Language: UR
احمدی بچوں اور بچیوں کو آسان اور سادہ الفاظ میں جماعت کی تاریخ سے روشناس کروانے کےلئے مؤلف کی یہ قابل قدر کاوش ہے۔ مؤلف کو چونکہ بطور نائب ایڈیٹر الفضل اورایڈیٹر ماہنامہ تشحیذ الاذھان تحریر کا وسیع تجربہ تھا، اس لئے انہوں نے اپنی اس تصنیف میں چھوٹے بچوں کے مناسب حال اور چھوٹے چھوٹے فقروں میں دلنشین انداز میں اختصار کے ساتھ سلسلہ کی تاریخ کو ابواب کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1967ء میں سامنے آیا اور افادیت اورمقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کے متعدد ایڈیشن سامنے آچکے ہیں۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن میں عہد خلافت خامسہ تک کے واقعات سمیت بعض ضروری اضافے شامل ہیں۔
1 احمدی بچوں کے لئے جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ
2 جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ...........نام کتاب
پیش لفظ
عرض حال ی محض اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے کہ اُس نے مجھے حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ ( اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے) کی خواہش کی تعمیل میں احمدی بچوں کیلئے آسان اور سادہ زبان میں جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ مرتب کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور پھر اسے جماعت میں مقبولیت بخشی.اس کا پہلا ایڈیشن 1967ء میں شائع ہوا تھا اس کے بعد اس وقت تک کم و بیش بیس (20) ایڈیشن اُردو زبان میں شائع ہو چکے ہیں.جبکہ دنیا کی دیگر اہم زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہو چکے ہیں.اس کا انگریزی ترجمہ جماعت کی ویب سائٹ پر محفوظ ہو چکا ہے.الحمدللہ علی ذالک میں بو.کا از حد ممنون ہوں جس نے بہت سے ضروری اضافوں کے ساتھ اسے شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے.خاکساران اصحاب کا ممنون ہے جنہوں نے اس کتاب کی تالیف میں مفید مشورے دیئے اور مددفرمائی.میری درخواست ہے کہ اس میں اگر کوئی غلطی یا خامی نظر آئے تو ضرور مجھے مطلع کر دیں تا کہ آئندہ ایڈیشنوں میں اس کی اصلاح کا موقع مل سکے.بالآخر درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو جماعت کے نونہالوں کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید اور بابرکت بنائے اور خاکسار کے لئے اسے رضائے الہی کے حصول کا موجب بنائے.آمین خاکسار شیخ خورشید احمد از ٹورنٹو، کینیڈا
5 جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ کے متعلق مؤقر آراء حضرت سیدہ اُمّم متین مریم صدیقہ صاحبہ غفراللہ ھا ( سابق صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ) جماعت میں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر موضوع پر کثیر تعداد میں لٹریچر شائع ہو رہا ہے وہاں بچوں اور بچیوں کی دینی و علمی معلومات وسیع کرنے کے لئے لٹریچر کی کمی ہے حالانکہ بچپن کی عمر میں ضرورت ہے کہ دین سے روشناس کروایا جائے ، اپنے مذہب کے اصول معلوم ہوں ، روایات کا علیم ہو، تا اُن کی روشنی میں بچے اپنے آپ کو ڈھال سکیں.تاریخ احمدیت پر جتنی کتب اس وقت تک لکھی گئی ہیں وہ سب ایسی ہیں کہ کہ جن سے ایک تعلیم یافتہ شخص ہی فائدہ اُٹھا سکتا ہے.کم تعلیم یافتہ خواتین یا چھوٹے بچوں کے لئے ضرورت تھی کہ ایک ہلکی پھلکی کتاب ہو جس کو پڑھ کر حضرت مسیح موعود اور آپ کے خلفاء اور اُن کی تمام تحریکات اور واقعات کا علم ہو سکے.سو الحمد للہ شیخ خورشید احمد صاحب ( نائب ایڈیٹرالفضل ریٹائرڈ) نے بچوں کے لئے اس موضوع پر کتاب لکھ کر میری اس دیر بینہ خواہش کو پورا کیا.اللہ انہیں جزائے خیر دے.یہ کتاب ناصرات الاحمدیہ کے آئندہ امتحانات کے لئے بھی تجویز کی گئی ہے اس لئے تمام لجنات کتاب منگوائیں اور کوشش کریں کہ بڑے گروپ کی ہر بچی اس امتحان میں شامل ہو اور احمدیت کی تاریخ سے واقف ہو.صرف ایک دو کتابوں کا لکھا جانا احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے کافی نہیں.میں امید کرتی ہوں کہ احباب جماعت اس قسم کی کتابوں کے لکھنے کی طرف مزید توجہ فرمائیں گے تاہمارے بچے ان کو پڑھ کر دین حق کے شیدائی بنیں.آمین ثم آمین
6 حضرت قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری ( سابق ناظر اشاعت لٹریچر تصنیف) جماعت کے بچوں اور بچیوں کے لئے احمدیت کی مختصر تاریخ کا مسودہ میں نے پڑھ لیا ہے.میری رائے میں یہ کتاب جماعت کے بچوں اور بچیوں کے لئے انشاء اللہ بہت مفید ہوگی.ہر گھرانا میں اس کتاب کا موجود ہونا بچوں کی تربیت کے پیش نظر از بس ضروری ہے.مضمون سادہ الفاظ میں لکھا گیا ہے جس سے کم علم رکھنے والے بڑی عمر کے اصحاب بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.احمد یہ لٹریچر میں یہ کتاب ایک مفید اضافہ ہے.(الفضل 19 جنوری 1967ء) حضرت مولانا ابوالعطا صاحب فاضل ایک سواٹھائیس صفحات کی یہ کتاب مکرم شیخ خورشید احمد صاحب نائب ایڈیٹر روز نامہ الفضل نے تالیف فرمائی ہے میں نے اسے لفظاً لفظاً پڑھا ہے یہ کتاب احمدی بچوں اور بچیوں کے لئے لکھی گئی ہے.شیخ صاحب موصوف کو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے خاص ملکہ حاصل ہے.آپ کئی سال تک رسالہ تشحیذ الا ذہان کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں آپ نے اپنی اس تصنیف میں چھوٹے بچوں کے مناسب حال اور چھوٹے چھوٹے فقروں میں دلنشین انداز میں اختصار اسلسلہ احمدیہ کی ضروری تاریخ کو چار ابواب میں جمع کر دیا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ صاحب موصوف کو جزائے خیر بخشے اور اس رسالہ کو احمدی بچوں اور بچیوں کے لئے مفید اور بابرکت بنائے.الفضل 2 فروری 1967ء)
7 تتبصره روزنامه الفضل ربوه یہ کتاب سادہ اور شستہ زبان میں ہے جماعت احمدیہ کی تاریخ شروع سے لے کر آخر تک واقعات پر مشتمل ایسی ترتیب سے لکھی گئی ہے کہ نہ صرف بچوں کے لئے بلکہ بڑی عمر کے احمدیوں کے لئے بھی مفید ہو گی...ہر گھر میں ایک نہیں بلکہ کئی کئی جلد میں موجود رہنی چاہئیں تا کہ کوئی بچہ بھی اس سے محروم نہ رہے.(الفضل 24 جنوری 1967ء) محترم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور آپ کی کتاب بچوں کے لئے ہی نہیں بڑوں کے لئے بھی مفید اور برمطلب ہے کیونکہ اس میں تاریخ احمدیت خلاصہ بیان کی گئی ہے بڑی تاریخ دس جلدوں میں 1947 ء تک پہنچی ہے.تفصیل کا ہی تقاضا ہے.لیکن یہ خلاصہ 132 صفحات پر مشتمل 1987 ء تک کا ہے.تاریخ احمدیت کو اختصار سے بیان کرنے کی ضرورت بار بار سامنے آتی ہے سو آپ کی اس تاریخ سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے اور آپ کی محنت کو قبول فرمائے.آمین
صفح 3 4- 5- 8- 15 15 15 17 17 18 19 8 پیش لفظ عرض حال -- مندرجات نا مضمون مختصر تاریخ احمدیت کے متعلق مؤقر آراء - فہرست مضامین باب 1 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود تمہید حضرت مسیح موعود کے مختصر خاندانی حالات پیدائش اور ابتدائی تعلیم.بچپن کی عادات نوجوانی کا زمانہ اور شادی.والدہ ماجدہ کی وفات.ایک الہام - آٹھ یا نو ماہ کے روزے والد ماجد کی وفات -- براہین احمدیہ کی تصنیف مقدمہ ڈاک خانہ بڑے بھائی کی وفات دوسری شادی مبشر اولاد - 19 20 20 21 23 23 24 2222222
25 9 مجد داور مامور ہونے کا دعویٰ اعلان بیعت اور شرائط بیعت جماعت احمدیہ کی بنیاد پیشگوئی مصلح موعود - وفات مسیح کا اعلان اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ مناظرے.جلسہ سالانہ - پادری عبد اللہ آتھم سے مباحثہ اور پیشگوئی.عربی میں مقابلہ کی دعوت کسوف و خسوف کا نشان عربی سب زبانوں کی ماں ہے.حضرت بابا نانک صاحب مسلمان تھے جلسه مذاہب مقد مہ ڈاکٹر مارٹن کلارک پنڈت لیکھرام کے متعلق پیشگوئی.ہر حالت میں سچ بولنے کا نمونہ.تعلیم الاسلام اسکول کا قیام.الحکم اور بدر کا اجراء.....میں ہزار (20,000) روپے کا انعامی چیلنج.طاعون پھیلنے کی پیشگوئی مينارة اح.دو فرقه احمدیه 28 29 29 29 31 25 26- 26- 222222222 32 32 33 33 34 34 36 37 37 38 38 39 39
10 حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف شہید.مدرسہ احمدیہ کی ابتدائی داغ بیل.زلزلہ کانگڑہ وفات کے متعلق الہامات اور خلافت کی پیشگوئی.مقبره بهشتی رسالة تشحیذ الا ذہان..ڈاکٹر ڈوئی کی ہلاکت آخری سفر لا ہور اور وفات.غیر معمولی صدمه و مخالفت انتخاب خلافت اور تدفین حضرت مسیح موعود کا حلیہ - حضور کی عادات و اخلاق خاص اصحاب تصانیف.باب 2 حضرت حکیم نورالدین خلیفہ امسیح الاوّل.حضرت خلیفہ اول کے ابتدائی مختصر حالات ملازمت سے فراغت اور ہجرت خلافت اُولیٰ کا انتخار خلافت اولی کے اہم واقعات.مدرسہ احمدیہ کا قیام -- انگریزی ترجمه قرآن مجید تعمیر عمارات 40- 42- 42 42 43 44 44 45 46- 47 48 48 50 51 53 53 55 57 57 57 58 58
11 اخبارات ورسائل کا اجراء.گھوڑے سے گرنے کا واقعہ پہلے بیرونی مشن کا قیام اندرونی فتنے کا مقابلہ حضرت خلیفہ اول کی وفات - حضرت خلیفہ اول کا مقام 58- 59 59 59 61 62 باب 3 حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی -- 65 حضرت خلیفہ ثانی کے ابتدائی مختصر حالات انتخاب خلافت ثانیه خلافت ثانیہ کے اہم واقعات اشاعت دین کا وسیع نظام - جماعتی تربیت اور نظام.منارة امسیح کی تکمیل.تحریک ملکانہ میں جماعت کی جدوجہد پہلا سفر لندن - کابل میں ایک اور احمدی کی شہادت ملکی معاملات میں مسلمانوں کی رہنمائی ہجرت اور درویشان قادیان ربوہ کا قیام.حضرت اماں جان کی وفات جماعت کے خلاف فتنے تحریک جدید - 65 68 71 71 73 75 76 77 77 78 82 82 83 84 86
خلافت جو بلی جلسہ سالانہ - 87- 87 12 قاتلانہ حملہ، بیماری اور سفر یورپ.تفسیر کبیر تفسیر صغير وقف جدید.ہجری شمسی تقویم جماعت کے نام وصیت.آخری بیماری اور وفات.اولاد.چند بزرگان سلسله اہم تصانیف.باب 4 حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفہ امسیح الثالث انتخاب خلافت ثالثه حضرت خلیفہ ثالث کے مختصر حالات - 88 89 89 90 91 92- 93 93 98 99 - --- 99 66 99 - عہد خلافت ثالثہ کی بابرکت تحریکیں اور اہم واقعات ------- 102 فضل عمر فاؤنڈیشن - تعلیم قرآن مجید.وقف جدید میں احمدی بچوں کی شمولیت حضرت مسیح موعود کا ایک الہام پورا ہوا کوئی فرد بھوکا نہ رہے سفر یورپ اور کوپن ہیگن میں بیت کا افتتاح.102- 102- 103 103 104 104----
13 مغربی افریقہ کا سفر - 1974ء میں جماعت کی مخالفت.منصو بہ صد سالہ جو بلی لندن میں بین الاقوامی کسر صلیب کا نفرنس پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام کا اعزاز - حضور کا عقد ثانی حضور کی وفات - باب 5 حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع حضرت مرزا طاہر احمد کے مختصر حالات تعمیر بيوت الذكر.سپین میں پہلی بیت الذکر کا افتتاح - تعمیر بیوت الحمد ربوہ سے ہجرت صد سالہ جشن تشکر صد ساله جلسه سالانه قادیان نستعلیق کتابت کا کمپیوٹر اور الرقیم پریس.تراجم قرآن مجید ہومیو پیتھی علاج بالمثل.عالمگیر دعوت الی اللہ اور عالمی بیعتیں.خدمت خلق کی جھلکیاں.کفالت یتامی 105- 106- 106- 108- 109 110 111 113 113 114- 115 115 115 116- 117- 117- 117.118.118.119 120
14 وقف نوسکیم.جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ ایم ٹی اے مریم شادی فنڈ تصانیف.جماعت کی ترقی کی رفتار حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کی وفات -------- 121- 121 122- 124- 124- 125 126- باب 6 حضرت مرزا مسرور احمد خلیفتہ اسیح الخامس - 127 حضرت مرزا مسرور احمد یدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مختصر حالات ---- 127 پہلا خطاب افتتاح بیت الفتوح - افتتاح جامعہ احمدیہ کینیڈا خلافت خامسہ کے آغاز پر جماعت احمدیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہونے والے واقعات.باب 7 ضروری معلومات.مجلس انتخاب خلافت اور خلیفہ کا حلف سلسلہ احمدیہ سے تعلق رکھنے والی اہم تاریخیں.چند بزرگان سلسله حرف آخر اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کا عہد 128- 128 129 129 131- 131- 132- 134.140- 141.
15 باب اوّل تمہید: پیارے بچو! ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی...ہیں.یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہیں اور جماعت احمدیہ میں شامل ہیں.جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حقیقی دین پھیلانے کیلئے قائم کیا ہے.اس جماعت کی بنیاد 1889ء میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود نے رکھی تھی.یہ جماعت کس طرح قائم ہوئی.کن کن حالات میں سے گزری اور کیسے معجزانہ رنگ میں اس نے ترقی کی.یہ بہت ہی دلچسپ، حیرت انگیز اور ایمان کو بڑھانے والے واقعات ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اس جماعت کو قائم کیا ہے اور پھر ہر موقع پر اس کی مددفرمائی.مخالفوں نے اسے مثانے کی پوری کوشش کی مگر خدا تعالیٰ نے اس کی ہمیشہ حفاظت کی اور اسے ہر میدان میں ترقی پر ترقی دیتا چلا گیا.اس کتاب میں ہم یہی واقعات اور حالات بیان کریں گے تا کہ احمدی بچے اپنی جماعت کی تاریخ سے واقف ہو سکیں.امید ہے کہ تم بڑی دلچسپی سے اور بڑے غور سے ان حالات کو پڑھو گے اور انہیں یا درکھو گے.حضرت مسیح موعود کے مختصر خاندانی حالات: جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود کا نام مرزا غلام احمد صاحب تھا.
16 آپ کے والد کا نام مرزا غلام مرتضی صاحب، دادا کا نام مرزا عطا محمد صاحب اور پڑدادا کا نام مرز اگل محمد صاحب تھا.آپ کی والدہ کا نام چراغ بی بی صاحبہ تھا.آپ ایک نہایت معزز مغل خاندان کی برلاس شاخ سے تعلق رکھتے تھے اس خاندان کا امتیازی لقب مرزا ہے.یہی وجہ ہے کہ اس خاندان کے تمام افراد کے ناموں کے ساتھ مرزا کا لفظ لکھا جاتا ہے اس خاندان کے ایک بزرگ مرزا ہادی بیگ صاحب سولہویں صدی عیسوی ( دسویں صدی ہجری ) کے آخر میں بابر کے عہد حکومت میں ، اپنے وطن خراسان کو چھوڑ کر قریباً دوسو (200) آدمیوں سمیت ہندوستان میں آ گئے اور دریائے بیاس کے قریب آباد ہو گئے یہاں انہوں نے ایک گاؤں کی بنیاد رکھی جس کا نام اسلام پور رکھا گیا یہ گاؤں بعد میں اسلام پور قاضی ماجھی کے نام سے مشہور ہوا.رفتہ رفتہ لوگ صرف قاضی ما جبھی کہنے لگے.پھر ماجھی کا لفظ بھی اُڑ گیا اور قاضی رہ گیا.آہستہ آہستہ قاضی سے قادی بن گیا اور پھر قادی سے قادیان“ ہو گیا.قادیان لاہور سے شمال مشرق کی طرف قریباً ستر میل کے فاصلہ پر ہندوستان کے صوبہ مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور میں واقع ہے یہی وہ مقدس بستی ہے جہاں پر جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود پیدا ہوئے اور جہاں پر آپ نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ گزارا.اور یہیں پر آپ کا مزار ہے.حضرت مسیح موعود کا خاندان مغل عہد حکومت میں بہت سے معزز عہدوں پر مامور رہا ہے.جب مغلیہ حکومت کمزور ہو گئی تو یہ خاندان ایک آزاد حکمران کے طور پر قادیان کے ارد گرد کے قریب ساٹھ میل کے علاقہ پر حکومت کرتا رہا.سکھوں کے زمانہ میں اس کی حالت بہت کمزور ہوگئی.بہت سا علاقہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا.حتی کہ قریباً سولہ سال تک اس خاندان کو قادیان سے ہجرت کر کے ریاست کپورتھلہ میں پناہ لینی پڑی.بعد میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں یہ خاندان پھر قادیان واپس آکر
17 آباد ہو گیا.انگریزوں کے عہد حکومت میں اس خاندان کی باقی جاگیر تو ضبط کر لی گئی البتہ قادیان اور اس کی نواحی زمین پر اس کی ملکیت کے حقوق قائم رہے.پیدائش اور ابتدائی تعلیم : حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود 13 فروری 1835 ء کو جمعہ کے دن نماز فجر کے وقت قادیان میں پیدا ہوئے آپ کی ولادت تو آئم تھی یعنی آپ کے ساتھ ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی جو تھوڑی مدت کے بعد فوت ہو گئی.جب آپ کی عمر چھ سات سال ہوئی تو ایک استاد آپ کو پڑھانے کے لئے مقرر کیا گیا.جس سے آپ نے قرآن مجید اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق فارسی کی چند کتابیں پڑھیں بعد میں اور استادوں سے آپ فارسی اور عربی پڑھتے رہے.طب کی بعض کتابیں آپ نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں جو کہ بہت بڑے حکیم بھی تھے.اس تعلیم کے نتیجہ میں آپ کو عربی اور فارسی کا کچھ ابتدائی علم حاصل ہو گیا.اس سے زیادہ آپ نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی.دینی تعلیم تو با قاعدہ طور پر آپ نے کسی استاد سے بھی حاصل نہیں کی.البتہ اپنے طور پر دینی کتابیں پڑھتے رہتے تھے اور قرآن مجید کا مطالعہ کرنے اور اس پر غور کرنے کا تو آپ کو شروع سے ہی بہت شوق تھا.بچپن کی عادات : حضرت مرزا صاحب کا بچپن بہت ہی سادہ اور پاکیزہ تھا.ایک رئیس خاندان اور امیر گھرانہ سے تعلق رکھنے کے باوجود آپ کو فضول کھیلیں کھیلنے اور وقت ضائع کرنے کی بالکل عادت نہ تھی البتہ مفید اور اچھی کھیلوں میں آپ ضرور حصہ لیتے تھے.چنانچہ آپ نے بچپن میں ہی تیرنا سیکھ لیا تھا.گھوڑے کی سواری کے فن میں بھی اچھے ماہر تھے.آپ کی سادہ، پاکیزہ اور نیک عادتوں کا دیکھنے والوں پر گہرا اثر ہوتا
18 تھا.چنانچہ ایک دفعہ جبکہ آپ ابھی بچہ ہی تھے ایک بزرگ مولوی غلام رسول صاحب نے جو کہ خود بھی ولی اللہ تھے آپ کے سر پر محبت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا : - اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے.“ (حیات طیبہ صفحہ 14) نوجوانی کا زمانہ پہلی شادی جب آپ کی عمر پندرہ سولہ سال کی ہوئی تو آپ کی شادی آپ کے سگے ماموں کی بیٹی حرمت بی بی صاحبہ سے ہو گئی.یہ آپ کی پہلی شادی تھی.اس بیوی سے آپ کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے.-1 حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر کام کرتے رہے اور بالآخر جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کے بعد 1931ء میں وفات پائی.2 مرز افضل احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہی وفات پاگئے تھے.شادی کے بعد بھی آپ وقت کا اکثر حصہ تنہائی میں عبادت کرنے اور دعائیں کرنے میں گزارا کرتے تھے.آپ کے والد صاحب کی کوشش تھی کہ آپ کو کسی دنیوی کام میں لگایا جائے تا کہ آپ دنیا میں ترقی کر سکیں لیکن آپ کو یہ بات بالکل پسند بی تھی تاہم والد صاحب کی خواہش پر اور اُن کی فرمانبرداری کرتے ہوئے آپ زمینوں کے سلسلے میں بعض مقدمات کی پیروی کے لئے تشریف لے جاتے رہے اور 1864ء کے قریب آپ نے سیالکوٹ میں جا کر چار سال تک سرکاری ملازمت بھی کی لیکن آپ کا دل اس ملازمت میں بالکل نہیں لگتا تھا اور فارغ وقت کا اکثر حصہ آپ قرآن مجید کے مطالعہ میں عبادت کرنے میں اور یا پھر عیسائیوں کے ساتھ اسلام کی صداقت پر بحث کرنے میں صرف کرتے تھے.
19 والدہ ماجدہ کی وفات: 1868ء میں آپ اپنے والد صاحب کے حکم سے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر واپس قادیان تشریف لے آئے اسی سال آپ کی والدہ ماجدہ وفات پا گئیں اس صدمہ کو آپ نے بڑے صبر کے ساتھ برداشت کیا.ایک الہام 1868ء یا 1869ء کی بات تھی ایک شخص حضور کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ بحث کرنے کی غرض سے لے گیا.مولوی محمد حسین صاحب مسلمانوں کے اس فرقہ سے تعلق رکھتے تھے جسے اہل حدیث کہتے ہیں.اُن دنوں اس فرقہ کی سخت مخالفت ہو رہی تھی اور جو شخص آپ کو لے گیا تھا اُس کی غرض یہ تھی کہ آپ جا کر اُن کے عقائد کا غلط ہونا ثابت کریں لیکن جب آپ نے مولوی محمد حسین صاحب سے اُن کا عقیدہ دریافت کیا اور اس عقیدہ کو اسلام کے مطابق پایا تو آپ نے بحث کرنے یا مقابلہ کرنے کی بجائے بھرے مجمع میں کہہ دیا کہ یہ عقیدہ تو درست ہے میں اس پر بحث نہیں کر سکتا.جو لوگ آپ کو بحث کے لئے لائے تھے.انہوں نے بہت برا منایا اور کہا کہ آپ نے ہمیں ذلیل کر دیا.مگر آپ نے فرمایا میں نے جو کچھ کیا ہے خدا تعالیٰ کی خاطر کیا ہے.مجھے لوگوں کی مخالفت کی یا اُن کی طرف سے تعریف کرنے کی کوئی پرواہ نہیں.اس واقعہ پر اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے آپ کو الہاماً فرمایا: - ” خدا تیرے اس فعل پر راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے ( براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه 520)
20 آٹھ یا نو ماہ کے روزے: 1875ء یا 1876ء میں آپ نے اللہ تعالیٰ کے اشارہ پر آٹھ یا نو ماہ تک متواتر روزے رکھے اور اپنی غذا کو کم کرتے چلے گئے حتی کہ آٹھ پہر میں صرف چند تولہ روٹی آپ کی غذا رہ گئی.اُس زمانہ میں آپ پر بہت سی روحانی برکتیں نازل ہوئیں.آپ نے خوابوں اور کشوف میں بہت سے فوت شدہ نبیوں اور دیگر بزرگوں سے ملاقات کی.والد ماجد کی وفات : 1876ء میں آپ کے والد ماجد وفات پاگئے آپ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ نہ معلوم اب کیا کیا مشکلات پیش آئیں گی.اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو الہام ہوا :- أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدُهُ (كتاب البریه حاشیه صفحه (159) یعنی : کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے؟ اس الہام نے آپ کو بہت اطمینان اور سکینت بخش دی.بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے ہر معاملہ میں آپ کی مدد کی اور اس طرح بتا دیا کہ واقعی اللہ تعالیٰ اپنے اس مقدس بندہ کے لئے کافی ہے.والد صاحب کی وفات کے بعد آپ کے خاندان کی جائیداد کے منتظم آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب بنے آپ اگر چاہتے تو جائیداد میں سے اپنا حصہ الگ کروا کر اطمینان سے زندگی بسر کر سکتے تھے.مگر آپ نے اس طرف توجہ نہ کی اور جو کچھ روکھا پھیکا اپنے بھائی سے مل جاتا اُسی پر صبر کے ساتھ گزارا کرتے رہے.یہ زمانہ آپ نے بہت ہی مشکلات میں گزارا.بعض دفعہ ادنی ادنی ضروریات زندگی بھی
21 پوری کرنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا.مگر بہر حال آپ نے بہت صبر شکر کے ساتھ یہ زمانہ گزارا.اپنا کھانا اکثر غرباء میں بانٹ دیتے اور خود انتہائی کم غذا پر اپنا گزارا کرتے تھے.کتاب برا این احمدیہ کی تصنیف: اسی زمانہ میں آپ نے اسلام کی سچائی ثابت کرنے اور مخالفین اسلام کا دلائل کے ساتھ مقابلہ کرنے کی غرض سے اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کئے.ان مضامین کا بہت چرچا ہوا کیونکہ آپ نے اسلام کی سچائی ایسے زبردست دلائل سے ثابت کی کہ کوئی مخالف اسلام ان کے سامنے ٹھہر نہ سکا.کچھ عرصہ تک اخبارات میں مضامین لکھنے کے بعد آپ نے براہین احمدیہ کے نام سے ایک کتاب لکھنی شروع کی جس میں آپ نے قرآن مجید کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے زبر دست دلائل دیئے.اس کتاب کا پہلا حصہ 1880ء میں، دوسرا حصہ 1881ء میں، تیسرا حصہ 1882 میں اور چوتھا حصہ 1884ء میں شائع ہوا.اس کتاب کے شائع ہونے پر آپ کی شہرت سارے ملک میں پھیل گئی اور دوست دشمن سب آپ کی قابلیت کے قائل ہو گئے.مسلمان اس کتاب کے شائع ہونے پر اتنے خوش ہوئے کہ مسلمانوں کے ایک مشہور عالم مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ( جو بعد میں آپ کے سخت مخالف ہو گئے تھے ) لکھا کہ ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ -: حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی.(اشاعت السنة ) یہ تھی اس کتاب کے متعلق مسلمانوں کی رائے.اسلام کے مخالفین پر اس
22 کتاب کا یہ اثر ہوا کہ باوجود اس کے کہ آپ نے اس کتاب کا جواب لکھنے کا انعامی چیلنج دیا اور للکارا کہ کوئی غیر مسلم میدان میں آکر اس کے دلائل کو توڑے لیکن کسی دشمن اسلام کو اس کا جواب لکھنے کی جرات نہ ہوئی البتہ وہ آپ کی سخت مخالفت کرنے لگے.مختلف طریقوں سے انہوں نے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن ہر کوشش میں وہ ناکام رہے اور وہ آپ کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے.مقدمہ ڈاکخانہ : 1877ء میں حضرت مسیح موعود پر ایک عیسائی رلیا رام وکیل نے ایک مقدمہ دائر کیا جو سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں مقدمہ ڈاکخانہ کے نام سے مشہور ہے.ہوا یہ کہ حضور نے ہندوؤں کے فرقہ آریہ سماج کے مقابل میں اسلام کی تائید میں ایک مضمون لکھا اور وہ امرتسر کے ایک پریس میں چھپوانے کے لئے پیکٹ کی صورت میں بھیج دیا.اس پیکٹ میں حضور نے ایک خط بھی رکھ دیا.اس زمانہ میں ڈاکخانہ کے جو قواعد تھے ان کی رُو سے کسی پیکٹ میں خط رکھ دینا جرم تھا جس کی سزا پانچ سو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ قید تھی مگر حضور کو اس کا علم نہ تھا.پیکٹ حضور نے امرتسر کے جس پریس میں بھیجا اُس کا مالک رلیا رام ایک عیسائی تھا.جب اس نے یہ پیکٹ وصول کیا تو اُس نے اسلام کی دشمنی کی وجہ سے ڈاکخانہ والوں کو اس کی اطلاع کر دی.نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت مسیح موعود پر مقدمہ دائر ہو گیا.انہیں دنوں حضور کو خواب آیا کہ رلیارام وکیل نے ایک سانپ حضور کو کاٹنے کے لئے بھیجا ہے مگر حضور نے مچھلی کی طرح تل کر اُسے واپس کر دیا ہے.جب مقدمہ عدالت میں پیش ہوا تو وکیلوں نے حضور کو مشورہ دیا کہ اس مقدمہ میں سزا سے بچنے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ حضور عدالت میں یہ بیان
23 دیں کہ یہ خط میں نے اس پیکٹ میں نہیں رکھا تھا.رلیا رام نے دشمنی کی وجہ سے خود میرا یہ خط پیکٹ میں رکھ دیا ہے جب یہ مشورہ حضور کے سامنے پیش ہوا تو حضور نے فرمایا جب خط خود میں نے پیکٹ میں رکھا تھا تو پھر میں محض سزا سے بچنے کے لئے ہرگز اس سے انکار نہیں کروں گا.وکیلوں نے کہا کہ پھر تو آپ کی رہائی کی کوئی صورت بظاہر نظر نہیں آتی.حضور نے فرمایا جو ہو گا دیکھا جائے گا.بہر حال میں جھوٹ ہرگز نہیں بولوں گا.چنانچہ جب عدالت نے دریافت کیا کہ کیا خط آپ نے خود پیکٹ میں رکھا تھا.تو حضور نے فرمایا.ہاں میں نے ہی رکھا تھا کیونکہ مجھے یہ علم نہ تھا کہ ایسا کرنا ڈاکخانہ کے قوانین کے خلاف ہے مخالف فریق بہت خوش تھا کہ اب تو حضور نے اپنے جرم کا خود اقرار کر لیا ہے اب ضرور حضور کو سزا مل جائے گی.مگر خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ جس حج کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا وہ حضور کی سچائی اور نیکی سے بہت متاثر ہوا.چنانچہ اس نے حضور کو عزت کے ساتھ بری کر دیا.گویا سچ بولنے کی برکت سے ہی اللہ تعالیٰ نے اس مقدمہ میں آپ کو فتح عطا فرمائی.بڑے بھائی کی وفات: 1881ء میں آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب فوت ہو گئے.چونکہ آپ کی اولا د نہیں تھی اس لئے اُن کی جائیداد کے بھی آپ ہی وارث تھے لیکن اُن کی بیوہ کی دلداری کے لئے آپ نے جائیداد پر قبضہ نہ کیا اور یہ جائیداد مدت تک آپ کے رشتہ داروں کے قبضہ میں رہی.دوسری شادی: آپ کی دوسری شادی 1884ء میں اللہ تعالیٰ کے منشاء اور ایک خاص الہام کے ماتحت دہلی کے ایک مشہور سادات خاندان کی ایک معزز اور پاکباز خاتون حضرت
24 سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ سے ہوئی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ الہام پورا ہوا کہ :- ” میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں.یہ سب سامان میں خود کروں گا.“ (حیات طیبہ صفحہ 73) آپ کے خسر صاحب کا نام حضرت میر ناصر نواب صاحب تھا جو کہ اُردو کے مشہور شاعر حضرت خواجہ میر در درحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے اور خود بھی بہت نیک اور بزرگ انسان تھے، 17 نومبر 1884ء کو بمقام دہلی مشہور عالم مولوی سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے آپ کے نکاح کا اعلان کیا اور نکاح کے ساتھ ہی رخصتانہ کی تقریب عمل میں آئی.یہ شادی اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق بہت ہی با برکت اور کامیاب ثابت ہوئی کیونکہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ مقدس اولا د عطا فرمائی جس کے متعلق بڑی عظیم الشان بشارتیں ملی تھیں اور یہ بشارتیں اپنے وقت پر پوری ہوئیں جن کا مشاہدہ آج ہم اپنی آنکھوں سے کر رہے ہیں.مبشر اولاد: اس شادی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو دس بچے عطا فرمائے ان میں سے پانچ بچے تو کم عمری میں ہی فوت ہو گئے باقی پانچ بچے یہ ہیں :- حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی (1 (2 (3 تاریخ پیدائش 12 جنوری 1889ء - تاریخ وفات 8 نومبر 1965ء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تاریخ پیدائش 20 را پریل 1893ء – تاریخ وفات 2 ستمبر 1963ء حضرت مرزا شریف احمد صاحب تاریخ پیدائش 24 مئی 1895ء - تاریخ وفات 26 /دسمبر 1961ء
25 (4 (5 حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ تاریخ پیدائش 2 اپریل 1897ء - تاریخ وفات 23 مئی 1977ء حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ تاریخ پیدائش 25 / جنوری 1904ء - تاریخ وفات 6 مئی 1987ء مجدد اور مامور ہونے کا دعویٰ : 1885ء کے شروع میں آپ نے ایک اشتہار ہیں ہزار کی تعداد میں شائع کیا جس میں آپ نے تمام مخالفین اسلام کو دعوت دی کہ اگر وہ اسلام کی سچائی کے تازہ بتازہ نشانات دیکھنا چاہتے ہیں تو میرے پاس آئیں اور آسمانی نشانات دیکھیں.اس اشتہار میں آپ نے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے اس زمانہ کے لئے مجد داور مامور مقرر فرمایا ہے.اعلان بیعت اور شرائط بیعت : یکم دسمبر 1888ء کو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ اعلان شائع کیا کہ جو لوگ سچا ایمان اور کچی پاکیزگی حاصل کرنا چاہیں وہ میری بیعت کریں تا کہ اللہ تعالیٰ انہیں بہت سی برکتیں دے.12 جنوری 1889ء کو آپ نے ایک اور اشتہار شائع کیا جس میں آپ نے دس شرائط بیعت بیان فرمائیں.ان شرائط میں بتایا گیا تھا کہ جولوگ میری بیعت میں داخل ہونا چاہیں انہیں سچے دل سے یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق شرک ،جھوٹ ، ظلم، فتنہ وفساد، تکبر اور غرور اور دیگر تمام گنا ہوں سے بچیں گے.باقاعدگی سے نمازیں پڑھیں گے.کسی پر ظلم نہیں کریں گے.خدا تعالیٰ کی
26 خاطر ہر مصیبت کو برداشت کریں گے.سب کے ساتھ نرمی اور خوش خلقی سے پیش آئیں گے دین کی خدمت کو اپنی ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھیں گے.تمام لوگوں سے ہمدردی اور مدد کا سلوک کریں گے اور مرتے دم تک ان شرائط کو پورا کرتے رہیں گے.جماعت احمدیہ کی بنیاد : مارچ 1889ء میں آپ لدھیانہ تشریف لے گئے.یہیں پر 23 مارچ 1889ء کو لدھیانہ کے ایک بزرگ صوفی احمد جان صاحب کے مکان پر آپ نے بیعت لینے کا آغاز فرمایا اور اس طرح جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی.حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب (خلیفہ اول) نے سب سے پہلے بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا.پہلے روز چالیس کے قریب اصحاب نے بیعت کی جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں:- حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری، حضرت چودھری رستم علی صاحب، حضرت منشی ظفر احمد صاحب، حضرت منشی اروڑے خان صاحب، حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب، حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب اور حضرت میر عنایت علی صاحب وغیرہ.(اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو ) پیشگوئی مصلح موعود 1886ء کے شروع میں آپ اللہ تعالیٰ کے منشاء اور ارادہ کے ماتحت ہوشیار پور تشریف لے گئے.وہاں پر ایک علیحدہ مکان میں چالیس روز تک عبادت میں مصروف رہے اور دین حق کی ترقی اور اشاعت کیلئے خصوصیت کے ساتھ دعاؤں ا مشغول رہے.ان دعاؤں اور عبادتوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک میں
27 عظیم الشان بشارت دی جو ہماری جماعت کی تاریخ میں ” پیشگوئی مصلح موعود“ کے نام سے مشہور ہے.اس پیشگوئی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو آئندہ نو برس کے اندر ایک ایسے بیٹے کی بشارت دی جس کے ذریعے احمدیت کو غیر معمولی ترقی حاصل ہوگی اور جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا.پیشگوئی کا ایک حصہ یہ ہے:- میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مانگا سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.“ (اشتہار 20/فروری 1886ء) اس عظیم الشان پیشگوئی کے نتیجہ میں 9برس کے عرصہ میں (12/جنوری
28 1889ء کو) حضرت مسیح موعود کے فرزند حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی) پیدا ہوئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے اپنے رسالہ ” سراج منیر میں یہ اعلان فرما دیا کہ جس عظیم الشان فرزند کی اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی تھی وہ پیدا ہو گیا ہے اور بعد میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے عہد خلافت کے واقعات نے عملی طور پر بھی ثابت کر دیا کہ یہ پیشگوئی آپ کے وجود میں پوری ہوگئی کیونکہ پیشگوئی کے الہامی الفاظ میں اس فرزند کی جو جو علامتیں بیان کی گئی تھیں وہ سب کی سب اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہو گئیں.الحمد للہ علی ذالک! وفات مسیح کا اعلان اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ: 1890 ء کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی دیگر نبیوں کی طرح فوت ہو چکے ہیں اور یہ عقیدہ غلط اور قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے کہ حضرت عیسی اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں.چنانچہ آپ نے 1891ء کے شروع میں اس کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ جس مسیح اور مہدی کے آنے کی پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی وہ میں ہی ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں مسیح علیہ السلام کی صفات دے کر دنیا کی اصلاح کرنے اور دینِ حق کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے اور پھیلانے کے لئے بھیجا ہے.اس اعلان اور دعویٰ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں ہر طبقہ کے بہت سے نیک لوگ آپ پر ایمان لے آئے وہاں ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مخالفت کی آگ بھی بھڑک اُٹھی.اپنے اور بیگانے سبھی آپ کے دشمن ہو گئے مولویوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگا دیئے اور دوسری طرف عیسائیوں نے بھی آپ کی سخت
29 مخالفت شروع کر دی کیونکہ وفات مسیح کے اعلان سے عیسائیت کی بنیادیں ہل جاتی تھیں اور ان کا خدا ( وہ مسیح کو خدا مانتے ہیں ) مردہ ثابت ہو جاتا تھا.مناظرے: اس مخالفت کے نتیجہ میں آپ کو مخالف مولویوں اور عیسائیوں سے کئی مناظرے کرنے پڑے.چنانچہ 1891ء میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ،مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولوی محمد بشیر صاحب بھو پالوی سے اور 1892ء میں مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے آپ کے مناظرے ہوئے اور 1893ء میں مشہور عیسائی پادری عبداللہ آتھم سے آپ کا مناظرہ ہوا.ان مناظروں کے نتیجہ میں بہت سے لوگوں کو آپ پر ایمان لانے کی توفیق ملی.جلسه سالانه 1891ء میں حضرت مسیح موعود نے جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی.چنانچہ دسمبر 1891ء میں جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.یہ جلسہ قادیان کی مسجد اقصیٰ میں ہوا اور اس میں صرف 75 اصحاب شامل ہوئے تھے.1892 ء میں جب یہ جلسہ ہوا تو اس میں 327 افراد شامل ہوئے.اس کے بعد یہ جلسہ سوائے چند ایک ناغوں کے ہر سال منعقد ہوتا رہا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت ڈالی کہ دو لاکھ افراد تک اس جلسہ میں شامل ہوئے.اب ہرا ہم ملک میں جماعت کے جلسہ سالا نہ ہوتے ہیں.پادری عبداللہ اعظم کے ساتھ مباحثہ اور پیشگوئی: 1893ء میں امرتسر کے مقام پر 22 مئی سے لے کر 5 جون تک آپ نے مشہور عیسائی پادری عبداللہ آتھم کے ساتھ تحریری مباحثہ کیا جو بعد میں جنگ مقدس
30 کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو گیا.اس مباحثہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے اتنی کامیابی بخشی کہ مباحثہ کے دوران ہی کئی لوگوں نے بیعت کرنے کا اور احمدی جماعت میں داخل ہونے اعلان کر دیا.اس مباحثہ کے دوران عجیب واقعہ ہوا.عیسائی کچھ ٹولے لنگڑے اور اندھے اکٹھے کر کے لے آئے اور یہ کہنے لگے کہ ہمارے یسوع مسیح تو ٹولے لنگڑے اور اندھوں کو اچھا کیا کرتے تھے اگر آپ مسیح موعود ہونے کے دعوئی میں بچے ہیں تو آپ بھی ان کو اچھا کر کے دکھائیں.عیسائی اپنے دل میں بہت خوش تھے کہ آج ہم نے (حضرت) مرزا صاحب کو شرمندہ کرنے کے لئے خوب ترکیب نکالی ہے لیکن جب عیسائیوں نے یہ بات کہہ کر ان اندھوں اور لنگڑوں کو پیش کیا تو حضرت مسیح موعود نے ان کے جواب میں فرمایا کہ یہ تو آپ کی انجیل کہتی ہے کہ حضرت مسیح سچ سچ کے اندھے، ٹولے اور لنگڑے لوگوں کو ہاتھ لگا کر ٹھیک کر دیا کرتے تھے ہمارا قرآن مجید تو ہرگز یہ نہیں کہتا اور نہ ہم اس کے قائل ہیں البتہ آپ کی انجیل میں یہ بھی لکھا ہے کہ اے عیسائیو! اگر تم میں ذرہ بھر بھی ایمان ہوگا تو تم اس سے بھی بڑھ کر عجیب عجیب کام کر سکو گے.سو ہم ان مریضوں کو تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انجیل کے کہنے کے مطابق اگر ذرہ بھر بھی ایمان تمہارے اندر ہے تو ان مریضوں پر ہاتھ رکھ کر انہیں اچھا کر دو.اگر تم نے اچھا کر دیا تو ہم تمہیں سچا سمجھیں گے ورنہ دنیا سمجھ لے گی کہ خود تمہاری انجیل کے قول کے مطابق تم میں اب ذرہ بھر بھی ایمان موجود نہیں ہے.جب حضرت مسیح موعود نے یہ جواب دیا تو عیسائی شرمندہ ہو کر رہ گئے اور کوئی جواب نہ دے سکے.گویا انہوں نے تو حضور کو زک پہنچانے کے لئے یہ چال چلی تھی لیکن یہ الٹ کر انہی پر پڑی اور اُن کے لئے ہی شرمندگی کا موجب بن گئی.
31 اس مباحثہ کے دوران حضور نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ اس بحث میں جو فریق جان بوجھ کر جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور بچے خدا کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کو خدا بنارہا ہے وہ پندرہ مہینوں تک ہاویہ (یعنی عذاب ) میں مبتلا ہوگا.اور اگر اُس نے حق کی طرف رجوع نہ کیا تو خدا تعالیٰ اسے سخت ذلیل کرے گا.( تذکره صفحه 239) اس پیشگوئی میں صاف کہا گیا تھا کہ اگر آتھم نے رجوع نہ کیا تو وہ ہاویہ میں گرایا جائے گا.آتھم اس پیشگوئی سے سخت گھبرا گیا اور خوفزدہ ہو گیا.اور مقررہ میعاد میں اس نے اپنی عادت کے خلاف بالکل خاموشی اختیار کر لی اور شوخی اور شرارت کو چھوڑ دیا بلکہ پیشگوئی سن کر اس کے ہاتھ کا پنپنے لگے اور چہرہ کا رنگ فق ہو گیا.گویا اس نے حق کی طرف رجوع کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے اسے مہلت دے دی اور کچھ عرصہ کے لئے وہ عذاب سے بچ گیا.اس پر مخالفین نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.حضرت اقدس نے اس پر مسٹر کھم کو چیلنج کیا کہ وہ قسم کھا کر کہ دے کے اس عرصہ میں اس پر اسلام کا رُعب طاری نہیں ہوا تو ہم اسے ایک ہزار روپیہ انعام دیں گے ( انعامی رقم کو حضور نے بعد میں چار ہزار تک بڑھا دیا).اس کے علاوہ چونکہ اس نے جھوٹی قسم کھائی ہوگی اس لئے وہ قسم کھانے کے بعد ایک سال کے اندر اندر ضرور ہلاک ہو جائے گا.حضور نے لکھا کہ اگر اس نے قسم نہ بھی کھائی تو بھی خدا اب اسے سزاد یئے بغیر نہ رہے گا.آتھم نے چونکہ قسم کھانے سے انکار کر دیا تھا اس لئے پیشگوئی کے عین مطابق وہ 27 جولائی 1896ء کو وفات پا گیا اور اس طرح احمدیت کی فتح کا ایک زبر دست نشان ظاہر ہوا.عربی میں مقابلہ کی دعوت : 1893ء میں ہی آپ نے غیر احمدی علماء کو دعوت دی کہ وہ عربی نویسی میں
32 آپ کا مقابلہ کریں.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے عربی زبان میں کامل قدرت عطا فرمائی ہے اس لئے کوئی شخص میرا مقابلہ نہیں کر سکتا باوجود اس کے کہ آپ نے بار بار چیلنج دیا لیکن کسی عالم کو آپ کے سامنے آنے کی جرات نہ ہوئی.کسوف و خسوف کا نشان امام باقر کی روایت کے مطابق دارقطنی کی حدیث میں یہ پیشگوئی مذکور ہے کہ ”ہمارے مہدی کے زمانہ کی ایک علامت یہ ہوگی کہ رمضان کے مہینہ میں چاند کو اس کے گرہن کی تاریخوں میں پہلی تاریخ کو گرہن لگے گا اور اسی مہینہ کے آخر میں سورج کے گرہن کی تاریخوں میں سے درمیانی تاریخ کو گرہن لگے گا.“ یہ نشان 1894ء میں پورا ہوا جب کہ حضور کے مہدی ہونے کے دعوی کے بعد حدیث کی بیان کردہ شرطوں کے عین مطابق پہلے چاند کو گرہن لگنے کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ کو یعنی 13 کو اور سورج پر گرہن پڑنے کے دنوں میں سے درمیانی تاریخ کو یعنی 28 / تاریخ کو گرہن لگا اس نشان کو کسوف و خسوف کا نشان کہتے ہیں.اس نشان کے ظاہر ہونے کا قرآن شریف میں سورۃ القیامۃ میں بھی اشارہ ہے اور انجیل میں بھی یہ ذکر موجود ہے کہ مسیح کی دوسری بار آمد کے وقت چاند اور سورج تاریک ہو جائیں گے.الغرض یہ ایک عظیم الشان نشان تھا جو حضرت مسیح موعود کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوا.عربی سب زبانوں کی ماں ہے : 1895ء میں آپ نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر یہ اعلان فرمایا کہ دنیا کے موجودہ دور کی سب زبانیں عربی زبان سے نکلی ہیں اس لئے عربی سب زبانوں کی ماں
33 ہے.آپ نے اس دعوی کو ایسے مضبوط دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ آج تک کوئی ان کی تردید نہیں کر سکا بلکہ اس دعوی کی تائید میں کئی نئے نئے ثبوت ظاہر ہوتے رہتے ہیں.حضرت بابا نانک صاحب مسلمان تھے : 1895ء میں آپ نے اپنی اس تحقیق کا اعلان فرمایا کہ سکھ مذہب کے بانی حضرت بابا نانک صاحب گو ہندوؤں کے گھر میں پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا.وہ ایک بزرگ انسان تھے اور اسلام کے سب حکموں پر عمل کرتے تھے.جلسه مذاہب : 1896ء کے آخر میں لاہور میں ایک بہت بڑا جلسہ ہوا جس میں تمام مذہبوں کے نمائندوں کو یہ دعوت دی گئی کہ وہ اس میں شامل ہو کر اپنے اپنے مذہب کی تعلیم اور خوبیاں بیان کریں تاکہ لوگوں کو ایک ہی وقت میں مختلف مذہبوں کی تعلیم جاننے اور پر کھنے کا موقع مل سکے.اس جلسہ میں بہت سے مذہبوں کے چوٹی کے نمائندوں اور لیڈروں نے تقریریں کیں اور اپنے اپنے مذہبوں کی خوبیاں بیان کیں.حضرت مسیح موعود نے اسلام کے نمائندہ کے طور پر اسلام کی خوبیوں پر ایک بہت ہی قیمتی اور زبردست مضمون اس جلسہ میں پڑھنے کے لئے تیار فرمایا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بتا دیا کہ آپ کا مضمون اس جلسہ میں پڑھے جانے والے تمام مضمونوں سے بالا رہے گا.اور لوگ اسے غیر معمولی طور پر پسند کریں گے.آپ نے جلسہ منعقد ہونے سے پہلے ہی یہ اشتہار شائع کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اطلاع کے مطابق میرا مضمون سب مضمونوں پر بالا رہے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب جلسہ میں آپ کا
34 مضمون پڑھا گیا تو تمام حاضرین جلسہ نے یہ اقرار اور اعتراف کیا کہ واقعی یہ مضمون باقی سب مضمونوں سے بالا رہا ہے بعد میں جب اخباروں میں اس جلسہ کی خبر شائع ہوئی تو اس میں بھی یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ ( حضرت ) مرزا صاحب کا مضمون سب سے اچھا اور سب سے اعلیٰ تھا.حضور کا یہ مضمون ”اسلامی اصول کی فلاسفی“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے.مقدمہ ڈاکٹر مارٹن کلارک : جب بعض پادریوں نے دیکھا کہ آپ دن بدن کامیاب ہو رہے ہیں اور آپ کے دلائل کا عیسائیت مقابلہ نہیں کر سکتی تو وہ اوچھے اور ذلیل ہتھیاروں پر اُتر آئے.چنانچہ انہوں نے 1897ء میں ایک سازش کر کے حضور پر اقدام قتل کا مقدمہ کر دیا.یہ مقدمہ ایک مشہور پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی طرف سے انگریز ڈپٹی کمشنر کپتان ڈگلس کی عدالت میں دائر کیا گیا اور الزام یہ لگایا گیا کہ حضرت مسیح موعود نے ایک شخص عبدالحمید نامی کے ذریعے پادری ہنری مارٹن کلارک کو قتل کرانے کی کوشش کی ہے (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اس مقدمہ میں بھی آپ کی مدد فرمائی اور نہ صرف یہ کہ عدالت نے باوجود مخالفین کی پوری کوشش کے آپ کو گرفتار ہی نہ کیا بلکہ تحقیقات کے بعد آپ کو باعزت بری کر دیا.اس مقدمہ میں حضور کے مخالف مسلمانوں اور ہندوؤں نے بھی عیسائی پادریوں کی مدد کی اور حضور کو سزا دلانے کی پوری کوشش کی.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ناکام و نامرا در کھا.پنڈت لیکھرام کے قتل کی پیشگوئی: پنڈت لیکھرام ہندوؤں کے فرقہ آریہ سماج سے تعلق رکھتا تھا.وہ اسلام کا سخت دشمن تھا اور رسول اللہ صل اللہ کی شان میں بہت گستاخیاں کیا کرتا تھا.
35 حضرت مسیح موعود نے اسے بہت سمجھایا اور کوشش کی کہ وہ اپنی گستاخیوں کو ترک کر کے شریفانہ رویہ اختیار کرے لیکن وہ باز نہ آیا اور اپنی شوخیوں میں بڑھتا ہی چلا گیا.آخر اُس کی انہی شوخیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر بھڑ کا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو الہام کے ذریعہ یہ اطلاع دی کہ یہ شخص ہلاک کیا جائے گا.چنانچہ آپ نے 20 فروری 1893ء کو یہ اعلان کیا کہ : - چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا.“ ( آئینہ کمالات اسلام ) ایک اور الہام میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ پنڈت لیکھرام عید کے دن کے نزدیک ہلاک ہو جائے گا.(کرامات الصادقين ) جب یہ الہامات شائع ہوئے تو بجائے اس کے کہ پنڈت لیکھرام اپنی شوخیوں سے باز آجاتا وہ اپنی شرارتوں میں اور بھی تیز ہو گیا اور بطور جواب اپنی طرف سے حضرت مسیح موعود کے متعلق یہ پیشگوئی شائع کر دی کہ :- ر شخص تین سال کے اندر ہیضہ سے مر جائے گا..66 اور اس کی ذریت (اولاد) میں سے کوئی باقی نہ رہے گا.“ تکذیب براہین احمدیہ ) آخر اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون.کیونکہ لیکھر ام کی پیشگوئی پوری نہ ہوئی.حضرت مسیح موعود نہ صرف اس کی مقررہ میعاد میں زندہ اور سلامت رہے بلکہ آپ کی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ نے بہت برکت دی اور اس کے بالمقابل حضور نے جو پیشگوئی کی تھی وہ لفظ بلفظ پوری ہوئی.اس پیشگوئی کے عین
36 مطابق چھ سال کی میعاد کے اندر 6 مارچ1897 ء کوکسی نامعلوم شخص کے ہاتھ سے پنڈت لیکھرام ہلاک ہو گیا اور اس کی ہلاکت عید کے دوسرے دن واقع ہوئی.بہت سے لوگوں نے کھلم کھلا اعتراف کیا کہ حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی واقعی پوری ہو گئی.ہر حالت میں سچ بولنے کا نمونہ: پادری مارٹن کلارک کی طرف سے اقدام قتل کا جو مقدمہ حضور پر کیا گیا اس میں حضور نے ہر حالت میں سچ بولنے کی ایک ایسی مثال قائم کی جسے احمدی بچوں کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیئے.ہوا یہ کہ حضور نے اس مقدمہ کی پیروی کرنے کے لئے ایک غیر احمدی وکیل مولوی فضل دین صاحب کو بھی مقرر کیا ہوا تھا انہوں نے ایک موقع پر عدالت میں پیش کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود کی طرف سے ایک قانونی بیان تجویز کیا جس میں کچھ باتیں خلاف واقعہ بھی شامل تھیں جب یہ بیان حضور کی خدمت میں انہوں نے پیش کیا تو حضور نے فرمایا: - ’اس میں تو جھوٹ شامل ہے میں کبھی ایسا بیان دینے کے لئے تیار نہیں ہوں جس میں جھوٹ کا بھی حصہ ہو.“ اس غیر احمدی وکیل نے کہا کہ اگر آپ ایسا بیان نہ دیں گے تو آپ جان بوجھ کر اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال لیں گے.آپ پر قتل کا مقدمہ ہے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ ایسا بیان دیں.اس پر حضور نے فرمایا :- میں کبھی ایسا بیان نہیں دوں گا جو واقعات کے خلاف ہو.بھلا میں اپنے آپ کو بچانے کی خاطر اپنے خدا کو کیوں ناراض کروں.میں ایسے جھوٹے بیانوں پر بھروسہ نہیں
37 رکھتا میرا بھروسہ تو اپنے خدا پر ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرا خدا مجھے ضرور بچائے گا.“ (الحکم 14 نومبر 1934ء) اس غیر احمدی وکیل نے بعد میں بیان کیا کہ میں حضور کی اس جرات پر حیران رہ گیا کہ قتل کا مقدمہ در پیش ہے مگر پھر بھی جھوٹ بولنے پر آمادہ نہیں ہوئے حالانکہ مقدمہ دائر کرنے والے عیسائی تھے اور جس حاکم کی عدالت میں یہ مقدمہ تھا وہ بھی عیسائی تھا اور مخالفین جن میں عیسائی، ہندو اور غیر احمدی سبھی شامل تھے.حضور کو اس مقدمہ میں سزا دلانے کی پوری پوری کوشش کر رہے تھے لیکن ان تمام حالات کو دیکھنے کے باوجود حضور سچ پر قائم رہے اور جھوٹا بیان دینے کے لئے کسی حالت میں بھی تیار نہ ہوئے اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے کی برکت سے ہی آپ کو اس مقدمہ سے عزت کے ساتھ بریت بخشی.تعلیم الاسلام اسکول کا قیام: 1898 ء کی ابتداء میں حضور نے مدرسہ تعلیم الاسلام کے نام سے ایک اسکول جاری فرمایا.اس اسکول کے پہلے ہیڈ ماسٹر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مقرر ہوئے.اس اسکول کی غرض حضور نے یہ بیان فرمائی کہ احمدی بچے دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین کی تعلیم بھی حاصل کریں اور بڑے ہو کر سچے مسلمان اور حقیقی احمدی بنیں اور اسلام کی خدمت کرنے والے ثابت ہوں.اخبار الحکم اور بدر کا اجراء: جماعت احمدیہ کا سب سے پہلا اخبار الحکم 1897ء میں جاری ہوا.اس کے مالک اور ایڈیٹر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تھے.پہلے یہ اخبار امرتسر
38 سے جاری کیا گیا مگر اگلے ہی سال یعنی 1898ء میں امرتسر سے قادیان منتقل ہو گیا.اس کے بعد 1906ء میں ایک اور اخبار بدر جاری ہوا اس کے ایڈیٹر حضرت مفتی محمد صادق صاحب تھے.حضرت مسیح موعود کے الہامات، حضور کی تقریروں، گفتگو اور سلسلہ احمدیہ کی ابتدائی تاریخ کے اہم واقعات کو محفوظ کرنے میں ان دونوں اخباروں نے خاص حصہ لیا.میں ہزار (20,000) روپیہ کا انعامی چیلنج: جنوری 1898ء میں حضور نے ایک کتاب کتاب البریہ“ کے نام سے شائع فرمائی.اس میں حضور نے دیگر باتوں کے علاوہ بیس ہزار (20,000) روپے کا ایک انعامی چیلنج بھی شائع فرمایا.حضور نے لکھا کہ اگر کوئی شخص رسول اللہ صل اللہ کی کوئی ایسی حدیث پیش کرے جس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے اسی جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر چلے گئے تھے پھر کسی زمانہ میں وہ زمین پر واپس آئیں گے تو ایسے شخص کو بیس ہزار (20,000) روپیہ بطور انعام دیا جائے گا.حضور کے اس چیلنج پر 106 برس گزر چکے ہیں لیکن جو لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر موجود ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اُن میں سے کسی کو بھی آج تک اس چیلنج کو قبول کرنے کی توفیق نہیں ملی.اس طرح یہ ثابت ہو گیا کہ حیات مسیح کا عقیدہ اسلام اور رسول کریم ملالہ کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے.طاعون پھیلنے کی پیشگوئی: فروری 1898ء میں حضرت مسیح موعود نے ایک خواب میں دیکھا کہ : - خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں اور وہ درخت نہایت بد
39 شکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں میں نے لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے.“ (ایام الصلح صفحہ 121) حضور کی اس پیشگوئی کے عین مطابق اگلے جاڑے کے موسم میں پنجاب کے مختلف حصوں میں طاعون کی بیماری پھوٹ نکلی اور پھر کئی سالوں تک اس نے وہ تباہی مچائی کہ قیامت کا نمونہ سامنے آگیا.ہزاروں دیہات، قصبے اور شہر ویران ہو گئے.حضور کی یہ پیشگوئی پوری ہونے پر کثرت سے لوگوں نے حضور کی بیعت کی اور جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے.منارة اع: 28 رمئی 1900ء کو حضرت مسیح موعود نے رسول کریم صل اللہ کی ایک حدیث کی منشاء کے مطابق قادیان کی مسجد اقصیٰ میں ایک مینار تعمیر کرنے کی تحریک جماعت کو فرمائی.چنانچہ اس غرض سے چندہ جمع ہونا شروع ہو گیا.آخر 1903ء میں حضور نے اس مینارہ کی بنیاد رکھی لیکن بعد میں مالی مشکلات کی وجہ سے یہ کام بند ہو گیا.بالآخر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے عہد میں 1914ء میں اس کی تعمیر کا کام پھر شروع کیا گیا اور دسمبر 1916ء میں اس کی تکمیل ہوئی.فرقه احمدیه 1901ء میں حضرت مسیح موعود نے ایک اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کا نام فرقہ احمدیہ تجویز فرمایا.چنانچہ اس وقت سے ہماری جماعت
40 ” جماعت احمدیہ“ کہلاتی ہے اور حضرت مسیح موعود کو ماننے والے احمدی.کہلاتے ہیں.حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید : حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب ملک افغانستان کے علاقہ خوست کے رہنے والے ایک بہت بڑے بزرگ تھے.اُن کے ہزاروں مرید تھے.ان کی شہرت اور بزرگی کا یہ حال تھا کہ افغانستان کے حکمران حبیب اللہ خان (امیر کابل ) نے تاجپوشی کے موقع پر دستار بندی کی رسم ادا کرنے کے لئے انہیں ہی بلا یا تھا.آپ کو کسی ذریعہ سے حضرت مسیح موعود کی چند کتابیں مل گئیں.انہیں پڑھنے کا موقع ملا جن سے آپ بہت متاثر ہوئے.1903ء میں آپ حضرت مسیح موعود کی زیارت کرنے کے لئے قادیان تشریف لائے.حضور کو دیکھتے ہی ایمان لے آئے اور حضور کی صحبت میں اتنے محو ہو گئے کہ کئی مہینوں تک قادیان میں مقیم رہے.قادیان میں آپ کو کئی بار ایک الہام ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ تو احمدیت کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.آخر حضور کی اجازت سے واپس وطن تشریف لے گئے.جب حبیب اللہ خان امیر کا بل کو یہ علم ہوا کہ آپ احمدی ہو گئے ہیں تو اُس نے آپ کو گرفتار کر لیا.چار مہینے آپ قید میں رہے.اس عرصہ میں امیر کا بل اور دوسرے لوگوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح آپ احمدیت کو چھوڑ دیں لیکن آپ نے فرمایا جسے میں نے حق سمجھا ہے اسے میں کیسے چھوڑ دوں؟ آخر کابل کے مولویوں نے آپ پر کافر ہو جانے کا فتویٰ لگا دیا اور امیر کابل نے آپ کو سنگسار کرنے (پتھر مار مار کر شہید کرنے ) کا حکم دیا.14 جولائی 1903ء کو جب آپ کو سنگسار کیا جانے لگا تو اُس وقت پھر آپ کو کہا گیا
41 کہ اگر ایک دفعہ ہی آپ اپنے احمدی ہونے سے انکار کر دیں تو آپ بچ سکتے ہیں.مگر شہید مرحوم نے فرمایا.میری اور میرے بال بچوں کی بھلا کیا حقیقت ہے.میں انہیں بچانے کی خاطر اپنے ایمان کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا.اس پر آپ کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا اور اوپر سے آپ پر پتھروں کی بوچھاڑ شروع کر دی گئی.یہاں تک حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید مرحوم کی پاک روح اپنے مولا کے پاس جا پچی - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ حضرت مسیح موعود نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا: - ”اے عبد اللطیف ! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق (سچائی) کا نمونہ دکھایا یہ خون بڑی بے رحمی کے ساتھ کیا گیا اور آسمان کے نیچے ایسے خون کی نظیر نہیں ملے گی.ہائے! اس نادان امیر نے کیا کیا کہ ایسے معصوم شخص کو کمال بے دردی سے قتل کر کے اپنے تیں تباہ کر لیا.“ ( تذكرة الشهادتين ) جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے تحریر فرمایا ہے اس ظلم عظیم کی وجہ سے واقعی امیر حبیب اللہ خان اور اس کا خاندان تباہ ہو گیا.چنانچہ امیر حبیب اللہ خان اور اس کا لڑکا نصر اللہ خان دونوں قتل کئے گئے اور بعد میں یہ خاندان ہمیشہ کے لئے حکومت سے محروم ہو کر جلا وطنی کی زندگی گزارنے لگا.شہید مرحوم کی سنگساری کے دوسرے ہی دن کا بل میں سخت ہیضہ پھوٹ پڑا جس کی وجہ سے شاہی خاندان کے اور دیگر کئی ہزار اشخاص ہلاک ہو گئے.
42 مدرسہ احمدیہ کی داغ بیل: 1905ء میں جماعت احمدیہ کے دو بہت بڑے عالم اور بزرگ یعنی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی وفات پاگئے جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کو یہ خیال پیدا ہوا کہ پرانے علماء کی جگہ لینے کے لئے نئے عالم تیار کرنے چاہئیں.چنانچہ اسی غرض سے جماعت کے مشورہ سے یہ انتظام کیا گیا کہ تعلیم الاسلام ہائی اسکول کے ساتھ ہی دینیات کی ایک علیحدہ شاخ قائم کر دی گئی.زلزلہ کانگڑہ: حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا کہ عَفَتِ الذِيَارُ مَحَلُّهَا وَمُقَامُهَا یعنی عنقریب ایسی تباہی آنے والی ہے جس سے رہائش کی عارضی جگہیں اور مستقل جگہیں دونوں تباہ ہو جائیں گی.چنانچہ اس الہام کے مطابق 4 / اپریل 1905 ء کو ایک خطرناک زلزلہ آیا جوز لزلہ کانگڑہ کے نام سے مشہور ہے.اس سے کانگڑہ کے علاقہ میں ہزاروں مکان گر گئے اور سخت تباہی ہوئی.وفات کے متعلق الہامات اور خلافت کی پیشگوئی: 1905ء کے آخر میں حضور کو متواتر ایسے الہامات ہوئے جن سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ آپ کی وفات کا وقت قریب آرہا ہے.چنانچہ آپ کو دو تین گھونٹ پانی دکھایا گیا اور ساتھ ہی الہام ہوا کہ ” آب زندگی یعنی دو تین سال ہی اب زندگی کے باقی ہیں پھر الہام ہوا.قَرُبَ اَجَلُكَ الْمُقَدَّرُ ، یعنی تیری وفات کا وقت قریب ہے.اس پر حضور نے اپنی جماعت کو نصیحتیں کرنے کے لئے ایک رسالہ ”الوصیت“
43 کے نام سے لکھا جس میں جماعت کو ضروری نصائح فرمائیں اور پھر یہ لکھا کہ نبی اور مامور کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی ایک قدرت ظاہر کرتا ہے اور اُن کی وفات کے بعد خلافت قائم کر کے اللہ تعالیٰ اپنی دوسری قدرت ظاہر کرتا ہے چنانچہ نبی کریم صلی کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوا اور اب بھی ایسا ہی ہو گا چنانچہ حضور نے تحریر فرمایا:- تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی ہے ( یعنی عنقریب وفات پا جانے کی خبر.ناقل ) غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت ( یعنی خلافت - ناقل) کا دیکھنا بھی ضروری ہے.“ گویا جب حضور نے اپنی وفات کی پیشگوئی فرمائی تو ساتھ ہی جماعت کو خلافت کے قائم ہونے کی خوشخبری بھی دے دی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ میری وفات کے بعد خلافت کے ذریعہ سے جماعت کی حفاظت اور ترقی کا انتظام فرمائے گا.مقبرہ بہشتی رسالہ ” الوصیت میں حضور نے اللہ تعالیٰ کی ایک بشارت اور اس کے الہام کے ماتحت مقبرہ بہشتی قائم کرنے کا بھی اعلان فرمایا.اللہ تعالیٰ نے حضور کورویا میں ایک جگہ دکھائی تھی جس کا نام بہشتی مقبرہ تھا اور یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ ان احمد یوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں.چنانچہ حضور نے اپنی ایک زمین قبرستان کے لئے وقف کی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا.اس میں دفن ہونے کے لئے حضور نے یہ شرائط رکھیں کہ:- وہی شخص اس میں مدفون ہو گا جو سچا اور صاف مسلمان ہو.پرہیز گار ہو.ہر قسم کے شرک اور دوسرے بُرے کاموں سے بچتا ہو.
44 اس کے علاوہ یہ شرط بھی رکھی کے وہ دسواں حصہ اپنی جائیداد کا اور آمد کا اشاعت دین حق کے لئے چندہ کے طور پر دیتا رہے گا لیکن حضور نے تحریر فرمایا کہ اگر کوئی شخص چندہ دینے کی بالکل طاقت نہ رکھتا ہومگر بہت نیک اور مخلص ہو تو اسے بھی اس میں دفن کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے.اسی انتظام کے ماتحت قادیان اور ربوہ میں مقبرہ بہشتی قائم ہے جس میں مندرجہ بالا شرطوں کی پابندی کرنے والے احمدیوں کو وفات کے بعد دفن کیا جاتا ہے اور ہر احمدی کا یہ ایمان ہے کہ اس میں وہی احمدی دفن ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہشتی ہے.رساله تشحید الا ذبان یکم مارچ 1906ء کوحضور کی اجازت سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی نے ایک اُردو رسالہ تشحیذ الاذہان کے نام سے احمدی نو جوانوں کی تربیت کے لئے جاری کیا.ڈاکٹر ڈوٹی کی ہلاکت: امریکہ میں ایک شخص ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی کے نام سے مشہور تھا اُس نے نبی ہونے اور عیسائیت کو پھیلانے کا دعویٰ کیا اور ساتھ ہی یہ کہنا شروع کر دیا کہ میں اسلام کو تباہ و برباد کر دوں گا حضرت نبی کریم صل اللہ کی بھی اس نے سخت تو ہین کی اور حضور کی شان میں گستاخیاں کیں.حضرت مسیح موعود کو اس کا علم ہوا تو حضور نے اس کوللکارا اور لکھا کہ :- ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ
45 ڈوئی کا خدا سچا ہے یا ہمارا.وہ بات یہ ہے کہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بار موت کی پیشگوئی نہ سنائیں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کریں کہ جو ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرجائے.“ ساتھ ہی حضور نے یہ بھی لکھا کہ :- (ریویو آف ریلیجنز ماه تمبر 1902ء) اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا تب بھی یقینا سمجھو کہ اس کے صحون ( ڈوئی کا آباد کیا ہوا شہر.ناقل ) پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ 71) جب لوگوں نے ڈوئی سے کہا کہ اس کا جواب دو تو اس نے بڑے تکبر کے ساتھ یہ کہا کہ:- " کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کو جواب دوں گا؟ اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں اُن کو کچل کر مار ڈالوں گا.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ 73) بالآخر اسے اس گستاخی کی سزا مل گئی اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پوری ہو گئی.اس پر فالج کا حملہ ہوا زبان بند ہو گئی.اس کے مریدوں نے اسے شرابی اور خائن پا کر اس کا ساتھ چھوڑ دیا اس کی بستی تباہ ہو گئی.آخر مارچ 1907ء میں وہ بڑی حسرت، دکھ اور درد کے ساتھ بے یار و مددگار ہونے کی حالت میں مر گیا.آخری سفر لا ہور اور وفات : حضور مع اہل و عیال 27 را پریل 1908ء کو لاہور تشریف لے گئے وہاں پر
46 حضور نے تقاریر فرمائیں.مختلف مذاہب کے لوگوں کو ملاقات کا شرف بخشا.ایک رسالہ پیغام صلح کے نام سے تحریر فرمایا.غرض دن رات تبلیغ و تربیت کے کاموں میں مصروف رہے.اسی دوران متواتر حضور کو اپنی وفات کے بالکل قریب آجانے کے متعلق الہامات بھی ہوتے رہے چنانچہ 20 مئی 1908ء کو الہام ہوا :- الرَّحيل ثمّ الرَّحيل والموت قريب یعنی کوچ کا وقت آگیا ہے اور موت قریب ہے.66 25 اور 26 رمئی 1908 ء کی درمیانی رات گیارہ بجے کے قریب حضور بیمار ہو گئے باوجود ہر ممکن علاج کے حالت سنبھل نہ سکی.آخر 26 رمئی کو ساڑھے دس بجے کے قریب حضور وفات پا کر اپنے حقیقی مولا کے پاس پہنچ گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آخری وقت میں آپ کی زبانِ مبارک سے جو الفاظ سنے گئے وہ یہ تھے:.اللہ ! میرے پیارے اللہ !" وفات کے وقت الہام کے مطابق حضور کی عمر شمسی حساب سے 74 سال اور قمری حساب سے 76 سال تھی.غیر معمولی صدمه و مخالفت گو حضور کو ایک عرصہ سے اپنی وفات کے متعلق الہام ہورہے تھے اور وفات کے قریب کے ایام میں تو کثرت سے الہام ہو رہے تھے لیکن چونکہ حضور مختصرسی بیماری کے بعد اچانک وفات پاگئے اس لئے جماعت نے غیر معمولی طور پر بہت ہی صدمہ محسوس کیا.دیگر مسلمانوں نے اور غیر مسلم شرفاء نے بھی حضور کی وفات پر دلی صدمہ محسوس کیا اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے حضور کی خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف
47 کیا.چنانچہ بعض اخبارات نے آپ کو اسلام کا فتح نصیب جرنیل، اسلام کا بہادر پہلوان، نہایت نیک اور پاکباز اور اسرائیلی نبیوں سے مشابہ بزرگ قرار دیا.لیکن چونکہ تنگ دل لوگ احمدیت سے دشمنی رکھتے تھے انہوں نے بھی اس موقع پر اپنی دشمنی اور دلی بغض و حسد کو ظاہر کرنے میں کوئی کمی نہ کی چنانچہ انہوں نے اس مکان کے نزدیک جہاں حضور نے وفات پائی احمدیوں کی دلآزاری کے لئے جلوس نکالے.گالیاں دیں اور نہایت ذلیل حرکتوں کا ارتکاب کیا جنہیں احمدیوں نے بڑے صبر کے ساتھ برداشت کیا.انتخاب خلافت اور تدفین : حضور کا جنازہ بذریعہ ریل بٹالہ لا یا گیا.جہاں سے احباب اپنے کندھوں پر اُٹھا کر قادیان لائے ( بٹالہ سے آگے اس وقت ریل نہیں جاتی تھی ) مورخہ 27 مئی 1908ء کو نماز جنازہ سے قبل جماعت احمدیہ نے متفقہ طور پر حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کو خلیفتہ امسیح الاول منتخب کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے پھر ایک ہاتھ پر جمع ہو گئی اور اس طرح رسالہ ” الوصیت میں حضرت مسیح موعود نے خلافت کی جو خوشخبری دی تھی وہ پوری ہو گئی اور جو لوگ سمجھتے تھے کہ شاید اب یہ جماعت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی ان کا یہ خیال سرا سر غلط ثابت ہوا.گو بظاہر جماعت نے خود خلیفہ منتخب کیا لیکن ہمارا یہ ایمان ہے کہ خلیفہ در اصل خدا تعالیٰ خود بناتا ہے اور اس کے لئے خود مومنوں کے دلوں میں تحریک پیدا کرتا ہے.پس حضرت مولوی نورالدین صاحب کو جو کہ حضرت مسیح موعود کے پرانے اور خاص رفقاء میں سے تھے خدا تعالیٰ نے خود خلیفہ بنایا اور اس طرح آپ کے ہاتھ پر جماعت کو متحد کر دیا.خلافت کے انتخاب کے بعد حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود کی نماز
48 جنازہ پڑھائی.احباب نے جو کہ ہزاروں کی تعداد میں آئے ہوئے تھے اپنے محبوب اور پیارے آقا کا آخری بار دیدار کیا جس کے بعد حضور کے جسد اطہر کو مورخہ 27 رمئی 1908ء کو چھ بجے شام مقبرہ بہشتی قادیان میں سپردخاک کر دیا گیا اور اس طرح وہ عظیم الشان وجود ہمیشہ کے لئے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا جس کی بشارت خود صل اللہ نے مسلمانوں کو دی تھی اور جس کے ذریعہ سے اس مبارک زمانہ میں اسلام کی ترقی مقدر ہے.حلیہ مبارک: حضرت مسیح موعود مردانہ خوبصورتی کا اعلیٰ نمونہ تھے جسم نہ زیادہ دبلا تھا اور نہ موٹا تھا.قد درمیانہ تھا.کندھے اور چھاتی کشادہ ، رنگ سفیدی مائل گندمی تھا.چہرہ پر ہمیشہ ایک خاص قسم کے نور، بشاشت اور چمک کی جھلک رہتی تھی.سر کے بال نہایت باریک،سید ھے اور چمکدار تھے.داڑھی گھنی مگر بہت خوبصورت تھی.آنکھیں سیاہی مائل شربتی رنگ کی تھیں اور ہمیشہ نیچے کی طرف جھکی رہتیں.پیشانی سیدھی، بلند اور چوڑی تھی اور اس سے نہایت فراست اور ذہانت ٹپکتی تھی.لباس بہت سادہ ہوتا تھا یعنی کرتا یا قمیض ، پائجامہ ، صدری ، کوٹ اور پگڑی پرمشتمل ہوتا تھا.پاؤں میں دیسی جوتی پہنتے تھے.باہر جاتے وقت ہاتھ میں عصا ضرور رکھتے تھے.خوراک بہت سادہ تھی اور کھانا بہت کم اور آہستہ آہستہ کھاتے تھے.حضور کے عادات و اخلاق: -1 حضور کی عادات و خصائل میں یہ باتیں نمایاں تھیں :- حضور کو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر اور اپنے دعوی کی سچائی پر کامل یقین تھا اور
49 آنحضرت ملالہ کے ساتھ بے نظیر محبت رکھتے تھے.-2 عبادت الہی میں ہر وقت مشغول رہتے تھے.جب بظاہر آپ دنیوی کام بھی کرتے تو زیر لب اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہتے دراصل آپ کی ساری زندگی ہی مجسم عبادت الہی تھی.-3 تقوی ( پر ہیز گاری) راستبازی ( سچائی) اور قرآن کریم کے احکامات اور آنحضرت صل اللہ کی ہدایات پر عمل کرنے کا ہمیشہ خاص خیال رکھتے تھے.زندگی بہت ہی سادہ اور ہر قسم کے تکلف سے پاک تھی.مشکل سے مشکل حالات کا بھی صبر، استقلال اور بہادری کے ساتھ مقابلہ -4 -5 کرتے تھے.-6 محنت کرنے کے خاص طور پر عادی تھی.خدا تعالیٰ نے جو کام حضور کے سپرد کیا تھا دن رات اسی میں مصروف رہتے تھے.-7 بیوی بچوں اور دوستوں کے ساتھ حتی کہ اپنے دشمنوں سے بھی بڑی ہی محبت، شفقت اور ہمدردی کا سلوک فرماتے تھے اور ہمیشہ اُن کے جذبات کا خیال رکھتے تھے لیکن ساتھ ہی ان کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کا بھی خاص خیال رکھتے تھے.مہمان نوازی بھی آپ کی ایک خاص صفت تھی.مہمانوں کے آرام کا بہت -8 ہی خیال رکھتے تھے.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے حضور کی عادات اور خصائل کا خلاصہ بڑے ہی پیارے مگر جامع انداز سے بیان کیا ہے آپ تحریر فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود اپنے اخلاق میں کامل تھے.یعنی آپ نہایت رؤف.رحیم تھے.سخی تھے.مہمان نواز تھے.ابتلاؤں کے وقت جب لوگوں کے دل بیٹھ جاتے تھے آپ شیر کر کی طرح
50 آگے بڑھتے تھے.عفو، چشم پوشی، فیاضی، دیانت، خاکساری، صبر وشکر، استغناء، حیاء محنت ، قناعت، وفاداری، بے تکلفی، سادگی ، شفقت، ادب الہی ، ادب رسول و بزرگان دین ، حلم ، میانه روی، ادائیگی حقوق، ایفائے عہد، چستی، ہمدردی.....وقار، طہارت، زندہ دلی ، اور مزاح ، ہمت، اولوالعزمی ، خود داری......خدا اور اس کے رسول کا سچا عشق ، کامل اتباع رسول.یہ مختصراً آپ کے اخلاق و عادات تھے...میں نے آپ کو اس وقت دیکھا جب میں دو برس کا بچہ تھا.پھر آپ میری آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں 27 سال کا جوان تھا.مگر خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپ سے بہتر ، آپ سے زیادہ خلیق، آپ سے زیادہ نیک، آپ سے زیادہ بزرگ، آپ سے زیادہ اللہ اور اُس کے رسول سے محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا.آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دنیا پر ظاہر ہوا.“ حضرت مسیح موعود کے خاص اصحاب : حضرت مسیح موعود کے چند ایک خاص صحابہ کے نام جن سے حضور کو بہت محبت تھی اور جنہیں خدمت دین کا خاص موقع ملا درج ذیل کئے جاتے ہیں :- 1 حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ اسیح الاول 2 حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی 3 حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ( یہ بزرگ حضور کے داماد تھے.).4 حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی
51 5 حضرت مفتی محمد صادق صاحب 6 حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر ”الحکم“ 7 حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی 8 حضرت منشی ظفر احمد صاحب 9 حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری 10.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی 11.حضرت میر ناصر نواب صاحب ( یہ بزرگ حضرت مسیح موعود کے خسر تھے ) اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو ) تصانیف: حضرت مسیح موعود کی چندا ہم تصانیف کے نام یہ ہیں:- براہین احمدیہ فتح اسلام حقیقۃ الوحی تریاق القلوب کشتی نوح ضرورة الامام آئینہ کمالات اسلام انجام آتھم اسلامی اصول کی فلاسفی الوصیت.1.2.3.4.5.6.7.8 9.10
52.11 تحفہ گولڑو یہ 12 مسیح ہندوستان میں.13 سراج منیر
53 باب دوم حضرت فارینہ البیع الاول کا عہد خلافت ابتدائی مختصر حالات حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپ نے سب سے پہلے حضرت مسیح موعود کی بیعت کی.حضور نے انہیں اپنا سب سے محبوب اورسب سے مخلص اور اعلیٰ درجہ کا صدیق دوست قرار دیا اور ان کی قربانیوں اور ان کے نمونہ کو قابل رشک قرار دیتے ہوئے یہ لکھا کہ وہ اپنے اخلاص، محبت اور وفا داری میں میرے سب مریدوں میں اول نمبر پر ہیں.آپ کا اصل وطن بھیرہ ضلع سرگودھا ہے.آپ 1841ء کے قریب بھیرہ میں پیدا ہوئے.آپ کے والد صاحب کا نام حضرت حافظ غلام رسول صاحب تھا اور والدہ کا نام نور بخت تھا.آپ کا سلسلہ نسب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے.آپ کا خاندان بہت علم دوست اور دیندار تھا.دن رات قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ اس خاندان میں جاری تھا.آپ نے قرآن کریم اپنی والدہ کی گود میں ہی پڑھا.جب بڑے ہوئے تو دینی علم حاصل کرنے کے لئے لاہور، رام پور، دہلی لکھنؤ اور بھو پال وغیرہ میں مقیم رہے اس زمانہ میں بھی آپ کو اللہ تعالیٰ پر اتنا بھروسہ ہوتا تھا کہ مالی ضروریات اور رہائش وغیرہ کا کبھی فکر نہ کیا.اللہ تعالیٰ خود ہی غیب سے ہر جگہ
54 آپ کے لئے منجزانہ رنگ میں انتظام فرما دیتا تھا.ان مقامات پر جو چوٹی کے عالم اور حکیم تھے اُن سے آپ نے دینی اور طبی علوم حاصل کئے.66-1865ء میں آپ نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا پہلا سفر کیا.ڈیڑھ برس وہاں رہ کر دینی علوم حاصل کئے اور حج کا شرف حاصل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے اور بھیرہ میں قرآن مجید و احادیث کے درس و تدریس کا سلسلہ جاری کر دیا.ساتھ ہی آپ نے مطب بھی جاری کر دیا.طب میں آپ کی شہرت اتنی بڑھی کہ دور دراز سے لوگ آپ کی خدمت میں علاج کے لئے حاضر ہوتے تھے حتی کہ کشمیر کے مہاراجہ کی درخواست پر آپ وہاں تشریف لے گئے اور ایک عرصہ تک خاص شاہی طبیب کے طور پر دربار جموں وکشمیر سے وابستہ رہے.اس عرصہ میں آپ مطب کے علاوہ ریاست میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لئے بھی کوشاں رہے اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا.1885ء میں حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود کا ایک اشتہار پہلی بار پڑھا.اس کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ حضور کی زیارت کے لئے قادیان پہنچ گئے اور حضور پر پہلی نظر ڈالتے ہی حضور کی صداقت کے قائل ہو گئے.یہ آپ کی حضور کے ساتھ پہلی ملاقات تھی.اس ملاقات کے بعد آپ ہمیشہ کے لئے حضور کے جاں نثار خادموں میں شامل ہو گئے.جب 1889ء میں بمقام لدھیانہ پہلی بار بیعت ہوئی تو آپ نے سب سے پہلے نمبر پر بیعت کرنے کا فخر حاصل کیا.1890ء میں جب حضور نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو پھر بھی بلا تامل آپ حضور کے دعوئی پر ایمان لے آئے.شادی حضرت مولوی صاحب کی پہلی شادی تھیں برس کی عمر میں بمقام بھیرہ مفتی شیخ مکرم صاحب قریشی عثمانی کی صاحبزادی محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ سے ہوئی.آپ
55 کی یہ اہلیہ 1905ء میں وفات پاگئیں.دوسری شادی 1889ء میں حضرت مسیح موعود کی تحریک پر لدھیانہ میں حضرت صوفی احمد جان صاحب کی صاحبزادی حضرت صغریٰ بیگم صاحبہ سے ہوئی.ان کی وفات 1955ء میں بمقام ربوہ ہوئی.تصانیف: 1887-88ء میں آپ نے حضرت مسیح موعود کی تحریک پر عیسائیت کے رڈ میں ایک کتاب فصل الخطاب شائع فرمائی.پھر 1890ء میں حضور کی زیر ہدایت پنڈت لیکھرام کی کتاب تکذیب براہین احمدیہ کے جواب میں ” تصدیق براہین احمدیہ ملازمت سے فراغت اور قادیان میں ہجرت : 1892ء میں ریاست جموں وکشمیر سے آپ کی ملازمت کا سلسلہ جو 1886ء میں قائم ہوا تھا ختم ہو گیا.آپ نے ریاست میں قرآن کریم کے درس و تدریس اور تبلیغ دین حق کا جو سلسلہ شروع کر رکھا تھا وہی اس ملازمت کے خاتمہ کا موجب ہوا.مہاراجہ رنبیر سنگھ کی وفات پر اس کے جانشین مہاراجہ پرتاپ سنگھ اور اس کے چند درباری اسلام سے اور حضرت مولوی صاحب سے خاص بغض و تعصب رکھتے تھے.چنانچہ انہوں نے آپ کو ملازمت سے فارغ کر دیا.آپ وہاں سے واپس اپنے وطن بھیرہ تشریف لے آئے جہاں پر آپ نے وسیع پیمانے پر ایک شفاخانہ قائم کرنے کا ارادہ کیا اور عالیشان مکان کی تعمیر شروع کروادی.1893ء میں جبکہ مکان کی تعمیر بھی جاری تھی آپ کسی کام کے لئے لاہور تشریف لے گئے وہاں پر آپ کو حضرت مسیح موعود کی زیارت کا خیال آیا.چنانچہ آپ قادیان تشریف لے گئے.حضور نے فرمایا.اب تو آپ ملازمت سے فارغ
56 ہیں.یہاں رہیں.حضرت مولوی صاحب نے سمجھا کہ دو چار روز اور ٹھہر لیتا ہوں.ایک ہفتہ بعد حضور نے فرمایا آپ اکیلے یہاں رہتے ہیں اپنی بیویوں کو بھی یہیں منگوالیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے دونوں بیویوں کو بلا لیا.پھر ایک دن حضور نے فرمایا.آپ کو کتابوں کا شوق ہے اپنا کتب خانہ بھی یہیں منگوا لیں.چنانچہ کتب خانہ بھی بھیرہ سے قادیان آ گیا.چند دنوں کے بعد حضور نے فرمایا.مولوی صاحب ! اب آپ وطن کا خیال چھوڑ دیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے وطن کا خیال ایسے چھوڑ دیا کہ کبھی خواب میں بھی وطن نہیں دیکھا.“ قادیان میں ہجرت کے بعد کئی لوگوں نے آپ کو لاہور یا امرتسر میں جا کر شفاخانہ کھولنے کی تحریک کی لیکن آپ نے اپنے آقا کے قدموں میں ہی رہنا پسند کیا.یہیں پر دن رات دین کی خدمت کرنے میں مصروف رہے اور ہر وقت حضرت مسیح موعود کی ہدایت اور حکم کی تعمیل کرنے کے لئے تیار رہتے.مریضوں کو دیکھتے.قرآن و حدیث کا درس دیتے نمازیں پڑھاتے.وعظ ونصیحت کرتے.حضور کی کتب کے پروف پڑھنے اور حوالے نکالنے کا کام کرتے تھے.جب کالج جاری ہوا تو اس میں عربی پڑھاتے تھے.جب صدر انجمن احمد یہ قائم ہوگئی تو حضرت مسیح موعود نے آپ کو اس کا پریذیڈنٹ مقرر فرما دیا.پھر غرباء کی امداد اور ہمدردی کا بھی ہمیشہ خیال رکھتے.غرض قادیان آکر حضرت مولوی صاحب نے اپنی زندگی دین کے لئے بالکل وقف کر دی.صبح سے شام تک اسی میں مصروف رہتے.پہلے حضرت مسیح موعود کے مکانات کے قریب ہی اپنا کچا مکان تعمیر کرا کے اس میں رہائش اختیار کر لی.بیماروں کے علاج سے جو آمدنی ہوتی اس کا بھی زیادہ تر حصہ چندہ کے طور پر حضور کی خدمت میں پیش کر
57 دیتے یا میموں اور غریبوں کی پرورش میں صرف کر دیتے تھے.خلافت اولی کا انتخاب: 26 رمئی 1908 ء کو حضرت مسیح موعود نے وفات پائی.27 مئی کو جب آپ کا جنازہ قادیان میں لایا گیا تو تمام جماعت نے متفقہ طور پر حضرت مولوی نورالدین صاحب کو جماعت احمدیہ کا امام اور حضرت مسیح موعود کا پہلا خلیفہ منتخب کیا اور تمام احمدیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.بیعت سے پہلے حضرت مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ:- ”میرے دل میں کبھی امام بننے کی خواہش نہیں ہوئی.لیکن اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سُن لو! بیعت بک جانے کا نام ہے.تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی.اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوعاً و کرہاً ( یعنی مجبوراً) اس بوجھ کو اُٹھاتا ہوں.“ خلافت اولی کے اہم واقعات مدرسہ احمدیہ کا قیام: دینیات کی ایک علیحدہ شاخ تعلیم الاسلام ہائی اسکول کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں قائم ہوگئی تھی لیکن حضرت خلیفہ اول کی خواہش تھی کہ اس مستقل اور الگ صورت میں حضرت مسیح موعود کی یادگار کے طور پر قائم کیا جائے.چنانچہ یکم مارچ 1909 ء کو باقاعدہ طور پر مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی.اس کے پہلے ہیڈ ماسٹر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مقرر ہوئے.کچھ عرصہ بعد جب اس مدرسہ کا انتظام
58 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی) کے سپر د ہوا تو اس نے غیر معمولی طور پر بہت ترقی کی.انگریزی ترجمه قرآن مجید مسلمانوں کی طرف سے انگریزی زبان میں قرآن کریم کا کوئی قابل اعتبار ترجمه موجود نہ تھا.حضرت خلیفہ اسی الاول کے زمانہ میں جماعت نے اس طرف توجہ کی.چنانچہ انگریزی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر تیار کرنے کا کام صدر انجمن احمدیہ کی نگرانی میں اس کے سیکرٹری مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے شروع کیا.حضرت خلیفہ اول خود ترجمہ اور تفسیری نوٹ سنتے اور اصلاح فرماتے تھے لیکن افسوس ہے کہ جب خلیفہ اول کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ ثانی خلیفہ منتخب ہوئے اور مولوی محمد علی صاحب خلافت سے منکر ہو کر لاہور چلے گئے تو وہ ترجمہ بھی ساتھ لے گئے اور اپنے بدلے ہوئے عقیدوں اور خیالات کے مطابق اس میں انہوں نے تبدیلی کر لی.چنانچہ خلافت ثانیہ کے زمانہ میں اس کام کو ازسرنو شروع کر کے مکمل کیا گیا اور نہایت اعلیٰ درجہ کا انگریزی ترجمۃ القرآن شائع کیا گیا.تعمیر عمارات : قادیان میں احمدیوں کی آبادی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ایک نیا محلہ دار العلوم کے نام سے آباد ہوا.اس میں کئی عمارتیں تعمیر ہوئیں مثلاً مسجد نور ، تعلیم الاسلام ہائی اسکول اور اس کے بورڈنگ کی عظیم الشان عمارتیں ، نور ہسپتال ، پھر مسجد اقصیٰ میں توسیع کی گئی.اخبارات ورسائل کا اجراء: حضرت مولوی صاحب کے عہد میں مندرجہ ذیل نئے اخبارات و رسائل
59 جاری ہوئے :- اخبار نور، اخبار الحق، رساله احمدی، احمدی خاتون، اخبار پیغام صلح، اخبار الفضل ( یہ اخبار حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی نے 18رجون 1913ءکو جاری فرمایا.اس کا نام حضرت خلیفہ اول نے خود تجویز فرمایا).گھوڑے سے گرنے کا واقعہ: 18 رنومبر 1910ء کو حضرت مولوی صاحب گھوڑے پر تشریف لے جا رہے تھے کہ گر پڑے.آپ کے ماتھے پر سخت چوٹ آئی.جس کی وجہ سے آپ لمبا عرصہ بیمار رہے.اس واقعہ سے حضرت مسیح موعود کا 1905 ء کا وہ خواب پورا ہوا جس میں حضور نے دیکھا تھا کہ حضرت مولوی صاحب گھوڑے سے گر پڑے ہیں.پہلے بیرونی مشن کا قیام: حضرت خلیفہ ایسیح الاوّل کے عہد کا ایک خاص واقعہ یہ ہے کہ آپ کے زمانہ میں جماعت احمدیہ کا پہلا بیرونی مشن انگلستان میں قائم ہوا.محترم چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم اے جماعت احمدیہ کے پہلے باقاعدہ مبلغ تھے جو تبلیغ کے لئے لندن بھیجے گئے.اندرونی فتنے کا مقابلہ: حضرت خلیفہ اول کے عہد کا ایک اہم واقعہ وہ اندرونی فتنہ ہے جس کا حضور نے کامیابی سے مقابلہ کیا صدرانجمن احمدیہ کے بعض بااثر عہدیداروں اور ممبروں نے یہ کوشش کی کہ خلافت کا بابرکت نظام ختم کر کے تمام اختیارات صدرانجمن احمدیہ کے ہاتھ میں آجائے تا کہ وہ جو چاہیں کریں اور کوئی وجود ایسا نہ رہے جو انہیں ٹوک سکے.
60 اس کے لئے انہوں نے بہانہ یہ بنایا کہ حضرت مسیح موعود کے رسالہ الوصیت کی ایک تحریر سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ حضور نے اپنا جانشین انجمن کو مقرر کیا ہے نہ کہ خلیفہ کو.مگر خدا تعالیٰ ان لوگوں کی یہ کوشش خود انہی کے ذریعہ سے ناکام بنا چکا تھا کیونکہ حضرت خلیفہ اول کو خلیفہ منتخب کرتے وقت انہوں نے اپنے دستخطوں سے جو اعلان شائع کیا تھا اس میں صاف یہ لکھا ہوا موجود تھا کہ ہم نے حضرت مسیح موعود کے رسالہ الوصیت کے منشاء کے مطابق حضرت مولوی صاحب کو خلیفہ منتخب کیا ہے اور یہ کہ ہم حضرت مولوی صاحب کی اسی طرح اطاعت کریں گے جس طرح کہ حضرت مسیح موعود کی کیا کرتے تھے.جب ان لوگوں نے دیکھا کہ ہماری یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی تو پھر ان لوگوں نے حضرت مسیح موعود کے متعلق دبی زبان میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضور نبی نہیں تھے.تا اس بات کے لئے دلیل بن سکے کہ خلافت کی کوئی ضرورت نہیں اور خلافت چونکہ نبیوں کے بعد ہوتی ہے اس لئے حضور کے بعد خلافت ہو ہی نہیں سکتی ان کی یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر یہ اقرار کر چکے تھے حضرت مسیح موعود نبی ہیں اور حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت مسیح موعود کے خلیفہ اول ہیں.جب یہ سازش بھی ناکام ہوتی نظر آئی تو انہوں نے یہ کوشش کی کہ کم از کم خلیفہ وقت کے اختیارات کو ہی کم کر دیا جائے.وہ صرف نمازیں پڑھا چھوڑا کرے باقی سب اختیارات صدر انجمن احمدیہ کے حوالے کر دے.مگر یہ کوشش بھی ناکام ہوئی.کیونکہ حضرت خلیفہ اول نے اپنی تقریروں اور خطبوں میں سب سے زیادہ اس امر کو ہی پیش کیا کہ :- وو خلیفہ خدا بناتا ہے میرے بعد بھی جو خلیفہ ہوگا
61 اُسے بھی خدا ہی کھڑا کرے گا اور جو لوگ اس کی بیعت کرتے ہیں اُن کا فرض ہوتا ہے کہ ہر کام اور ہر بات میں خلیفہ کی پوری پوری اطاعت کریں.“ نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت کی اہمیت جماعت احمد یہ پر اچھی طرح واضح ہو گئی اور جماعت کا ایک بڑا حصہ ان لوگوں کے پھیلائے ہوئے فتنہ سے محفوظ ہو گیا.صرف گنتی کے چند لوگ اُن کے حامی رہ گئے.حضرت خلیفہ اول نے ان لوگوں کو کئی بار سمجھایا.نرمی سے بھی اور سختی سے بھی حتی کے ایک بار انہیں دوبارہ بیعت لینے کا بھی حکم دیا.چونکہ حضور کا خدا داد رعب بھی بہت تھا اس لئے انہوں نے ڈر کے مارے مجبوراً بیعت کر لی.لیکن اندر ہی اندر سازشوں میں مصروف رہے یہاں تک کہ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی وفات ہوئی تو یہ لوگ کھل کر سامنے آگئے اور اعلانیہ خلافت سے منکر ہو کر لاہور چلے گئے اور وہاں پر مولوی محمد علی صاحب ایم اے کی سرکردگی میں جماعت سے علیحدہ ہو کر اپنی الگ انجمن احمد یہ انجمن اشاعت اسلام کے نام سے قائم کر لی.حضرت خلیفہ اول کی وفات: حضرت خلیفہ اول چند ماہ بیمار رہنے کے بعد 13 / مارچ1914ء کو جمعہ کے دن سوا دو بجے بعد دو پہر قادیان میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ 14 / مارچ 1914ء کو حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی نے خلیفہ ثانی منتخب ہو جانے کے بعد آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس کے بعد ہزاروں احمدیوں نے دین حق کے، قرآن مجید کے، آنحضرت صل اللہ کے اور
62 حضرت مسیح موعود کے اس عاشق صادق کو جو اپنے اندر بے نظیر خوبیاں رکھتا تھا اور عمر بھر دین کی خدمت کرتا رہا.مقبرہ بہشتی قادیان میں حضرت مسیح موعود کے مزار کے پہلو میں دفن کر دیا.حضرت خلیفہ اول کا مقام : حضرت مولاناحکیم نورالدین صاحب خلیفہ المسیح الاول بہت بزرگ انسان تھے.آپ کو سب سے پہلے بیعت کرنے اور پھر ہر حالت میں حضرت مسیح موعود کا ساتھ دینے کی توفیق ملی.خدا اور رسول کی محبت کے علاوہ انہیں قرآن مجید سے خاص عشق تھا.بیماری ہو یا صحت ہو.ہر حالت میں قرآن مجید کا ذکر اور اس کا درس ہی ان کی روح کی غذا تھی.حضرت مسیح موعود کے ہر حکم کی پوری اطاعت کرتے تھے.جب حضور کی طرف سے کوئی بلاوا آتا تو جس حالت میں بھی ہوتے فوراً بھاگ کر حضور کی خدمت میں پہنچنے کی کوشش کرتے حتی کہ جوتی سنبھالنے اور پگڑی پہنے کا بھی انہیں خیال نہ رہتا.ایک دفعہ حضور دہلی میں تھے وہاں سے حضور کا پیغام حضرت مولوی صاحب کو قادیان میں ملا کہ آپ فوراً دہلی آجائیں.حضرت مولوی صاحب اس وقت اپنے مطب میں بیٹھے تھے.جب پیغام ملا تو وہیں سے اور اُسی حالت میں روانہ ہو گئے.نہ سفر کے لئے کوئی سامان لیا اور نہ کرایہ کا ہی انتظام کیا.کسی نے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ گھر جا کر سامان بھی نہ لیں اور اتنے لمبے سفر پر خالی ہاتھ روانہ ہو جائیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.جب حضور کا حکم کے ہے کہ فوراً آجاؤ تو میں ایک منٹ بھی یہاں ٹھہر نا گناہ سمجھتا ہوں.خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ جب آپ گاڑی پر روانہ ہونے کے لئے بٹالہ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو ایک امیر آدمی جو بیمار تھا علاج کے لئے حاضر ہو گیا اس
63 نے دہلی تک کا ٹکٹ بھی خرید دیا اور ایک معقول رقم بھی آپ کی خدمت میں پیش کر دی.اس سے تم اندازہ لگا لو کہ حضرت مولوی صاحب کا حضور کی اطاعت کرنے کا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور تو کل کرنے میں کیسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ تھا.آپ کی انہی خوبیوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود نے آپ کی تعریف میں یہ فارسی شعر کہا کہ ؎ چہ خوش بودے اگر ہر یک زاُمت نوردیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ کیا ہی اچھا ہواگر میری قوم اور جماعت کا ہر فرد نور دین بن جائے.مگر یہ بھی ہوسکتا ہے جبکہ ہر ایک دل نور دین کی طرح یقین کے نور سے بھر جائے.حضرت مولوی صاحب کے اعلیٰ مقام کا اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ نے شروع سے ہی اپنی فراست سے یہ معلوم کر لیا تھا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مصلح موعود ہیں اور کسی زمانہ میں جماعت کے خلیفہ بن کر دین کی خاص خدمت کریں گے.چنانچہ کئی دفعہ آپ نے اس کا اظہار بھی کیا.اپنی خلافت کے آخری زمانہ میں آپ نے حضرت خلیفہ ثانی کو ہی اپنی جگہ نمازیں پڑھانے اور خطبات دینے کے لئے مقرر فرمایا.پھر آپ کو اپنی جگہ صدرا مجمن احمدیہ کا پریزیڈنٹ بھی بنادیا.غرض آپ نے اپنے عہد خلافت میں خلافت کی اہمیت کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفہ ثانی کے مقام کو بھی خوب واضح کر دیا.یہی وجہ ہے کہ جماعت میں سخت فتنہ پیدا ہونے کے باوجود اکثر جماعت صحیح اور سچی راہ پر قائم رہی اور خلافت سے وابستہ رہی.
64
65 باب سوم حضرت قاریہ اسیح الثانی کا عہد خلافت ابتدائی مختصر حالات اب ہم پہلی خلافت سے گذر کر خلافت ثانیہ کے زمانہ میں داخل ہوتے ہیں.اس عہد کے حالات مختصر طور پر بیان کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم زمانہ خلافت سے پہلے کے حضرت خلیفتہ ایسیح الثانی کے کچھ حالات بیان کر دیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة امسیح الثانی مورخہ 12 جنوری 1889ء بروز ہفتہ قادیان میں پیدا ہوئے.آپ حضرت مسیح موعود کی اہلیہ ثانی حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ سے حضور کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے.آپ حضرت رسول کریم صل اللہ کی اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے تھے جس میں حضور نے یہ خبر دی تھی کہ آخری زمانہ میں جو مسیح موعود آئے گا وہ اکیلا نہیں رہے گا بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے منشاء خاص سے ایک شادی کرے گا جس سے اس کے ہاں اولا د ہو گی.پھر آپ کا وجود حضرت مسیح موعود کی اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا کرنے کا موجب بنا جو جماعت احمدیہ میں پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے مشہور ہے.اس پیشگوئی میں جو کہ 1886ء میں بمقام ہوشیار پور ہوئی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو ایک عظیم الشان بیٹا نو سال کی مدت میں ہونے کی خوشخبری دی
66 تھی اور بتایا تھا کہ یہ بیٹا :- وو صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو......گا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا....وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم ہوگا اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا....ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا....زمین کے کناروں تک 66 شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.“ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے وجود میں یہ پیشگوئی اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی پیشگوئی میں جو جو علامتیں بتائی گئی تھیں ہم سب گواہ ہیں کہ وہ سب پوری ہوگئیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ حضرت مسیح موعود نے آپ کی پیدائش پر ایک اشتہار شائع کیا جس میں آپ کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہوئے حضور نے دس شرائط بیعت کا اعلان فرمایا اور پھر کچھ عرصہ بعد 1889ء میں ہی بمقام لدھیانہ پہلی بیعت کا آغاز کیا گیا.گویا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی پیدائش اور جماعت احمدیہ کا آغاز ایک ہی وقت میں ہوئے.جب حضرت خلیفہ ثانی تعلیم کیعمر کو پہنچے تو مقامی اسکول میں آپ کو داخل کرا دیا گیا مگر طالب علمی کے زمانہ میں چونکہ آپ کی صحت خراب رہتی تھی اس لئے آپ کو تعلیم سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی.یہی وجہ ہے کہ جب دسویں جماعت کے امتحان تک پہنچے جو کہ اس زمانہ میں یونیورسٹی کا پہلا امتحان تھا تو آپ فیل ہو گئے.بس آپ نے اسکول کی تعلیم یہیں تک حاصل کی.تعلیم کے زمانہ میں جب آپ کے اُستاد حضرت مسیح موعود سے آپ کی تعلیمی حالت کا ذکر کرتے تو حضور فرمایا کرتے تھے کہ اس کی صحت
67 اچھی نہیں ہے.جتنا یہ شوق سے پڑھے اسے پڑھنے دو زیادہ زور نہ دو.دراصل اس میں اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت تھی.اگر آپ تعلیم میں ہوشیار ہوتے اور ظاہری ڈگریاں حاصل کرتے تو لوگ خیال کرتے کہ آپ کی قابلیت شاید ان ڈگریوں کی وجہ سے ہے مگر اللہ تعالیٰ تو خود آپ کا استاد بننا چاہتا تھا اس لئے ظاہری تعلیم آپ حاصل ہی نہ کر سکے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کے مطابق خود آپ کو ظاہری و باطنی تعلیم دی.چنانچہ دنیا نے نے دیکھ لیا کہ کسی علم میں بھی دنیا کا کوئی عالم آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جب آپ ذرا بڑے ہوئے تو آپ کے دل میں خدمت دین کا خاص شوق پیدا ہو گیا.چنانچہ آپ نے ایک انجمن تفخیذ الا ذہان“ کے نام سے قائم کی اور اس نام کا ایک رسالہ بھی جاری کیا اور اس طرح تحریری اور تقریری مشق کا سلسلہ شروع کر دیا.جو جماعت کے لئے بہت مفید ثابت ہوا.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہی آپ کو حضرت خلیفہ اول نے اپنی خاص تربیت میں لے لیا.چنانچہ قرآن شریف اور حدیثوں کی بعض کتابیں آپ نے حضرت مولوی صاحب سے پڑھیں اور آپ نے ان کی صحبت اور فیض سے بہت فائدہ اُٹھایا.26 مئی 1908ء کو جب حضرت مسیح موعود وفات پا گئے اس وقت آپ اُنیس برس کے تھے.آپ نے حضور کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ سے یہ عظیم الشان عہد کیا کہ الہی اگر سارے لوگ بھی حضرت مسیح موعود کی جماعت کو چھوڑ دیں تو پھر بھی میں اپنے عہد پر قائم رہوں گا اور حضرت مسیح موعود جس مقصد کے لئے مبعوث ہوئے تھے اُسے پورا کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا.اس عہد کے بعد ستاون برس تک حضور زندہ رہے.آپ کی زندگی کا ایک
68 ایک دن اس امر کا گواہ ہے کہ آپ نے جو عہد کیا تھا اُسے کس شان سے پور کر دکھایا.1911ء میں آپ نے حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے ایک انجمن انصار اللہ " کے نام سے قائم فرمائی اور اس کے ذریعے تبلیغ وتربیت کے کئی کام کئے.1912 ء میں آپ نے حج کیا.1913ء میں اخبار الفضل“ جاری کیا.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں آپ نے کئی تبلیغی سفر بھی کئے.جن میں آپ کی تقریروں کو لوگ خاص طور پر بہت پسند کرتے تھے.حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت آپ ابھی بچہ ہی تھے لیکن حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی آپ نے جماعت میں پیدا ہونے والے اس فتنہ کے ابتدائی آثار کو بھانپ لیا تھا جو خلافت کے منکرین کی طرف سے بہت ہی آہستہ آہستہ ظاہر ہورہے تھے.آپ کا یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ آپ کی باریک نظر نے آنے والے خطروں کو محسوس کر لیا اور معلوم کر لیا کہ یہ لوگ خلافت کے منکر ہو کر احمدیت کی خصوصیات اور برکات کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں چنانچہ باوجود اس کے کہ آپ کی ان لوگوں کیطرف سے سخت مخالفت کی گئی مگر آپ صحیح راستہ پر ڈٹے رہے آپ نے بہادری کے ساتھ اُن کا مقابلہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت اس فتنہ سے بڑی حد تک بچی رہی.حالانکہ یہ فتنہ پیدا کرنے والے لوگ وہ تھے جو کہ جماعت میں ذی علم اور تجربہ کار سمجھے جاتے تھے.وہ خود کو صدر انجمن کے مالک سمجھتے تھے اور حضور کو کل کا بچہ کہہ کر پکارا کرتے تھے.مگر دیکھنے والوں نے دیکھ لیا کہ بالآخر یہی کل کا بچہ کامیاب رہا.انتخاب خلافت ثانیه: جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے.حضرت خلیفہ اول مورخہ 13 / مارچ 1914ء کو بعد دو پہر فوت ہوئے تھے.وہ جماعت پر ایک بہت ہی نازک وقت تھا.
69 ایک طرف حضرت خلیفہ اول کی جدائی کا غم تھا اور دوسری طرف منکرین خلافت کے فتنہ کا خوف تھا جو ہر مخلص احمدی کو بیتاب کر رہا تھا.اور وہ بیقراری کے ساتھ دعاؤں میں مصروف تھا.نماز عصر کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک بہت درد سے بھری ہوئی تقریر فرمائی جس میں آپ نے فرمایا کہ دوستوں کو بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کی مدد فرمائے اور صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق دے.دوسرے دن خلافت کا انکار کرنے والوں کو سمجھانے کی ایک آخری کوشش کی گئی.حضرت خلیفہ اسح الثانی نے انہیں یہاں تک کہا کہ اگر آپ خلافت سے انکار نہ کریں تو ہم خدا کو حاضر و ناظر جان کر وعدہ کرتے ہیں کہ اگر کثرت رائے سے آپ لوگوں میں سے کوئی خلیفہ منتخب ہو جائے تو ہم سچے دل سے اُسے قبول کریں گے لیکن یہ لوگ اپنی ضد پر اڑے رہے.مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں ہی ایک رسالہ چھاپ کر تیار کر رکھا تھا جسے حضور کی وفات ہوتے ہی کثرت سے جماعت میں تقسیم کر دیا گیا.اس پروپیگنڈا کی وجہ سے انہیں امید تھی کہ جماعت ان کی باتوں کو ضرور مان لے گی.اس لئے وہ اپنی باتوں پر اڑے رہے.آخر 14 / مارچ کو نماز عصر کے بعد سب احمدی جو دو ہزار کی تعداد میں دور و نزدیک سے آئے ہوئے تھے مسجد نور قادیان میں جمع ہوئے.سب سے پہلے حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی وصیت پڑھ کر سنائی.جس میں آپ نے اپنا جانشین مقرر کرنے کی نصیحت فرمائی تھی.وصیت پڑھنے کے ساتھ ہی ہر طرف سے لوگوں کی آواز میں حضرت میاں صاحب ، حضرت میاں صاحب“ ( مراد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی) بلند ہونے لگیں.حضرت مسیح موعود کے پرانے صحابی حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے کھڑے ہو کر تقریر کی.آپ نے خلافت کی ضرورت واضح کرنے کے بعد
70 فرمایا کہ میری رائے میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہر طرح سے خلیفتہ امسیح بننے کے اہل ہیں.اس لئے ہمیں ان کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہیئے.اس کی ہر طرف سے تائید کی گئی اور لوگوں نے اصرار کرنا شروع کیا کہ ہماری بیعت لی جائے.مولوی محمد علی صاحب نے جو منکرین خلافت کے لیڈر تھے کچھ کہنا چاہا لیکن لوگوں نے انہیں یہ کہ کر روک دیا کہ جب آپ خلافت ہی کے منکر ہیں تو ہم کس طرح آپ کی بات سننے کے لئے تیار ہوں؟ لوگ چاروں طرف سے ٹوٹے پڑتے تھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا خدا کے فرشتے لوگوں کو پکڑ پکڑ کے بیعت کے لئے تیار کر رہے ہیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کچھ تامل کیا مگر آخر لوگوں کے اصرار پر حضور نے بیعت لینی شروع کر دی.جو لوگ قریب نہیں آسکتے تھے انہوں نے اپنی پگڑیاں پھیلا کر اور ایک دوسرے کی پیٹھوں پر ہاتھ رکھ کر بیعت کے الفاظ دہرائے.بیعت کے بعد لمبی دعا ہوئی جس میں سب پر رقت طاری تھی.دعا کے بعد حضور نے درد سے بھری ہوئی تقریر فرمائی.جس میں آپ نے فرمایا کہ گو میں بہت ہی کمزور انسان ہوں مگر خدا تعالیٰ نے مجھ پر جو ذمہ داری ڈال دی ہے مجھے یقین ہے کہ خدا اس کے ادا کرنے کی توفیق مجھے عطا فرمائے گا.آپ سب لوگ متحد ہو کر اسلام اور احمدیت کی ترقی کی کوشش میں میری مددکریں.اس تقریر سے سب لوگوں کے دلوں میں ایک خاص اطمینان پیدا ہو گیا.مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جب دیکھا کہ جماعت نے اُن کی بات نہیں مانی تو وہ حسرت کے ساتھ اس مجمع میں سے اُٹھ کر چلے گئے اور پھر چند دن کے بعد مستقل طور پر قادیان چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور وہاں پر انہوں نے اپنے ساتھیوں کی الگ انجمن قائم کر لی.شروع شروع میں انہوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ بہت تھوڑے
71 لوگ خلافت کے ساتھ ہیں.مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی ناکامی کو محسوس کر لیا اور اقرار بھی کر لیا کہ جماعت احمدیہ کی بہت بھاری اکثریت خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہو چکی ہے اور ہم انہیں ورغلانے میں ناکام رہے ہیں.اَلْحَمُدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ! خلافت ثانیہ کے اہم واقعات: خلافت ثانیہ کا مبارک دور 14 / مارچ 1914ء کو شروع ہوا اور 8 نومبر 1965ء کوختم ہوا.گویا خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ دور اکاون سال تک جاری رہا.اس عرصہ میں حضور نے سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے اتنے کارنامے سرانجام دیئے اور ان کے اتنے عظیم الشان نتائج نکلے کہ انہیں تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ بھی اس مختصر رسالہ میں بیان نہیں کیا جاسکتا.اس لئے ذیل میں چند خاص خاص واقعات کا ہی ذکر کیا جاتا ہے.تبلیغ دین حق کا وسیع نظام جیسا کہ بچوں کو علم ہے کہ احمدیت دنیا میں دین حق کی تبلیغ اور اشاعت کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے.حضرت خلیفہ ثانی نے خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلے اسی کی طرف توجہ دی.چنانچہ ایک طرف تو آپ نے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ و تفسیر تیار کرنے کا کام نئے سرے سے شروع کر دیا.تا کہ اس کے ذریعہ یورپ میں اسلام کی تبلیغ ہو سکے اور دوسری طرف آپ نے مبلغین تیار کرنے اور پھر انہیں دنیا کے مختلف ملکوں میں بھجوانے کا انتظام کیا یہ انتظام بعد میں انجمن تحریک جدید کے سپر د کر دیا گیا.سب سے پہلے ماریشس کے جزیرہ میں احمد یہ مشن قائم ہوا جہاں پر حضور نے حضرت صوفی غلام محمد صاحب کو بھیجا پھر امریکہ میں سلسلہ احمدیہ کے پرانے بزرگ اور حضرت مسیح موعود کے ساتھی حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ذریعہ دین حق کا پیغام
72 پہنچایا گیا.پھر مغربی افریقہ میں ایک اور بزرگ صحابی حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر تشریف لے گئے ان بزرگوں کے ذریعہ کثرت کے ساتھ لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے اور خدا نے انہیں غیر معمولی کامیابی بخشی.ان کے واپس آ جانے پر دوسرے مربیان کرام وہاں جاتے رہے.چنانچہ اب ان تینوں ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں احمدی جماعتیں موجود ہیں.افریقہ اور ماریشس میں تو احمدیوں کی اپنی کئی بیوت الذکر اور اسکول بھی قائم ہیں.اُس وقت مندرجہ ذیل ملکوں میں احمد یہ مشن موجود تھے جو کہ بہت کامیابی سے دین حق کی خدمت کر رہے تھے :- امریکہ : ریاست ہائے متحدہ امریکہ، ٹرینیڈاڈ، برٹش گی آنا، کینیڈا پ : انگلینڈ، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ ، سپین، ڈنمارک، جرمنی ، سویڈن، ناروے مغربی افریقہ : نائجیریا، غانا، سیرالیون، لائبیریا، گیمبیا زیمبیا، آئیوری کوسٹ، ٹوگولینڈ مشرقی افریقہ : کینیا، ٹانگانیکا، یوگنڈا، ماریشس ان ممالک کے علاوہ جنوبی افریقہ فلسطین، لبنان ، شام، عدن ،مصر، کویت، عراق، بحرین ، دوبئی، برما، سیلون، ہانگ کانگ، سنگاپور، جاپان، ملائشیا، شمالی بورنیو، فلپائن اور انڈونیشیا میں بھی ہماری جماعتیں قائم ہوئیں.بالخصوص انڈونیشیا میں تو احمدیت کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی.ایران، حبشہ، سومالی لینڈ، کانگو، ہنگری، پولینڈ، فلپائن اور ارجنٹائن میں بھی باقاعدہ مبلغین بھجوا کر دین حق کا پیغام لوگوں تک پہنچایا گیا.بيوت الذكر : واشنگٹن (امریکہ)، ہیمبرگ، فرینکفرٹ (مغربی جرمنی ) زیورک (سوئیٹزرلینڈ)، ہیگ (ہالینڈ)، ڈنمارک، سویڈن ، مغربی اور مشرقی افریقہ کے کئی ممالک میں ہماری
73 کم و بیش 30 بیوت الذکر تعمیر کی گئیں.ان میں سے متعدد بیوت الذکر اتنی عظیم الشان ہیں کہ ان کی تعمیر پر کئی لاکھ روپیہ صرف ہوا ہے.کالج اور اسکول : بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کے 57 کالج یا اسکول قائم ہوئے جو بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں.اخبارات ورسائل: مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں میں جماعت احمدیہ کے 112 اخبارات و رسائل شائع ہوئے.قرآن کریم کے تراجم : قرآن کریم کے تراجم انگریزی، ڈچ ، جرمن، سواحیلی ، ہندی اور گورمکھی زبانوں میں شائع کئے گئے ان کے علاوہ مختلف ملکوں کی بارہ اور زبانوں میں ترجمے تیار کئے گئے.جماعتی تربیت اور نظام : (1 دین حق کے کام کو وسیع کرنے کے ساتھ ہی ساتھ آپ کو جماعت کی تعلیم و تربیت کا بھی بہت خیال رہتا تھا.چنانچہ اس غرض سے آپ نے :- مردوں میں اور عورتوں میں الگ الگ قرآن مجید کا درس دینا شروع کیا جو بعد میں کتابی صورت میں تفسیر کبیر کے نام سے شائع ہو گیا.یہ تفسیر علمی اور تربیتی لحاظ سے اتنی اعلیٰ درجہ کی ہے کہ کئی غیر احمدی عالموں نے بھی اس کی تعریف کی ہے.کئی لوگ اسے پڑھ کر ہی احمدی ہو گئے.جماعت کی تربیت کے لحاظ سے بھی یہ تفسیر بہت ہی ضروری اور مفید ہے.
74 پھر حضور نے قرآن مجید کا سلیس ، سادہ اور بامحاورہ اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا اور اس کے ساتھ ضروری مقامات پر تفسیری نوٹ بھی لکھے یہ ترجمہ سب سے 1957ء میں تفسیر صغیر کے نام سے شائع ہوا.یہ اپنوں اور غیروں میں بہت مقبول ہے.(2 جماعت کی تربیت کے لئے دوسرا ذریعہ حضور نے خطبات اور تقاریر کا اختیار فرمایا.قریباً ہر دینی مسئلہ پر اور تربیت کے پہلو پر حضور نے نقار بر فرمائیں اور خطبات دیئے.یہ تقاریر اور خطبات بہت ہی پر اثر ہیں.جماعت کی علمی ترقی اور تربیت کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوئے.(3 حضور نے 1919 ء میں صدر انجمن احمد یہ میں نظارتوں کا نظام قائم فرمایا اور پھر تمام جماعتوں میں باقاعدہ عہدیدار منتخب کرنے اور پھر ان کے کام کی نگرانی کا انتظام فرمایا جس کی وجہ سے جماعت ہر لحاظ سے منظم ہو کر کام کرنے لگی.(4 جماعت کی تربیت کے لئے حضور نے 1922ء میں احمدی عورتوں کی تنظیم لجنہ اماء اللہ قائم فرمائی.پھر 1926ء میں ان کے لئے ایک علیحدہ رسالہ مصباح کے نام سے جاری فرمایا.1926ء میں نصرت گرلز ہائی اسکول قائم کیا اور 1951ء میں بمقام ربوہ جامعہ نصرت قائم کیا.جس میں احمدی بچیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتی ہیں.ان اداروں میں دینی تعلیم کا بھی انتظام فرمایا.پھر 1938ء میں حضور نے احمدی نو جوانوں کی تنظیم خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی.پھر حضور نے احمدی بچوں کے لئے اطفال الاحمدیہ اور بچیوں کے لئے ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی اور 40 سال سے او پر کی عمر کے احمدیوں کو منظم کرنے کے لئے مجلس انصار اللہ قائم فرمائی.ان تنظیموں نے جماعت کی تعلیم و تربیت میں بہت اہم حصہ لیا.ان کی وجہ سے جماعت کا کام کرنے کے لئے ہزاروں کارکنوں کی ٹریننگ ہوئی اور انہوں نے اپنے اپنے وقت پر
75 منارة اصبح کی سیمیا اس میں حصولیا.جماعت کی نمایاں خدمت جیسا کہ پہلے ذکر آپکا ہے کہ منارہ مسیح کی بنیاد خود حضرت مسیح موعود نے 1903ء میں رکھی تھی بعد میں مشکلات کی وجہ سے کام بند ہو گیا.حضرت خلیفہ ثانی نے اپنے عہد خلافت کے ابتدائی زمانہ میں ہی اس کی طرف توجہ فرمائی.چنانچہ 1914ء میں دوبارہ اس کی تعمیر کا کام شروع ہوا اور 1916ء میں منارۃ اصیح اپنی پوری شان کے ساتھ مکمل ہو گیا اور اس طرح حضور کے ذریعہ سے حضرت رسول کریم صل اللہ کی پیشگوئی ظاہری رنگ میں بھی پوری ہوگئی جس میں حضور نے مینارہ کے قریب مسیح موعود کے نزول کی بشارت دی تھی.محکمہ قضا: جماعت کے لوگوں میں آپس میں جو جھگڑے ہو جاتے ہیں ان کا فیصلہ کرنے کیلئے حضور نے 1925ء میں محکمہ قضا قائم کیا جو کہ قرآن کریم کے حکموں اور دینی تعلیم کے مطابق تمام جھگڑوں کا فیصلہ کر دیتا ہے اور احمدیوں کو عدالتوں میں اپنے مقدمے نہیں لے جانے پڑتے.مجلس مشاورت : 1922ء میں حضور نے مجلس مشاورت قائم فرمائی اس مجلس میں سال میں ایک دفعہ خلیفہ وقت کے حکم سے تمام احمدی جماعتوں کے نمائندے جنہیں وہ جماعتیں خود منتخب کرتی ہیں مرکز میں جمع ہوتے ہیں اور جماعت کے متعلق جو معاملات خلیفہ وقت کی طرف سے مشورہ کے لئے پیش کئے جائیں.ان کے متعلق یہ نمائندے
76 اپنی رائے اور مشورے پیش کرتے ہیں.خلیفہ وقت ان مشوروں میں سے جو مناسب سمجھتے ہیں انہیں منظور کر لیتے ہیں.اس طرح ساری جماعت کو جماعت کے معاملات کو سمجھنے اور مشورہ دینے کا موقع ملتا ہے.از تداد کی تحریک ملکانہ اور جماعت احمدیہ کی جد وجہد : ہندوستان کے صوبہ یوپی میں مسلمانوں کی ایک قوم ملکانہ راجپوت کہلاتی ہے.ان لوگوں میں ہند و عقائد اور رسموں کا اتنا اثر تھا کہ وہ مسلمان کہلانے کے باوجود بتوں کی پوجا بھی کرتے تھے.23-1922ء میں ہندوؤں کے آریہ سماجی فرقہ نے ان لوگوں کو اسلام سے مرتذ کر کے ہندو بنا لینے کی تحریک شروع کی.چنانچہ بہت سے لوگ جو ملکانہ قوم سے تعلق رکھتے تھے مرتد ہو کر ہندو بن گئے.حضرت خلیفہ ثانی کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے ہندوؤں کی اس کوشش کو ناکام بنانے کے لئے جدوجہد شروع کی.آپ کی تحریک پر سینکڑوں اور ہزاروں احمدیوں نے اصلاحی کام کے لئے اپنے آپ کو تین تین ماہ کے لئے وقف کیا اور وہ اپنے اپنے خرچ پر صوبہ یوپی میں جا کر مربی دین حق کے طور پر کام کرنے لگے.حضور نے ایک خاص تنظیم کے ماتحت اس علاقہ میں احمدی مبلغین کا ایک وسیع جال پھیلا دیا اور ایسا انتظام کیا کہ جب کچھ احمدی وہاں سے واپس آتے تھے تو ان کی جگہ لینے کے لئے اور احمدی وہاں پہنچ جاتے تھے.ان احمدیوں نے حضور کی ہدایت کے مطابق وہاں پر رات دن کام کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا که آریہ سماج کی یہ تحریک نا کام ہو گئی.ہزاروں مسلمان مرتد ہونے سے بچ گئے اور جو مرتد ہو گئے تھے انہوں نے بھی تو بہ کر کے پھر اسلام قبول کر لیا.اس تحریک کو حضور نے ایسی کامیابی سے چلایا کہ غیر از جماعت مسلمانوں نے بھی احمدیوں کی اس اسلامی خدمت کا اور ان کی بے نظیر کامیابی کا کھلے لفظوں اعتراف کیا.
77 پہلا سفر لنڈن: 1924ء میں لنڈن میں ایک مشہور نمائش ہوئی جسے ویمبلے نمائش کہتے ہیں.اس موقعہ پر ایک کا نفرنس بھی ہوئی جس میں مختلف مذہبوں کے نمائندوں کو اپنے اپنے مذہب کو پیش کرنے کی دعوت دی گئی.یہ دعوت حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو بھی ملی جس میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ حضور خود لنڈن آکر اس کا نفرنس میں شامل ہوں.چنانچہ حضور نے جماعت سے مشورہ کرنے کے بعد خود اس میں شامل ہونے کا فیصلہ فرمایا.حضور بارہ احمدیوں کے قافلہ کے ساتھ 12 جولائی 1924ء کو بمبئی سے سمندری جہاز میں روانہ ہوئے.راستہ میں مصر، شام اور فلسطین میں بھی ٹھہرے.لنڈن میں آپ کا لکھا ہوا مضمون حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے پڑھ کر سنایا یہ مضمون بہت ہی پسند کیا گیا.اس موقعہ پر آپ نے 19 اکتوبر 1924ء کولنڈن میں پہلی احمد یہ بیت الذکر کی بنیاد رکھی.اس بیت الذکر کا افتتاح 1926ء میں کیا گیا.یہ سفر تبلیغی لحاظ سے بہت کامیاب رہا.جس جس ملک سے بھی آپ گزرے وہاں پر لوگوں نے احمدیت کے ساتھ بہت دلچسپی کا اظہار کیا.تقریباً چار ماہ تک اس سفر پر رہنے کے بعد آپ بڑی کامیابی کے ساتھ واپس تشریف لائے.کابل میں ایک اور احمدتی کی شہادت: 1924ء میں جبکہ ابھی حضور لندن میں تھے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک اور احمدی کو محض احمدی ہونے کی وجہ سے بڑی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ سنگسار کر کے شہید کر دیا گیا.اس احمدی کا نام حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب تھا شہید کرنے سے قبل آپ کو کہا گیا کہ اب بھی وقت ہے کہ احمدی ہونے سے انکار کر دو تا کہ تم بیچ جاؤ.مگر آپ نے فرمایا میں صداقت کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا.
78 جب یہ خبر حضور کولنڈن میں پہنچی تو آپ کو سخت صدمہ ہوا مگر اس امر کی خوشی بھی ہوئی ایک احمدی نوجوان نے قربانی اور ثابت قدمی کا اتنا اعلیٰ نمونہ پیش کیا.لنڈن کے اخباروں بلکہ ساری دنیا کے انصاف پسند لوگوں نے اس ظالمانہ کاروائی پر سخت نفرت کا اظہار کیا.ملکی معاملات میں مسلمانوں کی راہنمائی: حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایک مذہبی جماعت کے لیڈر تھے.اس لئے آپ ملک کے سیاسی معاملات میں حصہ لینا پسند نہیں کرتے تھے.لیکن چونکہ آپ کے دل میں مسلمانوں کے لئے بہت ہی ہمدردی تھی اور ملکی معاملات کا مسلمانوں پر بھی اثر پڑتا تھا.اس لئے آپ نے کئی نازک اور ضروری مواقع پر بڑی عمدگی کے ساتھ مسلمانوں کی راہنمائی اور مدد کی مثلاً :- (1 1921ء میں مسلمانوں میں تحریک ہجرت شروع ہوئی بعض مسلمان لیڈروں نے یہ تحریک کی کہ چونکہ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت ہے جو کہ کافر ہیں اس لئے اس ملک سے ہجرت کر کے مسلمانوں کو افغانستان چلے جانا چاہئے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے مسلمانوں پر واضح کیا کہ یہ تحریک ناکام ہو گی اور یہ مسلمانوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہ تحریک ناکام ہوگئی اور ہجرت کرنے والے سخت نقصان اُٹھا کر واپس آنے پر مجبور ہو گئے.(2 ہندوؤں کی طرف سے متواتر ایسی کتابیں شائع ہوتی رہتی تھیں جن میں آنحضرت ملالہ کی شان میں سخت تو مین کی جاتی تھی اور مسلمانوں کے دل دُکھائے جاتے ہیں.اس کی وجہ سے کئی جگہ ہندو مسلم فساد بھی ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک ایسا قانون بنوانے کی کوشش کی جس سے کوئی شخص مذہبی پیشواؤں کی بے عزتی نہ کر سکے چنانچہ حضور کی کوشش سے حکومت نے ایک ایسا قانون بنایا جس میں
79 مذہبی پیشواؤں کی عزت کی حفاظت کرنے کی کوشش کی گئی تھی.(3 ہندو ملک میں ہر جگہ چھائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے مسلمان نقصان اُٹھاتے تھے.پھر مسلمانوں میں باہمی اختلاف بھی بہت تھے جن کی وجہ سے وہ متحد ہو کر ہندوؤں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے یہ دیکھا تو مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی اور یہ تجویز پیش کی کہ خواہ عقائد کے لحاظ سے مسلمانوں میں آپس میں کتنا ہی اختلاف ہو لیکن سیاسی میدان میں جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اسے سیاسی لحاظ سے مسلمان ہی سمجھنا چاہئے اور سب کو متحد ہو کر ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.(4 4 1928ء میں آپ نے سیرۃ النبی کے جلسوں کی تحریک فرمائی یعنی سال میں ایک بار کوئی تاریخ مقرر کر کے اس میں جلسے کرنے کا پروگرام بنایا گیا ان جلسوں میں آنحضرت صلیاللہ کی سیرت پر مسلمانوں سے اور شریف غیر مسلموں سے تقریریں کرائی گئیں.یہ تحریک بہت بابرکت ثابت ہوئی اس کی وجہ سے کئی غیر مسلموں کے دلوں میں جو تعصب تھا وہ دور ہو گیا.اور انہیں آنحضرت کی سیرت کا علم ہو کر آپ کے ساتھ عقیدت پیدا ہوئی.(5 1928ء سے 1931 ء تک انگریزوں کی حکومت نے ہندوستان کے آئین میں تبدیلیاں کرنے اور حکومت میں ہندوستانیوں کو شریک کرنے کے سلسلہ میں کئی کوششیں کیں.اس سلسلہ میں کئی کا نفرنسیں ہوئیں جن میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے نمائندوں سے مشورے کئے گئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس زمانہ میں بھی مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کی پوری پوری کوشش کی.کئی کتابیں لکھیں مثلاً ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل وغیرہ.چنانچہ مسلمان نمائندوں نے جن میں چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل تھے.حضور کی ہدایت اور تجویزوں سے بہت فائدہ
80 اُٹھایا اور کئی خطروں سے مسلمانوں کو محفوظ کر لیا.(6 کشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے مگر وہاں ایک غیر مسلم راجہ کی حکومت تھی جو مسلمانوں پر بہت ظلم کرتی تھا اور ہر رنگ میں انہیں وہاں دباتی چلی آتی تھی.جب یہ مظالم حد سے بڑھ گئے تو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے دل میں کشمیری مسلمانوں کے لئے بہت ہی ہمدردی پیدا ہوئی چنانچہ آپ نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا.آپ کی تحریک سے کشمیری مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوئی اور انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر اپنی آزادی کی تحریک شروع کی جس وقت حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ان کی راہنمائی فرمائی.ہندوستان کے بڑے بڑے مسلمان لیڈروں نے مل کر 1931ء میں ایک کمیٹی بنائی جس کا نام تھا ”آل انڈیا کشمیر کمیٹی اس میں ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم اور دوسرے کئی بڑے بڑے مسلمان لیڈر شامل ہوئے اس کمیٹی کا صدر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو بنایا گیا.اس کمیٹی نے حضور کی راہنمائی میں بہت کامیابی حاصل کی.کشمیر کے ہندو راجہ کو کئی ایسے حق مسلمانوں کے دینے پڑے جن سے وہ پہلے محروم چلے آتے تھے.چنانچہ کشمیر کے بڑے بڑے مسلمان لیڈر جن میں شیخ محمد عبد اللہ بھی شامل تھے.حضرت اقدس سے قادیان جا کر ملتے رہے اور انہوں نے زبانی اور تحریری بھی یہ اعتراف کیا کہ حضور نے عین وقت پر کشمیری مسلمانوں کی بہت بھاری مدد کی ہے.پیارے بچو! تم جانتے ہی ہو کہ احمدیت کے مخالف بھی ہر جگہ ہوتے ہیں.جب مخالفین نے یہ دیکھا کہ احمدی مسلمانوں میں بہت ہی مقبول ہورہے ہیں اور سب بڑے بڑے مسلمان لیڈر ہر ضروری مسئلہ میں امام جماعت احمدیہ سے مشورہ کرتے ہیں اور پھر اس مشورہ پر عمل بھی کرتے ہیں تو حسد کی وجہ سے ان کا بُرا حال ہو گیا انہوں نے کشمیر کمیٹی میں بھی احمدی اور غیر احمدی کا سوال کھڑا کر دیا اور ہر جگہ لوگوں کو احمد یوں
81 (7 کے خلاف بھڑ کانے لگے.جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ان کی شرارتوں کو دیکھا تو آپ نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا.مگر اس استعفیٰ کے باوجود کشمیری مسلمانوں کی آخری وقت تک مدد کرتے رہے.جب ملک کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا تو اس وقت بھی حضرت اقدس نے مسلمانوں کے مفاد کے لئے بہت سے اہم کام سرانجام دیئے.قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم ہندوستانی مسلمانوں کے اختلاف دیکھتے ہوئے لندن چلے گئے تھے اور وہاں مستقل رہائش اختیار کر لی تھی.حضرت اقدس نے اپنے نمائندے کے ذریعے انہیں تحریک کی.کہ آپ کو ہندوستانی مسلمانوں کی راہنمائی کے لئے واپس وطن آ جانا چاہئے.چنانچہ قائد اعظم واپس تشریف لے آئے اور آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے مسلمانوں کو جمع کر کے پاکستان حاصل کرنے کی جدو جہد شروع کی جسے خدا تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی.1947 ء میں ملک کی تقسیم کے وقت کئی ایسے نازک وقت آئے جبکہ بظاہر معمولی ی غلطی کے نتیجہ میں مسلمانوں کو بہت نقصان کا خطرہ تھا.ایسے نازک موقعوں پر بھی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے قائد اعظم کی پوری پوری مدد کی اور پاکستان قائم کرنے کی جدوجہد میں حصہ لیا.اخبار الفضل: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کا ایک نہایت اہم کارنامہ اخبار الفضل کا اجراء ہے یہ اخبار حضور نے 18 جون 1913 ء کو قادیان سے جاری فرمایا.اس کے پہلے ایڈیٹر بھی حضور خود تھے یہ اخبار پہلے ہفتہ وار تھا.پھر ہفتہ میں دو بار شائع ہونے لگا.پھر سہ روزہ ہو گیا.آخر 8/ مارچ 1935ء سے مستقل طور پر روزانہ کر دیا گیا.1947 ء تک قادیان سے شائع ہوتا رہا.قیامِ پاکستان کے بعد 1954 ء تک لاہور سے شائع ہوتا رہا.1955ء سے ربوہ سے شائع ہو رہا ہے.یہ جماعت احمدیہ کا واحد
82 ترجمان اخبار ہے جس نے خلفائے کرام کے خطبات اور ارشادات کو جماعت تک پہنچانے تبلیغ اور تربیت کرنے اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کو محفوظ کرنے میں خاص خدمات سرانجام دی ہیں.ہجرت اور درویشان قادیان: 1947ء میں پاکستان قائم ہونے پر ملک میں خطرناک فسادات شروع ہو گئے.ضلع گورداسپور جس میں قادیان واقع ہے بھارت میں شامل کر دیا گیا.حضرت اقدس نے قادیان کی آبادی کو حفاظت کے ساتھ پاکستان پہنچانے کے لئے دن رات کام کیا.جہاں اور لوگ لاکھوں کی تعداد میں لوٹے گئے اور مارے گئے وہاں احمدی جماعت کے اکثر افراد حضور کی راہنمائی میں بڑی عمدگی اور حفاظت کے ساتھ ایک خاص انتظام کے ماتحت پاکستان پہنچ گئے.دوسری طرف آپ نے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے قادیان میں احمدیوں کو آباد رکھنے کا بھی نہایت اعلیٰ انتظام کیا.چنانچہ اب بھی وہاں پر ایک بڑی تعداد میں احمدی درویشان قادیان کے نام سے آباد ہیں جن کے پہلے امیر حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل مرحوم مقرر ہوئے.حضرت اصلح الموعود کے ایک بیٹے محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بھی قادیان میں اعلیٰ خدمات بجالا رہے ہیں.وہاں سے ایک ہفتہ وار اخبار ”بدر بھی باقاعدہ شائع ہوتا ہے.ہر سال وہاں پر جلسہ سالانہ بھی منعقد ہوتا ہے.ہندوستان کی صدر انجمن احمدیہ کا مرکز قادیان میں ہی ہے.ربوہ کا قیام: قادیان سے ہجرت کے بعد پاکستان میں آکر ربوہ جیسی عظیم الشان بستی آباد کر لینا اور جماعت احمدیہ کا مرکز دوبارہ قائم کرنا حضور کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے.
83 جماعت کٹ لگا کر پاکستان آئی تھی.قادیان کے احمدی جگہ جگہ بکھرے ہوئے تھے.حضور نے تھوڑے سے عرصہ میں ہی ربوہ کی زمین حکومت سے حاصل کر کے 20 ستمبر 1948ء کو یہاں جماعت احمدیہ کے نئے مرکز کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم الشان احمدی بستی قائم کر کے دکھا دی.ربوہ کا قیام حضور کا ایک بے نظیر کا رنامہ ہے.دیگر مسلمان لاکھوں کی تعداد میں بھارت سے ہجرت کر کے آئے.ان کی تنظیمیں بھی موجود تھیں مگر کسی کو اس طرح بستی آباد کرنے کی توفیق نہ ملی.حضرت اماں جان کی وفات: مورخہ 20 اور 21 را پریل کی درمیانی شب کو ربوہ میں حضرت اماں جان محترمہ سید و نصرت جہاں بیگم 86 سال کی عمر میں وفات پا گئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ 22 اپریل کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے نماز جنازہ پڑھائی جس کے بعد آپ کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں امائنا فن کیا گیا.حضرت اماں جان حضرت مسیح موعود کی دوسری بیوی اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی والدہ محترمہ تھیں جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے.آپ کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی شادی اللہ تعالیٰ کے خاص الہام و بشارت کے ماتحت ہوئی تھی.اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ مقدس اولا د عطا فرمائی جس کے ذریعہ دنیا میں دین حق اور احمدیت کی ترقی مقدر تھی.آپ 1865ء میں بمقام دہلی ایک نہایت معز ز سادات خاندان میں پیدا ہوئیں.آپ کے والد کا نام حضرت میر ناصر نواب صاحب تھا.والدہ کا نام حضرت سید بیگم صاحبہ تھا.1884ء میں آپ کی شادی حضرت مسیح موعود سے ہوئی.حضرت اماں جان بہت پاکباز اور بزرگ خاتون تھیں.احمدیت پر کامل
84 ایمان، عبادت گزاری، سخاوت، مہمان نوازی، غرباء پروری، صفائی پسندی، صبر وقتل اور اللہ تعالیٰ پر ہر حالت میں کامل تو کل آپ کی خاص خوبیاں تھیں.اپنی اولاد کی آپ نے بہترین پرورش اور تربیت فرمائی.اور جماعت کے ہر فرد کے ساتھ آپ اتنی ہمدردی فرماتی تھیں کہ ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ میرے ساتھ تو آپ کا خاص تعلق ہے.اللہ تعالیٰ جنت میں آپ کو بلند درجات دے اور ہم سب کو آپ کی خوبیوں کا وارث بنائے.آمین! جماعت کے خلاف فتنے : حضور کے زمانے میں جماعت احمدیہ کے خلاف کئی فتنے ظاہر ہوئے.ان میں سے بعض فتنے تو اتنے خطرناک تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ بس اب نعوذ باللہ احمدیت دنیا سے مٹ جائے گی.مگر ہر فتنے کا حضور نے انتہائی بہادری سے مقابلہ کیا.اور پہلے ہی یہ اعلان کر دیا کہ یہ فتنے نا کام ہو جائیں گے.احمدیت کی کشتی خدا کے فضل سے آگے ہی آگے بڑھتی جائے گی چنانچہ واقعی حضور کی پیشگوئی پوری ہوتی رہی ہر فتنہ نا کام ہوا اور احمدیت ترقی ہی کرتی چلی گئی.بعض فتنوں کا ذیل میں مختصر اذکر کیا جاتا ہے.(1 1934ء میں احراریوں نے ملک میں وسیع پیمانے پر فتنہ کھڑا کیا.مسلمانوں میں جماعت کے متعلق سخت غلط فہمیاں پھیلا دیں اُس وقت کی انگریزی حکومت کے بعض اعلیٰ افسر بھی اور خود گورنر پنجاب بھی جماعت کے خلاف ہو کر احراریوں کی مدد کرنے لگے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ سارا ملک اب احراریوں کے ساتھ ہے.ان لوگوں نے قادیان میں جمع ہو کر جلسے کئے اور احمدیت کو مٹا دینے کا دعوی لے کر کھڑے ہوئے.عین اس زمانہ میں جبکہ یہ فتنہ زوروں پر تھا.حضرت اقدس نے اپنے خطبہ میں خدا تعالیٰ کے اشارہ سے یہ اعلان فرمایا کہ:-
85 زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے اور میں اُن کی شکست کو اُن کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں.“ (اخبار فاروق 21 /نومبر 1934) اس اعلان کے بعد جلد ہی خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ احراری مسلمانوں میں بدنام ہو گئے.ان کا جھوٹا ہونا سب پر ظاہر ہو گیا.اور اس طرح بجائے احمدیت کو مٹانے کے وہ خود تباہ ہو گئے اور خدا تعالیٰ کے محبوب بندے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے جو کچھ فرمایا تھاوہ پورا ہوا.1953ء میں مخالفین نے پاکستان بھر میں نئے سرے سے جماعت پر حملہ (2 کیا.اس دفعہ انہوں نے اپنی طرف سے 1934 ء سے بھی زیادہ خطرناک حالات پیدا کر دئیے.احمدیت کے خلاف جلسے کر کے اور جلوس نکال کر سارے ملک میں گویا احمدیت کے خلاف نفرت کی ایک وسیع آگ بھڑ کا دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ احمدیوں کو لوگ مارنے پیٹنے لگے.ان کے مکانوں کو لوٹنے اور مسجدوں کو آگ لگانے لگے.اس وقت پنجاب میں جن لوگوں کی حکومت تھی وہ بھی ان کے ساتھ مل گئے.جگہ جگہ فساد ہونے لگے.غرض انتہائی خطرناک حالات احمدیت کیلئے پیدا کر دیئے گئے.مگر عین اسی زمانہ میں جبکہ یہ فتنہ انتہائی زوروں پر تھا.ہمارے امام حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے یہ اعلان فرمایا کہ: - احمدیت خدا کی قائم کی ہوئی ہے.اگر یہ لوگ جیت گئے تو ہم جھوٹے ہیں لیکن اگر ہم سچے ہیں تو یہی لوگ ہاریں گے.“ (الفضل 15 فروری 1953) چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ یہ فتنہ بھی نا کام ہوگیا.
86 خود فتنہ پھیلانے والے ذلیل ہوئے اور ایک دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ واقعی خدا تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں جماعت کی مدد کی اور جولوگ جماعت احمدیہ کو شکست دینے کا ارادہ رکھتے تھے وہ ہار گئے اور نا کام ونامراد رہے.تحریک جدید حضور نے 1934ء میں احراریوں کے فتنے کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک تحریک کا اعلان فرمایا جس کا نام آپ نے تحریک جدید رکھا.اس تحریک میں آپ نے 19 مطالبات جماعت کے سامنے رکھے.ان مطالبات میں یہ مطالبے بھی شامل تھے:.(1 (2 (3 تبلیغ دین کے لئے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں.احمدی ایک خاص چندہ میں حصہ لیں جس کے ذریعہ دین حق کی بیرونی ممالک میں اشاعت کی جائے گی.اس چندہ کو چندہ تحریک جدید کہتے ہیں.تمام احمدی سادہ زندگی اختیار کریں، بگتی الامکان ایک کھانا کھا ئیں ،سادہ لباس پہنیں، کوئی احمدی سنیما نہ دیکھے، کوئی احمدی بیکار نہ رہے.ان باتوں کی اصل غرض یہ تھی کہ ہم اپنے اخراجات کو کم کر کے زیادہ سے زیادہ رقم جمع کر کے چندہ میں دے سکیں.یہ تحریک بہت ہی بابرکت ثابت ہوئی.اس کی وجہ سے دنیا کے بہت سے ممالک میں جماعت کے تبلیغی مشن قائم ہوئے.ہزاروں لوگوں نے دین حق قبول کیا.کئی زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے شائع ہوئے.جماعت میں قربانی اور اخلاص کی ایک لہر پیدا ہو گئی.چنانچہ نوجوان اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کرنے لگے.چندہ تحریک جدید نے مستقل شکل اختیار کر لی.چنانچہ یہ چندہ جس کا ابتدائی مطالبہ صرف -/23,500 روپے تھا.خلافت ثانیہ میں ہی چھتیں لاکھ روپیہ
87 سالا نہ تک پہنچ گیا اور ہر سال جماعت بڑے اخلاص کے ساتھ اس میں حصہ لیتی ہے پوری دنیا میں دین حق کی تعلیم و تربیت کا سب کام اسی تحریک جدید کی برکت سے اور اسی چندہ سے کیا جا رہا ہے.خلافت جو ہلی حضرت خلیفہ امسح الثانی 1914ء میں خلیفہ بنے تھے.1939 ء میں آپ کی کامیاب اور بابرکت خلافت کا 25 برس کا عرصہ پورا ہو گیا.حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے جماعت میں یہ تحریک پیش کی کہ خلافت ثانیہ کے 25 سال پورے ہونے پر جماعت کی طرف سے خوشی اور شکر الہی کے اظہار کیلئے 3 لاکھ روپے کی رقم جمع کر کے ایک خاص تقریب میں حضور کی خدمت میں پیش کرے اور درخواست کرے کہ اس حقیر رقم کو حضور جس طرح چاہیں دین کی خدمت میں صرف فرمائیں.چنانچہ دسمبر 1939ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر یہ تقریب جو خلافت ثانیہ کی سلور جو بلی کہلاتی ہے منائی گئی اور تین لاکھ روپیہ جماعت نے حضور کی خدمت میں پیش کیا.حضور نے اعلان فرمایا کہ اس رقم کو مختلف دینی ضروریات پر صرف کیا جائے گا.جلسه سالانه جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ بھی اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک بہت بڑا نشان ہے.جلسہ سالانہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود نے رکھی.سب سے پہلا جلسہ 1891ء میں ہوا.جس میں صرف 75 افراد شریک ہوئے.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں آخری جلسہ میں جو دسمبر 1907ء میں ہوا دو ہزار سے زائد افراد شامل ہوئے.پھر حضرت خلیفہ اول کا زمانہ شروع ہوا.آپ کے عہد خلافت کے آخری جلسہ میں جو 1913ء میں ہوا جلسہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد 3 ہزار سے او پر تھی.
88 خلافت ثانیہ میں یہ تعداد سرعت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی چنانچہ 1934ء میں اس میں شامل ہونے والوں کی تعداد 20 ہزار تھی.ہجرت سے پہلے قادیان کے آخری جلسہ سالانہ میں جو دسمبر 1946ء میں ہوا 33 ہزار افراد شامل ہوئے خلافت ثانیہ میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد پونے دو لاکھ سے زائد ہو گئی.گویا خدا کے فضل سے جماعت ہر سال ترقی کرتی چلی گئی کہاں اُس جلسہ میں صرف 75 آدمی شریک ہوئے اور کہاں یہ تعداد بڑھتی بڑھتی قریباً دولاکھ تک جا پہنچی.الحمد للہ ! قاتلانہ حملہ، بیماری اور سفر یورپ : مارچ 1954ء میں بمقام بیت مبارک ربوہ ایک بد بخت شخص نے حضور پر قاتلانہ حملہ کیا.حضور بال بال بچ گئے.اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں آپ کو بچالیا مگر گردن پر پچھلی طرف گہرا زخم آیا جس کا ایک عرصہ تک علاج ہوتارہا.حملہ آور شخص کو پکڑ کر پولیس کے حوالہ کر دیا گیا.چنانچہ اس پر مقدمہ چلا اور اسے قید کی سزا ہوئی.1955ء میں حضور پر اعصابی کمزوری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے حضور زیادہ بیمار ہو گئے.جب افاقہ ہوا تو جماعت کے مشورہ سے یہ طے پایا کہ حضور یورپ جا کر وہاں کے ڈاکٹروں کے مشورہ سے مزید علاج کرائیں.چنانچہ 23 مارچ 1955ء کو حضور اپنے اہل وعیال اور دیگر خدام کے ساتھ یورپ کے دوسرے سفر پر روانہ ہوئے.باوجود اس کے کہ حضور بیمار تھے.پھر بھی حضور سفر کے دوران جہاں بھی تشریف لے گئے وہاں پر دین حق کی تبلیغ واشاعت کا کوئی موقع نہ چھوڑا.لندن میں یورپ کے تمام احمدی مربیان کی ایک کانفرنس حضور کی زیر ہدایت منعقد ہوئی جس میں تعلیم دین حق کے کام کو وسیع کرنے کے لئے تجویزیں پاس کی گئیں.اس سفر میں حضور نے کئی احمد یہ مشنوں کا بھی معائنہ فرمایا اور انہیں
89 ہدایات دیں.وہاں کے ڈاکٹروں کے مشورہ اور علاج کے بعد حضور مورخہ 25 /ستمبر 1955 ء کو واپس تشریف لائے.تفسیر کبیر تفسیر صغیر اور انگریزی ترجمۃ القرآن: حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ حضور نے قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کی تفسیر ایسے رنگ میں بیان فرمائی جو موجودہ زمانہ کے لحاظ سے بہت اعلیٰ اور بے نظیر ہے.پھر حضور کی نگرانی میں قرآن کریم کا انگریزی زبان میں بھی ترجمه مع تفسیر شائع ہوا.اُردو میں قرآن مجید کے سادہ اور با محاورہ ترجمہ مختصر تفسیری نوٹوں کے ساتھ تفسیر صغیر کے نام سے شائع ہو چکا ہے اور قرآن مجید کے بڑے حصہ کی تفصیلی تفسیر تفسیر کبیر کے نام سے کئی جلدوں میں شائع ہو چکی ہے.حضور کی تحریر فرمودہ یہ تفسیر میں اتنی اعلیٰ ہیں کہ بڑے بڑے اہل علم اور معزز مسلم اور غیر مسلم اصحاب ان سے از حد متاثر ہوئے ہیں اور انہوں نے اقرار کیا ہے کہ مذہب کی اور قرآن مجید کی اہمیت کا اور اسلام کی حقیقی خوبیوں کا علم جس طرح ان تفسیروں سے حاصل ہوتا ہے اس طرح اور کسی کتاب سے حاصل نہیں ہوسکتا.بہت سے لوگ حضور کی لکھی ہوئی ان تفسیروں کو ہی پڑھ کر مسلمان اور احمدی ہو گئے.ان تفسیروں کو پڑھ کر قرآن مجید کو سمجھنے اور اس کے مضامین کا علم حاصل کرنے کا ایک خاص ذوق اور ملکہ پیدا ہو جاتا ہے.دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام حضرت اصلح الموعود کے درجات بہت بہت بلند کرے جنہوں نے یہ تفاسیر لکھ کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا.وقف جدید 1958ء میں حضور نے ملک کے دیہاتی علاقوں میں لوگوں تک پیغام حق
90 پہنچانے اور ان کی تعلیم و تربیت کرنے کیلئے ایک تحریک فرمائی جس کا نام وقف جدید ہے.اس تحریک کے ماتحت حضور نے کم تعلیم یافتہ احمدی نو جوانوں کو تحریک فرمائی کہ وہ دیہات میں رہ کر لوگوں کو تبلیغ کرنے اور ان کی تعلیم و تربیت کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.چنانچہ بہت سے نوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا.یہ تحریک اب خدا فضل سے بہت کامیابی کے ساتھ چل رہی اور اس کے ذریعہ سے جماعت ملک کے وسیع دیہاتی علاقہ میں نہایت مفید کام کر رہی ہے.وقف جدید کی تحریک حضور کی آخری تحریک ہے جو حضور نے جماعت کے سامنے پیش فرمائی.اس کے بعد حضور بیمار ہو گئے.جس کی وجہ سے پہلے کی طرح جماعت کی پوری راہنمائی نہ فرما سکے.ہجری شمسی کیلنڈر ہمارے ہاں عام طور پر عیسوی کیلنڈر رائج ہے جس کی بنیاد شی حساب پر ہے اور وہ حضرت عیسی کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے.اس کے مقابل پر مسلمانوں کے ہجری سن میں قمری (چاند کے ) مہینے استعمال ہوتے ہیں.حضرت خلیفہ ایح الثانی کی زیر نگرانی 1940 ء میں ہجری شمسی کیلنڈر رائج کیا گیا جو کہ حضور کا ایک خاص کارنامہ ہے.اس میں کیلنڈر کی بنیاد شمسی حساب پر رکھی گئی ہے مگر اس کی ابتداء حضرت عیسی کی پیدائش کی بجائے حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ کی ہجرت سے کی گئی.اس لحاظ سے 1979ء میں 1358 ہجری شمسی ہے.یعنی شسی لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ کی ہجرت کو 1358 سال گزرچکے ہیں.اس کیلنڈر کے بارہ مہینوں کے نام تاریخ اسلام کے خاص خاص واقعات کی بنا پر مندرجہ ذیل رکھے گئے ہیں.یہ مہینے سن عیسوی کے مہینوں کے ساتھ ہی شروع اور
91 ساتھ ہی ختم ہوتے ہیں :- (1) صلح (2) تبلیغ (3) امان (4) شہادت (5) ہجرت (6) احسان (7) وفا (8) ظہور (9) اخاء (10) تبوک (11) نبوت (12) فتح جماعت کے نام وصیت : پہلے 1947ء میں ہجرت کے موقع پر اور پھر 1958ء میں اپنی بڑھتی ہوئی بیماری کو مدنظر رکھ کر حضور نے وصیت کے رنگ میں جماعت کے نام کئی پیغام تحریر فرمائے جنہیں پڑھنا اور یا درکھنا بہت ضروری ہے.صرف ایک پیغام کا ایک حصہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں جو حضور نے اگست 1947ء میں ہجرت کے موقع پر تحریر فرمایا تھا.بچوں کو چاہئے کہ اسے بار بار پڑھیں.اسے یادرکھیں اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں.حضور نے فرمایا:- اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کے قدم کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھے.سلسلہ کا جھنڈا نیچا نہ ہو.اسلام کی آواز پست نہ ہو.خدا کا نام ماند نہ پڑے.قرآن سیکھو اور حدیث سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ اور خود عمل کرو اور دوسروں سے عمل کراؤ زندگیاں وقف کرنے والے ہمیشہ تم میں ہوتے رہیں....خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لئے ہر مومن آمادہ کھڑا ہو.صداقت تمہاراز یور، امانت تمہارا حسن اور تقویٰ تمہارا لباس ہو.خدا تمہارا ہو اور تم اس کے ہو.آمین! (الفضل 11 نومبر 1965ء)
92 آخری بیماری اور وفات : سفر یورپ سے آنے کے بعد گو حضور کو ایک حد تک آرام محسوس ہوتا تھا اور حضور نے نمازیں پڑھانی ، خطبات دینے اور خلافت کے دیگر ضروری کام بھی سرانجام دینے شروع کر دیئے تھے مگر اصل بیماری ابھی موجود تھی.اسی حالت میں حضور نے تفسیر صغیر جیسا اہم کام شروع کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ زیادہ کام کرنے کی وجہ سے حضور پھر زیادہ بیمار ہو گئے.1958ء میں بیماری کا دوبارہ حملہ ہوا.ہر ممکن علاج ہوتا رہا.ملک کے قابل ترین ڈاکٹروں کے علاوہ بیرونی ملکوں کے ڈاکٹروں کو بھی دکھایا گیا اور ان سے مشورے کئے جاتے رہے مگر بیماری بڑھتی ہی چلی گئی اور حضور کمزور ہوتے گئے.حتی کہ آخر وہ وقت بھی آگیا جس کا تصور بھی کوئی احمدی نہیں کرنا چاہتا تھا یعنی مورخہ 8 نومبر 1965ء کی درمیانی رات کو 2 بج کر 20 منٹ پر قریباً77 سال کی عمر میں حضور ہمیں داغ جدائی دے کر اپنے مولائے کریم کے پاس جا پہنچے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ حضور کی وفات پر احمدیوں کی جو حالت ہوئی اس کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا لیکن سچا مومن ہر حالت میں خدا کی رضا پر راضی رہتا ہے.جب خدا کی یہ سنت ہے کہ جو شخص بھی اس دنیا میں آتا ہے آخر وہ یہاں سے رخصت ہو جاتا ہے.تو حضور نے بھی آخر اس دنیا سے رخصت ہونا ہی تھا سو آخر وہ وقت آگیا اور حضور ہم سے رخصت ہو گئے اگلے دن مورخہ 9 نومبر کو ساڑھے 4 بجے سہ پہر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی.نماز جنازہ میں پاکستان کے ہر حصہ سے آئے ہوئے قریباً 50 ہزار احمدی شامل ہوئے جو کہ اپنے پیارے آقا کی وفات کی خبر سنتے ہی دیوانہ وار اپنے مرکز میں پہنچ گئے تھے.نماز جنازہ سے پہلے سب احباب نے اپنے پیارے امام کا آخری دیدار کیا.نماز جنازہ کے بعد آپ کو مقبرہ بہشتی ربوہ میں حضرت اماں جان کے مزار
93 کے پہلو میں امانتاً دفن کر دیا گیا.اولاد: حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی تھی کہ :- تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.“ اس الہام کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی نسل کو واقعی بہت بڑھایا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ذریعہ تو یہ الہام خاص طور پر پورا ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو 13 بیٹے اور 9 بیٹیاں عطا فرمائیں اور پھر یہ اولاد دین کی خاص خدمت کرنے والی ثابت ہوئی.آپ کے دو صاحبزادے حضرت حافظ مرزا ناصر احمد اور حضرت مرزا طاہر احمد جماعت کے تیسرے اور چوتھے خلیفہ ہوئے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جسے چاہے عطافرماتا ہے.بزرگان سلسله چند متفرق امور خلافت ثانیہ کے عہد میں جو کہ 51 برس تک جاری رہا سلسلہ احمدیہ کے کئی نامی گرامی عالموں اور بزرگوں کو سلسلہ کی خاص خدمت کرنے کا موقعہ ملا.تاریخ سلسلہ سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے ان بزرگوں کے حالات کا بھی کسی قدر علم ہونا ضروری ہے اس لئے ذیل میں چند ایک بزرگوں کا ذکر کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب سے راضی ہو.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے حضرت مسیح موعود کے صاحبزادے اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے چھوٹے
94 بھائی تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنے الہامات میں انہیں قمر الانبیاء کا خطاب دیا.آپ نہایت اعلیٰ پایہ کے مصنف اور مضمون نگار تھے.سیرت خاتم النبيين"، سیرۃ المہدی، سلسلہ احمدیہ تبلیغ ہدایت اور ہمارا خدا آپ کی بہت مشہور اور اعلیٰ درجہ کی کتابیں ہیں.تنظیمی کا موں اور پیچیدہ اور مشکل معاملات کو حل کرنے کی بھی خاص قابلیت تھی.یہی وجہ ہے کہ حضرت خلیفہ ثانی کے عمر بھر خاص رفیق اور ساتھی رہے.جماعت کے کاموں کے لئے زندگی وقف کر رکھی تھی.جماعت کے تمام افراد سے بہت ہی محبت اور ہمدردی رکھتے تھے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب: حضرت مسیح موعود کے صاحبزادے اور حضرت خلیفہ ثانی کے سب سے چھوٹے بھائی تھے.آپ بھی اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے ماتحت پیدا ہوئے.طبیعت میں نیکی اور فیاضی بہت تھی.عمر بھر سلسلہ کی خدمت کرتے رہے.آپ کی تاریخ وفات 26 /دسمبر 1961ء ہے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب: حضرت مسیح موعود کے ان صحابہ میں سے تھے جن سے حضور کو خاص محبت تھی.اخبار "بدر کے ایڈیٹر رہے.عیسائیوں میں تبلیغ کا بہت شوق تھا.خلافت ثانیہ میں انگلستان اور امریکہ میں تبلیغ دین حق کرنے کی خاص توفیق ملی.مورخہ 13 جنوری 1957ء کور بوہ میں فوت ہوئے.حضرت مولوی شیر علی صاحب بہت نیک، بے نفس اور سادہ طبیعت کے مالک تھے.اعلیٰ درجہ کے مضمون نگار تھے.تفسیر القرآن انگریزی تیار کرنے میں سب سے زیادہ انہی کا حصہ تھا.جب
95 حضور باہر تشریف لے جاتے تو اکثر آپ کو قائمقام امیر مقرر فرماتے.اللہ تعالیٰ نے الہام میں آپ کو فرشتہ قرار دیا اور واقعی آپ کی زندگی فرشتوں جیسی تھی.آپ نے 1947ء میں بمقام لا ہور وفات پائی.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب: حضرت اماں جان کے بھائی اور حضرت خلیفہ ثانی کے ماموں اور حضرت ام متین مریم صدیقہ صاحبہ کے والد تھے.بہت نیک ، بے نفس اور روحانیت کے رنگ میں رنگین بزرگ تھے.اعلیٰ درجہ کے شاعر اور مضمون نگار تھے.آپ کی نظمیں جماعت میں بہت مقبول ہیں.1947ء میں قادیان میں انتقال فرمایا.حضرت سید میر محمد الحق صاحب: حضرت اماں جان کے بھائی اور حضرت اصلح الموعود کے چھوٹے ماموں تھے.بہت بڑے عالم اور اعلیٰ پایہ کے مقرر اور مناظر تھے.جماعت کے غریبوں اور یتیموں کا خاص طور پر بہت خیال رکھتے تھے.آپ کا درس الحدیث بہت مؤثر اور مقبول ہوتا تھا.انتظامی قابلیت بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی تھی.سالہا سال تک افسر جلسہ سالانہ اور افسر لنگر خانہ حضرت مسیح موعود کے فرائض بڑی کامیابی کے ساتھ سرانجام دیئے.1944ء میں انتقال فرمایا.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب : سلسلہ عالیہ کے چوٹی کے علماء میں سے تھے.جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے اور حضرت خلیفہ ثانی کے استاد ہونے کا بھی فخر حاصل تھا.جب حضور تشریف نہ لا سکتے تو بیت مبارک میں آپ ہی نماز پڑھایا کرتے تھے.
96 حضرت حافظ روشن علی صاحب جماعت کے اعلیٰ درجہ کے عالم تھے.قرآن مجید بڑی خوش الحانی سے پڑھتے تھے.محترم مولانا شمس صاحب اور محترم مولانا ابوالعطا صاحب کے استاد تھے.1924ء کے سفر یورپ میں حضور کے ہمراہ تھے.1929ء میں وفات پائی.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر حضرت مسیح موعود کے رفیق تھے.خلافت ثانیہ کے زمانہ میں سب سے پہلے مغربی افریقہ میں جا کر تبلیغ کرنے کا موقعہ ملا اور وہاں پر ہزاروں افراد آپ کے ہاتھ پر احمدی ہوئے.تقریر ایسے رنگ میں کرتے تھے جو بہت اثر کرنے والی ہوتی تھی.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی سلسلہ کے بہت بڑے عالم اور بزرگ تھے.اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق تھا.آپ کی دعائیں بہت مقبول تھیں اور الہامات یا کشوف کے ذریعہ دعاؤں کی قبولیت سے بھی اطلاع ہو جاتی تھی.تبلیغی میدان میں بہت کام کیا.آپ کی کتاب ”حیات قدسی“ پڑھنے کے لائق ہے اگر موقع ملے تو ضرور پڑھو.ان کی تاریخ وفات 15 دسمبر 1963ء ہے.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس: حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس جماعت احمدیہ کے ایک بہت بڑے عالم اور کامیاب مبلغ تھے.ایک عرصہ تک عرب ممالک میں اور پھر انگلستان میں کامیابی کے ساتھ تبلیغ کا کام کرتے رہے.واپس آکر جماعت کے مختلف اہم کام آپ کے سپر در ہے.حضرت خلیفہ ثانی کی آخری بیماری کے ایام میں آپ ہی حضور کے حکم پر نمازیں پڑھاتے اور خطبات دیتے تھے.آپ کی خدمات کی بنا پر حضور نے
97 ایک موقع پر آپ کو بھی ”خالد احمدیت“ قرار دیا.آپ نے 13 اکتوبر 1966ء کو وفات پائی.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب: حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے طبی خادم اور مشیر تھے.عمر بھر بڑے اخلاص کے ساتھ یہ خدمت سرانجام دیتے رہے.سفر ہو یا حضر ، دن ہو یا رات، ہر وقت حضور کے قدموں میں رہ کر حضور کی اور خاندان حضرت مسیح موعود کی خدمت کے لئے مستعد رہتے.قرآن کریم سے دلی لگاؤ تھا.یورپ کے دونوں سفروں میں حضور کے ہمراہ جانے کا شرف حاصل ہوا.تقویٰ اور روحانیت کا ایک خاص رنگ رکھتے تھے.آپ نے 13 را پریل 1967ء کو وفات پائی.حضرت مولانا ابوالعطا ءصاحب فاضل : جماعت احمدیہ کے بہت بڑے عالم مشہور مناظر ، نامور صحافی اور اعلیٰ درجہ کے مقرر تھے.طبیعت بہت شگفتہ پائی تھی.دعاؤں اور عبادات میں گہرا شغف رکھتے تھے.بیرون ملک اور اندرون ملک شاندار تبلیغی خدمات سرانجام دیں.متعدد قیمتی کتابوں کے مصنف تھے جماعت کے اخبارات میں بکثرت مضامین لکھتے.آپ کا انداز عالمانہ مدلل اور پر جوش تھا.مخالفین کو تحریر وتقریر ہر میدان میں دندان شکن جواب دیتے.حضرت مصلح موعود نے آپ کو ” خالد احمدیت“ کا خطاب عطا فرمایا تھا آپ کے بیٹے محترم مولانا عطاء المجيب راشد صاحب بيت الفضل لندن کے امام ہیں.آپ نے ساری عمر جماعتی خدمات میں سرانجام دیں.آپ نے 30 مئی 1977ء کو وفات پائی.
98 بحیثیت ناظر خدمات بجالانے والے بزرگوں کے نام: ان کے علاوہ مختلف شعبوں میں بحیثیت ناظر خدمات بجالانے والے احباب کرام کے نام درج ذیل ہیں..1.2.3.4.5 حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال (ایم اے) حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد (ایم اے) حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب تصانیف حضرت خلیفۃ المسیح الثانی: تفسیر کبیر دعوة الامير حقيقة النبوة.2.4.6 تفسیر صغیر تحفة الملوک انقلاب حقیقی.8 به جا سیر روحانی پیغام احمدیت فضائل القرآن 10 کلام محمود احمدیت یعنی حقیقی ہندوستان کے سیاسی مسائل کاحل.1.3.5.7.9.11.12 13 ہستی باری تعالیٰ ملائكة الله Introduction to the study of Holy Quraan Invitation to Ahmadiyyat.14.15.16
99 باب چهارم حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا عہد خلافت کا انتخاب خلافت ثالثه انتخاب خلافت کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنی زندگی میں ہی مجلس مشاورت میں جماعت کے نمائندوں کے مشورہ سے ایک مجلس انتخاب خلافت قائم فرما دی تھی اور اس کے قواعد بنا دیے تھے.چنانچہ حضور کی وفات پر مورخہ 8 /نومبر 1965ء کو ساڑھے سات بجے شب بعد نماز عشاء مسجد مبارک ربوہ میں اس مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس زیر صدارت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ منعقد ہوا.پہلے سب ممبروں نے قاعدے کے مطابق خلافت سے وابستگی کا حلف اُٹھایا.اس کے بعد حضرت خلیفہ ثانی کے بڑے صاحبزادے حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو خلیفہ اسیح الثالث منتخب کیا.اور پھر سب ممبروں نے اسی وقت آپ کے دست مبارک پر بیعت کی.اس کے بعد آپ نے مختصر خطاب فرمایا اور پھر اس وقت جتنے احباب باہر موجود تھے (انداز آپانچ ہزار ) ان سب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.اور اس طرح جماعت احمد یہ پھر ایک ہاتھ پر جمع ہو گئی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے مختصر حالات زندگی: حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث مورخہ 16 نومبر
100 1909 ء کو پیدا ہوئے.بچپن سے آپ حضرت اماں جان کی خاص تربیت میں رہے.17 /اپریل 1922ء کو جبکہ آپ کی عمر صرف تیرہ برس کی تھی آپ نے قرآنِ مجید مکمل طور پر حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی تھی.قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد آپ کچھ عرصہ حضرت مولوی سرور شاہ صاحب سے عربی اور اُردو کی تعلیم حاصل کرتے رہے.اس کے بعد آپ دینی علم حاصل کرنے کے لئے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے.جولائی 1929ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے امتحان مولوی فاضل پاس کیا.اس کے بعد آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا.پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے 1934ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی.اگست 1934ء کو حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ بیگم حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ آپ کی شادی ہوئی.6 ستمبر 1934 ء کو آپ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی ہدایت کے مطابق انگلستان تشریف لے گئے.اس موقع پر حضور نے آپ کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا:- میں تم کو انگلستان...اس لئے بھجوا رہا ہوں کہ مغرب کے نقطہ نظر کو سمجھو تمہارا کام یہ ہے کہ تم ( دین حق ) کی خدمت کے لئے اور دجالی فتنہ کی پامالی کے لئے سامان جمع کرو.“.انگلستان کے قیام کے دوران آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اشاعت دین حق میں مصروف رہے.لنڈن میں آپ نے ایک رسالہ بھی الاسلام کے نام سے جاری فرمایا.آپ نومبر 1938ء کو کامیابی کے ساتھ واپس تشریف لائے.یورپ سے واپس تشریف لا کر پہلے آپ جامعہ احمدیہ کے پروفیسر رہے اور
101 پھر 1939ء میں آپ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل مقرر ہوئے.فروری 1939 ء سے لے کر اکتوبر 1949 ء تک آپ مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر رہے اور پھر نومبر 1954ء تک آپ اس کے نائب صدر رہے کیونکہ صدارت کے عہدے پر حضرت خلیفہ ایح الثانی خود فائز تھے.آپ کے عہد میں خدام الاحمدیہ نے نمایاں اور شاندار ترقی کی.مئی 1944ء سے لے کر نومبر 1965 ء تک ( تا خلافت ) آپ تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل رہے.16 نومبر 1947 ء کو آپ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ارشاد پر قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئے.1953ء کے فسادات کے دوران جب مارشل لاء نافذ ہوا تو آپ کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں.28 مئی 1953ء کو آپ رہا ہوئے.1954ء میں آپ کو مجلس انصاراللہ کا صدر بنادیا گیا.آپ کے ذریعہ سے اس تنظیم کو ایک نئی زندگی حاصل ہو گئی.مئی 1955ء میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے آپ کو صدرانجمن احمدیہ کا صدر مقرر فرمایا.چنانچہ انتخاب خلافت تک آپ اس حیثیت سے بھی جماعت کا نہایت اہم کام سرانجام دیتے رہے.8 نومبر 1965ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی وفات پر آپ خلافت ثالثہ کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وہ بشارت پوری ہوئی جو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کو اللہ تعالیٰ نے دی تھی.حضور نے 26 ستمبر 1909ء کو یہ تحریر فرمایا تھا که: مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ میں تجھے ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا.اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا.تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 320) پیارے بچو! خلافت ثالثہ کا ظہور بھی خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے نہایت کامیاب اور مبارک رہا.آپ کے دور خلافت کی پیشگوئی بھی آج سے ہزاروں سال
102 قبل سے چلی آتی ہے.چنانچہ اسرائیل کی مشہور حدیث طالمود میں آج سے ہزاروں سال قبل یہ بتایا گیا تھا کہ جب مسیح فوت ہو جائے گا تو اس کی بادشاہت پہلے اس کے بیٹے اور پھر اس کے پوتے کو ملے گی.چنانچہ خلافت ثالثہ کے ذریعہ یہ پیشگوئی لفظ بلفظ پوری ہوگئی.با برکت تحریکیں اور اہم واقعات: خلافت ثالثہ کا بابرکت عہدسترہ سال تک رہا.اس سترہ سالہ دور میں بھی اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے کئی نشان ہم دیکھ چکے ہیں جو اس خلافت میں جاری ہونے والی بابرکت تحریکوں کے ذریعہ ظاہر ہوئے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی وفات پر جماعت کے تمام افراد جس طرح خلافت ثالثہ کے ذریعے ایک ہاتھ پر جمع ہو گئے وہ احمد بیت کی صداقت اور خلافت احمدیہ کی سچائی کا ایک نشان ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن: حضرت خلیفتہ امیج الثالث نے اپنے عہد خلافت میں جماعت کے سامنے جو تحریکیں فرمائیں وہ غیر معمولی طور پر کامیاب ہوئیں اور جماعت کی ترقی کا باعث ہوئیں.مثلاً آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی یاد میں فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک فرمائی.یہ تحریک بہت کامیاب رہی.جماعت نے تھوڑے سے عرصہ میں ہی دیگر جماعتی چندوں کے علاوہ 34 لاکھ روپیہ اس فنڈ میں پیش کر دیا.یاد رہے کہ یہ فنڈ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے جاری کردہ کاموں کو ترقی دینے کیلئے قائم کیا گیا تھا.تعلیم قرآن مجید : حضور نے قرآن مجید پڑھنے اور پڑھانے کے لئے جو تحریک فرمائی وہ بھی
103 بہت کامیاب رہی.ہزاروں احمدی اپنے خرچ پر وقف عارضی کی تحریک میں حصہ لے کر لوگوں کو قرآن کریم کی تلقین کر رہے ہیں.اس تحریک کا نتیجہ یہ ہے کہ جماعت کی دینی تعلیم کا اور اس کی تربیت کا انتظام ہورہا ہے اور وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے.وقف جدید میں احمدی بچوں کی شمولیت: شہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے وقف جدید کے چندہ کو مضبوط کرنے کا کام احمدی بچوں اور بچیوں کے سپرد فرمایا.حضور نے یہ خواہش اور تحریک فرمائی کہ احمدی بچے کم از کم پچاس ہزار روپیہ اس تحریک میں جمع کریں.چنانچہ احمدی بچے بڑے جوش اور جذبہ کے ساتھ یہ چندہ جمع کر رہے ہیں.تحریک وقف جدید کے مختصر حالات تم پہلے پڑھ چکے ہو.یہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے عہد خلافت کی آخری تحریک ہے.اس کے ذریعہ ملک کے دیہاتی حصہ میں لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے.اور احمدیت کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کر کے انہیں تمام دینی احکام پر عمل کرنے اور سچا احمدی بنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے.اس تحریک کو بچوں کے سامنے پیش کر کے خلیفہ وقت نے بچوں کے لئے بھی یہ موقع پیدا کر دیا ہے کہ وہ ایک بہت اہم جماعتی کام کو کامیاب بنا کر ثواب حاصل کریں.ہمیں امید ہے تمام احمدی بچے مستقل طور پر اس تحریک میں حصہ لیں گے اور ہر سال پہلے سے بڑھ کر اسے کامیاب بنانے کی کوشش کریں گے.حضرت مسیح موعود کا ایک الہام پورا ہوا: حضرت مسیح موعود کا ایک مشہور الہام ہے کہ :-
104 بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ یہ الہام پہلی بار خلافت ثالثہ کے دور میں پورا ہوا.چنانچہ افریقہ کے ملک گیمبیا میں اللہ تعالیٰ نے وہاں کے ایک احمدی مسٹر سنگھیٹے کو وہاں کا گورنر جنرل بنا دیا.گورنر جنرل ملک کا سب سے بڑا حاکم ہوتا ہے.مسٹر سنکھیے پہلے وہاں کی جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ تھے.جب آپ گورنر جنرل بنے تو آپ نے کئی دن تک دعائیں کرنے کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی خدمت میں درخواست کی کہ حضرت مسیح موعود کے کپڑوں سے میں برکت حاصل کرنا چاہتا ہوں.اس لئے حضرت مسیح موعود کا کوئی کپڑا تبرک کے طور پر مجھے عنایت فرمائیں.چنانچہ حضور نے ربوہ سے وہ کپڑا انہیں بھجوا دیا جسے پا کر وہ بہت خوش ہوئے.اس طرح خلافت ثالثہ میں پہلی بار حضرت مسیح موعود کا یہ الہام پورا ہو گیا کہ : - ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ کوئی فرد بھوکا نہ رہے: حضور نے یہ بھی تحریک فرمائی ہے کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر ایسا انتظام کیا جائے کہ جماعت کا کوئی فرد کبھی بھوکا نہ رہے اور جماعت کے تمام افراد ہر قسم کی غیر اسلامی رسموں سے بچیں.حضور کی یہ تحریک بھی جماعت میں کامیاب ہو رہی ہے.الحمد للہ ! سفر یورپ اور کوپن ہیگن میں بیت کا افتتاح: حضور نے 1967ء میں یورپ کا جو سفر اختیار فرمایا وہ بھی اللہ تعالیٰ کی پہلے سے دی گئی بشارت کے مطابق بہت ہی اہم اور بابرکت ثابت ہوا.اس سفر کے دوران اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت کے نظارے ہمیں نظر آئے.حضور
105 6 جولائی 1967ء کو اس سفر کے لئے ربوہ سے روانہ ہوئے اور 24 /اگست 1967ء کو واپس ربوہ تشریف لائے.اس سفر میں حضور مغربی جرمنی، سوئیٹزرلینڈ، ہالینڈ، ڈنمارک اور انگلستان میں تشریف لے گئے.ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں حضور نے اس ملک کی پہلی بیت الذکر کا افتتاح فرمایا جو کہ احمدی عورتوں کے چندہ سے تعمیر ہوئی ہے.ہر جگہ حضور نے پریس کانفرنسوں اور تقریروں کے ذریعہ سے اہل یورپ تک دین حق کا پیغام احسن طریق سے پہنچایا.اور انہیں تنبیہ فرمائی کہ ہلاکت اور تباہی سے بچنے کا اب صرف یہی طریق ہے کہ وہ دین حق قبول کر لیں اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کریں.حضور کی آواز اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ کروڑوں لوگوں تک پہنچ گئی اور وہ اس سے بہت متاثر ہوئے.ان کی دین حق کے متعلق غلط فہمیاں دور ہو گئیں.ہمیں امید ہے ( اور اس کے آثار بھی ظاہر ہو رہے ہیں ) کہ اس مبارک سفر کے نتیجہ میں انشاء اللہ تعالیٰ یورپ میں دین حق تیزی کے ساتھ ترقی کرنے لگے گا.مغربی افریقہ کا سفر : 4 را پریل 1970ء کو حضور نے مغربی افریقہ کا سفر اختیار کیا.مغربی افریقہ کے قریباً تمام ممالک میں کثرت کے ساتھ احمدی جماعتیں موجود ہیں.حضور کے اس سفر سے ان کی برسوں کی آرزو اور تمنا پوری ہوئی اور وہ حضور کی زیارت کے شرف سے مشرف ہوئیں.جس جگہ بھی حضور تشریف لے گئے افریقن احمدی مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے دور دراز کی مسافت طے کر کے حضور کی زیارت کے لئے جوق در جوق جمع ہوئے اور انہوں نے اپنی مخصوص روایات کے ساتھ دینی نظمیں پڑھ کر اور پر جوش نعرے لگا کر والہانہ رنگ میں حضور کا خیر مقدم کیا.اور حضور کے ارشادات سن کر اپنے ایمانوں کو تازہ کیا.
106 اس سفر میں احمدی احباب کے علاوہ افریقہ کے مختلف ممالک کے چوٹی کے سر بر آوردہ لوگوں نے بھی حضور سے ملاقاتیں کیں اور استقبالیہ تقریروں میں شامل ہوئے اور انہوں نے جماعت احمدیہ کی عظیم الشان تبلیغی اور تعلیمی خدمات کا اعتراف کیا.اخبارات ، ریڈیو اور ٹیلیویژن پر بھی برابر حضور کے اس تاریخی دورہ کی تفاصیل آتی رہیں.غرض حضور کا یہ تاریخی سفر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیاب رہا.اور اس سفر کے ذریعہ افریقہ میں تعلیم دین حق کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے جس کے لئے حضور نے نصرت جہاں آگے بڑھو اسکیم جاری فرمائی.اس اسکیم کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق حضور نے کم از کم ایک لاکھ پونڈ جمع کرنے کی تحریک فرمائی.یہ تحریک بھی کامیاب رہی.اس کے ماتحت احمدی ڈاکٹر اور استاد افریقہ میں ڈسپنسریاں، ہسپتال اور اسکول قائم کر کے اہل افریقہ کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں.1974ء میں جماعت کی مخالفت: 1974ء میں پاکستان بھر میں جماعت کے خلاف فسادات اور ہنگامے شروع ہو گئے.مکانات لوٹے اور جلائے گئے.بائیکاٹ کیا گیا.ملازمتوں سے نکالا گیا اور کئی احمدیوں کو شہید کر دیا گیا.مگر ہر طرح کے ظلم وستم کے باوجود (جن کی جماعت کی گزشتہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی.) جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے اس آزمائش اور امتحان میں بھی کامیاب رہی اور اپنے پیارے امام حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی راہنمائی میں سلامتی کے ساتھ اس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا گیا.الحمدللہ ! منصو بہ صد سالہ جو بلی: حضرت خلیفہ اصبح الثالث نے 1973ء کے جلسہ سالانہ پر ایک عظیم الشان
107 منصو بہ صد سالہ جوبلی کے نام سے جماعت کے سامنے رکھا.حضور نے فرمایا:- ” جب جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک صدی گزرے گی اور دوسری صدی شروع ہوگی تو وہ خدائی بشارتوں کے ماتحت انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کی صدی ہوگی.غلبہ اسلام کی صدی کیلئے ضروری ہے کہ اس صدی کے شروع ہونے سے پہلے ہم پورے عزم و ہمت کے ساتھ قرآنی انوار کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچانے کیلئے انتہائی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں.“ اس منصوبہ کے ماتحت دنیا بھر میں تبلیغ دین حق اور اشاعت قرآن کے لئے حضور نے ایک فنڈ قائم کیا جس کا نام ”صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ ہے حضور نے اس فنڈ کے لئے جماعت کو اڑھائی کروڑ روپیہ جمع کرنے کی تحریک فرمائی ہے.خدا کے فضل سے اس کے لئے جو وعدے جماعت نے کئے وہ مطلوبہ رقم سے چار گنا سے بھی زائد ہو گئے اور جماعت کے احباب نے بشاشت اور شوق کے ساتھ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا.اس منصوبہ کی کامیابی کے لئے حضور نے دعاؤں اور عبادات کا ایک روحانی پروگرام بھی جماعت کے سامنے رکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :- ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھا جائے.(i ii) دو نفل روزانہ ادا کئے جائیں.i) کم از کم سات بار روزانہ سورۃ فاتحہ کی دعا غور کے ساتھ پڑھی جائے.iv درود شریف تسبیح وتحمید اور استغفار کا ورد تینتیس تینتیس بار کیا جائے.یہ دعائیں روزانہ کم از کم 11 بار پڑھی جائیں.
108 (1) رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (ب) اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُهُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِن شَرُورِهِمْ ط لندن میں بین الاقوامی کسر صلیب کا نفرنس : حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے مبارک عہد خلافت کا اور احمدیت کی تاریخ کا ایک نہایت اہم واقعہ یہ ہے کہ 2 تا 4 جون 1978ء کولندن میں جو کہ گویا صلیبی مذہب (عیسائیت) کا مرکز ہے.جماعت احمدیہ کے انتظام کے ماتحت ایک بین الاقوامی کسر صلیب کا نفرنس منعقد ہوئی.جس میں دنیا بھر سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے علماء شامل ہوئے اور انہوں نے اپنے اپنے تحقیقی اور علمی مضامین اس میں پڑھ کر سنائے جن میں یہ ثابت کی گیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ غلط ہے اور حضرت مسیح موعود نے ان کی وفات کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ ہر لحاظ سے صحیح اور درست ثابت ہوا ہے.ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس کا نفرنس میں شامل ہوئے جو کہ پاکستان، ہندوستان، افریقہ، امریکہ، یورپ اور ایشیا کے دیگر مختلف ملکوں سے آئے تھے.اس کا نفرنس میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بھی تشریف لے جا کر شرکت فرمائی.حضور نے اس موقعہ پر ایک اہم خطاب فرمایا جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کے اس عقیدہ کا غلط ہونا ثابت کیا کہ وہ خدا تھے اور اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں.گویا حضور نے عیسائیوں کے گڑھ میں جا کر انہیں اسلام کی تبلیغ فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اکرم صل اللہ کی رسالت اور آپ کی بلند شان کا اظہار فرمایا.یورپ اور انگلستان کے ہزاروں
109 باشندوں نے حضور کا یہ خطاب سنا اور اس سے بہت متاثر ہوئے.دنیا بھر کے اخباروں، رسالوں، ریڈیو اور ٹیلیویژن نے اس کا نفرنس کی تفصیلی خبریں اپنے اپنے ملکوں میں سنائیں اور دکھا ئیں.عیسائی مذہب کے لیڈروں نے جب دیکھا کہ یہ کانفرنس بڑی کامیاب ہورہی ہے تو وہ بہت گھبرائے.اس کا اثر زائل کرنے کے لئے انہوں نے حضرت خلیفہ مسیح الثالث کو تبادلۂ خیال کی دعوت دی لیکن جب حضور نے اسے منظور کرنے کا اعلان کیا تو مختلف بہانے بنا کر ٹال گئے.اور گفتگو کرنے سے انکار کر دیا.اس طرح اپنے عمل سے عیسائیت کی شکست اور اسلام کی فتح کا اعتراف کر لیا.الحمد للہ ! محترم ڈاکٹر عبدالسلام کا اعزاز : حضرت مسیح موعود نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ :- ”میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.“ (تجلیات الہیہ ) حضور کی یہ پیشگوئی مختلف رنگوں میں بار بار پوری ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہوتی رہے گی.خلافت ثالثہ کے مبارک دور میں اس کا ایک عظیم الشان ظہور اس طرح ہوا کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت کے ایک نامور اور مخلص فرزند محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو ( جو کہ عالمی شہرت رکھنے والے مشہور سائنسدان ہیں ) دنیا کا سب سے بڑا اعزاز حاصل ہوا یعنی فزکس کے شعبہ میں نوبل پرائز ملا ہے.آپ دنیا
110 بھر کے وہ پہلے احمدی اور پہلے پاکستانی ہیں جنہیں یہ اعلیٰ انعام حاصل ہوا ہے.صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس موقعہ پر آپ کو مبارکباد کا جو پیغام بھیجا اس میں انہوں نے کہا کہ آپ نے یہ نوبل پرائز حاصل کر کے یقیناً پاکستان کی عزت و عظمت کو چار چاند لگا دیئے ہیں.جب ڈاکٹر سلام صاحب کولندن میں اس خوشخبری کی اطلاع ملی تو آپ نے فوراً احمد یہ بیت الذکر لندن میں جا کر اللہ تعالیٰ کے حضور شکرانے کے نفل ادا کئے.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے اس موقع پر مبارکباد کا جو پیغام ارسال فرمایا اس میں حضور نے فرمایا کہ ہمارے لئے یہ بات بہت فخر کا موجب ہے کہ وہ پہلا اور پاکستانی سائنسدان جسے نوبل پرائز ملا ہے.وہ خدا کے فضل سے احمدی ہے.حضور نے یہ دعا فرمائی کہ:- اللہ تعالیٰ مستقبل میں آپ کو اس سے بھی زیادہ بڑے اعزاز عطا فرمائے اور اس کی تائید و نصرت ہمیشہ آپ کو حاصل رہے.آمین ہر احمدی بچے کا یہ عزم اور ارادہ ہونا چاہئے کہ اس نے بھی بڑے ہو کر اسی طرح علم کے مختلف میدانوں میں ترقی کرنی ہے اور انتہائی کمال تک پہنچ کر اپنے وطن اور اپنی جماعت کی عزت میں اضافہ کرنا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.حضور کا عقد ثانی: 3 دسمبر 1981ء کو حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی حرم حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ ( بنت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ) مختصر سی علالت کے بعد رحلت فرما گئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ط اپنی خوبیوں اور دل موہ لینے والی
111 شخصیت کے ساتھ وہ ایک بہترین رفیقہ حیات تھیں قدرتی طور پر حضور نے بے حد صدمہ محسوس فرمایا.تاہم اپنے فرائض کی بجا آوری میں دل جمعی اور خاص طور پر خواتین میں اصلاحی مہمات کے تسلسل کے لئے آپ نے عقد ثانی کا ارادہ فرمایا.اس سلسلے میں آپ نے چالیس روز تک دعائیں کیں اور جماعت کے بعض بزرگ اصحاب سے بھی سات روز تک استخارہ کرنے کے لئے فرمایا.آخر ان دعاؤں کے نتیجہ میں جب آپ کو اچھی طرح اطمینان ہو گیا تو 11 اپریل 1982ء کو آپ کی شادی حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ بنت محترم عبدالمجید خان صاحب آف ویرووال کے ساتھ انتہائی سادگی کے ساتھ عمل میں آئی.حضور کی وفات: ماہ جون 1982ء کے ابتدائی ایام میں جبکہ حضور اسلام آباد میں مقیم تھے حضور کو اچانک دل کے عارضہ کا شدید حملہ ہوا ہر ممکن علاج کیا گیا لیکن خدا کی مشیت غالب آئی اور حضور 9 جون 1982 ء کو 73 برس کی عمر میں اسلام آباد، پاکستان میں انتقال فرما کر محبوب حقیقی سے جاملے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آپ کا جنازہ اسلام آباد سے ربوہ لایا گیا جہاں پر 10 جون 1982ءکو حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے نماز جنازہ پڑھائی.جس میں پاکستان اور بیرون ملک سے آئے ہوئے ہزار ہا احباب شامل ہوئے.نماز جنازہ کے بعد آپ کا جسد عنصری مقبرہ بہشتی ربوہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے مزار کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا.پیارے بچو! حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی اچانک وفات کا المناک سانحہ جماعت احمدیہ کے لئے ایک بہت بڑا غیر معمولی صدمہ تھا.مگر جماعت نے دینی تعلیم
112 کے مطابق اسے نہایت صبر کے ساتھ برداشت کیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے اتحاد و اتفاق کو قائم رکھا اور اسے حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے وجود میں قدرت ثانیہ کا چوتھا مظہر عطا کر کے اپنے وعدہ کے مطابق جماعت کے خوف کوامن و سکینت میں بدل دیا.الحمد للہ علی ذلک
113 باب پنجم حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا عبد خلافت انتخاب خلافت رابعه 10 جون 1982ء کو حضرت مصلح موعود کی قائم کردہ مجلس انتخاب خلافت نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اچانک وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد کو للہ تعالی کے اذن اور منشاء کے ماتحت جماعت کا چوتھا خلف منتخب کیا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے مختصر حالات زندگی حضرت خلیفہ مسیح الرابع حضرت مصلح موعود کے فرزند تھے.آر 18 دسمبر 1928ء کو پیدا ہوئے.1944ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا.اسی سال آپ کی والدہ محترمہ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ جو خاندانِ سادات میں سے تھیں وفات پاگئیں.گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی اور پھر پرائیویٹ طور پر بی.اے پاس کیا.1949ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور 1953 ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی.1955ء میں حضرت مصلح موعود کے ہمراہ یورپ تشریف لے گئے.اور لندن کے اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تعلیم حاصل کی.جہاں سے اکتوبر 1957 ء میں واپس آئے.اور پھر دینی خدمات میں ہمہ تن
114 مصروف ہو گئے.نومبر 1958ء میں حضرت مصلح موعود نے آپ کو وقف جدید کی تنظیم کا ناظم ارشاد مقرر فرمایا.آپ نے بے حد محنت کی جس کے نتیجے میں اس تنظیم نے تیز رفتاری سے ترقی کی.نومبر 1960ء سے 1966ء تک آپ نائب صدر مجلس خدام الاحمد یہ رہے.1960ء کے جلسہ سالانہ پر پہلی مرتبہ خطاب فرمایا اور اس کے بعد تاحیات سالانہ جلسوں میں خطاب فرماتے رہے.1961ء میں افتاء کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے.1966ء سے 1969 ء تک صدر مجلس خدام الاحمدیہ رہے.1970ء میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے.1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں جماعت کا موقف بتانے والی ٹیم کے ممبر تھے.1979ء میں آپ صدر مجلس انصار اللہ مقرر ہوئے.خلیفہ منتخب ہونے تک اس عہدہ پر فائز رہے.خلافت رابعہ کے اہم واقعات تعمیر بيوت الذكر : حضرت خلیفہ ایسیح الرابع نے اپنے دور خلافت کے آغاز سے ہی بیوت الذکر کی تعمیر میں غیر معمولی دلچسپی لی.1982ء میں امریکہ میں پانچ نئی بیوت الذکر اور پانچ مشن ہاؤسز کی تعمیر کی طرف توجہ دلائی اور مالی تحریک فرمائی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب امریکہ میں بیت الرحمن میری لینڈ سمیت بیوت کی تعداد چالیس ہو چکی ہے.کینیڈا میں بیت الاسلام ٹورنٹو بہت بڑی بیت الذکر ہے.جرمنی میں آپ نے سو بیوت الذکر کی تعمیر کا منصوبہ دیا جس پر تیزی سے عمل ہو رہا ہے.حضور نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مخالفین جن بیوت الذکر کو نقصان پہنچائیں انہیں از سر نو تعمیر کیا جائے.جیم اور ناروے میں نئی بیوت الذکر کی تعمیر کا کام ہو رہا ہے اسی طرح بیت الفتوح کے نامہ
115 سے مورڈن لندن کے علاقے میں یورپ کی سب سے بڑی بیت الذکر آپ کے عہد میں تعمیر ہوئی.ہجرت کے اُنیس سالوں میں مجموعی طور پر کل 13065 نئی بیوت جماعت احمد یہ کو دنیا بھر میں تعمیر کرنے کی توفیق ملی.مشن ہاؤسز اور مراکز کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا.یورپ میں 148 ، امریکہ میں 36، کینیڈا میں 10 اور افریقہ میں 656 مراکز قائم ہوچکے ہیں.اسپین میں پہلی بیت الذکر : خلافت کے منصب پر متمکن ہونے کے بعد حضرت خلیفہ المسح الرابع نے پیدروآباد سپین میں 700 سال بعد تعمیر ہونے والی پہلی بیت الذکر کا افتتاح 10 ستمبر 1982ء کو فرمایا اس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ورا کتوبر 1980ءکو رکھا تھا.بيوت الحمد: سپین میں خدا کا پہلا گھر بیت بشارت بنانے کی خوشی میں شکرانے کے طور پر غریب اور ضرورتمند لوگوں کے لئے مکان بنانے کی اسکیم کا اعلان بیت اقصیٰ ربوہ میں 29 اکتوبر 1982ء کو فرمایا.آپ کے عہد خلافت میں 87 کشادہ اور آرام دہ مکان بن چکے تھے.500 افراد کو گھر کی حالت بہتر بنانے یا وسعت دینے کے لئے رقم دی گئی.قادیان میں بھی 37 بیوت الحمد تعمیر کئے گئے جہاں درویشان قادیان کے خاندان یا اُن کی بیوائیں رہائش پذیر ہیں.ربوہ سے ہجرت : 1974ء سے پاکستان میں احمدیوں کے خلاف حکومتی سطح پر مخالفت میں
116 تیزی آگئی تھی.26 اپریل 1984ء کو اُس وقت کے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے ایک حکمنامہ جاری کیا جس پر عمل کرنے کی صورت میں احمدی کسی طرح بھی اپنے عقائد کا اظہار نہیں کر سکتے تھے.خلیفہ وقت کا کام تو احمدیت کی ترقی، پھیلاؤ اور تربیت ہے.اس حکمنامے سے یہ کام کرنا ناممکن تھا.لہذا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے اپنے وطن سے ہجرت اختیار کی.30 اپریل 1984 ء کو اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت و تائید کے ساتھ لندن پہنچ گئے.حضور اور جماعت کے لئے یہ بڑا سخت وقت تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے ترقی کے نئے نئے سامان پیدا فرمائے.حضور بنفس نفیس واپس ربوہ نہ آسکے مگر MTA کے ذریعے دنیا میں ہر جگہ آپ کا دیدار کیا جا سکتا تھا.صد سالہ جشن تشکر : حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے جماعت احمدیہ کے قیام پر سوسال گذرنے کے شکرانے کے طور پر ایک پروگرام ترتیب دیا تھا.جس کا نام ”صد سالہ جشن تشکر“ تھا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی راہنمائی میں انتہائی جوش وخروش اور روحانی مسرتوں کے ساتھ سوممالک میں تقریبات منعقد ہوئیں.معزز مہمانوں کو بلایا گیا.نمائشیں لگائی گئیں.ریڈیو اور ٹیلیویژن پر خبریں شائع ہوئیں.تمام احمد یوں نے شکرانے کے نوافل ادا کئے.اہم عمارتوں پر چراغاں ہوا.مٹھائیاں اور تحائف تقسیم کئے گئے.مگر حکومت پاکستان نے اہل ربوہ کو کسی شکل اور کسی طریق سے بھی خوشی منانے کی اجازت نہ دی.اہل ربوہ نے خدا تعالیٰ کے حضور زیادہ بے کسی اور عاجزی سے دعائیں کیں.23 / مارچ 1989ء کو بیت الفضل لندن اور ٹورنٹو انٹرنیشنل سنٹر میں بڑے اجتماعات ہوئے.قرآن پاک کی منتخب سو آیات کا ترجمہ وسیع پیمانے پر پیش کیا گیا.
117 جلسه سالانه قادیان: جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ 1891ء میں قادیان میں منعقد ہوا تھا.اس مقدس روایت کو 1991 ء میں سو سال پورے ہونے پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے قادیان کا سفر اختیار فرمایا.1947ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ قادیان کی مقدس سرزمین پر خلیفہ وقت نے قدم رکھے.اس جلسہ میں ہندوستان بھر کے علاوہ لندن، جرمنی، کینیڈا، جاپان، آسٹریلیا، انڈونیشیا، اور افریقہ سے ہزاروں احمدیوں نے شرکت کی.قادیان کے مقدس مقامات کی سیر اور مزارات پر دعائیں کیں.عجیب روح پرور ماحول تھا.جو ایم ٹی اے پر دکھایا گیا.نستعلیق کتابت کا کمپیوٹر اور الرقیم پریس: حضرت مسیح موعود کے زمانے میں اشاعت کے کاموں میں غیر معمولی تیزی کی جو بشارتیں دی گئی تھیں وہ اس عہد میں اس رنگ میں پوری ہوئیں کہ جدید ترین ایجادات سے استفادہ کی صورت بنی.12 جولائی 1985 ء کو کمپیوٹر کے لئے چندہ کی اپیل کی.الرقیم پریس قائم ہوا.اس سہولت سے جماعت کی کتب و رسائل کی اشاعت کئی گنا بڑھ گئی.7 جنوری 1994ء کو الفضل انٹر نیشنل کا اجراء ہوا.عربی رسالہ التقویٰ اور انگریزی رسالہ ریویو آف ریلیجز بھی اسی پریس میں چھپتے ہیں.اب اس رسالہ کی اشاعت دس ہزار سے بڑھ گئی ہے.مغربی افریقہ میں بھی پریس لگ چکا ہے.کتب کی اشاعت کی تعداد کروڑوں میں ہے.تراجم قرآن مجید اب تک جماعت احمد یہ 57 زبانوں میں تراجم شائع کرا چکی ہے اور کئی
118 زبانوں میں ترجمے کا کام ہورہا ہے.ہومیو پیتھی علاج بالمثل: حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے اس طریق علاج کو متعارف اور رانج کرانے میں غیر معمولی محنت فرمائی.MTA پر مسلسل 198 پروگرام دیئے.جن پر مشتمل کتاب بھی شائع ہوئی.دنیا کے کئی ملکوں میں ہومیو پیتھک کلینک کھولنے کے انتظام فرمائے.صرف انڈونیشیا میں سو کے قریب کلینک ہیں یہ طریق علاج سستا اور مؤثر ہونے کی وجہ سے جماعت میں بہت مقبول ہے.اور غیر از جماعت احباب میں خدمت اور تعارف کا ذریعہ بنتا ہے.عالمگیر دعوت الی اللہ اور عالمی بیعتیں : حضرت اقدس مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق جماعت نے پیغام دین حق کو زمین کے کناروں تک پہنچانے کی سچی تڑپ اور حقیقی لگن سے کام کیا.تعلیم و تربیت کے جدید ذرائع سے بھر پور فائدہ اُٹھایا.ہر احمدی کو داعی الی اللہ قرار دیا.جماعت 175 ممالک میں مضبوطی سے قائم ہوئی.دس سالوں میں 17 کروڑ افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.سال بیعتوں کی تعداد 204,308 1993 421,753 1994 847,725 1995 1,602,721 1996 3,004,585 1997 5,004,591 1998
119 10,820,226 1999 41,308,975 2000 81,006,721 2001 20,654,000 2002 میزان 164,875,605 ماشاء اللہ خدمت خلق کی جھلکیاں: حبشہ کے قحط زدگان کی امداد کے لئے 9 نومبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی.شہدائے احمدیت کے ورثاء کیلئے سیدنا بلال فنڈ قائم کرنے کا اعلان 14/مارچ1986ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.توسیع مکان بھارت فنڈ: ہندوستان کی جماعتوں کی مالی ضروریات پوری کرنے کی 28 / مارچ1986ء کو تحریک فرمائی.17 اکتوبر 1986 ء کوال سلواڈور کے متاثرین زلزلہ کے لئے مالی امداد کی تحریک فرمائی.افریقہ کے فاقہ زدہ ممالک کیلئے مالی امداد کی تحریک 18 جنوری 1991ء کو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمائی.لائبیریا سے ہجرت کر کے غانا نائجیر یا اور سیرالیون جانے والوں کے لئے امداد کا اعلان 26 اپریل 1991ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.HUMANITY FIRST کے نام سے ایک تنظیم قائم فرمائی جس کے اغراض و مقاصد 28 /اگست 1992 ء کے خطبہ میں بیان فرمائے.حضور نے فرمایا: -
120 اب وقت آگیا ہے کہ جماعت احمد یہ عالمگیر سطح پر ریڈ کراس وغیرہ کی طرز پر خدمت خلق کی ایک ایسی تنظیم بنائے جو بغیر رنگ ونسل کے امتیاز کے انسانوں کی خدمت کرے اس میں صرف احمدیوں کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے شریف النفس انسانوں کو شامل کیا جائے گا اور سب کی مالی مدد سے اس کو چلایا 66 جائے گا.“ بوسنیا اور صومالیہ کے متاثرین کے لئے مدد کی تحریک 30 اکتوبر 1992ء کے خطبہ جمعہ میں فرمائی.بوسنیا کے آفت زدگان کے لئے 29 جنوری 1993ء کو بھی تحریک فرمائی.روانڈہ کے مظلومین کے لئے 22 جنوری 1999ء کے خطبہ جمعہ میں مدد کی تحریک فرمائی.قدرتی آفات، جنگلوں میں آگ اور دیگر کئی قسم کے عذابوں سے متاثر انسانیت کی خدمت کیلئے احمدی نوجوانوں نے رضا کارانہ عملی خدمت کی.خواتین نے بھی ایک مثال قائم کی.1985ء میں ایک ہزار احمدی خواتین نے اپنی آنکھیں عطیہ کیں.ربوہ میں بلڈ بنک اور آئی ڈونرز اسکیم کے تحت مستقل منصوبہ بندی سے کام ہو رہا ہے.کفالت یتامی : جنوری 1991 ء میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے کفالت یکصد یتامی کمیٹی کا منصوبہ پیش فرمایا.اس کام میں آپ کی ذاتی توجہ اور دعاؤں سے اس قدر برکت پڑی کہ ڈیڑھ ہزار یتامی کو اس کا فیض پہنچ رہا ہے.ان بچوں کی جسمانی ضروریات
121 کے ساتھ روحانی تربیت کا انتظام بھی کیا جاتا ہے.حضور نے گھروں میں بیتا ملی کو اپنے بچوں کی طرح رکھنے کی اہمیت بھی بیان فرمائی.بوسنیا، افریقہ اور عراق میں جنگ اور سیاسی ابتری سے متاثر ہونے والے بچوں کی مدد کی تحریک فرمائی.دار الاکرام کے نام سے ربوہ میں ایک ہوسٹل تعمیر ہوا جس میں والدین کی شفقت سے محروم بچوں کو عزت سے رکھنے کا انتظام ہے.وقف نو اسکیم: جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر 3 را پریل 1987ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الرابع نے جماعت کے سامنے اپنے بچوں کو پیدائش سے قبل دین حق کی خاطر وقف کرنے کا منصوبہ پیش فرمایا.یہ منصوبہ بہت دور رس اور فائدہ مند اثرات کا حامل تھا.آپ نے وقف کرنے والے والدین اور بچوں کے لئے بہت دعائیں کیں اور تربیت کے مخصوص طریق سمجھائے.جماعت نے حسب معمول اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا خصوصاً خواتین نے قربانی کی مثالیں قائم کیں.اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے اس تحریک میں شمولیت کی تمنا میں بعض بے اولاد جوڑوں کو بچے عطا ہوئے.یہ بھی خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ واقفین نو میں لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے زیادہ ہے.کل واقفین نوقریباً 26,000 ہو چکے ہیں.جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ: دور ہجرت میں برطانیہ میں خلیفہ المسیح کی موجودگی نے جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ کو ایک لحاظ سے مرکزی حیثیت دے دی.ساری دنیا سے احمدی خواتین و احباب جولائی کے آخر میں کشاں کشاں لندن پہنچتے.حضور کے خطبات نئی نظمیں، عالمی بیعت کے نظارے اور دورانِ سال ہونے والے الہی انعام وافضال کی بارشوں
122 کا ذکر سنتے.MTA نے جلسہ برطانیہ کو ہر احمدی گھر تک پہنچا دیا.ربوہ میں جلسہ کی اجازت نہ ملنے سے محرومی کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح دور فرما دیا.برطانیہ کے علاوہ کئی دوسرے ممالک مثلاً کینیڈا اور جرمنی میں بڑے جلسے ہونے لگے.جلسوں میں حضور کی شرکت روحانی لطف کود و بالا کر دیتی.اپنی زندگی کے آخری جلسے میں آپ نے فرمایا :- خدا تعالیٰ کے فضل سے 175 ممالک میں جماعت احمدیہ کا پودا لگ چکا ہے.میری ہجرت کے اٹھارہ سالوں میں 84 نئے ممالک جماعت احمدیہ کو ملے ہیں.اس سال 5498 نئے مقامات پر احمدیت کا نفوذ ہوا.جن میں سے 4485 مقامات پر باقاعدہ نظام جماعت قائم ہو چکا ہے.رواں سال میں 944 بیوت الذکر 138 مشن ہاؤسز اور دو کروڑ سے زائد افراد کی جماعت احمدیہ میں شمولیت ہوئی.“ ایم ٹی اے(MTA): 7 / جنوری 1994ء کو خطبہ جمعہ سے ایم ٹی اے کی باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوا.ہر احمدی جو خلیفہ وقت سے دوری کا درد محسوس کر رہا تھا.ان نشریات سے بہت خوش ہوا.گو یا حضور گھر گھر آگئے.ایم ٹی اے جہاں بڑوں کے لئے علم میں اضافے اور سکون کا باعث بنا وہاں بچوں کی تربیت اور خلافت سے وابستگی کا ذریعہ بھی بنا.1994ء میں جماعت احمدیہ امریکہ اور کینیڈا کی مشترکہ کوششوں سے ارتھ اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا.1995ء میں انٹرنیٹ پر احمد یہ ویب سائٹ قائم ہوئی.یکم اپریل 1996ء سے چوبیس گھنٹے کی نشریات کا آغاز ہوا.7 جولائی 1996 ء گلوبل ہیم کے ذریعے نشریات جاری ہوئیں.1999ء میں ڈیجیٹل نشریات کا آغاز ہوا.حضرت
123 خلیفہ امسیح الرابع کے سب خطبات جمعہ اور جلسہ ہائے سالانہ کی تقاریر کے علاوہ سلسلہ وار پروگراموں کی تفصیل درج ذیل ہے.انگریزی بولنے والے دوستوں سے ملاقات اردو بولنے والے دوستوں سے ملاقات ہومیو پیتھی کلاس پروگرام ترجمۃ القرآن کلاس لقا مع العرب اردو کلاس بچوں کی کلاس فرنچ ملاقات بنگلہ ملاقات جرمن ملاقات لجنہ سے ملاقات اطفال سے ملاقات اعتراضات کے جوابات کل دورہ انڈونیشیا 150 " 160 " 198 " 305 " 472 " 460 " 300 " 209 " 128 " 130 " 130 " 45 " 37 پروگرام 2,724 الم و نیشیا میں احمد یہ جماعت 1925ء میں قائم ہوئی تھی.محترم مولانا رحمت علی صاحب وہاں پہلے مربی متعین کئے گئے تھے.حضرت خلیفۃ اسیح الرابع پہلے خلیفہ اسیح تھے جنہوں نے انڈونیشیا کا دورہ کیا.آپ نے 19 جون سے 11/ جولائی
124 2000 ء تک اس ملک کا دورہ کیا.انڈونیشیا کے صدر سے ملاقات ہوئی.ایک بیت الذکر اور اسکول کا سنگ بنیاد رکھا.ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے جس میں ریڈیو، ٹیلیویژن اور اخبارات کے نمائندے شامل تھے، خطاب فرمایا اس طرح وسیع پیمانے پر جماعت احمدیہ کا تعارف ہوا.ملکی سطح پر رہنماؤں سے ملاقاتوں، خطابات اور مجالس سوال جواب کے مواقع ملے.انڈونیشیا میں 542 جماعتیں 289 بیوت الذکر اور 110 مشن ہاؤسز ہیں.مریم شادی فنڈ : حضرت خلیفتہ اسیح الرابع نے اپنی زندگی کی آخری مالی تحریک غریب بچیوں کی شادی کے اخراجات کے لئے ایک فنڈ قائم کرنے کے لئے 21 فروری 2003ء کا خطبہ جمعہ ارشادفرماتے ہوئے کی تھی ایک ہفتہ میں ایک لاکھ پاؤنڈ جمع ہو گئے.28 فروری کے خطبہ جمعہ میں آپ نے اس فنڈ کا نام مریم شادی فنڈ رکھا اور فرمایا: - امید ہے اب یہ فنڈ کبھی ختم نہیں ہو گا اور ہمیشہ غریب بچیوں کو عزت کے ساتھ رخصت کیا جا سکے گا.“ تصانیف: ا.مذہب کے نام پرخون ۲.ورزش کے زینے ۳.احمدیت نے دنیا کو کیا دیا (الفضل انٹر نیشنل 4 را پریل 2003ء) $ 1962 $ 1965 1968
125 ۴.آیت خاتم النبیین کا مفہوم اور جماعت احمدیہ کا مسلک ۵.سوانح فضل عمر حصہ اوّل ۶.سوانح فضل عمر حصہ دوم ے.ربوہ سے تل ابیب تک وصال ابن مریم اہل آسٹریلیا سے خطاب اُردو اور انگریزی مجالس عرفان 84-1983ء کراچی ا.سلمان رشدی کی کتاب پر محققانہ تبصرہ ۱۲.خلیج کا بحران اور نظام جہان نو $ 1968 1975 1975 $1976 1979 1983 1989 1989 1992 * 1992 Islam's Response to Contemporary Issues _ IF ۱۴.ذوق عبادت اور آداب دعا $ 1993 ۱۵.Christianity A Journey from Facts to Fiction 1994ء ١٦.زحق الباطل $ 1994 ۱۷.کلامِ طاہر (کراچی) $ 1995 ۱۸.حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ (کراچی) ۱۹.1995 Revelation, Rationality Knowledge and Truth 1998ء ۲۰.قرآن کریم کا اُردو ترجمہ $2000 ۲۱.بے شمار خطبات و لیکچرز جماعت کی ترقی کی رفتار: 1982ء میں خلافت رابعہ کے آغاز کے وقت جماعت 80 ممالک میں قائم تھی.2003ء میں حضور کی وفات کے وقت جماعت 175 ممالک میں قائم ہو
126 چکی تھی.مختلف ممالک میں نئی جماعتوں کے قیام میں غیر معمولی اور حیرت انگیز اضافہ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ 85-1984 ء میں 28 نئی جماعتیں قائم ہوئی تھیں.ہجرت کے 19 سالوں میں دنیا بھر میں 35358 نئی جماعتیں قائم ہوئیں.حضور کی وفات: حضور کی انتھک محنتوں اور کاوشوں نے اُن کی صحت پر برا اثر ڈالا تا ہم آپ کام کام اور کام میں مگن رہے بالآخر 19 اپریل 2003ء یہ بچوں اور بڑوں کا محبوب آقا جماعت کو سوگوار چھوڑ کر اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گیا.23 /اپریل بروز بدھ آپ کے جسد اطہر کو اسلام آبا د لفورڈ میں امانتاً سپردخاک کر دیا گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
127 باب ختم کا حضرت خلیفہ ایح الخامس کا عہد خلافت ابتدائی حالات و انتخاب خلافت حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزيز 15 ستمبر 1950ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد مرحوم و محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے.آپ حضرت مسیح موعود کے پڑپوتے ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد کے پوتے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے نواسے ہیں.آپ نے تعلیم الاسلام کا لج ربوہ سے بی اے کیا.1976ء میں ایم ایس سی کی ڈگری ایگریکلچرل اکنامکس میں حاصل کی.1977ء سے غانا مغربی افریقہ میں تعلیمی میدان میں جماعتی خدمات کا آغاز کیا.مارچ 1985ء سے نائب وکیل المال ثانی مقرر ہوئے.1994ء میں آپ کا تقرر بطور ناظر تعلیم صدر انجمن احمد یہ ہو 10 دسمبر 1997ء کو ناظر اعلیٰ و امیر مقامی مقرر ہوئے.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ میں قابل قدر خدمات کیں.1999ء میں کچھ عرصہ اسیر راہِ مولا رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا.31 جنوری 1977ء کو آپ کی شادی مکرمہ سیدہ امۃ السبوح بیگم صاحبہ بنت محترمہ صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ مرحومه و مکرم سید داؤ د مظفر شاہ صاحب سے ہوئی.آپ کے دو بچے ہیں.بیٹی محترمہ امتۃ الوارث فاتح صاحبہ اور بیٹا و گیا.
128 محترم مرز اوقاص احمد ہیں.آپ 22 اپریل 2003 ء کوحضرت خلیفہ امسیح الرابع کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کے پانچویں خلیفہ منتخب ہوئے.اللہ تعالیٰ آپ کی عمر وصحت میں برکت دے اور اشاعت دین کے کاموں میں روح القدس سے مدد فرمائے آمین.حضور نے پہلی بیعت عام سے قبل مختصر خطاب فرمایا جس کے الفاظ یہ ہیں.احباب جماعت سے صرف ایک درخواست ہے کہ آج کل دعاؤں پر زور دیں.دعاؤں پر زور دیں.بہت دعائیں کریں.بہت دعائیں کریں.بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اپنی تائید و نصرت فرمائے اور احمدیت کا یہ قافلہ اپنی ترقیات کی طرف رواں دواں رہے.“ خلافت خامسہ کے اہم واقعات افتتاح بیت الفتوح (مورڈن ) لندن: مغربی یورپ کی سب سے بڑی بیت الذکر بیت الفتوح کا افتتاح حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر والعزیز نے 3 راکتوبر 2003ءکو خطبہ جمعہ ارشاد کر کے فرمایا.حضرت خلیفہ المسح الرابع نے 19 اکتوبر 1999 ء کو اس کا سنگ بنیا درکھا تھا.سنگ بنیاد میں آپ نے بیت المبارک قادیان کی اینٹ رکھی.اس کا رقبہ 5.2 ایکڑ ہے جو 1996ء میں 2.23 ملین پاؤنڈ سے خریدا گیا.گنبد کا قطر 15.5 میٹر ہے جو چھت سے آٹھ میٹر اور گراؤنڈ کی سطح سے 23 میٹر اونچا ہے.مینار
129 کی اونچان 25.5 میٹر ہے.بیت الفتوح زنانہ و مردانہ ہال میں قریباً چار ہزار جبکہ دیگر ہالز کو ملا کر کل دس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے اس بیت میں وسیع وعریض طاہر ، ناصر، اور نور ہال ہیں.جماعت کے دفاتر ، کانفرنس روم ، لائبریری اور جمنیزیم بھی موجود ہے.جامعہ احمدیہ کینیڈا کا قیام: کینیڈا میں پہلی بارمس سا گا ٹورنٹو میں جامعہ احمدیہ قائم ہوا جس کا افتتاح 7 رستمبر 2003ء کو ہوا.خلافت خامسہ کے آغاز پر جماعت احمدیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہونے والے واقعات انتخاب خلافت کے متعلق اعلانات، اطلاعات ساری دنیا کے احمدیوں نے ایم ٹی اے کے ذریعے بیک وقت دیکھے اور سنے.دلی طمانیت وسکون کے ساتھ ہر دل نے براہ راست بیعت کی.پہلی بار انتخاب خلافت برصغیر سے باہر یورپ میں ہوا.پہلی بار مسجد فضل لندن میں انتخاب ہوا.اس بیت کو چار خلفا کے قدم چومنے کی سعادت حاصل ہوئی.پہلی بار کسی خلیفہ کا انتقال برصغیر سے باہر ہوا.پہلی بار رحلت کرنے والے خلیفہ کا آخری دیدار اور تدفین کے مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھے گئے.
130 نماز جنازہ میں شرکت کی نئی صورت ہوئی کہ جس وقت لندن میں نماز جنازہ پڑھائی گئی ہر ملک میں مقامی طور پر مقامی امام کی اقتدا میں نماز جنازہ پڑھی گئی.خلیفہ خامس نے حضرت مسیح موعود کا کوٹ حضرت مصلح موعود کی انگوٹھی اور حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کی پگڑی زیب تن کر رکھی تھی.
131 باب ہفتم ضروری معلومات مجلس انتخاب اور خلیفہ کا حلف : مجلس انتخاب خلافت کا ہر رکن انتخاب سے پہلے یہ حلف اُٹھاتا ہے:- میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ کا قائل ہوں اور کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین سے خارج کیا گیا ہو یا اس کا تعلق احمدیت یا خلافت احمدیہ کے مخالفین سے ثابت ہو.“ جب خلافت کا انتخاب عمل میں آجائے تو منتخب شدہ خلیفہ لوگوں سے بیعت لینے سے پہلے یہ حلف اُٹھاتا ہے کہ: - میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اُن لوگوں کو جو خلافت احمدیہ کے خلاف ہیں باطل سمجھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا اور ( دین حق کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے
132 حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی ترویج کے لئے جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوشاں رہوں گا.“ سلسلہ احمدیہ سے تعلق رکھنے والی اہم تاریخیں : حضرت مسیح موعود کی پیدائش.تعمیر بیت اقصی قادیان.ماموریت کے الہام.1835...1876...............مارچ1882 ولادت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی.....10 جنوری 1889ء سلسلہ بیعت کی ابتدا بمقام لدھیانہ.پہلا جلسہ سالانہ.تعلیم الاسلام ہائی اسکول کا قیام.مینارہ اسیح کی بنیاد مدرسہ احمدیہ کی بنیاد.حضرت مسیح موعود کی وفات بمقام لاہور..........23/مارچ1889...........دسمبر 1891ء 1898..........مارچ 1903ء 1906......* 190826...........جماعت احمدیہ میں خلافت کی ابتداء & 190828.....ولادت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث.....16 نومبر 1909ء اخبار الفضل کا اجراء.حضرت خلیفتر اسبح الاول کا وصال حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا انتخاب مجلس مشاورت کا قیام..1913 /19.............13 / مارچ 1914ء.....14/مارچ1914ء $ 1922.
133 لجنہ اماءاللہ کا قیام.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کا پہلا سفر یورپ، 1922..........* 1924..ولادت حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع...18 / دسمبر 1928ء خدام الاحمدیہ کا قیام خلافت جو بلی * 1938................$ 1939.انصار اللہ کا قیام.قادیان سے ہجرت جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کا قیام.حضرت خلیفتر اسیح الثانی کا دوسراسفر یورپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی وفات انتخاب خلافت ثالثه حضرت خلیفہ ثالث کی وفات.انتخاب خلافت رابعه بیت بشارت اسپین کا افتتاح..1940......$ 1947.1948 20......1955.................08/نومبر 1965ء.08 نومبر 1965ء......08/جون 1982ء........10/جون 1982ء.......10 ستمبر 1982ء بیت الہدی آسٹریلیا کا سنگ بنیاد * 1983............امتناع قادیا نہت آرڈینینس حکومت پاکستان...26 اپریل 1984ء حضرت خلیفہ ایسیح الرابع کی ربوہ سے ہجرت سیدنا بلال فنڈ کا قیام.بیت الاسلام کینیڈا کا سنگ بنیاد وقف نو تحریک کا اجراء.معاندین کو مباہلہ کا چیلنج 29 اپریل 1984ء..14/مارچ1986ء.....20 ستمبر 1986ء 03/اپریل1987ء 1988 /10.............
134 صدسالہ جشن تشکر کا آغاز.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا تاریخی سفر قادیان...........23/مارچ 1989ء دسمبر 1991ء حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ کی وفات..........3 / اپریل 1992ء پہلی عالمی بیعت الفضل انٹر نیشنل کا اجراء..MTA کی چوبیس گھنٹے نشریات کا آغاز جولائی 1993ء 07 جنوری 1994ء MTA کی نشریات SKY ڈیجیٹل پر.مریم شادی فنڈ کا قیام.حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی رحلت.....07/جنوری 1994ء 07 ستمبر 2001ء..28،21 فروری 2003ء 19 اپریل 2003ء انتخاب خلافت خامسہ اور پہلی بیعت.22 /اپریل 2003ء حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی تدفین.23 را پریل 2003 ء بیت الفتوح مورڈن UK کا افتتاح 03/اکتوبر 2003ء حضرت خلیفہ اسیح الخامس کا پہلا دورہ جرمنی.......20 تا 31 اگست 2003 ء جماعت کے چند وفات یافتہ بزرگوں کا تعارف جماعت کے چند وفات یافتہ خدمت گذاروں کا تعارف اور مختصر ذکر کیا جا رہا ہے.ان کے اور دیگر مخلصین جماعت کے متعلق مزید معلومات حاصل کر کے ان کی خوبیوں کو اپنانے کی کوشش کر کے ہم بھی اچھے خدمت گزار بن سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے اچھے نقوش قدم پر چلائے.آمین
135 حضرت صاحبزادی نواب مبارکه بیگم صاحه آپ حضرت اقدس مسیح موعود کی بڑی بیٹی تھیں.1897ء میں قادیان میں پیدا ہوئیں.آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دی تھی کہ آپ نواب ہوں گی اور زیور میں نشو نما پائیں گی.یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ آپ نے علم کا زیور حاصل کیا اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب سے شادی ہونے کے وجہ سے نواب نام ملا اس طرح دین و دنیا کی نعمتیں نصیب ہوئیں.آپ نے حضرت مسیح موعود کو قریب سے دیکھا تھا.حافظہ مشاہدہ اور قوت بیان بہت اچھی تھی.آپ کا بیان کیا ہوا ذکر حبیب تاریخی اہمیت رکھتا ہے.آپ اعلیٰ درجہ کی شاعرہ تھیں.آپ کی نظمیں جماعت میں بہت مقبول ہیں.آپ جماعت کے سب افراد کے لئے دعائیں کرتیں اور مناسب رہنمائی اور تربیت فرماتیں آپ نے 23 مئی 1977ء کور بوہ میں وفات پائی.حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ: آپ حضرت اقدس مسیح موعود کی چھوٹی بیٹی تھیں.1904ء میں قادیان میں پیدا ہوئیں.آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی فرمائی تھی دُختِ کرام.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب سے شادی ہوئی.مجسم انکسار دعا گو اور پاکباز خاتون تھیں.آپ 6 مئی 1987 ء کور بوہ میں فوت ہوئیں.حضرت سید ہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم حضرت خلیفه امسیح الثانی آپ حضرت اماں جان کے بھائی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی بڑی بیٹی تھیں.آپ 7 /اکتوبر 1918ء کو پیدا ہوئیں.30 ستمبر 1935ءکوحضرت
136 خلیفہ المسیح الثانی کے ساتھ شادی ہوئی.1948ء میں پنجاب یو نیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا 39 سال تک بحیثیت صدر لجنہ اماءاللہ گراں قدر خدمات سرانجام دیں.آپ بہت قابل خاتون تھیں.تحریر اور تقریر کا بہت پیارا انداز تھا.آپ کے عہد صدارت میں لجنہ اماءاللہ کے بہت سے اہم کام ہوئے.آپ نے لجنہ کی تاریخ بھی مرتب کروائی.3 نومبر 1999 کور بوہ میں وفات پائی.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفة المسیح الثالث : حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم و حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی بیٹی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی چالیس سالہ رفاقت میں کمال وفا اور اخلاص سے خدمات بجالاتی رہیں.3 دسمبر 1981ء کو اپنے مول کے حضور حاضر ہوگئیں.حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسیح الرابع : آپ صاحبزادہ مرزا رشید احمد ابن صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی بیٹی تھیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے ساتھ ہجرت کی اور دو مہجوری ثابت قدمی سے ساتھ نبھایا.آپ غریبوں کی ہمدرد تھیں.1991ء میں قادیان کے یادگار تاریخی سفر کے بعد 3 را پریل 1992ء کو انتقال کر گئیں.اسلام آباد لفورڈ میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے پہلو میں دفن ہیں.حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب حضرت اقدس مسیح موعود کے رفیق تھے.بین الاقوامی شہرت کے مالک تھے.1962ء میں یونائیٹڈ نیشنز (UN) کی جنرل اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے.انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس ) عالمی عدالت انصاف) کے حج کی حیثیت سے کام کیا.
137 تحریک پاکستان میں خدمات سرانجام دیں.قائد اعظم محمد علی جناح کے بااعتماد ساتھی تھے.1947ء سے 1954 ء تک پاکستان کے وزیر خارجہ رہے.آپ نے قرآن مجید ، حدیث کی کتاب اور حضرت مسیح موعود کی کچھ کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا آپ سلسلہ کے کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتے.غریب طلباء اور ضرورتمندوں کی مدد کرتے.آپ نے اپنی زندگی کے حالات پر مشتمل ایک کتاب ” تحدیث نعمت لکھی جو ایک مانی ہوئی تاریخی اہمیت کی حامل دلچسپ کتاب ہے.اس کے علاوہ بھی آپ کی تقاریر اور مضامین دینی و علمی لحاظ سے بلند درجے کے ہیں.آپ 2 ستمبر 1985ء کو لاہور میں فوت ہوئے.حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری: آپ انتھک محنت کرنے والے ممتاز عالم دین تھے.تقریر اور مناظرہ میں خاص مہارت حاصل تھی بہت سی کتب تحریر کیں.5 رستمبر 1980ء کو ربوہ میں وفات پائی.حضرت مولانا سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ : جماعت میں بحیثیت ”مفتی طویل عرصہ خدمات سرانجام دیں اُن کے علم کی وسعت ، دین کی سمجھ اور قوت فیصلہ حیرت انگیز تھی.کینیڈا میں 25 /اکتوبر 1989ء کو وفات پائی.انتہائی سادہ اور مخلص احمدی تھے.محترم شیخ محمد احمد مظہر صاحب: مشہور و معروف علمی شخصیت تھے.حضرت مسیح موعود کے اس دعوی کا کہ عربی زبان سب زبانوں کی ماں ہے آپ نے تحقیقی ثبوت پیش کیا.اس غرض کے لئے
138 پچاس زبانوں کا مطالعہ کیا.آپ نے زندگی بھر جماعت کی خدمات میں سخت محنت کی.28 مئی 1993ء کو وفات پائی.محترم محمد حسین صاحب سبز پگڑی والے : حضرت اقدس مسیح موعود کے رفقاء میں سے آخری نشانی تھے.آپ نے 9 سال کی عمر میں بیعت کی تھی.19 جون 1994 کو وفات پائی.محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب: جھنگ میں 29 جنوری 1926ء کو پیدا ہوئے.پوری دنیا میں سائنسدان کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے.سائنس کا اعلیٰ ترین انعام نوبل پرائز 1979ء میں حاصل کرنے والے پہلے احمدی پاکستانی سائنسدان تھے.آپ کی ڈگریوں، اعزازی ڈگریوں اور انعامات کی فہرست بہت طویل ہے جو دنیا کے کئی ممالک نے آپ کو پیش کئے.ٹریسٹ اٹلی میں فزکس کی تعلیم سے مخصوص ایک ادارہ قائم کیا درجن بھر کتب کے علاوہ 250 سے زائد سائنسی مقالے تحریر کئے.انتہائی سادہ اور مخلص تھے.مالی قربانی کے عادی تھے.آکسفورڈ انگلینڈ میں 21 نومبر 1996 ء کو وفات پائی.محترم صاحبزادہ مرزا غلام قادر احمد صاحب: 21 جنوری 1962ء کو پیدا ہوئے.حضرت اقدس مسیح موعود کے پڑپوتے ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کے پوتے اور صاحبزادہ مرزا مجید احمد کے بیٹے تھے.حضرت نواب محمد عبد اللہ خانصاحب اور صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے نواسے تھے.جارج میسن یونیورسٹی امریکہ سے کمپیوٹر کی اعلی تعلیم حاصل کی.
139 زندگی وقف تھے.ربوہ میں جماعت کے دفاتر میں کمپیوٹر نظام کو رائج کیا.مخلصانہ خدمت دین کرنے والے تھے.خاندان حضرت مسیح موعود کے پہلے فرد تھے جنہیں شہادت کا رتبہ ملا حضرت مسیح موعود کا الہام غلام قادر آئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا رَدَّ اللهُ إِلَيَّ “ آپ کی ذات میں پورا ہوا.14 اپریل 1999 ء کو آپ کی شہادت ہوئی.محترمہ صاحبزادی امتہ الحکیم بیگم صاحبہ اہلیہ کرم سید داؤو مظفر شاه صاحب: آپ حضرت مسیح موعود کی پوتی، حضرت مصلح موعود کی بیٹی حضرت خلیفہ المسح الرابع کی بہن اور حضرت خلیفتہ المسح الخامس کی خوشدامن تھیں.آپ انتہائی عبادت گزار، مخلص، دیندار ، غریبوں کی ہمدرد، بہت دعا گو اور صاحب رؤیا و کشوف بزرگ تھیں.انتہائی سادہ طبیعت کی مالک تھیں.18 جولائی 2001ء کو وفات پائی.محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب امیر جماعت ہائے احمدیہ امریکہ: آپ حضرت مسیح موعود کے پوتے، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کے بیٹے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے داماد تھے.آپ عالمی شہرت رکھنے والے ماہر اقتصادیات تھے.بین الاقوامی اقتصادی اداروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.پاکستان میں فنانس سیکرٹری، ڈپٹی چیئر مین پلاننگ کمیشن ، اور صدر پاکستان کے مشیر برائے اقتصادی امور بھی رہے.آپ متقی ، دیندار اور مخلص خادم احمدیت تھے.1989 ء سے امریکہ کے امیر کے طور پر تاریخی خدمات سرانجام دے رہے تھے.23 جولائی 2002 ء کو امریکہ وفات پائی.
140 حرف آخر پیارے بچو! تم سب سچے دل سے حضور کی اطاعت کرنے کی کوشش کرو اور دین کے لئے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کرو تا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر خوش ہو اور جلد ہمیں وہ دن دکھلائے.جب کہ احمدیت کے ذریعے ساری دنیا میں دین حق کا جھنڈا بلند ہو اور اللہ تعالیٰ نے جو بشارتیں حضرت مسیح موعود کو دی تھیں ہم اپنی آنکھوں سے انہیں پورا ہوتا ہوا دیکھیں.احمدی بچوں کو خلافت کے بارہ میں لمصلح الموعودحضرت خلیفہ المسیح الثانی کی یہ وصیت ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ:- ”میری آخری نصیحت یہ ہے کہ سب برکتیں خلافت میں ہیں.نبوت ایک بیج ہوتی ہے جس کے بعد خلافت اس کی تاثیر کو دنیا میں پھیلا دیتی ہے.تم خلافت حقہ کو مضبوطی سے پکڑو اور اس کی برکات سے دنیا کو تمتع کرو." ( الفضل 20 مئی 1959ء)
141 اطفال الاحمدیہ کا عہد اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ دمیں وعدہ کرتا ہوں کہ ( دین حق ) اور جماعت احمدیہ، قوم اور وطن کی خدمت کے لئے ہر دم تیار رہوں گا.ہمیشہ سچ بولوں گا.کسی کو گالی نہیں دوں گا اور حضرت خلیفۃ اس کی تمام نصیحتوں پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.انشاء اللہ ناصرات الاحمدیہ کا عہد اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ میں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب، قوم اور وطن کی خدمت کے لئے ہر وقت تیار رہوں گی اور سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی.انشاء اللہ