Language: UR
نظارت نشر و اشاعت قادیان نے مجلس شوریٰ بھارت 2015ء کی ایک تجویز کی تعمیل میں یہ کتابچہ تیار کرواکر ایک ہزار کی تعداد میں فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان سے شائع کروایا، مسودہ کا مواد مکرم منصور احمد مسرور صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ اخبار بدر اور مولوی عبدالرشید ضیاء صاحب کا مرتب کردہ ہے۔ جیسا کہ کتاب کے عنوان سے عیاں ہے کہ اس موضوع پر مواد کا انتخاب کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ کیونکہ یہ رجال فارس تو مثل طفل شیر خوار اللہ تعالیٰ کی قربت اور معیت میں صبح و شام کرتے ہیں او ر اس اٹوٹ تعلق کا پتہ دینے والے واقعات کا تو نہ رکنے والا ایک سلسلہ ہوتا ہے ، الغرض مرتبین نے کافی لگن سے ایک صد صفحات سے زائد واقعات کا موثر اور حسین انتخاب پیش کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات شائع کردہ نظارت نشر واشاعت قادیان
نام کتاب: حضرت مسیح موعود اور خلفاء کرام کے تعلق باللہ کے واقعات سن اشاعت: (طبع اوّل 2016 ء تعداد اشاعت : 1000 پبلشر مطبع نظارت نشر و اشاعت قادیان -143516 ضلع گورداسپور،صوبہ پنجاب، انڈیا فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ISBN:978-93-83882-80-9 اس کتاب کی ترتیب و تالیف میں مکرم مولوی منصور احمد صاحب مسرور ایڈیٹر ہفت روزہ بدر قادیان اور مکرم مولوی عبد الرشید صاحب ضیاء مربی سلسلہ آف شورت کشمیر نے معاونت فرمائی ہے.فجزاهما الله احسن الجزاء
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تَحْمَدُهُ وَتُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ پیش لفظ اسلام میں عبادت کی بنیادی غرض یہ ہے کہ انسانی زندگی اللہ تعالیٰ کی رضاء اور اس کے احکام کے مطابق بسر ہو اور معرفت الہی حاصل ہو.پس ایک مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی پیدائش کی غرض کو سمجھنے اور اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرے.اور یہی غرض انسان کی پیدائش کی بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے.چنانچہ جب بھی کوئی مامور من اللہ دُنیا میں آتا ہے تو اسکے آنے کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کیا جائے.اللہ تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے انسانی عقل از خود اس تک نہیں پہنچ سکتی کیونکہ آیت کریمہ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (سورۃ الانعام آیت 104 ) میں معرفت الہی کا مسئلہ بڑے ہی لطیف اور جامع الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی معرفت اور تعلق باللہ کے تعلق سے معرفت کا پہلا ذریعہ اللہ تعالیٰ کے انا الموجود کی گواہی دینا ہے.جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کے باعث حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں فرمایا وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدی یعنی اے رسول مقبول ہم نے تجھے اپنی تلاش میں دنیا وما فیھا سے گم پایا تو ہم نے آگے بڑھکر خود ہدایت 3
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات کے سامان کئے.اسی طرح اظہار علی الغیب اور مظاہرہ قدرت کا مشاہدہ و مطالعہ اور خدا کی صفات خاصہ اور افعال جلیلہ کا ظہور اور اجرام فلکی پر معبود حقیقی کا زبردست کنٹرول یہ سب اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کا ذریعہ ہیں اور خدا سے تعلق پیدا کرنے کے بہترین اور اعلیٰ ذرائع ہیں.اور پھر جو لوگ معرفت الہی میں ترقی کرتے ہیں اور اپنی پیدائش کی اصل غرض وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون کو پورا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کا کفیل و کارساز ہوتا ہے اور اُن کی مقبولیت کے نشانات دُنیا پر ظاہر کرتا ہے.اور ان کو استجابت دعا کا معجزہ عطا کرتا ہے.ہمیشہ اپنی حفاظت کے حصار میں رکھتا ہے.ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیتا ہے جیسا کہ فرمایا مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَلی.اور مَنْ عَادَلِي وَلِيًّا فَقَدْ أَذَنْتُه بِالْحَرب یعنی جو میرے ولی کا دشمن ہو میں اسکو کہتا ہوں کہ اب میری لڑائی کیلئے تیار ہو جا.سید نا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے منظور شدہ مجلس شوری 2015ء کی تجویز کے تحت حضرت مسیح موعود اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات کے موضوع پر کتابچہ ہذا کو نظارت نشر واشاعت قادیان کے زیراہتمام تیار کیا گیا ہے.اس کتابچہ کی تالیف میں مکرم مولوی منصور احمد صاحب مسرور ایڈیٹر ہفت روزہ اخبار بدر قادیان اور مکرم مولوی عبدالرشید صاحب ضیاء مبلغ دعوۃ الی اللہ شمالی ہند نے تعاون فرمایا ہے.جزا ھما اللہ احسن الجزاء.اس کتابچہ میں احباب جماعت کے ازدیاد ایمان کیلئے سیدنا حضرت مسیح موعود اور خلفائے احمدیت کے چند زریں ایمان افروز واقعات تحریر کئے گئے ہیں.ان واقعات 4
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات سے لذت حاصل کر کے ہمیں قرب الہی کے حصول میں بڑھنے کی جدو جہد میں جٹ جانا چاہئے.چنانچہ اس کیلئے نمازوں اور ذکر الہی کی عادت ڈالنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے احکامات کے مطابق عمل کرنا چاہیئے تا کہ اس کی راہ پر گامزن رہ کر ہم زندگی کے حقیقی مقصود کو پائیں اور اُس کے در کے گدا بن کر اُس کے مقرب بن جاویں.جب ہم خدا تعالیٰ کے مقرب بن جائیں گے تو کوئی چیز ہماری ترقی میں روک نہیں بن سکتی.انشاء اللہ العزیز ! ( ناظر نشر و اشاعت قادیان ) LO 5
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات تعلق بالله ( منقول از ضمیمه تریاق القلوب صفحه ۱ مطبوعه ۱۹۰۲ء) کبھی نصرت نہیں ملتی در مولیٰ سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو وہی اُس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں نہیں راہ اُس کی عالی بارگہ تک خود پسندوں کو یہی تدبیر ہے پیارو کہ مانگو اس سے قربت کو اُسی کے ہاتھ کو ڈھونڈ وجلا ؤ سب کمندوں کو (در ثمین) 6
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات تعارف سید نا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی پیدائش قادیان دارالامان میں 13 فروری 1835 ء بروز جمعۃ المبارک بوقت نماز فجر ہوئی.آنحضرت سلیا ایلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس زمانے کا امام ، بیج اور مہدی بنا کر مبعوث فرمایا.یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ کے عقیدہ کے مطابق مسیح و مہدی دو الگ الگ وجود نہیں ہیں جیسا کہ ہمارے غیر احمدی بھائیوں کا عقیدہ ہے بلکہ ایک ہی وجود کو اللہ تعالیٰ نے دو حیثیتوں کی وجہ سے دو نام عطا فرمائے ہیں.جیسا کہ آنحضرت سالیا یہ ہم نے فرمایا: لَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِیسٰی کہ عیسی اور مہدی ایک ہی وجود ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے مسیح، کا نام اس لئے دیا کہ آپ نے عیسائیوں سے خاص طور پر مقابلہ کرنا تھا اور اُن کے عقائد کی غلطی اُن پر ثابت کرنی تھی.اور مہدی کا مطلب ہے اللہ سے ہدایت پایا ہوا.مہدی کا نام اس لئے دیا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے ھدایت پا کر بنی نوع انسان کو ھدایت دینی تھی.آپ علیہ السلام اللہ کے نبی تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی کے لقب وخطاب سے نوازا.نہ صرف آپ کو نبی کے عظیم الشان روحانی مرتبہ سے سرفراز فرمایا بلکہ بعض نبیوں کے نام آپ کو عطا فرمائے اس لئے کہ ان کی صفات آپ میں موجود تھیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا : جَرِى اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ 7
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کا پہلوان ہے جو نبیوں کے لباس میں ہے.آپ فرماتے ہیں: میں کبھی آدم کبھی موسی کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار آنحضرت سائی یا یتیم کی کامل غلامی ، کامل پیروی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کے عہدہ سے سرفراز فرمایا.آپ آنحضرت صلی علی ایم کے مطبع نبی تھے.آنحضرت صلی سیستم کی غلامی پر آپ کو فخر اور ناز تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو آنحضرت صلی کا یہ سلم کے تابع نبی کے طور پر مبعوث کیا تا کہ آپ کے ذریعہ آخری زمانہ میں تنزیل پذیر ہور ہے اسلام کا احیاء ہو سکے.چنانچہ آپ نے دین اسلام کی خدمت ایسے شاندار رنگ میں کی کہ جس کی نظیر گذشتہ چودہ سوسال میں نہیں ملتی.جب آپ مامور ہوئے اُس وقت ظلمت وتار یکی اپنی انتہا پرتھی.آپ نے ایک نہایت نیک اور پاک جماعت کی بنیاد رکھی.یہ نیک اور پاک جماعت آہستہ آہستہ بڑھ کر اب دُنیا کے 207 ملکوں میں پھیل گئی ہے جو اپنی نیکی ، تقوی ، قربانیوں اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی وجہ سے مسلمانوں کے دوسرے تمام فرقوں سے ممتاز ہے.26 رمئی 1908ء کو آپ علیہ السلام کی وفات ہوئی.آپ کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ میں خلافت کا سلسلہ شروع ہوا.یہ خلافت کا سلسلہ بھی آنحضرت صلی ایم کی پیشگوئی کے عین مطابق قائم ہوا.آپ کے خلفاء کے نام اس طرح ہیں :.1) حضرت مولانا حکیم نورالدین خلیفہ البیع الاول رضی اللہ عنہ.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ السیح الثانی رضی اللہ عنہ.(2 8
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات (3 (4 (5 حضرت مرزا ناصراحمدخلیفة انتيح الثالث رحمہ اللہ تعالی.حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ.حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سن 2003ء میں آپ کے پانچویں خلیفہ منتخب ہوئے.اس وقت آپ کی خلافت جاری ہے.خلافت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے.جماعت احمدیہ میں نیکی وتقوی ، اتحاد و اتفاق، بے مثال قربانی ، اسلام کی منظم رنگ میں پوری دنیا میں دعوت و تبلیغ اور خدمت انسانیت سب کچھ اسی خلافت کی بدولت ہے جس سے آج دوسرے مسلمان محروم ہیں.اس کتابچہ کا عنوان ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات“ ہے.لہذا ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے تعلق باللہ کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں.9 نظارت نشر و اشاعت قادیان)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام مسیح موعود و مہدی معہود اللہ تعالیٰ جن کو اصلاح خلق کے لئے نبی بنا کر مبعوث کرتا ہے وہ دنیا میں سب سے زیادہ اپنے خالق و مالک اور اپنے بھیجنے والے سے محبت کرتے ہیں.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اپنے خالق و مالک خدائے واحد و یگانہ سے بے حد محبت تھی.ہم آپ کی تحریرات اور مختلف واقعات کو پڑھ کر صرف ایک اندازہ لگاتے ہیں کہ آپ اپنے خدا سے بے حد محبت کرتے تھے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی کتنی شدید محبت تھی؟ اور کیسے کیسے محبت کے جذبات آپ کے دل میں موجزن تھے؟ اس کا صحیح صحیح اندازہ لگانا کسی کے بس کی بات نہیں.آپ نے پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کی پیروی کی.تمام اُن باتوں سے آپ بچے جن سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیا ہے اور تمام وہ احکامات بجالائے جن کے بجالانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے.اپنے خدا پر کامل تو کل اور کامل بھروسہ کرنے والے تھے.ایک لمحہ کے لئے بھی کسی انسان پر، کسی دنیاوی ساز و سامان پر بھروسہ نہیں کیا اور نہ کسی کو خدا کے سوا اپنا معین و مددگار سمجھا.جب آپ کے والد بزرگوار حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی وفات ہوئی تو آپ کے دل میں خیال گذرا کہ والد صاحب گزر گئے جو میرے لئے سہارا تھے.یہ ایک فطری خیال تھا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس موقعہ پر اللہ کی ذات بابرکات کا خیال آپ کے ذہن میں نہیں تھا.آپ تو بچپن سے ہی اپنے خدا کے عشق میں گم تھے اور اُسی کے ہو کر 11
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات رہ گئے تھے.جب یہ خیال گزرا تو معا اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا : آلیس الله بِكَافٍ عَبْدَہ کہ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں.اس الہام نے آپ کو اللہ کی محبت میں اور بھی بڑھا دیا اور یہ رشتہ وداد اور مضبوط ہو گیا.اللہ تعالیٰ سے آپ کی محبت کا تو یہ عالم تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کا ہو گیا تھا اور آپ اللہ تعالیٰ کے ہو گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو جرمی اللہ کے خطاب سے نوازا.یعنی اللہ کا پہلوان.اور آپ نے اپنے آپ کو خُدا کا شیر کہا.چنانچہ آپ اپنے ایک شعر میں اپنے مخالف کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں ؎ جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال کے رُو بہ زار و نزار خدا تعالیٰ سے آپ کی محبت کا کچھ اندازہ زیریں تحریر سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسقد رآپ کے دل میں تڑپ تھی کہ جو خدا مجھے ملا ہے کاش دنیا اسکو پہچانے ، اُس سے دل لگائے اور اُس پر یقین کر لے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں : کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اُس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ عمل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا 12
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات یہ خدا ہے! تا لوگ سن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے تم سوئے ہوئے ہو گے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا تم دشمن سے غافل ہو گے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں.اور اگر تم جانتے تو تم پر کوئی ایسا دن نہ آتا کہ تم دنیا کے لئے سخت غمگین ہو جاتے ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے اور چیخیں مارتا ہے اور ہلاک ہونے لگتا ہے پھر اگر تم کو اس خزانہ کی اطلاع ہوتی کہ خدا تمہارا ہر ایک حاجت کے وقت کام آنے والا ہے تو تم دنیا کے لئے ایسے بے خود کیوں ہوتے خدا ایک پیارا خزانہ ہے اُس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مددگار ہے تم بغیر اُس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمھارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں.66 کشتی نوح صفحه 19 ، 20 روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 22،21) آپ علیہ السلام کے تعلق باللہ کے چند ایمان افروز واقعات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں :.نماز سے محبت بچپن ہی سے آپ کو نماز سے محبت تھی.نماز کی محبت بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی محبت کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوتی ہے.آپ دن بھر مسجد میں ہی پڑے رہتے اور اسلامی کتب کے 13
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات مطالعہ میں غرق رہتے.زیادہ تر وقت مسجد میں گزارنے کے باعث لوگوں میں مسیترہ “ مشہور تھے.انتہائی کم عمر میں نماز سے عشق و محبت کا ایک واقعہ جو دراصل آپ کے عشق الہی اور تعلق باللہ پر دلالت کرتا ہے اس طرح ہے: حضرت اقدس کو شروع سے نماز کے ساتھ گہرا تعلق اور ایک فطری لگاؤ تھا جو عمر کے آخر تک گویا ایک نشہ کی صورت میں آپ کے دل و دماغ پر طاری رہا.جماعت احمدیہ کے پہلے مورخ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے آپ کے ابتدائی سوانح میں یہ عجیب واقعہ درج کیا ہے کہ جب آپ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اس وقت آپ اپنی ہم سن لڑکی سے ( جو بعد میں کو آپ سے بیاہی گئی ) فرمایا کرتے تھے کہ نامرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے.یہ فقرہ بظاہر نہایت مختصر ہے مگر اس سے عشق الہی کی ان لہروں کا پتہ چلتا ہے جو مافوق العادت رنگ میں شروع سے آپ کے وجود پر نازل ہو رہی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنے انہی فطری رجحانات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک مقام پر لکھا ہے کہ : الْمَسْجِدُ مَكَانِي وَالصَّالِحُونَ اِخْوَانِي وَذِكْرُ اللهِ مَالِي وَ خَلْقُ اللهِ عَيَالِي فرماتے ہیں کہ اوائل ہی سے مسجد میر امکان، صالحین میرے بھائی ، یاد الہی میری دولت ہے اور مخلوق خدا میرا عیال اور خاندان ہے.تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 53) مشکل سے مشکل حالات میں بھی نماز کو کبھی ضائع نہیں ہونے دیتے بلکہ بروقت نماز کی ادائیگی فرماتے.نماز دراصل اللہ کو یاد کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آتقیم 14
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات الصَّلوةَ لِذِ گرمی یعنی مجھے یاد کرنے کے لئے نماز قائم کر.پس نماز کو ہر حال میں مقدم کرنا یہ آپ کے تعلق باللہ کی ایک بڑی علامت ہے.اس ضمن میں دو واقعات پیش ہیں :.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی زندگی میں مختلف موقعوں پر مقدمات کی پیروی میں عدالت میں حاضر ہوتے رہے لہذا ذیل کے دو واقعات ایسے ہی موقعوں کے ہیں.مورخ احمدیت مولا نا دوست محمد شاہد صاحب مرحوم و مغفور لکھتے ہیں : مقدمات خواہ کتنے پیچیدہ ، اہم اور آپ کی ذات یا خاندان کے لئے دور رس نتائج کے حامل ہوتے آپ نماز کی ادائیگی کو ہر صورت میں مقدم رکھتے تھے.چنانچہ آپ کا ریکارڈ ہے کہ آپ نے ان مقدمات کے دوران میں کبھی کوئی نماز قضاء نہیں ہونے دی.عین کچہری میں نماز کا وقت آتا تو اس کمال محویت اور ذوق شوق سے مصروف نماز ہو جاتے کہ گویا آپ صرف نماز پڑھنے کے لئے آئے ہیں کوئی اور کام آپ کے مد نظر نہیں ہے.بسا اوقات ایسا ہوتا کہ آپ خدا تعالیٰ کے حضور کھڑے عجز و نیاز کر رہے ہوتے اور مقدمہ میں طلبی ہو جاتی مگر آپ کے استغراق توکل علی اللہ اور حضور قلب کا یہ عالم تھا کہ جب تک مولائے حقیقی کے آستانہ پر جی بھر کر الحاح وزاری نہ کر لیتے اس کے دربار سے واپسی کا خیال تک نہ لاتے.چنانچہ خود فرماتے ہیں: میں بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا.نماز کا وقت ہو گیا اور میں نماز پڑھنے لگا.چپڑاسی نے آواز دی مگر میں نماز میں تھا فریق ثانی پیش ہو گیا اور اس نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اُٹھانا چاہا اور بہت زور اس بات پر دیا.مگر عدالت نے پروانہ کی اور مقدمہ اس کے خلاف کر دیا اور مجھے ڈگری دے دی.میں جب نماز سے فارغ ہو کر گیا تو مجھے خیال تھا کہ شاید حاکم نے 15
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات قانونی طور پر میری غیر حاضری کو دیکھا ہو.مگر جب میں حاضر ہوا اور میں نے کہا کہ میں تو نماز پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو آپ کو ڈگری دے چکا ہوں.عدالت سے غیر حاضری کے باوجود آپ کے حق میں فیصلہ ہو جانا ایک بھاری الہی نشان تھا جو آپ کے کمال درجہ انقطاع و ابتہال کے نتیجہ میں نمودار ہوا.یہ لڑ کا نبوت کے قابل ہے تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 77) جیسا کہ ذکر کیا گیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچپن سے ہی انتہائی پاکیزہ خصلت اور تقویٰ شعار تھے.آپ کی خُدا نما عادات کا ہر ایک شریف النفس انسان شیدا تھا.مندرجہ ذیل واقعہ آپ کے بچپن سے ہی نیک و متقی ہونے پر خوب روشنی ڈالتا ہے:.میاں محمد یاسین صاحب احمدی ٹیچر بلوچستان کی روایت ہے کہ ” مجھے مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مولوی غلام رسول صاحب قلعہ میاں سنگھ کے پاس گئے اور اس وقت حضور ابھی بچہ ہی تھے.اس مجلس میں کچھ باتیں ہو رہی تھیں.باتوں باتوں میں مولوی غلام رسول صاحب نے جو ولی اللہ و صاحب کرامات تھے فرمایا کہ اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتا تو یڑ کا نبوت کے قابل ہے.انہوں نے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہی.مولوی برہان الدین صاحب کہتے ہیں کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا.مکرم مولوی غلام محمد صاحب سکنہ بیگووالہ ضلع 16
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات سیالکوٹ نے بتایا کہ میں نے یہ بات اپنے والد محمد قاسم صاحب سے اسی طرح سنی تھی.تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 53) میں تو نو کر ہو گیا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب کو آپ کی بڑی فکر رہتی کہ میرا چھوٹا بیٹا دن بھر مسجد میں ہی پڑا رہتا ہے صرف نماز قرآن پڑھتا ہے آخر یہ اپنے بیوی بچوں کی کس طرح پرورش کرے گا؟ گھر گرہستی کے کس طرح یہ قابل بنے گا.چنانچہ اسی فکر میں آپ کے والد صاحب نے ایک دفعہ آپ کی سرکاری نوکری لگانی چاہی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواباً اپنے والد صاحب کو عرض کیا کہ میں نے جہاں نوکری کرنی تھی کر لی ہے.میں تو نوکر ہو چکا ہوں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: بیان کیا مجھ سے جھنڈا سنگھ ساکن کالہواں نے کہ میں بڑے مرزا صاحب کے پاس آیا جایا کرتا تھا.ایک دفعہ مجھے بڑے مرزا صاحب نے کہا کہ جاؤ غلام احمد کو بلا لاؤ ایک انگریز حاکم میرا واقف ضلع میں آیا ہے اس کا منشاء ہو تو کسی عہدہ پر نوکر کروا دوں.جھنڈا سنگھ کہتا تھا کہ میں مرزا صاحب کے پاس گیا تو دیکھا چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا کر اس کے اندر بیٹھے ہوئے کچھ مطالعہ کر رہے ہیں.میں نے بڑے مرزا صاحب کا پیغام پہنچادیا.مرزا صاحب آئے اور جواب دیا ” میں تو نوکر ہو گیا ہوں“ بڑے مرزا صاحب کہنے لگے کہ اچھا کیا واقعی نوکر ہو گئے ہو؟ مرزا صاحب نے کہا ہاں ہو گیا 17
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات ہوں.اس پر بڑے مرزا صاحب نے کہا اچھا نو کر ہو گئے ہو تو خیر ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ کالہواں قادیان سے جنوب کی طرف دومیل کے فاصلہ پر ایک گاؤں ہے اور نوکر ہونے سے مراد خدا کی نوکری ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ جھنڈا سنگھ کئی دفعہ یہ روایت بیان کر چکا ہے اور وہ قادیان کی موجودہ ترقی کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود کا بہت ذکر کیا کرتا ہے اور آپ سے بہت محبت رکھتا ہے.(سیرۃ المہدی جلد اول حصہ اول مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ نمبر 43 روایت نمبر 52) جب آپ فرماتے گرمی بہت ہے تو بارش ہو جاتی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے بیان کرتے ہیں کہ : بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود کا زمانہ عجیب تھا قادیان میں دو دن گرمی نہیں پڑتی تھی کہ تیسرے دن بارش ہو جاتی تھی.جب گرمی پڑتی اور ہم حضرت صاحب سے کہتے کہ حضور بہت گرمی ہے تو دوسرے دن بارش ہو جاتی تھی.نیز مولوی سید سرور شاہ صاحب نے بیان کیا کہ اس زمانہ میں فصلوں کے متعلق بھی کبھی شکایت نہیں ہوئی.خاکسار نے گھر آکر والدہ صاحبہ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت صاحب جب فرماتے تھے کہ آج بہت گرمی ہے تو عموماً اسی دن یا دوسرے دن بارش ہو جاتی تھی.اور آپ کے بعد تو مہینوں آگ برستی ہے اور بارش نہیں ہوتی.(سیرۃ المہدی جلد اول حصہ اول مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ 52،51 روایت نمبر 70) 18
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات ہمیں کوئی آگ میں ڈال کر دیکھ لے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے بیان کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے چوہدری حاکم علی صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی ہندو نے اعتراض کیا کہ حضرت ابراہیم پر آگ کس طرح ٹھنڈی ہو گئی.اس اعتراض کا جواب حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول نے لکھا کہ آگ سے جنگ اور عداوت کی آگ مراد ہے.انہی ایام میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام چھوٹی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہم لوگ آپ کے پاؤں دبا رہے تھے اور حضرت مولوی صاحب بھی پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے حضرت صاحب کو یہ اعتراض اور اس کا جواب جو مولوی صاحب نے لکھا تھا سنایا.حضرت صاحب نے فرمایا اس تکلف کی کیا ضرورت ہے ہم موجود ہیں ہمیں کوئی آگ میں ڈال کر دیکھ لے کہ آگ گلزار ہو جاتی ہے یا نہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ اعتراض دھرم پال آریہ مُرتد از اسلام نے کیا تھا اور حضرت مولوی صاحب نے اس کی کتاب ترک اسلام کے جواب میں نور الدین کتاب لکھی تھی.اس میں آپ نے یہ جواب دیا تھا کہ آگ سے مراد مخالفوں کی دشمنی کی آگ ہے مگر حضرت صاحب تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اس کو نا پسند فرمایا اور فرمایا کہ اس تاویل کی ضرورت نہیں اس زمانہ میں ہم موجود ہیں ہمیں کوئی مخالف دشمنی سے آگ کے اندر ڈال کر دیکھ لے کہ خدا اس آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے کہ نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے ایک دوسرے موقعہ پر اس مفہوم کو اپنے ایک شعر میں بھی بیان فرمایا ہے.ترے مکروں سے اے جاہل مرا نقصاں نہیں ہرگز کہ یہ جاں آگ میں پڑکر سلامت آنے والی ہے 19
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات اور آپ کا ایک الہام بھی اس مفہوم کو ظاہر کرتا ہے جس میں خدا تعالیٰ آپ سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں سے کہہ دے کہ ” آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ چوہدری حاکم علی صاحب نے اس ذکر میں یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی شخص نے یہ تماشا دکھانا شروع کیا کہ آگ میں گھس جاتا تھا اور آگ اسے ضرر نہ پہنچاتی تھی.اس شخص نے مخالفت کے طور پر حضرت صاحب کا نام لے کر کہا کہ ان کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے اگر سچے ہیں تو یہاں آجاویں اور میرے ساتھ آگ میں داخل ہوں کسی شخص نے یہ بات باہر سے خط میں مجھے لکھی اور میں نے وہ خط حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا.آپ نے فرمایا کہ یہ ایک شعبدہ ہے ہم تو وہاں جانہیں سکتے مگر آپ لکھ دیں کہ وہ یہاں آجاوے.پھر اگر میرے سامنے وہ آگ میں داخل ہوگا تو زندہ نہیں نکلے گا.آگ آپ کو جلا نہ سکی ( سيرة المہدی جلد اول حصہ اول مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ 136 تا 138 روایت نمبر 147 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ فرمایا کہ ہمیں آگ میں ڈال کر دیکھیں کہ آگ گلزار ہوتی ہے یا نہیں اس دعویٰ کی تصدیق ایک دوسرے واقعہ سے ہو جاتی ہے کہ واقعہ آگ آپ کو جلا نہ سکی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم ائے بیان کرتے ہیں کہ : خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا.ایک دن بارش ہو رہی تھی جس کمرہ کے اندر 20
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی.سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہو گیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا.اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ ارد گرد دیوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا تھا.بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جا کر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہو گیا.دیکھو وہی بجلی آگ تھی جس نے اس کو جلا دیا مگر ہم کو کچھ ضرر نہ دے سکی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی.“ (سیرۃ المہدی جلد اول حصہ اول مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ 216 روایت نمبر 236) اپنے سچا ہونے پر کامل یقین : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تعلق باللہ کے نتیجہ میں اپنے آقا و مطاع حضر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اپنے صادق ہونے پر کامل یقین تھا.چنانچہ اس ضمن میں درج ذیل ایمان افروز واقعہ اس امر کا بین ثبوت ہے:.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے بیان فرماتے ہیں:.بیان کیا حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جماعت احمد یہ کپورتھلہ اور غیر احمدیوں کا وہاں کی مسجد کے متعلق ایک مقدمہ ہو گیا.جس حج کے پاس یہ مقدمہ گیا وہ خود غیر احمدی تھا اور مخالف تھا.اس نے اس مقدمہ میں خلاف پہلو اختیار کرنا شروع کیا.اس حالت میں جماعت کپورتھلہ نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود کو خطوط لکھے اور دُعا کے لئے 21
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات درخواست کی.حضرت صاحب نے ان کو جواب لکھا کہ اگر میں سچا ہوں تو مسجد تم کومل جائے گی مگر جج نے بدستور مخالفانہ روش قائم رکھی.آخر اس نے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھا.جس دن اُس نے فیصلہ سنانا تھا اس دن وہ صبح کے وقت کپڑے پہن کر اپنی کوٹھی کے برآمدہ میں نکلا اور اپنے نوکر کو کہا کہ بوٹ پہنائے اور آپ ایک کرسی پر بیٹھ گیا.نوکر نے بوٹ پہنا کر فیتہ باندھنا شروع کیا کہ یکلخت اُسے کھٹ کی سی آواز آئی اس نے او پر نظر اٹھائی تو دیکھا کہ اس کا آقا بے سہارا ہو کر کرسی پر اوندھا پڑا تھا.اس نے ہاتھ لگایا تو معلوم ہوا مرا ہوا ہے گویا یکلخت دل کی حرکت بند ہو کر اس کی جان نکل گئی.اس کا قائم مقام ایک ہندو مقرر ہوا جس نے اس کے لکھے ہوئے فیصلہ کو کاٹ کر احمد یوں کے حق میں فیصلہ کر دیا.سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ ۵۷ روایت نمبر 79) تعلق باللہ و حفاظت الہی کا ایمان افروز واقعہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۸۴ ء کے قریب سیالکوٹ میں چند سال سرکاری ملازمت کرنی پڑی.اس ملازمت کی وجہ سے آپ نے چارسال سیالکوٹ میں قیام فرمایا.ابتداء میں آپ کو محلہ جھنڈا نوالہ میں ایک چو بارے میں رہنا پڑا.اس چوبارے کے گرنے اور معجزانہ طور پر آپ کے طفیل اسکے اندر کے تمام افراد کے محفوظ رہنے کا واقعہ آپ کے تعلق باللہ پر ایک روشن اور ایمان افروز دلیل ہے.آپ فرماتے ہیں:.ایک دفعہ رات میں ایک مکان کی دوسری منزل پر سو یا ہوا تھا اور اسی 22
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ یا سولہ آدمی اور بھی تھے.رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی.میں نے آدمیوں کو جگایا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہیے.انہوں نے کہا کہ کوئی چوہا ہوگا خوف کی بات نہیں اور یہ کہ کر سو گئے.تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی آواز آئی تب میں نے ان کو دوبارہ جگا یا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پروانہ کی.پھر تیسری بارشہتیر سے آواز آئی تب میں نے ان کو سختی سے اُٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہاں سے نکلا.ابھی دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اور وہ دوسری چھت کو ساتھ لے کر نیچے جا پڑی اور سب بچ گئے.(سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ ۲۱۶، ۲۱۷ روایت نمبر 236) سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی ہمیشہ لاج رکھتا ہے اور انہیں ذلت و رسوائی اور شمانت اعداء سے بچاتا ہے.چنانچہ آپ کے تعلق باللہ کا ایک دلچسپ واقعہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:.حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ کسی بحث کے دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کسی مخالف نے کوئی حوالہ طلب کیا اس وقت وہ حوالہ حضرت کو یاد نہیں تھا اور نہ آپ کے خادموں میں سے کسی اور کو یاد تھا لہذا شانت کا اندیشہ پیدا ہوا مگر حضرت صاحب نے بخاری کا ایک نسخہ منگایا اور یونہی اس کی ورق گردانی شروع کردی اور جلد جلد ایک ایک ورق اس کا الٹانے لگ گئے اور آخر ایک جگہ پہنچ کر آپ 23
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات ٹھہر گئے اور کہا کہ لو یہ دیکھ لو.دیکھنے والے سب حیران تھے کہ یہ ( کیا ) ماجرا ہے.اور کسی نے حضرت صاحب سے دریافت بھی کیا.جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ جب میں نے کتاب ہاتھ میں لے کر ورق الٹانے شروع کئے تو مجھے کتاب کے صفحات ایسے نظر آتے تھے کہ گویا وہ خالی ہیں اور ان پر کچھ نہیں لکھا ہوا اسی لئے میں ان کو جلد جلد اُلٹاتا گیا آخر مجھے ایک صفحہ ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا اور مجھے یقین ہوا کہ یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے.گویا اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ سوائے اس جگہ کے کہ جس پر حوالہ درج تھا باقی تمام جگہ آپ کو خالی نظر آئی.(سیرۃ المہدی جلد اول حصہ دوم مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ نمبر 282 روایت نمبر 306) ہمارا کام بھی شرک مٹانا ہے جس طرح خدا تعالیٰ کو اپنی توحید و تفرید بے حد عزیز ہے اسی طرح انبیاء کو بھی اپنے خدائے واحد و یگانہ کی توحید سے بے حد محبت ہوتی ہے.انبیاء دُنیا میں توحید کے قیام کے لئے ہی مبعوث ہوتے ہیں.شرک کو ختم کرنا اور توحید کو قائم کرنا اُن کا اولین فریضہ ہوتا ہے.اس تعلق میں ایک دلچسپ روایت پیش ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:.قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھے بذریعہ خط اطلاع دی کہ میں جب شروع میں قادیان گیا تو ایک شخص نے اپنے لڑکے کو حضرت صاحب کے سامنے ملاقات کے لئے پیش کیا.جس وقت وہ لڑکا حضرت صاحب کے مصافحہ کیلئے آگے بڑھا تو اظہار تعظیم کے لئے حضرت کے پاؤں کو ہاتھ لگانے 24
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات لگا.جس پر حضرت صاحب نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اسے ایسا کرنے سے روکا اور میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے بڑے جوش میں فرمایا کہ انبیاء دنیا میں شرک مٹانے آتے ہیں اور ہمارا کام بھی شرک مٹانا ہے نہ کہ شرک قائم کرنا“ ( سیرۃ المہدی جلد اول حصہ دوم مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ 295 روایت نمبر 319) صرف ایک دورات دُعا کی ضرورت تھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے بیان کرتے ہیں کہ : مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ہمیں یہ خیال آیا تھا کہ تبلیغ کے لئے انگریزی کے سیکھنے کی طرف توجہ کریں اور ہمیں امید تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے ہمیں اس کا علم عطا کر دے گا.بس صرف ایک دورات دُعا کی ضرورت تھی.لیکن پھر یہ خیال آیا کہ مولوی محمد علی صاحب اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی انگریزی کی تعریف بھی کی جاتی ہے.اس لئے ہماری توجہ اس امر کی طرف سے ہٹ گئی.سیرۃ المہدی جلد اول حصہ دوم مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ 357 روایت نمبر 395) اور ڈاکو بھاگ گئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ 25 25
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات خواجہ کمال الدین صاحب سے میں نے سنا ہے کہ مولوی کرم دین بھیں والے کے مقدمہ کے دوران میں ایک دفعہ حضرت صاحب بٹالہ کے رستے گورداسپور کی طرف روانہ ہوئے.آپ کے ساتھ رتھ میں خود خواجہ صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب مرحوم تھے اور باقی لوگ یگوں میں پیچھے آرہے تھے.اتفاقاً یکے کچھ زیادہ پیچھے رہ گئے اور رتھ اکیلی رہ گئی.رات کا وقت تھا آسمان ابرآلود تھا اور چاروں طرف سخت اندھیرا تھا.جب رتھ وڈالہ سے بطرف بٹالہ آگے بڑھا تو چند ڈاکو گنڈا سوں اور چھریوں سے مسلح ہو کر راستہ میں آگئے اور حضرت صاحب کی رتھ کو گھیر لیا اور پھر وہ آپس میں یہ تکرار کرنے لگ گئے کہ ہر شخص دوسرے سے کہتا تھا کہ تو آگے ہو کر حملہ کر مگر کوئی آگے نہ آتا تھا اور اسی تکرار میں کچھ وقت گذر گیا اور اتنے میں پچھلے لگے آن ملے اور ڈاکو بھاگ گئے.قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب بیان کرتے تھے کہ اس وقت یعنی جس وقت ڈا کو حملہ کر کے آئے تھے میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کی پیشانی سے ایک خاص قسم کی شعاع نکلتی تھی جس سے آپ کا چہرہ مبارک چمک اٹھتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان اور بٹالہ کی درمیانی سڑک پر اکثر چوری اور ڈاکہ کی وارداتیں ہو جاتی ہیں مگر اس وقت خدا کا خاص تصرف تھا کہ ڈاکوخود مرعوب ہو گئے اور کسی کو آگے آنے کی جرات نہیں ہوئی.قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ خواجہ صاحب سے انہی دنوں میں بمقام پشاور سنا تھا.( سیرۃ المہدی جلد اول حصہ دوم مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ 433 روایت نمبر 454) 26 26
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات حضرت مولاناکیم نورالدین صاحب بھیروی خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ 26 رمئی 1908ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اگلے روز 27 رمئی کو آپ آپ علیہ السلام کے پہلے خلیفہ منتخب ہوئے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے اچھے دوست ،سب سے بڑے عاشق سب سے زیادہ پسندیدہ ، سب سے زیادہ مطیع و فرمانبردار ، سب سے زیادہ مالی قربانی کرنے والے، سب سے بڑے معین و مددگار تھے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جب دعویٰ ماموریت فرمایا تو آپ ہمیشہ یہ دُعا کرتے تھے یا رب من انصاری یا رب من انصاری.یعنی اے میرے رب اس عظیم کام میں جو تو نے میرے سپر د کیا ہے کون میری مدد کرے گا.اللہ تعالیٰ نے کشمیر سے حضرت مولا نا حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ جیسا عظیم انسان بھیج دیا.یہ امر بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.” جب سے میں اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے مامور کیا گیا ہوں اور حتی و قیوم کی طرف سے زندہ کیا گیا ہوں دین کے چیدہ مددگاروں کی طرف شوق کرتا رہا ہوں اور وہ شوق اس شوق سے بڑھ کر ہے جو ایک پیاسے کو پانی کی طرف ہوتا ہے اور میں رات دن خدا تعالیٰ کے حضور چلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے میرے رب! میرا کون ناصر و مددگار ہے.میں تنہا اور ذلیل ہوں.پس جبکہ دعا کا ہاتھ 27
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات پے در پے اُٹھا اور آسمان کی فضا میری دعا سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو قبول کیا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا جو میرے مددگاروں کی آنکھ ہے اور میرے ان مخلص دوستوں کا خلاصہ ہے جو دین کے بارے میں میرے دوست ہیں.اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نور الدین ہے.وہ جائے ولادت کے لحاظ سے بھیروی اور نسب کے لحاظ سے قریشی ہاشمی ہے جو کہ اسلام کے سرداروں میں سے اور شریف والدین کی اولاد میں سے ہے.پس مجھ کو اس کے ملنے سے ایسی خوشی ہوئی کہ گویا کوئی جدا شدہ عضو مل گیا اور ایسا سرور ہوا جس طرح کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ملنے سے خوش ہوئے تھے.اور جب وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے ملا اور میری نظر اس پر پڑی تو میں نے اس کو دیکھا کہ وہ میرے رب کی آیات میں سے ایک آیت ہے.اور مجھے یقین ہو گیا کہ میری اسی دعا کا نتیجہ ہے جس پر میں مداومت کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتا دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے.“ (حیات نور باب سوم صفحہ 113) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی مالی قربانیوں اور آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کی بے حد تعریف فرمائی ہے اور خواہش ظاہر کی کہ کاش میری اُمت کا ہر فرد نورالدین ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا.آپ کی نیکی و تقومی اور بزرگی کو دیکھتے ہوئے جماعت مؤمنین نے بالا تفاق آپ کو حضرت مسیح موعود کا پہلا خلیفہ چن لیا.28
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات آپ قرآن و حدیث اور علوم اسلامی کے بہت بڑے عالم اور بہترین مناظر تھے.اس کے ساتھ ساتھ آپ بہت بڑے ماہر طبیب بھی تھے.پورے ہندوستان میں آپ کی طبابت کا شہرہ تھا یہی وجہ تھی کہ مہاراجہ جموں نے آپ کو اپنا طبیب خاص مقرر کیا.اُس زمانہ میں ہزاروں روپے کی آپ کی آمد تھی.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نے دُنیا بہت دیکھ لی ہے اب آپ یہاں ہی رہ جائیں.اس ارشاد کی تعمیل میں آپ قادیان کے ہو کر رہ گئے اور کبھی وطن کا خیال دل میں نہیں لا یا.آپ کے توکل علی اللہ اور تعلق باللہ کی مثالیں دی جاتی ہیں.بے حد متوکل اور اللہ پر بھروسہ کرنے والے تھے.آپ خود فرماتے ہیں کہ اللہ کا میرے ساتھ ایک خاص معاملہ ہے.آپ کے بڑے بڑے کارناموں میں سے ایک عظیم الشان کارنامہ استحکام خلافت ہے.آپ کے خلیفہ بننے کے بعد بہت جلد نفسانی خواہشات میں غرق ایک گروہ نے خلافت کی بنیاد کو ہلانے اور اس کے ایوان میں لرزہ طاری کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی مگر آپ نے انہیں کڑی پھٹکارلگائی اور خلافت کو وہ مضبوطی عطا فرمائی جس کے لئے آپ رہتی دنیا تک یاد کئے جائیں گے.آپ کے تعلق باللہ کے چند واقعات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں :.رویاء کی بناء پر کشمیر کا سفر حضرت خلیفہ المسیح الاول نے ایک رویاء کی بناء پر کشمیر کا سفراختیار فرمایا: چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.وو...حضور ( یعنی حضرت رسول کریم.ناقل ) ہنس پڑے.اور آپ سے فرمایا کہ کیا تو کشمیر دیکھنا چاہتا ہے.آپ نے عرض کیا.ہاں! یا رسول اللہ ! یہ 29 29
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات 66 فرما کر حضور چل دیئے اور آپ پیچھے پیچھے تھے.بانہال کے راستہ کشمیر گئے.“ خوف کے مارے میرا رنگ زرد ہو گیا (حیات نور باب دوم صفحہ 97) حضرت اقدس خلیفہ المسیح الاول مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جن دنوں میں شاہ عبدالغنی صاحب سے تعلیم پاتا تھا.ایک دن ظہر کی نماز جماعت سے مجھ کو نہ ملی.جماعت ہو چکی تھی اور میں کسی سبب سے رہ گیا.مجھے ایسا معلوم ہوا کہ یہ اتنا بڑا کبیرہ گناہ ہے کہ قابل بخشش ہی نہیں.خوف کے مارے میرا رنگ زرد ہو گیا.مسجد کے اندر گھنے سے بھی ڈرمعلوم ہوتا تھا.وہاں ایک باب الرحمت ہے.اس پر لکھا ہوا ہے.قُل يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ التنوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ.اس کو پڑھ کر پھر بھی بہت ڈرتا ہوا اور حیرت زدہ سا ہو کر مسجد کے اندر گھسا اور بہت ہی گھبرا یا.جب میں منبر اور حجرہ شریف کے درمیان پہنچا اور نماز ادا کر نے لگا تو رکوع میں مجھے جس خیال نے بہت زور دیا وہ یہ تھا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ مابین بیتی و منبرى روضة من رياض الجنة اور جنت تو وہ مقام ہے جہاں جو التجا کی جاتی ہے وہ مل جاتی ہے.پس میں نے دعا کی.الہی میرا یہ قصور معاف کر دیا جائے.“ (مرقاة الیقین فی حیاة نور الدین مرتبہ اکبر شاہ خان نجیب آبادی صفحه 125 ، 126 ) 30
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات دو سجدوں کے درمیان ، مقطعات کا وسیع علم دیا گیا حضرت خلیفہ المسیح الاول خود بیان فرماتے ہیں کہ : کشمیر میں ایک مولوی عبدالقدوس صاحب رہتے تھے.وہ بڑے بزرگ آدمی تھے.اور میرے پیر بھائی بھی تھے.کیونکہ وہ شاہ جی عبد الغنی صاحب کے مرید تھے اور میں بھی شاہ صاحب کا مرید تھا.ان کو مجھ سے خاص محبت تھی اور باوجود ضعف پیری کے میرے مکان پر ترمذی کا سبق پڑھنے آتے تھے.میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ ان کی گود میں کئی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں.میں نے ایک جھپٹا مارا اور سب بچے اپنی گود میں لے کر وہاں سے چل دیا.رستہ میں میں نے ان بچوں سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا نام کھیعص ہے.میں اپنے اس رؤیا کو بہت ہی تعجب سے دیکھتا تھا.جب میں حضرت مرز اصاحب کا مرید ہوا تو میں نے ان سے اس خواب کا ذکر کیا.مرزا صاحب نے فرمایا کہ آپ کو اس کا علم دیا جائے گا اور وہ لڑ کے فرشتے تھے.دھرم پال نے جب ”ترک اسلام کتاب لکھی تو اس سے بہت پہلے مجھے ایک خواب نظر آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مولیٰ مجھ سے فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن شریف کی کوئی آیت تجھ سے پوچھے اور وہ تجھ کو نہ آتی ہو اور پوچھنے والا منکر قرآن ہو تو ہم خود تم کو اس آیت کے متعلق علم دیں گئے“ جب دھرم پال کی کتاب آئی اور خدا تعالیٰ نے مجھ کو اس کے جواب کی توفیق دی.حروف مقطعات کے متعلق اعتراض تک پہنچ کر ایک روز مغرب کی نماز میں دو سجدوں کے درمیان میں نے صرف اتنا ہی خیال کیا کہ مولا! یہ منکر قرآن 31
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات تو ہے.گو میرے سامنے نہیں.یہ مقطعات پر سوال کرتا ہے.اسی وقت یعنی دو سجدوں کے درمیان قلیل عرصہ میں مجھ کو مقطعات کا وسیع علم دیا گیا.جس کا ایک شمہ میں نے رسالہ نور الدین میں مقطعات کے جواب میں لکھا ہے اور اس کو لکھ کر میں خود بھی حیران ہو گیا.خدا آپ کو ایک اور لڑ کا دیگا ( مرقاۃ الیقین فی حیاة نورالدین صفحہ 172 ،173 ) حضرت خلیفہ المسیح الاول " بیان کرتے ہیں کہ : میری ایک بہن تھیں.ان کا ایک لڑکا تھا وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا اور مر گیا.اس کے چند روز بعد میں گیا.میرے ہاتھ سے انہوں نے کسی پیچش کے مریض کو اچھا ہوتے ہوئے دیکھا.مجھ سے فرمانے لگیں کہ بھائی تم اگر آجاتے تو میرا لڑکا بیچ ہی جاتا.میں نے ان سے کہا کہ تمہارے ایک لڑکا ہوگا اور میرے سامنے پیچش کے مرض میں مبتلا ہوکر مرے گا.چنانچہ وہ حاملہ ہو ئیں اور ایک بڑا خوبصورت لڑکا پیدا ہوا.پھر جب وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا.ان کو میری بات یاد تھی.مجھ سے کہنے لگیں کہ اچھا دعا ہی کرو.میں نے کہا کہ خدا تعالیٰ آپ کو اس کے عوض میں ایک اور لڑکا دے گالیکن اسکو تو اب جانے ہی دو.چنانچہ وہ لڑ کا فوت ہو گیا اور اس کے بعد ایک اور لڑکا پیدا ہوا جو زندہ رہا اور اب تک زندہ برسر روزگار ہے.یہ الہی غیرت تھی.(مرقاة الیقین فی حیاة نور الدین صفحه 199) 32 32
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات خدا تعالیٰ بہتر بدلہ دے گا حضرت خلیفہ امسیح الاول بیان کرتے ہیں کہ : میرے بہت سے لڑکے مرے.جب کوئی لڑکا مرتا تو میں یہی سمجھتا کہ اس میں کوئی نقص ہوگا.خدا تعالیٰ اس سے بہتر بدلہ دے گا.خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے مایوس ہونا تو کافروں کا کام ہے.خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی جب قدر نہیں کی جاتی تو وہ نعمتیں چھن جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کی نعمتیں جاتی ہی نہیں مگر نا شکری سے.جب نعمت چلی جائے تو آدمی مایوس نہ ہو.ڈپلومہ پر بھروسہ نہیں حضرت خلیفہ المسیح الاول " فرماتے ہیں: (مرقاة الیقین فی حیاة نور الدین صفحہ 207) یہ بھی ایک شرک ہے کہ آدمی ڈپلومے یا سند پر بھروسہ کرے.ایک مرتبہ ایک شخص نے جو افسر مدارس تھا اور میں بھی پنڈ دادنخاں میں مدرس تھا.مجھ سے کسی بات پر کہا کہ آپ کو ڈپلومے کا گھمنڈ ہے.میں نے اپنے آدمی سے کہا.ڈپلومہ لاؤ جس کو یہ خدا سمجھے ہوئے ہے وہ ہمارے پاس بھی ایک ہے.منگا کر اسی وقت اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.وہ آدمی بڑا حیران ہوا.مجھ سے کہا آپ کو کوئی جوش ہے؟ میں نے کہا نہیں.کہا کوئی رنج ہے؟ میں نے کہا نہیں.آپ نے اس کو باعث غرور و تکبر موجب روزی سمجھا ہے.میں نے اس کو پارہ کر کے دکھایا ہے کہ میرا ان چیزوں پر بحمد للہ بھروسہ نہیں.(مرقاة الیقین فی حیاة نور الدین صفحه 209) 33
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات الہی دعوت محترم عبدالقادر صاحب مصنف حیات نور تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھانا کھلائے جانے کا ایک واقعہ اخویم محترم حکیم محمد صدیق صاحب آف میانی ضلع سرگودھا نے سنایا کہ حضرت خلیفہ امسیح فرمایا کرتے تھے: ایک دفعہ میں اچھے استاد کی تلاش میں وطن سے دُور چلا گیا.تین دن کا بھوکا تھا مگر کسی سے سوال نہیں کیا.میں مغرب کے وقت ایک مسجد میں چلا گیا مگر وہاں کسی نے مجھے نہیں پوچھا اور نماز پڑھ کر سب چلے گئے.جب میں اکیلا تھا تو مجھے باہر سے آواز آئی.نورالدین ! نورالدین! نورالدین! یہ کھانا آکر جلد پکڑ لو.میں گیا تو ایک مجمع میں بڑا پر تکلف کھانا تھا.میں نے پکڑ لیا.میں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ یہ کھانا کہاں سے آیا کیونکہ مجھے علم تھا کہ خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے.میں نے خوب کھایا اور پھر برتن مسجد کی ایک دیوار کے ساتھ کھونٹی پر لٹکا دیا.جب میں آٹھ دس دن کے بعد واپس آیا تو وہ برتن وہیں آویزاں تھا.جس سے مجھے یقین ہو گیا کہ کھانا گاؤں کے کسی آدمی نے نہیں بھجوایا تھا.خدا تعالیٰ نے ہی بھجوایا تھا.بارش بند ہونے کی دعا حیات نور باب اول از عبد القادر سوداگر مل صفحه 24، 25) محترم چوہدری غلام محمد صاحب بی اے کا بیان ہے کہ:.1909ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ لگا تار آٹھ روز بارش ہوتی رہی 34
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات.جس سے قادیان کے بہت سے مکانات گر گئے.حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم نے قادیان سے باہرنی کوٹھی تعمیر کی تھی وہ بھی گر گئی.آٹھویں یا نویں دن حضرت خلیفہ اسیح اول نے ظہر کی نماز کے بعد فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ سب لوگ آمین کہیں.دُعا کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں نے آج وہ دعا کی ہے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ کی تھی.دُعا کے وقت بارش بہت زور سے ہو رہی تھی اسکے بعد بارش بند ہوگئی اور عصر کی نماز کے وقت آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی.“ نصرت الہی کے دو عجیب واقعات حیات نو ر باب ششم صفحه 440-441) محترم عبد القادر صاحب مرحوم سابق سوداگرمل مصنف حیات نو ر تحریر فرماتے ہیں : ” بھوپال میں آپ کو بہت سے عجیب واقعات پیش آئے.لیکن طبی امور سے متعلق دو واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں.پہلا واقعہ یہ ہے کہ آپ نے دو نہایت ہی عمدہ صدر یاں بنوائیں تھیں جن کے پہنے کی ہمیشہ آپ کو عادت تھی.ایک اُن میں سے چوری ہو گئی.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ نہ ء کی تقریر میں فرمایا: طالب علمی کے زمانہ میں ایک مرتبہ میں نے نہایت عمدہ صوف لے کر دوصدر یاں بنوائیں اور انہیں الگنی پر رکھ دیا مگر ایک کسی نے چرالی.میں نے اس کے چوری ہو جانے پر خدا کے فضل سے اپنے دل میں کوئی تکلیف محسوس نہ 35
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات کی بلکہ میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر بنا دینا چاہتا ہے.تب میں نے شرح صدر سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور صبر کے شکریہ میں دوسری کسی حاجتمند کو دیدی.چند روز ہی اس واقعہ پر گزرے تھے کہ شہر کے ایک امیر زادہ کو سوزاک ہوا.اور اس نے ایک شخص سے جو میرا بھی آشنا تھا کہا کہ کوئی ایسا شخص لاؤ جو طبیب مشہور نہ ہو اور کوئی ایسی دوا بتا دے جس کو میں خود بنا لوں.وہ میرے پاس آیا اور مجھے اس کے پاس لے گیا.میں نے سنکر کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں صدری ہے.میں جب وہاں پہنچا تو وہ اپنے باغ میں بیٹھا تھا.میں اس کے پاس کرسی پر جا بیٹھا.تو اس نے اپنی حالت کو بیان کر کے کہا کہ ایسا نسخہ تجویز کر دیں جو میں خود ہی بنالوں.میں نے کہا.ہاں ہوسکتا ہے جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں کیلا کے درخت تھے.میں نے اس کو کہا کہ کیلا کا پانی ۵ تولہ لے کر اس میں ایک ماشہ شور قلم ملا کر پی لو.اس نے جھٹ اس کی تعمیل کر لی.کیونکہ شورہ بھی موجود تھا.اپنے ہاتھ سے دوائی بنا کر پی لی.میں چلا گیا.دوسرے دن پھر میں گیا تو اس نے کہا مجھے تو ایک ہی مرتبہ پینے سے آرام ہو گیا ہے اب حاجت ہی نہیں رہی.میں تو جانتا تھا کہ یہ موقعہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل نے پیدا کر دیا ہے اور آپ ہی میری توجہ اس علاج کی طرف پھیر دی.میں تو پھر چلا آیا.مگر اس نے میرے دوست کو بلا کر زربفت کمخواب وغیرہ کے قیمتی لباس اور بہت سے روپے میرے پاس بھیجے.جب وہ میرے پاس لایا تو میں نے اس کو کہا کہ یہ وہی صدری ہے.وہ حیران تھا کہ صدری کا کیا معاملہ ہے.آخر سارا قصہ اس کو بتایا اور اس کو میں نے کہا زربفت وغیرہ تو ہم پہنتے نہیں.اس کو بازار میں بیچ لاؤ.چنانچہ وہ بہت قیمت پر بیچ لایا.اب میرے 36 36
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات پاس اتنا روپیہ ہو گیا کہ حج فرض ہو گیا اس لئے میں نے اس کو کہا کہ اب حج کو جاتے ہیں کیونکہ حج فرض ہو گیا ہے.غرض اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کو کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا.ہاں اس میں دنیا کی ملونی نہیں چاہئے بلکہ خالصاً 66 لوجہ اللہ ہو.اللہ کی رضا مقصود ہو اور اس کی مخلوق پر شفقت ملحوظ ہو.“ دوسرا واقعہ آپ کو یہ پیش آیا کہ شدت تپ میں آپ کو خطرناک رنگ میں سیلان اللعاب شروع ہو گیا.جس میں بدبودار سیاہ رنگ کا پانی نکلتا تھا.ایک شخص حکیم فرزند علی نے آپ کو رائے دی کہ اگر آپ کا وطن قریب ہو تو آپ فوراً چلے جائیں.اس احتراقی مواد سے بچنے کی کوئی امید نہیں.آپ فرماتے ہیں: شام کے وقت ایک بزرگ جو وہاں مہتم طلبة العلم تھے اور نہایت ہی مخلصانہ حالت میں تھے.کہنے لگے، میں بوڑھا ہوں.میرے منہ سے لعاب آتا ہے کوئی ایسی چیز بتاؤ جو افطار کے وقت کھا لیا کروں.میں نے کہا.مربہ آملہ بنارسی، دانہ الا ئچی اور ورق طلا سے افطار کریں.وہ یہ نسخہ دریافت کر کے گئے.معاً واپس آئے اور ایک مرتبان مربہ اور بہت سی الائچیاں اور دفتری ورق طلا کی میرے سامنے لا رکھی اور کہا کہ آپ کے منہ سے بھی لعاب آتا ہے.آپ بھی کھائیں.میں نے ان کو کھانا شروع کیا.ایک آدھ کے کھانے سے چند منٹ کے لئے تخفیف ہو گئی.پھر جب پانی کا آغاز ہوا تو ایک اور کھالیا.غرض مجھے یاد نہیں کہ کس قدر کھا گیا.عشاء کے بعد مجھے بہت تخفیف ہو گئی اور میں نے وطن جانے کی بجائے حرمین کا ارادہ کر لیا.“ (حیات نور باب اوّل صفحہ 48-46) 37
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات کرایہ ریل کی فراہمی کا عجیب نشان بہت دفعہ ایسا ہوتا کہ آپ کسی فوری ضرورت کے تحت بغیر کسی تیاری کے سفر پر روانہ ہو جاتے اور آپ کے پاس کوئی پیسہ نہ ہوتا.مگر آپ کو اپنے خدا پر پورا بھروسہ ہوتا کہ تمام اخراجات اور ضروریات خدا پوری فرمائے گا ایسے ہی ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ”میرے ایک دوست ملک فتح خانصاحب گھوڑے پر سوار میرے پاس آئے.اور فرمایا کہ میں راولپنڈی جاتا ہوں کیونکہ لارڈلٹن نے دہلی میں دربار کیا ہے.بڑے بڑے رئیس تو دہلی بلائے گئے ہیں اور چھوٹے رئیس راولپنڈی جمع ہوں گے اور انہیں تاریخوں میں راولپنڈی میں دربار ہوگا.ہم راولپنڈی بلائے گئے ہیں.میں نے اُن کے کان میں چپکے سے کہا کہ مجھ کو بھی دربار میں جانا ہے.انہوں نے کہا کہ یہ گھوڑا ہے.آپ اس پر سوار ہوجائیں اس وقت جس قدر میرے بیمار تھے وہ وہیں بیٹھے رہ گئے اور میں نے گھر میں بھی اطلاع نہیں کی.اسی وقت سوار ہو کر چل دیا.فتح خاں اور ہم دونوں جب جہلم پہنچے تو وہاں ریل تھی.ملک فتح خاں مرحوم تو راولپنڈی چلے گئے.میں نے کہا میں تو دلی جاتا ہوں.میرے کپڑے بہت ہی میلے ہو گئے تھے.اس لئے میں نے اپنے کپڑے اتار کر ملک حاکم خاں تحصیلدار جہلم کا ایک پاجامہ، پگڑی اور کوٹ پہن لیا جس کے نیچے کر نہ نہ تھا.میں سیر کے لئے نکلا اور ٹہلتا ہوا اسٹیشن جہلم پر پہنچا.میں نے اسٹیشن پر کسی سے دریافت کیا کہ لاہور کا تھرڈ کلاس کا کیا کرایہ 38
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات ہے؟ معلوم ہوا کہ پندرہ آنہ، اس کوٹ کی جیب میں دیکھا تو صرف پندرہ آنے کے پیسے پڑے تھے.میں نے ٹکٹ لیا اور لاہور پہنچا.یہاں بڑی گھمسان تھی.کیونکہ لوگ دربار کے سبب دہلی جا رہے تھے.ٹکٹ کا ملنا محال تھا اور میری جیب میں تو کوئی پیسہ بھی نہ تھا.ایک پادری جن سے کسی مرض کے متعلق طبی مشورہ دینے کے سبب میری پہلے سے جان پہچان تھی.سٹیشن پر مل گئے.ان کا نام گولک ناتھ تھا.انہوں نے کہا کہ آپ کہاں جاتے ہیں.ٹکٹ تو بڑی مشکل سے ملے گا.میں نے کہا مجھ کو دہلی جانا ہے.گولک ناتھ نے کہا.میں جاتا ہوں اور ٹکٹ کا انتظام کرتا ہوں.چنانچہ وہ گئے اور بہت ہی جلد ایک ٹکٹ دہلی کا لائے.میں نے ٹکٹ اُن سے لے لیا.اور جیب میں ہاتھ ڈالا تو پادری صاحب کہنے لگے.آپ میری ہتک نہ کریں.معاف کریں.میں اس کے دام نہ لوں گا اور میں بھی تو دہلی جاتا ہوں.راستہ میں دیکھا جائے گا.میں راستہ میں ان کو تلاش کرتا رہا.وہ نظر نہ آئے اور دہلی کے اسٹیشن پر بھی باوجود تلاش مجھ کو نہ ملے.“ ہم پر کبھی مشکلات نہیں آئیں گے حیات نو ر باب دوم صفحہ 86-87) محترم عبد القادر صاحب سابق سوداگرمل مصنف حیات نور تحریر فرماتے ہیں: جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے.آپ ریاست میں ایک معقول تنخواہ پانے کے علاوہ سال میں متعدد مرتبہ بیش بہا انعام واکرام سے بھی نوازے جاتے تھے مگر وہ ساری رقم آپ طلباء، بیوگان ، یتامی اور دیگر ضرورتمندوں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کر دیتے تھے 39
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات اور بالکل متوکلانہ زندگی بسر کرتے تھے.جموں میں حاکم نام ایک ہندو پنساری رہتا تھا.وہ ہمیشہ آپ کو نصیحتا کہا کرتا تھا کہ آپ ہر ماہ کم از کم ایک صد روپیہ پس انداز کر لیا کریں.یہاں بعض اوقات اچانک مشکلات پیش آجایا کرتی ہیں.مگر آپ اُسے ہمیشہ یہی فرمایا کرتے تھے کہ ایسے خیالات لا نا اللہ تعالیٰ پر بدظنی ہے.ہم پر انشاءاللہ کبھی مشکلات نہ آئیں گے.جس روز آپ کو ملازمت سے علیحدگی کا نوٹس ملا.وہ ہندو پنساری آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب ! شاید آج آپ کو میری نصیحت یاد آئی ہوگی.آپ نے فرمایا.تمہاری نصیحت کو میں جیسا پہلے حقارت سے دیکھتا تھا آج بھی ویسا ہی حقارت سے دیکھتا ہوں.ابھی وہ آپ سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ خزانہ سے چارسو اسی روپئے کی ایک رقم آپ کی خدمت میں اس چٹھی کے ہمراہ پہنچادی گئی کہ یہ آپ کی ان دنوں کی تنخواہ ہے جو اس ماہ میں سے گزر چکے ہیں.اس پنساری نے افسروں کو گالی دے کر کہا کہ ” کیا نوردین تم پر نائش تھوڑا ہی کرنے لگا تھا.ابھی وہ اپنے غصہ کو فرو نہ کرنے پایا تھا کہ ایک رانی صاحبہ نے آپ کے پاس اپنے جیب خرچ کا بہت سارو پیہ بھجوایا اور معذرت بھی کہ اس وقت ہمارے پاس اس سے زیادہ روپیہ نہیں تھا ورنہ ہم اور بھی بھجواتے.اس روپیہ کو دیکھ کر تو اس پنساری کا غضب اور بھی بڑھ گیا.آپ اس وقت ایک لاکھ پچانوے ہزار روپیہ کے مقروض بھی تھے اور اُسے اس قرض کا علم تھا.اس قرض کی طرف اشارہ کر کے وہ کہنے لگا کہ بھلا یہ تو ہوا.جن کا آپ کو قریباً دولاکھ روپیہ دینا ہے وہ اپنا اطمینان کئے بغیر آپ کو کیسے جانے دیں گے.ابھی اس نے یہ بات ختم ہی کی تھی کہ قارض کا ایک آدمی آیا اور بڑے ادب سے ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ میرے پاس ابھی تار آیا ہے.میرے آقا فرماتے ہیں کہ ”مولوی صاحب کو تو جانا ہے.ان کے پاس روپیہ نہ ہوگا.تم اُن کا سب 40
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات سامان گھر جانے کا کر دو اور جس قدر رو پید کی ان کو ضرورت ہو، دیدو، اور اسباب کو وہ ساتھ نہ لیجا سکیں تو تم اپنے اطمینان سے بحفاظت پہنچا دو.آپ نے فرمایا کہ: مجھ کو روپیہ کی ضرورت نہیں.خزانہ سے بھی روپیہ آ گیا ہے اور ایک رانی نے بھی بھیج دیا ہے.میرے پاس روپیہ کافی سے زیادہ ہے اور اسباب میں سب ساتھ ہی لیجاؤں گا“.آپ فرماتے ہیں: میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو جانتا ہے.ہم اس کا رو پید انشاء اللہ جلد ہی ادا کر دیں گے.تم ان بھیدوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے.“ قرض کی ادائیگی کا قصہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسی موقعہ پر اس قرض کی ادائیگی کا قصہ بھی بیان کر دیا جائے.محترم جناب غلام فرید صاحب ایم.اے فرمایا کرتے ہیں کہ جتنا موقعہ مجھے حضرت خلیفتہ اسی الاول کی صحبت میں رہنے کا ملا ہے بہت کم لوگوں کو اتنا موقعہ ملا ہو گا.آپ نے بارہا اس قرض کی ادائیگی کا ذکر فرمایا لیکن یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ قرض حضور نے کس طرح ادا فرمایا.حضور کا زمانہ گزر گیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا زمانہ آیا.اس میں سے بھی کافی عرصہ گزر گیا.میں نے جب قرآن مجید کی انگریزی تفسیر کی طباعت کے سلسلہ میں لاہور آنا شروع کیا تو ایک مرتبہ جناب ملک غلام محمد صاحب قصوری کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اس قرض کی ادائیگی کا ذکر چل پڑا.محترم ملک صاحب مرحوم نے فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب جب سیاسی حالات کے ماتحت مہاراجہ جموں و کشمیر کی ملازمت سے الگ کئے گئے تو بعد میں حالات کے سدھرنے پر مہاراجہ صاحب کو خیال آیا کہ مولوی 41
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات صاحب ایک بہت بڑے حاذق طبیب تھے ان کو ملا زمت سے علیحدہ کرنے میں ہم سے ظلم اور نا انصافی ہوئی ہے انہیں واپس لانے کی کوشش کرنی چاہئے.آپ سے جب عرض کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اب میں ایسی جگہ پہنچ چکا ہوں کہ اگر مجھے ساری دنیا کی حکومت بھی مل جائے تو میں اس جگہ کو نہیں چھوڑ سکتا.چونکہ مہاراجہ صاحب کو اس نا انصافی کا شدت سے احساس تھا.اس لئے انہوں نے اس کا ازالہ کرنے کی یہ تجویز کی کہ اب کی مرتبہ جنگلات کا ٹھیکہ صرف اسی شخص کو دیا جائے جو منافع کا نصف حصہ حضرت مولوی صاحب کو ادا کرے.چنانچہ اسی شرط کے ساتھ ٹینڈر طلب کئے گئے.جس شخص کو ٹھیکہ ملا.اس نے جب سال کے بعد اپنے منافع کا حساب کیا تو خدا تعالیٰ کی حکمت کہ اسے ٹھیک تین لاکھ نوے ہزار روپیہ منافع ہوا.جس کا نصف ایک لاکھ پچانوے ہزار بنتا تھا اور اسی قدر حضور کے ذمہ قرض تھا.چنانچہ جب یہ روپیہ حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حضور نے فرمایا.یہ رو پیدر یاست میں واپس لے جا کر فلاں سیٹھ صاحب کو دیدیا جائے.ہم نے اس کا قرض دینا ہے.دوسرے سال مہاراجہ نے پھر اسی شرط پر ٹھیکہ دیا.لیکن اس سال جب منافع کا نصف روپیہ حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حضور نے لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ نہ اس کام میں میر اسرمایہ لگانہ میں نے محنت کی میں اس کا منافع لوں تو کیوں لوں؟ ٹھیکہ دار نے کہا جناب ! مجھے تو یہ ٹھیکہ ملا ہی اس شرط پر تھا.آپ ضرور اپنا حصہ لے لیں.ورنہ آئندہ مجھے ٹھیکہ نہیں ملے گا.حضور نے فرمایا اب خواہ کچھ ہی ہو میں یہ روپیہ نہیں لوں گا.اس نے کہا.پھر پچھلے سال کیوں لیا تھا؟ فرمایا.وہ تو میرے رب نے اپنے وعدہ کے مطابق میرا قرض اتارنا تھا.جب وہ اُتر گیا تو اب میں کیوں لوں.اس پر وہ ٹھیکہ دار واپس چلا گیا.(حیات نو ر باب سوم صفحہ 180 -182 ) 42
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ محترم عبد القادر صاحب مرحوم سابق سوداگر مل مصنف ”حیات نور اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں : حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب جب ۴-۱۹۰۳ ء میں مولوی کرم دین صاحب والے مقدمہ کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ گورداسپور تشریف لیجایا کرتے تھے تو انہی ایام کا ایک واقعہ مکرم ملک بشیر علی صاحب کنجاہی حال ربوہ نے یوں بیان کیا کہ میں حیدر آباد دکن میں قریباً تیرہ برس تک رہا اور وہاں ٹھیکیداری کا کام کرتا رہا ہوں.میرے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات تھے اور ہم دونوں مدت تک اکٹھے رہتے رہے.ایک دفعہ حضرت عرفانی صاحب نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور ایک مقدمہ کے سلسلہ میں گئے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہاں سے کہلا بھیجا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب فوراً پہنچ جائیں.چنانچہ میں اور حضرت مولوی صاحب دو بجے بعد دو پہر یکہ پر بیٹھ کر بٹالہ کی طرف چل پڑے.شیخ صاحب نے مجھے کہا کہ اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ حضرت مولوی صاحب کہا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں اگر کہیں جنگل بیابان میں بھی ہوں تب بھی خدا تعالیٰ مجھے رزق پہنچائے گا اور میں کبھی بھوکا نہیں رہونگا.آج ہم بے وقت چلے ہیں پتہ لگ جائے گا کہ رات کو ان کے کھانا کا کیا انتظام ہوتا ہے.43
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات ”بٹالہ میں مقامی جماعت کی طرف سے ایک مکان بطور مہمانخانہ ہوا کرتا تھا.اس میں ہم دونوں چلے گئے.حضرت مولوی صاحب وہاں ایک چار پائی پر لیٹ گئے اور کتاب پڑھنے لگ گئے.اس وقت انداز اشام کے چھ بجے کا وقت ہوگا.اچانک ایک اجنبی شخص آیا اور کہنے لگا.میں نے سنا ہے کہ آج مولوی نورالدین صاحب یہاں آئے ہوئے ہیں، وہ کہاں ہیں؟ میں نے کہا وہ یہ لیٹے ہوئے ہیں.کہنے لگا.حضور! میری ایک عرض ہے آج شام کی دعوت میرے ہاں قبول فرمائیے.میں ریلوے میں ٹھیکیداری کرتا ہوں اور میری بیلسٹ ٹرین کھڑی ہوئی ہے اور میں نے امرتسر جانا ہے.میرا ملازم حضور کے لئے کھانا لے آئے گا.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.بہت اچھا.چنانچہ شام کے وقت اس کا ملازم بڑا پر تکلف کھانا لے کر حاضر ہوا.اور ہم دونوں نے سیر ہوکر کھا لیا.شیخ صاحب کہنے لگے.میرے دل میں خیال آیا کہ ان کی بات تو صحیح ہو گئی اور انہیں خدا نے واقعہ میں کھانا بھجوا دیا.چونکہ گاڑی رات دس بجے کے بعد چلتی تھی.میں نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا کہ اندھیرا ہو رہا ہے، پھر مزدور نہیں ملے گا.ہم کسی مزدور کو بلا لیتے ہیں اور سٹیشن پر پہنچ جاتے ہیں.وہاں ویٹنگ روم میں ہم آرام کر لیں گے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.بہت اچھا.چنانچہ میں نے ایک مزدور بلایا...اور وہ ہم دونوں کے بستر لے کر سٹیشن پر پہنچ گیا چونکہ گاڑی رات کے دس بجے کے بعد آتی تھی.میں نے آپ کا بستر کھول دیا تا کہ حضرت مولوی صاحب آرام فرمالیں.جب میں نے بستر کھولا تو اللہ تعالی اس بات کا گواہ ہے کہ اس کے اندر سے ایک کاغذ میں لیٹے ہوئے دو پراٹھے نکلے 44
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات جن کے ساتھ قیمہ رکھا ہوا تھا.میں سخت حیران ہوا اور میں نے دل میں کہا لو بھئی.وہ کھانا بھی ہم نے کھا لیا اور یہ خدا کی طرف سے اور کھانا بھی آ گیا.کیونکہ اس کھانے کا ہمیں مطلقا علم نہیں تھا.” میں نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا کہ حضور جب ہم قادیان سے چلے تھے تو چونکہ اچانک اور بے وقت چلے تھے میں نے دل میں سوچا کہ آج ہم دیکھیں گے کہ مولوی صاحب کو کھانا کہاں سے آتا ہے.سو پہلے آپ کی دعوت ہوگئی اور اب یہ پراٹھے بستر سے بھی نکل آئے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.شیخ صاحب ! اللہ تعالیٰ کو آزمایا نہ کرو اور خدا سے ڈرو.اس کا میرے ساتھ خاص معاملہ ہے.“ حیات نور باب چہارم، مصنفہ محترم عبدالقادر صاحب،سوداگرمل ،صفحہ 273 تا275) آقا کے حکم کی تعمیل میں بغیر کسی تیاری کے دہلی کے لئے نکل پڑے مکرم شیخ عبد القادر صاحب تحریر فرماتے ہیں: ۲۲ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو حضرت اقدس حضرت ام المومنین کو آپ کے خویش و اقارب سے ملانے کے لئے دہلی تشریف لے گئے.ابھی دہلی پہنچے چند ہی دن ہوئے تھے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب بیمار ہو گئے.اس پر حضور کو خیال آیا کہ اگر مولوی نورالدین صاحب کو بھی دہلی بلا لیا جائے تو بہتر ہوگا.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کو تار دلوا دیا.جس میں تار لکھنے والے نے امیجی ایٹ (Immediate) یعنی بلا توقف کے 445
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات الفاظ لکھو کھ دیئے.جب یہ تار قادیان پہنچا تو حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے تھے.اس خیال سے کہ حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو.اسی حالت میں فوراً چل پڑے.نہ گھر گئے نہ لباس بدلا نہ بستر لیا.اور لطف یہ ہے کہ ریل کا کرایہ بھی پاس نہ تھا.گھر والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے پیچھے سے ایک آدمی کے ہاتھ کمبل تو بھجوادیا مگر خرچ بھجوانے کا انہیں بھی خیال نہ آیا اور ممکن ہے گھر میں اتنا روپیہ ہو بھی نہ.جب آپ بٹالہ پہنچے تو ایک متمول ہندو رئیس نے جو گویا آپ کی انتظار ہی کر رہا تھا ، عرض کی کہ میری بیوی بیمار ہے.مہربانی فرما کر اسے دیکھ کرنسخہ لکھ دیجئے.فرمایا.میں نے اس گاڑی پر دہلی جانا ہے.اس رئیس نے کہا.میں اپنی بیوی کو یہاں ہی لے آتا ہوں.چنانچہ وہ لے آیا.آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیا.وہ ہندو چپکے سے دہلی کا ٹکٹ خرید لایا.اور معقول رقم بطور نذرانہ بھی پیش کی.اور اس طرح سے آپ دہلی پہنچ کر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو گئے.( حیات نور باب چہارم، مصنفہ محترم عبد القادر صاحب ،سوداگرمل،صفحہ 285) کھجور نے حیرت انگیز طور پر معجزانہ اثر دکھایا محترم عبد الماجد صاحب طاہر ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن بیان کرتے ہیں:.حضرت چوہدری حاکم دین صاحب کا بیان کردہ ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.چوہدری حاکم دین صاحب قادیان میں بورڈنگ ہاؤس میں ایک معمولی ملازم تھے.آپ کے پہلے بچے کی ولادت کے وقت آپ کی اہلیہ کی تکلیف بہت بڑھ گئی.آپ بیان کرتے ہیں کہ اس حالت میں کوئی اور صورت نہ پاکر میں رات گیارہ بجے حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچا اور چوکیدار سے کہا کہ کیا میں اس وقت حضور سے مل 46 46
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات سکتا ہوں؟ چوکیدار نے نفی میں جواب دیا.لیکن حضور نے میری آواز سن لی اور مجھے اندر بلالیا.میں نے بیوی کی تکلیف کا ذکر کیا.آپ نے کھجور پر دعا پڑھ کر مجھے دی اور فرمایا یہ جا کر اپنی بیوی کو کھلا دو اور جب بچہ ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دے دیں.حضرت حاکم دین صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے وہ کھجورا اپنی بیوی کو کھلا دی.اس کھجور نے حیرت انگیز طور پر معجزانہ اثر دکھایا اور تھوڑی دیر بعد بچی کی ولادت ہوگئی.حضرت حاکم دین صاحب کہتے ہیں کہ میں نے رات کے وقت حضور کو جگانا مناسب نہیں سمجھا کہ آپ سورہے ہوں گے.جب صبح اذان کے وقت حاضر ہوا اور سارا حال عرض کیا تو حضور نے فرمایا: 'بچی پیدا ہونے کے بعد تم میاں بیوی تو آرام سے سور ہے.اگر مجھے بھی اطلاع دے دی ہوتی تو میں بھی آرام کر لیتا.میں تمام رات تمہاری بیوی کیلئے دعا کرتارہا ہوں.“ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حاکم دین صاحب بے اختیار رو پڑے اور کہنے لگے کہاں چپڑاسی حاکم دین اور کہاں نورالدین اعظم.(بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 25 ستمبر 2015 ء تا 1 /اکتوبر 2015 ، صفحہ 14) 47
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ آپ کا پورا نام مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بیٹے ہیں.12 جنوری 1889ء کو پیدا ہوئے.13 / مارچ 1914 ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی وفات کے بعد اگلے روز 14 / مارچ 1914ء کو جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ منتخب ہوئے اس وقت آپ کی عمر صرف 25 سال تھی.7، 8 نومبر 1965ء کی درمیانی شب آپ کی وفات ہوئی.52 سال آپ خلافت کے جلیل القدر منصب پر فائز رہے اور جماعت احمدیہ کو دُنیا کے کناروں تک پہنچایا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موعود فرزند تھے.ویسے تو حضرت مسیح موعود کی ساری ہی اولا د اللہ تعالیٰ کی بشارتوں سے ہوئی لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص بشارات سے نوازا.وہ بشارات جماعت احمدیہ میں پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے مشہور و معروف ہیں.اس پیشگوئی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے زبر دست اوصاف بیان فرمائے ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق یہاں تک فرمایا کہ آپ کا آنا گویا خود خدا کا آنا ہے چنانچہ فرمایا: مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ آپ اللہ تعالیٰ کے وہ نشان تھے جسے اللہ نے دُنیا کی تمام قوموں پر اتمام حجت 49
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات کے لئے نازل فرما یا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع آپ کے متعلق فرماتے ہیں : آپ اُن ممتاز ابنائے آدم میں سے تھے جو صدیوں ہی میں نہیں بلکہ ہزاروں سالوں میں کبھی ایک بار افق انسانیت پر طلوع ہوتے ہیں اور جن کی روشنی صرف ایک نسل کو نہیں بلکہ بیبیوں انسانی نسلوں کو اپنی ضیا پاشی سے منوّر کرتی رہتی ہے.“ (سوانح فضل عمر جلد اول صفحه” و “) بچپن سے ہی آپ بہت نیک، پاک مشقی اور صاحب رؤیا وکشوف تھے.اللہ اور اس کے رسول اور اسلام سے محبت رکھنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انتہائی پاکیزہ صحبت کا آپ پر خاص اثر تھا.نماز سے ایسی محبت تھی کہ لمبی لمبی نمازیں پڑھتے اور سجدوں میں خوب گریہ وزاری کرتے.حضرت مصلح موعودؓ کے تعلق باللہ کے چند ایمان افروز واقعات ذیل میں درج کئے جارہے ہیں :.اُس وقت میں گیارہ سال کا تھا بچپن سے ہی آپ کو خدا کی ہستی موجود ہونے پر یقین حاصل ہو گیا.یہ واقعہ یقیناً حیرت انگیز ہے کہ جس عمر کو بچے محض کھیل کود میں گزار دیتے ہیں اُس عمر میں آپ خدا کی جستجو اور اُس کی ہستی کی تلاش اور ثبوت میں غور و فکر کرتے ہیں.نہ صرف غور و فکر کرتے ہیں بلکہ مثبت نتیجہ پر پہنچ کر انتہائی خوشی حاصل کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: ”جب میں گیارہ سال کا ہوا اور 1900 ء نے دُنیا میں قدم رکھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں اس 50
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات کے وجود کا کیا ثبوت ہے؟ میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا.آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے.وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچے کو اس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا.سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا.میں اپنے جامہ میں پھولا نہیں سماتا تھا.میں نے اسی وقت اللہ تعالیٰ سے دُعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو.اس وقت میں گیارہ سال کا تھا..مگر آج بھی اس دُعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.میں آج بھی یہی کہتا ہوں ” خدایا تیری ذات کے متعلق مجھے کبھی شک پیدا نہ ہو.ہاں اُس وقت میں بچہ تھا.اب مجھے زائد تجربہ ہے.اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدا یا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو.جب میرے دل میں خیالات کی وہ موجیں پیدا ہونی شروع ہوئیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے تو ایک دن ضحی کے وقت یا اشراق کے وقت میں نے وضو کیا اور وہ مجتہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور متبرک ہے یہ پہلا احساس میرے دل میں خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے مقدس ہونے کا تھا، پہن لیا تب میں نے اس کوٹھڑی کا جس میں میں رہتا تھا دروازہ بند کر لیا اور ایک کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی اور میں اس میں خوب رویا ، خوب رویا، خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا.اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا! اس اقرار کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی گو اس نماز کے بعد کئی سال 51
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات بچپن کے ابھی باقی تھے میرا وہ عزم میرے آج کے ارادوں کو شرماتا ہے.“ سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ 96-97) آپ فرش پر سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں حضرت خلیفہ المسیح الرابع فرماتے ہیں کہ ”ہم آپ کے بارہ میں آپ کے بچپن کے دو بزرگ اساتذہ کے تاثرات بیان کرتے ہیں.سیرت کے مطالعہ کا یہ بھی ایک پہلو ہے کہ اُستاد کی آنکھ سے شاگرد کو دیکھا جائے.حضرت مولوی شیر علی صاحب جو آپ کے انگریزی کے اُستاد تھے اور علاوہ مدرسہ کے آپ کو گھر پر بھی پڑھاتے تھے، اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں.حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طالب علمی کا ایک اور واقعہ لکھتا ہوں اس سے بھی آپ کی قلبی کیفیت پر روشنی پڑتی ہے.ایک دن کچھ بارش ہو رہی تھی مگر زیادہ نہ تھی بندہ وقت مقررہ پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.سیڑھیوں کا دروازہ کھٹکھٹایا حضور نے دروازہ کھولا.بندہ اندر آکر برآمدہ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا.آپ کمرہ میں تشریف لے گئے.میں نے سمجھا کہ کتاب لے کر باہر برآمدہ میں تشریف لائیں گے مگر جب آپ کے باہر تشریف لانے میں کچھ دیر ہوگئی تو میں نے اندر کی طرف دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ آپ فرش پر سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں.میں نے خیال کیا کہ آج بارش کی وجہ سے شاید آپ سمجھتے تھے کہ میں حاضر نہیں ہوں گا.اور جب میں آگیا ہوں تو آپ کے دل میں خاکسار کے لئے دعا کی تحریک ہوئی ہے اور آپ بندہ کے لئے دعا فرما رہے ہیں.آپ بہت دیر تک سجدہ 52
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات میں پڑے رہے اور دعا فرماتے رہے.“ سجدہ میں بہت رور ہے تھے (سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ 116 ) نماز میں تضرع و گریہ وزاری اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق محبت کے سوا ممکن نہیں.اللہ تعالی کا آپ پر خاص فضل تھا کہ جو بات بعض کو جوانی اور بعض کو بڑھاپے اور بعض کو عمر بھر حاصل نہیں ہوتی وہ بات آپ کو بچپن سے حاصل تھی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی جو آپ کے بچپن کے اساتذہ میں سے تھے.اپنے تاثرات کا اظہاران الفاظ میں کرتے ہیں : چونکہ عاجز نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت ۱۸۹۰ء کے آخیر میں کر لی تھی اور اس وقت سے ہمیشہ آمد ورفت کا سلسلہ متواتر جاری رہا.میں حضرت اولوالعزم مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کو ان کے بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح ہمیشہ ان کی عادت حیا اور شرافت اور صداقت اور دین کی طرف متوجہ ہونے کی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دینی کاموں میں بچپن سے ہی ان کو شوق تھا.نمازوں میں اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جامع مسجد میں جاتے اور خطبہ سنتے.ایک دفعہ مجھے یاد ہے جب آپ کی عمر دس سال کے قریب ہوگی.آپ مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نماز میں کھڑے تھے اور پھر سجدہ میں بہت رور ہے تھے.بچپن سے ہی آپ کو فطرۃ اللہ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ خاص تعلق محبت تھا.“ (سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 117) 53
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات گریہ وزاری آہ و بکا کا عجیب عالم بچپن سے ہی آپ کے شوق عبادت، نہر کی عادت اور مسجدوں میں گریہ وزاری کا کھینچتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے ایک نہایت ایمان افروز واقعہ اپنی کتاب سوانح فضل عمر میں درج کیا ہے.آپ فرماتے ہیں: بچپن ہی سے آپ کو عبادت الہی کا ذوق و شوق پیدا ہوا اور کم سنی ہی میں آپ نیم شی عبادتوں کے عادی ہو گئے.متعدد روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نماز پنج وقتہ کے علاوہ تہجد کی نماز بھی بالالتزام ادا کیا کرتے تھے.اور نماز کی ادائیگی محض رسمی اور ظاہری نہ تھی بلکہ بڑے خشوع و خضوع اور سوز و گداز کی حامل ہوا کرتی تھی.ایک بچے یا نوجوان کا نمازوں میں گریہ وزاری کرنا اور سجدوں میں دیر تک پڑے رہنا یقیناً بڑوں کے لئے باعث تعجب ہوتا ہے.خصوصاً اس وقت جبکہ ایسے بچے کو کوئی ظاہری صدمہ نہ پہنچا ہواور فکر کی کوئی دوسری وجہ بھی نظر نہ آئے یہ تعجب اور بھی بڑھ جاتا ہے اور دل میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس بچے پر کیا بیتی ہے جو راتوں کو چھپ چھپ کر اُٹھتا اور پلک پلک کر اپنے رب کے حضور روتے ہوئے اپنے معصوم آنسوؤں سے سجدہ گاہ کو تر کر دیتا ہے! یہی تعجب شیخ غلام احمد صاحب واعظ رضی اللہ عنہ کے دل میں بھی پیدا ہوا جو ایک نومسلم تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اخلاص اور ایمان میں ایسی ترقی کی کہ نہایت عابد و زاہد اور صاحب کشف والہام بزرگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے.آپ فرما یا کرتے تھے کہ: 54
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات ایک دفعہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ آج کی رات مسجد مبارک میں گزاروں گا، اور تنہائی میں اپنے مولا سے جو چاہوں گا مانگوں گا.مگر جب میں مسجد میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاح سے دُعا کر رہا ہے.اسکے اس الحاح کی وجہ سے میں نماز بھی نہ پڑھ سکا.اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ پر بھی طاری ہو گیا.اور میں بھی دعا میں محو ہو گیا اور میں نے دعا کی کہ یا الہی ! یہ شخص تیرے حضور سے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے وہ اس کو دے دے اور میں کھڑا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے مگر جب آپ نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ہیں.میں نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا اور پوچھا میاں! آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو یہی مانگا ہے کہ الہی ! مجھے میری آنکھوں سے اسلام کو زندہ کر کے دکھا اور یہ کہ کر آپ اندر تشریف لے گئے.“ خواہیں.الہام اور رؤیتِ الہی سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ 151،150) بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ کا آپ سے ایک خاص تعلق تھا.یہی وجہ تھی کہ آپ کو بچپن ہی سے بکثرت کچی خوا میں آنے لگیں.بچپن میں آپ کو الہام بھی ہوا اور بچپن سے ہی آپ آپ اور آپ نے روئیت الہی کا شرف بھی پایا.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حضرت سید سرور شاہ صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک جلیل القدر صحابی اور جید عالم تھے اور جن کے علم وفضل کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا اور حضرت 55
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات صاحبزادہ صاحب کے اساتذہ میں سے تھے بیان فرماتے ہیں: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی " مجھ سے پڑھا کرتے تھے تو ایک دن میں نے کہا کہ میاں ! آپ کے والد صاحب کو تو کثرت سے الہام ہوتے ہیں.کیا آپ کو بھی الہام ہوتا اور خواہیں وغیرہ آتی ہیں؟ تو میاں صاحب نے فرمایا کہ: مولوی صاحب ! خوا میں تو بہت آتی ہیں اور میں ایک خواب تو تقریباً روز ہی دیکھتا ہوں اور جونہی میں تکیہ پر سر رکھتا ہوں اس وقت سے لے کر صبح کو اٹھنے تک یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک فوج ہے جس کی میں کمان کر رہا ہوں اور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ سمندروں سے گزر کر آگے جا کر حریف کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اگر میں نے پار گزرنے کے لئے کوئی چیز نہیں پائی تو سر کنڈے وغیرہ سے کشتی بنا کر اور اس کے ذریعہ پار ہو کر حملہ آور ہو گیا ہوں.میں نے جس وقت یہ خواب آپ سے سنا اسی وقت سے میرے دل میں یہ بات گڑی ہوئی ہے کہ یہ شخص کسی وقت یقیناً جماعت کی قیادت کرے گا اور میں نے اسی وجہ سے کلاس میں بیٹھ کر آپ کو پڑھانا چھوڑ دیا.آپ کو اپنی کرسی پر بٹھا تا اور خود آپ کی جگہ بیٹھ کر آپ کو پڑھاتا.اور میں نے خواب سن کر آپ سے یہ بھی عرض کر دیا تھا کہ میاں! آپ بڑے ہو کر مجھے بھلا نہ دیں اور مجھ پر بھی نظر شفقت رکھیں.بچپن میں آپ کے الہام کے بارہ میں آپ کے ساتھ کھیلے ہوئے ایک پرانے دوست بیان فرماتے ہیں: شاید یہ امر کسی دوسری جگہ شائع شدہ یا ریکارڈ میں آچکا ہو.لیکن میں اسکا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کو بچپن کے زمانہ میں جب کہ وہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں میرے ساتھ پڑھتے تھے.آپ نے ذکر فرمایا کہ اُن کو یہ آیت الہام ہوئی ہے: 56
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ اور یہ بھی فرمایا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کر دیا تھا کہ یہ یہ الہام مجھے ہوا ہے.نو عمری ہی کے عالم میں اللہ تعالیٰ کی رویت کا شرف بھی آپ کو نصیب ہوا.چنانچہ مسجد احمد یہ لنڈن کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ کے دوران اس رویتِ الہی کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ” مجھے آج تک تین اہم معاملات میں خدا تعالیٰ کی رویت ہوئی ہے.پہلے پہل اس وقت کہ ابھی میرا بچپن کا زمانہ تھا.اس وقت میری توجہ کو دین کے سیکھنے اور دین کی خدمت کی طرف پھیرا گیا اس وقت مجھے خدا نظر آیا اور مجھے تمام نظارہ حشر و نشر کا دکھایا گیا.یہ میری زندگی میں بہت بڑا انقلاب تھا.“ معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی یہ احساس تھا کہ اس بچے کے ساتھ خدا تعالیٰ کا خاص تعلق اس کم عمری کے زمانہ ہی میں شروع ہو چکا ہے.چنانچہ خود حضرت مرز امحمود احمد صاحب بیان فرماتے ہیں: جن دنوں کلارک کا مقدمہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اوروں کو دعا کے لئے کہا تو مجھے بھی کہا کہ دُعا اور استخارہ کرو.میں نے اس وقت رویا میں دیکھا کہ ہمارے گھر کے اردگرد پہرے لگے ہوئے ہیں.میں اندر گیا جہاں سیڑھیاں ہیں وہاں ایک تہ خانہ ہوتا تھا.میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کو وہاں کھڑا کر کے آگے اُپلے چن دیئے گئے ہیں اور اُن پر مٹی کا تیل ڈال کر کوشش کی جارہی ہے کہ آگ لگا دیں.مگر جب دیا سلائی سے 57
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات آگ لگاتے ہیں تو آگ نہیں لگتی وہ بار بار آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں.مگر کامیاب نہیں ہوتے.میں اس سے بہت گھبرایا.لیکن جب میں نے اس دروازے کی چوکھٹ کی طرف دیکھا تو وہاں لکھا تھا کہ: جو خدا کے بندے ہوتے ہیں اُن کو کوئی آگ نہیں جلا سکتی.“ سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 152 تا 154) اللہ تعالی کی تائید و نصرت کا ایک دلچسپ واقعہ مکرم مولانا عبد الرحمن صاحب انور کو مختلف حیثیتوں میں آپ کے ساتھ لمبا عرصہ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی وہ اپنے طویل مشاہدے اور بار ہا کے تجربات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور اگر چہ عام انسان تھے لیکن حضور کے کاموں کو دیکھنے کے بعد ہر شخص یہ تسلیم کرنے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے کہ اس خاص انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بہت ہی خاص تعلق ہے اور اس کی خاص تائید اس کے شامل حال ہے چنانچہ بارہا دیکھا گیا ہے کہ حضور کو کسی ایسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی ہے جو عام حالات میں قریباً ناممکن الحصول ہوتی تھی تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس کے حصول کے سامان ہو جایا کرتے تھے گو یا اللہ تعالیٰ کے فرشتے حضور کے منشاء کی تکمیل میں لگ جایا کرتے تھے.(الفرقان فضل عمر نمبر دسمبر جنوری 1966 ، صفحہ 43) اس تائید الہی کی بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال درج ذیل ہے حضرت فضل عمر فرماتے ہیں: 58
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات چند سال ہوئے مجھے ایک مکان کی تعمیر کے لئے روپیہ کی ضرورت پیش آئی میں نے اندازہ کرایا تو مکان کے لئے اور اس وقت کی بعض ضروریات کے لئے دس ہزار روپیہ درکار تھا.میں نے خیال کیا کہ جائیداد کا کوئی حصہ پیچ دوں یا کسی سے قرض لوں اتنے میں ایک دوست کی چٹھی آئی کہ میں چھ ہزار روپیہ بھیجتا ہوں اس کے بعد چار ہزار باقی رہ گیا ایک تحصیلدار دوست نے لکھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہمیں دس ہزار روپیہ کی ضرورت تھی اس میں سے چھ ہزار تو مہیا ہو گیا ہے باقی چار ہزار تم بھیج دو مجھے تو اس کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آیا اگر آپ کو کوئی ذاتی ضرورت یا سلسلہ کے لئے درپیش ہو تو میرے پاس چار ہزار روپیہ جمع ہے میں وہ بھیج دوں.میں نے انہیں لکھا کہ واقعی صورت تو ایسی ہی ہے بعینہ اسی طرح ہوا ہے.گو یا ضرورت مجھے تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے کہلوانے کی بجائے اس دوست کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منہ سے کہلوادیا.نہ اسے علم تھا کہ مجھے دس ہزار کی ضرورت ہے اور یہ کہ اس میں سے کسی نے چھ ہزار بھیج دیا ہے اور اب صرف چار ہزار باقی ہے اور نہ مجھے علم تھا کہ اس کے پاس روپیہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے خود ہی تمام اس کے لئے انتظام فرما دیا.تو بعض اوقات ایسے مواقع اللہ تعالیٰ خود ہی بہم پہنچا دیتا ہے.اس کے خاص بندوں کے لئے یہ صورت عام ہوتی ہے اور عام بندوں کے لئے شاذ کے طور پر لیکن سب ہی کے لئے حقیقی نصرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے.( الفضل 11 جولائی 1939 صفحہ 4 ) (سوانح فضل عمر جلد پنجم ص 64،63).59
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات خواجہ خضر ہماری دعوت کیجئے تعلق باللہ کا ایک دلچسپ واقعہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے سید نا حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ : ”ایک دفعہ میں کشتی میں بیٹھا دریا کی سیر کر رہا تھا اور بھائی عبدالرحیم صاحب میرے ساتھ تھے.میرے لڑکے ناصر احمد نے بچپن کے لحاظ سے کہا کہ ابا جان اگر اس وقت ہمارے پاس کوئی مچھلی بھی ہوتی تو بڑا مزہ آتا.اس وقت یکدم میرے دل میں ایک خیال پیدا ہوا لوگ تو خواجہ خضر سے کچھ اور مراد لیتے ہیں مگر میں یہ سمجھا کرتا ہوں کہ خضر ایک فرشتہ ہے جس کے قبضہ میں اللہ تعالیٰ نے دریا ر کھے ہوئے ہیں.جب ناصر احمد نے یہ بات کہی تو میں نے کہا خواجہ خضر ہم آپ کے علاقہ میں سے گزر رہے ہیں ہماری دعوت کیجئے اور ہمیں کھانے کے لئے کوئی مچھلی دیجئے.جونہی میں نے یہ فقرہ کہا بھائی جی کہنے لگے آپ نے یہ کیا کہدیا کہ خواجہ خضر ہماری دعوت کریں.اس سے تو بچے کی عقل ماری جائے گی مگر ابھی بھائی جی کا یہ فقرہ ختم ہی ہوا تھا کہ یکدم ایک بڑی سی مچھلی کو دکر ہماری کشتی میں آگری.میں نے کہا لیجئے بھائی جی دعوت کا سامان آ گیا.وہ حیران ہو گئے کہ یہ کیا ہو گیا کہ ادھر میری زبان سے یہ نکلا کہ خواجہ خضر ہم آپ کے علاقہ سے گزررہے ہیں ہماری دعوت کیجئے اور ادھر انہوں نے یہ کہا کہ آپ کیا کہتے ہیں خواجہ خضر بھی کہیں دعوت کیا کرتے ہیں کہ یکدم ایک بڑی سی مچھلی ہماری کشتی میں آپڑی اور میں نے کہا بھائی جی لیجئے.مچھلی آگئی.چنانچہ اس کے بعد ہم نے وہ مچھلی پکا کر تبرک کے طور پر سب ہمراہیوں کو تھوڑی 60
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات تھوڑی چکھائی کہ یہ ہمارے خدا کی طرف سے مہمان نوازی ہوئی ہے.“ (الفضل 22 مئی 1960 صفحہ 5،4)(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ 98) جو خدا وہاں ہے وہی یہیں ہے سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ 360 پر عبدالباسط شاہد صاحب تحریر فرماتے ہیں: ۱۹۵۳ء میں جب پنجاب میں فسادات رونما ہوئے ، احمدیت کی شدید مخالفت کی گئی احمدیوں کے گھروں کو آگئیں لگائی گئیں اور اس قسم کی افواہیں سننے میں آئیں کہ کہیں آپ پر بھی ہاتھ نہ ڈالا جائے اور گرفتار نہ کر لیا جائے.چنانچہ اُن دنوں میں قصر خلافت کی تلاشی بھی لی گئی لیکن آپ کی طبیعت میں ذرہ بھر بھی گھبراہٹ نہ تھی سکون سے اپنے کام جاری تھے.جو لوگ آپ سے محبت کرتے تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ چند روز کے لئے باہر چلے جائیں بلکہ گھبرا کر کراچی کے بعض ذمہ دار دوست آپ کو لینے کے لئے بھی آگئے کہ آپ وہاں چلے چلیں چند دن میں یہ شورش ختم ہو جائے گی.آپ نے ان دوستوں کا ہمدردانہ مشورہ سنا تھوڑی دیر کے لئے اندر آئے اور آکر دعا شروع کر دی.دعاختم کر کے باہر تشریف لے گئے اور جا کر ان دوستوں سے کہا کہ میں ہرگز جانے کے لئے تیار نہیں جو خدا وہاں ہے وہی یہیں ہے.اللہ تعالیٰ میری یہیں حفاظت کرے گا اور جو مجھ پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے عذاب اور گرفت سے ڈرے.چنانچہ چند ہی دن میں ملک میں انقلاب آگیا.جو مخالفت میں اُٹھے تھے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور جوان کے سرکردہ تھے وہ الہی گرفت میں آئے.“ ( سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ 360) 61
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات خدا یا تو مجھے ایک روپیہ دلا اللہ تعالیٰ کا اپنے جس بندے سے خاص تعلق ہو وہ اُس کی خواہش کو مخالف سے مخالف حالات میں بھی پورا کر دیتا ہے.آپ کے تعلق باللہ کا ایک واقعہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے آپ نے اللہ سے ناز برداری کرتے ہوئے دل میں ایک خواہش کی اور اللہ نے اُسے پورا کر دیا.آپ فرماتے ہیں:.میں نے ایک دفعہ جس طرح خدا سے ناز کرتے ہیں اس سے ناز کرتے ہوئے ایک دعا کی.وہ جوانی کے ایام تھے اور ہم ایک ایسی جگہ سے گزرر ہے تھے جہاں اس دعا کے قبول ہونے کی بظاہر کوئی صورت نہ تھی مگر محبت الہی کے جوش میں اس سے ناز کرتے ہوئے میں نے کہا خدایا تو مجھے ایک روپیہ دلا.میں اس وقت جالندھر اور ہوشیار پور کی طرف گیا ہوا تھا اور کا ٹھگڑھ سے واپس آرہا تھا کہ اس سفر میں ایک ایسے علاقے سے گزرتے ہوئے جہاں کوئی احمدی نہ تھا میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا.شاید اللہ تعالیٰ اپنی قدرت ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ جنگل میں سے گزرتے ہوئے میرے دل سے یہ دعا نکلی.حاجی غلام احمد صاحب اور چوہدری عبد السلام صاحب میرے ساتھ تھے.اتنے میں چلتے چلتے ایک گاؤں آ گیا اور ہم نے دیکھا کہ اس گاؤں کے دو چار آدمی باہر ایک مکان کے آگے کھڑے ہیں.حاجی صاحب اور چوہدری عبد السلام صاحب ان کو دیکھتے ہی میرے دائیں بائیں ہو گئے اور کہنے لگے.اس گاؤں کے لوگ احمدیت کے سخت مخالف ہیں اگر کوئی احمدی ان کے گاؤں میں سے 62
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات گزرے تو یہ لوگ اسے مارا پیٹا کرتے ہیں.آپ درمیان میں ہو جائیں تا کہ یہ لوگ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں.اتنے میں ان میں سے ایک شخص نے جب مجھے دیکھا تو میری طرف دوڑ پڑا انہوں نے سمجھا کہ شاید حملہ کرنے کے لیے آیا ہے مگر جب وہ میرے قریب پہنچا تو اس نے سلام کیا اور ہاتھ بڑھا کر ایک روپیہ پیش کیا کہ یہ آپ کا نذرانہ ہے.گاؤں سے باہر نکل کر وہ دوست حیران ہو کر کہنے لگے ہمیں تو ڈر تھا کہ یہ شخص آپ پر حملہ نہ کر دے.مگر اس نے تو نذرانہ پیش کر دیا.میں اس وقت ان کی بات سے یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ خیال غالباً اسی لیے پیدا کیا تھا کہ وہ اپنی قدرت کو ظاہر کرنا چاہتا اور بتانا چاہتا تھا کہ لوگوں کے دل میرے اختیار میں ہیں غرض جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق آتا ہے تو ایسی ایسی جگہوں سے آتا ہے کہ انسان کو اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا.قریب تھا کہ میں مرجاتا (سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ ۹۷) نماز کی محبت تعلق باللہ کی ایک بہت بڑی دلیل ہے.اللہ سے تعلق جتنا شدید ہوگا نماز کی محبت بھی اتنی ہی شدید ہوگی.اس پہلو سے آپ کے تعلق باللہ کا ایک واقعہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ” مجھے یاد ہے چند سال ہوئے.میں ایک دفعہ دفتر سے اٹھا تو مغرب کے قریب جب کہ سورج زرد ہو چکا تھا مجھے یہ وہم ہو گیا کہ آج مجھے کام میں 63
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات مصروف رہنے کی وجہ سے عصر کی نماز پڑھنی یاد نہیں رہی جب یہ خیال میرے دل میں آیا تو یکدم میرا سر چکرایا اور قریب تھا کہ اس شدت غم کی وجہ سے میں اس وقت گر کر مر جاتا کہ معا اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے یاد آ گیا کہ فلاں شخص نے مجھے نماز کے وقت آکر آواز دی تھی اس وقت میں نماز پڑھ رہا تھا پس میں نماز پڑھ چکا ہوں لیکن اگر مجھے یہ بات یاد نہ آتی تو اس وقت مجھ پر اس غم کی وجہ سے جو کیفیت ایک سیکنڈ میں ہی طاری ہوگئی وہ ایسی تھی کہ میں سمجھتا تھا اب اس صدمہ کی وجہ سے میری جان نکل جائے گی.میر اسر یکدم چکرا گیا اور قریب تھا کہ میں زمین پر گر کر ہلاک ہو جاتا.“ وہ جلد ہی ان پر فضل کرے گا حضرت سیدہ مہر آپ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: ( سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحه ۶۱) 1953ء کے فسادات کا زمانہ تھا.محض احمدیت کی دشمنی کی بناء پر حضرت میاں ناصر احمد صاحب ( خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ ) اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو قید کر لیا گیا.گرمیوں کے دن تھے.عشاء کے وقت ہم حسب معمول صحن میں اکٹھے بیٹھ کر رات کا کھانا کھا رہے تھے.اس موقع پر میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا' پتہ نہیں! میاں ناصر احمد اور مرزا شریف احمد صاحب کا اس گرمی میں کیا حال ہوگا ؟ خدا معلوم انہیں جیل میں کوئی سہولت بھی میسر ہے یا نہیں؟ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے جواباً فرمایا: اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے.وہ صرف اس جرم پر ماخوذ ہیں کہ ان کا 64
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات کوئی جرم نہیں.اس لئے مجھے اپنے خدا پر کامل یقین و ایمان ہے کہ وہ جلد ہی ان پر فضل کرے گا.“ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ عشاء کی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے.میں گریہ وزاری کا وہ منظر بھول نہیں سکتی جو اس وقت میری آنکھوں نے دیکھا.اس گریہ میں تڑپ اور بے قراری بھی تھی.اس میں ایمان و یقین کامل کا بھی مظاہرہ تھا.یہی منظر پھر میں نے تہجد کے وقت دیکھا.اس وقت حضرت مصلح موعود بلند آواز سے نہایت عجز اور رقت کے ساتھ دعائیں مانگ رہے تھے.چنانچہ جب دن چڑھا اور ڈاک کا وقت ہوا تو پہلا تار جو ملا وہ یہ خوشخبری لئے ہوئے تھا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور میاں ناصر احمد صاحب رہا ہو چکے ہیں.کتنی جلدی میرے خدا نے مجھے قبولیت دعا کا معجزہ دکھایا.( بحواله الفضل انٹر نیشنل 25 ستمبر 2015 ء تا 1 /اکتوبر 2015، صفحہ 14) 65
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفتہ اسیح الثالث رحمه الله سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں.آپ ۹ نومبر ۱۹۶۵ء کوخلیفہ منتخب ہوئے.8 - 9 جون 1982ء کی درمیانی شب آپ کی وفات ہوئی.آپ کم و بیش ساڑھے سولہ سال خلافت پر متمکن رہے.اس عرصہ میں آپ نے افریقہ، امریکہ، کینڈا اور یورپ کے دورے کئے اور جماعت کو خوب مضبوط اور مستحکم کیا اور اسلام احمدیت کی اکناف عالم میں تبلیغ کی.بالخصوص یورپ کے آپ نے متعدد دورے کئے اور اسلام کی خوب تبلیغ واشاعت کی اور افراد جماعت کی مؤثر رنگ میں تربیت کرتے ہوئے خدا، رسول خداصلی ال ای ایم اور خلافت کی محبت کو راسخ کیا.9 اکتوبر 1980ء کو آپ نے سپین کے شہر قرطبہ میں مسجد بشارت کی سنگ بنیاد رکھی.744 سال بعد سپین میں تعمیر ہونے والی یہ پہلی مسجد تھی آپ کے ساڑھے سولہ سالہ دورِ خلافت میں بہت سے عظیم الشان کام ہوئے.اس دوران جماعت پر مشکل گھڑیاں بھی آئیں لیکن ہر مشکل گھڑی کا آپ نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور جماعت کی خوب ڈھارس بندھائی.اللہ تعالیٰ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارت دی تھی اِنَّا نُبَرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةً لَكَ یعنی ہم تجھے پوتے کی بشارت دیتے ہیں.اس بشارت کے آپ مصداق تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق بشارت 67
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات دی تھی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں : و مجھے بھی خدا نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا“ ( الفضل 8 ا پریل 1915ء) پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بشارت دی تھی اس کے مطابق آپ جوانی سے ہی اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گئے.اپنی زندگی اسلام کی خاطر وقف کر دی اور بیک وقت کئی ذمہ داریاں اُٹھاتے اور کئی کئی خدمات سرانجام دیتے رہے.یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ جوانی سے لیکر وفات تک آپ کا ہر لمحہ اسلام کی خدمت میں گزرا.ذیل میں آپ کے تعلق باللہ کے کچھ واقعات بیان کئے جاتے ہیں :.ہم آپ کو مسیحا تسلیم کرلیں گے سید نا حضرت مصلح موعود جیسے عظیم الشان باپ کی انتہائی پاکیزہ اور روحانی محبت میں پرورش پانے کے نتیجہ میں آپ پچپن سے ہی نیک اور متقی تھے اور خدمت دین اور خدمت اسلام کے جذ بہ کولیکر بڑے ہوئے.خدمت اسلام کا جو جذ بہ اور تعلق باللہ کے جو خیالات آپ کے سینہ میں بچپن سے ہی موجزن تھے جوانی میں اِن الفاظ میں ڈھل کر باہر نکلا دنیا کے کام بے شک کرتا رہوں گا میں بھی لیکن میں جان و دل سے اس یار کا رہوں گا“ یہ شعر آپ کی اللہ سے محبت اور آپ کے تعلق باللہ کا خوب پتہ دیتا ہے جو 68
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات محض 19 سال کی عمر میں آپ کی زبان مبارک سے نکلا.آگے چل کر آپ کے عرفان کا کیا عالم ہوگا اس کی صحیح عکاسی کرنا ہمارے بس کی بات نہیں.اسی نظم میں آگے چل کر آپ فرماتے ہیں:.چمکوں گا میں فلک پر جیسے ہو کوئی تارا بھولوں کو رہ پہ لاوے ایسی میں شمع ہوں گا عالم کو میں معطر کر دوں گا اس مہک سے خوشبو سے جس کی ہر دم مد ہوش میں رہوں گا اخلاق میں میں افضل علم و ہنر میں اعلیٰ احمد کی رہ پہ چل کر بدر الدجی بنوں گا سارے علوم کا ہاں منبع ہے ذات جسکی اس سے میں علم لے کر دنیا کو آگے دوں گا“ حیات ناصر از محمود مجیب اصغر صفحه ۵۹،۵۸) ان الله اشعار کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جوانی سے ہی بنی نوع انسان کی خدمت اور اُن کی اپنے خالق و مالک کی طرف رہبری کی آگ آپ کے سینے میں سلگ رہی تھی.ذیل میں ایک دلچسپ واقعہ درج کیا جاتا ہے جس سے جوانی کے زمانے سے ہی آپ کے تعلق باللہ پرز بر دست روشنی پڑتی ہے.” جب قدرت ثانیہ کا تیسرا ظہور ہوا اور حضور نے خلعت خلافت زیب تن فرمائی تو انہی دنوں پروفیسر ڈاکٹر ناصر احمد خان پروازی کا فیصل آباد کی ایک محفل میں جانا ہوا جہاں حضور کے ایک کلاس فیلو بھی تشریف فرما تھے ، غالباً 69
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات نواب زادہ میاں حامد احمد خان کے اعزہ میں سے تھے اور غیر از جماعت تھے.ڈاکٹر پروازی صاحب سے ملے تو کہنے لگے بھئی مبارک ہو آپ کو نیا لیڈر بہت خوب ملا ہے ہم اکھٹے پڑھتے تھے.اور ہم انہیں کہا کرتے تھے کہ آپ کے دادا جان کا تو ہمیں پتہ نہیں لیکن اگر آپ نبوت کا دعوی کر دیں تو ہم آپ کو مسیحا تسلیم کر لیں گے.عاجز عرض کرتا ہے کہ یہ محض ایک نو جوانوں والا مذاق نہیں تھا.حضور کے تقوی طہارت کا ایسا ہی اثر ملنے والوں پر ہوا کرتا تھا.“ مجھے دُنیا کی طرف کوئی رغبت نہیں حیات ناصر، از محمود مجیب اصغر صفحه ۶۷،۶۶) اُردو میں جوانی دیوانی کا محاورہ مشہور ہے.یعنی جوانی میں انسان سے غلطیاں اور لغزشیں ہو جاتی ہیں.لیکن آپ کی جوانی اللہ اور اس کے رسول کی محبت اسلام اور بنی نوع انسان کی خدمت کے جذبہ سے سرشار تھی.دراصل آپ در جوانی تو به کردن شیوہ پیغمبری کے مصداق تھے.جوانی میں جبکہ دنیاوی اُمنگیں خوب انگڑائیاں لیتی ہیں آپ کا دل محض خدمتِ اسلام کے جذبہ سے لبریز تھا.آپ کا تقوی وطہارت اور پاکیزہ جوانی کی بہتوں نے گواہی دی ہے.مزید دو واقعات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.آپ اپنے زمانہ طالب علمی میں اپنے خاندان کے دوسرے نو جوانوں صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب وغیرہ کے ہمراہ انگلستان کے علاقہ ڈیون شائر کی ایک انگریز خاتون کے فارم میں چھٹیاں گزار نے تشریف لے جایا کرتے تھے آپ کے زمانہ خلافت میں سابق امام مسجد فضل لندن مکرم بشیر احمد رفیق صاحب کے استفسار پر اس معمر خاتون نے بتایا:.وہ سامنے کمرہ ہے جس میں وہ ہمیشہ ٹھہرا کرتے تھے اور صبح صبح جب 70
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات میں ان کے کمرہ کے آگے سے گزرتی تو ایک عجیب بھنبھناہٹ کی مسحور کن آواز آیا کرتی جو کبھی کھڑے ہو کر میں چند منٹ سنا کرتی.ایک دن میں نے ناصر سے پوچھا کہ تم صبح سویرے کیا پڑھتے رہتے ہوجس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا تو ناصر نے بتایا کہ وہ اپنی مقدس کتاب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں.اسی خاتون نے یہ بھی فرمایا کہ ایک شام کھانے پر جب حضور رحمہ اللہ اور دوسرے صاحبزادگان موجود تھے یہ ذکر چل پڑا کہ مستقبل میں ان کے کیا ارادے ہیں.ہر ایک نے بتایا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور کس پیشے کو اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.جب حضور رحمہ اللہ کی باری آئی تو آپ نے فرمایا کہ میں خدمت اسلام کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اپنی زندگی اس مقصد کے لئے وقف کرنے کا عزم کئے بیٹھا ہوں.مجھے اور کوئی خواہش نہیں اور نہ ہی مجھے دنیا کی طرف کوئی رغبت ہے.“ مجھے معلوم ہے کون خلیفہ ہوں گے حیات ناصر، از مجیب اصغر صفحه 104 ، 105 ) مکرم بشیر احمد صاحب رفیق سابق امام مسجدلندن انگلستان لکھتے ہیں.۱۹۶۵ء میں جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا انتقال ہوا تو میں مسجد فضل لندن کا امام تھا.مرکز سلسلہ سے ہزاروں میل دور ہم سب احمدیان برطانیہ مرکز کی طرف سے کسی خبر کی طرف کان لگائے بیٹھے دعاؤں میں مصروف تھے اور اس بات کا شدت اور بے قراری سے انتظار ہورہا تھا کہ مسند خلافت ثالثہ پر کون متمکن ہوتے ہیں.اس کیفیت میں جب جماعت کے 71
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات بہت سارے احباب مشن ہاؤس لندن میں جمع تھے ہمارے انگریز مسلمان احمدی بھائی مسٹر بلال منثل مرحوم میرے پاس آئے اور کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ کون خلیفہ ہوں گے.میں حیران ہوا کہ ان کو قبل از وقت کیسے معلوم ہوا کہ کون مسند خلافت پر رونق افروز ہو گا.مسٹرنٹل نے ایک تصویر میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے شدت جذبات سے گلو گیر آواز میں کہا یہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کی تصویر ہے جو انہوں نے لندن مسجد کے باغ میں کھنچوائی تھی اور مجھے مرحمت فرمائی تھی.میں ان دنوں سے جب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب آکسفورڈ کے طالب علم تھے ان کو جانتا ہوں ان کے بے حد قریب رہا ہوں اور تقویٰ اللہ حسن اخلاق اور عشق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو جھلک میں نے ان میں دیکھی وہ مجھے اس یقین محکم پر قائم کرتی ہے کہ اس منصب جلیلہ کے اس وقت وہی اہل ہیں اور جماعت یقیناً اس امانت کو ان کے ہی سپر د کرے گی.مسٹر بلال نثل مرحوم کی موجودگی ہی میں مرکز سے بذریعہ تار یہ اطلاع ملی کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلافت ثالثہ کے منصب جلیلہ پر فائز ہو گئے ہیں اور اس طرح ایک انگریز نو مسلم کی دور رس نگاہ نے جوانی ہی میں اس بے بہا گوہر کو شناخت کر لیا تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے مستقبل میں عظیم کام لینے تھے اور حضور کی پارسائی ، خدا ترسی ، تقویٰ اللہ اور عشق محمد رسول اللہ سایہ تم پر ان کو گواہ ٹھہرانے کا شرف عطا فر مایا.“ حیات ناصر، از محمود مجیب اصغر، صفحہ 103 ، 104 ) 72
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات سلسلہ کی غلامی کو سب عرب توں سے معز ز سمجھتا ہوں اسلام کی خدمت کو اپنے لئے سب سے معز زسمجھنا اور اس کی خدمت کے لئے اپنی زندگی کو وقف کر دینا اور اس کے بغیر اپنی زندگی کو محض بے کار اور فضول سمجھنا، ایسے خیالات صرف اُس شخص کے ہو سکتے ہیں جس کا اللہ اور اس کے رسول سے گہرا تعلق ہو.آپ کا ایک خط پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو آپ نے اپنے والد محترم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خدمت میں لکھا.خط کا ایک حصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے.آپ لکھتے ہیں." سیدی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته ایک طرف حضور کے خطبات منافقین کے متعلق نظر سے گزرے دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پڑھنے کا اتفاق ہوا.کہیں آپ فرماتے ہیں کہ میری نظر ان غریبوں پر ہے جو نہ بی.اے بننا چاہتے ہوں.اور نہ ایم.اے بلکہ نیک انسان اور خادم دین.دل پر بہت گہرا اثر ہوا...حضور کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اگر حضور مناسب فرماویں.تو بندہ ہمیشہ کی طرح اب بھی فوراً خدمت سلسلہ کے لئے حاضر ہے.بی اے اور ایم اے بننے کا مجھے کبھی بھی شوق نہیں ہوا اور خدا تعالیٰ شاہد ہے.گواس کا اظہار پہلے نہ ہو سکا اور گو بعض اور خیالات نے اس کی طرف مجبور کیا.گو وقف کنندہ ہوں مگر پھر دوبارہ اپنے کو حضور کے سامنے پیش کرتا ہوں.بندہ اسی وقت سے خدمت احمدیت کے لئے حاضر ہے.اور سلسلہ کی غلامی کو سب عزتوں سے معزز سمجھتا ہے اور سلسلہ کی خدمت سے علیحدہ رہتے ہوئے اپنی 73
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات زندگی کو خالی اور فضول پاتا ہوں.وما توفیقی الا باللہ “ فقط خاکسار مرزا ناصر احمد حضرت المصلح الموعود کو اس خط سے جو راحت اور خوشی پہنچی اس کا اظہار آپ نے ایک خط میں فرمایا جس کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے.پیارے ناصر احمد السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ تمہارے ارادہ میں برکت ڈالے.میں خود اس بارہ میں باوجود شدید احساس کے کچھ کہنا پسند نہیں کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ وہ خود ہی تم کو نیک ارادہ کی توفیق دے کیونکہ میرے نزدیک میری تحریک پر تمہارے ارادے کو بدلنا تمہارے ثواب کو ضائع کر دیتا.سوالحمد للہ کہ تمہارا دل اس طرف متوجہ ہوا.“ شیروانی جیسے گھوم گئی (حیات ناصر، ازمحمود مجیب اصغر صفحه، 108،107) اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت کا ایک دلچسپ واقعہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.اس سے آپ کے تعلق باللہ پر خاص روشنی پڑتی ہے.۱۹۷۹ء۱۹۸۰ء کے زمانے کی بات ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے اسلام آباد میں مغرب و عشاء کی نمازوں کے بعد مجلس عرفان میں اپنی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت آپ لاہور میں تھے صاحبزادہ مرزا القمان احمد پیدا ہونے والے 74
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات تھے اور آپ اپنی بیگم سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو ہسپتال داخل کروا کر آئے.تہجد کی نماز پڑھ کر تکیے پر سر رکھا ہی تھا کہ الہاما بتایا گیا کہ گرفتاری ہونے والی ہے اور اس سے چند ہی لمحوں کے بعد ملٹری آگئی اور اس نے تلاشی لینا چاہی.آپ نے فرمایا کہ جب وہ آپ کی شیروانی کی جیبوں میں ہاتھ ڈالنے لگے جو الماری میں کھونٹی کے ساتھ لٹک رہی تھی تو اس کی ایک جیب میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کا ایک خط تھا جس میں اگر چہ کوئی ایسی بات نہیں تھی.جس سے کوئی خطرہ لاحق ہوتا لیکن آپ پسند نہیں کرتے تھے کہ وہ خط تلاشی لینے والا افسر پڑھے.جب تلاشی لینے والے افسر نے ایک جیب کی تلاشی لی اور اپنا ہاتھ دوسری جیب میں ڈالنا چاہا جس کے اندر خط تھا تو شیر وانی جیسے گھوم گئی اور اس کا ہاتھ پھر پہلی جیب میں چلا گیا اور اس طرح دو تین مرتبہ ہوا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت سے وہ خط ان کے ہاتھ نہ لگا.جو فوجی افسر آپ کو پکڑنے آئے ان کو آپ نے فرمایا ” مجھے تو آپ کے آنے کا پتہ تھا میں تو انتظار کر رہا تھا آپ نے دیر کر دی.قید کے دوران ایک معجزہ حیات ناصر از محمود مجیب اصغر صفحه ۱۷۱ ۱۷۲) خود سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ نے مستورات سے خطاب کرتے ہوئے جلسہ سالانہ ۱۹۶۹ ء کے موقعہ پر فرمایا: میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ جب ایک موقع پر ظالمانہ طور پر ہمیں بھی قید میں بھیج دیا گیا.گرمیوں کے دن تھے اور مجھے پہلی رات اس تنگ کوٹھڑی میں رکھا گیا جس میں ہوا کا کوئی گزرنہیں تھا اور اس قسم کی کوٹھڑیوں میں ان 75
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات لوگوں کو رکھا جاتا ہے جنہیں اگلے دن پھانسی پر لٹکایا جانا ہو.زمین پر سوتا تھا.اوڑھنے کے لئے ایک بوسیدہ کمبل تھا اور سرہانے رکھنے کے لئے اپنی اچکن تھی.بڑی تکلیف تھی.میں نے اس وقت دعا کی کہ اے میرے رب! میں ظلم کر کے چوری کر کے کسی کی کوئی چیز مارکر یا غصب کر کے یا کوئی اور گناہ کر کے اس کو ٹھڑی میں نہیں پہنچا.میں اس جگہ اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ جہاں تک میرا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ میں تیرے نام کو بلند کرنے والا تھا.میں اس جماعت میں شامل تھا جو تو نے اس لئے قائم کی ہے کہ نبی اکرم صلی یہ تم کی محبت دلوں میں پیدا کی جائے.میرے رب ! مجھے یہاں آنے سے کوئی تکلیف نہیں ، مجھے کوئی شکوہ نہیں، میں کوئی گلہ نہیں کرتا، میں خوش ہوں کہ تو نے مجھے قربانی کا ایک موقع دیا ہے اور میری اس تکلیف کی میری اپنی نگاہ میں بھی کوئی حقیقت اور قدر نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میں اس جگہ جہاں ہوا کا گزر نہیں سو نہیں سکوں گا.میں یہ دعا کر رہا تھا اور میری آنکھیں بند تھیں.میں بلا مبالغہ آپ کو بتاتا ہوں کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے نزدیک ایک ائیر کنڈیشنر لگا ہوا ہے اور اس سے ایک نہایت ٹھنڈی ہوا نکل کر پڑنی شروع ہوئی اور میں سو گیا.جا یہاں سے چلا جا حیات ناصر از محمود مجیب اصغر صفحه 173 ) 1954ء کی بات ہے سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر آپ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی تعمیر کی مکمل نگرانی فرمارہے تھے.سخت دھوپ اور انتہائی تمازت 76
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات کے دن تھے.لیکن آپ تھے کہ موسم کی سختی سے بے پرواہ اپنے آقا کے حکم کی تعمیل میں رات دن ایک کئے بیٹھے تھے.اس دوران ایک ایمان افروز واقعہ رونما ہوا جس سے آپ کے تعلق باللہ پر روشنی پڑتی ہے.چوہدری محمد علی صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ لکھتے ہیں :- " اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کے بھی عجیب عجیب معجزے دیکھے.جب ہال کا منٹل (lintel) پڑنے والا تھا اور کثیر مقدار میں سیمنٹ اور مصالحہ بھگو کر تیار کیا جاچکا تھا تو سیاہ بادل اٹھا اور گھر کر چھا گیا.آپ نے ہاتھ اٹھا کر بادل کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ یہ غریب جماعت کی خرچ کی ہوئی رقم ہے.اگر تو برساتو یہ رقم ضائع ہو جائے گی.جایہاں سے چلا جا.دراصل آپ کی اللہ کے حضور یہ ایک رنگ میں فریاد تھی جو قبول ہوئی اور جس طرح ابر آیا تھا اسی طرح چلا گیا.“ اللہ نے میرا شبہ دور کرنا تھا حیات ناصر، از محمود مجیب اصغر، صفحہ 189) آپ کی نماز تہجد پڑھنے کا واقعہ صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ بیان کرتی ہیں :.میں اکثر سوچا کرتی کہ اکثر لوگ اپنے تہجد پڑھنے وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں.ابا نے کبھی نہیں کیا.نہ ہی میں نے کبھی پڑھتے دیکھا.اللہ تعالیٰ نے میرا شبہ دُور کرنا تھا اس لیے ایک بار میری آنکھ کھلی ، آدھی رات کے وقت بہت پیاس لگ رہی تھی ، پانی پینے جانے کے لئے ابا کے کمرے سے گزرنا پڑا وہاں دیکھا کہ ابا نفل پڑھ رہے ہیں.پانی پی کرواپس آئی تو سلام پھیر چکے تھے ہلکی 77
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات روشنی میں میں نے دیکھا کہ چہرے پر شرمندگی کے آثار تھے جیسے میں نے کوئی چوری پکڑ لی ہو.اللہ سے محبت حیات ناصر، از محمود مجیب اصغر، صفحہ 218،217) آپ کی حرم ثانی محترمہ سید طاہر وصدیقہ ناصر صاحبہ فرماتی ہیں:.حضور ( حضرت خلیفہ اسیح الثالث ) کا اپنے رب کے ساتھ تعلق حقیقت میں اپنے اندر کتنی گہرائی اور وسعت رکھتا تھا.اس کی تفصیل تو نہ میں جانتی ہوں اور نہ بیان کرنے کی طاقت رکھتی ہوں.لیکن آج بھی میرے کانوں میں اپنی نقار یر اور خطبات میں آپ کا بارہا کہا ہوا ایک لفظ شیرینی گھولتا ہے.کس محبت سے آپ ”رب“ کا لفظ ادا کیا کرتے تھے.اور ادائیگی کے اس انداز میں ہی بہت کچھ آجاتا تھا.آپ کی زندگی کا مقصد ، اور آپ کے دل کی تڑپ صرف یہی تھی کہ دنیا میں ” تو حید خالص کا قیام ہو.اور ساری دنیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.سواپنے رب کے حضور ہی التجا کرتے ہیں:.”اے ہمارے اللہ! ہمارے پیارے رب ! تو ایسا کر کہ تیرے یہ کمزور اور بے مایہ بندے تیرے لئے بنی نوع کے دل جیت لیں اور تیرے قدموں میں انہیں لا ڈالیں.ایسا کر کہ تا ابد دنیا کے ہر گھر اور ان گھروں میں بسنے والے ہر دل سے لا الہ الا اللہ مُحمد رسُول اللہ کی صدا اور دُنیا کی ہر زبان سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوتار ہے.“ از جلسہ سالانہ کی دعائیں صفحہ ۱۸) 78
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات پھر اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں :.اے ہمارے رحمن ! ان ہی ہاتھوں کو اپنی رحمت سے یدِ بیضا کر دے.تیرا جمال اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن دنیا پر چمکے اور تیرا جلال اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا پر ظاہر ہو اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مغرور دشمن کا سرنگوں اور شرمندہ کر دے.“ آپ جب نماز ادا کر رہے ہوتے تو اس وقت آپ کے چہرے پر انتہائی رقت کا عالم ہوتا.میں نے کئی بار نماز پڑھتے ہوئے آپ کے چہرے کو غور سے دیکھا آپ کے ماتھے پر پڑنے والی شکنوں سے محسوس ہوتا کہ آپ نے اپنی پوری توجہ اس طرف مبذول کی ہوئی ہے اور چہرے سے حقیقتاً ایسے لگ رہا ہوتا جیسے آپ رور ہے ہوں.( حضرت مرزا ناصر احمد، از سیدہ طاہرہ صدیقہ ناصر، صفحہ 163) قبولیت دعا کا معجزہ آپ کے دور خلافت میں ساری جماعت نے قبولیت دعا کے ان گنت مظاہرے دیکھے ان میں سے کچھ تو مختلف مضامین میں ضبط تحریر میں آچکے ہیں لیکن بے شمار ایسے ہیں جو کہ صرف ذہنوں میں محفوظ ہیں.ایک روز آپ اپنے کمرے میں اپنے بستر پر تشریف فرما تھے.فرمایا:.”دیکھو اللہ تعالیٰ کا مجھ پر کتنا فضل ہے ، میں تو اس کا عاجز بندہ ہوں لیکن میں منہ سے نکال دیتا ہوں کہ بیٹا ہو گا اور وہ بیٹا دے دیتا ہے." یہ بات کہتے ہوئے آپ کا لہجہ، آپ کی آواز ، آپ کے چہرے کا تاثر آج بھی 79
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات نظروں کے سامنے ہے.انتہائی عاجزانہ رویہ اور اپنے رب کی محبت میں ڈوبا ہوا چہرہ تھا.چنانچہ بارہا ایسا ہوا کہ آپ نے بچے کے لئے صرف لڑکے کا ہی نام بتا یا اورلڑ کا ہی ہوا.یا پھر بچی کا نام دیا تو بچی ہی پیدا ہوئی.یہ واقعات تو بے شمار ہیں.بہت سے گھروں میں جہاں سال ہا سال سے اولاد نہیں ہو رہی تھی آپ کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے شادی کے کئی کئی سال بعد بچے عطا فرمائے.افریقہ کی ایک عورت کے ہاں شادی کے ۴۰ سال بعد جبکہ وہ اولاد پیدا کرنے کی عمر سے بھی گزر چکی تھی ، آپ کی دُعا کی برکت سے اولا دہوئی.لا تعداد مریضوں کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں آپ کی دُعا کی برکت سے شفا عطا فرمائی.صرف ایک نا قابل یقین واقعہ پیش ہے.مولوی عبد الکریم صاحب کا ٹھگڑھی شاہد مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ Multiple Myeloma جیسی مہلک بیماری ( کینسر کی ایک قسم ) میں مبتلا ہو گئے.بیماری بالکل آخری حدوں تک پہنچ چکی تھی اور بے ہوشی طاری تھی.ڈاکٹر لا علاج قرار دے چکے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں دُعا کے لئے عرض کیا گیا.آپ نے پیغام بھجوایا کہ:- سچی بوٹی صبح شام دی جائے اور ہسپتال میں رہنے دیا جاوے دعائیں خاص کی جارہی ہیں.“ چنانچہ احیائے موتی کے معجزہ کے حامل حضرت مسیح موعود کے اس روحانی جانشین کی دُعاؤں کی برکت سے حقیقتاً ایک مُردہ زندہ ہوا.اور پھر ان مولوی صاحب کو خدا تعالیٰ نے ۶،۱۵ اسال مزید زندگی عطا فرمائی.80
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات 197 ء میں آپ گھوڑے سے گر گئے کمر کے تین مہروں میں فریکچر تھا.فرمایا :- ڈاکٹروں نے مجھے کہا کہ اب آپ کبھی بھی اکڑوں نہیں بیٹھ سکیں گے.میں نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی خدایا میری ذمہ داریاں ایسی ہیں تو مجھے شفادے“.تین ماہ تک آپ صاحب فراش رہے اور اس کے بعد معجزانہ رنگ میں اللہ تعالیٰ نے شفا دی اور آپ حسب سابق اپنی ذمہ داریاں ادا فرماتے رہے.الحمد للہ علی ذالک ( حضرت مرزا ناصر احمد، از سیدہ طاہرہ صدیقہ ناصر ، صفحہ 168،167) اس (خُدا تعالیٰ ) کے ہاں کوئی بات انہونی نہیں حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ربوہ میں مجھے ایک شخص کا خط ملا کہ اس کے دوعزیزوں کو سزائے موت کا فیصلہ ہوا ہے اور اصل مجرم تو بچ گیا ہے لیکن ہم جو مجرم نہیں انہیں سزامل رہی ہے.ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے.بظاہر بچنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں.اب ہم رحم کی اپیل کر رہے ہیں.ہمارے لئے دعا کریں.چنانچہ میں نے انہیں لکھا کہ میں دعا کروں گا.خدا تعالی بڑا ہی قادر اور رحیم ہے.اس کے ہاں کوئی بات انہونی نہیں.مایوس نہ ہوں.چند دنوں کے بعد مجھے ان کا خط ملا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے عدالت نے انہیں اس جرم سے بری الذمہ قرار دیا ہے.( بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 25 ستمبر 2015 ء تا 1 /اکتوبر 2015 ، صفحہ 14) 81
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات کون کہتا ہے کہ آرام نہیں آسکتا ؟ محمد امین خالد صاحب جرمنی سے بیان کرتے ہیں کہ آج سے 45 سال قبل میرے سینے کی ہڈی میں درد اُٹھا.مختلف ڈاکٹروں سے علاج کروایا.ہر قسم کے ٹیسٹ کروائے گئے.لیکن درد میں کوئی فرق نہیں پڑا.بالآخر ڈاکٹر ز بھی بے بس ہو گئے اور مجھے لا علاج قرار دے دیا اور کہا کہ اب جو چند دن زندگی کے باقی رہ گئے ہیں وہ اسی تکلیف میں گزارو.اسی دوران 1980ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ ہمبرگ تشریف لائے.خاکسار استقبال کے لئے قطار میں کھڑا تھا.خاکسار نے شرف مصافحہ حاصل کرتے ہوئے اپنی تکلیف بتادی اور کہا کہ ڈاکٹروں نے لا علاج قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ اب مجھے اس تکلیف سے نجات نہیں مل سکتی.اس پر حضور نے بڑے پر جلال انداز میں فرمایا: کون کہتا ہے کہ آرام نہیں آسکتا؟ پھر حضور نے میری قمیص کا ایک بٹن اپنے دستِ مبارک سے کھولا اور میرے سینے پر ایک دائرہ بنایا اور فرمایا کہ کیا یہاں درد ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا 'جی حضور !.اس پر حضور نے فرمایا.ہم دعا کریں گے.انشاء اللہ آرام آجائے گا.گھبرائیں مت.!“ چنانچہ امین صاحب بتاتے ہیں کہ آج اس واقعہ کو 35 سال ہو چکے ہیں اور وہ دن اور آج کا دن میری یہ حالت ہے کہ جیسے یہ تکلیف مجھے بھی ہوئی ہی تھی.( بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 25 ستمبر 2015 ء تا 1 اکتوبر 2015، صفحہ 15) 82
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات ضرور نرینہ اولاد سے نوازے گا میاں محمد اسلم صاحب آف پتو کی لکھتے ہیں: 1965ء میں میری شادی ہوئی.شادی کے بارہ سال گزر گئے مگر کوئی اولاد نہ ہوئی.تمام رشتہ دار غیر احمدی تھے.رشتوں داروں اور گاؤں والوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ قادیانی ہو گیا ہے لہذا ابتر رہے گا.میں نے ہر قسم کا علاج کروایا لیکن اولاد نہ ہوئی.اسی اثناء میں خاکسار نے حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ کی خدمت میں تمام حالات لکھ کر درخواست دعا کی.خط کے جواب میں حضور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور ضرور نر بینہ اولاد سے نوازے گا، خلیفہ وقت کی اس دعا کے بعد میرے چار لڑکے ہوئے.سب لوگ حیران تھے کہ اس کی اولا د کس طرح ہوگئی حالانکہ لیڈی ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اس عورت سے اولا د ہونے کا سوال ہی نہیں.یعنی طبی لحاظ سے یہ عورت اولا د پیدا نہیں کرسکتی.اس پر میں لوگوں کو بتا تا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ نشان ہے جواللہ تعالیٰ نے خلیفہ اسیح کی دعا کی برکت سے دیا.( بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 25 ستمبر 2015 ء تا 1 /اکتوبر 2015، صفحہ 15) ا بمطابق اصل سہواً لکھا گیا ہے جبکہ رشتہ داروں ہونا چاہیئے.پبلشر 83
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مرزا طاہر احمدخلیفہ المسحالت اب رحمہ اللہ تعالی 19 دسمبر 1928ء کو قادیان دار الامان میں پیدا ہوئے.آپ کو امام وقت زمانہ کے مسیح و مہدی کا پوتا اور مصلح موعود خلیفہ شانی کا بیٹا ہونے کا فخر حاصل ہے.ظاہر ہے کہ ایسے عظیم الشان دادا اور ایسے عظیم الشان باپ کے کردار واوصاف کو دیکھتے ، پڑھتے اور سنتے ہوئے پرورش پانا ، تقوی وطہارت بہترین تعلیم و تربیت اور اعلیٰ کردار و اوصاف کی ضمانت مہیا کر دیتا ہے.والد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور والدہ حضرت مریم بیگم صاحبہ کی بہترین تعلیم و تربیت کا آپ پر گہرا اثر تھا.اس کالازمی نتیجہ تھا کہ آپ بچپن سے ہی متقی ، پرہیز گار، اللہ تعالیٰ کی ہستی پر غور و تدبر کرنے والے تھے.آپ نے دنیاوی تعلیم کے علاوہ جامعہ احمد یہ ربوہ کی تعلیم بھی مکمل کی اور شاہد کی ڈگری حاصل کی.10 جون 1982ء کو آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چوتھے خلیفہ منتخب ہوئے.جب آپ چھوٹے تھے اُس وقت ہی آپ کے والد ماجد حضرت مصلح موعود کو اللہ تعالیٰ نے الہاما بتا دیا تھا کہ طاہر بڑا ہوکرخلیفہ بنے گا.تعلیم مکمل کرتے ہی آپ جماعت کی خدمت میں مصروف ہو گئے.بہت سارے اہم اہم عہدوں پر فائز رہ کر خدمت کی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص علمی لیاقت وصلاحیت اور تقریر وتحریر کا بہترین ملکہ عطا فرمایا تھا.خلافت سے قبل آپ کی مجلس سوال و جواب میں دُور دُور سے لوگ آکر شریک ہوتے.85
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات آپ کا کم و بیش 21 سالہ دور خلافت عظیم الشان کارناموں سے بھرا پڑا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو بڑے بڑے معجزات دکھائے.بظاہر ناممکن نظر آنے والے حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بحفاظت لندن پہنچایا.اسلم قریشی کو جو ایک سازش کے تحت روپوش ہو گیا تھا باہر نکال کر ملاؤں کو، جو اُس کے اغواء اور قتل کا الزام خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ پر لگا رہے تھے اور ظالم ضیاء الحق کو ذلیل ورسوا کیا.حضور رحمہ اللہ کے مباہلہ کے نتیجہ میں بدنام زمانہ وفرعون زمانہ ڈکٹیٹر صدر پاکستان ضیاء الحق کو ہلاک کیا جس نے پاکستان کے احمدیوں پر بے تحاشا مظالم ڈھائے تھے.حضور رحمہ اللہ نے وقف نو کی عظیم الشان تحریک کا اجرا فر ما یا.عالمی بیعت کا آغاز آپ کے دور خلافت میں ہوا.ایم ٹی اے کے عظیم الشان روحانی مائدہ کی داغ بیل آپ نے ڈالی اور اسے پروان چڑھایا.جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ نماز کی محبت دراصل اللہ ہی کی محبت ہے.اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونا اُس سے دُعائیں کرنا اور اُس پر کامل بھروسہ ہونا یہ تعلق باللہ کی دلیل ہوتی ہے.ذیل میں آپ کی قبولیت دعا اور نماز سے عشق ومحبت کے واقعات درج کئے جاتے ہیں:.جس کی دُعا قبول ہوگی اُسے دو گیلن پٹرول اور کار ملے گی ایک دفعہ کا ذکر ہے حضرت خلیفہ السیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنے اہل و عیال سمیت (ایک سفر سے.ناقل ) قادیان واپس آرہے تھے.راستے میں پتہ چلا کہ گاڑی کا پٹرول تو ختم ہونے کو ہے.پٹرول کے پیمانے کی سوئی صفر کے نشان تک پہنچ گئی ہے.دراصل انہیں چلتے وقت پٹرول لینا یاد نہیں رہا تھا.اب آدھا سفر ہو چکا تھا اور آدھا باقی تھا اور منزل مقصود 86 98
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات یعنی قادیان تک راستے میں دور دور تک کسی پٹرول پمپ کا وجود تک نہیں تھا.(حضرت) خلیفہ ثانی بچوں کو مخاطب کر کے فرمانے لگے.بچو! آؤ ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ اے اللہ اس مشکل کو راستے کا روگ نہ بنا اور اپنے خاص تصرف سے ہمیں اسی طرح قادیان پہنچا دے.میں وعدہ کرتا ہوں کہ جس کی دعا بھی قبول ہوئی میں اسے قادیان پہنچ کر دو گیلن پیٹرول اور کار کے استعمال کی اجازت دے دوں گا.ہو سکتا ہے یہ بات (حضرت) خلیفہ ثانی نے سرسری طور پر ہماری تربیت کے لئے کہی ہو.بہر حال ہوا یہ کہ صاحبزادہ طاہر احمد کے بھائی بہنوں نے تو کوئی خاص تو جہ اس طرف نہیں دی لیکن کم سن طاہر احمد بڑی سنجیدگی اور یک سوئی سے اللہ کے حضور دعا میں مشغول رہے یہاں تک کہ اسی حالت میں کار قادیان پہنچ گئی.قادیان پہنچے تو طا ہر احمد بے اختیار پکار اٹھے.’ابا جان میں مسلسل دعا کرتا رہا ہوں.میں اس وقت سے دعا کرتا چلا آ رہا ہوں جس وقت آپ نے دعا کے لئے فرمایا تھا.چنانچہ (حضرت ) خلیفہ ثانی نے وعدے کے مطابق دو گیلن پٹرول اور کار کے استعمال کی اجازت دے دی اور طاہر احمد مزے سے سیر و تفریح کے لئے روانہ ہو گئے.خدا کی جستجو اور تلاش اور تعلق باللہ ایک مردِ خدا ، صفحہ 78،77) یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جب ابھی آپ بچے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچپن سے آپ کو دُعا سے کتنا گہرا لگاؤ تھا.ابھی جوانی کی دہلیز پر بمشکل قدم رکھا تھا کہ اللہ کی جستجو 87
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات اور تلاش سوال بن کر آپ کے دل و دماغ پر چھا گئی کہ اگر اللہ کی ہستی ہے اور یقینا ہے تو اس کا ثبوت آپکی ذات میں ملنا چاہئے چنانچہ آپ دن رات دُعاؤں میں لگ گئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دُعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور خواب کے ذریعہ اپنی ہستی کا ثبوت دیا.آپ فرماتے ہیں : یہ میری زندگی کا سخت ترین دن تھا.ایک کرب اور اضطراب کی کیفیت تھی جو اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی.ایک غیر مرئی اور غیر محسوس قوت پر ایمان لانا اور اس پر اپنی ساری زندگی کی نظری اور فکری عمارت تعمیر کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا.یہ ایک چیلنج تھا جو در پیش تھا.جس نے مجھے شدید خلجان میں مبتلا کر دیا ایک عجیب اذیت ناک کیفیت تھی جس سے میں دو چار تھا.مجھے یقین تھا کہ اصولاً تو خدا کا وجود لازمی ہے.لیکن کیا حقیقتاً بھی وہ موجود ہے؟ اور اگر ہے تو کیا مجھے وہ اپنا چہرہ دکھائے گا؟“ کبھی وہ مسجد میں جا کر گھنٹوں عبادت میں مشغول رہتے اور کبھی اپنے کمرے ہی میں ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.میں خدا کے حضور دعا کرتا اور کہتا کہ ”اے خدا! اگر تو موجود ہے تو مجھے تیری تلاش ہے.تو مجھے بتا کہ تو ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھٹک جاؤں.کیا مجھ پر اس گمراہی کی ذمہ داری تو نہیں ہوگی ؟ اور پھر سوچتا کہ شاید ہو بھی.پھر میں دعا کرتا کہ اے خدا یہ ذمہ داری مجھ پر تو عائد نہیں ہونی چاہئے.“ کتاب ”ایک مرد خدا کے مصنف آئن ایڈم سن تحریر فرماتے ہیں: پھر ایک سہ پہر وہ ایک ایسے روحانی تجربے سے گذرے جس کی وجہ سے ہستی باری تعالی سے متعلق سوال ان پر ہمیشہ کے لئے حل ہو گیا.وہ خود کہتے ہیں کہ اگر اس تجربے کو 88
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات معروضی انداز سے جانچا جائے تو اسے ہستی باری تعالیٰ کا بہت زبر دست اور طاقتور ثبوت تو نہیں کہا جا سکتا لیکن انہیں یقین ہے کہ یہ جواب تھا اس دعا کا جو انہوں نے کی تھی فرماتے ہیں.یہ خواب اور بیداری کے درمیان ایک قسم کی نیم غنودگی کی سی کیفیت تھی.میں نے دیکھا کہ ساری زمین سکڑ کر ایک گیند کی شکل اختیار کر گئی ہے.جس پر دور دور تک کسی جاندار مخلوق کے کوئی آثار نظر نہیں آتے.نہ زندگی کی چہل پہل ہے نہ ہی شہر ہیں نہ آبادیاں.غرضیکہ کچھ بھی تو نہیں.پس زمین ہی زمین ہے کیا دیکھتا ہوں کہ اچانک زمین کا ذرہ ذرہ کانپنے لگا ہے اور ایک زناٹے سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے ہمارا خدا! ہمارا خدا! ایک ایک ذرہ اپنے وجود کی علت غائی کا بآواز بلند اعلان کر رہا تھا.ساری کائنات ایک عجیب قسم کی روشنی سے بھر گئی ایک ایک ذرے اور ایک ایک ایٹم نے ایک سر اور تال کے ساتھ پھیلنا اور سکٹر نا شروع کیا میں نے محسوس کیا کہ ان کے ہمراہ میں بھی یہ الفاظ دوہرا رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں ”ہمارا خدا.ہمارا خدا کتاب کے مصنف تحریر کرتے ہیں کہ اب وہ مکمل بیداری کی حالت میں واپس آچکے تھے لیکن اس نظارے کو بدستور دیکھ رہے تھے اس کے بعد ان کے تمام شکوک ہمیشہ کے لئے رفع ہو گئے.الہام الہی اور تعلق باللہ ایک مرد خدا صفحہ 81 تا 83) جب بذریعہ خواب اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت آپ کو مل گیا.اور اس کے بعد آپ کی دعائیں بھی پے در پے قبولیت کا درجہ پانے لگیں.تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے الہام و کلام 89
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات سے نواز ا الہام اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایسا ثبوت ہوتا ہے کہ اس کے بعد اگر ساری دُنیا بھی انکار کر دے الہام پانے والا خدا کی ہستی کا کبھی انکار نہیں کر سکتا بلکہ وہ اس کی محبت میں ترقی پر ترقی کرتا ہے.آپ فرماتے ہیں.دراصل جب میں بچپن میں بھی دعا کرتا تو اسے قبولیت کا شرف حاصل ہو جا تا لیکن کبھی کبھی میں یہ بھی سوچا کرتا کہ کہیں اس احساس میں میرے اپنے ذہن ہی کا عمل دخل نہ ہو.لیکن جب میں نے ہستی باری تعالیٰ کے ناقابل تردید ثبوت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا اور میری عاجزانہ دعا ئیں اس کثرت سے قبول ہونے لگیں تو لا محالہ یہ امر بجائے خود میرے لیے ایک معین اور زندہ ثبوت کے طور پر کھل کر میرے سامنے آ گیا.مجھے یقین ہے کہ قبولت دعا کے ان واقعات کا اتفاق یا حادثات سے ہرگز کوئی تعلق نہیں تھا.یہاں تک کہ ہستی باری تعالیٰ کی یہ تائیدی شہادت پھیلتی بڑھتی اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی حتی کہ وہ وقت بھی آن پہنچا جب خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے براہ راست اپنے الہام کے انعام سے سرفراز فرما دیا.قبولیت دعا اور تعلق باللہ ایک مرد خدا صفحہ 85،84) قبولیت دعا تعلق باللہ کی ایک بہت بڑی دلیل ہوتی ہے.اور جب خدا کسی کو اپنا خلیفہ بنالے تو پھر اُس کی دُعائیں بکثرت قبول کرتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص خلیفہ بننے کے بعد اپنے خدا سے تعلق میں بہت آگے بڑھ جاتا ہے.پس جس قدر تعلق بڑھتا جاتا ہے اُس کی دعائیں بھی قبولیت کے درجہ کو پہنچتی جاتی ہیں.90
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات آپ کی قبولیت دعا کے چند واقعات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: دُعا کرتے وقت اگر چہ الہاما تو نہیں بتایا جا تا کہ میری دعا قبول ہوگئی لیکن قرآن کریم کی کوئی آیت اچانک میرے دل پر نازل ہو جاتی ہے جس کا بہت گہرا ربط اس مسئلے سے ہوتا ہے جس کے حل کے لئے میں دعا کر رہا ہوں تو میں سمجھ لیتا ہوں کہ یہ ایک پیغام ہے اور اس امر کی علامت ہے کہ میری دعا قبول ہو گئی ہے.میں جب دعا کرتا ہوں تو واقعات ایک ترتیب اور تسلسل سے نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں جنہیں کسی صورت میں بھی محض اتفاق نہیں قرار دیا جاسکتا.یہاں تک کہ کسی ملحد یا منکر کے لئے بھی انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں :- یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب میں اپنی بیگم اور بچوں کے ہمراہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سفر کر رہا تھا.مجھے اندیشہ تھا کہ ایک نو وارد کی حیثیت سے بعض شہروں میں کہیں راستہ نہ بھول جاؤں.اس امکان کے پیش نظر میں دعا میں لگ گیا.اچانک ذہن میں قرآن کریم کی ایک آیت کوند گئی.مجھے اطمینان ہو گیا کہ اب نہ تو راستہ بھولوں گا اور نہ ہی بھوک پیاس کی وجہ سے کسی قسم کی پریشانی لاحق ہوگی.آدھی رات کے بعد کوئی ڈیڑھ بجے کے قریب ہم شکا گو پہنچ گئے.شکاگو ایک وسیع وعریض شہر ہے اور میلوں تک پھیلا ہوا ہے.عین ممکن ہے کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس کی لمبائی ۹۶ میل سے قریب رہی ہو.ہوسکتا ہے.یہ اندازہ درست نہ ہو 91
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ شہر کے ایک سرے سے دوسرے تک فاصلے بہت طویل ہیں.اتفاق کی بات ہے میرے پاس شہر کا نقشہ بھی نہیں تھا.میں نے اپنی بیگم اور بچوں سے کہا کہ وہ کار ہی میں اطمینان سے سو جائیں.میں خود گاڑی چلا رہا تھا.پہلے چند مرتبہ سیدھے ہاتھ مڑا اور چند مرتبہ الٹے ہاتھ اور خاصی دیر تک گاڑی چلاتا چلا گیا.میں نے ایک پٹرول پمپ پر گاڑی روکی اور وہاں سے مسجد احمد یہ میں فون کیا.پتہ چلا کہ مسجد احمد یہ دو ایک گلیوں پر قریب ہی ہے.اس سے ملتا جلتا واقعہ ناروے میں بھی پیش آیا.ہم نے ایک راہ چلتے شخص.انگریزی زبان میں یہ پوچھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے میزبان کہاں رہتے ہیں.اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا.ہاں.بے شک وہ تو میرے پڑوسی ہیں اور ساتھ والے مکان میں رہتے ہیں.ہالینڈ میں بھی ایسا ہی تجربہ ہوا.ہم نے وہاں کچھ بچوں سے پوچھا ” بچو کیا بتا سکتے ہو کہ مسجد احمد یہ کہاں ہے؟ وہ بولے مسجد احمد یہ؟ واہ یہ کوئی بات ہے.مسجد تو قریب ہی ہے.آیئے ہمارے ساتھ آیئے.“ ایسے واقعات بار بار اور ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ ہوئے اور اس انداز سے ہوئے ہیں کہ میرے لیے یہ کہنا ناممکن ہوگیا کہ میں انہیں محض اتفاق یا حادثہ کہ کر ٹال دوں.دُعا کے متعلق سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:.دن ہو یا رات دعا تو ہماری روح کی غذا ہے.جس طرح زندگی کے لیے جسم کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح بھی دعا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی.ایک مرد خدا صفحہ 348 تا 351) 92
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات آپ فرماتے ہیں: ” مجھے یاد ہے گھانا میں ایک چیف کو میرے ہاتھ پر قبول حق کی توفیق ملی.اس سے پہلے وہ مذہباً عیسائی تھے.نرینہ اولاد کی حسرت دل میں لئے پھرتے تھے.دو مرتبہ ان کی اہلیہ کا حمل ضائع ہو چکا تھا اور اب وہ مایوس ہو چکے تھے ، انہوں نے مجھے دعا کے لیے کہا.کہنے لگے کہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بیٹا دے اور میری اہلیہ بھی صحت و عافیت اور خیریت سے رہے.میں نے چیف اور اس کی بیگم کے لیے بڑی تضرع اور درد سے دعا کی اور انہیں لکھا کہ اللہ تعالیٰ میری اور ان کی دعاؤں کو ضرور شرف قبولیت بخشے گا.کچھ مدت کے بعد ان کی طرف سے اطلاع ملی کہ خدا تعالیٰ نے دُعائیں سن لی ہیں اور انہیں ایک صحت مند بیٹے سے نوازا ہے“.آپ فرماتے ہیں:.” جب بھی کوئی مشکل در پیش ہو تو آپ خدا کے حضور دعا میں لگ جائیں اگر آپ دعا کرنے کو اپنی عادت بنالیں تو ہر مشکل کے وقت آپ کو حیران کن طور پر خدا کی مدد ملے گی اور یہ وہ بات ہے جو میری ساری عمر کا تجربہ ہے اب جبکہ میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہوں تو میں یہ بتا تا ہوں کہ جب بھی ضرورت پڑی اور میں نے خدا کے حضور دعا کی تو میں کبھی نا کام نہیں ہوا.ہمیشہ اللہ تعالیٰ (الفضل 5 اگست 1999 ء ) نے میری دعا قبول کی.نماز کا التزام اور تعلق باللہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے پرائیویٹ سیکر یٹری مکرم منیر احمد جاوید صاحب لکھتے ہیں :.آپ کو نماز سے اس قدر عشق تھا کہ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا.آپ 93
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات بیماری میں کمزوری کے باوجود کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے رہے.آخری بیماری کے دوران شدید کمزوری کے باوجود آپ جس طرح سہارا لے کر اور چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے ہوئے بیوت الذکر ( مساجد.ناقل ) میں نماز پڑھانے کے لئے تشریف لاتے اسے تو جماعت کبھی بھی بھلا نہیں سکتی.آپ کبھی بھی نماز کو قضا نہیں ہونے دیتے تھے.حضور حضر میں ہوتے اور موسم خواہ سرد ہوتا یا گرم، بارش ہورہی ہوتی یا برف باری کا سماں ہوتا تو آپ کسی بھی قسم کی پرواہ کئے بغیر ہمیشہ خانہ خدا میں ہی جا کر نماز ادا کیا کرتے تھے.سفروں میں نماز پڑھنے کا حال بھی سن لیں.ناروے کے ایک سفر کے دوران ہم نے انتہائی سردی میں بحری جہاز کے کھلے ڈیک پر بھی آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی ہوئی ہے اور اسی طرح سخت گرمی اور مچھروں کی یلغار کے وقت الا سکا میں بھی نماز پڑھی ہوئی ہے.یورپ کے سفروں میں سڑک کے کنارے مناسب جگہ دیکھ کر نمازوں کے لئے رکنے کی ہدایت تو ہمیشہ جاری رہی.آپ کبھی نماز کو قضاء نہیں ہونے دیتے تھے.آپ کی زندگی تو قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوة کا نمونہ تھی کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے.“ (ماہنامہ تحریک جدید سید ناطاہر نمبر صفحہ 56) آپ کی عبادت الہی اور شوق نماز کا ایک دلچسپ واقعہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.آپ فرماتے ہیں:.مجھے وہ لمحہ بہت پیارا لگتا ہے جو ایک مرتبہ لندن میں New Year's day کے موقع پر پیش آیا.یعنی اگلے روز نیا سال چڑھنے والا تھا اور عید کا سماں تھا.رات کے بارہ بجے سارے لوگ ٹریفا لگر سکوائر (Trafalgar Square) میں اکھٹے ہوکر دنیا جہان کی بے حیائیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں.کیونکہ جب رات کے بارہ بجتے ہیں تو پھر وہ یہ 94
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات سمجھتے ہیں کہ اب کوئی تہذیبی روک نہیں، کوئی مذہبی روک نہیں ، ہر قسم کی آزادی ہے.اس وقت اتفاق سے وہ رات بوسٹن اسٹیشن پر آئی.مجھے خیال آیا جیسا کہ ہر احمدی کرتا ہے اس میں میرا کوئی خاص الگ مقام نہیں تھا.اکثر احمدی اللہ کے فضل سے ہر سال کا نیا دن اس طرح شروع کرتے ہیں کہ رات کے بارہ بجے عبادت کرتے ہیں.مجھے بھی موقع ملا.میں بھی وہاں کھڑا ہو گیا.اخبار کے کاغذ بچھائے اور دونفل پڑھنے لگا.کچھ دیر کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر کھڑا ہو گیا ہے اور پھر نماز میں نے ابھی ختم نہیں کی تھی کہ مجھے سکیوں کی آواز آئی چنانچہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ ایک بوڑھا انگریز ہے جو بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا ہے.میں گھبرا گیا.میں نے کہا پتہ نہیں یہ سمجھا ہے میں پاگل ہو گیا ہوں اس لیے شاید بیچارہ میری ہمدردی میں رو رہا ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے تو اس نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں ہوا میری قوم کو کچھ ہو گیا ہے.ساری قوم اس وقت نئے سال کی خوشی میں بے حیائی میں مصروف ہے اور ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے رب کو یاد کر رہا ہے.اس چیز نے اور اس موازنہ نے میرے دل پر اس قدر اثر کیا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکا.چنانچہ وہ بار بار کہتا تھا: God bless you God bless you God bless you God bless you ( خدا تمہیں برکت دے.خدا تمہیں برکت دے.خدا تمہیں برکت دے.خدا تمہیں برکت دے.خدا تمہیں برکت دے.) خطبه جمعه فرمودہ 20 راگست 1982 ، مطبوعہ الفضل ربوہ 31اکتوبر 1983 ) 95 95
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات آنکھوں کی کایا پلٹنی شروع ہوئی حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰ جولائی ۱۹۸۶ء میں بیان فرمایا : ڈھاکہ کے ایک احمدی دوست اپنے ایک دوست کے متعلق جو احمدی نہیں لکھتے ہیں کہ میں ان کو سلسلے کا لڑ یچر بھی دیتا رہا اور کیسٹس بھی سناتا رہا.جس سے رفتہ رفتہ ان کا دل بدلنے لگا.جماعت کے لڑیچر سے وابستگی پیدا ہو گئی اور وہ شوق سے لڑیچر مانگ کر پڑھنے لگے.اس دوران ان کی آنکھوں کو ایسی بیماری لگ گئی کہ ڈاکٹروں نے یہ کہہ دیا کہ تمہاری آنکھوں کا نور جا تار ہے گا اور جہاں تک دنیوی علم کا تعلق ہے ہم کوئی ذریعہ نہیں پاتے کہ تمہاری آنکھوں کی بصارت کو بچاسکیں.اس کا حال جب اس کے غیر احمدی دوستوں کو معلوم ہوا.تو انہوں نے طعن و تشنیع شروع کر دی اور یہ کہنے لگے اور پڑھو احمدیت کی کتا ہیں.یہ احمدیت کی کتابیں پڑھ کر تمہاری آنکھوں میں جو جہنم داخل ہو رہی ہے اس نے تمہارے نور کو خاکستر کر دیا ہے.یہ اسکی سزا ہے جو تمہیں مل رہی ہے.انہوں نے اس کا ذکر بڑی بے قراری سے اپنے احمدی دوست سے کیا.انہوں نے کہا کہ تم بالکل مطمئن رہو تم بھی دعا کرو میں بھی دعا کرتا ہوں اور اپنے امام کو بھی دعا کیلئے لکھتا ہوں اور پھر دیکھو اللہ کس طرح تم پر فضل نازل فرماتا ہے.چنانچہ کہتے ہیں اس واقعہ کے بعد چند دن کے اندر اندر ان کی آنکھوں کی کایا پلٹنی شروع ہوئی اور دیکھتے دیکھتے سب نور واپس آگیا.جب دوسری مرتبہ ڈاکٹر کو دکھانے گئے تو ڈاکٹر نے کہا اس خطرناک 96 96
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات بیماری کا کوئی بھی نشان میں باقی نہیں دیکھتا.“ (ضمیمہ ماہنامہ خالد ر بوہ جولائی ۱۹۸۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی خوب فرمایا.غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے میرے فلسفیوز و ر دُعا دیکھو تو فرعون زمانہ ضیاء الحق کی ناکامی ؛ حضور خیریت سے لندن پہنچ گئے فرعون زمانہ صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے احمدیوں کے خلاف 126 پریل 1984 بروز جمعرات ایک ایسا آرڈنینس پاس کیا جس سے کہ احمدیوں کی مذہبی آزادی چھین لی گئی.خلاف ورزی کی صورت میں سخت سزا کا قانون تھا.ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ پاکستان میں رہتے ہوئے خلیفہ وقت اپنا فرض منصبی کسی صورت میں بھی ادا نہیں کرسکتا.بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ضیاء الحق نے آپ کی گرفتاری کا پورا پلان تیار کر لیا تھا اور آپ کی گرفتاری کسی بھی وقت عمل میں آسکتی تھی.ایسے حالات میں آپ کا پاکستان سے نکل جانا ہی بہتر تھا.یہ دراصل خدائی تقدیر تھی.ضیاء الحق کی ناکامی اور آپ کی ہجرت کا واقعہ اختصار کے ساتھ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.ان دنوں جماعت احمدیہ کے صدر مقام ربوہ کی کڑی نگرانی کی جارہی تھی.یہ نگرانی جنرل ضیاء الحق کی پانچ مختلف خفیہ تنظیمیں کر رہی تھیں.ربوہ آنے جانے والے تمام راستوں پر ان خفیہ تنظیموں کے کارکن ہمہ وقت موجود رہتے تھے.97
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات ان لوگوں کی شناخت بہت مشکل بھی نہ تھی.ایک تنظیم پاکستان کی بڑی افواج سے تعلق رکھتی تھی.اس تنظیم کے کارکنوں نے فقیروں کا بھیس بدلا ہوا تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ عالم میں تنہا یہی ایسے فقیر رہ گئے تھے جنہوں نے اپنے فقیرانہ لباس کے ساتھ ملٹری کے مخصوص قسم کے بھاری بھر کم بوٹ بھی پہن رکھے تھے.حضرت خلیفہ رابع " اس بات پر مصر تھے بلکہ یہ ان کا تاکیدی حکم تھا کہ ان کی روانگی کے متعلق کسی قسم کی غلط بیانی یا ابہام سے ہر گز کام نہ لیا جائے اور وہ خود نہ تو کوئی بھیس بدلیں گے اور نہ ہی کسی اور پاسپورٹ پر سفر کریں گے البتہ اگر جنرل ضیاء کی خفیہ تنظیمیں کسی خوش فہمی کا شکار ہو جائیں تو وہ جانیں اور ان کا کام.(29 را پریل 1984ء- ناقل ) نماز فجر کے بعد علی الصبح (حضرت ) خلیفہ رابع رحمہ اللہ کی کارربوہ سے روانہ ہوتی ہوئی نظر آئی.کار کی عقبی نشست پر ایک صاحب تشریف فرما تھے.وہ (حضرت ) خلیفہ رابع کے معمول کے لباس میں تھے.یعنی اچکن زیب تن تھی.انہوں نے پنجابی طرز کی طرے دار سفید پگڑی جو سنہری کلا پر بندھی ہوئی تھی ، بہن رکھی تھی.حضرت خلیفہ رابع کا معمول کا حفاظتی دستہ ان کے ہمراہ تھا.ایک کار ان کی کار کے آگے اور دو کاریں پیچھے پیچھے چل رہی تھیں.ان کاروں میں ان کا حفاظتی دستہ سوار تھا، جس کے ایک ایک فرد کو خفیہ تنظیمیں خوب جانتی پہچانتی تھیں اور ان میں سے ہر شخص اپنی اپنی نشست پر بیٹھا ہوا صاف دکھائی دے رہا تھا.راہ چلتے اکا دکا احمدیوں نے جب اس قافلے کو روانہ ہوتے ہوئے دیکھا تو یہی سوچا کہ (حضرت) خلیفہ رائج دو سو میل دور اسلام آباد تشریف لے جارہے ہیں.ربوہ کی نگرانی پر متعین پانچ سرکاری خفیہ تنظیموں میں سے چار خفیہ تنظیموں کا اندازہ بھی کم و بیش یہی 98
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات تھا.ان تنظیموں نے اپنے افسران بالا کور پورٹ بھجوائی کہ ( حضرت ) خلیفہ رابع اسلام آباد جانے کے لئے ربوہ سے روانہ ہو گئے ہیں اور ان کے قافلے کا معمول کے مطابق پیچھا کیا جا رہا ہے...لیکن اس مرسیڈیز کار کی عقبی سیٹ پر (حضرت ) خلیفہ رابع نہیں بلکہ ان کے تیسرے بڑے بھائی (صاحبزادہ ) ڈاکٹر مرزا منور احمد تشریف فرما تھے.(صاحبزادہ ) مرزا منور احمد کے قافلے کی روانگی سے کافی پہلے رات کے دو بجے منہ اندھیرے دو اور کاریں ربوہ سے روانہ ہو چکی تھیں.یہ کاریں پہلے تو ایک ذیلی راستے سے لالیاں پہنچی ، جو ایک چھوٹا سا قصبہ ہے.پھر وہاں سے ضلعی صدر مقام جھنگ اور بالآ خر کراچی جانے والی شاہراہ پر کراچی کے لئے عازم سفر ہوگئیں.ربوہ سے کراچی کا یہ فاصلہ تقریباً ۷۵۰ میل ہے.ان دوکاروں میں سے پہلی کار میں (حضرت) خلیفہ رابع کا حفاظت خاص کا عملہ تھا جبکہ دوسری کار میں ( حضرت ) خلیفہ رابع بنفس نفیس تشریف فرما تھے...اگلے روز بری فوج کے جاسوس یونٹ کی طرف سے افسران بالا کو رپورٹ موصول ہوئی کہ (حضرت ) خلیفہ رابع کو جھنگ کی طرف جاتی ہوئی ایک کار میں دیکھا گیا ہے.ممکن ہے وہ کراچی جارہے ہوں.لیکن اس رپورٹ کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی کیونکہ باقی چار خفیہ اداروں کی طرف سے دی گئی متفقہ اطلاع یہ تھی کہ (حضرت ) خلیفہ رابع اپنے حفاظتی عملے کی معیت میں اسلام آباد جارہے ہیں اور راستے میں انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی کے ہاں رات بسر کی ہے...اگر چہ اس وقت تو اس بات کا علم نہیں ہوسکا تھا لیکن کئی ماہ بعد جا کر پتہ چلا کہ اس موقعہ پر (حضرت) خلیفہ رابع کس طرح گرفتار ہوتے ہوتے بال بال بچ گئے.99
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات ایئر پورٹ کے پاسپورٹ کنٹرول کے سامنے جنرل ضیاء کا اپنے دستخطوں.جاری کردہ ایک حکم نامہ پڑا تھا.یہ حکم نامہ ملک کے تمام ہوائی ،سمندری اور بری راستوں اور گزرگاہوں تک پہنچ چکا تھا، حکم نامے کے الفاظ یہ تھے.”مرزا ناصر احمد کو جو اپنے آپ کو جماعت احمدیہ کا خلیفہ کہتے ہیں، پاکستان کی سرزمین چھوڑنے کی ہرگز اجازت نہیں“.اس لئے کراچی ائر پورٹ پر جہاز کی روانگی میں کچھ تاخیر ہوئی تو چنداں تعجب کی بات نہ تھی جنرل ضیاء کو ( حضرت ) خلیفہ ثالث سے اکثر سابقہ پڑتا رہا تھا.اس لئے اس نے غلطی سے حکم نامے پر (حضرت) خلیفہ رابع یعنی (حضرت) مرزا طاہر احمد کی بجائے (حضرت) خلیفہ ثالث یعنی ( حضرت ) مرزا ناصر احمد کا نام اپنے ہاتھ سے لکھ دیا! جنرل ضیاء الحق نے پابندی لگائی بھی تو ( حضرت ) خلیفہ الثالث پر جو اس پابندی کے لگنے سے دوسال قبل وفات پاچکے تھے! (حضرت) خلیفہ رابع کے پاسپورٹ پر وضاحت سے لکھا ہوا تھا کہ ان کا نام ( حضرت ) مرزا طاہر احمد ہے اور یہ کہ وہ عالمی جماعت احمدیہ کے امام ہیں.ائر پورٹ پر انتظار کی ان طویل گھڑیوں کے دوران پاسپورٹ کنٹرول آفس کی مصروفیت اور تگ و دو بھی قابل دید تھی.اس الجھن کے حل کے لئے اسلام آباد سے مسلسل رابطہ کیا جارہا تھا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس گتھی کو سلجھانے کے لئے اگر کوئی افسر مجاز ملتا بھی تو کس طرح اور وہ بھی صبح کے دو بجے ، ڈیوٹی پر حاضر عملے نے جوابا یہی کہا کہ معلوم ہوتا ہے یہ کوئی پرانا حکم ہے جو شاید اب زائد المیعاد ہو چکا ہے.بہر حال مصدقہ اطلاع یہی ہے کہ (حضرت) خلیفہ رابع ربوہ سے اسلام آباد جانے کے لئے روانہ ہو چکے ہیں اور اب اسلام 100
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات آباد پہنچنے ہی والے ہیں.بالآ خر جہاز کو پرواز کی اجازت دے دی گئی...(30 را پریل کو.ناقل ) آپ ساڑھے بارہ بجے سے ذرا پہلے مسجد فضل لندن پہنچ گئے.کم و بیش تین سو احمدی آپ کے استقبال کے لئے موجود تھے جو آپ کی آمد کی خبر سن کر کھنچے چلے آئے تھے.آپ کی ہجرت کی خبر پوری دُنیا میں پھیل گئی.جنرل ضیاء الحق تو یہ خبر سن کر غصے سے باؤلا ہو گیا...جنرل ضیاء الحق کو یقین تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کا گلا گھونٹ کر رکھ دے گا.لیکن یہ سب کچھ اس کی کوشش اور خواہش کے برعکس ہوا اور اس نے اس تحریک کو ترقی کرنے اور پھولنے پھلنے کا ایک نادر موقع فراہم کر دیا.لندن آج بھی بین الاقوامی رابطے اور میل ملاپ کے لیے ایک مصروف ترین مرکزی گزرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے.ایک مرد خدا صفحه ۲۹۲ تا ۳۰۶) فرعون زمانہ ضیاء الحق کی ہلاکت اور حضور کا تعلق باللہ بدنام زمانہ آمر جنرل ضیاء الحق نے جب احمدیوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تو حضرت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ نے اُسے مباہلہ کا چیلنج دیا.حضور نے اُسے مخاطب کر کے فرمایا کہ اگر تم اپنا ظلم روک دو تو ہم سمجھیں گے کہ تم نے مباہلہ سے انکار کر دیا ہے.آپ نے اُسے خدا کا خوف دلایا اور ظلم سے باز رہنے کو کہا.۱۲ اگست (۱۹۸۸ء.ناقل ) کے خطبہ جمعہ میں ( حضرت ) خلیفہ رابع نے اعلان کیا کہ جنرل ضیاء الحق نے لفظاً معناً عملاً کسی شکل میں بھی احمدیوں پر کئے جانے والے 101
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات مظالم پر پشیمانی کا اظہار نہیں کیا.اب معاملہ اللہ تعالیٰ ) کے سپرد ہے.ہم اس کی فعلی شہادت کے منتظر ہیں.آپ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا:.اب جنرل ضیاء الحق اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے عذاب سے بچ کر نہیں جاسکتا.17 اگست 1988 کو جنرل ضیاء الحق ایک امریکی ٹینک کا آزمائشی تجربہ دیکھنے بہاولپور گئے تھے.سہ پہر ساڑھے تین بجے کے قریب اپنے خاص جہاز 130-C ہر کیولیس پر بیٹھ کر واپس روانہ ہوئے.بہاولپور سے چھ میل دور دریا کے کنارے کسان کھیتوں میں کام کر رہے تھے.انہوں نے ایک ہوائی جہاز کو ہوا میں ڈگمگاتے ہوئے دیکھا جو لہروں کے نرغے میں پھنسی ہوئی سمندری کشتی کی طرح ہچکولے کھا رہا تھا.تیسری قلا بازی کھانے کے بعد طیارہ سیدھا زمین پر آرہا.گرتے ہی رتیلی زمین میں دھنس گیا اور ایک دھماکے کے ساتھ شعلوں کی لپیٹ میں آگیا.اکتیس کے اکتیس آدمی جو طیارے میں سفر کر رہے تھے آن کی آن میں لقمہ اجل بن گئے.( حضرت ) خلیفہ رابع نے دوسرے دن اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- ” خدا تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا“ آپ نے تو جنرل ضیاء الحق کو خدا تعالیٰ کے قہر اور غضب سے خبر دار کر دیا تھا لیکن ضیاء الحق نے اس تنبیہ کو درخور اعتنا نہ سمجھا.پس زمین و آسمان کے مالک کی قہری تجلی نے اس کے پر خچے اڑا دیئے اور ان جرنیلوں کو بھی تباہ و برباد کر دیا جو اقتدار کے اس بے جا اور بے محابا استعمال میں اس کے دست و بازو تھے.( حضرت ) خلیفہ رابع نے مزید فرمایا:- 102
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات بایں ہمہ کسی دشمن کی موت پر خوش بھی نہیں ہونا چاہئے“.اسیران کی رہائی کے لئے خصوصی دعا ایک مردِ خدا، صفحہ 377 تا 384) اسیروں کی رہائی کا ایک واقعہ پیش ہے.سکھر اور ساہیوال کے اسیران کی رہائی حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی اضطراری حالت میں کی جانے والی دردناک دعاؤں کے نتیجہ میں ہوئی.حضور انور رحمہ اللہ 1991ء کے جلسہ سالانہ قادیان پر تشریف لے گئے.جب حضور انور اپنا دورہ مکمل کر کے واپس لندن تشریف لائے تو یہاں استقبال کرنے والے احباب کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: میں لندن واپس آنے کیلئے قادیان سے دہلی آچکا تھا اور دس جنوری کا جمعہ دہلی میں پڑھانا تھا.پھر میں نے فیصلہ کیا کہ Friday the 10th کا جمعہ ہے.مجھے قادیان واپس جا کر یہ جمعہ وہاں پڑھانا چاہئے اور اس میں اسیران کی رہائی کے لئے خصوصی دعا کرنی چاہئے.چنانچہ میں قادیان واپس گیا اور جمعہ وہاں پڑھا یا اور اسیران کی رہائی کے لئے بہت دعا کی.اگلے روز ہفتہ کے دن ابھی ہم امرتسر سٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ مجھے خب مل گئی کہ سکھر کے اسیران رہا ہو گئے ہیں.پھر جب ساہیوال کے اسیران 1994ء میں رہا ہوئے اور یہ خبر یہاں نماز ظہر سے قبل حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں پہنچی.حضور نماز ظہر پڑھانے کے لئے تشریف لائے اور نماز ظہر کے بعد کھڑے ہوکر احباب سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ آج ساہیوال کے اسیران دس سال بعد رہا ہو گئے ہیں.103
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات حضور نے فرمایا: ”میں نے اس رمضان میں ان اسیران کے لئے خاص دعا کی تھی کہ اے میرے اللہ! اگلا رمضان ان اسیران کو جیل میں نہ آئے.چنانچہ یہ دعا اتنی جلدی اور اس شان کے ساتھ قبول ہوئی کہ اس دعا کے چند دن بعد ہی یہ اسیران رہا ہو گئے.( بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 25 ستمبر 2015 ء تا 1 اکتوبر 2015 صفحہ 14) قبولیت دعا کا انتہائی ایمان افروز واقعہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے ایک خطاب میں قبولیت دعا کا انتہائی ایمان افروز واقعہ بیان فرمایا.حضور رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں جب گھانا پہنچا ہوں تو وہاں کے ایک چیف نانا اوجیفو صاحب جو عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے وہ پہلی رات مجھے ملنے کیلئے آئے اور نماز کے بعد مجلس میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں.جب میں نے مربی صاحب سے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ یہ (چیف) ایک تو ہم پرست کا ہن قوم سے تعلق رکھتے ہیں.ان کی بیوی کا حمل ہر دفعہ ضائع ہوجا تا تھا.وہ عیسائی پادریوں اور دم پھونکنے والوں کے پاس گئے.کوئی فائدہ نہ ہوا.جب ہر طرف سے مایوس ہو گئے تو امام وہاب آدم صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ میں ہوں تو عیسائی لیکن مجھے عیسائیت پر سے دعا کا یقین اُٹھ گیا ہے.میں نے سنا ہے کہ خدا آپ لوگوں کی دعائیں قبول کرتا ہے.آپ اپنے امام کو میری طرف سے سارے حالات بتا کر لکھیں کہ ہمارے لئے دعا کریں.چنانچہ وہاب صاحب نے ان کا خط 104
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات مجھے بھجوایا...میں نے ان کو جواب لکھا کہ آپ کو بچہ نصیب ہوگا اور بہت ہی خوبصورت اور عمر پانے والا بچہ ہو گا.چنانچہ جب ان کی بیوی کو حمل ہوا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ نہ صرف یہ بچہ مرجائے گا بلکہ بیوی کو بھی لے مرے گا.اس لئے تم اس حمل کو ضائع کروا دو.اس چیف نے کہا ہر گز نہیں.مجھے جماعت احمدیہ کے امام کا خط آیا ہے.نہ میری بیوی کو کوئی نقصان پہنچے گا نہ میرے بچے کو نقصان پہنچے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہایت ہی خوبصورت صحت مند بچہ عطا فر ما یا اور ان کی بیگم صاحبہ بھی بالکل ٹھیک ٹھاک رہیں.قبولیت دعا کے اس نشان کو دیکھ کر ان کی خواہش تھی کہ میرے ہاتھ پر بیعت کریں.اس لئے وہ دیر کرتے رہے.( بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 25 ستمبر 2015 ء تا 1 اکتوبر 2015، صفحہ 15) 105
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات حضرت اقدس خلیفہ ایسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایمان افروز واقعات خلافت احمدیہ کے پانچویں تاجدار اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑپوتے، اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے پوتے ، اور حضرت مصلح موعودؓ کے نواسے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں.آپ بھی رَجُلٌ اور رِجَالٌ من هؤلاء کے مصداق اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درج ذیل پر شوکت کشوف والہامات کے مصداق اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے روشن نشان ہیں: (۱) شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اُس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں.ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ بادشاہ آیا دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے فرمایا قاضی حکم کو بھی کہتے ہیں.قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور باطل کورڈ کرے.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۰ / جنوری ۱۹۰۷ء صفحه ۳( تذکره صفحه ۵۸۴) (۲) اور اِنِّي مَعَكَ يَا مَسْرُورُ ( تذکرۃ صفحه ۶۳۰ بدر جلد ۶ نمبر ۵۱ مورخه ۱۹ دسمبر ۱۹۰۷ صفحه ۴-۵) 107
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات یعنی اے مسرور میں تیرے ساتھ ہوں.اور اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں ( بدر جلد ۶ نمبر ۲۰۱ مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۲ تذکره صفحه ۴۰۱) آپ کے مبارک دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الہام بھی عجیب شان سے پورے ہوئے.يدعون لك ابدال الشّام وعباد الله من العرب ( یعنی تیرے لیے ابدال شام کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدائے عرب میں سے دُعا کرتے ہیں ) اور یصلون عليك صلحاء العرب وأبدال الشام ( یعنی صلحائے عرب اور ابدال شام تجھ پر درود بھیجتے ہیں ) اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر کے تحت عرب ممالک میں تبلیغ اور احمدیت کے پھیلاؤ کیلئے آسمانی ابواب کھول دیئے.اس ضمن میں یہ ایمان افروز واقعہ درج کیا جاتا ہے:.مکرم منیر عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے ایک دفعہ عربوں کیلئے عربی زبان میں خطاب ریکارڈ کروانے کا بھی ارادہ فرما یا لیکن یہ ارشاد فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا.دوسری طرف جب حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو اللہ تعالیٰ نے خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا تو حضور انور نے فرمایا کہ میرے عہد میں عربوں میں تبلیغ کے لئے راہ کھلے گی اور عربوں میں احمد بیت کا عہد نفوذ ہوگا...چنانچہ حضرت خلیفہ ایسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے عہد مبارک کے اب تک کے پونے آٹھ سال کے دوران صرف عربوں میں تبلیغ کے حوالہ سے خدا تعالیٰ کی تقدیر کے موافق جو اہم کام ہوئے...یہ فتح نمایاں اور یہ ترقیات بتا رہی ہیں کہ حضور 108
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات انور کے یہ الفاظ ” میرے عہد میں عربوں میں تبلیغ کیلئے راہ کھلے گی اور عربوں میں احمدیت کا نفوذ ہوگا خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارت تھی جسکے پورا ہونے کے ہم گواہ ہیں.مصالح العرب جلد دوم صفحه ۳۴۹ تا ۳۵۱) پروگرام «الحوار المباشر میں ۲۷ مئی ۲۰۰۸ ء کا دن ایک عظیم الشان و بابرکت دن ہے.اس دن سید نا حضرت امیر المومنین خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس اس پروگرام میں تشریف لائے اور اپنے وجود باجود سے اسے برکت اور رونق بخشی.اسکے بعد ۸/جون ۲۰۰۸ ء کے دن اس ماہ کے’ الحوار المباشر“ کا آخری Episode تھا.حضور اس پروگرام میں تشریف لائے اور تقریباً ۱۶ منٹ تک تشریف فرما رہے اور عربوں کو خطاب فرمایا.حضور انور کے اس خطاب کے بارہ میں ایک غیر از جماعت دوست مکرم عماد عبدالبدیع صاحب آف مصر نے لکھا:.میں ٹی وی کے آگے بہت کم بیٹھتا تھا لیکن بیماری کی وجہ سے ایک دن میں بیٹھا مختلف چینل بدل رہا تھا کہ اچانک آپ کا یہ چینل مل گیا.مجھے ایک خزانہ مل گیا.اگر میری بیماری نہ ہوتی تو شاید اس خزانہ سے محروم رہتا.اس پر میں خُدا تعالیٰ کا شکر گذار ہوں کیونکہ میرے ذہن میں مذہب کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے تھے جن کا جواب مجھے کبھی بھی نہ آتا تھا.اور کوئی میری تسلی نہ کراتا تھا.خدا شاہد ہے کہ یہ چینل اور اس کو چلانے والے نیک لوگ میرے درد کی دوا بن گئے حتی کہ میں سخت بیماری کی ساری تکلیفیں بھول کر خلیفۃ المہدی کی محبت سے مجبور ہو کر انٹرنیٹ کیفے گیا ہوں تا کہ یہ خط بھیجوں.آپ 109
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات کا چینل اس دنیا میں امید کی ایک واحد کرن ہے.آپ کے پاس محمدی فیض کا خزانہ ہے.جب : حضور انور الحوار المباشر میں تشریف لائے تو اس دوست نے لکھا اس بار جب حضرت خلیفہ ایج سٹوڈیو میں تشریف لائے تو میں اپنے جذبات ضبط نہیں کر سکا.اور زار و قطار رونا شروع کیا.مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی مجلس میں موجود ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں ہوں.میں ساری تکلیف اور درد بھول گیا.آپ کے پروگرام بہت خوبصورت اور دلکش ہیں اور یہ تاریکیوں کو منور کرنے والے ہیں.(مصالح العرب جلد دوم صفحه ۴۳۲-۴۳۱) الغرض سید نا حضور انور کے دور خلافت میں، عربوں میں تبلیغ ، روحانی خزائن کا عربی ترجمہ ، عربی میں لائیو پروگرام ، ایم ٹی اے العربیہ ۳ کا اجراء اور آپ کا عربی میں خطاب یہ وہ ایمان افروز واقعات ہیں جو ہمارے ایمانوں میں ترقی کا باعث اور خلافت احمدیہ کے منجانب اللہ ہونے کے زندہ و تابندہ ثبوت ہیں.الحمد للہ علی ڈیک! قبولیت دعا کا ایک زندہ اور نا قابل فراموش واقعہ ۴ رفتی ۲۰۰۸ء جمعرات کا دن تھا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے فار ایسٹ ممالک کے دوران ناندی نجی میں تھے.رات قریباً اڑھائی بجے کا وقت تھا کہ ربوہ ،لندن ، اور دنیا کے مختلف ممالک سے فون آنے شروع ہو گئے.کہ اس وقت ٹی وی پر جو خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق ایک بہت بڑا سونامی طوفان نجی کے ساتھ والے جزائر TONGA میں آیا ہے اور یہ طوفان طاقت کے لحاظ سے انڈونیشا والے سونامی سے بڑا 110
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات ہے.جس نے لکھو کھا لوگوں کو غرق کر دیا تھا.اور دنیا کے کئی ممالک میں تباہی مچائی تھی جب TV آن کیا تو یہ خبریں آرہی تھیں کہ یہ سونامی مسلسل اپنی شدت اور طاقت میں بڑھ رہا ہے اور صبح کے وقت ناندی نجی کا سارا علاقہ غرق کر دے گا.صبح ساڑھے چار بجے جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نماز فجر کی ادائیگی کیلئے تشریف لائے تو حضور انور کی خدمت میں اس طوفان کے بارے میں رپورٹ پیش ہوئی اور جو پیغامات خیریت دریافت کرنے کیلئے فون پر موصول ہورہے تھے ان کے متعلق بتایا گیا.حضور انور نے نماز فجر پڑھائی اور بڑے لمبے سجدے کئے اور خدا کے حضور مناجات کیں.نماز سے فارغ ہو کر مسیح کے خلیفہ نے احباب جماعت کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا کچھ نہیں ہوگا.اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس تشریف لے آئے.واپس آکر جب ہم نے TV آن کیا تو TV پر یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ اس سونامی کا زور ٹوٹ رہا ہے اور آہستہ آہستہ اسکی شدت ختم ہورہی ہے.پھر قریب دو اڑھائی گھنٹے کے بعد یہ خبریں آگئیں کہ اس طوفان کا وجود ہی مٹ گیا ہے.پس اس دُنیا نے عجیب نظارہ دیکھا کہ وہ سونامی ،جس نے اگلے چند گھنٹوں میں لکھوکھا لوگوں کو غرق کرتے ہوئے سارے علاقہ کو صفحہ ہستی سے مٹادینا تھا خلیفہ وقت کی دُعا سے چند گھنٹوں میں خود اس کا وجود مٹ گیا.اس روز نجی کے اخبارات نے یہ خبریں لگائیں کہ سونامی کاٹل جانا کسی معجزے سے کم نہیں...یہ معجزہ خلیفہ وقت کی دُعا سے رونما ہوا.پس آج جہاں جماعت احمدیہ کی ترقیات خلافت احمدیہ سے وابستہ ہیں.وہاں دنیا کی بقاء بھی خلافت احمدیہ سے وابستہ کر دی گئی ہے.آج جماعت احمدیہ کا ہر فرد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ پر صداقت کا 111
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات گواہ بن چکا ہے.“ خدا کی قسم آج مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ کی تائید میں ایک اور زبان میں بولتے ہوئے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اپنے کانوں سے سنا ہے.خلیفہ امسیح کے ہاتھ کی تقویت کیلئے ایک اور ہاتھ کو چلتے ہوئے ساری دنیا دیکھ رہی ہے اور دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں نے بزبان حال یہ گواہی دی ہے کہ اس مبارک وجود کے پیچھے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے اور یہ خدا سے تائید یافتہ وجود ہے.پس آج ہم لوگ کتنے خوش نصیب ہیں کہ ہر روز اپنی آنکھوں سے اپنے پیارے آقا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی عظیم قیادت میں جماعت کی ترقی اور فتوحات کے نظارے روز دیکھ رہے ہیں پس اُٹھیں اور اپنی ہر مادی وروحانی ترقی کیلئے خلافت کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیں خود کو خلیفتہ المسیح کے ہاتھ میں ایسے دیدیں جیسے غسال کے ہاتھ میں میت ہوتی ہے.اسی میں ہماری کامیابی کی ضمانت ہے اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.( از احمدی گزٹ کینیڈا مئی ۲۰۱۵) حضرت خلیفۃ اسبح الناس یہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز احباب جماعت کو دعا کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.یا درکھیں کہ وہ سچے وعدوں والا خدا ہے.وہ آج بھی اپنے پیارے مسیح کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے.وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا.وہ آج بھی اپنے مسیح سے کئے ہوئے وعدوں کو اسی طرح پورا کرتا ہے جسطرح وہ پہلی خلافتوں میں کرتا رہا ہے.وہ آج بھی اسی طرح نوازے گا 112
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات جیسے پہلے نوازتا رہا ہے.اور ان شاء اللہ نوازتا رہیگا پس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ کہیں کو ئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کر کے خود ٹھوکر نہ کھا جائے.اپنی عاقبت خراب نہ کر لے پس دُعائیں کرتے ہوئے اور اسکی طرف جھکتے ہوئے اور اس کا فضل ما نگتے ہوئے ہمیشہ اسکے آستانہ پر پڑے رہیں اور اس مضبوط کڑے کو ہاتھ میں ڈالے رکھیں تو پھر کوئی بھی آپ کا بال بریکا نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.“ اعجازی رنگ میں بارش رکنے کا واقعہ خطبات مسر در جلد ۲ صفحه ۳۵۴) 2004 ء میں افریقہ کے دورہ کے دوران جب حضرت خلیفہ المس الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نائیجریا سے بین پہنچے اور مشن ہاؤس آمد ہوئی تو عصر کا وقت تھا.شدید موسلا دھار بارش ہو رہی تھی.نماز کیلئے صحن میں مارکی لگائی گئی تھی جو چاروں طرف سے کھلی تھی اور بارش کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنا محال تھا.بلکہ کھڑا ہونا بھی مشکل تھا.حضور باہر تشریف لائے اور نماز کے بارہ میں دریافت فرمایا.امیر صاحب نے عرض کیا کہ اس وقت تو شدید بارش ہے اور نماز کے لئے باہر مار کی لگائی ہوئی ہے لیکن بارش کی وجہ سے مشکل ہورہی ہے.حضور انور نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور فرمایا ”دس منٹ بعد نماز پڑھیں گے.‘اس کے بعد حضور انور اندر تشریف لے گئے.ابھی دو تین منٹ ہی گزرے تھے کہ یکدم بارش تھم گئی.آسمان صاف ہو گیا.دیکھتے ہی دیکھتے دھوپ نکل آئی اور اسی مارکی کے نیچے نماز کا انتظام ہو گیا.مقامی احباب اس نشان پر بہت حیران ہوئے کہ یہاں بارش 113
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات شروع ہو جائے تو کئی کئی گھنٹے جاری رہتی ہے.حضور نے دس منٹ کہا تو یہ تین منٹ میں ہی ختم ہو گئی اور نہ صرف ختم ہوئی بلکہ بادل بھی غائب ہو گئے.اسی طرح کینیڈا کے دورہ کے دوران جب کیلگری مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جانا تھا تو ایک روز قبل امیر صاحب کینیڈا نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ موسمی پیشگوئی کے مطابق کل یہاں کا موسم شدید خراب ہے.بڑی شدید بارش ہے اور طوفانی ہوائیں ہیں.اور کل صبح مسجد کا سنگ بنیاد ہے.مہمان بھی آرہے ہیں.امیر صاحب نے دعا کی درخواست کی.ちゃ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کچھ دیر توقف فرمایا اور پھر فرمایا جس مسجد کا سنگ بنیاد ہم رکھنے جارہے ہیں وہ بھی خدا کا ہی گھر ہے اور موسم بھی خدا کے ہاتھ میں ہے.اس لئے اس کو خدا پر چھوڑ دیں.اللہ فضل فرمائے گا.“ چنانچہ اگلے روز صبح بارش کا کوئی نام و نشان نہیں تھا.بڑا خوشگوار موسم تھا.سنگ بنیاد کی تقریب ہوئی.قریباً دو گھنٹے کا پروگرام تھا.تقریب سے فارغ ہو کر حضور انور واپسی کے لئے جب اپنی کار میں بیٹھے تو کار کا دروازہ بند ہوتے ہی اچانک شدید بارش شروع ہوگئی اور ساتھ تند و تیز ہوائیں چلنے لگیں جو پھر مسلسل تین چار گھنٹے جاری رہیں.یہ ایک نشان تھا جو حضورانور کی دعا سے وہاں ظاہر ہوا اور ہر شخص کا دل اس نشان کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز تھا.( بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 25 ستمبر 2015 ء تا 1 /اکتوبر 2015 صفحہ 14) یہ کیسے ہوا؟ کوئی نہیں جانتا ابھی دو سال قبل کا واقعہ ہے کہ ایک عرب ملک میں ہمارے ایک نہایت مخلص نو 114
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات مبائع عرب احمدی دوست کو پولیس نے محض اس جرم میں قید کر لیا کہ اس نے احمدیت قبول کی ہے.انہیں وزنی بیٹریاں ڈال کر جیل میں پھینک دیا گیا اور ضمانت منسوخ کر دی گئی اور میل ملاقات بند کر دی گئی.انتہائی ظالمانہ سلوک کیا گیا.کوئی مقامی وکیل کیس لینے کے لئے تیار نہ تھا.بظاہر رہائی کے تمام دنیاوی راستے بند دکھائی دے رہے تھے.لیکن حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے لئے مسلسل دعائیں کر رہے تھے.ایک دن حضور نے فرمایا انشاء اللہ یہ رہا ہو جائیں گئے.ایک طرف حضور کی دعا تھی تو دوسری طرف رہائی کے تمام ممکنہ راستے بند تھے.حضور انور کی قبولیت دعا کا نشان اس طرح ظاہر ہوا کہ اس عرب ریاست کے بادشاہ نے ایک تقریب کے موقع پر بعض قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا تو ان رہا ہونے والے قیدیوں میں پہلا نام ہمارے نو مبائع احمدی اسیر کا تھا.یہ کیسے ہوا؟ کوئی نہیں جانتا.لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ خلیفہ کے لب سے یہ الفاظ نکلے تھے کہ یہ انشاء اللہ رہا ہو جائیں گے.عظیم نشانات عظیم اخلاص کو چاہتے ہیں.اس عرب دوست کے لئے خلیفہ وقت کی قبولیت کا یہ نشان یونہی ظاہر نہیں ہوا بلکہ اس کی وجہ ان کا خلیفتہ المسیح سے اخلاص اور وفا کا تعلق تھا.جب انہیں جیل میں ڈالا گیا تو انہیں بار بار کہا گیا کہ احمدیت سے دستبردار ہوجاؤ تو رہا کر دیے جاؤ گے.لیکن ان کا جواب تھا میں جان دے دوں گا لیکن احمدیت نہیں چھوڑوں گا.“ اس عرب دوست نے جیل سے خلیفہ المسیح کی خدمت میں لکھا ”میرے علاقہ میں نو پہاڑ ہیں اور اس علاقہ کا دسواں پہاڑ میں ہوں.کوئی دھمکی، کوئی لالچ میرے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکتی.پس ان کا یہی اخلاص تھا کہ خلیفہ وقت کی دعا ان کے حق میں مقبول 115
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات ہوئی اور آسمان سے خدا کی تقدیر نے اُس بادشاہ کے قلم سے سب سے پہلے اس نو احمدی عرب کا نام لکھوایا اور سارے دنیوی راستے بند ہونے پر اُس معصوم کی رہائی کے آسمان سے سامان پیدا فرما دیئے.(بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 25 /ستمبر 2015ء تا1 اکتوبر 2015ءصفحہ 14-15 ) اگر بیٹا ہوا تو احمدی ہو جاؤں گی امسال ( یعنی 2015ء.ناقل ) جلسہ سالانہ جرمنی میں بلغاریہ کے ایک مخلص نو احمدی دوست Etem صاحب اپنی فیملی کے ہمراہ شامل ہوئے.موصوف نے چند سال قبل عیسائیت سے اسلام قبول کیا تھا.لیکن ان کی بیوی نے بیعت نہیں کی تھی.ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ میری تین بیٹیاں ہیں.اگر مجھے بیٹا مل جائے تو میں بھی احمدی ہو جاؤں گی.موصوفہ نے حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا.اگلے سال جب وہ دوبارہ جلسہ میں آئیں تو سات ماہ کی حاملہ تھیں.ملاقات کے دوران انہوں نے بچے کیلئے نام رکھنے کی درخواست کی تو حضور انور نے صرف لڑکے کا نام جاہد تجویز فرمایا.جلسہ سے واپس جا کر موصوفہ نے مبلغ سے کہا کہ ڈاکٹرز نے بتایا ہے کہ لڑکی ہے اس لئے حضورانور کی خدمت میں دوبارہ درخواست کریں کہ لڑکی کا نام تجویز فرمائیں.اس پر مبلغ نے کہا کہ آپ نے تو کہا تھا کہ اگر بیٹا ہوا تو احمدی ہو جاؤں گی.اور حضور انور نے بھی صرف بیٹے کا نام تجویز فرمایا ہے.اس لئے انشاء اللہ بیٹا ہی ہوگا.ڈاکٹر جو چاہیں کہیں، ان کی مشینیں جو چاہیں ظاہر کریں لیکن اب آپ کا بیٹا ہی ہوگا کیونکہ خلیفتہ اسیح 116
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات نے بیٹے کا نام رکھا ہے.یہ سن کر کہنے لگیں کہ میں تو پہلے ہی احمدی ہو چکی ہوں.چنانچہ جب بچہ کی پیدائش ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے سے ہی نوازا.وہ جلسہ کے موقع پر اس بیٹے کو ساتھ لے کر آئی تھیں اور لوگوں کو بتارہی تھیں کہ دیکھو! یہ خلیفہ وقت کی دعاؤں کی قبولیت کا نشان ہے.“ ( بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 25 /ستمبر 2015 ء تا 1 اکتوبر 2015، صفحہ 15 و17 ) گھانا کی زمین سے تیل نکلے گا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب 2004ء میں غانا تشریف لے گئے تو ایک موقع پر سفر کے دوران حضور نے اہلِ غانا کو بشارت دی کہ گھانا کی زمین سے تیل نکلے گا.چنانچہ جب 2008ء میں حضور انور خلافت جوبلی کے موقع پر دوبارہ گھانا تشریف لے گئے تو غانا کے صدر مملکت نے ملاقات کے دوران حضور سے کہا کہ حضور کی ہمارے ملک کے لئے دعائیں قبول ہو رہی ہیں.حضور نے اپنے گزشتہ دورہ کے دوران فرمایا تھا کہ گھانا کی زمین میں تیل ہے اور یہاں سے تیل نکلے گا.حضور انور کی یہ دعا بڑی شان سے قبول ہوئی اور گزشتہ سال گھانا سے تیل نکل آیا.چنانچہ اس حوالہ سے گھانا کے مشہور نیشنل اخبار Daily Graphic نے اپنے 17 اپریل 2008 ء کے شمارہ میں پہلے صفحہ پر حضور انور اور صدر غانا کی ملاقات کی رپورٹ شائع کرتے ہوئے لکھا: 'خلیفہ اسیح نے اپنے دورہ گھانا 2004ء کے دوران گھانا میں تیل کی دریافت پر بڑے پرزور طریق سے اپنے یقین کا اظہار کیا تھا اور یہی یقین گزشتہ سال حقیقت میں بدل گیا.اور گھانا کی سرزمین سے تیل نکل آیا.( بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 25 ستمبر 2015ء تا1 اکتوبر 2015ءصفحہ 17 ) 117
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات حضور انور کا اللہ تعالیٰ پر توکل حضرت سید وامه اسعدت بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیلة اتبع الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تحریر فرماتی ہیں:.” جب ہم نئے نئے ٹمالے (شمالی غانا ) گئے تھے.ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا.ان دنوں ہسپتال میں ڈاکٹروں کی ہڑتال تھی.صرف نو بجے سے پانچ بجے تک ڈاکٹر آتے تھے.اس کے علاوہ باقی اوقات میں اور ہفتہ اتوار کوکوئی میڈیکل سٹاف موجود نہ ہوتا تھا.عزیزم وقاص سلمہ اللہ ابھی صرف دو دن کا تھا کہ اسے شدید قسم کا ڈائیریا ہو گیا.نئی جگہ اور ہسپتالوں کا ناقص انتظام، ڈاکٹروں کی ہڑتال گویا عجیب پریشانی کا عالم تھا.اتنے چھوٹے بچے کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی.عزیزہ فرح سلمها اللہ بھی اس وقت چھوٹی ہی تھی.اس کے لئے میں پاکستان سے ایک دوائی لائی ہوئی تھی جو کافی strong (سخت) ہوئی ہے جسے ڈاکٹر ز اتنے چھوٹے بچے کے لئے کبھی بھی Recommend( تجویز ) نہیں کرتے.مگر اس وقت ہم بہت پریشان اور فکرمند تھے.حضور انور ایدہ اللہ نے اللہ پر تو کل کرتے ہوئے دعا کر کے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی بھر کر دو دفعہ وہی دوائی عزیزم وقاص کو جو اس وقت ڈائیریا سے نڈھال ، دودھ وغیرہ بالکل نہیں پی رہا تھا یہ کہہ کر چٹائی کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کیا ہے، ہم نہیں جانتے مگر یہ افسوس تو نہیں ہوگا کہ علاج نہیں کیا.چند منٹ میں طبیعت سنبھل گئی اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں اسے شفا عطا فرما دی.الحمد للہ “ (بحوالہ حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز - مرتبہ عطاء العلیم شمر.مدثر احمد مزمل شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان ) 118
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے تعلق باللہ کے واقعات (معجزہ) پہلی مرتبہ live دیکھا ہے مکرم بشارت نوید صاحب مربی سلسلہ ماریشس تحریر فرماتے ہیں: ماریشس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آمد کے پہلے روز جب آپ نماز ظہر اور عصر کی ادائیگی کے لئے اپنی رہائش گاہ سے بیت الذکر ( مسجد.ناقل ) جانے کے لئے باہر تشریف لائے اور قافلہ روانگی کے لئے تیار ہو گیا.تو ڈیوٹی پر موجود خدام نے الیکٹرانک مین گیٹ کو ریموٹ کی مدد سے کھولنا چاہا لیکن ہر طرح کی کوشش کرنے کے با وجود گیٹ نہ کھلا.آخر کار خدام گیٹ کو توڑنے کے لئے کوشش کرنے لگے لیکن اس میں بھی ناکام رہے.حضور انور گاڑی سے باہر تشریف لائے اور فرمایا ریموٹ مجھے دیں.اور جیسے ہی آپ نے ریموٹ کا بٹن دبایا گیٹ کھل گیا.اس موقع پر موجود ایک ہندو پولیس سکواڈ بلااختیار بول اُٹھا کہ معجزوں کے بارے میں سنا تو تھا لیکن آج اپنی آنکھوں کے سامنے پہلی مرتبہ liveدیکھا ہے.“ (تشخیذ الا زبان سید نامسرور ایدہ اللہ نمبر صفحہ 2282) بحوالہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز - مرتبہ عطاء العلیم شمر.مدثر احمد مزمل شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان) اللہ تعالیٰ ہمارے لئے حضرت مسیح موعود اور آپ کے خلفائے عظام کے مذکورہ ایمان افروز واقعات کو ازدیاد ایمان کا باعث بنائے.ہمارا بھی اللہ تعالیٰ کی پاک ذات زنده تعلق استوار ہو اور یہ تعلق روز افزوں مضبوط ہوتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ نظام خلافت سے وابستہ رکھتے ہوئے اپنی رضا حاصل کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے.آمین!! 119