مقابلہ احمدی اپنا حق سمجھتے تھے، ایسا حق جو ہر مہذب گورنمنٹ نے اپنی رعایا کو دے رکھا ہے اور جس کا انکار کوئی حکومت کھلم کھلا کر کے دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ سکتی.قادیان میں مقیم پولیس نے اسی حق سے احمدیوں کو محروم کرنے اور قانون شکن....(مفسدہ پرداز ) غنڈوں کو خلاف امن و قانون کھلا چھوڑ دینے کے لئے 21 ستمبر سے کرفیو لگا دیا.اور اس طرح مسلمانوں کو مغرب ،عشاء اور صبح کی نمازیں مسجدوں میں ادا کرنے سے روک دیا.پھر گھنٹی اتنی تھوڑی دیر اور اتنی ہلکی بجائی جاتی کہ عام طور پر کرفیو کے شروع اور ختم
تاریخ احمدیت بھارت 115 جلد اوّل ہونے کا پتہ ہی نہ لگتا.اور خاص کر اس وجہ سے لوگ سخت بے چینی اور اضطراب میں رہتے کہ دن کو بھی جس وقت پولیس والوں کا جی چاہتا اور جب وہ تشدد کا کوئی نیا کارنامہ سرانجام دینا چاہتے گھنٹی کھٹڑ کا دیتے.کرفیو لگ جانے پر نہ تو کوئی احمدی گھروں سے نکلتا تھا اور نہ کوئی پناہ گزیں جو گھروں کے علاوہ گلیوں اور میدانوں میں پڑے تھے اپنی جگہ سے ہلتے تھے.اور پیشاب پاخانہ کی ناقابل برداشت تکلیف خاص کر بچے اور عورتیں برداشت کرتے تھے یا پھر جہاں پڑے ہوتے اسی جگہ کو گندہ کرنے پر مجبور ہو جاتے لیکن ارد گرد کے دیہات کے غنڈے....(مفسدہ پرداز ) نہ صرف ٹولیاں بنا بنا کر اور تلوار میں کندھوں پر رکھ کر آبادی میں پھرتے بلکہ جہاں موقعہ پاتے حملہ کر کے مال و اسباب بھی لوٹ لیتے اور پناہ گزین مسلمان خواتین کی عصمت دری بھی کرتے اور جب اس پر بیکس و بے بس مسلمان چیختے چلاتے اور شور مچاتے تو بجائے اس کے کہ پولیس اور ملٹری انہیں ظالموں کے دست ظلم سے بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں ہلاتی ، نہ معلوم کہاں بیٹھی دنا دن گولیاں چلانا شروع کر دیتی.ادھر محلوں میں متعینہ سپاہی ہوا میں گولیاں برسانے لگ جاتے.اور اس طرح مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کی آہیں دب کر رہ جاتیں.کچھ دیر کے بعد کسی اور طرف سے آہ وزاری کا شور مچتا اور اس کا بھی یہی حشر ہوتا.دن کے وقت جب کرفیو لگایا جاتا اس وقت مسلح......(مفسدہ پردازوں) پر کوئی پابندی عائد نہ نظر آتی.وہ تلواروں، برچھیوں ، بھالوں کلہاڑیوں اور نکووں سے سجے ہوئے جھوم جھوم کر ادھر اُدھر اس طرح پھرتے جس طرح کسی دیہاتی میلے میں شراب پی کر پھرا کرتے ہیں.یوں بھی عام طور پر بڑا بڑا ہجوم بنا کر اور تلوار میں کندھوں پر رکھ کر پھرتے اور ان لوگوں کو ڈرا دھمکا کر جو ان کے گاؤں سے بھاگ آئے تھے مختلف قسم کے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتے.ایک موقعہ پر اتفاقا میں نے دیکھا چند....(مفسدہ پردازوں) نے ایک مسلمان کو جو ان کے گاؤں کا مکین معلوم ہوتا تھا.اور ایک دوکان کے کونہ میں بیوی بچوں کو لے کر بحالت خستہ پڑا تھا اشارہ سے بلایا اور وہ مسحور پرند کی طرح کھنچا ہوا ان کی طرف دوڑتا چلا آیا اور نہایت لجاجت سے سلام کر کے بولا.آپ اچھے ہیں.بتائیے میں کیا خدمت کر سکتا ہوں.ایک اور موقعہ پر میں نے دیکھا دو تین....(مفسدہ پرداز ) ایک مسلمان سے کہہ رہے تھے ہم جو گھوڑی لے گئے تھے تم اس کے فروخت کرنے کی اپنی طرف سے رسید لکھ دو.انگوٹھا بیشک نہ لگاؤ وہ ہم کسی اور کا لگالیں
جلد اوّل 116 تاریخ احمدیت بھارت گے اور وہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی حالت میں مبتلا نظر آرہا تھا.ان حالات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے.قادیان میں قیام امن کے ذمہ داروں اور قانون کے محافظوں نے مصیبت زدہ ستم رسیدہ اور بے دست و پا مسلمانوں کو کن جکڑ بندیوں میں کس رکھا تھا اور ان کے مقابلہ میں ظالموں لٹیروں ، ڈاکوؤں، قاتلوں، قانون شکنوں کو کس طرح ظلم پر ظلم کرنے کے لئے آزادی دے رکھی تھی اور پھر کس دیدہ دلیری سے ان کی مدد کی جاتی اور انہیں آسانیاں اور سہولتیں بہم پہنچائی جاتی میں.(28) (2) بجلی بند قادیان میں ایک طرف تو کر فیو لگا کر احمدیوں کو مجبور کر دیا گیا کہ 6 بجے شام سے پانچ ساڑھے پانچ بجے صبح تک گھروں میں بندر ہیں اور ہزار ہا پناہ گزین مرد عورتیں اور بچے جو قادیان کے گلی کوچوں اور اردگرد کے کھیتوں میں دور دور تک پڑے تھے اپنی اپنی جگہ پر دبک جائیں اور دوسری طرف بجلی بند کر کے تمام آبادی کو تاریکی اور ظلمت میں گم کر دینے کی ظالمانہ کوشش کی گئی.علاوہ ازیں قریباً دولاکھ کی مظلوم اور ستم رسیدہ آبادی کو بھوکوں مارنے کے لئے آٹا پینے والی مشینوں کو جو بجلی سے چلتی تھیں آٹا پینے کے نا قابل بنا دیا اور آخر کار بجلی اس وقت تک جاری نہ ہوئی جب تک کثیر التعداد مسلح....(مفسدہ پرداز ) لٹیروں کے ساتھ مل کر ملٹری اور پولیس نے قادیان میں بسنے والے لوگوں کو نہایت ہی بے سروسامانی کی حالت میں انتہائی جبر وتشد د کر کے گھروں سے نہ نکال دیا.جس دن یہ ظالمانہ اقدام کیا گیا اور جب کئی میلوں میں پھیلی ہوئی قادیان کی آبادی کو سمیٹ کر اندرون اور بیرون شہر کے دو نہایت ہی محدود حلقوں میں ٹھونس دیا گیا اور مکانات خالی کرا لئے گئے تو اسی دن شام کے قریب بجلی بھی جاری کر دی گئی تاکہ رات کی تاریکی....( مفسدہ پرداز ) لٹیروں کی راہ میں حائل نہ ہو اور وہ اطمینان کے ساتھ ایک ایک چیز پسند کر کے اور قیمتی اشیاء چھانٹ چھانٹ کر لے جاسکیں.چنانچہ صبح تک محلہ دار الرحمت کا کوئی مکان ایسا نہ رہا جو مکمل طور پر لوٹ نہ لیا گیا.دوسرے محلوں اور پرانی آبادی کے بعض مکانات بچ گئے لیکن ایسے تمام مکانات پر جن کے مالک مکان خالی کر دینے پر مجبور کر دیئے گئے تھے ملٹری اور پولیس نے قبضہ کر لیا اور
تاریخ احمدیت بھارت 117 جلد اوّل مالکوں کو اپنے مکانوں میں جانے اور بھرے گھروں سے کھانے پینے اور پہنے تک کے لئے کوئی چیز لانے سے روک دیا اور اگر کوئی کچھ لاتا ہوا نظر آیا تو اس سے چھین لیا.پھر بجلی بند ہو جانے کے دوران میں....(مفسدہ پرداز ) لٹیروں اور غنڈوں کے رات کے حملوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا.سرشام ہی مختلف اطراف سے چیخ و پکار اور آہ وفغاں کی دردناک آوازیں آنی شروع ہو جاتیں.ملٹری بڑی فیاضی سے رات بھر بند وقوں اور برین گنوں کے منہ کھولے رکھتی.لیکن نہ تو کوئی قاتل اور لٹیرا....(مفسدہ پرداز ) ان کی زد میں آتا اور نہ ہی ستم رسیدہ مسلمانوں کی آہ وزاری بند ہوتی.غرض مسلسل کئی دنوں تک بجلی بند کر کے اور اس وقت تک بند رکھ کر جب تک مکانات سے ان کے مکینوں کو نکال نہ دیا گیا....(مفسدہ پرداز ) غنڈوں نے ملٹری اور پولیس کی امداد سے وہ وہ ستم ڈھائے جو حد بیان سے باہر ہیں.(3) - غفلہ چھین لیا بجلی سے چلنے والی آٹا پینے کی مشینوں کے بند ہو جانے کی وجہ سے گو کھانے کی سخت دقت پیش آئی کیونکہ کثیر التعداد انسانوں کو آٹے سے محروم کر کے فاقہ کشی کے لئے مجبور کر دیا گیا.تاہم ان حالات میں جو کچھ ہوسکتا تھا کیا گیا.اکثر لوگ گیہوں ابال کر اس سے پیٹ بھرنے لگے.بعض گھروں میں دستی چکیاں تھیں وہ دن رات چلنے لگیں اور مرد عور تیں آٹا پینے لگے.ہمارے محلہ میں ایک تیل سے چلنے والی چکی تھی وہ ادھر ادھر سے تیل مہیا کر کے حرکت میں آنے کی کوشش کرتی رہی لیکن یہ جد و جہد ان لوگوں کو کب گوارا ہو سکتی تھی جو دن رات مظلومین کو زیادہ سے زیادہ دکھ دینے میں مصروف رہتے اور روز نئے ستم ایجاد کرنے میں منہمک ہوتے تھے.انہوں نے یہ منادی کرادی کہ کسی گھر میں دو بوری سے زائد گندم نہیں رہنی چاہیئے اور سب گندم پولیس چوکی میں پہنچا دی جائے اور دوسری طرف تیل کی چکی پر قبضہ کر کے پہرہ بٹھادیا.وہاں جس قدر آٹا اور غلہ موجود تھا وہ چھین لیا اور اس کے ساتھ ہی جو مرد عورتیں اور بچے تھوڑا تھوڑا غلہ پسانے کے لئے بیٹھے تھے ان سے چھین لیا.اگر کسی نے اپنی فاقہ کشی کی درد ناک کہانی سناتے ہوئے لیت ولعل کی تو اس
جلد اوّل 118 تاریخ احمدیت بھارت کی تواضع مکوں طمانچوں اور بندوق کے بٹ سے کی گئی.چونکہ پناہ گزین کثیر تعداد میں ایک لمبے عرصہ سے قادیان میں پڑے تھے اور باوجود انتہائی جدو جہد اور پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد کے حکام نے قادیان میں کیمپ بنانا منظور نہ کیا تھا.اس لئے ان لوگوں کی خوراک کا بہت بڑا بوجھ قادیان کے رہنے والوں پر پڑا ہوا تھا اور وہ اپنی خریدی ہوئی گندم انہیں کھلا رہے تھے کیونکہ ان لوگوں کو ملٹری اور پولیس نے نہایت بے سروسامانی کی حالت میں گھروں سے نکال کر بلکہ راستہ میں لوٹ مار کا شکار بنا کر قادیان پہنچایا تھا.مگر پولیس نے ہر ممکن کوشش کی کہ ان کو بھوکا مارے تا کہ وہ یا تو یہیں ختم ہو جائیں یا مجبور ہو کر کسی طرف اٹھ بھا گئیں تو وہاں ان کا خاتمہ ہو جائے.(4).قاتلانہ حملے قادیان کے شمال مغرب کی طرف مسلمانوں کے جو دیہات تھے وہاں کے مظلوم زیادہ تر محلہ دار الرحمت میں آئے تھے.ان میں سے جن کو....(مفسدہ پرداز ) راستہ میں قتل کرتے اور ان میں سے جو لاشیں کسی نہ کسی طرح لائی جاسکتیں وہ ہمارے محلہ میں آتیں اور قریب کے قبرستان میں دفن کرنے کا انتظام کیا جاتا.ایک دن اتفاقا میں نے ایسی تین لاشیں دیکھیں اور ایک اور دن جبکہ پناہ گزینوں کا قافلہ ریلوے لائن کے قریب ٹرکوں پر سوار ہونے کے لئے بہت بڑی تعداد میں کھڑا تھا پولیس اور ملٹری اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ عورتوں اور بچوں کو ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر دھکیل رہی تھی.مردوں پر لاٹھیاں برسارہی تھی.قریب ہی ایک پناہ گزین کو....( مفسدہ پردازوں ) نے کر پانوں سے دم زدن میں قتل کر دیا اور اس کے بعد تھوڑی دور جا کر کھڑے ہو گئے.مقتول کے وارث آہ وفغاں کرتے ہوئے لاش کے پاس پہنچے اور روتے دھوتے لاش کو چار پائی پر ڈال کر تمام مجمع میں سے گزرے مگر پولیس اور ملٹری ٹس سے مس نہ ہوئی.البتہ کچھ دیر بعد اتنا اس نے ضرور کیا کہ ہوا میں بندوقیں چلانی شروع کر دیں.پھر ایک احمدی کے مکان میں گھس کر چھت پر جا چڑھی اور ہوا میں کارتوس ضائع کرنے لگی.دراصل جب کوئی قافلہ روانہ ہونے والا ہوتا تو ارد گرد کے دیہات کے....(مفسدہ پرداز ) بہت بڑی تعداد میں مسلح ہو کر ادھر ادھر منڈلا نا شروع کر دیتے تاکہ لوٹ مار کے لئے کوئی موقع تلاش کریں لیکن جب
تاریخ احمدیت بھارت 119 جلد اوّل قافلے ٹرکوں پر مسلمان ملٹری کی حفاظت میں جانے لگے تو لٹیرے اس تاک میں رہتے کہ سوار ہوتے وقت جو ہجوم ہوتا ہے اسے خوفزدہ کریں تا کہ وہ اپنا تھوڑا بہت اسباب بھی چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور ہوجائے.اس کے لئے پولیس اور ملٹری کی موجودگی میں قتل تک نوبت پہنچا دی مگر کسی نے ان کو نہ روکا.البتہ ملٹری اور پولیس نے گولیاں چلا کر مظلومین پر اپنی موجودگی اور شدید سے شدید اقدام کے لئے تیاری ظاہر کر دی اور بندوق کی زبان سے اعلان کر دیا کہ بے حس و حرکت قاتلوں اور لٹیروں کے آگے پڑے رہو.ایک دن عصر کے قریب آریہ سکول کے قریب مسلمانوں کی چھوٹی سی آبادی میں رونے دھونے اور چیخ و پکار کا شور بلند ہوا.میں نے مکان کی چھت سے دیکھا تو کچھ لوگ ادھر دوڑے جاتے نظر آئے.پھر پولیس پہنچی.فائروں کی آوازیں آنے لگیں.آخر نتیجہ ی معلوم ہوا کہ چند....مفسدہ پرداز ) آبادی میں گھس کر دو مسلمانوں کو قتل کر گئے ہیں اور پولیس نے یہ کہہ کر مسلمانوں کو گھروں سے نکل جانے پر مجبور کر دیا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتی.اگر جان بچانی ہے تو گھروں سے نکل جاؤ.چنانچہ لوگ نہایت ابتر حالت میں آنے شروع ہو گئے.اس طرح جب وہ ساری آبادی خالی کرالی گئی تو قریب کے دیہات کے....(مفسدہ پردازوں) نے لوٹنا شروع کر دیا جو پراباندھے وہاں کھڑے تھے.اور صبح تک سب کچھ لے جانے کے بعد مکانوں کی چھتیں اُکھیڑ کر لے جانے لگے.یہ سب کچھ وہ کھلم کھلا کرتے نظر آرہے تھے.مگر ملٹری اور پولیس نے جس کے لئے مسلمان مظلومین کی آہ تک نا قابل برداشت تھی ظالم....(مفسدہ پردازوں ) کی ان حرکات کو توجہ کے قابل ہی نہ سمجھا اور کسی نے ان کو روکنے کی تکلیف گوارہ نہ کی.راتوں کو کرفیو کے باوجود جو حملے پناہ گزینوں پر کئے جاتے اور جن میں جان و مال کے علاوہ خواتین کی عصمت کو بھی لوٹا جاتا اور جن کے دوران پولیس اور ملٹری حملہ آوروں کی پشت پر نہیں بلکہ ان کے پہلو بہ پہلو ہوتی.ان کا کسی قدر ذکر کر فیو کے عنوان کے نیچے کیا جا چکا ہے.غرض یہ حملے روز بروز زیادہ شدید اور کثیر ہوتے گئے حتی کہ انتہاء کو جا پہنچے.(29) (5).تباہ حال مسلمانوں کے مویشی لوٹ لئے دو دن اور تین رات کی مسلسل بارش کے بعد جب مطلع صاف ہوا تو سورج نکلنے کے تھوڑی دیر بعد ہی کر فیولگا دیا گیا.اس پر وہ لوگ جو مکانوں میں یا کھلے میدان کے کیچڑ اور پانی میں پڑے تھے ابھی
جلد اوّل 120 تاریخ احمدیت بھارت سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ کسی قدر سردی اور بہت زیادہ بھوک سے نڈھال گھٹ کر رہ گئے اور پھر معاً بعد ہتھیار بند پولیس کی معیت میں مسلح....(مفسدہ پردازوں) کی ٹولیاں محلہ دارالرحمت کے جنوب سے محلہ میں داخل ہونا شروع ہو گئیں.اور تمام مال مویشی جن میں اُونٹ بیل بھینسیں بھینسے گا ہمیں گھوڑیاں خچریں گدھے اور بھیڑ بکریاں شامل تھیں کیلوں سے کھول کر ہانکنے لگے.اور تمام محلہ میں سے نہ صرف تباہ حال پناہ گزینوں کے بلکہ بعض مقامی اصحاب کے مویشی بھی ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے کر کے محلہ کے شمال کی طرف نکل گئے.مویشیوں میں زیادہ تر اعلیٰ نسل اور بھاری قیمت کے بیل تھے جن کے ذریعہ پناہ گزین گڑوں میں اپنا بچا کھچا اسباب لاد کر لائے تھے اور اس امید میں پڑے تھے کہ پیدل قافلہ روانہ ہوگا تو وہ گڑوں میں سامان لے جاسکیں گے لیکن پولیس نے نہایت شقاوت قلبی سے تمام مویشی چھین کر ان کو بے دست و پا بنادیا.اور جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اب نہ صرف گڈوں کالے جانا ان کے لئے ممکن نہیں بلکہ گڑے بھی لٹیرے....(مفسدہ پرداز) پولیس کی مدد سے چھین لیں گے تو انہوں نے گڑے جو کئی سوکی تعداد میں تھے توڑ پھوڑ کر جلانے شروع کر دیئے اور دوسرے تیسرے دن جب....(مفسدہ پرداز ) گڑوں کی تلاش میں آنکلے تو اپنا سا منہ لے کر رہ گئے.(6)-3 اکتوبر کا المناک دن ان حالات میں آخر وہ دن آگیا جب ملٹری پولیس اور....(مفسدہ پردازوں) نے مل کر قادیان میں قیامت برپا کر دی.اور ان لوگوں کو اپنے انتہائی ظلم وستم کا نشانہ بنایا جو نہ صرف حکومت کے قوانین کی پوری پوری پابندی کرنے اور سچی وفاداری کا ثبوت دینے کا اعلان کر چکے تھے.بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کر رہے تھے اور جن کے ہاتھوں پاکستان کے کسی حصہ میں نہ صرف کسی سکھ یا ہند و کو جانی و مالی کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا.بلکہ کثیر التعداد سکھوں کی جان و مال اور عزت و آبرو احمدیوں نے بچائی.انہی ایام میں جبکہ....(مفسدہ پردازوں) نے قادیان کو نہایت بے دردی اور بے رحمی سے اپنی طرف سے اُجاڑ دیا اور نہایت شرمناک مظالم احمدیوں پر کئے.میں نے دیکھا کہ ایک نہایت معز ز عمر رسیدہ سکھ جن کی شکل و شباہت سے شرافت اور عالی نبی ظاہر تھی معہ چند اور ساتھیوں کے خاندان حضرت مسیح
تاریخ احمدیت بھارت 121 جلداول موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکانوں سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا اس لئے شکریہ ادا کر کے واپس جا رہے تھے کہ ایک معزز احمدی افسر نے نہایت نازک وقت میں ان کی حفاظت کی اور ان کو بال بچوں سمیت بخیریت محفوظ مقام پر پہنچادیا.3-2 را کتوبر کی درمیانی رات بڑی کثرت سے گولیاں چلتی رہیں.برین گئیں تڑ تڑ کرتی رہیں.بموں کے چلنے کی آواز میں بھی آتی رہیں.مصیبت زدہ لوگوں کی چیخ و پکار بھی سنائی دیتی رہی.اور ساری رات یہ سلسلہ جاری رہا.جب دن چڑھا تو میں نے مکان کی چھت پر سے دیکھا کہ ارد گرد کے دیہات سے....(مفسدہ پرداز ) بڑی کثرت کے ساتھ آرہے ہیں اور محلہ دار الرحمت کے قریب کھیتوں میں اور ایک مندر میں جمع ہورہے ہیں.جوں جوں دن چڑھتا گیا ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا حتی کہ سینکڑوں سے گزر کر ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی.کچھ لوگ قادیان کے ہندوؤں اور سکھوں کے محلوں سے نکل کر بھی ان میں شامل ہوتے نظر آئے اور بعض دیہاتی گھوڑے، خچریں اور گدھے وغیرہ قادیان کی پرانی آبادی سے ہانک کر اپنے گاؤں کی طرف لے جاتے دیکھے گئے.....(مفسدہ پردازوں) کے اس اجتماع کے آگے جولمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا...پولیس کے سوار اور پیدل سپاہی بھی موجود تھے جو ادھر اُدھر نقل و حرکت کرتے دکھائی دیتے تھے اور معلوم ایسا ہوتا تھا کہ وہ ڈاکو اور لٹیرے....(مفسدہ پردازوں) کولوٹ مار اور قتل و غارت سے روکنے اور منتشر کرنے کی بجائے خاص ہدایات دے رہے اور احمد یہ آبادی پر حملہ کے لئے تیار کر رہے ہیں.لٹیرے پولیس کے پاس سے گزرتے اور تھوڑی دیر ٹھہر کر آگے بڑھ جاتے.عین اس وقت جب پولیس کی موجودگی میں بے بس و بے کس مسلمانوں پر ستم ڈھانے کے لئے یہ تیاریاں کی جارہی تھیں.کئی ہزار....(مفسدہ پرداز ) تلوار میں چمکا چھکا کر خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور کمریں کس کر تیار بر تیار کھڑے تھے.میں نے دیکھا کہ عین اس جگہ سے جہاں پولیس کے سپاہی کھڑے تھے کچھ....(مفسدہ پرداز ) تلواریں سونت کر نکلے اور محلہ کی طرف بڑھنے لگے اور جب انہوں نے دیکھا کہ سامنے ایک بوڑھا آدمی پاخانے بیٹھا ہوا ہے تو للکارتے ہوئے اس پر پل پڑے اور وہیں اسے قتل کر دیا.اس کے بعد وہ دو تین اور آدمیوں کی طرف بڑھے کہ وہ بھی پاخانہ کرنے بیٹھے تھے مگر انہوں نے حملہ آوروں کو ذرا دور سے دیکھ لیا اور بھاگ کر آبادی میں آگئے.....(مفسدہ
جلد اوّل 122 تاریخ احمدیت بھارت پرداز ) گندی گالیاں بکتے ہوئے ان کے پیچھے دوڑے لیکن ریکا یک تھوڑی دور جا کر ٹھٹکے اور پھر سر پر پاؤں رکھ کر پیچھے کو بھاگ آئے.آگے بڑھنے اور آبادی میں گھنے کی انہوں نے جرات نہ کی.اس کے متعلق معلوم ہوا کہ ان قاتلوں کا شور وشر سنکر ہمارے چند جاں نثار نو جوان اس مورچہ پر پہنچ چکے تھے جس کے پاس سے وہ.....(مفسدہ پرداز) قتل و خونریزی کے ارادہ سے آبادی میں داخل ہو سکتے تھے...(مفسدہ پردازوں ) کی نظر جب ان پر پڑی تو آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کو بھا گنا انہوں نے ضروری سمجھا.احمدی فدائیوں کو یہ سخت ہدایت تھی کہ وہ نہ تو آبادی سے باہر نکل کر.....(مفسدہ پردازوں ) پر حملہ کریں اور نہ بھاگتے ہوئے.....(مفسدہ پردازوں) کا تعاقب کریں بلکہ اپنے مورچہ میں رہ کر یا پھر محلہ کی گلیوں میں خود حفاظتی کا فرض ادا کریں اور اس خوبی سے ادا کریں کہ جہاں اس کی ادائیگی کی ضرورت پیش آئے وہاں سے کامیابی یا شہادت ہی ان کے قدم ہٹائے.کسی صورت میں انہیں ہٹنے کا خیال تک نہ آئے.ہمارے مجاہد نو جوانوں نے بڑی خوشی اور بے حد جوش کے ساتھ یہ عہد کر رکھا تھا اور وہ اسے پورا کرنے کے لئے ہرلمحہ تیار تھے.ورنہ ان کے لئے حملہ آور دشمن کا اور ایسے کمینہ اور انسانیت کش دشمن کا آبادی سے نکل کر مقابلہ کرنا کوئی مرعوب کن بات نہ تھی جو عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں تک کو بے دریغ قتل کر دینا اپنا بڑا کارنامہ سمجھتا تھا.اور جو پاخانہ بیٹھے ہوئے بیخبر بیمار اور بوڑھے انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہ کرتا تھا لیکن اپنے نفس پر قابورکھنے، قانون کا زیادہ سے زیادہ احترام کرنے اور مسلمانوں کے خلاف بھری ہوئی ملٹری اور فوج کوظلم وستم میں غیر معمولی اضافہ کرنے کا حتی الامکان کوئی موقع نہ دینے کی خاطر احمدی مجاہدین کی اس ہدایت پر عمل کیا کہ وہ کسی حالت میں بھی بھاگتے ہوئے حملہ آوروں کا آبادی سے باہر جا کر تعاقب نہ کریں.ورنہ اس ہدایت کی پابندی نہ کرنے والے دشمن کے ہاتھوں اگر کوئی نقصان اٹھا ئیں تو نہ صرف اس کی کوئی قدر نہ کی جائے گی.بلکہ ایسے لوگوں کو سلسلہ کی طرف سے بھی سزا دی جائے گی.ی تھی وہ ہدایت اور وہ ارشاد جس نے ہمارے عزیز نو جوانوں کو مقررہ جگہ سے ایک انچ بھی آگے بڑھنے نہ دیا.ورنہ وہ منظر جو اس وقت پیش نظر تھا کہ.....(مفسدہ پردازوں) کا ایک بہت بڑا مجمع گیڑھوں کی طرح حملہ کرنے کے لئے پر تول رہا تھا اور بوڑھے بیکس مسلمان کو محض اس لئے کہ وہ مسلمان تھا اس کا اور کوئی قصور نہ تھا، ابھی ابھی قتل کر چکا تھا.اور اس کے خون کے قطرے ان.....(مفسدہ
تاریخ احمدیت بھارت 123 جلد اوّل پردازوں) کی تلواروں سے ٹپک رہے تھے.جو دوسرے مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے ان کے پیچھے بھاگ کر آتے ہوئے زد میں آچکے تھے.اور ان کا زندہ بیچ کر واپس چلا جانا ممکن نہ تھا.ان کو ٹھکانے لگا دینا بالکل آسان تھا.لیکن ایسے وقت میں ہمارے نوجوانوں نے جوش کو دبایا اور تعمیل حکم کے جذبہ کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے نظم وضبط کے احترام کا قابل ستائش ثبوت دیا.یہ سورے.....(مفسدہ پرداز ) جو ایک بوڑھے اور بیمار کو بیٹھے ہوئے قتل کر کے اور ہمارے چند چھوٹی عمر کے نو جوانوں کو دیکھ کر سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے تھے جب اپنے مجمع میں واپس پہنچے تو وہاں کچھ غیر معمولی حرکت نظر آنے لگی.کچھ.....(مفسدہ پرداز) ادھر اُدھر منتشر ہوتے بھی نظر آئے مگر پولیس نے ان پر قابو پالیا اور ان کے اُکھڑتے ہوئے قدم پھر ٹھہر گئے.(30) (7).پولیس اور ملٹری کی معیت میں مفسدہ پردازوں کا حملہ اور انتہائی مظالم 3 /اکتوبر کو جب.....(مفسدہ پردازوں) نے محلہ دارالرحمت کے قریب کے کھیت میں ایک بوڑھے بیمار پاخانہ بیٹھے ہوئے پناہ گزین مسلمان کو قتل کر دیا اور بعض اور کو قتل کرنے کے لئے اُن کے پیچھے بھاگے تو اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ شرارت کا آغاز کریں.اور لوگوں کو خوفزدہ کر کے مکانات خالی کر دینے پر مجبور کر دیں.لیکن جب حملہ آوروں نے دیکھا کہ احمدی نوجوان آبادی کے اندر مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں تو بھاگ کر اسی مجمع میں چلے گئے جس سے نکل کر آئے تھے.اور وہاں کچھ دیر ہلچل مچی رہی.اس دوران میں پولیس اور ملٹری دوسری طرف سے محلہ میں داخل ہو گئی اور کثرت سے گولیاں چلانے لگی.اُدھر محلہ کی گلیوں میں اور پناہ گزینوں کے آس پاس ملٹری اور پولیس گولیاں چلا رہی تھی ادھر میں نے دیکھا کہ.....(مفسدہ پرداز غنڈوں کے مجمع سے قطاریں باندھ کر.....(مفسدہ پرداز ) مختلف اطراف سے محلہ کی طرف بڑھنے لگے.یہ لوگ مختلف قسم کے ہتھیاروں سے مسلح تھے جن میں سے تلوار میں اور برچھیاں خاص طور پر نمایاں تھیں.سوار اور پیدل پولیس ان کے پاس کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھیں.مگر وہ بھی چونکہ کلیہ........(غیر مسلموں) پر مشتمل تھی اس لئے بظاہر یہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ حملہ آوروں کو
جلد اوّل 124 تاریخ احمدیت بھارت لوٹ مار کے متعلق ضروری او گھات بتا کر روانہ کر رہی ہے.اور غنڈے پولیس وملٹری کے گولیاں چلانے کے اشارہ پر آگے بڑھ رہے ہیں.اس دو طرفہ حملہ کو دیکھ کر پناہ گزین مسلمان جو گھروں میں اور کھلی جگہوں میں پڑے تھے.تھوڑا بہت اسباب سمیٹ کر بے تحاشا بھاگنے لگے.مگر ان کو بتایا گیا کہ آبادی سے باہر نہ جائیں ور نہ غنڈے.....( مفسدہ پرداز ) ان سے سب کچھ چھین لینگے.اور ان کی جان کے علاوہ عزت و آبرو پر بھی ڈاکہ ڈالیں گے.بلکہ بورڈنگ کی عمارت کی طرف جائیں اور وہاں جا کر پناہ لیں.چونکہ محلہ میں ابھی تک بہت سی احمدی عورتیں اور بچے موجود تھے اور.....( مفسدہ پردازوں ) غنڈے ملٹری اور پولیس کی پناہ میں آبادی میں داخل ہورہے تھے.اس لئے ہمارے نوجوان ان کی حفاظت کے لئے ملٹری اور پولیس کی گولیوں اور.....(مفسدہ پردازوں) کی کر پانوں کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے ضروری مقامات پر پہنچ گئے.ان نوجوانوں کو جہاں یہ ہدایت تھی کہ کسی موقع پر بھی پولیس اور ملٹری سے نہ ٹکرائیں خواہ وہ کتنا ہی ظلم و ستم کرے وہاں یہ بھی حکم تھا کہ اگر کسی عورت کی عصمت پر حملہ کیا جائے تو خواہ حملہ کرنے والا کوئی ہو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور کسی قسم کے خطرہ کی کوئی پروانہ کریں.بلکہ مردانہ وار داد شجاعت دیں.اس فرض کی ادائیگی کے لئے ہمارے عزیز بچے برستی گولیوں اور چمکتی کر پانوں کے دوران اپنی اپنی مقررہ جگہ پر جم کر کھڑے ہو گئے.اور اس طرح انہوں نے عورتوں اور بچوں اور نہتے مردوں کی جو ہزاروں کی تعداد میں محصور ہو چکے تھے، گھروں سے نکلتے وقت قابل تعریف شجاعت کے ساتھ حفاظت کی.سارے محلہ میں ملٹری اور پولیس کی گولیوں اور وحشی.....(مفسدہ پردازوں) کی کر پانوں نے قیامت بر پا کر رکھی تھی.انہوں نے خالی مکانوں میں گھس کر اور تالے توڑ کر لوٹ مار شروع کر دی تھی.کئی لوگوں کو زخمی کر چکے تھے اور بہت بڑی تعداد میں جنگلی درندوں کی طرح شور مچاتے ہوئے ادھر اُدھر دوڑ رہے تھے.مگر احمدی عورتیں اور بچے پوری احتیاط اور حفاظت کے ساتھ گھروں سے نکال کر بورڈنگ میں پہنچائے جارہے تھے.اس وقت ہماری خواتین اور بچوں نے بھی بڑے حوصلے اور وقار کا اظہار کیا باوجود یہ کہ انتہائی خطرات ہر طرف سے انہیں گھیرے ہوئے تھے.اور دیہاتی پناہ گزین عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار ہر چہار اطراف سے سنائی دے رہی تھی.مگر کیا مجال کہ کسی احمدی عورت اور بچے نے کسی قسم کے خوف و ہراس کا اظہار کیا، یا اضطراب اور بے چینی کا کوئی کلمہ منہ سے نکالا.ہمارا ہر مرد، ہر عورت بلکہ ہر بچہ رضا بالقضا کا مجسمہ نظر آ رہا تھا.اور چپ
تاریخ احمدیت بھارت 125 جلد اول چاپ اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کہ ملٹری اور فوج کا مقابلہ نہیں کرنا بھرے گھروں کو خالی کیا جارہا تھا.کیونکہ ملٹری اورمسلح پولیس ایک ایک مکان پر جا کر کہہ رہی تھی کہ فور مکان خالی کر دو ورنہ گولی چلا دی جائے گی.اور.....(مفسدہ پرداز ) جن کو ہم نے روک رکھا ہے قتل و غارت کا بازار گرم کر دیں گے.اس ظالمانہ اور وحشیانہ حکم کو بعض جگہ پولیس اور ملٹری نے عملی جامہ بھی پہنایا.چنانچہ میرے مکان کے بالکل قریب مرزا احمد شفیع صاحب بی.اے کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.جب ظلم وستم اور جبر و تشدد کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو اکثر لوگ مکان خالی کر دینے پر مجبور ہو گئے.اور ایسی حالت میں خالی کرنے پر مجبور ہو گئے کہ اکثر احباب بالکل خالی ہاتھ نکلے کیونکہ اگر کوئی کچھ لے کر نکلتا تو پولیس اور ملٹری کی موجودگی میں.....(مفسدہ پرداز ) لوٹ لیتے اور ملٹری والے بھی اس میں حصہ دار ہوتے.(8).احمدی نوجوانوں کی شجاعت اور جاں نثاری میں اپنے ایک بچے حمید احمد سمیت جو مرکزی حفاظت کا فریضہ ادا کرنے والے نوجوانوں میں شامل تھا اور محلہ کی مخدوش حالت کی اطلاع پاکر اور یہ سن کر کہ.....(مفسدہ پردازوں) کے حملہ کا بہت بڑا زور ہمارے مکان کے پاس ہے، میری خبر معلوم کرنے کے لئے گھر آیا تھا.اور ہم یہ دیکھ کر کہ قریب قریب کی عورتیں اور بچے جاچکے ہیں، اپنے مکان سے نکلے اور بابوا کبر علی صاحب مرحوم کی کوٹھی میں پہنچے جہاں مرکزی حفاظت کرنے والے نوجوان مقیم تھے.میرے وہاں جانے کے تھوڑی دیر ہی بعد انچارج صاحب کو اطلاع پہنچی کہ ایک مکان میں ابھی تک بہت سی عورتیں اور بچے محصور ہیں.اور خطرہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا ہے ان کو بحفاظت نکالنے کا انتظام کیا جائے اس پر انچارج صاحب نے نوجوانوں کو آواز دی اور وہ دوڑتے ہوئے آکر ان کے گرد جمع ہو گئے.اور جب انہیں بتایا گیا کہ فلاں مکان میں عورتیں اور بچے موجود ہیں ان کو نکال لائیں تو ایک لمحہ کا توقف کئے بغیر سارے کے سارے نوجوان ، جن کی تعداد 15-20 سے زیادہ نہ تھی اور جو اس وقت وہاں پہنچے تھے.ملٹری اور پولیس کی گولیوں اور.....(مفسدہ پردازوں) کی چار چارفٹ لمبی کر پانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے صرف لاٹھیاں لے کر دوڑ پڑے اور تھوڑی ہی دیر میں دوسو کے قریب عورتوں اور بچوں کو
جلد اوّل 126 تاریخ احمدیت بھارت بحفاظت نکال لائے.ان عورتوں اور بچوں سے بھی کسی قسم کی گھبراہٹ اور بے صبری کا اظہار نہ ہوتا تھا.جب ہمارے مجاہد ان کو اپنی حفاظت میں بورڈنگ کی طرف لا رہے تھے تو موضع بڑاں سے قادیان آنے والے راستے کے قریب جو محلہ دار الرحمت اور محلہ دارالعلوم کے درمیان واقع ہے.بہت سے مسلح.....مفسدہ پردازوں) نے حملہ کرنے کی کوشش کی.یہ دیکھ کر ہمارے نوجوان جن کے پاس صرف لاٹھیاں تھیں ان کے مقابلہ میں ڈٹ گئے.خدا تعالیٰ نے ان کی خاص مدد اور نصرت فرمائی.جب تک ملٹری اور پولیس وہاں پہنچی کئی ایک.....( مفسدہ پردازوں) کو انہوں نے مار گرایا اور باقی دُم دبا کر بھاگ گئے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا.ہمارے نوجوانوں میں سے کسی کو خراش تک نہ آئی بحال یہ کہ ان کے پاس صرف لاٹھیاں تھیں اور.....(مفسدہ پردازوں) کے پاس کر پائیں، اور وہ سمجھتے تھے کہ پولیس اور ملٹری ان کی پشت پناہ ہے.خواتین اور بچوں کو نرغہ سے نکالنے کے لئے جو مجاہدین اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر مردانہ وار آگے بڑھے تھے.اگر چہ وہ اپنے مقصد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوئے لیکن ان میں سے ایک مجاہد جونہایت سجیلا جوان تھا.اور رضا کارانہ قادیان کی حفاظت کا فرض ادا کرنے کے لئے کھاریاں ضلع گجرات سے آیا ہوا تھا.نیاز علی نام تھا.نہ معلوم اپنے ساتھیوں سے کس طرح علیحدہ ہو گیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ ملٹری نے نہایت سفا کی سے اسے گولی کا نشانہ بنایا.اناللہ وانا الیہ راجعون (31) اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ اس کی لاش بھی نہ اٹھانے دی خدا تعالیٰ کی بے شمار برکات اور انعامات نازل ہوں ہمارے اس شہید پر جنہوں نے اس ظلم وستم کے دور میں مختلف اوقات اور مختلف مقامات میں مومنانہ شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے جام شہادت پیا.ہماری آئندہ نسلیں ان کی ذات پر فخر کریں گی اور ان کے کارنامے یاد کر کے اپنی محبت اور اخلاص کے پھول ان پر نچھاور کریں گی.ان کی جدائی سے ہمارے دل غمگین اور ہماری آنکھیں نمناک ہیں.مگر انہوں نے خدا تعالیٰ کی رہ میں اپنی جانیں قربان کر کے جو درجہ اور مرتبہ حاصل کر لیا ہے اس پر ہم ان کو مبارک باد کہتے ہیں.نہ صرف ان کو بلکہ ان ماؤں کو بھی جنہوں نے ایسے بہادر اور خدا تعالیٰ کی خاطر فدا ہونے والے سپوت جنے ، ان باپوں کو بھی جن کے ہاں ایسے جوانمرد اور دلیر بچے پیدا ہوئے، ان بہنوں اور بھائیوں کو بھی جن میں وہ کھیلے کو دے اور پروان چڑھے، ان سہاگنوں کو بھی جن کے سہاگ ہمیشہ کی زندگی پاکر لازوال بنا گئے، ان بچوں کو بھی جن کی قدر و منزلت کو چار چاند لگا گئے.وہ خود زندہ ہو گئے کیونکہ خدا تعالیٰ کا ان کے متعلق
تاریخ احمدیت بھارت 127 جلد اوّل یہ ارشاد ہے.وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ آمَوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءُ کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں.اور دوسروں کے لئے ایسی زندگی حاصل کرنے کے لئے اس زمانہ میں مثال قائم کر گئے ہیں.پس ہم ان کے درجات کی مزید بلندی کے لئے دعا کرتے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے ان شہیدوں کو قصر احمدیت میں بلند مقام پر جگمگاتے ہوئے ستارے بنائے گا اور دوسرے نوجوان ان سے روشنی حاصل کریں گے.ہمارے ان مقامی اور بیرونی مجاہد نو جوانوں نے اپنے مقامات مقدسہ اور قادیان میں بسنے والے لوگوں کی حفاظت کے سلسلہ میں کئی ماہ مسلسل جو خدمات سرانجام دیں ان کا ذکر کوئی ایسا بھائی کرے جوان کی تفصیلات سے واقف اور ان کا عینی شاہد ہو تو زیادہ موزوں ہوگا.مجھے ان کی سرگرمیوں اور مجاہدانہ جدو جہد کا جو ایک آدھ نظارہ اتفاقاً دیکھنے کا موقعہ ملا میں اسی کا ذکر کر سکتا ہوں.ہمارے محلہ دار الرحمت میں.....(مفسدہ پردازوں) سے مقابلہ کا ایک اور نہایت شاندار کارنامہ بھی عمل میں آیا.اس وقت جبکہ.....(مفسدہ پرداز ) محلہ میں داخل ہو چکے تھے.ملٹری اور پولیس ان کی حمایت میں گولیاں چلا رہی تھی.ایک اور مکان میں کچھ عورتیں اور بچے محصور ہو چکے تھے اور مسلح.....مفسدہ پرداز ) غنڈوں نے اس مکان کے ارد گرد منڈلا نا شروع کر دیا تھا حتی کہ اس مکان میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگے.جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو ہمارے نوجوانوں نے مقابلہ کرنا ضروری سمجھا اور وہ ہر قسم کے خطرات کا پورا پورا احساس رکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ پولیس اور ملٹری نہ صرف.....(مفسدہ پرداز ) ڈاکوؤں اور لٹیروں کی اپنے اسلحہ سے حفاظت کر رہی ہے بلکہ ان کی حمایت میں بیگناہ اور نہتے احمدیوں کو بغیر کسی وجہ کے قتل بھی کر رہی ہے، سر پر کفن باندھ کر خواتین کی حفاظت کے لئے اپنے فرض کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آن کی آن میں نہ صرف محلہ کا وہ حصہ درندے.....(مفسده پردازوں) سے خالی ہو گیا جہاں عورتیں اور بچے رو کے پڑے تھے.بلکہ ملٹری اور پولیس کے سورمے بھی بھاگ گئے اور دور دور تک ان کا نام ونشان نظر نہ آیا.اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر اور یہ سمجھ کر کہ ملٹری اب مزید کمک حاصل کر کے لوٹے گی عورتوں اور بچوں کو بخیریت وہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچادیا گیا اس مقابلہ میں بھی کئی.....(مفسدہ پرداز ) جان سے گئے.مگر ہمارے مجاہدین خدا تعالیٰ کے فضل
جلداول 128 تاریخ احمدیت بھارت سے بخیریت نکل آئے.یہ ہیں اس سفا کا نہ حملہ کے کچھ حالات جو مسلح.....(مفسدہ پردازوں) کے ایک بہت بڑے ہجوم نے پولیس اور ملٹری کی معیت میں محلہ دار الرحمت پر کیا اور جو پولیس کی عائد کردہ شدید پابندیوں کی وجہ سے میں محض اتفاقیہ طور پر ایک نہایت محدود حلقہ میں دیکھ سکا کیونکہ اس بات کا کوئی امکان ہی نہ تھا کہ چل پھر کر سارے حالات معلوم کئے جا سکتے.ان بیان کردہ حالات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قادیان کی بے بس اور نہتی آبادی کو اس کے گھروں سے نکالنے اور اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلے جانے کے لئے ملٹری اور پولیس نے.....(مفسدہ پردازوں) کو امداد دے کر کیسا سفاکانہ حملہ کرایا.اور کیسے کیسے شرمناک مظالم کا نشانہ بنایا.(9).حیرت انگیز غلط بیانی مگر ہندوستان ریڈیو نے اپنے ایک بڑے افسر کے حوالہ سے اعلان کیا کہ قادیان پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا.بلکہ لوگ خود بخود گھر چھوڑ کر گھروں سے نکل گئے.اور لکھا گیا کہ قادیان کے ارد گرد چونکہ.....(مفسدہ پردازوں) کے گاؤں آباد ہیں اس لئے احمدی قدرتاً خوفزدہ ہو کر اپنے گھر چھوڑ گئے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ احمدی نہ کبھی ارد گرد کے.....(مفسدہ پردازوں) سے خوفزدہ ہوئے اور نہ ہو سکتے تھے اور اس کا نا قابل تردید ثبوت یہ ہے کہ وہ.....(مفسدہ پرداز ) جنہوں نے علاقہ میں ایک عرصہ سے لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا.اور جب سے گورداسپور کو ہندوستان کے حوالے کر دیا گیا اس وقت سے تو.....(مفسدہ پردازوں) کی سفاکیاں اور ستم آرائیاں حد سے بڑھ چکی تھیں لیکن انہیں قادیان کی احمدی آبادی پر حملہ کرنے کی کبھی جرات نہ ہوئی حتی کہ اردگرد کے مسلمانوں کے تمام دیہات ویران کر دینے کے باوجود بھی اس وقت تک جرات نہ ہوئی جب تک پولیس اور ملٹری کھلم کھلا ان کی حمایت میں کھڑی نہ ہو گئی اور 3 اکتوبر تک اس کے لئے اس نے پوری تیاری نہ کر لی.ملٹری اور پولیس بہت بڑی تعداد میں قادیان میں جمع کر لی گئیں.لائسینسوں سے بندوقیں لے لی گئیں اور متواتر کئی روز تشدد کا سلسلہ جاری کر کے خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی.جب یہ سب کچھ کر لیا گیا
تاریخ احمدیت بھارت 129 جلداول تو.....(مفسدہ پردازوں) کو ہزاروں کی تعداد میں جمع کر کے قادیان پر دھکیل دیا اور ان کی امداد کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی.حتی کہ بہت سے بیگناہوں کو گولیوں سے موت کے گھاٹ اُتار دیا.یہ نہتے اور بے بس احمدیوں پر حملہ اور نہایت شرمناک حملہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر پولیس اور فوج.....(مفسدہ پردازوں) کی پشت پناہ اور مددگار بن کر اس حملہ میں شریک نہ ہوتی تو.....(مفسدہ پردازوں) کو قطعاً جرات نہ ہوتی کہ احمدیوں کی طرف منہ بھی کر سکتے.اور اگر کرتے تو دنیا دیکھتی کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے.اب فوج اور پولیس کے جبر و تشدد کے ذریعہ قادیان کو خالی کرا کر یہ کہنا کہ احمدی.....(مفسدہ پردازوں ) کے خوف سے اپنے گھروں کو خود خالی کر گئے ، حقیقت پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش اور سیاہی کے ان دھبوں کو مٹانے کی نا کام سعی ہے جو ان فوجیوں اور پولیس والوں کے ہاتھوں پر لگ چکے ہیں اور جو قیامت تک مٹائے بھی نہ مٹیں گے.(32) (10).غلاظت اور عفونت کی بھر مار ملٹری اور پولیس نے انتہائی تشدد اور ظلم سے کام لے کر اور گولیوں سے بہت سے بیگناہوں کی جانیں ضائع کر کے قادیان کے مختلف محلوں کے ہزاروں مردوں اور عورتوں اور بچوں کو بورڈنگ کی عمارت اور اس سے ملحقہ جانب غرب کے گرے پڑے احاطوں میں جب بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس دیا تو ساتھ ہی حکم دے دیا کہ کوئی ادھر اُدھر حرکت نہ کرنے پائے ورنہ گولی سے اڑا دیا جائے گا.اور رات بھر گولیاں چلا چلا کر بتا دیا کہ ملٹری اور پولیس اپنے اس حکم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تیار کھڑی ہے.بورڈنگ کے قریب کے میدانوں اور عمارتوں میں اردگرد کے دیہات کے ہزار ہا پناہ گزین بہت دنوں سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر وقت گزار رہے تھے.اور کرفیو کی پابندیوں اور پولیس و ملٹری کے مظالم کی وجہ سے وہ چونکہ آس پاس ہی رفع حاجت کے لئے مجبور تھے ، اس لئے بورڈنگ کے قریب قریب کا حصہ غلاظت اور عفونت کی وجہ سے پہلے ہی سنڈ اس بن چکا تھا، اور ان رستوں سے گزرنا محال تھا.لیکن ملٹری اور پولیس کی شکل میں ظلم وستم کی آندھی ہزاروں مقامی مردوں عورتوں اور بچوں کو جب ان کے آباد گھروں سے اڑا کر باہر لے آئی تو انہیں اسی سنڈ اس میں رات گزارنی پڑی ، اور صبح اٹھ کر دیکھا کہ بورڈنگ ہاؤس کے صحن کا وہ حصہ جو گیلا ہو
جلد اوّل 130 تاریخ احمدیت بھارت جانے کی وجہ سے پناہ گزینوں کے ٹھیرنے کے قابل نہ تھا غلاظت سے اٹ گیا، اور اس میں لمحہ بہ لحہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا.اسی دن صبح ہی صبح ان ہزار ہا لوگوں کو جو ادھر اُدھر بکھرے پڑے تھے، اور بہت دنوں سے انتظار میں تھے کہ ملٹری کی حفاظت میں قافلہ پیدل روانہ ہو تو وہ بھی کسی طرف کا رخ کریں، انہیں ملٹری اور پولیس نے زبردستی ہانک کر بٹالہ کی طرف روانہ کرنا شروع کر دیا.اور وہ لوگ نہ صرف بہت کچھ اپنا اسباب پھینک کر بلکہ اپنے بوڑھے اور بیماررشتہ داروں کو بھی چھوڑ چھاڑ کر جانے لگے.اس وقت ہمارے منتظمین نے اعلان کر دیا کہ کوئی احمدی اس قافلہ میں نہ جائے کیونکہ راستہ میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا سخت خطرہ ہے.آخر اس لئے ہوئے قافلہ کو جسے ملٹری اور پولیس نے یہ کہہ کہہ کر روانہ کیا تھا کہ وہ اس کی حفاظت کرے گی، بٹالہ پہنچتے پہنچتے بالکل ہی لٹواد یا اور بیبیوں آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا.کیونکہ راستہ کے دونوں طرف ہزار ہا مسلح....(مفسدہ پرداز ) لٹیرے کھڑے تھے جو کھلم کھلا لوٹتے اور قتل کرتے تھے، اور کوئی ان کو روکنے والا نہ تھا.تباہ حال پناہ گزینوں کو موت کے منہ زبردستی دھکیل کر پولیس اور ملٹری نے جو جگہ خالی کروائی تھی وہ اگر چہ غلاظت اور گندگی کی وجہ سے ہی ٹھیر نے کے نا قابل تھی لیکن جس تکلیف اور مصیبت میں گزشتہ رات جگہ کی تنگی کی وجہ سے گزاری گئی تھی ، وہ مجبور کر رہی تھی کہ قریب قریب کی عمارتوں میں جو سکول اور بورڈنگ سے ہی متعلق تھیں سر چھپانے کی کوشش کی جائے.لیکن ملٹری کی طرف سے حکم جاری ہو گیا کہ اس سارے علاقہ میں جہاں سے پناہ گزین اٹھے ہیں کوئی داخل نہ ہو بلکہ ادھر سے گزرنے کی بھی جرات نہ کرے ورنہ گولی سے اڑا دیا جائے گا.اس طرح کئی ہزار مردوں عورتوں اور بچوں کو ایک چھوٹے سے احاطہ میں محصور کر کے جہاں کھانے پینے کی ضروریات سے یکسر محروم کر دیا گیا وہاں اس بات کے لئے بھی مجبور کر دیا کہ عفونت اور گندگی کی شدید تکلیف میں پڑے رہیں ، جو کہ لمحہ بہ لحد بڑھتی جارہی تھی.ان حالات میں مسلسل کئی دن گزارے گئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بورڈنگ کے صحن میں چلنا پھرنا یا اسکے آس پاس آنا تو الگ رہا بد بو اور تعفن کی وجہ سے کمروں کے اندر بیٹھنا تک محال ہو گیا.اس کے ساتھ ہی غلاظت کی بھر مار کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ بے انتہا کثرت کے ساتھ مکھی پیدا ہو گئی جس نے رہا سہا چین بھی چھین لیا.اس دوران میں غلاظت سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر سوائے اس کے کیا بھی کیا جا سکتا تھا کہ محدودسی جگہ میں گڑھے کھود کھود کر غلاظت کو دبانے کی کوشش کی جاتی.سب سے پہلے یہ کام کرتے
تاریخ احمدیت بھارت 131 جلد اول ہوئے میں نے ایک نوجوان کو دیکھا جس کا نام عطاء اللہ ہے اور محلہ دارالفضل کا رہنے والا تھا اس نے دوسرے ہی دن کدال ہاتھ میں لے کر یہ کام شروع کر دیا اور روزانہ کرتا رہا.بعد میں اور بھی نوجوان اس کام میں مصروف ہوتے گئے اور انہوں نے یہ خدمت ادا کرنے میں قابل تعریف اور لائق تحسین سرگرمی دکھائی.باوجود اس کے حالت نہایت ہی تکلیف دہ اور پریشان کن تھی.آخر ایک دن جب یہ معلوم ہوا کہ اعلیٰ فوجی افسر ہوائی جہاز کے ذریعہ حالات ملاحظہ کرنے کے لئے آرہے ہیں تو اتنی اجازت دی گئی کہ کالج کے ہوٹل اور قریب دو چار مکانوں میں جو لوگ رہنا چاہیں جاسکتے ہیں اس پر کچھ لوگ وہاں چلے گئے.(11) - جبر اتبدیلی مذہب کالج کے ہوسٹل میں ایک دن صبح ہی صبح دو مرد عورتیں اور چند بچے ہانپتے کانپتے متصل کے ایک گاؤں جو گی چیمہ سے پہنچے.جنہوں نے بتایا کہ گاؤں کے....(غیر مسلموں) نے انہیں زبردستی....(جبراً مذہب تبدیل کروا کر ایک مکان میں زیر حراست رکھا ہوا تھا.لیکن گزشتہ رات موقع پا کر وہ کھیتوں میں چھپتے چھپاتے بھاگ آئے.اس سے یہ معلوم ہوا کہ....(غیر مسلموں) کے دیہات میں جو مسلمان بستے تھے انہیں نہ صرف گھروں سے نہ نکلنے دیا گیا بلکہ جبراً ان کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا گیا.(12) - کالج اور ہوٹل پر قبضہ کالج کی عمارت سے سخت بارش کے دوران پناہ گزینوں کو نکال کر ملٹری نے پہلے ہی اس پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں اپنا اڈہ قائم کر رکھا تھا.اب کالج کے ہوٹل کو بھی خالی کرالیا گیا.اور جولوگ یہاں رہنے لگے تھے انہیں پھر بورڈ نگ آنا پڑا.(13).کھانے پینے کی مشکلات بورڈنگ کا تعلق اسی دن سے شہر میں رہنے والے احمدیوں سے منقطع کر دیا گیا جس دن کہ لوگوں کو گھروں سے نکال کر بورڈنگ میں ٹھونس دیا گیا تھا.نہ کوئی شہر میں جاسکتا تھا اور نہ آسکتا تھا.کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنے سے بالکل روک دیا گیا لیکن باوجود اس کے ہمارے منتظمین نے ہزاروں مردوں عورتوں اور بچوں کی جانیں بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی.بورڈنگ اور ہوٹل میں غلہ کا کافی ذخیرہ
جلد اوّل 132 تاریخ احمدیت بھارت موجود تھا جو اس آڑے وقت کام آیا.ابتدا میں کچھ دن گندم اُبال ابال کر کھانے کے لئے دی جاتی رہی.بعد میں تھوڑے بہت آٹے کا انتظام ہو گیا اور فی کس ایک ایک روٹی صبح و شام ملنے لگی.کچھ چاول بھی میسر آگئے.وہ بھی ابال کر تھوڑے تھوڑے دیئے جاتے.اس قسم کی خوراک سے پیچش کی بیماری عام طور پر پھیل گئی جس کے لئے نہ تو کھانے پینے میں پر ہی ممکن تھا.نہ علاج میسر تھا.کیونکہ ہمارے ہسپتال پر قبضہ کر لینے کے علاوہ پرائیویٹ دکانوں کو بھی ملٹری اور پولیس نے اپنے تصرف میں لے کر کسی دوائی کا حاصل کرنانا ممکن بنا دیا تھا.(14).ہوائی جہاز پر گولیوں کی بوچھاڑ بیرونی دنیا سے بالکل منقطع کر دینے کے لئے ڈاک، تار اور ٹیلیفون وغیرہ کا سلسلہ تو پہلے ہی کاٹ دیا گیا تھا.لاہور سے ہوائی جہاز کبھی کبھی ظلم و ستم کا نظارہ کرنے کے لئے آیا کرتا تھا.اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی تھی.آخر جہاز کا آنا بھی بند ہو گیا.لیکن جب قادیان کو ملٹری اور پولیس نے غنڈے...(مفسدہ پردازوں) کی آڑ میں ویرانہ بنا دیا تو ایک دن ایک زرد رنگ کا ہوائی جہاز آیا.حسب معمول پولیس اور ملٹری نے اس پر بھی گولیاں برسانی شروع کر دیں.مگر وہ ان کی کوئی پروا کئے بغیر بہت نیچے اُڑتا.ہوا اور سارے قادیان پر کئی چکر لگا کر تباہی و بربادی کو اچھی طرح دیکھ کر چلا گیا.(15) خواتین کی حفاظت کا انتظام بورڈنگ کے قریب قریب کے مکانوں میں چونکہ فورا ہی....(مفسدہ پردازوں) کو داخل کر دیا.اُدھر رات بھر ملٹری ہمارے ارد گرد چکر لگاتی اور گولیاں چلاتی رہتی.ایسی حالت میں ان....(مفسده پردازوں) نے شرارتیں کرنی شروع کر دیں.اور ایک رات ایک مکان سے ہماری طرف دو بم بھی پھینکے گئے مگر وہ نہ پھٹے.اس سے ان کی غرض بورڈ نگ خالی کرا نا تھی.مگر ہمارے نوجوانوں کی سرفروشی اور خود حفاظتی کے جذبہ نے انہیں نا کام رکھا اور نوجوانوں کے اسی جذبہ نے اس وقت بھی بہت کام دیا جب عورتوں اور بچوں کو نکالنے کے لئے ملٹری ٹرک بہت بڑی تعداد میں قادیان پہنچے اور ان میں عورتوں اور بچوں کو سوار کر کے روانہ کیا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کو نہ صرف پوری حفاظت کے ساتھ سوار کرایا گیا
تاریخ احمدیت بھارت 133 جلد اوّل بلکہ راستہ میں بھی پوری حفاظت کا انتظام کیا گیا اور سارا قافلہ امن وامان سے لاہور پہنچ گیا.جتنے دن عورتیں اور بچے قادیان میں محصور اور غیر معمولی خطرات میں گھرے رہے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نہایت ہی بے چین اور بیکل رہے.اس بے چینی کا کسی قدر اظہار حضور نے ایک والا نامہ کے ذریعہ بھی فرمایا جو اہل قادیان کے نام تھا اور سب کو سنایا گیا اور اس کے سننے سے جہاں ہر مرد و عورت کے حوصلے بلند اور دل اور زیادہ مضبوط ہو گئے وہاں ہر ایک نے یہ بھی محسوس کیا کہ حضور کو اپنی جماعت کے اس ناتواں طبقہ کا جو عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے کس قدر فکر اور خیال ہے اور اس کی حفاظت کے لئے کس قدر بیچین ہیں.دراصل ظلم و ستم کے خوفناک طوفان بیکراں میں سے مرکز جماعت کی تمام خواتین اور بچوں کا جن کا شمار ہزاروں میں تھا ہر طرح کی حفاظت کے ساتھ بخیر و عافیت نکال لینا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے کارناموں میں سے ایک عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی اہمیت کا اندازہ لگا نا ممکن نہیں.اور جوں جوں زمانہ گزرتا جائے گا اور غور و فکر کرنے کا موقعہ ملے گا اس کی اہمیت بڑھتی ہی جائے گی اور غور کرنے والوں کو محو حیرت کرتی رہے گی اور اس سلسلہ میں جن احباب کو حضور کے ارشادات اور تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی سعادت حاصل ہوئی اگر ان میں سے کوئی تفصیلی حالات قلمبند کر کے شائع کرائے تو بہت ہی اچھا ہو......حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کے خاص انتظامات کے ماتحت تمام عورتوں اور بچوں کے قادیان سے روانہ ہو جانے کے بعد مردوں کے کندھوں سے ان کی حفاظت کی ذمہ داری کا بہت بڑا بوجھ اُتر گیا تو ملٹری اور پولیس نے یہ کہہ کر کہ بورڈنگ میں سے عورتوں کے چلے جانے کی وجہ سے مردوں کے رہنے کی گنجائش نکل آئی ہے، فضل عمر ہوسٹل اور قریب قریب کے مکانات جن میں احمدی پناہ گزین تھے جبراً کھالی کرانے شروع کر دیئے اور پھر سب کو بورڈنگ میں محبوس کر دیا.(33) (16).بیگار ان ایام میں فوجی پہرہ میں ہم سے کئی قسم کی بیگار بھی لی گئی.منتظمین سے کہا جاتا کہ کام کرنے کے لئے فوراً اتنے آدمی بھیج دور نہ ملٹری جبراً کام کرائے گی.ایک دن مولوی ابوالعطاء صاحب نے فضل عمر ہوٹل میں آکر بھی اعلان کیا کہ دوست خود بخود چلے جائیں اور احباب چلے گئے.بیرونی دیہات کے ہزار ہا مرد
جلد اوّل 134 تاریخ احمدیت بھارت عورتیں اور بچے بہت دنوں سے بورڈنگ اور کالج کے وسیع میدانوں میں پڑے تھے جہاں انہوں نے شدید گرمی اور شدید بارشوں کی صعوبتیں جھیلی تھیں اور تھوڑا بہت سامان خاص کر لحاف اور کپڑ وغیرہ جو گھروں سے لائے تھے وہ ضائع ہو گئے تھے.جب انہیں جبر 14اکتوبر کو پیدل بٹالہ کی طرف دھکیلا اور درندہ صفت....(مفسدہ پردازوں) کے آگے بے دست و پا کر کے ڈال دیا گیا.جنہوں نے انتہائی کمینگی کا اظہار کرتے ہوئے بیکسوں کو نہایت بے رحمی سے لوٹا اور قتل کیا تو وہ اپنے برتن اپنی چار پائیاں اپنے ٹرنک اپنے لحاف اور کپڑے جو چیتھڑے ہو چکے تھے اور جو غلاظت سے لتھڑے ہوئے تھے وہیں چھوڑ گئے.ملٹری نے یہ سب چیزیں ہمارے آدمیوں کو جن میں گریجوایٹ، اعلی تعلیم یافتہ اور اعلیٰ خاندانوں کے افراد بھی شامل تھے برگار میں پکڑ کر اکٹھی کرائیں.پھر اینٹیں جن کے فرش بنا کر پناہ گزینوں نے بارش کے دن گزارے تھے اور کیچڑ میں لت پت ہونے کی بجائے ان پر بیٹھ کر راتیں کاٹی تھیں ان کو جمع کرانے کے لئے بھی ہم سے بیگار لی گئی.یہ اینٹیں جو ہزاروں کی تعداد میں زمین میں گڑی ہوئی تھیں ان کو چونکہ خالی ہاتھوں سے ہمیں اکھیڑ نا پڑا.اس لئے ہمارے ہاتھ اس مشقت سے چھل گئے.چار چار کوڑی کے...(غیر مسلم ) سپاہی ہمیں کام کرتے ہوئے ڈانٹتے ڈپٹتے بھی اور شاباش شاباش بھی کہتے.مگر ہمیں ان کی کسی حرکت کی کوئی پروانہ تھی.ہم تو اپنے نظام کے ماتحت چل رہے تھے اور قضاء و قدر کے کرشمے دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے ترانے گا رہے تھے.ایسی حالت میں ان کی شاباش ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے زیادہ ایذارساں محسوس ہوتی تھی.(17).ملٹری کی لوٹ مار پولیس والوں اور فوجیوں کی لوٹ مار کے شرمناک حادثات کی داستانیں تو روزانہ سننے میں آتی تھیں.لیکن اس بارے میں خود مشاہدہ کرنے کا موقع اس وقت ملا جب میں بورڈنگ سے قصبہ میں آگیا اور دفتر’الفضل کی بالائی منزل میں رہنے لگا.یہاں سے میں نے دیکھا کہ جب سابقہ ہندوستانی ملٹری کا تبادلہ ہوا.اور وہ لوگ فوجی ٹرکوں میں بیٹھ کر روانہ ہوئے تو کئی ایک بڑے بڑے ٹرک لبالب مختلف قسم کے اسباب سے بھرے ہوئے تھے اور اس کے اوپر تھوڑے تھوڑے سپاہی بیٹھے تھے.قادیان سے باہر جانے والوں کو جب ٹرکوں پر چڑھنے کے لئے تھوڑا بہت اسباب لے کر قصبہ سے باہر جانا پڑتا تو...(غیر مسلم)
تاریخ احمدیت بھارت 135 جلد اول ملٹری کی موجودگی میں....(مفسدہ پردازوں) نے دن دہاڑے رہزنی شروع کر دی.اکیلے دو کیلے پر اچانک حملہ کر کے اسباب چھین لیتے.اور بعض حالتوں میں زخمی کر کے بھاگ جاتے.البتہ چند افراد اگر اکٹھے مل کر جاتے تو حملہ کرنے کی جرات نہ کرتے.میں جب بورڈنگ سے قصبہ میں آیا تو میرے ساتھ پانچ سات نوجوان بچے بھی تھے.اس دن بھی اگر چہ کئی اصحاب پر حملے ہو چکے تھے ،مگر ہم بخیریت پہنچ گئے.رہزنی کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک مسلمان ملٹری نہ پہنچ گئی.اور ہر خطرہ کے مقام پر ہند و فوجی کے ساتھ مسلمان فوجی نہ کھڑا کر دیا گیا.یہ وہ مختصر حالات ہیں جو میں نے آنکھوں دیکھے بیان کئے ہیں.اگر کانوں سنے بھی بیان کئے جاتے تو یہ المناک داستان نہایت ہی طویل ہو جاتی.(34) بہشتی مقبرہ کی حفاظت قادیان پر حملے سے پیشتر جن مقامات مقدسہ کی حفاظت انتہائی ضروری اور اہم تھی ان میں بہشتی مقبرہ سر فہرست تھا.کیونکہ اس سرزمین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ امسیح الاول اور جماعت کی مقدس شخصیات کے مزار ہیں.اور جماعت احمد یہ اپنے لہو کا آخری قطرہ بہا کر بھی ان کی حفاظت کا عزم کر چکی تھی.چنانچہ حالات کے مخدوش ہوتے ہی مقامات مقدسہ کی حفاظت پر مامور انتظامیہ نے پچاس افراد پر مشتمل ایک گروپ بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے لئے متعین کر دیا تھا.جس میں زیادہ تر سابق فوجی ( یعنی مستقل خدام) تھے.اس گروپ میں شامل مکرم عبد الغفور صاحب عبدل تحریر فرماتے ہیں کہ:.قادیان میں عیسائیوں کے محلہ......(دارالصحت) اور منگل کے درمیانی علاقہ میں ہزاروں کی تعداد میں مسلح.....(مفسدہ پرداز ) دھرنا مار کر بیٹھے ہوئے تھے.اور قادیان پر حملہ کرنے کے لئے کسی خاص وقت کا انتظار کر رہے تھے.محلہ دارالانوار کی طرف سے حملے کا خطرہ تھاوہاں بھی کافی تعداد میں.....(مفسدہ پرداز دیکھے گئے تھے.ان حالات میں ہم کو بہشتی مقبرہ پہنچنے کا حکم ملا اور ہم پچاس کے قریب آدمی جن میں زیادہ تر سابق فوجی تھے، صو بیدار عبدالغفور خان کی سرکردگی میں بہشتی مقبرہ پہنچ گئے جیسے کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ بہشتی مقبرہ اور اس کی حفاظت کی اہمیت ہماری جانوں سے بھی زیادہ ہے.ہم میں سے اکثر آدمی مسلح تھے اور بالخصوص سابق فوجیوں کے پاس تو پکی رائفلیں تھیں.ہم
جلداول 136 تاریخ احمدیت بھارت اپنے ہتھیاروں کو علی الصح زمین میں چھپا دیتے اور رات کو نکال لیتے تھے.پہلی ہی رات کو محلہ دارالانوار کی طرف (سے) ٹریسر راؤنڈ فائر ہونے شروع ہو گئے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی کو گولی نہیں لگی.حالات سے معلوم ہوتا تھا کہ.....(مفسدہ پردازوں) کے جتھے قادیان کے چاروں طرف پہنچ چکے ہیں، بالخصوص......( دارالصحت) کی طرف سے قادیان کے باہر ستر (70) یا اسی (80) ہزار.....(مفسدہ پرداز ) صفیں باندھے بیٹھے تھے تا کہ موقع ملتے ہی قادیان میں لوٹ مار شروع کی جاسکے.ہم لوگ جو بہشتی مقبرہ کی حفاظت پر مامور تھے، ہم اس پوزیشن میں تھے کہ.....(مفسدہ پردازوں) کے اس ہجوم کو جو......(دارالصحت ) کی طرف بیٹھا تھا، ان پر بہشتی مقبرہ سے یا حضرت اماں جان کے باغ سے حملہ کر کے کم از کم سینکڑوں کو گولی کا نشانہ بنا سکتے تھے مگر مرکز کی طرف سے سختی سے ممانعت تھی کہ اس وقت تک گولی نہ چلائی جائے جب تک کوئی شخص بہشتی مقبرہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے اور جب تک کہ منارۃ مسیح سے ایک خاص قسم کا بگل بجا کر حملہ کے مقابلہ کی اجازت نہ دی جائے.بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے بہشتی مقبرہ قادیان کی بستی سے کٹ گیا ہوا تھا.ڈھاب کے پل پر پولیس کی چوکی بن چکی تھی.وہاں مسلح پولیس ہر وقت سٹینڈ ٹو رہتی تھی تا کہ ادھر کا آدمی اُدھر نہ جا سکے.اس کے باوجود کئی جی دار احمدی نوجوان ڈھاب کے خفیہ راستوں سے تیر کر بہشتی مقبرہ آتے اور واپس چلے جاتے اور اسطرح پیغام رسانی کے فرائض انجام دیتے تھے.اور ہندو پولیس کو پتہ بھی نہیں چلنے دیتے تھے.اس موقع پر ہمارے انچارج صو بیدار عبد الغفور خان صاحب نے بہشتی مقبرہ کی حفاظت کی خاطر لوگوں کی ڈیوٹیاں تقسیم کرنے سے قبل ایک تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ دیکھو! ہمارے چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں.گو اس دشمن کا خاص مقصد تو قادیان کے شہر میں لوٹ مار اور قتل و غارت کرنا ہے.مگر وہ اس علاقہ میں یعنی بہشتی مقبرہ میں بھی داخل ہو سکتا ہے.ادھر بہشتی مقبرہ کی حفاظت ہمارے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے.یوں سمجھیں کہ یہ مسئلہ ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے.لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ ہوشیار اور چاک و چوبند رہے اور اپنے ارد گرد کڑی نظر رکھے اور اگر کوئی غلط چیز دیکھے تو فوراً مجھے بتلائے.لیکن یادرکھو اگر کسی شخص نے یہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو میں اس کی پیٹھ میں گولی ماردوں گا.“ ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر میں بھا گوں تو بے شک میری پیٹھ میں گولی ماردینا.خان صاحب کے آخری الفاظ سن کر بعض آدمی ہنس پڑے تو خان صاحب نے کہا ” خوہاں نا اگر میں بھا گوں تو بے شک میری پیٹھ پر گولی
تاریخ احمدیت بھارت 137 جلد اول ماردینا.بے شک یہ فقرہ خان صاحب نے لوگوں کو ہنسانے کے لئے کہا تھا مگر اس سے بھی ان کی زندہ دلی، دلیری اور بے خوفی کا پتہ لگتا تھا.بہشتی مقبرہ میں ہماری ڈیوٹی تقریباً ایک ماہ تک رہی.اس دوران کھانے کا کوئی بندو بست نہیں تھا.خدام نے کسی نہ کسی طرح گندم کی ایک بوری وہاں پہنچادی تھی اب اس کی گھنگنیاں ابال ابال کر کھاتے یا پھر منگل کی طرف سے کماد کے گنے توڑ کر لاتے اور چوستے رہتے.کماد ابھی کچا تھا اور اس طرح گھنگنیوں میں سکرین ڈالی جاتی تھی اس لئے بہت سے لوگوں کو پیچس کا مرض ہو گیا اور بخار چڑھنے شروع ہو گئے.خود مجھے بھی پندرہ میں یوم تک پیچس کی تکلیف رہی.جب قادیان پر حملہ ہوا تو ہم کو صورت حال کا کچھ علم نہیں تھا کہ قادیان میں کیا ہو رہا ہے ہم تو پگل کے منتظر تھے.بعد میں معلوم ہوا کہ مسجد اقصیٰ کے پاس عورتوں کو نکالتے ہوئے ہمارے دو آدمی.....(مفسدہ پردازوں) کی گولیوں سے شہید ہو گئے.بڑے حملہ کے بعد کچھ نہ کچھ کنٹرول ہوا.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب نے سیکورٹی کونسل میں قادیان پر.....(مفسدہ پردازوں کے حملوں کا سوال اٹھایا تھا اور ہند سر کار نے اپنی بدنامی سے ڈر کر کچھ نہ کچھ کنٹرول کیا تو پھر قادیان میں کچھ امن ہوا اور.....(مفسدہ پردازوں) کے جتھے قادیان کے گردونواح سے روپوش ہونے شروع ہوئے.(35) 2 اور 3 اکتوبر 1947 ء کے چشم دید حالات مؤرخہ 2 /اکتوبر 1947 ء قادیان سے عورتوں ، معذوروں اور بچوں کو لیجانے کے لئے لاہور سے ایک کنوائے روانہ ہوا.اس کنوائے کو قادیان جانے سے روک دیا گیا.مکرم خان محمد عیسی جان صاحب اس کنوائے میں خود شامل تھے.موصوف اپنے چشم دید حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :.” ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (رضی اللہ عنہ )...نے حکومت پاکستان کی اجازت سے ایک مرتبہ بتیس لاریاں کرایہ پر لے کر قادیان بھجوائیں.ان لاریوں کے ساتھ پچاس احمدی تھے.جن میں کوئٹہ کے احباب میں سے ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب شہید ، ڈاکٹر میجر منیر احمد صاحب خالد، جناب شیخ محمد اقبال صاحب، چوہدری منور علی صاحب درویش ، حوالدار محمد ایوب صاحب درویش، میاں بشیر احمد صاحب ایم.اے ، میاں احمد دین صاحب بٹ ، میاں کریم بخش صاحب، مرزا
جلد اوّل 138 تاریخ احمدیت بھارت محمد صادق صاحب سلمی ، خان عبد الرحمن خاں صاحب ایجنٹ اور خاکسار بھی شامل تھے.ہم میں سے اکثر حفاظت مرکز کے لئے جارہے تھے.بعض اپنے رشتہ داروں کو لانے کے لئے گئے تھے.2 اکتوبر 1947ء کی صبح کی نماز کے بعد حضور نے اس مختصر سے قافلہ کو بعض ضروری ہدایات دینے اور صبر و استقلال کی تلقین کرنے کے بعد فرمایا کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس قافلہ کے ساتھ کوئی خطرناک حادثہ پیش آنے والا ہے.اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو.اس کے بعد حضور نے لمبی اور پرسوز دعا کرائی.وہ دعا تھی یا عرش کو لرزا دینے والا زلزلہ ! ہماری ہچکیاں بندھ گئیں اور آہ و بکا سے آسمان گونج اٹھا.اس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کے ساتھ ہمارا یہ قافلہ منزل مقصود کی طرف روانہ ہوا.کوئی دس بجے کے قریب ہم پاکستان کی سرحد کو عبور کر کے ہندوستان کی سرحد میں داخل ہو گئے.یہاں ملٹری چوکی پر ہمارا قافلہ رک گیا.کچھ دیر کے بعد پوچھ کچھ اور تفتیش ہونے لگی.تسلی پانے کے بعد انہوں نے ہمیں روانگی کا حکم دیا.یہ دو پہر کا وقت تھا.آسمان پر سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا.ہر طرف سکوت طاری تھا.ہماری لاریاں چالیس، پینتالیس میل کی رفتار سے جارہی تھیں.سڑک کے دونوں اطراف حد نظر تک ویران ہی ویران دکھائی دے رہی تھیں.مستقبل کے عجیب و غریب تصورات آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے.اور دل میں قادیان پہنچنے کی خواہش مچل رہی تھی.غرض اس قسم کے اور بہت سے تخیلات ہمارے ذہن کو گھیرے ہوئے تھے.کہ اچانک نا قابل برداشت بد بو ، ایسی بد بوجس سے ناک سڑنے لگے اور دماغ پھٹنے لگے محسوس ہوئی.لاری سے باہر جو نظر پڑی تو یہ دیکھ کر روح کانپ اٹھی کہ سڑک کے دونوں اطراف کچھ فاصلہ پر کھیتوں میں انسانی لاشوں کو بڑے بڑے بدنما گدھ اور کتے نوچ رہے تھے.اُف ! یہ نہایت بھیانک اور تکلیف دہ منظر تھا کہ دیکھتے ہی ہم پر دہشت طاری ہو گئی اور کافی دیر تک ہم بے حس وحرکت ہو کر رہ گئے.ابھی ہماری بدحواسی دور نہ ہونے پائی تھی کہ ہماری نظر مسلمان پناہ گزینوں کے ایک قافلہ پر پڑی جو پاکستان کی طرف جارہا تھا.اس جگہ کچھ وقفہ کے لئے ہمارا قافلہ رکا تاہم اپنے مظلوم اور بدنصیب بھائیوں کی خستہ حالت پر چار آنسو بہائیں.یہ لوگ کچھ تو بیل گاڑیوں پر سوار اور کچھ پیادہ تھے.اس قافلہ میں سب سے زیادہ دلخراش اور جگر سوز منظر جو میں نے دیکھا وہ ایک عورت کی انتہائی بے چارگی اور مظلومیت کا تھا.اس کو دیکھ کر میری آنکھوں سے بے تحاشہ آنسوڈھلک رہے تھے.وہ بے چاری پیدل جارہی تھی.اس کے پاؤں کافی متورم تھے.پیٹ پھولا ہوا تھا.چہرہ بھی سوجا ہوا تھا.پاؤں میں شدید درد کی وجہ سے لنگڑا رہی تھی.درد
تاریخ احمدیت بھارت 139 جلد اوّل اور کرب سے ”ہائے ہائے کرتی جارہی تھی.چند قدم چل کر بیٹھ جاتی اور ماتھے پر ہاتھ مار کر کہتی ”ہائے ربا ! میں مری“ اور پھوٹ پھوٹ کر روتی.اسکا رونا اس قدر دل سوز تھا کہ پتھر دل بھی موم ہو جا تا.اس عورت کی یہ درد ناک حالت دیکھ کر یقین کیجئے کلیجہ پھٹنے لگا.بے چاری جب دیکھتی کہ اسکے ساتھی کچھ دور نکل گئے تو پھر چل پڑتی لیکن بادل ناخواستہ.کاش اس عورت کی ہم کوئی مدد کرنے کے لائق ہوتے ! خدا خدا کر کے شام پانچ بجے ہم بٹالہ کے حدود میں داخل ہو گئے.اس جگہ پہنچ کر قادیان دیکھنے کی آرزو پھر دل میں انگڑائیاں لینے لگی.لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ تقدیر ہم پر مسکرا رہی تھی اور ہماری یہ آرزو دل ہی دل میں مر جانے والی تھی.ابھی ہم بٹالہ شہر سے کوئی ایک میل باہر ہی تھے کہ انڈین پولیس اور ملٹری حکام نے ہمارے قافلہ کو رکنے کا حکم دیا.فورا تعمیل ہوئی.ہم نے بھی اس موقعہ کو غنیمت جانا اور اپنی تھکان دور کرنے اور تازہ دم ہونے کے لئے لاریوں سے اُتر کر ادھر اُدھر ٹہلنے لگے.دائیں بائیں عمارتیں کھنڈرات کی صورت میں نظر آ رہی تھیں.فیکٹریاں اور ان کی ٹوٹی ہوئی مشینیں بھی دکھائی دے رہی تھیں.ہم سب چپ چاپ دیر تک ان کھنڈرات میں گھوم رہے تھے.ریکا یک مشرق کی طرف سے ہمارے کچھ آدمی ایک کمرہ نما عمارت کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے.میں بھی دیکھا دیکھی وہاں پہنچ گیا.اُف ! کیسا مکروہ منظر مجھے دیکھنا پڑا.ایک عورت کی نصف لاش کٹی ہوئی پڑی تھی.لاش بالکل تازہ تھی.میں تو زیادہ دیر وہاں ٹھہر نہ سکا.سر میں چکر آنے لگے اور آنکھوں میں اندھیرا.فوراً واپس اپنی لاری میں آکر بیٹھ گیا اور ان وحشیانہ تصورات سے قریب تھا کہ میں دیوانہ ہو جاتا.ہمیں وہاں رکے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی.سورج غروب ہونے کو تھا.دلوں میں خوف و اضطراب کی لہر دوڑ نے لگی.جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمارا اضطراب بھی اسی مقدار سے بڑھتا گیا.اس وقت جب سورج کی سنہری کر نیں آنکھوں سے اوجھل ہوئیں اور تاریکی فضا پر چھا رہی تھی.مطلع پر ستارے ہماری مظلومیت پر آنسو بہانے کے لئے بے نقاب ہو رہے تھے.تب عین اس وقت خبر آئی کہ رات یہیں پر گزاری جائے گی.ہم بالکل نہتے تھے.اور نہتے ہونے کے احساس نے ہمیں بری طرح گھائل کیا ہوا تھا.حکم حاکم مرگ مفاجات ناچار ہمیں رات وہیں گزارنی پڑی.لیکن اس بھیا نک ماحول میں بھلا نیند کس کو آسکتی تھی.بڑی مشکل سے اٹھتے بیٹھتے ہم نے رات گزار دی.صبح کو آٹھ بجے (مورخہ 3 /اکتوبر 1947 ء.ناقل ) خبر آئی کہ چونکہ بارش کی وجہ سے قادیان کا
جلد اوّل 140 تاریخ احمدیت بھارت راستہ خراب ہو چکا ہے.اس لئے تم واپس لاہور چلے جاؤ.ورنہ یہاں تمہیں....(مفسدہ پرداز ) زندہ نہیں چھوڑیں گے.یہ سنتے ہی ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے.اتنا خرچ، اتنی تگ و دو اور اتنی صعوبتوں کے بعد بے نیل و مرام واپس جانا ہمارے لئے ایک صدمہ عظیم تھا.ہم نے ان ظالموں کی بڑی منت و سماجت کی.لجاجت اور انکساری سے ان سے درخواست کی کہ وہ ہمیں قادیان جانے کی اجازت دے دیں.مگر ان کا پتھر دل ہماری لجاجت سے ذرا بھی متاثر نہ ہوا.دراصل راستہ کوئی خراب نہ تھا.صرف اس لئے وہ ہمارے واپس جانے پر مصر تھے کہ اس رات وہ قادیان پر حملہ کرنے کی تیاری میں مصروف تھے.بالآخر ہم نے اپنے ساتھ بٹالہ کے مسلمان پناہ گزین لے جانے کی اجازت کے لئے ان سے درخواست کی تو کچھ دیر تامل کے بعد انہوں نے ہمیں ایسا کرنے کی اجازت دے دی.ہم کوئی دس بجے ایک میدان میں سے گزر کر پناہ گزین کیمپ میں داخل ہوئے.یہاں ایک بہت بڑا جو ہڑ تھا جس کے کنارے یہ ستم رسیدہ پناہ گزین پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے.ان کی حالت انتہائی قابل رحم تھی.لاغر اور مفلوک الحال تھے.ایسا معلوم ہوتا تھا گویا برسوں سے بیمار ہیں.اور جیسے خوشیاں ہمیشہ کے لئے ان سے منہ موڑ چکی ہیں.چلنے پھرنے کی ان میں سکت نہ تھی.ینگی اور کھردری زمین ہی ان کا بستر بچھونا تھی.پھٹے پرانے چیتھڑے زیب تن کئے ہوئے تھے.کوئی سویا ہوا تھا کوئی لیٹا ہوا تھا.کوئی جو ہر سے پانی پی رہا تھا.معمر عورتیں ایک دوسرے کے سامنے آلتی پالتی مارے بیٹھی تھیں.یہ دردناک منظر دیکھ کر یقین جانئے ہمارا کلیجہ پھٹ گیا.کیمپ میں ایک ہولناک سکوت طاری تھا.ہم حیران تھے کہ ہمیں دیکھ کر یہ خوش کیوں نہیں ہوئے.شاید اس لئے کہ ان کی یہاں سے بچ نکلنے کی امید بالکل منقطع ہو چکی تھی اور زندہ رہنے کا احساس مٹ چکا تھا.لیکن جونہی ان کو بتایا گیا کہ ہم ان کو پاکستان لے جانے کے لئے آئے ہیں تو خدا معلوم ان میں اتنی پھرتی اور طاقت کہاں سے آگئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے سب کے سب لاریوں پر ٹوٹ پڑے.وہ لاریوں پر چڑھنے کی دھن میں ایک دوسرے سے بری طرح ٹکرارہے تھے اور ان میں وہ گہما گہمی ہوئی کہ ہم انگشت بدنداں رہ گئے.آن واحد میں ساری لاریاں بھر گئیں.کیمپ میں کچھ....(مفسدہ پرداز ) ادھر اُدھر پھرتے نظر آ رہے تھے جو ہمیں غیظ وغضب کی نظروں سے گھور رہے تھے.جب ہماری تمام لاریاں بھر گئیں اور ہم روانہ ہونے کو تھے دفعتا کیمپ کے اردگر دلمبی لمبی گھانس اور گھنی جھاڑیوں میں سے جہاں مشین گنیں اور برین گئیں تھامے ہوئے یہ ظالم چھپے ہوئے تھے گولیوں کی
تاریخ احمدیت بھارت 141 جلد اول بوچھاڑ شروع ہوئی.ایسی غضب کی بوچھاڑ تھی کہ کانوں کے پردے پھٹ جانے کا اندیشہ ہونے لگا.یہ دیکھ کر ہمارے دل دہل گئے اور بے بسی کے عالم میں موت کے ہیبت ناک خوف سے ہمارے جسم کپکپانے لگے.بے چارے پناہ گزین جو چند لمحہ پہلے پاکستان پہنچنے کا خوشگوار خواب دیکھ رہے تھے، اب ایک دوسرے کی طرف خوف زدہ نظروں سے تکنے لگے.ان بے چاروں کو کیا معلوم تھا کہ ان کا خواب اتنی جلدی شرمندہ تعبیر ہونے والا نہ تھا.بیسیوں پناہ گزین چند لحوں میں لقمہ اجل بن گئے.اس طرح بے بسی کی حالت میں مارے جانے کا احساس دوسرے انسانوں کو بھی بد حواس کر دینے کے لئے کافی تھا.جس لاری میں میں بیٹھا ہوا تھا وہ خاص طور پر ظالموں کا نشانہ بنی ہوئی تھی اور گولیاں بے تہاشہ اس طرف تڑ تڑ کرتی ہوئی آرہی تھیں.یہ صورت حال میرے لئے اور بھی مایوس کن تھی.چند سیکنڈ تک میں اپنی جگہ بے حس و حرکت دہشت زدہ آنکھوں سے دیکھتا رہا.کہ کس طرح بعض پناہ گزین ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہے تھے بعض کے شانوں سے خون کی دھار ابل رہی تھی اور بعض خون میں لوٹ پوٹ رہے تھے اور یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ساری کائنات کراہ رہی ہے.ان کے چہرے فرط خوف سے سپید پڑچکے تھے.ٹانگیں تھر تھرارہی تھیں.اگرچہ میری کیفیت یہ نہ تھی تاہم موت کو اتنے قریب پا کر اپنے حواس برقرار نہیں رکھ سکتا تھا.پناہ گزینوں کو اس طرح مرتے ہوئے اور زخمی ہوتے ہوئے مجھ سے دیکھا نہ گیا تھا.یہ دیکھ کر میرے دل میں لاری سے اتر جانے کا خیال پیدا ہوا.لیکن اس وقت اتر نا بہت سخت اور جان لیوا مرحلہ تھا مگر مجبوراً دھڑکتے دل کے ساتھ میں لاری سے اتر گیا اور نزدیک جوہڑ کے کنارے گولیوں کی زد سے بچنے کے لئے ایک مٹی کے ٹیلہ کی آڑ لی لیکن ابھی میں بمشکل وہاں بیٹھا ہی تھا کہ دو گولیاں سنسناتی ہوئی میرے دائیں بائیں سے اتنے قریب سے گزریں کہ میری ذراسی جنبش مجھے موت کی آغوش میں سلانے کے لئے کافی تھی اور ایک گولی میرے سامنے آکر زمین میں دھنس گئی جس کی گرد سے آنکھیں چندھیا گئیں.میں ذرا پیچھے ہٹاتا اپنے آپ کو اور محفوظ جگہ پر پہنچاؤں لیکن آپ میرے خوف و ہراس کا اندازہ نہیں لگا سکتے.جب میں نے دیکھا کہ مجھے وہاں تنہا چھوڑ کر لاریاں روانہ ہونے لگی ہیں.دل سخت دھڑکنے لگا اور چند سیکنڈ تک میں اپنی جگہ بے حس و حرکت کھڑا رہا.میرا ذہن بالکل ماؤف ہو چکا تھا میری ہمت قطعاً جواب دے چکی تھی.اگر چہ مجھے موت کا کوئی خوف نہیں تھا لیکن اس طرح دشمن کے گھیرے میں کتے کی موت مرنے کو میں تیار نہیں تھا.اس وقت اگر مجھے غیبی ہاتھ تھامے ہوئے نہ ہوتا تو میں کبھی کا ان درندوں کے ہاتھوں لقمہ اجل
جلد اوّل 142 تاریخ احمدیت بھارت بن چکا ہوتا.اسی وقت طرفہ العین میں مجھ میں اپنی شکستہ ہمت اور دہشت زدہ حواس پر قابو پانے کی طاقت بجلی کی طرح عود کر آئی.اور میں اپنی پوری طاقت سے دوڑ کر ایک لاری پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا.اگر چہ جس جگہ میں چڑھا تھا وہ تکلیف دہ اور غیر محفوظ تھی یعنی ڈرائیور کے پیچھے جہاں لاری کا فالتو پہیہ رکھا جاتا ہے.میرا اوپر کا نصف جسم باہر فضا میں تھا اور کسی وقت بھی دشمن کی بے تحاشہ گولیوں سے چھلنی ہو جا تا لیکن کیمپ میں تنہارہ کر کتے کی موت مرنے کی نسبت یہ جگہ میرے لئے بہشت بریں سے کم نہ تھی.ابھی تک ہماری لاریاں اسی وسیع میدان میں چل رہی تھیں.جہاں سے ہم گئے تھے اور گولیاں برابر سنسناتی ہوئی ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں.پناہ گزین بے چارے ایسے سہمے بیٹھے تھے جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں.تھوڑی دیر کے بعد ہم میدان سے نکل کر بازار کی ایک گلی میں داخل ہو گئے.عجیب بات تھی یہاں لوگ ہمیں دیکھ کر بے تحاشہ ادھر اُدھر بھاگنے لگے جیسے ہم ان پر حملہ کرنے والے تھے.بازار میں سے نکل کر ہم ریلوے اسٹیشن کے ساتھ والی سڑک پر آگئے.کافی دور تک سڑک خالی اور غیر آباد تھی.کہیں کہیں بے چارے تباہ شدہ مسلمانوں کی ٹوٹی اور لوٹی ہوئی دکا نہیں دیکھنے میں آتی تھیں.کچھ دور جا کر ہماری لاریاں ایک دم رک گئیں.ہم حیران ہوئے کہ یہ رکنے کی کونسی جگہ تھی.مگر جب میری نظر سڑک کے سامنے پڑی تو یہ دیکھ کر میرا خون منجمد ہونے لگا.کیونکہ ہمارا راستہ لوہے کے بڑے بڑے پہیہ رکھ کر بند کیا ہوا تھا.اور سڑک کی دونوں جانب زمین پر....(مفسدہ پرداز ) برین گن تھامے ہوئے اوندھے منہ لیٹے ہوئے تھے.انہوں نے انگلی برین گن کی لبلبی پر رکھی ہوئی تھی.وہ حکم کے منتظر تھے اور نزدیک ہی جنوب کی طرف ایک دو منزلہ عمارت کی چھت پر کئی مسلح....(مفسدہ پرداز ) لوہے کی ٹوپیاں پہنے ہوئے سوراخوں سے ہمیں تاک رہے تھے.نامعلوم کتنی دیر ہم وہاں ان کے رحم و کرم پر پڑے رہے.اسی اثناء میں سفید لباس میں ملبوس بے شمار....( مفسدہ پرداز) ہمارے ارد گرد جمع ہونے شروع ہوئے.ہر ایک نے کوئی نہ کوئی ہتھیار ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا.ان کی آنکھوں سے غیظ و غضب اور وحشت کے شرارے پھوٹ رہے تھے.بائیں طرف ایک طویل و عریض میدان تھا جو ان لوگوں سے اس قدر بھرا ہوا تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ رہی.دائیں طرف ایک لمبی چوڑی گلی میں جو ہجوم سے آئی پڑی تھی.آس پاس سڑک کے کنارے دکانیں تھیں جن کی چھتوں پر بکثرت لوگ چڑھے ہوئے تھے.ایک....( شر پسند ) حوالدار جو اس خوفناک ڈرامے کا ہیرو تھا اور جو
تاریخ احمدیت بھارت 143 جلد اول ان ہلاکت خیز سرگرمیوں میں اہم رول ادا کر رہا تھا، کی زبانی معلوم ہوا کہ سات ہزار....(مفسدہ پرداز ) اپنے دل کی پیاس ہمارے خون سے بجھانے کی غرض سے جمع ہیں.اور وہ ہم پر ٹوٹنے اور ہمارے جسموں کو اپنے تیز اور نوک دار ہتھیاروں سے چھیدنے کے لئے بالکل تیار کھڑے ہیں.یہ خونچکاں منظر دیکھ کر ہمارے دل پر جو کیفیت گزری وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی....میں جس جگہ کھڑا تھا وہ چونکہ عین مورچہ کے منہ پر تھا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ میں یہاں سے اتر کر دوسری جگہ چلا جاؤں.اس وقت اتر نایقینا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا.دل تھام کر میں اتر ہی گیا.مگر اس خیال سے پھر واپس اپنی جگہ پر آیا کہ اس وقت موت سے اپنی جان بچانا بزدلی ہے.تھوڑی دیر کے بعد مجھے یاد آیا کہ میں نے ابھی تک ظہر و عصر کی نمازیں نہیں پڑھیں.چنانچہ لاری کے ترپال پر تیم کر کے میں نے دونوں نماز میں اشاروں سے ادا کیں.ادھر میں نماز سے فارغ ہوا.اور اُدھر ایک لرزہ خیز دھماکہ سے ساری فضا گونج اٹھی.پیچھے جو مڑ کر دیکھا تو ہماری سب سے پچھلی لاری پر ایک دستی بم پھینکا گیا جس سے یہ قیامت خیز دھما کہ ہوا تھا.اس لاری کے تمام کل پرزے ہوا میں اس طرح اُڑ رہے تھے جس طرح روئی کے گالے، اس میں بیٹھے ہوئے پناہ گزینوں پر جو گزری اس کا اندازہ آپ تصور میں بھی نہیں لا سکتے.ان میں سے اکثر موت کے آغوش میں ہمیشہ کی نیند سو گئے اور جو باقی بچے تھے وہ بری طرح مجروح ہوئے.ابھی اس دردناک اور جگر سوز منظر کا زخم مندمل نہ ہونے پایا تھا کہ ان سفاکوں نے مورچے سے پوری فائرنگ کھول دی.الامان الحفیظ !وہ فائر نگ تھی یا بلائے ناگہانی.فضا گولیوں کی سنسناہٹ سے گونج اٹھی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قریب سے آتش فشاں پہاڑ پھٹ گیا ہے.گولیاں بارش کی طرح سن سن کرتی ہوئی گزر رہی تھیں.پناہ گزین بے چارے دانوں کی طرح بھونے جارہے تھے.معلوم نہیں ہم میں سے کتنے زخمی ہوئے اور کتنے مارے گئے یہ فائرنگ کتنی دیر رہی.اس کا صحیح اندازہ لگانا ناممکن تھا.اور سچ پوچھئے اس وقت اندازہ لگانے کی ہوش کس کو تھی.جب زندہ رہنے کی امیدیں مٹ چکی تھیں تو اندازہ لگا کر کیا کرتے.یا الہی تیرے محبوب کے غلاموں کے لئے یہی موت مقدر تھی ابھی یہ فقرہ زبان پر ہی تھا کہ میری ٹانگ کو اس زور کا جھٹکا لگا جیسے بجلی کی زبر دست کرنٹ اس میں داخل ہو گئی.جب ٹانگ پر نظر پڑی تو خون کی موٹی موٹی دھاریں فوارے کی طرح پھوٹ رہی تھیں اور شلوار خون سے لت پت ہو چکی تھی.تب مجھے یقین ہوا کہ گولی نے اپنا کام کر لیا ہے.گولی دائیں ران کے اوپر کے حصے میں سے ایک طرف پیوست
جلد اوّل 144 تاریخ احمدیت بھارت ہوکر دوسری طرف ایک بہت بڑا زخم کر کے نکل گئی.اگر الہی نصرت شامل حال نہ ہوتی تو میں ضرور سٹرک کے اوپر ڈھیر ہو جاتا اور بعد میں جو میرا حشر ہوتا وہ ظاہر تھا.ابھی زخمی ہونے کے احساس سے میں فارغ ہی نہ ہوا تھا کہ ایک اور گولی میری اسی ٹانگ کے نزدیک سے گزرتی ہوئی ہماری لاری کی پیٹرول ٹینکی میں پیوست ہوگئی.جس سے سارا پیٹرول اسی وقت زمین کی نظر ہو گیا.آپ یقین جانئے کہ مجھے اپنے زخمی ہونے کا اس قدر صدمہ نہ ہوا جس قدر پیٹرول کے ضائع ہونے سے ہوا تھا.کیونکہ اس سے زندہ بچنے کی امید کی آخری کرن بھی ختم ہو گئی.آپ کے دل میں یہ خیال ضرور گزرا ہوگا کہ میری ٹانگ جب کہ لاری کی موٹی چادر کے پیچھے محفوظ جگہ پر تھی تو گولی وہاں کس طرح پہنچی.اس کی وجہ یہ تھی کہ فرنٹ سیٹ میں ڈاکٹر میجر منیر احمد صاحب خالد فوجی یونیفارم میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ میاں بشیر احمد صاحب پاسپورٹ آفیسر بھی بیٹھے ہوئے تھے.ان دونوں کا انہوں نے نشانہ کیا تو گولی ان دونوں کے بازوؤں کے درمیان میں سے نکل کر لاری کی چادر کو چیرتی ہوئی میری ٹانگ کو بری طرح زخمی کرنے کا موجب بن گئی.گولیاں ابھی تک بارش کی طرح برس رہی تھیں اور سات ہزار....(مفسدہ پرداز ) اس سے پیشتر کچھ فاصلے پر ہمارے گردو پیش کھڑے تھے.اب ہمارے قریب ہونے لگے.دیکھنے میں وہ انسان تھے مگر حقیقت میں وہ خونخوار درندے تھے.ان کی آنکھوں سے آگ برس رہی تھی.کیا بتاؤں وہ منظر کس قدر خوفناک تھا ؟ بس یہی سمجھ لیجئے کہ موت اپنے ہیبت ناک جبڑے کھولے ہوئے خراماں خراماں ہماری طرف آ رہی تھی.موت یقینی تھی.اس وقت نہ مجھے اپنے بیوی بچوں کا خیال تھا نہ عزیز رشتہ داروں کا احساس اور نہ ہزاروں روپیہ کے کاروبار کے ضائع ہونے کی فکر تھی.ہاں صرف یہ احساس ستائے جارہا تھا کہ جب ہمارے پیارے امام کو ہماری اس طرح موت کی خبر پہنچے گی تو حضور کو کتنی تکلیف اور قلق ہوگا.انہی احساسات میں میں گم تھا کہ اچانک سامنے کی طرف سے تین ملٹری ٹرک اپنی طرف آتے ہوئے دیکھے اور یہ ٹرک عین اس جگہ آکر رک گئے جہاں ہمارا راستہ بڑے بڑے لوہے کے پہیئے رکھ کر مسدود کیا ہوا تھا.چونکہ جس لاری پر میں تھا وہ دوسرے نمبر پر تھی اس لئے مجھے ان لڑکوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی ایک ایک حرکت صاف نظر آ رہی تھی.میں نے دیکھا کہ اگلے اور پچھلے ٹرک میں بیٹھے ہوئے چند مسلح فوجیوں نے رائفلیں اُٹھا ئیں اور ان کا رخ درمیان والے ٹرک (جس میں....(غیر مسلم ) مرد عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں ) کی طرف پھیر دیا.اس پر ان....(غیر مسلموں) نے مورچے والوں کی اپنے ہاتھوں کے اشاروں سے منت سماجت کی کہ وہ
تاریخ احمدیت بھارت 145 جلد اوّل فائرنگ بند کر دیں.واقعہ یوں ہوا تھا کہ لاہور سے....(غیر مسلم ) پناہ گزینوں سے بھرا ہوا ایک ٹرک پاکستانی فوجی دستہ کی نگرانی میں بٹالہ لایا جا رہا تھا.اس فوجی دستہ نے جب ہمارا یہ حشر دیکھا تو اس نے...(غیر مسلم ) پناہ گزینوں کو رائفلوں سے ڈرا دھمکا کر کہا کہ فائرنگ بند کراؤ ورنہ تم سب کو ابھی یہاں ڈھیر کر دیا جائے گا.چنانچہ ان کی یہ تجویز کارآمد ثابت ہوئی اور فائرنگ بند ہوگئی.جونہی فائرنگ بند ہوئی ایک خوبصورت جسیم نوجوان نے جوشکل و شباہت سے اس دستہ کا آفیسر دکھائی دے رہا تھا فور لاری سے اتر کر سڑک پر سے دو پہیئے ہٹا دیئے اور انگلی کے اشارے سے ہمارے ڈرائیوروں کو فوراً نکل جانے کو کہا.بس پھر کیا تھا اشارہ ملتے ہی ہماری اگلی لاری ہوا سے باتیں کرنے لگی.لاری کو روانہ ہوتے دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا کیونکہ میرے سامنے ہماری لاری کا پیٹرول گر کر ضائع ہو چکا تھا.اور بغیر پیٹرول کے لاری چل کس طرح سکتی تھی.اور پھر میرے لئے یہ اور بھی قابل افسوس امر تھا کہ ہماری وجہ سے باقی تمام پچھلی لاریاں رکی رہیں گی.لیکن اللہ کی شان نرالی ہے.سچ ہے جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے.آپ میری حیرت کا اندازہ نہیں لگا سکتے جب میں نے دیکھا کہ ہماری لاری بھی آن واحد میں ہوا میں اڑنے لگی.مجھے اسکا قطعا علم نہ تھا کہ بعض لاریوں میں دو پیٹرول ٹینکیاں ہوا کرتی ہیں.ایک ظاہر اور دوسری پوشیدہ.اس علم کا انکشاف بعد میں ہوا جبکہ میں ہسپتال (لاہور.ناقل ) میں تھا.ابھی تک میرے زخم سے خون کی دھاریں ابھر رہی تھیں.زیادہ خون نکلنے کی وجہ سے میں سخت نڈھال اور کمزور ہو چکا تھا.فرنٹ سیٹ کی چھت پر میں نے اپنا سر رکھا اور پھر اس کے بعد ایسی غشی طاری ہوئی کہ واگہ ( واہگہ بورڈر.ناقل ) پہنچ کر میری آنکھ کھلی.(36) دہلی کے فسادات اور احمدی شہداء کا ذکر چونکہ قادیان اور اس کے ماحول میں فسادات کے ایام میں شہید ہونے والے احمدیوں کا ذکر آگے آرہا ہے.یہاں ہم دہلی کے احمدی شہداء کا ذکر کرنا مناسب خیال کرتے ہیں.دہلی میں فسادات کا ذکر کرتے ہوئے اخبار الفضل میں ایک خبر شائع ہوئی جو ذیل میں درج کی جاتی ہے.پچھلے دنوں خانہ جنگی کا خوف ناک اور بھیا نک سیلاب سارے ہندوستان میں آیا.ہندوستان
جلد اوّل 146 تاریخ احمدیت بھارت کی راجدھانی دہلی بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکی.ماہ اگست کے آخر میں اس سیلاب نے دہلی کی دیواروں سے ٹکرانا شروع کیا.اور ماہ ستمبر کے شروع میں دہلی شہر میں داخل ہوکر دہلی کے امن کو تباہ و برباد کر دیا.انسانیت اور اخلاق کو تباہ کر دینے والا بھیانک نظارہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا.گھر گھر لوٹ مار شروع ہوئی.قتل وغارت کا آغاز ہوا.....لوٹ مار کے ذریعہ لاکھوں روپیہ کی جائیداد اور نقدی پر قبضہ کیا گیا.عبادت گاہیں بے حرمتی کا شکار ہوئیں.مقدس لٹریچر پھٹے ہوئے ردی کاغذوں کی طرح کوڑا کرکٹ میں شامل کر دیا گیا.شرافت انسانیت، اخلاق اور عزت سب مٹی میں ملا دیئے گئے.تجارتیں برباد ہو گئیں صنعتیں ٹوٹ پھوٹ کر رہ گئیں.رسل و رسائل اور آمد و رفت کے ذرائع ختم ہو گئے سینکڑوں خاندان تباہ ہو گئے اور ہزاروں افراد دہلی کے اس سیلاب میں کام آئے.جماعت احمدیہ دہلی کے اکثر احباب گورنمنٹ آف انڈیا کے دفاتر میں کام کر رہے تھے...بعض محلے چونکے مسلمانوں سے بالکل خالی کرالئے گئے.اس لئے ان احمدی دوستوں کو بھی جن کا ارادہ دہلی میں رہائش رکھنے کا تھا مجبوراً ان جگہوں کو چھوڑ کر پاکستان جانا پڑا.اس طرح ملازمین کے علاوہ دیگر احمدی افراد بھی فسادات کی زد میں آنے کی وجہ سے یا فسادات کو رکتانہ دیکھ کر پاکستان تشریف لے گئے.اگر چہ مسلمانوں کا قتل طے شدہ اسکیم کے مطابق سارے ہی شہر میں ہوا.لیکن فساد کا زیادہ زورنئی دہلی قرول باغ ، پہاڑ گنج سبزی منڈی اور دریا گنج کے علاقوں میں رہا بعض دوست شہید بھی ہوئے.چنانچہ اس وقت تک جن احباب کی شہادت کی خبر ہمیں ملی ہیں وہ حسب ذیل ہیں: -1 مکرم و محترم با بونذیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ دہلی.آپ 17 ستمبر کو کرفیو ہٹنے کے دوران صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے سے ملنے دریا گنج تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ طے کرتے ہوئے چند....(شرپسندوں) نے انہیں گھیر لیا.اور شہید کر دیا.انا للہ و انا الیه راجعون.وقوعہ کے وقت چونکہ خاکسار ( نامہ نگار ) بھی ہمراہ تھا اس لئے تھانہ پہنچ کر بذریعہ پولیس اس جگہ کی تلاشی لی گئی.مگر کچھ علم نہ ہو سکا.کیونکہ ان دنوں شدید قتل عام ہورہا تھا.اور پولیس ،ملٹری اور...( شر پسند ) مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے ایک ہو چکے تھے.اس لئے پولیس نے بھی زیادہ توجہ نہ دی.احتیا تا ارون ہسپتال اور دوسرے ہسپتالوں کو بھی دیکھا گیا.مگر کچھ بھی پتہ نہیں چل سکا.کافی دنوں کے بعد بعض ہندوؤں کی زبانی یہ معلوم ہوا کہ بابو صاحب کو اسی وقت شہید
تاریخ احمدیت بھارت 147 جلداول کر کے ان کی نعش ایسی جگہ رکھ دی گئی جہاں سے باوجود کوشش کے بھی تلاش نہیں کی جاسکتی تھی.بابو صاحب جماعت احمد یہ دہلی کے امیر تھے.نہایت ہی خوش خلق وجود تھے.سلسلہ کے کاموں میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے تھے.سنیما کے کاروبار کی وجہ سے شہر میں کافی رسوخ تھا.اور مقامی جماعت کو آپ کے وجود سے بہت فائدے تھے.افسوس کہ مرحوم کی زندگی نے وفا نہ کی.اور اللہ تعالیٰ نے اس مفید وجود کو جلدی اپنے -2 پاس بلا لیا.ان کی اچانک وفات جماعت کے لئے بہت بڑے صدمہ کا موجب ہوئی.مکرم با بومحمد یونس صاحب مرحوم.آپ با بونذیر احمد صاحب امیر جماعت کے ماموں تھے.آپ 12 ستمبر کو غالباً لیڈی ہارڈنگ ہسپتال میں دوائی لینے کی غرض سے گئے.اور پھر واپس نہیں آئے.ارون ہسپتال وغیرہ میں ان کا پتہ نہ چلا.ان کے بارے میں بھی کئی دن کے بعد یہ خبر ملی کہ دہلی گیٹ کے قریب ان پر حملہ کر کے شہید کر دیا گیا.انا للہ و انا الیه راجعون.مرحوم جماعت دہلی کے مخلص رکن تھے.اور جماعت کے کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے.-3 مکرم چوہدری غلام محمد صاحب سب پوسٹ ماسٹر چوہدری صاحب موصوف نئی دہلی کے ایک پوسٹ آفس میں سب پوسٹ ماسٹر تھے.جیسا کہ واقعات سے معلوم ہوا ہے فسادات ہونے پرنئی دہلی سے نکل نہ سکے.....ان کی شہادت کی خبر ابھی چند دن ہوئے موصول ہوئی ہے...مرحوم سے ملنے والے ہندو -4 اور مسلمان آپ کے عمدہ اخلاق اور جوش تبلیغ کے مداح ہیں.مکرم محمد حسن صاحب مرحوم واچ میں.آپ 6 ستمبر کو سخت خطر ناک حالات میں دہلی سے بمع اپنی اہلیہ کے پرانہ قلعہ کیمپ میں پہنچے.پاکستان جانے کے لئے ایک اسپیشل ٹرین پر سفر کر رہے تھے کہ بیاس اسٹیشن کے قریب گاڑی پر حملہ ہوا.اور اس حملہ میں مرحوم اور ان کی اہلیہ دونوں شہید کر دیئے گئے.انا للہ و انا الیہ راجعون.(37) اس وقت دہلی کے مضافات میں موضع سرس پور بادلی (اب یہ جگہ دہلی شہر میں شامل ہوگئی ہے ) میں جماعت احمدیہ کے چند گھرانے موجود تھے.ان پر جو گزری وہ مکرم عمر الدین صاحب دہلوی ولد مکرم محمد عمر صاحب ساکن سرس پور جو بعد میں اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے، اپنے الفاظ میں لکھتے ہیں : ” جب 1947ء کا دور قریب آرہا تھا.ہماری مخالفت بڑھنے لگی.ہمارا بائیکاٹ کر دیا گیا اور کئی
جلد اوّل 148 تاریخ احمدیت بھارت طریق سے تنگ کرنا شروع کر دیا.ان کا آخری حربہ یہ تھا کہ اپنے مذہب سے تو بہ کرو اور گئو موتر پی کر شدھ ہو جاؤ اسی صورت میں تمہاری جان بچ سکتی ہے.جب 1947 ء کے خطرناک حالات ہو گئے تو انہوں نے پکا ارادہ کر لیا کہ کوئی یہاں سے زندہ نہ نکلنے پائے.ہمارے تایا زاد بھائیوں نے وہاں سے نکلنے کی جو تد بیر اختیار کی وہ اس طرح ہے کہ ایک ایک دو دو کر کے مرد اور عورتوں کو وہاں سے نکالا.تا کہ دشمنوں کو شک نہ پڑے.بوڑھے اور بچے وہاں پر ہی چھوڑ دیئے.اسلئے کہ ان کو اپنا بھی پتا نہیں تھا کہ ہمارا ٹھکانہ کہاں ہوگا.گھر سے نکلنے کے بعد زندہ رہیں گے یا نہیں.کیونکہ 1947ء کے حالات بہت خراب ہو چکے تھے.ہر طرف خون خرابہ تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے تایا زاد بھائیوں کو بخیریت پاکستان پہنچا دیا گیا.سرسپور دہلی میں میرے والدین ، ہماری تائی ، ہم دو بھائی مکرم مہر دین اور خاکسار عمر الدین رہ گئے.وہاں ہمارے ساتھ مخالفین کا رویہ بہت سخت تھا ہم پر مخالفین نے حملہ کر کے ہمیں ختم کرنے کا پلان بنا لیا تھا.ہمارا پڑوسی ہندو ہمارے والد صاحب کا دوست تھا.اسے علم ہو گیا.اس نے رات کے وقت خفیہ طور پر ہمیں اپنے گھر میں پناہ دے دی.اور کسی کو علم نہ ہونے دیا.جب تک ہمارا قادیان آنے کا بندوبست نہیں ہو گیا.تب تک اس ہندو نے ہمیں اپنے گھر میں ہی رکھا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارا قادیان آنے کا سبب بنا دیا‘.(38) سروعہ کا معرکہ اور احمدی شہداء تاریخ احمدیت میں سڑوعہ کے شہداء کا جہاں ذکر ہے وہاں تفصیل کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے:."1901-02ء کے قریب سڑوعہ ( تحصیل گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پور ) میں احمدیت کا آغاز ہوا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی یہاں ایک مخلص اور جاں نثار جماعت قائم ہو گئی تھی.اس گاؤں میں ایک ہزار کے قریب مرد و زن اور بچے احمدی آباد تھے.30 راگست 1947ء کو بوقت 9 بجے صبح ) 21 / ہزار مسلح....(مفسدہ پردازوں) نے گاؤں پر حملہ کر دیا.اس وقت سروعہ میں صرف پانچ بندوقیں تھیں مگر دڑے سات تھے جہاں سے....(مفسدہ پرداز ) بآسانی داخل ہو سکتے تھے.احمدی و غیر احمدی مسلمانوں نے ان سات دروں پر اپنی حفاظتی چوکیاں قائم کر لیں اور تہیہ کر لیا کہ مر جائیں گے مگر....(مفسده پردازوں) کو گاؤں کے اندر داخل ہونے نہیں دیں گے.....(مفسدہ
تاریخ احمدیت بھارت 149 جلد اوّل پردازوں) نے دھمکیاں دیں کہ سڑروعہ کو لڑائی کے بغیر کھالی کر دو ورنہ قتل و غارت کے علاوہ عورتوں کی بھی بے عزتی کی جائے گی.مگر مسلمانوں نے....(مفسدہ پردازوں) کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا جس پر دن کے دو بجے گاؤں کے باہر دست بدست لڑائی شروع ہوگئی.مشرقی درے پر ہندو گوجروں نے حملہ کیا تھا.جب ایک کو ٹھے سے ان پر گولیاں برسنا شروع ہوئیں تو ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ بھاگ نکلے.اس موقعہ پر صوبیدار عبد المجید خاں احمدی پنشنر اور چوہدری عبد الحکیم خاں احمدی نے شجاعت اور بہادری کے شاندار کار ہائے نمایاں دکھائے.وہ اپنا درہ چھوڑ کر دوسرے غیر محفوظ دروں کی طرف بھی جا کر فائر کرتے اور پھر اپنا دڑہ بھی سنبھال لیتے تھے.شام کے پانچ بجے ہونگے کہ اس وقت اگر چہ صرف چودہ گولیاں باقی رہ گئی تھیں مگر ابھی تک....(مفسدہ پردازوں) کو گاؤں کے اندر داخل نہیں ہونے دیا تھا.اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ نے اچانک اس طرح مدد فرمائی کہ تین فوجی مسلمان اپنا ایک فوجی ٹرک لے کر وہاں آنکلے اور انہوں نے....(مفسدہ پردازوں ) کو حملہ آور دیکھتے ہی گولیاں چلانی شروع کر دیں جس سے....(مفسدہ پردازوں) میں سخت بھا گڑ بچ گئی اور 21 / ہزار....(مفسدہ پرداز ) بھاگ نکلا اور آگ لگانے کے لئے تیل کے پیسے جو ہمراہ لائے تھے وہ سڑوعہ والوں کے ہاتھ لگے.اس طرح عین آخری وقت پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تائید و نصرت فرما کر اہل سڑروعہ کی خواتین کی عزت و عصمت کو محفوظ فرما دیا.بعض مستورات نے اس جنگ میں لڑنے والے مردوں کو پانی پلانے کا کام کیا.سروعہ کے سترہ مسلمان جن میں چوہدری احمد خاں صاحب ولد بڈھے خاں صاحب اللہ بخش صاحب تیلی، احمد علی خاں صاحب وٹرنری انسپکٹر پنشنز جیسے مخلص احمدی بھی تھے داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے.دوسری طرف....(مفسدہ پردازوں) کے چھ سو دس مرد کام آئے.مسلمانان سر وعہ اس معرکہ کے دوسرے روز اسی فوجی ٹرک کی امداد سے گڑھ شنکر میں جا پناہ گزیں ہوئے جہاں سے بالآخر پاکستان میں ہجرت کر آئے.“ (39) حوالدار ماسٹر عبدالمنان صاحب ولد مولا بخش صاحب آف سٹروعہ جو اس وقت راجپوت رجمنٹ نمبر 2/7 گورنمنٹ آف انڈیا / برطانیہ میں تھے اور یہ رجمنٹ جالندھر کینٹ میں تعینات تھی.دراصل حملہ کے وقت موصوف اپنے گاؤں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ملٹری ٹرکوں کو لیکر پہنچے اور عین وقت پر پہنچے تھے.موصوف بیان کرتے ہیں :.
جلد اوّل 150 تاریخ احمدیت بھارت خاکسار 20 یوم کی رخصت پر رمضان المبارک ماہ اگست 1947 ء اپنے گاؤں سڑوعہ آیا ہوا تھا.اس دوران ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے اور اردگرد کے مسلمان سر وعہ آکر جمع ہو گئے تھے اور ان کا کیمپ لگ گیا تھا اور ناکہ بندی ہو گئی تھی.یعنی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانا مشکل ہو گیا تھا.تحصیل گڑھ شنکر شہر میں گورنمنٹ نے ہندو ملٹری کا کیمپ لگا دیا تھا.ملٹری اردگرد کے گاؤں میں چکر لگاتی رہتی تھی.مجھے گاؤں والوں نے کہا کہ آپ کی راجپوت رجمنٹ نمبر 2/7 جالندھر میں ہے.آپ وہاں جا کر اپنے گاؤں کی حفاظت کا بندوبست کریں.لہذا میرے ساتھ رانا محمد منصف خان صاحب ولد چوہدری علی گوہر خان صاحب را جپوت بھی گڑھ شنکر چلنے کو تیار ہو گئے.ان کے علاوہ را نامحمد ارشد خان صاحب ولد چوہدری عزت علی خان صاحب را جپوت اور میجر محمد اجمل خان صاحب ولد چوہدری رحمت خان صاحب را جپوت دامادصو بیدار را نا عبدالمجید خان صاحب سڑوعہ سے گڑھ شنکر گھوڑوں پر گئے تھے.راستہ میں رات کو موضع پنام میں ٹھہرے.رات کو جب پنام والوں نے شناخت پوچھی تو رانا محمد ارشد خان صاحب نے کہا کہ ہم سٹروعہ سے آئے ہیں ہمارا گھوڑا جو مشہور گھوڑا تھا اور سارے علاقے میں مشہور تھا جس کو پنام والے بھی شناخت کرتے تھے.ہم روشنی میں کھڑے ہو گئے تو پنام والوں نے وہ گھوڑا پہچان لیا، اس طرح پنام والوں نے ہمیں رات گزارنے کی اجازت دے دی.اس کے بعد ہم گڑھ شنکر چلے گئے.میں اور رانا محمد ارشد خان صاحب تو واپس ملٹری کے ساتھ گاؤں سٹروعہ آگئے جبکہ میجر محمد اجمل صاحب اپنی رجمنٹ میں چلے گئے تا کہ وہاں کے کرنل صاحب سے سروعہ کے لئے مدد مانگی جائے.بہر حال ماسٹر عبد المنان صاحب کا بیان ہے کہ مؤرخہ 30 اگست 1947ء کو حملہ کے دن ہندو ملٹری کی فوجی گاڑی میں بیٹھ کر گڑھ شنکر کے فوجی کیمپ کے آفیسر سے ملاقات کی تاکہ وہ مجھے میری اپنی رجمنٹ میں جو جالندھر میں تھی پہنچادیں.لیکن وہ بہانہ سازی سے کام لے کر مجھے ٹالتا رہا حتی کہ شام کے 3 بج گئے.اس دوران ہم گڑھ شکر شہر میں لاری اڈہ پر کچھ کھانے پینے کے لئے گئے تو وہاں پر میری رجمنٹ کی ایک گاڑی جس میں ایک لانس نائیک دو سپاہی بمعہ ڈرائیور موجود تھے وہ مجھے مل گئے.وہاں پر پتہ چل گیا کہ سڑوعہ پر حملہ ہو گیا ہے انہوں نے مجھے کہا کہ ہمیں رجمنٹ کرنل نے حکم دیا ہے کہ عبدالمنان کے بیوی بچوں کو سٹروعہ سے ساتھ لے آئیں.اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک 30 ٹن ٹرک اور اس میں ایک حوالدار رحمت علی اور دو سپاہی اور ایک ڈرائیور آپ کے گاؤں آپ کے بچوں کو لینے چلا گیا ہے.10/15 منٹ کے بعد وہ خالی ٹرک راستے
تاریخ احمدیت بھارت 151 جلد اوّل ہی سے واپس آگیا کیونکہ وہ سڑوعہ پہنچ نہیں سکا تھا.ٹرک والوں نے بتایا کہ راستہ میں روڈ بلاک ہے ہمیں سروعہ میں جانے نہیں دیتے یہ ملٹری والے روڈ مزارعا الگڑ مزارعہ والی سڑک سے سڑ وعہ جانا چاہتے تھے لیکن روڈ بلاک ہونے کی وجہ سے واپس آگئے.اس کے بعد میں نے حوالدار رحمت علی اور ڈرائیور سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ دوسرے راستہ یعنی سمندڑہ والے راستے سے آپ کے ساتھ چلتا ہوں لیکن حوالدار اور ڈرائیور نے صا ف صاف جواب دے دیا کہ ایسے راستہ پر جہاں جان کا خطرہ ہو ہم نہیں جاسکتے.پھر میں نے کہا کہ آپ بھی مسلمان ہیں.اور ہم سب مسلمان ہیں اگر آپ کے گاؤں پر حملہ ہو جا تا اور میں ٹرک لے جاتا تو کبھی بھی خالی واپس نہ آتا.لہذا میں نے ان کی کافی منت سماجت کی اور ان کو سروعہ جانے کے لئے تیار کر لیا اور میں نے رانا محمد ارشد ولد چوہدری عزت علی خاں کو بھی اپنے ساتھ ٹرک میں بٹھالیا.باقی جو دوسرے دوست میرےساتھ گڑھ شنکر گئے تھے وہ گڑھ شنکر میں ہی رہ گئے اس طرح میرے اور محمد ارشد کے علاوہ ملٹری کے ایک حوالدار ایک ڈرائیور اور تین سپاہی ٹرک میں بیٹھ گئے اور ہم نے سمندرہ کے راستے سے سڑوعہ کی طرف چلنا شروع کر دیا جب ہم نے دیکھا کہ اس طرف کی روڈ بھی بلاک تھی تو ہم نے اپنے آپ کو ہند وملٹری ظاہر کر کے جے ہند کا نعرہ لگانا شروع کر دیا.اس طرح جو روڈ بلاک تھی اس کا راستہ صاف ہوتا گیا اور کئی جگہ سے....(مفسدہ پردازوں) کی کر پانیں بھی حاصل کر لیں اور ٹرک میں رکھ لیں اور تقریباً شام 5 بجے سروعہ کے باہر دوفر لانک کے فاصلہ پر چمار لی والی چاہ کے اوپر ٹھہر گئے.ہر طرف شر پسند عناصر کے جتھے نظر آرہے تھے میں (یعنی ماسٹر عبدالمنان ) نے خود برین گن لے کر دونوں طرف شر پسند عناصر کے جتھہ پر فائرنگ شروع کر دی.پھر معلوم نہیں کتنے شر پسند مارے گئے.فائرنگ کی آواز سن کر گاؤں سے صو بیدار عبدالمجید ، حوالدار چوہدری محمد ابراہیم خان صاحب ولد مولا بخش صاحب، چوہدری عبد الحکیم ولد بشارت علی خاں اور سب سابقہ فوجی وغیرہ جو کہ دروں کی حفاظت کر رہے تھے ، ہمارے ٹرک کے پاس پہنچ گئے ہمیں دیکھ کر انہیں بڑی خوشی ہوئی کہ مدد کے لئے مسلمان ملٹری آگئی ہے.ان کے بتانے پر پتہ چلا کہ حملہ 2 بجے سے لگا تار جاری ہے.جس میں اس قدر ہمارے آدمی مارے گئے اور پوچھا کہ دشمن گاؤں میں تو نہیں آیا انہوں نے جواب دیا کہ ابھی کوئی نہیں ہے.لیکن گاؤں والوں نے بتایا کہ ہمارا اسلحہ ختم ہو گیا ہے اس لئے ہم نے کہا کہ ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں اور ٹرک سے کر پانیں لے لو اور ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ تا کہ گاؤں کے اردگرد جو شر پسند عناصر جتھے بیٹھے ہیں ان کو قتل کر دیں.لہذا اس طرح ہم نے ایک درہ سے دوسرے درہ تک جا کر تمام گاؤں کا چکر لگایا اور شر پسند
جلد اوّل 152 تاریخ احمدیت بھارت عناصر پر حملہ کر دیا.چونکہ....(مفسدہ پردازوں) کے ذہن میں یہ تھا کہ یہ ہندو ملٹری ہے وہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہے.برین گن سے گولیاں چلائیں جس سے کافی شر پسند لوگ مارے گئے.جو 1200-1400 کے قریب ہونگے.اس طرح آخری درہ پر مغرب کا وقت ہو گیا.دائیں سے بائیں چکر لگا کر پہلے کوٹھی کا درہ پھر چوہدری عبد اللطیف کے دیوان خانہ پر آگئے پھر سب وہاں پر جمع ہو گئے.چونکہ مسلمان ملٹری والوں کو حکم تھا کہ آج ہی واپس جالندھر پہنچ جاویں.اس لئے ہم نے جانے کے لئے تیاری شروع کر دی.لیکن گاؤں والوں نے کہا کہ اگر آپ چلے گئے تو رات کو یا صبح کو دشمن حملہ کر کے سب گاؤں والوں کو مار دیں گے.میں نے پھر سب ساتھی فوجیوں کو سمجھایا کہ اگر آپ چلے گئے تو واقعی سب کو مار دیں گے.اس لئے رات سروعہ میں گزاریں.صبح کو ان کا قافلہ بنا کر گڑھ شنکر چھوڑ دیں گے.پھر ہم نے سب گاؤں والوں کو کہا کہ اب سب اپنی تیاری کر لیں.صبح گڑھ شنکر بمعہ قافلہ چلیں گے.لہذا اس دوران گاؤں کا فضل محمد ولد نعمت علی سپاہی جو گارڈ میں موجود تھا.اس نے اپنا سامان بمعہ والدین ٹرک میں لا دیا، اور ڈرائیور کو کہنے لگا کہ واپس چلو.جب میں نے دیکھا تو فوراً اس کو منع کیا کہ تم اکیلے کیسے جاسکتے ہو.اپنا سامان اتار دو اور صبح قافلہ کے ساتھ جانا.چنانچہ اس کا سامان اتار دیا.رات کو تین جگہ حفاظت کے لئے سپاہیوں کو بانٹ دیا.صبح سورج نکلنے پر قافلہ گڑھ شنکر جانے کے لئے تیار ہو گیا اور گڑھ شکر کی طرف چلنا شروع کر دیا.ایک سپاہی قافلہ کے آگے لگا دیا.ایک درمیان میں اور ایک پیچھے اور ٹرک میں میں خود اور حوالدار اور ڈرائیور اسلحہ لے کر بیٹھ گئے.سارا قافلہ بحفاظت گڑھ شنکر پہنچ گیا.صرف چار پانچ افراد قافلہ سے پیچھے رہ گئے تھے وہ جھگیوں کے پاس مارے گئے.قافلہ والوں کو گڑھ شنکر چھوڑ کر ہم اسی روز جالندھر چھاؤنی میں بمعہ بیوی بچوں کے پہنچ گئے.دوسرے دن فوجی گاڑی میں اہل خانہ کو جالندھر چھاؤنی سے لاہور پہنچا دیا.پھر جالندھر چھاؤنی سے دو تین دفعہ گڑھ شنکر کا چکر لگایا اور کچھ رشتہ داروں کو جالندھر لے جاتے رہے اور لاہور پہنچاتے رہے اور ایک دو دفعہ کر یام، گنا چور، موضع بنگہ کا بھی ٹرک میں چکر لگاتے رہے.جو مدہوسکی وہ کرتے رہے.سروعہ کے کچھ لوگ تو گڑھ شکر سے اپنے رشتہ داروں کے ذریعہ سے لاہور پاکستان آگئے.باقی کیمپ والوں کو ہندو ملٹری نے موضع راہوں کے راستہ سے پھلور پہنچادیا.وہاں سے پھر ٹرین کے ذریعہ سے پاکستان پہنچے.(40)
تاریخ احمدیت بھارت 153 جلد اول معرکہ سٹھیالی اور احمدی شہید قادیان سے شمال کی طرف گورداسپور جاتے ہوئے موضع سٹھیالی واقع ہے.صوفی غلام احمد صاحب درویش اسی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے اور مستقل خدام میں سے تھے.ان کی وفات مؤرخہ 7 جنوری 2004ء کو ہوئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.اسم بامسمی صوفی مزاج درویش انسان تھے.زمانہ درویشی بڑے صبر سے گزارا.وہ بتایا کرتے تھے کہ آزادی کے اعلان پر ابھی دو ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ مفسدہ پردازوں نے ہمارے گاؤں سٹھیالی کا محاصرہ کر لیا.اور گاؤں کو مسلمانوں سے خالی کروانے کے لئے ہر طرح کا دباؤ ڈالا جانے لگا.حصار روز بروز تنگ ہونے لگا.سب سے زیادہ اہم اور نازک ذمہ داری احمدی اور مسلمان عورتوں کو بحفاظت گاؤں سے نکالنے کی تھی.مسلمان کچھ کرنے کی حیثیت میں نہ تھے.اس صورتحال کی اطلاع قادیان بھجوائی گئی.چنانچہ کچھ نو جوانوں کو سٹھیالی بھجوایا گیا.انہوں نے حالات کا جائزہ لیا.مقامی افراد جماعت سے مشورہ کیا.بعد ازاں وہاں جو کچھ ہوا اس کا مختصر ذکر تاریخ احمدیت میں تحریر ہے.26 اگست کو جناب شیر ولی صاحب کے حکم سے صوبیدار عبدالمنان صاحب دہلوی ،عبد السلام صاحب سیالکوٹی، حوالدار میجر محمد یوسف صاحب گجراتی محمد اقبال صاحب ،عبدالقادر صاحب کھارے والے ، غلام رسول صاحب سیالکوئی فضل احمد صاحب اور عبدالغفار صاحب کے ہمراہ سٹھیالی روانہ کئے گئے جہاں....مفسدہ پردازوں) نے رائفل ہشین گن، برین گن اور گرنیڈ 36 کا بے دریغ استعمال کیا.جمعدار محمد اشرف صاحب اور صو بیدار عبدالمنان صاحب دہلوی اور محمود احمد صاحب عارف تینوں بڑی بہادری دلیری اور جرات سے دفاع کر رہے تھے کہ یکا یک برین گن کا ایک برسٹ جمعدار محمد اشرف صاحب کے سر پر لگا اور آپ اپنے مولائے حقیقی کے حضور پہنچ گئے.اس معرکہ میں صوبیدار عبدالمنان صاحب زخمی ہوئے اور آپ کے سینے اور منہ پر گولیاں لگیں اسی طرح فضل احمد صاحب کے گھٹنے میں مشین گن کی گولی پیوست ہوگئی جو قادیان میں ڈاکٹر میجر شاہ نواز خان صاحب نے اپریشن کر کے نکالی.(41) صوفی صاحب بتایا کرتے تھے کہ احمدی جوانوں نے ایسی جرات اور دلیری سے دشمنوں کا مقابلہ کیا کہ وہ پسپائی پر مجبور ہو گئے.جس کے نتیجہ میں تمام احمدی و مسلمان آبادی بخیریت قادیان پہنچ گئی.اللہ تعالیٰ شہید جمعدار محمد اشرف صاحب کے درجات بلند فرمائے جنہوں نے اپنی جان قربان کر کے سینکڑوں احمدی افراد کی جان بچائی اور سب سے بڑھ کر احمدی خواتین کی عزت و وقار پر آنچ نہیں آنے دی.الحمد للہ.
جلد اوّل 154 تاریخ احمدیت بھارت موضع ومجواں میں پچاس شہادتیں 1972ء میں خاکسار راقم الحروف مدرسہ احمدیہ قادیان کی آخری کلاس میں زیر تعلیم تھا اور مسجد اقصیٰ میں اعتکاف کرنے کی توفیق ملی.اسی سال مکرم سردار محمد صاحب درویش مرحوم (متوفی 10 فروری 1982ء) بھی اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے.اسی دوران انہوں نے ونجواں میں برپا ہونے والی قیامت صغری کے حالات سنائے.انہوں نے بتایا کہ ہمارے گاؤں ونجواں میں احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں پہنچ گئی تھی.اور طاعونی احمدی زیادہ تھے.قرآن مجید، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق 1902 ء اور اس کے بعد کے سالوں میں ہندوستان اور خاص طور پر پنجاب میں طاعون کی وباء پھیل گئی.اسی وباء سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو فرمایا جو شخص تیرے گھر کی چاردیواری کے اندر ہوگا.اور جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے مجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے.“ طاعون کے ایام میں کثرت کے ساتھ لوگ جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے.حضرت مسیح موعود طاعون کے زمانہ میں بیعت کرنے والوں کو از راہ ظرافت طاعونی احمدی کے نام سے یاد فرما یا کرتے تھے.مکرم سردار محمد صاحب درویش نے بتایا کہ ونجواں اور اس کے گردونواح میں احمدی بہت زیادہ تھے.اور اکثر قادیان آیا کرتے تھے.ونجواں دو حصوں میں منقسم تھا.ایک ونجواں کلاں دوسرا ونجواں خورد.ونجواں کے احمدی احباب کے تعلقات غیر مسلموں سے بہت اچھے تھے.غیر احمدیوں کی طرف سے مخالفت ہوا کرتی تھی.جب ہندوستان کی آزادی کا اعلان ہوا.چند دنوں میں حالات مخدوش ہونے لگے.افواہوں کا بازار گرم ہو گیا.آہستہ آہستہ یہ افواہیں حقیقت کی طرف منتقل ہونے لگیں.اور ہمارے گاؤں کی ناکہ بندی کر دی گئی.اور یہ بتایا کہ ملٹری اور پولیس نے حفاظت کے لئے ایسا کیا ہے.اور ہمیں یہ کہا گیا کہ پاکستان بن گیا ہے جلدی سے گاؤں خالی کر کے دریائے راوی کے پار چلے جاؤ.ہمارا گاؤں دریائے راوی سے دس بارہ میل کے فاصلے پر ہے.گاؤں والے اس ناگہانی اور غیر متوقع مطالبہ و دھمکی سن کر سکتہ میں آگئے.نئی تقسیم کے مطابق ونجواں سرحد کے قریب تھا غالباً خالی کروانے کے لئے انہیں
تاریخ احمدیت بھارت 155 جلد اول دیہاتوں کو منتخب کیا گیا جو سرحد سے نزدیک تھے.مؤرخہ 21 /اگست 1947ء کو مفسدہ پردازوں نے ونجواں پر حملہ کر دیا اور بے دردی سے احمدیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا.نہتے افراد دفاع کی بھی طاقت نہیں رکھتے تھے.ونجواں کی گلیاں کوچے مسجد شہیدوں کے خون سے لہولہان ہو گئیں.زخمی درد سے کراہنے لگے.مگر ظالم فسادیوں نے لوٹ کھسوٹ کا کام جاری رکھا.کسی طرح یہ خبر قادیان پہنچائی گئی اور یہاں سے خدام بھجوائے گئے.وہ ہر طرح کی ناکہ بندی کو عبور کرتے ہوئے ونجواں میں داخل ہوئے.جس جرات و دلیری سے یہ خدام آئے مفسدہ پردازوں نے یہ سمجھا کہ مسلم ملٹری آگئی ہے اور وہ دم دبا کر بھاگ گئے.بہر حال خدام نے شہداء کی لاشوں کو جمع کیا اور ایک قبر میں دو دو تین تین شہداء کو ایک قریبی کھیت میں دفن کیا.( یہ واقعہ سن کر غزوہ احد کے شہداء کی تدفین یاد آ جاتی ہے جنہیں آنحضرت صلی للہ یہ تم نے اسی طریق پر دفن کیا تھا.) تدفین کے بعد خدام زخمیوں اور عورتوں اور باقی افراد کو خطرات کے نرغے میں سے نکال کر قادیان لانے میں کامیاب ہو گئے.محترم سردار محمد صاحب کے آنسو رواں تھے.پگڑی کے پلو سے صاف کرتے جاتے تھے.بعد ازاں خاکسار جب بھی ونجواں گیا اس کے گلی کوچوں کو دیکھ کر شہیدوں کا لہو یاد آیا.جس سے یہ ایک دن رنگی گئی تھی.انشاء اللہ ان شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا.ارض و نجواں کے کھیتوں کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ انہیں وہ روئی اگانے کا موقعہ ملا جس کے سوت سے وہ کپڑا بنا گیا جس سے جماعت احمدیہ کا پہلا جھنڈا بنا.جو آخرین کا علم تھا.تفصیل اس اجمال کی تاریخ احمدیت سے درج ذیل ہے: وو روئی کی خرید کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر ایسی کپاس مل جائے جسے صحابیوں نے کاشت کیا ہو.تو بہت اچھا ہو.چنانچہ حضور کو اطلاع ملی کہ سندھ میں اس قسم کی کپاس موجود ہے.گو وہاں تو ایسی کپاس نہ مل سکی.مگر اللہ تعالیٰ نے حضور کی اس مبارک خواہش کو اور طرح سے پورا فرما دیا.اور وہ اس طرح کہ میاں فقیر محمد صاحب امیر جماعت احمد یہ ونجواں ضلع گورداسپور جو صحابی ہیں، قادیان تشریف لائے.اور کچھ سوت حضرت ام المومنین کی خدمت میں پیش کیا.اور عرض کیا کہ میں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں اپنے ہاتھ سے بیج بو یا اور پانی دیتارہا.اور پھر چنا اور صحابیوں سے دھنوایا اور اپنے گھر میں اسکو کتو ایا ہے.یہ سوت پہنچنے پر مولانا عبد الرحیم صاحب درد
جلد اوّل 156 تاریخ احمدیت بھارت سیکرٹری خلافت کمیٹی نے امیر جماعت احمد یہ ونجواں کو پیغام بھیجا کہ ان کے پاس اگر ان کی کاشت کی ہوئی روئی میں سے کچھ اور ہوتو وہ بھی بھجوا دیں.جس پر حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کے ذریعے مزید آٹھ دس سیر روئی قادیان پہنچ گئی.جو مولانا درد صاحب نے حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ بھیج دی کہ وہ صحابیات کے ذریعہ حضرت اقدس کے ارشاد کے ماتحت اس روٹی کا سوت تیار کروالیں.چنانچہ انہوں نے نہایت مستعدی کے ساتھ دار مسیح موعود میں صحابیات سے سوت کتو ا دیا.جس سے صحابی بافندگان کے ذریعے قادیان اور تلونڈی میں کپڑا بنوایا گیا.جھنڈے کا سائز کیا ہو؟ اس امر کی نسبت کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ کپڑا 18 فٹ لمبا اور 9فٹ چوڑا ہو.اس فیصلہ کے مطابق تیار شدہ کپڑے مطلوبہ سائز میں بدلنے میں صحابہ درزیوں کی خدمات حاصل کی گئیں (42) ابھی حال میں ہی مؤرخہ 11 ستمبر 2016ء کو عزیزم محمد اکرم صاحب کارکن نظارت امور عامه اور عزیزم ریحان احمد شیخ شاہد مربی سلسله شعبه تاریخ احمدیت قادیان کے ہمراہ ونجواں جانے کا موقعہ ملا.وہاں تین معمر عیسائی افراد سے ملاقات ہوئی.ان میں سے ایک نے بتایا کہ وہ سردار محمد صاحب کو جانتا ہے وہ یہاں کے رہنے والے تھے.اس نے اپنی یادداشت کے مطابق وہ جگہ دکھائی جہاں شہداء کو دفن کیا گیا تھا.(واللہ اعلم بالصواب) موضع تلونڈی جھنگلاں کا دفاع قادیان سے بٹالہ جاتے ہوئے متلے والی نہر عبور کرنے کے بعد راستے میں ایک گاؤں و ڈالہ گر نتھیاں آتا ہے.اس گاؤں کی دائیں جانب ایک سڑک تلونڈی جھنگلاں نامی گاؤں کو جاتی ہے.تقسیم ملک سے قبل اس گاؤں میں افراد جماعت کی بڑی تعداد مقیم تھی جو صدیوں سے اس گاؤں کے باشندے تھے اور اس کے گردو نواح کی اراضی کے مالک تھے.احمدیوں کی دو مساجد کے علاوہ ایک پرائمری اسکول تھا.سن 1947ء میں جب حالات سنگین صورت اختیار کرنے لگے تو تلونڈی جھنگلاں اور اس کے قرب و جوار میں احمدی افراد کی حفاظت کے لئے مستقل خدام میں سے 25 خدام کے دستے کو قادیان سے وہاں بھیجوایا گیا.اس دستہ میں (سابق صوبیدار ) جناب عبد الغفور عبدل بھی تھے.باقی آگے کی تفصیل انہی کے
تاریخ احمدیت بھارت 157 جلد اوّل الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں: اگلا دن بھی انتظار میں گزرا.مغرب کی نماز کے بعد کیپٹن شیر ولی صاحب نے ایک مختصر تقریر میں کہا کہ آپ عشاء کی نماز کے بعد سوجائیں اور ساڑھے بارہ بجے شب لوگ اسی جگہ جمع ہو جائیں.آپ کو تلونڈی جھنگلاں لے جایا جائے گا.اسی وقت اسلحہ تقسیم کیا گیا.مجھے تھری ناٹ تھری کی رایفل اور ایک سو پچاس راونڈ ملے.محمد عیسی کو شاٹ گن اور صلاح الدین کو بر چھا.اسی طرح ہر شخص کو حسب حال اسلحہ تقسیم ہوا.ہم اسی رات کے پچھلے پہر اندھیری رات میں بابا شیر ولی کے ساتھ روانہ ہوئے شہر سے باہر جا کر کیپٹن صاحب نے دعا کے ساتھ ہم کو رخصت کیا اور خود واپس چلے گئے.ہم کوئی پچیس کے قریب آدمی تھے جو صبح تقریبا چار بجے تلونڈی جھنگلاں پہنچ گئے.کچھ احمدی دوست پہلے سے وہاں موجود تھے.حوالدار نور محمد صاحب آف شکار ماچھیاں نے ہمارا استقبال کیا اور ہم کو یہاں کے حالات تفصیل سے بتلائے.اس محاذ کے انچارج صو بیدار اللہ یا ر صاحب تھے جو سر گودھا کے رہنے والے تھے.لیکن ہماری اس والنٹیر فورس کا اصل روح رواں حوالدار نورمحمد ہی تھا.یہ شخص نہایت دلیر ، بہادر اور لیڈر قسم کا آدمی تھا.ہر خطرہ کے موقع پر شیر کی طرح ڈٹ جاتا تھا اور سب سے آگے ہوتا تھا.اس محاذ پر ہمارے آنے کے بعد 40-35 آدمی ہو گئے تھے جن میں زیادہ تعداد ان افراد کی تھی جو کیپٹن حضرت میاں شریف احمد صاحب کے تحت فوج میں ملازمت کر چکے تھے اور سب ایک دوسرے سے واقف تھے.سب کے نام تو یاد نہیں ، ہاں چند ایک نام یاد ہیں.فضل الہی گجراتی ، کھاریاں کے رہنے والے مخلص نوجوان تھے.کبڈی کے چمپئین کھلاڑی ، بے فکرے ، ہر خطرے میں کود جانے والے.عبد الرحمن صاحب چک نمبر چھ ہر پہ ضلع ساہیوال کے رہنے والے تھے سگنل کمیونیکیشن کے ماہر تھے.ٹارچ یا شیشہ کے ذریعہ سے منارۃ امسیح سے پیغام وصول کرتے اور بھیجتے تھے.اور پھر ہم کو صورت حال سے آگاہ کرتے تھے.جلال الدین بٹ پکیواں ضلع گرداسپور کے رہنے والے تھے اور حضرت مرزا شریف احمد کے ساتھ فوج میں رہ چکے تھے.ان کے ایک بھائی جمال دین بٹ اسی فوج میں جمعدار تھے.یوسف قادیانی جو سار چور کے رہنے والے تھے،اس گاؤں میں زیادہ آبادی غیر احمدیوں کی تھی لیکن احمدی گھرانے بھی کافی تھے.ایک خاندان سکھوں کا تھا جو بظاہر ہمارے ساتھ تعاون کرتا تھا.پورے گاؤں میں اب عمومی کنڑول والنٹیر کے ہاتھ میں تھا.حوالدار
جلد اوّل 158 تاریخ احمدیت بھارت نور محمد کا اس علاقہ میں اچھا اثر و رسوخ تھا.35-40 آدمی گاؤں والوں کے مہمان تھے.کئی ارد گرد کے دیہات سے مسلمان گھرانے.......(مفسدہ پردازوں ) کے ڈر سے اپنے گھر خالی کر کے تلونڈی جھنگلاں میں آگئے تھے.اور یہاں کی آبادی دن بدن بڑھ رہی تھی.ارد گرد کے دیہات میں.......(مفسده پردازوں ) کو پتہ تھا کہ تلونڈی جھنگلاں میں فوجی پلٹن رہتی ہے اور اس کے پاس بڑا اسلحہ ہے.لہذا وہ ڈرتے تھے اور کسی کو حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی.ہماری جماعت کا بھی یہی منشا تھا کہ جب تک قادیان کے ارد گرد کے دیہات مضبوط ہونگے ، قادیان کو کوئی خطرہ نہیں لیکن ہمارے جانے کے بعد یہ مسئلہ پیدا ہو گیا کہ 140افراد کا کھانے کا کون انتظام کرے اور راشن کدھر سے آئے.پہلے تو دو چار افراد تھے تو گزارہ ہو جاتا تھا.مگر اب خاصی تعداد تھی ان لوگوں کے لئے تو پورا لنگر خانہ درکار تھا اور راشن بھی چاہئے تھا.گاؤں کے احمدی احباب بڑے مخلص تھے مگر اتنا امیر تو کوئی نہیں تھا کہ 40 آدمیوں کو دو تین وقت روٹی مہیا کر سکتا.ہر کوئی اس مصیبت کے وقت میں بمشکل اپنا اپنا بوجھ اٹھاتا تھا، چنانچہ ہماری ایک میٹنگ ہوئی.کسی نے کہا کہ ہم تو سب پر دیسی ہیں لہذ امرکز کو درخواست کی جائے کہ اس مسئلہ کوحل کرے.لیکن حوالدار نور محمد بڑامد بر آدمی تھا.اس نے مشورہ دیا کہ ہم گاؤں والوں پر بوجھ بننا نہیں چاہتے اور مرکز پر بھی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے.ہم اپنا بندوبست خود کریں گے.مسلمانوں نے جتنے دیہات خالی کئے ہیں ابھی تک وہاں گندم کے بلکہ ہر چیز کے ذخیرے موجود ہیں.ہم کو اور چیزوں سے غرض نہیں.ہم صرف گندم وہاں سے لائیں گے اور مشین سے پسوا کر خود روٹی پکا کر کھا ئیں گے.آٹا ہی بنیادی چیز ہے، باقی چیزوں کا گزارہ ہو سکتا ہے.چنانچہ انہوں نے میری اور میرے ساہیوال کے دونوں ساتھیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ ہم کل صبح ایک نزد یکی گاؤں ”مراء میں جائیں اور گندم لائیں.حوالدار صاحب نے ہم کو چند جوان اور چھ سات گدھے بھی ساتھ دئے اور ہم ممراء کو روانہ ہو گئے.گاؤں میں داخل ہو کر میں نے کمہار نوجوان کو کہا کہ جس جس گھر میں گندم ہے، وہاں سے جلدی جلدی بوریوں میں گندم بھر لو اور جب تمہارا لوڈ پورا ہو جائے تو مجھے بتا دینا.میں ، صلاح الدین اور محمدعیسی اونچی جگہوں پر کھڑے ہو کر گاؤں کی نگرانی کرنے لگے.دراصل کمہاروں کے ساتھ ہماری لاعلمی میں اور بھی بہت سے لوگ آگئے تھے جو اس گاؤں کے رہنے والے تھے، تا کہ اپنے گھروں سے جو سامان رہ گیا ہے، وہ بھی لے آئیں.میں اور صلاح الدین ایک مکان کی چھت پر چڑھ گئے
تاریخ احمدیت بھارت 159 جلد اول اور چاروں طرف دیکھنے لگے.ابھی انہوں نے گندم بھرنی ہی شروع کی تھی کہ ایک دم شور ہوا کہ.......مفسدہ پرداز) آگئے.......(مفسدہ پرداز) آگئے.میں نے پہلے تو ایک ہوائی فائر کیا اور پھر ہم اس سمت کو دوڑ پڑے جدھر سے آوازیں آرہی تھیں.ہم کو چند.......(مفسدہ پرداز ) نظر آئے مگر جلد ہی وہ کماد کی فصل میں روپوش ہو گئے.ہم نے ان کے گردگھیرا ڈالنے کی کوشش شروع کر دی، باقی توسب.......(مفسدہ پرداز ) غائب ہو گئے مگر ایک.......(مفسدہ پرداز ) غلطی سے اچانک ہی ہمارے سامنے آگیا.وہ نہتا تھا اس لئے ایک جوان نے اس کو لاٹھی ماری ، وہ.......(مفسدہ پرداز ) بھی بڑا تگڑا آدمی تھا، اس نے لاٹھی آگے سے پکڑ لی اور مقابلہ کرنا شروع کیا.مگر دوسرے ایک آدمی نے اس کو بالوں سے پکڑ کر قابو میں کر لیا.وہ بے چارہ ہاتھ جوڑ کر منتیں کرنے لگا کہ مجھے نہ مارو.میرا بھی اس کو مارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر ایک جذباتی نوجوان نے شاٹ گن سے اس پر فائر کر دیا اور وہ ادھر ہی گر گیا.مجھے افسوس ہوا کیونکہ انہوں نے ابھی تک ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا تھا اور نہ ہی ہم لڑائی کرنے آئے تھے.ہم تو محض گندم حاصل کرنے آئے تھے مگر جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا.اردگرد کے دو تین دیہات سے بہت سے.......(مفسدہ پرداز) اکٹھے ہو کر ہمارے خلاف نعرے لگانے لگے.ادھر ہمارے ایک آدمی کی گھوڑی چھوٹ کر.......(مفسدہ پردازوں) کے دیہات میں چلی گئی.جبکہ دیہاتیوں کا ایک ہجوم اس تاز قتل پر بہت برہم اور مشتعل تھا.خطرہ تو تھا کہ شاید ان کے پاس بھی اسلحہ ہو، مگر بالآخر میں نو جوانوں کو کور کرتا ہوا ساتھ گیا اور وہ اپنی گھوڑی کو پکڑ لائے.کچھ لوگ دور سے پتھر مارنے لگے تو میں نے تھری ناٹ تھری کا ایک ہوائی فائر کر دیا اور ہم بخیر وعافیت گھوڑی پکڑ کر لے آئے.لیکن ہم ابھی خطرے سے باہر نہیں تھے کیونکہ.......(مفسدہ پردازوں ) کا ہجوم ہمارے پیچھے پیچھے تھوڑے فاصلے پر آرہا تھا اور اشتعال انگیز نعرے لگا رہا تھا.ہم نے دیکھا تو ہمارے لوگ ممراء گاؤں کی طرف تقریباً بھاگ کھڑے ہوئے اور صرف تین آدمی رہ گئے.اس موقعہ پر اگر وہ ہم پر یک دم حملہ کر دیتے تو ہم کو پکڑ سکتے تھے.مگر خدا نے فضل کیا اور ہم باوقار طور پر چلتے چلتے محفوظ جگہ پر آ گئے.جب ہم نے اس جگہ کو کراس کر لیا جہاں پر ان کا ایک آدمی قتل ہوا تھا تو ہجوم اس کی لاش کے پاس ٹھہر گیا اور بالآخر وہ لاش کو اٹھا کر نعرے لگاتے ہوئے واپس چلے گئے اور ہم مناسب رفتار میں ممراء پہنچ گئے جہاں ہمارے آدمی گندم لا در ہے تھے.ہم نے جلدی جلدی گندم لدوائی اور تلونڈی جھنگلاں کو روانہ ہو گئے.
جلد اوّل 160 تاریخ احمدیت بھارت اس سے پہلے دو واقعات اور پیش آئے جن کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے پہلا واقعہ تو یہ ہے کہ جب ہم گندم لدوار ہے تھے تو وہاں دو ضعیف العمر بزرگ نظر آئے جو اٹھوال کے رہنے والے تھے جو اس گاؤں کے نمبردار کے متعلق بڑے افسوس سے باتیں کر رہے تھے.میں نے سلام علیکم عرض کیا اور کہا بابا جی نمبر دار کو کیا ہوا، کہنے لگے کہ نمبردار بہت ہی متعصب اور احمدیت کا سخت مخالف تھا.جب کبھی ہم ان کو تبلیغ کرنے آتے تو نمبر دار ہمارے ساتھ بڑی بُری طرح پیش آتا اور ہمیشہ گستاخی کے ساتھ بات کرتا.ابھی ہم کو یہ دیکھ کر افسوس ہو رہا ہے کہ ان کا وہی گھر خالی اور ویران پڑا ہے.پتہ نہیں اس کے ساتھ اور اس کے گھر والوں کے ساتھ کیا گزری اور اب وہ کس حال میں ہیں.میں نے کہا بابا جی کون سا گھر ہے نمبر دار صاحب کا.کہنے لگے یہ سامنے والا مکان ہے.مجھے خیال آیا کہ نمبر دار صاحب کا مکان تو دیکھنا چاہئے.چنانچہ ہم سب بمع ان بزرگوں کے نمبردار کے گھر چلے گئے.وہاں گھر کے صحن میں ایک چھوٹا سا تنور بنا ہوا تھا اس تنور پر ایک کپڑوں کی گٹھری پڑی ہوئی تھی.میں نے اس کو دیکھنا چاہا کہ اس گٹھری میں کیا ہے.جب میں نے اس گٹھری کو سیدھا کیا تو دیکھا کہ وہ ایک جوان عورت ہے.رورو کر آنسو اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے اور اس کی حالت نہایت خستہ تھی.اتنے زیادہ آدمیوں کو دیکھ کر اس نے اور بھی اونچی اور دردناک آواز میں رونا شروع کر دیا.اس گاؤں کے کئی آدمی وہاں تھے.انہوں نے بتایا کہ یہ تونمبر دار کی بیٹی ہے اور اس کا بھائی بھی ہمارے ساتھ آیا ہوا ہے.میں نے کہا کہ اس کو بلاؤ.جب وہ آیا تو میں نے کہا کیا یہ تمہاری بہن ہے؟ کہنے لگا ہاں جی یہ ہماری ہی بہن ہے.میں نے کہا کہ جب تم نے یہ گاؤں اور اپنا گھر خالی کیا تھا تو اپنی بہن کو اپنے ساتھ کیوں نہیں لے کر گئے؟ کہنے لگا جی ہم سب کو تو اپنی اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی.یہ تو پاگل ہے، اس کا تو کسی کو خیال ہی نہیں آیا.معلوم ہوتا تھا کہ گھر والوں نے اس جوان لڑکی کو غیر اہم سمجھ کر ایسے ہی چھوڑ دیا اور خود......مفسدہ پردازوں) کے ڈر سے بھاگ گئے حالانکہ وہ اچھی خاصی تندرست اور جوان لڑکی تھی اور باتوں کا جواب بھی دے سکتی تھی.میں نے ایک آدمی کو جس کے پاس گھوڑی تھی ، کہا کہ اس لڑکی کوگھوڑی پر بٹھاؤ اور تلونڈی جھنگلاں پہنچاؤ، یہ تمہاری ڈیوٹی ہے اور اس کے بھائی کو بھی کہا کہ تم بھی اپنی بہن کے ساتھ ہی جاؤ.بعد میں کسی نے بتایا کہ مذکورہ بالا دونوں بزرگ جو آٹھواں سے آئے تھے حضرت مسیح موعود کے صحابی معلوم ہوتے ہیں.جوان لڑکی کی یہ حالت دیکھ دیکھ کر دونوں بزرگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے.دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ہمارا قافلہ بڑا لمبا ہو گیا تھا.ہم کو معلوم نہیں تھا کہ ہماری لاعلمی میں بہت سے
تاریخ احمدیت بھارت 161 جلد اوّل لوگ ہمارے پیچھے پیچھے آگئے تھے جو مسلمان گاؤں خالی کر کے گئے ہیں اور ان کے مکان ہر قسم کے سامان سے بھرے ہوئے ہیں اور وہاں سے لوٹ کا مال سمجھ کر کوئی سامان لائیں.قافلہ اتنا لمبا ہوگیا تھا کہ قافلے کا اگلا حصہ دو میں جاچکا تھا اور ہم ابھی ممراء میں ہی تھے.میں نے صلاح الدین کو آگے بھیج دیا کہ وہ قافلے کے اگلے حصے کی نگرانی کرے.محمد عیسی کو میں نے کہا کہ تم قافلے کے درمیان میں رہو.اگر کوئی خطرہ ہو تو ہوائی فائر کر دینا.ہم تمہاری مد کو پہنچیں گے.اس کے پاس شاٹ گن تھی میں نے کہا کہ میں قافلے کے آخری حصہ میں رہوں گا.کیونکہ میرے پاس تھری ناٹ تھری کی رائفل ہے.جب قافلے کا آخری حصہ ممراء سے کوئی نصف میل گیا ہوگا کہ قافلے کے درمیانی حصہ میں کافی شور وغل ہوا اور دو....مفسدہ پرداز ) گھوڑ سوار بھاگتے اور قافلے میں داخل ہوتے دکھائی دئے.میں نے یکے بعد دیگرے دو ہوائی فائر کئے اور آگے کو دوڑ کر گیا.لیکن ہمارے جانے تک وہ گھوڑ سوار بھاگ گئے.وہاں جا کر پتہ چلا کہ....(مفسدہ پرداز ) ایک لڑکی کو اغوا کرنا چاہتے تھے.لڑکی کی بوڑھی والدہ نے مقابلہ کیا اور لڑکی کے ساتھ چمٹ گئی اور اس کو نہ چھوڑا اور....(مفسدہ پرداز ) ہمارے فائر کی آواز سن کر فرار ہو گئے مگر جاتے جاتے وہ لڑکی کی والدہ کو برچھی مار کر زخمی کر گئے.میں نے اس عورت کو پٹی بندھوا کر ایک گدھے پر سوار کروادیا اور پھر ہم سب تلونڈی جھنگلاں پہنچ گئے اور حوالدار نور محمد کو جا کر سب واقعات تفصیل سے بتائے اس نے اسی وقت چکی سے آٹا پسوا یا اور رات کو ہم نے اپنا باورچی خانہ آباد کیا اور خود روٹی پکا کر کھائی.اسی طرح ہم متعدد مرتبہ مختلف دیہاتوں سے جا کر گندم لاتے رہے.ایک دن مرکز قادیان سے اطلاع ملی کہ تلونڈی جھنگلاں پر عنقریب پولیس کا چھاپہ پڑنے والا ہے.چنانچہ کئی مرتبہ سارا سارا دن یا آدھی آدھی رات تک کھیتوں میں روپوش رہتے کیونکہ حکومت سے ٹکر لینا ہمارے پروگرام میں شامل نہیں تھا.ایک مرتبہ پولیس گاؤں میں داخل ہوگئی مگر صوبیدار اللہ یار اور حوالدار نورمحمد صاحب سے دوستانہ رنگ میں باتیں کر کے چلی گئی.ہمارے کسی آدمی کو گرفتار کرنے کی ہمت ان کو نہ ہوئی کیونکہ ہم نے ابھی تک کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا تھا نہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ تھا ہم تو مرکز کے حکم سے علاقہ کی حفاظت پر مامور تھے.کسی کو مارنا یا قتل کرنا نقصان پہنچانا ہمارا مقصد نہیں تھا.لہذا پولیس علاقے کا جائزہ لے کر چلی گئی.ہم کو اس گاؤں میں رہتے ہوئے دو ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا.اس گاؤں میں اب آبادی کافی زیادہ ہو گئی تھی.کیونکہ ارد گرد کے دیہاتوں سے بہت سے مسلمان....(مفسدہ پردازوں ) کے
جلد اوّل 162 تاریخ احمدیت بھارت ڈر سے یہاں آکر آباد ہو گئے تھے.بیشتر آبادی غیر احمدیوں پر مشتمل تھی.گاؤں کا نمبر دار بھی غیر احمدی تھا اور اس کے....(غیر مسلموں) سے وسیع تعلقات تھے.بعض دفعہ اس کو....(غیر مسلم) دوست ملنے کے لئے آیا کرتے تھے.ایک دن علی الصبح ایک....(غیر مسلم ) دوست اس کو ملنے کے لئے آیا.گاؤں سے باہر ملاقات کا وقت پہلے سے مقرر تھا.نمبر دار گھوڑے پر سوار تھا اور....(غیر مسلم) دوست سے دوستانہ گفتگو کر رہا تھا.لیکن نمبر دار کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک....(مفسدہ پرداز ) جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھا ہوا ہے، جب وہ اطمینان سے گفتگو کر رہے تھے تو چھپے ہوئے....(مفسدہ پرداز ) نے نمبر دار کے سر کا نشانہ لے کر فائر کر دیا.303 کی گولی نے نمبر دار کے سر کے پرخچے اڑا دیئے اور دونوں....مفسدہ پرداز ) آنا فانا روپوش ہو گئے.فائر کی آواز سن کر جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو نمبر دار مرا پڑا تھا اور اس کا مغز یعنی بھیجا ادھر اُدھر بکھرا پڑا تھا اور ان....(مفسدہ پردازوں) کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا.ہم اس کی لاش کو اٹھا کر اس کے گھر لے آئے.سب گاؤں میں خوف و دہشت کی لہر دوڑ گئی.لوگ گاؤں خالی کرنے کی باتیں کرنے لگے.نمبردار کی تجہیز و تکفین کے بعد سب لوگ اپنا اپنا ضروری سامان لے کر قادیان جانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے.حوالدار نورمحمد اور دیگر سرکردہ لوگوں نے ان کو روکنے کی بڑی کوشش کی اور کہا کہ ہم تمہاری حفاظت کرنے کی خاطر ہی تو یہاں بیٹھے ہیں مگر کوئی ماننے کو تیار نہ تھا.بہر حال اس قافلہ کی حفاظت کرنا بھی ہمارے فرائض میں شامل تھا.لہذا جس طرح ہم کو حکم ملا ہم قافلہ کے آگے پیچھے ، دائیں بائیں ہوکر اس قافلے کو بحفاظت قادیان میں لے آئے اور خدا کے فضل سے راستے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا.متعلقہ افسران نے مرکز میں پہنچ کر تفصیلی حالات کی رپورٹ پیش کر دی.ہم کو بابا کبرعلی صاحب کی کوٹھی میں ٹھہرایا گیا.(43) موضع مراد پورہ کا واقعہ قادیان سے بمقام ڈلہ ہوتے ہوئے اگر جنوب کی طرف سفر کریں تو تقریباً 12 کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد ایک گاؤں مراد پورہ آتا ہے.راقم الحروف محمد حمید کوثر کو پہلی بار 1970ء میں مکرم افتخار احمد صاحب اشرف درویش مرحوم کے ساتھ مراد پورہ جانے کا موقعہ ملا.وہاں ان کی کچھ زمین تھی اس وجہ سے وہ وہاں جایا کرتے تھے.اس وقت تقسیم ملک پر تقریباً 23 سال ہی گزرے
تاریخ احمدیت بھارت 163 جلد اول تھے.پرانے لوگ بحیات تھے.ان میں سے ایک معمر سکھ دوست جو وہاں کے قدیمی باشندہ تھے انہوں نے بتایا کہ مراد پورہ ایک مسلمان فقیر کا بسایا ہوا گاؤں ہے.اور اس فقیر کی قبر بھی باہر بڑے قبرستان میں موجود ہے تقسیم ملک کے وقت اس کی آبادی ہزار بارہ سو افراد پر مشتمل تھی.مسلمان اور دوسرے مذاہب کے لوگ تقریبا نصف نصف تھے.مسلم آبادی میں سے بہت سے گھرانے احمدی تھے.سب لوگ امن اور سکون سے مراد پورہ میں رہتے تھے اور آپس میں ان کا بہت پیار کا سلوک تھا.ایک دوسرے کی خوشی غم میں شریک ہوتے تھے.آزادی کے اعلان کے بعد اس کے نزدیکی دیہاتوں میں فسادات شروع ہو گئے مگر یہاں امن و امان برقرار رہا.چند دنوں کے بعد باہر سے آئے ہوئے حملہ آوروں نے مراد پورہ میں ایک احمدی کو شہید کر دیا اور کچھ دوسرے مسلمان بھی زخمی ہوئے.لوٹ مار کی واردات بھی ہوئی.اس المناک قتل کے بعد یہاں کے مسلمان ہر طرف سے خطرہ محسوس کرنے لگے.خاص طور سے وہ اپنی عورتوں اور بچوں کے بارہ میں بہت فکر مند تھے.ہم نے احمدیوں کو تسلی دی کہ آپ فکرمند نہ ہوں ہم آپ کی ہر طرح سے حفاظت کریں گے مگر ان کا کہنا یہ تھا کہ ہمیں بیرونی مفسدہ پردازوں سے بہت خطرہ ہے.ایک صبح جب ہم مسلمانوں کے گھروں کی طرف گئے تو ہم نے دیکھا کہ کوئی ایک مسلمان بھی اپنے گھر میں نہیں ہے.اور ان کا سامان بھی اسی طرح گھروں میں رکھا ہوا ہے.اور گھروں میں تالے لگے ہوئے ہیں اور اس معمر غیر مسلم نے بتایا کہ بعد میں ہمیں علم ہوا کہ قادیان سے ایک جماعت آئی تھی وہ ان سب مسلمانوں کو نکال کر لے گئی.احمدی تو بحفاظت قادیان چلے گئے مگر قرب وجوار کے دیہاتوں میں بہت قتل و غارت ہوئی.اور شاید ہی کوئی مسلمان بچا ہو.مسلمانوں کی بہت سی عورتیں قرب و جوار میں غیر مسلموں کے گھروں میں موجود ہیں جو اسی زمانہ میں یہاں رکھ لی گئیں تھیں.تاریخ احمدیت میں مذکور ہے کہ: 6 ستمبر 1947ء قادیان کے جنوبی جانب مراد پور گاؤں کا ایک احمدی....(مفسدہ پردازوں) نے شہید کر دیا اور بعض دوسرے احمدیوں کے اموال لوٹ لئے.‘(44) اس غیر مسلم معمر شخص کے بیان کی بعض دوسرے احباب نے بھی تصدیق کی.اس واقعہ سے علم ہوتا ہے کہ احمدی نوجوانوں نے اپنے آپ کو خطرات میں ڈالتے ہوئے مراد پورہ سے احمدی افراد کو بحفاظت قادیان پہنچایا.فجزاهم الله احسن الجزاء.
جلد اوّل 164 تاریخ احمدیت بھارت کیڑی افغاناں اور علاقہ بیٹ پر مفسدہ پردازوں کے حملے محترم منظور احمد صاحب چیمه درویش مرحوم ولد مکرم نورمحمد صاحب چیمہ (متوفی 11/ جون 2014ء) کا نام تاریخ احمدیت میں مطبوعہ مستقل خدام کی فہرست میں 202 نمبر پر درج ہے.انہوں نے خاکسار کو بتایا کہ ماہ ستمبر 1947ء کے شروع میں انہیں اور ان کے ساتھ چوہدری محمد شریف صاحب گجراتی درویش ، مرزا بشیر احمد صاحب گجراتی درویش محمد اسمعیل صاحب منگلی درویش محمد صادق صاحب ننگلی درویش اور ظہور احمد صاحب گجراتی درویش اور بعض دیگر نو جوانوں کو کیٹری افغاناں اور بیٹ کے علاقہ میں اس غرض کے لئے بھجوایا کہ ہم مسلمانوں اور خصوصاً احمدی افراد کو تسلی دیں اور ان کو کہیں کہ آپ نے ڈرنا نہیں.اپنے گھروں اور زمینوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا.چنانچہ ہمارے وہاں جانے سے مسلمانوں اور احمدیوں کا خوف اور ڈر دور ہوا اور وہ اپنے اپنے دیہاتوں میں رہنے پر رضامند ہو گئے.مگر حالات روز بروز بد سے بدتر ہونے لگے.بیٹ علاقہ گھنے جنگلوں پر مشتمل تھا اور دریائے بیاس کا کنارہ ہے.اس لئے بیرونی مفسدہ پردازوں نے اس جنگل سے فائدہ اٹھایا اور اس میں بکثرت اپنی کمین گاہیں بنالیں.اور مسلمانوں پر گھات لگا کر حملے کرنے لگے.اور انہیں زبردست جانی نقصان پہنچانے لگے.اور اسکے ساتھ ہی مسلمان عورتوں کے اغوا اور اختطاف کا سلسلہ بھی جاری تھا.جب حالات بہت زیادہ مخدوش ہو گئے تو ہمیں حکم ملا کہ سب سے پہلے مرحلہ پر عورتوں کو بحفاظت قادیان پہنچا ئیں.چنانچہ ہم بیٹ کے ہر گاؤں سے احمدی عورتوں بوڑھوں بچوں کو رات کی تاریکی میں مجہول راستوں سے گزارتے ہوئے قادیان پہنچایا کرتے تھے.اور بعض اوقات انہیں (موجودہ ڈی اے وی آریہ اسکول ) ریلوے لائن کے پاس لڑکوں پر سوار کروا کر واپس بیٹ کے علاقہ میں چلے جاتے.اور یہ سلسلہ تقریبا 2 ہفتے تک جاری رہا.منظور صاحب نے بتایا کہ کیڑی افغاناں کے ایک احمدی گھر میں مفسدہ پردازوں نے آگ لگا دی.احمدی خاندان کے افراد نے مکان کے اندر سے اپنے دروازے مقفل کر لئے.حویلی کی طرز پر تعمیر شدہ مکان میں اندر جانے کے لئے کوئی راستہ نہ تھا.ہمارے ساتھی محمد اسمعیل صاحب منگلی کے پاس ایک
تاریخ احمدیت بھارت 165 جلد اول بڑا ساٹھ ( ڈانگ ) تھا.اسکے سہارے دس بارہ فٹ اونچی دیوار کو پھاند کر بے خطر جلتے ہوئے گھر میں داخل ہو گئے.دروازے توڑ کر کھولے.ہم سب فوراً اندر داخل ہوئے اور بے ہوش مردوں عورتوں اور بچوں کو باہر نکالا ، پانی پلایا.جب انہیں ہوش آئی تو وہ ڈر گئے کہ شاید یہ ہمیں قتل کرنے لگے ہیں.لیکن جب ان کو بتایا گیا کہ ہم قادیان سے آئے ہیں تو وہ ہمارے گلے لگ گئے اور عورتیں ہمیں بھائی بھائی کہتے ہوئے رونے لگیں اور جان بچانے پر ہمارا شکر یہ ادا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ نے بر وقت آپ کو ہم تک پہنچا دیا.خاکسار کے والد محترم چوہدری محمد شریف احمد گجراتی صاحب درویش نے بتایا کہ ہمیں کھانے کے لئے کچھ نہیں ملتا تھا.دیہاتوں میں مسلمانوں کے خالی گھروں میں گھس جاتے.جو بھی کھانے کی چیز یعنی گندم، چنے ہکئی مل جاتی اسے پانی کے ساتھ چبا کر نگل جاتے...اس مہم میں منگل کے احمدی نوجوانوں کی شمولیت کا یہ فائدہ تھا کہ وہ اس جنگلی علاقہ کے ان راستوں سے واقف تھے جو بآسانی قادیان پہنچتے تھے.جب عورتیں بچے بوڑھے.بیمار قادیان پہنچ گئے تو کیٹری افغاناں اور بیٹ کے دیہاتوں میں احمدی نوجوان باقی رہ گئے.ان کے ساتھ جو بیتی اس کا حال تاریخ احمدیت میں اس طرح مذکور ہے:.اسی طرح کیڑی افغاناں نزد بیاس کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا.ان بیچاروں کو صرف 15 منٹ کا نوٹس دیا گیا کہ گاؤں خالی کر دو.جب قافلہ قادیان کی طرف روانہ ہوا تو پیچھے سے...(مفسدہ پردازوں) کے.....ایک زبر دست جتھے نے حملہ کر کے ان کا سامان لوٹ لیا‘ (45) موضع تغلوال میں سات احمدیوں کی شہادت ظلم اور بربریت کا دور جاری تھا.مفسدہ پردازوں کی خون آشام تلواریں گھاس کی طرح مسلمانوں کی گردنیں کاٹتی چلی جا رہی تھیں.ان کو روکنے والا کوئی نہیں تھا.ستم ظریفی تو یہ تھی کہ وہ بندوقیں اور رائفلیں جو پولیس اور فوجیوں کو فسادیوں کی تلواروں کو روکنے کے لئے دی گئیں تھیں ان سے نکلنے والی گولیاں بھی مسلمانوں اور احمدیوں کے سینوں سے ہی آر پار ہو رہی تھیں.بخوف طوالت اس کی تفصیل کو چھوڑتے ہوئے صرف اتنا تحریر ہے کہ پنجاب کا شاید ہی کوئی علاقہ ہوگا جس میں حفاظت پر مامور پولیس اور اس وقت کی عسکری قیادت نے مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ نہ بنایا ہو.اس کی ایک مثال یہ ہے: موضع بگول خوشحال پور بیری گھوڑے واں میں مسلمان صدیوں سے آباد تھے.اور یہ گاؤں انہیں
جلد اوّل 166 تاریخ احمدیت بھارت ย کے آباو اجداد نے بسائے تھے.ان مواضعات میں بہت بڑی تعداد جماعت احمدیہ کے افراد کی بھی تھی.ایک معتبر شخصیت مستری محمد دین صاحب درویش جن کا بگول میں سسرال تھا اور حضرت مستری ناظر دین صاحب ان کے خسر تھے.انہوں نے مجھے بتایا کہ تقسیم ملک کے بعد پولیس اور عسکری دستے مذکورہ دیہاتوں میں گشت کرتے اور مسلمانوں کو فوراً نکل جانے کا حکم دیئے.مگر مسلمان اپنے آبائی گھروں اور جائیدادوں سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں تھے.ایک دن کا ہندوان پولیس ان دیہاتوں میں گشت کرتی ہوئی آئی اور چند احمدی نوجوانوں کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئی.بعد میں علم ہوا کہ ان میں سے سات احمدی نوجوانوں کو بغیر کسی جرم اور وجہ کے نہر کے تغلوال والے پل پر گولی ماری گئی اور لاشیں نہر میں پھینک کر چلے گئے.چنانچہ تاریخ احمدیت میں مذکور ہے کہ : " 4 ستمبر 1947ء قادیان کے مشرقی جانب مواضعات بگول اور خوشحال پور وغیرہ کے سات احمدی نہر کے پل پر کا ہندووان کی پولیس نے گولی مار کر شہید کر دئے.(46) اعلان آزادی کے کم و بیش 19 دن کے بعد پولیس کی یہ کا روائی مذکورہ مواضعات اور اس کے گرد ونواح کے لئے خطرے کی گھنٹی کے مترادف تھی.مسلمانوں اور احمدیوں کو باخبر کیا جارہا تھا کہ ان دیہاتوں کو جلد از جلد خالی کر دو ورنہ تمہارا بھی انہی سات نوجوانوں جیسا حشر ہوگا.بہر حال قادیان یہ اطلاع پہنچی.منتظمین نے پہلے مرحلہ پر دیہاتوں سے عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو جلد از جلد نکال کر قادیان لانے کے لئے خدام کا ایک گروپ تشکیل دیا جو دو تین وفود کی شکل میں انہیں تعلیم الاسلام کالج کے احاطہ میں بحفاظت لے آئے.بوڑھے ، بیمار اور عورتوں کے لئے پیدل چلنا انتہائی دشوار تھا.ان میں سے بعض راستے میں ہی دم توڑ گئے اور بعض منزل پر پہنچ کر موت کی آغوش میں چلے گئے.نفسا نفسی کے اس عالم میں کسی کو صحیح طور پر یہ بھی یاد نہیں کہ کون سا ساتھی راستے میں داغ مفارقت دے گیا.اور کون سا منزل پر پہنچ کر دم توڑ گیا.انہی میں سے ایک مکرم سائیں ہیرے شاہ صاحب تھے.جب وہ تعلیم الاسلام کا لج پہنچے تو فوت ہو گئے.اس وقت قادیان شہر میں کرفیو نافذ تھا.انہیں تدفین کے لئے بہشتی مقبرہ قادیان لا نا ممکن نہ تھا.اس لئے بامر مجبوری بورڈنگ ہاؤس کے احاطہ میں ہی انہیں دفن کر دیا گیا.جب حالات سازگار ہوئے تو ان کا یادگاری كتبه 773 بہشتی مقبرہ قادیان میں نصب کر دیا گیا.الغرض خدام دل دہلا دینے والے مناظر دیکھتے.وہ مناظر جن کو دیکھ کر پتھر سے پتھر دل بھی گھبرا
تاریخ احمدیت بھارت 167 جلد اول جائے.مگر یہ نوجوان اپنا فرض ادا کرنے میں کو تا ہی نہیں برتتے تھے اور نہتے احمدیوں کو دیہاتوں سے نکال کر قادیان لاتے رہے.چوہدری محمد شریف صاحب گجراتی درویش جن کا نام مستقل خدام کی مطبوعہ فہرست میں 188 ویں نمبر پر درج ہے.اکتوبر 1947ء میں انہیں حکم ملا کہ قادیان کے قریبی گاؤں (موضع بیری) میں چھ احمدی خاندان ہیں....جنہیں قادیان لانا تھا.دو خدام کی ڈیوٹی لگی.حالات انتہائی خطرناک اور مخدوش تھے.اس وجہ سے ہر ایک کو ایک ایک تھری ناٹ تھری کی رائفل اور دس ، دس راونڈ دیئے گئے.جب دشمنوں کے محاصرہ کو توڑتے ہوئے اور ان کی نظروں سے بچتے بچاتے رات کی تاریکی میں وہاں پہنچے تو دیکھا سارا گاؤں جل رہا ہے.ایک طرف کے کچھ مکانات بچے ہوئے تھے.جن کی طرف بھی آگ بڑھ رہی تھی.گاؤں کی گلیوں میں کوئی شخص تھا بھی نہیں جس سے ہم پوچھ سکتے.اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ایک دروازے پر دستک دی.صاحب مکان کسی طرح بھی دروازہ کھولنے پر آمادہ نہ ہوا.آخر ہم نے پوچھا کہ فلاں فلاں آدمی کہاں ہے؟ اس نے کہا تم دونوں کون ہو؟ ہم نے بتا یا ہم قادیان سے آئے ہیں.پھر اس نے کہا کہ میں بھی احمدی ہوں.بہر حال اس احمدی کی مدد سے سارے احمدی خاندانوں کو ہم بڑی حکمت عملی سے گاؤں سے باہر لائے اور پھر ایک غیر معروف راستے سے قادیان کا رخ کیا.جب نصف راستہ طے کر چکے تو ایک آدمی کہنے لگا کہ میری بیوی وہاں ہی رہ گئی ہے.اس شخص پر اتنا خوف طاری تھا کہ وہ واپس جانے کے لئے تیار نہ تھا.آخر اس کو لے کر گاؤں دوبارہ آئے.کیونکہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے تاکید کی تھی.کوئی احمدی عورت دشمن کے ہاتھ نہیں آنی چاہئے خواہ اس کو بچاتے ہوئے شہید ہی کیوں نہ ہونا پڑے.دیکھا گھر جل رہا تھا وہ عورت بیمار بے ہوش پڑی تھی ، اسے کندھے پر اٹھایا اور رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِ مُک رَبِ فَا حُفظنی و انصرنی وارحمنی کا ورد کرتے ہوئے دشمنوں کی لگا تار فائرنگ سے بچتے بچاتے بخیریت قادیان پہنچ گئے.(47)
جلد اوّل 168 تاریخ احمدیت بھارت معرکہ موضع کھارا قادیان کے شمال میں ریلوے لائن سے قریباً دو میل کے فاصلہ پر ایک دیہات واقع ہے جس کا نام کھارا ہے یہ گاؤں ایک اونچے ٹیلے پر آباد ہونے کی وجہ سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا.اس گاؤں کی آبادی ایک ڈیڑھ ہزار افراد پر مشتمل تھی جو کہ اکثر احمدی افراد تھے.اور کچھ غیر احمدی گھرانے بھی تھے.یہ گاؤں قادیان سے قربت اور جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بہت اہم تھا اس لئے اعلان آزادی کے فوراً بعد مفسدہ پردازوں نے اسے احمدیوں اور مسلمانوں سے خالی کروانے کی متعدد بار کوشش کی مگر وہاں ڈیوٹی پر مامور احمدی نوجوانوں کی بروقت کاروائی کی وجہ سے ان کو کامیابی نہیں ملتی تھی.صوبیدار عبدالغفور صاحب عبدل درویش لکھتے ہیں کہ : وو.......(مفسدہ پردازوں) کے مختلف...(گروہ) قادیان کے اردگر دا پنا گھیرہ مزید تنگ کرتے جا رہے تھے.ان حالات کے تحت کیپٹن شیر ولی صاحب نے یہ پلان بنایا کہ سابق فوجی جوانوں کو دو دو کی ٹولیوں میں بانٹ دیا جائے اور کہا کہ رات کو مختلف علاقوں میں نکل جائیں اور حملہ کر کے جس قدر نقصان ہو سکے کر کے واپس آجائیں.مجھے جو ساتھی دیا گیا اس کا نام فضل الہی گجراتی تھا.فضل الہی نہایت مخلص اور بہادر جوان تھا میں اور فضل الہی سارا دن صلاح مشورہ کرتے رہتے ہم دونوں کے پاس 303 کی رائفلمیں تھیں اور ہم نے رات کو بارہ بجے کے بعد اپنی ڈیوٹی پر کھارا کی جانب نکلنا تھا.ہم کو معلوم تھا کہ یہ ایک گوریلا جنگ کی قسم کی کاروائی ہے جس میں بہت ہوشیاری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نماز عشاء کے بعد معلوم ہوا کہ کیپٹن شیر ولی صاحب کی اس گوریلا قسم کی فوجی کاروائی کی تجویز حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے نامنظور فرما دی ہے اور ان دنوں قادیان میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ہی سب سے زیادہ ذمہ دار ہستی تھے.“ (48) مکرم فضل الہی صاحب گجراتی درویش (متوفی 9 جولائی 1962ء ) سے خاکسار راقم الحروف نے مذکورہ واقعہ اور اس کے علاوہ اس قسم کے اور بہت سے واقعات خود سنے ہیں.مکرم فضل الہی صاحب اور دوسرے درویش مغرب کی نماز کے بعد عموماً مسجد اقصیٰ قادیان میں بیٹھ جاتے اور اس قسم کے ایمان افروز اور 66
ਸਠਿਆਲੀ SATHIALI موضع سٹھیالی جہاں مورخہ 2 ستمبر 1947 ء کو مفسدہ پردازوں نے حملہ کیا اور اس حملے میں ہمارے ایک احمدی شہید ہوئے DEN GROU Crompton موضع طغلو الہ میں نہر کا پل جہاں موضع بگول اور خوشحال پور کے 7 احمدی شہید کر دئے گئے
ਪਿੰਡ ਬਗੋਲ ਅਗਲਾ ਪਿੰਡ موضع بگول موضع خوشحال پور
موضع مراد پورہ جہاں مورخہ 6 ستمبر 1947ء کومفسدہ پردازوں نے ایک احمدی شہید کر دیا اور دیگر احمد یوں کے اموال لوٹ لئے گئے محله اسلام آباد ( متصل آریا اسکول ) قادیان جہاں مورخہ 16 ستمبر 1947ء کو ایک احمدی شہید کر دیا گیا
ریلوے لائن متصل آریہ اسکول اس مقام پر قادیان سے ہجرت کرنے والوں کو ٹرکوں سے اتار کر تلاشی لی جاتی تھی ) NAV CHETAN SCHOOL KHARAQADIAN AFFILIATED TOCB.SE.NEW DELHI Ph.9814670144,01872-220144 موضع کھارا جہاں تقسیم ملک کے وقت مورخہ 18 ستمبر 1947 ء کو مفسدہ پردازوں نے حملہ کر کے تمام مسلمانوں کو جبراً گاؤں سے نکال دیا اور ان کا قیمتی سامان چھین لیا
ਕੰਪਿਊਟਰ ਟ੍ਰੇਨਿੰਗ ਸੈਂਟਰ HTML CSS.CO KIRI AFGANA ਇਸ ਤੋਂ ਅਗਲਾ ਪਿੰਡ ਰਾਊਵਾਲ ਦੂਰੀ ਗ੍ਰਾਮ ਪੰਚਾਇਤ ਕਿਤੀ ਅਫ਼ਗਾਨਾ موضع کرڑی افغاناں میں 1947 ء کے فسادات کے دوران درویشان کرام اپنی جان پر کھیل کر بعض احمدی گھرانوں کو محفوظ طریق پر قادیان لے آئے نہر مخلہ کاہل جہاں موضع مثلہ کے بعض احمدی شہید کر دئے گئے
تعلیم الاسلام ڈگری کالج کی عمارت جس میں آجکل سکھ نیشنل کالج جاری ہے تعلیم الاسلام ڈگری کالج کا میدان جہاں 1947 ء میں قادیان سے ہجرت کرنے والے قافلوں کو ٹرکوں پر سوار کیا جاتا تھا
ی اور مسجد نور کی حالیہ تصویر.اس مسجد کے صحن میں مفسدہ پردازوں نے فسادات کے ایام میں اپنا کیمپ لگا لیا تھا.1991 ء سے اس مسجد میں با قاعدہ نمازیں ادا کی جارہی ہیں نور ہسپتال کی قدیمی عمارت جس پر مورخہ 15 اکتوبر 1947ء کو حکومت نے قبضہ کر لیا تھا اور 2006-2005 ء میں یہ عمارت صدر انجمن احمدیہ کو واپس مل گئی
SADA SAZDA بیت الحمد ( کوٹھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ) مورخہ یکم اکتوبر 1947ء کو ملٹری نے اس پر جبر ا قبضہ کر لیا بیت الظفر ) کوٹھی حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب) مورخہ 27 ستمبر 1947ء کو اسے لوٹ لیا گیا اور حکومت نے اس پر قبضہ کر لیا.اب اس میں پنجاب پچھلی بورڈ کے دفاتر ہیں
مسجد رحمن ( دارالرحمت) کی قدیمی تصاویر اس مسجد کے مینار مفسدہ پردازوں نے مسمار کر دیئے تاکہ مسجد کی علامت مٹائی جاسکے اور اس مسجد کے برامدہ کی چھت کا کچھ حصہ بھی اکھیڑ دیا گیا مجد دار الترحمت مسجد رحمن ( دارالرحمت) کی تصویر اب یہ مسجد آباد ہے
مسجد ممتاز ( دار الفتوح) کے صحن کی تصاویر فسادات کے ایام میں اس مسجد کی بھی بے حرمتی کی گئی اور مفسدہ پرداز اس میں غلاظت بکھیر کر چلے گئے جو تصاویر میں نظر آتی ہے مسجد ممتاز ( دار الفتوح) کی حالیہ تصویر یہ مسجد 2005ء سے آباد ہے
مسجد دار السعہ قادیان کی قدیم تصویر اس مسجد کے دروازے اور کھڑکیاں اکھیڑ دی گئیں مسجد خوجیاں ( قادیان کے غیر احمدیوں کی مسجد ) فسادات کے بعد اس مسجد پر قبضہ کر کے اسے آریہ سماج مندر بنا لیا گیا تھا بعد میں ایک غیر مسلم نے اسے ایندھن کا اسٹور بنالیا
آبائی قبرستان جو عید گاہ کے نزدیک ہے اور اس میں حضرت مسیح موعود کی والدہ اور دیگر بزرگان خاندان کی قبور ہیں.فسادات کے ایام میں یہاں مفسدہ پردازوں نے قبور کی بے حرمتی کی اور کتبوں کو اکھیٹر پھینکا جو تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے.
محمد هارام بکات مسجد سبحان (دار البرکات) کی تصویر اس مسجد پر بھی ایک غیر مسلم نے قبضہ کر لیا تھا.سال 2002 ء سے یہ مسجد دوبارہ آباد ہوئی قادیان میں ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک بہت بڑا کارخانہ بنام میک ورکس تھا جسے مفسدہ پردازوں نے تباہ کر دیا اور اس کی مشینری اکھیڑ کر لے گئے
تاریخ احمدیت بھارت 169 جلد اول حیرت کن واقعات ایک دوسرے کو سناتے.خاکسار کو اپنے والد صاحب کے ساتھ ایسی مجالس میں حاضر ہوکر واقعات سنے کا موقعہ ملتا رہا.اسی موقعہ پر ایک دن سابقہ صو بیدار مولوی برکت علی صاحب درویش مرحوم نے بتایا کہ ستمبر 1947ء کے دوسرے ہفتہ میں موضع کھارا مفسدہ پردازوں اور ان کی قیادت کرتے ہوئے سول لباس میں عسکری اہل کاروں کے محاصرے میں تھا.اور سب سے بڑا خطرہ احمدی خواتین کے اغوا اور بے حرمتی کا تھا.لہذا قادیان کی انتظامیہ نے پہلے مرحلے میں عورتوں کو وہاں سے بحفاظت نکال کر تعلیم الاسلام کالج میں لانے کے لئے سابقہ فوجی نوجوانوں کی ایک ٹیم ستمبر 1947ء کے دوسرے ہفتہ میں موضع کھارا کے لئے رات کی تاریکی میں روانہ کی.ان کی قیادت مکرم برکت علی صاحب درویش کر رہے تھے اور ان کے ساتھ مکرم چوہدری عبد السلام صاحب درویش ، مکرم فضل الہی صاحب گجراتی درویش اور بعض اور ایسے نوجوان تھے جو بعد میں قادیان سے ہجرت کر گئے.شاید بارشوں کی وجہ سے کچے راستوں اور کھیتوں میں پانی بھرا ہوا تھا.جب یہ گاؤں کی طرف بڑھ رہے تھے پانی میں قدموں کی آہٹ سنتے ہی مفسدہ پردازوں نے ان پر گولیوں اور دستی بموں کی بوچھاڑ کر دی.یہ احمدی نوجوان اپنی سابقہ عسکری مشق کے مطابق پانی اور کیچڑ میں لپٹ گئے اور مفسدہ پردازوں نے یہ خیال کیا کہ یہ سب ان کی گولیوں کا نشانہ بن کر ابدی نیند سو گئے ہیں.لیکن جب مفسدہ پردازان کے قریب پہنچے اور ان کے ہتھیاروں کو لینے کی کوشش کی اور ان کو اپنے پاؤں کی ٹھوکروں سے مارنے لگے اور انکی جان پر بن آئی تو انہوں نے اپنے دفاع میں اپنے پاس موجود رائفلوں سے زبر دست فائرنگ کی اور مفسدہ پردازوں کے محاصرے کو توڑ کر گاؤں کی تمام مسلم اور احمدی خواتین اور بزرگوں کو بحفاظت تعلیم الاسلام کا لج لیکر آگئے اور گاؤں میں باقی رہنے والے احمدی افراد کے لئے چوہدری عبد السلام صاحب درویش وہاں مقیم رہے.ستمبر 1947ء کے تیسرے ہفتے موضع کھارا کو احمدی و مسلم آبادی سے زبر دستی کلیۂ خالی کروالیا گیا.تاریخ احمدیت میں اس انخلاء کا ذکر درج ذیل الفاظ میں موجود ہے: 18 ستمبر 1947ء کو قادیان....ملٹری نے مفسدہ پردازوں کو اسلحہ دے کر موضع کھارا میں بھیجا اور مسلمانوں کو زبر دستی وہاں سے نکلوادیا.اور کوئی چیز نہیں لانے دی.ان کا آٹا وغیرہ بھی راستے میں چھین لیا، اور ان کے مکان تباہ و برباد کر دیئے.(49) اس معرکہ میں احمدیوں کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا.اور تمام خواتین باعزت اور باحفاظت قادیان پہنچ گئیں.الحمدللہ علی ذلک.
جلد اوّل 170 تاریخ احمدیت بھارت حواشی باب چهارم یعنی مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ گورداسپور جو حضرت شاہ صاحب کے ساتھ 5 ستمبر (1947ء) کو قادیان پہنچ گئے.مرزا صاحب موصوف نے وہاں مسلم پناہ گزینوں کو پاکستان بھجوانے کی قابل قدر خدمات انجام دی تھیں.بلکہ عین اسی روز گورداسپور سے مسلمانوں کا آخری قافلہ جو تیرہ ہزار نفوس پر مشتمل تھا روانہ ہو چکا تھا اور آپ یہ خدمت پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد قادیان تشریف لائے تھے.آپ کو گورداسپور کیمپ کے احمدی پناہ گزینوں کی امداد کے بھی متعدد مواقع ملے.-2 -3 ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 151 152 مطبوعہ 2007ء) بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 151 152 مطبوعہ 2007ء چوہدری صاحب 21 اکتوبر 1947ء کو گورداسپور جیل سے رہا ہو کر 23 /اکتوبر کی شام کو سیالکوٹ پہنچے اور 24 اکتوبر کو لاہور آئے.آپ اپنے ساتھ گورداسپور جیل سے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ کے خطوط جو سیدنا امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ اسیح الثانی اصلح الموعود کے نام تھے اپنے ہمراہ لائے جن سے ان کے کوائف کا علم ہوا.( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 رصفحہ 156 مطبوعہ 2007ء) -4 _5 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 152 تا 157 مطبوعہ 2007ء جمعدار صاحب مرحوم احمد یہ کمپنی 8 / 15 پنجاب رجمنٹ سے جنوری 1947ء میں فارغ ہوئے اور قادیان تشریف لے آئے تھے.25 اگست 1947ء کو آپ نے حفاظت سلسلہ کے لئے اپنی خدمات پیش کیں.26 راگست کو جناب شیر ولی صاحب کے حکم سے صوبیدار عبدالمنان صاحب دہلوی ، عبد السلام صاحب سیالکوٹی، حوالدار میجر محمد یوسف صاحب گجراتی محمد اقبال صاحب عبد القادر صاحب کھارے والے ، غلام رسول صاحب سیالکوٹی، فضل احمد صاحب اور عبدالغفار صاحب کے ہمراہ سٹھیالی روانہ کئے گئے جہاں....(مفسدہ پردازوں) نے رائفل ہٹین گن، برین گن اور گرنیڈ 36 کا بے دریغ استعمال کیا.جمعدار محمد اشرف صاحب اور صو بیدار عبدالمنان صاحب دہلوی اور محمود احمد صاحب عارف تینوں بڑی بہادری دلیری اور جرات سے دفاع کر رہے تھے کہ یکا یک برین گن کا ایک برسٹ جمعدار محمد اشرف صاحب کے سر پر لگا اور آپ اپنے مولائے حقیقی کے حضور پہنچ گئے.اس معرکہ میں صوبیدار عبدالمنان صاحب زخمی ہوئے اور آپ کے سینے اور منہ پر گولیاں لگیں اسی طرح فضل احمد صاحب کے گھٹنے میں مشین گن کی گولی پیوست ہو گئی جو
تاریخ احمدیت بھارت 171 جلد اوّل قادیان میں ڈاکٹر میجر شاہ نواز خان صاحب نے اپریشن کر کے نکالی.حاشیه تاریخ احمد بیت جلد 10 صفحہ 157 تا158 مطبوعہ 2007ء) جمعدار محمد اشرف صاحب کے بارے میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 14 رمئی 1999ء میں تفصیل سے ذکر کیا ہے جو آئندہ صفحات میں شامل کیا جارہا ہے.-6 حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے ان میں سے دو احمدی جوانوں کا ذکر اپنی سالانہ رپورٹ 48-1947ء میں بھی کیا ہے.فرماتے ہیں کہ دد ضلع کے حکام کو بار بار لکھا گیا.میں خود خطرناک حالات میں اس غرض سے دو بار گورداسپور گیا اور پھر موٹر سائیکل پر مستری احمد علی صاحب اور عبد الکریم صاحب پسر بابا نظام الدین کو اپنی ضروری چٹھیوں کے ساتھ گورداسپور ڈی سی اور ڈسٹرکٹ بریگیڈیر کے پاس بھیجا.یہ دونوں نوجوان گرفتار کر لئے گئے اور انہیں جیل میں ٹھونسا گیا“.تیسرے احمدی جوان کے ساتھ قید ہوئے محمد یحیی صاحب سرساوی تھے.یہ تینوں پہلے بٹالہ اور پھر گورداسپور میں قریباً ایک ماہ تک جیل میں رکھے گئے.آخر ایک ماہ میں یہ لوگ جیل کی سختیاں جھیلنے کے بعد گورداسپور سے رہا ہو کر بٹالہ لائے گئے.جہاں سے ایک مسلمان قافلہ کے ساتھ پاکستان پہنچے.مستری احمد علی صاحب کا بیان ہے کہ میں گورداسپور جیل سے حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے بعض ضروری کاغذات بھی لایا تھا جو میں نے رتن باغ پہنچتے ہی حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھجوا دیئے.ادھر یہ کاغذات پہنچے ادھر حضور بنفس نفیس سیڑھیوں میں تشریف لے آئے اور آتے ہی فرط محبت سے بغلگیر ہو گئے اور دیر تک مجھے اپنے سینہ سے لگائے رکھا اور حالات دریافت فرمانے کے بعد متعلقہ کارکنوں کو ارشاد فرمایا کہ ان کے کھانے پینے اور علاج معالجہ کا انتظام کیا جائے.چنانچہ حضور کے اس فرمان مبارک کی پوری تعمیل کی گئی.(بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 158 مطبوعہ 2007ء) 7 مندرجہ ذیل مقامات خاص طور پر مسلم پناہ گزینوں کی رہائش گاہ بنے ہوئے تھے.نصرت گرلز ہائی اسکول تعلیم الاسلام ہائی اسکول تعلیم الاسلام پرائمری سکول ، دار الانوار کے بعض مکانات، برآمدہ تعلیم الاسلام کالج.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے 10 ستمبر 1947ء کو مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ابوالعطاء صاحب کے ساتھ ان جگہوں کا دورہ بھی کیا._8 ( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 159 مطبوعہ 2007ء) لمصل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے 11 ستمبر 1947 ء کو حضرت سیدنا اصلح الموعود کی خدمت
جلد اوّل 172 تاریخ احمدیت بھارت میں لکھا کہ قادیان کی نئی ملٹری جو آج آئی ہے راجپوتوں کی ہے اور بلا استثناء سب کی سب ہندو ہے یعنی.کیپٹن بھی اور ماتحت افسر بھی اور سپاہی بھی.اور مزید یہ ہے کہ کیپٹن وہی ہے جو گورداسپور میں تھا اور سٹھیالی میں احمدیوں کے خلاف بہت کچھ کا رروائیاں کرتا رہا ہے.ملٹری کی درجہ بدرجہ تبدیلی میں مجھے ایک سوچی ہوئی تدبیر کا پہلو نظر آتا ہے.سب سے پہلی ملٹری کا افسر بھی مسلمان تھا اور سپاہی بھی.دوسری ملٹری کا افسر غیر مسلم تھا.مگر سپاہی سب کے سب مسلمان تھے.تیسری ملٹری کا افسر غیر مسلم اور سپاہی قریباً نصف مسلمان تھے اور نصف غیر مسلم.اور اب جو ملٹری آئی ہے اس کا افسر بھی غیر مسلم ہے اور سب کے سب سپاہی بھی.غالباً پولیس نے حکام میں خلاف رپورٹیں کر کے یہ صورت حال پیدا کی ہے.اس تاریخ کو جمعہ کا دن تھا مگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حالات کی نزاکت کے مدنظر ہدایت فرمائی کہ جمعہ ہر محلہ کی مسجد میں ہوگا.مسجد اقصیٰ میں مولا نائٹس صاحب نے جمعہ پڑھایا.-9 ( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 159 مطبوعہ 2007ء) چوہدری صاحب کو سری گوبند پور کی پولیس نے قادیان میں آکر گرفتار کیا اور الزام یہ رکھا کہ آپ نے موضع ڈھپی میں سابق ملٹری کی معیت میں کسی سکھ کوگولی کا نشانہ بنایا ہے.حالانکہ یہ محض ایک بے بنیاد بات تھی.( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 159 مطبوعہ 2007ء) 10 - حضرت شاہ صاحب نے اپنی کتاب ”حیات الآخرة“ میں اپنے زمانہ اسیری کے بعض نہایت روح پرور واقعات لکھے ہیں.( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 159 مطبوعہ 2007ء) 11 - قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک بار اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ” میں جب ایک دن قادیان میں صحابہ اور دوسرے بزرگان کی ایک جماعت کو لے کر بہشتی مقبرہ میں دعا کے لئے گیا تو حضرت مسیح موعود کے مزار کو دیکھ کر میرے منہ سے بے اختیار یہ مصرعہ نکلا کہ اے سید الوری مددے ! وقت نصرت است اس شعر کے دوسرے مصرعہ ( در بستاں سرائے تو کسی باغباں نہ ماند ) کے پڑھنے کی مجھے ہمت نہیں ہوئی اور میں نے دل میں کہا کہ جب دشمن اپنی مادی طاقت کے مظاہرہ سے ہمیں ختم کرے گا تو پھر اس وقت قادیان سے باہر کے دوست اسے پڑھنے کا حق رکھیں گئے“.( بحوالہ الفضل 5 /اکتوبر 1947 ء صفحہ 4، حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 160 مطبوعہ 2007ء)
تاریخ احمدیت بھارت 173 جلد اوّل 12 - 19 ستمبر 1947ء کو سید محبوب عالم صاحب بہاری قادیان میں شہید کئے گئے.سید صاحب جو ایک نیک اور بے نفس بزرگ تھے.19 ستمبر 1947ء کی صبح کی نماز کے بعد ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ سیر کے لئے گئے.لیکن ڈی.اے.وی سکول قادیان کے قریب موضع رام پور کے مقابل پر کسی نے انہیں گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا.شروع میں تو ان کی شہادت مشکوک رہی اور انہیں لا پتہ تصور کیا جاتا رہا.لیکن اس واقعہ کے تین دن بعد ایک مسلمان دیہاتی نے جو پناہ گزین کے طور پر باہر سے آیا تھا.سید صاحب کے داما دسید صادق حسین صاحب کو بتایا.میں نے اس حلیہ کی ایک مسلمان نعش جس کے گلے میں نیلا کر نہ تھا ریلوے لائن کے قریب دیکھی ہے.چونکہ سید صاحب مرحوم اسی طرف سیر کو گئے تھے اور یہ حلیہ بھی ان سے ملتا تھا.اس لئے اس رپورٹ میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے.انا للہ وانا الیہ راجعون“ (بحوالہ افضل 10 فروری 1948 ء صفحہ 3، حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 160 مطبوعہ 2007ء) سید محبوب عالم صاحب بہاری کے بارے میں حضرت خلیفہ المسح الرابع" نے اپنے خطبہ جمہ فرمودہ 14 مئی 1999ء میں تفصیل سے ذکر کیا ہے جو آئندہ صفحات میں شامل کیا جارہا ہے.کرفیو کا نفاذ دراصل قادیان پر براہ راست تشدد کا آغاز تھا جس کا پہلا نتیجہ یہ ہوا کہ احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں کو صبح اور مغرب و عشاء کی نمازیں مسجدوں میں ادا کرنے کی عملاً ممانعت کر دی گئی.-13 ( حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 161 مطبوعہ 2007ء) -14 حضرت امیر المومنین خلیفه لمسیح الثانی قبل از میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو بغرض مشورہ آنے کا ارشاد فرما چکے تھے.جس پر حضرت قمر الانبیاء نے حضور کی خدمت میں لکھا تھا:.مجھے تو حضور نے جب سے قادیان سے جاتے ہوئے امیر مقرر فرمایا تھا ، میں نے اس وقت سے سمجھ لیا تھا اور دل میں عہد کر لیا تھا کہ اب یہ زندگی اور موت کی بازی ہے انشاء اللہ اسے خدا کی تو فیق کے ساتھ نباہنے کی کوشش کروں گا.اس لئے میں تو صرف اس وقت باہر جاؤں گا جب کہ حضور کا معین حکم ہوگا.مگر میرا خیال ہے کہ میاں ناصر احمد کوجلد باہر بھجوادیا جائے.کیونکہ ان کے متعلق قانونی پیچیدگی کا زیادہ اندیشہ ہے.سیدنا مصلح الموعود کی طرف سے 17 ستمبر (1947ء) کو ہدایت پہنچی کہ مسجد مبارک کا قرعہ فوراً ڈال لیا جائے اور اگر مرزا بشیراحمد صاحب کا نام اس قرعہ میں نکل آئے تو انہیں فوراً بھجوادیا جائے.اس پر جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں.آپ کے دل پر بھاری بوجھ پڑ گیا کہ میں کام کی تکمیل سے قبل میدان عمل سے باہر جارہا ہوں.الفضل 5 اکتوبر 1947ء صفحہ 3 کالم 4، بحوالہ حاشیہ تاریخ جلد 10 صفحہ 162 مطبوعہ 2007ء) لمصل
جلد اوّل 174 تاریخ احمدیت بھارت اسی پریشانی کے عالم میں آپ نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ: حضور کا ارشاد ہر حال قابل تسلیم ہے.مگر میں اس وقت عجیب دیدہ میں ہوں کیونکہ ایک طرف تو حضور والی تفصیلی سیکیم صدر صاحبان کو بتلا تو دی گئی ہے اور بعض دوسرے اصحاب کے علم میں بھی آگئی ہے مگر حسب ہدایت ابھی مساجد میں اعلان نہیں ہوا.اور میں ڈرتا ہوں کہ عام اعلان کے ہونے اور لوگوں کے اس سکیم کو جذب کر لینے سے قبل میرا یہاں سے جانا گھبراہٹ کا باعث نہ ہو...مگر بہر حال حضور کا ارشاد مقدم ہے اور میں نے شمس صاحب مولوی ابوالعطاء صاحب اور میاں ناصر احمد صاحب کی ایک کمیٹی بنادی ہے کہ وہ اس معاملہ میں رائے دیں.مگر یہ کمیٹی بھی غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ حضرت میاں صاحب کا پاکستان جانا سلسلہ کے مفاد و مصالح کے مطابق ضروری ہے.تب آپ میجر مرزا داؤ د احمد صاحب کے اسکورٹ کے ذریعہ پاکستان تشریف لے گئے.( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 162 مطبوعہ 2007ء) 15 - سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر (حالیہ بجلی گھر ) میں ان دنوں بھا مڑی کے مسلمان پناہ گزین تھے.( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 163 مطبوعہ 2007ء) 16.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نظارت امور عامہ کی سالانہ رپورٹ (48-1947ء) میں شعبہ کا رخاص کے زیر عنوان لکھتے ہیں ”مولوی عبد العزیز صاحب کو گذشتہ فسادات کے ایام میں پولیس نے بلاوجہ محض اس شعبہ کا انچارج ہونے کی وجہ سے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا.اور ہنگامی اور انقلابی حالات کے ماتحت مولوی احمد خان صاحب نیم فاضل مبلغ (برما) کو بھی مولوی عبد العزیز صاحب کے ساتھ اس ڈیوٹی پر کام کرنا پڑا.مولوی عبدالعزیز صاحب اور مولوی احمد خان صاحب نیم.....دھار یوال ضلع گورداسپور میں ہر دو حضرات کے ساتھ شر پسندوں نے نہایت بہیمانہ سلوک کیا.ناقل ) ان سے پوچھا جاتا تھا کہ بتلاؤ....(DUMPS)ذخائر اسلحہ کہاں کہاں ہیں؟ اس طرح تین ہفتہ تک انہیں بلائے تعذیب میں مبتلا رکھا گیا اور جب انہیں جیل میں لایا گیا اور مجھے دیکھنے کا موقعہ ملا تو نہایت ہی قابل رحم حالت میں پایا گیا.ان دونوں نے صبر و تحمل کا قابل رشک نمونہ دکھلایا.فجز اہم اللہ احسن الجزاء.ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ان کا نمونہ صبر وقتل بطور نیک یاد کے انشاء اللہ قائم رہے گا‘) ( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 163 تا164 مطبوعہ 2007ء)
تاریخ احمدیت بھارت 175 جلد اول 17 - اخبار الفضل نے سیکرٹری انصار المسلمین کے حوالہ سے اس کنوائے کی حسب ذیل خبر شائع کی:.جمعرات کو ایک کنوائے قادیان کے مسلم پناہ گزینوں کو نکالنے کے لئے روانہ ہوا.یہ کنوائے 33 رٹڑکوں پر مشتمل تھا.دس فوجی ٹرک فوجیوں کے بال بچوں کو نکالنے کے لئے 5 فوجی ٹرک 18 سول ٹرک عام مسلم پناہ گزینوں کو نکالنے کے لئے بھیجے گئے تھے.یہ سب ٹرک مغربی پنجاب کے غیر مسلم پناہ گزینوں کو لے کر گئے تھے.جب یہ کنوائے بٹالہ پہنچا تو اسے روک لیا گیا اور سول ٹرک پناہ گزینوں کے کیمپ میں بھیج دیئے گئے.چند ایک ٹرکوں نے قادیان جانے کے لئے اصرار کیا انہیں کہا گیا کہ گورداسپور جا کر اجازت لے لو.چنانچہ یہ ٹرک گورداسپور پہنچے لیکن حکام نے یہ کہ کر قادیان جانے سے روک دیا کہ قادیان کی سڑک خراب ہے.چنانچہ یہ ٹرک بٹالہ واپس آگئے اور وہاں سے مسلم پناہ گزینوں کو سوار کر لیا.ابھی یہ ٹرک کیمپ سے باہر نکلے ہی تھے کہ ان پر گولیوں کی بارش ہونی شروع ہوئی.بٹالہ پولیس اسٹیشن کے قریب پہنچنے پر معلوم ہوا کہ دشمنوں نے سڑک روک رکھی ہے اور باقاعدہ محاذ بنا رکھا ہے.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد سامنے سے گولیوں کی بوچھاڑ ہونی شروع ہوئی.سات پناہ گزین جاں بحق اور متعدد مجروح ہوئے.اس جتھے سے بچ بچا کر جب یہ ٹرک واہگہ پہنچے تو مشرقی پنجاب کی متعینہ فوجی پکٹ نے انہیں کئی گھنٹے روکے رکھا.ایک اطلاع سے مظہر ہے کہ فوج نے اسکارٹ سے ہتھیار رکھوالئے کیمپ میں گولیاں تقریبا ایک گھنٹہ تک چلتی رہیں.ایک اور اطلاع کے مطابق ان ٹرکوں کے بعد 18 رسول ٹرکوں نے بھی پناہ گزینوں کوسوار کر لیا تھا لیکن ان پر گولیوں کی بے پناہ بارش کی گئی.دشمن کا حملہ اتنا شدید تھا کہ کسی پناہ گزین کے بیچ کر نکلنے کی امید نہیں.یہ امر قابل ذکر ہے کہ ترسوں محکمہ بحر کے چار ٹرکوں کے بٹالہ میں رو کے جانے پر مغربی پنجاب کی حکومت نے فوجی حکام کے سامنے جب یہ سوال اٹھایا تو میجر جنرل چمپنی نے جواب دیا تھا کہ کنوائے کے کمانڈ رکو سرٹیفکیٹ کے لئے اصرار کرنا چاہیئے تھا.اس کا یہ مطالبہ جائز ہوتا اور آئندہ کسی ایسے کنوائے کو جس کے پاس سرٹیفکیٹ ہو گا نہیں روکا جائے گا.میجر جنرل چمنی نے اس بات کی بھی تردید کی تھی کہ قادیان کی سڑک خراب ہے چنانچہ جمعرات کو یہ کنوائے اسی اطمینان کی بناء پر روانہ ہوا تھا“ ( بحوالہ روزنامه الفضل 5 اکتوبر 1947 ، صفحہ 6، حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 164 تا 165 مطبوعہ 2007ء) 18 - پروفیسر ناصر احمد ابن سراج دین صاحب مؤذن مسجد اقصیٰ مراد ہیں ( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 166 مطبوعہ 2007) -19.جناب مرزا عزیز احمد صاحب ( ابن مکرم عطا اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:.
جلد اوّل 176 تاریخ احمدیت بھارت برادرم مرزا احمد شفیع صاحب حضرت مرزا محمد شفیع صاحب ( محاسب صدر انجمن احمدیہ ) مرحوم و مغفور کے بڑے صاحبزادے تھے.آپ اگست 1913ء میں پیدا ہوئے.بچپن سے ہی نہایت متین اور کم گو واقع ہوئے تھے.طبعاً بہت ذہین تھے اور اس کے علاوہ علم کا شوق بھی بہت تھا.علم ریاضی کے خاص طور پر ماہر تھے.1931ء میں آپ نے اعلیٰ نمبروں سے میٹرک پاس کیا.چونکہ حساب کی طرف خاص رغبت تھی اس لئے ایف.اے اور بی.اے میں ڈبل میتھ لے کر اعلیٰ نمبروں سے ڈگری حاصل کی.طبیعت حد درجہ سادہ تھی اس لئے بورڈنگ میں رہنے کے باوجود اور کالج کی زندگی گزارنے کے بعد بھی آپ نے وہاں کے ماحول کا کوئی اثر نہ لیا اور نہایت ہی سادگی سے یہ ایام گزارے.ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1937ء میں آپ ٹریننگ کالج لاہور میں S.A.V کی ٹریننگ کے لئے داخل ہو گئے.جہاں آپ نے ایک سال میں ٹریننگ حاصل کر لی.اس وقت سے آپ تعلیم الاسلام ہائی اسکول قادیان میں بطور استاد کے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے.سلسلہ کی خدمت کو اپنا شعار بنایا.نماز با جماعت اور خدام الاحمدیہ کے کاموں میں بہت دلچسپی لیتے رہے.ہر قسم کے چندوں اور خصوصاً تحریک جدید میں ہر سال اضافہ کے ساتھ حصہ لیتے رہے.اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک اپنے فرائض کو نہایت احسن طور پر نبھاتے رہے اور آخر 14 اکتوبر 1947ء کو اپنے مرکز اپنے جان سے پیارے قادیان کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے محبوب حقیقی کی گود میں جابیٹھے.انا للہ و انا الیہ راجعون.بلانے والا ہے سب سے پیارا ( بحوالہ الفضل 13 / دسمبر 1947 ، صفحہ 4، حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 167 مطبوعہ 2007ء) مرزا احمد شفیع صاحب کے بارے میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع " نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 14 مئی 1999ء میں تفصیل اسی پر اے دل تو جاں فدا کر سے ذکر کیا ہے جو آئندہ صفحات میں شامل کیا جا رہا ہے.20 اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ اس روز قادیان سے لاہور کے فون کا کنکشن بھی مل گیا جس کے ذریعہ قادیان اور اس قافلہ پر حملہ کی خبر پاکستان پہنچی اور پاکستان ریڈیو سے نشر کر دی گئی جس پر ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے حکم سے پاکستان سے فون کے رابطہ کی براہ راست لائن کاٹ دی گئی.( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 168 حاشیہ 2007ء) 21 - مرحوم کے والد ماجد قریشی شیر عالم صاحب بی.اے.بی ٹی لکھتے ہیں کہ ” عزیز سلطان عالم 22 رنومبر 1922ء کو پیدا ہوا....1938ء میں تعلیم الاسلام ہائی اسکول قادیان سے درجہ اول میں میٹرک کا امتحان پاس
تاریخ احمدیت بھارت 177 جلد اول کیا.اس عرصہ میں تحریک جدید بورڈنگ میں داخل رہا اور با قاعدہ تہجد خواں ہونے کی وجہ سے انعام حاصل کرتا رہا.زمیندارہ کالج گجرات سے اعلیٰ درجہ دوم میں ایف اے پاس کیا اور C.M.A کے مقابلہ کے امتحان میں کامیاب ہو کر ملازم ہو گیا.دوران ملازمت میں ہی منشی فاضل کا امتحان پاس کر کے بی.اے پاس کر لیا.1942ء میں وصیت کی پھر حضور کے حکم کے ماتحت اپنی جائیداد وقف کر دی.جون 1947ء میں مرحوم کو مہمان خانہ میں معاون ناظر ضیافت کے فرائض کی انجام دہی کے لئے تعینات کیا گیا.اپنی 19 ستمبر 1947ء کی چٹھی میں جو 25 ستمبر کو گولی پہنچی.مرحوم نے لکھا حضور کا حکم ہے کہ عورتوں اور بچوں کو بھیج دو اور خوب ڈٹ کر مقابلہ کرو.ہم تو حضور کے حکم کے مطابق خون کا آخری قطرہ بہانے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں.“ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی.اے.بی.ٹی ناظر ضیافت نے ان کی وفات پر اپنے تاثرات کا اظہار درج ذیل الفاظ میں فرمایا قریشی صاحب مرحوم واقعی نہایت صالح مخلص احمدی تھا.اپنی شب و روز محنت وسعی سے جو سلسلہ عالیہ کی خدمت میں اپنے فرائض ادا کرتے ہمیں اپنا گرویدہ بنالیا.رات کے دس دس بجے تک کام کرتے رہتے اور صبح تہجد کے لئے بھی جاگتے اور نماز فجر کے بعد فوراً جملہ انتظامی امور کی طرف متوجہ ہو جاتے.دراصل ہر وقت فرائض مفوضہ کے ادا کرنے میں مستعد رہتے“.( بحوالہ الفضل 3 / دسمبر 1947 ء صفحہ 6 کالم 2، حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 168 ، 169 مطبوعہ 2007ء) مکرم سلطان عالم صاحب کے بارے میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع ” نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 14 مئی 1999ء میں ذکر کیا ہے جو آئندہ صفحات میں شامل کیا جارہا ہے.صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی رپورٹ -48-1947ء میں لکھا ہے وہ دن رات مہمان خانہ کے اندر رہتے اور مہمانوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں بہت دلچسپی لیتے تھے.مگر افسوس کہ 14اکتوبر کی صبح کو جب کہ وہ اپنے فرائض ادا کر کے کرفیو دو گھنٹے اٹھ جانے کی وجہ سے باہر محلہ میں جانے کے لئے قصد کرتے ہوئے بھائی محمود احمد صاحب میڈیکل ہال کی دکان سے گزر رہے تھے کہ ایک ظالم...سپاہی نے انہیں گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا....مرحوم کونو ر ہسپتال کے ایک گڑھے میں دبا دیا گیا جہاں اب کتبہ بھی نصب کر دیا گیا ہے.شہید نے بوڑھے والدین جوان بیوہ ( بنت ڈاکٹر عمر دین صاحب افریقی ساکن گجرات) اور دو بیٹے ( خلیل احمد اور نعیم احمد ) دو بھائی ( پیر محمد عالم صاحب، پیر حامد عالم سجاد صاحب) اور تین بہنیں بطور یادگار چھوڑیں.( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 169 مطبوعہ 2007ء)
جلد اوّل 178 تاریخ احمدیت بھارت 22.بعض اور واقعات ہیں جوان مذکورہ واقعات کے علاوہ ہیں :.1/6 اکتو بر قادیان سے ساڑھے دس بجے بذریعہ فون یہ اطلاع موصول ہوئی ” ہم لوگ گندم اُبال کر کھا رہے ہیں.پناہ گزینوں کو گندم ابال کر بوریوں میں ڈال کر پہنچا دی گئی...اگر ہمیں فون کرنا ہو تو گورداسپور فون کیا جائے تو 37 نمبر پر گھنٹی بجتی ہے اور ہم لوگ Message سن لیتے ہیں ورنہ دوسرے طریقہ سے فون نہیں ہوسکتا.ہمارے گھروں میں عورتوں اور بچوں کی کثرت کی وجہ سے تعفن بہت پیدا ہو گیا ہے.7 اکتو بر ایک پاکستانی جہاز نے جس پر برین گن کے گولے برسائے گئے حسب ذیل رقعہ پھینکا ”میاں صاحب ! السلام علیکم کنوائے بٹالہ سے واپس کر دیا گیا ہے.اس سے قبل بھی تین دفعہ کا نوائے واپس کئے جاتے رہے ہیں.کنوائے بھیجنے کی کوشش کی جارہی ہے.18 اکتو بر تعلیم الاسلام کالج قادیان سکھ نیشنل کالج کے سپرد کر دیا گیا.19 اکتوبر پندرہ سولہ....(مفسدہ پردازوں) نے صبح اندھیرے میں حملہ کر دیا.گولیاں چلائیں اور تین ہم ایسے مکان پر پھینکے جہاں احمدی مستورات پناہ گزین تھیں.( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 170 مطبوعہ 2007ء) 23.یہ صبح کی نماز کا وقت تھا.ہم دیسی ساخت کے تھے عین اس وقت جبکہ مسجد اقصیٰ پر بمباری کی جارہی تھی محلہ دارالعلوم کے عقب سے بورڈ نگ تحریک جدید پر بھی فائر ہونے شروع ہو گئے.( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 170 مطبوعہ 2007ء) 24.اسی روز ( 14 ماہ اکتوبر کو ) جامعہ احمدیہ کی عمارت (واقع گیسٹ ہاؤس دار الانوار ) پر ملٹری نے قبضہ کر لیا.اور اس میں مقیم طلبہ کو زبردتی باہر نکال دیا.یہ طلبہ حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب کے مکان میں منتقل ہو گئے اور ان کے بعد جامعہ کی بیش قیمت لائبریری نذر آتش کر دی گئی.( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 170 مطبوعہ 2007ء) 25- بحوالہ الفضل ،6، 7 ، 9 جنوری 1948ء، تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 157 تا 171 مطبوعہ 2007 ء -26 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 353 تا 356 مطبوعہ 2007ء 27 - بحوالہ ایک مرد خدا صفحہ 87 تا 98 طبع دوم 2009 ء 28.بحوالہ الفضل 28 اکتوبر 1947 ء صفحہ 4,3، تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 196 تا 199 مطبوعہ 2007 ء
تاریخ احمدیت بھارت -29 بحوالہ الفضل 29 /اکتوبر 1947 ء صفحہ 3، 179 جلد اول تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 199 تا 202 مطبوعہ 2007ء 30 - بحوالہ الفضل 4 /نومبر 1947 ء صفحہ 3 تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 202 تا 206 مطبوعہ 2007 ء 31 - مکرم نیاز علی شہید مرحوم کے بارے میں مکرم چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی تحریر کرتے ہیں کہ " کاش زمانہ اپنے اوقات سے 3 اکتوبر 1947 ء کا دن خارج کر دیتا کہ قادیان کی بستی پر کرب و بلا کا یہی دن تھا.قادیان کے بیرونی پر حملہ ہو چکا تھا.اور عورتوں کو ان محلوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچانے کا کام ہورہا تھا.ہمارے چند نو جوان ظلم کی اس بھڑکتی ہوئی آگ میں کود کر اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت بچانے کے لئے کوشش کر رہے تھے.لوگ کشتہ کھانا تو اکثر جانتے ہیں لیکن کشتہ بننا کسی کسی کو آتا ہے.مرحوم نیاز علی محلہ دارالرحمت میں اسی کام پر مامور تھا وہ مسجد دار الرحمت والے چوک میں تھا.بس اس کے ساتھی اتنا ہی بتا سکے تھے.اس کے بعد کیا ہوا وہ کہاں گیا.کہیں سے گولی چلنے کی آواز آئی تھی.بس یہیں یہ روایت ختم ہو جاتی ہے.مرحوم کی نعش با وجود تلاش کے نہیں مل سکی تھی.نیاز علی مرحوم میاں غلام محی الدین صاحب گوجر احمدی ساکن کھاریاں ضلع گجرات کا فرزند تھا.اور 22 سال کی عمر میں شہید ہوا.مرحوم خوش قسمت تھا کہ اس نے وفات کے وقت قادیان کی سرزمین پائی.اور مرحوم کے پسماندگان کے لئے یہ امر باعث فخر ہے ) کہ ان کا عزیز قادیان کے کام آیا.اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے.“ ( بحوالہ اخبار بدر قادیان 13 دسمبر 1962ء صفحہ 5 کالم 2 ،3) مکرم نیازعلی صاحب کے بارے میں حضرت خلیفتہ امسح الرابع" نے اپنے خطبہ جمع فرمودہ 14 مئی 1999ء میں بھی ذکر کیا ہے جو آئندہ صفحات میں شامل کیا جارہا ہے.32 - بحوالہ الفضل 7 نومبر 1947 ، صفحہ 4,3 -33 تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 206 تا 212 مطبوعہ 2007ء بحوالہ الفضل 14 نومبر 1947 ء صفحہ 4,3، تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 212 تا 217 مطبوعہ 2007ء -34- بحوالہ الفضل 18 دسمبر 1947ء صفحہ 5، تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 217 218 مطبوعہ 2007ء
جلد اوّل 180 -35 -36 بحوالہ کتاب ”احمدیت کا نور ہمارے گھر میں صفحہ 136 تا138 مصنفہ مکرم عبدالغفور عبدل صاحب سابق درویش) بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 116 تا 125 مطبوعہ 2007ء 37 بحوالہ الفضل 25 فروری 1948 ، صفحہ 4 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 80،79 مطبوعہ 2007ء 38 - بحوالہ ہفت روزہ اخبار بدر 15 ، 22، 29 /دسمبر 2011 ، صفحہ 197 ( درویشان نمبر ) 39 - بحوالہ الفضل 25 /اکتوبر 1947 ء صفحہ 3، تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 80، 81 مطبوعہ 2007ء -40 بحوالہ تاریخ احمدیت سروعہ ضلع ہوشیار پور ومضافات باب اول صفحہ 12 تا 14 (مؤلفه رانا محمد احمد خان صاحب) 41 - بحوالہ حاشیه تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 157 ،158 مطبوعہ 2007ء 42 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 585 مطبوعہ 2007ء 43.بحوالہ کتاب احمدیت کا نور ہمارے گھر میں صفحہ 125 تا 131 مصنفہ مکرم عبدالغفور عبدل صاحب سابق درویش) بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 158 مطبوعہ 2007ء 45 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 224 مطبوعہ 2007ء -46 -47 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 158 مطبوعہ 2007 حوالہ ہفت روزہ اخبار بدر قادیان 24 اگست 2004، صفحه 8 48 - بحوالہ کتاب "احمدیت کا نور ہمارے گھر میں صفحہ 131 مصنفہ مکرم عبد الغفور عبدل صاحب سابق درویش) 49 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 223 مطبوعہ 2007ء تاریخ احمدیت بھارت
تاریخ احمدیت بھارت 181 جلد اول باب پنجم قادیان پر حملہ اور خونریز واقعات کی تفصیلات اور سید نا حضرت مصلح موعود کے اہم مضامین و تذکرہ شہداء سیدنا حضرت مصلح موعود کا پہلا مضمون بعنوان " قادیان" حضرت سید نا لمصلح الموعود نے کوائف قادیان کی نسبت جو پہلا اہم مضمون تحریر فرما یا وہ بعینہ درج کیا جاتا ہے: قادیان اس وقت ہندوستان یونین کی دیانتداری کی آزمائش کا محل بنا ہوا ہے.قادیان احمد یہ جماعت کا مرکز ہے.جس کا یہ عقیدہ ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہیں اس کے پورے طور پر فرمانبردار اور مددگار رہیں.جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی احمد یہ جماعت ہمیشہ حکومت کے ساتھ تعاون کرتی تھی.گومناسب طریق پر اس کی غلطیوں سے اسے آگاہ بھی کرتی رہتی تھی.بعض لوگ جماعت احمدیہ کے اس طریق پر اعتراض کرتے تھے اور اسے انگریزوں کا خوشامدی قرار دیتے تھے.جماعت احمد یہ اس کے جواب میں ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ ہم صرف انگریزوں کے فرمانبردار نہیں.بلکہ افغانستان میں افغانی حکومت کے اور عرب میں عربی حکومت کے ، مصر میں مصری حکومت کے اور اسی طرح دوسرے ممالک میں ان حکومتوں کے فرماں بردار اور مددگار ہیں ہمارے نزدیک دنیا کا امن بغیر اس کے قائم ہی نہیں رہ سکتا کہ ہر حکومت میں بسنے والے لوگ اس کے ساتھ تعاون کریں اور اس کے مدد گار ہوں.پچھلے پچاس سال میں جماعت احمدیہ نے اس تعلیم پر عمل کیا ہے اور آئندہ بھی وہ اسی تعلیم پر عمل کرے گی.جب ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور اس میں ہندوستان یونین اور پاکستان قائم ہوئے تو اس وقت بھی جماعت احمد یہ
جلد اوّل 182 تاریخ احمدیت بھارت نے اعلان کیا کہ ہندوستان یونین میں رہنے والے احمدی ہندوستان یونین کی پوری طرح اطاعت کریں گے اور پاکستان میں رہنے والے احمدی پاکستان حکومت کے متعلق جاں نثاری اور اطاعت سے کام لیں گے.پاکستان حکومت نے تو ان کے اس اعلان کی قدر کی اور اچھے شہریوں کی طرح اس سے برتاؤ کیا لیکن ہندوستان یونین نے ان کے اس اعلان کی ذرا بھی قدر نہیں کی اور 16 / اگست کے بعد پہلے قادیان کے اردگر داور پھر قادیان میں وہ فساد مچو ایا کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں.ایک ایک کر کے احمدی گاؤں کو برباد کیا گیا اور جنہوں نے دفاع کی کوشش کی ان کو پولیس اور ملٹری نے گولیوں سے مارا.جب قادیان کے اردگرد کے گاؤں ختم ہو گئے تو پھر قادیان پر حملہ شروع ہوا.احمدی جماعت کے معززین یکے بعد دیگرے گرفتار ہونے شروع ہوئے قبل، ڈاکے اور خونریزی کے الزام میں.گویا وہ جماعت جس نے اپنی طاقت اور قوت کے زمانہ میں قادیان میں رہنے والے کمزور اور قلیل التعداد ہندوؤں اور سکھوں کو کبھی تھپڑ بھی نہیں مارا تھا اس نے تمام علاقہ کے مسلمانوں سے خالی ہو جانے کے....بعد اور سکھ پولیس اور ہند و ملٹری کے آجانے کے بعد ان علاقوں میں نکل کر جن میں کوئی مسلمان نہ دن کو جا سکتا تھا نہ رات کو ، ڈاکے مارے اور قتل کئے.اور یہ ڈاکے اور قتل بھی ان لوگوں نے کئے جو جماعت کے چوٹی کے آدمی تھے.جن میں سے بعض ساٹھ سال کی عمر کے تھے.مرکزی نظام کے سیکرٹری تھے اور یونیورسٹیوں کے گریجوایٹ تھے.گویا احمد یہ جماعت جو اپنی عقل اور دانائی میں دنیا بھر میں مشہور تھی اس وقت اس کی عقل کا دیوالہ نکل گیا اور سکھ اور ہند وملٹری کے آنے کے بعد اس نے اپنے مرکزی کارکنوں کو زمیندار سکھوں کو مروانے کے لئے باہر بھیجنا شروع کر دیا.اور اس کے گریجوایٹ مبلغ ڈاکے مارنے کے لئے نکل پڑے.شاید پاگل خانہ کے ساکن تو اس کہانی کو مان لیں.مگر عقلمند لوگ ان باتوں کو قبول نہیں کر سکتے.شاید ہندوستان یونین کے افسر یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا ان کی ہر بے وقوفی کی بات کو مان لیگی.یا شاید وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے سوا باقی ساری دنیا جاہل یا مجنون ہے.ہندوستان یونین کے وزراء نے بار بار یہ اعلان کیا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو اپنے ملک سے نکل جانے پر مجبور نہیں کرتے.لیکن قادیان کی مثال موجود ہے کہ ان لوگوں کو جو ہندوستان یونین میں رہنے پر راضی ہی نہیں بلکہ مصر ہیں طرح طرح کی تکلیفیں پہنچا کر پولیس اور ملٹری کے زور سے نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے.قادیان کے متعلق ہندوستان یونین دنیا کو کیا جواب دے گی.کیا وہ یہ کہے گی کہ یہ لوگ اپنے
تاریخ احمدیت بھارت 183 جلد اوّل مقدس مذہبی مقام کو چھوڑ کر جارہے تھے ، ہم نے ان کو روکا نہیں.یا وہ یہ کہے گی کہ ایک کیپٹن اور ایک پوری کمپنی ملٹری کی وہاں موجود تھی اور اس کے علاوہ پولیس کا تھانہ بھی وہاں موجود تھا.303 کی رائفلوں کے علاوہ شین گن اور برین گن بھی موجود تھیں.مگر ان کے باوجود ہندوستان یونین ان....(مفسدہ پردازوں) کے حملوں کو نہ روک سکی جو قادیان پر حملہ کر رہے تھے اور ان احمدیوں کو اپنے مکانات خالی کرنے پڑے جن کے بڑھے بھی بقول ہندوستان یونین اس فتنہ کے زمانہ میں بھی آٹھ آٹھ دس دس میل باہر جا کر....مفسدہ پردازوں) کو مار رہے تھے.اور جن کے مبلغ اور گریجوایٹ ارد گرد کے....(مفسدہ پردازوں) کے دیہات پر جا کر ڈا کے مار رہے تھے کیا دنیا کا کوئی شخص اس کو تسلیم کر سکے گا کہ یہ باہر نکل کر ڈا کے مارنے اور قتل کرنے والے لوگ ان....(مفسدہ پردازوں) سے ڈر کر جن کے مالوں کو لوٹنے کے لئے وہ باہر جاتے تھے اپنے مکان چھوڑ دیں گے اور ملٹری اور پولیس بھی ان بہادر....( مفسدہ پردازوں) کے مقابلہ میں بے کار ہو جائے گی.جن کے گاؤں پر دو دو احمدی جا کر ڈا کہ مارنے کے قابل ہو سکے اور جنہیں سلسلہ احمدیہ کے بڑھے سیکرٹری اردگرد کے علاقہ میں گولیوں کا نشانہ بناتے پھرتے تھے.ہر عقلمند انسان اس بات کو تسلیم کرے گا کہ دونوں کہانیوں میں سے ایک کہانی جھوٹی ہے اور یا پھر دونوں ہی جھوٹی ہیں.اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں کہانیاں ہی جھوٹی ہیں.آج ہندوستان کی یونین کے افسر حکومت کے نشہ میں اس قسم کے افتراء کو معقول قرار دے سکتے ہیں.مگر آئندہ زمانہ میں مؤرخ ان کہانیوں کو دنیا کے بدترین جھوٹوں میں سے قرار دیں گے.احمد یہ جماعت قادیان میں بیٹھی ہے اور اپنے عقائد کے مطابق بار بار حکومت کو کہ چکی ہے کہ ہم یہاں رہنا چاہتے ہیں.لیکن اگر تم ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے تو ہمیں حکم دے دو.پھر ہم تمہارے اس حکم کے متعلق غور کر کے کوئی فیصلہ کریں گے.لیکن ہندوستان یونین کے افسر ایسا نہیں کرتے اور نہ وہ ایسا کر سکتے ہیں.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سے ان کی ناک کٹ جائے گی اور وہ دنیا میں ذلیل ہو جائیں گے.وہ گولیوں کی بوچھاڑوں اور پولیس اور ملٹری کی مدد سے بغیر کسی آئینی وجہ موجودگی کے احمدیوں کو قادیان سے نکالنا چاہتے ہیں.چنانچہ تازہ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ چند دن سے قادیان جانے والی لاریوں کو سڑک کی خرابی کے بہانہ سے روکا جا رہا ہے.لیکن اصل منشاء یہ ہے کہ دنیا سے قادیان کو کاٹ کر وہاں من مانی کا رروائیاں کی جائیں.چنانچہ ہفتہ اور
جلد اوّل 184 تاریخ احمدیت بھارت اتوار کی درمیانی رات کو جبکہ سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر سے انتظامی معاملات کے متعلق فون پر بات کر رہے تھے.انہیں یکدم قادیان کے فون کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ قادیان کا کوئی شخص ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو فون کر رہا ہے.وہ ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو یہ اطلاع دے رہا تھا کہ دو دن سے یہاں گولی چلائی جا رہی ہے.قادیان کے دو محلوں کو لوٹا جا چکا ہے اور ان محلوں کے احمدی سمٹ کر دوسرے محلوں میں چلے گئے ہیں.اور یہ گولی پولیس اور ملٹری کی طرف سے چلائی جارہی ہے.اس خبر کے سننے کے بعد ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور سے پوچھا کہ آپ نے یہ بات سنی.اب آپ کا کیا ارادہ ہے.انہوں نے کہا ہمیں یہ تو اطلاع تھی کہ بھینی پر....(مفسدہ پرداز) حملہ کر رہے ہیں.مگر یہ اطلاع نہیں تھی کہ قادیان پر....( مفسدہ پرداز ) حملہ کر رہے ہیں.گو یا بھینی میں انسان نہیں بستے اور وہ ہندوستان یونین کے شہری نہیں.اور اس لئے بھینی میں مسلمانوں کا خون بالکل ارزاں ہے.اس پر ڈی سی (DC) سیالکوٹ نے کہا اب آپ کیا کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.تو ڈی سی گورداسپور نے جواب دیا کہ میں کل سپر نٹنڈنٹ پولیس کو وہاں بھجواؤں گا.ڈی سی سیالکوٹ نے ان کو کہا یہ اس قسم کا اہم معاملہ ہے کہ اس میں آپ کو خود جانا چاہیئے....آپ خود کیوں نہیں جاتے.انہوں نے کہا.اچھا میں خود ہی جاؤں گا.اس کے بعد قادیان سے فون پر حالات معلوم کرنے کی کوشش کی گئی.اور اتفاقا فون مل گیا جو اکثر نہیں ملا کرتا.اس فون کے ذریعہ جو حالات معلوم ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ کل تک 150 آدمی مارا جا چکا ہے.جن میں سے دو آدمی مسجد کے اندر مارے گئے ہیں.احمد یہ کالج پر بھی پولیس اور ملٹری نے قبضہ کر لیا ہے اور دو احمدی محلے لٹوادیئے ہیں، دار الانوار اور دار الرحمت.دارالانوار میں سر ظفر اللہ خاں کی کوٹھی بھی اور امام جماعت احمدیہ کا بیرونی گھر بھی لوٹا گیا ہے.لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ اب ان باتوں کا نتیجہ کیا ہوگا.جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں ، احمد یہ جماعت کا یہ مسلک نہیں کہ وہ حکومت سے ٹکر کھائے.اگر....(مفسدہ پرداز ) جتھے ایک ایک احمدی کے مقابلہ میں سوسو....( مفسدہ پرداز ) بھی لائیں گے تو قادیان کے احمدی ان کا مقابلہ کریں گے اور آخر دم تک ان کا مقابلہ کریں گے.لیکن جہاں جہاں پولیس اور ملٹری حملہ کرے گی ،وہ ان سے لڑائی نہیں کریں گے.اپنی جگہ پر چمٹے رہنے کی کوشش کریں گے.مگر جس جگہ سے ملٹری اور پولیس ان کو زور سے نکال دے گی ، اس کو وہ خالی کر دیں گے اور دنیا پر یہ ثابت کر دیں گے کہ ہندوستان یو نین کا یہ دعویٰ بالکل جھوٹا
تاریخ احمدیت بھارت 185 ہے، کہ جو ہندوستان یونین میں رہنا چاہے خوشی سے رہ سکتا ہے.جلد اوّل لوگ کہتے ہیں کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو آپ لوگ اپنے آدمیوں کی جانیں کیوں خطرہ میں ڈال رہے ہیں.آپ قادیان کو فوراً خالی کر دیں.اس کا جواب یہ ہے کہ ہم قادیان میں تین اصول کو مدنظر رکھ کر ٹھہرے ہوئے ہیں.اول مومن کو خدا تعالیٰ کی مدد سے آخر وقت تک مایوس نہیں ہونا چاہیئے.جب تک ہم کو پکڑ کر نہیں نکالا جاتا ہمیں کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ خدا کی مشیت اور خدا کا فیصلہ کیا ہے.اس لئے احمدی وہاں ڈٹے رہیں گے.تاکہ خدا تعالیٰ کے سامنے ان پر یہ حجت نہ کی جائے کہ خدا کی نصرت تو آرہی تھی تم نے اس سے پہلے کیوں مایوسی ظاہر کی.دوسرے جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے، احمدیوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ہندوستان یونین کے دعووں کی آزمایش کریں گے.اور یہ حقیقت آشکار کر کے چھوڑیں گے، کہ جب وہ کہتے ہیں کہ کسی کو ہندوستان یونین سے جانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، تو وہ سچ کہتے ہیں یا جھوٹ.احمدی چاہتے ہیں کہ انہیں بھی معلوم ہو جائے اور دنیا کو بھی معلوم ہو جائے ، کہ ہندوستان یونین کے وزراء جھوٹے ہیں یا سچے.بے شک احمدیوں کو وہاں ٹھہرے رہنے میں قربانی کرنی پڑے گی.لیکن ان کے وہاں ٹھہرے رہنے سے ایک عظیم الشان حقیقت آشکار ہو جائے گی.یا تو دنیا کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ ہندوستان یونین کے افسر نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ اپنے ملک میں امن قائم رکھنا چاہتے تھے.اور یا دنیا پر یہ ظاہر ہو جائے گا کہ وہ منہ سے کچھ اور کہتے تھے اور ان کے دلوں میں کچھ اور تھا.کیونکہ قادیان سے احمدیوں کا نکالا جانا ایک فوری واقعہ نہیں تھا ، کہ جس کی اصلاح ان کے اختیار میں نہیں تھی.قادیان پر حملہ ایک مہینہ سے زیادہ عرصہ سے چلا آرہا ہے.اس کے علاوہ خود میں نے پنڈت جواہر لال صاحب نہرو سے باتیں کیں.اور ان کو اس طرف توجہ دلائی.پنڈت جواہر لال صاحب نہرو نے مجھے یقین دلایا کہ ہندوستان یونین ہرگز مسلمانوں کو اپنے علاقہ سے نکلنے پر مجبور نہیں کرتی.انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ تین چار دنوں تک وہ فون اور تار کے راستے کھلوانے کی کوشش کرینگے.اور دو ہفتہ تک قادیان کی ریل گاڑی کے جاری کروانے کی کوشش کریں گے.احمد یہ جماعت کا وفد سردار بلدیو سنگھ صاحب سے بھی ملا اور انہوں نے اصلاح کی ذمہ داری لی اور یہاں تک کہا کہ وہ خود قادیان جا کر ان معاملات کو درست کرنے کی کوشش کریں گے.احمد یہ جماعت کے
جلد اوّل 186 تاریخ احمدیت بھارت وفد نے ہندوستان کے ہائی کمشنر مسٹر سری پر کاش صاحب سے کراچی میں ملاقات کی اور ان کو یہ واقعات بتائے.انہوں نے کہا میں نے ہندوستان یونین کو اس طرف توجہ دلائی ہے، اور دو تاریں اس کے متعلق دی ہیں مگر مجھے جواب نہیں ملا.احمد یہ جماعت کا وفد اس عرصہ میں سردار سمپورن سنگھ صاحب ڈپٹی ہائی کمشنر ہندوستان یونین سے ملا اور متعدد بار ملا.انہوں نے یقین دلایا کہ انہوں نے افسران کی توجہ کو اس طرف پھرایا ہے، اور انہوں نے ایک خط بھی دکھایا جو انہوں نے ڈاکٹر بھار گوا صاحب وزیر اعظم مشرقی پنجاب اور سردار سورن سنگھ صاحب ہوم منسٹر مشرقی پنجاب کو لکھا تھا، جس کا مضمون یہ تھا کہ مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو گیا ہے.اب صرف قادیان باقی ہے.یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے اور احمد یہ جماعت کا مقدس مذہبی مرکز ہے.اسے تباہ کرنے میں مجھے کوئی حکمت نظر نہیں آتی.اگر اس کی حفاظت کی جائے تو یہ زیادہ معقول ہوگا.پھر ڈپٹی ہائی کمشنر کے مشورہ سے احمد یہ جماعت کا ایک وفد جالندھر گیا اور ڈاکٹر بھارگوا صاحب اور سردار سورن سنگھ صاحب سے ملا (1) اور چوہدری لہری سنگھ صاحب سے ملا.ان لوگوں نے یقین دلایا کہ وہ احمد یہ جماعت کے مرکز کو ہندوستان یونین میں رہنے کو ایک اچھی بات سمجھتے ہیں.اچھی بات ہی نہیں بلکہ قابل فخر بات سمجھتے ہیں، اور یہ کہ فوراً اس معاملہ میں دخل دیں گے.پھر اس بارہ میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھی متواتر تاریں دی گئیں.مسٹر گاندھی کو بھی متواتر تاریں دی گئیں ( 2 ).بہت سے ممالک سے ہندوستان یونین کے وزراء کو تاریں آئیں.انگلستان کے نو مسلموں کا وفد مسٹر ہنڈرسن سے جو ہندوستان کے معاملات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ملا.مسز وجے لکشمی پنڈت نے بھی اپنے بھائی کو تار دی.اس عرصہ میں قادیان کے بہادر باشندے انسانوں کے ڈر کو دل سے نکال کر پولیس ، ملٹری اور....(مفسدہ پرداز ) جتھوں کے مشتر کہ حملوں کو برداشت کرتے چلے گئے.لیکن اس تمام لمبے زمانہ میں حکومت کی طرف سے کوئی قدم اصلاح کا نہیں اٹھایا گیا.ان واقعات کی موجودگی میں ہندوستان یونین یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہمیں اصلاح کا موقعہ نہیں ملا.(3) تیسر سے اپنے مقدس مقامات کو یونہی چھوڑ دینا ایک گناہ کی بات ہے.جب تک تمام ممکن انسانی کوششیں اس کے بچانے کے لئے خرچ نہ کی جائیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کام میں احمدیہ جماعت کو بہت سی قربانی کرنی پڑے گی.اور بظاہر دنیا کو وہ بیکا ر نظر آئے گی.لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا
تاریخ احمدیت بھارت 187 جلد اوّل ہے، حقیقت میں وہ بریکار نہیں ہوگی.وہ قربانی جو قادیان کے احمدی پیش کریں گے ، وہ پاکستان کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں کام آئے گی.اور اگر ہندوستان یونین نے اب بھی اپنا رویہ بدل لیا تو اس کا یہ رویہ ایک پائیدار صلح کی بنیا درکھنے میں مد ہو گا.جماعت احمد یہ کمزور ہے.وہ ایک علمی جماعت ہے.وہ فوجی کاموں سے ناواقف ہے.لیکن وہ اسلام کی عزت قائم رکھنے کے لئے اپنے ناچیز خون کو پیش کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے.ہمارے سینکڑوں عزیز بھاگتے ہوئے نہیں، اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہوئے مارے گئے ہیں.اور شاید اور بھی مارے جائیں.کم سے کم لوکل حکام کی نیت یہی معلوم ہوتی ہے کہ سب کے سب مارے جائیں.لیکن ہم خدا تعالیٰ سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کرے گا، اور ہمارے دلوں کو صبر اور ایمان بخشے گا.ہمارے مارے جانے والوں کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی.وہ ہندوستان میں اسلام کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں کام آئیں گی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.خاکسار مرز امحمود احمد (4) سید نا حضرت مصلح موعود کا دوسرا مضمون بعنوان ”قادیان“ پہلے مضمون کے بعد قادیان کے حالات میں تیزی سے تبدیلی آنے لگی.جس پر حضور نے قادیان ہی کے عنوان سے درج ذیل دوسرا مضمون سپر و قلم فرمایا: ہم قادیان کے متعلق پہلے کچھ حالات لکھ چکے ہیں.ہم بتا چکے ہیں کہ قادیان اور مشرقی پنجاب کے دوسرے شہروں میں فرق ہے.قادیان کے باشندے قادیان میں رہنا چاہتے ہیں.لیکن مشرقی پنجاب کے دوسرے شہروں کے باشندوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ مشرقی پنجاب میں نہ رہیں.ہندوستان یونین کی گورنمنٹ بار بار کہہ چکی ہے کہ ہم کسی کو نکالتے نہیں.لیکن قادیان کے واقعات اس کے اس دعوی کی کامل طور پر تردید کرتے ہیں.حال ہی میں قادیان کے کچھ ذمہ دار افسر گورنمنٹ افسروں سے ملے اور باتوں باتوں میں ان سے کہا، کہ آپ لوگ اپنی پالیسی ہم پر واضح کر دیں.اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم قادیان چھوڑ دیں ،تو پھر
جلد اوّل 188 تاریخ احمدیت بھارت صفائی کے ساتھ اس بات کا اظہار کر دیں.افسر مجاز نے جواب دیا کہ ”ہم ایسا ہر گز نہیں چاہتے“.ہم چاہتے ہیں کہ آپ قادیان میں رہیں.جب اسے کہا گیا، کہ وہ کہاں رہیں.پولیس اور ملٹری کی مدد سے....(مفسدہ پردازوں) نے تو سب محلوں کے احمدیوں کو زبردستی نکال دیا ہے.اور سب اسباب لوٹ لیا ہے.آپ ہمارے مکان خالی کرا دیں، تو ہم رہنے کے لئے تیار ہیں.تو اس پر افسر مجاز بالکل خاموش ہو گیا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا.درحقیقت وہ افسر خود تو دیانتدار ہی تھا.لیکن وہ وہی کچھ رٹ لگا رہا تھا جو اسے اوپر سے سکھایا گیا تھا.جب اس پر اپنے دعوی کا بود ہونا ثابت ہوگیا تو خاموشی کے سو اس نے کوئی چارہ نہ دیکھا.شاید دل ہی دل میں وہ ان افسروں کو گالیاں دیتا ہوگا جنہوں نے اسے یہ خلاف عقل بات سکھائی تھی.قادیان کے تازہ حالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لکڑی تقریباً ختم ہے.گندم بھی ختم ہو رہی ہے.گورنمنٹ کی طرف سے غذا مہیا کرنے کا کوئی انتظام نہیں.اب تک ایک چھٹانک آٹا بھی گورنمنٹ نے مہیا نہیں کیا.عورتوں اور بچوں کے نکالنے کا جو انتظام تھا.اس میں دیدہ دانستہ روکیں ڈالی جا رہی ہیں.بارش ہوئے کو آج نو دن ہو چکے ہیں.بارش کے بعد قادیان سے دو قافلے آچکے ہیں.اسی طرح قریباً روزانہ ہندوستانی یونین کے ٹرکس ، فوج یا پولیس سے متعلق قادیان آتے جاتے ہیں.اور اس کے ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں.چار تاریخ کو پولیس کا ایک ٹرک قادیان سے چل کر واہگہ تک آیا.تین تاریخ کو پاکستان کے ان فوجی افسروں کے سامنے جو گورداسپور کی فوج سے قادیان جانے کی اجازت لینے گئے تھے، ایک فوجی افسر نے آکر میجر سے پوچھا کہ وہ ٹرک جو قادیان جانا تھا ،کس وقت جائے گا.پاکستانی افسروں کی موجودگی میں اس سوال کو سن کر میجر گھبرا گیا اور اس کو اشارہ سے کہا چلا جا.اور پھر پاکستانی افسروں سے کہا اس شخص کو غلطی لگی ہے.قادیان کوئی ٹرک نہیں جاسکتا.چارہی تاریخ کو پاکستان کے جوٹرک قادیان گئے تھے اور ان کو بٹالہ میں روکا گیا تھا، انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، کہ دو ملٹری کے ٹرک قادیان سے بٹالہ آئے.سب سے کھلا ثبوت اس بات کے غلط ہونے کا تو یہ ہے کہ انہی تاریخوں میں، جن میں کہا جاتا ہے قادیان جانے والی سڑک خراب ہے، پرانی ملٹری قادیان سے باہر آئی ہے.اور نئی ملٹری قادیان گئی ہے.کیا یہ تبدیلی ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے ہوئی ہے.پس یہ بہانہ بالکل غلط ہے.اور اصل غرض صرف یہ ہے کہ قادیان کے باشندوں کو، جنہوں نے استقلال کے ساتھ مشرقی پنجاب میں رہنے کا فیصلہ کر لیا
تاریخ احمدیت بھارت 189 جلد اوّل ہے.اس جرم میں ہلاک کر دیا جائے کہ وہ کیوں مشرقی پنجاب میں سے نکلتے نہیں.منہ سے کہا جاتا ہے ہم کسی کو نکالتے نہیں.لیکن عمل سے اس بات کی تردید کی جاتی ہے.یہ بات اخلاقی لحاظ سے نہایت ہی گندی اور نہایت ناپسندیدہ ہے.جماعت احمدیہ نے مسٹر گاندھی کے پاس بھی بار بارا پیل کی ہے، تاریں بھی دی ہیں اور بعض خطوط بھی لکھے ہیں لیکن مسٹر گاندھی کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ کرنے کی فرصت نہیں ہمسٹر نہرو کو بھی اس طرف توجہ دلائی گئی ہے مگر وہ بھی بڑے کاموں میں مشغول ہیں.چند ہزار بیگناہ مسلمانوں کا مارا جانا ایسا معاملہ نہیں ہے جس کی طرف یہ بڑے لوگ توجہ کر سکیں.ایک چھوٹی سی مذہبی جماعت کے مقدس مقامات کی ہتک ان بڑے آدمیوں کے لئے کوئی قابل اعتناء بات نہیں.اگر اس کا سوواں حصہ بھی انگریز قادیان میں بس رہے ہوتے اور ان کی جان کا خطرہ ہوتا تولا رڈ مونٹ بیٹن کو حقوق انسانیت کا جذبہ فوراً بے تاب کر دیتا.مسٹر گاندھی بیسیوں تقریریں انگریزوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کے متعلق پبلک کے سامنے کر دیتے.مسٹر نہرو کی آفیشل مشین فورا متحرک ہو جاتی.مگر کمزور جماعتوں کا خیال رکھنا خدا تعالیٰ کے سپر د ہے.وہی غریبوں کا والی وارث ہوتا ہے یا وہ انہیں ایسی تکالیف سے بچاتا ہے اور یا پھر وہ ایسے مظلوموں کا انتقام لیتا ہے.ہم تمام شریف دنیا کے سامنے اپیل کرتے ہیں کہ اس ظلم کے دور کرنے کی طرف توجہ کریں.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ پاکستان گورنمنٹ اس ظلم کو دور کرنے میں کیوں بے بس ہے.بجائے اس کے کہ ان باتوں کو سن کر پاکستان گورنمنٹ کے متعلقہ حکام کوئی موثر قدم اٹھاتے انہوں نے بھی یہ حکم دے دیا ہے کہ چونکہ قادیان کی سڑک کو مشرقی پنجاب نے نا قابل سفر قرار دیا ہے، اس لئے آئندہ ہماری طرف سے بھی کوئی کانوائے وہاں نہیں جائے گی.حالانکہ انہیں چاہئے یہ تھا کہ جب مغربی پنجاب کے علاقوں میں بھی بارش ہوئی ہے تو ان علاقوں کو بھی نا قابل سفر قرار دے دیتے.اور مشرقی پنجاب جانے والے قافلوں کو روک لیتے.قادیان کے مصائب کو کم کرنے کا ایک ذریعہ یہ تھا کہ قادیان کو ریفیوجی کیمپ قرار دے دیا جاتا.لیکن دونوں گورنمنٹیں یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ ریفیوجی کیمپ وہی گورنمنٹ مقرر کرے گی جس کی حکومت میں وہ علاقہ ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو معاہدہ ہو اس کی پابندی کی جائے.لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر بار بار توجہ دلانے کے بعد بھی ہندوستان یونین مسلمان پناہ گزینوں کے بڑے بڑے کیمپوں کو ریفیوجی کیمپ قرار نہیں دیتی تو پاکستان کی حکومت کیوں مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کے نئے مقامات کو ریفیوجی کیمپ قرار دے
جلد اوّل 190 تاریخ احمدیت بھارت رہی ہے.حال ہی میں پاکستان گورنمنٹ نے پانچ نئے ریفیوجی کیمپ مقرر کئے جانے کا اعلان کیا ہے.کیا وہ اس کے مقابلہ میں ہندوستان یونین سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتی کہ تم بھی ہماری مرضی کے مطابق پانچ نئے کیمپ بناؤ.ہمیں موثق ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ حال ہی میں ہندوستان یونین نے ڈیرہ اسمعیل خاں میں ریفیوجی کیمپ بنانے کا مطالبہ کیا ہے جہاں صرف پانچ ہزار پناہ گزین ہیں.پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ ہندوستان یونین سے کہے کہ اگر تم ڈیرہ اسمعیل خاں میں کیمپ بنوانا چاہتے ہو تو قادیان میں بھی کیمپ بناؤ.اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستانی حکومت کا رعب کم ہوتا جائے گا اور ہندوستان یونین کے مطالبات بڑھتے جائیں گے اور مسلمانوں کے حقوق پامال ہوتے چلے جائیں گے.تازه آفیشل رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک سولہ لاکھ چھیالیس ہزار سات سو پچاس مسلمان مشرقی پنجاب کے کیمپوں میں پڑے ہیں.اس کے مقابلہ میں صرف سات لاکھ سینتالیس ہزار دوسو بہتر غیر مسلم مغربی پنجاب میں ہیں.ہمارے حساب سے تو یہ اندازہ بھی غلط ہے.مسلمان ساڑھے سولہ لاکھ نہیں 25، 26 لاکھ کے قریب مشرقی پنجاب میں پڑے ہیں اور خطرہ ہے کہ اپنے حقوق کو استقلال کے ساتھ نہ مانگنے کے نتیجہ میں یہ سات لاکھ غیر مسلم بھی جلدی سے اُدھر نکل جائے گا.اور 25 لاکھ مسلمانوں میں سے بمشکل ایک دو لا کھ ادھر پہنچے گا، یا کوئی اتفاقی بچکر نکلا تو نکلاور نہ جو کچھ....(مفسدہ پرداز ) جتھے اور...ملٹری اور پولیس ان سے کر رہی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی اُمیدان کے بچنے کی نظر نہیں آتی.بعض چھوٹے افسر یہ کہتے بھی سنے گئے ہیں کہ مغربی پنجاب اتنے پناہ گزینوں کو سنبھال نہیں سکتا.پس جتنے مسلمان ادھر مرتے ہیں اس سے آبادی کا کام آسان ہو رہا ہے.یہ ایک نہایت ہی خطرناک خیال ہے.ہمیں یقین ہے.مغربی پنجاب کی حکومت کے اعلیٰ حکام اور وزراء کا یہ خیال نہیں مگر اس قسم کا خیال چند آدمیوں کے دلوں میں بھی پیدا ہونا قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے.مغربی پنجاب کے مسلمانوں کو جلدی منظم ہو جانا چاہیئے.اور جلد اپنے حقوق کی حفاظت کرنے کی سعی کرنی چاہیئے.اگر آج تمام مسلمان منظم ہو جا ئیں اور اگر آج بھی حکومت اور رعایا کے درمیان مضبوط تعاون پیدا ہو جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان اس ابتلاء عظیم میں سے گزرنے کے بعد بھی بیچ سکتا ہے اور ترقی کی طرف اس کا قدم بڑھ سکتا ہے.(5)
تاریخ احمدیت بھارت 191 جلد اول سیدنا حضرت مصلح موعود کا تیسرا مضمون بعنوان " قادیان کی خونریز جنگ لمصل ان دو مضامین کے بعد سید نا اصلح الموعودؓ نے اپنا تیسرا اہم مضمون جو قادیان کی خونریز جنگ“ کے نام سے لکھا، اس مضمون کے ذریعے پہلی بار دنیا کے سامنے قادیان پر ہوئے حملہ کی اہم تفصیلات منظر عام پر لائی گئیں.اس مضمون کا مکمل متن قارئین کے ازدیاد علم کی خاطر یہاں پیش کیا جاتا ہے: اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّ اصير قادیان کی خونریز جنگ از حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ ) اکتوبر کی پہلی تاریخ کو جب گورداسپور کی ملٹری نے قادیان میں کنوائے جانے کی ممانعت کر دی تو میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ اب قادیان پر ظلم توڑے جائیں گے.لاہور میں کئی دوستوں کو میں نے یہ کہہ دیا تھا اور مغربی پنجاب کے بعض حکام کو بھی اپنے خیال کی اطلاع دے دی تھی.اس خطرہ کے مدنظر ہم نے کئی ذرائع سے مشرقی پنجاب کے حکام سے فون کر کے حالات معلوم کئے.لیکن ہمیں یہ جواب دیا گیا کہ قادیان میں بالکل خیریت ہے اور احمدی اپنے محلوں میں آرام سے بس رہے ہیں.صرف سڑکوں کی خرابی کی وجہ سے کنوائے کو روکا گیا.لیکن جب اس بات پر غور کیا جاتا کہ لاہورایویکویشن کمانڈر کی طرف سے مشرقی پنجاب کے ملٹری حکام کو بعض کنوائز کی اطلاع دی گئی.اور انہیں کہا گیا کہ اگر قادیان کی طرف کنوائے جانے میں کوئی روک ہے تو آپ ہم کو بتادیں.میجر چھنی سے بھی پوچھا گیا اور برگیڈیر پرنج پائے متعینہ گورداسپور سے بھی پوچھا گیا.تو ان سب نے اطلاع دی کہ قادیان جانے میں کوئی روک نہیں.باوجوداس کے جب کنوائے گئے تو ان کو بٹالہ اور گورداسپور سے واپس کر دیا گیا.یہ واقعات پہلے شائع ہو چکے ہیں.ان واقعات نے میرے شبہات کو اور بھی قوی کر دیا.آخر ایک دن ایک فون جو قادیان سے ڈپٹی
جلد اول 192 تاریخ احمدیت بھارت کمشنر گورداسپور کے نام کیا گیا تھا، اتفاقاً سیالکوٹ میں بھی سنا گیا.معلوم ہوا کہ قادیان پر دو دن سے حملہ ہو رہا ہے اور بے انتہا ظلم توڑے جارہے ہیں.پولیس حملہ آوروں کے آگے آگے چلتی ہے اور گولیاں مار مار کر احمدیوں کا صفایا کر رہی ہے.تب اصل حقیقت معلوم ہوئی.دوسرے دن ایک سب انسپکٹر پولیس (6) جو چھٹی پر قادیان گیا ہوا تھا، کسی ذریعہ سے جس کا ظاہر کرنا مناسب نہیں ، لاہور پہنچا.اور اس نے بہت سی تفاصیل بیان کیں.اس کے بعد ایک ملٹری گاڑی میں ، جو قادیان بعض مغربی پنجاب کے افسروں اور بعض مشرقی پنجاب کے افسروں کو جو قادیان کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجی گئی تھی ، میں بعض اور لوگ تھے جنہوں نے اور تفصیل بیان کی.ان حالات سے معلوم ہوا کہ حملہ سے پہلے کرفیو لگا دیا گیا تھا.پہلے قادیان کی پرانی آبادی پر، جس میں احمد یہ جماعت کے مرکزی دفاتر واقع ہیں، حملہ کیا گیا.اس حصہ کے لوگ اس حملہ کا مقابلہ کرنے لگے.انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ باہر کے محلوں پر بھی تھوڑی دیر بعد حملہ کر دیا گیا ہے.یہ لوگ سات گھنٹہ تک لڑتے رہے اور اس خیال میں رہے کہ یہ حملہ صرف مرکزی مقام پر ہے.باہر کے مقام محفوظ ہیں.چونکہ جماعت احمدیہ کا یہ فیصلہ تھا کہ ہم نے حملہ نہیں کرنا بلکہ صرف دفاع کرنا ہے.اس لئے تمام محلوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ جب تک ایک خاص اشارہ نہ کیا جائے کسی محلہ کو با قاعدہ لڑائی کی اجازت نہیں.جب افسر یہ تسلی کر لیں کہ حملہ اتنا لمبا ہو گیا ہے کہ اب کوئی شخص یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ احمد یہ جماعت نے مقابلہ میں ابتداء کی ہے، وہ مقررہ اشارہ کریں گے.اس وقت جماعت منظم طور پر مقابلہ کرے گی.اس فیصلہ میں ایک کو تا ہی رہ گئی.وہ یہ کہ اس بات کو نہیں سوچا گیا کہ اگر پولیس بیرونی شہر اور اندرونی شہر کے تعلقات کو کاٹ دے تو ایک دوسرے کے حالات کا علم نہ ہو سکے گا.پس ان حالات میں ہر محلہ کا الگ کمانڈر مقرر ہو جانا چاہئے ، جو ضرورت کے وقت آزادانہ کارروائی کر سکے.یہ غلطی اس وجہ سے ہوئی کہ قادیان کے لوگ فوجی تجربہ نہیں رکھتے.وہ تو مبلغ ، مدرس، پروفیسر ، تاجر اور زمیندار ہیں.ہر قسم کے فوجی نقطہ نگاہ پر حاوی ہونا ان کے لئے مشکل ہے.بہر حال یہ غلطی ہوئی اور باہر کے محلوں نے اس بات کا انتظار کیا کہ جب ہم کو وہ اشارہ ملے گا.تب ہم مقابلہ کریں گے.لیکن اس وقت اتفاق سے سب ذمہ دار کارکن مرکزی دفاتر میں تھے اور باہر کے محلوں میں کوئی ذمہ دار افسر نہیں تھا.اور مرکز کے لوگ غلطی سے یہ سمجھ رہے تھے کہ حملہ صرف مرکزی مقام پر ہے باہر کے محلوں پر نہیں.اور باہر کے محلے یہ
تاریخ احمدیت بھارت 193 جلد اوّل سمجھ رہے تھے کہ ہمارے حالات کا علم مرکزی محلہ کو ہو گا.کسی مصلحت کی وجہ سے انہوں نے ہمیں مقابلہ کرنے کا اشارہ نہیں کیا.سات گھنٹہ کی لڑائی کے بعد جب مرکزی حملہ پر زور بڑھا تو مرکزی محلہ کی حفاظت کے لئے معین اشارہ کیا گیا.مگر اس وقت تک بہت سے بیرونی محلوں کو پولیس اور ایک حد تک ملٹری کے حملے صاف کرواچکے تھے.حملہ آوروں کی بہادری کا یہ حال تھا کہ سات گھنٹہ کے حملہ کے بعد جب جوابی حملہ کا بگل بجایا گیا تو پانچ منٹ کے اندر پولیس اور حملہ آور جتھے بھاگ کر میدان خالی کر گئے.ان حملوں میں دوسو سے زیادہ آدمی مارے گئے.لیکن ان کی لاشیں جماعت کو اٹھانے نہیں دی گئیں تا ان کی تعداد کا بھی علم نہ ہو سکے اور ان کی شناخت بھی نہ ہو سکے.بغیر جنازہ کے، اور بغیر اسلامی احکام کی ادائیگی کے، یہ لوگ ظالم مشرقی پولیس کے ہاتھوں مختلف گڑھوں میں دبا دیئے گئے تا کہ دنیا کو اس ظلم کا اندازہ نہ ہو سکے جو اس دن قادیان میں مشرقی پنجاب کی پولیس نے کیا تھا.مشرقی پنجاب کے بالا حکام سے جو ہمیں اطلاع ملی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقامی حکام نے مرکزی حکام کو صرف یہ اطلاع دی کہ....(مفسدہ پرداز ) جتھوں نے احمدی محلوں پر حملہ کیا.تیں آدمی....(مفسدہ پرداز ) جتھوں کے مارے گئے اور تیس آدمی احمدیوں کے مارے گئے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسو سے زیادہ قادیان میں احمدی مارے گئے جن میں کچھ غیر احمدی بھی شامل تھے ،جیسا کہ آگے بتایا جائے گا.اور....(مفسدہ پرداز ) بھی تیس سے زیادہ مارے گئے کیونکہ گواس غلطی کی وجہ سے جو اوپر بیان ہو چکی ہے منظم مقابلہ نہیں کیا.لیکن مختلف آدمی بھی حفاظتی چوکیوں پر تھے، انہوں نے اچھا مقابلہ کیا اور بہت سے حملہ آوروں کو مارا.یہ بھی معلوم ہوا کہ جب باہر سے پولیس اور....( مفسدہ پرداز ) حملہ کر رہے تھے.اور ملٹری بھی ان کے ساتھ شامل تھی ( گو کہا جاتا ہے کہ ملٹری کے اکثر سپاہیوں نے ہوا میں فائر کئے ہیں ) اس وقت کچھ پولیس کے سپاہی محلوں کے اندر گھس گئے.اور انہوں نے احمدیوں کو مجبور کیا کہ یہ کرفیو کا وقت ہے اپنے گھروں میں گھس جائیں.چنانچہ ایک احمدی گریجوایٹ (مرزا احمد شفیع بی اے.ناقل ) جو اپنے دروازے کے آگے کھڑا تھا، اسے پولیس مین نے کہا تم دروازے کے باہر کیوں کھڑے ہو.جب اس نے کہا کہ یہ میرا گھر ہے، میں اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہوں، تو اسے شوٹ کر دیا گیا اور جب وہ تڑپ رہا تھا تو سپاہی نے سنگین سے اس پر حملہ کر دیا.اور تڑپتے ہوئے جسم پرسنگین مار مار کر اسے ماردیا.اس کے بعد بہت سے محلوں کو لوٹ لیا گیا اور اب ان کے اندر کسی ٹوٹے پھوٹے
جلد اوّل 194 تاریخ احمدیت بھارت سامان یا بے قیمت چیزوں کے سوا کچھ باقی نہیں.مرکزی حصہ پر جو حملہ ہوا اس میں ایک شاندار واقعہ ہوا ہے جو قرونِ اولیٰ کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے.جب حملہ کرتے ہوئے پولیس اور....(مفسدہ پرداز ) شہر کے اندر گھس آئے اور شہر کے مغربی حصہ کے لوگوں کو مار پیٹ کر خالی کرانا چاہا.اور وہ لوگ مشرقی حصہ میں منتقل ہو گئے تو معلوم ہوا کہ گلی کے پار ایک گھر میں چالیس عورتیں جمع تھیں.وہ وہیں رہ گئیں ہیں.بعض افسران کو نکلوانے کے لئے گلی کے سرے پر جو مکان تھا وہاں پہنچے.اور ان کے نکالنے کے لئے دونو جوانوں کو بھیجا.یہ نوجوان جس وقت گلی پار کرنے لگے تو سامنے کی چھتوں سے پولیس نے ان پر بے تحاشا گولیاں چلانی شروع کیں.اور وہ لوگ واپس گھر میں آنے پر مجبور ہو گئے.تب لکڑی کے تختے منگوا کر گلی کے مشرقی اور مغربی مکانوں کی دیواروں پر رکھ کر عورتوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی گئی.جو نو جوان اس کام کے لئے گئے ان میں ایک غلام محمد صاحب ولد مستری غلام قادر صاحب سیالکوٹ تھے.اور دوسرے عبدالحق نام قادیان کے تھے ، جو احمدیت کی طرف مائل تو تھے مگر ابھی جماعت میں شامل نہیں ہوئے تھے.یہ دونوں نوجوان برستی ہوئی گولیوں میں سے تختے پر سے کودتے ہوئے اس مکان میں چلے گئے.جہاں چالیس عورتیں محصور تھیں (7).انہوں نے ایک ایک عورت کو کندھے پر اٹھا کر تختے پر ڈالنا شروع کیا.اور مشرقی مکان والوں نے انہیں کھینچ کھینچ کر اپنی طرف لانا شروع کیا.جب وہ اپنے خیال میں سب عورتوں کو نکال چکے اور خود واپس آگئے تو معلوم ہوا کہ انتالیس عورتیں آئی ہیں.اور ایک بڑھیا عورت جو گولیوں سے ڈر کے مارے ایک کونے میں چھپی ہوئی تھی رہ گئی ہے.اب ارد گرد کی چھتوں پر پولیس جتھوں کا ہجوم زیادہ ہو چکا تھا.گولیاں بارش کی طرح گر رہی تھیں.اور بظاہر اس مکان میں واپس جانا ناممکن تھا.مگر میاں غلام محمد صاحب ولد میاں غلام قادر صاحب سیالکوٹی نے کہا، جس طرح بھی ہو میں واپس جاؤں گا اور اس عورت کو بچا کر لاؤں گا.اور وہ برستی ہوئی گولیوں میں، جو نہ صرف درمیانی راستہ پر برسائی جا رہی تھیں بلکہ اس گھر پر بھی برس رہی تھیں جہاں احمدی کھڑے ہوئے بچاؤ کی کوشش کر رہے تھے، کو دکر اس تختے پر چڑھ گئے.جو دونوں مکانوں کے درمیان پیپل کے طور پر رکھا گیا تھا.جب وہ دوسرے مکان میں کو درہے تھے تو رائفل کی گولی ان کے پیٹ میں لگی اور وہ مکان کے اندر گر پڑے.مگر اس حالت میں بھی اس بہادر نوجوان نے اپنی تکلیف کی پروانہ کی اور اس بڑھیا کو تلاش کر کے تختے پر چڑھانے کی کوشش کی.لیکن شدید زخموں کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا
تاریخ احمدیت بھارت 195 جلد اوّل اور دو تین کوششوں کے بعد نڈھال ہو کر گر گیا.اس پر میاں عبد الحق صاحب نے کہا کہ میں جا کر ان دونوں کے بچانے کی کوشش کرتا ہوں اور وہ کو دکر اس تختہ پر چڑھ گئے.ان کو دیکھتے ہی ایک پولیس مین دوڑا ہوا آیا اور ایک پاس کے مکان سے صرف چند فٹ کے فاصلہ پر سے ان کی کمر میں گولی مار دی.اور وہ وہیں فوت ہو گئے.جب حملہ آور بگل بجنے پر دوڑ گئے تو زخمی غلام محمد صاحب اور اس بڑھیا کو اس مکان سے نکالا گیا.چونکہ ہسپتال پر پولیس نے قبضہ کر لیا ہے.اور وہاں سے مریضوں کو زبردستی نکال دیا ہے.اور تمام ڈاکٹری آلات اور دوائیاں وہاں ہی پڑی ہیں.مریضوں اور زخمیوں کا علاج نہیں کیا جا سکتا اور یوں بھی غلام محمد صاحب شدید زخمی تھے.معمولی علاج سے بچ نہ سکے اور چند گھنٹوں میں فوت ہو گئے.مرنے سے پہلے انہوں نے ایک دوست کو بلایا اور اسے یہ باتیں لکھوائیں کہ ” مجھے اسلام اور احمدیت پر پکا یقین ہے.میں اپنے ایمان پر قائم جان دیتا ہوں.میں اپنے گھر سے اسی لئے نکلا تھا کہ میں اسلام کے لئے جان دوں گا.آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور جس مقصد کے لئے جان دینے کے لئے آیا تھا میں نے اس مقصد کے لئے جان دے دی.جب میں گھر سے چلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا دیکھنا پیٹھ نہ دکھانا.میری ماں سے کہہ دینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری وصیت پوری کر دی اور پیٹھ نہیں دکھائی اور لڑتے ہوئے مارا گیا.“ چونکہ ظالم پولیس نے سب راستوں کو روکا ہوا ہے مقتولین کو مقبروں میں دفن نہیں کیا جا سکا اس لئے جو لوگ فوت ہوتے ہیں یا قتل ہوتے ہیں انہیں گھروں میں ہی دفن کیا جاتا ہے ان نوجوانوں کو بھی گھروں میں ہی دفن کرنا پڑا.اور میاں غلام محمد اور عبد الحق دونوں کی لاشیں میرے مکان کے ایک صحن میں پہلو بہ پہلوسپردخاک کر دی گئیں.یہ دونوں بہادر اور سینکڑوں اور آدمی اس وقت منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں لیکن انہوں نے اپنی قوم کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ہیں.مرنے والے مر گئے.انہوں نے بہر حال مرنا ہی تھا.اگر اور کسی صورت میں مرتے تو ان کے نام کو یا درکھنے والا کوئی نہ ہوتا اور وہ اپنے دین کی حفاظت اور اسلام کا جھنڈا اونچارکھنے کے لئے مرے ہیں.اس لئے حقیقت وہ زندہ ہیں.اور آپ ہی زندہ نہیں بلکہ اپنے بہادرانہ کاموں کی وجہ سے آئندہ اپنی قوم کو زندہ رکھتے چلے جائیں گے.ہر نوجوان کہے گا کہ جو قربانی ان نوجوانوں نے کی وہ ہمارے
جلد اوّل 196 تاریخ احمدیت بھارت لئے کیوں ناممکن ہے.جو نمونہ انہوں نے دیکھا یا وہ ہم کیوں نہیں دکھا سکتے.خدا کی رحمتیں ان لوگوں پر نازل ہوں اور ان کا نیک نمونہ مسلمانوں کے خون کو گرماتارہے اور اسلام کا جھنڈا ہندوستان میں سرنگوں نہ ہو.اسلام زندہ باد! محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ باد! خاکسار مرزا محمود احمد (8) سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی پنڈت جواہر لال نہر وزیر اعظم بھارت سے ملاقات لمصلہ حضرت سیدنا مصلح الموعود نے ”سیر روحانی میں اس ملاقات کا ذکر درج ذیل الفاظ میں فرمایا ہے: چنانچہ جب پارٹیشن ہوئی تو میں جو پہلے اس طرف آیا ہوں تو اس غرض سے آیا تھا کہ پنڈت نہرو صاحب یہاں آئے ہوئے تھے.میں نے سمجھا کہ اس سے جا کر بات کروں کہ یہ کیا ظلم ہورہا ہے.سردار شوکت حیات صاحب کے ہاں وہ ٹھہرے تھے.میں نے انہیں ملنے کے لئے لکھا تو انہوں نے وقت دے دیا.میں نے ان سے کہا ہم قادیان میں ہیں.گاندھی جی اور قائد اعظم کے درمیان سمجھوتہ ہوا ہے کہ جو ہندو ادھر رہے گا وہ پاکستانی ہے اور جو مسلمان اُدھر رہ جائے وہ ہندوستانی ہے.اور اپنی اپنی حکومت اپنے اپنے افراد کو بچائے ، اور وہ لوگ جو حکومت کے وفادار ر ہیں، قائد اعظم اور گاندھی جی کے اس فیصلہ کے مطابق ہم چونکہ ہندوستان میں آرہے ہیں اس لئے ہم آپ کے ساتھ وفاداری کرنے کے لئے تیار ہیں بشرط یہ کہ آپ ہمیں ہندوستانی بنائیں اور رکھیں.وہ کہنے لگے ہم تو رکھ رہے ہیں.میں نے کہا آپ کیا رکھ رہے ہیں.فسادات ہو رہے ہیں.لوگ ماررہے ہیں.قادیان کے ارد گرد جمع ہورہے ہیں.مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے.کہنے لگے.آپ نہیں دیکھتے ادھر کیا ہو رہا ہے.میں نے کہا ادھر جو ہو رہا ہے وہ تو میں نہیں دیکھ رہا میں تو ادھر سے آیا ہوں.لیکن فرض کیجئے ادھر جو کچھ ہو رہا ہے ویسا ہی ہو رہا ہے.تب بھی میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہاں کا جو ہندو ہے وہ تو پاکستانی ہے اور اس کی ہمدردی پاکستان گورنمنٹ کو کرنی چاہیئے.ہم ہیں ہندوستانی آپ کو ہماری ہمدردی کرنی چاہئیے.اس کا کیا مطلب کہ یہاں کے ہندوؤں پر سختی ہو رہی ہے تو آپ وہاں کے مسلمانوں پر سختی کریں گے.کہنے لگے آپ جانتے نہیں لوگوں میں کتنا جوش پھیلا ہوا ہے.میں نے
تاریخ احمدیت بھارت 197 جلداول کہا آپ کا کام ہے کہ آپ اس جوش کو دبا ئیں.بہر حال اگر آپ مسلمانوں کو رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو ان کی حفاظت کرنی پڑیگی.وہ کہنے لگے ہم کیا کر سکتے ہیں.لوگوں کو جوش اس لئے آتا ہے کہ آپ کے پاس ہتھیار ہیں.آپ انہیں کہیں کہ جو ہتھیار نا جائز ہیں وہ چھوڑ دیں.میں نے کہا آپ یہ تو فرمائیے میں ان کا لیڈر ہوں اور میں انہیں کہتا رہتا ہوں کہ جرم نہ کرو.شرارتیں نہ کرو.فساد نہ کرو.اگر کسی نے ناجائز ہتھیار رکھا ہوا ہے تو کیا وہ مجھے بتا کر رکھے گا.میں تو انہیں کہتا ہوں جرم نہ کرو.پس وہ تو مجھ سے چھپائے گا.اور جب اس نے اپنا ہتھیار مجھ سے چھپایا ہوا ہے تو میں اسے کیسے کہوں کہ ہتھیار نہ رکھے، کہنے لگے آپ اعلان کر دیں کہ کوئی احمدی اپنے پاس ہتھیار نہ رکھے.میں نے کہا.اگر میں ایسا کہوں تو میری جماعت تو مجھے لیڈر اس لئے مانتی ہے کہ میں معقول آدمی ہوں.وہ مجھے کہیں گے صاحب! ہم نے آپ کو معقول آدمی سمجھ کر اپنا لیڈر بنایا تھا.یہ کیا بیوقوفی کر رہے ہیں کہ چاروں طرف سے...(شر پسند ) اور....مفسدہ پرداز ) حملہ کر رہا ہے اور مار رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ تم اپنے پاس کوئی ہتھیار نہ رکھو.آپ یہ بتائیں کہ ہم جان کیسے بچائیں گے.کہنے لگے، کہ ہم بچائیں گے حکومت بچائے گی.جب انہوں نے کہا حکومت بچائے گی تو میں نے کہا بہت اچھا.میں اس وقت اپنے ساتھ تمام علاقہ کا نقشہ لے کر گیا تھا.میں نے کہا قادیان کے گرد اتی (80) گاؤں پر حملہ ہو چکا ہے جو....( شر پسندوں ) اور....(مفسدہ پردازوں) نے جلا دیئے ہیں اور لوگ مار دیئے ہیں.میں یہ نقشہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جب میں ان سے کہوں گا کہ دیکھو اپنے پاس ہتھیار نہ رکھو کیونکہ حکومت تمہیں بچائے گی تو وہ کہیں گے کہ سب سے آخری گاؤں جو حد پر تھا جس پر حملہ ہوا تو کیا گورنمنٹ نے اسے بچایا.میں کہوں گا ارے گورنمنٹ خدا تھوڑی ہی ہے اسے آخر آہستہ آہستہ پتہ لگتا ہے کچھ عقل کرو.دو چار دن میں گورنمنٹ آجائے گی.پھر وہ اگلے گاؤں پر ہاتھ رکھیں گے اور کہیں گے تین دن ہوئے یہ گاؤں جلا تھا.کیا گورنمنٹ نے مسلمانوں کو کوئی امداد دی.میں کہوں گا خیر کچھ دیر تو لگ جاتی ہے تو وہ اگلے گاؤں پر ہاتھ رکھیں گے.اچھا ہم مان لیتے ہیں کہ کچھ دیر لگنا ضروری ہے.مگر اس گاؤں پر حملہ کے وقت حکومت نے حفاظت کا انتظام کیوں نہ کیا.میں نے کہا یہ اسی (80) گاؤں ہیں.اتنی (80) گاؤں پر پہنچ کر وہ مجھے فاتر العقل سمجھنے لگ جائیں گے یا نہیں.کہ جتنے گاؤں ہم پیش کر رہے ہیں ان میں سے کسی پر بھی حملہ ہوا تو حکومت نہیں آئی.شرمندہ ہو گئے اور کہنے لگے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ امن قائم
جلد اوّل 198 تاریخ احمدیت بھارت رکھوں گا.میں نے کہا کتنی دیر میں کہنے لگے پندرہ دن میں پندرہ دن میں ریلیں بھی چلا دیں گے.تاریں بھی کھل جائیں گی.ڈاکخانے بھی کھل جائیں گے.اور ٹیلیفون بھی جاری ہو جائے گا.آپ چند دن صبر کریں میں نے کہا بہت اچھا ہم صبر کر لیتے ہیں.لیکن جب پندرہ دن ختم ہوئے تو آخری حملہ قادیان پر ہوا.جس میں سب لوگوں کو نکال دیا گیا.پھر ان حملوں میں بچے مارے گئے اور ایسے ایسے ظالمانہ طور پر قتل کئے گئے کہ بچوں کے پیٹوں میں نیزے مار مار کے انہیں قتل کیا گیا.ہم نے اس وقت تصویر میں لی تھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ بچوں کے ناک کاٹے ہوئے ہیں.کان چرے ہوئے ہیں.پیٹ چرا ہوا ہے.انتڑیاں باہر نکلی ہوئی ہیں اور وہ تڑپ رہے ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے چھ چھ مہینہ کے اور سال سال کے تھے جن پر یہ ظلم کیا گیا.(9) سیدنا حضرت المصلح الموعود کے خطبہ جعہ میں شہدائے قادیان کا درد انگیز ذکر یہاں سیدنا لمصلح الموعود کے ایک خطبہ جمعہ (فرمودہ 10 اکتوبر 1947ء کا ایک اقتباس دیا جانا ضروری ہے جس میں شہدائے قادیان سے ہونے والے بہیمانہ سلوک کا ذکر کیا گیا ہے.حضور نے فرمایا: آج ایک عرصہ کے بعد قادیان سے جو خطوط موصول ہوئے ہیں ان سے اور ان آنے والوں سے جو پچھلے ایک دو دن میں یہاں آئے ہیں، وہ حالات معلوم ہوئے ہیں جو گزشتہ چھ دنوں میں گورنمنٹ کے مقامی نمائندوں نے قادیان میں پیدا کر دیئے تھے.اور جن کی مثال شاید پرانے زمانہ کی وحشی اقوام میں بھی نہیں ملتی.ہمارے دوسو سے زائد احمدی مارے گئے ہیں.اور ان کی لاشیں بھی ہمارے حوالے نہیں کی گئیں.بلکہ گڑھے کھود کر ان کو خود ہی دفن کر دیا گیا ہے.جنرل تھمایا جو ایسٹ پنجاب گورنمنٹ میں جالندھر ڈویژن کے افسر ہیں، وہ بعض احمدیوں کے ساتھ ایک سکیم کے ماتحت جب قادیان گئے تو انہوں نے کہا ہماری رپورٹیں تو یہ ہیں کہ تیس کے قریب احمدی مارے گئے ہیں.اور جب انہوں نے افسروں سے پوچھا کہ کتنے احمدی مارے گئے ہیں تو انہوں نے بھی کہا.ٹھیک ہے میں احمدی مارے گئے ہیں.اس وقت ہمارے لوکل نمائندوں نے کہا کہ آپ کہتے ہیں تھیں احمدی مارے گئے ہیں.ہمیں ایک گڑھے کا علم ہے جس میں
تاریخ احمدیت بھارت 199 جلد اوّل چالیس احمدیوں کی لاشیں دبائی گئی ہیں.چلئے ہم ابھی آپ کو وہ چالیس لاشیں دکھانے کے لئے تیار ہیں.اور اس کے علاوہ ہم اور بھی کئی گڑھے دکھا سکتے ہیں جن میں احمدیوں کو دفن کیا گیا ہے.اس پر جنرل تھمایا خاموش ہو گئے ( مگر تعصب کا بُرا ہو کہ ریڈیو کے اعلان سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے جا کر رپورٹ یہی دی ہے کہ قادیان پر معمولی حملہ ہوا.دونوں طرف کے ساتھ آدمی مارے گئے.انا لله و انا اليه راجعون) نہایت ذلیل ترین حرکت جو کوئی قوم کر سکتی ہے وہ مردوں کی ہتک ہے.ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے ساتھ رہنے کے بعد کیا ہندو اور سکھ قوم یہ نہیں سمجھ سکتی تھی کہ مسلمانوں میں جنازہ کے متعلق کیا احکام ہیں.وہ کس طرح غسل دیتے، کفن پہناتے جنازہ پڑھتے اور پھر اپنے مردوں کو دفن کرتے ہیں مگر ان اسلامی رسوم کے ادا کرنے سے بھی ہمیں محروم کر دیا گیا اور ہماری لاشوں کو بغیر اس کے کہ ہم ان کا جنازہ پڑھتے گڑھوں میں دبا دیا گیا.ہمارے آنحضرت سیستم کا طریق تو یہ تھا کہ جنگ احزاب کے موقعہ پر جب کفار کا ایک لیڈر خندق میں گرا اور وہیں مارا گیا تو مکہ والوں نے کئی ہزار روپیہ اس غرض کے لئے پیش کیا کہ اس شخص کی لاش ہمیں دے دی جائے.رسول کریم ملی ایتم نے جواب دیا کہ ہم نے تمہارا مردہ رکھ کر کیا کرنا ہے تم اس کو اٹھا کر لے جاؤ اور اپنا روپیہ بھی اپنے پاس رکھو.لیکن یہ وہ گورنمنٹ ہے جو کہتی ہے کہ ہم بڑے ملک کی گورنمنٹ ہیں جو کہتی ہے کہ رعایا ہماری فرمانبردار رہے.کیا یہی طریقے فرمانبرداری کے حصول کے ہوتے ہیں.اور کیا یہ طریق حکومت کرنے کے ہوتے ہیں کہ بیگناہ شہریوں کو مارا جائے ، بے قصور شہریوں کو قتل کیا جائے اور پھر ان کی لاشوں کی تذلیل کی جائے اور گڑھوں میں بغیر گور و کفن کے دفن کر دیا جائے.بہر حال وہ مرنے والے مر گئے اور ہر حالت میں انہوں نے مرنا ہی تھا.اب وہ ہماری یادگار اور ہماری تاریخ کی امانت ہیں اور ہماری جماعت ان کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے گی.اور اگر وہ بے نام ہیں تب بھی وہ احمد یہ تاریخ میں زندہ رہیں گے اور احمدی نوجوان ان کے واقعہ کو اپنے سامنے رکھ کر ہمیشہ قربانی کی روح اپنے اندر تازہ رکھیں گے.پس وہ مرے نہیں زندہ ہیں.خدا کرے ان کی قربانی ضائع نہ جائے بلکہ ہماری جماعت کے افراد ان سے سبق حاصل کریں اور اسی قسم کی قربانی کے لئے ہر احمدی تیار ہے.“ (10)
جلد اوّل 200 تاریخ احمدیت بھارت قادیان کے حالات سے متعلق حضرت اصلح الموعود کی پریس کا نفرنس سید نا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے 16 اکتوبر 1947ءکولا ہور کے پریس نمائندوں کو بیان دیتے ہوئے فرمایا: قادیان کے مقامی افسراب ہم کو قادیان سے ایسی چیزیں اور سامان بھی نہیں لانے دیتے جس کی ان کو تو ضرورت نہیں مگر ہمارے لئے وہ نہایت ضروری ہے.مثلاً ہماری لائبریری کو جس میں ہماری مذہبی علمی کتب کا نہایت قیمتی ذخیرہ ہے.جن میں بعض عربی کے قلمی نسخے بھی ہیں بند کر کے مہر لگا دی گئی ہے.نیز ہمارے ضیاء الاسلام پریس کو بھی.جس سے الفضل چھپتا تھا سیل کر دیا گیا ہے.پھر ہماری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا سامان ہے.ڈاکٹر بھٹنا گر نے جب وہ قادیان گئے تھے تو انہوں نے بھی کہا تھا کہ ہندوستان کے بہترین انسٹی ٹیوٹوں میں اس کا شمار ہوسکتا ہے.لیکن مسلمانوں کا تو یہ واحد سائنس کا ادارہ ہے.وہ بھی ضبط ہو گیا ہے.فسادات کی وجہ سے ہمارا یہ کام دو سال پیچھے جا پڑا ہے.آپ نے فرمایا.اب ہمارے ٹرک جو قادیان سے عورتوں اور بچوں کے لینے کے لئے گئے تھے.پہلے ان کو باہر ہی روک دیا گیا.پھر جب وہ باہر سامان اور بچوں اور عورتوں کو لے کر نکلے تو....(مفسدہ پردازوں) اور پولیس نے حملہ کر کے سامان لوٹ لیا.حالانکہ یہاں سے ہندو اور سکھ پناہ گزین بہت سا سامان ساتھ لے جاتے ہیں.مگر اُدھر سے مسلمانوں کا سامان نہیں آنے دیا جاتا.آپ نے کہا کہ قادیان کی بڑی آبادی کو نہایت چھوٹی سی جگہ میں مقید کر دیا گیا ہے.یہانتک کہ کثرت نفوس کی وجہ سے ٹخنوں ٹخنوں تک غلاظت جمع ہو گئی تھی.جس کو ہمارے لڑکوں اور دیگر احمد یوں نے خود صاف کیا.ہسپتال بھی ہمارے قبضہ سے لے لیا گیا ہے اور زخمیوں اور بیماروں کو وہاں سے نکال دیا گیا ہے.جن کا اب علاج کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے.آپ نے کہا کہ ہمارے 200 آدمی وہاں حملوں میں مارے گئے ہیں.قادیان میں دونوں حکومتوں کے نمائندے جنرل کری آپا کے حکم سے تحقیقات کے لئے گئے تھے.لیکن جنرل تھمایا نے حکومتِ ہندوستان کو بالکل خلاف واقعہ رپورٹ دی ہے.اتنے بڑے افسر سے اتنی امید نہ تھی.آپ کو قادیان میں اس وفد کے سامنے ہمارے لوگوں نے واضح طور پر بتادیا تھا
تاریخ احمدیت بھارت 201 جلد اوّل کہ 200 مسلمان شہید ہوئے ہیں.اور حملہ کروا کر ہمارے محلوں کولوٹ لیا اور خالی کرالیا گیا اور بے شمار مال لوٹ لیا گیا.اس پر جب جنرل تھمایا نے سوال کیا کہ میری رپورٹ تو یہ ہے کہ صرف تیس آدمی مرے ہیں.تو میرے بڑے لڑکے (حضرت مرزا ناصر احمد صاحب.ناقل ) نے بتایا کہ میں آپ کو صرف ایک گڑھا ایسا بتا سکتا ہوں جس میں 40 مسلمان دبے پڑے ہیں.اور ابھی اور بھی بہت سے گڑھے ہیں.اس پر تھا یا صاحب خاموش ہو گئے.مگر پھر بھی بیان اس کے خلاف دیا.جن پناہ گزینوں کو قافلوں کی صورت میں قادیان سے بالجبر بھیجا گیا تھا ان کو خوراک نہیں دی گئی.ایک عورت کا بیان ہے کہ اس نے چھ دن شیشم کے پتے کھا کر گزارے.ہماری جماعت نے قادیان سے قافلے کے لئے 20 بوری گندم اُبال کر افسروں کی خواہش پر بھیجی.مگر وہ بھی ان کو نہ دی گئی اور جانوروں کو کھلا دی گئی.پھر کئی دن کے بعد ان کو آدھی آدھی روٹی دی گئی.اور ساتھ یہ کہا کہ ہم نے مسٹر جناح اور تمہارے خلیفہ کو تار دی تھی.مگر انہوں نے روٹی نہیں دی.مگر آج نہرو جی کی طرف سے تم کو کھلائی جاتی ہے.ان حالات کے باوجود ہمارا پختہ ارادہ ہے کہ جب تک حکومت ہندوستان ہم کو قادیان سے نکل جانے کا حکم نہیں دے گی ، ہمارے آدمی قادیان کو نہیں چھوڑیں گے.اگر چہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے نوجوان وہاں مارے جائیں گے.مگر قومیں قربانی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتیں.اگر ہم آج قربانیاں نہ دیں گے تو ہماری آئندہ نسلوں کو بھی قربانیاں دینے کی تحریک نہ ہوگی.1 آپ نے فرمایا کہ میرے لڑکے نے بذریعہ فون مجھے بتایا ہے کہ ایک اکالی لیڈر نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ اگر ننکانہ صاحب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا ہمیں یقین دلایا جائے تو ہم قادیان کے مقدس حصہ کو آباد رہنے دیں گے.مگر یہ صرف قادیان کا سوال نہیں بلکہ اسلامی مقدس مقامات کا سوال ہے.مثلاً سر ہند ، درگاہ نظام الدین اولیاء، درگاہ اجمیر شریف وغیرہ.ان کے متعلق باعزت سمجھوتہ کی کوشش ہونی چاہئیے.آپ نے فرمایا کہ میرے خیال میں ہمارے مقدس مقامات جو مشرقی پنجاب اور ہندوستان میں واقع ہیں ہمیں ان کو بغیر قربانی کے کبھی نہیں چھوڑنا چاہئیے کیونکہ قومی زندگی کے لئے ایسی قربانیاں نہایت ضروری ہوتی ہیں.“ (11)
جلد اوّل 202 تاریخ احمدیت بھارت قادیان کے المناک کوائف اور جماعت احمدیہ کی مظلومیت اور ملی خدمات کا چر چاعالمی پریس میں قادیان چونکہ ایک بین الاقوامی فعال اور منظم جماعت کا ایک شہرہ آفاق مرکز تھا، اس لئے جہاں مشرقی پنجاب بلکہ دہلی جیسے شہر میں خونِ مسلم سے جو ہولی کھیلی گئی اس پر بیرونی اخبارات نے بہت کم نوٹس لیا وہاں قادیان میں فتنہ و فساد اور قتل و غارت کی تفصیلی خبریں برصغیر پاک وہند کے مشہور اخبارات کے علاوہ دوسرے عالمی پریس نے بھی جلی عنوانوں سے شائع کیں جس سے دنیا بھر میں زبر دست تہلکہ پڑ گیا اور قادیان کے احمدی جوانوں کی جرأت و مردانگی اور استقلال و پامردی کی ہر جگہ دھوم مچ گئی.بھارت کے اخبارات میں فسادات قادیان کا ذکر 1 - اخبار نوجوان اخبار نوجوان (مدراس) کے ایڈیٹر صاحب نے اپنی 20 /اکتوبر 1947 ء کی اشاعت میں لکھا: قادیان میں قتل و غارت خلیفہ قادیان کا مکان اور ظفر اللہ خان کی کوٹھی لوٹ لی گئی افسوس ہے قادیان کے حالات دن بدن زیادہ ابتر ہوتے جارہے ہیں.تازہ اطلاعات سے یہ معلوم کرنا حد درجہ افسوس ناک ہے کہ جناب میاں محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان کا مکان بیت الحمد اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی لوٹ لی گئی.محلہ دار الرحمت اور دار الانوار میں قتل و غارت کا بازارگرم کیا گیا جس میں کہا جاتا ہے ڈیڑھ دو سو آدمی شہید ہوئے.مسجد میں گرد ونواح کے ہندو مکانات سے بم پھینکے گئے جس سے 2 آدمی شہید ہوئے.اس کے علاوہ ایک فوجی کنوائے پر جو قادیان سے پناہ گزینوں کو پاکستان لا رہا تھا.بٹالہ میں حملہ کیا گیا اور گولیوں کی بارش کی گئی جس سے کئی آدمی شہید ہو گئے.کیا یہ حالات اس قابل نہیں کہ ان کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا جائے ،مسٹر لیاقت علی کا درس امن اپنی جگہ پر بے شک قابل قدر اور لائق توجہ ہے لیکن مشرقی پنجاب کے ان مظالم کے سد باب کے لئے بھی تو کوئی مؤثر تدا بیر عمل میں آنی چاہئیں.“ (12)
تاریخ احمدیت بھارت 203 جلد اول 2 اخبار ”حقیقت“ لکھنو اخبار ”حقیقت“ لکھنو نے اپنی 2 نومبر 1947 ء کی اشاعت میں لکھا: قادیان نرغہ اعداء میں جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان سے جو مصدقہ اطلاعات آرہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت ہند کو ان مظالم سے بے خبر رکھا گیا ہے جو وہاں کے باشندوں پر پچھلے چند ہفتوں کے اندر کئے گئے ہیں.اور آج بھی وہاں....(مفسدہ پرداز ) پوری طرح مسلط ہے.خاص قادیان اور گردونواح کے مسلمان ہزار ہا کی تعداد میں بھاگ گئے ہیں.احمدی جماعت ہمیشہ حکومت کی وفادار رہی ہے اور جماعت کے امام کی طرف سے آج بھی بار بار اس بات کا اعلان کیا جا رہا ہے کہ جس طرح وہ انگریزی حکومت کی وفادار تھی اسی طرح وہ ہندوستانی یونین کی بھی وفادار رہے گی.لیکن ان اعلانات کے باوجود قادیان پر....(مفسدہ پردازوں) کا تسلط روز بروز سخت ہوتا جاتا ہے.حکومت ہند اور مشرقی پنجاب کی حکومت کے ذمہ داروں نے بار بار وعدے کئے کہ وہ قادیان کے حالات کی جلد اصلاح کر دیں گے.لیکن آج تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا.ہمارے خیال میں کسی جماعت کو زبردستی اس کے وطن سے نکالنا کوئی انصاف کی بات نہیں.مشرقی پنجاب کی حکومت کے اس طرز عمل کو کوئی مہذب انسان پسندیدہ نہیں کہہ سکتا.حکومت ہند کے لئے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ وہ....(مفسدہ پردازوں) سے مرعوب ہو کر ایک ایسی زبر دستی اور نا انصافی کو روا رکھے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی.“ (134) برما کے اخبارات برما کے اخبارات میں سے ایک اخبار ”پیغام تھا جو رنگون سے ایس.ایم علی افسر کے زیر ادارت چھپتا تھا.اس اخبار نے اپنی 2 نومبر 1947 ء کی اشاعت میں قادیان کے مسلمانوں کے حالات ہندوستان یونین کے مظالم کے خونچکاں واقعات سر ظفر اللہ ان کی کوٹھی بھی لٹ لی گئی کی 9966.9966 تین سرخیوں کے ساتھ تین کالم کا ایک مبسوط مضمون شائع کیا جو دراصل حضرت سیدنا خلیفہ اسیح الثانی کے قادیان سے متعلق مضامین کا بہترین خلاصہ تھا اور وہ بھی قریباً حضور ہی کے الفاظ میں! (13B)
جلد اول 204 تاریخ احمدیت بھارت ایران کے اخبارات ایرانی جرائد میں سے اخبار دنیائے اسلام اور روز نامہ ”نجات (طهران) نے حسب ذیل نوٹ شائع کئے جن کا اردو تر جمہ ذیل میں دیا جارہا ہے:.”ہندوستان کے ہندو...مسلمانوں سے بارہا یہ وعدہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تحفظ و سلامتی کے ذمہ دار ہوں گے مگر صد افسوس! کہ وہ دل سے اس بات کے متمنی ہیں کہ ہندوستان سے مسلمانوں کا صفایا کر کے خود حکومت کریں.یہ لوگ ہزار ہا مسلمانوں کو تہ تیغ کر چکے ہیں اور ابھی تک ان کے قتل و غارت میں مشغول اور ان کی بربادی کے درپے ہیں.انہوں نے تقسیم پنجاب کے لئے....(غیر مسلموں) کو برانگیختہ کر کے پنجاب کے بہت سے اضلاع کو ہندوستان میں شامل کرالیا ہے.پھر تعیین حدود کے صریح غیر منصفانہ فیصلہ کے ذریعہ کئی اور علاقے بھی حاصل کر لئے.اس ستم کے بعد...(مفسدہ پردازوں) نے....(غیر مسلموں) کی زیر حمایت اضلاع جالندھر، ہوشیار پور، فیروز پور اور گورداسپور میں مسلمانوں کا استیصال شروع کر دیا.ہزار ہا بستیوں کو ویران اور مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا.اس قتل و غارت کی تمام تر ذمہ داری جواہر لال نہرو اور گاندھی پر ہے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اضلاع جالندھر ، ہوشیار پور اور امرتسر کے مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے بعد...(مفسدہ پردازوں) نے ضلع گورداسپور میں ہزار ہا نفوس کو موت کے گھاٹ اتار دیا.اور ایک ماہ سے قادیان کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں جو ابھی تک بدستور قائم ہے.ریل گاڑی ، تار، ڈاک اور دیگر وسائل منقطع ہو چکے ہیں.جواہر لال نہرو کو ہندوستان اور دیگر ممالک کی جماعت ہائے احمدیہ کی طرف سے بے شمار تاریں اور درخواستیں بھیجی گئیں.لیکن چونکہ جواہر لال نہرو مسلمانوں کو برباد کرنا چاہتا ہے اس لئے خواب خرگوش میں سو رہا ہے.اور ریل گاڑی تار اور ڈاک وغیرہ ذرائع رسل و رسائل کو جاری نہ کر کے اپنے فرض منصبی کو سر انجام دینے میں بھی کوتاہی کر رہا ہے.کیا فسادیوں کو دبانے کے لئے اس کے پاس اسلحہ اور طاقت نہیں کہ یہ صورت حال اتنا طول پکڑ گئی ہے.اس کا باعث اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی تباہی کا خواہشمند ہے.دیگر ممالک کے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ تحریر و تقریر اور عمل غرض کہ ہر ممکن طریق سے اپنے بھائیوں کو امداد پہنچا کر عنداللہ ماجور ہوں“.(14)
تاریخ احمدیت بھارت 205 جلد اول ایرانی اخبار نجات کی خبر فارسی عبارت کا اردو تر جمہ :.اس اطلاع کے مطابق جو لاہور پاکستان سے پہنچی ہے....(مفسدہ پردازوں ) اور...( شر پسندوں) نے دہلی ، امرتسر ، جالندھر، ہوشیار پور، گورداسپور اور قادیان کے علاقوں پر حملہ کر کے چارلاکھ مسلمانوں کو قتل و غارت کیا ہے.اور تقریباً پچاس لاکھ مسلمانوں نے نہایت تنگی اور بدبختی کے ساتھ پاکستان کے مغربی حصہ کی طرف ہجرت کی ہے.قادیان کے حصے میں تقریباً پچاس ہزار آدمی....(مفسدہ پردازوں) کے محاصرہ میں ہیں اور ہر روز قتل کا بازار گرم ہوتا ہے.اس خبر کے مطابق جو قادیان سے پہنچی ہے تقریبا پانچ سو جوان شہید ہو گئے ہیں.ہندوستان کی حکومت پولیس کے ذریعہ ان کی مدد کر رہی ہے اور مسلمانوں کو قتل اور خونریزی کے لئے سخت اقدامات کر رہی ہے“.(15) ارجنٹائن کے اخبارات ارجنٹائن کے مشہور اور کثیر الاشاعت اخبار (ELMUNDO) نے بھی قادیان کے متعلق نمایاں جگہ میں مندرجہ ذیل واضح نوٹ شائع کیا :.ایک علمی اور مرکزی شہر کی حفاظت کا مطالبہ و گزشتہ رات مولوی رمضان علی صاحب ہمارے ادارہ تحریر میں ملاقات کے لئے آئے.آپ ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے قادیان شہر کی جماعت احمدیہ کی طرف سے اس ملک میں ڈیلی گیٹ مبلغ ہیں، اور آپ نے ہمیں یہ بتایا کہ مذکورہ شہر آخری فسادات کے سبب کس قدر مشکل اور خطر ناک حالت میں ہے.قادیان کے متعلق یہ ذکر کرتے ہوئے کہ یہ شہر یک گونہ یونیورسٹی والا شہر ہے.جہاں کئی ایک کالج اور ہائی اور پرائمری سکول ہیں.مولوی صاحب موصوف نے ہمیں بتایا کہ اس شہر کے ہیں ہزار باشندے سخت خطرہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں.یہ لوگ امن پسند اور نہتے ہیں اور انہیں مسلح جتھوں نے کامل طور پر گھیرا ہوا ہے اور یہ جتھے اس شہر کو جلا دینا چاہتے ہیں.اور ان خطرات کا علم انہیں ان تاروں سے ہوا ہے جو انہیں گزشتہ ایام میں ملے ہیں.مولوی صاحب چاہتے ہیں کہ ان بہت سے افراد کے نام پر جو اس شہر
جلد اوّل 206 تاریخ احمدیت بھارت کے دوست ہیں.جن میں سے کئی ایک ارجنٹائن قومیت کے ہیں یا جو ارجنٹائن تو نہیں لیکن ان کے بچے یہاں پیدا شدہ ہیں، ایک ہمدردانہ تحریک کی جائے اور ہندوستانی حکومت سے اس قدیم علمی شہر اور اس میں بسنے والے باشندوں کی حفاظت کی درخواست کی جائے مولوی صاحب نے ہمیں بتایا کہ وہ مندرجہ بالا حکومت کے لئے ارجنٹائن کی حکومت سے اخلاقی اور معنوی مدد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.“ (16) ارجنٹائن (جنوبی امریکہ) کے مشہور اخبار ” السلام نے اپنی 23 ستمبر 1947ء کی اشاعت میں قادیان کے عنوان سے ایک نوٹ شائع کیا جس میں لکھا کہ : لنڈن کے تاروں سے معلوم ہوا ہے کہ قادیان جو ہندوستان کا ایک مشہور دار العلوم اور جماعت احمدیہ کا مرکز ہے اسے....(مفسدہ پردازوں) کی ایک زبردست جمعیت نے پولیس اور ملٹری کے بل بوتے پر چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور اسے تباہ و برباد کر نا چاہتے ہیں.یہ بھی کوشش ہو رہی ہے کہ ارجنٹائن کی حکومت اس امر میں مداخلت کر کے ہندوستان کی حکومت سے قادیان کی حفاظت کا مطالبہ کرے.اور اسے اہل قادیان کے ساتھ شریف شہریوں کا سا سلوک کرنے کی تحریک کرے“.اخبار مذکور نے مزید لکھا ہے کہ قادیان کے متعلق جیسا کہ ہمیں علم ہے وہاں کئی ایک کالج، ہائی سکول اور ابتدائی مدارس ہیں اور جماعت احمدیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے قادیان تمام دنیا میں مشہور ہے.“ (17) برطانوی پریس میں ذکر برطانوی پریس میں بھی قادیان کے لرزہ خیز واقعات کی بازگشت سنائی دی گئی اور ملک کے چوٹی کے اخبارات مثلاً ” ساوتھ ویسٹرن سٹار South western star) ڈیلی پریزر( Daily Preser)' برسٹل ایوننگ پوسٹ (Bristol Evening post) ڈیلی گریف‘( Daily The Daily telegraph and morning post)(Graphic) ”دی ڈیلی ٹیلیگراف اینڈ مارنگ پوسٹ ڈیلی ایکسپرس (Daily express) وغیرہ نے قادیان سے متعلق مسٹر بشیر آرچرڈ کے بیانات نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کئے.
تاریخ احمدیت بھارت 207 جلد اول پاکستانی اخبارات پاکستان کے مسلم پریس کو ہمیشہ یہ امتیاز حاصل رہے گا کہ اس نے اس موقعہ پر دیگر سب ممالک سے بڑھ کر فرض شناسی ،مسلم نوازی اور بیدار مغزی کا ثبوت دیا.بالخصوص زمیندار، احسان ، نوائے وقت اور انقلاب کے کالم دنیا کو قادیان اور اہل قادیان کے حالات سے باخبر رکھنے کے لئے گویا وقف رہے.سول اینڈ ملٹری گزٹ، ڈان، ڈیلی گزٹ اور آبزرور میں بھی گاہے گاہے فسادات قادیان کی خبریں چھپتی رہیں.اخبار ”زمیندار“ لاہور اخبار زمیندار (لاہور) اپنے نامہ نگار خصوصی اور دوسرے ذرائع سے ملنے والی خبریں نہایت اہتمام سے اپنے قارئین تک پہنچا تارہا جو بطور نمونہ درج ذیل کی جاتی ہیں : 1 اخبار زمیندار کے 20 ستمبر 1947ء کے شمارہ میں قادیان کے نواحی دیہات پر پولیس کا حملہ، مقتدر مسلمانوں کی گرفتاریاں.خانہ تلاشیاں اور ظلم و تشد“ کے عنوان سے قادیان کے ایک پناہ گزین (عبدالرحمن خاں) کی طرف سے ایک مضمون شائع ہوا جس کا ایک حصہ یہ تھا:.پریتم سنگھ نے ایک پروگرام قادیان پرحملہ کرنے کے واسطے تیار کر کے ایک کنسٹیبل کو برائے تعمیل مختلف جتھوں کے واسطے بھیجا تھا.جب وہ کنسٹیبیل موضع سٹھیالی پہنچا تو وہاں فرنٹئیر فورسز کی پکٹ تھی.انہوں نے اسے روک لیا.اس کی رائفل بھی لے لی اور اس کو گر فتار کر لیا.اس کی تلاشی سے قادیان پر حملہ کے پروگرام کا کاغذ برآمد ہوا.قادیان میں اس وقت قریباً ایک لاکھ پناہ گزین موجود ہیں جو اس طرف کے علاقہ سری گوبند پور وغیرہ سے اور ضلع ہوشیار پور سے جمع ہوئے ہیں.خوراک وغیرہ کی از حد تکلیف ہے.....(مفسدہ پردازوں کے جتھے کھلم کھلا کیمپ میں چکر لگاتے رہتے ہیں اور پناہ گزینوں کا قیام بالکل غیر محفوظ ہو چکا ہے.اس واسطے گزارش ہے کہ اس کیمپ کے تمام پناہ گزینوں کو جلد سے جلد نکال لیا جائے ورنہ ممکن ہے کہ کسی وقت حملہ آور تمام کے تمام پناہ گزینوں کا کسی وقت خاتمہ کر دیں...الخ اخبار ”زمیندار“ نے اپنی 24 ستمبر 1947ء کی اشاعت میں سید غلام مصطفیٰ شاہ خالد گیلانی آف راولپنڈی کا جہاد کشمیر کی اہمیت کے عنوان پر ایک مضمون شائع کیا جس میں قادیان کی مثال پیش -2
جلداول کرتے ہوئے لکھا تھا کہ: 208 تاریخ احمدیت بھارت ر صبح و شام امن امن کا وظیفہ کرنے والے عاقبت نا اندیش لوگ مجھے بتائیں کہ جس قوم کی کم و بیش بیس ہزار بہو بیٹیاں اور مائیں بہنیں اغیار کے قبضہ میں ہوں اور اغیار بھی وہ جن کا تہذیب و شرافت کی تاریخ میں نام و نشان تک نہ ہو وہ قوم ہجرت کرنے میں حق بجانب ہے! ہرگز نہیں.45لاکھ مسلمان اگر مقابلہ کا ارادہ کر لیتے تو صورت حالات بالکل مختلف ہوتی.قادیان کی مثال ہمارے سامنے ہے.“ اخبار ”زمیندار“ نے اپنی 25 ستمبر 1947 ء کی اشاعت کے صفحہ اول پر حسب ذیل خبر دی: موجودہ فسادات کی ذمہ داری....(مفسدہ پردازوں) پر عائد ہوتی ہے -3 وو بیاس کا تمام مغربی علاقہ پاکستان میں شامل ہونا چاہیئے لندن 23 ستمبر.ڈاکٹر او.ایچ کے سپیٹ آف لندن سکول آف اکنامکس نے لندن ماسک میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب باؤنڈری کمیشن ایوارڈ یک طرفہ اور لغو تھا.ڈاکٹر سپیٹ حال ہی میں ہندوستان سے واپس آئے ہیں جہاں وہ حد بندی کمیشن میں قادیان کے نمائندہ کے طور پر پیش ہوئے تھے اور مسلم لیگ کونسل کے غیر سرکاری مشیر تھے.ڈاکٹر سپیٹ نے کہا کانگرس نے...(ایک گروہ ) کو اپنا آلہ کار بنایا اور انہیں لڑائی پر آمادہ کیا....( شر پسندوں ) اور....(مفسدہ پردازوں ) کی انتہائی چالبازیاں اور مسلمانوں کی انتہائی دیانتداری میرے لئے از حد تعجب کا باعث ہوئی.دارالعوام میں ہنڈرسن اور ہٹلر کے اعلانات نے بھی حالات پر بہت بُرا اثر ڈالا اور....(مفسدہ پردازوں) کو غیر ضروری طور پر دلیر بنادیا.پنجاب کی تقسیم ہر حالت میں....(غیر مسلموں) پر اثر انداز ہوتی ہے.ہر شخص کو ان کی اس حالت پر افسوس ہوتا ہے لیکن خود کرده را چاره نیست آپ نے ہندو سکھوں اور مسلمانوں کے کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا.اول الذکر کا کیس سرمایہ داری اور موخر الذکر کا کیس انسانیت پر مبنی تھا.ڈاکٹر صاحب نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایوارڈ میں مسلم اکثریت کے علاقوں کی تحصیلوں کو تقسیم کر کے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا.مزید اچھوتوں ،عیسائیوں اور اینگلو انڈینوں کو ان کی مرضی کے خلاف ہندوستان کے رحم وکرم پر ڈال دیا گیا.
تاریخ احمدیت بھارت 209 جلد اوّل آپ نے کہا کہ حد بندی کے مسئلہ کو دوبارہ اٹھایا جائے.میرے خیال میں بیاس سے اس طرف کا تمام علاقہ پاکستان میں شامل ہونا چاہیئے.گورداسپور مسلم اکثریت کا علاقہ ہے.سرسیرل نے....(مفسدہ پردازوں) کے جذبہ جنگ کی تسکین کے لئے اسے....(مفسدہ پردازوں اور شر پسندوں) کے حوالے کر دیا.لیکن....(مفسدہ پردازوں نے) پھر بھی فتنہ پردازی کے جو طے شدہ سکیم کے مطابق معلوم ہوتی ہے.مسٹر وکٹر نشد (ایڈیٹر ریجین) نے برطانیہ کو تمام فسادات کا ذمہ وار ٹھہرایا.مسٹر بیڈ فورڈ ریٹائرڈ چیف انجنئیر کینال پنجاب نے پر جوش تقریر میں کہا میں....(مفسدہ پردازوں ) کو اچھی طرح جانتا ہوں.ان کا واحد علاج رائفل ہے.اگر حکومت پاکستان نے مزید نرمی سے کام لیا تو یقین جانئے....(مفسدہ پردازوں) کا اگلا قدم مغربی پنجاب میں ہو گا.“ چوہدری مشتاق احمد باجوہ امام لندن ماسک نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا ”مسلمانوں کو منظم ہونا چاہئیے وگر نہ پین کی طرح ہندوستان میں بھی ان کا برا حال ہوگا.“ 4 اخبار ”زمیندار“ نے اپنے نامہ نگار خصوصی کی ایک اور رپورٹ مع اپنے تعارفی نوٹ کے حسب ذیل الفاظ میں شائع کی : اس وقت جبکہ مشرقی پنجاب کے تمام اضلاع قریباً مسلمانوں سے خالی ہو چکے ہیں قادیان میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ پناہ گزین جمع ہیں جن کو پاکستان لانے کی ضرورت ہے.قادیان اور اس کے نواحی دیہات کی مفصل رپورٹ جو ہمارے نامہ نگار خصوصی نے قادیان کے دورے کے بعد مرتب کی ہے درج ذیل ہے.قادیان کے ساتھ اس کے ملحقہ دیہات بھی جوانمردی کے ساتھ....(مفسدہ پردازوں) کے مسلح جتھوں کی روک تھام کر رہے ہیں.لیکن یہ بات پوری ذمہ داری اور یقین کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ مشرقی پنجاب کی حکومت مسلمانوں کو مشرقی پنجاب سے نکل جانے پر خود مجبور کر رہی ہے.قادیان اور اس کے دیہات اس لئے بیٹھے تھے کہ جب تک حکومت خود ہمیں نکل جانے کے لئے نہیں کہے گی ہم اپنے گاؤں خالی نہیں کریں گے.چنانچہ قادیان کے ذلیل خصلت اور فتنہ پرداز...تھانے دار نے پولیس اور...ملٹری کی مدد سے مسلمانوں کے گاؤں زبر دستی ان سے خالی کروائے اور ان دیہات کے معزز مسلمانوں کو بے حد بے عزت کیا.موضع ڈیریوالہ کا ذیلدار چوہدری سلطان ملک اس علاقے
جلد اوّل 210 تاریخ احمدیت بھارت میں بہت ہی عزت دار آدمی تھا....تھانیدار اسے قید کر کے قادیان لے آیا جہاں لا کر تھانے میں اس کی مونچھیں کھینچیں.پھر اسے سپاہیوں کی حراست میں ڈیری والہ واپس کیا.اس کے منہ پر کالک اور گندی کیچڑ ملی.اور سارے علاقہ میں اسے پھرایا.چوہڑے اس کے منہ پر جوتے مارتے اور تھوکتے تھے.اسی طرح کئی معزز مسلمانوں کو ذلیل وخوار کیا جاتا ہے.قادیان کے چند معزز شہری جن میں چوہدری فتح محمد سیال ایم.ایل.اے اور زین العابدین سید ولی اللہ شاہ ناظر امور عامه قادیان بھی شامل ہیں گرفتار کئے جاچکے ہیں اور گورداسپور جیل میں ان کے ساتھ بھی بہت برا سلوک کیا جا رہا ہے.اس سے قبل قادیان کا ایک معزز شہری چوہدری محمد شریف باجوہ بھی گورداسپور جیل میں ہے جس کے ساتھ نہایت بہیمانہ اور انسانیت سوز ظلم کیا جاتا ہے.کبھی اس کے بدن پر خنجر مارے جاتے ہیں کبھی اس کے منہ میں پیشاب ڈالا جاتا ہے اور کبھی یک لخت اسے ٹھنڈے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے اور...پولیس کے ظالم سپاہی اور افسر اس سے پوچھتے ہیں بتاؤ قادیان میں اسلحہ وغیرہ کہاں ہے“ جب جرمنی کے وحشی درندوں کے سے مظالم کے بعد چوہدری محمد شریف لاعلمی کا اظہار کرتا اور کہتا ہے کہ قادیان میں کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں.وہاں صرف چند لائیسنس والی بندوقیں ہیں جن کا حکومت کو علم ہے تو...سپاہی بے تحاشہ طیش میں آکر وحشیانہ انداز میں اسے زدوکوب کرنا شروع کر دیتے ہیں.چوہدری محمد شریف باجوہ کے خلاف الزام یہ ہے کہ وہ قادیان کا رہنے والا اور مسلمان ہے.....پولیس کے نازی ظلم وستم سے تنگ آکر اس مرد مجاہد نے کئی دفعہ مطالبہ کیا ہے کہ میں جانتا ہوں میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں.اس لئے تم مجھے اس جرم کی سزا میں ایک ہی دفعہ شوٹ کر دو اور میرا قصہ پاک کرو لیکن اس کے اس صبر و استقلال کو دیکھ دیکھ کر.....پولیس اور بھی وحشیانہ سزاؤں پر اتر آئی ہے.اگر گورداسپور جیل کے تمام واقعات کو منظر عام پر لایا جائے تو سنگ دل سے سنگ دل انسان بھی کانپ جائے.مراد پور کے مسلمان جو قادیان آرہے تھے ڈلہ کے.....(مفسدہ پردازوں) نے لوٹ لئے.جب تھانیدار کے پاس رپورٹ کی گئی تو اس نے ان بیچاروں کی اور بھی بے عزتی کی.مسلمانوں کا تمام سامان ڈلہ...میں مقفل کر دیا گیا.چند مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا.ایک زخمی عورت نے وہیں چھپ کر اپنی جان بچائی اور کھیتوں میں چھپ چھپا کر قادیان پہنچی.صاف شہادتوں کے باوجود قادیان کی پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا.
تاریخ احمدیت بھارت 211 جلد اول تلونڈی جھنگلاں کے مسلمان بھی جب قادیان آئے تو ان کا بھی سب سامان اور مویشی ان سے زبردستی چھین لئے گئے.18 ستمبر کو قادیان کی...(غیر مسلم ) ملٹری نے....(مفسدہ پردازوں ) کو اسلحہ دے کر موضع کھارا میں بھیجا اور مسلمانوں کو زبردستی وہاں سے نکلوا دیا اور کوئی چیز نہیں لانے دی.ان کا آٹا وغیرہ بھی راستے میں چھین لیا اور ان کے مکان تباہ و برباد کر دیئے.13 ستمبر کو چند....(غیر مسلم ) تحصیلدار کا ایک رقعہ لے کر قادیان کے تھانیدار کے پاس آئے.جس میں یہ لکھا تھا کہ انہیں موضع منگل میں بسایا جائے جو قادیان سے ایک میل کے فاصلے پر ہے.لیکن اس میں مسلمان آباد تھے.19 ستمبر کو....تھانیدار...پولیس کو لے کر منگل پہنچا اور مسلمانوں سے کہا کہ منگل کو فوراً خالی کر دو جو نہیں کرے گا اسے شوٹ کر دیا جائے گا.مجبوراً مسلمان اپنا سب سامان چھوڑ کر آگئے.اسی طرح کڑی افغاناں نزد بیاس کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا.اور ان بچاروں کو صرف پندرہ منٹ کا نوٹس دیا گیا کہ گاؤں کو خالی کر دو.جب قافلہ قادیان کی طرف روانہ ہوا تو پیچھے سے....(مفسدہ پردازوں) کے ایک زبر دست جتھے نے حملہ کر کے ان کا سامان لوٹ لیا اور کئی مسلمان شہید ہوئے.....پولیس اور....(غیر مسلم ) ملٹری نے قادیان کو زیر کرنے کے لئے اس کے تمام ملحقہ دیہات زبر دستی خالی کروائے اور اس طرح مشرقی پنجاب اور ہندوستان کی حکومتوں کے منہ پر اپنے ہاتھوں سے سیاہی ملی.جو یہ کہتی تھی کہ مشرقی پنجاب میں سے کسی کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا.لیکن جب ان حکومتوں کو توجہ دلائی گئی کہ دیکھو کیا ہورہا ہے تو وہ مندر کی مورتی کی طرح ٹس سے مس نہ ہوئیں.اس وقت قادیان میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ پناہ گزین موجود ہیں جو...(غیر مسلم ) ملٹری اور...پولیس کے رحم وکرم پر پڑا ہے.ہمارے نامہ نگار نے ان پناہ گزینوں سے مختلف قسم کے سوالات دریافت کئے اور خصوصیت کے ساتھ ایک بات کے متعلق تمام مسلمان حیران و ششدر ہیں.اور وہ یہ کہ جب مسٹر لیاقت علی خان اور پنڈت جواہر لال نہرو کے درمیان یہ بات طے پاچکی ہے کہ مغربی پنجاب کے غیر مسلموں کی حفاظت....غیر مسلم ) ملٹری کرے گی اور مشرقی پنجاب میں مسلمان پناہ گزینوں کی حفاظت مسلمان کرے گی، تو پھر قادیان
جلداول 212 تاریخ احمدیت بھارت جس میں اس وقت ڈیڑھ لاکھ مسلمان پڑے ہیں ان کے اوپر کیوں...غیر مسلم ) ملٹری چھوڑی گئی جو غریب مسلمانوں کو ڈراتی اور دھمکاتی ہے.قادیان کے پناہ گزین مسلمان پاکستان کے وزیر اعظم مسٹر لیاقت علی خان سے دریافت کرتے ہیں کہ پاکستان کی مسلم فوج کہاں ہے وہ کیوں قادیان میں نہیں پہنچتی ؟ کیا ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کی جانیں ان کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.ایک طرف....پولیس ہے دوسری طرف....(غیر مسلم ) ملٹری جو آنکھیں سرخ کئے تیوریاں چڑھائے عہد گزشتہ کے مصری فرعونوں کی طرح ظلم و استبداد اور غرور و نخوت کے مظاہرے کر رہی ہے.اگر پاکستان کی مسلمان ملٹری قادیان میں مقیم مسلمانوں کی حفاظت کے لئے نہیں بھیجی جاسکتی تو کم از کم انہیں جواب دے دیا جائے.قادیان بیرونی دنیا سے بالکل منقطع ہو چکا ہے.واہگہ تک تمام راستے پر خطر ہو چکے ہیں.قادیان کے مجاہدین موت سے نہیں ڈرتے بلکہ وہ اس موت کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں جو منہ کھولے ہوئے ان کی طرف بڑھ رہی ہے.وہ صرف پناہ گزینوں بوڑھوں عورتوں اور بچوں کو جلد سے جلد پاکستان بھیج دینا چاہتے ہیں تا کہ وہ آنے والی موت کے ساتھ بے فکر ہو کر لڑ سکیں.ہمارے نامہ نگار نے محکمہ حفاظت قادیان کے ماتحت کام کرنے والے نوجوانوں سے بھی ملاقاتیں کیں.یہ نوجوان ساری ساری رات جاگتے اور پہرہ دیتے ہیں.ان میں سے اکثر کو چومیں چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹیاں ادا کرنی پڑتی ہیں.ان کے بدن تھکے ہوئے ، آنکھیں سوجی ہوئی ، اعضاء مضمحل ہیں لیکن اس کے باوجود وہ خوفزدہ نہیں بلکہ مسرور و شادماں نظر آتے ہیں.جب ان سے پوچھا جاتا ہے ” کیا تم لاہور جانا چاہتے ہو تو وہ جواب دیتے ہیں ہم موت سے ڈر کر بھا گنا نہیں چاہتے بلکہ موت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں.“ پہرہ داروں میں سے ایک نوجوان نے جس کی عمر صرف پندرہ سال کی تھی ہمارے نامہ نگار کو کہا کہ ” پہلے ہمارے ارد گرد....(مفسدہ پردازوں) کا گھیرا تھا.مگر اب ہمیں چاروں طرف موت نظر آرہی ہے یہ موت کیا ہے.....(غیر مسلم ملٹری جو ہمیشہ اسی تاک میں رہتی ہے کہ کب موقعہ ملے تو وہ ہمیں ہلاک کر دے لیکن ہم موت سے نہیں ڈرتے.“ قادیان کے اردگرد کے دیہات کو مسلمانوں سے صاف کر کے اور وہاں...(غیرمسلموں) کو بسا کر اب....( غیر مسلم ) ملٹری قادیان تک محلوں پر حملے کروارہی ہے.پہلے قادیان کے ایک محلے اسلام آباد کو زبردستی خالی کروایا گیا جو آریہ ہائی سکول اور ریلوے لائن کے ساتھ ہے.پھر پولیس نے
تاریخ احمدیت بھارت 213 جلد اول دوسرے محلے قادر آباد کے مسلمانوں کو گرفتار کیا.ان کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دیئے.فائر کئے انہیں لاٹھیوں سے زدوکوب کیا اور....تھانیدار نے انہیں گالیاں دیں کہ بد معاشو یہاں سے نکل جاؤ تم کیوں نہیں نکلتے.پھر ملٹری نے بھی وہاں پہنچ کر پولیس کی حمایت کی.پنڈت جواہر لال نہرو اور اس کی نام نہاد حکومت کہاں ہے جو کہتی تھی کہ زبردستی کسی کو نہیں نکالا جائے گا.کیا اس نے قادیان کی طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں؟ پھر....مفسدہ پرداز ) محلہ دارالسعتہ کی طرف بڑھے اور اسے لوٹنا شروع کر دیا.اہل قادیان نے فوراً ملٹری کو توجہ دلائی کہ تم ہماری حفاظت کے لئے آئے ہو.دیکھو یہ کیا ہو رہا ہے؟ مگر ملٹری کے سپاہی اس وقت والی بال کھیل رہے تھے.انہوں نے کہا کہ چلے جاؤ ہم کچھ نہیں کر سکتے.پھر پانچ نہتے لڑکے دار السعتہ کی طرف بڑھے اور انہوں نے....(مفسدہ پردازوں) کو بھگا دیا.....مفسدہ پرداز ) ہزاروں کی تعداد میں قادیان کی خالص مسلم آبادی کی گلیوں میں تلواریں برچھیاں اور دیسی ساخت کی بندوقیں لے کر پھرتے اور جب ملٹری اور پولیس سے کہا جاتا.ان لوگوں کا یہاں کیا کام ہے تو جواب ملتا ہے ہم شریف آدمیوں کو چلنے پھرنے سے کیونکر روک سکتے ہیں اور ادھر اگر کسی مسلمان کے پاس کوئی سونا یا چاقو یا غلیل ہوتی ہے تو وہ بھی چھین لی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ تم ہر اس پھیلاتے ہو.گویا اس وقت ہر...غنڈہ اور لٹیرا ایک شریف آدمی ہے اور ہر مسلمان شریف آدمی غنڈہ ہے....(مفسدہ پرداز) مسلم پناہ گیروں کے مال اور مویشی زبردستی اٹھا لیتے ہیں اور مسلمانوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی.ملٹری کے...(غیر مسلم ) کیپٹن نے...تھانیدار کے ساتھ مل کر یہ سازش کی کہ کسی طرح مسلم پناہ گیروں کو قادیان سے باہر لے جا کر ہلاک کیا جائے.چنانچہ انہوں نے سکیم بنائی کہ ان کو قافلہ کی صورت میں بٹالہ کی طرف ہانکا جائے اور راستہ میں تہ تیغ کیا جائے.کیپٹن نے اعلان کروایا کہ قادیان سے قافلہ جائے گا اور تمام پناہ گیروں کو قادیان سے نکال دیا جائے گا.جو رہ جائے گا ہم اس کی حفاظت کے ضامن نہیں.ادھر...تھانیدار جیپ کار پر سوار ہو کر تمام...دیہات میں گھوم آیا اور....(مفسدہ پردازوں) کو مطلع کر دیا کہ قافلہ آنے والا ہے.تیار ہو جاؤ کوئی بیچ کر نہ جانے پائے.اہل قادیان نے اس قافلہ کی مخالفت کی اور کہا کہ ہم...(غیر مسلم ) ملٹری کی حفاظت میں قافلہ روانہ نہیں ہونے دیں
جلد اوّل 214 تاریخ احمدیت بھارت گے.20 ستمبر کو...(غیر مسلم ) کیپٹن نے ڈھنڈورا پٹوایا کہ کل قافلہ جائے گا اور جو شخص اس کے ساتھ نہ جائے گا اسے گرفتار کر کے شوٹ کر دیا جائے گا.لیکن مسلمانوں میں سے کوئی بھی تیار نہ ہوا.ادھر....( مفسدہ پرداز ) اردگرد کے دیہات میں جمع ہوتے رہے کہ قافلہ آنے والا ہے اس کو لوٹیں گے انہوں نے...تھانیدار کو پیغام دیا کہ قافلہ جلد بھیجو ہم تو گھروں سے نکل کر اب کمادوں میں بیٹھے ہیں.20 ستمبر کو قادیان سے چار ٹرک جن میں پناہ گزین بیٹھے تھے.جب قادیان سے نکل کر نہر پر آئے تو پنجگر ائیاں کے موڑ پر....(مفسدہ پردازوں) کے ایک جتھے نے ان ٹرکوں پر حملہ کر دیا.ملٹری نے فائرنگ کی تو....(مفسدہ پرداز ) بھاگ گئے اور قادیان میں...(غیر مسلم ) ملٹری نے یہ بات مشہور کر دی کہ مسلمان ملٹری نے جو ٹرکوں کے ساتھ تھی یونہی جان بوجھ کر شرارت کی ہے اور سات....(غیر مسلم ) مار دیئے ہیں.....(مفسدہ پرداز ) کہتے ہیں کہ ہم قادیان کے قبرستان میں ہل چلائیں گے اور یہاں کی مسجد میں اب گوردوارے بنیں گے....(غیر مسلم ) ملٹری ان کے ساتھ پورا تعاون کر رہی ہے.21 ستمبر کو انہوں نے قادیان میں کرفیو نافذ کر دیا ہے جس کا صاف طور پر مطلب یہ ہے کہ اب....مفسده پرداز) رات کو پولیس اور ملٹری کی مدد سے لوٹ مار مچائیں گے.قادیان میں ہیں مزید سپاہی بھرتی کئے گئے ہیں جو سب کے سب....(غیر مسلم ) ہیں.مسلمانوں نے کہا کہ مسلمان سپاہی بھی رکھو.چنانچہ بعض احراری بھی گئے.انہوں نے کہا ہم نے پاکستان کی مخالفت کی ہے.ہم مسلم لیگی نہیں ہیں.بعض نیشلسٹ مسلمان بھی تھے.مگر تھانیدار نے کہا ہم کسی مسلے“ کو بھرتی نہیں کر سکتے یہاں سے دفع ہو جاؤ.اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ قادیان میں جلد سے جلد مسلمان ملٹری بھیجی جائے تاکہ ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کی حفاظت ہو سکے.پناہ گزین عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو وہاں سے بحفاظت پاکستان میں لایا جائے.ہم پاکستان کے ڈیفنس منسٹر لیاقت علی خان سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد سے جلد قادیان میں مسلم ملٹری کو بھیجے.مغربی پنجاب کے ہر مسلم کیمپ میں گورکھا...اور....(غیر مسلم) ملٹری ہے وہاں کیوں پاکستان کی فوج نہیں بھیجی جاتی ؟ قادیان میں راشن کی قلت ہے.ہم مغربی پنجاب کی حکومت اور وزیر اعظم پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ قادیان میں ٹرینیں بھیجی جائیں جن کے ساتھ اچھی خاصی مسلم ملٹری ہو، ہر گاڑی کے ساتھ دو انجن ہوں.ایک آگے ایک پیچھے.ایک کرین بھی ہو اور
تاریخ احمدیت بھارت 215 جلد اول پڑی جوڑنے کا سامان بھی ہو کیونکہ....(مفسدہ پردازوں) نے کہا ہے کہ ہم قادیان سے چلنے والی گاڑیوں کو بھی روکیں گے.گاڑیوں کے ڈرائیور بھی مسلمان ہوں کیونکہ...(غیر مسلم ) ڈرائیور کوئلہ یا پانی ڈالنے کے بہانے انجن کو گاڑی سے علیحدہ لے جاتے ہیں اور پھر....(مفسدہ پرداز ) جتھے گاڑیوں پر حملے شروع کر دیتے ہیں.-5 اخبار ”زمیندار“ نے چند دن بعد اپنے اداریہ میں جماعت احمدیہ کی ملی خدمات کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا:.در ضلع گورداسپور میں یوں تو متعدد مقامات پر مسلمان محصور ہیں مگر تین کیمپ بہت بڑے ہیں (بٹالہ ) کے پناہ گزینوں کی حالت بہت ہی خراب ہے.نہ سر چھپانے کے لئے کوئی پناہ گاہ ہے نہ کھانے کے لئے کوئی چیز ہے....(غیر مسلم ) فوجیوں نے قیامت بر پا کر رکھی ہے.زیورات اور سامان پر ڈاکے ڈالے ہی جاتے تھے اب تو خواتین کی عصمت و عزت پر بھی ہاتھ ڈالا جاتا ہے.دوسرا کیمپ سری گوبند پورہ میں ہے.وہاں کی صورت و حال بھی بٹالہ سے کم خوفناک نہیں.تیسرا کیمپ قادیان میں ہے،.اس میں شک نہیں.مرزائیوں نے مسلمانوں کی خدمت قابل شکر یہ طریقے پر کی.لیکن اب حالات بدل رہے ہیں.جوانوں کے سوا تمام مرزائیوں کو قادیان سے نکالا جا رہا ہے.لہذاوہ فوجی لاریوں میں گنجائش رہنے ہی نہیں دیتے.حکومت کا فرض ہے کہ اول تینوں کیمپ میں مسلم فوج بھجوائے.دوم راشن کا خاطر خواہ انتظام کرے.سوم مہاجرین کو لاریوں اور محفوظ قافلوں کے ذریعے سے پاکستان پہنچانے کی کوشش کرے.ورنہ دولاکھ مسلمان عزت و دولت کے ساتھ ہی زندگی بھی گنوا بیٹھیں گے.“ 6 اخبار ”زمیندار“ نے ” قادیان کے درد ناک کوائف“ کے عنوان سے اپنے نامہ نگار خصوصی کے قلم سے نمبر کے آخری ایام کی ایک اور مفصل رپورٹ شائع کی جو درج ذیل کی جاتی ہے:.قادیان میں حالات اب نازک ترین صورت اختیار کر چکے ہیں.زمیندار کے نامہ نگار خصوصی نے جور پورٹ بھیجی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی پنجاب کی حکومت کسی گہری سازش کے ماتحت قادیان کو خالی کروانے پر تلی ہوئی ہے کیونکہ قادیان کی...(غیر مسلم ) ملٹری اور....پولیس اب شدید ظلم وستم پر اتر آئی ہے اور پولیس اور ملٹری کے سپاہی ارد گرد کے دیہات میں جا کر....(مفسدہ پردازوں) سے کہتے ہیں
جلد اوّل 216 تاریخ احمدیت بھارت کہ تم قادیان پر حملہ کرو.اگر تم قادیان پر حملہ نہیں کرو گے تو ہم تم پر ہی گولی چلا دیں گے.پولیس کی امداد سے ڈا کہ 27 ستمبر کو....(مفسدہ پردازوں) نے پولیس کی مدد سے مظلوم پناہ گزینوں کو لوٹنا شروع کر دیا.پولیس نے کوئی مداخلت نہیں کی بلکہ پناہ گزینوں کے پانچ ہزار مویشی لوٹ لئے گئے اور جب تھا نہ میں کہا گیا کہ یہ اندھیر نگری کیا ہے تو جواب دیا گیا کہ چونکہ قادیان میں چارا نہیں اس لئے ان مویشیوں کے مر جانے کا خطرہ تھا لہذا یہ آزاد کر دیئے گئے ہیں.مشرقی پنجاب کی حکومت کے کارنامے قادیان میں شدید بارش ہوئی ہے ایسی بارش کہ جس کی مثال نہیں ملتی.غریب پناہ گزینوں نے تعلیم الاسلام کالج ، جامعہ احمدیہ، ہائی اسکول ، بورڈنگ ہاؤس ،نصرت گرلز ہائی اسکول اور محلہ جات کے مکانوں میں پناہ لی.بعض باہر ہی بھیگ گئے اور پھر اس پر پولیس کا جابرانہ رویہ کسی شخص کو پکڑ لیا اور اس کی جیب خالی کروالی کسی کے گھر میں گھس گئے اور لوٹ مار شروع کر دی.کسی کے مویشی ہانک لئے کسی کا زیور اور روپیہ چھین لیا.گویا یوں معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی پنجاب میں کوئی حکومت ہی نہیں اور پولیس اور...(غیر مسلم ) ملٹری کو ہر قسم کا جبر و تشد دکرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے.تلاشیاں کی جارہی ہیں باوجود اس امر کے کہ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں میں ایک دوسرے کے کنوائے کی تلاشی نہ لینے کا معاہدہ ہو چکا ہے اور پاکستان کی حکومت اس معاہدے پر پورا پورا عمل کر رہی ہے مگر قادیان سے جو قافلہ روانہ ہوتا ہے اس کی وہیں زبر دست تلاشی لی جاتی ہے.اس تلاشی میں تو بعض لوگوں سے گھڑیاں قلمیں اور بعض اس قسم کی دوسری چیزیں بھی چھین لیں اور ادھر مغربی پنجاب میں غیر مسلموں کے پوڈر اور لپ اسٹک کے بل بن رہے ہیں.بھوکوں مارنے کی سازش یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مغربی پنجاب میں جہاں جہاں ہندو اور سکھ جمع ہیں، پاکستان کی حکومت ان کی خوراک کا معقول بندوبست کرتی ہے.حتی کہ ان کے لئے پھل ، ترکاریاں اور دودھ بھی سرکاری طور پر مہیا کیا جاتا ہے.مگر قادیان میں حالت یہ ہے کہ پولیس نے 29 ستمبر کو منادی کرادی کہ قادیان میں جس
تاریخ احمدیت بھارت 217 جلد اول شخص کے گھر میں دو بوریوں سے زیادہ آٹا یا گندم ہوگی اسے فوراً گرفتار کر لیا جائے گا.گویا اس کا صاف طور پر مطلب یہ ہے کہ قادیان کے لوگوں کا راشن اپنے قابو میں کر کے انہیں بھوکوں مارا جائے.اس وقت ہزاروں پناہ گزین احمدیوں کے گھروں سے روٹیاں کھا رہے ہیں.قادیان کے مسلمانوں نے حکومت سے راشن کے لئے درخواست نہیں دی اور حکومت (جس کا نام ایک تھانیدار اور چند...(غیر مسلم ) سپاہی ہے ) قادیان سے غلہ غصب کر کے وہاں کے باشندوں اور پناہ گزینوں کو بھوکوں مارنا چاہتی ہے.کیا دنیا میں کسی قوم پر اس سے بڑھ کر بھی ظلم وستم کیا جاسکتا ہے.مغربی پنجاب کی حکومت کیوں قادیان کی طرف توجہ نہیں دیتی.کم از کم وہاں مسلمان ملٹری ہی بھجوادی جائے اور مشرقی پنجاب کی حکومت سے نوٹس لیا جائے کہ وہ کیوں قادیان کے باشندوں سے گندم زبردستی چھین رہی ہے.لیڈر توجہ کریں پاکستان کے وزیر اعظم مسٹر لیاقت علی خاں اور میاں افتخار الدین صاحب ذرا اس مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں لیں کیونکہ قادیان میں اب حالات انتہائی نازک صورت اختیار کر چکے ہیں.اگر تم قصور نہ کرو گے رپورٹ میں ہمارے نامہ نگار نے ایک دلچسپ لطیفہ بھی سپر قلم کیا ہے کہ سکھا شاہی عہد کی عجیب و غریب حکایتیں سنا کرتے تھے مگر قادیان میں عملی طور پر دیکھ لی ہیں مثلاً ایک آدمی چلا جا رہا تھا کہ...(غیر مسلم ) سپاہی نے اسے فوراً گرفتار کر لیا.جب اس آدمی نے پوچھا.میرا قصور کیا ہے تو یہ سن کر...غیر مسلم ) سپاہی نے جواب دیا کہ اگر تم قصور نہ کرو گے تو کیا ہم تمہیں پکڑیں گے ہی نہیں؟ عام گرفتاریاں پولیس جس شخص کو چاہتی ہے گرفتار کر لیتی ہے.چنانچہ اس وقت تک قادیان کے پچاس آدمیوں کے وارنٹ نکل چکے ہیں اور اگر دریافت کیا جائے تو کوئی جواب نہیں ملتا اور ادھر ادھر جھوٹے الزام لگا کر ٹال دیا جاتا ہے.ہر طرف اندھیرا جو گندر نگر کی بجلی فیل ہو جانے سے قادیان میں تین دن سے اندھیرا رہا.وہاں تیل بھی نہیں ہے.بعض ضروریات زندگی تو پہلے ہی ختم ہو چکی ہیں.آٹا اور گندم رہ گئی تھی اس پر پولیس کا جبر و تشدد
جلد اوّل 218 تاریخ احمدیت بھارت نازل ہو چکا ہے.آٹے کی چکیاں نہ چلنے کی وجہ سے شدید مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.ظلم و ستم کا دور قادیان کے اردگرد چاروں طرف سکھ ہی سکھ آباد ہے.....پولیس اور...(غیر مسلم ) ملٹری کے ظلم و ستم انتہا کو پہنچ چکے ہیں.وہاں جو ٹرک جاتے ہیں.ملٹری کپتان ان کے چلنے میں دیر کراتا ہے تا کہ اندھیرا ہو جائے اور....(مفسده پردازوں) کے جتھوں کو ان پر حملہ آور ہونے کا موقعہ مل سکے.ملٹری کے سپاہی شرابیں پی کر قادیان میں پھرتے ہیں اور پناہ گزینوں کی لڑکیاں اٹھا کر لے جاتے ہیں جن میں سے بعض کو واپس لایا گیا ہے.خاکروبوں کو دھمکی 29 ستمبر کی رات کو پولیس نے خاکروبوں کو دھمکی دی کہ اگر تم نے مسلمانوں کے مکانوں کی صفائی کا کام نہ چھوڑا تو ہم تمہارے ساتھ بہت بُرا سلوک کریں گے.نامہ نگار نے اطلاع دی ہے کہ قادیان چاروں طرف سے گھیرے میں آیا ہوا ہے اور اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی آدمی کا دل گھبرانے لگ جاتا ہے اور اس پر موت کا ہیبت ناک احساس طاری ہو جاتا ہے.اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ قادیان کا مسئلہ مغربی پنجاب کی حکومت براہ راست اپنے ہاتھ میں لے.عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا اخراج بہت ضروری ہے.پہرہ دیا جا رہا ہے نوجوان با قاعدہ پہرہ دے رہے ہیں.مگر ہم پاکستان کے وزیر دفاع سے پر زور درخواست کرتے ہیں کہ اب بالکل دیر نہ کریں اور قادیان میں تھوڑی بہت مسلمان ملٹری ضرور بھجوادیں.مغربی پنجاب میں تو سکھوں کے گوردواروں اور ہندوؤں کے مندروں اور ان کے کالجوں کی حفاظت کے لئے بھی گور کھے سپاہی مقرر ہیں.کیا قادیان کے ایک لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کی جانوں کی حفاظت کے لئے چند مسلمان فوجی بھی نہیں بھیجے جا سکتے.“ 66 7 - اخبار ”زمیندار ( 11 / اکتوبر 1947ء) میں یہ خبر شائع ہوئی:.-7 قادیان کے تمام حصے صحرا کا منظر پیش کر رہے ہیں ہندوستانی فوج کے چار بڑے افسروں کا دورہ کے بعد بیان لاہور 9 اکتوبر : کل صبح ہندوستانی فوج کے ایک بڑے افسر نے مع تین بریگیڈیرز کے قادیان کا
تاریخ احمدیت بھارت 219 جلد اوّل دورہ کیا.اس پارٹی کا متفقہ بیان ہے کہ قادیان کے تمام حصے صحرا کا منظر پیش کر رہے ہیں.ہر جگہ ہو کا عالم ہے.البتہ تین علاقے ایسے ہیں جہاں ایسے مسلمان دکھائی دیئے جو کفار کے مقابلہ کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کا عزم صمیم کر چکے ہیں.ان لوگوں کے چہروں سے بشاشت ٹپکتی ہے.یہ بھی خبر ملی ہے کہ پولیس نے مسلمان مجروحین اور بیماروں کو نور ہسپتال سے نکال دیا ہے.یہ ہسپتال ایک غیر مسلم ڈاکٹر کے حوالے کر دیا گیا ہے اور علاقوں کی مسلم خواتین کے لئے نہ تو خوراک کا کوئی خاص انتظام ہے اور نہ انہیں طبی امداد دی جاتی ہے.جو کثیر التعداد مسلمان باہر سے پناہ لینے کے لئے قادیان میں جمع ہوئے تھے انہیں نکال دیا گیا ہے اور پیدل قافلوں کی صورت میں انہیں پاکستان چلے جانے کا حکم دیا گیا ہے.ان پناہ گزینوں کی حالت بہت ابتر ہے.مقامی ملٹری نے انہیں خوراک دینے سے انکار کر دیا ہے اور احمد یہ انجمن سے کہا ہے کہ وہ ان مصیبت زدوں کی خوراک کا انتظام کرے.چنانچہ انجمن اپنا راشن کم کر کے ان پناہ گزینوں کو خوراک دے رہی ہے.ابلی ہوئی گندم دی جارہی ہے.(او.پی) (18) اخبار احسان لاہور اخبار احسان لاہور نے 5 ستمبر 1947ء کے شمارہ میں لکھا:.-1.قادیان میں اس وقت ہمیں ہزار کے قریب پناہ گزین جمع ہیں....(مفسدہ پردازوں) نے آٹھ آٹھ نو نومیل تک مسلم دیہات کو تباہ کر دیا ہے اور پھر قادیان کو گھیرے میں لے رکھا ہے.راشن کا بھی شدید خطرہ ہے.مغربی پنجاب کی حکومت وہاں فورار یلیف کیمپ قائم کرے اور جلد از جلد وہاں پاکستان کی فوج مقرر کی جائے تا پناہ گزینوں کو جانی اطمینان ہو جائے.“ 2.اسی اخبار نے 24 ستمبر 1947 ء کو مندرجہ ذیل دو خبریں شائع کیں : الف:.لاہور 22 ستمبر 19 ستمبر کو مسلح...مفسده پردازوں) نے قادیان کے ایک شمال مشرقی محلے پر ہلہ بول دیا.لیکن کارگر نہ ہوا.اس کے بعد پولیس نے اہل محلہ کی تلاشیاں شروع کر دیں.پولیس جانتی ہے کہ حملے ہورہے ہیں پھر بھی وہ اسلحہ کے لئے تلاشیاں لے رہی ہے اور اس کی یہ حرکت
جلد اوّل 220 تاریخ احمدیت بھارت معنی خیز ہے.تقاضائے وقت یہ تھا کہ پولیس مسلمانوں کو معمولی سے اسلحہ سے محروم کرنے کی بجائے مسلح جتھوں کے قلع قمع کی طرف توجہ دیتی جو فتنہ و فساد اور قتل و غارت پر تلے بیٹھے ہیں....(مفسدہ پردازوں ) نے موضع منگل ( قادیان سے آدھ میل دور) پر قبضہ کر لیا ہے.پولیس نے اس وقت تک حملہ آور....( مفسدہ پردازوں) پر گولی نہیں چلائی اور اگر اس کی یہی رفتار رہی تو فساد کے بڑھ جانے میں کوئی کسر نہ رہے گی.کل قادیان سے ایک قافلہ چلا تھا.لیکن....(مفسدہ پردازوں ) نے قادیان اور بٹالہ کے درمیان اس پر ہلہ بول دیا.لیکن قافلہ کے فوجی محافظ ٹس سے مس نہ ہوئے.“.لاہور 22 ستمبر سیکرٹری انجمن احمدیہ نے اعلان کیا ہے کہ 21 ستمبر سے قادیان میں شام کے 6 بجے سے صبح کے 5 بجے تک کر فیولگا دیا گیا ہے.اگر یہ اقدام حقیقی طور پر قیام امن کے لئے ہو تو مسلمان اس کے لئے ممنون ہوں گے.لیکن اگر اس اقدام کا مطلب صرف یہ ہو کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف فتنہ و فساد برپا کرنے والی طاقتوں کو بھڑکا یا جائے اور مسلمانوں کے پاس دفاع کا جو معمولی سا سامان رہ گیا ہو اس سے بھی انہیں مرحوم کر دیا جائے تو یہ بڑا افسوس ناک ہوگا.غیر سرکاری اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ پولیس کی طرف سے مسلمانوں کی تلاشیاں لی جا رہی ہیں اور مسلمانوں کو لائسنس والے اسلحہ سے بھی محروم کیا جارہا ہے.امیر جماعت احمدیہ کی اقامت گاہ کی بھی تلاشی لی گئی ہے اور پولیس اس اسلحہ آتشیں اور کارتوسوں کو بھی لے گئی ہے جن کے لئے باقاعدہ طور پر لائسنس حاصل کئے گئے تھے.اس امر کا شدید خطرہ ہے کہ اب غیر متوقع واقعات پیش آئیں گے اور حکام صرف یہ کہ دیں گے کہ جھتے ہمارے کنٹرول سے باہر ہیں.“ -3 اسی اخبار (احسان) نے اگلے دن (25 ستمبر کو یہ خبر شائع کی:.لاہور 23 ستمبر : کل احمدیوں کے وفد نے جالندھر میں ڈاکٹر گوپی چند بھارگو اور مسٹر سورن سنگھ وزیر داخلہ مشرقی پنجاب سے ملاقات کی.دونوں وزیروں نے انہیں اطمینان دلایا کہ حکومت مشرقی پنجاب مسلمانوں کو نکالنا نہیں چاہتی.وفد کے استفسار کرنے پر وزیروں نے کہا، کہ قادیان میں کرفیو آرڈر اس لئے لگایا گیا ہے کہ قادیانیوں نے موضع کھارہ ( متصل قادیان ) میں چار....(غیر مسلم ) کو گولیوں سے مجروح کیا.26 ستمبر کو کابینہ مشرقی پنجاب کے اجلاس میں قادیان کی حالت پر غور ہوگا.وفد نے کہا کہ موضع
تاریخ احمدیت بھارت 221 جلد اول کھارہ میں کسی احمدی نے کسی...(غیر مسلم ) پر گولی نہیں چلائی بلکہ واقعہ یہ ہے کہ موضع کھارا پر مسلح....(مفسدہ پردازوں) نے حملہ کیا تھا.اور وہاں گولیوں کا تبادلہ ہوا تھا جس کے نتیجہ پر چند....(مفسده پرداز) ہلاک و مجروح ہوئے.کیا ایک قریبی گاؤں کے واقعات کی وجہ سے قادیان میں کرفیو آرڈر لگانا درست ہے.....(مفسدہ پردازوں) اور مسلمانوں میں گولیوں کے مبادلے کی وجہ یہ ہے کہ....(مفسدہ پردازوں) نے پیدل جانے والے قافلہ پر حملہ کر دیا تھا.....(مفسدہ پردازوں) -4 پر گولی محافظ فوج کی طرف سے چلائی گئی تھی.فوج کے قصور پر قادیان کو سزادینا درست نہیں.“ ”احسان کے اسی پر چہ میں قادیان کے باشندوں پر...(غیر مسلم ) فوج اور پولیس کے بے پناہ مظالم ان لوگوں نے آخری وقت تک مقابلہ کی ٹھان لی“ کے زیر عنوان حسب ذیل مضمون چھپا :.آخر قادیان کے متعلق بھی.....(مفسدہ پردازوں ) اور....(شر پسندوں) کی سازش بروئے کار آگئیں.21 ستمبر سے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے.تازہ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ...پولیس اور...( غیر مسلم ) ملٹری کی مدد سے قادیان میں تباہی مچانا چاہتے ہیں.اس وقت قادیان میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ پناہ گزین جمع ہیں....(غیر مسلم ) ملٹری اور....پولیس کے ظلم وستم اور آئین سوز حرکات کے باوجود قادیان کے نوجوان ہراساں نہیں ہوئے.وہ خندہ پیشانی کے ساتھ موت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں.حکومت کو چاہئیے کہ وہاں سے عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کو جلد از جلد پاکستان میں لے آئے.نامہ نگار کی تازہ رپورٹ درج ذیل ہے :.13 ستمبر کو چوہدری سلطان ملک ذیلدار ڈیری والہ کو جو علاقہ کے معززین میں سے ہیں قادیان کے....(غیر مسلم ) تھانیدار نے گرفتار کر لیا.انہیں گالیاں دیں.مونچھیں کھینچیں اور پھر منہ پر سیاہی اور کیچڑ لگا کر تمام علاقہ میں گشت کروایا اور چوہڑوں سے جوتے مروائے گئے.مراد پور کے مسلمان قادیان آرہے تھے کہ ڈلہ کے مقام پر....(مفسدہ پردازوں) نے ان کا سب سامان لوٹ لیا.وہ سامان....(غیر مسلم عبادت گاہ) میں منتقل کر دیا گیا.جب قادیان کے تھانیدار کو اطلاع دی گئی تو اس نے الٹی مسلمانوں کو گالیاں دیں اور شہادتوں کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا.14 ستمبر کو تلونڈی کے مسلمانوں کو پولیس نے کماد میں بیٹھ کر شوٹ کیا.15 اور 16 ستمبر کو قادیان میں....(مفسده پردازوں) کے جتنے خالص مسلم آبادی میں پھرتے رہے.اور انہوں نے
جلد اوّل 222 تاریخ احمدیت بھارت بازار میں لائن بنا کر جلوس بھی نکالا.جب جلوس نکالا گیا تو اس وقت....(مفسدہ پرداز ) برچھیوں ، تلواروں اور دیسی ساخت کی بندوقوں سے مسلح تھے.اور ملٹری نے انہیں منتشر کرنے کا کوئی اقدام نہیں اٹھایا.جب پولیس کو کہا گیا کہ مسلم آبادی کی گلیوں میں....(مفسدہ پردازوں ) کالیوں مسلح ہو کر پھرنے کا مطلب کیا ہے تو تھانیدار نے جواب دیا کہ ہم شریف آدمیوں کو چلنے پھرنے سے نہیں روک سکتے.ایک ہوائی جہاز قادیان پر دودن پرواز کرنے آیا.ملٹری نے اس پر فائرنگ کی مگر ہوائی جہاز بچ کر نکل گیا.....پولیس نے چوہدری فتح محمد سیال ایم.ایل.اے اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ ناظر امور عامہ قادیان کی گرفتاری کے علاوہ ان کے مکانوں کی تلاشی لی اور لائسنس والا اسلحہ بھی قابو کر لیا.پھر ملٹری نے تعلیم الاسلام کالج کا محاصرہ کر لیا اور کہا کہ ہم تلاشی لیں گے مگر محکمہ حفاظت قادیان کے پہرہ داروں نے تلاشی دینے سے انکار کر دیا.ملٹری کے...(غیر مسلم ) کیپٹن نے نہایت مغرورانہ انداز میں کہا کہ ہم شوٹ کر دیں گے.پہرہ داروں نے جواب دیا کہ ہم گولیوں سے ڈرنے والے نہیں کافی ردو قدح کے بعد ملٹری واپس چلی گئی.18 ستمبر کو نگل خورد کے چند آدمی مویشی چرا رہے تھے کہ....(مفسدہ پردازوں) نے حملہ کر دیا.اور مویشی بھگا کر لے گئے.پولیس اور ملٹری کو رپورٹ کی گئی مگر وہ سپاہی ہنس کر چپ ہو گئے.قادیان میں جو پناہ گزین جمع تھے ان کو قافلہ کی صورت میں روانہ کرنے کا خیال تھا.18 ستمبر کو....(مفسدہ پردازوں) کا ایک وفد تھانیدار سے ملا اور اس نے کہا کہ ہم مسلمانوں کو ایک پائی تک ساتھ نہیں لے جانے دیں گے.18 ستمبر کو ملٹری کیپٹین نے اعلان کیا جو شخص قافلے کے ساتھ نہیں جائیں گے ان کی حفاظت کے ہم ذمہ دار نہیں.تھانیدار نے جیپ کار میں سوار ہو کر....(مفسدہ پردازوں) کے گاؤں کا دورہ کیا.اور انہیں بتایا کہ قافلہ آنے والا ہے تیار ہو جاؤ ایک بھی شخص بیچ کر نہ جائے....(مفسدہ پرداز ) گھروں سے نکل کر کمادوں میں بیٹھ گئے.18 ستمبر کوملٹری نے....(مفسدہ پردازوں) کو اسلحہ دے کر کھارا کے مسلمانوں پر حملہ کرایا اور جب مسلمان قادیان کی طرف چلے تو کوئی چیز ساتھ نہیں لینے دی حتیٰ کہ آٹا وغیرہ بھی چھین لیا.
تاریخ احمدیت بھارت 223 جلد اول ان کے مکانوں کو تباہ کیا.چھت کی کڑیاں شہتیر اور دروازے اکھاڑ کر لے گئے.اسلام آباد جو قادیان کا ایک محلہ ہے پہلے ہی خالی ہو چکا تھا اور وہاں سکھ آباد ہو گئے تھے.19 ستمبر کو تکیہ کمال الدین پر قبضہ کیا گیا اور اس دن محلہ دار الساعت ( یعنی دار السعته - ناقل) پر....(مفسدہ پردازوں) نے حملہ کر دیا.اہل قادیان نے ملٹری کے سپاہیوں کو اطلاع دی جو والی بال کھیل رہے تھے مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے.پھر چند نہتے نوجوان آگے بڑھے اور....(مفسدہ پردازوں) کو بھگا دیا.14 ستمبر کو تحصیلدار نے چند سکھوں کو منگل نزد قادیان میں بسانے کے لئے بھیجا.حالانکہ منگل میں مسلمان آباد تھے.19 ستمبر کو تھانیدار نے پولیس کی مدد سے منگل کے مسلمانوں کو زبردستی وہاں سے نکال دیا اور ان کا سامان لوٹ لیا.20 ستمبر کو محلہ قادر آباد کے مسلمانوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا.ان کی مشکیں باندھیں فائر کئے.لاٹھیوں سے زدوکوب کیا اور تھانیدار....نے مسلمانوں کو گالیاں دیں کہ ”بد معاشو! یہاں سے نکل جاؤ“ 20 ستمبر کو جو کنوائے قادیان سے بٹالہ کی طرف جارہی تھی.پنجگرائیاں میں نہر کے پل پر....(مفسدہ پردازوں) نے اس پر حملہ کر دیا.ملٹری نے فائرنگ کی.حملہ آور بھاگ گئے.قادیان کی....( غیر مسلم ) ملٹری نے یہ غلط پراپیگنڈہ کر دیا کہ مسلم ملٹری نے جان بوجھ کر شرارت کی اور جاتے جاتے سات....(غیر مسلم ) مار دیئے ہیں.20-19 ستمبر کی درمیانی رات کو....(غیر مسلم ) کیپٹن نے قادیان میں ڈھنڈورا پٹوایا کہ کل یہاں سے پیدل قافلہ روانہ ہوگا اور ہم تمام پناہ گزینوں کو قادیان کی حد سے پار کر دیں گے.جو قافلہ کے ساتھ نہیں جائے گا اسے شوٹ کر دیا جائے گا.مگر 20 ستمبر کو قافلہ روانہ نہ ہوا.کیونکہ مسلمان....(غیر مسلم ) ملٹری کے ساتھ روانہ ہونے پر تیار نہ تھے اور پھر اس قافلے کولوٹنے اور تباہ کرنے کے لئے منظم سازش کے ماتحت....(مفسدہ پرداز ) دو دن تک نہر کی پڑی اور کھیتوں میں چھپے ہوئے تھے اور وہ.....(غیر مسلم ) تھانیدار کو پیغام بھیج رہے تھے کہ قافلہ جلد روا نہ کرو.21 ستمبر کو قادیان میں کرفیو نافذ کر دیا گیا.اس سے قبل پولیس نے بعض لڑکوں کے پاس سے قلم تراش اور غلیلیں پکڑ لی تھیں اور....(مفسدہ پرداز ) قادیان کے بازاروں میں لمبے لمبے برچھے،
جلد اول 224 تاریخ احمدیت بھارت تلوار میں اور بغیر لائسنس کی بندوقیں لے کر گھومتے تھے.اس وقت جو مسلمان کھیتوں میں چارہ کاٹنے کے لئے جاتے ہیں ان کو پولیس پکڑ لیتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ ہندوستان کے کھیت ہیں تم چارہ نہیں کاٹ سکتے.شاید کل پولیس یہ کہہ کر قادیان میں جو مسلمان مقیم ہیں وہ ہندوستان میں ہیں اس لئے یہ سانس بھی نہیں لے سکتے تمام مسلمانوں کو ہلاک کر دے.قادیان کے نوجوان ملٹری کے جبر و تشدد کے باوجود خوفزدہ نہیں.وہ صرف اس بات کے خواہشمند ہیں کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو یہاں سے نکال دیا جائے وہ خوب جانتے ہیں کہ اب وہ آہستہ آہستہ موت کے گھیرے میں آتے جاتے ہیں اور نہرو کی وہ حکومت جو کہتی تھی کہ کسی مسلمان کو مشرقی پنجاب سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا جائے گاوہ قادیان کے مسلمانوں کو وہاں سے زبردستی نکلوانے اور انہیں تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے.محکمہ حفاظت قادیان کے ماتحت کام کرنے والے نو جوان بعض اوقات چوبیس چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی ادا کرتے اور رات دن پہرہ دیتے ہیں.گونیند اور بے آرامی کی وجہ سے ان کی صحت کمزور ہو چکی ہے مگر وہ موت کے ڈر سے بھاگنے کی بجائے موت سے مقابلہ کرنے پر آمادہ ہیں، وہاں کوئی ملٹری مسلمان نہیں ہے.....(غیر مسلم ) ملٹری اور....پولیس انہیں ڈراتی دھمکاتی ہے.....(غیر مسلم) کیپٹن بھرا ہوا پستول ہاتھ میں پکڑے دہشت پھیلانے کے لئے ادھر اُدھر پھرتا رہتا ہے.مغربی پنجاب کی حکومت اور پاکستان کے وزیر اعظم مسٹر لیاقت علی خان کو چاہئے کہ وہاں فوراً مسلمان ملٹری بھیجی جائے اور ادھر پیشل ٹرینیں چلائی جائیں.ٹرینوں کے ساتھ بھی کافی مسلمان ملٹری ہونی چاہیئے.ڈرائیور بھی مسلمان ہوں.کیونکہ.....(غیر مسلم ) ڈرائیور کو ملے یا پانی کا بہانہ کر کے انجن کو گاڑی سے الگ کر لیتے ہیں اور مسلح جتھے ٹرین پر حملہ کر دیتے ہیں.ایک ٹرین کے ساتھ کم از کم دو انجمن ایک کرین اور پڑی جوڑنے کا سامان اور چند فٹ ضرور ساتھ ہونے چاہئیں کیونکہ خفیہ طور پر ایسی سازش کا انکشاف ہو چکا ہے کہ قادیان سے اگر کوئی ٹرین چلی تو....(مفسدہ پردازوں نے ) اس کو لوٹنے اور تباہ کر دینے کا پورا تہیہ کیا ہوا ہے.پاکستان گورنمنٹ حالات کا مقابلہ کرنے اور پناہ گزینوں ، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قادیان سے نکالنے کا فوری بندو بست کرے.“ 5- اخبار احسان نے اسی اشاعت میں ” قادیان کے پچاس ہزار مسلمانوں کو بچاؤ کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ شائع کیا:.
تاریخ احمدیت بھارت 225 جلد اوّل پاکستان گورنمنٹ کی توجہ کے قابل قادیان میں اس وقت نواحی علاقہ جات سے جمع شدہ مسلمانوں کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے.یہ لوگ چاروں اطراف سے....( غیر مسلم فوج کے نرغہ میں گھرے ہوئے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو قادیان سے ملحقہ علاقوں سے اپنا سب کچھ لٹا کر آئے ہیں اور اب بے بسی اور خاک بسری کے عالم میں مقیم ہیں ، حالات روز بروز بد سے بدتر ہو رہے ہیں.اگر گورنمنٹ کی طرف سے جلد ان کو نکالنے کا انتظام نہ کیا گیا تو ڈر ہے انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح نہ کر ڈالا جائے.خلیفہ صاحب قادیان اپنی جماعت کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ قادیان کی حفاظت کے لئے آخری دم تک وہیں رہے.خلیفہ صاحب کی یہ ہمت قابل داد ضرور ہے.لیکن حالات سے بے نیاز ہوکر کام کرنا اور ہزار ہا نہتے لوگوں کو اتنی بڑی آزمائش میں ڈالنا مناسب نہیں.قادیان میں کر فیول گا ہوا ہے.وہاں محلوں میں تمام لوگوں کی سختی سے تلاشی لی جارہی ہے.بیرونی محلہ جات پر حملے ہور ہے ہیں.نزدیک کے دیہات پر....(مفسدہ پردازوں) کا قبضہ ہو چکا ہے اور کچھ عجب نہیں قادیان میں بھی قتل عام شروع ہو جائے.اس وقت افرا تفری کے عالم میں اگر لوگ وہاں سے نکلے تو پھر اس قدر نفوس موت کے گھاٹ اتر جائیں گے جن کا اندازہ لگانا مشکل ہوگا اور مشرقی پنجاب کی پراپیگینڈا مشینری اسے معمولی سا حادثہ قرار دے کر دنیا کی نظروں میں دھول ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گی.یہ محض خام خیالی ہے کہ وہاں بہت دیر تک مقابلہ میں جمے رہنے سے اس بات کو اس قدر شہرت ملیگی کہ ہندوستانی حکومت مرعوب ہوکر قادیان کو تباہ کرنے سے اپنا ہاتھ کھینچ لے گی.اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابھی تک ہزاروں خواتین اور بچے موجود ہیں جن کو وہاں سے نکالا نہیں جاسکا.کیا ان سب کو اس لئے موت کے منہ میں چھوڑ دیا جائے کہ خلیفہ صاحب قادیان سے ہجرت نہیں کرنا چاہتے.یہ معاملہ ایسا نہیں کہ ایک شخص کی مرضی پر اسے چھوڑ دیا جائے.پاکستان گورنمنٹ کو چاہئیے کہ پیشل ٹرینیں چلا کر جس قدر لوگوں کو وہاں سے نکالا جا سکتا ہے نکال لے اور ہم خلیفہ صاحب قادیان سے بھی یہی گزارش کریں گے کہ نہتے لوگوں کو اس کس مپرسی کے عالم میں چھوڑ دینا ٹھیک نہیں.بلکہ وہ لوگوں کو وہاں لا کر ہر طرح سے مسلح اور منظم کریں تو جہاں ایک طرف یہ اقدام پاکستان حکومت کو تقویت کا موجب ہوگا وہاں ہزار ہا بے گناہ لوگوں کو موت کے پنجے سے بھی نکال لائے گا.(شیخ محمد طفیل ایم.اے).“
جلد اوّل -6 226 تاریخ احمدیت بھارت اس اخبار کا ایک اور نوٹ ملاحظہ ہو جو دو اکتوبر 1947ء کی اشاعت میں تحریر کیا گیا ہے: لمبی چوڑی باتیں لکھنے کا وقت نہیں......اس وقت ہم کم و بیش 150 ہزار افراد قادیان میں پناہ لئے بیٹھے ہیں.ہمیں احمدیوں کی طرف سے زندہ رہنے کے لئے کھا نا مل رہا ہے بعض کو مکان بھی مل چکے ہیں.مگر اس قصبہ میں اتنی گنجائش کہاں؟ ہزاروں آسمان کی چھت کے نیچے زمینی فرش پر پڑے ہیں جنہیں دھوپ بھی کھانا پڑتی ہے اور بارش میں بھی بھیگنا پڑتا ہے.پھر بھی ہم جوں توں کر کے زندگی کے دن گزار رہے ہیں مگر جو نگی اب ملٹری اور پولیس کی طرف سے دی جا رہی ہے اور جو مصیبتیں اب نازل ہو رہی ہیں ان کا کیا علاج.پچھلے جمعہ کو ہمیں یہاں سے قافلہ کی صورت میں ملٹری نے چلے جانے کا حکم دیا.لیکن یہاں کے بھلے لوگوں نے ہمیں اس لئے روک لیا کہ حفاظت کے بغیر رستے میں لٹ جاؤ گے اور مارے جاؤ گے.“ (19) اخبار ” نوائے وقت لاہور -1 اخبار ” نوائے وقت“ نے اپنی 22 ستمبر 1947 ء کی اشاعت میں لکھا:.قادیان کا مورچہ قادیان مشرقی پنجاب میں ایک قصبہ ہے.جہاں مسلمان ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں.خاص قادیان میں مسلمانوں کی تعداد کچھ بہت زیادہ نہ تھی کیونکہ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے مگر اردگرد کے دیہات سے ہزاروں مسلمانوں نے اس قصبہ میں پناہ لی ہے اور اب ایک روایت کے مطابق پچاس ہزار مسلمان قادیان میں پناہ گزین ہیں.مشرقی پنجاب کی حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس صوبہ سے نکالنا نہیں چاہتی.مسٹر گاندھی بھی مسلمانوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ واپس آجائیں مگر قادیان کے متعلق جہاں مسلمان ابھی تک بیٹھے ہوئے ہیں حکومت مشرقی پنجاب اور حکومت ہند دونوں کی پالیسی یہ معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر.....اور اگر ضرورت پڑے تو مار پیٹ کر.....قادیان سے نکال دیا جائے.قادیان سے بعض معززین کی بلا وجہ گرفتاریاں ، قصبہ کا محاصرہ، ریل تار اور ڈاک کی بندش اور قادیان پر ہوائی جہاز کی پرواز کی ممانعت، یہ سب حربے اسی ایک مقصد کے پیش نظر استعمال کئے جار ہے
تاریخ احمدیت بھارت 227 جلد اوّل ہیں کہ مسلمان قادیان چھوڑ کر بھاگ جائیں.ہم اس وقت اختلاف عقائد کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے.نہ یہ وقت اس بحث کو چھیڑنے کے لئے موزوں ہے.مسلمانوں سے ہماری درخواست صرف اس قدر ہے کہ اغیار کو اس وقت اس سے کوئی غرض نہیں کہ فلاں شخص کے عقائد کیا ہیں.حتی کہ انہیں اب کانگرسی اور لیگی کا بھی کوئی امتیاز نہیں.وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ نام مسلمانوں کا ہے اور شکل وصورت مسلمانوں کی سی ہے ایسا ہر شخص ان کے نزدیک واجب القتل ہے.اگر اہل قادیان کا ارادہ یہ ہے کہ وہ غنڈہ گردی کا مقابلہ کریں گے اور مدافعت و مزاحمت کئے بغیر یہاں سے نہیں نکلیں گے تو ہر کلمہ گو کو ان سے حسب استطاعت عملی یا محض اخلاقی ہمدردی کا اظہار کرنا چاہئیے.“ -2 اسی اخبار ” نوائے وقت“ نے اپنی اشاعت 23 ستمبر میں حسب ذیل خبر شائع کی:.قادیان میں حکام نے کرفیو نافذ کر دیا...خانہ تلاشیوں کی بھرمار لوگوں سے اسلحہ چھینا جارہا ہے.سیکرٹری انجمن احمد یہ پاکستان کا بیان لاہور 22 ستمبر :.وسطی انجمن احمد یہ پاکستان کے سیکرٹری نے مندرجہ ذیل بیان اخبارات کے نام جاری کیا ہے کہ 21 ستمبر سے قادیان میں 6 بجے شام سے لیکر صبح 5 بجے تک کے لئے کرفیو لگا دیا گیا ہے.اگر تو اس اقدام سے امن قائم رہا تو مسلمان اس کا روائی پر حکومت کے ممنون ہوں گے.لیکن اگر اس کا روائی سے قادیان کے مسلمانوں کے خلاف کوئی جارحانہ حملہ کیا جانا مقصود ہے تو اس بات میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہوگی کہ کر فیو اس لئے لگایا جائے کہ مسلمانوں کو جو دفاع کے لئے تیاریاں کر رہے ہیں انہیں تہس نہس کر دیا جائے.سرکاری خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ پولیس تلاشیاں لے رہی ہے اور لائسنس یافتہ بندوقیں اور گولی بارو د ضبط کر رہی ہے.پولیس نے احمد یہ جماعت کے امام کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کا تمام اسلحہ ضبط کر لیا جس کا لائسنس ان کے پاس موجود تھا.اس امر کا خدشہ ہے کہ کوئی حملہ نہ ہو جائے اور حکومت پھر یہ عذر نہ کرے کہ جتھے قابو سے باہر ہو گئے اور انہوں نے فوج پر حملہ کر دیا اس لئے احمدیوں کے خلاف کاروائی کرنی پڑی.ہر ایک احمدی سمجھ سکتا ہے کہ کرفیو کے نفاذ کے بعد....(مفسدہ پرداز ) جتھے اور پولیس کا کوئی کاروائی کرنا سوائے اس کے اور کچھ مقصد نہیں رکھتی کہ پولیس احمدیوں کے خلاف ان جتھوں کی مدد کرے.“
جلد اوّل 228 تاریخ احمدیت بھارت 3.پھر اگلے دن (24 ستمبر کو ) درج ذیل خبر شائع کی:.قادیان کے قریب ایک گاؤں پر....(مفسدہ پردازوں) کا قبضہ....(مفسدہ پردازوں) نے قادیان پر حملہ شروع کر دیا لاہور 22 ستمبر.قادیان سے پناہ گزینوں کو لانے والی ایک ٹرین پر بٹالہ اور قادیان کے درمیان حملہ کر دیا گیا.اس ریل گاڑی کے ساتھ فوجی دستہ بھی تھا.فوج نے گولی چلا دی جس سے حملہ آور بھاگ گئے.جو اطلاعات موصول ہو رہی ہیں ان سے معلوم ہوا ہے کہ....(مفسدہ پردازوں) نے قادیان سے آدھ میل کے فاصلہ پر واقعہ منگل پر قبضہ کر لیا اور اب....(مفسدہ پرداز ) دستے قادیان کے بیرونی محلوں پر حملے کر رہے ہیں.“ -4 نوائے وقت“ نے 4 /اکتوبر کے پرچہ میں یہ خبر شائع کی کہ : مسلمان پناہ گزینوں کو قادیان سے پاکستان نہ آنے دیا گیا چارٹرک بٹالہ سے واپس لاہور بھیج دیئے گئے لاہور 2 اکتوبر: انجمن انصار المسلمین لاہور کے سکرٹری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کل نیوی ڈیپارٹمنٹ کے چارٹرک اس محکمہ کے ملازمین کے رشتہ داروں کو لانے کے لئے قادیان گئے اور لاہور سے غیر مسلم پناہ گزین) امرتسر لے گئے.یہاں سے انہوں نے دریافت کیا کہ آیا کوئی ایسے غیر مسلم پناہ گزین ہیں جو امرتسر سے بٹالہ یا قادیان جانے کے خواہاں ہوں.لیکن یہاں ٹرک والوں کو بتایا گیا کہ ایسے کوئی پناہ گزین امرتسر میں موجود نہیں.جب یہ ٹرک بٹالہ پہنچے تو انہیں قادیان نہ جانے دیا گیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ اپنے ساتھ غیر مسلم پناہ گزین نہیں لائے علاوہ بریں چند دن تک قادیان جانے کی اجازت نہیں ہے.ٹرکوں کو بالآخر نا کام لاہور واپس آنا پڑا اور تضیع اوقات کے علاوہ پٹرول بھی ضائع ہوا.“ -5 پھر اسی اخبار نے لکھا: قادیان پر....(مفسدہ پرداز ) غنڈوں کے حملے، فوج اور پولیس حملہ آوروں کو امداد دے رہی ہے، فوج نے سر محمد ظفر اللہ کا مکان خودلوٹا.شہر میں تباہی کے آثار لاہور 8 اکتوبر : سیکرٹری انجمن انصار المسلمین نے ایک بیان میں کہا کہ قادیان کی تازہ ترین
تاریخ احمدیت بھارت 229 جلد اوّل صورت حال کے متعلق جو خبریں موصول ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قادیان کی حالت پہلے سے بھی ابتر ہو گئی ہے.قادیان کے ایک محلہ پر....(مفسدہ پرداز ) غنڈوں نے حملہ کر دیا.لیکن محلہ والے تیس غنڈوں کو موت کے گھاٹ اتارنے میں کامیاب ہو گئے.بعد ازاں پولیس اور فوج حملہ آوروں کی امداد کے لئے پہنچ گئی اور محلے والوں کو بری طرح گولیوں کا نشانہ بنادیا.پولیس اور فوج کی کارروائیوں میں بیشمار مسلمان شہید ہو گئے.مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کی لاشوں کے پاس تک نہ جانے دیا گیا.قادیان سے ایک فوجی مسلمان کپتان لاہور پہنچا ہے.اس کا مکان لوٹ لیا گیا ہے.چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کا مکان بھی لوٹا جا چکا ہے.ٹی.آئی ڈگری کالج کی عمارت پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور کالج کی عمارت لاہور کے سکھ نیشنل کالج کے لئے وقف کر دی گئی ہے.پاکستان کا ایک ہوائی جہاز کل قادیان پر سے ہو کر لاہور پہنچا ہے.ہوائی جہاز والوں کی روایت کے مطابق ہر طرف تباہی و بربادی کے آثار پائے جاتے ہیں مقامی 66 مسلمان مسجدوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں.“ 6.پھر ای اخبار ”نوائے وقت“ نے حضرت امیر المومنین الصلح الموعود کی پریس کانفرنس میں بیان فرمودہ قادیان کی موجودہ صورت حال کے متعلق ذکر کرتے ہوئے لکھا:.قادیان اور حکومت ہندوستان مرزا بشیر الدین محمود احمد کی پریس کانفرنس لاہور 16 اکتوبر : مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ نے آج شام کو ایک پریس کانفرنس میں اخباری نمائندوں کو قادیان کی موجودہ صورتِ حال سے آگاہ کیا.مرزا صاحب نے بتایا کہ قادیان میں اکا دُکا حملے ابھی تک ہورہے ہیں.پناہ گزینوں کو ہراساں کیا جارہا ہے.اور جماعت احمدیہ پر ہر جائز و ناجائز طریقے سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ قادیان کو خالی کر دیں.شہر کے بہت سے حصے خالی کر دیئے گئے ہیں اور باقی ماندہ آبادی کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ شہر کے صرف ایک حصے میں جس میں آبادی کی تعداد کے لحاظ سے بہت کم مکانیت ہے جا کر رہے.یہ جگہ بہت تنگ ہے.وہاں کے لوگوں کو تنگ جگہ میں رہنے پر مجبور کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ بالآخر وہ شہر خالی کرنے پر آمادہ ہو جا ئیں.راشن دینا بھی بالکل بند کر دیا گیا ہے اور قادیان کے باشندوں پر عرصہ
جلد اوّل 230 تاریخ احمدیت بھارت حیات تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.مرزا صاحب نے بریگیڈیر تھمایا کے حالیہ بیان اور آل انڈیا ریڈیو کے اس اعلان کو قادیان میں بالکل امن ہے، جھٹلایا اور حیرانی ظاہر کی ہے کہ اتنے بڑے اور ذمہ دار عہدے پر فائز کوئی افسر اتنا سفید جھوٹ بول سکتا ہے.مرزا صاحب نے کہا ہم پہلے بھی بارہا اعلان کر چکے ہیں اور میں پھر دوہرانا چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کا مسلک ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ با اقتدار حکومت کا ساتھ دے اور اس کی وفادار رہے.ہم نے حکومت ہند کو بھی یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ احمد یہ جماعت کے جو پیر و قادیان میں مقیم رہیں گے وہ ہندوستان کے ہر طرح سے وفادار رہیں گے.مگر ہمیں افسوس ہے کہ باوجود ہمارے یقین دلانے کے اور باوجود گاندھی جی اور پنڈت نہرو کے بار بار یہ کہنے کے کہ ہندوستان سے ان مسلمانوں کو نہیں نکالا جائے گا جو انڈین ڈومنین سے اپنی وفاداری کا یقین دلائیں گے مشرقی پنجاب کی حکومت کی انتہائی کوشش یہ ہے کہ کس طرح قادیان خالی ہو جائے.اور اس ارادے کا اظہار کئی طریقوں سے مشرقی پنجاب کے افسر کر چکے ہیں.ان سب تکلیفوں اور مظالم اور مشکلات کے ہوتے ہوئے مرزا صاحب نے اس مصمم ارادے کا اظہار کیا کہ جب تک حکومت ہند صاف الفاظ میں یہ نہ کہہ دے کہ تم لوگوں کو قادیان خالی کر دینا چاہیئے ہم قادیان ہر گز ہرگز خالی نہ کریں گے اور ہم اس مقصد کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.مرزا صاحب نے کہا کہ ان کے سات نوجوان بیٹے ابھی تک قادیان میں ہیں اور آخری دم تک وہیں رہیں گے.مرز ا صاحب نے آخر میں انتہائی ناراضگی اور افسوس کا اظہار کیا کہ قادیان کے حکام نے جماعت کو ا پنی لائبریری اور سائنس انسٹی ٹیوٹ کو پاکستان منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی.انہوں نے بتایا کہ یہ لائبریری ہندوستان بھر میں سب سے بڑی چار اسلامی لائبریریوں میں سے تھی اور اسی طرح ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی.یہ دونوں جماعت کی اپنی ملکیت تھیں اور ان پر قبضہ کرنے کا حکومت کو کوئی حق نہیں.7.نیز 19 / اکتوبر کو یہ خبر شائع کی کہ وو (نامہ نگار ) 16 اکتوبر کو انبالہ سے اسی ہزار مسلمان مہاجرین ریل گاڑیوں میں لاہور پہنچے.اسی ہزار 66 مہاجرین سہارنپور سے اور سات ہزار قادیان سے موٹروں پر پہنچے.“
تاریخ احمدیت بھارت 231 جلداول 8.اخبار ” نوائے وقت ہی میں ذیل کی خبر بھی مؤرخہ 24 اکتوبر کی اشاعت میں شائع ہوئی:.قادیان میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا، دو سو مسلمان شہید ہوئے کئی عورتیں اغوا کر لی گئیں اور بیشمار محلے لوٹ لئے گئے لاہور 22 اکتوبر : قادیان میں مسلمانوں پر ظلم و تشد د اور گرفتاریوں کے واقعات کے سلسلہ میں پنڈت نہرو نے وزیر اعظم پاکستان کو ایک تار بھیجا تھا.جس میں ان واقعات کی تردید کرنے کی جرات کی گئی تھی.آج احمد یہ ہیڈ کوارٹرز لا ہور نے وزیر اعظم ہندوستان کو یہ تار روانہ کیا:.وو قادیان میں دو سکرٹری ، ایک اسسٹنٹ سکرٹری تین مشنری اور کئی دوسرے کارکنان غلط الزامات کی بناء پر گرفتار کئے جاچکے ہیں.جن مسلمانوں کے مکانات کی تلاشیاں ہوئیں ان میں موجودہ خلیفہ قادیان کا مکان بھی شامل ہے.کئی محلے جبراً خالی کرا کے لوٹے جا چکے ہیں.تعلیم الاسلام ہائی اسکول.احمد یہ پریس اور سنٹرل لائبریری پر قبضہ کیا جا چکا ہے.کئی خواتین اغوا کی گئیں اور تقریباً دوسو مسلمان شہید کئے گئے اور ان کی لاشیں ورثاء کے حوالہ نہیں کی گئیں.اس کے باوجود آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ احمدیوں کو تنگ نہیں کیا گیا اور ان کی حفاظت کی جارہی ہے.( 20 ) اخبار انقلاب لاہور -1 اخبار انقلاب نے اپنی 6 ستمبر 1947 ء کی اشاعت میں لکھا: قادیان میں مسلمان برابر ڈٹے ہوئے ہیں پاکستان کی فوج ان کی حفاظت کرے ”قادیان کے نواحی علاقے میں....(مفسدہ پردازوں) نے متعدد دیہات میں تباہی پھیلا رکھی ہے.مسلمانوں کو قتل اور ان کی جائیدادوں کو برباد کیا جارہا ہے لیکن انہیں قادیان پر حملہ کرنے کی ابھی جرات نہیں ہوئی.اہل قادیان اللہ کے فضل سے طاقتور اور منظم ہیں اور حضرت امام جماعت احمد یہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ان کو ہر وقت صبر و سکون اور توکل علی اللہ کی تلقین کر رہے ہیں.لیکن مسلمانان پاکستان کا مطالبہ یہ ہے کہ خطرہ کے سدباب کے لئے فی الفور پاکستانی فوج قادیان کی حفاظت کے لئے مقرر ہونی چاہیے مبادا....(مفسدہ پرداز) غیر مسلم فوج اور پولیس کی امداد یا اغماض سے فائدہ اٹھا کر
جلد اوّل 232 تاریخ احمدیت بھارت قادیان کے خلاف کوئی سازش کریں.“ -2 اپنی اشاعت میں مزید لکھا:.مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ داری باؤنڈری کمیشن کے صدر پر ہے قائد اعظم کو مجلس خدام الاحمد یہ دہلی کی تار نئی دہلی 3 ستمبر بمجلس خدام الاحمدیہ دہلی نے پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک برقی پیغام ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا ہے اس کی ذمہ داری صدر پنجاب باؤنڈری کمیشن کے کندھوں پر ہے.مسلم اکثریت والے علاقوں کو ہندوستان میں منتقل کر کے مشرقی پنجاب کے غیر مسلموں کو صاف اشارہ کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جارحانہ مہم کا آغاز کر دیں.مسٹر جناح سے استدعا کی ہے کہ وہ اس معاملے کو جمعیت اتحاد امم کے حوالے کر دیں.“ 10-3 ستمبر 1947 ء میں ضمیمہ ” انقلاب میں یہ خبر شائع ہوئی:.قادیان میں نواحی علاقہ کے پچاس ہزار پناہ گزین آخری دم تک حفاظت خود اختیاری کا تہیہ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ 6 ستمبر : چوہدری شکر اللہ خان نے مندرجہ ذیل بیان انقلاب اور دوسرے اخباروں کو ارسال فرمایا ہے: اس وقت جب سارے مشرقی پنجاب میں افرا تفری زوروں پر ہے اور لاکھوں مسلمان اپنے عزیز وطن چھوڑ کر محض جان بچا کر مغربی پنجاب میں پہنچ رہے ہیں اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے وقار کو ضعف پہنچ رہا ہے.قادیان ضلع گورداسپور کے مسلمان اپنے مقام پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ باعزت موت کو ذلت اور رسوائی کی زندگی پر ترجیح دینے کا تہیہ کر چکے ہیں.اہل قادیان کے علاوہ نواحی علاقہ کے پچاس ہزار اور پناہ گزین وہاں جمع ہو چکے ہیں.قادیان کے امام جماعت احمدیہ نے اعلان کر دیا ہے کہ جب تک حکومت ہمارے نام قادیان خالی کر دینے کا حکم صادر نہ کرے، ہم اپنے محبوب وطن اور مرکز کو کسی قیمت پر خیر باد نہیں کہہ سکتے اور آخری دم تک اپنی اور اپنے پناہ گزینوں کی حفاظت کرتے رہیں گے.مسلمانوں پر یہ نہایت ہی خطر ناک وقت ہے کہ دشمن اس کے قومی وقار کو ہمیشہ کے لئے (ختم) کر دینا چاہتا ہے.اس وقت ہر قسم کی کشیدگیوں اور اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قادیان اور اس
تاریخ احمدیت بھارت 233 جلد اول 66 کے پناہ گزینوں کی سلامتی کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں.“ -4 ضمیمہ انقلاب مؤرخہ 14 ستمبر میں شائع ہوا کہ :.احمدیوں کے طیاروں کو پرواز سے حکماً روکدیا گیا ایریا کمانڈر کا حکم، کوئی جیپ کار باہر نہیں جاسکتی لاہور 11 ستمبر : صدر انجمن احمد یہ لاہور نے آج مندرجہ ذیل اعلان جاری کیا ہے.10 ستمبر کی سہ پہر کو چار بجے ہمیں یہ پیغام ملا کہ اس علاقے کی فوج کے انچارج بریگیڈیر نے چند احمدی نمائندوں کو قادیان سے بٹالے بلا کر مندرجہ ذیل احکام ان کے گوش گزار کئے.(1) آئندہ کسی ہوائی جہاز کو اس ایریا کی فضا میں پرواز کی اجازت نہیں دی جائے گی.(ii) قادیان کے احمدیوں کی کسی جیپ کار کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی.(iii) اور کسی احمدی کو کسی ایسی وردی پہننے کی اجازت نہیں ہوگی جو کسی صورت میں بھی فوجیوں سے ملتی جلتی ہو.“ 5.اپنی اسی اشاعت میں مزید شائع کیا کہ:.نواحی قادیان میں مسلمانوں کے 54 گاؤں جلا دیئے گئے 77 دیہات کی تباہی ،حملہ آور 147 عورتیں اٹھا کر لے گئے لاہور 11 ستمبر : بدھ کے دن احمد یہ ہیڈ کوارٹر لاہور سے قادیان اور اس کے نواحی دیہات کے متعلق مندرجہ ذیل بیان شائع کیا گیا ہے: مرکز احمدیت قادیان کے گردونواح کے 77 دیہات پر حملہ کیا گیا ہے اور لوٹ کھسوٹ کی گئی ہے ان میں سے 54 کو نذرآتش کر دیا گیا ہے حملہ آور 147 عورتوں کو اٹھا کر لے گئے ہیں.“ اپنی 18 ستمبر 1947ء کی اشاعت میں اخبار انقلاب نے لکھا ہے:.-6 قادیان میں تحریک احمدیت کے دو نہایت ہی ممتاز لیڈر گرفتار کر لئے گئے قادیان میں اعیان و اکابر کی خانہ تلاشیاں ایک لاکھ مسلمانوں کو دہشت زدہ کر کے نکال دینے کی کوشش لاہور 17 ستمبر: اطلاع موصول ہوئی ہے کہ قادیان کے ناظر اعلیٰ چوہدری فتح محمد سیال
جلد اول 234 تاریخ احمدیت بھارت ایم.اے (ایم.ایل.اے) اور سلسلہ احمدیہ کی نظارت امور عامہ کے انچارج سید زین العابدین ولی اللہ شاہ کوسری گوبند پور تھانہ کے علاقے کے...(غیر مسلموں) کو قتل کرنے کے الزام میں زیر دفعہ 302 تعزیرات ہند گرفتار کر لیا گیا ہے.گرفتاری کے وقت مسلح پولیس اور فوج کے علاوہ اس علاقے کے...(مفسدہ پرداز ) برچھیوں ، بھالوں اور گنڈاسوں سے مسلح تھے، ہمراہ تھے.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی مقام پردھاوا بولا جارہا ہے.قادیان کے معزز اور مقتدر ارکان اور پناہ گزینوں کی تلاشیاں بھی لی گئیں.قادیان میں اس وقت ایک لاکھ کے قریب مسلمان جمع ہیں اور اگر ان کی حفاظت کے لئے مسلمان فوجی دستے متعین ہو جائیں تو وہ اپنے گھروں کو چھوڑنے کی بجائے اپنے دیہات ہی میں آباد ہونے کو ترجیح دیں گے.“ 7 19 ستمبر 1947ء کی اشاعت میں خبر شائع ہوئی کہ:.-7 قادیان کے اکابر کی گرفتاری جماعت احمدیہ کے اکابر میں سے چوہدری فتح محمد سیال ایم.اے (ایم.ایل.اے) اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ کو مشرقی پنجاب کی حکومت نے زیر دفعہ 302...(غیر مسلموں) کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے.ان دونوں حضرات کی عمر ساٹھ ساٹھ سال ہوگی اور اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ اور معزز آدمی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ قادیان کے مسلمانوں نے اب تک ثبات و استقلال کا جو ثبوت دیا ہے اور نواحی علاقے کی تباہی کے باوجود جس صبر و سکون سے ڈٹے رہے ہیں، وہ مشرقی پنجاب کے حکام کے نزدیک بہت تکلیف دہ ہے یہی وجہ ہے کہ اب انہوں نے قادیان میں تلاشیاں اور گرفتاریاں شروع کر دی ہیں.انکا منشاء یہ ہے کہ قادیان میں جو ایک لاکھ مسلمان اس وقت جمع ہیں وہ بھی پریشان ہو کر بھاگ کھڑے ہوں اور خونخوار غنڈے ہرطرف سے ان پر حملہ کر کے انہیں ختم کر دیں.پاکستان کے وزیر اعظم کا فرض ہے کہ قادیان کے مسئلہ کی طرف بطور خاص حکومت ہندوستان کی توجہ مبذول کرائیں.“ -8 اخبار انقلاب کے 25 ستمبر 1947 ء کے شمارہ میں درج ذیل اشاعت ہوئی:.
تاریخ احمدیت بھارت پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام تار 235 پریذیڈنٹ انجمن احمد یہ ملتان کی طرف سے جلد اول ”....(مفسدہ پردازوں) نے آپ کی حکومت اور...(غیر مسلم ) ریاستوں کی فوج اور پولیس کی امداد سے مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کو تباہ کر دیا ہے.اب آپ کی حکومت کے تمام احکام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب قادیان کی تباہی کی باری ہے.قادیان کے اردگردد و دو میل تک کا علاقہ تو دہ خاکستر بنادیا گیا ہے.حالانکہ آپ کی حکومت ان لوگوں کی حفاظت کا وعدہ کر چکی تھی.تازہ احکام یہ ہیں کہ قادیان پر نہ طیارے اڑائے جائیں نہ قادیان کے باہر جیپ کاریں چلائی جائیں نہ احمدی کوئی وردی پہنیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت نہ صرف اہل قادیان کو اپنی حفاظت کا موقع دینا نہیں چاہتی ہے بلکہ ان کی تباہی کی اطلاع کو بھی باہر پہنچنے سے روک رہی ہے.میری استدعا ہے کہ آپ ظلم وستم کے نتائج پر غور کریں اور یا درکھیں کہ احمدیوں نے قادیان کی مقدس سرزمین کے لئے اپنی جانیں قربان کر دینے کا تہیہ کر رکھا ہے.خدا آپ کی حکومت کے اعمال کو دیکھ رہا ہے.اس نے ظلم وستم کرنے والوں کو ہمیشہ برباد کیا ہے.اگر آپ خدا سے نہ ڈریں گے تو وہ ایک دن آپ کو بطش شدید میں گرفتار کرے گا.“ _9 اخبار انقلاب کے اسی شمارہ میں درج ذیل اشاعت ہوئی :.قائد اعظم کے نام تار مجلس خدام الاحمدیہ گوجرانوالہ نے قائد اعظم محمد علی جناح کے نام حسب ذیل تار دیا ہے:.مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ داری باؤنڈری کمیشن کے صدر پر عائد ہوتی ہے.جس نے مسلم اکثریت کے علاقوں کو ہندوستان میں شامل کر دیا.اس نے صریحاً غیر مسلموں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دلائی.از راہ کرم اس مسئلہ کو مجلس اقوام متحدہ میں پیش کیجئے.اس کے علاوہ گزارش ہے کہ قادیان میں مسلم پناہ گزینوں کے جم غفیر کی حفاظت کے لئے پاکستانی فوج کے بھیجنے کا انتظام فرمائیے.“ 10.مؤرخہ 28 ستمبر 1947ء کی اشاعت میں خبر شائع ہوئی کہ:.قادیان پر....(مفسدہ پردازوں) کا حملہ لاہور 27 ستمبر.صدر انجمن احمد یہ پاکستان لاہور کی ایک اطلاع مظہر ہے کہ....(مفسدہ
جلد اوّل 236 تاریخ احمدیت بھارت پردازوں) کے جتھے نے محلہ دار السعتہ پر حملہ کیا اور بہت سے مسلمانوں کو لوٹ لیا.حملہ آور مسلمانوں میں داخل ہو گئے.ان مکانوں میں نواب محمد الدین باجوہ سابق وزیر ریاست جودھ پور کا مکان بھی شامل ہے.اس سلسلہ میں دوسری اطلاع مظہر ہے کہ جو نہی....(مفسدہ پردازوں) کے ان کے مکانوں میں داخل ہونے کی خبر قادیان میں پھیلی.خدام الاحمدیہ کے صدر نے نوجوانوں کوان....(مفسدہ پردازوں) کو مکانوں سے نکالنے کے لئے بھیجا....(مفسدہ پرداز ) مقابلے کی تاب نہ لاکر بھاگ گئے.محلہ دارالسعتہ کے چاروں طرف پہرہ سخت کر دیا گیا اور خالی مکانوں میں پناہ گزینوں کو دوبارہ بسادیا گیا.“ 11 - مؤرخہ 24 ستمبر 1947 ء کی اشاعت میں ”انقلاب“ لکھتا ہے:.قادیان کے ایک محلہ پر....(مفسدہ پردازوں) کا حملہ، نواحی گاؤں پر قبضہ کر لیا گیا پولیس کر فیولگا کر تلاشیاں لیتی رہی.لائسنس و اسلحہ ضبط کر لیا گیا.لاہور 22 ستمبر: صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے مرکزی سیکرٹری نے مندرجہ ذیل بلیٹین جاری کیا ہے.گزشتہ شب یہ اطلاع موصول ہوئی کہ قادیان کے ایک محلہ پر جو شمال مشرق میں واقع ہے 19 ستمبر کو....(مفسدہ پرداز ) جتھوں نے حملہ کیا.پولیس موقعہ پر پہنچ گئی.مگر اس نے حملہ آوروں سے تعرض کرنے کی بجائے اس احمدی محلے میں خانہ تلاشیوں کا سلسلہ شروع کرد یا اور اسلحہ کی تلاش ہوتی رہی.پولیس کا یہ طرز عمل تحیر خیز ہے.ایک طرف تو قانون شکن جتھے کھلے بندوں مصروف عمل ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کو اپنے بچاؤ کے لئے کوئی ہتھیار رکھنے کی بھی اجازت نہیں.غالباً پولیس یہ تسلی کر لینا چاہتی ہے کہ مسلمان نہتے ہیں اور جب ان پر حملہ ہو جائے تو ان کے پاس بچاؤ کا کوئی ذریعہ نہیں.منگل کے گاؤں پر جو قادیان سے کوئی آدھ میل دور ہے....(مفسدہ پردازوں) نے قبضہ کر لیا.ایک کانوائے پر جو قادیان سے پناہ گزین لا رہا تھا.قادیان اور بٹالہ کے درمیان حملہ ہوا.حفاظتی فوجی دستے کو گولی چلانی پڑی.ایک اور اطلاع مظہر ہے کہ پولیس نے قادیان میں کرفیو گا کر تلاشیاں لیں.امام جماعت احمد یہ کے مکان پر چھاپہ مار کر لائسنس والی بندوقیں اور ان کے کارتوس چھین لئے گئے.پولیس تمام اسلحہ جس کا لائسنس لوگوں نے لے رکھا ہے چھین رہی ہے کرفیو کا وقت شام کے چھ بجے سے صبح پانچ بجے تک ہے.“ (او.پی) (21)
تاریخ احمدیت بھارت اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور سول اینڈ ملٹری گزٹ لا ہور نے لکھا: امتحان 237 جلد اول اس وقت قادیان دنیا کی نظروں کا مرکز بنا ہوا ہے کہ وہاں ہندوستانی گورنمنٹ اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ احمدیہ جماعت کے نزدیک قادیان صرف جماعت کا مرکز ہی نہیں بلکہ ان کی نگاہوں میں اس شہر کا درجہ کچھ اور ہی ہے.احمدی ایک محنت کش ، اخوت پسند ، اور نہایت ہی منظم جماعت ہے.جس حکومت کے ماتحت بھی یہ رہتے ہوں اس کے ساتھ وفاداری گویا کہ ان کے مذہب کا ایک جزو ہے.اگر قادیان پاکستان میں آجاتا تو کٹر مسلمانوں کی طرف سے مذہبی بنا پر ان کو زائد کوئی تکلیف پہنچتی.مگر ہندوستان میں آجانے کی وجہ سے اس قسم کے تفکرات کی ان کو کوئی امید نہیں تھی.اور وہ پر امن زندگی بسر کرنے کے امیدوار تھے.مگر بعد کے واقعات نے ان کی ان تمام امیدوں کو غلط ثابت کر کے دکھلایا.صرف اس لئے کہ یہ مسلمان تھے.مغربی پنجاب سے آنے والی اقلیتوں نے اپنے نقصان کا بدلہ ان پر بے پناہ ظلم توڑنے کی صورت میں لیا.احمدیوں کی طرف سے اپنی حفاظت کے ذرائع اختیار کرنے کے فعل کو حکومت کی طرف سے جرم قرار دیا گیا اور ان کی روایات اور سابقہ عمل سے قطعی اغماض کرتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی کی گئی اور ان کو ان کے دشمنوں کے رحم پر چھوڑ دیا گیا.جب اہالیان قادیان کے لئے اپنی حفاظت کرنا ناممکن ہو گیا تو ملٹری کی حفاظت میں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قادیان سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا.بقیہ دو ہزار کے قریب افراد جو وہاں رہے ان کو نہایت تکلیف دہ حالات میں قصبہ کے مرکزی حصہ میں نہایت تنگ جگہ میں محصور کر دیا گیا ہے.ان کے سکول اور ہسپتال پر زبر دستی قبضہ کر لیا گیا ہے اور بہت سے رہائشی مکانوں کولوٹ لیا گیا ہے.ہندوستانی گورنمنٹ یہ تو اعلان کر سکتی ہے کہ وہ تمام کا روائیاں جو قادیان کے متعلق اس نے کی ہیں وہ اسے دشمنی کے طوفان سے محفوظ کرنے کے لئے ہیں جوار گر د امڈ آیا تھا.اس کی صداقت صرف غیر جانب دار تفتیش سے ہی ثابت ہوسکتی ہے.لیکن اس کا گرفتاریوں اور بدسلوکی سے صاف انکار کر دینا ان حقائق کے خلاف ہے جو آزاد مشاہدہ کرنے والوں نے اچھی طرح ثابت کر دیئے ہیں.اب پنڈت جواہر لال نہرو کو جو کرنا چاہئیے اور جس کی ضرورت ہے وہ تر دیدیں نہیں ہیں بلکہ انہیں کوئی
جلداول 238 تاریخ احمدیت بھارت ایسا تعمیری اثباتی اقدام لینا چاہئیے جو دنیا پر ثابت کر دے کہ ہندوستانی مقرروں کے اعلانات محض کھو کھلے الفاظ نہیں ہیں اور یہ حکومت ہندوستان کا حکم تمام نو آبادیوں میں جس میں مشرقی پنجاب بھی شامل ہے نافذ ہے.“ (22) " اخبار ڈان ڈیلی گرٹ اور سندھ آبزرور میں پریس نوٹ اخبار ڈان ڈیلی گزٹ اور سندھ آبزرور (30 ستمبر 1947ء) نے حکومت پاکستان کا حسب ذیل پریس نوٹ شائع کیا :."The Pakistan Government has learnt that 10,000 Muslims have taken refuge at the ministry of Evacuation and Rehabilitation of the Government of Pakistan.They have telegraphed to the Government of India to declare Qadian a refugee camp and to provide adeqaste protection".وزارت مهاجرین و آباد کاری حکومت پاکستان کا ایک اخباری بیان مظہر ہے کہ حکومت پاکستان کو یہ معلوم ہوا ہے کہ دس ہزار مسلمان قادیان ضلع گورداسپور میں پناہ گزین ہیں.وزارت کی طرف سے ایک برقی پیغام کے ذریعہ سے انڈین گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ قادیان کو مہاجر کیمپ قرار دیا جائے اور اس کی مناسب حفاظت کا انتظام کیا جائے.(23)
تاریخ احمدیت بھارت 239 جلد اول خدائی رعب اور حملہ آوروں کی پسپائی راقم الحروف محمد حمید کوثر مورخہ 10 جون 1973ء کو گورداسپور میں ”مولوی فاضل کا امتحان دے رہا تھا اور اس عرصہ میں گورداسپور میں ہی مقیم تھا.قادیان سے روانہ ہوتے وقت حضرت مولا نا عبد الرحمن صاحب فاضل ناظر اعلیٰ و امیر جماعت احمد یہ قادیان نے خاکسار کو ایک چٹھی دی کہ یہ گورداسپور میں گیانی ہزارہ سنگھ صاحب ریٹائر ڈ ڈی.ایس.پی (D.S.P) کو پہنچا دینا.چنانچہ خاکسار وہ چٹھی گیانی صاحب کو دینے ان کے مکان پر گیا.سول لائنز گورداسپور میں ان کا مکان تھا.گیانی صاحب بڑی محبت سے ملے.چٹھی لینے کے بعد خاکسار سے پوچھا رہنے کی جگہ مل گئی.اگر نہیں ملی تو میرے گھر آجاؤ.خاکسار نے بتایا کہ ہوٹل میں جگہ مل گئی ہے.اس پر نصیحت کی کہ کبھی کبھی آجایا کرو.یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی.اس کے بعد ان سے متعدد بار ملاقات ہوئی.آخری ملاقات 1990ء میں ہوئی.خاکسار محترم ملک صلاح الدین صاحب مؤلف اصحاب احمد کے ہمراہ ان سے ملاقات کے لئے گیا تھا.ملک صاحب نے انہیں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اور بزرگان سلسلہ احمدیہ کے متعلق اپنے تجربات و مشاہدات تحریر کر کے بھیجوانے کے لئے کہا.گیانی صاحب نے وعدہ بھی کیا.شاید کسی مجبوری کی وجہ سے وہ وعدہ پورا نہ کر سکے.خاکسار جب بھی ان سے ملتا تو ان سے تقسیم ملک کے وقت رونما ہونے والے حالات و واقعات کو کرید کرید کر پوچھتا.ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ اکتوبر 1947ء کے پہلے ہفتہ میں جماعت احمدیہ کے تقریباً دوصد افراد ( جن میں کچھ غیر احمدی بھی تھے ) کو شہید کر کے کہاں پر یکجائی طور پر دفن کیا گیا تھا؟ میرے اس سوال پر وہ یکدم آبدیدہ ہو گئے.کہنے لگے ” مجھ سے اس قسم کے سوالات نہ پوچھ مجھے کچھ ہوتا ہے.پھر کہنے لگے ” قادیان آؤں گا وہ جگہیں دکھا دوں گا“.اور بھی بہت سی باتیں انہوں نے بتا ئیں 66 جن کی تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں.افسوس وہ قادیان نہ آسکے.اور از خود معین جگہ کی نشان دہی نہ کر سکے.گیانی صاحب نے بتایا کہ ”میں جنوری 1939ء میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس تھانہ صدر بٹالہ میں متعین تھا.اس تھانہ کے حلقہ میں قادیان ایک چوکی تھی جہاں مجھے مارچ 1939ء میں متعین کر دیا گیا.بعد ازاں مجھے تھا نہ پٹھانکوٹ بھجوادیا گیا، اور تقسیم ملک کے وقت میں پٹھانکوٹ میں ہی تھا.حکام بالا کی
جلد اوّل 240 تاریخ احمدیت بھارت طرف سے مجھے حکم ملا کہ فورا قادیان چوکی کا چارج سنبھالو.ان دنوں ٹرین اور بسوں کی آمد ورفت بند تھی.لہذا میں بذریعہ سائیکل پٹھانکوٹ سے قادیان چوکی پہنچا.“ گیانی صاحب نے بتایا مرکزی حکومت کے اکثر حکام احمد یوں کو قادیان میں رکھنا نہیں چاہتے تھے.ان کا کہنا تھا کہ یہ علاقہ سرحد کے بہت قریب ہے اس لئے ان کا اتنا قریب رہنا مناسب نہیں.نیز انہوں نے پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس لئے انہیں یہاں رکھنا مناسب نہیں.خصوصی فورس قادیان کو خالی کروانے کے لئے بھیجی گئی تھی.ہزاروں کی تعداد میں جنگجو حملہ آور قادیان حملہ کرنے کے لئے بلوائے گئے تھے.جو زیادہ تر ریاست پٹیالہ کی طرف کے تھے.فوجی اور سول افسران کا کہنا تھا کہ مشرقی پنجاب کی بڑی بڑی مسلم آبادیوں کو ہم نے چند گھنٹوں میں خالی کروایا ہے.کیا وجہ ہے کہ ڈیڑھ ماہ کی کوشش کے باوجود قادیان کو خالی کروانے میں کامیابی نہیں ہورہی.گیانی صاحب نے بتایا کہ آخر یہ طے پایا کہ شروع اکتوبر 1947ء میں قادیان کے چاروں اطراف سے ایک ساتھ حملہ کیا جائے.حملہ آوروں میں فورس بھی شامل تھی.اندازہ تھا دو دنوں میں قادیان خالی کروالیا جائے گا.یا تو انہیں مشرقی پنجاب کی باقی مسلم آبادیوں کی طرح پاکستان کی طرف دھکیل دیا جائے گا.یا خونخوار حملہ آوروں کو تہہ تیغ کرنے کے لئے کھلی چھٹی دے دی جائے گی.گیانی صاحب نے بتایا کہ ایک ہفتہ کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ خالی کروانا تو ایک طرف رہا ، قادیان کے اندرونی حصہ تک پہنچنے کی بھی جرات نہ ہوئی.جنہیں زبر دستی آگے بھیجتے وہ ڈر کر واپس لوٹ آتے.گیانی صاحب نے بر ملا کہا کہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی ربی طاقت آگے بڑھنے سے روک دیتی تھی.....گیانی جی یہ باتیں بڑے جذباتی انداز میں بیان کرتے جا رہے تھے اور مجھے غزوہ بدر کے متعلق قرآن مجید کی آیات یاد آ رہی تھیں وَلَقَدُ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ (24) اور یقینا اللہ تعالی بدر میں تمہاری نصرت کر چکا ہے جب کہ تم کمزور تھے.وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوّمِینَ (25) جبکہ وہ اپنے اسی جوش میں ( کھولتے ہوئے ) تم پر ٹوٹ پڑیں تو تمہارا رب پانچ ہزار عذاب دینے والے فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا.بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ وعدے تقسیم ملک کے وقت جماعت احمد یہ مشرقی پنجاب بالخصوص قادیان
تاریخ احمدیت بھارت 241 جلد اول کے احمدیوں کے حق میں پورے ہوئے.ملائکتہ اللہ کی ایک غیر مرئی روحانی فوج تھی جو قادیان دارالامان میں رہنے والوں کی مدد کر رہی تھی.ہزارہ سنگھ صاحب کے ایک اور دست راست جسونت سنگھ صاحب ہوا کرتے تھے.انہوں نے بعد میں اسٹیٹ بنک آف انڈیا ( قادیان) کی موجودہ (2016ء میں ) عمارت کے مشرق میں لکڑی چیرنے کے لئے آرا لگا لیا تھا.وہ بیان کیا کرتے تھے کہ ہم جب بھی محلہ احمدیہ کی طرف چڑھائی کا ارادہ کرتے خطرناک ہتھیاروں سے فائرنگ کی آواز میں اتنی خوفناک طور پر سنائی دیتیں کہ حملہ آوروں کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی.انہوں نے ہی ایک دفعہ خاکسار کو بتایا کہ جماعت احمدیہ کے جو چھوٹے چھوٹے دو ہوائی جہاز تھے اور لاہور سے قادیان اور قادیان سے لاہور جاتے تھے ہم نے بہر حال ان پر کم از کم دس افراد نے یکجائی فائرنگ کی مگر ہوائی جہاز کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے یا گرانے میں کامیاب نہ ہو سکے.بذریعہ خوف و ہراس احمدیوں کو نکالنے کی کوشش اکتوبر 1947 ء کے پہلے ہفتہ میں سول اور فوجی حکام اور دہشت گردوں نے قادیان کو احمدی آبادی سے خالی کروانے کے مقصد سے جو انتہائی ظالمانہ اور خوفناک خونی یلغار کی تھی.وہ مقصد پورا نہ ہو سکا.ان کا ارادہ تھا کہ کسی بھی طرح دار مسیح، مسجد مبارک ہمسجد اقصیٰ اور منارۃ المسیح نیز بہشتی مقبرہ سے احمدیوں کو نکال کر ان پر قبضہ کر لیا جائے.مگر ہر حربہ استعمال کرنے کے بعد بھی یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا تھا.دار اسیح اور اس کے اطراف کی جانب آنے سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر انہیں روک رہی تھی.ان کے دل ودماغ پر ایسا رعب و خوف طاری تھا کہ ادھر آنے کی جرات نہ ہوتی تھی.یہ درست ہے کہ نئے آباد شدہ بعض محلوں اور تعلیمی عمارتوں اور کوٹھیوں و مکانات کو بزور طاقت خالی کروالیا گیا تھا.مگر قادیان کو مکمل طور پر خالی کروانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی.بزور باز و قادیان خالی کروانے میں ناکامی کے بعد حکام بالا نے غالباً با ہمی طور پر یہ فیصلہ کر لیا کہ احمدیوں کو بلا کر اس طرح ڈرایا اور خوف زدہ کیا جائے کہ وہ از خودان مقامات مقدسہ کو خالی کر کے راہ فرار اختیار کر لیں.چنانچہ اس کی شروعات ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کی طرف سے ہوئی.وہ قادیان آئے اور مجسٹریٹ صاحب علاقہ کے ساتھ شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان محلہ دار الرحمت میں ٹھہرے.مؤرخہ 5 اکتوبر 1947ء کو ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور نے محترم صاحبزادہ مرزا عزیز احمد
جلد اوّل 242 تاریخ احمدیت بھارت صاحب (اس وقت کے امیر مقامی ) کو بلایا اور ان سے ملاقات کی.اس ملاقات کے بارہ میں تاریخ احمدیت میں درج تفصیل جو صاحبزادہ صاحب نے خود بیان فرمائی درج کی جاتی ہے:.وو پرسوں ڈپٹی کمشنر نے پیغام بھیجا کہ میں ملنا چاہتا ہوں.میں ، مرزا عبد الحق صاحب اور مکرم ملک غلام فرید صاحب کو ساتھ لیکر ان کو ملنے گیا.ڈپٹی کمشنر صاحب، مجسٹریٹ صاحب علاقہ کے ساتھ شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان محلہ دارالعلوم میں ٹھہرے ہوئے تھے.میرا دل روز روز کے مظالم اور وعدہ خلافیوں کو دیکھ کر بھرا ہوا تھا.باوجود یکہ حضور کی ہدایت ہے کہ افسروں سے ادب اور نرمی سے ملو.مجھ سے کچھ نہ کچھ تلخی ضرور ہوگئی.ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا آپ کو کیا تکلیف ہے.میں نے کہا کوئی ایک تکلیف ہو تو بتاؤں اور اگر کسی کی نیت ہماری تکالیف کو دور کرنے کی ہو تو اس کا ذکر بھی کریں.(اس کے بعد تفصیل سے اپنی حالت بتائی ) ڈپٹی کمشنر صاحب نے پوچھا کہ اب اپنے متعلق آپ کا کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ آپ کا ارادہ ہمارے متعلق کیا ہے؟ کہنے لگے ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ آپ یہاں رہیں.میں نے کہا کہ آپ کے چاہنے کی بات نہیں.یہ فرما ئیں کہ گورنمنٹ کیا چاہتی ہے.کہنے لگے کہ میں ہی گورنمنٹ ہوں.میں اسوقت تیزی میں تھا.میں نے کہا کہ آپ گورنمنٹ نہیں.آپ کچھ بھی نہیں.کہنے لگے کہ آپ کس کو گورنمنٹ کہتے ہیں.میں نے کہا کہ مشرقی پنجاب کے ہوم منسٹر صاحب اگر ہمیں لکھ دیں کہ وہ ہمیں رہنے دینا چاہتے ہیں تو ہم ان پر اعتبار کریں گے.ان کے نیچے کسی افسر کی کوئی حقیقت نہیں.ڈپٹی کمشنر صاحب نے جتنی باتیں کیں ان سب میں اس بات پر زور دیا کہ جولوگ مغربی پنجاب سے لٹ کر آئے ہیں وہ اتنے DESPERATE ہیں کہ ان کو لوٹ مار سے روکنا مشکل ہے.اس بارہ میں کئی قصے بھی سنائے.میں نے کہا کہ ان پناہ گیروں کو ہم جانتے ہیں.ان کی حالت زار کو ہم نے دیکھا ہے.وہ لوٹنے والے نہیں.لوٹنے والے یہاں کے....(مفسدہ پرداز ) یہاں کے...(شرپسند) اور ان کی پشت پناہ پولیس اور بعض اوقات ملٹری ہوتی ہے.دوران گفتگو میں اس نے اصل بات یہ بتائی کہ میں آپ کو بتلاتا ہوں کہ آپ کی جگہ BORDER (سرحد) پر واقع ہے.اور اگر مشرقی اور مغربی پنجاب کی BORDER پر کوئی INCIDENT ( حادثہ ) ہو تو آپ کی پوزیشن بہت خطرناک ہو جائے گی غالباً اس کا اشارہ اس طرف تھا کہ ایسی حالت میں یا تم ختم ہو جاؤ گے یا قیدی بنائے جاؤ گے.
تاریخ احمدیت بھارت 243 جلد اول...آخر میں سپر نٹنڈنٹ صاحب پولیس نے کہا کہ باوجود ہمارے بار بار کہنے کے غیر لائسنس شدہ اسلحہ واپس نہیں کیا جا رہا.ان سے کہا گیا کہ ہمیں علم ہو کہ کہاں اور کس کے پاس ہے تو واپس بھی کریں.نیز کہا کہ ہمارے متعلق تو یہ بھی مشہور کیا گیا ہے کہ یہاں MINES(سرنگیں بچھائی ہوئی ہیں.حالانکہ ہم بار بار اس سے انکار کر چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ حکومت تلاشی وغیرہ سے اس کے متعلق تسلی کرلے.اسے علم ہو جائیگا کہ یہ بات غلط ہے.اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے کہا، کہ ایسی چیزیں کہیں تلاشی سے بھی ملا کرتی ہیں؟ ہم نے کہا کہ ہمارے جانے کے بعد تو آپ ان کو نکال ہی لیں گے.اس پر انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ساتھ لے جائیں گے.ہم نے کہا کہ ہم اس کا کیا جواب دیں.ہمارا معمولی سامان تو لے جانے نہیں دیا جا تاMINES کو ہم کس طرح لے جائیں گے.دوران گفتگو میں ملٹری میجر ( جو بعد میں آکر مجلس میں شامل ہو گیا تھا) اور مجسٹریٹ صاحب علاقہ نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ٹرانسمیٹر ہے....ان سے کہا گیا کہ ہم حلف کھاتے ہیں اور اس کے متعلق تحریر دینے کو تیار ہیں کہ ہمارے پاس کوئی ٹرانسمیٹر نہیں.مؤرخہ 8 اکتو برکوسپر نٹنڈنٹ صاحب پولیس نے جماعت کے ایک نمائندہ سے کہا کہ اگر کوئی واقعہ سرحد پر ہو گیا تو قادیان کے ہر شخص کو ماردیا جائے گا.اس کے چند روز بعد پاکستان سے میجر آرنسن ایک کنوائے لیکر قادیان آئے.انہوں نے جماعت کے ذمہ دار عہدیداروں کو صاف لفظوں میں بتایا کہ وہ آپ لوگوں کے پاس یہاں کے افسروں کا ایک پیغام لے کر آئے ہیں.اور وہ ایک THREAT ( دھمکی ) ہے جو انہوں نے آپ لوگوں کو دی ہے.یعنی اگر آپ نے یہاں رہنے کا ارادہ کر لیا، وہ آپ کو تباہ کر دیں گے.مؤرخہ 12 اکتوبر کو کرنل گور بچن سنگھ صاحب نے جماعت احمدیہ کے ایک نمائندہ کو بتایا کہ یہاں کی حکومت آپ کو کہے گی کہ آپ یہاں رہیں....لیکن صحیح بات یہی ہے کہ گورنمنٹ آپ کو یہاں رہنے نہیں دے گی.اور آپ کو یہاں سے نکلنا پڑے گا.اگر آپ نہ نکلیں گے تو آپ پر شدید حملہ ہوگا.مؤرخہ 13 اکتوبر کو مجسٹریٹ صاحب علاقہ نے ایک احمدی کارکن سے کہا کہ خدا کے لئے قادیان سے چلے جاؤ میں سخت تنگ آ گیا ہوں.کارکن نے جواب دیا کہ آپ لکھ دیں کہ یہاں سے چلے جاؤ.مجسٹریٹ صاحب نے جواب دیا آپ کو بہر حال نکلنا پڑے گا.
جلد اوّل 244 تاریخ احمدیت بھارت مؤرخہ 14 اکتوبر کو مجسٹریٹ صاحب نے مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ سے کہا آپ لوگوں کو چاہیے کہ باہر ریفیوجی کیمپ میں آجائیں.کیونکہ مسجد مبارک کے حلقہ میں خون خرابہ کا اندیشہ ہے.اسی دن بعض باوثوق ذرائع سے یہ خبر بھی ملی کہ انچارج صاحب چوکی نے ایک صوبیدار سے کہا ہے کہ پہلے شہر کی پرانی آبادی کو خالی کرانا چاہیے تھا پھر دوسرے محلوں کو.دوسرے محلوں کو پہلے خالی کرانے میں ہم نے غلطی کی ہے.مؤرخہ 18 اکتوبر کو مجسٹریٹ صاحب علاقہ کے جوش غضب کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے بعض احمدیوں سے کہا کہ آج رات خدا نے مجھے کہا ہے کہ ان کو قادیان سے نکال دو، ان کو یہاں نہ رہنے دو.اگر وہ رہ گئے تو بہت خطرہ ہے.‘ (26) قادیان میں مقیم اپنے جسمانی اور روحانی بچوں کے نام حضرت الصلح الموعود کا درد بھرا پیغام قادیان کے دردانگیز حالات کا علم جیسے جیسے سیدنا حضرت اصلح الموعود " کولاہور میں ہوتا رہا آپ المصلح کی فکر اور کوششوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا.آپ نے غالباً 10 اکتوبر 1947ء کو قادیان میں مقیم احباب جماعت کے ثابت قدم رہنے اور ان کے دلوں میں قربانی کا جذبہ تازہ رکھنے کی خاطر لاہور سے ایک درد بھرا پیغام قادیان بھجوایا جس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.وو پیارے بچو! بسم الله الرحمن الرحیم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاته تم لوگوں کا پیغام محمد عبد اللہ لا یا.قادیان کے خطرناک حالات معلوم ہوئے تم لوگوں کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ گویا ہم کچھ کر سکتے ہیں لیکن کرتے نہیں.حقیقت یہ ہے کہ ہم بھی اور حکومت بھی بے بس ہیں.اب سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.وہی کچھ کرے گا تو کرے گا.ہم نے دو کنوائے بھجوائے تھے ایک چوبیس ٹرک کا اور ایک تینتیس کا.اگر وہ آجاتے تو قریباً سب عورتیں نکل آتیں.پھر تمہارا بوجھ ہلکا ہو جاتا.مگر انکو بٹالہ سے واپس کر دیا گیا اور ایک قافلہ پر حملہ بھی کیا گیا.کوئی سو آدمی مارا گیا.سپاہی بھی کچھ مارے گئے.اصل میں ہم تو اسی وقت سمجھ گئے تھے کہ یہ روک
تاریخ احمدیت بھارت 245 جلد اول قادیان کو فنا کرنے کے لئے ہے.العیاذ باللہ.تم لوگوں کے کھانے کی تکلیف کا علم بھی ہوا اللہ تعالیٰ ہی اسکا علاج کرسکتا ہے.ڈی سی گورداسپور نے مظفر سے وعدہ کیا تھا کہ خود جا کر قادیان کے حالات دیکھے گا.مگر معلوم نہیں کہ گیا یا نہیں اور کچھ کیا یا نہیں.جنرل کر یا پا نائب کمانڈر انچیف کو آج ملے.اس نے یہ ظاہر ہمدردی کا اظہار کیا اور اس کے رویہ سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ خود بھی شاید قادیان جائے.ابھی اطلاع ملی ہے کہ قادیان کو ریفیو جی کیمپ بنانے کے لئے دہلی کو دونوں حکومتوں کے نمائندے وائرلیس کر رہے ہیں.اگر ایسا ہو تو شاید مسلمان ملٹری بھی لگ جائے اور کم سے کم حکومت کی ذمہ داری ہی بڑھ جائے اور غذا کی ذمہ داری بھی بڑھ جائے.بہر حال استقلال سے جمے رہو.جب تم لوگ خدا کی راہ میں شہید ہونے کے لئے بیٹھے ہو تو پھر خوف کو دل میں آنے دینے کے معنے ہی کیا ہوئے.جو شخص خدا تعالیٰ کے راستہ میں قربان ہونے کے لئے بیٹھا ہوا سے پھر کسی قسم کے انجام کا ڈر نہیں ہوتا.کیونکہ موت کے بعد اور کونسا خطرہ رہ جاتا ہے مجھے تو صرف عورتوں کی فکر ہے خدا کرے عورتوں کی عزت محفوظ رہے.مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اپنے حوصلے کو بلند رکھو.اگر دین کی اشاعت کا خیال نہ ہوتا اور مجھ سے اشاعت اسلام کا کام وابستہ نہ ہوتا تو میں تم لوگوں کو باہر بھجوا دیتا اور آپ تم لوگوں کی جگہ وہاں کام کرتا.کربلا کا واقعہ یادرکھو اور سب دوستوں کو یاد کراؤ.کس طرح رسول کریم صلی یتیم کے سب خاندان نے بھوکے پیاسے رہ کر ثابت قدمی سے آخر دم تک لڑائی کی اور سب نے جان دیدی.تمہارا خطرہ ان کے برابر نہیں.آخر یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا ہے اور وہ ضرور اپنی قدرت دکھائیگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے.يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا - شاید یہ وہی ابتلاء ہے.اللہ تعالیٰ اس ابتلاء میں ڈال کر ہمارے خاندان کے گناہوں کو جو بہت بڑے ہیں معاف کر دے گا.یا شہادت دیکر انکو دھو دے گا.اور آئندہ سلسلہ کی زندگی کا اسے ایک ذریعہ بنادے گا.ہم لوگ بھی خطرہ سے باہر نہیں.پاکستان سخت خطرہ میں ہے اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ آئندہ کیا ہوگا.اور یہ کہ کہیں کچھ عرصہ کے لئے احمدیت کا مرکز ہندوستان سے باہر تو نہیں لے جانا پڑیگا.مگر اس صورت میں شاید مجھے بھی شہادت کا ہی راستہ اختیار کرنا پڑیگا.اور شاید بقیہ کام اللہ تعالیٰ کسی اور سے لے.
جلد اوّل 246 تاریخ احمدیت بھارت اس وقت ساری دنیا کی نظریں تم لوگوں پر ہیں.ہر دشمن تک حیرت سے تم لوگوں کے استقلال اور قربانی کو دیکھ رہا ہے.اور تمہاری یہ قربانی سلسلہ کی عزت کو چار چاند لگا رہی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا کم فضل نہیں کہ تم لوگوں کو یہ ثواب مل رہا ہے.میری کمر سلسلہ کے غم میں خمیدہ ہو رہی ہے اور صحت کمزور ہو رہی ہے مگر اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس غم کو آخر اسلام کی کامیابی کا موجب بنا دیگا.اگر ایسا ہو تو ہماری زندگیاں ٹھکانے لگیں گی اور ہماری قربانیاں.قربانیاں نہیں بلکہ انعام بن جائیں گی.میرے بچو! جسمانی اور روحانی بچو! اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ ہو اور اپنے حوصلے پست نہ ہونے دو.کہ موت بہر حال آئیگی.چاہیئے کہ جتنا خطرہ بڑھے تمہارے حوصلے بھی بڑھتے جائیں اور تمہارے دل میں خوشی کی لہر دوڑتی جائے کہ اس عظیم الشان قربانی کے لئے جو اسمعیل کی قربانی کے مشابہ ہے.خدا تعالیٰ نے تم کو چنا.اے قادیان کے ساکنو! آج آسمان کے فرشتے تمہارے استقلال پر خدا تعالی کی حمد گا رہے ہیں.آج اللہ تعالیٰ بھی تمہارے کام دیکھ کر خوش ہے کہ میرا مسیح کامیاب آیا اور اس نے ایسی جماعت بنادی جو خدا تعالیٰ کی راہ میں فاقہ اور پیاس اور موت کو فخر سمجھتی ہے.اور دنیا کی محبت اس کے دل سے سرد ہے.آج ہمارا مسیح بھی یقینا خوش ہوگا.وہ آپ لوگوں کے لئے دعا بھی کرتا ہوگا.اور خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے بھی گاتا ہوگا.کہ اس نے اسکی سچائی کا زندہ ثبوت بہم پہنچا دیا.اور دنیا کو بتادیا کہ اس مسیح نے پہلے مسیح سے زیادہ شاندار مردے زندہ کئے ہیں.تم لوگ زندہ رہے تو اسلام کی زندگی کا ایک نشان ہو گے.اور شہید ہوئے تو اسلام کی قوت قدسیہ کا ایک ثبوت ہو گے.خدا تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو.اور تم کو احمدیت کی آئندہ ترقی کے لئے کام کرنے کی توفیق دے.مگر اس کے ساتھ ہر تکلیف اور ہر انجام کے لئے بھی تم کو تیار رہنا چاہئیے کیونکہ جو موت سے گھبراتا ہے اس کی زندگی بھی بے کار ہوتی ہے.قادیان کی حفاظت کے بارہ میں یہ خیال رکھو کہ جیسا پہلے لکھا جا چکا ہے فوج اور پولیس کا مقابلہ نہ کرو.ڈاکوؤں کا خوب مقابلہ کرو.ایسا کہ ان پر رعب جمے مگر سامان کو ضائع نہ کرو.اور نہ جانوں کو ضائع کرو.اگر ز بر دستی تم کو فوج اور پولیس ایک جگہ سے نکال دے دوسری جگہ پر جم جاؤ.اور اگر خدانخواستہ ہر جگہ سے نکالدے جو میرے یقین میں انشاء اللہ نہیں ہوگا.تو پھر بامر مجبوری ریفیوجیز کیمپ میں چلے جانا.ہاں سلسلہ کار ریکار ڈ اور الفضل.الحکم اور البدر کے فائل اور تحریک اور انجمن کی امانتوں اور چندوں کے
تاریخ احمدیت بھارت 247 جلد اوّل حساب کا ریکارڈ ضرور ان کے کارکنوں سمیت اور شیخ نور الحق پہلے کنوائے میں بھجوا دیئے جائیں.اس کے بغیر سلسلہ کا سخت نقصان ہے، ان چیزوں اور ان آدمیوں کے نہ بھیجوانے سے سلسلہ کا سخت نقصان ہوا ہے.اللہ تعالیٰ معاف کرے.اس کنوائے میں تو نہیں جو بڑا کنوائے پرسوں تک آئیگا اس میں مطلوبہ کلرک اور مبلغ اور تیں دیہاتی مبلغ بھی آجانے چاہئیں تا کہ جماعتوں کو فوراً منظم کیا جاسکے.خدا کرے ہمارا قادیان سلامت رہے اور ہم اس کی جگہوں میں خدا کی حمد گاتے پھریں.خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.والسلام خدا کا عاجز بندہ اور اس کے دین کا خادم.تمہارا دعا گو مرز امحمود احمد (27) حفاظت شعائر اللہ کے بارے میں عہدیداران جماعت کی اہم میٹنگ تاریخ احمدیت میں درج ہے کہ ماہ اکتوبر 1947ء کے دوسرے ہفتہ کی ابتداء میں حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود نے قادیان کے مرکزی عہدیداروں سے بذریعہ مکتوب یہ مشورہ طلب فرمایا کہ قادیان کی حفاظت کی خاطر مستقبل میں کیا صورت اختیار کی جائے.حضور کے ارشاد کی تعمیل میں صاحبزادہ مرز اعزیز احمد صاحب امیر مقامی قادیان نے جماعت کے چند مخصوص اور سر بر آوردہ احباب کی میٹنگ بلائی.اور مورخہ 11 /اکتوبر 1947ء کو اس میٹنگ کی روداد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں بھیجوا دی جس میں لکھا:.ان احباب کا خیال ہے کہ یہ لوگ نہ تو کالج ہمیں واپس کریں گے اور نہ مکانات کو اب خالی کریں گے.اس لئے سوائے مقامات مقدسہ یعنی بہشتی مقبرہ مسجد اقصیٰ مسجد مبارک اور دار مسیح کے کہیں اور اپنے آدمی نہیں رکھے جاسکتے.اور ان مقامات کی حفاظت کے لئے دوصد آدمی کافی ہوں گے.اور حضور کی تجویز کے مطابق یکصد آدمی عملہ حفاظت سے نکل آئیں گے اور 50 قادیان کے احباب سے اور 50 باہر سے آئیں گے.یہاں کے....(شر پسندوں) اور....(مفسدہ پردازوں) کا رویہ ہمارے مقامات مقدسہ کے
جلد اوّل 248 تاریخ احمدیت بھارت متعلق نہایت معاندانہ ہے.اگر گورنمنٹ سے اس بارہ میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو شاید ان کے نظریہ اور رویہ میں کچھ تبدیلی ہو جائے.(28) جماعت احمدیہ کے عہدیداران اور سرکاری افسران کی گفت و شنید اور باہمی معاہدہ 16 اکتوبر 1947 ء کے بعد قادیان کے حالات کچھ تبدیل ہوئے.یہ سب سید نا حضرت مصلح موعود خلیفتہ اسیح الثانی کی کوششوں اور دعاؤں کا نتیجہ تھا جو قیام لاہور کے دوران آپ نے فرما ئیں.پہلے جہاں مفسدہ پرداز وں نے فساد برپا کیا ہوا تھا اور گورنمنٹ بھی احمدیوں کو قادیان سے باہر نکالنے پر تلی ہوئی تھی.وہاں اب اعلیٰ حکام کے ساتھ احمد یہ جماعت کے اعلیٰ عہدیداران کی گفت وشنید شروع ہوئی اور باہمی معاہدہ بھی ہوا.اوراس طرح محلہ احمدیہ کی حد بندی عمل میں آئی.جب سید نا حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی" کی جانب سے گورنمنٹ سے سمجھوتہ کرنے اور احمد یوں کے لئے دار مسیح اور محلہ احمدیہ کی حدود طے کرنے کی اجازت ملی تو جماعت احمدیہ کے عہدیداران نے سرکاری افسران سے بات چیت شروع کی.اس وقت کی ملٹری اور فوج کے ذمہ دار افسر اپنے سابقہ رویہ کے مطابق یہی چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح احمدیوں کو مکمل طور پر قادیان سے باہر نکال دیا جائے.لیکن ان میں سے اکثر یہ جانتے اور یقین رکھتے تھے کہ احمدیوں کو قادیان، بالخصوص اس میں موجود شعائر اللہ اور مقدس مقامات سے اتنی عقیدت اور محبت ہے کہ ان میں سے ہر ایک اس کی حفاظت کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہا دے گا.مگر جیتے جی اسے چھوڑ کر نہیں جائے گا.بعض سرکاری افسران کی یہ بھی تجویز تھی کہ مرکزی حکومت دہلی کو لکھا جائے کہ وہ تحریری حکم نامہ احمدیوں کو قادیان خالی کرنے کے لئے بھجوائے.شاید وہ یہ جانتے تھے کہ یہ جماعت حکومت وقت کے حکم کی نافرمانی نہیں کرے گی.لیکن مرکزی حکومت معاہدوں کی پابندی کی وجہ سے ایسا کر نہیں سکتی تھی.اس ساری صورتحال پر غور و فکر کے بعد سرکاری افسران اس نتیجہ پر پہنچے کہ احمدیوں کی آبادی کے لئے کچھ نہ کچھ علاقہ بہر حال مخصوص کرنا ضروری ہے.اس پر انہوں نے احمدی نمائندوں سے خود بھی پوچھنا شروع کیا کہ مستقبل سے متعلق ان کی کیا پالیسی ہے؟ احمدی نمائندوں نے انہیں بتایا کہ اگر ہمیں یہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا تب بھی اپنے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے مناسب تعداد ہم میں سے ضرور موجود رہے گی.ابتداء میں جب جماعت کی طرف سے کہا گیا کہ یہاں رہنے والوں کی تعداد ایک ہزار کے
تاریخ احمدیت بھارت 249 جلد اول قریب ہوگی تو ملٹری کے افسروں نے کہا کہ ہزار تو بڑی تعداد ہے.اگر اس سے کم لوگ یہاں رہیں اور وہ بھی ادھیڑ عمر کے تو غور کیا جا سکتا ہے.اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی خود بخود گفتگو کا محور بن گیا کہ احمدیوں کو اپنے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے کس قدر حلقہ درکار ہوگا ؟ آخر 18 اکتوبر 1947 ء کو قادیان میں درویشانہ زندگی گزارنے والے احمدیوں کی حدود آبادی پر ملٹری کے ذمہ دار آفیسر ( لیفٹینٹ کرنل) اور احمدی نمائندوں کا اتفاق رائے ہو گیا.جس کے مطابق احمد یہ محلہ کی حد بندی حسب ذیل طریق پر ہوئی:.شمال میں :.مکان حضرت سید ناصر شاہ صاحب - قصر خلافت.دفاتر صدر انجمن احمد یہ مرکز یہ.دفتر تحریک جدید مکان مکرم مدد خاں صاحب ، مکان حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ،جلسہ گاہ قدیم (زنانہ جلسہ گاہ.ناقل ).جنوب میں : محلہ ناصر آباد، بہشتی مقبرہ ، باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام.مشرق میں : مکرم نیک محمد خاں صاحب ،کرم مولوی عبدالمغنی خان صاحب اور مکرم امتیاز علی صاحب کے مکانات.مغرب میں :.مسجد فضل ،سڑک ڈسٹرکٹ بورڈ بطرف لیل کلاں.مکان مولوی عبدالحق صاحب بدوملہوی.مسجد اقصیٰ.مولانا جلال الدین صاحب شمس نے (جو ان دنوں امیر مقامی کے فرائض انجام دے رہے لمصد تھے ) سید نا اصلح الموعود کی خدمت میں لکھا:.آج شام (18/ اکتوبر کو تین بجے لیفٹیننٹ کرنل صاحب ،ڈی.ایس.پی صاحب، مجسٹریٹ صاحب علاقہ ، ہزارہ سنگھ صاحب مع لیفٹیننٹ کیانی تشریف لائے.صاحبزادہ ناصر احمد صاحب، مرز اعبد الحق صاحب اور خاکسار نے ان سے ملاقات کی.نقشہ قادیان پر وہ علاقہ دکھایا گیا جسکی حفاظت احمدی چاہتے ہیں.مجسٹریٹ صاحب علاقہ کے سوا اور کسی نے ہماری مخالفت نہ کی.کرنل صاحب نے ہماری تجویز سے اتفاق کیا.رستوں میں غیر مسلموں اور سکھوں کے آنے جانے کے متعلق ذکر کیا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں کہ وہ بھی ہمارے رستوں میں آتے جاتے رہیں.لیفٹینٹ کرنل نے کہا کہ جو یہاں رہیں گے وہ آزادی سے دوسرے شہریوں کی طرح رہیں گے.محصور ہوکر
جلد اوّل 250 تاریخ احمدیت بھارت نہیں رہیں گے.انہوں نے پوچھا کہ مسلم ملٹری کہاں ٹھہرائیں اور کیا مخلوط ملٹری پہرہ پر رکھی جائے ؟ تو صاحبزادہ صاحب نے کہا مسلم ملٹری آپ کے ماتحت ہو جیسے آپ پسند کریں اس پر اعتراض نہیں.(29) مذکورہ معاہدے کے مطابق جو علاقہ احمدیوں کے لئے مختص کیا گیا وہ مسلکہ نقشے میں واضح کر دیا گیا ہے.اس لائن کے اندر کا علاقہ جماعت کو دیا گیا اور بعد میں یہی محلہ احمدیہ کے نام سے مشہور ہو گیا.مرکزی حکومت کی طرف سے اعلیٰ سطح کے وفد کی قادیان میں آمد حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا قادیان سے ہجرت فرمانا اس لحاظ سے بھی بہت بابرکت اور مفید ثابت ہوا کہ آپ نے لاہور ( دار الحکومت پنجاب میں قیام فرماتے ہوئے دونوں حکومتوں کے سر براہان اور افسران سے رابطے قائم کئے.اور ان پر اخلاقی اور قانونی دباؤ ڈالا.یہی وہ کوششیں تھیں جو کامیاب ثابت ہوئیں اور اکتوبر 1947ء میں خونی یلغار کے بعد حکومت دہلی کی طرف سے مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل وفد الگ الگ تاریخوں میں قادیان آیا.(1) مس سارہ بائی.(2) مسٹر کرشنا مورتی (3) ڈاکٹر سوفٹ (4) حسین شہید سہروردی (5) میجر جنرل تھمایا (6) ڈاکٹر ڈنشا مہتہ ( گاندھی جی کے خاص نمائندے) یہ وفد قادیان پہنچا اور جماعت احمدیہ کے عہدیداران سے بات چیت کی اس کی تفصیل محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب (جو اس وقت قادیان میں موجود تھے ) کی ایک ڈائری سے ملتی ہے جو تاریخ احمدیت میں ملخصا شائع ہوئی ہے آپ لکھتے ہیں:.مورخہ 19 ماہ اکتوبر: صبح نو بجے میں سارہ بائی قادیان آئیں.احمدیوں کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب.مولوی جلال الدین صاحب شمس مکرم ملک غلام فرید صاحب.مرزا عبد الحق صاحب اور مکرم مرزا منور احمد صاحب ان کو ملنے بیت الظفر (کوٹھی چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب واقع دار الانوار حالیہ بجلی گھر قادیان.ناقل ) گئے.وہاں جا کر معلوم ہوا کہ مس سارہ بائی کے ساتھ مسٹر کرشنا مورتی اور ڈاکٹر سوفٹ صاحب بھی آئے ہیں.مؤخر الذکر ہسپتال کی حالت کا جائزہ لینے آئے تھے.صاحبزادہ مرزا
نقشه نمبر 7 نقشه آبادی جدید و قدیم قادیان نشانات حد بندی احمد یه مامه ریلروس الائون سٹرک مکان پانی باغ کار خا تمام روزشته بڑائی کھارہ کچھ احیدر آباد در ناکم علی النشا دار الشكر لڑکی نواب صاحب کوئی نواب محمد علی خان جنا حتی این ه کنوانی احمد یہ فارم مسجد دار القضاة D ة دار الفضل تعلیم الاسلام کالج دائر البركات شرقی را یک ہونے کو مسجد دار ابرکات شرقی نڈک بھیٹی کو صاحب رضی کو بھی فتح حمد سفیان کمر پر پہ شت پانچ روڈ ٹاؤن کمال ہے باغ بادا GOO BOD بیٹنگ تحریک جدید سٹک باغ بادیاں.بيت الظف دار الحمد دارالا دختر تخدم الامت جامع احمدية داران او الله ریوں سے لائن پیالہ کو دار اليسر ریتی پھیلہ کار شیخ قالین مسجد دار الفتوح سیاه پودری پڑا انشا از ناصر آباد tion سٹریک آریہ سکول کو سٹریک عید گاہ کو شر کی پٹیالہ کو ہے نے سنڈیکا لیونانی کہ سڑک مشکل کچھ راسته تشکل کند بہشتی مقبرہ درویشان کے لئے حکومت کی طرف سے 1947ء میں محلہ احمدیہ کی حد بندی نقشہ میں نشان زدہ علاقہ کے مطابق ہوئی
تاریخ احمدیت بھارت 251 جلداول منور احمد صاحب نے ان کو ہسپتال کے متعلق تازہ کوائف بتائے اور پھر ان کے ساتھ موٹر میں بیٹھ کر ہسپتال گئے.دیکھا تو تمام تالے ٹوٹے پڑے تھے.قیمتی سامان لوٹ لیا گیا تھا.اپریشن روم سے سب کے سب اوز ارلٹ چکے تھے.ڈاکٹر سوفٹ صاحب نے بے ساختہ کہا افسوس ہسپتال برباد کر دیا گیا ہے......بعد ازاں ڈاکٹر سوفٹ کے کہنے پر ہسپتال میں فوجی پہرہ لگا دیا گیا.تھوڑی دیر بعد مرزا منور احمد صاحب دوبارہ حضرت میاں ناصر احمد صاحب، ملک غلام فرید صاحب، مولوی جلال الدین شمس صاحب اور مرزا عبد الحق صاحب کے ساتھ بیت الظفر گئے.جہاں ملک غلام فرید صاحب نے مسٹر کرشنا مورتی صاحب کو سب واقعات بتائے اور کہا کہ جب ہم لوگ یہاں رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیوں نکالا جاتا ہے؟ کہنے لگے بات یہ ہے کہ تم لوگ INDO PAKISTAN BORDER کے بالکل قریب ہو.اس لئے یہ سب کچھ ہے.اس گفتگو کے بعد مس سارہ بائی کو قادیان کے خونچکاں حالات بتائے گئے.مس سارہ بائی نے اس موقعہ پر مقامی ہندو سکھوں کو بھی جو باہر آئے ہوئے تھے اندر بلالیا اور کہا.اغوا شدہ عورتوں کی بازیابی اور غلط افواہوں کے تدارک وغیرہ کے لئے ایک امن کمیٹی قائم کی جائے.چنانچہ ان کی تجویز پر ایک کمیٹی بن گئی جس میں دو ہندو ، دو سکھ اور دو احمدی ممبر بنے.(احمدیوں میں سے ایک ممبر حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ فاضل مرحوم تھے.ناقل ) مورخہ 23 اکتوبر : اس روز تقریباً ساڑھے دس بجے جناب حسین شہید صاحب سہروردی.میجر جنرل تھا یا صاحب کے ساتھ ہوائی جہاز پر آئے اور جہاز سے اتر کر سیدھے شہر میں احمدیوں کے حلقہ کی طرف آئے.مگر میجر جنرل تھمایا صاحب تو واپس بیت الظفر چلے گئے.سہروردی صاحب کے ساتھ ڈاکٹر ڈ نشامہتہ صاحب بھی تھے جو گاندھی (جی) کے خاص نمائندے کی حیثیت سے آئے تھے.ان لوگوں کو حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے مکان پر بٹھایا گیا اور حضرت میاں ناصر احمد صاحب ، ملک غلام فرید صاحب ، مولوی جلال الدین شمس صاحب اور مرزا منور احمد صاحب ملاقات کے لئے گئے.اور ان کو نہایت تفصیل کے ساتھ قادیان کے گزشتہ واقعات سے مطلع کیا.جن کو دونوں نے بہت دلچسپی سے سنا اور ساتھ کے ساتھ نوٹ بھی لیتے گئے.ساڑھے گیارہ بجے تک ملاقات ہوتی رہی.دونوں ہی ان واقعات سے بہت متاثر معلوم ہوتے تھے.اس موقعہ پر بنگال کے احمدیوں کا وفد بھی سہروردی صاحب سے ملا.اس
جلد اوّل 252 تاریخ احمدیت بھارت کے بعد سہروردی صاحب کو مسجد اقصی کی وہ جگہ دکھائی گئی جہاں بم گرائے گئے تھے.پھر جناب سہروردی صاحب نے بعض احمدیوں کے ساتھ منارۃ اسیح پر سے مسجد فضل، دار الفتوح ، دار الرحمت وغیرہ محلے دیکھے جن پر....(مفسدہ پردازوں) نے حملہ کیا تھا.جناب سہروردی صاحب نے یہاں سے شہر کی تصویریں لیں.اور دور بین پکڑ کر کہا کہ لاؤ میں مسلمانوں کا وہ کالج آخری بار دیکھ لوں.جواب غیر مسلموں کے ہاتھوں میں جا رہا ہے.اس پر ڈاکٹر ڈنشا مہتہ نے کہا کہ مجھے یقین ہے.یہ عارضی طور پر جارہا ہے پھر ضرور جلدی ہی واپس آئے گا.اس کے بعد جناب سہر وردی صاحب اور ڈاکٹر ڈنشا مہتہ وغیرہ جیپوں میں بیٹھ کر بیت الظفر گئے.جہاں سے یہ لوگ بذریعہ ہوائی جہاز واپس چلے گئے.جناب سہروردی صاحب اور ڈاکٹر ڈنشا نے جاتے ہوئے وعدہ کیا کہ ہم وزیر اعظم پنڈت جواہر لال صاحب نہرو کو سب واقعات بتائیں گے اور آپ کے ڈھائی تین سو آدمیوں کے یہاں بحفاظت رہنے کا پورا انتظام ہو جائے گا.مورخہ 24 / اکتوبر : صبح کو مس سارہ بائی صاحبہ اور مسٹر کرشنا مورتی پھر آئے اور حضرت میاں ناصر احمد صاحب.مرزا عبد الحق صاحب سے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے مکان میں ملاقات 66 کی بہشتی مقبرہ بھی دیکھنے گئے.‘ (30) حکومت کی طرف سے تین سو تیر و احمدیوں کو قادیان میں رہنے کی اجازت اور درویشان کا انتخاب جماعت احمدیہ کے عہدیداران حکومت سے کم از کم ایک ہزار احمدیوں کو قادیان میں رکھنے کا مطالبہ کر رہے تھے.جب کہ سرکاری حکام ایک سو سے زیادہ رکھنے پر آمادہ نہ تھے اور ان کے بارے میں بھی شرط یہ عائد کی جا رہی تھی کہ پچاس ساٹھ سال کی عمر کے ہوں.جماعت کو نہ یہ شرط منظور تھی اور نہ ہی اتنی کم تعداد کافی طویل گفت وشنید کے بعد تین سو تیرہ احمدیوں کے لئے ایک مختص علاقہ میں رہنے پر حکومت رضامند ہوگئی.اس رضامندی کے بعد جماعتی عہدیداران ان تین سو تیرہ افراد کے ناموں پر غور کرنے لگے.جنہیں قادیان میں رکھا جاتا تھا.اس ضمن میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ملک غلام فرید صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی عبد الرحمن صاحب
تاریخ احمدیت بھارت 253 جلد اول انور کو اپنے درج ذیل مکتوب گرامی کے ذریعہ بعض راہنما اصول بھجوائے.یہ چاروں بزرگان 16 نومبر 1947 ء تک قادیان میں ہی مقیم تھے.درویشان کے انتخاب کے سلسلہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک مکتوب ”بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاته اب تک یہ ہو رہا ہے کہ ہم خط لکھتے ہیں اور ادھر سے جواب یا آتا ہی نہیں یا آدھا جواب آتا ہے اور آدھا نہیں آتا.ایسے وقت میں کہ ہر دفعہ خیال ہوتا ہے کہ اگلا خط آئے گا یا نہیں یہ حالت نہایت افسوس ناک ہے.اس لئے اس خط کی چار نقلیں بھجوا رہا ہوں.یعنی میرزا ناصر احمد کو.بابا غلام فرید صاحب کو اور انور صاحب کو ( 31 ) اور یہ خط آپ کو، آپ میں سے ہر اک کا فرض ہے کہ دیکھے کہ ایک ایک بات کا جواب آتا ہے اور جو باتیں اس خط میں تعمیل کے بغیر رہ جائیں آئندہ ان کا خیال رکھا جائے کہ بغیر اس کے کہ ان کی نسبت یاد دہانی کروائی جائے انکی تعمیل آپ لوگ کرتے رہیں.(1) - 30 دیہاتی مبلغ جو مانگے گئے تھے ان میں سے صرف نو پہنچے ہیں.باقی 21 مبلغ اس دفعہ بھجوائے جائیں ان کو تاکید ہو کہ آتے ہی رپورٹ کریں.(2) پچھلی دفعہ بہت سے نوجوان بورڈنگ تحریک سے آگئے.وہ کہتے ہیں کہ ہم کو زبردستی بھجوایا گیا.ملٹری نے اور خدام نے.بہت سے گواہوں سے اس کی تصدیق ہوتی ہے.اس دفعہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے.نوجوانوں کو پہلے ہی قادیان بلوالینا چاہئے تھا تا کہ اس قسم کی شرارت نہ ہوتی.آخر ان کو باہر کیوں رکھا ہوا ہے.(3).قادیان سے باہر آدمی بھیجوانے کے متعلق یہ امور مد نظر رہیں:.(الف) - محافظین دوسو کے قریب ہیں.ان میں سے ایک سو وہاں رکھے جائیں.خواہ طوعی طور پر خواہ قرعہ ڈال کر.افسر بھی مناسب تجویز کر لئے جائیں.باقی توے کے قریب اور ہوگا.ان کو مختلف قافلوں میں باہر بھجوا دیا جائے.انکو فارغ نہ کیا جائیگا بلکہ یہاں کام لیا جائے گا اور باری باری ان کا تبادلہ مرکزی محافظین سے ہوتارہے گا.
جلد اوّل 254 تاریخ احمدیت بھارت (باء).سو آدمی باہر سے گئے ہوئے والٹثیر ز سے لیا جائیگا.خواہ قرعہ کے ذریعہ سے خواہ طلوعی طور پر پیش کرنے والوں میں سے.باقیوں کو آہستہ آہستہ واپس کر دیا جائے.ان لوگوں کو گھروں کو جانے کی اجازت ہوگی.اگلی دفعہ نئے آدمی بھجوائے جائیں گے انشاء اللہ.ان والنٹیئر زمیں سے انتخاب کے وقت یہ خیال رکھا جائے کہ جس کی مدت زیادہ باقی ہو ، یعنی جو اکتوبر کے شروع میں آئے ہوں یا ستمبر کے آخر میں ، ان کو رکھا جائے.تا جلد نہ بدلنا پڑے.اور پرانوں کو فارغ کیا جائے کیونکہ ان کی مدت ختم کے قریب ہوگی.نیا بیج دسمبر میں آنا شروع ہوگا.تا ان لوگوں کو فارغ کرے.(ج).پچاس آدمی قادیان کے باشندوں سے لئے جائیں گے.ان کے انتخاب میں یہ شرط ہو گی کہ کسی باپ کی اولاد کا ایک سے زیادہ فرد انتخاب میں نہ آئے.اکلوتا بیٹا کسی باپ کا انتخاب میں نہ آئے.ہمارے خاندان کا قرعہ الگ ڈالا جائے.میری اولاد کے سوا دوسرے بھائی بہنوں اور ماموں کی اولا د اور حضرت خلیفہ اول کی اولاد کا قرعہ الگ ڈالا جائے.ان میں سے ایک فرد ہمیشہ قادیان میں رہے.میری اولاد کا قرعہ الگ ڈالا جائے.ان میں سے ایک ضرور ہر دفعہ قادیان میں رہے.دو یہ ہوگئے، باقی قادیان سے (48) اڑتالیس آدمی لئے جائیں.(د).یہ قرعے فوراً ڈال کر وہاں رہنے والی نفری کو معین کر لیا جائے.تا کہ وہاں سے باہر نکالنے والے آدمیوں کی بھی تعیین ہو جائے اور یہ نہ ہو کہ آئندہ قافلوں میں وہ لوگ بھی آجا ئیں جو قادیان میں رہنے چاہئیں.(8).اوپر کے آدمیوں کے علاوہ ایک آدمی محاسب اور بیت المال کا اور ایک کلرک ضرور وہاں رہے گا تا کہ مالی انتظام کرے.چوہدری عزیز احمد اور عبدالحمید صاحب دفتر بیت المال.یہ دونوں نوجوان اچھے ہیں.یہ باری باری وہاں رکھے جائیں گے.ان کا قرعہ نکال کر فیصلہ کر لیا جائے کہ پہلے یہاں کون رہے گا.اگر عبدالحمید صاحب کا نام نکلے تو ان کو فوراً چوہدری عزیز احمد صاحب کے ساتھ کام پر لگا دیا جائے تاکہ پندرہ بیس دن میں کام سیکھ لیں.اس کے بعد چوہدری عزیز احمد کو تین ماہ کے لئے بلا لیا جائیگا اور چوہدری عبد الحمید صاحب وہاں کام کریں گے.ایک کلرک بیت المال کا اور ایک محاسب کا انکی مدد کے لئے قرعہ سے نکال کر وہاں رکھ لیا جائے.قادیان میں سر دست محاسب اور بیت المال کا عہدہ ایک ہی شخص کے پاس رہے گا.(و).ان کے علاوہ ایک افسر امور عامہ کے نمائندہ کے طور پر رہیگا.اس کا فیصلہ کر کے بھی اطلاع
تاریخ احمدیت بھارت 255 جلد اول دیں.ایک آدمی کم سے کم ضیافت کا بھی وہاں رکھا جائے.(ذ).دو علماء قرآن وحدیث کا درس دینے کے لئے رہیں گے.ان کا نام بھی قرعہ سے نکال لیا جائے.(ح).کوئی دوکاندار ، دھوبی ، نائی ، باورچی ، نانبائی اور اسکا عملہ درزی بھی چنا جائے اور اندرون شہر کی دکانیں ان کو دی جائیں.(ط).ایک ڈاکٹر ایک کمپونڈ بھی رہنا چاہئیے.اڑھائی تین سو آدمیوں کے لئے اتنا عملہ کافی ہوگا.ڈاکٹر سر دست ایک یہاں سے بھجوایا جا رہا ہے.(ی).چودہ آدمیوں کے نام پہلے لکھے جاچکے ہیں.ان میں اور چند علماء جو لیڈری کے قابل ہوں، ان کے نام شامل کر کے قرعہ ڈالا جائے اور دو آدمی چن لئے جائیں.ایک لیڈر اور ایک نائب لیڈر.(ك).ان انتخابات کے بعد باقی لوگ باہر آنے والوں میں سے ہونگے انکو جب جب کنوائے آئے اس میں واپس کر دیا جائے.(ل).مگر یہ خیال رہے کہ اگر مرزا ناصر احمد اور مرزا منور احمد کا نام باہر آنے والوں میں ہو تو یہ آخری کنوائے میں آئیں.اسی طرح مولوی جلال الدین صاحب شمس اور بابا غلام فرید بھی.کیونکہ پہلے دوسرے لوگوں کا نکالنا ضروری ہے تاکہ بعد کا نا تجربہ کار عملہ زیادہ آدمیوں کے سنبھالنے سے قاصر نہ رہے.اگر او پر کی ہدایات سے کوئی سمجھ میں نہ آئے تو کنوائے کی واپسی پر خط لکھ دیں تا جواب فوراد یا جاسکے.(م).جو لوگ وہاں رہنے والے ہوں ان سے عہد لیا جائے.قسم کی ضرورت نہیں کہ وہ امن اور صلح سے رہیں گے.ایک دوسرے سے تعاون کریں گے اور افسر خود تکلیف اٹھائیں گے.مگر ساتھیوں کو تکلیف نہ ہونے دیں گے.(ع) میری لائبریری اور حضرت خلیفہ امسیح اول کی لائبریری کی خاص کتب بھجوا نیکی کوشش اسی طرح الفضل.الحکم البدر.پیغام اشاعتہ السنہ تشخیز - ریویو کے فائل.لائبریریوں میں سے پہلے عربی کی کتب بھجوائی جائیں.پہلے غلطی سے تازہ مطبوعہ کتب بہت آگئی ہیں اور سلسلہ کی جو کتب شائع شدہ ہیں وہ بھی ہر دفعہ کچھ نہ کچھ بھجوائی جائیں تا تبلیغ میں روک نہ ہو.اب چونکہ چند کنوائے آئیں گے اس لئے پہلے کتب PACK رکھ لی جائیں.
جلد اوّل 256 تاریخ احمدیت بھارت میری کتب میں سے انسائیکلو پیڈیا برٹینی کا ضرور آجائے.وہ سب سے آخری ایڈیشن ہے اسی طرح.....ہسٹری آف دی ورلڈ.انگریزی کتب عربی کتب کے نیچے رکھی جائیں تا ان کی طرف توجہ نہ ہو.لاریوں تک یہ پارسل اسی طرح بھجوائے جائیں کہ حفاظت سے پہنچ جائیں........5.امانت کے بکس اگر چھوٹے ہوں تو ایک ردی سے ٹرنک میں بھر کر اچھا تالا لگا کر احتیاط سے بھجوادیے جائیں عبد الحمید صاحب یا چوہدری عزیز احمد صاحب اپنے ساتھ لے آئیں.اگلے کنوائے میں واپس چلے جائیں.بشرطیکہ آدمی واپس پہنچ سکتا ہو.ملٹری کی طرف سے روک نہ ہو ورنہ آنے والے معتبر آدمیوں میں تین چار آدمیوں سے قسمیں لیکر اکٹھی ذمہ واری کے ماتحت بھجوادئے جائیں.دیہاتی مبلغوں میں سے ہشیار (ہوشیار.ناقل ) اور مجرب آدمیوں کے یہ کام سپر دکیا جا سکتا ہے.جو امانتیں بڑے صندوقوں میں ہوں ان کو معتبر آدمیوں کے سامنے کھول کر ایک ٹرنک میں بھر کر بھجوادیا جائے ہر ایک چیز پر کاغذ باندھ کر لکھدیا جائے کہ فلاں شخص کی امانت ہے.......(دستخط) خاکسار مرزا محمود احمد (32) سید نا حضرت الصلح الموعود کا قادیان میں رہنے والے در دیشان کے تعلق سے اہم فیصلہ یہ بات طے تھی کہ احمدی اپنے مرکز کو خالی ہرگز نہیں چھوڑیں گے چاہے حالات کیسے بھی ہوں.ایک تعداد ہمیشہ یہاں موجود رہے گی.جس پر حضرت سیدنا اصلح الموعود نے فیصلہ فرمایا کہ آئندہ قادیان میں درج ذیل تقسیم کے ساتھ 250 احمدی مقیم رہیں جو مقامات مقدسہ کی حفاظت کا فریضہ بجالا ئیں:.قادیان کے تنخواہ دار محافظین : بیرونی رضا کار: باشندگان قادیان: 75 115 60 قبل از میں حضور کی منظور شدہ سکیم کے مطابق یہ فیصلہ بھی ہو چکا تھا کہ ”سب احمدی عورتوں اور
تاریخ احمدیت بھارت 257 جلد اوّل اٹھارہ سال سے کم عمر کے سب بچوں اور پچپن سال سے زیادہ عمر کے سب مردوں کو قادیان سے باہر نکال لیا جائے اور جومر داٹھارہ اور پچپن سال کے درمیان عمر رکھتے ہیں ان میں سے قرعہ اندازی کے ساتھ ایک تہائی کو تین ماہ کے لئے قادیان کے اندر رکھا جائے اور دو تہائی کو قادیان سے باہر لے جایا جائے.اور یہ قرعہ اندازی محلہ دار بنیاد پر ہو.البتہ انتظامی اہلیت والوں کے علاوہ بعض اور مخصوص گروپ بھی علیحدہ کر دیئے جائیں اور ان میں علیحدہ قرعہ ڈالا جائے.مثلاً ڈاکٹر، کمپونڈ ر ، وکلاء، مقامی ملٹری اور پولیس سے رابطہ رکھنے والے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے کارکن ، باورچی ، دھوبی ، نائی وغیرہ.“ اس سکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آخر ماہ تمبر سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب.مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس ، مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب اور مکرم مرزا عبد الحق صاحب پر مشتمل کمیٹی قائم ہو چکی تھی جس نے حضور کے نئے فیصلہ کے مطابق قرعہ اندازی سے 275 /افراد کے انتخاب کا کام شروع کر دیا.(33) مولانا جلال الدین شمس صاحب 14 اکتوبر سے لیکر 15 نومبر 1947ء تک قادیان میں امیر مقامی کے فرائض انجام دیتے رہے.اور انتخاب درویشان کا آخری مرحلہ انہی کے عہد امارت میں طے پایا.درویشوں کے انتخاب کا اولین مرحلہ اس سلسلہ میں سب سے قبل تمام احمدیوں سے پوچھا گیا کہ ان میں سے کون کون رضا کارانہ طور پر رہنا چاہتے ہیں بعد ازاں مندرجہ ذیل اصول و قواعد کے پیش نظر قرعہ اندازی کی گئی :.حضرت مصلح موعودؓ کی اولا د اور باقی خاندان حضرت مسیح موعود اور خاندان حضرت خلیفہ اول کے افراد کے الگ الگ قرعے ڈالے گئے.-1 -2 صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے قدیم ڈھانچہ کو بنیادی طور پر قائم رکھنے کے لئے کوشش کی گئی کہ صدر انجمن احمدیہ کی مندرجہ ذیل نظارتوں کے نمائندے اور محررین موجودر ہیں :.نظارت علیا.نظارت امور عامه و خارجه، نظارت ،ضیافت، محاسب، بیت المال تحریک جدید کے سب صیغوں کی طرف سے ایک نمائندہ کافی سمجھا گیا.ناظر ضیافت یا ناظر امور عامہ میں سے کسی کو امین بنانے اور دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کی نظارتوں کو دوسری کسی نظارت سے منسلک کرنے کی تجویز کی
جلد اوّل 258 تاریخ احمدیت بھارت گئی.نیز قرار پایا کہ ایک آڈیز کا بھی انتخاب کیا جائے.-3 بیرونی رضا کاروں اور قادیان کے باشندوں میں سے جو احباب منتخب ہوئے ان میں ایک اہم اصول یہ پیش نظر رکھا گیا کہ ان میں علماء سلسلہ بھی ہوں ، ڈاکٹر اور کمپونڈ ر بھی.اسی طرح آبادی کی سہولت کے لئے دوکانداروں ، دھوبیوں حجاموں ، درزیوں ، نانبائیوں غرض کہ ہر طبقہ کی الگ الگ لسٹیں بنا کر ان کا قرعہ نکالا گیا.-4 4.چونکہ اس وقت خیال یہی تھا کہ تین ماہ کے بعد ان کا تبادلہ ہوتا رہے گا اس لئے محافظین ، خدام بیرونی اور قادیان کے باشندوں کے انتخاب میں یہ بات بھی مد نظر رکھی گئی کہ اچھے قابل اور درمیانی قابلیت کےاحباب باری باری رکھے جائیں.-5 قادیان کی جماعت کے امراء اور ان کے نائبوں کے ناموں کی الگ الگ فہرستیں بنائی گئیں.امراء مندرجہ ذیل اصحاب بطور امیر تجویز کئے گئے :.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا ناصر احمد صاحب،سید محمود اللہ شاہ صاحب، مولانا جلال الدین صاحب شمس ، ملک غلام فرید صاحب، شیخ بشیر احمد صاحب، چوہدری اسد اللہ خان صاحب، مرزا عزیز احمد صاحب، مرزا مبارک احمد صاحب مرزا ظفر احمد صاحب، مرز امنیر احمد صاحب، مولوی عبد المنان صاحب عمر ، میاں مسعود احمد خاں صاحب، ڈاکٹر کرنل عطاء اللہ صاحب، چوہدری بشیر احمد صاحب، مرزا منصور احمد صاحب، میجر داؤ د احمد صاحب، ملک عبد الرحمن صاحب خادم، چوہدری فقیر محمد صاحب شیخ رفیع الدین صاحب ڈی.ایس.پی ریٹائرڈ ، چوہدری محمد انور حسین صاحب، میرمحمد بخش صاحب، شیخ اعجاز احمد صاحب، پیر صلاح الدین صاحب، ڈاکٹر غلام احمد صاحب ،میاں غلام محمد صاحب اختر ، میاں عطاء اللہ صاحب وکیل، مرزا عبدالحق صاحب وکیل، بابو قاسم دین صاحب سیالکوٹ.نائب امراء نائب امیر کی حیثیت سے مندرجہ ذیل افراد کا انتخاب عمل میں آیا:.چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے، ملک عزیز الرحمن صاحب، شیخ مبارک احمد صاحب، مشتاق احمد صاحب ظہیر، چوہدری ظہور احمد صاحب ، مرزا بشیر بیگ صاحب، چوہدری عزیز احمد صاحب، مولوی برکات احمد صاحب، راجہ بشیر احمد صاحب ، ملک صلاح الدین صاحب، مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ، مولوی قمر الدین صاحب فاضل ، صوفی محمد ابراہیم صاحب ، صوفی غلام محمد صاحب.
تاریخ احمدیت بھارت 259 جلد اول مندرجہ بالا اسماء پیش کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ حضور از خودان میں سے نامزد فرما دیں (حضور نے امراء اور ان کے نائبین کا عرصہ قیام ڈیڑھ ماہ مقرر فرمایا.-6 حضرت سید نا الصلح الموعودؓ کے نونہالوں کا حسب ذیل ترتیب سے قرعہ نکلا:.صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب،صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب،صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب،صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ( خلیفة أسبح الثالث).-7 لمصلہ قرعہ میں سیدنا اصلح الموعود کے صاحبزادگان کے علاوہ دوسرے خاندان مسیح موعود اور خاندان حضرت خلیفہ اول کے جگر گوشوں کے نام بالترتیب یہ تھے: مرز اظفر احمد صاحب ، میاں عبد الوہاب صاحب، مرزا مجید احمد صاحب، میاں عبد المنان صاحب عمر ، مرزا منصور احمد صاحب، سید مسعود احمد صاحب، مرزا مبشر احمد صاحب، مرزا منیر احمد صاحب ،مرزا نسیم احمد صاحب ، میاں مسعود احمد صاحب، سید داؤ د احمد صاحب، سید سید احمد صاحب.علماء سلسلہ میں سے مولوی ظہور حسین صاحب سابق مبلغ بخارا اور مولوی شریف احمد صاحب امینی ٹیچر مدرسہ احمدیہ ) کا نام قرعہ میں نکلا.-8 -9 محاسب اور بیت المال کے لئے عبد الحمید صاحب عاجز ، امور عامہ کے لئے مولوی برکات احمد صاحب بی.اے اور ضیافت کے لئے بطور نمائندہ مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ کا نام تجویز ہوا.10.خاندان حضرت مسیح موعودہ ، علماء سلسلہ اور بعض دیگر افراد کو (جن کا نام سب سے پہلے ٹھہر نے والوں میں نکلا) ہفتہ عشرہ کے لئے پاکستان میں جانے کی عام اجازت دے دی گئی.(34)
جلد اول 260 تاریخ احمدیت بھارت قادیان میں رہنے والے درویشان کے لئے حضرت الصلح الموعود کی زریں ہدایات اور اہم فیصلے قادیان میں منتخب درویشان کے علاوہ باقی سب احمدی احباب جلد پاکستان ہجرت کر جانے والے تھے اور قادیان میں مقامات مقدسہ و شعائر اللہ کی حفاظت کا کام نئے اور مستقل رنگ میں جاری ہونے والا تھا.اس لئے حضرت سیدنا اصلح الموعود نے 12 / نومبر 1947ء کو امیر مقامی (مولوی جلال الدین صاحب شمس) کے نام ایک مفصل مکتوب میں قادیان میں رہنے والے درویشان کے لئے زریں لمصل ہدایات دیں اور بعض اہم فیصلے فرمائے.اس مکتوب کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے: بسم الله الرحمن الرحيم مگر می شمس صاحب! نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاته آج معلوم ہوا ہے کہ جو کنوائے جانا تھا وہ کل کے کنوائے کی وجہ سے منسوخ ہو گیا ہے.اب کوشش کر رہے ہیں.کہ دوبارہ اس کی اجازت مل جائے.خدا کرے مل جائے تو پھر یہ خط آپ کو مل جائیگا ور نہ جب خدا چاہے گا.آپ لوگوں کی ملاقات کا موقع میسر آجائے گا.(1).مجھے افسوس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وہاں کوئی تنظیم نہیں.علماء کو بغیر غور کے باہر نکال دیا گیا ہے.وہاں صرف مولوی عبد القادر صاحب ( 35 ) اور مولوی ابراہیم صاحب ہیں.اب ہم کوشش کریں گے.اگر ہو سکا تو محمد شریف امینی (36) کو بھجوایا جائیگا.حالانکہ علماء بھی آخری قافلہ میں جاسکتے تھے.قادیان میں خرچ بے تحاشا ہوا ہے اور تنخواہوں کے خرچ کے علاوہ صرف اکتوبر میں اوپر کے اخراجات کے متعلق ساڑھے چھ ہزار کی تفصیل آئی ہے.اس سے پہلے ماہ تو سارے مہینہ کی آمدن ہی چھ ہزار تھی.اکتوبر میں کچھ زیادتی ہوئی نومبر اسی طرح چل رہا ہے کوئی خاص زیادتی نظر نہیں آتی بلکہ کمی کا خطرہ ہے.ان حالات میں اتنا خرچ کس طرح برداشت کیا جاسکتا ہے.میرے نزدیک قادیان میں چونکہ غلہ موجود ہے.دس روپیہ فی کس سے زیادہ کھانے کا خرچ نہیں ہونا چاہیئے.مستقل محافظوں کو تو گزارہ ملتا ہے.ان کے گزارہ میں سے ان کا خرچ کا ٹنا چاہیئے.دیہاتی مبلغین کو بھی
تاریخ احمدیت بھارت 261 جلد اوّل گزارہ ملتا ہے.ان کے گزارہ میں سے بھی کھانے کا خرچ نکالنا چاہئیے گندم چونکہ موجود ہے اس لئے میرے خیال میں گندم کے علاوہ دس روپئے سے زیادہ مہینہ کا خرچ نہیں ہونا چاہیئے.اس طرح کل خرچ اڑھائی ہزار روپئے ماہوار ہوگا.اس میں سے قریباً سترہ سو روپیہ ایسے لوگوں سے واپس مل جائیگا جن کو گزارے ملتے ہیں.اور باقی صر ف آٹھ سوروپے کا خرچ رہ جائیگا.گزاروں کی رقم مستقل محافظوں اور دیہاتی مبلغوں کی اگر ملائی جائے تو پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے.آٹھ سو روپیہ پہلا اور پانچ ہزار یہ ملا کر پانچ ہزار آٹھ سو روپیہ بنتا ہے.جولوگ باہر سے آئے ہوئے وہاں رہیں گے انکی تعداد ساٹھ کے قریب ہوگی.اور قادیان والوں اور باہر سے آنے والے لوگوں کی تعداد تقریبا ایک سو پچاس ہوگی.ان لوگوں پر تیل اور صابن وغیرہ کے لئے پانچ پانچ روپے خرچ کئے جائیں تو ساڑھے سات سوروپے کے قریب یہ بنتا ہے.صفائی وغیرہ اور دوسرے اخراجات دفتری کے لئے قریباً پانچ سو دو پہیہ رکھا جائے تو سات ہزار روپیہ بن جاتا ہے.یہ کھانے اور گزاروں اور تنخواہوں کو ملا کر رقم بنتی ہے.لیکن مستقل محافظ اور دیہاتی مبلغ غالباً اپنے گزاروں میں سے کچھ تم اپنے رشتہ داروں کو باہر بھجوانا چاہیں گے.میرے خیال میں وہ رقم تین ہزار سے کم نہیں ہوگی.اسکو نکال دیا جائے تو چار ہزار روپیہ ماہوار کا خرچ ہوتا ہے.اس طرح جو قادیان میں موجود روپیہ ہے اس کے ساتھ آٹھ مہینے تک آسانی سے گزارہ کیا جا سکتا ہے.(3).قادیان میں جو گندم ہے اس میں سے دو ہزار من ڈیڑھ سال کے خرچ کے لئے رکھ لی جائے.گندم اچھی طرح رکھی جائے تو دو دو تین تین چار چار سال تک رکھی جاسکتی ہے.باقی چار ہزار من اگر حکمت کے ساتھ فروخت کر دی جائے تو چالیس ہزار روپیہ کی رقم اور آ جائے گی.اس طرح قریباً ڈیڑھ سال کا خرچ قادیان میں محفوظ رہے گا.وہاں کے لوگوں کا صرف یہی کام نہیں کہ بیٹھ رہیں.ان کا کام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک مستقل آبادی کی صورت دیں اور اسی جگہ مستقل آمدنی پیدا کرنے کی کوشش کریں.مگر یہ ضرور کوشش ہونی چاہیئے کہ گندم ضبط نہ ہو جائے.فروخت ہو گر محتاط طریق پر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کو گندم کی فروخت کالا ئیسنس دلایا جائے.(4).جن لوگوں کے پاس لائیسنس ہیں اور ان کی میعاد دسمبر میں ختم ہوتی ہے.ان کو اپنے لائیسنسوں کے دوبارہ جاری کرانے کی درخواستیں دے دینی چاہئیں ، ایسا نہ ہو کہ لائیسنس ضبط ہو کر بندوقیں ضبط ہو جائیں اور ہمارے آدمی نہتے ہو جائیں.اسطرح خزانہ کی حفاظت کی جو بندوقیں ہیں ان کے لئے بھی لائیسنس کے دوبارہ اجراء کی درخواستیں دے دینی چاہئیں.
جلد اوّل 262 تاریخ احمدیت بھارت میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اب پھر لکھتا ہوں کہ اب جو لوگ وہاں رہیں.ان کو یہ سمجھ کر رہنا چاہئیے کہ انہوں نے مکی زندگی اور مسیح ناصری والی زندگی کا نمونہ دکھلانا ہے.اگر ہمارے کسی آدمی کی سختی کی وجہ سے یا مقابلہ کی وجہ سے مقامات مقدسہ کی ہتک ہوئی تو اس کا ذمہ دار وہ ہو گا.اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء کے ذریعہ سے ہم کو یہ نمونے دکھائے ہوئے ہیں.اب نصیحت اور تبلیغ اور ضمیر کے سامنے اپیل کرنے سے کام لینا چاہیئے.اور دعا اور گریہ وزاری اور انکساری سے کام لینا چاہیئے.اور ظلم برداشت کر کے ظلم کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیئے.جب تک یہ طریق ہماری وہاں کی آبادی نہیں دکھائے گی.دوبارہ قادیان کا فتح کرنا مشکل ہے.ہمارے آدمیوں کو چاہیے کہ وہ دعائیں کریں اور روزے رکھیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو دعاؤں کی قبولیت اور الہام کی نعمت میسر آجائے.پھر وہ اس نعمت کے ذریعہ سے سکھ اور ہند و آبادی کے دلوں کو فتح کریں.......اور جو جسمانی شوکت ہم سے چھن گئی ہے.وہ روحانی طور پر ہم کو پہلے سے بھی زیادہ مل جائے.یہ طریقہ بھی اختیار کریں کہ کوئی مصیبت زدہ سکھ یا ہندو ملے تو اس کو یہ تحریک کریں کہ تم احمدیت کی نذر مانو تو تمہاری یہ تکلیف دور ہو جائیگی.پھر اس کے لئے دعا ئیں بھی کریں.بیماریوں کی شفاء، مقدمہ والوں کی فتح اور اس قسم کے اور مصیبت زدوں کے لئے بھی یہ تحریک کرتے رہیں تو تھوڑے دنوں میں ہی سینکڑوں آدمی سکھوں اور ہندوؤں میں ان کے مرید بن جائیں گے اور ایک روحانی حکومت ان کو حاصل ہو جائے گی.میں نے اوپر لکھا ہے کہ وہاں خود اپنی آمدن پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے.اس کے چار ذرائع ہیں:.اول.دوکانوں کا افتاح دوم - طب -سوم.زمینداری.ہمارے لڑکے وہاں موجود ہیں وہ کہیں کہ ہم اپنی زمینوں میں ہل چلانا چاہتے ہیں.سب لوگ مل کر خود ہل چلائیں.زمینوں کو آباد کریں.قادر آباد جو مشرق میں واقع ہے.وہ اور اس کے ساتھ ہماری سو ڈیڑھ سو ایکڑ زمین ہے.اگر اس میں غلہ اور ترکاری وغیرہ کی کاشت کریں.گنا بوئیں اور کوا پر ٹیو فارم کے طور پر یہ کام شروع کریں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں سے اکثر کا گزارہ پیدا ہو سکتا ہے اور کم سے کم ایک سال کا غلہ اور ترکاری اور دودھ اور گھی اور انڈا مفت مل سکتا ہے.چونکہ آدمیوں نے بدلتے رہنا ہے.اسلئے کو اپر ٹیو اصول پر یہ کام ہونا چاہئیے.چوتھے.چھوٹی چھوٹی صنعتیں جاری کی جائیں.جیسے بٹوے بنانا.بیگ بنانا اور اسی قسم کے اور کام ہیں.آدمی ہم باہر سے کام سکھا کر وہاں بھجواسکتے ہیں.اس طرح بھی بہت سی آمد پیدا کی جاسکتی ہے.جب چیزیں بن جائیں تو وہ مشرقی
تاریخ احمدیت بھارت 263 جلد اول یا مغربی پنجاب کی منڈیوں میں بیچنے کے لئے بھیجی جاسکتی ہیں.بہر حال قادیان کی آبادی تصوف کے اصول پر ہی قائم کی جاسکتی ہے اور تصوف کا اصول یہ ہے کہ کم گفتن و کم خوردن و کم خفتن.باتیں تھوڑی کی جائیں.کھانا تھوڑا کھایا جائے.سو یا کم جائے اور اس کے مقابلہ میں ذکر الہی زیادہ کیا جائے.محنت زیادہ کی جائے.اور خدمت خلق زیادہ کی جائے.ان چار اصولوں پر چل کر روٹی کی فکر باقی نہیں رہتی.لوگوں کی مخالفتوں کی روح ٹوٹ جاتی ہے اور خدا کے فضل زیادہ سے زیادہ نازل ہونے لگتے ہیں.(5).چونکہ آئندہ کنوائے بند ہوگا.فون، تار اور ڈاک کے ذریعہ کام لیں.لیکن یہ احتیاط کریں کہ ہر چیز پر دشمن کی نگرانی ہوتی ہے.کوئی بات ایسی نہ لکھیں جس سے سچے یا جھوٹے طور پر آپ لوگوں کے خلاف اثر لیا جاسکے.میں نے سنا ہے بجلی کا خرچ بالکل بے فائدہ اور لغو کیا جاتا ہے اور بڑا بھاری بل ادا کرنا پڑتا ہے.ان دنوں اس قسم کا خرچ نہایت ہی افسوسناک امر ہے.آپ لوگوں کو سمجھ لینا چاہیئے کہ خدانخواستہ ملک میں اگر کوئی اور گڑ بڑ ہوئی تو ہم پیسہ بھی آپ لوگوں کو نہیں بھیج سکیں گے.اور شاید اس موجودہ تین ہزار روپے سے ہی آپ کو سالوں گزارنے پڑیں گے.اس لئے فوراً اپنی آمدن پیدا کریں اور فوراً اپنے اخراجات کو انتہائی درجہ گرا دیں.ہاں صحت کا خیال ضرور رکھا جائے ہو سکتا ہے کہ باور چی بھاگ جائیں یا باور چی نہ ملیں اس لئے مومنانہ قربانی سے کام لیتے ہوئے ہر شخص روٹی پکانا سیکھے.جس طرح ہر سپاہی روٹی پکا سکتا ہے.اسی طرح قادیان میں رہنے والے ہر شخص کو روٹی پکانی آنی چاہئے تاکہ ضرورت کے موقعہ پر بیماری اور تکلیف کا شکارنہ ہونا پڑے.جو کام لوگ دنیا کی خاطر کر سکتے ہیں.آپ لوگ دین کی خاطر کیوں نہیں کر سکتے.فوجوں میں بھی ہوتا ہے کہ چار آدمیوں میں سے ایک آدمی باری باری روٹی پکاتا ہے.اور تین آدمی دوسرے کام کے لئے فارغ ہوتے ہیں.زیادہ مل کر انتظام کیا جائے.تو غالباً دس آدمیوں کے پیچھے ایک آدمی روٹی پکانے والا کافی ہوسکتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور مشتق ہو جائے تو فی آدمی تمیں آدمی کا کھانا بھی پکا سکتا ہے.گھی ، مصالحہ ہم نے اتنا بھیج دیا ہے کہ ان آدمیوں کے لئے غالباً سال سے بھی زیادہ عرصہ کے لئے کافی ہو.(6).قادیان کے انتظام کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایک کمیٹی وہاں کام کرے گی.امیر اس کا صدر ہوگا اور اس کے ممبر ہمارے خاندان کے دونوں نمائندے.محاسب، ناظر بیت المال ، تحریک جدید کا ایک نمائندہ.دونوں مبلغ ، باہر سے آنے والوں کا ایک نمائندہ.قادیان کے آدمیوں کا ایک نمائندہ.ڈاکٹر اور
جلد اوّل 264 تاریخ احمدیت بھارت امور عامہ کا ایک نمائندہ ہو گا.اس کمیٹی کا نام صدر انجمن احمد یہ ہوگا اور اسی کا نام تحریک جدید ہوگا.اور اسی کا نام مقامی کمیٹی ہوگا.یہ کمیٹی قادیان کی آبادی کو قائم رکھنے ، اخراجات کا کنٹرول کرنے ، دینی روح پیدا کرنے ، ہر قسم کی آمد کے ذرائع پیدا کرنے ، مقامات مقدسہ کی حفاظت تبلیغ اور اس تمام علاقہ کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی ذمہ دار ہوگی ، جو اس وقت احمد یہ جماعت کے ہاتھ میں ہے.اوپر کے بتائے ہوئے قاعدے کے مطابق اس کے کل ممبر بارہ ہیں.لیکن ان میں ضرورت کے مطابق زیادتی بھی کی جاسکتی ہے.بہر حال ہمارے نزدیک اتنے آدمیوں سے ہر حصہ کی نمائندگی ہو جاتی ہے.اصل چیز تو یہی ہے کہ اپنے رسوخ کو اتنا بڑھایا جائے کہ وہاں کے ہندو اور سکھ آپ لوگوں کے مرید بن جائیں.اور وہیں سے آمد پیدا ہونی شروع ہو جائے.اور یہ مشکل نہیں.اپنی ذمہ داری کو آپ لوگ سمجھیں تو ایسا ہوسکتا ہے.خلیل احمد (37) اپنی مذہبی تعلیم کو جاری رکھے اور خود مطالعہ کر کے اور علماء سے مدد لے کر اپنی پڑھائی میں ہرج نہ ہونے دے.اور کچھ وقت دیہاتی مبلغوں کو پڑھائے.کیونکہ پڑھانے سے علم بڑھتا ہے.عزیز ظفر احد کو بھی مذہبی معلومات بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئیے.اور یہی نصیحت میری تمام قادیان کے رہنے والوں کو ہے.چھ سات گھنٹے ہر شخص کچھ نہ کچھ کمائی کے لئے خرچ کرے دو گھنٹے ہر شخص ایسے رنگ میں تبلیغ کرے کہ کوئی جھگڑے والی بات نہ پیدا ہو.اور تصوف کی طرف لوگوں کو مائل کر کے احمد یہ جماعت کی دعاؤں کی قبولیت ،خدا تعالیٰ کے الہامات، اس کی تائید ، نصرت اور بیماروں کی شفاء وغیرہ کی طرف توجہ دلائیں.ایک دو گھنٹے قرآن کریم کے درس اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کے پڑھنے میں صرف کئے جائیں.تہجد کی ہر شخص عادت ڈالے.وہاں رہنے والے ہفتہ میں ایک دو روزے ضرور رکھیں.تہجد کی عادت ڈالنے کے لئے یہ طریق مقرر کر دیں کہ تراویح کی طرح سارا سال ہی نماز تہجد مسجد میں ہوا کرے یا اپنے اپنے حلقوں میں باجماعت تہجد کی عادت ڈالی جائے.تمام کتب دفتر خلافت میں جمع کر دی جائیں.میری لائبریری کی الماریاں اکثر خالی ہوں گی ان میں رکھ دی جائیں.تمام اخباروں کے فائل اکٹھے کر لئے جائیں.وہ بڑا قیمتی خزانہ ہے اور تاریخ سلسلہ کی بنیاد اس پر ہے.تمام لٹریچر کی لسٹیں بنوا کر یہاں بھی بھجوائی جائیں اور وہاں بھی محفوظ رکھی جائیں.حضرت صاحب کی کتب کے کچھ سیٹ وہاں رہیں اور کچھ یہاں آجا ئیں.اسی طرح میری کتابوں کے کچھ سیٹ وہاں رہیں اور کچھ یہاں آجائیں.تفسیر کبیر کی کچھ جلدیں بھی وہاں رکھی جائیں.حضرت صاحب کا جولٹریچر آیا ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس میں حضرت صاحب کے اشتہارات کا مجموعہ
تاریخ احمدیت بھارت 265 جلد اوّل شامل ہے یا نہیں.اگر وہ نہ آیا ہو تو اس کی کچھ کا پیاں یہاں بھجوائی جائیں اور کچھ کا پیاں وہاں رکھی جائیں.پرانی تفسیر بھی کچھ وہاں رکھی جائیں تا کہ وہاں رہنے والے ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں.باقی دعا ئیں بہت کرتے رہیں.قادیان سے بھی زیادہ اس طرف کو خطرہ ہے.حضرت مسیح موعود کے مزار پر جا کر اور مسجد مبارک میں بہت دعائیں کریں.یادرکھیں کہ دعاؤں اور برکتوں کی جگہ قادیان ہے.وہاں کے رہنے والے قادیان کی حفاظت کے علاوہ جماعت کی حفاظت کا کام بھی کریں گے.کیونکہ بیرونی جماعتوں کی حفاظت میں قادیان کے لوگوں کی دعائیں بہت کچھ کام دے سکتی ہیں.اگر خدانخواستہ بیرونی جماعتوں پر اور کوئی آفت آئے تو قادیان کی جماعت کو یہ مدنظر رکھنا چاہئیے کہ احمدیت اور اسلام کا جھنڈا قائم رکھنا ان کا فرض ہے.تمام دنیا میں احمدیہ لٹریچر کی حفاظت اور تبلیغ وہ اپنا کام سمجھے (سمجھیں.ناقل ) بہر حال احمدیت کا بیج دنیا سے مٹ نہیں سکتا.اور ہر مومن کا فرض ہے کہ اس پیج کو بڑھائے.اور پھیلانے میں حصہ لے.مرز امحموداحمد 12 /نومبر 1947ء(38) 1947ء کے حالات کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 1969ء میں فرمایا: 1947ء کی آگ میں سے بھی (ہم ) ہنستے ہوئے نکل آئے تھے حالانکہ حکومت بھی ظالم اور لوگ بھی خونخوار بنے ہوئے تھے....(مفسدہ پردازوں) کو بھی ایک جنون تھا.آخری دنوں میں مسجد مبارک کی دیواروں پر قریب روزانہ ہی گولیاں آکر لگا کرتی تھیں.گرمیوں کے دن تھے.ہم اوپر بیٹے قہقہے لگارہے ہوتے تھے کوئی پرواہی نہیں ہوتی تھی.“ ( بحوالہ الفضل 22 /اکتوبر 1969 ء صفحہ 7 ، خطبات ناصر جلد دوم صفحه 752)
جلد اوّل 266 تاریخ احمدیت بھارت 16 نومبر 1947 ء ہجرت کرنے والوں کے آخری قافلہ کا رقت آمیز منظر مؤرخہ 15 نومبر 1947 ء کی شام تک لاہور سے آخری قافلے کو لے جانے والے کنوائے کے ٹرک قادیان پہنچ گئے تھے.اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی ( بیت الظفر ) کے مغربی جانب واقع سڑک بنام قادیان ہر چوال پر بجانب شمال رخ کر کے ترتیب سے کھڑے ہو گئے.معاہدہ کے مطابق صرف تین سو تیرہ افراد ( درویشان) نے قادیان میں باقی رہنا تھا.ان کے علاوہ تمام احباب نے 16 نومبر 1947ء کو قادیان سے لاہور روانہ ہو جانا تھا.اس تعداد کے علاوہ کسی ایک کو بھی رہنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی.16 نومبر 1947ء کی صبح طلوع ہوئی.اس روز پروگرام کے مطابق الوداع ہونے سے قبل.مسجد مبارک بیت الدعا.مسجد اقصیٰ بہشتی مقبرہ میں اجتماعی دعائیں کی گئیں.بعد ازاں روانہ ہونے والے نے اپنا مختصر ساسامان اٹھایا اور جہاں ٹرک کھڑے تھے اس جانب چل پڑا.ہر آنکھ نم تھی اور ہر چہرہ اداس تھا.نظریں بار بار منارة امسیح اور بہشتی مقبرہ کی طرف اٹھتی تھیں اور ہر ایک خیالات کی اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ نہ معلوم اس زندگی میں اسے دوبارہ قادیان زیارت نصیب ہوگی یا نہیں ؟ سول اور فوجی حکام بار بارجلد روانہ ہونے کی دہائی دے رہے تھے.سامان رکھتے رکھاتے دن کے بارہ بج گئے.اس موقعہ پر قادیان کے ان غیر مسلموں کی بڑی تعداد موجود تھی جو یہاں کے قدیمی باشندے تھے جو احمدی احباب کے اخلاق و کردار کو بخوبی جانتے تھے.ان کے ساتھ مدت سے مکین تھے.اعلان ہوا کہ کوچ کا وقت ہو چکا ہے.احباب اجتماعی دعا کر لیں.ظاہر ہے یہ جدائی کا موقعہ ہی ایسا تھا کہ ہر دل مجروح تھا.اور مجروح دلوں سے نکلی ہوئی دعائیں یقینا اللہ تعالیٰ نے قبول کی ہوں گی.دوسری طرف الحاح گریہ وزاری درد و کرب سے کی جانے والی یہ دعا ئیں غیر مسلموں نیز سول اور فوجی افسران کے لئے باعث حیرت و استعجاب تھیں.اور ان میں سے بعض آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے کہ یہ لوگ ان خطرات کے بھنور سے نکل کر پر امن علاقے کی طرف جارہے ہیں.مگر ان کے چہروں پر کوئی خوشی نہیں بلکہ اداسی اور جدائی کا صدمہ نظر آرہا ہے.ان میں سے بعض نے اظہار بھی کیا کہ اب ہمیں معلوم ہوا ہے کہ احمدیوں کو اپنے مرکز قادیان سے نہ صرف محبت بلکہ وہ اس کی حفاظت کے لئے مر مٹنے اور فدا ہونے کے لئے تیار ہیں.باقی مذاہب والے بھی اپنے اپنے مقدس مقامات سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں مگر یہ فدائیت بالکل
مشرق شمال + مغرب نقشه نمبر (قدیم وجدید قادیان) محلہ دارالسعت کھارا ( محلہ بھگت پورہ) محلہ دار الصنعت فارم جدید محلہ دار الفضل گورداسپور راسته بطرف کھارا.کے سنگ ----------- راسته بطرف ٹھیکری وال راسته بطرف بر کلاں ( محله سنت نگر ) احمد آباد ریلوے لائین محلہ دارالشکر ( محله کرشن نگر ) کوٹھی نواب محمد علی صاحب دار السلام پرانا تعلیم الاسلام کالج جامعہ احمدیہ احمد یہ فارم کوٹھی مرزا شریف احمد صاحب مسجد نور فضل عمر ہوٹل 7 بورڈ نگ تحریک جدید پرانا محلہ دار البرکات וחה ☐ راستہ بطرف بھگواں محلہ دار البرکات راسته بطرف بھینی با نگر کوٹھی فتح محمد سیال کوئی ڈپٹی شریف احمد بٹالہ محلہ دار الیسر (محله دھرم پورہ) دار الفضل محلہ دارا محله سنت نگر ) جلسه گاه محلہ دار العلوم ( محمد اکراشن نگر ) : کالج روڈ نصرت گرلز ہائی اسکول ریلوے روڈ دفتر بلد پولیس اسٹیشن اپرانا نور ہسپتال ریتی چھلہ نیا نور ہسپتال مسجد و استانه محلہ دار الفتوح وہائٹ ایونیو باب الابواب (محله ارجن پوره ) چار منزلہ فلیٹس کوٹی سر ظفر اللہ خان صاحب محلہ دار الرحمت محله و هرم بوده) غیر مسلم آبادی رجا دا روڈ ڈی اے وی اسکول ٹیلیفون سیفون ایک پینچ رامپورا روڈ غیرمسلم آبادی قد میم قادیان / امنیت و پیک باب الابواب (محله ارجن پورہ) نصورت گرلز ہائی سکول زنانه جلسهگاه مردانه جلسه گاه دفتر انصار الله جر خانم آف انڈیا راسته بطرف عیدگاه و آبائی قبرستان موجودہ منڈی محلہ دار الصحت آئی ٹی آئی گراؤنڈ ڈھاب حلہ پریم نگر) راسته بطرف بسراواں راسته بطرف بسراواں النصرات ☐ ☐ ی گینس دار الانوار ہوٹل تعلیم الاسلام ہائی اسکول لورچین روانی پلاٹ گیسٹ ہاؤسز سرائے طاہر جامعہ احمدیہ کبار انوار ول لائنز پرانا دفتر خدام الاحمدیہ محلہ دار الانوار کوٹھی عبدالہاشم گورونانک دیوا کیڈمی اسکول تر کھانہ والی فضل عمر پریس سڑک ہر چووال قبرستان بہشتی مقبره پٹرول پمپ 1 کالوی ☐ منگل باغباناں مسجد راستہ بطرف کاہلواں سول ہسپتال راستہ بطرف لیل کلاں ا بٹالہ اس نقشہ میں نشان شدہ راستہ سے آخری قافلہ مورخہ 16 نومبر 1947ء میں ہوکر گیا
267 جلد اوّل تاریخ احمدیت بھارت یکتا اور منفرد ہے.ایک سکھ دوست (چرن سنگھ صاحب) سنایا کرتے تھے کہ اس وقت دعا کا منظر میدان حشر سے کم نہ تھا.تقریباً ساڑھے بارہ بجے یہ آخری کنوائے روانہ ہوا.اس کنوائے میں روانہ ہونے والوں میں پر آشوب دور کے سالار لشکر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (رحمہ اللہ تعالیٰ) کے علاوہ مولانا جلال الدین صاحب شمس اور دوسرے بزرگان شامل تھے.مولانا شمس صاحب نے قادیان سے الوداع ہوتے ہوئے مقدس بستی کو مخاطب کرتے ہوئے رقت آمیز الفاظ میں فرمایا:.”اے قادیان کی مقدس سرزمین ! تو ہمیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ پیاری ہے.لیکن حالات کے تقاضا سے ہم یہاں سے نکلنے پر مجبور ہیں.اس لئے ہم تجھ پر سلامتی بھیجتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں“.(39) محترم مولوی بشیر احمد صاحب کالا افغاناں درویش جوابتدائی درویشوں میں سے ہیں.مؤرخہ 21 مئی 2015ء کو خاکسار ( راقم الحروف ) اور مکرم مامون الرشید تبریز صاحب ہمکرم ریحان احمد شیخ شاہد صاحب مربی سلسلہ شعبہ تاریخ احمدیت قادیان اور عزیز محمد شریف کوثر صاحب کو بعد نماز عصر اس سڑک پر لے گئے جہاں سے آخری کنوائے روانہ ہوا تھا.انہوں نے خاص طور پر وہ جگہ دکھائی جہاں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ترک پر سوار ہوئے تھے.انہوں نے بتایا کہ گزشتہ خطرناک اور مخدوش ایام میں میں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھے.نہ آپ کے چہرے پر کبھی گھبراہٹ یا خوف یا فکر مندی کے آثار دیکھے.مگر اس دن میں نے دیکھا آپ ٹرک پر سوار تھے اور آپ کی نظریں کبھی بہشتی مقبرہ کی طرف اور کبھی منارہ مسیح کی طرف گھوم رہی تھیں اور ان میں آنسو تھے.ٹرک آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے مگر آپ کی نظریں منارہ مسیح کی طرف ہی تھیں اور زیر لب کچھ دعا کر رہے تھے جس کی وجہ سے صرف ہونٹوں کی حرکت نظر آرہی تھی.سڑک پر ٹرکوں کا رخ شمال کی طرف تھا.شمال سے ٹرک مغرب کی جانب گھوم گئے.اور پھر ریتی چھلہ کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک پر چلتے ہوئے سٹار ہوزری کی سڑک سے گزرے.پھر جہاں آجکل (2019 میں ) بس اڈہ ہے، وہاں سے مغرب کی جانب ڈی.اے.وی اسکول کے پاس سے ہوتے ہوئے اور ریلوے لائن عبور کرتے ہوئے قتلے والی نہر کا پل پار کر کے ڈیہری وال اور وہاں سے بٹالہ روانہ ہوئے.کنوائے جانے کا راستہ نقشے میں واضح کیا گیا ہے.
جلد اوّل 268 تاریخ احمدیت بھارت حضرت صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب نے اس آخری قافلہ کی روانگی کے متعلق اپنے تاثرات مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر فرمائے.آخری قافلہ یہاں سے 16 نومبر 1947ء کو گیا.چونکہ بہت لوگوں نے جانا تھا.ہر قسم کی تیاری کرنی تھی اس لئے اکثر لوگ قریباً بیشتر حصہ رات کا جاگتے رہے.مگر صبح ہی پھر بہلچل جلدی ہی شروع ہوگئی اور سامان کے ساتھ یہ لوگ محلہ دار الانوار کی سڑک پر پہنچنے شروع ہو گئے.بارہ بجے کے قریب سب ٹرک لد گئے اور اجتماعی دعاؤں کے بعد جو کہ مسجد مبارک ، بیت الدعا، مسجد اقصیٰ اور بہشتی مقبرہ میں ہو ئیں سب لوگ ٹرکوں کے پاس پہنچ گئے.مگر وہاں منظر ہی اور تھا.جانے کی خوشی تو کسی کو کیا ہونی تھی.ہر ایک رنج اور غم سے پسا جارہا تھا.ہر ایک قدم جو کنوائے کی طرف اٹھتا تھا وہ آگے سے بوجھل ہوتا تھا.جو ضبط کی طاقت رکھتے تھے وہ ضبط کی کوشش کرتے.مگر اس کے راز کو ان کی سرخ آنکھیں پکار پکار کر فاش کر رہی تھیں.اور جن کو ضبط کی طاقت نہ تھی ، وہ اس طرح روتے تھے جس طرح کہ کوئی بچہ اپنی ماں سے بچھڑنے کے وقت روتا ہے.آخر وہ وقت بھی آگیا یعنی الوداعی دعا کا جس کرب اور الحاج کے ساتھ یہ دعامانگی گئی اور جس تضرع اور عاجزی سے انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا، اس کو الفاظ بیان نہیں کر سکتے.اور جس نے وہ نظارہ دیکھا وہ بھی اسے بھول نہیں سکتا.وہاں بہت سے غیر مسلم آئے ہوئے تھے.اس کے علاوہ مسلم ملٹری کے سب سپاہی موجود تھے.اور وہ سب محو حیرت تھے کہ ان لوگوں کو کیا ہوا ہے.کیا یہ ممکن ہے کہ ان لوگوں کی گزشتہ چار ماہ موت کے منہ میں جھانکنے کے باوجود بھی اس وقت یہ حالت ہے جبکہ ان کو موت سے بچایا جا رہا ہے.اللہ اللہ احمدیت کی صداقت کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے.کسی جھوٹے رسول ، اس کی بستی ،اس کے شعائر سے انسان اس قدر محبت نہیں کر سکتا.دعا ختم ہوئی ٹرک ایک ایک کر کے روانہ ہوئے.جانے والے چلے گئے.اور پیچھے رہنے والے ایک سکتہ کی حالت میں ان کو تکتے رہے.میں بھی انہیں لوگوں میں تھا جو کہ ان کو الوداع کر رہے تھے.اور جب میں پھر اپنے ہوش میں آیا تو میرے منہ پر یہ شعر تھا.کر کے رخصت ان کو تاحد نظر دیکھا گئے جس طرف دیکھانہ جاتا تھا اُدھر دیکھاگئے (40)
تاریخ احمدیت بھارت 269 جلد اول شہدائے احمدیت 1947ء کا ذکر خیر سید نا حضرت خلیفۃ اسیح الرابع” کے الفاظ میں تقسیم ملک 1947 ء کے دوران قادیان اور اس کے گردونواح میں جن احمدی احباب نے جام شہادت نوش کیا ان شہداء کی یاد تازہ کرنے کی خاطر حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” نے ان کا ذکر اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع فرماتے ہیں:.جمعدار محمد اشرف صاحب شہید پہلا ذکر جمعدار محمد اشرف صاحب شہید کا ہے جن کی تاریخ شہادت 2 ستمبر 1947ء ہے.مجھے افسوس ہے ہماری تاریخ میں ان لوگوں کے متعلق تفصیلات اکٹھی نہ کی گئیں لیکن اب جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے نتیجہ میں بہت سے شہداء کے پسماندگان خود وہ اطلاعیں بھجوا رہے ہیں جو ہماری تاریخ میں اس وقت محفوظ نہیں ہیں.وہ لکھ رہے ہیں کہ ہم ان کے بچے کتنے تھے ، کہاں کہاں گئے، اللہ تعالیٰ نے ان سے کیا سلوک کیا، دشمنوں سے کیا سلوک کیا وغیرہ وغیرہ.غرضیکہ اس مبارک سلسلہ کے نتیجہ میں ایک اور سلسلہ معلومات کا اکٹھا ہونا شروع ہو گیا ہے جس کے نتیجہ میں ہماری تاریخ اور زیادہ سنورتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.جمعدار محمد اشرف صاحب کے متعلق تاریخ احمدیت میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے روز نامچے کے حوالے سے یہ درج ہے کہ 2 /ستمبر 1947ء کو مسلمانوں کے گاؤں سٹھیالی پر جہاں خود حفاظتی کے خیال سے علاقے کے اور کئی مسلمان دیہات بھی جمع تھے ، بہت بڑا گاؤں تھا سٹھیالی ، مسلمانوں کا اور وہاں اردگرد کے دیہات کے مسلمان بھی پناہ کے لئے اکٹھے ہو گئے تھے وہاں....(مفسدہ پردازوں) کے حملے کا آغاز ہوا.اور اس حملہ کے دوران جمعدار محمد اشرف صاحب ان مسلمانوں کی حفاظت کے لئے سٹھیالی بھجوائے گئے تھے.وہاں برین گن کے فائر سے شہید ہوئے.جمعدار صاحب مرحوم احمد یہ کمپنی 15/8 پنجاب رجمنٹ سے جنوری 1947 ء میں فارغ ہوئے تھے اور قادیان تشریف لے آئے تھے.25 اگست 1947ء کو آپ نے حفاظت مرکز کے لئے اپنی خدمات پیش کیں.26 اگست کو جناب کیپٹن شیر ولی صاحب کے حکم سے صوبیدار عبد المنان صاحب دہلوی ، عبدالسلام صاحب سیالکوٹی ، حوالدار میجر محمد یوسف صاحب گجراتی محمد اقبال صاحب اور عبد القادر صاحب کھارے والے، غلام رسول
جلد اوّل 270 تاریخ احمدیت بھارت صاحب سیالکوٹی، فضل احمد صاحب اور عبدالغفار صاحب ان کے ہمراہ یہ سٹھیالی پہنچے جہاں....مفسدہ پردازوں) نے رائفل ہٹین گن، برین گن اور گرینیڈ کا بے دریغ استعمال کیا.جمعدارمحمد اشرف صاحب اور صوبیدار عبد المنان صاحب دہلوی اور محمود احمد صاحب عارف تینوں بڑی بہادری اور جرات سے دفاع کر رہے تھے کہ یکا یک برین گن کا برسٹ جمعدار محمد اشرف صاحب کے ماتھے پر لگا اور وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.میاں علم الدین صاحب شہید دوسری شہادت جس کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے وہ میاں علم الدین صاحب کی ہے.تاریخ شہادت 6 ستمبر 1947 ء.آپ کی پیدائش غالباً 1898ء کی ہے.منگل باغبان نز دقادیان میں کچھ عرصہ سکونت پذیر رہے.پھر 1932ء میں قادیان منتقل ہو گئے.اولاً حلقہ مسجد مبارک اور پھر حلقہ مسجد فضل میں سکونت اختیار کی.آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.ہر سال اس سلسلہ میں گرمیوں کے موسم میں دریائے بیاس کے پاس اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو ضرور ملنے جایا کرتے تھے.آپ کی تبلیغ کی بدولت ان میں سے بعض کو قبول احمدیت کی توفیق ملی.آپ مولانا جلال الدین صاحب قمر کے والد تھے.واقعہ شہادت یوں بیان ہوا ہے کہ قادیان پر جب پولیس اور فوج کی مدد سے جنہوں نے حملے شروع کئے تو فوج قادیان پر کرفیو لگا دیتی تھی.اور اہل قادیان کو قانونی زنجیروں میں جکڑ کر غیر مسلم جتھوں کو کھلا چھوڑ دیتی تھی کہ وہ من مانی کریں.لیکن اس کے باوجود غیر مسلم جتھوں کو احمدیوں کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی.کچھ تو ویسے ہی اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ رعب کے ذریعے ہماری مدد کی جائے گی.اصل وجہ تو یہی ہے، جو وعدہ ہم نے بارہا پورا ہوتے دیکھا ہے.لیکن اس مدد دینے کے تعلق میں غیروں کا جھوٹ بھی شامل ہو جایا کرتا تھا جو ان کے خلاف کام کرتا تھا.اس قدر کثرت سے انہوں نے قادیان کے اسلحے سے متعلق مشہور کر رکھا تھا کہ....(مفسدہ پرداز ) باوجود جتھوں کے، باوجود اس کے کہ فوج اور پولیس کی اعانت ان کو حاصل ہوتی تھی، جب بھی لڑتے تھے اور ذرا ان کو خطرہ ہو کہ قادیان سے اسلحہ نکل کے ان پر جوابی حملہ ہونے والا ہے تو ڈر کر بھاگ جایا کرتے تھے.مگر اس دوران جب کہ لڑائی ہو رہی تھی.اس وقت ان کو یقینا موقع مل جاتا تھا احمدیوں کو شہید کرنے کا اور بعض غیر احمدی مسلمانوں کو شہید کرنے کا.
تاریخ احمدیت بھارت 271 جلد اوّل یہ جو واقعہ میں بیان کر رہا ہوں یہ غالباً 6 ستمبر 1947 ء (3 /اکتوبر 1947 ء کو دراصل یہ حملہ ہوا تھا.ناقل ) کو جب قادیان پر ایک بہت بڑا حملہ ہوا ہے اس وقت پیش آیا.اس حملے کا زور زیادہ تر حلقہ مسجد فضل پر پڑا تھا.مستورات اور بچوں کو محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا تھا.یعنی احمدی والنٹیئر جو خدمت کر رہے تھے جنہوں نے ہر قسم کا خطرہ مول لے کر تمام مستورات اور بچوں کو وہاں سے نکال لیا تھا.مولانا جلال الدین صاحب قمر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب اپنے گھر کے بالا خانے پر بیٹھے ہوئے تھے.اس گھر کے سامنے ایک منزلہ کچے مکانات تھے.ایک.....(غیر مسلم ) پولیس مین ان گھروں کی چھتوں پر چڑھ آیا.بالا خانے کی کھڑ کی اس طرف کھلتی تھی.قانون کے اس محافظ کی نظر میرے والد صاحب پر پڑی.غالب وہ اپنے افکار میں مگن تھے اور ان کی نظر پولیس مین پر نہیں پڑی.اس پولیس مین نے اچانک گولی چلا دی اور انہوں نے اپنے خون میں لت پت تڑپ تڑپ کر جان دے دی.انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ کی شہادت کا منظر ایک دوسرے بالا خانے میں بیٹھے ہوئے ایک احمدی دوست دیکھ رہے تھے.جن میں چوہدری محمد حسین صاحب کلرک نظامت جائیداد بھی تھے.موجود احمدیوں نے نماز جنازہ پڑھ کر تن کے کپڑوں میں ان کو دفنا دیا.اس سلسلہ میں ضمناً ذکر کردینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے.باوجود اس کے کہ خطرہ بہت سخت تھاوہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے حکم کی بنا پر بیٹھے ہوئے تھے.اس لئے خواہ انہوں نے مقابلے میں حصہ لیا ہو یا نہ لیا ہو، بڑی دلیری کے ساتھ اس خیال سے کہ قادیان کا یہ تاثر نہ پڑے کہ قادیان کے باشندے اپنے مکان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں.جس کے نتیجہ میں بہت بڑا ریلا قادیان کے اوپر آسکتا تھا.اس خطرے کو دور کرنے کی خاطر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ ہر احمدی اپنے مکان پر پہرہ دے.صرف وہ اپنے مکان سے باہر جائیں جن کو با قاعدہ نظام جماعت کے تحت کسی مصلحت کے پیش نظر نکالا جائے.خصوصاً ان میں عورتیں اور بچے شامل ہوا کرتے تھے.اس لئے ان اکیلے اکیلے لوگوں کا اپنے گھروں میں بیٹھے رہنا یقینا ایک بہت عظیم شہادت ہے کیونکہ سلسلہ کے وقار کی خاطر انہوں نے اپنی جان کا خطرہ مول لیا ہوا تھا.
جلد اوّل 272 تاریخ احمدیت بھارت سید محبوب عالم صاحب بہاری شہید ایک اور بزرگ سید محبوب عالم صاحب بہاری کی شہادت کا واقعہ بھی یوں درج ہے کہ 19/ ستمبر 1947ء کو سید محبوب عالم صاحب بہاری جن کا خاندان اس وقت انگلستان میں اور ہر جگہ بھی گیا لیکن انگلستان میں خصوصیت کے ساتھ ان کی اولا دبس رہی ہے.سید صاحب ایک نیک اور بہت بے نفس بزرگ تھے.19 ستمبر 1947 ء کی صبح کو نماز کے بعد ریلوے لائن کے ساتھ سیر کے لئے گئے.اب بہادری دیکھیں باوجود اس کے کہ حالات بے انتہا خراب تھے ، گھر میں ٹھہرنے کا حکم تھا مگر بزدلی کے ساتھ نہیں ٹھہرے.جو سیر کا دستور تھا جاری رکھا اور ریلوے لائن کے ساتھ باقاعدہ صبح سیر پہ جایا کرتے تھے.لیکن ڈی.پی.سکول (ڈی.اے.وی.اسکول.ناقل ) قادیان کے قریب موضع رام پور کے بالمقابل کسی نے انہیں گولی کا نشانہ بنایا.شروع میں تو انہیں لا پتہ تصور کیا جاتا رہا.لیکن وہ جو احمدی والنٹیئر ز کے دستے جایا کرتے تھے.اس مکان میں ان کو موجود نہیں دیکھا تھا.اس مکان میں انکو نہ پا کر یہی سمجھتے رہے کہ لا پتہ ہیں.شاید کسی اور کے مکان میں چلے گئے ہوں.مگر اس واقعہ کے تین دن کے بعد ایک مسلمان دیہاتی نے جو پناہ گزین کے طور پر باہر سے آیا ہوا تھا سید صاحب کے داما دسید صادق حسین صاحب کو بتایا کہ میں نے اس حلیہ کے ایک مسلمان کی لاش جس کے گلے میں نیلا کر نہ تھا.اور یہ نیلا کرتا انہوں نے ہی پہنا ہوا تھا، ریلوے لائن کے قریب پڑی ہوئی دیکھی تھی.انا للہ وانا الیہ راجعون.پس ان کی نعش کا تین دن بعد پتہ چلا اور ان کو دفنانے کا بھی کوئی انتظام نہ ہوسکا.شمسہ سفیر لنڈن سے بیان کرتی ہیں کہ میرے نانا جان سید محبوب عالم صاحب اور ان کے بھائی سید محمود عالم صاحب جب انہوں نے احمدیت کا پیغام سنا تو بہار سے پیدل چل کر قادیان آئے تھے.یہ جو واقعہ ہے اس کا میں نے دوبارہ انگلستان سے پتہ کروایا ہے.کیونکہ جہاں تک جماعت کی تاریخ محفوظ ہے میں نے اصل رجسٹر پڑھے ہیں.جن میں ابتدائی احمدیوں کے،صحابہ کے بڑے عظیم الشان واقعات درج ہیں.کس طرح انہوں نے غیر معمولی قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قادیان آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.مجھے یہ خیال تھا کہ غالباً سید محبوب عالم صاحب بھی انہیں میں سے ہیں.چنانچہ انگلستان سے جب تصدیق کروائی گئی تو شمسہ سفیر صاحبہ نے یہ تصدیق بھیجی ہے کہ اولاد میں صرف ایک ہی بیٹی تھی جو میری
تاریخ احمدیت بھارت 273 جلد اوّل والدہ تھیں اور ان کا نام سلمیٰ تھا.پندرہ برس کی عمر میں ان کی شادی سید صادق علی صاحب سے ہوئی تھی.قادیان پیدل آنے کے متعلق لکھتی ہیں کہ جب انہوں نے بہار میں احمدیت کا پیغام سنا تو بہار سے پیدل چل کر قادیان آئے اور ان کے پاؤں سوج گئے تھے.غریب خاندان تھا، سفر خرچ نہیں تھا.یہ مختصر سی بات انہوں نے لکھی ہے.جو رجسٹر کا حوالہ میں نے دیا ہے جس کی تفصیل انشاء اللہ جلسہ سالانہ پر میں سناؤں گا.وہ بہت ہی عظیم الشان واقعہ ہے حیرت انگیز قربانی ہے.بہار سے چل کر پیدل ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ ننگے پاؤں ، زخمی پاؤں جو ہر روز سوج جایا کرتے تھے زخموں سے،اس کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام سنا تھا صرف آنکھوں دیکھنا تھا اس حالت میں یہ قادیان آئے تھے.پس ان کی شہادت ایک عظیم واقعہ ہے جس کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.جیسے بہادر پہلے تھے ویسے ہی شہادت کے دوران بھی بہادر ہی ثابت ہوئے.مکرم پیر سلطان عالم صاحب شہید ایک شہادت مکرم سلطان عالم صاحب کی تاریخ میں درج ہے.عزیز سلطان عالم صاحب 26/ نومبر 1922ء کو پیدا ہوئے.1938ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے درجہ اول میں میٹرک پاس کیا.اس عرصہ میں تحریک جدید بورڈنگ ہاؤس میں داخل رہے.اس چھوٹی سی عمر میں ہی باقاعدہ تہجد گزار تھے.بعد ازاں گجرات سے امتیاز کے ساتھ ایف اے پاس کیا اور سی ایم اے کے مقابلہ کے امتحان میں کامیاب ہو کر ملازم ہو گئے.1942ء میں آپ کو مہمان خانے میں معاون ناظر ضیافت کے طور پر تعینات کیا گیا.یہ چونکہ وقف کر کے آگئے تھے اور قادیان میں معاون ناظر ضیافت کے طور پر ان کی تقرری ہوئی تھی جو انہوں نے بڑی جانفشانی سے ادا کی.19 ستمبر 1947ء کی ایک چٹھی میں جو 25 ستمبر کو گولیکی پہنچی ، مرحوم نے یہ لکھا: حضور کا حکم ہے کہ عورتوں اور بچوں کو بھیج دو اور خوب ڈٹ کر مقابلہ کرو.ہم تو حضور کے حکم کے مطابق خون کا آخری قطرہ بہانے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں.واقعہ شہادت : 4/اکتوبر 1947ء کو کرفیو اٹھنے کے بعد جب بعض بیرونی محلوں میں رہنے والے احمدی اپنے مکانوں کی دیکھ بھال کے لئے باہر جانے لگے تو بڑے بازار کے اختتام پر جو ریتی چھلہ سے ملتا
جلد اوّل 274 تاریخ احمدیت بھارت ہے تین دن دہاڑے برسر بازارسات احمدیوں کو گولی کا نشانہ بنایا گیا.ان میں میاں سلطان عالم صاحب بی.اے.نائب ناظر ضیافت بھی تھے اور جب بعض لوگ شہید ہونے والے احمدیوں کی لاشوں کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھے تو ان کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا.اب اس شہید کے مزید تعارف کے طور پر بیان کر رہا ہوں کہ یہ شہید مکرم پیر عالم صاحب واقف زندگی کے حقیقی بھائی تھے.پیر عالم صاحب میرے دفتر میں ، پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں، ہمہ وقت خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں.رات بارہ بجے یا ایک بجے تک ہماری بعض علمی مجالس رہی ہیں.بعض دفعہ دو بجے تک، سب لوگ چھٹی کر جاتے تھے مگر پیر صاحب نے کبھی چھٹی نہیں کی.صبح ہمارے مختلف کارکنوں کے آنے سے پہلے میں اپنے دفتر پہنچ جاتا ہوں اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں پہنچا ہوں اور پیر صاحب موجود نہ ہوں.اللہ کے فضل سے ان کا بھائی تو شہادت کا رتبہ پا گیالیکن پیر صاحب نے بھی جیتے جی وقف کا حق ادا کر کے اللہ کے حضور یقینا بہت رہنے پائے ہیں.نورہسپتال کے قریب جس گڑھے میں آپ کو دفن کیا گیا وہاں اب کتبہ بھی نصب کر دیا گیا ہے.نور ہسپتال کے قریب یہ جو شہید ہوئے تھے ان کو بعد میں موقع پا کر جتنے بھی شہید تھے اکٹھا کر کے ایک گڑھا بنا کر اس میں دفن کیا گیا تھا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں کتبہ نصب کر دیا گیا ہے.میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ قادیان جانے والے جائیں تو وہاں بھی دعا کے لئے جایا کریں.شہید نے بوڑھے والدین، نوجوان بیوہ بنت ڈاکٹر عمر دین صاحب افریقی ساکن گجرات اور دو بیٹے خلیل احمد اور نعیم احمد بطور پسماندگان چھوڑے ہیں.مکرم مرزا احمد شفیع صاحب شهید اب ایک اور شہادت کا ذکر کرتا ہوں جو مکرم مرزا احمد شفیع صاحب ( شہادت 3 اکتوبر 1947ء) کی ہے.جن کا بیٹا یہاں جرمنی میں ہے مرزا صیح احمد صاحب.ان کو آپ اکثر لوگ جانتے ہوں گے.مرزا احمد شفیع صاحب ، مرزا محمد شفیع صاحب کے صاحبزادے تھے.1913ء میں پیدا ہوئے.آپ نے اعلیٰ نمبروں سے میٹرک پاس کیا.ایف اے اور بی اے میں ڈبل میتھ لے کر اعلیٰ نمبروں میں ڈگری حاصل کی.شہادت کے وقت آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں بطور استاد کے اپنے فرائض سر انجام دیتے
تاریخ احمدیت بھارت 275 جلد اوّل رہے.سلسلہ کی خدمت کو اپنا شعار بنایا.نماز با جماعت اور خدام الاحمدیہ کے کاموں میں بہت دلچسپی لیتے تھے.ہر قسم کے چندوں اور خصوصاً تحریک جدید میں ہر سال اضافے کے ساتھ حصہ لیا کرتے تھے.اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اپنے فرائض کو نہایت احسن طور پر نبھاتے رہے.اب میں ان کے خاندان کا تعارف کرواتا ہوں.ان کے والد حضرت مرزا محمد شفیع صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ محاسب صدر انجمن احمد یہ تھے.میرے بچپن سے پارٹیشن تک مجھے ان کا ہمیشہ دیکھنا یاد ہے.بہت ہی مستعد کا رکن تھے اور ہمیشہ اعلیٰ درجہ کی صلاحیتوں کا نمونہ دکھاتے ہوئے محاسبہ کا کام کیا ہے.ان کا مزید تعارف یہ ہے کہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خسر تھے.یعنی حضرت مرزا محمد شفیع صاحب ، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خسر تھے اور انہی کی بیٹی سے آگے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ساری نسل جاری ہوئی ہے.جو دوسری بیگم تھیں ان کو اچھی اماں کہا کرتے تھے ان سے کوئی اولا د نہیں تھی لیکن وہ ان کی اولاد سے بھی ماں کی طرح محبت کرتی تھیں بلکہ بعض ان کے بچے انہی کے پاس پلے ہیں.حضرت چھوٹی آپا یعنی ام متین کے یہ حقیقی ماموں تھے، مرزا احمد شفیع صاحب.مرزا احمد شفیع صاحب کی بیوہ امتہ الرحمن صاحبہ ربوہ میں ہوتی ہیں جن کے ساتھ ان کی بیٹی امته الباسط (امۃ القیوم ساتھ رہتی ہیں.حضور نے 28 مئی کے خطبہ میں تصحیح فرما دی تھی ) رہتی ہیں.ان کی ایک بیٹی لندن میں ہیں جن کے بچے آگے پھر خدمت دین کی توفیق پارہے ہیں.فضل اور شیلا دو نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں جنہوں نے جماعت کی علمی خدمات میں بہت بھر پور حصہ لیا ہے اور جو بھی ریسرچ کے کام میں ان کے سپر د کرتا ہوں بڑی تند ہی سے ادا کرتے ہیں.انگلستان کی جماعت میں یہ دو نام کافی مشہور ہیں.ان کے بیٹے مرزا مسیح احمد جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہاں جرمنی میں ہیں اور کافی لمبے عرصہ سے صاحب فراش ہیں اور بڑی ہمت سے بیماری کا مقابلہ کر رہے ہیں.ان کی بیگم بھی ان کی بہت خدمت کر رہی ہیں.آپ سب کو میں ان سب کے لئے دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں.مکرم ملک حمید علی صاحب شہید ایک شہادت ملک حمید علی صاحب کی بھی مذکور ہے.یہ تاریخ میں درج ہے مگر اس کی تفاصیل موجود نہیں ہیں.اس خطبہ کے سلسلہ کا ایک یہ بھی فائدہ پہنچ رہا ہے اور پہنچے گا کہ اب جو بھی ان کے عزیز بنیں گے وہ
جلد اوّل 276 تاریخ احمدیت بھارت انشاء اللہ ان کے متعلق تفصیلی معلومات مزید مہیا کر دیں گے.ملک حمید صاحب کے متعلق جو کچھ معلوم ہے وہ یہ ہے کہ مکرم ملک بشیر احمد صاحب کنجاہی کے فرزند اور جناب ملک غلام فرید صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ایم.اے کے رشتہ میں بھیجے تھے.آپ کو ملٹری نے پکڑا اور ہائی سکول قادیان کے پیچھے لے جا کر گولی مار کے شہید کر دیا.مکرم ماسٹر عبدالعزیز صاحب شہید ایک شہید کا نام ماسٹر عبدالعزیز ہے.ان کے متعلق بھی تفصیلات معلوم نہیں ہوسکیں.لیکن جو معلوم ہیں مختصری وہ میں بیان کر دیتا ہوں.آپ منگل باغبان متصل قادیان کے رہنے والے تھے.لاہور سے واپس آرہے تھے قادیان نہیں پہنچ سکے.یہ لاہور سے اسی غرض سے واپس آرہے تھے کہ حضرت مصلح موعود کا حکم تھا کہ قادیان والے قادیان نہ چھوڑ ہیں.یہ باوجود اس کے کہ باہر محفوظ جگہ پہنچ چکے تھے پھر بھی قادیان واپسی کا فیصلہ کیا ہوا تھا.ان کے متعلق یقینی طور پر پتہ نہیں چل سکا کہ کیسے شہید ہوئے مگر جب کچھ عرصہ غائب رہے تو روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ بٹالہ میں ان کو شہید کیا گیا.ماسٹر عبدالعزیز صاحب کسی وقت مدرسہ احمدیہ میں مدرس بھی رہے ہیں.مکرم غلام محمد صاحب شہید اور مکرم عبد الحق صاحب شہید اب دو ایسی شہادتیں ہیں جن کا ذکر خصوصی طور پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے مضمون ” قادیان کی خونریز جنگ میں کیا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے ان الفاظ میں یہ ذکر کیا کہ قادیان کے مرکزی حصہ پر جو حملہ ہوا اس میں ایک شاندار واقعہ ہوا.بہت سے واقعات میں اس واقعہ کو خصوصیت کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک شاندار واقعہ بیان کیا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ وہ قرون اولیٰ کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے.” جب حملہ کرتے وقت پولیس اور....(مفسدہ پرداز ) شہر کے اندر گھس آئے اور شہر کے مغربی حصہ کے لوگوں کو مار پیٹ کر خالی کرانا چاہا اور وہ لوگ مشرقی حصہ میں منتقل ہو گئے تو معلوم ہوا کہ گلی کے پار ایک گھر میں چالیس صورتیں جمع تھیں وہ وہیں رہ گئی ہیں" ہمارے مغرب میں ہندوؤں کے محلے تھے اور وہیں احمدی بھی پہلے آباد ہوا کرتے تھے.تو جب یہ خطرہ ہوا تو احمدیوں کو محفوظ جگہ پہنچانے کا وقت کسی طرح نہ مل سکا اور وہیں بعض گھروں میں وہ اکٹھے ہو گئے اور حسب توفیق والنٹیئر زان کو لے کے آتے رہے.یہ پس منظر ہے جس میں یہ واقعہ ہوا ہے.
تاریخ احمدیت بھارت 277 جلد اول چنانچہ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں شہر کے مغربی حصہ کے لوگوں کو مار پیٹ کر جگہ خالی کروانی شروع کی یعنی پہلے فوجیوں نے اور پولیس نے یہ کام شروع کیا اور وہ لوگ جو مشرقی حصہ میں منتقل ہو گئے تھے یعنی مغربی حصہ سے جو احمدیوں والا حصہ تھا مشرقی اس میں منتقل ہو گئے اس وقت معلوم ہوا کہ گلی کے پار ایک گھر میں چالیس عورتیں جمع تھیں وہ وہیں رہ گئیں ہیں.و بعض افسران ان کو نکلوانے کے لئے گلی کے سرے پر موجود مکان تھا وہاں پہنچے اور ان کے نکالنے کے لئے دو نو جوانوں کو بھیجا وہاں پھٹے لگا کر ایک عارضی پل بنالیا جایا کرتا تھا تو پھٹوں پر سے یہ گزر کر گئے ہیں، یہ نوجوان جس وقت گلی پار کرنے لگے تو سامنے کی چھتوں سے پولیس نے ان پر بے تحاشہ گولیاں چلا دیں اور وہ لوگ واپس گھر آنے پر مجبور ہو گئے.تب لکڑی کے تختے منگوا کر ، یہ غالباً لکڑی کے تختے منگوائے گئے ہیں پہلے نیچے سے جانے کی کوشش کی ہوگی عام گلی میں سے لیکن وہاں وہ عین لوگوں کے نشانے میں تھے اور خطرہ تھا کہ شاید کوئی بھی بچ نہیں سکے گا.اس لئے اس کے بعد جو ترکیب سوجھی کسی کو کہ لکڑی کے پھٹے لگائے جائیں اور بہت تیزی سے چھلانگ لگا کر ان پھٹوں پر سے گزرجائیں.دونو جوان اس کام کے لئے گئے تھے یعنی دو نو جوانوں نے پیش کیا کہ ہمیں بھیجیں پھٹوں کے اوپر سے ہم انشاء اللہ جا کر احمدی خواتین کو نکال لائیں گے.ان میں ایک غلام محمد صاحب ولد مستری غلام قادر صاحب سیالکوٹی تھے اور دوسرے عبدالحق نام قادیان کے تھے جو احمدیت کی طرف مائل تو تھے اور احمدی مجاہدین کے ساتھ خدمت میں بھی بھر پور حصہ لے رہے تھے مگر ابھی جماعت میں شامل نہیں تھے.یہ دونوں نو جوان برستی گولیوں میں سے پھٹے پر سے کودتے ہوئے اس مکان میں چلے گئے جہاں چالیس عورتیں موجود تھیں.انہوں نے ایک ایک عورت کو کندھے پر اٹھا کر تختے پر ڈالنا شروع کیا اور مشرقی مکان والوں نے انہیں کھینچ کر اپنی طرف لانا شروع کیا.جب وہ اپنے خیال میں سب عورتوں کو نکال چکے اور خود واپس آگئے اور محفوظ تھے تو معلوم ہوا کہ انتالیس عورتیں آئی ہیں اور ایک نہیں آئی حالانکہ یہ یقینی خبر تھی کہ چالیس عورتیں ہیں.ایک بڑھیا عورت جو گولیوں کے ڈر کے مارے ایک کونے میں چھپی ہوئی تھی وہ وہیں رہ گئی.اب ایسے موقع پر انسان کہہ سکتا ہے کہ انتالیس آگئی ہیں ٹھیک ہے.اب اپنے جوانوں کو خطرے میں کیوں ڈالیں بڑھیا عورت ہے ویسے ہی مرنے کے قریب
جلداول 278 تاریخ احمدیت بھارت ہے اس کو وہیں چھوڑ دیں.مگر وہ وقت ایسا تھا جب کہ احمدی مجاہدین ہر قربانی کے لئے تیار تھے.چنانچہ اس وقت ان دونوں نوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا.غلام محمد صاحب ولد میاں غلام قادر صاحب سیالکوٹی اور اسی طرح ان کے علاوہ عبد الحق صاحب، یہ دو تھے جنہوں نے کہا کہ ہم جاتے ہیں فکر نہ کریں.چنانچہ غلام محمد صاحب ولد میاں غلام قادر صاحب جب یہ دوڑے ہیں تختے پر سے اس طرف سے بڑھیا کو ڈھونڈنے کے لئے تو جاتے ہوئے سامنے سے ان کے پیٹ میں گولی لگی اور بہت گہرا زخم آیا انتریوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی.لیکن بڑے ہمت والے بڑے مضبوط جوان تھے.انہوں نے ایک ہاتھ سے اپنے پیٹ کو سنبھالا اور پھر بھی جا کر اس بڑھیا کو نکالنے کی کوشش کرنے کے لئے اندر چلے گئے لیکن توفیق نہ مل سکی اور وہاں دروازے پر دوسری طرف اسی کمرے میں گر گئے.اس پر وہ جو غیر احمدی دوست تھے عبدالحق صاحب انہوں نے کہا اب میں جاتا ہوں چنانچہ وہ بھی گئے اور انہوں نے بڑھیا کو نکال لیا اور جب وہ دونوں واپس آنے لگے تو ان کی پیٹھ پر گولی لگی اور وہ بھی شہید ہو گئے.ان دو واقعات میں ایک عجیب بات بھی مضمر ہے جس سے قبولیت دعا کا بھی پتہ چلتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کس طرح بار یک بار یک اشاروں سے اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ میں اپنے بندوں کی دلی آرزوؤں کو پوری کیا کرتا ہوں.وہ واقعہ یہ ہے کہ ہسپتال تو نہیں تھا جس جگہ بھی انہیں لے جایا گیا وہاں عارضی طور پر طبی امداد مہیا کی گئی تھی لیکن چونکہ اندر کا زخم بہت زیادہ گہرا تھا اور نا قابل علاج تھا اس لئے ان کے بچنے کا کوئی سوال نہیں تھا.مگر آخر وقت تک ہوش قائم رہی.اس وقت انہوں نے جو عیادت کے لئے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان کو بتایا کہ مجھے اسلام اور احمدیت پر پکا یقین ہے.تم گواہ رہو کہ میں اپنے ایمان پر قائم رہتے ہوئے جان دے رہا ہوں.یہ واقعات بھی ایسے ہیں جو اسلام کی عظیم پرانی تاریخ کو زندہ کرنے والے اور اس کو دکھانے والے واقعات ہیں.صحابہ مرتے وقت دوسروں کو گواہ کر دیا کرتے تھے گواہ رہو کہ ہم اسی دین پر جان دے رہے ہیں.پھر انہوں نے ایک اور بات بیان کی.کہتے ہیں میں اپنے گھر سے اسی لئے نکلا تھا کہ میں اسلام کے لئے جان دوں گا.آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے اس مقصد کے لئے جان دی ہے.جب میں گھر سے چلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا دیکھنا پیٹھ نہ دکھانا.اب اس بات میں بہت گہرا راز مضمر ہے جو شاید ایسے ذہنوں میں نہ ابھرے کہ ان کو سامنے گولی لگی ہے پیٹھ پیچھے نہیں لگی اور جو غیر احمدی تھے ان کو پیٹھ پیچھے گولی لگی.اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرق کر کے دکھا دیا کہ ایک کی ماں کی دعا تھی سامنے سے مار کھانا، پیٹھ نہ
تاریخ احمدیت بھارت 279 جلد اوّل دکھانا.واقعہ اس نے پیٹھ نہ دکھائی.یہ وہ پہلو ہیں جو ان کی شہادت کو بہت ہی عظیم کر کے دکھا رہے ہیں اور پھر انہوں نے اپنی ماں کے نام یہ پیغام بھیجا کہ میری ماں سے کہہ دو کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری وصیت پوری کر دی ہے اور یہ پیغام دے کر انہوں نے جان دے دی.مکرم محمد رمضان صاحب شہید آف کھارا اور انکا خاندان اب ایک واقعہ محمد رمضان، عالم بی بی، چراغ دین جان بی بی ، منور احمد وغیرہ شہداء کا میں بیان کرتا ہوں.ٹھیکیدار ولی محمد صاحب جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی زندہ ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم محمد رمضان صاحب کا خاندان موضع کھارا نزد قادیان کا رہائشی تھا.ان کا خاندانی پیشہ زمینداری تھا.پہلے ان کا خاندان کسی پیر کا مرید تھا.خدا کے فضل سے 36 ء یا 37 ء میں سب خاندان احمدی ہو گیا.مکرم محمد رمضان صاحب اور مکرم چراغ دین صاحب جو دونوں بھائی مخلص احمدی تھے، دیانت میں اتنے مشہور تھے کہ جب غدر کے وقت حالات خراب ہوئے تو اکثر لوگ اپنی امانتیں محمد رمضان کے پاس آکر جمع کرایا کرتے تھے.ان کو یقین تھا کہ یہاں ان کا مال محفوظ رہے گا.جب ہندو تاجر کھارا کے علاقہ میں آباد ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے گورنمنٹ سے یہ درخواست کی کہ ان کو یہ علاقہ خالی کر کے دیا جائے.سکھوں اور ہندوؤں کے کردار کا یہ فرق ہے کہ سکھ تو بزور شمشیر خود علاقہ خالی کروالیا کرتے تھے.ہندوؤں کا یہ مطالبہ تھا کہ پہلے خالی کراؤ پھر ہم جائیں گے.تو پرانے بنی اسرائیلیوں کی کچھ روایات ان میں ابھی تک زندہ ہیں.بہر حال انہوں نے حکومت سے یہ درخواست کی اور حکومت خاص طور پر ہندوؤں کا تو بہت ہی لحاظ کرتی تھی کہ ہمیں پہلے خالی کر دو پھر ہم داخل ہوں گے.جب قادیان میں جماعت کو علم ہوا کہ کھارا کے احمدی اس وقت مشکل میں ہیں تو کچھ خدام سینوں پر اسلحہ باندھ کر ہماری مدد کو پہنچے.یعنی ولی محمد صاحب یہ واقعہ بیان کر رہے ہیں.....(مفسدہ پردازوں) نے ان کی مزاحمت کی مگر خدام نے جرات اور بہادری کے ساتھ....(مفسدہ پردازوں) پر فائرنگ کی حتی کہ گاؤں کا ایک حصہ....(مفسدہ پردازوں) سے بالکل خالی کر دیا اور خدام گاؤں کے اندر داخل ہو گئے اور احمد یوں کو کہا کہ آپ لوگ سورج نکلنے سے پہلے قادیان چلے جائیں تب آپ لوگ بیچ سکتے ہیں.چنانچہ اسی ہدایت پر ٹھیکیدار ولی محمد صاحب کے بزرگوں کے سوا سب احمدی سورج نکلنے سے پہلے
جلد اوّل 280 تاریخ احمدیت بھارت قادیان چلے گئے مگر ٹھیکیدار ولی محمد صاحب کے بزرگ قائم رہے کہ نہیں ہم یہ جگہ چھوڑ کر نہیں جائیں گے.یہ گھرانہ چونکہ زمینداری کی وجہ سے مشہور تھا لہذا....(مفسدہ پردازوں) کا خیال تھا کہ یہاں بہت زیادہ مال و دولت ہوگی.....(مفسدہ پردازوں) نے جب اس گھر پر حملہ کیا تو اس حملے میں ٹھیکیدار ولی محمد صاحب کی والدہ محترمہ عالم بی بی صاحبہ، چچا چراغ دین صاحب، چچی جان بی بی صاحبہ، چا کا بیٹا تین سالہ منور احمد اور چچا کی ایک بیٹی اور رشتے دار محمد شریف آف قادر آبادکو گھر پر ہی شہید کر دیا گیا.حملے کے وقت اگر چه محمد رمضان صاحب اپنے تین سالہ پوتے کو ساتھ لے کر گھر سے نکلنے میں کامیاب تو ہو گئے مگر....(مفسدہ پردازوں) نے پیچھا کر کے تالاب کے قریب ان کو گولی مار کر شہید کر دیا.مکرم نیاز علی صاحب شہید اب ایک اور دوست مکرم نیاز علی صاحب کھاریاں کی شہادت کا ذکر کرتا ہوں.مکرم خواجہ غلام نبی صاحب بلا نوی بیان فرماتے ہیں کہ میرا ایک بچہ حمید جو مرکزی حفاظت کا فریضہ ادا کرنے والوں میں شامل تھا اور محلہ کی مخدوش حالت پر اطلاع پاکر اور یہ سن کر کہ....( مفسدہ پردازوں) کے حملے کا بہت بڑا زور ہمارے مکان کے پاس ہے میری خبر معلوم کرنے کے لئے گھر آیا تھا اور ہم یہ دیکھ کر کہ قریب قریب کی عورتیں اور بچے جاچکے ہیں اپنے مکان سے نکلے اور بابوا کبر علی صاحب مرحوم کی کوٹھی میں پہنچے.جہاں مرکزی حفاظت کرنے والے نوجوان مقیم تھے.میرے وہاں جانے کے تھوڑی دیر بعد انچارج صاحب کو اطلاع پہنچی کہ ایک مکان میں ابھی تک بہت سی عورتیں اور بچے محصور ہیں اور خطرہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جارہا ہے ان کو بحفاظت نکالنے کا انتظام کیا جائے.اس پر انچارج صاحب نے نوجوانوں کو آواز دی اور وہ دوڑتے ہوئے آکر ان کے گرد جمع ہو گئے اور جب انہیں بتایا گیا کہ فلاں مکان میں عورتیں اور بچے موجود ہیں ان کو نکال لائیں تو ایک لمحہ کے توقف کئے بغیر سارے کے سارے نوجوان جن کی تعداد پندرہ بیس سے زیادہ نہ تھی ملٹری اور....(مفسدہ پردازوں) کی گولیوں اور....(ان) کی کر پانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے محض لاٹھیاں لے کر دوڑ پڑے اور تھوڑی ہی دیر میں دوسو کے قریب عورتوں اور بچوں کو بحفاظت نکال لائے.یہ بھی رعب کی نصرت کی ایک عجیب مثال ہے.ایک طرف فوج بھی تھی، پولیس بھی تھی ،....(مفسدہ پرداز ) ہر قسم کے ہتھیاروں
تاریخ احمدیت بھارت 281 جلد اول رائفلوں، کر پانوں وغیرہ سے مسلح ، اور مقابل پر یہ پندرہ ہیں صرف لاٹھی بردار اور ان کو یہ توفیق مل گئی کہ ان کے حملے کو چیرتے ہوئے ، ان کے جتھے کو چیرتے ہوئے بیچ میں سے راستہ بنایا اور محفوظ طریق پر عورتوں اور بچوں کو نکال لائے.کسی قسم کی کسی گھبراہٹ کا کوئی اظہار نہیں کیا.جب ہمارے مجاہد ان کو اپنی حفاظت میں بورڈنگ کی طرف لا رہے تھے تو موضع سے قادیان آنے والے راستے کے قریب جو محلہ دارالرحمت اور محلہ دار العلوم کے درمیان واقع ہے بہت سے مسلح....(مفسدہ پردازوں ) نے حملہ کرنے کی کوشش کی.یہ دیکھ کر ہمارے نوجوان جن کے پاس لاٹھیاں تھیں ان کے مقابلے پر ڈٹ گئے اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھا یا کہ ان....(مفسدہ پردازوں) کو توفیق نہ ملی ان کو مارنے کی.جب تک ملٹری اور پولیس والے وہاں نہ پہنچے.اس سے پہلے کئی....(مفسدہ پردازوں) کو یہ پندرہ ہمیں نو جوان لاٹھیاں مار کر بھگا چکے تھے اور ہمارے نوجوانوں میں کسی کو خراش تک نہیں آئی تھی.خواتین اور بچوں کو نرغے سے نکالنے کے لئے جو مجاہدین اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر مردانہ وار آگے بڑھے تھے ان میں ایک مجاہد جو نہایت سنجیدہ نوجوان اور رضا کار بن کر قادیان کی حفاظت کی غرض سے کھاریاں ضلع گجرات سے آیا ہوا تھا اس کا نام نیاز علی تھا.نہ معلوم اپنے ساتھیوں سے کس طرح علیحدہ ہو گیا بعد میں معلوم ہوا کہ ملٹری نے نہایت سفا کی سے ان کو گولی کا نشانہ بنادیا.اب یہ دیکھیں کتنا عظیم خدا تعالیٰ کی نصرت کا معجزہ ہے کہ پندرہ بیس لاٹھی بردار بغیر کسی رائفل کے جاتے ہیں اور....(مفسدہ پردازوں) کے لشکر کے بیچ سے رستہ بناتے ہوئے صفیں چیرتے ہوئے فوج اور پولیس کی گولیوں سے بے خوف پار اتر جاتے ہیں اور احمدی عورتوں اور بچوں کو نکال لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس عرصہ میں ان کو خراش تک نہیں آتی جب کہ کئی....(مفسدہ پرداز ) جن کی تعداد معین نہیں وہ ان کی لاٹھیوں سے ہی مارے گئے.تو یہ واقعات بتاتے ہیں کہ احمدیت کوئی مسیح موعود کا لگایا ہوا پودا نہیں یہ خدا کے ہاتھ کا گایا ہوا پودا ہے جس کو اللہ نے آپ کے ہاتھ سے لگوایا ہے اور یہ پودا بھی نا کام نہیں ہوسکتا.یہ لاز م بڑھے گا اور لازماً ہمیشہ ترقی کرتا چلا جائے گا اور دشمن کی پھونکیں اس روشن چراغ کو کبھی بجھا نہیں سکیں گی جسے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اور قرآن کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ میں روشن کیا گیا ہے.
جلد اول مکرم عبدالمجید خان صاحب شہید 282 تاریخ احمدیت بھارت اب ایک شہادت عبدالمجید خان صاحب کی ہے جن کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب مرحوم کے یہ ماموں تھے.آپ مسجد اقصیٰ قادیان میں قرآن کریم کی کلاس لیا کرتے تھے.مرحوم تقسیم ملک کے بعد دوبارہ قادیان گئے.اس وقت آپ پاکستان کی فوج کے ملازم تھے.انہوں نے چاہا کہ میں اپنے والدین کو جا کر لے آؤں.بہت دلیر تھے.لوگوں نے منع بھی کیا مگر وردی پہن کر عازم سفر ہو گئے.آپ کے جانے سے تھوڑی دیر بعد ایک آدمی آیا اور اس نے کہا وہاں پر ایک نوجوان کا سر پڑا ہوا ہے.جب تحقیق کی گئی تو وہ عبد المجید خان صاحب کا سر تھا جو کھارا سے نکلتے ہی شہید کر دیئے گئے تھے.مکرم بدر دین صاحب شهید گلاب بی بی صاحبہ اور محمد اسماعیل صاحب شہید ایک شہادت مکرم بدر دین صاحب، ان کی اہلیہ گلاب بی بی صاحبہ اور ان کے بیٹے محمد اسمعیل کی ہے.مکرم بدر دین صاحب قادیان کے قریب گاؤں سیکھواں کے رہنے والے تھے.پیدائشی احمدی تھے.ہر جمعہ با قاعدگی سے قادیان پیدل جا کر پڑھتے تھے.آپ کی اہلیہ مکرمہ گلاب بی بی صاحبہ بھی پیدائشی احمدی تھیں.آپ احمدیت کی خاطر ہر مشکل کو برداشت کرنے والی تھیں.آپ کے بیٹے محمد اسمعیل صاحب نے والدین کی تربیت سے صالح ہونے کا مقام حاصل کیا تھا.بہت نیک انسان تھے.یہ بھی ہر جمعہ قادیان جایا کرتے تھے اور حفاظت مرکز کی ڈیوٹی بڑے شوق سے کرتے تھے.واقعہ شہادت تقسیم ملک کے اعلان کے بعد گاؤں کے اکثر احمدی قادیان منتقل ہو چکے تھے لیکن ابھی گاؤں کلیۃ نہیں چھوڑا تھا اچانک....(مفسدہ پردازوں) نے گاؤں پر ہلہ بول دیا اور مسلمانوں کے گھروں پر قبضہ کر لیا اور ان کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا.مکرم ابراہیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد بدر دین صاحب، والدہ گلاب بی بی صاحبہ اور بھائی اسمعیل صاحب گاؤں سے ایک قافلے کے ساتھ قادیان آرہے تھے کہ قافلے پر....(مفسدہ پردازوں) نے حملہ کر دیا.میں خود اس قافلے میں شامل تھا.وہاں پر میرے والد، والدہ اور بھائی اسمعیل کو شہید کر دیا گیا.حملہ کے وقت مجھے میرے والد صاحب نے اشارہ کیا کہ بھاگ جاؤ یعنی اپنے نکلنے کی وجہ یہ بیان کر رہے ہیں کسی بزدلی کی وجہ سے نہیں گیا تھا، والد کی اطاعت میں گیا ہوں.کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ ان کا بچنا محال ہے.پس غالباً اپنی نسل کو جاری
تاریخ احمدیت بھارت 283 جلد اوّل رکھنے کی تمنا پوری کرنے کی خاطر انہوں نے اشارہ کیا کہ تم نکل جاؤ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی کہ اس حملے کے باوجود اس گھیرے سے باہر آگئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچ گئے.مگر اثر یہ تھا کہ بدحواس ہو چکے تھے، کوئی ہوش نہیں رہی ، میں کون ہوں ، کہاں سے آیا ہوں ، کیا ہوا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے مرحوم شہید باپ کی خواہش کو پورا کرنا تھا اور نسل کو جاری رکھنا تھا چنانچہ کچھ دوستوں کو ان کا علم ہوا یعنی بہکتے بہکتے پھرتے ہوئے بعض احمدی دوستوں کی نظر میں آگئے اور وہ ان کو پکڑ کے قادیان لے آئے اور جہاں تک شہداء کا تعلق ہے کچھ عرصہ کے بعد احباب ان کے اشارے پر وہاں پہنچے اور ان کی لاشوں کو دفن کر دیا.مکرم عبد الرحمن صاحب شہید اب آخری ذکر مکرم عبد الرحمن صاحب شہید کا ہے.یعنی اس سلسلہ میں جو شہادتیں ہوئی ہیں قادیان میں تقسیم کے وقت ان شہادتوں میں یہ آخری ذکر میں کر رہا ہوں اس کے بعد یہ تذکرہ ابھی لمبا ہے اور بہت دیر تک چلتا رہے گا.ابھی تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے زمانے کی شہادتوں کا دور ہے بہت عظیم دور ہے.پھر اس عاجز کے زمانے میں خدا تعالیٰ نے جو بعض لوگوں کو شہید ہونے کی توفیق بھی دی ان کا بھی ذکر ہوگا تو یہ سلسلہ اللہ بہتر جانتا ہے کب تک چلے گا.ہو سکتا ہے جلسہ سالانہ تک یہ خطبات کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے اور اس کے نتیجہ میں انشاء اللہ تعالیٰ جو معلومات اکٹھی ہوں گی ان کے علاوہ جو شہداء کے خاندان ہیں خصوصاً ان کے دل میں اپنے ماں باپ کی قربانیاں احمدیت کے ساتھ ایک غیر معمولی وابستگی پیدا کر دیں گی، وابستگی ہے تو اس وابستگی کو اور بھی چمکا دیں گی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ شہادتوں کا یہ سلسلہ ،سلسلہ وار آگے بڑھتا رہے گا اور انگلی صدی تک ان کی یادیں اور شہداء بھی پیدا کرتے رہیں گے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ جو شہداء کے ذکر کا چلا ہے یہ بہت بابرکت ثابت ہوگا.کیپٹن نور احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ عبدالرحمن صاحب شہید پیروشاہ کے رہنے والے تھے اور فوج میں حوالدار تھے اور بڑے بہادر تھے.ہماری ملاقات حفاظت مرکز کے سلسلہ میں قادیان میں ہوئی.واقعۂ شہادت یہ ہے کہ کیپٹن صاحب موصوف بیان کرتے ہیں کہ ہمیں کسی شخص نے تلونڈی جھنگلاں میں یہ اطلاع دی کہ دھوپ سڑی میں ہم نے کنویں میں تھری ناٹ تھری کی رائفل پھینک دی ہے.ان حالات میں اس زمانے میں تھری ناٹ تھری کی رائفل کی احمدیوں کے نزدیک بڑی قدر تھی کیونکہ دشمنوں نے تو مشہور کیا تھا
جلد اول 284 تاریخ احمدیت بھارت کہ بے انتہا اسلحہ ہے لیکن بہت معمولی اسلحہ تھا.ایک تھری ناٹ تھری رائفل کے لئے مجاہد جان دینے کے لئے تیار بیٹھے تھے کیونکہ اس رائفل کے ذریعہ کی لوگوں کی جانیں بچائی جاسکتیں تھیں.تو مکرم کیپٹن شیر ولی صاحب نے کیپٹن نور احمد صاحب کے بیان کے مطابق مجھے پانچ آدمیوں کے ہمراہ بھیج دیا کہ آپ لوگ جا کر راکفل تلاش کر لائیں.جب ہم وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کنویں کے ساتھ رہی نہیں ہے جس کے ذریعہ کنویں میں اترا جاوے.میں نے کسی چیز کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور کنویں میں چھلانگ لگادی.چھلانگ لگاتے ہی میری پشت پر ایک برچھی دھنس گئی.مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی لیکن میں نے اس کی پروا کئے بغیر کنویں میں غوطہ لگایا لیکن کنویں میں کوئی رائفل نہیں تھی.ایک غلط اطلاع تھی یا کسی نے دیکھ لیا ہو گا رائفل پھینکتے ہوئے اور ان کے پہنچنے سے پہلے نکال لی.صرف تین چار برچھیاں تھیں جن میں سے ایک برچھی نے ان کو زخمی کیا.واپسی پر راجن پور کے قریب ہم نے دیکھا کہ کچھ....(مفسدہ پرداز وہاں سے نکل رہے ہیں.ہم پر واہ کئے بغیر آگے بڑھ گئے لیکن عبد الرحمن صاحب حوالدار پیچھے ہی رہ گئے.جب....(مفسدہ پردازوں) نے دیکھا تو بھاگ کر آئے اور موقع پر ہی عبدالرحمن صاحب کو شہید کر دیا.ہمیں اس واقعہ کی اطلاع بعد میں ملی.ہم جب تلونڈی جھنگلاں پہنچے تو پیچھے سے آنے والے کسی آدمی نے بتایا کہ عبدالرحمن کو....(مفسدہ پردازوں) نے مار دیا ہے اور لاش کماد میں پھینک دی ہے.یعنی گنے کے کھیت میں.ہم لوگ وہیں سے جائے واردات کی طرف لوٹے اور عبدالرحمن کی لاش کو حفاظت سے واپس لے آئے.تو یہ روح تھی جو اس زمانہ میں کارفرما تھی.عظیم بہادری کے نمونے دکھائے ہیں مجاہدین نے اور امر واقعہ یہ ہے کہ آپ تلاش کر کے دیکھیں تاریخ میں.اسلام کی اولین تاریخ کے سوا آپ کو اس قسم کی بیباک شہادتوں اور قربانیوں کے واقعات اور نظر نہیں آئیں گے.میں امید رکھتا ہوں کہ آپ ان واقعات کو ہمیشہ اپنے دل کی دنیا میں آباد رکھیں گے اور آپ کے دل کی دنیا ان واقعات کی یاد سے جگمگاتی رہے گی اور انہی میں سے، انہی لوگوں میں سے جن کے دلوں میں یہ یادیں وابستہ ہیں آسمانِ احمدیت پر چمکنے والے ستارے بھی پیدا ہوں گے.اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.(41) اس کے بعد حضور انور حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے اپنے خطبہ جمعہ 11 جون 1999ء میں بعض اور شہداء کا ذکر کیا جو 1947ء کے فسادات کے دوران شہید ہوئے.خطبہ جمعہ کی عبارت درج ذیل ہے:.
تاریخ احمدیت بھارت 285 جلد اول مکرم چوہدری فقیر محمد صاحب شہید اور محمد اسماعیل صاحب شہید آف و نجواں مکرم چوہدری فقیر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ و نجواں ضلع گورداسپور اور مکرم محمد اسمعیل صاحب ابن چوہدری فقیر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدر جماعت ونجواں.چوہدری فقیر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.اس حیثیت سے آپ کو 1939ء میں خلافت جو بلی کے موقع پر لوائے احمدیت کی تیاری میں شمولیت کا موقع ملا.یہ چوہدری فقیر محمد صاحب کے لئے اور ان کی اولاد کے لئے بھی ایک بہت یادرکھنے والی بات ہے، بہت عظیم الشان واقعہ ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اصولی ہدایت فرمائی تھی کہ لوائے احمدیت کی تیاری میں صرف صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شامل کیا جائے.یعنی آغاز سے آخر تک پیج کی کاشت سے لے کر اس کی برداشت تک اور پھر سوت کاتنے تک ہر مرحلے پر صرف صحابہ کا ہاتھ لگے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا کہ اپنی نگرانی میں کروائیں.چوہدری فقیر محمد صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ارشاد پر اپنے ہاتھ سے کپاس کا بیج بویا، خود پانی دیا، پھر چنا اور صحابیوں سے ہی اس کو دھنوایا.یعنی اس کو دھنکنے والے بھی صحابہ تلاش کر لئے اور اپنے گھر میں اس کو کتو ایا.آپ نے کچھ اور روئی دی جسے میری والدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نگرانی میں قادیان کی صحابیات نے کا تا اور پھر ایک بزرگ صحابی حضرت میاں خیر دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ دری باف اور دوسرے صحابہؓ نے مل کر وہ کپڑا تیار کیا.واقعۂ شہادت: جب ملک تقسیم ہوا تو حضرت خلیفہ المسیح الثان رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ جب تک مرکز اجازت نہ دے اس وقت تک اردگرد کے بعض احمدی دیہات کے افراد اپنی جگہ نہ چھوڑیں.ونجواں کے لئے بھی یہی حکم تھا.چوہدری فقیر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بھائی چوہدری علی محمد صاحب نماز تہجد ادا کرنے کے بعد نماز فجر کے لئے ابھی صفیں سیدھی ہی کر رہے تھے کہ....(مفسدہ پردازوں) نے حملہ کر دیا اور سب سے پہلے چوہدری فقیر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہادت نصیب ہوئی.بہت سے احمدی زخمی ہوئے ان میں چوہدری صاحب کے بیٹے محمد اسمعیل بھی تھے.ملٹری والے انہیں دھار یوال ہسپتال لے گئے وہاں سے ڈسچارج ہو کر اسمعیل صاحب قادیان کے لئے
جلد اوّل 286 تاریخ احمدیت بھارت روانہ ہوئے تو پیچھے سے گولی مار کر انہیں بھی شہید کر دیا گیا.اناللہ وانا الیه راجعون.پسماندگان.حضرت چوہدری فقیر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولا د تین بیٹوں اور تین بیٹیوں پر مشتمل ہے.ان کے سب سے بڑے بیٹے مکرم محمد اسمعیل صاحب کو تو 1947ء میں ہی شہید کر دیا گیا تھا.باقی دونوں بیٹے مکرم احمد علی صاحب اور مکرم فضل الہی صاحب بھی اب وفات پاچکے ہیں جبکہ تینوں بیٹیاں خدا کے فضل سے زندہ ہیں.بڑی بیٹی کا نام غلام بی بی ہے، دوسری شریفاں بی بی اور تیسری ناصرہ بی بی صاحبہ.حضرت چوہدری صاحب کی اولاد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور خدا کے فضل سے اکثر بڑے اخلاص سے اپنے اپنے رنگ میں جماعت کی خدمت کی تو فیق پارہے ہیں.مکرم محمد منیر صاحب شامی شہید قادیان مکرم محمد منیر صاحب شامی.آپ مکرم ڈاکٹر حبیب اللہ صاحب ابوحنیفی کے ہاں تنزانیہ میں 1922ء میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی.1947ء کے دوران آپ تعلیم الاسلام کالج قادیان میں بی اے کے طالب علم تھے.آپ واقف زندگی تھے اور عربوں سے اپنی ہمدردی کی وجہ سے آپ کو لوگوں نے شامی مشہور کر دیا حالانکہ ملک شام سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن عربوں سے محبت تھی.اوصاف حمیدہ.آپ خاموش طبع اور محنتی طالبعلم تھے.انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا.جماعت سے انتہائی محبت اور عقیدت رکھتے تھے.امام وقت کے ہر حکم پر لبیک کہنے والے تھے.مطالعہ کا بہت شوق تھا.مکرم چوہدری فضل داد صاحب مرحوم لائبریرین تعلیم الاسلام کالج قادیان بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے لائبریری کی تقریبا تمام کتب پڑھ لی تھیں.واقعہ شہادت.آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے مطابق اپنے گھر دار الرحمت قادیان بر مکان خان ارجمند خان صاحب مرحوم محلہ کی حفاظت کے سلسلہ میں مقیم تھے.گھر میں دونالی بندوق تھی.ادھر ادھر سے....(مفسدہ پردازوں) کے ہونے والے حملوں کے دوران خوب مقابلہ کرتے رہے.ایک رات....(مفسدہ پردازوں) نے ان کے گھر کی دیوار پھاند کر اندھیرے میں آپ پر حملہ کیا اور آپ کو شہید کر دیا.جب خدام کو حکم ہوا کہ وہ ہوٹل میں جمع ہو جائیں تو آپ کو نہ پا کر جب پتہ کیا گیا تو آپ کو گھر کے صحن میں چت پڑا پایا گیا.آپ کی انتڑیاں باہر نکل چکی تھیں اور آپ شہید ہو
تاریخ احمدیت بھارت 287 جلد اول چکے تھے.اناللہ واناالیه راجعون.آپ کے والد صاحب جو ان دنوں تنزانیہ میں تھے وہ بھی اللہ کے فضل سے بہت مخلص انسان تھے.در اصل ان سے ہی اخلاص ورثہ میں پایا تھا.ان کی ڈائری کے اندراج بتاریخ 3 رستمبر 1947ء میں یہ پر خلوص عبارت درج ہے.” آج قادیان میں عزیز محمد منیر خان شامی نے شہادت پائی.الحمد للہ رب العالمین.“ پسماندگان: آپ غیر شادی شدہ تھے.آپ کے تین بھائی اور ایک بہن زندہ ہیں.سب سے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد حفیظ خان صاحب آج کل ٹورانٹو میں رہتے ہیں.شہید کے دو چھوٹے بھائی بھی تھے محمد معین خان صاحب لاہور میں اور پروفیسر محمد شریف خان صاحب ربوہ میں مقیم ہیں.جبکہ ان کی بہن خدیجہ بیگم صاحبہ مانٹریال میں آباد ہیں.مکرمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اور عزیزم عظیم احمد شہید ولد پنڈت عبداللہ صاحب قادیان حمیدہ بیگم اہلیہ عبد السلام پنڈت صاحب اور عظیم احمد ولد پنڈت عبداللہ صاحب.عمر ساڑھے چار سال.شہدائے قادیان.قادیان میں کرفیو لگا ہوا تھا.جماعت نے محلہ کی عورتوں اور بچوں کو فضل حسین صاحب بوٹوں والے کے گھر رکھ کر دشمن کو بے خبر رکھنے کی خاطر گھر سے باہر تالا لگا دیا تھا.حملہ آوروں کے جتھے نے تالہ توڑ کر اندر آ کر لوٹ مار اور قتل و غارت شروع کی.پنڈت عبداللہ صاحب کے بڑے بیٹے عبدالسلام پنڈت کی اہلیہ حمیدہ بیگم اپنی ایک بھانجی کو بچانے کی کوشش میں شہید کر دی گئیں.پنڈت عبداللہ صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا عظیم احمد عمر ساڑھے چار سال اپنے بھائی بابومسعود کی گود میں تھا حملہ آوروں نے تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا سر بھی کاٹ ڈالا اور یہ کم سن موقع پر ہی شہید ہو گیا.اس وقوعہ میں پنڈت عبداللہ کے ایک بیٹے پنڈت نصر اللہ صاحب جو آج کل ربوہ میں ڈسٹمپر وغیرہ کا کام کرتے ہیں کو بھی شدید زخمی کر دیا گیا تھا.عبدالسلام پنڈت صاحب ہالینڈ والے باسط صاحب کے ابا ہیں.ہالینڈ والے عبدالباسط صاحب کو سب جماعت ہالینڈ کے لوگ ان کے خاص غیر معمولی اخلاص کی وجہ سے جانتے ہیں لیکن جو بیگم ان کی شہید ہوئی تھیں ان کی کوئی اولاد نہیں تھی.حمیدہ بیگم صاحبہ، سلام صاحب کی پہلی بیگم تھیں.دوسری شادی امتۃ القیوم صاحبہ سے ہوئی جو ہالینڈ والے عبد الباسط کی والدہ ہیں.ان سے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں
جلد اوّل 288 تاریخ احمدیت بھارت پیدا ہوئیں جو سب خدا تعالیٰ کے فضل سے دین و دنیا میں بہت اچھے ہیں اور ہمیشہ خدمت کے کاموں میں آگے رہتے ہیں.مکرم با بوعبدالکریم صاحب اور دیگر شہدائے پونچھ با بوعبد الکریم صاحب ابن نواب علی خان صاحب یوسف زکی پو نچھر ریاست جموں و کشمیر.آپ 8 جون 1933 ء کو ایک خواب کی بنا پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے.جماعت میں آپ کی شہرت کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کو 1933ء میں ایک برطانوی فوجی کی حیثیت سے شرق اوسط یعنی مشرق وسطی میں جانے کا موقع ملا تو وہاں آپ نے جامعہ ازھر کی مجلس افتاء کو یہ استفسار بھیجا کہ کیا قرآن کریم اور سنت نبوی سے عیسی بن مریم علیہ السلام وفات یافتہ ثابت ہوتے ہیں یا چوتھے آسمان پر زندہ موجود ہیں.اسی استفسار کے جواب میں الاستاذ محمود شلتوت مفتی مصر نے وفات مسیح کے حق میں اپنا وہ عظیم الشان مدلل فتویٰ دیا جو جماعت کے لٹریچر میں بہت شہرت پا گیا ہے.ان پر بہت دباؤ ڈالا گیا علماء کی طرف سے کہ اس فتویٰ کو واپس لے لیں یا اس میں تبدیلی کریں لیکن وہ مرد خدا قائم رہا.یہ واقعہ استفتاء کا انہی بابو صاحب سے تعلق رکھتا ہے.واقعۂ شہادت: بابوعبدالکریم صاحب نے اپنی ملکیتی زمین کا ایک حصہ جماعت احمد یہ پونچھ کی مسجد کے لئے وقف کیا ہوا تھا.بابو صاحب کی نگرانی ہی میں یہ مسجد زیر تعمیر تھی اور اسے جموں کے سات احمدی معمار تعمیر کر رہے تھے کہ ملک کی تقسیم ہوگئی.پونچھ شہر میں مظفر آباد....کشمیر سے جو ہندو اور سکھ ہجرت کر کے آئے تھے انہوں نے اس وقت جب اس زیر تعمیر مسجد میں عصر کی نماز ہو رہی تھی اور محترم بابو عبدالکریم صاحب کے علاوہ جموں کے سات آٹھ احمدی معمار بھی شامل تھے مسجد پر حملہ کر کے ان سب کو شہید کر دیا اور پھر بابوعبدالکریم صاحب کے مکان پر حملہ کر کے ان کی والدہ صاحبہ اور پہلی بیوی کو بھی شہید کر دیا.دوسری بیوی اپنی بچی سمیت حملہ آوروں سے بچ گئیں.حکومت نے ان سب شہداء کو پونچھ جیل سے متصل قبرستان میں دفن کر دیا.انا للہ وانا الیه راجعون.
تاریخ احمدیت بھارت 289 جلد اول خواجہ محمد عبد الله لون صاحب شہید آسنور کشمیر خواجہ محمدعبدالله لون صاحب مولوی فاضل آف آسنور کشمیر.آپ مولوی حبیب اللہ صاحب لون صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرزند تھے.قادیان سے 1936 ء میں مولوی فاضل کیا اور کشمیر میں محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے.تقسیم ملک کے وقت آپ اپنے گاؤں آسنور میں تھے، دو ماہ بعد اکتوبر (1947ء میں جب سکول کھل گئے تو آپ ڈیوٹی پر جموں آگئے جو ان دنوں....فسادات کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا.اس دوران حکومت نے اعلان کیا کہ جو مسلمان پاکستان جانا چاہتے ہیں وہ کل ایک مقررہ جگہ پہنچ جائیں.اس طرح حکومت دھوکہ کے ساتھ بکثرت مسلمانوں کے قتل عام کو تر و یج دے رہی تھی.بظاہر تو یہ اعلان ان کے لئے نجات کا اعلان تھا مگر جال میں پھنسانے کا ایک طریقہ تھا.جب یہ بسیں اکھنور کے قریب پہنچیں تو....( شر پسندوں ) اور....(مفسدہ پردازوں) نے ان بسوں پر حملہ کر دیا اور ہزاروں مسلمان مرد اور عورتوں کو شہید کر دیا.خواجہ محمد عبداللہ صاحب بھی ان شہید ہونے والوں میں شامل تھے.انالله وانا اليه راجعون.مرحوم بہت شریف النفس اور عبادت گزار تھے.بہت خوش الحان تھے.قرآن کریم کی تلاوت بہت خوش الحانی اور سوز کے ساتھ کیا کرتے تھے.آپ کی شادی خواجہ عبدالرحمن صاحب ڈار رئیس آف آسنور کی صاحبزادی مریم بیگم صاحبہ سے ہوئی جو ابھی آسنور میں زندہ ہیں.آپ کی بیٹی عائشہ بیگم صاحبہ اسلام آباد میں رہتی ہیں اور دو بیٹے نعم اللہ اور مطیع اللہ صاحب آسنور تحصیل کولگام میں ہیں.نعمت اللہ صاحب پچھلے سالوں میں جماعت احمد یہ آسنور کے پریذیڈنٹ بھی رہے ہیں.(42)
جلد اوّل 290 تاریخ احمدیت بھارت حواشی باب پنجم اس ملاقات کی خبر اخبار ” نوائے وقت لاہور نے اپنی 25 ستمبر 1947 ء کی اشاعت میں بھی دی تھی جو یتھی: مشرقی پنجاب کے وزیر اعظم سے احمدیوں کے وفد کی ملاقات لاہور 23 ستمبر: آج احمدیوں کے ایک وفد نے مشرقی پنجاب کے وزیر اعظم ڈاکٹرگوپی چند بھارگو اور سردار سورن سنگھ سے ملاقات کر کے قادیان کے عوام پر حکومت کے ناجائز تشدد کا شکوہ کیا.ایسوسی ایٹڈ پریس کی اطلاع کے مطابق ڈاکٹر بھارگو اور سورن سنگھ نے اس وفد کو یہ یقین دلایا ہے کہ مشرقی پنجاب کی حکومت مسلمانوں کے مکمل اخراج کی خواہاں نہیں ہے.“ نوٹ: یہ پہلا وفد حسب ذیل ارکان پر مشتمل تھا.حضرت نواب محمد الدین صاحب، چوہدری اسد اللہ خاں صاحب، جناب شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور.یہ وفد 23 ستمبر 1947ء کو جالندھر میں مشرقی پنجاب کے وزراء اور ہوم منسٹر سے ملا.(بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 179 مطبوعہ 2007ء) اخبار انقلاب لاہور 20 ستمبر 1947ء صفحہ 2 پر گاندھی جی کو مرکزی انجمن احمدیہ کا تار“ کے عنوان سے حسب ذیل خبر شائع ہوئی: -2 لاہور 18 ستمبر پاکستان کی مرکزی جماعت احمدیہ نے گاندھی جی کی اس تجویز کا دلی خیر مقدم کیا ہے کہ آبادی کا تبادلہ نہ کیا جائے.سیکرٹری صاحب نے جو تار گاندھی جی کو بھیجا ہے.اس میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ کی ذمہ داری متعلقہ حکومت پر عائد ہوتی ہے جو حکومت اس ذمہ داری سے عہدہ بر آنہیں ہوسکتی وہ دنیا کی نظروں میں واجب الاحترام نہیں ٹھہر سکتی.اور آبادی کا تبادلہ حکومتوں کو دیوالیہ بنا کر رکھ دیگا.وہ احمدی جن کے گھر مشرقی پنجاب میں ہیں وہ اپنے گھروں کو واپس چلے جانے پر آمادہ ہیں.گاندھی جی سے استدعا کی گئی کہ وہ اپنے اثر ورسوخ کو معرض استعمال میں لا کر ان -3 لوگوں کی حفاظت کا انتظام کرائیں.(بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 179 مطبوعہ 2007ء) جماعت احمدیہ کی طرف سے کس طرح ہر مرحلہ پر بھارتی حکومت اور اس کے راہنماؤں کو مطلع اور باخبر رکھا اور قیام امن کے لئے اپیلیں کیں ، تار دیئے، وفود بھیجے.اسکی مکمل تفصیل حضرت قمر الانبیاء نے ایک کتابچہ - QADIAN A TEST CASE‘ میں نہایت جامعیت کے ساتھ شائع فرما دی تھیں.روزنامہ انقلاب نے اس رسالہ پر حسب ذیل الفاظ میں تبصرہ شائع کیا تھا:
تاریخ احمدیت بھارت 291 جلد اول تنقید و تبصره قادیان ایک آزمائشی کیس QADIAN A TEST CASE مرکزی انجمن احمدیہ ( رتن باغ لاہور ) کے چیف سیکرٹری صاحب نے سو صفحے کے اس پمفلٹ میں یہ بتایا ہے کہ 12 اگست سے لیکر اب تک قادیان میں کیا کچھ قتل ، خون ،لوٹمار گرفتاریاں ہوئیں.ناظر امور عامہ قادیان نے 12 ستمبر کو ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو ایک مفصل چٹھی لکھی جس میں قادیان کے واقعات بیان کر کے ان کے تدارک کی طرف توجہ دلائی.مرزا بشیر احمد صاحب نے سردار سورن سنگھ کو مراسلہ بھیجا.ناظر امور عامہ نے سردار پٹیل کو چٹھی لکھی.پھر 7 /اکتوبر کو پنڈت جواہر لال نہرو کو خط لکھا.حضرت امام جماعت احمدیہ نے پنڈت سندر لال کی وساطت سے گاندھی جی کو ایک بیان بھیجا.پھر چیف سیکرٹری انجمن احمدیہ نے ڈپٹی کمشنر اور علاقہ مجسٹریٹ کو خط لکھے.پھر پنڈت جواہر لال نہروکو تار دیا.ہائی کمشنر مسٹر سری پر کاش کو چٹھی لکھی.پھر ناظر امور خارجہ نے پنڈت جواہر لال نہروکوخط لکھا.ان تمام مراسلات میں قادیان کے حوادث کی.....اطلاع دی گئی اور بتایا گیا کہ ہم پر امن ہیں.پر امن رہنا چاہتے ہیں.حکومت کے لئے کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہیں ہونا چاہیئے لیکن ہمارے ہاں بے شمار آدمی مارے جاچکے ہیں سینکڑوں عورتیں انحوا کی جاچکی ہیں قتل اور خون کا بازار گرم ہے.ہماری جائیدادیں لوٹی جارہی ہیں.اگر آپ کہیں تو ہم قادیان چھوڑ کر چلے جائیں.اگر آپ یہ کہنے کے لئے تیار نہیں تو ہماری حفاظت کا انتظام کیجئے.لیکن ان تمام خطوط کا کسی نے جواب نہ دیا.اس پمفلٹ میں قادیان اور اس کے نواحی دیہات کی تباہی مساجد کے انہدام قتل وجرح اور لوٹ مار کی تفصیلات کے اعداد و شمار بھی فراہم کئے گئے ہیں.........بعض دوسرے واقعات کے متعلق وہ لوگ لاعلمی کا اظہار کر سکتے ہیں.لیکن قادیان کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں واقعات کا علم نہ تھا.کیونکہ ہر مرحلے پر ہر متعلقہ حاکم اور وزیر کو اطلاع دی گئی.اخباروں میں شور مچایا گیا لیکن جالندھر اور دہلی والوں نے ایسی چپ سادھی گویا سازش کر رکھی ہے.قادیان کے معاملے میں حکومت ہند اور حکومت مشرقی پنجاب پر غفلت اور سنگدلی اور مسلم کشی کا الزام لگایا جاتا ہے.اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے.قادیان والے تقسیم پنجاب کی رو سے مشرق میں رہ گئے تھے اور امن وامان سے رہنے کا عہد کر چکے تھے لیکن انہیں بھی وہاں نہ رہنے دیا گیا اور ان کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہ کیا گیا.“ ( روزنامہ انقلاب لاہور 6 / جنوری 1948 صفحہ 11) (بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 181،180)
جلد اوّل 292 تاریخ احمدیت بھارت -5 -6 -7 بحوالہ افضل 7 / اکتوبر 1947 صفحہ 1 تا2، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 172 تا 181 مطبوعہ 2007ء بحوالہ افضل 9 / اکتوبر 1947 صفحه 1 تا 2 ، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 181 تا 185 مطبوعہ 2007ء لمصل جناب راجہ محمد عبد اللہ خاں صاحب ابن راجہ مدد خاں صاحب مراد ہیں بعض احمدی عورتوں نے بھی اس دن شجاعت اور بہادری کا شاندار نمونہ دکھایا.چنانچہ سید نا اصلح الموعود خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں: ” جب قادیان میں.....شرپسندوں ) اور.....(مفسدہ پردازوں) نے حملہ کیا تو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی.اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا.ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں.کہ جب....( مفسدہ پرداز ) یا....( شر پسند ) حملہ کرتے تو وہ عورتیں ان دیواروں پر چڑھ جاتیں جو حفاظت کی غرض سے بنائی گئی تھیں.اور ان....(مفسدہ پردازوں ) اور....( شر پسندوں) کو جو تلواروں اور بندوقوں سے ان پر حملہ آور ہوتے تھے بھگا دیتی تھیں اور سب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی.اور ان کی سردار بنائی گئی تھی.-8 -9 (رساله مصباح ماہ جنوری 1957ء ، الازهار لذوات الخمار صفحه 171 بار دوم حصہ دوم ) (بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 189 مطبوعہ 2007ء) بحوالہ الفضل 11 /اکتوبر 1947 ءصفحہ 1 تا2، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 185 تا 191 مطبوعہ 2007ء بحوالہ سیر روحانی جلد سوم صفحہ 253 تا 255 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 177 تا 178 مطبوعہ 2007ء) 10 - بحوالہ الفضل 18 /اکتوبر 1947 ءصفحہ 1 تا2، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 191 تا 193 مطبوعہ 2007ء 11 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 193 تا 195 مطبوعہ 2007ء
تاریخ احمدیت بھارت 293 12 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحه 259 260 مطبوعہ 2007ء.13 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 260 مطبوعہ 2007ء B.13 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 260 مطبوعہ 2007 ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحه 262 263 مطبوعہ 2007ء -15 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 263 264 مطبوعہ 2007ء 16.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 264 مطبوعہ 2007ء بحوالہ الفضل 18 اکتوبر 1947 ء صفحہ 4 -17- بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 265 مطبوعہ 2007ء بحوالہ الفضل 7 اکتوبر 1947 ء صفحہ 4 -18 -19 -20 -21 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 219 تا 232 مطبوعہ 2007ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 233 تا 240 مطبوعہ 2007ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 240 تا 245 مطبوعہ 2007ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 251،246 مطبوعہ 2007ء 22- بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 252,251 مطبوعہ 2007ء بحوالہ الفضل 24 /اکتوبر 1947 ء صفحہ 2 -23 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 252 253 مطبوعہ 2007ء -24.سورۃ آل عمران آیت 124 -25 سورة آل عمران آیت 126 جلد اول -26 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 345 تا 347 مطبوعہ 2007 ء 27 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحه 467 تا 468 مطبوعہ 2007ء (بڑا کنوائے 12 اکتوبر 1947ء کو قادیان پہنچاتھا.اس اعتبار سے یہ مکتوب 10 اکتوبر 1947ء کا معلوم ہوتا ہے) بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 348 مطبوعہ 2007ء 29 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 351 تا 353 مطبوعہ 2007ء
جلد اوّل -30 294 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 353 تا354 مطبوعہ 2007ء 31 - مولانا عبد الرحمن صاحب انور انچارج تحریک جدید مراد ہیں 32- بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 464 تا466 مطبوعہ 2007ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 348 349 مطبوعہ 2007 34- بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 349 تا 351 مطبوعہ 2007 35 - مولوی عبد القادر صاحب احسان بلوچی مراد ہیں تاریخ احمدیت بھارت 36 - مولوی شریف احمد صاحب امینی درویش سابق ناظر دعوة و تبلیغ صدرانجمن احمد یہ قادیان مراد ہیں.37 - یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب اس وقت قادیان میں موجود تھے.بعد ازاں لاہور چلے گئے تھے بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 357 تا 362 مطبوعہ 2007ء 39- بحوالہ الفرقان درویشان قادیان نمبر اگست ستمبر اکتوبر 1963 ءصفحہ 6 40 - بحوالہ الفضل 10 جنوری 1948 ء صفحہ 6،5 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 367 تا 368 مطبوعہ 2007ء 41 - خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفة المسیح الرابع 14 مئی 1999ء بمقام باد کر وٹس ناخ جرمنی 42 - خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفہ المسح الرابع 11 جون 1999ء بمقام مسجد فضل لندن
تاریخ احمدیت بھارت 295 باب جلد اول دور درویشی کا آغاز اور اس دور میں رونما ہونے والے اہم واقعات قبل اس کے کہ اس باب کا آغاز ان حالات سے کیا جائے جو دور درویشی کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں یہاں ان خوش نصیب ابتدائی درویشان کرام کی فہرست درج کی جارہی ہے.جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت عطا کی کہ وہ مسیح محمدی درویش کہلائے اور مقامات مقدسہ و شعائر اللہ کی حفاظت کرنے والے بنے.یہ فہرست تاریخ احمدیت جلد 10 سے اخذ کی گئی ہے جو بعض ضروری تصحیحات کے ساتھ ذیل میں درج کی جاتی ہے.اولین خوش نصیب در ویشان کرام اس فہرست میں سٹار (ہی) کا نشان بتاتا ہے کہ یہ درویش بعد میں پاکستان چلے گئے تھے.صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید قادیان کے ممبر یا کارکن نام ولدیت (1) مکرم صاحبزادہ مرز اظفر احمد صاحب ولد حضرت مرزا شریف احمد صاحب بارایٹ لاء ساكن الدار قادیان (2) مکرم صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب ولد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ساكن الدار قادیان (3) حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ ولد حضرت ملک برکت علی صاحب ساکن باب الا بواب قادیان کیفیت وفات 20 /جنوری 1977ء (4) مکرم مولوی برکات احمد را نیکی صاحب ولد حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب وفات 17 نومبر 1963ء ساکن دار الرحمت قادیان (5) مکرم شیخ عبدالحمید عاجز صاحب والد مکرم شیخ محمدحسین صاحب ساکن دار الرحمت قادیان (6) مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی ولد مکرم میاں مہر دین صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان وفات 28 /اگست 2005ء وفات 27 ستمبر 1978ء
جلد اوّل 296 تاریخ احمدیت بھارت (7) مکرم میجر ڈاکٹر محمود احمد صاحب ولد مکرم قاضی محمد شریف صاحب ایگزیکٹو انجنئیر لائلپور کوئٹہ (8) مکرم حسن محمد خان صاحب عارف والد مکرم فضل محمد خان صاحب شملوی (9) مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ولد مکرم ملک نیاز محمد صاحب ساکن قادیان (10) مکرم قریشی عبدالرشید صاحب والد مکرم ڈاکٹر عبد العزیز صاحب ساکن قادیان (11) مکرم فضل الہی خان صاحب والد مکرم حکیم کرم الہی صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان (12) مکرم مولوی شریف احمد امینی صاحب والد مکرم سیٹھ محمد ابراہیم بنگوی صاحب ساکن بورڈنگ مدرسہ احمدیہ قادیان وفات 2 فروری 2003ء وفات 8 ستمبر 1997ء وفات 22 ستمبر 1990ء (13) مکرم قریشی عطاء الرحمن اعوان صاحب ولد حضرت حافظ محمد امین صاحب کیمل پوری وفات 30 جنوری 1978ء ساکن ناصر آباد قادیان (14) مکرم چوہدری عبد الحق صاحب ولد مکرم چوہدری اللہ دوتا صاحب ساکن قادیان (15) مکرم عبد القیوم صاحب کمپیونڈ رولد مکرم محمد ظہور صاحب ساکن قادیان (16) مکرم مولا بخش صاحب باور چی صحابی ولد مکرم خیرات اللہ صاحب ساکن متصل لنگر خانہ قادیان (17) مکرم سراج الدین صاحب مؤذن ولد مکرم غلام قادر صاحب ساکن دار الرحمت قادیان (18) مکرم مولوی عبد القادر احسان صاحب والد مکرم حاجی محمد بخش صاحب ساکن بستی رنداں ضلع ڈیرہ غازی خان (19) مکرم مرز امحمد حیات صاحب ولد حکیم عطاء محمد صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان قادیان اور ماحول قادیان کے درویشان (20) مکرم مرزا محمد زمان صاحب والد مکرم مرزا احمد دین صاحب ساکن لنگر خانہ قادیان وفات 4 جون 1980ء وفات 24 / جولائی 1954ء وفات 23 جنوری 1992ء
تاریخ احمدیت بھارت 297 (21) مکرم صوفی عبد القدیر صاحب ولد مولوی عبدالحق صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان (22) مکرم خواجہ عبد الکریم خالد صاحب ولد خواجہ عبدالواحد صاحب ساکن دار الفضل قادیان (23) مکرم میاں ضیاء الدین احمد صاحب ولد میاں روشن صاحب زرگر سا کن حلقه مسجد فضل قادیان (24) مکرم مجید احمد صاحب ڈرائیور ولد غلام حسین صاحب ساکن باب الابواب قادیان ☑ ☑ وفات 2 /اکتوبر 1949ء (25) مکرم مرزا ظہیر الدین منور احمد صاحب ولد مرزا ابرکت علی صاحب وفات 24 /اگست 2001ء ساکن دار العلوم قادیان (26) مکرم عبدالواحد صاحب پان فروش ولد شیخ عبد اللہ صاحب وفات 28 /اگست 1989 ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان (27) مکرم عبدالرحیم دیانت صاحب ولد حضرت مولوی فضل محمد صاحب ہر سیانوالے وفات 7 فروری1980ء ساکن دار الفتوح قادیان (28) مکرم عبدالواحد صاحب ولد محمد رمضان صاحب ساکن ناصر آبا د قادیان (29) مکرم عبد الحمید صاحب آڑھتی ولد چوہدری خدا بخش صاحب وفات 5 اکتوبر 1976ء ساکن بھینی با نگر قادیان (30) مکرم سائیں عبد الرحمن صاحب ولد مستری فضل دین صاحب وفات 16 ر ا پریل 1995ء ساکن باب الا بواب قادیان (31) مکرم فضل دین صاحب ماشکی ولد نور محمد صاحب سا کن حلقه مسجد مبارک قادیان (32) مکرم لال دین صاحب ولد فقیر محمد صاحب ساکن دار الیسر قادیان (33) مکرم محمد احمد خان صاحب ولد منشی نورمحمد خان صاحب ساکن دار الفضل قادیان وفات 18 جنوری 1953ء وفات 13 را پریل1989ء جلد اول
جلد اوّل 298 تاریخ احمدیت بھارت (34) مکرم محمد عبد اللہ صاحب ولد نور محمد صاحب ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان (35) مکرم بشیر احمدٹھیکیدار صاحب بھٹہ ولد محم عبد اللہ صاحب ساکن دار البرکات قادیان (36) مکرم چوہدری عبد الغفور صاحب ولد چوہدری اللہ دتا صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان (37) مکرم مستری محمد حسین صاحب ولد محمد قاسم صاحب راجپوت ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان (38) مکرم محمد حسین صاحب (خورد) ولد میاں نور محمد صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان (39) مکرم قریشی فضل حق صاحب ولد میاں کمال دین صاحب ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان (40) مکرم بشیر احمد صاحب کالا افغاناں ولد علم دین صاحب ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان (41) مکرم طبیب علی صاحب بنگالی ولد عبد المبارک صاحب ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان (42) مکرم رفیق احمد یونس صاحب ولد محمد اسماعیل صاحب سرساوی ساکن دار الفتوح قادیان (43) مکرم محمد یحیی صاحب ولد محمد اسماعیل صاحب سرساوی ساکن دار الفتوح قادیان (44) مکرم محمد عبد اللہ صاحب نانبائی ولد مکرم صدرالدین صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان (45) مکرم عطاء الہی صاحب ولد امام الدین صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان (46) مکرم ناصر احمد صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان وفات 4 دسمبر 1998ء وفات 25 جولائی1986ء وفات 28 را پریل 1986ء 17دسمبر 2015ء حین حیات وفات 24 /دسمبر 1989ء
تاریخ احمدیت بھارت (47) مکرم خواجہ مجید احمد صاحب ولد خواجہ محمد شریف صاحب ساکن حلقه مسجد اقصیٰ قادیان (48) مکرم خلیفہ منیر الدین صاحب ولد خلیفہ رشید الدین صاحب سا کن حلقه مسجد مبارک قادیان (49) مکرم ماسٹر عبد الغنی صاحب ولد فضل الدین صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان (50) مکرم مرز امحمد اقبال صاحب ولد مرزا اعظم بیگ صاحب ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان (51) مکرم جلال الدین صاحب ولد رحیم بخش صاحب ساکن منگل باغباناں متصل قادیان (52) مکرم محمد اسحاق صاحب ولد عبدالکریم صاحب ساکن منگل باغباناں متصل قادیان (53) مکرم محمد صدیق صاحب ولد عزیز الدین صاحب ساکن منگل باغباناں متصل قادیان (54) مکرم عبد الغنی صاحب ولد محمد بخش صاحب ساکن منگل باغباناں متصل قادیان (55) مکرم محمد اسماعیل صاحب منگلی ولد فقیرمحمد صاحب ساکن منگل باغباناں متصل قادیان (56) مکرم عبد الرحمن صاحب ولد رحمت اللہ صاحب ساکن منگل باغباناں متصل قادیان (57) مکرم دین محمد صاحب بنگلی ولد محمد عبداللہ صاحب ساکن منگل باغباناں متصل قادیان (58) مکرم نذیر احمد صاحب جنگلی ولد الہی بخش صاحب ساکن منگل باغباناں متصل قادیان (59) مکرم محمد صادق صاحب جنگلی ولد در یام دین صاحب ساکن منگل باغباناں متصل قادیان 299 ☑ حلى وفات 11 جون 2014ء ہے ☑ وفات 16 ستمبر 2002ء وفات 28 را پریل 2004ء وفات 8 /جنوری 2004ء وفات 5 /نومبر 2011ء جلد اول
جلد اول (60) مکرم محمد شریف صاحب ولد مهر دین صاحب ساکن منگل باغباناں متصل قادیان (61) مکرم علی محمد صاحب ولد دین محمد صاحب ساکن منگل باغباناں متصل قادیان (62) مکرم محمود احمد صاحب ولد شیخ اللہ بخش پیشاوری صاحب ساکن دار الرحمت قادیان (63) مکرم امیر الدین صاحب ولد فضل الدین صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان (64) مکرم غلام حسین صاحب ولد نظام الدین صاحب ساکن دار البرکات قادیان (65) مکرم بابا محمد اسماعیل صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب ساکن دار الیسر قادیان (66) مکرم محمد شفیع صاحب ولد مولا بخش صاحب ساکن دار الیسر قادیان (67) مکرم جلال الدین صاحب ولد صدر الدین صاحب ساکن دار الیسر قادیان (68) مکرم دین محمد صاحب ولد عبد الستار صاحب ساکن دار الیسر قادیان (69) مکرم مستری عبد الغفور صاحب ولد احمد دین صاحب ساکن رعیه با با کالا ضلع امرتسر (70) مکرم قمر الدین صاحب ولد محمد عمر صاحب سا کن سرس پور د ہلی (71) محمد سلیمان صاحب ولد رسول بخش صاحب ساکن سرس پور د ہلی (72) مکرم فضل الرحمن صاحب ولد روشن الدین صاحب ساکن دار الیسر قادیان 300 تاریخ احمدیت بھارت وفات 21 / مارچ 2004ء وفات 11 / مارچ 1972ء وفات 26 جون 1978ء وفات 3 /اگست 1974ء وفات 16 جولائی 1990ء وفات یکم اپریل 1994ء وفات 17 ستمبر 1985ء
تاریخ احمدیت بھارت (73) مکرم محمد احمد صاحب ولد غلام حسین صاحب سروعہ سا کن حلقه مسجد مبارک قادیان (74) مکرم ممتاز احمد ہاشمی صاحب ولد قریشی شاہ دین صاحب سا کن دارالشکر قادیان (75) مکرم سید محمود احمد صاحب ولد سید حسین علی شاہ صاحب دھرم کوئی ساکن دار الرحمت قادیان (76) مکرم چوہدری غفور احمد صاحب ولد چوہدری نور محمد صاحب ساکن دار الشکر قادیان (77) مکرم عمر دین صاحب ولد محمد خان صاحب ساکن دار الشکر قادیان (78) مکرم محمد سلطان صاحب خوشنویس ولد میاں جمعہ خان صاحب ساکن دار البرکات شرقی قادیان (79) مکرم مستری ہدایت اللہ صاحب ولد میاں مہر دین صاحب ساکن دار البرکات غربی قادیان 301 وفات 30 جولائی 1950ء جلد اول وفات 25 /اکتوبر 2006ء وفات 5 دسمبر 2016ء وفات 31 جولائی 1981ء (80) مکرم میاں عبد العظیم صاحب جلد ساز ولد میاں رحمت اللہ صاحب وفات یکم اپریل 1991ء ساکن دار الفضل قادیان (81) مکرم محمد شفیع صاحب پینٹر ولد میاں لال دین صاحب زرگر سا کن حلقه مسجد مبارک قادیان (82) مکرم مستری غلام قادر صاحب ولد محمد دین صاحب ساکن دار الرحمت قادیان (83) مکرم محمود احمد سرگودھوی صاحب ولد شیخ مولا بخش صاحب ساکن دار الرحمت قادیان (84) مکرم شیر محمد پونچھی صاحب ولد فضل الدین صاحب ساکن دار الفتوح قادیان (85) مکرم عبدالرشید انور صاحب بد و ملبی ولد مولوی عبدالحق صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان ☑ ☑ ☑ وفات 20 / جون 1962ء
جلد اوّل 302 تاریخ احمدیت بھارت (86) مکرم غلام احمد صاحب ولد محمد دین صاحب جلال پوری ساکن دار الرحمت قادیان (87) مکرم مولوی غلام مصطفیٰ صاحب ولد مولوی عبد الحق صاحب ساکن دار الرحمت قادیان (88) مکرم نذیر احمد صاحب ٹیلر ولد نور احمد صاحب ساکن حلقه مسجد فضل قادیان (89) مکرم قریشی عبد القادر صاحب اعوان ولد حضرت حافظ محمد امین صاحب اعوان ساکن حلقه مسجد فضل قادیان (90) مکرم محمد دین صاحب ولد غلام نبی صاحب ساکن دار الفضل قادیان (91) مکرم عبد المطلب صاحب بنگالی ولد منشی دائم اللہ صاحب ( ان کا نام اصل فہرست میں سہواً دو مرتبہ آرہا ہے ملاحظہ ہو نمبر 173) (92) مکرم مرز اعبد اللطیف صاحب ولد مرزا مہتاب بیگ صاحب سا کن حلقه مسجد اقصی قادیان (93) مکرم سید محمد اجمل صاحب ولد سید محمد افضل صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان (94) مکرم خواجہ عبدالستار صاحب ولد خواجہ محمد عبد اللہ صاحب ساکن دار الفتوح قادیان (95) مکرم میر غلام رسول ہزاروی صاحب ولد میر ولی خان صاحب ہزاروی ساکن دار الفتوح قادیان (96) مکرم مولوی غلام احمد صاحب ارشد ولد مولوی نور محمد صاحب ساکن دار الشکر قادیان (97) مکرم خواجہ محمد اسماعیل صاحب صحابی ولد خواجہ غلام رسول صاحب سا کن دار الفضل قادیان (98) مکرم حافظ عبد الرحمن صاحب پشاوری ولد میاں احمد جان صاحب ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان ☆ وفات 19 جنوری 2006ء وفات 22 /اپریل 1980ء وفات 7 / دسمبر 1985ء وفات 30 دسمبر 1984 وفات 14 مئی 2008ء وفات 15 /دسمبر 1974ء
تاریخ احمدیت بھارت 303 (99) محرم حکیم نعمت اللہ صاحب ولد حکیم اللہ دتا صاحب قلعی ساز ساکن دار الفتوح قادیان (100) مکرم قاضی عبدالحمید صاحب ولد قاضی عبد العزیز صاحب ساکن دار الرحمت قادیان (101) مکرم محمد عباداللہ صاحب ولد عبدالحمید صاحب ساکن دار الفتوح قادیان (102) مکرم امیر احمد صاحب (سابق موذن مسجد مبارک ) ولد مهر دین صاحب ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان (103) مکرم چوہدری بدرالدین صاحب عامل ولد چوہدری عبدالغنی صاحب ساکن دار البرکات قادیان (104) مکرم عبدالرشید نیاز صاحب ولد چوہدری عبدالحکیم صاحب ساکن دار البرکات غربی قادیان (105) مکرم فخر الدین مالا باری صاحب ولد ماحن کٹی صاحب ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان ( 106 ) مکرم سعید احمد صاحب ولد عبد الکریم صاحب ساکن دار العلوم قادیان (107) مکرم شیخ عبد القدیر صاحب ولد عبد الکریم صاحب ( نومسلم ) ساکن ناصر آباد قادیان (108) مکرم خواجہ احمد حسین صاحب ولد محمد حسین صاحب ساکن ناصر آباد قادیان (109) مکرم خواجہ محمد یوسف صاحب زیروی ( مسلم بھکشو ) ولد نظام الدین صاحب خواجہ محمد زیروی (مسلم بھکشو) ولد ساکن ناصر آباد قادیان (110) مکرم سراج الدین صاحب ثالث ولد چراغ دین صاحب ساکن دار السعت قادیان (111) مکرم محمد طفیل صاحب سابق پٹواری ولد چوہدری فیض محمد صاحب ساکن ڈہری والہ داروغہ گورداسپور وفات 12 / جون 1995ء وفات 3 / جنوری 1996ء وفات 5 فروری 2006ء وفات 13 /اگست 1986ء وفات یکم مئی 1970ء وفات 23 جون 1984ء وفات 27 /نومبر 2016ء وفات 31 مئی 2017ء وفات 30 /اکتوبر 1990ء وفات 28 / مارچ 1978ء جلد اول
جلد اوّل (112) مکرم مستری محمد دین صاحب ولد عمر دین صاحب ساکن ناصر آباد قادیان 304 تاریخ احمدیت بھارت وفات 30 / مارچ 1997ء (113) مکرم شیر احمد خان صاحب ولد خان میر صاحب کا بلی ( محافظ حضرت مصلح موعود ) وفات 5 / مارچ 1979ء ساکن ناصر آباد قادیان (114) مکرم بابا اللہ بخش صاحب ولد محکم دین صاحب ہر چوال ساکن ناصر آباد قادیان (115) مکرم بھائی حضرت شیر محمد صاحب ولد مکرم میراں بخش صاحب ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان (116) مکرم حکیم عبد الرحیم صاحب ولد میاں محمد جعفر صاحب ساکن حلقه مسجد فضل قادیان (117) مکرم بابا صدرالدین صاحب ولد رحیم بخش صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان (118) مکرم بابا بھاگ دین صاحب ولد محمد بخش صاحب سا کن حلقه مسجد فضل قادیان (118) مکرم بابا بھاگ صاحب امرتسری ولد میاں جیوا صاحب سا کن حلقه مسجد اقصیٰ قادیان ( 120 ) مکرم خدا بخش صاحب قلی ولد گا گو صاحب ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان (121) مکرم صوفی علی محمد صاحب حداد ولد جمال الدین صاحب ساکن دار الفتوح قادیان (122) مکرم با با شیخ احمد صاحب ولد غلام لحم صاحب سا کن حلقه مسجد مبارک قادیان (123) مکرم سید عبدالرحیم صاحب افغان ولد سید امیر خان صاحب پٹھان ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان (124) مکرم صوفی علی محمد صاحب نارووالی ولد مکرم مولا بخش صاحب ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان وفات 31 جولائی1964ء وفات 24 /نومبر 1974ء وفات 10 / جون 1961ء وفات 4 دسمبر 1960ء وفات 13 / مارچ 1960ء وفات 18 جون 1956ء وفات 25 مئی 1959ء وفات 6 جنوری 1981ء وفات 10 فروری1958ء وفات 31 اکتوبر 1962ء وفات 5 مئی 1961ء
تاریخ احمدیت بھارت (125) مکرم شمس الدین صاحب معذور ولد شیرین خان صاحب ساکن حلقه مسجد مبارک قادیان (126) مکرم میر عبدالسبحان صاحب ولد رحمان میر صاحب سا کن حلقه مسجد مبارک قادیان (127) مکرم منشی محمد صادق صاحب ولد محمد طفیل صاحب 305 ساکن قادیان ( مختار عام حضرت قمر الانبیاء و خاندان حضرت مسیح موعود ) (128) مکرم عبد العزیز گونگا صاحب ولد شمس الدین صاحب ساکن قادیان ( خادم حضرت قمر الانبیاء ) (129) مکرم میجر محمد عبداللہ صاحب ولد حضرت خان ذوالفقار علی خان صاحب ساکن قادیان ديهاتي مبلغين ( 130 ) مکرم سید منظور احمد شاہ صاحب ولد سید حسین شاہ صاحب ساکن ملک پور ضلع گجرات ( 131 ) مکرم گیانی بشیر احمد صاحب ماہلپوری ولد علی بخش صاحب ساکن ماہلپورضلع ہوشیار پور (132) مکرم نواب محمد خان صاحب ولد خواج دین صاحب ساکن فتح پور ضلع گجرات (133) مکرم عطاء اللہ صاحب ولد مولوی شیر محمد صاحب ساکن مڈھ رانجھا ضلع سرگودھا (134) مکرم محمد شریف صاحب ولد نبی بخش صاحب (135) مکرم فیض احمد صاحب ولد حبیب اللہ صاحب ساکن کرنڈی خیر پور میرس سندھ (136) مکرم محمد سلطان احمد صاحب ولد سید فضل احمد شاہ صاحب سا کن الحکم سٹریٹ قادیان (137) مکرم عبدالرحیم کشمیری ( اوگامی ) صاحب ولد عبدالعزیز صاحب ساکن او گام ضلع کو لگام کشمیر وفات 11 / اگست 1950ء وفات 23 اپریل 1961ء وفات 6 دسمبر 1972ء وفات 21 جون 1979ء وفات 18 جولائی 1976ء وفات 17 مئی 2006ء وفات 31 جولائی 2010ء وفات 22 فروری 2008ء جلداول
جلد اوّل 306 تاریخ احمدیت بھارت (138) مکرم علی محمد صاحب کشمیری ولد عبد الصمد صاحب ساکن ضلع کو لگام کشمیر (139) مکرم محمد رمضان صاحب ولد چوغطہ غلام احمد صاحب ساکن ہموساں کشمیر (140) مكرم عبد الغنی صاحب ولد محمد دین صاحب ساکن چک 99 شمالی سرگودها (141) مکرم محمد صادق صاحب عارف ولد شیخ رحیم بخش صاحب ساکن مغلپورہ لاہور (142) مکرم بشیر احمد صاحب خادم ولد میاں اللہ بخش صاحب ساکن دارالشکر قادیان (143) مکرم فتح محمد صاحب اسلم ولد روڑ ا صاحب ساکن دھرم کوٹ بگه ضلع گورداسپور (144) مکرم سید منظور احمد صاحب عامل ولد سید فضل محمد شاہ صاحب ساکن بینی بانگر قادیان (145) مکرم بشیر احمد صاحب با نگروی ولد محمد اسماعیل صاحب ساکن بد و ملبی ضلع سیالکوٹ (146) مکرم بشیر احمد صاحب ڈھلوں ولد محمد حسین صاحب ساکن ڈھلوں ضلع سیالکوٹ (147) مکرم قریشی محمد شفیع صاحب عابد ولد میاں اللہ رکھا صاحب ساکن اکال گڑھ ضلع گوجرانوالہ (148) مکرم مولوی خورشید احمد صاحب پر بھا کر ولد چوہدری نواب دین صاحب ساکن موضع ڈھنی دیو چک 332 لائلپور (فیصل آباد ) (149) مکرم حکیم سراج دین صاحب ولد حکیم محمد بخش صاحب ساکن شادی وال ضلع گجرات (150) مکرم سراج الحق صاحب ولد حضرت منشی عبد الحق صاحب کا تب ساکن جوڑ اکر نانہ ضلع گجرات وفات 10 /نومبر 1988ء وفات 26 / جولائی 2001ء وفات 13 / دسمبر 1981ء وفات 7 / اپریل 1975ء وفات 22 اکتوبر 1998ء وفات 27 مئی 2006ء وفات 28 جولائی 2015 ء وفات 17 مئی 2006ء
تاریخ احمدیت بھارت 307 (151) مکرم غلام نبی صاحب ولد چوہدری فضل الدین صاحب ساکن موضع ما نگا ضلع سیالکوٹ (152) مکرم محمد احمد صاحب ( فقیر سائیں ) ولد مولا بخش صاحب ساکن کالا افغاناں ضلع گورداسپور (153) مکرم محمد یوسف صاحب ولد رحیم بخش صاحب ساکن موکل سند رسنگھ والا ضلع لاہور (154) مکرم محمد شریف صاحب ولد محمد علی صاحب ساکن چندر کے منگولے ضلع سیالکوٹ (155) مکرم گیانی عبد اللطیف صاحب ولد عبد الرحمن صاحب ساکن موضع آلو پورریاست کپورتھلہ (156) مکرم محمد عبد اللہ صاحب کشمیری ولد غلام محمد صاحب ساکن ارتال.جموں (157) مکرم حافظ الہ دین صاحب ولد نواب دین صاحب ساکن لنگیا ڈاکخانہ قطباں تحصیل فتح جنگ ضلع کیمل پور (158) مکرم مولوی عبدالحمید مومن صاحب ولد اللہ د تا صاحب ساکن جنڈ انوالہ چک 195 ر.ب ضلع لائلپور (فیصل آباد ) (159) مکرم اسلم خان صاحب ولد اسد اللہ خان صاحب ساکن فتح پور شہر (یوپی) (160) مکرم فیروز الدین صاحب ولد کریم اللہ صاحب ساکن دین پوره خورد ضلع گورداسپور (161) مکرم مولوی محمد صادق نا قد صاحب ولد اللہ رکھا صاحب ساکن دھیر و کے 432 ج.ب ضلع لائلپور (فیصل آباد ) (162) مكرم عبد الحق فضل صاحب ولد احمد دین صاحب ساکن گنج ضلع سیالکوٹ ( 163 ) مکرم اللہ بخش صاحب ولد خدا بخش صاحب ساکن اورحمه ضلع سرگودھا وفات 7 / جون 2004ء وفات 17 جون 2010ء وفات 22 جولائی 2015 ء وفات 20 /نومبر 2009ء وفات 30 دسمبر 1983ء وفات 11 ستمبر 2013ء وفات 2 /دسمبر 1987ء وفات 13 مئی 1992ء وفات 16 ستمبر 1949ء جلد اول
جلد اوّل (164) مکرم خان محمد صاحب ولد امام دین صاحب ساکن عالم گڑھ ضلع گجرات (165) مکرم عبدالستار صاحب ولد اللہ بخش صاحب ساکن خانقاہ ڈوگراں ضلع شیخو پورہ (166) مکرم غلام محمد صاحب ولد رحیم بخش صاحب ساکن عالم گڑھ ضلع گجرات (167) مکرم محمد عثمان علی صاحب بنگالی ولد عباس علی صاحب ساکن حلقه مسجد فضل قادیان 308 (168) مکرم عبید الرحمن صاحب فانی ولد حافظ عطاء الرحمن صاحب ساکن موضع میرنگ لواڈا اکخانہ را موضلع چٹ گام ( بنگلہ دیش ) (169) مکرم نعمت اللہ خان صاحب ولد عنایت اللہ خان صاحب ساکن علاقه خوست افغانستان (170) مکرم مطہر علی صاحب بنگالی ولد اکبر علی صاحب ساکن گواہلی موڑ نوتراپور مشرقی بنگال (حالیہ بنگلہ دیش) (171) مکرم مولوی محمد عمر علی صاحب بنگالی ولد بشیر الدین صاحب ساکن گھائو را ضلع پڑا مشرقی بنگال (حالیہ بنگلہ دیش) (172) مكرم عبد السلام صاحب بنگالی ولد قالو حاجی صاحب ساکن چرا امگی ضلع میمن سنگھ مشرقی بنگال (حالیہ بنگلہ دیش) (173) مكرم عبد المطلب صاحب بنگالی ولد منشی دائم اللہ صاحب ساکن ناڑ گھاٹ ضلع پڑا مشرقی بنگال (حالیہ بنگلہ دیش) مستقل خدام (174) مکرم کیپٹن شیر ولی صاحب ولد حیات خان صاحب ساکن دور یا مال ڈاکخانہ کر یالہ تحصیل چکوال جہلم (175) مکرم صو بیدار عبدالغفور صاحب ولدصو بیدار خوشحال خان صاحب ساکن ٹوپی تحصیل صوابی ضلع مردان (176) مکرم صو بیدار برکت علی صاحب ولد محمد اسماعیل صاحب ساکن نصیرہ ڈاکخانہ اڑہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات ☆ ☆ حلى ☆ وفات 14 / مارچ 1972ء ☆ وفات 26 دسمبر 2007ء وفات 7 / دسمبر 1985ء وفات 21 مئی 2007 ء تاریخ احمدیت بھارت
تاریخ احمدیت بھارت 309 (177) مکرم جمعدار راجہ صوبہ خان صاحب ولد راجہ غلام محمد صاحب ذیلدار ساکن ملوٹ ڈاکخانہ ڈھلواں تحصیل پنڈ دادنخاں ضلع جہلم (178) مکرم صو بیدار اللہ یار خان صاحب ولد فتح محمد صاحب ساکن چاه چوگی والا سردار پور ضلع سرگودها (179) مکرم جمعدار محمد عبد اللہ صاحب ولد چوہدری نور محمد صاحب ساکن حسن پور کلاں ضلع ہوشیار پور (180) مکرم جمعدار عبدالحمید صاحب ولد احمد دین صاحب ساکن نارووال ضلع سیالکوٹ (181) مکرم جمعدار مبشر احمد صاحب ولد ماسٹر حسین خان صاحب ساکن دار الفضل قادیان (182) مکرم جمعدار ملک محمد رفیق صاحب ولد چوہدری علی بخش صاحب ساکن بھڑتا نوالہ ضلع سیالکوٹ (183) مکرم مولوی عبد القادر صاحب دانش ولد حضرت ڈاکٹر عبد الرحیم دہلوی ساکن دار الفضل قادیان (184) مکرم چوہدری محمود احمد عارف صاحب ولد حکیم شیر محمد صاحب ساکن نواں کوٹ تحصیل شاہد راضلع شیخو پوره (185) مکرم عزیز احمد صاحب منصوری ولد منشی عبد الخالق صاحب ساکن دار البرکات شرقی قادیان ( 186 ) مکرم جلال الدین صاحب ولد میاں شہاب الدین صاحب ساکن پکیواں ضلع گورداسپور (187) مکرم محمد بوٹا ( محمد خضر) صاحب ولد چوہدری جھنڈے خان صاحب ساکن کتھو والی تحصیل پسر ورضلع سیالکوٹ (188) مکرم چوہدری محمد شریف صاحب گجراتی ولد میراں بخش صاحب ساکن شیخ پور ضلع گجرات ( 189 ) مکرم غلام قادر صاحب ڈار ولد عبد الغفار صاحب ساکن شادیوال ضلع گجرات وفات 3 /اگست 1995ء وفات 10 جنوری 2015ء وفات 25 /فروری 2009ء وفات 29 ستمبر 1992ء وفات 6 فروری1989ء وفات 12 / مارچ 1984ء وفات 12 /نومبر 2014ء جلد اول
جلد اوّل 310 تاریخ احمدیت بھارت (190) مکرم بشیر احمد صاحب ولد نظام الدین صاحب ساکن ڈیر یا نوالہ ضلع سیالکوٹ (191) مکرم محمد یوسف صاحب گجراتی ولد محمد اسماعیل صاحب ساکن نصیر ہ ڈاکخانہ اڑ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات (192) مکرم محمد عزیز صاحب گجراتی ولد منصب خان صاحب ساکن نو رنگ ضلع گجرات (193) مکرم بہادر خان صاحب ولد میاں شادی خان صاحب ساکن ادرحمه ضلع سرگودھا (194) مکرم محمد یوسف صاحب ولد یعقوب خان صاحب ساکن دار الفضل قادیان (195) مکرم خورشید احمد ضیاء صاحب ولد ثناء اللہ صاحب ساکن گوہد پورضلع سیالکوٹ (196) مکرم احمد خان صاحب ولد باز خان صاحب ساکن نو رنگ ضلع گجرات (197) مکرم محمد موسیٰ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب ساکن سید والا تحصیل نکا نہ ضلع شیخو پوره (198) مکرم مرز امحمد اسحاق صاحب ولد میاں محمد دین صاحب ساکن گجو چک تحصیل و ضلع گوجرانوالہ ونسه (199) مکرم فضل الہی گجراتی صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب ساکن کھاریاں ضلع گجرات (200) مکرم نواب دین صاحب ولد میاں خواج دین صاحب ساکن دار الرحمت قادیان (201) مکرم غلام احمد صوفی صاحب ولد سردار محمد خان صاحب ولد سردار محمد ساکن سٹھیالی ضلع گورداسپور (202) مکرم منظور احمد صاحب چیمہ ولد چوہدری نور محمد چیمہ صاحب ساکن دا تازید کا ضلع سیالکوٹ وفات 19 / مارچ 1999ء وفات 12 / دسمبر 1973ء وفات 15 اکتوبر 1982ء وفات 10 مئی 2015ء وفات 21 فروری 2001ء وفات 9 جولائی 1962ء وفات 7 / جنوری 2004ء وفات 26 جولائی 2014ء
تاریخ احمدیت بھارت (203) مکرم شریف احمد ڈوگر صاحب ولد سردار خان صاحب ساکن چھینکے ضلع سیالکوٹ (204) مکرم محمد فاضل صاحب ولد شاہ محمد صاحب ساکن چک سکندر ضلع گجرات (205) مکرم چوہدری سکندر خان صاحب ولد لال خان صاحب ساکن کھاریاں ضلع گجرات (206) مکرم عطاء اللہ صاحب ولد میاں سلطان بخش صاحب ساکن کا رکہا ضلع جہلم (207) مکرم رفیع الدین صاحب ولد میراں بخش صاحب کشمیری ساکن سوک کلاں ضلع گجرات (208) مکرم سلطان احمد صاحب ولد محمد بخش صاحب ساکن کھاریاں ضلع گجرات (209) مکرم ضیاء الحق صاحب ولد ملک بہاء الحق صاحب ساکن دوالمیال ضلع جہلم (210) مکرم مسیح اللہ صاحب ولد عبد الغفور صاحب ساکن کھیوڑہ ضلع جہلم (211) مکرم محمد خان صاحب ولد کالے خان صاحب چک سکندر ضلع گجرات (212) مکرم حوالدار محمد اشرف صاحب ولد رحمت خان صاحب ساکن چا کانوالی ضلع گجرات (213) مکرم مظفر احمد صاحب ولد عبدالمجید صاحب ساکن گوکھو وال چک 276 لائلپور (فیصل آباد ) (214) مکرم امیر علی صاحب ولد عبد المجید صاحب ساکن رتو چھ ڈاکخانہ چو ہاسیدن شاہ ضلع جہلم (215) مکرم بشیر احمد مہار صاحب ولد حاجی خدا بخش صاحب ساکن میاں خانانو الی ضلع سیالکوٹ 311 وفات 19 ستمبر 1998ء وفات 10 /نومبر 2000ء صالح ☑ وفات 13 /نومبر 2008ء جلد اول
جلد اوّل 312 تاریخ احمدیت بھارت (216) مکرم مرز امحمد دین صاحب ولد مرز اغلام محمد صاحب ساکن چوکنانوالی ضلع گجرات (217) مکرم فضل احمد صاحب ولد منشی احمد دین صاحب ساکن چوکنا نوالی ضلع گجرات (218) مکرم فتح محمد صاحب گجراتی ولد قطب الدین صاحب ساکن شیخ پور ضلع گجرات (219) مکرم حسن محمد صاحب ولد نور الدین صاحب ساکن دار الرحمت قادیان (220) مكرم عبد القیوم صاحب ولد احمد دین صاحب ساکن اگر وال ضلع گجرات (221) مکرم غلام محمد صاحب ولد رحیم بخش صاحب ساکن عالم گڑھ ضلع گجرات (222) مکرم صلاح الدین صاحب ولد میاں فضل حق صاحب ساکن صدر گوگیرہ ضلع ساہیوال (223) مکرم چوہدری عبدالسلام صاحب ولد چوہدری عبدالحکیم صاحب ساکن در گانوالی ضلع سیالکوٹ (224) مكرم عبد الغفور صاحب ولد مولوی رحمت اللہ صاحب ساکن کوٹ الہ دین ضلع ساہیوال (225) مکرم نذیر احمد (بشیر احمد شاد ) صاحب ولد خدا بخش صاحب ساکن سید والہ تحصیل نکا نه ضلع شیخو پوره (226) مکرم محمد خان صاحب ولد راجہ خان صاحب ساکن فتح پور گجرات (227) مکرم عبد الکریم صاحب ناصر آبادی ولد مولا بخش صاحب ساکن رعیہ ضلع امرتسر (228) مکرم بشیر احمد صاحب ولد مولا بخش صاحب ساکن عالم گڑھ ضلع گجرات وفات 27 /فروری1988ء ☑ وفات 18 ستمبر 2006ء وفات 8 جنوری 1992ء وفات 9 نومبر 1996ء
تاریخ احمدیت بھارت (229) مکرم محمد اسماعیل صاحب ولد میاں جھنڈے خان صاحب ساکن حسن پورہ ضلع گورداسپور (230) مکرم محمد شفیع صاحب ولد عمر دین خان صاحب ساکن شاد یوال ضلع گجرات (231) مکرم شاہ محمد صاحب ولد صاحبداد صاحب ساکن دیونا ماجر ضلع گجرات (232) مکرم ولی محمد صاحب گجراتی ولد شاہ محمد صاحب ساکن شا د یوال ضلع گجرات (233) مکرم ملک محمد بشیر صاحب ولد ملک محمد ابراہیم صاحب ساکن محله کریم پور لالہ موسی ضلع گجرات (234) مکرم ظہور احمد ناصر صاحب ولد محمد مراد صاحب ساکن بھا کا بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ (235) مکرم مرزا بشیر احمد صاحب ولد مرزا بہادر بیگ صاحب ساکن نسو والی سویل خورد ضلع گجرات (236) مکرم ظہور احمد صاحب گجراتی ولد فتح الدین صاحب ساکن شیخ پور ضلع گجرات 313 (237) مکرم بشیر احمد حافظ آبادی صاحب ولد میاں محمد مراد صاحب حافظ آبادی ساکن حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ (238) مکرم میراں بخش ( حاجی خدا بخش ) صاحب ولد مولادادصاحب ساکن شادیوال ضلع گجرات (239) مکرم محمد رمضان صاحب ولد عمر بخش صاحب ساکن سدو کے ضلع گجرات (240) مکرم عبدالحمید صاحب ولد الہی بخش صاحب ولد ساکن ابوالخیر ضلع شیخو پوره (241) مکرم صدیق احمد صاحب ولد چراغ دین صاحب ساکن گوکھو وال 276 رب ضلع لائلپور (فیصل آباد ) ☑ ☑ وفات 27 فروری 1994ء وفات 26 /جنوری 1994ء وفات 26 /نومبر 1969ء وفات 28 /اگست 2004ء وفات 13 /جنوری 2004ء وفات 28 /نومبر 1983ء ہے ہے جلد اول
جلد اوّل 314 تاریخ احمدیت بھارت (242) مکرم زکریا خان صاحب ولد محمد صدیق صاحب ساکن مجوس ضلع سرگودھا (243) مکرم نذیر احمد حجبة صاحب ولد احمد دین صاحب ساکن چک 99 شمالی ضلع سرگودھا (244) مکرم محمود احمد مبشر صاحب ولد غلام محمد صاحب ساکن چک 99 شمالی ضلع سرگودها (245) مکرم حوالدار محمد نو از گورا یا صاحب ولد مهر دین صاحب ساکن فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ (246) مکرم مرز ا غالب بیگ صاحب ولد مرز امحمد ا کرم صاحب ساکن تو پخانہ بازار لاہور چھاؤنی (247) مکرم عطاء اللہ گجراتی صاحب ولد اللہ دتا صاحب ساکن بوہڑانوالہ ضلع گجرات (248) مکرم غلام رسول صاحب ولد چوہدری شاہ محمد صاحب ساکن دوست پور ضلع شیخو پوره (249) مکرم چوہدری عطاء اللہ صاحب ولد عبد الرحمن صاحب ساکن میاں جا نانوالی ضلع سیالکوٹ (250) مکرم ملک نذیر احمد صاحب پشاوری ولد ملک مشتاق احمد صاحب ساکن محلہ جہانگیر پورہ حلقہ مسجد احمد یہ پشاور بیرونی خدام (251) مکرم چوہدری سعید احمد صاحب ولد چوہدری فیض احمد صاحب ساکن پوہلہ مہاراں ضلع سیالکوٹ (252) مکرم چوہدری عبد الغنی صاحب ولد چوہدری محمد حیات صاحب ساکن کھاریاں ضلع گجرات (253) مکرم چوہدری محمد صادق صاحب ولد محمد ابراہیم صاحب ساکن چک نوال ڈاکخانہ کالی صوبہ خاں ضلع گوجرانوالہ (254) مکرم بشارت احمد صاحب ولد منشی سلطان عالم صاحب ساکن گوٹریالہ ضلع گجرات وفات 18 ستمبر 2015ء ☑ ☑ وفات 3 جولائی 1972ء وفات 21 جنوری 1991ء ☆ ☑
جلد اول ☆ 315 ☑ تاریخ احمدیت بھارت (255) مکرم میر رفیع صاحب ولد ڈاکٹر برکت اللہ صاحب ساکن نئی آبادی بیرون شاہ دولہ گیٹ گجرات (256) مکرم مرز امحمد صادق صاحب ولد مرزا امام الدین صاحب مرزا احمد صادق اینڈ کمپنی کوئٹہ (257) مکرم ملک سلطان احمد صاحب ولد ملک خان محمد صاحب ساکن چکوال سب آفس، چونتر ضلع اٹک (258) مکرم شیخ عبدالحق صاحب ولد شیخ میراں بخش صاحب ساکن محله کریم پورہ لالہ موسی ضلع گجرات (259) مکرم میاں غلام رسول صاحب ولد میاں نبی بخش صاحب ولد ساکن کمال ڈیرہ ضلع نواب شاہ سندھ (260) مکرم چوہدری روشن الدین صاحب ولد چوہدری اللہ دتا صاحب ساکن منگولےضلع سیالکوٹ (261) مکرم غلام محمد صاحب ولد چوہدری عبد اللہ خان صاحب ساکن چک93/6R بہاولپور (262) مکرم محمد شفیع صاحب ولد چوہدری فضل دین صاحب ساکن چک93/6R بہاولپور (263) مکرم محمد اسلم صاحب ولد چوہدری پیر محمد صاحب ساکن چک 7/152-2 بہاولپور (264) مکرم وڈیر اعبد الرحمن صاحب ولد و ڈیر ارمضان صاحب ساکن گا بر مسن گوٹھ بارڈر اسٹیشن ضلع لاڑکانہ سندھ (265) مکرم چوہدری غلام محمد صاحب ولد چوہدری فتح علی صاحب ساکن چک سکندر ضلع گجرات (266) مکرم چوہدری محمد حسین صاحب ولد چوہدری غلام حسین صاحب ساکن کوٹ رحمت خاں ضلع شیخو پورہ (267) مکرم میاں محمد اسماعیل صاحب گجراتی ولد میاں علم دین صاحب ساکن چک سکندر ضلع گجرات ☆ ☑ ☆ ☑ وفات 21/جنوری 1993ء
جلداول 316 تاریخ احمدیت بھارت (268) مکرم چوہدری علی محمد صاحب ولد چوہدری اکبر علی صاحب ساکن چک سکندر ضلع گجرات (269) مکرم ماسٹرمحمد ابراہیم صاحب ٹیلر ولد میاں فضل کریم صاحب ساکن کراچی ٹیلر شوپ R.A.F کیمپ ماڑی پور وفات 25 ستمبر 2003ء (270) مکرم یونس احمد اسلم صاحب ولد ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم ( سابق امیر المجاہدین ملکانه وفات 15 جون 1968ء ساکن بالمقابل جو بلی سنیما کراچی (271) مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب گھٹیالیاں ولد چوہدری حیات محمد صاحب ساکن گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ (272) مکرم پی.محمد کنجی صاحب ولد پی محمد عبد اللہ مالا باری صاحب ساکن کینا نورسٹی ( مالا بار ) کیرلہ (273) مکرم پی زین العابدین صاحب ولد پی عبد القادر صاحب ساکن کینا نورسٹی ( مالا بار ) کیرلہ (274) مکرم خان عبد الرحمان صاحب ولد خان عبداللہ صاحب ساکن طوفی روڈ کوئٹہ (275) مکرم میاں غلام رسول صاحب ولد میاں احمد الدین صاحب ساکن کوٹ شاہ عالم ضلع گوجرانوالہ (276) چوہدری نبی احمد صاحب ولد چوہدری غلام محمد صاحب ساکن میر خاں شابا می ریاست خیر پور میرس سندھ (277) مکرم چوہدری علم دین صاحب ولد امام بخش صاحب ساکن موٹھی ڈاکخانہ دریا خاں مری نواب شاہ سندھ (278) مکرم غلام رسول صاحب ولد سردار خان صاحب ساکن 141 چک ہند مرا در یاست بہاولپور (279) مکرم ٹیلر ماسٹر عبدالحق ناصر صاحب ولد ماسٹرعبدالمجید ٹیلر صاحب ساکن گلی غلام حیدرآبادی، حاکم رائے گوجرانوالہ (280) مکرم عبد الرحیم صاحب ولد الہی بخش صاحب ساکن کرنڈی ریاست خیر پورسندھ وفات 23 دسمبر 2002ء وفات 7 / اپریل 2009 ء وفات 13 /نومبر 1986ء ☑ ☆ ☑ ☑ ☑ ☑
تاریخ احمدیت بھارت 317 (281) مکرم میاں سلطان احمد صاحب ولد میاں محمد دین صاحب ساکن پنڈی چیری ضلع شیخو پوره (282) مکرم محمد امین صاحب ولد مبارک احمد کرشن صاحب ساکن پنڈی چیری ضلع شیخوپورہ (283) مکرم چوہدری شاہ محمد صاحب ولد چوہدری فتح الدین صاحب ساکن چک 90 ریاست بہاولپور (284) مکرم چوہدری منظور احمد صاحب چیمہ ولد چوہدری غلام قادر صاحب ساکن چک 84 الف فتح ریاست بہاولپور (285) مکرم چوہدری محمد احمد صاحب ولد چوہدری فضل احمد صاحب ساکن مگر الی ضلع گجرات (286) مکرم مولوی محمد ایوب بٹ صاحب ولد مولوی غلام محی الدین صاحب ساکن جہلم شہر (287) مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب ولد چوہدری خدا بخش صاحب ساکن گوٹھ دین مہر شاہ دیہہ لاکھا تحصیل گھمبٹ ضلع خیر پور سندھ (288) مکرم ڈاکٹر ملک بشیر احمد صاحب ولد ملک عبد الکریم صاحب ساکن ترگڑی ضلع گوجرانوالہ (289) مکرم کریم بخش ڈار صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب ساکن محله اسلام آباد مشن روڈ کوئٹہ (290) مکرم چوہدری منور علی صاحب ولد چو ہدری شیر علی صاحب ساکن سورج گنج روڈ کوئٹہ (291) مکرم میاں احمد دین صاحب ولد میاں علم دین صاحب ساکن کو ٹلی پٹھا نہ ضلع گجرات (292) مکرم مستری روشن الدین صاحب ولد مستری حسن دین صاحب ساکن چانگریاں ضلع سیالکوٹ (293) مکرم ملک غلام محمد صاحب ولد ملک بڑھے خان صاحب ساکن ترگڑی ضلع گوجرانوالہ ☆ وفات 27 دسمبر 1980ء حین حیات وفات 10 مئی 2013ء ☑ ☑ جلد اول
جلد اوّل 318 (294) مکرم میاں اللہ رکھا صاحب ولد میاں اروڑ ا صاحب ساکن سیالکوٹ شہر (295) مکرم مستری محمد احمد صاحب ولد مستری محمد اسماعیل صاحب ساکن محلہ راج گڑھ لا ہور (296) مکرم محمد خان صاحب ولد احمد خان صاحب ساکن گا بر مسن گوٹھ بارڈر اسٹیشن ضلع لاڑکانہ سندھ (297) مکرم گہنہ خاں صاحب ولد علی بخش صاحب سا کن گا بر مسن گوٹھ بارڈراسٹیشن ضلع لاڑکانہ سندھ (298) مکرم رائے سردار علی صاحب ولد رائے غلام قادر صاحب ساکن شیر کا چک 278 ضلع لائلپور (فیصل آباد ) (299) مکرم ماسٹر عبدالحئی صاحب ٹیلر ولد بابو عطا محمد صاحب ساکن ڈنگا ضلع گجرات (300) مکرم چوہدری نبی احمد صاحب ولد چوہدری حاکم دین صاحب ساکن لنگے ضلع گجرات (301) میاں نذرمحمد صاحب ولد میاں اللہ دتا صاحب ساکن پریم کوٹ ضلع گوجرانوالہ (302) مکرم دفعدار محمد عبد اللہ صاحب ولد میاں محمد ابراہیم صاحب ساکن فتح پور ضلع گجرات (303) مکرم میاں جلال الدین صاحب ولد میاں تاج الدین صاحب ساکن مونگ ضلع گجرات (304) مکرم حاجی مستری منظور احمد صاحب ولد مستری نظام الدین صاحب ساکن چانگریاں ضلع سیالکوٹ (305) مکرم عبد الکریم صاحب ولد چوہدری نبی بخش صاحب ساکن تر گڑی ضلع گوجرانوالہ (306) مکرم چوہدری عطاء اللہ صاحب ولد چوہدری محمد بخش صاحب ساکن پھیر و هیچی ضلع گورداسپور تاریخ احمدیت بھارت وفات 3 را پریل 1964ء وفات یکم مئی 2015 ء
تاریخ احمدیت بھارت (307) مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب ولد چوہدری رستم صاحب ساکن شکار ماچھیاں ضلع گورداسپور 319 (308) مکرم چوہدری غلام رسول صاحب ولد چوہدری محمد الدین صاحب ساکن چک 276 گوکھووال لائلپور (فیصل آباد ) (309) مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب ولد چو ہدری غلام احمد صاحب ساکن ہڈیار ضلع سیالکوٹ (310) مکرم چوہدری خدا بخش صاحب ولد چوہدری محمد علی صاحب ساکن محمود آباد اسٹیٹ سندھ (311) مکرم شریف احمد صاحب ولد میاں غلام محمد صاحب ساکن کوٹ رحمت خاں ضلع شیخو پورہ (312) مکرم غلام حسین صاحب ولد ملک فتح الدین صاحب ساکن شمس آباد تحصیل چونیاں ضلع لاہور (313) مکرم شیخ سراج دین صاحب ولد شیخ چراغ دین صاحب ساکن چک 46 ضلع شیخو پوره (314) مکرم چوہدری بشیر احمد سندھی صاحب ولد چوہدری غلام محمد صاحب ساکن محمود آباداسٹیٹ سندھ (315) مکرم محمد شریف صاحب شیخو پوری ولد چوہدری حسن محمد صاحب ساکن کوٹ رحمت خاں ضلع شیخو پورہ (316) مکرم چوہدری مبارک علی صاحب ولد چوہدری بانے خان صاحب ساکن طالب پور پنڈوری ضلع گورداسپور ☑ ☑ وفات 27 /دسمبر 1960ء وفات 22 /نومبر 1998ء وفات 13 /دسمبر 2013ء (1) جلد اول تاریخ احمدیت جلد 10 کی مطبوعہ فہرست میں بعض درویشان کے نام درج نہیں ہیں جو ابتدائی پر آشوب دور میں قادیان میں حفاظت کے پیش نظر موجودر ہے.ان درویشان کے اسماء ذیل میں اسی تسلسل کے ساتھ شامل کئے جار ہے ہیں.317).مکرم عبد اللہ خان صاحب ولد عبد الغفار خان صاحب ساکن قادیان وفات 18 اپریل 1952ء
جلد اوّل 320 تاریخ احمدیت بھارت (318).مکرم احمد دین صاحب ولد حکیم اللہ بخش صاحب وفات 25 جولائی 1959ء ساکن قادیان (319) مکرم نذرمحمد خان صاحب افغان والد مکرم مطیع اللہ خان صاحب وفات 28 مئی 1959ء ساکن قادیان (320) مکرم سردار محمد صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب ساکن و نجواں ضلع گورداسپور (321) مکرم شیخ محمدابراہیم صاحب ولد نبی بخش صاحب ساکن موضع پراناں والا چک 425 لائلپور (فیصل آباد ) (322).مکرم چوہدری غلام احمد ربانی صاحب ولد غلام محمد صاحب ساکن کرم پور ضلع شیخو پوره (323) مکرم عبد الغفور صاحب ریڈیو میکر ولد چوہدری شیر محمد صاحب ساکن چک لوہٹ ضلع لدھیانہ وفات 10 فروری 1982ء وفات 2 /جنوری 1994ء وفات 10 /فروری1999ء وفات 12 نومبر 2000ء (324).مکرم مولوی محمد ابوالوفاء صاحب فاضل ولد موسیٰ مسلمیا رصاحب وفات 12 /اکتوبر 2002ء
تاریخ احمدیت بھارت 321 جلد اول عہد درویشی کا سفر اور درویشان کی قابل رشک زندگی مؤرخہ 16 نومبر 1947 ء کو آخری کنوائے ( قافلہ ) لاہور کی طرف روانہ ہو گیا اور درویش درویشی کا طویل سفر طے کرنے کے لئے محلہ احمدیہ کی طرف واپس آگئے.فراق اور جدائی کے اثرات چہروں پر نمایاں ہو گئے.مگر جانے والوں کے ساتھ جانے کی نہ کسی کو خواہش تھی نہ تمنا.آرزو تھی تو صرف یہی کہ مقامات مقدسہ کی نگہبانی کی سعادت تادیر ملتی چلی جائے.قافلہ روانہ کرنے کے بعد درویشان کرام جب واپس محلہ احمدیہ میں آئے تو ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا کہ تعداد تو صرف 313 ( تین صد تیرہ) افراد کی ہے اور محلہ احمدیہ کی حدود اربعہ بہت وسیع اور عریض ہیں.اس کی نگرانی کیسے ممکن ہوگی اور اس کے لئے جماعتی انتظامیہ نے با قاعدہ ایک لائحہ عمل بنایا.اور ان درویشان کو مختلف گروپس میں تقسیم کرتے ہوئے حساس مقامات پر پہرہ داری کے لئے متعین کیا گیا.حکومت سے معاہدے کے مطابق جوایر یا درویشان کرام کے احمدیہ ائے مختص کیا گیا تھا اس میں درج ذیل مقدس و تاریخی مقامات اور اہم عمارتیں شامل تھیں.مسجد اقصیٰ مسجد مبارک ، مسجد اقصیٰ کے مشرقی جانب وہ عمارت جس میں اس وقت صدر انجمن کے دفاتر اور ضروری ریکارڈ تھا ( 2 ) قصر خلافت، دفاتر تحریک جدید، محاسب صدر انجمن احمدیہ، نصرت گرلز سکول ( نصرت گرلز اسکول جو ماضی میں نظام دین اور امام دین کے گھر تھے.اب اس جگہ (2012ء میں) ایک خوبصورت باغیچہ بنا دیا گیا ہے ) تعلیم الاسلام سکول ، مدرسہ احمدیہ، بورڈنگ مدرسہ احمدیہ، مہمان خانہ بہشتی مقبرہ کا سترہ ایکڑ پر مشتمل رقبہ، مسجد فضل، مسجد ناصر آباد ، احمد یہ شفاخانہ کی عمارت ( جو ماضی میں میر محمد اسماعیل صاحب کا مکان تھا اور بعد میں الفضل کا دفتر بنا ) ضیاء الاسلام پریس کی عمارت وغیرہ وغیرہ.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے خود ان مقامات کی حفاظت فرمائی اور خوش قسمت تھے وہ درویش جن کو اللہ تعالیٰ نے حفاظت کی ذمہ داری کے لئے منتخب کیا.درویشوں کی اکثریت نوجوان تھی.ان میں سے اکثر کی شادیاں نہیں ہوئی تھیں اور جن کی ہوئی بھی تھیں ان کے اہل وعیال قادیان سے جا چکے تھے.اور سب کے سب درویش مجردانہ زندگی گزار رہے تھے ان میں سے ہر ایک درویش اپنے مفوضہ
جلد اول 322 تاریخ احمدیت بھارت امور کو اطاعت اور فرمانبرداری سے نبھاتا تھا.علاوہ ازیں نمازوں اور تہجد کی ادائیگی بھی باقاعدگی سے کرتا.ذکر الہی تلاوت قرآن مجید، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کی کتب کے مطالعہ سے اپنے دل و دماغ کو منور کرتا.اس مخدوش اور پر خطر ماحول نے ان کی عبادات میں ایک خاص قسم کا خشوع اور خضوع پیدا کر دیا تھا.اس کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے جماعتی انتظامیہ نے مختلف قسم کے ورزشی و تفریحی پروگرام بھی مرتب کئے ہوئے تھے.جس کی ہر ایک درویش پابندی کرتا.محترم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب مرحوم و مغفور ابن حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب) جو اس وقت قادیان میں ناظر اعلیٰ تھے درویشوں کے ابتدائی حالات و واقعات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:.وو جب یہ آخری مرحلہ طے ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے پھر ایک سکون بخشا اور سب کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اچھا اب جو مقصد ہمارے رہنے کا ہے وہ پورا ہوا.اور یہ مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ پیچھے رہنے والوں میں ایک معجزانہ تبدیلی پیدا ہوگئی.اور یکا یک ہر ایک اس بات میں کوشاں ہو گیا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ کے سب ارشادات پر پورا عمل کیا جاوے اور اس کے لئے نہ صرف اجتماعی طور پر کوشش کی گئی بلکہ ہر ایک شخص فرداً فرداً اس کوشش میں لگ گیا تا کہ اس کے بھائی کی شستی سے احمدیت کو یا جماعت کو نقصان نہ ہو.اور وہ لوگ جو کہ پہلے فرائض پر ہی اکتفا کرتے تھے بہت شوق سے نوافل پر زور دینے لگے اور جو کہ پہلے ہی نوافل کے عادی تھے انہوں نے مزید عبادات پر زور دیا.مساجد میں چھ وقت کی نماز پانچ فرض نمازیں اور ایک تہجد ) لوگ اس شوق اور ذوق سے ادا کرتے ہیں اور اس طرح سنوار سنوار کر اپنی عبادت کرتے ہیں کہ خیال ہوتا ہے کہ بچپن سے ہی اس کے عادی ہیں.اور نہ صرف مسجدوں میں بلکہ باہر بھی لوگ زیادہ وقت خاموشی اور ذکر الہی میں گزارتے ہیں.پیر اور جمعرات کے دن تو ہر شخص روزہ رکھتا ہی ہے.الا ما شاء اللہ جو طاقت رکھتے ہیں وہ ہر روز روزہ رکھتے ہیں.اور جہاں بڑی بڑی تقریروں کے بعد کسی کو کسی وظیفہ یا خاص عبادت کے لئے آمادہ نہ کیا جا سکتا تھا وہاں اب کسی کے کان میں کسی خاص طرز کے وظیفے کی بھنک پڑ جائے تو اسے شروع کر دیتے ہیں.بہشتی مقبرہ جا کر لوگ باقاعدگی سے دعا کرتے ہیں.اور ہر ایک کی دعا میں وہی الحاح اور زاری ہوتی ہے.جس کی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہاں کے رہنے والوں سے امید کی تھی.
تاریخ احمدیت بھارت 323 جلد اول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ ان کا ایک شغف ہے.زیادہ وقت مساجد میں گزارنا اور اللہ اور اس کے رسول کی باتیں کرنا.لغویات سے پر ہیز ان کی ایک عادت بن گئی ہے.لڑائی جھگڑے سے اور ایسی جگہوں سے جہاں فساد یا فتنہ کا امکان ہو بہت اجتناب کیا جاتا ہے.القصہ یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے اس چھوٹی سی جماعت کو اتنی جلدی اپنے اندر ایسی عظیم الشان تبدیلی پیدا کرنے کی توفیق دی.صحت کا بھی خیال ہے.عصر کی نماز کے بعد والی بال ، ہا کی اور بعض دوسری کھیلیں کھیلی جاتی ہیں.صبح ورزش اور پی ٹی بھی ہوتی ہے.اس کے علاوہ جماعتی کام مثلاً کمرہ یا دیوار وغیرہ بنانے کے لئے مٹی اینٹوں وغیرہ کے لانے کا کام بڑی خوشی سے کیا جاتا ہے.ابھی پہرہ داروں کے لئے ایک کمرہ بہشتی مقبرہ میں بنایا گیا ہے اور دو اور بنائے جارہے ہیں.اس کے علاوہ بہشتی مقبرہ کے ارد گرد دیوار بنانے کا بھی ارادہ ہے.انشاء اللہ.....سب سے آخر یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ یہاں جس قدر لوگ ٹھہرے ہیں کسی کے دل میں بھی ذرا بھر انقباض نہیں کہ ہم کیوں ٹھہرے.بلکہ دل سے خوش ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ خدا نے یہ فضل کیا کہ ہمیں یہاں ٹھہرنے کا موقعہ ملا.اور اس نیکی کے کرنے کی توفیق دی کہ معلوم نہیں پھر کسی کو منی بھی ہے کہ نہیں.اور اگر ملنی بھی ہے تو کب اور سب سے زیادہ تو یہ کہ اب بعد میں جو آویں گے.وہ پہلے ٹھہر نے والے نہ کہلا سکیں گے.ہمارے شیر ولی خاں صاحب خصوصاً بار بار کہتے ہیں کہ خدا کا کتنا فضل ہوا کہ وہ ٹھہر گئے.چونکہ انہوں نے کام پچھلے دنوں بہت اچھا کیا تھا اس لئے ان کو بھجوانے کا خیال تھا.مگر جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے یہ جذبہ ہر ایک کا ہے.وہ چونکہ حضرت ام المومنین کے مکان کے ایک حصہ میں رہتے ہیں.اس لئے یہی کہتے رہتے ہیں کہ اوشیر ولی اگر تو یہاں نہ رہتا تو حضرت 66 مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں رہنے کی اور دعائیں کرنے کی کہاں تو فیق ملی تھی.“ وقت تو گذر جاویگا.مگر یہ خدا تعالیٰ کے انعامات اور یہ باتیں دل سے کبھی بھول نہیں سکتیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری آزمائشوں کو بھی ہمارا انعام بنادیا.(3) حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اگست 1947ء میں قادیان سے لاہور ہجرت فرما گئے تھے.کم و بیش 6 / چھ ماہ کے بعد حضرت اصلح الموعود نے بعض صحابہ کو قادیان واپس بھجوایا.جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بلند پایہ صحابی حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی بھی شامل تھے (جو مئی
جلد اوّل 324 تاریخ احمدیت بھارت 1948ء کومستقل طور پر قادیان تشریف لے آئے تھے.ناقل ).آپ نے درویشان کرام کے حالات و کوائف مورخہ 31 مئی 1948ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر فرمائے.قادیان پہنچے ہیں روز ہوئے ہیں.پہلا ہفتہ تو قریباً آٹھ ما ہی جدائی کی حسرت وحرمان کی تلافی کی کوشش میں گزر گیا.اور ماحول کی طرف نظر اٹھانے کی بھی فرصت نہ ملی.دوسرے ہفتہ کچھ حواس درست ہوئے تو دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں کہ ایک نئی زمین اور نئے آسمان کے آثار نمایاں ہیں.ایک تغیر ہے عظیم ، اور ایک تبدیلی ہے پاک، جو یہاں کے ہر درویش میں نظر آتی ہے.چہرے ان کے چمکتے.آنکھیں ان کی روشن ، حو صلے ان کے بلند پائے.نمازوں میں حاضری سو فیصدی.نمازیں نہ صرف رسمی بلکہ خشوع خضوع سے پر دیکھنے میں آئیں.رقت و سوز یکسوئی و ابتہال محسوس ہوا.مسجد مبارک دیکھی تو پر.مسجد اقصیٰ دیکھی تو بارونق ، مقبرہ بہشتی کی نئی مسجد جس کی چھت آسمان اور فرش زمین ہے.وہاں گیا تو ذاکرین و عابدین سے بھر پور پائی.ناصر آباد کی مسجد ہے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے آباد ہے.اذان و ا قامت برابر پنج وقتہ جاری.....مساجد کی یہ آبادی اور رونق دیکھ کر الہی بشارت کی یاد سے دل سرور سے بھر گیا.اور امید کی روشنی دکھائی دیتی ہے....نہ صرف یہی کہ فرائض کی پابندی ہے.بلکہ نوافل میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی کثرت ، ہجوم اور انہماک پایا.مقامات مقدسہ کے کونہ کونہ کے علم پانے کا عموماً ان نو جوانوں کو حریص دیکھا.اور پھر عامل بھی حتی کہ حالت یہ ہے کہ اس تین ہفتہ کے عرصہ میں میں نے بارہا کوشش کی کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے بیت الدعا میں کوئی لمحہ تنہائی کا مجھے بھی مل سکے.مگر ابھی تک یہ آزرو پوری نہیں ہوئی.جب بھی گیا نہ صرف یہ کہ وہ خالی نہ تھا بلکہ تین تین چار چار نو جوانوں کو وہاں کھڑے اور رکوع وسجود میں روتے اور گڑ گڑاتے پایا.اسی پر بس نہیں بلکہ متصلہ دالان اور بیت الفکر تک کو اکثر بھر پور اور معمور پایا.تہجد کی نماز چاروں مساجد میں برابر با قاعدگی اور شرائط کے ساتھ باجماعت ادا ہوتی ہے.اور بعض درویش اپنی جگہ پر بعض اپنی ڈیوٹی کے مقام پر ادا کرتے ہیں.کھڑے کھڑے چلتے پھرتے بھی ان کی زبانیں ذکر الہی سے نرم اور تر ہوتی دیکھی اور سنی جاتی ہیں.اور میں یہ عرض کرنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ نمازوں میں حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے سو فیصدی ہے.درس و تدریس اور تعلیم وتعلم کا سلسلہ
تاریخ احمدیت بھارت 325 جلد اوّل دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے.ہر مسجد میں ہر نماز کے بعد کوئی نہ کوئی درس ضرور ہوتا ہے.اور اس طرح قرآن حدیث اور سلسلہ کے لٹریچر کی ترویج کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس کی بنیاد صحیح اور نیک نیت پر مشوق اور لذت کے ساتھ اٹھائی جا رہی ہے.عام علوم کے درس ان کے علاوہ ہیں.اور روزانہ وقار عمل تعمیر و مرمت ، صفائی ولپائی مکانات ، مساجد اور مقابر راستے اور کو چہا بلکہ نالیاں تک.اس کے علاوہ خدمت خلق بڑی بشاشت اور خندہ پیشانی سے کی جاتی ہے.جس میں ادنیٰ سے ادنی کام کو کرنے میں تکلیف ، ہتک یا کبیدگی کی بجائے بشاشت ولذت محسوس کی جاتی ہے.گیہوں کی بوریاں آٹے کے بھاری تھیلے اور سامان کے بھاری صندوق ، بکس اور گٹھے یہ سفید پوش، خوش وضع اور شکیلے نو جوان جس بے تکلفی سے ادھر سے اُدھر گلی کو چوں میں جہاں اپنے اور پرائے مرد اور عورت اور بچے ان کو دیکھتے ہیں لئے پھرتے ہیں.قابل تحسین و صد آفرین ہے اور ان چیزوں کا میرے دل پر اتنا گہرا اثر ہے جو بیان سے بھی باہر ہے.یہ انقلاب تغیر اور پاک تبدیلی دیکھ کر میرے آقا بے ساختہ زبان پہ جاری ہوا.ہر بلا کیں قوم راحق داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.خدمت خلق کے سلسلہ میں ہمارا ہسپتال جو خدمات بجالا رہا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے.بلا تمیز و تفریق مذہب و ملت عورت.مرد اور بچے بے شمار روزانہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.اور عزیز مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب جو ان دنوں انچارج اور چند نو جوان ان کی زیر قیادت ان خدمات پر مامور ہیں.نہایت توجہ ، ہمدردی اور محبت نرمی سے مفوضہ خدمات بجالا رہے ہیں.جس کے نتیجہ میں رجوع خلق میں روز افزوں ترقی واضافہ نظر آتا ہے.اور اب ڈاکٹر عطرالدین صاحب کے آجانے پر ایک وٹرنری ہسپتال بھی جاری کر دیا گیا ہے.مقبرہ بہشتی کی ہر قبر بلکہ ہر قبر کے ایک ایک کو نہ اور گوشہ میں روشوں اور نالیوں اور پودوں اور درختوں کی جو خدمت اس محصور خلق خدا نے کر دکھائی ہے....قابل رشک ہے.جس کو دیکھ کر میں ششدر ہو گیا.اور مرحبا صد آفرین کی صدا از خود دل کی گہرائیوں سے بلند ہونے لگی.مقبرہ کے گرد چار دیواری جس محنت اور جانفشانی سے ان ہونہاروں نے تیار کی وہ بے مثال ہے.جنوبی جانب، جنوب مشرقی
جلد اوّل 326 تاریخ احمدیت بھارت اور جنوب مغربی دونوں کونوں میں دو کوارٹر دو دو منزلہ بغرض رہائش محافظین بنا کر نہایت ہوشیاری و عقلمندی اور محبت کا مظاہرہ کیا ہے.ان کوارٹروں میں پانچ پانچ نوجوان دن رات رہتے ہیں.اسی طرح مزار سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی چاردیواری کے شمال مشرقی کو نہ پر بھی ایک دو منزلہ کوارٹر بنایا گیا ہے.اور ایک کوٹھڑی جو پہلے سے جنوب مغربی کو نہ چار دیواری کے باہر تھی اس کو بھی بغرض حفاظت دو منزلہ بنا دیا گیا ہے اور آج کل تھیں نوجوان صرف مقبرہ بہشتی کی حفاظت پر مامور ہیں.جو وقار عمل کے وقت دوسرے درویشوں کے ساتھ مل کر بھی کام کرتے ہیں.الغرض...یہ تو ہے ایک مختصر سا خاکہ.سب کچھ کھو کر بھی....اگر خدامل جائے.اس کی رضا حاصل ہو جائے اور حضور کے زیر قیادت و ہدایت یہ راہیں ہمارے لئے آسان ہوتی جائیں اور صبر و استقلال سے تحصیل علوم دینیہ، عبادت و ذکر الہی خدمت خلق اور روحانی ترقیات کے سامان میسر رہیں.نیتیں نیک اور اعمال ہمارے صالح ہوں تو عجب نہیں کہ وہ مقام عالی حضور کے غلاموں کو اس محاصرہ کی حالت اور مشکلات کے دور میں میسر آجائے تو یہ سودا بہت ستا اور مفید ہے.آقا! ہماری جس تبدیلی کے لئے حضور ہمیشہ تحریکیں فرماتے چلے آئے ہیں.اور رات اور دن حضور کے اسی کوشش اور فکر میں گزرتے چلے آئے ہیں.کیا عجب کہ وہ اس قیامت ہی سے وابستہ ہوں اور قضاء وقدر کا قانون خاص ہی حضور کے ان مقاصد کی توفیق جماعت کو عطا فرمادے اور پاک تبدیلی اسی قانون پر منحصر ہو.خدا کرے ایسا ہی ہو.دنیا تو گئی اگر خدامل جائے تو پھر کوئی خسارہ ہے نہ گھاٹا.نوجوانوں کی کایا پلٹ ہو گئی ہے یا کم از کم ہو رہی ہے.خدا کرے کہ اس حرکت میں برکت ہو.اور اس قدم کے اٹھانے میں اللہ تعالیٰ دوڑ کر ہماری طرف آئے.دستگیری فرمائے اور اٹھا کر زمینی سے آسمانی بنادے.میرے آقا قصہ کوتاہ یہ وقت ایک خاص وقت ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ مصلحت الہی اور منشاء ایزدی نے اس انقلاب کے ساتھ جماعت میں اس پاک تبدیلی کو وابستہ کر رکھا ہے جو حضور ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہ وقت ہے جس میں خدا کا قرب پانے کے مواقع میسر ہیں“.(4) حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے درویشان قادیان کی نسبت حسب ذیل
تاریخ احمدیت بھارت 327 جلد اوّل نوٹ سپر د قلم فرمایا:.مکرمی بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اور دوسرے درویشان قادیان کے مضامین سے دوستوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ موجودہ حالات کے نتیجہ میں آج کل قادیان کی زندگی کتنی روحانی فیوض سے معمور ہے گویا کہ اس کے لیل و نہار مجسم روحانی بن چکے ہیں.کیونکہ قادیان میں رہنے والے دوستوں کو دنیا کے دھندوں سے کوئی سروکار نہیں اور ان کی زندگی کا ہرلمحہ روحانی مشاغل کے لئے وقف ہے.قرآن وحدیث کا درس نوافل ، نمازوں اور خصوصاً تہجد کا التزام خشوع و خضوع میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کا پروگرام نفلی روزوں کی برکات اور دن رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت گھر اور بیت الدعا اور مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ اور بہشتی مقبرہ میں ذکر الہی کے مواقع.یہ وہ عظیم الشان نعمتیں ہیں جن سے جماعت کا بیشتر حصہ آجکل محروم ہے اور قادیان کا ماحول ان نعمتوں سے بہترین صورت میں فائدہ اٹھانے کا موقعہ پیش کرتا ہے.(5) درویشی کی ابتداء میں قادیان کے درویشان کا زیادہ وقت ذکر الہی میں گزرتا تھا.چنانچہ اس سلسلہ میں مکرم حکیم چوہدری بدرالدین صاحب عامل درویش مرحوم تحریر کرتے ہیں:.ابتداء درویشی میں درویشوں کی مصروفیات کا لائحہ عمل کچھ یوں تھا.کہ نماز تہجد دونوں مساجد میں باجماعت ادا ہوتی جن افراد کی پہرہ کی ڈیوٹی ہوتی وہ اپنے مقام پر نماز ادا کرتے.پھر فجر کی نماز اور درس حدیث بعد ازاں بہشتی مقبرہ میں دعا اور واپس آکر ناشتہ جولنگر خانہ کی ایک روٹی اور دال پر مشتمل ہوتا.بعد ناشتہ چند افراد کو چھوڑ کر جو دفتری اور تیاری طعام کے کاموں پر مامور تھے.باقی افراد بہشتی مقبرہ کے گرد بنائی ہوئی حفاظتی دیوار کی مرمت کے کام میں لگ جاتے اور نماز ظہر تک و قارعمل کا سلسلہ جاری رہتا.نماز ظہر کے بعد کھانا.عام معمول کا کھانا دال اور روٹی.ایک دو تین چار تک جیسی کسی کو بھوک ہوتی.بعد فراغت تھوڑی دیر آرام ، اس صورت میں پہرہ کا قیام لازمی اور پھر نماز عصر اور بعد نماز عصر حضرت مسیح موعود کی کتب کا درس.نماز مغرب کے بعد رات کا کھانا.پھر نماز عشاء اور نماز کے بعد حاضری.پھر رات کے پہرہ کی تقسیم.اور باقی افراد آرام.رات کو جن افراد کی جس روز پہرہ کی ڈیوٹی نہیں ہوتی تھی.وہ اپنے ذاتی مطالعہ میں مصروف رہتے.“ (6) انہی ابتدائی ایام میں درویشان کے معمولات زندگی بیان کرتے ہوئے محترم مولوی خورشید احمد
جلد اوّل 328 تاریخ احمدیت بھارت صاحب پر بھا کر درویش تحریر کرتے ہیں :.”لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کے سچے عاشقان ، مزار مبارک مہدی علیہ السلام اور دیگر شعائر اللہ قادیان کی خدمت و حفاظت کرنے والے تین سو تیرہ درویشان کا حلقہ بود و باش محدود تھا.جوان دنوں کسٹوڈین کی تحویل میں تھا.مسجد اقصیٰ ، مکان سید ناصر شاہ صاحب اور سیر محلہ اکال گڑھ شمالی کونہ ، باب الانوار، مکان بھائی عبدالرحمن صحابی پر انا لنگر خانہ نمبر 1، کوٹھی عبد المغنی خان صاحب، اراضیات حضرت مصلح موعود موجودہ کالونی تک محله دار الضعفاء، بہشتی مقبره، پل بہشتی مقبرہ، محلہ آرائیاں تا دیوار مسجد اقصیٰ.یہ سہا سہا حلقہ محلہ احمدیہ کہلایا.اسی ایریا میں محمد رسول اللہ صلی یتیم کے نام لیوا عاشق محصور کر دیئے گئے.کر فیولگا رہتا تھا گولیاں چلتی رہتی تھیں.اس حلقہ سے عام سڑکوں سے باہر آنا جانا نہایت خطر ناک تھا.میری رہائش مدرسہ احمدیہ میں تھی اور پہرہ کی ڈیوٹی مکان سید سرور شاہ صاحب سے لے کر کوٹھی عبد المغنی خان تک کے مکانات کے لئے تھی.ان مکانات تک جانے کے لئے چھپ کر جانا پڑتا تھا تب.پرانے دفتر بیت المال سے لیکر مکان سید سرور شاہ صاحب تک ڈھاب کے پانی کو تیر کر پار کرتے تھے بعد میں آبی راستہ پر تار باندھ دیا گیا تھا.اس محلہ کے مکانات کے پچھواڑے کے دروازوں سے آنا جانا ہوا کرتا تھا.ایسا ہی خطرہ کے مد نظر چند بار بہشتی مقبرہ جانے والوں کو ڈھاب کا لمبا آبی راستہ تیر کر پار کرنا پڑتا تھا اس احتیاط کا فائدہ یہ رہا کہ کرفیو میں گشت کرنے والے فوجیوں سے محفوظ رہے.میرے پہرہ کے حلقہ مکانات میں گندم اور چکی تھی.میں چکی چلا کر آٹا دلیا بنالیتا کچھ عرصہ گندم ابال کر بھی کھانی پڑی.....درویشی کے ابتدائی ایام سے کچھ عرصہ تک قادیان کا بیرونی دنیا سے رابطہ کٹا رہا.پہلے بیرونی احمدیہ جماعتیں اپنے چندہ جات قادیان بھجوایا کرتی تھیں.اب یہ سلسلہ قطعی طور پر منقطع تھا.کوئی ذریعہ آمدنی کا نہیں تھا.پیشہ ور صاحب ہنر درویشوں کا کچھ کمانے کے لئے اپنے محصور حلقہ سے باہر جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا.ان حالات میں عام درویشان کو بعد وضع چندہ ساڑھے چار روپے ماہانہ ملا کرتے تھے.لنگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کھانے کے لئے پاکیزہ نان ملا کرتے تھے.صابر و شاکر درویشان کے منہ سے مالی تنگی کا کبھی کوئی کلمہ نہیں نکلا.مہمان خانہ کے درمیانے فیملی کوارٹر میں نلکا تھا.درویش باری باری اس کوارٹر میں جمع ہوتے.
تاریخ احمدیت بھارت 329 جلد اوّل نلکا کے پانی سے ایک ٹکیا صابن سے کپڑے دھولیا کرتے تھے.اور ایک دوسرے کے بال تراشتے ، حجامت بنا لیتے تھے.خاکسار بھی ان میں شامل تھا.یہی ہماری بسر اوقات تھی.(7) درویشان قادیان اور ان کی تنظیم آخری کنوائے چلے جانے کے بعد قادیان میں حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ فاضل امیر مقامی تھے.اور قریباً تین سو تیرہ جاں نثار اور کفن بر دوش احمدی نوجوان اور بزرگ آپ کے ساتھ قادیان میں تھے.اور انہوں نے یہ عزم کیا ہوا تھا کہ بہر حال مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے اپنی جان ، مال اور عزت و آبرو تک قربان کر دیں گے مگر مرکز احمدیت پر آنچ نہ آنے دیں گے.ان خوش نصیبوں نے جن کو خدا تعالیٰ نے مسیح وقت کی تخت گاہ کی نگہبانی کے لئے چنا میسیج محمدی کے الہام "یہ ( نان ) تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے (8) کے مطابق درویش کا قابل فخر خطاب پایا.قادیان میں ٹھہرنے والے درویشوں میں 221 نوجوان 57 درمیانی عمر کے اور 35 بوڑھے احباب تھے.جن میں گیارہ صحابہ حضرت مسیح موعود کا پاک اور قدوسی گروہ بھی شامل تھا.(9) تاریخ احمدیت میں درج ہے کہ قادیان کے مقامی احمدی درویشوں کو ان کے انتخاب کی اطلاع قبل ازیں یکم نومبر 1947ء کو بذریعہ کارڈ دی گئی تھی.جو امیر جماعت احمدیہ قادیان مولانا جلال الدین صاحب شمس کے دستخطوں سے جاری کیا گیا.اور جس پر یہ عبارت درج تھی:.وو درویش نمبر....نام.........مبارک ہو کہ آپ کو اگلے دو ماہ کے لئے قادیان.میں ٹھہر نے کے لئے منتخب کیا گیا ہے امید ہے.آپ امن اور صلح سے رہیں گے اور اپنے ساتھیوں سے تعاون کریں گے.خود تکلیف اٹھائیں گے مگر ساتھیوں کو تکلیف نہ ہونے دیں گے.“ اور درویشان سے حسب ذیل عہد لیا گیا:.ہم احمدی.......جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں.خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم تا حکم ثانی ( جو انشاء اللہ تعالیٰ موجودہ فیصلہ کے مطابق دو ماہ تک ہوگا ) قادیان کو نہیں چھوڑیں گے.امن اور صلح سے رہیں گے ایک دوسرے سے تعاون کریں گے.اور ہم میں سے جو آفیسر ہیں وہ خود تکلیف اٹھائیں گے لیکن دوسروں کو تکلیف نہ ہونے دیں گے.“ (10)
جلد اوّل 330 تاریخ احمدیت بھارت درویشان کی نظم ونسق کے اعتبار سے تقسیم تاریخ احمدیت میں درج ہے کہ ابتدائی مرحلہ پر جملہ درویش نظم ونسق کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کئے گئے.1- پہلے نگران ولی حفاظت مرکز کے مستقل خدام جن کے پہلے نگر ان کیپٹن شیر ولی صاحب تھے.درویشان نمبر (1) کے نام سے موسوم کئے گئے.-2 درویشان نمبر (2 ) میں قادیان کے مقامی احمدی احباب شامل تھے جن کے نگران مرزا محمد حیات صاحب مقرر کئے گئے.-3 بیرونی خدام کو درویشان نمبر (3) قرار دیا گیا اور انکی نگرانی کی خدمت چوہدری سعید احمد صاحب بی.اے آنرز کو سونپی گئی.(11) درویشان بمطابق نمبر 2 ( مقامی درویشان کرام ) کی تنظیم یہاں درویشان نمبر 2 یعنی قادیان کے مقامی درویشان کی تنظیم کے بارے میں بیان کرنا مناسب ہوگا.جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ درویشان نمبر 2 کے نگران مرزا محمد حیات صاحب درویش تھے جنہوں نے صوفی عبد القدیر صاحب درویش (ابن مولوی عبد الحق صاحب بد و ملهوی حلقه مسجد فضل قادیان) کو اپنا نائب اور خواجہ عبد الکریم صاحب خالد درویش ( ابن خواجہ عبد الواحد صاحب دار الفضل قادیان ) اور ضیاءالدین احمد صاحب درویش ابن) میاں روشن دین صاحب زرگر حلقه مسجد فضل قادیان) کو معاون نگران مقرر کیا.علاوہ ازیں احمدیہ محلہ کے پورے حلقہ کو تین بلاک میں تقسیم کر دیا گیا.جس کے بلاک لیڈر بالترتیب 1 - مجید احمد صاحب درویش ولد غلام حسین صاحب ساکن باب الانوار قادیان 2 شیخ محمود احمد صاحب درویش ولد شیخ اللہ بخش صاحب ساکن دار الرحمت قادیان اور 3.سید محمد اجمل صاحب در ویش ولد سید محمد افضل شاہ صاحب ساکن مسجد فضل قادیان تجویز کئے گئے.ہر ایک بلاک کے ماتحت تین تین حزب بنائے گئے جن کی تفصیل مع اسماء سائفین درج ذیل ہے:.حزب نمبر 1 - سائق مکرم مرز اظہیر الدین منور احمد صاحب درویش.حزب نمبر 2 - سائق مکرم بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار بھٹہ درویش.
تاریخ احمدیت بھارت 331 جلد اول حزب نمبر 3 سائق مکرم جلال الدین صاحب ننگلوی درویش.حزب نمبر 4 سائق مکرم امیر الدین صاحب درویش.حزب نمبر 5 سائق مکرم ممتاز احمد صاحب ہاشمی درویش.حزب نمبر 6 سائق مکرم عبدالرشید صاحب بدوملہوی درویش.حزب نمبر 7 - سائق مکرم مولوی غلام احمد صاحب ارشد درویش.حزب نمبر 8 - سائق مکرم سعید احمد صاحب درویش ولد عبدالکریم صاحب.حزب نمبر 9 - سائق مکرم شیر محمد صاحب دکاندار درویش.ہر حزب کم از کم 9 اور زیادہ سے زیادہ 13 درویشوں پر مشتمل تھا اور اسے مختلف مکانات میں متعین کیا گیا.اور ان کا فرض قرار دیا گیا کہ وہ مکانات کو کسی صورت میں نہ چھوڑے.اور کسی غیر شخص کو اپنی حدود میں داخل نہ ہونے دیں.یہ تمام مکانات جن میں درویشوں کو رکھا گیا.بیرونی حد بندی پر واقع تھے.اندرونی مکانات درویشوں کی کمی کے باعث خالی رہے.اور درویشوں کو تاکید کی گئی کہ لوگوں کا کافی مال و اسباب ضائع ہو چکا ہے.اگر کسی دوست کا سامان وہاں پر ہو تو اس کی حفاظت کریں اور نظارت امور عامہ کے مقرر کردہ سٹور کیپر صاحب کو سامان لے جانے سے نہ روکیں.حزب نمبر 1 کے سپر دمندرجہ ذیل مکانات کئے گئے :.-1- مکان مکرم حافظ فیض اللہ صاحب -2 -3 مکان مکرم با بووز یر خان صاحب مکان حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی 4 مکان مکرم قاری غلام ثم صاحب مکان مکرم لال دین صاحب ٹیلر ماسٹر حزب نمبر 2 کومندرجہ ذیل مکانات میں متعین کیا گیا.-5 1 مکان مکرم مرز امحمد یعقوب صاحب 2.مکان مکرم سید سردار حسین صاحب مکان مکرم حضرت مفتی محمد صادق صاحب
جلد اوّل 332 -4 مکان مکرم با بوعبد الحمید صاحب مکان مکرم سید محمد اجمل صاحب -5 حزب نمبر 3 کے سپر دمندرجہ ذیل مکانات کئے گئے :.مکان مکرم مولوی عبد المغنی خان صاحب 2 مکان مکرم ممتاز علی خان صاحب مکان مکرم حافظ فیض اللہ صاحب مکان مکرم حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب -3 -4 -5 -1 -2 3 4 5 -4 مکان مکرم نیک محمد خان صاحب پٹھان حزب نمبر 4 کے سپر دمندرجہ ذیل مکانات کئے گئے :.مکان مکرم محمد حسین صاحب ڈپو ہولڈر مکان مکرم عبداللہ صاحب بوڑی مکان مکرم حاجی جنود اللہ صاحب مکان مکرم مولوی ابراہیم احمد صاحب قادیانی مکان مکرم نذیر احمد صاحب ڈیری فارم حزب نمبر 5 کے سپر دمندرجہ ذیل مکانات کئے گئے :.1 مکان مکرم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی -2 مکان مکرم چوہدری محمد شفیع صاحب ایس.ڈی.او -3 مکان مکرم مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا -4 مکان مکرم ڈاکٹر فضل کریم صاحب 5- دفتر الفضل ( مکان مکرم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب) 6 مکان مکرم منشی احمد حسین صاحب کا تب -7 -8 مکان مکرم مددخان صاحب مکان مکرم عبداللہ صاحب حجام تاریخ احمدیت بھارت
تاریخ احمدیت بھارت 333 جلد اول -1 -2 -3 -4 -1 حزب نمبر 6 کے سپر دمندرجہ ذیل مکانات کئے گئے :.مکان مکرم صوفی عبدالقدیر صاحب بد و ملہوی مکان بیوہ مکرم محمد امین صاحب پٹھان مکان مکرم عبدالرحمن صاحب مکان مکرم مولوی محمد عبد اللہ صاحب اعجاز حزب نمبر 7 کے سپر دمندرجہ ذیل مکانات کئے گئے :- مکان مکرم مرز امحمد حیات صاحب 2 - مکان مکرم منشی عبدالکریم صاحب مکان مکرم شیخ محمد نصیب صاحب -4 مکان مکرم فضل الہی خان صاحب حزب نمبر 8 کو محلہ ناصر آباد میں متعین کیا گیا.حزب نمبر 9 میں چونکہ اکثر احباب عمر رسیدہ تھے اس لئے ان کے ذمہ صرف صبح کی ڈیوٹی گیٹ پر مقرر کی گئی اور رات کو اسٹور میں سونے کی ڈیوٹی بھی ان کے سپرد کی گئی.نیز مریضوں کی خبر گیری کا کام بھی انہیں کے فرائض میں سے تھا.(12) درویشان کا محلہ احمدیہ میں محدود ہونا جب 1947ء میں تقسیم کے وقت جماعت احمدیہ نے قادیان سے ہجرت کی اس وقت اس شہر کی تقریباً 85 فیصد آبادی جماعت احمدیہ کے افراد پر مشتمل تھی.ان کے خوبصورت مکانات اور کوٹھیاں تھیں.لیکن حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاملے کے مطابق قادیان شہر کے اکثر مکانات اور ایک بڑا رقبہ ان غیر مسلم مہاجرین کے سپرد کر دیا گیا جو کہ پاکستان سے ہجرت کر کے قادیان آئے تھے.اور درویشوں نے اپنے پاس صرف 198 مکانات رکھے جبکہ ان کی تعداد 313 ( تین سو تیرہ) افراد پر مستمل تھی اور جلد انکی فیملیاں واپس آنے والی تھیں اور بالفعل چند ہی سالوں میں ان کے اہل وعیال ان مکانوں
جلد اوّل 334 تاریخ احمدیت بھارت میں جمع ہو گئے.ان غیر مسلم مہاجرین کو بسانے اور آباد کرنے میں ان درویشان کرام نے ہر طرح سے تعاون کیا.اور ان کو یہ احساس دلوایا کہ حکومتوں کے معاملات اپنی جگہ ہیں کیونکہ آپ لوگ بھی ہماری طرح مظلوم ہیں آپ سے ہماری کوئی دشمنی اور رنجش نہیں ہے.آپ کو بسانے اور آباد کرنے میں ہماری جو مدد مطلوب ہو ہم اس کے لئے حاضر ہیں.اور درویشان کرام کا یہ نمونہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل تعلیمات کے عین مطابق تھا.حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:.”ہمارا یہ اصول ہے کہ کل بنی نوع کی ہمدردی کرو.اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندوکو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کوکوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کو چھڑانے کے لئے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم سے نہیں ہے“.(13) نیز ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں کہ:.میں تمام مسلمانوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں.جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور نا انصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اصول“.(14) درویشان کرام نے اپنے پاس صرف 198 مکانات محلہ احمدیہ میں رکھے جبکہ ان کی تعداد 31 تھی.اس طرح دیکھا جائے تو درویشان کرام سکونت کے لحاظ سے محلہ احمد یہ تک محدود ہو گئے.اور اپنے ہندو اور سکھ مہاجر بھائیوں کی مظلومیت کو دیکھتے ہوئے درویشان کرام نے شہر کا اکثر حصہ ان کے حوالے کر دیا.اور نہ صرف مکانات ان کو دئے بلکہ گھر یلو اسباب اور سامان چار پائیاں اور برتن حتی کہ اناج بھی ان کو فراہم کیا.اسی وجہ سے بہت جلد ان سے تعلقات بہتر ہو گئے.اور ان کی اکثریت اچھے ہمسایہ اور شہریوں کی طرح احمدی احباب کے ساتھ گزر بسر کرنے لگی.313
تاریخ احمدیت بھارت 335 ایک حملہ کی سازش اور خدائی رعب جلد اول ہر مذہب اور ہر علاقے میں کچھ نہ کچھ شر پسند عناصر ہوتے ہیں.جو فتنہ پیدا کرتے رہتے ہیں.ان عناصر سے قادیان اور گردونواح کے دیہات بھی خالی نہ تھے.بعض شر پسند عناصر تو اس حد تک دشمنی اور عناد میں بڑھے ہوئے تھے کہ انکی یہ کوشش تھی کہ ان 313 افراد کو بھی قادیان سے نکال کر محلہ احمدیہ اور مقدس مقامات پر قبضہ کر لیا جائے.آخری قافلہ جو کہ 16 نومبر 1947ء کو روانہ ہوا تھا.اس کی روانگی پر ابھی گیارہ دن ہی گزرے تھے کہ مورخہ 27 نومبر 1947ء کو شر پسند عناصر نے عوام الناس کے جذبات کو اس حد تک انگیخت کیا کہ ہزاروں افراد محلہ احمدیہ کی طرف جلوس کی شکل میں آگئے.شام چار بجے کے قریب یہ جلوس احمد یہ چوک پہنچا.وہاں سرکاری حکام و فوج اور پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا.اس پر شر پسند عناصر نے احمد یہ چوک میں کھڑے ہو کر اشتعال انگیز تقریریں کرنی شروع کر دیں.اور ایسے اشعار اور نظمیں پڑھی گئیں جس سے عوام الناس مزید مشتعل ہو گئے.انہوں نے تلوار میں لہرا لہرا کر پبلک کو آگے بڑھنے کی تحریک کی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے ان کو آگے بڑھنے نہیں دیا.اور صرف ان کے دلوں میں ایک ایسا خوف اور رعب پیدا کیا کہ وہ ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا سکے.اور وہاں کچھ دیر تقریریں کرنے کے بعد آہستہ آہستہ منتشر ہو گئے.قادیان کے گردونواح کے غیر احمدی مسلمانوں کی محلہ احمد یہ میں آمد جب تقسیم ملک کا اعلان ہوا اور فسادات شروع ہو گئے قادیان کے قرب و جوار سے غیر احمدی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اپنی املاک کو خیر باد کہہ کر جان بچانے کے لئے قادیان آگئی.ان کی تعداد بعض اوقات پچاس ہزار سے بھی تجاوز کر جاتی اور جماعت احمد یہ حتی الامکان ان کو پر امن اور محفوظ طریق سے پاکستان پہنچانے کے انتظامات کر دیتی.ان کی اکثریت اتنی خوف زدہ تھی کہ وہ مزید قادیان میں ٹھہر کر انتظار کرنانہیں چاہتی تھی اور خود ہی پیدل پاکستان کی سرحد کی طرف روانہ ہو جاتی.عینی شاہدین کا بیان ہے کہ ان میں سے دس فیصد پاکستان پہنچتے 90 فیصد راستے میں ہی موت کے گھاٹ اتار دئے جاتے.
جلد اوّل 336 تاریخ احمدیت بھارت نوجوان لڑکیاں اغوا کر لی جاتیں.بوڑھے اور معذور اور بیمار مرد اور عورتیں راستے میں ہی چھوڑ دیئے جاتے جو وہاں ہی دم توڑ دیتے.ان جانے والوں کے پاس جو تھوڑا بہت زیور ہوتا.وہ بھی زبر دستی چھین لیا جاتا.اور جو اسباب یا دودھ دینے والے جانور ہوتے اسے بھی شر پسند عناصر چھین لیتے.ان کی تکالیف کا ذکر گزشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے.بہر حال یہ مظلوم جتنے دن قادیان میں قیام کرتے جماعت احمد یہ ایسے مخدوش حالات اور اپنی کسمپرسی کے باوجود اپنے محدود وسائل کے مطابق ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتی.16 نومبر 1947ء کو آخری قافلہ روانہ ہونے کے بعد بھی ان مظلوموں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا.کھانے پینے کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ اتنی بڑی تعداد کے لئے محلہ احمدیہ میں بیت الخلاء کا انتظام نہ ہو نیکی وجہ سے جگہ جگہ غلاظت پیدا ہونے کا تھا.درویشان کرام خود وقار عمل کر کے صفائی کا بھی کام کرتے.چنانچہ 19 دسمبر 1947ء کو درویشان کرام نے دفتر امور عامہ کے جنوبی جانب اجتماعی وقار عمل کیا.اور گڑھے کھود کر گندگی اور غلاظت کو دبایا.ایک بزرگ درویش نے بتایا کہ اکثر درویش بڑے اور اوسط درجے کے زمیندار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے جن کے گھروں میں روز مرہ کے گھریلو کاموں اور صفائی کے لئے مرد اور عورتیں بطور ملازم مقرر تھیں.ان درویشوں نے اپنی زندگی میں کبھی ایسے کام نہ کئے تھے لیکن جب انہیں گندگی متعفن بول و براز کی غلاظت اٹھا کر گڑھوں میں دبانے کے لئے کہا گیا تو اکثر بلا توقف یہ کام کرنے لگے.مگر کچھ ایسے بھی تھے جو اپنی طبائع اور حساس مزاج کی وجہ سے کراہت محسوس کرنے لگے ایسے درویشوں کو کسی نے نصیحتنا کہا ہمارے آقا سید نا حضرت محمد مصطفی سنا تم نے بھی مہمانوں کی غلاظت صاف کی تھی اتنا سننا تھا کہ ان درویشوں نے اپنے ناک پر کپڑا باندھ کر وقار عمل شروع کر دیا.آج مسلمان کہلانے والے مخالفین احمدیت جو چاہیں کہہ لیں.مگر ان خطر ناک حالات میں غیر احمدی مسلمانوں کی بے لوث خدمت کرنے والی اگر کوئی جماعت تھی تو وہ حضرت مسیح موعود کی تربیت یافتہ جماعت تھی جنہوں نے بیعت کے وقت یہ عہدد ہرایا تھا:.یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہ دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.“
تاریخ احمدیت بھارت 337 جلد اول یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض الله مشغول رہے گا.اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا“.(15) شرائط بیعت میں سے ان دو شرائط کو درویشان کرام نے اپنے عمل سے پورا کیا.مظلوم مسلمانوں کی اپنے آپ کو خطرات میں ڈال کر حتی الامکان مدد کی.خود بھوکے رہے پر ان مظلومین کو جو میسر تھا کھانے کے لئے دیا.ان میں سے کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا کہ احمدیوں نے ان کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا.قرآن مجید اور دینی کتب کا تحفظ جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا جا چکا ہے کہ قادیان میں محلہ احمدیہ کے علاوہ باقی محلہ جات احمدی آبادی سے خالی ہو گئے تھے.اور جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ ہر احمدی گھرانے میں قرآن مجید اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی کتب موجود ہوتی ہیں.چنانچہ محلہ جات کے مکانوں میں بھی دینی کتب وافر تعداد میں موجود تھیں.درویشان کرام نے حتی المقدور ان کتب کو جمع کیا.اور اسے احمد یہ مرکزی لائبریری جو کہ قصر خلافت میں قائم کی گئی تھی پہنچایا.بعد میں ان کتب میں سے درویشان کرام کو بھی مطالعہ کے لئے دی گئیں.لیکن یہ بھی ایک المیہ تھا کہ بعض شر پسند عناصر نے قرآن مجید اور مقدس کتب کو پھاڑ کر کھیتوں یا راستوں میں پھینک دیا.درویشان کرام نے انہیں بھی سپر دآتش کر کے دفن کر دیا.مؤرخہ 23 دسمبر 1947 ء کو مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی نے مولوی برکات احمد صاحب را جیکی ناظر امور عامہ، ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے مؤلف اصحاب احمد.فضل الہی خان صاحب.اور 9 درویشوں کو ساتھ لے کر دار العلوم اور دار الفضل میں قرآن مجید کے جو مقدس اوراق تھے مسجد نور اور دارالفضل کے کھیتوں میں شر پسند عناصر نے نہایت بے دردی سے بکھیر دیئے تھے.نذر آتش کر کے دفن کر دیئے.‘ (16) درویشان قادیان کے لیل و نہار ان اولین ایام میں جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا جا چکا ہے درویشان قادیان کے لیل و نہار خاص طور پر باجماعت تہجد ، پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی ، درس میں شمولیت ،مسجد اقصیٰ ، بیت الدعا اور بہشتی مقبره نیز
جلد اوّل 338 تاریخ احمدیت بھارت دوسرے مقامات مقدسہ میں دعاؤں اور ذکر الہی کے انوار و برکات سے معمور تھے.اور ہر درویش حفاظت مرکز سے متعلق ہر چھوٹی اور بڑی مفوضہ ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے مجسم اطاعت و ایثار بنا ہوا تھا.محصوریت کے یہ ایام انتہائی درجہ گھٹن اور بے بسی کے روح فرسا ماحول میں گھیرے ہوئے تھے مگر یہ قدوسی پوری بشاشت ایمان اور جذبہ اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض بجالاتے اور اس سلسلے میں کسی کام کو خواہ وہ بظاہر کتنا ہی معمولی یا حقیر کیوں نہ ہو خادمانہ شان کے ساتھ انجام تک پہنچانے کو اپنے لئے بہت بڑی سعادت سمجھتے تھے.چنانچہ جیسا کہ مرزا محمد حیات صاحب سابق نگران درویشان ( حال سیالکوٹ ) کی غیر مطبوعہ ڈائری سے معلوم ہوتا ہے درویشوں نے ان ابتدائی ایام میں دن رات کام کیا.مثلاً در ویش لنگر خانہ میں سامان پہنچاتے ، مہاجر احمدیوں کے گھر سے اسباب بحفاظت جمع کرتے ، بہشتی مقبرہ میں معماری کا کام کرتے ، بیرونی محلوں سے جمع شدہ کتابوں کو مرتب اور مجتہد کرتے اور اپنے حلقہ دور بیشی کے ہراہم مقام پر نہایت با قاعدگی اور ذمہ داری کے ساتھ پہرہ دیتے تھے.درویشوں کی روزانہ ایک معین وقت پر اجتماعی حاضری بھی لی جاتی تھی.احمدی حلقہ کے چاروں طرف غیر مسلم آباد ہو چکے تھے اور حکومت اور عوام دونوں طرف سے خطرات ہی خطرات نظر آتے تھے ان حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے مرزا صاحب لکھتے ہیں:.22 نومبر (1947ء) کو حفاظتی نقطہ نگاہ سے دار الشیوخ والی گلی کا دروازہ اور بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کے مکان کے سامنے والی گلی اور دروازہ اینٹوں سے اور احمد یہ چوک سے مسجد مبارک جانے کا راستہ لوہے کا گیٹ لگا کر بند کر دیا گیا اور تمام آمد و رفت دفتر تحریک جدید ، مرزا محمد اسمعیل صاحب کے مکان اور میاں عبد الرحیم صاحب دیانت سوڈا واٹر کی دکان سے ہونے لگی.23 نومبر (1947ء) کو نو (9) درویش ہندؤوں اور سکھوں کی آبادی میں سے ہوتے ہوئے اسٹیشن تک گئے اور لنگر کے لئے ایک سو بیس من کوئلہ لاد کر لائے.27 نومبر (1947ء) کو....( شر پسندوں) کا پروگرام جلوس نکالنے کا تھا اس لئے تمام درویشوں کو ان کے مکانات میں ہی متعین کر دیا گیا.اسی اثنا میں ایک درویش با با جلال الدین صاحب اپنے مکان سے باہر نکلے تو ملٹری کے ایک سپاہی نے انہیں دو تین تھپڑ رسید کئے اور کہا کہ باہر کیوں نکلے ہو؟ شام چار بجے کے قریب یہ جلوس چوک میں پہنچا.اس موقعہ پر انتہائی اشتعال انگیز نظمیں پڑھی
تاریخ احمدیت بھارت 339 جلد اول گئیں.ایک....( شرپسند ) نے ہاتھ میں برہنہ تلوار لے کر کہا کہ یہ اسی تلوار کا اثر ہے کہ یہاں پاکستان نہیں بن سکا.یکم دسمبر (1947ء) کو بیمار اور معذور درویشوں کے سوا سب نے حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کی تعمیل میں روزہ رکھا.5 دسمبر (1947) کو مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی نے نماز فجر کے بعد بہشتی مقبرہ کی چاردیواری کے شمال مشرقی کو نہ پر ایک کمرے کی بنیاد رکھی جو درویشوں کے تعاون سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچ گیا.9 دسمبر (1947ء) کو درویشوں نے دفتر امور عامہ کے جنوبی جانب اجتماعی وقار عمل کیا.اس جگہ دو تین ہزار مسلمان پناہ گزین ہو گئے تھے جن کے فضلے سے بہت سڑاند پھیل گئی تھی.درویشوں نے اپنے ہاتھ سے اس جگہ صفائی کی اور گڑھوں کو مٹی سے پر کر دیا.23 دسمبر (1947ء) کو مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی نے مولوی برکات احمد صاحب راجیکی ناظر امور عامہ، ملک صلاح الدین صاحب ایم اے فضل الہی خان صاحب اور 9 دیگر درویشوں نے نور ہسپتال کے سامنے بیت البرکات کی دیوار پر مندرجہ ذیل فقرات لکھے ہوئے دیکھے" مسلمانوں سے بچ کر رہو' قادیان کے ہندو! قادیان سے خبر دار ہو اور مسلمان کا ناس کرو“ 13 دسمبر (1947ء) کو کیپٹن شیر ولی صاحب نگران حفاظت قادیان کی تحریک پر بہشتی مقبرہ کے ارد گرد دیوار کی تعمیر کا پہلا مرحلہ شروع کیا گیا.درویشوں نے اس کچی دیوار کومکمل کرنے میں از حد جوش وخروش کا مظاہرہ کیا.یہ دیوار کئی برس تک قائم رہی بعد ازاں اس جگہ پختہ دیوار تعمیر کر لی گئی.اس طرح بہشتی مقبرہ اور اس سے متصل بڑا باغ بھی (جو سلسلہ کی عظیم تاریخی روایات کا حامل ہے) غیروں کی دست برد سے محفوظ ہو گیا.(17)
جلد اوّل 340 تاریخ احمدیت بھارت صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی جانب سے قادیان کے انتظامی امور سے متعلق اہم خطوط حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے انہی ایام میں مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی قادیان اور جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے کو متعدد خطوط تحریر فرمائے.یہ خطوط اصحاب احمد جلد دوم (مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ) میں محفوظ ہیں.ان خطوط سے دور درویشی کے ابتدائی ایام کے احوال و کوائف پر نظر ڈالی جاسکتی ہے اور یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان پر خطر ایام میں دیار حبیب میں بیٹھے درویشان کرام کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا.اور بدلتے ہوئے حالات میں انہیں کیا کیا نئے مسائل پیش آرہے تھے ؟ اور وہ کس طرح اپنی جان اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے حفاظت مرکز کا فریضہ بجالانے کے علاوہ دوسری اہم دینی خدمات انجام دے رہے تھے.ذیل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے بعض خطوط کے چند اقتباسات بطور نمونہ درج کئے جاتے ہیں جو تاریخ احمدیت سے اخذ کئے گئے ہیں: 1- خط بنام مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ امیر جماعت احمد یہ قادیان " آپ نے اپنے متفرق خطوط میں چار اغوا شدہ (مسلمان ) عورتوں کا ذکر کیا ہے جو واپس ہوکر آپ کے پاس پہنچ چکی ہیں.مگر اعلان اور تلاش ورثاء کے لئے آپ نے پورے کوائف درج نہیں کئے.مہربانی کر کے ایک نقشہ کی صورت میں اطلاع دیں کہ ان عورتوں کے نام اور ولدیت یا زوجیت اور عمر اور اصل سکونت وغیرہ کیا ہے تا کہ ورثاء کی تلاش میں مددمل سکے.یہ رپورٹ ایک نقشہ کی صورت میں بنا کر بھجوا دیں.( 16 دسمبر 1947ء) (18) 2 خط بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے آپ نے لکھا ہے کہ بہشتی مقبرہ کی دیواروں اور کمرے کی تعمیر کا کام کرایا جا رہا ہے.اور یہ کہ اس غرض کے لئے وہ اینٹیں لی گئی ہیں جو ڈاکٹر حاجی خان صاحب کے مکان کے پاس ہمارے مشتر کہ حساب کی لکھی ہوئی تھیں.الحمد للہ اس سے بہتر مصرف ان اینٹوں کا کیا ہوسکتا ہے مگر آپ مجھے بواپسی مطلع فرمائیں کہ
تاریخ احمدیت بھارت 341 جلد اوّل بہشتی مقبرہ ( میں ) کو نس تعمیری کام ہورہا ہے.اور بہتر ہوگا کہ دیوار اور کمرے کا جائے وقوع ایک سرسری نقشہ کی صورت میں تیار کر کے بھجوائیں.اس تعمیر کی وجہ سے آپ کا وقار عمل تو خوب ہورہا ہوگا“.ย قادیان کی ایک رپورٹ میں یہ ذکر تھا کہ بڑا باغ بھی....(غیر مسلموں) کے قبضہ میں ہے اس سے فکر ہوا.کیونکہ بڑا باغ حضرت اماں جان والا پرانا باغ کہلاتا ہے.اور وہ اس رقبہ میں شامل ہے جس پر ہم اپنا قبضہ سمجھتے رہے ہیں اور قادیان میں حکام کو جو نقشہ دیا گیا تھا.اس میں بڑا باغ ہمارے قبضہ میں دکھایا گیا تھا.علاوہ ازیں یہ باغ حلقہ مسجد مبارک اور بہشتی مقبرہ کے درمیان واقع ہے اور اگر اس پر دوسروں کا قبضہ ہو تو بہشتی مقبرہ اور ہمارے آدمیوں کی آمد و رفت دونوں خطرہ میں پڑ سکتے ہیں آپ اس کے متعلق بواپسی جواب دیں.اور اگر وہ خدانخواستہ قبضہ سے نکل چکا ہو تو اس کے متعلق پروٹسٹ کر کے دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کریں.(19) آپ نے کاشت کے واسطے بیلوں کی جوڑی وغیرہ کے لئے لکھا ہے.آپ زمین کا انتظام کریں پھر یہ انتظام بھی انشاء اللہ ہو جائے گا.مگر زمین ایسی حاصل کرنی چاہیے جو ہماری مقبوضہ آبادی سے ملتی ہوتا کہ آنے جانے اور نگرانی میں آسانی رہے اور امن شکنی کا خطرہ بھی نہ ہو.دارالانوار میں میرا کنواں اور ساتھ والی میاں رشید احمد کی زمین اور دوسرے ملحقہ قطعات اس غرض کے لئے اچھے ہیں.چاہ جھلا روالا بھی اچھا ہے مگر اس میں اتنا نقص ہے کہ اس کے کھیت ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مخلوط ہیں.اراضی تکیہ مرزا کمال الدین مناسب نہیں کیونکہ وہ بالکل ایک طرف نظروں سے اوجھل ہے اور ایسی جگہ میں فساد کا زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے.آپ زمین کے زیادہ اچھا ہونے کا خیال نہ کریں بلکہ آنے جانے کی سہولت اور انتظامی سہولت کے پہلو کو مقدم رکھیں“.(20) مولوی عبد الرحمن صاحب نے لکھا کہ قادیان میں کوئی ایندھن کا ٹال نہیں ہے.یہ کام آپ آسانی سے قادیان میں کرا سکتے ہیں کسی احمدی کو کہہ دیا جائے کہ وہ محمد دین حجام والی زمین متصل مکان بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی میں ٹال کھول دے یا احمد یہ چوک کے کسی حصہ میں کھول دیا جائے.(21) میں نے آپ کے حسب منشاء قادیان میں احمدی دوستوں کی خیریت کا اعلان الفضل میں کرا دیا تھا.آئندہ بھی گاہے گا ہے کروا دیا جائے گا.
جلد اوّل 342 تاریخ احمدیت بھارت میں نے آپ کی تجویز کے مطابق ڈاک خانہ اور ٹیلی فون گھر کے کرایہ کے متعلق گورداسپور چٹھی لکھ دی ہے مگر پوسٹ ماسٹر کی بجائے سپر نٹنڈنٹ کو لکھی ہے معلوم نہیں آپ نے پوسٹ ماسٹر کا نام کیوں تجویز کیا تھا.(22) مولوی عبد الرحمن صاحب نے اغوا شدہ عورتوں میں سے جو قادیان واپس آگئی ہیں ان کے متعلق اعلان کرنے کے بارہ میں لکھا تھا مگر ابھی تک ایسی عورتوں کی مکمل فہرست مجھے نہیں ملی جس میں نام و پستہ وزوجیت و عمر وغیرہ کے کوائف درج ہوں.آپ ایسا نقشہ بنا کر بھیج دیں تو انشاء اللہ اعلان وغیرہ کے ذریعہ ہر ممکن کوشش کی جائے گی“.(موصولہ قادیان 20 /دسمبر 1947ء)(23) -3 خط بنام مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی قادیان ” آپ نے لکھا ہے یا شاید ملک صاحب ( ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے) نے لکھا تھا کہ حکومت نے چھینی ہوئی موٹروں کا ٹیکس مانگا ہے.آپ کو اس کا یہ جواب دینا چاہئیے کہ موٹر میں ہمیں واپس دے دی جائیں ہم بڑی خوشی سے ان کا ٹیکس ادا کر دیں گے.یا کم از کم ہمیں تسلی کرا دی جائے کہ وہ عنقریب واپس کر دی جائیں گی تو پھر بھی ہم ان کا ٹیکس ادا کر دیں گے“.(24) ”اس کے علاوہ جو موٹریں قادیان میں حکومت کے افسروں نے ہم سے لے لی ہوئی ہیں ان کے متعلق درخواست دینی چاہئیے کہ اب جبکہ ہنگامی حالات بدل چکے ہیں تو مہربانی کر کے ہمیں موٹریں واپس دلائی جائیں.جتنی موٹریں یا ٹرک چھینے گئے ہوں خواہ وہ انجمن کے ہوں یا احمدی افراد کے ان کے متعلق مطالبہ ہونا چاہیئے.مگر فہرست احتیاط سے بنائی جائے تا کہ مالکوں کے نام اور موٹروں کی قسم اور نمبر میں غلطی نہ لگے.یہ خیال رہے کہ جو کمانڈ کار فیض اللہ چک کے پاس پکڑی گئی تھی وہ کیپٹن عبداللہ باجوہ کی تھی اور انہی کے نام پر مطالبہ ہونا چاہیے.اسی طرح ایک یا دو موٹر سائیکل بھی ضبط شدہ ہیں انہیں بھی اپنے مطالبہ میں شامل کر لیا جائے“.(18 /دسمبر 1947ء)(25) -4 خط بنام مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی قادیان اس سوال کا جواب کہ صدر انجمن احمد یہ قادیان کے ممبروں کے متعلق مشرقی پنجاب کے رجسٹرار کو اطلاع دینے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ ناظر اعلیٰ لاہور سے پوچھ کر بھجوا ؤں گا.عموماً ایسی اطلاع ہر
تاریخ احمدیت بھارت 343 جلداول سال کے شروع میں دی جاتی ہے.پس وسط جنوری کے قریب ایسی اطلاع دینی کافی ہوگی اور قاضی عبدالرحمن صاحب سے کہہ دوں گا کہ وہ عبارت بنا کر آپ کو بھجوا دیں.آپ نے خط نہ پہنچنے کی شکایت کی ہے مگر جب سے مجھے علم ہوا ہے کہ ڈاک کھل گئی ہے میں بالعموم روزانہ خط لکھتا ہوں مگر لازما یہ خط پانچ پانچ چھ چھ دن میں پہنچتے ہیں.امید ہے اب تک آپ کو خط مل چکے ہوں گے.لاری یا ٹرک بھجوانے کی ہمیں خود فکر ہے اور اس کے متعلق مسلسل کوشش کی جا رہی ہے.لیکن بعض روکیں ہیں.آپ بالکل یہ خیال نہ کریں کہ ہم اس کی طرف سے غافل ہیں.دراصل اس کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں.اول موٹروں کا ملنا جو اس وقت گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہیں.دوسرے گورنمنٹ کی اجازت کا ملنا اور تیسرے فوجی اسکورٹ کا ملنا.جو دوا پس شدہ مسلمان عورتیں آپ کے پاس پہنچی ہوئی ہیں آپ ان کو حفاظت سے رکھیں اور ان کی خدمت کا ثواب کمائیں.انشاء اللہ جلد کا نوائے بھجوایا جائے گا اس وقت ان کو لاہور بھجوا دیں.مختاراں بی بی سے کہہ دیں کہ اس کے رشتہ داروں کا لاہور میں پتہ لگ گیا ہے اور میں نے ان کو اطلاع دے دی ہے اور وہ اس کا انتظار کر رہے ہیں.زہرہ کے متعلق لاہور ریڈیو پر اعلان کروایا ہے اور الفضل میں بھی کر رہا ہوں جب بھی اس کے رشتہ داروں کا پتہ لگا آپ کو اطلاع دی جائے گی.مگر میں نے آپ کو لکھا تھا کہ واپس شدہ عورتوں کی ایک یکجائی فہرست پورے کوائف کے ساتھ تیار کر کے بھجوادیں.مسماة سرداراں جو سو جان پور سے زخمی ہو کر آئی ہے اس کے متعلق حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ خاوند کا پتہ لئے بغیر نکاح کس طرح ہو سکتا ہے اس کا اعلان بھی اچھی طرح ہونا چاہیئے.سو آپ مجھے مسماۃ سرداراں کے جملہ کوائف نوٹ کر کے بھجوا دیں تاکہ میں اعلان کروا سکوں.یعنی خاوند کا نام ، باپ کا نام، ماں باپ کے گاؤں کا نام سسرال کے گاؤں کا نام وغیرہ وغیرہ.آپ کی طرف سے کوائف آنے پر انشاء اللہ اخبار میں بھی اور ریڈیو پر بھی اعلان کر دیا جائے گا.(26) آپ نے پوچھا ہے کہ جن احمدیوں کے مکانوں سے کچھ سامان برآمد ہو رہا ہے اس سامان کو کیا کیا جائے.حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سامان علیحدہ علیحدہ فہرستیں بنا کر مالک مکان کے نام پر بطور امانت
جلد اول 344 تاریخ احمدیت بھارت محفوظ رہنا چاہیے کیونکہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی جگہ خرچ نہیں کیا جا سکتا.اگر آپ ایسی فہرست مجھے بھجوا دیں تو میں مالکوں کو پوچھ کر ان کا منشاء بتا سکوں گا.اسی طرح پار چات کے متعلق بھی.ہمارے بیرونی محلوں میں جو دروازوں ، کھڑکیوں اور چھتوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے آپ اس کے متعلق افسروں کو زبانی اور تحریری توجہ دلاتے رہیں.مکانوں کی حتی الوسع حفاظت ہونی چاہیے ورنہ بعد میں جماعت کو بھاری خرچ کرنا ہوگا.(27) حطه ( گندم) کے متعلق میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ ضرورت سے کچھ زائد رکھ کر باقی فروخت کر دی جائے مگر ایسی احتیاط کے ساتھ فروخت کی جائے کہ کسی قسم کا خطرہ یا نقصان کا اندیشہ نہ پیدا ہو.یہ صورت آپ مقامی طور پر خودسوچ سکتے ہیں.نگل باغباناں ( متصل قادیان.ناقل ) کی احمد یہ مسجد کے جو مینارے گرائے گئے ہیں اور اس میں سکھ پناہ گزین رہتے ہیں اور اس کے اوپر کانگریس کا جھنڈا لگا دیا گیا ہے.آپ اس کے متعلق مقامی پولیس اور علاقہ مجسٹریٹ اور ڈی سی کو لکھ کر توجہ دلائیں.اس بات کا بھی پتہ لے کر رپورٹ کریں کہ ہماری قادیان والی مسجد میں اور عید گاہ کس حال میں ہیں.نمبر واررپورٹ کریں.موجودہ حالات میں انہیں پولیس کی موجودگی میں مقفل کر دینا چاہیئے اور کنجیاں اپنے پاس محفوظ رکھی جائیں“.ضیاء الاسلام پریس کے متعلق انشاء اللہ یہاں ضروری کارروائی کی جائے گی آپ بھی اس کے متعلق احتجاج کریں.(28) عبداللطیف کے بھٹہ کی اینٹیں آپ بے شک وہاں سے اٹھوا کر کچھ بہشتی مقبرہ میں اور کچھ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں جمع کروالیں.اس کا خرچ امانت سے برآمد کرلیں.مقبرہ بہشتی کے ارد گرد جو چاردیواری بنائی جارہی ہے اس میں صرف قبروں والا حصہ ہی شامل نہ کریں بلکہ قبروں کے ساتھ جو مقبرہ کی خرید کردہ زمین ہے وہ بھی شامل کرلیں“ (22 دسمبر 1947ء).(29) 5- خط بنام مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی قادیان آج ملک صلاح الدین صاحب کا فون ملا جس میں یہ ذکر تھا کہ حضرت صاحب کا جلسہ سالانہ والا پیغام ابھی تک نہیں پہنچا.میں یہ پیغام تین نقلیں کروا کے 23 دسمبر کو ہوائی ڈاک کے ذریعہ تین مختلف دوستوں
تاریخ احمدیت بھارت 345 جلد اوّل کے نام بھجوا چکا ہوں.ایک آپ کے نام جو اصل ہے دوسرے عزیز ظفر احمد کے نام اور تیسرے ملک صلاح الدین صاحب کے نام.امید ہے آپ کو ان میں سے کوئی نہ کوئی خط 26-27 تاریخ تک مل جائے گا.جلسہ کا پروگرام فون پر معلوم ہوا.میں پہلے لکھ چکا ہوں اور آج اس کے متعلق تار بھی دے رہا ہوں کہ ایک تقریر جماعت احمدیہ کی پچاس سالہ تعلیم پر ہونی چاہئیے کہ احمدی جس حکومت کے ماتحت بھی ہوں اس کے وفادار بن کر رہیں اور اب جبکہ قادیان انڈین یونین میں آگیا ہے.قادیان میں رہنے والے احمدی اپنے مقررہ اصول کے مطابق انڈین یونین کے وفادار ہیں اور رہیں گے.اسی طرح جس طرح پاکستان کی حکومت کے اندر رہنے والے احمدی پاکستان کے وفادار ہوں گے.اور لنڈن میں رہنے والے احمدی برطانیہ کے وفادار ہوں.گے اور امریکہ میں رہنے والے احمدی امریکہ کی حکومت کے وفادار ہوں گے وعلی ہذالقیاس.“ د و منشی محمد صادق صاحب کی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ساتھ جو نیا دو منزلہ کمرہ تعمیر ہوا تھا وہ پھٹ کر ایک طرف کو جھک گیا ہے.اس کی ضروری مرمت ہونی چاہئے ورنہ گر کر مزید نقصان کا اندیشہ ہے“.(30) -6 خط بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان عزیز مرزا مظفر احمد سیالکوٹ سے آئے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں.کہ میں نے ڈی سی گورداسپور کو فون کیا تھا اور ہمارے مکان کی ، جو....(مفسدہ پردازوں) نے گرا کر مکان گوردوارے میں شامل کر لیا ہوا ہے اس کے متعلق فون پر بات کی تھی.ڈی سی صاحب گورداسپور نے کہا کہ میں نے حکم دے دیا ہوا ہے کہ اگر احمدی اپنی دیوار تعمیر کرائیں اور کوئی....(مفسدہ پرداز ) مزاحم ہو تو اسے گرفتار کیا جائے.مظفر نے کہا کہ موجودہ حالات اور موجودہ فضا میں بہتر یہ ہے کہ حکومت خود اپنے انتظام میں دیوار تعمیر کرا دے اور ہم سے خرچ لے لے.ڈی سی صاحب نے اتفاق کیا کہ ایسی ہدایات جاری....کر دیں گئے.(27 دسمبر 1947ء)(31) 7 خط بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ” جو دوست اپنی خوشی سے اگلی ٹرم میں قادیان ٹھہر نا چاہیں انہیں اجازت دی جائے.جزاهم الله خير وكان معهم لیکن احتیاطاً حضرت صاحب سے بھی پوچھ لوں گا اور پھر اطلاع دوں گا.
جلد اوّل 346 تاریخ احمدیت بھارت آپ نے لکھا ہے کہ مسجد نور میں تین من کے قریب قرآن شریف کے اوراق منتشر پائے گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ اس کے متعلق ڈی سی گورداسپور اور کمشنر جالندھر اور وزیر اعظم مشرقی پنجاب اور پنڈت نہر وصاحب نئی دہلی اور گاندھی جی نئی دہلی کو لکھیں کہ مسلمانوں کے نزدیک سب سے زیادہ دکھ دینے والی بات انکے مذہبی احساسات کو صدمہ پہنچانا ہے.یہ آنحضرت سل ای یتیم کے اس ارشاد کی عملی تو جیہہ ہے کہ دشمن کے ملک میں قرآن شریف نہ لے جاؤ.ڈاکٹر صاحب اور کمپوڈران کی تبدیلی کا انتظام کیا جا رہا ہے.اغواشدہ مسلمان عورتوں کے متعلق جو قادیان کے ماحول میں ہیں پاکستان کے متعلقہ محکمہ کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ وہ اپنا نمائندہ ہندوستان بھجوائیں.(28 دسمبر 1947ء)(32) -8 خط بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے مسجد نور میں جو قرآن کریم کے ۳ من اوراق پھٹے ہوئے پائے گئے ان کا فوٹو مجھے احتیاط کے ساتھ بھجوادیا جائے.‘ (29 دسمبر 1947ء)(33) -9 خط بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے آپ نے فون پر کہا تھا کہ عزیز مرزا ظفر احمد کے مضمون نے لوگوں کو بہت رلایا میں نے اسکے جواب میں کہا تھا کہ یہاں تو حضرت صاحب نے رونے سے منع کر دیا ہے.اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ دعا میں رقت کا پیدا ہونا منع ہے.حضرت صاحب کا منشاء تھا کہ قادیان سے باہر آنے والے احمدی قادیان کی یاد میں رونے کی بجائے اپنے درد اور جوش کو قوت عملیہ میں منتقل کرنے کی کوشش کریں“.(34)
تاریخ احمدیت بھارت 347 بہشتی مقبرہ قادیان کی حفاظت کے لئے چاردیواری کی تعمیر جلد اول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 20 / دسمبر 1905ءکو رسالہ الوصیت تصنیف فرمایا.جس میں حضور نے اپنی وفات کے متعلق الہامات کا ذکر فرمایا.نیز اپنے بعد قدرت ثانیہ یعنی نظام خلافت کے قیام کی بشارت دی.آپ نے اسی رسالہ میں بہشتی مقبرہ کے نظام کے قائم ہونے کی خوشخبری دی.آپ نے تحریر فرمایا:.اور چونکہ اس قبرستان کے لئے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں اور نہ صرف خدا نے یہ فرمایا کہ یہ مقبرہ بہشتی ہے.بلکہ یہ بھی فرمایا کہ أُنْزِلَ فِيهَا كُلُ رَحْمَةٍ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتاری گئی ہے.اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں“.(35) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ایک کشف جو 1898ء میں ہوا تھا.تحریر فرمایا ” مجھے ایک جگہ دکھلا دی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی ایک فرشتہ میں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا ہے تب ایک مقام پر اس نے پہنچ کر مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے.پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اس کی تمام مٹی چاندی کی تھی.تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے اور ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اُس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں (36) فرمایا کہ:.حضور نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے نام 6 اگست 1898ءکو ایک مکتوب میں تحریر ”میرے دل میں خیال ہے کہ اپنے اور اپنی جماعت کے لئے خاص طور پر ایک قبرستان بنایا جائے جس طرح مدینہ میں بنایا گیا تھا.بقول شیخ سعدی کہ ”بداں را به نیکاں بخشد کریم “ یہ بھی ایک وسیلہ مغفرت ہوتا ہے جس کو شریعت میں معتبر سمجھا گیا ہے.اس قبرستان کی فکر میں ہوں کہ کہاں بنائیں.امید ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی جگہ میسر کر دے گا اور اس کے ارد گرد ایک دیوار چاہئے.“ (37) بہشتی مقبرہ کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں مورخہ 27 دسمبر 1905ء کو
جلد اوّل 348 تاریخ احمدیت بھارت حضرت مولانا عبد الکریم صاحب کی تدفین کے ساتھ ہوا تھا.مگر حضور کی منشاء کے مطابق اس کی چاردیواری کا کام معرض التواء میں رہا.یہاں تک کہ تقسیم ملک اور ہجرت کا زمانہ آ گیا.15 اگست 1947ء کے بعد شر پسند عناصر کی یہی کوشش رہی کہ کسی طرح بہشتی مقبرہ پر قبضہ کر لیا جائے.کیونکہ وہ یہ سمجھے تھے کہ اگر بہشتی مقبرہ باقی شہر کی طرح جماعت احمدیہ کے قبضہ سے نکل کر ہمارے قبضہ میں آجائے گا تو احمدیوں کی ہمتیں پست ہو جائیں گی اور وہ قادیان چھوڑ کر بھاگ جائیں گے.بہشتی مقبرہ اور محلہ احمدیہ کے درمیان قادیان میں موجود وسیع اور گہری ڈھاب تھی اور اس کے اوپر ایک پل تو تھا مگر وہ بھی زیادہ چوڑ نہیں تھا.اس وجہ سے بہشتی مقبرہ بالکل الگ تھلگ ہو جاتا تھا.اور ہمیشہ یہ خطرہ رہتا تھا کہ دشمنان احمدیت کسی وقت بھی اس پر حملہ کر کے پچاس ساٹھ محافظین کوموت کے گھاٹ اتار کر قبضہ کر لیں گے.بایں وجہ جماعت کے وہ منتظمین جن کو دفاعی سمجھ بوجھ تھی اور فوج کے تربیت یافتہ تھے انہوں نے باہمی مشورہ کیا اور وسائل کے نہ ہونے کے باوجود کم و بیش اٹھارہ ایکٹر پر مشتمل وسیع رقبہ بہشتی مقبرہ کے ارد گردمٹی کی کچی چار دیواری بنانے کا فیصلہ کیا.اور مورخہ 13 دسمبر 1947ء کو کیپٹن شیر ولی صاحب نگران حفاظت قادیان کے زیر نگرانی دیوار کی تعمیر کا پہلا مرحلہ شروع ہوا.اس دیوار کی تعمیر کا نقشہ کھینچتے ہوئے محترم چوہدری بدر الدین صاحب عامل درویش مرحوم لکھتے ہیں: یہ حفاظتی دیوار جنوب کی طرف سے شروع کی گئی.جنوبی دیوار کی موٹائی 5 فٹ اور اونچائی بہشتی مقبرہ کی اندر کی طرف سے 6 فٹ اور باہر کی طرف سے ساڑھے آٹھ فٹ تھی کیونکہ بہشتی مقبرہ کا بیرونی حصہ اندرون کی نسبت نشیبی تھا.اس طرح پھر جب مشرقی جانب کی دیوار بنانا شروع کی چونکہ مٹی دور سے لانا پڑتی تھی.اس کی موٹائی 2 فٹ تھی اور اونچائی اتنی ہی رکھی گئی.مغربی جانب کی دیوار کو سید نا حضرت مسیح موعودؓ کے مکان سے جو بڑے باغ سے ملحق ہے کے ساتھ ملا دیا گیا.اس کی موٹائی بھی دوفٹ اور اونچائی باقی دیواروں کے برابر ہی رکھی گئی تھی.ایک محتاط اندازے کے مطابق ان دیواروں کے بنانے میں 6لاکھ کیوبک فٹ مٹی استعمال ہوئی.اس کے لئے مٹی جنوبی کھیتوں سے بلا معاوضہ کھو دکر حاصل کی گئی اور یہ سارا کام درویشوں نے ایک پیسہ خرچ کئے بغیر صرف اپنی محنت سے انجام دیا تھا.نیز دیوار کے جنوب مشرقی اور جنوب مغربی کونوں پر ایک ایک دو منزلہ کمرہ بھی تعمیر کئے گئے.جس میں پہرہ دار درویشان رہائش
تاریخ احمدیت بھارت 349 جلد اول رکھتے تھے اور ان کی چھتوں پر رات کو پہرہ دے کر نگرانی کا فرض ادا کرتے تھے.بہشتی مقبرہ کو اندر جانے لئے گیٹ کی مشرقی دیوار میں اب بھی نشان موجود ہے.یہ گیٹ درویشی سے قبل موجود تھا.دیوار نہیں تھی.دیوار کی جگہ تھوہر کی باڑ لگی ہوئی تھی.دیوار کی تکمیل کے بعد آج کل جہاں نذیر احمد صاحب ٹیلر کا مکان ہے اس کے سامنے بہشتی مقبرہ میں داخل ہونے کے لئے ایک راستہ بنایا گیا تھا.یہ رستہ مغرب کی طرف آکر اور گھوم کر فوارہ والی جگہ تک آتا تھا.مزار مبارک والی چار دیواری کے شمال مشرقی کو نہ پر بھی ایک دو منزلہ کمرہ برائے پہرے داران تعمیر کیا گیا تھا.باقی حصہ بڑے باغ کی طرف کھلا تھا.ادھر سے ہر وقت آمد و رفت ہو سکتی تھی.اس طرف سے متعدد.....( شر پسندوں) نے دخل اندازی کی کئی دفعہ کوشش کی جو وقت پر ضروری اقدام کر کے ناکام بنا دی گئی.(38) غرض درویشان کرام کی مسلسل اور کڑی محنت اس دیوار کے بنانے میں ہوئی.درویشان کرام خود بتا یا کرتے تھے کہ تقریباً 6،5ماہ میں یہ دیوار مکمل ہوئی.پھر اسکی لپائی بھی کی گئی.اور اس طرح بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے لئے یہ احتیاطی تدبیرا اپنی تکمیل کو پہنچی.سات سال یہ دیوار قائم رہی اور ہر سال ساون بھادوں کی زبر دست برساتوں کی مار سہتی رہی.اور بارشوں کے بعد جہاں ضرورت ہوتی اس کی لپائی اور مرمت کر دی جاتی.اور بالفعل یہ ان مخدوش حالات میں حفاظت کا بہترین ذریعہ ثابت ہوئی.1955ء میں مشرقی پنجاب میں زبر دست سیلاب آ گیا.کئی روز تک مسلسل بارشیں ہوتی رہیں اور کئی ماہ تک بہشتی مقبرہ اور اس کے گردو نواح میں پانی کھڑا رہا.جس کے نتیجے میں اس دیوار کو سخت نقصان پہنچا.اور یہ دیوار بہت سے مقامات سے گرگئی.ایسی صورت حال میں صدر انجمن احمدیہ نے اس کچی دیوار کی جگہ پختہ چار دیواری بنانے کا فیصلہ کیا اور کم و بیش 35 / ہزار روپے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا.اس دیوار کے بارے میں محترم چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی درویش سابق سیکرٹری بہشتی مقبره تحریر فرماتے ہیں کہ محلہ احمدیہ سے بہشتی مقبرہ کی طرف جائیں تو ڈھاب کے پل کے پاس پہنچ کر ایک بلند اور مضبوط اور طویل دیوار نظر آتی ہے جو ڈھاب سے شروع ہو کر تکیہ پیر شاہ چراغ تک بطرف منگل چلی گئی ہے اور وہاں سے مغرب کی طرف مڑ کر سارے بڑے باغ کے گردا گرد ہوتی ہوئی ڈھاب کے کنارے
جلد اوّل 350 تاریخ احمدیت بھارت کنارے وہیں پہنچ گئی ہے.یہی وہ چار دیواری بہشتی مقبرہ ہے جو جماعت کے مخلص و مخیر احباب کے ایثارو تعاون کی ایک یادگار ہے.“ (39) مکرم فیض احمد صاحب گجراتی مزید تحریر کرتے ہیں:.اس عظیم الشان دیوار میں جہاں بیرونجات کے مخلص احباب نے گراں قدر عطیات دیئے ہیں وہاں ہمارے بعض درویشوں نے بھی ایک ایک سو روپیہ چندہ دیا ہے.اور ہمارے مرحوم درویش بھائی میاں خدا بخش صاحب قلی نے تو اس میں 1387 روپے کا عطیہ دیکر درویشوں کی لاج رکھ لی.جزاهم الله جميعاً احسن الجزاء.چاردیواری بہشتی مقبرہ کی تعمیر کے سلسلہ میں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ موجودہ پختہ دیوار کی تعمیر سے قبل بہشتی مقبرہ کے ارد گرد ایک دیو ہیکل خام دیوار مٹی کی بنائی گئی تھی.جسے ہمارے درویش بھائیوں نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا.اور حقیقتا یہ درویشوں کا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا.اور وہ منظر بڑا دل افروز ہوتا تھا جب درویش اپنے سروں پر مٹی ڈھو کر دیوار کی تعمیر کر رہے ہوتے تھے.اور اس یادگاری وقار عمل میں حصہ لیتے تھے.اور یہ مظاہرہ ہوتا تھا اس امر کا کہ ہم بے سروسامان ہوتے ہوئے بھی خود سر و سامان ہیں.عشق هر جا می رود ما را به سامان می برد (40) اس کچی چاردیواری کی جگہ بعد میں پختہ چاردیواری بنادی گئی.جن احباب نے چار دیواری کی تعمیر کے لئے خاص طور پر مالی اعانت فرمائی ہے ان کے اسماء ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.نمبر شمار 1 4 اسماء مکرم سیٹھ معین الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد مکرم صدیق امیر علی صاحب موگرال مالا بار مکرم بابا خدا بخش صاحب در ویش قادیان مرحوم سابق قلی مکرم سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی کلکتہ 5 مکرم سیٹھ محمد بشیر صاحب سہگل کلکتہ 6 مکرم سیٹھ محمد عمر صاحب سہگل کلکتہ رقم 2507 1600 1387 1500 500 500
تاریخ احمدیت بھارت 351 جلد اول 7 مکرم الحاج میر کلیم اللہ صاحب شموگہ 8 مکرم بی عبد الرحیم صاحب بنگلور مکرم سید محی الدین صاحب ایڈوکیٹ رانچی 10 مکرم مرز اشیر علی صاحب اڑیسہ 500 500 500 500 علاوہ چاردیواری کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے زمانہ درویشی میں جنازہ گاہ جہاں حضرت اقدس علیہ السلام کا جنازہ پڑھا گیا.اور مقام بیعت خلافت اولیٰ کی تعیین حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے ذریعہ کروا کر اس کی صفائی و درستی بھی کروادی گئی.اور باغ بہشتی مقبرہ میں جو شاہ نشین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بنوائی تھی اور غیر مستقف تھی اس کو بھی مسقف کر دیا گیا ہے.فالحمد للہ علیٰ ذلک.“(41) محلہ احمدیہ کے راستوں میں تبدیلی تقسیم ملک سے قبل قادیان میں بسنے والوں کی اکثریت احمدی احباب پر مشتمل تھی.اور ہر ایک دوسرے کو جانتا اور پہچانتا تھا حتی کہ جو ہندو سکھ اور عیسائی ہمسایہ بھی قادیان میں مقیم تھے وہ بھی ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے تھے.مقامی آبادی میں سے کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہ تھا.اس لئے دار امسیح اور محلہ احمدیہ کی گلیاں اور کوچے اور راستے ہر ایک کے لئے کھلے ہوئے تھے.کسی کے کسی وقت گزرنے پر کوئی پابندی اور قدغن نہ تھی.لیکن تقسیم ملک کے بعد حالات یکسر بدل گئے قادیان کے اکثر محلہ جات میں انجان لوگوں کو ٹھہرا دیا گیا.جنکی آپس میں نہ تو جان پہچان تھی ، نہ چہروں سے شناسائی تھی.ایسے غیر یقینی حالات میں شرپسند عناصر اور لٹیرے، چور، اوباش، ڈا کو فتنے برپا کرتے اور گھروں میں گھس کر مترو کہ مال و اسباب لوٹتے.اگر کوئی مزاحمت کرتا تو اسے قتل کر دیتے تھے.اس قسم کے جرائم پیشہ لوگ محلہ احمد یہ اور دار اسیح میں بھی زبر دستی یا پھر رات کے اندھیروں میں خفیہ طور پر داخل ہونے کی کوشش کرتے.مگر درویشان کرام کی چوکسی اور بیداری ان کے مجرمانہ جرائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں سد راہ ثابت ہوتی.جماعت احمدیہ کی اس وقت کی انتظامیہ نے ان جرائم کے مرتکبین کے بارے میں حکومت کے
جلداول 352 تاریخ احمدیت بھارت اعلیٰ ذمہ داران اور فرض شناس احباب کو توجہ دلاتے ہوئے محلہ احمد یہ اور دار اسیح کے خاص کو چوں کو بند کر کے متبادل راستے بنانے کی اجازت چاہی حکومت کے متعلقہ افسران محلہ احمدیہ میں آئے اور جماعت کی تجویز کردہ گلیوں کو موقعہ پر جا کر دیکھا اور ان راستوں کا بھی جائزہ لیا جو نئے بنائے جانے والے تھے اور مناسب سمجھتے ہوئے بعض گلیوں کو بند کر کے متبادل راستہ بنانے کی اجازت دے دی ( یہ غالباً 1947ء کے آخر کی بات ہے ).چنانچہ مسجد مبارک کے مشرقی جانب جہاں اس وقت بہت بڑا آہنی گیٹ نظر آتا ہے یہ اسی فیصلے کے بعد ہی لگایا گیا تھا.تا کہ دار مسیح شر پسند عناصر کے فتنوں سے محفوظ رہے نیز مسجد اقصی کے مشرق میں شمال کی طرف جانے والی گلی کو دروازہ لگا کر مقفل کر دیا گیا.حالانکہ تقسیم ملک سے قبل بھی یہ عام گزرگاہ نہ تھی بلکہ خاندان حضرت مسیح موعود اور جماعت احمدیہ کی ملکیت تھی.مگر اس کے باوجود جماعت احمدیہ نے اس گلی اور اس کے ساتھ ملحقہ تھوڑی سی زمین کی قیمت بلد یہ کوادا کی.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی " کا مکان حالیہ احمد یہ چوک سے دارالانوار جاتے ہوئے بائیں جانب آتا ہے.جہاں پر ایک نمایاں لکڑی کادروازہ لگا ہوا ہےاس دروازے کے جنوب کی طرف ایک گلی جاتی تھی.یہ گلی حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے مکانات کی مشرقی جانب سے مدرسہ احمدیہ کی طرف جاتی تھی.اُسے بھی دروازہ لگا کر بند کر دیا گیا.اس کے علاوہ دار الشیوخ والی گلی جہاں آجکل 2016ء میں عبد الحمید صاحب مومن درویش مرحوم کا گھر ہے.اسے بھی بند کر دیا گیا.اس کے متبادل محلہ احمدیہ سے ناصر آباد بہشتی مقبرہ جاتے ہوئے جو پل آتا ہے وہاں سے لے کر مغرب کی طرف (اس مکان تک جہاں آجکل 2016ء میں چوہدری عبد السلام درویش مرحوم کے اہل و عیال رہائش پذیر ہیں ) ڈھاب میں مٹی ڈال ڈال کر ایک خام سڑک بنادی گئی تا کہ منگل اور دوسرے دیہات سے آنے والوں کو زیادہ مسافت طے کر کے محلہ احمدیہ سے گزر کر مسجد اقصیٰ کے شمالی جانب والے بازار میں خرید و فروخت کے لئے نہ جانا پڑے.بلکہ اس مختصر راستے سے وہ آمد و رفت کر سکیں.درویشان کرام نے تقریباً تین سوفٹ لمبا اور 11 فٹ چوڑا راستہ تقریباً دس فٹ گہرا، ڈھاب میں مٹی ڈال کر بنایا تھا.مٹی اس جگہ سے اکھیڑی جاتی (جہاں آج کل 2016ء میں سرائے وسیم اور مجلس انصار اللہ بھارت کا دفتر ہے ) غالباً 1955ء میں بارشوں کی وجہ سے اس سڑک کو نقصان پہنچا تھا اس وقت اس راستے کو مزید چوڑا اور وسیع کیا گیا.درویشان بڑی مشقت سے صبح
تاریخ احمدیت بھارت 353 جلد اوّل سے شام تک وقار عمل کرتے اور راستے کو وسیع کرتے جاتے تھے تاکہ راہ گیروں کو تکلیف نہ ہو.یہ راستہ بھی درویشوں کی قربانیوں کی ایک تصویر ہے.ہجرت کے بعد قادیان میں پہلا جلسہ سالانہ 1947ء حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں مؤرخہ 27 دسمبر 1891ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا تھا.جس میں 75 خوش نصیب احباب شریک ہوئے تھے.اس پہلے اور تاریخی جلسے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بذریعہ اشتہار اعلان فرمایا تھا کہ آئندہ ہر سال 29،28،27 روہیمبر کو جلسہ سالانہ منعقد ہوا کرے گا.چنانچہ اس اعلان کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفہ اسیح الاول ، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے عہد مبارک میں چند سالوں کو چھوڑ کر ہر سال جلسہ سالا نہ اپنی روحانی اور دینی شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوتا رہا.جلسہ سالانہ ایک لحاظ سے جماعت احمدیہ کی ترقی کا بھی غماز ہے جو ہر سال اپنی آغوش میں بے شمار ترقیات لئے ہوئے منعقد ہوتا ہے تقسیم ملک سے قبل متحدہ ہندوستان کا آخری جلسہ سالانہ 27،26، 28 دسمبر 1946ء کو تعلیم الاسلام کالج کے میدان میں منعقد ہوا تھا.جس میں 39700 / انتالیس ہزار سات صد افراد شامل ہوئے تھے.حضرت مصلح موعود کے عہد خلافت کا یہ آخری جلسہ سالا نہ تھا جو قادیان میں آپ کی موجودگی میں منعقد ہوا تھا.کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے.چنانچہ جلسہ سالانہ کی تاریخ نے اپنے آپ کو کچھ اس طرح دہرایا کہ تقریباً 56 سال کے بعد پہلے جلسہ سالانہ کی طرح مورخہ 26، 27، 28 دسمبر 1947ء کا جلسہ سالانہ ایک بار پھر مسجد اقصیٰ قادیان میں منعقد ہوا.اس جلسے کے انعقاد کے لئے مسجد اقصیٰ کے برآمدے میں شمالی جانب سٹیج بنایا گیا جس کا رخ جنوب کی طرف تھا.سٹیج پر حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب تشریف فرما تھے.جلسے کی تقاریر کا پروگرام حضرت صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب ناظر دعوت وتبلیغ نے مرتب فرمایا تھا.
جلد اوّل 354 تاریخ احمدیت بھارت -1 جلسے کا پہلا دن 26 دسمبر 1947ء اجلاس اول اس تاریخی جلسے کے افتتاحی اجلاس کی کارروائی کا آغاز کلام پاک کی تلاوت سے کیا گیا.جو حافظ عبدالرحمن صاحب پشاوری نے کی.پھر گوجرانوالہ کے بشیر احمد صاحب نے حضرت مصلح موعود کی دردانگیز نظم ” نونہالان جماعت سے خطاب سنائی.ازاں بعد حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ نے نہایت رقت بھری آواز سے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی اور اپنی مختصر تقریر میں بتایا کہ جب میں 1902ء میں پہلی دفعہ قادیان میں آیا تو ڈاک ہفتہ میں صرف دو بار آتی تھی اور تار کا کوئی انتظام ہی نہیں تھا.بعد میں جب جماعت نے تار گھر کھلوانا چاہا تو محکمہ نے بطور ضمانت ایک معقول رقم جماعت سے وصول کی لیکن آمداتنی زیادہ ہوئی کہ ایک ماہ میں ہی ہماری رقم واپس کر دی گئی.پھر کچھ عرصہ بعد ٹیلیفون کا سلسلہ بھی جاری ہو گیا.حضرت مولوی صاحب نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ قادیان موجود ہے.اس کے مقدس شعائر موجود ہیں.اس کی مساجد موجود ہیں.اس کا لنگر خانہ موجود ہے.لیکن افسوس ہمارا پیارا امام یہاں موجود نہیں.آنکھیں اپنے آقا کو دیکھنے کے لئے ترستی ہیں مگر پاتی نہیں.تاہم ہمیں ایک گونہ خوشی ضرور ہے کہ حضور نے ہم خادموں کو اپنے پیغام سے نوازا ہے.یہ بشارت سنانے کے بعد حضرت مولوی صاحب لمضله نے امام ہمام امیر المومنین سیدنا اصلح الموعود کا پیغام پڑھ کر سنایا جو یہ تھا:.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر وو برادران جماعت احمد یہ مقیم قادیان! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاته 1912ء میں جب میں حج کے لئے گیا تھا تو حج سے واپسی ایام دسمبر میں ہوئی تھی.جہاز دو دن
تاریخ احمدیت بھارت 355 جلد اوّل لیٹ ہو گیا.اور میں جلسہ میں شمولیت سے محروم رہا.اس کو پورے 35 سال ہو گئے.آج پورے 35 سال کے بعد پھر اس سال کے جلسہ میں شامل ہونے سے محروم ہوں.ہم قادیان کے جلسہ کی یادگار میں باہر بھی جلسہ کر رہے ہیں.لیکن اصل جلسہ وہی ہے جو قادیان میں ہورہا ہے اور پورے چالیس (40) سال کے بعد پھر یہ جلسہ مسجد اقصیٰ میں ہورہا ہے.مسجد اقصیٰ میں ہونے والا آخری جلسہ وہی تھا جو حضرت مسیح موعود کی زندگی کے آخری سال میں ہوا.آپ کی وفات کے بعد پہلا جلسہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ہوا اور 1911 ء سے جلسے مسجد نور میں ہونے شروع ہوئے اور گزشتہ سال تک دارالعلوم کے علاقہ میں ہی جلسے ہوتے چلے آئے ہیں.خدا تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت آج پھر مسجد اقصیٰ میں ہمارا سالانہ جلسہ ہو رہا ہے اس لئے نہیں کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے مشتاقوں کی تعداد کم ہوگئی ہے.بلکہ شمع احمدیت کے پروانے سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے قادیان نہیں آسکتے.یہ حالات عارضی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمیں پورا یقین ہے کہ قادیان احمد یہ جماعت کا مقدس مقام اور خدائے وحدہ لا شریک کا قائم کردہ مرکز ہے.وہ ضرور پھر احمدیوں کے قبضہ میں آئے گا اور پھر اس کی گلیوں میں دنیا بھر کے احمدی خدا کی حمد کے ترانے گاتے پھریں گے.جولوگ اس وقت ہمارے مکانوں اور ہماری جائیداد پر قابض ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کا قبضہ مخالفانہ ہے.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ مجبور اور معذور ہیں وہ لوگ بھی اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں اور ان کی جائیدادوں سے انہیں بے دخل کیا گیا ہے.گو وہ ہمارے مکانوں اور ہماری جائیدادوں پر جبراً قابض ہوئے ہیں.مگر ان کے اس دخل کی ذمہ داری ان پر نہیں بلکہ ان حالات پر ہے جن میں سے ہمارا ملک گزر رہا ہے.اس لئے ہم ان کو اپنا مہمان سمجھتے ہیں.اور آپ لوگ بھی انہیں اپنا مہمان سمجھیں ان سے بھی اور تمام ان شریف لوگوں سے بھی جنہوں نے ان فتنہ کے ایام میں شرافت کا معاملہ کیا ہے.محبت اور در گذر کا سلوک کریں.اور جو شریر ہیں اور انہوں نے ہمارے احسانوں کو بھلا کر ان فتنے کے ایام میں چوروں اور ڈاکوؤں کا ساتھ دیا ہے آپ لوگ ان کے افعال سے بھی چشم پوشی کریں.کیونکہ سزا دینا یا خدا تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے یا حکومت کے سپر د کیا ہے.اور حکومت آپ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اور لوگوں کے ہاتھ میں ہے.اگر حکومت اپنا فرض ادا کرے گی تو وہ خود ان کو سزا دے گی.بہر حال یہ آپ لوگوں کا یا ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم حکومت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیں.خدائے واحد لاشریک کے سامنے رعایا بھی اور حاکم بھی پیش ہوں گے اور ہر ایک اس کے سامنے اپنے کاموں کا جواب دہ ہوگا.پس خدا کے حکم کے
جلداول 356 تاریخ احمدیت بھارت ماتحت اس حکومت کے فرمانبردار رہو.جس حکومت میں تم بستے ہو.یہی احمدیت کی تعلیم ہے جس پر گزشتہ ستاون (57) سال سے ہم زور دیتے چلے آئے ہیں.یہ تعلیم آج کل کے حالات سے بدل نہیں سکتی.اور نہ آئندہ کے حالات کبھی بھی اسے بدل سکتے ہیں.دنیا میں کبھی بھی امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس تعلیم پر عمل نہ کیا جائے کہ ہر ایک ملک میں بسنے والے اپنی حکومت کے فرمانبردار ہیں اور اس کے قانون کی پابندی کریں.کوئی اس تعلیم کو مانے یا نہ مانے احمدی جماعت کا فرض ہے کہ ہمیشہ اس تعلیم پر قائم رہے.ملک کے قانون کے ماتحت اپنے حق مانگنے منع نہیں.لیکن قانون توڑنا اسلام میں جائز نہیں.میں نے سنا ہے کہ بعض غیر مسلموں نے میری ایک تقریر کے بعض فقرات کو بگاڑ کر قادیان میں اشتہار دیا کہ میں نے کہا ہے کہ تمام ہندوستان کے احمدیوں کو...کشمیر کی گورنمنٹ کی امدا د کرنا چاہئیے.اور جنگ میں ان کا ساتھ دینا چاہئے.میری اس تقریر میں جنگ کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ سردی میں ٹھٹھرنے والے لوگوں کے لئے کپڑے کی امداد کا ذکر تھا.اسی طرح ہندوستان کے احمدیوں کا کوئی ذکر نہیں تھا.بلکہ پاکستان میں رہنے والے لوگوں سے خطاب تھا.اور جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں احمدیت کی یہ تعلیم ہے کہ جس حکومت میں کوئی رہے اس کی اطاعت کرے.پاکستان کے احمدی پاکستان کے مفاد کا خیال رکھیں گے اور ہندوستان کے احمدی ہندوستان کے مفاد کا خیال رکھیں گے.اسی طرح جس طرح پاکستان کے رہنے والے ہند و پاکستان کا خیال رکھیں گے اور ہندوستان میں رہنے والے عام مسلمان ہندوستان کے مفاد کا خیال رکھیں گے.یہی وہ بات ہے جس کی پاکستان کے لیڈر ہندوستان کے مسلمانوں کو تلقین کر رہے ہیں اور یہی وہ بات ہے جس کو ہندوستان کے لیڈر پاکستان کے ہندوؤں کو سمجھا رہے ہیں.اگر ہندوستان کے بعض باشندے اپنے چوٹی کے لیڈروں کی بات بھی نہیں سمجھ سکتے تو وہ میری بات کس طرح سمجھ سکتے ہیں.پس تم ان کی باتوں پر صبر کرو اور احمدیت کی اس نصیحت پر ہمیشہ کار بندر ہو کہ جس حکومت میں رہو اس کے فرمانبردار رہو.میں آسمان پر خدا تعالیٰ کی انگلی کو احمدیت کی فتح کی خوشخبری لکھتے ہوئے دیکھتا ہوں.جو فیصلہ آسمان پر ہوز میں اسے رد نہیں کر سکتی اور خدا کے حکم کو انسان بدل نہیں سکتا.سو تسلی پاؤ اور خوش ہو جاؤ.اور دعاؤں اور روزوں اور انکساری پر زور دو اور بنی نوع انسان کی ہمدردی اپنے دلوں میں پیدا کرو کہ کوئی مالک اپنا گھوڑا بھی کسی ظالم سائیں کے سپرد نہیں کرتا.اسی طرح خدا بھی اپنے بندوں کی باگ ان ہی کے ہاتھ
تاریخ احمدیت بھارت 357 جلد اوّل میں دیتا ہے جو بخشتے ہیں اور چشم پوشی کرتے ہیں اور خود تکلیف اٹھاتے ہیں تا کہ خدا کے بندوں کو آرام پہنچے.ہر ایک مغرور ، خود پسند اور ظالم عارضی خوشی دیکھ سکتا ہے مگر مستقل خوشی نہیں دیکھ سکتا.پس تم نرمی کرو اور عفو سے کام لو اور خدا کے بندوں کی بھلائی کی فکر میں لگے رہو.تو اللہ تعالیٰ جس کے ہاتھ میں حاکموں کے دل بھی ہیں وہ ان کے دل کو بدل دے گا اور حقیقت حال ان پر کھول دیگا یا ایسے حاکم بھیج دیگا جو انصاف اور رحم کرنا جانتے ہوں.تم لوگ جن کو اس موقعہ پر قادیان میں رہنے کا موقعہ ملا ہے اگر نیکی اور تقویٰ اختیار کرو گے تو تاریخ احمدیت میں عزت کے ساتھ یاد کئے جاؤ گے اور آنے والی نسلیں تمہارا نام ادب و احترام سے لیں گی.اور تمہارے لئے دعائیں کریں گی اور تم وہ کچھ ہے کریں گی اور تم وہ کچھ پاؤ گے جو دوسروں نے نہیں پایا.اپنی آنکھیں نیچی رکھو لیکن اپنی نگاہ آسمان کی طرف بلند کرو.فلنولینک قبلة ترضها.خاکسار مرزا محمود احمد ( خلیفہ اسیح الثانی) 23 دسمبر 1947 ء )‘ (42) حضرت امیر المومنین کے اس روح پرور اور درد انگیز پیغام نے جہاں درویشوں کے اندر ایک نئی روح پھونک دی وہاں حضور کے رخ انور کی زیارت اور حضور کی مجلس علم وعرفان اور پاک اور مقدس کلمات سے محرومی کا تکلیف دہ احساس یکا یک بڑھ گیا.اور مسجد اقصیٰ آہ و بکا، گریہ وزاری اور کرب و الم کا ایک زہرہ گداز منظر پیش کرنے لگی.حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب پیغام پڑھ چکے تو آپ کی استدعا پر صاحبزادہ مرز اظفر احمد صاحب نے غم رسیدہ درویشوں کے ساتھ نہایت در داور الحاح اور تضرع اور ابتہال سے ایک لمبی اور پرسوز دعا کرائی.دعا کے بعد مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی نے ساڑھے گیارہ بجے سے بارہ بجے تک ” ذکر حبیب“ کے موضوع پر تقریر کی.جو سالانہ جلسہ پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا ہمیشہ محبوب موضوع ہوتا تھا.اس تقریر کے بعد اجلاس اول ختم ہوا.اجلاس دوم.صدر جلسہ حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب نے دوسرے اجلاس سے قبل فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سالانہ جلسہ کو حج کے عالمگیر اجتماع سے تشبیہ دی ہے.اور حج کی نسبت ارشادر بانی ہے فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج (43) حج (کے ایام ) میں نہ تو کوئی شہوت کی بات نہ کوئی نافرمانی
جلد اول 358 تاریخ احمدیت بھارت اور نہ کسی قسم کا جھگڑا کرنا جائز ہوگا.سو ان خاص ایام میں ہمیں بھی ان باتوں سے پر ہیز واجب ہے.اس اصولی ہدایت کے بعد مولوی غلام احمد صاحب ارشد مولوی فاضل نے دلکش ، دلآویز اور وجد انگیز آواز سے سورۃ یوسف میں سے فلما دخلوا عليه سے الحقني بالصلحین (44) تک کی آیات کی تلاوت فرمائی.آپ کے بعد حافظ عبدالرحمن صاحب پشاوری نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور نظم.اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے.نہایت خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی.ازاں بعد پہلے مولوی شریف احمد صاحب امینی سابق مدرس مدرسہ احمدیہ نے باون منٹ تک خصوصیات اسلام“ کے عنوان پر اور پھر مولوی عبد القادر صاحب احسان نے پچیس منٹ تک زمانہ روحانی مصلح کا متقاضی ہے“ کے عنوان پر تقریریں کیں اور یہ اجلاس چار بج کر دومنٹ پر اختتام پذیر ہوا.(45) 2 جلسے کا دوسرا دن 27 دسمبر 1947ء اجلاس اول اس روز پہلا اجلاس بھی حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب کی صدارت میں شروع ہوا.سب سے قبل آپ نے حاضرین سمیت دعا فرمائی.پھر عبدالرحمن ( عبید الرحمن.ناقل ) صاحب فانی بنگالی نے سورہ بقرہ کی ابتدائی پانچ آیات کی تلاوت کی.پھر میر رفیع احمد صاحب گجراتی نے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی مقبول عام نظم ”علیک الصلوۃ علیک السلام “ نائی.پھر دس بجکر سینتالیس منٹ سے ساڑھے گیارہ بجے تک مولوی غلام مصطفیٰ صاحب فاضل بد و ملہوی نے نہایت عمدگی سے حضرت مسیح موعود کے کارنامے کے عنوان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا.پھر مولوی غلام احمد صاحب ارشد نے قرآن مجید کی پیشگوئیاں اس زمانے کے بارہ میں“ کے موضوع پر سوا بارہ بجے تک فاضلانہ تقریر کی.آپ کے بعد بشیر احمد صاحب گوجرانوالہ نے متحدہ ہندوستان کے آخری سالانہ جلسہ 1946ء کے موقعہ کی حضرت مصلح موعود کی نظم ”اللہ کے پیاروں کو تم کیسے برا سمجھے خوش الحانی سے سنائی نظم کے بعد مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی نے عہد حاضر سے متعلق
تاریخ احمدیت بھارت 359 جلد اول حضرت مسیح موعود کی بعض پیشگوئیاں بیان کیں.اس تقریر کے بعد اجلاس ملتوی ہوا.(46) اجلاس دوم سب سے قبل مولوی غلام احمد صاحب ارشد نے سورہ یوسف کا پہلا رکوع تلاوت کیا.پھر حافظ عبد الرحمن صاحب پشاوری نے آنحضرت صلی اتم کی مدح میں ایک نظم پڑھی.ازاں بعد ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کی مفصل تقریر ” حضرت مسیح موعود اور آپ کے خدام کا غیر مسلموں سے سلوک“ کے عنوان پر ہوئی.آپ کے بعد مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی نے 2:58 سے پون گھنٹہ تک تقریر فرمائی.جس میں اسلام اور آنحضرت سال پریتم کی تعلیم رواداری وغیرہ کے متعلق غیر مسلموں کی آراء کا بھی تذکرہ کیا.اس تقریر کے بعد جلسہ میں موجود 33 ہندو سکھ دوستوں میں ارجن سنگھ صاحب عاجز ایڈیٹر اخبار رنگین امرتسر کی کتاب ”سیر قادیان“ کے نسخے تقسیم کئے گئے.اس کارروائی کے بعد بشیر احمد صاحب آف گوجرانوالہ نے حضرت مصلح موعودؓ کی نظم ” تعریف کے قابل ہیں یا رب تیرے دیوانے‘ سنائی.پھر قریشی عبدالرشید صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ نے پچیس منٹ تک تحریک جدید کے قیام کی اہمیت پر دو تقریر کی.اور یہ اجلاس سوا چار بجے اختتام پذیر ہوا.(47) -3 جلسے کا تیسرا دن 28 دسمبر 1947ء اجلاس اول حسب سابق یہ اجلاس بھی حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل کی صدارت میں شروع ہوا.سب سے پہلے آپ نے احباب سمیت دعا کی.پھر مولوی غلام احمد صاحب ارشد نے سورہ مریم کے دوسرے رکوع کی تلاوت کی.پھر جناب حافظ عبد الرحمن صاحب پشاوری نے نظم پڑھی.آپ کے بعد چوہدری سعید احمد صاحب بی اے نے پونے گیارہ سے بیس منٹ تک اصلاح نفس کے ذرائع بیان کئے.پھر مولوی شریف احمد صاحب امینی نے حکومت و رعایا کے باہمی تعلقات اسلام اور احمدیت کے نقطہ نگاہ سے“ کے موضوع پر پچیس منٹ تک ایک سیر حاصل تقریر کی.اس کے بعد یونس احمد صاحب اسلم نے اپنے والد ماسٹرمحمد شفیع صاحب اسلم (سابق امیر المجاہدین ملکانہ) کی ایک نظم سنائی.
جلد اوّل 360 تاریخ احمدیت بھارت بعد ازاں سوا بارہ بجے سے پونے ایک بجے تک مکرم صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب نے برکات دعا کے مضمون پر تقریر کی.اجلاس دوم اس روز کا اجلاس دوم بشیر احمد صاحب آف گوجرانوالہ کی تلاوت سے شروع ہوا.آپ نے سورۃ الفتح کا آخری رکوع تلاوت کیا.پھر یونس احمد صاحب اسلم نے ایک نظم سنائی.ازاں بعد مولوی غلام مصطفی صاحب بدوملہی نے آنحضرت ﷺ کے مصائب پر صبر اور توکل علی اللہ“ کے موضوع پر دو بجگر پچیس منٹ سے بتیس (32) منٹ تک تقریر کی.جس میں آنحضرت صلیم اور آپ کے صحابہ کے مصائب پر صبر کے بہت سے سبق آموز واقعات سنائے.اس کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا اظفر احمد صاحب بارایٹ لاء نے ” ہمارا قادیان کے عنوان پر تیس منٹ میں ایک بہت ہی دلچسپ اور ایمان افروز مقالہ پڑھا.جس میں قادیان کے آباد ہونے کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آباء کرام کے حالات انگریزوں کی حکومت سے قبل قادیان کے اُجڑنے کے واقعات اور ایک سکھ ریاست میں پناہ لینے ، پھر قادیان میں واپسی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب سے چند دیہات واپس ملنے کا ذکر کر کے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیا مقصد تھا؟ ہمیں قادیان کیوں پیاری ہے؟ اور ہمارا حکومت سے اور غیر مسلموں سے کیا سلوک ہونا چاہیے اور کیا سلوک ہوگا ؟ آپ کی تقریر کے بعد مولوی شریف احمد صاحب امینی نے حضرت امیر المومنین کا پیغام دوبارہ سنایا.آخر میں حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ صدر جلسہ نے پھر حکام اور غیر مسلم سامعین اور مقررین اور احمدی حاضرین کا شکریہ ادا کیا.اور حکام کو جماعت کی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے بتایا کہ جب کوئی غیر مسلم نہیں کہہ سکتا کہ قادیان میں اپنی اکثریت کے زمانہ میں ہم نے اس کی عزت ، مال اور جان پر کبھی ہاتھ ڈالا ہو تو اب جبکہ ہم نہایت اقلیت میں ہیں ہم سے انہیں کیا خوف ہوسکتا ہے؟ نیز وعدہ کیا کہ ہم نئے بسنے والے غیر مسلموں سے بھی ہمیشہ اپنی طاقت کے مطابق حسن سلوک کریں گے.کیونکہ وہ ہمارے مہمان ہیں.پھر آپ نے حضرت امیر المومنین الصلح الموعود اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے احباب کو
تاریخ احمدیت بھارت 361 جلد اوّل سلام پہنچایا.نیز فرمایا کہ اس موقعہ پر ہمارا پیارا امام دعا کرایا کرتا تھا.اب وہ تو ہم میں موجود نہیں لیکن اس کے دو عزیز موجود ہیں.مکرم صاحبزادہ مرز اظفر احمد صاحب نے میری درخواست پر جلسہ کے افتتاح کے موقعہ پر دعا کرائی تھی.اب میں مکرم صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب کی خدمت میں آخری دعا کرانے کی تحریک کرتا ہوں.اس پر صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب نے نہایت رقت اور آہ وزاری کے ساتھ قریباً دس منٹ تک دعا کرائی جس کے بعد یونس احمد صاحب اسلم اور میر رفیع احمد صاحب نے نظمیں سنائیں اورعہد درویشی کا یہ پہلا سالانہ جلسہ چار بج کر اکیس منٹ پر بخیر وخوبی ختم ہوا.الحمد للہ.(48) -1 -2 -3 تقسیم ملک کے بعد دور درویشی کے ابتدائی ایام میں صدر انجمن احمد یہ قادیان کے -4 -5 -7 اولین ممبران زمانہ درویشی کے ابتداء میں صدرانجمن احمد یہ قادیان کے اولین ممبران درج ذیل تھے:.صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب بیرسٹر ایٹ لاء ( ناظر اعلیٰ و نمائندہ خاندان حضرت مسیح موعود ) صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب ( ناظر تعلیم و تربیت و ناظر دعوة و تبلیغ نمائندہ خاندان حضرت مسیح موعود ) حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل (امیر جماعت احمدیہ قادیان و ناظر ضیافت) مکرم مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی.اے واقف زندگی ( ناظر امور عامه وامورخارجہ ) مکرم شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی.اے ( ناظر بیت المال ومحاسب) -6 مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی (ممبر ) مکرم چوہدری سعید احمد صاحب بی.اے آنرز.نمائندہ درویشان نمبر 3 (ممبر ) مکرم کیپٹن شیر ولی صاحب نمائندہ درویشان نمبر 1 ( ممبر ) مکرم ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب (ممبر ) 10 - مکرم حسن محمد خاں صاحب عارف بی.اے واقف زندگی و نمائندہ تحریک جدید (ممبر ) 11 - مکرم مرزا محمد حیات صاحب نمائندہ درویشان نمبر 2 ( ممبر ) 12 مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی (ممبر ) (49)
جلد اوّل 362 تقسیم ملک کے بعد بھارت میں تبلیغ حق میں مصروف مبلغین تاریخ احمدیت بھارت تقسیم ملک سے قبل جماعت احمد یہ برصغیر کی ایک خالص تبلیغی اور روحانی جماعت کہلاتی تھی.جس کی تمام سرگرمیاں نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے وقف رہیں.بے شک 1947ء کے فرقہ وارانہ فسادات میں اس جماعت کا مرکز بھی مظالم کا نشانہ بنا.جس کی وجہ سے اس جماعت کے تبلیغی نظم ونسق اور کاروائیوں میں وقتی طور پر تعطل واقع ہوا مگر پھر بھی یہ حالات چند ماہ قائم رہنے کے بعد بدل گئے اور حضرت مصلح موعودؓ کی توجہ کے طفیل مبلغین کے نظام عمل میں جو بظاہر بالکل درہم برہم ہو گیا تھا، پھر سے حرکت پیدا ہو گئی.اور دیکھتے ہی دیکھتے از سر نو مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گیا.اس جگہ بھارت کے ان احمدی مبلغین کا ذکر کرنا مقصود ہے جنہوں نے تقسیم ملک کے وقت نامساعد حالات میں بھی اپنے اپنے علاقہ میں تبلیغ اسلام اور احمدیت کا جھنڈا بلند رکھا.اور ناقابل برداشت مصیبتوں کے وقت بھی نہایت استقلال کے ساتھ اشاعت اسلام میں سرگرم عمل رہے.اور بعد میں بھی خدمت اسلام کی توفیق پائی.مکرم مولا نا عبد اللہ صاحب مالا باری ( جنوبی بھارت میں تبلیغ اسلام کی خدمت بجالا رہے تھے ) مکرم مولوی احمد رشید صاحب مالا باری ( علاقہ مالا بار میں تبلیغ اسلام کی خدمت بجالا رہے تھے ) -1 -2 -3 مکرم مولوی محمد سلیم صاحب ( مغربی بنگال کلکتہ میں تبلیغ اسلام کی خدمت بجالا رہے تھے ) مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب دیا گڑھی ( اتر پردیش لکھنو میں تبلیغ اسلام کی خدمت بجالا رہے تھے ) مکرم مولوی حکیم محمد دین صاحب (مہاراشٹر بمبئی میں تبلیغ اسلام کی خدمت بجالا رہے تھے ) مکرم مولوی عبدالمالک خاں صاحب ( حیدر آباد دکن میں تبلیغ اسلام کی خدمت بجالا رہے تھے ) مکرم مولوی فضل دین صاحب (آگرہ یو پی میں تبلیغ اسلام کی خدمت بجالا رہے تھے ) مکرم مولوی سمیع اللہ صاحب دھرم پر کاش ( بہار میں تبلیغ اسلام کی خدمت بجالا رہے تھے ) ان مبلغین میں سے مولوی محمد اسمعیل صاحب دیا گڑھی اور مولوی عبد المالک خاں صاحب کچھ عرصہ تک بھارت میں کامیابی سے خدمت سلسلہ کا فریضہ ادا کرنے کے بعد پاکستان چلے گئے.(50)
تاریخ احمدیت بھارت 363 جلد اول -1 2 -3 -5 -6 -7 _8 -9 -10 حواشی باب ششم بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 372 تا 387 مطبوعہ 2007ء یہ عمارت مسجد اقصیٰ کی چوتھی مرتبہ توسیع کے وقت 2008ء میں منہدم کر دی گئی اور اس کی جگہ دو منزلہ خو بصورت وسیع و عریض عمارت مسجد اقصیٰ کے مشرقی جانب بنائی گئی جو مسجد کا ہی حصہ ہے.بحوالہ الفضل 10 جنوری 1947 ء صفحہ 5 اور 6 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 388 تا 390 مطبوعہ 2007ء بحوالہ الفضل 8 جون 1948 ء صفحہ 4 اور 5 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 390 تا 393 مطبوعہ 2007ء بحوالہ الفرقان اگست ستمبر اکتوبر 1963 ء صفحہ 12 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 393 مطبوعہ 2007ء بحوالہ وہ پھول جومرجھاگئے جلد دوم صفحہ 2 بحوالہ ہفت روزہ بدر 15 ، 22، 29 / دسمبر 2010ءصفحہ 41 درویشان قادیان نمبر ) بحوالہ تریاق القلوب صفحہ 60 بحواله الفرقان درویشان قادیان نمبر اگست ستمبر، اکتوبر 1963 رصفحه 151 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 368 369 مطبوعہ 2007ء ( تاریخ احمدیت میں یہ ذکر جناب مرزا محمد حیات صاحب درویش کی ایک غیر مطبوعہ ڈائری سے لیا گیا ہے ) بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 369 مطبوعہ 2007ء (ماہ ستمبر 1948 ء سے مستقل یعنی تنخواہ دار درویشوں کو درویشان ناصر آباد، بیرونی خدام درویشوں کو درویشان مسجد اقصیٰ اور مقامی درویشان کو درویشان مسجد مبارک کے نام سے موسوم کیا جانے لگا.) 12.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 369 تا 371 مطبوعہ 2007 ء ( تاریخ احمدیت میں یہ ذکر جناب مرزا محمد حیات صاحب درویش کی ایک غیر مطبوعہ ڈائری سے لیا گیا ہے) 13 - روحانی خزائن جلد 12 سراج منیر صفحہ 28 مطبوعہ نومبر 1984ء
جلد اوّل 364 تاریخ احمدیت بھارت 14 - روحانی خزائن جلد 17 / اربعین نمبر 1 صفحہ 344 15- شرائط بیعت مندرجہ الوصیت صفحہ آخر مطبوعہ 1936ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 255 مطبوعہ 2007ء 17 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 253 تا 255 مطبوعہ 2007ء 18 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 256 مطبوعہ 2007ء 19.اس تعلق سے مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے کا بیان ہے کہ یہ باغ ایک سکھ نے الاٹ کروالیا تھا لیکن ہماری طرف سے اس کو قبضہ نہیں لینے دیا گیا.پھر سردار امولک سنگھ صاحب مجسٹریٹ درجه اول ( متعین قادیان) نے اس بارہ میں مقدمہ کی سماعت کی اور بطور متبرک بہشتی مقبرہ کا حصہ تسلیم ہو کر ہمیں مل گیا لیکن گزشتہ سال (1963ء.ناقل ) جو احمد یہ محلہ کے نکاس مکانات کی قریباً سواد ولاکھ روپیہ قیمت طلب کی گئی اور عدم ادائیگی کی صورت میں مرکزی وزارت آبادی نے نیلام کرنے کی دھمکی دی تھی یہ رقم صدر انجمن ادا کر رہی ہے جس میں اس سکھ کی نیش زنی سے بڑے باغ کی قیمت چوالیس ہزار رو پی بھی شامل کر دی گئی ہے.مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 257 مطبوعہ 2007ء) 20 اس تعلق سے مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے نے مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم میں لکھا ہے اس وقت تو اراضی کا انتظام نہ ہو سکا چند سال بعد بعض درویشوں نے اردگرد کے غیر مسلم مہاجرین سے ٹھیکہ پر اراضی لے کر کاشت کرنا شروع کی اور اب تک کر پاتے ہیں.صدر انجمن احمد یہ نیز اس کے صیغہ پراویڈنٹ فنڈ اور بعض درویشوں نے بہشتی مقبرہ کے قریب اراضی خریدیں مگر اب دور دور بھی خرید لی گئی ہیں ) ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 257 مطبوعہ 2007ء) 21.یہاں پہلے ملک محمد بشیر صاحب کا ٹال ہوا کرتا تھا جہاں لکڑی ( ایندھن ) فروخت کی جاتی تھی.22.اس سلسلہ میں طویل خط و کتابت ہوئی لیکن بعد کو کسٹوڈین کے قوانین جاری ہونے کے باعث کرایہ نہیں ملا اور یہ عمارتیں نکاس قرار پائیں.مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 258 حاشیہ مطبوعہ 2007ء)
تاریخ احمدیت بھارت 365 جلد اوّل 23.مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 256 تا 258 مطبوعہ 2007ء 24.یہ سب موٹریں جو ایام فسادات میں عارضی طور پر احمدیوں سے حاصل کی گئی تھیں مستقل طور پر ضبط کر لی گئیں 25 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 258 تا 259 مطبوعہ 2007ء 26.بعد ازاں یہ مستورات بحفاظت قادیان سے پاکستان بھجوا دی گئی تھیں.( بحوالہ مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 260 حاشیہ مطبوعہ 2007ء) 27.اس تعلق سے مزید تحریر ہے کہ بہت سے مکان بطور ملبہ فروخت ہو گئے تھے مگر مولوی برکات احمد صاحب را جیکی مرحوم نے بہت محنت کر کے تمام ایسے مکانات کی محلہ وار فہرست حکومت کو مع اس تفصیل کے بھجوائی کہ ان کا کونسا حصہ منہدم ہے؟ بفضلہ تعالیٰ اس کے بعد مکانات کی ناجائز فروخت اور منہدم کرنے کا سلسلہ ختم ہو گیا.( حاشیہ مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 260 حاشیہ مطبوعہ 2007ء) 28 صدر انجمن احمدیہ نے بعد میں مکمل محکمانہ ثبوت نہ ہونے کے باعث دعوئی ترک کر کے یہ پریس خرید لیا تھا.( حاشیہ مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 261 حاشیہ مطبوعہ 2007ء) بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 259 تا 261 مطبوعہ 2007ء 30 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 261 تا262 مطبوعہ 2007ء الف.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 262 مطبوعہ 2007ء.ب.ملک صلاح الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں ” کچھ عرصہ بعد سر دار امولک سنگھ مجسٹریٹ نے سکھوں کو بلا کرنا جائز قبضہ والا حصہ خالی کرنے اور ہمیں قبضہ کرنے کو کہا اور اسی روز کی مہلت دی گئی.غیر مسلم اس حصہ سے ملبہ اٹھانے میں تاخیر کرنا چاہتے تھے.حمد اللہ خاکسار کی تجویز کامیاب ہوئی کہ ہم خو دل کر ملبہ ان کی طرف ڈال کر درمیانی دیوار شام تک کھڑی کر دیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.( بحوالہ حاشیہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 262 مطبوعہ 2007ء) 32 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 263 مطبوعہ 2007ء 33 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 263 مطبوعہ 2007ء 34 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 263 تا 264 مطبوعہ 2007ء
جلد اوّل 366 تاریخ احمدیت بھارت 35.رسالہ الوصیت صفحہ 17 ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 318 مطبوعہ 2008ء 36.رسالہ الوصیت صفحہ 15 ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 316 مطبوعہ 2008ء 37 - بحوالہ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم صفحہ 86، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 438 مطبوعہ 2007ء -38 روزنامه الفضل 24 نومبر 2005 صفحہ 3 39 - بحوالہ الفرقان اگست ستمبر اکتوبر 1963 ءصفحہ 111 بحوالہ الفرقان اگست ستمبر اکتوبر 1963 ، صفحہ 112,111 41 - بحوالہ الفرقان اگست ستمبر اکتوبر 1963 ءصفحہ 108 نوٹ:.2008ء میں جنازہ گاہ اور مقام ظہور قدرت ثانیہ کی جگہ خوبصورت فوارہ اور دلکش باغ لگایا گیا.سال 2014ء کے آخر میں شاہ نشین جو کمرہ کی شکل میں تھی اس کی جگہ خوبصورت بارہ دری بنائی گئی ہے.42 - مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحہ 44 تا 46، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 439 تا 441 مطبوعہ 2007ء 43.سورۃ البقرہ آیت 198 -44 سورۃ یوسف آیت 89 تا 102 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحه 442 مطبوعہ 2007 46 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 443،442 مطبوعہ 2007 47- بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 443 مطبوعہ 2007 48 - بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 443 تا445 مطبوعہ 2007ء 49.بحوالہ الفرقان اگست ستمبر اکتوبر 1963ء صفحہ 74،73 50- بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 107 مطبوعہ 2007ء
تاریخ احمدیت بھارت 367 جلد اوّل اختتام الحمد للہ ! تاریخ احمدیت بھارت کی پہلی جلد اپنے اختتام کو پہنچی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے مضامین سے بہتوں کو استفادہ کی توفیق عطا فرمائے.دوسری جلد ان درویشان کرام کے سوانح حیات پر مشتمل ہوگی جنہوں نے قضا نحبه‘ کے مطابق حفاظت قادیان کے لئے آخری دم تک مرکز احمدیت میں قیام پذیر رہے اور پھر بہشتی مقبرہ میں ابدی نیند سو گئے.جزاھم اللہ احسن الجزاء.
تجویز و شائع کرده کڑی انتخانان نے بیاس تحصیل دسوہہ ضلع ہوشیار پور مرزا بشیر احمد صاحب قادیان جو ضلع گورداس پور پنجاب کی تحصیل گورداسپور و ٹالہ کے حصوں کا ہے 15 جولائی 1940 ما کن تحصیل در سوپر ضلع پروشیا و ورود بنادے اور رجوله بیس دیگر ان گناه اڑی سم بینی یا کتان پنواں S..مالی نظر پ کا جنوب بر جنان سرای انشان مراف.س.بیری ريف ؟ دیومال سری گوبند پاور کوردی ریاست کپور تحصله گواره شہر از طرف تیری سار ا به طرف گرد و دسجود بخت داره کا مسنووان موله موال.1 ه بشید جاگر مال با رت کلان..نمان بامری محمل جوگی چیه یہاں الوعات شمال تیره نظرات تیری.پنا نوالہ تلونڈی خان ملک ار بالا دار و نه خیاں فقیراں بطرف پٹھانکوٹ مدرسات مقام و به وی ° روه لاین پشین من است شه راست نہر والے دریا صد مقام تھان.أمل ه طور گرد نور سپتال، ایندی انک مشكله است با رشد را (x) نقشہ نمبر 9 یاری وہ آپ چین نمر بظرف میوال والا ہو نہ غیرہ.بال ° شہیر کرتی جائے م في الفي ا میانوالی انت کوٹ گوارشی خان پیارا توشه بره بهار صولی چور پوری سیاسنگی حار وال بصوته سیکھاں جاده حمان اهنده نا را گره.بهنگویه بینی بانگر رام پور کرو جب بھا کہاں تھیاں دیران حال سام گل بیل کلاس بیاورید ريال میری میانیاں سارا حسین خوجه دل هند الولادة شاه آباد 0 ستاره چال بطیف وزیر کا جشن = A 411 الف دو موٹر کاری دریا کا پیشن سلمان آبادی احمدی آبادی سکھ آبادی بنده آبادی مخلوط آبادی ہنے چراغ گاؤں سبسٹ آئی ی اہم چھو ٹے رہنے تحصیل گورداسپور ضلع گورداسپور.کارڈیاں پھوار ABOGOS - x ++ نقشه ماحول قادیان بیطرف ڈیمر با با تانک که به طرفه امر تیر ا به طرف او مور ته ر