Language: UR
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1967ء میں خطبات کا ایک سلسلہ شروع فرمایا جو مارچ سے جون تک جاری رہا۔ ان خطبات میں آپ نے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ بیت اللہ کعبہ کی از سر نو تعمیر کے تئیس 23 عظیم الشان مقاصد پر روشنی ڈالی، تا امت مسلمہ کے سامنے ہر لحظہ یہ مقاصد مد نظر رہیں اور امت محمدیہ کا ہر فرد ان مقاصد کو پورا کرنے میں از حد جدوجہد کرے۔ ان قیمتی نکات کو نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ ربوہ نے جنوری 1968ء میں 139 صفحات پرکتابی شکل میں شائع کیا۔
تعمیربیت الله تند عظیم الشان مقاصد میں ہم خطبات حضرت اميرالمومنين حافظ مرا ناصر احمد من خلال ميسي الثالث امام جماعت احمديه الا الله تعالى بنصر العزيز
تعارف سید نا حضرت امیر المومنین خلیفه اسم الثالث بيد الله بنصرہ العزیزنے گذشتہ دنوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعیت ال یا از سر وتعمیرکی می میرانشان نقاص اپنے خطبات میں بیان فرمائے تھے اور ان مقاصد کے بیان کی غرض پہنی کرنا انت مسور کے سامنے ہر لحظہ یہ مقاصد با نظر یں اور امت میری کار فرد ان مقاصد کو پوراکرنے میں پوری جد و جہد کرے.یہ خطبات چھپوا کر احباب کی خدمت میں پیش ہیں ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ وہ ان خطبات کا مطالع کرے، ان میں بیان شد و مضامین کو زمین میں تعصر رکھے اور پوری کوشش کے تعمیری لال کے قاصد ہمارے ذریعہ پورے ہوتے رہیں.وما توفيقنا الا بالله خاکسار ناظر صلاح وارشاد، ریبوه (مغربی پاکستان)
حمر ابراهيم عليه السلام م کے ذریعہ بیت الله سر تعمیر کے ت نظارات الصمد خطبه جمعه، فرموده ۳۱ مایی ۱۹۶۶ بمقام مسجد مبارک ربوه
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے ذریعہ ہی اللہ کی ازسر نو تعمیر کی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ عہد لیا کہ وہ اور ان کی نسل ایک لمبے عرض یک خداتعالی کی دادی اپنی زندگیوں کو وقف کرکے ان ذمداریوں کو نہاہیں گے جوہی ہے کی تعیر سے تعلق رکھتی ہیں ورن د بی اور دعا سے یہ کوشش کریں گے گا نہ تعالی ان کی نسل کو توفیق عطا کرے کہ جب خداتعالی کا آخری شاریع نبی دنیا کی طرف مبعوث ہو تو وہ اسے قبول کریں اور اسلام کے قبول کرنے کے بعد جوانتہائی قربانی اس قوم کو خداتعالی کے نام کے بلند کرنے کے لیے دینی پڑے وہ قربانی خدا تعالیٰ کی راہ میں دیں.بیت اللہ کے ساتھ بہت سی اعراض اور بہت سے مقاصد والبستہ ہیں بہن کا ذکر قرآن کریم میں میں نظر آتا ہے اور جن کا تعلق حقیقہ نہیں کر م صلی علیہ یتیم کی بعثت سے ہے.“
رة ونصلى على رسولي الية مدة تشد اتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: ان أوّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَيَّةَ مُبَرَكَا وَهُدًى لِلْعَلَمِينَ فيه ايت بينتُ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَةً وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ مِنَّا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِيح الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ الله غَيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ (آل عمران: ۹۷-۹۸) وَإِذْ جَعَلْنَا البَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى وَعَهِدُ نَا إلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ والْعَفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ وَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بلدا أمنا وارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الاخِرُ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَا مَتِّعَهُ قَلِيلًا ثُمَّ اضْطَرَة الى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ وَاذْيَرْفَعُ إِبْرَاهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُه رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مسْلِمَةٌ لَكَ وَارِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ و رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْهُم يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ابْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة وَيُزَكِّيهِمُ
إنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ القره ١٥٤) اس کے بعد فرمایا : میں نے اپنے اس مضمون کو عیدالاضحیہ کے روز شروع کیا تھا اور بتایاتھا کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علی السلام کے ذریعہ بیت اللہ کی از سر نو تمیر کی اور حضر ابرا ہیم یا اسلام سے یہ عہد لیاکہ وہ اور ان کی نسل ایک لیے عرصہ تک خدا تعالی کی راہ میں اپنی زندگیوں کو وقف کر کے ان ذمہ داریوں کو نہا میں گے جو بیت اللہ کی تعمیر سے تعلق رکھتی ہیں اور ند پیر اور دعا سے یہ کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل کو توفیق عطا کرے کہ جب خدا تعالیٰ کا آخری شارع نبی دنیا کی طرف مبعوث ہو تو وہ اُسے قبول کریں اور اسلام کے قبول کرنے کے بعد جو انتہائی قربانی اس قوم کو خدا تعالیٰ کے نام کے بلند کرنے کے لیے دینی پڑے وہ قربانی خدا تعالیٰ کی راہ میں دیں.میں نے بتایا تھا کہ بیت اللہ کے ساتھ بہت سی اعراض اور بہت سے مقاصد و البستہ ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہمیں نظر آتا ہے اور جن کا تعلق حقیقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی بعثت سے ہے.یہ آیات جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں جب ان کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں مندرجہ ذیل مقاصد نظر آتے ہیں جن مقاصد کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی از سرنو تعمیر کروائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نسل سے قریباً اڑھائی ہزار سال تنگ وہ قربانیاں لیتا چلا گیا.پتلی غرض وضِعَ لِلنَّاسِ میں بیان ہوئی ہے ، دوسری مُبر گائیں تیرے هُدًى لِّلْعَلَمِينَ میں ایک مقصد بیان ہوا ہے.چوتھے ایک بسنت ، پانچویں مقام ہوا یو تھے من وعمله لان امنا، سانوں والے عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ، آٹھویں جَعَلْنَ الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ ، لَویں دَامَنَّا ، دسویں واتَّخِذُوا مِن تمقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّ ، گیارھواں مقصد طبقر ابنتي میں بیان کیا گیا ہے، بارھواں مقصد طائفین کے لفظ میں ہے ، تیرھواں مقصد عکفین کے لفظ میں بیان ہوا ہے، چودھوال مقصد اللہ شعر السجود کے اندر بیان کیا گیا ہے.پندرھواں مقصورت اجمل هذ ابلنا ا ا مینا میں بیان ہوا ہے، سولھواں قصد
وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ میں بیان کیا گیا ہے ، سترھواں مقصد ربنا تقبل منا میں بیان ہوا ہے ، اٹھا ھوں مقصد السمیع کے اندر بیان ہوا ہے، انیسواں مقصد العلیم کے اندر بیان ہوا ہے، بیسواں مقصد و من ذُريَّتِنَا مَةَ مُسْلِمَةَ لَكَ میں بیان ہوا ہے، اکیسواں مقصد دارنا منا سگنا میں بیان ہوا ہے اور بائیواں مقصد وتب علين میں بیان ہوا ہے.اوتیسواں مقصد ربنا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ میں بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ وہ پہلاگھر جو الناس وضح کیا گیا ہے، بنایا گیا ہے نگر میں ہے.مختلف روایات اور قرآن کریم کی آیات میں جو مفہوم مختلف جگہوں میں بیان ہوا ہے اس سے میرے ہیں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جب ہمارے آدم کی پیدائش اور بعثت ہوئی دیکیں نے ہمارے آدم کے الفاظ اس لیے استعمال کیے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ لاکھ کے قریب آدم اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں جو آدم سے پہلے گزرے تھے.اُن کی اولاد میں سے بعض کو اولیائے امت نے اپنے کشف میں ایکھا بھی ہے جس کا انہوں نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے اُس وقت دنیا ایک مختصر سے خطہ میں آباد تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے سب انسانوں کے لیے اپنی حکمت کا ملہ سے آدم پر یہ وحی فرماکر یہ اللہ کی تعمیر کروائی، ایک گھر بنوایا اور اس گھر کو تمام بنی نوع انسان کے ساتھ متعلق کر دیا، جو اس آدم کی اولاد میں سے تھے.لیکن بعد میں جب نیل پڑھی او تھیلی اور دنیا کے مختلف خطوں کو انھوں نے آباد کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحانی اور ذہنی نشو ونما کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر قوم اور ہر خطہ میں علی علیحدہ نی پینے شروع کیسے اتا ان کوان راہوں پر چلانے کی کوشش کریں مین راہوں پر چل کر خداتعالی کا ایک بندہ اپنی استعداد کے مطابق معبودیت کی ذمہ داریوں کو نباہ سکتا ہے اور احادیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اس دنیا میں ایک لاکھ سے اوپر انبیاء گزرے ہیں، تو جس آدمی کی اولا و اس طرح منتشر اور متفرق ہوگئی تھی علیحد و علیحدہ قوم بن گئی تھی، جن کے اپنے اپنے نبی تھے انھوں نے اس گھر کی طرف توجہ دینی چھوڑ دی، جو خدا کا گھر اور تمام بنی نوع انسان کے لیے کھڑا کیا گیا تھا اور اس سے اس قدر بے توجہی برتی کہ حوادث زمانہ کے نتیج ہیں اور مرمت اور آبادی نہ ہونے کی وجہ سے اس گھر بیت اللہ کے نشان تک مٹ گئے، لیکن جب اللہ تعالی کا منشا پورا ہونے کا وقت آیا کہ پر تمام دنیا عالی این واحد تبع
کر دی جائے تو اللہ تعالی نے اس گھر کو ز سر نو تعمیر کرنے اور اس گھر کی حفاظت کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کی نسل کو وقف کر دینے کا فیصلہ کیا تا ایک قوم اس بیت اللہ سے تعلق رکھنے والی ایسی پیدا ہو جائے جن کے اندروہ تمام استعدادیں پائی جاتی ہوں جو اس قوم میں پائی جانی چاہئیں تو محمد رسول اللہ صل اللہ علہ وسلم اور قرآن کریمہ کی بھی مطالب ہو.چنانچہ اڑھائی ہزار سال تک عاؤں کے ذریعہ سے اور وقف کے ذریعہ سے ایک ایسی قوم تیار ہوئی جواگر خدا تعالیٰ کی بن جائے تو اس کے اندر تمام وہ استعدادیں پائی جاتی تھیں جن سے وہ روحانی میدانوں میں بنی نوع انسان کی راہ نمائی اور قیادت کر کے اور چونکہ یا تعدادی اور قوتیں اپنے ماں کو پینے کی تیں انکے غلط استعمال سے فتنہ عظیم ہیں یا ہوسکتا تھا.اس لیے جب تک وہ گمراہ رہے انھوں نے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی شدت سے مخالفت کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیکم کو اتنی ایذا پہنچائی کہ پلی کسی امت نے اپنے نبی کو اس سم کی ایذا نہیں پہنچائی.غرض ان کے اندر استعدادیں بڑی تھیں.ایک وقت تک وچ چھپی رہیں، ایک وقت تک شیطان کا ان تقبضد رہا لیکن جب دو سوئی ہوئی استعدادیں بیدار ہوئیں اور انھوں نے اپنے رب کو پہچانا تو دنیا نے وہ نظارہ دیکھا کہ اس سے قبل کبھی بھی نسان نے خداتعالی کی راہ میں اس قسم کی قربانیوں کا نظارنہیں دیکھا تھا.غرض یہ وہ قوم تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں اور ان کی دعاؤں اور ان کی نسل کی قربانیوں اور ان کی دعا کے نتیجے میں پیدا ہوئی.غرض وضعَ لِلنَّاسِ کا مفہوم حقیقی معنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.جیسا کہ تمام اغراض و مقاصد جو بیت اللہ سے متعلق ہیں وہ حقیقی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تعلق رکھنے والے ہیں.لیکن حضرت ابراہیم علی السلام و خداتعالی نے یہ بتایا تھاکہ میں ا گھر کی ہو یا گھر ہے زمیہ نوتعمیر ان اغراض کے پیش نظر کردار ہا ہوں اور اس کے لیے تمہیں قربانیاں دینی پڑیں گی.مرض پہلا مقصد جس کا تعلق بیت اللہ سے ہے یہ ہے کہ یہ بہت اللہ وہ سب سے پہلا خدا کا گھر ہے جس ملی نشانی نے تمام بنی نوع انسان کے دینی اور دنیوی فوائد رکھے ہوئے ہیں.وضح للناس یعنی تمام لوگوں کی بھلائی کے لیے اس کی تعمیر کی گئی ہے.یہاں سے دنیا کی اقوام بلا امتیاز رنگ بلا امتیاز نسل اور قطع نظر ان امتیازات کے جو ایک کو دوسرے
دوسری غرض بیت اللہ کی تعمیر سے یہ ہے کہ ہم اپنے اس گھر کو بیت اللہ کو ) مُبَارَكَاً بنانا چاہتے ہیں اور ماہو گا اُس مقام کو کہتے ہیں جو نشیب میں ہو اور اگر بارش ہو تو چاروں طرف کا پانی وہاں اگر جمع ہو جائے.چونکہ یہاں بارش کے متنوع ر اللہ تعالی بات نہیں کر رہا ، بلکہ انسان کی دینی اور دنیوی ترقیات اور بہبود کے متعلق بات ہو رہی ہے اس لیے یہاں مبارگا کے سنے دو ہیں.ایک یہ تمام اقوام عالم کے نمائند سے اس گھر مں جمع ہوتے رہیں گے اور دوسرے یہ کہ ہم نے بیت اللہ کو اس لیے تعمیر کروایا اوراسے معمر رکھنے آباد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے کہ یہاں ایک ایسی شریعیت قائم کی جائے گی، یہاں ایک ایسا آخری شریعت و الا نبی مبعوث کیا جائے گا کہ جس کی شریعیت میں تمام ہدایتیں اور روحانی صداقتیں جو مختلف اقوام کی شریعتوں میں تفرق طور پ پائی جاتی تھیں پھر کٹی کر دی جائیں گی ور کوئی ایسی صداقت نہ ہوگی جو اس تربیت سے باہر گئی ہو.پس فرمایا کہ روحانی لحاظ سے ہم اس بیت اللہ کو مبار کا بنانا چاہتے ہیں اور ہماری یہ عرض ہے کہ یہ تولد ہوگا ایک ایسی شریعت کا کہ تمام نبیاء کی شریعتوں میں جو باتیں متفرق طور پر پائی جاتی ہوں گی، وہ اس میں کٹھی کر دی جائیں گی اور اس کے ساتھ برکت بھی ہوگی یعنی وہ تمام چیزیں جو پہلوں کے لیے ضروری نہیں تھیں اور وہ انھیں برداشت نہیں کرسکتے تھے وہ صداقتیں بھی اس میں بیان ہوں گی اور ایک کامل اور مکمل شریعت ہوگی جو تمام اقوام کے فائدہ کے لیے قائم کی جائے گی اور یہ گھر جو ہے اور یہ بیت اللہ ، اس کامل اور کمل اور ابدی شرعیت کے لیے اُم القریٰ ٹھہرے گا.تیری غرض بیت اللہ کے قیام کی ٹھند می بلعلمین میں بیان کی گئی ہے.آپ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ ان آیات کے شروع میں بیان کیا گیا تھا وضع للناس کہ تمام دنیا، تمام اقوام اور تمام زمانوں کے لیے ہم اس گھر کو بنارہے ہیں تمام اقوام کے ساتھ اس کا جو تعلق ہے اس کو اللہ تعالی نے ان آیات میں بار بار و بلایا ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میری غرض اس گھر کی تعمیر سے یہ ہے کہ ھندی تعلمین تمام جہانوں کے لیے ہدایت کا موجب یہ بنے.لفظ ھدگی کے معنوں میں بھی عالمین کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کیونکہ عقل اور فراست اور علم اور معارف جو مشترک طور پر سارے انسانوں کا حصہ ہیں ان کو ہدایت کہتے ہیں.اس کے بغیر آگے روحانی علوم چل ہی نہیں سکتے، کیونکہ ہی میں مثلاً عقل نہ ہو وہ پاگل ہوگا
اس کو موقوع اعظم کہتے ہیں لینی اب اس کے اوپر شریعت کا حکم نہیں رہا، غرض معقل بنیاد ہے شریعت کی اور ان معانی کی جواس لفظ ہدایت کے اندر پائے جاتے ہیں میں اللہ تعالی نے ہاں یہ فرمایا کہ ہم اس ھرکے ذریعہ سے یہ ثابت کریں گے کہ تمام اقوام عام عقل کے لحاظ سے اور فراست کے لحاظ سے اور معارف کے لحاظ سے اور علوم کے لحاظ سے ایک میں قابلیت رکھتی ہیں کی تی ام کو اس لحاظ سے کسی دوسری قوم پر برتری نہیں ہے.اس میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ جس زمانہ میں حقیقت کھو گی تتعلمین کا جلوہ دنیا پر ظاہر ہوگا، یعنی بی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اس وقت بعض تو میں دنیا میں ایسی بھی پیدا ہو جائے گی جو یہ کہنے لگیں گی کہ ہم زیادہ عقل مند ہیں ہمار اندر زیادہ فراست اور علوم حاصل کرنے کی زیادہ قابلیت ہے اور بعض قومیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالی نے بنایا ہی اس غرض سے ہے کہ وہ ہماری محکوم رہیں.تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس گھر کے ذریعہ سے ہم ثابت کریں گے کہ اپنی عقل اور فراست اور بنیادی علوم کے لحاظ سے قوم قوم میں تمیز نہیں کی جاسکتی.اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور اس غرض کو حاصل کرنے کے لیے جس عقل کی ہیں فراست کی ، جن معارف کی اور جن علوم کی ضرورت تھی سب اقوام کو برابر دیئے ہیں یعنی اُن کے اندر برابر کی استعدادیں ہیں.فرد فرد کی استعداد میں تو فرق ہو سکتا ہے، لیکن کسی ایک قوم کو دوسری قوم پر برتری حاصل نہیں.دوسرے معنی ھدی للعلمین کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بیت اللہ کے مقام سے قرآن کریم کا نزول شروع کرنے گا.کیونکہ مفردات راغب میں ہے کہ ہدایت کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ آسمانی ہدایت کہ جس کی طرف اللہ تعالی نے انبیاء کے ذریعا اور پھر قرآن کریم کے نزول کے ساتھ بنی نوع انسان کو گا یا ہو گا دھر آؤ یہ ہدایت کے راستے ہیں، ان پر چلو تب تم مجھ تک پہنچ سکتے ہو.تو ہدایت کے معنی میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلے تمام انبیاء ایک سے شریک ہیں لیکن ھدی تعلمین کے معنی حقیقی طور پر سوائے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے اور کسی نبی پر چسپاں نہی ہوتے کیونکہ باقی تمام انبیاء اپنے زمانوں اور اپنی اقوام کی طرف مبعوث کیے گئے تھے.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے رخت فرمایا کہ یہ بیت اللہ قرآن کریم کے نزول کی جگہ ہے یہاں سے قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوگا.اس مرض سے ہم اس کی خلقت
کر رہے ہیں اور اس کی تطہیر وغیرہ کا سامان پیدا کر رہے ہیں.هدی تلین کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بیت اللہ ایک ایسا مقام ہے کہ یہاں اس شرحیت کی ابتدا ہوگی جو انسان پر غیر متناہی ترقیات کے دروازے کھولے گی، کیونکہ ہدایت کے تیسرے معنی امام راغب کے نزدیک یہ ہیں کہ ایک شخص جب ہدایت کی راہوں پر چل کر بعض اعمال صالحہ بجالاتا ہے تواللہ تعالی اپنے فضل سے اس کو مزید ہدایت کی توفیق عطا کرتا ہے ، تو ہر عمل صالح کے نتیجہمیں بہتراورجو اللہتعالیٰ کو بہت زیادہ محبوب عمل صالح ہے اس کی توفیق اس کو مل جاتی ہے بین تدریجی طور پر انسان کو روحانی ترقیات کے مدایح پر چڑھاتی چلی جائے گی اور اس امت پر اس کے ذریعہ سے فریقین ہی ترقیات کے دروازے کھولے جائیں گے اور پھر یہ فرمایا کہ بیت اللہ کے قیام کی مرض یہ ہے کہ ھدی العلمین سے راپنے چوتھے معنی کے لحاظ سے ایک ایسی امت مسلمہ پیدا کی جائے گی جس کو اللہ تعالٰی کے وہ انعامات میں گے جو ان سے پہلے کسی امت کو نہیں ملے اور قیامت تک بنی نوع انسان کو اس قسم کے کامل اور اکمل اور مکمل ثواب اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی جیتیں متی چلی جائیں گی کیونکہ ہدایت کے چوتھے معنی امام راغب نے یہ لکھے ہیں، انھہ اس کے نیچے الأخرة إلى الجنة.چونکہ اُن کے نزدیک صرف آخرت میں ہی جنت ملتی ہے اس لیے انھوں نے " في الاخرة کے الفاظ میرے نزدیک) اپنے اس عقیدے کی وجہ سے زائد کردیئے.ورنہ لغوی لحاظ سے اس کے یہی معنی ہیں : الهداية إلى الجنة لمنی میں غرض کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے ، وہ غرض اُسے حاصل ہو جائے گی ، تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ یہ جنت صرف اُخروی زندگی میں ہی نہیں بلکہ اس دنیوی زندگی میں بھی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا تھا کہ بیت اللہ کو ہم اس لیے کھڑا کر رہے ہیں اور اس کی حفاظت کے ہم اس لیے سامان پیدا کر رہے ہیں کہ یہاں ایک ایسی امت جنم لے گی کہ جو ثواب اور جزا ان کو ملے گی اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جو نیت ان کے نصیب میں ہوگی اورپہلی قوموں کے نصیب میں نہیں ہوئی ہوگی یعنی بہترین نیروی انسانی مصالح عمل کا نکل سکتا ہے وہ اس امت کے اعمال کا نکلے گا کیونکہ جو شرعیت اُن کو دی گئی ہے وہ ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہے.پہلوں کی شریعتیں چونکہ نسبی طور پر ناقص تھیں اگران پرپورے طور پر مل بھی کیا جاتا توان کا نیت و عقلا بھی وہ نہیں نکل سکتا تھا جو نتیجہ اس عمل کا
نکل سکتا ہے جو ایسی شریعت کے مطابق ہو جو پورے طور پر کامل ہو تو اللہ تعالی نے یہاں یہ فرمایا کہ ھندی تلعالمین اس گھر سے جس عالمگیر شریعت کا چشمہ پھوٹے گا اس پر عمل کرنے کے تو میں انجانہ ایک کامل جنت انسان کو ملے گی اس دنیا میں بھی، اور اخروی دنیا میں بھی پس تیری غرض رجو آگے بعض ذیلی اغراض میں تقسیم ہو جاتی ہے، بیت اللہ کے قیام کی ھدی تِلْعَلَمِینَ ہے.چوتھا مقصد اس گھر کی تعمیر کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ وفایت بسنت ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم قربا ہے کہ قرآن کریم خاص قسم کی آیات بینات کا وعدہ انسان کو دیتا ہے یا ان کے متعلق میشنگوئیاں بیان کرتا ہے تو یہاں میرے نزدیک آیات بینات کے عام معنی نہیں ہیں بلکہ یہاں وہ آیات بینات مراد ہیں جو اس پہلے گھر سے تعلق رکھتی ہیں، جود ضع لِلنَّاسِ ہے.جو مُبارگا ہے، اور جوهدی للعلمین ہے.اس مفہوم کے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا بینم ایک بسنت اور اس کے معنی یہاں یہ میں ک اس گھر سے تعلق رکھنے والی ایسی آیات اور مقنیات ہوں گی اور یہ گھر ایسے نشانات اور تائیدات سمادی کا منبع بنے گا جو ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں گی جو آیات اور بنیات پہلے انبیا ء یا اُن کی قوموں کو دی گئیں وہ اپنے اپنے وقت پرختم ہو گئیں اور پہلی امتوں میں سے ہر ایک نے کوئی نہ کوئی منطقی و غیر تستی بخش دلیل ڈھونڈ کر یہ دعوی کر دیاکہ اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق قائم نہیں ہو سکتا کہ انسان اس کے قرب کو ، اُس کی وحی کو ، پیچھے رویا اور کشوٹ کو اور آیندہ کے متعلق پیشگوئیوں کو حاصل کر سکے تو قرب کے ان دروازوں کو پہلی ہر امت نے اپنے پر بند کر لیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک ایسی امت مسلمہ کا قیام بیت اللہ کی تعمیر سے مد نظر ہے کہ قیامت تک اُن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے نشانات ظاہر ہوتے رہیں گے اور اپنے نشانات اور استجابت دعا اور قربانیوں کا دنیا میں پھل پانے کے نتیجہ میں وہ امت دنیا پر یہ ثابت کرتی رہے گی کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک زندہ خدا ہے.ایک طاقتور خدا ہے.وہ بڑا رحم کرنے والا اور پیار کرنے والا خدا ہے.وہ ایسے بندوں کو جو اس کے سامنے جھکتے ہیں ضائع نہیں کرتا بلکہ اُن سے تعلق کو وہ قائم کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اُن کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے اور دنیا کو یہ بتانے کے لیے کہ یہ میرے محبوب بندے ہیں وہ ان پر وحی کرتا ہے.کشوف و رویا انھیں دکھاتا ہے.وہ ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے
اور ایسے بندے اس امت میں پیدا ہوتے رہیں گے، جو قیامت تک یہ ثابت کرتے رہیں گے کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے آبات بقنیات کو حاصل کرتے ہیں.پانچویں غرض جس کا تعلق بہیت اللہ سے ہے اللہ تعالی نے یہ بیان کی ہے کہ یہ مقام ابراہیم ہے.یہاں اللہ تعالٰی نے یہ فرمایا کہ دیکھو ہمارے بندے ابراہیم علیہ السلام) نے اور بہتوں نے اس کی نسل میں سے انقطاع نفس کر کے اور تعشق باللہ اور محبت الہی میں غرق ہو کر سچے عاشق اور محبت کی طرح اسلَمُتُ لِرَبِّ الْعَلَمِینَ کا نعرہ لگایا اور دنیا کے لیے ایک نمونہ بنایا.ہم نے اس بیت اللہ کی آبادی کا اس لیے انتظام کیا ہے کہ اس کے ذریعہ عشاق الہی کی ایک ایسی جماعت پیدا کی جاتی رہے جو تمام حجابوں کو دور کر کے اور دنیا کے تمام علائق سے منہ موڑ کر خداتعالی کے لیے اپنی مرضات سے نگے ہوکر اور تمام خواہشات کو قربان کر کے فنافی اللہ کے مقام کو حاصل کرنے والے ہوں اور اس عبادت کو احسن طریق پر اور کامل طور پر ادا کرنے والے ہوں جس کا تعلق محبت اور اشتہار سے ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ عبادت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک وہ عبادت ہے جو ند گل اور انکسار کی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے اور ایک وہ عبادت ہے جو محبت اور ایثار کی بنیا دوں پر قائم ہے.ہماری نماز جو ہے یا اس قسم کی عبادت ہے جو ند گل اور انکسار کے مقام پر کھڑی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز رہا ہے اور دعا کے لیے انتہائی تیل اور انکسار کو اختیار کرنا ضروری ہے جس شخص کے دماغ میں اپنے رب کے مقابلہ میں ایک ذرہ بھی تکبر ہو اس کی دعا کبھی قبول نہیں ہوسکتی پس ہماری نمازیں صرف اس صورت میں عبادت بنتی ہیں کہ جب وہ حقیقتاً تذلل اور انکسار کے مقام پر کھڑی ہوں.اس کے مقابلہ میں دوسری عبادت وہ ہے جو محبت اور ایثار کی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی یہ عبادت جس کا تعلق تعمیر کعبہ سے ہے جس کا تعلق حفاظت کعبہ سے ہے اور جس کا تعلق بیت اللہ کے لیے خود کو اور اپنی اولاد کو وقف کر دینے کے ساتھ ہے اور اس کے لیے دعائیں کرنے کا تعلق ہے یہ محبت والی عبادت ہے اور خدا تعالی کی محبت اور خدا تعالیٰ کے عشق کا جو مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے کیا وہ عدیم المثال تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مقام ابراہیم ہے اس مقام سے ہم ایک ایسی امت پیدا کریں گئے ہو
لاکھوں کی تعدادمیں ہوگی اور ہرزمانہ میں پائی جائے گی اور اس امت کی قربانی کا گر تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کے ساتھ مقابہ کرو گے تو اس کو ان سے کہ نہیں پاؤ گے.نبی کریم صل اللہ عیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اس قوم نے پیدا ہونا تھا لیکن اس قوت قدسیہ کے جو اثرات میں " ان کودنیا میں موثر طریق پر پھیلانے کے لیے قریباً اڑھائی ہزارسال سے خانہ گھر کی بنیاد امیر کو کی گئی تھی تو یہاں نیویا که ظام کی شکل تھی کے ارکان کی، اس عبادت کی خود ہی ایسی ہے جس کا تعلق محبت سے ہے.لشکر طواف کرتا ہے.اب تخیل قریباً ساری اقوام میں پایا جاتا ہے کہ جب کسی کے لیے جان کی قربانی دینا ہو تو اس کے گرد گھومتے ہیں.ہمارے بعض بادشاہوں کے متعلق بھی آتا ہے کہ ان میں سے کسی کو بچہ بھیار تھا.اس نے اس کا طواف کیا اور دعا کی کہ میری زندگی اس کو مل جائے پیس جان قربان کرنے کا بت تخیل ہے وہ طواف کے ساتھ گہراتعلق رکھتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ یہاں سے ایک ایسی قوم پیدا کی جائے گی جو ہر وقت اپنے محبوب کے گرد گھومتی رہے گی اور اس کے آستانہ کا جو یتی رہے گی.ایک طرف و حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی یا کوتازہ رکھنے والی ہوگی اور دوسری طرف وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کو نہایت شان کے ساتھ ظا ہر کرنے والی ہوگی.اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی ایک قوم پیدا کردی صرف پہلے زمانہ میں ہی نہیں.صرف عرب میں بسنے والوں میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں اور قیامت تک ہر زمانہ میں جو برا نہیں عشق اور جوابا ہمیں مثبت اپنے رب کے لیے رکھیں گے وہ اس کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں دینے والے ہوں گے." ر منقول از روزنامه الفضل ربوه مورخه ۲۳ را سپر
بیت اللہ کی تعمیر کے ساتھ تعلق رکھنے والے مقاصد بعثت سے گہراتعلق ·194.خطبه جمعه فرموده ۱۷ اپریل ۱۹۶۷مه بمقام مسجد مبارک ریبوه
اللہ تعالے نے ایک گھر تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے بنایا ، مگر انھوں نے اس کی عظمت کو نہ مانا تو یہ ہوا کہ وہ برباد ہو گیا اور اس کا نام نشان مٹ گیا.پھراللہ تعالی نے اپنی وحی کے ذریعہ نشان دہی کر کے حضرت براہیم علیہ اسلام کے ذریعہ سے اسے ازسر نو تعمیر کروایا اور اس کی حفاظت کے لیے اور اس کی عظمت کے قیام کے لیے انتظام کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام اپنی اولا د کواس خانہ خدا کی خدمت کے لیے وقف کریں.چنانچہ آپ کی اولا دایک لمبا عرصہ اس خدمت پر لگی رہی اور دو ہزار پانچی صد سالہ خدمت اور دعاؤں کے نتیجہ میں وہ قوم تیار ہوئی، جو کامل اور مکمل اور عالمگیر شریعت کی زمہ داریاں کے بارگراں کو اٹھانے کی قوت اور استعداد اپنے اندر رکھتی تھی.
تشهد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی : مجھے مجھے ان اولَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَةٌ مُبْرَكًا وَهُدًى للْعَالَمِينَ فِيهِ التَ بَيِّنْتُ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَهُ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ أَمِنًا وَلِلهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ ) (آل عمران : ۹۰-۹۸) وإِذْ جَعَلْنَا البَيْتَ مَثَابَةَ لِلنَّاسِ وَلَمَنَا وَاتَّخِذُ وَامِن مَّقَامِ إبْرَاهِيمَ مُصَلَّ وَعَهِدْ نَا إِلَى ابْرُهم وَ إِسمعيل أن ظهرا بيْتِى لِلطَّابِفِينَ وَالْخَفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ وَ إِذْ قَالَ إبراهمُ رَبِّ اجْعَلْ هُذَا بَلَدًا مِنَّا وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرُ قَالَ وَ مَنْ كَفَرَفاً مَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ اضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُه وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَ إسمعيل ربَّنَا تَقَبَّلْ مِنّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُه رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَكَ.وَارِنَا مَنَا سَكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمة
اور فرمایا : رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ابْتَكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَ كَيْهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) القروع ها) ایک اہم موضوع پر میں بعض خطبے پڑھ پکا ہوں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک گھر تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے بنایا مگر انھوں نے اس کی عظمت کو پہچانا.نتیجہ یہ ہوا کہ ہ برباد ہو گیا اور اسی نام استان ہٹ گیا.پھراللہ تعالی نے اپنی وحی کے ذرایعہ نشان دہی کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذرایع سے اسے از سر نو تعمیکو ایا اور اس کی حفاظت کے لیے اور اس کی عظمت کے قیام کے لیے یہ نظام کیاکہ حضرت امام علی اسلام اپنی اولاد کو سر از خدا کی خدمت کے لیے وقف کریں چنانچہ آپ کی اولا د ایک لمبا عرصہ اس خدمت پر لگی رہی اور دو ہزار پانصد سالہ خدمت اور دعاؤں کے نتیجہ یں وہ قوم تیار ہوئی جو کامل اور کتل اور عالمگیر شرعیت کی ذمہ داریوں کے بار گراں کو اٹھانے کی قوت اور استعداد اپنے اندر رکھتی تھی.پھر یں نے بتایا تھا کہ یہ آیات جن کی نہیں نے تلاوت کی ہے ان میں اللہ تعالی نے ان میں اغراض و مقاصد کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق تعمی بیت اللہ سے ہے اور ان تمام مقاصد کے حصول کا تعلق بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ان اغراض میں سے پانچ کے متعلق میں نے گذشتہ خطہ میں آپے سنتوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا.اول یہ کیہ گر وضع النا میں تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے تعمیر کروایا جارہا ہے.دوسرے یا کہ میر کا اس کے اندر مبارک ہونے کی صفت پائی جاتی ہے.مادی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی تیسرے یہ ک هندی بالعلم ان تمام بیانی کے لیے اسے ہم موجب ہدایت بنانا چاہتے ہیں اور ہدایت کے ہر چہار معنی کی بو سے اسے اللہ تعالیٰ نے عالمین کے لیے ہدایت کا مرکز بنایا ہے.چوتھے یہ کہ فیه ایت بیست، یعنی آسمانی نشانات کا ایسا سلسلہ یہاں سے جاری کیا جائے گا، جو قیامت تک زندور ہے گا اور ایک ایسا چیتر آسمانی تائید کا یہاں سے پھوٹے گا جو کبھی خشک نہیں گیا اور پانچویں مقام ابراہیم کے الفاظ میں یہ بتایا کہ وہ عبادت جو محبت اور ایثار کی بنیادوں پر استوار کی باتی
ے اس عبادت کا مرکزی نقطہ ہوگا اورایک قوم و نمایندہ ہوگی تمام قوام اور نام نہ ہو یہ زمانہ کی پیدا کی جائے گی ، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو اللہ تعالے کے گناہ سوز مشق ے سرشار ہوگی اور اعلی کے قرب کی امی اس پیش کی ہیں یا به پانچ مقاصد تھے جن کے تحتی میں نے گذشتہ جمعہیں تفصیل سے بیان کیا تھا کیونکہ مجھے ان مقاصدمیں سے ہر اک کی طرف متعلق پھر واپس آتا ہے یہ ثابت کرنے کے لیے کان میں سے ہر ایک کا تعل نہیں کی الی الا علی ایم کی بہشت سے ہے اور یہ کہ وہ کسی ای او ہیں شکل میں حاصل ہوا.اس لیے آج میرا ارادہ یہ ہے کہ میں بڑے ہی اختصار کے ساتھ ان مقاصد کو بیان کروں اور کوشش کروں تزيين المقاصد میں سے جو باقی رہ گئے ہیں ان سب کو آج کے خطہ میں بیان کردوں، آگے جو خدا کو منظور ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَن دَخَلَه كان امنا بیت اللہ کی تعمیر کی چھٹی غرض یہ ہے کہ جو بھی اس کے اندر داخل ہوگا میں برو شخص جو ان عبادات کو بجالائے گا جن کا تعلق بہیت اللہ سے ہے دنیا اور آخرت کے جہنم سے وہ خدا کی پنا ہیں جان گیا اور اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے.پس چھٹی غرض بیت اللہ کی عمر کی یہ ہے اللہ کا ایک ایسا گھر بنایا جائے میں کے ساتھ بعض عبادات تعلق رکھتی ہوں اور جو شخص بھی خلوص نیت کے ساتھ اور کامل اور مکمل طور پر ان عبادات کو سجا لائے گا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اس کے تمام پچھلے گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا اور امام ہم سے وہ محفوظ ہو جائے گا.ساتویں غرض بیت اللہ کی عمر کی اللہ تعالی نے ہاں یہ بتائی ہے کہ ولله على الناس حج البيت حضرت ابراہیم علی السلام کی ادوار و یا اہل عرب پر بھی یہ فرض نہیں کہ وہ بیت اللہ کاحج کریں بلکہ بیت اللہ کی تعمیر کا اصل مقصد تویہ ہے یا تو ہر عنایت اللہ کر حج کے لیے اس مقام پر جمع ہوں میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام اغراض و مقاصد حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو بیت اللہ کی تعمیر کے پر وقت ہی بتا دیئے گئے تھے جیسا کہ بہت سے قوی قرائن اس کے متعلق قرآن کریم سے ملتے ہیں، غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرا ہیم السلام کی کیاکہ یہ خداتعالی کا ایک ایسا گھر ہے کہ تمام قوام عالم جومجھ پر ایمان لائیں گی اور میرے رسول پر بھی ایمان لائیں گی پر خاتم انبیین وعلی اللہ علیہ علم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر میری اطعت کا جو اپنی گردنوں پر رکھیں گی ان کے لیے حج بیت اللہ فرش قرار دیا جائے گا اور اس طرح اس جگہ کو مرجع خلائق اور مرجع عالم بنا دیا جائے گا.
آٹھویں عرض یا آٹھواں مقصد بیت اللہ کی عمر کا یہ بتایا کہ یہ مشابہت ہے.اس لفظ میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ دنیا ی اقوام فرقہ فرد ی گئی ہیں اورجس وقت یہ فرد بندی اپنی امت کو پہنچ جائے گی اس وقت ایک ایسا سوں مبعوث کیا جائے گا جو بیت اللہ کی اس غرض کو پوراکرنے والا ہو گا اور ان متفرق اقوام کو ایک رات پہلا ہی کرے گا.وہ سب کو علی دین کا یہاں لے آئے گا پس بیاں بتایا کہ با وجود اس کے کہ تفرقہ ایک وقت پر اپنی انتہاکر پہنچ جائے گا اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ اس وقت ایک ایسے رسول کو مبعوث فرمائے ہو تمام اقوام کو اُمَّةً واحد لا بنا دے.نوان مقصد یہاں یہ بیان کیا کہ آشنا یعنی یہ گھر جو ہے یہ آمنا لنا ہی ہے.یہاں اس کے معنی ہیں کہ ہم نے اپنے اس گھر کو ایسا بنانا چاہا ہے کہ اس کے ذریع اور صرف اس کے ذریع دنیا کو ان نصیب ہوگا.کیونکہ صرف یہ ایک گھر ہو گا جسے بیت اللہ کہا جاسکتا ہے اس کو چھوڑ کر دوران تعلیموں کو نظرانداز کر کے جن کا تعلق اس گھر سے ہے دنیا کی کوئی تنظیم امن عالم کے لیے کوشش کر کے دیکھ لے وہ کبھی اس میں کامیاب نہیں ہو گی تحقیقی امن دنیا کو صرف اس وقت اور صرف اسی تعلیم پر عمل کرنے کے فیتو میں لا سکتا ہے جو تعلیم رونی دنیا کے سامنے پیش کرے گا جو خانہ کعبہ سے کھڑا کیا جائے گا.اخن کے ایک دوسرے معنے کے لحاظ سے آمنا لن اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا روحانی طور پر اطمینان قلب صرف کی منتظمہ اور صرف اس آخری شریعت کے ساتھ پختہ تعلق پیدا کرنے کے تیور یں حاصل کر سکے گی جو آخری شریعت مگر میں ظاہر ہوگی اور تمام اقوام عالم کو پکار رہی ہوگی اپنے رب کی طرف.اور چونکہ اطمینان قلب مہرانسان کو اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس کے فطری تقاضوں کو د تعلیم پوراکرنے والی ہو اوراللہ تعالیٰ نے انسان کے اندرجتنی قوتیں اور استعدادیں پیدا کی ہیں ان سب کی راہ نمائی اور وانا کرنے کے قابل ہو یس یا ای ارایا کہ کارگر ہوا ایک ایسی ای او و یو پر دنیا کا امینان قلب پہنچانے والی ہوگی ہر دو معنی یہاں چسپاں ہوتے ہیں.ایک تویہ کہ دنیا کو اگر ان نصیب ہو سکتا ہے تو وہ مکہ کی وساطت سے.دوسرے یہ کہ دنیا کی ارواح اگر اطمینان قلب حاصل کر سکتی ہیں دنیا کی عقلی گرفتی پاسکی ہیں صرف اس تعلیم کے تیو می جنگ میں نازل ہوگی.و ستویں غرض اور دسواں مقصد ان آیات میں خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ اتَّخَذُوا مِنْ تَمَقَافِ إبْرَاهِيمَ مُصَلَّی اس سے پہلی ایک آیت میں مَقَامُد ابراھیم کا ذکر تھا.اس سے مراد یہ تھی کہ یہ مقام ایسا گھر ہے
19 جہاں بنیاد ڈالی گئی ہے اس حقیقی عبادت کی جو محبت اور ایثار و عشق النی کے شہر سے بند ملتی ہے اور اتخذوا من مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّی میں اُس عبادت کا ذکر ہے جو نذ تل اور انکسار کے منبع سے پھوٹتی ہے.مرض اللہ تعالی نے یہاں فرمایا کہ بیت اللہ کی تعمیر کی ایک فرض یہ ہے کہ ایک ایسی قوم پیدا کی جائے جو نہ مل اور انکسار کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرنے والی ہو.اور جو نذ تل اور انکسار کی عبادت کے لیے حضرت ابراہیم علیہ اسلام....کے مقام کے ظل ساری دنیا میں قائم کرے.اور اشاعت اسلام کے مراکز کو قائم کرنے والی ہو.گیارویں غرض تعمیر بیت اللہ کی یہ بیان کی گئی ہے کہ عبقری اور اس میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کا منشا یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو ظاہری صفائی اور باطنی طہارت کا سبق سیکھنے کے لیے ساری دنیا کے لیے بطور ایک جامد اور یونیورسٹی اور ایک مرکز کے بنایا جائے.بارھویں غرض تیری کمی کی یہ بتائی گئی ہے کہ با گل افشین یعنی اقوام عالم کے نمایندے بار بار یہاں جمع ہوا کریں گئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے قریباً اڑھائی ہزار سا پہلے یہ بتایا تھاکہ تمام اقوام عالم کے نمایندے باربا یہاں آئیں گے طواف کرنے کے لیے بھی اور دوسری ان اعراض کے پورا کرنے کے لیے بھی بن کا تعلق خانہ کعبہ سے ہے.تیرھواں مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ دالحکیفین.خانہ کعبہ اس غرض سے از میر تو تعمیر کروایا جارہا ہے کہ اس کے ذریعہ سے ایک ایسی قوم پیدا کی جائے جو اپنی زندگیاں خدا تعالی کی راہ میں وقف کرنے والے ہوں اور اس طرح بیت الله کے مقاصد کو گورا کرنے والے ہوں.چودھواں مقصد یہاں یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالے چاہتا ہے کہ والش گیر السجود ایک ایسی قوم پیدا کی جائے جو توحید باری پر قائم ہو اور جو اللہ تعالی کی اطاعت اور فرمانبرداری سے اپنی زندگیوں کوگزارنے والی ہو.پندرھواں مقصد یہ بیان ہوا ہے کہ بد امنا.امن کا لفظ ان آیات میں تین مختلف مقاصد کے بیان کے لیے اللہ تعالی نے استعمال کیا ہے.یہاں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم اس گھر کو دنیا کے ظالمانہ حملوں سے اپنی اپنا ویر یکھیں گے اور کوئی ایسا محمد جو خانہ کعبہ کومٹانے کے لیے کیا جائے گا وہ کامیاب نہیں ہوگا بلک مل اور تباہ و برباد کرکے رکھ دیا
جائیں گے تا دنیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کہ وہ نبی جسے ہم یہاں سے مبعوث کرنا چاہتے ہیں وہ بھی خدا تعالی کی پناہ میں ہوگا اورنیا * کی کوئی طاقت اس کی ذات کو ہلاک یا اس کے مشن کو نا کام نہیں کر سکے گی اوتا دنیای بی نتیجہ نکالے کہ جو رعیت ہی معصوم کو دی جائے گی وہ ہمیشہ کے لیے ہوگی اور خدا تعالیٰ اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوگا.سولھویں غرض جو خانہ کعبہ سے وابستہ ہے وہ یہ ہے کہ کا زرق أَهْلَهُ مِنَ الشَّهَوَاتِ.اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتا یا کہیں بیت اللہ و از سر نو تعمیر کروا رہا ہوں اس غرض سے بھی کر تا بیت اللہ اور اس کی برکات کو دیکھ کر دنیا اس نیتی پر پہنچے کہ جولوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے پرموت وارد کرتے ہیں اور اس کے ہو کر اس کی راہ میں قربانی دینے ہیں اور دنیا سے کٹ کر صرف اسی کے ہو رہتے ہیں ان کے اعمال ضائع نہیں ہوتے بلکہ شیریں پھیل انھیں ملتا ہے اور عاجزاً اور عاشقانہ اعمال کے بہترین نتائج ان کے لیے مقدر کیے جاتے ہیں.ستمر ھویں غرض بیت اللہ کے قیام کی یہ بتائی کہ ربنا تقبل منا یعنی بیت اللہ کی تعمیر کی ایک غرض یہ ہے کہ تا دنیا یہ جانے اور پہچانے کہ روحانی رفعتوں کا حصول دعا کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے.جب دعائیں انسان کا تضرع اور ابتهال انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور موت کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تب فضل الہی آسمان سے نازل ہوتا ہے اور معرفت کی راہیں بندہ پر کھولی جاتی ہیں.مرض اللہ تعالی نے یہاں بیت اللہ کے قیام کی غرض بتائی کہ یہاں ایک ایسی قوم پیدا ہوگی جودھا اپنی تمام شرائن کے ساتھ کرے گی اور دعامیں اُن پر ایک موت کی سی کیفیت وارد ہوگی اور ان کا وجود کلیت فنا ہو جائے گا اور پانی کے آستانو رب پر یہ کھلے گا اور وہ جانتے ہوں گے کہ ہم اپنے اعمال کے بنیتو میں محض اعمال کے بقیہ میں کچھ ہی نہیں کرسکتے جب تک ہم دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب نہ کریں، اس لیے انتہائی قربانیاں دینے کے بعدبھی وہ اپنی قربانی کی کچھ چیز نہ کھیں گے اور ہر وقت اپنے رب سے ترساں اور لرزاں کریں گے اور انتہائی قربانیوں کے باوجود ان کی دعا ہو گی که تو کچھ ہم تیرے تصور پیش کر رہے ہیں وہ ایک حقیر سا تحفہ ہے تیری شان تو بہت بلند ہے اور ہم سجھتے ہیں ک تیرنے مصور ہمارا یہ تحفہ قبول ہونے کے لائق نہیں، لیکن تو را رحم کرنے والادت ہے بہالے اس قدر نفر کو قبول فرما اور بہاری غفلتون تو بڑا الله
اور ہماری حقیر سائی کو سیم منفرت سے دیکھا اور رحمت کے سامان پیدا کر تا کہ ہماری ساحلی اور کوششیں تیرے منصور قبول ہو جائیں.غرض است قسم کی قوم پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالی نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھیں.اللہ تعالی فرماتا ہے کہ خانہ کعبہ کی ز سر نو تعمیر سے اٹھارھواں مقصد یہ ہے کہ دیا یہ جانے کہ جولوگ ضد تعالی کے حضور اس رنگ میں دعائیں کرتے ہیں وہی ہیں جو اپنے رب کی صفت سمیع کا نظارہ دیکھتے ہیں اورپھر دنیا دکھتی ہے کہ ہمارا رب جو ہے وہ مسلنے والا ہے.وہ تمہاری دعاؤں کو سنتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری دعاؤں کو ستا پن یا کبیر کے قیام کے نتیجہ یں خدائے جمع کی معرفت دنیا حاصل کرے گی.ائیسواں مقصد یہ ہے کہ دنیا اس کے ذریعہ سے خدائے علیم کی معرفت حاصل کرے گی.یہ نہیں ہوگا کہ بندہ نے اپنے علم ناقص کے نیت میں جو دعا کی اسے اللہ تعالی نے اسی جنگ میں قبول کر لیا کہ بندہ دعا کرے گا اور دعا کو نہ ایک پرانے و تو اس کا رب اس کی دعا کو سنے گا اور قبول کرے گا، گر قبول کرے گا اپنے علی نیب کے تقاضا کو پورا کرتے ہوئے پین میں انگ میں وہ دعائیں قبول ہونی چاہئیں اس رنگ میں بعض دعاؤں کا رد ہو جانا یا بعض دعاؤں کا اس شکل میں پورا نہ ہوتا ہی تنگ میں کہ وہ کی گئی ہیں یہ ثابت نہیں کرے گا کہ خدا اس میں نہیں ہے یا قادر نہیں ہے بلکہ وہ یہ ثابت کرے گا کہ خدا تعالیٰ ہی کی ذات علام الغیوب ہے.تو خانہ کعبہ کی بنیاد اس لیے رکھی گئی کہ خداتعالی کے بندے خدائے علیم سے متعارف ہوائیں اور اس کو جاننے لگیں اور بجانے لگیں.بیسویں غرض یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ ومِن دُنَا أُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ لَكَ يعنى من مسلر جاری ذریت میں سے بنائیں.اللہ تعالی نے یہاں یہ بتایا ہے کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ جس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف سبورت ہوں تو آپ کی قوم امة مسلمة بنے کی اہمیت رکھتی ہواور اب انہیں دعاؤں کے نیت ہیں وہ امت مسلہ بن بھی جائے گی اوراس کے یہی نہیں کہ دینی ہی کا وعدہ دیاگیاہے کہ وہ گرمی پیا ہوگا گرم د ا کرتے ہوکہ اے خدا ماری اور بہاری نسلوں ک کسی غفلت اور کوتاہی کے نی میں کہیں ایسانہ ہوکہ تیرے نزدیک ہم اس قابل نہ رہیں کہ وہ وعدہ ہائے ساتھ پورا ہو کہ کسی اور قومی نبی مبعوث ہو جائے توفرمایا میری اولاد کو ہی امت مسلمہ بنانا.پہلے مخاطب ہی ہوں اور سب کے سب قبول کرنے والے بھی دہی ہوں.وه
پس یہاں یہ بتایا ہے کہ وہ امت جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام) کی ذریت سے پیدا ہونے والی ہے وہ امت مسلمہ بنے.اُس نبی کا انکار نہ کرے.اس نبی پر ایمان کر جو ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر پیریں وہ ان کو سہانے کی قوت اور استعداد رکھنے والی ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کو ایسی ہی قوم بنانا چاہتے ہیں اور اسی غرض سے ہم نے خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر کروائی ہے.اکیسواں مقصد بیان یہ بیان فرمایا کہ آرینا منا بننا اس میں اس طرف اشار فرمایا کہ کا منظر سے ایک ایسا آی پیلا ہوگا جو دنیا کی طرف اس وقت آئے گا جب وہ اپنی روحانی اور ذہنی نشو و نما کے بعد ایسے مقام پر ہی چکی ہوگی کہ وہ کامل اور مکمل شریعیت کی حامل بن سکے.ایسی شریعت جس میں پہلی شریعتوں کے مقابلہ میں لچک ہو.ایسی شریعت جس میں مناسب حال عمل کنے کی تعلیم دی گئی ہو اور اسی شریعت جو ہر قوم اور ہرزمانہ کی ضرورتوں کو پول کرنے والی ہو.اینا منا سکتا ہمارے مناسبال کو کام اور جو عبادتیں ہیں جو ذمہ داریاں ہی وہ ہمیں دکھ اور کھا یعنی قرآنی شریعت کو ہم پر نازل فرما پس آرنا منا سکتامیں یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ رسول آئے گا اس کا تعلق دنیا کی ساری اقوام سے ہوگا اور بہترین سے ہو گا اس دعا کرتے رہو کہ اسے ہمارے رب ! قوم قوم کی ضرورتوں اور طبیعتوں میں فرق اور زمانہ زمانہ کے مسائل میں فرق کے پیش نظر شریت اسی کامل اور قتل کیا کہ جوہر قوم کے فطری تقاضوں کو پوراکرنے والی ہو اور ہر زمانہ کے مسائل کو سلجھانے والی ہو.....قیامت تک زندہ رہنے والی ہو تا جس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی ہے وہ پوری ہو...بائیسویں غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ تب تعلمنا.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو آخری شریعیت بیاں انیل کی جائے گی اس کا بڑا گر اتعلق رب کو اب سے ہوگا اور اس شریعیت کے پیڑ اس حقیقت کو پہچاننے والے ہونگے کہ توبہ اور مغفرت کے بغیر معرفت کا حصول ممکن نہیں ہے اس لیے وہ بار بار اس کی راہ میں قربانیاں بھی دینے والے ہوں گے اور بار با اس کی طرف رجوع بھی کرنے والے ہوں گے اور کہیں گے کہ اے خدا ! ہماری خطاؤں کو معاف کر دے.وہ ایسی قوم ہوگی کہ جو نیکی کرنے کے بعد بھی اس بات سے ڈر رہی ہوگی کہ کہیں ہماری نیکی ہی کوئی ایسا رخنہ نہ رہ گیا ہوئیں سے ہمارا ارہت ناراض ہو جائے.وہ ہر وقت استغفار اور تو بہ میں مشغول رہنے والی قوم ہوگی.
تیسواں مقصد اللہ تعالے نے یہ فرمایا کہ ربنا و البعث فِيهِمْ رَسُولًا منهم که محمد رسول اله صل اللَّه علا قلم کا مولد اسے بنانا چاہتے ہیں، ہم اسے ایسا مقام بنانا چاہتے ہیںکہ جس کے ماحول میں تضرع اور ابتہال کے ساتھ، عاجزی اور انکسار کے ساتھ عشق اور محبت کے ساتھ کی گئی دعاؤں کے نیت میں ہم اپنے ایک عبد العلم کو محویت کے مقام رکھا کریں اور اس کے ذریعہ سے ایک ایسی شریعت کا قیام ہوگا اور ایک ایسی امت کو جنم دیا جائے گا کہ جو زندہ نشان اپنے ساتھ رکھتی ہوگی.تلُوا عليهم ايتك اور زندہ خدا کے ساتھ اور زندہ نبی کے ساتھ اور زندہ شریعت کے ساتھ ان کا تعلق ہوگا اوران کو کامل شریعیت کا سبق دیا جائے گا لیکن ناسمجھ بچوں کو جس طرح کہا جاتا ہے ان سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ تیم کھتے ہیں اور تم مانو اللہ تعالی ان کی عقل اور فراست کو تیز کرنے کے لیے اپنے احکام کی حکمت بھی ان کو تبائے گا اس نبی کے ذریعے.اور اس طرح وہ کچھ ایسے پاک کردئیے جائیں گے کہ اس قسم کی پاکیزگی کی پہلی قوم کو حاصل نہ ہوئی ہوگی.اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہماری عقل بھی تسلیم کرتی ہے کیونکہ اگرپہلی امتوں پر نسبتہ ناقص شریعتوں کا نزول ہوا اور اس ناقص کا نمائی کے نیتجہیں ان کا تزکیہ ہو تو وہ ترکی کامل نہیں.وہ ان کی فطرت کے مطابق، اُن کی استعداد کے مطابق ، اُن کی قوت کے مطابق تو ہے لیکن وہ کامل تزکیہ نہیں ہے کیونکہ جوتعلیم انہیںدی گئی ہے وہ کامل نہیں کیونک ان کی استعداد بھی کام نہیں پھر جب دو قوم پیدا ہوگئی جو کامل شریعت کی حامل ہونے کی استعداد بھتی تھی تو ان میں سے جن لوگوں نے انتہائی قربانیاں دے کر اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے تمام احکام پر عمل کرکے اور تمام نواہی سے بچنے ہوئے اس کے حضور گریہ و زاری میں اپنی زندگی گزاری ان کو جو تزکیۂ نفس حاصل ہو گا محض خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ کہ ان کے اعمال کے نتیجہ میں وہ ایک ایسا کامل تزکیہ ہوگا.وہ ایک ایسی مکمل طہارت اور پاکیزگی ہوگی.اللہ تعالیٰ کی ایسی خوشنودی اور رضا ہوگی کہ قسم کی رضا پہلی قوموں نے حاصل نہیں کی ہوگی.پس اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ تئیسویں غرض بہت اللہ کے قیام کی یہ ہے کہ ایک خیر الرئیل صلی اللہ علیہ وسلم دنیاکی طرف مبعوث کیا جائے اور پھر انسان کو اس ارفع مقام پر لاکھڑا کیا جائے میں ارفع مقام پر کھڑا کرنے کے لیے ہم نے اسے پیدا کیا تھا.
۴۴ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنے فضل سے ان بندوں میں شامل کرے کہ ہم تو انتہائی طور پر کمزور اور نالائق اور خطا کار اورگنہ گار اور ناسمجھ اور شہوات نفسانیہ میں بھنے ہوئے ہیں لیکن اگر وہ چاہے اور اس کا فضل ہم پر نازل ہو تو شیم کے گند سے وہ ہمیں اٹھا کر پاکیزگی کی ان رفعتوں تک پہنچا سکتا ہے جن کا وعدہ اُس نے امت مسلمہ سے کیا ہے.W آینده خطبات میں انشاء اللہ ہیں ان بیس مقاصد اور غراض ونبی کریم صل اللہ یہ تک کے ذریعی طرح پورا کیاگیا ہے اُس کی تفصیل بیان کروں گا.آہستہ آہستہ میں آپ کو اس طرف لا رہا ہوں میں کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ ایک اہم امر کی طرف اللہ تعالی نے میری توجہ کو پھیرا ہے اورجماعتی تربیت کے لیے وہ پروگرام بڑا ہی اہم ہے.ہر حال میں کوشش کر رہا ہوں آپ کو ذہنی طور پر تیارکرنے کی.مگرمیں کیا اور میری زبان میں اثر کیا ہے جب تک اللہ تعالی اپنے فضل سے میری زبان میں شر پیدا نہ کرے اور آپ کے دلوں کو اس شہر کے قبول کرنے کی توفیق عطا نہ کرے.اس لیے آپ دعائیں کرتے رہیں.میں بھی دعاکر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری جماعت سے وہ کام لے تین کام کے لیے اس نے اسے قائم کیا ہے" را الفضل ۳۰ ر ا پریل ۱۹۶۶ اب
ا اقوام عالم کے بین او نیوی فوائد بیت اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیئے گئے ہیں خطیب جمعه، فرموده ۲۱ اپریل ۱۹۶۶ بمقام سجد مبارک زاده
B وو بیت اللہ کے قیام کی پہلی غرض اللہ تعالے نے وضع للناس لِلنَّاسِ کے الفاظ میں بیان فرمائی ہے.یعنی یہ اللہ کا گھر اس لیے از سیر تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے تعمیر کروایا جا رہا ہے کہ تمام اقوام عالم کے دینی اور دنیوی فوائد اس بیت اللہ سے وابستہ کر دیئے جائیں.
صلى على رسولي الكي تشتد ، نفوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی : إن أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَلةَ مُبَرَكَا وَهُدًى للعلمين فيه ايت بينتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَةٌ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِللَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبيل وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ ) (آل عمران : ۹۷-۹۸) وَإِذْ جَعَلْنَا البَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إبْرَاهِيمَ مُصَلَّ وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَهِم وَ إِسْمَعِيلَ أَن طَهْرًا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَالْعَيفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ وَإِذْ قَالَ ابراهمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذا بَلَدًا مِنَّا وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَا مَتِّعَهُ قَلِيلاً ثُمَّ اضْطَرَةَ إِلى عَذَابِ النَّارُوسَ الْمَصِيرُ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُه رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَكَ وَادِنَا مَنَا سَكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ )
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايَتِكَ وَ يعلمهم الكتب وَالحَكمَةَ وَيُزَكّيهِمْ أَنَّكَ أنتَ الْعَزِيدا بهِمْ أَنَّكَ أَنتَ العوزير الحكيم ) (بقره ع ها) پھر فرمایا : میں نے گذشتہ دو خطبات میں بتایا تھا کہ ان آیات میں جو میں نے ان خطبات سے پہلے بھی تلاوت کی تھیں اور آج بھی تلاوت کی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ایسے میں مقاصد کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق بیت اللہ سے ہے اور بن مقاصد کا محصول بیشت نبوی صلی اللہ علیہم تم سے ہے.اور اگر چہ یہ سب وعدے حضرت ابا امام علی السلام نبی اکرم صلی اللهعلیه وسلم من است سے قریباً اڑھائی ہزار سال پہلے دیے گئے تھے، لیکن یہ بائیں یہ وعدے اور پیش گوئیاں حقیقی طور پر اس وقت پوری ہوئیں اور یہ سب مقاصد اس وقت حاصل ہوئے جس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم دنیا کی طرف مبعوث ہوئے اور قرآن کریم کی ناری آسمان سے نازل ہوئی.بیت اللہ کے قیام کی پہلی غرض اللہ تعالی نے ان آیات میں جیساکہ میں نے اپنےاپنے ایک خطہ میں بیان کیا تھا یہ بتائی ہے کہ وضع الناس.یہ اللہ کا گھر اس لیے از سر نو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے تعمیر کروایا جارہا ہے ا تمام قوایم عالم کے دینی اور دنیوی فوائد اس بیت اللہ سے وابستہ کر دئیے جائیں اورظاہر ہےکہ یہ اڑھائی ہزار سال زمانہ جوحضرت ابراہیم علیہ السلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے در میان گزرا ، اس زمانہ میں یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ بیت اللہ سے تمام اقوام عالم دینی اور دنیوی فوائد حاصل کر رہی ہیں.بہت سی قومیں اُس وقت ایسی بھی تھیں جو بیت اللہ یا کہ کے جغرافیہ سے بھی واقف نہیں تھیں اکثر اقوام عالم وہ تھی کہ جن کے دلوں میں بیت اللہ کی کی ہمت نہیں تھی.وہ اس کی طرف کھنچے ہوئے نہیں آتے تھے.ان کی نگاہ میں اس کی کوئی عزت اور احترام نہیں تھا اور انھیں لیتیں ہیں تاکہ بیت اللہ سے بعض ایسی برکات اور فرض بھی البتہ میں کہاگر یہ ان کو جائیں اور پہچانیں تو ہم ان برکات اور فرض سے حصہ لے سکتے ہیں، لیکن جب آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کا طور پر ان میں گر ھے دنیا بھول چکی تھی دنیا نے اس کو پہچان لیا اور اس کی برکات کو جان لیا اور دنیا کے دل میں، اکناف عالم میں بسنے والی اقوام کے سینہ میں اس کی محبت پیدا ہوگئی اور تمام وعدے پورے '
ہو نے لگے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رب نے محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے اور ہمارے رب نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیے تھے.اب میں یہ بتاؤں گا کہ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ وعدہ روضح لنا اس کام کس طرح اور کس شکل میں پورا ہوا.ظاہر ہے کہ چونکہ وعدہ تمام اقوام کے لیے تھا اور وعدہ یہ تھا کہ تمام بنی نوع انسان مگر سے برکت حاصل کریں گے پر عقلا بر مسکن ہیں کہ شریعیت کا ملہ کے نزول کے بغیر ایسا ہواس لیے قرآن کریم کی کامل شریعیت کا نزول اس وعدہ کے گورا ہونے سے قبل ضروری تھا.قرآن کریم نے دعوی کیا ہے کہ ذلک الکتاب و البقر و ۱۳۱ که یه قرآن ایک کامل اور اکمل شرار ہے ذلِكَ : اور اس دھونی کے دلائل قرآن کریم نے یہ دیئے کہ لاریب قبیلہ، نیب کے چار معنی جو یہاں یہاں ہوتے ہیں ان کی رو سے یہاں ہمارے سامنے چار دلائل بیان کیے گئے ہیں اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کہ واقہ میں سے قرآن ہے کتاب ہر لحاظ سے مکمل کامل اور اکمل اور انتم ہے.ترتیب کے ایک معنے کی رُو سے قرآن کریم کی تعریف یہ پھلتی ہے کہ انسان کی روحانی اور سبحانی اور معاشرتی اور اخلاقی اور اقتصادی اور سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے والی صرف میں ایک کامل کتاب ہے اور بھی ایک کامل کتاب ہے ہو فطرت انسانی کے سب حقیقی تقاضوں کو پورا کرتی ہے.کیونکہ یہ اپنے ذاتی کمالات اور فضائل و بے نظیر تعلیمات کے ساتھ اپنی ضرورت اور صداقت کو ثابت کرتی ہے.اگر میں اس دلیل کو پھر ایک عمومی قرار دے کر اس کے دلائل بیان کرنے لگوں تو آپ ایک لیس پر بھی بڑا وقت خرچ ہو جاتا ہے.قرآن کریم کو ایک حد تک سمجنے والے بھی یہ جانتے ہیںکہ قرآن کریم کے دلائل اور فضا ال نظر تعلیمات اس قسم کی ہیں کہ جو تمام پہلی کتاب پر اس کو افضل ثابت کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جب بنی اسرائیل کی الہامی کتب کے متعلق یہ سوال کیا گیا کہ ان کے مہوتے ہوئے قرآن کریم کی کیا ضرورت تھی ؟ تو آپ نے یہ جواب دیا کہ سارے قرآن کریم کا نام نہ لو، وہ تو بہت وسیع کتاب ہے بڑے علوم اس کے اندر پائے جاتے ہیں.اس کے شروع میں سورہ فاتحہ ہے اور سورۂ فاتحر میں جو معارف اور حقانی دلائل بیان ہوئے ہیں ان معارف اور دلائل کے مقابلہ پر اپنی تمام روحانی کتب سے اگر تم وہ دلائل اور معارف نانی کے
دکھا دو تو ہم کہیں گے کہ تمہاری کتابیں قرآن کریم کا مقابلہ کرسکتی ہیں.اس دعوت مقابر پر ایک لبازمانہ گزر چکا ہے اور کیتھو سترم میں کئی پوپ یکے بعد دیگرے ہوئے اور کیتھولک چرچ کی سربرا ہی انھیں حاصل ہوئی.اسی طرح دوسرے فرقے تھے عیسائیوں کے.ان میں سے کسی ایک کے سربراہ کو بھی جرات نہ ہوئی کہ وہ سورۂ فاتحہ کے مقابر میں اپنی کتب مادی سے تقسیم کے دلائل نکال کر پیش کر سکے، جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا دعوی تھا کہ ہم اس سورۃ سے نکال کر تمھارے سامنے رکھیں گے.پس لاریب فیہ کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ کتاب نے اپنے ذاتی کمالات اور فضائل اور بے نظیر تعلیمات کے ساتھ اپنی ضرورت اور صداقت کو ثابت کر سکتی ہے اور جب آپ سے سوال کیا گیا کہ قرآن کریم کی ضرورت کیا ہے تو اس کا جو ہواہے دیا گیا اور اس جواب میں جس دعوت فیصلہ کی طرف بلایا گیا اس کو آج تک عیسائی فرقوں کے سربراہوں نے قبول نہیں کیا اور اس سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ وہ سورہ فاتحہ کے مضامین کے مقابلہ میں اپنی کتب سماوی کے مضامین کو پیش نہیں کر سکتے.الکتب کا مل کتاب ہونے کی دوسری دلیل لاریب فیہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ دی ہے کہ قرآنی تعلیم انسان کو ٹن اور گمان کے بے آب و گیاہ ویرانوں سے اٹھا کر دلائل اور آیات بینات کے ساتھ یقین کی رفعتوں تک پہنچاتی ہے اور یہ خوبی ہمیشہ اس میں قائم رہے گی.کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے محفوظ کیا ہوا ہے.کریب کے ایک معنی کے لحاظ سے یہ قوم بھی پایا جاتا ہے کہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہے.شیطانی وجل اس میں راہ نہیں پاسکتا.اس لیے اس کا جو اثر انسان کی روح پر آج پڑ رہا ہے وہی اثر اس کا قیامت تک انسان کی روح پر پڑھتا چلا جائے گا.اس لیے یہ الکتب ایک کامل کتاب ہے.لاریب فیہ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کوئی ایسی ہدایت اور صداقت جو ایک کامل کتاب میں ہونی چاہیئے وہ اس سے باہر نہیں رہی.اس کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے متعدد مقامات پر غیر ادیان کو فیصلہ کی طرف بلایا ہے.مثلاً آپ نے فرمایاکہ سنی باری تعالی کے تعلق کوئی ایسی پی او حقیقی دیں تم اپنی کتابوں سے نکال کر دکھا دو جو میں قرآن کریم سے نکل کے نہ دیکھا سکوں پیس ہر وہ صداقت جس کا کوئی دوسری کتاب دعوی کر سکتی ہے وہ اس کے اندر پائی جاتی ہے اور بہت سی ایسی صدر ہیں بھی اس میں پائی جاتی ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں پائی جاتیں.اس لیے یہ الکتب ایک کامل کتاب ہے.
اسر لا نیب فیہ کے چوتھے معنی کی رو سے یہاں یہ دلیل دی گئی ہے کہ اس پرعمل کرکے تو دیکھو تم تھم کے مصائب اور آفات سے محفوظ ہو جاؤ گے اور اللہ تعالی کی پناہ میں آجاؤ گے.پھر دنیا کا کوئی دجل یا دنیا کی کوئی طاقت یا دنیا کی کوئی سازش تھا را حقیقی اور واقعی نقصان نہیں کرسکتی.نقصان تو اس وقت ہوتا ہے جب کوئی پیر حقیقت ضائع ہوتا لیکن اگر کسی کے پانچ روپے گم ہو جائیں اور اس کا والد اس کو کسے کہ پانچ روپے تو تمھارے پانچ روپے کے بدلہ میں میں دیت ہوں، اور یہ دس روپے اس تشویش کے بدلہ میں میں جوتم کو اٹھانی پڑی ہے اور اس طرح اسے پندرہ روپے مل جائیں، تو دنیا کا کوئی عقل مندی نہیں کے گا کہ اس کا پانچ روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ اس کے بدلہ میں اس کو پندرہ روپے مل گئے ہوں.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ دھونے کیا کہ تم اس پریس کر کے کسی نقصان یا مصیبت میں نہیں پڑوگے.یہ نہی کیا کہ میں کوئی دکھ نہیں دے سکے گا کیونکہ ایک کی خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں، لیکن حقیقی مومن اس چیز کو جسے دنیا تکلیف کہتی ہے اپنے لیے راحت سمجھتا ہے اور اس کا خدا اور اس کا رب اور وہ جو اس کا مالک ہے اور جس کی خاطر وہ یہ تکالیف برداشت کر رہا ہوتا ہے اس کے سرور کے ، اس کی مسرت کے، اور اس کے آرام کے ایسے سامان پیدا کردیتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ دکھ دینے والے نے مجھے تھوڑا دکھ دیا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اگر وہ اس سے زیادہ دکھ دیتا تو مرے رب کا مجھے اس سے بھی زیادہ پیار حاصل ہو جاتا.تو چونکہ یہ اسی کتاب ہے میں پرعمل کرنے والا حقیقی مومن کبھی بھی گائے میں نہیں رہتا اور اس کے مقابلہ میں جو دوسری کتب میں اُن کا یہ حال نہیں اس لیے یہ ثابت ہوا کہ یہی کتاب آنکتب ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں فرمایاکہ ياَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ يَكُونَا مِنُوا خَيْرًا تَكُم النساء : ) ٤ لے تمام بنی نوع انسان سنو کہ ایک کامل رسول کامل صداقت سے کر تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس اپنی بچی ہے تمھارا رب جس نے تمھیں ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا تھا نشود نما اور ارتقاء کے مختلف مدارج میں سے تمھیں گزارتا ہواوہ اس مقام پر تمھیں لے آیا ہے کہ اپنی کامل منتوں میں تمھیں داخل کرے بٹن لو کہ یہ سول آگیا کا منوا جو وہ کہتا ہے اس پر یمانی و زبان سے بھی دل سے بھی اور اپنے جوارح سے بھی تم اسے انوار اس کی تعلیم پر مل کرو گے تم اس کامل رسول پر ایمان لاؤ گے
اور ہر اک ریت ہے کے مطابق مری زندگیاں رنگے اور اس بن جاؤ گےاور جب تم خیرات برگه و صرف اس وقت ان فرار ہوگے تو تم اس قابل جوا و گے کہ تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا سکو تمھارے ذریعہ سے تمام اقوام اور ہر زمانہ کے لوگ نیوی اور دینی فوائد حاصل کریں گے جب تک تم اس مقام کو نہیں پاتے ساری دنیا اور دنیا کے ہر حصہ میں بسنے والی اقوام تم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتیں اور جب تک تم سے ساری اقوام عالم فائدہ نائٹی سکین اس وقت تک نہیں کیا جا سکے گاکہ تم کو اخرجت الناس، تمام دنیا کی بھلائی کے لیے پیدا کیا گیا ہے.اور جب تک تھا سے متعلق یہ نہیں کہا جاسکے گا کہ تمہیں تمام دنیا کی بھلائی کے لیے پیدا کیا گیا ہے ان تو تک وہ وعدہ نہیں پورا ہوگا کہ ان اول بيت وضع اللنَّاس اس واسطے امنوا تم اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے قرآنی شریعیت پر ایمان لاٹھ، اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو تم خیر گنت بن جاؤ گے.پس نزول قرآن کے ذریعہ وضع النا میں کا مقصد حاصل ہوا اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں فرماتا ہے کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عن المنكر وتؤمنون باللهِ وَلَوْا مَنْ أَهْل الكتب لَكَانَ خَيْرُ الهُمُ دال عمران : سیلی اس آیت میں در اصل یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ابراہیمی پیشگوئی اور وعدہ کے مطابق امت محمدیہ بنی نوع انسانی فائدہ کے لیے پیدا کر دی گئی ہے اور ایک گفت ایسی تیار ہو چکی ہے جو اخرجَتْ لِلنَّاسِ ہے.وہ تمام بنی نوع انسان کے نائٹ کے لیے پیدا کی گئی ہے اور اس کی دلیل یہاں یہ دی ہے کہ یہ خیر امت ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہے تمام دنیا کی بھلائی کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے.اور یہ دلیل کیوں ہے کہ اگر آپ تمام دنیا کی شریعتوں پر غور کریں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ تمام شریعتیں اس قوم کی استعداد کے مطابق نازل ہوتی رہی ہیں جن قوم کی طرف ان کو نازل کیا جاتا رہا ہے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی طرف جو شریعت بھیجی گئی اس شریعت سے ہمیں پتہ لت ہے کہ حضرت نوح علیہ سلام کی قوم کی روحانی تعدادی اور صلاحیتیں کیا تھیں.جو شریعیت حضرت موسی علیہ السلام کی طرف نازل ہوئی اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی قوم بنی اسرائیل کی روحانی صلاحیتیں اور استعدادیں کی تھیں.باقی سارے انبیاء کی قوموں کا بھی یہی حال تھا.ہر حال اللہ تعالی
کی طرف سے جو شریعیت بھی جس قوم کی طرف نازل کی جاتی ہے، وہ اس قوم کی روحانی صلاحیتوں اور استعدادوں کو نظر کی کرنازل کی جاتی ہے کیونکہ العالی کی فرد کی قوم پر وہ بوجھ ہیں ڈالا جس کو اشارات نہ کر سکے.دوسری حقیقت جو بڑی واضح ہے وہ یہ ہے کہ قرآنی شریعت پہلی تمام شریعتوں کے مقابل ہیں اکمل اور تم اور کال اور مکمل ہے.اگر آپ پہلی شرائع کے احکام اوامر ونواہی کو قرآن کریم کے احکام کے مقابلہ پر رکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم ہیں چھے سات صد سے زائد احکام راوامر ونواہی اس امت کے لیے نازل کیئے گئے ہیں ان کے مقابلہ میں حضرت موسے علیہ السلام پر معدودے چند احکام کا نزول ہوا.پھر سینکڑوں ایسے احکام قرانی ہیں جو پہلی کسی شریعیت میں بھی تمہیں نظر نہیں آتے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلی شرائع کے احکام را وا مونواہی محدود تھے بوجہ اس کے کہ اس قوم کی استعدادی محدود نہیں میں کی طرف انھیں نازل کیا گیا تھا اور قرآن کریم کا ایک کامل اور مکمل شریعت ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ بنی نوع انسان ہیں زمانہ میں جب قرآن کریم نازل ہوا کامل روحانی استعدادوں کے حامل تھے ورنہ قرآن کریم ان کی طرف نازل نہ ہوتا.پس قرآنی تعلیمات کے کمالات خاصہ اس امت کے استعدادی کمالات پر شاہد ہیں.قرآن کریم کی تعلیم کے جو کمالات ہیں اور ان کی جو دوست ہے اور اس کی جو شان ہے اُس سے ہم اس نتیجہ پر پہنتے ہیں کہ قرآن کریم کے مخاطب اپنی استعدادوں میں پہلی تمام امتوں سے بڑھے ہوئے ہیں ورنہ وہ قرآن کریم کے حامل نہیں ہو سکتے تھے یعنی قرآن کریم کے مخاطب اپنی صلاحیتوں استعدادوں میں پہلی سب اُمتوں سے افضل اور برتر اور بزرگ ترہی.اور پھر جب باستعدادیں اور صلاحیتیں قرآنی تعلیم کی تربیت کے نیچے آئیں تو روح القدس کی معرفت اور آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے تجری اور آپ کی متابعت کی برکت سے ایسے روحانی وجود پیدا ہوئے جو اپنی کمیت او کیفیت اور صورت اور حالت میں تمام پہلے انبیاء کے روحانی بچوں سے اکمل اوراقم ھ سے اور جب تک ایسی خیر گیت پیدانہ ہو جاتی کہ کوئی پہلی امت اس کے مقابل ہیں نہ ٹھر سکتی اوریہ سے آگے نہ نکل جاتی اور آئندہ کوئی ایسی است پیدا ہوسکتی جس سے آگے بڑھا اسے اپنی اپنے عروج او کا کینچی ہوئی ہو اس وقت اور رانا اس کا وعدہ پورا میں ہوتاتھا، کیو نک ناقص شرعیت کے نیت ہیں اور ناقص تربیت سے باہمی نہیں لکھی جاسکتی کہ وہ تمام اکناف عالم کو فائدہ پہنچانے والی ہو غرض ان غیر
د و رام کیا میں نہ کی اُمت نے آج تک اللہ کا تقابل کیا اور نہ کوئی ایسی امت قیامت تک پیدا ہوسکتی ہے جو امت مسلہ کے مقابہ میں آئے پس اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ گن تو خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اسی ابراہیمی وعدہ کے مطابق تمھیں لناس پیدا کیا گیا ہے.تمام دنیا تم سے فیوض حاصل کرے گی تم سے برکات پائے گی اور دلیل اس کی یہ ہے کہ تم خیر امت ہو ہر دو لحاظ سے.استعداد کے لحاظ سے بھی، اور تربیت کے نتیجہیں جو رنگ اُسوہ رسول اور اخلاق حسنہ کا تم نے اپنے اوپر پڑھایا ہے اس کے لحاظ سے بھی.اور تم ہی وہ ہو سکتے ہو جن سے ساری دنیا فائدہ اٹھا سکے.پس تمھارا خیر امت ہو جانا تمھاری صلاحیتوں اور استعدادوں کا اپنے کمال تک پہنچ جانا اور پھر ان صلاحیتوں اور استعدادوں کی تربیت کا اپنے کمال تک پہنچ جانا یہ بتاتا ہے کرده و عدہ پورا ہو گیا کہ بیت اللہ و وضعَ لِلنَّاسِ تمام اقوام عالم کے فائدہ اور بہبود کے لیے کھڑا کیا گیا ہے.یہ بھی یادر ہے کہ انسان تمام بنی نوع انسان کو صرف اسی صورت میں فائدہ پہنچا سکتا ہے جب وہ تمام بنی نوع انسان کو اخوت اور سادات کے مقام پرلا کھڑا کرے اور کسی امتیاز یا تفریق کو جائز نہ سمجھے چنانچہ وہ تمام باتیں جو انسانی عزت اور احترام کو قائم کرنے والی تھیں وہ امت مسلمہ کی شریعت میں قرآن کریم یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ یا احادیث میں پائی جاتی ہیں اسلام نے انسان انسان کے درمیان ہر امتیاز اور ہر تفریق کو مٹاکر رکھ دیا ہے اور اس طرح پر انسان کی عزت اور توقیر کو قائم کیا ہے.حجة الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم نے جو خطبہ دیا اس میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ الا ہوشیار ہو جاؤ کان کھول کر سنو کہ تمھارا رب ایک ہے ، وہ ایک ذات ہے جس کی ربوبیت کے میتھ ہیں مقام اقوام مختلف فاصلے طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ گئی ہیں کہ ان تمام اقوام کی روحانی اور اخلاقی استعدادیں اور صلاحیتیں ایک جیسی ہوگئی ہیں اور اب وہ آخری شریعیت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوگئی ہیں.تمھا را پیدا کرنے والا ایک ہے.اس نے تمھاری جسمانی اور روحانی استعدادوں کو ایک جیسا پیدا کیا ہے.قوم قوم میں اس نے فرق نہیں کیا.یہ صحیح ہے کہ افراد کا اپنا اپنا ایک ترقی کا دائرہ ہوتا ہے، لیکن قوم قومیں کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی.یہ نہیں کہ ایک قوم ذلیل یا حقیر ہے یا اس کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ جسمانی یا روحانی یا علی یا اخلاقی یا معاشرتی یا اقتصادی ترقی نہیں کرسکتی.پس فرمایا کہ ہوشیار ہو جاؤ.کان کھول کر سنو کہ
تمھارا ہونے نہیں پایا ہی نے تم سے قوی کو پی کیا جس نے تھر راویوں کو دیا میں نے اتاری اداروں کو دیا گیا چھان کی اپیست ی اور تھا کے مدارمیں نے گزارا تمھاری نشو نما کما تک پہنچایا وہ پاشا واحد ہے ایک ہے اور میری یاد کھو کہ تمھارا باپ بھی ایک ہے یعنی تم سب آدم کی اس سے ہی فرض تھارات پیداکرنے ایک سے تھا اباپ ایک ہے گرم متابوں کا ہوتا ہے تو کہے ہم نے اپنےاپنے اوپ ے رشتہ حاصل کیلئےاورہماراباپ بزرگترا برتھا اسکےورنہیں میں خودی برتر تایا گیا ہے مگر اس کا درست نہیں کیونکہ باپ ایک ہے پھر اگر مختلف خدا ہوتے مختلف تب ہوتے توکوئی قوم کرسکتی تھی کہ رب نے میں پیدا کیا ہے زیادہ طاقتوراورزیاد عام اورزیاد قادراوانیان خفت کردوان ور زیادہ رحم کرنے انتھا اسنے ہمیں زیادہ ے دیا.دوسری کو پیداکرنے ارب علم می یاد میں تھا اس کی قات زیادہ تھی اسمیں یہ مادہ نہ تھا اسکے اپنی مخلوق کے ساتھ وہ بت نہیں تھی جو ہاے رب نے تم سے کی ایسے ان کو مرچیں ہیں اس سے اس لحاظ سے کمتر ہوگئے ہیں گردہ تھا رات ایک جب تمھارا باپ ایک تو تھیں یا پینا چائے کیری کی کوئی فیات انہیں کسی بھی کوری یکی ا الاتصال نہیں ہے.کسی سیاہ کاری نے اسے پر کوئی فضیلت حال ہے اورنہ کس پر رنگ والے کو سیاہ فام پر کوئی فضیلت حاصل ہے، اور ایک جگہ آپ نے بھی فرمایا کہ کسی سرخ رنگ اسے کسی سعی دام ر کوئی فضا میں ہے اور کسی سنیا کون تنگوالے پرکوئی فضیلت میں ہے نیت کا مانتا ہے کی نگاہیں اوران استعدادو کی نیت ہیں جو ے اس ایک ہی یہی ہے اور وہ ہے تو یا مولانا کیا میں اگر وہ ہے ان بات یہ ہے کی داتعالی کی ان کا تو تھیں ہ پیار کی ہے یا غتصب کی ہےتو پرایک میرے پربندگی بتایا کہ یہ کیا ہے جینے دی ہے ری اقتصادیات اسلامی کی یری لینینی بابک امی کو یکتا ہے کہ جب تک غربت قائم ہے تیر تیرے مال پر کوئی حق نہیں جیسے فرمایا: کرفی آهو الهِم حَق لِلسَّائِلِ وَالْمَعْرُومِ الد رایت ۱۲ میرے نزدیک اس آیت کے معنی ہیں کہ جب تک ضروریات زندگی ہر قوم کو میں باتیں کسی ا ا ا ا پنے مال پخت باقی نہیں بنتا ہے ضروریات زندگی پری ہوجائیں پھر باقی بچا ہے وہ خداتعالی انس ہے اسے جائز راہوں پرخرچ کرنے سے سلام نہیں کیا لیکن اگر ما یھوکا ہواور تم پانچ یا سات کھا نے کھاؤ تو اسلام اس کی اجازت نہیں نیا پس کسی لحاظ سے بھی کسی قوم کو یثیت قوم کسی دوسری قوم پرکوئی فضیلت میں میں امام کے بیان کیا ایک سے ہی قومیں نے بھی سناتے ہیں ا کے ان ہی میں میں ہی ان سے ان میں ہی ان کا اپ اپنے ای یاد بھی ہیں ان پن لامتیں ہیں لیکن یہ بت غلط ہے کوئی قوم سار کی ساری علم کے بیانین داغ و در یک سری تو ساری کی سار علم کے میدان ہی نہیں Geis) ہو.
یہی ہے کہ و حاکم وہی ہیں وہ اپنے گدھوں کو بھی رفت کے مقام پرلے جاتیہیں بنا میرے ساتھ ایک ال عالم اسٹور میں پڑھا کرتا تھا وہاں طریق یہ ہے کہ طالب علم پڑھانی ہی چل نہ سکےاس کا روپیہ ضائع نہیں کرتے بلکہ ایک ٹرم (TERM) کے بعد جب اپنے گر جاتاہےاوراس ٹر کا یہ کھلا ہے تو اسے گھر میں تیج دیتے ہیں تمھیں اپس تشریف لانے کی ضرورت نہیں تم وہیں کام کرو انگریزی میں سے کہتے ہیں S ENT HOME گا گھر بھی دیا گیا اتفاقا میرے گروپ کا ایکٹ کا دوسری ٹرمیں اس نہ آیا ھے اس قتان طلاق کا علم نہیں تھا اسے میں نے دوستوں کوچھا کہ عمال العلم کیوں نہیں آیا ہے کیوں مجھے دنیا بھی پیدا ہوالبعض موتی بھی ہوجاتی ہیں اورپرحادثات بھی ہو جاتے ہیں پتہ نہیں کیا بات ہے کہ وہ لڑکا اپس نہیں آیا.تو مجھے ایک دوست نے بتایا کہ HE IS SENT HOME اُس کو انھوں نے فارغ کر دیا ہے ہ ء میں جب میں دہلی گیا تو پیٹ فارم پر اتفاق ایک شخص پرنفر روی تو علم ہو کہ یہ وہی لڑکا ہے.وہ اس وقت انگریزی حکومت کا ایک بڑا افسر تھا اس نے مجھے پہچان لیا اور میں نے اسکو پہچان لیا ہم ایک سرے سے ملے ہیں نے دل میں کہا کہ چونکہ ا قوم کو دنیوی اقتدار حاصل ہے اس لیے یہ ہمارے ملک کے محاورہ کے مطابق اپنے گدھوں کو بھی افس بنادیتے ہیں اور افس بھی ہمارے اوپر غرض ہر قومیں اچھے دماغ بھی ہیں اور بڑے ماغ بھی ہیں.کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں آپ کو یہ چیزنہ ملے.کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے سارے ماغ اچھے ہوں اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے، جس کے سارے دماغ بڑے ہوں.اچھے اوسط درجہ کے اور برے سب ہی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں.غرض اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا ہ کوئی امتیاز قائم کی جائے بلکہ وہ مساوات قائم کرتا ہے.مثلاً تعلیم کے میدان میں دیکھو اسلام علم سیکھنے پر بہت زور دے رہا ہے نہیں کا مطلب یہ ہے کہ جتنا جتنا علم کوئی سیکھ سکے یقینی کسی کے اندر صلاحیت اور استعداد ہو اس کے مطابق اس کو علم سکھانا چاہیئے اور اس سے یہ بات بھی کہتی ہے کہ کوئی تھرڈ کلاس لڑکا جو رعایتی پاس ہونے والا ہو اس کو وظیفہ نہیں دینا چاہئیے کیونکہ یہ ضیاع ہے لیکن جو ہوشیار طالبعلم ہے اس کے مانے والے کیا اللہ عال کی ناشکری و قوم کو نقصان نہانے کے مترادف ہے.غرض اسلام انسان نے دماغ کو کرنا میں مساوات کواوراس کے بعد اخوت کو قائم کردیا ہے.اس نے د ے سالے کیوں اور تینوں کو کال کے باہر پھینک دیا ہے اور اسنے کا ہے تم بھائی بھائی کی طرح ایک مہرے سے پیار کرو اورپھر اپنی بنیادی تعلی کو تین بڑے ستونوں پر قائم کیا ہے اور وہ تین ستون عدل ، احسان اور انشاء ذی القربی ہیں.ہر وہ قوم جو بین الاقوامی حیثیت کی مالک ہو یا وہ رشتے اور تعلقات جو ہیں لا قوامی ہوں وہ اگر عدل کے اصول پر قائم ہوں اور اس سے بڑھ کر احسان کے اصول پر قائم ہوں اور پھر اسے بھی بڑھ کر ایا اور انفرینی
کے اصول پر قائم ہوں تو آج دنیا کے سارے فسادات مٹ جاتے ہیں اور دنیا کے سرے سے فائدہ اٹھانے لگتی ہے بجائے اس کے ہ وہ یہ سوچتی ہے کہ ہم دوسروں کو کس طرح نقصان پہنچا سکتے ہیں میں الہ تعالی نے یہ نیا حکم دے کر میں بتایاہے کہ میں سے بعض طبائع عدل سے آگے نہیں نکل سکیں گی.انہیں ہم کہتے ہیں کریم عدل کے مقام کو چھوڑ ک نیچے گرنا ورنہ تم مسلمان نہیں رہو گے بعض طبائع ایسی ہوں گی جو عدل کے مقام سے اوپر پروازکریں گی اور احسان کے مقام پر پہنچ جائیں گی لیکن اس سے آگے نہیں جاسکیں گی.ان کو تہم کھتے ہیں کہ اگر تم نے احسان کے مقام کو چھوڑ دیا اور باوجود اپنی استعداد کے تم گر کر عدل کے مقام پر گئے تویاد رکھو تم اللہ تعالی کی بہت سی ایسی نعمتوں سے محروم ہو جاؤ گے کہ نہیں تم اس مقام پرقائم رہتے ہوئے حاصل کر سکتے تھے اور یہ کئی معمولی سا نہیں ہے بلکہ یہ بہت برافا ہے پھر تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جوان ہر و مقام سے اوپر ہوکر انت او روی انسان کے تمام پہنچ جاتے ہیںاور نہی سکتے ہیں انکی ہم کہتے ہیں کہ تم انسان کے مقام پر راضی نہ ہو جانا، ورنہ تم خداتعالی کی منظر اور بے شل نعمتوں اور فضلوں اور برکتوں سے محروم ہوجائےگئے غرض اسلام نے انسان انسان کی مساوات اور اخوت اور پیار کو ان تین ستونوں پر قائم کیا ہے.اس وقت کافی دیر ہوگئی ہے گرمیں یہ چاہتا تھا کہاس مقصد پرتفصیل سے بات ہو جائے کیونکہ بیت میں مقاصد میں سے ایک بنیادی چیز ہے.آخری مقصد بھی ایسا ہی ہم ہے.بیچ میں سے تم جلدی نکل جائیں گے.اس سلسلہ میں ایک دوست نے خواب بھی دیکھی ہے د انھیں تو اسکی غیر مجھ نہیں آئی تھی چند دن ہوئے انھوں نے مجھے لکھاکہ میں نے دیکھا کہ میں اور میرے ساتھ کچھ دوست او بھی ہیں قادیان کے اسی چوک میں ہوں جس میں مسجد مبارک کے اس حقہ کی سیڑھیاں اترتی ہیں جو جد میں بڑھایا گیا تھا یہاں بہت سارے عزیز بچے ایسے بھی ہوں گے جنھوں نے قادیان دیکھا ہی نہیں اور وہ سمجھ ہی نہیں سکتے ، لیکن جنہوں نے قادیان دیکھا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ مسجد مبارک کے اس حقیہ کی جو نیا نیا تھا سیڑھیاں ایک چوک میں اترتی تھیں.اس دوست نے لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم اس چوک میں کھڑے ہیں آپ بڑی تیزی سے آئے ہیں.آپ کے چہرے پریشانت اور رونق ہے آپ کچھ سیڑھیاں چڑھتے ہیں اور پھر ہماری طرف دیکھتے ہیں پھر کچھ اور پیر میاں پڑھتے ہیں اور ہاری طرف دیکھتے ہیں دور نور آپ نے ایسا کیا ہے اور پھر آپ ساری سیڑھیاں پڑھ گئے ہیں.پھر آپ نے اذان دی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ عصر کی نماز کا وقت ہے اس لیے آپ نماز عصر پڑھائیں گے.لیکن نماز سے پہلے جو اذان آپ نے دی ہے ہم نے محسوس کیا کہ وہ معمول سے زیادہ ہی ہے.اور یہ حصہ مضمون جو میں بیان کر رہا ہوں
ایک خاص پروگرام کی طرف بلانے کا ہی رنگ کھتا ہے.تاکہ وقت میں اس پر گرام پر آؤں تو آپ پس منظر سے پوری طرح واقفیت حاصل کرنے کے تومیں اپنی ذمہداریوں کو جھنے لگیں اور اذان کا معمول سے زیادہ لمبا ہونا اس کی طرف اشارہ کرتا ہے) عرض وضع لِلنَّاسِ ایک مقصد بیت اللہ کی عمر کا تھا ور چونکہ اس لحاظ سے بڑاہی اہم ہے کہ باقی اسے مقاصد کا اس پہلے قد کے ساتھ یا پھر تو خرى مقصد رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَ اينيك الزمیں بیان ہوا ہے اسکے ساتھ اگر تعلق ہے او میں چاہتا تھا اس مقصد کو فیس کے ساتھ بیان کرن کی آب بیان ہو جایں کہ ای کی یوگی پوری نہیں سکتی تھی کے این است نیا میں پیدا نہ ہو جائے جو خیرا نام ہو اوروہ امت پیدا نہیں ہو سکتی تھی جب تک کہ قرآن کریم کی تشریت و کامل اور اکمل ہے اس کا نزول نہ ہو جائے ور ہر شریعت کا نزول قوم کی استعداد کے مطابق ہوتا ہے قرآن کریم کی شرعیت چونکہ یہ ہو اور ہرلحاظ سے کامل اور کمل ہے اس لیے اس سے ہم نتیجہ ان کرتے ہیں اوراس کو کوئی انہیں کرتے کہ اقوام جوان انہیں ابھی تک اس کی راہ ہیں اور اب ہیں اور اپنی صلاحیتوں و استعدادن کے لحاظ سے قرآن کریم کی حال دوستی تھیں اورقرآنکریم کی تربیت کوقبول کرنے کے بعداور انور صلی اللہ یہ سلم کے فیوض و برکات حق لینے کے بعدان کی کین کے لیے کا سوال ہے کہ ایک حقیقت بین گا میں نے انسان بن گئے یا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا و و یا باقی نہ رہا اے نقوش ابھرائے سیم کایرا بنا چکتا ہے اگرانسان اس کو قوم کا وہ اجوان اپنا بنایاہواہوتا ہے اس سے باتیک آئے تو وہ پاکیٹانیں تاکہ اس کا ہماری آنکھیں اورہیں یہ باکل ہل جاتاہے پہلا کے پرنہیں ہوتےلیکن یاد گھنٹوں کے درد نارس کے پڑنکل آتے ہیں نیا سرپیدا ہو جاتا ہے نئی آنکھیں پیدا ہوجاتی ہیں بالکل ہی ما ان لوگوں کی ہے کہ وہ اکرام اللہ علیہ تم پر ایھا الٹے پلے وہ یہ کے کیڑے تھے اور میں ان کو لہ تعالی نے ٹی بار دی نہیں آنکھیں میں نئے دماغ میھٹے پیدا کی نئی قوت عطا کی.پھروہ آسمان کی وسعتوں میں ڑنے لگے اور آب بیارم پر ا گئی تو وضع الناس کا وعدہ بھی پورا ہوگیا.اس سے بھی یہ گتا ہے اس قوم پریس کو قرآن کرکے نہ انت کہا ہے دنیا کی خدمت کرنے کے علایم کوتقسیم کی ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں اللہ تعالی ہم سب کواپنی رشتہ داروں کو نیا ہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ر منقول از روزنامه الفضل ربوده - مورخه ، میشی شما 1:
نحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی بشت کے ذریعہ کعبتہ اللہ کی عالمگیر برکات کا ظهور 1975 خطبه جمعه ، فرموده ۵ منی شاشه مئیت بمقام مسجد مبارک ربوده
ار اللہ تعالی چاہتا تھا کہ عیہ کو مبارک بنائے نبی کریم صلی اللہ علہ وسلم کی کعبہ بنائے بعثت کے ساتھ بیت اللہ مبارک بن گیا.اور اللہ تعالئے یہ چاہتا تھا ، کہ یہاں ایک ایسی ہدایت بھیجے جو هُدًى لِّلْعَالَمِينَ ہو.شریعت کے کمال کی وجہ سے بھی، اور اپنے افاضہ کے لحاظ سے بھی.اور یہ وعدہ بھی قرآن کریم کے ذریعہ پورا ہوا ہے.یہ Ned
تشند ، تعوذ اور سورہ فاتھ کے بعد حضور پر نور نے آیت إِن أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى گور يبكة مبركًا وَهُدًى لِلْعَلَمِينَ رسورة ال عمران : ۹۷) کی تلاوت فرمائی ، پھر فرمایا : میں بتا رہا ہوں کہ آیات کریمہ میں جو منی امت صد تعمیر بیت اللہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ م بعثت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی طرح پورے ہوئے پچھلے ایک خطبہ میں وضع بالناس کی تفسیر اس میں منظر ایکہ میں میں نے پیش کی تھی.دوسرا مقصد جو ان آیات میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ مبارک ہے میں نے بتایا تھا کہ مبارک کا لفظ یہاں دونوں میں لیا جا سکتا ہے.اول یہ کہ ظالم کعبہ اقوام عالم کے نمایندوں کی قیام گاہ بنے گا اور تمام اقوام سے ایسے لوگ یہاں جمع ہوتے رہیں گے، جو روحانی میدانوں کے شیر ہوں گے.بہادری کے ساتھ ثابت قدم رہنے والے الہلال کی یقیام گاہ چنگی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اس معنی میں بہت اللہ ساری دنیا کے لیے نبی کرم صلی اللہ علیہ سلم کی بہت سے قبل مبارک کبھی نہیں ہوا، یعنی اقوام عالم کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل خانہ کعبہ کی اس بیت اللہ کی محبت اس تنگ میں کبھی پیدا نہیں ہوئی کہ یہ اس کی طرف بھیجے چلے آتے اور خانہ کعبہ میں کوئی ایسا سامان بھی نہ تھا کہ اگر اقوام عالم کے نمایندے وہاں پہنچتے تو ان کے دلوں کی تسکین کا وہ باعث بنتا.
آنحضور صلی الہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اس لحاظ سے دنیا کا نقشہ بدل گیا.اقوام عالم کے دلوں میں ایک طرف بیت اللہ کی محبت پر ہوئی، تو دوسری طرف ایسے سامان بھی پیدا ہو گئے کہ وگ وہاں جائیں اور روحانی استقلی یا علی یا دینی علوم سیکھیں اور وہ ایسے علوم ہوں جو تمام قوموں کو زمانہ کے رہنے والوں کو دین اور نیوی فواد پہنچ سکیں تاریخ بڑی وضاحت سے ثابت کرتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ اس غرض کو پر کیا گیا ہے اس لیے اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.دوسرے معنی مبارک کا کے جو ہاں جیہاں ہوتے ہیں یہیں کہ مکہ کو مولد بنایا جائے گا ایک ایسی شریعیت کا تیں ہیں وہ تمام بنیادی صداقتیں اور ہدایتیں جمع کردی جائیںگی جو انبیاء سابقین کی شہریوں مں متفق طور پر پائی جاتی تھیں.صر قرآن کریم کی ایک ایسی نیست ہے جس نے یہ دعوی کیا ہے کہ میں نے تمام پیرانی صداقتوں کو اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے.قرآن کریم سے قبل کسی شریعیت نے بھی ایسا دعوی نہیں کیا اور نہ وہ ایسا دعوی کر سکتی تھیں، کیونکہ ان کو نازل کرنے والا خدا جانتا تھا کہ ان شرائع کا نزول خاص قوموں اور ایک خاص زمانہ تک کے لیے ہے.قرآن کریم نے یہ دعولی مختلف آیات میں کیا ہے جن میں سے بعض میں اس وقت اپنے دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ الانعام میں فرماتا ہے وهذا كتب انزلنهُ مُبْرَكَ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا عَلَكُمْ تُرْحَمُونَ ) ر آیت ۱۵۶ یعنی یہ قرآن، ایک ایسی کتاب ہے اور ایک ایسی شریعیت ہے جو مبرک ہے تمام آسمانی کتابوں کی خوبیاں اور اُن کی بنیادی صداقتیں گویا بہ کراس کے اندر آ گئی ہیں.اب تم اس کتاب مبارک کی کامل پیروی کرو را تب عوام اس سے تمھیں دو فاند پہنچیں گے.ایک تو یہ کہ تم خدا کی پناہ میں آجاؤ گے، خدا تمھاری ڈھال بن جائے گا اور وہ تمام شیطانی و سادس سے تھیں کیاہے گا کیونکہ اس کتاب مبارک کی اتباع کے بغیر تقوی کی صحیح راہوں کا عرفان بھی حاصل نہیں ہوتا.اور ان پر چل کر اللہ تعالے کی کامل حفاظت کے اندر بھی انسان نہیں آسکتا اور دوسرا نتیجہ اس کا یہ نکلے گا کہ تُرحمون اللہ تعالیٰ کے رحم کے تم مستحق ٹھرو گے اور اس کے انعامات بے پایاں کے نیت میں یمانی اور روحانی آسودگی تھیں حاصل ہو گی.اسی طرح دوسری جگہ رسورۃ الانعام کی آیت ۹۳ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ هذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ مُّصَدِّقُ الذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ قَرَ الْقُرَى وَمَنْ حَولَهَا طبیعی یہ قرآن عظیم الشان کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے
پیلی تمام امتوں کی پریم کی برکات کی جامع ہے اسرار رائے اور ان بشارتوں اور شنگوئیوں کے مطابق نازل ہوئی ہے جو اسکتا کے متعلق پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں.نیز ان تمام شرائع سابقہ کی بنیادی صداقتوں اور ہدایتوں پر مہر تصدیق ثبت کرنے والی ہے اس کے اندران کو جمع کر دیا گیا ہے) اسی طرح ابراہیمی قربانیوں اور دعاؤں کا یہ ثمرہ ہے ، اس لیے تم اہل مکہ اور اہل عرب ک خبر دار کرد کر رہی اکمل شریعیت کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہوا اور موعود و شرایت تم پرنازل ہوگئی.اگر تم اس سے منہ پھیر و گے زمیں کہ براہیم علیہ السلام کے ذریعہ تھیں پہلے سے خبر دار کیاگیا ہے اللہ تعالیٰ کے غضب کے تم مور دینو گے اور عذاب النار کی طرف گھسیٹ کر تمہیں لے جایا جائے گا.اس آیت میں بڑی وضاحت سے بیضرور پایا جاتا ہے کہ ان کا نام الا یہ ملک کی ذات و ابراہیم کی + پیشگوئیوں کے ساتھ ہے.لِتُنذِرَ أَمر القُرَى وَمَنْ سُوکھا میں مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے.تو ہر دو معنے کے لحاظ سے یہ خانہ خدا مبارگی اس وقت بنا جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے.دنیا کے ال میں گرمی بہت پیدا کی گئی اور نیا کی ضرورتوں کو پر کرنے کے لیے نگرمیں شریعت اسلامی کا نزول ہوا.تیسری عرض تعمیر کعبہ کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی کہ ھدی للعلمین تمام جہانوں کے لیے اسے ہدایت کا مرکز بنایا جائے گا، یعنی یہاں ایک ایسی شرعیت نازل ہو گی جس کا تعلق کسی ایک قوم یاکسی ایک زمانہ کے ساتھ نہ ہوگا بلکہ علمین کے ساتھ ہو گا.تمام اقوام کے ساتھ ہوگا، تمام اکنان عالم کے ساتھ ہوگا تمام جہانوں کے ساتھ ہوگا اور تمام زمانوں کے ساتھ ہو گا.اس سلسلہ میں ہلی بات یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ پہلی کتب سمادی کے نزول کے وقت انسان کی کمزور استعدادیں اس لائق نتی که وه کامل و مکمل شرحیت کا متحمل ہو سکتیں.اس لیے ان میں سے کسی کا بھی یہ دعوی نہ تھا کہ ہ تمام اقوام عالم اور ہرزمانے کےلیے ہیں.للعلمین ہونے کا دعوئی راس معنی میں قرآن سے پہلے کسی شریعت نے نہیں کیا.صرف قرآن کریم نے ہی یہ دعوی کیا ہے، اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دنیا کو پکا کر کہا کہمیں تم سب کی طرف خدا کا رسول ہوں ، قرآن کریم میں مبت سی آیات اس مضمون کی پائی جاتی ہیں میں نمونہ کے طور پر چند ایک بیاں بیان کروں گا اللہ تعالی فرماتا ہے ونزلنا عليك
لوم نهم الكتب بيانا تكل شي ورسورة النحل، آیت 1 یعنی ہم نے تیرے پردہ کتاب اتاری ہے جس میں ہر ایک چیز اور ہر ایک تعلی کو بیان کر دیاگیا ہے ہو ہم بنی نوع انسان کی روحانی ترقیات کے لیے ان کرنا چاہتے تھے نین ہمارے علم کامل ہیں تو تیل میں نافع انسان کی اعلی روحانی ترقیات کے لیے ضروری تھیں وہ ہم نے اس کتاب میں بیان گردی ہیں.اور دوسری جگہ فرمایا ماخر طناتی الكتب من شيء رسورة الانعام : آیت 19 یعنی بنی نوع انسان کی کامل استعدادوں کی صحیح نشو و نما کے لیے جس چیز کی بھی ضرورت تھی وہ اس میں بیان ہوگئی ہے اور کوئی تعلیم اس کے باہر نہیں رہی اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دعوی کیا اليوم امت لكم دينكم و اتممتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَى وَرَضِيتُ لَكُمُ الإسلام ديناء (سورۃ المائدة : آی سی یعنی قرآن کریم کے ذریعہ دین اپنے کمان کو اور روحانی نعمتیں اپنے انتہا کو پہنچ گئی ہیں.اب صرف اسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جاسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت معصہ واضح ہوتا ہے قرآن شریف نے ہی میں تعلیم عطا کی ہے اور قرآن شریف کا ہی ایسا زمانہ تھاجس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی ہیں ادھوری کامل تسلی کا جو قرآن شریف نے کیا یہ اسی کا حق تھا ، اس کے سوا کسی آسمانی کتاب نے ایسا دعوئی نہی کیا.جیسا کہ دیکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ تورات اور انجیل دونوں اس دعونے سے دستبر دارین و دیباچه بر این احمدیه حقه همه مشهد آپ نے تورات اور انہیں کے متعلق جود ھوئی کیا اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تورات نے اور کہا کہ تمھارے بھائیوں میں سے ایک بنی مبعوث کیا جائے گا وہ خدا کا کامل کلام تمھیں سنائے گا اور جو اس کی نہیں گھسنے گا اور اس کی اتباع نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سے مواخذہ ہوگا.اگر تورات کامل ہوتی تو تورا کے بعد کی ایسی شرعیت کے نزول کا امکان بھی نہ رہا جس کے نہ مانے پر اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے انسان آجاتا.اور کھیل نے یہ کہ کر انبرداری کا اعلان کیاکہ بہت سی باتیں قابل میان می گریمان کی ابھی بات نہیں کرسکتے کیونکہ تماری استعداد دیں اکبھی کامل نہیں ہیں.پس حضرت مسیح موعود علی السلام فرماتے ہیں کہ اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لیے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ وہ تعلیم کی درد سے ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہے اور کام تعلیم کے لحاظ سے کوئی نیا کا مقامی این مدیا تم ملا کیونکہ پر
ذب کو قرآن کریم اور اسلم فتح کرتا ہے اس لیے اللہ تعالی نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کیا وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِل كان زهوقا در سورن بنی اسرائیل آیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اس کی تفسیریں فرماتے ہیں کہ یہاں الحق سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات بھی ہے.نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا وجود بھی ہے اور قرآن کریم بھی ہے." تو اس آیت کے معنے یہ بنے کہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے ذریعہ خداتعالی کا جلالی طور ہوا اور اس جلالی طہور کے تجریں شیطان نے اپنے تمام لشکروں کے بھاگ گیا اوراس کی تعلیں ذلیل ورستی ثابت ہوئیں اس کی قائم کردہ بدروم اور بدعات شنید کا گند ظاہر ہوگیا اوراس کے گروہ کو بڑی بھاری شکست ہوئی.ین قرآن کریم کا یہ دعوی ہے کہ اس غرض کے لیے قرآن کی اور ا ا ا ا ا ا وا نان ورود و برای ارایان فرماتا ہے : هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُل وَتَوَكَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ، راية ٣٣) ضمن میں یہ بتا دوں کہ اس آیت میں علی البانی موقت تک کا ہونڑا ہے قرآن کریم می میں مختلف جنگوں پر آیا ہے اور ہم سے جگہ علی علیحدہ معانی او مضمون کو بیان کرتا ہے تواللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ وہ خدا ہی ہے جو اپنی ذات میں اور اپنی صفات میں کامل ہے اُس نے اس رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اور اس بعثت اور اس ظہور سے غرض یہ ہے لیظهر علے الداني حلیم کہ تمام ادیان پراس شریعیت کی اور اس رسول کی برتری کو وہ ثابت کرے.دین حق کی برتری ثابت ہوگی ، تودین لانے والے کی برتری خود بخود ثابت ہو جائے گی.یہاں لظرة على الدين مجلہ کہا گیا ہے جس کے منے یہ ہیں کہ وہ تمام ادیان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے دیا میں موجود تھے لیکن ان کے چیلے اور شکلیں بگڑ چکی تھیں.جب بھی وہ اسلام کے مقابل پائیں گے شکست کھائیں گے.قرآن کریم میں ایسے سامان اللہ تعالیٰ نے رکھ دیئے ہیں اور اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسلامی شریعیت کے بعد اگر کوئی جھوٹا دین قائم ہو گا تواس کے اوپر بھی یہ غالب آجائے گا.کیونکہ یہاں دین کے ساتھ سابقہ ادیان کی کوئی شرط نہیں گائی گئی شکل کہانی ہیں انھوں نےاپنا یا دین باقرآن کریم کے مقابل مں قرآن کریم کا دعوی ہے کا یاران و شریعت اسلامیہ کے بی پیدا ہوں ان کا سرکھنے کی بھی قرآن میں طاقت ہے.کیونکہ یہ اس خدا کا کلام ہے جو علام الغیوب ہے جس کے علم میں ہیں وہ تمام باتیں جو آئیندہ ظہور میں آنے والی ہیں.تو دین اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کے مقابلہ میںنہ اگلے نہ چھلے کوئی دین بھی ٹھہر نہیں سکتے.وہ ہر ایک پر اپنے
عقلی دلائل کے ساتھ اور اپنی روحانی صداقتوں اور بدانیوں کے ساتھ اپنی آسمانی تائیدات اور نصرتوں کے ساتھ غالب نے کی طاقت رکھتا ہے.تو هدی تعلمین تمام جہانوں کے لیے ہدایت ہونے کا دعوی صرف قرآن کریم نے کیا اور عملا اسے ثابت بھی کیا ہے.میں نے بتایا تھا کہ ہدایت کے مہار نے گنت میں بیان ہوئے ہیں.پہلے معنے کے متعلق جو خطبہ جیہا ہے اس ہی کچھ تھوڑا سا ابہام ہے.اس کی میں وضاحت کر دیتا ہوں.ہدایت کے پہلے منے یہ یں کہ عقل اور فراست کو جس راہنمائی کی ضرورت ہے اُسے بھی ہدایت کہتے ہیں.یعنے عقل اور فراست ہیں اور علوم کے حصول میں اور اسکی تحقیق میں بھی انسان میں جو طاقتیں ودیعت کی گئی ہیں محض وہ کافی نہیں بلکہ ان کے لیے بھی آسمان سے کسی ہدایت کی ضرورت ہے.تو یہ ہدایت قدر مشترک ہے تمام انسانوں ہیں، اس کا کسی مذہب کے ساتھ تعلق نہیں ہے.اس قدر مشترک کی راہنمائی بھی قرآن کہتا ہے کہ میں کرتا ہوں.اور عقل تو خود اندھی ہے اگر نیر الہام اس کے ساتھ نہ ہو اور اللہ تعالی نے انسان کو یہ بتانے کے لیے کہ جسمانی قابلیتیں اور روحانی استعدادیں کافی نہیں ہوتیں جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو کر آسمان سے اس کی ہدایت کا سامان پیدا نہ کیا جائے بہت سی مثالیں قرآن کریم میں دی ہیں مثلاً ایک مثال یہ دی ہے کہ شہد کی مکھی کوہم الہام کرتے ہیں اور قرآن کریم کا محض یہ ایک دعوئی ہی نہیں بلکہ المی تصرف کے ماتحت انسانی تحقیق نے نہایت لطیف رنگ میں اور بڑی شان کے ساتھ قرآن کریم کے اس دعو ملی کو ثابت کیا ہے.چنانچہ شہد کی مکھی کے متعلق بہونئی تحقیق ہوئی ہے اس میں ایک بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان مکھیوں کی ملکہ (QUEEN) جب انڈے دے رہی ہو، تو انڈا دیتے وقت اسے یہ الہام ہوتا ہے کہ اس انڈے ہیں تریچہ پیدا ہوگا یا مادہ بھی ہوگی.چھتے میں مختلف جنگیں نفری ہیں.ایک حقہ میں ماں وہ انڈے دیکھتی ہے جن میں سے فرنیچتے پیدا ہوئے ہوں اور چھپتے کے ایک دوسرے حصہ میں اُن انڈوں کو رکھتی ہے جن میں سے مادہ بچے پیدا ہونے ہوں تو سینکڑوں ہزاروں انڈے ایک لکھی جسے ملکہ کہتے ہیں دیتی ہے اور ہر موقع پر جب وہ انڈا دے رہی ہو اس کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں سے نر نکلے گا یا مادہ نکلے گی.تو اس قسم کی بہت سی مثالوں سے اللہ تعالے نے انسان کو یہ سمجھایا ہے کہ محض اپنی طاقت اور قوتوں اور محض اپنی عقل اور خرامت اور محض اپنے علم اور فضاپنی تحقیق پر بھروسہ کرنا جب تک آسمان سے تمھارے لیے ہدایت نازی نہ ہو تم کی میدان میں
گھی حقیق کامیابی حاصل نہیں کرسکتے اور چونکہ عقل تمام انسانوں کو اللہ تعالے نے دی ہے اور وہ جو خدائے تعالیٰ کے نہائے ہوئے قوانین پر پل پیرا ہوتے ہیں اللہ تعالی ان کو الہام کرتا ہے اور نئے سے نئے مضامین اُن کے دماغ میں ڈالتا ہے عقلی میدان میں علم کے میدان میں خواہ کوئی مسلمان ہویا عیسائی ہو یا ہیریہ ہو یاکسی مذہب کے ساتھ یا کسی بد مذہبیت کے ساتھ یا لامذہبیت کے ساتھ اس کا تعلق ہو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے عقل کو مشترک ورثہ بنا کر انسانوں کے لیے پیدا کیا ہے.قرآن یہ کہتا ہے کہ علاوہ بعض دوسری ہدایتوں کے جو آسمان سے نازل ہوتی ہیں ہم عقل کی بھی راہنمائی کرتے ہیں.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بڑے لطیفہ پیرایہ میں بیان کیا ہے کہ وحی و الہام کے ذریعہ انسانی عقلوں کو اللہ تعالی نیز کرتا ہے او پھر ذہن رسا سے جو علوم پرورش پاتے ہیں، قرآن کریم ان سے خادموں کی طرح خدمت لیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ :- " خدائے تعالیٰ کی مہستی اور خالقیت اور اس کی توحید در قدرت اور ھم اور قیومی اور مجازات وغیرہ صفات کی شناخت کے لیے جہاں تک علوم عقلیہ کا تعلق ہے استدلالی طریق کو کامل طور پر استعمال کیا ہے اور اس استدلال کے نہین میں تمام علوم کو سیاست ن و موزوں طور پر بیان کیا ہے..اور..علوم مذکورہ سے ایک ایسی شائستہ خدمت لی ہے جو کبھی کسی انسان نے نہیں لی یا گرت تیم آریہ کا حاشیہ ور یہ قرآن کریم کا کمال ہے کہ باقی ادیان تو رائج الوقت علوم کے سامنے اب سکتے ہیں لیکن اسلام می ایک ایسا دین ہے اور قرآن ہی کیا ایسی کتاب ہے جوکسی عقل علم کے سامنے دیتی ہیں کہ اس کو خادم گھتی اور اس سے خدمت لیتی ہے.ہدایت کے دوسرے معنے شریعیت کے ہیں جو اللہ تعالے کی طرف سے نازل ہو.تو ھدی تعلمین کے معنی یہ ہوں گے دہ شریعیت جو علمئین کے لیے ، تمام جہانوں اور تمام زمانوں کے لیے ہے اور صرف قرآن کریم ہی ھدی للعلمین ہے اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم نے دنیا کو مخاطب کر کے فرمایا انّي رَسُولُ اللهِ اللَيْكُمْ جَمِيعًا (سورة الأعلى ١٥٩:٠٠) قرآن کریم بھرا پڑا ہے اس مضمون سے کہ وہ تمام جہانوں اور تما زمانوں کی ہے.صرف ایک دعوی نہیں کہ ایک ناقابل رشید
صداقت ہے جس کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں سینئے حضور فرماتے ہیں:.جس قدر معارف عالیہ دین اور اس کی پاک صداقتیں ہیں اور جس قدر نکات و لطائف علم الٹی میں جین کی اس دنیا میں تمہیں نفس کے لیے ضرورت ہے، ایسا ہی میں قطر نفس امارہ کی بیماریاں اور اس کے جذبات اور اس کی دوری یا دائمی آفات ہیں یا جہ کچھ اُن کا علاج اور اصلاح کی تدبیریں ہیں اور یں قدرت کی تصفیہ لن کے طریقی میں اورمیں قدر اخلاق فاضلہ کے انتہائی ظہور کی علامات و خواص ولوازم ہیں بیسب کچھ باسیفائے تام قرآن مجیدمیں بھرا ہوا ہے اور کوئی شخص ایسی صداقت یا ایسا نکتہ الیہ یا ایسا طریق وصول الی اللہ یاکوئی ایسا نادر یا پاک کو مجاہد اپنی امی کو نکال نہیں سکتا جو اس پاک کلام میں درج نہ ہو کہ دس مریم آریہ ملت حاشیہ) اس کی تفصیل آگے حضور نے بیان فرمائی ہے.پس قرآن کریم کا ہی یہ دعوی ہے کہ انسانی نفس کو روحانی کمالات تک پہنچانے کے لیے جس میں ہدایت اور صداقت کی ضرورت تھی وہ سب میرے اندر پائی جاتی ہیں، اگر تم میری اتباع کرو گے تو روحانی ہماری سے محفوظ ہو جاؤ گے اور روحانی ترقیات کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے اور تم اپنے نفس کا کمال حاصل کر لو گے.اور ہروہ شریعت میں کا یہ دعوئی ہو عقلاً اس کا یہ دعوی بھی ہونا چاہیے کہ غیر متناہی رفعتوں کے دروازے میں تم کول رہی ہوں اور قرآن کریم نے یہ دعوی بھی کی ہے کہ کم قرآن کرم کے شروع میں ہی کہاکہ ان کی امین رسورہ البقرہ آیت ۳) کہ کوئی تقوی کے کسی بند اور ارفع مقام تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے قرآن کریم اس پر تقوی کی مزید راہیں کھولتا ہے.پھروہ آگے جاتا ہے.پھر وہ مزید بلندیوں کو حاصل کرتا ہے.پھر اس سے بھی بلند تر روحانی رفعتیں اس کے سامنے آتی ہیں.پھر وہان تک پہنچنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور قرآن کریم اس کی انگلی پکڑتا ہے اور کہتا ہے تم میری اتباع کرو میں تمھیں ان مزید رفعتوں تک بھی لے جاؤں گا.اسی طرح یہ سلسلہ چلا جاتا ہے اور اس کی انتہا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو دو طرح بیان فرمایا ہے.ایک ایک نبی کریم صلی اللہ علیکم
۴۹ اللہ تعالی کے بے انصافیوض ہیں.ان فیوض کی حد بندی نہیں کی جاسکتی اور منکہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیت کے بے انتہا یں اس لیے دور دیکھنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے لیے برکت چاہتے ہی ہے انتابر کتوں سے بقدر اپنے ہوش کے جملہ متا ہے.اس ضمن میں آپ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ یں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالی کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں.اور وہاں سے نکل کر اُن کی لا انتہا نالیاں ہوتی ہیں اور بقد رحبتہ درصدی بر مقدار کو پہنچتی ہیں.را نبار الحكم بو فروری ما وصفه بحوالہ تذکر ها طبع دوم صفحه ۴۷۷) تو قرآن کریم یا اسلام کا یہ دعوی کرمیں دی تلمتقین ہوں انسانی نفس کو اس کے کمالات تک پہنچانے والا ہوں یہ اس طرح پورا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود خدائے تعالی کی نگاہ میں ایک ایسا پاک موجود ہے کہ الہ تعالی کی غیر حدود رحمتیں آپ پر نازل ہوتی رہتی ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے غیر محدود جلوے آپ پر ہر آن ظاہر ہوتے رہتے ہیں.توجو شخص بھی آپ سے محبت کرے گا اور آپ کے لیے برکت اور رحمت اور سلام چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے ذاتی محبت کے بدلے کے طور پر ان تمام فیض سے حقہ رسدی دیتا چلا جائے گا.اور جب وہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل کچھ حاصل کرلے گا اس عرفان کے ساتھ کہ یہاں سے غیر محدود برکتیں حاصل کی جاسکتی ہیں تومزید رکتیں آپ سے حاصل کرنے کے لیے اس کے دل میں خواہش پیدا ہوگی اور وہ زیادہ جوش کے ساتھ اور زیادہ قلبی حمیت کے ساتھ آپ پر درود بھیجنے گھے گا اور پھر زیادہ برکات کا اس پر نزول شروع ہو جائے گا.اور دو ترے قرآن کریم کے متعلق حضرت سیح موعود علیہ اسلام نے یہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم کا بھی یہ دعوی ہے کہیں غیر محدود انوار کے ، میں غیر محدود برکات کے ہمیں غیر محدود مقامات قرب کے دریدہ نے اپنے ماننے والا قرآن کریم کی اتباع کرنے والوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والوں پر کھولتا ہوں، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرقنا
ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْهِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْلَنَا إنك على كل شى قديره (سورۃ التحریم: آیت 9) اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کی اتباع اور نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کی مالیت کے نتیجہ میں اس دنیا میں کور عطا ہوتا ہے ، وہ نور میں طرح اس دنیا میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا ہے اوران کی رہنمائی کرتا ہے اور روحانی راہوں کو ان پر روشن کرتا رہتا ہے اسی طرح دوسری دنیا میں بھی یہ نور مومن سے جدا نہیں ہوگا اوریہ نہ مجھ لینا کہ قرآن کریم کی کامل اشباع کے نتیجہ میں صرف اس بنیا میں غیر محمد و د رحمتوں کے دروازے کھلے ہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی ان رحمتوں پرکوئی حدبندی نہیں لگائی جا سکتی.اس وقت بھی رکتوں کے یہ دروازے کھلے رہیں گے کیونکہ دوسری جگہ فرمایا ہےکہ جو اس دنیا میں اندھا ہوگا وہ اس دنیا میں بھی بنیائی کے بغیر ہوگا.یہاں اس کے مقابل یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ جو اس دنیا میں روشنی اور دور رکھتا ہوگا وہ نور اس دنیا میں بھی اس کے ساتھ جائے گا.اور یہ نہیں کہ اس دنیا میں روحانی ترقی کے دروازے تو ایسے شخص پر کھلے رہیں گے لیکن اس دنیا میں وہ بند ہو جائیں گے اور وہاں جا کے فصل کٹنے کے بعد جو اس کے پھلوں کے کھانے کا وقت ہوتا ہے ، صرف ویسا ہی وقت ہو گا.ر اور مزید ترقی اُسے نہیں لے گی.یہ بات نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی روح کے لیے ایسے سامان پیدا کردیئے ہیں کہ جو نور وہ قرآن کریم کی متابعت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اس دنیا میں حاصل کرتا ہے مرنے کے بعد بھی وہ اسکے ساتھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ وہاں بھی اس کی ترقیات کے دروازے کھولتا رہے گا اور اس کی راہوں کو روشن کرتا چلا جائے گا.اور کہیں بھی روحانی ترقیات کی اس راہ نے ختم نہیں ہوتا.کیونکہ بندے اور خدا کے درمیان جو فاصلے ہیں اُن کی انتہانہیں پیس بندے اور خدا کے درمیان جو مقامات قرب ہیں ان کی حد بندی اور تعیین کیسے کی جا سکتی ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اس آیت میں یہ تو فرمایا کہ وہ ہمیشہ ہی کہتے رہیں گے کہ ہمارے نور کو کمال تک پہنچا.یہ ترقی.غیر متناہیہ کی طرف اشارہ ہے یعنے ایک کمال نورانیت کا اُنھیں حاصل ہوگا ، پھر دوسرا کمال نظر آئے گا.اس کو دیکھ کر پہلے کمال کو ناقص
پائیں گے.پس کہاں ثانی کے حصول کے لیے انتہا کریں گے اور جب وہ حاصل ہوگا تو ایک تیسرا مرتبہ کمال کا ان پر ظا ہر ہوگا.پھر اس کو دیکھ کر پہلے کمالات کو ہیچ سمجھیں گے اور اس کی خواہش کریں گے یہی ترقیات کی خواہش ہے جو انیمہ کے لفظ سے مجھ جا سکتی ہے.فرض اسی کی غیر متناہی سلسلہ ترقیات کا چلا جائے گا تنزل کبھی نہیں (اسلامی اصول کی فلاسفی و روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۱۲۰۴۱۲) ہو گا.تو قرآن کریم نے ایسا دعوی بھی کیا اقران کریم نے ایسا کرکے بھی دکھا یا بینی ہزاروں لاکھوں مقدس بندے خدا تعالیٰ کے اسلام میں ایسے پیدا ہوئے جنھوں نے اسلام سے اور حاصل کر کے ہجوں نے نبی کی اسی اللہ علیہ سلم کی محبت سے روشنی حاصل کر کے ہمنوں نے اللہ تعالیٰ کے عشق سے ایک چنگاری لے کر ایسی اور حاصل کیا کہ وہ اس دنیا میں غیرت ہی ترقیات کے حامل ہوئے اور جو انہیں اُخروی زندگی میں ملے گا جس کا وعدہ ان سے کیا گیا ہے ، اس کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے.جیسا کہ احادیث میں بیان ہوا ہے کہ وہ ایسی عجیب نعمتیں ہیں کہ ان کا تصور بھی انسان بیاں نہیں کر سکتا.ہدایت کے چوتھے معنے جیسا کہ میں نے بتایا تھا انجام بخیر ہونے کے ہیں یعنی جنت کے مل جانے کے.اور مقصدِ حیات کے حصول کے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أُولَئِكَ عَلى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ه رسورة البقرة : آيت (1) کہ وہ لوگ جو قرآن کریم کی تعلیم ہی کرنے والے ہیں اس پردہ مضبوطی سے قائم ہیں اور ان کے رب کی ربوبیت کا ملہ نے میں کامل ہوتے کو نازل کیا وہ اس ہدایت کے اوپر قائم ہیں.وأوليك هم المفلحون وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں.فلاح عربی زبان میں کامل کامیابی کو کہتے ہیں کہ جس کے مقابلہ میں کوئی کامیابی کامیابی نہیں رہتی جس میں کسی قسم کا کوئی نقص نہ ہو جیں میں کسی قسم کی کوئی خامی نہ ہو.بو بھر پور کامیابی ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ جو لوگ اپنے رب کی رہو انسان کی ربوبیت کرتا ہوا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایک خاص بلند مقام پران کولے آیا اور کامل استعدا دیں اور کامل صلاحیتیں اُن کو عطا کی ہدایت پر قائم ہیں.وہ ایک حقیقی اور کامل فلاح و کامیابی کو پاتے ہیں اورپہلی تمام امتوں سے آگے نکل جاتے ہیں.
۵۲ تو اس وقت اس خطبہ میں میں نے تعمیر کعبہ سے تعلق رکھنے والے دو مقاصد کے متعلق کچھ بیان کیا ہے.ایک یہ کہ رم برعا، اللہ تعالی چاہتا تھاکہ کعبہ کو مبارک بنائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہر دو منی میں بیت اللہ مبارک بن گیا اور دوسرے یہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھاکہ یہاں ایک ایسی ہدایت بھیجے جو ھدی للعلمین ہو.شریعیت کے کمال کی وجہ سے بھی.اور اپنے افاضہ کے لحاظ سے بھی.اور یہ وعدہ بھی قرآن کریم کے ذریعہ پورا ہوا ہے.ورنہ مکہ میں توکوئی اور شریعت تھی ہی نہیں لیکن جو دوسری شریعتیں ہیں انھوں نے بھی نہ یہ دعوی کیا اور وہ یہ دعوی کرسکتی تھیں.قرآن کریم نے ہی یہ دعوی کیا ہے اور قرآن کریم نے اس دعوی کو عملی میدان میں ثابت بھی کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام میں ہزاروں لاکھوں ایسے مقدس وجود پیدا ہوئے جن کی زندگیاں دلیل ہیں اس بات پر کہ جو بھی قرآن کریم کی اتباع کرتا اور اس ہدایت کے پیچھے چلتا ہے جسے خدا تعالیٰ نے ھدی للعلمین قرار دیا ہے وہ خدا تعالی کی انتہائی برکتوں سے حصہ لیتا ہے اور اس کا انجام بخیر ہوتا ہے اور انسانی نفس کو کمال تک پہنچانے کے لیے اور اس کے تزکیہ کو پورا کرنے کے لیے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ قرآن کریم میں پائی جاتی ہے کیونکہ ان لوگوں نے قرآن کریم پر عمل کیا اور خدا تعالی کی نگاہ میں ان کا وجود مبارک اور کامل و جود بنا.اوراللہ تعالی کی فعلی شہادت اس بات پر گواہ ہے کہ فی الواقع بیلوگ خدا تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں اور روحانی میدانوں میں ہر لحظہ اور ہر آن اُن کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ نہیں بھی اس گروہ میں شامل کرے.ر منقول از روزنامه الفضل ارمنی له)
بیت اللہ یہی آیات بینات اور تائیدات سماوی کافی ہے جو همیشه زند بین گی 1946 خطبه جمعه، فرموده ۱۲ مئی ۹۶ائه بمقام مسجد مبارک ربوده
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالی نے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ خدا کا یہ گھر ایسی آیات بینات اور ایسے نشانات اور تائیں رات سمادی کا منبع بنے گا.جو ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں گی، یعنی اس تعمیر سے ایسی اُمت مسلمہ کا قیام مدنظر تھا اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے نشان قیامت تک دنیا پر ظاہر ہوتے ہیں ؟
تشند ، تعوذ اور فاتو شریف کے بعد حضور پرنور نے آیت فِيهِ ابْتَ بَيْنَتُ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَهُ وَمَنْ دَخَلَه كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً رسورة آل عمران : ۱۹۰ تلاوت فرمائی پھر فرمایا : میں اپنے خطبات میں اُن نہیں مقاصد کے متعلق بیان کر رہا ہوں، جن کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی بنیا دوں کو حضر ابراہیم علیہ السلام کے ڈرایدم نکلوایا تھا.اور یہ بتارہا ہوں کہ کس طرح نبی اکرم صلی علیہ وسلم کے ایران عراض کو پورا کیا گیا.تین مقاصد کے متعلق میں اپنے پچھلے خطبات میں دوستوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں." پوستی عرض تعمیر کعبہ سے یہ تھی یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالی کا چوتھا نہ یہ تھا کہ فیه این بینت میں نے بتایا تھا کہ اس فقرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ خدا کا یہ گھر ایسی آیات بنیات اور ایسے نشانات اور تائیدات سماوی کا منبع بنے گا جو ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں گی یعنی اس تعمیر سے ایسی امت مسلمہ کا قیام مد نظر تھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے نشان قیامت تک دنیا پر ظا ہر ہوتے رہیں.قرآن کریم نے یہ دعوی کیا ہے کہ صرف اسی کی اتباع کے نتیجہ میں قیامت تک کے لیے یہ دروازہ کھولا گیا ہے اور یہ کہ ہر قوم اور ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو اس کی برکتوں سے حصہ لیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے نشانوں کو ظاہر کرتا رہے گا.آیات بینات پہلے انبیاء کو بھی دیئے گئے تھے لیکن وہ ایسی آیات بنیات تھیں جن کا تعلق صرف ان کی قوم اور ان کے زمانہ سے تھا.تمام بنی نوع انسان سے ان کا تعلق نہ تھا اور ہر زمانہ سے ان کا واسطہ نہ تھا لیکن ان
آیات میں تو مضمون ہی یہ بیان ہوا ہے کرتی وہ مقاصدمیں جن کا تعلق تمام بنی نوع انسان کے ساتھ ہے.ہر قوم اور مہران کے ساتھ ہے.اسی لیے اس مضمون کی ابتدا ہی إِن أَول بَيتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ مِیں لِلنَّاسِ کے ساتھ کی گئی ہے.تو اگر چہ آیات بیات پہلی امتوں کو بھی دئے گئے لیکن ایسی آیات بنیات جن کا تعلق ہر قوم اور ہر زمانہ سے تھا وہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دئے گئے.اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے بَل هُوَ ايت بينت في صُدُورِ الذين أوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِاتِنَا إِلَّا الظَّلِمُونَ ، رسوره عنکبوت آیت ۵۰) اس آیه کریمی ای بی مضمون بیان ہوا ہے کہ محمدرسول اله صل للہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ سے ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جنہیں کامل علم اور کامل معرفت عطا ہوتی رہے گی اور اس کامل معرفت کے تنظیم میں اُن کے دلوں میں اپنے رب کے لیے کامل خوف بھی پایا جائے گا.اور اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں اپنے رب کے لیے کامل محبت بھی پیدا کی جائے گی اور وہ اپنے رب کی قدر کرنے والے ہوں گے تو ایسے لوگ چونک پیدا ہوتے ہیں گے، اس لیے وہ آیات بینات جن کا قرآن کی کے ساتھ پر اگر تعلق ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم ہے آیات بنیات سے.وہ اُن کے سینوں سے نکلتے رہیں گے اور قرآن عظیم کی اس روشنی سے دنیا ہمیشہ منور ہوتی رہے گی لیکن کچھ لوگ است میسر میں ایسے بھی پیدا ہوں گے جو ظالم ہوں گے.اور قرآن کریم کے فون کے ان دروازوں کو اپنے پر بند کرنے والے ہونگے.ایسے لوگوں کے ذریعہ سے بے شک اللہ تعالیٰ کی آیات بینات ظاہر نہیں ہونگی لیکن أوتوا العلم یعنی وہ لوگ تبخیر کامل علم عطا کیا جائے گا وہ ہمیشہ امت مسلہ میں پیدا ہوتے رہیں گے اور آیات بینات کا دروازہ قیامت تک امت مسلم پر کھلا رہے گا.یہ صرف ایک دعوی ہی نہیں بلکہ تاریخ اسلام شاہ ہے اس بات پر کہ اللہ تعالی نے اسلام کی سچائی اورمحمد والہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کرنے کے لیے زمین اور آسمان اور ہر زمانہ کو نشانوں سے بھر دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں :- دوسری علامت بیچتے مذہب کی یہ ہے کہ مردہ مذہب نہ ہو بلکہ جن برکتوں او عظمتوں ی ابتدامیں اس میں تخم ریز کی گئی تھی وہ تمام کریں اور میں نوع انسان کی
بھلائی کے لیے اس میں اخیر دنیا تک موجود ہیں ناموجود نشان گذشتہ نشانوں کے لیے مصدق ہو کر اس سچائی کے نور کو قصبہ کے رنگ میں نہ ہوتے ہیں.سوئیں آپ مدت دراز سے لکھ رہا ہوں کہ جس نبوت کا ہمارے سید و مول محمد مصطفے صلی اللہ عل وسلم نے دعوی کیا تھا اور جو دلائل آسمانی نشانوں کے آنجناب نے پیش کیے تھے وہ اب تک موجود ہیں اور پیروی کرنے والوں کو ملتے ہیں تا وہ معرفت کے مقام تک پنی جائیں اور زندہ خدا کو برا و راست دیکھ لیں یہ تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۴ - اشتهار مورخرم صورتی اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تصدیق النبی ہمیں فرماتے ہیں:.چوتھا معجزہ قرآن شریعت کا اس کی روحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلی آتی ہیں میں یہ کہ اسکی پیروی کرنے والے قبولیت امنی کے مراتب کو پہنچتے ہیں اور مکالمات الہیہ سے مشرف کیے جاتے ہیں، خدائے تعالیٰ اُن کی دُعاؤں کو سنتا اور انہیں محبت اور رحمت کی راہ سے جواب دیتا ہے اور بعض اسلام علیہ یہوں کی طرح اُن کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید اور نصرت کے نشانوں سے دوسری مخارنا سے انہیں ممتاز کرتا ہے.یہ بھی ایسا نشان ہے جو قیامت تک امت محمدی میں قائم رہیگا اور ہمیشہ ظا ہر ہوتا ہوں آیا ہے اور اب بھی موجود اور تحقیق الوجود ہے بات اسی طرح "کتاب البریہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- جس قدر اسلام میں اسلام کی تائید میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی گواہی میں آسمانی نشان بندرابی اس امت کے اولیاء کے ظا ہر مہینے اور ہوا ہے اور ان کی نظیر دوسرے مذاہب میں ہر گز نہیں.اسلام ہی ایک ایسا نہ ہب ہے جس کی ترقی آسمانی
نشانوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ہوتی رہی ہے اور اس کے بے شمار انوار اور برکات نے خدا تعالی کو قریب کر کے دکھلا دیا ہے یقینا سمجھو کہ اسلام اپنے آسمانی نشانوں کی وجہ سے کسی زمانہ کے آگے شرمندہ نہیں ؟ کتاب بری طبع اول ، وصفه ۹۲ روحانی خزائن جلد ) اس کے بعد اسی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا وجود دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالی نے لاکھوں کی تعداد میں ان آیات بیات کو ظاہر فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجودہ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اسلام کی صداقت پر ایک زندہ گواہ تھا.تازہ تازہ نشان آسمان سے بارش کی طرح انزر رہے تھے اور صرف دوہ آنکھ میں پر عقب کی پٹی بندھی ہوئی تھی ان نشانوں کے دیکھنے سے قوم تھی.ذراسی عقل رکھنے والا سمجھ رکھنے والاجو نے متعقب تھا وہ ان نشانوں سے انکار نہیں کر سکتا تھا حضرت میں موعود علیہ السلام پر ان آیات بنیات کا خاتمہ نہیں ہوگیا.جبکہ بامدادی کے نتیجہمیں ایک تازگی اسلام کے اندر پیدا ہوئی اور وہ دروازہ جو بعض لوگوں نے اپنی جہالت کی وجہ سے اپنے پر بند کردیا تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ثابت کیا کہ وہ کھلا ہے بند نہیں ہے.آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے ذریعہ نشانوں کا یہ سلسلہ جاری رہا ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی زندگی ان لوگوں کی زندگی تھی جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اُولُوا العلم آیہ مذکورہ میں بیان کیا ہے.یہی حال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا تھا.سینکڑوں اور ہزاروں نشان دنیا نے آپ کے ذریعہ دیکھیے.اور اب بھی یہ دروازہ بند نہیں ہے.ابھی چند دن کی بات ہے نماز فجر سے قبل میں استنفار میں مشغول تھا.ایک خوف سا مجھ پر طاری تھا اور میں اپنے رب سے اس کی مغفرت کا طالب ہو رہا تھا.اس وقت اچانک میں نے محسوس کیا کہ ایک غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لئے لیا ہے.اور میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے قیام دین اور پھر ایک دھنکتے کے ساتھ ھیں نے میرے سارے جسم کو ہلا دیا میں پھر بیداری کے عالم میں آگیا اوراس کی تصمیم مجھے یہ ہوئی کہ موجودہ سلسلۂ خطبات کے ذریعہ جو پروگرام میں جماعت کے سامنے رکھنے والا ہوں اس کے ذریعہ سے اللہ تعالی دین اسلام کو قائم کرے گا.اس کے استحکام کے سامان پیدا کرے گا انشا والله
۵۹ تو ہزاروں نشانات ہیں جن کا سلسلہ خلافت مسیح محمدی کے ذریعہ سے اللہ تعالٰی نے جاری کیا ہے.مگر یہ بات یاد کنی چاہیے کہ چونکہ خلیفہ راشد تا او نیتی کے مقام پر ہوتا ہے اس لیے عام طور پردو وایسی باتوں کا اظہار نہیں کیا کرتا جوانت یا کی طرف سے محبت کے اظہار کی باتیں ہوتی ہیں.سوائے ایسی باتوں کے جن کا تعلق سلسلہ کے ساتھ ہواور جن کا بتایا جانا ضروری ہو.جبکہ اپنے تجربہ کی بناء پر ہی یہ کہ سکتا ہوں کہ خلفائے راشدین کواللہ تعالی ہمیشہ منع کرتا رہا ہے کہ اپنے مقام قرب کا کھل کر اظہار نہ کیا کریں اور اپنے ذاتی تجربہ اور حضرت سیح موعود علیہ السلام کے ایک فرمان اور تاریخی گامیوں کے پیش نظر میں نے ی نتیجہ نکالا ہے.تاریخ نے خلفاء راشدین سابقین کی صرف چند آیات قنات محفوظ کی ہیں.مشناہ میرے خیال میں اپنی دس سے زیادہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نشانات بیان نہیں کیے، یعنی جو پیش خبریاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دی گئیں یا جو بشار میں آپ کو دی گئیں ان میں سے چند ایک تاریخ میں محفوظ ہیں، زیادہ نہیں ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواق واستلام نے فرمایا ہے کہ ہزار ہا پیش خبر یں اور مکالمے مخالے ان بزرگ خلفاء راشدین سے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرمان توق اور صداقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن تاریخ خاموش ہے نتیجہ یہ نکالنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ ان باتوں کا پبلک میں اظہار نہیں کیا کرتے تھے سوائے ضرورت کے وقت کے سوائے اُن باتوں کے جن کا سلسلہ کے نظام سے تعلق ہو.اور ان کا بتایا جانا ضروری ہو.مثلاً ایک وقت میں حضرت خلیفہ ایسی الثانی رضی اند عنہ نے جب جماعت کے خلاف بہت فتنہ و فساد تھا فرمایا تھا کہ جن باتوں کا مجھے علم ہے اگرمیں تمھیں بتا دوں تو تمھارا زندہ رہنا ہی شکل ہو جائے گا رالفاظ مجھے یاد نہیں، مفہوم اسی قسم کا تھا) یں بتا یہ رہا ہوں کہ فیہ ایک بیت کا جو وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا گیا تھا ، محمد رسول اللہ صل الله علیہ وسلم اس وعدے کو پورا کرنے والے ہیں اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دنیا نے اللہ تعالیٰ کے لاکھوں نشانات کا مشاہدہ کیا ہے اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے بھی.اور دوسر کو بزرگ جماعت احمدیہ میں پائے جاتے ہیں اُن کے ذریعہ سے اللہ تعالی انشان ظاہر کرتا رہتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی برکت کے طفیل، آپ کے ماننے والوں پر حقیقت بھی وضاحت کے ساتھ ثابت ہو چکی ہے کہ اس قسم کی باتیں عام طور پر
ظاہر نہیں کرنی چاہئیں، کیونکہ ن کے نتیجہ مں انانیت پیدا ہوتی ہے اور بعض دفعہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ الہتعالیٰ کی ناراضگی کوانسان مول لینے والا نہ ہو جائے.تو قرآن کریم سے نمی مونمونہ اولیا و امت کا تاریخ میں محفوظ ہے اور جو کو نبی کریم صلی الہ علیہ سلم کے مشاق اور اپنی نیا کی راہوں میں فدا ہونے والوں سے اللہ تعالی کرتا رہا ہے اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتاکہ تمام اقوام یں اور ہرزمانہ میںآیات بینات موجود ہیں اور ان کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے.دوسرے مذاہب نہ ایسا دعوی کر سکتے ہیں اور نہ اسے ثابت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.پانچویں فرض تعمیر کعبہ سے یہ بتائی گئی تھی ، مقامر ابرا جائے.اور یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس برا نہیں مقام کے ذرید سے عشاق الہی کی ایک ایسی جماعت پیدا کی جاتی رہے گی جو تمام دنیوی علائق سے منہ مورکرخدا کی رضا پر اپنی تمام خواہشات کو قرانی کر کے مقام فضا کو حاصل کرنے والی ہو گی.سوچا جائے تو آیات بینات کے نتیجہ میں ہی مقام ابراہیم کا حصول ممکن ہوتا ہے ورنہ نہیں.آیات بینات اور مقام ابراہیم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے تو چونکہ امت محمدیہ ہی آیات بینات کا ایک سمندر ہمیشہ موجزن رہتا ہے اس لیے امت محمدیہ میں مکن ہو گیا ہزاروں لاکھوں ایسے بزرگوں کا پایا جانا کہ جو مقام ابراہیم کو اصل کرنے والے ہوں.در اصل مقام ابراہیم مقام محمدیت کا ظل ہے لیکن اس مقام تک اپنی جان ومحمدرسول الله لا اله علی کل کا مقام ہے یہ تو من نہیں لیکن اس کے بعد جو دوسرا مقام ہے وہ مقام ابراہیم ہے.ایک طبل کی شکل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان آیات بینات سے حصہ لیا ہے.قرآن کریم نے یہ دعوی کیا ہے کہ میرے ماننے والوں میں ایسے لوگ کثرت سے پیدا ہوں گے جو فنا کے اس نظام کو حاصل کرنے والے ہوں گے.یہ مقام نا کیا چیز ہے ؟ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ اسلامہ زمانے میں ایک مقام محبت ذاتی کا ہے جس پر قرآن شریف کے کام متبعین کو قائم کیا جاتا ہے اور ان کے رگ وریشہ میں اس قدر محبت البیہ تاثیر کر جاتی ہے کہ ان کے وجود کی حقیقت بلکہ ان کی جان کی جان ہو جاتی ہے اور محبوب حقیقی سے ایک عجیب طرح کا پیار ان کے دلوں میں جوش مارتا ہے اور ایک خارق عادت اُنس اور شوق اُن
کے قلوب صافی پیستولی ہو جاتا ہے، جوغیر سے بجلی منقطع اور گستہ کردیتا ہے اور ان مشرق النی ایسی فرشتہ ہوتی ہے کہ جو کہ بہت لوگوں کو اوقات خاصہ میں بدنی خور پر مشہود اور ٹسوس ہوتی ہے اور سب سے بزرگ ترااُن کے صدق قدم کا نشان یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی کو بریک چیز بر اختیار کر لیتے ہیں.اور اگر آدم اس کی طرف سے پنچھیں تو محبت ذاتی کے غلبہ سے برنگ انعام ان کو مشاہدہ کرتے ہیں اور عذاب کو شربت عذب کی طرح سمجھتے ہیں کسی تلوار کی تیز دھار اُن میں اور ان کے محبوب میں جدائی نہیں ڈال سکتی او کوئی بابیہ غلطی ان کو اپنے اس پیارے کی بات دوت سے روک نہیں سکتی اسی کو اپنی جان سمجھتے ہیں اور اسی کی محبت میں ذات پاتے اور اسی کی ہستی کو مستی خیال کرتے ہیں اوراسی کے ذکر کو اپنی زندگی کا حصل قرار دیتے ہیں.اگر چاہتے ہیں تو اسی کو، اگر آرام پاتے ہیں تو اسی سے، تمام عالم میں اسی کو سکھتے ہیں اور اسی کے ہو رہتے ہیں.اُسی کے لیے جیتے ہیں اور اسی کے لیے مرتے ہیں.عالم میں رہ کر پھر لیے حالہ میں اور باخود ہو کر پھر ہے خود ہیں، نہ عزت سے بہم رکھتے ہیں ز نام سے نہ اپنی جان سے، نہ اپنے آرام سے بلکہ سب کچھ ایک کے لیے کھو بیٹھتے ہیں.اور ایک کے پانے کے لیے سب کچھ دے ڈالتے ہیں لا یدرک آتش سے جلتے جاتے ہیں اور کچھ ہی نہیں کرسکتے کیوں جلتے ہیں و تنظیم اور تم سے تم و بگم ہوتے ہیں اور ہریک مصیبت اور ہر یک رُسوائی کے سہنے کو تیار رہتے ہیں اور اس سے لذت پاتے ہیں.برا بین احمدیہ حصه چهارم صفحه ۲۵۰ تا ۴۵۱ حاشیه در حاشیه نمبر ۳
! اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مقدس جماعت کا نقشہ یوں کھینچا اوربیان فرمایا ہے کہ ابر ہمیں وعدہ کے مطابق اور ان بشارتوں کے مطابق جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دی تھیں :- لاکھوں مقدسیوں کا یہ تجر یہ ہے کہ قرآن شریف کی اتباع سے برکات الهی دل پر نازل ہوتی ہیں اور ایک عجیب پیوند مولا کریم سے ہو جاتا ہے....اور ایک لذیذ محبت الہی جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی جاتی ہے اگر ان کے وجودوں کو ہا دن مصائب میں پیا جائے اور سخت شکنجوں میں دے کر پنچوڑا جائے تو ان کا عرق بجر حب الہی کے اور کچھ نہیں.دنیا ان سے ناواقف اور وہ دنیا سے دُور تر اور بلند تر ہیں " شهر م یتیم آریہ حاشیہ ماس یہ وہ مقام ابراہیم ہے جس کا وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیا گیا.اس کی بشارت اپنے رب کی طرف سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی.اور خدا تعالیٰ جو بیچتے وعدوں والا ہے ، اُس نے اپنے اس وعدے کو سچا ثابت کردکھایا اور امت مسلہ میں لاکھوں وجود ایسے پیدا کیے جو مقام ابراہیم تک پہنچنے والے تھے.چھٹا وعدہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا گیا تھا وہ ان آیات کے اس ٹکڑے میں بیان ہوا ہے دمن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا میں نے بتایا تھا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو بیت اللہ میں داخل ہوگا لینے اُن عبادات کو بجالائے گا جن کا تعلق خدا تعالیٰ کے اس گھر سے ہے ، دنیا اور آخرت کے جہنم سے خدا کی پناہ میں آجائے گا اور اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے اور نار جہنم سے وہ محفوظ ہو جائے گا.وَمَنْ دخَلَهُ كانَ آمِنًا - جواس گھر میں داخل ہوگا ، اس آگ سے محفوظ ہو جائے گا جو خدا تعالیٰ نے منکروں کے لیے بھڑکائی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ نمل میں فرماتا ہے وَهُمْ مِنْ فَزَع يَوْمَذا منون ، آیت 9) لینے اسلامی ہدایت کے مطابق اعمال صالحہ بجالانے والوں کواللہ تعالی بہتر اور احسن بدلہ دے گا اور نفخ صور کی گھڑی میں ایسے لوگ خوف جہنم سے محفوظ رہیں گے.اس وقت اللہ تعالیٰ ان کو یہ بشارت دے گا کہ تمھیں نار جہنم کی طرف نہیں لے جایا جائے گا بلکہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا.اس واسطے کشتیم
کا خوف نہ کرو.اس طرح اللہ تعالے نے دوسری جگہ فرمایا ان المُتَّقِينَ فِي بَنْتِ وَعُيُونٍ نِ ادْخُلُوهَا بِسَيْهِ مِنِينَ (سورة إِنَّ امبر ۳۹ مشتقی لوگ یقینا با خوں اور شتوں والے مقام میں داخل ہوں گے انہیں کیا جائے گا کہ تم سلامتی کے ساتھ بے پروف..خطر ان میں داخل ہو جاؤ تو یہ اس ہے جو قرآن کریم کے ذریعہ سے اس کے کامل متبعین کو منتا ہے.فرمایا تھا من دَخَلَه كَانَ امنا عین نہی الفاظ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صل اللہ علیہ سلم کو فرمائے اور فرمایا کہ ہم نے تم سے وعدہ کیا تھا لند خُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إن شاء الله امين رسورة الفتح، آیت ۳۸ کہ تم مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہو گے اور وہ وعدہ پورا ہوا.ایک تو اس کی ظاہری تفسیر کے اللہ تعالی نے فتح مکہ کے سامان پیدا کیے اور غیر جنگ کے کفار مکہ نے انہوں نے اپنی کی مریں اسلام کو مٹانے کے لیے صرف کر دی تھیں ہتھیار ڈال دیئے اور فرشتوں نے جن کا آسمان سے نزول ہوا اُن کے دلوں میں اس قدر خوف پیدا کر دیا کہ لڑائی کی ان کو بہت ہیں نہ پڑی.لیکن اس کے دوسرے منے یہ بھی ہں کہ تم ہی وہ اُمت ہو جو اس وعدہ کو پورا کرنے والی ہو جو حضت ابراہیم علیہ اسلام سے ان الفاظ میں کیا گیا تھا کہ و من کے خله نمان امنا جو اس میں داخل ہوگا وہ اس میں آجائے گا تمھارے ذریعہ سے وہ وعدہ پورا ہوا میں اس کی وضاحت کر چکا ہوں کہ یہ تمام وعدے وہ ہیں جن کا تعلق تمام بنی نوع انسان سے ہے، تقویم اور یہ زمانہ کے ساتھ کسی خاص قوم یا کسی خاص زمانہ کے ساتھ یہ مخصوص نہیں ہیں.تر من محلہ مکان اینا کے معنی یہ ہوئے کہ خواہ دنیا کی کسی قوم سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو یا کسی زمانہ میں میں رہنے والا کیوں نہ ہو جو شخص بھی مناسب تو خلوص نیت سے ادا کرے گا وہ نار جہنم سے محفوظ ہو جائے گا.چنانچہ حدیث میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ بی کریم صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا من کم فَلَمْ يُرْكَ وَلَمْ نَفْسُنَّ فَلَهُ مَا تَخْدام من ذنبه ریا د رکھیں کہ پرنٹ اور یوفیت اور یفسق اور يَفْسِقُ دونوں طرح عربی زبان میں یہ الفاظ بولے جاتے ہیں) که جو شخص گندی او نقش باتوں سے پر ہیز کرے لینے جو شخص حج کرے اور مناسک کی ادا کرتے ہوئے فحش بود می سے بہتا ہے
جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اندرونہ اس قدر پاکیزہ ہوکہ تخت بات اسکی زبان پر آہی نہ سکتی ہو یہ مطلب نہیں کہ وہ باقی گیارہا کچھ دن تو یتیم کی کفش کلامی کرتا ہے صرف ان دونوں رفت سے بچے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ میں کا اندرونہ ناپاک ہوچکا ہو اور گندگی اس کے سینہ سے اتنی دور ہو چکی ہو نفش بات ، گندی بات اس کے منہ پر ہی نہ سکے.اور جو حق اور صلاح کے طریق سے خروج نہ کرے یعنی شرعی حدود سے باہر نہ ہو ان کی پابندی کرنے والا ہو اور اطاعت کا حق ادا کرنے والا ہو، تو ہر شخص اس خالص نیت کے ساتھ اور ان خالص اعمال کے ساتھ اور ان پاکیزہ آداب کے ساتھ حج بیت اللہ کرتا ہے اللہ تعالی کا اس سے وعدہ ہے کہ اُس کے کھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور میں کے تمام کھلے گناہ معاف ہو گئے وہ یقینا نا رہی ہے بچا لیا گیا.ایک اور طرح بھی انسان اس دنیا میں بھی اوراس دنیا میں بھی نار منہ سے بھی جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ منی داخلہ ہونا ابراہیم میں داخل ہوا كان امنا اللہ تعالی کی امان میں اور امن میں آجاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :- خدا ایں بے انتہا عجیب قدرتیں ہیں.مگر اس کی یہ عجیب قدرتیں ان ہی پھلتی ہیں جو اس کے بھی ہو جاتے ہیں.اور وہی یہ خوارق دیکھتے ہیں جو اس کے لیے اپنے اند را یک پاک تبدیلی کرتے ہیں اور اس کے آستانے پر گرتے ہیں اور اس قطرے کی طرح جس سے موتی بنتا ہے صاف ہو جاتے ہیں اور محبت اور صدق اور صفا کی سوزش سے گھل کر اس کی طرف بننے لگتے ہیں تب وہ ھیتوں میں ان کی شہر لیتا ہے اور عجیب طور پر دشمنوں کی سازشوں اور منصوبوں سے انھیں بچا لیتا ہے اور ذلت کے مقاموں سے اُنھیں محفوظ رکھتا ہے.وہ ان کا متولی اور متعهد ہو جاتا ہے.وہ اُن مشکلات میں جبکہ کوئی انسان کام نہیں آسکتا ان کی مدد کرتا ہے اور اس کی فوجیں اس کی حمایت کے لیے آتی ہیں.کس قدر شکر کا مقام
۶۵ ہے کہ ہمارا خدا، کریم اور قا در خدا ہے پیس کی تم ایسے عزیز کو چھوڑو گے یہ کیا ہے نفس نا پاک کے لیے اس کی حدود کو توڑ دو گے یا ہمارے لیے اُس کی رضامندی میں مرنا نا پاک زندگی سے بہتر ہے ؟ ر أيام التصلح صفه (1.یہ وہ امن ہے جو اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے پر ایک موت وار کر کے مستی کا لبادہ اوڑھا اور مقام بیا میں میں وائل ہوتا ہے تب اللہ تعالٰی کی فوجیں آسمان سے نزول کرتی ہیں اور اس کو ترسم کے مذاہوں سے محفوظ کرلیتی میں خداتعات اپنے بندوں پر دو آگوں کو مسلط نہیں کرتا.ایک تو اس کے وہ بندے ہیں جو محبت کی آگ میں جل گرفتا کا مقام حاصل کرتے ہیں تب دوسری آگ کے دروازے اُن پر بند کردئے جاتے ہیں.ایک وہ اس کے بندے ہیں جو اس کی محبت کا خیال نہیں سکتے جو اس کے پیار پیشکر کرنے والے نہیں ہو اس کی رحمتوں پر کفر کرنے والے ہیں، جو اس سے منہ موڑ کر دنیا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس سے پیار کرنے کی بجائے دنیا سے پیار کرتے ہیں وہ اسے محبوب بنانے کی بجائے دنیا کے علائق کو اور دنیا کے رشتوں کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں.ایسے لوگوں پر خدا کی حفاظت نازل نہیں ہوتی اور نہ اس کی فوجیں نازل ہو کران کو امن دیتی ہیں.بلکہ دوزخ کے دروازے ان لوگوں پر کھولے جاتے ہیں اور نار جہنم ان کا ٹھکانا ہوتا ہے.پس خدا کے بندوں پر دو آگیں وارد نہیں ہوتیں.اب یہ اُن کی مرضی ہے کہ محبت کی آگ کو پسند کریں اور گندگی کو جلا کہ خاک کر دیں، اپنے نفس کو بھی اور اپنی خواہشات کو بھی اپنے وجود کو بھی اپنی ساری محبتوں کو بھی ، اپنے سارے رشتوں کو بھی انے تعلقوں کو بھی.اور یا وہ خدا کی محبت پر دنیا کی محبت کو ترجیح دیں اور اپنے لیے خود اپنے ہاتھ سے جہنم کے دانے کھولیں.ساتواں وعدہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کیا گیا تھا کہ صرف تیری نس پر ہی یہ حج فرض نہ رہے گا بلکہ ایک ایسا نبی بیاں مبعوث کیا جائے گا جس کی شریعیت عالمگیر ہوگی اور اس شریعت کے نڈوں کے بعد اقوام عالم پر میچ کو فرض کر دیا جائے گا او اس طرح اس خانہ خدا کو مرجع خلائق اور مرجع عالم بنا دیا جائے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہی کہ حضرت نبی اکرم کی بعثت سے پہلے یہ وعدہ پورا نہیں ہوا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور قرانی شریعت آپ پر نازل ہوئی تب اس شریعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان پرچ کو فرض کر دیا.چنانچہ سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : الحج
أَشْهُرٍ مَّعْلُومَت فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَج وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ تَعْلَمُهُ الله در آیت : ۱۹۸) کہ اے بنی نوع انسان تم یاد رکھو کہ حج کے مہینے سب کے جانے پہچانے ہیں.پس جو شخص حج کو اپنے پر فرض سمجھتے ہوئے حج کرنے کا پختہ ارادہ کرے وہ حج کے ایام میں رجیسا کہ دوسرے دنوں میں کوئی شہرت کی بات یا کوئی نافرمانی کی بات یا کسی قسم کے جھگڑے کی بات نہ کرے.یہ اُس کے لیے جائز نہ ہوگا اور پھر فرمایا کہ جو نیک کام بھی تم کرو گے اللہ ضرور اس کی قدر کو پہچان لے گا.وہ یہ نہیں دیکھے گاکہ تمھارا تعلق سفید نسل سے ہے یا تمھارا تعلق سیا و نسل سے ہے بلکہ خواہ تم کسی بھی قوم کے فرد کیوں نہ ہوں کسی بھی خطہ زمین کے رہنے والے کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حتی کوخدا کے کہنے کے مطابق اپنے لیے ضرور می عبادت سمجھو گے اور جب وہ شرائل تھا اسے حق میں پوری ہو جائیں گی مین کا تعلق ہی کرنے کے ساتھ ہے اور اس فریضہ کو رانیہ جانتے ہو ئے فر یا کرو گے اور جی کے دوران بھی اُن تمام ہدایتوں کا پاس کرو گے جو ہدایتیں اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں تمھیں دی ہیں تو پھر اسے تمام بنی نوع انسان با بی بی ک نیکی کا جو کام ہیں تم کروگے اللہ تعالی کی بھا میں تمھاری قدم قائم ہو جائے گی.وہ تماری نیکی کو بہانے لگا، کوئی چیز اس کی نظر سے غائب نہیں ہے اور اس قدر کے نتیج میں اس کی بے شمار نعمتوں کے تم وارث ہو گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حج بیت اللہ صرف ظاہری مناسک حج کا ہی نام نہیں، بلکہ ہر عبادت اسلامی کے پیچھے اس کی ایک روح ہے ظاہری عبادت جسم کا نگ لکھتی ہے.اس کے پیچھے ایک اج ہے جو شخص سوچ کا خیال زہر کھے اور صرف ہم پر فریفتہ ہو وہ ایک مردہ کی پرستش کرنے والی ہے.اس کو ان عبادات کا جن کی روح کا خیال نہیں رکھا گیا کوئی ثواب نہیں ہیگا.بلکہ اس کے ساتھ اس کے رب کا وہی سلوک ہوگا جو ایک مردہ پرست کے ساتھ ہونا چاہئیے.حضرت مسیح موعود علی اسلام نے حج کے متعلق فرمایا ہے :- اصل بات یہ ہے کہ سالک کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ وہ انقطاع نفس کر کے تعشق باللدا و محبت الہی میں غرق ہو جاوے.داشت اور محبت جو سچا ہوتا ہے وہ اپنی جان اور اپنا دل قربان کر دیتا ہے اور بہت اللہ کا طواف
اس قربانی کے واسطے ایک ظاہری نشان ہے.جیسا کہ ایک بیت اللہ نیچے زمین پر ہے ایسا ہی ایک آسمان پر بھی ہے جب تک آدمی اُس کا طواف نہ کرے اس کا طواف بھی نہیں ہوتا، اس کا طواف کرنے والا تو تمام کپڑے اتار کر ایک کپڑا بدن پر رکھ لیتا ہے، لیکن اس کا طواف کرنے والا بالکل نزع ثیاب کر کے خدا کے واسطے نگا ہو جاتا ہے.طواف عشاق الہی کی ایک نشانی ہے عاشقی اس کے گرد گھومتے ہیں.گویا اُن کی اپنی مرضی باقی نہیں رہی.وہ اس کے گردا گرد مراة الحقائق جلد سوم (مجموع فتاوی احمد) قربان ہو رہے ہیں مرتبه محمد فضل صاحب جنگوری صفحه ۲۶ تو یہ آسمانی حج ہے.جب تک کوئی شخص اُس بہت اللہ کا حج نہیں کرتا، زمین کا حج بھی قبولیت حاصل نہیں کرتا.تو بج کرنے والوں حج کی نیت رکھنے والوں کو یہ کہ بھونا نہیں چاہیئے.ظاہری عباد ہیں جو ہیں وہ ہم نے کر یں اور تو اپنی عبادت ہے میں پر اللہتعالی کا حکم صادر ہوتا ہے اس کے متعلق میں گھر پہ نہیں کیقبول ہوئی یا نہیں ہوئی.تو امظاہری عبادت کے بعد کس قسم کا فخر اور عجب اور خودی اور انانیت کیوں پیدا ہو.اس سے تو اور بھی دوری اپنے رب سے پیدا ہو جاتی ہے.شکر کا مقام ہواور حمد کے گیت گائے جائیں.یہ توٹھیک ہے لیکن وہ بھی اس طرح جس طرح حضرت مسیح موعود لیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں وقت خدا کا ایک پیارا بندہ اپنے رب کی عبادت میں مصروف ہوتا ہے اور عاجزی اور انکسار اور گریہ وزاری کے ساتھ سجدہ ریز ہوتا ہے.اگر اس وقت کوئی دوسرا شخص اسے دیکھ لے تو اپنے دل میں اسے اتنی ہی شرمندگی محسوس ہوتی ہے جس طرح اس شخص کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے جو دنیا کے تعلقات میں محو ہو اور کوئی شخص آگے اس کو دیکھے.پس یہ پیار کی باتیں ظاہر کرنے والی نہیں ہوتیں محب کی یہ باتیں تو بندے اور رب کے درمیان ایک راز ہوتات اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دنیا ان سے واقعہ نہیں کیونکہ وہ دنیا سے دور ہیں اور دنیا سے بند ہیں
لیکن پوشخص خداتعالی کو چھوڑ ک دنیا کے قریب آنا چاہتا ہے اور رفعتوں اور بلندیوں کو چھوڑ کر خود الی الارض کرتا ہے اک سے دنیا میں شناخت کیا جائے اور اس کی تعریف کی جائے ، تو دنیا کے تو وہ قریب آگیا، مگر خدا تعالی سے وہ دور ہوگیا اور باندیوں اور رونمائی رفعتوں سے وہ ہاتھ دھو لیں.اللہ تعالی ہرایک شخص کو ہم میں سے اس سے محفوظ رکھے اور جیسا کہ اس نے حضرت براہیم علیہ السلام کو اپنے وعدے دیئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے لیے بشارتیں دیں ان بشارتوں کے موافق لاکھوں مقدس جو پیدا ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں اور آئندہ ہوں گے ان مقدموں کے گروہ میں نہیں شامل کرنے اور شامل رکھے ہم دنیا کی تعریف نہیں چاہتے لیکن خدا ایسے سامان پیدا کر دے کہ وہ ہمارے دل کی کسی نیکی کی خواہ وہ رائی کے وانہ کے برابری کیوں نہ ہو شناخت کرنے لگے اور اس رائی کے دانہ کے برابرنیکی کا بدلہ پیار محبت سے دے اور ہم سے راضی ہو جائے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.منقول از روزنامه الفضل ربوه ، مورخه الا من علاء )
۶۹ قوام عالم کو کیسے کر توحید پر جمع کرکے بین الاقوامی دوستد قائم کرنے کا وعد الهی خطبه جمعه ، فرموده و امنی شانه ۱۹ بمقام مسجد مبارک ربوه
جس طرح ابتدا میں خانہ کعبہ انسانیت کا مرکز تھا ، آخری اور کس کے دور میں بھی خدا کا یہ گھر وحدت انسانی کا مرکز بنا مقصود تھا اور انبیاء کے سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے لیے بہت اللہ کو منتخب کیا گیا.تا وحدت انسانی کا نبی اور وحدت انسانی کا قبلہ دونوں ایک جگہ جمع ہو جائیں.
تشر ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے آیے وَإِذْ جَعَلْنَا البَيْتَ مَثَابَةٌ لِلنَّاسِ وَآمَنَّاء وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى رسورة البقرة :۱۲۶) تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا :- ان میں مقاصد میں سے ان کا ذکراللہ تعالی نے قرآن کریم کی ان آیات میں کیا ہے جن کا ایک ٹکڑا اس قت بھی میں نے تلاوت کیا ہے ، سات کے متعلق ہمیں اس سے قبل اپنے خطبات میں بیان کر چکا ہوں اور تا چکا ہوں کہ وہ مقاصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہشت سے کس طرح حاصل ہوئے.آٹھواں مقصد میں کا ذکر میاں ہے مشابہ کے لفظ میں بیان ہوا ہے میں نے بتایا تھا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر نو کی ہے آٹھویں غرض ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ایک ایسار سول مبعوث ہو گا جو تمام اقوام عالم کو امةُ وَاحِدَ ا نہاد سے گا اور ایک ایسی شریعیت نازل ہوگی میں کے ذریعہ سے تمام منتشر اور پراگندہ اقوام کو ایک مرکز توحید اور مرکز پاکیزگی مینا ہے کیا جائے گا.یہ مقصد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہشت سے ہی حاصل ہوا.مثابة کے لغوی معنی ایک تو یہ ہیں : مُجْمعُ النَّاسِ بَعد تفرقهم القاموس المحيط، انتشارا در تفرقہ کے پیدا ہو جانے کے بعد پھر دوبارہ جس جگہ لوگ اکٹھے ہوں اُسے مشابہ کہتے ہیں.اور ایک دوسرے معنی اس کے یہیں مکاناً يُكتَبُ فِیهِ التَّوابُ وہ جگہ جہاں لوگوں کے لیے ثواب اور ملے اور تیزا کے احکام جاری ہوتے اور لکھے جاتے ہیں.یہاں اللہ تعالی نے یہ فرمایا کہ ہم اس بیت اللہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہشت کے بعد ایک الیہ مرکزی نقطہ
بنانے والے ہیں کہ جاں دنیا کی تما منتشر و پراگندہ اقوام پر سے جمع ہونگی اوران کے لیے کوئی اور جگہ باقی نہ رہے گی جہاں سے اُنھیں اپنے رب کے ثواب کے حصول کی امید اور توقع ہو.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس نابض کو گورا کرنے کے لیے الہ تعال نے محمد رسول الله لا اله علی کو مبعوث فرمایا اور ساری شہریت کو نازل کیا اور جس طرح ابتدا میں خانہ کعبہ انسانیت کا مرکز تھا کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت ایک ہی نبی تھا او ایک ہی قوم تھی اور ایک ہی شریعیت تھی، ابھی انسان دنیامیں نہیں کھیلا تھا اور قوم قومیں تم نہیں ہوا تھا، تو ابتدامیں خانہ کعبہ ہی انسانیت کا مرکز تھا روحانی طور پر.اس کے بعد آدم علیہ السّلام کی نسل دنیا میں کھیلنی شروع ہوئی اور دور دراز کے علاقوں میں آباد ہوگئی.آپس کے تعلقات قائم نہ رہے.ان کی روحانی ترقی اور نشو ونما کے لیے اللہ تعالی نے ہر قوم میں علیہ وعلیہ وہی اور رسول بھیجنے شروع کیسے اور اس طرح روحانی طور پر وہ ایک قوم نہ رہے بلہ منتشر ہو گئے اور تفرقہ پڑ گیا اور نسل آدم قوم قوم میں بٹ گئی.تو میں طرح ابتدا میں خانہ کعبہ انسانیت کا مرکز تھا، آخری اور اکمل دور میں بھی خدا کا یہ گھر وحدت انسانی کا مرکز بنا مقصد تھا اور انبیاء کے سردارمحمد ول اللہ صلی الہ علیہ سلم کی بہشت کے لیے بیت اللہ کو منتخب کیا گیا تا مدت انسانی کا نبی اور وحدت انسانی کا قبلہ دونوں ایک جگہ جمع ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہیں اس وقت حضور کے دو اقتباسات جو اس مضمون سے تعلق رکھتے ہیں اپنے دوستوں کوگناتا ہوں جھنور فرماتے ہیں:.ابتدائے زمانہ میں انسان تھوڑے تھے اور اس تعداد سے بھی کم تر تھے جو ان کو ایک قوم کہا جائے، اس لیے ان کے لیے صرف ایک کتاب کافی تھی پھر عباس کے جب دنیا میں انسان کھیل گئے اور ہر ایک حقہ زمین کے باشندوں کا ایک قوم بن گئی اور بباعث دور دراز مسافتوں کے ایک قوم دوسری قوم کے حالات سے بالکل بے خبر ہوگئی ایسے زمانوں میں خدا تعالے کی حکمت اور مصلحت نے تقاضا فرما یا کہ ایک
قوم کے لیے جدا جدا ہوں اور الہامی کتا ہیں دی جائیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پھر جب نوع انسان نے دنیا کی آبادی میں ترقی کی اور طلاقات کے لیے راہ کھل گئی اورایک ملک کے لوگوں کو دوسرے ملک کے لوگوں کے ساتھ ملاقات کرنے کے لیے سامان متر آگئے اور اس بات کا علم ہو گیا کہ گلاں نگلا جسے زمین پر نوع انسان رہتے ہیں وفا تو نے کا ارادہ ہوا کہ ان سب کو پھر دوبارہ ایک قوم کی طرح بنا دیا جائے اور بعد تفرقہ کے پھر ان کو جمع کیا جاوے.تب خدا نے تمام ملکوں کے لیے ایک کتاب بھیجی اور اس کتاب میں حکم فرمایا کہ جس جس زمانہ میں یہ کتاب مختلف ممالک میں پہونچے ان کا فرض ہو گا کہ اس کو قبول کر لیں اور اس پر ایمان لادیں اور وہ کتاب قرآن شریف ہے جو تمام ملکوں کا باہمی رشتہ قائم کرنے کے لیے آئی ہے.قرآن سے پہلے سب کہتا ہیں مختص القوم کہلاتی تھیں یعنی صرف ایک قوم کے لیے ہی آتی تھیں مگر سب کے بعد قرآن شریف آیا جو ایک عالمگیر کتاب ہے اور کسی خاص قوم کے لیے نہیں بلکہ تمام قوموں کے لیے ہے.ایسا ہی قرآن شریف ایک ایسی امت کے لیے آیا تو آہستہ آہستہ ایک ہی قوم بننا چاہتی تھی.سو اب زمانہ کے لیے ایسے سان مینہ گئے ہیں جو مختلف قوموں کو وحدت کا رنگ بخشتے جاتے ہیں.باہمی اتنا جو اصل جڑا ایک قوم بننے کی ہے ایسی مسل ہوگئی ہے کہ برسوں کی راہ چند دنوں میں طے ہو سکتی ہے اور پیغام رسانی کے لیے وہ پیلیں پیدا ہوگئی ہیں کہ جو ایک برس میں بھی کئی دور دراز ملک کی خبر نہیں آسکتی تھی.وہ اب ایک ساعت میں آسکتی ہے نہ مان ہیں ایک ایسا انقلاب عظیم پیدا ہو رہا ہے اور تمدنی دریا کی دھار نے ایک ایسی طرف " رخ کر لیا ہے جس سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ اب خدا تعالی کا یہی ارادہ ہے کہ
لوم ہے تمام قوموں کوجو دنیا میں پہلی ہوئی میں ایک قوم بنا دے اور ہزار ہا برسوں کے بچھڑے نہوں کو پھر باہم ملا دے عشیره معرفت صفحه ۶۹۰۶۶) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں :.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ قیامت تک منہ ہے اور آپ خاتم ان بنیاد ہیں اس لیے خدا نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرت صلی اله می کنم کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے کیونکہ یہ صورت آپ کے زمانہ کے شمار پر ویت کرتی تھی ، یعنی شبہ گزرتا تھا کہ آپ کا زمانہ وہیں تک ختم ہوگیا.کیونکہ جو آخری کام آپ کا تھا وہ اُسی زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا.اس لیے خدا نے تکمیل اس فصل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں زمانہ محمدی کے آخری منہ میں ڈال دی با قرب قیامت کا زمانہ ہے اوراس کی کمی کے لیے اسی اقت میں سے ایک نائب منظر کیا ، جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اسی کا نام خاتم الخلفاء ہے.پس زمانہ محمدی کے سر بر آنحضرت صلی اللہ علیہ دستم ہیں اور اس کے آخر میں مسیح موعود ہے اور ضرور تھا کہ مسلسل دنیا کا منقطع نہ ہوں جب تک کہ وہ پیدا نہ ہوئے کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اُسی نائب النبوت کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ پہیے هُوَ الَّذِى أرسلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ ر سورة الصف - آیت ۱۰) یعنی خداوہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور پیچھے دین کے ساتھ بھیجا تا اسکو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کر دے.یعنی ایک عالی علیہ اس کو عطا کرے اور چونکہ وہ عا لیگی غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نبات
میں تصور میں نہیں آیا ہو لیکن ہیں کہ خدا کی مینگوئی میں کی مخالف ہوں اس لیے اس آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمیہ المسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا کیونکہ اس علمگیر غلبہ کے لیے تین امرکا پایا جانا ضروری ہے جو کسی پہلے زبان ہیں وہ پائے نہیں گئے.رای اول یہ کہ گور سے اور کامل طور پر مختلف قوموں کے میل ملاقات کے لیے آسانی اور سہولت کی راہیں کھل جائیں اور سفر کی ناقابل برداشت مشقتیں دور ہو جائیں...(۳) دوسرا امر تواس بات کے سمجنے کے لیے شر ہے کہ یک این دو سر تمام دینوں پر اپنی الا خوبیوں کے رو سے غالب ہے یہ ہے جو دنیا کی تمام قومیں آزادی سے باہم مباحثات کر سکیں اور ہر ایک قوم اپنے مذہب کی خوبیاں دوسری قوم کے سامنے پیش کر سکے اور نیز تالیفات کے ذریعہ سے اپنے مذہب کی خوبی اور دوسرے مذاہب کا نقص بیان کر سکیں اور قدیمی کشتی کے لیے دنیا کی تمام قوموں کو یہ موقعول سکے کوہ ایک ہی میدان میں اکٹھے ہو کر ایک دوسرے پرند میں بحث کے حملے کریں اور یہ نذری کشتی نہ ایک درد قوم مں بلکہ عالمگیر کشتی ہو.ر تیسرا مرجو اس بات کو تمام دنیا پر واضح کرنے کے لیے شرط ہے کہ فلائی میں ہر قابل دنیا کے تمام دینوں کے خاص طور پر خدا سے تائید یافتہ ہے وہ یہ ہے کہ متقابل دنیا کی تمام قوموں کے ایسے طور سے تائید الہی کے آسمانی نشان اس کے شامل ہوں کہ دوسرے کسی دین کے شامل حال نہ ہوں.....اور دنیا کے اس سرے سے اس سمرے تک کوئی مذہب نشان آسمانی میں اس کا مقابلہ نہ کر سکے با وجود اس بات کے کہ کوئی حقہ آبادی دنیا کا اس دعوت مقابلہ سے بے خبر نہ ہو.چشمه معرفت صفحه ۱۲ تا ۸۲)
เ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اب نیا میں ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ تمام دنیا کے مذاہب کی دین اور روحانیت کے میدان میں کشتی ممکن ہوگئی ہے.تمام اقوام اپنے نمایندوں کو ایک جگہ جمع کر کے دوسرے ندا می سے مقابلہ کر سکتے ہیں اور ہم کار حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے دین کے میدان میں سب دنیا کے مذاہب کو پکارا ، میقابل آپ کے زمانہ میں شروع ہوگیا.گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پرمختلف دعوت ہائے فیصلہ میں نے بھی دنیا کے سامنے رکھی تھیں اور گر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی سفر یورپ کی ، تو میں ارادہ رکھتا ہوں کہ وہاں کے ملکوں میں جو عیسائی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں.ان دعوت ہائے فیصلہ کو دہراؤں اور امن اور صلح کی فضا میں اسلام کے مقابلہ میں انھیں دعوت دوں کہ اپنی حقانیت کو راگروہ اپنے مذاہب کو حق سمجھتے ہیں ثابت کریں اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ اگروہ میدان فیصلہ میں آئے تو اللہ تھا.لہ یسے سامان پیدا کرے گا کہ دنیا کے سامنے انہیں اپنی شکست کو تسلیم کرنا پڑے گا ان شاء اللہ تعالیٰ.تو آٹھواں مقصد ساری دنیا کی اقوام کو وحدت کے سلسلہ میں مسلک کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کام کے پورا کرنے کا وعدہ دیا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی صاف کے ساتھ فرمایا ہے کہ اس مقصد کے حصول کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اوراس کے تم میں جماعت احمدیہ پر بڑی بی ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں جن کی طرف مجھے اور آپ سب کو توجہ دینی چاہیئے.تو آٹھواں مقصد مثابة میں بیان ہوا ہے اور ظاہر ہے یہ مقصد سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے کیونکہ کسی اور نبی کو ایسی شرعیت نہیں دی گئی جو متفق القوم نہ ہو جس کا تعلق صرف اس کی قوم اور اس کے زمانہ کے ساتھ نہ ہو.صرف آنحضرت صلی اللہ علہ سلم کی ذات ہے جن کو ایک ایسی شریعت اللہ تعالی کی حر سے عطا ہوئی جو انسان کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہے اور میں کا تعلق دنیا کی ہر قوم اور قیامت تک کے ہر زمانہ کے ساتھ ہے اور وہ وعدے تو محمدرسول اللہ صل اللہعلیہ وسلم کوخدا تعالی کی طرف سے دیئے گئے وہ اپنے وقت پر پورے ہوتے رہے ہیں.یہ وعدہ جو ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ا کے پورا ہونے کا وقت مسیح موعود کا زمانہ ہے اور اس کے پورا کرنے کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو اس کی توفیق عطا فرمائے.
" نوان مقصد جس کا ان آیات میں ذکر ہے وہ افضا کے لفظ میں بیان ہوا ہے.مشائبہ میں بین الاقوامی تعلقات کے نبیو بنیادوں پیش کم ہونے کا ذکر تھا اور بین الاقوامی رشتہ اخوت کے استحکام کے لیے یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی امن کے قیام اور قوموں کے باہمی تعلقات میں تسکین قلب کے سامان پیدا کیے جائیں اور ذرائع دنیا کیے جائیں.وعدہ یہ دیا گیا تھا کہ مشابہ کا وعدہ بھی پورا ہوگا اوراس کے لیے جو ضرور سی چیز ہے بین الاقوامی امن کا ماحول پیدا کیا جائے.وہ والا بھی پورا ہوگیا اورمحمد رسول اللہ صلی الہ علیہ سلم کے ذریعہ دنیا کو جو شرعیت دی جائے گی اس میں بین الاقوامی اس کے قیام کی تعلیم دی جائے گی اور وعدہ دیا گیا تھاکہ حقیقی امن دنیا کو صرف اس تعلیم پر عمل کرنے سے ہل سکتا ہے، جو تعلیم کہ ملک سے مبعوث ہونے والا خاتم النبیین دنیا کے سامنے پیش کرے گا کیونکہ اس آخری شریعیت میں تمام فطری قوتوں اور استعدادوں کی صحیح نشونما کے سامان رکھے جائیں گے اور انسانی عقل ان ہدایات سے تسلی پائے گی اور اس انسان کا د اطمینان حاصل کرے گا.امن عالم کے قیام کے تعلق تو تعلیم قرآن کریم میں پائی جاتی ہے وہ بڑی متصل ہے اور اس وقت ہیں اُس کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا.اس کے متعلق حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالی عنہ کی کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام اور انعام وائیں تفصیل سے بحث کی گئی ہے.ان کتب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ بیان کیا ہے کہ پانچ بنیادی باتیں امن عالم کے قیام کے لیے قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں، جب تک ان اصلوں پر دنیا انہیں کرے گی دنیا کو مینار رامی علی پوریا نہیں ہوگی.پہلے لیگ آف نیشنز ناکام ہوئی.پھر اب جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں یو، این، او نا کامی کی طرف جارہی ہے اوراس کی بڑی وجہ یایوں کہنا چاہیئے کہ ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے دنیا کو جو تعلیم دی تھی یہ لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اور اس کو نہیں اپنایا.ان اصولوں کو ٹھکرانے کے بہتی ہیں وہ نا کامیون نہ دیکھتے چلے جارہے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا ہے کہ صرف قرآن کریم کے بنائے ہوئے اصول پر ایک بین الاقوامی معاہدہ کی بجائے ایک ہی وقت میں دنیا دو قسم کے معاہدے کر لیتی ہے.ایک تعلق رکھتے ہیں تمام اقوام کے ساتھ.اور ایک وہ معادے ہوتے ہی ہوئی اور یو پی پی پی رہتی ہیں اور چونکہ انہوں میں اُن کا پاؤں ہوتا ہے اس لیے وہ ناکام ہو جاتے ہیں.خود یو، این، او میں جو معاہدہ ہوا اس کے اندر ہی ایک اور معابر مدغم
کردیا گیا بجائے اس کے کہ یہ خالص بین الاقوامی معاہدہ ہوتا انھوں نے اس کے اندر ویٹو کو پا لیا.یعنی بعض قوموں کو لود این نے پرفضیلت عطا کی ان کی رائے کے بغیر بعض معاملات طے نہیں ہو سکیں گے، حالانکہ جس طرح وہ قانون جوافراد پر لاگو ہوتا ہے اس میں میر اور غریب طاقتور اور کزور میں فرق نہیں کیا جا سکا نہ کیا جانا چاہیے اگر قانونی حکومت کو مک میں اٹھ کرنا ہو.اس کا یہ ضروری ہے کہ ین الاقوامی معادات میں کسی قوم کوکسی دوسری قوم پر تر جیح دی جائے، اگر تر جیح دی جائے گی تو وہ بین الاقوامی قانون لازما نا کام ہو جائے گا.قرآن کریم نے تعلیم دینی کسی قوم کوکسی قوم پرند یعے دنیا انھوں نے سمجھا کہ ہم تیرے طاقتور ہیں، اپنے زور سے جو چاہیں کر سکتے ہیں.وٹو کے حقوق بعض قوموں کو دیدیئے یا لبعض قوموں نے اپنے لیے یہ حقوق کے لیے.اور بڑی وجہ اس قمت یو، این، او کی ناکامی کی ہی ہے کہ انھوں نے معاہدہ کرتے وقت صرف ایک قسم کا معاہدہ نہیں کیا جو صف بین الاقوامی حیثیت کا ہوتا بلکہ اس کے اندر انفرادی معاہدے بھی شامل کر دیے گئے جوصرف بعض اقوام سے تعلق رکھتے تھے.دنیا کی سب اقوام سے ان کو تعلق نہیں تھا." قرآن کریم نے دوسری ہدایت یہ دی تھی بین الاقوامی امن کے قیام کے متعلق کہ جس وقت جھگڑا ہو اسی وقت میصد کرنے ی طرف توجہ دینی چاہیئے لیکن آج دنیا کا دستور اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر بین گیا ہے کہ وہ جھگڑے کو لمبا ہونے دینے میں لمبا کرتے چلے جاتے ہیں تاکہ بعض ذاتی مفاد کو حاصل کر سکیں.اس طرح دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا.پھر تیری ہدایت یہ تھی کہ بین الاقوامی معاہدہ میں علاقائی تعصب مضر ہے، بلکہ ملک ہے، لیکن بین الاقوامی معاہدہ جو یو، این او کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا اس کے باوجود ان قوموں نے جواس کی عمر نہیں، بلکہ بازو نہیں علیحدہ علیحدہ معاہدے کرنے شروع کردیئے اور جین قوموں سے اُن کے ذاتی تعلقات تھے اُن کے حق میں تعصب اور جنبہ داری کے طریق کو اختیار کرنا شروع کردیا.پس قرآن کریم نے کہا ہے کہ بین الاقوامی امن صرف اس صورت میں قائم کیا جاسکتا ہے جب قوم قوم کے درمیان جاریہ ارین کے سلوک کو اختیارنہ کیا جائے اور کوئی ایک قوم دوسری قوم کی نا جائز حمایت کرنے پر نہ نکلے.چوتھی چیز جس کے خلاف ہے قرآن ، مگر جس کے حق میں ہوگئی ہے یہ ظالم دنیا.وہ یہ ہے کہ جب جھگڑا ہو جائے تو باہمی
صلح کروانے کی بجائے بعض قوموں کو تعصب کی شاہ پر سزا دینے کی نوری کرتے ہیں اور جب اور جہاں بھی موقع ملتا ہے قوموں کے حقے پورے کرنے شروع کر دیتے ہیں جرمنی کے دو تے کردیئے گئے.کوریا اور ویت نام کا بھی یہی حال ہے یو این او کی موجودگی یا اور یو، این، او کے تمام دعا دی کے ہوتے ہوئے کہ وہ امن عالم کو قائم کرنے والی تنظیم ہے.قرآن کریم کہتا ہے میرے سایہ تلے چلو گے تو ان کو دنیا میں قائم کر سکو گے میرے سایہ سے باہر نکلو گے تو شیطانی احمد کی تمازت تمھیں تنگ کرے گی اور چین نہیں لینے دے گی.اور پانچویں تعلیم قرآن کریم نے یہ دی تھی کہ اگر بن الاقوامی امن کو قائم کرنا ہو تو پھر اس کے لیے ہر قوم کو قربانی دینی پڑے گی.لیکن اب یہ حال ہے کہ بین قومیں قربانی دیتی ہیں او بیش انکار کردیتی ہیں.تو صرف قرآن کریم کی ہی ایسی تعلیم ہے جس میٹس کرکے دنیا میں بین الاقوامی امن قائم کیا جا سکتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ اپنی کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں نتیجہ اس ساری بحث کا یہ نکالتے ہیں کہ : - ان پانچوں نقائص کو دور کر دیا جائے تو قرآن کریم کی بتائی ہوئی لیگ آف نیشنز بنتی ہے اور اصل میں ایسی ہی لیگ کوئی فائدہ بھی دے سکتی ہے ، نہ وہ لیگ جو اپنی بہنی کے قیام کے لیے لوگوں کی مہربانی کی نگاہوں کی جستجو میں بھی رہے " پھر آپ نے نظام کو میں فرمایا :- راحمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحه ۲۳۰ ) لیگ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی، وہی لیگ کامیاب ہو سکتی ہے جو قرآن شریف کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق ہوئے ر نظام نومت جیساکہ میں نے بتایا ہے اللہ تعالی نے ایک مدیر کی کہ تمام قوام عالم کو ایک سلسل میں پر دیا جائے گا بین الاقوامی دبست کو قائم کیا جائے گا.پھر یہ فرما یا مین او قامی وحدت کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ بین الا قوامی امن کی ضمانت دی جائے اور دھونی
یا کہ قرآن کریم کی شرعیت بین الاقوامی ان کی ضمانت دیتی ہے.اس شریعیت کے احکام پرعمل کرو و تمام دنیا کی اخوا میں اگر جھگڑے پیدا ہو بھی جائیں تو یا انسان اور عدل کے اصول پر ٹے ہو جائیں گے اور امن کوکسی سم کا دس کا نہیں لگے گا ہیں قرآن کریم نے بری تفصیل سے تعلیم دی جس کے نتیجہ یں دنیامیں امن قائم ہوسکتا ہے چونکہ مشابہ کے مقصد کے حصول کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ہے اس لیے اس کی ذمہ داری بھی جماعت احمدیہ پر ہے کہ وہ دنیا اس کثرت کے ساتھ اس تعلیم کی اشاعت کرے جو قرآن کریم نے دنیا میں قوموں کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے ہمیں دی ہے ، کیونکہ اگردنیا اندھیرے میں رہے توقیامت کے روز کہ سکتے ہیں کہ اسے خدا ہمیں تو لہ میں تھا میں کوعلم تھا اورمین کے کندھوں پر گوئے یہ ذمہ داری دیکھی تھی کہ وہ ہمیں علم میں انھوں نے ہم تک یہ علم میں پہنچایا اس لیے ہمیں بے قصور قرار دے اور جن کا قصور ہے ان پر اپنے غضب کا اظہار کرہ اللہ تعالی ہمیں اپنے غضب سے محفو زار تھے.دسواں مقصد بیت اللہ کی تعمیرکا یہ بیان ہوا تھا: اتخذوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِم مُصلے جس مں یہ بتایاگیا تھا که نگر کے ذریعہ ، بیت اللہ کے ذریعہ اور اس میں مبعوث ہونے والے عظیم انسان نبی کے طفیل اقوام عالم مقام عبودیت کا عرفان حاصل کریں گی اور اس حقیقی عبادت کی بنیا دیہاں ڈالی جائے گی جون تل اور فروتنی اور انکار کے منہ سے پھوٹتی ہے اور اس طرح قوم قوم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حل پیدا ہونگے اورزمین کے بعد جبکہ پر اشاعت اسلام کے لیے مراکز قائم کیے جائیں گے ، جہاں عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور حلال کا اقرار کیا جائے گا اور اظہار کیا جائے گا اوراس عاجزی اور ذیل کے نتیج میں جو محض خدا کی خوشنودی اور رضا کے حصول کے لیے اختیار کیا جائے گا وہ اقوام آسمانی برکات صل کریں گی اور خشش کی مستحق ٹھہریں گی.تو فرمایا تھاکہ یہاں مکہ کے ذریعہ اس شریعیت کے طفیل جو بیان زندگی بہلو کواپنے تمام معافی اور تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنے والی امت پیدا ہو جائے گی جو مقام عبودیت پر مضبوطی سے قائم ہوگی.در اصل اس کا تعلق بھی پہلے دو مقاصد سے ہے کیونکہ آٹھواں دیدہ باتھا کہ نام اقوام کو ایک امت مسلہ بنا دیا جائے گا ایک قوم بنادیا جائے گا یہ مونہیں سکتا جب ان امن عالم کا قیام نہ ہوں توپہلے وعدہ دیا اور پھر اس وعدہ کو قران کریم کی
Al شریعیت کے نہیں پورا کیا کہ ہ کا التعلم من جو اقوام عالم کے درمیان ان کو قائم کرنے کے لیے تھی وہ انسان کو دی گئی اوراب سرین مقصد میں اللہ تعالی یہ بتا رہا ہے کہ اس تعلیم پر عمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ امت محمدیہ یعنی موعودہ امت تذ قتل اور عاجزی کو اختیار کرنے والی نہ ہو.اس اسے کیا اتخذوا من مقام ابراه بر منلی اس کے بغیر تم عالمگیر اس کو دنیا میں قائم نہیں کر سکتے تو یہاں وعدہ دیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ عیہ علم کے ذریعہ ایک ایسی امت پیدا کی جائے گی جو مقام مہوریت پیس ولی امضمون سے قائم ہوگی حضرت مسیح موعود علی اسلام فرماتے ہیں قرآن کریم کے کامل تیمی جواپنے مقام عبودیت کو جانتے ہیں اور نوری سے اس پر قائم میں وہ ہیں جو ؟ بشود کبریائی حضرت باری تعالی ہمیشہ تنذیل اور مستی اور انکسار میں رہتے ہیں او اپنی اصل حقیقت رنت اونیسی اور ناداری اور تقصیری او نیط اداری سمجھتے ہیں در ان تمام کمالات کو جتوان کو دیئے گئے ہیں اس عارضی روشنی کی مانند سمجھتے ہیں، جو کسی وقت آفتاب کی طرف سے دیوار پر پڑتی ہے میں کو حقیقی طور پر دیوار سے کچھ "" بھی علاقہ نہیں ہوتا اور لباس مستعار کی طرح معرض زوال میں ہوتی ہے پس وہ تمام.خیر و خوبی خداہی میں محصور رکھتے ہیں اور تمام نیکیوں کا حشر اسی کی ذات کامل گو قرار دیتے ہیں اور صفات البتہ کے کامل شہود سے ان کے دل میں حق الیقین کے طور پر بھر جاتا ہے کہ ہم کچھ چیز نہیں میں یہاں تک کہ وہ اپنے وجود اور ارادہ اور خواہش سے بلی کھوئے جاتے ہیں اور عظمت الہی کا پر جوش دریا اُن کے دلوں پر الیسا محیط ہو جاتا ہے کہ ہزار ہا طور کی مستی آن پر وارد ہو جاتی ہے اور شرک خفی کے هر یک رگ وریشہ سے بھلی پاک اور منزہ ہو جاتے ہیں.ا برا امین احمد به حصه چهارم تا ۲۵ حاشیه در مایه میل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے.
AY نماز کے اجرا اپنے اندر ادب، خاکساری اور انکساری کا اظہار رکھتے ہیں.قیام میں نمازی دست بستہ کھڑا ہوتا ہے ، جیسا کہ ایک غلام اپنے آقا اور بادشاہ کے سامنے طریق ادب سے کھڑا ہوتا ہے.رکوع میں انسان انگار کے ساتھ جھک جاتا ہے.سب سے بڑا انکسار ستجدہ میں ہے ، جو بہت ہی عاجزی کی حالت کو ظاہر کرتا ہے.مراة الحقائق جلد سوم مجموع نما ولی احمد مصبور شاه مرتبه مولوی محمد فضل صاحب جنگونی صفحه ۱۵ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ خسر مایا کہ ہم اپنے فضل سے نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کے متبعین میں ایک ایسی جماعت پیدا کرتے رہیں گے ، جو انکسار اور تذلل اور فروتنی اور تواضع کے مقام کو مضبوطی سے پکڑے اور اس تذلل از نگسار کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی اس امن کے قیام کے امکانات پیدا کرے گا جو آ منا میں بیان ہوئے ہیں اور جس کی تعلیم قرآن کریم نے تفصیل سے ہمیں دی ہے.یا د رکھنا چاہئیے کہ حقیقی عبادت راہ محبت و ایثار اور (۲) تنذل و انکسار ہر دو کے خمیر سے پرورش پاتی ہے، لیکن کبھی محبت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور کبھی تذلل اور فرونی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے.جب خدا تعالیٰ کا حسن اور اس کا احسان جلوہ فگن ہوتا ہے تو انسان کا دل اپنے رب کی محبت سے بھر جاتا ہے اور ایک عاشق زار کی طرح دہ اس کی ہر آواز پر بینک کہتا ہے.وہ اس کے گرد گھوڑتا ہے.وہ نینی کا لبادہ بین کر اسی میں کھو جاتا ہے اور اس کے اپنے وجود پر کلینہ ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی زندگی اس کے رب کی طرف سے اسے عطا ہوتی ہے.مگر دنیا اسے نہیں پہچانتی.اور وہ اس کی کچھ پیر و ابھی نہیں کرتا.لیکن جب خدا تعالے کی عظمت اور جلال کا حلوہ اس پر ظا ہر ہوتا ہے تو اس کا دل خوف و رجا اور امیدیم سے لبریز ہو جاتا ہے.عظمت اللی اور جلال الہی کے اس جلوہ کے بعد اس کی اپنی کوئی بزرگی اور عظمت باقی نہیں رہتی.
وہ فروشنی کا جامہ پہن لیتا ہے.انکسار کو اپنا شعار بناتا ہے اور تذل کی گرد سے غبار آلود اور اخیر نظر آتا ہے.وہ عاجز راہوں کو اختیار کرتا ہے اور عاجزی کے ساتھ اور خوف زدہ دل کے ساتھ لرزاں اور تریاں اپنے رب کے حضور کھنکتا ہے اور اس کی عظمت اور سیلال کا اقرار کرتا ہے.اس کے جسم کا ہر فتنہ اور اس کی روح کا ہر سپ لو اپنے رب کے خوف سے کانپ رہا ہوتا ہے اور عظمت و جلال کا یہ جلوہ اُسے اس حق الیقین پر قائم کر دیتا ہے کہ اس عظمت کے مقابلہ میں سب مخلوق مردہ اور لاشے محض ہے اور اُن سے کسی کھلائی کی امید نہیں رکھی جاسکتی اور نہ وہ بذات خود اس کی طاقت رکھتے ہیں.اگر امید وابستہ کی جاسکتی ہے تو صرف ذوالجلال وال کرام سے.تب خوف کے ساتھ ایک اُمید در جا بھی اس کے سینہ صافی میں پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنی سب امیدوں کو اپنے رب سے ہی وابستہ کر لیتا ہے اور صرف اُس پر توکل رکھتا ہے اور حاجت براری کے لیے صرف اسی کے دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے.اس کا دل اس یقین سے پر ہوتا ہے کہ جو کچھ منا ہے صرف راسی در سے ہی ملنا ہے.جوتی کا ایک قسمہ ہو یا دنیا جہان کی عزتیں.میں شخص پر عظمت و جلال کا یہ جلوہ ظاہر ہوا وہ یہ نہیں کیا کرتا کہ کشوف و رویا کا ایک کشکول بنائے اور قبولیت دعا کے واقعات سے اسے سجا کر در در پھرے اور دنیا والوں سے دنیا کی عزت اور احترام اور توصیف اور تحسین کی بھیک مانگے.اور دنیا کی نگاہوں میں اپنے لیے کسی احترام کا متلاشی ہو.ایک مردہ سے اُسے کیا لینا ہے ؟ اور ایک لاشہ نے اسے کیا دینا ہے ہے جس کی عظمت اور جلال کے خودت نے اور جس کی بے پایاں رحمت کی امید نے جس در کا فقیر سے بنا دیا وہ اسی در پر دھونی رمائے امید بیم کے درمیان زندگی کے دن پورے کر دیتا ہے ، تب اس کا رب اس سے راضی ہوتا ہے اور محبت سے دو اپنی گود میں اُسے بٹھا لیتا ہے اور دنیا اور آخرت کی منتیں اسے مل جاتی ہیں.رضی الله عنهم وَرَضُوا عَنْهُ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک ایسی ہی امت کے معرض وجود میں آنے کی بشارت
حضرت ابراہیم علی السلام کودی گئی تھی او خدا کی قسم اس نے اپنے وعدہ کو پورا کر کھایا.لا اله إلا الله مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ - منقول از روزنامه الفضل ربوه مورخه ۲۸ منی شاه
: ۸۵ بیت اللہ روانی اور جانی پاکیزگی کے حصول اور اُس کی ترویج کا مرکز €197.خطبه جمعه ، فرموده ۲۶ مئی ۹۶ بمقام مسجد مبارک ربوه
AY بیت اللہ ایک مرکزی نقطہ ہے اور ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تمھیں اس کے اطلال بھی بنانے پڑیں گے ، یعنی اس کی نقل میں انہی مقاصد کے حصول کے لیے اسی قسم کی پاکیزگی اور طہارت کو پیدا کرنے کے لیے جگہ جگہ پر ایسے مراکز کھولنے پڑیں گے ، جو بیت اللہ کے عقل ہوں گے اور ان کے قیام کی غرض رہی ہوگی ، جو بیت اللہ کے قیام کی غرض ہے" זי
AG محمد، وتصل على : تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- پچھلے خطبات میں میں نے تعمیری اللہ کے متعلق دن مقاصد کا ذکر کیا تھا اور ان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا.جو آیات میں ان خطبات کے شروع میں پڑھتا رہا ہوں، میں نے بتایا تھاکہ ان میں میں مقاصد کا ذکر ہے.دین عطا کے متعلق میں اس سے پہلے کچھ کر چکا ہوں.گیارہواں مقصد یا گیارھویں فرض تعمیربیت اللہ کی طبقوں کے الفاظ میں بیان ہوئی تھی کہ تم اس بیت اللہ کی تعمیر نتظام کروا کو پاکیز رکنے کا انتظام کرو اس کی صفائی کا انتظام کرو اورس میں ہی شاہ کیا گیا تاکہ خداتعالی اس گھر کو ظاہری صفائی اور باطنی پاکیزگی اور طہارت کا مرکز بنانا چاہتا ہے.یہ فرض بھی خاتم ان بیا اور فضل الرسل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی بات ہے پوری ہوئی.آپ کی شریعت میں ظاہری اور جہانی صفائی اور روحانی پاکیزگی کے حصول کے متعلق ایک مکمل اور مکمل تعلیم میں ملا ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیات ۱۵۱ اور ۱۵۲ میں فرماتا ہے کہ جہاں کہیں بھی تم ہو جو کام بھی اسلامی شریعیت کی ہدایات کے مطابق تم کر داس میں اس بات کا خیال رکھو کہ تھیں خاص مقاصد اور اغراض کے پیش نظر پیدا کیا گیا ہے اور یم پر یہ دفترداری عاید ہوتی ہے کہ تم ان مقاصد کو پورا کرو اور تمام دنیا میں اقوام عالم میں شریعیت اسلامیہ کو قائم کرد اور اسے زندہ رکھو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہی تھیں جو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ تم بیت اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے مقاصد کو ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھا کرو.یہ اس لیے ہے کہمیں اپنی نعت کو تم پر گرا کرنا چاہتا ہوں کرنی ہیں نِعمَى عَلیکم.اتمام نعمت کی غرض سے یہ مقاصد میں نے تمھارے سامنے رکھے ہیں اگر تم ہماری بتائی ہوئی ہدایات
AA کے مطابق ان مقاصد کے حصول کے لیے سی کرنے اور اس نیت ہائے احکام بیان گئے تم پر جاری ہو نہیں ہوں وہ اس طوں کی ہوں گی اور ان عیت اور ہرقسم کی ہونگی کہان کے متعلق اتمام نعمت کا نقرہ بولا جا سکے گا.اور لاتم نعمنِى عَلَيْكُمْ کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا (آیت ۵۲ میں) کہ ایک رسول تمھاری طرف بھیجا گیا ہے، جو پاکیزگی کی تعلیم میں دیتا ہے.چونکہ طبعا سوال پیدا ہوتا تھا کہ کے خدا امقاصد کا تو میں پتہ مل گیا اگر ہماری کوششوں کی راہوں کی ابھی تمہیں نہیں کی گئی، اگر نیمین ہو جاتی تو ہمارے لیے شہوات ہوتی.اس لیے دوسری آیت میں بتا دیا کہ جو رات میں میرا یار محمد واله صلی اللہ علیہ وسلم تبائے رہی وہ راہ ہے جو پاکیزگی کی طرف لے جاتی ہے اور جس راہ پر چل کر تم مقاصد تعمیر بیت اللہ کوحاصل کر سکتے ہو، فرمایا کہ يَتْلُوا عَلَيْكُمُ التِنَا وَيُزيكُمُ کہ تمھارے تزکیہ کے سامان اس رسول کے ذریعہ سے ہم نے دیا کر دئے ہیں.اس لیے کہ وہ آیات پڑھ کرساتا ہے.کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور اس کی مکتیں بیان کرتا ہے.پس قرا میں جو غرض بیان کی گئی تھی اور جس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا ، اس کو پورا کرنے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں خود قرآن کریم نے یہ دعوی کیا ہے کہ آپ اس فرض کو پورا کرنے والے ہیں، کیونکہ یہاں مسجد حرام، مقاصد کا سامنے رکھنا ، اتمام نعمت اور تزکیہ نفوس اور اس ک طریق یہ تمام باتیں ان دو آیتوں میں کبھی کردی گئی ہیں.سور البقرہ کی ان آیات میں عام پاکیزگی کا ذکر ہے لیکن زیادہ زور روحانی اور دینی پاکیزگی پر ہے سورۂ مائدہ کی ی سات میں لالہ لایا ہوتا ہے اگر تم بھی ہو تنہا یا کرو اس میں تعلیم دی کہ اسلام میں بموں کو ایک اور صاف رکھنا بھی ضروری ہے.اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وضاحت او تفصیل کے ساتھ جسم کی صفائی اور کپڑوں کی صفائی کی اور گھر کی صفائی اور ماحول کی صفائی اور مساجد کی صفائی اور ان کی پاکیزگی اور طہارت کا خیال رکھنا اور زبان کی صفائی اور سان ی صفائی اور آنکھ کی صفائی اور ناک کی صفائی کے بارے میں تعلیم بیان کی ہے اس تعلیم کی تفصیل میں ہی اس وقت نہ جانا چاہا ہوں اور نہ میرے لیے اس کی تفصیل میں جانا ممکن ہے.ہر حال قرآن کریم پر غور کرنے سے ہم اس نتیج پر پہنتے ہیں جس سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرتا کہ قرآنی شرعیت میں تبتن زور ظاہری اور باطنی صفائی اور پاکیزگی پر یا گیا ہے.اس کا سواں حصہ ، شاید ہزارواں حقہ بھی پہلے کسی مذہب نے ان باتوں پر زور نہیں دیا.تو جو مقصد طبقرا کے اندر بیان ہوا تھا اس کو
پورا کرنے کے لیےنبی کرم صلی الہ علیہ وسلم کومبعوث کیا گیا اور آپ نے اس مقصد کا حصول امت مسلمہ کے لیے مکن بنا دیا.کیونکہ صفائی کی ہر شاہراہ کی طرف میں ہدایت دی.اور تعلیم و صفائی سے تعلق رکھنے والی اور پاکیزگی او بصارت سے تعلق رکھنے وال تھی کھول کر ہمارے سامنے بیان کر دی اور ان ہدایات پرعمل کرنے کی راہیں ہم پر آسان کردیں.اس سے پہلے کسی نبی نے ان میدانوں میں تنظیم کام نہیں کیا ہیں مقصد ہے پاکیزگی اور طہارت اور اس کے حصول کا ذریعہ بنے ہی محمدرسول الله می باشد علیہ وسلم.اور اس کے حصول کی ذمہ داری پڑتی ہے امت مسلمہ پیر اور اس زمانہ میں علمانوں میں سے اس جماعت پر چین کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سے از سر نو خدا اور اس کے رسول کے لیے زندہ کیا گیا ہے.اس آیت میں بحالہ تعالی فرماتا ہے کہ تم پر یتیم کی گی او سخت کرنا نہیں چاہتے تھیں پاک کرنا اور تم پراپنے احسان کو پورا کرنا ہمارا مقصد ہے.اگر روحانی پاکیز گیکی تعلیم کے ساتھ ساتھ جہانی صفائی اور پاکندگی کی تعلیم دی جاتی تواللہ تعالی کا انعام اور احسان ادھورا رہ جاتا رول نعمتَ عَلَيْكُمْ.اس نے یہ پسند کیا کہ وہ اپنے احسان کو پورا کرے اور اتمام نعمت کرے.اس نے یہ تعلیم اس لیے دی ہے تا تمھارے اندر کوئی کن باقی نہ چھوٹی ہے اور کامل اور مکمل طور پر تھیں پاک اور متر بنا دے.راسی طرح قرآن کریم نے پانی کے متعلق فرمایا کہ اس کے بہت سے فوائد ہیں.ایک یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تم ظاہری صفائی کرتے ہو، کپڑے دھوتے ہو ، برتن دھوتے ہو، گلیاں صاف کرتے ہو ، مکانوں کو دھوتے ہو جہموں کو دھوتے ہو.ہزار پا کیز گیاں ہیں جو پانی کے ذریعہ سے حاص سے حاصل کی جاتی ہیں ماہ تبط قر كمب - الانفال: دريه آیت ۱۲ تو قرآن کریم ظاہری اور باطنی صفائی اور پاکیزگی کی تعلیم سے بھرا پڑا ہے.اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کی ذات ہی ہے جن کے ذریعہ تمر بیت اللہ کا یہ مقصد حاصل ہوتا ہے.خانہ خدا کی تعمیر کی بارھویں غرض بطابعین میں تبانی گئی تھی اور اس لفظ میں اس طرف اشارہ تھا کہ قوائم خدا عالم کے نمایند سے بار بار ہاں اس لیے نبی ہوں گے کہ وپاکیزگی اور مارت کی تعلیم حاصل کریں اور پھر اپنے اپنے علاقہ میں جاکر اس تعلیم کو پھیلائیں اور اس کی اشاعت کریں.یہ فرض بھی تحقیقی طور پر صرف اور صرف محمد رسول اللہ صل اللہ
علیہ وسلم کے ذریعہ پوری ہوئی ہے.قرآن کریم نے اس مقصد کے پیش نظر حکم دیا : وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِدَ يتبقى لَةً طَ فَلَوْلا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (سوره توبه آیت ۱۳۲) یعنی مومنوں کے لیے یہ تو مکن نہیں کہ وہ سارے کے سارے مرکز اسلام میں اکٹھے ہو جائیں.کیونکہ اسلام کی میناب اقوام عالم میں اقوام عالم مرکز اسلام میں کسی وقت بھی انھی نہیں ہو سکتیں.لیکن مرکز کے ساتھ اقوام عالم کا نچہ تعلق تام رہنا بھی ضروری ہے ، اس کے لیے اللہ فرماتا ہے کہ ہم تمھیں تعلیم دیتے ہیں کہ چونکہ سب کا اکٹھا ہونا یہاں ممکن نہیں اس پیسے کیوں نہ ہوا کہ ان کی جماعت میں سے ایک گروہ نکل پڑتا تا کہ وہ دین کو پوری طرح سیکھتے اور واپس ٹوٹ کر اپنی قوم کو بے دینی سے بچاتے.اور اس طرح گمراہ ہونے سے اُن کو بچالیتے.انذار کے ذریعہ اور تخویف کے ذریعہ.تو یہاں قرآن کریم نے امت مسلہ کو جو اقوام عالمہ مشتمل اور اکنات عالمہ میں پھیلی ہوئی ہے یہ حکم دیا ہے کہ قوم اور ہر ملک کی ایک نمایند و جماعت مرکز میں آتی رہنی چاہئیے تاکہ وہ دین سیکھے اور ضروریات وقت سے آگاہ ہو اور راس بات کا علم حاصل کرے کہ اسلام کے لیے موجودہ زمانہ میں کس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اور اُن کو معلوم ہو کہ ان کا ابا ہم وقت کن کاموں کی طرف اور کی منصوبوں کی طرف انھیں جاتا ہے اور تا کہ وہ ان کی حکمتوں کو چھیں تا جب وہ واپس جائیں تو اپنے اپنے علاقہ میں اپنے دوسرے بھائیوں کو یہ بتائیں کہ اس وقت اسلام پر شلا فلان عالی طرف سے حملہ ہورہا ہے اس کے جواب کے لیے تم تیار ہو جاؤ.اسلام کے خلاف دجل کے یہ طریق استعمال کیے جارہے ہیں اور اس وجہ سے اسلام کی حفاظت اور اسلام کی بقا کے لیے اور اسلام کی ترقی اوراستحکام کے لیے جماعت کے سامنے رینصوبہ رکھا جارہا ہے، ان قربانیوں اور اشتہار کے نمونوں کو پیش کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جاؤ اور عملی طور پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قبیلوں کے نمائندے مدینہ میں آپ کے پاس جمع ہوتے رہتے تھے.علم دین سیکھتے
اور علم قرآن سکھتے.قرآن کریم کے بعض حصوں کو یاد کرتے.تفقہ فی الست این حاصل کرتے اور پھروہ اپنی قوم میں واپس جاتے اور اس طرح احیاء دین اسلام کے سامان پیدا کرتے یہ جو لوگ وہاں مدینہ میں آتے وہ بھی اپنے وقت کی قربانی دیتے.علیم دین سیکھنے کے لیے بھی اور علم دین سکھانے کے لیے بھی اور ان سے علم دین سکھنے والے کبھی اپنے وقت خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو مدینہ میں آنے کا اُن کے نفسوں کو تو فائدہ پہنچ جاتا اُن سے دوسروں کو کوئی فائدہ نہ پہنچتا.لیکن اس سکیم اور اس منصوبہ کی اصل غرض تو تھی ہی یہ کہ لوگ باہر سے مرکز میں آئیں، دین سیکھیں.ضروریات اسلام کا علم حاصل کریں.پھر واپس جائیں اور یہ باتیں اپنے دوسرے بھائیوں کو تبائیں.پس طواف کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ، جب تک یہ طائف و عاملین اور یہ لوگ وقت کی قربانی دینے والے ہیں اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام نے پاکیزگی اور طہارت کی تعلیم دی ہے اور خدا تعالے نے ایسی امت پیدا کر دی ہے جو اپنے وقتوں کو قربان کر کے خدا اور اس کے رسول کے لیے مرکز میں جمع ہوتے ہیں اور واپس جاکر خدا اور رسول کی بنا کے لیے اپنے بھائیوں کو علم قرآن سکھا تے ، علیم دین اُن کو تنہاتے جو تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں اسلام کی حفاظت یا اسلام کی اشاعت کے لیے وہ باتیں اُن کے سامنے رکھتے ، اور اُن کے دل میں خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے کے لیے بشاشت پیدا کرتے ہیں.اس حکم کو اس وقت کی قوموں اور قبائل نے خوب اچھی طر سمجھا تھا، چنانچہ ابن عباس سے روایت ہے : كان ينطلق من كل حي من العَرَبِ عَصَابَةٌ فيأتون الليبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَسْأَلُونَهُ عَمَّا يُرِيدُونَ مِن أمـ ك دِينِهِمْ وَيَتَفَقَهُونَ فِي دِينِهِمْ - در تفسیر ابن کثیر جلده من سورہ تو یہ آیت وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ) ابن عباس کی روایت سے کہ عرب کے ہر قبیلہ میں سے ایک جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر بٹوا کرتی تھی اور جن باتوں کا انھیں پہلے علم نہ ہونا ان کے متعلق وہ پوچھتے.بصیرت حاصل کرتے مسائل کی حکمتیں
علوم کرتے اور پختہ ہوجاتے اپنے دین پر اور تفقہ فی الدین کو اصل کرتے، پھر وہ واپس جاتے اور دوسروں کو جاکر دہ سکھاتے تھے.چنانچہ بہت تفصیل کے ساتھ ان وفود کا ذکر ہماری تاریخ میں پایا جاتا ہے، جو اس غرض کے لیے اور اس حکم کے پورا کرنے کے لیے مدینہ میں ہی اکرم صلی الہ عیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور دین سیکھنے کے لیے وہاں ہوتے تھے ایک گروہ کے بعد دوسراگروہ پھر میرا گردہ، پھر ایک اور گرد و آجاتا تھا.ایک تسلسل جاری تھا اور تسلسل میں دین کی بقا کے سامان رکھے گئے تھے مثال تاریخ میں بتاتی ہے کہ ایک وقت میں بحران سے چودہ نمائند ے آئے تھے اور اسی طرح حضر موت دین سے استی نمایند سے آئے تھے اور اسی طرح ستراتی افراد تشتمل ایک وفد بنو تمیم کا آیا دین سیکھنے کے لیے اورید و تو وبقوا المدينة مد و يتعلمون القران والدين تخرجوا ان قو مهم دین کیا، پچرانی بِالْمَدِينَةِ ثُمَّ نظر لا قوم میں گئے اور انھیں دین سکھلایا.میں نے یہ چند مثالیں صرف اس لیے بیان کی ہیں تا کہ ہماری جماعتوں پر حقیقت واضح ہو جائے کہ اب تو وہ شاید ایک نمایندہ بھی نہیں دیتیں ان کلاسز کے لیے جو بیاں جاری کی جاتی ہیں.لیکن اس طرح کا مر نہیں بنے گا بلکہ کافی تعداد میلوگوں کو بیاں آنا پڑے گا.تب ہم دین اسلام کی خدمت کما حقہ، کر سکتے ہیں.ہرحال اس کی تفصیل تو میں اس وقت بتاؤں گا ، جب نہیں ان مقاصد پر بطور وعدہ کے بیان کو ختم کر چکوں گا اوران وعدوں پر بطور ذمہ داری کے اپنے بیان کو شروع کروں گا کیونکہ یہ ساری ذمہ داریاں ہیں جو مسلمانوں پر اور خصوصاً اس وقت میں ہم احمدیوں پر عاید ہوتی ہیں.تیرھواں مقصد والشرک میں بیان ہوا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ سے ایک ایسی قوم ہیا کی جانے گی جو اپنی زندگی خدا تعالی کی راہ میں وقت کرنے والی ہوگی اور واقفین کے اس گروہ میں قوم قوم اور ملک کے نمائیے شامل ہونگے.یہ غرض بھی صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے پوری ہوئی ہے، اس سے پہلے اس کے پورا ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، کیونکہ قوم قوم کے نمایندے وہاں آہی نہ سکتے تھے.مکہ کا نہ انھیں علم تھا نہ اس کی محبت ان لوگوں کے دلوں میں بھی ہیں نے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم نے ان مقاصد کو پورا کیا ہے
۹۳ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَانْتُمْ عَالِفُونَ في المساجد رسورة البقرة : آیت (۱۸) اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ہم تم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ تم مساجد میں اعتکاف بیٹھا کرو.دنیا کے تمام تعلقات سے منہ موڑ کر خالصہ خدا کے لیے اپنی زندگی کے جو میں گھنٹے چند ایام کے لیے گزارو تا کہ وقف کی روح کو زندہ کیا جائے.اور چونکہ نبی کریم صل اللہ علیہ کی نے فرمایا ہے کہ میرے لیے ساری زمین کو مسجد بنایا گیا ہے.اس لیے وانْتُمْ عَالِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ کے معنے ہوئے کہ میری خاطر تمھیں خطہ خطہ زمین میں بطور واقف کچھ وقت گزارنا پڑے گا کیونکہ جیسا کہیں نے پہلے بھی اشارہ بتایا تھا خانہ کعبہ یا بیت اللہ ایک مرکزی نقطہ ہے اور میں تعلیم دی گئی ہے کہ تمھیں اس کے اخلال بھی بنانے پڑیں گے لیٹی سی کی نقل میں انہی مقاصد کے حصول کے لیئے اسی قسم کی پاکیزگی اور طہارت کو پیدا کرنے کے لیے جگہ جگہ پر ایسے مراکز کھولنے پڑیں گے جو بیت اللہ کے حق ہوں گے اور ان کے قیام کی غرض وہی ہو گی جو بیت اللہ کے قیام کی غرض ہے اللہ نعلی نے یہاں یہ بتا یا کہ انتحر عا لفون في المساجد، ہر اس جگہ پر جہاں استریم ما تقولی کی بنیادوں پر بیت اللہ کا خلق قائم کرے گی ، تمھیں بطور واقف کے بیٹھنا پڑے گا ورنہ یہ مقصد پورا نہیں ہوگا.اس کے متعلق بھی نہیں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.لیکن جھے خیال آیا کہ اگرانہ کم کی تعمیرکا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ واقفین اسم لینے ہر مقام اور قبائل کے جو واقف ہیں وہ مرکز یا اس کے خلق میں آکر جمع ہوں اور وہاں مٹھیں تو وقف اور ہجرت میں بڑی مشابہت پائی جاتی ہے.تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ صرف مکہ سے ہی نہیں بلکہ دوسرے علاقوں سے بھی قبائل کے بعض نمایند سے اپنے علاقہ کو چھوڑ کے اور اپنے تقبیلے کو چھوڑ کر دینہ میں آگے دھونی رما کے بیٹھنے گئے تھے اور پھر میں بیٹھے رہے.ان کی جو ہجرت تھی اپنی قوم یا اپنے میں را ملک سے وہ اس قسم کی نہیں تھی جو مکہ سے ہجرت تھی، بلکہ اس قسم کی تھی جو ایک واقف کی ہجرت ہوتی ہے جو اپنا علاقہ چھوڑ کے، اپنی رشتہ داریاں چھوڑ کے اپنے گھر بار کو چھوڑ کے، اپنی جائداد کر چھوڑ کے خدا کے لیے مرکز میں آجاتا ہے اور پھر مرکز کی ہدایت کے مطابق دنیا کے مختلف حصوں میں کام کرتا ہے.مثلاً مین میں ایک قبیلہ اشعر بتین کا تھا ہائے ابو موسی شوری بڑے مشہور بزرگ صحابی ہیں.اُن کے ساتھ اسی نفوس بیرت کرکے مدینہ میں آگئے اور اسی طرح اور بہت سے قبائل میں اپنے میں جن کا ذکر آتا ہے کہ نبی کرم صلی اللہ علہ وسلم کی محبت سے استفادہ کے لیے وہ ہر پنہاں آگئے تھے جن میں سے ایک
۹۴ ابو ہریرہ بھی ہیں ، رضی اللہ عنہ.چودھواں مقصد والتركع السجود میں بیان ہوا تھا اور بتایا گیا تھا اس کے ذریعہ سے اقوام عالم ذات باری اور صفات باری کا کامل عرفان حاصل کریں گی.اور اس کے نتیجہ میں اطاعت، فرمانبرداری، ایثار اور فدائیت اور قربانی کے وہ نمونے دکھائیں گی کہ جن کی مثال دنیا میں کوئی اور تقریب پی نہ کر سکے گا اور نہیں دیکھ کر دنیا حیرت میں روب جائے گی.یہ مقصد بھی نبی اکرم صلی الہ علیہ وسلم کے زریعہ سے پورا ہوا اور آپ کی قوت قدسیہ کے بہتریں نہ صرف آپ کے زمانہ میں جبکہ بعد میں بھی ہر صدی میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جو اس مقصد کو پورا کرنے والے تھے.اس کی تفصیل میں بھی یا اس وقت جانا نہیں چاہتا.اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا کی تو جب میں ذمہ داریوں کی طرف دوستوں کو توجہ دلاؤں گا، اس وقت میں اس کی تفصیل میں جاؤں گا انشاء الله پندرھواں مقصد بلدا امینا میں بیان ہوا تھا اور وعدہ دیا گیا تھا کہ الہ تعالی اس گھر کو دنیا کے ظالمانہ حملوں سے اپنی پناہ میں رکھے گا اور اس کے مثانے کی ہر کوشش نا کام کر دی جائے گی، بلکہ حمل اور تباہ و برباد ہوں گے اور اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ ہم نے مکہ کی حفاظت ایک خاص غرض کے ماتحت کی ہے اور بتایا تھا مگہ کی صفات اس لیے کی جائے گی تا دنیا پر یہ بات واضح کریں کہ میں نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کو تم اس مقام سے مبعوث کرنا چاہتے ہیں وہ ہماری حفاظت میں ہوگا.اور نا دنیا یہ جان لے کہ جو شریعت ہم یہاں نازل کرنا چاہتے ہیں اس کے بھی ہم ہی محافظ ہوں گئے.تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خا کی پناہ میں ہوتا.اور اس نبی معصوم پر جو شرعیت نازل ہوئی ہے اس کا پوری طرح الہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا.خانہ کعبہ کی حفاظت میں ان ہر دو کی حفاظت کا وعدہ دیا گیا تھا.چنانچہ قرآن کریم نے یہ دعوی کیا کہ جو وعدہ کیا گیا تھا اس وعدہ کے مصداق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم ہیں اور فرمایا وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.اس آیت کی ابتدائیں ہوتی ہے آیا تھا الرَّسُولُ بلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيكَ مِنْ رَبَّكَ سورة المائده، آیت را "
کہ جو ہدایت اور و تعلیم اورجو شریعیت تم پر نازل کی گئی ہے، تم بلاخوف اور غیر خطرے کے دلیری کے ساتھ اس کی تبلیغ کردو اور اس آپ حیات کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤ لیکن ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ اس تبلیغ پر دنیا راضی نہیں ہوگی اور خوش نہیں ہوگی بلک وہ ہزار منصوبے بنائے گی تمہیں قتل کرنے کے تمہیں ہلاک کرنے کے تمہیں مٹا دینے کے، تمہاری تنظیم کوٹا دینے کے لیکن تم دنیا اور اس کے منصوبوں اور سازشوں کی پروا نہ کرو، کیونکہ ہمارا تم سے یہ وعدہ ہے کہ تم ہماری بنا میں ہو ، ہماری حفاظت میں ہو.دنیا جو چاہے کرے ، دنیا کی سب طاقتیں بھی اکٹھی ہونا چاہتی ہوں، ہولیں تمہیں تباہ نہیں کرسکتیں تھیں بلاک نہیں کرسکتیں.اس لیے تم بغیر کسی خوف اور خطرے کے اپنی تبلیغ میں لگے رہو کیونکہ یا ہماری حفاظت کرنے والے ہیں.ہمارے فرشتے آسمان سے نازل ہوں گے اور تمہیں ہلاکت سے بچائیں گے اور محفوظ رکھیں گئے.اس آیت کو شروع کیا گیا ہے تبلیغ پر زور دینے سے اور پھر تی دی گئی ہے کہ جب تم تبلیغ کرو گے تو تمہارے خلافت فتنے تو کھڑے ہوں گے گر تم پارک نہیں ہوگئے تکلیفیں تو دنیا میں دنیا دانوں سے خدا تعالیٰ کے لیے خدا کے بندوں کو پہنچتی ہی ہیں لیکن تم خداتعالی کی پناہ میں ہواور خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تمہیں کوئی طاقت ہلاک نہیں کر سکتی، مٹا نہیں سکتی.اگر یہ وعدہ امت محمدیہ کو نہ دیا جاتا تو بلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِن رب کا جو فریضہ تھا وہ بھی ادانہ کر سکتی ، کیونکہ انہیں یہ فکر ہوتی کہ اگر شمن نے ہمیں ہلاک کردیا تو تبلیغ کا راستہ گلیتہ منقطع ہو جائے گا.خدا تعالیٰ نے کہا میں سے بعض مارے جاسکتے ہیں.تم میں سے بعض بلاک کیے جا سکتے ہیں.تم میں سے بعض قید کیسے جا سکتے ہیں.تم میں سے بعض تبلیغ کے لحاظ سے پابند کیے جاسکتے ہیں.تم میں سے بعض کی زبان بندی کی جاسکتی ہے.تم میں سے بعض کی فلم بندی کی جاسکتی ہے.لیکن بحیثیت مجموعی امت کہ اس قسم کے ابتدا اور اس قسم کے مصائب سے خدا تعالی کی پناہ میں ہے اور اس قسم کی کوئی مصیبت اس پر نہیں آسکتی جو صفحہ ہستی سے اسے مٹا دے.اگر آپ غور کریں تو ایک وقت وہ بھی تھا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی مخالفت میں نہ ہوتے تو نگہ کا کوئی ایک سر پھرا آپ کو قتل کردیا یعنی اسلام کو مانے کے لیے صرف ایک آدمی کی ضرورت تھی.پھر ایک وقت وہ آیا کہ اگر تین بار
آدمی مرنے کے لیے تیار ہو جاتے تو بظاہر اسلام کومٹا دیتے، لیکن خدا نے کہا کہ میں اتنے آدمی اور اتنی طاقت اسلام کے مخالف کو نہیں دوں گا کہ وہ اسلام پر کاری ضرب لگا سکے.چنانچہ بدر کے میدان میں قریباً تین گنا طاقت کے ساتھ آئے تھے بعض میں شہید بھی ہوئے، لیکن نہیں مٹنے نہیں دیا گیا.پھر جب تک نگر میں اور عرب میں اسلام مضبوط نہیں ہوگیا ، قیصر اور کسری کو خدا نے اجازت نہیں دی کہ وہ اسلام کومٹانے کی کوشش کر دیکھیں.لیکن جب اسلام ملک عرب میں مضبوط ہوگیا توقیصر وکسر ٹی کو بھی اجازت دی گئی کہ وہ اسلام کے خلاف میں قدر جاہیں زور لگائیں اور جو کھید اُن سے بن آیا اسلام کی مخالفت میں انہوں نے کیا کر ہمیشہ ناکامی کامنہ دیکھا اور سب سے بڑا معجزہ جو میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی وقت بھی مخالفین کو اتنی طاقت نہیں دی گئی کہ وہ امت مسلی گلی مٹا دیں.ایک حقہ نے قربانی دی ایک حصہ سے اللہ تعالیٰ نے قربانی لینی چاہی اور بشاشت سے اس کی راہ میں اُنہوں نے مصائب کے پہاڑ جھیلے ، لیکن امت مسلہ بحیثیت ایک اقت کے ہمیشہ خدا کی پناہ میں رہی.اب مثلاً ہمارے زمانہ میں درقالی طاقتوں نے اس قدر قوت حاصل کرلی ہے کہ اگر وہ چاہتے یا اگروہ چاہیں تو دنیا کے سارے مسلمانوں کو قتل کر سکتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے جہاں پہلے دوسری قسم کے معجزے دکھائے اب یہ معجزہ دکھایا کہ انسان کی عقل پر فرشتوں کا پر اٹھا دیا اور اُنکو کہا کہ یہ مانا کور کے ساتھ مذہب کو مٹا نے نہیں دلائل سے مقابلہ ہونا چاہئیے.ان کے پاس طاقت تو ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی توجہ کو اس طرف سے ہٹا دیا کہ و طاقت کے ذریعہ مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کریں میں آج اگر قبال مادی طاقت کو استعمال کر کے ہر مسلما کو قتل کرنا چاہے تو اس کے اندر یہ طاقت تو ہے لیکن خدا نے کہا کہ طاقت تو دیدی ہے لیکن اس کے استعمال کی اجازت نہیں دوں گا ، اسلام کے خلاف اور سلمانوں کے خلاف.میں ال نبی اکرم صلی الہ علیہ وسلم کو وعدہ دیا گیا خصوصی حفاظت کا اسی وجہ سے اور اسی مرض کے پیش نظرامت مسلمہ کو بھی خصوصی حفاظت کا وعدہ دیا گیا ہے اور عملاً دنیا میں کبھی بھی خدا تعالیٰ نے مخالفین کو یہ اجازت نہیں دی کہ دہ امت مسلہ کو کلیتہ دنیا سے شادیں، اپنے ہیں حالات دیکھ لو ایک وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قتل کرنے کے لیے ایک آدمی کافی تھا.کوئی جماعت آپ کے ارد گرد نہیں تھی.ایک بار صرف بارہ آدمی آپ کے ساتھ تھے.دہلی
96 کے سر میں بڑا جو ہوا باہر کی دیوار یا دروازہ توڑ کے مخالف سمن میں گھس آئے اور اندر کے دروازے کو توڑ رہے تھے کہ پتہ نہیں کیوں ؟ وہ وہاں سے بھاگ اٹھے اور واپس چلے گئے.وہ کیوں بھا گئے ؟ اس سوال کا جواب اس آیت میں ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہو یا جو قوم خدا تعالی کی حفاظ میں ہوا دنیا کا کوئی کر دنیا کا منصوبہ اور دنیا کی پول طاقت سے یا انھیں شا نہیں سکتی اور یہ وعدہ جو ہے یہ دلوں کومضبوط کرنے والا اور قربانیوں پر نکھارنے والی ہے.دوسرے اس میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ جو شریعت اس نبی کو دی جائے گی وہ بھی محفوظ ہوگی.چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے إنا نحن نزلنا الذكرَ وَ إِنَّا لَهُ لَفِظُونَ ، رسورة الحجر، آیت (۱) کہ اس ذکر اور اس قرآن کریم کو ہم نے اتارا ہے او اس کی حفاظت کے سامان مہیا کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے جیس طرح چاہا اس نے حفاظت کی اور کرتا چلا آرہا ہے.جب کثرت کے ساتھ کا غذ پر قرآن کریم لکھا جاگر اس کی اشاعت کے ذریعہ اس کی حفاظت نہیں ہو سکتی تھی تواللہ تعالے نے لاکھوں ذہنوں کو اس بات کے لیے تیار بھی کیا.اور اس کی طاقت بھی دی کہ وہ قرآن کریم کو حفظ کر لیں اور ان میں سے ہزاروں ایسے بھی پیدا ہوئے جن کا حافظہ اتنا اچھا تھا کہ وہ زیر وزیر کی غلطی بھی کبھی نہیں کرتے تھے لیکن سارے مل کے تو وہ ایسا حافظہ رکھنے والے تھے کہ گر کو ئی غلطی کر جاتا تھا تو دوسرا فوراً اس کی تصحیح کرنے والا بھی موجود ہوا تھا بینی بحیثیت مجموعی حافظ قرآن غلطی نہیں کر سکتے تھے.پھر یہ بنانے کے لیے کہ حفاظ کی یہ کثرت اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت کے ماتحت پیدا ہوئی تھی جب قرآن کریم کاغذ کے اوپر شائع ہونا شروع ہوگیا تو حفاظ کی تعداد کم ہونی شروع ہوگئی اور اس سے ہمیں یہ بھی پتہ چلاکہ وہ زردی بھی اللہ کا ہی پیدا کردہ تھا.انسانی تدبیر کا اس میں دخل نہ تھا.معافی کے لحاظ سے ہر صدی میں اللہ تعالیٰ نے ایسے بزرگ اولیاء پیدا کیے صدی کے شروع میں بھی صدی کے وسط میں بھی ، اور صدی کے آخر میں بھی.کہ جوخدا تعالیٰ کی توفیق سے خدا تعالیٰ کا اس قدر قرب حاصل کرنے والے تھے کہ للہ تعالی خودان کو علم قرآن سکھاتا تھا.خود ان کا معلم تھا اور اپنے وقت کی ضرورتوں کو وہ پورا کرنے والے اور اپنے وقت کے مسائل کو وہ حل کرنے والے اور اپنے وقت کی اُلجھنوں کو وہ سلجھانے والے تھے.
چین اب بھی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت ہی زبردست تحر یک دنیا میں جاری کی: ہے تمام اکناف عالم میں اسلام کو غالب کرنے کی اور اسلام کے نور کو پھیلانے کی اور ہمیں اس نے محض اپنے فضل سے یہ تو فیق عطا کی ہے کہ ہم آپ کی جماعت میں شامل ہوں اور ہمارے لیے یہ موقع دیا گیا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو وہ قربانیاں دے کر جو خدا تعالیٰ ہم سے لینا چاہتا ہے ہم اس کی رضا کوں صل کرنے والے ہوں اور خدا کرے کہ ہم میں سے ہرا یا گیس کی رضا کو حاصل کرنے والا ہے.تو لفظی حفاظت بھی اور معنوی حفاظت بھی قرآن کریم ک اللہ تعالیٰ نے کی.ایسے حالات میں ایسے طریق پر یہ حفاظت کی کی کہ کوئی عقل مند شخص اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ جو قرآن کریم کی حفاظت کی گئی ہے وہ کسی انسانی تدبر کا تو نہیں ہے محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ اور خاص اس کی حفاظت کی وجہ سے ہے جس کا اس نے وعدہ دیا تھا وہ اپنے وعدوں کا سچا، اپنے قول کا صادق ہے.اس نے اپنے وعدے کو پورا کر دکھایا.اللہ تعالی اسے ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چاہیئے کہ ہمیں بھی وہ ان بندوں میں شامل کرے کہ جن کے ذمہ وہ یہ لگائے کہ قرآن کریم کی معنوی حفاظت کرد بینی مسیح علیم قرآن وہ حاصل کرنے والے ہوں، اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والے نہ ہوں.اپنے دنیوی مطلب کے حصول کے لیے قرآن کریم کو اعمال کرنے والے نہ ہوں، بکہ قرآن کریم کے حقیقی معلوم وہ اپنے رب سے سیکھنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کے ان پیاروں میں شامل ہوں جن پر خدا تعالیٰ اپنا فصل کرتا اوران کے ذریعہ سے اس عظیم کتاب مکنون کے علوم ضروریہ کے چہرہ پر سے پردوں کو مٹاتا ہے اور وہ ہمیں ان لوگوں میں شامل نہ کرے جن کی زبان پر تو قرآن ہوتا ہے لیکن جن کا دل قرآن کے نور سے خالی ہوتا ہے : ر منقول از روزنامه الفضل دیوه مورخه هم چون شه)
۹۹ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے قربانیاں دینے والوں کے اعمال ضائع نہیں جانتے خطبه جمعه، فرموده ۲ جون شاه بمقام مسجد مبارک ربوه
بیت اللہ کے فیوض اور برکات کو دیکھ کر نیا اس تیجہ پرپہنچے گی کہ جولوگ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے انتہائی قربانیاں دیتے ہیں اور دنیا سے منہ موڑ کہ صرف اور صرف اُسی کے ہو رہتے ہیں، اُن کے اعمال ضائع نہیں جاتے بلکہ انھیں ان اعمال مقبولہ کا بہترین بدلا اور شیریں بھی ملنا ہے اور اُن کے عاجزانہ اور عاشقانہ اعمال کے بہترین نتائج نکلتے ہیں."
وَتُصَلِّ عَلَى رَسُولِ الكَرِيمُ نشد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : خانہ کعبہ کی تعمیر کا سولھواں مقصد والنت اهله ومن الشمات میں بیان ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بیت اللہ کے فیوض اور برکات کو دیکھ کر دنیا اس نمبر پر سنے گی کہ جولوگ بھی للہ تعالی کی رضا کے لیے انتہائی قربانیاں دیتے ہیں اور دنیا سے منہ موڑ کر صرف اُسی کے ہو رہتے ہیں، اُن کے اعمال ضائع نہیں جاتے بلکہ انہیں ان اعمال مقبولہ کا بہترین بدلا اور شیریں بھی ملتا ہے اور ان کے عاجزانہ اور عاشقانہ اعمال کے بہترین نتائج نکلتے ہیں.قرآن کریم نے خود یہ دعوی کیا ہے کہ یہ مقصد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور قرآنی شرعیت سے پورا ہوا ہے جیسے کہ اللہ تعالی سورہ قصص میں فرماتا ہے وَقَالُوا إِن تَتَّبِعِ الهُدَى مَعَكَ نَتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا أَوَلَمْ نُمَن لَهُمْ حَرَمًا أَمِنَا تُحْبَى إِلَيْهِ ثَمَرْتُ كُلِّ شَيْ ءٍ رِزْقَا مِّن لَدُنَا وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ نفس آیت و بیاں اللہ تعالی یہ فرماتا ہے کہ قرآن کریم کے مخاطب جب قرآن کریم کی شرعیت، قرآن کریم کی ہدایت اور تعلیم ان کے سامنے پیش کی جاتی ہے، تو کہ دیا کرتے ہیں کہ ہم اس ہدایت کی جو تو لے کے آیا ہے اگر اتباع کریں تو اپنے ملک - اُچک لیے جائیں گے ، دنیا ہماری دشمن ہو جائے گی اور جاری مخالف ہو جائے گی، ہمیں تباہ و برباد کرنے کے لیے تیار ہو جائے گی ہم ان کا مقابا نہیں کر سکتے، ہم اس ہدایت پر ایمان لاکر اپنی تباہی کے سامان کیوں پیدا کریں.اللہ تعالے فرماتا ہے او لم نُكُن لَّهُمْ حَرَمًا مِنًا.کیا وہ جانتے نہیں کہ ہم نے اس نبی کا اور اس شریعیت کا تعلق حرم کے ساتھ رکھا تھا اور بیت اللہ کو ایک علامت بنایا تھا اس بات کی کہ یہ نبی اور اس کے ماننے والے اللہ تعالیٰ کی حفاظت ہیں
ہوں گے اور جو شریعیت اس پر نازل ہوگی اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی محض اور محض اللہ تعالیٰ پر ہوگی.دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حرم کعبہ کی حفاظت کا جو وعدہ کیا تھا وہ گورا کر دکھایا جار دور میشیدند کی کھاتے رہے اور ناکام ہوئے اور دنیا اس بات پر بھی گواہ ہے اور گواہ بنتی رہے گی کہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم اور آپ کے مقصد کو دنیا کی کوئی طاقت دنیا کا کوئی منصوبہ، دنیا کی کوئی سازش کی تباہ نہیں کرسکتی اورنہ کوئی دبل قرآن کریم کی شرعیت میں دخل پاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم نے ان کو محفوظ اور امن والے مکان میں جگہ دی ہے.حرم کعبہیں بھی اور عصمت نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلمی بھی اور حرم شریعت اسلامی یعنی قرآن کریم میںبھی یہ تمام محفوظ چیزیں ہیں محفوظ ہستیاں ہیں محفوظ مقام میں اگر تم اس رسم کے ساتھ اپنے تعلق کو قائم کرو گے تو جس طرح حرم خدا تعالی کی مخالفت میں ہے، اسی طرح تم بھی اس کی حفاظت میں آجاؤ گے.اور یہ بات غلط ہو گی کہ تختطف من أرضنا دنیا کی کوئی طاقت تمہیں برباد کرسکتے اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب انه تموتُ كُل بنتی ہو کہ اس ترجمہ کے ساتھ ہم نے یہ بات بھی لگا دی ہے کہ تقسیم کے پھل یہاں لائے جاتے ہیں یعنی اس سے تعلق قائم کر کے تقسم کے اعمال صالحہ بجالا ناممکن بھی ہو جاتا ہے.اس کی توفیقی بھی اللہ تعالیٰ سے انسان پاتا ہے اور اس کے بہترین نتائج کا وعدہ بھی دیا گیا ہے پس جو بھی خلوص نیت رکھتا ہو اور اس کے اندر کی قسم کا ضاد نہ ہو وہ ان پھلوں کو حاصل کرتا ہے تو ہاں مجبى إِلَيْهِ ثَمَرتُ كُلِّ شَيْءٍ کو حرم کے ساتھ اور حرم کو اُن کے موقف وَقَالُوا إِن نَتَّبع الهدى مَعَكَ نَتَخَطَّفُ مِنْ ارْضِنا کی تردید میں ایک دلیل ٹھہرا کر اس حقیقت کو....اللہ تعالی نے واضح کیا ہے کہ ابر ہمیں دعامیں بین پھلوں کا جن بزاؤں کا ذکر تھا، ان کا تعلق حقیقی طورپر نبی کریم ستی علیہ وسلم اور امت محمدیہ کے ساتھ تھا اور ہے اور قائم رہے گا.یہ ثمرات جو میں امن الموت) اس کی تفسیر قرآن کریم میں سور و محمد میں بیان فرمائی ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي يُعِيدُ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهُرُ مِن مَّا غَيْرَانِي و الهر من أبي تميَتَغَيَّرَ مَعْمُهُ وَأَنْهرُ من خَمر لة وَانْهرُ
الشربين، وانهرُ من عَسَلٍ قُصَى وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِن رَّبِّهِم (سورہ محمد : آیت ۱۶) اللہ تعالے نے یہاں یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ متقی جو اس ہدایت پر عمل کرتے ہیں میں کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ هدى المتقين (سورۂ بقرہ کے شروع میں ہی ان کا پختہ ایمان اور اُن کے صحیح اعتقادات جو ہیں ان کو ایک باغ کی شکل میں دختوں کی تم میں پیک کیا جا ہے اس ہی ہیں اور مجاز کے اور اس دنیا میں تحقیقی طور پر وہ درختوں کی شکل کو اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ ہماری ہدایت پر عمل کرکے جو لوگ حقیقی معنے ہی متقی بن جاتے ہیں ان کو ایک جنت دی جاتی ہے نہیں میں تقسیم کے درخت لگے ہوئے ہوتے ہیں اور فیفا اشهر من تمام غیر اسی.اُن کو اعمال صالحہ کی توفیق عطا کی جاتی ہے اور ان کو بشاشت قلبی عطا کی جاتی ہے کہ اس کے مزے کو چکھ کر وہ ان اعمال کو چھوڑنے کے لیے کسی قیمت پر بھی تیار نہیں ہوتے پس فرمایا کہ ان اعمال صالحہ کو ایسی نہروں میں تبدیل کر دیا جائے گا ، اس زندگی میں بھی ، اس دنیا میں بھی، کہ جن میں ایسا پانی ہو جو خراب ہونے والا نہ ہو بینی ایک دفعہ اعمال صالحہ کا چسکہ پڑ جنے کے بعد پر یہ کہ کبھی چھوٹے گا نہیں پھرجب پختہ اپنا کے نتیجہ میں ان بدانیوں کے مطابق جو اللہ تعالی کی طرف سے اُن پر نازل ہوئی ہیں وہ صحیح معنے میں خلوص دل کے ساتھ اعمال صالحہ بجا لانے لگیں گے تو مزید روحانی ترقیات کے دروازے اُن کے اوپر کھولے جائیں گے.وہ باتیں جو پہلے بطور اسرار کے تھیں اور جو راز تھا روحانی، دہ اُن پر منکشف اور ظاہر ہو جائے گا اور اس کے نتیجہ میں مومن کی روحانیت ترقی کرے گی اور یہ کیفیت آنهرُ مَن لَّن لَّمْ يَتَغَيَّرُ طَعمه ایک ایسے دو دن کی شکل اختیار کر جائے گی جس کے خراب ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوگا.پھر ان روحانی علوم کے نتیج میں للہ تعالی کے ساتھ ایک حقیقی اور گناہ سوز عشق ان میں پیدا ہو جائیگا.اپنے وجود پہ وہ ایک موت وارد کرلیں گے.خدا تعالی کی محبت میں کھوئے جائیں گے.اس کے عشق میں ہمیشہ مست رہیں گئے اور ان کیفیات کو انهرُ من خَمر لذة تنش بین کی شکل دیدی جائے گی یہاں یہ بھی بتایا کہ جواس کا تجربہ نہیں سکتا وہ اس کی لذت کو کیا جانے ؟ اور اسی وجہ سے ایسے لوگ عشق الہی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.کیونکہ بہت سے ابتلاؤں کے کانٹے بھی اس نہر کے گرد بوئے گئے ہیں، لیکن جو ایک دفعہ اس کو چکھ لے اور اللہ تعالیٰ کی محبت ایسے حاصل ہو جائے،
ہی بتا سکتا ہے کہ وہ لات و عشق الہی میں ہے کسی اور چیزیں ہیں اور فرمایا کہ والہ تعالی کے حق میں نہ ہو جائے اوراس کے مقدرمیں انھرُ من نَس مصلی ہیں وہ تمام تیاریوں سے شفا حاصل کرلیتا ہے، پھر کوئی بیماری اس کے اوپر حملہ آوازیں ہوسکتی ملی تفاوہ پالیتا ہے.تمام شیطانی حملوں سے وہ محفوظ ہو جاتا ہے، گویا کہ وہ خدا کی گو میں آگیا اور کسی قسم کا کوئی خطرہ اس کو نہ رہا.یہ کیفیت جو ہے انہار من عسل مصلے کی شکل میں اس دنیا میں بھی ایک رنگ میں اور اس دنیا میں بھی اس نیا کے رنگ میں پیدا ہو جائے گی.پھراللہ تعالیٰ نے فرمایا نهُمْ فِيهَا مِن كُل الشعرات کہ ہمیں جوہیں اسلام سے تم پاؤ گے لینی ہرقسم کے پھل نہیں دیئے جائیں گے.ہرقسم کے درخت ہونگے جو صبح عقاید ہوں گے وہ درخت کی شکل اختیار کریں گے.پھر ایسا ایمان تمہیں دیا جائے گا گر تم شوق و بشاشت کے ساتھ قسم کی تکلیف برداشت کر کے اعمل صالح بجالاؤ گے اور ان اعمال صالح کو پانی کی نہروں کی شکل میں بنا دیا جائے گا جن سے وہ باغ پرورش پائیں گے.پانی کے بغیر باغ پرورش نہیں پاسکتا.اعمال صالحہ کے بغیر صحیح اعتقادات پر انسان قائم نہیں رہ سکتا.جب عمل صالح نہ رہے تو پھر اعتقاد بھی بدلنا پڑتا ہے.دُعِدَ المنتقون میں اسی طرف اشارہ ہے.اس والے ہم ہی نہیں کہ سکتے کہ قرآنی شریعت کے اندر خرابی پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ قرآن کریم کے اندر کوئی خرابی پیدا نہیں ہوسکتی.لیکن اس عقیدہ کے نتیجہ یں عمل کرنا ہے انسان نے تو فرمایا کہ وہ اعمال صالحہ کی اللہ تعالی سے توفیق پائے گا اور اسی توفیق پائے گا کہ غیر اسیں پھراس کو یہ خطرہ نہیں ہوگا کہ کبھی شیطان بہکا کر اسے دوسری طرف لیجاتے پھر اس کے بعد روحانی علوم اور اسرار اسپر کھالیں گے اور دودھ کی شکل اختیار کرلیں گے پھر ان روحانی اسرا کے انکشاف سے اس کے دل میں بے انتہا محبت اپنے رب کے لیے پیدا ہوگی اور یہ حبت اللي انظر من خَمْرٍ تدة تدوربین کی شکل اختیار کرجائے گی ، پھر اس کے نتیجہ میں وہ ہرقسم کی روحانی بمباری سے محفوظ ہو جائے گا یعنی انهم من عسل مصفی اسے میسر آجائیں گی.پس یہ پھل ہیں جو اسلام اسے دنیا ہے.یہ وہ پھل ہیں جن کا اس آیہ میں ذکر ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی دارزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ 40 و مفر من ربهم الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ پھل صرف تمھارے اعمال کے نتیجہ میں نہیں مل سکتا تھا
جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں مغفرت حاصل نہ ہوتی ہیں اس مغفرت کا وعدہ بھی تمہیں اسلام میں ہی دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کی طرف اشارہ تونہیں کیا ، لیکن یں نے غور کیا اور اگر آپ بھی غور کریں تواس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اسی آیت کا مفہوم اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے جوئیں آپ کو بھی پڑ ھے کہ سناؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں :.ود اب ہم کسی قدر اس بات کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام کے ثمرات کیا ہیں.سو واضح ہو کہ جب کوئی اپنے مولی کا سچا طالب کامل طور اسلام پر قائم ہو جائے اور نہ کسی مختلف اور بناوٹ سے بلکہ طبعی طور پر داتعالی کی راہواں میں ہر ایک قوت اُس کے کام میں لگ جائے تو آخری نتیجہ اس کی اس حالت کا یہ ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی ہدایت کی اعلی تجابات تمام جب سے میرا ہو کر اس کی طرف رخ کرتی ہیں ، اور طرح طرح کی برکات اس پر نازل ہوتی ہیں اور وہ احکام اور وہ عقاید جوش ایمان اور سماع کے طور پر قبول کیے گئے تھے اب بذریہ مکاشفات صحیحہ اور الہامات یقینیہ قطعیہ مشہود اور محسوس طور پر کھولے جاتے ہیں اور مغلقات شریع اور دین کے اور اصرار مربستہ ملت حنیفیہ کے اس پر منکشف ہو جاتے ہیں اور ملکوت اٹلی کا اس کو سیر کرا یا جاتا ہے آتا و پینین اور معرفت میں مرتبہ کامل حاصل کرے اور اس کی زبان اور اس کے بیان اور تمام افعال اور اقوالی اور حرکات سکنات میں ایک برکت رکھی جاتی ہے اور ایک فوق العادت شجاعت اور استقامت اور بہت اس کو عطا کی جاتی ہے اور شرح صدر کا ایک اعلیٰ مقام اس کو عنایت کیا جاتا ہے اور شہریت کے حجابوں کی تنگ دلی اور نسبت اور بخیل اور بار یا کی فرش اور تنگ تھی اور
غلامی شہوات اور رداءتِ اخلاق اور ہر ایک قسم کی نفسانی تاریکی بکتی اس سے دور کر کے اس کی جگہ ربانی اخلاق کا اور پھر دیا جاتا ہے.تب رو مبلی مبدل ہوکر ایک نئی پیدائیش کا پیرا یہ پہن لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے سنتا اور خدائے تعالی ہے دیکھتا اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ حرکت کرتا اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ ٹھہرتا ہے اور اس کا غضب خدائے تعالی کا غضب اور اس کا رحم خدائے تعالیٰ کا رحم ہو جاتا ہے اور اس درجہ میں اس کی دعائیں پہلور اصطفاء کے منظور ہوتی ہیں نہ بطور انیلا کے.اور وہ زمین پر حجتہ اللہ اور امان اللہ ہوتا ہے اور آسمان پر اس کے وجود سے خوشی کی جاتی ہے اور اعلیٰ سے اعلی عطیہ جو اس کو عطا ہوتا ہے مکالمات الہیہ اور مخاطبات حضرت یزدانی ہیں جو بغیر شک اور شبہ اور کسی غبار کے چاند کے نور کی طرح اس کے دل پر نازل ہوتے رہتے ہیں اور ایک شدید الاثر لذت اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور طمانیت اور نسلی اور سکینت بخشتے ہیں " (آئینہ کمالات اسلام، صفحه ۲۲۶ تا ۲۳۱) یہ وہ ثمرات ہیں جن کا والد ہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیا گیا تھا.اور یہ وہ ثمرات ہیں جو امت محمدیہ کو اس کثرت کے ساتھ عطا ہوئے کہ دیکھنے والی آنکھ انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے.سترھویں غرض رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنا میں بیان ہوئی تھی اور تایا گیا تھا کہ اعمال کو ی نے نہیں جب تک مقبول نہ ہوں اس لیے روحانی رفعتوں کا حصول صرف دُعا کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے اور اس میں اشارہ تھا کہ ایک عظیم نبی یہاں مبعوث ہوگا اور اس کے فیوض روحانی کے طفیل ایک ایسی امت جنم لے گی جو اس حقیقت کو سمجھنے والی ہوگی کہ انتہا ئی قربانیاں بھی بے سود اور بے نتیجہ میں جب تک عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالے کے فضل کو جذب نہ کیا جائے
پس دعاؤں کے ذریعہ ہی معرفت کے بلند مقامہ کو وہ حاصل کرے گی اور دعاؤں کے طفیل ہیں اپنے اعمال کے بہترین پھل دہ پائے گی.قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ ان تین مقاصد کا ذکر کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ دعا اور قبولیت دعا پر اسلام نے جو روشنی ڈالی ہے کسی اور مذہب نے نہیں ڈالی.کوئی اور مذہب اس کے مقابلہ میں پیش ہی نہیں کیا جاسکتا اللہ تعالی سورۂ فرقان کے آخر میں عباد الرحمن کا ذکر کرتا ہے کہ عباد الرحمن وہ ہیں جو یہ اعمال بجالاتے ہیں یا ان بعمال سے پرہیز کرتے ہیں غیر وغیرہ الر حمن کے معنے ہیں وہ پاک ہستی اللہ جو بغیر کسی عمل کرنے والے کے عمل اور بغیر کسی استحقاق حق کے اپنا احسان اس پر کرتی ہے.آگے عباد الرحمن کے سارے اعمال کا ذکر ہے جن کا بظاہر صفت رحیمیت کے ساتھ تعلق ہے.پس یہاں مضمون یہ بیان ہوا ہے کہ تم نیک اعمال بنتنے چاہو بالا موجب تک رحیمیت کے ساتھ رحمانیت کا فیض شامل نہیں ہو گا تمہیں کوئی بدل نہیں مل سکتا.اسی لیے جب یہ مضمون ختم کیا تو آخر میں بڑے پر شوکت الفاظ میں یہ فرمایا : آخرمیں قُل مَا يَعْبَوابِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّ بتُمْ فَسَوفَ يَكُونَ لِذَا ماه رسورة الفرقان : ، یعنی بی تو صحیح ہے کہ اعمال صالحہ بجالانا بھی ضروری ہے اور بد اعمال سے بچنا بھی انسان کے فائدہ کی چیز ہے لیکن یہ یاد رکھو تمہاری اور تمہاری نیکیوں کی تمہارے خدا کو یا پردا ہے.کولا دعاؤ گے.ہاں اگر تیم اس کی پروا کرتے ہو تو اپنی دعاؤں سے اس کے فضل کو جذب کرو جب تم اپنی دعاؤں کے ساتھ اس کے فضل کو جذب کر لو گے تب تمھارے یہ اعمال تمہیں فائدہ پہنچا سکیں گے.پھر دعا بھی بے معنی ہے جب دعا کے ساتھ قبولیت دعا حاصل نہ کی جائے.دعا کی قبولیت کے لیے بھی اللہ تعالی کا فضل ہی چاہیے اور اس کے لیے بھی دعاکرنی پڑتی ہے پیس ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیئے کہ اسے خدا ہم کچھ کرتے ہیں یانہیں کرتے ہم اعمال صالحہ کی قبولیت کے لیے جو دعائیں کرتے ہیں وہ بھی تجود یک تبھی پہنچ سکتی ہیں کہ جب تو ہماری دعاؤں کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لے.تو قبولیت دعا کے لیے پھر آگے دعا کی جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ خدا کو تمہاری کوئی پروانہیں تمہارے اعمال کی کوئی پروانہیں تمہاری قربانیوں کی کوئی پروا نہیں ، جوتم صدقہ و خیرات اس
کی راہ میں دیتے ہو اس کو ان کی کیا پروا ہے.اس کے خزانے کیا خالی ہیں کہ تمہارے مال کی اس کو پروا ہو ؟ تم اس کے احکام بجا لاتے ہو، انتہائی طور پرمجاہدہ کرتے ہو، کوشش کرتے ہو اس کی راہ میں، پھر بھی اسے تمہاری کوئی پروا نہیں تمہیں ان تمام چیزوں کا فائدہ اسی وقت پہنچ سکتا ہے جب تم دعا کے ذریعہ اس کے فضل کو جذب کرو جب ریمیت کے جلوہ کے ساتھ رحمانیت کا جلوہ بھی شامل ہو جائے تب تمہاری حقیر کوششیں بھی تمہیں ساتویں آسمان تک پہنچا سکتی ہیں.لیکن اگر تم یہ سمجھو کہ اس کے فضل کے بغیر تم پہلے آسان پر بھی پی سکتے ہو تو م خلالی خوردہ ہو، اس کے فضل کے بغیر تحت الشرطی تک تو تم پہنچ سکتے ہو، شیطان کی گود میں توتم جاسکتے ہو لیکن رحمان خد کی گود میں اس کے فضل اور رحم کے بغیر کوئی نہیں جاسکتا.فقد كن بلکہ تم اس حقیقت کو جھلاتے ہو تم میں سے بعض بظاہر ڑے متقی اور پر ہیز گار ہیں لیکن وہ اپنے اعمال پر اپنی دعاؤں پر اور اپنی شب بیداری پر اور دنیا کے لوگوں کی خدمت جو وہ کرتے ہیں اس پر فخر کرنے والے ہیں.خدا تعا لی کو اُن کی کوئی پروا نہیں ہے جب تک کہ وہ دعا کو اُس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ کریں اور اللہ تعالی ان کی دعا کو قبول کرکے رحمانیت کے جوش میں ان کے اعمال کو قبول نہ کرے.فسوف يكون براما تمھارے بہلانے کے بدنتائج تمہارے ساتھ لگے رہیں گے.اب دیکھو اس وقت مسلمانوں کے بعض فرقوں میں انتہائی مجاہدہ کرنے والے لوگ بھی ہیں لیکن ان کے مجاہدات کا کیا نتیجہ ان کے حق میں نکل رہا ہے.جہان تک...ہم سمجھتے ہیں وہ نتیجہ نہیں نکل رہا جو ایک متقی کے ایسے ہی اعمال بلکہ اس سے ہزارویں حقہ عمل کا نتیجہ بھی کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ میں فرماتے ہیں:.حقیقت میں انہیں دو چیزوں کا تصور دُعا کے لیے ضروری ہے.یعنے اوّل اس بات کا تصور کہ خدائے تعالی ہر یک قسم کی رگو ہیت اور پرورش اور جہت اور بدلہ دینے پر قادر ہے اور اس کی یہ صفات کا مل ہمیشہ اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں دوسرے اس بات کا تصور کہ انسان بغیر توفیق اور تائید اعلی کے کسی چیز کو اصل نہیں کرسکتا.اور بلاشبہ یہ دونوں تصور ایسے ہیں کہ جب دعا کرنے کے وقت
دل میں جم جاتے ہیں تو یکا یک انسان کی حالت کو ایسا تبدیل کر دیتے ہیں کہ ایک مشتکبیر ان سے متاثر ہو کر روتا ہوا زمین پر گر پڑتا ہے اور ایک گردن کش سخت دل کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.یہی گل ہے جس سے ایک غافل مردہ میں جان پڑ جاتی ہے.انہیں دوباتوں کے تصور سے مہر کی دعا کرنے کی طرف کھینچا جاتا ہے.غرض یہی وہ روحانی وسیلہ ہے جس سے انسان کی روح رو بخدا ہوتی ہے اور اپنی کمزوری اور امداد ربانی پر نظر پڑتی ہے.اسی کے ذریعہ سے انسان ایک • ایسے عالم بے خودی میں پہنچ جاتا ہے جہاں اپنی کدر مستی کا نشان باقی نہیں بنتا اور صرف ایک ذات عظمی کا حلال چہکتا ہوا نظر آتا ہے اور وہی ذات ہمت کل اور بر یک بستی کا ستاون اور بریک درد کا چارہ اور بہ یک فین کا مینڈ دکھائی دیتی ہے.آخر اس سے ایک صورت فنا فی اللہ کی ظہور پذیر ہو جاتی ہے جس کے ظہور سے نہ انسان مخلوق کی طرف مائل رہتا ہے ، نہ اپنے نفس کی طرف ، نہ اپنے ارادہ کی طرف اور بالکل خدا کی محبت میں کھویا جاتا ہے اور اس مینیم حقیقی کی شہود سے اپنی اور دوسری مخلوق چیزوں کی ہستی کا لعدم معلوم ہوتی ہے.(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۴۸۰ تا ۴۸۲ حاشیه نمیرا) اٹھارھویں غرض یہ بتائی گئی تھی کہ خانہ کعبہ کے قیام کے نتیجہمیں خدائے سمیع کی معرفت دنیا حاصل کرلے گی ایک ایسی اہمت یہاں پیدا کی جائے گی جو دنیا کو خدائے سمیع سے متعارف کرائے گی اور دنیا اس حقیقت سے انکار نہ کر سکے گی کہ تضرع اور ابتہال سے دعاؤں میں مشغول رہنے والے ہی اللہ تعالے کی صفت سمیع کے جلوے دیکھا کرتے ہیں.اللہ تعالی سورہ مومن میں فرماتا ہے : وقَالَ رَبِّكُمُ ادْعُونِ اسْتَجَبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جهنم داخرينہ آیت ) کہ تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعائسنوں گا.لیکن وہ لوگ جو کبر کرتے ہوئے
میر ی حقیقی عبادت سے منہ چھہ لیتے ہیں لینے ایسی عبادت سے جسے میں قبول کیا کرتا ہوں اور جن کے متعلق نہیں دوسری جگہ قرآن کریم میں کہہ چکا ہوں کہ تمہاری عبادتوں کے ساتھ تمہاری دعاؤں کا ہونا ضروری ہے اور جولوگ تکبر سے اپنی عبادت کو عبودیت کے اس مقام پر نہیں لائیں گے میں انہیں جہنم کی مزاروں گا اور وہ نا کامی اور میرے قہر اور غضب کی جہنم میں داخل ہوں گے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ منو إلى لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ٥ سورة البقرة آیت (۱) اسکے رسول ! اگر میرے بندے میرے هر متعلق تجھ سے سوال کریں کہ خدا تعالی کی مستی کا کیا ثبوت ہے ہے اور اس کی صفات کا علم ہم کیسے حاصل کریں تو گو ان کو جواب دے کہ خدا تو تمہارے قریب ہی ہے، تم اس کے در کو کھٹکھٹاؤ وہ تمھارے لیے کھولا جائے گا اور تم اس دعائیں کرو اس کی بتائی ہوئی شرائط کے مطابق تمہاری دعائیں قبول ہوں گی اور قبولیت دعا کے نتیجہ مں تم ذات باری اور صفات باری کا معمہ حاصل کرو گے اور اس معرفت اور عرفان کے بعد تمھارے دل اس کی محبت میں گم ہوجائیں گے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انکو چاہیئے ونیو منوانی کہ مجھ پرایمان لائیں ، میری ذات پرا در میری صفات پر تنادہ ہدایت پائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے متعلق برکات الدعا میں فرماتے ہیں :- " اور دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب میں ایک تعلق مجاز بہ ہے یعنی پہلے خدائے تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کینیتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے.سو بھی وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدائے تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امیرا در کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھلکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے ، پھر آگے کیا دیکھتا
ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں، تب اُس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالی کی عنایات کو اپنی طرف سینچتی ہے اب اللہ جل شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالنا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لیے ضروری ہیں کیا بركات الدعاء صفحه 4) انیسواں مقصد یہ بیان ہوا تھا کہ صفت سمیع کے ہی نہیں بلکہ صفت علم کے جلوسے بھی دنیا اس امت کے ذریعہ دیکھے گی.بعض دعاؤں کا رڈ ہو جانا یا لیض دعاؤں کا اس رنگ میں پروانہ ہونا اس جنگ میں دو مانگی گئی تھیں یہ تاب نہیں کریگا کہ ہما را خدا عزوجل سمیع نہیں ہے یا تمام قدرتوں اور طاقتوں کا مالک نہیں ہے بلکہ یہ ثابت کرے گا کہ جہاں وہ قادر توانا سمیع ہے وہاں وہ علیم بھی ہے اور قبولیت دعا کا اس کی صفت علیم کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.حضرت مسیح موعوظ یا سلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :.اور یہ بھی یادر ہے کہ دعا کرنے میں صرف تضرعا کافی نہیں ہے بلکہ تقوی اور طہارت اور راست گوئی اور کامل یقین اور کامل محبت اور کامل توجہ اور یہ کہ شخص اپنے لیے دعا کرتا ہے یا جس کے لیے دعا کی گئی ہے اس کی دنیا اور آخرت کے لیے اس بات کا حاصل ہونا خلاف مصلحت المی بھی نہ ہو کیونکہ بسا اوقات دعا میں اور شرائط تو سب جمع ہو جاتے میں گرمیں چیز کو مانگا گیا ہے وہ عنداللہ سائل کے لیے خلاف مصلحت الہی ہوتی ہے.اور اس کے پورا کرنے میں خیر نہیں ہوتی یا بركات الدعا صفحه ۱۰) یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبولیت دعا کے لیے مین شرائط کا ذکر کیا ہے یعنی تقو بی طہارت کا مل لنین
۱۱۲ کامل ثبت وفی و بی اس قبولیت دعا سے متعلق ہیں جو اصطفا کے رنگ میں ہوں لیکن جو قبولیت دعا ابہلا کے رنگ میں ہو اس کا ان شرائط سے تعلق نہیں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اس مضمون پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے اور فرمایا ہے انہوں کو بھی اللہ تعالی سچا خواب دیکھاتا ہے تاکہ ان کی ہدایت کے سامان پیدا کر تے تا وہ اُن کے دل میں یہ خیال پیدا کرے کہ وہ اس گند سے با ہر کہیں اور پاکیزگی کے منبع اور سرچشمہ کی طرف بھا گئیں اور اپنے آپ کو پاک کرنے کی کوشش کریں.لیکن اگر دعا کرنے والے کا دل تقولی کے نور سے منور نہ ہو یا اس کا سینہ پاکیزگی کی خوشبو سے خالی ہو یا اس کی زبان استگوئی کا طریق اختیار کرنے والی نہ ہو اور اس کا دل کامل یقین اور کامل محبت سے پر نہ ہو.اس کا ذہن کامل توجہ سے اپنے رت کی طرف جھکنے والا نہ ہویا جو چیز مانگی گئی ہے وہ علام النٹیوب کے نزدیک اس نٹس کے لیے جس کے لیے وہ مانگی گئی بغیر کا موجب نہ ہو تو تمام حالتوں میں دعا کور د کر دیا جاتا ہے.مگر آخری صورت میں اللہ تعالی کسی اور رنگ میں ایسی دعا کا رد انسان کو بدلہ دے دیتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.کیا ر تسلی بخش ثبوت نہیں ہے کہ قدیم سے خدا تعالیٰ کا ایک روحانی قانون قدر ہے کہ دعا پر حضرت احدیت کی توجہ جوش مارتی ہے اور سکینت اور اطمینان اور حقیقی خوشحالی ملتی ہے.اگر ہم ایک مقصد کی طلب میں غلطی پر نہ ہوں، تو وہی مقصد مل جاتا ہے اور اگر ہم اس خطا کار بچہ کی طرح جو اپنی ماں سے سانپ یا نگ کا ٹکڑا مانگتا ہے اپنی دکھا اور سوال میں غلطی پر ہوں تو خداتعالی وہ چیز جو ہمارے لیے بہتر ہو خط کرتا ہے اور بایں ہمہر دونوں صورتوں میں ہمارے ایمان کو بھی ترقی دیتا ہے کیونکہ ہم دعا کے ذریعہ سے پیش از وقت خدا تعالیٰ اسے علم پاتے ہیں اور الیسا یقین بڑھتا ہے کہ گویا ہم اپنے خدا کو دیکھ لیتے ہیں اور دعا اور استجابت میں ایک رشتہ ہے کہ ابتدا سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا برابر چلا آتا ہے جیب خدا تعالے کا ارادہ کسی بات کے کرنے کے لیے توجہ فرماتا ہے تو سنت اللہ
یہ ہے کہ اس کا کوئی مخلص بنده اضطرار اور کرب اور قلق کے ساتھ دعا کرنے.میں مشغول ہو جاتا ہے، اور اپنی تمام ہمت اور تمام توجہ اس امر کے ہو جانے کے لینے مصروف کرتا ہے.تب اُس مرد فانی کی دُعائیں فیوض الہی کو آسمان سے کھینچتی ہیں اور خدا تعالیٰ ایسے نئے اس باب پیدا کردیا ہے جن سے کام بن جائے...رایام الصلح صفه ) تو اللہ تعالی قرآن کریم میں دعا کے متعلق تین بنیادی باتیں تمہیں بتاتا ہے :.ایک یہ کہ جب تک ہم دعا کے ذریعہ سے مقبول دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالی کے فضل کو جذب نہ کریں اس اخت تک اپنے اعمال پر ہم خوش نہیں ہو سکتے نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالی ان کو قبول کرے گا بھی یا کہ نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے صاف اور پر شوکت الفاظ میں میں بتادیا ہے کل ما تو اسکنر برای تولا دفا ذکر تمہاری کیا پروا ہے انتہاری نیکیوں کی کیا پروا ہے، تمہارے اعمال کی کیا پروا ہے میرے رب کو ، اگر دعا کے ساتھ تم اس کی طرف مجھکو نہ.لیکن نہیں تو اس کی پروا ہے.اور اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی محبت کے جلوے ظاہر کرتا ہے تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم دعاؤں کے ذریعہ سے ، ان دعاؤں کے ذریعہ سے جن میں تمام شرائط دعا پائی جاتی ہوں ، اس کے فضل کو جذب کرنے والے ہوں.اگر ہم ایسا نہیں کریں تو ہمارے اعمال کی اتنی بھی قیمت نہیں متبی کبیری کے ایک پاؤں کی قمیت دنیا کی نگاہ میں ہے.دوسرے اللہ تعالی نے یہ بتایاکہ اسلام نے ایسی تعلیم میں عطا کی ہے اگر میں تعلیم میں نظر کی اور اسلم کی ہدایات پرپول کریں قوی امید کرسکتے ہیںکہ ہمارا لا جوہی ہے ہماری دعاوں کرے گا اور یا فرمایا اور کہا کہ اپنی امت کے سامان پیداکرےگا.اور تیسر کی بات ہمیں یہ بتائی کہ خدا تعالی بیشک السمیعہ ہے لیکن وہ تعلیم بھی ہے.ایک انسان دنیا کو دھوکا دے سکتا ہے وہ ظاہرمیں بزرگی کا بہ بن سکتا ہے.وہ ہزار تکلف کے ساتھ اپنی بزرگی کا اعلان کرسکتا ہے لیکن اپنے رب کو وہ دھوم نہیں دے سکتا ہیں وہی شخص خدا کے نزدیک مقبول ہے اوراسی کی دعائیں ان کی جاتی ہیں کے ایک کی کمی کا مارا گیا اور ناپاکی تور
کبر الکبیر نخوت ، خود پسندی، خود رائی، اپنے آپ کو کچھ کہنا اور دنیا و قیر کہنا یہ بائیں نہ ہوں کہ خدا تعال کے مینی مشق سے ہو گناہ سوز ہے اس کی تمام کمزوریاں اور گناہ خاک ہو گئے ہوں اور وہ ایک پاک دل کے ساتھ اور ایک مظہر سمینہ کے ساتھ اور آنسو بہانے والی آنکھ کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکنے والا ہو.تب اُس کی دُعا کو قبول کیا جاتا ہے.لیکن ہمارا خدا ر نعوذ باللہ) جاہل نہیں ہے.کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے.وہ جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے سینوں کی باتوں کو جانتا ہے.وہ جیسا کہ قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے جانتا ہے کہ کون متقی ہے اور کون نہیں.وہ جانتا ہے کہ کون ہمارا دشمن ہے اور کون دوست وہ جانتا ہے کہ کس چیز میں ہماری بھلائی ہے اور کس چیز میں ہمارا نقصان ہے پس ہماری دعاؤں کو علیم ہونے کی حیثیت سے قبول کرتا ہے.وہ نعوذ باللہ بے وقوف ماں کی طرح نہیں ہے کہ اگر تجھے آگ کا انگارہ اس سے مانگے تو بعض دفعہ چڑ چڑے پن میں وہ آگ کا انگارہ اس کے سامنے رکھ دیتی ہے اور بچے کے ہاتھ کو جلا دیتی ہے.وہ ماں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے.وہ باپ سے بھی زیادہ پیار کرنے والا ہے.وہ جب دعاؤں کو قبول کرنے پر آتا ہے تو انہی دعاؤں کو اور اسی رنگ میں قبول کرتا ہے جو دعائیں جس رنگ میں ہمارے فائدہ کے لیے ہیں.لیکن جب دعا میں جوچیز مانگی گئی ہے وہ ہمارے فائدہ کے لیے نہ ہو تو وہ اُسے رد کر دیتا ہے اور اس کی بجائے محض اپنے فضول اور رحم سے کسی اور شکل اور کسی اور رنگ ہیں، اپنی رحمت کو ظاہر کرتا ہے.وہ بڑا ہی پیار کرنے والا، وہ بڑی ہی محبت کرنے والا رب ہے.ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کے دن گزاریں اور جماعت کے اندر تھا اور اتفاق کو ہمیشہ قائم رکھیں اوراس حقیقت کو بھی نظرانداز نہ کریں کہ سب بزرگیاں اور ساری ولایت خلافت راشدہ کے پاؤں کے نیچے ہے.جوشخص اس سے باہر اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے اس کی دعائیں اگر قبول بھی ہوں تو وہ قبولیت اصطفا کی نہیں وہ قبولیت استبلا اور امتحان کی ہے.اپنی اپنے رب سے ڈرتے رہنا چاہیئے.ر منقول از روزنامه الفضل ابوه مو نه ارجون علاء)
۱۱۵ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مت مسلمہ کا قیام خطبه جمعه، فرموده ۹ رحون شاه بمقام مسجد مبارک ریبوه
114 یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ و ہادی علم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تا شیروں اور قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اقوام عالم کی سعید رومیں حقیقت امت مسلمہ بن جائیں گی اور عرب جو آپ کے پہلے مخاطب ہوں گے ان کے سب گند دھو دیے جائیں گے اور پاک اور صاف ہو کر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے سایہ تلے اپنے خالق حقیقی اور مالک حقیقی کے دربارمیں آجمع ہونگے اور پھر دنیا کے بادی نہیں گے اور سو ڈ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کو ساری دنیا میں قائم کریں گے چنانچہ ابراہیمی دعاؤں اور ان پیشگوئیوں کے مطابق جو پہلی کتب میں پائی جاتی تھیں، اللہ تعالے نے نبی کرم صلی الہ علیہ وسلم کے ذرایہ ایک امت مسلہ کو قائم د کر دیا
16 محمد تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی : - ربَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَكَ وَارِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۚ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ربَّنَا وَابْعَثْ فِيهِـ بعَثُ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُم يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ابْتِكَ وَ پھر فرمایا :- يُعَلِّمُهُمُ الكتب والحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الحكيم رسورة البقرة : آیت ۱۲۹ ۱۳۰).تعمیر کعبہ سے تعلق رکھنے والے انہیں مقاصد کے متعلق میں پہلے بتا چکا ہوں بیسویں غرض دمن دينا أمة مسلمة تت میں بیان ہوئی تھی اور وعدہ دیا گیاتھا کہ خود با دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اقد تاثیروں اور قوت قدسیہ کے نتیجہمیں اقوام عالم کی سعید رو میں حقیقت امت مسلمہ بن جائیں گی اور غرب جو آپ صلعم کے پہلے مخاطب ہوں گے ان کے سب گند دھو دئے جائیں گے.اور پاک اور صاف ہو کر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شات کے سایہ تلے اپنے خالق حقیقی اور ملک حقیقی کے دربار میں جمع ہوں گے اور پھر دنیا کے بادی نہیں گے اور اسود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا میں قائم کریں گے.ابراہیمی دعاؤں اور ان پیشگوئیوں کے مطابق جو پہلی کتب میں پائی جاتی تھیں اللہ تعالے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
HA کے ذریعہ ایک امت مسلہ کو قائم کیا جیسا کہ اللہ تعالی قرآن کریم کی سورہ حج میں فراآتا ہے: وَجَاهِدُ واني اللهِ حَقَّ جِهَادِ هُوَ اجْتَبَكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُم في الدين من حرج مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ مَشْكُمُ المَشارِينَ مِنْ من قَبْلُ وَفِي هَذَا اليَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ سے فَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكوة وَاعْتَصِمُوا بِاللهِ هُوَ مَوْلَكُمْ ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعمَ النَّصِيرُه (سورة الحج : آیت 49 ) یہاں اللہ تعالٰی نے یہ فرمایا ہے کہ اپنی تمام قوت اور اپنی تمام طاقت اور اپنی تمام استعداد کے ساتھ اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرو اور اس کوشش اور جہد کو اپنے کمال تک پہنچاؤ حق جهاد) اُس کے حق کو پورا کرو، کیونکہ اس نےتمہیں مجتبی بنایا ہے اور تمھیں زندگی بخشی ہے اور کامل دین تمہیں دیا ہے.بہترین احکام تمھارے لیے نازل کیے ہیں اور ان احکام کی میری کرنے کے لیے جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی وہ بھی ساتھ ہی تمہیں عطا کی گئی ہیں.اس لیے ان احکام کی پیروی کرنے سے تم پر کوئی وجہ نہیں پڑتا.تمہارے باپ ابراہیم کی محبت ! اللہ نے تمہیں انسیلین کا نام دیا ہے.امت مسلمہ قرار دیا ہے.تمھارے متعلق یہ نام پہلی کتب میں بھی استمال ہوا تھا اور قرآن کریم بھی نہیں امت مسلمة المسلمین کے نام سے یاد کرتا ہے.اور یہ نام ان دعاؤں کے نتیجہ میں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھیں کہ ایک امت مسلمہ دنیا میں قائم کی جائے رائس افضل الرس کی بعثت کے ساتھ) اور ان کی اولاد بھی امریت مسلم میں شامل ہو.پس خانہ کعبہ کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھنے والی جو آیات ہیں ان میں ومن ذريتنا امة مسلمة تك کی جو دعا تھی.قرآن کریم شوره جج کی اس آیت میں یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ دعا قبول ہوگئی اور جوہی گوٹیاں میل کتب میں دی گئی نہیں ان کے پورا ہونے کا وقت آگیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسل مبعوث ہو چکے ہیں اور امت مسلمہ قائم ہوگئی ہے اور اس لیے قائم ہوئی ہے کہ انسان کے اندر جور دھانی اور اخلاقی قوتیں اور استعدادیں اور طاقتیں ودیعت کی گئی تھیں اُن کے اظہار کا وقت آگیا ہے.اب نیا
1/4 یہ دیکھے گی کہ انسان اپنے رب کی راہ میں اپنی طاقتوں کوکس طرح خرچ کرتا ہے.اور اپنی استعدادوں کو وہ اپنے کمال تک کسی طرح پہنچاتا ہے.اسلام کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے، اپنے رب کے سامنے اپنی گردن کو قربان کرنے کے لیے رکھ دیا.اپنے تمام ارادوں کو چھوڑ کر، اپنی تمام خامیوں کو چھوڑ کرخدا کی رضا پر راضی رہنے کے لیے ہروقت تیار رہنا یعنی انا کچھ بھی باقی نہ رہے سب کچھ خدا کودیدیا جائے اور پھر خدا سے ایک نئی زندگی حاصل کر کے ایک خیر امت کی شکل میں اس دنیا میں زندگی کے دن گزارے جائیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کے متعلق فرماتے ہیں :." اور اصطلاحی معنی اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کر ہمی ہیں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بلا من اسلم وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحِينٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ مَنْ أَسْلَمَ عِندَ رَبِّهِ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ لا یعنی مسلمان وہ ه ہے جو خدا تعالی کی راہ میں اپنے نام وجود کو سونپ ایسے اپنی اپنے وجود کو ان قالی کے لیے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لیے اور اس کی خوشخود بھی حاصل کرتے کے لیے وقف کر دیو سے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لیے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیور ہے.مطلب یہ ہے اورا که اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جائے.اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو در حقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے ہو خدا تعالی کی شناخت اور اس کی طاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے بنائی گئی ہے اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصاً اللہ حقیقی نیکیاں ، ہو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں مار سے گرا ہے ذوق شوق له سورة البقرة : آیت ۱۱۳ : ایسے
اور حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ.رہا ہے." ر آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۸) اکیسواں مقصد اینا اتنا سنگت میں بیان ہوا تھا اور بتایاگیا تھا کہ نبی موجود پر ایک ایسی شرعیت مانی ہوگی جو انسانی فطرت کے سب بچے او حقیقی تقاضوں کو پورا کرنے والی ہوگی.ہر استعداد اس سے فیضیاب ہوگی اور ہر فطرت صحب اپنے ظرف کے مطابق اس سے حصہ لے گی.ہر زمانہ کے مناسب حال، ہر قوم کے مناسب حال، ہر فرد کی استعداد کے مناسبال " اس میں تعلیم موجود ہوگی اور موجود در ہے گی.المناسك المنسك اور المنبت کی جمع ہے.اس کے معنی ہیں زہد و عبادت ، وہ کام تو حصول قرب کی کے لیے کیے جاتے ہیں.یہاں اللہ تعالی نے نہیں فرمایا آرنا المناسبات عبادت کے کامل طریق میں بتا بلکہ یہ فرمایا ہے اپنا منا سکتا ہمارے مناسب حال جو کامل طریق عبادت کے ہیں وہ ہمیں سکھا.اور یا در ہے کہ صرف قرآنی شریعیت ہی ایسی ہے جس میں ی گنجائش موجود ہے.پہلی شرائی میں گنجائش موجود نہیں تھی جب ان سلام کا وجود نائم ہوگیا اور قرآن کریم کی شرعیت این پر نازل ہو چکی ، تب آرنا منا سگنا کی دعائے ابراہیمی قبول ہوئی تو ارنا منا سکتا ہیں یہ دعا کی گئی ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں موقد اور محل کے مطابق احسن عمل کے انتخاب کی میں توفیق عطا کہ چنانچہ قرآن کریم نے بہت زور دیا ہے اس بات پر کہ قرآنی تعلیم کے مختلف پہلو ہوتے ہیں یعنی ہر حکم کے مختلف پہلو ہوتے ہیں، جو قرآن کریم نے دیا ہے ،تو جو پہلو موقعہ اور محل اور تمہاری اپنی استعداد کے مطابق ہے اس پہلو سے اُس عمل کو اختیار کرو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ اپنی استعداد سے بڑھ کر عبادتوں میں مجاہدہ کارنگ اختیار کرتے ہیں، بہت لمبا عرصہ روزے رکھتے ہیں یا نیند کو بہت کم کر دیتے ہیں.حالانکہ ان کے جسم اس کی برداشت نہیں کر سکتے اور نتیجہ اس کا یہ نہیں نکلتا کہ وہ الہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کریں بلکہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ پاگل ہو جاتے ہیں یا ان کو بعض اور عوارض لاحق ہو جاتے میں کسی کو مل ہو جاتی ہے، وق ہو جاتی ہے بعض اور بیماریاں ہیں جو ان کو لگ جاتی ہیں.
دعا یہاں یہ سکھائی گئی ہے دارِنا منا سنگتا ہر قوم ، ہر زمانہ کے لحاظ سے اور پھر ہر قوم اور ہر زمانہ کے ہرفرد کے لحاظ سے جو مناسب عبادتیں اور تفوق اللہ اور حقوق العبد کی ادائیگی کے جو مناسب طریق میں وہیں کھاتا کہ یہ نسیم کی باری سے ریت سے اور لغزش سے اور بد دلی سے محفوظ ہو جائیں اور تیرے قرب کو حاصل کرلیں.احسن پر یعنی جو بہتر معلو ہے اس کے اختیار کرنے کی طرف ، بڑے زور سے ، اور بڑی کثرت سے، قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے مثلاً فرمایا ہے جادِ لَهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (سورة النحل : آیت (۱۲۶) دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کرتے ہوئے تم مختلف پہلوؤں کو اختیار کرسکتے ہو تو جو احسن پہلو ہے اس کو اختیار کرو.ایک شخص ہے جو محبت سے بات سننے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تم اسے ڈرا نہیں.ایک موقعہ ایسا آتا ہے کہ مخالف سمجھتا ہے کہ اگر میں نے ا کو ساد پر آمادہ کر لیا تو ان کو نقصان ہوگا ہمیں فائدہ ہو گا.اُس وقت ایک احمدی کا فرض ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق امن کی فضا کو قائم رکھنے کے لیے انتہائی کوشش کرے اور جاد لهم بانی بھی احسن میں جو احسن طریق اختیار کرنے کا حکم ہے اس پرعمل پیرا ہو نا امن میں رخنہ نہ پیدا ہو بہت سے احکام میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کئی طریقے اختیار کیے جا سکتے ہی ایک حکم کی بجا آوری ہیں.تو جو احسن طریق ہے اس کو تم اختیا کردو.اصول الله تعالی فرماتا ہے وَاتَّبِعُوا احْسَنَ مَا اُنْزِلَ اليمر قرآن کریم کی کال اور کل شرعیت تم پر اتاری گئی ہے پر مہیں حکم یہ دیا جاتا ہے کہ وَاتَّبِعُوا احْسَنَ مَا أنزل إليكم من ربكم رسورة الزمر ) تمہارے رب نے جوتمہاری ربوبیت کرنا چاہتا ہے اپنی اس صفت کے تقاضا سے ایک ایسی شریعیت نازل کی ہے جو مختلف پہلو رکھتی ہے اور ہر آدمی ہر فرد ر قوم ، ہر زمانہ کی ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ خلف پہلوؤں سے اس پر عمل کیا جا سکے.تو ہر پہلو اس کے اندر آگیا ہے اس نوعیت کا نزول رب کریم کی طرف سے ہے اس لیے قیامت تک محفوظ ہے جو احن طریق ہے اس کوتم اختیار کرو اور ہر حکم کواسل من طریق پر بجا لاؤ جو تمہارے مطابق حال ہو ، ہو زمانہ کے مناسب حال ہو.جس کے نتیجہمیں تمہارے قولے اور تمہاری) استعدادیں صحیح نشود نما اور ربوبیت کو حاصل کر سکیں.الکان اللہ تعالی ایک دوسری آیت میں فرتا ہے تبشیر بیا ولا الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ يَحْسَة کہ میرے ان بندوں کو جو انقول) اس بہترین شریعیت کو سنتے ہیں نیتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ اس میں جو احکام انہیں سنائے جاتے
۱۳۳ ہیں ان میں سے وہ احسن کی پیروی کرتے ہیں اُن کو تم بشارت دو : اولبِكَ الَّذِينَ هَدْهُمُ اللَّهِ کہ اللہتعالیٰ ان کی دادی کے : سامان کرے گا اور اللہ تعالی کی نگاہ میں ہی لوگ او لو الالباب ، رسورۃ الزمر : ۱۹۱۸) ہوں گے، عقلمند سمجھے جائیں گے.ا میں یہ بتایا کہ الہ تعالی نے ایسے انسان کو اولوالالباب میں اس لیے شامل کیا ہے اور عقل اس لیے دی ہے کہ وہ اس کو اسلامی شریعیت کے احکام کی بجا آوری میں استعمال کرے اور وہ اپنی عقل سے کام لے اور موقع کوپہچانے اور محل کی شناخت رکھنے مثلاً اگر کسی سے تبادلہ خیال کرے تو اس کی سائیکولوجی کو وہپہچانے اور اپنی عقل سے وہ فیصلہ کرے کہ اس رنگ میں نہیں جات کروں گا تو میری بات کا میرے مخاطب پر اثر ہوگا.پس یہاں بڑی وضاحت سے اللہ کے ان بندوں کو بشارت دی گئی ہے جو قرآن کریم کی شریعیت کو سنتے اور اس پر پھیل کرتے ہیں.بشارت ان لوگوں کو میں دی گئی جو قرآن کریم کو سنے تومیں نگرانی نقل و کام میں نہیں اتے اور ان کی بجائے کی اور پہلو کو اختیار کرتے ہیں پیس ایسے بندوں کو اللہ تعالی قرآن کریمر میں ہدایت کی بشارت نہیں دنیا یعنی انجام بخیر ہونے کی بشارت نہیں کیا تو یہاں ایک معنی یہ ہوں گے کہ میرے وہ بندے جو انفقوں کو سنتے اور ان میں سے احسن کی پیروی کرتے ہیں اُن کا انجام خیر ہوگا جو ایسا نہیں کرتے اُن کا انجام بخیر نہیں ہو گا.بائیسواں مقصد تب علینا میں بیان ہوا تھا اور اس میں اشارہ بیان کیا گیا تھا کہ جو آخری شرحت یہاں نازل ہوگی اس کا گہرا تعلق رب کو آب سے ہوگا اور اس کے پیرو ، اس کے متبعین اس بنیادی حقیقت کو بچائیں گے کہ تو یہ دور استغفار کے بغیر معرفت الہی اور رضاء الہی کا حصول ممکن نہیں، پس جہاں وہ بار بار اس کی راہ میں قربانیاں دیں گے وہاں وہ باربار استغفار کے ساتھ اس سے قوت حاصل کریں گے اور توبہ کے ساتھ اس کی طرف رجوع بھی کرنے والے ہوں گے، اپنی کوشش اور مجاہدہ اور قربانیوں کو رخنہ سے خالی اور خطا سے مبرا نہ سمجھیں گے.تاب الله علیہ کے معنی ہیں قبل توبتہ منہ کہ اللہ تعالٰی نے ایک ایسے بندہ کی جو توبہ کرنے والا ہے تو بہ کو قبول عليهِ کر لیا.یہاں یہ دعا ہے وتب علينا اور بتایا گیا ہے کہ اس حقیقت کو جو توبہ اور استغفار کے اندر پائی جاتی ہے صحیح طور پر اور حقیقی معنے ہیں وہ اُمت سمجھنے والی ہوگی اور ان کو ایک ایسی شریعیت دی جائے گی جوان باتوں کو کھول کر بیان کرے گی.
شروع ہیں اور اسلامی اصطلاح میں تو بہ کے معنی ہیں چار باتیں پائی جاتی ہیں : - گناہ کوترک کر دیا.مثلا جس شخص کو جھوٹ کی عادت ہو وہ ایک گناہ کر رہا ہے، تو جھوٹ کو چھوڑ دینے کا نام تو بہ ہے.یہ اس کا ایک پہلو ہے.به درگاه پر ندامت کا احساس پیدا ہو جانا.ہر آدمی ہر وقت تو جھوٹ نہیں بولتا لیکن ایک شخص ایک لمبے عرصہ تک جھوٹ نہیں ہوتا مثلاً چھ مہینے اس نے کوئی جھوٹ نہیں بولا ، تو ترک گناہ تو ہوا اس چھ ماہ میں ، لیکن تو بہ نہیں، کیونکہ ترک گناہ کے علاوہ اور میں گناہ پر ار امت کے احساس کا پیدا ہو جانا بھی ضروری ہے.۳.یہ کہ عزم یہ ہو کہ میں اس گناہ کی طرف لوٹوں گا نہیں، پورے عزم کے ساتھ گناہ کو چھوڑنے والا ہو.اور یکہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کا تدارک بھی کیا جاسکتا ہے، ختنہ کسی کے سورہ ہے مارے ہوئے ہیں تو توبہ کے صرف یہ معنے نہیں ہوں گے کہ آیندہ لوگوں کا مال مارنے سے توبہ کر لی.احساس ندامت کے ساتھ اور اس عزم کے ساتھ کہیں کبھی بھی ایسے گناہ کی طرف نہیں کوٹوں گا.لیکن قوت ہونے کے باوجود وہ سور و پیادا نہ کرے.حالانکہ وہ انشا غریب نہیں کرسور پیر ادا نہ کر سکے تو پھر بھی وہ تو یہ نہیں ہے.ان ہر چہار باتوں کے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے سے قوت حاصل کریں کیو کا نا ہو تھوڑا ناتمام سے حاصل کردہ قوت کے بغیر ممکن نہیں.گناہ پر ندامت کے احساس کا پیدا ہونا اس کی توفیق کے بغیر ناممکن ہے.باقی رہا عزم ! تو انسان کے اندر کیسے یہ تہمت ہو سکتی ہے کہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طاقت کے بغیر اللہ تعالیٰ سے طاقت حاصل کیے بغیر یہ عزم کر سکتا ہوں ، پختہ ارادہ کر سکتا ہوں کہ آیندہ کوئی گناہ نہیں کرونگا.پس اس کے لیے بھی خدا تعالی کی توفیق کی ضرورت ہے اور میں حد تک ممکن ہو تدارک کرنا، اس کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے قوت اور طاقت حاصل کرنے کی ضرورت ہے.تو یہ طاقتیں اور قوتیں استغفار کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی ہیں.خدا کا بندہ اپنے رب کو تمام طاقتوں اور قوتوں کا سرحشیشہ سمجھتا ہے اور اپنے اندر کوئی اپنی طاقت اور قوت نہیں پاتا اور نہ دیکھتا ہے.اس لیے ہر کام کے کرنے سے پہلے وہ اپنے ربت کی طرف رجوع کریا اور استغفار کرتا ہے.اور اپنے رب سے کہتا ہے کہ اسے خدا جو تمام طاقتوں کا سرشمہ ہے اور تمام
۱۲۴ قوتوں کا منبع ہے، مجھے وہ قوتیں اور طاقتیں او استعدا میں عطاکر کہیں برائیوں کو یہ چوروں اور نیکیوں حقیقت قائم مواد تو اس معنے میں پہلے استغفار ہے اور بعد میں تو بہ توبہ استغفار کے بغیر ممکن ہی نہیں.اس مضمون پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسّلام نے بڑی سبط سے روشنی ڈالی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں:."استغفار اور تو بہ دو چیزیں ہیں، ایک وجہ سے استغفارکو تو بہ پر تقدم ہے، کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے اور تو یہ اپنے قدروں پر کھڑا ہوتا ہے.عادت اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالی سے مرد چاہے گا تو نہ مائے ایک قوت دیدے گا.اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پرکھڑا ہو جائیگا اور نیکیوں کو کرنے کے لیے اس میں ایک قوت پیدا ہوجائے گی جس کا نام توبوا الیه ہے.اس لیے طبعی طور پر بھی بی ترتیب ہے.غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لیے رکھتا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا سے استمداد چاہے.سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائے گا کیا کر سکے گا.توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے اگر استغفارنہ ہو تو یقیناً یاد رکھو کہ وہ کی قوت مرواتی ہے.پھر اگراس طرح ان تلفا کروگے اور پھر تو بہ کروگے تو تیجہ یہ ہوگا مَعَكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ یہ مسمى سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفارا اور توبہ کرو گے تو اپنے مراتب پا لو گے.ہر ایک شخص کے لیے ایک دائرہ ہے جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے " الملفوظات جلد ۲ صفحه ۶۸- ۶۹ - الحكم بلد نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ جولائی منشاء صف ) عید ۶ س آپ نے فرمایا کہ اپنے اپنے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے جس حد تک تمہارے لیے ممکن ہے روحانی رنعمتوں کو حاصلی له سورة هود : آیت ۴
١٣٥ کرو اور استغفار اور توبہ کے ذریعہ سے ان کو حاصل کرلو.دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : - ارژ اس تمام تفصیل سے ظاہر ہے کہ استغفار کی درخواست کے اصل معنے یہی ہیں کہ وہ اس لیے نہیں ہوتی کہ کوئی حق فوت ہو گیا ہے ، بلکہ اس خواہش سے ہوتی ہے کہ کوئی حق نوت نہ ہو ، اور انسانی فطرت اپنے تئیں کمزور دیکھ کر طبعاً خدا سے قافات طلب کرتی ہے......اور یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان اعلیٰ درجہ کے مقام عصمت پر اور مرتبہ شفاعت پر تب ہی پہنچ سکتا ہے کہ جب اپنی کمزوری کے روکنے کے لیے اور نیز دوسروں کو گناہ کی زہر سے نجات دینے کے لیے ہرم اور ہر آن دعا مانگتا رہتا ہے اور تفرعات سے خدا تعالے کی طاقت اپنی طرف.کھینچتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس طاقت سے دوسروں کو بھی حصہ ملے ، جو بوسیلہ ایمان اس سے پیوند پیدا کرتے ہیں.معصوم انسان کو خدا سے طاقت طلب کرنے کی اس لیے ضرورت ہے کہ انسانی فطرت اپنی ذات ہیں تو کوئی کمال نہیں رکھتی بلکہ ہردم خدا سے کمال پاتی ہے اور اپنی ذات میں کوئی قوت نہیں رکھتی، بلکہ ہر دم خدا سے قوت پاتی ہے اور اپنی ذات میں کوئی کامل روشنی نہیں رکھتی، بلکہ خدا سے اس پر روشنی اترتی ہے.اس میں اصل رانہ یہ ہے کہ کامل فطرت کو صرف ایک کشش دی جاتی ہے تا کہ وہ طاقت بال کو اپنی طرف کھینچ سکے.مگر طاقت کا خزانہ محض خدا کی ذات ہے.اسی خزانہ سے فرشتے بھی اپنے لیے طاقت کھینچتے ہیں اور ایسا ہی انسان کا مل بھی اسی سر شمیہ طاقت سے عبودیت کی نالی کے ذریعہ سے عصمت اور فصل کی طاقت کھینچتا ہے....پس استغفارکیا چیز ہے ، یہ اس آلہ کی ماند ہے
جس کی راہ سے طاقت اترتی ہے.تمام راز توحید اسمی اصول سے وابستہ ہے کہ صفت عصمت کو انسان کی ایک مستقل جائداد قرار نہ دیا جائے بلکہ اس کے حصول کے لیے حض در یویو آف ریلیجنز اردو ، جلد صفحه ۱۸۹ تا ۱۹۰) خدا کو ستیم سمجھا جائے " جب اللہ تعالیٰ کی حفاظت حاصل ہو جاتی ہے جب اللہ تعالے سے انسان طاقت حاصل کر لیتا ہے ، تب وہ توبہ کی توفیق پاتا ہے اور تب اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی توبہ قبول ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام اسی لیے فرماتے ہیں : رو پس اُٹھو اور توبہ کرو اور اپنے مالک کو نیک کاموں سے راضی کرو اور یاد رکھو کہ اعتقادی غلطیوں کی سزا تو مرنے کے بعد ہے اور مہند و یا عیسائی یا مسلمان ہونے کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہوگا، لیکن جو شخص ظلم اور تحریمی اور فسق و فجور میں حد سے بڑھتا ہے اُس کو اسی جگہ سزادی جاتی ہے.تب وہ خدا کی سزا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتا، سو اپنے خدا کو جلدی را نی کرد و قبل اس کے گروہ دن آوے...تم خدا سے صلح کرلو.وہ نہایت درجہ کریم ہے.ایک دم کے گداز کرنے والی تو بہ سے ستر ریس کے گناہ بخش سکتا ہے اور یمت کو کہ تو بمنظورنہیں ہوتی.یاد رکھو تم اپنے اعمال سے کبھی کے نہیں سکتے ہمیشہ فضل بجاتا ہے نہ اعمال اسے خدائے کریم ورحیم ! ہم سب پر فضل کر کہ ہمہ تیرے بندے اور تیرے آستانہ پر گرے ہیں.آمین.رکیا کچرا نہور صفحہ ۲۸) آج مجھے گرمی کی وجہ سے تکالیف رہی ہے اور یہاں مسجد میں بھی بڑی گرمی ہے.دوستوں کو بھی لیے خطبہ سنے تکلیف ہوگی اس لیے آج میں صرف اسی پریس کرتا ہوں اور باقی مضمون اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فضل سے آیندہ خطبہ میں بیان کروں گا.ر منقول از روزنامه الفضل - زبوه - مورخه ۸ ارجون ۹۶ )
تعمیر بیت اللہ کے تمام مقاصد w رسول کریم صلی اللہ علیہ وقتم کی بعثت کے ذریعہ پلے بوائے خطبه جمعه ، فرموده ۱۶ جون ۶۸۹۶۶ بمقام مسجد مبارک ربوه
۱۲۸ ایا کیا اور کے جوان کے بھی اور ایر چاہتا ہے کہ قوم کے بزرگ بھی اور قوم کے نوجوان بھی قوم کے مر بھی اور تقویم کی عورتیں بھی اس حکمت الہی کو سمجھنے لگیں جس حکمت السی کا تعلق خانہ کعبہ کی بنیاد سے ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اولوالالباب ٹھہریں اور اس کی آواز کو اور اس کے احکام کو اور احکام کی حکمتوں کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں اور ان قد وسیلوں کے گروہ میں شامل ہو جائیں کہ جن پر اللہ تعالی کے ہر آن فضل ہوتے رہتے ہیں.“
تحيل عَلَى رَسُولِي الكَر ثمي تشهد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- کل قریباً سارا دن شدید در دسر کا دورہ رہا اور اس وقت میں کافی ضعف محسوس کر رہا ہوئی لیکن میں چاہتا ہوں کہ جن میں مقاصد کے متعلق رجن کا تعلق بہیت اللہ سے ہے میں نے سلسلہ خطبات شروع کیا ہے اس کو جاری رکھوں اور جو آخری غرض اور مقصد بیان ہونا رہ گیا تھا اس کے متعلق آج کے خطبہ میں اپنے خیالات کا اظہار کروں.سیلیس تعمیر بیت اللہ کی سویس غرض رَبَّنَا وَابْعَتْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَ يُعلمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة : ۱۳۰) میں بیان ہوئی تھی اور اس آیت میں بتایا گیا تھا کہ ایک ایسانہی یہاں مبہوت کیا جائے گا جو قیامت تک زندہ رہے گا اور اپنے فون کے ذریعہ اور خانہ روحانی کی وجہ سے اس پر کسی موت وارد نہ ہوگی ہمیشہ کی زندگی اس کو عطا کی جائے گی اور اسے ایک ایسی شریعیت دی جائے گی جو ہمیشہ رہنے والی ہوگی، منسوخ نہیں ہوگی کیونکہ وہ آنکتاب را یک کامل اور مکمل شرعیت ) ہوگی اور ایک ایسی امت پیدا کی جائے گی جو بصیرت پر قائم ہوگی، حکمت اُسے سمجھائی جائے گی اور دلائل اُسے عطا کیے جائیں گے اور زندہ خدا اور زندہ نبی اور زندہ شریعیت سے اس کا تعلق ہوگا.یہ مقصد بھی نبی کریم صل للہ علیہ وسلم کی بہشت سے پورا ہوا ہے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس کا دعوی کیا ہے، جس پر میں ابھی روشنی ڈالوں گا بحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :.دیکھو ابراہیم علیہ اسلام نے بھی ایک دعا کی تھی کہ اس کی اولاد میں سے عرب میں
ایک ہی ہو.پھر کیا وہ اس وقت قبول ہوگئی ابراہیم علی التیام کے بعد ایک عرصہ دراز تک کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ اس دعا کا کیا اثر ہوا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشت کی صورت میں وہ دعا پوری ہوئی اور پھر کس شان کے ساتھ پوری ہوئی اس آیہ کریمی میں پانچ باتوں کا ذکر ہے :.اول - عبد کامل کے ظہورہ کا.الملفوظات جلد چهارم صفحه ۴۲ - الحکم جلد نمبرد مورخه در فرودر است) دوسرے.آیات بینات کے لامتناہی سلسلہ کا.تیسرے کامل شریعیت کے نزول اور قیامت تک اس کے قائم رہنے کا.چوتھے.احکام شریعت کی حکمت بیان کرنے کا..اور پانچویں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے نتیجہمیں قدسیوں کی ایک جماعت قیامت تک پیدا ہوتی رہے گی.قرآن کریم کے متعدد مقامات پر یہ دعوے کیا گیا ہے کہ ان ابلا ہمیں دعاؤں کے نتیجہ میں نبی کرم صلی الہ علیہ وسلم کی بشت ہوئی ہے ، اس وقت میں سورہ نمل کی چند آیات اپنے دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبِّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَ أَنْ اتْلُو القران فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلُ أنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمُ ايَتِهِ 0 فَتَحْرِفُونَهَا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ رَآتِ ۹۲ تا ۹۴) سجب ہم اس بات کا جو پہلی آیت میں بیان ہوئی ہے یعنی ربنا و ابعثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ) تجزیہ کرتے ہیں او سیاق و سباق کو سامنے رکھ کر دو ضمیر کوظاہر کرکے دیکھتے ہیں تو اس کے یہ معنی ہماری سمجھ میںآتے ہیں کہ ابراہیم اور اسمعیل علیھا السلام کی عا
ربَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا منهم کا یہ مفہوم ہے کہ اے ابراہیم اور اسمعیل کے رب جن کے ذریعہ سے تو نے از سر نو تعمیہ کروائی ہے اور اپنے معزز گھر کی حرمت کا اعلان کیا ہے تو اس بیت حرام میں رہنے والوں میں سے ایک عظیم روح کو کھڑا کر.اس کو اپنی ربوبیت میں لے اُسے مصطفی اور مجتبی بنا اور اپنے انتہائی قریب سے اس کو نواز اور ایک کامل اور مکمل شریعت دیگر اپنے رسول اور کامل مقتدا کی حیثیت میں اُسے دنیا کی طرف بھیج - تاوہ بنی نوع انسان کو اللہ رب العالمین کی طرف بلائے اور توحید خالص پر انہیں قائم کرے اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا.اوربنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے دنیامیں یہ منادی کروائی کہ إنَّمَا أُمِرْتُ أنْ أعْبُدَ رَبِّ هَذِهِ الْبَلْدَ وَ الَّذِي حَرَّمَهَا - ابراہیم اور اسمیل علیہما السلام کی دعاقبول ہوئی اور مجھے رب العالمین نے حکم دیا ہے کہمیں اس بل حرام ، اس بیت اشد کے رب کی عبادت کو اپنے کمال تک پہنچا کر ایک عبد کامل کی شکل میں ظاہر ہوکر بنی نوع انسان کو اللہ ، رب کعبہ ، درب بلد حرام کی طرف بلاؤں.اس ہستی کی طرف روکنا کل شی ء ) جو کامل قدرتوں والی ہے.اور تمام اسمائے حسنیٰ سے متصف ہے جو چاہتی ہے وہ ہستی کرتی ہے.دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابل نہیں ٹھہرسکتی.اور مجھےحکم دیا گیا ہے کہمیں امسیٹوں کے گروہ ہمیں شامل ہو کر ایک مسلم کا کامل نمونہ دنیا کے سامنے پیش کروں.غرض وہاں ابراہیم اور ان کی نسل کے منہ سے یہ دعا نکلوائی اور قرآن کی یم نے اسے محفوظ کیا اور یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے دنیامیں یہ منادی کروائی کہ اس بلد حرام کے رب کی عبادت کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور ابراہیمی دعاؤں کے نتیج میں میں آج دنیا کی ہدایت کے لیے کھڑا ہوں.دوسری اور تیسری اور چوتھی بات جو یہاں بیان ہوئی تھی، وهُ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ابْتِكَ وَيُعَلِمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ میں بیان ہوئی تھی یعنی ایک عید کامل ظاہر ہو گا اور عید کامل کے ظہور کے ساتھ دنیا آیات بنیات کا ایک لامتناہی سلسلہ مشاہدہ کرنے لگے گی.وہ آنکتب کی تعلیم دے گا اور جو احکام دہ اس کا مل اور مکمل کتاب سے بیان کرے گا اُن کی حکمت بھی ساتھ ہی ساتھ انہیں بنائے گا.دیکھو ر ان اتلو القران میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی ہیں.آیات کا بیان کرنا.کتاب کا سکھانا اور حکمت اور وجوہ کے متعلق تفصیلی روشنی ڈالنا.یہ تینوں چیزیں جو اس دعا میں شامل تھیں وہ آن اتلو القران میں پانی جاتی ہیں کیونکہ قرآن کریم کے محاورہ میں تلاوت کا لفظ آیات کے بیان کرنے اور ان کے سیکھنے سکھانے اور ان سے اثر قبول کرنے
اور ان کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کے متعلق بھی لیا جاتا ہے اور کتاب اور اس کی حکمت کو پڑھنے اٹھنا نے اور اس پر عمل کرنے اور کروانے کے لیے بھی بولا جاتا ہے.مفردات راغب میں تلاوت کے لغوی معنے یہ کیسے گئے ہیں کہ السلامة تختص باتبَاعِ كُتُبِ اللَّهِ الْمُنَزَّلَةِ تَارَةً بِالْقِرَاءَةِ وَتَارَةٌ بِالارْتِسَامِ بِمَا فِيهَا مِنْ أمْرٍ للي وترطيب وترهيب که تلاوت خاص طور پر مخصوص ہے اس معنی کے ادا کرنے ہیں کہ ان کتب کی اتباع کی جائے جو آسمان سے نازل ہوتی ہیں اور یہ اتباع دو طریق سے ہوتی ہے ، قراءت کے ساتھا اور احکام پرعمل پر ہو کر حکم کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے اندر جو او امر و نواہی ہیں اُن پر عمل پیرا ہونا بھی تلاوت کے اندر شامل ہے، اور ترغیب و ترہیب کے ذریعہ سے وہ کتاب جو اثر ڈالنا چاہتی ہے اس اثر کو قول کے بینی جو کہیں بیان کیگئی ہوں ان کتوں سے مار ہوتا.یہ منی بھی تلاوت کے اند پائے جاتے ہیں قرآن کریم میں سورہ انفال میں اللہ تعالی فرماتا ہے.وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمُ اللهُ زَادَتُهُمْ إِيمَانًا (آتِ ٣) یعنی کہ مومن وہ ہیں کہ جب آیات آسمانی اُن پر تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کی زیادتی ایمان کا باعث بنتی ہیں.میں یہاں یہ بارہا ہوں کہ یات کے متعلق بھی تلاوت کا لفظ قرآن کے محاورہ میں استعمال ہوا ہے اسی طرح کتاب کے پڑھنے اور ہی کچھ اس میں بیان کیا گیا ہے اس پر عمل کرنے اور دنیا کے لیے اپنا اسوہ پیش کرنے کے متعلق بھی تلاوت کا لفظ استعمال ہوا ہے جیساکہ اللہ تعالی قرانکریم میں فرماتا ہے : اتل ما أوحي إليكَ مِن الکتب (عنکبوت ) کہ اپنے رب کی کتاب میں سے جو وحی تیرے پر نازل ہو رہی ہے روحی کا سلسلہ اس وقت جاری تھا، اس کی تلاوت کر یعنی اس پریل پیرا ہو اور اسے پڑھ ر آدمی جو کچھ پڑھتا ہے وہ دوسروں کو سنانے کے لیے بھی پڑھتا ہے اوراپنے لیے بھی اور چونکہ اسے مخاطب اس کے نبی اور سی ال علیہ وسلم ہیں.اسی لیے اس کے معنے یہ ہوں گے کہ عمل پیرا ہو کر ان لوگوں کے لیے قابل تقلید نمونہ بن جا انبیاء علیہم السلام کے متعلق قرآن کریم نے ہمیشہ یہ فرمایا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا دعوئی اور ندا یہی ہوتی ہے کہ میں اول المسلمین ہوں مینی سب سے پہلے میں جان احکام اور نا ہی عمل کرنے والا ہوں نہیں اپنی گردان خدا کے حکم کے نیچے رکھتا ہوں اور اس جنگ
میں تمہارے لیے بطور قائد کے ایک نمونہ پیش کرتا ہوں.میں یہ نہیں کہتا کہ ہر رات اللہ تک پہنچاتا ہے تم اس پر چلو میں یہ کہتا ہو کہ یہ راستہ خدا کی طرف پہنچانے والا ہے ہیں اس پر چل رہا ہوں.میرے پیچھے مجھے آؤ تاکہ تم بھی حد تک پہنچ جاؤ پی نوی منی کے لحاظ سے علم وحی سے اس کی اتباع کرنا مفردات راغب کے نزیر یک تلاوت کے معنی میں شامل ہے علم سے اتباع کرنا حکمت کی باتیں بناکر، اور مل سے اتباع کرنا ان باتوں کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال کر معرض للہ تعالی نے یہاں جا کر ملی شد علیہ وسلم کے منہ سے یہ کھلوایا کہ وان اتلو القران مجھے اللہ تعالے کا یہ حکم ہے کہیں یہ قرآن تمہیں پڑھ کے سناؤں.قرآن کا لفظ خود قرآن کریم نے آیات کے لیے بھی استعمال کیا ہے.فرمایا بی هوایت ببنت عنکبوت کہ یہ آیات بینات ہیں اور اس لیے ان اسلو القران کے معنی یہ ہوں گے کہ میں آیات بنیات تمہارے سامنے پڑھ کے سناؤں.اسی طرح قرآن کریم کا یہ بھی دعوی ہے کہ وہ ایک کامل شریعت ہے.اس لیے ان اتلو القران کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا نے مجھے دیکم دیا ہے کہ مھارے سامنے کامل شریعت کتاب کی شکل میں بھی اور اول المسلمین کی شکل میں بھی رکھوں.کیونکہ جب آپ کے اخلاق کے متعلق سوال کیا گیا تو حضرت عائشہ رض نے فرمایا تم قرآن کو پڑھ او رکان خُلُقُهُ القُرآنَ ) پس دعایہ تھی کہ بتلو عليهم البيتك - وہ نبی آیات بینات دنیا کے سامنے پیش کرتا چلا جائے.اونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ دعا قبول ہوئی اور خدا کے حکم سے میں انکو القران قرآن کریم کی آیات وقنات دنیا کے سامنے بھر رہا ہوں.پھر دی ہی تھی کہ يُعلمهم الكتب اورنبی کریم صلی الہ علیہ وسلمنے فرمایا : الوا الغوان میں کامل شریعیت اس دعا کی قبولیت کی وجہ سے دنیا کے سامنے رکھ رہا ہوں.پھر دعا یہ تھی کہ وہ حکمت کی باتیں سکھائے اور نبی کریم صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا النمو الاذان میں یہ قرآن جو حکمت سے پڑا اور بھلا ہوا ہے اور حکمت بالغہ ہے اسے دنیا کے سامنے رکھ رہا ہوں توان مینوں دعاؤں کی قبولیت کے تیر ہیں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ایک دو لفظی فقرہ کہلوایا او مینوں باتوں کی طرف اشارہ کر دیا اور ان منے کی گیت بھی تصدیق کرتی ہے.
سوم نور وقتی چیز یہ تھی کہ یو نیم دو ان کا تزکیہ کرے نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بزرگی کے مقابلہ میں ان آیات میں یہ فرمایا که فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَضُه ریونس علی یعنی ابراہیمی دعا کے مفہوم سے زاید مفہوم دنیا کے سامنے رکھا.فَمَنِ اهتدی ہیں یہ اعلان کیا کہ میں تزکیہ نفس کے سارے سامان لے کر تمہارے پاس آیا ہوں.اس لیے یزکیھم والی وہ پوری ہوگی لیکن میں نہیں بتاتا ہوں ک تھا رات کی نفی کی جس کے نیت میں ہیں کیا جائے گا تز کی ان کے سامان میں اور میں ان سامانوں کو تمھارے سامنے رکھتا ہوں.فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ اب تمہیں خود مجاہدہ کر کے ، اب تمہیں خود قربانیاں دے کر، اب تمہیں خود خلوص نیت کا اظہار کرتے ہوئے خدا کی راہ ہیں اپنی جانوں کو لٹا کر اپنے لیے ترکیہ نفس پیدا کرنا ہو گا.سامان نہیں لے آیا ہوں.گر یہ تزکیہ نفس جبراً تم پرٹھونسا نہیں جائے گا بلکہ آزادی ضمیر ہے اور تزکیہ کے سامان ہیں ان کا استعمال کرنا ، ان سے فائدہ اٹھانا.اس کے منہ میں اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنا اور طہارت اور پاکیزگی کا مل جانا.اس کیلئے تمہیں کوشش کرنی پڑے گی.کوئی غیر یا بالائی طاقت تمہیں مجبور کر کے تمہارا تزکیۂ نفس نہیں کرے گی.اور نہ کر سکتی ہے.تو ضَمَنِ اھندی فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ہدایت کا سامان آگیا ہے تزکیۂ نفس کا سامان آگیا ہے جو شخص اس تزکیۂ نفس کے سامان سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے لیے ہدایت کی راہ ڈھونڈھے لیتا ہے وہ اپنے نفس کو فائدہ پہنچانے والا ہے.وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا یونس ، اور جو تزکیۂ نفس کے سائی سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور ہدایت کی راہوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا.ہدایت کی راہوں کی بجائے ضلالت کی راہوں پر چل پڑتا ہے اور اپنے پیدا کرنے والے رب کی بجائے شیطان کی طرف منہ کر کے اس کی پیروی کرنے لگتا ہے.تو میں اُسے یہ نیا دیتا ہوں کہ تمہیں اس گرامی سے روکنے کے لیے بھی جبر سے کام نہیں لیا جائے گا.إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ ، رسو ل ؟؟ میں تو ڈرانے والے مندر رسولوں میں سے ایک رسول ہوں.یہ صحیح ہے کہ سب سے بڑا ہوں، سب سے افضل ہوں ، سب سے اعلیٰ ہوں.اللہ تعالی سے قریب تر ہوں لیکن میری حیثیت مندر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں تم پر ہرنہیں کرنا ہیں نے جبر سے ملات کی راہوں سے تمہیں ہٹانا نہیں اور ہدایت کی راہوں کی طرف نہیں لانا نہیں.وَقُلِ الْحَمدُ لِلَّهِہ یہ کہ ہے کہ اللہ ہی کی سب
۱۳۵ تعریف ہے جس نے اسلام میں آیات بینات اور الکتاب اور الحکمۃ اور تزکیہ کے سامان پیدا کر دیئے اور ایک رسول کو معبوث فرمایا جس نے کامل نمونہ دنیا کے سامنے رکھا جس کی پیروی اور اتباع کے نتیجہ میں انسان اپنے رب کی محبت کو پالیتا ہے اور اس کے انعامات کا وارث بن جاتا ہے.اَلحَمدُ لله - سب تعریفوں کا مستحق ہے وہ خدا ، سَيُرِيكُمْ ابَتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے وقت پھر اپنی آیات بینات اور قرآنکریم کے علوم کو ظا ہر کرے گا.اس کی حکمتوں کو بیان کریگا اور ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ دنیا کے لیے دین کی راہوں پر چلنا آسان ہو جائے گا اور بشاشت قلب کے ساتھ وہ اپنے رب کے لیے قربانیاں دینے لگیں گے اور کیل اشاعت دین کے وقت یعنی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے زمانہ میں ایک علم کا عالم مدرسوں شد صلی اللہ علیہ وسلم کی گود ہیں ، آپ کی رحمت کے سایہ میں آجائے گا اور اس وقت خداتعالی کے وہ وعدے بھی پورے ہوں گے جو اس نے ابتدا ہی میں دئے تھے کہ تمام بنی نوع انسان اللہ کی محبوب امت واحدہ بنا دئیے جائیں گے.غرض اس آیہ کریمیہ من مبنى رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمُ الر میں پانچ باتیں بیان ہوئی تھیں.ایک مقصد اور دعا تو یہ تھی کہ ان میں ایک ایسی رسول مبعوث ہو، جس کی یہ صفات ہوں جو یہاں بیان کی گئی ہیں، جو کامل اسوۂ حسنہ ہوجس کے ذریعہ سے ہمیشہ روحانی فیض جاری رہے اور دوسرے آیات بینات کا لامتناہی سلسلہ دنیا کو مل جائے تیر کے ایک ایسی کامل شریعیت ہو کہ جس میں قیامت تک کوئی رخنہ اور فساد داخل نہ ہو سکے اور چو تھے انسانی عقل جوا اپنے عروج اور کمال کو پہنچ چکی ہوگی اُس وقت اُن کو حکمت کی باتیں وہ تنہائے ، وجہ بتائے اور دلیل دے کہ یہ حکم اس وجہ سے دیا جا رہا ہے اور پانچویں اس کے نتیجہ ہیں ان کے تزکیہ نفوس کے سامان پیدا کر دے.در اصل تزکیہ نفوس آیات بنیات کے بغیر اور شرعیت کے احکام تو کھول کر بیان کیے گئے ہوں جن کی حکمتیں بیان گئی ہوں ، ان کے بغیر مکن ہی نہیں.اور اصل مقصد یہ تھا کہ امت محمدیہ کی پیدائش کی اور قیام کی جو نبیا دی غرض ہے وہ پوری ہو اور جو شخص نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کو اسوہ اک بھیجتا اور اس کی پیروی کرتا ہے ، جو شخص آیات بینات سے فائدہ اٹھاتا ہے جود شخص کامل شریعت کے احکام اور نواہی کا علم حاصل کرتا ہے اور اس کی حکمتوں سے واقف ہو جاتا ہے اور ان پر عمل کرتا ہے اور اس طرح پر وہ تزکیۂ نفس حاصل کرلینا ہے ، وہ شخص اور وہ قوم وہ ہے جس کے متعلق ان آیات کی ابتدا میں یہ کہا گیا تھا، کہ
سور وضِعَ لِلنَّاسِ، اور فرمایا تھا ، كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ توان آیات کی ابتدا ان اول ببيتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ إِنَّ أَوَّلَ سے ہوئی تھی اور انتہا جو ہے وہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ میں بیان کی گئی ہے.دراصل ربنا وَ الْعَثْ فيهِمْ رَسُولاً منهم میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں اُن کے بغیر وہ بائیں مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے جن کا ذکر ان آیات میں ہے اور جن پر میں کچھ روشنی پہلے ڈال چکا ہوں.اور جب تک دو مقاصد حاصل نہ ہوں اس وقت تک امت مسل بغیر انفت نہیں بن سکتی.قرآن کریم کے الیکتب ہونے کے متعلق اور قرآن کریم کے شریعت کی حکمتوں کے بیان کرنے کے متعلق حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کے دو اقتباسات بھی اس وقت میں دوستوں کو سنانا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :- آج روئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہلتے ہیں کا کلام الہی ہونا دلایل قطعیہ سے ثابت ہے جس کے عقاید ایسے کامل اور تحکم ہیں جو براہین قوی ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں، جس کے احکام تبق محض پر قائم ہیں.جس میں یہ خوبی ہے کہ کسی اعتقاد کو زبردستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہر ایک مطلب اور مدعا کو مجھے اور براہین سے ثابت کرتا ہے اور ہر یک اصول کی حقیقت پر دلائل واضح بیان کرکے مرتبہ یقین کامل اور معرفت نام تک پہنچاتا ہے اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلیل اور فساد لوگوں کے عقاید اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں اُن تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے ، اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کا جاننا انسان کو انسان بننے کے لیے نہایت ضروری ہے اور ہر یک فساد کی اُسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ ہیں زور سے وہ آج کل کھیلا ہوا ہے اس کی تعلیم نامی تنظیم اور وی اور سلیم ہے ؟ دیرا بین احمدیہ حصہ دوم (مقدمه) صفحه ۹-۹۲)
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :.وہی معارف دقیق ہیں جن کو فرقان مجید میں حکمت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جیا کہ فرمایا ہے : يُوتِ الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدُهُ أُولَى خَيْيرا نيويات یعنی خدا جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور میں کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی ہے بینی حکمت خیر کثیر مشتمل ہے اور جس نے حکمت پائی اس نے خیر کثر کو پالیا.سو یہ علوم و معارف جو دوسرے لفظوں میں حکمت کے نام سے موسوم ہیں یہ خیر کثیر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بر محیط کے رنگ میں ہیں جو کلام الہی کے تابعین کو دے جاتے ہیں اور اُن کے فکر اور نظر میں ایک ایسی برکت رکھی جاتی ہے جو اعلیٰ درجہ کے حقاق حقہ اُن کے نفس آئینہ صفت پر نعکس ہوتے رہتے ہیں اور کامل صداقتیں اُن پر منکشف ہوتی رہتی ہیں.دیرا بین احمد به حقه چهارم ماشیبه در حاشیہ نمبر ۲۳۵) عرض تب میں مقاصد میں جن کا تعلق بیت اللہ کی از سر نو تعمیر سے ہے اور اس کے بیان کی ضرورت یہ پڑی کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑے زور کے ساتھ مجھے اس طرف متوجہ کیا کہ موجودہ نسل کا جو تیسری نسل احمدیت کی کہلا سکتی ہے.صحیح تربیت نما علیہ اسلام کے لیے اشد ضروری ہے یعنی احمدیوں میں سے وہ جو ہا سال کی عمرکے اندراندر میں باجی کو احمدیت میں ال ہوئے ابھی پندرہ سال نہیں گزرے، اس گروہ کی اگر صحیح تربیت ہ کی گئی تو ان مقاصد کے حصول میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی بین مقاصد کے حصول کے لیے اللہ تعالی نے حضر مسیح موعود علیہ السلام کو جرى اللهِ في محل الا نبیا ء کی شکل میں دنیا کی طرف مبعوث فرمایا اور جن مقاصد کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے.پھر اس کے بعد اللہ تعالے نے میری توجہ اس طرف پھیری کہ اس گروہ کی تربیت کے لیے جو طریق اختیار کرنے چاہئیں ان کا بیان ان آیات میں ہے جن کے اوپر له البقرة : ٢٠٠ ٠٠
میں خطبات دنیا رہا ہوں.اور اگران مقاصد کو صحیح طور پر سمجھ لیا جائے اور ان کے حصول کی کوشش کی جائے تو خدا کے فضل اور رخم کے ساتھ ہماری یہ پود صحیح رنگ میں تربیت حاصل کر کے وہ ذمہ داریاں تباہ سکے گی جو ذمہ داریاں عنقریب اُن کے کندھوں پر پڑنے ولی ہیں کیونکہ میری توجہ کو اس طرف پھر گیاتھا کہ آیند و میں کہیں سال اسلام کی شاہ ثانیہ کے لیے پیسے ہی اہم اور تانی ہیں اور اسلام کے غلبہ کے بڑے سامان اس زمانہ میں پیدا کیے جائیں گے اور دنیا کثرت سے اسلام میں داخل ہوگی یا اسلام کی نظر متوجہ ہور ہی ہوگی.اُس وقت اسی کثرت کے ساتھ اُن میں مرتی اور مسلم بائیں ہوں گے.وہ علم اور مرتی جماعت کہاں سے لائے گی اگر آج اس کی فکر نہ کی گئی.اس لیے اس کی فکر کرو اور ان مقاصد کو سامنے رکھو جو ان آیات میں بیان ہوئے ہیں.اور ان مقاصد کے حصول کے لیے میں رنگ کی تربیت کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ کے کلام پاک کی روشنی میں اسی قسم کی تربیت اپنے نوجوانوں کو دو تا جب وقت آئے تو بڑی کثرت سے اُن میں سے اسلام کے لیے بطور مرتی اور معلم کے زندگیاں وقف کرنے والے موجود ہوں نا وہ مقصد پورا ہو جائے کہ تمام بنی نوع انسان کو علی دین کو اجل جمع کر دیا جائے گا.ان خطبات کے دوران ایک بزرگ نے مجھے لکھا کہ آپ کے جو خطبات ہو رہے ہیں ان کا تعلق حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کے ایک الہام سے بھی ہے جو تذکرہ کے صفحہ ۸۰۱ پر درج ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں :- "جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت الہی کا مسئلہ سمجھتا ہے ، وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کو اسرار ملکوتی سے حصہ ہے “ پس میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو میری توجہ کو اس طرف پھیرا خدا یہ چاہتا ہے کہ قوم کے بزرگ بھی اور قوم کے نوجوان بھی قوم کے مرد بھی اور قوم کی عورتیں بھی اس حکمت الہی کو سمجھنے لگیں جس حمت الہی کا تعلق خانہ کعبہ کی بنیاد سے ہے نا کہ واللہ تعال کے نزدیک ویو ال اسباب ٹھہریں اور اس کی آواز کو اور اس کے احکام کو اور احکام کی مکتوں کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں اور ان قدوسیوں کے گروہ میں شامل ہوں کہ جن پراللہ تعالی کے ہرآن فضل ہوتے رہتے ہیں اگرچہ مومنصوبہ اسکی میں نجات کے سامنے رکھوں گا اس کا اصل مقصد ان نوجوانوں کی تربیت ہے جن کی عمر اگر وہ احمدیت میں پیدا ہوئے ہیں تو ابھی ۲۵ سال تک کی ہے.یا اُن کی عمر اگر وہ جماعت میں نئے داخل ہونے والے ہیں تو ہا سال کی ہے.لیکن اس تربیت کے لیے جو ان بچوں کی
م نے کرنی ہے ان کے بڑوں کی تربیت کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اس نسل کی تربیت کرسکیں ہیں دوسرے نمبر پر مخاطب جاعت کے سب مرد اور جماعت کی سب بہنیں ہیں جن کی عمر اس وقت ۲۵ سال سے اوپر ہے کیونکہ ان لاکھوں نوجوانوں کی تربیت جو ۲۵ سال سے کم عمر یا دوسرے لحاظ سے پندرہ سال سے کم عمر کے ہیں صرف میں اکیلا یا میرے چند ساتھی نہیں کرسکتے ہیں ہرگھر کی تطہیر کرنی پڑے گی تاکہ ہرگھر میں پرورش پانے والا ، خدا کا سپاہی بنے اور اس کی رضا کو حاصل کرنے والا ہو.ہمیں ہر محلہ ہیں مرضیہ ہمیں ہر شہر کی پاکیزگی کے سامان پیدا کرنے پڑیں گے تاکہ اس ماحول میں وہ انسل سیاہ و م محمد رسول اله صل الله علیکم کی عزت اور ناموس پر اپنی جانیں اور اپنے اوقات اور اپنی قربتیں اور اپنے اموال خرچ کرنے والے ہوں اور قربان کرنے والے ہوں شاید مجھے یوں کہنا چاہئیے کہ پہلے بڑوں کی تربیت کرنا ضروری ہے تا ان کے ذریعہ سے ان چھوٹوں کی تربیت کی جا سکے جن پر یر ی ہی اہم ذمہ داریاں عنقریب پڑنے والی ہیں.یادرکھیں اگر ہم نے اس میں غفلت برتی تو ہم پر تو خدا کا غضب نازل ہوگا اور ایک اور قوم پیدا کی جائے گی جو خدا کے وعدوں کی وارث بنے گی پیں اپنی جانوں کی فکر کرو اور اُن ذمہ داریوں کے نباہنے کے لیے تیار ہو جاؤ جو الی منشا کے مطابق ایک سکیم کے ماتحت میں آپ پر ڈالنے والا ہوں اور جن کے متعلق انشاء اللہ تعالیٰ اور اسی کی توفیق سے آئندہ خطبات میں میں اپنے خیالات کا اظہار کروں گا.یہ منقول از روزنامه الفضل - ربوه - مورخه ۱۲۵ جون ۹۶ اید)
نام کتاب خطبات..تعمیر بیت اللہ کے تیسیس عظیم الشان مقا حضرت ایرانی با مرزانا احمد بن خليفة اسم النات ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، امام جماعت احمدی ہزار طبع اوّل.تاریخ طبع اول..جنوری شاهداء مطبخ نقوش پریس لاہور الناشر مایه نظارت اصلاح وارشاد ربوه نستی غلام جیلانی ننکانہ صاحب یا ا نام ابوالسیر نور الحق مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین، ربوہ ضلع جھنگ