Language: UR
مکرم محترم صاجزادہ مرزا حنیف احمد صاحب نے اپنے دلی ذوق و غیر معمولی شوق سے قریباً 20 برس کی طویل محنت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے اقتباسات جمع کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کی فہم قرآن کی بابت تعلیم مرتب کی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے 10 ابواب میں درجنوں ذیلی شعبے بنا کراس موضوع پر قیمتی مواد مرتب کیا ہے اورکتاب کی پیشکش کے لئے بھی اعلیٰ معیار کی سعی کی ہے۔
الرحمن علم القرآن اس الہام کے رو سے خدا نے مجھے علوم قرآنی عطا کئے ہیں ( حضرت اقدس مسیح موعود علیه السلام) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم فهم قرآن (آپ کے فرمودات کے مطابق) مؤلفه مرزا حنيف احمد
صرف احمدی احباب کے لئے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوُد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم فهم قرآن (آپ کے فرمودات کے مطابق) إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ.(الحجر:10) (ترجمہ: ہم نے یہ کلام آپ اتارا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان رہیں گے ) " اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی روسے کہ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ مَا مصداق اور موعود ہے.وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 60)
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گردگھوموں کعبہ مرا یہی ہے
عرض حال اور تعلیم فہم قرآن کا دوسر ایڈیشن پیارے خدا تعالیٰ کا بے انتہا احسان ہے کہ اُس نے مجھ جیسے ناچیز اور کم علم انسان کو یہ توفیق عطاء فرمائی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تحریرات و تقاریر سے عرفان قرآن اور اسالیب فہم قرآن کو اخذ کر کے آپ ہی کے الفاظ میں ان کو ایک ترتیب کیسا تھ پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں.اس عطاء خاص پر خاکسار کا دل اور روح اس کے شکر سے لبریز ہے.فا الحمد للہ.الحمد للہ.الحمد للہ علی ذالک اس کتاب کی تیاری کے دوران میرے ایک صاحب کشف و الہام دوست محترم شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم بتا یا کرتے تھے کہ آپ نے بہت مرتبہ کشف میں دیکھا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خاکسار کی کتاب اپنے ہاتھ میں اُٹھا رکھی ہے اور ورق پلٹ رہے ہیں اور بہت خوشی کا اظہار کر رہے ہیں.احمداللہ کہ یہ کشف اس طرح سے پورا ہوا کہ حضرت اقدس کے پانچویں نائب ( یعنی حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ) نے اس کتاب کو پسند کیا ہے اور کمال شفقت سے ایک خط میں اس کی تعریف کی ہے.( جیسا کہ کشف اور رویا میں باری تعالٰی کا یہ دستور ہے کہ کسی نائب ہستی کے مقام پر حقیقی ہستی کو دکھادیا جاتا ہے ).حضرت اقدس کے الفاظ میں کتاب کا مرتب ہونا اور آپ کے نائب کا اس کو قبول کرنا دو ایسی خوبیاں تھیں جس کی وجہ سے یہ کتاب جماعت میں بہت مقبول ہوئی ہے.اور اب اس کے دوسرے ایڈیشن کی ضرورت پیش آگئی ہے.دوسرے ایڈیشن کی ایک ضرورت یہ بھی تھی کہ باوجود احتیاط اور نظر ثانی کے اوّل اشاعت میں کچھ املاء اور حرکات و اعراب کی غلطیاں اصلاح طلب تھیں.ان اغلاط کی اصلاح کر دی گئی ہے.اس ایڈیشن میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات و کشوف کا انڈیکس بھی شامل کر دیا گیا ہے.کتاب کی اصلاح اغلاط کے تعلق میں خاکسارتین عاشقانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بہت شکر گزار ہے.اول میجر (ریٹائرڈ) سعید احمد صاحب ابن چوہدری محمد بوٹا صاحب مرحوم دوم چوہدری محمد اور میں صاحب ابن چوہدری محمد اسماعیل صاحب دیالگڑی مرحوم مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ ان دونوں اصحاب نے دوبارہ بہت محنت کر کے کتاب کا متن سے مقابلہ کیا ہے اور حوالہ جات درست کئے ہیں.اللہ ان کو جزائے خیر دے.آمین سوم ہمارے پیارے دوست مکرم احسان اللہ صاحب مربی سلسلہ ابن کرامت اللہ خادم صاحب مربی سلسلہ ہیں آپ نے بہت محبت اور محنت سے اصلاح شدہ کتاب کی C.D تیار کی ہے اور قرآن کریم کی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات وکشوف کا تن تنہا انڈیکس تیار کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اور ان کے وقف کو قبول کر کے بہت اعلیٰ نتائج پیدا کرے.آمین حقیقی تمنا اور دعا تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں یہ خدمت قبول ہو.اور باری تعالیٰ اپنی محبت اور مغفرت میں میرا خاتمہ کرے.آمین
در دو عالم مرا عزیز توئی وانچه می خواهم از تو نیز توئی (حضرت اقدس ) ترجمہ: دونوں جہانوں میں تو ہی میرا پیارا ہے.اور میں تجھ سے جس چیز کا طلبگار ہوں..وہ تو ہی ہے.
i ترتیب ابواب صفحہ نمبر شمار 1 انتساب -2 ارشاد حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 3 پیش لفظ 4- اظہار تشکر 5- باب اول - فہم قرآن اور منصب حضرت اقدس" 6- باب دوم - (89 ذیلی موضوعات ) قرآن کریم میں حضرت اقدس کا ذکر (290 ذیلی موضوعات ) فہم قرآن اور علوم قرآن کریم 7 - باب سوم 8._9 - 139 ذیلی موضوعات ) باب چہارم.فہم قرآن اور عقائد اور مسائل (119 ذیلی موضوعات) باب پنجم - فہم قرآن اور ارکان ایمان (354 ملی موضوعات ) 10 - باب ششم.فہم قرآن اور ارکان اسلام (33 ذیلی موضوعات) 11 - باب ہفتم.فہم قرآن کے علمی لوازمات ( شرائط) (72 ذیلی موضوعات ) 12 - باب ہشتم.فہم قرآن کے روحانی لوازمات (36 ذیلی موضوعات ) 13 - باب نہم - اصول تفسیر قرآن کریم (25 ذیلی موضوعات) -14.باب دہم.سلوک یعنی محبت الہی -15 -16 (137 ذیلی موضوعات ) انڈیکس آیات قرآن کریم انڈیکس الہامات حضرت اقدس مسیح موعود iii vit v xxii t vii xxvit xxiii 1 تا 96 302 97 452 303 562 453 614563 636615 706 637 756 707 794 757 926795 942 927 946943
!!
iii بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کا یہ عرفان آپ ہی کو عطا کیا ہے اور آپ ہی کے الفاظ میں مرتب کیا گیا ہے.اس لئے یہ خدمت :- میرے پیارے مہدی ء دوراں اور امام آخر زماں کے نام ہے.اس دعا اور تمنا کے ساتھ کہ یہ خدمت خدا تعالیٰ کی جناب میں مقبول ہو اور آپ حضور اس کو پسند فرمائیں.در ره عشق محمد ایس سر و جانم رود (ترجمہ: محمد کے عشق میں میرا سر اور جان قربان ہو.) ایس تمنا اس دعا این در دلم عزم صمیم (ترجمہ: میری یہی تمنا اور دعا ہے اور یہی میرے دل کا پختہ ارادہ ہے) والسلام خاکسار غلام احمد آخر زمان
iv
vii بسم الله الـرحـمـن الـرح نحمده و نصلی علی رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود پیش لفظ الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام على سيد رسله و صفوة احبته و خيرته من خلقه و من كل ماذرء وبرء و خاتم انبيائه و فخر اوليائه سيدنا و اما منا و نبينا محمد المصطفے الذي هو شمس الله لتنوير قلوب اهل الارضين و آله و صحبه و كل من آمن و اعتصم بحبل الله و اتقی و جميع عباد الله الصالحين.( نور الحق.رخ جلد 8 صفحہ 2 ترجمہ.تمام تعریفیں خدا کے لئے ثابت ہیں جو تمام عالموں کا پروردگار ہے اور دروداور سلام اسکے نبیوں کے سردار پر جو ا سکے دوستوں میں سے برگزیدہ اور اسکی مخلوق اور ہر ایک پیدائش میں سے پسندیدہ اور خاتم الانبیاء اور فخر اولیا ہے ہمارا سید ہمارا امام ہمارا نبی محمد مصطفے صلعم جو زمین کے باشندوں کے دل روشن کرنے کے لئے خدا کا آفتاب ہے اور سلام اور دروداس کی آل اور اسکے اصحاب اور ہر یک پر جو مومن اور حبل اللہ سے پنجہ مارنیوالا اور متقی ہو اور ایسا ہی خدا کے تمام نیک بندوں پر سلام.حضرت اقدس کی دعا سے برکت حاصل کرتے ہوئے خاکسارا اپنے محسن اور پیارے خدا کا بے انتہا شکر گزار ہے کہ اس نے یہ توفیق دی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ اسالیب فہم قرآن کو آپ ہی کے الفاظ اور اقتباسات میں مختلف موضوعات کی ترتیب کے مطابق پیش کر سکوں.حضرت اقدس کے موضوعات قرآن کو سمجھنا اور پھر ان کو موضوعات کے اعتبار سے اپنے اپنے مقام پر مرتب کرنا ایک ایسی خدمت تھی جس کے لئے استعداد قابل اور بے انتہا محنت درکار تھی.اس لئے اپنی علمی کم مائیگی کو جانتے ہوئے میں بہت خائف رہتا تھا کہ شاید میں نے ایسا کام شروع کیا ہے جو میری قابلیت سے بہت بلند ہے اور شاید میں اس کا حق ادانہ کرسکوں.مگر اول یہ سمجھ کر کہ قرآن کریم اور اس کے عرفان کے مخاطب عامی لوگ بھی تو ہیں اور یہ کہ استعدادا ایک ایسی قدر ہے جو محنت اور لگن سے بہتر بھی ہو جاتی ہے اور دوسرے درجے پر یہ یقین بھی تھا کہ حضرت اقدس کی تحریر اور تقریر کے خزانوں سے زر و جواہر تلاش کرنے والے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور ایک سے ایک بہتر ہوگا اس لئے اگران جو ہر شناسوں میں میرا نام بھی آجائے ( خواہ کم درجے کا ہی ہو ) تو بہت خوش نصیبی ہوگی.ان خیالات اور امیدوں سے تقویت حاصل کر کے خاکسار نے اس شوق کو زندہ رکھا ہے اور محض خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان بے پایاں سے اس قابل ہوا ہوں کہ اس خدمت کو مکمل کر سکوں.فالحمد اللہ الحمدللہ الحمد للہ علی ذالک.
viii اس پیش لفظ کو تحریر کرنے سے یہ مقصود نہیں کہ ادبی اور کتابی دستور کے مطابق حضرت اقدس کے عظیم الشان عرفانِ قرآن کے بارے میں ایک رسمی تعارف پیش کیا جائے کیونکہ میں اس حقیقت کو خوب سمجھتا ہوں کہ مرسلین باری تعالیٰ کے علمی اور روحانی افاضات کا حقیقی تعارف تو اول خدا تعالیٰ ہی فرماتا ہے جس نے ان کو روحانی معارف عطا کئے ہوتے ہیں.اور دوسرے درجے پر مرسلین باری تعالیٰ خود اللہ تعالیٰ کے حکم اور اذن سے ان مناصب عالیہ کا اعلان کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو عطا کئے جاتے ہیں.جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے.غیر را هرگز نمی باشد گذر در راه حق ہر کہ آید ز آسمان او راز آن یار آورد ترجمہ: (عرفان باری تعالیٰ کی راہ پر غیر کا گزر نہیں ہو سکتا.جو آسمان سے آتا ہے وہی اس محبوب کے راز لیکر آتا ہے ) کچی بات یہی ہے.آپ کا عرفان قرآن راہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتیں ہیں.اور ان کے بارے میں وہی کچھ کہہ سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے.اس صداقت کی روشنی میں ہم نے آپ کی تفہیمات قرآنیہ کے حقیقی منصب کو ظاہر کرنے کے لئے اس کتاب کا اول باب " فہم قرآن اور منصب حضرت اقدس“ کے عنوان پر قائم کیا ہے تاکہ ابتداء میں ہی ظاہر ہو جائے کہ عرفان قرآن کے تعلق میں اللہ تعالیٰ نے آپ حضرت کو کس منصب اور مقام پر فائز فرمایا ہے اور پھر ایسا ہو کہ آپ اپنے عرفان قرآن کی عظمت اور شان اللہ تعالیٰ کی وحی اور تائیدات کے ساتھ خود ہی اپنے الفاظ میں بیان کریں.یہی اس تالیف کو مرتب کرنے کا دستور ہے کہ حضرت اقدس کے سوا کسی اور کے کلام کا اس میں عمل دخل نہ ہو.اس دستور کی پاسداری میں ہم جو گزارشات پیش لفظ کے طور پر کرنا چاہتے ہیں ان کو بھی حضرت اقدس کے اقتباسات کی صورت میں پیش کریں گے.ہمارا کام صرف اس قدر ہوگا کہ ان کو معنوی ترتیب کے مطابق درج کر دیا جائے.دراصل پیش لفظ کے طور پر چند امور کو بیان کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی کہ خاکسار نے خیال کیا کہ اقتباسات کی صورت میں جو مضامین بیان ہوتے ہیں.ان میں ہزار کوشش پر بھی معنوی تسلسل قائم نہیں رہتا.اس لئے بہت سے اہم موضوعات جو دراصل مندرجات کتاب کی جان اور روح رواں ہوتے ہیں قاری کے مطالعہ میں نہیں آتے یا وہ ان پر سرسری نظر ڈال کر گذر جاتا ہے اور کتاب کے مرکزی نکتہ کو اخذ نہ کرنے کی وجہ سے کتاب کی حقیقی افادیت سے محروم ہو جاتا ہے.
ix اس لئے جس قاری نے اس کتاب کو جستہ جستہ پڑھنا ہے.اور اس کا التزاما مکمل مطالعہ نہیں کرنا اس کے لئے یہ امر بہت فائدہ مند ہوگا ابتدا ہی میں یہ واضح کر دیا جائے کہ: اوّل حضرت اقدس نے نزول معارف قرآن کے بارے میں کیا دستور خداوندی بیان کیا ہے.اور دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کن مقاصد کے حصول کے لئے آپ کو قرآن کریم کے دقائق اور معارف عطا کئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی جناب سے جو قرآن کریم کا عرفان اور اس کا فہم و ادراک حاصل ہوا ہے.اس کے نزول کے محرکات اور مقاصد کو اگر نہایت درجہ اختصار سے بیان کرنا مقصود ہو تو اس کی صورت اسی طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ اس مضمون میں اول اس بنیادی اصول کو بیان کیا جائے جسکو حضرت اقدس نے نہ صرف فہم قرآن بلکہ قرآن کریم کے نزول کے بارے میں سنت اللہ کے طور پر بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں.اصل حقیقت وحی کی یہ ہے جو نزول وحی کا بغیر کسی موجب کے جو مستدعی نزول وحی ہو ہر گز نہیں ہوتا.بلکہ ضرورت کے پیش آجانے کے بعد ہوتا ہے.اور جیسی جیسی ضرورتیں پیش آتی ہیں بمطابق ان کے وحی بھی نازل ہوتی ہے کیونکہ وحی کے باب میں یہی عادت اللہ جاری ہے کہ جب تک باعث محرک وحی پیدا نہ ہو لے تب تک وحی نازل نہیں ہوتی.اور خود ظاہر بھی ہے جو بغیر موجودگی کسی باعث کے جو تحریک وحی کی کرتا ہو یونہی بلا موجب وحی کا نازل ہو جانا ایک بے فائدہ کام ہے جو خداوند تعالیٰ کی طرف جو حکیم مطلق ہے اور ہر یک کام برعایت حکمت اور مصلحت اور مقتضاء وقت کے کرتا ہے منسوب نہیں ہو سکتا.(براہین احمدیہ - ر- خ - جلد 1 صفحہ 75 حاشیہ (2) اس اصل الاصول کی صداقت کے ثبوت میں آپ سورۃ الروم کی آیت:42 ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ....الآية کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں." آپ کی آمد کا وہ وقت تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے خود ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ....الآية (الروم : 42) سے بیان کیا ہے یعنی نہ خشکی میں امن تھا نہ تری میں.مراد اس سے یہ ہے کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سب بگڑ چکے تھے اور قسم قسم کے فساد اور خرابیاں ان میں پھیلی ہوئی تھیں.گویا زمانہ کی حالت بالطبع تقاضا کرتی تھی کہ اس وقت ایک زبردست ہادی اور مصلح پیدا ہو.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 578) اس بنیادی اصول کو سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 106 و با الْحَقِّ اَنْزَلْنَهُ وَ بِاالْحَقِّ نُزِلَ...کی تفسیر میں فرماتے ہیں.اور ہم نے اس کو ضرورت حقہ کیسا تھ اتارا ہے.اور ضرورت حقہ کیساتھ یہ اترا ہے.یہ نہیں کہ فضول اور بے فائدہ اور بے وقت نازل ہوا ہے.“ ایک اور مقام پر اس اصل کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.خدائے تعالیٰ کی حقانی شریعت اور تعلیم کا نازل ہونا ضرورات حلقہ سے وابستہ ہے.پس جس جگہ ضرورات حلقہ پیدا ہوگئیں اور زمانہ کی اصلاح کیلئے واجب معلوم ہوا کہ کلام الہی نازل ہو.اسی زمانہ میں خدائے تعالیٰ (براہین احمدیہ - رخ جلد 1 صفحہ 416 حاشیہ نمبر (11) نے جو حکیم مطلق ہے اپنے کلام کو نازل کیا.
X اس مقام تک عمومی طور پر جو بھی تعلیم خداوندی انسان کے لئے نازل ہوئی ہے اس کے نزول کا دستور خداوندی اور خصوصاً قرآن کریم کی وحی کے نازل ہونے کے محرکات اور موجبات کا بیان ہوا ہے.اس کی ترتیب اس طرح سے ہے :.اول یہ کہ بغیر کسی محرک کے خدا تعالیٰ کی وحی اور اس کی تعلیم نازل نہیں ہوتی.دوم یہ کہ محرک نزول وحی ضرورت حلقہ ہوتی ہے.اور سوم یہ کہ قرآن کریم کے نازل ہونے کا محرک اور ضرورت آنحضرت صلعم کے وقت کا روحانی انحطاط اور کامل گمراہی تھی.اب یہ دیکھنا ہے کہ قرآن کریم کے معارف کے نزول کے بارے میں حضرت اقدس نے کیا دستور خداوندی سنت اللہ کے طور پر پیش کیا ہے.اس مضمون میں آپ نے اول قدم پر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ قرآن کا نزول اور رسول اکرم ﷺ کی بعثت كَافَّةً لِلنَّاسِ یعنی تمام انسانوں کے لئے ہوئی ہے اس لئے یہ ضروری امر ہے کہ قرآن کریم کی بنیادی تعلیمات عام فہم اور آسان ہوں تا کہ ہر قابلیت کا انسان ان کو سمجھ سکے.یعنی یہ کہ قرآن کریم کے پیغام سمجھنے کے لئے اعلی علمی اور ذہنی قابلیت شرط نہ ہو.بلکہ کم از کم استعداد ذہنی رکھنے والا انسان بھی اس سے راہ نمائی حاصل کر سکے.سورۃ آل عمران کی آیت 65 قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَبِ تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا الله الآية کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.قرآنی تعلیم کا دوسرا کمال.کمال تفہیم ہے.یعنی اس نے ان تمام راہوں کو سمجھانے کے لئے اختیار کیا جنگ مقدس - ر- خ - جلد 6 صفحہ 289) ہے جو تصور میں آسکتے ہیں.اگر عامی ہے تو اپنی موٹی عقل کے موافق اس سے فائدہ اُٹھا تا ہے اور اگر فلسفی ہے تو اپنے دقیق خیال کے مطابق اس سے صداقتیں حاصل کرتا ہے.“ اسی مضمون کو ایک اور مقام پر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو عام تبلیغ کا حق ادا نہ ہو سکتا.دو سورۃ واقعہ کی آیت 76 فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ...الآية کی تفسیر میں فرماتے ہیں.یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اگر علم قرآن خاص بندوں سے مخصوص کیا گیا ہے تو دوسروں سے نافرمانی کی حالت میں کیونکر مواخذہ ہوگا.کیونکہ قرآن کریم کی وہ تعلیم جو مدار ایمان ہے وہ عام فہم ہے.اس کو ایک کافر بھی سمجھ سکتا ہے.اور ایسی نہیں ہے کہ کسی پڑھنے والے سے مخفی رہ سکے.وہ اگر عام فہم نہ ہوتی تو کارخانہ تبلیغ ناقص رہ جاتا.(کرامات الصادقین.رخ.جلد 7 صفحہ 53)
xi اسی مضمون کی مزید وضاحت میں سورۃ اعراف کی آیت 159 يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا....الایۃ اور سورۃ احزاب کی آیت 41 وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّن...الاية کی تفسیر میں فرماتے ہیں.جس قدر اس زمانہ کی ضرورتوں کے موافق اس زمانہ میں اسرار ظاہر ہونے ضروری تھے وہ اس زمانہ میں ظاہر کئے گئے.مگر وہ باتیں جو مدار ایمان ہیں اور جن کے قبول کرنے اور جاننے سے ایک شخص مسلمان کہلا سکتا ہے وہ ہر زمانہ میں برابر طور پر شائع ہوتی رہیں.“ کرامات الصادقین...خ جلد 7 صفحہ 62) قرآن کریم اور اس کے عام عرفان کے نزول کے بارے میں اس اول حقیقت کا بیان ہونے کے بعد ہم اس مقام پر آتے ہیں کہ معلوم کریں کہ قرآن کریم کے دقائق اور معارف کے نازل ہونے کا دستور خداوندی کیا ہے.اس امر کی وضاحت میں حضرت اقدس بیان فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے دقائق اور معارف کا نزول بغیر کسی ضرورت پیش آمدہ کے نہیں ہوتا اور اسی قدر ہوتا ہے جتنی کہ اس وقت کی ضرورت ہوتی ہے.سورۃ حجر کی آیت 22 کی تفسیر میں فرماتے ہیں.وَ إِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَ مَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ.(الحجر: 22) دنیا کی تمام چیزوں کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر بقدر ضرورت و مقتضائے مصلحت و حکمت ہم ان کو اتارتے ہیں.اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہوا کہ ہر ایک چیز جو دنیا میں پائی جاتی ہے وہ آسمان سے ہی اتری ہے اس طرح پر کہ ان چیزوں کے علل موجبہ اسی خالق حقیقی کی طرف سے ہیں اور نیز اس طرح پر کہ اسی کے الہام اور القاء اور سمجھانے اور عقل اور فہم بخشنے سے ہر یک صنعت ظہور میں آتی ہے لیکن زمانہ کی ضرورت سے زیادہ ظہور میں نہیں آتے اور ہر یک مامور من اللہ کو وسعت معلومات بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق دی جاتی ہے.علی ہذا القیاس قرآن کریم کے دقائق و معارف و حقائق بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق ہی کھلتے ہیں.“ (ازالہ اوہام - رخ جلد 3 صفحہ 451-450) اس حقیقت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب ضرورت پیش آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی روحانی معلم کو بھیج کر قرآن کے باطنی علوم ظاہر فرماتا ہے.فرماتے ہیں.قرآن جامع جمیع علوم تو ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زمانہ میں اسکے تمام علوم ظاہر ہو جائیں بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں اور ہر یک زمانہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کرنے والے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں جو وارث رسل ہوتے ہیں اور ظلی طور پر رسولوں کے کمالات کو پاتے ہیں اور جس مجدد کی کارروائیاں کسی ایک رسول کی منصبی کاروائیوں سے شدید مشابہت رکھتی ہیں وہ عند اللہ اسی رسول کے نام سے پکارا جاتا ہے.شہادت القرآن - رخ جلد 6 صفحہ 348)
xii اس مقام تک فرمودات حضرت اقدس میں جو حقائق بیان ہوئے ہیں ان کی ترتیب اس طرح سے ہے: اول یہ کہ قرآن کریم کی وہ تعلیم جو مدار ایمان ہے وہ عام فہم اور آسان ہے.دوم یہ کہ قرآن کریم کے دقیق حقائق اور معارف ضرورت زمانہ کے موافق کھلتے ہیں.سوم یہ کہ جب کسی زمانے کی دینی اور روحانی مشکلات کے حل کی ضرورت پیش آتی ہے تو ان کو حل کرنے کی غرض سے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں.اس حد تک یہ امور تو واضح ہو گئے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے نزول میں دستور خداوندی کیا ہے.اور یہ کہ وہ کیا محرکات اور عوامل ہوتے ہیں جو شریعت اور اس کے عرفان کے نازل ہونے کا موجب ہوتے ہیں.اور یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ نزول شریعت کے اصول کے مطابق قرآن کریم کے دقائق اور معارف بھی بغیر کسی ضرورت پیش آمدہ کے ظاہر نہیں ہوتے.اس مقام پر یہ جائزہ لینا ہے کہ حضرت اقدس نے اپنے وقت کی دینی ضروریات کو کس طور سے بیان کیا ہے اور آپ کے وقت کے کیا تقاضے تھے جن سے عہدہ برا ہونے کے لئے آپ حضرت کو وحی الہی کی تائید کے ساتھ قرآن کریم کے حقائق اور معارف عطا کئے گئے.حضرت اپنے وقت کی دینی مشکلات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.وہ پاک وعدہ جس کو یہ پیارے الفاظ ادا کر رہے ہیں کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُون.(الحجر: 10 ) وہ انہیں دنوں کے لئے وعدہ ہے جو بتلا رہا ہے کہ جب اسلام پر سخت بلا کا زمانہ آئے گا اور سخت دشمن اس کے مقابل کھڑا ہوگا اور سخت طوفان پیدا ہو گا تب خدائے تعالیٰ آپ اس کا معالجہ کرے گا اور آپ اس طوفان سے بچنے کے لئے کوئی کشتی عنایت کرے گا وہ کشتی اسی عاجز کی دعوت ہے.آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 264 حاشیہ) مزید فرماتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کو اسلام کی غیرت نہ ہوتی اور اِنَّ الدِّينَ عِندَ اللهِ الْإِسلام (آل عمران: 20 ) خدا کا کلام نہ ہوتا اور اس نے نہ فرمایا ہوتا.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر: 10 ) تو بیشک آج وہ حالت اسلام کی ہوگئی تھی کہ اس کے مٹنے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہوسکتا تھا.مگر اللہ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی رحمت اور وعدہ حفاظت نے تقاضا کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کو پھر نازل کرے اور اس زمانہ میں آپ کی نبوت کو نئے سرے سے زندہ کر کے دکھا دے چنانچہ اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور مجھے مامور اور مہدی بنا کر بھیجا.( ملفوظات جلد دوم صفحه 65) دین اسلام اور رسول اکرم کی نبوت کے خلاف جن بلاؤں اور جن دشمنوں کا ذکر حضرت نے فرمایا ہے.ان کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ یہ مخالفت اور دشمنی کا طوفان دو طور سے ظاہر ہوا تھا.ایک امت محمدیہ کے اندرونی اختلافات اور بے راہ روی تھی اور دوسرے اسلام پر بیرونی طور پر اعتراضات اور اس کی حقانیت پر شکوک و شبہات کا طوفان تھا.
xiii فرماتے ہیں.اور مجھے خدا کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حکم ہوں.یہ جو میرا نام سیح اور مہدی رکھا گیا ان دونوں ناموں سے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشرف فرمایا اور پھر خدا نے اپنے بلا واسطہ مکالمہ سے یہی میرا نام رکھا اور پھر زمانہ کی حالت موجودہ نے تقاضا کیا کہ یہی میرا نام ہو.“ ( اربعین.ر.خ.جلد 17 صفحہ 346-345) اندرونی اعتبار سے امت مسلمہ کے جن مفاسد اور کج رویوں کی اصلاح آپ کے سپرد ہوئی تھی وہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو اور حقیقی اسوۂ نبوی کو بھلا دینا تھا.یہی وہ زمانہ تھا جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج سج رو) کہا ہے اور جس کے بارے میں فرمایا ہے ” لَيْسُوا مِنِّى وَ لَستُ مِنْهُمُ “ یعنی ان کو میری طرف منسوب نہ کرو اور نہ ہی مجھے ان سے کوئی واسطہ ہے.فرماتے ہیں.جو کچھ اللہ نے چاہا تھا اس کی تکمیل دوہی زمانوں میں ہوئی تھی.ایک آپ کا زمانہ اور ایک آخری مسیح و مہدی کا زمانہ یعنی ایک زمانہ میں تو قرآن اور بچی تعلیم نازل ہوئی لیکن اس تعلیم پر صبیح اعوج کے زمانہ نے پردہ ڈال دیا جس پردہ کا اُٹھایا جانا مسیح کے زمانہ میں مقدر تھا جیسے کہ فرمایا کہ رسول اکرم نے ایک تو موجودہ جماعت یعنی جماعت صحابہ کرام کا تزکیہ کیا اور ایک آنے والی جماعت کا جس کی شان میں لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ آیا ہے.سو یہ ظاہر ہے کہ خدا نے بشارت دی کہ ضلالت کے وقت اللہ تعالیٰ اس دین کو ضائع نہ کرے گا بلکہ آنے والے زمانے میں خدا حقائق قرآینہ کوکھول دے گا.آثار میں ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ فضلیت ہوگی کہ وہ قرآنی فہم اور معارف کا صاحب ہوگا اور صرف قرآن سے استنباط کر کے لوگوں کو ان کی غلطیوں سے متنبہ کرے گا جو حقائق قرآن کی ناواقفیت سے لوگوں میں پیدا ہوگئی ہوں“.بیرونی اعتبار سے جن مفاسد دینیہ کے حملوں کا آپ نے دفاع کرنا تھا وہ غیر از اسلام دنیا کی طرف سے لملفوظات جلد اول صفحہ 25) اعتراضات تھے جو ایک طوفان عظیم کی طرح سے اسلام کے مقابل پر بر پا ہو گئے تھے.دین اسلام کے دفاع کی اس خدمت کے لئے جو منصب اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا اس کے بارے میں فرماتے ہیں.و جس قدر حق کے مقابل پر اب معقول پسندوں کے دلوں میں اوہام باطلہ پیدا ہوئے ہیں اور عقلی اعتراضات کا ایک طوفان برپا ہوا ہے اس کی نظیر کسی زمانہ میں پہلے زمانوں میں سے نہیں پائی جاتی.لہذا ابتداء سے اس امر کو بھی کہ ان اعتراضات کا براہین شافیه و کافیہ سے بحوالہ آیات قرآن مجید بکلی استیصال کر کے تمام ادیان باطلہ پر فوقیت اسلام ظاہر کر دی جائے اسی زمانہ پر چھوڑا گیا تھا کیونکر پیش از ظهور مفاسدان مفاسد کی اصلاح کا تذکر محض بے محل تھا.اسی وجہ سے حکیم مطلق نے ان حقائق اور معارف کو اپنی کلام پاک میں مخفی رکھا اور کسی پر ظاہر نہ اور کیا جب تک کہ ان کے اظہار کا وقت آگیا.ہاں اس وقت کی اس نے پہلے سے اپنی کتاب عزیز میں خبر دے رکھی تھی جو آیت هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى (الصف: 10 ) میں صاف اور کھلے کھلے طور پر مرقوم ہے.سواب وہی وقت ہے اور ہر یک شخص روحانی روشنی کا محتاج ہو رہا ہے سو خدائے تعالیٰ نے اس روشنی کو دیکر ایک شخص کو دنیا میں بھیجاوہ کون ہے؟ یہی ہے جو بول رہا ہے.“ (ازالہ اوہام.رخ.جلد 3 صفحہ 515-514)
xiv یہ قرآن کریم کے حقائق اور عرفان کی دوسری ضرورت تھی جس کو حضرت اقدس نے بہت دلفریب الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اس مفسدہ عظیم کی اصلاح کے لئے ایک فرد کو عرفان قرآن عطا کیا گیا.اور وہ کون ہے؟ یہی جو بول رہا ہے.اندرونی اور بیرونی مفاسد اور حملوں کی وضاحت اور نشاندہی کے تعلق میں مزید دو بہت پیارے اور مدلل فرامین حضرت اقدس پیش کرنا چاہتا ہوں.یہ فرمودات ان دونوں مفاسد زمانہ کو یکجا طور پر بیان بھی کرتے ہیں اور ان کے اصلاح کے لئے حضرت اقدس کو جو منصب فہم قرآن کی نسبت سے عطا ہے اس پر بھی روشنی ڈالتے ہیں.فرماتے ہیں.حضرت عیسی کے مبعوث کرنے سے جو حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد آئے.خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تھا کہ موسوی نبوت کی صحت اور اس سلسلہ کی حقانیت پر تازہ شہادت قائم کرے.اور نئی تائیدات اور آسمانی گواہوں سے موسوی عمارت کی دوبارہ مرمت کر دیوے.اسی طرح جو اس امت کے لئے مسیح موعود بھی چودھویں صدی کے سر پر بھیجا گیا اس کی بعثت سے بھی یہی مطلب ہوا کہ جو یورپ کے فلسفہ اور یورپ کی دجالیت نے اسلام پر طرح طرح کے حملے کئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور پیشگوئیوں اور مجزات سے انکار اور تعلیم قرآنی پر اعتراض اور برکات اور انوار اسلام کو سخت استہزاء کی نظر سے دیکھا ہے اور ان تمام حملوں کو نیست و نابود کرے اور نبوت محمدیہ علی صاحبہا الف الف سلام کو تازہ تصدیق اور تائید سے حق کے طالبوں پر چمکا دے.“ ایام الصلح - ر- خ جلد 14 صفحہ 307 308) مزید فرماتے ہیں.میں اس وقت محض اللہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں اُن نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں.“ بركات الدعا.ر.خ.جلد 6 صفحہ 34) گزشتہ میں بیان کردہ فرمودات حضرت اقدس سے جہاں یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ آپ پر عرفان قرآن نازل ہونے کے محرکات اور ضرورت زمانہ کیا تھی.وہاں پر یہ بھی بیان ہو گیا ہے کہ ان دینی اور روحانی خدمات کو سرانجام دینے کے لئے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کن روحانی مناصب عالیہ سے سرفراز کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کے حکم اور منشاء کے مطابق حضرت اقدس نے اپنی خدمات کو دو مناصب عالیہ کے تحت قرار دیا ہے اور ان مناصب کے حامل ہونے کا دعویٰ کیا ہے.
XV آپ کا اول منصب اور دعویٰ مہدی معہود ہونے کا ہے.اور دوسرا منصب اور دعویٰ مسیح موعود ہونے کا ہے.فرماتے ہیں.مجھے خدا کی پاک اور مطہر وجی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں.“ اربعین - ر- خ جلد 7 صفحہ 346 345) اول دعویٰ یعنی مہدی معہود کی ذیل میں جو جلیل القدر مناصب آتے ہیں ان میں سرخیل کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ ہے.اور پھر درجہ بدرجہ آنحضرت کے اسم احمد کی تجلی.وارث رسول اکرم نائب رسول اکرم اور دین اسلام میں حکم و عدل ہونے اور چودھویں صدی کے مجد داسلام ہونے کے دعاوی ہیں جو کہ بنیادی اور اساسی ہیں.دوسرا منصب عالیہ یعنی دعوی بی موعود کی ذیل میں جو مناصب آتے ہیں وہ مثیل مسح علیہ السلام اور کا ر صلیب کے دعاوی ہیں.آپ حضرت نے ان سب دعاوی کو ایک ہی مقام پر ایسے بیان کیا ہے.فرماتے ہیں.ازیں بود که چوں سال صدی تمام شود برآید آنکه بدین نائب خدا باشد که او مجدد این دین و راهنما باشد رسید مژده زعیم کہ من ہماں مردم منم مسیح ببانگ بلند می گویم منم خلیفہ شا ہے کہ برسا باشد موید یکه مسیحا دم ست و مهدی وقت بشان او دگرے کے ز اتقیاء باشد منم مسیح زمانم منم کلیم خدا منم محمد و احمد که مجتبی باشد خنم ایکہ سخت بے خبری که اینکه گفته ام از وحی کبریا باشد تریاق القلوب - رخ جلد 15 صفحہ 134-132) ترجمہ: ا.یہی وجہ ہے کہ جب صدی کے سال ختم ہوتے ہیں تو ایسا مرد ظاہر ہوتا ہے جو دین کے لئے خدا کا قائمقام ہوتا ہے.۲.مجھے غیب سے یہ خوشخبری ملی ہے کہ میں وہی انسان ہوں جو اس دین کا مجد داور راہ نما ہے.۳.میں بلند آواز سے کہتا ہوں کہ میں ہی مسیح ہوں اور میں ہی اس بادشاہ کا خلیفہ ہوں جو آسمان پر ہے..وہ تائید یافتہ شخص جو مسیحادم اور مہدی وقت ہے اس کی شان کو اتقیا میں سے کوئی نہیں پہنچ سکتا.۵.میں ہی مسیح وقت ہوں اور میں ہی کلیم خدا ہوں میں ہی وہ محمد اور احمد ہوں جو جنتی ہے.اے وہ شخص جو بالکل بے خبر ہے میری بات سے ناراض نہ ہو کہ جو میں نے کہا ہے یہ خدا کی وحی سے کہا ہے.یہ وہ مناصب عالیہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا کئے گئے.اور آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ ان روحانی مناصب کے حامل ہونے کا دعوی کریں اور تمام دنیا کی سعید روحوں سے ان کی تصدیق پر بیعت لیں.
xvi حضرت اقدس کے فرمودات سے یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ کے تمام روحانی مناصب اور آپ کے دعاوی دراصل اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کے ثبوت اور استحکام کی غرض سے عطا کئے گئے ہیں.آپ ہی کے دین اور آپ ہی کے قرآن اور آپ ہی کی نبوت اور اسوہ حسنہ کو زندہ کرنے کی خدمت بطور ظل اور بروز آپ کے سپرد کی گئی ہے.یہ ایک کامل اتحاد ہے جس کے بیان میں حضرت اقدس فرماتے ہیں.و انزل الله على فيض هذا الرسول.فاتمه و اكمله و جذب الى لطفه وجوده حتى صارا وجودى وجوده.فمن دخل في جماعتي دخل في صحابة سيدخير المرسلين.و هذا هو معانی " و آخرين منهم كما لا يخفى على المتدبرين و من فرق بيني و بين المصطفى فما (خطبہ الہامیہ.رخ جلد 16 صفحہ 259 258) عرف و ما رای ترجمہ: خدا نے مجھ پر اس رسول کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا.اور نبی کریم کے لطف اور جود کو میری طرف کھینچا یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہو گیا.پس جو میری جماعت میں داخل ہوا وہ درحقیقت میرے سردار خیرالمرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا.اور یہی معانی اخَرِينَ مِنْهُمُ کے ہیں.جیسا کہ سوچنے والوں پر پوشیدہ نہیں.اور جو شخص مجھ میں اور رسول اکرم میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہیں پہچانا.اس کامل اتحاد اور یگانگت کو قائم کرنے کی ضرورت کے بیان میں فرماتے ہیں.چونکہ آنحضرت ﷺ کا حسب آیت اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ) دوبارہ تشریف لا نا بجز صورت بروز غیر ممکن تھا.اس لئے آنحضرت ﷺ کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جو خلق اور خو میں اور ہمدردی خلائق میں آپ کے مشابہہ تھا.اور مجازی طور پر نام محمد اور احمد اس کو عطا کیا تا کہ یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا ظہور بعینہ آنحضرت ﷺ کا ظہور تھا.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 263) ان فرمودات کی روشنی میں یہ امر تو لازم قرار پاتا ہے کہ آنحضرت کے دین کی نشاۃ ثانیہ کے لئے آپ حضرت کو وہی عرفان قرآن عطا کیا جاتا جو آپ کے آقا اور مطاع کو عطا کیا گیا تھا اور آپ کو وہی روحانی قرب اور اسوۂ حسنہ عطا کیا جاتا جس کو زندہ کرنے کی خدمت آپ کے سپرد ہوئی تھی.کیونکہ جہاں مقاصد میں با ہم اشتراک ہو وہاں ان کے حصول کی خاطر قابلیت اور استعداد میں اشتراک اور اتحاد ایک لازم امر ہے.وو اس حقیقت کو حضرت اقدس نے بہت خوب بیان کیا ہے.فرماتے ہیں.اس جگہ یہ یہ بھی یادر ہے کہ جب مجھ کو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ایک خدمت سپرد کی گئی ہے.اس وجہ سے کہ ہمارا آقا اور مخدوم تمام دنیا کے لئے آیا تھا تو اس عظیم الشان خدمت کے لحاظ سے مجھے وہ قوتیں اور طاقتیں بھی دی گئی ہیں جو اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے ضروری تھیں.اور وہ معارف اور نشان بھی دیئے گئے ہیں جن کا دیا جانا اتمام حجت کے لئے مناسب وقت تھا.(حقیقۃ الوحی - ر-خ- جلد 22 صفحہ 155)
xvii اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس پر جو معارف قرآن کی عنایت خاص کی ہے اس کے عالی مرتبہ منصب کے بیان میں ذیل کے فرامین بہت اہمیت رکھتے ہیں.اول تو آپ کا الہام باری تعالیٰ.اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ہے.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 73) اس کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.” خدا نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی اس کے صحیح معنی تجھ پر ظاہر کئے.“ اور اسی مضمون میں فرماتے ہیں.قرآن شریف کے لئے تین تجلیات ہیں.وہ سیدنا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے نازل ہوا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے اس نے زمین پر اشاعت پائی اور مسیح موعود کے ذریعہ سے بہت سے پوشیدہ اسرار اس کے کھلے.وَلِكُلّ اَمْرٍ وَقْتُ مَّعْلُومٌ.اور جیسا کہ آسمان سے نازل ہو اتھا ویسا ہی آسمان تک اس کا نور پہنچا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اس کے تمام احکام کی تکمیل ہوئی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے وقت میں اس کے ہر ایک پہلو کی اشاعت کی تکمیل ہوئی اور مسیح موعود کے وقت میں اس کے روحانی فضائل اور اسرار کے ظہور کی تکمیل ہوئی.منہ“ ( براہین احمدیہ.رخ - جلد 21 صفحہ 66 حاشیہ) اس مقام تک یہ امور تو واضح ہو گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عظیم المرتبہ عرفان قرآن آپ کو عطا کیا گیا ہے ان کا مقصد وہ خدمات دینیہ ہیں جن کو سرانجام دینے کے لئے آنحضرت کی روحانیت نے آپ کا انتخاب کیا ہے.اور یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ یہ خدمات قرآنیہ آپ کے دعاوی کی صداقت کو ثابت کر کے ہی سرانجام دی جاسکتی ہیں.سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغام لانے والے کے دعاوی کی صداقت اس پیغام کی صداقت پر گواہ ہوتی ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام کا حقیقی فہم اور اس کی تعلیم کا کامل ادراک مرسلین باری تعالیٰ کے درس ارشاد اور اسوہ حسنہ سے ہی حاصل ہوتا ہے.جیسا کہ فرماتے ہیں.* وَقَالُوا إِلَى الْمَوْعُودِ لَيْسَ بِحَاجَةٍ فَإِنَّ كِتَابَ اللَّهِ يَهْدِى وَ يُخْبِرُ وَمَا هِيَ إِلَّا بِالْغُيُورِ دَعَابَةٌ فَيَا عَجَبًا مِّنْ فِطْرَةٍ تَتَهَوَّرُ وَقَدْ جَاءَ قَوْلُ اللهِ بِالرُّسُل تَوْمًا وَ مِنْ دُونِهِمْ فَهُمُ الْهُدَى مُتَعَـــر ضمیمه نزول مسیح - ر-خ- جلد 19 صفحہ 173-172) اور انہوں نے کہا کہ مسیح موعود کی طرف کچھ حاجت نہیں.کیونکہ اللہ کی کتاب ہدایت دیتی اور خبر دیتی ہے.اور یہ تو خدائے غیور کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا ہے.پس ایسی بیباک فطرتوں پر تعجب آتا ہے.* اور اصل حقیقت یہ ہے کہ خدا کا کلام اور رسول با ہم تو ام ہیں.اور ان کے بغیر خدا کے کلام کا سمجھنا مشکل ہے.
xviii اس امر کی وضاحت کے لئے کہ جو عرفان قرآن آپ کو عطا ہوا ہے وہ آپ کے دعاوی کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے ایک نشان اور گواہ کے طور پر نازل ہوا ہے.آپ فرماتے ہیں.ہمچو شاہداں استاده اند علم قرآں علم آں طیب زباں علم غیب از وحی خلاق جہاں این سه علم از نشانها داده اند ترجمہ : - قرآن کا علم اور قرآن کی پاک زبان کا علم اور خدا کی وحی سے غیب کا علم یہ تین علوم مجھے نشان کے طور پر عطا ہر کئے گئے ہیں.اور یہ تینوں میرے دعاوی کی صداقت کے ثبوت میں گواہ کے طور پر کھڑے ہیں.یہ وہی بات ہے جس کو حضرت نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر کے تعلق میں مرکزی نکتہ کے طور پر بیان کیا ہے یعنی یہ کہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں جو عرفان قرآن آپ کو عطا ہوا ہے وہ آپ کے دعاوی کی صداقت پر ایک گواہ ہے.اور قرآن کریم کے طالب علم اس حقیقت سے نا آشنا نہیں.کہ سورۃ فاتحہ قرآن کریم کے تمام مضامین کا خلاصہ اور سرنامہ ہے.فرماتے ہیں.اے دوستو جو پڑھتے ہو ام الکتاب کو اب دیکھو میری آنکھوں سے اس آفتاب کو اس کی قسم کہ جس نے یہ سورۃ اُتاری ہے اس پاک دل پہ جس کی وہ صورت پیاری ہے یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے یہ میرے صدق دعوی پہ مہر اللہ ہے میرے صحیح ہونے پہ یہ اک دلیل ہے میرے لئے یہ شاہد رب پھر میرے بعد اوروں کی ہے انتظار کیا تو بہ کرو کہ جینے کا ہے اعتبار کیا آپ مشاہدہ کر لیں اس فرمان میں گواہ کا لفظ بھی آ گیا اور شاہد کا لفظ بھی اور عرفان قرآن کا آپ کے دعاوی کے صدق پر مہر الہ ہونے کا بیان بھی کر دیا گیا.جلیل ہے حضرت اقدس کا فہم قرآن اور آپ کے دعاوی کے باہم تعلق کی اہمیت کو آپ ایک اور مقام پر بہت وضاحت سے ایک حتمی اور فیصلہ کن بیان میں فرماتے ہیں.نبوت اور قرآن شریف کی کلید میرے دعوی کا نہم کلید ہے نبوت اور قرآن شریف کی.جو شخص میرے دعوی کو سمجھ لے گا، نبوت کی حقیقت اور قرآن شریف کے فہم پر اس کو اطلاع دی جائے گی اور جو میرے دعوی کو نہیں سمجھتا.اس کو قرآن شریف پر اور ( ملفوظات جلد اول صفحہ 393) رسالت پر پورا یقین نہیں ہوسکتا.اس مقام تک جو فرمودات حضرت اقدس پیش کئے گئے ہیں ان میں وہ مرکزی نکتہ بیان ہوا ہے جس کی طرف تمام فرمودات حضرت قدم بقدم اشارہ کرتے ہوئے چلے آ رہے تھے.اول یہ کہ جو تفہیمات قرآنیہ آپ کو عطا ہوئی ہیں وہ آپ کے وقت کی دینی اور روحانی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق تھیں اور ان سے عہدہ برا ہونے کے لئے تھیں.اور اسی قدر تھیں جتنی اس وقت کی ضرورت تھی.دوم یہ کہ ان دینی اور روحانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے جو روحانی مناصب آپ کو عطا ہوئے ہیں.ان ہی کی تصدیق و توثیق میں آپ کو فہم قرآن عطا ہوا ہے.اور سوم یہ کہ منشاء باری تعالیٰ یہی ہے کہ مہدی معہود اور مسیح موعود کے دعاوی کی صداقت کی بنیاد پر ہی اسلام کے خلاف حملوں کا دفاع ہو اور قرآن کریم کی صداقت ثابت ہو اور آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور اسوہ کا احیاء ہو.
xix دین اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے اور اس کی حفاظت اور سرفرازی کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے دو زمانے اور دو احمد مقرر فرمائے تھے.اول حقیقی زمانہ اور حقیقی احمد آنحضرت ﷺ تھے کہ آپ خاتم النبین ہیں اور حقیقت میں آپ ہی احمد اور محمد علی ہیں.دوسرا زمانہ اور دوسرا احمد آپ ہی کے ظل اور بروز کے طور پر ہونا تھا جس کے فرائض منصبی آپ کے دین اور آپ ہی کے اسوہ کو زندہ کرنا تھا.اس مضمون کو حضرت اقدس سورۃ قصص کی آیت 71 وَ هُوَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الأولى وَالْآخِرَةِ...الایہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں.انه تعالى ما اختار لنفسه ههنا اربعة من الصفات الا ليرى نموذجها في هذه الدنيا قبل الممات.فاشار فى فوله ولله الحمد في الاولى والاخرة الى ان هذا النموذج يعطى لصدر الاسلام.ثم للاخرين من الامة الداخرة.وكذالك قال فى مقام اخر وهو اصدق القائلين ثلة من الاولين و ثلة من الاخرين فقسم زمان الهداية والعون والنصرة الى زمان نبينا صلى الله عليه وسلم و الى الزمان الاخر الذى هو زمان مسيح هذه الملة وكذالک قال و آخرین منهم لما يلحقوا بهم فاشار الى المسيح الموعود و جماعته والذين اتبعو هم فثبت بنصوص بينة من القران ان هذه الصفات قد ظهرت في زمن نبينا ثم تظهر في اخر الزمان و هو زمان يكثر فيه الفسق و الفساد ويقل الصلاح والسداد.اعجاز مسیح رخ - جلد 18 صفحہ 155-153) ( ترجمه از مرتب ) اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی ذات کی چار صفات کو محض اس لئے اختیار کیا ہے کہ تا وہ اس دنیا میں ہی انسان کو ( یعنی دنیا کی ) موت سے پہلے ان صفات کا نمونہ دکھائے.پس اس نے اپنے کلام لَهُ الْحَمْدُ فِي الأولى وَ الْآخِرَةِ میں اشارہ فرمایا.کہ یہ نمونہ آغاز اسلام میں بھی عطا کیا جائے گا اور پھر امت کی خواری کے بعد اس کے آخری لوگوں کو بھی ( عطا کیا جائے گا ) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ ( قرآن مجید میں ) فرمایا ہے اور وہ بات کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ سچا ہے.ثُلَّةٌ مِنَ الْاَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخَرِينَ (الواقعة:14 ) پس اللہ تعالیٰ نے ہدایت مد داور نصرت کے زمانہ کو ہمارے نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ پر اور اس آخری زمانہ پر جو اس امت کے مسیح کا زمانہ ہے تقسیم کر دیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 4) اس میں مسیح موعود اس کی جماعت اور ان کے تابعین کی طرف اشارہ فرمایا ہے.پس قرآن کریم کی نصوص بینہ سے ثابت ہوا کہ یہ صفات ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ظاہر ہوئیں پھر آخری زمانہ میں بھی ظاہر ہوں گی.اور آخری زمانہ ایسا زمانہ ہے جس میں بدکاری اور ہر قسم کی خرابیاں بکثرت پھیل جائیں گی اور راستی بہت ہی کم ہو جائے گی.اس آیت کی تفسیر میں مزید فرماتے ہیں.فاوى فيه الى احمدين و جعلهما من نعمائه الكاثرة.فالا ول منهما احمد المصطفى و رسولنا المجتبى.و الثاني احمد اخر الزمان الذى سمى مسيحا و مهديا من الله المنان.وقد استنبطت هذه النكتة من قوله.الحمد لله رب العالمين فليتدبر من كان من المتدبرين.اعجاز امسیح.ر.خ.جلد 18 صفحہ 139 )
XX ( ترجمه از مرتب ) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو احمد وں کا ذکر فرما کر ہر دوکو اپنی بے پایاں نعمتوں میں شمار کیا ہے.ان میں سے پہلے احمد تو ہمارے نبی احمد مصطفے اور رسول مجتبی صلی اللہ علیہ سلم ہیں اور دوسرا احمد احمد آخر الزمان ہے جس کا نام محسن خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی بھی رکھا گیا ہے.یہ نکتہ میں نے خدا تعالیٰ کے قول الحمد لله رب العالمین سے اخذ کیا ہے.پس ہر غور و فکر کرنے والے کو غور کرنا چاہئے.دین اسلام کی تعلیم یعنی قرآن کریم کی حفاظت کی نسبت سے ان دو ہستیوں کے منصب کے بیان میں ذیل کا فرمان تو اس قابل ہے کہ اس کو آب زر سے لکھا جائے.سورۃ قصص کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں.فحاصل هذا البيان ان الله خلق احمدین فی صدر الاسلام و في اخر الزمان.و اشار اليهما بتكرار لفظ الـحــمــد في اول الفاتحة و في اخرها لا هل العرفان و فعل کذالک ليرد على النصرانيين.و انزل احمدين من السماء ليكونا كا لجدارين لحماية الأولين و الآخرين.اعجاز اسیح - ر- خ- جلد 18 صفحہ 198 ) ( ترجمه از مرتب) پس خلاصه بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو احمد پیدا کئے ایک اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اور ایک آخری زمانہ میں.اور اللہ تعالیٰ نے اہل عرفان کے لئے سورۃ فاتحہ کے شروع میں اور اس کے آخر میں الحمد کا لفظاً ومعناً تکرار کر کے ان دونوں (احمدوں) کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور خدا نے ایسا عیسائیوں کی تردید کے لئے کیا ہے اور اللہ تعالٰی نے دو احمد آسمان سے اُتارے تاوہ دونوں پہلوں اور پچھلوں کی حمایت کے لئے دو دیواروں کی طرح ہو جائیں.دیواروں کی تمثیل کو آپ ایک اور مقام پر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.میں اس زمانے کا حصن حصین ہوں.جو میرے میں داخل ہو گا وہ چوروں اور درندوں اور قزاقوں سے اپنی جان بچائے گا.اور جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے.اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی.“ (فتح اسلام.ر-خ- جلد 3 صفحہ 34) اس تمثیل کو آپ اپنے اردو اشعار میں ایسی خوب صورتی سے بیان کرتے ہیں کہ اس مضمون کے عرفان کا ابلاغ اس سے بہتر انداز میں نہیں ہوسکتا.فرماتے ہیں.ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا اب جوش میں نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار پشتی ءِ دیوار دیں اور مامن اسلام ہوں نارسا ہے دستِ دشمن تا بفرق ایں جدار ان تماثیل میں جن قد آور دیواروں اور قلعہ کی فصیلوں کا ذکر ہوا ہے وہ کیا ہیں اور ان کو کس غرض کے تحت استوار کیا گیا ہے؟ آپ نے از خود اس کی وضاحت پشتی و دیوار دیں “ اور ”مامن اسلام“ کے الفاظ میں بیان کر دی ہے.یعنی یہ کہ اس استعارے سے مراد قرآن کریم کی حقیقی تعلیم اور اس کے معارف کی وضاحت کے ظہور کا انتظام ہے.دراصل یہ استعارہ قرآن کریم ہی سے ماخوذ ہے.قرآن کریم نے اپنی تعلیم کو فرقان اور قول فصل قرار دیا ہے.یعنی حق و باطل میں امتیاز کرنے والا اور ان دونوں کے درمیان فیصلہ کن عدالت کرنے والا.یہ عدالت اول وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور فعل سے قرآن کریم کی تفسیر اور تعبیر کر کے قائم فرمائی.اور آخر وقت میں آپ کے فرمان کے مطابق مہدی آخر الزمان نے اپنے منصب حکم و عدل کے تحت قائم کی.انہی معنوں میں حضرت اقدس نے دیوار اور حصار کے الفاظ اختیار کئے ہیں.کیونکہ دیوار دراصل مالکانہ حقوق کی تعیین اور دراندازی کو روکنے کے لئے قائم کی جاتی ہے.اور حضرت اقدس اپنے اس منصب کو بیان کر رہے ہیں کہ فہم قرآن اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعین کے لئے آپ کا فرمان حد فاصل اور ممتاز ہے.
xxi إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ (الطارق : 14) اور آپ کا منصب حکم و عدل دراصل ایک ہی تصویر کے دورخ ہیں.اس استعارے میں ایک اور عظیم الشان حقیقت بھی مضمر ہے یعنی یہ کہ جبکہ آپ اس قلعہ کی دوسری دیوار اور حصار ہیں تو اس سے ثابت ہوا کہ اسلام کے قلعہ کو ایک طرف سے کھلا رکھا گیا تھا.اس دروازے اور دیوار کو کھلا رکھنے میں حکمت یہ تھی کہ امت مسلمہ آزادی کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم پر غور و فکر کر سکے اور آنحضرت ﷺ کے فرمودات اور اسوہ حسنہ کی تدوین اور تبویب ہو کر دینی علوم ہر طبقہ فکر و خیال کے فہم کے مطابق ظاہر ہو جائیں.چنانچہ قرآن کریم کے بے شمار مفسرین ہیں.حدیث رسول کی متعد دصحاح اور مسانید ہیں اور فقہا کے متفرق مسالک ہیں اور دین اسلام کے ان گنت متکلمین ہیں.اور جب اس آزادی فکر و خیال کے نتیجے میں قرآن کریم کے مفسرین اور متکلمین اور فقہا میں استنباط فی القرآن اور صحت حدیث رسول اکرم کے بارے میں اختلافات پیدا ہوں تو دین اسلام میں ان اختلافات کو ختم کرنے کے لئے اور قرآن کریم کے فرمودات کے حقیقی معانی بتانے کے لئے اور حقیقی اسوۂ رسول کو ظاہر کرنے کے لئے ایک حکم و عدل نازل ہو جو ان تمام اختلافات کو الہام الہی اور روح القدس کی تائید کے ساتھ ختم کرے اور دین اسلام کو اندرونی اور بیرونی حملوں سے محفوظ کرنے کے لئے اس قلعہ کی دوسری دیوار کو پشتی و دیوار دیں اور مامنِ اسلام بن کر استوار کر دے.ان گزارشات کی تصدیق میں حضرت اقدس کا درج ذیل فرمان ہے.جو اس مضمون کے تمام دلائل اور استدلال کو ایک منطقی نتیجے کے طور پر بیان کر رہا ہے.میرے پاس آؤ اور میری آواز سنو ! میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں بلکہ میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے.مجھے ایک سماوی آدمی مانو.پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزا ئیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں، ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں.جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حکم بن کر آیا ہے.جو معنی قرآن شریف کے وہ کرئے وہی صحیح ہوں گے اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی حدیث صحیح ہوگی.“ ان فرمودات کی راہ نمائی میں حضرت اقدس پر قرآن کریم کے دقائق اور معارف کے نازل ہونے کے مقاصد کے تعلق میں چندا مور تو روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتے ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 399 ) اول یہ کہ جب تک حضرت اقدس کا دور خسروی ہے اس وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں سے عہدہ براء ہونے کے لئے جسقدر معارف قرآن نازل کرنے اللہ تعالیٰ نے درست خیال فرمائے ان کا اظہار کامل طور پر حضرت اقدس پر کر دیا گیا ہے.اور دوم یہ کہ جو معارف قرآنیہ آپ کو عطا ہوئے ہیں وہ ان دعاوی کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے ہیں جن کے آپ حکم الہی کے تحت مدعی ہیں.
xxii نزول فہم قرآن کے اس مقصد کی وضاحت میں حضرت اقدس فرماتے ہیں.صرف قرآن کا ترجمہ اصل میں مفید نہیں جب تک اس کے ساتھ تغیر نہ ہو مثلا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحة: 7) کی نسبت کسی کو کیا سمجھ آسکتا ہے کہ اس سے مراد یہو د نصاری ہیں جب تک کہ کھول کر نہ بتلایا جاوے اور پھر یہ دعا مسلمانوں کو کیوں سکھلائی گئی.اس کا یہی منشا تھا کہ جیسے یہودیوں نے حضرت مسیح کا انکار کر کے خدا کا غضب کمایا ایسے ہی آخری زمانے میں اس اُمت نے بھی مسیح موعود کا انکار کر کے خدا کا غضب کمانا تھا.اسی لیے اوّل ہی ان کو بطور پیشگوئی کے اطلاع دی گئی کہ سعید روحیں اس وقت غضب سے بچ سکیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 449) اور تیسرا بہت ہی اہم امر یہ ہے کہ اب جبکہ قرآن کریم کی تعبیر و تفسیر کو ایک مضبوط قلعہ کی دو نا قابل تسخیر فصیلوں میں محفوظ کر دیا گیا ہے.تو کسی فردامت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ قرآن کریم کے ان دو پشتی بانوں اور مامنوں کے فرمودات کی راہ نمائی سے صرف نظر کر کے اور ان کے بتائے ہوئے اسالیب فہم قرآن کے کامل اتباع کئے بغیر اپنی عقل و فہم کے مطابق قرآن کریم کے معانی اور تفسیر بیان کرے.اس قلعہ بندی کے بعد جو تفسیر و تعبیر قرآن اس کی دیواروں سے باہر بیٹھ کرکھی جائے گی اس کی صداقت پر مہر الہ نہیں ہوگی اور وہ لوح محفوظ کے مندرجات میں شمار نہیں کی جائے گی.حضرت اقدس کی بعثت کے بعد قرآن کریم کے حصن حصین کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں.اس حریم قدس میں کسی غیر کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے.یہی وہ راز ہے جس کو آپ نے منصب حکم و عدل کی تعریف میں بیان کیا ہے.آپ قرآن کریم کے عرفان کی آخری تجلی ہیں.آپ امام آخر زمان ہیں.اور قرآن کریم کے خانے کی شراب معرفت کا آخری دور جام ہیں.اس لئے قرآن کریم کا فہم و ادراک صرف اور صرف اس جام کو نوش کرنے سے حاصل ہوسکتا ہے.آپ کا یہ شعر کسقدر با معنی اور دلفریب ہے.احمد آخر زمان نام من است آخریں جامے ہمیں جام من است ( احمد آخر زمان میرا نام ہے اور ( معرفت الہی میں ) میرا جام آخری جام ہے.) والسلام غلام احمد آخر زماں
xxiii اظہار تشکر حضرت اقدس کی تحریر اور تقریر سے خاکسار کی محبت بہت قدیم سے ہے.اس محبت کے اظہار میں ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ آپ کے افاضات کے تعلق میں کوئی خدمت کروں.آج سے پچاس سال قبل بھی ایک خدمت کا منصوبہ بنایا تھا.مگر وہ اس زمانے میں وسائل کی کمی اور میری کم ہمتی کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا.اس دوران میں جماعت کے زیر انتظام تفسیر حضرت اقدس کے عنوان سے کتب کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تو میری دلی تمنا پھر بیدار ہوئی اور میں نے یہ سمجھا کہ اگر ان کتب کا مطالعہ کر کے حضرت اقدس کے بیان فرمودہ فہم قرآن کے اصول اور اسالیب کو موضوعات کے تحت ترتیب دے دیا جائے تو یہ بھی ایک خدمت ہوگی.اور قرآن کریم کی عظمت کے پیش نظر دیگر تمام خدمتوں سے یقینا بہتر ہوگی.چنانچہ اس تالیف میں بیش سے بیشتر اقتباسات تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آٹھ جلدوں سے اخذ کئے گئے ہیں.تاہم بعض مقامات میں مضمون کی تشنگی کی بنا پر حضرت کی دوسری کتب سے بھی افادہ کیا گیا ہے.موضوعات کے تحت حضرت اقدس کے اردو فارسی اور عربی اشعار کا چناؤ اور الہامات حضرت اقدس کا انتخاب خالصۂ خاکسار کا ہے.اس تالیف کی تکمیل میں ہیں سال سے بھی زائد عرصہ صرف ہوا ہے.اس طویل عرصہ کی ایک وجہ کار کردگی میں بے قاعد گی بھی ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ حضرت کی تحریر وتفسیر ایک ایسا بحر بیکراں ہے کہ اس کا احاطہ کرنا ایک ناممکن بات ہے.اس وسعت افاضات حضرت اقدس کیسا تھ ایک بہت اہم اور مشکل مرحلہ یہ بھی تھا کہ حضرت کے عرفان کو اس طور سے سمجھنا کہ ان کو موضوعات کے تحت مقرر کیا جائے ایک استعداد علمی کا محتاج تھا.اور یہ استعداد بار بار مطالعہ کرنے کے بعد آہستہ آہستہ ہی پیدا ہوتی ہے.چنانچہ اگر بہت ہی کم اندازہ بیان کروں تو ایسے ہے کہ ہر ایک اقتباس کو اس کی معنوی نشست کی تعیین کرنے کے لئے دس مرتبہ سے زائد پڑھا گیا ہے.اس محنت کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ موضوعات کی تعیین اور اقتباسات کے انتخاب اور ان کی ترتیب وارنشست میں سقم رہ گیا ہوگا.اس کوتاہی پر معذرت ہی کرسکتا ہوں.و ما توفیقی الا بالله.دراصل یہ خدمت حضرت اقدس کے فرمودات کی موضوعات کے اعتبار سے ایک تبویب ہے.تاکیداً کوشش کی گئی ہے کہ حضرت کے فرمودات کے سوا کسی اور کے قول و بیان کا اس میں دخل نہ ہو.یہاں تک کہ مضامین کے عنوانات قائم کرنے میں بھی یہ احتیاط برتی گئی ہے کہ ان کے الفاظ حتی المقدور آپ ہی کے ہوں.
xxiv جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ اس تالیف کے اکثر حوالے تفسیر حضرت اقدس کے نسخوں سے لئے گئے ہیں.مگر حوالہ جات کی مزید تحقیق کی غرض سے تقریباً تمام حوالہ جات حضرت اقدس کی کتب (روحانی خزائن ) اور ملفوظات میں دوبارہ مشاہدہ کر کے ان ہی کے مطابق کر دیئے گئے ہیں.چند ایک ایسے ہونگے کہ باوجود تلاش بسیار کے اصل کتب میں دستیاب نہ ہوئے ہوں.اس صورت میں تفسیر حضرت اقدس کے حوالے کو ہی برقرار رکھا گیا ہے.ایک گزارش اور بھی ہے کہ حضرت اقدس کے وہ حوالے جو عربی زبان میں ہیں اس تحریر کو تفسیر کی کتب میں حرکات دی گئی ہیں.جبکہ حضرت اقدس کی کتب میں اکثر مقامات میں عربی عبارت پر حرکات نہیں ہیں.اس لئے اس اختلاف سے صرف نظر کیا جائے.ایک ضروری وضاحت یہ بھی ہے کہ اس تالیف میں چند مقامات پر اقتباسات میں بظاہر تکرار معلوم ہوگی اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حضرت اقدس کا اسلوب بیان اس طور پر ہے کہ آپ ایک ہی فرمان میں بہت سے مضامین پر روشنی ڈال رہے ہوتے ہیں.اس لئے اس فرمان کا مکرر پیش کرنا ضروری ہوتا ہے.شاید چند ایک مقامات میں ہمارے تساہل کا دخل بھی ہو.اس کے لئے معذرت کرتے ہیں.یہ تالیف حضرت اقدس کے خداداد فہم قرآن کے موضوع کے تحت تیار کی گئی ہے اس لئے اس کا دستور اس طور سے ہے کہ اول اس موضوع پر حضرت اقدس کے جو فرمودات ہیں ان کو اخذ کیا گیا ہے.دوسرے درجے پر حضرت اقدس نے جن معانی میں آیات قرآنیہ کی تفسیر و تعبیر کی ہے ان کو آیات کے تحت درج کیا گیا ہے.کیونکہ اس طور پر بھی آپ کے فہم قرآن کے اسالیب پر روشنی پڑتی ہے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اسالیب فہم قرآن کو اخذ کرنے کا اصل قرینہ یہی ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ آپ نے فرمودات قرآنیہ کا کیا مفہوم لیا ہے اور ان کو کن معانی میں سمجھا ہے.اس تالیف کو اول ابواب میں اور ہر باب کے تحت فصول میں ترتیب دیا گیا ہے.کل ابواب دس ہیں.اول باب فہم قرآن اور منصب حضرت اقدس علیہ السلام کے عنوان پر قائم کیا گیا ہے.جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ یہ باب در اصل حضرت اقدس کے خداداد فہم قرآن کی اہمیت اور پر عظمت مقام کا وہ تعارف ہے جو حضرت اقدس نے خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر خود بیان کیا ہے.اور دوسرا باب یعنی ” حضرت کا ذکر قرآن میں حضرت کے اسالیب فہم قرآن کو اخذ کرنے کے اعتبار سے بہت اہم ہے.کیونکہ اس میں دراصل آپ نے اپنے دعاوی کی تصدیق میں قرآنی فرمودات کو پیش کیا ہے.اور آپ کا یہ بیان تو پیش کیا جا چکا ہے.کہ آپ کے دعاوی کا فہم، فہم قرآن کی کلید ہے.دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت اقدس کی تفہیمات قرآنیہ کے بارے میں یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ آپ نے اپنے دعاوی کی تصدیق کی غرض سے قرآن کے فرمودات کو پیش کیا ہے.اس لئے جس فرمانِ قرآن کو آپ اپنے صدق دعوی پر محمول کر رہے ہیں اس فرمان کے کوئی اور معانی اور تفسیر کرنا آپ کے دور خسروی میں کسی طور سے روا نہیں ہو سکتا.ایسے عمل سے نہ صرف یہ کہ فہم قرآن کی کلید ہاتھ سے نکل جاتی ہے بلکہ ایسا عمل آپ کے دعاوی کی صداقت کے قرآنی ثبوت پر پردہ اخفاء ڈالنے کا موجب ہوتا ہے.اور آپ کی بعثت کی وہ اغراض جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں ان کو کالعدم کرتا ہے.یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جس کی پاسداری میں ہم نے یہ باب باندھا ہے.اور اس کو قدر تفصیل سے بیان کیا ہے.اور آپ کی سورۃ فاتحہ کی تفسیر کو ایک جداگانہ منصب دیا ہے.اور یہ حقیقت تو بیان ہو چکی ہے سورۃ فاتحہ قرآن کریم کے مضامین کا خلاصہ اور سرنامہ ہے.
XXV اس بنا پر خاکسار سمجھتا ہے کہ اس باب کا تفصیلی مطالعہ حضرت اقدس کی تفہیمات قرآنیہ سے حقیقی فائدہ حاصل کرنے کے لئے از بس ضروری ہے.اس کے بعد دیگر ابواب آتے ہیں جن کو کتاب کی فہرست مضامین میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے.جو علمی اور ادبی کام انتخاب کی نوعیت کے ہوتے ہیں ان میں دستور یہی ہے کہ وہ کام صرف اور صرف اسی کی محنت ہو جس نے انتخاب پیش کیا ہے.اس لئے کوشش اور محنت کے اعتبار سے یہ عرض کرنا ہے کہ حضرت اقدس کی کتب کا مطالعہ اور آپ کے فرمودات کے موضوعات کی تعیین اور اقتباسات کا چناؤ خالصۂ خاکسار کی عاجزانہ اور محبت بھری غلامانہ خدمت ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اور حضرت اقدس علیہ السلام خاکسار کو اپنے غلاموں میں شمار فرمائیں اور بقول حافظ شیرازی اس طور سے حکم صادر فرمائیں.ز حاجب در خلوت سرائے خاص بگو فلاں از گوشه نشینان خاک درگه ماست اپنی خلوت سرائے خاص کے دربان کو حکم دو کہ فلاں تو میری درگاہ کے خاک نشینوں میں سے ہے.) اس تالیف کے خدمت گزاروں کے ذکر میں چند نام اور بھی ہیں.اول میجر (ریٹائرڈ) چوہدری سعید احمد صاحب ابن چوہدری محمد بوٹا صاحب مرحوم ہیں.آپ نے اس ہیں پچیس سالہ کام کے مسودات کو ترتیب دینے میں اور حوالہ جات کو اصل کتب حضرت اقدس کی طرف منتقل کرنے میں بہت مدد کی ہے.یہ کام بہت محنت اور احتیاط کا تھا.آپ نے بہت محبت اور لگن سے اس کام کو سرانجام دیا ہے.دوسرا نام چوہدری محمد اور لیس احمد صاحب ابن محترم محمد اسماعیل صاحب دیا لگڑھی مرحوم کا ہے.آپ نے چوہدری سعید احمد کے ساتھ مل کر اس نعیم کتاب کے متن کی اصلاح کی غرض سے حضرت کی کتب سے اقتباسات کا موازنہ کیا ہے اور کتابت کی اغلاط کی اصلاح کے لئے Proof Reading کا کام بھی کیا ہے.یہ دونوں کام بھی بہت محنت طلب اور احتیاط کے طلبگار تھے.خاکساران دونوں عاشقان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بہت شکر گزار ہے.اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جزائے خیر دے اور اپنی محبت سے نوازے.آمین Composing اور Setting یہ دو کام بھی بہت نازک اور توجہ طلب تھے.محترم کرامت الرحمن صاحب اور طاہر محمود احمد صاحب (مربی سلسلہ ) نے یہ خدمت بہت محبت اور محنت سے ادا کی ہے.اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جزا دے.آمین خدمت گزاروں میں ایک نام محترم مولنا محمد سعید انصاری مبلغ احمدیت کا ہے.آپ نے حضرت اقدس کے عربی اور فارسی زبانوں کے وہ اقتباسات جن کا ترجمہ اصل کتب میں نہیں تھا، اس تالیف کے لئے ان کا ترجمہ کیا اور اپنی دعاؤں سے ہمارے کام کی مدد فرمائی.اللہ جزائے خیر دے.آمین
xxvi ایک نام میرے پیارے اور محب محترم شیخ رحمت اللہ صاحب بنگوی مرحوم کا ہے.آپ نے اپنی شب و روز کی مسلسل دعاؤں سے اس خدمت کی تکمیل کی خاطر میری مدد کی ہے اور ہر دم ہمت افزائی کی ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اس خدمت کا کتابی شکل میں مکمل ہونا آپ ہی کی دعاؤں سے ہوا ہے.آپ صاحب کشوف والہام تھے اور آپ نے کئی مرتبہ فرمایا تھا کہ آپ نے کشفی نظارے میں اس کتاب کو مکمل صورت میں دیکھا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے اور اپنی جناب میں مقعد صدق عطا فرمائے.آمین آپ کی اس عنایت خاص کی یاد میں خاکسار چاہتا ہے کہ چند الفاظ میں اپنے محسن کا تعارف پیش کروں.محترم شیخ صاحب کے والد محترم صحابی تھے.آپ کا نام حکیم شیخ عمر الدین تھا.شیخ صاحب کی روایت کے مطابق آپ کے والد کی نرینہ اولاد نہیں تھی.اس خواہش کی بنا پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعا کے لئے عرض کیا.حضرت اقدس نے خط کے ذریعے جوا با فرمایا.اللہ تعالیٰ آپ کو ایک بیٹا دیگا.خادم دین ہوگا اور عمر دراز ہوگی.اس کا نام رحمت اللہ رکھنا.یہ ہیں میرے دوست جن کا نام حضرت اقدس نے خود تجویز فرمایا اور جن کے بارے میں خادم دین ہونے کی اور عمر دراز ہونے کی پیشگوئی کی.چنانچہ الحمد للہ کہ ایسے ہی ہوا.آپ نے باوجود دنیوی مشاغل کے تمام عمر دین کی خدمت میں گزار دی.اول جماعت لاھور اور پھر ربوہ میں محصل چندہ جات کے طور پر طویل خدمت کی.اور با وجود کمزور جسم ہونے کے 88 سال زندگی گزار کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے ہیں.اللهم اغفر وارحمه.و انت خير الراحمين.خاکسار خلافت لائبریری کے ادارے اور اس کے کارکنوں کا بھی بہت ہی شکر گزار ہے.خاص طور پر لائبریرین محترم حبیب الرحمن زیروی صاحب کا شکریہ ادا کرنا مجھ پر لازم ہے.آپ نے تقریباً 18 سال تک خاکسار کو لائبریری میں ایک مخصوص جگہ دی اور ہر اعتبار سے میری ہمت افزائی کی.اللہ تعالیٰ ان کو جزاء خیر سے نوازے.آمین اظہار تشکر میں عزیزم ڈاکٹر محمد احمد اشرف صاحب کا نام آخر پر آ رہا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا کام بھی آخر پر ہی ہوسکتا تھا.یعنی کتاب کی املاء اور حوالہ جات کو درست کرنا.اس لئے آخر پر آنا دراصل آپ کے کام کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے ہے.عزیزم ڈاکٹر صاحب نے چند ایام میں دن رات محنت کر کے کتاب کو لفظ لفظا پڑھا ہے اور بہت سی املاء اور حوالہ جات کی اغلاط کی نشاندہی کی ہے.کتاب کی ضخامت کے پیش نظر آپ کا کام بے انتہا تحسین اور تشکر چاہتا ہے.خاکساران کا صرف ممنون ہی نہیں بلکہ بہت شکر گزار ہے.آپ نے کتاب کے مندرجات کی صحت کو قائم کیا اور اس کی افادیت کو دوبالا کیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم اور فرمودات حضرت مسیح موعود سے آپ کی محبت کو ہمیشہ قائم رکھے اور ترقی دے.آمین تعارف کے طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے والد صاحب مکرم محمد شفیع اشرف صاحب مرحوم بھی واقف زندگی مبلغ احمدیت تھے اور صاحب علم و ادب انسان تھے.آپ سلسلے کے بہت سے اہم عہدوں پر فائز رہے تھے.اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے.آمین
1 باب اوّل فہم قرآن کریم اور منصب حضرت اقدس علیہ السلام الهام حضرت اقدس : مَا أَنَا إِلَّا كَالْقُرْآنِ وَ سَيَظْهَرُ عَلَى يَدَيَّ مَا ظَهَرَ مِنَ الْفُرْقَانِ میں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور عنقریب میرے ہاتھ پر ظاہر ہو گا جو کچھ فرقان سے ظاہر ہوا.( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 674) حضرت مسیح علیہ السلام جیسے اپنی کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ توریت کو پورا کرنے آئے تھے.اسی طرح پر محمدی سلسلہ کا مسیح اپنی کوئی شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ قرآن شریف کے احیاء کے لئے آیا ہے اور اس تکمیل کے لئے آیا ہے جو تکمیل اشاعت ہدایت کہلاتی ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 361)
2 حضرت اقدس کی صداقت کے تین گواہ علم قرآن علم آں طیب زباں علم غیب از وحی خلاق جہاں قرآن کا علم اس پاک زبان کا علم اور الہام الہی سے غیب کا علم.ایں سہ علم چوں نشانها داده اند ہر ہمیچوں شاہداں استاده اند یہ تین علم مجھے نشان کے طور پر دیے گئے ہیں اور تینوں بطور گواہ میری تائید میں کھڑے ہیں.در تمین فارسی صفحه 187 نیا ایڈیشن ) ( تحفه غزنویہ.رخ جلد 15 صفحہ 533)
صفحہ 11 12 // 13 3 نمبر شمار پہلی فصل عنوانات فہر حضرت اقدس کے الہامات و رویاء الہیہ کے اعتبار سے 1 الہامات حضرت اقدس 2 رویاء الہیہ حضرت اقدس دوسری فصل جس طرح حضرت عیسی توریت کے احیاء ت مضامین صفحہ نمبر شمار 7 له 8 عنوانات و حضرت اقدس کے دعاوی کی سمجھ فہیم قرآن کی کلید ہے.10 آپ کے وقت میں حقائق قرآنیہ ظاہر ہوں گے.11 حضرت اقدس قرآن کریم کے خزانوں کو تقسیم کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں.کیلئے آئے تھے اسی طرح حضرت اقدس 12 اشعار حضرت اقدس قرآن کریم کے احیاء کیلئے آئے ہیں.3 قرآن کریم خاتم الکتب ہے.اس لئے حضرت اقدس کو اسی کے احیاء کے لئے بھیجا گیا.چوتھی فصل اولیت قرآن کریم ثابت کرنے کے اعتبار سے.13 فرمودات اور دعاوی حضرت اقدس - 14 4 حضرت اقدس “ قرآنِ کریم کے 14 | فرمان قرآن حدیث کی صداقت کے شارح ہیں.10 لئے محک ہے 5 حضرت عیسی کی مماثلت میں قرآن 15 قرآن دین قیم ہے // 15 16 فرمان قرآن تمام الہامات پر بطور مهیمن اور محک کے ہے.16 17 سچا خدا وہی ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے 17 18 جماعت کو نصیحت.18 یا نچویں فصل حضرت اقدس کے دل کو کشوف والہام سے روشن کیا گیا."/ // 11 // کریم کی صحیح تعلیم کو بھی پیش کرنا ضروری تھا 6 حضرت اقدس “ قرآنِ کریم کے وارث ہیں.تیسری فصل حضرت اقدس قرآن کریم کی تیسری تجلّی ہیں.7 الہام حضرت اقدس" فرمان حضرت اقدس
نمبر شمار عنوانات 19 الہامات و کشوف حضرت اقدس صفحہ نمبر شمار عنوانات صفحہ 19 بتائے گئے.33 20 حضرت اقدس کی وحی کا ذکر قرآن میں 21 32 الہام حضرت اقدس قُلْ إِنَّ هُدَى 21 | حضرت اقدس الہام اور وحی سے قرآن کو سمجھتے ہیں.نبی کی ہر بات جو کامل توجہ سے کی جائے وہ وحی الہی کا رتبہ رکھتی ہے.22 22 23 23 اللَّهِ هُوَ الْهُدَى آٹھویں فصل نشانات اور معجزات قرآنیہ دوبارہ دکھا کر 33 الہامات حضرت اقدس.23 | محدث اپنے نبی متبوع کا پورا ہمرنگ 34 نئے نشانوں کی ضرورت.ہوتا ہے.24 انبیاء وحی الہی کے احکام کے بغیر کوئی تبلیغ وتعلیم نہیں کرتے.چھٹی فصل روح القدس کی تائید کے اعتبار سے.24 25 25 35 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ نبی ہیں.آپ کے نشانات اور معجزات ہر 35 36 37 38 39 40 41 42 // 44 45 25 تفسير آيت وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى 26 26 وقت زندہ موجود ہیں 36 قرآن میں بیان شدہ معجزات و خوارق دوبارہ دکھا کر.37 آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے 26 روح القدس کی تائید اور چمک ہمیشہ نبی 38 | نشانات کے اعتبار سے یہ سلسلہ آنحضر کے شاملِ حال رہتی ہے ساتویں فصل حضرت اقدس نے قرآن کریم کے علوم اور معارف خدا تعالیٰ سے حاصل کئے ہیں.27 الہام حضرت اقدس 28 اشعار حضرت اقدس 27 28 80 NO NO 28 صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے 39 | حضرت اقدس اس زمانے کا نور ہیں نے کانور میں نویس فصل احادیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتبار سے.40 الہام حضرت اقدس.282 مهدی وقت علم دین صرف خدا تعالیٰ سے 30 41 فرمودات حضرت اقدس.ہی حاصل کرتا ہے 29 حضرت اقدس اپنے وقت کے آدم تھے.31 دسویں فصل 30 فہم قرآن کے لئے پاک نفس ہونے کی شرط ہے.32 42 بیت اللہ کے نیچے کا خزانہ.بعثت ثانیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتبار سے.31 | حضرت اقدس کو قرآن کریم کے رموز 43 | الہامات حضرت اقدس.
صفحہ 64 65 LO 5 نمبر شمار عنوانات 44 انبیاء کا وجود ظلی طور پر باقی رہتا ہے 45 حقیقت مثیل اور ظلِ انبیاء.46 بروز کی حقیقت 47 حضرت اقدس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز ہیں.گیارہویں فصل صفحہ نمبر شمار 46 47 48 عنوانات 59 تعلیم قرآن عملی نمونہ پیش کرنے کی غرض سے 60 حقیقی معلم قرآن کی صفات.چودہویں فصل اغراض بعثت حضرت اقدس کے اعتبار سے 61 مسیح موعود کی آمد کا مقصد 62 الهام حضرت اقدس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد 63 حضرت اقدس قرآن کریم کے پوشیدہ اور وارث کامل ہونے کے اعتبار سے.48 الہامات حضرت اقدس.50 50 خزانوں کو ظاہر کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں.49 حضرت اقدس آنحضرت صلی اللہ علیہ و 64 | حضرت اقدس قرآن کریم کے حقیقی سلم کے علوم کے وارث ہیں.50 وارث انبیاء ہمیشہ ہوتے رہیں گے 51 حضرت اقدس قرآن کریم کے وارث ہیں.بارہویں فصل حفاظت قرآنِ کریم کے اعتبار سے.52 وعده حفاظت قرآن کریم.53 35 54 56 56 57 معانی اور منشاء کو ظاہر کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں.پر 65 | حضرت اقدس قرآن کریم اعتراضات کو دور کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں.پندرہویں فصل دعویٰ مجددیت کے اعتبار سے.18 66 // 67 68 69 69 71 لا لا لله لها 70 72 73 53 وعده حفاظت قرآن کریم کے معنی 5 66 الہامات حضرت اقدس.54 حضرت اقدس حفاظت قرآن کریم کی 67 | ضرورت تجدید دین.غرض سے مبعوث ہوئے ہیں.تیرہویں فصل 58 68 | دعوی ۶ مجددیت حضرت اقدس 69 | مسلمانوں کو نصیحت.معلم قرآن کریم ہونے کے اعتبار سے 70 حقیقی تجدید دین.55 الہامات حضرت اقدس.56 | حضرت اقدس آسمانی معلم قرآن ہیں.57 معلم قرآن کی ضرورت.60 61 11 سولہویں فصل حکم اور عَدَلْ ہونے کے اعتبار سے 71 | فرمان حضرت اقدس.72 | نزول حکم کا وعدہ قرآنِ حکیم میں 58 ہر زمانے میں نئے معلم قرآن کی 73 حکم اور عدل کا نزول فرمانِ آنحضرت ضرورت ہوتی ہے.62 صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہے.74 الہامات حضرت اقدس.// 155 75 76 16
6 نمبر شمار عنوانات 75 حضرت اقدس کا دعوی حکم و عدل 76 حکم و عدل کا فیصلہ.77 حکم و عدل کی آمد کی ضرورت.78 حکم و عدل کا کام..صفحہ نمبر شمار 77 78 79 " عنوانات 84 | تکمیل اشاعت ہدایت اسلام حضرت اقدس کے ذریعہ مقدر تھی 85 حضرت اقدس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ثانی ہیں.79 حکم و عدل کی اطاعت میسیح موعود ہی حکم و 86 حضرت اقدس اسلام کے نور کے عدل ہے سترہویں فصل احیاء دین اسلام اور قیام شریعت کے اعتبار سے.80 الہامات حضرت اقدس.81 باعتبار عظمت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صداقت قرآن کریم 82 باعتبار غلبہ اسلام.اٹھارویں فصل تکمیل اشاعت ہدایت کے اعتبار سے 81 82 84 // آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تکمیل اشاعت کے لئے وسائل پیدا / 86 نہیں ہوئے تھے.متمم ہیں.87 منصب مہدی اور مسیح علیہ السلام انیسویں فصل معارف قرآن کریم میں دعوت مقابلہ 88 دعوت مقابلہ معجزات میں.89 طریق مقابلہ.صفحہ 40 87 88 90 // 96 9916
7 پہلی فصل حضرت اقدس کے الہامات و رویاء الہیہ کے اعتبار سے الہامات حضرت اقدس حضرت اقدس نے اپنا ایک پرانا الہام سنایا.يَا يَحْی خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِى الْقُرْا اور فرمایا کہ : اس میں ہم کو حضرت یحیی کی نسبت دی گئی ہے کیونکہ حضرت یحیی کو یہود کی ان اقوام سے مقابلہ کرنا پڑا تھا جو کتاب اللہ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہو رہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے.ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہل حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش ( ملفوظات جلد دوم صفحه 203) کرتے ہیں.إِنِّي مَعَكَ حَيْثُ مَا كُنْتَ وَ إِنِّي نَاصِرُكَ وَ إِنِّي يَدُّكَ إِلَّا زِمُ وَ عَضُدُكَ الْأَقْوَى وَأَمَرَنِيْ اَنْ اَدْعُوَ الْخَلْقَ إِلَى الْفُرْقَانِ وَ دِيْنِ خَيْرِ الْوَرى - ترجمہ.تو جہاں بھی ہو میں تیرے ساتھ ہوں میں تیری مدد کروں گا اور میں ہمیشہ کے لئے تیرا چارہ اور سہارا اور تیرا نہایت قوی بازو ہوں اور مجھے حکم دیا کہ میں لوگوں کو قرآن اور آنحضرت ﷺ کے تذکرہ ایڈیشن چہارم 1977 صفحہ 218.219) دین کی دعوت دوں.قُلْ إِنَّمَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحَى إِلَيَّ أَنَّمَا الهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ.لَا يَمَسُّة إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ.وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ.کہہ میں صرف تمہارے جیسا ایک آدمی ہوں.مجھ کو یہ وحی ہوتی ہے.کہ بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی تمہارا معبود نہیں.وہی اکیلا معبود ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرنا نہیں چاہیئے.اور تمام خیر اور بھلائی قرآن میں ہے.بجز اس کے اور کسی جگہ سے بھلائی نہیں مل سکتی.اور قرآنی حقائق صرف ان لوگوں پر کھلتے ہیں.جن کو خدا تعالی اپنے ہاتھ سے پاک اور صاف کرتا ہے.اور میں ایک عمر تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں.کیا تم کو عقل نہیں...( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 89-90)
8 رویاء الہیہ حضرت اقدس آج رات مجھے رویاء میں دکھایا گیا کہ ایک درخت باردار اور نہایت لطیف اور خوبصورت اور پھلوں سے لدا ہوا ہے اور کچھ جماعت تکلف اور زور سے ایک بوٹی کو اس پر چڑھانا چاہتی ہے جسکی جڑھ نہیں بلکہ چڑہا رکھی ہے وہ بوٹی افتیمون کی مانند ہے اور جیسے جیسے وہ بوٹی اس درخت پر چڑھتی ہے اس کے پھلوں کو نقصان پہنچاتی ہے.اور اس لطیف درخت میں ایک مجھو اہٹ اور بدشکلی پیدا ہورہی ہے.اور جن پھلوں کی اس درخت سے توقع کی جاتی ہے ان کے ضائع ہونے کا سخت اندیشہ ہے بلکہ کچھ ضائع ہو چکے ہیں.تب میرا دل اس بات کو دیکھ کر گھبرایا اور پگھل گیا اور میں نے ایک شخص کو جو نیک اور پاک انسان کی صورت پر کھڑا تھا پو چھا کہ یہ درخت کیا ہے اور یہ بوٹی کیا ہے جس نے ایسے لطیف درخت کو شکنجہ میں دبا رکھا ہے تب اس نے جواب میں مجھے یہ کہا یہ درخت قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ بوٹی وہ احادیث اور اقوال وغیرہ ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں یا مخالف ٹھہرائی جاتی ہیں اور ان کی کثرت نے اس درخت کو دبا لیا ہے اور اس کو نقصان پہنچا رہی ہیں تب میری آنکھ کھل گئی چنانچہ میں آنکھ کھلتے ہی اس وقت جو رات ہے اس مضمون کو لکھ رہا ہوں اور اب ختم کرتا ہوں اور یہ شنبہ کی رات ہے اور 12 بجے کے بعد 20 منٹ کم دو بجے کا وقت ہے.فالحمد للہ علی ذلک م.غ.ا.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی رخ جلد 19 صفحہ 212 حاشیہ)
9 دوسری فصل جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام تو ریت کے احیاء کے لئے آئے تھے اُسی طرح حضرت اقدس علیہ السلام قرآن کریم کے احیاء کے لئے آئے ہیں قرآن کریم خاتم الکتب ہے اس لئے حضرت اقدس کو اسی کے احیاء کے لئے بھیجا گیا حضرت مسیح علیہ السلام جیسے اپنی کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ توریت کو پورا کرنے آئے تھے اسی طرح پر محمدی سلسلہ کا مسیح اپنی کوئی شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ قرآن شریف کے احیاء کے لئے آیا ہے اور اس تکمیل کے لئے آیا ( ملفوظات جلد دوم صفحه 361) ہے جو تکمیل اشاعت ہدایت کہلاتی ہے.ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کامل شریعت لے کر آئے جو نبوت کے خاتم تھے اس لئے زمانہ کی استعدادوں اور قابلیتوں نے ختم نبوت کر دیا تھا.پس حضور علیہ السلام کے بعد ہم کسی دوسری شریعت کے آنے کے قائل ہر گز نہیں.ہاں جیسے ہمارے پیغمبر خدا ع مثیل موسٹی تھے اسی طرح آپ کے سلسلہ کا خاتم جو خاتم الخلفاء یعنی مسیح موعود ہے ضروری تھا کہ مسیح علیہ السلام کی طرح آتا.پس میں وہی خاتم الخلفاء اور مسیح موعود ہوں.جیسے مسیح کوئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے بلکہ شریعتِ موسوی کے احیاء کے لئے آئے تھے میں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا اور میرا دل ہرگز نہیں مان سکتا کہ قرآن شریف کے بعد اب کوئی اور شریعت آسکتی ہے کیونکہ وہ کامل شریعت اور خاتم الکتب ہے اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے شریعت محمدی کے احیاء کے لئے اس صدی میں خاتم الخلفاء کے نام سے مبعوث فرمایا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحه 490)
10 حضرت اقدس قرآن کریم کے شارح ہیں مسیح ناصری شارح تو ریت اور مسیح موعود شارح قرآن ہے پوچھا گیا کہ عیسائی لوگ تو ریت کو نہیں مانتے.انجیل کو ہی مانتے ہیں.فرمایا: - ذرا جھیل میں ہرگز کوئی شریعت نہیں ہے بلکہ توریت کی شرح ہے اور عیسائی لوگ توریت کو الگ نہیں کرتے جیسے مسیح توریت کی شرح بیان کرتے تھے.اسی طرح ہم بھی قرآن شریف کی شرح بیان کرتے ہیں.جیسا کہ وہ میچ موسیٰ علیہ السلام سے چودہ سو برس بعد آئے تھے.اسی طرح ہم بھی پیغمبر خدا ﷺ کے بعد چودھویں صدی میں ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 666) آئے ہیں." حضرت عیسی علیہ السلام کی مماثلت میں قرآن کریم کی صحیح تعلیم کو بھی پیش کرنا ضروری تھا علاوہ اس کے خدائے تعالیٰ نے اسی غرض سے اس عاجز کو بھیجا ہے کہ تا روحانی طور پر مردے زندہ کئے جائیں.بہروں کے کان کھولے جائیں اور مجذوموں کو صاف کیا جائے اور وہ جو قبروں میں ہیں باہر نکالے جائیں اور نیز یہ بھی وجہ مماثلت ہے کہ جیسے مسیح بن مریم نے انجیل میں توریت کا صحیح خلاصہ اور مغز اصلی پیش کیا تھا اسی کام کے لئے یہ عاجز مامور ہے تا غافلوں کے سمجھانے کے لئے قرآن شریف کی اصلی تعلیم پیش کی جائے.مسیح صرف اسی کام کے لئے آیا تھا کہ توریت کے احکام شدومد کے ساتھ ظاہر کرے.ایسا ہی یہ عاجز بھی اسی کام کیلئے بھیجا گیا ہے کہ تا قرآن شریف کے احکام بہ وضاحت بیان کر دیوے.(ازالہ اوھام.رخ جلد 3 صفحہ 103) میں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لئے بھیجا گیا تا دیں کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے.میں اس طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح سے وہ شخص بعد کلیم اللہ مرد خدا کے بھیجا گیا تھا جس کی روح ہیروڈلیس کے عہد حکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اٹھائی گئی.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہیں کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ 66 ی انسان کی بات نہیں خدا تعالیٰ کا الہام اور رب جلیل کا کلام ہے.(فتح اسلام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 9-8) حضرت اقدس علیہ السلام قرآن کریم کے وارث ہیں اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ جب کہ مجھ کو تمام دنیا کی اصلاح کیلئے ایک خدمت سپرد کی گئی ہے.اس وجہ سے کہ ہمارا آقا اور مخدوم تمام دنیا کیلئے آیا تھا تو اس عظیم الشان خدمت کے لحاظ سے مجھے وہ قوتیں اور طاقتیں بھی دی گئی ہیں جو اس بوجھ کے اٹھانے کیلئے ضروری تھیں اور وہ معارف اور نشان بھی دیئے گئے ہیں جن کا دیا جانا اتمام حجت کیلئے مناسب وقت تھا.مگر ضروری نہ تھا کہ حضرت عیسی کو وہ معارف اور نشان دیئے جاتے کیونکہ اس وقت ان کی ضرورت نہ تھی اس لئے حضرت عیسی کی سرشت کو صرف وہ قو تیں اور طاقتیں دی گئی جو یہودیوں کے ایک تھوڑے سے فرقہ کی اصلاح کیلئے ضروری تھیں اور ہم قرآن شریف کے وارث ہیں جس کی تعلیم جامع تمام کمالات ہے اور تمام دنیا کیلئے ہے.مگر حضرت عیسیٰ صرف توریت کے وارث تھے جس کی تعلیم ناقص اور مختص القوم ہے اسی وجہ سے انجیل میں ان کو وہ باتیں تاکید کے ساتھ بیان کرنی پڑیں جو توریت میں مخفی اور مستور تھیں لیکن قرآن شریف سے ہم کوئی امر زیادہ بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اس کی تعلیم اتم اور اکمل ہے اور وہ توریت کی طرح کسی انجیل کا محتاج نہیں.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 155)
11 تیسری فصل حضرت اقدس علیہ السلام قرآن کریم کی تیسری تجلتی ہیں الهام حضرت اقدس يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللهُ فِيْكَ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا انْذِرَ آبَاءُ هُمْ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِينَ.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ یعنی اے احمد ! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی.جو کچھ تو نے چلایا تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا.وہ خدا ہے جس نے مجھے قرآن سکھایا یعنی اس کے حقیقی معنوں پر تجھے اطلاع دی تا کہ تو ان لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے.اور تا کہ مجرموں کی راہ کھل جائے اور تیرے انکار کی وجہ سے ان پر نتجت پوری ہو جائے.ان لوگوں کو کہہ دے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہوں اور میں وہ ہوں جو سب سے پہلے ایمان لایا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 66) فرمان حضرت اقدس قرآن شریف کیلئے تین تجلیات ہیں.وہ سید نا حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ سے نازل ہوا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے اس نے زمین پر اشاعت پائی اور مسیح موعود کے ذریعہ سے بہت سے پوشیدہ اسرار اس کے کھلے.وَلِكُلِّ اَمْرٍ وَقَتْ مَعْلُوم اور جیسا کہ آسمان سے نازل ہوا تھا ویسا ہی آسمان تک اس کا نور پہنچا اور آنحضرت عیے کے وقت میں اس کے تمام احکام کی تکمیل ہوئی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے وقت میں اس کے ہر ایک پہلو کی اشاعت کی تکمیل ہوئی اور مسیح موعود کے وقت میں اس کے روحانی فضائل اور اسرار کے ظہور کی تکمیل ہوئی.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 66 حاشیہ ) حضرت اقدس کے دعاوی کی سمجھ فہم قرآن کی کلید ہے میرے دعوی کا فہم کلید ہے نبوت اور قرآن شریف کی.جو شخص میرے دعوئی کو سمجھ لے گا نبوت کی حقیقت اور قرآن شریف کے فہم پر اس کو اطلاع دی جائے گی اور جو میرے دعوی کو نہیں سمجھتا اس کو قرآن شریف پر اور رسالت پر پورا یقین نہیں ہوسکتا.علیم قرآں علم آں طیب زباں ( ملفوظات جلد اول صفحه 393) علم غیب از وحی خلاق جہاں قرآن کا علم اس پاک زبان کا علم اور الہام الہی سے غیب کا علم.این سه علم چون نشانها داده اند ہر سم ہمیچوں شاہداں استادہ اند یہ تین علم مجھے نشان کے طور پر دیئے گئے ہیں اور تینوں بطور گواہ میری تائید میں کھڑے ہیں.(تحفه غزنویہ رخ جلد 15 صفحہ 533)
12 آپ کے وقت میں حقائق قرآنیہ ظاہر ہوں گے ( ملفوظات جلد اول صفحہ 25) لیکن افسوس ہے کہ جیسے حدیث میں آیا ہے کہ ایک درمیانی زمانہ آوے گا جو صحیح اعوج ہے.یعنی حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک میرا زمانہ برکت والا ہے.ایک آنے والے مسیح و مہدی کا مسیح و مہدی کوئی دوا لگ اشخاص نہیں ان سے مراد ایک ہی ہے.مہدی ہدایت یافتہ سے مراد ہے.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسیح مہدی نہیں.مہدی مسیح ہو یا نہ ہو، لیکن مسیح کے مہدی ہونے سے انکار کرنا مسلمان کا کام نہیں.اصل میں اللہ تعالیٰ نے یہ دو الفاظ سب وشتم کے مقابل بطور ذب کے رکھے ہیں کہ وہ کا فر ، ضال مضل نہیں.بلکہ مہدی ہے.چونکہ اس کے علم میں تھا کہ آنیوالے مسیح و مہدی کو دجال و گمراہ کہا جائے گا ، اس لئے اسے مسیح مہدی کہا گیا.دجال کا تعلق اخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف :177) سے تھا اور مسیح کا رفع آسانی ہونا تھا.سوجو کچھ الہ تعالیٰ نے چاہا تھا اس کی تکمیل دو ہی زمانوں میں ہونی تھی.ایک آپ کا زمانہ اور ایک آخری مسیح مہدی کا زمانہ.یعنی ایک زمانے میں تو قرآن اور کچی تعلیم نازل ہوئی لیکن اس پر نتیج اعواج کے زمانہ نے پردہ ڈال دیا.جس پر وہ کا اٹھایا جانا مسیح کے زمانہ میں مقدر تھا.جیسے کہ فرمایا کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک تو موجودہ جماعت یعنی جماعت صحابہ کرام کا تزکیہ کیا اور ایک آنیوالی جماعت کا جس کی شان میں لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعہ: 4 ) آیا ہے.یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے بشارت دی کہ ضلالت کے وقت اللہ تعالیٰ اس دین کو ضائع نہ کرے گا.بلکہ آنیوالے زمانہ میں خدا تعالیٰ حقائق قرآنیہ کو کھول دے گا.آثار میں ہے.کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ فضیلت ہوگی.کہ وہ قرآنی فہم اور معارف کا صاحب ہوگا اور صرف قرآن سے استنباط کر کے لوگوں کو ان کی غلطیوں سے متنبہ کرے گا.جو حقائق قرآن کی نا واقفیت سے لوگوں میں پیدا ہوگئی ہوں گی.حضرت اقدس قرآن کریم کے خزانوں کو تقسیم کرنے کیلئے مبعوث ہوئے ہیں یہی زمانہ ہے کہ جس میں ہزار ہا قسم کے اعتراضات اور شبہات پیدا ہو گئے ہیں.اور انواع واقسام کے عقلی حملے اسلام پر کئے گئے ہیں.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ ۚ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ - (الحجر:22 ) یعنی ہر ایک چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر بقدر معلوم اور بقد رضرورت ہم ان کو اتارتے ہیں.سو جس قدر معارف و حقائق بطون قرآن میں چھپے ہوئے ہیں جو ہر ایک قسم کے ادیان فلسفیہ وغیر فلسفیہ کو مقہور و مغلوب کرتے ہیں.ان کے ظہور کا زمانہ یہی تھا.کیونکہ وہ بجز تحریک پیش آمدہ کے ظاہر نہیں ہو سکتے تھے.اب مخالفانہ حملے جو نئے فلسفہ کی طرف سے ہوئے تو ان معارف کے ظاہر ہونے کا وقت آگیا اور ممکن نہیں تھا کہ بغیر اس کے کہ وہ معارف ظاہر ہوں اسلام تمام ادیان باطلہ پر فتح پاسکے کیونکہ سیفی فتح کچھ چیز نہیں اور چند روزہ اقبال کے دور ہونے سے وہ فتح بھی معدوم ہو جاتی ہے.بچی اور حقیقی مفتح وہ ہے جو معارف اور حقائق اور کامل صداقتوں کے لشکر کے ساتھ حاصل ہو.سو وہ یہ فتح ہے جواب اسلام کو نصیب ہو رہی ہے.بلاشبہ یہ پیشگوئی اس زمانہ کے حق میں ہے.اور سلف صالح بھی ایسا ہی سمجھتے آئے ہیں.یہ زمانہ در حقیقت ایسا زمانہ ہے جو بالطبع تقاضا کر رہا ہے جو قرآن شریف ان تمام بطون کو ظاہر کرے جو اس کے اندر مخفی چلے آتے ہیں یہ بات ہر ایک فہم کو جلدی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اللہ جل شانہ کے کوئی مصنوع دقائق وغرائب خواص سے خالی نہیں.اور اگر ایک مکھی کے خواص و عجائبات کی قیامت تک تفتیش و تحقیقات کرتے جائیں تو بھی بھی ختم نہیں ہو سکتی.تو اب سوچنا چاہیئے کہ کیا خواص و عجائبات قرآن کریم کے اپنے قدر و انداز میں
13 لکھی جتنے نہیں؟ بلاشبہ وہ عجائبات تمام مخلوقات کے مجموعی عجائبات سے بہت بڑھ کر ہیں اور ان کا انکار در حقیقت قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کا انکار ہے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے صادر ہو اور اس میں بے انتہا عجائبات نہ پائے جائیں وہ نکات و حقائق جو معرفت کو زیادہ کرتے ہیں وہ ہمیشہ حسب ضرورت کھلتے رہتے ہیں.اور نئے نئے فسادوں کے وقت نئے نئے پر حکمت معانی بمنصہ ظہور آتے رہتے ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم بذات خود معجزہ ہے.اور بڑی بھاری وجہ اعجاز کی اس میں یہ ہے کہ وہ جامع حقائق غیر متناہیہ ہے مگر بغیر وقت کے وہ ظاہر نہیں ہوتے.جیسے جیسے وقت کے مشکلات تقاضا کرتے ہیں وہ معارف خفیہ ظاہر ہوتے جاتے ہیں.دیکھو دینوی علوم جوا کثر مخالف قرآن کریم اور غفلت میں ڈالنے والے کیسے آجکل ایک زور سے ترقی کر رہے ہیں.اور زمانہ اپنے علوم ریاضی اور طبعی اور فلسفہ کی تحقیقاتوں میں کیسی ایک عجیب طور کی تبدیلیاں دکھلا رہا ہے کیا ایسے نازک وقت میں ضرور نہ تھا کہ ایمانی اور عرفانی ترقیات کے لئے بھی دروازہ کھولا جاتا تا شرور محدثہ کی مدافعت کے لئے آسانی پیدا ہو جاتی.سو یقیناً سمجھو کہ وہ دروازہ کھولا گیا ہے.اور خدا تعالیٰ نے ارادہ کر لیا ہے کہ تا قرآن کریم کے عجائبات مخفیہ اس دنیا کے متکبر فلسفیوں پر ظاہر کرے.اب نیم ملاں دشمن اسلام اس ارادہ کو روک نہیں سکتے.اگر اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئینگے تو ہلاک کئے جائینگے اور قہری طمانچہ حضرت قہار کا ایسا لگے گا کہ خاک میں مل جائیں گے.ان نادانوں کو حالت موجودہ پر بالکل نظر نہیں.چاہتے ہیں کہ قرآن کریم مغلوب اور کمزور اور ضعیف اور حقیر سا نظر آوے لیکن اب وہ ایک جنگی بہادر کی طرح نکلے گا.ہاں وہ ایک شیر کہ طرح میدان میں آئے گا اور دنیا کے تمام فلسفہ کو کھا جائے گا اور اپنا غلبہ دکھائے گا اور لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ كُلَّه (الصف:10) کی پیشگوئی پوری کرے گا.اور پیشگوئی وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمْ (النور : 56) کو روحانی طور سے کمال تک پہنچائے گا.کیونکہ دین کا زمین پر بوجہ کمال قائم ہو جانا محض جبر و اکراہ سے ممکن نہیں.دین اس وقت زمین پر قائم ہوتا ہے کہ جب اس کے مقابل پر کوئی دین کھڑا نہ رہے اور تمام مخالف سپر ڈال دیں.سواب وہی وقت آگیا.اب وہ وقت نادان مولویوں کے روکنے سے رک نہیں سکتا.اب وہ ابن مریم جس کا روحانی باپ زمین پر بجر معلم حقیقی کے کوئی نہیں جو اس وجہ سے آدم سے بھی مشابہت رکھتا ہے بہت سا خزانہ قرآن کریم کا لوگوں میں تقسیم کرے گا.یہاں تک کہ لوگ قبول کرتے کرتے تھک جائیں گے.اور لا یقبلہ احد کا مصداق بن جائیں گے اور ہر یک طبیعت اپنے ظرف کے مطابق پُر ہو جائیگی.(ازالہ اوہام - رخ جلد 3 صفحہ 467464) اشعار حضرت اقدس اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بیچار ایک فرقاں ہے جو شک اور ریب سے وہ پاک ہے بعد اسکے ظن غالب کو ہیں کرتے اختیار پھر یہ نقلیں بھی اگر میری طرف سے پیش ہوں تنگ ہو جائے مخالف پر مجال کارزار باغ مُرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار مرہم عیلے نے دی تھی محض عیسی کو شفا میری مرہم سے شفا پائیگا ہر ملک و دیار جھانکتے تھے نُور کو وہ روزن دیوار سے لیک جب در کھل گئے پھر ہوگئے شیر شعار وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمیدوار در نشین اردو ) ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 147)
14 چوتھی فصل اوّلیت قرآن کریم ثابت کرنے کے اعتبار سے فرمودات اور دعاوی حضرت اقدس يَيَحْىٰ خُذِ الْكِتَبَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا O (مريم:13) حضرت اقدس نے اپنا ایک پرانا الہام سنایا يَا يَحْى خُذِ الْكِتَبَ بِقُوَّةٍ (اور فرمایا) وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآن اور فرمایا کہ اس میں ہم کو حضرت سیحی کی نسبت دی گئی ہے کیونکہ حضرت سجی کو یہود کی ان اقوام سے مقابلہ کرنا پڑا تھا جو کتاب اللہ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہو رہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے.ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہل حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 203) فرمان قرآن حدیث کی صداقت کے لئے محک ہے ) وَلَقَدْ جِئْتَهُمْ بِكِتَبٍ فَصَّلْنَهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ (اعراف:53) فَصَّلْنَهُ عَلَى عِلْمٍ - وه ( قرآن کریم مفصل کتاب ہے....یہ ی عظمتیں اور خوبیاں کہ جو قرآن کریم کی نسبت فرمائی گئیں ہیں احادیث کی نسبت ایسی تعریفوں کا کہاں ذکر ہے؟ پس میرا مذہب فرقہ ضالہ نیچریہ کی طرح یہ نہیں ہے کہ میں عقل کو مقدم رکھ کر قال اللہ اور قال الرسول پر کچھ نکتہ چینی کروں.ایسے نکتہ چینی کرنے والوں کو ملحد اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں.بلکہ میں جو کچھ آنحضرت ﷺ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہم کو پہنچایا ہے اس سب پر ایمان لاتا ہوں.صرف عاجزی اور انکسار کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ قرآن کریم ہر ایک وجہ سے احادیث پر مقدم ہے اور احادیث کی صحت و عدم صحت پر کھنے کے لئے وہ محک ہے اور مجھ کو خدا تعالی نے قرآن کریم کی اشاعت کے لئے مامور کیا ہے تا میں جو ٹھیک ٹھیک منشا قرآن کریم کا ہے لوگوں پر ظاہر کروں.(احق مباحثہ لدھیانہ.رخ جلد 4 صفحہ 30) ما مسلمانیم از فضل خدا مصطفى ما را ہم خدا کے فضل مسلمان ہیں امام و مقتدا محمد مصطفے ہمارے امام اور پیشوا ہیں اندریں دیں آمده از مادریم ہم بریں از دار دنیا بگذریم ہم ماں کے پیٹ سے اسی دین میں پیدا ہوئے اور اسی دین پر دنیا سے سے گذر جائیں گے آں کتاب حق که قرآن نام اوست باده عرفان ما از جام اوست خدا کی وہ کتاب جس کا نام قرآن ہے جام سے ہے الغرض فرقان مدار دین ماست أو انیس خاطر ہماری شراب معرفت عبدين الغرض قرآن ہمارے دین کی بنیاد ہے وہ ہمارے عمگین دل کو تسلی دینے والا ہے نور فرقاں مے کشد سوئے فرقان کا نور خدا کی طرف کھینچتا ماست خدا مے تو اں دیدن ازو روئے خدا ہے اس سے خدا کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں ( در مشین (فارسی) نیا ایڈیشن صفحہ 164 - 166 ) ( سراج منیر.رخ جلد 12 صفحہ 96-95)
قرآن کریم دین قیم ہے 15 التبليغ یا اهل دار لندوة تعالو الى كلمة سواء بيننا وبينكم ان لا نحكم الا القرآن.ولا نقبل الا ماوافق قول الرحمن.و هذا هو الدين القيم.ايها المتقاعسون.و انالقرآن کتاب ختم به الهدى.وفيه كتب قيمة و خبر ماياً تی و ما مضى فبایی حدیث بعده تؤ منون اعلمو انالخير كله في القرآن وشر الاحاديث ما خالفه فاحذر و ها ايها المتقون.وكلما خالف هدى القرآن وقصصه فاعلمو اانه سقط ولا يقبله الا الفسقون.واني انا المسيح وبالحق امشی واسیح والله انادی واصيح واذكر كم ايام الله فهل انتم تتذكرون.وانى جئتكم ببينة من ربي و علمت ما لم تعلمو ا و ابصرت مالا تبصرون.(تحفہ الندوہ رخ جلد 19 صفحہ 89) ترجمہ.اے اہل ندوہ آؤ اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے اور ہم کوئی فیصلہ نہ کریں بلکہ وہ جو قرآن کہتا ہے اور ہم کوئی ایسی بات باہمی طور پرتسلیم نہ کریں جو قرآن سے موافقت نہ رکھتی ہو.اور یہ وہ دین قیم ہے یعنی قرآن کریم.اے سرکشی کرنے والے.اور یقینا قرآن کریم ایسی کتاب ہے جس میں ہدایت کامل کر دی گئی ہے.اور اس میں مضبوط کتابیں ( دلائل) ہیں.اور اس میں ماضی اور حال کی خبریں ہیں.پس تم اس کو چھوڑ کر کس حدیث پر ایمان لاؤ گے.جان لو کہ یقینا ساری کی ساری بھلائی قرآن میں ہے.اور سب سے بڑی وہ حدیث ہے جو قرآن کے مخالف ہو.پس اے تقوای والو تم اس سے بچتے رہو.اور جب بھی وہ قرآن کریم اور اس کے بیان کے مخالف پڑے.تو تم جان لو کہ وہ اعتبار کے قابل نہیں ساقط ہے.اور اسے سوائے فاسقوں کے کوئی قبول نہیں کرتا اور یقینا میں مسیح ہوں اور حق کے ساتھ چلتا اور سیر کرتا ہوں اور اللہ کے لئے میں پکار کر اور بلند آواز سے کہتا ہوں میں تمہیں اللہ کے ایام یاد دلاتا ہوں کیا تم اس سے نصیحت نہیں پکڑتے.میں اپنے رب کی طرف سے تمہارے پاس کھلے دلائل کے ساتھ آیا ہوں.مجھے وہ سکھایا گیا ہے جو تمہیں نہیں سکھایا گیا.اور مجھے بصیرت عطا کی گئی ہے جس سے تم محروم ہو.وان القرآن مقدم على كل شئى ووحى الحكم مقدم على احاديث ظنية بشرط ان تطابق القرآن وحيه مطابقة تامة.وبشر ان تكون الاحاديث غير مطابقة للقرآن و توجد في قصصها مخالفة لقصص صحف مطهرة.ذالك بان وحى الحكم ثمرة غض وقد جنى مخالفة لقصص صحف مطهرة.ذالك بان وحي الحكم ثمرة غض وقد جنى من شجرة يقينية.فمن لم يقبل وحى الامام الموعود.ونبذه لروايات ليست كالمحسوس المشهود.فقد ضل ضلا لأمينا ومات ميتة جاهلية ( مواهب الرحمن - رخ جلد 19 صفحہ 288) ترجمہ اور یقینا قرآن مجید ہر چیز پر مقدم ہے.اور وہی حکم یعنی مسیح موعود احادیث ظنیہ پر مقدم ہے.اس شرط کے ساتھ کہ مسیح موعود کی وہ وحی قرآن کریم سے بکلی مطابقت رکھتی ہو.اور اس شرط کے ساتھ کہ حدیث کے بیان قرآن کریم کے بیان سے مطابقت نہ رکھتے ہوں.یعنی قرآن اور حدیث کے بیان میں باہمی تضاد ہو.یا مخالف ہو.یہ اعتقاد اس لئے ضروری ہے.کیونکہ مسیح موعود کی وی ایک تازہ پھل ہے.جو یقین کے درخت سے چنا گیا ہے.پس ہر وہ شخص جو دی امام موعود کو تسلیم نہ کرے اور غیر مشہور روایات کے لئے اس کو ترک کر دے پس وہ واضح گمراہی میں پڑ گیا اور وہ جاہلیت کی موت مرے گا.
16 فرمان قرآن کریم تمام الہامات پر بطور میمن اور محک کے ہے یا د رکھنا چاہئے کہ ہر ایک الہام کے لئے وہ سنت اللہ بطور امام اور یمن اور پیشرو کے ہے جو قرآن کریم میں وارد ہو چکی ہے.اور ممکن نہیں کہ کوئی الہام اس سنت کو توڑ کر ظہور میں آوے کیونکہ اس سے پاک نوشتوں کا باطل تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه 156 طباعت دسمبر 1920 ء فاروق پر لیس قادیان) ہونا لازم آتا ہے.ہر ایک ایسے شخص کو جو قرآن کریم پر ایمان لاتا ہے خواہ وہ گذر چکا ہے یا موجود ہے اسی اعتقاد کا پابند جانتا ہوں کہ وہ احادیث کے پر کھنے کے لئے قرآن کریم کو میزان اور معیار اور محک سمجھتا ہوگا.کیونکہ جس حالت میں قرآن کریم خود یہ منصب اپنے لئے تجویز فرماتا ہے اور کہتا ہے فَاتِي حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُوْنَ.(الاعراف: 186) اور فرماتا ہے قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدى (البقره: 121) اور فرماتا ہے.وَاعْتَصِمُوْ ابِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيْعًا (ال عمران : 104) اور فرماتا ہے هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنتٍ مِّنَ الْهُدى (البقرة: 186) اور فرماتا ہے.أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانِ.(الشوری: 118) اور فرماتا ہے.إِنَّهُ لَقَوْل فَضْلٌ - ( الطارق :14) لَا رَيْبَ فِيهِ ـ (البقرة: 3) تو پھر اس کے بعد کون ایسا مومن ہے جو قرآن شریف کو حدیثوں کے لئے حکم مقرر نہ کرے؟ اور جبکہ وہ خود فرماتا ہے کہ یہ کلام حکم ہے قول فصل ہے اور حق اور باطل کی شناخت کے لئے فرقان ہے اور میزان ہے.تو کیا یہ ایمان داری ہوگی کہ ہم خدا تعالی کے ایسے فرمودہ پر ایمان نہ لائیں؟ اور اگر ہم ایمان لاتے ہیں تو ہمارا ضرور یہ مذہب ہونا چاہیے کہ ہم ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول کو قرآن کریم پر عرض کریں تا ہمیں معلوم ہو کہ وہ واقعی طور پر اسی مشکواۃ وحی سے نور حاصل کرنے والے ہیں جس سے قرآن نکلا ہے یا اس کے مخالف ہیں.الحق مباحثہ لدھیانہ رخ جلد 4 صفحہ 22) ہاں اگر کوئی ایسی حدیث جو قرآن کریم سے مخالف نہ ہو تو پھر میں اسکی صحت کاملہ کی نسبت قائل ہو جاؤں گا.اور آپ کا یہ فرمانا کہ قرآن کریم کو کیوں محک صحت احادیث ٹھہراتے ہو.سواس کا جواب میں بار بار یہی دونگا کہ قرآن کریم میمن اور امام اور میزان اور قول فصل اور ہادی ہے.اگر اس کو محک نہ ٹھہراؤں تو اور کس کو ٹھہراؤں؟ کیا ہمیں قرآن کریم کے اس مرتبہ پر ایمان نہیں لانا چاہیئے.جو مرتبہ وہ خود اپنے لئے قرار دیتا ہے؟ دیکھنا چاہیے کہ وہ صاف الفاظ میں بیان فرماتا ہے.وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا.( ال عمران: 104) کیا اس حبل سے حدیثیں مراد ہیں؟ پھر جس حالت میں وہ اس حبل سے پنجہ مارنے کے لئے تاکید شدید فرماتا ہے تو کیا اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم ہر ایک اختلاف کے وقت قرآن کریم کی طرف رجوع کریں؟ اور پھر فرماتا ہے.وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ أَعْمَى - (طه : 125) یعنی جو شخص میرے فرمودہ سے اعراض کرے اور اس کے مخالف کی طرف مائل ہو تو اس کے لئے تنگ معشیت ہے یعنی وہ حقائق اور معارف سے بے نصیب ہے.اور قیامت کو اندھا اٹھایا جائے گا.اب ہم اگر ایک حدیث کو صریح قرآن کریم کے خلاف پائیں اور پھر مخالفت کی حالت میں بھی اس کو مان لیں اور اس تخالف کی کچھ بھی پروانہ کریں تو گویا اس بات پر راضی ہو گئے کہ معارف حقہ سے بے نصیب رہیں اور قیامت کو اندھے اٹھائے جائیں.اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے.فَاسْتَمْسِک بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ (الزخرف:44) وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ.(الزخرف:45) یعنی قرآن کریم کو ھر یک امر میں دستاویز پکڑو.تم سب کا اسی میں شرف ہے کہ تم قرآن کو دستا ویز پکڑو.اور اسی کو مقدم رکھو، اب
17 اگر ہم مخالفت قرآن اور حدیث کے وقت میں قرآن کو دستاویز نہ پکڑیں تو گویا ہماری یہ مرضی ہوگی کہ جس شرف کا ہم کو وعدہ دیا گیا ہے اس شرف سے محروم رہیں.اور پھر فرماتا ہے.وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَئًا فَهُوَ لَه قَرِيْن ـ (الزخرف:37) یعنی جو شخص قرآن سے اعراض کرے اور جو اس کے صریح مخالف ہے، اس کی طرف مائل ہو ہم اس پر شیطان مسلط کر دیتے ہیں کہ ہر وقت اسکے دل میں وساوس ڈالتا ہے اور حق سے اسکو پھیرتا ہے ار نابینائی کو اسکی نظر میں آراستہ کرتا ہے اور ایک دم اس سے جدا نہیں ہوتا.اب اگر ہم کسی ایسی حدیث کو قبول کر لیں جو صریح قرآن کی مخالف ہے تو گویا ہم چاہتے ہیں کہ شیطان ہمارا دن رات کا رفیق ہو جائے اور اپنے وساوس میں ہمیں گرفتار کرے اور ہم پر نابینائی طاری ہو.اور ہم حق سے بے نصیب رہ جائیں.(الحق مباحثہ لدھیانہ..جلدیہ صفحہ 37) اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف نیز دے تو فیق تا وہ کچھ کریں سوچ و بچار ایک فرقاں ہے جو شک اور ریب سے وہ پاک ہے بعد اس کے ظن غالب کو میں کرتے اختیار براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 147) سچا خدا وہی ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور وہ واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور افعال میں اور قدرتوں میں اور اس تک پہنچنے کے لیے تمام دروازے بند ہیں مگر ایک دروازہ جو فرقان مجید نے کھولا ہے.اور تمام نبوتیں اور تمام کتابیں جو پہلے گزر چکیں ان کی الگ طور پر پیروی کی حاجت نہیں رہی کیونکہ نبوت محمدیہ اُن سب پر مشتمل اور حاوی ہے اور بجز اس کے سب راہیں بند ہیں.تمام سچائیاں جو خدا تک پہنچاتی ہیں اسی کے اندر ہیں.نہ اس کے بعد کوئی نئی سچائی آئے گی اور نہ اس سے پہلے کوئی ایسی سچائی تھی جو اس میں موجود نہیں.اس لئے اس نبوت پر تمام نبوتوں کا خاتمہ ہے اور ہونا چاہیے تھا کیونکہ جس چیز کے لئے ایک آغاز ہے اس کے لیے ایک انجام بھی ہے لیکن یہ نبوت محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے.اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے مکالمہ مخاطبہ کا اس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا.مگر اس کا کامل پیر وصرف نبی نہیں کہلا سکتا کیونکہ نبوت کا ملہ نامہ محمدیہ کی اس میں ہتک ہے ہاں امتی اور نبی دونوں لفظ اجتماعی حالت میں اس پر صادق آسکتے ہیں کیونکہ اس میں نبوت تامہ کاملہ محمدیہ کی ہتک نہیں بلکہ اس نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ تر ظاہر ہوتی ہے.نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلا نکلا پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا! حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا ناگہاں غیب سے چشمه اصفی نکلا الہی! تیرا فرقان ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں پھر جو (رسالہ الوصیت.رخ جلد 20 صفحہ 311) سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا ( براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 305)
18 جماعت کو نصیحت اے میری عزیز جماعت یقیناً سمجھو کہ زمانہ اپنے آخر کو پہنچ گیا ہے اور ایک صریح انقلاب نمودار ہو گیا ہے.سو اپنی جانوں کو دھوکہ مت دو اور بہت جلد راستبازی میں کامل ہو جاؤ.قرآن کریم کو اپنا پیشوا پکڑو اور ہر ایک بات میں اس سے روشنی حاصل کرو اور حدیثوں کو بھی ردی کی طرح مت پھینکو کہ وہ بڑی کام کی ہیں.اور بڑی محنت سے انکا ذخیرہ طیار ہوا ہے.لیکن جب قرآن کے قصوں سے حدیث کا کوئی قصہ مخالف ہو تو ایسی حدیث کو چھوڑ دو تا گمراہی میں نہ پڑو.قرآن شریف کو بڑی حفاظت سے خدا تعالیٰ نے تمہارے تک پہنچایا ہے.سو تم اس پاک کلام کی قدر کرو اس پر کسی چیز کو مقدم نہ سمجھو کہ تمام راست روی اور راستبازی اسی پر موقوف ہے.کسی شخص کی باتیں لوگوں کے دلوں میں اسی حد تک موثر ہوتی ہیں جس حد تک اس شخص کی معرفت اور تقویٰ پر لوگوں کو یقین ہوتا ہے.( تذكرة الشهادتین رخ جلد 20 صفحہ 64) اسلام اس بات کا نام ہے کہ قرآن شریف کی اتباع سے خدا کو راضی کیا جاوے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 622) اسلام چیز کیا ہے؟ خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش پئے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات ( در مشین اردو صفحہ 103 ) ( براہین احمدیہ.رخ جلد 21 صفحہ 18)
19 پانچویں فصل وحی الہی کے اعتبار سے حضرت اقدس کے دل کو کشوف والہام سے روشن کیا گیا يَا أَحْمَدُ بَارَكَ الله فيكَ.الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أُنْذِرَ ابَاءُ هُمْ وَلِتَسْتَبْيْنَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ.قُلْ إِنِّى أمرُتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بَالْهُدَى وَدِينِ اربعین.رخ جلد 17 صفحہ 351) الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ.ترجمہ: اے احمد ! خدا نے تجھ میں برکت ڈالی.اس نے تجھے قرآن سکھایا تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تا کہ مجرموں کی راہ کھل جائے یعنی معلوم ہو جائے کہ کون کون مجرم ہے.کہہ دے کہ میرے پر خدا کا حکم نازل ہوا ہے اور میں تمام مومنوں سے پہلا ہوں.وہ خدا جس نے اپنے فرستادہ کو بھیجا اس نے دوامر کے ساتھ اسے بھیجا ہے.ایک تو یہ کہ اس کو نعمت ہدایت سے مشرف فرمایا ہے یعنی اپنی راہ کی شناخت کیلئے روحانی آنکھیں اس کو عطا کی ہیں اور علم لدنی سے ممتاز فرمایا ہے اور کشف اور الہام سے اس کے دل کو روشن کیا ہے.اور اس طرح پر الہی معرفت اور محبت اور عبادت کا جو اس پر حق تھا اس حق کی بجا آوری کیلئے آپ اس کی تائید کی ہے اور اس لئے اس کا نام مہدی رکھا.دوسرا امر جس کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے وہ دین الحق کے ساتھ روحانی بیماریوں کو اچھا کرنا ہے.یعنی شریعت کے صدہا مشکلات اور معضلات حل کر کے دلوں سے شبہات کو دور کرنا ہے.پس اس لحاظ سے اس کا نام عیسی رکھا ہے یعنی بیماروں کو چنگا کرنے والا.الہامات و کشوف حضرت اقدس يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللهُ فِيْكَ.مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أُنْذِرَ آبَاءُ هُمْ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ 0 یعنی اے احمد ! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی.جو کچھ تو نے چلایا تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا.وہ خدا ہے جس نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی اس کے حقیقی معنوں پر تجھے اطلاع دی تاکہ تو ان لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے.اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے اور تیرے انکار کی وجہ سے ان پر حجت پوری ہو جائے.ان لوگوں کو کہدے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہوں اور میں وہ ہوں جو سب سے پہلے ایمان لایا.براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 66) الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلَ الْمُجْرِمِيْنَ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ.اس الہام کے رو سے خدا نے مجھے علوم قرآنی عطا کئے ہیں.اور میرا نام اول المومنین رکھا.اور مجھے سمندر کی طرح معارف اور حقائق سے بھر دیا ہے اور مجھے بار بار الہام دیا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الہی اور کوئی محبت الہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں.پس بخدا میں کشتی کے میدان میں کھڑا ہوں.جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا.عنقریب وہ مرنے کے بعد شرمندہ ہو گا.اور اب حجتہ اللہ کے نیچے ہے.اے عزیز کوئی کام دنیا کا ہو یا دین کا بغیر لیاقت کے نہیں ہوسکتا.ضرورت الامام - رخ جلد 13 صفحه 502)
20 20 کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس کی پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو.میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور ساطعہ نکل جوار دگر د پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی ہوئی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا.وہ بلند آواز سے بولا کہ اللہ اکبر.خربت خیبر.اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے اور وہ نور قرآنی معارف ہیں.اور خیبر سے مراد تمام خراب مذہب ہیں جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کی صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرادیا ہے.سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائیگا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا.ان الله معك ان الله يقوم اينما قمت.یعنی خدا تیرے ساتھ ہے خداو میں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہو.یہ حمایت الہی کیلئے ایک استعارہ ہے.تریاق القلوب - رخ جلد 15 صفحہ 227-226) اے کان دلربائی دانم که از کجائی تو نور آں خدائی کیں خلق آفریده اے کان محسن میں جانتا ہوں کہ تو کس سے تعلق رکھتی ہے تو تو اس خدا کا نور ہے جس نے یہ مخلوقات پیدا کی میلم نماند باکس محبوب من توئی بس ذیرا کہ زاں فغاں رس نورت بما رسیده مجھے کسی سے تعلق نہ رہا اب تو ہی میرا محبوب ہے کیونکہ اس خدائے فریاد رس کی طرف سے تیرا نور ہم کو پہنچا ہے (براہین احمدیہ - رخ جلد 1 صفحہ 305 حاشیہ نمبر 2) رَأَيْتُ اَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُرِينِى كِتَابًا وَيَقُولُ هَذَا تَفْسِيرُ الْقُرْآنِ اَنَا اَلَفْتُهُ وَ أَمَرَنِي رَبِّي أَنْ أَعْطِيَكَ فَبَسطتُ إِلَيْهِ يَدَى وَاَخَزَتْهُ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرَى وَيَسْمَعُ وَلَا يَتَكَلَّمُ وَكَأَنَّهُ حَزِينٌ لِأَجَلِ بَعْضِ أَحْزَانِى.وَرَايَتُهُ فَإِذَا الْوَجْهُ هُوَ الوَجُهُ الَّذِى رَأَيْتُ مِنْ قَبْلُ آنَارَتِ الْبَيْتُ مِنْ نُّورِه.فَسُبْحَانَ اللهِ خَالِقِ النُّورِ وَ النُّوْرَانِيَيْنَ» غمگین ترجمہ از مرتب : میں نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ مجھے ایک کتاب دکھاتے اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی تفسیر ہے جس کو میں نے تالیف کیا ہے اور مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو دوں.تب میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے لے لیا اور رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے اور سن رہے تھے مگر آپ بولتے نہیں تھے.گویا آپ میرے بعض عموں کی وجہ سے عمد تھے.اور میں نے جب آپ کو دیکھا تو آپ کا وہی چہرہ تھا جو میں نے پہلے دیکھا تھا.آپ کے نور سے گھر روشن ہو گیا.پس پاک ہے وہ خدا جونو ر اور نورانی وجودوں کا خالق ہے.آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 550)
21 24 آمدم تا نگار باز آید میں اس لئے آیا ہوں تاکہ محبوب لوٹ آئے ، پرورد ہروم بیدلاں قرار باز آید اور بددل لوگوں کو پھر آرام نصیب ہو کرو و حیش بمن ظہور اتم ایک غیبی ہاتھ ہر دم میری پرورش کرتا ہے اور اس کی وحی نے کامل طور سے مجھ پر ظہور کیا ہے نور الهام ہمیچو باد صبا نزدم آرد زغیب خوشبو ہا الہام الہی کا نور باد صبا کی طرح غیب سے میرے پاس خوشبوئیں لا رہا زنده شد ہر نبی با مدنم ہر رسولے نہاں به ہر نبی میرے آنے سے زندہ ہو گیا ہر رسول میرے پیرائن میں پوشیدہ ہے نزول مسیح رخ جلد 18 صفحہ 478) حضرت اقدسن کی وحی کا ذکر قرآن کریم میں فرمایا کہ ”آج میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن شریف کی وحی اور اس سے پہلی وحی پر ایمان لانے کا ذکر تو قرآن شریف میں موجود ہے.ہماری وحی پر ایمان لانے کا ذکر کیوں نہیں.اس امر پر توجہ کر رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور القاء کے پیکا یک میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آیہ کریمہ و الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أنزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (البقره: 5) میں تینوں وجیوں کا ذکر ہے.مَا أُنزِلَ اِلَیک ہے قرآن شریف کی وحی اور مَا انْزِلَ مِنْ قَبْلِک سے انبیاء سابقین کی وحی اور آخرۃ سے مراد مسیح موعود کی وحی ہے.آخرة کے معنی ہیں پیچھے آنے والی.وہ پیچھے آنے والی چیز کیا ہے.سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ یہاں پیچھے آنیوالی چیز سے مراد وہ وہی ہے جو قرآن کریم کے بعد نازل ہوگی یہ کیونکہ اس سے پہلے وحیوں کا ذکر ہے.ایک وہ جو آنحضرت پر نازل ہوئی.دوسری وہ جو آنحضرت ﷺ سے قبل نازل ہوئی اور تیسری وہ جو آپ کے بعد آنے والی تھی.( تفسیر حضرت اقدس سورة البقرة جلد 2 صفحہ 63) ریویو آف ریلیجند جلد 14 نمبر 4 بابت ماہ مارچ و اپریل 1915 ، صفحہ 164 حاشیہ ) حضرت اقدس کا اپنی وحی کی صداقت پر یقین کامل آنچه داد است آنچه بیچو انبیاء وارث ہر نبی را جام داد آن جام را مرا بتمام جو جام اس نے ہر نبی کو عطا کیا تھا وہی جام اس نے کامل طور سے مجھے بھی دیا ہے بشنوم از وی خدا بخدا ماک دانمش جو کچھ خدا کی وحی سے میں سنتا ہوں خدا کی قسم میں اسے غلطی سے پاک سمجھتا ہوں زخطا ایمانم قرآن منزه اش دانم از خطابا ہمیں است میں اسے قرآن کی طرح غلطیوں سے پاک جانتا ہوں اور یہی میرا ایمان ہے من بعرفاں یمترم ز کے مصطفیٰ بوده اند ہے ہوں.اگر چہ انبیاء بہت ہوتے ہیں مگر میں معرفت الہی میں کسی سے کم نہیں ہوں رنگیں برنگ یار حسیں شدم یقیں شده میں یقینا مصطفیٰ کا وارث ہوں اور اس حسین محبوب کے رنگ میں رنگین ہوں ہوں ( نزول ایح.رخ جلد 18 صفحہ 477)
22 حضرت اقدس الہام اور وحی سے قرآن کو سمجھتے ہیں علم غیب از وحی خلاق جہاں ہر ہمیچوں شاہداں استادہ اند قرآن کا علم اس پاک زبان کا علم اور الہام الہی سے غیب کا علم.علم قرآن علم آں طیب زباں این سه علم چون نشانها داده اند یہ تین علم مجھے نشان کے طور پر دیے گئے ہیں اور تینوں بطور گواہ میری تائید میں کھڑے ہیں.در مشین فارسی صفحہ 187 نیا ایڈیشن ) ( تحفہ غزنویہ.رخ جلد 15 صفحہ 533) حضرت مسیح موعود علیہ السلام : یہ خدا کا بڑا فضل ہے اور خوش قسمتی آپ کی ہے کہ آپ ادھر آ نکلے.یہ بات واقعی سچ ہے کہ جو مسلمان ہیں یہ قرآن شریف کو بالکل نہیں سمجھتے لیکن اب خدا کا ارادہ ہے کہ صحیح معنی قرآن کے ظاہر کرے خدا نے مجھے اسی لئے مامور کیا ہے اور میں اس کے الہام اور وحی سے قرآن شریف کو سمجھتا ہوں قرآن شریف کی ایسی تعلیم ہے کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں آسکتا اور معقولات سے ایسی پُر ہے کہ ایک فلاسفر کو بھی اعتراض کا موقعہ نہیں ملتا مگر ان مسلمانوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا ہے اور اپنی طرف سے ایسی ایسی باتیں بنا کر قرآن شریف کی طرف منسوب کرتے ہیں جس سے قدم قدم پر اعتراض وارد ہوتا ہے اور ایسے دعاوی اپنی طرف سے کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں نہیں ہے اور وہ سراسر اس کے خلاف ہیں مثلاً اب یہی واقعہ صلیب کا دیکھو کہ اس میں کس قدر افتراء سے کام لیا گیا ہے اور قرآن کریم کی مخالفت کی گئی ہے اور یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے اور قرآن کے بھی برخلاف ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 451-450) ان لوگوں کو قرآن کا علم نہیں ہے اور نہ خدا سے الہام پاتے ہیں کہ تا خدا کے کلام کے معنی خدا سے معلوم کریں.اور اس طرح پر ناحق ایک خلاف واقعہ بات کی یاد دہانی کراتے رہتے ہیں.مجھے خدا نے قرآن کا علم دیا ہے.اور زبان عرب کے محاورات کے سمجھنے کیلئے وہ فہم عطا کیا ہے کہ میں بلا فخر کہتا ہوں کہ اس ملک میں کسی دوسرے کو یہ فہم عطا نہیں ہوا میں زور سے کہتا ہوں کہ قرآن میں ایسی تعلیم ہر گز نہیں ہے کہ دین کو تلوار کے ساتھ مدد دی جائے یا اعتراض کرنے والوں پر تلوار اٹھائی جائے.( کشف الغطاء.رخ جلد 14 صفحہ 208) هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ ، وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ 0 وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ط وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعة:3 تا4) منعم علیہم کے کامل طور پر مصداق باعتبار کثرت کمیت اور صفائی کیفیت اور نعمائے حضرت احدیت از روئے نص صریح قرآنی اور احادیث متواترہ حضرت مرسل یزدانی دو گروہ ہیں ایک گروہ صحابہ اور دوسرا گر وہ جماعت مسیح موعود.کیونکہ یہ دونوں گروہ آنحضرت ﷺ کے ہاتھ کے تربیت یافتہ ہیں کسی اپنے اجتہاد کے محتاج نہیں.وجہ یہ ہے کہ پہلے گروہ میں رسول اللہ ﷺے موجود تھے جو خدا سے براہ راست ہدایت پا کر وہی ہدایت نبوت کی پاک توجہ کے ساتھ صحابہ کے دل میں ڈالتے تھے اور ان کیلئے مربی بے واسطہ تھے اور دوسرے گروہ میں مسیح موعود ہے جو خدا سے الہام پاتا اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی روحانیت سے فیض اٹھاتا ہے لہذا اس کی جماعت بھی اجتہاد خشک کی محتاج نہیں ہے جیسا کہ آیت وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعہ: 4) سے سمجھا جاتا ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 224)
23 چھٹے کشوف اور الہامات کا سلسلہ ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہوتا ہے.امام الزمان اکثر بذریعہ الہامات کے خدا تعالیٰ سے علوم اور حقائق اور معارف پاتا ہے.اور اسکے الہامات دوسروں پر قیاس نہیں ہو سکتے.کیونکہ وہ کیفیت اور کمیت میں اس اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہیں جس سے بڑھ کر انسان کیلئے ممکن نہیں.اور ان کے ذریعہ سے علوم کھلتے ہیں اور قرآنی معارف معلوم ہوتے ہیں.اور دینی عقدے اور معضلات حل ہوتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی پیشگوئیاں جو مخالف قوموں پر اثر ڈال سکیں ظاہر ہوتی ہیں.غرض جو لوگ امام الزمان ہوں انکے کشوف اور الہام صرف ذاتیات تک محدود نہیں ہوتی.بلکہ نصرت دین اور تقویت ایمان کیلئے نہایت مفید اور مبارک ہوتے ہیں.ضرورت الامام - رخ جلد 13 صفحہ 483) نبی کی ہر بات جو کامل توجہ سے کی جائے وہ وحی الہی کا رتبہ رکھتی ہے وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَواى O وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى o إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُواى o ذُومِرَّةٍ طَ فَاسْتَوَى (النجم :2 تا 7) نبی کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پیدا ہوتی ہیں درحقیقت وہ تمام وحی ہوتی ہیں جیسا کہ قرآن کریم اس پر شاہد ہے وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى لیکن قرآن کی وحی دوسری وحی سے جو صرف معانی منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلو میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر یک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے لہذا ہر ایک بات نبی کی جو نبی توجہ ء تام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے وہ بلاشبہ وحی ہوتی ہے تمام احادیث اس درجہ کی اور وجی میں داخل ہیں جن کو غیر متلووحی کہتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 353-352) مرا بکشن رضوان حق شدست گذر مقام من چمن قدس و اصطفا باشد اللہ تعالیٰ کی رضا کے باغ میں میرا گذر ہوا ہے میرا مقام برگزیدگی اور تقدس کا چمن ہے کمال پاکی و صدق و صفا که گم شده بود دوباره از سخن و وعظ من بیا باشد پاکیزگی اور صدق و صفا کا کمال جو معدوم ہو گیا تھا وہ دوبارہ میرے کلام اور وعظ سے قائم ہوا ہے مرنج از سخنم ایکه سخت بے خبری که اینکه گفته ام از وحی کبریا باشد اے وہ شخص جو بالکل بے خبر ہے میری بات سے ناراض نہ ہو کہ جو میں نے کہا ہے یہ خدا کی وحی سے کہا ہے کیسکہ گم شده از خود بنور حق پیوست هر آنچه از دهش بشنوی بجا باشد جو شخص اپنی خودی کو چھوڑ کر خدا کے نور میں جا ملا اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات حق ہو گی تریاق القلوب.رخ جلد 15 صفحہ 134)
24 محدث اپنے نبی ، متبوع کا پورا اہمرنگ ہوتا ہے وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلَّمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْمِنْ وَرَاى حِجَابٍ اَوْيُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ (الشورى: 52) ط صاحب وحی محد ثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہمر رنگ ہوتا ہے اور بغیر نبوت اور تجدیدا حکام کے وہ سب باتیں اس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں اور اس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اس پر وہ سب امور بطور انعام واکرام کے وارد ہو جاتے ہیں جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں سوان کا بیان محض اٹکلیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے اور سن کر بولتا ہے اور یہ راہ اس امت کیلئے کھلی ہے.ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ وارث حقیقی کوئی نہ رہے.بركات الدعا ر خ جلد 6 صفحه 21-20 کیا عام لفظوں میں کسی حدیث میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بعض گذشتہ رسولوں میں سے پھر اس امت میں آئیں گے جیسا کہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے مثیل آئیں گے اور امثل آئیں گے جو فطر تا انبیاء سے بہت اقرب ہیں سو جن کے آنے کا صاف طور پر بلا تعارض وعدہ دیا گیا ہے ان سے منہ مت پھیرو اور ان کے الہام سے بھی شہادت کا فائدہ اٹھاؤ کیونکہ ان کی گواہی اس بات کو کھولتی ہے جو تم اپنی عقلوں سے نہیں کھول سکتے آسمانی گواہی کے رد کرنے میں جرات نہ کرو کیونکہ یہ بھی اسی پاک چشمہ سے نکلی ہے جس سے وحی نبوت نکلی ہے.سو یہ وحی کے معنی کی شارح اور صراط مستقیم کو دکھلانے والی ہے.غرض قرآن ایسی مجمل کتاب نہیں جو کبھی اور کسی صورت میں معیار کا کام نہ دے سکے.جس کا ایسا خیال (ازالہ اوہام.رخ جلد 3 صفحہ 381-380) ہے بے شک وہ سخت نادان ہے.بلکہ ایمان اس کا خطرہ کی حالت میں ہے اور حدیث انی اوتیت الکتاب و مثله سے آپ کے خیال کو کیا مدد پہنچ سکتی ہے؟ آپ کو معلوم نہیں کہ وحی متلو کا خاصہ ہے جو اس کے ساتھ تین چیزیں ضرور ہوتی ہیں خواہ وہ وحی رسول کی ہو یا نبی کی یا محدث کی.اول.مکاشفات صحیحہ جو اخبارات اور بیانات وحی کو کشفی طور پر ظاہر کرتے ہیں.گویا خبر کو معائنہ کر دیتے ہیں.جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ کو وہ بہشت اور دوزخ دکھلایا گیا جس کا قرآن کریم نے بیان کیا تھا.اور ان گذشتہ رسولوں سے ملاقات کرائی گئی جن کا قرآن حمید میں ذکر کیا گیا تھا ایسا ہی بہت سی معاد کی خبر میں کشفی طور پر ظاہر کی گئیں.تا وہ علم جو قرآن کے ذریعہ سے دیا گیا تھا.زیادہ تر انکشاف پکڑے اور موجب طمانیت اور سکینت کا ہو جائے.دوئم.وحی متلو کے ساتھ رویائے صالحہ دی جاتی ہے جو بنی اور رسول اور محدث کیلئے ایک قسم کی وحی میں ہی داخل ہوتی ہے اور باوجود کشف کے رویا کی اس لئے ضرورت ہوتی ہے کہ تا علم استعارات کا جو رویا پر غالب ہے وحی یاب پر کھل جائے اور علوم تعبیر میں مہارت پیدا ہو اور تا کشف اور رویا اور وحی باعث تعدد طرق کے ایک دوسرے پر شاہد ہوں اور اس وجہ سے نبی اللہ کمالات اور معارف یقینیہ کی طرف ترقی رکھے.
25 25 سوئم.وحی متلو کے ساتھ ایک خفی وحی عنایت ہوتی ہے جو تھہیمات الہیہ سے نامزد ہوسکتی ہے یہی وحی ہے جس کو وحی غیر متلو کہتے ہیں اور متصوفہ اس کا نام وحی خفی اور وحی دل بھی رکھتے ہیں اس وجی سے یہ غرض ہوتی ہے کہ بعض مجملات اور اشارات وحی متلو کے منزل علیہ پر ظاہر ہوں.سو یہ وہ تینوں چیزیں ہیں جو آنحضرت ﷺ کیلئے اوتیت الکتاب کے ساتھ مثلہ کا مصداق ہیں.اور ہر ایک رسول اور نبی اور محدث کو اس کی وحی کے ساتھ یہ تینوں چیزیں حسب مراتب اپنی اپنی حالت قرب کے دی جاتی ہیں.چنانچہ اس بارے میں راقم تقریر ہذا صاحب تجربہ ہے یہ مویدات ثلثہ یعنی کشف اور رویا اور وحی خفی در اصل امور زائدہ نہیں ہوتے بلکہ وحی متلو کے جو متن کی طرح ہے مفسر اور مبین ہوتے ہیں.فتدبر احل کے جوتن کی طرح سے مفسر اور مین ہوتے ہیں فقد بر الحق بحث لدھیانہ رخ جلد 4 صفحہ 109-108) انبیاء وحی الہی کے احکام کے بغیر کوئی تبلیغ تعلیم نہیں کرتے وَ كَذلِكَ اَوْ حَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ اَمْرِنَا ط مَا كُنتَ تَدْرِى مَا الْكِتَبُ وَلَا الْإِيْمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَهُ نُورًا نَّهْدِى بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ط وَ إِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيم (الشورى:53) یا درکھو کہ ہر ایک نبی کو جب تک وحی نہ ہو وہ کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہر ایک چیز کی اصل حقیقت تو وحی الہی سے ہی کھلتی ہے.یہی وجہ تھی جو آنحضرت ﷺ کو ارشاد ہوا مَا كُنتَ تَدْرِى مَا الْكِتَبُ وَلَا الْإِيمَانِ یعنی تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا چیز ہے؟ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی وحی آپ پر ہوئی تو پھر وَ اُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (یونس: 105) آپ کو کہنا پڑا.اسی طرح آپ کے زمانہ وحی سے پیشتر مکہ میں بہت پرستی اور شرک ، فسق و فجور ہوتا تھا لیکن کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ وحی الہی کے آنے سے پہلے بھی آپ نے بتوں کے خلاف وعظ کیا اور تبلیغ کی تھی لیکن جب فَاصْدَعُ بِمَا تُو مَرُ (الحجر: 95) کا حکم ہوا تو پھر ایک سیکنڈ کی بھی دیر نہیں کی اور ہزاروں مشکلات اور مصائب کی بھی پرواہ نہیں کی.بات یہی ہے کہ جب کسی امر کے متعلق وحی الہی آجاتی ہے تو پھر مامور اس کے پہنچانے میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے اور اس کا چھپا نا اسی طرح شرک سمجھتے ہیں جس طرح وحی الہی سے اطلاع پانے کے بغیر کسی امر کی اشاعت شرک سمجھتے ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 392)
26 26 چھٹی فصل روح القدس کی تائید کے اعتبار سے تفسیر آیت وَمَايَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم : 54 ) اور نہیں وہ بولتا اپنی خواہش سے نہیں وہ مگر وحی ہے جو کی جاتی ہے ) یادر ہے کہ اگر چہ ہر ایک نبی میں مہدی ہونے کی صفت پائی جاتی ہے کیونکہ سب نبی تلامیذ الرحمان ہیں اور نیز اگر چہ ہر ایک نبی میں مؤید بروح القدس ہونے کی صفت بھی پائی جاتی ہے کیونکہ تمام بی روح القدس سے تائید یافتہ ہیں لیکن پھر بھی یہ دو نام دو نبیوں سے کچھ خصوصیت رکھتے ہیں یعنی مہدی کا نام ہمارے نبی ﷺ سے خاص ہے اور مسیح یعنی کا نبی موید بروح القدس کا نام حضرت عیسی علیہ السلام سے کچھ خصوصیت رکھتا ہے گو ہمارے نبی ہے اس نام کے رو سے بھی فائق ہیں کیونکہ ان کوشدید القوی کا دائمی انعام دیا گیا ہے لیکن روح القدس کے مرتبہ میں جو شدید القوی سے کم مرتبہ ہے حضرت مسیح کو یہ خصوصیت دی گئی ہے جیسا کہ یہ دونوں خصوصیتیں قرآن شریف سے ظاہر ہیں آنحضرت کا دوسرا نام اتنی مہدی رکھا اور وعلمہ شدید القوی فرمایا اور حضرت مسیح کو روح القدس سے تائید یافتہ قرار دیا جیسا کہ کسی شاعر نے بھی کہا ہے.فیض روح القدس از باز مدد فرماید ہمہ آں کارکنند آنچه مسیحا می کرد اور نبیوں کی پیشگوئی میں یہ تھا کہ امام آخر الزمان میں یہ دونوں صفتیں اکٹھی ہو جائیں گی یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ آدھا اسرائیلی ہوگا اور آدھا اسماعیلی.اربعین نمبر 2 - رخ جلد 17 صفحہ 359-358 حاشیہ ) اس عاجز کو اپنے ذاتی تجربہ سے یہ معلوم ہے کہ روح القدس کی قدستیت ہر وقت اور ہر دم اور ہر لحظہ بلا فصل ملہم کے تمام قومی میں کام کرتی رہتی ہے اور وہ بغیر روح القدس اور اس کی تاثیر قدسیت کے ایک دم بھی اپنے تیں ناپاکی سے بچا نہیں سکتا اور انوار دائی اور استقامت دائگی اور محبت دائمی اور عصمت دائمی اور برکات دائمی کا بھی سبب ہوتا ہے کہ روح القدس ہمیشہ اور ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے پھر امام المعصومین اور امام المستمر کین اور سید المقربین کی نسبت کیونکر خیال کیا جائے نعوذ باللہ کسی وقت ان تمام برکتوں اور پاکیزگیوں اور روشنیوں سے خالی رہ جاتے تھے.افسوس کہ یہ لوگ حضرت عیسی کی نسبت یہ اعتقادر کھتے ہیں کہ تینتیس برس روح القدس ایک دم کیلئے بھی ان سے جدا نہیں ہوا مگر اس جگہ اس قرب سے منکر ہیں.آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 94-93 حاشیہ ) مہدی کے مفہوم میں یہ معنی اخذ ہیں کہ وہ سی انسان کا علم دین میں شاگر دیا مرید نہ ہو خدا کی ایک خاص تجلی تعلیم لدنی کے نیچے دانی طور پر شو نما پاتا ہو جوروں القدس کے ہر ایک تمثل سے بڑھ کر ہے اور ایسی تعلیم پانا صفت محمدی ہے اور اسی کی طرف آیت عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوسی میں اشارہ ہے اور اس فیض کے دائی اور غیر منفک ہونے کی طرف آیت وَمَايَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحی میں اشارہ ہے اور سی کے مفہوم میں یہ منی ماخوذ ہیں جو دائی طور پر وہ روح القدس اس کے شامل حال ہو جو شدید القوی کے درجہ سے کم تر ہو کیونکہ روح القدس کی تاثیر یہ ہے کہ وہ اپنی منزل علیہ میں ہو کر انسانوں کو راستی کا ملزم بناتا ہے مگر شدید القوی راستی کا اعلیٰ رنگ منزل علیہ میں ہو کر انسانوں کے دلوں میں چڑھاتا ہے.اربعین نمبر 2 ر خ جلد 17 صفحہ 361-360 حاشیہ)
27 روح القدس کی تائید اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِي إِلَّا إِذَا تَمَنِّى الْقَى الشَّيْطَنُ فِي أُمُنِيَّتِهِ جِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِى الشَّيْطنُ ثُمَّ يُحْكِمَ اللهُ الله ط وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ( سورة الحج : 53) یہ بات خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کے برخلاف ہے کہ وہ شیاطین کو ان کے مواضع مناسبہ سے معطل کر دیوے.اللہ جل شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِيِّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ الْقَى الشَّيْطَنُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَنُ ثُمَّ يُحْكِمَ اللَّهُ ايَتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ یعنی ہم نے کوئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ اس کی یہ حالت نہ ہو کہ جب وہ کوئی تمنا کرے یعنی اپنے نفس سے کوئی بات چاہے تو شیطان اس کی خواہش میں کچھ نہ ملادے یعنی جب کوئی رسول یا کوئی نبی اپنے نفس کے جوش سے کسی بات کو چاہتا ہے تو شیطان اس میں بھی دخل دیتا ہے تب وحی متلو جو شوکت اور ہیبت اور روشنی تام رکھتی ہے اس دخل کو اٹھا دیتی ہے اور منشاء الہی کو مصفا کر کے دکھلا دیتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پیدا ہوتی ہیں در حقیقت وہ تمام وہی ہوتی ہیں جیسا کہ قرآن کریم اس پر شاہد ہے وما ینطق عن الهوى ان هو الا وحي يوحی 0 (النجم : 54) لیکن قرآن کی وحی دوسری وحی سے جو صرف معانی منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلو میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر یک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے لہذا ہر یک بات نبی کی جو نبی کی توجہ تام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے وہ بلاشبہ وحی ہوتی ہے.( آئینہ کمالات اسلام - رخ جلد 5 صفحہ 353-352) جو علما عارف باللہ اور موید من اللہ ہوتے ہیں وہ بتائید روح القدس جملہ علوم کا استخراج قرآن مجید سے کر سکتے ہیں قال الله تعالى لا رطب و لا يا بس الا فی کتاب مبین (الانعام:60) وايضا قال الله تعالیٰ والذين جاهدو افينا لنهدينهم سبلنا (العنكبوت: 70) و ايضا قال الله تعالى وعلمناه من لدنا علما (الكهف: 66).اور علماء ظاہر کو یہ بات نصیب نہیں ہو سکتی ان کو البتہ اشد احتیاج طرف علوم رسمیہ اور فنون درسیہ کی ہوتی ہے.الحق مباحثہ دہلی.رخ جلد 4 صفحہ 294) تفسیر نویسی اس بات کا ذکر آیا کہ آج کل لوگ بغیر بچے علم اور واقفیت کے تفسیریں لکھنے بیٹھ جاتے ہیں.اس پر فرمایا: تفسیر قرآن میں دخل دینا بہت نازک امر ہے.مبارک اور سچا دخل اس کا ہے جو روح القدس سے مدد لے کر داخل دے ورنہ علوم مروجہ کا لکھناد نیاداروں کی چالاکیاں ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 505)
28 ساتویں فصل حضرت اقدس نے قرآن کریم کے علوم اور معارف خدا تعالیٰ سے حاصل کئے ہیں الہام حضرت اقدس مَا لَنَا إِلَّا كَالْقُرْآنِ وَسَيَظْهَرُ عَلَى يَدَيَّ مَا ظَهَرَ مِنَ الْفُرْقَانِ.میں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور عنقریب میرے ہاتھ پر ظاہر ہو گا جو کچھ فرقان سے ظاہر ہوا.( تذکرہ ایڈیشن 4 صفحہ 674) اشعار حضرت اقدس علیم قرآن علیم آں طیب زباں علم غیب از وحشی خلاق جہاں قرآن کا علم.اس پاک زبان کا علم اور الہام الہی غیب کا علم ایں سم چون نشانها داده اند ہر سم ہمیچوں شاہداں استادہ اند یہ تین علم مجھے نشان کے طور پر دیئے گئے ہیں اور تینوں بطور گواہ میری تائید میں کھڑے ہیں اشعار حضرت اقدس در نمین فارسی ) ( تحفه غزنویہ.رخ جلد 15 صفحہ 533) باغ مرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار مرہم عیسی نے دی تھی محض عیسے کو شفا میری مرہم سے شفا پائے گا ہر ملک و دیار جھانکتے تھے نور کو وہ روزن دیوار سے لیک جب در کھل گئے پھر ہو گئے شہر شعار وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیداوار براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 147)
29 29 الہام حضرت اقدس مجھے ایک دفعہ یہ الہام ہوا کہ:.الرحمن علم القرآن يا احمد فاضت الرحمة على شفتيك یعنی خدا نے تجھے اے احمد قرآن سکھلایا اور تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی.اور اس الہام کی تفہیم مجھے اس طرح پر ہوئی کہ کرامت اور نشان کے طور پر قرآن اور زبان قرآن کی نسبت دو طرح کی نعمتیں مجھ کو عطا کی گئی ہیں.(۱) ایک یہ کہ معارف عالیہ فرقان حمید بطور خارق عادت مجھ کو سکھلائے گئے جن میں دوسرا مقابلہ نہیں کر سکتا.(۲) دوسرے یہ کہ زبان قرآن یعنی عربی میں وہ بلاغت اور فصاحت مجھے دی گئی.کہ اگر تمام علماء مخالفین باہم اتفاق کر کے بھی اس میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں تو نا کام اور نا مراد ر ہیں گے.اور وہ دیکھ لیں گے کہ جو حلاوت اور بلاغت اور فصاحت لسان عربی مع التزام حقائق و معارف و نکات میری کلام میں ہے وہ ان کو اور انکے دوستوں اور ان کے استادوں اور ان کے بزرگوں کو ہرگز حاصل نہیں.تریاق القلوب - رخ جلد 15 صفحہ (230) اشعار حضرت اقدس عِلْمِي مِنَ الرَّحْمَنِ ذِي الأَلَاءِ بِاللَّهِ حُزْتُ الْفَضْلَ لَا بِدَهَاءِ میر اعلم خدائے رحمان کی طرف سے جو نعمتوں والا ہے میں نے خدا کے ذریعہ فضل الہی کو حاصل کیاہے نہ کہ قتل کے ذریعہ كَيْفَ الْوَصُولُ إِلَى مَدَارِج شُكْرِهِ تُثْنِي عَلَيْهِ وَلَيْسَ حَوْلُ شَـنَـاءِ ہم اس کے شکر کی منزلوں تک کیسے پہنچ سکتے ہیں کہ ہم اس کی شنا کرتے ہیں اور ثنا کی طاقت نہیں اللَّهُ مَوْلَنَا وَكَافِلُ أَمْرِنَا فِي هِذِهِ الدُّنْيَا وَبَعْدَ فَنَاءِ خدا ہمارا مولیٰ ہے اور ہمارے کام کا متکفل ہے اس دنیا میں بھی اور فنا کے بعد بھی لَوْلَاعِنَايَتُهُ بِزَمِنِ تَطَلُّبِيْ كَادَتْ تُعَفَّيْنِيْ سُيُولُ بُكَاءِ اگر میری جستجوئے پیہم کے دور میں اسکی عنایت نہ ہوتی تو قریب تھا کہ آہ وزاری کے سیلاب مجھے نابود کر دیتے أعْطِيتُ مِنْ الْفِ مَعَارَفَ لُبَّهَا أنْزَلْتُ مِنْ حِبَّ بِدَارِ ضِيَاءِ مجھے محبوب کی طرف سے معارف کا مغز عطاء کیا گیا ہے اور میں اپنے محبوب کی طرف سے روشنی کی جگہ میں اتارا گیا ہوں انجام آتھم.رخ جلد 11 صفحہ 266)
30 مهدی وقت علم دین صرف خدا تعالیٰ سے ہی حاصل کرتا ہے چوں حاجت بود به ادیپ دگر مرا من تربیت پذیر زرب مجھے کسی اور استاد کی ضرورت کیوں ہو میں تو اپنے خدا سے تربیت حاصل کیے ہوئے ہوں در نشین فارسی نیا ایڈیشن ) ( آئینہ کمالات اسلام آخری صفحات.رخ جلد 5 صفحہ 658) آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا.اور قرآن اور حدیث میں کسی اُستاد کا شاگرد نہیں ہوگا.سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے.یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے.پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی.اور اسرار دین بلا واسطہ میرے پر کھولے گئے.(ایام الصلح.رخ جلد 14 صفحہ 394) والذي نفسي بيده انه نظر لی فقبلني واحسن الى وبانی و اعطاني من لدنه فهما سليماو عقلا مستقیما و كم من نور قذف فى قلبى فعرفت من القرآن ما لا يعرف غيرى و ادرکت منه ما لا یدرک مخالفی و وصلت فى فهمه الى مرتبة تتقاصر عنها افهام اكثر الناس و ان هذا الااحسانه وهو خير المحسنين.حمامة البشری - رخ جلد 7 صفحہ 284 285) ترجمہ اردو از مرتب اور میں اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری طرف نظر رحمت کی اور مجھے قبول کیا.اور مجھ پر احسان کیا اور میری تربیت کی اور اس نے اپنے حضور سے مجھے فہم عطا کیا.جوسلیم تھا.اور ایسی عقل مستقیم جو بغیر بجی کے ہے عطا کی اور کتنے ہی نور ہیں جو اُس نے میرے دل میں ڈالے اور مجھے قرآن کی معرفت عطا کی گئی جو میرے علاوہ کسی اور کو نہیں دی گئی.اور اس میں سے میں نے وہ پایا اور حاصل کیا جو میرا مخالف کوشش کے باوجود نہ پاسکا.اور میں اس قرآن کے فہم میں اس عالی مرتبہ تک پہنچا جہاں تک اکثر لوگوں کی عقلیں پہنچنے سے قاصر ہیں.اور یہ اس اللہ کے احسان کے علاوہ نہیں ہوسکتا.اور وہ سب محسنوں میں سے زیادہ احسان کرنے والا ہے.میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار ( در مشین اردو ) ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 145) اے کان دلربائی دانم که از کجائی تو نور آں خدائی میں خلق آفریده اے کان حسن میں جانتا ہوں کہ تو کس سے تعلق رکھتی ہے تو تو اس خدا کا نور ہے جس نے یہ مخلوقات پیدا کی میلم نماند باکس محبوب من توئی بس زیرا کہ زاں فغاں رس نورت بما رسیده مجھے کسی سے تعلق نہ رہا اب تو ہی میرا محبوب ہے کیونکہ اس خدائے فریا درس کی طرف سے تیرا نور ہم کو پہنچا ہے (براہین احمدیہ - رخ جلد 1 صفحہ 305)
31 میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہزار ہانشان میرے اطمینان کے لئے میرے پر ظاہر ہوئے ہیں جن میں سے بعض کو میں نے لوگوں کو بتایا اور بعض کو بتایا بھی نہیں اور میں نے دیکھا کہ یہ نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اور کوئی دوسرا بجز اس وحدہ لاشریک کے ان پر قادر نہیں.اور مجھ کو ماسواء اس کے علم قرآن دیا گیا اور احادیث کے صحیح معنے میرے پر کھولے گئے.پھر میں ایسی روشن راہ کو چھوڑ کر ہلاکت کی راہ کیوں اختیار کروں؟ جو کچھ میں کہتا ہوں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں اور جو کچھ آپ لوگ کہتے ہیں وہ صرف ظن ہے.اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً (النجم : 29) اور اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک اندھا ایک اونچی نیچی زمین میں تاریکی میں چلتا ہے اور نہیں جانتا کہ کہاں قدم پڑتا ہے.سو میں اس روشنی کو چھوڑ کر جو مجھ کودی گئی ہے تاریکی کو کیونکر لے لوں.جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ خدا میری دعائیں سنتا اور بڑے بڑے نشان میرے لئے ظاہر کرتا اور مجھے سے ہم کلام ہوتا اور اپنے غیب کے اسرار پر مجھے اطلاع دیتا ہے اور دشمنوں کے مقابل پر اپنے قومی ہاتھ کے ساتھ میری مدد کرتا ہے اور ہر میدان میں مجھے فتح بخشتا ہے.اور قرآن شریف کے معارف اور حقائق کا مجھے علم دیتا ہے تو میں ایسے قادر اور غالب خدا کو چھوڑ کر اس کی جگہ کس کو قبول کرلوں.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 297,298) حضرت اقدس اپنے وقت کے آدم تھے اب وہ ابن مریم جس کا روحانی باپ زمین پر بجر معلم حقیقی کے کوئی نہیں.جو اس وجہ سے آدم سے بھی مشابہت رکھتا ہے بہت سا خزانہ قرآن کریم کا لوگوں میں تقسیم کرے گا.یہاں تک کہ لوگ قبول کرتے کرتے تھک جائیں گے اور لا یقبلہ احد کا مصداق بن جائیں گے.اور ہریک طبیعت اپنے ظرف کے مطابق پر ہو جائے گی.وہ خلافت جو آدم سے شروع ہوئی تھی.خدائے تعالیٰ کی کامل اور بے تغیر حکمت نے آخر کار آدم پر ہی ختم کر دی.یہی حکمت اس الہام میں ہے کہ اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ یعنی میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو میں نے آدم کو پیدا کر دیا.چونکہ استدارت زمانہ کا یہی وقت ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ اس پر ناطق ہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے آخر اور اول کے لفظ کو ایک ہی کرنے کے لئے آخری خلیفہ کا نام آدم رکھا.اور آدم اور عیسی میں کسی وجہ سے روحانی مبائت نہیں.بلکہ مشابہت ہے إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدَمَ (ال عمران: 60) (ازالہ اوہام - رخ جلد 3 صفحہ 467) غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے وہ ہمارا ہو گیا اس کے ہوئے ہم جاں نثار میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراھیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار اک شجر ہوں جسکو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب احمد جس یہ میرا سب مدار روخته آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں اے مرے بد خواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار ( در شین اردو ) ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 133) گر نہ ہوتا نام
32 فہم قرآن کے لئے پاک نفس ہونے کی شرط ہے اور خدائے تعالیٰ کی عنایات خاصہ میں سے ایک یہ بھی مجھ پر ہے کہ اس نے علم حقائق و معارف قرآنی مجھے کو عطا کیا ہے.اور ظاہر ہے کہ مطہرین کی علامتوں میں سے یہ بھی ایک عظیم الشان علامت ہے کہ علم معارف قرآن حاصل ہو کیونکہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعه : 80) سومخالف پر بھی لازم ہے کہ جس قدر میں اب تک معارف قرآن کریم اپنی متفرق کتابوں میں بیان کر چکا ہوں.اس کے مقابل پر کچھ اپنے معارف کا نمونہ دکھاویں اور کوئی رسالہ چھاپ کر مشتہر کریں تا لوگ دیکھ لیں کہ جو دقائق علم ومعرفت اہل اللہ کو ملتے ہیں.وہ کہاں تک ان کو حاصل ہیں مگر بشر طیکہ کتابوں کی نقل نہ ہو.(ازالہ اوہام - رخ جلد 3 صفحہ 443) و و وَمِنْ آيَاتِ صِدْقِى أَنَّهُ أَعْطَانِي عِلْمَ الْقُرْآن وَاَخْبَرَنِى مِنْ دَقَائِقِ الْفُرْقَانِ الَّذِي لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.وَمِنْ آيَاتِ صِدْقِى انَّهُ اَدْبَنِى فَاَحْسَنَ تَأدِينِي وَجَعَلَ مَشْرَبِي الصَّبْرِ وَالرَّضَاءِ وَالْمَوَافِقَة لِرَبِّى وَالْإِتْبَاعِ لِرَسُولِى وَاَوْدَعَ فِي فِطْرَتِي رَمُوْزَ الْعِرْفَانِ وَجَعَلَنِي عَارَ فَالْمَصَالِحِ الْأُمُورِ وَ مَفَاسِدهَا وَأَدْخَلَنِي فِي الَّذِينَ هُمْ مُنْفَرِدُونَ.آئینہ کمالات اسلام رخ جلد 5 صفحہ 485.484) ترجمه از مرتب اور میری صداقت کے نشانات میں سے یہ ہے کہ اس نے مجھے علم قرآنی عطا کیا ہے اور قرآن کریم کے دقائق (اسرار ورموز ) سے آگاہ کیا ہے قرآن فرقان ہے جس کے متعلق اللہ فرماتا ہے لا يمسه الَّا الْمُطَهَّرُونَ (یعنی سوائے متقیوں کے کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا ).اور میری صداقت کے نشانات میں سے ہے اس نے مجھے سکھایا جس طرح سکھانے کا حق تھا یعنی بہترین سکھانا.اور میری طبیعت میں صبر و رضا رکھا ہے اور اپنے رب کے احکامات موافقت اور اپنے رسول عظیم اتباع کامل اور میری فطرت میں اس عرفان کے اسرار ودیعت کئے ہیں اور مجھے عارف بنایا ہے.تاکہ میں بگڑے ہوئے امور دینیہ کی اصلاح کروں اور اس پاک ذات نے مجھے ان لوگوں میں شامل فرمایا ہے.جو اس کی نگاہ میں چنیدہ ہیں اور ایک منفرد حیثیت پر فائز ہیں.یک قدم دوری ازاں روشن کتاب نزد ما کفر است و خسران و تاب اس نورانی کتاب سے ایک قدم بھی دور رہنا ہمارے نزدیک کفرو زیاں اور ہلاکت ہے دوناں را بمغرش راه نیست ہر ولی از سبز آن آگاه نیست لیکن ذلیل لوگوں کو قرآن کی حقیقت کی خبر نہیں ہر ایک دل اس کے بھیدوں سے واقف نہیں ہے تا نباشد طالبے پاک اندروں تا نجوشد عشق یار بے چکوں جب تک طالب حق پاک باطن نہیں ہوتا اور جب تک اس یار بے مثال کا عشق اس کے دل میں جوش نہیں مارتا قرآن را کجا فهمید بہر نورے نوری باید بے تب تک کوئی قرآنی اسرار کو کیونکر سمجھ سکتا ہے نور کے سمجھنے کے لیے بہت سا نور باطن ہونا چاہیئے ایں نہ من قرآن ہمیں فرموده است اندرو شرط تطهر بوده است راز کیسے.پر میری بات نہیں بلکہ قرآن نے بھی یہی فرمایا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے پاک ہونے کی شرط ہے بقرآں ہر کسے را راه بود پس چرا شرط تطهر را فزود اگر ہر شخص قرآن کو (خود ہی) سمجھ سکتا کی شرط کیوں زائد لگائی داند کسے کو نور شد نور را تو خدا نے تطهیر ہو و از حجاب سرکی با دور شد نور کو وہی شخص سمجھتا ہے جو خود نور ہو گیا ہو اور سر کشی کے حجابوں سے دور ہو گیا ہو ( درشین فارسی صفحه 203) (سراج منیر.رخ جلد 12 صفحہ 96)
33 حضرت اقدس کو قرآنِ کریم کے رموز بتائے گئے أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا (الانبياء: 31 ) زمین اور آسمان دونوں ایک گھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے جن کے جو ہر مخفی تھے ہم نے مسیح کے زمانہ میں وہ دونوں گھڑیاں کھول دیں اور دونو کے جو ہر ظاہر کر دئے.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.رخ جلد 17 صفحہ 17) فبعثنی ربى ليجعلني دليلا على وجوده.ولیصیر نی ازهر الزهر من رياض لطفه وجوده.فـجـئـت وقد ظهر بی سبیله.واتضح دليله وعلمت مجاهله.ووردت مناهله.ان السموات والارض كانتا رتقا ففتقنا بقدومي وعلم الطلباء بعلومي فانا الباب للدخول في الهدى وانا النور الذي يرى ولايرى وانى من اكبر نعماء الرحمان.واعظم آلاء الديان.رزقت من ظواهر الملة وخوافيها واعطيت علم الصحف المطهرة ومافيها.وليس احد اشقر من الذي يجهل مقامى.ويعرض عن دعوتى وطعامى وما جئت من نفسی بل ار سلنی ربی لامون الاسلام واراعى شئونه والاحكام.(تذکرہ الشہادتین.رخ جلد 20 صفحہ 90-91) ترجمه از مرتب : پس میرے رب نے مجھے مبعوث کیا تا کہ مجھے اس کے وجود پر دلیل ٹھہرائے تا کہ مجھے اپنے لطف کے باغ کا ایک خوبصورت پھول بنا دے اور عطا کا.پس میں آیا اور میرے ذریعے اس کا راستہ کھولا گیا.اور دلیل واضح ہوگئی.اور مجھے اس کے مشکل مقامات کا علم دیا گیا.اور اس کے احسان مجھ پر وارد ہوئے.یقیناً آسمان اور مین بند تھے پس وہ دونوں میرے آنے سے کھول دیئے گئے اور علم کے طالب کو میر اعلم دیا گیا.پس میں ہدایت میں داخل ہونے کا دروازہ ہوں اور یقیناً ایک ایسا نور ہوں جن سے دیکھا جاتا ہے دکھا یا نہیں جاتا.میں یقینا رحمان خدا کی بڑی نعمتوں میں سے ہوں اور ان نعمتوں کا بہت بڑا بدلہ دینے والا ہوں مجھے ملت کے اندرونے اور ظاہر کے بارے میں بتایا گیا ہے اور صحف مطهره (قرآن کریم) کے کلمات اور ان کے رموز عطا کئے گئے ہیں.اور جو کوئی بد بخت ہی ہو گا جو میرے مقام کو نہ پہنچانے.اور میری دعوت اور خوان سے اعراض کرے.اور میں خود سے نہیں آیا بلکہ مجھے میرے رب نے بھیجا ہے تا کہ اسلام کو بچاؤں.اور اس کے کاموں اور احکام کی نگرانی کروں.بعلم و فضل و کرامت کسے بما نہ رسد آنکه ز ارباب ادعا باشد علم وفضل اور کرامت کے زور سے کوئی ہم تک نہیں پہنچ سکتا کہاں ہے وہ شخص جو علم و فضل و کرامت کا مدعی ہے ہزار نقد نمائی یکے چوسکه ما به نقش خوب و عیار و صفا کجا باشد تو ہزاروں سکے دکھائے پھر بھی چمک دمک اور کھرا ہونے میں ہمارے سکہ کی برابری نہیں کر سکتا موید یکه مسیحا دم ست و مهدی وقت بشان اور گرے کے زاتقیا باشد وہ تائید یافتہ شخص جو مسیحا دم اور مہدی وقت ہے اس کی شان کو اتقیا میں سے کوئی نہیں پہنچ سکتا چو غنچه بود جہانے خموش و سربسته من آمدم بقدومیکه از صبا باشد یہ جہان ایک غنچہ کی طرح بند تھا میں اس کے لیے ان برکتوں کو لے کر آیا ہوں جو باد صبا لایا کرتی ہے در تشین فارسی صفحه 270 ) ( تریاق القلوب - رخ جلد 15 صفحہ 133) کجا سرت
34 هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُوْلاً مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِيْنٍ وَّاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ (الجمعة: 43) فرماتا ہے.واخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی اس نبی کے اور شاگر د بھی ہیں جو ہنوز ظاہر نہیں ہوئے اور آخری زمانہ میں ان کا ظہور ہوگا.یہ آیت اسی عاجز کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جیسا کہ ابھی الہام میں ذکر ہو چکا ہے یہ عاجز روحانی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردوں میں سے ہے اور یہ پیشگوئی جو قرآنی تعلیم کی طرف اشارہ کرتی ہے اس کی تصدیق کے لئے کتاب کرامات الصادقین لکھی گئی تھی جس کی طرف کسی مخالف نے رُخ نہیں کیا اور مجھے خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے قرآن کے حقائق اور معارف کے سمجھنے میں ہر ایک رُوح پر غلبہ دیا گیا ہے اور اگر کوئی مولوی مخالف میرے مقابل پر آتا جیسا کہ میں نے قرآنی تفسیر کے لئے بار بار ان کو بلایا تو خدا اس کو ذلیل اور شرمندہ کرتا.سو فہم قرآن جو مجھ کو عطا کیا گیا یہ اللہ جل شانہ کا ایک نشان ہے.میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب دنیا دیکھے گی کہ میں اس بیان میں سچا ہوں.(سراج منیر رخ.جلد 12 صفحہ 41) جو کچھ اللہ نے چاہا تھا اس کی تکمیل دوہی زمانوں میں ہوئی تھی ایک آپ کا زمانہ اور ایک آخری مسیح و مہدی کا زمانہ یعنی ایک زمانہ میں تو قرآن اور سچی تعلیم نازل ہوئی لیکن اُس تعلیم پر فیج اعوج کے زمانہ نے پردہ ڈال دیا جس پر وہ کا اٹھایا جانا مسیح کے زمانہ میں مقدر تھا جیسے کہ فرمایا کہ رسول اکرم نے ایک تو موجودہ جماعت یعنی جماعت صحابہ کرام کا تزکیہ کیا اور ایک آنے والی جماعت کا جس کی شان میں لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ آیا ہے.سو یہ ظاہر ہے کہ خدا نے بشارت دی کہ ضلالت کے وقت اللہ تعالیٰ اس دین کو ضائع نہ کرے گا بلکہ آنے والے زمانہ میں خدا حقائق قرآنیہ کو کھول دے گا.آثار میں ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ فضیلت ہوگی کہ وہ قرآنی فہم اور معارف کا صاحب ہوگا اور صرف قرآن سے استنباط کر کے لوگوں کو اُن کی غلطیوں سے متنبہ کرے گا جو حقائق قرآن کی ناواقفیت سے لوگوں میں پیدا ہوگئی ہوں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 25) وَقَالَ الرَّسُولُ ُيرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا.(الفرقان: 31) مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے.مگر نہیں.اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی.ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھرنری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اسے کذاب اور دجال کہا جاتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 140)
35 الہام حضرت اقدس: قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدَی ان کو کہ دے کہ تمہارے خیالات کیا چیز ہیں ہدایت وہی ہے جو خدا تعالیٰ براہ راست آپ دیتا ہے ورنہ انسان اپنے غلط اجتہادات سے کتاب اللہ کے معنی بگاڑ دیتا ہے اور کچھ کا کچھ سمجھ لیتا ہے وہ خدا ہی ہے جو غلطی نہیں کھاتا لہذا ہدایت اسی کی ہدایت ہے.انسانوں کے اپنے خیالی معنی بھروسے کے لائق نہیں ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 88،87) اے اسیر عقل خود بر ہستیء خود کم بناز کیں سپر بو العجائب چوں تو بسیار آورد اے اپنی عقل کے قیدی اپنی ہستی پر ناز نہ کر کہ یہ عجیب آسمان تیری طرح کے بہت سے آدمی لایا کرتا ہے غیر راہر گز نمے باشد گذر در کوئے حق ہر کہ آید ز آسماں او راز آں یار آورد خدا کے کوچہ میں غیر کو ہرگز دخل نہیں جو آسمان سے آتا ہے وہی اس یار کے اسرار ہمراہ لاتا ہے خود بخود فهمیدن قرآن گمان باطل است هر که از خود آورد او نجس و مردار آورد آپ ہی آپ قرآن کو سمجھ لینا ایک غلط خیال ہے جو شخص اپنے پاس سے اس کا مطلب بیان کرتا ہے وہ گندگی اور مردار پیش کرتا ہے برکات الدعا.رخ جلد 6 صفحہ 5)
36 آٹھویں فصل نشانات اور معجزات قرآنیہ دوبارہ دکھا کر الہامات حضرت اقدس بیس برس کا عرصہ ہوا کہ مجھے یہ الہام ہوا: قل جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل كان زهوقاً.كل بركة من محمد علي فتبارك من علم وتعلم.قل ان افتريته فعلی اجرامي هو الذي ارسل رسوله با لهدی و دین الحق ليظهره على الدين كله لا مبدل لكلمات الله.ظلمواوان الله على نصر هم لقدير.بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد.پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار.خدا تیرے سب کام درست کر دیگا.اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.رب الافواج اس طرف توجہ کر دیگا.اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں.جناب الہی کے احسانات کا دروازہ کھلا ہے اور اُس کی پاک رحمتیں اس طرف متوجہ ہیں.وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مددکرے گا.وہ خدا جو ذ والجلال اور زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا.........ان تمام الہامات میں یہ پیشگوئی تھی کہ خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے اور میرے ہی ذریعہ سے دین اسلام کی سچائی اور تمام مخالف دینوں کا باطل ہونا ثابت کر دیگا.سو آج وہ پیشگوئی پوری ہوئی.کیونکہ میرے مقابل پر کسی مخالف کو تاب و تواں نہیں کہ اپنے دین کی سچائی ثابت کر سکے میرے ہاتھ سے آسمانی نشان ظاہر ہورہے ہیں اور میرے قلم سے قرآنی حقائق اور معارف چمک رہے ہیں.اٹھو اور تمام دنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یا سکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یا کسی اور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے کہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے اور معارف اور حقائق کے بیان کرنے میں میرا مقابلہ کر سکے.میں وہی ہوں جس کی نسبت یہ حدیث صحاح میں موجود ہے کہ اس کے عہد میں تمام مانتیں ہلاک ہو جائیں گی مگر اسلام کہ وہ ایسا چلے گا جو درمیانی زمانوں میں کبھی نہیں چمکا ہوگا.تریاق القلوب - رخ جلد 15 صفحه 265 تا 268)
37 نئے نشانوں کی ضرورت اب نئے معلموں کی اس وجہ سے بھی ضرورت پڑتی ہے کہ بعض حصے تعلیم قرآن شریف کے از قبیل حال ہیں نہ از قبیل قال.اور آنحضرت ﷺ نے جو پہلے معلم اور اصل وارث اس تخت کے ہیں حالی طور پر ان دقائق کو اپنے صحابہ کو سمجھایا ہے مثلاً خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ میں عالم الغیب ہوں اور میں مجیب الدعوات ہوں اور میں قادر ہوں اور میں دعاؤں کو قبول کرتا ہوں اور طالبوں کو حقیقی روشنی تک پہنچاتا ہوں اور میں اپنے صادق بندوں کو الہام دیتا ہوں اور جس پر چاہتا ہوں اپنے بندوں میں سے اپنی روح ڈالتا ہوں یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ جب تک معلم خود ان کا نمونہ بن کر نہ دکھلا دے تب تک یہ کسی طرح سمجھ ہی نہیں آسکتیں.(شہادت القرآن - رخ جلد 6 صفحہ 348-349) ہماں ز نوع بشر کامل از خدا باشد که با نشان نمایاں خدا نما باشد انسانوں میں وہی خدا کی طرف سے کامل ہوتا ہے جو روشن نشانوں کے ساتھ خدا نما ہوتا ہے بتا بد از رخ او نور عشق و صدق و وفا ز خلق او کرم و غربت و حیا باشد اس کے چہرے سے عشق اور صدق وصفا کا نور چمکتا ہے کرم ، انکسار اور حیا اس کے اخلاق ہوتے ہیں صفات او ہمہ ظلِ صفات حق با شند استقامت او ہمچو انبیا باشد اس کی ساری صفات خدا کی صفات کا پر تو ہوتی ہیں اور اس کا استقلال بھی انبیا کے استقلال کی مانند ہوتا ہے روان بچشمه او بر سر مدی باشد عیاں در آئینه اش روئے کبریا باشد اس کے سر چشمہ سے ابدی فیضان کا سمندر جاری ہوتا ہے اور اس کے چہرہ میں خدائے بزرگ کا چہرہ نظر آتا ہے ازین بود که چو سال صدی تمام شود بر آید آنکه بدین نائب خدا باشد یہی وجہ ہے کہ جب صدی کے سال ختم ہوتے ہیں تو ایسا مردظاہر ہوتا ہے جو دین کیلئے خدا کا قائم مقام ہوتا ہے رسید مژده زعیم کہ من ہماں مردم که او مجدد این دین و رہنما باشد مجھے غیب سے یہ خوشخبری ملی ہے کہ میں وہی انسان ہوں جو اس دین کا مجدد اور راہنما ندائے کی نمایاں بنام ما باشد لوائے ما پند ءِ ہر سعید خواهد بود مقام ہے ہوگا چمن قدس و اصطفا باشد ہمارا جھنڈا ہر خوش قسمت انسان کی پسند گاہ ہو گا اور کھلی کھلی فتح کا شہرہ ہمارے نام پر مرا بگلشن رضوان حق شدست گزر اللہ تعالیٰ کی رضا کے باغ میں میرا گذر ہوا ہے میرا مقام برگزیدگی اور تقدس کا چمن ہے کمال پاکی و صدق و صفا که گم شده بود دوباره از سخن و وعظ من بیا باشد پاکیزگی اور صدق وصفا کا کمال جو معدوم ہو گیا تھا وہ دوبارہ میرے کلام اور وعظ سے قائم ہوا ہے مرنج از سخنم ایکه سخت بے خبری که آنکه گفته ام از وحی کبریا باشد اے وہ شخص جو بالکل بے خبر ہے میری بات سے ناراض نا ہو کہ جو میں نے کہا ہے یہ خدا کی وحی سے کہا ہے گم شده از خود بنور حق پیوست هر آنچه از دهنش بشنوی بجا باشد جو شخص اپنی بے خودی کو چھوڑ کر خدا کے نور میں جا ملا اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات حق ہوگی تریاق القلوب - ر خ جلد 15 صفحہ 129 تا 134 )
38 صلى الله نحضرت ﷺ ایک زندہ نبی ہیں آپ کے معجزات ہر وقت زندہ موجود ہیں قرآن شریف زندہ اعجاز ہے اور آنحضرت ﷺ زندہ نبی ہیں علوسام ہمارے نبی ﷺ کے معجزات ایسے ہیں کہ وہ ہر زمانہ میں اور ہر وقت تازہ بتازہ اور زندہ موجود ہیں.ان معجزات کا زندہ ہونا اور ان پر موت کا ہاتھ نہ چلنا صاف طور پر اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ ہی زندہ نبی ہیں.اور حقیقی زندگی یہی ہے جو آپ کو عطا ہوئی ہے.اور کسی دوسرے کو نہیں ملی.آپ کی تعلیم اس لئے زندہ تعلیم ہے کہ اس کے ثمرات اور برکات اس وقت بھی ویسے ہی موجود ہیں جو آج سے تیرہ سو سال پیشتر موجود تھے.دوسری کوئی تعلیم ہمارے سامنے اس وقت ایسی نہیں ہے جس پر عمل کرنے والا یہ دعوی کر سکے کہ اس کے ثمرات اور برکات اور فیوض سے مجھے حصہ دیا گیا ہے اور میں ایک آیتہ اللہ ہو گیا ہوں.لیکن ہم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم ، قرآن شریف کی تعلیم کے ثمرات اور برکات کا نمونہ اب بھی موجود پاتے ہیں اور ان تمام آثار اور فیوض کو جو نبی کریم ﷺ کی سچی اتباع سے ملتے ہیں.اب بھی پاتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو اس لئے قائم کیا ہے تا وہ اسلام کی سچائی پر زندہ گواہ ہوا ور ثا بت کرے کہ وہ برکات اور آثار اس وقت بھی رسول اللہ ﷺ کے کامل اتباع سے ظاہر ہوتے ہیں.جو تیرہ سو برس پہلے ظاہر ہوتے تھے.(ملفوظات جلد دوم صفحه 27) الا اے منکر از شانِ محمد هم از نور نمایان محمد خبر دار ہو جاؤ! اے وہ شخص جو محمد ﷺ کی شان نیز محمد ﷺ کے چمکتے ہوئے نور کا منکر ہے.کرامت گر چه بے نام و نشان است بنگر بیا ز غلمان محمد اگر چہ کرامت اب مفقود ہے مگر تو آاور اسے محمد ہے کے غلاموں میں دیکھ لے در مشین فارسی نیا ایڈیشن صفحہ 142 ( آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 649)
39 قرآن میں بیان شده معجزات و خوارق دوبارہ دکھا کر جماعت میں سے ایک ہمارے مکرم دوست نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے کے متعلق دریافت کیا کہ آریہ اس پر اعتراض کرتے ہیں.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ان لوگوں کے اعتراض کی اصل جڑ معجزات اور خوارق پر نکتہ چینی کرنا ہے.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ دعوی کرتے ہیں اور اسی لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں مبعوث کیا ہے کہ قرآن کریم میں جس قدر معجزات اور خوارق انبیاء کے مذکور ہوئے ہیں ان کو خود دکھا کر قرآن کی حقانیت کا ثبوت دیں ہم دعوی کرتے ہیں کہ اگر دنیا کی کوئی قوم ہمیں آگ میں ڈالے یا کسی اور خطرناک عذاب اور مصیبت میں مبتلا کرنا چاہے تو خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق ضرور ہمیں محفوظ رکھے گا.بعد اس کے خدا تعالیٰ کے تصرفات اور اپنے بندوں کو عجیب طرح ہلاکت سے نجات دینے کی مثالیں دیتے رہے اور اسی کے ضمن میں فرمایا : آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے پس اسے کوئی مخالف آزما لے اور آگ جلا کر ہمیں اس میں ڈال دے آگ ہرگز ہم پر کام نہ کرے گی اور وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے موافق بچالے گا، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم خود آگ میں کودتے پھریں.یہ طریق انبیاء کا نہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمُ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة: 196) پس ہم خود آگ میں دیدہ دانستہ نہیں پڑتے.بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ آگ میں ہمیں جلا نا چاہیں تو ہم ہر گز نہ جلیں گے.اس لئے میرا ایمان تو یہ ہے کہ ہمیں تکلف اور تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسے خدا کے باطنی تصرفات ہیں ویسے ہی ظاہری بھی ہم مانتے ہیں بلکہ اسی لئے خدا نے اول ہی سے الہام کر دیا ہوا ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 480-479)
40 نشانات کے اعتبار سے یہ سلسلہ آنحضرت ﷺ کا ہی ہے اس کو غور سے پڑھو کہ اس میں آپ لوگوں کے لئے خوشخبری ھے بخدمت امراء ور یکسان و منعمان ذی مقدرت و والیان ارباب حکومت و منزلت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولَهِ الْكَرَيْمِ اے بزرگان اسلام خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں میں تمام فرقوں سے بڑھ کر نیک ارادے پیدا کرے اور اس نازک وقت میں آپ لوگوں کو اپنے پیارے دین کا سچا خادم بنا دے.میں اس وقت محض اللہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اِس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تاکہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں.( بركات الدعا.رخ جلد 6 صفحہ 34) اس زمانے میں بھی قرآن شریف کے کلام کے اعجاز کے لئے کلام کا معجزہ دیا گیا ہے.اسی طرح پر جیسے دوسرے خوارق اور نشانات آنحضرت ﷺ کے نشانات اور خوارق کے ثبوت کے لئے دیے گئے ہیں.جس جس قسم کے نشانات آنحضرت ﷺ کو ملے تھے اسی رنگ پر اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے نشانات کو رکھا ہے کیونکہ یہ سلسلہ اسی نقش قدم پر ہے اور دراصل وہی سلسلہ ہے.آنحضرت ﷺ کی بروزی آمد پہلے ہی سے پیشگوئی ہوچکی تھی اور آخرِینَ مِنْهُمْ میں یہ وعدہ کیا گیا تھا.پس جیسے آپ کو اس وقت کلام کا معجزہ اور نشان دیا گیا تھا اور قرآن شریف جیسی لا نظیر کتاب آپ کو ملی اسی طرح پر اس رنگ میں آپ کی اس بروزی آمد میں بھی کلام کا نشان دیا گیا.محدث وہ لوگ ہیں جو شرف مکالمہ الہی سے مشرف ہوتے ہیں اور ان کا جو ہر نفس انبیاء کے نفس سے اشد مشابہت رکھتا ہے اور وہ خواص عجیبہ نبوت کے لئے بطور آیات باقیہ کے ہوتے ہیں تا یہ دقیق مسئلہ نزول وحی کا کسی زمانے میں بے ثبوت ہو کر صرف بطور قصہ کے نہ ہو جائے.چوں لمفوظات جلد 2 صفحہ 41 ) برکات الدعا.رخ جلد 6 صفحہ 23-24) گمان کنم اینجا مدد روح قدس که مرا در دل شاں دیو نظر مے آید میں یہاں روح القدس کی مدد کا گمان کیونکر کر سکتا ہوں کہ مجھے تو ان کے دل میں دیو بیٹھا ہوا نظر آتا ہے این مدد هاست در اسلام چو خور شید عیاں کہ بہر عصر مسیحا کے دگر می آید اسلام میں یہ امدا د سورج کی طرح ظاہر ہے کہ ہر زمانہ کے لئے نیا مسیحا آتا ہے در تین فارسی مترجم صفحه 152) ( سرمه چشم آریہ - رخ جلد 2 صفحہ 287)
41 حضرت اقدس اس زمانے کا نور ہیں آمدم چون سحر بلجہ نور تا شود تیر کی زنورم کی وجہ ہو دور یں اور کا ایک طوان لے کر ی کی طرح ہی ہوں تاکہ سی اند مرا میرے نور کی جب سے دور ہوجائے صبح بہ افکنده ام که تا زین گردد ز خواب خود بیدار میں نے شور برپا کر رکھا ہے تا کہ اس کی وجہ سے خلقت اپنی نیند سے بیدار ہو جائے باد بہار آمده غافلان من نه یار آمده ام بیچو اے غافلو میں محبوب کے پاس سے آیا ہوں اور باد بہار کی طرح آیا ہوں ایں زمانم زمانه ام موسم لاله زار و وقت بہار یراز مانه گلزار کا زمانہ ہے یعنی لالہ زار کا موسم اور بہار کا وقت ہے در تین فارینا ایڈیشن صفحہ 251) ( نزول مسی - ر خ جلد 18 صفحہ 478) اس تاریکی کے زمانے کا نور میں ہی ہوں.جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں.مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا میں امن اور حلم کے ساتھ دنیا کو بچے خدا کی طرف رہبری کروں اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کر دوں.اور مجھے اس نے حق کے طالبوں کی تسلی پانے کے لئے آسمانی نشان بھی عطا فرمائے ہیں اور میری تائید میں اپنے عجیب کام دکھلائے ہیں.اور غائب کی باتیں اور آئندہ کے بھید جو خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں کی رو سے صادق کی شناخت کے لئے اصل معیار ہے میرے پر کھولے ہیں اور پاک معارف اور علوم مجھے عطا فرمائے ہیں اس لئے اُن روحوں نے مجھ سے دشمنی کی جو سچائی کو نہیں چاہتیں اور تاریکی سے خوش ہیں مگر میں نے چاہا کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے نوع انسان کی ہمدردی کروں.( مسیح ہندستان میں.رخ جلد 15 صفحہ 13 اس بات کو بھی دل سے سنو کہ میرے مبعوث ہونے کی علت غائی کیا ہے! میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجد ید اور تائید ہے.اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں اسلئے آیا ہوں کہ کوئی نئی شریعت سکھاؤں یا نئے احکام دوں یا کوئی نئی کتاب نازل ہو گی.ہر گز نہیں اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے تو میرے نزدیک وہ سخت گمراہ اور بے دین ہے.آنحضرت ﷺ پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے.اب کوئی شریعت نہیں آسکتی.قرآن مجید خاتم الکتب ہے.اس میں اب ایک شعہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے.ہاں یہ بیچ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہو گیا.وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود ہیں اور انہیں فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے.لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 279) میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نورِ خُدا جس سے ہوا دن آشکار ( در مشین اردو صفحه 137 ) ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 145) ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا وکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے کوئی.لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ ولایا ہم نے جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کے وجود اپنا ملایا ہم نے ( آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 224 225)
42 نویں فصل صلى الله احادیث آنحضرت ﷺ کے اعتبار سے الہام حضرت اقدس أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ ادَمَ لِيُقِيمَ الشَّرِيعَةَ وَيُحْيِ الذِيْنَ كِتَابُ الْوَلِيِّ ذُو الْفَقَارِ عَلِيّ.وَلَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ أَبْنَاءِ الفَارِسِ يَكَادُ زَيْتُهُ يُضِى ءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ.جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْمُرْسَلِيْنَ.ترجمہ: میں نے چاہا کہ میں خلیفہ بناؤں.پس میں نے آدم کو پیدا کیا.تا کہ وہ شریعت کو قائم کر ہے اور دین کو زندہ کرے.ولی کی کتاب علی کی ذوالفقار ہے.اور اگر ایمان ثریا سے لٹکا ہوتا.تو ابناء فارس میں سے ایک شخص اسے وہاں سے لے آتا.قریب ہے کہ اس کا تیل روشن ہو جائے اگر چہ آگ اسے چھوٹی بھی نہ ہو.اللہ کا رسول تمام تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 243 ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) رسولوں کے لباس میں.فرمودات حضرت اقدس خدا کے کلام میں یہ امر قرار یافتہ تھا کہ دوسرا حصہ اس امت کا وہ ہو گا جو مسیح موعود کی جماعت ہوگی اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو دوسروں سے علیحدہ کر کے بیان کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (سورة الجمعة :(4) یعنی امت محمدیہ میں سے ایک اور فرقہ بھی ہے جو بعد میں آخری زمانہ میں آنے والے ہیں اور حدیث صحیح میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی کی پشت پر مارا اور فرمایا لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالْكُرَيَّا لَنَا لَهُ رَجَلٌ مِنْ فَارِسَ اور یہ میری نسبت پیشگوئی تھی جیسا کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس پیشگوئی کی تصدیق کے لیے وہی حدیث بطور وحی میرے پر نازل کی اور وحی کی رو سے مجھ سے پہلے اسکا کوئی مصداق معین نہ تھا اور خدا کی وحی نے مجھے معین کر دیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ (حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 407 حاشیہ ) إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الَّذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحْفِظُوْنَ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کم إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ، لَحفِظُونَ (الحجر:۱۰) کس وقت کے لیے کیا گیا تھا؟ کیا ابھی کوئی اور مصیبت بھی رہ گئی تھی جو اسلام پر آنی باقی ہو؟ یا درکھو حفاظت سے اوراق کی حفاظت ہی مراد نہیں بلکہ اس کی تشریح ایک حدیث میں ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آوے گا کہ قرآن شریف دنیا سے اٹھ جاوے گا.ایک صحابی نے عرض کیا کہ لوگ قرآن کو پڑھتے ہوں گے تو اٹھ کیسے جاوے گا ؟ فرمایا کہ میں تو تمہیں عقلمند خیال کرتا تھا مگر تم بڑے بیوقوف ہو کیا عیسائی انجیل نہیں پڑھتے ؟ اور کیا یہودی تو ریت نہیں پڑھتے ؟ قرآن شریف کے اٹھ جانے سے مراد یہ ہے کہ قرآن شریف کا علم اٹھ جاوے گا اور ہدایت دنیا سے نابود ہو جاوے گی.انوار اور اسرار قرآنیہ سے لوگ بے بہرہ ہو جاویں گے اور عمل کوئی نہ کرے گا.قرآن جس کے سکھانے کو آیا ہے لوگ اس پراہ کو ترک کر دیں گے اور اپنی ہوا و ہوس کے پابند ہو جاویں گے.جب یہ حال ہوگا تو ابنائے فارس میں سے ایک شخص آوے گا اور وہ دین کو از سرنو واپس لائے گا اور دین کو اور قرآن کو از سر نو تازہ کرے گا.قرآن کی کھوئی ہوئی عظمت اور بھولی ہوئی ہدایت اور ثریا پر چڑھ گیا ہوا ایمان دوبارہ دنیا میں پھیلا دے گا.لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِّنْ هَؤُلَاءِ (ای ابناء فارس) ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 552553)
43 قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ.فَبِذَالِكَ فَلْيَفْرَحُوْا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُوْنَ.(سورة يونس:59) ان کو کہہ دے کہ خدائے تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے یہ قرآن ایک بیش قیمت مال ہے سو اس کو تم خوشی سے قبول کرو یہ ان مالوں سے اچھا ہے جو تم جمع کرتے ہو.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ علم و حکمت کی مانند کوئی مال نہیں یہ وہی مال ہے جس کی نسبت پیشگوئی کے طور پر لکھا تھا کہ مسیح دنیا میں آکر اس مال کو اس قدر تقسیم کرے گا کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے.یہ نہیں کہ مسیح درم و دینار کو جو مصداق آیت انــمــا امــوالــكــم واولاد کم فتنة (التغابن: 16) ہے جمع کریگا اور دانستہ ہر ایک کو مال کثیر دے کر فتنہ میں ڈال دے گا.مسیح کی پہلی فطرت کو بھی ایسے مال سے مناسبت نہیں وہ خود انجیل میں بیان کر چکا ہے کہ مومن کا مال درم ودینار نہیں بلکہ جواہر حقائق ومعارف اس کا مال ہیں.یہی مال انبیاء خدائے تعالیٰ سے پاتے ہیں اور اس کو تقسیم کرتے ہیں.اسی مال کی طرف اشارہ ہے کہ انما اناقاسم والله هو المعطی حدیثوں میں یہ بات بوضاحت لکھی گئی ہے کہ مسیح موعود اس وقت دنیا میں آئے گا کہ جب علم قرآن زمین پر سے اُٹھ جائیگا اور جہل شیوع پا جائے گا یہ وہی زمانہ ہے جس کی طرف ایک حدیث میں یہ اشارہ ہے لو كان الايمان معلقا عند الثريا لناله رجل من فارس.یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہوا جو کمال طغیان اس کا اس سنہ ہجری میں شروع ہو گا جو آیت و انا علی ذهاب به لقادرون (المومنون: 19) میں بحساب جمل مخفی ہے یعنی 1274 ھ اس مقام کو غور سے دیکھو اور جلدی سے نکل نہ جاؤ اور خدا سے دعا مانگو کہ وہ تمہارے سینوں کو کھول دے.آپ لوگ تھوڑے سے تامل کے ساتھ اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ حدیثوں میں یہ وارد ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن زمین سے اٹھا لیا جائے گا اور علم قرآن مفقود ہو جائے گا.اور جہل پھیل جائے گا.اور ایمانی ذوق اور حلاوت دلوں سے دور ہو جائیگی.پھر ان حدیثوں میں یہ حدیث بھی ہے کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی جاگھیرے گا یعنی زمین پر اس کا نام ونشان نہیں رہے گا تو ایک آدمی فارسیوں میں سے اپنا ہاتھ پھیلائے گا اور وہیں ثریا کے پاس سے اس کو لے لے گا.اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب جہل اور بے ایمانی اور ضلالت جو دوسری حدیثوں میں دخان کے ساتھ تعبیر کی گئی ہے دنیا میں پھیل جائیگی اور زمین میں حقیقی ایمانداری ایسی کم ہو جائے گی کہ گویا وہ آسمان پر اٹھ گئی ہوگی اور قرآن کریم ایسا متروک ہو جائے گا کہ گویا وہ خدائے تعالی کی طرف اٹھایا گیا ہوگا تب ضرور ہے کہ فارس کی اصل سے ایک شخص پیدا ہواور ایمان کوثریا سے لے کر پھر زمین پر نازل ہو.سو یقیناً سمجھو کہ نازل ہونے والا ابن مریم یہی ہے.(ازالہ اوہام.رخ جلد 3 صفحہ 456-454)
44 بیت اللہ کے نیچے کا خزانہ هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (القف:10) علوم اور معارف بھی جمالی طرز میں داخل ہیں.اور قرآن شریف کی آیت ليظهـره عـلـى الدين کلہ میں وعدہ تھا کہ یہ علوم اور معارف مسیح موعود کو اکمل اور اتم طور پر دئیے جائیں گے کیونکہ تمام دینوں پر غالب ہونے کا ذریعہ علوم حقہ اور معارف صادقہ اور دلائل بینہ اور آیات قاہرہ ہیں.اور غلبہ دین کا انہیں پر موقوف ہے اسی کی طرف اشارہ ہے کہ جو کہا گیا کہ ان دنوں میں بیت اللہ کے نیچے سے ایک بڑا خزانہ نکلے گا یعنی بیت اللہ کے لئے جو خدا کو غیرت ہے وہ تقاضا کرے گی جو بیت اللہ سے روحانی معارف اور آسمانی خزائن ظاہر ہوں.یعنی جب مخالفوں کے ظالمانہ حملے بیت اللہ کی عزت کا انہدام چاہیں گے تو اس انہدام کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے نیچے سے ایک بھاری خزانہ نکل آئے گا جو معارف کا خزانہ ہوگا.اور یہ بیت اللہ پر موقوف نہیں بلکہ قرآن کے ہر ایک ایسے فقرہ کے نیچے ایک خزانہ ہے جس کو کافروں کے ہاتھ مخالفانہ حربہ سے منہدم کر کے جھوٹ کے رنگ میں دکھلانا چاہتے ہیں.کوئی مسلمان نہ بیت اللہ کو گرائے گا اور نہ قرآنی عمارت کو گرانا چاہے گا.بلکہ حدیث کے مضمون کے موافق کا فرلوگ اس عمارت کو گرا رہے ہیں اور اس کے نیچے سے خزانے نکل رہے ہیں.میں کافر کو بھی اس وجہ سے دوست رکھتا ہوں کہ ان کے ذریعہ سے بیت اللہ اور کتاب اللہ کے پوشیدہ خزانے ہمیں مل رہے ہیں.اور ان معنوں کو قائم رکھ کر ایک اور معنے بھی اس جگہ ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا نے اپنے الہامات میں میرا نام بیت اللہ بھی رکھا ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس قدر اس بیت اللہ کو مخالف گرانا چاہیں گے اس میں سے معارف اور آسمانی نشانوں کے خزانے نکلیں گے.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ ہر یک ایذاء کے وقت ضرور ایک خزانہ لکھتا ہے.اور اس بارے میں الہام یہ ہے.یکے پائے من می بوسید و من میگفتم کہ حجر اسود منم لے اربعین نمبر 4 - ر خ جلد 17 صفحہ 445 444 حاشیہ) ا ترجمہ کسی نے میرا پاؤں چوما.اور میں نے کہا کہ حجر اسود میں ہی ہوں.
45 45 دسویں فصل صلى الله بعثت ثانیہ آنحضرت ﷺ کے اعتبار سے الہامات حضرت اقدس يلقى الروح على من يشاء من عباده كلّ بركة من محمد صلى الله عليه وسلم جس پر اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اپنی روح ڈالتا ہے یعنی منصب نبوت اس کو بخشتا ہے اور یہ تو تمام برکت محمد ع سے ہے.فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ ط خدا کی فیلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا.پس بہت برکتوں والا ہے جس نے اس بندہ کو تعلیم دی اور بہت برکتوں والا ہے جس نے تعلیم پائی خدا نے وقت کی ضرورت محسوس کی اور اسکے محسوس کرنے اور نبوت کی مہر نے جس میں بشدت قوت کا فیضان ہے بڑا کام کیا یعنی تیرے مبعوث ہونے کے دو باعث ہیں خدا کا ضرورت کو محسوس کرنا اور آنحضرت کی مہر نبوت کا فیضان.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 99) حاشیه ی وحی الہی کہ خدا کی فیلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے اس زمانہ میں محسوس کیا کہ یہ ایسا فاسد زمانہ آگیا ہے جس میں ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے اور خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی کیونکہ اللہ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا.یعنی آپ کو افاضہ کمال کیلئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.یہی معنی اس حدیث کے ہیں علماء امتـی کـانبیاء بنی اسرائیل یعنی میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہونگے اور بنی اسرائیل میں اگر چہ بہت نبی آئے مگر انکی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرہ کچھ دخل نہ تھا اسی وجہ سے میری طرح ان کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست ان کو منصب نبوت ملا.اور ان کو چھوڑ کر جب اور بنی اسرائیل کا حال دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں کو رشد اور صلاح اور تقویٰ سے بہت ہی کم حصہ ملا تھا اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کی امت اولیاء اللہ کے وجود سے عموماً محروم رہی تھی اور کوئی شاذ و نادران میں ہوا تو وہ حکم معدوم کا رکھتا ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 101-99 حاشیہ) چوں گمانے کنم اینجا مدد روح قدس که مرا در دل شاں دیو نظر می آید میں یہاں روح القدس کی مدد کا گمان کیونکر کہہ سکتا ہوں کہ مجھے تو انکے دل میں دیو بیٹھا ہوا نظر آتا ہے این مدد هاست در اسلام چو خورشید عیاں کہ بہر عصر مسیحائے دگر می آید اسلام میں یہ امداد سورج کی طرح ظاہر ہے کہ ہر زمانہ کیلئے نیا مسیحا آتا ہے سرمه چشم آریہ - رخ جلد 2 صفحہ 287 حاشیہ )
46 انبیا ء کا وجود قلی طور پر باقی رہتا ہے دوم جس طرح پر کہ مقتل اس بات کو واجب اور تم ٹھہرائی ہے کہ کتب الہی کی دائمی تعلیم اورتقسیم کیلئے ضروری ہے کہ ہمیشہ انبیاء کی طرح وقتا فوقتا ملہم اور مکلم اور صاحب علم لدنی پیدا ہوتے رہیں.اسی طرح جب ہم قرآن پر نظر ڈالتے ہیں اور غور کی نگاہ سے اسکود یکھتے ہیں تو وہ بھی بآواز بلند یہی فرمارہا ہے کہ روحانی معلموں کا ہمیشہ کیلئے ہونا اس کے ارادہ قدیم میں مقرر ہو چکا ہے دیکھواللہ جلشانہ فرماتا ہے وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمُكُثُ فِي الْأَرْضِ (الرعد:18 ) الجز و نمبر 13 یعنی جو چیز انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے اب ظاہر ہے کو دنیا میں زیادہ تر انسانوں کو نفع پہنچانے والے گروہ انبیاء ہیں جو خوارق سے معجزات سے پیشگوئیوں سے حقائق سے معارف سے اپنی راستبازی کے نمونہ سے انسانوں کے ایمان کو قوی کرتے ہیں اور حق کے طالبوں کو دینی نفع پہنچاتے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دنیا میں کچھ بہت مدت تک نہیں رہتے بلکہ تھوڑی سی زندگی بسر کر کے اس عالم سے اٹھائے جاتے ہیں.لیکن آیت کے مضمون میں خلاف نہیں اور ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام خلاف واقع ہو.پس انبیاء کی طرف نسبت دیگر معنی آیت کے یوں ہونگے کہ انبیاء من حیث الظل باقی رکھے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ظلمی طور پر ہر یک ضرورت کے وقت میں کسی اپنے بندہ کوان کی نظیر اور مثیل پیدا کر دیتا ہے.جو انہیں کے رنگ میں ہو کر انکی دائمی زندگی کا موجب ہوتا ہے اور اسی ظلمی وجود قائم رکھنے کیلئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحہ (76) یعنی اے خدا ہمارے ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو تیرے ان بندوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا انعام جو انبیاء پر ہوا تھا جس کے مانگنے کیلئے اس دعا میں حکم ہے اور وہ درم اور دینار کی قسم میں سے نہیں بلکہ وہ انوار اور برکات اور محبت اور یقین اور خوارق اور تائید سماوی اور قبولیت اور معرفت تامہ کاملہ اور وحی اور کشف کا انعام ہے اور خدا تعالیٰ نے اس امت کو اس انعام کے مانگنے کیلئے تبھی حکم فرمایا کہ اول اس انعام کے عطا کرنے کا ارادہ بھی کر لیا.پس اس آیت سے بھی کھلے کھلے طور پر یہی ثابت ہوا کہ خدا تعالی اس امت کو خلقی طور پر تمام انبیاء کا وارث ٹھہراتاہے تا انبیاء کا وجو قلقلی طور پر ہمیشہ باقی رہے اور دنیا ان کے وجود سے کبھی خالی نہ ہو اور نہ صرف دعا کیلئے حکم کیا بلکہ ایک آیت میں وعدہ بھی فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.(العنکبوت: 70) یعنی جو لوگ ہماری راہ میں جو صراط مستقیم ہے مجاہدہ کرینگے تو ہم ان کو اپنی راہیں بتلا دینگے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہیں وہی ہیں جو انبیاء کو دکھلائی گئیں تھیں.شہادت القرآن.رخ جلد 6 صفحہ 352-351) اور کس انسان کی کانشنس اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بغیر اس کے کہ قرآن کریم کا منجانب اللہ ہونا اس پر ثابت کیا جائے یونہی اس پر چھری پھیر دی جائے پس یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے دائمی خلیفوں کا وعدہ دیا تا وہ ظلمی طور پر انوار نبوت پا کر دنیا کو ملزم کریں.اور قرآن کریم کی خوبیاں اور اسکی پاک برکات لوگوں کو دکھلا دیں.شہادت القرآن - رخ جلد 6 صفحہ 341،342) آدمم نیز احمد مختار در برم جامه ہمہ ابرار میں آدم بھی ہوں اور احمد مختار بھی میرے جسم پر تمام ابرار کے خلعت ہیں کار ہائے کہ کرد با من یار برتر آن دفتر است از اظہار وہ کام جو خدا نے میرے ساتھ کیسے وہ اتنے زیادہ ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے ہر نبی را جام داد آن جام را مرا بتمام جو جام اس نے ہر نبی کو عطا کیا تھا وہی جام اس نے کامل طور پر سے مجھے بھی دیا ہے آنچه داداست ( در شین فارسی صفحہ 334 ) ( نزول مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 477)
47 آنکه أورا ظلمت شخص حقیقت مثیل اور ظلّ انبیاء براه نیستش چون روئے احمد مہر و ماہ جسے تاریکی گھیر لے اس کیلئے احمد کے چہرہ کی طرح اور کوئی چاند سورج نہیں ہے ستا بعش بحر معانی کہ در راه محمد زد قدم از زمینی آسمانی شود اس کا پیرو معرفت کا ایک سمندر بن جاتا ہے اور زمینی سے آسمانی آسمانی ہو جاتا ہے زد قدم انبیاء راشد مثیل آں محترم جس نے محمد کے طریقہ پر قدم مارا وہ قابل عزت شخص نبیوں کا مثیل بن جاتا ہے تو عجب داری ز فوز این مقام پائی بند نفس گشته صبح و شام ہے کیونکہ تو ہر وقت اپنے نفس کا غلام ہے تو اس درجہ کی کامیابی پر تعجب کرتا بروز کی حقیقت پھر بروز کے متعلق سلسلہ کلام یوں شرع ہوا.فرمایا: (ضیاء الحق.رخ جلد 9 صفحہ 255 254) نیکوں اور بدوں کے بروز ہوتے ہیں نیکوں کے بروز میں جو موعود ہے وہ ایک ہی ہے یعنی مسیح موعود.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفات : 7-6) سے نیکیوں کا بروز اور ضالین سے عیسائیوں کا بروز اور مَغضُوبِ سے یہودیوں کا بروز مراد ہے اور یہ عالم بروزی صفت میں پیدا کیا گیا ہے جیسے پہلے نیک یا بد گزرے ہیں ان کے رنگ اور صفات کے لوگ اب بھی ہیں خدا تعالیٰ ان اخلاق اور صفات کو ضائع نہیں کرتا.ان کے رنگ میں اور آجاتے ہیں جب یہ امر ہے تو ہمیں اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ ابرار اور اختیار اپنے اپنے وقت پر ہوتے رہیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلا جاوے گا جب یہ سلسلہ ختم ہو جاوے گا تو دنیا کا بھی خاتمہ ہے لیکن وہ موعود جس کے سپر عظیم الشان کام ہے وہ ایک ہی ہے کیونکہ جس کا وہ بروز ہے یعنی محمد ہے وہ بھی ایک ہی ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 460) هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ ، وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٌه وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ ، وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعة: 4،3) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے بڑے فائدے دو ہیں جن کے پہنچانے کیلئے آنحضرت علی تشریف لائے ایک حکمت فرقان یعنی معارف و دقائق قرآن.دوسری تاثیر قرآن جو موجب تزکیہ نفوس ہے اور قرآن کی حفاظت صرف اسی قدر نہیں جو اس کے صحف مکتو بہ کو خوب نگہبانی سے رکھیں کیونکہ ایسے کام تو اوائل حال میں یہود اور نصاری نے بھی کئے یہاں تک کہ توریت کے نقطے بھی گن رکھے تھے بلکہ اس جگہ مع حفاظت ظاہری فوائد و تاثیرات قرآنی مراد ہیں اور وہ موافق سنت اللہ کے تبھی ہوسکتی ہے کہ جب وقتا فوقتا نائب رسول آویں جن میں ظلی طور پر رسالت کی تمام نعمتیں موجود ہوں اور جن کو وہ تمام برکات دی گئی ہوں جو نبیوں کو دی جاتی ہوں.شہادت القرآن - رخ جلد 6 صفحہ 338)
48 صلى الله حضرت اقدس آنحضرت ﷺ کے بروز ہیں إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَo(الحجر: 10) بیشک آج وہ حالت اسلام کی ہو گئی تھی کہ اس کے مٹنے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہوسکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی رحمت اور وعدہ حفاظت نے تقاضا کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے بروز کو پھر نازل کرے اور اس زمانہ میں آپ کی نبوت کو نئے سرے سے زندہ کر کے دکھا وے چنانچہ اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور مجھے مامور اور مہدی بنا کر بھیجا....یہ وعدہ حفاظت چاہتا تھا کہ جب غارت گری کا موقع ہو تو وہ خبر لے.چوکیدار کا کام ہے کہ وہ نقب دینے والوں کو پوچھتے ہیں اور دوسرے جرائم والوں کو دیکھ کر اپنے منصبی فرائض عمل میں لاتے ہیں.اسی طرح پر آج چونکہ فتن جمع ہو گئے تھے اور اسلام کے قلعہ پر ہر قسم کے مخالف ہتھیار باندھ کر حملہ کرنے کو طیار ہو گئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ منہاج نبوت قائم کرے یہ مواد اسلام کی مخالفت کے دراصل ایک عرصہ دراز سے پک رہے تھے اور آخراب پھوٹ نکلے جیسے ابتداء میں نطفہ ہوتا ہے اور پھر ایک عرصہ مقررہ کے بعد بچہ بن کر نکلتا ہے اسی طرح پر اسلام کی مخالفت کے بچہ کا خروج ہو چکا ہے اور اب وہ بالغ ہو کر پورے جوش اور قوت میں ہے اس لئے اس کو تباہ کرنے کیلئے خدا تعالیٰ نے آسمان سے ایک حربہ نازل کیا اور اس مکروہ شرک کو جو اندرونی اور بیرونی طور پر پیدا ہو گیا تھا دور کرنے کیلئے اور پھر خدا تعالیٰ کی توحید اور جلال قائم کرنے کے واسطے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور میں بڑے دعوئی اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ بیشک یہ خدا کی طرف سے ہے اس نے اپنے ہاتھ سے اس کو قائم کیا ہے جیسا کہ اس نے اپنی تائیدوں اور نصرتوں سے جو اس سلسلہ کیلئے اس نے ظاہر کی ہیں دکھا دیا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 66-65) یہ ظلم اور شرارت کی بات ہے کہ ختم نبوت سے خدا تعالیٰ کا اتنا ہی منشاء قرار دیا جائے کہ منہ سے ہی خاتم النبین ما وار کر تو میں وہی کرو جو تم خود پسند کرو اور اپنی ایک الگ شریعت بنا لو.بغدادی نماز معکوس نماز وغیرہ ایجاد کی ہوئی ہیں.کیا قرآن شریف یا بنی کریم اے کے عمل میں بھی اس کا کہیں پتہ لگتا ہے.اور ایسا ہی یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا للہ کہنا اس کا ثبوت بھی کہیں قرآن سے ملتا ہے.آنحضرت ﷺ کے وقت تو شیخ عبدالقادر جیلانی کا وجود بھی نہ تھا.پھر یہ کس نے بتایا تھا.شرم کرو.کیا شریعت اسلام کی پابندی اور التزام اسی کا نام ہے؟ اب خود ہی فیصلہ کرو کہ کیا ان باتوں کو مان کر ایسے عمل رکھ کر تم اس قابل ہو کہ مجھے الزام دو کہ میں نے خاتم النبین کی مہر کو توڑا ہے.اصل اور کچی بات یہی ہے کہ اگر تم اپنی مساجد میں بدعات کو دخل نہ دیتے اور خاتم النبیین ﷺ کی کچی نبوت پر ایمان لا کر آپ کے طرز عمل اور نقش قدم کو اپنا امام بنا کر چلتے ، تو پھر میرے آنے ہی کیا ضرورت ہوتی.تمہاری ان بدعتوں اور نئی نبوتوں نے ہی اللہ تعالیٰ کی غیرت کو تحریک دی کہ رسول اللہ ﷺ کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو ان جھوٹی نبوتوں کے بت کو توڑ کر نیست و نابود کرے.پس اسی کام کے لئے خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.میں نے سنا ہے کہ غوث علی پانی پتی کے ہاں شاکت مت کا ایک منتر رکھا ہوا ہے جس کا وظیفہ کیا جاتا ہے اور ان گدی نشینوں کو سجدہ کرنایا ان کے مکانات کا طواف کرنا، یہ تو بالکل معمولی اور عام باتیں ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو اسی لیے قائم کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت اور عزت کو دوبارہ قائم کریں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 65)
49 چونکہ آنحضرت ﷺ کا حسب آیت وَ اخَرِينَ مِنْهم دوباره تشریف لا نا بجز صورت بروز غیر ممکن تھا اس لئے آنحضرت ﷺ کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جو خلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا ظہور بعینہہ آنحضرت ﷺ کا ظہور تھا.منيب عشقم بروئے (تحفہ گوٹر ویہ.رخ جلد 17 صفحہ 263) مصطفی دل پرد چون مرغ سوئے مصطفی ایسا ہی عشق مجھے مصطفی کی ذات سے ہے میرا دل ایک پرندہ کی طرح مصطفی کی طرف اڑ کر جاتا ہے مرا دادند از حسنش خبر شد دلم از عشق او زیر و زبر جب سے مجھے اس کے حسن کی خبر دی گئی ہے میرا دل اسکے عشق میں بے قرار رہتا ہے بینم رخ آں دلبرے جاں فشانم دہر دل دیگرے میں جو کہ اس دلبر کا چہرہ دیکھ رہا ہوں اور اگر کوئی اسے دل دے تو میں اس کے مقابلہ پر جان نثار منکه گر ہر زماں مستم کند از ساغری ساقی من ہست آں جاں پرورے وہی روح پرور شخص تو میرا ساتی ہے جو ہمیشہ جام شراب سے مجھے سرشار رکھتا ہے مجو روئے او شد است ایں روئے من ہوئے او آید زبام و کوئے من یہ میرا چہرہ اس کے چہرہ میں محو اور گم ہو گیا اور میرے مکان اور کوچہ سے اس کی خوشبو آرہی ہے بکه من در عشق او هستم نہاں من ہمانم - من همانم - من ہماں از بسکہ میں اس کے عشق میں غائب ہوں میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں جان من از جان او یا بد غذا از گریبانم عیاں شد آں ذکا ! میری روح اسکی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریبان سے وہی سورج نکل آیا ہے احمد شد پدید اسم من گردید اسم آں وحید احمد کی جان کے اندر احمد ظاہر ہو گیا اس لئے میرا وہی نام ہو گیا جو اس لاثانی انسان کا نام ہے احمد اندر جان ( در مشین فارسی مترجم صفحه 228 ) ( سراج منیر.رخ جلد 12 صفحہ 97-96)
50 گیارہویں فصل آنحضرت ﷺ کے شاگر داور وارث کامل ہونے کے اعتبار سے الہامات حضرت اقدس بارھویں پیشگوئی جو براہین احمدیہ کے صفحہ 238 اور 239 میں لکھی ہے علم قرآن ہے اس پیشگوئی کا ما حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تجھ کو علم قرآن دیا گیا ہے ایسا علم جو باطل کو نیست کرے گا.اور اسی پیشگوئی میں فرمایا کہ دوانسان ہیں جن کو بہت ہی برکت دی گئی.ایک وہ معلم جس کا نام محمد مصطفی ﷺ ہے اور ایک یہ متعلم یعنی اس کتاب کا لکھنے والا.اور یہ اس آیت کی طرف بھی اشارہ ہے جو قرآن شریف میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے واخرين منهـم لـمـا يلحقوا بهم (الجمعة) (4) یعنی اس نبی کے اور شاگر د بھی ہیں جو ہنوز ظاہر نہیں ہوئے اور آخری زمانہ میں ان کا ظہور ہوگا.یہ آیت اسی عاجز کی طرف اشارہ تھا کیونکہ جیسا کہ ابھی الہام میں ذکر ہو چکا ہے یہ عاجز روحانی طور پر آنحضرت ﷺ کے شاگردوں میں سے ہے.اور یہ پیشگوئی جو قرآنی تعلیم کی طرف اشارہ فرماتی ہے.اس کی تصدیق کیلئے کتاب کرامات الصادقین لکھی گئی تھی.جس کی طرف کسی مخالف نے رخ نہیں کیا.اور مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے قرآن کے حقائق اور معارف کے سمجھنے میں ہر ایک روح پر غلبہ دیا گیا ہے.اور اگر کوئی مولوی مخالف میرے مقابل پر آتا جیسا کہ میںنے قرآنی تفسیر کیلئے بار بار ان کو بلایا تو خدا اس کو ذلیل اور شرمندہ کرتا.سو ہم قرآن جو مجھ کو عطا کیا گیا یہ اللہ جل شانہ کا ایک نشان ہے.میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب دنیا دیکھے گی کہ میں اس بیان میں سچا ہوں.(سراج منیر.رخ جلد 12 صفحہ 41-40) آں رسولی کش محمد دامن پاکش بدست ما مدام ! وہ رسول جس کا نام اس کا مقدس دامن ہر وقت ہمارے ہاتھ میں ہے مہر او بست باشیر شد اندر نام ہے بدن جال شد و باجاں بدر خواهد شدن اس کی محبت ماں کے دودھ کے ساتھ ہمارے بدن میں داخل ہوئی وہ جان بن گئی اور جان کے ساتھ ہی باہر نکلے گی بس او اہے کہ ہست و ایمائی بود ! را برو شد اختتام خیر الرسل خیر الانام ہر نبوت وہی خیر الرسل اور خیر الانام ہے اور ہر قسم کی نبوت کی تعمیل اس پر ہوگئی ما از و نوشیم ہر زو شده سیراب سیرا بے کہ ہست جو بھی پانی ہے وہ ہم اسی سے لے کر پیتے ہیں جو بھی سیراب ہے وہ اسی سے سیراب ہوا ہے آنچه ما را وحی آن نه از خود از ہماں جائے بود ! جو وحی و الہام ہم پر نازل ہوتا ہے وہ ہماری طرف سے نہیں وہیں سے آتا ہے ما از و یا بیم ہر نور و کمال ! وصل دلدار ازل ہے او محال ! ہم ہر روشنی اور ہر کمال اس سے حاصل کرتے ہیں محبوب ازلی کا وصل بغیر اس کے ناممکن ہے اقتدائے قول او در جان ماست هر چه زو ثابت شود ایمان ماست اسکے ہر ارشاد کی پیروی ہماری فطرت میں ہے جو بھی اس کا فرمان ہے اس پر ہمارا پورا ایمان ہے (سراج منیر.رخ جلد 12 صفحہ 95)
51 كل بركة من محمد صلى الله عليه وسلم فتبارك من عَلّمَ وَتَعَلّم ط خدا کی فیلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا.انی معک ومع اھلک یہ تو تمام برکت محمد ﷺ سے ہے.پس بہت برکتوں والا ہے جس نے اس بندہ کو تعلیم دی اور بہت برکتوں والا ہے جس نے تعلیم پائی.خدا نے وقت کی ضرورت محسوس کی اور اس کے محسوس کرنے اور نبوت کی مہر نے جس میں بشدت قوت کا فیضان ہے بڑا کام کیا یعنی تیرے مبعوث ہونے کے دو باعث ہیں.خدا کا ضرورت محسوس کرنا اور آنحضرت کی مہر نبوت کا فیضان.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 99) آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تلی کا بتایا ہم نے جب سے نور ملا نور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کے وجود اپنا ملایا ہم نے مصطفى اس سے نور لیا بار خدایا ہم نے محمد سے مری جاں کو مدام پر ترا بیحد ہو سلام اور رحمت ربط ہے جانِ دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 225)
52 52 هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ ايتِهِ وَيُزَ كَيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ قِ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِيْن وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ط وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيم ( الجمعة : 43) وَإِنَّ ادَمَ اخِرِ الزَّمَانِ حَقِيْقَةً هُوَ نَبِيُّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ ط وَ النِّسْبَةُ بَيْنَيْ وَبَيْنَهُ كَنِسْبَةِ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ ط وَ إِلَيْهِ أَشَارَ سُبْحَانَهُ فِي قَوْلِهِ وَ خِرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ فَفَكَّرْفِيْ قَوْلِهِ اخَرِيْنَ.وَأَنْزَلَ اللهُ عَلَيَّ فَيْضَ هَذَا الرَّسُوْلِ فَأَتَمَّهُ وَاَكْمَلَهُ وَ جَذَبَ إِلَيَّ لُطْفَهُ وَجُوْدَهُ ط حَتَّى صَارَوَ جُوْ دِی وُجُوْدَهُ ط فَمَنْ دَخَلَ فِي جَمَاعَتِي دَخَلَ فِي صَحَابَةِ سَيِّدِئَ خَيْرِ الْمُرْسَلِيْنَ وَهَذَا هُوَ مَعْنَى وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى الْمُتَدَتِرِيْنَ.وَمَنْ فَرَّقَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْمُصْطَفَى ط فَمَا عَرَفَنِيْ وَمَارَأَى ط اور آخر زمانہ کا آدم در حقیقت ہمارے نبی کریم ہیں اور میری نسبت اس کی جناب کے ساتھ استاد اور شاگرد کی نسبت ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے پس آخرین کے لفظ میں فکر کرو اور خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی کریم کے لطف اور جود کو میری طرف کھینچا یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہو گیا.پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرے سردار خیرالمرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا اور یہی معنی اخَرِيْنَ مِنْهُمْ کے لفظ کے بھی ہیں جیسا کہ سوچنے والوں پر پوشیدہ نہیں اور جو شخص مجھ میں اور مصطفیٰ میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا ہے.(خطبہ الہامیہ رخ جلد 16 صفحہ 259-257) مسیح وقت اب دنیا میں آیا مبارک وہ خدا نے عہد کا دن ہے دکھایا اب ایمان لایا صحابة ملا جب مجھ کو پایا وہی سے ان کو ساقی نے پلادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي ( در شین مطبوعہ 1901ء) (بشیر احمد ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین )
53 بوده وارث شدم حضرت اقدس آنحضر کے علوم کے وارث ہیں انبیاء اگر چہ انبیاء بہت مصطفی ٧٠ اند ہوئے ہیں یقیں شده من بعرفاں نہ کمترم ز کے مگر میں معرفت الہی میں کسی سے کم نہیں ہوں رنلیں برنگ یارحسیں میں یقیناً مصطفیٰ آئینه ام کا وارث ہوں اور اس حسیں محبوب کے رنگ میں رنگین ہوں ز رب عنی از صورت مدنی میں اسی کی طرف سے ان کی ماند ہ و مدینہ کے چاندکی صورت دنیا کو کھانے کیلئے آئینہ ہوں اس صورت در مشین فارسی مترجم صفحہ 335-336 ) ( نزول مسیح.ر خ جلد 18 صفحہ 478-477) اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت اور نبوت کی یقینی حقیقت جو ہمیشہ ہر ایک زمانہ میں منکرین وحی کو ساکت کر سکے اسی حالت میں قائم رہ سکتی ہے کہ سلسلہ وحی برنگ محدثیت ہمیشہ کیلئے جاری رہے.سو اس نے ایسا ہی کیا.محدث وہ لوگ ہیں جو شرف مکالمہ البہی ہے مشرف ہوتے ہیں اور ان کا جو ہر نفس انبیاء کے جو ہر نفس سے اشد مشابہت رکھتا ہے.اور وہ خواص عجیبہ نبوت کیلئے بطور آیات باقیہ کے ہوتے ہیں تا یہ دقیق مسئلہ نزول وحی کا کسی زمانہ میں بے ثبوت ہو کر صرف بطور قصہ کے نہ ہو جائے اور یہ خیال ہرگز درست نہیں کہ انبیاء علیہم السلام دنیا سے بے وارث ہی گذر گئے اور اب ان کی نسبت کچھ رائے ظاہر کرنا بجز قصہ خوانی کے اور کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتا بلکہ ہر ایک صدی میں ضرورت کے وقت ان کے وارث پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس صدی میں یہ عاجز ہے خدا تعالیٰ نے مجھ کو اس زمانہ کی اصلاح کیلئے بھیجا ہے تا وہ غلطیاں جو بجز خدا تعالیٰ کی خاص تائید کے نکل نہیں سکتی تھیں وہ مسلمانوں کے خیالات سے نکالی جائیں اور منکرین کو بچے اور زندہ خدا کا ثبوت دیا جائے اور اسلام کی عظمت اور حقیقت تازہ نشانوں سے ثابت کی جائے.سو یہی ہورہا ہے قرآن کریم کے معارف ظاہر ہو رہے ہیں لطائف اور دقائق کلام ربانی کے کھل رہے ہیں نشان آسمانی اور خوارق ظہور میں آرہے ہیں اور اسلام کے حسنوں اور نوروں اور برکتوں کا خدا تعالیٰ نئے سر سے جلوہ دکھلا رہا ہے جس کی آنکھیں دیکھنے کی ہیں دیکھے اور جس میں سچا جوش ہے وہ طلب کرے اور جس میں ایک ذرہ حب اللہ اور رسول کریم کی ہے وہ اٹھے اور آزمائے اور خدا تعالیٰ کی اس پسندیدہ جماعت میں داخل ہو وے جس کی بنیادی اینٹ اس نے اپنے پاک ہاتھ سے رکھی ہے.بركات الدعا.رخ جلد 6 صفحہ 24-23) بلایا ہم نے طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے یہ قمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے آزمائش کیلئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل آؤ لوگو ! کہ یہیں نور خدا پاؤ گے!! تو تمھیں طور تسلی کا بتایا ہم نے آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے مصطفی پر ترا بیحد ہو سلام اور رحمت اس سے نور لیا بار خدایا ہم نے ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام - رخ جلد 5 صفحہ 224 225 )
54 دَعُوا كُلَّ فَخْرِ لِلنَّبِيِّ مُحَمَّدٍ أَمَامَ جَلَالَةِ شَانِهِ الشَّمْسُ أَحْقَرُ وَصَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا أَيُّهَا الْوَرى وَذَرُوا لَهُ طُرُقَ التَّشَاجُرِ تُوجَرُوا وَوَاللَّهِ إِنَّى قَدْ تَبِعْتُ مُحَمَّدًا وَفِي كُلِّ ان مِّنْ سَنَاهُ أَنَوَّرُ وَفَوَّضَنِي رَبِّي إِلَى رَوْضِ فَيُضِهِ وَإِنِّي بِهِ أَجْنِي الْجَنَى وَأَنَضَّرُ وَلِدِينِهِ فِي جَذْرِ قَلْبِي لَوْعَةُ وَإِنَّ بَيَانِــي عَنْ جَـنَــانِي يُخْبِرُ وَرِثْتُ عُلُوْمَ الْمُصْطَفَى فَأَخَذْتُهَا وَكَيْفَ اَرُدُّ عَطَاءَ رَبِّي وَأَفَجُرُ ہر فخر کو رہنے دو نبی محمد ﷺ کے ہی لئے آپکی جلالت شان کے سامنے تو سورج بھی بہت حقیر ہے اور اے تمام لوگو ! اس پر درود و سلام بھیجو اور اس کی خاطر جھگڑے کی راہیں چھوڑ دو کہ اجر پاؤ اور خدا کی قسم ! یقیناً میں نے پیروی کی ہے محمد ﷺ کی اور ہر لحظہ آپ کی روشنی سے ہی منور ہو رہا ہوں مجھے میرے رب نے آپ کے فیض کے باغوں کے سپرد کر دیا ہے اور یقینا میں آپ کے ذریعہ ہی پھل چھتا اور تروتازہ کیا جاتا ہوں اور آپ کے دین کیلئے میرے دل کی گہرائی میں ایک تڑپ ہے اور یقیناً میرا بیان میرے دل کی حالت کی خبر دے رہا ہے میں مصطفی کے علوم کا وارث ہوا سو میں نے ان کو لے لیا اور میں اپنے رب کی عطا کو کیسے رد کروں اور گنہگار بنوں در مشین عربی ) ( حماحۃ البشری رخ جلد 7 صفحہ 331 332) وارث انبیاء ہمیشہ ہوتے رہیں گے پھر بعض اور آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور خدا وند کریم نے یہی ارادہ فرمایا ہے کہ روحانی معلم جو انبیاء کے وارث ہیں ہمیشہ ہوتے رہیں اور وہ یہ ہیں.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النور: 56) وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا تُصِيبُهُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِنْ دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَاد (الرعد: 32) وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل: 16 ) یعنی خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے اے مومنان امت محمد یہ وعدہ کیا ہے کہ تمہیں بھی وہ زمین میں خلیفہ کرے گا جیسا کہ تم سے پہلوں کو کیا اور ہمیشہ کفار پر کسی قسم کی کوفتیں جسمانی ہوں یا روحانی پڑتی رہیں گی یا ان کے گھر سے نزدیک آجائیں گی.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ آپنے گا.اور خدا تعالیٰ اپنے وعدوں میں تخلف نہیں کرتا.اور ہم کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ایک رسول بھیج نہ لیں.
55 ان آیات کو اگر کوئی شخص تامل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیونکر کہوں کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ جائے کہ خدا تعالیٰ اس امت کیلئے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے.اگر خلافت دائی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہ دینا کیا معنی رکھتا تھا اور اگر خلافت راشدہ صرف تمہیں برس تک رہ کر پھر ہمیشہ کیلئے اس کا دور ختم ہو گیا تھا تو اس سے لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہر گز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس امت پر ہمیشہ کیلئے ابواب سعادت مفتوح رکھے کیونکہ روحانی سلسلہ کی موت سے دین کی موت لازم آتی ہے اور ایسا مذہب ہرگز زندہ نہیں کہلا سکتا جس کے قبول کرنے والے خود اپنی زبان سے ہی یہ اقرار کریں کہ تیرہ سو برس سے یہ مذہب مرا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس مذہب کیلئے ہر گز یہ ارادہ نہیں کیا کہ حقیقی زندگی کا وہ نور جو نبی کریم کے سینہ میں تھا وہ توارث کے طور پر دوسروں میں چلا آوے.افسوس کہ ایسے خیال پر جمنے والے خلیفہ کے لفظ کو بھی جو استخلاف سے مفہوم ہوتا ہے تدبر سے نہیں سوچتے کیونکہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جوظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ در حقیقت رسول کا حل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کیلئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں ظلمی طور پر ہمیشہ کیلئے تا قیامت قائم رکھے.سواسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا بھی او کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے.پس جو شخص خلافت کو صرف تمہیں برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے.آنکه وہ شخص تابعش ہر کہ شہادت القرآن.رخ جلد 6 صفحہ 353-352) ظلمتی گیرد براه نیستش چون روئے احمد مہر و ماہ جسے تاریکی گھیر لے اس کیلئے احمد کے چہرہ کی طرح اور کوئی چاند سورج نہیں ہے أورا در بحر معافی شود از زمینی آسمانی شود ہو جاتا ہے اس کا پیرو معرفت کا ایک سمندر بن جاتا ہے اور زمینی سے آسمانی راه محمد زد قدم انبیاء شد مثیل آں محترم جس نے محمد کے طریقہ پر قدم مارا وہ قابل عزت شخص نبیوں کا مثیل بن جاتا ہے تو عجب داری ز فوز این مقام پانی بند نفس گشته صبح تو اس درجہ کی کامیابی پر تعجب کرتا , شام ہے کیونکہ تو ہر وقت اپنے نفس کا غلام ہے (ضیاء الحق - ر - خ جلد 9 صفحہ 255 254)
56 حضرت اقدس قرآن کریم کے وارث ہیں اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ جب کہ مجھ کو تمام دنیا کی اصلاح کیلئے ایک خدمت سپرد کی گئی ہے.اس وجہ سے کہ ہمارا آقا اور مخدوم تمام دنیا کیلئے آیا تھا تو اس عظیم الشان خدمت کے لحاظ سے مجھے وہ قو تیں اور طاقتیں بھی دی گئی ہیں جو اس بوجھ کے اٹھانے کیلئے ضروری تھیں اور وہ معارف اور نشان بھی دیے گئے ہیں جن کا دیا جانا اتمام حجت کیلئے مناسب وقت تھا.مگر ضروری نہ تھا کہ حضرت عیسی کو وہ معارف اور نشان دئے جاتے.کیونکہ اس وقت انکی ضرورت ی تھی اس لئے حضرت عیسی کی سرشت کو صرف وہ قوتیں اور طاقتیں دی گئیں جو یہودیوں کے ایک تھوڑے سے فرقہ کی اصلاح کیلئے ضروری تھیں اور ہم قرآن شریف کے وارث ہیں جس کی تعلیم جامع تمام کمالات ہے تمام دنیا کیلئے ہے.مگر حضرت عیسی صرف توریت کے وارث تھے جس کی تعلیم ناقص اور مختص القوم ہے اسی وجہ سے انجیل میں ان کو وہ باتیں تاکید کے ساتھ بیان کرنی پڑیں جو توریت میں مخفی اور مستور تھیں لیکن قرآن شریف سے ہم کوئی امر زیادہ بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اس کی تعلیم اتم اور اکمل ہے اور وہ توریت کی طرح کسی انجیل کا محتاج نہیں.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 155) و استمرت عادته انه اذا جاء زمان الظلام و جعل دين الاسلام غرض اور عادت اسی طرح پر جاری ہے کہ جب تاریکی کا زمانہ آجائے اور دین اسلام تیروں کا نشانہ ٹھہرایا جاوے السهام وطال عليه السنة الخواص والعوام و اختار الناس طرق الارتداد اور اس پر خواص اور عوام کی زبانیں جاری ہوں اور لوگ ارتداد کے طریقے اختیار کریں وافسدوا فى الارض غاية الافساد فتتوجه القيومية الالهية الــى حـفـظــه اور زمیں میں نہایت درجہ کا فساد ڈالدیں پس قیومیت الہیہ توجہ فرماتی ہے کہ تا دین کی حفاظت کرے وصيانته ويبعث عبد الاعانته فيجدد دين الله بعلمه وصدقه و امانته و اور کوئی بندہ اس کی اعانت کیلئے کھڑا کر دیتا ہے پس وہ دین اسلام کو اپنے علم اور صدق اور امانت کے ساتھ يجعل الله ذلك المبعوث زكيا و بالفيوض حريا و يكشف عينـه ويـهـب لــه تازہ کر دیتا ہے.اور خدا اس مبعوث کو ذکی اور لائق فیض بناتا ہے اور اس کی آنکھ کھولتا ہے اور اسکو تازہ بتازہ علماغضا طــريــا ويـجـعـلـه لـعـلـوم الانبياء من الوارثين ـ فـيــاتـي في حلل علم بخشتا ہے اور نبیوں کے علموں کا اس کو وارث ٹھہراتا ہے.پس وہ ایسے پیرایوں میں تقابل حلل فساد الزمان وما يقول الا مـا عـلـمـه لـســـان الـرحــمــان و آتا ہے جو فساد زمانہ کے پیرایوں کے مقابل پر ہوتے ہیں اور وہی کہتا ہے جو خدا کی زبان نے اسے سکھایا ہو اور تعطى لــه فـنـعـن مـن مبدء الفيضان عـلـى مـنـاسبـات فســادا هـل الـبـلـدان مبدء فیضان سے کئی قسم کے علم اس کو دیئے جاتے ہیں جو زمانہ کے فساد کے موافق ہوں.نور الحق حصہ دوم.رخ جلد 8 صفحہ 236 )
57 بارہویں فصل حفاظت قرآن کریم کے اعتبار سے وعده حفاظت قرآن کریم إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَوَ إِنَّا لَهُ لَحْفِظُوْنَ 0 ( الحج : 10) ( یہ آیت) صاف بتلا رہی ہے کہ جب ایک قوم پیدا ہوگی کہ اس ذکر کو دنیا سے مٹانا چاہے گی تو اس وقت خدا آسماں سے اپنے کسی فرستادہ کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کرے گا.(تحفہ گولڑو یہ.سرخ جلد 17 صفحہ 267 حاشیہ ) اسلام کی حفاظت کا ذمہ اسی کی و قیوم خدا نے إِنَّا لَهُ لَحفِظون کہہ کر اٹھایا ہوا ہے.پس ہر زمانہ میں یہ دیں زندوں سے زندگی پاتا ہے اور مردوں کو جلاتا ہے.یادرکھو اس میں قدم قدم پر زندے آتے ہیں.(ملفوظات جلد اول صفحہ 346) یہ امر قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کے دین کی حفاظت کرتا رہا ہے اور کرے گا جیسا کہ فرمایا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ یعنی بے شک ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے انا له لحفظون کا لفظ صاف طور پر دلالت کرتا ہے کہ صدی کے سر پر ایسے آدمی آتے رہیں گے جو گم شدہ متاع کو لائیں اور لوگوں کو یاد دلائیں.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 629) وعدہ حفاظت قرآن کریم کے معنی اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ اللہ جلشانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لحفظونَ.(الحجر: 10) یعنی ہم نے ہی اس کتاب کو اتارا اور ہم ہی اس تنزیل کی محافظت کریں گے اس میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ کلام ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی تعلیم کو تازہ رکھنے والے اور اس کا نفع لوگوں کو پہنچانے والے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے.اور اگر یہ سوال ہو کہ قرآن کے وجود کا فائدہ کیا ہے جس فائدہ کے وجود پر اس کی حقیقی حفاظت موقوف ہے تو اس دوسری آیت سے ظاہر ہے هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايته وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ - ( الجمعة :3) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے بڑے فائدے دو ہیں جن کے پہنچانے کیلئے آنحضرت ﷺ تشریف لائے تھے.ایک حکمت فرقان یعنی معارف و دقائق قرآن دوسری تاثیر قرآن جو موجب تزکیہ نفوس ہے اور قرآن کی حفاظت صرف اس قدر نہیں جو اس کے صحف مکتو بہ کو خوب نگہبانی سے رکھیں کیونکہ ایسے کام تو اوائل حال میں یہود اور نصاری نے بھی کئے یہاں تک کہ توریت کے نقطے بھی گن رکھے تھے.بلکہ اس جگہ مع حفاظت ظاہری حفاظت فوائد دیتا خیرات قرآنی مراد ہے اور وہ موافق سنت اللہ کے تبھی ہو سکتی ہے کہ جب وقتا فوقتا نائب رسول آویں جن میں ظلمی طور پر رسالت کی تمام نعمتیں موجود ہوں اور جن کو وہ تمام برکات دی گئی ہوں جو نبیوں کو دیجاتی ہوں جیسا کہ ان آیات میں اس امر عظیم کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنًا يَعْبُدُو نَنِى لَا يُشْرِكُونَ فِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ.(النور: 56) شہادت القرآن.رخ جلد 6 صفحہ 339-338)
58 يه حديث (إن الله يبعث لهذه الامة على رأس كل مائة سنة من يجد دلها دينها - ناقل) إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ كى شرح ہے.صدی ایک عام آدمی کی عمر ہوتی ہے اس لئے آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ سو سال بعد کوئی نہ رہے گا.جیسے صدی جسم کو مارتی ہے اسی طرح ایک روحانی موت بھی واقع ہوتی ہے.اس لئے صدی کے بعد ایک نئی ذریت پیدا ہو جاتی ہے.جیسے اناج کے کھیت.اب دیکھتے ہیں کہ ہرے بھرے ہیں ایک وقت میں بالکل خشک ہوں گے پھر نئے سرے سے پیدا ہو جائیں گے اس طرح پر ایک سلسلہ جاری رہتا ہے پہلے اکا بر سوسال کے اندرفوت ہو جاتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ ہر صدی پر نیا انتظام کر دیتا ہے جیسا رزق کا سامان کرتا ہے.پس قرآن کی حمایت کے ساتھ یہ حدیث تواتر کاحکم رکھتی ہے.کپڑا پہنتے ہیں تو اس کی بھی تجدید کی ضرورت پیدا ہوتی ہے اسی طریق پر نئی ذریت کو تازہ کرنے کیلئے سنت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ ہر صدی پر مجدد آتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 86-87) حضرت اقدس حفاظت قرآن کریم کی غرض سے مبعوث ہوئے ہیں وہ پاک وعدہ جس کو یہ پیارے الفاظ ادا کر رہے ہیں کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (الحجر: 10) وہ انہیں دنوں کیلئے وعدہ ہے جو بتلا رہا ہے کہ جب اسلام پر سخت بلا کا زمانہ آئے گا اور سخت دشمن اس کے مقابل کھڑا ہوگا اور سخت طوفان پیدا ہو گا تب خدائے تعالیٰ آپ اس کا معالجہ کرے گا اور آپ اس طوفان سے بچنے کیلئے کوئی کشتی عنایت کرے گا وہ کشتی اسی عاجز کی دعوت ہے.آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 264 حاشیہ ) یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کیلئے غیور ہے.اس نے بیچ فرمایا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لحفِظُونَ.(الحجز 10) اس نے اس وعدہ کے موافق اپنے ذکر کی محافظت فرمائی اور مجھے مبعوث کیا اور آنحضرت ہی ہے کے وعدہ کے موافق کہ ہر صدی کے سر پر مجد آتا ہے اس نے مجھے صدی چہار دہم کا مجرد کیا جس کا نام کلاسرا الصليب بھی رکھا ہے.اگر ہم اس دعوئی میں غلطی پر ہیں تو پھر سارا کاروبار نبوت کا ہی باطل ہوگا اور سب وعدے جھوٹے ٹھہریں گے اور پھر سب سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہوگی کہ خدا تعالیٰ بھی جھوٹوں کی حمایت کرنے والا ثابت ہوگا (معاذ اللہ ) کیو نکہ ہم اس سے تائید میں پاتے ہیں اور اس کی نصرتیں ہمارے ساتھ ہیں.(ملفوظات جلد 2 صفحہ 371،370) اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (الحج:10) قرآن شریف کی عظمت کو قائم کرنے کیلئے چودھویں صدی کے سر پر مجھے بھیجا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 433) اس وقت میرے مامور ہونے پر بہت سی شہادتیں ہیں اول اندرونی شہادت دوم بیرونی شہادت سوم صدی کے سر پر آنے والے مجدد کی نسبت حدیث صحیح.چہارم إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُوْن.( الحجر : 10 ) کا وعدہ حفاظت.قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذکر ہے اس ابتدائی زمانہ میں انسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش ہوئی ہوئی صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا.اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی رو سے کہ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ.( الحجر : 10) اس زمانے میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِھم کا مصداق اور موعود ہے.وہ ہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 360) (ملفوظات جلد اول صفحہ 60)
59 59 واخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ، وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعه: 4 ) جو کچھ اللہ نے چاہا تھا اس کی تکمیل دوہی زمانوں میں ہونی تھی ایک آپ کا زمانہ اور ایک آخری مسیح و مہدی کا زمانہ.یعنی ایک زمانہ میں تو قرآن اور بچی تعلیم نازل ہوئی لیکن اس تعلیم پر فیح اعوج کے زمانہ نے پردہ ڈال دیا جس پردہ کا اٹھایا جانا مسیح کے زمانہ میں مقدر تھا جیسے کہ فرمایا رسول اکرم ﷺ نے ایک تو موجودہ جماعت یعنی جماعت صحابہ کرام کا تزکیہ کیا اور ایک آنے والی جماعت کا جس کی شان میں ـــــــــا يَلْحَقُوا بهم آیا ہے.یہ ظاہر ہے کہ خدا نے بشارت دی کہ ضلالت کے وقت اللہ تعالیٰ اس دین کو ضائع نہ کرے گا بلکہ آنے والے زمانہ میں خدا حقائق قرآنیہ کو کھول دے گا.آثار میں ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ فضیلت ہوگی کہ وہ قرآنی فہم اور معارف کا صاحب ہوگا اور صرف قرآن سے استنباط کر کے لوگوں کو ان کی غلطیوں سے متنبہ کرے گا جو حقائق قرآن کی ناواقفیت سے لوگوں میں پیدا ہو گئی ہوں.(ملفوظات جلد اول صفحہ 25) مجھے خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے قرآن کے حقائق اور معارف کے سمجھنے میں ہر ایک روح پر غلبہ دیا گیا ہے اور اگر کوئی مولوی مخالف میرے مقابل پر آتا جیسا کہ میں نے قرآنی تفسیر کیلئے بار باران کو بلا یا تو خدا اس کو ذلیل اور شرمندہ کرتا.سوفہم قرآن جو مجھ کو عطا کیا گیا یہ اللہ جل شانہ کا ایک نشان ہے.میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب دنیا دیکھے گی کہ میں اس بیان میں سچا ہوں.(سراج منیر.رخ جلد 12 صفحہ 41) فَارَادَ اللَّهُ أَنْ يُحْفَظَ عِزَّةَ كِتَابِهِ وَدِيْنَ طُلًّا به مِنْ فِتَن تِلْكَ النَّوَا دِر كَمَا وَعَدَ فِي قَوْلِهِ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ فَأَنْجَزَ وَعْدَهُ وَأَيَّدَ عَبْدَهُ فَضْلًا مِّنْهُ وَرَحْمَةً وَّ أَوْحَى إِلَيَّ أَنْ أَقُومَ بِالْاِ نْدَارِ وَأَنْزَلَ مَعِى نَوَادِرَ النِّكَاتِ وَالْعَلُوْمِ وَالتَّائِيْدَاتِ مِنَ السَّمَاءِ لِيَكْسِرِ بِهَا نَوَادِرَ الْمُتَنَصِرِيْنَ وَصَلِيْبَهُمْ - پس اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی کتاب اور اپنے طالبوں کے دین کی عزت کو ان نوادر کے فتنہ سے محفوظ رکھے جیسا کہ اس نے اپنے قول إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّالَهُ لَحفِظُونَ میں وعدہ کیا تھا پس اس نے اپنے وعدہ کو پورا فرمایا اور اپنے فضل اور رحمت سے اپنے بندہ کی تائید فرمائی اور میری طرف وحی کی کہ میں منذر بن کر کھڑا ہو جاؤں.اور میرے ساتھ نادر نکات و علوم اور آسمانی تائیدات اتاریں تا اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے عیسائیوں کے نوادر اور ان کی صلیب کو پاش پاش کر دے.( آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 480) عیاں کر ان کی پیشانی پر اقبال نہ آوے ان کے گھر تک رُعب دجال بچانا ان کو ہر غم سے بہر حال نہ ہوں وہ دکھ میں اور رنجوں میں پامال یہی امید ہے دل نے بتا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي (در مشین اردو صفحه 43)
60 60 تیرہویں فصل الہامات حضرت اقدس معلم قرآن ہونے کے اعتبار سے يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللَّهُ فِيْكَ مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى - الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَابَآؤُهُمْ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيلَ الْمُجْرِمِينَ قُلْ إِنّى أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ - قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ - اے اول تائب الى الله بامر الله في هذا الزمان و اول من يؤمن بهذا الامر والله اعلم إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا - كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ قُلْ إِن افْتَرَيْتَهُ فَعَلَى إِجْرَامِي هُوَ الَّذِي أَرْ سَلَ رَسُوْلَه بِالْهُدَى وَدِيْنَ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ظُلِمُوا - اے لیظهر دين الاسلام بالحجج القاطعة والبراهين الساطعة على کل دین ماسواهای ینصر الله المؤمنين المظلومين باشراق دينهم و اتمام حجتهم - (براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 265) بارھویں پیشگوئی جو براہین احمدیہ کے صفحہ 238 اور 239 میں لکھی ہے علم قرآن ہے اس پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تجھ کو علم قرآن دیا گیا ہے ایسا علم جو باطل کو نیست کریگا.اور اسی پیشگوئی میں فرمایا کہ دوانسان ہیں جسکو بہت ہی برکت دی گئی.ایک وہ معلم جس کا نام محمد مصطفے ﷺ ہے اور ایک یہ متعلم یعنی اس کتاب کا لکھنے والا.(سراج منیر.رخ جلد 12 صفحہ 40 تا41)
61 حضرت اقدس آسمانی معلم قرآن ہیں اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی رو سے کہ إِنَّا لَهُ لَحفِظون (الحجر: 10) اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم (الجمعة: 4) کا مصداق اور موعود ہے.وہ وہی ہے جو تمھارے درمیان بول رہا ہے.میں پھر رسول کریم ﷺ کی پیشین گوئی کی طرف عود کر کے کہتا ہوں کہ آپ نے اس زمانہ کی ہی بابت خبر دی تھی کہ لوگ قرآن کو پڑھیں گے لیکن وہ اُن کے حلق سے نیچے نہ اترے گا.اب ہمارے مخالف نہیں نہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی قدر نہ کرنے والے اور رسول اللہ ﷺ کی باتوں پر دھیان نہ دینے والے خوب گلے مروڑ مروڑ کر يَا عِیسی إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى ( آل عمران : 56) اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي (المائدہ:118) قرآن میں عجیب لہجہ سے پڑھتے ہیں، لیکن سمجھتے نہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ اگر کوئی ناصح مشفق بن کر سمجھانا چاہے تو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے.( ملفوظات جلد اول صفحه 60) رض مسیح وقت اب دنیا میں آیا خدا نے عہد کا دن ہے دکھایا مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی سے ان کو ساقی نے پلا دی فسبحان الذي اخزى الاعادي بشیر احمد شریف احمد اور مبارکہ کی آمین مطبوعه 1900 ) ( در شین اردو صفحه 52) معلم قرآن کی ضرورت سچ تو یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کو نہیں پہنچانتا وہ قرآن کو بھی نہیں پہچان سکتا.ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ قرآن ہدایت کیلئے نازل ہوا ہے مگر قرآن کی ہدایتیں اس شخص کے وجود کے ساتھ وابستہ ہیں جس پر قرآن نازل ہوا یا وہ شخص جو منجانب اللہ اس کا قائم مقام ٹھہرایا گیا اگر قرآن اکیلا ہی کافی ہوتا تو خدا تعالیٰ قادر تھا کہ قدرتی طور پر درختوں کے پتوں پر قرآن لکھا جاتا یا لکھا لکھایا آسمان سے نازل ہو جاتا مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا بلکہ قرآن کو دنیا میں نہیں بھیجا جب تک معلم القرآن دنیا میں نہیں بھیجا گیا.قرآن کریم کو کھول کر دیکھو کتنے مقام میں اس مضمون کی آیتیں ہیں کہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ (الجمعة: 3) یعنے وہ نبی کریم ہ قرآن اور قرآنی حکمت لوگوں کو سکھلاتا ہے اور پھر ایک جگہ اور فرماتا ہے وَلَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :80) یعنے قرآن کے حقائق و دقائق انھیں پر کھلتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں.پس ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے سمجھنے کیلئے ایک ایسے معلم کی ضرورت ہے جسکو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہو.شہادت القرآن - رخ جلد 6 صفحہ 347-348)
62 صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں تو یقین کے چشمے جاری تھے اور وہ خدائی نشانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور انہیں نشانوں کے ذریعہ سے خدا کی کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہوگئی تھی لیکن بعد میں جب وہ زمانہ جاتارہا اور اس زمانہ پر صد ہا سال گذر گئے تو پھر ذریعہ یقین کا کونسا تھا.سچ ہے کہ قرآن شریف ان کے پاس تھا اور قرآن شریف اس ذوالفقار تلوار کی مانند ہے جس کے دو طرف دھاریں ہیں.ایک طرف کی دھار مومنوں کی اندرونی غلاظت کو کاٹتی ہے اور دوسری طرف کی دھار دشمنوں کا کام تمام کرتی ہے مگر پھر بھی وہ تلوار اس کام کے لئے ایک بہادر کے دست و بازو کی محتاج ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: يَتْلُوا عَلَيْهِمْ اللَّهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ (الجمعة: 3).پس قرآن سے جوتز کیہ حاصل ہوتا ہے اس کو اکیلا بیان نہیں کیا بلکہ وہ نبی کی صفت میں داخل کر کے بیان کیا.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام یوں ہی آسمان پر سے کبھی نازل نہیں ہوا بلکہ اس تلوار کو چلانے والا بہادر ہمیشہ ساتھ آیا ہے جو اس تلوار کا اصل جوہر شناس ہے.لہذا قرآن شریف پر سچا اور تازہ یقین دلانے کے لئے اور اس کے جوہر دکھانے کے لئے اور اس کے ذریعہ سے اتمام حجت کرنے کے لئے ایک بہادر کے دست بازو کی ہمیشہ حاجت ہوتی رہی ہے اور آخری زمانہ میں یہ حاجت سب سے زیادہ پیش آئی کیونکہ دجالی زمانہ ہے اور زمین و آسمان کی باہمی لڑائی ہے.( نزول ایچ.رخ جلد 18 صفحہ 468-469) وَقَالُوْا إِلَى الْمُوْعُوْدِ لَيْسَ بِحَاجَةٍ فَإِنَّ كِتَابَ اللَّهِ يَهْدِى وَيُخْبِرُ وَمَاهِيَ إِلَّا بِالْغُيُورِ دُعَابَةٌ فَيَا عَجَبًا مَّنْ فِطْرَةٍ تَتَهَوَّرُ وَقَدْ جَاءَ قَوْلُ اللَّهِ بِالرُّسُلِ تَوَأَما وَمِنْ دُونِهِمْ فَهُمُ الْهُدَىٰ مُتَعَسَّرُ فَإِنَّ ظُبَى الاسْيَانِ تَحْتَاجُ دَائِمًا إِلَىٰ سَاعِدٍ يُجْرِي الدَّمَاءَ وَيُنْدِرُ بِغَضَبٍ رَّقِيقِ الشَّفْرَتَيْنِ هَزِيمَةٌ إِذَا نَا شَهُ طِفْلُ ضَعِيفَ مُحَقِّرُ اور انہوں نے کہا کہ مسیح موعود کی طرف کچھ حاجت نہیں.کیونکہ اللہ کی کتاب ہدایت دیتی اور خبر دیتی ہے اور یہ تو خدائے غیور کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا ہے.پس ایسی بیباک فطر توں پر تعجب آتا ہے اور اصل حقیقت یہ ہے کہ خدا کا کلام اور رسول یا ہم توام ہیں.اور ان کے بغیر خدا کے کلام کا سمجھنا مشکل ہے کیونکہ تلواروں کی دھار ہمیشہ ایسے بازو کی طرف محتاج ہے.جو خون کو جاری کرتا اور سر کو بدن سے الگ کر دیتا ہے.تلوار گو باریک دھاریں رکھتی ہو مگر تب بھی شکست ہوگی جبکہ اس کو کمز ور اور حقیر بچہ ہاتھ میں پکڑے گا.(اعجاز احمدی قصیدہ اعجاز یہ رخ جلد19 صفحہ 173) ہر زمانہ میں نئے معلم قرآن کی ضرورت ہوتی ہے.اگر قرآن کے سیکھنے کے لئے معلم کی حاجت نہ ہوتی تو ابتدائے زمانہ میں بین ہوئی.اور یہ کہنا کہ ابتدا میں توحل مشکلات قرآن کے لئے ایک معلم کی ضرورت تھی لیکن جب حل ہو گئیں تو اب کیا ضرورت ہے.اس کا جواب یہ ہے، کہ حل شدہ بھی ایک مدت کے بعد پھر قابل حل ہو جاتی ہیں ماسوا اسکے امت کو ہر ایک زمانہ میں نئی مشکلات بھی تو پیش آتی ہیں اور قرآن جامع جمیع علوم تو ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زمانہ میں اس کے تمام علوم ظاہر ہو جائیں بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں اور ہر یک زمانہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کرنے والے روحانی معہ جاتے ہیں جو وارث رسل ہوتے ہیں اور ظلی طور پر رسولوں کے کمالات کو پاتے ہیں اور جس مجدد کی کاروائیاں کسی ایک رسول کی منصبی کاروائیوں سے شدید مشابہت رکھتی ہیں وہ عنداللہ اسی رسول کے نام سے پکارا جاتا ہے.(شہادت القرآن...خ جلد 6 صفحہ 348)
63 63 گفت پیغم ستو وہ صفات ستو وہ صفات پیغمبر نے غیب دان بر سر ہر از خدائے مخفیات علیم خدا سے علم پاکر کہا ہے صدی برون آید آنکه این کار را ہے شاید کہ ہر صدی کے سر پر ایک ایسا شخص ظاہر ہوتا ہے جو اس کام کے لائق ہوتا ہے شود پاک ملت از بدعات تا بیابند خلق زو بركات تاکہ مذہب بدعات سے پاک ہو جائے اور مخلوق اس سے برکتیں حاصل کرے الغرض ذاتِ اولیا ئے کرام بست مخصوص ملت اسلام خلاصہ کلام یہ کہ اولیائے کرام کی ذات مذہب اسلام کے ساتھ مخصوص ہے در ثمین فارسی نیا ایڈیشن صفحہ 51152) (براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 362) کیا ہزاروں مولوی ایسے نہیں ہیں جو بڑے بڑے علوم عربیہ کی تحصیل کر چکے ہیں مگر پھر بھی وہ اس سلسلہ حقہ کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ علوم ان کے واسطے اور بھی زیادہ حجاب کا موجب ہو رہے ہیں.ہزاروں مولوی ہیں جو بجز گالیاں دینے کے اور کچھ کام نہیں رکھتے.بے شک معارف قرآنی کا ذخیرہ سب عربی میں ہے تاہم جب ایک مدت گذر جاتی ہے اور خدا کے ایک رسول کو بہت زمانہ گذر جاتا ہے تب لوگوں کے ہاتھ میں صرف الفاظ ہی رہ جاتے ہیں.جن کے معانی اور معارف کسی پر نہیں کھل سکتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ ان کے واسطے کوئی چابی پیدا نہ کر دے.جب خدا کی طرف سے راہ کھلتا ہے تب کوئی منور قلب والا زندہ دل پیدا کیا جاتا ہے.وہ صاحب حال ہوتا ہے اس واسطے اس کی تفسیر درست ہوتی ہے زندہ دل کے سوا کچھ نہیں.یہ باتیں سیدھی ہیں مگر افسوس ہے کہ ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 277) اسلام ایک زندہ مذہب ہے.اسلام کا خداحتی و قیوم خدا ہے پھر وہ مردوں سے پیار کیوں کر نے لگا.وہ جی و قیوم خدا بار بار مردوں کو جلاتا ہے.يُحْيِي الْاَرْضَ بَعْدَمَوْتِهَا (الحديد:18) تو کیا مردوں کے ساتھ تعلق پیدا کرا کر جلاتا ہے.نہیں.ہرگز نہیں.اسلام کی حفاظت کا ذمہ اسی حی و قیوم خدا نے إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر: 10) کہہ کر اٹھایا ہوا ہے.پس ہر زمانہ میں یہ دین زندوں سے زندگی پاتا ہے.اور مردوں کو جلاتا ہے.یادرکھو اس میں قدم قدم پر زندے آتے ہیں.پھر فرمایا ثُمَّ فُصِّلَتْ.ایک تو وہ تفصیل ہے جو قرآن کریم میں ہے.دوسری یہ کہ قرآن کریم کے معارف و حقائق کے اظہار کا سلسلہ قیامت تک دراز کیا گیا ہے.ہر زمانہ میں نئے معارف اور اسرار ظاہر ہوتے ہیں.فلسفی اپنے رنگ میں طبیب اپنے مذاق پر.صوفی اپنے طرز پر بیان کرتے ہیں.اور پھر یہ تفصیل بھی حکیم وخبیر خدا نے رکھی ہے.حکیم اس کو کہتے ہیں کہ جن چیزوں کا علم مطلوب ہو وہ کامل طور پر ہوا اور پھر عمل بھی کامل ہوا ایسا کہ ہر ایک چیز کو اپنے اپنے محل و موقع پر رکھ سکے.حکمت کے معانی وَضعُ الشَّيْ فِي مَحَلَّه اور خیر مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی ایسا وسیع علم کہ کوئی چیز اس کی خبر سے باہر نہیں چونکہ اللہ تعالی نے اس کتاب مجید کو خاتم الکتب ٹھہرایا تھا اور اس کا زمانہ قیامت تک دراز تھا.وہ خوب جانتا تھا کہ کس طرح پر یہ تعلیمیں ذہن نشین کرنی چاہیں.چنانچہ اس کے مطابق تفاصیل کی ہیں.پھر اسکا سلسلہ جاری رکھا کہ جو مجدد و مصلح احیاء دین کے لئے آتے ہیں وہ خود مفصل آتے ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 346)
64 معلم قرآن عملی نمونہ پیش کرنے کی غرض سے اب نئے معلموں کی اس وجہ سے بھی ضرورت پڑتی ہے کہ بعض حصے تعلیم قرآن شریف کے از قبیل حال ہیں نہ از قبیل قال اور آنحضرت ﷺ نے جو پہلے معلم اور اصل وارث اس تخت کے ہیں حالی طور پر ان دقائق کو اپنے صحابہ کو سمجھایا ہے مثلا خدا تعالیٰ کا کہنا میں عالم الغیب ہوں اور میں مجیب الدعوات ہوں اور میں قادر ہوں اور میں دعاؤں کو قبول کرتا ہوں اور طالبوں کو حقیقی روشنی تک پہنچاتا ہوں اور میں اپنے صادق بندوں کو الہام دیتا ہوں اور جس پر چاہتا ہوں اپنے بندوں میں سے اپنی روح ڈالتا ہوں یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ جب تک معلم خود ان کا نمونہ بن کر نہ دکھلا دے تب تک یہ کسی طرح سمجھ ہی نہیں آسکتیں پس ظاہر ہے کہ صرف ظاہری علما ء خودا ندھے ہیں ان تعلیمات کو سمجھا نہیں سکتے بلکہ وہ تو اپنے شاگردوں کو ہر وقت اسلام کی عظمت سے بدظن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ باتیں آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں اور ان کے ایسے بیانات سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ گویا اسلام اب زندہ مذہب نہیں اور اس کی حقیقی تعلیم پانے کے لئے اب کوئی بھی راہ نہیں رہی.لیکن ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالی کا اپنی مخلوق کے لئے یہ ارادہ ہے کہ وہ ہمیشہ قرآن کریم کے چشمہ سے ان کو پانی پلا دے تو بے شک وہ اپنے ان قوانین قدیمہ کی رعائیت کرئے گا جو قدیم سے کرتا آیا ہے.اور اگر قرآن کی تعلیم اسی حد تک محدود ہے.جس حد تک ایک تجربہ کار اور لطیف الفکر فلاسفر کی تعلیم محدود ہو سکتی ہے اور آسمانی تعلیم جو محض حال کے نمونہ سے سمجھائی جاتی ہے اس میں نہیں تو پھر نعوذ باید قرآن کا آنالا حاصل ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اگر کوئی ایک دم کے واسطے بھی اس مسئلہ میں فکر کرے کہ انبیا کی تعلیم اور حکیموں کی تعلیم میں بصورت فرض کرنے صحت ہر دو تعلیم کے مابہ الامتیاز کیا ہے تو بجز اس کے اور کوئی ما بہ الامتیا ز قرار نہیں دے سکتا کہ انبیا کی تعلیم کا بہت سا حصہ فوق العقل ہے جو بجز حالی تفہیم اور تعلیم کے اور کسی راہ سے سمجھ ہی نہیں آسکتا.اور اس حصہ کو وہی لوگ دلنشین کراسکتے ہیں جو صاحب حال ہوں مثلاً ایسے ایسے مسائل کہ اس طرح پر فرشتے جان نکالتے ہیں اور پھر یوں آسمان پر لے جاتے ہیں.اور پھر قبر میں حساب اس طور پر ہوتا ہے اور بہشت ایسا ہے اور دوزخ ایسا.اور پل صراط ایسا.اور عرش اللہ کو چار فرشتے اٹھا رہے ہیں اور پھر قیامت کو آٹھا اٹھائیں گے اور اسطرح پر خدا اپنے بندوں پر وحی نازل کرتا ہے.یا مکاشفات کا دروازہ ان پر کھولتا ہے.یہ تمام حالی تعلیم ہے.اور مجرد قیل و قال سے سمجھ نہیں آسکتی اور جبکہ یہ حال ہے.تو پھر میں دوبارہ کہتا ہوں.کہ اگر اللہ جلشانہ نے اپنے بندوں کے لئے یہ ارادہ فرمایا ہے.کہ اس کی کتاب کا یہ حصہ تعلیم ابتدائی زمانہ پر محدود نہ رہے.تو بے شک اس نے یہ بھی انتظام کیا ہوگا کہ اس حصہ کی تعلیم کے معلم بھی ہمیشہ آتے رہیں کیونکہ حصہ حالی تعلیم کا بغیر تو سط ان معلموں کے جو مرتبہ حال پر پہنچ گئے ہوں ہرگز سمجھ نہیں آسکتا اور دنیا ذری ذری بات پر ٹھوکر میں کھاتی ہے پس اگر اسلام میں بعد آنحضرت ﷺ ایسے معلم نہیں آئے جن میں ظلمی طور پر نور نبوت تھا تو گویا خدا تعالی نے عمدا قرآن کو ضائع کیا کہ اس کے حقیقی اور واقعی طور پر سمجھنے والے بہت جلد دنیا سے اٹھا لئے مگر یہ بات اس کے وعدہ کے برخلاف ہے، جیسا کہ وہ فرماتا ہے.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّالَهُ لَحَافِظُونَ - (الحجر: 10) یعنی ہم نے ہی قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اسکی حفاظت کرتے رہیں گے.شہادت القرآن.رخ جلد 6 صفحہ 348 تا 350)
65 65 راز قرآں را کجا فہمد کے بہر نورے نوری باید ہے تب تک کوئی قرآنی اسرار کو کیونکر سمجھ سکتا ہے نور کے سمجھنے کے لیے بہت سا نور باطن ہونا چاہیے ایں نہ من قرآن ہمیں فرموده است اندرو شرط تظهر بوده است ہے یہ میری بات نہیں بلکہ قرآن نے بھی یہی فرمایا ہے قرآن کو سمجھنے کے لیے پاک ہونے کی شرط.گر بقرآن ہر کسے را راه بود پس چرا شرط تظهر را فزود (لايمته الام شهرون) اگر ہر شخص قرآن کو (خودہی سمجھ سکتا.تو خدا نے تطہر کی شرط کیوں زاید لگائی نور داند را کے کو نور شد واز حجاب سرکشی ها دور نور کو وہی شخص سمجھتا ہے جو خود نور ہو گیا ہو اور سرکشی کے حجابوں سے حقیقی معلم قرآن کی صفات دور ہو گیا شد ہو (سراج منیر.رخ جلد 12 صفحہ 96) اور یہ کہنا کہ ہمارے لئے قرآن اور احادیث کافی ہیں اور صحبت صادقین کی ضرورت نہیں یہ خود مخالفت تعلیم قرآن ہے کیونکہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے وَكُونُوامَعَ الصَّادِقِينَ (التوبہ: 119) اور صادق وہ ہیں جنہوں نے صدق کو علی وجہ البصیرت شناخت کیا اور پھر اس پر دل و جان سے قائم ہو گئے اور یہ اعلی درجہ بصیرت کا بجز اس کے ممکن نہیں کہ ساوی تائید شامل حال ہو کر اعلی مرتبہ حق الیقین تک پہنچادیوے.پس ان معنوں کو کر کے صادق حقیقی انبیاء اور رسل اور محدث اولیاء کاملین ململین ہیں جن پر آسمانی روشنی پڑی اور جنہوں نے خدا کو اسی جہان میں یقین کی اور آنکھوں سے دیکھ لیا اور آیت موصوفہ بالا بطور اشارت ظاہر کر رہی ہے کہ دنیا صادقوں کے وجود سے بھی خالی نہیں ہوتی کیونکہ دوام حكم كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ دوام وجود صادقین کو تلزم ہے.(شہادت القرآن - رخ جلد 6 صفحه 347) اے اسیر عقل خود بر جستئی خود کم بناز کیں سپہر بو العجائب چوں تو بسیار آورد اے اپنی عقل کے قیدی اپنی ہستی پر ناز نہ کر کہ یہ عجیب آسمان تیری طرح کے بہت سے آدمی لا یا کرتا ہے غیر را هرگز نمی باشد گذر در کوئے حق ہر کہ آید ز آسمان او راز آن یار آورد خدا کے کوچہ میں غیر کو ہرگز دخل نہیں جو آسمان سے آتا ہے وہی اس یار کے اسرار ہمراہ لاتا ہے خود بخود فهمیدن قرآن گمان باطل است هر که از خود آورد او نجس و مُردار آورد آپ ہی آپ قرآن کو سمجھ لینا ایک غلط خیال ہے جو شخص اپنے پاس سے اس کا مطلب پیش کرتا ہے وہ گندگی اور مردار ہی پیش کرتا ہے.بركات الدعا.رخ جلد 6 صفحہ 5)
66 چودہویں فصل اغراض بعثت حضرت اقدس کے اعتبار سے مسیح موعود کی آمد کا مقصد حضرت مسیح علیہ السلام جیسے اپنی کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ توریت کو پورا کرنے آئے تھے اسی طرح پر محمدی سلسلہ کا صیح اپنی کوئی شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ قرآن شریف کے احیاء کے لئے آیا ہے اور اس تکمیل کے لئے آیا ہے جو تکمیل اشاعت ہدایت کہلاتی ہے.تحمیل اشاعت ہدایت کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ پر جو تمام نعمت اور اکمال الدین ہوا تو اس کی دو صورتیں ہیں.اول تکمیل ہدایت.دوسری تکمیل اشاعت ہدایت.تکمیل ہدایت من كل الوجوه آپ کی آمد اول سے ہوئی اور تکمیل اشاعت ہدایت آپ کی آمد ثانی سے ہوئی کیونکہ سورۃ جمعہ میں جو اخَرِيْنَ مِنْهُمْ (الجمہ: 4) والی آیت آپ کے فیض اور تعلیم سے ایک اور قوم کے تیار کرنے کی ہدایت کرتی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ایک بعثت اور ہے اور یہ بعثت بروزی رنگ میں ہے جو اس وقت ہو رہی ہے پس یہ وقت تکمیل اشاعت ہدایت کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اشاعت کے تمام ذریعے اور سلسلے مکمل ہو رہے ہیں چھاپہ خانوں کی کثرت اور آئے دن ان میں نئی باتوں کا پیدا ہونا ، ڈاکخانوں ، تار برقیوں ،ریلوں ، جہازوں ، کا اجرا اور اخبارات کی اشاعت ، ان سب امور نے مل ملا کر دنیا کو ایک شہر کے حکم میں کر دیا ہے پس یہ ترقیاں بھی دراصل آنحضرت ﷺ کی ہی ترقیاں ہیں کیونکہ آپ کی کامل ہدایت کے کمال کا دوسرا جز و تکمیل اشاعت ہدایت پورا ہورہا ہے.اور یہ اسی کے موافق ہے جیسے مسیح نے کہا تھا کہ میں توریت کو پورا کرنے آیا ہوں.اور میں کہتا ہوں کہ میرا ایک کام یہ بھی ہے تکمیل اشاعت ہدایت کروں.غرض یہ عیسوی مماثلت بھی ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 361-362) الہام حضرت اقدس مسلمان را چو دور خسروی آغاز کردند مسلمان باز کردند جب (ہمارا) شاہی زمانہ شروع ہوا تو مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان کیا گیا مقام او مبین از راه تحقیر بدورانش رسولاں ناز کردند اس کے درجہ کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھ کہ رسولوں نے اس کے زمانے پر ناز کیا ہے (مصرع نمبرا تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه 601 665 ) ( مصرع نمبر ۲ // (604 // //
67 حضرت اقدس قرآن کریم کے پوشیدہ خزانوں کو ظاہر کرنے کیلئے مبعوث ہوئے ہیں الهام حضرت اقدس كُنتُ كَنرًا مَّحْفِيًا فَا حُبَيْتُ أَنْ أَعْرَفَ - إِنَّ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا - وَإِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا - آهذَا الَّذِي بَعَتَ اللهُ - قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ إِنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَةٌ وَّاحِدٌ - وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ - وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ پیر سراج الحق صاحب نعمانی فرماتے ہیں.” میں نے ایک روز حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت كنت كنزا.....کے معانی میں صوفیاء نے اور نیز دیگر علماء نے بہت کچھ زور لگائے.آپ فرما ئیں کہ اس جملہ مبارک کے کیا معنی ہیں.فرمایا.آسان معنی اس کے یہی ہیں کہ جب دنیا میں ضلالت اور گمراہی اور کفر و شرک اور بدعات و رسومات مخترعات پھیل جاتی ہیں.اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور اُس تک پہنچنے کی راہیں گم ہو جاتی ہیں.اور دل سخت اور خشیت اللہ سے خالی ہو جاتے ہیں.تو ایسے وقت اور ایسے زمانہ میں خدا تعالی مخفی خزانہ کی طرح ہو جاتا ہے.تو اس کے بعد خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ میں پھر دنیا پر ظاہر ہوؤں.اور دنیا مجھے پہچانے.(بقیہ حاشیہ ) خدا تعالیٰ کسی اپنے بندہ کو اپنے بندوں میں سے چن لیتا ہے اور اُس کو خلعت خلافت عطا فرماتا ہے اُس کے ذریعہ سے وہ شناخت کیا جاتا ہے.وہ پسندیدہ اور برگزیدہ بندہ خدا تعالیٰ کی محبت از سر نو خالی دلوں میں بھرتا اور اُس کی معرفت کے اسرار لوگوں پر ظاہر کرتا ہے.ہر ایک زمانہ میں ابتدائے آفرینش سے یہی سنت اللہ اور یہی طریقہ اللہ رہا ہے.بالآخر ہمارے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا.کہ لوگ معرفت الہی کوکھو بیٹھے.صفات الہی میں کچھ کا کچھ اپنی طرف سے تصرف کیا.اسماء اللہ سے غافل ہو گئے.اس کی کتابوں اور صحیفوں کو ترک کر بیٹھے.اس کے بد اور شریک بنالئے.پس خدا تعالیٰ پوشیدہ خزانہ کی طرح ہو گیا.تو خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنی معرفت اور محبت دے کر بھیجا.تا کہ دنیا کوراہ راست پر لگایا جاوے.پس اسی واسطے ہم تحریر سے تقریر سے توجہ سے ، دعا سے، اپنے چال چلن سے پر ہیبت پیشگوئیوں اور اسرار غیب سے جو خدا نے ہمیں عطا کئے.اور معارف و حقائق و دقائق قرآنی سے رات دن لگے ہوئے ہیں.اور ہم کیا خدا تعالیٰ نے ہمارے سب کا روبار اور اعضا اور ہاتھ اور زبان اور ہر ایک حرکت و سکون کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے جس طرح اس کی مرضی ہوتی ہے.وہ ہمیں چلاتا ہے اور ہم اُسی طرح چلتے ہیں.ہمارا اس میں کچھ اختیار نہیں.“ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 90-89 ) باغ مرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار مرہم عیسی نے دی تھی محض عیسی کو شفا میری مرہم سے شفا پائے گا ہر ملک و دیار جھانکتے تھے نور کو وہ روزن دیوار سے لیک جب در کھل گئے پھر ہو گئے شپر شعار وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار ( در نشین اردو ) ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 147)
68 حضرت اقدس قرآن کریم کے حقیقی معانی اور منشاء کو ظاہر کرنے کیلئے مبعوث ہوئے ہیں وَلَقَدْ جِئْتُهُمْ بِكِتَب فَصَّلْتُهُ عَلى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ 0 (الاعراف: 53) فَصَّلْنَهُ عَلَى عِلْمٍ.وہ ( قرآن کریم مفصل کتاب ے.عظمتیں اور خوبیاں کہ جو قرآن کریم کی نسبت بیان فرمائی گئیں احادیث کی نسبت ایسی تعریفوں کا کہاں ذکر ہے؟ پس میرا مذہب فرقہ ضالہ نیچریہ" کی طرح یہ نہیں ہے کہ میں عقل کو مقدم رکھ کر قال اللہ اور قال الرسول پر کچھ نکتہ چینی کروں.ایسے نکتہ چینی کرنے والوں کوملحد اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں.بلکہ میں جو کچھ آنحضرت ﷺ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہم کو پہنچایا ہے اس سب پر ایمان لاتا ہوں.صرف عاجزی اور انکسار کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ قرآن کریم ہر یک وجہ سے احادیث پر مقدم ہے اور احادیث کی صحت و عدم پر کھنے کے لئے وہ محک ہے اور مجھ کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی اشاعت کے لئے مامور کیا ہے تا میں جو ٹھیک ٹھیک منشاء قرآن کریم کا ہے لوگوں پر ظاہر کروں.الحق مباحثہ لدھیانہ رخ جلد 4 صفحہ 30) الہام حضرت اقدس يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللهُ فِيكَ - مَا رَمَيْتَ إِذْرَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَا نَذِرَابَاءُ هُمْ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ - قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ ) یعنی اے احمد ! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی.جو کچھ تو نے چلایا تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا.وہ خدا ہے جس نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی اس کے حقیقی معنوں پر تجھے اطلاع دی تا کہ تو ان لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے.اور تا کہ مجرموں کی راہ کھل جائے اور تیرے انکار کی وجہ سے ان پر تجت پوری ہو جائے.ان لوگوں کو کہدے کہ میں خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہوں اور میں وہ ہوں جو سب سے پہلے ایمان لایا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 66) 0 خدائے تعالیٰ نے اس غرض سے اس عاجز کو بھیجا ہے کہ تاروحانی طور پر مردے زندہ کئے جائیں.بہروں کے کان کھولے جائیں اور مجز وموں کو صاف کیا جائے اور جو قبروں میں نہیں باہر نکالے جائیں اور نیز یہ بھی وجہ مماثلت ہے کہ جیسے مسیح ابن مریم نے انجیل میں توریت کا صحیح خلاصہ اور مغز اصلی پیش کیا تھا اسی کام کے لئے یہ عاجز مامور ہے تا غافلوں کے سمجھانے کے لئے قرآن شریف کی اصلی تعلیم پیش کی جائے مسیح صرف اس کام کیلئے آیا تھا کہ توریت کے احکام شد ومد کے ساتھ ظاہر کرے.ایسا ہی یہ عاجز بھی اسی کام کیلئے بھیجا گیا ہے کہ تا قرآن شریف کے احکام بہ وضاحت بیان کر دیوے.فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مسیح موسیٰ کو دیا گیا تھا اور یہ مسیح مثیل موسیٰ کو عطا کیا گیا.(ازالہ اوہام.رخ جلد 3 صفحہ 103) حضرت مسیح موعود علیہ السلام : عام لوگ جو بیان کرتے ہیں یہ منشا قرآن کریم کا ہرگز نہیں ہے اور اس سے لوگوں کو دھوکا لگا ہے.محمد عبدالحق صاحب: اسلام کے عقائد ہم تک عیسائیوں کے ذریعہ پہنچے ہیں اور اسلام کا اصل چہرہ دیکھنے کے واسطے میں باہر نکلا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ خدا کا بڑا فضل ہے اور خوش قسمتی آپ کی ہے کہ آپ ادھر آ نکلے.یہ بات واقعی سچ ہے کہ جو مسلمان ہیں یہ قرآن شریف کو بالکل نہیں سمجھتے لیکن اب خدا کا ارادہ ہے کہ تیج معنی قرآن کے ظاہر کرے خدا نے مجھے اسی لئے مامور کیا ہے اور میں اس کے الہام اور وحی سے قرآن شریف کو سمجھتا ہوں.(ملفوظات.جلد سوم صفحہ 450)
69 حضرت اقدس قرآن کریم پر اعتراضات کو دور کرنے کیلئے مبعوث ہوئے ہیں یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی بے حد عنایت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ میرے جیسے عاجز انسان کے ہاتھ سے اس کے دین کی عزت ظاہر ہو.میں نے ایک وقت ان اعتراضات اور حملات کو شمار کیا تھا جو اسلام پر ہمارے مخالفین نے کئے ہیں تو ان کی تعداد میرے خیال اور اندازہ میں تین ہزار ہوئی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اب تو اور بھی تعداد بڑھ گئی ہو گی.کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اسلام کی بناء ایسی کمزور باتوں پر ہے کہ اس پر تین ہزار اعتراض وارد ہو سکتا ہے.نہیں ایسا ہر گز نہیں.یہ اعتراضات تو کوتاہ اندیشوں اور نادانوں کی نظر میں اعتراض ہیں مگر میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے جہاں ان اعتراضات کو شمار کیا وہاں یہ بھی غور کیا ہے کہ ان اعتراضات کی تہ میں دراصل بہت ہی نادر صداقتیں موجود ہیں جو عدم بصیرت کی وجہ سے معترضین کو دکھائی نہیں دیں اور در حقیقت میں یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جہاں نابینا معترض آکر اٹکا ہے.وہیں حقائق و معارف کا مخفی خزانہ رکھا ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے کہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا پر ظاہر کروں اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جوان درخشاں جواہرات پر تھو پا گیا ہے.اس سے ان کو پاک صاف کروں.خدا تعالیٰ کی غیرت اس وقت بڑی جوش میں ہے کہ قرآن شریف کی عزت کو ہر ایک خبیث دشمن کے داغ اعتراض سے منزہ و مقدس کرے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 38) مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت ﷺ کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر ان کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ان کی تعداد اس قدر ہو کہ روئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے.اس قدرصورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں.چونکہ اسلام کی سخت تو ہین کی گئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 9) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرَهَ الْمُشْرِكُونَ - (الصف:10) جس قدر حق کے مقابل پر اب معقول پسندوں کے دلوں میں اوہام باطلہ پیدا ہوتے ہیں اور عقلی اعتراضات کا ایک طوفان برپا ہوا ہے اس کی نظیر کسی زمانہ میں پہلے زمانوں میں سے نہیں پائی جاتی.لہذا ابتداء سے اس امر کو بھی کہ ان اعتراضات کا براہین شافیه و کافیہ سے بحوالہ آیات قرآن مجید بکلی استیصال کر کے تمام ادیان باطلہ پر فوقیت اسلام ظاہر کر دی جائے اسی زمانہ پر چھوڑا گیا تھا کیونکہ پیش از ظهور مفاسد ان مفاسد کی اصلاح کا تذکرہ محض بے محل تھا.اسی وجہ سے حکیم مطلق نے ان حقائق اور معارف کو اپنی کلام پاک میں مخفی رکھا اور کسی پر ظاہر نہ کیا جب تک کہ ان کے اظہار کا وقت آگیا.ہاں اس وقت کی اس نے پہلے سے اپنی کتاب عزیز میں خبر دے رکھی تھی جو آیت هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی میں صاف اور کھلے طور پر مرقوم ہے سواب وہی وقت ہے اور ہر ایک شخص روحانی روشنی کا محتاج ہورہا ہے.سوخدائے تعالیٰ نے اس روشنی کو دے کر ایک شخص کو دنیا میں بھیجا.وہ کون ہے؟ یہی ہے جو بول رہا ہے.(ازالہ اوہام - رخ جلد 3 صفحہ 515)
70 پندرہویں فصل دعوی مجددیت کے اعتبار سے الہامات حضرت اقدس اور پھر جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہے.اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ: الرحمن علم القرآن لتنذر قوماً ما أنذر آباء هم ولتستبين سبيل المجرمين.قل انى أمرتُ وانا اوّل المؤمنين.یعنی خدا نے تجھے قرآن سکھلایا اور اسکے صحیح معنے تیرے پر کھول دئے.یہ اس لئے ہوا کہ تا تو ان لوگوں کو بد انجام سے ڈراوے.کہ جو باعث پشت در پشت کی غفلت اور نہ متنبہ کئے جانے کے غلطیوں میں پڑ گئے اور تا ان مجرموں کی راہ کھل جائے کہ جو ہدایت پہنچنے کے بعد بھی راہ راست کو قبول کرنا نہیں چاہتے ان کو کہہ دے کے میں مامور من اللہ اور اول المومنین ہوں.اور یہ الہام براہین احمدیہ میں چھپ چکا ہے جو اُنہی دنوں میں جس کو آج اٹھارہ سال کا عرصہ ہوا ہے.میں نے تالیف کر کے شائع کی تھی.اس کتاب کے الہامات پر نظر غور ڈالنے سے ہر ایک کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا نے کیوں اور کس غرض سے مجھے اس خدمت پر مامور کیا اور کیا حالت موجودہ زمانہ کی اور صدی کا سر اس بات کو چاہتا تھا یا نہیں کہ کوئی شخص! س ایسے غربت اسلام کے زمانہ اور کثرت بدعات اور سخت بارش بیرونی حملوں کے دنوں میں خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید اور تجدید دین کے لئے آوے.(کتاب البرية - رخ جلد 13 صفحه 202-201) هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْخَيْتَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ اللہ وہ ذات کریم ہے کہ جو نا اُمیدی کے پیچھے مینہ برساتا ہے.اور اپنی رحمت کو دنیا میں پھیلاتا ہے یعنی عین ضرورت کے وقت تجدید دین کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس کو چاہتا ہے بندوں میں سے چن لیتا ہے.( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه 101 )
71 ضرورت تجدید دین وَوَاللهِ إِنِّي جِئْتُ مِنْهُ مُجَدِّدًا بِوَقْتِ أَضَلَّ النَّاسَ غُوْلٌ مُّسَجِّرُ اور خدا کی قسم ! یقیناً میں اس کی طرف سے مجدد ہو کر آیا ہوں ایسے وقت میں کہ قابو کر لینے والے دیو نے لوگوں کو گمراہ کر دیا تھا وَعَلَّمَنِي رَبِّى عُلُوْمَ كِتَابِهِ وَأَعْطِيتُ مِمَّا كَانَ يُخْفَى وَيُسْتَرُ مجھے میرے رب نے اپنی کتاب کے علوم سکھائے اور مجھے وہ علم دیا گیا جو مخفی اور مستور تھا وَأَسْرَارُ قُرآنِ مَجِيدِ تَبَيَّنَتْ عَلَيَّ وَيَسَّرَلِى عَلِيمٌ مُّيَسِرُ اور قرآن مجید کے بھید مجھ پر ظاہر ہو گئے.آسانی پیدا کرنے والے خدائے علیم نے میرے لئے آسانی پیدا کردی أَلَا إِنَّمَا الْأَيَّامُ رَجَعَتْ إِلَى الْهُدَى هَنِيأَنَّكُمْ بَعْنِي فَبَشُوا وَابْشِرُوا سُن لو! زمانہ ہدایت کی طرف لوٹ آیا.مبارک ہو تمہارے لئے میری بعثت.تم خوش ہو جاؤ اور خوشی مناؤ (حمامة البشرى - رخ جلد 7 صفحہ 334 ) والصلواة والسّلام على خاتم الرسل الذي اقتضى ختم نبوته ان تبعث مثل الانبياء من امته وان تنوّر وتثمر الى انقطاع هذا العالم اشجاره ولا تعفّى أثاره ولا تغيب تـذكـارهـ فلاجل ذلك جرت عادة الله انه يرسل عبادا من الذين استطابهم لتجديد هذا الدين ويعطيهم من عنده علم اسرار القرآن ويُبلغهم الى حق اليقين ليظهروا معارف الحق على الخلق بسلطانها وقوتها ولمعانها اور صلوۃ اور سلام خاتم رسل پر جس کی نبوت کے ختم نے چاہا کہ آپ کی اُمت سے نبیوں کی مانند لوگ پیدا ہوں.اور آپ کے درخت زمانہ کے آخر تک پھلتے پھولتے رہیں.اور نہ آپ کے نشان مٹائے جائیں.اور نہ آپ کی یاد دُنیا سے بھول جائے.اسی لئے خدا کی عادت ہے کہ وہ ایسے بندوں کو بھیجا کرتا ہے جنہیں اس دین کی تجدید کے لئے پسند فرما لیتا ہے اور انہیں اپنے حضور سے قرآن کے اسرار عطا کرتا.اور حق الیقین تک پہنچاتا ہے.اسلئے کہ وہ لوگوں پر حق کے معارف کو پوری قوت اور غلبہ اور چمک کے رنگ میں ظاہر کریں.الھدی.رخ جلد 18 صفحہ 248-247 ) نور دل جاتا رہا اک رسم دیں کی رہ گئی پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلح دیں کیا بکار راگ وہ گاتے ہیں جسکو آسماں گا تا نہیں وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلاف شہریار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 132)
72 دعوی مجددیت حضرت اقدس خدا تعالیٰ نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر اس تجدید ایمان اور معرفت کے لئے مبعوث فرمایا ہے اور اس کی تائید اور فضل سے میرے ہاتھ پر آسمانی نشان ظاہر ہوتے ہیں اور اس کے ارادہ اور مصلحت کے موافق دُعائیں قبول ہوتی ہیں اور غیب کی باتیں بتلائی جاتی ہیں.اور حقائق اور معارف قرآنی بیان فرمائے جاتے اور شریعت کے معضلات و مشکلات حل کئے جاتے ہیں اور مجھے اس خدائے کریم و عزیز کی قسم ہے جو جھوٹ کا دشمن اور مفتری کا نیست و نابود کرنے والا ہے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اور اس کے بھیجنے سے عین وقت پر آیا ہوں اور اس کے حکم سے کھڑا ہوا ہوں.اور وہ میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے.اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا اور نہ میری جماعت کو تباہی میں ڈالیگا جب تک وہ اپنا تمام کام پورا نہ کرلے جس کا اُس نے ارادہ فرمایا ہے.اُس نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر تکمیل نور کے لئے مامور فرمایا.اربعین نمبر 2 - رخ جلد 17 صفحہ 348) بخدمت امراء ور یکسان و منعمان ذی مقدرت و والیان ارباب حکومت و منزلت بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ( برکات الدعا.رخ جلد 6 صفحہ 34) اے بزرگان اسلام ! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں میں تمام فرقوں سے بڑھ کر نیک ارادے پیدا کرے اور اس نازک وقت میں آپ لوگوں کو اپنے پیارے دین کا سچا خادم بناوے.میں اس وقت محض اللہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے چودھوں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں.سو میں ان ہی باتوں کا مجد دہوں اور یہی کام ہیں جن کے لئے میں بھیجا گیا ہوں.اور منجملہ ان اُمور کے جو میرے مامور ہونے کی علت غائی ہیں مسلمانوں کے ایمان کو قوی کرتا ہے.اور انکو خدا اور اسکی کتاب اور اسکے رسول کی نسبت ایک تازہ یقین بخشنا.اور یہ طریق ایمان کے تقویت کا دوطور سے میرے ہاتھ سے ظہور میں آیا ہے.اول قرآن شریف کی تعلیم کی خوبیاں کرنی اور اسکے اعجازی حقائق اور معارف اور انوار اور برکات کو ظاہر کرنے سے جن سے قرآن شریف کا منجانب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے.چنانچہ میری کتابوں کو دیکھنے والے اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ کتابیں قرآن شریف کے عجائب اسرار اور نکات سے پر ہیں اور ہمیشہ یہ سلسلہ جاری ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جسقد ر مسلمانوں کا علم قرآن شریف کی نسبت ترقی کریگا اسیقد رانکا ایمان بھی ترقی پذیر ہوگا.اور دوسرا طریق جو مسلمانوں کا ایمان قوی کرنے کے لئے مجھے عطا کیا گیا ہے تائیدات سماوی اور دعاؤں کا قبول ہونا اور نشانوں کا ظاہر ہونا ہے.چنانچہ اب تک جو نشان ظاہر ہو چکے ہیں وہ اس کثرت سے ہیں جن کے قبول کرنے سے کسی منصف کو گریز کی جگہ نہیں.(کتاب البریہ - رخ جلد 13 صفحہ 294 تا 297 حاشیہ )
73 مسلمانوں کو نصیحت میں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحت کہتا ہوں کہ اسلام کے لئے جاگو کہ اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے.اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہے اور میں اس لئے آیا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے علم قرآن بخشا ہے اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کئے ہیں سو میری طرف آؤ تا اس نعمت سے تم بھی حصہ پاؤ.مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.کیا ضرور نہ تھا کہ ایسی عظیم الفتن صدی کے سر پر جس کی کھلی کھلی آفات ہیں ایک مجد د کھلے کھلے دعوی کے ساتھ آتا.سو عنقریب میرے کاموں کے ساتھ تم مجھے شناخت کرو گے.ہر ایک جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا اس وقت کے علماء کی نا مجھی اس کی سد راہ ہوئی.آخر جب وہ پہچانا گیا تو اپنے کاموں سے پہچانا گیا.کہ تلخ درخت شیر میں پھل نہیں لاسکتا اور خدا غیر کو وہ برکتیں نہیں دیتا جو خاصوں کو دی جاتی ہیں.اے لوگو!.اسلام نہایت ضعیف ہو گیا ہے اور اعدائے دین کا چاروں طرف سے محاصرہ ہے.اور تین ہزار سے زیادہ مجموعہ اعتراضات کا ہو گیا ہے.ایسے وقت میں ہمدردی سے اپنا ایمان دکھاؤ.اور مردان خدا میں جگہ پاؤ.والسلام علیٰ من اتبع لهدى حقیقی تجدید دین بركات الدعا.رخ جلد 6 صفحه 37-36) صرف رسمی اور ظاہری طور پر قرآن شریف کے تراجم پھیلانا یا فقط کتب دینیہ اور احادیث نبویہ کو اردویا فارسی میں ترجمہ کر کے رواج دینا یا بدعات سے بھرے ہوئے خشک طریقے جیسے زمانہ حال کے اکثر مشائخ کا دستور ہورہا ہے سکھلانا یہ امور ایسے نہیں ہیں جن کو کامل اور واقعی طور پر تجدید دین کہا جائے بلکہ مؤخرالذکر تو شیطانی راہوں کی تجدید ہے اور دین کا رہزن.قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کو دنیا میں پھیلانا بے شک عمدہ طریق ہے مگر رسمی طور پر اور تکلف اور فکر اور خوض سے یہ کام کرنا اور اپنا نفس واقعی طور پر حدیث اور قرآن کا مورد نہ ہونا ایسی ظاہری اور بے مغز خدمتیں ہر ایک با علم آدمی کر سکتا ہے اور ہمیشہ جاری ہیں ان کو مجد دیت سے کچھ علاقہ نہیں یہ تمام امور خدا تعالیٰ کے نزدیک فقط استخوان فروشی ہے اس سے بڑھکر نہیں اللہ جل شانہ فرماتا ہے لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ الله أَن تَقُولُوا مَالَا تَفْعَلُونَ (الصف:4،3) اور فرماتا ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ يَضُرُّ كُمْ مَّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ (المائدة: 106).اندھا اندھے کو کیا راہ دکھا ویگا اور مجز وم دوسروں کے بدنوں کو کیا صاف کریگا تجدید دین وہ پاک کیفیت ہے کہ اول عاشقانہ جوش کے ساتھ اس پاک دل پر نازل ہوتی ہے کہ جو مکالمہ الہی کے درجہ تک پہنچ گیا ہو پھر دوسروں میں جلد یا دیر سے اسکی سرایت ہوتی ہے جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخوان فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اللہ ے اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں خدا تعالیٰ انہیں ان تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں اور ان کی باتیں از قبیل جوشیدن ہوتی ہیں نہ محض از قبیل پوشیدن اور وہ حال سے بولتے ہیں نہ مجرد قال سے اور خدا تعالیٰ کے الہام کی مجتبی اُنکے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کے وقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور انکی گفتار اور کردار میں دنیا پرستی کی ملوٹی نہیں ہوتی کیونکہ وہ بکلی مصفا کئے گئے اور تمام و کمال کھینچے گئے ہیں.منہ.(فتح اسلام - رخ جلد 3 صفحہ 6-7 حاشیہ)
74 کسیکہ دل زپے، خلق سو زدش شب و روز محقق است که او خادم الوری باشد جس کا دل مخلوق کی خاطر دن رات بچین رہے یہ ثابت شدہ بات ہے کہ وہی لوگوں کا خادم ہوا کرتا ہے اگر زملت ماظن شاں جدا باشد حادثہ بنیاد دیں زجا ببرد حادثات کی غارتگری دین کی بنیا د کو ہلا دے اگر ہمارے مذہب سے ان لوگوں کا سایہ الگ ہو جائے نهیب ازین بود که چو سال صدی تمام شود بر آید آنکه بدین نائب خدا باشد یہی وجہ ہے کہ جب صدی کے سال ختم ہوتے ہیں تو ایسا مرد ظاہر ہوتا ہے جو دین کیلے خدا کا قائم مقام ہوتا ہے رسید مژده زنیم کہ من ہماں مردم که او مجدد این دین و رہنما باشد مجھے غیب سے یہ خوشخبری ملی ہے کہ میں وہی انسان ہوں جو اس دین کا مجد داور راہ نما ہے لوائے ماپنے ہر سعید خواهد بود ندائے فتح نمایاں بنام ما باشد ہمارا جھنڈا ہر خوش قسمت انسان کی پناہ ہو گا اور کھلی کھلی فتح کا شہرہ ہمارے نام پر ہوگا عجب مدار اگر خلق سوئے ما بدوند کہ ہر کجا کہ غنی می بود گدا باشد اگر مخلوقات ہماری طرف دوڑ کر آئے تو تعجب نہ کر کہ جہاں دولتمند ہوتا ہے وہاں فقیر جمع ہو جاتے ہیں گلے کہ روئے خزاں را گہے نخوابد دید بباغ ماست اگر قسمتت رسا باشد وہ پھول جو کبھی خزاں کا منہ نہیں دیکھے گا وہ ہمارے باغ میں ہے اگر تیری قسمت یاور ہو منم مسیح بیانگ بلند می گویم منم خلیفہ شا ہے کہ بر سما باشد میں بلند آواز سے کہتا ہوں کہ میں ہی مسیح ہوں اور میں ہی اس بادشاہ کا خلیفہ ہوں جو آسمان پر ہے مقدر است که روزے بریں ادیم زمیں ہزارہا دل و جاں بررهم فدا باشد یہ بات مقدر ہو چکی ہے کہ ایک دن روئے زمین پر ہزاروں جان و دل میری راہ میں قربان ہونگے در نمین فارسی صفحہ 267 ) ( تریاق القلوب.رخ جلد 15 صفحہ 132)
75 سولہویں فصل حکم اور عدل ہونے کے اعتبار سے فرمان حضرت اقدسن میرے پاس آؤ اور میری سنو ! میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ میری حیثیت سُننِ انبیاء کی سی حیثیت ہے.مجھے ایک سماوی آدمی مانو.پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزا ئیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں، ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں.جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حکم بن کر آیا ہے.جو معنے قرآن شریف کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوں گے اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی حدیث صحیح ہوگی.( ملفوظات جلد اول صفحه 399) نزول حکم کا وعدہ قرآن حکیم میں یہی وعدہ قرآن میں بھی دیا گیا تھا جسکی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ 66 آخرين منهم لما يلحقوابهم “ (سورة الجمعہ (4).اور حدیثوں میں اسکی بہت تفصیل ہے چنانچہ کہ یہ امت بھی اسی قدر فرقے ہو جائیں گے جسقدر کہ یہود کے فرقے ہوئے تھے.اور ایک دوسرے کی تکذیب اور تکلفی کرے گا.اور یہ سب لوگ عناد اور بغض باہمی میں ترقی کرینگے.اُسوقت تک کہ مسیح موعود حکم ہو کر دنیا میں آوے.اور جب وہ حکم ہو کر آئے گا.تو بغض اور شحناء کو دور کر دے گا.اور اُس کے زمانہ میں بھیڑیا اور بکری ایک جگہ جمع ہو جائینگے.چنانچہ یہ بات تمام تاریخ جاننے والوں کو معلوم ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایسے ہی وقت میں آئے تھے کہ جب اسرائیلی قوموں میں بڑا تفرقہ پیدا ہو گیا تھا.اور ایک دوسرے کے مکفر اور مکذب ہو گئے تھے.اسی طرح یہ عاجز بھی ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب اندرونی اختلافات انتہا تک پہنچ گئے اور ایک فرقہ دوسرے کو کافر بنانے لگا اس تفرقہ کے وقت میں اُمت محمدیہ کو ایک حکم کی ضرورت تھی سوخدا نے مجھے حکم کرکے بھیجا ہے.(کتاب البرئیہ..جلد 13 صفحہ 256 257 ) رخ خدائے کہ وعدہ حکم از راه رحم ولطف هم وہ خدا جس نے ایک حکم کا وعدہ اپنے لطف رحم کی راہ سے کیا تھا آں او بدانست از ازل که انام داد کنند از اورام وہ ازل سے یہ جانتا تھا کہ مخلوقات شک وشبہات میں پڑکر اپنا راستہ بھول جائیگی ورنہ کار چه خواهد بود ره نمائی بمرد راه سور چه ورنہ پھر حکم کا کام کیاہوگا ایک راستے پر چلنے والے انسان کو راہ دکھانے کا کیا فائدہ راه کرده باید تا بدو راه راست بنماید حکم تو گمراہ کے لئے درکار ہوتا ہے تا کہ وہ اس کو سیدھا رستہ دکھائے این مگو ما خودیم عالم دیں تو به کن از مکالمات چنیں ایسی باتوں تو یہ نہ کہہ ہم خود دین کے عالم ہیں کور را کور کے نماید راه اندھے کو اندھا کس طرح راستہ دکھا سکتا ہے سے توبہ کر ہر کہ آگاه از خدا آگاه جو بھی واقف راہ ہے وہ خدا کی طرف سے آگاہ کیا گیا ہے.در شین فارسی صفحہ 348 ) ( نزول اسح - رخ جلد 18 صفحہ 480)
76 حکم اور عدل کا نزول فرمان حضرت رسول اکرم علیہ کے مطابق ہے علاوہ اس کے مسلم کی حدیث میں جو ابو ہریرہ سے مروی ہے عیسی کے آنے کی یہ نشانیاں لکھی ہیں لینز لن ابن مريم حكما عد لا فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير وليضعن الجزية وليتركن القلاص فلا يسعى عليها يعنی عیسی حکم اور عدل ہونے کی حالت میں اترے گا اس طرح پر کہ مسلمانوں کے اختلافات پر حق کے ساتھ حکم کرے گا اور عدل کو زمین پر قائم کر دیگا صلیب کو توڑیگا خنزیروں کو قتل کرے گا اور جزیہ کو اُٹھا دے گا اور اس کے آنے کا ایک یہ نشان ہوگا کہ جوان اونٹنیاں جو بار برداری اور سواری کا بخوبی کام دیتی ہیں چھوڑ دی جائیں گی پھر اُن پر سواری نہیں کی جائے گی.(ازالہ اوہام حصہ دوم.ر خ جلد 3 صفحہ 555-556) غرض جب طرح طرح کی عملی بد اعتقادی پھیل جائے گی.تب بطور حکم کے مسیح اُن میں آوے گا.اسی طرح ہمارے ہادی کامل ﷺ نے ہم کو اطلاع دی کہ جب تم میں بھی یہودیوں کی طرح کثرت سے فرقے ہو جاویں گے اور اُن کی طرح مختلف قسم کی بد اعتقادیاں اور بدعملیاں شروع ہونگی.علماء یہود کی طرح بعض بعض کے مکر ہوں گے.اُس وقت اس اُمت مرحومہ کا مسیح بھی بطور حکم کے آئے گا ، جو قرآن شریف سے ہر امر کا فیصلہ کرے گا.وہ مسیح کی طرح قوم کے ہاتھ سے ستایا جائے گا اور کا فرقرار دیا جائے گا.اگر ان لوگوں نے کم سمجھی سے اس شخص کو دجال اور کافر کہا ، تو ضرور تھا کہ ایسا ہوتا کیوں کہ حدیث میں آچکا تھا کہ آنے والا مسیح کا فر اور دجال ٹھہرایا جائیگا.لیکن جو عقیدہ آپ کو سکھلایا جاتا ہے وہ بالکل صاف اور اُجلا ہے اور محتاج دلائل بھی نہیں برہان قاطع اپنے ساتھ رکھتا ہے.الہامات حضرت اقدس دنی فتدلى فکان قاب قوسین او ادنی يحيى الدين ويقيم الشريعته ( ملفوظات جلد اول صفحہ 29) (براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 78 ) پھر بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ شخص مجھ سے نزدیک ہوا.اور میرا قرب کامل اس نے پایا.اور پھر بعد اس کے ہمدردی خلائق کے لئے ان کی طرف متوجہ ہوا اور مجھ میں اور مخلوق میں ایک واسطہ ہو گیا جیسا کہ دو قوسوں میں وتر ہو.اور اس لئے وہ اس درمیانی مقام پر ہے.وہ دین کو از سرے نو زندہ کرے گا.اور شریعت کو قائم کر دیگا.یعنی بعض غلطیاں جو مسلمانوں میں رائج ہو گئی ہیں اور ناحق آنحضرت ﷺ کی طرف ان غلطیوں کو منسوب کیا جاتا ہے ان سب غلطیوں کو ایک حکم کے منصب پر ہو کر دور کر دے گا.اور شریعت کو جیسا کہ ابتداء میں سیدھی تھی سیدھی کر کے دکھلا دے گا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 81)
77 حضرت اقدس کا دعوی ء حكم وعَدَل مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں میں سے دینِ اسلام ہی سچا ہے.مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدا ئتیوں میں صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ پر اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے.مجھے سمجھایا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پُر حکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیدنا ومولانامحمد مصطفی ﷺے ہیں اور مجھے خدا کی پاک اور مطہر وجی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی موعود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حکم ہوں.یہ جو میرا نام مسیح اور مہدی رکھا گیا ان دونوں ناموں سے رسول اللہ ﷺ نے مجھے مشرف فرمایا اور پھر خدا نے اپنے بلا واسطہ مکالمہ سے یہی میرا نام رکھا اور پھر زمانہ کی حالت موجودہ نے تقاضا کیا کہ یہی میرا نام ہو.غرض میرے ان ناموں پر یہ تین گواہ ہیں.میرا خدا جو آسمان اور زمین کا مالک ہے میں اس کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں اس کی طرف سے ہوں اور وہ اپنے نشانوں سے میری گواہی دیتا ہے.اگر آسمانی نشانوں میں کوئی میرا مقابلہ کر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر دعاؤں کے قبول ہونے میں کوئی میرے برابر اُتر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر قرآن کے نکات اور معارف بیان کرنے میں کوئی میرا ہم پلہ ٹھہر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر غیب کی پوشیدہ باتیں اور اسرار جو خدا کی اقتداری قوت کے ساتھ پیش از وقت مجھ سے ظاہر ہوتے ہیں ان میں کوئی میری برابری کر سکے تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں.اربعین - رخ جلد 17 صفحہ 345-346) ومن كان نجما كيف يخفى بريقه ومن صار بدرًا لا محالته يبهر اور جو ستارہ ہو اس کی روشنی کیونکر چھپ سکے اور جو بدر بن گیا وہ غالب آجائے گا وانی ببرهان قوى دعوتهم واني من الرحمن حكم مُعَذِّمِرُ اور میں نے ایک قوی حجت کیساتھ انکو بلایا ہے اور میں خدا کی طرف سے اختلاف کا فیصلہ کرنے والا آیا ہوں وقد جئت في بدر المئين ليعملوا كمالی و نورى ثم هم لم يبصروا اور میں ان کے پاس چودھویں صدی میں آیا جوصدیوں کی بدر ہے تاکہ وہ میرا کمال اور میرا انور جان لیں.پھروہ نہیں دیکھتے براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 328 )
78 حَكَم و عدل کا فیصلہ اور میں امام مالک اور ابن حزم اور معتزلہ کے قول کو مسیح کی وفات کے بارے میں صحیح قرار دیتا ہوں اور دوسرے اہل سنت کو غلطی کا مرتکب سمجھتا ہوں.سو میں بحیثیت حکم ہونے کے ان جھگڑا کرنے والوں میں یہ حکم صادر کرتا ہوں کہ نزول کے اجمالی معنوں میں یہ گروہ اہل سنت کا سچا ہے کیونکہ مسیح کا بروزی طور پر نزول ہونا ضروری تھا ہاں نزول کی کیفیت بیان کرنے میں ان لوگوں نے غلطی کھائی ہے نزول صفت بروزی تھا نہ کہ حقیقی.اور مسیح کی وفات کے مسئلہ میں معتزلہ اور امام مالک اور ابن حزم وغیرہ ہمکلام ان کے بچے ہیں کیونکہ بموجب نص صریح آیت کریمہ یعنی آیت فلما توفیتنی کے مسیح کا عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے وفات پاناضر روی تھا.یہ میری طرف سے بطور حکم کے فیصلہ ہے اب جو شخص میرے فیصلہ کو قبول نہیں کرتا وہ اس کو قبول نہیں کرتا جس نے مجھے حکم مقرر فرمایا ہے.اگر یہ سوال پیش ہو کہ تمہارے حکم ہونے کا ثبوت کیا ہے؟ اس کا یہ جواب ہے کہ جس زمانہ کے لئے حکم آنا چاہیئے تھا وہ زمانہ موجود ہے.اور جس قوم کی صلیبی غلطیوں کی حکم نے اصلاح کرنی تھی وہ قوم موجود ہے اور جن نشانوں نے اس حکم پر گواہی دی تھی وہ نشان ظہور میں آچکے ہیں.اور اب ان نشانوں کا سلسلہ شروع ہے.آسمان نشان ظاہر کر رہا ہے زمین نشان ظاہر کر رہی ہے اور مبارک وہ جن کی آنکھیں اب بند نہ رہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے نشانوں پر ہی ایمان لاؤ.بلکہ میں کہتا ہوں اگر میں حکم نہیں ہوں تو میرے نشانوں کا مقابلہ کرو.میرے مقابل پر جو اختلاف عقائد کے وقت آیا ہوں اور سب بحثیں لکھی ہیں.صرف حکم کی بحث میں ہر ایک کا حق ہے جس کو میں پورا کر چکا ہوں.خدا نے مجھے چار نشان دیئے ہیں.- (1).میں قرآن شریف کے معجزہ کے کل پر عربی بلاغت فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.(2).میں قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.(3).میں کثرت قبولیت دعا کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں تیس ہزار کے قریب قبول ہو چکی ہیں اور ان کا میرے پاس ثبوت ہے.(4).میں غیبی اخبار کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے.یہ خدا تعالی کی گواہیاں میرے پاس ہیں.اور رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیاں میرے حق میں چمکتے ہوئے نشانوں کی طرح پوری ہوئیں.آسمان بارو نشان الوقت مے گوید ز میں ایں دو شاہد از پئے تصدیق من استاده اند ترجمہ.آسمان سے نشانات کی بارش ہو رہی ہے اور زمین مسیح موعود کے وقت کو ظاہر کر رہی ہے.یہ دو گواہ میری صداقت کے لئے قائم کئے گئے ہیں.ضرورت الامام رخ جلد 13 صفحہ 496-497)
79 حکم و عدل کی آمد کی ضرورت جب مدت دراز گذر جاتی ہے اور غلطیاں پڑ جاتی ہیں تو خدا ایک حکم مقر رکرتا ہے جو ان غلطیوں کی اصلاح کرتا ہے.آنحضرت ﷺ حضرت مسیح کے سات سو برس بعد آئے اس وقت ساتویں صدی میں ضرورت پڑی تو کیا اب چودھویں صدی میں بھی ضرورت نہ پڑتی.اور پھر جس حال میں کہ ایک ملہم ایک صحیح حدیث کو وضعی اور وضعی کو صحیح بذریعہ الہام قرار دے سکتا ہے اور یہ اصول ان لوگوں کا مسلم ہے تو پھر حکم کو کیوں اختیار نہیں ہے ؟ ایک حدیث کیا اگر وہ لا کھ حدیث بھی پیش کریں تو ان کی پیش کب چل سکتی ہے؟ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 276/277) اس دین میں بہت سے اسرار ایسے تھے کہ درمیانی زمانہ میں پوشیدہ ہو گئے تھے.مگر مسیح موعود کے وقت میں ان غلطیوں کا کھل جانا ضروری تھا کیونکہ وہ حکم ہو کر آیا.اگر درمیانی زمانہ میں یہ غلطیاں نہ پڑتیں تو پھر مسیح موعود کا آنا فضول اور انتظار کرنا بھی فضول تھا.کیونکہ مسیح موعود مجد رہے اور مجد وغلطیوں کی اصلاح کے لئے ہی آیا کرتے ہیں.وہ جس کا نام جناب رسول اللہ ﷺ نے حکم رکھا ہے.وہ کس بات کا حکم ہے اگر کوئی اصلاح اس کے ہاتھ سے نہ ہو.یہی سچ ہے.مبارک وہ جو قبول کریں اور خدا سے ڈریں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 56) حکم و عدل کا کام یہی حال حکم کے آنے پر ہونا چاہیے.وہ خود ساختہ اور موضوع باتوں کو رد کر دے گا اور سچ کو لے گا.یہی وجہ ہے اس کا نام حکم رکھا گیا ہے.اسی لئے آثار میں آیا ہے کہ اس پر کفر کا فتویٰ دیا جاوے گا کیونکہ وہ جس فرقہ کی باتوں کو رد کرے گا وہی اس پر کفر کا فتویٰ دے گا.یہاں تک کہا ہے کہ مسیح موعود کے نزول کے وقت ہر ایک شخص اٹھ کر کھڑا ہوگا اور منبر پر چڑھ کر کہے گا.إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ غَيَّرَدِيْنَنَا.اس شخص نے ہمارے دین کو بدل دیا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت اس امر کا ہوگا کہ وہ بہت سی باتوں کو رد کر دے گا جیسا کہ اس کا منصب اس کو اجازت دے گا.غرض اس بات کو سرسری نظر سے ہرگز نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ غور کرنا چاہیے کہ حکم عدل کا آنا اور اس کا نام دلالت کرتا ہے کہ وہ اختلاف کے وقت آئے گا اور اس اختلاف کو مٹائے گا.ایک کورد کر دے گا اور اندرونی غلطیوں کی اصلاح کریگا.وہ اپنے نور فراست اور خدا تعالی کے اعلام والہام سے بعض ڈھیروں کے ڈھیر جلا دے گا اور پکی اور محکم باتیں رکھ لے گا.جب یہ مسلم امر ہے.تو پھر مجھ سے یہ امید کیوں کی جاتی ہے کہ میں اُن کی ہر بات مان لوں قطع نظر اس کہ وہ بات غلط اور بیہودہ ہے اگر میں ان کا سارا رطب و یابس مان لوں تو پھر میں حکم کیسے ٹھہر سکتا ہوں؟ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 21-22)
80 مرا بگلشن رضوان حق شدست گذر مقام من چمن قدس واصطفا باشد اللہ تعالی کی رضا کے باغ میں میرا گذر ہوا ہے میرا مقام بر گزیدگی اور تقدس کا چمن ہے کمالِ پاکی وصدق و صفا که گم شده بود دوباره از خن و وعظ من بپا باشد پاکیزگی اور صدق و صفا کا کمال جو معدوم ہو گیا تھا وہ دوبارہ میرے کلام اور وعظ سے قائم ہوا ہے مرنج از سخنم ایکه سخت بے خبری که اینکه گفته ام از وحیء کبریا باشد اے شخص جو بالکل بیخبر ہے میری بات سے ناراض نہ ہو کہ جو میں نے کہا ہے یہ خدا کی وحی سے کہا ہے گم شده از خود بنور حق پیوست ہر آنچه از دهنش بشنوی بجا باشد جو شخص اپنی خودی کو چھوڑ کر خدا کے نور میں جاملا اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات حق ہوگی تریاق القلوب.رخ جلد 15 صفحہ 134) اب میں جناب مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کرتا ہوں.جناب من آپکا مخاطب ایک مدعی امامت ہے.اگر چہ آپ اس کو کا ذب اور مفتری جانتے ہیں پس اسکے مسلمات سے اسے ساکت کرنالازم ہے.تفسیر برغانی اور طبرانی ابونعیم وغیرہ کا حوالہ دینا یا انکی روایات غیر مصحہ پیش کرنا ایک مدعی کے بالمقابل جس کا دعوئی ہو کہ میں حکم ہو کر قرآن مجید اور رسول اکرم ﷺ کی عظمت قائم کرنے کے لیے دنیا میں آیا ہوں اپنے او پر جہالت کا الزام قائم کرنے سے زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا.وہ نہ حنفی ہے نہ شافعی نہ مالکی نہ حنبلی اور نہ جعفری نہ مقلد نہ اہل حدیث.پھر آپ حنفیوں یا شافیوں یا مالکیوں وغیرہ کے علماء یا مفسرین کے اقوال پیش کر کے اسکو ملزم کیونکر کر سکتے ہیں اگر وہ ان اقوال کا پابند ہو تو منصب امامت در حقیقت اسکے لیے سزاوار نہیں ہے وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں اس وقت کا حکم ہوں برغانی ہو یا طبرانی ان میں مفسروں کے اپنے عندیات کا ذخیرہ ہوگا یا کچھ اور.اگر آپ کہیں کہ تفسیر قرآن ہے تو ہم کہیں گے کہ پھر اس قدر مختلف الاقوال تفاسیر جنگی تعداد ہزار ہا سے بڑھ گئی کیوں شائع ہوئی ہیں اور ان میں اختلاف ہی کیوں واقع ہوا.اور حضرت مہدی آخر الزمان کی نسبت کیا آپکے مسلمات میں درج نہیں کہ وہ اختلاف رفع کرنے کو آویں گے اور سب ادیان کو ایک دین بنادینگے.کیا جب امام مہدی تشریف لا ئینگے بلا وعظ اور بلا نصیحت اور بلا تغیر و تبدل دین خود بخود ایک ہو جاویگا آیا کچھ ترمیم و تنسیخ بھی کرنیگے یا نہیں.کیا وہ ظاہر ہو کر مجہتدین کربلا کے فتوے پر چلیں گے یا مجتہدین نجف ایران یا مجتہدین لکھنو ولاہور.فرما دیں وہ کس مجتہد کے مقلد ہوں گے اور کس کے فتوے پر عمل کریں گے نہیں میں بھول گیا وہ ضرور آپ کے فتوے پر چلیں گے.مگر افسوس کہ آپ یہ بھی نہیں مانیں گے.پس جو امام ہوتا ہے وہ کسی کا مقلد نہیں ہوتا.بلکہ وہ خود کم ہوتا ہے اس کے بالمقابل تفسیر برغانی اور دلائل النبوت کا حوالہ دینا کوئی عقلمند طبیعت اس کو جائز نہیں رکھ سکتی ہے.( نزول اسیح - رخ جلد 18 صفحہ 424-425 حاشیہ )
81 مسیح موعود ہی حکم عدل ہے حکم و عدل کی اطاعت ہماری جماعت کے لئے تو یہ امر دور از ادب ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں پیش کریں یا ان کے وہم میں بھی ایسی باتیں آئیں.اور میں سچ کہتا ہوں کہ میں جو کرتا ہوں.وہ خدا تعالی کی تفہیم اور اشارہ سے کرتا ہوں.پھر کیوں اس کو مقدم نہیں کرتے اور پیشگوئی سمجھ کر اسکی عزت نہیں کرتے.جیسے حضرت عمر نے آنحضرت کی پیشگوئی سمجھ کر ایک صحابی کو سونے کے کڑے پہنا دیئے.اب تم بتاؤ کہ اور کیا چاہتے ہو.خدا نے اس قدر نشان تمہارے لئے جمع کر دیئے ہیں.اگر خدا تعالی پر ایمان ہو تو کوئی وہم اور خیال اس قسم کا پیدا نہیں ہو سکتا جس سے اعتراض کا رنگ پایا جائے اور اگر اس قدر نشان دیکھتے ہوئے بھی کوئی اعتراض کرتا اور علیحدہ ہوتا ہو تو وہ بے شک نکل جائے اور علیحدہ ہو جاوے.اسکی خدا کو کیا پرواہ ہے.وہ کہیں جگہ نہیں پاسکتا.جبکہ خدا تعالی نے مجھے حکم عدل ٹھہرایا ہے.اور تم نے مان لیا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 50-51) اب تم خود یہ سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے.اور مجھے مسیح موعود حکم، عدل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے.تو اپنے ایمان کا فکر کرو.وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے، کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہوگا.لیکن اگر تم نے بچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے.تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو.اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ ﷺ کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہر ورسول اللہ کی شہادت کافی ہے.وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا، وہ حکم عدل ہوگا.اگر اس پر تسلی نہیں ہوئی تو پھر کب ہوگی.یہ طریق ہر گز اچھا اور مبارک نہیں ہوسکتا کہ ایمان بھی ہو اور دل کے بعض گوشوں میں بدظنیاں بھی ہوں.میں اگر صادق نہیں ہوں تو پھر جاؤ اور صادق تلاش کرو اور یقیناً سمجھو کہ اس وقت اور صادق نہیں مل سکتا.اور پھر اگر کوئی دوسرا صادق نہ ملے اور نہیں ملے گا تو پھر میں اتنا حق مانگتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو دیا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 52 ) اے حسرت ایں گروہ عزیزاں مرا ندید وقتے به بیندم که ازین خاک بگذرم افسوس عزیزوں نے مجھے نہ پہچانا.یہ مجھے اس وقت جانیں گے جب میں اس دنیا سے گذر جاؤں گا.امروز قوم من نشناسد مقام من روزے بگریه یاد کند وقت خوشترم آج کے دن میری قوم میرا درجہ نہیں پہچانتی لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ رور وکر میرے مبارک وقت کو یاد کرے گی.در شین فارسی مترجم صفحه 165 166 ) (ازالہ اوہام - ر - خ - جلد 3 صفحہ 184)
82 سترہویں فصل احیاء دین اسلام اور قیام شریعت کے اعتبار سے الہامات حضرت اقدس دور خسروی آغاز کردند مسلمان را مسلمان باز کردند جب (ہمارا) شاہی زمانہ شروع ہوا تو مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان کیا گیا مقام او مہیں از راه تحقیر بدورانش رسولاں ناز کردند اس کے درجہ کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھ کہ رسولوں نے اس کے زمانہ پر ناز کیا ہے مصرعہ نمبر ا تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 665-601) ر نمبر 2 " صفحه (604 کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس کی پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو.میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نورساطعہ نکلا جوارد گرد پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اسکی روشنی ہوئی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا کہ اللہ اکبر.خربت خیبر.اس کی یہ تعبیر کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے اور وہ نور قرآنی معارف ہیں.اور خیبر سے مراد تمام خراب مذہب ہیں جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دیکئی یا خدا کی صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا ہے.سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائیگا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائیگی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا.ان الله معك ان الله يقوم اينما قمت یعنی خدا تیرے ساتھ ہے خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہو.یہ حمایت الہی کے لئے ایک استعارہ ہے.( تریاق القلوب..جلد 15 صفحہ 227-226) میں نے ارادہ کیا کہ اس زمانہ میں اپنا خلیفہ مقرر کروں سو میں نے اس آدم کو پیدا کیا.وہ دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا جب مسیح السلطان کا دور شروع کیا گیا.تو مسلمان کو جو صرف رسمی مسلمان تھے نئے سرے سے مسلمان بنانے لگے آسمان اور زمین ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے ہم نے ان دونوں کو کھول دیا (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 665) یعنی زمین نے اپنی پوری قوت ظاہر کی اور آسمان نے بھی.جب تیرھویں صدی کا آخیر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہے.اور اللہ تعالی کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ:.الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنذِرَ قَوْ مَامَّا أُنذِرَ آبَاءُ هُمْ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِينَ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ" - کتاب البريه رخ جلد 13 صفحہ 202-201 حاشیہ)
83 ترجمہ:.اے احمد ! خدا نے تجھے میں برکت ڈالی.اس نے تجھے قرآن سکھایا تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تا کہ مجرموں کی راہ کھل جائے یعنی معلوم ہو جائے کہ کون کون مجرم ہے.کہہ دے کہ میرے پر خدا کا حکم نازل ہوا ہے اور میں تمام مومنوں سے پہلا ہوں.وہ خدا جس نے اپنے فرستادہ کو بھیجا اس نے دوامر کے ساتھ اسے بھیجا ہے.ایک تو یہ کہ اس کو نعمت ہدایت سے مشرف فرمایا ہے یعنی اپنی راہ کی شناخت کے لئے روحانی آنکھیں اس کو عطا کی ہیں.اور علم لدنی سے ممتاز فرمایا ہے.اور کشف اور الہام سے اس کے دل کو روشن کیا ہے اور اسطرح پر الٹی معرفت اور محبت اور عبادت کا جو اس پر حق تھا اس حق کی بجا آوری کے لئے آپ اسکی تائید کی ہے.اور اس لئے اسکا نام مہدی رکھا دوسرا امر جسکے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے وہ دین الحق کے ساتھ روحانی بیماریوں کو اچھا کرنا ہے یعنی شریعت کے صدہا مشکلات اور معضلات حل کر کے دلوں سے شبہات کو دور کرتا ہے پس اس لحاظ سے اس کا نام عیسی رکھا ہے یعنی بیماروں کو چنگا کرنے والا.اربعین جلد 2 - رخ جلد 17 صفحہ 356 355) أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ ادَمَ - يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمَ الشَّرِيعَةَ - چو دو رِ خسروی آغاز کردند.مسلما ن را مسلمان باز کردند إِنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا.خدا کے احسان کا دروازہ تیرے پر کھولا گیا ہے اور اسکی پاک رحمتیں تیری طرف متوجہ ہورہی ہیں اور وہ دن آتے ہیں ( بلکہ قریب ہے ) کہ خدا تیری مدد کریگا.وہی خدا جو جلال والا اور زمین وسمان کا پیدا کرنے والا ہے دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 239.اور صفحہ 522 ان تمام الہامات میں یہ پیشگوئی تھی کہ خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے اور میرے ہی ذریعہ سے دین اسلام کی سچائی اور تمام مخالف دینوں کا باطل ہونا ثابت کر دیگا.سو آج وہ پیشگوئی پوری ہوئی.کیونکہ میرے مقابل پر کسی مخالف کو تاب و تواں نہیں کہ اپنے دین کی سچائی ثابت کر سکے.میرے ہاتھ سے آسمانی نشان ظاہر ہورہے ہیں اور میری قلم سے قرآنی حقائق اور معارف چمک رہے ہیں.اٹھو اور تمام دنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یا سکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یا کسی اور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے.کہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے اور معارف اور حقائق کے بیان کرنے میں میرا مقابلہ کر سکے.میں وہی ہوں جسکی نسبت یہ حدیث صحاح میں موجود ہے کہ اس کے عہد میں تمام ملتیں ہلاک ہو جائیں گی.مگر اسلام کہ وہ ایسا چکے گا.جو درمیانی زمانوں میں کبھی نہیں چکا ہوگا.مگر ہلاک ہونے سے یہ مراد نہیں کہ مخالف تلوار سے زیر کئے جائیں گے.ایسے خیالات غلطیاں ہیں.بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ برکت کی روح ان تمام مذہبوں میں سے جاتی رہے گی.اور وہ ایسے ہو جائیں گے جیسا کہ بدن بیجان.سو یہ وہی زمانہ ہے.کیا کبھی کسی آنکھ نے دیکھا کہ جس مقابلہ کے لئے میں لوگوں کو بلاتا ہوں کبھی کسی نے درمیانی زمانوں میں سے اس طرح بلایا.یہ انسان کے دن نہیں بلکہ خدا کے دن ہیں اور ایام اللہ ہیں.یہ کاروبار زمین سے نہیں بلکہ اس کے ہاتھ سے ہے جو ذ والجلال اور جی اور قیوم ہے.مبارک وہ دل جو پشیمانی کے دن سے پہلے سمجھ لے.اور مبارک وہ آنکھیں جو مواخذہ کی گھڑی سے پہلے دیکھ لیں.تریاق القلوب.رخ جلد 15 صفحه 267تا268)
84 با اعتبار عظمت رسول اکرم اور صداقت قرآن کریم مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ میں آنحضرت ﷺ کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قد رلوگ گواہ ہیں کہ اگر ان کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ان کی تعداد اس قدر ہو کہ روئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 9) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (سورة الصف : 10) خدا وند تعالیٰ نے اس احقر العباد کو اس زمانے میں پیدا کر کے اور صد ہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صدہا دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیمات حلقہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرمادے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے.(براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 596.حاشیہ در حاشیہ 3) با اعتبار غلبہ اسلام تخمیناًا عرصہ میں سال کا گذرا ہے کہ مجھ کو اس قرآنی آیت کا الہام ہو اتھا اور وہ یہ ہے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الذِيْنَ كُلِهِ وه خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور بچے دین کے ساتھ بھیجا تاوہ اپنے دین کو تمام دینوں پر غالب کرے اور مجھے کو اس الہام کے یہ معنے سمجھائے گئے تھے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا میرے ہاتھ سے خدا تعالی اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرے.اور اس جگہ یادر ہے کہ یہ قرآن شریف میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی نسبت علماء متقین کا اتفاق ہے کہ یہ مسیح موعود کے ہاتھ پر پوری ہوگی.سوجس قد را اولیاء اور ابدال مجھ سے پہلے گزر گئے ہیں کسی نے ان میں سے اپنے تئیں اس پیشگوئی کا مصداق نہیں ٹھہرایا اور نہ یہ دعویٰ کیا کہ اس آیت مذکورہ بالا کا مجھے کو اپنے حق میں الہام ہوا ہے لیکن جب میرا وقت آیا تو مجھ کو یہ الہام ہوا اور مجھ کو بتلایا گیا کہ اس آیت کا مصداق تو ہے اور تیرے ہی ہاتھ سے اور تیرے ہی زمانہ میں دین اسلام کی فوقیت دوسرے دینوں پر ثابت ہوگی.) تریاق القلوب - رخ جلد 15 صفحہ 231 232) واني بعثت على راس هذه المائة - المباركة الربا نيه - لا جمع شمل الملة الاسلامية وادفع ما.صيل على كتاب الله و خير البرية - واكسر عصا من عصى واقيم جدران الشريعة - وقد بينت مرارًا - واظهرت للناس اظهارا اني انا المسيح الموعود و المهدى المعهود - وكذالك امرت وما كان لى ان اعصى امر ربي والهق بالمجرمين اعجاز اسیح - رخ جلد 18 صفحہ 8-9) ترجمہ از مرتب : - میں اللہ کی اس بابرکت صدی کے سر پر مبعوث کیا گیا ہوں تا کہ میں ملت اسلامیہ کے بکھرے ہوئے شیرازے کو مجتمع کروں اور اللہ کی کتاب (قرآن) اور خیر البریہ (حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات پر جو حملے کئے گئے ہیں ان کا دفاع کروں اور نا فرمانوں کے عصا کو توڑوں اور شریعت کی دیواروں کو استوار کروں میں نے بار ہا بیان کیا ہے اور لوگوں پر کھل کر یہ اظہار کیا ہے کہ میں ہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں.مجھے ایسا ہی حکم دیا گیا ہے اور میرے لئے یہ ممکن نہیں کہ میں اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کروں اور مجرموں کے گروہ میں شامل ہو جاؤں.
85 بکار خانهہ قدرت ہزار ہا نقش اند مگر تجلی رحماں ز نقش ما باشد قدرت کے کار خانے میں ہزاروں نقش ہیں مگر رٹمن کا جلوہ صرف ہمارے نقش سے نظر آتا ہے بیامدم که ره صدق را درخشانم بدلستان برم آن را که پارسا باشد میں اس لیے آیا ہوں کہ صدق کی راہ کو روشن کروں اور دلبر کے پاس اسے لے چلوں جو نیک و پارسا ہے بیامدم که در علم و رشد بکشائیم بخاک نیز نمایم که در سما باشد میں اس لئے آیا ہوں کہ علم و ہدایت کا دروازہ کھولوں اور اہل زمین کو وہ چیزیں دکھاؤں جو آسمانی ہیں چنیں زمانہ چنیں دور ایں چنیں برکات تو بے نصیب روی وه چه این شقا باشد ایسا وقت ایسا زمانہ اور ایسی ایسی برکتیں ! پھر بھی اگر تو بے نصیب رہے تو اس بدبختی پر کیا تعجب ہے تریاق القلوب.رخ جلد 15 صفحہ 135 134) یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے.اور دار النجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا الهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله ہے.(حجتہ الاسلام.رخ جلد 6 صفحہ 52،53) اب اتمام حجت کے لئے میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اس کے موافق جوا بھی میں نے ذکر کیا ہے.خدائے تعالیٰ نے اس زمانے کو تاریک پاکر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راستبازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے تا کہ وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملوں سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریت کے لباس میں اس الہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 251) باغ مرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار مرہم عیسی نے دی تھی محض عیسی کو شفا میری مرہم سے شفا پائے گاہر ملک و دیار جھانکتے تھے نور کو وہ روزن دیوار سے لیک جب در کھل گئے پھر ہوگئے شہر شعار وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 147)
86 اٹھارویں فصل صلى الله تکمیل اشاعت ہدایت کے اعتبار سے آنحضرت نے کے وقت میں تکمیل اشاعت کیلئے وسائل پیدا نہیں ہوئے تھے اس وقت کے تمام مخالف مولویوں کو ضرور یہ بات مانی پڑے گی کہ چونکہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء تھے اور آپ کی شریعت تمام دنیا کیلئے عام تھی اور آپ کی نسبت فرمایا گیا تھا وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النبيّن (الاحزاب: 41) اور نیز آپ کو یہ خطاب عطا ہوا تھا.قُلْ اَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 159) سواگر چہ آنحضرت ﷺ کے عہد حیات میں وہ تمام متفرق ہدایتیں جو حضرت آدم سے حضرت عیسی تک تھیں.قرآن شریف میں جمع کی گئیں لیکن مضمون آیت قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إلَيْكُمْ جَمِيعًا آنحضرت ﷺ کی زندگی میں عملی طور پر پورا نہیں ہوسکا.کیونکہ کامل اشاعت اس پر موقوف تھی کہ تمام ممالک مختلفہ یعنی ایشیا اور یورپ اور افریقہ اور امریکہ اور آبادی دنیا کے انتہائی گوشوں تک آنحضرت علی کی زندگی میں ہی تبلیغ قرآن ہو جاتی اور یہ اس وقت غیر ممکن تھا بلکہ اس وقت تک تو دنیا کی کئی آبادیوں کا ابھی پتہ بھی نہیں لگا تھا اور دور دراز سفروں کے ذرائع ایسے مشکل تھے کہ گویا معدوم تھے بلکہ اگر وہ ساٹھ برس الگ کر دئے جائیں جو اس عاجز کی عمر کے ہیں تو 1257 ہجری تک بھی اشاعت کے وسائل کا ملہ گویا کا لعدم تھے اور اس زمانہ تک امریکہ کل اور یورپ کا اکثر حصہ قرآنی تبلیغ اور اس کے دلائل سے بے نصیب رہا ہوا تھا بلکہ دور دور ملکوں کے گوشوں میں تو ایسی بے خبری تھی کہ گویا وہ لوگ اسلام کے نام سے بھی ناواقف تھے.غرض آیت موصوفہ بالا میں جو فرمایا گیا تھا کہ اے زمین کے باشندو! میں تم سب کی طرف رسول ہوں عملی طور پر اس آیت کے مطابق تمام دنیا کو ان دنوں سے پہلے ہرگز تبلیغ نہیں ہوسکی اور نہ اتمام حجت ہوا کیونکہ وسائل اشاعت موجود نہیں تھے اور نیز زبانوں کی اجنبیت سخت روک تھی اور نیز یہ کہ دلائل حقانیت اسلام کی واقفیت اس پر موقوف تھی کہ اسلامی ہدایتیں غیر زبانوں اور میں ترجمہ ہوں اور یا وہ لوگ خود اسلام کی زبان سے واقفیت پیدا کر لیں اور یہ دونوں امر اس وقت غیر ممکن تھے.لیکن قرآن شریف کا یہ فرمانا کہ وَ مَنْ بَلَغ (انعام:20 ) یہ امید دلاتا تھا کہ ابھی اور بہت سے لوگ ہیں جو بھی تبلیغ قرآنی ان تک نہیں پہنچی ایسا ہی آیت وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهمْ (الجمعة: 4) اس بات کو ظاہر کر رہی تھی کہ گو آنحضرت ﷺ کی حیات میں ہدایت کا ذخیرہ کامل ہو گیا مگر ابھی اشاعت ناقص ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 261-260)
87 تکمیل اشاعت ہدایت اسلام حضرت اقدس کے ذریعہ مقدر تھی ضرور تھا کہ جیسا کہ تکمیل ہدایت آنحضرت ﷺ کے ہاتھ سے ہوئی ایسا ہی تعمیل اشاعت ہدایت بھی آنحضرت کے ذریعہ سے ہو کیونکہ یہ دونوں آنحضرت ﷺ کے منصبی کام تھے لیکن سنت اللہ کے لحاظ سے اس قدر خلود آپ کے لئے غیر ممکن تھا کہ آپ اس آخری زمانہ کو پاتے اور نیز ایسا خلود شرک کے پھلنے کا ایک ذریعہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضر.کی اس خدمت منصبی کو ایک ایسے امتی کے ہاتھ سے پورا کیا کہ جوانی خواور روحانیت کے رو سے گویا آنحضرت ﷺ کے وجود ایک کڑا تھا یوں کہو ہی تھا اور آسان پرقلی طور پر آپ کے نام کا شریک تا اور ہم بھی لکھ چکے ہیںکہ کی ہدایت کا چھٹا دن تھا یعنی جمعہ.اس لئے رعایت تناسب کے لحاظ سے عمیل اشاعت ہدایت کا دن بھی چھٹا دن ہی مقرر کیا گیا یعنی آخرالف شم جو خدا کے نزدیک دنیا کا چھٹا دن ہے جیسا کہ اس وعدہ کی طرف آیت لیظهرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: 10) اشاره فرمارہی ہے اور اس چھٹے دن میں آنحضرت ﷺ کے خوار رنگ پر ایک شخص جو مظہر تجلیات احمد یہاور محمدیہ تھا مبعوث فرمایا گیا تا تکمیل ہدایت فرقانی اس مظہر نام کے ذریعہ سے ہو جائے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 259-258) خدا تعالیٰ نے جوا تمام نعمت کی ہے وہ یہی دین ہے جس کا نام اسلام رکھا ہے.پھر نعمت میں جمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتمام نعمت ہوا.یہ اس کی طرف اشارہ تھا کہ پھر ا تمام نعمت جو لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّہ کی صورت میں ہوگا وہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہوگا.وہ جمعہ اب آگیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے وہ جمعہ سیح موعود کے ساتھ مخصوص رکھا ہے اس لئے کہ اتمام نعمت کی صورتیں در اصل دو ہیں اول تکمیل ہدایت دوم تکمیل اشاعت ہدایت.اب تم غور کر کے دیکھو تکمیل ہدایت تو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کامل طور پر ہو چکی لیکن اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا تھا کہ تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ دوسرا زمانہ ہو جبکہ آنحضرت ﷺ بروزی رنگ میں ظہور فرما دیں اور وہ زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہے.یہی وجہ کہ لِيُظهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله (الصف:10) اس شان میں فرمایا گیا ہے.تمام مفسرین نے بالا تفاق اس امر کو تسلیم کر کیا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے.در حقیقت اظہار دین اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ کل مذاہب میدان میں نکل آویں اور اشاعت مذہب کے ہر قسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جائیں اور وہ زمانہ خدا کے فضل سے آگیا ہے.چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت اور طبع میں جو جو سہولتیں میسر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں.ڈاکخانوں کے ذریعہ سے کل دنیا میں تبلیغ ہوسکتی ہے.اخباروں کے ذریعہ سے تمام دنیا کے حالات پر اطلاع ملتی ہے.ریلوں کے ذریعہ سے سفر آسان کر دیے گئے ہیں.غرض جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اس قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہارِ دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں.اس لئے یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّہ کہہ کر فرمائی تھی.یہ وہی زمانہ ہے جو الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتَى (المائدہ:4) کی شان کو بلند کرنے والا اور تکمیل اشاعت ہدایت کی صورت میں دوبارہ ا تمام نعمت کا زمانہ ہے اور پھر یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں وَآخَرينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم ( الجمع: 4) کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے اس وقت رسول اللہ ﷺ کا ظہور بروزی رنگ میں ہوا ہے اور ایک جماعت صحابہ کی پھر قائم ہوئی ہے.اتمام نعمت کا وقت آپہنچا ہے لیکن تھوڑے ہیں جو اس سے آگاہ ہیں اور بہت ہیں جو ہنسی کرتے اور ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں.مگر وہ وقت قریب ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق تجلی فرمائے گا اور اپنے زور آور حملوں سے دکھاوے گا کہ اس کا نذ یریسچا ہے.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 135-134)
88 88 حضرت اقدس آنحضرت ﷺ کی آمد ثانی ہیں چونکہ آنحضرت ﷺ کا دوسرا فرض منصبی جو تکمیل اشاعت ہدایت ہے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بوجہ عدم وسائل اشاعت غیر ممکن تھا اس لئے قرآن شریف کی آیت وَالخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمع 4) میں آنحضرت ﷺ کی آمد ثانی کا وعدہ دیا گیا ہے.اس وعدہ کی ضرورت اس وجہ سے پیدا ہوئی گہ تا دوسرا فرض منصبی آنحضرت ﷺ کا یعنی تکمیل اشاعت ہدایت دین جو آپ کے ہاتھ سے پورا ہونا چاہئے تھا اس وقت باعث عدم وسائل پورا نہیں ہوا.سو اس فرض کو آنحضرت ﷺ نے اپنی آمد ثانی سے جو بروزی رنگ میں تھی ایسے زمانہ میں پورا کیا جبکہ زمین کی تمام قوموں تک اسلام پہنچانے کیلئے وسائل پیدا ہو گئے تھے.(تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 263 حاشیہ) اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ساتھ ہے یہ درجہ عطا فرمایا ہے کہ وہ صحابہ کی جماعت سے ملنے والی ہے وَ الخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم ( الجمعه (4) مفتروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعود والی جماعت ہے اور یہ گویا صحابہ کی ہی جماعت ہوگی اور وہ مسیح موعود کے ساتھ نہیں در حقیقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہی ہیں کیونکہ مسیح موعود آپ ہی کے ایک جمال میں آئے گا اور تکمیل تبلیغ اشاعت کے کام کیلئے وہ مامور ہو گا.تا مرا بروئے مصطفى ( ملفوظات جلد اول صفحہ 405) زبر دل پرد چون مرغ سوئے مصطفیٰ ایسا ہی عشق مجھے مصطفے کی ذات سے ہے میرا دل ایک پرندہ کی طرح مصطفے کی طرف اڑ کر جاتا ہے داوند از حسنش خبر شد دلم از عشق او زیر و جب سے مجھے اس کے حسن کی خبر دی گئی ہے میرا دل اس کے عشق میں بے قرار رہتا ہے منکہ مے بینم رخ آں دلبرے جاں فشانم گر دہر دل دیگرے میں اس دلبر کا چہرہ دیکھ رہا ہوں اگر کوئی اسے دل دے تو میں اسکے مقابلہ پر جان نثار کر دوں ساقی من هست آں جاں پرورے ہر زمان مستم کند از ساغری شخص وہی روح پرور تو میرا ساقی ہے جو ہمیشہ جام شراب سے مجھے سرشار رکھتا ہے محو روئے او شد است ایں روئے من ہوئے او آید زبام و کوئے من یہ میرا چہرہ اس کے چہرہ میں محو اور گم ہو گیا اور میرے مکان اور کوچہ سے اس کی خوشبو آرہی ہے بکه من در عشق او هستم نہاں من ہمانم - من همانم - من ہماں از بسکہ میں اس کے عشق میں غائب ہوں میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں جان من از جان او یا بد غذا از گریبانم عیاں شد آں ذکا ! میری روح اس کی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریباں اور میرے گریباں سے وہی سورج نکل آیا ہے احمد اندر جان احمد شد 삼상 اسم من گردید آں اسم وحید احمد کی جان کے اندر احمد ظاہر ہو گیا اس لئے میرا وہی نام ہو گیا جو اس لاثانی انسان کا نام ہے (سراج منیر.رخ جلد 12 صفحہ 9697)
89 وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (سورة الجمعة: 4) اور اس آیت میں جو منہم کا لفظ ہے وہ ظاہر کر رہا تھا کہ ایک شخص اس زمانہ میں جو تکمیل اشاعت کیلئے موزوں ہے مبعوث ہوگا جو آنحضرت ﷺ کے رنگ میں ہوگا اور اس کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ میں ہوں گے.اس وقت حسب منطوق آیت وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اور نیز حسب منطوق آیت قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 159) آنحضرت علہ کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہو گئی تھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کر نے کیلئے بدل و جان سرگرم ہیں.آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے کیونکہ آپ کا دعوی ہے کہ میں تمام کا فہ ناس کیلئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جو زمین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچاسکتے ہیں اور اتمام حجت کیلئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں.تب آنحضرت ﷺ کی روحانیت نے جواب دیا کہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں.مگر میں ملک ہند میں آؤں گا کیو نکہ جوش مذاہب و اجتماع جميع ادیان اور مقابلہ جمیع طل محل اور امن اور آزادی اسی جگہ ہے اور نیز آدم علیہ السلام اسی جگہ نازل ہوا تھا.پس ختم دور زمانہ کے وقت بھی وہ جو آدم کے رنگ میں آتا ہے اس ملک میں اس کو آنا چاہئے تا آخر اور اول کا ایک ہی جگہ اجتماع ہو کر دائرہ پورا ہو جائے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 263-261) وہ آیا منتظر تھے جس کے دن رات معمہ کھل گیا روشن ہوئی بات دکھائیں آسماں نے ساری آیات زمیں نے وقت کی دے دیں شہادات خدا کچھ ڈرو چھوڑو معادات پھر اس کے بعد کون آئے گا ہیہات سنادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي خدا نے اک جہاں کو مسیح وقت اب دنیا میں آیا خدا نے عہد کا دن ہے دکھایا صحابه مبارک وہ جو اب ایمان لایا سے ملا جب مجھ کو پایا وہی سے ان کو ساقی نے پلادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي خدا کا ہم پہ بس لطف و کرم زمین قادیاں اب محترم ہے وہ ارض حرم ہے سے دشمنوں کی پشت خم ہے نجوم نعمت کون سی باقی جو کم خلق ہے ظهور عون نصرت دمیدم سنو ! اب وقت توحید اتم ہے ستم اب مائل ملک عدم ہے خدا نے روک ظلمت کی اٹھادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي در مشین اردو.بشیر احمد ، شریف احمد ، اور مبارکہ کی آمین )
90 حضرت اقدین اسلام کے نور کے متمم ہیں يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ (الصف:9) مسیح موعود اسلام کے قمر کا متم نور ہے اس لئے اس کی تجدید چاند کی چودھویں رات سے مشابہت رکھتی ہے اسی کی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ لِيُظهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه (القف: 10) کیونکہ اظہار تام اور ا تمام نور ایک ہی چیز ہے اور یہ قول کہ لِيُظهِرَهُ عَلَى الْأَدْيَانِ كُلَّ الْإِظْهَارِ مساوى اس قول سے ہے کہ لِيُتِمَّ نُورَهُ كُلَّ الْإِثْمَامِ - تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 124) مسیح موعود کو چودھویں صدی کے سر پر پیدا کرنا اس طرف اشارہ تھا کہ اس کے وقت میں اسلامی معارف اور برکات کمال تک پہنچ جائیں گی جیسا کہ آیت لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (القف: 10) میں اسی کمال تام کی طرف اشارہ ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 209 حاشیہ) تھا برس چالیس کا میں اس مسافر خانہ میں جبکہ میں نے وحی ربانی سے پایا افتخار اس قدر یہ زندگی کیا افترا میں کٹ گئی پھر عجب تر یہ کہ نصرت کے ہوئے جاری بحار ہر قدم پر میرے مولیٰ نے دیے مجھ کو نشاں ہر عدد پر حجت حق کی پڑی ہے ذوالفقار نعمتیں وہ دیں مرے مولیٰ نے اپنے فضل سے جن سے میں معنی أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ آشکار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 135) منصب مہدی اور مسیح علیہ السلام افسوس ہے کہ جیسے حدیث میں آیا ہے کہ ایک درمیانی زمانہ آوے گا جو شیح اعوج ہے.یعنی حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک میرا زمانہ برکت والا ہے.ایک آنے والے مسیح و مہدی کا مسیح و مہدی کوئی دوا لگ اشخاص نہیں ان سے مراد ایک ہی ہے.مہدی ہدایت یافتہ سے مراد ہے.کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ مسیح مہدی نہیں.مہدی مسیح ہو یا نہ ہو لیکن مسیح کے مہدی ہونے سے انکار کرنا مسلمان کا کام نہیں.اصل میں اللہ تعالیٰ نے یہ دو الفاظ سب وشتم کے مقابل بطور ذب کے رکھے ہیں کہ وہ کافر ، ضال مضل نہیں.بلکہ مہدی ہے.چونکہ اس کے علم میں تھا کہ آنیوالے مسیح و مہدی کو دجال و گمراہ کہا جائے گا، اس لئے اسے مسیح مہدی کہا گیا.دجال کا تعلق أخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف: 177 ) سے تھا اور مسیح کا رفع آسانی ہونا تھا.سوجو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا تھا اس کی تکمیل روی زمانوں میں ہوئی تھی.ایک آپ ﷺ کا زمانہ اور ایک آخری مسیح و مہدی کا زمانہ یعنی ایک زمانے میں تو قرآن اور بچی تعلیم نازل ہوئی لیکن اس تعلیم پر مسیح اعوج کے زمانہ نے پردہ ڈال دیا.جس پردہ کا اٹھایا جانا مسیح کے زمانہ میں مقدر تھا.جیسے کہ فرمایا کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک تو موجودہ جماعت یعنی جماعت صحابہ کرام کا تزکیہ کیا اور ایک آنیوالی جماعت کا جسکی شان میں لَمَّا يَلْحَقُوا بهم (الجمعه 4) آیا ہے.یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے بشارت دی کہ ضلالت کے وقت اللہ تعالیٰ اس دین کو ضائع نہ کرے گا.بلکہ آنے والے زمانہ میں خدا تعالیٰ حقائق قرآنیہ کو کھول دے گا.آثار میں ہے.کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ فضیلت ہوگی.کہ وہ قرآنی فہم اور معارف کا صاحب ہوگا اور صرف قرآن سے استنباط کر کے لوگوں کو ان کی غلطیوں سے متنبہ کرے گا.جو حقائق قرآن کی ناواقفیت سے لوگوں میں پیدا ہوگئی ہوں گی.( ملفوظات جلد اول صفحہ 25)
91 أُولَئِكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللهُ فَبِهدَ هُمُ اقْتَدِهُ ، قُلْ لَّا أَسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَلَمِينَ (الانعام: 91) یہ کمالات متفرقہ اس امت میں جمع کرنے کا کیوں وعدہ دیا گیا ؟ اس میں بھید یہ ہے کہ ہمارے نبی جامع کمالات متفرقہ ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَبِهدَ هُمُ اقْتَدِهُ ( الانعام: 91) یعنی تمام نبیوں کو جو ہدایتیں ملی تھیں.ان سب کا اقتدا کر.پس ظاہر ہے کہ جو شخص ان تمام متفرق ہدایتوں کو اپنے اندر جمع کرے گا.اس کا وجود ایک جامع وجود ہو جائے گا اور تمام نبیوں سے وہ افضل ہوگا.پھر جو شخص اس نبی جامع الکمالات کی پیروی کرے گا ضرور ہے کہ خلی طور پر وہ بھی جامع الکمالات ہو.چشمہ مسیحی.رخ جلد 20 صفحہ 381) غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے وہ ہمارا ہو گیا اس کے ہوئے ہم جاں نثار میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار اک شجر ہوں جس کو داؤ دی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار ( در نشین اردو صفحہ 123 نیا ایڈیشن) (براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 133)
92 انیسویں فصل معارف قرآن کریم میں دعوت مقابلہ مقابلہ کی دعوت عام ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشان دکھلائے یہ ثمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے تھک گئے ہم تو انہی باتوں کو کہتے کہتے ہر طرف دعوتوں کا تیر چلایا ہم نے آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 225 224) این ست نشان آسمانی منگش بنما اگر توانی ! ! اس کتاب کا نام ”نشانِ آسمانی ہے اگر ہوسکتا ہے تو اسکی نظیر لا یا صوفی خویش را بروں آر یا تو به بکن ز بدگمانی ! ! یا تو اپنے صوفی کو باہر نکال یا پھر بد گمانی سے تو بہ کر اے شک کرنے والو! آسمانی فیصلہ کی طرف آجاؤ! نشان آسمانی رخ جلد 4 صفحہ 355) اے بزرگو! اے مولویو! اے قوم کے منتخب لوگو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے.غیظ اور غضب میں آکر حد سے مت بڑھو.میری اس کتاب کے دونوں حصوں کو غور سے پڑھو کہ ان میں نور اور ہدایت ہے خدا تعالیٰ سے ڈرو اپنی زبان کو تکفیر سے تھام لو.خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں ایک مسلمان ہوں.امنت بالله وملئكته وكتبه ورُسُلِهِ ولبعث بعد الموت واشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله فاتقوا الله ولا تقولوا لست مسلماً واتقوا الملك الذي اليه ترجعون
93 اور اگر اب بھی اس کتاب کے پڑھنے کے بعد شک ہے تو آؤ آزمالو خدا کس کے ساتھ ہے اے میرے مخالف الرائے مولویو اور صوفیو! اور سجادہ نشینو! جو ملکفر اور مکذب ہو مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ لوگ مل جُل کر یا ایک ایک آپ میں سے اُن آسمانی نشانوں میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں جو اولیاء الرحمن کے لازم حال ہو ا کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ تمہیں شرمندہ کر یگا اور تمہارے پردوں کو پھاڑ دیگا اور اُسوقت تم دیکھو گے کہ وہ میرے ساتھ ہے کیا کوئی تم میں ہے؟ کہ اس آزمائش کے لئے میدان میں آوے اور عام اعلان اخباروں کے ذریعہ سے دیکر ان تعلقات قبولیت میں جو میرا رب میرے ساتھ رکھتا ہے اپنے تعلقات کا موازنہ کرے.یاد رکھو کہ خدا صادقوں کا مددگار ہے وہ اسی کی مدد کر یگا جسکو وہ سچا جانتا ہے.چالاکیوں سے باز آ جاؤ کہ وہ نزدیک ہے.کیا تم اُس سے لڑو گے؟ کیا کوئی متکبرانہ اچھلنے سے در حقیقت اُونچا ہو سکتا ہے کیا صرف زبان کی تیزیوں سے سچائی کو کاٹ دو گے اُس ذات سے ڈرو جس کا غضب سب غضوں سے بڑھ کر ہے.إِنَّهُ مَنْ يَّأْتِ رَبَّهُ مَجْرِماً فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيَى الناصح خاکسار غلام احمد قادیانی از لودھیانه محله اقبال گنج (ازالہ اوھام - رخ جلد 3 صفحہ 102) ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار ( در مشین اردو صفحہ 128 ) ( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 137) مردِ میداں باش و حال ما ہیں نصرت آں ذوالجلال ما ہیں مرد میدان بن اور ہمارا حال دیکھ.نیز ہمارے اس ذوالجلال کی مدددیکھ طعنہ ہا بے امتحاں نامردی است امتحان کن پس مآل ما ببیں بغیر امتحان کے طعنے دینا نا مردی ہے.امتحان کر پھر ہمارا نتیجہ اور انجام دیکھ (حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 599) پھر ایک اور پیشگوئی نشان الہی ہے جو براہین کے صفحہ 238 میں درج ہے.اور وہ یہ ہے الرحمن علم القرآن.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علم قرآن کا وعدہ دیا تھا.سو اس وعدہ کو ایسے طور سے پورا کیا کہ اب کسی کو معارف قرآنی میں مقابلہ کی طاقت نہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی مولوی اس ملک کے تمام مولویوں میں سے معارف قرآنی میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہے اور کسی سورۃ کی ایک تفسیر میں لکھوں اور ایک کوئی اور مخالف لکھے تو وہ نہایت ذلیل ہوگا اور مقابلہ نہیں کر سکے گا.اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اصرار کے مولویوں نے اس طرف رخ نہیں کیا.پس یہ ایک عظیم الشان نشان ہے مگر ان کیلئے جو انصاف اور ایمان رکھتے ہیں.انجام آتھم.رخ جلد 11 صفحہ 293-291)
94 مذہب وہی مذہب ہے جو زندہ مذہب ہو اور زندگی کی روح اپنے اندر رکھتا ہو اور زندہ خدا سے ملاتا ہو.اور میں صرف یہی دعویٰ نہیں کرتا کہ خدا تعالیٰ کی پاک وحی سے غیب کی باتیں میرے پر کھلتی ہیں اور خارق عادت امر ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتا ہوں کہ جو شخص دل کو پاک کر کے اور خدا اور اس کے رسول پر سچی محبت رکھ کر میری پیروی کرے گا وہ بھی خدا تعالیٰ سے یہ نعمت پائے گا.مگر یاد رکھو کہ تمام مخالفوں کے لئے یہ دروازہ بند ہے اور اگر دروازہ بند نہیں ہے تو کوئی آسمانی نشانوں میں مجھ سے مقابلہ کرے.اور یا درکھیں کہ ہر گز نہیں کر سکیں گے.پس یہ اسلامی حقیت اور میری حقانیت کی ایک زندہ دلیل ہے.ختم ہوا پہلانمبر اربعین کا.والسلام علی من اتبع الہدیٰ المشتهر مرزا غلام احمدمسیح موعود از قادیان 23 جولائی 1900ء اربعین نمبر 1.رخ جلد 17 صفحہ 346) آؤ لوگو! کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے !! لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے الہام حضرت اقدس در نمین اردو ) ( آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 225) بارھویں پیشگوئی جو براہین احمدیہ کے صفحہ 238 اور 239 میں لکھی ہے علم قرآن ہے اس پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تجھ کو علم قرآن دیا گیا ہے ایسا علم جو باطل کو نیست کریگا.اور اسی پیشگوئی میں فرمایا کہ دوانسان ہیں جسکو بہت ہی برکت دی گئی.ایک وہ معلم جس کا نام محمد مصطفی یہ ہے اور ایک یہ متعلم یعنی اس کتاب کا لکھنے والا.اور یہ اس آیت کی طرف بھی اشارہ ہے جو قرآن شریف میں اللہ جلشانہ فرماتا ہے.واخرین مـنـهـم لـمـا يلحقوا بهم - (الجمعۃ : 4 ) یعنی اس نبی کے اور شاگرد بھی ہیں جو ہنوز ظاہر نہیں ہوئے اور آخری زمانہ میں انکا ظہور ہوگا.یہ آیت اسی عاجز کی طرف اشارہ تھا کیونکہ جیسا کہ ابھی الہام میں ذکر ہو چکا ہے یہ عاجز روحانی طور پر آنحضرت ﷺ کے شاگردوں میں سے ہے.اور یہ پیشگوئی جو قرآنی تعلیم کی طرف اشارہ فرماتی ہے.اس کی تصدیق کیلئے کتاب کرامات الصادقین لکھی گئی تھی.جسکی طرف کسی مخالف نے رُخ نہیں کیا.اور مجھے اس خدا کی قسم ہے جسکے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے قرآن کے حقائق اور معارف کے سمجھنے میں ہر ایک روح پر غلبہ دیا گیا ہے اور اگر کوئی مولوی مخالف میرے مقابل پر آتا جیسا کہ میں نے قرآنی تفسیر کے لئے بار بارانکو بلایا تو خدا اسکو ذلیل اور شرمندہ کرتا.سو ہم قرآن جو مجھ کو عطا کیا گیا یہ الہ جلشانہ کا ایک نشان ہے میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب دنیا دیکھے گی کہ میں اس بیان میں سچا ہوں.(سراج منیر.رخ جلد 12 صفحہ 41-40)
95 چوتھا نشان قرآن کریم کے دقائق اور معارف کا ہے کیونکہ معارف قرآن اُس شخص کے سوا اور کسی پر نہیں گھل سکتے جس کی تطہیر ہو چکی ہو.لا يَمَسُّهُ إِلَّا المُطَهَّرُونَ (الواقع : 80) میں نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ میرے مخالف بھی ایک سُورۃ کی تفسیر کریں اور میں بھی تفسیر کرتا ہوں.پھر مقابلہ کر لیا جاوے، مگر کسی نے جرات نہیں کی.محمد حسین وغیرہ نے تو یہ کہہ دیا کہ ان کو عربی کا صیغہ نہیں آتا اور جب کتابیں پیش کی گئیں تو بودے اور رکیک عذر کر کے ٹال دیا کہ یہ عربی تو اروی کچالو ہے.مگر یہ نہ ہو سکا کہ ایک صفحہ ہی بنا کر پیش کر دیتا اور دکھا دیتا کہ عربی یہ ہے.غرض یہ چارنشان ہیں جو خاص طور پر میری صداقت کے لئے مجھے ملے ہیں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 183) پانچواں وہ امر جو مباہلہ کے بعد میرے لئے عزت کا موجب ہوا.علم قرآن میں اتمام حجت ہے.میں نے یہ علم پا کر تمام مخالفوں کو کیا عبدالحق کا گروہ اور کیا بطالوی کا گروہ غرض سب کو بلند آواز سے اس بات کے لئے مدعو کیا کہ مجھے علم حقائق اور معارف قرآن دیا گیا ہے.تم لوگوں میں سے کسی کی مجال نہیں کہ میرے مقابل پر قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کر سکے.سو اس اعلان کے بعد میرے مقابل ان میں سے کوئی بھی نہ آیا.اور اپنی جہالت پر جو تمام ذلتوں کی جڑ ہے انہوں نے مہر لگا دی.سو یہ سب کچھ مباہلہ کے بعد ہوا.اور اسی زمانہ میں کتاب کرامات الصادقین لکھی گئی.اس کرامت کے مقابل پر کوئی شخص ایک حرف بھی نہ لکھ سکا.تو کیا اب تک عبد الحق اور اس کی جماعت ذلیل نہ ہوئی.اور کیا اب تک یہ ثابت نہ ہوا کہ مباہلہ کے بعد یہ عزت خدا نے مجھے دی.انجام آتھم.رخ جلد 11 صفحہ 311 حاشیہ ) ان تمام الہامات میں یہ پیشگوئی تھی کہ خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے اور میرے ہی ذریعہ سے دین اسلام کی سچائی اور تمام مخالف دینوں کا باطل ہونا ثابت کر دے گا.سو آج وہ پیشگوئی پوری ہوئی.کیونکہ میرے مقابل پر کسی مخالف کو تاب و تواں نہیں کہ اپنے دین کی سچائی ثابت کر سکے میرے ہاتھ سے آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور میرے قلم سے قرآنی حقائق اور معارف چمک رہے ہیں.اٹھو اور تمام دنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یاسکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یا کسی اور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے کہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے اور معارف اور حقائق کے بیان کرنے میں میرا مقابلہ کر سکے میں وہی ہوں جسکی نسبت یہ حدیث صحاح میں موجود ہے کہ اس کے عہد میں تمام ملتیں ہلاک ہو جائیں گی مگر اسلام کہ وہ ایسا چمکے گا جو درمیانی زمانوں میں کبھی نہیں چکا ہو گا.تریاق القلوب.رخ جلد 15 صفحہ 267) علیم قرآں.علم آں طیب زباں علیم آں طیب زباں علم غیب از وحی ءِ خلاق جہاں قرآن کا علم اور اس پاک کلام کا علم اور الہام الہی سے غیب کا علم چوں نشا نها داده اند ہر ہمیچوں شاہداں استادہ بہ تین علم مجھے نشان کے طور پر دیئے گئے ہیں اور تینوں بطور گواہ میری تائید میں کھڑے ہیں سم اند ( در نمین فارسی ) ( تحفه غزنویہ.رخ جلد 15 صفحہ 533)
96 الہام حضرت اقدس دعوت مقابلہ معجزات میں اور مجھے آگ سے مت ڈراؤ.کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام لے ہے.(اربعین نمبر 3 صفحہ 37 38) یہ فقرہ بطور حکایت میری طرف سے خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے.‘“ (اربعین نمبر 3 صفحہ 38 حاشیہ ) عرض کیا گیا کہ آریہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے پر اعتراض کرتے ہیں تو فرمایا:.ان لوگوں کے اعتراض کی جڑ معجزات اور خوارق پر نکتہ چینی کرنا ہے.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے دعویٰ کرتے ہیں اور اسی لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں مبعوث کیا ہے کہ قرآن کریم میں جس قدر معجزات اور خوارق انبیاء کے مذکور ہوئے ہیں ان کو خود دکھا کر قران کی حقانیت کا ثبوت دیں.ہم دعوی کرتے ہیں کہ اگر دنیا کی کوئی قوم ہمیں آگ میں ڈالے یا کسی اور خطرناک عذاب اور مصیبت میں مبتلا کرنا چاہے تو خدا تعالیٰ اپنے ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 479-480) وعدہ کے موافق ضرور ہمیں محفوظ رکھے گا.........نشاں کو دیکھ کر انکار کب تک پیش جائے گا ارے اک اور جھوٹوں پر قیامت آنیوالی ہے یہ کیا عادت ہے کیوں کچی گواہی کو چھپاتا ہے تری اک روزاے گستاخ شامت آنیوالی ہے ترے مکروں سے اے جاہل مرا نقصاں نہیں ہرگز کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنیوالی ہے اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں کہ عزت مجھ کو اور تجھ پر ملامت آنیوالی ہے طریق مقابلہ ( حقیقت الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 595) علامات چہارم یعنے معارف قرآنی کا کھلنا ہمیں احسن انتظام یہ ہے کہ ہر یک فریق چند آیات قرآنی کے معارف و حقائق ولطائف لکھ کر انجمن میں مین جلسہ عام میں سناوے پھر اگر جو کچھ کسی فریق نے لکھا ہے کسی پہلی تفسیر کی کتاب میں ثابت ہو جائے تو یہ شخص محض ناقل متصور ہو کر مورد عتاب ہو لیکن اگر اسکے بیان کردہ حقائق و معارف قرآنی جونی حد ذاتها صحیح اور غیر مخدوش بھی ہوں ایسے جدید اور نو وارد ہوں جو پہلے مفسرین کے ذہن انکی طرف سبقت نہ لے گئے ہوں اور با این ہمہ وہ معنے مـن كــل الوجوہ تکلف سے پاک اور قرآن کریم کے اعجاز اور کمال عظمت اور شان کو ظاہر کرتے ہوں اور اپنے اندر ایک جلالت اور ہیبت اور سچائی کا نور رکھتے ہوں تو سمجھنا چاہیے کہ وہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہیں جو خداوند تعالیٰ نے اپنے مقبول کی عزت اور قبولیت اور قابلیت ظاہر کرنے کیلئے اپنے لدنی علم سے عطافرمائی ہیں.یہ ہر چہار محک امتحان جو میں نے لکھی ہیں یہ ایسی سیدھی اور صاف ہیں کہ جو شخص غور کے ساتھ انکوز برنر لا ئیگاوہ بلاشبہ اس بات کو قبول کرلیگا کہ متخاصمین کے فیصلہ کیلئے اس سے صاف اور سہل تر اور کوئی روحانی طریق نہیں اور میں اقرار کرتا ہوں اور اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں اس مقابلہ میں مغلوب ہو گیا تو اپنے ناحق پر ہونے کا خود اقرار شائع کر دونگا.اور پھر میاں نذیر حسین صاحب اور شیخ بٹالوی کی تکفیر اور مفتری کہنے کی حاجت نہیں رہے گی.(آسانی فیصلہ رخ جلد 4 صفحہ 330)
97 باب دوم حضرت اقدس کا ذکر قرآن کریم میں قرآن کریم میں انبیاء کے ذکر کا دستور خداوندی وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَ مِنْهُم مَّنْ لَّمْ نَقْصُصُ عَلَيْكَ وَ مَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِي بِايَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ فَإِذَا جَاءَ أَمُرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ (المومن: 79) سورۃ نور میں بھی ذکر فرمایا گیا ہے کہ سلسلہ محمد یہ موسویہ سلسلہ کا مثیل ہے.حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیانی انبیاء کا ذکر قرآن شریف نے نہیں کیا لَم نَقْصُصُ کہہ دیا.یہاں بھی سلسلہ محمد یہ میں درمیانی خلفاء کا نام نہیں لیا.جیسے وہاں ابتداء اور انتہا بتائی یہاں بھی یہ بتا دیا کہ ابتداء مثیل موسیٰ سے ہوگی اور انتہاء مثیل عیسی پر.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 475)
98
99 فہرست مضامین نمبر شمار عنوانات صفحہ نمبر شمار پہلی فصل اصولی فرمودات دوسری فصل عنوانات صفحه 115 1 حضرت اقدس کے الہامات و کشوف 105 15 سورۃ فاتحہ میں حضرت اقدس کا ذکر 2 سارا قرآن ہمارے ذکر سے بھرا ہوا ہے 106 16 ترجمہ سورۃ فاتحہ بیان فرمودہ حضرت اقدس// قرآن شریف کی جس آیت میں 17 سورۃ فاتحہ میں قرآن کریم کی تمام تعلیم کا آنحضرت مراد ہوں.اسی آیت کا مصداق مسیح موعود بھی ہوتا ہے.4 حضرت اقدس کے دعاوی کا فہم قرآن کے فہم کی کلید ہے.107 11 5 حضرت اقدس کا ذکر اجمالاً قرآن حکیم میں اور تفصیلاً احادیث میں پایا جاتا ہے.اللہ تعالی پرده برانداز کلام نہیں فرماتا.108 "/ "1 خلاصہ ہے.18 سورۃ الفاتحہ کا مقصد اعلیٰ حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت کی ترقی کی خبر ہے.19 سورۃ فاتحہ کا پہلا نام فاتحۃ الکتاب اور اس کی وجہ.20 السبع المثاني.....سورة فاتحہ حضرت اقدس پر دوبارہ نازل ہوئی ہے.21 سورۃ فاتحہ ایک پیشگوئی ہے.7 مختلف پیرایوں میں ذکر کی حکمت قرآن کریم کی سورتوں میں حضرت اقدس 22 سورۃ فاتحہ کے نزول کی پیشگوئی.اور ان کی جماعت کا ذکر.قرآن کریم میں حضرت اقدس کے کئی 24 بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن کریم کا نام ہیں.11 109 116 // 117 // 119 23 سورۃ فاتحہ میں تین دعا ئیں اور مسیح موعود 121 خلاصہ ہے.10 سب نبیوں کے نام حضرت اقدس کو 25 بسم اللہ کا مقام اور مقصد دیئے گئے ہیں.// 110 اسم اعظم کے ساتھ الرَّحْمنِ الرَّحِيم 11 مسیح موعود تمام انبیاء کے مظہر ہیں.تمام صفات عظیمہ کا خلاصہ ہے.متفرقہ کے ظلی طور پر حامل ہیں 12 حضرت اقدس وارث مصطفیٰ نہیں 111 112 بیان فرمودہ حضرت اقدس 28 تفسیر.لفظ ”حمد“ حضرت اقدس تمام انبیاء کے کمالات 27 الحمُدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - ترجمه - 13 قرآن کریم میں آئندہ کی پیشگوئیوں 29 الْحَمْدُ لِلَّهِ میں آنحضرت کی طرف سے مراد حضرت اقدس ہیں.14 حضرت اقدس کا ذکر قرآن کریم میں اور آپ کی شان 113 114 اشارہ ہے.30 اللہ تعالی علی طور پر اپنی صفات دینا چاہتا ہے.122 123 124 125 // 126 //
100 نمبر شمار عنوانات صفحہ نمبر شمار عنوانات 31 صحا بہ رسول اکرم میں بھی ان صفات کی 47 آنحضرت کی حضرت موسیٰ سے مماثلت اور حضرت اقدس مثیل عیسی ہیں.تجلی چمکی.32 حضرت مسیح موعود کی جماعت بھی صحابہ 48 یوم الدین کی تجلی حضرت مسیح موعود کے ہی ہوگی.127 لئے بطور معجزات کے ہے.صفحہ 143 49 صفات اربعہ میں حضرت اقدس کا ذکر 33 الحمد میں دو احمدوں کا ذکر ہے یعنی آنحضرت اور حضرت مسیح موعود 34 رب العالمین.ترجمہ اور معانی // 129 مجموعی اعتبار سے 50 صفات اربعہ کا موصوف اللہ تعالیٰ ہے.51 صفات اربعہ کی معنوی وضاحت.35 روحانی پرورش بھی خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے 130 52 صفات اربعہ مظہر الوہیت ہیں.36 رب العالمین میں حضرت اقدس کا ذکر 131 37 الرحمن ترجمہ اور معنی 38 الر تعریف و معانی 39 صفت رحیمیت صرف مومنوں کے ساتھ مخصوص ہے 40 رسول اکرم صفات رحمن اور رحیم کے مظہر اول ہیں.41 اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو صفت 132 133 134 136 53 آنحضرت صفاتِ اربعہ باری تعالیٰ کے مظہر کامل ہیں.146 // // // 147 54 باری تعالیٰ کی صفات اربعہ میں ایک تعلیم ہے 148 55 جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والے کا فرض 149 56 صفات اربعہ کا ظہور مسیح موعود امام آخرالزمان میں 57 إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.ترجمہ اور معانی 58 معافی تفسیر - إِيَّاكَ نَعْبُدُ رحیمیت یعنی اسم احمد کا وارث بنایا ہے 59 آیت ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ // 153 // 155 156 // 157 158 160 // 161 162 // میں حضرت اقدس کا ذکر 60 اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمُ.آیت کے لفظی معنی 61 معانی ہدایت 62 تفسیری معنی ہدایت 63 ہدایت کی اقسام 138 140 141 42 قرآن کریم نے اسم محمد کو موسیٰ اور اسم احمد کو عیسی کا مثیل قرار دیا ہے.43 مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ.....لفظ دین کے لغوی معانی آنحضرت صفت مَالِكِ يَوْمِ الدین کے مظہر ہیں.45 حضرت مسیح موعود کے زمانے کا نام یوم الدین ہے.64 ہدایت خدا تعالیٰ ہی سے ملتی ہے.65 ہدایت سے مراد بعثت حضرت اقدس 66 معانی ”صراط" 46 اسم احمد کے وارث حضرت اقدس ہیں اور 67 حقیقی معانی ءِ صراط جمالی اعتبار سے یوم الدین کا ظہور ہے.142 68 صراط سے مراد یح موعود کی راہ ہے.
نمبر شمار 101 عنوانات صفحہ نمبر شمار عنوانات صفحہ 69 معانی استقامت 164 87 الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ایک دعا ہے.181 70 اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اُم الادعیہ ہے 165 88 الضالين معافی 183 71 صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے حقیقی معانی 89 الضالين....اور دجال سے مراد عیسائی ہیں را 72 کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کیلئے کھلا ہے 166 90 حضرت اقدس کا ذکر قرآن کریم میں 73 ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کے کلام کے زندہ ثبوت موجود ہوتے ہیں.74 أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ سے مراد حضرت اقدس اور ان کی جماعت ہے.75 ایک عزت کا خطاب 76 منعم علیہ دوگروہ ہیں.167 168 169 // ولا الضالین کے اعتبار سے 91 غير المغضوب عليهم و الا الضالین میں ایک تعلیم ہے 92 معانی ”مغضوب “ اور ”ضال حدیث رسول اکرم کے مطابق 66 93 تغير مغضوب علیہم اور ضالین “ حضرت اقدس کے 77 اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ وعدہ مثیل وظل انبیاء ہے 170 فرمودات کے مطابق // 184 185 186 78 ظلی اور بروزی نبوت دائمی ہے.79 حضرت اقدس کی بعثت بطور بروز آنحضرت ہے.171 173 94 غير المغضوب عليهم ولا الضالین دعا کے اعتبار سے حضرت اقدس کا ذکر 187 80 اس آیت میں حضرت اقدس کا ذکر 95 الدجال سے مراد یہود و نصاری ہیں 189 ایک دعا کے اعتبار سے 81 غَيرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ....معانى مغضوب علیہم 82 المَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد مولوی فرقہ ہے.83 الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد مسیح موعود کے دشمن ہیں.84 الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ میں حضرت اقدس کی بعثت کی پیشگوئی ہے.85 مثیل مسیح اور مغضوب علیہم 175 177 "/ 179 180 96 سورة الفاتحہ کا مقصود اعلی مسیح موعود اور ان کی جماعت کی ترقی کی خبر ہے.97 حضرت اقدس کا ذکر قرآن کریم کے اول و آخر میں.تیسری فصل حضرت اقدس کا ذکر متفرق آیات قرآنیہ میں 98 باری تعالیٰ کے اسم آخر کے مظہر ہونے کے اعتبار سے 99 دوا حمد ہونے کے اعتبار سے 100 مثیل انبیاء ہونے کے اعتبار سے 190 // 192 193 194 101 | آخر زمانہ کے حقیقی آدم آنحضرت ہیں 195 86 حضرت اقدس کا ذکر قرآن میں 102 | محدث نبی کا مثیل ہو کر وہی نام پاتا ہے 196 غیر المغضوب کے اعتبار سے 181 103 آدم ثانی ہونے کے اعتبار سے
نمبر شمار عنوانات 102 صفحہ نمبر شمار عنوانات صفحه 104 حضرت اقدس کی پیدائش جمعہ کے دن 124 لفظ مُطَهَّرُک سے مراد حضرت اقدس ہیں 223 125 خلفاء سلسلہ محمدیہ کی تعین کے اعتبار سے 224 اور عصر کے وقت ہوئی.پیدا ہوئے 196 197 106 آدم ہزار ششم ہونے کے اعتبار سے 198 107 آدم آخر زمان ہونے کے اعتبار سے 199 108 خاتم الخلفاء اور آدم ایک ہیں.// 225 105 حضرت اقدس آدم کی طرح سے تو ام 126 مکفرین کے سب وشتم کے اعتبار سے 127 | ذاتی نمونے کے اعتبار سے 128 صاحب انعام ہونے کے اعتبار سے 226 129 معراج اور مسجد اقصیٰ سے مراد حضرت اقدس کا زمانہ اور مسجد آپ کی مسجد ہے 227 130 غلبہ اسلام عقلی استدلال کے اعتبار سے 228 131 حضرت اقدس کو شناخت کئے جانے کے اعتبار سے 109 مثیل نوح ہونے کے اعتبار سے.110 مثیل ابراہیم ہونے کے اعتبار سے 111 مثیل سکتی ہونے کے اعتبار سے 201 "/ 203 "/ // 112 خلافت موسوی اور خلافت محمدی کی مماثلت 132 جہاد بالسیف کی ممانعت کے اعتبار سے 229 کے اعتبار سے 113 ہر مجدد کا خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک کاسر 204 206 خاص نام ہے.114 حضرت اقدس تمثیل مسیح ابن مریم ہیں " 115 کا سر الصلیب ہونے کے اعتبار سے 211 116 آنحضرت ﷺ کے بروز ہونے کے اعتبار سے 117 آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانی کے 133 حضرت اقدس کا ملہم من اللہ ہونے کے اعتبار سے 134 تبتل الی اللہ کے اعتبار سے 135 مرسلین باری تعالیٰ کی فتح کے اعتبار سے 136 حضرت اقدس کی رسالت کی مشکلات کے اعتبار سے 137212 حضرت اقدس کی آمد سے قیامت کبری کا التوا ہوا 230 231 // 232 233 اعتبار سے 118 قرآن میں بیان کردہ دو گروہوں کے اعتبار سے 119 گروه آخرین سے حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت مراد ہے.215 216 138 حضرت اقدس کی وحی کا ذکر قرآن شریف میں 139 | مسلمانوں کا یہود صفت ہونے کے اعتبار سے // 234 218 140 وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا.کے اعتبار سے 235 120 آنحضرت کے جمالی مظہر 141 کامل علم غیب اور مکالمہ مخاطبہ کے اعتبار سے 236 ہونے کے اعتبار سے 121 خلیفۃ اللہ اور خاتم الخلفاء ہونے کے اعتبار سے 122 ایک نیا نکتہ 219 "1 221 142 عذاب کے نازل ہونے کی خبر کے اعتبار سے 143 عذاب سے مراد طاعون ہے 237 238 144 دابتہ الارض کے ظاہر ہونیکے اعتبار سے 240 123 حضرت اقدس کی رسالت کے اعتبارت 222 145 نئی زمین اور نیا آسمان کے اعتبار سے 241
103 نمبر شمار عنوانات صفحہ نمبر شمار 146 مردہ زمین کو زندہ کرنے کے اعتبار سے 241 147 | مردے زندہ کئے جانے کے فرمان کے اعتبار سے 242 عنوانات 163 اصحاب کہف اور رقیم سے مراد حضرت اقدس ہیں 164 محدث کا الہام قطعی اور یقینی ہوتا ہے صفحہ 253 // // 148 بنی نوع انسان کی ہمدردی کے اعتبار سے 243 165 حضرت اقدس کا نام ذوالقرنین ہے 166 نفخ صور سے آسمانی مصلح کی بعثت کی خبر ہے 259 // 149 دعوت اور تبلیغ عام کے اعتبار سے 150 حضرت اقدس نوع انسان کو جمع کریں گے 244 167 حضرت اقدس کے وقت میں انسانیت 151 دین اور دنیا کی بھلائی کے اعتبار سے 152 نشانات دکھلانے کے اعتبار سے // جمع ہوگی 260 245 168 آفات کا تدارک مسیح موعود کی دعا سے ہوگا 261 153 إِنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ 169 حضرت اقدس کے وقت کی پیشگوئی أطْرَافِهَا...م میں حضرت اقدس کا ذکر 246 170 - سورة الجمعة.......واخرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوبِهِمُ کے مصداق | 154 قرآنی معجزات اور خوارق کو خود کر کے // حضرت اقدس ہیں دکھانے کے اعتبار سے 155 لیلۃ القدر سے حضرت اقدس کا زمانہ ہے 247 171 حضرت اقدس اور ان کی جماعت بھی 156 دخان سے مراد حضرت اقدس کے زمانہ صحابہ رسول اکرم ہیں کا حال ہے 157 امر حکیم سے مراد معارف الہیہ کا ظہور ہے // مشاہدہ کرنے والے دو گروہ 248 172 آنحضرت کے معجزات و برکات کا 158 مخصوص ستاروں کے ظہور کے اعتبار سے 249 173 حضرت اقدس رسول اکرم کے شاگرد "/ اور بروز ہیں 159 مطھر اور متقی ہونے کے اعتبار سے 160 حضرت اقدس کو خدا کے ہاتھ نے 174 بروز تکمیل اشاعت کے اعتبار سے 175 حضرت اقدس رسول اکرم کی جمالی متجلی ہیں پاک کیا ہے چوتھی فصل 250 حضرت اقدس کا ذکر قرآن حکیم 176 سورۃ التکویر.علامات ظہور مہدی میں مکمل سورۃ قرآنیہ کے اعتبار سے 177 سورۃ الانفطار 161 سورۃ الکہف فتنہ دجال اور حضرت اقدس 252 178 سورة الانشقاق 162 حضرت اقدس کی بعثت یا جوج ماجوج 179 | سورة القدر سورۃ القدر میں اول کے وقت میں ہوگی آنحضرت کی آمد کی خبر ہے 263 264 265 267 268 270 272 273 275 276 // 180 لیلۃ القدر کے ایک اور معانی بھی ہیں (277) اور
نمبر شمار عنوانات 104 صفحہ نمبر شمار عنوانات صفحہ 181 مصلحین کی آمد کے ساتھ انتشار 195 سورة الکوثر میں ایک بروزی وجود کا روحانیت ہوتا ہے 277 وعدہ ہے 182 انا انزلنه في ليلة القدر...مي 196 حضرت اقدس اور آپ کی جماعت حضرت اقدس کی بعثت کی خبر ہے 183 تنزل الملئكة والروح ميں حضرت اقدس کی بعثت کی خبر ہے 184 حضرت اقدس کے دوست اور پیارے کون ہیں؟ 278 279 280 185 سورة الزلزال.یہ سورۃ اپنی نشانیوں کے ساتھ ایک مصلح کی آمد کی خبر ہے 281 186 اخرجت الأرض...حضرت اقدس کے وقت کے لئے مخصوص تھا 187 فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره - 283 آنحضرت کی اولاد ہے 291 197 حضرت اقدس آنحضرت کے بیٹے ہیں 292 198 سورۃ اللہب.ابولہب سے مراد حضرت اقدس کا دشمن ہے 199 سورۃ الاخلاص.اس سورۃ میں مسیح موعود 293 کی آمد اور غلبہ نصرانیت کی پیشگوئی ہے 294 200 دجال یعنی آخری مظہر شیطان کا ذکر قرآن کے اول و آخر میں 201 | حضرت اقدس کا ذکر قرآن کریم کے اول و آخر میں کے مطابق حضرت اقدس کو قبول کرنا 202 سورۃ الفلق.حضرت اقدس کو دکھ 284 دینے سے پناہ مانگی گئی ہے ایک بشارت ہے 188 احمدیت میں داخل ہونا ایک شہادت ہے 285 203 " صبح صادق میں حضرت اقدس کی 189 سورة العصر - حضرت اقدس مثيل آدم ہیں 190 ہدایت اور ضلالت کے ہزار سالہ ادوار 286 آمد کی بشارت ہے 204 سورۃ الناس.لفظ ناس سے مراد دجال // 295 297 ہے.اس کے شر کو مسیح موعود دور کرے گا 298 میں حضرت اقدس کا دور ہدایت 205 | حضرت اقدس تمثیل آدم ہیں 287 206 دجال سے مراد نصاری کا گروہ ہے ساتواں ہزار ہے 299 // 191 آنحضرت کا وقت عصر کا وقت تھا.207 رجال مسیح موعود کے مقابلہ میں ہلاک ہوگا را آپ کا وقت قریب غروب آفتاب ہے 288 192 الف شهر سے مراد ”الف سنة “ ہے " 208 | سورۃ الفلق اور الناس میں مسیح موعود کے زمانے کا ذکر ہے 193 سورۃ الفیل.حضرت اقدس پر الہام ہوئی 289 209 | حضرت اقدس کا ذکر قرآن کریم کی 194 سورۃ قریش.قادیان مکہ کے مماثل ہے 290 آخری تین سورتوں میں یکجا طور پر 300 301
105 پہلی فصل اصولی فرمودات حضرت اقدس کے الہامات و کشوف یک النِي فِي الْكِتَب مَسْطُورٌ ترجمہ از مرتب.میں کتاب میں لکھا ہوا ہوں یعنی میرا کتاب میں ذکر ہے.( تذکرہ صفحہ 512 ایڈیشن چهارم 1977 ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) إِنَّا اَنْزَلْنَاهُ قَرِيبًا مِّنَ الْقَادِيَانِ.وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ.صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولَهُ.وَكَانَ أَمُرُ اللَّهِ مَفْعُولًا.قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ تَمْتَرُونَ.ہم نے اس کو قادیان کے قریب اُتارا.اور حق کے ساتھ اُتارا.اور حق کے ساتھ اُترا.اور اس میں وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو قرآن اور حدیث میں تھی.یعنی وہی مسیح موعود ہے.جس کا ذکر قرآن شریف اور حدیثوں اربعین نمبر 2 رخ جلد 17 صفحہ 354) میں تھا.سچی بات یہی ہے.جس میں تم لوگ شک کرتے ہو.اس جگہ مجھے یاد آیا کہ جس روز وہ الہام مذکورہ بالا جس میں قادیان میں نازل ہونے کا ذکر ہے ہوا تھا اس روز کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم میرزا غلام قادر میرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا إِنَّا أَنْزَلْنَهُ قَرِيباً مِنَ الْقَادِيَانِ تو میں نے سن کر بہت تعجب کیا کہ قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے؟ تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے مکہ اور مدینہ اور قادیان یہ کشف تھا.(ازالہ اوہام.رخ جلد 3 صفحہ 140 حاشیہ ) اب اس رسالہ (خطبہ الہامیہ) کی تحریر کے وقت میرے پر یہ منکشف ہوا کہ جو کچھ براہین احمدیہ میں قادیان کے بارے میں کشفی طور پر میں نے لکھا یعنی یہ اس کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے درحقیقت یہ صحیح بات ہے.کیونکہ یہ یقینی امر ہے کہ قرآن شریف کی یہ آیت که سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِى بَارَكْنَا حَوْلَهُ ( بنی اسرائیل (2) معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے.اور بغیر ا سکے معراج ناقص رہتا ہے.پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت
106 الحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا.ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت ﷺ کا تھا.برکات اسلامی کے زمانہ تک، جو مسیح موعود کا زمانہ ہے ، پہونچا دیا.پس اس پہلو کے رو سے جو اسلام کے انتہا زمانہ تک آنحضرت ﷺ کا سیر کشفی ہے.مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے.جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے.مُبَارَكٌ وَّ مُبَارِكٌ وَكُلُّ أَمْرٍ مُّبَارَكِ يُجْعَلُ فيه.اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا.قرآن شریف کی آیت بَارَكْنَا حَوْلَهُ کے مطابق ہے.پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے.(تذکرہ صفہ نمبر 352 ایڈیشن چہارم مطبوعہ 1977 ء ربوہ) مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے کہ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ.(سورة الصف:10) ( نزول المسیح رخ جلد 19 صفحہ 113) سارا قرآن ہمارے ذکر سے بھرا ہوا ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ:- اگر کوئی ہم سے سیکھے تو سارا قرآن ہمارے ذکر سے بھرا ہوا ہے.ابتداء ہی میں ہے.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمُتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحہ: 5 تا 7) اب ان سے کوئی پوچھے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ کون سا فرقہ تھا تمام فرقے اسلام کے اس پر متفق ہیں کہ وہ یہودی تھے اور ادھر حدیث شریف میں ہے کہ میری امت یہودی ہو جائے گی تو پھر بتلاؤ کہ اگر مسیح نہ ہوگا تو وہ یہودی کیسے بنیں گے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 583) لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں مسیح موعود کا ذکر نہیں ہے وہ نہایت غلطی پر ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ مسیح موعود کا ذکر نہایت اکمل اور اتم طور پر قرآن شریف میں پایا جاتا ہے.دیکھو اؤل قرآن شریف نے آیت كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (المزمل: 16) میں صاف طور پر ظاہر کر دیا کہ آنحضرت ﷺ مثیل موسی ہیں کیونکہ اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ ہم نے اس نبی کو اُس نبی کی مانند بھیجا ہے جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا اور واقعات نے ظاہر کر دیا کہ یہ بیان اللہ جل شانہ کا بالکل سچا ہے.(ایام الصلح.رخ جلد 14 صفحہ 290) الہامی اشعار کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے جس کی مماثلث کو خدا نے بتا دیا حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا ( منقول از ٹائیل پیچ فتح اسلام - ر- خ جلد 3 ) ( تذکره صفحه 170 ) ( در شین اردو )
107 صلى الله قرآن شریف کی جس آیت میں آنحضرت علی اُسی آیت کا مصداق مسیح موعود بھی ہوتا ہے.مراد ہوں آیت هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهِ (الصف:10) آنحضرت ﷺ کے حق میں ہے.اور پھر یہی آیت مسیح موعود کے حق میں بھی ہے.جیسا کہ تمام مفسر اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں.پس یہ بات کوئی غیر معمولی امر نہیں ہے کہ ایک آیت کا مصداق آنحضرت ﷺ ہوں اور پھر مسیح موعود بھی اسی آیت کا مصداق ہو.بلکہ قرآن شریف جوز والوجوہ ہے اُس کا محاورہ اسی طرز پر واقع ہو گیا ہے کہ صل الله ایک آیت میں آنحضرت له مراد اور مصداق ہوتے ہیں اور اسی آیت کا مصداق مسیح موعود بھی ہوتا ہے.جیسا که آیت هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى (القف: 10 ) سے ظاہر ہے.اور رسول سے مراد اس جگہ آنحضرت ﷺ بھی ہیں اور مسیح بھی مراد ہے.تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 217) حضرت اقدس کے دعاوی کا فہم قرآن کے فہم کی کلید ہے میرے دعوئی کا فہم کلید ہے نبوت اور قرآن شریف کی جو شخص میرے دعوئی کو سمجھ لے گا نبوت کی حقیقت اور قرآن شریف کے فہم پر اس کو اطلاع دی جائے گی اور جو میرے دعوی کو نہیں سمجھتا، اس کو قرآن شریف پر اور ( ملفوظات جلد اول صفحه 393) رسالت پر پورا یقین نہیں ہوسکتا.حضرت اقدس کا ذکر اجمالاً قرآن حکیم میں اور تفصیلاً احادیث میں پایا جاتا ہے اس قدر تقریر ہو چکی تھی کہ اس اثناء میں خلیفہ رجب الدین صاحب نے بلند آواز سے لاہور کی پبلک کی طرف سے حضرت مرزا صاحب کو ماننے کی ضرورت کا سوال پیش کیا اگر چہ بعض لوگوں کو یہ دخل اس لئے ناگوار ہوا کہ خدا تعالیٰ کا فرستادہ ٹو رفراست سے جس ضرورت کو محسوس کر کے کلام فرمارہا تھا اس کی توجہ ادھر سے پھیر دی گئی.لیکن ہمارے نزدیک یہ تحریک بھی مصالح ایزدی سے باہر نہیں.آپ نے فرمایا کہ :- اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ میں نے بہت سی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ سے یہ بات سمجھا دی ہوئی ہے کہ میں وہ مسیح ہوں جس کا ذکر اور وعدہ اجمالاً قرآن میں اور تفصیلاً احادیث میں پایا جاتا ہے اور جو لوگ اسے نہیں مانتے قرآن شریف کی رُو سے ان کا نام فاسق ہے اور احادیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو اس میسج کو نہیں مانتا وہ گویا مجھے نہیں مانتا اور جو اس کی معصیت کرتا ہے گویا میری معصیت کرتا ہے.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 107)
108 اللہ تعالی پرده برانداز کلام نہیں فرماتا مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری نے دھرم کوٹ میں جو ان کا مباحثہ ہوا تھا اس کا مختصر سا تذکرہ کیا اور مہر نبی بخش صاحب بٹالوی کا بھی ذکر کیا کہ وہ وہاں آئے تھے اور انہوں نے ایک مختصر سی تقریر کی تھی مولوی عبداللہ صاحب نے کہا کہ وہ بار بار یہ اعتراض کرتے تھے کہ مرزا صاحب کا نام قرآن سے نکال کر دکھاؤ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ: وہ احمق نہیں جانتے کہ اگر خدا تعالیٰ ایسے صاف طور پر کہتا تو اختلاف کیوں ہوتا؟ یہودی اسی طرح تو ہلاک ہو گئے.بات یہ ہے کہ اگر خدا اس طرح پر پردہ برانداز کلام کرے تو ایمان ایمان ہی نہ رہے فراست سے دیکھنا چاہیئے کہ حق کیا ہے؟ ہماری تائید میں تو اس قدر دلائل ہیں کہ فراست والا سیر ہو کر کہتا ہے کہ یہ صیح ہے.مختلف پیرایوں میں ذکر کی حکمت ( ملفوظات جلد دوم صفحه 316) اور یادر ہے قرآن کریم میں ایک جگہ رسل کے لفظ کیسا تھ بھی مسیح موعود کی طرف اشارہ ہے.لیکن یہ سوال کہ انہی الفاظ کے ساتھ جواحادیث میں آئے ہیں کیوں قرآن میں ذکر نہیں کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ تا پڑھنے والوں کو دھوکا نہ لگ جاوے کہ مسیح موعود سے مراد در حقیقت حضرت عیسی علیہ السلام ہی ہیں جن پر انجیل نازل ہوئی تھی.اور ایسا ہی دجال سے کوئی خاص مفسد مراد ہے سو خدا تعالیٰ نے فرقان حمید میں ان تمام شبہات کو دور کر دیا.اس طرح پر کہ اول نہایت تصریح اور توضیح سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کی خبر دی جیسا کہ آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی كُنتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمُ (المائدہ:118) سے ظاہر ہے اور پھر ہمارے نبی ﷺ کا خاتم الانبیاء ہونا بھی ظاہر کر دیا جیسا کہ فرمایا وَلكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمُ النَّبَيِّنَ (الاحزاب: 41) - (شہادت القرآن رخ جلد 6 صفحہ 361) قرآن کریم کی سورتوں میں حضرت اقدس اور ان کی جماعت کا ذکر ہے قرآن شریف میں چار سورتیں ہیں جو بہت پڑھی جاتی ہیں.ان میں مسیح موعود اور اس کی جماعت کا ذکر ہے (1) سورۃ فاتحہ جو ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے.اس میں ہمارے دعوے کا ثبوت ہے.جیسا کہ اس تفسیر میں ثابت کیا جائے گا.(2) سورۃ جمعہ جس میں اخرِينَ مِنْهُمْ (الجمعہ 4) سیح موعود کی جماعت کے متعلق ہے.یہ ہر جمعہ میں پڑھی جاتی ہے (3) سورۃ کہف جس کے پڑھنے کے واسطے رسول اللہ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے اس کی پہلی اور پچھلی دو آیتوں میں دجال کا ذکر ہے.(4) آخری سورۃ میں قرآن کی جس میں دجال کا نام خناس رکھا گیا ہے.یہ وہی لفظ ہے جو عبرانی توریت میں دجال کے واسطے آیا ہے.یعنی نخاش Wn7 ایسا ہی قرآن شریف کے اور مقامات میں بھی بہت ذکر ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 442)
109 عرب صاحب نے سوال کیا کہ مسیح موعود کے متعلق قرآن میں کہاں کہاں ذکر ہے.فرمایا: سورة فاتحہ، سورۃ نور سورة تحریم وغیرہ میں.سورۃ فاتحہ میں تو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: 6) سورة نور میں وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُو مِنكُمُ (النور: 56) اور سورۃ تحریم میں جہاں مومنوں کی مثالیں بیان کی ہیں.ان میں فرمایا وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمُرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرُ جَهَا (التحريم : 13) - ( ملفوظات جلد دوم صفحه 668) قرآن کریم میں حضرت اقدس کے کئی نام ہیں بعض نا واقف یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ مسیح موعود کا قرآن شریف میں کہاں ذکر ہے؟ اس کا یہ جواب ہے کہ خدا کی کتابوں میں مسیح موعود کے کئی نام ہیں منجملہ ان کے ایک نام خاتم الخلفاء ہے یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر آنے والا ہے سو اس نام کے ساتھ قرآن شریف میں مسیح موعود کے بارے میں پیشگوئی موجود ہے چنانچہ سورۃ نور میں خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ مسلمانوں میں سے آخری دنوں تک اُن کے دین کی تقویت کے لئے خلیفے پیدا کرتا رہے گا اور ان کے ذریعہ سے خوف کے بعد امن کی صورت پیدا کر دے گا.آخری دنوں تک خلیفوں کا پیدا ہونا اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بموجب نص صریح قرآن شریف کے اسلام کا دور دنیا کے آخری دنوں تک ہے پس ما نا پڑا کہ اسلام میں بھی ایک خاتم الخلفاء ہے جیسا کہ حضرت موسی کے سلسلہ میں حضرت عیسی خاتم الخلفاء تھے.اور یہ عجیب راز ہے کہ جیسا کہ حضرت عیسی حضرت موسی سے بموجب قول یہود کے چودھویں صدی میں پیدا ہوئے اسی طرح اسلام کا خاتم الخلفاء اسی مدت کے بعد مبعوث ہوا.منہ.(چشمه معرفت رخ جلد 23 صفحہ 333 حاشیہ) سب نبیوں کے نام حضرت اقدس کو دیئے گئے ہیں جب سن ہجری کی تیرھویں صدی ختم ہو چکی تو خدا نے چودھویں صدی کے سر پر مجھے اپنی طرف سے مامور کر کے بھیجا.اور آدم سے لیکر اخیر تک جس قدر نبی گذر چکے ہیں سب کے نام میرے نام رکھ دئے اور سب سے آخری نام میرا عیسی موعود اور احمد اور محمد معہود رکھا.اور دونوں ناموں کے ساتھ بار بار مجھے مخاطب کیا ان دونوں ناموں کو دوسرے لفظوں میں مسیح اور مہدی کر کے بیان کیا گیا.(چشمہ معرفت.رخ جلد 23 صفحہ 328) یہ لوگ جو بار بار پوچھتے ہیں کہ قرآن میں کہاں نام ہے؟ ان کو معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ نے میرا نام احمد رکھا ہے.بُورَكتَ يا اَحْمَدُ وغیرہ بہت سے الہام ہیں.میرا نام محمد رکھا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ.اور احمد نام پر ہی ہم بیعت لیتے ہیں.کیا یہ نام قرآن شریف میں نہیں ہیں؟ پھر جس قد ر میرے نام ادم عیسی، داؤد ، سلیمن وغیرہ رکھے ہیں وہ سب قرآن میں موجود ہیں ماسوائے اس کے یہ سلسلہ اپنے ساتھ ایک علمی ثبوت رکھتا ہے اگر ان علمی امور کو یکجائی طور پر دیکھا جاوے تو آفتاب کی طرح اس سلسلہ کی سچائی روشن نظر آتی ہے خدا تعالیٰ نے میرے سارے نبیوں کے نام رکھے ہیں اور آخر جَرِى اللهِ فِي حُلَلِ الَا نُبِيَاءِ کہہ دیا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 316 تا 317)
110 مسیح موعود تمام انبیاء کے مظہر ہیں جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ جری اللہ نبیوں کے گلوں میں.میری نسبت براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں یہ بھی فرمایا: - جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ - یعنی رسول خدا تمام گذشتہ انبیاء علیہم السلام کے پیرائیوں میں.اس وحی الہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لیکر اخیر تک جسقد رانبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں.خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی.ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گذرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا.ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی.( براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 116) اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام آدم بھی رکھا ہے.نوح" بھی رکھا ہے.موسی" بھی رکھا ہے.داؤد ، سلیمان عیسی ، محمد غرض بہت سے انبیاء کے نام ہم کو دیئے ہیں اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الا نبیاء جس میں یہ اشارہ ہے کہ مسیح موعود تمام انبیاء گزشتہ کا مظہر ہے ہمارے مخالف مولوی ہم پر اس وجہ سے فتوئی کفر لگاتے ہیں کہ ہم نے عیسی“ ہونے کا دعویٰ کیا ہے.مگر خدا تعالیٰ نے ہمارا نام محمد " بھی رکھا ہے وہ اس وجہ سے کیوں کفر کا فتویٰ نہیں لگاتے.کیا اُن کے نزدیک محمد ﷺ کا درجہ حضرت عیسی سے کم ہے یا ان کو میسی سے بہت محبت ہے اور حضرت محمد ﷺ کے واسطے ان کے دل میں کوئی غیرت باقی نہیں رہی.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 296) صد الله إِنِّي مُهِيْنٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُوْنَ.میں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا.میرے قرب میں میرے رسول کسی دشمن سے نہیں ڈرا کرتے.كَتَبَ اللَّهُ لَاغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِيْ.وَهُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے اور وہ مغلوب ہونے کے بعد جلد غالب ہو جائیں گے.اس وحی الہی میں خدا نے میرا نام رسل رکھا.کیونکہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے.اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں.میں آدم ہوں.میں شیث ہوں.میں نوح ہوں.میں ابراہیم ہوں.میں الحق ہوں.میں اسماعیل ہوں.میں یعقوب ہوں.میں یوسف ہوں.میں موسی ہوں.میں داؤد ہوں.میں عیسی ہوں.اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے نام کا میں مظہر اتم ہوں.یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں.حقیقۃ الوحی - ر - خ- جلد 22 صفحہ 75 76 حاشیہ ).
111 غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے وہ ہمارا ہو گیا اُس کے ہوئے ہم جاں نثار میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار اک شجر ہوں جسکو داؤ دی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا رُوئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 133 ) حضرت اقدس تمام انبیاء کے کمالات متفرقہ کے ظلی طور پر حامل ہیں فرمایا: کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے تھے.وہ سب حضرت رسول کریم میں ان سے سے بڑھ کر موجود تھے.اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کریم ﷺ سے ظلی طور پر ہم کو عطا کئے گئے.اور اس لئے ہمارا نام آدم ، ابراہیم موسیٰ، نوح، داؤد، یوسف سلیمان، یکی عیسی وغیرہ ہے.چنانچہ ابراہیم ہمارا نام اس واسطے ہے کہ حضرت ابراہیم ایسے مقام میں پیدا ہوئے تھے کہ وہ بت خانہ تھا اور لوگ بت پرست تھے.اور اب بھی لوگوں کا یہی حال ہے کہ قسم قسم کے خیال اور وہی بتوں کی پرستش میں مصروف ہیں اور وحدانیت کو چھوڑ بیٹھے ہیں پہلے تمام انبیاء کل تھے نبی کریم ﷺ کی خاص خاص صفات میں اور اب ہم ان تمام صفات میں نبی کریم ﷺ کے طل ہیں.سومولا نا روم نے خوب فرمایا ہے نام احمد نام جمله انبیاء است چوں بیامد صد نود هم پیش ما است (ترجمہ:- احمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کا نام ہے.جب سو کا ہندسہ آ گیا تو نوے کا بھی اس میں شامل ہوتا ہے.) نبی کریم ﷺ نے گویا سب لوگوں سے چندہ وصول کیا اور وہ لوگ تو اپنے اپنے مقامات اور حالات پر رہے پر نبی کریم ﷺ کے پاس کروڑوں روپے ہو گئے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 201) فرمايا: " اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم“ کی دعا سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ظلی سلسلہ پیغمبروں کا اس اُمت میں قائم کرنا چاہتا ہے.مگر جیسا کہ قرآن کریم میں سارے انبیاء کا ذکر نہیں اور حضرت موسیٰ“ اور حضرت عیسی کا ذکر کثرت سے ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس اُمت میں بھی مثیل موسی" یعنی آنحضرت ا اور مثیلِ عیسی یعنی امام مہدی سب سے عظیم الشان اور خاص ذکر کے قابل ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 455)
112 حضرت اقدس وارث مصطفی میں آدمم نیز احمد مختار میں آدم بھی ہوں اور احمد مختار بھی میرے جسم پر تمام ابرار کے خلعت ہیں کار ہائے کہ کرد با من یار وہ کام جو خدا نے میرے ساتھ کئے وہ اتنے زیادہ ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے آنچه داد است ہر نبی را جام انبیاء بوده اند لیے در برم جامعه ہمہ ابرار بر تر آن دفتر است از اظهار داد آن جام را مرا بتمام من بعرفاں کمترم زکی پیرهنم مدنی زنده جو جام اس نے ہر نبی کو عطا کیا تھا وہی جام اس نے کامل طور سے مجھے بھی دیا ہے اگر چہ انبیاء بہت ہوئے ہیں مگر میں معرفت الہی میں کسی سے کم نہیں ہوں رسولی نہاں ہر نبی نبی آمدنم ہر ہر نبی میرے آنے سے زند ہو گیا اور ہر رسول میرے پیران میں پوشیدہ ہے از ہے صورت لیک آئینه ام زرت غنی لیکن میں رب غنی کی طرف سے آئینہ کی مانند ہوں اُس مدینہ کے چاند کی صورت دنیا کو دکھانے کے لئے وارث مصطفی شدم شده رنگیں برنگِ یار میں یقینا مصطفی کا وارث ہوں اور اس حسین محبوب کے رنگ میں رنگین ہوں یقیں یار حسین ( در شین فارسی متر جم صفحه 335-334 ) ( نزول اسح - رخ - جلد 18 صفحہ 477) وَنَحْنُ كَمَأَةُ اللَّهِ جِئْنَا بِأَمْرِهِ حَلَلْنَا بِلا دَالشَّرُكِ وَاللَّهُ يَخْفُرُ ہم خدا کے سوار ہیں.اس کے حکم سے آئے ہیں.اور شرک کے شہروں میں ہم داخل ہوئے ہیں اور خدار رہنمائی کر رہا ہے.أَقُولُ وَلَا أَخْشَى فَإِنِّي مَسِيحُهُ وَلَوْ عِندَ هَذَا الْقَوْلِ بِالسَّيْفِ انْحَرُ میں بے دھڑک کہتا ہوں کہ میں خدا کا مسیح موعود ہوں.اگر چہ میں اس قول پر تلوار سے قتل بھی کیا جاؤں.وَقَدْ جَاءَ فِي الْقُرُ آنِ ذِكْرُ فَضَائِلِي وَذِكْرُ ظُهُورِى عِنْدَ فِتَنِ تُشَوَّرُ اور میرے فضائل کا ذکر قران کریم میں موجود ہے.اور میرے ظہور کا ذکر بھی پر آشوب زمانہ میں ہونا لکھا ہے وَمَا أَنَا إِلَّامُرُ سَلُ عِنْدَ فِتْنَةٍ فَرُدَّ قَضَاءَ اللَّهِ اِنْ كُنْتَ تَقْدِرُ اور میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.پس خدا کے حکم کو تو بدل دے اگر تجھے قدرت ہے.تَخَيَّرَنِي الرَّحْمَانُ مِنْ بَيْنِ خَلْقِهِ لَهُ الْحُكْمُ يَقْضِي مَايَشَاءُ وَيَأْمُرُ خدا نے مجھے اپنی مخلوقات میں سے چن لیا ہے.حکم اسی کا حکم ہے جو چاہے کرے.( نزول مسیح رخ جلد 18 صفحہ 477 478 ) ( اعجاز احمدی القصیدہ رخ جلد 19 صفحہ 169 170 )
113 قرآن کریم میں آئندہ کی پیشگوئیوں سے مراد حضرت اقدس ہیں دوسرا امر تنقیح طلب یہ تھا کہ قرآن کریم میں مسیح موعود کی نسبت کچھ ذکر ہے یا نہیں اس کا فیصلہ دلائل قطعیہ نے اس طرح پر دیا ہے کہ ضرور یہ ذکر قرآن کریم میں موجود ہے اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص قرآن کریم کی ان آئیندہ پیشگوئیوں پر غور کرے گا جو اس امت کے آخری زمانہ کی نسبت اس مقدس کتاب میں ہیں.تو اگر وہ فہیم اور زندہ دل اپنے سینہ میں رکھتا ہے تو اس کو اس بات کے ماننے سے چارہ نہیں ہوگا کہ قرآن کریم میں یقینی اور قطعی طور پر ایک ایسے مصلح کی خبر موجود ہے جس کا دوسرے لفظوں میں مسیح موعود ہی نام ہونا چاہئے نہ اور کچھ اس خبر کو مجھنے کیلئے پہلے مندرجہ ذیل آیات کو یکجائی نظر سے دیکھ لینا چاہیئے.مثلاً یہ آیات و الَّتِی اَحَصَنَتْ فَرُ جَهَا فَنَفَخُنَا فِيهَا مِنْ رُّؤْ حِنَا وَجَعَلْنَهَا وَابْنَهَا آيَةٌ لِلْعَلَمِينَ إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَةً وَاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ.وَتَقَطَّعُوا أَمْرَ هُمْ بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ (الانبياء: 94192) حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَاجُوجُ وَمَا جُوجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ.وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَإِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا يَوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَذَا بَلُ كُنَّا ظَالِمِينَ.(الانبیاء: 97-98) یعنی خدا تعالیٰ نے اس عورت کو ہدایت دی جس نے اپنی شرمگاہ کو نامحرم سے بچایا.پس خدا نے اس میں اپنی روح کو پھونک دیا اور اس کو اور اس کے بیٹے کو دنیا کے لئے ایک نشان ٹھہرایا اور خدا نے کہا کہ یہ امت تمہاری ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا پر ور دگار ہوں سو تم میری ہی بندگی کروں.مگر وہ فرقہ فرقہ ہو گئے اور اپنی بات کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور باہم اختلاف ڈال دیا.اور آخر ہر ایک ہماری ہی طرف رجوع کرے گا.اور تمام فرقے ایسی ہی حالت پر رہیں گے یہاں تک کہ یا جوج اور ماجوج کھولے جائیں گے اور وہ ہر ایک بلندی سے دوڑتے ہوں گے اور جب تم دیکھو کہ یا جوج ماجوج زمین پر غالب ہو گئے تو سمجھو کہ وعدہ سچاند ہب حق کے پھیلنے کا نزدیک آ گیا اور وہ وعدہ یہ ہے.هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُو لَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ ـ (الصف: 10) اور پھر فرمایا کہ اس وعدے کے ظہور کے وقت کفار کی آنکھیں چڑھی ہوں گی اور کہیں گے اے وائے ہم کو.ہم اس سے غفلت میں تھے بلکہ ہم ظالم تھے یعنی ظہور حق بڑے زور سے ہوگا اور کفار سمجھ لیں گے کہ ہم خطا پر ہیں.ان تمام آیات کا ماحصل یہ ہے کہ آخری زمانہ میں دنیا میں بہت سے مذہب پھیل جائیں گے اور بہت سے فرقے ہو جائیں گے پھر دو تو میں خروج کریں گی جن کا عیسائی مذہب ہوگا اور ہر ایک طور کی بلندی وہ حاصل کریں گے اور جب تم دیکھو کہ عیسائی مذہب اور عیسائی حکومتیں دنیا میں پھیل گئیں تو جانو کہ وعدہ کا وقت نزدیک ہے.پھر دوسرے مقام میں فرمایا ہے.فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي
114 حَقًّا وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يُوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَ نُفِخَ فِى الصُّورِ فَجَمَعْنَا هُمْ جَمْعًا (الكيف: 99 100) - یعنی جب وعدہ خدا تعالیٰ کا نزدیک آجائے گا تو خدا تعالیٰ اس دیوار کو ریزہ ریزہ کر دے گا جو یا جوج ماجوج کی روک ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور ہم اس دن یعنی یا جوج ماجوج کی سلطنت کے زمانہ میں متفرق فرقوں کو مہلت دیں گے کہ تا ایک دوسرے میں موجزنی کریں یعنی ہر ایک فرقہ اپنے مذہب اور دین کو دوسرے فرقہ پر غالب کرنا چاہے گا اور جس طرح ایک موج اس چیز کو اپنے نیچے دبانا چاہتی ہے جس کے اوپر پڑتی ہے اسی طرح موج کی مانند بعض بعض پر پڑیں گی تا ان کو دبا لیں اور کسی کی طرف سے کمی نہیں ہوگی ہر ایک فرقہ اپنے مذہب کو عروج دینے کے لیے کوشش کرے گا اور وہ انہیں لڑائیوں میں ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے صور پھونکا جائے گا.تب ہم تمام فرقوں کو ایک ہی مذہب پر جمع کر دیں گے صور پھونکنے سے اس جگہ یہ اشارہ ہے کہ اس وقت عادت اللہ کے موافق خدا تعالیٰ کی طرف سے آسمانی تائیدوں کے ساتھ کوئی مصلح پیدا ہو گا.شہادت القرآن رخ جلد 6 صفحہ 309 تا 311) حضرت اقدس کا ذکر قرآن کریم میں اور آپ کی شان ہماں زنوع بشر کامل از خدا باشد که با نشان نمایاں خدا نما باشد انسانوں میں وہی خدا کی طرف سے کامل ہوتا ہے جو روشن نشانوں کے ساتھ خدا نما ہوتا ہے بتابد از رخ او نور عشق و صدق و وفا زخلق أو كرم و غربت و حیا باشد اس کے چہرہ سے عشق اور صدق وصفا کا نور چمکتا ہے کرم انکسار اور حیا اس کے اخلاق ہوتے ہیں.صفات او ہمہ ظل صفاتِ حق باشند ہم استقامت او پیچو انبیا باشد اس کی ساری صفات خدا کی صفات کا پر تو ہوتی ہیں اور اس کا استقلال بھی انبیا کے استقلال کی مانند ہوتا ہے.رواں بچشمه او بحر سرمدی باشد عیاں در آئینه اش روئے کبریا باشد اسکے سرچشمہ سے ابدی فیضان کا سمندر جاری ہوتا ہے اور اس کے چہرہ میں خدائے بزرگ کا چہرہ نظر آتا ہے.صعود او ہمہ سوئے فلک بود ہر دم وجوداو ہمہ رحمت چو مصطفی باشد اس کی پرواز ہر وقت آسمان کی طرف ہی ہوتی ہے اور اس کا وجود مصطفیٰ کی طرح سراسر رحمت ہوتا ہے.خبر دهد بقدومش خدا به مصحف پاک هم از رسول سلامے بصد شنا باشد خدا اُس کی تشریف آوری کی خبر قرآن مجید میں دیتا ہے اور رسول کی طرف سے بھی سینکڑوں ثنا اور سلام بھیجے جاتے ہیں.تریاق القلوب.رخ جلد 15 صفحہ 129 تا 133)
115 دوسری فصل أم الكتاب سورۃ الفاتحہ میں حضرت اقدس کا ذکر اے دوستو جو پڑھتے ہو اُمّ الکتاب کو اب دیکھو میری آنکھوں سے اس آفتاب کو سوچو دُعاء فاتحہ کو پڑھ کے بار بار کرتی ہے یہ تمام حقیقت کو آشکار دیکھو خدا نے تم کو بتائی دعا یہی اُس کے حبیب نے بھی پڑھائی دعا یہی پڑھتے ہو پنج وقت اسی کو نماز میں جاتے ہو اس کی رہ سے درِ بے نیاز میں اسکی قسم کہ جس نے یہ سورۃ اُتاری ہے اُس پاک دل پہ جس کی وہ صورت پیاری ہے یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے یہ میرے صدق دعوی پہ مہر الہ ہے میرے لئے یہ شاہد رپ میرے مسیح ہونے پہ یہ اک دلیل ہے پھر میرے بعد اوروں کی ہے انتظار کیا جلیل ہے توبہ کرو کہ جینے کا ہے اعتبار کیا رین اردو نیا ایڈیشن صفحہ 44) (اعجاز مسیح رخ جلد 18 صفحہ 2) ترجمہ سورۃ الفاتحہ بیان فرمودہ حضرت اقدس علیہ السلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْن اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينِ أمِينَ ترجمہ.خدا جس کا نام اللہ ہے تمام اقسام تعریفوں کا مستحق ہے اور ہر ایک تعریف اسی کی شان کے لائق ہے کیونکہ وہ رب العالمین ہے.وہ رحمان ہے.وہ رحیم ہے.وہ مالک یوم الدین ہے.ہم (اے صفات کا ملہ والے ) تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور مددبھی تجھ سے ہی چاہتے ہیں.ہمیں وہ سیدھی راہ دکھلا جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہے اور ان راہوں سے بچا جو ان لوگوں کی راہیں ہیں جن پر تیرا غضب طاعون وغیرہ عذابوں سے دنیا ہی میں وارد ہوا اور نیز ان لوگوں کی راہوں سے بچا کہ جن پر اگر چہ دنیا میں کوئی عذاب وارد نہیں ہوا.مگر اُخروی نجات کی راہ سے وہ دور جا پڑے ہیں اور آخر عذاب میں گرفتار ہوں گے.(ایام الصلح.رخ جلد 14 صفحہ 246)
116 سورۃ فاتحہ میں قرآن شریف کی تمام تعلیم کا خلاصہ ہے سورۃ الفاتحہ کا نام اُمّ الكتاب اس کا نام ام الکتاب بھی ہے کیونکہ قرآن شریف کی تمام تعلیم کا اس میں خلاصہ اور عطر موجود ہے.ایام اصبح رخ جلد 14 صفحہ 246-247) چوتھا لطیفہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ مجمل طور پر تمام مقاصد قرآن شریف پر مشتمل ہے گویا یہ سورۃ مقاصد قر آنیہ کا ایک ایجاز لطیف ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنِ العظیم ( الحجر (88) یعنی ہم نے تجھے اے رسول سات آیتیں سورۃ فاتحہ کی عطا کی ہیں جو مجمل طور پر تمام مقاصد قرآنیہ پر مشتمل ہیں اور ان کے مقابلہ پر قرآن عظیم بھی عطا فرمایا ہے جو مفصل طور پر مقاصد دینیہ کوظاہر کرتا ہے اور اسی جہت سے اس سورۃ کا نام ام الکتاب اور سورۃ الجامع ہے.ام الکتاب اس جہت سے کہ جمیع مقاصد قر آنیہ اس سے مستخرج ہوتے ہیں اور سورۃ الجامع اس جہت سے کہ علوم قرآنیہ کے جمیع انواع پر بصورت اجمال مشتمل ہے اسی جہت سے آنحضرت علی نے بھی فرمایا ہے کہ جس نے سورۃ فاتحہ کو پڑھا گویا اس نے سارے قرآن کو پڑھ لیا غرض قرآن شریف اور حدیث نبوی سے ثابت ہے کہ سورۃ فاتحہ ممدوحہ ایک آئینہ قرآن نما ہے.(براہین احمدیہ - رخ جلد 1 صفحہ 580-581 حاشیہ نمبر 1) سورۃ فاتحہ پر جو قرآن شریف کا باریک نقشہ ہے اور اُمّ الکتاب بھی جس کا نام ہے خوب غور کرو کہ اس میں اجمال کے ساتھ قرآن کریم کے تمام معارف درج ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 125) سورۃ الفاتحہ کا مقصد اعلیٰ حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت کی ترقی کی خبر ہے سورۃ فاتحہ میں ایک مخفی پیشگوئی موجود ہے اور وہ یہ کہ جس طرح یہودی لوگ حضرت عیسی کو کافر اور دجال کہہ کر مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ بن گئے بعض مسلمان بھی ایسے ہی بنیں گے.اسی لئے نیک لوگوں کو یہ دعا سکھلائی گئی کہ وہ منعم علیہم میں سے حصہ لیں اور مغضوب علیہم نہ بنیں سورۃ فاتحہ کا اعلیٰ مقصود مسیح موعود اور اس کی جماعت اور اسلامی یہودی اور ان کی جماعت اور ضالین یعنی عیسائیوں کے زمانہ ترقی کی خبر ہے سوکس قد ر خوشی کی بات ہے کہ وہ باتیں آج پوری ہوئیں.( نزول امسیح.رخ جلد 18 صفحہ 414 تا415) سورۃ فاتحہ کا پہلا نام فاتحۃ الکتاب اور اس کی وجہ اعْلَمُ أَنَّ هَذِهِ السُّورَةَ لَهَا أَسْمَاء كَثِيرَةٌ فَأَوَّلُهَا فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَسُمِّيَتْ بِذَالِكَ لِأَنَّهُ يُفْتَتَحَ بِهَا فِي الْمُصْحَفِ وَفِي الصَّلوةِ وَفِي مَوَاضِع الدُّعَاءِ مِنْ رَّبِّ الْأَرْبَابِ وَ عِنْدِي أَنَّهَا سُمِّيَتْ بِهَا لِمَا جَعَلَهَا اللهُ حَكَمًا لِلْقُرْآنِ وَمُلِقَى فِيهَا مَا كَانَ فِيْهِ مِنْ أَخْبَارٍ وَّ مَعَارِفَ مِنَ اللَّهِ الْمَنَّان - وَأَنَّهَا جَامِعَةٌ لِكُلِّ مَا يَحْتَاجُ الْإِنْسَانُ إِلَيْهِ فِي مَعْرِفَةِ الْمَبْدَءِ وَالْمَعَادِ كَمِثْلِ الْإِسْتِدْلَالِ عَلَى وُجُودِ الصَّائِعِ وَ ضُرُورَةِ النُّبُوَّةِ وَالْخِلَافَةِ فِي الْعِبَادِ وَمِنْ أَعْظَمِ الْأَخْبَارِ وَاكْبَرِهَا أَنَّهَا تُبَشِّرُ بِزَمَانِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَايَّامِ الْمَهْدِي الْمَعْهُودِ وَ سَنَذْكُرُهُ فِي مَقَامِهِ بِتَوْفِيقِ اللَّهِ الْوَدُوْدِ
117 ( ترجمه از مرتب ) جاننا چاہیئے کہ سورۃ فاتحہ کے بہت سے نام ہیں جن میں سے پہلا نام فاتحۃ الکتاب ہے اور اس کا یہ نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ قرآن مجید اسی سورۃ سے شروع ہوتا ہے.نماز میں بھی پہلے یہی سورۃ پڑھی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ سے جو رب الارباب ہے دعا کرتے وقت اسی (سورۃ ) سے ابتدا کی جاتی ہے.اور میرے نزدیک اس سورۃ کو فاتحہ اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کو قرآن کریم کے مضامین کے لئے حکم قرار دیا ہے اور جو اخبار غیبیہ اور حقائق و معارف قرآن مجید میں احسان کرنے والے خدا کی طرف سے بیان کیے گئے ہیں وہ سب اس میں بھر دیئے گئے ہیں اور جن امور کا انسان کو مبدء و معاد ( دنیا اور آخرت ) کے سلسلہ میں جاننا ضروری ہے ، وہ سب اس میں موجود ہیں.مثلاً وجود باری ،ضرورت نبوت اور مومن بندوں میں سلسلہ خلافت کے قیام پر استدلال اور اس سورۃ کی سب سے بڑی اور اہم خبر یہ ہے کہ یہ سورۃ مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ کی بشارت دیتی ہے اور اسے ہم خدائے ودود کی دی ہوئی توفیق سے اس کے محل پر بیان کریں گے.اعجاز ایج.رخ جلد 18 صفحہ 70-71) السبع المثاني سورۃ فاتحہ حضرت اقدس علیہ السلام پر دوبارہ نازل ہوئی ہے ا ( تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ 46) ایک دفعہ مسجد مبارک میں حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ السلام تشریف رکھتے تھے...سبع مثانی کی تحقیق کا ذکر ہوا.کسی نے احمد کا نام بتلایا.اور کسی نے دوسری آیتوں کا.اور کسی نے کہا کہ الحمد مکہ معظمہ اور مدنیہ منورہ میں نازل ہوئی.اس لئے دونوں مقام پر نازل ہونے کے باعث اس کا نام سبع مثانی ہوا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ممکن ہے کہ ایسا ہو لیکن ہمارے نزدیک اس سورۃ کا ایک بار آنحضرت ﷺ پر نازل ہونا اور دوسری بار مہدی ومسیح موعود پر نازل ہوتا ہے جس کے سبب سے اس کا نام سبع مثانی ہوا.( مکتوب(2) صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی (1)) (1) یعنی صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی (مرتب) (2) یه مکتوب قلمی دفتر تالیف و تصنیف صدر انجمن احمد یہ ربوہ میں بوقت تیاری تذکرہ طبع دوم موجود تھا جس سے خاکسار نے نقل کیا.مگر اب کہیں غائب ہے.(مرتب) ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 800 ) سورۃ فاتحہ ایک پیشگوئی ہے سورۃ فاتحہ نری تعلیم ہی نہیں بلکہ اس میں ایک بڑی پیشگوئی بھی ہے اور وہ یہ کہ خدا نے اپنی چاروں صفات ربوبیت.رحمانیت.رحیمیت.مالکیت یوم الدین یعنی اقتدار جزا سزا کا ذکر کر کے اور اپنی عام قدرت کا اظہار فرما کر پھر ا سکے بعد کی آیتوں میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ خدایا ایسا کر کہ گذشتہ راستباز نبیوں رسولوں کے ہم وارث ٹھہرائے جائیں ان کی راہ ہم پر کھولی جائے اور ان کی نعمتیں ہم کو دی جائیں خدایا ہمیں اس سے بچا کہ ہم اس قوم میں سے ہو
118 جائیں جن پر دنیا میں ہی تیرا عذاب نازل ہوا.یعنی یہود جو حضرت عیسی مسیح کے وقت میں تھی جو طاعون سے ہلاک کئے گئے.خدایا ہمیں اس سے بچا کہ ہم اس قوم میں سے ہو جائیں جن کے شامل حال تیری رہنمائی نہ ہوئی اور وہ گمراہ ہو گئی یعنی نصاری.اس دعا میں یہ پیشگوئی مخفی ہے کہ بعض مسلمانوں میں سے ایسے ہوں گے کہ وہ اپنے صدق و صفا کی وجہ سے پہلے نبیوں کے وارث ہو جائیں گے اور نبوت اور رسالت کی نعمتیں پائیں گے اور بعض ایسے ہوں گے کہ وہ یہودی صفت ہو جائیں گے جن پر دنیا میں ہی عذاب نازل ہوگا اور بعض ایسے ہوں گے کہ وہ عیسائیت کا جامہ پہن لیں گے کیونکہ خدا کے کلام میں یہ سنت مستمرہ ہے کہ جب ایک قوم کو ایک کام سے منع کیا جاتا ہے تو ضرور بعض ان میں سے ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے علم میں اس کام کے مرتکب ہونے والے ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نیکی اور سعادت کا حصہ لیتے ہیں ابتداء دنیا سے اخیر تک جس قدر خدا نے کتابیں بھیجیں ان تمام کتابوں میں خدا تعالیٰ کی یہ قدیم سنت ہے کہ جب وہ ایک قوم کو ایک کام سے منع کرتا ہے یا ایک کام کی رغبت دیتا ہے تو اس کے علم میں یہ مقدر ہوتا ہے کہ بعض اس کام کو کریں گے اور بعض نہیں.پس یہ سورۃ پیشگوئی کر رہی ہے کہ کوئی فرد اس امت میں سے کامل طور پر نبیوں کے رنگ میں ظاہر ہوگا تا وہ پیشگوئی جو آیت صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ سے متبط ہوتی ہے وہ اکمل اور اتم طور پر پوری ہو جائے.اور کوئی گروہ ان میں سے ان یہودیوں کے رنگ میں ظاہر ہو گا جن پر حضرت عیسی نے لعنت کی تھی اور عذاب الہی میں مبتلا ہوئے تھے تا وہ پیشگوئی جو آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مستنبط ہوتی ہے ظہور پذیر ہو.اور کوئی گروہ ان میں سے عیسائیوں کے رنگ میں ہو جائے گا عیسائی بن جائے گا جو خدا کی رہنمائی سے بوجہ اپنی شراب خوری اور اباحت اور فسق و فجور کے بے نصیب ہو گئے.تاوہ پیشگوئی جو آیت وَلَا الضَّالین سے مترشح ہو رہی ہے ظاہر ہو جائے اور چونکہ یہ بات مسلمانوں کے عقیدہ میں داخل ہے کہ آخری زمانہ میں ہزار ہا مسلمان کہلانے والے یہودی صفت ہو جائیں گے اور قرآن شریف کے کئی ایک مقامات میں بھی یہ پیشگوئی موجود ہے اور صدہا مسلمانوں کا عیسائی ہو جانا یا عیسائیوں کی سی بے قید اور آزاد زندگی اختیار کرنا خود مشہود اور محسوس ہو رہا ہے بلکہ بہت سے لوگ مسلمان کہلانے والے ایسے ہیں کہ وہ عیسائیوں کی طرز معاشرت پسند کرتے ہیں اور مسلمان کہلا کر نماز روزہ اور حلال اور حرام کے احکام کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ دونوں فرقے یہودی صفت اور عیسائی صفت اس ملک میں پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں تو یہ دو پیشگوئیاں سورۃ فاتحہ کی تو تم پوری ہوتے دیکھ چکے ہو اور بچشم خود مشاہدہ کر چکے ہو کہ کس قدر مسلمان یہودی صفت اور کس قد رعیسائیوں کے لباس میں ہیں.تو اب تیسری پیشگوئی خود ماننے کے لائق ہے کہ جیسا کہ مسلمانوں نے یہودی عیسائی بننے سے یہود نصاری کی بدی کا حصہ لیا ایسا ہی ان کا حق تھا کہ بعض افراد ان کے ان مقدس لوگوں کے مرتبہ اور مقام سے بھی حصہ لیں جو بنی اسرائیل میں گذر چکے ہیں یہ خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے کہ اس نے مسلمانوں کو یہود نصاری کی بدی کا تو حصہ دار ٹھہرا دیا ہے یہاں تک کہ ان کا نام یہود بھی رکھ دیا ہے مگر ان کے رسولوں اور نبیوں کے مراتب میں سے اس امت کو کوئی حصہ نہ دیا پھر یہ امت خیر الامم کس وجہ سے ہوئی بلکہ شتر الام ہوئی کہ ہر ایک نمونہ شتر کا ان کو ملانگر نیکی کا نمونہ نہ ملا کیا ضرور
119 نہیں کہ اس امت میں بھی کوئی نبیوں اور رسولوں کے رنگ میں نظر آئے جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں کا وارث اور اُن کاظل ہو.کیونکہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے بعید ہے کہ وہ اس امت میں اس زمانہ میں ہزار ہا یہودی صفت لوگ تو پیدا کرے اور ہزار ہا عیسائی مذہب میں داخل کرے مگر ایک شخص بھی ایسا ظاہر نہ کرے جو انبیاء گذشتہ کا وارث اور ان کی نعمت پانے والا ہوتا پیشگوئی جو آیت اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے مستنبط ہوتی ہے وہ بھی ایسی ہی پوری ہو جائے جیسا کہ یہودی اور عیسائی ہونے کی پیشگوئی پوری ہوگئی اور جس حالت میں اس امت کو ہزار ہا برے نام دیئے گئے ہیں اور قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہود ہو جانا بھی ان کے نصیب میں ہے تو اس صورت میں خدا کے فضل کا خود یہ مقتضا ہونا چاہیئے تھا کہ جیسے گذشتہ نصاریٰ سے انہوں نے بری چیزیں لیں اسی طرح وہ نیک چیز کے بھی وارث ہوں اسی لئے خدا نے سورۃ فاتحہ میں آیت اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں بشارت دی کہ اس امت کے بعض افراد انبیاء گذشتہ کی نعمت بھی پائیں گے نہ یہ کہ نرے یہود بنیں یا عیسائی بہنیں اور ان قوموں کی بدی تو لے لیں مگر نیکی نہ لے سکیں.کشتی نوح-رخ جلد 19 صفحہ 45 تا48) سورۃ فاتحہ کے نزول کی پیشگوئی وَمِنْ أَخْبَارِهَا أَنَّهَا تُبَشِّرُ بِعُمُرِ الدُّنْيَا الدَّنِيَّةِ وَسَنَكْتُبُهُ بِقُوَّةٍ مِّنَ الْحَضْرَةِ الْأَحَدِيَّةِ - وَهَذِهِ هِيَ الْفَاتِحَةُ الَّتِي أَخْبَرَ بِهَا نَبِيٍّ مِّنَ الْأَنْبِيَاءِ وَقَالَ رَتَيْتُ مَلَكَاقَوِيًّا نَّازِ لَّا مِّنَ السَّمَاءِ وَفِي يَدِهِ الْفَاتِحَةُ عَلى صُورَةِ الْكِتَابِ الصَّغِيرِ فَوَقَعَ رِجُلَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْبَحْرِ وَالْيُسْرَى عَلَى الْبَرِّيحُكُمِ الرَّبِّ الْقَدِيرِ وَصَرَخَ بِصَوْتٍ عَظِيمٍ كَمَا يَزْتَرُ الضّر غَامُ وَظَهَرَتِ الرُّعُودُ السَّبْعَةُ بِصَوْتِهِ وَكُلُّ مِّنْهَا وُجِدَ فِيهِ الْكَلَامُ - وَقِيلَ اخْتِمُ عَلَى مَا تَكَلَّمَتْ بِهِ الرُّعُودُ وَلَا تَكْتُبُ كَذَالِكَ قَالَ الرَّبُّ الْوَدُودُ وَ الْمَلَكُ النَّازِلُ أَقْسَمَ بِالْحَيِّ الَّذِي أَضَاءَ نُورُهُ وَجْهَ الْبِحَارِ وَ الْبُلْدَانِ أَنْ لَّا يَكُونَ زَمَانٌ بَعْدَ ذَالِكَ الزَّمَانِ بِهَذَا الشَّأْنِ وَقَدِ اتَّفَقَ الْمُفَسّرُونَ أَنَّ هَذَا الْخَبَرَ يَتَعَلَّقُ بِزَمَانِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ الرَّبَّانِيِّ - فَقَدْ جَاءَ الزَّمَانُ وَظَهَرَتِ الْأَصْوَاتُ السَّبْعَةُ مِنَ السَّبْعِ الْمَثَانِي وَهَذَا الزَّمَانُ لِلْخَيْرِ وَالرُّسُدِ كَا خِرِالا رُمِنَةِ - وَلَا يَأْتِي زَمَانٌ بَعْدَهُ كَمِثْلِهِ فِى الْفَضْلِ وَالْمَرْتَبَةِ - وَإِنَّا إِذَا وَدَّعْنَا الدُّنْيَا فَلَا مَسِيحَ بَعْدَنَا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ وَلَا يَنْزِلُ أَحَدٌ مِّنَ السَّمَاءِ وَلَا يَخْرُجُ رَأْسٌ مِّنَ الْمَغَارَةِ إِلَّا مَاسَبَقَ مِنْ رَّبِّي قَوْل فِي الدُّرِّيَّةِ (1) وَإِنَّ هَذَا هُوَ الْحَقُّ وَقَدْ نَزَلَ مَنْ كَانَ نَازِ لَا مِّنَ الْحَضْرَةِ وَتَشْهَدُ عَلَيْهِ السَّمَاء وَالَّا رُضُ وَلَكِنَّكُمْ لَا تَطَّلِعُونَ عَلى هَذِهِ الشَّهَادَةِ وَ سَتَذْكُرُوْ نَنِي بَعْدَ الْوَقْتِ وَالسَّعِيدُ مَنْ أَدْرَكَ الْوَقْتَ وَمَا أَضَاعَهُ بِالْغَفْلَةِ اعجاز اسیح - ر-خ- جلد 18 صفحہ 71 تا 73)
120 ( ترجمه از مرتب ) اسی طرح اس سورۃ میں بیان شدہ خبروں میں سے ایک خبر یہ بھی ہے کہ یہ سورۃ اس دنیا کی عمر بتاتی ہے اور ہم عنقریب اسے بھی اللہ کی دی ہوئی قوت سے لکھیں گے.یہ وہی سورۃ فاتحہ ہے جس کی خبر خدا تعالیٰ کے انبیاء میں سے ایک نبی نے دی.اس نبی نے کہا میں نے ایک قومی فرشتہ دیکھا جو آسمان سے اترا، اس کے ہاتھ میں سورۃ فاتحہ ایک چھوٹی سی کتاب کی شکل میں تھی اور خدائے قادر کے حکم سے اُس کا دایاں پاؤں سمندر پر اور بایاں پاؤں خشکی پر پڑا اور وہ شیر کے غرانے کی مانند بلند آواز میں پکارا، اس کی آواز سے سات گر جیں پیدا ہوئیں جن میں سے ہر ایک میں ایک مخصوص کلام (جملہ ) سنائی دیا اور کہا گیا کہ اگر ان گرجوں میں سے پیدا ہونے والے کلمات کو سر بمہر کر دے اور انہیں مت لکھ خدائے مہربان نے ایسا ہی فرمایا ہے اور نازل ہونے والے فرشتے نے اس زندہ خدا کی قسم کھا کر جس کے نور نے سمندروں اور آبادیوں کو روشن کیا ہے کہا اس ( مسیح موعود ) کے زمانہ کے بعد اس شان و مرتبہ کا زمانہ نہ آئے گا اور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ پیشگوئی مسیح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے.سواب وہ زمانہ آگیا ہے اور سورۃ فاتحہ کی سات آیات سے وہ آواز میں ظاہر ہوگئی ہیں اور یہ زمانہ نیکی اور ہدایت کے لحاظ سے آخری زمانہ ہے اور اس کے بعد کوئی زمانہ اس زمانہ کی شان و مرتبہ کا نہیں آئے گا اور جب ہم اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے تو پھر ہمارے بعد قیامت تک کوئی اور مسیح نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی آسمان سے اترے گا اور نہ ہی کوئی غار سے نکلے گا.سوائے اس موعود دلڑکے کے (1) جس کے بارے میں پہلے سے میرے رب کے کلام میں ذکر آچکا ہے.یہی بات سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ( مسیح موعود ) آنے والا تھا وہ آگیا ہے اور زمین و آسمان اس پر گواہی دے رہے ہیں لیکن تم اس گواہی کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے ہم عنقریب وقت نکل جانے کے بعد مجھے یاد کرو گے سعادت مند وہی شخص ہے جس نے اس وقت کو پایا اور اس کو غفلت میں ضائع نہ کیا.اے حسرت این گروه عزیزاں مرا نہ دید وقتے به بیندم که ازین خاک بگزرم (ترجمہ: افسوس عزیزوں نے مجھے نہ پہچانا.یہ مجھے اس وقت جانیں گے جب میں اس دنیا سے گذر جاؤں گا ) امروز قوم من نشناسد مقام من روزے بگریه باد کند وقت خوشترم (ترجمہ: آج کے دن میری قوم میرا درجہ نہیں جانتی لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ رو رو کر میرے مبارک وقت کو یاد کرے گی ) در شین فارسی متر جم صفحه 165 166 )
121 سورۃ فاتحہ میں تین دعائیں اور مسیح موعود علیہ السلام سورۃ فاتحہ میں تین دعائیں سکھلائی گئی ہیں (1) ایک یہ دعا کہ خدا تعالیٰ اس جماعت میں داخل رکھے جو صحابہ کی جماعت ہے اور پھر اس کے بعد اس جماعت میں داخل رکھے جو مسیح موعود کی جماعت ہے جن کی نسبت قرآن شریف فرماتا ہے وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُو بهم (الجمعه: 4) غرض اسلام میں یہی دو جماعتیں منعم میھم کی جماعتیں ہیں اور انہی کی طرف اشارہ ہے آیت صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں کیونکہ تمام قرآن پڑھ کر دیکھو جماعتیں دو ہی ہیں.ایک صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت.دوسری و آخرین منہم کی جماعت جو صحابہ کے رنگ میں ہے اور وہ بیچ موعود کی جماعت ہے.پس جب تم نماز میں یا خارج نماز کے یہ دعا پڑھو کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو دل میں یہی ملحوظ رکھو کہ میں صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت طلب کرتا ہوں.یہ تو سورۃ فاتحہ کی پہلی دعا ہے.(2) دوسری دعا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو سیح موعود کودکھ دیں گے اور اس دعا کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورة تَبْتُ يَدَا أَبِي لَهَبٍ ہے (3) تیسری دعا وَلَا الضَّالِین ہے.اور اس کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورۃ اخلاص ہے یعنی قُلْ هُوَ الله اَحَدٌ اَللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَد اور اس کے بعد دو اور سورتیں جو ہیں یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں سورۃ تنبت اور سورۃ اخلاص کے لئے بطور شرح کے ہیں اور ان دونوں سورتوں میں اس تاریک زمانہ سے خدا کی پناہ مانگی گئی ہے جب کہ لوگ خدا کے مسیح کو دکھ دیں گے اور جب کہ عیسائیت کی ضلالت تمام دنیا میں پھیلے گی پس سورۃ فاتحہ میں ان تینوں دعاؤں کی تعلیم بطور براعت الاستملال ہے یعنی وہ اہم مقصد جو قرآن میں مفصل بیان کیا گیا ہے سورۃ فاتحہ میں بطور اجمال اس کا افتتاح کیا ہے اور پھر سورۃ مثبت اور سورۃ اخلاص اور سورۃ فلق اور سورۃ الناس میں ختم قرآن کے وقت میں انہی دونوں بلاؤں سے خدا تعالی کی پناہ مانگی گئی ہے.پس افتتاح کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں سے ہوا.اور پھر اختتام کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں پر کیا گیا.: اور یا در ہے کہ ان دونوں فتنوں کا قرآن شریف میں مفصل بیان ہے اور سورۃ فاتحہ اور آخری سورتوں میں اجمالاً ذکر ہے.مثلاً سورۃ فاتحہ میں دعا وَلَا الضَّالین میں صرف دو لفظ میں سمجھایا گیا ہے کہ عیسائیت کے فتنہ سے بچنے کے لئے دعا مانگتے رہو جس سے سمجھا جاتا ہے کہ کوئی فتنہ عظیم الشان در پیش ہے جس کے لیے یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ نماز کے پنچ وقت میں یہ دعا شامل کر دی گئی اور یہاں تک تاکید کی گئی کہ اس کے بغیر نماز ہو نہیں سکتی جیسا کہ حدیث لا صَلوةَ إِلَّا بِالْفَاتِحَةِ سے ظاہر ہوتا ہے.سواب یہ وہی فتنہ کا زمانہ ہے جس میں تم آج ہو.تیرہ سو برس کی پیشگوئی جو سورۃ فاتحہ میں تھی آج تم میں اور تمہارے ملک میں پوری ہوئی اور اس فتنہ کی جڑ مشرق ہی نکلا اور جیسا کہ اس فتنہ کا ذکر قرآن کے ابتدا میں فرمایا گیا ایسا ہی قرآن شریف کے انتہا میں بھی ذکر فرمایا تا یہ امر موکت ہو کر دلوں میں بیٹھ جائے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 220-217) ضالین پر اس سورۃ کو ختم کیا ہے یعنی ساتویں آیت پر جو ضالین کے لفظ پر ختم ہوتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضالین پر قیامت آئے گی.یہ سورۃ در حقیقت بڑے دقائق اور حقائق کی جامع ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں اور اس سورۃ کی یہ دعا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِين به صاف اشارہ کر رہی ہے کہ اس امت کے لئے ایک آنے والے گروہ مغضوب میھم کے ظہور سے اور دوسرے گروہ ضالین کے غلبہ کے زمانہ میں ایک سخت ابتلا در پیش ہے جس سے بچنے کیلئے پانچ وقت دعا کرنی چاہیئے.تحفہ گولڑویہ - ر - خ - جلد 17 صفحہ 284-285 حاشیہ)
فرمایا: - 122 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ قرآن کریم کا خلاصہ ہے صفات جمالیہ ” سارے قرآن شریف کا خلاصہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ہے اور اللہ تعالی کی اصل صفات بھی جمالی ہیں اور اصل نام خدا بھی جمالی ہے.یہ تو کفا ر لوگ اپنی ہی کرتوتوں سے ایسے سامان بہم پہنچاتے ہیں کہ بعض وقت جلالی رنگ دکھانا پڑتا ہے.اس وقت چونکہ اس کی ضرورت نہیں اس واسطے ہم جمالی رنگ میں آئے ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 447)
123 بسم اللہ کا مقام اور مقصد بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اب یہ آیت جن کامل صداقتوں پر مشتمل ہے ان کو بھی سن لینا چاہیئے سو منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ اصل مطلب اس آیت کے نزول سے یہ ہے کہ تا عاجز اور بے خبر بندوں کو اس نکتۂ معرفت کی تعلیم کی جائے کہ ذات واجب الوجود کا اسم اعظم جو اللہ ہے کہ جو اصطلاح قرآنی ربانی کے رو سے ذات مستجمع جمیع صفات کا ملہ اور منزہ عن جمیع رذائل اور معبود برحق اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض پر بولا جاتا ہے اس اسم اعظم کی بہت سی صفات میں سے جو دو صفتیں بسم اللہ میں بیان کی گئی ہیں یعنی صفت رحمانیت و رحیمیت انہیں دو صفتوں کے تقاضا سے کلام الہی کا نزول اور اس کے انوار و برکات کا صدور ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا کے پاک کلام کا دنیا میں اترنا اور بندوں کو اس سے مطلع کیا جانا یہ صفت رحمانیت کا تقاضا ہے کیونکہ صفت رحمانیت کی کیفیت ( جیسا کہ آگے بھی تفصیل سے لکھا جائے گا ) یہ ہے کہ وہ صفت بغیر سبقت عمل کسی عامل کے محض جود اور بخشش الہی کے جوش سے ظہور میں آتی ہے جیسا خدا نے سورج اور چاند اور پانی اور ہوا وغیرہ کو بندوں کی بھلائی کیلئے پیدا کیا ہے یہ تمام جو داور بخشش صفت رحمانیت کے رو سے ہے اور کوئی شخص دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ چیزیں میرے کسی عمل کی پاداش میں بنائی گئی ہیں اسی طرح خدا کا کلام بھی کہ جو بندوں کی اصلاح اور راہ نمائی کے لئے اترا وہ بھی اس صفت کے رو سے اترا ہے اور کوئی ایسا متنفس نہیں کہ یہ دعوی کر سکے کہ میرے کسی عمل یا مجاہدہ یا کسی پاک باطنی کے اجر میں خدا کا پاک کلام کہ جو اس کی شریعت پر مشتمل ہے نازل ہوا ہے.(براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 415 حاشیہ نمبر (11)
124 اسم اعظم کےساتھ رحمن الرحی تمام صفات عظیمہ کا خلاصہ ہے وَهُنَا سُوَالٌ عُضَالٌ نَّكْتُبُهُ فِي الْكِتَبِ مَعَ الْجَوَابِ لِيُفَكِّرِ فِيْهِ مَنْ كَانَ مِنْ أَوْلِى الاَلْبَابِ وَهُوَ انَّ اللهَ اخْتَارَ مِنْ جَمِيعِ صِفَاتِهِ صِفَتَي الرَّحْمَانِ وَالرَّحِيمِ فِي الْبَسْمَلَةِ وَمَا ذَكَرَ صِفَةٌ أُخرى في هذِهِ الْآيَةِ مَعَ أَنَّ اسْمَهُ الاَعْظَمَ يَسْتَحِقُّ جَمِيعَ مَا هُوَ مِنَ الصِّفَاتِ الْكَامِلَةِ كَمَا هِيَ مَذْكُورَةٌ فِي الصُّحُفِ الْمُطَهَّرَةِ ثُمَّ إِنَّ كَثرَةَ الصِّفَاتِ تَسْتَلْزِمُ كَثْرَةَ الْبَرَكَاتِ عِنْدَ التِّلَاوَةِ فَالْبَسْمَلَهُ أَحَقُّ وَأَوْلَى بِهَذَا الْمَقَامِ وَالْمَرْتَبَةِ وَقَدْ نُدِبَ لَهَا عِنْدَ كُلِّ أَمْرِ ذِي بَالٍ كَمَا جَاءَ فِي الْأَحَادِيثِ النَّبَوِيَّةِ وَإِنَّهَا أَكْثَرُ وِرْدًا عَلَى الْسُنِ أَهْلِ الْمِلَّةِ وَا كَثَرُ تَكْرَارًا فِي كِتَابِ اللهِ ذِي الْعِزَّةِ فَبِأَيِّ حِكْمَةٍ ومَصْلَحَةٍ لَّمْ يُكْتَبُ صِفَاتُ أُخْرَى مَعَ هَذِهِ الْآيَةِ الْمُتَبَرِّكَةِ - فَالْجَوَابُ أَنَّ اللَّهَ أَرَادَ فِي هَذَا الْمَقَامِ أَنْ يَذْكُرَمَعَ اسْمِهِ الْأَعْظَمِ صِفَتَيْنِ هُمَا خُلَاصَةُ جَمِيعِ صِفَاتِهِ الْعَظِيمَةِ عَلَى الْوَجْهِ النَّامِ وَهُمَا الرَّحْمَانُ الرَّحِيمُ - ترجمہ : یہاں ایک مشکل سوال ہے جسے ہم اس جگہ مع جواب لکھتے ہیں تاکہ عقل مند اس میں غور و فکر کرسکیں اور وہ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بسم اللہ میں اپنی تمام صفات میں سے صرف دو صفات الرحمن اور الرحیم کو ہی اختیار کیا ہے اور کسی اور صفت کا اس آیت میں ذکر نہیں کیا.حالانکہ الہ تعالیٰ کا اسم اعظم (یعنی اللہ) تمام ان صفات کا ملہ کا مستحق ہے جو مقدس صحیفوں میں مذکور ہیں.پھر کثرت صفات تلاوت کے وقت کثرت برکات کوستلزم ہے.پس بسم اللہ کی آیت کریمہ اللہ کی کثرت صفات کے بیان کے مقام اور مرتبہ کی زیادہ حقدار اور سزاوار ہے اور حدیث نبوی میں ہرا ہم کام شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا مستحسن قرار دیا گیا ہے، نیز یہ آیت مسلمانوں کی زبانوں پر اکثر جاری رہتی ہے.اور خدائے عزیز کی کتاب قرآن کریم میں بڑی کثرت سے دہرائی گئی ہے.تو پھر کس حکمت اور مصلحت کے ماتحت اس مبارک آیت میں خدا تعالیٰ کی دوسری صفات درج نہیں کی گئیں.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ارادہ فرمایا کہ اپنے اسم اعظم کے ساتھ انہی دوصفات کا ذکر کرے جو اس کی تمام صفات عظیمہ کا پورا پورا خلاصہ ہیں اور وہ دونوں صفات الرحمن اور الرحیم ہیں.( اعجاز مسیح رخ جلد 18 صفحہ 9896) فَأَرَادَاللَّهُ أَنْ يُعْطِيَهَا مَا اقْتَضَتْهَا وَيُتِمَّ عَلَيْهَا نَعْمَهُ بِجُوْدِهِ الْعَمِيمِ فَتَجَلَّى عَلَيْهَا بِصَفَتَيْهِ الرَّحْمَانِ وَالرَّحِيمِ وَلَا رَيْبَ أَنَّ هَاتَيْنِ الصِّفَتَيْنِ هُمَا الْوُصْلَةُ بَيْنَ الرُّبُوْ بِيَّةِ وَالْعَبُودِيَّةِ وَبِهِمَا يَتِمَّ دَائِرَةُ السُّلُوكِ وَالْمَعَارِنِ الإِنْسَانِيَّةِ - فَكُلُّ صِفَةٍ بَعْدَ هُمَا دَاخِلَةٌ فِي أَنْوَارِهِمَا وَقَطْرَةٌ مِّنْ بِحَارِهِمَا.پس خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ کہ جو کچھ انسان کی فطرت تقاضا کرتی ہے وہ اسے عطا کر کے اور اپنی وسیع بخشش کے طفیل اس پر اپنی نعمتوں کو پورا کرے.سو اس نے اپنی انہی دوصفات الرحمن اور الرحیم کے ساتھ اس پر تجلی فرمائی.اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دونوں صفات ربوبیت اور عبودیت کے درمیان ایک واسطہ ہیں اور انہی دونوں کے ذریعہ انسانی معرفت اور سلوک کا دائرہ مکمل ہوتا ہے.ان دونوں کے علاوہ خدا تعالیٰ کی باقی تمام صفات انہی دوصفتوں کے انوار میں شامل ہیں.اور ان سمندروں کا ایک قطرہ ہیں.(اعجاز مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 99-100)
125 الحَمدُ لِله رَبِّ الْعَلَمِينَ ترجمه بیان فرمودہ حضرت اقدس علیه السلام اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ الْحَمْدُ لله - تمام محامد اس ذات معبود برحق مجمع جمیع صفات کا ملہ کو ثابت ہیں جس کا نام اللہ ہے.قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق مجمع جمیع صفات کا ملہ اور تمام رذائل سے منزہ اور واحد لا شریک اور مبدء جمیع فیوض ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء وصفات کا موصوف ٹھہرایا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا.پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لیے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کا ملہ پر مشتمل ہے.پس خلاصہ مطلب الحمد للہ کا یہ نکلا کہ تمام اقسام حمد کے کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے مخصوص ہیں اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں اور نیز جس قدر محامد صحیحہ اور کمالات تامہ کو عقل کسی عاقل کی سوچ سکتی ہے یا فکر کسی متفکر کا ذہن میں لاسکتا ہے وہ سب خوبیاں اللہ تعالیٰ میں موجود ہیں اور کوئی ایسی خوبی نہیں کہ عقل اس خوبی کے امکان پر شہادت دے.مگر اللہ تعالیٰ بد قسمت انسان کی طرح اس خوبی سے محروم ہو بلکہ کسی عاقل کی عقل ایسی خوبی پیش ہی نہیں کر سکتی کہ جو خدا میں نہ پائی جائے.جہاں تک انسان زیادہ سے زیادہ خوبیاں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من کل الوجوہ کمال حاصل ہے اور رذائل سے بنگالی منز ہ ہے.تفسیر.لفظ "حمد" ( براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 435-436) ثُمَّ إِنَّ لَفَظَ الْحَمْدِ مَصْدَ رَبَّبُنِيٌّ عَلَى الْمَعْلُومِ وَالْمَجْهُول - وَلِلْفَاعِل وَالْمَفْعُول مِنَ اللهِ ذِي الْجَلَالِ وَمَعْنَاهُ أَنَّ اللهَ هُوَ مُحَمَّدٌ وَهُوَ أَحْمَدُ عَلى وَجْهِ الكَمَالِ وَالْقَرِينَةُ الدَّالَّهُ عَلى هَذَا الْبَيَانِ أَنَّهُ تَعَالَى ذَكَرَ بَعْدَ الْحَمْدِ صِفَاتًا تَسْتَلْزِمُ هذَا الْمَعْنَى عِندَأَهْلِ الْعِرْفَانِ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ أَوْ مَأْفِى لَفْظِ الْحَمْدِ إِلَى صِفَاتٍ تُوْجَدُ فِي نُورِهِ الْقَدِيمِ ثُمَّ فَسَّرَا الحَمدَ وَجَعَلَهُ مُخَدَّرَةٌ سَفَرَتْ عَنْ وَجْهِهَا عِنْدَ ذِكْرِ الرَّحْمَانِ وَالرَّحِيمِ فَإِنَّ الرَّحْمَانَ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ الْحَمْدَ مَيْنِيٌّ عَلَى الْمَعْلُومِ وَالرَّحِيمَ يَدُلُّ عَلَى الْمَجْهُولِ كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى أَهْلِ الْعُلُومِ -
126 ترجمہ: پھر مین بھی یا دور ہے کہ لفظ حمد جو اس آیت میں اللہ ذوالجلال کی طرف سے استعمال ہوا ہے مصدر ہے جو بطور مبنی للمعلوم اور مینی مجھول ہے.یعنی فاعل اور مفعول دونوں کے لئے ہے.اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کامل طور پر تعریف کیا گیا اور تعریف کرنے والا ہے.اور اس بیان پر دلالت کرنے والا قرینہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حمد کے بعد ایسی صفات کا ذکر فرمایا ہے جو اہل عرفان کے نزدیک ان معنی کو ستلزم ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے لفظ حمد میں ان صفات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو اس کے ازلی نور میں پائی جاتی ہیں.پھر اس نے اس لفظ حد کی تفسیر فرمائی ہے اور اسے ایک ایسی پردہ نشین قرار دیا ہے جو رحمان اور رحیم کے ذکر پر اپنے چہرہ سے نقاب اٹھاتی ہے کیونکہ رحمان کا لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ لفظ حمد مصدر معروف ہے اور اسی طرح رحیم کا لفظ حمد کے مصدر مجہول ہونے پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں.اعجاز اسیح - رخ جلد 18 صفحہ 130-131) اَلْحَمْدُ لِلہ میں آنحضرت ﷺ کی طرف اشارہ ہے (1) الْحَمْدُ لِلَّهِ سے قرآن شریف اسی لئے شروع کیا گیا ہے تا کہ رسول اللہ ﷺ کے نام کی طرف ایما ہو.( ملفوظات جلد اول صفحہ 396) (2) اب میں پھر بتانا چاہتا ہوں کہ حمد ہی سے محمد اور احمد نکلا ہے.اور یہ رسول اللہ ﷺ کے دونام تھے.گویا حمد کے دو مظہر ہوئے اور پھر الحمد للہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی چار صفتیں رَبِّ الْعَلَمِين - الرَّحْمَنِ - الرَّحِيمِ - ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ بیان کی ہیں.اللہ تعالی ظلی طور پر اپنی صفات دینا چاہتا ہے ( ملفوظات جلداول صفحہ 429.430) الحمد اللہ کا مظہر میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ الحمد للہ کا مظہر رسول اللہ اللہ کے دو ظہوروں محمد اور احمد میں ہوا.اب نبی کامل کی ان صفات اربعہ کو بیان کر کے صحابہ کرام کی تعریف میں پورا بھی کر دیا.گو یا اللہ تعالیٰ خلقی طور پر اپنی صفات دینا چاہتا ہے اس لئے فنافی اللہ کے یہی معنی ہیں کہ انسان الہی صفات کے اندر آجاوے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 430) صحابه رسول اکرم ﷺ میں بھی ان صفات کی تجلی چمکی نبی کریم کی قوت قدسی کا ثبوت یہ ہمارے نبی کریم ﷺ کی قوت قدسی کے کامل اور سب سے بڑھ کر ہونے کا ایک اور ثبوت ہے کہ آپ کے تربیت یافتہ گروہ میں وہ استقلال اور رسوخ تھا کہ وہ آپ کے لیے اپنی جان مال تک دینے سے دریغ نہ کرنے والے میدان میں ثابت ہوئے.اور مسیح کے نقص کا یہ بدیہی ثبوت ہے کہ جو جماعت تیار کی ، وہی گرفتار کرانے اور جان سے مروانے اور لعنت کرنے والے ثابت ہوئے.غرض رسول اللہ ﷺ کی رحیمیت کا اثر تھا کہ صحابہ میں ثبات قدم اور استقلال تھا.پھر مالک یوم الدین کا عملی ظہور صحابہ کی زندگی میں یہ ہوا کہ خدا نے ان میں اور اُن کے غیروں میں فرقان رکھ دیا.جو معرفت اور خدا کی محبت دنیا میں ان کو دی گئی ، یہ اُن کی دُنیا میں جزا تھی.اب قصہ کوتاہ کرتا ہوں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان صفات اربعہ کی تجلی چمکی.( ملفوظات جلد اول صفحہ 430)
127 حضرت مسیح موعود کی جماعت بھی صحابہ ہی ہوگی لیکن بات بڑی غور طلب ہے کہ صحابہ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو جو پہلے گزر چکے بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے.وہ بھی صحابہ ہی میں داخل ہے جو احمد کے بروز کے ساتھ ہوں گے؛ چنانچہ فرمایا، وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعتہ :4 ) یعنی صحابہ کی جماعت کو اسی قدر نہ سمجھو بلکہ مسیح موعود کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہ ہی ہوگی.اس آیت کے متعلق مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعود کی جماعت ہے منہم کے لفظ سے پایا جاتا ہے کہ باطنی توجہ اور استفاضہ صحابہ ہی کی طرح ہوگا.صحابہ کی تربیت ظاہری طور پر ہوئی تھی مگر ان کو کوئی دیکھ نہیں سکتا وہ بھی رسول اللہ ﷺ کی تربیت کے نیچے ہوں گے.اس لئے سب علماء نے اس گروہ کا نام صحابہ ہی رکھا ہے.جیسے ان صفات اربعہ کا ظہوران صحابہ میں ہوا تھا ویسے ہی ضروری ہے کہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کی مصداق جماعت صحابہ میں بھی ہو.مسیح وقت آب دُنیا میں آیا خُدا نے مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابة (ملفوظات جلد اول صفحہ 431) عہد کا دن ہے دکھایا ملا جب مجھ کو مجھ کو پایا وہی کے ان کو ساقی نے پلا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي ( در شین اردو صفحه 59) الله الحمد میں دو احمد وں کا ذکر ہے یعنی آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود اعْلَمُ أَنَّ اللهَ تَعَالَى افْتَتَحَ كِتَابَهُ بِالْحَمْدِ لَا بِالشُّكْرِ وَلَا بِالثَّنَاءِ - لَا نَّ الْحَمْدَ أَتَم وَاَكْمَلُ مِنْهُمَا وَأَحَاطَهُمَا بِالْاِسْتِيْفَاءِ - ثُمَّ ذَالِكَ رَدُّ عَلَى عَبَدَةِ الْمَخْلُوقِيْنَ وَالْأَوْثَان - فَإِنَّهُمْ يَحْمَدُونَ طَوَا غِيْتَهُمْ وَيَنْسِبُونَ إِلَيْهَا صِفَاتِ الرَّحْمَنِ وَفِي الْحَمْدِ إِشَارَةٌ أُخْرَى - وَهِيَ أَنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ أَيُّهَا الْعِبَادُ اعْرِفُونِي بِصِفَاتِي وَامِنُوا بِي لِكَمَالَاتِي وَانْظُرُوا إِلى السَّمَوتِ وَالَّا رُضِينَ هَلْ تَجِدُ وُنَ كَمِثْلِى رَبَّ الْعَالَمِيْنَ وَاَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَمَا لِكَ يَوْمِ الدِّينِ - وَمَعَ ذَالِكَ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ الهَكُمْ إِلَةٌ جَمَعَ جَمِيعَ أنْوَاعِ الْحَمْدِ فِي ذَاتِهِ وَتَفَرَّدَ فِي سَائِرِ مَحَاسِنِهِ وَ صِفَاتِهِ - وَإِشَارَةٌ إِلَى أَنَّهُ تَعَالَى مُنَزَّةٌ شَانُهُ عَنْ كُلّ نَقْصٍ وَّ حُرُوْلٍ حَالَةٍ وَلُحُوقِ وَصُمَةٍ كَا لَمَخْلُوقِيْنَ بَلْ هُوَ الْكَاسِلُ المَحْمُودُ وَلَا تُحِيطُهُ الحُدودُ وَلَهُ الحَمدُ فِي الأ وَلَى وَالْآخِرَةِ وَ مِنَ الَّا زَلِ إِلَى ابد الابدين - وَلِذَالِكَ سَمَّى اللهُ نَبِيَّة أَحْمَدَ وَكَذَالِكَ سَمَّى بِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ لِيُشِيرَ
128 إلى مَا تَعَمَّدَ - وَإِنَّ اللهَ كَتَبَ الْحَمْدَ عَلَى رَأسِ الْفَاتِحَةِ ثُمَّ أَشَارَ إِلَى الْحَمْدِ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ فَإِنَّ اخِرَهَالَفُظُ الصَّالِينَ وَهُمُ النَّصَارَى الَّذِينَ أَعْرَضُوا عَنْ حَمُدِ اللَّهِ وَأَعْطَوا حَقَّهُ لَاحَدٍ مِّنَ الْمَخْلُوقِيْنَ - فَإِنَّ حَقِيْقَةَ الضَّلَالَةِ هِيَ تَرُكُ الْمَحْمُودِ الَّذِي يَسْتَحِقُّ الْحَمْدَ وَالثَّنَاءَ كَمَا فَعَلَ النَّصَارَى وَ نَحَتُوُا مِنْ عِنْدِ هِمُ مَحْمُودًا أَخَرَ وَبَالَغُوا فِي الْإِ طُرَاءِ وَاتَّبَعُوا الَّا هُوَاءَ - وَبَعَدُوا مِنْ عَيْنِ الْحَيَاةِ وَهَلَكُوا كَمَا يَهْلِكُ الضَّالُ فِي الْمَوْ مَاةِ - وَإِنَّ الْيَهُودَ هَلَكُوا فِى أَوَّلِ أَمْرِ هِمُ وَبَاءُ وَابِغَضَبٍ مِّنَ اللهِ القَهَّارِ وَالنَّصَارَى سَلَكُوا قَلِيلًا ثُمَّ ضَلُّوا وَفَقَدُ واالْمَاءَ فَمَا تُوْا فِى فَلَاةٍ مِّنَ الْاضْطِرَارٍ - فَحَاصِلُ هَذَا الْبَيَانِ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ أَحْمَدَ يُنِ فِي صَدْرِ الْإِسْلَامِ وَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ وَأَشَارَ إِلَيْهِمَا بِتَكْرَارِ لَفْظِ الْحَمْدِ فِي أَوَّل الْفَاتِحَةِ وَفِي آخِرِهَا لَا هُلِ الْعِرْفَانِ وَفَعَلَ كَذَالِكَ لِيَرُدَّ عَلَى النَّصْرَانِيِّينَ - وَأَنْزَلَ أَحْمَدَيْنِ مِنَ السَّمَاءِ لِيَكُونَا كَالْجِدَرَيْنِ لِحِمَايَةِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ - ( ترجمه از مرتب ) جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو شکر اور ثناء سے نہیں بلکہ حد سے شروع کیا ہے کیونکہ حمد کا لفظ ان دونوں سے زیادہ مکمل اور جامع ہے اور ان دونوں پر پورے طور پر محیط ہے.پھر لفظ الحمد مخلوق کے پرستاروں اور بتوں کے پوجاریوں کی تردید ہے.کیونکہ وہ اپنے باطل معبودوں کی حمد کرتے ہیں.اور خدائے رحمان کی صفات ان کی طرف منسوب کرتے ہیں.الحمد میں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو مجھے میری صفات کے ذریعہ پہنچانو.اور میرے کمالات کی بناء پر مجھ پر ایمان لاؤ.اور آسمانوں اور زمینوں پر غور کرو.کیا تم میرے جیسا کسی اور کو رب العالمین اور ارحم الراحمین اور مالک یوم الدین پاتے ہو.مزید براں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ تمہارا معبود ایسا معبود ہے جس کی ذات ہرقسم کی حمد کی جامع ہے.اور اپنی تمام خوبیوں اور صفتوں میں منفر د اور یگانہ ہے.اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان ہر نقص اور ہر تغیر اور ہر عیب کے لاحق ہونے سے پاک ہے جومخلوق میں پایا جاتا ہے بلکہ وہ اپنی ذات میں قابل تعریف ہے.اور وہ حد بندی سے بالا ہے اور آنحضرت ﷺ کی پہلی بعثت اور پچھلی بعثت بلکہ ازل سے ابدالاباد تک سب تعریف اسی کے لیے ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا نام احمد رکھا اور اسی طرح مسیح موعود کا بھی یہی نام رکھا.تا اس نے جو قصد کیا تھا اس کی طرف اشارہ فرمائے.اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے ابتداء میں الحمد لکھا ہے پھر اس سورۃ کے آخر میں بھی الحمد کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ اس کے آخر میں الضالین کا لفظ ہے.اور وہ نصاریٰ ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کی حمد کرنے سے منہ موڑ لیا.اور اس کا حق مخلوق کے ایک فرد کو دے دیا.کیونکہ گمراہی کی حقیقت یہ ہے کہ اس قابل تعریف ہستی کو جو حمد وثنا کی مستحق ہے چھوڑ دیا جائے جیسا کہ نصاریٰ نے کیا ہے.انہوں نے اپنے پاس سے ایک اور قابل تعریف معبود بنا لیا اور انہوں نے اس کی تعریف میں بڑا مبالغہ کیا ہے.انہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اور زندگی کے چشمہ سے دور نکل گئے اور اس طرح ہلاک ہو گئے جس طرح ایک راہ گم کردہ شخص بیابان میں ہلاک ہو جاتا ہے.اور
129 یہود تو اپنی ابتدا میں ہی ہلاک ہو گئے تھے.اور خدائے قہار کے غضب کے مورد بن گئے تھے.نصاری چند قدم چلے پھر گمراہ ہو گئے اور روحانی پانی کھو دیا.اور آخر کار لا چار ہو کر بیابانوں میں ہی مر گئے.پس خلاصہ بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو احمد پیدا کئے (ایک) اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اور (ایک) آخری زمانہ میں.اور اللہ تعالیٰ نے اہل عرفان کے لیے سورۃ فاتحہ کے شروع میں اور اس کے آخر میں الحمد کا لفظاً ومعنا تکرار کر کے ان دونوں (احمدوں) کی طرف اشارہ فرمایا ہے.اور خدا نے ایسا عیسائیوں کی تردید کے لیے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے دو احمد آسمان سے اتارے تا وہ دونوں پہلوں اور پچھلوں کی حمایت کے لیے دو دیواروں کی طرح ہو جائیں.اعجاز ا یح.رخ جلد 18 صفحہ 195 تا 198) ترجمہ اور معانی رب العالمین.جنگ مقدس - رخ جلد 6 صفحہ 101) (1) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ....یعنی تمام محمد اللہ کے لئے ثابت ہیں جو تمام عالموں کا رب ہے یعنی اُس کی ربوبیت تمام عالموں پر محیط ہے.(2) ربّ.لسان العرب اور تاج العروس میں جو لغت کی نہایت معتبر کتا بیں ہیں لکھا ہے کہ زبان عرب میں رب کا لفظ سات معنوں پر مشتمل ہے اور وہ یہ ہیں.(1) مالک.(2) سید.(3) مدیر.(4) مربی.(5 ) قیم.( 6 ) منعم.(7) تم.چنانچہ ان سات معنوں میں سے تین معنی خدا تعالیٰ کی ذاتی عظمت پر دلالت کرتے ہیں منجملہ اُن کے مالک ہے اور مالک لغت عرب میں اُس کو کہتے ہیں جس کا اپنے مملوک پر قبضہ تامہ ہوا اور جس طرح چاہے اپنے تصرف میں لا سکتا ہو اور بلا اشتراک غیر اُس پر حق رکھتا ہو اور یہ لفظ حقیقی طور پر یعنی بلحاظ اُس کے معنوں کے بجز خدا تعالیٰ کے کسی دوسرے پر اطلاق نہیں پاسکتا.کیونکہ قبضہ تامہ اور تصرف تام اور حقوق تامہ بجز خدا تعالیٰ کے اور کسی کے لیے مسلم نہیں.مین الرحمن - ر خ جلد 9 صفحہ 152 153 حاشیہ) (3) رَبِّ العلمین کیا جامع کلمہ ہے.اگر ثابت ہو کہ اجرام فلکی میں آبادیاں ہیں تب بھی وہ آبادیاں اس کلمہ کے نیچے آئیں گی.کشتی نوح - ر- خ جلد 19 صفحه 42 (4) رب العالمین اس لیے بھی فرمایا تا کہ یہ ثابت کرے کہ وہ بسائط اور عالم امر کا بھی رب ہے کیونکہ بسیط چیزیں امر سے ہیں اور مرکب خلق سے.(5) قرآن شریف میں جس قدر صفات اور افعال الہیہ کا ذکر ہے ان سب صفات کا موصوف اسم اللہ ٹھہرایا گیا ( ملفوظات جلد اول صفحہ 389) ہے مثلاً کہا گیا ہے، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ....(حقیقتہ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 146
130 روحانی پرورش بھی خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے أَشَارَ اللهُ سُبْحَانَهُ فِي قَوْلِهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ “ إِلَى أَنَّهُ هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّمِنْهُ كُلُّ مَافِي السَّمَوَاتِ وَالَّا رُضِينَ - وَمِنَ الْعَالَمِيْنَ مَايُوجَدُ فِي الَّا رُضِينَ مِنْ زُمَرِ الْمُهْتَدِينَ وَطَوَآئِفِ الْغَاوِيْنَ وَ الضَّالِّينَ - فَقَدْ يَزِيدُ عَالَمُ الضَّلَالِ وَالْكُفْرِ وَالْفِسْقِ وَ تَرْكِ الْإِعْتِدَالِ حَتَّى يُملأ الارْضُ ظُلما وجورًا وَيَتْرُكُ النَّاسُ طُرُقَ اللَّهِ ذَا الْجَلَالِ - لَا يَفْهَمُونَ حَقِيْقَةَ الْعُبُودِيَّةِ - وَلَا يُؤدُّونَ حَقَّ الرُّبُوَبِيَّةِ - فَيَصِيرُ الزَّمَانُ كَاللَّيْلَةِ اللَّيْلَاءِ - وَيُدَاسُ الدِّينُ تَحْتَ هَذِهِ اللَّا وَآءِ - ثُمَّ يَأْتِي اللَّهُ بِعَالَمِ أَخَرَ فَتُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الَّا رُضِ وَ يَنزِلُ الْقَضَاءُ مُبَدَّ لَا مِّنَ السَّمَاءِ وَيُعْطى للنَّاسِ قَلْبٌ عَارِفٌ وَّلِسَانٌ نَّا طِقْ لِشُكُرِ النَّعْمَاءِ فَيَجْعَلُونَ نُفُوسَهُمْ كَمَوْرٍ مُعَبْدِ لِحَضْرَةِ الْكِبْرِيَاءِ وَيَأْتُونَهُ خَوْفًا وَّ رَجَاءً بِطَرْفٍ مَّغْضُوضٍ مِّنَ الْحَيَا ءِ - اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے قول رب العالمین میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسی کی طرف سے ہے اور اس زمین پر جو بھی ہدایت یافتہ جماعتیں یا گمراہ اور خطا کارگر وہ پائے جاتے ہیں وہ سب عالمین میں شامل ہیں کبھی گمراہی کفر فستق اور اعتدال کو ترک کرنے کا عالم بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ زمین ظلم وجور سے بھر جاتی ہے اور لوگ خدائے ذوالجلال کے راستوں کو چھوڑ دیتے ہیں.نہ وہ عبودیت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور نہ ربوبیت کا حق ادا کرتے ہیں.زمانہ ایک تاریک رات کی طرح ہو جاتا ہے اور دین اس مصیبت کے نیچے روندا جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ ایک اور عالم لے آتا ہے تب یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل دی جاتی ہے.اور ایک نئی تقدیر آسمان سے نازل ہوتی ہے.اور لوگوں کو عارف (شناسا) دل اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے ناطق (گویا) زبانیں عطا ہوتی ہیں.پس وہ اپنے نفوس کو خدا تعالیٰ کے حضور ایک پامال راستہ کی طرح بنا لیتے ہیں اور خوف اور امید کے ساتھ اسکی طرف آتے ہیں ایسی نگاہ کے ساتھ جو حیا کی وجہ سے نیچی ہوتی ہیں.اعجاز مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 131-132)
131 رب العالمین میں حضرت اقدس“ کا ذکر ثُمَّ هُوَ سُبْحَانَهُ أَشَارَ فِي قَوْلِهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ إِلَى أَنَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَأَنَّهُ يُحْمَدُ فِي السَّمَاءِ وَالَّا رُضِينَ - وَأَنَّ الْحَامِدِينَ كَانُوا عَلَى حَمْدِهِ دَآئِمِيْنَ - وَعَلَى ذِكْرِهِمْ عَاكِفِينَ - وَإِن مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُهُ وَيَحْمَدُهُ فِى كُلِّ حِيْنِ وَأَنَّ الْعَبْدَ إِذَا نُسَلَخَ عَنْ إِرَادَاتِهِ - وَتَجَرَّدَ عَنْ جَذَبَاتِهِ وَفَنْ فِى اللَّهِ وَفِي طُرُقِهِ وَعِبَادَاتِهِ - وَعَرَفَ رَبَّهُ الَّذِي رَبَّاهُ بِعِنَايَاتِهِ - حَمِدَهُ فِي سَائِرِ أَوْقَاتِهِ وَأَحَبَّهُ بِجَمِيعِ قَلْبِهِ بَلْ بِجَمِيعِ ذَرَّاتِهِ - فَعِنْدَ ذَالِكَ هُوَ عَالَم مِّنَ الْعَالَمِينَ - وَلِذَالِكَ سُمِّيَ إِبْرَاهِيمُ أُمَّةً فِى كِتَابِ عَالَمِ الْعَالَمِينَ - وَمِنَ الْعَالَمِينَ زَمَانٌ أُرْسِلَ فِيهِمْ خَاتَمُ النَّبِيِّنَ - وَعَالَمْ أَخَرُ فِيهِ يَأْتِي اللهُ بِأَخَرِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ - فِى اخِرِ الزَّمَانِ رَحْمَةً عَلَى الطَّالِبِينَ وَإِلَيْهِ أَشَارَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى لَهُ الْحَمْدُ فِي الَّا وَلَى وَ الْآخِرَةِ - فَأَوْمَا فِيهِ إِلَى أَحْمَدَيْنِ وَجَعَلَهُمَا مِنْ نَّعْمَائِهِ الْكَا ثِرَةِ فَا لَأَوَّلُ مِنْهُمَا أَحْمَدُ الْمُصْطَفَى وَرَسُولُنَا الْمُجْتَنِى - وَالثَّانِي أَحْمَدُ اخِرِ الزَّمَانِ الَّذِي سُمِّيَ مَسِبُحًا وَمَهْدِيًّا مِنَ اللهِ الْمَنانِ - وَقَدِ اسْتَنْبَطتُ هَذِهِ النَّكْتَةَ مِنْ قَوْلِهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ - فَلْيَتَدَبَّرُ مَنْ كَانَ مِنَ الْمُتَدَبِّرِينَ - پھر اللہ پاک ذات نے اپنے قول رب العالمین میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور آسمانوں اور زمینوں میں اسی کی حمد ہوتی ہے.اور پھر حمد کرنے والے ہمیشہ اس کی حمد میں لگے رہتے ہیں.اور اپنی یا دخدا میں محور ہتے ہیں.اور کوئی نئی چیز ایسی نہیں مگر ہر وقت اس کی تسبیح وتحمید کرتی رہتی ہے اور جب اس کا کوئی بندہ اپنی خواہشات کا چولہ اتار پھینکتا ہے اپنے جذبات سے الگ ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کی راہوں اور اس کی عبادات میں فنا ہو جاتا ہے اپنے اس رب کو پہچان لیتا ہے جس نے اپنی عنایات سے اس کی پرورش کی وہ اپنے تمام اوقات میں اس کی حمد کرتا ہے اور اپنے پورے دل بلکہ اپنے (وجود کے ) تمام ذرات سے اس سے محبت کرتا ہے تو اس وقت وہ شخص عالمین میں سے ایک عالم بن جاتا ہے اسی لئے اعلم العالمین کی کتاب (قرآن کریم) میں حضرت ابراہیم" کا نام امت رکھا گیا اور عالمین سے ایک عالم وہ بھی ہے جس میں حضرت خاتم النبین ﷺ مبعوث کئے گئے ایک اور عالم وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے طالبوں پر رحم کر کے آخری زمانہ میں مومنوں کے ایک دوسرے گروہ کو پیدا کرے گا اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام لَهُ الْحَمْدُ فِي الأولى وَالْآخِرَةِ (القصص: 71) میں اشارہ فرمایا ہے.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو احمدوں کا ذکر فرما کر ہر دو کو اپنی بے پایاں نعمتوں میں شمار کیا ہے.ان میں سے پہلے احمد تو ہمارے نبی احمد مصطفیٰ اور رسول مجتبی عے ہیں اور دوسرا احمد احمد آخر الزمان ہے جس کا نام محسن خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی بھی رکھا گیا ہے.یہ نکتہ میں نے خدا تعالیٰ کے قول الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ سے اخذ کیا ہے.پس ہر غور وفکر کرنے والے کو غور کرنا چاہیئے.اعجاز ایح.رخ جلد 18 صفحہ 137 تا139 )
132 الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ الرَّحمن ترجمہ اور معنی ثُمَّ نُكَرِّرُ خُلاصَةَ الْكَلَامِ فِي تَفْسِيرُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - فَاعْلَمْ أَنَّ اسْمَ اللَّهِ اسْمٌ جَامِدٌ لَّا يَعْلَمُ مَعْنَاهُ إِلَّا الْخَبِيْرُ الْعَلِيمُ وَقَذَ أَخَبَرَ عَنَّ اسْمُهُ بِحَقِيقَةِ هَذَا الْإِسْمِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ - وَأَشَارَ إِلَى أَنَّهُ ذَاتٌ مُتَّصِفَةٌ بِالرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ - أَى مُتَّصِفَةٌ بِرَحْمَةِ الْاِمْتِنَانِ وَرَحْمَةٍ مُّقَيَّدَةٍ بِالْحَالَةِ الْإِيْمَانِيَّةِ وَهَاتَانِ رَحْمَاتَانِ كَمَاءٍ أَصْفَى وَعِذَاءٍ أَحْلَى مِنْ مَّنْبَعِ الرُّبُوبِيَّةِ - وَكُل مَا هُوَ دُونَهُمَا مِنْ صِفَاتٍ فَهُوَ كَشُعَبِ لِهَذِهِ الصَّفَاتِ وَالاصْلُ رَحْمَانِيَّةً وَرَحِيْمِيَّةٌ وهُمَا مَظْهَرُ سِرِّ الذَّاتِ اب تم بِسْمِ اللهِ الرَّحِمَانِ الرَّحِیم کی تفسیر کا خلاصہ دوبارہ بیان کرتے ہیں.پس واضح ہو کہ اللہ کالفظ اسم جامد ہے اور اسکے معنی سوائے خدائے خیر علیم کے اور کوئی نہیں جانتا.اور اللہ تعالیٰ عزاسمہ نے اس آیت میں اس اسم کی حقیقت بتائی ہے اور اشارہ کیا ہے کہ اللہ اس ذات کا نام ہے جو رحمانیت اور رحیمیت کی صفات سے متصف ہے یعنی (بلا استحقاق ) احسان والی رحمت اور ایمانی حالت سے وابستہ رحمت ہر دورحمتوں سے (وہ ذات ) متصف ہے.یہ دونوں رحمتیں صاف پانی اور شیریں غذا کی مانند ہیں جور بوبیت کے چشمہ سے نکلتی ہیں اور ان دونوں کے علاوہ باقی تمام صفات ان دو صفات کے لئے بمنزلہ شاخوں کے ہیں اور اصل رحمانیت اور رحیمیت ہی ہے اور یہ دونوں صفات ذات الہی کے بھید کی مظہر ہیں.اعجاز مسیح - رخ جلد 18 صفحه 115-116 ) فرمایا (کہ) هُوَ الرَّحْمَنُ یعنی وہ جانداروں کی ہستی اور ان کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے نہ کسی غرض سے اور نہ کسی کے عمل کی پاداش میں ان کیلئے سامان راحت میسر کرتا ہے جیسا کہ آفتاب اور ماہتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارے اعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنا دیا اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے اور اس کام کے لحاظ سے خدا تعالیٰ رحمٰن کہلاتا ہے اور پھر فرمایا کہ الرَّحِيمُ یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا.اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے اور یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی...خ جلد 10 صفحہ 373) رحمان پھر اللہ کی صفت الرحمن بیان کی ہے اور اس صفت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کی فطری خواہشوں کو اس کی دعا یا التجا کے بغیر اور بدوں کسی عمل عامل کے عطا ( پورا) کرتا ہے.مثلاً جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے قیام و بقاء کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ پہلے سے موجود ہوتی ہیں پیدا پیچھے ہوتا ہے لیکن ماں کی چھاتیوں میں دودھ پہلے آجاتا ہے.آسمان ، زمین ، سورج ، چاند ستارے، پانی، ہوا وغیرہ یہ تمام اشیاء جو اس نے انسان کیلئے بنائی ہیں یہ اس کی صفت رحمانیت ہی کے تقاضے ہیں.لیکن دوسرے مذہب والے یہ نہیں مانتے کہ وہ بلا مبادلہ بھی فضل کرسکتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 36 )
133 دوسری صداقت رحمان ہے کہ جو بعد رب العالمین بیان فرمایا گیا اور رحمان کے معنی جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں یہ ہیں کہ جس قدر جاندار ہیں خواہ ذی شعور اور خواہ غیر ذی شعور اور خواہ نیک اور خواہ بدان سب کے قیام اور بقاء وجود اور بقائے نوع کے لئے اور ان کی تکمیل کیلئے خدائے تعالیٰ نے اپنی رحمت عامہ کی رو سے ہر ایک قسم کے اسباب مطلوبہ میسر کر دیئے ہیں اور ہمیشہ میسر کرتا رہتا ہے اور یہ عطیہ محض ہے کہ جو کسی عامل کے عمل پر موقوف نہیں.تعریف و معانی الرَّحِيمِ ( براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 459 حاشیہ نمبر 11 ) اللہ تعالیٰ کی صفت رحیم بیان کی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کا تقاضا ہے کہ محنت اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان پر ثمرات اور نتائج مترتب کرتا ہے اگر انسان کو یہ یقین ہی نہ ہو کہ اس کی محنت اور کوشش کوئی پھل لاوے گی تو پھر وہ ست اور نکما ہو جاوے گا یہ صفت انسان کی امیدوں کو وسیع کرتی اور نیکیوں کے کرنے کی طرف جوش سے لے جاتی ہے اور یہ بھی یادرکھنا چاہیئے کہ رحیم قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ تعالٰی اس وقت کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دعا ، تضرع اور اعمال صالح کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تضیع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے.رحمانیت تو بالکل عام تھی لیکن رحیمیت خاص انسانوں سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری مخلوق میں دعا، تضرع، اور اعمال صالحہ کا ملکہ اور قوت نہیں یہ انسان ہی کو ملا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 37-36) رحمانیت اور رحیمیت میں یہی فرق ہے کہ رحمانیت دعا کو نہیں چاہتی مگر رحیمیت دعا کو چاہتی ہے اور یہ انسان کے لئے ایک خلعت خاصہ ہے اور اگر انسان انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھا وے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے.الرَّحِیم.اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیک عمل کے بدلہ نیک نتیجہ دیتا ہے جیسا کہ نماز پڑھنے والا، روزہ رکھنے والا ، صدقہ دینے والا دنیا میں بھی رحم پاوے گا اور آخرت میں بھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (التوبہ: 12:0) اور دوسری جگہ فرماتا ہے مَنْ يُعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهُ ( الزلزال : 98) یعنی اللہ تعالیٰ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا جو کوئی ذرہ سی بھی بھلائی کرتا ہے وہ اس کا بدلہ پالیتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا نام رحیم ہے جو صالح الاعمال عشق و محبت میں محو ہو جاتا ہے.اس کے مدارج بلند کروں گا جتنے اولیاء اور بڑے بڑے راست باز ہوئے ہیں ان سب نے پہلے ضرور مجاہدات کئے ہیں.جب جا کر ان پر یہ دروازہ کھلا.قرآن مجید میں ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِ يَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70) جوینده یا بندہ.جس نے مجاہدات کئے اُسی نے پایا.پس یہ رحیم ان لوگوں کے رد میں ہے جو کہتے ہیں کہ جو ہونا ہے وہ ہو جائے گا.ہمیں عبادات کی کیا ضرورت ہے.غالباً چوروں ڈاکوؤں کا بھی یہی مذہب ہوتا ہے اور یہی خیالات وہ اندر ہی اندر رکھتے ہیں.(البدر 9 جنوری 1908 صفحہ 5) ( تفسیر حضرت اقدس سورۃ فاتحہ جلد اول صفحہ 67) ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 349)
134 صفت رحیمیت صرف مومنوں کے ساتھ مخصوص ہے قالَ اللهُ تَعَالَى " وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ ( نياء (108) وَلَا يَسْتَقِيمُ هَذَا الْمَعْنى إِلَّا فِي الرَّحْمَانِيَّةِ فَإِنَّ الرَّحِيمِيَّةَ يَخْتَصُّ بِعَالَمِ وَاحِدٍ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ - اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اے نبی.ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا.آپ کا رحمۃ للعالمین ہونا صفت رحمانیت کے لحاظ سے ہی درست ہو سکتا ہے.کیونکہ رحیمیت تو صرف مومنوں کی دنیا کے ساتھ ہی مخصوص ہے.اعجاز امسیح.رخ جلد 18 صفحہ 118 حاشیه ) صلى الله رسول اکرم صفات رحمن ورحیم کے مظہر اول ہیں وَلَمَّا جَاءَ زَمَنُ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَسَيّدِنَا مُحَمَّدٍ سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ أَرَادَهُوَ سُبْحَانَهُ أَنْ يُجْمَعَ هَاتَيْنِ الصِّفَتَيْنِ فِى نَفْسٍ وَاحِدَةٍ فَجَمَعَهُمَا فِي نَفْسِهِ عَلَيْهِ أَلْفُ أَلْفِ صلوة وتَحِيَّةٍ فَلِذَالِكَ ذَكَرَ تَخْصِيصًا صِفَةَ الْمَحْبُوبِيَّةِ وَالْمُحِمِّيَّةِ عَلَى رَأْسِ هَذِهِ السُّوْرَةِ لِيَكُونَ إِشَارَةٌ إِلى هَذِهِ الْإِرَادَةِ وَسَمَّى نَبِيَّنَا مُحَمَّدًا وَأَحْمَدَ كَمَا سَمَّى نَفْسَهُ الرَّحْمَانَ وَالرَّحِيمَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ- فَهَذِهِ إِشَارَةٌ إِلى أَنَّهُ لَا جَامِعَ لَهُمَا عَلَى الطَّرِيقَةِ الظَّلِّيَّةِ إِلَّا وُجُودُ سَيّدِنَا خَيْرِ الْبَرِيَّةِ وَقَدْ عَرَفْتَ أَنَّهَا تَيْنِ الصِّفَتَيْنِ أَكْبَرُ الصَّفَاتِ مِنْ صِفَاتِ الْحَضْرَةِ الْأَحَدِيَّةِ بَلْ هُمَا لُبُ اللُّبَابِ وَحَقِيقَةُ الْحَقَائِقِ لِجَمِيعِ أَسْمَاءِ وَ الصِّفَا تِيَّةِ وَهُمَا مِعْيَارُ كَمَالِ كُلِّ مَنِ اسْتَكْمَلَ وَتَخَلَّقَ بِالْأَخْلَاقِ الْإِلَهِيَّةِ - وَمَا أُعْطِيَ نَصِيبًا كَا مِلًا مِّنْهُمَا إِلَّا نَبِيَّنَا خَاتَمُ سِلْسِلَةِ النُّبُوَّةِ فَإِنَّهُ أَعْطِىَ أَسْمَيْنِ كَمِثْلِ هَا تَيْنِ الصِّفَتَيْنِ أَوْ لُهُمَا مُحَمَّدٌ وَّ الثَّانِي أَحْمَدُ مِنْ فَضْلِ رَبِّ الْكَوْنَيْنِ أَمَّا مُحَمَّدٌ فَقَدِ ارْتَدَى رِدَاءَ صِفَةِ الرَّحْمَانِ وَتَجَلَّى فِي حُلَلِ الْجَلَالِ وَالْمَحْبُوبِيَّةِ وحُمِدَ لِبَرٌ مِّنْهُ وَالْإِحْسَانِ وَأَمَّا أَحْمَدُ فَتَجَلَّى فِي حُلَّةِ الرَّحِيمِيَّةِ وَالْمُحِيَّةِ وَالْجَمَالِيَّةِ فَضْلاً مِّنَ اللهِ الَّذِي يَتَوَلَّى الْمُؤْمِنِيْنَ بِالْعَوْنِ وَالنُّصْرَةِ - فَصَا رَاسْمَا نَبِيِّنَا بِحِذَاءَ صِفَتَى رَبَّنَا الْمَنَانِ كَصُوَرٍ مُنْعَكِسَةٍ تُظْهِرُهَا مِرْأَتَانِ مُتَقَابِلَتَانِ ترجمہ: اور جب ہمارے آقا سید المرسلین و خاتم النبین محمد علی کا زمانہ آیات اللہ تعالی کی پاک ذات نے ارادہ فرمایا کہ ان دونوں صفات کو ایک ہی شخصیت میں جمع کر دے چنانچہ اس نے آنحضرت کی ذات میں ( آپ پر ہزاروں ہزار درود اور سلام ہو) یہ دونوں صفات جمع کر دیں یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے شروع میں صفت محبوبیت اور صفت محبیت کا خاص طور پر ذکر کیا ہے تا اس سے خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کی طرف اشارہ ہو اور اس نے ہمارے نبی ﷺ کا نام محمد اور احمد رکھا.جیسا کہ اس نے اس آیت میں اپنا نام الرحمن اور الرحیم رکھا.پس یہ بات اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان دونوں صفات کا ہمارے آقا فخر دو عالم ﷺ کے علاوہ اور کوئی جامع وجود نہیں.اور آپ کو معلوم ہے کہ یہ دونوں صفات خدا تعالیٰ کی صفات میں سے سب سے بڑی صفات ہیں.بلکہ یہ اس کے تمام صفاتی ناموں کے خلاصوں کا خلاصہ اور حقیقوں کی نچوڑ ہیں.یہ ہر
135 اس شخص کے کمال کا معیار ہیں جو کمال کا طالب ہے اور اخلاق الہیہ کا رنگ اختیار کرتا ہے.پھر ان دونوں صفات میں سے کامل حصہ صرف ہمارے نبی سلسلہ نبوت کے خاتم ﷺ کو ہی دیا گیا ہے کیونکہ آپ کو پروردگار دو عالم کے فضل سے ان دونوں صفات کی طرح دو نام دیئے گئے ہیں، جن میں سے پہلا محمد ہے اور دوسرا احمد ، پس اسم محمد نے صفت الرحمان کی چادر پہنی اور جلال اور محبوبیت کے لباس میں جلوہ گر ہوا اور اپنی نیکی اور احسان کی بناء پر بار بار تعریف بھی کیا گیا.اور اسم احمد نے خدا تعالیٰ کے فضل سے جو مومنوں کی مدد اور نصرت کا متوتی ہے رحیمیت بحبیت اور جمال کے لباس میں تجلی فرمائی.پس ہمارے نبی ﷺ کے دونوں نام محمد اور احمد ) ہمارے رب حسن کی دونوں صفتوں ( الرحمان الرحیم ) کے مقابلہ میں منعکس صورتوں کی طرح ہیں جن کو دو مقابل کے آئینے ظاہر کرتے ہیں.(اعجاز استح.رخ جلد 18 صفحہ 101 تا103) ثُمَّ أُعْطِيَ مِنْهُمَا نَصِيبٌ كَامِلٌ لِنَتِينَا اِمَامِ النَّهْجِ الْقَوِيْم فَجُعِلَ اسْمُهُ مُحَمَّدٌ ظِلَّ الرَّحْمَانِ وَاسْمُهُ أَحْمَدُ ظِلَّ الرَّحِيمِ وَالسِّرُّ فِيْهِ أَنَّ الْإِنْسَانَ الْكَامِلَ لَا يَكُونُ كَامِلًا إِلَّا بَعْدَ التَّخَلُقِ بِالْأَخْلَاقِ الْإِلَهِيَّةِ وَ صِفَاتِ الرُّبُوبِيَّةِ - وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ أَمْرَ الصِّفَاتِ كُلِّهَا تَقُولُ إِلَى الرَّحْمَتَيْنِ اللَّتَيْنِ سَمَّيْنَا هُمَا بِالرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ - وَعَلِمْتَ أَنَّ الرَّحْمَانِيَّةَ رَحْمَةٌ مُطْلَقَةٌ عَلَى سَيْدِ الْاِمْتِنَانِ وَيَرِدُ فَيْضَانُهَا عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَّ كَافِرِ بَلْ كُلِّ نَوْعِ الْحَيَوَانِ وَأَمَّا الرَّحِيمِيَّةُ مَةٌ وُجُوبِيَّةٌ مِّنَ اللَّهِ أَحْسَنِ الْخَالِقِينَ - وَجَبَتْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ خَاصَّةٌ مِّنْ دُوْنِ حَيَوَانَاتٍ أُخْرَى وَالْكَافِرِيْنَ فَلَزِمَ أَنْ يَكُونَ الْإِنْسَانُ الْكَامِلُ أَعْنِي مُحَمَّدًا مَّظْهَرَ هَاتَيْنِ الصِّفَتَيْنِ فَلِذَالِكَ سُمِّيَ مُحَمَّدًا وَأَحْمَدَ مِنْ رَّبِّ الْكَوْنَيْنِ وَقَالَ اللَّهُ فِي شَأْنِهِ لَقَدْ جَاءَ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُ وُفٌ رَّحِيم“.(تو به 128) ترجمہ.پھر ان دونوں صفات سے ہمارے نبی ﷺ کو جو صراط مستقیم کے امام ہیں کامل حصہ عطا کیا گیا.پس آپ کا نام محمد بطور رحمان کے کل کے اور احمد نام بطور رحیم کے کل کے رکھا گیا.اور اس میں یہ راز ہے کہ کامل انسان الہی اخلاق اور ربانی صفات کے رنگ میں رنگین ہونے کے بعد ہی کامل ہوتا ہے اور آپ جان چکے ہیں کہ تمام صفات کا مال یہی دورحمتیں ہیں.جن کا نام ہم نے رحمانیت اور رحیمیت رکھا ہے.پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ رحمانیت ایک عام رحمت ہے جو بطور احسان ہوتی ہے اور اس کا فیضان ہر مومن، کافر بلکہ ہر نوع حیوان کو پہنچتا ہے لیکن رحیمیت خدائے احسن الخالقین کی طرف سے ایک رحمت ہے، جو جانوروں اور کافروں کے علاوہ بالضرور صرف مومنوں سے مختص ہے.پس لازم ہوا کہ انسان کامل یعنی محمد رسول اللہ ﷺ ان دونوں صفات کے مظہر ہوتے اسی لئے پروردگار عالم کی طرف سے آپ کا نام محمد اور احمد رکھا گیا.اللہ تعالیٰ آپ کی شان میں فرماتا ہے: رحمة و لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُ وُفٌ رَّحِيمٌ (توبه: 128) ترجمہ.(اے مومنو!) تمہارے پاس تمہاری ہی قوم کا ایک فرد رسول ہو کر آیا ہے تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے اور وہ تمہارے لئے خیر کا بھوکا ہے اور مومنوں کے ساتھ بہت محبت کرنے والا اور کرم کرنے والا ہے.(اعجاز مسیح -ر- خ جلد 18 صفحہ 117)
136 اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو صفت رحیمیت یعنی اسم احمد کا وارث بنایا ہے وَلَا رَيْبَ أَنَّ نَبِيَّنَا سُمِّيَ مُحَمَّدًا لِّمَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَجْعَلَهُ مَحْبُوبًا فِى أَعْيُنِه وَأَعْيُن الصَّالِحِين - وَكَذَالِكَ سَمَّاهُ أَحْمَدَ لِمَا أَرَادَ سُبْحَانَهُ أَنْ يَجْعَلَهُ مُحِبَّ ذَاتِهِ وَمُحِـ الْمُؤْمِنِينَ الْمُسْلِمِيْنَ - فَهُوَ مُحَمَّدٌ بِشَأن وَ أَحْمَدُ بِشَأن وَاخْتُصَّ أَحَدُ هَذَيْنِ الْإِسْمَيْنِ بِزَمَان وَالْآخَرُ بِزَمَانٍ وَقَدْ أَشَارَ إِلَيْهِ سُبْحَانَهُ فِي قَوْلِهِ ” دَنَى فَتَدَلَّى وَفِي ” قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى - ثُمَّ لَمَّا كَانَ يُظَنُّ أَنَّ اخْتِصَاصَ هذَا النَّبِيِّ المُطَاعِ السَّجَادِ بِهَذِهِ الْمَحَامِدِ مِنَ رَّبِّ الْعِبَادِ يَجُرُّ إِلَى الشِّرْكِ كَمَا عُبِدَ عِيسَى لِهَذَا الْإِعْتِقَادِ - أَرَادَ اللَّهُ أَن يُوْرِثَهُمَا الْأُمَّةَ الْمَرْحُوْمَةَ عَلَى الطَّرِيقَةِ الظَّلِّيَّةِ لِيَكُونَا لِلْأُمَّةِ كَالْبَرَكَاتِ الْمُتَعَدِ يَةِ - وَلِيَزُولَ وَهُمُ اشْتِرَاكِ عَبْدِ خَاصِ فِي الصَّفَاتِ الْإِلَهِيَّةِ - فَجَعَلَ الصَّحَابَةَ وَمَنْ تَبِعَهُمْ مَظْهَرَ اسْمِ مُحَمَّدٍ بِالسُّتُونِ الرَّحْمَانِيَّةِ الْجَلَالِيَّةِ - وَجَعَلَ لَهُمْ غَلَبَةٌ وَنَصَرَهُمْ بِالْعِنَايَاتِ الْمُتَوَالِيَّةِ - وَجَعَلَ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدَ مَظْهَرَ اسْمِ أَحْمَدَ وَبَعَثَهُ بِالسُّتُونِ الرَّحِيمِيَّةِ الْجَمَالِيَّةِ - وَكَتَبَ فِي قَلْبِهِ الرَّحْمَةَ وَالتَّحَنُنَ وَهَذَ بَهُ بِالْأَخْلَاقِ الْفَاضِلَةِ الْعَالِيَةِ - فَذَالِكَ هُوَ الْمَهْدِيُّ الْمَعْهُودُ الَّذِي فِيْهِ يَخْتَصِمُوْنَ - وَقَدْ رَءَ وُا الْآيَاتِ ثُمَّ لَا يَهْتَدُونَ - وَيُصِرُّونَ عَلَى الْبَاطِلِ وَإِلَى الْحَقِّ لَا يَرْجِعُوْنَ وَذَلِكَ هُوَا لْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ وَلَكِنَّهُمْ لَا يَعْرِفُونَ - پس بلا شبہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کا نام اس لئے محمد رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا کہ آپ کو اپنی نگاہ میں بھی اور صالح لوگوں کی نظر میں بھی محبوب بنائے.اور ایسا ہی آپ کا نام احمد اس لئے رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی ذات اور مومن مسلمانوں سے محبت کرنے والے ہوں.پس آپ ایک پہلو سے محمد ہیں اور ایک پہلو سے احمد ہیں.اور ان دونوں ناموں میں سے ( ظہور کامل کے لحاظ سے ) ایک نام کو ایک زمانہ سے مخصوص کیا گیا اور دوسرے نام کو دوسرے زمانہ سے.اور اللہ تعالیٰ نے آیت دَنَی فَتَدَلَّى (النجم : 9) اور آیت قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْأَدْنى (النجم : 10 ) میں اسی ( محبوبیت اور محبیت کے مضمون ) کی طرف اشارہ کیا ہے.پھر چونکہ یہ گمان پیدا ہوسکتا تھا کہ نبی کریم ﷺ کو جولوگوں کے مطاع اور اللہ تعالیٰ کے بہت عبادت گزار ہیں پروردگار عالم کا ان دو صفات سے متصف کرنا لوگوں کو شرک کی طرف مائل کر سکتا ہے.جیسا کہ ایسے ہی اعتقاد کی بناء پر حضرت عیسی" کو معبود بنالیا گیا.سواللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ وہ امت مرحومہ کو بھی ( علی حسب مراتب ) ظلمی طور پر ان دونوں صفات کا وارث بنادے.تا یہ دونوں نام امت کے لئے برکات جاریہ کا موجب بنیں.اور تا صفات الہیہ میں کسی خاص بندہ کے شریک ہونے کا وہم بھی دور ہو جائے.پس اللہ تعالیٰ نے آپ کے صحابہ اور بعد آنے والے مسلمانوں کو رحمانی اور جلالی شان کی بناء پر اسم محمد کا مظہر بنایا اور انہیں غلبہ عطا فرمایا.اور متواتر عنایات سے ان کی مدد کی اور مسیح موعود کو اسم احمد کا مظہر بنایا اور اسے رحیمی اور جمالی صفات کے ساتھ مبعوث فرمایا اور اس کے دل میں رحمت اور شفقت رکھ دی اور اسے بلند اخلاق فاضلہ کے ساتھ آراستہ کیا.اور یہ وہی مہدی معہود ہے جس کے بارے میں لوگ جھگڑتے ہیں اور جس کی صداقت کے نشانات دیکھ کر بھی سچائی قبول نہیں کرتے اور باطل پر اصرار کرتے ہیں اور حق کی طرف رجوع نہیں کرتے یہ وہی مسیح موعود ہے لیکن لوگ اسے نہیں پہچانتے.(اعجاز مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 109 تا111) یہ
137 وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ كُلَّ كَمَالٍ مِّنْ كَمَالَاتِ الاخْلَاقِ الْإِلَهِيَّةِ مُنْحَصِرٌ فِي كَوْنِهِ رَحْمَانًا وَّرَحِيمًا وَلِذَالِكَ خَصَّهُمَا اللهُ بِالْبَسْمَلَةِ - وَعَلِمْتَ أَنَّ اسْمَ مُحَمَّدٍ وَأَحْمَدَ قَدْ أَقِيمَا مَقَامَ الرَّحْمَانِ وَالرَّحِيمِ وَأَوْدِعَهُمَا كُلُّ كَمَالٍ كَانَ مَخْفِيَّا فِي هَاتَيْنِ الصِّفَتَيْنِ مِنَ اللَّهِ الْعَلِيمِ الْحَكِيمِ فَلَا شَكَ أَنَّ اللهَ جَعَلَ هُدَيْنِ الْإِسْمَيْنِ ظِلَّيْنِ لِصِفَتَيْهِ وَمَظْهَرَيْنِ لِسِيْرَتَيْهِ لِيُرِىَ حَقِيقَةَ الرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ فِى مِرَاةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ وَالْأَحْمَدِيَّةِ - ثُمَّ لَمَّا كَانَ كُمَّلُ أُمَّتَهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنْ أَجْزَاءِ وَ الرُّوْحَانِيَّةِ وَكَالْجَوَارِحِ لِلْحَقِيقَةِ النَّبَوِيَّةِ اَرَادَ اللَّهُ لإبقاء اثار هذا النَّبِيِّ المَعْصُومِ أَن يُوَرِثَهُمْ هذَيْنِ الْإِسْمَيْنِ كَمَا جَعَلَهُمْ وَرَثَاءَ الْعُلُومِ فَأَدْخَلَ الصَّحَابَةَ تَحْتَ ظِلَّ اسْمِ مُحَمَّدِ الَّذِي هُوَ مَظْهَرُ الْجَلَالِ وَأَدْخَلَ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدَ تَحْتَ اسْمِ أَحْمَدَ الَّذِي هُوَ مَظْهَرُ الْجَمَالٍ وَمَا وَجَدَ هَؤُلَاءِ هَذِهِ الدَّوْلَةَ إِلَّا بِالظَّلِيَّةِ فَإِذَن مَّا ثَمَّ شَرِيكَ عَلَى الْحَقِيقَةِ - وَكَانَ غَرَضُ اللَّهِ مِنْ تَقْسِيمِ هَذَيْنِ الْإِسْمَيْنِ أن يُفَرِّقَ بَيْنَ الْأُمَّةِ وَيَجْعَلَهُمْ فَرِيقَيْنِ فَجَعَلَ فَرِيقًا مِّنْهُمْ كَمِثْلِ مُوسَى مَظْهَرِ الْجَلَالِ - وَهُمْ صَحَابَةُ النَّبِيِّ الَّذِينَ تَصَدَّوْا أَنْفُسَهُمْ لِلْقِتَالِ وَجَعَلَ فَرِيقًا مِّنْهُمْ كَمِثْلِ عِيسَى مَظْهَرَ الْجَمَالِ وَجَعَلَ قُلُوبَهُمْ لَيْنَةٌ وَأَوْدَعَ السّلمَ صُدُورَهُمْ وَأَقَامَهُمْ عَلَى أَحْسَنِ الْخِصَالَ - وَهُوَ الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُ مِنَ النِّسَاءِ وَالرِّجَال کے اور آپ کو معلوم ہے کہ اخلاق الہیہ کا ہر کمال اللہ تعالیٰ کے رحمان و رحیم ہونے پر منحصر ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں صفات کو بسم اللہ کے ساتھ مخصوص کر دیا.اور آپ کو یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ محمد اور احمد نام الرحمن الرحیم“ کے مظہر ہیں اور ہر کمال جو ان دونوں صفات الہیہ میں مخفی تھا وہ علیم حکیم خدا کی طرف سے ( محمد اور احمد کے ) دونوں ناموں میں ودیعت کر دیا گیا ہے.پس بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں ناموں ( محمد اور احمد ) کو اپنی دونوں صفات کے حل اور اپنی دونوں سیرتوں کے مظہر ٹھہرایا ہے.تاکہ رحمانیت اور رحیمیت کی حقیقت کو محمدیت اور احمدیت کے آئینہ میں دکھائے.پھر جبکہ آنحضرت ﷺ کی امت کے کامل افراد جو آنحضرت ﷺ کی روحانیت کے اجزاء اور حقیقت نبویہ کے اعضاء کی طرح ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ اس نبی معصوم آثار کو باقی رکھنے کیلئے انہیں (امت کے کامل افراد کو ) بھی اسی طرح ان دونوں ناموں کا وارث بنائے جیسے اس نے انہیں علوم نبویہ کا وارث بنایا ہے پس اس نے صحابہ کو اسم محمد کے کل کی ذیل میں داخل کر دیا جو اسم کے جلال کا مظہر ہے اور مسیح موعود کو اسم احمد کے ذیل میں داخل کر دیا جو جمال کا مظہر ہے اور ان سب نے اس دولت کو محض ظلیت کے طور پر پایا ہے.پس حقیقت کی رو سے اس مقام پر خدا تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اور ان دونوں ناموں کی تقسیم سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہی تھی کہ وہ امت کو تقسیم کرے اور اس کے دو گروہ کر دے.پس اس نے ان میں سے ایک گروہ کو حضرت موسی مظہر جلال کی مانند بنایا اور وہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ ہیں جنہوں نے جہاد کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا تھا.اور ایک گروہ کو حضرت عیسی مظہر جمال کی مانند بنایا اور ان کو دل کا حلیم بنایا.ان کے سینوں میں صلح جوئی ودیعت کی اور ان کو اعلیٰ اخلاق پر قائم کیا اور امت کا یہ گروہ مسیح موعود اور اس کے متبعین ہیں خواہ مرد ہوں یا عورتیں.اعجاز ایج.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 123 تا 125)
138 قرآن کریم نے اسم محمد کو موسی" اور اسم احمد کو عیسی کا مثیل قرار دیا ہے.فَتَمَّ مَا قَالَ مُوسَى وَمَا فَاهَ بِكَلَامٍ عِيسَى وَتَمَّ وَعُدُ الرَّبِّ الْفَعَالِ فَإِنَّ مُوسَى أَخْبَرَعَنُ صَحْبِ كَانُوا مَظْهَرَ اسْمِ مُحَمَّدٍ نَّبِيِّنَا الْمُخْتَارِ وَصُوَرَ جَلَالِ اللَّهِ الْقَهَّارِ بِقَوْلِهِ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ وَإِنَّ عِيسَى أَخْبَرَ عَنْ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ وَعَنْ إِمَامٍ تِلْكَ الْأَبْرَارِ أَعْنِي الْمَسِيحَ الَّذِي هُوَ مَظْهَرُ أَحْمَدَ الرَّاحِمِ السَّارِ وَمَنْبَعُ جَمَالِ اللَّهِ الرَّحِيمِ الْغَفَّارِ بِقَوْلَ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَهُ الَّذِي هُوَ مُعْجِبُ الْكُفَّارِ وَكُلٌّ مِّنْهُمَا أَخْبَرَ بِصِفَاتٍ تُنَاسِبُ صِفَاتَهُ الذَّاتِيَّة وَاخْتَارَ جَمَاعَةٌ تُشَابِهُ أَخْلَاتُهُمُ اخْلَاقَهُ الْمَرْضِيَّةَ فَأَشَارَ مُوسَى " بِقَوْلَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ إِلَى صَحَابَةٍ أَدْرَكُوْا صُحْبَةَ نَبِيِّنَا الْمُخْتَارِ وَأَرَوْا شِدَّةً وغِلُظَةٌ فِي الْمِضْمَارِ وَأَظْهَرُوا جَلَالَ اللَّهِ بِالسَّيْفِ الْبَتَّارِ وَصَارُوْا ظِلَّ اسْمِ مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللهِ الْقَهَّارِ عَلَيْهِ صَلَوَاتُ اللهِ وَأَهْلِ السَّمَاءِ وَأَهْلِ الْأَرْضِ مِنَ الْأَبْرَارِ وَالْأَخْيَارِ وَأَشَارَ عِيسَى بِقَوْلِهِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ إِلَى قَوْمِ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ وَإِمَامِهِمِ الْمَسِيحِ بَلْ ذَكَرَ اسْمَهُ أَحْمَدَ بِالتَّصْرِيح - وَأَشَارَ بِهَذَا الْمَثَلِ الَّذِي جَاءَ فِي الْقُرْآنِ الْمَجِيدِ إِلَى أَنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ لَا يَظْهَرُ إِلَّا كَنَبَاتٍ لَّيْنِ لَّا كَالشَّيْءِ الْغَلِيظِ الشَّدِيدِ ثُمَّ مِنْ عَجَائِبِ الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ أَنَّهُ ذَكَرَ اسْمَ أَحْمَدَ حِكَايَا عَنْ عِيسَى وَذَكَرَ اسْمَ مُحَمَّدٍ حِكَايَنًا عَنْ مُوسَى لِيَعْلَمَ الْقارِيُّ أَنَّ النَّبِيَّ الْجَلَالِيَّ أَعْنِى مُوسَى اخْتَارَ اسْمَايُشَابِهُ شَأْنَهُ أَعْنِي مُحَمَّدَ بِالَّذِي هُوَ اسْمُ الْجَلَالِ وَكَذَالِكَ اخْتَارَ عِيْسَى اسْمَ أَحْمَدَ الَّذِي هُوَ اسْمُ الْجَمَالِ بِمَا كَانَ نَبِيًّا جَمَالِيًّا وَمَا أُعْطِىَ لَهُ شَيْءٌ مِّنَ الْقَهْرِ وَالْقِتَالِ فَحَاصِلُ الْكَلَامِ أَنَّ كُلَّا مِّنْهُمَا أَشَارَ إِلَى مَيْلِهِ السَّامِ فَاحْفَظْ هَذِهِ النُّكْتَةَ فَإِنَّهَا تُنْجِيْكَ مِنَ الْأَوْهَامِ وَتَكْشِفُ عَنْ سَاقَيِ الْجَلَالِ وَالْجَمَالِ وَتُرِى الْحَقِيْقَةَ بَعْدَ رَفْعِ الْفَدَامِ وَإِذَا قَبِلْتَ هذَا فَدَخَلْتَ فِي حِفْظِ اللَّهِ وَكَلاهِ مِنْ كُلِّ دَجَالٍ - وَنَجَوْتَ مِنْ كُلِّ ضَلَالٍ -
139 پس جو کچھ حضرت موسیٰ نے فرمایا تھا وہ بھی اور جو حضرت عیسی (علیہا السلام) نے فرمایا تھا وہ بھی پورا ہوا.اور اس طرح خدائے قادر کا وعدہ بھی پورا ہو گیا کیونکہ حضرت موسی نے أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّار ( الخ: 30) کہہ کر ان صحابہ کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی، جو ہمارے نبی محمد مصطفی اللہ کے اسم محمد کے مظہر اور خدائے قہار کے جلال کا انعکاس تھے.اور حضرت عیسی نے صحابہ کے ایک دوسرے گروہ اور ان ابرار کے امام کے متعلق اپنے قول كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ (الفتح: 30) میں اس روئیدگی کی پیشگوئی فرمائی تھی جو کسانوں کو خوش کرتی ہے.یعنی اس مسیح کے متعلق جو رحم کرنے والے اور پردہ پوش (اسم) احمد کا مظہر اور رحیم و غفار خدا کے جمال کا منبع ہے.پس موسی و عیسی ہر دو نے پیشگوئی میں ایسی صفات کی خبر دی تھی جو ان کی اپنی صفات ذاتیہ سے مناسبت رکھتی ہیں.اور ہر ایک نے اس جماعت کو ( پیشگوئی کے لئے ) چُنا جن کے اخلاق اس کے اپنے پسندیدہ اخلاق کے مشابہ تھے.پس حضرت موسی نے اپنے الفاظ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّار (الفتح: 30) میں ان صحابہ کی طرف اشارہ فرمایا جنہوں نے ہمارے نبی اکرم محمد مصطفی ﷺ کی صحبت پائی اور انہوں نے جنگ کے میدانوں میں سختی و مضبوطی کا مظاہرہ کیا.اللہ تعالیٰ کے جلال کو سیف قاطع کے ذریعہ ظاہر کیا.اور خدائے قہار کے رسول کے اسم محمد کے ظل بن گئے.آپ پر اللہ تعالیٰ اہل آسمان ، اور اہل زمین میں سے راستبازوں اور نیکو کاروں کا صلوٰۃ اور سلام ہو.اور حضرت عیسی نے اپنے قول كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطأة (الفتح: 30) سے آخَرِيْنَ مِنْهُمْ (الجمعة 4 ) کی قوم اور ان کے امام مسیح کی طرف اشارہ کیا بلکہ اس کے احمد نام کا صراحت سے ذکر کر دیا.اور اس مثال سے جو قرآن کریم میں آئی ہے آپ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ مسیح موعود کسی بہت سخت چیز کی طرح نہیں بلکہ صرف نرم و نازک سبزہ کی طرح ظاہر ہو گا.پھر یہ بھی قرآن کریم کے عجائبات میں سے ہے کہ اس نے احمد نام کا ذکر حضرت عیسی" سے نقل کیا اور محمد نام کا ذکر حضرت موسیٰ" سے نقل کیا تا کہ پڑھنے والے کو معلوم ہو جائے کہ جلالی نبی یعنی حضرت موسیٰ نے وہ نام چنا جو ان کی اپنی شان کے مطابق ہے یعنی اسم محمد جو جلالی نام ہے اور اسی طرح حضرت عیسی نے احمد کا نام چنا جو جمالی نام ہے کیونکہ وہ خود جمالی نبی تھے اور انہیں شدت اور جنگ سے کوئی حصہ نہیں دیا گیا تھا.خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نبی نے اپنے اپنے کامل مثیل کی طرف اشارہ کیا پس (اے مخاطب ) اس نکتہ کو یا درکھ کیونکہ یہ تجھے شکوک وشبہات سے نجات دے گا.اور جلال اور جمال کے دونوں پہلوؤں کو آشکار کرے گا اور پردہ اٹھا کر حقیقت کو واضح کر دے گا اور جب تو اس بیان کو قبول کرلے تو ہر د قبال (کے شر ) سے خدا تعالیٰ کے حفظ وامان میں آجائے گا اور ہر گمراہی سے نجات پا جائے گا.اعجاز مسیح - رخ جلد 18 صفحہ 125 تا128)
140 لفظ ”دین“ کے لغوی معانی ملِكِ يَوْمِ الدِّين وَإِلَيْهِ أَشَارَ عَزَّ اسْمُهُ بِقَوْلِهِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ وَإِنَّهُ اخِرُ الْفُيُوْضِ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِيْنَ - وَمَاذُكِرَ فَيْضٌ بَعْدَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ أَعْلَمِ الْعَالِمِيْنَ - وَالْفَرْقُ فِي هَذَا الْفَيْضِ وَفَيْضِ الرَّحِيمِيَّةَ - اَنَّ الرَّحِيمِيَّةِ تُبَلِّغُ السَّالِكَ إِلَى مَقَامٍ هُوَ وَسِيْلَةُ النِّعْمَةِ - وَأَمَّا فَيْضُ الْمَالِكِيَّةِ بِالْمُجَازَاةِ - فَهُوَ يُبَلِّغُ السَّالِكَ إِلَى نَفْسِ النِّعْمَةِ وَإِلَى مُنْتَهَى الثَّمَرَاتِ وَغَايَةِ الْمُرَادَاتِ وَاقْصَى الْمَقْصُوْدَاتِ فَلَا خَفَاءَ أَنَّ هَذَا الْفَيْضَ هُوَاخِرُ الْفُيُوْضِ مِنَ الْحَضْرَةِ الْأَحَدِيَّةِ وَلِلنَّصُلْةِ الْإِنْسَانِيَّةِ كَالْعِلَّةِ الْغَائِيَّةِ - وَعَلَيْهِ يَتِمُ النِّعَمُ كُلُّهَا وَ تَسْتَكْمِلُ بِهِ دَائِرَةُ الْمَعْرِفَةِ وَدَائِرَةُ السِّلْسِلَةِ آلَا تَرى أَنَّ سِلْسِلَةَ خُلَفَاءِ مُوسَى انْتَهَتْ إلَى نُكْتَةِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ فَظَهَرَ عِيسَى فِي آخِرِهَا وَ بُدِلَ الْجَوْرُ وَالظُّلْمُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ مِنْ غَيْرِ حَرْبٍ وَّ مُحَارِبِينَ - كَمَا يُفْهَمُ مِنْ لَّفْظِ الدِّيْنِ فَإِنَّهُ جَاءَ بِمَعْنَى الْحِلْمِ وَالرّفْقِ فِى لُغَةِ الْعَرْبِ وَعِنْدَ أَدَبَاءِ هِمُ أَجْمَعِينَ - ترجمہ: اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام ملِكِ يَوْمِ الدِّين میں اشارہ فرمایا ہے.اور یہ فیض پر وردگار عالم کی طرف سے آخری فیض ہے.اور اس کے بعد سب عالموں سے زیادہ علم رکھنے والے خدا کی کتاب میں کسی اور فیض کا ذکر نہیں کیا گیا.اس فیض اور رحیمیت کے فیض میں یہ فرق ہے کہ رحیمیت سالک کو اس مقام تک پہنچاتی ہے جو نعمت ملنے کا وسیلہ ہے باقی رہا جزا سزا کے مالک کا فیض ہو وہ سالک کو حقیقی نعمت اور آخری شمرہ اور مرادوں کی انتہا اور مقاصد کی آخری حد تک پہنچا دیتا ہے.پس ظاہر ہے کہ بارگاہ ایزدی کے فیوض میں سے یہ انتہائی فیض ہے اور انسانی پیدائش کی علت غائی ہے.اور اس پر تمام نعمتیں ختم ہو جاتی ہیں.اور اس پر دائرہ معرفت اور دائرہ سلسلہ مکمل ہو جاتا ہے.کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خلفائے موسیٰ کا سلسلہ ملِكِ يَوْمِ الدِّين کے نکتہ پر ختم ہو گیا تھا.چنانچہ اس سلسلہ کے آخر میں حضرت عیسی آئے اور ظلم وجور کو بغیر کسی لڑائی اور لڑنے والوں کے عدل و احسان سے بدل دیا گیا.جیسا کہ الدین کے لفظ سے سمجھا جاتا ہے.کیونکہ لغت عرب اور اہل عرب کے سب ادیبوں کے نزدیک یہ لفظ بردباری اور نرمی کے معنوں میں آیا ہے.(اعجاز مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 142 تا143)
141 صلى الله آنحضرت صفت مالک یوم الدین کے مظہر ہیں سورۃ فاتحہ میں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ بیان ہوئی ہیں آنحضرت ﷺ ان چاروں صفات کے مظہر کامل تھے.مثلاً پہلی صفت رَبِّ الْعَلَمِینَ ہے آنحضرت ﷺ اس کے بھی مظہر ہوئے جب کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء: 108) جیسے رَبِّ الْعَلَمِینَ عام ربوبیت کو چاہتا تھا اسی طرح آنحضرت ﷺ کے فیوض و برکات اور آپ کی ہدایت وتبلیغ کل دنیا اور کل عالموں کے لیے قرار پائی.پھر دوسری صفت رحمن کی ہے آنحضرت ﷺ اس صفت کے بھی کامل مظہر ٹھہرے کیونکہ آپ کے فیوض و برکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں مَا أَسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ (الفرقان:58) پھر آپ رحیمیت کے مظہر ہیں آپ نے اور آپ کے صحابہ نے جو محنتیں اسلام کے لیے کیں اور ان خدمات میں جو تکالیف اٹھا ئیں وہ ضائع نہیں ہوئیں بلکہ ان کا اجر دیا گیا اور خود رسول اللہ ﷺ پر قرآن شریف میں رحیم کا لفظ بولا ہی گیا ہے پھر آپ مالکیت یوم الدین کے مظہر بھی ہیں اس کی کامل تجلی فتح مکہ کے دن ہوئی.ایسا کامل ظہور اللہ تعالیٰ کی ان صفات اربعہ کا جو ام الصفات ہیں اور کسی نبی میں نہیں ہوا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 381-382) حضرت مسیح موعود کے زمانے کا نام یوم الدین ہے ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُرِى نَمُوذَج هذِهِ الصَّفَاتِ فِى أخِرِينَ مِنَ الْأُمَّةِ لِيَكُونَ اخِرُ الْمِلَّةِ كَمِثْلِ أَوَّلِهَا فِي الْكَيْفِيَّةِ - وَلِيَتِمَّ أَمْرُ الْمُشَابَهَةِ بِالَّا مَمِ السَّابِقَةِ - كَمَا أُشِيْرَ إِلَيْهِ فِي هَذِهِ السُّورَةِ أَعْنِي قَوْلَهُ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ فَتَدَبَّرُ الْفَاظَ هَذِهِ الْآ يَةِ - وَسُمِّيَ زَمَانُ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ يَوْمَ الدِّينِ لِاَنَّهُ زَمَانٌ يُحْيِي فِيهِ الدِّينُ - وَتُحْشَرُ النَّاسُ لِيُقْبِلُوا بِالْيَقِينِ وَلَا شَكٍّ وَلَا خِلَافَ أَنَّهُ رَبِّي زَمَانَنَا هَذَا بِأَنْوَاعِ التَّرْبِيَّةِ وَأَرَانَا كَثِيرًا مِّنُ فُيُوْضِ الرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ - كَمَا أَرَى السَّابِقِينَ مِنَ الْاَنْبِيَاءِ وَالرُّسُلِ وَاَرُ بَابِ الْوَلَا يَةِ وَالْخُلَّةِ - پھر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ امت ( محمد یہ ) کے آخری دور میں بھی ان صفات کا نمونہ دکھائے ، تابلحاظ کیفیت ملت کا آخری حصہ پہلے حصہ کی طرح ہو جائے اور تا گزشتہ امتوں کے ساتھ (اس امت کی ) مشابہت پوری ہو جائے.جس کی طرف اس سورۃ میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی ارشاد باری تعالیٰ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں.پس اس آیت کے الفاظ پر غور کریں.مسیح موعود کے زمانہ کا نام اس لیے بھی یوم الدین رکھا گیا کہ یہ ایسا زمانہ ہے جس میں دین کو زندہ کیا جائے گا اور لوگوں کو اس امر پر مجتمع کیا جائے گا کہ وہ ( دلی) یقین کے ساتھ آگے بڑھیں.اور اس میں نہ کوئی شبہ ہے اور نہ ہی (کسی کو) کچھ اختلاف ( ہوسکتا ) ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس زمانہ کی کئی طریق سے تربیت فرمائی ہے اور رحمانیت اور رحیمیت کے بہت سے فیوض ہمیں دکھائے ہیں جیسا کہ اس نے پہلے نبیوں ، رسولوں ، ولیوں اور اپنے دوستوں کو دکھائے تھے.(اعجاز مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 146 - 148)
142 اسم احمد کے وارث حضرت اقدس ہیں.اور جمالی اعتبار سے یوم الدین کا ظہور ہے وَبَقِيَتْ بَعْدَ ذَالِكَ صِفَةُ الاحْمَدِيَةِ الَّتِي مُصَبَّغَةٌ بِالَا لُوَانِ الْجَمَالِيَّةِ مُحَرَّقَةٌ بِالنِّيرَانِ الْمُحِبّيَّةِ - فَوَرِثَهَا الْمَسِيحُ الَّذِى بُعِثَ فِي زَمَنِ انْقِطَاعِ الَّا سُبَابِ وَ تَكَسْرِ الْمِلَّةِ مِنَ الانياب - وَفُقدان الا نصَارِ وَالأَحْبَابِ وَغَلَبَةِ الْأَعْدَاءِ وَصَولِ الاحْزَابِ لِيُرِيَ اللهُ نَمُوذَجَ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ - بَعْدَ لَيَالِي الظَّلَا مِ وَبَعْدَ انْهِدَامِ قُوَّةِ الإِسْلَامِ وَسَطَّوَةِ السَّلَاطِيْنِ وَبَعْدَ كَوْنِ الْمِلَّةِ كَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ - فَالْيَوْمَ صَارَدِيْنُنَا كَالْغُرَبَاءِ وَمَا بَقِيَتْ لَهُ سَلْطَنَةٌ إِلَّا فِى السَّمَاءِ - وَمَا عَرَفَهُ أَهْلُ الْأَرْضِ فَقَامُوا عَلَيْهِ گالا عُدَاءِ - فَأُرْسِلَ عِنْدَ هَذَا الضُّعْفِ وَذَهَابِ الشَّوْكَةِ عَبْدٌ مِّنَ الْعِبَادِ لِيَتَعَهَّدَ زَمَانًا مَّاحِلًا تَعَهْدَ الْعِهَادٍ - وَذَالِكَ هُوَ الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ الَّذِي جَاءَ عِنْدَ ضُعْفِ الْإِ سُلَامِ - اب رہی صفت احمدیت جو جمالی رنگوں سے رنگین ہے اور عشق و محبت کی آگ سے سوختہ ہے.سو مسیح موعود اس صفت ( احمدیت ) کا وارث ہوا.جو ذرائع ( ترقی) کے خاتمہ، دشمنوں کی کچلیوں سے ملت کی بربادی اور مددگاروں اور دوستوں کے معدوم ہونے اور دشمنوں کے غلبہ اور مخالف جماعتوں کے حملہ کے وقت مبعوث کیا گیا تا اللہ تعالیٰ اندھیری راتوں کے بعد اسلام کی قوت اور ( مسلمان ) سلاطین کا رعب مٹنے کے بعد اور ملت محمدیہ کے اپاہجوں کی مانند ہو جانے کے بعد اپنی مالکیت یوم الدین کا نمونہ دکھائے.پس آج ہمارا دین بے وطنوں کی طرح ہو گیا.اس کی حکومت سوائے آسمان کے اور کہیں باقی نہیں رہی (اس وقت کے ) اہل زمین نے اس کو نہیں پہچانا.اور اس کے خلاف دشمنوں کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے ہیں.پس اس ضعف اور شان و شوکت کے مٹنے کے وقت ( خدا تعالیٰ کے ) بندوں میں سے ایک بندہ مبعوث کیا گیا.تا وہ اس ( روحانی پانی کے ) قحط زدہ زمانہ کو بارش کی طرح سیراب کرے پس یہ وہی مسیح موعود ہے جو اسلام کے ضعف کے وقت آیا ہے.اعجاز ایح.رخ جلد 18 صفحہ 151 تا153) آنحضرت کی حضرت موسی سے مماثلت ہے اور حضرت اقدس مثیل عیسی ہیں فَاقْتَضَتْ مُمَا ثَلَهُ نَبِيِّنَا بِمُوسَى الْكَلِيمِ وَمُشَابَهَهُ خُلَفَاءِ مُوْسٰى بِخُلْفَاءِ نَبِيِّنَا الْكَرِيمِ - أَن يُظْهَرَ فِي آخِرِ هَذِهِ السّلْسِلَةِ رَجُلٌ يُشَابِهُ الْمَسِيحَ وَيَدْعُو إِلَى اللَّهِ بِالْحِلْمِ وَيَضَعُ الحَرَبَ وَيَقْرِبُ السَّيْفَ الْمُجِيحَ فَيَحْشُرُ النَّاسَ ِبالْآيَاتِ مِنَ الرَّحْمَانَ لَا بِالسَّيْفِ وَالسّنَانِ فَيُشَابِه زَمَانُهُ زَمَانَ الْقِيَا مَةِ وَيَوْمَ الدِّينِ وَالنُّشُورٍ - وَيَمْلَا الْأَرْضَ نُورًا كَمَا مُلِئَتْ بِالْجَوْرِ وَالرُّوَرِ وَقَدْ كَتَبَ اللهُ أَنَّهُ يُرِى نَمُوذَجَ يَوْمِ الدِّينِ قَبْلَ يَوْمِ الدِّينِ وَيَحْشُرُ النَّاسَ بَعْدَ مَوْتِ التَّقْوَى وَذَالِكَ وَقْتُ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَهُوَ زَمَانُ هَذَالْمِسْكِيْنِ وَإِلَيْهِ أَشَارَ فِي ايَةِ يَوْمِ الدِّين - فَلْيَتَدَبَّرُ مَنْ كَانَ مِنَ الْمُتَدَبِرِينَ -
143 پس ہمارے نبی اکرم ﷺ کی موسیٰ کلیم اللہ سے مماثلت اور خلفائے موسیٰ کی آنحضرت ﷺ کے خلفاء سے مشابہت نے چاہا کہ اس سلسلہ (محمدی) کے آخر میں بھی کوئی ایسا مرد کامل پیدا ہو جو حضرت عیسی" کا مثیل ہو اور وہ (لوگوں کو) نرمی کے ساتھ اللہ کی طرف بلائے.جنگ کو موقوف کرے، تباہی پھیلانے والی تلوار کو نیام میں کرے اور لوگوں کو تلوار اور نیزہ کی بجائے خدائے رحمان کے چمکتے ہوئے نشانوں سے ایک نئی زندگی عطا کرے.پس اس کا زمانہ روز قیامت اور یوم جزا و حشر و نشر سے مشابہت رکھتا ہے.اور وہ زمین کو نور سے بھر دے گا.جیسا کہ وہ اس سے پہلے ظلم اور جھوٹ سے بھری ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر رکھا ہے کہ وہ حقیقی یوم الجزاء سے پہلے لوگوں کو اس کا نمونہ دکھائے اور تقویٰ کے مرجانے کے بعد لوگوں کو نئی زندگی بخشے اور یہی مسیح موعود کا زمانہ ہے.اور وہ ( در حقیقت ) اس عاجز کا (ہی) زمانہ ہے.اور اس کی طرف (اللہ تعالیٰ نے ) آیت يَوْمِ الدِّین میں اشارہ کیا ہے پس تدبیر کرنے والے اس بات میں تدبر کریں.(اعجاز مسیح - رخ جلد 18 صفحہ 143 145) یوم الدین کی جعلی حضرت مسیح موعود کے لئے بطور معجزات کے ہے بَقِيَتِ الصِّفَةُ الرَّابِعَةُ مِنْ هَذِهِ الصَّفَاتِ أَعْنِي اتَّجَلِّى الَّذِي يَظْهَرُ فِي حُلَّةِ مَلِكِ أَوْ مَالِكِ فِي يَوْمِ الدِّينِ لِلْمُجَازَاتِ - فَجَعَلَهُ لِلْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ كَالْمُعْجَزَاتِ وَجَعَلَهُ حَكَمَارٌ مَظْهَرًا لِلْحُكُومَةِ السَّمَاوِيَّةِ بِتَائِيدٍ مِّنَ الْغَيْبِ وَالآيَاتِ - وَسَتَعْلَمُ عِنْدَ تَفْسِيرِ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ هَذِهِ الْحَقِيْقَةَ وَمَا قُلْتُ مِنْ عِنْدِ نَفْسِى بَلْ أُعْطِيتُ مِنْ لَّدُنْ رَّبِّي هَذِهِ النِّكَاتِ الدَّقِيْقَةَ - ترجمہ : ان صفات میں سے اب صرف چوتھی صفت باقی رہ گئی.میری مراد اس سے خدا تعالیٰ کی وہ تجلی ہے جس کا ظہور بادشاہ یا مالک کے لباس میں جزا سزا دینے کے لیے یوم جزا میں ہو گا لہذا خدا تعالیٰ نے اس ( تجلی ) کو مسیح موعود کے لیے معجزات کی طرح قرار دیا اور اُسے ( مسیح موعود کو ) غیبی تائید اور چمکتے نشانوں کے ساتھ حکم اور آسمانی حکومت کا نمائندہ بنایا.اے مخاطب تجھے عنقریب أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی تفسیر کے موقع پر اس حقیقت کا علم ہو جائے گا اور میں نے یہ باتیں اپنے پاس سے نہیں کہیں بلکہ یہ باریک نکات مجھے اپنے رب کی طرف سے عطا کیے گئے ہیں.(اعجاز مسیح - ر- خ جلد 18 صفحہ 148)
144 وَكَانَ قَدَرًا مُـقَـدَّ رًا مِّنَ الْإِبْتِدَاءِ وَوَعْدًا مَّوْقُوتًا جَارِيًا عَلَى الْسُنِ الَّا نُبِيَاءِ ۖ إِنَّ اسْمَ أَحْمَدَ لَا تَتَجَلَّى بِتَجَلَّى تَامٍ فِى أَحَدٍ مِّنَ الْوَارِثِينَ إِلَّا فِي الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ الَّذِي يَأْتِي اللَّهُ بِهِ عِندَ طُلُوعِ يَوْمِ الدِّينِ وَ حَشْرِ الْمُؤْمِنِينَ - وَيَرَى اللَّهُ الْمُسْلِمِينَ كَالضُّعَفَاءِ وَالْإِسْلَامَ كَصَيِّ نُبِدَ بِالْعَرَاءِ فَيَفْعَلُ لَهُمُ أَفْعَالاً مِّنْ لَّدُنْهُ وَيَنْزِلُ لَهُمْ مِّنَ السَّمَاءِ - فَهُنَاكَ تَكُونُ لَهُ السَّلْطَنَةُ فِي الارْضِ كَمَاهِيَ فِي الْأَفَلَاكِ وَتَهْلِكُ إِلَّا بَاطِيْلُ مِنْ غَيْرِ ضَرْبِ الْأَعْنَاقِ وَتَنْقَطِعُ الْأَسْبَابُ كُلُّهَا وَتُرْجَعُ الْأُمُورُ إِلَى مَالِكِ الأمْلاكِ وَعْدٌ مِّنَ اللهِ حَقٌّ كَمِثْل وَعْدٍ تَمَّ فِي آخِرِ زَمَنِ بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْبُعِثَ فِيْهِمْ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ فَأَشَاعَ الدِّينَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَقْتُلَ مَنْ عَصَى الرَّبَّ الْجَلِيْلَ - وَكَانَ فِي قَدَرِ اللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَلِيمِ أَنْ يَجْعَلَ اخِرَ هذِهِ السِّلْسِلَةِ كَاخِرِ خُلَفَاءِ الْكَلِيْمِ فَلَاجُلِ ذَالِكَ جَعَلَ خَاتِمَةَ أَمْرِهَا مُسْتَغْنِيَةً مِّنْ نَّصْرِ النَّاصِرِينَ وَمَظْهَرٌ الْحَقِيقَةِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ - ترجمہ: اور ابتدا سے یہی الہی تقدیر اور مقرر وعدہ تھا.جو انبیاء کی زبانوں پر جاری تھا کہ صفت احمد کی کامل تجلی اس کے وارثوں میں سے مسیح موعود کے سوا کسی پر نہ ہوگی جسے اللہ تعالیٰ ( اس دنیا) میں جزا سزا کا دن طلوع ہونے اور مومنوں کے جمع کئے جانے کے وقت مبعوث فرمائے گا.اس دن اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کمزور اور اسلام کو اس بچے کی طرح پائے گا جسے جنگل میں پھینک دیا گیا ہو.تب ان کے لیے اپنے ہاں سے بہت سے کام بروئے کار لائے گا اور ان کی خاطر خود آسمان سے اتر آئے گا.اس وقت زمین پر بھی ویسے ہی اسکی (روحانی) بادشاہت قائم ہو جائے گی جیسا کے آسمانوں پر ہے ( لوگوں کی گردنیں اڑائے بغیر تمام باطل مٹ جائیں گے اور ( کفر کے ) سب ذرائع کٹ جائیں گے اور تمام امور بادشاہوں کے بادشاہ ( خدا تعالیٰ ) کی طرف لوٹائے جائیں گے.یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اسی وعدہ کی مانند ہے جو بنی اسرائیل کے آخری زمانہ میں پورا ہوا.جب ان میں حضرت عیسی مبعوث ہوئے اور آپ نے خدا تعالیٰ کے نافرمانوں کو قتل کئے بغیر دین کی اشاعت کی.عالم الغیب اور عالی مرتبہ خداوند کی تقدیر میں یہی تھا کہ وہ اس امت محمدیہ کے سلسلہ کے آخری حصہ کو حضرت موسیٰ“ کے خلفاء کے آخری حصہ کی طرح بنائے اس لیے اس (امت) کے انجام کو انسانی مددگاروں کی مدد سے مستغنی رکھا اور اُسے مالک یوم الدین کی حقیقت کے اظہار کا ذریعہ بنادیا.(اعجاز مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 121-122)
145 وَأَنَّ الْأَرْضَ زُلْزِلَتْ لَنَا زِلْزَالًا - فَأَخْرَجَتْ أَثْقَالا - و فُجْرَت الا نهَارُ وَسُجِّرَتِ الْبِحَارُ وَجُدِّدَتِ الْمَرَاكِبُ وَعُطِّلَتِ الْعِشَارُ - وَإِنَّ السَّابِقِيْنَ مَارَءَ وُا كَمِثْلِ مَا رَتَيْنَا مِنَ النِّعْمَاءِ وَ فِي كُلِّ قَدَمٍ نِعْمَةٌ وَّ قَدْ خَرَجَتْ مِنَ الْإِحْصَاءِ وَمَعَذَالِكَ كَثُرَتْ مَوْتُ الْقُلُوبِ وَ قَسَاوَةُ الْأَفْئِدَةِ - كَأَنَّ النَّاسَ كُلَّهُمْ مَّا تُوْا وَلَمْ يَبْقَ فِيهِمْ رُوحُ الْمَعْرِفَةِ إِلَّا قَلِيلُ الَّذِي هُوَ كَالْمَعْدُومِ مِنَ النَّدْرَةِ - وَإِنَّا فَهِمْنَا مِمَّا ذَكَرُ نَا مِنْ ظُهُورِ الصِّفَاتِ وَتَجَلَّى الرُّبُوبِيَّةِ وَالرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ كَمِثْلِ الْآيَاتِ ثُمَّ مِنْ كَثُرَةِ الْأَمْوَاتِ وَمَوْتِ النَّاسِ مِنْ سَمَ الضَّلَالَاتِ اَنَّ يَوْمَ الْحَشْرِ وَالنَّشْرِ قَرِيبٌ بَلْ عَلَى الْبَابِ كَمَا هُوَ ظَاهِرٌ مِّنْ ظُهُورِ الْعَلَامَاتِ وَالْأَسْبَابِ فَإِنَّ الرُّبُوْبِيَّةَ وَالرَّحْمَانِيَّةَ وَالرَّحِيمِيَّةَ تَمَوَّ جَتْ كَتَمَوُّجِ الْبِحَارِ وَظَهَرَتْ وَ تَوَاتَرَتْ وَجَرَتْ كَالْأَنْهَارِ فَلَا شَكٌّ أَنَّ وقَتَ الْحَشْرِ وَالنُّشُورِ قَدْاتى - وَقَدْ مَضَتْ هَذِهِ السُّنَّةُ فِي صَحَابَةِ خَيْرِ الْوَرى وَلَا شَكُ أَنَّ هَذَا الْيَوْمُ الدِّينِ وَيَوْمُ الْحَشْرِ وَيَوْمُ مَالِكِيَّةِ رَبِّ السَّمَاءِ وَظُهُورِ آثَارِهَا عَلَى قُلُوْبِ أَهْلِ الْأَرْضِينَ وَلَا شَكٍّ أَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ الْمَسِيحِ الْحَكَمِ مِنَ اللهِ أَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ - وَأَنَّهُ حَشْرٌ بَعْدَ هَلَاكِ النَّاسِ وَقَدْ مَضَى نَمُوذَجُهُ فِي زَمَنِ عِيسَى وَ زَمَنِ خَاتَمِ النَّبِيِّنَ فَتَدَبَّرُ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغَافِلِينَ ترجمه از مرتب :- پس زمین ہماری خاطر خوب جھنجھوڑی گئی ہے اور اس نے اپنے بوجھ ( یعنی خزانے ) باہر نکال پھینکے ہیں نہریں جاری کی گئی ہیں.دریا خشک کر دیئے گئے ہیں.نئی نئی سواریاں نکل آئی ہیں اور اونٹنیاں بریکار ہوگئی ہیں.ہمارے پہلوں نے ایسی تمیں نہیں دیکھی تھیں جو ہم نے دیکھی ہیں.ہر قدم پر ایک (نئی ) نعمت ( موجود ) ہے اور یہ ( نعمتیں ) حد شمار سے باہر ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی دلوں کی موت اور ان کی سختی بہت بڑھ گئی گویا کہ تمام لوگ مر چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شناخت کرنے کی روح ان میں باقی نہیں رہی سوائے بہت کم لوگوں کے جو شاذ و نادر ہونے کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہیں پس ان صفات کے ظہور سے جن کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں اور ربوبیت، رحمانیت اور رحیمیت کی روشن نشانوں کی طرح تجلی سے اور پھر کثرت اموات اور گمراہیوں کے زہر سے لوگوں کے مرنے سے ہم نے جان لیا ہے کہ حشر و نشر کا دن قریب ہے بلکہ دروازے پر ہے جیسا کہ ان علامات اور اسباب کے ظہور سے واضح ہو گیا ہے کیونکہ ربوبیت ، رحمانیت اور رحیمیت سمندروں کے جوش مارنے کی طرح موجزن ہیں اور ظاہر ہو چکی ہیں اور پے در پے نازل ہو رہی ہیں اور دریاؤں کی طرح جاری ہیں.لہذا بلا شبہ اب حشر و نشر کا وقت آگیا ہے.یہ سنت اللہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ( کے وقت ) میں بھی ہو گزری ہے.پس بلا شبہ یہ زمانہ یوم الدین ہے یوم حشر ہے آسمانوں کے رب کی مالکیت اور اس ( مالکیت ) کے آثار اہل زمین کے دلوں پر ظاہر ہونے کا دن ہے اور (اس امر میں بھی کوئی شک نہیں یہ زمانہ اس مسیح کا زمانہ ہے جو خدائے احکم الحاکمین کی طرف سے حکم ہے اور لوگوں کی ہلاکت (روحانی) کے بعد ایک حشر کا وقت ہے.اور اس کا حکم سے نمونہ حضرت عیسی" کے زمانہ میں بھی اور حضرت خاتم النبین ﷺ کے زمانہ میں بھی گذر چکا ہے.پس تم بھی غور کرو اور غافلوں ) کی صف ) میں شامل نہ ہو.اعجاز مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 162 تا164)
146 صفات اربعہ باری تعالی میں حضرت اقدس کا ذکر مجموعی اعتبار سے بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ صفات اربعہ کا موصوف اللہ تعالیٰ ہے قرآن شریف میں جس قدر صفات اور افعال الہیہ کا ذکر ہے ان سب صفات کا موصوف اسم اللہ ٹھہرایا گیا ہے مثلاً کہا گیا ہے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 146) اب واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے اس سورۃ میں ان چار صفتوں کو اپنی الوہیت کا مظہر اتم قرار دیا ہے اور اسی لئے صرف اس قدر ذکر پر یہ نتیجہ مرتب کیا ہے کہ ایسا خدا کہ یہ چار صفتیں اپنے اندر رکھتا ہے وہی لائق پرستش ہے اور در حقیقت یہ صفتیں بہر وجہ کامل ہیں اور ایک دائرہ کے طور پر الوہیت کے تمام لوازم اور شرائط پر محیط ہیں کیونکہ ان صفتوں میں خدا کی ابتدائی صفات کا بھی ذکر ہے اور درمیانی زمانہ کی رحمانیت اور رحیمیت کا بھی ذکر ہے اور پھر آخری زمانہ کی صفت مجازات کا بھی ذکر ہے اور اصولی طور پر کوئی فضل اللہ تعالیٰ کا ان چار صفتوں سے باہر نہیں پس یہ چار صفتیں خدا تعالیٰ کی پوری صورت دکھلاتی ہیں سو در حقیقت استوا علی العرش کے نہی معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ صفات جب دنیا کو پیدا کر کے ظہور میں آگئیں تو خدا تعالیٰ ان معنوں سے اپنے عرش پر پوری وضع استقامت سے بیٹھ گیا کہ کوئی صفت صفات لازمہ الوہیت سے باہر نہیں رہی اور تمام صفات کی پورے طور پر تجلی ہو گئی جیسا کہ جب اپنے تخت پر بادشاہ بیٹھتا ہے تو تخت نشینی کے وقت اس کی ساری شوکت ظاہر ہوتی ہے.(نسیم دعوت.رخ جلد 19 صفحہ 457-455 حاشیہ) صفات اربعہ کی معنوی وضاحت ان آیات سورۃ فاتحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا جس نے اللہ کے نام سے قرآن میں اپنے تئیں ظاہر کیا.وہ رب العالمین ہو کر مبدا ہے تمام فیضوں کا اور رحمان ہو کر معطی ہے تمام انعاموں کا.اور رحیم ہو کر قبول کرنے والا ہے تمام شو دمند دعاؤں اور کوششوں کا اور مالک یوم الدین ہوکر بخشنے والا ہے کوششوں کے تمام آخری ثمرات کا.ایام الصلح.رخ جلد 14 صفحہ 246 حاشیہ) صفات اربعہ مظہر الوہیت ہیں خدا تعالیٰ کی ان صفات رب رحمن، رحیم، مالک یوم الدین پر توجہ کی جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ کیسا عجیب خدا ہے پھر جن کا رب ایسا ہو گیا وہ کبھی نامراد او محروم رہ سکتا ہے؟ رب کے لفظ سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ دوسرے عالم میں بھی ربوبیت کام کرتی رہے گی.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 192 )
147 خدا تعالیٰ کی چار صفتیں ہیں جن سے ربوبیت کی پوری شوکت نظر آتی ہے اور کامل طور پر چہرہ اس ذات ابدی از لی کا دکھائی دیتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان ہر چہار صفتوں کو سورۃ فاتحہ میں بیان کر کے اپنی ذات کو معبود قرار دینے کے لئے ان لفظوں سے لوگوں کو اقرار کرنے کی ہدایت دی ہے کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ یعنی اے وہ خدا جو ان چار صفتوں سے موصوف ہے ہم خاص تیری ہی پرستش کرتے ہیں کیونکہ تیری ربوبیت تمام عالموں پر محیط ہے اور تیری رحمانیت بھی تمام عالموں پر محیط ہے اور تیری رحیمیت بھی تمام عالموں پر محیط ہے.اور تیری صفت مالکانہ جزا وسزا کی بھی تمام عالموں پر محیط ہے اور تیرے اس حسن اور احسان میں بھی کوئی شریک نہیں اس لئے ہم تیری عبادت میں بھی کوئی شریک نہیں کرتے.اب واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے اس سورۃ میں ان چار صفتوں کو اپنی الوہیت کا مظہر اتم قرار دیا ہے اور اسی لئے صرف اس قدر ذکر پر یہ نتیجہ مرتب کیا ہے کہ ایسا خدا کہ یہ چار صفتیں اپنے اندر رکھتا ہے وہی لائق پرستش ہے.(نسیم دعوت رخ جلد 19 صفحہ 455-456 حاشیہ) آنحضرت له صفات اربعہ باری تعالیٰ کے مظہر کامل ہیں.سورۃ فاتحہ میں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ بیان ہوئی ہیں آنحضرت ﷺ ان چاروں صفات کے مظہر کامل تھے.مثلاً پہلی صفت رب العالمین ہے آنحضرت ﷺ اس کے بھی مظہر ہوئے جب کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : ع 7) جیسے رَبِّ الْعَالَمِين عام ربوبیت کو چاہتا تھا اسی طرح آنحضرت ﷺ کے فیوض و برکات اور آپ کی ہدایت و تبلیغ کل دنیا اور کل عالموں کے لئے قرار پائی.پھر دوسری صفت رحمن کی ہے آنحضرت ﷺ اس صفت کے بھی کامل مظہر ٹھہرے کیونکہ آپ کے فیوض و برکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں مَا أَسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ آخر (الفرقان : ع 5) پھر آپ رحیمیت کے مظہر ہیں آپ نے اور آپ کے صحابہ نے جو محنتیں اسلام کے لئے کیں اور ان خدمات میں جو تکالیف اٹھائیں وہ ضائع نہیں ہوئیں بلکہ ان کا اجر دیا گیا اور خود رسول اللہ اللہ پر قرآن شریف میں رحیم کا لفظ بولا ہی گیا ہے پھر آپ مالکیت یوم الدین کے مظہر بھی ہیں اس کی کامل تجلی فتح مکہ کے دن ہوئی.ایسا کامل ظہور اللہ تعالیٰ کی ان صفات اربعہ کا جوام الصفات ہیں اور کسی نبی میں نہیں ہوا.ثُمَّ أَعْلَمُ أَنَّ اللهَ اسْمٌ جَامِدٌ لَّا تُدْرَكُ حَقِيقَتُهُ لِأَنَّهُ اسْمُ الذَّاتِ وَالذَّاتُ لَيْسَتْ مِنَ الْمُدْرَكَاتِ وَكُلُّ مَا يُقَالُ فِي مَعْنَاهُ فَهُوَ مِنْ قَبِيلِ الْآبَاطِيْلِ وَالْخُزَعْبِيْلَاتِ فَإِنَّ كُنْهَ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 382-381) الْبَارِى اَرْفَعُ مِنَ الْخَيَالَاتِ وَابْعُدَ مِنَ الْقِيَاسَات - وَإِذَا قُلْتَ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّهِ فَمَعْنَاهُ أَنَّ مُحَمَّدًا مَّظْهَرُ صِفَاتِ هَذِهِ الذَّاتِ وَخَلِيفَتُهَا فِي الْكَمَالَاتِ وَ مُتَمِّمُ دَآئِرَةِ الظَّلِيِّةِ وَخَاتَمُ الرِّسَالَاتِ فَحَاصِلُ مَا أَبْصِرُ وَارَى أَنَّ نَبِيَّنَا خَيْرُ الْوَرى - اعجاز مسیح - رخ جلد 18 صفحہ 151 150 )
148 پھر جان لو کہ اللہ اسم جامد ہے اور اسکی حقیقت کا ادراک نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اسم ذات ہے اور ذات ایسے امور میں سے نہیں جن کا ادراک ہو سکے.لفظ اللہ کو مشتق قرار دے کر جو معنے کئے جاتے ہیں وہ سب جھوٹ اور محض خرافات ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کی کنبہ (حقیقت) کا پانا ( تمام خیالات سے بالا اور قیاسات سے دور ہے.جب تم محمد رسول اللہ کہتے ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ محمد (ﷺ ) ذات باری کی صفات کے مظہر ہیں کمالات میں اس کے جانشین ہیں اور دائرہ ظلیت کو کامل کرنے والے اور سب رسالتوں کے خاتم ہیں.پس جو کچھ میں دیکھتا اور پاتا ہوں اس کا ماحصل یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ تمام مخلوقات سے افضل ہیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ کا مظہر رسول اللہ علیہ کے دو ظہوروں محمد اور احمد میں ہوا.اب نبی کامل علی کی ان صفات اربعہ کو بیان کر کے صحابہ کرام کی تعریف میں پورا بھی کر دیا گویا اللہ تعالیٰ خلقی طور پر اپنی صفات دینا چاہتا ہے.اس لئے فنا فی اللہ کے یہی معنی ہیں کہ انسان الہی صفات کے اندر آ جاوے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 430) باری تعالیٰ کی صفات اربعہ میں ایک تعلیم ہے اور خدا تعالیٰ کی چار اعلیٰ درجہ کی صفتیں ہیں جو اُم الصفات ہیں اور ہر ایک صفت ہماری بشریت سے ایک امر مانگتی ہے اور وہ چار صفتیں یہ ہیں :.ربوبیت.رحمانیت.رحیمیت.مالکیت یوم الدین.(1) ربوبیت اپنے فیضان کیلئے عدم محض یا مشابہ بالعدم کو چاہتی ہے اور تمام انواع مخلوق کی جاندار ہوں یا غیر جاندار اسی سے پیرایہ وجود پہنتے ہیں.(2) رحمانیت اپنے فیضان کیلئے صرف عدم کو ہی چاہتی ہے.یعنی اس عدم محض کو جس کے وقت میں وجود کا کوئی اثر اور ظہور نہ ہوا.اور صرف جانداروں سے تعلق رکھتی ہے اور چیزوں سے نہیں.(3) رحیمیت اپنے فیضان کے لئے موجود ذوالعقل کے منہ سے نیستی اور عدم کا اقرار چاہتی ہے اور صرف نوع انسان سے تعلق رکھتی ہے.(4) مالکیت یوم الدین اپنے فیضان کے لئے فقیرانہ تضرع اور الحاح کو چاہتی ہے اور صرف ان انسانوں سے تعلق رکھتی ہے جو گداؤں کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرتے ہیں اور فیض پانے کیلئے دامن افلاس پھیلاتے ہیں.اور پیچ نیچ اپنے تئیں تہی دست پا کر خدا تعالیٰ کی مالکیت پر ایمان لاتے ہیں.یہ چارا لہی صفتیں ہیں جو دنیا میں کام کر رہی ہیں اور ان میں سے جو رحیمیت کی صفت ہے وہ دعا کی تحریک کرتی ہے اور مالکیت کی صفت خوف اور قلق کی آگ سے گداز کر کے سچا خشوع اور خضوع پیدا کرتی ہے کیونکہ اس صفت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مالک جزا ہے.کسی کا حق نہیں جو دعویٰ سے کچھ طلب کرے اور مغفرت اور نجات محض فضل پر ہے.ایام الصلح - رخ جلد 14 صفحہ 242 243)
149 جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والے کا فرض جو شخص عام مسلمانوں میں سے ہماری جماعت میں داخل ہو جائے اس کا پہلا فرض یہی ہے کہ جیسا کہ قرآن شریف کے سورہ فاتحہ میں پنج وقت اپنی نماز میں یہ اقرار کرتا ہے کہ خدا رب العالمین ہے اور خدا رحمان ہے اور خدارحیم ہے اور خدا ٹھیک ٹھیک انصاف کرنے والا ہے.یہی چاروں صفتیں اپنے اندر بھی قائم کرے ورنہ وہ اس دعا میں کہ اسی سورۃ میں پنج وقت اپنی نماز میں کہتا ہے کہ إِيَّاكَ نَعْبُد یعنی اے ان چار صفتوں والے اللہ میں تیرا ہی پرستار ہوں اور تو ہی مجھے پسند آیا ہے سراسر جھوٹا ہے کیونکہ خدا کی ربوبیت یعنی نوع انسان اور نیز غیر انسان کا مربی بنا اور ادنیٰ سے ادنی جانور کو بھی اپنی مربیانہ سیرت سے بے بہرہ نہ رکھنا یہ ایک ایسا امر ہے کہ اگر ایک خدا کی عبادت کا دعویٰ کرنے والا خدا کی اس صفت کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کو پسند کرتا ہے یہاں تک کہ کمال محبت سے اس الہی سیرت کا پرستار بن جاتا ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ وہ آپ بھی اس صفت اور سیرت کو اپنے اندر حاصل کرلے تا اپنے محبت کے رنگ میں آجائے ایسا ہی خدا کی رحمانیت یعنی بغیر عوض کسی خدمت کے مخلوق پر رحم کرنا یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچا عابد جس کو یہ دعویٰ ہے کہ میں خدا کے نقش قدم پر چلتا ہوں ضرور یہ خلق بھی اپنے اندر پیدا کرتا ہے ایسا ہی خدا کی رحیمیت یعنی کسی کے نیک کام میں اس کام کی تکمیل کیلئے مددکرنا.یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچا عابد جو خدائی صفات کا عاشق ہے اس صفت کو اپنے اندر حاصل کرتا ہے ایسا ہی خدا کا انصاف جس نے ہر ایک حکم عدالت کے تقاضا سے دیا ہے نہ نفس کے جوش سے یہ بھی ایک ایسی صفت ہے کہ سچا عابد کہ جو تمام الہی صفات اپنے اندر لینا چاہتا ہے اس صفت کو چھوڑ نہیں سکتا اور راست باز کی خود بھاری نشانی یہی ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کے لئے ان چار صفتوں کو پسند کرتا ہے ایسا ہی اپنے نفس کے لئے بھی یہی پسند کرے لہذا خدا نے سورۃ فاتحہ میں یہی تعلیم کی تھی جس کو اس زمانہ کے مسلمان ترک کر بیٹھے ہیں.تریاق القلوب.رخ جلد 15 صفحہ 518-519) صفات اربعہ کا ظہور سیح موعود امام آخر الزمان میں الْحَمْدُ لِلہ کا مظہر رسول اللہ ﷺ کے دو ظہوروں محمد اور احمد میں ہوا.اب نبی کامل علی کی اُن صفات اربعہ کو بیان کر کے صحابہ کرام کی تعریف میں پورا بھی کر دیا گویا اللہ تعالی ظلی طور پر اپنی صفات دینا چاہتا ہے.اس لئے فنافی اللہ کے یہی معنے ہیں کہ انسان الہی صفات کے اندر آ جائے.اب قصہ کوتاہ کرتا ہوں کہ صحابہ میں ان صفات اربعہ کی تجلی چمکی لیکن بات بڑی غور طلب ہے کہ صحابہ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو جو پہلے گزر چکے بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے وہ بھی صحابہ میں داخل ہے جو احد کے بروز کے ساتھ ہوں گے چنانچہ فرمایا ہے وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة :4) یعنی صحابہ کی جماعت کو اسی قدر نہ سمجھو بلکہ مسیح موعود کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہ ہی ہوگی.اس آیت کے متعلق مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ میچ موعود کی جماعت ہے.منھم کے لفظ سے پایا جاتا ہے کہ باطنی توجہ اور استفاضہ صحابہ کی طرح ہوگا.صحابہ کی تربیت ظاہری طور پر ہوئی تھی.مگر ان کو کوئی دیکھ نہیں سکتا.وہ بھی رسول اللہ ﷺ ہی کی تربیت کے نیچے ہونگے.اس لئے سب علماء نے اس گروہ کا نام صحابہ ہی رکھا ہے.جیسے ان صفات اربعہ کا ظہوران صحابہ میں ہوا تھا.ویسے ہی ضروری تھا کہ اخَرِيْنَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِھم کی مصداق جماعت صحابہ میں بھی ہو.( ملفوظات جلد اول صفحہ 430-431)
150 وَهَهُنَا نُكْتَةٌ كَشفِيَّةٌ لَّيْسَتْ مِنَ الْمَسْمُوعَ فَاسْمَعُ مُصْغِيَا وَعَلَيْكَ بِالْمَوْدُوعِ وَهُوَأَنَّهُ تَعَالَى مَا اخْتَارَ لِنَفْسِهِ هُهُنَا أَرْبَعَةٌ مِّنَ الصِّفَاتِ إِلَّا لِيُرِيَ نَمُوذَجَهَا فِي هذِهِ الدُّنْيَا قَبْلَ الْمَمَاتِ فَأَشَارَ فِى قَوْلِهِ لَهُ الْحَمْدُ فِي الأولى وَالْآخِرَةِ “.(القصص: ع 7) إلى أَنَّ هَذَا النَّمُوذَجَ يُعْطى لِصَدْرِ الْإِسْلَامِ ثُمَّ لِلْاخَرِينَ مِنَ الْأُمَّةِ الدَّاخِرَةِ وَكَذَالِكَ قَالَ فِي مَقَامِ اخَرَ وَهُوَ اصْدَقُ الْقَائِلِينَ - "ثلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْآخَرِيْنَ“.(الواقعة : 2) فَقَسَّمَ زَمَانَ الْهِدَايَةِ وَالْعَوْنِ وَالنُّصْرَةِ إِلَى زَمَانِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى الزَّمَانِ الْآخِرِ الَّذِي هُوَ زَمَانُ مَسِيحَ هَذِهِ الْمِلَّةِ - وَكَذَالِكُ قَالَ وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمد (1) فَأَشَارَ إِلَى الْمَسِيحِ الْمَوْعُوُدِ وَجَمَاعَتِهِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ فَثَبَتَ بِنُصُوصٍ بَيِّنَةٍ مِّنَ الْقُرْآنِ أَنَّ هذِهِ الصِّفَاتِ قَدْ ظَهَرَتْ فِي زَمَنِ نَبِيِّنَا ثُمَّ تَظْهَرُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ یہاں ایک کشفی نکتہ ہے جو پہلے کبھی نہیں سنا گیا.پس کان لگا کر اطمینان سے سنو اور وہ نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی ذات کے لئے چار صفات کو محض اس لئے اختیار کیا ہے کہ تا وہ اس دنیا میں ہی انسان کو ( یعنی دنیا کی ) موت سے پہلے ان صفات کا نمونہ دکھائے.پس اس نے اپنے کلام لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأَوْلى وَالْآخِرَةِ (ابتدائے آفرینش میں بھی وہی تعریف کا مستحق تھا اور آخرت میں بھی وہی تعریف کا مستحق ہوگا) میں اشارہ فرمایا کہ یہ نمونہ آغاز اسلام میں بھی عطا کیا جائے گا.اور پھر امت کی خواری کے بعد اس کے آخری لوگوں کو بھی ( عطا کیا جائے گا ) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ ( قرآن میں ) فرمایا ہے اور وہ بات کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ سچا ہے ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الآخرين ( اصحاب الیمین کا یہ گروہ شروع میں ایمان لانے والے لوگوں میں بھی کثرت سے ہوگا اور آخر میں ایمان لانے والے لوگوں میں بھی کثرت سے ہوگا.پس اللہ تعالیٰ نے ہدایت ، مدد اور نصرت کے زمانہ کو ہمارے نبی کریم ﷺ کے زمانہ پر اور اس آخری زمانہ پر جو اس امت کے مسیح کا زمانہ ہے تقسیم کر دیا.اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (ترجمہ: اور اسی طرح ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی ( وہ اس کو بھیجے گا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملی).اس میں مسیح موعود، اس کی جماعت اور ان کے تابعین کی طرف اشارہ فرمایا ہے.پس قرآن کریم کی نصوص بینہ سے ثابت ہوا کہ یہ صفات ہمارے نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں بھی ظاہر ہوئیں.پھر آخری زمانہ میں بھی ظاہر ہوں گی.اعجاز اسیح - رخ جلد 18 صفحہ 153-154) ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُرِيَ نَمُوذَجَ هَذِهِ الصِّفَاتِ فِي آخِرِينَ مِنَ الْأُمَّةِ لِيَكُونَ اخِرُ الْمِلَّةِ كَمِثْلِ أَوَّلِهَا فِي الْكَيْفِيَّةِ وَلِيَتمَّ أَمْرُ الْمُشَابَهَةِ بِالْأُمَمِ السَّابِقَةِ - كَمَا أُشِيْرَ إِلَيْهِ فِي هَذِهِ السُّورَةِ أَعْنِي قَوْلَهُ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ فَتَدَبَّرُ الْفَاظَ هَذِهِ الْآيَةِ وَسُمِّيَ زَمَانُ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ يَوْمَ الدِّيْنِ لِأَنَّهُ زَمَانٌ يُحْيِي فِيهِ الدِّينُ وَتُحْشَرُ النَّاسُ لِيُقْبِلُوا بِالْيَقِينِ وَلَا شَكٍّ وَلَا خِلَافَ أَنَّهُ رَتَّى زَمَانَنَا هَذَا بِأَنْوَاعِ التَّرْبِيَةِ وَأَرَانَا كَثِيرًا مِّنْ فُيُوضِ الرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ - كَمَا أَرَى السَّابِقِينَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَالرُّسُلِ وَأَرْبَابِ الْوَلَايَةِ وَالْخُلْقِةِ - اعجاز اسیح - رخ جلد 18 صفحہ 146-148)
151 پھر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ امت محمدیہ) کے آخری دور میں بھی ان صفات کا نمونہ دکھائے ، تابلحاظ کیفیت ملت کا آخری حصہ پہلے حصہ کی طرح ہو جائے اور تا گزشتہ امتوں کے ساتھ (اس امت کی ) مشابہت پوری ہو جائے.جس کی طرف اس سورۃ میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی ارشاد باری تعالیٰ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں.پس اس آیت کے الفاظ پر غور کریں.مسیح موعود کے زمانہ کا نام اس لئے بھی یوم الدین رکھا گیا ہے کہ یہ ایسا زمانہ ہے جس میں دین کو زندہ کیا جائے گا اور لوگوں کو اس امر پر مجتمع کیا جائے گا کہ وہ (دلی) یقین کے ساتھ آگے بڑھیں اور اس میں نہ کوئی شبہ ہے اور نہ ہی (کسی کو) کچھ اختلاف ( ہوسکتا) ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس زمانہ کی کئی طریق سے تربیت فرمائی ہے اور رحمانیت اور رحیمیت کے بہت سے فیوض ہمیں دکھائے ہیں جیسا کہ اس نے پہلے نبیوں، رسولوں ، ولیوں اور اپنے دوستوں کو دکھائے تھے.وَهُوَ اللهُ لا إلهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ ، وَلَهُ الحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (القصص: 71) وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الأوْلى وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْآزَلِ إِلى أَبَدِ الْإِبِدِينَ وَلِذَالِكَ سَمَّى اللَّهُ نَبِيَّة أَحْمَدَ وَكَذَالِكَ سَمَّى بِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ لِيُشِيرَ إلى مَا تَعَمَّدَ - وَأَنَّ اللهَ كَتَبَ الْحَمْدَ عَلى رَأْسِ الْفَاتِحَةِ ثُمَّ أَشَارَ إِلَى الْحَمْدِ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ فَإِنَّ آخِرَ هَالَفُظُ الضَّالِينَ وَهُمُ النَّصَارَى الَّذِينَ أَعْرَضُوا عَنْ حَمْدِ اللَّهِ وَأَعْطُوا حَقَّهُ لِاَحَدٍ مِّنَ الْمَخْلُوقِيْنَ - فَإِنَّ حَقِيْقَةَ الضَّلَالَةِ هِىَ تَرُكُ الْمَحْمُودِ الَّذِى يَسْتَحِقُ الْحَمْدَ وَالثَّنَاءَ كَمَا فَعَلَ النَّصَارَى وَنَحَتُوا مِنْ عِنْدِهِمُ مَحْمُودًا أَخَرَ وَبَالَغُوا فِي الْإِطْرَاءِ وَاتَّبَعُوا الَّا هُوَاءَ وَبَعَدُوا مِنْ عَيْنِ الْحَيَاتِ وَهَلَكُوا كَمَا يَهْلَكُ الضَّالُ فِي الْمَوْفَاةِ وَإِنَّ الْيَهُودَ هَلَكُوا فِي أَوَّلِ أَمْرِهِمُ وَبَاوُا بِغَضَبِ مِنَ اللهِ الْقَهَّارِ وَالنَّصارى سَلَكُوْا قَلِيْلًا ثُمَّ ضَلُّوا وَفَقَدْ وُا الْمَاءَ فَمَا تُوا فِي فَلَاةٍ مِنَ الْاِضْطِرَارٍ - فَحَاصِلُ هَذَا الْبَيَانِ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ أَحْمَدَ يُنِ فِي صَدْرِ الْإِسْلَامِ وَفِي آخِرِ الزَّمَانِ وَأَشَارَ ءِ الَيْهِمَا بِتَكْرَارِ لَفْظِ الْحَمْدِ فِي أَوَّلِ الْفَاتِحَةِ وَفِي آخِرِ هَا لِاهْلِ الْعِرْفَانِ وَفَعَلَ كَذَالِكَ لِيَرُدَّ عَلَى النَّصْرَانِيِّينَ وَأَنْزَلَ أَحْمَدَ يُنِ مِنَ السَّمَاءِ لِيَكُونَا كَالْجِدَارَيْنِ لِحِمَايَةِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ (اعجاز مسیح.ر.خ جلد 18 صفحہ 198 197)
152 ( ترجمہ از مرتب ) اور آنحضرت ﷺ کی پہلی بعثت اور پچھلی بعثت میں بلکہ ازل سے ابد الا باد تک سب تعریف اسی کے لئے ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا نام احمد رکھا.اور اسی طرح مسیح موعود کا بھی یہی نام رکھا تا اس نے جو قصد کیا تھا اس کی طرف اشارہ فرمائے.اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے ابتداء میں الحمد لکھا ہے پھر اس سورۃ کے آخر میں بھی الحمد کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ اس کے آخر میں الضالین کا لفظ ہے اور وہ نصاری ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کی حمد کرنے سے منہ موڑ لیا اور اس کا حق مخلوق کے ایک فرد کو دے دیا کیونکہ گمراہی کی حقیقت یہ ہے کہ اس قابل تعریف ہستی کو جو حمد و ثناء کی مستحق ہے چھوڑ دیا جائے جیسا کہ نصاری نے کیا ہے.انہوں نے اپنے پاس سے ایک اور قابل تعریف معبود بنالیا ہے اور انہوں نے اس کی تعریف میں بڑا مبالغہ کیا ہے.انہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اور زندگی کے چشمہ سے دور نکل گئے اور اسی طرح ہلاک ہو گئے جس طرح ایک راہ گم کردہ شخص بیابان میں ہلاک ہو جاتا ہے اور یہود تو اپنی ابتداء ہی میں ہلاک ہو گئے تھے اور خدائے قہار کے غضب کے مورد بن گئے تھے.نصاری چند قدم چلے پھر گمراہ ہو گئے اور روحانی پانی کھو دیا اور آخر کا رلا چار ہو کر بیابانوں میں مر گئے.پس خلاصہ بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو احمد پیدا کئے ایک اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اور ایک آخری زمانہ میں.اور اللہ تعالیٰ نے اہل عرفان کے لئے سورۃ فاتحہ کے شروع میں اور اس کے آخر میں الحمد کا لفظا ومعنا تکرار کر کے ان دونوں (احمدوں) کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور خدا نے ایسا عیسائیوں کی تردید کے لئے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے دو احمد آسمان سے اتارے تا وہ دونوں پہلوں اور پچھلوں کی حمایت کے لئے دود یواروں کی طرح ہو جائیں.
153 ترجمہ اور معانی إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ چھٹی صداقت جو سورۃ فاتحہ میں مُندرج ہے.إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ اے صاحب صفات کا ملہ اور مبدء فیوض اربعہ ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور پرستش وغیرہ ضرورتوں اور حاجتوں میں مدد بھی تجھ سے ہی چاہتے ہیں یعنی خالصاً معبود ہمارا تو ہی ہے اور تیرے تک پہنچنے کے لیے کوئی اور دیوتا ہم اپنا ذریعہ قرار نہیں دیتے نہ کسی انسان کو نہ کسی بہت کو نہ اپنی عقل اور علم کو کچھ حقیقت سمجھتے ہیں اور ہر بات میں تیری ( براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 525-526 حاشیہ نمبر 11) ذات قادر مطلق سے مدد چاہتے ہیں.معانی و تفسیر - إِيَّاكَ نَعْبُدُ اعْلَمُ أَنَّ حَقِيقَةَ الْعِبَادَةِ الَّتِي يَقْبَلُهَا الْمَوْلَى بِاسْتِنَانِهِ هِيَ التَّذَلُّلُ النَّامُ بِرُؤْيَةِ عَظُمَتِهِ وَعُلُوّ شَأْنِهِ وَالثَّنَاءُ عَلَيْهِ بَمُشَاهَدَةِ مِنَيْهِ وَأَنْوَاعِ إِحْسَانِهِ وَإِيْثَارُهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ بِمَحَبَّةِ حَضْرَتِهِ وَتَصَوُّرٍ مَحَامِدِهِ وَجَمَالِهِ وَلَمَعَانِهِ وَتَطْهِيرُ الْجَنَانِ مِنْ وَ سَاوِسِ الْجِنَّةِ نَظَرًا إِلَى جَنَانِهِ - واضح ہو کہ اس عبادت کی حقیقت جسے اللہ تعالیٰ اپنے کرم و احسان سے قبول فرماتا ہے.وہ در حقیقت چند امور پر مشتمل ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی بلند و بالا شان کو دیکھ کر مکمل فروتنی اختیار کرنا نیز اس کی مہربانیاں اور قسم قسم کے احسان دیکھ کر اس کی حمد وثنا کرنا اس کی ذات سے محبت رکھتے ہوئے اور اس کی خوبیوں جمال اور نور کا تصور کرتے ہوئے اسے ہر چیز پر ترجیح دینا اور اس کی جنت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے دل کو شیطانوں کے وسوسوں سے پاک کرنا ہے.(اعجاز امسیح.رخ جلد 18 صفحہ 165) جب انسان إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہہ کر صدق اور وفاداری کے ساتھ قدم اٹھاتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک بڑی نہر صدق کی کھول دیتا ہے جو اس کے قلب پر آکر گرتی ہے اور اسے صدق سے بھر دیتی ہے وہ اپنی طرف سے بضاعتہ مزجاة لاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اعلی درجہ کی گراں قدر جنس اس کو عطا کرتا ہے اور اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس مقام میں انسان یہاں تک قدم مارے کہ وہ صدق اس کے لیے ایک خارق عادت نشان ہو.اس پر اس قدر معارف اور حقائق کا در یا کھلتا ہے اور ایسی قوت دی جاتی ہے کہ ہر شخص کی طاقت نہیں ہے کہ اس کا مقابلہ کرے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 253) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں فاصلہ کوئی نہیں ہے.ہاں إِيَّاكَ نَعْبُدُ میں ایک قسم کا تقدم زمانی ہے کیونکہ جس حال میں محض اپنی رحمانیت سے بغیر ہماری دعا اور درخواست کے ہمیں انسان بنایا اور انواع و اقسام کی قوتیں اور نعمتیں عطا فرمائیں.اُس وقت ہماری دعا نہ تھی.بلکہ محض اُس کا فضل ہمارے شامل حال تھا.اور یہی تقدم ہے.لملفوظات جلد اول صفحہ 127)
154 صدیق کے کمال کے حصول کا فلسفہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری اور ناداری کو دیکھ کر اپنی طاقت اور حیثیت کے موافق إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے اور صدق اختیار کرتا اور جھوٹ کو ترک کر دیتا ہے اور ہر قسم کے رجس اور پلیدی سے جو جھوٹ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے.دور بھاگتا ہے اور عہد کر لیتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا جھوٹی گواہی نہ دوں گا.اور نہ جذ بہ نفسانی کے رنگ میں کوئی جھوٹا کلام کرونگا.نہ لغوطور پر نہ کسب خیر اور نہ دفع شر کے لئے یعنی کسی رنگ اور حالت میں بھی جھوٹ کو اختیار نہیں کروں گا.جب اس حد تک وعد و کرتا ہے.تو گویا ايَّاكَ نَعْبُدُ پر وہ ایک خاص عمل کرتا ہے اور اس کا وہ عمل اعلیٰ درجہ کی عبادت ہوتی ہے ایساكَ نَعْبُدُ سے آگے إِيَّاكَ نَسْتَعِین ہے.خواہ یہ اس کے مونہہ سے نکلے یا نہ نکلے لیکن اللہ تعالیٰ جو مبدء الفیوض اور صدق اور راستی کا سر چشمہ ہے اس کو ضرور مدد دے گا.اور صداقت کے اعلیٰ اصول اور حقائق اس پر کھول دیگا.(ملفوظات جلد اول صفحہ 242-243) استعانت کے متعلق یہ بات یاد رکھنا چاہیئے کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور اسی پر قرآن کریم نے زور دیا ہے.چنانچہ فرمایا کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پہلے صفات الى رب ، رحمان، رحیم ، مالک یوم الدین کا اظہار فرمایا.پھر سکھایا کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی عبادت بھی تیری کرتے ہیں اور استمداد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ اصل حق استمداد کا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے.کسی انسان، حیوان، چرند، پرند، غرضیکہ کسی مخلوق کے لئے نہ آسمان پر نہ زمین پر یہ حق نہیں ہے.مگر ہاں دوسرے درجہ پر ظلمی طور سے یہ حق اہل اللہ اور مردان خدا کو دیا گیا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 340) دعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے.اور یہی معانی اس دعا کے ہیں.پہلے لازم ہے کہ انسان اپنے اعتقاد اعمال میں نظر کرے.کیونکہ خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ اصلاح اسباب کے پیرا یہ میں ہوتی ہے.وہ کوئی نہ کوئی ایسا سبب پیدا کر دیتا ہے کہ جو اصلاح کا موجب ہو جاتا ہے وہ لوگ اس مقام پر ذرا خاص غور کریں جو کہتے ہیں کہ جب دعا ہوئی تو اسباب کی کیا ضرورت ہے.وہ نادان سوچیں کہ دعا بجائے خود ایک مخفی سبب ہے جو دوسرے اسباب کو پیدا کر دیتا ہے اور إِيَّاكَ نَعْبُدُ کا تقدم إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر جو کلمہ دعائیہ ہے.اس امر کی خاص تشریح کر رہا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 78) اس سورۃ میں جس کا نام خاتم الکتاب اور ام الکتاب بھی ہے صاف طور پر بتا دیا کہ انسانی زندگی کا کیا مقصد ہے اور اس کے حصول کی کیا راہ ہے؟ إِيَّاكَ نَعْبُدُ گویا انسانی فطرت کا اصل تقاضا اور منشاء ہے اور اسے إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر مقدم کر کے یہ بتایا ہے کہ پہلے ضروری ہے کہ جہاں تک انسان کی اپنی طاقت ، ہمت اور سمجھ میں ہو خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی راہوں کے اختیار کرنے میں سعی اور مجاہدہ کرے اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں سے پورا کام لے اور اس کے بعد پھر خدا تعالیٰ سے اس کی تکمیل اور نتیجہ خیز ہونے کے لئے دعا کرے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 235)
155 تو حید تین قسم کی ہے ایک تو حید علمی کہ جو صحیح عقائد سے حاصل ہوتی ہے.دوسری توحید عملی کہ جو قومی اخلاقی کو خدا کے راستہ میں کرنے سے یعنی فنافی اخلاق اللہ سے حاصل ہوتی ہے.تیسری تو حید حالی جو اپنے ہی نفس کا حال اچھا بنانے سے حاصل ہوتی ہے یعنی نفس کو کمال تزکیہ کے مرتبہ تک پہنچانا اور غیر اللہ سے صحن قلب کو بالکل خالی کرنا.اور نابود اور بے نمود ہو جانا یہ تو حید بوجہ کامل تب میسر آتی ہے کہ جب جذ بہ الہی انسان کو پکڑے اور بالکل اپنے نفس سے نابود کر دے اور بجر فضل الہی کے نہ یہ علم سے حاصل ہو سکتی ہے اور نہ عمل ہے.اسی کے لئے عابدین مخلصین کی زبان پر نعرہ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہے.( الحکم 24 ستمبر 1905 ء صفحہ 4 کالم نمبر 3 ) ( تفسیر حضرت طبع اول سورۃ فاتحہ جلد 1 صفحہ 209) کالم نمبر 3 نمبر 33 جلد 9 حضرت اقدس کی پرانی اور اچھوتی تحریریں ) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں حضرت اقدس کا ذکر ثُمَّ اعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ حَمِدَ ذَاتَهُ أَوَّلًا فِي قَوْلِهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَا لَمِيْنَ ثُمَّ حَتَّ النَّاسَ عَلَى الْعِبَادَةِ بِقَوْلِهِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - فَفِي هَذِهِ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ الْعَابِدَ فِي الْحَقِيقَةِ هُوَ الَّذِي يَحْمَدُهُ حَقَّ الْمَحْمَدَةِ - فَحَاصِلُ هَذَا الدُّعَاءِ وَالْمَسْئَلَةِ - أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ أَحْمَدَ كُلَّ مَنْ تَصَدَى لِلْعِبَادَةِ - وَعَلَى هَذَا كَانَ مِنَ الْوَاجِبَاتِ أَن يَكُونَ أَحْمَدُ فِي آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى قَدَمِ أَحْمَدَ الْأَوَّلِ الَّذِي هُوَ سَیّدُ الْكَائِنَاتِ لِيُفْهَمَ أَنَّ الدُّعَاءَ سُتُجِيْبَ مِنْ حَضْرَةِ مُسْتَجِيْبِ الدَّعْوَاتِ وَلِيَكُونَ ظُهُورُهُ لِلْإِسْتِجَابَةِ كَالْعَلَا مَاتٍ فَهَذَا هُوَ الْمَسِيحُ الَّذِي كَانَ وَعْدَ ظُهُورِهِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ مَكْتُوبِ فِي الْفَاتِحَةِ وَفِي الْقُرْآنِ نیز سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے الفاظ الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِین میں اپنی حمد بیان فرمائی.پھر اپنے کلام إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین میں لوگوں کو عبادت کی ترغیب دی.پس اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ در حقیقت عبادت گزار وہی ہے.جو خدا تعالیٰ کی حمد اس طور پر کرے جو حمد کے کرنے کا حق ہے.پس اس دعا اور درخواست کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو احمد بنا دیتا ہے جو (اس کی) عبادت میں لگا رہے.اس بناء پر ضروری تھا کہ اس امت کے آخر میں بھی کوئی احمد ظاہر ہو اس پہلے احمد کے نقش قدم پر جو سرور کائنات ( حضرت محمد ﷺے ہیں تا معلوم ہو جائے کہ دعاؤں کو قبول فرمانے والی بارگاہ سے اس دعاء فاتحہ کو قبولیت کا شرف حاصل ہے اور تا کہ اس ( احمد ) کا ظہور قبولیت دعا کے لیے بطور نشانات کے ہو.یہی وہ صیح ہے جس کا آخری زمانہ میں ظہور کا وعدہ سورۃ فاتحہ میں بھی قرآن کریم میں بھی لکھا ہوا ہے.(اعجاز مسیح - رخ جلد 18 صفحہ 167-168)
156 ایسا ہی خدا تعالیٰ یہ بھی جانتا تھا کہ دشمن یہ بھی تمنا کرینگے کہ یہ شخص منقطع النسل رہ کر نابود ہو جائے.تا نادانوں کی نظر میں یہ بھی ایک نشان ہو.لہذا اس نے پہلے سے براہین احمدیہ میں خبر دے دی کہ يــنـقـطع اباوك و يبدء مسنگ یعنی تیرے بزرگوں کی پہلی نسلیں منقطع ہو جائیں گی.اور ان کے ذکر کا نام ونشان نہ رہے گا.اور خدا تجھ سے ایک نئی بنیاد ڈالے گا.اسی بنیاد کی مانند جوابرہیم سے ڈالی گئی اسی مناسبت سے خدا نے براہین احمدیہ میں میرا نام ابراہیم رکھا.جیسا کہ فرمایا سلام علی ابراهیم صافيناه ونجيناه من الغم و اتخذوا من مقام ابراہیم مصلی.قل رب لا تذرني فردا وانت خير الوارثین.یعنی سلام ہے ابراہیم پر (یعنی اس عاجز پر ) ہم نے اس سے خالص دوستی کی اور ہر ایک غم سے اس کو نجات دیدی اور تم جو پیروی کرتے ہو.تم اپنی نماز گاہ ابراہیم کے قدموں میں اپنی جگہ بناؤ.یعنی کامل پیروی کرو تا نجات پاؤ.اور پھر فرمایا کہ اے میرے خدا! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو بہتر وارث ہے.اس الہام میں یہ اشارہ ہے کہ خدا اکیلا نہیں چھوڑے گا.اور ابراہیم کی طرح کثرت نسل کرے گا اور بہتیرے اس نسل سے برکت پائیں گے.اور یہ جوفرمایا کہ و اتخذوا من مقام ابراہیم مصلی یہ قرآن شریف کی آیت ہے اور اس مقام میں اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ ابراہیم جو بھیجا گیا تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجالاؤ.اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ.اور جیسا کہ آیت و مبشرا بر سول یانی من بعدی اسمه احمد (الصف:7) میں یہ اشارہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا آخر زمانہ میں ایک مظہر ظاہر ہوگا.گویا وہ اس کا ایک ہاتھ ہوگا جس کا نام آسمان پر احمد ہوگا.اور وہ حضرت مسیح کے رنگ میں جمالی طور پر دین کو پھیلائے گا.ایسا ہی آیت واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی (البقرة:126 ) اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہو گا اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائیگا کہ اس ابراہیم کا پیرو ہو گا.( اربعین.رخ جلد 17 صفحہ 420-421) اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ آیت کے لفظی معنی انسانی زندگی کا مقصد اور غرض صراط مستقیم پر چلنا اور اس کی طلب ہے جس کو اس سورۃ میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.یا اللہ ہم کو سیدھی راہ دکھا ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا انعام ہوا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 235) معانی ءِ ہدایت أَمَّا الْهِدَايَةُ الَّتِى قَدْ أُمِرُنَا لِطَلَبِهَا فِى الْفَاتِحَةِ فَهُوَ اقْتِدَاءُ مَحَامِدِ ذَاتِ اللَّهِ وَصِفَاتِهِ الْاَرْبَعَةِ وَإلى هذَا يُشِيرُ اللَّامُ الَّذِى مَوْجُودٌ فِي اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ وَيَعْرِفُهُ مَنْ أَعْطَاهُ اللهُ الْفَهْمَ السَّلِيمَ وَلَا شَكٌّ أَنَّ هذِهِ الصِّفَاتِ أُمَّهَاتُ الصِّفَاتِ وَهِيَ كَافِيَةٌ لِتَطْهِيرِ النَّاسِ مِنَ الْهَنَاتِ وَأَنْوَاعِ السَّيِّاتِ فَلَا يُؤْمِنُ بِهَا عَبْدٌ إِلَّا بَعْدَ أَنْ يَّأْ خُذَ مِنْ كُلِّ صِفَةٍ حَظَّهُ وَيَتَخَلَّقَ بِأَخْلَاقِ رَبِّ الْكَائِنَاتِ
157 ترجمہ : جس ہدایت کے طلب کرنے کا ہمیں سورۃ فاتحہ میں حکم دیا گیا ہے وہ ذات باری کی خوبیوں اور اس کی چاروں (مذکورہ صفات کی پیروی کرتا ہے اور اسی کی طرف وہ الف لام اشارہ کر رہا ہے جو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں موجود ہے.اس بات کو وہ شخص سمجھ سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم عطا فرمائی ہو اور کچھ شک نہیں کہ یہ چاروں صفات ( باقی تمام ) صفات کے لئے بطور اصل ہیں اور یہ لوگوں کو قابل نفرت باتوں اور قسم قسم کی برائیوں سے پاک کرنے کے لئے کافی ہیں.پس کوئی بندہ اس وقت تک ان پر ایمان نہیں لاتا جب تک کہ وہ ان میں سے ہر صفت سے اپنا حصہ نہ لے لے اور پروردگار عالم کے اخلاق کو اختیار نہ کرلے.(کرامات الصادقین.رخ جلد 7 صفحہ 145) تفسیری معنی ہدایت أَمَّا قَوْلُهُ تَعَالَى اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - فَمَعْنَاهُ اَرِنَا النَّهْجَ الْقَوِيْمَ وَثَبِّتُنَا عَلَى طَرِيقٍ يُوصِلُ إِلَى حَضْرَتِكَ وَيُنَجِّى مِنْ عُقُوبَتِكَ ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ لِتَحْصِيلِ الْهَدَايَةِ طُرُقًا عِنْدَ الصُّوْفِيَّة- مُسْتَخْرَجَةٌ مِّنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ أَحَدُهَا طَلَبُ الْمَعْرِفَةِ بِالدَّلِيلَ وَالْحُجَّةِ وَالثَّانِي تَصْفِيَةُ الْبَاطِنِ بِأَنْوَاعِ الرِّيَاضَةِ وَالثَّالِثُ الْانْقِطَاعُ إِلَى اللَّهِ وَصَفَاءُ الْمَحَبَّةِ وَطَلَبُ الْمَدَدِ مِنَ الْحَضْرَةِ بِالْمُوَافَقَةِ التَّامَّةِ وَبِنَفْيِ التَّفْرِقَةِ وَبِالْتَوْبَةِ إِلَى اللهِ وَالْابْتِهَالِ وَالدُّعَاءِ وَعَقْدِ الْهِمَّةِ ثُمَّ لَمَّا كَانَ طَرِيقُ طَلَبِ الْهِدَيَةِ وَالتَّصْفِيَةِ لَا يَكْفِى لِلْوُصُولِ مِنْ غَيْرِ تَوَسُّلِ الْائِمَّةِ وَالْمَهْدِيِّينَ مِنَ الْأُمَّةِ مَا رَضِيَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ عَلى هَذَا الْقَدَرِ مِنْ تَعْلِيمِ الدُّعَاءِ بَلْ حَتَّ بِقَوْلِهِ صِرَاطَ الَّذِينَ عَلَى تَحَسُّسِ الْمُرْشِدِينَ وَالْهَادِينَ مِنْ أَهْلِ الْإِجْتِهَادِ وَالْإِصْطِفَاءِ مِنَ الْمُرْسَلِينَ وَالْأَنْبِيَاءِ كلام الى اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے معنی یہ ہیں کہ اے ہمارے پروردگار) ہمیں سیدھا رستہ دکھا اور ہمیں اس راستہ پر قائم رکھ جو تیری جناب تک پہنچا تا ہو اور تیری سزا سے بچاتا ہو.پھر واضح ہو کہ صوفیوں کے نزدیک ہدایت کے حصول کے کئی طریق ہیں جو کتاب ( الہی ) اور سنت (رسول) سے اخذ کئے گئے ہیں.ان میں سے پہلا طریق دلیل اور برہان کے ساتھ خدا کی معرفت طلب کرنا ہے.دوسرا طریق مختلف قسم کی ریاضتوں کے ذریعہ اپنے باطن کو صاف کرنا ہے اور تیسرا ( طریق) ہے سب سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رخ کرنا اور اس سے اپنی محبت کو خالص کرنا اور اس کی صفات سے پوری موافقت پیدا کر کے اور خدا سے علحدگی ترک کر کے تو بہ زاری ،دُعاء اور عقدِ ہمت کے ساتھ بارگاہ ایزدی سے مدد طلب کرنا ہے.پھر چونکہ تلاش ہدایت اور تصفیہ نفس کا طریق ائمہ اور امت کے ہدایت یافتہ لوگوں کے وسیلہ کے بغیر وصول الی اللہ کے لئے کافی نہیں اس لئے خدا تعالیٰ محض اس قدر ( یعنی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم تک) دعاء سکھانے پر راضی نہ ہوا.بلکہ اس نے صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کہہ کر ان مُرشدوں اور ہادیوں کی تلاش کی ترغیب دلائی جو صاف باطن اور اجتہاد کرنے والے لوگوں میں سے ہادی اور راہنما ہیں یعنی رسولوں اور نبیوں کی.اعجاز مسیح رخ جلد 18 صفحہ 171-172)
158 ہدایت کی اقسام وَكَذَالِكَ عَلَّمَ اللهُ عِبَادَهُ دُعَاءَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ط وَمَعْلُومٌ أَنَّ مِنْ أَنواع الهدَايَةِ كَشَفْ وَالْهَامٌ وَرُؤْيَا صَالِحَةٌ وَّمَكَالَمَاتٌ وَّمُخَاطَبَاتٌ وَتَحْدِيث لِيَنْكَشِفَ بِهَا غَوَامِضَ الْقُرْآنِ وَيَزْدَادَ الْيَقِينُ - بَلْ لَّا مَعْنَى لِلْإِنْعَامِ مِنْ غَيْرِ هَذِهِ الْفُيُوْضِ السَّمَاوِيَّةِ فَإِنَّهَا أَصْلُ الْمَقَاصِدِ لِلصَّالِكِينَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَن تَنْكَشِفَ عَلَيْهِمْ دَفَائِقُ الْمَعْرِفَةِ وَيَعْرِفُوْارَبَّهُمْ وَيَعْرِفُوا رَبَّهُمْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَيَزْدَادُوا حُبًّا وَّايْمَانًا يَصِلُوا مَحْبُوْبَهُمْ مُّتَبَيِّلِيْنَ فَلَا جُلٍ ذَالِكَ حَبَّ اللَّهُ عِبَادَةَ عَلى أَن يَطْلُبُوا هَذَا الْإِنْعَامَ مِنْ حَضْرَتِهِ فَإِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ مِّنْ عَطَشِ الْوِصَالِ وَالْيَقِينِ وَالْمَعْرِفَةِ فَرَحِمَهُمْ وَأَعَدَّ كُلَّ مَعْرِفَةٍ لِلطَّالِبِينَ ثُمَّ أَمَرَهُمُ لِيَطْلُبُوهَا فِي الصَّبَاحِ وَالْمَسَاءِ وَاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَمَرَهُمُ الَّا بَعْدَ مَارَضِيَ بِاِعْطَاءِ هَذِهِ النَّعْمَاءِ بَلْ بَعْدَ مَا قَدَّرَلَهُمْ أَنْ يُرْزَقُوا مِنْهَا وَبَعْدَمَا جَعَلَهُمْ وَرَثَاءَ الْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ أُوتُوا مِنْ قَبْلِهِمْ كُلَّ نِعْمَةِ الْهِدَايَةِ عَلَى طَرِيقِ الْإِصَالَةِ فَانُظُرُ كَيْفَ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَأَمَرَنَا فِى أُمِّ الْكِتَابِ لِنَطْلُبَ فِيهِ هِدَايَاتِ الْأَنْبِيَاءِ كُلَّهَا لِيَكْشِفَ عَلَيْنَا كُلَّمَا كَشَفَ عَلَيْهِمْ وَلَكِن بِالْإِنْبَاعِ وَالطَّلِيَّةِ وَعَلَى قَدَرِ ظُرُونِ الْإِسْتِعْدَادَاتِ وَالْهِمَمِ فَكَيْفَ نَرُدُّ نِعْمَةَ اللَّهِ الَّتي أُعِدَّتْ لَنَا إِنْ كُنَّا طُلَبَاءَ الْهَدَايَةِ وَكَيْفَ تُنْكِرُهَا بَعْدَ مَا أُخْبِرُنَا عَنْ أَصْدَقِ الصَّادِقِينَ ترجمه از مرتب : اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کی دعا سکھائی ہے.اور یہ بات واضح ہے کہ ہدایت کی اقسام میں کشف، الہام، رؤیا صالحہ، مکالمات و مخاطبات اور محدثیت شامل ہیں تا کہ ان کے ذریعہ قرآن کریم کے اسرار کھلیں اور یقین بڑھے.ان آسمانی فیوض کے سوا انعام کے اور کوئی معنے نہیں.کیونکہ یہ چیزیں اُن سالکوں کا اصل مقصد ہیں.جو چاہتے ہیں کہ ان پر معرفت الہی کے دقائق کھلیں اور وہ اپنے رب کو اسی دنیا میں پہچان لیں.محبت اور ایمان میں ترقی کریں.اور دنیا سے منہ موڑ کر اپنے محبوب کا وصال حاصل کر لیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس بات کی ترغیب دلائی ہے کہ وہ اس کی بارگاہ سے یہ انعام طلب کیا کریں کیونکہ وہ ( اللہ ) ان کے دلوں میں وصال اور یقین اور معرفت کے حصول کی جو پیاس ہے اسے خوب جانتا ہے پس اس نے ان پر رحم کیا اور اپنے طالبوں کے لئے ہر قسم کی معرفت تیار کی.پھر ان ( طالبوں ) کو حکم دیا کہ وہ صبح و شام اور رات اور دن معرفت طلب کرتے رہیں اور اس نے انہیں یہ حکم تبھی دیا جب وہ خود ان نعمتوں کے عطا کرنے پر راضی تھا.بلکہ اس بات کا فیصلہ کر لیا تھا کہ انہیں ان ( نعمتوں) میں سے ( کچھ حصہ ضرور ) دیا جائے گا اور انہیں ان نبیوں کا وارث بنانا مقدر کیا جنہیں ان سے پہلے براہ راست ہدایت کی ہر نعمت دی گئی تھی.پس دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر
159 کتنا احسان کیا ہے اور ہمیں اُئم الکتاب (یعنی سورۃ فاتحہ ) میں حکم دیا ہے کہ ہم اس سورۃ میں انبیاء کی تمام ہدایتیں طلب کریں تا کہ ہم پر بھی وہ تمام امور منکشف کر دے جوان ( نبیوں) پر منکشف کئے تھے.لیکن یہ سب کچھ متابعت اور فلمیت کے طور پر اور استعدادوں اور ہمتوں کے اندازہ کے مطابق ہے.پس اگر ہم ( سچ سچ ) ہدایت کے خواہشمند ہیں تو پھر ہم کس طرح اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو ر ڈ کریں جو ہمارے لئے تیار کی گئی ہے اور ہم اللہ اصدق الصادقین (خدا) کی طرف سے اطلاع دئے جانے کے بعد کس طرح اس نعمت کا انکار کریں.(حمامتہ البشر ئی.رخ جلد 7 صفحہ 299) إِنَّ تَعْلِيمَ كِتَابِ اللهِ الاحْكَمِ وَرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مُنقَسِمًا عَلَى ثَلَثَةِ أَقْسَامِ الْاَوَّلُ أَن يَجْعَلَ الْوُحُوشَ أَنَاسًا وَّيُعَلِّمَهُمْ أَدَابَ الْإِنْسَانِيَّةِ وَيَهَبَ لَهُمُ مَدَارِكَ وَحَوَآسا - وَالثَّانِى أَن يَجْعَلَهُمْ بَعْدَ الْإِنْسَانِيَّةِ أَكْمَلَ النَّاسِ فِي مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَالثَّالِثُ أَن يُرْفَعَهُم مِّنْ مَّقَامِ الْأَخْلَاقِ إِلَى ذُرَى مَرْتَبَةِ حُبِّ الْخَلاقِ وَيُوصِلَ إلى مَنْزِلِ الْقُرْبِ وَالرِّضَاءِ وَالْمَعِيَّةِ وَالْفَنَاءِ وَالذَّوَبَانِ وَالْمَحْوِيَّةِ أَعْنِى إِلَى مَقَامٍ يَّنْعَدِمُ فِيْهِ أَثَرُ الْوُجُودِ وَالْاِخْتِيَارِ وَيَبْقَى اللَّهُ وَحْدَهُ كَمَا هُوَ يَبْقَى بَعْدَ فَنَاءِ هَذَا الْعَالِمِ بِذَاتِهِ الْقَهَّارِ فَهَذِهِ اخِرُ الْمَقَامَاتِ لِلسَّالِكِينَ وَالسَّالِكَاتِ وَإِلَيْهِ تَنْتَهِي مَطَايَا الرِّيَاضَاتِ وَفِيهِ يَخْتَتِمُ سُلُوكُ الْوَلَايَاتِ وَهُوَ الْمُرَادُ مِنَ الْإِسْتِقَامَةِ فِي دُعَاءِ سُوْرَةِ الْفَاتِحَةِ - وَكُلُّمَا يَتَضَرَّمُ مِنْ أَهْوَاءِ النَّفْسِ الْأَمَّارَةِ فَتَذُوبُ فِي هَذَا الْمَقَامِ بحُكْمِ اللهِ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْعِزَّةِ فَتُفْتَحُ الْبَلدَةُ كُلُّهَا وَلَا تَبْقَى الضَّوْضَاةُ لِعَامَّةِ الأهْوَاءِ - وَيُقَالُ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ ذِي الْمَجْدِ وَالْكِبْرِيَاءِ - ترجمه قرآن شریف کی تعلیم اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایت تین قسم پر منقسم تھی.پہلی یہ کہ وحشیوں کو انسان بنایا جائے اور انسانی آداب اور حواس اُن کو عطا کئے جائیں.اور دوسری یہ کہ انسانیت سے ترقی دے کر اخلاق کا ملہ کے درجے تک اُن کو پہنچایا جائے.اور تیسری یہ کہ اخلاق کے مقام سے اُن کو اٹھا کر محبت الہی کے مرتبہ تک پہنچایا جائے.اور یہ کہ قرب اور رضا اور معیت اور فتنا (اور گدازش ) اور محویت کے مقام اُن کو عطا ہوں یعنی وہ مقام جس میں وجود اور اختیار کا نشان باقی نہیں رہتا اور خدا اکیلا باقی رہ جاتا ہے جیسا کہ وہ اس عالم کے فنا کے بعد اپنی ذات قہار کے ساتھ باقی رہے گا.نجم الہدی.رخ جلد 14 صفحہ 34 تا36)
160 ہدایت خدا تعالی ہی سے ملتی ہے وَحَنَّ عَلى طَلَبِ الْهِدَايَةِ إِشَارَةٌ إِلى أَنَّ الثَّبَات عَلَى الْهِدَايَةِ لَا يَكُونُ إِلَّا بِدَوَامِ الدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّع فِي حَضْرَةِ اللهِ وَمَعَ ذَالِكَ إِشَارَةٌ إِلى أَنَّ الْهَدَايَةَ أَمْرٌ مِّنْ لَّدَيْهِ وَالْعَبْدُ لَا يَهْتَدِى أَبَدًا مِّن غَيْرانُ يَهْدِيَهُ اللَّهُ وَيُدْخِلَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ - وَإِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ الْهِدَايَةَ غَيْرُ مُتَنَاهِيَةٍ وَتَرَقِّى النُّفُوسِ إِلَيْهَا بِسُلْمِ الدَّعَوَاتِ وَمَنْ تَرَكَ الدُّعَاءَ فَأَضَاعَ سُلَّمَةً فَإِنَّمَا الْحَرِيُّ بِالْاِهْتِدَاءِ مَنْ كَانَ رَطْبَ اللَّسَانَ بِالدُّعَاءِ وَذِكْرِ رَبِّهِ وَكَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْمُدَاوِمِين - ترجمہ: اور ہدایت کے طلب کرنے کی ترغیب دی اس بات کی) طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہدایت پر ثابت قدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا اور گریہ وزاری میں دوام کے بغیر ممکن نہیں.مزید برآں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ہدایت ایک ایسی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی (ملتی) ہے اور جب تک خدا تعالیٰ خود بندہ کی رہنمائی نہ کرے اور اُسے ہدایت یافتہ لوگوں میں داخل نہ کر دے وہ ہرگز ہدایت نہیں پاسکتا.پھر اس (امر کی) طرف بھی اشارہ ہے کہ ہدیت کی کوئی انتہاء نہیں اور انسان دعاؤں کی سیڑھی کے ذریعہ ہی اس تک پہنچ سکتے ہیں اور جس شخص نے دعا کو چھوڑ دیا اس نے اپنی سیٹرھی کھو دی.یقیناً ہدیت پانے کے قابل وہی ہے جس کی زبان ذکر الہی اور دعا سے تر رہے اور وہ اس پر دوام اختیار کرنے والوں میں سے ہو.کرامات الصادقین.رخ جلد 7 صفحہ 124) ہدایت سے مراد بعثت حضرت اقدس -1 -2 چھٹی آیت اس سورة کی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چھٹے ہزار کی تاریکی آسمانی ہدایت کو چاہے گی اور انسانی سلیم فطرتیں خدا کی جناب سے ایک ہادی کو طلب کریں گی یعنی مسیح موعود کو.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 7 صفحہ 284) خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی راہ یا یوں کہو کہ ہدایت کے اسباب اور وسائل تین ہیں.یعنی ایک یہ کہ کوئی گم گشتہ محض خدا کی کتاب کے ذریعہ سے ہدایت یاب ہو جائے.اور دوسرے یہ کہ اگر خدا تعالیٰ کی کتاب سے اچھی طرح سمجھ نہ سکے تو عقلی شہادتوں کی روشنی اس کو راہ دکھلا دے.اور تیسرے یہ کہ اگر عقلی شہادتوں سے بھی مطمئن نہ ہو سکے تو آسمانی نشان اس کو اطمینان بخشیں.یہ طریق ہیں جو بندوں کے مطمئن کرنے کے لئے قدیم سے عادة اللہ میں داخل ہیں یعنی ایک سلسلہ کتب ایمانیہ جو سماع اور نقل کے رنگ میں عام لوگوں تک پہنچتا ہے جن کی خبروں اور ہدایتوں پر ایمان لانا ہر ایک مومن کا فرض ہے اور ان کا مخزن اتم اور اکمل قرآن شریف ہے.دوسرا سلسلہ معقولات کا جس کا منبع اور ماخذ دلائل عقلیہ ہیں.تیسرا سلسلہ آسمانی نشانوں کا جس کا سر چشمہ نبیوں کے بعد ہمیشہ امام الزمان اور مجد دالوقت ہوتا ہے.اصل وارث ان نشانوں کے انبیاء علیہم السلام ہیں.پھر جب ان کے معجزات اور نشان مدت مدید کے بعد منقول کے رنگ میں ہو کر ضعیف التاثیر ہو جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کے قدم پر کسی اور کو پیدا کرتا ہے تا پیچھے آنے والوں کے لئے نبوت کے عجائب کرشمے بطور منقول ہوکر مُردہ اور بے اثر نہ ہو جائیں.بلکہ وہ لوگ بھی بذات خود نشانوں کو دیکھ کر اپنے ایمانوں کو تازہ کریں.(کتاب البریہ.رخ جلد 13 صفحہ 49)
161 یه قرآنی دعا اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتح : 6) آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے قبول ہو کر اختیار وابرار مسلمان بالخصوص ان کے کامل فرد انبیاء بنی اسرائیل کے وارث ٹھہرائے گئے اور دراصل مسیح موعود کا اس امت میں سے پیدا ہونا یہ بھی اس دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے کیونکہ گوشفی طور پر بہت سے اختیار وابرار نے انبیاء بنی اسرائیل کی مماثلت کا حصہ لیا ہے.مگر اس امت کا مسیح موعود گھلے گھلے طور پر خدا کے حکم اور اذن سے اسرائیلی مسیح کے مقابل پر کھڑا کیا گیا ہے.تا موسوی اور محمدی سلسلہ کی مماثلت سمجھ آجائے.اسی غرض سے اس مسیح کو ابن مریم سے ہر ایک پہلو سے تشبیہ دی گئی ہے یہاں تک کہ اس ابن مریم پر ابتلاء بھی اسرائیلی ابن مریم کی طرح آئے.اول جیسا کہ عیسی بن مریم محض خدا کے نفخ سے پیدا کیا گیا اس طرح یہ میسج بھی سورۃ تحریم کے وعدہ کے موافق محض خدا کے نفخ سے مریم کے اندر سے پیدا کیا گیا اور جیسا کہ عیسی ابن مریم کی پیدائش پر بہت شور اٹھا اور اندھے مخالفوں نے مریم کو کہالقدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا ( مریم): 28) اسی طرح اس جگہ بھی کہا گیا اور شور قیامت مچایا گیا اور جیسا کہ خدا نے اسرائیلی مریم کے وضع حمل کے وقت مخالفوں کو عیسی کی نسبت یہ جواب دیا وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً للنَّاسِ وَرَحْمَةٌ مِّنَّاحٍ وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيَّا ( مریم:22 ) یہی جواب خدا تعالیٰ نے میری نسبت براہین احمدیہ میں روحانی وضع حمل کے وقت جو استعارہ کے رنگ میں تھا مخالفوں کو دیا اور کہا کہ تم اپنے فریبوں سے اس کو نابود نہیں کر سکتے میں اس کو لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بناؤں گا اور ایسا ہونا ابتداء سے مقد رتھا.(کشتی نوح رخ جلد 19 صفحہ 52 - 53) نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد ﷺ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ (کشتی نوح - ر- خ جلد 19 صفحه 14 الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - معافی ”صراط" صراط لغت عرب میں ایسی راہ کو کہتے ہیں.جو سیدھی ہو یعنی تمام اجزاء اس کے وضع استقامت پر واقع ہوں اور ایک دوسرے کی نسبت میں محاذات پر ہوں.کالم نمبر 2 زیر عنوان مذہب اور سات کا عدد تفسیر حضرت اقدس سورۃ فاتر جلد 1 صفحہ 217) وَقِيلَ إِنَّ الطَّرِيقَ لَا يُسَمَّى صِرَاطًا عِنْدَ قَوْمٍ ذَوِى قَلْبٍ وَّنُوْرٍ حَتَّى يَتَضَمَّنَ خَمْسَةَ أُمُورٍ مِنْ أمُورِ الدِّينِ وَهِيَ الْإِسْتِقَامَةُ وَالْإِبْصَالُ إِلَى الْمَقْضُودِ بِالْيَقِينِ وَقُرُبُ الطَّرِيقِ وَسَعَتُهُ لِلْمَارِيْنَ وَتَعْيِينُهُ طَرِيقًا لِلْمَقْصُودِ فِى أَعْيُنِ السَّالِكِيْنَ وَهُوَ تَارَةً يُضَافُ إِلَى اللَّهِ إِذْ هُوَ شَرْعَةً وَهُوَ سَوَى سُبُلِهِ لِلْمَاشِينَ - وَتَارَةٌ يُضَافُ إِلَى الْعِبَادِ لِكَوْنِهِمْ أَهْلَ السُّلُوكِ وَالْمَآرِينَ عَلَيْهَا وَالْعَابِدِينَ (5) (2)
162 ترجمہ: اور کہتے ہیں کہ صاحب دل اور روشن ضمیر لوگوں کے نزدیک طَرِيقِ (راستہ) کو اس وقت تک صِرَاط کا نام نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ وہ امور دین میں سے پانچ امور پر مشتمل نہ ہو اور وہ یہ ہیں:.(1) استقامت.(2) یقینی طور پر مقصود تک پہنچنا.(3) اُس کا نزدیک ترین ( راہ ) ہونا.(4) گزرنے والوں کے لئے اس کا وسیع ہونا.(5) سالکوں کی نگاہ میں مقصود تک پہنچنے کے لئے اس راستہ کا متعین کیا جانا.اور صراط کا لفظ کبھی تو خدا تعالیٰ کی طرف مضاف کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کی شریعت ہے اور وہ چلنے والوں کے لئے ہموار راستہ ہے.اور کبھی اسے بندوں کی طرف سے مُضاف کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اس پر چلنے والے اور گزرنے والے اور اسے عبور کرنے والے ہیں.(کرامات الصادقین.رخ جلد 7 صفحہ 137) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.یعنی اے ہمارے - خدا ہمیں رسولوں اور نبیوں کی راہ پر چلا جن پر تیرا انعام اور اکرام ہوا ہے.اب اس آیت سے کہ جو پنج وقتہ نماز میں پڑھی جاتی ہے.ظاہر ہے کہ خدا کا روحانی انعام جو معرفت اور محبت الہی ہے صرف رسولوں اور نبیوں کے ذریعہ سے ملتا ہے نہ کسی اور ذریعہ ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 2 2 صفحہ 134-135 ) حقیقی معانی صراط قرآن شریف نے جیسا کہ جسمانی تمدن کے لئے یہ تاکید فرمائی ہے کہ ایک بادشاہ کے زیر حکم ہو کر چلیں یہی تاکید روحانی تمدن کے لئے بھی کی ہے اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھلاتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.پس سوچنا چاہیئے کہ یوں تو کوئی مومن بلکہ کوئی انسان بلکہ کوئی حیوان بھی خدا تعالیٰ کی نعمت سے خالی نہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ ان کی پیروی کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے لہذا اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ جن لوگوں پر اکمل اور اتم طور پر غمت روحانی کی بارش ہوئی ہے ان کی راہوں کی ہمیں توفیق بخش کہ تاہم ان کی پیروی کریں.سواس آیت میں یہی اشارہ ہے کہ تم امام الزمان کے ساتھ ہو جاؤ.یادر ہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی رسول محدث مجد دسب داخل ہیں مگر جو لوگ ارشاد اور ہدایت خلق اللہ کے لئے مامور نہیں ہوتے اور نہ وہ کمالات ان کو دیئے گئے وہ گولی ہوں یا ابدال ہوں امام الزمان نہیں کہلا سکتے.(ضرورت الامام.ریخ جلد 12 صفحہ 494) قرآن کریم اور حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مرشد کے ساتھ مرید کا تعلق ایسا ہونا چاہیئے جیسا عورت کا تعلق مرد سے ہومر شد کے کسی حکم کا انکار نہ کرے اور اس کی دلیل نہ پوچھے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ فرمایا ہے کہ منعم علیہم کی راہ کے مقیدر ہیں انسان چونکہ طبعاً آزادی کو چاہتا ہے پس حکم کر دیا کہ اس راہ کو اختیار کرے.( ملفوظات جلد اول صفحه 404) صراط سے مراد مسیح موعود کی راہ ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سے پایا جاتا ہے کہ جب انسانی کوششیں تھک کر رہ جاتی ہیں تو آخر اللہ تعالی ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے.دعا کامل تب ہوتی ہے کہ ہرقسم کی خیر کی جامع ہو اور شر سے بچاوے بس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں سارے خیر جمع ہیں اور غيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِین میں سب شروں حتی کہ دجالی فتنہ سے بچنے کی دعا ہے.مغضوب سے بالا تفاق یہودی اور الضالین کے نصاری مراد ہیں اب اگر اس میں کوئی رمز اور حقیقت یہ تھی تو اس دعا کی تعلیم سے کیا غرض تھی؟ اور پھر اسی تاکید کہ اس دعا کے بدوں نمازی نہیں ہوتی.اور ہر رکعت میں اس کا پڑھا جانا ضروری قرار دیا بھید اس میں یہی تھا کہ یہ ہمارے زمانہ کی طرف ایما ہے.اس وقت صراط مستقیم یہی ہے جو ہماری راہ ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 397 )
163 پھر خدا جانے کہ کب آدیں یہ دن اور یہ بہار مجھ کو خود اس نے دیا ہے چشمہ توحید پاک تا لگاوے از سر نو باغ دیں میں لالہ زار دوش پر میرے وہ چادر ہے کہ دی اُس یار نے پھر اگر قدرت ہے اے منکر تو یہ چادر اُتار خیرگی سے بدگمانی اس قدر اچھی نہیں ان دنوں میں جبکہ ہے شور قیامت آشکار ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا اب جوش پر نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار پشتی دیوار دیں اور مامن اسلام ہوں نارسا ہے دست دشمن تا بفرق این جدار سے ہے چلی توحید خالق کی ہوا دل ہمارے ساتھ ہیں گومُنہ کریں بک بک ہزار إِسْمَعُوا صَوْتَ السَّمَاءَ جَاءَ المسيح جَاءَ المسيح نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار آسمان بارد نشان الوقت مے گوید زمیں این دو شاہد از پئے من نعره زن چوں بیقرار اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے وقت ہے جلد آؤ اے آوارگان دشت خار اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خُدا جانے کہ کب آدیں یہ دن اور یہ بہار در تمین اردو صفحہ 122 نیا ایڈیشن) (براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 132) آسمان ہماری بعثت کی علت غائی بھی تو یہی ہے کہ رستہ منزل جاناں کے بھولے بھٹکوں ، دل کے اندھوں جزام ضلالت کے مبتلاؤں.ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والے کو رباطنوں کو صراط مستقیم پر چلا کر وصالِ ذات ذوالجلال کا شیریں جام پلایا جاوے اور عرفانِ الہی کے اس نقطہ انتہائی تک اُن کو پہنچایا جاوے تا کہ اُن کو حیات ابدی و راحتِ دائمی نصیب ہو اور جوارِ رحمت ایزدی میں جگہ لے کر مست و سرشارر ہیں.ہماری معیت اور رفاقت کی پاک تاثیرات کے ثمرات حسنہ بالکل صاف ہیں.ہاں ان کے ادراک کے لئے فہیم رسا چاہیئے.ان کے حصول کے لئے رُشد و صفا چاہیئے.ساتھ ہی استقامت کے لئے انتقا چاہیئے ورنہ ہماری جانب سے تو چار دانگ کے عالم کے کانوں میں عرصہ سے کھول کھول کر منادی ہو رہی ہے.بیامدم که ره صدق را درخشانم صدق را درخشانم بدلستاں بُرم آنرا که پارسا باشد کیکہ سایہ بال ہماش سود نداد بیایدش که دو روزے بظل ما باشد گلے کہ روئے خزاں راگہے نخواهد دید بباغ ماست اگر قسمت رسا باشد (ترجمہ:.میں اس لئے آیا ہوں کہ صدق کی راہ کو روشن کروں اور دلبر کے پاس لے چلوں جو نیک و پارسا ہے.وہ شخص جسے بال ہما نے بھی فائدہ نہ دیا ہو.اسے چاہئے کہ دو دن ہمارے زیر سایہ رہے.وہ پھول جو کبھی خزاں کا منہ نہیں دیکھے گا.وہ ہمارے باغ میں ہے اگر تیری قسمت یا ور ہو.) ہم نے تو اس مائدہ الہی کو ہر کس و ناکس کے آگے رکھنے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑ ا مگر آگے اُن کی اپنی قسمت - وما علینا الا البلاغ - ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 466) اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی کہ تم پنج وقت نمازوں میں یہ دعا پڑھا کرو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی اے ہمارے خدا اپنے منعم علیہم بندوں کی ہمیں راہ بتا وہ کون ہیں نبی اور صدیق اور شہید اور صلحاء.اس دعا کا خلاصہ مطلب یہی تھا کہ ان چاروں گروہوں میں سے جس کا زمانہ تم پاؤ اُس کے سایہ صحبت میں آجاؤ اور اُس سے فیض حاصل کرو.( آئینہ کمالات اسلام - رخ جلد 5 صفحہ 612)
164 مکالمہ الہی کا اگر انکار ہو تو پھر اسلام ایک مردہ مذہب ہوگا.اگر یہ دروازہ بھی بند ہو تو اس اُمت پر قہر ہوا خیر الامم نہ ہوئی.اور اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دعا بے سود ٹھہری.تعجب ہے کہ یہود تو یہ امت بن جاوے اور مسیح ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 53 حاشیہ) دوسروں سے آوے.اراده ازلی این زمان و وقت آورد تو چیستی که زتو رو این قضا باشد مرد خدا کا از ملی ارادہ یہ زمانہ اور یہ وقت لایا ہے تو ہے کیا چیز کہ اس قضا وقد ر کو پلٹ دے.بے خردی نزد ما بیا و نشیں که ظلِ اہل صفا موجب شفا باشد بے وقوفی سے چلا نہ جابلکہ ہمارے پاس آکر بیٹھ کہ اہل اللہ کا سایہ شفا کا موجب ہوا کرتا ہے.حلقه ابرار باش روزے چند مگر عنایت قادر گرہ کشا باشد کچھ دن نیکیوں کے حلقہ میں آکر بسر کر شاید اس قادر کی مہربانی تیری گرہ کو کھول دے.زہے خجستہ زمانے کہ سوئے ما آئی زہے نصیب تو گر شوق و التجا باشد وہ کیسا اچھا زمانہ ہو گا جب تو ہماری طرف آئے گا زہے قسمت اگر تجھے شوق اور آرزو پیدا ہو جائے.( تریاق القلوب.رخ جلد 15 صفحه 137 ) ( در شین فاری مترجم صفحه 278) معانی و استقامت استقامت سے کیا مراد ہے؟ ہر ایک چیز جب اپنے عین محل اور مقام پر سودہ حکمت اور استقامت سے تعبیر پاتی ہے مثلاً دور بین کے اجزاء کو اگر جدا جدا کر کے ان کو اصل مقامات سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دیں وہ کام نہ دے گی.غرض وضع الشئی فی محلہ کا نام استقامت ہے یادوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ ہیئت طبعی کا نام استقامت ہے.پس جب تک انسانی بناوٹ کو ٹھیک اسی حالت پر نہ رہنے دیں اور اسے مستقیم حالت میں نہ رکھیں وہ اپنے اندر کمالات نہیں پیدا کر سکتی.دعا کا طریق یہی ہے کہ دونوں اسم اعظم جمع ہوں اور یہ خدا کی طرف جاوے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے خواہ وہ اس کی ہوا و ہوس ہی کا بت کیوں نہ ہو؟ جب یہ حالت ہو جائے تو اس وقت اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ (المؤمن: 61) کا مزا آ جاتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 37) استقامت....وہی ہے جس کو صوفی لوگ اپنی اصطلاح میں فنا کہتے ہیں اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم کے معنے بھی فنا ہی کے کرتے ہیں.یعنی روح، جوش اور ارادے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہو جائیں اواپنے جذبات اور نفسانی خواہشیں بالکل مر جائیں.بعض انسان جو اللہ تعالیٰ کی خواہش اور ارادے کو اپنے ارادوں اور جوشوں پر مقدم نہیں کرتے وہ اکثر دفعہ دنیا ہی کے جوشوں اور ارادوں کی ناکامیوں میں اس دنیا سے اٹھ جاتے ہیں نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے.ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے.اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں.اللہ تعالیٰ نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں اس کی طرف ہی اشارہ فرمایا ہے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ( حم السجدة: 31) یعنی جو لوگ اللہ تعالی کی ربوبیت کے نیچے آگئے اور اس کے اسم اعلی استقامت کے نیچے جب بیضہ بشریت رکھا گیا پھر اس میں اس قسم کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ ملائکہ کا نزول اس پر ہوتا ہے اور کسی قسم کا خوف و حزن اُن کو نہیں رہتا.میں نے کہا ہے کہ استقامت بڑی چیز ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 35 تا 37)
165 اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اُم الادعیہ ہے ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 346) نماز کا (جو مومن کی معراج ہے) مقصود یہی ہے کہ اس میں دعا کی جاوے اور اسی لئے ام الاوعیہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دعا مانگی جاتی ہے.اسلام وہ مذہب ہے جس کے بچے پیرووں کو خدا تعالیٰ نے تمام گزشتہ راست بازوں کا وارث ٹھہرایا ہے اور ان کی متفرق نعمتیں اس امت مرحومہ کو عطا کر دی ہیں.اور اُس نے اس دعا کو قبول کر لیا ہے جو قرآن شریف میں آپ سکھلائی تھی اور وہ اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ہمیں وہ راہ دکھلا.جوان راست بازوں کی راہ ہے.جن پر تو نے ہر یک انعام اکرام کیا ہے.یعنی جنہوں نے تجھ سے ہر ایک قسم کی برکتیں پائی ہیں اور تیرے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہوئے ہیں اور تجھ سے دعاؤں کی قبولیتیں حاصل کی ہیں.اور تیری نصرت اور مدداور راہ نمائی ان کے شامل حال ہوئی ہے اور ان لوگوں کی راہوں سے ہمیں بچا.جن پر تیرا غضب ہے اور جو تیری راہ کو چھوڑ کر اور راہوں کی طرف چلے گئے ہیں.یہ وہ دعا ہے جو نماز میں پانچ وقت پڑھی جاتی ہے اور یہ بتلا رہی ہے کہ اندھا ہونے کی حالت میں دنیا کی زندگی بھی ایک جہنم ہے اور پھر مرنا بھی ایک جہنم ہے اور در حقیقت خدا کا سچا تابع اور واقعی نجات پانے والا وہی ہو سکتا ہے جو خدا کو پہچان لے اور اُس کی ہستی پر کامل ایمان لے آوے اور وہی ہے جو گناہ کو چھوڑ سکتا ہے اور خدا کی محبت میں محو ہوسکتا ہے.لیکچر لاہور.رخ جلد 20 صفحہ 161-162) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے حقیقی معانی اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہئے کہ قرآن شریف کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر اور شرح ہیں ایک جگہ ایک امر بطریق اجمال بیان کیا جاتا ہے.تو دوسری جگہ وہی امر کھول کر بیان کر دیا گیا ہے گویا دوسرا پہلے کی تفسیر ہے.پس اس جگہ جو یہ فرمایا.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو یہ بطریق اجمال ہے لیکن دوسرے مقام پر منعم علیہم کی خود ہی تغییر کر دی ہے.مِنَ النَّبَيِّنَ وَالصِّدِ يُقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ (النساء:70) منعم علیہ چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں نبی ، صدیق ، شہدا اور صالح انبیاء علیہم السلام میں چاروں شانیں جمع ہوتی ہیں کیونکہ یہ اعلیٰ کمال ہے.ہر ایک انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کمالات کے حاصل کرنے کے لیے جہاں تک مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے اس طریق پر جو آنحضرت ﷺ نے اپنے عمل سے دکھا دیا ہے کوشش کرے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 236) غور سے قرآن کریم کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ پہلی ہی سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے دعا کی تعلیم دی ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.دعا تب ہی جامع ہو سکتی ہے کہ وہ تمام منافع اور مفاد کو اپنے اندر رکھتی ہو اور تمام نقصانوں اور مضرتوں سے بچاتی ہو.پس اس دعا میں بہترین منافع جو ہو سکتے ہیں اور ممکن ہیں وہ اس دعا میں مطلوب ہیں اور بڑی سے بڑی نقصان رساں چیز جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے اُس سے بچنے کی دعا ہے میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ منعم علیہ چار قسم کے لوگ ہیں.اول نبی ، دوم صدیق، سوم شہید، چہارم صالحین.پس اس دعا میں گویا ان چاروں گروہوں کے
166 کمالات کی طلب ہے نبیوں کا عظیم الشان کمال یہ ہے کہ وہ خدا سے خبریں پاتے ہیں.چنانچہ قرآن شریف میں آیا ب فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبَةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولِ (الجن :27-28) یعنی خدا تعالیٰ کے غیب کی باتیں کسی دوسرے پر ظاہر نہیں ہوتیں ہیں ہاں اپنے نبیوں میں سے جس کو وہ پسند کرے.جولوگ نبوت کے کمالات سے حصہ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو قبل از وقت آنے والے واقعات کی اطلاع دیتا ہے اور یہ بہت بڑا عظیم الشان نشان خدا کے مامور اور مرسلوں کا ہوتا ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی معجزہ نہیں.کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہے ( ملفوظات جلد اول صفحہ 274) اگر یہی سچ ہے کہ خدا تعالیٰ تمام برکتوں اور امامتوں اور ولا تیوں پر مہر لگا چکا ہے اور آئندہ بکلی وہ راہیں بند ہیں تو خدا تعالیٰ کے بچے طالبوں کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دل توڑنے والا واقعہ نہ ہوگا گویا وہ جیتے ہی مرگئے اور ان کے ہاتھ میں بجز چند خشک قصوں کے اور کوئی مغز اور بات نہیں اور اگر شیعہ لوگ اس عقیدہ کو سچ مانتے ہیں تو پھر کیوں پنج وقت نماز میں یہ دعا پڑھتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کیونکہ اس دعا کے تو یہ معانی ہیں کہ اے خدائے قادر ہم کو وہ راہ اپنے قرب کا عنایت کر جو تو نے نبیوں اور اماموں اور صدیقوں اور شہیدوں کو عنایت کیا تھا.پس یہ آیت صاف بتلاتی ہے کہ کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا اس عاجز نے اسی راہ کے اظہار ثبوت کے لیے بیس ہزار اشتہار مختلف دیار وامصار میں بھیجا ہے.اگر یہ برکت نہیں تو پھر اسلام میں فضلیت ہی کیا ہے.( 1 ) مکتوبات احمد جلد 5 نمبر 5 صفحہ 2-3 مکتوب نمبر 1 ) (2) اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 50 سوانح حضرت نواب محمد علی خان صاحب ) چوں گمانے کنم اینجا مدد روح قدس که مرا در دل شاں دیو نظر می آید میں یہاں روح القدس کی مدد کا گمان کیونکر کر سکتا ہوں کہ مجھے تو ان کے دل میں دیو بیٹھا ہوا نظر آتا ہے.این مدد هاست در اسلام چو خورشید عیاں کہ بہر عصر مسیحائے دگر می آید اسلام میں یہ امدا د سورج کی طرح ظاہر ہے کہ ہر زمانہ کے لیے نیا مسیحا آتا ہے.سرمه چشمه آریہ - رخ جلد 2 صفحہ 287 حاشیہ) یاد رکھو کہ خدا کے فیوض بے انتہا ہیں جو ان کو محدود کرتا ہے.وہ اصل میں خدا کو محدود کرتا ہے.اور اس کی کلام کو عبث قرار دیتا ہے وہی بتلا دے کہ اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں جب وہ انہی کمالات اور انعامات کو طلب کرتا ہے جو کہ سابقین پر ہوئے تو اب ان کو محدود کیسے مانتا ہے اگر وہ محدود ہیں اور بقول شیعہ بارہ امام تک ہی رہے تو پھر سورۃ فاتحہ کونماز میں کیوں پڑھتا ہے وہ تو اس کے عقیدے کے خلاف تعلیم کر رہی ہے.اور خدا کو ملزم گر دانتی ہے کہ ایک طرف تو وہ خود ہی کمالات کو بارہ امام تک ختم کرتا ہے اور پھر لوگوں کو قیامت تک ان کے طلب کرنے کی تعلیم دیتا ہے.دیکھو مایوس ہونا مومن کی شان نہیں ہوتی اور ترقیات اور مراتب قرب کی کوئی حد بست نہیں ہے یہ بڑی غلطی ہے کہ کسی فرد خاص پر ایک بات قائم کر دی جائے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 64)
167 ہر زمانے میں خدا تعالیٰ کے کلام کے زندہ ثبوت موجود ہوتے ہیں افسوس ان لوگوں کی عقلوں کو کیا ہوا یہ کیوں نہیں سمجھتے ؟ کیا قرآن میں جواهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحہ: 6-7) تھا یہ یونہی ایک بے معنی اور بے مطلب بات تھی.اور نرا ایک قصہ ہی قصہ ہے؟ کیا وہ انعام کچھ نہ تھا خدا نے نرا دھوکا ہی دیا ہے؟ اور وہ اپنے بچے طالبوں اور صادقوں کو بدنصیب ہی رکھنا چاہتا ہے؟ کس قدر ظلم ہے اگر یہ خدا کی نسبت قرار دیا جائے کہ وہ نری لفاظی سے ہی کام لیتا ہے.حقیقت یہ نہیں ہے یہ ان لوگوں کی اپنی خیالی باتیں ہیں قرآن شریف در حقیقت انسان کو ان مراتب اور اعلیٰ مدارج پر پہنچانا چاہتا ہے جو انعَمتَ عَلَيْهِمْ کے مصداق لوگوں کو دیئے گئے تھے اور کوئی زمانہ ایسا نہیں ہوتا جب کہ خدا تعالیٰ کے کلام کے زندہ ثبوت موجود نہ ہوں.ہمارا یہ مذہب ہر گز نہیں کہ آریوں کی طرح خدا کا پریمی اور بھگت کتنی ہی دعائیں کرے اور رو رو کر اپنی جان کھوئے اور اس کا کوئی نتیجہ نہ ہو اسلام خشک مذہب نہیں ہے اسلام ہمیشہ ایک زندہ مذہب ہے اور اس کے نشانات اس کے ساتھ ہیں پیچھے رہے ہوئے نہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 550) ہے غضب کہتے ہیں اب وحی خدا مفقود ہے اب قیامت تک ہے اس اُمت کا قصوں پر مدار عقیده برخلاف گفته دادار ہے! پر اُتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار تور دل جاتا رہا اک رسم دیں کی رہ گئی پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلح دیں کیا بکار راگ وہ گاتے ہیں جس کو آسماں گاتا نہیں وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلاف شہر یار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 137) اصلی نعمت ( جس پر قوت ایمان اور اعمال صالحہ موقوف ہیں ) خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ ہے جس کے ذریعہ سے اول اس کا پتہ لگتا ہے اور پھر اس کی قدرتوں سے اطلاع ملتی ہے اور پھر اس اطلاع کے موافق انسان ان قدرتوں کو بچشم خود دیکھ لیتا ہے.یہی وہ نعمت ہے جو انبیاء علیہم السلام کو دی گئی تھی اور پھر اس امت کو حکم ہوا کہ اس نعمت کو تم مجھ سے مانگو کہ میں تمہیں بھی دوں گا....خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ یہی تو ایک جڑ ہے معرفت کی اور تمام برکات کا سرچشمہ ہے.اگر اس امت پر یہ دروازہ بند ہوتا تو سعادت کے تمام دروازے بند ہوتے.چ گار ہو ضمیمہ براہین احمدیہ.رخ جلد 21 صفحہ 308 309 ) ہے کہ جو پاک ہو جاتے ہیں خدا سے خدا کی خبر لاتے ہیں اگر اُس طرف سے نہ آوے خبر تو ہو جائے راه زیر و زبر جائیں اُس کے تباہ وہ مر جائیں دیکھیں اگر بند راہ ایسا نہیں کہ عاشق سے رکھتا ہو یہ بغض و کیں کہ وہ راحم و عالم الغیب ہے در مشین اردو - نیا ایڈیشن صفحہ 21 ست بچن - رخ جلد 10 صفحہ 166) مگر کوئی معشوق خدا تو پھر پر گماں عیب ہے
168 اگر یہ کہا جائے کہ اس امت پر قیامت تک دروازہ مکالمہ مخاطبہ اور وحی الہی کا بند ہے تو پھر اس صورت میں کوئی امتی نبی کیوں کر کہلا سکتا ہے کیونکہ نبی کے لیے ضروری ہے کہ خدا اس سے ہم کلام ہو تو اس کا یہ جواب ہے کہ اس امت پر یہ دروازہ ہرگز بند نہیں ہے.اور اگر اس امت پر یہ دروازہ بند ہوتا تو یہ امت ایک مردہ امت ہوتی اور خدا تعالیٰ سے دور اور مجبور ہوتی اور اگر یہ دروازہ اس امت پر بند ہوتا تو کیوں قرآن میں یہ دعا سکھلائی جاتی کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - (براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 353) پس اے ست اعتقاد واور کمزور ہمتو گیا تمہیں یہ خیال ہے کہ تمہارے خدا نے جسمانی طور پر تو بنی اسرائیل کے تمام املاک کا تمہیں قائم مقام کر دیا.مگر روحانی طور پر تمہیں قائم مقام نہ کر سکا بلکہ خدا کا تمہاری نسبت اس سے زیادہ فیض رسانی کا ارادہ ہے خدا نے ان کے روحانی جسمانی متاع و مال کا تمہیں وارث بنایا مگر تمہارا وارث کوئی دوسرا نہ ہو گا جب تک قیامت آجاوے.خدا تمہیں نعمت وحی اور الہام اور مکالمات اور مخاطبات الہیہ سے ہرگز محروم نہیں رکھے گا.وہ تم پر وہ سب نعمتیں پوری کرے گا جو پہلوں کو دی گئیں....سو تم صدق اور راستی اور تقویٰ اور محبت ذاتیہ الہیہ میں ترقی کرو اور اپنا کام یہی سمجھو جب تک زندگی ہے پھر خدا تم میں سے جس کی نسبت چاہے گا اس کو کشتی نوح - رخ جلد 19 صفحہ 27) کوئی پادری تو میرے سامنے لاؤ جو یہ کہتا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی پیشگوئی نہیں کی.☆ یا درکھو وہ زمانہ مجھ سے پہلے ہی گذر گیا اب وہ زمانہ آ گیا جس میں خدا یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ رسول محمد عربی جس کو گالیاں دی گئیں.جس کے نام کی بے عزتی کی گئی.جس کی تکذیب میں بدقسمت پادریوں نے کئی لاکھ کتا ہیں اس زمانہ میں لکھ کر شائع کر دیں.وہی سچا اور سچوں کا سردار ہے.اس کے قبول میں حد سے زیادہ انکار کیا گیا.مگر آ خراسی رسول کو تاج عزت پہنایا گیا.اس کے غلاموں اور خادموں میں سے ایک میں ہوں.جس سے خدا مکالمہ مخاطبہ کرتا ہے اور جس پر خدا کے غیوں اور نشانوں کا دروازہ کھولا گیا ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ.جلد 22 صفحہ 286 ) حمد اس کے متعلق ایک الہامی شعر بھی ہے جو یہ ہے.برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے (حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 286 حاشیہ ) اَنْعَمْتَ عَلَيْهِم سے مراد حضرت اقدس اور ان کی جماعت ہے یا درکھنا چاہیئے کہ اس اُمت کے لیے مخاطبات اور مکالمات کا دروازہ کھلا ہے.اور یہ دروازہ گویا قرآن مجید کی سچائی اور آنحضرت ﷺ کی سچائی پر ہر وقت تازہ شہادت ہے اور اس کے لیے خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ ہی میں یہ دعا سکھائی ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ أنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کی راہ کے لیے جو دعا سکھائی تو اس میں انبیاء علیہ السلام کے کمالات کے حصول کا اشارہ ہے اور یہ ظاہر ہے کہ انبیاء علیہ السلام کو جو کمال دیا گیا وہ معرفت الہی ہی کا کمال تھا اور یہ نعمت ان کو مکالمات اور مخاطبات سے ملی تھی اسی کے تم بھی خواہاں ہو.(لیکچر لدھیانہ.رخ جلد 20 صفحہ 286)
169 ایک عزت کا خطاب سورہ فاتحہ سے ایک عزت کا خطاب مجھے عنایت ہوا.وہ کیا ہے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 396 مورخہ 20 فروری 1901ء ) ( تفسیر حضرت اقدس سورۃ فاتحہ جلد 1 صفحہ 283) 14 ستمبر 1899ء کو یہ الہام ہوا: - ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب لَكَ خِطَابُ الْعِزَّةِ.ایک بڑا نشان اسکے ساتھ ہوگا.مجھے امتیازی مرتبہ بخشنے کے لئے خدا نے میرا نام نبی رکھ دیا ہے اور مجھے یہ ایک عزت کا خطاب دیا گیا ہے.“ ( مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مورخہ 23 مئی 1908ء مندرجہ اخبار عام 26 مئی 1908ء) ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 339) منعم علیہ دوگروہ ہیں یہ بھی یادر ہے کہ سورۃ فاتحہ کے عظیم الشان مقاصد میں سے یہ دعا ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.اور جس طرح انجیل کی دعا میں روٹی مانگی گئی ہے اس دعا میں خدا تعالیٰ سے وہ تمام نعمتیں مانگی گئی ہیں جو پہلے رسولوں اور نبیوں کو دی گئی تھیں یہ مقابلہ بھی قابل نظارہ ہے اور جس طرح حضرت مسیح کی دعا قبول ہو کر عیسائیوں کو روٹی کا سامان بہت کچھ مل گیا ہے اسی طرح یہ قرآنی دعا آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے قبول ہوکر اخیار وابرار مسلمان بالخصوص ان کے کامل فردا نبیاء بنی اسرائیل کے وارث ٹھہرائے گئے اور دراصل مسیح موعود کا اس امت میں سے پیدا ہونا یہ بھی اسی دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے کیونکہ گوشفی طور پر بہت سے اختیار وابرار نے انبیاء بنی اسرائیل کی مماثلت کا حصہ لیا ہے مگر اس امت کا مسیح موعود کھلے کھلے طور پر خدا کے حکم اور اذن سے اسرائیلی مسیح کے مقابل کھڑا کیا گیا ہے تا موسوی اور محمدی سلسلہ کی مماثلت سمجھ آ جائے.(کشتی نوح - ر- خ جلد 19 صفحہ 52-53) حسب منطوق آیت شَلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَّةٍ مِنَ الْآخِرِئين (الواقعہ: 40، 41) خالص محمدی گروہ جو ہر ایک پلید ملونی اور آمیزش سے پاک اور تو بہ نصوح سے غسل دیئے ہوئے ایمان اور دقائق عرفان اور علم اور عمل اور تقویٰ کے لحاظ سے ایک کثیر التعداد جماعت ہے یہ اسلام میں صرف دو گروہ ہیں یعنی گروہ اولین وگر وہ آخرین جو صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت سے مراد ہے اور چونکہ حکم کثرت مقدار اور کمال صفائی انوار پر ہوتا ہے اس لیے اس سورۃ میں اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے فقرہ سے مراد یہی دونوں گروہ ہیں یعنی آنحضرت عله مع اپنی جماعت کے اور مسیح موعود مع اپنی جماعت کے.خلاصہ کلام یہ کہ خدا نے ابتدا سے اس امت میں دو گروہ ہی تجویز فرمائے ہیں اور انہی کی طرف سورۃ فاتحہ کے فقرہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں اشارہ ہے (1) ایک اولین جو جماعت نبوی ہے(2) دوسرے آخرین جو جماعت صحیح موعود ہے.(تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 225-226) غرض منعم علیہم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ان کو حاصل کرنا ہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہیئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت ﷺ نے تیار کی تھی تا کہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 237)
170 نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا ہیچ ہے اور محمد ﷺ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کیلئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیاختم نہ ہو جب تک محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (کشتی نوح.رخ جلد 19 صفحہ 14) خدا تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ وہ اس فریق کی راہ خدا تعالیٰ سے طلب کرتے رہیں جو منم علیہم کا فریق ہے اور منعم علیہم کے کامل طور پر مصداق باعتبار کثرت کمیت اور صفائی کیفیت اور نعماء حضرت احدیت از روئے نص صریح قرآنی اور احادیث متواترہ حضرت مرسل یزدانی دو گروہ ہیں ایک گروہ صحابہ اور دوسرا گر وہ جماعت مسیح موعود چونکہ یہ دونوں گروہ آنحضرت ﷺ کے ہاتھ کے تربیت یافتہ ہیں کسی اپنے اجتہاد کے محتاج نہیں وجہ یہ کہ پہلے گروہ میں رسول اللہ ﷺے موجود تھے جو خدا سے براہ راست ہدایت پا کر وہی ہدایت نبوت کی پاک توجہ کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دل میں ڈالتے تھے اور ان کے لیے مربی بے واسطہ تھے.اور دوسرے گروہ میں مسیح موعود ہے جو خدا سے الہام پاتا اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی روحانیت سے فیض اٹھاتا ہے لہذا اس کی جماعت بھی اجتہاد خشک کی محتاج نہیں ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 224) اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں وعدہ مثیل وظل انبیاء ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ.اس جگہ تمام مفسر قائل ہیں کہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی ہدایت سے غرض تشبہ بالا نبیاء ہے جو اصل حقیقت اتباع ہے.خدا نے انبیاء علیہم السلام کو ہی لئے دنیا میں بھیجا ہے کہ تا دنیا میں اُن کے مثیل قائم کرے اگر یہ بات نہیں تو پھر نبوت لغو ٹھہرتی ہے.نبی اس لئے نہیں آتے کہ اُن کی پرستش کی جائے بلکہ اس لئے آتے ہیں کہ لوگ اُن کے نمونے پر چلیں اور اُن سے تشبہ حاصل کریں اور اُن میں فنا ہو کر گویا وہی بن جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُل إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبكُمُ الله (ال عمران : 32) پس خدا جس سے محبت کرے گا کونسی نعمت ہے جو اس سے اٹھا رکھے گا اور اتباع سے مراد بھی مرتبہ فنا ہے جو مثیل کے درجے تک پہنچاتا ہے اور یہ مسئلہ سب کا مانا ہوا ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کرے گا مگر وہی جو جاہل سفیہ یا ملحد بے دین ہوگا.ایام اسح.رخ جلد 32 صفحہ 411-412) ثُمَّ لَمَّا كَانَ طَرِيقُ طَلَبِ الْهِدَايَةِ وَالتَّصْفِيَةِ لَا يَكْفِي لِلْوُصُولِ مِنْ غَيْرِ تَوَسُّلِ الائِمَّةِ وَالْمَهْدِيِّينَ مِنَ الْأُمَّةِ - مَا رَضِيَ اللهُ سُبْحَانَهُ عَلَى هَذَا الْقَدَرِ مِنْ تَعْلِيمِ الدُّعَاءِ - بَلْ حَتْ بِقَوْلِهِ صِرَاطَ الَّذِينَ عَلَى تَحَسُّسِ الْمُرْشِدِينَ وَالْهَادِينَ مِنْ أَهْلِ الْإِجْتِهَادِ وَالْاِصْطَفَاءِ مِنَ الْمُرْسَلِينَ وَالْأَنْبِيَاءِ - پھر چونکہ تلاش ہدایت اور تصفیہ نفس کا طریق ائمہ اور امت کے ہدایت یافتہ لوگوں کے وسیلہ کے بغیر وصول الی اللہ کے لیے کافی نہیں اس لئے خدا تعالیٰ محض اس قدر ( یعنی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ تک) دعا سکھانے پر راضی نہ ہوا.بلکہ اس نے صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہہ کر اُن مرشدوں اور ہادیوں کی تلاش کی ترغیب دلائی جو صاف باطن اور اجتہاد کرنے والے لوگوں میں سے ہادی اور راہنما ہیں یعنی رسولوں اور نبیوں کی.(اعجاز مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 172)
171 یہ ضرور یاد رکھو کہ اس اُمت کے لیے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پاچکے ہیں پس منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیشگوئیاں ہیں جن کی روسے انبیاء علیہ السلام نبی کہلاتے رہے لیکن قرآن شریف بجو نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُول (الجن : ع2) سے ظاہر ہے.پس مصفا غیب پانے کے لیے نبی ہونا ضروری ہوا اور آیت اَنْعَمْتَ عَلیہم گواہی دیتی ہے کہ اس مصفا غیب سے یہ امت محروم نہیں اور مصفا غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اور وہ طریق براہ راست بند ہے.اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ اس موہبت کے لیے محض بروز اور ظلیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے.(ایک غلطی کا ازالہ رخ جلد 18 صفحہ 209) سورۃ فاتحہ میں تمہیں دعا سکھلائی گئی ہے.یعنی یہ دعا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ علیہم پس جبہ خدا تمہیں یہ تاکید کرتاہے کہ پنج وقت یہ دعا کرو کہ نعمتیں جو نیوں اور رسولوں کے پاس ہیں.وہ تمہیں بھی ملیں پس تم بغیر نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ کے وہ نعمتیں کیونکر پاسکتے ہو لہذا ضرور ہوا کہ تمہیں یقین اور محبت کے مرتبہ پر پہونچانے کے لئے خدا کے انبیاء وقتا بعد وقت آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاؤ.(لیکچر سیالکوٹ.رخ جلد 2 صفحہ 227) خلی اور بروزی نبوت دائمی ہے وَإِنَّهُمْ نُورُ اللهِ وَيُغطى بِهِمْ نُورٌ لِلْقُلُوبِ وَتِرْيَاقٌ لِسَمَ الذُّنُوبِ وَسَكِيْنَةٌ عِنْدَ الْاِحْتِضَارَ وَالْغَرُ غَرَةِ وَثَبَاتٌ عِنْدَ الرّحْلَةِ وَتَرَكِ الدُّنْيَا الدَّنِيَّةِ - أَتَظُنُّ أَن يَكُونَ الْغَيْرُ كَمِثْلِ هَذِهِ الْفِئَةِ الْكَرِيمَةِ - كَلَّا وَالَّذِى اَخْرَجَ الْعَدْقَ مِنَ الْجَرِيمَةِ وَلِذَالِكَ عَلَّمَ اللهُ هذَ الدُّعَاءَ مِنْ غَايَةِ الرَّحْمَةِ - وَأَمَرَ الْمُسْلِمِينَ أَنْ يَطْلُبُوا صِرَاطَ الَّذِيْنِ أَنْعَمَ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ مِنَ الْحَضْرَةِ وَقَدْ ظَهَرَ مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ عَلَى كُلَّ مَنْ حَةٌ مِّنَ الدِرَايَةِ - أَنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَدْ بُعِثَتُ عَلى قَدَمِ الْأَنْبِيَاءِ - وَإِنْ مِّنْ نَّبِيِّ إِلَّا لَهُ مَثِيلٌ فِي هَؤُلاءِ - وَلَوْلَا هَذِهِ الْمُضَاهَاةُ وَالسَّوَاءُ لَبَطَلَ طَلَبُ كَمَالِ السَّابِقِيْنَ وَبَطَلَ الدُّعَاءُ فَاللَّهُ الَّذِي أَمَرَنَا أَجْمَعِينَ - أَنْ نَقُولُ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ مُصَلِّينَ وَمُمْسِيْنَ وَمُصْبِحِيْنَ - وَإِنْ نَطْلُبَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمَ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ - أَشَارَ إِلَى أَنَّهُ قَدْ قَدَّرَ مِنَ الْاِبْتِدَاءِ - أَنْ يُبْعَثُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْضَ الصَّلَحَاءِ عَلى قَدَمِ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْ يَسْتَخْلِفَهُمْ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلُ مِنْ بَنِي إسْرَائِيلَ - وَإِنَّ هَذَا لَهُوَ الْحَقُّ فَاتُرُكِ الْجَدَلَ الْفُضُولَ وَالاَقَاوِيْلَ - وَكَانَ غَرَضُ اللَّهِ أَنْ يَجْمَعَ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ كَمَالَاتٍ مُّتَفَرِّقَةٌ وَّأَخْلَاقًا مُّتَبَدِّدَةٌ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کا ایک نور ہیں اور ان کے ذریعہ (لوگوں کے ) دلوں کو روشنی اور گناہوں کے زہر کے لئے تریاق دیا جاتا ہے اور جان کندنی اور غرغرہ کے وقت سکینت اور رحلت اور اس حقیر دنیا کو ترک کرنے کے وقت ثبات عطا کیا جاتا ہے.کیا تو خیال کرتا ہے کہ کوئی اور بھی اس صاحب شرف جماعت جیسا ہوسکتا ہے؟ مجھے اُس ذات کی قسم جس نے گٹھلی سے کجھور کا درخت پیدا کیا (اس جماعت جیسا) ہرگز نہیں ( ہوسکتا ) اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنی انتہائی رحمت سے یہ دعا سکھائی اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ وہ خدا تعالیٰ سے ان لوگوں کا راستہ طلب کریں جن
172 پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں اور رسولوں کا راستہ.اس آیت سے ہر اُس شخص پر جسے سمجھ بوجھ کا کچھ حصہ ملا ہے واضح ہو جاتا ہے کہ اس اُمت کو نبیوں کے قدم پر قائم کیا گیا ہے اور ایسا کوئی نبی نہیں جس کا مثیل اس اُمت میں نہ پایا جاتا ہو.اگر یہ مشابہت اور مماثلت نہ ہوتی تو پہلوں جیسے کمال کا طلب کرنا بھی عبث ٹھہرتا اور دعا بھی باطل ہو جاتی.پس اللہ تعالیٰ جس نے ہم سب کو نماز پڑھتے وقت اور صبح کے وقت اور شام کے وقت اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعامانگنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ منعم علیہ گروہ یعنی نبیوں اور رسولوں کا راستہ طلب کرتے رہیں.اس میں یہ اشارہ ہے کہ اُس نے شروع سے ہی مقدر کر رکھا ہے کہ بعض نیک لوگوں کو نبیوں کے نقش قدم پر اس اُمت میں معبوث کرتا رہے گا اور اُنہیں اُسی طرح خلیفہ بنا دے گا جیسا کہ اُس نے اس سے پہلے بنی اسرائیل سے خلفاء بنائے تھے.اور یقیناً یہی (بات) حق ہے.پس تو فضول جھگڑے اور قیل وقال چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ کا منشا یہ تھا کہ اس اُمت میں مختلف کمالات اور گونا گوں اخلاق جمع کر دے.اعجاز یح.رخ جلد 18 صفحہ 174 تا 176) انبیاء من حيث الظل باقی رکھے جاتے ہیں اور خدا تعالی ظلی طور پر ہر یک ضرورت کے وقت میں کسی اپنے بندہ کو اُن کی نظیر اور مثیل پیدا کر دیتا ہے جو انہیں کے رنگ میں ہو کر ان کی دائمی زندگی کا موجب ہوتا ہے اور اسی ظلی وجود کے قائم رکھنے کے لیے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ شہادت القرآن.رخ جلد 6 صفحہ 351 تا 352) أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ نور دل جاتا رہا اک رسم دیں کی رہ گئی پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلح دیں کیا بکار راگ وہ گاتے ہیں جس کو آسماں گاتا نہیں وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلاف شہریار در مشین اردو صفحه 105 ) ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 132 ) إِنَّ الْمُعْجِزَاتِ تَقْتَضِي الْكَرَامَاتِ لِيَبْقَى أَثَرُهَا إِلَى يَوْمِ الدِّينِ وَإِنَّ الَّذِينَ وَرِثُوا نَبِيَّهُمُ يُعْطَوْنَ مِن نِّعَمِهِ عَلَى الطَّرِيقَةِ الظَّلِيَّةِ وَلَوْلَا ذَلِكَ لَبَطَلَتْ فُيُوضُ النُّبُوَّةِ - ( ترجمہ ) معجزات چاہتے ہیں کرامات کو تا کہ اُن کا نشان قیامت تک باقی رہے اور اپنے نبی علیہ السلام کے وارثوں کو بطور ظلیت کے آپ کی نعمتیں مرحمت ہوتی ہیں اور اگر یہ قاعدہ جاری نہ رہتا تو نبوت کے فیض بالکل باطل ہو جاتے.ہم الھدی - ر خ جلد 18 صفحہ 275 274) از نور نمایان محمد الا اے منکر از شان محمد خبر دار ہو جا! اے وہ شخص جومہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان نیز محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے چمکتے ہوئے نور کا منکر ہے.بیا کرامت گرچه بے نام و نشان است بنگر ز غلمان محمد اگر چہ کرامت اب مفقود ہے.مگر تو آ اور اسے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں دیکھ لے.درشین فارسی صفحه 193 ) ( آئینہ کمالات اسلام.ر.خ.جلد 5 صفحہ 649)
173 نبوت محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے.اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے.اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے مکالمہ مخاطبہ کا اس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا.....اور جب کہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو.اور کھلے طور پر امور غیبیہ پرمشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے.جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے پس یہ ممکن نہ تھا کہ وہ قوم جس کے لیے فرمایا گیا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران: 111) اور جن کے لیے یہ دعا سکھائی گئی که اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ.ان کے تمام افراد اس مرتبہ عالیہ سے محروم رہتے اور کوئی ایک فرد بھی اس مرتبہ کونہ پاتا اور ایسی صورت میں صرف یہی خرابی نہیں تھی کہ امت محمدیہ ناقص اور نا تمام رہتی اور سب کے سب اندھوں کی طرح رہتے بلکہ یہ بھی نقص تھا کہ آنحضرت ﷺ کی قوت فیضان پر داغ لگتا تھا اور آپ کی قوت قدسیہ ناقص ٹھہر تی تھی اور ساتھ اس کے وہ دعا جس کا پانچ وقت نماز میں پڑھنا تعلیم کیا گیا ہے.اس کا سیکھلا نا بھی عبث ٹھہرتا تھا.ی تعلیم دے کر کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تمام بچے طالبوں کو خوش خبری دی کہ وہ اپنے رسول مقبول کی تبعیت سے اُس علم ظاہری اور باطنی تک پہنچ سکتے ہیں کہ جو بالا صالت خدا کے نبیوں کو دیا گیا انہیں معنوں کر کے تو علماء وارث الانبیاء کہلاتے ہیں اور اگر باطنی علم کا ورثہ اُن کو نہیں مل سکتا تو پھر وہ وارث کیوں کر اور کیسے ہوئے.(براہین احمدیہ -رخ جلد 1 صفحہ 256 حاشیہ نمبر 1) حضرت اقدس کی بعثت بطور بروز آنحضرت ﷺ ہے صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (رسالہ الوصیت.رخ جلد 20 صفحہ 312311) نیکوں اور بدوں کے بروز ہوتے ہیں نیکوں کے بروز میں جو موعود ہے وہ ایک ہی ہے یعنی مسیح موعود ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِہم سے نیکوں کا بروز اور ضالین سے عیسائیوں کا بروز اور مغضوب سے یہودیوں کا بروز مراد ہے اور یہ عالم بروزی صفت میں پیدا کیا گیا ہے جیسے پہلے نیک یا بد گزرے ہیں ان کے رنگ اور صفات کے لوگ اب بھی ہیں خدا تعالیٰ ان اخلاق اور صفات کو ضائع نہیں کرتا ان کے رنگ میں اور آجاتے ہیں جب یہ امر ہے تو ہمیں اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ابرار اور اخیار اپنے اپنے وقت پر ہوتے رہیں گے.اور یہ سلسلہ قیامت تک چلا جاوے گا جب یہ سلسلہ ختم ہو جاوے گا تو دنیا کا بھی خاتمہ ہے لیکن وہ موعود جس کے سپر و عظیم الشان کام ہے وہ ایک ہی ہے کیونکہ جس کا وہ بروز ہے یعنی محمد ﷺ وہ بھی ایک ہی ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 460)
174 ساقی من هست آن جاں پرورے ہر زماں مستم کند از ساغری وہی روح پرور شخص تو میرا ساقی ہے جو ہمیشہ جام شراب سے مجھے سرشار رکھتا ہے محو روئے او شد است این روئے من ہوئے او آید زبام و کوئے من یہ میرا چہرہ اُس کے چہرہ میں مواور گم ہو گیا اور میرے مکان اور کوچہ سے اُسی کی خوشبو آ رہی ہے بکه من در عشق او هستم نہاں من همانم - من همانم ـ من ہماں از بسکہ میں اُس کے عشق میں غائب ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں - جان من از جان او یا بد غذا از گریبانم عیاں شد آں ذکا ! میری روح اُس کی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریبان سے وہی سورج نکل آیا ہے احمد اندر جان احمد شد پدید اسم من گر دید اسم آں وحید احمد کی جان کے اندراحمد ظاہر ہو گیا اس لئے میرا وہی نام ہو گیا جو اس لاثانی انسان کا نام ہے (سراج منیر - رخ جلد 12 صفحہ 97) نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد ﷺ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کیلئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کا ر اُس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.(کشتی نوح - رخ جلد 19 صفحہ 14) لَا شَكٍّ أَنَّ سَيِّدَنَا سَيِّدَ الأَنَامِ وَصَدْرَ الْإِسْلَامِ كَانَ مَثِيْلَ مُوسَى - فَاقْتَضَتْ رِعَايَةُ الْمُقَابَلَةِ أَن يُبْعَثَ فِي آخِرِ زَمَنِ الْأُمَّةِ مَثِيلُ عِيسَى وَإِلَيْهِ أَشَارَ رَبُّنَا فِي الصُّحُفِ الْمُطَهَّرَةِ - فَإِنْ شِئْتُمْ فَفَكَّرُوْا فِي سُوْرَةِ النُّورِ وَالتَّحْرِيمِ وَالْفَاتِحَةِ- هَذَا مَا كَتَبَ رَبُّنَا الَّذِي لَا يَبْلُغُ عِلْمَهُ الْعَالِمُونَ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ تُؤْمِنُونَ - تر جمعہ.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے آقا سرور کائنات اور بانی اسلام ﷺ حضرت موسیٰ کے مینٹل تھے.اسی تقابل کی مناسبت نے اس بات کا تقاضا کیا کہ اس اُمت کے آخری زمانہ میں حضرت عیسی کا ایک مثیل مبعوث ہو اسی کی طرف خدا تعالیٰ نے پاک صحیفوں میں اشارہ فرمایا ہے.اگر تم چاہو تو سُورہ نور، سُورہ تحریم اور سُورہ فاتحہ میں غور کرو یہ ہمارے رب کا نوشتہ ہے جس کو عالم لوگ از خود نہیں جان سکتے.پھر تم اس کے بعد کس بات پر ایمان لاؤ گے.(مواہب الرحمن - رخ جلد 19 صفحہ 278 279)
175 اس آیت میں حضرت اقدس کا ذکر ایک دعا کے اعتبار سے سورۃ فاتحہ میں دعا مانگی گئی ہے اور یہ دعا جس وقت اکٹھی پڑھی جاتی ہے یعنی اس طرح پر کہا جاتا ہے کہ اے خدا ہمیں منعم علیہم میں داخل کرا اور مغضوب علیہم اور ضالین سے بچا تو اُس وقت صاف سمجھ آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے علم میں منعم علیہم میں سے ایک وہ فریق ہے جو مغضوب علیہم اور ضالین کا ہمعصر ہے اور جبکہ مغضوب علیہم سے مراد اس سورۃ میں بالیقین وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود سے انکار کرنے والے اور اس کی تکفیر اور تکذیب اور توہین کرنے والے ہیں تو بلا شبہ ان کے مقابل پر منعم علیہم سے وہی لوگ اس جگہ مرا در کھے گئے ہیں جو صدق دل سے مسیح موعود پر ایمان لانے والے اور اُس کی دل سے تعظیم کرنے والے اور اسکے انصار ہیں اور دنیا کے سامنے اسکی گواہی دیتے ہیں.رہے ضالین.پس جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں آنحضرت ﷺ کی شہادت اور تمام اکابر اسلام کی شہادت سے ضالین سے مراد عیسائی ہیں.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 228-229) یہ بھی یادر ہے کہ سورۃ فاتحہ کے عظیم الشان مقاصد میں سے یہ دعا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور جس طرح انجیل کی دعا میں روٹی مانگی گئی ہے اس دعا میں خدا تعالیٰ سے وہ تمام نعمتیں مانگی گئی ہیں جو پہلے رسولوں اور نبیوں کو دی گئیں تھیں یہ مقابلہ بھی قابل نظارہ ہے اور جس طرح حضرت مسیح کی دعا قبول ہوکر عیسائیوں کو روٹی کا سامان بہت کچھ مل گیا ہے اسی طرح یہ قرآنی دعا آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے قبول ہو کر اخیار و ابرار مسلمان بالخصوص ان کے کامل فرد انبیاء بنی اسرائیل کے وارث ٹھہرائے گئے اور دراصل مسیح موعود کا اِس اُمت میں سے پیدا ہونا یہ بھی اسی دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے کیونکہ گوشفی طور پر بہت سے اختیار وابرار نے انبیاء بنی اسرائیل کی مماثلت کا حصہ لیا ہے مگر اس امت کا مسیح موعود کھلے کھلے طور پر خدا کے حکم اور اذن سے اسرائیلی مسیح کے مقابل کھڑا کیا گیا ہے تا موسوی اور محمدی سلسلہ کی مماثلت سمجھ آجائے.(کشتی نوح.رخ جلد 19 صفحہ 52-53) میں بیان کر چکا ہوں کہ سورۃ فاتحہ میں تین دعائیں سکھلائی گئی ہیں (۱) ایک یہ دعا کہ خدا تعالیٰ اس جماعت میں داخل رکھے جو صحابہ کی جماعت ہے اور پھر اس کے بعد اس جماعت میں داخل رکھے جو سیح موعود کی جماعت ہے جن کی نسبت قرآن شریف فرماتا ہے وآخرين منهم لما يلحقوا بهم (الجمعة:4) - غرض اسلام میں یہی دو جماعتیں منعم علیہم کی جماعتیں ہیں اور انہی کی طرف اشارہ ہے آیت صراط الذین انعمت علیھم میں کیونکہ تمام قرآن پڑھ کر دیکھو جماعتیں دوہی ہیں.ایک صحابہ کی جماعت.دوسری وآخرین منھم کی جماعت جو صحابہ کے رنگ میں ہے اور وہ مسیح موعود کی جماعت ہے.پس جب تم نماز میں یا خارج نماز کے یہ دعا پڑھو کہ اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت عليهم تو دل میں یہی ملحوظ رکھو کہ میں صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت کی راہ طلب کرتا ہوں.یہ تو سورۃ فاتحہ کی پہلی دعا ہے (2) دوسری دعا غیر المغضوب علیہم
176 ہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود کو دکھ دینگے اور اس دعا کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورة تبت یدا ابی لھب ہے (3) تیسری دعا ولا الضالین ہے اور اس کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورۃ اخلاص ہے یعنی قل هو الله احد الله الصمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احد اور اس کے بعد دو اور سورتیں جو ہیں یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں سورۃ تبت اور سورۃ اخلاص کیلئے بطور شرح کے ہیں اور ان دونوں سورتوں میں اس تاریک زمانہ سے خدا کی پناہ مانگی گئی ہے جب کہ لوگ خدا کے مسیح کو دکھ دیں گے اور جب کہ عیسائیت کی ضلالت تمام دنیا میں پھیلے گی.تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 217 218) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سے پایا جاتا ہے کہ جب انسانی کوششیں تھک رہ جاتی ہیں تو آخر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے.دعا کامل تب ہوتی ہے کہ ہر قسم کی خیر کی جامع ہو اور ہر شر سے بچاوے پس اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں ساری خیر جمع ہیں اور غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ میں سب شروں حتی کہ دجالی فتنہ سے بچنے کی دعا ہے.مغضوب سے بالا تفاق یہودی اور الضالین سے نصاری مراد ہیں اب اگر اس میں کوئی رمز اور حقیقت نہ تھی تو اس دعا کی تعلیم سے کیا غرض تھی ؟ اور پھر ایسی تاکید کہ اس دعا کے بدوں نماز ہی نہیں ہوتی.اور ہر رکعت میں اس کا پڑھا جانا ضروری قرار دیا بھید اس میں یہی تھا کہ یہ ہمارے زمانہ کی طرف ایما ہے.اس وقت صراط مستقیم یہی ہے جو ہماری راہ ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 397 396 )
177 غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ معافی مغضوب علیہم یہود ایک قوم کا نام ہے جو حضرت موسی کی امت کہلائی ان بدقسمتوں نے شوخیاں کی تھیں.سب نبیوں کو دکھ دیا.یہ قاعدے کی بات ہے کہ جو کسی بدی میں کمال تک پہنچتا ہے اور نامی ہو جاتا ہے تو پھر اس بدی میں اسی کا نام لیا جاتا ہے.ڈا کو تو کئی ہوئے مگر بعض ڈا کو خصوصیت سے مشہور ہیں.دیکھو ہزاروں پہلوان گزرے ہیں مگر رستم کا نام ہی مشہور ہے.یہ یہود چونکہ اول درجے کے شرارت کرنے والے تھے اور نبیوں کے سامنے شوخیاں کرتے.اس لئے ان کا نام مغضوب علیہم ہو گیا یوں تو مغضوب علیہم اور بھی ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 389-390) اگر کوئی ہم سے سیکھے تو سارا قرآن ہمارے ذکر سے بھرا ہوا ہے ابتداہی میں ہے صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِین - اب ان سے کوئی پوچھے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ کونسا فرقہ تھا تمام فرقے اسلام کے اس بات پر متفق ہیں کہ وہ یہودی تھے اور ادھر حدیث شریف میں ہے کہ میری امت یہودی ہو جائے گی تو پھر بتلاؤ کہ اگر مسیح نہ ہو گا تو وہ یہودی کیسے بنیں گے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 583) المغضوب علیھم سے مراد مولوی فرقہ ہے یہ بات بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ انجیل اور قرآن شریف میں جہاں یہودیوں کا کچھ خراب حال بیان کیا ہے وہاں دنیا داروں اور عوام کا تذکرہ نہیں بلکہ اُن کے مولوی اور فقیہ اور سردار کا ہن مراد ہیں جن کے ہاتھ میں کفر کے فتوے ہوتے ہیں اور جن کے وعظوں پر عوام افروختہ ہو جاتے ہیں اسی واسطے قرآن شریف میں ایسے یہودیوں کی اس گدھے سے مثال دی ہے جو کتابوں سے لدا ہوا ہو.ظاہر ہے کہ عوام کو کتابوں سے کچھ سروکار نہیں کتا ہیں تو مولوی لوگ رکھا کرتے ہیں.لہذا یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ جہاں انجیل اور قرآن اور حدیث میں یہودیوں کا ذکر ہے وہاں ان کے مولوی اور علماء مراد ہیں اور اسی طرح غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے لفظ سے عام مسلمان مراد نہیں ہیں بلکہ ان کے مولوی مراد ہیں.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 329 تا330) ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 297) غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد مولوی ہیں کیونکہ ایسی باتوں میں اول نشانہ مولوی ہی ہوا کرتے ہیں دنیا داروں کو تو دین سے تعلق ہی کم ہوتا ہے.المغضوب علیھم سے مراد مسیح موعود کے دشمن ہیں اس لئے قرآنی اصطلاح میں اُن کا نام مغضوب علیہم ہے.اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں حقیقی مصداق اس نام کا ان یہودیوں کو ٹھہرایا ہے جنہوں نے حضرت عیسی کو نابود کرنا چاہا تھا.پس ان کے دائمی غضب کے مقابل پر خدا نے بھی ان کو دائمی غضب کے وعید سے پامال کیا جیسا کہ آیت و جاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا الى يوم القيامة (ال عمران : 56) سے سمجھا جاتا ہے اس قسم کا غضب جو قیامت تک منقطع نہ ہو اس کی نظیر قرآن شریف میں بحر حضرت مسیح کے دشمنوں کے یا آنے والے مسیح موعود کے دشمنوں کے اور کسی قوم کے لئے نہیں پائی جاتی اور مغضوب علیہم کے لفظ میں دنیا کے غضب کی وعید ہے جو دونوں مسیحوں کے دشمنوں کے متعلق ہے.یہ ایسی نص صریح ہے کہ اس سے انکار قرآن سے انکار ہے.(تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 214)
178 ان معنوں کے لئے یہ قرینہ کافی ہے کہ مغضوب علیہم صرف اُن یہودیوں کا نام ہے جنہوں نے حضرت مسیح کو ایزادی تھی اور حدیثوں میں آخری زمانہ کے علماء کا نام یہود رکھا گیا ہے یعنی وہ جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی تکفیر و توہین کی تھی اور اس دعا میں ہے کہ یا الہی ہمیں وہ فرقہ مت بنا جن کا نام مغضوب علیہم ہے.پس دعا کے رنگ یا بنا میں یہ ایک پیشگوئی ہے جو دو خبر پر مشتمل ہے.ایک یہ کہ اس امت میں بھی ایک مسیح موعود پیدا ہوگا اور دوسری یہ پیشگوئی ہے کہ بعض لوگ اس امت میں سے اُس کی تکفیر اور توہین کریں گے اور وہ لوگ مور د غضب الہی ہوں گے اور اس وقت کا نشان یہ ہے کہ فتنہ نصاری بھی ان دنوں میں حد سے بڑھا ہوا ہو گا جن کا نام ضالین ہے اور ضالین پر بھی یعنی عیسائیوں پر بھی اگر چہ خدا تعالیٰ کا غضب ہے کہ وہ خدا کے حکم کے شنوا نہیں ہوئے مگر اس غضب کے آثار قیامت کو ظاہر ہوں گے اور اس جگہ مغضوب علیہم سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر بوجہ تکفیر وتوہین وایز او ارادہ قتل مسیح موعود کے دنیا میں ہی غضب الہی نازل ہوگا یہ میرے جانی دشمنوں کے لیے قرآن کی پیشگوئی ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 213-212) یاد وہ دن جبکہ کہتے تھے یہ سب ارکان دیں مہدی موعودِ حق اب جلد ہوگا آشکار کون تھا جس کی تمنا یہ نہ تھی اک جوش.کون تھا جس کو نہ تھا اس آنیوالے سے پیار پھر وہ دن جب آگئے اور چودھویں آئی صدی سب سے اول ہو گئے منکر یہی دیں کے منار پھر دوبارہ آگئی اخبار میں رسم یہود پھر مسیح وقت کے دشمن ہوئے یہ جبہ دار تھا نوشتوں میں یہی از ابتداء تا انتہاء پھر مئے کیونکر کہ ہے تقدیر نے نقش جدار ( در تین اردو) (براہین احمدیہ حصہ پنجم.ر خ جلد 21 صفحہ 137 138 ) وَتَفْصِيلُ الْمَقَامِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَخْبَرَ عَنْ بَعْضِ الْيَهُودِ فِي السُّورَةِ الْفَاتِحَةِ أَنَّهُمُ كَانُوا مَحَلَّ غَضَبِ اللهِ فِى زَمَنِ عِيسَى ابْنِ الصَّدِيقَةِ فَإِنَّهُمْ كَفَرُوهُ وَادَوْهُ وَآثَارُوْا لَهُ كُلَّ نَوْعِ الْفِتْنَةِ ثُمَّ أَشَارَ إِلَى أَنَّ طَائِفَةٌ مِّنْكُمْ كَمِثْلِهِمْ يُكَفِّرُوْنَ مَسِيحَهُمْ وَيُكَمِلُونَ انْحَاءِ الْمُشَابَهَةِ وَيَفْعَلُونَ بِهِ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ - وَأَنتُمْ تَقْرَثُونَ ايَةَ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ لا تَلْتَفِتُون أَعَلَّمَكُمُ اللهُ هَذِهِ السُّورَةَ عَبَثًا كَوَضْع الشَّيْء فِي غَيْرِ مَحَلِهِ أَوْ كَتَبَهَا ليُرِ جَرِيمَةٍ تَرُتَكِبُونَهَا مَالَكُمْ لَا تُمُعِنُونَ وَمَا غَضِبَ اللَّهُ عَلَى تِلْكَ الْيَهُودِ إِلَّا لِمَا كَفَرُوْا رَسُولَهُ عِیسَی وَكَذَّبُوهُ وَشَتَمُوهُ وَكَادُوا لَن يَقْتُلُوهُ مِنَ الْحَسَدِ وَالْهَوَى وَقَدْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ قَدَرُ اللهِ أَنَّكُمْ تَفْعَلُونَ بِمَسِيحِكُمْ كَمَا فَعَلَ الْيَهُودُ بِمَسِيحِهِم - اس مقام کی تفصیل اس طرح پر ہے کہ خدا تعالیٰ سورۃ فاتحہ میں ان بعض یہودیوں کی نسبت اطلاع دیتا ہے جن پر عیسی بن صدیقہ کے زمانہ میں خدا کا غضب ان پر نازل ہوا کیونکہ انہوں نے اس کو کافر کہا اور تایا اور ہر طرح کا فتنہ اٹھایا.پھر خدا تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ یہود کی طرح اپنے مسیح کی تکفیر کرے گا اور ہر طرح کی مشابہت ان سے پیدا کرلیں گے.اور ان کے ہاتھوں سے وہ سب کام ہونگے جو یہود نے کئے اور تم مغضوب علیہم کی آیت پڑھتے ہو پھر اس کی طرف توجہ نہیں کرتے کیا خدا نے یونہی یہ سورۃ تم کو سکھلائی جیسا کہ کوئی کسی چیز کو بے ٹھکانے رکھ دے یا اس سورۃ کو اس لئے اتارا کہ تم کو وہ گناہ یاد دلائے جو تمہارے ہاتھ سے ہوگا کیوں غور سے نہیں دیکھتے اور خدا اُن یہودیوں پر عیسی کو کافر کہنے کے سبب اور اس کی تکذیب اور اُس کو گالیاں دینے کے سبب غضب ناک ہوا اور اس لئے بھی کہ وہ ہوا وحسد کے مارے چاہتے تھے کہ اس کو قتل کردیں خدا تعالیٰ کی تقدیر تمہارے حق میں اسی طرح جاری ہوئی ہے کہ تم اپنے مسیح سے وہی کرو جو یہود نے اپنے مسیح سے کیا.(خطبہ الہامیہ رخ جلد 16 صفحہ 215-216) ۴
179 المغضوب علیھم میں حضرت اقدس کی بعثت کی پیشگوئی ہے یہ نکتہ یادر کھنے کے لائق ہے کہ سورۃ فاتحہ میں جو آیا ہے کہ غیر الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ وَه اسی معرکہ کی طرف اشارہ ہے یعنی یہود نے خدا کے پاک اور مقدس نبی کو عمد ا محض شرارت سے تعنی ٹھہرا کر خدا تعالیٰ کا غضب اپنے پر نازل کیا اور مغضوب علیہم ٹھہرے حالانکہ ان کو پتہ بھی لگ گیا تھا کہ حضرت مسیح قبر میں نہیں رہے اور وہ پیشگوئی اُن کی پوری ہوئی کہ یونس کی طرح میرا حال ہوگا یعنی زندہ ہی قبر میں جاؤں گا اور زندہ ہی نکلوں گا اور نصاری گو حضرت مسیح سے محبت کرتے تھے مگر محض اپنی جہالت سے انہوں نے بھی لعنت کا داغ حضرت مسیح کے دل کی نسبت قبول کر لیا اور یہ نہ سمجھا کہ لعنت کا مفہوم دل کی ناپاکی سے تعلق رکھتا ہے اور نبی کا دل کسی حالت میں نا پاک اور خدا کا دشمن اور اس سے بیزار نہیں ہوسکتا پس اس سورۃ میں بطور اشارت مسلمانوں کو یہ سکھلایا گیا ہے کہ یہود کی طرح آنیوالے مسیح موعود کی تکذیب میں جلدی نہ کریں اور حیلہ بازی کے فتوے تیار نہ کریں اور اس کا نام لعنتی نہ رکھیں.ورنہ وہی لعنت الٹ کر ان پر پڑے گی ایسا ہی عیسائیوں کی طرح نادان دوست نہ بنیں اور ناجائز صفات اپنے پیشوا کی طرف منسوب نہ کریں پس بلا شبہ اس سورۃ میں مخفی طور پر میرا ذکر ہے اور ایک لطیف پیرایہ میں میری نسبت یہ ایک پیشگوئی ہے اور دعا کے رنگ میں مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ ایسا زمانہ تم پر بھی آئے گا اور تم بھی حیلہ جوئی سے مسیح موعود کو لعنتی ٹھہراؤ گے کیونکہ یہ بھی حدیث ہے کہ اگر یہودی سوسمار کے سوراخ میں داخل ہوئے ہیں تو مسلمان بھی داخل ہونگے یہ عجیب خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ قرآن شریف کہ پہلی سورۃ میں ہی جس کو پنج وقت مسلمان پڑھتے ہیں میرے آنے کی نسبت پیشگوئی کر دی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ - (تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 110-111 حاشیہ) وَقَدْ سَمَّى اللَّهُ تِلْكَ الْيَهُودَ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَحَذَّرَكُمْ فِي أُمِّ الْكِتَابِ أَنْ تَكُونُوا كَمِثْلِهِمْ وَذَكَّرَكُمْ أَنَّهُمْ أَهْلِكُوا بِالطَّاعُونِ فَمَا لَكُمْ تَنْسَوْنَ وَصَايَا اللَّهِ وَلَا تَتَّقُونَ رَبَّكُمْ وَلَا تَحْذَرُون - وَلَا تُفَكَّرُوْنَ فِي قَوْلِ اللَّهِ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَمْ يَقُلْ غَيْرِ الْيَهُودِ فَإِنَّهُ أَوْسَى فِي هَذِهِ إِلى عَذَابِ أَصَابَهُمْ وَإِلى عَذَابِ يُصِيبُكُمْ إِن لَّمْ تَنْتَهُوا فَهَلْ أَنتُمْ مُنْتَهُونَ وَإِنَّهُ نَبَأٌ عَظِيمٌ وَقَدْ ظَهَرَتْ آثَارُهُ وَإِنَّ فِي هَذَا لَآيَةٌ لِقَوْمٍ يُفَكِّرُوْنَ.خدا نے ان یہودیوں کا نام مغضوب علیہم رکھا اور سورۃ فاتحہ میں تم کو اس بات سے ڈرایا کہ تم اُن جیسے ہو جاؤ اور تم کو یاد دلایا کہ وہ طاعون سے ہلاک کئے گئے.تمہیں کیا ہو گیا کہ تم خدا کے حکموں کو بھول گئے اور اُس سے نہیں ڈرتے خدا تعالیٰ کی کلام میں غور نہیں کرتے کہ غیر المغضوب فرمایا غیر الیہود نہیں فرمایا کیونکہ اس میں اشارہ اس عذاب کی طرف ہے جو ان کو پہنچا اور جو تمہیں پہنچے گا اگر تم باز نہ آئے پس کیا ممکن ہے کہ تم بچے رہو اور یہ بڑی اطلاع ہے اور اس کے نشان ظاہر ہو گئے اور اس میں ان کے لئے نشان ہے جو فکر کرتے ہیں.خطبہ الہامیہ.رخ جلد 16 صفحه 147-148)
180 مردم نااہل گویندم که چون عیسی شدی بشنو از من این جواب شاں کہ اے قومِ حسود نالائق لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو عیسی کیونکر ہو گیا مجھ سے اُن کا جواب سُن جو یہ ہے کہ اے حاسد قوم چوں شمارا شد یہود اندر کتاب پاک نام پس خدا عیسی مرا کرد است از بهر یهود چونکہ قرآن میں تمہارا نام یہودی رکھا گیا ہے اس لئے خدا نے مجھے یہودیوں کے لئے عیسی بنادیا ورنه از روئے حقیقت تخم ایشان نیستید نیز ہم من ابن مریم نیستم اندر وجود ور نہ دراصل تم ان یہودیوں کے تخم سے نہیں اور میں بھی جسمانی طور پر ابن مریم نہیں ہوں گرنه بودند شما ما را نبودے ہم اثر از شما شد هم ظهورم پس زغوغا با چه سود اگر تم نہ ہوتے تو ہمارا نشان بھی نہ ہوتا صرف تمہاری وجہ سے میرا ظہور ہوا پھر غل مچانے سے کیا فائدہ؟ هر چه بود از نیک و بد در دین اسرائیلیاں آں ہمہ در ملت احمد نقوش خود نمود یہودیوں کے مذہب میں جو بھلی بری باتیں موجود تھیں وہ سب دین احمد میں بھی پیدا ہوگئیں درشین فارسی صفحہ 234 نیا ایڈیشن ) ( براهین احمدیہ حصہ پنجم.رخ جلد 21 صفحہ 304) مثیل مسیح علیہ السلام اور مغضوب علیہم وہ یہودی جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں موجود تھے خدا نے دعا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سکھلا کر اشارہ فرما دیا کہ وہ بروزی طور پر اس امت میں بھی آنے والا ہے تا بروزی طور پر وہ بھی اس مسیح موعود کو ایذا دیں جو اس اُمت میں بروزی طور پر آنے والے ہیں.بلکہ یہ فرمانا کہ تم نمازوں میں سورۃ فاتحہ کوضروری طور پر پڑھو یہ سکھلاتا ہے کہ مسیح موعود کا ضروری طور پر آنا مقدر ہے ایسا ہی قرآن شریف میں اس امت کے اشرار کو یہود سے نسبت دی گئی اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ ایسے شخص جو مریمی صفت سے محض خدا کے نفخ سے عیسوی صفت حاصل کرنے والا تھا اُس کا نام سورۃ تحریم میں ابن مریم رکھ دیا ہے کیونکہ فرمایا ہے کہ جب کہ مثالی مریم نے بھی تقویٰ اختیار کیا تو ہم نے اپنی طرف سے روح پھونک دی اس میں اشارہ تھا کہ مسیح ابن مریم میں کلمتہ اللہ ہونے کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ آخری مسیح بھی کلمتہ اللہ ہے اور روح اللہ بھی بلکہ ان دونوں صفات میں وہ پہلے سے زیادہ کامل ہے جیسا کہ سورۃ تحریم اور سورۃ فاتحہ اور سورۃ النور اور آیت كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ (ال عمران : 111) سے سمجھا جاتا ہے.(تریاق القلوب - ر- جلد 15 صفحہ 484) قابل غور یہ امر ہے کہ یہودی کیسے مغضوب ہوئے.انہوں نے پیغمبروں کو نہ مانا اور حضرت عیسی کا انکار کیا تو ضرور تھا کہ اس امت میں بھی کوئی زمانہ ایسا ہوتا اور ایک مسیح آتا جس سے یہ لوگ انکار کرتے اور وہ مماثلت پوری ہوتی.ورنہ کوئی ہم کو بتائے کہ اگر اسلام پر کوئی ایسا زمانہ آنے والا ہی نہ تھا اور نہ کوئی مسیح آنا تھا پھر اس دعائے فاتحہ کی تعلیم کا کیا فائدہ تھا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 665)
181 حضرت اقدس کا ذکر قرآن میں غیر المغضوب علیھم کے اعتبار سے خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں یہ سنت اور عادت مستمرہ ہے کہ جب وہ ایک گروہ کو کسی کام سے منع کرتا ہے یا اس کام سے بچنے کے لئے دعا سکھلاتا ہے تو اس کا اس سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ بعض ان میں سے ضرور اس جرم کا ارتکاب کریں گے لہذا اس اصول کے رو سے جو خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں پایا جاتا ہے صاف سمجھ آتا ہے جو غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعا سکھلانے سے یہ مطلب تھا کہ ایک فرقہ مسلمانوں میں سے پورے طور پر یہودیوں کی پیروی کرکے گا اور خدا کے مسیح کی تکفیر کر کے اور اس کی نسبت قتل کا فتویٰ لکھ کر اللہ تعالیٰ کو غضب میں لائے گا اور یہودیوں کی طرح مغضوب علیہم کا خطاب پائے گا.یہ ایسی صاف پیشگوئی ہے کہ جب تک انسان عمد ا بے ایمانی پر کمر بستہ نہ ہو اس سے انکار نہیں کر سکتا اور صرف قرآن نے ہی ایسے لوگوں کو یہودی نہیں بنایا بلکہ حدیث بھی یہی خطاب ان کو دے رہی ہے اور صاف بتلا رہی ہے کہ یہودیوں کی طرح اس امت کے علماء بھی مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگائیں گے اور مسیح موعود کے سخت دشمن اس زمانہ کے مولوی ہو نگے کیونکہ اس سے ان کی عالمانہ عزتیں جاتی رہیں گی اور لوگوں کے رجوع میں فرق آجائے گا اور یہ حدیثیں اسلام میں بہت مشہور ہیں یہاں تک کہ فتوحات مکی میں بھی اس کا ذکر ہے کہ مسیح موعود جب نازل ہوگا تو اس کی یہی عزت کی جائے گی کہ اس کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے گا اور ایک مولوی صاحب اٹھیں گے اور کہیں گے إِنَّ هذا الرَّجُلَ غَيَّرَ دِينَنَا یعنی یہ شخص کیسا مسیح موعود ہے اس شخص نے تو ہمارے دین کو بگاڑ دیا یعنی یہ ہماری حدیثوں کے اعتقاد کو نہیں مانتا اور ہمارے پرانے عقیدوں کی مخالفت کرتا ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 328 329) غير المغضوب علیھم ایک دعا ہے وَإِنَّ الْفَاتِحَةَ كَفَتْ لِسَعِيدٍ يَطْلُبُ الْحَقَّ وَلَا يَمُرُّ عَلَيْنَا كَالَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُونَ فَإِنَّ اللَّهَ ذَكَرَ فِيهِ فِرَقًا تَلْنا خَلَوْا مِن قَبْلُ وَهُمُ الْمُنْعَمُ عَلَيْهِمْ وَالْمَغْضُوبُ عَلَيْهِمْ وَالضّالُونَ ثُمَّ جَعَلَ هَذِهِ الأمَّةَ فِرْقَةً رَّابِعَةً وَأَوْمَا الْفَاتِحَةُ إِلى أَنَّهُمْ وَرِثُوا تِلْكَ التَّلَثَةَ إِمَّا مِنَ الْمُنْعَمِ عَلَيْهِمْ أَوْ مِنَ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ أَوْ مِنَ الَّذِينَ يَضِلُونَ وَيَتَنَصَّرُونَ وَأَمَرَ أَنْ يَسْئَلَ الْمُسْلِمُونَ رَبَّهُمْ أَن يَجْعَلَهُمْ مِّنَ الْفِرْقَةِ الْأوْلى وَلَا يَجْعَلَهُم مِّنَ الَّذِينَ غَضِبَ عَلَيْهِمْ وَلَا مِنَ الصَّالِيْنَ الَّذِينَ يَعْبُدُونَ عِيسَى وَبِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ - وَكَانَ فِي هَذَا أَنْبَاءٌ ثَلَتَةٌ لِقَوْمٍ يَتَفَرَّسُونَ اور فاتحہ کی سورۃ اس سعادت مند کے لئے جو حق تلاش کرتا اور ہمارے سامنے سے متکبر کی طرح نہیں گزرتا کافی ہے کیونکہ خدا نے اس سورۃ میں تین فرقوں کا ذکر کیا ہے جو اگلے زمانہ میں گزرے اور وہ یہ ہیں منعم علیہم اور مغضوب علیہم اور ضالین.پھر اس امت کو چوتھا فرقہ قرار دیا اور فاتحہ میں اشارہ کیا کہ وہ ان تین فرقوں میں سے یا تو منعم علیہم کے وارث ہونگے یا مغضوب علیہم کے وارث ہونگے یا ضالین کے وارث ہونگے.اور حکم دیا ہے کہ مسلمان اپنے رب سے چاہیں کہ ان کو پہلے فرقہ میں سے بنا دے اور مغضوب علیہم اور ضالین میں سے نہ بناوے جو ( ضالین ) عیسی کو پوجتے ہیں اور اپنے پروردگار کے برابر بناتے ہیں اور اس میں اُن کے لئے جو فراست سے کام لیتے ہیں تین پیشگوئیاں ہیں.(خطبہ الہامیہ.رخ جلد 16 صفحہ 160)
182 فَظَهَرَ مِنْ هذَا الْمَقَامِ بِالظُّهُورِ الْبَيِّنِ الشَّامِ أَنَّهُ مَنْ قَرَءَ هَذَا الدُّعَاءَ فِي صَلَاتِهِ أَوْ خَارِجَ الصَّلَاةِ فَقَدْ سَأَلَ رَبَّهُ أَن يُدْخِلَهُ فِي جَمَاعَةِ الْمَسِيحِ الَّذِي يُكَفِّرُهُ قَوْمُهُ وَيُكَذِبُونَهُ وَيُفَسِقُونَهُ وَيَحْسَبُونَهُ شَرَّ الْمَخْلُوقَاتِ وَيُسَمُونَهُ دَجَّالًا وَمُلْحِدًا ضَالًا كَمَا سَمَّى عِيسَى الْيَهُودُ الْمَلْعُون - اس مقام سے اچھی طرح سے معلوم ہوا کہ جو کوئی نماز میں یا نماز سے باہر اس دعا کو پڑھتا ہے وہ اپنے پروردگار سے سوال کرتا ہے کہ اس کو اُس مسیح کی جماعت میں داخل فرمادے جس کو اس کی قوم کا فر کہے گی اور اس کی تکذیب کرے گی اور اس کو سب مخلوقات سے بدتر سمجھے گی اور اس کا نام دجال اور ملحد اور گمراہ رکھے گی خطبہ الہامیہ.ر خ جلد 6 1 صفحہ 197-198) جیسا کہ یہو د ملعون نے عیسی کا نام رکھا تھا.فَفَكِّرُوا فِي أُمِّ الْكِتَبِ حَقَّ الْفِكْرِ لِمَ حَذَّرَكُمُ اللهُ أَن تَكُونُوا الْمَغْضُوْبَ عَلَيْهِمْ مَّا لَكُمْ لَا تُفَكَّرُونَ - فَاعْلَمُوا أَنَّ السِّرِّفِيهِ أَنَّ اللهَ كَانَ يَعْلَمُ أَنَّهُ سَوْنَ يُبْعَثُ فِيْكُمُ الْمَسِيحُ الثَّانِي كَأَنَّهُ هُوَ وَكَانَ يَعْلَمُ أَنَّ حِزْبًا مِّنْكُمْ يُكَفِّرُوْنَه وَيُكَذِّبُونَهُ وَيُحَقِّرُونَهُ وَيَشُتُمُوْنَه وَيُرِيدُونَ أَنْ يَقْتُلُوهُ وَيَلْعَنُونَهُ فَعَلَّمَكُمْ هَذَا الدُّعَاءَ رُحْمًا عَلَيْكُمْ وَإِشَارَةٌ إِلَى نَبَاءِ قَدَّرَهُ فَقَدْ جَاءَ كُمُ مَّسِيحُكُمْ فَإِن لَّمْ تَنْتَهُوا فَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ چاہیئے کہ ام الکتاب میں خوب غور کرو کہ کیوں تم کو خدا نے اس سے ڈرایا کہ تم مغضوب علیہم ہو جاؤ.جان لو کہ اس میں یہ راز تھا کہ خدا جانتا تھا کہ مسیح ثانی تم میں پیدا ہو گا اور گویا وہ وہی ہوگا اور خدا جانتا تھا کہ ایک گروہ تم میں سے اس کو کا فراور جھوٹا کہے گا اسے گالیاں دیں گے اور حقیر جائیں گے اور اس کے قتل کا ارادہ کریں گے اور اس پر لعنت کریں گے.پس اس نے رحم کر کے اور اس خبر کی طرف جو مقدر تھی اشارہ کے لئے یہ دعا تم کو سکھائی.پس تمہارا مسیح تمہارے پاس آ گیا اب اگر تم ظلم سے باز نہ آئے تو ضرور پکڑے جاؤ گے.خطبہ الہامیہ رخ جلد 16 صفحہ 190 تا 192) میں ایک فضل کی طرح اہل حق کے لئے آیا پر مجھ سے ٹھٹھا کیا گیا اور مجھے کافر اور دو بال ٹھہرایا گیا اور بے ایمانوں میں سے مجھے سمجھا گیا.اور ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا تا وہ پیشگوئی پوری ہوتی جو آیت غیر المغضوب علیہم کے اندر مخفی ہے کیونکہ خدا نے منعم علیہم کا وعدہ کر کے اس آیت میں بتا دیا ہے کہ اس امت میں وہ یہودی بھی ہونگے جو یہود کے علماء سے مشابہ ہونگے.جنہوں نے حضرت عیسی کو سولی دینا چاہا اور جنہوں نے عیسی کو کافر اور دجال اور ملحد قرار دیا تھا اب سوچو کہ یہ کس بات کی طرف اشارہ تھا اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود اس امت میں سے آنے والا ہے اس لئے اس کے زمانہ میں یہود کے رنگ کے لوگ بھی پیدا کئے جائیں گے جو اپنے زعم میں علماء کہلائیں گے سو آج تمہارے ملک میں وہ پیشگوئی پوری ہوگئی.(تذکرہ الشہا دتین رخ جلد20 صفحہ 65-66)
183 الصَّالِينَ معانی الصَّالِينَ ضالین سے مراد صرف گمراہ نہیں بلکہ وہ عیسائی مراد ہیں جو افراط محبت کی وجہ سے حضرت عیسی کی شان میں غلو کرتے ہیں کیونکہ ضلالت کے یہ بھی معنے ہیں کہ افراط محبت سے ایک شخص کو ایسا اختیار کیا جائے کہ دوسرے کا عزت کے ساتھ نام سننے کی بھی برداشت نہ رہے جیسا کہ اس آیت میں بھی یہی معنے مراد ہیں کہ إِنَّكَ لَفِي ضَلَالَكَ الْقَدِيمِ (يوسف: 11) - تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 269 حاشیه در حاشیه ) الصَّالِین اور دجال سے مراد عیسائی ہیں.بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن شریف نے ابتداء میں بھی ان ( عیسائیوں ) کا ہی ذکر کیا جیسے کہ وَلَا الضَّالِين پر سورۃ فاتحہ کو ختم کیا اور پھر قرآن شریف کو بھی اسی پر تمام کیا کہ قُلْ هُوَ الله سے لے کر قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ تک غور کرو اور وسط قرآن میں بھی ان کا ہی ذکر کیا اور تَكَادُ السَّمَوتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ (سورة مریم: 91) کہا.بتاؤ اس دجال کا بھی کہیں ذکر کیا جس کا ایک خیالی نقشہ اپنے دلوں میں بنائے بیٹھے ہیں.پھر حدیث میں آیا ہے کہ دجال کیلئے سورۃ کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھو اس میں بھی ان کا ہی ذکر ہے.اور احادیث میں ریل کا بھی ذکر ہے.غرض جہاں تک غور کیا جاوے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ امر ذہن میں آجاتا ہے کہ دجال سے مراد یہی نصاری کا گروہ ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 352) آخری مظہر شیطان کے اسم دجال کا جو مظہر اتم اور اکمل اور خاتم المظا ہر ہے وہ قوم ہے جس کا قرآن کے اول میں بھی ذکر ہے اور قرآن کے آخر میں بھی یعنی وہ ضالین کا فرقہ جس کے ذکر پر سورۃ فاتحہ ختم ہوتی ہے اور پھر قرآن شریف کی آخری تین سورتوں میں بھی اس کا ذکر ہے یعنی سورۃ اخلاص اور سورۃ فلق اور سورۃ ناس میں سورۃ فلق میں یہ اشارہ کیا گیا کہ یہ قوم اسلام کے لئے خطرناک ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 269 تا272 حاشیہ) حضرت اقدس کا ذکر قرآن کریم میں وَلَا الضَّالِّينَ کے اعتبار سے صرف قرآن کا ترجمہ اصل میں مفید نہیں جب تک اس کے ساتھ تفسیر نہ ہومثلا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِینَ.کی نسبت کسی کو کیا سمجھ آ سکتا ہے کہ اس سے مراد یہود نصاری ہیں جب تک کہ کھول کر نہ بتلا یا جاوے اور پھر یہ دعا مسلمانوں کو کیوں سکھلائی گئی.اس کا یہی منشا تھا کہ جیسے یہودیوں نے حضرت مسیح کا انکار کر کے خدا کا غضب کمایا.ایسے ہی آخری زمانہ میں اس امت نے بھی مسیح موعود کا انکار کر کے خدا کا غضب کمانا تھا.اسی لئے اول ہی ان کو بطور پیشگوئی کے اطلاع دی گئی کہ سعید روحیں اس وقت غضب سے بچ سکیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 449 )
184 المغضوب علیھم سے وہ علماء یہودی مراد ہیں جنہوں نے شدت عداوت کی وجہ سے حضرت عیسی کی نسبت یہ بھی روانہ رکھا کہ ان کو مومن قرار دیا جائے بلکہ کا فر کہا اور واجب القتل قرار دیا اور مغضوب علیہ وہ شدید الغضب انسان ہوتا ہے جس کے غضب کے غلو پر دوسرے کو غضب آوے اور یہ دونوں لفظ باہم مقابل واقع ہیں یعنی ضالین وہ ہیں جنہوں نے افراط محبت سے حضرت عیسی کو خدا بنایا اور المغضوب علیہم وہ یہودی ہیں جنہوں نے خدا کے مسیح کو افراط عداوت سے کافر قرار دیا اس لئے مسلمانوں کو سورۃ فاتحہ میں ڈرایا گیا اور اشارہ کیا گیا کہ تمہیں یہ دونوں امتحان پیش آئیں گے مسیح موعود آئے گا اور پہلے مسیح کی طرح اس کی بھی تکفیر کی جائینگی اور ضالین یعنی عیسائیوں کا غلبہ بھی کمال کو پہنچ جائے گا جو حضرت عیسی کو خدا کہتے ہیں تم ان دونوں فتنوں سے اپنے تیں بچاؤ اور بچنے کے لئے نمازوں میں دعائیں کرتے رہو.(تحفہ گولڑی.رسرخ جلد 17 صفحہ 269 حاشیه در حاشیه ) امت احمد نہاں دارد ، دو ضد را در وجود می تواند شد مسیحا، می تواند شد یهود احمد کی امت اپنے وجود میں دو مخالف با تیں مخفی رکھتی ہے.( اُس کا فرد ) مسیح بھی بن سکتا ہے اور یہودی بھی زمرہ زیشاں، ہمہ بدطینتاں را جائے ننگ زمره دیگر، بجائے انبیاء دارد تعود ایک گروہ تو بدفطرت انسانوں کے لئے بھی جائے ننگ و عار ہے.اور دوسرا گر وہ انبیاء کا جانشین ہے در مشین فارسی مترجم حضرت میر محمد اسمعیل صاحب صفحہ 151) (ازالہ اوہام حصہ دوم.رخ جلد 3 صفحہ 512) غير المغضوب عليهم ولا الضالین میں ایک لعلیم ہے کتاب اللہ کو کھول کر دیکھ لو وہ فیصلہ کرتی ہے ؟ پہلی ہی سورۃ کو پڑھو جو سورۃ فاتحہ ہے جس کے بغیر نماز بھی نہیں ہوسکتی دیکھو اس میں کیا تعلیم دی ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَالضَّالِّينَ اب صاف ظاہر ہے کہ اس دعا میں مغضوب اور ضالین کی راہ سے بچنے کی دعا ہے.مغضوب سے بالا تفاق یہودی مراد ہیں اور ضالین سے عیسائی.اگر اس امت میں یہ فتنہ اور فساد پیدا نہ ہونے والا تھا تو پھر اس دعا کی تعلیم کی کیا غرض تھی؟ سب سے بڑا فتنہ تو الدجال کا تھا مگر یہ نہیں کہا وَلَا الدجال کیا خدا تعالیٰ کو اس فتنہ کہ خبر تھی ؟ اصل یہ ہے کہ یہ دعا بڑی پیشگوئی اپنے اندر رکھتی ہے ایک وقت امت پر ایسا آنے والا تھا کہ یہودیت کا رنگ اس میں آجا ویگا اور یہودی وہ قوم تھی جس نے حضرت مسیح کا انکار کیا تھا.پس یہاں جو فرمایا کہ یہودی سے بچنے کی دعا کرو.اس کا یہی مطلب ہے کہ تم بھی یہودی نہ بن جانا یعنی مسیح موعود کا انکار نہ کر بیٹھنا.اور ضالین یعنی نصاری کی راہ سے بچنے کی دعا جو تعلیم کی تو اس سے معلوم ہوا کہ اُس وقت صلیبی فتنہ خطر ناک ہوگا اور یہی سب فتنوں کی جڑ اور ماں ہوگا دجال کا فتنہ اس سے الگ نہ ہوگا.ورنہ اگر الگ ہوتا تو ضرور تھا کہ اس کا بھی نام لیا جاتا.( ملفوظات جلد دوم صفحه 382)
185 اللہ تعالیٰ نے ہم کو سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی.کہ اے خدا نہ تو ہمیں مغضوب علیہم میں سے بنا ئیو اور نہ ضالین میں سے.اب سوچنے کا مقام ہے کہ ان ہر دو کا مرجع حضرت عیسی ہی ہیں مغضوب علیہ وہ قوم ہے جس نے حضرت عیسی کے ساتھ عداوت کرنے اور ان کو ہر طرح سے دکھ دینے میں غلو کیا اور ضالین وہ لوگ ہیں جنہوں نے اُن کے ساتھ محبت کرنے میں غلو کیا اور خدائی صفات اُن کو دیدیئے.صرف ان دونو کی حالت سے بچنے کے واسطے ہم کو دعا سکھلائی گئی ہے اگر دجال ان کے علاوہ کوئی اور ہوتا.تو یہ دعا اس طرح سے ہوتی کہ غَيْر الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الدَّجال - یہ ایک پیشگوئی ہے جو کہ اس زمانہ کے ہر دو قسم کے شر سے آگاہ کرنے کے واسطے مسلمانوں کو پہلے سے خبردار کرتی ہے.یہ عیسائیوں کے مشن ہی ہیں جو کہ اس زمانہ میں ناخنوں تک زور لگا رہے ہیں کہ اسلام کو سطح دنیا سے نابود کر دیں اسلام کے واسطے یہ سخت مضر ہورہے ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 57-58) قرآن شریف سے مستنبط ہوتا ہے کہ اس امت پر دوزمانے بہت خوفناک آئیں گے ایک وہ زمانہ جو ابوبکر کے عہد خلافت میں آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آیا اور دوسرا وہ زمانہ جو دجالی فتنہ کا زمانہ ہے جو مسیح کے عہد میں آنیوالا تھا جس سے پناہ مانگنے کے لئے اس آیت میں اشارہ ہے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اور اسی زمانہ کے لئے یہ پیشگوئی سورہ نور میں موجود ہے وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا.(النور: 56) اس آیت کے معنے پہلی آیت کے ساتھ ملا کر یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دین پر آخری زمانہ میں ایک زلزلہ آئے گا اور خوف پیدا ہو جائیگا کہ یہ دین ساری زمین پر سے گم نہ ہو جائے.تب خدا تعالی دوبارہ اس دین کو روئے زمین پر متمکن کر دے گا اور خوف کے بعد امن بخش دیگا.لیکچر لاہور.رخ جلد 20 صفحہ 187) معانی مغضوب“ اور ” ضال حدیث رسول اکرم کے مطابق بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ سورۃ فاتحہ میں اَلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد یہود اور الضالین سے مراد نصاری ہیں.(دیکھو کتاب در منشور صحہ نمبر 9).اور عبدالرزاق اور احمد نے اپنی مسند میں اور عبد بن حمید اور ابن جریر اور بغوی نے معجم الصحابہ میں اور ابن منذر اور ابوالشیخ نے عبداللہ بن شقیق سے روایت کی ہے.قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِوَادِي الْقُرى عَلَى فَرَسٍ لَّهُ وَسَالَهُ رَجُلٌ مِّنْ بَنِي الْعَيْنِ فَقَالَ مَنِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ يَارَسُولَ اللهِ - قَالَ الْيَهُودُ - قَالَ فَمَن الضَّالُونَ قَالَ النَّصَاری.یعنی کہا کہ مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے آنحضرت ﷺ سے سنا تھا جب کہ آپ وادی تحر مٹی میں گھوڑے پر سوار تھے کہ بنی عین میں سے ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ سورۃ فاتحہ میں مغضوب علیہم سے کون مراد ہے فرمایا کہ یہود پھر سوال کیا کہ ضالین سے کون مراد ہے فرمایا کہ نصاری.(در منثور صفحہ 17) (تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 حاشیہ صفحہ 229)
186 تفسير مغضوب عليهم اور ضالین “ حضرت اقدس کے فرمودات کے مطابق الْمَغْضُوبِ عَلَيْہم سے وہ علماء یہودی مراد ہیں جنہوں نے شدت عداوت کی وجہ سے حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ بھی روانہ رکھا کہ اُن کو مومن قرار دیا جائے بلکہ کا فرکہا اور واجب القتل قرار دیا اور مغضوب علیہ وہ شدید الغضب انسان ہوتا ہے جس کے غضب کے غلو پر دوسرے کو غضب آوے اور یہ دونوں لفظ با ہم مقابل واقع ہیں یعنی ضالین وہ ہیں جنہوں نے افراط محبت سے حضرت عیسی کو خدا بنایا اور اَالمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ وہ یہودی ہیں جنہوں نے خدا کے مسیح کو افراط عداوت سے کافر قرار دیا اس لئے مسلمانوں کو سورۃ فاتحہ میں ڈرایا گیا اور اشارہ کیا گیا کہ تمہیں یہ دونوں امتحان پیش آئیں گے مسیح موعود آئے گا اور پہلے مسیح کی طرح اس کی بھی تکفیر کی جائیگی اور ضالین یعنی عیسائیوں کا غلبہ بھی کمال کو پہنچ جائے گا جو حضرت عیسی کو خدا کہتے ہیں تم ان دونوں فتنوں سے اپنے تھیں بچاؤ اور بچنے کے لئے نمازوں میں دعائیں کرتے رہو.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 269 حاشیه در حاشیه ) سورۃ فاتحہ میں صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہ کر مسیح موعود کی پیشگوئی فرمائی.اور پھر اس سورۃ میں مغضوب اور ضالین دو گروہوں کا ذکر کر کے یہ بھی بتا دیا کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس وقت ایک قوم مخالفت کرنے والی ہوگی جو مغضوب قوم یہودیوں کے نقش قدم پر چلے گی اور ضالین میں یہ اشارہ کیا کر قتل دجال اور کسر صلیب کے لئے آئے گا.کیونکہ مغضوب سے یہود اور ضالین سے نصاری بالاتفاق مراد ہیں.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 32) ضالین پر اس سورۃ کو ختم کیا ہے یعنی ساتویں آیت پر جو ضالین کے لفظ پر ختم ہوتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضالین پر قیامت آئے گی.یہ سورۃ در حقیقت بڑے دقائق اور حقائق کی جامع ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں اور اس سورۃ کی یہ دعا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ یہ صاف اشارہ کر رہی ہے کہ اس امت کے لئے ایک آنے والے گروہ مغضوب علیہم کے ظہور سے اور دوسرے گروہ ضالین کے غلبہ کے زمانے میں ایک سخت ابتلاء در پیش ہے جس سے بچنے کے لئے پانچ وقت دعا کرنی چاہیئے اور یہ دعا سورۃ فاتحہ کی اس طور پر سکھائی گئی کہ پہلے الحمد للہ سے مالک یوم الدین تک خدا کے محامد اور صفات جمالیہ اور جلالیہ ظاہر فرمائے گئے تادل بول اٹھے کہ وہی معبود ہے چنانچہ انسانی فطرت نے ان پاک صفات کا دلدادہ ہو کر إِيَّاكَ نَعْبُد کا اقرار کیا اور پھر اپنی کمزوری کو دیکھا تو إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہنا پڑا اور پھر خدا سے مدد پا کر یہ دعا کی جو جمیع اقسام شر سے بچنے کے لئے اور جمیع اقسام خیر کو جمع کرنے کے لئے کافی و وافی ہے یعنی یہ دعا که اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِا لْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ - امین (تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 284 285 حاشیہ)
187 غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ دعا کے اعتبار سے حضرت اقدس کا ذکر یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ سورۃ فاتحہ میں صرف دو فتنوں سے بچنے کے لئے دعا سکھلا ئی گئی ہے.(1) اول یہ فتنہ کہ اسلام کے مسیح موعود کو کا فرقرار دینا.اس کی توہین کرنا.اس کی ذاتیات میں نقص نکالنے کی کوشش کرنا.اس کے قتل کا فتویٰ دینا.جیسا کہ آیت غَيْر الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں انہی باتوں کی طرف اشارہ ہے(2) دوسرے نصاری کے فتنے سے بچنے کے لئے دعا سکھلائی گئی اور سورۃ کو اسی کے ذکر پر ختم کر کے اشارہ کیا گیا ہے کہ فتنہ نصاری ایک سیل عظیم کی طرح ہوگا اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ (212) پس دعا کے رنگ میں یہ ایک پیشگوئی ہے جو دو خبر پر مشتمل ہے.ایک یہ کہ اس امت میں بھی ایک مسیح موعود پیدا ہوگا.اور دوسری یہ پیشگوئی ہے کہ بعض لوگ اس امت میں سے بھی اس کی تکفیر اور توہین کریں گے اور وہ لوگ مورد غضب الہی ہوں گے اور اس وقت کا نشان یہ ہے کہ فتنہ نصاریٰ بھی ان دونوں حد سے بڑھا ہوا ہو گا جن کا نام ضالین ہے اور ضالین پر بھی یعنی عیسائیوں پر بھی اگر چہ خدا تعالیٰ کا غضب ہے کہ وہ خدا کے حکم کے شنوا نہیں ہوئے مگر اس غضب کے آثار قیامت کو ظاہر ہوں گے اور اس جگہ مغضوب علیہم سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر بوجہ تکفیر و تو ہین وایذا ارادہ قتل مسیح موعود کے دنیا میں ہی غضب الہی نازل ہوگا یہ میرے جانی دشمنوں کے لئے قرآن کی پیشگوئی ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 213) یہ جو اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں فرمایا ہے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ.اس میں ہم نے غور کیا تو معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے شخص میں دو قسم کی صفات کی ضرورت ہے.اول تو عیسوی صفات اور دوم محمدی صفات کی کیونکہ مغضوب علیہم سے مراد یہود اور الضالین سے مراد نصاری ہیں.جب یہود نے شرارت کی تھی تو حضرت عیسی" ان کے واسطے آئے تھے جب نصاری کی شرارت زیادہ بڑھ گئی تو آنحضرت ﷺ تشریف آور ہوئے تھے اور یہاں خدا تعالیٰ نے دونوں کا فتنہ جمع کیا اندرونی یہود اور بیرونی نصاری جن کے لئے آنے والا بھی آنحضرت ﷺ کا کامل بروز اور حضرت عیسی کا پورا نقشہ ہونا چاہیئے تھا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 296) چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں اسی اُمت میں سے مسیح موعود آئے گا.اور بعض یہودی صفت مسلمانوں میں سے اس کو کا فرقرار دیں گے اور اس کو قتل کے درپے ہوں گے اور اس کی سخت توہین و تکفیر کریں گے اور نیز جانتا تھا کہ اس زمانہ میں تثلیث کا مذہب ترقی پر ہوگا اور بہت سے بدقسمت انسان عیسائی ہو جائیں گے اس لئے اس نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی اور اس دعا میں مَغضُوبِ عَلَيْهِمُ کا جو لفظ ہے وہ بلند آواز سے کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ جو اسلامی مسیح کی مخالفت کریں گے وہ بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں مغضوب علیہم ہوں گے جیسا کہ اسرائیلی سیح موعود کے مخالفت مغضوب علیہم تھے.( نزول المسیح.رخ جلد 18 صفحہ 419)
188 غرض اس دعا میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ کا فقرہ مسلمانوں کے ایک گروہ کی اس حالت کا پتہ دیتا ہے ، جو وہ مسیح موعود کے مقابل مخالفت اختیار کرے گا اور ایسا ہی الضالین سے مسیح موعود کے زمانہ کا پتہ لگتا ہے کہ اس وقت صلیبی فتنہ کا زور اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچ جائے گا.اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے جو سلسلہ قائم کیا جائیگا وہ مسیح موعود ہی کا سلسلہ ہوگا اور اسی لئے احادیث میں مسیح موعود کا نام خدا تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی معرفت کا سر الصلیب رکھا ہے.کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ ہر ایک مجد دفتن موجودہ کی اصلاح کے لئے آتا ہے.اب اس وقت خدا کے لیے سوچو، تو کیا معلوم نہ ہوگا کہ صلیبی نجات کی تائید میں قلم اور زبان سے وہ کام لیا گیا ہے کہ صفحات عالم کو ٹولا جائے تو باطل پرستی کی تائید میں یہ سرگرمی اور زمانہ میں ثابت نہ ہوگی اور جبکہ صلیبی فتنہ کے حامیوں کی تحریر میں اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچ چکی ہیں اور تو حید حقیقی اور نبی کریم ﷺ کی عفت عزت اور حقانیت اور کتاب اللہ کے منجانب اللہ ہونے پر ظلم اور زور کی راہ سے حملے کئے گئے ہیں، تو کیا اللہ تعالیٰ کی غیرت کا تقاضہ نہیں ہونا چاہیئے کہ اُس کا سر الصلیب کو نازل کرے؟ کیا خدا تعالیٰ اپنے وعدہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكَرَوَانَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.(الحجر :10) کو بھول گیا ؟ یقین یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے وعدے بچے ہیں اُس نے اپنے وعدہ کے موافق دنیا میں ایک نذیر بھیجا ہے.دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا.مگر خدا تعالیٰ اس کو ضرور قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کرے گا.میں تمہیں سیچ سچ کہتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق مسیح موعود ہو کر آیا ہوں.چاہو تو قبول کروچا ہو تو ر ڈ کرو.مگر تمہارے ر ڈ کرنے سے کچھ نہ ہوگا، خدا تعالیٰ نے جو ارادہ فرمایا ہے ، وہ ہو کر رہے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے براہین میں فرما دیا ہے.صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا - ( ملفوظات جلد اول صفحہ 133 ) اور یہ دعا جس وقت اکٹھی پڑھی جاتی ہے یعنی اس طرح پر کہا جاتا ہے کہ اے خدا ہمیں منعم علیہم میں داخل کر اور مغضوب علیہم اور ضالین سے بچا تو اس وقت صاف سمجھ میں آتا ہے کہ خدا کے علم میں منعم علیہم میں سے ایک وہ فریق ہے جو مغضوب علیہم اور ضالین کا ہم عصر ہے اور جب کہ مغضوب علیہم سے مراد اسی سورۃ میں بالیقین وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود سے انکار کرنے والے اور اس کی تکفیر اور تکذیب اور توہین کرنے والے ہیں تو بلاشبہ ان کے مقابل پر منعم علیہم سے وہی لوگ اس جگہ مرادر کھے گئے ہیں جو صدق دل سے مسیح موعود پر ایمان لانے والے اور اس کی دل سے تعظیم کرنے والے اور اس کے انصار ہیں اور دنیا کے سامنے اس کی گواہی دیتے ہیں.رہے ضالین ، پس جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں آنحضرت ﷺ کی شہادت اور تمام اکا بر اسلام کی شہادت سے ضالین سے مراد عیسائی ہیں.تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 228 229)
189 الدجال سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں کتاب اللہ کو کھول کر دیکھ لو وہ فیصلہ کرتی ہے؟ پہلی ہی سورۃ کو پڑھو جو سورۃ فاتحہ ہے جس کے بغیر نماز بھی نہیں ہو سکتی دیکھو اس میں کیا تعلیم دی ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْر الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ - اب صاف ظاہر ہے کہ اس دعا میں مغضوب اور ضالین کی راہ سے بچنے کی دعا ہے.مغضوب سے بالا تفاق یہودی مراد ہیں اور ضالین سے عیسائی.اگر اس اُمت میں یہ فتنہ اور فساد نہ پیدا ہونے والا تھا تو پھر اس دعا کی تعلیم کی کیا غرض تھی؟ سب سے بڑا فتنہ تو الدَّجال کا تھا مگر یہ نہیں کہا کہ وَلَا الدَّجال کیا خدا تعالیٰ کو اس فتنہ کی خبر نہ تھی ؟ اصل یہ ہے کہ یہ دعا بڑی پیشگوئی اپنے اندر رکھتی ہے ایک وقت امت پر ایسا آنے والا تھا کہ یہودیت کا رنگ اس میں آجاوے گا اور یہودی وہ قوم تھی جس نے حضرت مسیح کا انکار کیا تھا پس یہاں جو فرمایا کہ یہودیوں سے بچنے کی دعا کرو.اس کا یہی مطلب ہے کہ تم بھی یہودی نہ بن جانا یعنی مسیح موعود کا انکار نہ کر بیٹھنا.اور ضالین یعنی نصاری کی راہ سے بچنے کی دعا جو تعلیم کی تو اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت صلیبی فتنہ خطرناک ہوگا.اور یہی سب فتنوں کی جڑ اور ماں ہو گا دجال کا فتنہ اس سے الگ نہ ہوگا.ورنہ اگر الگ ہوتا تو ضرور تھا کہ اس کا بھی نام لیا جاتا.الحکم 21 فروری 1993 ، صفحہ 2 ) ( تفسیر حضرت اقدس سورۃ فاتحہ جلد 1 صفحہ 321) اللہ تعالیٰ نے ہم کو سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی.کہ اے خدا نہ تو ہمیں مغضوب علیہم میں سے بنائیو اور نہ ضالین میں سے.اب سوچنے کا مقام ہے کہ ان ہر دو کا مرجع حضرت عیسی ہی ہیں مغضوب علیہم وہ قوم ہے جس نے حضرت عیسی کے ساتھ عدوات کرنے اور ان کو ہر طرح سے دکھ دینے میں غلو کیا اور ضالین وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ محبت کرنے میں غلو کیا اور خدائی صفات ان کو دے دیئے.صرف ان دونو کی حالت سے بچنے کے واسطے ہم کو دعا سکھلائی گئی ہے اگر دجال ان کے علاوہ کوئی اور ہوتا.تو یہ دعا اس طرح سے ہوتی کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الدَّجَّال - یہ ایک پیشگوئی ہے جو کہ اس زمانہ کے ہر دو قسم کے شر سے آگاہ کرنے کے واسطے مسلمانوں کو پہلے سے خبر دار کرتی ہے.یہ عیسائیوں کے مشن ہی ہیں جو کہ اس زمانہ میں ناخنوں تک زور لگارہے ہیں کہ اسلام کو سطح دنیا سے نابود کر دیں اسلام کے واسطے یہ سخت مضر ہور ہے ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 58 57) قرآن شریف سے مستنبط ہوتا ہے کہ اس امت پر دوزمانے بہت خوفناک آئیں گے ایک وہ زمانہ جوابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آیا اور دوسرا وہ زمانہ جود جالی فتنہ کا زمانہ ہے جو سیح کے عہد میں آنیوالا تھا جس سے پناہ مانگنے کے لئے اس آیت میں اشارہ ہے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اور اسی زمانہ کے لئے یہ پیشگوئی سورۃ نور میں موجود ہے.وَلَيُبَةِ لَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا.(النور: 56) اس آیت کے معانی پہلی آیت کیساتھ ملا کر یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دین پر آخری زمانہ میں ایک زلزلہ آئے گا اور خوف پیدا ہو جائے گا کہ یہ دین ساری زمین پر سے گم نہ ہو جائے.تب خدا تعالی دوبارہ اس دین کو روئے زمین پر متمکن کر دے گا اور خوف کے بعد امن بخش دے گا.لیکچر لاہور.رخ جلد 20 صفحہ 187)
190 سورۃ الفاتحہ کا مقصود اعلیٰ مسیح موعود اور ان کی جماعت کی ترقی کی خبر ہے سورۃ فاتحہ میں ایک مخفی پیشگوئی موجود ہے اور وہ یہ کہ جس طرح یہودی لوگ حضرت عیسی کو کافر اور دجال کہہ کر مَغْضُوبِ عَلَيْهم بن گئے بعض مسلمان بھی ایسے ہی بنیں گے.اسی لئے نیک لوگوں کو یہ دعا سکھلائی گئی کہ وہ منعم علیہم میں سے حصہ لیں اور مغضوب علیہم نہ بنیں سورۃ فاتحہ کا اعلیٰ مقصود مسیح موعود اور اس کی جماعت اور اسلامی یہودی اور اُن کی جماعت اور ضالین یعنی عیسائیوں کے زمانہ ترقی کی خبر ہے سوکس قدر خوشی کی بات ہے کہ وہ باتیں آج پوری ہوئیں.نزول المسیح.رخ جلد 18 صفحہ 415،414) قرآن نے اپنے اول میں بھی مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ (الفاتحہ ) اور ضَا لَّينَ (الفاتحہ) کا ذکر فرمایا ہے اور اپنے آخر میں بھی جیسا کہ آیت لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ بصراحت اس پر دلالت کر رہی ہے اور یہ تمام اہتمام تاکید کے لئے کیا گیا اور نیز اس لئے کہ تا مسیح موعود اور غلبہ نصرانیت کی پیشگوئی نظری نہ رہے اور آفتاب کی طرح چمک اٹھے.(تحفہ گولر ویہ.رخ جلد 17 صفحہ 222) حضرت اقدس کا ذکر قرآن کریم کے اول و آخر میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیت تَبَّتْ يَدَا أَبِى لَهَب جو قرآن شریف کے آخر میں ہے، آیت مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ کی ایک شرح ہے جو قرآن شریف کے اول میں ہے کیونکہ قرآن شریف کے بعض حصے بعض کی تشریح ہیں.پھر اس کے بعد جو سورۃ فاتحہ میں وَلَا الضَّالین ہے اس کے مقابل پر اور اس کی تشریح میں سورۃ تبت کے بعد سورۃ اخلاص ہے میں بیان کر چکا ہوں کہ سورۃ فاتحہ میں تین دعائیں سکھلائی گئی ہیں (1) ایک یہ دعا کہ خدا تعالیٰ اُس جماعت میں داخل رکھے جو صحابہ کی جماعت ہے اور پھر اس کے بعد اس جماعت میں داخل رکھے جو مسیح موعود کی جماعت ہے جن کی نسبت قرآن شریف فرماتا ہے.وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوبِهِم (الجمعة: 4) غرض اسلام میں یہی دو جماعتیں منعم علیہم کی جماعتیں ہیں اور انہی کی طرف اشارہ ہے آیت صِرَاط الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں کیونکہ تمام قرآن پڑھ کر دیکھو جماعتیں دو ہی ہیں.ایک صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت.دوسری وَاخَرِينَ مِنْهُمْ کی جماعت جو صحابہ کے رنگ میں ہے اور وہ مسیح موعود کی جماعت ہے.پس جب تم نماز میں یا خارج نماز کے یہ دعا پڑھو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ علیہم تو دل میں یہی محوظ رکھو کہ میں صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت کی راہ طلب کرتا ہوں.یہ تو سورۃ فاتحہ کی پہلی دعا
191 ہے.(2) دوسری دعا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو سیح موعود کو دکھ دیں گے اور اس دعا کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورة تبتُ يَدَا أَبِي لَهَب ہے (3) تیسری دعا وَلَا الضَّالِّين ہے.اور اس کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورۃ اخلاص ہے یعنی قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ اور اس کے بعد دو اور سورتیں جو ہیں یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں سورۃ تبت اور سورۃ اخلاص کے لئے بطور شرح کے ہیں اور ان دونوں سورتوں میں اس تار یک زمانہ سے خدا کی پناہ مانگی گئی ہے جب کہ لوگ خدا کے مسیح کو دکھ دیں گے اور جب کہ عیسائیت کی ضلالت تمام دنیا میں پھیلے گی.پس سورۃ فاتحہ میں ان تینوں دعاؤں کی تعلیم بطور براعت الاستبلال ہے یعنی وہ اہم مقصد جو قرآن میں مفصل بیان کیا گیا ہے سورۃ فاتحہ میں بطور اجمال اس کا افتتاح کیا ہے اور پھر سورۃ تبت اور سورۃ اخلاص اور سورۃ فلق اور سورۃ الناس میں ختم قرآن کے وقت میں انہی دونوں بلاؤں سے خدا تعالی کی پناہ مانگی گئی ہے پس افتتاح کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں سے ہوا اور پھر اختتام کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں پر کیا گیا.اور یا در ہے کہ ان دونوں فتنوں کا قرآن شریف میں مفصل بیان ہے اور سورۃ فاتحہ اور آخری سورتوں میں اجمالاً ذکر ہے.مثلا سورۃ فاتحہ میں دعا ولا الضالین میں صرف دو لفظ میں سمجھایا گیا ہے کہ عیسائیت کے فتنہ سے بچنے کے لئے دعا مانگتے رہو جس سے سمجھا جاتا ہے کہ کوئی فتنہ عظیم الشان در پیش ہے جس کے لئے یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ نماز کے پنج وقت میں یہ دعا شامل کر دی گئی اور یہاں تک تاکید کی گئی کہ اس کے بغیر نماز ہونہیں سکتی جیسا کہ حديث لا صلوةَ إِلَّا بِالْفَاتِحَةِ سے ظاہر ہوتا ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 217-219)
192 تیسری فصل حضرت اقدس کا ذکر متفرق آیات قرآنیہ میں باری تعالیٰ کے اسم آخر کے مظہر ہونے کے اعتبار سے هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (الحديد : 4 ) وَإِنَّ الْمَسِيحَ مَظْهَرٌ لا سُمِ اللهِ الَّذِى هُوَ خَاتَمُ سِلْسَلَةِ الْمَخْلُوقَاتِ.أَعْنِي الَّا خِرَ الَّذِي أُشِيْرَ إِلَيْهِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى هُوَ الْأَخِرُ لِمَا هُوَ عَلَا مَةٌ لِمُنْتَهَى الْكَائِنَاتِ.فَلَا جُلِ ذَالِكَ اقْتَضَتْ نَفْسُ الْمَسِيحِ خَتَمَ سِلْسَلَةِ الْكَثْرَةِ بِالْمَمَاتِ أَوْ بِرَةِ الْمَذَاهِبِ إِلى دِينِ فِيْهِ مَوْتُ النُّفُوسِ مِنَ الْأَهْوَاءِ وَالْإِرَادَاتِ وَالْإِسْلاكِ عَلَى الشَّرِيعَةِ الْفِطْرِيَّةِ الَّتِي تَجْرِى تَحْتَ الْمَصَالِحِ الَّا لَهِيَّةِ وَتَخْلِيُصِ النَّاسِ مِنْ مَيْلِ النَّفْسِ بِهَوَاهَا إِلَى الْعَفْوِ وَالْاِنْتِقَامِ وَالْمُحَبَّةِ وَالْمُعَادَاتِ.ترجمه از مرتب :.یقینا صحیح جو سلسلہ مخلوقات کا خاتم ہے وہ اللہ کے اسم آخر کا مظہر ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ کے قول هو الاخر میں اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ وہ کائنات کی انتہاء کی علامت ہے اس لئے نفس مسیح نے کثرت کے سلسلہ کو موت کے ذریعہ ختم کرنے کا تقاضا کیا یامذہب کو ایسے دین کی طرف لوٹا دینے کے ساتھ جس میں نفس کو ارادوں اور شہوات سے ماردینے کی تعلیم دیتا ہے اور ایسی فطری شریعت پر چلنے کی تعلیم ہے جو مصالح الہیہ کے ماتحت چلتی ہے اور جس میں لوگوں کے نفوس کو ان کی خواہشات کے مطابق عفو، انتقام، محبت اور دشمنی کی طرف مائل ہونے سے نجات دلانے کا سامان ہے.(خطبہ الہامیہ.رخ جلد 16 صفحہ 308) اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ایک انسان خدا کی اولیت کا مظہر تھا اور ایک انسان خدا کی آخریت کا مظہر ہوگا اور لازم تھا کہ دونو انسان ایک صفت میں برعایت خصوصیات متحد ہوں.پس جبکہ آدم نر اور مادہ پیدا کیا گیا اور ایسا ہی شیث کو بھی.تو چاہئے تھا کہ آخری انسان بھی نر اور مادہ کی شکل پر پیدا ہو اس لئے قرآن کے حکم کے رو سے وہ وعدہ کا خلیفہ اور خاتم الخلفاء جس کو دوسرے لفظوں میں مسیح موعود کہنا چاہئے اسی طور سے پیدا ہونا ضروری تھا کہ وہ تو ہم کی طرح تولد پاوے اس طرح سے کہ پہلے اس سے لڑکی نکلے اور بعد اس کے لڑکا خارج ہوتا وہ خاتم الولد ہو.تریاق القلوب -رخ- جلد 15 صفحہ 485 484) کار من شد کار دلدار ازل پیکرم شد پیکر یار ازل میرا وجود اس یا راز لی کا وجود بن گیا اور میرا کام اس دلدار قدیم کا کام ہو گیا.بسکه جانم شد نہاں در یار من بوئے یار آمد ازیں گلزار من چونکہ مری جان میرے یار کے اندر مخفی ہو گئی اس لئے یار کی خوشبو میرے گلزار سے آنے لگی.از گریبانم بر آمد دلیرے نور حق داریم زیر چادرے ہماری چادر کے اندر خدا کا نور ہے.وہ دلبر میرے گریبان میں سے نکلا.احمد آخر زمان نام من است آخریں جامے ہمیں جام من است احمد آخر زماں میرا نام ہے اور میرا جام ہی ( دنیا کے لئے ) آخری جام ہے.در مشین فارسی مترجم صفحه 239) (سراج منیر.رخ جلد 12 صفحہ 101 )
193 دواحمد ہونے کے اعتبار سے وَهُوَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأَوْلَى وَ الْآخِرَةِ وَ لَهُ الْحُكْمُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ.(القصص: 71) فَأَوْمِي فِيْهِ إِلَى أَحْمَدَيْنِ وَ جَعَلَهُمَا مِنْ نُعَمَائِهِ الْكَاثِرَةِ.فَالْاَوَّلُ مِنْهُمَا أَحْمَدُ الْمُصْطَفَى وَرَسُوْلُنَا الْمُجْتَنِي.وَالثَّانِيُّ أَحْمَدُ احَرُ الزَّمَانِ الَّذِى سُمِّيَ مَسِيْحًا وَ مَهْدِيَّا مِّنَ اللَّهِ الْمَنَّانِ.وَقَدِ اسْتَنْبِطَتْ هَذِهِ النُّكْتَةُ مِنْ قَوْلِهِ.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.فَلْيَتَدَبَّرْ مَنْ كَانَ مِنَ الْمُتَدَبَّرِيْنَ.(اعجاز مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 139) ( ترجمہ از مرتب ) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو احمدوں کا ذکر فرما کر ہر دو کو اپنی بے پایاں نعمتوں میں شمار کیا ہے.ان میں سے پہلے احمد تو ہمارے نبی احمد مصطفے اور رسول مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسرا احمد احمد آخرالزمان ہے جس کا نام محسن خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی بھی رکھا گیا ہے.یہ نکتہ میں نے خدا تعالیٰ کے قول الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ سے اخذ کیا ہے.پس ہر غور وفکر کرنے والے کو غور کرنا چاہئے.فَحَاصِلُ هَذَا الْبَيَان اَنَّ اللهَ خَلَقَ أَحْمَدَيْنِ فِي صَدْرِ الْإِسْلَام وَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ وَأَشَارَ إِلَيْهِمَا بِتَكْرَارِ لَفْظِ الْحَمْدَ فِي أَوَّلِ الْفَاتِحَةِ وَ فِي آخِرِهَا لِأَهْلِ الْعِرْفَانِ وَ فَعَلَ كَذَالِكَ لِيَرُدَّ عَلَى النَّصْرَانِيِّينَ.وَ أَنْزَلَ أَحْمَدَيْنِ مِنَ السَّمَاءِ لِيَكُوْنَا كَالْجِدَارَيْنِ لِحَمَايَةِ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخَرِيْنَ.اعجاز مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 198) ( ترجمه از مرتب ).پس خلاصہ بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو احمد پیدا کئے ایک اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اور ایک آخری زمانہ میں.اور اللہ تعالیٰ نے اہل عرفان کے لئے سورۃ فاتحہ کے شروع میں اور اس کے آخر میں الحمد کا لفظاً ومعنا تکرار کر کے ان دونوں (احمدوں) کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور خدا نے ایسا عیسائیوں کی تردید کے لئے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے دو احمد آسمان سے اتارے تا وہ دونوں پہلوں اور پچھلوں کی حمایت کے لئے دو دیواروں کی طرح ہو جائیں.ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا اب جوش میں نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار پشتی دیوار دیں اور مامن اسلام ہوں نارسا ہے دستِ دشمن تا بفرق ایں جدار (براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 145 ) ( در مشین اردو صفحہ 137 136 )
194 مثیل انبیاء علیہم السلام ہونے کے اعتبار سے اس وقت میں امت موسوی کی طرح جو مامور اور مسجد دین آئے ان کا نام نبی نہ رکھا گیا تو اس میں یہ حکمت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ختم نبوت میں فرق نہ آوے ( جس کا مفصل ذکر قبل ازیں گذر چکا ہے ) اور اگر کوئی نبی نہ آتا تو پھر مماثلت میں فرق آتا.اس لیے اللہ تعالیٰ نے آدم.ابراہیم.نوح اور موسیٰ وغیرہ میرے نام رکھے حتی کہ آخر کار جَرِيُّ اللهِ فِي حُلَلِ الانْبِيَاءِ کہا.گویا اس سے سب اعتراض رفع ہو گئے اور آپ کی امت میں ایک آخری خلیفہ ایسا آیا جو موسیٰ کے تمام خلفاء کا جامع تھا.( ملفوظات جلد سوم صفحه 255) انبیاء کرچه بوده اند بسے من بعرفاں نہ کمترم زکسے اگر چہ انبیاء بہت ہوئے ہیں.مگر میں معرفت الہی میں کسی سے کم نہیں ہوں.وارث مصطفیٰ شدم به یقیں شدہ رنگیں برنگ یار حسیں میں یقیناً مصطفے کا وارث ہوں اور اس حسین محبوب کے رنگ میں رنگین ہوں.آدمم نیز احمد مختار در برم جامیہ ہمہ ابرار میں آدم بھی ہوں اور احمد مختار بھی میرے جسم پر تمام ابرار کے خلعت ہیں.زنده شد ہر نبی بآمدنم ہر رسولے نہاں پیر منم ہر نبی میرے آنے سے زندہ ہو گیا اور ہر رسول میرے پیرہن میں پوشیدہ ہے.آنچه داداست ہر نبی راجام داد آن جام را مرا بتمام جو جام اس نے ہر نبی کو عطا کیا تھا وہی جام اس نے کامل طور سے مجھے بھی دیا ہے.درشین فاری متر جم صفحه 334-335) ( نزول مسیح ر - خ جلد 18 صفحہ 477) مترجم ) نزول رخ میں کبھی آدم کبھی موسی کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم“ ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار در مشین اردو ) ( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 106)
195 آخر زمانہ کے حقیقی آدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وَ إِنَّ ادَمَ اخِرِ الزَّمَانِ حَقِيْقَةٌ هُوَنَبِيَّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنِّسْبَةُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ كَنِسْبَةِ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ وَ إِلَيْهِ أَشَارَ سُبْحَانَهُ فِي قَوْلِهِ وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ فَفَكَّرْ فِي قَوْلِهِ آخَرِيْنَ.وَ أَنْزَلَ اللهُ عَلَيَّ فَيْضَ هَذَا الرَّسُوْلِ فَأَتَمَّهُ وَأَكْمَلَهُ وَجَذَبَ إِلى لُطْفَهُ وَجُوْدَهُ حَتَّى صَارَ وُجُوْدِيْ وُجُوْدَهُ فَمَنْ دَخَلَ فِي جَمَاعَتِيْ دَخَلَ فِي صَحَابَةِ سَيّدِى خَيْرِ الْمُرْسَلِيْنَ وَهَذَا هُوَ مَعْنَى وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى الْمُتَدَبِرِيْنَ وَ مَنْ فَرَّقَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْمُصْطَفَى فَمَا عَرَفَنِيْ وَمَا رَأَى.ترجمه از اصل : - اور آخر زمانہ کا آدم در حقیقت ہمارے نبی کریم ہیں صلی اللہ علیہ وسلم اور میری نسبت اس کی جناب کے ساتھ استاد اور شاگرد کی نسبت ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اى بات کی طرف اشارہ کرتا ہے پس اخرین کے لفظ میں فکر کرو اور خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی کریم کے لطف اور جود کو میری طرف کھینچا یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہو گیا.پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا در حقیقت میرے سردار خیرالمرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا اور یہی معنے اخَرِينَ مِنْهُمْ کے لفظ کے بھی ہیں جیسا کہ سوچنے والوں پر پوشیدہ نہیں اور جو شخص مجھ میں اور مصطفے میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا ہے.بس که من در عشق او هستم نہاں من ہما نم.من ہمانم.من ہماں (خطبہ الہامیدر - خ- جلد 16 صفحہ 258-257) - از بس کہ میں اس کے عشق میں غایب ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.جانِ من از جان او یا بد غذا از گریبانم عیاں شد آں ذکا! میری روح اس کی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریباں سے وہی سورج نکل آیا ہے.احمد اندر جان احمد شد 삼성 اسم من گر دید آں اسم وحید احمد کی جان کے اندراحمد ظاہر ہو گیا اس لئے میر اوہی نام ہو گیا جو اس لاثانی انسان کا نام ہے.(سراج منیر -ر خ- جلد 12 صفحه 97 ) ( درشین فارسی مترجم صفحه 228)
196 محدث نبی کا مثیل ہوکر وہی نام پاتا ہے وَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَاءُ وَكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِيمًا (النساء: 65) یعنی ہر یک رسول مطاع اور امام بنانے کے لئے بھیجا جاتا ہے اس غرض سے نہیں بھیجا جاتا کہ کسی دوسرے کا مطیع اور تابع ہو ہاں محدث جو مرسلین میں سے ہے امتی بھی ہوتا ہے اور ناقص طور پر نبی بھی.امتی وہ اس وجہ سے کہ وہ بکلی تابع شریعت رسول اللہ اور مشکوۃ رسالت سے فیض پانے والا ہوتا ہے اور نبی اس وجہ سے کہ خدائے تعالیٰ نبیوں سا معاملہ اس سے کرتا ہے اور محدث کا وجود انبیا اور امم میں بطور برزخ کے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے وہ اگر چہ کامل طور پر امتی ہے مگر ایک وجہ سے نبی بھی ہوتا ہے.اور محدث کے لئے ضرور ہے کہ وہ کسی نبی کا مثیل ہو اور خدائے تعالیٰ کے نزدیک وہی نام پاوے جو اس نبی کا نام ہے.(ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 407) آدم ثانی ہونے کے اعتبار سے وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلِئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيْفَةٌ قَالُوْا أَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ.(البقره: 31) ( ترجمہ ) اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ انہوں نے کہا کیا تو بناوے گا اس میں جو فساد کرے گا اس میں اور بہائے گا خون اور ہم تسبیح کرتے ہیں ساتھ تیری حمد کے اور ہم تقدیس کرتے ہیں تیرے لیے فرمایا یقینا میں خوب جانتا ہوں جو نہیں تم جانتے.حضرت کی پیدائش جمعہ کے دن اور عصر کے وقت ہوئی غرض وجود آدم ثانی بھی جامع جلال و جمال ہے اور اسی وجہ سے آخر ہزار ششم میں پیدا کیا گیا اور ہزار ششم کے حساب سے دنیا کے دنوں کا یہ جمعہ ہے اور جمعہ میں سے یہ عصر کا وقت ہے جس میں یہ آدم پیدا ہوا اور سورۃ فاتحہ میں اس مقام کے متعلق ایک لطیف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ چونکہ سورۃ فاتحہ ایک ایسی سورت ہے جس میں مہداء اور معاد کا ذکر ہے یعنی خدا کی ربوبیت سے لیکر یوم الدین تک سلسلہ صفات الہیہ کو پہنچایا ہے.اسی مناسبت کے لحاظ سے حکیم ازلی نے اس سورت کو سات آتیوں پر تقسیم کیا ہے تا دنیا کی عمر میں سات ہزار کی طرف اشارہ ہو اور چھٹی آیت اس سورت کی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چھٹے ہزار کی تاریکی آسمانی ہدایت کو چاہے گی اور انسانی سلیم فطرتیں خدا کی جناب سے ایک ہادی کو طلب کریں گی یعنی مسیح موعود کو اور ضالین پر اس سورت کو ختم کیا ہے یعنی ساتویں آیت پر جو صَالِيْنَ کے لفظ پر ختم ہوتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضالین پر قیامت آئے گی.(تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 284، حاشیہ)
197 ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْارْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرُهَا ، قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ فَقَضْهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِى كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ، وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ ، وَحِفْظًا ، ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (حم السجدة: 1312) اگر چہ جمعہ کا دن سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر ایک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے سو آدم جمعہ کی اخیر گھڑی میں بنایا گیا یعنی عصر کے وقت پیدا کیا گیا.اسی وجہ سے احادیث میں ترغیب دی گئی ہے کہ جمعہ کی عصر اور مغرب کے درمیان بہت دعا کرو کہ اس میں ایک گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے یہ وہی گھڑی ہے جس کی فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی.اس گھڑی میں جو پیدا ہو وہ آسمان پر آدم کہلاتا ہے اور ایک بڑے سلسلہ کی اس سے بنیاد پڑتی ہے سو آدم اسی گھڑی میں پیدا کیا گیا.اس لئے آدم ثانی یعنی اس عاجز کو یہی گھڑی عطا کی گئی.اسی کی طرف براہین احمدیہ کے اس الہام میں اشارہ ہے کہ يَنْقَطِعُ ابَاؤُكَ وَيُبْدَءُ مِنْكَ تحفہ گولڑویہ - - خ- جلد 17 صفحہ 281 تا280 حاشیہ) حضرت اقدس آدم کی طرح سے تو ام پیدا ہوئے اہل اسلام کے اہل کشف نے مسیح موعود کو جو آخری خلیفہ اور خاتم الخلفاء ہے صرف اس بات میں ہی آدم سے مشابہ قرار نہیں دیا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا اور مسیح موعود چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا بلکہ اس بات میں بھی مشابہ قرار دیا ہے کہ آدم کی طرح وہ بھی جمعہ کے دن پیدا ہوگا اور اس کی پیدائش بھی تو ام کے طور پر ہوگی یعنی جیسا کہ آدم تو ام کے طور پر پیدا ہوا تھا.پہلے آدم اور بعد میں حوا ایسا ہی مسیح موعود بھی تو ام کے طور پر پیدا ہوگا سو الْحَمْدُ لِلهِ وَالمِنَّہ کہ متصوفین کی اس پیشگوئی کا میں مصداق ہوں.( حقیقت الوحی - ر-خ- جلد 22 صفحہ 209)
198 آدم ہزار ششم میں ہونے کے اعتبار سے وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ.(الحج:48) اس عاجز کو جو خدا تعالیٰ نے آدم مقرر کر کے بھیجا اس کا یہ نشان رکھا کہ الف ششم میں جو قائم مقام روز ششم ہے یعنی آخری حصہ الف میں جو وقت عصر سے مشابہ ہے اس عاجز کو پیدا کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ.(الحج: 48) اور ضرور تھا کہ وہ ابن مریم جس کا انجیل اور فرقان میں آدم بھی نام رکھا گیا ہے وہ آدم کی طرز پر الف ششم کے آخر میں ظہور کرتا.سو آدم اول کی پیدائش سے الف ششم میں ظاہر ہونے والا یہی عاجز ہے.بہت سی حدیثوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ بنی آدم کی عمر سات ہزار برس ہے اور آخری آدم پہلے آدم کی طرز ظہور پر الف ششم کے آخر میں جو روز ششم کے حکم میں ہے پیدا ہونے والا ہے سو وہ یہی ہے جو پیدا ہو گیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 476-475) قرآن شریف سے بھی صاف طور پر یہی نکلتا ہے کہ آدم سے اخیر تک عمر بنی آدم کی سات ہزار سال ہے اور ایسا ہی پہلی تمام کتابیں بھی با تفاق یہی کہتی ہیں اور آیت اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (الحج : 48) سے بھی یہی نکلتا ہے اور تمام نبی واضح طور پر یہی خبر دیتے آئے ہیں اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں سورة وَالْعَصْرِ کے اعداد سے بھی یہی صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آدم سے الف پنجم میں ظاہر ہوئے تھے اور اس حساب سے یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ہزار ہفتم ہے.جس بات کو خدا نے اپنی وحی سے ہم پر ظاہر کیا اس سے ہم انکار نہیں کر سکتے اور نہ ہم کوئی وجہ دیکھتے ہیں کہ خدا کے پاک نبیوں کے متفق علیہ کلمہ سے انکار کریں.پھر جبکہ اس قدر ثبوت موجود ہے اور بلاشبہ احادیث اور قرآن شریف کے رو سے یہ آخری زمانہ ہے پھر آخری ہزار ہونے میں کیا شک رہا.اور آخری ہزار کے سر پر مسیح موعود کا آنا ضروری ہے.لیکچر سیالکوٹ.ر.خ.جلد 20 صفحہ 210-209)
199 آدم آخر زماں ہونے کے اعتبار سے يُدْبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ.(السجده : 6) وَإِنَّ زَمَانَ خَلْقِي الْفَ سَادِسُ لَا رَيْبَ فِيْهِ فَاسْتَلِ الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَ نَطَقَ بِهِ التَّوْرَاةُ الَّتِي يُؤْمِنُ بِهَا الْمُسْلِمُوْنَ وَلَمْ يَثْبُتْ بِنُصُوصِ صَرِيْحَةٍ مَايُخَالِفُ هَذِهِ الْعِدَّةَ وَيَعْلَمُهُ الْعَالِمُوْنَ.فَمَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوْا بِعِدَّةِ التَّوْرَاةِ وَمَا قَالَ النَّبِيُّوْنَ.وَكَيْفَ وَمَا خَالَفَهُ الْقُرْآنُ بَلْ صَدَّقَهُ سُوْرَةُ الْعَصْرِ فَأَيْنَ يَفِرُّوْنَ.بَلْ إِلَيْهِ يُشِيْرُ قَوْلُهُ تَعَالَى يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ.وَ اقْرَءُ وْا مَعَهَا آيَةَ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ.هَذِهِ آيَةٌ كَتَبْنَاهَا مِنْ سُوْرَةِ السَّجْدَةِ وَمِنَ السُّنَّةِ أَنَّهَا تُقْرَءُ فِي صَلوةِ الْفَجْرِ مِنَ الْجُمْعَةِ وَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُوْلُ فِي هَذِهِ السُّوْرَةِ إِنَّهُ دَبَّرَ أَمْرَ الشَّرِيعَةِ بِإِنْزَالِ الْفُرْقَانِ الْحَمِيْدِ.وَأَكْمَلَ لِلنَّاسِ دِيْنَهُمْ بِالْكَلَامِ الْمَجِيْدِ.ثُمَّ يَأْتِي بَعْدَ ذَالِكَ زَمَانٌ تَمْتَدُّ ضَلَالَتُهُ إِلَى اَلْفِ سَنَةٍ وَيَرْفَعُ كِتَابُ اللَّهِ إِلَيْهِ وَ يَعْرُجُ إِلَى اللَّهِ أَمْرِهِ بِشِقَيْهِ يَعْنِيْ يُضَاعُ فِيْهِ حَقٌّ اللَّهِ وَ حَقُّ الْعِبَادِ.وَتَهُبُّ صَرَاصِرُ الْفَسَادِ عَلَى قِسْمَيْهِ.وَيَفْشُوا الكَذِبُ وَ الْفَريَّةُ يَعْنِي الْفِتَنُ الدَّجَّالِيَّةُ وَيَظْهَرُ الْفِسْقُ وَالْكُفْرُ وَالشَّرْكُ وَ تَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُعْرِضِيْنَ عَنْ رَّبِّهِمْ وَظَهِيْرِيْنَ عَلَيْهِ.ثُمَّ يَأْتِي بَعْدَ ذَالِكَ أَلْقَ أَخَرُيُغَاتُ فِيْهِ النَّاسُ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِيْنَ.وَيُرْسَلُ ادَمُ َاخِرِ الزَّمَانِ لِيُجَدِّدَ الذِيْنَ.وَ إِلَيْهِ أَشَارَ فِي آيَةٍ هِيَ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ أَعْنِي قَوْلُهُ وَبَدَا خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِيْنِ.وَإِنَّ هَذَا الْإِنْسَانَ هُوَ الْمَسِيْحُ الْمَوْعُوْدُ وَ قُدِرَ بَعْتُهُ بَعْدَ انْقَضَاءِ الْفِ سَنَةٍ مِنَ الْقُرُوْنِ الَّتِيْ هِيَ خَيْرُ الْقُرُوْنَ.وَاتَّفَقَ عَلَيْهِ مَعْشَرُ النَّبِيِّيْنَ.(خطبہ الہامیہ - ر- خ- جلد 16 صفحہ 332-331) ترجمه از مرتب:.لاریب میری پیدائش کا زمانہ چھٹا ہزار ہے پس تو اہل علم لوگوں سے دریافت کر لے اور تو رات نے بھی جس پر مسلمان ایمان رکھتے ہیں یہی بیان کیا ہے اور نصوص صریحہ سے اس گنتی کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں اور اہل علم اسے خوب جانتے ہیں پس ان کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ تو رات کی گنتی اور انبیاء کے بیان کا انکار کریں اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ خود قرآن کریم نے اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ سورۃ العصر نے اس کی تصدیق کر دی ہے پس وہ اس حقیقت سے بھاگ کر کہاں جاسکتے ہیں بلکہ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ کا یہ قول اشارہ کرتا ہے کہ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِى يَومٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا
200 تَعُدُّونَ.(السجدة: 6 ) اور اس کے ساتھ آیت قرآنیہ اِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ بھی پڑھو.یہ آیت ہم نے سورہ سجدہ سے لی ہے اور یہ سنت نبوی ہے کہ یہ سورۃ ہر جمعہ کو صبح کی نماز میں پڑھی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں بیان فرمایا ہے کہ اس نے قرآن کریم نازل کر کے اپنی شریعت کے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کر دیا اور کلام مجید کے ساتھ لوگوں کے لئے ان کے دین کو مکمل کر دیا.اس کے بعد پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس کی ضلالت ایک ہزار سال تک ممتد رہے گی اور کتاب اللہ اٹھالی جائے گی اور قرآن کریم کے احکام اپنے دونوں حصوں سمیت اللہ کی طرف عروج کر جائیں گے یعنی اس زمانہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ضائع کر دئیے جائیں گے اور اس کی دونوں قسموں پر فساد کی تند ہوائیں چلیں گی اور جھوٹ اور افتراء یعنی دجالی فتنے پھیل جائیں گے اور نافرمانی کفر اور شرک عام ہو جائے گا تو مجرم لوگوں کو اپنے رب سے سرتابی کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی مخالفت میں سرگرم دیکھے گا.پھر اس کے بعد دوسرا ہزار سال آئے گا جس میں رب العالمین کی طرف سے لوگوں کی فریادرسی کی جائے گی اور آدم آخر زمان کو تجدید دین کے لئے مبعوث کیا جائے گا.چنانچہ اس کی طرف اس کے بعد کی آیت یعنی وَ بَدَا خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طین میں اشارہ کیا گیا ہے اور یہ موعود انسان مسیح موعود ہی ہے اور اس کی بعثت کا زمانہ خیر القرون سے ایک ہزار سال ختم ہونے کے بعد ہی مقدر تھا اور اسی پر انبیاء کی جماعت نے اتفاق کیا ہے.فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِةٍ إِلَّا دَآبَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ (سبا: 15) یہ مسلمان دابتہ الارض ہیں اور اسی لئے اس کے مخالف ہیں جو آسمان سے آتا ہے.جو زمینی بات کرتا ہے وہ دابتہ الارض ہے.خدا تعالیٰ نے ایسا ہی فرمایا تھا.روحانی امور کو وہی دریافت کرتے ہیں جن میں مناسبت ہو چونکہ ان میں مناسبت نہ تھی اس لئے انہوں نے عصائے دین کو کھا لیا جیسے سلیمان کے عصا کو کھا لیا تھا.اور اس سے آگے قرآن شریف میں لکھا ہے کہ جب جنوں کو یہ پتہ لگا تو انہوں نے سرکشی اختیار کی.اسی طرح پر عیسائی قوم نے جب اسلام کی یہ حالت دیکھی یعنی دابتہ الارض نے اس عصائے راستی کو کمزور کر دیا تو ان قوموں کو اس پر وار کرنے کا موقع دے دیا.جن وہ ہے جو چھپ کر وار کرے اور پیار کے رنگ میں دشمنی کرتے ہیں وہی پیار جو تو اسے آکر نحاش نے کیا تھا.اس پیار کا انجام وہی ہونا چاہیئے جو ابتداء میں ہوا.آدم پر اسی سے مصیبت آئی.اُس وقت گویا وہ خدا سے بڑھ کر خیر خواہ ہو گیا.اسی طرح پر یہ بھی وہی حیات ابدی پیش کرتے ہیں جو شیطان نے کی تھی اس لئے قرآن شریف نے اول اور آخر کو اس پر ختم کیا.اس میں سر یہ تھا کہ تابتا یا جاوے کہ ایک آدم آخر میں بھی آنے والا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 143-144)
201 خاتم الخلفاء اور آدم ایک ہیں خدا نے آدم کو چھٹے دن بروز جمعہ بوقت عصر پیدا کیا.توریت اور قرآن اور احادیث سے یہی ثابت ہے اور خدا نے انسانوں کے لئے سات دن مقرر کئے ہیں اور ان دنوں کے مقابل پر خدا کا ہر ایک دن ہزار سال کا ہے.اس کی رو سے استنباط کیا گیا ہے کہ آدم سے عمر دنیا کی سات ہزار سال ہے اور چھٹا ہزار جو چھٹے دن کے مقابل پر ہے وہ آدم ثانی کے ظہور کا دن ہے یعنی مقدر یوں ہے کہ چھٹے ہزار کے اندر دینداری کی روح دنیا سے مفقود ہو جائے گی اور لوگ سخت غافل اور بیدین ہو جائیں گے تب انسان کے روحانی سلسلہ کو قائم کرنے کے لئے مسیح موعود آئے گا اور وہ پہلے آدم کی طرح ہزار ششم کے اخیر میں جو خدا کا چھٹا دن ہے ظاہر ہوگا چنانچہ وہ ظاہر ہو چکا اور وہ وہی ہے جو اس وقت اس تحریر کی رو سے تبلیغ حق کر رہا ہے.میرا نام آدم رکھنے سے اس جگہ یہ مقصود ہے کہ نوع انسان کا فرد کامل آدم سے ہی شروع ہوا اور آدم پر ہی ختم ہوا کیونکہ اس عالم کی وضع دوری ہے اور دائرہ کا کمال اسی میں ہے کہ جس نقطہ سے شروع ہوا ہے اسی نقطہ پر ختم ہو جائے پس خاتم الخلفاء کا آدم نام رکھنا ضروری تھا.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 260) روضہ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار در مشین اردو ) ( براہین احمدیہ.رخ جلد 21 صفحہ 144) مثیل نوح ہونے کے اعتبار سے فَاَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ : فَاسْلُكْ فِيهَا مِنْ كُلّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ، وَلَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُّغْرَقُونَ (المومنون: 28) اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام نوح بھی رکھا ہے اور میری نسبت فرمایا ج ہے وَلَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ یعنی میری آنکھوں کے سامنے کشتی بنا اور ظالموں کی شفاعت کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کر کہ میں اُن کو غرق کروں گا.خدا نے نوح کے زمانہ میں ظالموں کو قریباً ایک ہزار سال تک مہلت دی تھی اور اب بھی خیر القرون کی تین صدیوں کو علیحدہ رکھ کر ہزار برس ہی ہو جاتا ہے.اس حساب سے اب یہ زمانہ اس وقت پر آپہنچتا ہے جب کہ نوح کی قوم عذاب سے ہلاک کی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے مجھے فرمايا إِصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ یعنی میری آنکھوں کے رو برو اور میر کے حکم سے کشتی بنا.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 113)
202 تبلیغ میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کوعموما اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصا پہنچا تا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور کچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولی کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں.پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غمخوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کرونگا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں اُن کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان تیار ہونگے یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے.اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے.اذا عزمت فتوكل على الله واصنع الفلك باعيننا و وحينا.الذين يبايعونك انما يبايعون الله يد الله فوق ايديهم.والسلام على من اتبع الهدى.المبلغ خاکسار غلام احمد عفی عنہ ( یکم دسمبر 1888ء) (سبز اشتہار - ر-خ- جلد 2 صفحہ 470) والله کہ بچھو کشتی نوحم ز کردگار بے دولت آنکه دور بماند ز دز لنگرم ترجمہ:.بخدا.میں اپنے پروردگار کی طرف سے نوح کی کشتی کے مانند ہوں.بدقسمت ہے وہ جو میرے لنگرانداز ہونے کی جگہ سے دور رہتا ہے.در مشین فارسی مترجم صفحه 167) (ازالہ اوہام - رخ جلد 3 صفحہ 185) جہاں رادل ازیں طاعون دو نیم است نہ ایں طاعون که طوفانِ عظیم است دنیا کا دل اس طاعون کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا.یہ طاعون نہیں بلکہ طوفان عظیم ہے.بیا بشتاب سوئے کشتی ما که این کشتی ازاں رب عظیم است جلدی سے ہماری کشتی کی طرف آجا.کہ یہ کشتی خدائے عظیم کی طرف سے ہے.( در شین فاری مترجم صفحه 279 ) ( کشتی نوح - ر - خ - جلد 19 صفحہ ٹائٹیل)
203 مثیل ابراہیم ہونے کے اعتبار سے وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَاَمْنًا ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِم مُصَلَّى ، وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِمَ وَإِسْمَعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (البقره: 126) آیت وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاهِمَ مُصَلَّی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہوگا اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اُس ابراہیم کا پیرو ہوگا.اربعین.رخ جلد 17 صفحہ 421) یہ ابراہیم جو بھیجا گیا تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجالا ؤ اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اربعین - رخ جلد 17 صفحہ 421-420) اپنے تئیں بناؤ.وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو.اس جگہ مقامِ ابراہیم سے اخلاق مرضیہ و معاملہ باللہ مراد ہے یعنی محبت الہیہ اور تفویض اور رضا اور وفا یہی حقیقی مقام ابراہیم کا ہے جو امت محمدیہ کو بطور تبعیت و وراثت عطا ہوتا ہے اور جو شخص قلب ابراہیم پر مخلوق ہے.اُس کی اتباع بھی اسی میں ہے.( براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 608) میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار در نتین اردو ) ( براہین احمدیہ..جلد 21 صفحہ 106) مثیل بیجنی ہونے کے اعتبار سے ييُحْيِي خُذِا لَكِتَبَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَهُ الْحُكْمَ صَبِيَّان (مريم: 13) حضرت اقدس نے اپنا ایک پرانا الہام سُنایا يَا يَحْيِي خُذِا لَكِتَابَ بِقُوَّةٍ (اور فرمایا) وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ.اور فرمایا کہ اس میں ہم کو حضرت بیٹی کی نسبت دی گئی ہے.کیونکہ حضرت یحی کو یہود کی اُن اقوام سے مقابلہ کرنا پڑا تھا جو کتاب اللہ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہورہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے.ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہلِ حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 203)
204 خلافت موسوی اور خلافت محمدی کی مماثلت کے اعتبار سے وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ.(البقره: 88) یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور بہت سے رسل اس کے پیچھے آئے...چونکہ مماثلت فی انعامات ہونا از بس ضروری ہے اور مماثلت تامہ بھی متفق ہو سکتی تھی کہ جب مماثلت فی الانعامات متحقق ہو پس اسی لئے یہ ظہور میں آیا کہ جیسے حضرت موسی کو قریباً چودہ سو برس تک ایسے خدام شریعت عطا کئے گئے کہ وہ رسول اور ملہم من اللہ تھے اور اختتام اس سلسلہ کا ایک ایسے رسول پر ہوا جس نے تلوار سے نہیں بلکہ فقط رحمت اور خلق سے حق کی طرف دعوت کی اسی طرح ہمارے نبی ﷺ کو بھی وہ خدام شریعت عطا کئے گئے جو برطبق حدیث عُــلــمــاءُ أُمَّتِي كَانُبِيَاءِ بَنِي إِسْرائيل ملھم اور محدث تھے اور جس طرح موسیٰ کی شریعت کے آخری زمانہ میں حضرت مسیح بھیجے گئے جنہوں نے نہ تلوار سے بلکہ صرف خلق اور رحمت سے دعوت حق کی.اسی طرح خدا تعالیٰ نے اس شریعت کے لئے مسیح موعود کو بھیجاتا وہ بھی صرف خلق اور رحمت اور انوار آسمانی سے راہ راست کی دعوت کرے اور جس طرح حضرت مسیح حضرت موسیٰ سے قریباً چودہ سو برس بعد آئے تھے اس مسیح موعود نے بھی چودھویں صدی کے سر پر ظہور کیا اور محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ سے انطباق کی پا گیا اور اگر یہ کہا جائے کہ موسوی سلسلہ میں تو حمایت دین کے لئے نبی آتے رہے اور حضرت مسیح بھی نبی تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرسل ہونے میں نبی اور محدث ایک ہی منصب رکھتے ہیں اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے نبیوں کا نام مرسل رکھا ایسا ہی محدثین کا نام بھی مرسل رکھا.اسی اشارہ کی غرض سے قرآن شریف میں وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِم بالرُّسُل آیا ہے اور یہ نہیں آیا کہ قَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بالا نبیاء پس یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسل سے مراد مرسل ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی ہوں یا محدث ہوں چونکہ ہمارے سید ورسول ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت ﷺ کوئی نبی نہیں آسکتا اس لئے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے اور اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ خُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ (الواقعہ: 40-41) چونکہ ٹلہ کا لفظ دونوں فقروں میں برابر آیا ہے اس لئے قطعی طور پر یہاں سے ثابت ہوا کہ اس اُمت کے محدث اپنی تعداد میں اور اپنے طولانی سلسلہ میں موسوی اُمت کے مرسلوں کے برابر ہیں اور در حقیقت اسی کی طرف اس دوسری آیت میں بھی اشارہ ہے اور وہ یہ ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ ----(إلى) لَا يُشْرِكُونَ بي شَيْئًا ( النور : 56) یعنی خدا نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کئے یہ وعدہ کیا ہے کہ البتہ انہیں زمین میں اسی طرح خلیفہ کرے گا.جیسا کہ ان لوگوں کو کیا.جوان سے پہلے گزر گئے.اور ان کے دین کو جو ان کے لئے پسند کیا ہے.ثابت کر دے گا.اور ان کے لئے خوف کے بعد امن کو بدل دے گا.میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.(شہادۃ القرآن - رخ جلد 6 صفحه 322 تا324)
205 سورۃ نور میں صریح اشارہ فرماتا ہے کہ ہر ایک رنگ میں جیسے بنی اسرائیل میں خلیفے گذرے ہیں وہ تمام رنگ اس امت کے خلیفوں میں بھی ہوں گے چنانچہ اسرائیلی خلیفوں میں سے حضرت عیسیٰ ایسے خلیفے تھے جنہوں نے نہ تلوار اٹھائی اور نہ جہاد کیا.سو اس امت کو بھی اسی رنگ کا مسیح موعود دیا گیا دیکھو آیت وَعَدَ اللهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ....وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ - ( النور : 56) اس آیت میں فقرہ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قابل غور ہے کیونکہ اس سے سمجھا جاتا ہے کہ محمدی خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہہ ہے اور چونکہ موسوی خلافت کا انجام ایسے نبی پر ہوا یعنی حضرت عیسیٰ پر جو حضرت موسیٰ سے چودھویں صدی کے سر پر آیا اور نیز کوئی جنگ اور جہاد نہیں کیا اس لئے ضروری تھا کہ آخری خلیفہ سلسلہ محمدی کا بھی اسی شان کا ہو.(لیکچر سیالکوٹ.رخ جلد 20 صفحہ 214-213) ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَلَّيْفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِ هِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ 0 (يونس: 15) قرآن شریف کی رُو سے سلسلہ محمد یہ سلسلہ موسویہ سے ہر ایک نیکی اور بدی میں مشابہت رکھتا ہے اسی کی طرف ان آیتوں میں اشارہ ہے کہ ایک جگہ یہود کے حق میں لکھا ہے فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (الاعراف: 130) دوسری جگہ مسلمان کے حق میں لکھا ہے لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُون (یونس : 15) اِن دونوں آیتوں کے یہ معنی ہیں کہ خدا تمہیں خلافت و حکومت عطا کر کے پھر دیکھے گا کہ تم راستبازی پر قائم رہتے ہو یا نہیں.ان آیتوں میں جو الفاظ یہود کے لئے استعمال کئے ہیں وہی مسلمانوں کے لئے.یعنی ایک ہی آیت کے نیچے ان دونوں کو رکھا ہے پس ان آیتوں سے بڑھ کر اس بات کے لئے اور کونسا ثبوت ہو سکتا ہے کہ خدا نے بعض مسلمانوں کو یہود قرار دے دیا اور صاف اشارہ کر دیا ہے کہ جن بدیوں کے یہود مرتکب ہوئے تھے یعنی علماء ان کے اس اُمت کے علماء بھی انہیں بدیوں کے مرتکب ہوں گے اور اسی مفہوم کی طرف آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ میں بھی اشارہ ہے کہ کیونکہ اس آیت میں باتفاق گل مفسرین مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ سے مراد وہ یہود ہیں جن پر حضرت عیسی کے انکار کی وجہ سے غضب نازل ہوا تھا اور احادیث صحیحہ میں مغضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد وہ یہود جو مور د غضب الہی دُنیا میں ہی ہوئے تھے اور قرآن شریف یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ یہود کو مغضوب علیہم ٹھہرانے کے لئے حضرت عیسی کی زبان پر لعنت جاری ہوئی تھی.پس یقینی اور قطعی طور پر مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد وہ یہود ہیں جنہوں نے حضرت عیسی کو سولی پر ہلاک کرنا چاہا تھا.اب خدا تعالی کا یہ دعا سکھلانا کہ خدایا ایسا کر کہ ہم وہی یہودی نہ بن جائیں جنہوں نے عیسی کو قتل کرنا چاہا تھا صاف بتلا رہا ہے کہ اُمت محمدیہ میں بھی ایک عیسی پیدا ہونے والا ہے ورنہ اس دعا کی کیا ضرورت تھی.( تذکرہ الشہادتین.رخ جلد 20 صفحہ 13)
206 ہر مجد دکا خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک خاص نام ہے اس لئے خدا نے چودھویں صدی کے سر پر اپنے وعدہ کے موافق جو إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَوَ إِنَّا لَهُ لَحْفِظُونَ (الحجر: 10) ہے.اس فتنہ کی اصلاح کے لئے ایک مجددبھیجا مگر چونکہ ہر ایک مسجد د کا خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک خاص نام ہے اور جیسا کہ ایک شخص جب ایک کتاب تالیف کرتا ہے تو اس کے مضامین کے مناسب حال اس کتاب کا نام رکھ دیتا ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اس مجدد کا نام خدمات مفوضہ کے مناسب حال مسیح رکھا کیونکہ یہ بات مقرر ہو چکی تھی کہ آخرالزمان کے صلیبی فتنوں کی مسیح اصلاح کرے گا.پس جس شخص کو یہ اصلاح سپرد ہوئی ضرور تھا کہ اس کا نام مسیح موعود رکھا جائے.پس سوچو کہ يَكْسِرُ الصَّلِيْب کی خدمت کس کو سپرد ہے؟ اور کیا اب یہ وہی زمانہ ہے یا کوئی اور ہے؟ سوچوخدا تمہیں تھام لے.ایام اصلح.ر.خ.جلد 14 صفحہ 290-289) الصد حضرت اقدس مثیل مسیح ابن مریم ہیں جائیکه از مسیح و نزولش سخن رود گویم سخن اگر چه ندارند باورم جس جگہ مسیح اور اس کے نزول کا ذکر ہو.وہاں میں یہی کہتا ہوں اگر چہ لوگ یقین نہ کریں.کاندر دلم و مید خداوند کردگار کاں برگزیده راز رو صدق مظهرم کہ خداوند کردگار نے مجھے الہام کیا ہے کہ میں اس برگزیدہ کا سچا مظہر ہوں.موعودم و محلیه ما ثور آمدم حیف است گر بدیده نه نبیند منظرم میں موعود ہوں اور میرا حلیہ حدیثوں کے مطابق ہے.افسوس ہے اگر آنکھیں کھول کر مجھے نہ دیکھیں.رنگم چوگندم است و بمو فرق بین ست زانسان که آمد مست در اخبار سرورم میرا رنگ گندمی ہے اور بالوں میں نمایاں فرق ہے.جیسا کہ میرے آقا کی احادیث میں وارد ہے.اس مقدمم نہ جائے شکوک ست والتباس سید جدا کندز مسیحاء احمرم میرے آنے میں شک وشبہ کی گنجایش نہیں.میرا آقا مجھے سرخ رنگ والے مسیح سے علیحدہ کر رہا ہے.از کلمهء مناره شرقی عجب مدار چوں خود زمشرق است تجلی نیرم مشرقی منارہ والی بات سے تعجب نہ کر.جبکہ میرے سورج کا طلوع مشرق سے ہی ہے.اینک منم که حسب بشارات آمدم عیسی کجاست تا بنهد پا به منبرم میں ہی ہوں جو بشارات کے مطابق آیا ہوں.عیسی کہاں ہے جو میرے منبر پر قدم رکھے.( درشین فارسی مترجم صفحه 160 ) (ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 180 )
207 اسموا صوت السماء جاء المسيح جاء المسيح نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار آسمان بار و نشاں الوقت مے گوید زمیں اس دوشاہد از پئے من نعرہ زن چوں بے قرار اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے وقت ہے جلد آؤ اے آوارگان دشت خار اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار ( در شین اردو صفحه 131-130 ) ( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 132) ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتْهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللهِ شَيْئًا وَقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدُّخِلِيْنَ.وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِيْنَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِيْنَ.وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَحْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقِنِتِينَ.(التحريم : 11تا13) أَنْظُرُوا كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلَ مَرْيَمَ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ.فِي هَذِهِ السُّوْرَةِ.وَ وَعَدَ فِي هَذِهِ الْحُلَّةِ أَنَّ ابْنَ مَرْيَمَ مِنْكُمْ عِنْدَ التَّقَاةِ الْكَامِلَةِ.وَكَانَ مِنَ الْوَاجِبِ لِتَحْقِيقِ هَذَا الْمَثَلِ الْمَذْكُوْرِ فِي هذِهِ الْآيَةِ.بِأَنْ يَكُوْنَ فَرْدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ.لِيَتَحَقَّقَ الْمَثَلُ فِي الْخَارِجِ مِنْ غَيْرِ الشَّيِّ وَالشُّبْهَةِ.وَإِلَّا فَيَكُوْنُ هذَا الْمَثَلُ عَبَنَّا وَكِذَّبًا لَيْسَ مِصْدَاقُهُ فَرْدًا مِنْ أَفْرَادِ هذِهِ الْمِلَّةِ وَ ذَلِكَ مِمَّا لَا يَلِيْقُ بِشَانٍ حَضْرَةِ التَّقَدُّسِ وَالْعِزَّةِ.ترجمه از مرتب :.دیکھو اللہ تعالٰی نے اس سورت میں کس طرح مریم علیہا السلام کی مثال اس امت کے لئے بیان کی ہے اور اس لباس میں وعدہ فرمایا ہے کہ ابن مریم کامل متقیوں کے نزدیک تمہیں میں سے ہوگا.اس آیت میں مثال مذکورہ کے متحقق ہونے کے لئے ضروری تھا کہ اسی امت کا ایک فرد عیسی بن مریم ہوتا.یہ مثال خارج میں بھی بلا شک وشبہ متفق ہو ورنہ یہ مثال عبث اور جھوٹ ہوگی جس کا مصداق اس امت کے افراد میں سے کوئی نہیں ہوگا اور یہ ایسی بات ہے جو خدائے قدوس اور رب العزت کی شان کے شایاں نہیں.(خطبہ الہامیہ...خ.جلد 16 صفحہ 310) الہام حضرت اقدس جَعَلْنَاكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ.ہم نے تجھ کو سیح ابن مریم بنایا.ان کو کہدے کہ میں عیسی کے قدم پر آیا ہوں.( تذکرہ صفحہ 185) ایسے شخص کو جو مریکی صفت سے محض خدا کے نفخ سے عیسوی صفت حاصل کرنے والا تھا اس کا نام سورۃ تحریم میں ابن مریم رکھ دیا ہے کیونکہ فرمایا ہے کہ جبکہ مثالی مریم نے بھی تقویٰ اختیار کیا تو ہم نے اپنے طرف سے روح پھونک دی اس میں اشارہ تھا کہ مسیح ابن مریم میں کلمتہ اللہ ہونے کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ آخری مسیح بھی کلمتہ اللہ ہے اور روح اللہ بھی بلکہ ان دونوں صفات میں وہ پہلے سے زیادہ کامل ہے جیسا کہ سورت تحریم اور سورت فاتحہ اور سورۃ النور اور آیت كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ (ال عمران: 111) سے سمجھا جاتا ہے.( تریاق القلوب -ر-خ- جلد 15 صفحہ 484)
208 الہام میں خدا تعالیٰ نے میرا نام عیسی رکھا اور مجھے اس قرآنی پیشگوئی هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِه (الصف: 10) کا مصداق ٹھہرایا جو حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے خاص تھی اور آنے والے مسیح موعود کے تمام صفات مجھ میں قائم کئے.ایام اسح.ر.خ.جلد 14 صفحہ 272) الصل چوں مرا نورے بئے قومے مسیحی داده اند مصلحت را ابن مریم نام من نیهاده اند چونکہ مجھے عیسائی قوم کے لیے ایک نور دیا گیا ہے.اس وجہ سے میرا نام ابن مریم رکھا گیا.نے درخشم چوں قمر تا بم چو قرص آفتاب کور چشم آنانکه در انکار با افتاده اند میں چاند کی طرح روشن ہوں اور آفتاب کی طرح چمکتا ہوں.وہ اندھے ہیں جوانکار میں پڑے ہوئے ہیں.بشنوید اے طالباں کز غیب بکنند ایں ندا مصلح باید که در هر جا مفاسد زاده اند اے طالبو! سنو غیب سے یہ آواز آرہی ہے کہ ایک مصلح درکار ہے کیونکہ ہر جگہ فساد پیدا ہو گئے ہیں.صادقم و از طرف مولی با نشانها آمدم صد ور علم و ہدی بر روئے من بکشادہ اند میں صادق ہوں اور مولی کی طرف سے نشان لے کر آیا ہوں.علم و ہدایت کے سینکڑوں در مجھ پر کھولے گئے ہیں.آسمان بارد نشان الوقت میگوید زمیں ایس دوشاہد از پیئے تصدیق من استادہ اند آسمان نشان برسا رہا ہے اور زمین پکار رہی ہے کہ یہی وقت ہے میری تصدیق کے لیے یہ دو گواہ کھڑے ہیں.در مشین فارسی مترجم صفحہ 190 - 189 ) ( آئینہ کمالات اسلام - ر - خ - جلد 5 صفحہ 358) ابن مریم ہوں مگر اترا نہیں میں چرخ سے نیز مھدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کارزار ملک سے مجھکو نہیں مطلب نہ جنگوں سے ہے کام کام میرا ہے دلوں کو فتح کرنا نے دیار تاج و تخت ہند قیصر کو مبارک ہو مدام ان کی شاہی میں میں پاتا ہوں رفاہ روزگار مجھکو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھکو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمین کو کیا کریں آسماں کے رہنے والوں کو زمین سے کیا نقار ( در نشین اردو ) ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ.جلد 21 صفحہ 141) وَالَّتِي اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَحْنَا فِيهَا مِنْ رُّوحِنَا وَجَعَلْنَهَا وَابْنَهَا آيَةً لِلْعَلَمِينَ) (الانبياء : 92) قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں ایک مثال فرعون کی عورت سے ہے جو کہ اس قسم کے خاوند سے خدا کی پناہ چاہتی ہے.یہ اُن مومنوں کی مثال ہے جو نفسانی جذبات کے آگے گر جاتے ہیں اور غلطیاں کر بیٹھتے ہیں پھر پچھتاتے ہیں تو بہ کرتے ہیں خدا سے پناہ مانگتے ہیں اُن کا نفس فرعون سے خاوند کی طرح اُن کو تنگ کرتا رہتا ہے وہ لوگ نفس لوامہ رکھتے ہیں بدی سے بچنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں.دوسرے مومن وہ ہیں جو اس سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں وہ صرف بدیوں سے ہی نہیں بچتے بلکہ نیکیوں کو حاصل کرتے ہیں.اُن کی مثال اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم سے دی ہے اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِنْ
209 رُوحِنَا.ہر ایک مومن جو تقویٰ اور طہارت میں کمال پیدا کرے وہ بروزی طور پر مریم ہوتا ہے اور خدا اس میں اپنی روح پھونک دیتا ہے جو کہ ابنِ مریم بن جاتی ہے.زمخشری نے بھی اس کے یہی معنے کئے ہیں کہ یہ آیت عام ہے اور اگر یہ معنی نہ کئے جاویں تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ مریم اور ابن مریم کے سوامس شیطان سے کوئی محفوظ نہیں.اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ تمام انبیاء پر شیطان کا دخل تھا.پس دراصل اس آیت میں بھی اشارہ ہے کہ ہر ایک مومن جو اپنے تئیں اس کمال کو پہنچائے.خدا کی روح اس میں پھونکی جاتی ہے اور وہ ابنِ مریم بن جاتا ہے اور اس میں ایک پیشگوئی ہے کہ اس اُمت میں ابنِ مریم پیدا ہوگا.تعجب ہے کہ لوگ اپنے بیٹوں کا نام محمد اور عیسی اور موسیٰ اور یعقوب اور اسحاق اور اسماعیل اور ابراہیم رکھ لیتے ہیں اور اس کو جائز جانتے ہیں پر خدا کے لئے ناجائز نہیں جانتے کہ وہ کسی کا نام عیسی یا ابن مریم رکھ دے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 522-523) زیں سبب شد ابن مریم نامِ من زانکه مریم بود اول گام من! میرا نام ابن مریم اس لیے ہوا.کہ مریم بنا میرا پہلا قدم تھا.بعد ازاں ازحیح حق عیسی شدم شد ز جائے مریمی بر تر قدم پھر میں خدائی نفخ کے سبب سے عیسی ہو گیا اور مقام مریمی سے میرا قدم اونچا ہو گیا.ایں ہمہ گفت است رب العالمین گر نے دانی برا ہیں راہیں یہ سب باتیں رب العالمین کی فرمودہ ہیں.اگر تجھے علم نہیں تو براہین احمدیہ کو دیکھے.( در تمین فارسی صفحہ 304) ( حقیقت الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 408) إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إلى فِرْعَوْنَ رَسُوْلاً.(المزمل: 16) ترجمہ :.یقینا ہم نے بھیجا تمہاری طرف رسول گواہی دینے والا تم پر جیسا کہ بھیجا ہم نے طرف فرعون کی رسول.میں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لئے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے.میں اسی طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح سے وہ شخص بعد کلیم اللہ مرد خدا کے بھیجا گیا تھا جس کی روح ہیروڈلیس کے عہد حکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اٹھائی گئی.سو جب دوسرا کلیم اللہ جوحقیقت میں سب سے پہلا اور سید الانبیاء ہے دوسرے فرعونوں کی سرکوبی کے لئے آیا جس کے حق میں ہے اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً سو اس کو بھی جو اپنی کارروائیوں میں کلیم اول کا مثیل مگر رتبہ میں اس سے بزرگ تر تھا ایک مثیل مسیح کا وعدہ دیا گیا اوروہ مثیل اسی قوت اور طبع اور خاصیت مسیح ابن مریم کی پا کر اس زمانہ کی مانند اور سی مدت کے قریب قریب جو کلیم اول کے زمانہ سے مسیح ابن مریم کے زمانہ تک تھی یعنی چودھویں صدی میں آسمان سے اترا اوروہ اتر ناروحانی طور پر تھا جیسا کہ مکمل لوگوں کا صعود کے بعد خلق اللہ کی اصلاح کے لئے نزول ہوتا ہے اور سب باتوں میں اسی زمانہ کے ہم شکل زمانہ میں اترا جو مسیح ابن مریم کے اترنے کا زمانہ تھا تا سمجھنے والوں کے لئے نشان ہو.(فتح اسلام -ر خ- جلد 3 صفحہ 8)
210 میں تو آیا اس جہاں میں ابن مریم کی طرح میں نہیں مامور از بهر جهاد و کار زار پر اگر آتا کوئی جیسی انہیں امید تھی اور کرتا جنگ اور دیتا غنیمت بے شمار ایسے مہدی کے لئے میداں کھلا تھا قوم میں پھر تو اس پر جمع ہوتے ایک دم میں صد ہزار پر یہ تھا رحم خداوندی کہ میں ظاہر ہوا آگ آتی گر نہ میں آتا تو پھر جاتا قرار آگ بھی پھر آ گئی جب دیکھ کر اتنے نشاں قوم نے مجھ کو کہا کذاب ہے اور بدشعار ہے یقیں یہ آگ کچھ مدت تلک جاتی نہیں ہاں مگر توبہ کریں باصد نیاز و انکسار ( در شین اردو صفحه 137 ) ( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 138 ) ایک شخص کا اس اُمت میں سے مسیح کے نام پر آنا ضروری ہے.کیوں ضروری ہے.تین وجہ سے.اوّل یہ کہ مماثلت تامہ کاملہ ہمارے نبی ﷺ کی حضرت موسیٰ سے جو آیت كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً سے مفہوم ہوتی ہے اس بات کو چاہتی ہے.وجہ یہ کہ آیت انا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا (المزمل: (16) صاف بتلا رہی ہے کہ جیسے حضرت موسی اپنی اُمت کی نیکی بدی پر شاہد تھے ایسا ہی ہمارے عملہ بھی شاہد ہیں مگر یہ شہادت دوامی طور پر بجز صورت استخلاف کے حضرت موسیٰ" کے لئے ممکن نہیں ہوئی یعنی خدا تعالیٰ نے اسی اتمام حجت کی غرض سے حضرت موسی کے لئے چودہ سو برس تک خلیفوں کا سلسلہ مقرر کیا جو در حقیت توریت کے خادم اور حضرت موسیٰ کی شریعت کی تائید کے لئے آتے تھے تا خدا تعالیٰ بذریعہ ان خلیفوں کے حضرت موسیٰ" کی شہادت کے سلسلہ کو کامل کر دیوے اور وہ اس لائق ٹھہر ہیں کہ قیامت کو تمام بنی اسرائیل کی نسبت خدا تعالیٰ کے سامنے شہادت دے سکیں ایسا ہی اللہ جل شانہ نے اسلامی اُمت کے کل لوگوں کیلئے ہمارے نبی ﷺ کو شاہد ٹھہرایا ہے اور فرمایا إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ اور فرمایا وَجِئْنَا بِكَ عَلى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (النساء :42) مگر ظاہر ہے کہ ظاہری طور پر تو آنحضرت علی صرف تئیس برس تک اپنی اُمت میں رہے پھر یہ سوال کہ دائمی طور پر وہ اپنی اُمت کے لئے کیونکر شاہد ٹھہر سکتے ہیں یہی واقعی جواب رکھتا ہے کہ بطور استخلاف کے یعنی موسیٰ علیہ السلام کی مانند خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے لئے بھی قیامت تک خلیفے مقرر کر دیئے اور خلیفوں کی شہادت بعنیہ آنحضرت ﷺ کی شہادت متصور ہوئی اور اس طرح پر مضمون آیت إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ.ہریک پہلو سے درست ہو گیا.غرض شہادت دائمی کا عقیدہ جو نص قرآنی سے متواتر ثابت اور تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلم ہے تبھی معقولی اور تحقیقی طور پر ثابت ہوتا ہے جب خلافت دائمی کو قبول کیا جائے اور یہ امر ہمارے مدعا کو ثابت کرنے والا ہے فتدبر.شہادت القرآن.رخ جلد 6 صفحه 362 تا 363)
211 کا سر الصلیب ہونے کے اعتبار سے حتى إِذَا فُتِحَتْ يَاجُوجُ وَ مَاجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُوْنَ (انبياء: 97) حضرت اقدس نے جو حجرہ دعائیہ بنایا ہے.اس کی نسبت فرمایا کہ: - ہمارا اس سے بڑا کام تو کسر صلیب ہے اگر یہ کام ہو جاوے تو ہزاروں شبہات اور اعتراضات کا جواب خود بخودہی ہو جاتا ہے اور اسی کے ادھورا رہنے سے سینکڑوں اعتراضات ہم پر وارد ہو سکتے ہیں.دیکھا گیا ہے کہ چالیس یا پچاس کتا ہیں لکھی ہیں مگر ان سے ابھی وہ کام نہیں نکلا جس کے لئے ہم آئے ہیں.اصل میں ان لوگوں نے جس طرح قدم جمائے اور اپنا دام فریب پھیلایا ہے وہ ایسا نہیں کہ کسی انسانی طاقت سے درہم برہم ہو سکے.دانا آدمی جانتا ہے کہ اس قوم کا تختہ کس طرح پلٹا جا سکتا ہے.یہ کام بجز خدائی ہاتھ کے انجام پذیر ہوتا نظر نہیں آتا اسی واسطے ہم نے ان ہتھیاروں یعنی قلم کو چھوڑ کر دعا کے واسطے یہ مکان ( حجرہ) بنوایا ہے کیونکہ دعا کا میدان خدا نے بڑا وسیع رکھا ہے اس کی قبولیت کا بھی اس نے وعدہ فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ مین گلِ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ.(الانبیاء: 97) اس امر کے اظہار کے واسطے کافی ہے کہ یہ کل دنیا کی زمینی طاقتوں کو زیر پا کریں گے ورنہ اس کے سوا اور کیا معنے ہیں؟ کیا یہ تو میں دیواروں اور ٹیلوں کو کو دتی پھاندتی پھریں گی ؟ نہیں بلکہ اس کے یہی معنے ہیں کہ وہ دنیا کی کل ریاستوں اور سلطنتوں کو زیر پا کر لیں گی اور کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہ کر سکے گی.اب خدا کی غیرت نے نہ چاہا کہ اس کی توحید اور جلال کی بہتک ہو اور اس کے رسول کی زیادہ بے عزتی کی جاوے.اس کی غیرت نے تقاضا کیا کہ اپنے نور کواب روشن کرے اور سچائی اور حق کا غلبہ ہوسواس نے مجھے بھیجا اور اب میرے دل میں تحریک پیدا کی کہ میں ایک حجرہ بیت الدعا صرف دعا کے واسطے مقرر کروں اور بذریعہ دعا کے اس فساد پر غالب آؤں تا کہ اول آخر سے مطابق ہو جاوے اور جس طرح سے پہلے آدم کو دعا ہی کے ذریعہ سے شیطان پر فتح نصیب ہوئی تھی اب آخری آدم کے مقابل پر آخری شیطان پر بھی بذریعہ دعا کے فتح ہو.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 192) ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 191)
212 آنحضرت کے بروز ہونے کے اعتبار سے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ ط وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (الاحزاب: 41) آنحضرت ﷺ کے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں اور نہ اس سے مُہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیونکہ میں بار ہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعہ: 4) بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت ﷺ کا وجود قرار دیا ہے پس اس طور پر آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا.اور چونکہ میں فلمی طور پر محمد ہوں.پس اس طور سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد اے کی نبوت محمد تک ہی محدود رہی یعنی بہر حال محمد ﷺ ہی نبی رہے نہ اور کوئی.یعنی جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا.ایک غلطی کا ازالہ رخ جلد 18 صفحہ 212) چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا فرض منصبی جو تکمیل اشاعت ہدایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بوجہ عدم وسائل اشاعت غیر ممکن تھا اس لئے قرآن شریف کی آیت وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعہ: 4) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ثانی کا وعدہ دیا گیا ہے.اس وعدہ کی ضرورت اسی وجہ سے پیدا ہوئی کہ تا دوسرا فرض منصبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یعنی تحمیل اشاعت ہدایت دین جو آپ کے ہاتھ سے پورا ہونا چاہیئے تھا اس وقت باعث عدم وسائل پورا نہیں ہوا.سو اس فرض کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آمد ثانی سے جو بروزی رنگ میں تھی ایسے زمانہ میں پورا کیا جبکہ زمین کی تمام قوموں تک اسلام پہنچانے کیلئے وسائل پیدا ہو گئے تھے.(تحفہ گولڑویہ...خ.جلد 17 صفحہ 263 حاشیہ ) اللہ تعالی نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ساتھ ہے یہ درجہ عطا فرمایا ہے کہ وہ صحابہ کی جماعت سے ملنے والی ہے وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ.مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعود والی جماعت ہے اور یہ گویا صحابہ کی ہی جماعت ہوگی اور وہ مسیح موعود کے ساتھ نہیں در حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ساتھ ہے کیونکہ مسیح موعود آپ ہی کے ایک جمال میں آئے گا اور تکمیل تبلیغ اشاعت کے کام کے لئے وہ مامور ہو گا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 405)
213.° وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ.(الجمعة: 4) وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ يَعْنِي يُزَكَّى النَّبِيُّ الْكَرِيْمُ اخَرِيْنَ مِنْ أُمَّتِهِ بِتَوَجُهَاتِهِ الْبَاطِنِيَّةِ كَمَا كَانَ يُزَكِّيْ صَحَابَتَهُ.ترجمه از مرتب: وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے آخرین کا اپنی باطنی تو جہات کے ذریعہ اسی طرح تزکیہ فرمائیں گے جیسا کہ آپ اپنے صحابہ کا تزکیہ فرمایا کرتے تھے.(حمامتہ البشری - ر-خ- جلد 7 صفحہ 244) اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ خداوہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بے بہرہ ہو چکے تھے اور علوم حکمیہ دینیہ جن سے تکمیل نفس ہو اور نفوس انسانی علمی اور عملی کمال کو پہنچیں بالکل گم ہو گئی تھی اور لوگ گمراہی میں مبتلا تھے یعنی خدا اور اس کی صراط مستقیم سے بہت دور جا پڑے تھے تب ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول امی بھیجا اور اس رسول نے ان کے نفسوں کو پاک کیا اور علم الکتاب اور حکمت سے ان کو مملو کیا یعنی نشانوں اور منجزات سے مرتبہ یقین کامل تک پہنچایا اور خدا شناسی کے نور سے ان کے دلوں کو روشن کیا اور پھر فرمایا کہ ایک گروہ اور ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہوگا.وہ بھی اول تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دور ہوں گے تب خدا ان کو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا یعنی جو کچھ صحابہ نے دیکھا وہ ان کو بھی دکھایا جائے گا یہاں تک کہ ان کا صدق اور یقین بھی صحابہ کے صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گا اور حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ یعنی اگر ایمان ثریا پر یعنی آسمان پر بھی اٹھ گیا ہو گا تب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اس کو واپس لائے گا.یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک شخص آخری زمانے میں فارسی الاصل پیدا ہو گا.اس زمانہ میں جس کی نسبت لکھا گیا ہے قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گا.یہی وہ زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے اور یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ہے.(ایام است.رخ.جلد 14 صفحہ 304) اسلام پر تین زمانے گزرے ہیں ایک قرون ثلاثہ اس کے بعد میج اعوج کا زمانہ جس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ لَيْسُوا مِنّى وَ لَسْتُ مِنْهُمْ یعنی نہ وہ مجھ سے ہیں اور نہ میں ان سے ہوں اور تیسرا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ سے ملحق ہے بلکہ حقیقت میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے فیج اعوج کا ذکر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھی فرماتے تو یہی قرآن شریف ہمارے ہاتھ میں ہے اور وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِم صاف ظاہر کرتا ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی ہے جو صحابہ کے مشرب کے خلاف ہے اور واقعات بتا رہے ہیں کہ اس ہزار سال کے درمیان اسلام بہت ہی مشکلات اور مصائب کا نشانہ رہا ہے.معدودے چند کے سوا سب نے اسلام کو چھوڑ دیا اور بہت سے فرقے معتزلہ اور اباحتی وغیرہ پیدا ہو گئے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 67)
214 چونکہ آنحضرت ﷺ کا حسب آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ دوبارہ تشریف لا نا بجز صورت بروز غیر ممکن تھا اس لئے آنحضرت ﷺ کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جوخلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا ظہور بعینہ (تحفہ گولڑویہ.رخ.جلد 17 صفحہ 263) آنحضرت ﷺ کا ظہور تھا.ہمچنیں عشقم بروئے تا مرا منکہ مے مصطفی دل پرو چون مرغ سوئے مصطفی ایسا ہی عشق مجھے مصطفی کی ذات سے ہے میرا دل ایک پرندہ کی طرح مصطفیٰ کی طرف اڑ کر جاتا ہے دادند از حسنش خبر شد دلم از عشق او زیر و زبر جب سے مجھے اس کے حسن کی خبر دی گئی ہے میرا دل اسکے عشق میں بے قرار رہتا ہے جاں فشانم گر دید دل دیگرے ے بینم رخ آن دلبری میں جو کہ اس دلبر کا چہرہ دیکھ رہا ہوں اور اگر کوئی اسے دل دے تو میں اس کے مقابلہ پر جان نثار ساقی من هست آں جاں پرورے ہر زمان مستم کند از ساغری وہی روح پرور شخص تو میرا شخص تو میرا ساقی ہے جو ہمیشہ جام شراب سے مجھے سرشار رکھتا ہے روئے او شد است ایں روئے من ہوئے او آید زیام و کوئے من یہ میرا چہرہ اس کے چہرہ میں محو اور گم ہو گیا اور میرے مکان اور کوچہ سے اسی کی خوشبو آ رہی ہے بسکه من در عشق او هستم نہاں من ہمانم - من همانم - من ہماں از بسکہ میں اس کے عشق میں غائب ہوں میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں جان من از جان او یا بد غذا از گریبانم عیاں شد آں ذکا ! میری روح اسکی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریہاں سے وہی سورج نکل آیا ہے احمد اندر جان احمد شد پدید اسم من گردید اسم آں وحید احمد کی جان کے اندراحمد ظاہر ہو گیا اس لئے میرا وہی نام ہو گیا جو اس لاثانی انسان کا نام ہے مجھ ( در شین فارسی متر جم صفحه 228 ) ( سراج منیر.ر.خ.جلد 12 صفحہ 97-96)
215 آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانی کے اعتبار سے یہ عجیب بات ہے کہ نادان مولوی جن کے ہاتھ میں صرف پوست ہی پوست ہے حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی انتظار کر رہے ہیں مگر قرآن شریف ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ آنے کی بشارت دیتا ہے کیونکہ افاضہ بغیر بعث غیر ممکن ہے.اور بعث بغیر زندگی کے غیر ممکن ہے اور حاصل اس آیت کریمہ یعنی وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ کا یہی ہے کہ دنیا میں زندہ رسول ایک ہی ہے یعنی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم جو ہزار ششم میں بھی مبعوث ہو کر ایسا ہی افاضہ کرے گا جیسا کہ وہ ہزار پنجم میں افاضہ کرتا تھا.اور مبعوث ہونے کے اس جگہ یہی معنی ہیں کہ جب ہزار ششم آئیگا اور مہدی موعود اس کے آخر میں ظاہر ہوگا تو گو بظاہر مہدی معہود کے توسط سے دنیا کو ہدایت ہو گی لیکن دراصل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نئے سرے اصلاح عالم کی طرف ایسی سرگرمی سے توجہ کرے گی کہ گویا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم دوبارہ مبعوث ہو کر دنیا میں آگئے ہیں.یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الجمعة: 4).(تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 249-248 حاشیہ) لہذا جیسا کہ مومن کے لئے دوسرے احکام الہی پر ایمان لانا فرض ہے ایسا ہی اس بات پر بھی ایمان فرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث (۱) ایک بعث محمدی جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالہ توریت قرآن شریف میں یہ آیت ہے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح: 30) (۲) دوسرا بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالہ انجیل قرآن شریف میں یہ آیت ہے وَ مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَد (الصف: 7) اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باعتبار اپنی ذات اور اپنے تمام سلسلہ خلفاء کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ظاہر اور کھلی کھلی مماثلت ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بلا واسطہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ کے رنگ پر مبعوث فرمایا.لیکن چونکہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عیسی سے ایک مخفی اور باریک مماثلت تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے ایک بروز کے آئینہ میں اس پوشیدہ مماثلت کا کامل طور پر رنگ دکھلا دیا.پس در حقیقت مہدی اور صحیح ہونے کے دونوں جو ہر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجود تھے.خدا تعالیٰ سے کامل ہدایت پانے کی وجہ سے جس میں کسی استاد کا انسانوں میں سے (تحفہ گولڑویہ.رخ.جلد 17 صفحہ 254) احسان نہ تھا.
216 قرآن میں بیان کردہ دو گروہوں کے اعتبار سے ثُلَّةٌ مِنَ الْاَوَّلِينَ.وَثُلَّةٌ مِّنَ الْآخِرِيْنَ.(الواقعة: 41,40) کیا تم وہ باتیں یاد نہیں کرتے جو عالم الغیب نے کہیں اور اس نے تمہیں ایک آنے والے امام کی قرآن کریم میں خبر دی ہے اور کہا کہ ایک گروہ پہلوں میں سے اور ایک گروہ پچھلوں میں سے ہوگا اور ہر ایک گروہ کے لئے ایک امام ہوتا ہے سو سوچو کیا اس میں کوئی کلام ہے؟ سو تم امام ا لآخرین سے کہاں بھاگتے ہو.(نورالحق...خ.جلد 8 صفحہ 217) مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ط وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا رَسِيِّمَا هُمْ فِى وَجُرُ هِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ طَ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ : كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْنَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَا سْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ط وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً واجرًا عَظِيمًا (الفتح: 30) فَإِنَّ مُوسَى أَخْبَرَ عَنْ صَحَب كَانُوا مَظْهَرَ اسْمِ مُحَمَّدٍ نَبِيِّنَا الْمُخْتَارِ وَصُوَرَ جَلَالِ اللهِ الْقَهَّارِ بِقَوْلِهِ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ - وَإِنَّ عِيسَى أَخْبَرَ عَنْ أَخَرِينَ مِنْهُمْ وَعَنْ اِمَامَ تِلْكَ الْأَبْرَارِ - آعْنِى الْمَسِيحَ الَّذِي هُوَ مَظْهَرُ أَحْمَدَ الرَّاحِمِ السَّيَّارَ وَمَنْبَعُ جَمَالِ اللَّهِ الرَّحِيمِ الْغَفَّارِ بِقَوْلِهِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْئَهُ الَّذِى هُوَ مُعْجِبُ الْكُفَّارِ وَكُلٌّ مِنْهُمَا أَخْبَرَ بِصَفاتٍ تُنَاسِبُ صِفَاتِهِ الذَّاتِيَةَ وَاخْتَارَ جَمَاعَةٌ تُشَابِهُ أَخْلَا قَهُمُ الْمَرْضِيَّةَ - فَأَشَارَمُوسَى بِقَوْلِهِ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ إِلَى صَحَابَةٍ أَدْرَكُوْا صُحْبَةَ نَبِيِّنَا الْمُخْتَارِ وَأَرَوْاشِدَّةً وَغِلْظَةٌ فِي الْمِضْمَارِ وَأَظْهَرُوا جَلَالَ اللَّهِ بِاالسَّيْفِ الْبَتَّارِ - وَصَارُ وا ظِلَّ اسْمٍ مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللَّهِ الْقَهَّارِ عَلَيْهِ صَلَوَاتُ اللهِ وَأَهْلِ السَّمَاءِ وَأَهْلِ الْأَرْضِ مِنَ الْأَبْرَارِ وَالَّا خُيَا رِ وَأَشَارَ عِيسَى بِقَوْلِهِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْعَة إِلى قَوْمِ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ وَإمَامِهِمِ الْمَسِيحِ بَلْ ذَكَرَاسُمُهُ أَحْمَدَ بِالتَّصْرِيحِ وَأَشَارَ بِهَذَا الْمَثَلِ الَّذِي جَاءَ فِي الْقُرْآنِ الْمَجِيْدِ إِلَى أَنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ لَا يَظْهَرُ إِلَّا كَنَبَاتٍ لِيْنِ لَا كَالشَّيْءِ الْغَلِيْظِ الشَّدِيدِ
217 ترجمہ از مرتب :.موسیٰ علیہ السلام نے أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّار کہہ کر اُن اصحاب کی خبر دی جو ہمارے برگزیدہ نبی ﷺ کے محمد نام کے مظہر تھے اور خدائے قہار کے جلال کو ظاہر کرنے والے تھے اور عیسٹی نے ایک دوسرے گروہ اور ان کے امام مسیح موعود کی خبر دی جو رحم کرنے والے اور پردہ پوشی کرنے والے احمد نام کے مظہر اور خدائے رحیم وغفا ر کے جمال کا سرچشمہ ہیں ان الفاظ میں کہ وہ گروہ اُس پودہ کی مانند ہے جس نے خوبصورت کونپلیں نکالی ہوں اور جو کسانوں کو تعجب میں ڈال رہا ہو اور موسیٰ اور عیسی ہر دو نے ان صفات کی خبر دی جو ان کی ذاتی صفات سے مناسبت رکھتی تھیں اور ہر ایک نے ایک ایسی جماعت کی خبر دی جو ان کے پسندیدہ اخلاق کے مشابہ اخلاق رکھتی تھی.پس حضرت موسی نے أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّار کہہ کر ان اصحاب کی طرف اشارہ کیا جنہوں نے ہمارے محبوب نبی ﷺ کی صحبت کو پایا اور انہوں نے میدانِ جنگ میں کافروں کا نہایت سختی سے مقابلہ کیا اور شمشیر براں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جلال کو ظاہر کیا اور وہ محمد رسول اللہ کے نام کے ظن ہو گئے جو اللہ تعالیٰ کے اسم قہار کے مظہر ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ کا اور آسمان وزمین کے برگزیدہ لوگوں کا سلام پہنچے.اور عیسی علیہ السلام نے گزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْقَہ کہ کر بعد میں آنے والے ایک گروہ اور ان کے امام مسیح موعود کی طرف اشارہ کیا بلکہ آپ نے صراحت سے اس کے نام احمد کا بھی ذکر کر دیا اور اس کے ساتھ اس مثال کی طرف بھی اشارہ کیا جو قران مجید میں مذکورہ ہے کہ مسیح موعود نرم سبزہ کی طرح ظاہر ہوگا نہ کہ کسی سخت چیز کی مانند.اعجاز مسیح - رخ جلد 18 صفحہ 125 تا 127)
218 گروہ آخرین سے حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت مراد ہے اگر چہ زمانہ فیج اعوج میں بھی جماعت کثیر گمراہوں کے مقابل نیک اور اہل اللہ اور ہر صدی کے سر پر مجدد بھی ہوتے رہے ہیں لیکن جس منطوق آیت ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِينَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ خالص محمدی گروہ ایک پلید ملونی اور آمیزش سے پاک اور تو بہ نصوح سے غسل دیئے ہوئے ایمان اور دقائق عرفان اور علم اور عمل اور تقویٰ کے لحاظ سے ایک کثیر التعداد جماعت ہے.یہ اسلام میں صرف دو گروہ ہیں یعنی گروہ اولین و گروه آخیرین جو صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت سے مراد ہے.اس لئے اس سورہ فاتحہ ) میں انعَمتَ عَلَيْهِمُ کے فقرہ سے مراد یہی دونوں گروہ ہیں یعنی آنحضرت ﷺ مع اپنی جماعت کے اور مسیح موعود مع اپنی جماعت کے.خلاصہ کلام یہ کہ خدا نے ابتداء سے اس امت میں دو گروہ ہی تجویز فرمائے ہیں اور انہی کی طرف سورہ فاتحہ کے فقرہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں اشارہ ہے (۱) ایک اولین جو جماعت نبوی ہے (۲) دوسرے آخرین جو جماعت مسیح موعود ہے اور افراد کاملہ جو درمیانی زمانہ میں ہیں جو فیج اعوج کے نام سے موسوم ہے جو بوجہ اپنی کمی مقدار اور کثرت اشرار و فجار و هجوم افواج بد مذاهب و بد عقائد و بداعمال شاذ و نادر کے حکم میں سمجھے گئے گو دوسرے فرقوں کی نسبت درمیانی زمانہ کے صلحائے امت محمدیہ بھی باوجود طوفان بدعات کے ایک دریائے عظیم کی طرح ہیں.(تحفہ گولڑویہ.رخ- جلد 17 صفحہ 225-226) ہر کہ در عهدم زمن ماند جدا می کند بر نفس خود جور و جفا جو میرے زمانہ میں مجھ سے جدا رہتا ہے تو وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتا ہے ز نور دلستاں شد سینه ام شد ز دستے صیقل آئینه ام محبوب کے نور سے میرا سینہ بھر گیا میرے آئینہ کا صیقل اسی کے ہاتھ نے کیا پیکرم شد پیکر کار من شد کار دلدار ازل میرا وجود اس یار ازلی کا وجود بن گیا اور میرا کام اس دلدار قدیم کا کام ہو گیا بسکه جانم شد نہاں در یار من ہوئے یار آمد ازیں گلزار من چونکہ میری جان میرے یار کے اندر مخفی ہو گئی اس لئے یار کی خوشبو میرے گلزار سے آنے لگی نور حق داریم زیر چادرے از گریبانم بر آمد آمد دلبری ہماری چادر کے اندر خدا کا نور ہے وہ دلبر میرے گریبان میں سے نکلا پر یار ازل احمید آخر زمان نام من است آخریں جامے ہمیں جامِ من است احمد آخر زماں میرا نام ہے اور میرا جام ہی دنیا کے لئے آخری جام ہے ( در شین فارسی متر جم صفحه 239 ) ( سراج منیر...خ.جلد 12 صفحہ 101 )
219 آنحضرت ﷺ کے جمالی مظہر ہونے کے اعتبار سے وَاذْقَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُبَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ مُّصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَ هُمُ بالبَيِّنَتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ (الصف: 7) آیت وَمُبَشِّرًا بِرَسُولِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ میں یہ اشارہ ہے کہ آنحضرت علی کا آخر زمانہ میں ایک مظہر ظاہر ہو گا گویاوہ اس کا ایک ہاتھ ہو گا جس کا نام آسمان پر احمد ہو گا اور حضرت مسیح کے رنگ (تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 69،68) میں جمالی طور پر دین کو پھیلائے گا.آنحضرت ﷺ کے دو بعث ہیں....دوسرا بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالہ انجیل قرآن شریف میں آیت ہے وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَّأْتِي مِنْ بَعْدِى (تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 254) اسْمُهُ أَحْمَدُ خلیفہ اللہ اور خاتم الخلفاء ہونے کے اعتبار سے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَّ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ (النور: 56) اور جب آیات مروجہ بالا کو غور سے دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے اندر سے یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ ضرور آخری خلیفہ اس امت کا جو چودھویں صدی کے سر پر ظہور کرے گا حضرت مسیح کی صورت مثالی پر آئیگا اور بغیر آلات حرب ظہور کرے گا.دو سلسلوں کی مماثلت میں یہی قاعدہ ہے کہ اول اور آخر میں اشد درجہ کی مشابہت ان میں ہوتی ہے کیونکہ ایک لمبے سلسلہ اور ایک طولانی مدت میں تمام درمیانی افراد کا مفصل حال معلوم کرنا طول بلا طائل ہے.پس جبکہ قرآن کریم نے صاف صاف بتلا دیا کہ خلافت اسلامی کا سلسلہ اپنی ترقی اور تنزل اپنی جلالی اور جمالی حالت کی رو سے خلافت اسرائیلی سے بکلی مطابق ومشابہ ومماثل ہوگا اور یہ بھی بتلا دیا کہ بی عربی امی مثیل موسیٰ ہے تو اس ضمن میں قطعی اور یقینی طور پر بتلایا
220 گیا کہ جیسے اسلام میں سر دفتر الہی خلیفوں کا مثیل موسیٰ ہے جو اس سلسلہ اسلامیہ کا سپہ سالار اور بادشاہ اور تخت عزت کے اول درجے پر بیٹھنے والا اور تمام کا مصدر اور اپنی روحانی اولاد کا مورث اعلیٰ ہے صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی اس سلسلہ کا خاتم باعتبار نسبت تامہ وہ مسیح عیسی ابن مریم ہے جو اس امت کے لوگوں میں سے بحکم ربی مسیحی صفات سے رنگین ہو گیا ہے اور فرمان جَعَلْنَكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ نے اس کو در حقیقت وہی بنا دیا ہے وَ كَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا اور اس آنے والے کا نام جو احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ محمد جلالی نام ہے اور احمد جمالی اور احمد اور عیسی اپنے جمالی معنوں کی رو سے ایک ہی ہیں.اسی کی طرف یہ اشارہ ہے وَ مُبَشِّرًا بِرَسُوْلِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدَ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقط احم ہی نہیں بلکہ حمد بھی ہیں یعنی جامع جلال و جمال ہیں لیکن آخری زمانہ میں برطبق پیشگوئی مجر احمد جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے بھیجا گیا.(ازالہ اوہام - خ - جلد 3 صفحہ 463-462) آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر ایک سلسلہ خلافت قائم کرنے کا وعدہ فرمایا اور اس سلسلہ کو لے سلسلہ خلافت کے ہم رنگ قرار دیا جیسا فرمایا كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ اب اس وعدہ استخلاف کے موافق اور اس کی مماثلت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ جیسے موسوی سلسلہ خلافت کا خاتم الخلفاء مسیح تھا ضرور ہے کہ سلسلہ محمدیہ کے خلفاء کا خاتم بھی ایک مسیح ہی ہو.( ملفوظات جلد دوم صفحه 383) اعْلَمْ أَنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدَ فِي كِتَابِ اللهِ لَيْسَ هُوَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ صَاحِبَ الْإِنْجِيْلِ وَ خَادِمَ الشَّرِيعَةِ الْمُرْسَوِيَّةِ كَمَاظَنَّ بَعْضُ الْجُهَلَاءِ مِنَ الْفَيْحِ الْاعْوَجِ وَالْفِئَةِ الْخَاطِئَةِ.بَلْ هُوَ خَاتَمَ الْخُلَفَاءِ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ كَمَا كَانَ عِيْسَى خَاتَمَ خُلَفَاءِ السِّلْسِلَةِ الْكَلِيْمِيَّةِ.وَ كَانَ لَهَا كَاخِرِ اللَّبْنَةِ وَ خَاتَمَ الْمُرْسَلِيْنَ.وَ إِنَّ هَذَا الْهُوَ الْحَقُّ فَوَيْلٌ لِلَّذِيْنَ يَقْرَءُ وْنَ الْقُرْآنَ ثُمَّ يَمُرُّونَ مُنْكِرِيْنَ.وَ إِنَّ الْفُرْقَانَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْمُتَنَازِعِيْنَ فِي هَذِهِ الْمَسْئَلَةِ.فَإِنَّهُ صَرَّحَ فِي سُوْرَةِ النُّوْرِ بِقَوْلِهِ مِنْكُمْ بأَنَّ خَاتَمَ الْاَئِمَّةِ مِنْ هذه الملة.( ترجمه از اصل) جان لو کہ کتاب اللہ میں جس مسیح موعود کے آنے کا وعدہ دیا گیا ہے وہ صاحب انجیل اور خادم شریعت موسوی عیسی ابن مریم نہیں جیسا کہ فیج اعوج کے بعض جاہل لوگوں اور غلط کا فرقہ میں سے بعض نے خیال کیا ہے بلکہ وہ خاتم الخلفاء اس امت میں سے ہوگا جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام خلفاء سلسلہ موسویہ کے خاتم تھے اور اس عمارت کی وہ آخری اینٹ اور اس سلسلہ کے آخری مرسل تھے اور یقیناً یہی بات سچی ہے.ان لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جو قرآن تو پڑھتے ہیں پھر اس سے منکروں کی طرح اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں.قرآن کریم نے اس مسئلہ کے بارے میں جھگڑا کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کر دیا ہے اور مِنكُمْ کے لفظ سے سورۃ نور میں صراحت کر دی ہے کہ خاتم الآئمہ امت محمدیہ میں سے ہی ہوگا.(خطبہ الہامیہ.رخ.جلد16 صفحہ 309)
221 ابن مریم پر فضیلت کے دعوی کو یہ لوگ بڑی بُری نگاہ سے دیکھتے ہیں، مگر میں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی صریح وجی سے مجھے معلوم کرایا گیا ہے کہ محمدی سلسلہ کا خاتم الخلفاء موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء سے بڑھ کر ہے اور غور کر کے دیکھ لو ہر ایک بات اس سلسلہ کی موسوی سلسلہ سے بڑھی ہوئی ہے.موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کیلئے آئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل دنیا کے لیے مبعوث ہوئے اور فرمایا گیا.مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ.(الانبياء : 108) پھر آپ کی تائیدات موسیٰ علیہ السلام کی تائیدات سے بڑھ کر.آپ کے اعجازی نشان بڑھ کر.آپ کو جو کتاب دی گئی وہ موسیٰ کی کتاب سے بڑھ کر.ہمیشہ کے لیے.غرض کل سامان بڑھ کر.کامیابیاں بڑھ کر.پھر کیا وجہ ہے کہ اس سلسلہ کا خاتم الخلفاء موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء سے بڑھ کر نہ ہو؟ ہم ایسے نبی کے وارث ہیں جو رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ اور كَافَّةً لِلنَّاسِ (سباء: 29) کے لیے رسول ہو کر آیا.جس کی کتاب کا خدا محافظ اور جس کے حقائق و معارف سب سے بڑھ کر ہیں.پھر ان معارف اور حقائق کو پانے والا کیوں کم ہے؟ ایک نیا نکتہ بنیانا ( ملفوظات جلد دوم صفحه - 291) ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 255) بعد نماز مغرب حضرت اقدس نے اس تقریر کا اعادہ فرمایا جو کہ مورخہ 15 اپریل کی سیر میں درج ہو چکی ہے.اسکی تکمیل میں ایک نئی بات یہ فرمائی کہ:.اس وقت میں امت موسوی کی طرح جو مامور اور مجد دین آئے ان کا نام نبی نہ رکھا گیا تو اس میں یہ حکمت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ختم نبوت میں فرق نہ آوے (جس کا مفصل ذکر قبل از میں گذر چکا ہے ) اور اگر کوئی نبی نہ آتا تو پھر مماثلت میں فرق آتا.اس لیے اللہ تعالیٰ نے آدم.ابراہیم.نوح اور موسیٰ وغیرہ میرے نام رکھے حتی کہ آخر کار جرى اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ کہا.گویا اس سے سب اعتراض رفع ہو گئے اور آپ کی امت میں ایک آخری خلیفہ ایسا آیا جو موسیٰ کے تمام خلفاء کا جامع تھا.عجب مدار اگر خلق سوئے ما بدوند کہ ہر کجا که غنی می بود گدا باشد اگر مخلوقات ہماری طرف دوڑ کر آئے تو تعجب نہ کر کہ جہاں دولتمند ہوتا ہے وہاں فقیر جمع ہو جاتے ہیں گلے کہ روئے خزاں را گہے نخوابد دید بباغ ماست اگر قسمتت رسا باشد وہ پھول جو کبھی خزاں کا منہ نہیں دیکھے گا وہ ہمارے باغ میں ہے اگر تیری قسمت یاور ہو منم مسیح بیانگ بلند می گویم منم خلیفہ شا ہے کہ برسما باشد میں بلند آواز سے کہتا ہوں کہ میں ہی مسیح ہوں اور میں ہی اس بادشاہ کا خلیفہ ہوں جو آسمان پر ہے مقدر است که روزے بریں ادیم زمیں جان بر رهم فدا باشد یہ بات مقدر ہو چکی ہے کہ ایک دن روئے زمین پر ہزاروں جان و دل میری راہ میں قربان ہوں گے ہزا رہا دل و تریاق القلوب - ر-خ- جلد 15 صفحہ 132 ) ( در تین فارسی مترجم صفحه 267)
222 ذکریا 14 باب میں مذکور ہے کہ آخری زمانہ میں مسیح موعود کے عہد میں سخت طاعون پڑیگی.اس زمانہ میں تمام فرقے دنیا کے متفق ہونگے کہ یروشلم کو تباہ کر دیں.تب انہی دنوں میں طاعون پھوٹے گی اور اسی دن یوں ہوگا کہ جیتا پانی یوروشلم سے جاری ہو گا.یعنی خدا کا مسیح ظاہر ہو جائے گا.اور اس جگہ یروشلم سے مراد بیت المقدس نہیں ہے بلکہ وہ مقام ہے جس سے دین کے زندہ کرنے کے لئے الہی تعلیم کا چشمہ جوش ماریگا اور وہ قادیان ہے.جو خدا تعالیٰ کی نظر میں دارالامان ہے.خدا تعالیٰ نے جیسا کہ اس امت کے خاتم الخلفاء کا نام سیح رکھا ویسا ہی اسکے خروج کی جگہ کا نام یروشلم رکھدیا اور اس کے مخالفوں کا نام یہو درکھ دیا.منہ ( نزول مسیح.رخ - جلد 18 صفحہ 420) ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل شریعت لے کر آئے جو نبوت کے خاتم تھے اس لئے زمانہ کی استعدادوں اور قابلیتوں نے ختم نبوت کر دیا تھا.پس حضور علیہ السلام کے بعد ہم کسی دوسری شریعت کے آنے کے قائل ہرگز نہیں.ہاں جیسے ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسی" تھے اسی طرح آپ کے سلسلہ کا خاتم جو خاتم الخلفاء یعنی مسیح موعود ہے ضروری تھا کہ مسیح علیہ السلام کی طرح آتا.پس میں وہی خاتم الخلفاء اور مسیح موعود ہوں.جیسے مسیح کوئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے بلکہ شریعت موسوی کے احیاء کے لئے آئے تھے میں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا اور میرا دل ہرگز نہیں مان سکتا کہ قرآن شریف کے بعد اب کوئی اور شریعت آ سکتی ہے کیونکہ وہ کامل شریعت اور خاتم الکتب ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے شریعت محمدی کے احیاء کے لئے اس صدی میں خاتم الخلفاء کے نام سے مبعوث فرمایا ہے.حضرت اقدس کی رسالت کے اعتبار سے ( ملفوظات جلد اول صفحہ 490) كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ.(المجادله: 22) ( نزول اسیح - رخ.جلد 18 صفحہ 381-380) خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے پس چونکہ میں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پاکر اور اسی میں ہو کر اور اسی کا مظہر بن کر آیا ہوں اس لئے میں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا.بِمُطَّلِعٍ عَلَى أَسْرَارِ بَالِي بِعَالِمٍ عَيْبَتِي فِي كُلِّ حَالِي قسم اس ذات کی جو میرے دل کے بھیدوں سے آگاہ ہے اور قسم اس ذات کی جو ہر حال میں میرے سینے کا راز سے واقف ہے.بِوَجُهِ قَدْ رَأَى أَعْشَارَ قَلْبِي بِمُسْتَمِعِ لِصَرْخِي فِي اللَّيَالِي قسم اس ذات کی جو میرے دل کے تمام گوشوں سے واقف ہے اور قسم اس ذات کی جو راتوں کو میرے آہ وزاری کو سننے والا ہے.لقد أرسِلْتُ مِنْ رَّبِّ كَرِيم رَحِيمِ عِندَ طُوفَانِ الضَّلَالِ بے شک میں رب کریم رحیم کی طرف سے طوفانِ ضلالت کے وقت بھیجا گیا ہوں.آئینہ کمالات اسلام.ر.خ.جلد 5 صفحہ 594)
223 لفظ مُطَهَّرُى سے مراد حضرت اقدس ہیں إِذْ قَالَ اللهُ يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (آل عمران : 56) ج لیکن خدا تعالیٰ تمام الزاموں سے تجھے پاک کرے گا اور قیامت تک تیرے گروہ کو غلبہ بخشے گا اور یہ فقرہ آیت موصوفہ بالا میں ہے کہ مُطَهَرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا اس میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح جب مسیح پر یہودیوں اور عیسائیوں نے بہت الزام لگائے تو حضرت مسیح کو وعدہ دیا گیا کہ خدا تعالیٰ تیرے بعد ایک نبی پیدا کرے گا جو ان تمام الزامات سے تیرے دامن کا پاک ہونا ثابت کر دے گا ایسا ہی تیری نسبت خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں جب کہ دشمنوں کی نکتہ چینی اور عیب گیری کمال کو پہنچ جائے گی تیری تصدیق کے لئے تیری ہی امت میں سے ایک شخص جو سیح موعود ہے پیدا کیا جائے گا وہ تیرے دامن کو ہر ایک الزام سے پاک ثابت کر دے گا اور تیرے معجزات تازہ کرے گا اور اس پیشگوئی میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ہمارے رسول اللہ ﷺ قتل نہیں ہوں گے اور آپ کا رفع الی السماء اپنی نبوت کے رو سے آفتاب کی طرح چمکے گا.کیونکہ ہزار ہا اولیاء اس امت میں پیدا ہوں گے.اوراس پیشگوئی میں صاف لفظوں میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت مسیح اس زمانہ سے پہلے وفات پا جائیں گے جب کہ وہ رسول مقبول ظاہر ہو گا جو مخالفوں کے اعتراضات سے ان کے دامن کو پاک کرے گا.تریاق القلوب - ر خ جلد 15 صفحہ 453 454 بقیہ حاشیہ ) یہ زمانہ جس میں ہم ہیں یہ وہی زمانہ ہے جس میں دشمنوں کی طرف سے ہر ایک قسم کی بدزبانی کمال کو پہنچ گئی ہے اور بد گوئی اور عیب گیری اور افتراپردازی اُس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب اس سے بڑھ کر ممکن نہیں اور ساتھ اس کے مسلمانوں کی اندرونی حالت بھی نہایت خطر ناک ہوگئی ہے صدہا بدعات اور انواع اقسام کے شرک اور الحاد اور انکار ظہور میں آرہے ہیں اس لئے قطعی یقینی طور پر اب یہ وہی زمانہ ہے جس میں پیشگوئی مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ کے مطابق عظیم الشان مصلح پیدا ہو سوالحمد للہ کہ وہ میں ہوں.( تریاق القلوب - رخ جلد 15 صفحہ 453 حاشیہ در حاشیه )
224 خلفاء سلسلہ محمدیہ کی تعیین کے اعتبار سے وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِيتُ.(المرسلت : 12) وہ آخری زمانہ جس سے رسولوں کے عدد کی تعیین ہو جائے گی یعنی آخری خلیفہ کے ظہور سے قضاء وقدر کا اندازہ مرسلین کی تعداد کی نسبت مخفی تھا ظہور میں آجائے گا.یہ آیت بھی اس بات پر نص صریح ہے کہ مسیح موعود اسی اُمت میں سے ہوگا کیونکہ اگر پہلا میچ ہی دوبارہ آجائے تو وہ افادہ تین عدد نہیں کر سکتا کیونکہ وہ تو بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک رسول ہے جو فوت ہو چکا ہے اور اس جگہ خلفاء سلسلہ محمدیہ کی تعیین مطلوب ہے اور اگر یہ سوال ہو کہ اقنت کے یہ معنے یعنی معین کرنا اس عدد کا جو ارادہ کیا ہے کہاں سے معلوم ہوا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کتب لغت لسان العرب وغیرہ میں لکھا ہے قَدْ يَجِئُى التَّوْقِيتُ بِمَعْنى تبينِ الْحَدِ وَالْعَدَهِ وَالْمِقْدَارِ كَمَا جَاءَ فِي حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمْ يَقُتُ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ حَدًّا أَيْ لَمْ يُقَدِرُ وَلَمْ يَحُدَّهُ بِعَدَدٍ مَخصُوص یعنی توقیت جس سے اقتت نکلا ہے بھی حد اور شمار اور مقدار بیان کرنے کیلئے آتا ہے جیسا کہ حدیث ابن عباس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خم کی کچھ توقیت نہیں کی.یعنی خم کی حد کی کوئی تعداد اور مقدار بیان نہیں کی اور تعیین عدد بیان نہیں فرمائی.تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 245 244) مکفرین کے سب وشتم کے اعتبار سے يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَاتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُولِ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وُنَ (يس: 31) ان لوگوں نے کوئی ہمیں ہی گالیاں نہیں دیں بلکہ یہ معاملہ تمام انبیاء کے ساتھ اسی طرح چلا آیا ہے.آنحضرت کو بھی کذاب ،ساحر، مجنون ہمفتری وغیرہ الفاظ سے یاد کیا گیا تھا اور انجیل کھول کر دیکھ تو معلوم ہوگا کہ حضرت عیسی سے بھی ایسا ہی برتاؤ کیا گیا.حضرت موسی کو بھی گالیاں دی گئی تھیں.اصل میں تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ والی بات ہے اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے يحَسُرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وُنَ کوئی بھی ایسا سچا نبی نہیں آیا کہ آتے ہی اس کی عزت کی گئی ہو.ہم کیونکر سمت اللہ سے باہر ہوسکتے ہیں.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 610) کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہ کیا گیا.پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وُنَ پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے رو برو آسمان سے اترے اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں اُس سے کون ٹھٹھا کرے گا.پس اس دلیل سے بھی عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اُترنا محض جھوٹا خیال ہے.( تذکرہ الشہادتین.رخ جلد 20 صفحہ 66-67) کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں! نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹا یا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام - ر-خ- جلد 5 صفحہ 225)
225 ذاتی نمونے کے اعتبار سے قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ ، أَفَلَا تَعْقِلُونَ (يونس: 17) دوسری خوبی جو شرط کے طور پر مامورین کے لئے ضروری ہے وہ نیک چال چلن ہے کیونکہ بد چال چلن سے بھی دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے اور یہ خوبی بھی بدیہی طور پر ہمارے نبی ﷺ میں پائی جاتی ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ طَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ یعنی ان کفار کو کہہ دے کہ اس سے پہلے میں نے ایک عمر تم میں ہی بسر کی ہے.پس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کس درجہ کا امین اور راستباز ہوں.اب دیکھو کہ یہ دونوں صفتیں جو مرتبہ نبوت اور ماموریت کے لئے ضروری ہیں یعنی بزرگ خاندان میں سے ہونا اور اپنی ذات میں امین اور راست باز اور خدا ترس اور نیک چلن ہونا قرآن کریم نے آنحضرت علی کی نسبت کمال درجہ پر ثابت کی ہیں اور آپ کی اعلیٰ چال چلن اور اعلیٰ خاندان پر خود گواہی دی ہے اس جگہ میں اس شکر کے ادا کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی ﷺ کی تائید میں اپنی وحی کے ذریعہ سے کفار کو ملزم کیا اور فر مایا کہ یہ میرا نبی اس اعلیٰ درجہ کا نیک چال چلن رکھتا ہے کہ تمہیں طاقت نہیں کہ اس کی گذشتہ چالیس برس کی زندگی میں کوئی عیب اور نقص نکال سکو با وجود اس کے کہ وہ چالیس برس تک دن رات تمہارے درمیان ہی رہا ہے اور نہ تمہیں یہ طاقت ہے کہ اس کے اعلیٰ خاندان میں جو شرافت اور طہارت اور ریاست اور امارت کا خاندان ہے ایک ذرہ عیب گیری کر سکو.پھر تم سوچو کہ جو شخص ایسے اعلیٰ اور اطہر اور انفس خاندان میں سے ہے اور اس کی چالیس برس کی زندگی جو تمہارے رُو بر وگذری گواہی دے رہی ہے جو افترا اور دروغ بافی اس کا کام نہیں ہے تو پھر ان خوبیوں کے ساتھ جب کہ آسمانی نشان وہ دکھلا رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی تائید میں اس کے شامل حال ہو رہی ہیں اور تعلیم وہ لایا ہے جس کے مقابل پر تمہارے عقائد سراسر گندے اور ناپاک اور شرک سے بھرے ہوئے ہیں تو پھر اس کے بعد تمہیں اس نبی کے صادق ہونے میں کون سا شک باقی ہے.اسی طور سے خدا تعالیٰ نے میرے مخالفین اور مکذبین کو ملزم کیا ہے.چنانچہ براہین احمدیہ کے صفحہ 512 میں میری نسبت یہ الہام ہے جس کے شائع کرنے میں بیس برس گزر گئے اور وہ یہ ہے وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ یعنی ان مخالفین کو کہہ دے کہ میں چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں اور اس مدت دراز تک تم مجھے دیکھتے رہے ہو کہ میرا کام افترا اور دروغ نہیں اور خدا نے ناپاکی کی زندگی سے مجھے محفوظ رکھا ہے تو پھر جو شخص اس قدرمدت در از تک یعنی چالیس برس تک ہر ایک افترا اور شرارت اور مکر اور خباثت سے محفوظ رہا اور کبھی اس نے خلقت پر جھوٹ نہ بولا تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ برخلاف اپنی عادت قدیم کے اب وہ خدا تعالیٰ پر افترا کرنے لگا.( تریاق القلوب - رخ جلد 15 صفحہ 281 تا283)
226 صاحب انعام ہونے کے اعتبار سے وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (النساء:70) ایک عزت کا خطاب سورۃ فاتحہ سے ایک عزت کا خطاب مجھے عنایت ہوا.وہ کیا ہے.اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 396) منعم علیہ لوگ چار قسم کے ہوتے ہیں.نبی ، صدیق، شہید، صالح انبیا علیہم السلام میں یہ چاروں شانیں جمع ہوتی ہیں کیونکہ یہ اعلیٰ کمال ہے.ہر ایک انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کمالات کے حاصل کرنے کے لئے جہاں مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے اس طریق پر جو آنحضرت ﷺ نے اپنے عمل سے دکھایا ہے کوشش کرے.....اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت ﷺ نے تیار کی تھی تا کہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ کی سچائی اور عظمت بطور گواہ ٹھہرے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 236-237) مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ کی تفسیر الہام صحیح اور بچے کے لئے یہی شرط لازمی ہے کہ اس کے مقامات مجملہ کی تفصیل بھی اسی الہام کے ذریعہ سے کی جائے جیسا کہ قرآن کریم میں یعنی سورہ فاتحہ میں یہ آیت ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.اب اس آیت میں اَنْعَمْتَ عَلَيْهِم کا لفظ ہے یہ ایک مجمل لفظ تھا اور تشریح طلب تھا تو خدا تعالیٰ نے دوسرے مقام میں خود اس کی تشریح کر دی اور فرمایا کہ اُولئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِيْنَ.(النساء:70) جنگ مقدس - ر- خ جلد 6 صفحہ 115)
227 بیت معراج اور مسجد اقصیٰ سے مراد حضرت اقدس کا زمانہ اور مسجد آپ کی مسجد ہے سُبُحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بَرَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ ايْتَنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (بنی اسرائیل :2) قرآن شریف کی یہ آیت.معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے.پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مسجد الحرام سے ، المقدس تک پہنچا دیا تھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکتِ اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت ﷺ کا زمانہ تھا بر کات اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا.پس اس پہلو کی رُو سے جو اسلام کے انتہاء زمانہ تک آنحضرت ﷺ کا سیر کشفی ہے.مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام ہے مُبَارَكٌ وَ مُبَارِك وَكُلُّ أَمْرٍ مُبَارَكِ يُجْعَلُ فِيْهِ اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا قرآن شریف کی آیت بَارَكْنَا حَوْلَهُ کے مطابق ہے.پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سُبحـــن الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَرَكْنَا حَوْلَهُ اس آیت کے ایک تو وہی معنے ہیں جو علماء میں مشہور ہیں یعنی یہ کہ آنحضرت ﷺ کے مکانی معراج کا یہ بیان ہے مگر کچھ شک نہیں کہ اس کے سوا آنحضرت ﷺ کا ایک زمانی معراج بھی تھا جس سے یہ غرض تھی کہ تا آپ کی نظر کشفی کا کمال ظاہر ہواور نیز ثابت ہو کہ مسیحی زمانہ کے برکات بھی در حقیقت آپ ہی کے برکات ہیں جو آپ کی توجہ اور ہمت سے پیدا ہوئی ہیں اسی وجہ سے مسیح ایک طور سے آپ ہی کا رُوپ ہے اور وہ معراج یعنی بلوغ نظر کشفی دنیا کی انتہا تک تھا جو مسیح کے زمانہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس معراج میں جو آنحضرت عله مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک سیر فرما ہوئے وہ مسجد اقصیٰ یہی ہے جو قادیان میں بجانب مشرقی واقع ہے جس کا نام خدا کے کلام نے مبارک رکھا ہے.یہ مسجد جسمانی طور پر مسیح موعود کے حکم سے بنائی گئی ہے اور روحانی طور پر مسیح موعود کے برکات اور کمالات کی تصویر ہے جو آنحضرت ﷺ کی طرف سے بطور موہبت ہیں اور جیسا کہ مسجد الحرام کی روحانیت حضرت آدم اور حضرت ابراہیم کے کمالات ہیں اور بیت المقدس کی روحانیت انبیاء بنی اسرائیل کے کمالات ہیں ایسا ہی مسیح موعود کی یہ مسجد اقصیٰ جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے اس کے روحانی کمالات کی تصویر ہے.(خطبہ الہامیہ.رخ جلد 16 صفحہ 21-22)
228 غلبہ اسلام.عقلی استدلال کے اعتبار سے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كله (الصف: 10) پر سوچتے سوچتے مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں دو لفظ ہڑ کی اور حق کے رکھتے ہیں.ہدی تو یہ ہے کہ اندر روشنی پیدا کرے معمہ نہ رہے یہ گویا اندرونی اصلاح کی طرف اشارہ ہے جو مہدی کا کام ہے اور حق کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خارجی طور پر باطل کو شکست دیوے چنانچہ دوسری جگہ آیا ہے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُط اور خود اس آیت میں بھی فرمایا ہے لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ یعنی اس رسول کی آمد کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ حق کو غلبہ دے گا یہ غلبہ تلوار اور تفنگ سے نہیں ہوگا بلکہ وجوہ عقلیہ سے ہوگا.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 175) حضرت اقدس کو شناخت کئے جانے کی پیشگوئی کے اعتبار سے قُلُ آمِنُوا بِهِ اَولَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِةٍ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلاذْقَانِ سُجَّدًا بنی اسرائیل: 108) مجھے خدا نے اطلاع دی ہے کہ آخر بڑے بڑے مفسد اور سرکش تجھے شناخت کرلیں گے جیسا کہ فرماتا ہے يَخِرُّونَ لِلاذْقَانِ سُجَّدًا.ٹھوڑیوں پر سجدہ کرتے ہوئے گریں گے.(براہین احمدیہ.رخ جلد 21 صفحہ 103 ) سیح موعود کے دعاوی کا انحصار نشانات پر ہوگا قرآن شریف نے جو فرمایا اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةٌ مِّنَ الأرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بايَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ (انفل: 83) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود جس کے وقت کے متعلق یہ پیشگوئی ہے اس کے دعاوی کا بہت بڑا انحصار اور دار و مدار نشانات پر ہو گا اور خدا تعالیٰ نے اسے بھی بہت سے نشانات عطا فرما ر کھے ہوں گے.کیونکہ یہ جو فرمایا کہ اَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ.یعنی اس عذاب کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے نشانات کی کچھ بھی پروانہ کی اور ان کو نہ مانا اس واسطے ان کو یہ سزا ملی.ان نشانات سے مراد صرف مسیح موعود کے نشانات ہیں ورنہ یہ امر تو ٹھیک نہیں کہ گناہ تو زید کرے اور اس کی سزا عمرو کو ملے جو اس سے تیرہ سو سال بعد آیا ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اگر لوگوں نے نشانات دیکھے اور ان سے انکار کیا تو اس انکار کی سزا تو ان کو اسی وقت مل گئی اور وہ تباہ اور برباد ہو گئے.پس معلوم ہوا کہ ان نشانات سے مراد مسیح موعود ہی کے نشانات ہیں جن کا انکار کرنے کی وجہ سے عذاب کی تنبیہہ ہے اور خدا تعالیٰ کا غضب ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے مسیح موعود کے نشانات سے انکار کیا ہے اور یہ خدائی فیصلہ ہے جس کو رد نہیں کیا جا سکتا.یہ میں صریح ہے اس بات پر کہ طاعون مسیح موعود کے انکار کی وجہ سے آئی ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 287-288)
229 جہاد بالسیف کی ممانعت کے اعتبار سے فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا الْخَيْتُمُوهُمُ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ : فَإِمَّامَنَّا بَعْدُ وَإِمَّافِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا ذَلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَا نَتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لِيَبْلُوا بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمُ (محمد : 5) ط تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت ﷺ کے منہ سے کلمہ يَضَعُ الْحَرْبَ جاری ہو چکا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا اور اسی کی طرف اشارہ اس قرآنی آیت کا ہے حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا یعنی اس وقت تک لڑائی کرو جب تک کہ مسیح کا وقت آ جائے ي تَضَعَ الْحَرْبُ أَوزارھا ہے.دیکھو صحیح بخاری موجود ہے جو قران شریف کے بعداً صح الکتاب مانی گئی ہے اس کو غور سے پڑھو.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد...خ جلد 17 صفحہ 8) اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال آ گیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے اب آسماں سے نورِ خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اُس خبیث کو کیوں چھوڑتے ہو تم يَضَعُ الْحَرُب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر فرما چکا ہے سید کونین مصطفے عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا جنگوں کے سلسلے کو وہ یکسر مٹائے گا پیویں گے ایک گھاٹ پہ شیر اور گوسپند کھیلیں گے بچے سانپوں سے بیخوف و بے گزند یعنی وہ وقت امن کا ہو گا نہ جنگ گا بھولیں گے لوگ مشغلہ تیر و تفنگ کا یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا اک معجزہ کے طور سے یہ پیش گوئی ہے کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 78،77) ہے
230 حضرت اقدس کا مہم من اللہ ہونے کے اعتبار سے وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَالْقِيْهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ) (القصص: 8) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ إِنَّ بَابَ الْإِلْهَامِ مَسْدُودٌ عَلى هَذِهِ الْأُمَّةِ وَمَا تَدَبَّرَ فِي الْقُرْآنِ حَقَّ التَّدَبُّرِ وَمَا لَقِيَ الْمُلْهَمِيْنَ - فَاعْلَمُ أَيُّهَا الرَّشِيدُ أَنَّ هَذَا الْقَوْلَ بَاطِلٌ بِالْبَدَاهَةِ وَيَخَالِفُ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَشَهَادَاتِ الصَّالِحِيْنَ - أَمَّا كِتَابُ اللهِ فَانتَ تَقْرَءُ فِي الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ آيَاتٍ تُؤيّدُ قَوْلَنَا هَذَا وَقَدْ أَخْبَرَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ الْمُحْكَم عَنْ بَعْضٍ رِجَالٍ وَنِسَاءٍ كَلَّمَهُمْ رَبَّهُمْ وَخَاطَبَهُمْ وَأَمَرَهُمْ وَنَهَاهُمْ وَمَا كَانُوْا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا رُسُلِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - أَلَا تَقْرَءُ فِي الْقُرْآنِ لَا تَخَا فِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَآدُّوْهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ فَتَدَبَّرُ أَيُّهَا الْمُنْصِتُ الْعَاقِلُ كَيْفَ لَا يَجُوزُ مُكَالِمَاتُ اللَّهِ بِبَعْضٍ رِجَالِ هَذِهِ الْأُمَّةِ الَّتِي هِيَ خَيْرُ الْأُمَمِ وَقَدْ كَلَّمَ اللَّهُ نِسَاءَ قَوْمٍ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَقَدْ أَتَا كُمْ مَثَلُ الْأَوَّلِينَ ( ترجمه از مرتب ) بعض لوگ کہتے ہیں کہ اِس اُمت میں الہام کا دروازہ بند ہے ایسے لوگوں نے قرآن کریم پر پوری طرح تدبر نہیں کیا اور نہ ہی مسلمین سے ملے ہیں.پس اے صاحب رُشد جان لے کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور کتاب اللہ ، سُنتِ نبوی اور صالحین کی شہادت کے خلاف ہے.کتاب اللہ ہی کو دیکھوتم اس میں بہت سی ایسی آیات پڑھو گے جو ہماری بات کی تائید کرتی ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں بعض مردوں اور عورتوں سے متعلق خبر دی ہے کہ ان کے رب نے ان سے کلام کیا اور انہیں مخاطب کیا.انہیں بعض باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا اور بعض امور سے منع کیا اور وہ ربّ العالمین کی طرف سے نہ تو نبی ہے اور نہ ہی رسول.کیا تو قرآن کریم میں یہ آیت نہیں پڑھتا جس میں حضرت موسیٰ کی ماں کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ لَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ.پس اے منصف اور عقل مند تم اس بات پر غور کرو کہ اس اُمت میں جو خیر الام ہے کیوں بعض مردوں سے خدا تعالی کا کلام کرنا جائز ہیں حالانکہ اس نے تم سے پہلی امتوں کی عورتوں سے بھی کلام کیا ہے اور پہلوں کی مثالیں تمہارے پاس موجود ہیں.(حمامة البشری رخ جلد 7 صفحہ 297) ہے غضب کہتے ہیں اب وحی خدا مفقود ہے اب قیامت تک ہے اس امت کا قصوں پر مدار یہ عقیده برخلاف گفته داوار ہے پر اتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار ( براہین احمدیہ.رخ - جلد 21 صفحہ 137 )( در شین صفحه 127)
231 انکار مرسلین کی سنت کے اعتبار سے سِحُرٌ مُّفْتَرَى وَّمَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ) (القصص: 37) ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ جب ان کو وہ اصل اسلام جو آنحضرت ا لے کر آئے تھے پیش کیا جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اسی طرح مانتے آئے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ کیا اتنی بات کہہ کر یہ اپنے آپ کو بری کر سکتے ہیں؟ نہیں بلکہ قرآن شریف کے موافق اور خدا تعالیٰ کی سُنت قدیم کے مطابق اس قول سے بھی ایک حجت ان پر پوری ہوتی ہے.جب کبھی کوئی خدا کا مامور اور مرسل آیا ہے تو مخالفوں نے اس کی تعلیم کوسن کر یہی کہا ہے مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي أَبَائِنَا الْأَوَّلِين تبتل الی اللہ کے اعتبار سے ( ملفوظات جلد دوم صفحه 189 ) وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلُ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا (المزمل: 9) میرے نزدیک رویا میں یہ بتانا کہ تجل کے معنے مجھ سے دریافت کئے جائیں اس سے مراد ہے کہ جو میرا مذ ہب اس بارہ میں ہے وہ اختیار کیا جاوے.منطقیوں یا نحویوں کی طرح معنے کرنا نہیں ہوتا بلکہ حال کے موافق معنے کرنے چاہئیں.ہمارے نزدیک اُس وقت کسی کو مستقبل کہیں گے جب وہ عملی طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام اور رضا کو دنیا اور اس کی متعلقات و مکروہات پر مقدم کرے.کوئی رسم و عادت کوئی قومی اصول اس کے رہزن نہ ہو سکے نہ نفس رہزن ہو سکے نہ بھائی نہ جو رو نہ بیٹا نہ باپ.غرض کوئی شے اور کوئی متنفس اس کو خدا تعالیٰ کے احکام اور رضا کے مقابلہ میں اپنے اثر کے نیچے نہ لا سکے اور وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول میں ایسا اپنے آپ کھو دے کہ اس پر فنائے اتم طاری ہو جاوے اور اسکی ساری خواہشوں اور ارادوں پر ایک موت وارد ہو کر خدا ہی خدارہ جاوے.دنیا کے تعلقات بسا اوقات خطرناک رہزن ہو جاتے ہیں.حضرت آدم علیہ السلام کی رہزن حضرت تو ہو گئی.پس تبتل تام کی صورت میں یہ ضروری امر ہے کہ ایک سکر اور فنا انسان پر وارد ہو مگر نہ ایسی کہ وہ اسے خدا سے گم کرے بلکہ خدا میں گم کرے.( ملفوظات جلد اول صفحه 552) مرسلین باری تعالیٰ کی فتح کے اعتبار سے كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزُه (المجادله:22) میں خدا سے یقینی علم پا کر کہتا ہوں کہ اگر یہ تمام مولوی اور ان کے سجادہ نشین اور ان کے ملہم اکٹھے ہو کر الہامی امور میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تو خدا ان سب کے مقابل پر میری فتح کرے گا کیونکہ میں خدا کی طرف سے ہوں.پس ضرور ہے کہ بموجب آیت کریمہ كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی میری فتح ہو.انجام آتھم.رخ جلد 11 صفحہ 341-342)
232 خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے پس چونکہ میں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پاکر اور اُسی میں ہو کر اور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں اس لئے میں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت ﷺ تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے اور ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا.نزول مسیح - ر- خ جلد 18 صفحہ 380-381) حضرت اقدس کی رسالت کی مشکلات کے اعتبار سے فَاجَآءَ هَا الْمَخَاضُ إِلى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَلَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنْتُ نَسُيًا مَّنْسِيَّان (مريم :24) میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحی الہی اور مسیح موعود ہونے کا دعوی تھا.اسی کی نسبت میری گھبراہٹ ظاہر کرنے کے لئے یہ الہام ہوا تھا فَجَاءَ هَا الْمَخَاصُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يُلَيْتَنِي مِثْ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا - مخاض سے مراد اس جگہ وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں.اور جذع النَّخْلَةِ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کی اولا دیگر صرف نام کے مسلمان ہیں.بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ دردانگیز دعوت جس کا نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہو جانا تھا اس مامور کو قوم کے لوگوں کی طرف لائی جو کھجور کی خشک شاخ یا جڑ کی مانند ہیں تب اس نے خوف کھا کر کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مرجاتا اور بھولا بسرا ہو جاتا.وَ مَا كَانَ جَوْرُ الْخَلْقِ مُسْتَحْدَثًا لَّنَا فَإِنَّ أَذَاهُمْ سُنَّةٌ لَّا تَغَيَّرُ (براہین احمدیہ.رخ جلد 21 صفحہ 68-69 حاشیہ ) إِذَا قِيْلَ إِنَّكَ مُرْسَلٌ خِلْتُ أَنَّنِيْ دُعِيْتُ إِلَى أَمْرٍ عَلَى الْخَلْقِ يَعْسِرُ اور مخلوق کا ظلم ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ ان کا دکھ دینا ایک غیر متبدل سنت ہے.۲.جب مجھے کہا گیا کہ تو مرسل ہے تو میں نے خیال کیا کہ میں ایک ایسے امر کی طرف بلایا گیا ہوں جو مخلوق پر دشوار (خطبہ الہامیہ رخ جلد 16 صفحہ 305) ( القصائد الاحمدیہ صفحہ 358) گذرے گا.
233 حضرت مسیح موعود کی آمد سے قیامت کبری کا التوا ہوا وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًاهِ لَقَدْ جِئْتُمُ شَيْئًا إِذَاهِ تَكَادُ السَّمْواتُ يَتَفَطَّرُنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدَّاهِ أَنْ دَعَوُا لِلرَّحُمْن وَلَدًان (مريم: 8992) تَكَادُ السَّمَوتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَذَا اور آیت چونکہ ذ والو جہین ہے اس لئے دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ قیامت کبری کے قریب عیسائیت کا زمین پر بہت غلبہ ہو جائے گا جیسا کہ آجکل ظاہر ہورہا ہے اور اس آیت کریمہ کا منشاء یہ ہے کہ اگر اس فتنہ کے وقت خدا تعالیٰ اپنے مسیح کو بھیج کر اصلاح اس فتنہ کی نہ کرے تو فی الفور قیامت آجائے گی اور آسمان پھٹ جائیں گے مگر چونکہ باوجوداس قدر عیسائیت کے غلو کے اور اس قدر تکذیب کے جواب تک کروڑہا کتابیں اور رسالے اور دو ورقہ کا غذات ملک میں شائع ہو چکے ہیں قیامت نہیں آئی تو یہ دلیل اس بات پر ہے کہ خدا نے اپنے بندوں پر رحم کر کے اپنے مسیح کو بھیج دیا ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا کا وعدہ جھوٹا نکلے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 287) حضرت اقدس کی وحی کا ذکر قرآن شریف میں فرمایا کہ " آج میرے دل میں یہ خیال ہوا کہ قرآن شریف کی وحی اور اس سے پہلی وحی پر ایمان لانے کا ذکر تو قرآن شریف میں موجود ہے.ہماری وحی پر ایمان لانے کا ذکر کیوں نہیں.اس امر پر توجہ کر رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور القاء کے یکا یک میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آیت کریمہ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (البقرہ 5) میں تینوں وجیوں کا ذکر ہے.مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ سے قرآن شریف کی وحی اور مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ سے انبیاء سابقین کی وجی اور اخرة سے مراد مسیح موعود کی وحی ہے.آخرۃ کے معنے ہیں پیچھے آنے والی.وہ پیچھے آنے والی چیز کیا ہے.سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ یہاں پیچھے آنے والی چیز سے مراد وہ وحی ہے جو قرآن کریم کے بعد نازل ہوگی.کیونکہ اس سے پہلے وحیوں کا ذکر ہے.ایک وہ جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی.دوسری وہ جو آنحضرت ﷺ سے قبل نازل ہوئی اور تیسری وہ جو آپ کے بعد آنے والی تھی.ریویو آف ریلیجنز جلد 14 نمبر 4 بابت ماہ مارچ واپریل 1915ء صفحہ 164 حاشیہ ) ( تفسیر حضرت اقدس طبع اول سورة البقرة جلد 2 صفحہ 63)
234 من میزیم بوحي خدائے کہ بامن است پیغام اوست چون نفس روح پرورم میں تو اس خدا کی وحی کے سہارے جیتا ہوں جو میرے ساتھ ہے اس کا الہام میرے لئے زندگی بخش سانس کی طرح ہے.من رخت بروه ام بعمارت یار خویش دیگر خبر مپرس ازیں تیره کشورم میں نے تو اپنے دوست کے گھر میں ڈیرہ ڈال دیا ہے پس تو اس اندھیرے جہان کے متعلق مجھ سے کچھ نہ پوچھ.عشقش بتارو پود دل من درون شد است مهرش شد است در رو دیں مہر انورم اس کا عشق میرے دل کے رگ وریشہ میں داخل ہو گیا ہے اور اس کی محبت راہ دین میں میرے لئے چمکتا ہوا سورج بن گئی ہے.راز محبت من و او فاش گرشدی بسیارتن کہ جاں بفشاندے بریس ورم اگر میری اور اس کی محبت کا راز ظاہر ہو جاتا.تو بہت سی خلقت میرے دروازہ پر اپنی جانیں قربان کر دیتی.( در نشین فارسی مترجم صفحہ 163 ) (ازالہ اوہام.رخ جلد 3 صفحہ 183،182) مسلمانوں کا یہود صفت ہونے کے اعتبار سے تب اس یہودیت کی بیچگنی کے لئے مسیح ابن مریم نازل ہوگا یعنی مامور ہو کر آئے گا اور فرمایا کہ جیسا کہ یہ امت یہودی بن جائے گی ایسا ہی ابن مریم بھی اپنی صورت مثالی میں اسی امت میں سے پیدا ہوگا نہ یہ کہ یہودی تو یہ امت بنی اور ابنِ مریم بنی اسرائیل میں سے آوے.ایسا خیال کرنے میں سراسر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسر شان ہے اور نیز آيت ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ (الواقعة: 40 41) کے برخلاف.(ازالہ اوہام - رخ جلد 3 صفحہ 420) مردم نااہل گویندم که چون عیسی شدی بشنو از من این جواب شاں کہ اے قوم حسود نالائق لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو عیسی کیونکر ہو گیا مجھ سے ان کا جواب سن جو یہ ہے کہ اے حاسد قوم.چوں شمارا شد یہود اندر کتاب پاک نام پس خدا عیسی مرا کرد است از بهر یهود چونکہ قرآن میں تمہارا نام یہودی رکھا گیا ہے اس لئے خدا نے مجھے یہودیوں کے لئے عیسی بنا دیا.ورنه از روئے حقیقت نیم ایشاں عیستید نیز ہم من ابن مریم نیستم اندر وجود ور نہ دراصل تم ان یہودیوں کے تخم سے نہیں اور میں بھی جسمانی طور پر ابن مریم نہیں ہوں.گر نه بودندے شما مارا نبودے ہم اثر از شما شد ہم ظهورم پس زغو غابا چه سود اگر تم نہ ہوتے تو ہمارا نشان بھی نہ ہو تا صرف تمہاری وجہ سے میر اظہور ہوا.پھر غل مچانے سے کیا فائدہ؟ هر چه بود از نیک و بد در دین اسرائیلیاں آن همه در ملت احمد نقوش خود نمود یہودیوں کے مذہب میں جو بھلی بری باتیں موجود تھیں وہ سب دین احمد میں بھی پیدا ہو گئیں.( در تمین فارسی مترجم صفحه 311) ( براہین احمدیہ.رخ جلد 21 صفحہ 304)
235 وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَيْنَا.....کے اعتبار سے وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ وَلَا خَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَامِنُهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْهُ حَجِزِينَ (الحاقة: 45-48) تقول کا حکم قطع اور یقین کے متعلق ہے.پس جیسا کہ میں نے بار بار بیان کر دیا ہے کہ یہ کلام جو میں سناتا ہوں یہ قطعی اور یقینی طور پر خدا کا کلام ہے جیسا کہ قرآن اور توریت خدا کا کلام ہے اور میں خدا کاظمی اور بروزی طور پر نبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور پر میری اطاعت واجب ہے اور مسیح موعود ماننا واجب ہے اور ہر ایک جس کو میری تبلیغ پہنچ گئی ہے گو وہ مسلمان ہے مگر مجھے اپنا حکم نہیں ٹھہراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتا ہے اور نہ میری وحی کو خدا کی طرف سے جانتا ہے وہ آسمان پر قابل مواخذہ ہے کیونکہ جس امر کو اُس نے اپنے وقت پر قبول کرنا تھا اُس کو ر ڈ کر دیا.میں صرف یہ نہیں کہتا کہ میں اگر جھوٹا ہوتا تو ہلاک کیا جاتا بلکہ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ موسیٰ اور عیسی اور داؤ داور آنحضرت ﷺ کی طرح میں سچا ہوں اور میری تصدیق کے لئے خدا نے دس ہزار سے بھی زائد نشان دکھلائے ہیں.قرآن نے میری گواہی دی ہے.رسول اللہ ﷺ نے میری گواہی دی ہے.پہلے نبیوں نے میرے آنے کا زمانہ متعین کر دیا ہے کہ جو یہی زمانہ ہے اور قرآن بھی میرے آنے کا زمانہ متعین کرتا ہے کہ جو یہی زمانہ ہے اور میرے لئے آسمان نے بھی گواہی دی ہے اور زمین نے بھی.اور کوئی نبی نہیں جو میرے لئے گواہی نہیں دے چکا اور یہ جو میں نے کہا کہ میرے دس ہزار نشان ہیں یہ بطور کفایت لکھا گیا ورنہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر یہ سفید کتاب ہزار جز کی بھی کتاب ہو اور اس میں میں اپنے دلائل صدق لکھنا چاہوں تو میں یقین رکھتا ہوں وہ کتاب ختم ہو جائے گی اور وہ دلائل ختم نہیں ہوں گے.(تحفتہ الندوہ.رخ جلد 19 صفحہ 95-96) ہم اپنی زبان سے کسی کو مفتری نہیں کہتے جبکہ وحی شیطانی بھی ہوتی ہے تو ممکن ہے کسی سادہ لوح کو دھوکا لگا ہو اس لئے ہم فعل الٹی کی سند پیش کرتے ہیں.رسول اللہ ﷺ نے بھی یہ پیش کی تھی اور خدا تعالیٰ نے فعل پر بہت مدار رکھا ہے وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاقَاوِيْلِ هِ لَا خَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ 0 میں فعل ہی کا ذکر ہے.پس جبکہ یہ مسنون طریق ہے تو اس سے کیوں گریز ہے.ہم لوگوں کے سامنے ہیں اور اگر قریب سے کام کر رہے ہیں تو خدا تعالیٰ ایسے عذاب سے ہلاک کرے گا کہ لوگوں کو عبرت ہو جاوے گی اور اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ضرور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو پھر دوسرے لوگ ہلاک ہو جاویں گے.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 235)
236 یا درکھو جو مجھ سے مقابلہ کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں بلکہ اس سے مقابلہ کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اگر دنی چپڑاسی کی بنک کی جائے اس کی بات نہ مانی جائے تو گورنمنٹ سے ہتک کرنے والے یا نہ ماننے والے کو سزا ملتی ہے اور باز پرس ہوتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کی بے عزتی کرنا اس کی بات کی پرواہ نہ کرنا کیونکر خالی جا سکتا ہے.میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر میرا سلسلہ خدا کی طرف سے نہیں تو یونہی بگڑ جائے گا خواہ کوئی اس کی مخالفت کرے یا نہ کرے کیوں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى (ط :62) اور فرما يامَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا (الانعام: 22) اور وہ شخص جو رات کو ایک بات بنا تا اور دن کولوگوں کو بتا تا اور کہتا ہے کہ مجھے خدا نے ایسا کہا ہے وہ کیوں کر با مراد اور بابرگ و بار ہو سکتا ہے اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کوفرماتا ہے وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيلِ لَا خَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ه جب ایک ایسے عظیم الشان انسان کے واسطے ایسا فرمان ہے تو پھر ادنی انسان کے واسطے چھوٹی سی چُھری کی ضرورت تھی اور کبھی کا فیصلہ ہو گیا ہوتا.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 670-671) کامل علم غیب اور کثرت مکالمہ مخاطبہ کے اعتبار سے علِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ اَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (الجن: 28 27) کامل طور پر غیب کا بیان کرنا صرف رسولوں کا کام ہے دوسرے کو یہ مرتبہ عطا نہیں ہوتا.رسولوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں خواہ وہ نبی ہوں یا رسول یا محدّث اور مجد دہوں.ایام الصلح - ر- خ جلد 14 صفحہ 419 حاشیہ ) احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی امت میں سے ایک شخص پیدا ہو گا جو عیسی اور ابن مریم کہلائے گا اور نبی کے نام سے موسوم کیا جائے گا یعنی اس کثرت مکالمہ ومخاطبہ کا شرف اس کو حاصل ہوگا اور اس کثرت سے امور غیبیہ اس پر ظاہر ہوں گے کہ بجز نبی کے کسی پر ظاہر نہیں ہو سکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَلَا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِةٍ أَحَدًاه إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولِ یعنی خدا اپنے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہیں بخشتا جو کثرت اور صفائی سے حاصل ہو سکتا ہے بجز اُس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدرا مور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی.اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 406)
237 عذاب کے نازل ہونے کی خبر کے اعتبار سے وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلًا.(بنی اسرائیل: 16) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انبیاء اور رسل آتے ہیں وہ ایک وقت تک صبر کرتے ہیں اور مخالفوں کی مخالفت جب انتہا تک پہنچ جاتی ہے تو ایک وقت توجہ نام سے اقبال علی اللہ کر کے فیصلہ چاہتے ہیں اور پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْد.اسْتَفْتَحُوا سنت اللہ کو بیان کرتا ہے کہ وہ اس وقت فیصلہ چاہتے ہیں اور اس فیصلہ چاہنے کی خواہش ان میں پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب گویا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 158) اس سے مسیح موعود کی نسبت پیشگوئی کھلے کھلے طور پر قرآن شریف میں ثابت ہوتی ہے کیونکہ جو شخص غور اور ایمانداری سے قرآن شریف کو پڑھے گا اس پر ظاہر ہو گا کہ آخری زمانہ کے سخت عذابوں کے وقت جبکہ اکثر حصے زمین کے زیروز بر کئے جائیں گے اور سخت طاعون پڑے گی اور ہر ایک پہلو سے موت کا بازار گرم ہوگا اس وقت ایک رسول کا آنا ضروری ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلاً یعنی ہم کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتے جب تک عذاب سے پہلے رسول نہ بھیج دیں.پھر جس حالت میں چھوٹے چھوٹے عذابوں کے وقت میں رسول آئے ہیں جیسا کہ زمانہ کے گذشتہ واقعات سے ثابت ہے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس عظیم الشان عذاب کے وقت میں جو آخری زمانہ کا عذاب ہے اور تمام عالم پر محیط ہونے والا ہے جس کی نسبت تمام نبیوں نے پیشگوئی کی تھی خدا کی طرف سے رسول ظاہر نہ ہو اس سے تو صریح تکذیب کلام اللہ لازم آتی ہے.(تتمہ حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 499) آیت قرآنی وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلاً سے صاف ظاہر ہے کہ اس قسم کے قہری عذاب کے نازل ہونے سے پہلے خدا کی طرف سے کوئی رسول ضرور مبعوث ہوتا ہے جو خلقت کو آنے والے عذاب سے ڈراتا ہے اور یہ عذاب اس کی تصدیق کے واسطے قہری نشانات ہوتے ہیں.اس وقت بھی خدا کا ایک رسول تمہارے درمیان ہے جو مدت سے تم کو ان عذابوں کے آنے کی خبر دے رہا ہے.پس سوچو اور ایمان لاؤ تا کہ نجات پاؤ.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 530 حاشیہ ) وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلاً اس میں حکمت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے اس کو کسی کی پرواہ نہیں.پس جب نبی پیدا ہوتا ہے اور وہ دعائیں کرتا ہے تب ان دعاؤں کے اثر سے عذاب نازل ہوتا ہے اور وہ عذاب اگر چہ گذشتہ گناہوں کی شامت سے ہو مگر نبی کی دعاؤں سے ہوتا ہے اسی طرح اگر چہ کوئی مجھ سے ناواقف اور بے خبر ہو یورپ میں یا امریکہ میں مگر میری دعائیں اس کے عذاب کا موجب ہو جاتی ہیں اور وہ عذاب نہیں آتا ہے جب تک میری دعائیں اس کو ظاہر نہ کریں یہی معنے ہیں اس آیت کے وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلاً - ( تفسیر حضرت اقدس سورۃ بنی اسرائیل جلد 5 صفحہ 203) ( الفضل جلد 1 نمبر 29 مورخہ 31 دسمبر 1913 صفحہ 9) اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلاً.اور تو بہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں ان پر رحم کیا جائے گا.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 268)
238 اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا اتمام حجت کے لئے نبی کو لاتا ہے اور اس کے قائم ہونے کے لئے ضرورت پیدا کرتا ہے اور سخت عذاب بغیر نبی قائم ہونے کے آتا ہی نہیں جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلاً - (تجلیات الہیہ.رخ جلد 20 صفحہ 400) عادت اللہ ہمیشہ سے اس طرح پر جاری ہے کہ جب دنیا ہر ایک قسم کے گناہ کرتی ہے اور بہت سے گناہ ان کے جمع ہو جاتے ہیں تب اس زمانہ میں خدا اپنی طرف سے کسی کو مبعوث فرماتا ہے اور کوئی حصہ دنیا کا اس کی تکذیب کرتا ہے تب اس کا مبعوث ہونا دوسرے شریر لوگوں کی سزا دینے کے لئے بھی جو پہلے مجرم ہو چکے ہیں ایک محرک ہو جاتا ہے اور جو شخص اپنے گذشتہ گناہوں کی سزا پاتا ہے اس کے لئے اس بات کا علم ضروری نہیں کہ اس زمانہ میں خدا کی طرف سے کوئی نبی یا رسول بھی موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلاً.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 165-164) وَاسْتَفْتَحُوْا وخَابَ كُلَّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ.(ابراهيم: 16) نبیوں نے اپنے تئیں مجاہدہ کی آگ میں ڈال کر فتح چاہی.پھر کیا تھا ہر ایک ظالم سرکش تباہ ہو گیا اور اسی کی طرف اس شعر میں اشارہ ہے تا دل مرد خدا نامد بدرد بیچ قوم را خدا رسوا نکرد (حقیقۃ الوحی.ر-خ- جلد 22 صفحہ 324) ہر نبی پہلے صبر کی حالت میں ہوتا ہے پھر جب ارادہ الہی کسی قوم کی تباہی سے متعلق ہوتا ہے تو نبی میں درد کی حالت پیدا ہوتی ہے.وہ دعا کرتا ہے پھر اس قوم کی تباہی یا خیر خواہی کے اسباب مہیا ہو جاتے ہیں.دیکھو نوح علیہ السلام پہلے صبر کرتے رہے اور بڑی مدت تک قوم کی ایزائیں سہتے رہے پھر ارادہ الہی جب ان کی تباہی سے متعلق ہوا تو درد کی حالت پیدا ہوئی اور دل سے نکلا رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دیار (نوح: 27) جب تک خدا کا ارادہ نہ ہو وہ حالت پیدا نہیں ہوتی.پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال پہلے صبر کرتے رہے پھر جب درد کی حالت پیدا ہوئی تو قتال کے ذریعے مخالفین پر عذاب نازل ہوا.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 199) عذاب سے مراد طاعون ہے رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ.أَنَّى لَهُمُ الذِكْرَى وَقَدْ جَاءَ هُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ.ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ قَالُوا مُعَلَّمٌ مَّجْنُونٌ.إِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ.(الدخان: 13 تا 16) وہ وقت ایسا ہوگا کہ یہ بلاء روئے زمین پر عام ہوگی کوئی شہر یا بستی الا ماشاء اللہ اس سے خالی نہ رہے گی بلکہ دریاؤں اور جنگلوں میں بھی طاعون ہو گا اس وقت لوگ بھاگنے کی جگہ ڈھونڈیں گے مگر نہ پاویں گے.(حقیقۃ الوحی - ر- خ - جلد 22 صفحہ 424-425)
239 وَالْمُرُ سَلَتِ عُرُ فَا فَالْعَصِفْتِ عَصْفًا وَّالنَّشِرَاتِ نَشْرًا فَالْفَرِقَتِ فَرُقًاه فَالْمُلْقِيتِ ذِكْرًاه عُدْرًا اَوْنُذُرًا (المرسلت : 2 تا 7) اس آیت قرآن کریم میں اس زمانہ اور طاعون کے متعلق پیشگوئی ہے.قسم ہے ان ہواؤں کی جو آہستہ آہستہ چلتی ہیں.یعنی پہلا وقت ایسا ہوگا کہ کوئی کوئی واقعہ طاعون کا ہو جایا کرے پھر وہ زور پکڑے اور تیز ہو جاوے.پھر وہ ایسی ہو کہ لوگوں کو پراگندہ کر دے اور پریشان خاطر کر دے.پھر ایسے واقعات ہوں کہ مومن اور کافر کے درمیان فرق اور تمیز کر دیں.اس وقت لوگوں کو سمجھ آجائے گی کہ حق کس امر میں ہے.آیا اس امام کی اطاعت میں یا اس کی مخالفت میں.یہ سمجھ میں آنا بعض کے لئے صرف حجت کا موجب ہوگا.(عُذرًا ) یعنی مرتے مرتے اُن کا دل اقرار کر جائے گا کہ ہم غلطی پر تھے اور بعض کے نزدیک ( نذرا) یعنی ڈرانے کا موجب ہوگا کہ وہ تو بہ کر کے بدیوں سے باز آویں.(ملفوظات جلد دوم صفحه 204) وَإِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيمَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا ، كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتب مَسْطُورًا (بنی اسرائیل: 59) ط قرآن شریف میں بھی پیشگوئی ہے.وَإِن مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيمَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا یعنی کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں یا اُس پر شدید عذاب نازل نہ کریں گے یعنی آخری زمانہ میں ایک سخت عذاب نازل ہوگا اور دوسری طرف یہ فرمایا وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلاً پس اس سے بھی آخری زمانہ میں ایک رسول کا مبعوث ہونا ظاہر ہوتا ہے اور وہی مسیح موعود ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 500) پھر مسیح موعود کے وقت کا ایک نشان طاعون تھا.انجیل توریت میں بھی یہ نشان موجود تھا اور قرآن شریف سے بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشان مسیح موعود کا خدا تعالی نے ٹھہرایاتھا.چنانچہ فرمایاوان مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا یہ باتیں معمولی نہیں ہیں بلکہ غور سے سمجھنے کے لائق ہیں اور اب دیکھ لو کہ طاعون ملک میں پھیلی ہوئی ہے یا نہیں؟ اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 14)
240 قَالَ اللهُ هذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ ، لَهُمْ جَنَّتٌ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ، ذَلِكَ الْفَوْزُ ط الْعَظِيمُ (المائده: 120) طاعون کے بارے میں خواہ کوئی حیلہ حوالہ کریں ہر گز کام نہ آوے گا آخر مستقر اللہ تعالیٰ ہی ہوگا.لوگ جب اُس کو مانیں گے تب وہ اس سے رہائی دے گا.این المفر (القيامة: 11) بھی اسی پر چسپاں ہے کیونکہ دوسرے آفات میں تو کوئی نہ کوئی مضر ہوتا ہے مگر طاعون میں کوئی مفر نہیں ہے.صرف خدا کی پناہ ہی کام آوے گی.خدا کی طرف ظلم کبھی منسوب نہیں ہو سکتا.جو صادق ہو گا وہ ضرور اپنے صدق سے نفع پاوے گا.یہ وہی دن ہیں جن کی نسبت کہا گیا ہے هَذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّدِقِينَ صِدْقُهُمْ.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 54) جہاں را دل از میں طاعون دو نیم است نہ ایں طاعون کہ طوفانِ عظیم ا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا یہ طاعون نہیں بلکہ طوفانِ عظیمی ہے.دنیا کا دل اس طاعون کی وجہ سے بیا بشتاب سوئے عظ که این کشتی ازاں رب عظیم است جلدی سے ہماری کشتی کی طرف آجا.کہ یہ کشتی خدائے عظیم کی طرف سے ہے.در شین فارسی متر جم صفحه 270) (کشتی نوح.ر.خ.جلد 19 ٹائیل پیچ ) دابتہ الارض کے ظاہر ہونے کے اعتبار سے وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمُ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمُ : أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِايْتِنَا لَا يُوقِنُونَ (النمل: 83) تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی طاعون ہے اور یہی وہ دابتہ الارض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةٌ مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ لا أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِايْتِنَا لَا يُوقِنُون اور جب مسیح موعود کے بھیجنے سے خدا کی حجت ان پر پوری ہو جائے گی تو ہم زمین میں سے ایک جانور نکال کر کھڑا کریں گے وہ لوگوں کو کاٹے گا اور زخمی کرے گا اس لئے کہ لوگ خدا کے نشانوں پر ایمان نہیں لائے تھے.اور پھر آگے فرمایا ہے وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ يُكَذِّبُ بِايْتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ - حَتَّى إِذَا جَاءُ وَ قَالَ أَكَذَّبْتُمْ بِايْتِي وَلَمْ تُحِيْطُوا بِهَا عِلْمًا أَمَّا ذَا كُنتُمْ تَعْمَلُوْنَ وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوا فَهُمْ لَا يَنْطِقُونَ (النمل: 84 تا 86) ترجمہ: اس دن ہم ہر ایک اُمت میں سے اُس گروہ کو جمع کریں گے جو ہمارے نشانوں کو جھٹلاتے تھے اور ان کو ہم جدا جدا جماعتیں بنادیں گے یہاں تک کہ جب وہ عدالت میں حاضر کئے جائیں گے تو خدائے عز وجل ان کو کہے گا کہ کیا تم نے میرے نشانوں کی بغیر تحقیق کے تکذیب کی.یہ تم نے کیا کیا اور ان پر بوجہ ان کے ظالم ہونے کے حجت پوری ہو جائے گی اور وہ بول نہ سکیں گے.
241 اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہی دابتہ الارض جو ان آیات میں مذکور ہے جس کا مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونا ابتداء سے مقرر ہے یہی وہ مختلف صورتوں کا جانور ہے جو مجھے عالم کشف میں نظر آیا اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ طاعون کا کیڑا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کا نام دابتہ الارض رکھا کیونکہ زمین کے کیڑوں میں سے ہی یہ بیماری پیدا ہوتی ہے.اسی لئے پہلے چوہوں پر اس کا اثر ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ انسان کو ایسا ہی ہر ایک جانور کو یہ بیماری ہو سکتی ہے اسی لئے کشفی عالم میں اس کی مختلف شکلیں نظر آئیں.نزول المسیح رخ جلد 18 صفحہ 415-416) نئی زمین اور نیا آسمان کے اعتبار سے يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوَاتِ وَبَرَزُو اللَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (ابراهيم: 49 ) صورت عالم پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزار ششم میں زمین پر ایک انقلاب عظیم آیا ہے.بالخصوص اس ساٹھ برس کی مدت میں کہ جو تخمیناً میری عمر کا اندازہ ہے.اس قدر صریح تغیر صفحہ ہستی پر ظہور پذیر ہے کہ گویا وہ دنیا ہی نہیں رہی نہ وہ سواریاں رہیں اور نہ وہ طریق تمدن رہا اور نہ بادشاہوں میں وہ وسعت اقتدار حکومت رہی نہ وہ راہ رہی اور نہ وہ مرکب اور یہاں تک ہر ایک بات میں جدت ہوئی کہ انسان کی پہلی طرزیں تمدن کی گویا تمام مفسوخ ہو گئیں اور زمین اور اہل زمین نے ہر ایک پہلو میں گویا پیرا یہ جدید پہن لیا اور بُدِّلَتِ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ کا نظارہ آنکھوں کے سامنے آگیا.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 286) مردہ زمین کو زندہ کرنے کے انتہار سے اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الاَ رُضَ بَعْدَ مَوْتِهَا قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَتِ لَعَلَّكُمُ تَعْقِلُونَ O (الحديد : 18) خدا تعالیٰ کے ساتھ صدق ، وفاداری، اخلاص ، محبت اور خدا پر توکل کالعدم ہو گئے ہیں اب خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ پھر نئے سرے سے ان قوتوں کو زندہ کرے.وہ خدا ہمیشہ يُحْيِ الَّا رُضَ بَعْدَ مَوْتِهَا کرتا رہا ہے اس نے ارادہ کیا ہے اور اس کے لئے کئی راہیں اختیار کی گئی ہیں ایک طرف مامور کو بھیج دیا ہے جو نرم الفاظ میں دعوت کرے اور لوگوں کو ہدایت کرے دوسری طرف علوم وفنون کی ترقی ہے اور عقل آتی جاتی ہے.( ملفوضات جلد سوم صفحہ 580)
242 مردے زندہ کئے جانے کے فرمان کے اعتبار سے قَالَ رَبِّ فَانْظُرْنِى إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ.(الحجر: 3837) وَ إِنَّ ادَمَ هَوَى مِنْ قَبْلُ فِي مَصَافٍ.وَهَزَمَهُ الشَّيْطَانُ فَمَارَأَى الْغَلَبَةَ إِلَى سِتَّةِ الْافٍ وَ مُزَقَتْ ذُرِّيَّتُهُ وَ فُرِّقَتْ فِي أَطْرَافِ فَإِلى كَمْ يَكُونُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ.أَلَمْ يُغْوِ النَّاسِ أَجْمَعِيْنَ إِلَّا قَلِيْلًا مِنْ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِيْنَ.فَقَدْ أَتَمَّ أَمْرَهُ وَ كَمَّلَ فِعْلَهُ وَ حَانَ أَنْ يُعَانَ آدَمُ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِيْنَ.وَلَا شَكَ وَلَا شُبْهَةَ أَنَّ إِنْظَارَ الشَّيْطَانِ كَانَ إِلَى آخِرِ الزَّمَانِ كَمَا يُفْهَمُ مِنَ الْقُرْآنِ.أَعْنِي لَفْظَ الْإِنْظَارِ الَّذِي جَاءَ فِي الْفُرْقَانِ.فَإِنَّ اللهَ خَاطَبَهُ وَ قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ يَعْنِى يَوْمِ الْبَعْثِ الَّذِي يُبْعَثُ النَّاسُ فِيهِ بَعْدَ مَوْتِ الضَّلَالَةِ بِإِذْنِ الْحَيِّ الْقَيُّوْمِ.وَلَا شَكَ أَنَّ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمَ يُشَابِهُ يَوْمَ خَلْقَةِ آدَمَ بِمَا اَرَادَ اللَّهُ فِيْهِ أَنْ يَخْلُقَ مَثِيْلَ آدَمَ ثُمَّ يَبُثُّ فِي الْأَرْضِ ذُرِّيَّتَهُ الرُّوْحَانِيَّةَ وَيَجْعَلَهُمْ فَوْقَ كُلَّ مَنْ قُطِعَ مِنَ اللَّهِ وَ تَجَدَّمَ وَ اشْتَدَّتِ الْحَاجِةُ إِلَى ادَمَ الثانِي فِي آخِرِ الزَّمَان لِيَتَدَارَكَ مَا فَاتَ فِى اَوَّلِ الْآوَان وَلِيَتِمَّ وَعِيْدُ اللهِ فِى الشَّيْطَان فَإِنَّ الله جَعَلَهُ مِنَ الْمُنْظَرِينَ إِلَى آخِرِ الدُّنْيَا وَ أَشَارَ فِيْهِ إِلى اِهْلَاكِهِ وَ اِخْرَا جهِ مِنْ أَمْلاكِه.(خطبہ الہامیہ.رخ - جلد 16 صفحہ 320-321) ( ترجمہ ) اور یقیناً آدم اس سے قبل میدان مقابلہ میں گر گئے تھے اور شیطان نے انہیں شکست دے دی تھی پس چھ ہزار سال تک وہ غلبہ کو نہ دیکھ سکے.ان کی اولاد پراگندہ ہوگئی اور اطراف عالم میں منتشر کر دی گئی.پس کب تک شیطان مہلت پائے گا.کیا اس نے سب لوگوں کو گمراہ نہیں کیا بجز اس تھوڑی تعداد کے جو اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی تھی.سو اس نے اپنا کام پورا کر لیا اور اپنا عمل مکمل کر لیا اور اب وقت آ گیا ہے کہ خدائے رب العالمین کی طرف سے حضرت آدم کی مدد کی جائے.اور یہ بات بلا شک وشبہ درست ہے کہ شیطان کا مہلت پانا جیسا کہ قرآن مجید سے سمجھا جاتا ہے آخر الزمان تک تھا.میری مراد لفظ انظار “ سے ہے جو قرآن مجید میں وارد ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے مخاطب ہو کر فرمایا تھا.انگ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ الحجر 39-38) یعنی تجھے اس وقت تک مہلت دی جاتی ہے جب لوگ گمراہی کی موت کے بعد خداۓحی و قیوم کے اذن سے دوبارہ اٹھائے جائیں گے.حقیقت میں یہ دن حضرت آدم کی پیدائش کے دن سے مشابہت رکھتا ہے اس وجہ سے کہ اللہ نے آج ارادہ فرمایا ہے کہ مثیل آدم کو پیدا کرے اور روئے زمین پر اس کی روحانی اولاد کو پھیلا دے اور ان تمام لوگوں پر ان کو غالب کرے جو اللہ تعالیٰ سے کٹ گئے اور اس سے علیحدہ ہو گئے اور آخری زمانہ میں آدم ثانی کی اشد ضرورت پیدا ہوگئی تاکہ پہلے زمانہ میں جو کوتاہی ہوئی ہے اس کی تلافی کرے اور شیطان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کی وعید پوری ہو.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے آخر تک شیطان کو مہلت پانے والوں میں قرار دیا اور اشارہ کیا کہ وہ اس وقت ہلاک کیا جائے گا اور اپنی قوتوں سے محروم کیا جائے گا.(خطبہ الہامیہ.ر.خ.جلد 16 صفحہ 320-321)
243 بنی نوع انسان کی ہمدردی کے اعتبار سے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:4) چونکہ ( حقانی ریفارمر ) بنی نوع کی ہمدردی میں محو ہوتے ہیں اس لئے رات دن سوچتے رہتے ہیں اور اس فکر میں گڑ ھتے رہتے ہیں کہ لوگ کسی نہ کسی طرح اس راہ پر آجائیں اور ایک بار اس چشمہ سے ایک گھونٹ پی لیں.یہ ہمدردی یہ جوش ہمارے سید و مولی نبی کریم ﷺ میں غایت درجہ کا تھا اس سے بڑھ کر کسی دوسرے میں ہوسکتا ہی نہیں.چنانچہ آپ کی ہمدردی اور غمگساری کا یہ عالم تھا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کا نقشہ کھینچ کر دکھایا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِینَ یعنی کیا تو اپنی جان کو ہلاک کر دے گا اس غم میں کہ یہ کیوں مومن نہیں ہوتے.اس آیت کی حقیقت آپ پورے طور پر نہ سمجھ سکیں تو جدا امر ہے مگر میرے دل میں اس کی حقیقت یوں پھرتی ہے جیسے بدن میں خون.بدل در دیگه دارم از برائے طالبان حق ن گردد بیان آن درد از تقریر کوتاهم ترجمہ: میرے دل میں صداقت کے متلاشیوں کے لئے ایسا درد ہے کہ اس کو اپنی زبان سے بیان نہیں کر سکتا.میں خوب سمجھتا ہوں کہ ان حقانی واعظوں کو کس قسم کا جانگداز در داصلاح خلق کا لگا ہوا ہوتا ہے.دعوت اور تبلیغ عام کے اعتبار سے ( ملفوظات جلد اول صفحہ 268) تَبْرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَلَمِيْنَ نَذِيرًا (الفرقان:2) ہم نے اس لئے بھیجا ہے کہ تمام دنیا کوڈراوے لیکن ہم بڑے زور سے کہتے ہیں کہ قرآن شریف سے پہلے دنیا کی کسی الہامی کتاب نے یہ دعویٰ نہیں کیا بلکہ ہر ایک نے اپنی رسالت کو اپنی قوم تک ہی محدود رکھا.یہاں تک کہ جس نبی کو عیسائیوں نے خدا قرار دیا اس کے منہ سے بھی یہی نکلا کہ میں اسرائیل کی بھیڑوں کے سوا اور کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا اور زمانہ کے حالات نے بھی گواہی دی کہ قرآن شریف کا یہ دعوی تبلیغ عام کا عین موقع پر ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کے ظہور کے وقت تبلیغ عام کا دروازہ کھل گیا تھا اور آنحضرت ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے بعد نزول اس آیت کے کہ قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 159) دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کی طرف دعوت اسلام کے خط لکھے تھے کسی اور نبی نے غیر قوموں کے بادشاہوں کی طرف دعوت دین کے ہرگز خطوط نہیں لکھے کیونکہ وہ دوسری قوموں کی دعوت کے لئے مامور نہ تھے یہ عام دعوت کی تحریک آنحضرت ﷺ کے ہاتھ سے ہی شروع ہوئی اور سیح موعود کے زمانہ میں اور اس کے ہاتھ سے کمال تک پہنچی.(چشمہ معرفت.رخ جلد 23 صفحہ 76-77)
244 حضرت اقدس نوع انسان کو جمع کریں گے يَا يُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ ج مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَآتَلُونَ بِه وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ) (النساء:2) وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَهُمُ جمعا (الکہف: 100).جس سے ظاہر ہے کہ نہایت درجہ کا اختلاف پیدا ہو جائے گا اور سب مذاہب ایک دنگل میں ہو کر نکلیں گے تر کنا“ کا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آزادی کا زمانہ ہوگا.اور یہ آزادی کمال تک پہنچ جائے گی.تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے مامور کی معرفت ان کو جمع کرنے کا ارادہ کرے گا.پہلے دیکھو جَمَعْنَهُمُ فرمایا.اور ابتدائے عالم کے لئے خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً - فرمایا.لفظ بت اور جمع آپس میں پورا تناقض رکھتے ہیں.گو یا دائرہ پورا ہو کر پھر وہی زمانہ ہو جائے گا.پہلے تو وحدۃ شخصی تھی.اب اخیر میں وحدت نوعی ہو جائے گی.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 427-428) اس لئے خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قو میں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں.زمانہ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے اور اس تکمیل کے لئے اس امت میں سے ایک نائب مقرر کیا جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اسی کا نام خاتم الخلفاء ہے پس زمانہ محمدی کے سر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اس کے آخر میں مسیح موعود ہے اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہولے کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت کسی نائب النبوت کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَ دِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كله (الصف: 10) یعنی خداوہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کر دے یعنی ایک عالمگیر غلبہ اس کو عطا کرے اور چونکہ وہ عالمگیر غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدا کی پیشگوئی میں کچھ تخلف ہو اس لئے اس آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا.(چشمہ معرفت - ر- خ- جلد 23 صفحہ 90) دین اور دنیا کی بھلائی کے اعتبار سے جو لوگ مجھے قبول کرتے ہیں ان کی دین و دنیا بھی اچھی ہو گی.کیونکہ اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے و جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ آل عمران : 56) در حقیقت وہ زمانہ آتا ہے کہ ان کو امیت سے نکال کر خود قوت بیان عطا کرے گا اور وہ منکروں پر غالب ہونگے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 54)
245 نشانات دکھلانے کے اعتبار سے بَلْ قَالُوا أَضْغَاتُ اَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ ۚ فَلْيَأْتِنَا بِايَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْاَوَّلُونَ (الانبياء : 6) غور سے سنو کہ عقلمندوں اور سوچنے والوں کے لئے میرے دعوے کے ساتھ اس قدر نشان موجود ہیں کہ اگر وہ انصاف سے کام لیں تو ان کے تسلی پانے کے لئے نہایت کافی وشافی ذخیرہ خوارق موجود ہے.ہاں اگر کوئی اس شخص کی طرح جس نے رسول اللہ ﷺ کا مینہ کے بارے میں معجزہ استجابت دعا دیکھ کر یعنی کئی برسوں کے امساک باراں کے بعد مینہ برستا ہوا مشاہدہ کر کے پھر کہہ دیا تھا کہ یہ کوئی معجزہ نہیں اتفاقاً بادل آیا اور مینہ برس گیا.انکار سے باز نہ آوے تو ایسے شخص کا علاج ہمارے پاس نہیں.ایسے لوگ ہمارے سید و مولی رسول اللہ ﷺ سے ہمیشہ آسمانی نشان دیکھتے رہے پھر یہ کہتے رہے فَلْيَأْتِنَا بِايَةٍ كَمَا أُرْسِلَ اللَا وَّلُونَ.جو شخص سچے دل سے خدا کا نشان دیکھنا چاہتا ہے اس کو چاہیئے کہ سب سے پہلے اس نشان پر نظر کرے کہ اس عاجز کا ظاہر ہونا عین اس وقت میں ہے جس وقت کا ذکر ہمارے سید خاتم الانبیاء ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے آپ فرمایا ہے یعنی صدی کا سر.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ صلیب کے غلبہ کے وقت ایک شخص پیدا ہوگا جو صلیب کو توڑے گا.ایسے شخص کا نام آنحضرت ﷺ نے مسیح ابن مریم رکھا ہے.انجام آتھم.رخ جلد 11 صفحہ 285) اَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيْ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ O (الانبياء : 31) 0 یعنی زمین اور آسمان دونوں ایک گھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے جن کے جو ہر خفی تھے ہم نے مسیح کے زمانہ میں وہ دونوں گٹھڑیاں کھول دیں اور دونوں کے جو ہر ظاہر کر دیئے.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.رخ جلد 17 صفحہ 17) کیا یہ سچ نہیں کہ اس زمانہ میں زمین کی گٹھڑی ایسی کھلی ہے کہ ہزار ہانی حقیقتیں اور خواص اور کلیں ظاہر ہوتی جاتی ہیں پھر آسمانی گٹھڑی کیوں بند ر ہے.آسمانی گٹھڑی کی نسبت گزشتہ نبیوں نے بھی پیشگوئی کی تھی کہ بچے اور عورتیں بھی خدا کا الہام پائیں گی اور وہ مسیح موعود کا زمانہ ہوگا.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.رخ جلد 17 صفحہ 17 حاشیہ ) کجاست آنکه ز ارباب ادعا باشد به علم و فضل و کرامت کسے بما نرسد.علم وفضل اور کرامت کے زور سے کوئی ہم تک نہیں پہنچ سکتا کہاں ہےوہ شخص جو علم فضل و کرامت کاملدی ہے ہزار نقد نمائی یکے چوسکه ما به نقش خوب و عیار و صفا گجا باشد تو ہزاروں سکے دکھائے پھر بھی چمک دمک اور کھرا ہونے میں ہمارے سکہ کی برابری نہیں کر سکتا موید یکه مسیحا دم و بست و مهدی وقت بشان او دگرے گے ز اتقیا باشد وہ تائید یافتہ شخص جو مسیحادم اور مہدی وقت ہے اُس کی شان کو اتقیا میں سے کوئی نہیں پہنچ سکتا چو غنچہ بود جہانے خموش و سر بسته یہ جہان ایک غنچہ کی طرح بند تھا میں (اس کے لئے ) ان برکتوں کو لے کر آیا ہوں جو باد صبالا یا کرتی ہے.من آمدم بقدومیکه از صبا باشد ( در تمین فارسی مترجم صفحه 270 ) ( تریاق القلوب.رخ جلد 15 صفحہ 133)
246 أنَّا نَاتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا...حضرت اقدس کا ذکر......میں بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاءِ وَآبَاءَ هُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ، أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا ط نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ، أَفَهُمُ الْغَلِبُونَ (الانبياء: 45 ) خلاصہ کلام یہ کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے آتا ہے اور اُس کی تکذیب کی جاتی ہے تو طرح طرح کی آفتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں جن میں اکثر ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں جن کا اس تکذیب سے کچھ تعلق نہیں.پھر رفتہ رفتہ ائمۃ الکفر پکڑے جاتے ہیں اور سب سے آخر بڑے شریروں کا وقت آتا ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ فرماتا ہے آنا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أطْرَافِهَا یعنی ہم آہستہ آہستہ زمین کی طرف آتے جاتے ہیں.اس میرے بیان میں اُن بعض نادانوں کے اعتراضات کا جواب آ گیا ہے جو کہتے ہیں کہ تکفیر تو مولویوں نے کی تھی اور غریب آدمی طاعون سے مارے گئے.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 166 ) طاعون کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اکثر غریب مرتے ہیں اور امراء اور ہمارے بڑے بڑے مخالف ابھی تک بچے ہوئے ہیں.لیکن سنت اللہ یہی ہے کہ ائمۃ الکفر اخیر میں پکڑے جایا کرتے ہیں.چنانچہ موسیٰ کے وقت جس قدر عذاب پہلے نازل ہوئے ان سب میں فرعون بیچارہا.چنانچہ قرآن شریف میں بھی آیا ناتی الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الرعد: 42) یعنی ابتداء عوام سے ہوتا ہے اور پھر خواص پکڑے جاتے ہیں اور بعض کے بچانے میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آخر میں تو بہ کرنی ہوتی ہے یا ان کی اولاد میں سے کسی نے اسلام قبول کرنا ہوتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 200-201) قرآنی معجزات اور خوارق کو خود کر کے دکھانے کے اعتبار سے قُلْنَا يَنَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَمًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ (الانبياء: 70) عرض کیا گیا کہ آریہ حضرت ابراہیم کے آگ میں ڈالے جانے پر اعتراض کرتے ہیں تو ) فرمایا: ان لوگوں کے اعتراض کی اصل جڑ معجزات اور خوارق پر نکتہ چینی کرنا ہے.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے دعویٰ کرتے ہیں اور اسی لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں مبعوث کیا ہے کہ قرآن کریم میں جس قدر معجزات اور خوارق انبیاء کے مذکور ہوئے ہیں اُن کو خود دکھا کر قرآن کی حقانیت کا ثبوت دیں.ہم دعوی کرتے ہیں کہ اگر دنیا کی کوئی قوم ہمیں آگ میں ڈالے یا کسی اور خطرناک عذاب اور مصیبت میں مبتلا کرنا چاہے تو خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق ضرور ہمیں محفوظ رکھے گا....
247 اور اسی ضمن میں فرمایا:.خدا نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور اس پر ہمارا ایمان ہے وہ وعدہ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کا ہے.پس اسے کوئی مخالف آزمانے اور آگ جلا کر ہمیں اس میں ڈال دے آگ ہرگز ہم پر کام نہ کرے گی اور وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے موافق بچالے گا.لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم خود آگ میں کودتے پھریں.یہ طریق انبیاء کا نہیں ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (القر 1960 ) پس ہم خود آگ میں دانستہ نہیں پڑتے بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ آگ میں ہمیں جلانا چاہیں تو ہم ہرگز نہ جلیں گے اس لئے میرا تو یہ ایمان ہے کہ ہمیں تکلف اور تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسے خدا کے باطنی تصرفات ہیں ویسے ہی ظاہری بھی.ہم مانتے ہیں بلکہ اسی لئے خدا نے اول ہی سے الہام کر دیا ہوا ہے کہ و آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے“.حاصل ہو.بجز اس طریق کے کہ خدا خود ہی تجلی کرے اور کوئی دوسرا طریق نہیں ہے جس سے اس ذات پر یقین کامل (ملفوظات جلد سوم صفحہ 479-480) ترے مکروں سے اے جاہل مرا نقصاں نہیں ہرگز کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے ( در شین اردو صفحہ 85 ) (حقیقت الوحی.رخ - جلد 22 صفحہ 595) و لیلۃ القدر سے حضرت اقدس کا زمانہ مراد ہے حم وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ إِنَّا أَنزَلْنَهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَرَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ 0 فِيهَا يُفْرَقُ كُلَّ اَمْرٍ حَكِيمٍ أَمْرًا مِّنْ عِندِنَا طَ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ هِ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ، إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (الدخان: 2 تا 7) نائب رسول ﷺ کے نزول کے وقت جو لیلتہ القدر مقرر کی گئی ہے وہ در حقیقت اس لیلتہ القدر کی ایک شاخ ہے یا یوں کہو کہ اس کا ایک ظل ہے جو آنحضرت ﷺ کوملی ہے خدا تعالیٰ نے اس لیلتہ القدر کی نہایت درجہ کی شان بلند کی ہے جیسا کہ اس کے حق میں یہ آیت کریمہ ہے کہ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ یعنی اس لیلۃ القدر کے زمانہ میں جو قیامت تک ممتد ہے ہر ایک حکمت اور معرفت کی باتیں دنیا میں شائع کر دی جائیں گی اور انواع و اقسام کے علوم غریبه وفنونِ نادرہ صناعات عجیبہ صفحہ عالم میں پھیلا دیئے جائیں گے اور انسانی قوئی میں موافق ان کی مختلف استعدادوں اور مختلف قسم کے امکان بسطت علم اور عقل کے جو کچھ لیا قتیں مخفی ہیں یا جہاں تک وہ ترقی کر سکتے ہیں سب کچھ بمنقہ ظہور لایا جائے گا لیکن یہ سب کچھ ان دنوں میں پر زور تحریکوں سے ہوتا رہے گا کہ جب کوئی نائب رسول ﷺ دنیا میں پیدا ہوگا.در حقیقت اسی آیت کو سورۃ الزلزال میں مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے کیونکہ سورۃ الزلزال سے پہلے سورۃ القدر نازل کر کے یہ ظاہر فرمایا گیا ہے کہ سنہ اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ خدائے تعالیٰ کا کلام لیلتہ القدر میں ہی نازل ہوتا ہے اور اسی کا نبی لیلتہ القدر میں ہی دنیا میں نزول فرماتا ہے اور لیلتہ القدر میں ہی وہ فرشتے اترتے ہیں جن کے ذریعہ سے دنیا میں نیکی کی طرف تحریکیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ ضلالت کی پر ظلمت رات سے شروع کر کے طلوع صبح صداقت تک اسی کام میں لگے رہتے ہیں کہ مستعد دلوں کو سچائی کی طرف کھینچتے ہیں.(ازالہ اوہام.رخ جلد 3 صفحہ 159-160)
248 دخان سے مراد حضرت اقدس کے زمانہ کا حال ہے فَارُ تَقِبُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانِ مُّبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ اليم O (الدخان: 1211) اور روحانی طور پر صداقت اور امانت اور دیانت کا قحط ہو گیا اور مکر اور فریب اور علوم فنون مظلمہ دُخان کی طرح دنیا میں پھیل گئی ہیں اور روز بروز ترقی پر ہیں.اس زمانہ کے مفاسد کی صورت پہلے زمانوں کے مفاسد سے بالکل مختلف ہے.پہلے زمانوں میں اکثر نادانی اور امیت رہزن تھی.اس زمانہ میں تحصیل علوم رہزن ہو رہی ہے ہمارے زمانہ کی نئی روشنی جس کو دوسرے لفظوں میں دُخان سے منسوب کرنا چاہیئے عجیب طور پر ایمان اور دیانت اور اندرونی سادگی کو نقصان پہنچارہی ہے.سوفسطائی تقریروں کے غبار نے صداقت کے آفتاب کو چھپادیا ہے اور فلسفی مغالطات سادہ لوحوں کو طرح طرح کے شبہات میں ڈال دیا ہے.خیالات باطلہ کی تعظیم کی جاتی ہے اور حقیقی صداقتیں اکثر لوگوں کی نظر میں کچھ حقیر سی معلوم ہوتی ہیں.سوخدا تعالیٰ نے چاہا کہ عقل کے رہزدوں کو عقل سے درست کرے اور فلسفہ کے سرگشتوں کو آسانی فلسفہ کے زور سے راہ پر لاوے.سو یہ کامل درجہ کا دُخان مبین ہے جو اس زمانہ میں ظاہر ہوا ہے.(ازالہ اوہام حصہ دوم.رخ جلد 3 صفحہ 376) امر حکیم سے مراد معارف الہیہ کا ظہور ہے اس روشن اور کھلی کھلی کتاب کی قسم ہے کہ ہم نے اس قرآن کریم کو ایک مبارک رات میں اتارا ہے کیونکہ ہمیں منظور تھا کہ نافرمانی کے نتائج سے ڈرا دیں وہ رات ایک ایسی بابرکت رات ہے کہ تمام حکمت کی باتیں اس میں کھولی جاتی ہیں اور ایسا ہی ہم نے چاہا ہے اور تیرے رب نے رحمت کی راہ سے ایسا ہی ارادہ کیا ہے کہ کل معارف و دقائق الہیہ کا تیری بعثت مبارکہ پر ہی خاتمہ ہو اور وہی کلام کل معارف حکیمہ کا جامعہ ہو جو تجھ پر نازل ہوا ہے اور اس برکت والی رات سے مراد ایک تو وہی معانی ہیں جو مشہور ہیں اور دوسرے آنحضرت ﷺ کے زمانہ بعثت کی رات ہے اور اس کا دامن قیامت کے دن تک پھیلا ہوا ہے اور آیت فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (الدخان: 5) میں اس بات کی طرف اشارہ ہے.کہ وہ تمام زمانہ جو قیامت تک آنحضرت ﷺ کے عہد رسالت کے تحت میں ہے فیوض قرآن کریم سے بہت فائدہ اٹھائے گا اور وہ تمام معارف الہیہ جو دنیا میں مخفی چلے آتے ہیں اس زمانہ میں وقتا فوقتاً ظہور پذیر ہوتے رہیں گے.اور نیز آیت فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيمٍ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس زمانہ بابرکت کے خواص میں سے یہ بھی ہوگا کہ معاش اور معاد کے کل علوم حکمیہ اپنے اعلیٰ درجہ کے کمالات کے ساتھ ظہور پذیر ہوں گے اور کوئی امر حکمت ایسا نہیں رہے گا جس کی تفصیل نہ کی جائے.(ازالہ اوہام رخ جلد 3 صفحہ 375،374)
249 مخصوص ستاروں کے ظہور کے اعتبار سے فَلا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ.(الواقعة: 76) فَلا أُقْسِمُ بِمَوَاقِع النُّجُومِ وانت تفهم ان في هذا القول اشارة الى ان للنجوم ومواقعها صلث بتجسس زمان النبوت و نزول الوحي ولا جل ذلك قيل ان بعض النجوم لا يطلع الا فى وقت ظهور نبى من الانبياء.فطوبي للذي يفهم اشارات الله ثم يقبلها كا لتقات.ترجمه از مرتب : - فَلا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ - تو سمجھتا ہے کہ اس قول میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ستاروں اور ان کے مواقع کو زمان نبوت اور نزول وحی کے تجسس سے ایک تعلق ہے.اسی لئے کہا گیا ہے کہ بعض ستارے صرف کسی نبی کے وقت میں ہی نکلتے ہیں.پس مبارک ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اشاروں کو سمجھتے ہیں پھر انہیں متقیوں کی طرح قبول کرتے ہیں.(حمامتہ البشری.ر.خ.جلد 7 صفحہ 289) مطھر اور متقی ہونے کے اعتبار سے لاَ يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.(الواقعه: 80) علم دین آسمانی علوم میں سے ہے اور یہ علوم تقویٰ اور طہارت اور محبت الہیہ سے وابستہ ہیں اور سگ دنیا کو مل نہیں سکتے.سو اس میں کچھ شک نہیں کہ قول موجہ سے اتمام حجت کرنا انبیاء اور مردان خدا کا کام ہے اور حقانی فیوض کا مورد ہونا فانیوں کا طریق ہے اور اللہ جل شانہ فرماتا ہے لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ پس کیونکر ایک گندہ اور منافق اور دنیا پرست ان آسمانی فیضوں کو پاسکتا ہے جن کے بغیر کوئی فتح نہیں ہو سکتی اور کیونکر اس دل پر روح القدس بول سکتا ہے جس میں شیطان بولتا ہو.( البلاغ.رخ - جلد 13 صفحہ 373-372)
250 حضرت اقدس کو خدا کے ہاتھ نے پاک کیا ہے يقولون انا لانرى ضرورة مسيح ولامهدى وكفانا القرآن و انا مهتدون و يعلمون ان القرآن كتاب لا يمسه الا المطهرون فاشتدت الحاجة الى مفسر زكى من ایدی الله و ادخل في الذين يبصرون.(خطبہ الہامیہ رخ جلد 16 صفحہ 183 تا 184) ترجمہ از اصل.کہتے ہیں کہ ہم کومسیح اور مہدی کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ قرآن ہمارے لئے کافی ہے اور ہم سیدھے رستے پر ہیں.حالانکہ جانتے ہیں کہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ سوائے پاکوں کے اور کسی کی فہم اس تک نہیں پہنچتی.اس وجہ سے ایک ایسے مفسر کی حاجت پڑی کہ خدا کے ہاتھ نے اسے پاک کیا ہو اور بینا بنایا ہو.مسیح موعود اور مہدی کا کام یہی ہے کہ وہ لڑائیوں کے سلسلہ کو بند کرے گا اور قلم دعا‘ توجہ سے اسلام کا بول بالا کرے گا اور افسوس ہے کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس لئے کہ جس قدر توجہ دنیا کی طرف ہے دین کی طرف نہیں.دنیا کی آلودگیوں اور ناپاکیوں میں مبتلا ہوکر یہ امید کیونکر کر سکتے ہیں کہ ان پر قرآن کریم کے معارف کھلیں وہاں تو صاف لکھا ہے لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ لیکچرلدھیانہ.ر-خ جلد 20 صفحہ 279) ہمیں اس بار سے تقویٰ عطا ہے نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے کرو کوشش اگر صدق و صفا ہے که به حاصل ہو جو شرط لقا ہے یہی اک جوہر سیف یہی آئینہ خالق نما ہر اک نیکی کی جڑ دعا ہے ہے اتقا اگر نہ ہے جڑ رہی سب کچھ رہا ہے ( الہامی مصرعه ) یہی اک فخر شان اولیاء ہے بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے ڈرو یارو که وہ بینا خدا ہے اگر سوچو.یہی دار الجزاء ہے مجھے تقویٰ سے اس نے یہ جزا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْأَعَادِي بشیر احمد شریف احمد اور مبارکہ کی آمین.درمین اردو صفحہ 44)
چوتھی فصل 251 حضرت اقدس کا ذکر قرآنِ حکیم میں مکمل سورہ قرآنیہ کے اعتبار سے نوٹ:- سورۃ الفاتحہ کو اس باب کی ایک مستقل فصل کے طور پر بیان کر دیا گیا ہے
252 سورة الكهف فتنہ دجال اور حضرت اقدسن حدیث میں آیا ہے کہ جب تم دجال کو دیکھو تو سورۃ کہف کی پہلی آیتیں پڑھو اور وہ یہ ہیں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَب وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا قَيِّمَالِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِّنُ لَّدُنُهُ.....وَّيُنذِرَ الَّذِينَ قَالُوا التَّخَذَ اللَّهُ وَلَدَاهِ مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِآبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (الکہف: 2 تا 6) ان آیتوں سے ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دجال سے کس گروہ کو مرا در کھا ہے اور عوج کے لفظ سے اس جگہ مخلوق کو شریک الباری ٹھہرانے سے مراد ہے جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ٹھہرایا ہے اور اسی لفظ سے فیج اعوج مشتق ہے اور فیج اعوج سے وہ درمیانی زمانہ مراد ہے جس میں مسلمانوں نے عیسائیوں کی طرح حضرت مسیح کو بعض صفات میں شریک الباری ٹھہرادیا.اس جگہ ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ اگر دجال کا بھی کوئی علیحدہ وجود ہوتا تو سورۃ فاتحہ میں اس کے فتنہ کا بھی ذکر ضرور ہوتا اور اس کے فتنہ سے بچنے کے لئے بھی کوئی علیحدہ دعا ہوتی.مگر ظاہر ہے کہ اس جگہ یعنی سورۃ فاتحہ میں صرف مسیح موعود کو ایزا دینے سے بچنے کیلئے اور نصاری کے فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے دعا کی گئی ہے حالانکہ بموجب خیالات حال کے مسلمانوں کا دجال ایک اور شخص ہے اور اس کا فتنہ تمام فتنوں سے بڑھ کر ہے تو گویا نعوذ باللہ خدا بھول گیا کہ ایک بڑے فتنے کا ذکر بھی نہ کیا اور صرف دو فتنوں کا ذکر کیا ایک اندرونی یعنی مسیح موعود کو یہودیوں کی طرح ایزاد ینا دوسرے عیسائی مذہب اختیار کرنا یادرکھواور خوب یاد رکھ کہ سورۃ فاتحہ میں صرف دو فتنوں سے بچنے کیلئے دعا سکھلائی گئی ہے.(1) اول یہ فتنہ کہ اسلام کے مسیح موعود کو کا فر قرار دینا.اُس کی توہین کرنا.اس کی ذاتیات میں نقص نکالنے کی کوشش کرنا.اُس کے قتل کا فتوی دینا جیسا کہ آیت غیر المغضوب علیہم میں انہیں باتوں کی طرف اشارہ ہے(2) دوسرے نصاری کے فتنے سے بچنے کے لئے دعا سکھلائی گئی اور سورۃ کو اسی کے ذکر پر ختم کر کے اشارہ کیا گیا ہے کہ فتنہ نصاریٰ ایک سیل عظیم کی طرح ہوگا.اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں.(تحفہ گولڑو یہ رخ جلد 17 صفحہ 210-212) حضرت اقدس کی بعثت یا جوج ماجوج کے وقت میں ہوگی مسیح موعود کا یا جوج ماجوج کے وقت میں آنا ضروری ہے اور کیونکہ اپنی آگ کو کہتے ہیں جس سے یاجوج ماجوج کا لفظ مشتق ہے اس لئے جیسا کہ خدا نے مجھے سمجھایا ہے یا جوج ماجوج وہ قوم ہے جو تمام قوموں سے زیادہ دنیا میں آگ سے کام لینے میں استاد بلکہ اس کام کی موجد ہے.اور ان ناموں میں یہ اشارہ ہے کہ ان کے جہاز ان کی ریلیں.ان کی کلیں آگ کے ذریعہ سے چلیں گی اور ان کی لڑائیاں آگ کے ساتھ ہوں گی اور وہ آگ سے خدمت لینے کے فن میں تمام دنیا کی قوموں سے فائق ہوں گے اور اسی وجہ سے وہ یا جوج ماجوج کہلائیں گے سو وہ یورپ کی قومیں ہیں جو آگ کے فنون میں ایسے ماہر اور چابک اور یکتائے روزگار ہیں کہ کچھ بھی ضرور نہیں کہ اس میں زیادہ بیان کیا جائے.پہلی کتابوں میں بھی جو بنی اسرائیل کے نبیوں کو دی گئیں یورپ کے لوگوں کو ہی یا جوج ماجوج ٹھہرایا ہے بلکہ ماسکو کا نام بھی لکھا ہے جو قدیم پایا تخت روس تھا سو مقرر ہو چکا تھا کہ سیح موعود یا جوج ماجوج کے وقت میں ظاہر ہوگا.ایام اسح - رخ جلد 14 صفحہ 424 425)
253 اصحاب کہف اور رقیم سے مراد حضرت اقدس ہیں أَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحَبُ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنُ ابْتَنَا عَجَبًا.(الكيف: 10) میں دیکھتا ہوں براہین میں میرا نام اصحاب الکہف بھی رکھا ہے.اس میں یہ سر ہے کہ جیسے کہ وہ خفی تھے اسی طرح پر تیرہ سو برس سے یہ راز مخفی رہا اور کس پر نہ کھلا اور ساتھ اس کے جو قیم کا لفظ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے باوجود مخفی ہونے کہ اس کے ساتھ ایک کتبہ بھی ہے اور وہ کتبہ یہی ہے کہ تمام نبی اس کے متعلق پیشگوئی کرتے چلے آئے ہیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 313-314) محدث کا الہام مطعی اور یقینی ہوتا ہے فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا أَتَيْنَهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنَهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا.(الكيف: 66) پس جبکہ بہر صورت ثابت ہے کہ خضر کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم یقینی اور قطعی دیا گیا تھا تو پھر کیوں کوئی شخص مسلمان کہلا کر اور قرآن شریف پر ایمان لا کر اس بات سے منکر رہے کہ کوئی فرد بشر امت محمدیہ میں سے باطنی کمالات میں خضر کی مانند نہیں ہوسکتا بلا شبہ ہوسکتا ہے بلکہ خدائے حی و قیوم اس بات پر قادر ہے کہ امت مرحومہ کے افراد خاصہ کو اُس سے بھی بہتر و زیادہ تر باطنی نعمتیں عطا فرما دے.اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.( براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 295 حاشیہ درحاشیه ) حضرت اقدس کا نام ذوالقرنین ہے وَيَسْتَلُوْ نَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَاتْلُو اعَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًا إِنَّامَكَنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا فَأَتْبَعَ سَببًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَعْربَ الشَّمْس وَجَدَ عِنْدَهَا تَغُرُبُ فِى عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَّ وَجَدَ عِنْدَ هَا قَوْمَادُّ قُلْنَا يذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَنْ تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُكَرًا وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءَ نِ الْحُسْنَى وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِ نَا يُسْرًا ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ لَمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِنْ دُونِهَا سِتّرًا هِ كَذَلِكَ وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا ثُمَّ اتَّبَعَ سَبَبًاO حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْ مَّا لَّا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا قَالُوا يَذَ الْقَرُ نَيْنِ إِنَّ يَاجُوجَ وَمَاجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا قَالَ مَا مَكَّنِيْ فِيْهِ خَيْرٌ فَاعِيْنُونِى بِقُوَّةٍ اَجْعَلُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا أَتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوِي بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ اتُونِي أَفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا فَمَا اسْطَاعُوْا اَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُرُ الَهُ نَقْبًا قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَّبِي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ O يَمُوجُ فِي بَعْضٍ ونُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَهُمْ جَمْعًا وَّ عَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِلْكَفِرِينَ عَرَضَانِ الَّذِيْنَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءٍ عَنْ ذِكْرِى وَكَانُوالَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًان (الكهف : 84-102)
254 خدا تعالیٰ نے میرا نام ذوالقرنین بھی رکھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی میری نسبت یہ وحی مقدس کہ جرى اللهِ فِي حُلل الانبیاء جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا کا رسول تمام نبیوں کے پیرایوں میں یہ چاہتی ہے کہ مجھ میں ذوالقرنین کے بھی صفات ہوں کیونکہ سورۃ کہف سے ثابت ہے کہ ذوالقرنین بھی صاحب وہی تھا.خدا تعالیٰ نے اس کی نسبت فرمایا ہے قُلْنَائِذَا الْقَرْنَيْنِ.پس اس وحی الہی کی رو سے کہ جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ اس امت کے لیے ذوالقرنین میں ہوں اور قرآن شریف میں مثالی طور پر میری نسبت پیشگوئی موجود ہے مگر ان کے لئے جو فراست رکھتے ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ ذوالقرنین وہ ہوتا ہے جو دوصدیوں کو پانے والا ہو اور میری نسبت یہ عجیب بات ہے کہ اس زمانے کے لوگوں نے جس قدر اپنے اپنے طور پر صدیوں کی تقسیم کر رکھی ہے ان تمام تقسیموں کے لحاظ سے جب دیکھا جائے تو ظاہر ہو گا کہ میں نے ہر ایک قوم کی دوصدیوں کو پالیا ہے میری عمر اس وقت تخمیناً 67 سال ہے پس ظاہر ہے کہ اس حساب سے جیسا کہ میں نے دو ہجری صدیوں کو پالیا ہے ایسا ہی دو عیسائی صدیوں کو بھی پالیا ہے ایسا ہی دو ہندی صدیوں کو بھی جن کا سن بکرماجیت سے شروع ہوتا ہے.اور میں نے جہاں تک ممکن تھا قدیم زمانے کے تمام ممالک شرقی اور غربی کی مقرر شدہ صدیوں کا ملاحظہ کیا ہے کوئی قوم ایسی نہیں جس کی مقرر کردہ صدیوں میں سے دوصد ئیں میں نے نہ پائی ہوں اور بعض احادیث میں بھی آچکا ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ ذوالقر نین ہوگا.غرض بموجب نص وحی الہی کے میں ذوالقرنین ہوں اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کی ان آیتوں کی نسبت جو سورۃ کہف میں ذوالقرنین کے قصہ کے بارے میں ہیں اور میرے پر پیش گوئی کے رنگ میں معنے کھولے ہیں.میں ذیل میں ان کو بیان کرتا ہوں.مگر یادر ہے کہ پہلے معنوں سے انکار نہیں ہے وہ گزشتہ سے متعلق ہیں یہ آئندہ کے متعلق.اور قرآن شریف صرف قصہ گو کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے ہر ایک قصہ کے نیچے پیشگوئی ہے اور ذوالقرنین کا قصہ مسیح موعود کے زمانہ کے لیے ایک پیشگوئی اپنے اندر رکھتا ہے جیسا قرآن شریف کی عبارت یہ ہے.وَيَسْتَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَتْلُوا عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا.یعنی یہ لوگ تجھ سے ذوالقرنین کا حال دریافت کرتے ہیں ان کو کہو کہ میں ابھی تھوڑا سا تذکرہ ذوالقرنین کا تم کو سناؤں گا اور بعد اس کے فرمایا.إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا.یعنی ہم اس کو یعنی مسیح موعود کو جو ذوالقرنین بھی کہلائے گا روئے زمین پر ایسا مستحکم کریں گے کہ کوئی اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گا اور ہم ہر طرح سے ساز و سامان اس کو دے دیں گے اور اس کی کاروائیوں کو سہل اور آسان کر دیں گے.یادر ہے کہ یہ وحی براہین احمدیہ صص سابقہ میں بھی میری نسبت ہوئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ نَجْعَلْ لَّكَ سُهَوْلَةٌ فِي كُلِّ أَمْرِ یعنی کیا ہم نے ہر ایک امر میں تیرے لئے آسانی نہیں کر دی یعنی کیا ہم نے تمام وہ سامان تیرے لئے میسر نہیں کر دیئے جو تبلیغ اور اشاعت حق کے لئے ضروری تھے جیسا کہ ظاہر ہے کہ اس نے میرے لیے وہ سامان تبلیغ اور اشاعت حق کے میسر کر دیئے جو کسی نبی کے وقت میں موجود نہ تھے.تمام قوموں کی آمد ورفت کی راہیں کھولی گئیں.طے مسافرت کے
255 لیے وہ آسانیاں کر دی گئیں کہ برسوں کی راہیں دنوں میں طے ہونے لگیں اور خبر رسانی کے وہ ذریعے پیدا ہوئے کہ ہزاروں کوس کی خبریں چند منٹوں میں آنے لگیں.ہر ایک قوم کی وہ کتا میں شائع ہوئیں جو فی اور مستور تھی اور ہر ایک چیز کے ہم پہنچانے کے لئے ایک سبب پیدا کیا گیا.کتابوں کے لکھنے میں جو جو دقتیں تھیں وہ چھا پہ خانوں سے دفع اور دور ہو گئیں یہاں تک کہ ایسی ایسی مشینیں نکلی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے دس دن میں کسی مضمون کو اس کثرت سے چھاپ سکتے ہیں کہ پہلے زمانوں میں دس سال میں بھی وہ مضمون قید تحریر میں نہیں آسکتا تھا اور پھر ان کے شائع کرنے کے اس قدر حیرت انگیز سامان نکل آئے ہیں کہ ایک تحریر صرف چالیس دن میں تمام دنیا کی آبادی میں شائع ہوسکتی ہے اور اس زمانہ سے پہلے ایک شخص بشر طیکہ اس کی عمر بھی لبھی ہو سو برس تک بھی اس وسیع اشاعت پر قادر نہیں ہوسکتا تھا.پھر بعد اس کے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.فَأَتْبَعَ سَبَبًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَعْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِيَّةٍ وَّ وَجَدَ عِنْدَ هَا قَوْمًا قُلْنَا يذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ وَ إِمَّا أَنْ تَتَّخِذَ فِيْهِمْ حُسُنًا.قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًاتُكُرًا ، وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءَ نِ الْحُسْنَى وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرٍ نَا يُسْرًا.یعنی جب ذوالقرنین کو جو مسیح موعود ہے ہر ایک کی طرح سامان دیئے جائیں گے.پس وہ ایک سامان کے پیچھے پڑے گا یعنی وہ مغربی ممالک کی اصلاح کے لئے کمر باندھے گا اور وہ دیکھے گا کہ آفتاب صداقت اور حقانیت ایک کیچڑ کے چشمہ میں غروب ہو گیا اور اس غلیظ چشمہ اور تاریکی کے پاس ایک قوم کو پائے گا جو مغربی قوم کہلائے گی یعنی مغربی ممالک میں عیسائیت کے مذہب والوں کو نہایت تاریکی میں مشاہدہ کرے گا نہ ان کے مقابل پر آفتاب ہو گا جس سے وہ روشنی پاسکیں اور نہ ان کے پاس پانی صاف ہو گا جس کو وہ پیویں یعنی ان کی علمی اور عملی حالت نہایت خراب ہوگی اور وہ روحانی روشنی اور روحانی پانی سے بے نصیب ہوں گے تب ہم ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کو کہیں گے کہ تیرے اختیار میں ہے چاہے تو ان کو عذاب دے یعنی عذاب نازل ہونے کیلئے بددعا کرے ( جیسا کہ احادیث صحیحہ میں مروی ہے ) یا ان کے ساتھ حسن سلوک کا شیوا اختیار کرے تب ذوالقرنین یعنی مسیح موعود جواب دے گا کہ ہم اسی کو سزا دلانا چاہتے ہیں جو ظالم ہو.وہ دنیا میں بھی ہماری بددعا سے سزایاب ہوگا اور پھر آخرت میں سخت عذاب دیکھے گا.لیکن جو شخص سچائی سے منہ نہیں پھیرے گا اور نیک عمل کرے گا اس کو نیک بدلہ دیا جائے گا اور اس کو انہی کاموں کی بجا آوری کا حکم ہوگا جو سہل ہیں اور آسانی سے ہو سکتے ہیں.غرض یہ مسیح موعود کے حق میں پیشگوئی ہے کہ وہ ایسے وقت میں آئے گا جب کہ مغربی ممالک کے لوگ نہایت تاریکی میں پڑے ہوں گے اور آفتاب صداقت ان کے سامنے سے بالکل ڈوب جائے گا اور ایک گندے اور بد بودار چشمہ میں ڈوبے گا یعنی بجائے سچائی کے بد بودار عقائد اور اعمال ان میں پھیلے ہوئے ہوں گے اور وہی ان کا پانی ہوگا جس کو وہ پیتے ہوں گے اور روشنی کا نام ونشان نہ ہوگا تاریکی میں پڑے ہوں گے.اور ظاہر ہے کہ یہی حالت عیسائی مذہب کی آجکل ہے جیسا کہ قرآن شریف نے ظاہر فرمایا ہے اور عیسائیت کا بھاری مرکز ممالک مغربیہ ہیں.
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.256 ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا.حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُونِهَا سِتّرًا كَذَلِكَ وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبُرًا.یعنی پھر ذوالقرنین جو سیح موعود ہے جس کو ہر ایک سامان عطا کیا جائے گا ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا یعنی ممالک مشرقیہ کے لوگوں کی حالت پر نظر ڈالے گا اور وہ جگہ جس سے سچائی کا آفتاب نکلتا ہے اس کو ایسا پائے گا کہ ایک ایسی نادان قوم پر آفتاب نکلا ہے جس کے پاس دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی بھی سامان نہیں یعنی وہ لوگ ظاہر پرستی اور افراط کی دھوپ سے جلتے ہوں گے اور حقیقت سے بے خبر ہوں گے اور ذوالقر نین یعنی مسیح موعود کے پاس حقیقی راحت کا سامان سب کچھ ہوگا جس کو ہم خوب جانتے ہیں مگر وہ لوگ قبول نہیں کریں گے اور وہ لوگ افراط کی دھوپ سے بچنے کے لئے کچھ بھی پناہ نہیں رکھتے ہوں گے نہ گھر نہ سایہ دار درخت نہ کپڑے جو گرمی سے بچا سکیں اس لئے آفتاب صداقت جو طلوع کرے گا ان کی ہلاکت کا موجب ہو جائے گا.یہ ان لوگوں کے لئے ایک مثال ہے جو آفتاب ہدایت کی روشنی تو ان کے سامنے موجود ہے اور اس گروہ کی طرح نہیں ہیں جن کا آفتاب غروب ہو چکا ہے لیکن ان لوگوں کو اس آفتاب ہدایت سے بجز اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ دھوپ سے چمڑا ان کا جل جائے اور رنگ سیاہ ہو جائے اور آنکھوں کی روشنی بھی جاتی رہے.اس تقسیم سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح موعود کا اپنے فرض منصبی کے ادا کر نے لئے تین قسم کا دور ہوگا اول اس قوم پر نظر ڈالے گا جو آفتاب ہدایت کو کھو بیٹھے ہیں اور ایک تاریکی اور کیچڑ کے چشمہ میں بیٹھے ہیں.دوسرا دورہ اس کا ان لوگوں پر ہو گا جو ننگ دھڑنگ آفتاب کے سامنے بیٹھے ہیں یعنی ادب سے حیا سے اور تواضع سے اور نیک ظن سے کام نہیں لیتے نرے ظاہر پرست ہیں گویا آفتاب کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں سو وہ بھی فیض آفتاب سے بے نصیب ہیں اور ان کو آفتاب سے بجز جلنے کے اور کوئی حصہ نہیں.یہ ان مسلمانوں کی طرف اشارہ ہے جن میں مسیح موعود ظاہر تو ہوا مگر وہ انکار اور مقابلہ سے پیش آئے اور حیا اور ادب اور حسن ظن سے کام نہ لیا اس لئے سعادت سے محروم رہ گئے بعد اس کے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْ مَّا لَّا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا قَالُوا يَذَ الْقَرُ نَيْنِ إِنَّ يَاجُوجَ وَمَاجُوجَ مُفْسِدُونَ فِى الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرُجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا قَالَ مَامَكَنِيْ فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَاعِيُنُونِي بِقُوَّةٍ اَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدُمًا ه اتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوِى بَيْنَ الصَّدَفَيْن قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارً ا قَالَ اتُونِي أَفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًاo فَمَا اسْطَاعُوْا اَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُرُ الَهُ نَقْبًا قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَّبِي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقَّاهِ وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يُوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَهُمْ جَمْعًا وَ عَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِلْكَفِرِينَ عَرُضَانِ الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءٍ عَنْ ذِكْرِى وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعَانِ أَفَحَسِبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا أَنْ يَتَّخِذُوْا عِبَادِي مِنْ دُوْنِيْ اَوْلِيَاءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَفِرِيْنَ نُزُلاً (اكهف : 93تا 103)
257 پھر ذوالقرنین یعنی مسیح موعود ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا اور جب وہ ایک ایسے موقعہ پر پہنچے گا یعنی جب وہ ایک ایسا نازک زمانہ پائے گا جس کو بین السدین کہنا چاہئے یعنی دو پہاڑوں کے بیچ.مطلب یہ کہ ایسا وقت پائے گا جبکہ دوطرفہ خوف میں لوگ پڑے ہونگے.اور ضلالت کی طاقت حکومت کی طاقت کے ساتھ مل کر خوفناک نظارہ دکھا ئیگی تو ان دونوں طاقتوں کے ماتحت ایک قوم کو پائے گا جو اس کی بات کو مشکل سے سمجھیں گے.یعنی غلط خیالات میں مبتلا ہو نگے اور بباعث غلط عقائد مشکل سے اس ہدایت کو سمجھیں گے جو وہ پیش کرے گا.لیکن آخر کار سمجھ لیں گے اور ہدایت پالیں گے.اور یہ تیسری قوم ہے جو مسیح موعود کی ہدایات سے فیضیاب ہو نگے تب وہ اس کو کہیں گے کہ اے ذوالقرنین ! یا جوج اور ماجوج نے زمین پر فساد مچارکھا ہے.پس اگر آپ کی مرضی ہو تو ہم آپ کے لئے چندہ جمع کر دیں تا آپ ہم میں اور ان میں کوئی روک بنادیں.وہ جواب میں کہے گا کہ جس بات پر خدا نے مجھے قدرت بخشی ہے وہ تمہارے چندوں سے بہتر ہے ہاں اگر تم نے کچھ مدد کرنی ہو تو اپنی طاقت کے موافق کرو تا میں تم میں اور ان میں ایک دیوار کھینچ دوں.یعنی ایسے طور پر ان پر حجت پوری کروں کہ وہ کوئی طعن تشنیع اور اعتراض کا تم پر حملہ نہ کر سکیں لوہے کی سلیں مجھے لا دو تا آمدورفت کی راہوں کو بند کیا جائے یعنی اپنے تئیں میری تعلیم اور دلائل پر مضبوطی سے قائم کرو اور پوری استقامت اختیار کرو اور اس طرح پر خود لوہے کی سل بن کر مخالفانہ حملوں کو روکو اور پھر سلوں میں آگ پھونکو جب تک کہ وہ خود آگ بن جائیں.یعنی محبت الہی اس قدر اپنے اندر بھڑکاؤ کہ خود الہی رنگ اختیار کرو.یا درکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ سے کمال محبت کی یہی علامت ہے کہ محبت میں ظلمی طور پر الہی صفات پیدا ہو جائیں.اور جب تک ایسا ظہور میں نہ آوے تب تک دعوئی محبت جھوٹ ہے.محبت کا ملہ کی مثال بعینہ لوہے کی وہ حالت ہے جبکہ وہ آگ میں ڈالا جائے اور اس قدر آگ اس میں اثر کرے کہ وہ خود آگ بن جائے.پس اگر چہ وہ اپنی اصلیت میں لوہا ہے.آگ نہیں ہے.مگر چونکہ آگ نہایت درجہ اس پر غلبہ کرگئی ہے اس لئے آگ کے صفات اس سے ظاہر ہوتے ہی.وہ آگ کی طرح جلا سکتا ہے.آگ کی طرح اس میں روشنی ہے.پس محبت الہیہ کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اس رنگ سے رنگین ہو جائے اور اگر اسلام اس حقیقت تک پہنچا نہ سکتا تو وہ کچھ چیز نہ تھا.لیکن اسلام اس حقیقت تک پہنچاتا ہے.اول انسان کو چاہئے کہ لوہے کی طرح اپنی استقامت اور ایمانی مضبوطی میں بن جائے.کیونکہ اگر ایمانی حالت خس و خاشاک کی طرح ہے تو آگ اس کو چھوتے ہی بھسم کر دے گی.پھر کیونکر وہ آگ کا مظہر بن سکتا ہے.افسوس بعض نادانوں نے عبودیت کے اس تعلق کو جور بوبیت کے ساتھ ہے جس سے ظلی طور پر صفات الہیہ بندہ میں پیدا ہوتے ہیں نہ سمجھ کر میری اس وحی من اللہ پر اعتراض کیا ہے کہ انما امرک اذا اردت شيئا ان تقول له كن فيكون یعنی تیری یہ بات ہے کہ جب تو ایک بات کو کہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا یہ میری طرف سے نہیں ہے اور اس کی تصدیق اکا بر صوفیاء اسلام کر چکے ہیں جیسا کہ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے بھی فتوح الغیب میں یہی لکھا ہے اور عجیب تر یہ کہ سید عبد القادر جیلانی نے بھی یہی آیت پیش کی ہے.افسوس لوگوں نے صرف رسمی ایمان پر کفایت کر لی ہے اور پوری معرفت کی طلب ان
258 کے نزدیک کفر ہے اور خیال کرتے ہیں کہ یہی ہمارے لئے کافی ہے حالانکہ وہ کچھ بھی چیز نہیں اور اس سے منکر ہیں کہ کسی سے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کا مکالمہ مخاطبہ یقینی اور واقعی طور پر ہوسکتا ہے.ہاں اس قدر ان کا خیال ہے کہ دلوں میں القاء تو ہوتا ہے مگر نہیں معلوم کہ وہ القاء شیطانی ہے یارحمانی ہے اور نہیں سمجھتے کہ ایسے القاء سے ایمانی حالت کو فائدہ کیا ہوا.اور کونسی ترقی ہوئی بلکہ ایسا القاء تو ایک سخت ابتلاء ہے جس میں معصیت کا اندیشہ یا ایمان جانے کا خطرہ ہے کیونکہ اگر ایسی مشتبہ وحی میں جو نہیں معلوم شیطان سے ہے یا رحمان سے ہے کسی کو تاکیدی حکم ہو کہ یہ کام کر تو اگر اس نے وہ کام نہ کیا.اس خیال سے کہ شاید یہ شیطان نے حکم دیا ہے.اور دراصل وہ خدا کا حکم تھا تو یہ انحراف موجب معصیت ہوا.اور اگر اس حکم کو بجالایا اور اصل میں شیطان کی طرف سے وہ حکم تھا تو اس سے ایمان گیا.پس ایسے الہام پانے والوں سے وہ لوگ اچھے رہے جو ایسے خطر ناک الہامات سے جن میں شیطان بھی حصہ دار ہوسکتا ہے محروم ہیں.ایسے عقیدہ کی حالت میں عقل بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی ممکن ہے کہ کوئی الہام الہی ایسا ہوجیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا تھا جس کی تعمیل میں اس کے بچہ کی جان خطرہ میں پڑتی تھی.یا جیسا کہ خضر علیہ السلام کا الہام تھا جس نے بظاہر حال ایک نفس زکیہ کا ناحق خون کیا.اور چونکہ ایسے امور بظاہر شریعت کے برخلاف ہیں اس لئے شیطانی دخل کے احتمال سے کون ان پر عمل کرے گا.اور بوجہ عدم تحمیل معصیت میں گرے گا اور ممکن ہے کہ شیطان لعین کوئی ایسا حکم دے کہ بظاہر شریعت کے مخالف معلوم نہ ہو اور دراصل بہت فتنہ اور تباہی کا موجب ہو یا پوشیدہ طور پر ایسے امور ہوں جو موجب سلب ایمان ہوں.پس ایسے مکالمہ مخاطبہ سے فائدہ کیا ہوا.پھر آیات متذکرہ بالا کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذوالقرنین یعنی مسیح موعود اس قوم کو جو یا جوج ماجوج سے ڈرتی ہے کہے گا کہ مجھے تانبالا دو کہ میں اس کو پکھلا کر اس دیوار پر انڈیل دوں گا.پھر بعد اس کے یا جوج ماجوج طاقت نہیں رکھیں گے کہ ایسی دیوار پر چڑھ سکیں یا اس میں سوراخ کر سکیں.یادر ہے کہ لو ہا اگر چہ بہت دیر تک آگ میں رہ کر آگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے مگر مشکل سے پکھلتا ہے مگر تانبا جلد پکھل جاتا ہے اور سالک کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں پچھلنا بھی ضروری ہے.پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے مستعد دل اور نرم طبیعتیں لاؤ کہ جو خدا تعالیٰ کے نشانوں کو دیکھ کر پگھل جائیں.کیونکہ سخت دلوں پر خدا تعالیٰ کے نشان کچھ اثر نہیں کرتے.لیکن انسان شیطانی حملے سے تب محفوظ ہوتا ہے کہ اول استقامت میں لوہے کی طرح ہو اور پھر وہ لو ہا خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ سے آگ کی صورت پکڑلے اور پھر دل پگھل کر اس لوہے پر پڑے اور اس کو منتشر اور پراگندہ ہونے سے تھام لے سلوک تمام ہونے کے لئے یہ تین ہی شرطیں ہیں جو شیطانی حملوں سے محفوظ رہنے کے لئے سد سکندری ہیں اور شیطانی روح اس دیوار پر چڑھ نہیں سکتی اور نہ اس میں سوراخ کر سکتی ہے.اور پھر فرمایا کہ یہ خدا کی رحمت سے ہوگا اور اس کا ہاتھ یہ سب کچھ کرے گا.انسانی منصوبوں کا اس میں دخل نہیں ہوگا.اور جب قیامت کے دن نزدیک آجائیں گے تو پھر دوبارہ فتنہ برپا ہو جائے گا.یہ خدا کا وعدہ ہے.اور پھر فرمایا کہ ذوالقرنین کے زمانہ میں جو مسیح موعود ہے ہر ایک قوم اپنے مذہب کی حمایت میں اٹھے گی اور جس طرح ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے ایک دوسرے پر حملہ
259 کریں گے اتنے میں آسمان پر قرناء پھونکی جائے گی یعنی آسمان کا خدا مسیح موعود کو مبعوث فرما کر ایک تیسری قوم پیدا کر دے گا اور ان کی مدد کے لئے بڑے نشان دکھلائے گا یہاں تک کہ تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر یعنی اسلام پر جمع کر دے گا اور وہ مسیح کی آواز سنیں گے اور اس کی طرف دوڑیں گے تب ایک ہی چوپان اور ایک ہی گلہ ہوگا اور وہ دن بڑے ہی سخت ہوں گے اور خدا ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کر دے گا اور جو لوگ کفر پر اصرار کرتے ہیں اور وہ اسی دنیا میں باعث طرح طرح کی بلاؤں کے دوزخ کا منہ دیکھ لیں گے.خدا فرماتا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی آنکھیں میری کلام سے پردہ میں تھیں اور جن کے کان میرے حکم کوسن نہیں سکتے تھے.کیا ان منکروں نے یہ گمان کیا تھا کہ یہ امرسہل ہے کہ عاجز بندوں کو خدا بنا دیا جائے اور میں معطل ہو جاؤں اس لئے ہم ان کی ضیافت کے لئے اسی دنیا میں جہنم نمودار کر دیں گے یعنی بڑے بڑے ہولناک نشان ظاہر ہوں گے اور یہ سب نشان مسیح موعود کی سچائی پر گواہی دیں گے.اس کریم کے فضل کو دیکھو کہ یہ انعامات اس مشت خاک پر ہیں جس کو مخالف کا فر اور دجال کہتے ہیں.(براہین احمدیہ.رخ جلد 21 صفحہ 118 تا126) الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءٍ عَنْ ذِكْرِى وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا (الكهف: 102) ذکر سے مراد یہ ہے کہ جو میں نے ان کو اپنے مامور کی معرفت یاد کیا.خدا تعالیٰ کا یاد کر نا ہی ہوتا ہے کہ اپنی طرف سے ایک مصلح کو بھیج دیا سواس مامور سے وہ غفلت میں رہے.ان کی آنکھوں کے آگے طرح طرح کے شبہات کے حجاب چھائے رہے اور حق کا نور نظر نہ آیا.کیوں کہ جوش تعصب سے ان کی ایسی حالت ہو گئی جو وہ اس مامور کی بات سن ہی نہیں سکتے (وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا.) اب ان لوگوں کی حالت یہی ہو رہی ہے اور اس کی سزا بھی وہی مل رہی ہے جو قرآن مجید میں ہے کہ عَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِلْكَفِرِينَ عَرُضًا (الکھف: 101) (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 429) نفخ صور سے آسمانی مصلح کی بعثت مراد ہے نُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَا هُمُ جَمْعًا- (الكهف: 100) یادر ہے کہ صور کا لفظ ہمیشہ عظیم الشان تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے گویا جب خدا تعالیٰ اپنی مخلوقات کو ایک صورت سے منتقل کر کے دوسری صورت میں لاتا ہے.تو اس تغیر صور کے وقت کو نفخ صور سے تعبیر کرتے ہیں اور اہل کشف پر مکاشفات کی رو سے اس صور کا ایک وجو د جسمانی بھی محسوس ہوتا ہے اور یہ عجائبات اس عالم میں سے ہیں جن کے سراس دنیا میں بجر منقطعین کے اور کسی پر کھل نہیں سکتے.بہر حال آیت موصوفہ بالا سے ثابت ہے کہ آخری زمانہ میں عیسائی مذہب اور حکومت کا زمین پر غلبہ ہوگا اور مختلف قوموں میں بہت سے تنازعات مذہبی پیدا ہوں گے اور ایک قوم دوسری قوم کو دبانا چاہے گی اور ایسے زمانہ میں صور پھونک کر تمام قوموں کو دین اسلام پر جمع کیا جاویگا یعنی سنت اللہ کے موافق آسمانی نظام قائم ہوگا اور ایک آسمانی مصلح آئے گا در حقیقت اسی مصلح کا نام مسیح موعود ہے.شہادت القرآن - رخ جلد 6 صفحہ (312)
260 ایسا ہی قرآن کریم میں آنے والے مجدد کا بلفظ مسیح موعود کہیں ذکر نہیں بلکہ لفظ لفخ صور سے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.تا معلوم ہو مسیح موعود ارضی اور زمینی ہتھیاروں کے ساتھ ظاہر نہیں ہوگا بلکہ آسمانی نفخ پر اس کے اقبال اور عروج کا مدار ہوگا اور وہ پر حکمت کلمات کی قوت سے اور آسمانی نشانوں سے لوگوں کو حق اور سچائی کی طرف کھینچے گا.کیونکہ وہ معقولی فتنوں کے وقت آئے گا نہ سیفی فتنوں کے وقت اور اصل حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہر ایک فتنہ کی طرز کے موافق نبی اور مجد دکو بھیجتا ہے.شہادت القرآن.رخ جلد 6 صفحہ 360) اور پھر دوسری آیت میں فرمایا.وَعَرَضُنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِلْكْفِرِينَ عَرَضًا.(الکھف:101) اور اس دن جو لوگ مسیح موعود کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے ان کے سامنے ہم جہنم کو پیش کریں گے یعنی طرح طرح کے عذاب نازل کریں گے جو جہنم کا نمونہ ہوں گے اور پھر فرمایا الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَّاءٍ عَنْ ذِكْرِى وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمُعا.(الکھف: 102) یعنی وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ مسیح موعود کی دعوت اور تبلیغ سے ان کی آنکھیں پردہ میں رہیں گی اور وہ اس کی باتوں کو سن بھی نہیں سکیں گے.اور سخت بیزار ہوں گے اس لئے عذاب نازل ہوگا.اس جگہ صور کے لفظ سے مراد مسیح موعود ہے.کیونکہ خدا کے نبی اسی کےصور ہوتے ہیں یعنی قرنا جن کے دلوں میں وہ اپنی آواز پھونکتا ہے.یہی محاورہ پہلی کتابوں میں بھی آیا ہے کہ خدا کے نبیوں کو خدا کی قرنا قرار دیا گیا یعنی جس طرح قرنا بجانے والا قرنا میں اپنی آواز پھونکتا ہے اسی طرح خدا ان کے دلوں میں آواز پھونکتا ہے اور یا جوج ماجوج کے قرینہ سے قطعی طور سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ قرنا مسیح موعود ہے.کیونکہ احادیث صحیحہ سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ یا جوج ماجوج کے زمانہ میں ظاہر ہونے والا مسیح موعود ہی ہوگا.(چشمہ معرفت.ر.خ.جلد 23 صفحہ 84 تا 86 ) حضرت اقدس کے وقت انسانیت جمع ہوگی وَنُفِخَ فِي الصُّورِ جَمَعْنَهُمْ جَمْعًا- اس سے بھی مسیح موعود کی دعاؤں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.نزول از آسمان کے یہی معانی ہیں کہ جب کوئی امر آسمان سے پیدا ہوتا ہے تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اسے رد نہیں کر سکتا.آخری زمانہ میں شیطان کی ذریت بہت جمع ہو جائے گی کیونکہ وہ شیطان کا آخری جنگ ہے مگر مسیح موعود کی دعا ئیں اس کو ہلاک کر دیں گی.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 559) اللہ تعالیٰ نے دو فرقوں کا ذکر فرما دیا.ایک تو وہ سعید جنہوں نے مسیح موعود کو قبول کیا دوسرے وہ شقی جو سیح کا کفر کر نے والے ہوں گے.ان کے لئے فرمایا ہم طاعون بطور جہنم بھیجیں گے اور ونُفِخَ فِي الصُّورِ (الكهف: 100) سے یہ مراد ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں وحی کے ذریعہ ان میں آواز دی جاتی ہے اور پھر آواز ان کی معر فت تمام جہان میں پہنچتی ہے پھر ان میں ایک ایسی کشش پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ باوجود داختلاف خیالات وطبائع و حالات کے اس کی آواز پر جمع ہونے لگتے ہیں اور آخر کا روہ زمانہ آجاتا ہے کہ ایک ہی گلہ اور ایک ہی گلہ بان ہو.خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے خود ہی ایسے اسباب مہیا کر دیئے ہیں کہ جس سے تمام سعید روحیں ایک دین پر جمع ہوسکیں.آنحضرت علیہ کوفرمایا گیا تھا.قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا.(الاعراف: 159) ایک طرف یہ جَمِیعًا اور دوسری طرف جَمَعْنَهُمُ ایک خاص علاقہ رکھتا ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 428)
261 فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ.....فَجَمَعْنَهُمُ جَمُعا.بہر حال آیات موصوفہ بالا سے ثابت ہے کہ آخری زمانہ میں عیسائی مذہب اور حکومت کا زمین پر غلبہ ہوگا اور مختلف قوموں میں بہت سے تنازعات مذہبی پیدا ہوں گے اور ایک قوم دوسری قوم کو دبانا چاہے گی اور ایسے زمانہ میں صور پھونک کر تمام قوموں کو دین اسلام پر جمع کیا جاوے گا.یعنی سنت اللہ کے موافق آسمانی نظام قائم ہوگا اور ایک آسمانی مصلح آئیگا در حقیقت اسی مصلح کا نام مسیح موعود ہے.شہادت القرآن.رخ جلد 4 صفحہ 312) آفات کا تدارک مسیح موعود کی دعا سے ہوگا وَأَمَّا الْآفَاتُ الَّتِي قَدِرَ ظُهُورُهَافِي وَقْتِ الْمَسِيحِ فَمِنْ أَعْظَمِهَا خُرُ وُجُ يَأْجُوجَ وَمَاجُوجَ وَحُرُوجُ الدَّجَّالِ الْوَقِيح وَهُمْ فِتْنَةٌ لِلْمُسْلِمِينَ عِنْدَ عِصْيَانِهِمْ وَفِرَارِهِمْ مِنَ اللَّهِ الْوَدُودِ وَبَلَاء عَظِيمٌ سُلَّطَ عَلَيْهِمْ كَمَا سُلِطَ عَلَى الْيَهُودِ وَاعْلَمُ أَنَّ يَأْجُوجَ وَمَا جَوْجَ قَوْ مَانِ يَسْتَعْمِلُونَ النَّارَ وَاجِيْجَهُ فِى الْمُحَارَبَاتِ وَغَيْرِهَا مِنْ الْمَصْنُوعَاتِ وَلِذَلِكَ سُمُّوا بِهَذَيْنِ الْإِسْمَيْنِ فَإِنْ الْأَجِيْجَ صِفَةٌ النَّارِ وَكَذَلِكَ يَكُونُ حَرُبُهُمْ بِالْمَوَادِ النَّارِيَّاتِ وَيُفَوْقُوْ نَ كُلَّ مَنْ فِي الْأَرْضِ بِهَذَ الطَّرِيقِ مِنَ الْقِتَالِ وَمِنْ كُلّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ وَلَا يَمْنَعُهُمْ بَحْرُ وَّ لَا جَبَلٌ مِّنْ الْجِبَالِ وَيَخِرُّ الْمَلُوكُ أَمَامَهُمْ خَائِفِينَ وَلَا تَبْقَى لَا حَدِيَّدُ الْمُقَاوَمَةِ وَ يُدَاسُو نَ تَحْتَهُمْ إِلَى السَّاعَةِ الْمَوْعُوُدَةِ وَمَنْ دَخَلَ فِى هَاتَيْنِ الْحَجَارَتَيْنِ وَلَوْ كَانَ لَهُ مَمْلَكَةٌ عُظْمُيُ فَطْحِنَ كَمَا يُطْحَنُ الْحَبُّ فِي الرَّحَى وَتُزَلْزَلُ بِهِمَا الاَ رُضُ زِلْزَالَهَا وَتُحَرَّكُ جِبَالُهَا وَيُشَاعُ ضَلَا لُهَا وَلَا يُسْمَعُ دُعَاء وَلَا يَصِلُ إِلَى الْعَرْشِ بُكَاءً وَيُصِيبُ الْمَسْلِمِينَ مُصِيبَةٌ تَا كُلُ اَمْوَ الَهُمْ وَإِقْبَالَهُمْ وَأَعْرَاضَهُمْ وَتَهْتِكُ أَسْرَا رَ مُلُوكِ الْإِسْلَامِ وَيَظْهَرُ عَلَى النَّاسِ أَنَّهُمْ كَانُو اَمَوْ رِدَغَضَبِ اللَّهِ مِنْ الْعِصْيَانِ وَالْاجْرَامِ وَيُنْزَعُ مِنْهُمْ رُعْبُهُمْ وَإِقْبَالُهُمْ وَشَوْ كَتُهُمْ وَجَلَا لُهُمْ بِمَا كَانُوا لَا يَتَّقُونَ وَيُبَارُونَ الْاَعْدَاءَ مِنْ طَرِيقِ وَيَنْهَزِ مُوْنَ مِنْ سَبْعَةِ طُرُقِ بِمَا كَانُوا لَا يُحْسِنُونَ يُرَاءُ وَ نَ النَّاسَ وَلَا يَتَّبِعُونَ رَسُولَ اللَّهُ وَسَنَّتُهُ وَلَا يَتَدَيَّنُونَ وَإِنْ هُمْ إِلَّا كَالصُّوَرِ لَيْسَ الرُّوحُ فِيهِمْ فَلَا يَنظُرُ اِلَيْهُمُ اللَّهُ بِالرَّحْمَةِ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ وَكَانَ اللهُ يُرِيدُ اَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنْ كَانُوا يَتَضَرَّعُونَ فَمَا تَابُوا وَمَا تَضَرَّعُوا فَنَزَلَ عَلَى الْمُجْرِ مِيْنَ وَبَا لُهُمْ إِلَّا الَّذِينَ يَخْشَعُرُ نَ وَيَرَونَ أَيَّا مَ الْمَصَائِبِ وَلَيَا لِيَهَا كَمَا رَأَى الْمَطْعُونُونَ فَعِنْدَ ذَلِكَ يَقُومُ الْمَسِيحُ اَمَامَ رَبِّهِ الْجَلِيلِ وَيَدْعُوهُ فِي اللَّيْلِ الطَّوِيلِ بِالصُّرِ اخِ وَ الْعَوِيْلِ وَيُذُوبُ ذَوَبَانَ التَّلْجِ عَلَى النَّارِ وَيَبْتَهِلُ لِمُصِيبَةٍ نَّزَلَتْ عَلَى الدِّيَارِ وَيَذْكُرُ اللَّهَ بِدُمُوعِ جَارِيَةٍ وَعَبَرَاتٍ مُتَحَدِرَةٍ فَيُسْمَعُ دُعَاءُ هُ لِمُقَامٍ لَّهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَ تَنْزِلُ مَلَائِكَةُ الإِ يُوَاءِ فَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَفْعَلُ وَيُنَجِّى النَّاسِ مِنَ الْوَبَاءِ فَهُنَاكَ يُعْرَفَ الْمَسِيحُ فِي الارْضِ كَمَا عُرِفْ فِي السَّمَاءِ وَيَوْضَعُ لَهُ الْقُبُولُ فِي قُلُوبِ الْعَامَّةِ وَالًا مَرَاءِ حَتَّى يَتَبَرَّكَ الْمُلُوكَ بِشَيَا بِهِ وَهَذَا كُلُّهُ مِنَ اللَّهِ وَجَنَابِهِ وَفِي أَعْيُنِ النَّاسِ عَجِيْبٌ.(خطبہ الہامیہ رخ جلد 16 صفحہ 317 318 )
262 ( ترجمه از مرتب ) اور وہ آفات جن کا ظہور مسیح موعود کے وقت کے لئے مقدر تھا ان میں سے سب سے بڑی آفت یا جوج ماجوج اور بے شرم دجال کا خروج ہے اور وہ مسلمانوں کیلئے فتنہ ہیں جبکہ مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی اور خدائے و دود سے انحراف کیا.اور یہ ایک بڑی بلا ہے جو مسلمانوں پر اس طرح مسلط کی گئی ہے جس طرح یہود پر مسلط کی گئی تھی اور جان لو کہ یہ یاجوج اور ماجوج ایسی قومیں ہیں جو اپنی لڑائیوں میں نیز مصنوعات میں آگ اور اس کے شعلوں کا استعمال کرتی ہیں اور اسی بنا پر ان دونوں کے یہ نام رکھے گئے ہیں کیونکہ اجیج آگ کی صفت ہے اور اسی طرح ان کی جنگ آتشیں اسلحہ کے ذریعہ ہوتی ہے اور اسی طریق سے وہ تمام زمین والوں پر جنگ میں غالب آرہے ہیں اور وہ ہر بلندی سے پھلا نگتے پھرتے ہیں.انہیں نہ کوئی سمندر روک رہا ہے اور نہ کوئی پہاڑ.بادشاہ ان کے سامنے خوف کے مارے سر بسجو د ہو جاتے ہیں اور کسی کو ان سے مقابلہ کی طاقت نہیں اور وہ بادشاہ موعود وقت تک ان کے پاؤں تلے روندے جائیں گے.اور جو شخص ان دونوں پتھروں کے درمیان آجائے گا خواہ وہ کتنا بڑا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو وہ اس طرح پیسا جائے گا.جس طرح دانے چکی میں پیسے جاتے ہیں اور انکی وجہ سے زمین میں زلزلے آتے رہیں گے.اسکے پہاڑ حرکت کریں گے اور اس کی گمراہی پھیل جائے گی اور اس وقت کوئی دعا قبول نہ ہوگی اور نہ عرش تک آہ وفغاں پہنچے گی اور مسلمانوں پر ایسی مصیبت آئے گی جو ان کے اموال اقبال اور عزتوں کو کھا جائے گی اور اسلامی بادشاہوں کے پردے پھاڑ دے گی اور لوگوں پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی اور جرم کرنے کی وجہ سے اس کے غضب کے مورد ہیں اور انکا رعب شوکت اور جلال ان سے چھن جائے گا کیونکہ وہ تقویٰ اختیار نہیں کرتے.اگر وہ دشمنوں کا ایک طریق سے مقابلہ کریں گے تو سات طریقوں سے ان کے مقابلہ میں شکست کھائیں گے کیونکہ وہ نیکو کار نہ تھے وہ صرف لوگوں کے دکھاوے کی خاطر کام کرتے تھے.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی سنت کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ دین داری اختیار کرتے تھے.اور وہ محض ڈھانچے ہیں جن میں کوئی روح نہیں.پس اللہ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہ دیکھے گا اور نہ مدد ئیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ تو ان پر رجوع برحمت ہونا چاہے گا بشرطیکہ وہ تضرع اختیار کریں مگر نہ انہوں نے توبہ کی اور نہ تضرع اختیار کیا.پس ان مجرموں پر وبال وارد ہوا سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے خشوع و خضوع اختیار کیا اور وہ مجرمین ملعونوں کی طرح شب وروز مصائب کو دیکھیں گے.تب اس وقت مسیح موعود اپنے رب الجلیل کے حضور کھڑا ہوگا اور رات بھر آہ و بکا کے ساتھ اللہ تعالٰی سے دعا کرے گا اور اسی طرح پکھل جائے گا جس طرح آگ پر برف پگھل جاتی ہے اور اس مصیبت کی وجہ سے جو ملک پر نازل ہو چکی ہوگی گریہ وزاری کرے گا اور اللہ تعالیٰ کو بہتے ہوئے اشکوں سے یاد کرے گا تب اس کی دعاسنی جائے گی اور اس کے بلند مقام کی وجہ سے جو اسے اپنے رب کے حضور حاصل ہے اور پناہ دینے والے فرشتے نازل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی تجلی کریگا اور لوگوں کو مصیبت سے نجات دے گا تب اس وقت مسیح موعود کو زمین پر بھی اسی طرح پہچانا جائے گا جس طرح وہ آسمان پر پہچانا گیا اور اس وقت اسے عوام اور امراء کے دلوں میں قبولیت حاصل ہوگی یہاں تک کہ بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کی جناب سے ہوگا اور لوگوں کی نگاہ میں عجیب.
263 ہر ہر طرف سے پڑ رہے ہیں دینِ احمد پر تبر کیا نہیں تم دیکھتے قوموں کو اور انکے وہ وار کونی آنکھیں جو اس کو دیکھ کر روتی نہیں کون سے دل ہیں جو اس غم سے نہیں ہیں بے قرار کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج اک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار یہ مصیبت کیا نہیں پہنچی خدا کے عر ش تک کیا یہ شمس الدیں نہاں ہو جا ئیگا اب زیر غار جنگ روحانی ہے اب اس خادم و شیطان کا دل گٹھا جا تا ہے یا رب سخت ہے یہ کارزار ہر نبی وقت نے اس جنگ کی دی تھی خبر کرگئے وہ سب دعا ئیں با دو چشم اشکبار اے خدا شیطاں پہ مجھکو فتح دے رحمت کے ساتھ وہ اکٹھی کر رہا ہے اپنی فو جیں بے شمار جنگ یہ بڑھ کر ہے جنگ روس اور جاپان سے میں غریب اور ہے مقابل پر حریف نامدار دل نکل جا تا ہے قابو سے یہ مشکل سوچ کر اے مری جاں کی پنہ فوج ملا تک کو اتار مانگنا بے کار ہے اب ہماری ہے تری درگاہ میں یا رب پکار (در مشین اردو صفحه 141 ) ( براہین احمدیہ.رخ جلد 21 صفحہ 149) نسل انساں سے مدد اب.حضرت اقدس کے وقت کی پیشگوئی قَدْ وَعْدَ اللهُ عِنْدَ الْفِتْنَةِ الْعُظمى فِي آخِرِ الزَّمَانِ وَالْبَلِيَّةِ الْكُبْرَى قَبْلَ يُوْمِ الدِّيَانِ أَنَّهُ يَنْصُرُ دِينَهُ مِنْ عِنْدِهِ فِي تِلْكَ الأَيَّامِ وَهُنَاكَ يَكُونَ الْإِسْلَامُ كَالْبَدْرِ التَّامِ وَإِلَيْهِ اَشَارَا لِلَّهُ سُبْحَانَهُ فِى قَوْلِهِ وَنُفِخَ فِى الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا وَ قَدْ اَخْبَرَ فِي آيَةٍ هِيَ قَبْلَ هَذِهِ الْآيَةِ مِّنْ تَفْرِقَةٍ عَظِيمَةٍ بِقُوْلِهِ تَرَ كُنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍيَّمُوجُ فِي بَعْضٍ ثُمَّ بَشَّرَ بِقَوْلِهِ وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ بِجَمْعٍ بَعْدَ اتَّفْرِقَةِ فَلَا يَكُونُ هَذَا الْجَمْعُ إِلَّا فِي مِائَةِ الْبَدْرِ لِيَدُلُّ لَصُّورَةُ عَلَى مَعْنَا هَا كَمَا كَانَتِ التَّصْرَةُ الأولى بِبَدْرٍ فَهَا تَانِ بِشَارَتَانِ لِلْمُؤْمِنِينَ وَتَبْرُ قَان كَدُرَّةٍ فِي الْكِتَابُ الْمُبِينِ.خدا نے وعدہ فرمایا ہے کہ جب کہ آخر زمانہ میں بڑا بھاری فتنہ اور بلا قیامت سے پہلے ظاہر ہوگی ان دنوں میں اپنی طرف سے اپنے دین کی مدد اور تائید فرمائے گا اور اس زمانہ میں اسلام بدر کامل کی طرح ہو جائے گا اور اسی کی طرف اشارہ ہے اس قول میں وَ نُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا.اور اس آیت سے ایک بڑے تفرقے کی خبر دی جہاں کہ فرمایا ہے وَتَرَكْنَا بَعْضَهُم الخ پھر نُفِخَ فِى الصُّور کے قول سے بشارت دی کہ اس پراگندگی کے بعد جمعیت حاصل ہوگی پس یہ جمعیت حاصل نہ ہوگی مگر بدر کی صدی میں تاکہ صورت اپنے معانی پر دلالت کرے جیسا کہ پہلی نصرت بدر میں وقوع میں آئی.پس یہ دو خوش خبریاں مومنوں کے لئے ہیں اور موتی کی طرح کتاب مبین میں چمکتی ہیں.(خطبہ الہامیہ.رخ جلد 16 صفحہ 286 تا288)
264 سورة الجمعة وا خَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُو بهم اس آیت کے مصداق حضرت اقدس ہیں هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ ـلِمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ وَا خَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ O (الجمعة: 3-4) اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ خداوہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بے بہرہ ہو چکے تھے اور علوم حکمیہ دینیہ جن سے تکمیل نفس ہو اور نفوس انسانی علمی اور عملی کمال کو پہنچیں بالکل گم ہوگئی تھی اور لوگ گمراہی میں مبتلا تھے یعنی خدا اور اس کی صراط مستقیم سے بہت دور جا پڑے تھے تب ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول اُمتی بھیجا اور اس رسول نے ان کے نفسوں کو پاک کیا اور علم الکتاب اور حکمت سے ان کو مملو کیا یعنی نشانوں اور معجزات سے مرتبہ یقین کامل تک پہنچایا اور خدا شناسی کے نور سے ان کے دلوں کو روشن کیا اور پھر فرمایا کہ ایک گروہ اور ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا.وہ بھی اول تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دور ہوں گے تب خدا انکو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا یعنی جو کچھ صحابہ نے دیکھا وہ ان کو بھی دکھایا جائے گا یہاں تک کہ اُن کا صدق اور یقین بھی صحابہ کے صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گا اور حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ مُعَلَّقًا بالثرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ یعنی اگر ایمان ثریا پر یعنی آسمان پر بھی اٹھ گیا ہو گا تب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اس کو واپس لائے گا.یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک شخص آخری زمانہ میں فارسی الاصل پیدا ہو گا.اس زمانہ میں جس کی نسبت لکھا گیا ہے کہ قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گا.یہی وہ زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے اور یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ایام اصبح - رخ جلد 14 صفحہ 304) خدا کے کلام میں یہ امر قرار یافتہ تھا کہ دوسرا حصہ اس امت کا وہ ہوگا جو مسیح موعود کی جماعت ہوگی اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو دوسروں سے علیحدہ کر کے بیان کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَا خَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا یعنی امت محمدیہ میں سے ایک اور فرقہ بھی ہے جو بعد میں آخری زمانہ میں آنے والے ہیں اور حدیث صحیح میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی کی پشت پر مارا اور فرمایا لَوْ كَانَ الُا يْمَانُ مُعَلَّقًا بالثرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِّنْ فَارس اور یہ میری نسبت پیشگوئی تھی جیسا کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس پیشگوئی کی تصدیق کے لئے وہی حدیث بطور وحی میرے پر نازل کی اور وحی کی رو سے مجھ سے پہلے اس کا کوئی مصداق معین نہ تھا اور خدا کی وحی نے مجھے معین کر دیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ - (حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 407 حاشیہ) دہے.الصد
265 قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذکر ہے اس ابتدائی زمانہ میں انسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش شدہ صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا.اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی روسے کہ إِنَّالَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: 10) اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو ا خَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمع: 4) کا مصداق اور موعود ہے.وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 60) جو کچھ اللہ نے چاہا تھا اس کی تکمیل دو ہی زمانوں میں ہوئی تھی ایک آپ کا زمانہ اور ایک آخری مسیح ومہدی کا زمانہ.یعنی ایک زمانہ میں تو قرآن اور بچی تعلیم نازل ہوئی لیکن اس تعلیم پر فیح اعوج کے زمانہ نے پردہ ڈال دیا جس پردہ کا اٹھایا جانا مسیح کے زمانہ میں مقدر تھا جیسے کہ فرمایا کہ رسول اکرم نے ایک تو موجودہ جماعت یعنی جماعت صحابہ کرام کا تزکیہ کیا اور ایک آنے والی جماعت کا جس کی شان میں لَمَّا يَلْحَقُوا بِہم آیا ہے.سو یہ ظاہر ہے کہ خدا نے بشارت دی کہ ضلالت کے وقت اللہ تعالیٰ اس دین کو ضائع نہ کرے گا بلکہ آنے والے زمانہ میں خدا حقائق قرآنیہ کو کھول دے گا.آثار میں ہے کہ آنیوالے مسیح کی ایک یہ فضیلت ہوگی کہ وہ قرآنی فہم اور معارف کا صاحب ہوگا اور صرف قرآن سے استنباط کر کے لوگوں کو ان کی غلطیوں سے متنبہ کرے گا جو حقائق قرآن کی ناواقفیت سے لوگوں میں پیدا ہوگئی ہوں گی.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 25) حضرت اقدس اور ان کی جماعت بھی صحابہ ء رسول اکرم صلى الله صحابہ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو جو پہلے گزر چکے بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے.وہ بھی صحابہ ہی میں داخل ہے جو احمد کے بروز کے ساتھ ہوں گے.چنانچہ فرمایا وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُو بہم یعنی صحابہ کی جماعت کو اسی قدر نہ سمجھو بلکہ مسیح موعود کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہ ہی ہوگی.اس آیت کے متعلق مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ سیح موعود کی جماعت ہے منھم کے لفظ سے پایا جاتا ہے کہ باطنی توجہ اور استفاضہ صحابہ ہی کی طرح ہوگا.صحابہ کی تربیت ظاہری طور پر ہوئی تھی مگر ان کو کوئی دیکھ نہیں سکتا.وہ بھی رسول ﷺ کی تربیت کے نیچے ہوں گے اس لئے سب علماء نے اس گروہ کا نام صحابہ ہی رکھا ہے جیسے ان صفات اربعہ کا ظہور ان صحابہ میں ہوا تھا ویسے ہی ضروری ہے کہ آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بہم کی مصداق جماعت صحابہ میں بھی ہو.ل صفحه 431) ( ملفوظات جلد اوّ بکوشید اے جو اناں تا بدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا اے جوانو! کوشش کرو کہ دین میں قوت پیدا ہو اور ملت اسلام کے باغ میں بہار اور رونق آئے.اگر یاراں کنوں بر غربت اسلام رحم آرید با صحاب نبی نزد خدا نسبت شود پیدا اے دوستو! اگر اب تم اسلام کی غربت پر رحم کرو تو خدا کے ہاں تمہیں آنحضرت کے صحابہ سے مناسبت پیدا ہو جائے.نفاق و اختلاف ناشناسان از میاں خیزد کمال اتفاق و خلت و الفت شود پیدا نا اہل لوگوں کا آپس کا اختلاف اور نفاق دور ہو جائے اور کمال درجہ کا اتفاق دوستی اور محبت پیدا ہو جائے.
266 در مین فارسی مترجم صفحه 172) ( آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 2) وہ رحیم خدا وہ خدا ہے جس نے امتیوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے اگر چہ وہ پہلے اس سے صریح گمراہ تھے اور ایسا ہی وہ رسول جو ان کی تربیت کر رہا ہے ایک دوسرے گروہ کی بھی تربیت کرے گا جو انہیں میں سے ہو جائیں گے اور انہیں کے کمالات پیدا کر لیں گے مگر ابھی وہ ان سے ملے نہیں اور خدا غالب ہے اور حکمت والا.اس جگہ یہ نکتہ یادر ہے کہ آیت وَاخَرِينَ مِنْھم میں آخرین کا لفظ مفعول کے محل پر واقع ہے گویا تمام آیت معدہ اپنے الفاظ مقدرہ کے یوں ہے.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَة ويعلم الا خَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی ہمارے خالص اور کامل بندے بجز صحابہ کے اور بھی ہیں جن کا گروہ کثیر آخری زمانہ میں پیدا ہوگا اور جیسی نبی کریم ﷺ نے صحابہ کی تربیت فرمائی ایسا ہی آنحضرت اُس گروہ کی بھی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے یعنی وہ لوگ ایسے زمانہ میں آئیں گے کہ جس زمانہ میں ظاہری افادہ اور استفادہ کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا اور مذہب اسلام بہت سی غلطیوں اور بدعتوں سے پر ہو جائے گا اور فقراء کے دلوں سے بھی باطنی روشنی جاتی رہے گی تب خدا تعالیٰ کسی نفس سعید کو بغیر وسیلہ ظاہری سلسلوں اور طریقوں کے صرف نبی کریم کی روحانیت کی تربیت سے کمالِ روحانی تک پہنچا دے گا اور اس کو ایک گروہ بنائے گا اور وہ گروہ صحابہ کے گروہ سے نہایت شدید مشابہت پیدا کرے گا کیونکہ وہ تمام و کمال آنحضرت ﷺ کی ہی زراعت ہوگی اور آنحضرت ﷺ کا فیضان ان میں جاری وساری ہوگا اور صحابہؓ سے وہ ملیں گے.( آئینہ کمالات اسلام.رخ جلد 5 صفحہ 208 تا 210) منعم علیہم کے کامل طور پر مصداق باعتبار کثرت کمیت اور صفائی کیفیت اور نعمائے حضرت احدیت از روئے نص صریح قرآنی اور احادیث متواترہ حضرت مرسل یزدانی دو گروہ ہیں ایک گروہ صحابہ اور دوسرا گروہ جماعت مسیح موعود.کیونکہ یہ دونوں گروہ آنحضرت ﷺ کے ہاتھ کے تربیت یافتہ ہیں کسی اپنے اجتہاد کے محتاج نہیں.وجہ یہ کہ پہلے گروہ میں رسول ﷺے موجود تھے جو خدا سے براہ راست ہدایت پا کر وہی ہدایت نبوت کی پاک توجہ کے ساتھ صحابہؓ کے دل میں ڈالتے تھے اور ان کے لئے مربی بے واسطہ تھے اور دوسرے گروہ میں مسیح موعود ہے جو خدا سے الہام پاتا اور حضرت رسول ﷺ کی روحانیت سے فیض اٹھاتا ہے لہذا اس کی جماعت بھی اجتہاد خشک کی محتاج نہیں ہے جیسا کہ آیت وَ ا خَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ سے سمجھا جاتا ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 224) مسیح وقت اب دنیا میں آیا خدا نے عہد کا دن ہے دکھایا مجھ کو پایا مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب وہی کے ان کو ساقی نے پلا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي
267 ( در شین اردو صفحه 52) ہر ایک نبی کا ایک بحث ہے مگر ہمارے نبی ﷺ کے دو بعث ہیں اور اس پر نص قطعی آیت کریمہ واخر يُنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة:4) ہے تمام اکابر مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس امت کا آخری گر وہ یعنی مسیح موعود کی جماعت صحابہ کے رنگ میں ہوں گے اور صحابہ کی طرح بغیر کسی فرق کے آنحضرت اللہ سے فیض اور ہدایت پائیں گے پس جبکہ یہ امرنص صریح قرآن شریف سے ثابت ہوا کہ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا فیض صحابہ پر جاری ہوا ایسا ہی بغیرکسی امتیاز اور تفریق کے مسیح موعود کی جماعت پر فیض ہوگا تو اس صورت میں آنحضرت ﷺ کا ایک اور بعث ماننا پڑا جو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے وقت میں ہزار ششم میں ہوگا اور اس تقریر سے یہ بات بپایہ ثبوت پہنچ گئی کہ آنحضرت ﷺ کے دو بعث ہیں یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک بروزی رنگ میں آنحضرت ﷺ کا دوبارہ آنا دنیا میں وعدہ دیا گیا تھا جو سیح موعود اور مہدی موعود کے ظہور سے پورا ہوا غرض جبکہ آنحضرت ﷺ کے دو بعث ہوئے تو جو بعض حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ ہزار شم کے اخیر میں معبوث ہوئے تھے اس سے بعث دوئم مراد ہے جونص قطعی آیت کریمہ آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ سے سمجھا جاتا ہے.تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 248 تا 249 حاشیہ ) صلى الله آنحضرت ﷺ کے معجزات و برکات کا مشاہدہ کرنے والے دو گروہ پس جس حالت میں مسیح موعود اور فارسی الاصل کا زمانہ بھی ایک ہی ہے اور کام بھی ایک ہی ہے یعنی ایمان کو دوبارہ قائم کرنا اس لئے یقینی طور پر ثابت ہوا کہ مسیح موعود ہی فارسی الاصل ہے اور اسی کی جماعت کے حق میں یہ آیت ہے وَا خَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِہم.اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ کمال ضلالت کے بعد ہدایت اور حکمت پانے والے اور آنحضرت ﷺ کے معجزات اور برکات کو مشاہدہ کرنے والے صرف دوہی گروہ ہیں اول صحابہ آنحضرت ﷺ جو آنحضرت ﷺ کے ظہور سے پہلے سخت تاریکی میں مبتلا تھے اور پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے زمانہ نبوی پایا اور مجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پیشگوئیوں کا مشاہدہ کیا اور یقین نے ان میں ایک تبدیلی پیدا کی کہ گویا صرف ایک روح رہ گئے.دوسرا گروہ جو بموجب آیت موصوفہ بالاصحابہ کی مانند ہیں مسیح موعود کا گروہ ہے کیونکہ یہ گروہ بھی صحابہ کی مانند آنحضرت ﷺ کے معجزات کو دیکھنے والا ہے اور تاریکی اور ضلالت کے بعد ہدایت پانے والا.اور آیت ( خَرِيْنَ مِنْهُم میں جو اس گروہ کو منھم کی دولت سے یعنی صحابہؓ سے مشابہ ہونے کی نعمت سے حصہ دیا گیا ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے یعنی جیسا کہ صحابہ نے آنحضرت ﷺ کے معجزات دیکھے اور پیشگوئیاں مشاہدہ کیں ایسا ہی وہ بھی مشاہدہ کریں گے.(ایام الصلح.رخ جلد 14 صفحہ 305 )
268 حضرت اقدس رسول اکرم ﷺ کے شاگر داور بروز ہیں وَإِنَّ ادَمَ اخِرِ الزَّمَان حَقِيقَةً هُوَ نَبِيَّنَا.وَالنِّسْبَةُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ كَنِسُبَةِ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ.وَإِلَيْهِ أَشَارَسُبْحَا نَهُ فِي قَوْلِهِ وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ فَفَكِّرُ فِي قَوْلِهِ آخَرِيْنَ.وَأَنْزَلَ اللهُ عَلَيَّ فَيُضَ هَذَا الرَسُولِ فَا تَمَّهُ وَاكْمَلَهُ وَجَذَبَ إِلَيَّ لُطْفَهُ وَجُوْ دَهُ حَتَّى صَارَ وُجُوْدِيَ وُجُودَهُ.فَمَنْ دَخَلَ فِي جَمَاعَتِي دَخَلَ فِى صَحَابَةِ سَيِّدِى خَيْرِ الْمُرْسَلِينَ وَهَذَا هُوَ مَعْنَى وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى الْمُتَدَتِرِيْنَ.وَمَنْ فَرَّقَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْمُصْطَفَى فَمَا عَرَفَنِي وَ مَا رَأَى.ترجمہ از اصل :- اور آخر زمانہ کا آدم در حقیقت ہمارے نبی کریم ہیں اور میری نسبت اس کی جناب کے ساتھ استاد اور شاگرد کی نسبت ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ وَ خَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے پس اخرین کے لفظ میں فکر کرو اور خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی کریم کے لطف اور جود کو میری طرف کھینچا یہاں تک کہ میر اوجود اس کا وجود ہو گیا.پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہو در حقیقت میرے سردار خیرالمرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا اور یہی معنے ا خَرِينَ مِنْهُمْ کے لفظ کے بھی ہیں جیسا کہ سوچنے والوں پر پوشیدہ نہیں اور جو شخص مجھ میں اور مصطفے میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا ہے.(خطبہ الہامیہ رخ جلد 16 صفحه 257 259) إِنَّ اللَّهَ كَانَ أَوْحَى إِلَيَّ وَقَالَ كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ يَعْنِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم عَلَّمَكَ مِنْ تَاثِيرِ رُوْحَا نِيَّتِهِ وَ أَفَاضَ إِنَاءَ قَلْبِكَ بِفَيْضِ رَحْمَتِهِ لِيُدْخِلَكَ فِي صَحَابَتِهِ وَ لِيُشْرِكَكَ فِي بَرَكَتِهِ وَلِيُتِمَّ نَبَاءَ اللَّهِ وَا خَرِيْنَ مِنْهُمْ بِفَضْلِهِ وَ مِتَّتِهِ ترجمه از مرتب: اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی اور فرمایا كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّم یعنی نبی کریم ﷺ نے تمہیں اپنی روحانیت کی تاثیر کے ذریعہ سکھایا اور اپنی رحمت کا فیض تیرے دل کے برتن میں ڈال دیا تا تجھے اپنے صحابہ میں داخل کریں اور تجھے اپنی برکت میں شریک کریں اور تا اللہ تعالیٰ کی خبر وَالخَرِيْنَ مِنْهُمُ اس کے فضل اور اس کے احسان سے پوری ہو.(خطبہ الہامیہ.رخ جلد 16 صفحہ 310 حاشیہ)
269 ساقی من هست آں جاں پرورے ہر زمان مستم کند از ساغری شخص تو میرا ساقی وہی روح پرور ہے جو ہمیشہ جامِ شراب سے مجھے سرشار رکھتا ہے محو روئے او شد است ایں روئے من ہوئے او آید زبام و کوئے من یہ میرا چہرہ اُس کے چہرہ میں محو اور گم ہو گیا اور میرے مکان اور کوچہ سے اُسی کی خوشبو آرہی ہے بسکه من در عشق او هستم نہاں من همانم من همانم از بسکہ میں اُس کے عشق میں غائب ہوں میں وہی ہوں میں وہی ہوں میں وہی ہوں جان من از جان او یا بد غذا از گریبانم عیاں شد آں ذکا! میری روح اُس کی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریباں سے وہی سورج نکل آیا ہے احمد اندر جان احمد شد 삼성 من ہماں اسم من گردید آن اسم وحید احمد کی جان کے اندراحمد ظاہر ہو گیا اس لئے میرا وہی نام ہو گیا جو اس لاثانی انسان کا نام ہے ( در شین فارسی مترجم صفحه 228) (سراج منیر..خ.جلد 12 صفحہ 97-96) رجل فارسی اور مسیح موعود ایک ہی شخص کے نام ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی آنحضرت کے اصحاب میں سے ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوا.یہ تو ظاہر ہے اصحاب وہی کہلاتے ہیں جو نبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی حالت میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں اور اس سے تعلیم اور تربیت پاویں.پس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں اک نبی ہوگا کہ وہ آنحضرت ﷺ کا بروز ہو گا اس لئے اس کے اصحاب آنحضرت ﷺ کے اصحاب کہلائیں گے اور جس طرح صحابہ نے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینی خدامیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے.بہر حال یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا نام اصحاب رسول اللہ رکھا جائے جو آنحضرت ﷺ کے بعد پیدا ہونے والے تھے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کو نہیں دیکھا.آیت مدوحہ بالا میں یہ تو نہیں فرمایاوَ اخَرِينَ مِنَ الْأُمَّةِ بلكہ يہ فرمایا وَاخَرِينَ مِنْهُمُ اور ہر ایک جانتا ہے کہ منھم کی ضمیر اصحاب کی طرف راجع ہے.لہذا وہی فرقہ مِنْهُمُ میں داخل ہو سکتا ہے جس میں ایسا رسول موجود ہو کہ جو آنحضرت ﷺ کا بروز ہے.(حقیقۃ الوحی رخ جلد 22 صفحہ 502 تا 501) یہ ممکن ہے کہ آنحضرت ﷺے نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہد تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اور انبیاء کو اپنے بروز پر
270 غیرت نہیں ہوتی کیونکہ وہ انہی کی صورت اور انہی کا نقش ہے لیکن دوسرے پر ضرور غیرت آتی ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 440-439) بروز تکمیل اشاعت کے اعتبار سے قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهُ إِلَّا هُوَ يُحْيِ وَيُمِيتُ فَامِنُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُوَ مِنْ بِاللَّهِ وَ كَلِمَتِهِ وَ اتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (الاعراف: 159) اس وقت کے تمام مخالف مولویوں کو ضرور یہ بات ماننی پڑے گی کہ چونکہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء تھے اور آپ کی شریعت تمام دنیا کے لئے عام تھی اور آپ کی نسبت یہ فرمایا گیا تھا.وَلَكِنْ رَّسُوْلُ اللَّهِ وَخَاتَمَ النبينَ (الاحزاب : 41) اور نیز آپ کو یہ خطاب عطا ہوا تھا قُل اَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا سواگر چہ آنحضرت ﷺ کے عہد حیات میں وہ تمام متفرق ہدا یتیں جو حضرت آدم سے حضرت عیسی تک تھیں.قرآن شریف میں جمع کی گئیں لیکن مضمون آیت قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ جميعا (الاعراف: 159) آنحضرت ﷺ کی زندگی میں عملی طور پر پورا نہیں ہوسکا.کیونکہ کامل اشاعت اس پر موقوف تھی کہ تمام ممالک مختلفہ یعنی ایشیا اور یورپ اور افریقہ اور امریکہ اور آبادی دنیا کے انتہائی گوشوں تک آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی تبلیغ قرآن ہو جاتی اور یہ اس وقت غیر ممکن تھا بلکہ اس وقت تک تو دنیا کی کئی آبادیوں کا ابھی پتہ بھی نہیں لگا تھا اور دور دراز سفروں کے ذرائع ایسے مشکل تھے کہ گو یا معدوم تھے بلکہ اگر وہ ساٹھ برس الگ کر دیے جائیں جو اس عاجز کی عمر کے ہیں تو 7 125 ہجری تک بھی اشاعت کے وسائل کا ملہ گویا کا لعدم تھے اور اس زمانہ تک امریکہ کل اور یورپ کا اکثر حصہ قرآنی تبلیغ اور اس کے دلائل سے بے نصیب رہا ہوا تھا بلکہ دور دور ملکوں کے گوشوں میں تو ایسی بے خبری تھی کہ گویا وہ لوگ اسلام کے نام سے بھی ناواقف تھے.غرض آیت موصوفہ بالا میں جوفر مایا گیا تھا کہ اے زمین کے باشندو! میں تم سب کی طرف رسول ہوں عملی طور پر اس آیت کے مطابق تمام دنیا کو ان دنوں سے پہلے ہرگز تبلیغ نہیں ہوسکی اور نہ اتمام حجت ہوا کیونکہ وسائل اشاعت موجود نہیں تھے اور نیز زبانوں کی اجنبیت سخت روک تھی اور نیز یہ کہ دلائل حقانیت اسلام کی واقفیت اس پر موقوف تھی کہ اسلامی ہدایتیں غیر زبانوں
271 میں ترجمہ ہوں اور یا وہ لوگ خود اسلام کی زبان سے واقفیت پیدا کرلیں اور یہ دونوں امراس وقت غیر ممکن تھے.لیکن قرآن شریف کا یہ فرمانا کہ وَمَنْ بَلَغ (الانعام: (20) یہ امید دلاتا تھا کہ ابھی اور بہت سے لوگ ہیں جو بھی تبلیغ قرآنی ان تک نہیں پہنچی ایسا ہی آیت و ۱ خَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (جمعه: 4) اس بات کو ظاہر کر رہی تھی کہ گو آنحضرت ﷺ کی حیات میں ہدایت کا ذخیرہ کامل ہو گیا مگر ا بھی اشاعت ناقص ہے اور اس آیت میں جو منھم کا لفظ ہے وہ ظاہر کر رہا تھا کہ ایک شخص اس زمانہ میں جو تکمیل اشاعت کے لئے موزوں ہے مبعوث ہوگا جو آنحضرت ﷺ کے رنگ میں ہوگا اور اس کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ میں ہوں گے...اس وقت حسب منطوق آیت وَا خَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِہم اور نیز حسب منطوق قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا آنحضرت ﷺ کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جوریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں....بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ یہ ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کے لئے بدل و جان سرگرم ہیں.آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے کیونکہ آپ کا دعوی ہے کہ میں تمام کا فہ ناس کے لئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جو زمین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمام حجت کے لئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں.تب آنحضرت کی روحانیت نے جواب دیا کہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں.مگر میں ملک ہند میں آؤں گا کیونکہ جوش مذاہب و اجتماع جمیع ادیان اور مقابلہ جمیع ملل ونحل اور امن اور آزادی اسی جگہ ہے اور نیز آدم اسی جگہ نا زل ہوا تھا.پس ختم دور زمانہ کے وقت بھی وہ جو آدم کے رنگ میں آتا ہے اسی ملک میں اس کو آنا چاہیے تا آخر اور اول کا ایک ہی جگہ اجتماع ہوکر دائرہ پورا ہو جائے.(تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحه 260 تا 263) روحانی زندگی کے لحاظ سے ہم تمام نبیوں میں سے اعلیٰ درجے پر اپنے نبی ﷺ کو زندہ سمجھتے ہیں اور قرآن شریف کی آیت وَاخَرينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بہم میں آنحضرت ﷺ کی آمد ثانی کا وعدہ دیا گیا ہے.اس وعدہ کی ضرورت اسی وجہ سے پیدا ہوئی کہ تا دوسرا فرض منصبی آنحضرت ﷺ کا یعنی تکمیل اشاعت ہدایت دین جو آپ کے ہاتھ سے پورا ہونا چاہیے تھا اس وقت باعث عدم وسائل پورا نہیں ہوا.سواس فرض کو آنحضرت ﷺ نے اپنی آمد ثانی سے جو بروزی رنگ میں تھی ایسے زمانہ میں پورا کیا جبکہ زمین کی تمام قوموں تک اسلام پہنچانے کے لئے وسائل پیدا ہو گئے تھے.(تحفہ گولڑویہ.ر.خ جلد 17 صفحہ 263 حاشیہ )
272 حضرت اقدس رسول اکرم کی جمالی تجلتی ہیں یا در ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے دو ہاتھ جلالی اور جمالی ہیں.اسی نمونہ پر چونکہ ہمارے نبی ﷺ جل شانہ کے مظہر اتم ہیں لہذا خدا تعالیٰ نے آپ کو بھی وہ دونوں ہاتھ رحمت اور شوکت کے عطا فرمائے.جمالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ قرآن شریف میں ہے وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء: 108) یعنی ہم نے تمام دنیا پر رحمت کر کے تجھے بھیجا ہے اور جلالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمَى (الانفال : 18) اور چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ یہ دونوں صفتیں آنحضرت ﷺ کی اپنے اپنے وقتوں میں ظہور پذیر ہوں اس لئے خدا تعالیٰ نے صفت جلالی کو صحابہ کے ذریعہ سے ظاہر فرمایا اور صفت جمالی کو مسیح موعود کے اور اس گروہ کے ذریعہ سے کمال تک پہنچایا.اس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے وَاخَرِينَ اربعین - رخ جلد 17 صفحہ 421 حاشیہ) مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم - ہمارے نبی ہے جلال اور جمال دونوں میں جامع تھے مکہ کی زندگی جمالی رنگ میں تھی اور مدینہ کی زندگی جلالی رنگ میں.اور پھر یہ دونوں صفتیں امت کے لئے اس طرح پر تقسیم کی گئیں کہ صحابہ کو جلالی رنگ کی زندگی عطا ہوئی اور جمالی رنگ کی زندگی کے لئے مسیح موعود کو آنحضرت ﷺ کا مظہر ٹھہرایا.یہی وجہ ہے کہ اس کے حق میں فرمایا گیا کہ يَضَعُ الْحَرْبَ یعنی لڑائی نہیں کرے گا اور یہ خدا تعالیٰ کا قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ اس حصہ کو پورا کرنے کے لئے مسیح موعود اور اس کی جماعت کو ظاہر کیا جائے گا جیسا کہ آیت وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِہم میں اس طرف اشارہ ہے اور آیت حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھا بھی اشارہ کر رہی ہے.(اربعین.رخ جلد 17 صفحہ 443-444) اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ساتھ ہے یہ درجہ عطا فرمایا ہے کہ وہ صحابہ کی جماعت سے ملنے والی ہے و ا خَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهم - مفسرین نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعود کے ساتھ نہیں در حقیقت رسول اللہ ﷺ کے ہی ساتھ ہے کیونکہ مسیح آپ ہی کے ایک جمال میں آئے گا اور تحمل تبلیغ اشاعت کے کام کے لئے وہ مامور ہوگا.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 405)
273 سورة التكوير إِذَا الشَّمْسُ كُوّرَتْ وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ.وَإِذَا الْجِبَالُ..سُيِّرَتْ وَإِذَا الْعِشَارُ عُطّلَتْ.وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَت وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتُ.وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ.(التكوير: 2 تا 11) علامات ظهور مهدی اس بات کے ثبوت کے لئے کہ در حقیقت یہ آخری زمانہ ہے جس میں مسیح ظاہر ہو جانا چاہیے دوطور کے دلائل موجود ہیں.(۱) اول وہ آیت قرآنیہ اور آثار نبویہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں اور پورے ہو گئے ہیں جیسا کہ اونٹوں کی سواری کا موقوف ہو جانا جس کی تصریح آیت وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِّلَتْ سے ظاہر ہے اور سخت قسم کا کسوف شمس واقع ہونا جس سے تاریکی پھیل جائے جیسا کہ آیت إِذَا الشَّمْسُ كُورَت سے ظاہر ہے اور پہاڑوں کو اپنی جگہ سے اٹھا دینا جیسا کہ وَإِذَا الْجِبَالُ سُيّرت سے سمجھا جاتا ہے اور جولوگ وحشی اور اراذل اور اسلامی شرافت سے بے بہرہ ہیں ان کا اقبال چمک اٹھنا جیسا کہ آیت وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَت سے مترشح ہو رہا ہے اور تمام دنیا میں تعلقات اور ملاقاتوں کا سلسلہ گرم ہو جانا اور سفر کے ذریعہ سے ایک کا دوسرے کو ملنا سہل ہو جانا جیسا کہ بدیہی طور پر آیت وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ سے سمجھا جاتا ہے اور کتابوں اور رسالوں اور خطوط کا ملکوں میں شائع ہو جانا جیسا کہ آیت وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت سے ظاہر ہو رہا ہے اور علماء کی باطنی حالت کا جو نجوم اسلام میں مکدر ہو جانا جیسا کہ وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ سے صاف معلوم ہوتا ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 242 تا243) دجالی زمانہ...کی علامات میں جب کہ ارضی علوم وفنون زمین سے نکالے جائیں گے بعض ایجادات اور صناعات کو بطور نمونہ کے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے وَإِذَا الْعِشَارُ عُطّلت یعنی اس وقت اونٹنی بیکار ہو جائے گی اور اس کا کچھ قدرمنزلت نہیں رہے گا عشار حملد ار اونٹنی کو کہتے ہیں جو عربوں کی نگاہ میں بہت عزیز ہے اور ظاہر ہے کہ قیامت سے اس آیت کو کچھ تعلق نہیں کیونکہ قیامت ایسی جگہ نہیں جس میں اونٹ اونٹنی کو ملے اور حمل ٹھہرے بلکہ یہ ریل کے نکلنے کی طرف اشارہ ہے اور حملدار ہونے کی اس لئے قید لگادی کہ تا یہ قید دنیا کے واقعہ پر قرینہ تو یہ ہو اور آخرت کی طرف ذرہ بھی و ہم نہ جائے.....وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَت اور جس وقت جانیں باہم ملائی جائیں گی.یہ تعلقات اقوام اور بلا د کی طرف اشارہ ہے.مطلب یہ ہے کہ آخری زمانہ میں بباعث راستوں کے کھلنے اور
274 انتظام ڈاک اور تار برقی کے تعلقات بنی آدم کے بڑھ جائیں گے اور ایک قوم دوسری قوم کو ملے گی اور دور دور کے رشتے اور تجارتی اتحاد ہوں گے اور بلاد بعیدہ کے دوستانہ تعلقات بڑھ جائیں گے.وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَت.اور جس وقت وحشی آدمیوں کے ساتھ اکٹھے کئے جائیں گے مطلب یہ ہے کہ وحشی تو میں تہذیب کی طرف رجوع کریں گی اور ان میں انسانیت اور تمیز آئے گی اور اراذل دنیوی مراتب اور عزت سے ممتاز ہو جائیں گے اور بباعث دنیوی علوم وفنون پھیلنے کے شریفوں اور رذیلوں میں کچھ فرق نہیں رہے گا بلکہ رذیل غالب آجائیں گے یہاں تک کہ کلید دولت اور عنان حکومت ان کے ہاتھ میں ہوگی اور مضمون اس آیت کا ایک حدیث کے مضمون سے بھی ملتا ہے.اور فرمایا ذَا الشَّمْسُ كُورَت جس وقت سورج لپیٹا جاوے گا یعنی سخت ظلمت جہالت اور معصیت کی دنیا پر طاری ہو جائے گی وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ اور جس وقت تارے گدلے ہو جائیں گے یعنی علما کا نو را خلاص جاتا رہے گا.شہادت القرآن.رخ جلد 6 صفحہ 317 تا 319) میں وہی ہوں جس کے وقت میں اونٹ بیکار ہو گئے اور پیشگوئی آیت کریمہ وَإِذَا الْعِشَارُ عُطّلت پوری ہوئی اور پیشگوئی حدیث وَلَيْتُرَ كَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا نے اپنی پوری پوری چمک دکھلا دی یہاں تک کہ عرب اور عجم کے اڈیٹر ان اور اخبار اور جرائد والے بھی اپنے پر چوں پر بول اٹھے کہ مدینہ اور مکہ کے درمیان جو ریل تیار ہورہی ہے یہی اس پیشگوئی کا ظہور ہے جو قرآن اور حدیث میں ان لفظوں سے کی گئی تھی جو مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے.اعجاز احمدی.رخ جلد 19 صفحہ 108) چھٹانشان کتابوں اور نوشتوں کا ظاہر ہونا جیسا کہ آیت وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التكوير: 11) سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ بباعث چھاپہ کی کلوں کے جس قدر اس زمانہ میں کثرت اشاعت کتابوں کی ہوئی ہے اس کے بیان کی ضرورت نہیں.آٹھواں نشان نوع انسان کے باہمی تعلقات کا بڑھنا اور ملاقاتوں کا طریق سہل ہو جانا جیسا کہ آیت وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَت سے ظاہر ہے سو بذریعہ ریل اور تار کے یہ عمل ایسا ظہور میں آیا کہ گویاد نیا بدل گئی.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 206) وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ (التکویر : 8) بھی میرے ہی لئے ہے.پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دیئے ہیں.چنانچہ مطبع کے سامان کا غذ کی کثرت ، ڈاکخانوں ، تار، ریل،اور دخانی جہازوں کے ذریعہ کل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے.اور پھر نت نئی ایجادیں اس جمع کو اور بڑھا رہی ہیں کیونکہ اسباب تبلیغ جمع ہو رہے ہیں.اب فونوگراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے.اخباروں اور رسالوں کا اجراء غرض اس قدر سامان تبلیغ کے جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں ہم کو نہیں مل سکتی.( ملفوظات جلد دوم صفحه 49)
275 وَالَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ (1918) وَلِكُلِّ كَمَالٍ زَوَالٌ وَلِكُلِّ تَرَعْرُعِ اِضْمِحْلَالٌ كَمَا تَرَى أَنَّ السَّيْلِ إِذَا وَصَلَ إِلَى الْجَبَلِ الرَّاسِي وَقَفَ.وَالَّيْلُ إِذَا بَلَغَ إِلَى الصُّبْحِ الْمُسْفِرِ انْكَشَفَ.كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَالَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ ، فَجَعَلَ تَنفُسَ الصُّبْحِ كَامُرِ لاَ زِمٍ بَعْدَ كَمَالِ ظُلُمَاتِ الَّيْلِ....فَأَرَادَ اللَّهُ أَنَّ يَرُدَّ إِلَى الْمُؤْمِنِينَ أَيَّامَهُمُ الْأَوْلَى وَأَنْ يُرِ يَهُمْ أَنَّهُ رَبُّهُمْ وَأَنَّهُ الرَّحْمَنُ وَالرَّحِيمُ وَمَالِكُ يَوْمٍ فِيْهِ يُجْزِى وَيُبْعَثُ فِيْهِ الْمَوْتَى.(ترجمه از مرتب) ہر کمال کو آخر زوال دیکھنا پڑتا ہے.اسی طرح ہر ترقی کے بعد تنزل کا دور آتا ہے.جیسا کہ تم دنیا میں مشاہدہ کرتے ہو کہ جب سیلاب بلند پہاڑوں تک پہنچتا ہے تو رک جاتا ہے.اور رات جب روشن صبح تک پہنچتی ہے تو اس کی تاریکی ختم ہو جاتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَالَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ ہم رات کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جب وہ خاتمہ کو پہنچ جاتی ہے اور صبح کو جب وہ سانس لینے لگتی ہے.اس آیہ کریمہ میں رات کے اندھیروں کے کمال تک پہنچنے کے بعد صبح کے ظاہر ہونے کو لازم قرار دیا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ مومنوں پر پہلے ترقی کے زمانہ کو لوٹادے اور ان کو دکھا دے کہ ان کا ایک قادر رب ہے جو رحمن اور رحیم ہے اور اس دن کا مالک ہے جب سب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور جس میں مردے زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے.(اعجاز مسیح - رخ جلد 18 صفحہ 158 تا159) سورة الانفطار اِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرتُ.وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ.(2 تا 4) اس زمانہ کی علامات میں جبکہ ارضی علوم و فنون زمین سے نکالے جائیں گے بعض ایجادات اور صناعات کو بطور نمونہ کے بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَت.اور جس وقت دریا چیرے جاویں گے یعنی زمین پر نہریں پھیل جائیں گی اور کاشت کاری کثرت سے ہوگی.وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَشَرتُ اور جس وقت تارے جھڑ جائیں گے یعنی ربانی علماء فوت ہو جائیں گے کیونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ زمین پر تارے گریں اور پھر زمین پر لوگ آبادرہ سکیں.یادر ہے مسیح موعود کے آنے کے لئے اسی قسم کی پیشگوئی انجیل میں بھی ہے کہ وہ اس وقت آئیگا کہ جب زمین پر تارے گر جائیں گے اور سورج اور چاند کا نور جاتا رہے گا.اور ان پیشگوئیوں کو ظاہر پر حمل کرنا اس قدر خلاف قیاس ہے کہ کوئی دا نا ہر گز یہ تجویز نہیں کرے گا کہ در حقیقت سورج کی روشنی جاتی رہے گی اور ستارے زمین پر گر پڑیں اور پھر زمین بدستور آدمیوں سے آباد ہو اور اس حالت میں مسیح موعود آوے...ایسا ہی فرمايا - إِذَا السَّمَاءُ انفطرت اور انجیل میں بھی اس کے مطابق مسیح موعود کے آنے کی خبر دی ہے مگر ان آیتوں سے یہ مراد نہیں ہے کہ در حقیقت اس وقت آسمان پھٹ جائے گا یا اس کی قوتیں سست ہو جائیں گی بلکہ مدعا یہ ہے
276 کہ جیسے پھٹی ہوئی چیز بیکار ہو جاتی ہے ایسا ہی آسمان بھی بیکا ر سا ہو جائے گا.آسمان سے فیوض نازل نہیں ہوں گے اور دنیا ظلمت اور تاریکی سے بھر جائیگی.سورة الانشقاق شہادت القرآن.رخ جلد 6 صفحہ 318 تا 319) اذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتُ.(2) وہ آیت قرآنیہ اور آثار نبویہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں اور پورے ہو گئے ہیں جیسا کہ بدعتوں اور ضلالتوں اور ہر قسم کے فسق و فجور کا پھیل جانا جیسا کہ آیت إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ.تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحه 242 تا 243) وَإِذَا الْاَرْضُ مُدَّتُ.وَالْقَتْ مَا فِيْهَا وَتَخَلَّتْ.(54) اسی زمانہ کی علامات میں جب کہ ارضی علوم و فنون زمین سے نکالے جائیں گے بعض ایجادات اور صناعات کو بطور نمونہ کے بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتُ ـ وَالْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّت.جبکہ زمین کھینچی جاوے گی یعنی زمین صاف کی جائیگی اور آبادی بڑھ جائیگی اور جو کچھ زمین میں ہے اس کو زمین باہر ڈال دے گی اور خالی ہو جائیگی یعنی تمام ارضی استعداد میں ظہور و بروز میں آجائیں گی.سورة القدر شہادت القرآن - ر خ جلد 6 صفحه 317 318) خبر سورۃ القدر میں اول آنحضرت ﷺ کی آمد کی خبر ہے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - إِنَّا أَنْزَلْتُهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ - وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ، لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ أَلْفِ شَهْرٍ - تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ من أَمْرِ سَلْمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ - (61) إِنَّا أَنْزَلْتُهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر - یہ لیلتہ القدر اگر چہ اپنے مشہور معنوں کے رو سے ایک بزرگ رات ہے لیکن قرآنی اشارات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ظلمانی حالت بھی اپنی پوشیدہ خوبیوں میں لیلۃ القدر کا ہی حکم رکھتی ہے اور اس ظلمانی حالت کے دنوں میں صدق اور صبر اور زہد اور عبادت خدا کے نزدیک بڑا قدر رکھتا ہے اور وہی ظلمانی حالت تھی کہ جو آنحضرت ﷺ کے بعثت کے وقت تک اپنے کمال کو پہنچ کر ایک عظیم الشان نور کے نزول کو چاہتی تھی اور اسی ظلمانی حالت کو دیکھ کر اور ظلمت زدہ بندوں پر رحم کر کے صفت رحمانیت نے جوش مارا اور آسمانی برکتیں
277 زمین کی طرف متوجہ ہو ئیں سو وہ ظلمانی حالت دنیا کیلئے مبارک ہو گئی اور دنیا نے اس سے ایک عظیم الشان رحمت کا حصہ پایا کہ ایک کامل انسان اور سید الرسل کہ جس سا کوئی پیدا نہ ہوا اور نہ ہو گا دنیا کی ہدایت کے لئے آیا اور دنیا کیلئے اس روشن کتاب کو لایا جس کی نظیر کسی آنکھ نے نہیں دیکھی پس یہ خدا کی کمال روحانیت کی ایک بزرگ تجلی تھی کہ جو اس نے ظلمت اور تاریکی کے وقت ایسا عظیم الشان نور نازل کیا جس کا نام فرقان ہے جو حق اور باطل میں فرق کرتا ہے جس نے حق کو موجود اور باطل کو نابود کر کے دکھلا دیا وہ اس وقت زمین پر نازل ہوا جب زمین ایک موت روحانی کے ساتھ مر چکی تھی اور بر اور بحر میں ایک بھاری فساد واقع ہو چکا تھا پس اس نے نزول فرما کر وہ کام کر دکھایا جس کی طرف اللہ نے آپ اشارہ فرما کر کہا ہے اِعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الاَ رُضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحديد: 18) یعنی زمین مرگئی تھی اب خدا اس کو نئے سرے سے زندہ کرتا ہے.(براہین احمدیہ - رخ جلد 1 صفحہ 419 418) لیلۃ القدر کے ایک اور معانی بھی ہیں خدا تعالیٰ نے میرے پر یہ نکتہ معارف قرآنیہ کا ظاہر کیا کہ اِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ کے صرف یہی معانی نہیں کہ ایک بابرکت رات ہے جس میں قرآن شریف اترا بلکہ باوجود ان معنوں کے جو بجائے خود صحیح ہیں اس آیت کے بطن میں دوسرے معانی بھی ہیں جو رسالہ فتح اسلام میں درج کئے گئے ہیں.(ازالہ اوہام -رخ- جلد 3 صفحہ 259) اب دیکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں صاف اور صریح لفظوں میں فرما دیا کہ جب کوئی مصلح خدا کی طرف سے آتا ہے تو ضرور دلوں کو حرکت دینے والے ملائکہ زمین پر نازل ہوتے ہیں تب ان کے نزول سے ایک حرکت اور تموج دلوں میں نیکی اور راہ حق کی طرف پیدا ہو جاتا ہے پس ایسا خیال کرنا یہ حرکت اور تموج بغیر ظہور صلح کے خود بخود پیدا ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ کے پاک کلام اور اس کے قدیم قانون قدرت کے مخالف ہے اور ایسے اقوال صرف ان لوگوں کے منہ سے نکلتے ہیں جو الہی اسرار سے بے خبر محض اور صرف اپنے بے بنیاداوہام کے تابع ہیں بلکہ یہ آسمانی مصلح پیدا ہونے کی علامات خاصہ ہیں اور اس آفتاب کے گرد ذرات کی مانند ہیں.ہاں اس حقیقت کو دریافت کرنا ہر ایک کا کام نہیں.ایک دنیا دار کی دود آمیز نظر اس نور کو دریافت نہیں کر سکتی.دینی صداقتیں اس کی نظر میں ایک ہنسی کی بات ہے اور معارف الہی اس کے خیال میں بیوقوفیاں ہیں.(شہادت القرآن.ر- خ جلد 6 صفحہ 314) مصلحین کی آمد کے ساتھ انتشار روحانیت ہوتا ہے اور اس جگہ یہ بات بھی یادر ہے کہ زمانے کے فساد کے وقت جب کوئی مصلح آتا ہے اسکے ظہور کے وقت آسمان سے ایک انتشار نورانیت ہوتا ہے یعنی اس کے اترنے کے ساتھ زمین پر ایک نور بھی اترتا ہے اور مستعد دلوں پر نازل ہوتا ہے تب دنیا خود بخود بشرط استعداد نیکی سعادت کے طریقوں کی طرف رغبت کرتی ہے اور ہر ایک دل تحقیق اور تدقیق کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور نہ معلوم اسباب سے طلب حق کے لئے ہر یک طبیعت مستعدہ میں
278 ایک حرکت پیدا ہو جاتی ہے غرض ایک ایسی ہوا چلتی ہے جو مستعد دلوں کو آخرت کی طرف ہلا دیتی ہے اور سوئی ہوئی قوتوں کو جگادیتی ہے.شہادت القرآن - ر - خ جلد 6 صفحہ 312 تا 313) إِنَّا أَنزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدر میں حضرت اقدس کی بعثت کی خبر ہے اس زمانہ کا نام بطور استعارہ کے لیلتہ القدر رکھا گیا ہے.مگر درحقیقت یہ رات نہیں.یہ ایک زمانہ ہے جو بوجہ ظلمت رات کے ہمرنگ ہے.نبی کی وفات یا اس کے روحانی قائم مقام کی وفات جب ہزار مہینہ جو بشری عمر کے قریب الاختتام کرنے والا اور انسانی حواس کے الوداع کی خبر دینے والا ہے گذر جاتا ہے تو یہ رات اپنا رنگ جمانے لگتی ہے.تب آسمانی کاروائی سے ایک یا کئی مصلحوں کی پوشیدہ طور پر تخمریزی ہو جاتی ہے جونئی صدی کے سر پر ظاہر ہونے کے لئے اندر ہی اندر طیار ہورہے ہیں.اسی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ ، خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شهر یعنی اس لیلۃ القدر کے نور کو دیکھنے والا اور صلح وقت کی صحبت سے شرف حاصل کرنے والا اس اتنی برس کے بڑھے سے اچھا ہے جس نے اس نورانی وقت کو نہیں پایا اور اگر ایک ساعت بھی اس کو پالیا ہے تو یہ ایک ساعت اس ہزار مہینے سے بہتر ہے جو پہلے گزر چکے.کیوں بہتر ہے؟ اس لئے اس لیلۃ القدر میں خدا کے فرشتے اور روح القدس اس مصلح کے ساتھ رب جلیل کے اذن سے آسمان سے اترتے ہیں نہ عبث طور پر بلکہ اس لئے کہ تا مستعد دلوں پر نازل ہوں اور سلامتی کی راہیں کھولیں سو وہ تمام راہوں کے کھولنے اور تمام پر دوں کے اٹھانے میں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ ظلمت غفلت دور ہو کر صبح ہدایت نمودار ہو جاتی ہے.اب اے مسلما نو غور سے ان آیات کو پڑھو کہ کس قدر اللہ تعالیٰ اس زمانہ کی تعریف بیان فرماتا ہے جس میں ضرورت کے وقت پر کوئی مصلح دنیا میں بھیجتا ہے.کیا تم ایسے زمانے کی قدر نہیں کرو گے.کیا تم خدا تعالیٰ کے فرمودوں کو یہ نظر استہزاء دیکھو گے؟ (فتح اسلام.ر.خ جلد 3 صفحہ 32 تا33 حاشیہ )
279 تَنَزَّلَ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوحُ میں حضرت اقدس کی بعثت کی خبر ہے غرض اس زمانہ میں جو کچھ نیکی کی طرف حرکتیں ہوتی ہیں اور راستی کے قبول کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتے ہیں خواہ وہ جوش ایشیائی لوگوں میں پیدا ہوں یا یورپ کے باشندوں میں یا امریکہ کے رہنے والوں میں وہ در حقیقت انہی فرشتوں کی تحریک سے جو اس خلیفتہ اللہ کے ساتھ اترتے ہیں ظہور پذیر ہوتے ہیں.یہی الہی قانون ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے.اور بہت صاف اور صریح الفہم ہے.اور تمہاری بد قسمتی ہے اگر تم اس پر غور نہ کرو.چونکہ یہ عاجز راستی اور سچائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اس لئے تم صداقت کے نشان ہر ایک طرف سے پاؤ گے.وہ وقت دور نہیں بلکہ بہت قریب ہے کہ جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اترتی اور ایشاء اور یورپ اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھو گے.یہ تم قرآن شریف سے معلوم کر چکے ہو کہ خلیفتہ اللہ کے نزول کے ساتھ فرشتوں کا نازل ہونا ضروری ہے تاکہ دلوں کو حق کی طرف پھریں.سو تم اس نشان کے منتظر رہو.اگر فرشتوں کا نزول نہ ہوا اور ان کے اترنے کی نمایاں تاثیریں تم نے دنیا میں نہ دیکھیں اور حق کی طرف دنیا میں نہ دیکھیں اور حق کی طرف دلوں کی جنبش کو معمولی سے زیادہ نہ پایا تو تم نے یہ سمجھنا کہ آسمان سے کوئی نازل نہیں ہوا.لیکن اگر یہ سب باتیں ظہور میں آگئیں تو تم انکار سے باز آؤ تا تم خدا تعالیٰ کے نزدیک سرکش قوم نہ ٹھہرو.فتح اسلام.رخ جلد 3 صفحہ 13 ،14 حاشیہ) جب مامور مامور ہو کر آتا ہے تو بے شمار فرشتے اس کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور دلوں میں اسی طرف نیک اور پاک خیال پیدا ہوتے ہیں جیسے اس سے پہلے شیاطین برے خیالات پیدا کیا کرتے ہیں اور یہ سب مامور کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.کیونکہ اس کے آنے سے یہ تحریکیں پیدا ہوتی ہیں.اسی طرح فرمایا إِنَّا أَنزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر - وَمَا أَدْراكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْر خدا تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا ہوتا ہے کہ مامور کے زمانہ میں ملائک نازل ہوں.کیا یہ کام بغیر امدادالہی کے ہو سکتا ہے؟ کیا یہ مجھ میں آسکتا ہے کہ ایک شخص خود بخو داٹھے اور کسر صلیب کر ڈالے نہیں.ہاں اگر خدا اسے اٹھا وے تو وہ سب کچھ کر سکتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 222 تا 223)
280 حضرت اقدس کے دوست اور پیارے کون ہیں اور تم اے میرے عزیز و! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی اور اپنا آرام اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہوں اگر چہ میں جانتا ہوں میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کیلئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے مجھے کون پہنچاتا ہے صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں اور مجھے اس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں.دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور اس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص وہم اور بدگمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا مگر جوشخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی مجھ میں کون داخل ہوتا ہے وہی جو بدی کو چھوڑتا اور نیکی اختیار کرتا ہے بچی کو چھوڑتا ہے اور راسی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندہ مطیع بن جاتا ہے ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور میں اس میں ہوں مگر ایسا کرنے پر فقط وہی قادر ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نفس مزکی کے سائے میں ڈال دیتا ہے.(فتح اسلام.رخ جلد 3 صفحہ 34) ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا اب جوش میں نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار پشتی دیوار دیں اور مامن اسلام ہوں نارسا ہے دست دشمن تا بغرق ایں جدار ( براہین احمدیہ.رخ جلد 21 صفحہ 145 ) ( در شین صفحه 137 136 )
281 سورة الزلزال یہ سورۃ اپنی نشانیوں کے ساتھ ایک مصلح کی آمد کی خبر دیتی ہے إِذَا رُکرِکت کے لفظ سے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب تم یہ نشانیاں دیکھ تو سمجھ لوکہ وہ لیلتہ القدر اپنے تمام تر زور کے ساتھ پھر ظاہر ہوئی ہے اور کوئی ربانی مصلح خدائے تعالیٰ کی طرف سے مع ہدایت پھیلانے والے فرشتوں کے نازل ہو گیا جیسا کہ فرماتا ہے.إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَ أَجْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَالَهَا.يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْ حَى لَهَـا - يَوْمَئِذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِيَرَوْا أَعْمَالَهُمْ - فَمَنْ يَعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرَ ايَّرَهُ - وَمَنْ يَعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرَّ ايَّرَهُ یعنی ان دنوں کا جب آخری زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی عظیم الشان مصلح آئے گا اور فرشتے نازل ہوں گے یہ نشان ہے کہ زمین جہاں تک اس کا ہلا نا ممکن ہے ہلائی جائے گی یعنی طبیعتوں اور دلوں اور دماغوں کو غایت درجہ پر جنبش دی جائے گی اور خیالات عقلی اور فکری اور سبھی اور بہیمی پورے پورے جوش کے ساتھ حرکت میں آجائیں گے اور زمین اپنے تمام بوجھوں کو باہر نکال دے گی یعنی انسانوں کے دل اپنی تمام استعدادات مخفیہ کو بمنصہ ظہور لائیں گے اور جو کچھ ان کے اندر علوم وفنون کا ذخیرہ ہے یا جو کچھ عمدہ عمدہ دلی اور دماغی طاقتیں اور لیاقتیں ان میں مخفی ہیں سب کی سب ظاہر ہو جائیں گی اور انسانی قوتوں کا آخری نچوڑ نکل آئے گا اور جو جو ملکات انسان کے اندر ہیں یا جو جو جذبات اس کی فطرت میں مودع ہیں وہ تمام مکمن قوت سے حیرہ فعل میں آجائیں گے اور انسانی حواس کی ہر ایک نوع کی تیزیاں اور بشری عقل کی ہر قسم کی باریک بینیاں نمودار ہو جائیں گی اور تمام دفائن وخزائن علوم مخفیہ و فنون مستورہ کے جو چھپے ہوئے چلے آتے تھے ان سب پر انسان فتح یاب ہو جائے گا اور اپنی فکری اور عقلی تدبیروں کو ہر ایک باب میں انتہاء تک پہنچا دے گا اور انسان کی تمام قوتیں جو نشاء انسانی میں تحمر ہیں صد با طرح کی تحریکوں کی وجہ سے حرکت میں آجائیں گی.اور فرشتے جو اس لیلتہ القدر میں مرد مصلح کے ساتھ آسمان سے اترے ہوں گے ہر ایک شخص پر اس کی استعداد کے موافق خارق عادت اثر ڈالیں گے یعنی نیک لوگ اپنے نیک خیال میں ترقی کریں گے اور جن کی نگاہیں دنیا تک محدود ہیں وہ ان فرشتوں کی تحریک سے دنیوی عقلوں اور معاشرے کی تدبیروں میں وہ ید بیضا دکھلائیں گے کہ ایک مرد عارف متحیر ہو کر اپنے دل میں کہے گا کہ یہ عقلی اور فکری طاقتیں ان لوگوں کو کہاں سے
282 ملیں؟ تب اس روز ہر یک استعداد انسانی بزبان حال باتیں کرے گی کہ یہ اعلی درجہ کی طاقتیں میری طرف سے نہیں بلکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک وحی ہے جو ہر یک استعداد پر بحسب اس کی حالت کے اتر رہی ہے یعنی صاف نظر آئے گا کہ جو کچھ انسانوں کے دل و دماغ کام کر رہے ہیں یہ ان کی طرف سے نہیں بلکہ غیبی تحریک ہے کہ ان سے یہ کام کر رہی ہے سو اس دن ہر ایک قسم کی قوتیں جوش میں دکھائی دیں گی.دنیا پرستوں کی قو تیں فرشتوں کی تحریک سے جوش میں آکر اگر چہ باعث نقصان استعداد کے سچائی کی طرف رخ نہیں کریں گی لیکن ایک قسم کا ابال اُن میں پیدا ہو کر اور انجماد اور افسردگی دور ہو کر اپنی معاشرت کے طریقوں میں عجیب قسم کی تدبیریں اور صنعتیں اور کیس ایجاد کر لیں گے اور نیکوں کی قوتوں میں خارق عادت طور پر الہامات اور مکاشفات کا چشمہ صاف صاف طور پر بہت نظر آئے گا اور یہ بات شاذ و نادر ہوگی کہ مومن کی خواب جھوٹی نکلے تب انسانی قومی کے ظہور و بروز کا دائرہ پورا ہو جائے گا اور جو کچھ انسان کے نوع میں پوشیدہ طور پر ودیعت رکھا گیا تھا وہ سب خارج میں جلوہ گر ہو جائیگا تب خدائے تعالیٰ کے فرشتے ان تمام راستبازوں کو جو زمین کی چاروں طرفوں میں پوشیدہ طور پر زندگی بسر کرتے تھے ایک گروہ کی طرح اکٹھا کر دیں گے اور دنیا پرستوں کا بھی کھلا کھلا ایک گروہ نظر آئیگا تا ہر ایک گروہ اپنی کوششوں کے ثمرات کو دیکھ لیوے تب آخر ہو جائے گی یہ آخری لیلتہ القدر کا نشان ہے جس کی بناء ابھی سے ڈالی گئی ہے جس کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو بھیجا ہے اور مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ انتَ أَشُدُّ مُنَاسَبَةٌ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمُ وَاشْبَهَ النَّاسِ بِهِ خُلْقًا وَّ خَلْقاً وزَمَانًا مگر یہ تاثیرات اس لیلتہ القدر کی اب بعد اس کے کم نہیں ہوں گی.بلکہ بالاتصال کام کرتی رہیں گی جب تک وہ سب کچھ پورا نہ ہولے جو خدائے تعالیٰ آسمان پر مقرر کر چکا ہے.اور حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے اترنے کے لئے جو زمانہ انجیل میں بیان فرمایا ہے یعنی یہ کہ حضرت نوح کے زمانے کی طرح امن اور آرام کا زمانہ ہو گا در حقیقت اسی مضمون پر سورہ الزلزال جس کی تفسیر ابھی کی گئی ہے دلالت التزامی کے طور پر شہادت دے رہی ہے.کیونکہ علوم وفنون کے پھیلنے اور انسانی عقول کی ترقیات کا زمانہ در حقیقت ایسا ہی چاہیے جس میں غایت درجہ کا امن و آرام ہو کیونکہ لڑائیوں اور فسادوں اور خوف جان اور خلاف امن زمانہ میں ہر گز ممکن نہیں کہ لوگ عقلی و عملی امور میں ترقیات کرسکیں.یہ باتیں تو کامل طور پر تبھی سوجھتی ہیں کہ جب کامل طور پر امن حاصل ہو.ہمارے علماء نے جو ظاہری طور پر اس سورۃ الزلزال کی یہ تفسیر کی ہے کہ در حقیقت زمین کو آخری دنوں میں سخت زلزلہ آئے گا اور وہ ایسا زمانہ ہو گا کہ تمام زمین اس سے زیروز بر ہو جائیگی اور جو زمین کے اندر چیزیں ہیں وہ سب باہر آجائیں گی اور انسان یعنی کا فرلوگ زمین کو پوچھیں گے کہ تجھے کیا ہوا تب اس روز زمین با تیں کرے گی اور اپنا حال بتائے گی.یہ سراسر غلط تفسیر ہے کہ جو قرآن شریف کے سیاق و سباق سے مخالف ہے.اگر قرآن شریف کے اس مقام پر بنظر غور تدبر کرو تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں سورتیں یعنی سورہ البينه اور سورہ الزلزال سورہ القدر کے متعلق ہیں اور آخری زمانہ تک اس کا کل حال بتلا رہی ہیں ماسوا اس کے کہ ہر ایک عقل سلیم سوچ سکتی ہے کہ ایسے
283 بڑے زلزلہ کے وقت میں کہ جب ساری زمین تہ و بالا ہو جائیگی ایسے کا فرکہاں زندہ رہیں گے؟ جو زمین سے اس کے حالات استفسار کریں گے کیا ممکن ہے کہ زمین تو ساری کی ساری زیر وزبر ہو جائے یہاں تک کہ اوپر کا طبقہ اندر اور اندر کا طبقہ باہر آ جائے اور پھر لوگ زندہ بیچ رہیں بلکہ اس جگہ زمین سے مرادزمین کے رہنے والے ہیں اور یہ عام محاورہ قرآن شریف کا ہے کہ زمین کے لفظ سے انسانوں کے دل اور ان کی باطنی قومی مراد ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ ایک جگہ فرماتا ہے اِعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الاَرضَ بَعْدَ مَوْتِهَا.(الحدید:18) اور جیسا کہ فرماتا ہے وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِى خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا (الاعراف:59) ایسا ہی قرآن شریف میں بیسیوں نظیر میں موجود ہیں جو پڑھنے والوں پر پوشیدہ نہیں ماسوا اس کے روحانی واعظوں کا ظاہر ہونا اور ان کے ساتھ فرشتوں کا آنا ایک روحانی قیامت کا نمونہ ہوتا ہے جس سے مردوں میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور جو قبروں کے اندر ہیں وہ باہر آ جاتے ہیں اور نیک اور بدلوگ اپنی سزاو جزا پالیتے ہیں.سواگر سورہ الزلزال کو قیامت کے آثار میں قرار دیا جائے تو اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ ایسا وقت روحانی طور پر ایک قسم کی قیامت ہی ہوتی ہے.خدائے تعالیٰ کے تائید یافتہ بندے قیامت کا ہی روپ بن کر آتے ہیں اور انہیں کا وجو د قیامت کے نام سے موسوم ہوسکتا ہے جن کے آنے سے روحانی مردے زندہ ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور نیز اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ جب ایسا زمانہ آجائے گا کہ تمام انسانی طاقتیں اپنے کمالات کو ظاہر کر دکھائیں گی اور جس حد تک بشری عقول اور افکار کا پرواز ممکن ہے اس حد تک وہ پہنچ جائیں گی اور جن مخفی حقیقتوں کو ابتدا سے ظاہر کرنا مقدر ہے وہ سب ظاہر ہو جائیں گی تب اس عالم کا دائرہ پورا ہو کر یک دفعہ اس کی صف لیپٹ دی جائے گی.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ - وَّ يَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُوالْجَلَلِ وَالْاِ كُرَام (الرحمن: 2827) (ازالہ اوہام رخ جلد 3 صفحہ 161 169) ان آیات میں یعنی إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا.میں حقیقت میں اسی دجالی زمانہ کی طرف اشارہ ہے جس کو ذرہ بھی عقل ہو وہ سمجھ سکتا ہے اور یہ آیت صاف بتلا رہی ہے کہ وہ قوم ارضی علوم میں کہاں تک ترقی کرے گی.شہادت القرآن - رخ جلد 6 صفحہ 317) اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ - حضرت اقدس کے وقت کے لئے مخصوص تھا آج جو أَخْرَجَتِ الْاَرْضُ أَثْقَالَهَا.کا زمانہ ہے یہ سیح موعود ہی کے وقت کے لئے مخصوص تھا چنانچہ اب دیکھو کہ کس قدر ایجادیں اور نٹی کا نیں نکل رہی ہیں.ان کی نظیر پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی ہے.میرے نزدیک طاعون بھی اسی میں داخل ہے، اس کی جڑ زمین میں ہے.پہلا اثر چوہوں پر ہوتا ہے.غرض اس وقت جبکہ زمینی علوم کمال تک پہنچ رہے ہیں تو ہین اسلام کی حد ہو چکی ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ اس پچاس ساٹھ سال میں جس قدر کتابیں اخبار رسالے تو ہین اسلام میں شائع ہوئے ہیں کبھی ہوئے تھے.پس جب نوبت یہاں تک پہنچ چکی
284 ہے تو کوئی مومن نہیں بنتا جب تک اس کے دل میں غیرت نہ ہو.بے غیرت آدمی دیوث ہوتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 477) فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَہ کے مطابق حضرت اقدس کو قبول کرنا ایک بشارت ہے اس وقت ثواب کے لئے مستعد ہو جاؤ اور یہ بھی مت سمجھو کہ اگر اس راہ میں خرچ کریں گے تو کچھ کم ہو جاوے گا خدا تعالیٰ کی بارش کی طرح سب کمیاں پر ہو جائیں گی.مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرَايَّرَهُ - ( ملفوظات جلد اول صفحہ 478) وان الارض زلزلت لنا زلزالا.فاخرجت اثقالا و فجرت الانهار.وسجرت البحار.وجددت المراكب و عطلت العشار.و ان السابقين مارؤاكمثل ما رئينا من النعماء و في كل قدم نعمة وقد خرجت من الاحصاء.ومع ذالك كثرت موت القلوب و قساوة الافئدة.كان الناس كلهم ماتوا ولم يبق فيهم روح المعرفة.الا قليل الذى هو كالمعدوم من الندرة و انا فهمنا مما ذكرنا من ظهور الصفات وتجلى الربوبية و الرحمانية و الرحيمية كمثل الايات.ثم من كثرة الاموات و موت الناس من سم الضلالات ان يوم الحشر و النشر قريب بل على الباب.كـمـا هـو ظاهر من ظهور العلامات و الاسباب.فان الربوبية و الرحمانية والرحيمية تموجت كتموج البحار و ظهرت و تواترت و جرت کالانهار فلاشک آن وقت الحشر و النشور قد اتى.وقد مضت هذه السنة في صحابة خير الورى.ولاشك ان هذا اليوم الدين و يوم الحشر و يوم مالكية رب السماء و ظهور اثارها على قلوب اهل الارضین.و لاشک ان اليوم يوم المسيح الحكم من الله احكم الحاكمين و انه حشر بعد هلاك الناس.و قد مضى نموذجه في زمن عیسی و زمن خاتم النبین فتدبر و لاتكن من الغافلين.ترجمه از مرتب.پس زمین ہماری خاطر خوب جھنجھوڑی گئی ہے اور اس نے اپنے بوجھ (یعنی خزانے ) باہر نکال پھینکے ہیں نہریں جاری کی گئی ہیں.دریا خشک کر دیئے گئے ہیں.نئی نئی سواریاں نکل آئی ہیں اور اونٹنیاں بریکار ہو گئی ہیں.ہمارے پہلوں نے ایسی نعمتیں نہیں دیکھی تھیں جو ہم نے دیکھی ہیں.ہر قدم پر ایک (نئی ) نعمت ( موجود ) ہے اور یہ ( نعمتیں ) حد شمار سے باہر ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی دلوں کی موت اور ان کی تختی بہت بڑھ گئی گویا کہ تمام
285 لوگ مر چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شناخت کرنے کی روح ان میں باقی نہیں رہی سوائے بہت کم لوگوں کے جو شاذ و نادر ہونے کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہیں پس ان صفات کے ظہور سے جن کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں اور ربوبیت رحمانیت اور رحیمیت کی روشن نشانوں کی طرح تجلی سے اور پھر کثرت اموات اور گمراہیوں کے زہر سے لوگوں کے مرنے سے ہم نے جان لیا ہے کہ حشر و نشر کا دن قریب ہے بلکہ دروازے پر ہے جیسا کہ ان علامات اور اسباب کے ظہور سے واضح ہو گیا ہے کیونکہ ربوبیت رحمانیت اور رحیمیت سمندروں کے جوش مارنے کی طرح موجزن ہیں اور ظاہر ہو چکی ہیں اور پے در پے نازل ہورہی ہیں اور دریاؤں کی طرح جاری ہیں.لہذا بلا شبہ اب حشر و نشر کا وقت آ گیا ہے.یہ سنت اللہ رسول اللہ اللہ کے صحابہ کے وقت) میں بھی ہو گزری ہے.پس بلاشبہ یہ زمانہ یوم الدین ہے یوم حشر ہے آسمانوں کے رب کی مالکیت اور اس ( مالکیت ) کے آثار اہل زمین کے دلوں پر ظاہر ہونے کا دن ہے اور (اس امر میں بھی کوئی شک نہیں یہ زمانہ اس مسیح کا زمانہ ہے جو خدائے احکم الحاکمین کی طرف سے حکم ہے اور لوگوں کی ہلاکت (روحانی) کے بعد ایک حشر کا وقت ہے.اور اس کا نمونہ حضرت عیسی کے زمانہ میں بھی اور حضرت خاتم النبین ﷺ کے زمانہ میں بھی گزر چکا ہے.پس تم بھی غور کرو اور غافلوں ( کی صف ) میں شامل نہ ہو.(اعجاز مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 162 تا164) احمدیت میں داخل ہونا ایک شہادت ہے یہ سچ ہے کہ جب ایک شخص محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کسی قسم کی نفسانی اغراض کے بغیر ایک قوم سے قطع تعلق کرتا ہے اور خدا ہی کو راضی کرنے کے لئے دوسری قوم میں داخل ہوتا ہے تو ان تعلقات قومی کے تو ڑنے میں سخت تکلیف اور دکھ ہوتا ہے مگر یہ بات خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑی قابل قدر ہے اور یہ ایک شہادت ہے جس کا بڑا اجر اللہ تعالیٰ کے حضور ملتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے وَمَنْ يَعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًائرَة ( الزلزال : 8) یعنی جو شخص ایک ذرہ برابر بھی نیکی کرتا ہے اسے بھی ضائع نہیں کرتا بلکہ اج دیتا ہے تو پھر جو شخص اتنی بڑی نیکی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے ایک موت اپنے لئے روا رکھتا ہے اسے اجر کیوں نہ ملے؟ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 327)
286 سورة العصر وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَتَوَاصَرُ ابالْحَقِّ، وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ O (العصر : 2 تا 4) حضرت اقدس مثیل آدم ہیں إِنَّ الْقُرْآنَ أَشَارَا فِي أَعْدَادِ سُورَةِ الْعَصْرِ إِلى وَقْتٍ مَّضَى مِنْ آدَمَ إِلَى نَبِيَّنَا بِحَسَابِ الْقَمَرِ فَعُدُّوا اِنْ كُنتُمْ تَشُكُونَ.وَإِذَا تَقَرَّرَ هَذَا فَا عُلَمُوا أَنَّى خُلِقْتُ فِي الَا لُفِ السَّادِسِ فِي آخِرِ اَوْقَاتِه كَمَا خُلِقَ ادَمُ فِي الْيُوْمِ السَّادِسِ فِي آخِرِ سَاعَاتِهِ فَلَيْسَ لِمَسِيحٍ مِّنْ دُوْ نِي مَوْضِعُ قَدَمٍ بَعْدَ زَمَانِي إِنْ كُنْتُمْ تُفَكِّرُونَ.( ترجمه از اصل ) قرآن سورہ عصر کے اعداد میں قمری حساب سے اس وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو آدم سے ہمارے نبی تک گزرا ہے.پس اگر شک ہے تو گن لو.اور جب یہ تحقیق ہو گیا تو جان لو کہ میں چھٹے ہزار کے آخر اوقات میں پیدا کیا گیا ہوں جیسا کہ آدم چھٹے دن میں اس کی آخری ساعت میں پیدا کیا گیا.پس میرے سوا دوسرے مسیح کے لئے میرے زمانہ کے بعد قدم رکھنے کی جگہ نہیں اگر فکر کرو.(خطبہ الہامیہ رخ جلد 16 صفحه 242 تا 243 میری پیدائش اس وقت ہوئی جب چھے ہزار برس میں سے گیارہ برس رہتے تھے.سوجیسا کہ آدم علیہ السلام اخیر حصہ میں پیدا ہوا ایسا ہی میری پیدائش ہوئی.خدا نے منکروں کے عذروں کو توڑنے کے لئے یہ خوب بندوبست کیا ہے کہ مسیح موعود کے لئے چار ضروری علامتیں رکھ دی ہیں.(۱) ایک یہ کہ اس کی پیدائش حضرت آدم کی پیدائش کے رنگ میں آخر ہزار ششم میں ہو.(۲) دوسری یہ کہ اس کا ظہور بروز صدی کے سر پر ہو (۳) تیسری یہ کہ اس کے دعوئی کے وقت آسمان پر رمضان کے مہینہ میں خسوف و کسوف ہو (۴) چوتھی یہ کہ اس کے دعوی کے وقت میں بجائے اونٹوں کے ایک اور سواری دنیا میں پیدا ہو جائے.اب ظاہر چاروں علامتیں ظہور میں آچکی ہیں چنانچہ مدت ہوئی کہ ہزار ششم گذر گیا اور اب قریبا پچاسواں سال اس پر زیادہ جا رہا ہے اور اب دنیا ہزار ہفتم کو بسر کر رہی ہے اور صدی کے سر پر سے بھی سترہ برس گزر گئے اور خسوف و کسوف پر بھی کئی سال گذر چکے اور اونٹوں کی جگہ ریل کی سواری
287 بھی نکل آئی.پس اب قیامت تک کوئی دعوی نہیں کر سکتا کہ میں مسیح موعود ہوں کیونکہ اب مسیح موعود کی پیدائش اور اس کے ظہور کا وقت گذر گیا.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 252 حاشیہ) ہدایت اور ضلالت کے ہزار سالہ ادوار میں حضرت اقدس کا دور ہدایت ساتواں ہزار ہے جیسا کہ سورۃ والعصر میں یعنی اس کے حروف میں ابجد کے لحاظ سے قرآن شریف میں اشارہ فرما دیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں جب وہ سورۃ نازل ہوئی تب آدم کے زمانے پر اسی قدر مدت گذر چکی تھی جو سورۃ موصوفہ کے عددوں سے ظاہر ہے.اس حساب سے انسانی نوع کی عمر میں سے اب اس زمانہ میں چھ ہزار برس گزر چکے ہیں اور ایک ہزار برس باقی ہیں.قرآن شریف میں بلکہ اکثر پہلی کتابوں میں بھی یہ نوشتہ موجود ہے کہ وہ آخری مرسل جو آدم کی صورت پر آئے گا اور مسیح کے نام سے پکارا جائے گا ضرور ہے کہ وہ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا یہ تمام نشان ایسے ہیں کہ تدبر کرنے والے کے لئے کافی ہیں اور ان سات ہزار برس کی قرآن شریف اور دوسری خدا کی کتابوں کے رو سے تقسیم یہ ہے کہ پہلا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا زمانہ ہے اور دوسرا ہزار شیطان کے تسلط کا زمانہ ہے اور پھر تیسرا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا.اور چوتھا ہزار شیطان کے تسلط کا اور پھر پانچواں ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا.یہی وہ ہزار ہے جس میں ہمارے سید و مولیٰ ختمی پناہ حضرت محمد ﷺ دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے اور شیطان قید کیا گیا اور پھر چھٹا ہزار شیطان کے کھلنے اور مسلط ہونے کا زمانہ ہے جو قرون ثلاثہ کے بعد شروع ہوتا اور چودھویں صدی کے سر پر ختم ہو جاتا ہے اور پھر ساتواں ہزار خدا اور اس کے مسیح کا اور ہر ایک خیر و برکت اور ایمان اور صلاح اور تقویٰ اور توحید اور خدا پرستی اور ہر ایک قسم کی نیکی اور ہدایت کا زمانہ ہے.اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں.اس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کئے گئے ہیں.اس تقسیم کو تمام انبیاء نے بیان کیا ہے کسی نے اجمال کے طور پر اور کسی نے مفصل کے طور پر اور یہ تفصیل قرآن شریف میں موجود ہے جس سے مسیح موعود کی نسبت قرآن شریف میں سے صاف طور پر پیشگوئی نکلتی ہے.لیکچر لاھور رخ جلد 20 صفحہ 185 تا 186 )
288 آنحضرت کا وقت عصر کا وقت تھا آپ کا وقت قریب غروب آفتاب ہے خدا تعالیٰ نے اس دنیا کو ایک دن مقرر کر کے آنحضرت ﷺ کے زمانے کو عصر کے وقت سے تشبیہ دی ہے پھر جب آنحضرت علی کا زمانہ عصر ہوا تو پھر اب تیرہ سو چو بیس برس کے بعد اس زمانے کا کیا نام رکھنا چاہیے کیا یہ وقت قریب غروب نہیں اور پھر جب قریب غروب ہوا تو مسیح کے نازل ہونے کا اگر یہ وقت نہیں تو اس کے بعد کوئی وقت نہیں.اسی طرح احادیث صحیحہ میں جو بعض ان کی صحیح بخاری میں پائی جاتی ہیں.آنحضرت ﷺ کے زمانے کو عصر سے تشبیہ دی ہے.پس اس سے ماننا پڑتا ہے کہ ہمارا زمانہ قیامت کے قرب کا زمانہ ہے اور پھر دوسری حدیثوں سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے.کہ عمر دنیا کی سات ہزار سال ہے اور قرآن شریف کی اس آیت سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (الحج:48) یعنی ایک دن خدا کے نزدیک تمہارے ہزار سال کے برابر ہے پس جبکہ خدا تعالیٰ کی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ دن سات ہیں پس اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہے جیسا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کیا کہ سورۃ العصر کے عدد جس قدر حساب جمل کی رو سے معلوم ہوتے ہیں اسی قدر نسل انسان کا آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک تک بحساب قمری گذر چکا تھا کیونکہ خدا نے حساب قمری رکھا ہے اور اس حساب سے ہماری اس وقت تک نسل انسان کی عمر چھ ہزار برس تک ختم ہو چکی ہے اور اب ہم ساتویں ہزار میں ہیں اور یہ ضرور تھا کہ مثیل آدم جس کو دوسرے لفظوں میں مسیح موعود کہتے ہیں چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوا جو جمعہ کے دن کے قائم مقام ہے جس میں آدم پیدا ہوا اور ایسا ہی خدا نے مجھے پیدا کیا.پس اس کے مطابق چھٹے ہزار میں میری پیدائش ہوئی اور یہ عجیب اتفاق ہوا کہ میں معمولی دنوں کی رو سے جمعہ کے دن پیدا ہوا تھا اور جیسا کہ آدم نر اور مادہ پیدا ہوئے تھے میں بھی تو ام کی شکل پر پیدا ہوا تھا.ایک میرے ساتھ لڑکی تھی جو پہلے پیدا ہوئی اور بعد میں اس کے میں پیدا ہوا.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 457 تا 458) 66 الف شهر “ سے مراد ”الف سنة“ ہے وَإِلَيْهِ أَشَارَسُبْحَانَهُ تَعَالَى فِى قَوْلِهِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ يَعْنِي مِنْ أَلْفِ سَنَةٍ.وَكَثَرَتِ الَّا سُتِعَارَاتُ كَمِثْلِهِ فِى كُتُبِ سَابِقَةٍ.ثُمَّ بَعُدَ ذَالِكَ الْأَلْفِ زَمَانُ الْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَزَمَانُ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ فَقَدْتَمَّ الْيَوْمَ اَلْفُ اضَّلَالَةِ وَالْمَوْتِ وَجَاءَ وَقْتُ بَعْدَ الْإِسْلَامِ الْمَوْءُ وُدِ.وَتَمَّتْ حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ أَيّهَا الْمُنْكِرُونَ.فَلا تَكُونُوامِنَ الظَّانِه بِاللهِ ظَنَّ السَّوْءِ.ترجمہ از مرتب.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے قول لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ میں اشارہ فرمایا ہے.اَلْفِ شَھر سے مراد یہاں الف سنة ہے اور ایسے استعارات کتب سابقہ میں کثرت سے آئے ہیں.اسلام پر اس ہزار سالہ موت کے بعد بعث الموت اور مسیح موعود کا زمانہ ہے پس آج ضلالت اور موت کا ہزار
289 سال پورا ہو گیا اور زندہ در گور اسلام کے بعد کا وقت آگیا.اور اسے منکر و! تم پر اللہ کی حجت پوری ہوگئی.پس تم اللہ پر بد گمانی کرنے والے نہ بنو.(خطبہ الہامیہ.رخ جلد 16 صفحہ 330) سورة الفيل حضرت اقدس پیر الہام ہوئی اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحِبِ الْفِيلِ.(الفيل :2) اس وقت اصحاب الفیل کی شکل میں اسلام پر حملہ کیا گیا ہے.مسلمانوں میں بہت کمزوریاں ہیں.اسلام غریب ہے.اور اصحاب الفیل زور میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ وہی نمونہ پھر دکھانا چاہتا ہے.چڑیوں سے وہی کام لے گا.ہماری جماعت ان کے مقابلہ میں کیا ہے.ان کے مقابلہ میں بیچ ہے.ان کے اتفاق اور طاقت اور دولت کے سامنے نام بھی نہیں رکھتے.لیکن ہم اصحاب الفیل کا واقعہ سامنے دیکھتے ہیں کہ کیسی تسلی کی آیات نازل فرمائی ہیں.مجھے یہی الہام ہوا ہے جس سے صاف صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید اپنا کام کر کے رہے گی.ہاں اس پر وہی یقین رکھتے ہیں جن کو قرآن سے محبت ہے جسے قرآن سے محبت نہیں وہ ان باتوں کی کب پرواہ کر سکتا.( ملفوظات جلد اول صفحه 110 تا 111 ) اس پیشگوئی میں ہمارے مخاطب صرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ مجھے ستایا اور گالیاں دینے اور بد زبانی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے بلکہ بعض نے ان میں سے میرے قتل کے فتوے دیئے اور وہ سب لوگ چاہتے ہیں کہ میں قتل کیا جاؤں اور زمین سے نابود کیا جاؤں اور میرا تمام سلسلہ پراگندہ اور نابود ہو جائے مگر خدا جو میرے دل کی حالت کو جانتا ہے وہ وہی فیصلہ کرے گا جو اس کے علم کے موافق ہے.اس نے مجھے اپنے فیصلہ کی خبر دی ہے اور وہ یہ ہے.أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحبِ الْفِيلِ ، اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيل.إِنَّكَ بِمَنْزِلَةِ رَحْى الْإِسْلَامِ اثَرُتُكَ وَ اخْتَرْتُكَ.ترجمہ.تو نے دیکھ لیا یعنی تو ضرور دیکھے گا کہ اصحاب الفیل یعنی وہ جو بڑے حملے والے ہیں جو آئے دن تیرے پر حملہ کرتے ہیں اور جیسا کہ اصحاب الفیل نے خانہ کعبہ کو نابود کرنا چاہا تھا وہ تجھے نا بود کرنا چاہتے ہیں ان کا انجام کیا ہو گا یعنی ان کا وہی انجام ہو گا جو اصحاب الفیل کا ہوا.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 589)
290 سورة قريش لا يُلفِ قُرَيشِ الفِهِمُ رِحْلَةَ الشَّتَاءِ وَالصَّيْفِ فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ.وَّامَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ قادیان مکہ کے مماثل ہے (نوٹ از ایڈیٹر ) عرب صاحب نے ادھر ادھر غیر آبادی کو دیکھ کر عرض کی کہ یہ صرف حضور ہی کا دم ہے کہ جس کی خاطر اس قدر انبوہ ہے ورنہ اس غیر آباد جگہ میں کون اور کب آتا ہے.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سنکر فرمایا : - ) اس کی مثال مکہ کی ہے کہ وہاں بھی عرب لوگ دور دراز جگہوں سے جا کر مال وغیرہ لاتے تھے اور وہاں بیٹھ کر کھاتے تھے اس کی طرف اشارہ ہے اس سورۃ میں لائیے قُرَيْش - الفِهِمْ رِحْلَةَ الشَّتَاءِ وَالصَّيْفِ - ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 674) خدا کا ہم پہ بس لطف و کرم ہے وہ نعمت کون سی باقی جو کم ہجوم خلق ޏ ہے ارض حرم ہے زمین قادیاں اب محترم ہے ظهور عون و نصرت دمیدم ہے حمد سے دشمنوں کی پشت خم ہے سنو اب وقت توحید اتم ہے ستم اب مائلِ ملک عدم ہے خدا نے روک ظلمت کی اٹھا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي بشیر احمد شریف احمد اور مبارکہ کی آمین.در مشین اردو صفحہ 52-53)
291 سورة الكوثر إِنَّا أَعَطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ.فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ.إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ.(2) تا 4) سورۃ الکوثر میں ایک بروزی وجود کا وعدہ ہے إِنَّا اعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ میں ایک بروزی وجود کا وعدہ دیا گیا جس کے زمانہ میں کوثر ظہور میں آئے گا.یعنی دینی برکات کے چشمے بہن نکلیں گے اور بکثرت دنیا میں بچے اہل اسلام ہو جائیں گے.اس آیت میں بھی ظاہری اولاد کی ضرورت کو نظر تحقیر سے دیکھا اور بروزی اولاد کی پیشگوئی کی گئی.(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 441) حضرت اقدس اور آپ کی جماعت آنحضرت کی اولاد ہے اگر آپ کا سلسلہ آپ سے ہی شروع ہو کر آپ پر ہی ختم ہو گیا تو آپ ابتر ٹھہریں گے معاذ اللہ حالانکہ اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابْتَرُ یعنی تجھے تو ہم نے کثرت کیساتھ روحانی اولا د عطا کی ہے جو تجھے بے اولاد کہتا ہے وہی ابتر ہے.آنحضرت ﷺ کا جسمانی فرزند تو کوئی تھا نہیں اگر روحانی طور پر بھی آپ کی اولا د کوئی نہیں تو ایسا شخص خود بتلاؤ کیا کہلا ویگا ؟ میں تو اس کو سب سے بڑھ کر بے ایمانی اور کفر سمجھتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کی نسبت اس قسم کا خیال بھی کیا جاوے.إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَر کسی دوسرے نبی کو نہیں کہا گیا یہ تو آنحضرت ﷺ کا ہی خاصہ ہے.آپ کو اس قدر روحانی اولا د عطا کی گئی جس کا شمار بھی نہیں ہوسکتا اس لئے قیامت تک یہ سلسلہ بدستور جاری ہے.روحانی اولا دہی کے ذریعہ آنحضرت ﷺ زندہ نبی ہیں کیونکہ آپ کے انوار و برکات کا سلسلہ برابر جاری ہے.اور جیسے اولا د میں والدین کے نقوش ہوتے ہیں اسی طرح روحانی اولاد میں آنحضرت لے کے کمالات اور فیوض کے آثار نشانات موجود ہیں.الْوَلَدُ سِرُّ لَا بِیهِ.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 433) یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا إِنَّا أَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ (الکوثر: 2) یہ اس وقت کی بات ہے کہ ایک کافر نے کہا کہ آپ کی اولاد نہیں ہے.معلوم نہیں اس نے ابتر کا لفظ بولا تھا جواللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابْتَرُ.(الکوثر: 3) تیرا دشمن ہی بے اولا در ہے گا.
292 روحانی طور پر جو لوگ آئیں گے وہ آپ ہی کی اولاد سمجھے جائیں گے وہ آپ کے علوم و برکات کے وارث ہوں گے.اور اس سے حصہ پائیں گے.اس آیت کو مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِینَ.(الاحزاب (41) کیساتھ ملا کر پڑھو تو حقیقت معلوم ہو جاتی ہے.اگر آنحضرت ﷺ کی روحانی اولا د بھی نہیں تھی تو پھر معاذ اللہ آپ بتر ٹھہرتے ہیں جو آپ کے اعداء کے لئے ہے اور إِنَّا أَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو روحانی اولا دکثیر دی گئی ہے پس اگر ہم یہ اعتقاد نہ رکھیں گے کہ کثرت کے ساتھ آپکی روحانی اولاد ہوئی ہے تو اس پیشگوئی کے بھی منکر ٹھہریں گے.اس لئے ہر حالت میں ایک سچے مسلمان کو یہ ماننا پڑے گا اور ماننا چاہیے کہ آنحضرت ﷺ کی تاثیرات قدسی ابدالآباد کے لئے ویسی ہی ہیں جیسی تیرہ سو برس پہلے تھیں.چنانچہ ان تاثیرات کے ثبوت کیلئے ہی خدا تعالیٰ نے سلسلہ قائم کیا ہے اور اب وہی آیات برکات ظاہر ہورہے ہیں جو اس وقت ہو رہے تھے.حضرت اقدس آنحضرت کے بیٹے ہیں الہام حضرت اقدس ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 38 تا 39) رات عجیب طرز کا الہام ہوا تھا.اگر چہ اس سے پہلے اس مفہوم کا ایک الہام ہو چکا ہے.مگر یہ طرز عجیب ہے.إِنِّي مَعَكَ يَا ابْنَ رَسُولَ اللَّهِ - دوسرا الہام اس کے ساتھ یہ ہے.سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو.عَلَى دِینِ وَاحِدٍ.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 569) اشعار حضرت اقدس جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم شار کوچه آل محمد است میری جان و دل محمد کے جمال پر فدا ہیں.اور میری خاک آل محمد کے کوچے پر قربان ہے.دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش در هر مکان ندائے جلال محمد است میں نے دل کی آنکھوں سے دیکھا اور عقل کے کانوں سے سنا.ہر جگہ محمد کے جلال کا شہرہ ہے.ایں چشمہ رواں کہ خلق خدا دہم یک قطره زجر کمال محمد است معارف کا یہ دریائے رواں جو میں مخلوق خدا کو دے رہا ہوں یہ محمد کے کمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے.
293 این آتشم از آتش مهر محمدی ست و این آب من ز آب زلال محمد است یہ میری آگ محمد کے عشق کی آگ کا ایک حصہ ہے اور میرا پانی محمد کے مصفا پانی میں سے لیا ہوا ہے.در مشین فارسی صفحہ 145 ) ( اخبار.ریاض ہندا مر تسر مورخہ یکم مارچ 1886ء) سورة الذهب تَبَّتُ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَّ تَبَّ (اللهب : 2) ابو لہب سے مراد حضرت اقدس کا دشمن ہے سورۃ تبت کی پہلی آیت یعنی نَبَّتُ يَدَآ أَبِي لَهَبٍ و تب اس موذی کی طرف اشارہ کرتی ہے جو مظہر جمال احمدی یعنی احمد مہدی کا مکفر اور مکذب اور مہین ہوگا.(تحفہ گولڑو یہ رخ جلد 17 صفحہ 214 تا215) غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ........(سورة الفاتحه (7) سے مراد وہ لوگ ہیں جو سیح موعود کو دکھ دیں گے اور اس دعا کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورۃ تَبَّتُ يَدَا أَبِي لَهَبٍ ہے.الهام حضرت اقدس (تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 218) تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَّ تَبَّ.مَا كَانَ لَهُ اَنْ يَدْخُلَ فِيهَا إِلَّا خَائِفًا وَّ مَا أَصَابَكَ فَمِنَ اللَّهِ - ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور وہ بھی ہلاک ہوا.اور اس کو لائق نہ تھا کہ اس کام میں بجز خائف اور ترسان ہونے کے یوں ہی دلیری سے داخل ہو جاتا اور جو تجھ کو پہنچے وہ تو خدا کی طرف سے ہے.گیا.( براہین احمدیہ.رخ - جلد 1 صفحه 609 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3) (الہام ) ہلاک ہو گئے دونو ہا تھ ابی لہب کے (جبکہ اس نے یہ فتویٰ لکھا ) اور وہ آپ بھی ہلاک ہو اس الہام میں سورۃ تبت کی پہلی آیت کا مصداق اس شخص کو ٹھہرایا ہے جس نے سب سے پہلے خدا کے مسیح موعود پر تکفیر اور توہین کے ساتھ حملہ کیا.اور یہ دلیل اس بات پر ہے کہ قرآن شریف نے بھی اسی سورت میں ابولہب کے ذکر میں علاوہ دشمن رسول اللہ ﷺ کے مسیح موعود کے دشمن کو بھی مراد لیا ہے اور یہ تفسیر اس الہام کے ذریعہ سے کھلی ہے.اس لئے یہ تفسیر سراسر حقانی ہے اور تکلف اور تصنع سے پاک ہے.غرض آیت تَبَّتُ يَدَآ اَبى لَهَب وَ تَبَّ جو قرآن شریف کے آخری سپارہ میں چار آخری سورتوں میں سے پہلی سورۃ ہے جس طرح آنحضرت ﷺ کے موذی دشمنوں پر دلالت کرتی ہے ایسا ہی بطور اشارۃ النص اسلام کے مسیح موعود کے ایذا دہندہ دشمنوں پر اس کی دلالت ہے.خلاصہ کلام یہ کہ آیت
294 تَبَّتْ يَدَآ أَبِي لَهَبٍ وَّ تَب جو قرآن شریف کے آخر میں ہے آیت مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی ایک شرح ہے جو قرآن شریف کے اول میں ہے کیونکہ قرآن شریف کے بعض حصے بعض کی تشریح ہیں.(تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 216 تا 217) سورة الاخلاص اس سورت میں مسیح موعود کی آمد اور غلبہ نصرانیت کی پیشگوئی ہے قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ ه اللهُ الصَّمَدُ ه لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ ، وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (2 تا 5) قرآن نے اپنے اول میں بھی مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اور ضالین کا ذکر فرمایا ہے.اور اپنے آخر میں بھی جیسا کہ آیت لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ بصراحت اس پر دلالت کر رہی ہے اور یہ تمام اہتمام تاکید کیلئے کیا گیا اور نیز اس لئے کہ تا مسیح موعود اور غلبہ نصرانیت کی پیشگوئی نظری نہ رہے اور آفتاب کی طرح چمک اٹھے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 222) دجال یعنی آخری مظہر شیطان کا ذکر قرآن کے اول و آخر میں آخری مظہر شیطان کے اسم دجال کا جو مظہر اتم اور اکمل اور خاتم المظا ہر ہے وہ قوم ہے جس کا قرآن کے اول میں بھی ذکر ہے اور قرآن کے آخر میں بھی یعنی وہ ضالین کا فرقہ جس کے ذکر پر سورۃ فاتحہ ختم ہوتی ہے اور پھر قرآن شریف کی آخری تین سورتوں میں بھی اس کا ذکر ہے یعنی سورۃ اخلاص اور سورہ فلق اور الناس میں سورہ اخلاص میں تو اس قوم کی اعتقادی حالت کا بیان ہے جیسا کہ فرمایا قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَاللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ہ یعنی خدا ایک ہے اور احد ہے یعنی اس میں کوئی ترکیب نہیں نہ کوئی اس کا بیٹا اور نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے پس اس سورت میں تو اس قوم کے عقائد بتلائے گئے.تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 269 تا 270 حاشیہ) الضالین کے مقابل آخر کی تین سورتیں ہیں.اصل تو قُلْ هُوَ الله ہے اور باقی دونوں سورتیں اس کی شرح ہیں.قُلْ هُوَ الله کا ترجمہ یہ ہے کہ نصاری سے کہہ دو کہ اللہ ایک ہے.اللہ بے نیاز ہے.نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کے برابر ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 169) وہ اپنی ذات میں نظیر اور مثیل سے پاک اور منزہ ہے....دونوں سورتوں (اخلاص اور فلق ) میں ایک
295 ہی فرقہ (یعنی نصاریٰ) کا ذکر ہے صرف فرق یہ ہے کہ سورۃ اخلاص میں اس فرقہ کی اعتقادی حالت کا بیان ہے اور سورت فلق میں اس فرقہ کی عملی حالت کا ذکر ہے.(تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 271-272 بقیہ حاشیہ ) حضرت اقدس کا ذکر قرآن کریم کے اول و آخر میں سورۃ فاتحہ میں تین دعائیں سکھائی گئی ہیں (۱) ایک یہ دعا کہ خدا تعالیٰ اس جماعت میں داخل رکھے جو صحابہ کی جماعت ہے اور پھر اس کے بعد اس جماعت میں داخل رکھے جو سیح موعود کی جماعت ہے جن کی نسبت قرآن شریف فرماتا ہے وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 4) غرض اسلام میں یہی دو جماعتیں منعم علیہم کی جماعتیں ہیں اور انہی کی طرف اشارہ ہے آیت صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں کیونکہ تمام قرآن پڑھ کر دیکھو جماعتیں دو ہی ہیں ایک صحابہ کی جماعت.دوسری و اخرین منہم کی جماعت جو صحابہ کے رنگ میں ہے اور وہ مسیح موعود کی جماعت ہے پس جب تم نماز میں یا خارج نماز کے یہ دعا پڑھو کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو دل میں یہی محوظ رکھو کہ میں صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت کی راہ طلب کرتا ہوں.یہ تو سورہ فاتحہ کی پہلی دعا ہے (۲) دوسری دعا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود کو دکھ دیں گے اور اس دعا کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورہ تبت یدا ابی لھب ہے (۳) تیسری دعا ولا الضالین ہے.اور اس کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورہ اخلاص ہے یعنی قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ اور اس کے بعد دو اور سورتیں جو ہیں یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں سورۃ تبت اور سورۃ اخلاص کے بطور شرح ہیں اور ان دونوں سورتوں میں اس تاریک زمانہ سے خدا کی پناہ مانگی گئی ہے جب کہ لوگ خدا کے مسیح کو دکھ دیں گے اور جب کہ عیسائیت کی ضلالت تمام دنیا میں پھیلے گی پس سورہ فاتحہ میں ان تینوں دعاؤں کی تعلیم بطور براعت الاستملال ہے یعنی وہ اہم مقصد جو قرآن میں مفصل بیان کیا گیا ہے سورہ فاتحہ میں بطور اجمال اس کا افتتاح کیا ہے اور پھر سورہ تبت اور سورہ اخلاص اور سورہ فلق اور سورہ الناس میں ختم قرآن کے وقت میں انہی دونوں بلاؤں سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے پس افتتاح کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں سے ہوا.اور پھر اختتام کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں پر کیا گیا.اور یادر ہے کہ ان دونوں فتنوں کا قرآن شریف میں مفصل بیان ہے اور سورہ فاتحہ اور آخری سورتوں میں اجمالاً ذکر ہے.مثلا سورہ فاتحہ میں دعا ولا الضالین میں صرف دو لفظ میں سمجھایا گیا ہے کہ عیسائیت کے فتنہ سے بچنے کے لئے دعا مانگتے رہو جس سے سمجھا جاتا ہے کہ کوئی فتنہ عظیم الشان در پیش ہے جس کے لئے یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ نماز کے پنج وقت میں یہ دعا شامل کر دی گئی اور یہاں تک تاکید کی گئی کہ اس کے بغیر نماز ہو نہیں سکتی جیسا کہ حدیث لاصَلوةَ إِلَّا بِالفَاتِحَةِ سے ظاہر ہوتا ہے.
296 سواب یہ وہی فتنہ کا زمانہ ہے جس میں تم آج ہو.تیرہ سو برس کی پیشگوئی جو سورہ فاتحہ میں تھی آج تم میں اور تمہارے ملک میں پوری ہوئی اور اس فتنہ کی جڑ مشرق ہی نکلا اور جیسا کہ اس فتنہ کا ذکر قرآن کے ابتدا میں فرمایا گیا اور ایسا ہی قرآن شریف کے انتہا میں بھی ذکر فرمایا تا یہ امر موکد ہو کر دلوں میں بیٹھ جائے.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 217 تا220) قرآن شریف کو سورہ فاتحہ سے شروع کر کے غَيْر الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ پر ختم کیا ہے.لیکن جب ہم مسلمانوں کے معتقدات پر نظر کرتے ہیں تو دجال کا فتنہ ان کے ہاں عظیم الشان فتنہ ہے اور یہ ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے ہیں کہ خدا تعالی دجال کا ذکر ہی بھول گیا ہو.نہیں بات اصل یہ ہے کہ دجال کا مفہوم سمجھنے میں لو گوں نے دھو کہ کھایا ہے.سورہ فاتحہ میں جود و فتنوں سے بچنے کی دعا سکھائی ہے.اول غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عليهم - غیر المغضوب سے مراد باتفاق جمیع اہل اسلام یہود ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت امت پر آنے والا ہے جب کہ وہ یہود سے تشابہ پیدا کرے گی اور وہ زمانہ مسیح موعود ہی کا ہے جب کہ اس انکا ر اور کفر پر اسی طرح زور دیا جائے.جیسا کہ حضرت مسیح ابن مریم کے کفر پر یہودیوں نے دیا تھا.غرض اس دعا میں یہ سکھایا گیا کہ یہود کی طرح مسیح موعود کی تو ہین اور تکفیر سے ہم کو بچا اور دوسرا عظیم الشان فتنہ جس کا ذکر سورۃ فاتحہ میں کیا ہے اور جس پر سورۃ فاتحہ کو ختم کر دیا ہے وہ نصاریٰ کا فتنہ ہے.جو وَلَا الضَّالِينَ میں بیان فرمایا ہے.اب جب قرآن شریف کے انجام پر نظر کی جاتی ہے تو وہ بھی ان دونوں فتنوں کے متعلق کھلی کھلی شہادت دیتا ہے مثلاً غَيْرِ الْمَغْضُوبِ کے مقابل میں سورہ تبت یدا ہے مجھے بھی فتویٰ کفر سے پہلے یہ الہام ہوا تھا.وَإِذَ يَمْكُرُبِكَ الَّذِي كَفَرَ أَوْقِدْ لِي يَا هَا مَانُ لَعَلَّى اَطَّلِعُ عَلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَا ظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ - تَبَّتَ يَدَا أَبِي لَهَب وَتَبْ - مَا كَانَ لَهُ أَنْ يَّدْ خُلَ فِيْهَا إِلَّا خَائِفًا ۖ وَمَا أَصَابَكَ فَمِنَ اللهِ.یعنی وہ زمانہ یاد کر جب کہ مکفر تجھ پر تکفیر کا فتوی لگائے گا.اور اپنے کسی حامی کو جس کا لوگوں پر اثر پڑ سکتا ہو کہے گا کہ میرے لئے اس فتنہ کی آگ بھڑکا تا میں دیکھ لوں کہ یہ شخص جو موسیٰ کی طرح کلیم اللہ ہونے کا مدعی ہے خدا اس کا معاون ہے یا نہیں اور میں تو اسے جھوٹا خیال کرتا ہوں.ابی لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور آپ بھی ہلاک ہو گیا اس کو نہیں چاہیے تھا کہ اس میں دخل دیتا مگر ڈر ڈر کر اور جو رنج تجھے پہنچے گا.وہ خدا کی طرف سے ہے.غرض سورۃ تبت میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے اور وَلَا الضَّالِينَ ہے مقابل قرآن شریف کے آخر میں سورہ اخلاص ہے اور اس کے بعد کی دونوں سورتیں سورہ الفلق اور سورہ الناس ان دونوں کی تغییر ہیں.ان دونوں سورتوں میں اس تیرہ و تار زمانہ سے پناہ مانگی گئی ہے جب کہ مسیح موعود پر کفر کا فتو ی لگا کر مغضوب علیھم کا فتنہ پیدا ہوگا اور عیسائیت کی ظلالت اور ظلمت دنیا پر محیط ہونے لگے گی.پس جیسے سورہ فاتحہ میں جو ابتدائے قرآن ہے ان دونو بلاؤں سے محفوظ رہنے کی دعا سکھائی گئی ہے اسی طرح قرآن شریف کے آخر میں بھی ان فتنوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم کی تاکہ یہ بات ثابت ہو جاوے کہ اول با خر نسبتی دارد.ولا الضالین کے مقابل آخر کی تین سورتیں ہیں.اصل تو قل ھو اللہ ہے اور باقی دونوں سورتیں اس کی شرح
297 ہیں.آخر سورۃ میں شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم فرمائی ہے جیسے سورہ فاتحہ کو الضالین پر ختم کیا تھا ویسے ہی آخری سورۃ میں خناس کے ذکر پر ختم کیا تا کہ خناس اور الضالین کا تعلق معلوم ہو...کس طرح پر ایک دائرہ کی طرح خدا نے اس سلسلہ کو جاری رکھا ہوا ہے وَلَا الضَّالِینَ پر سورۃ فاتحہ کو جو قرآن کا آغاز ہے ختم کیا اور پھر قرآن شریف کے آخر میں وہ سورتیں رکھیں جن کا تعلق سورۃ فاتحہ کے انجام سے ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 168 تا 170 ) سورة الفلق قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَه وَمِنْ شَرِّ النَّفْتَتِ فِي الْعُقَدِهِ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَه حضرت اقدس کو دکھ دینے سے پناہ مانگی گئی ہے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں سورہ تبت اور سورہ اخلاص کیلئے بطور شرح کے ہیں اور ان دونوں سورتوں میں اس تاریک زمانہ سے خدا کی پناہ مانگی گئی ہے.جب کہ خدا کے مسیح کو دکھ دیں گے اور جبکہ عیسائیت کی ضلالت تمام دنیا میں پھیلے گی.صبح صادق میں حضرت اقدس کی آمد کی بشارت ہے (تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 218) اور لفظرب الفلق اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس تاریکی کے بعد پھر صبح کا زمانہ بھی آئیگا جو سیح موعود کا زمانہ ہے.ان دونوں سورتوں (اخلاص اور فلق) میں ایک ہی فرقہ کا ذکر ہے صرف فرق یہ ہے کہ سورۃ اخلاص میں اس فرقہ کی اعتقادی حالت بیان ہے اور سورۃ فلق میں اس فرقہ کی عملی حالت کا ذکر ہے اور اس فرقہ کا نام سورۃ الفلق میں شَرِّ مَا خَلَق رکھا گیا ہے یعنی شَرُّ الْبَرِيَّه - اوراحادیث پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال معہود کا نام بھی شر البر یہ ہے کیونکہ آدم کے وقت سے اخیر تک شر میں اس کے برابر کوئی نہیں.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 272 حاشیہ) سورہ فلق میں یعنی آیت وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَب میں آنے والی ایک سخت تاریکی سے ڈرایا گیا اور فقره قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ میں آنیوالی ایک صبح صادق کی بشارت دی گئی اور اس مطلب کے حصول کے لئے سورۃ الناس میں صبر اور ثبات کیساتھ وساوس سے بچنے کیلئے تاکید کی گئی.(تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 285 حاشیہ)
298 سورة الناس قُلْ اَعُوذُ بِرَبِ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ 0 لفظ ناس سے مرادر جال ہے اس کے شر کو مسیح موعود دور کرے گا دجال معہود ایک شخص نہیں ہے ورنہ ناس کا نام اس پر اطلاق نہ پاتا اور اس میں کیا شک ہے کہ ناس کا لفظ صرف گروہ پر بولا جاتا ہے.سو جو گر وہ شیطان کے وساوس کے نیچے چلتا ہے وہ دجال کے نام سے موسوم ہوتا ہے اسی کی طرف قرآن شریف کی اس ترتیب کا اشارہ ہے کہ وہ الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ سے شروع کیا گیا اور اس آیت پر ختم کیا گیا الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ - مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ.پس لفظ الناس سے مراد اس جگہ بھی دجال ہے.ماحصل اس سورت کا یہ ہے کہ تم دجال کے فتنہ سے خدا تعالی کی پناہ پکڑو اس سورہ سے پہلے سورہ اخلاص ہے جو عیسائیت کے اصول کے رد میں ہے بعد اس کے سورۃ فلق ہے جو ایک تاریک زمانہ اور عورتوں کی مکاری کی خبر دے رہی ہے اور پھر آخر ایسے گروہ سے پناہ مانگنے کا حکم ہے جو شیطان کے زیر سایہ چلتا ہے.اس ترتیب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی گروہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں شیطان کہا ہے اور اخیر میں اس گروہ کے ذکر سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں اس گروہ کا غلبہ ہوگا جن کے ساتھ نفثت فی العقد ہوں گی یعنی ایسی عیسائی عورتیں جو گھروں میں پھر کر کوشش کریں گی کہ عورتوں کو خاوندوں سے علیحدہ کریں اور عقد نکاح کو توڑیں.خوب یا درکھنا چاہیے کہ یہ تینوں سورتیں قرآن شریف کی دجالی زمانہ کی خبر دے رہی ہیں اور حکم ہے کہ اس زمانہ سے خدا کی پناہ مانگو تا اس شر سے محفوظ رہو.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شرور صرف آسمانی انوار اور برکات سے دور ہوں گے جن کو آسمانی مسیح اپنے ساتھ لائے گا.(ایام الصلح...خ جلد 14 صفحہ 296تا297)
299 حضرت اقدس مثیل آدم ہیں جیسے سورہ فاتحہ کو الضالین پر ختم کیا تھا ویسے آخری سورۃ میں خناس کے ذکر پر ختم کیا تا کہ خناس اور ضالین کا تعلق معلوم ہو اور آدم کے وقت میں بھی خناس جس کو عبرانی زبان میں نخاش کہتے ہیں جنگ کے لئے آیا تھا اس وقت بھی مسیح موعود کے زمانہ میں جو آدم کا مثیل بھی ہے ضروری تھا کہ وہی شخاش ایک دوسرے لباس میں آتا اور اسی لئے عیسائیوں اور مسلمانوں نے باتفاق یہ بات تسلیم کی ہے کہ آخری زمانہ میں آدم اور شیطان کی ایک عظیم الشان لڑائی ہو گی جس میں شیطان ہلاک کیا جاوے گا.اب ان تمام امور کو دیکھ کر ایک خدا ترس آدمی ڈر جاتا ہے.کیا یہ میرے اپنے بنائے ہوئے امور ہیں جو خدا نے جمع کر دیئے ہیں.کس طرح ایک دائرہ کی طرح خدا نے اس سلسلہ کو رکھا ہوا ہے.وَلَا الصَّالِينَ پر سورت فاتحہ کو جو قرآن کا آغاز ہے ختم کیا اور پھر قرآن شریف کے آخر میں وہ سورتیں رکھیں جن کا تعلق سورت فاتحہ کے انجام سے ہے.ادھر مسیح اور آدم کی مماثلث ٹھہرائی اور مجھے مسیح موعود بنایا تو ساتھ ہی آدم بھی میرا نام رکھا.یہ باتیں معمولی باتیں نہیں ہیں یہ ایک علمی سلسلہ ہے جس کو کوئی رد نہیں کر سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس کی بنیا درکھی ہے.دجال سے مراد نصاری کا گروہ ہے ( ملفوظات جلد دوم صفحه 170 ) بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن شریف نے ابتداء میں بھی ان (عیسائیوں ) کا ذکر کیا ہے جیسے کہ وَلَا الضالین پر سورہ فاتحہ کوختم کیا اور پھر قرآن شریف کو بھی اسی پر تمام کیا کہ قُلْ هُوَ الله سے لے کر قُلْ اَعُوْذُ برب الناس تک غور کرو اور وسط قرآن میں بھی ان کا ہی ذکر کیا اور تكَادُ السَّمَوَاتِ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ (مریم: 91) کہا.بتاؤ اس دجال کا بھی کہیں ذکر کیا جس کا ایک خیالی نقشہ اپنے دلوں میں بنائے بیٹھے ہیں.پھر حدیث میں آیا ہے کہ دجال کے لئے سورہ کہف کی ابتدائی آئیں پڑھو اس میں بھی ان کا ہی ذکر ہے.اور احادیث میں ریل کا بھی ذکر ہے.غرض جہاں تک غور کیا جاوے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ امر ذہن میں آجاتا ہے کہ دجال سے مراد یہی نصاریٰ کا گروہ ہے.دجال مسیح موعود کے مقابلہ میں ہلاک ہوگا ( ملفوظات جلد دوم صفحه 352) جن وہ ہے جو چھپ کر وار کرے اور پیار کے رنگ میں دشمنی کرتے ہیں.وہی پیار جو حوا سے آکر نحاش نے کیا تھا.اس پیار کا انجام وہی ہونا چاہیے جو ابتداء میں ہوا.آدم پر اس سے مصیبت آئی.اس وقت وہ گویا خدا سے بڑھ کر خیر خواہ ہو گیا.اسیطرح یہ بھی وہی حیات ابدی پیش کرتے ہیں جو شیطان نے کی تھی.اس لئے قرآن شریف نے اول اور آخر اس پر ختم کیا.اس میں یہ سر تھا کہ تا بتا یا جاوے کہ ایک آدم آخر میں بھی آنے والا ہے.قرآن شریف
300 کے اول یعنی سورہ فاتحہ کو ولا الضالین پر ختم کیا.یہ امر تمام مفسر بالا تفاق مانتے ہیں کہ ضالین سے عیسائی مراد ہیں اور آخر جس پر ختم ہوا وہ یہ ہے قُلْ اَعُوذُ بِرَب النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسُوسُ فِي صُدُور النَّاس - مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ.سورہ الناس سے پہلے قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ میں خدا تعالیٰ کی توحید بیان فرمائی اور اس طرح پر گویا تثلیث کی تردید گی.اس کے بعد سورۃ الناس کا بیان کر ناصاف ظاہر کرتا ہے کہ عیسائیوں کیطرف اشارہ ہے.پس آخری وصیت یہ کی شیطان سے بچتے رہو.یہ شیطان و ہی نحاش ہے جس کو اس سورت میں خناس کہا.جس سے بچنے کی ہدایت کی.اور یہ جو فر مایا کہ رب کی پناہ میں آؤ اس سے معلوم ہوا کہ یہ جسمانی امور نہیں ہیں بلکہ روحانی ہیں.خدا کی معرفت ، معارف اور حقائق پر پکے ہو جاؤ تو اس سے بچ جاؤ گے اس آخری زمانہ میں شیطان اور آدم کی آخری جنگ کا خاص ذکر ہے.شیطان کی لڑائی خدا اور اس کے فرشتوں سے آدم کے ساتھ ہو کر ہوتی ہے.اور خدا تعالیٰ اس کے ہلاک کرنے کو پورے سامان کے ساتھ اترے گا اور خدا کا مسیح اس کا مقابلہ کرے گا یہ لفظ شیح ہے جس کے معنی خلیفہ ہیں عربی اور عبرانی ہیں.حدیثوں میں مسیح لکھا ہے اور قرآن شریف میں خلیفہ لکھا ہے.غرض اس کیلئے مقدر تھا کہ اس آخری جنگ میں خاتم الخلفاء جو چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو.کامیاب ہو.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 144) سورۃ الفلق اور الناس میں مسیح موعود کے زمانے کا ذکر ہے غرض سورہ تبت میں غیر المغضوب علیہم کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے اور وَلَا الضَّالِينَ کے مقابل قرآن شریف کے آخر میں سورہ اخلاص ہے اور اسکے بعد کی دونوں سورتیں سورۃ الفلق سورۃ الناس اوران دونوں کی تفسیر ہیں.ان دونوں سورتوں میں تیرہ و تار زمانہ سے پناہ مانگی گئی ہے.جبکہ مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگا کر مغضوب علیہم کا فتنہ پیدا ہوگا اور عیسائیت کی ضلالت اور ظلمت دنیا پر محیط ہونے لگے گی پس جیسے سورہ فاتحہ جو ابتدائے قرآن ہے ان دونوں بلاؤں سے محفوظ رہنے کی دعا سکھائی گئی ہے اسی طرح قرآن شریف کے آخر میں بھی ان فتنوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم کی تاکہ یہ ثابت ہو جاوے کہ اول بآخر نسبتے دارد.( ملفوظات جلد دوم صفحه 169) کہو کہ تم یوں دعا مانگا کرو کہ ہم وسوسہ انداز شیطان کے وسوسوں سے جولوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے اور ان کو دین سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے کبھی بطور خود اور کبھی کسی انسان میں ہوکر خدا کی پناہ مانگتے ہیں.وہ خدا جو انسانوں کا پرورندہ ہے ، انسانوں کا بادشاہ ہے، انسانوں کا خدا ہے ، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جو اس میں نہ ہمدردی انسانی رہے گی جو پرورش کی جڑ ہے اور نہ سچا انصاف رہے گا جو بادشاہت کی شرط ہے تب اس زمانے میں خدا ہی خدا ہو گا جو مصیبت زدوں کا مرجع ہوگا یہ تمام کلمات آخری زمانہ کی طرف اشارات ہیں جب کہ امان اور امانت دنیا سے اٹھ جائے گی.(تحفہ گولڑویہ.رخ جلد 17 صفحہ 221 تا 222)
301 حضرت اقدس کا ذکر قرآن کریم کی آخری تین سورتوں میں یکجا طور پر سورۃ اخلاص سورۃ فلق.سورۃ الناس سواب یہ وہی فتنہ کا زمانہ ہے جس میں تم آج ہو.تیرہ سو برس کی پیشگوئی جو سورۃ فاتحہ میں تھی آج تم میں اور تمہارے ملک میں پوری ہوئی اور اس فتنہ کی جڑ مشرق ہی نکلا.اور جیسا کہ اس فتنہ کا ذکر قرآن کے ابتداء میں فرمایا گیا.ایسا ہی قرآن شریف کے انتہا میں بھی ذکر فرما دیا تا یہ امر موکد ہو کر دلوں میں بیٹھ جائے.ابتدائی ذکر جو سورہ فاتحہ میں ہے وہ تو تم بار بارسن چکے ہو.اور انتہائی ذکر یعنی جو قرآن شریف کے آخر میں اس فتنہ عظیمہ کا ذکر ہے اس کی ہم کچھ اور تفصیل کر دیتے ہیں.چنانچہ وہ سورتیں یہ ہیں.(1 - سورة ( قل هو الله احده الله لصمد لم يلد ولم يولده ولم يكن له كفوا احد.(2- سورة ) قل اعوذ برب الفلق من شر ما خلق ومن شر غاسق اذا وقب ال ومن شر النفثت فى العقد ومن شر حاسد اذا حسده (3- سورة ) قل اعوذ برب الناس ملك الناس اله الناس من شر الوسواس الخنّاس الذي يوسوس في صدور الناس من الجنة والناس ترجمہ: تم اے مسلمانو ! نصاری سے کہو کہ وہ اللہ ایک ہے.اللہ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے.اور تم جو نصاری کا فتنہ دیکھو گے اور مسیح موعود کے دشمنوں کا نشانہ بنو گے یوں دعا مانگا کرو کہ میں تمام مخلوق کے شر سے جو اندرونی اور بیرونی دشمن ہیں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو صبح کا مالک ہے.یعنی روشنی کا ظاہر کرنا اس کے اختیار میں ہے اور میں اس اندھیری رات کے اس شر سے جو عیسائیت کے فتنہ اور انکار مسیح موعود کے فتنہ کی رات ہے خدا کی پناہ مانگتا ہوں.اس وقت کے لئے یہ دعا ہے جبکہ تاریکی اپنے کمال کو پہنچ جائے.اور میں خدا کی پناہ ان زن مزاج لوگوں کی شرارت سے مانگتا ہوں جو گنڈوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکتے ہیں
302 یعنی جو عقدے شریعت محمدیہ میں قابل حل ہیں اور جو ایسے مشکلات اور معضلات ہیں جن پر جاہل مخالف اعتراض کرتے ہیں اور ذریعہ تکذیب دین ٹھیراتے ہیں ان پر اور بھی عناد کی وجہ سے پھونکیں مارتے ہیں یعنی شریر لوگ اسلامی دقیق مسائل کو جو ایک عقدہ کی شکل پر ہیں دھوکہ دہی کے طور پر ایک پیچیدہ اعتراض کی صورت پر بنا دیتے ہیں تا لوگوں کو گمراہ کریں.ان نظری امور پر اپنی طرف سے کچھ حاشیے لگا دیتے ہیں اور یہ لوگ دو قسم کے ہیں.ایک تو صریح مخالف اور دشمن دیں ہیں جیسے پادری جو ایسی تراش خراش سے اعتراض بناتے رہتے ہیں.اور دوسرے وہ علماء اسلام ہیں جو اپنی غلطی کو چھوڑنا نہیں چاہتے اور نفسانی پھونکوں سے خدا کے فطری دین میں عقدے پیدا کر دیتے ہیں اور زنانہ خصلت رکھتے ہیں کہ کسی مرد خدا کے سامنے میدان میں نہیں آسکتے صرف اپنے اعتراضات کو تحریف تبدیل کی پھونکوں سے عقدہ لا یخل کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح پر زیادہ تر مشکلات خدا کے مصلح کی راہ میں ڈال دیتے ہیں.وہ قرآن کے مکذب ہیں کہ اس کی منشاء کے برخلاف اصرار کرتے ہیں.اور اپنے ایسے افعال سے جو مخالف قرآن ہیں اور دشمنوں کے عقائد سے ہمرنگ ہیں دشمنوں کو مدددیتے ہیں.پس اس طرح ان عقدوں میں پھونک مار کر انکولا نیحل بنانا چاہتے ہیں.پس ہم ان کی شرارتوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اور نیز ہم ان لوگوں کی شرارتوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں جو حسد کرتے اور حسد کے طریقے سوچتے ہیں اور ہم اس وقت سے پناہ مانگتے ہیں جب وہ حسد کرنے لگیں.اور کہو کہ تم یوں دعا مانگا کرو کہ ہم وسوسہ انداز شیطان کے وسوسوں سے جولوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے اور ان کو دین سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے کبھی بطور خود اور کبھی کسی انسان میں ہو کر.خدا کی پناہ مانگتے ہیں.(تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحه 220 تا 222)
303 باب سوم فہم قرآن اور علوم قرآن الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَ آبَاؤُهُمْ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلَ الْمُجْرِمِيْنَ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ.اس الہام کے رو سے خدا نے مجھے علوم قرآنی عطا کئے ہیں.اور میرا نام اول المومنین رکھا.اور مجھے سمندر کی طرح معارف اور حقائق سے بھر دیا ہے اور مجھے بار بار الہام دیا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الہی اور کوئی محبت الہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں.پس بخدا میں کشتی کے میدان میں کھڑا ہوں.جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا.عنقریب وہ مرنے کے بعد شرمندہ ہوگا.اور اب حجتہ اللہ کے نیچے ہے.اے عزیز کوئی کام دنیا کا ہو یا دین کا بغیر لیاقت کے نہیں ہوسکتا.ضرورت الامام - رخ جلد 13 صفحہ 502) باغ مُرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار مرہم عیسیٰ نے دی تھی محض عیسے کو شفا میری مرہم سے شفا پائے گا ہر ملک و دیار جھانکتے تھے نور کو وہ روزن دیوار سے لیک جب در گھل گئے پھر ہو گئے شتر شعار وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمیدوار براہین احمدیہ حصہ پنجم ر خ جلد 21 صفحہ 147)
304
305 نمبر شمار پہلی فصل 1 اسماء قرآن کریم 2 ابتداء قرآن فہرست مضامین عنوانات صفحہ نمبر شمار 309 311 تلاوت قرآن سے قبل استعاذہ کا حکم 312 4 تلاوت قرآن کریم کی تلقین 5 قرآن شریف کی ایک برکت 6 آداب تلاوت قرآن کریم تلاوت قرآن خوش الحانی سے کرنا تلاوت قرآن کریم اور اعمال صالحہ 9 تلاوت قرآن اور معارف قرآن // 313 // 314 // 315 عنوانات 19 نزول قرآن ضرورت حقہ کے مطابق ہوا ہے صفحہ 323 تیسری فصل مقاصد نزول قرآن 20 قرآن کریم کی علت غائی تقوی ہے 325 21 مقصد نزول قرآن اور اصلاح ثلاثہ 22 قرآن کریم کی تین صفات 23 تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کرنا 326 24 قرآن ہر استعداد کی تکمیل کے لئے نازل ہوا ہے چوتھی فصل 10 قرآن کریم کو ترجمہ اور تفسیر کے 25 فہم قرآن.ہر انسان کی استعداد کے ساتھ پڑھنا 11 قرآن کریم کا صرف ترجمہ 12 | غلط اور نا پاک تلاوت قرآن 13 قرآن کی قرآت دیگر ( مختلفہ ).دوسری 316 // 317 مطابق ہے 26 تفاوت مراتب کی حکمت 27 قرآن کی وہ تعلیم جو مدار ایمان ہے وہ عام فہم ہے 28 فہم قرآن کے مدارج قرآت حدیث صحیح کا حکم رکھتی ہے.318 14 | حضرت اقدس نے دوسری قرأت اختیار فرمائی 15 قرآت ثانیہ کی حکمت دوسری فصل 16 انداز نزول قرآن 17 معارف قرآن کا نزول تدریجی ہے 319 // 320 18 نزول قرآن آنحضرت پر کیوں ہوا؟ 322 29 فہم قرآن کے شرائط 327 328 "/ 329 330 30 قرآن شریف غیر محدود معارف رکھتا ہے 331 31 قرآن کریم کی تفصیل 32 قرآن شریف میں غیر محدود معارف ہونے کا فلسفہ 33 قرآن کریم ذوالمعارف ہے 34 قرآن کریم.ذوالمعارف و ذوالمعانی ہے......امثال 332 333 334 335
306 نمبر شمار عنوانات 35 قرآنی حقائق و معارف ضرورت زمانه کے مطابق نازل ہوتے ہیں پانچویں فصل قرآن کتاب مکنون صفحہ نمبر شمار 338 36 قرآنی تعلیم انسانی فطرت کے مطابق ہے 340 37 روحانی اور جسمانی نظام باہم مخالف نہیں ہیں 341 38 عالم صغیر اور عالم کبیر کا نظام مشابہ ہے 342 39 خدا کا قول اور فعل باہم مطابق ہیں 40 قرآن کا نام ذکر ہے چھٹی فصل 41 قرآن حکیم کی پیشگوئیاں.قرآنی قصے دراصل پیشگوئیاں ہیں // 343 344 42 قرآن بہت سی پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے // عنوانات 52 قرآن کریم کے احسانات 53 بهشت و دوزخ کی حقیقت 54 قرآنی قصص کے فوائد 55 معانی قرآن اور قصص قرآن آٹھویں فصل مقطعات اور سخ آیات 56 | مقطعات 57 نسخ آیات قرآنیہ.ناسخ منسوخ صفحہ 352 353 355 356 357 359 58 حضرت اقدس کا عقیدہ اور تنسیخ آیات قرآنیہ 360 نویس فصل اللہ تعالیٰ کا قسم کھانا 59 اسلام میں قسم کھانا جائز ہے 60 قسم کی فلاسفی 61 غیر اللہ کی قسم کھانا کلمہ کفر ہے 43 قرآن میں انذاری پیشگوئیاں مشروط ہیں ار اللہ تعالیٰ غیر اللہ کی نہیں بلکہ اپنے افعال آنحضرت کے بارے میں پیشگوئی 345 45 اسلام کے بارے میں پیشگوئیاں 46 آخری زمانہ کی پیشگوئیاں 47 ریل کی پیشگوئی 48 یا جوج ماجوج اور دجال کی پیشگوئی 346 347 // 348 کی قسم کھاتا ہے 63 | قسم.جسمانی نظام کو روحانی نظام کی تصدیق کرنے کی غرض سے ہے دسویں فصل حفاظت قرآن کریم 361 1 362 363 64 حفاظت قرآن کریم کی قرآنی پیشگوئی 364 | 65 | تعریف.حفاظت قرآن 49 پیشگوئیوں میں اخفا اور متشابہات ضروری ہے // "/ 66 قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ دائمی ہے 365 67 | تکمیل وعده حفاظت قرآن مختلف ساتویں فصل قصص قرآن حکیم 348 ذرائع سے 68 معنوی حفاظت کے اعتبار سے 366 367 50 فصص اور ہدایت میں فرق ہے 51 قصص قرآن علمی حقیقت رکھتے ہیں.352 69 ارسال مجددین اور مرسلین کے ذریعہ سے ار سلسلہ احمدیہ نے قرآنی قصوں کو بھی 70 بعثت حضرت اقدس کے ذریعہ سے 370 ایک فلسفہ کی صورت میں پیش کیا " 71 حفاظت قرآن کریم تاثیرات کے
307 مر شمار عنوانات صفحہ نمبر شمار عنوانات صفحہ ذریعہ سے 371 کسی کتاب میں نہیں 395 گیارھویں فصل بارھویں فصل عظمت قرآن کریم بمقابل دیگر مصحف سماوی - 91 تا ثیرات قرآن کریم 72 قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے.دیگر صحف کی تکمیل کرتا ہے.372 73 دیگر کتب مختص الزمان مختص القوم تھیں 373 74 قرآن کریم گذشتہ تعلیموں کا متم اور مکمل ہے 375 75 قرآن کریم دنیا کی تمام اقوام کیلئے آیا ہے 376 76 دیگر صحف سماوی محرف مبدل ہیں 377 تیرھویں فصل 396 92 اسالیب قرآن کریم.اصولی فرمودات 402 93 قرآن کریم کا طرز بیان مختلف ہے 94 قرآن طرز موزوں اور معتدل پر نازل ہوا ہے 77 قرآن حکیم کی وحی اولین اور آخرین کی 95 | قرآن کی تعلیم قانون قدرت کے وجیوں سے اقوئی اور اکمل اور ارفع ہے 379 مطابق ہے 403 // 78 وحی صاحب وحی کی فطرت کے مطابق 96 اسلوب قرآن تکرار بیان کے اعتبار سے 404 ہوتی ہے 380 381 97 با عتبارا قوال غیر اللہ 79 قرآن کریم ہر الہام پر یمن ہے 98 | سیاق و سباق بیان کے اعتبار سے 80 قرآن کریم معجزہ ہے اور بے مثل ہے 382 99 محاورہ قرآن کے اعتبار سے 81 آنحضرت پر سب سے اعلیٰ وحی کی تجلی ہوئی 384 100 اسالیب ادب کے اعتبار سے 385 // 101 منطقی دستور کے اعتبار سے 82 | قرآن کا حقیقی معجزہ 83 قرآن باطل سے پاک ہے 84 نبی کریم خاتم الانبیاء ہیں قرآن کریم 103 | ابجد اور حساب جمل کے اعتبار سے آخری شریعت ہے 85 | قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے 86 | کامل کتاب کی تعریف 386 388 // 87 قرآن جمیع کتب کی خوبیوں کا جامع ہے 391 88 | قرآن کریم تمام انسانوں کو ایک قوم بنادے گا 102 ربط کلام کے اعتبار سے 406 407 408 // 409 // 410 411 104 تقابل بیان کے اعتبار سے 105 قرآن کریم کے بیان میں ایک ترتیب ہے 413 106 قرآن کریم میں اول سے آخر تک ظاہری ترتیب کا لحاظ رکھا ہے 414 392 107 قرآن کریم کے بیان میں ترتیب کی اہمیت اور 89 قرآن کریم پہلی کتابوں کا مصدق ہے 393 108 قرآن کریم کی ترتیب الفاظ معجزانہ ہے 415 90 | جو علوم قرآن لے کر آیا ہے وہ دنیا کی 109 ترتیب مضامین قرآن واقعات خارجیه
308 نمبر شمار عنوانات عنوانات صفحہ نمبر شمار صفحہ کے مطابق ہے 121 مذہب اسلام کے اعتبار سے 416 110 قرآن کریم کے بیان کی ترتیب 122 | رفع اختلافات کے اعتبار سے صحیفہ قدرت کے مطابق ہے 417 123 اقوام کے ذکر کے اعتبار سے 111 قرآن کریم کی ترتیب بیان ادنی سے 124 علوم حکمیہ کے اعتبار سے 418 - 125 فطرت انسانی کے اعتبار سے اعلیٰ کی طرف 432 " 433 434 435 112 قرآن کریم کی ترتیب بیان کا لحاظ نہ 126 حضرت اقدس کے ذکر کے اعتبار سے 436 رکھنا تحریف قرآن ہے 113 ترتیب مضامین قرآن.ابتداء اور بطن اور آخر کے اعتبار سے 419 127 دو گروہوں کے اعتبار سے 420 پندرھویں فصل موازنه قرآن و حدیث 437 128 حضرت اقدس کے الہام کشوف و رویاء 438 114 سورۃ الفاتحہ کے مضامین کی تفصیل 129 قرآن یقینی اور قطعی کلام ہے 439 بطن قرآن میں بیان ہوئی ہے 421 ہے 421 130 قرآن صحتِ حدیث پر محک اور ہیمن ہے 443 115 آخر قرآن میں فاتحہ کے مضامین کو 131 قرآن کی قطعیت.قرآن کی حفاظت دوبارہ بیان کیا گیا ہے چودھویں فصل 422 کے اعتبار سے 132 | منصب حدیث 116 مضامین اور موضوعات قرآن حکیم.133 حدیث اور سنت میں فرق اصولی اور مجموعی فرمودات 424 | 134 صحابہؓ.علماء سلف اور محد ثین کا مذہب 117 | موضوعات قرآنیہ 426 | 135 | قرآن اور حدیث میں اختلاف 118 قرآن کریم کا مرکزی موضوع 136 سچی اور صحیح حدیث کی پہچان 427 | 137 | صحت حدیث اور حکم و عدل کا فیصلہ توحید باری تعالیٰ 119 کلمہ توحید.قرآن کریم کی تعلیم کا 138 حضرت اقدس کا مذہب " 444 445 // 447 448 449 450 " 139 جماعت کو نصیحت 428 430 خلاصہ ہے.120 محبت الہی
309 پہلی فصل (1) اسماء قرآن کریم میں نے قرآن کے لفظ میں غور کی تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیشگوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے لائق کتاب ہوگی جبکہ اور کتا نہیں بھی پڑھنے میں اسکے ساتھ شریک کی جائیں گی.اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہوگی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی اور فرمایا فرقان کے بھی یہی معنے ہیں یعنی یہی ایک کتاب حق و باطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا اور کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہوگی.اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو.J......L ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 386) (۳۲) برہان اور نور مبین يَأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَّبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِينًا.( النساء 175 ) لوگو تمہارے پاس یہ یقینی بر ہان پہنچی ہے اور ایک کھلانور تمہاری طرف ہم نے اتارا ہے.( نور القرآن..جلد 9 صفحہ 334 ) (۴) فرقان وَ إِذَا تَيْنَا مُوْسَى الْكِتَبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.(البقرة : 54 فرقان حق و باطل میں فرق کرنے والی.(۵) کتاب قرآن شریف کا نام کتاب بھی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الم ذلك الكتاب لا ريب فيه (البقرة: ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 386) 3-2) لا رطب و لا يا بس الا في كتاب مبين.(الانعام : (60) (اسلامی اصول کی فلاسفی.رخ جلد 10 صفحہ 177 حاشیہ) (1) الحق وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا.( بنی اسرائیل : 82 ) کئی مقام قرآن شریف میں اشارات و تصریحات سے بیان ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺ ) مظہر اتم الوہیت ہیں اور ان کا کلام خدا کا کلام اور ان کا ظہور خدا کا ظہور اور ان کا آنا خدا کا آنا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں اس بارے میں ایک یہ آیت بھی ہے قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا کہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے بھا گنا ہی تھا.حق سے مراد اس جگہ اللہ جل شانہ اور قرآن شریف اور آنحضرت (ع) ہیں اور باطل سے مراد شیطان اور شیطان کا گروہ اور شیطانی تعلیمیں ہیں.سرمہ چشم آریہ -رخ- جلد 2 صفحہ 277 حاشیہ) (۷) بصائر وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوْحَى إِلَيَّ مِنْ رَّبِّي هَذَا بَصَائِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ (الاعراف : 204) اور جس دن تو ان کو کوئی آیت نہیں سناتا.اس دن کہتے ہیں کہ آج تو نے کوئی آیت کیوں نہ گھڑی ان کو کہہ کہ میں تو اسی کلام کی پیروی کرتا ہوں کہ جو میرے رب کی طرف سے مجھ پر نازل ہو رہا ہے اپنے دل سے گھڑ لینا
(۸) الخير 310 قرآن شریف کو خدا تعالیٰ نے خیر کہا ہے چنانچہ فرمایا وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا پس قرآن شریف معارف اور علوم کے مال کا خزانہ ہے.خدا تعالیٰ نے قرآنی معارف اور علوم کا نام بھی مال رکھا ہے.دنیا کی برکتیں بھی اسی کے ساتھ آتی ہیں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 530) (۹) شفاء شِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ.(يونس: 58 ) یعنی قرآن اپنی خاصیت سے تمام بیماریوں کو دور کرتا ہے.اس لئے اس کو منقولی کتاب نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ اعلیٰ درجہ کے معقول دلائل اپنے ساتھ رکھتا اور ایک چمکتا ہوا نور اس میں پایا جاتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی - رخ جلد 10 صفحہ 433) (۱۰) ذکر اب دیکھو.قرآن کریم کا نام ذکر رکھا گیا ہے اس لئے کہ وہ انسان کی اندرونی شریعت یاد دلاتا ہے.جب اسم فاعل کو مصدر کی صورت میں لاتے ہیں، تو وہ مبالغہ کا کام دیتا ہے.جیسازیـد عدل.کیا معنے ؟ زید بہت عادل ہے.قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا، بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاد دلاتا ہے، جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی صورت میں رکھی ہے.حکم ہے ایثار ہے، شجاعت ہے، جبر ہے غضب ہے قناعت ہے وغیرہ.غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی، قرآن نے اسے یاد دلایا.جیسے فنی کتب مكنون ( الواقعہ: 79) یعنی صحیفہ فطرت میں کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا.اسی طرح اس کتاب کا نام ذکر بیان کیا.تا کہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس نور قلب کو جو آسمانی ودیعت انسان کے اندر ہے یاد دلا دے.(ملفوظات.جلد اول صفحہ 60) (11) (۱۴) (۱۳) (۱۲) قول فصل.میزان.امام نور.جو صفات اللہ جل شانہ نے قرآن کریم کیلئے آپ بیان فرمائی ہیں.کیا ان پر ایمان لانا فرض ہے یا نہیں؟ اور اگر فرض ہے تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا اس سبحانہ نے قرآن کریم کا نام عام طور پر قول فصل اور فرقان اور میزان اور امام اور نور نہیں رکھا ؟ اور کیا اس کو جمیع اختلافات کے دور کرنے کا آلہ نہیں ٹھہرایا ؟ اور کیا یہ نہیں فرمایا کہ اس میں ہر ایک چیز کی تفصیل ہے؟ اور ہر ایک امر کا بیان ہے اور کیا یہ نہیں لکھا کہ اس کے فیصلہ کے مخالف کوئی حدیث ماننے کے لائق نہیں؟ اور اگر یہ سب باتیں سچ ہیں تو کیا مومن کیلئے ضروری نہیں جو ان پر ایمان لاوے اور زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرے؟ اور واقعی طور پر اپنا یہ اعتقاد رکھے کہ حقیقت میں قرآن کریم معیار اور حکم اور امام ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ.رخ جلد 4 صفحہ 92)
311 ابتداء قرآن بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم یہ آیت سورۃ ممدوحہ کی آیتوں میں سے پہلی آیت ہے اور قرآن شریف کی دوسری سورتوں پر بھی لکھی گئی ہے اور ایک اور جگہ بھی قرآن شریف میں یہ آیت آئی ہے اور جس قدر تکرار اس آیت کا قرآن شریف میں بکثرت پایا جاتا ہے اور کسی آیت میں اس قدر تکرار نہیں پایا جاتا اور چونکہ اسلام میں یہ سنت ٹھہر گئی ہے کہ ہر ایک کام کے ابتدا میں جس میں خیر اور برکت مطلوب ہو بطریق تبرک اور استمداد اس آیت کو پڑھ لیتے ہیں اس لیے یہ آیت دشمنوں اور دوستوں اور چھوٹوں اور بڑوں میں شہرت پاگئی ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص تمام قرآنی آیات سے بے خبر مطلق ہو تب بھی امید قوی ہے کہ اس آیت سے ہرگز اس کو بے خبری نہیں ہوگی.اب یہ آیت جن کامل صداقتوں پر مشتمل ہے ان کو بھی سن لینا چاہیے سو منجملہ ان کے ایک یہ کہ اصل مطلب اس آیت کے نزول سے یہ ہے کہ تا عاجز اور بے خبر بندوں کو اس نکتہ و معرفت کی تعلیم کی جائے کہ ذات واجب الوجود کا اسم اعظم جو اللہ ہے کہ جو اصطلاح قرآنی ربانی کے رو سے ذات مجمع جمیع صفات کا ملہ اور منزہ عن جمیع رذائل اور معبود برحق اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض پر بولا جاتا ہے اس اسم اعظم کی بہت سی صفات میں سے جو دو صفتیں بسم اللہ میں بیان کی گئی ہیں یعنی صفت رحمانیت در خیمیت انہیں دو صفتوں کے تقاضا سے کلام اٹھی کا نزول اور اس کے انوار و برکات کا صدور ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا کے پاک کلام کا دنیا میں اترنا اور بندوں کو اس سے مطلع کیا جانا یہ صفت رحمانیت کا تقاضا ہے کیونکہ صفت رحمانیت کی کیفیت (جیسا کہ آگے بھی تفصیل سے لکھا جائے گا) یہ ہے کہ وہ صفت بغیر سبقت عمل کسی عامل کے محض جود اور بخشش الہی کے جوش سے ظہور میں آتی ہے جیسا خدا نے سورج اور چاند اور پانی اور ہوا وغیرہ کو بندوں کی بھلائی کے لئے پیدا کیا ہے یہ تمام جود اور بخشش صفت رحمانیت کے رو سے ہے اور کوئی شخص دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ چیزیں میرے کسی عمل کی پاداش میں بنائی گئی ہیں اسی طرح خدا کا کلام بھی کہ جو بندوں کی اصلاح اور راہ نمائی کے لیے اتر اوہ بھی اس صفت کے رو سے اترا ہے اور کوئی ایسا متنفس نہیں کہ یہ دعوی کر سکے کہ میرے کسی عمل یا مجاہدہ یا کسی پاک باطنی کے اجر میں خدا کا پاک کلام کہ جو اس کی شریعت پر مشتمل ہے نازل ہوا ہے.(براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 414-417 حاشیہ نمبر 11) دوسری صداقت کہ جو بسم اللہ الرحمن الرحیم میں مودع ہے یہ ہے کہ یہ آیت قرآن شریف کے شروع کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے اور اس کے پڑھنے سے مدعا یہ ہے کہ تا اس ذات مجمع جمیع صفات کا ملہ سے مدد طلب کی جائے جس کی صفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ رحمان ہے اور طالب حق کے لئے محض تفضل اور احسان سے اسباب خیر اور برکت اور رشد کے پیدا کر دیتا ہے اور دوسری صفت یہ کہ وہ رحیم ہے یعنی سعی اور کوشش کرنے والوں کی کوششوں کو ضائع نہیں کرتا بلکہ انکی جد و جہد پر ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے اور ان کی محنت کا پھل ان کو عطا فرماتا ہے اور یہ دونوں صفتیں یعنی رحمانیت اور رحیمیت ایسی ہیں کہ بغیر ان کے کوئی کام دنیا کا ہو یا دین کا انجام کو پہنچ نہیں سکتا اور اگر غور کر کے دیکھو تو ظاہر ہوگا کہ دنیا کی تمام مہمات کے انجام دینے کے لئے یہ دونوں صفتیں ہر وقت اور ہر لحظہ کام میں لگی ہوئی ہیں.( براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 421 حاشیہ نمبر 11)
312 تلاوت قرآن سے قبل استعاذہ کا حکم اعوذ باالله من الشيطن الرجيم اعلم یا طالب العرفان انه من احل نفسه محل تلاوة الفاتحة و الفرقان فعليه ان يستعيذ من الشيطن كما جاء في القرآن فان الشيطن قديدخل حمى الحضرة كالسارقين.ويدخل الحرم العاصم للمعصومين.فاراد الله ان ينجى عباده من صول الخناس عند قراءة الفاتحة و كلام رب الناس.ويد فعه بحربته منه و يضع الفاس في الراس و يخلص الغافلين من النعاس.فعلم كلمته منه لطرد الشيطان المدحور الى يوم النشور.(اعجاز امسیح.رخ جلد 18 صفحہ 81-82) اے طالب معرفت جان لو کہ جب کوئی شخص سورتہ فاتحہ اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے لگے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اعوذ بالله من الشیطان پڑھے جیسا کہ قرآن کریم میں حکم ہے.کیونکہ کبھی شیطان خدا تعالیٰ کی رکھ میں چوروں کی طرح داخل ہو جاتا ہے اور اس حرم کے اندر آ جاتا ہے جو معصومین کا محافظ ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ سورت فاتحہ اور قرآن مجید کی تلاوت کے وقت اپنے بندوں کو شیطان کے حملہ سے بچائے، اسے اپنے حربہ سے پسپا کرے اس کے سر پر تبرر کھے اور غافلوں کو غفلت سے نجات دے.پس اس نے شیطان کو دھتکارنے کے لیے جو قیامت تک راندہ درگاہ ہے اپنے ہاں سے بندوں کو ایک بات سکھائی.تلاوت قرآن کریم کی تلقین و القرآن الحكيم (يس: 3) فرقان کے بھی یہی معنے ہیں یعنی یہی ایک کتاب حق و باطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا اور کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہوگی اس لئے اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو.بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا ر ہے.ہماری جماعت کو چاہیئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان و دل سے مصروف ہو جائیں اور حدیثوں کے شغل کو ترک کریں.بڑے تاسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتنا اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے.اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے.اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی.( ملفوظات جلد اول صفحہ 386) وَقَالَ الرَّسُوْلُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوْراً.(الفرقان: 31) مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے.وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہیئے.مگر نہیں اس کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی.ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایما سے اس طرف بلاوے تو اسے کذاب اور دجال کہا جاتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 140)
313 قرآن شریف کی ایک برکت ایک شخص نے عرض کی کہ حضور میرے واسطے دعا کی جاوے کہ میری زبان قرآن شریف اچھی طرح ادا کرنے لگے.قرآن شریف ادا کرنے کے قابل نہیں اور چلتی نہیں.میری زبان کھل جاوے.فرمایا کہ:.تم صبر سے قرآن شریف پڑھتے جاؤ.اللہ تعالیٰ تمہاری زبان کو کھول دیگا.قرآن شریف میں یہ ایک برکت ہے کہ اس سے انسان کا ذہن صاف ہوتا ہے اور زبان کھل جاتی ہے.بلکہ اطباء بھی اس بیماری کا اکثر یہ علاج بتایا کرتے ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 105 ) قرآن کو بہت پڑھنا چاہیئے اور پڑھنے کی توفیق خدا تعالیٰ سے طلب کرنی چاہیئے کیونکہ محنت کے سوا انسان کو کچھ نہیں ملتا.کسان کو دیکھو کہ جب وہ زمین میں ہل چلاتا ہے اور قسم قسم کی محنت اٹھاتا ہے تب پھل حاصل کرتا ہے مگر محنت کے لئے زمین کا اچھا ہونا شرط ہے.اسی طرح انسان کا دل بھی اچھا ہو سامان بھی عمدہ ہو سب کچھ کر بھی سکے تب جا کر فائدہ پاوے گا لَيْسَ لِلإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعی.دل کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط باندھنا چاہیئے جب یہ ہوگا تو دل خود خدا سے ڈرتا رہے گا اور جب دل ڈرتا رہتا ہے تو خدا تعالیٰ کو اپنے بندے پر خود رحم آجاتا ہے اور پھر تمام بلاؤں سے اسے بچاتا ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 233) آداب تلاوت قرآن کریم ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن شریف کس طرح پڑھا جائے؟ حضرت اقدس نے فرمایا:.قرآن شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہیئے.حدیث شریف میں آیا ہے رُبَّ قَارِ يَلْعَنُهُ القران یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے.جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے.تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گذر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر دغور سے پڑھنا چاہیئے اور اس پر عمل کیا جاوے.(ملفوظات جلد پنجم صفحه 157) آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا ہے کہ قرآن شریف غم کی حالت میں نازل ہوا ہے.تم بھی اسے غم ہی کی حالت میں پڑھا کرو.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا بہت بڑا حصہ غم والم میں گذرا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحه 152)
314 تلاوت قرآن خوش الحانی سے کرنا سوال.خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا کیسا ہے؟ حضرت اقدس.خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا بھی عبادت ہے اور بدعات جو اس کے ساتھ ملا لیتے ہیں وہاں عبادت کو ضائع کر دیتی ہیں.بدعات نکال نکال کر ان لوگوں نے کام خراب کیا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 162 حاشیہ ) قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سے پڑھنا چاہیئے.بلکہ اس قدر تاکید ہے کہ جوشخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے.اور خود اس میں ایک اثر ہے.عمدہ تقریر خوش الحانی سے کی جائے تو اس کا بھی اثر ہوتا ہے.وہی تقریر ژولیدہ زبانی سے کی جائے تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوتا.جس شئے میں خدا تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے اس کو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے.حضرت داؤد کی زبور گیتوں میں تھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت داؤ د خدا تعالیٰ کی مناجات کرتے تھے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے.( ملفوظات چهارم صفحہ 524) کیا آنحضرت نے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا تھا؟ اگر آپ نے ایک روٹی پر پڑھا ہوتا تو ہم ہزار پر پڑھتے ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش الحانی سے قرآن سنا تھا اور آپ اس پر روئے بھی تھے.جب یہ آیت و جئنا بک على هؤلاء شهيدا ( النساء:42) آپ روئے اور فرمایا بس کر میں آگے نہیں سن سکتا.آپ کو اپنے گواہ گذرنے پر خیال گذرا ہوگا.ہمیں خود خواہش رہتی ہے کہ کوئی خوش الحان حافظ ہو تو قرآن سنیں.آنحضرت نے ہر ایک کام کا نمونہ دکھلا دیا ہے وہ ہمیں کرنا چاہیئے.سچے مومن کے واسطے کافی ہے کہ دیکھ لیوے کہ یہ کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے کہ نہیں.اگر نہیں کیا تو کرنے کا حکم دیا ہے یا نہیں ؟ حضرت ابراہیم آپ کے جد امجد تھے اور قابل تعظیم تھے کیا وجہ کہ آپ نے انکا مولود نہ کروایا؟ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 162-161 ) تلاوت قرآن کریم اور اعمال صالحہ انسان کا کام تو یہ ہے کہ جو کچھ منہ سے کہتا ہے اس کو سوچ کر کہے اور پھر اس کے موافق عمل درآمد بھی کرئے لیکن اگر طوطے کی طرح بولتا جاتا ہے تو یاد رکھو ری زبان سے کوئی برکت نہیں ہے.جب تک دل سے اس کے ساتھ نہ ہو اور اس کے موافق اعمال نہ ہوں.وہ نری باتیں سمجھی جائیں گی جن میں کوئی خوبی اور برکت نہیں کیونکہ وہ نرا قول ہے خواہ قرآن شریف اور استغفار ہی کیوں نہ پڑھتا ہو.خدا تعالیٰ اعمال چاہتا ہے اس لیے بار بار یہی حکم دیا کہ اعمال صالحہ کرو.جب تک یہ نہ ہو خدا کے نزدیک نہیں جاسکتے.بعض نادان کہتے ہیں کہ آج ہم نے دن بھر میں قرآن ختم کر لیا ہے لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ اس سے کیا فائدہ ہوا؟.نری زبان سے تم نے کام لیا مگر باقی اعضاء کو بالکل چھوڑ دیا.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اعضاء اس لئے بنائے ہیں کہ ان سے کام لیا جاوے.یہی وجہ کہ حدیث میں آیا ہے کہ بعض لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت کرتا ہے کیونکہ ان کی تلاوت نرا قول ہی قول ہوتا اور اس پر عمل نہیں ہوتا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 611)
315 تقویٰ کے مضمون پر ہم کچھ شعرلکھ رہے تھے اس میں ایک مصرعہ الہامی درج ہوا.وہ شعر یہ ہے.ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتنا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے “ اس میں دوسرا مصرعہ الہامی ہے.جہاں تقویٰ نہیں وہاں حسنہ حسنہ نہیں اور کوئی نیکی نیکی نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی تعریف میں فرماتا ہے.ھدی للمتقين (البقره:3) قرآن بھی ان لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوتا ہے جو تقوی اختیار کریں.ابتدا میں قرآن کے دیکھنے والوں کا تقویٰ یہ ہے کہ جہالت اور حسد اور بخل سے قرآن شریف کو نہ دیکھیں بلکہ نور قلب کا تقویٰ ساتھ لے کر صدق نیت سے قرآن شریف کو پڑھیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 536) بار بار قرآن شریف کو پڑھو اور تمہیں چاہئے کہ برے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو.یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہوگا.جب تم ایسی سعی کرو گے تو اللہ تعالے پھر تمہیں توفیق دے گا اور وہ کا فوری شربت تمہیں دیا جاوے گا جس سے تمہارے گناہ کے جذبات بالکل سرد ہو جائیں گے اس کے بعد نیکیاں ہی سرزد ہونگی.جب تک انسان متقی نہیں بنتا یہ جام اسے نہیں دیا جا تا اور نہ اس کی عبادات اور دعاؤں میں قبولیت کا رنگ پیدا ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انـــمــــــا يتقبل الله مـــن المتقين (المائدة: 28) یعنی بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں ہی کی عبادات کو قبول فرماتا ہے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ نماز روزہ بھی متقیوں ہی کا قبول ہوتا ہے.تلاوت قرآن اور معارف قرآن ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 656) غرض قرآن شریف کی اصل غرض اور غایت دنیا کو تقوی کی تعلیم دینا ہے.جس کے ذریعہ وہ ہدایت کے منشاء کو حاصل کر سکے.اب اس آیت میں تقویٰ کے تین مراتب کو بیان کیا ہے.الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:4) لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر طوطے کی طرح یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں.جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے.نہ خود سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتہ لگتا ہے.اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لئے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا.زیادہ سے زیادہ یہ کہ سر لگا کر پڑھ لیا اور ق اور ع کو پورے طور پر ادا کر دیا.قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے.مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 284 285)
316 قرآن کریم کو تر جمہ اور تفسیر کیسا تھ پڑھنا قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی نا امید نہ ہو.مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا.یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں.ہمارا خدا علی کل شئ قدیر خدا ہے.قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو.اپنی زبان میں بھی دعائیں کرلو.قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 191) قرآن شریف سے اعراض کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک صوری اور ایک معنوی.صوری یہ کہ کبھی کلام الہی کو پڑھا ہی نہ جاوے جیسے اکثر لوگ مسلمان کہلاتے ہیں مگر وہ قرآن شریف کی عبارت تک سے بالکل غافل ہیں اور ایک معنوی کہ تلاوت تو کرتا ہے مگر اس کی برکات و انوار ورحمت الہی پر ایمان نہیں ہوتا.پس دونو اعراضوں میں سے کوئی اعراض ہو اس سے پر ہیز کرنا چاہیئے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 519) صرف قرآن کا ترجمہ اصل میں مفید نہیں جب تک اس کے ساتھ تفسیر نہ ہو مثلاً غير المغضوب عليهم ولا الضاليین کی نسبت کسی کو کیا سمجھ آ سکتا ہے کہ اس سے مراد یہود نصاری ہیں جب تک کہ کھول کر نہ بتلایا جاوے اور پھر یہ دعا مسلمانوں کو کیوں سکھلائی گئی.اس کا یہی منشا تھا کہ جیسے یہودیوں نے حضرت مسیح کا انکار کر کے خدا کا غضب کمایا.ایسے ہی آخری زمانہ میں اس امت نے بھی مسیح موعود کا انکار کر کے خدا کا غضب کمانا تھا اسی لیے اول ہی ان کو بطور پیشگوئی کے اطلاع دی گئی کہ سعید روحیں اس وقت غضب سے بچ سکیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 449) قرآن کریم کا صرف ترجمہ فرمایا:.ہم ہر گز فتوی نہیں دیتے کہ قرآن کا صرف ترجمہ پڑھا جاوے.اس سے قرآن کا اعجاز باطل ہوتا ہے جو شخص یہ کہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ قرآن دنیا میں نہ رہے بلکہ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو دعائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی ہیں وہ بھی عربی میں پڑھی جاویں دوسرے جو اپنی حاجات وغیرہ ہیں ماثورہ دعا کے علاوہ وہ صرف اپنی زبان میں مانگی جاویں.ایک شخص نے کہا کہ حضور حنفی مذہب میں صرف ترجمہ پڑھ لینا کافی سمجھا گیا ہے فرمایا کہ:.اگر یہ امام اعظم کا مذہب ہے تو پھر ان کی خطا ہے.( ملفوظات جلد سوم جلد265)
317 غلط اور نا پاک تلاوت قرآن وَامِنُوْا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِا يتِيْ ثَمَنًا قَلِيْلاً وَ إِيَّايَ فَاتَّقُوْنِ.(البقره:42) خدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کو نا پاک باتوں سے ملا کر پڑھنا بے ادبی ہے وہ تو صرف روٹیوں کی غرض سے ملاں لوگ پڑھتے ہیں اس ملک کے لوگ ختم و غیرہ دیتے ہیں تو ملاں لوگ لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہیں کہ شور با اور روٹی زیادہ ملے وَلَا تَشْتَرُوا بِايَاتِي ثَمَنًا قَلِيلاً یہ کفر ہے جو طریق آج کل پنجاب میں نماز کا ہے میرے نزدیک ہمیشہ سے اس پر بھی اعتراض ہے.ملاں لوگ صرف مقررہ آدمیوں پر نظر کر کے جماعت کراتے ہیں.ایسا امام شرعا نا جائز ہے.صحابہ میں کہیں نظیر نہیں ہے کہ اس طرح اجرت پر امامت کرائی ہو پھر اگر کسی کو مسجد سے نکالا جاوے تو چیف کورٹ تک مقدمہ چلتا ہے یہاں تک کہ ایک دفعہ ایک ملانے نماز جنازہ کی 6 تا 7 تکبیریں کہیں لوگوں نے پوچھا تو جواب دیا کہ یہ کام روز مرہ کے محاورہ سے یاد رہتا ہے.کبھی سال میں ایک آدمی مرتا ہے تو کیسے یاد رہے.جب مجھے یہ بات بھول جاتی ہے کہ کوئی مرا بھی کرتا ہے تو اس وقت کوئی میت ہوتی ہے اسی طرح ایک ملا یہاں آ کر رہا ہمارے میرزا صاحب نے اسے محلے تقسیم کر دیئے ایک دن وہ روتا ہوا آیا کہ مجھے جو محلہ دیا ہے اس کے آدمیوں کے قد چھوٹے ہیں اس لئے ان کے مرنے پر جو کپڑا ملے گا اس سے چادر بھی نہ بنے گی.اس وقت ان لوگوں کی حالت بہت ردی ہے صوفی لکھتے ہیں کہ مردہ کا مال کھانے سے دل سخت ہو جاتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 159-158)
318 قرآن کی قراءت دیگر (مختلفه ) دوسری قرآت حدیث صحیح کا حکم رکھتی ہے وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيِّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَنُ فِي أَمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللهُ اللهِ ، وَ اللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (الحج: 53) پوچھا گیا کہ قرآن کا جونزول ہوا ہے وہ یہی الفاظ ہیں یا کس طرح؟ فرمایا:.یہی الفاظ ہیں اور یہی خدا کی طرف سے نازل ہوا.قرآت کا اختلاف الگ امر ہے مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَّلَا نَبِي میں لا مُحَدَّث قرات شاذہ ہے اور یہ قرآت صحیح حدیث کا حکم رکھتی ہے جس طرح نبی اور رسول کی وحی محفوظ ہوتی ہے اسی طرح محدث کی وحی بھی محفوظ ہوتی ہے جیسا کہ اس آیت سے پایا جاتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 449) وَ إِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ.( سورة النساء : 160) اور یا درکھنا چاہیئے کہ جبکہ آیت قَبلَ مَوْتِہ کی دوسری قرآت قَبْلَ مَوْتِهِمْ موجود ہے جو بموجب اصول محمد ثین کے حکم صحیح حدیث کا رکھتی ہے یعنی ایسی حدیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے تو اس صورت میں محض ابو ہریرہ کا اپنا قول رد کرنے کے لائق ہے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے مقابل پر پیچ اور لغو ہے اور اس پر اصرار کرنا کفر تک پہنچا سکتا ہے اور پھر صرف اسی قدر نہیں بلکہ ابو ہریرہ کے قول سے قرآن شریف کا باطل لازم آتا ہے کیونکہ قرآن شریف تو جابجا فرماتا ہے کہ یہود و نصاری قیامت تک رہیں گے انکا بکلی استیصال نہیں ہو گا.اور ابو ہریرہ کہتا ہے کہ یہود کا استیصال بکلی ہو جائے گا اور یہ سراسر مخالف قرآن شریف ہے.جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے اس کو چاہیئے کہ ابو ہریرہ کے قول کو ایک ردی متاع کی طرح پھینک دے بلکہ چونکہ قرآت ثانی حسب اصول محدثین حدیث صحیح کا حکم رکھتی ہے اور اس جگہ آیت قبل موتہ کی دوسری قرأت قبل موتہم موجود ہے جس کو حدیث صحیح سمجھنا چاہیئے.اس صورت میں ابو ہریرہ کا قول قرآن اور حدیث دونوں کے مخالف ہے فلاشک انه باطل و من تبعه فانه مفسد بطال.براہین احمدیہ حصہ پنجم رخ جلد 21 صفحہ 410)
319 حضرت اقدس نے دوسری قرأت اختیار فرمائی لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ (التوبه : 128 ) انفس کے لفظ میں ایک قرآت زبر کے ساتھ ہے یعنی حرف فا کی فتح کے ساتھ اور اسی قرآت کو ہم اس جگہ ذکر کرتے ہیں اور دوسری قرأت بھی یعنی حرف فا کے پیش کے ساتھ بھی اس کے ہم معنی ہے.کیوں کہ خدا قریش کو مخاطب کرتا ہے کہ تم جو ایک بڑے خاندان میں سے ہو.یہ رسول بھی تو تمہیں میں سے ہے یعنی عالی خاندان ہے.تریاق القلوب.رخ جلد 15 صفحہ 281 حاشیہ ) قرآت ثانیہ کی حکمت غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ (الروم: 3-4) یہ آیت اول اس موقع پر نازل ہوئی جبکہ کسری شاہ ایران نے بعض حدود پر لڑائی کر کے قیصر شاہ روم کو مغلوب کر دیا تھا پھر جب اس پیشگوئی کے مطابق بضع سنین میں قیصر روم شاہ ایران پر غالب آ گیا تو پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ الخ جس کا مطلب یہ تھا کہ رومی سلطنت اب تو غالب آ گئی ہے مگر پھر بضع سِنِيْنَ میں اسلام کے ہاتھ سے مغلوب ہوں گے مگر باوجود اس کے کہ دوسری قرأت میں غلبت کا صیغہ ماضی معلوم تھا اور سَيَغْلِبُونَ کا صیغہ مضارع مجہول تھا مگر پھر بھی پہلی قرآت جس میں غُلِبَت کا صیغہ ماضی مجہول تھا اور سَيَغْلِبُونَ مضارع معلوم تھا منسوخ استلاوت نہیں ہوئی بلکہ اسی طرح جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن شریف سناتے رہے جس سے اس سنت اللہ کے موافق جو قرآن شریف کے نزول میں ہے یہ ثابت ہوا کہ ایک مرتبہ پھر مقدر ہے کہ عیسائی سلطنت روم کے بعض حدود کو پھر اپنے قبضہ میں کرلے گی.اسی بناء پر احادیث میں آیا ہے کہ مسیح کے وقت میں سب سے زیادہ دنیا میں روم ہوں گے یعنی نصاری.اس تحریر سے ہماری غرض یہ ہے کہ قرآن اور احادیث میں روم کا لفظ بھی بروزی طور پر آیا ہے یعنی روم سے اصل روم مراد نہیں ہیں بلکہ نصاری مراد ہیں.(تحفہ گولڑویہ رخ جلد 17 صفحہ 308-307)
320 دوسری فصل انداز نزول قرآن وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنَهُ تَرْتِيلاً.(الفرقان:33 ) کافر کہتے کہ کیوں قرآن ایک مرتبہ ہی نازل نہ ہوا.ایسا ہی چاہئے تھا تا وقتا فوقتا ہم تیرے دل کو تسلی دیتے رہیں اور تا وہ معارف اور علوم جو وقت سے وابستہ ہیں اپنے وقت پر ہی ظاہر ہوں کیونکہ قبل از وقت کسی بات کا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے سواس مصلحت سے خدا نے قرآن شریف کو تئیس برس تک نازل کیا تا اس مدت تک موعودنشان بھی ظاہر ہو جائیں.(حقیقۃ الوحی.رخ جلد 22 صفحہ 357) معارف قرآن کا نزول تدریجی ہے یہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ وہ دابتہ الارض یعنی طاعون کا کیڑا زمین میں سے نکلے گا اس میں یہی بھید ہے کہ تاوہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ اس وقت نکلے گا کہ جب مسلمان اور ان کے علماء زمین کی طرف جھک کر خود دابتہ الارض بن جائیں گے.ہم اپنی بعض کتابوں میں یہ لکھ آئے ہیں کہ اس زمانہ کے ایسے مولوی اور سجادہ نشین جو تقی نہیں ہیں اور زمین کی طرف جھکے ہوئے ہیں یہ دابتہ الارض ہیں اور اب ہم نے اس رسالہ میں یہ لکھا ہے کہ دابتہ الارض طاعون کا کیڑا ہے.ان دونوں بیانوں میں کوئی شخص تناقض نہ سمجھے.قرآن شریف ذوالمعارف ہے اور کئی وجوہ سے اس کے معنے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد نہیں اور جس طرح قرآن شریف یک دفعہ نہیں اترا اسی طرح اس کے معارف بھی دلوں پر یک دفعہ نہیں اترتے.اسی بناء پر متفقین کا یہی مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معارف بھی یک دفعہ آپ کو نہیں ملے بلکہ تدریجی طور پر آپ نے علمی ترقیات کا دائرہ پورا کیا ہے ایسا ہی میں ہوں جو بروزی طور پر آپ کی ذات کا مظہر ہوں.آنحضرت کی تدریجی ترقی میں سر یہ تھا کہ آپ کی ترقی کا ذریعہ محض قرآن تھا.پس جبکہ قرآن شریف کا نزول تدریجی تھا اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل معارف بھی تدریجی تھی اور اس قدم پرمسیح موعود ہے جو اس وقت تم میں ظاہر ہوا علم غیب خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے جس قد روہ دیتا ہے اسی قدر ہم لیتے ہیں.( نزول اسیح - ر-خ- جلد 18 صفحہ 421)
321 فَتَعَلَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهِ، وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا.(طه: 115) انبیاء علیہم السلام ہمیشہ دعا میں لگے رہتے ہیں اور ہمیشہ زیادہ نور ما نگتے رہتے ہیں.وہ کبھی اپنی روحانی ترقی پر سیر نہیں ہوتے اس لئے ہمیشہ استغفار میں لگے رہتے ہیں کہ خدا ان کی ناقص حالت کو ڈھانچے اور پورا روشنی کا پیمانہ دے اسی وجہ سے خدائے تعالیٰ اپنے نبی کو فرماتا ہے قُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا یعنی ہمیشہ علم کے لئے دعا کرتارہ کیونکہ جیسا خدا بے حد ہے ایسا ہی اس کا علم بھی بے حد ہے.(ریویو آف ریلی چند جلد 2 نمبر 6 صفحہ 244) انبیاء کے علم میں بھی تدریجا ترقی ہوتی ہے اس واسطے قرآن شریف میں آیا ہے قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 456) وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَهُ تَرْتِيْلاً.(الفرقان: 33) کافر کہتے ہیں کہ کیوں قرآن ایک مرتبہ ہی نازل نہ ہوا.ایسا ہی چاہئے تھا تا وقتا فوقتا ہم تیرے دل کو تسلی دیتے رہیں اور تا وہ معارف اور علوم جو وقت سے وابستہ ہیں اپنے وقت پر ہی ظاہر ہوں کیونکہ قبل از وقت کسی بات کا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے سو اس مصلحت سے خدا نے قرآن شریف کو تئیس برس تک نازل کیا تا اس مدت تک موعود نشان بھی ظاہر ہو جائیں.انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے مکتب میں تعلیم پانے والے ہوتے ہیں اور تلامیذ الرحمن کہلاتے ہیں.ان کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قرآن شریف میں آیا ہے گذلِكَ لِنتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَهُ تَرْتِيلا.پس میں اس بات کو خوب جانتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کی حالت کیسی ہوتی ہے.جس دن نبی مامور ہوتا (حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 357) ہے اس دن اور اس کی نبوت کے آخری دن میں ہزاروں کوس کا فرق ہو جاتا ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 246) أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظَّلَّ وَ لَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلاً.ثُمَّ قَبَضْهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيْرًا.وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا - (الفرقان: 46 تا 48) فرمایا کہ ہم تاریکی کو روشنی کے ذریعہ سے تھوڑا تھوڑا دور کرتے جاتے ہیں تا اندھیرے میں بیٹھنے والے اس روشنی سے آہستہ آہستہ منتفع ہو جائیں اور جو یک دفعی انتقال میں حیرت و وحشت متصور ہے وہ بھی نہ ہو سو اسی طرح جب دنیا پر روحانی تاریکی طاری ہوتی ہے تو خلقت کو روشنی سے منتفع کرنے کے لئے اور نیز روشنی اور تاریکی میں جو فرق ہے وہ فرق ظاہر کرنے کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے آفتاب صداقت نکلتا ہے اور پھر وہ آہستہ آہستہ دنیا پر طلوع کرتا جاتا ہے.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 657-656)
322 نزول قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں ہوا ؟ وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيْمِ.أَهُمْ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا نَضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ (الزخرف :33-32) کفار کہتے ہیں کہ یہ قرآن مکہ اور طائف کے بڑے بڑے مالداروں اور رئیسوں میں سے کسی بھاری رئیس اور دولت مند پر کیوں نازل نہ ہوا تا اس کی رئیسانہ شان کے شایاں ہوتا اور نیز اس کے رعب اور سیاست اور مال خرچ کرنے سے جلد تر دین پھیل جاتا.ایک غریب آدمی جس کے پاس دنیا کی جائیداد میں سے کچھ بھی نہیں کیوں اس عہدے سے ممتاز کیا گیا پھر آگے بطور جواب فرمایا اهم يقسمون رحمت ربک کیا قسام ازل کی رحمتوں کا تقسیم کرنا ان کا اختیار ہے یعنی یہ خداوند حکیم مطلق کا فعل ہے کہ بعضوں کی استعداد میں اور ہمتیں پست رکھیں اور وہ زخارف دنیا میں پھنسے رہے اور رئیس اور امیر اور دولت مند کہلانے پر پھولتے رہے اور اصل مقصود کو بھول گئے اور بعض کو فضائل روحانیت اور کمالات قدسیہ عنایت فرمائے اور وہ اس محبوب حقیقی کی محبت میں محو ہو کر مقرب بن گئے اور مقبولان حضرت احدیت ہو گئے.( براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 204 حاشیہ) وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً.(الشورى:52) ہر یک وحی نبی منزل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے جیسے حضرت موسی علیہ السلام کے مزاج میں جلال اور غضب تھا.توریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی.حضرت مسیح علیہ السلام کے مزاج میں حلم اور نرمی تھی سوانجیل کی تعلیم بھی حلم اور نرمی پر مشتمل ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقع تھا.نہ ہر جگہ علم پسند تھا اور نہ ہر مقام غضب مرغوب خاطر تھا بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقع کے ملوظ طبیعت مبارک تھی.سو قرآن شریف بھی اسی طرز موزوں و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع شدت ورحمت و ہیبت و شفقت و نرمی و درشتی ہے.براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 193 حاشیہ)
323 نزول قرآن ضرورت حقہ کے مطابق ہوا ہے خدا کا پاک اور کامل کلام کہ جو اس کے فرائض اور احکام کو دنیا میں لایا اور اس کے ارادوں سے خلق اللہ کو مطلع کیا انہیں خاص وقتوں میں نازل ہوا ہے کہ جب اس کے نازل ہو نیکی ضرورت تھی ہاں یہ ضرور ہے کہ خدا کا پاک کلام انہیں لوگوں پر نازل ہو کہ جو تقدس اور پاک باطنی میں اعلیٰ درجہ رکھتے ہوں کیونکہ پاک کو پلید سے کچھ میل اور مناسبت نہیں لیکن یہ ہرگز ضرور نہیں کہ ہر جگہ تقدس اور پاک باطنی کلام الہی کے نازل ہونے کو مستلزم ہو بلکہ خدائے تعالیٰ کی حقانی شریعت اور تعلیم کا نازل ہونا ضرورات حقہ سے وابستہ ہے پس جس جگہ ضرورات حقہ پیدا ہو گئیں اور زمانہ کی اصلاح کے لیے واجب معلوم ہوا کہ کلام الہی نازل ہواُسی زمانہ میں خدائے تعالیٰ نے جو حکیم مطلق ہے اپنے کلام کو نازل کیا.(براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 416 حاشیہ نمبر 11) وَ بِالْحَقِّ أَنْزَلْنَهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيرًا( بنی اسرائیل: 106 ) اور ہم نے اس کلام کو ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ یہ اترا ہے یعنی یہ کلام فی حد ذاتہ حق اور راست ہے اور اس کا آنا بھی تھا اور ضرورتا ہے یہ نہیں کہ فضول اور بے فائدہ اور بے وقت نازل ہوا ہے.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 650-649) اِعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ.(الحديد: 18 ) پس رحمان مطلق جیسا جسم کی غذا کو اس کی حاجت کے وقت عطا فرماتا ہے ایسا ہی وہ اپنی رحمت کا ملہ کے تقاضا سے روحانی غذا کو بھی ضرورت حقہ کے وقت مہیا کر دتیا ہے ہاں یہ بات درست ہے کہ خدا کا کلام انہیں برگزیدہ لوگوں پر نازل ہوتا ہے جن سے خدا راضی ہے اور انہیں سے وہ مکالمات اور مخاطبات کرتا ہے جن سے وہ خوش ہے مگر یہ بات ہرگز درست نہیں کہ جس سے خدا راضی اور خوش ہو اس پر خواہ نخواہ بغیر کسی ضرورت حقہ کے کتاب آسمانی نازل ہو جایا کرے یا خدائے تعالیٰ یونہی بلا ضرورت حقہ کسی کی طہارت لازمی کی وجہ سے لازمی اور دائمی طور پر اس سے ہر وقت باتیں کرتا رہے بلکہ خدا کی کتاب اسی وقت نازل ہوتی ہے جب فی الحقیقت اس کے نزول کی ضرورت پیش آجائے.( براھین احمدیہ.ر.خ جلد 1 صفحہ 420-419 حاشیہ نمبر 11)
324 إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ.وَ مَا أَدْرَا لَكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ.تَنَزَّلُ الْمَلِئِكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ.سَلَمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر 2 تا 6 ) اس سورت کا حقیقی مطلب جو ایک بھاری صداقت مشتمل ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں.اس قاعدہ کلی کا بیان فرمانا ہے کہ دنیا میں کب اور کس وقت میں کوئی کتاب اور پیغمبر بھیجا جاتا ہے.سو وہ قاعدہ یہ ہے کہ جب دلوں پر ایک ایسی غلیظ ظلمت طاری ہو جاتی ہے کہ یکبارگی تمام دل رو بد نیا ہو جاتے اور پھر رو بد نیا ہونے کی شامت سے ان کے تمام عقائد و اعمال و افعال و اخلاق و آداب اور نیتوں اور ہمتوں میں اختلال کلی راہ پا جاتا ہے اور محبت الہیہ دلوں سے بکلی اٹھ جاتی ہے اور یہ عام وبا ایسا پھیلتا ہے کہ تمام زمانہ پر رات کی طرح اندھیرا چھا جاتا ہے تو ایسے وقت میں یعنی جب وہ اندھیرا اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے.رحمتِ الہیہ اس طرف متوجہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس اندھیری سے خلاصی بخشے اور جن طریقوں سے ان کی اصلاح قرین مصلحت ہے ان طریقوں کو اپنے کلام میں بیان فرما دے.سو اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے آیت ممدوحہ میں اشارہ فرمایا کہ ہم نے قرآن کو ایک ایسی رات میں نازل کیا ہے جس میں بندوں کی اصلاح اور بھلائی کے لئے صراط مستقیم کی کیفیت بیان کرنا اور شریعت اور دین کی حدود کو بتلانا از بس ضروری تھا.( براھین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 637 تا 639)
325 تیسری فصل مقاصد نزول قرآن قرآن کریم کی علت غائی تقویٰ ہے پھر دیکھو کہ تقویٰ ایسی اعلیٰ درجہ کی ضروری شے قرار دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی علت غائی اسی کو ٹھہرایا ہے چنانچہ دوسری سورۃ کو جب شروع کیا ہے تو یوں ہی فرمایا ہے: اسم ذلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى للْمُتَّقِينَ (البقره: 3-2) میر امذ ہب یہی ہے کہ قرآن کریم کی یہ ترتیب بڑا مرتبہ رکھتی ہے.خدا تعالیٰ نے اس میں علل اربعہ کا ذکر فرمایا ہے.علت فاعلی نمادی صوری غائی.ہر ایک چیز کے ساتھ یہ چار ہی ملل ہوتی ہیں.قرآن کریم نہایت اکمل طور پر ان کو دکھاتا ہے.آلم اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بہت جاننے والا ہے.اس کلام کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے.یعنی خدا اس کا فاعل ہے.ذلِكَ الْكِتُبُ یہ مادہ بتایا.یا یہ کہو کہ یہ علت مادی ہے.علت صوری لَا رَيْبَ فِيهِ ہر ایک چیز میں شک و شبہ اور ظنون فاسدہ پیدا ہو سکتے ہیں.مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے کہ اس میں کوئی ریب نہیں ہے.لاریب اسی کے لیے ہے.اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی شان یہ بتائی ہے کہ لاریب فیہ تو ہر ایک سلیم الفطرت اور سعادت مند انسان کی روح اچھلے گی اور خواہش کرنے گی کہ اس کی ہدا یتوں پر عمل کرے.مقصد نزول قرآن اور اصلاح ثلاثہ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 282) فالغرض ان تعليم كتاب الله الاحكم ورسول الله صلى عليه وسلم كان منقسما على ثلثة اقسام الاول ان يـجـعـل الـوهوش اناسًا و يعلمهم اداب الانسانية و يهب لهم مدارک و حواسًا.والثانى ان يجعلهم بعد الانسانية اكمل الناس فى محاسن الاخلاق.والثالث ان يرفعهم من مقام الاخلاق الى ذرى مرتبة حب الخلاق.ويوصل الى منزل القرب و الرضاء والمعية والفناء والذوبان والمحوية اعنى الى مقام ينعدم فيه اثر الوجود و الاختيار.ويبقى الله وحده كما هو يبقى بعد فناء هذا العالم بذاته القهار.پس خلاصہ یہ کہ قرآن شریف کی تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت تین قسم پر منقسم تھی.پہلی یہ کہ وحشیوں کو انسان بنایا جائے.اور انسانی آداب اور حواس ان کو عطا کئے جائیں.اور دوسری یہ کہ انسانیت سے ترقی دے کر اخلاق کا ملہ کے درجے تک ان کو پہنچایا جائے اور تیسری یہ کہ اخلاق کے مقام سے ان کو اٹھا کر محبت الہی کے مرتبہ تک پہنچایا جائے.اور یہ کہ قرب اور رضاء اور معیت اور فنا اور محویت کے مقام ان کو عطا ہوں.یعنی وہ مقام جس میں وجود اور اختیار کا نشان باقی نہیں رہتا اور خدا کیلا باقی رہ جاتا ہے.جیسا کہ وہ اس عالم کے فنا کے بعد اپنی ذات قہار کے ساتھ باقی رہیگا.نجم الہدگی - ر- خ- جلد 14 صفحہ 35-34) قرآن کریم کی تین صفات هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدى وَالْفُرْقَانِ (البقره: 186) یعنی قرآن میں تین صفتیں ہیں.اول یہ کہ جو علوم دین لوگوں کو معلوم نہیں رہے تھے ان کی طرف ہدایت فرماتا ہے.دوسرے جن علوم میں پہلے کچھ اجمال چلا آتا تھا ان کی تفصیل بیان کرتا ہے.تیسرے جن امور میں اختلاف اور تنازعہ پیدا ہو گیا تھا ان میں قول فیصل بیان کر کے حق اور باطل میں فرق ظاہر کرتا ہے.( بر بین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 225 حاشیہ نمبر 11)
326 پس وہ تین قسم کی اصلاحیں جن کا ابھی ہم ذکر کر چکے ہیں.ان کا در حقیقت یہی زمانہ تھا.پس اسی وجہ سے قرآن شریف دنیا کی تمام ہدایتوں کی نسبت اکمل اور اتم ہونے کا دعوی کرتا ہے کیونکہ دنیا کی اور کتابوں کو ان تین قسم کی اصلاحوں کا موقعہ نہیں ملا اور قرآن شریف کو ملا.اور قرآن شریف کا یہ مقصد تھا کہ حیوانوں سے انسان بنادے اور انسان سے باخلاق انسان بناوے اور باخلاق انسان سے باخدا انسان بنادے.اسی واسطے ان تین امور پر قرآن شریف مشتمل ہے.قرآنی تعلیم کا اصل منشاء اصلاحات ثلاثہ ہیں.اور طبیعی حالتیں تعدیل سے اخلاق بن جاتی ہیں اور قبل اس کے جو ہم اصلاحات ثلاثہ کا مفصل بیان کریں یہ ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن شریف میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جوز بر دستی مانی پڑے بلکہ تمام قرآن کا مقصد صرف اصلاحات ثلاثہ ہیں اور اس کی تمام تعلیموں کا لب لباب یہی تین اصلاحیں ہیں.اور باقی تمام احکام ان اصلاحوں کے لئے بطور وسائل کے ہیں.تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کرنا اسلامی اصول کی فلاسفی...خ.جلد 10 صفحہ 329) الراكِتُبْ أَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّوْرِ بإِذْن رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ.(ابراهيم: 2) یہ عالی شان کتاب ہم نے تجھ پر نازل کی تاکہ تو لوگوں کو ہر ایک قسم کی تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کرے.یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جس قدر انسان کے نفس میں طرح طرح کے وساوس گذرتے ہیں اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ان سب کو قرآن شریف دور کرتا ہے اور ہر یک طور کے خیالات فاسدہ کو مٹاتا ہے اور معرفت کامل کا نور بخشتا ہے یعنی جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے اور اس پر یقین لانے کے لئے معارف و حقائق درکار ہیں سب عطا فرماتا ہے.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 225 حاشیہ نمبر 11 ) قرآن.ہر استعداد کی تکمیل کے لئے نازل ہوا ہے یہ ہرگز سچ نہیں کہ جو کچھ قرآن کریم کے معارف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ان سے زیادہ قرآن کریم میں کچھ بھی نہیں.یہ اقوال ہمارے مخالفوں کے صاف دلالت کر رہے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی غیر محدود عظمتوں اور خوبیوں پر ایمان نہیں لاتے اور ان کا یہ کہنا کہ قرآن کریم ایسوں کے لیے اترا ہے جو امی تھے اور بھی اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ وہ قرآن شناسی کی بصیرت سے بکلی بے بہرہ ہیں.وہ نہیں سمجھتے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محض امیوں کے لیے نہیں بھیجے گئے بلکہ ہر یک رتبہ اور طبقہ کے انسان ان کی امت میں داخل ہیں.اللہ جل شانہ فرماتا ہے قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (اعراف آیت 159 ) پس اس آیت سے ثابت ہے کہ قرآن کریم ہر ایک استعداد کی تکمیل کے لیے نازل ہوا ہے در حقیقت آیت وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النبيين (احزاب آیت 41) میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے.کرامات الصادقین - ر- خ- جلد 7 صفحہ 61)
327 چوتھی فصل فہم قرآن.ہرانسان کی استعداد کے مطابق ہے قُلْ يَاهْلَ الْكِتَبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْهَدُوْا بِأَنَّا مُسْلِمُوْنَ (آل عمران: 65) قرآنی تعلیم کا دوسرا کمال کمال تفہیم ہے یعنی اس نے ان تمام راہوں کو سمجھانے کے لیے اختیار کیا ہے جو تصور میں آسکتے ہیں اگر ایک عامی ہے تو اپنی موٹی سمجھ کے موافق اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اگر ایک فلسفی ہے تو اپنے دقیق خیال کے مطابق اس سے صداقتیں حاصل کرتا ہے اور اس نے تمام اصول ایمانیہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے دکھلایا ہے اور آیت تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ.میں اہل کتاب پر یہ حجت پوری کرتا ہے کہ اسلام وہ کامل مذہب ہے کہ زوائد اختلافی جو تمہارے ہاتھ میں ہیں یا تمام دنیا کے ہاتھ میں ہیں ان زوائد کو نکال کر باقی اسلام ہی رہ جاتا ہے.جنگ مقدس.ر.خ.جلد 6 صفحہ 289) غرض اس میں شک نہیں کہ تفاضل درجات امر حق ہے.اس کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان امور پر مواظبت کرنے سے ہر ایک سالک اپنی اپنی استعداد کے موافق درجات اور مراتب کو پالے گا یہی مطلب ہے اس آیت کا.ویــت كل ذي فضل فضله - (هود: 4) لیکن اگر زیادت لے کر آیا ہے تو خدا تعالیٰ اس مجاہدہ میں اس کو زیادت دے دیگا اور اپنے فضل کو پالے گا جو طبعی طور پر اس کا حق ہے.ذی الفضل کی اضافت ملکی ہے.مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ محروم نہ رکھے گا.قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعَانِ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِ وَيُمِيْتُ فَامِنُوْا بِاللَّهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 349) الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَتِهِ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ.(الاعراف: 159) قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا الجزو نمبر 9 پھر جبکہ ثابت ہے کہ قرآن شریف کو تمام دنیا کے طبائع سے کام پڑا تو تم خود ہی سوچو کہ اس صورت میں لازم تھا یا نہیں کہ وہ ہر یک طور کی طبیعت پر اپنی عظمت اور حقانیت کو ظاہر کرتا اور ہر ایک طور کے شبہات کو مٹاتا.ماسوا اس کے اگر چہ اس کلام میں امی بھی مخاطب ہیں مگر یہ تو نہیں کہ خدا امیوں کوامی ہی رکھنا چاہتا تھا بلکہ وہ یہ چاہتا تھا کہ جو طاقتیں انسانیت اور عقل کی ان کی فطرت میں موجود ہیں وہ مکمن قوت سے جیز فعل میں آجائیں اگر نادان کو ہمیشہ کے لیے نادان ہی رکھنا ہے تو پھر تعلیم کا کیا فائدہ ہوا خدا نے تو علم اور حکمت کی طرف آپ ہی رغبت دیدی ہے.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 493 ت498)
328 اِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَلَمِيْنَ.لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ.(التكوير: 28 29) قرآن - ذِكْرٌ لِلْعَالَمِینَ ہے یعنی ہر ایک قسم کی فطرت کو اس کے کمالات مطلوبہ یاد دلاتا ہے اور ہر یک رتبہ کا آدمی اس سے فائدہ اٹھاتا ہے.جیسے ایک عامی ویسا ہی ایک فلسفی.یہ اس شخص کے لئے اترا ہے جو انسانی استقامت کو اپنے اندر حاصل کرنا چاہتا ہے یعنی انسانی درخت کی جس قدر شاخیں ہیں یہ کلام ان سب شاخوں کا پرورش کرنے والا اور حد اعتدال پر لانے والا ہے اور انسانی قومی کے ہریک پہلو پر اپنی تربیت کا اثر ڈالتا ہے.کرامات الصادقین - ر - خ - جلد 7 صفحہ 52) تفاوت مراتب کی حکمت مَالَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلَّهِ وَقَارًا.وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا.(نوح:15-14) حکمت تفاوت مراتب رکھنے میں انواع و اقسام کی قدرتوں کا ظاہر کرنا اور اپنی عظمت کی طرف توجہ دلانا ہے جیسا فرمایا مَالَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلَّهِ وَقَارًا.وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا.یعنی تم کو کیا ہو گیا کہ تم خدا کی عظمت کے قائل نہیں ہوتے حالانکہ اس نے اپنی عظمت ظاہر کرنے کے لئے تم کو مختلف صورتوں اور سیرتوں پر پیدا کیا.یعنی اختلاف استعدادات وطبائع اسی غرض سے حکیم مطلق نے کیا تا اس کی عظمت و قدرت شناخت کی جائے.( براہین احمدیہ.رخ - جلد 1 صفحہ 207-206 حاشیہ نمبر 11) قرآن کی وہ تعلیم جو مدارا ایمان ہے وہ عام فہم ہے فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُوْمِ.وَ إِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِيْمٌ.إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيْمٌ.فِي كِتَب مَّكْنُوْنَ.لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (الواقعة: 76 تا80) اور یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ اگر علم قرآن مخصوص بندوں سے خاص کیا گیا ہے تو دوسروں سے نافرمانی کی حالت میں کیونکر مواخذہ ہو گا کیونکہ قرآن کریم کی وہ تعلیم جو مدار ایمان ہے وہ عام فہم ہے جس کو ایک کا فر بھی سمجھ سکتا ہے اور ایسی نہیں ہے کہ کسی پڑھنے والے سے مخفی رہ سکے اور اگر وہ عام فہم نہ ہوتی تو کارخانہ تبلیغ ناقص رہ جاتا مگر حقائق معارف چونکہ مدار ایمان نہیں صرف زیادت عرفان کے موجب ہیں اس لئے صرف خواص کو اس کو چہ میں راہ دیا کیونکہ وہ دراصل مواہب اور روحانی نعمتیں ہیں جو ایمان کے بعد کامل الایمان لوگوں کو ملا کرتی ہیں.کرامات الصادقین...خ.جلد 7 صفحہ 53) قرآن مشکل نہیں ہے فرمایا :.بعض نادان لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم قرآن شریف کو نہیں سمجھ سکتے اس کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیئے کہ یہ بہت مشکل ہے.یہ ان کی غلطی ہے.قرآن شریف نے اعتقادی مسائل کو ایسی فصاحت کے ساتھ سمجھایا ہے جو بے مثل اور بے مانند ہے اور اس کے دلائل دلوں پر اثر ڈالتے ہیں یہ قرآن ایسا بلیغ اور فصیح ہے کہ عرب کے بادیہ نشینوں کو جو بالکل ان پڑھ تھے سمجھا دیا تھا تو پھر اب کیونکر اس کو نہیں سمجھ سکتے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 177)
329 فہم قرآن کے مدارج فہم قرآن کے تین مدارج ہیں اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ.(النور: 36) یہ تو عام فیضان ہے جس کا بیان آیت الله نُورُ السَّمواتِ وَ الْاَرْضِ میں ظاہر فرمایا گیا.یہی فیضان ہے جس نے دائرہ کی طرح ہر یک چیز پر احاطہ کر رکھا ہے جس کے فائز ہونے کے لئے کوئی قابلیت شرط نہیں لیکن بمقابلہ اس کے ایک خاص فیضان بھی ہے جو مشروط بشرائط ہے اور انہیں افراد خاصہ پر فائز ہوتا ہے جن میں اس کے قبول کرنے کی قابلیت و استعداد موجود ہے یعنی نفوس کا ملہ انبیاء علیہم السلام پر جن میں سے افضل و اعلیٰ ذات جامع البرکات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے دوسروں پر ہر گز نہیں ہوتا.( براہین احمدیہ - ر - خ - جلد 1 صفحہ 192 حاشیہ نمبر (11) اور دوسرا کمال جو بطور نشان کے امام الاولیاء اور سید الاصفیاء کے لئے ضروری ہے وہ فہم قرآن اور معارف کی اعلیٰ حقیقت تک وصول ہے.یہ بات ضروری طور پر یا د ر کھنے کے لائق ہے کہ قرآن شریف کی ایک ادنیٰ تعلیم ہے اور ایک اوسط اور ایک اعلیٰ.اور جو اعلیٰ تعلیم ہے.وہ اس قدر نوار معارف اور حقائق کی روشن شعاعوں اور حقیقی حسن اور خوبی سے پُر ہے جواد نی یا اوسط استعداد کا اس تک ہرگز گزر نہیں ہو سکتا.بلکہ وہ اعلیٰ درجہ کے اہل صفوت اور ارباب طہارت فطرت ان سچائیوں کو پاتے ہیں جن کی سرشت سراسر نور ہو کر نور کو اپنی طرف کھینچتی ہے.تریاق القلوب.ر.خ.جلد 15 صفحہ 418) راز قرآن را کجا فهمد کسے بہر نورے نور می باید بسے تب تک کوئی قرآنی اسرار کو کیونکر سمجھ سکتا ہے نور کے سمجھنے کے لئے بہت سا نو ر باطن ہونا چاہئے.ایں نہ من قرآں ہمیں فرموده است اندرو شرط تطهر بوده است یہ میری بات نہیں بلکہ قرآن نے بھی یہی فرمایا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے پاک ہونے کی شرط ہے.گر بقرآں ہر کسے را راه بود پس چرا شرط تطهر را فزود له اگر ہر شخص قرآن کو ( خود ہی سمجھ سکتا تو خدا نے تطہر کی شرط کیوں زاید لگائی.نور را داند کسے کو نور شد و از حجاب سرکشی با دور شد وہی شخص سمجھتا ہے جو خودنور ہو گیا ہوا ور سرکشی کے حجابوں سے دور ہو گیا ہو.ل لا يمسه الا المطهرون.( درشین فارسی متر جم صفحه 227-226 ) ( سراج منیر.رخ جلد 12 صفحہ 96)
330 فہم قرآن کے شرائط تزکیہ نفس.اشراق اور روشن ضمیری کیونکہ جس قدر کمالات قرآنیہ کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے وہ اہل کشف اور اور اہل باطن پر در حقیقت ظاہر ہو چکے ہیں اور ہوتے ہیں اور حارث کی روایت کی ہر ایک زمانہ میں تصدیق ہو رہی ہے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ قرآن کریم بلاشبہ جامع حقائق و معارف اور ہر زمانہ کی بدعات کا مقابلہ کرنے والا ہے.اس عاجز کا سینہ اس کی چشم دید برکتوں اور حکمتوں سے پر ہے میری روح گواہی دیتی ہے کہ حارث اس حدیث کے بیان کرنے میں بیشک سچا ہے بلا شبہ ہماری بھلائی اور ترقی علمی اور ہمارے دائی فتوحات کیلئے قرآن ہمیں دیا گیا ہے اور اس کے رموز اور اسرار غیر متناہی ہیں جو بعد تزکیہ نفس اشراق اور روشن ضمیری کے ذریعہ سے کھلتے ہیں.خدا تعالیٰ نے جس قوم کے ساتھ کبھی ہمیں ٹکرا دیا اس قوم پر قرآن کے ذریعہ سے ہی ہم نے فتح پائی وہ جیسا ایک امی دیہاتی کی تسلی کرتا ہے ویسا ہی ایک فلسفی معقولی کو اطمینان بخشتا ہے.یہ نہیں کہ وہ صرف ایک گروہ کیلئے اترا ہے دوسرا گر وہ اس سے محروم رہے بلا شبہ اس میں ہر ایک شخص اور ہر یک زمانہ اور ہر ایک استعداد کے لئے علاج موجود ہے.جولوگ معکوس الخلقت اور ناقص الفطرت نہیں وہ قرآن کی ان عظمتوں پر ایمان لاتے ہیں.اور انکے انوار سے مستفید ہوتے ہیں.(مباحثہ لدھیانہ - ر-خ- جلد 4 صفحہ 110) وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَ مَايَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَلِمُوْنَ (العنكبوت: 44) جس طرح آفتاب کا قدر آنکھ ہی سے پیدا ہوتا ہے اور روز روشن کے فوائد اہل بصارت ہی پر ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح خدا کی کلام کا کامل طور پر انہیں کو قدر ہوتا ہے کہ جو اہل عقل ہیں جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے وَ تِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَ مَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَلِمُوْنَ.یعنی یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں پر ان کو معقول طور پر وہی سمجھتے ہیں کہ جو صاحب علم اور دانشمند ہیں.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 300، 301 حاشیہ نمبر 11)
331 قرآن شریف غیر محدود معارف رکھتا ہے وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَبٍ مُّبِيْنٍ.(الانعام: 60) میں نے کئی بار اشتہار دیا ہے کہ کوئی ایسی سچائی پیش کرو جو ہم قرآن شریف سے نہ نکال سکیں.لا رطب و لَا يَابِسٍ إِلَّا فنی کتب مُّبِینٍ.یہ ایک تا پیدا کنار سمندر ہے اپنے حقائق اور معارف کے لحاظ سے اور اپنی فصاحت و بلاغت کے رنگ میں.اگر بشر کا کلام ہوتا تو سطحی خیالات کا نمونہ دکھایا جاتا مگر یہ طرز ہی اور ہے جو بشری طرزوں سے الگ اور ممتاز ہے.اس میں با وجود اعلیٰ درجہ کی بلند پروازی کے نمود و نمائش بالکل نہیں.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 455) ماسوا اس کے یہ بھی ان حضرات کی سراسر غلطی ہے کہ قرآن کریم کے معانی کو بزمانہ گذشتہ محدود مقید سمجھتے ہیں.اگر اس خیال کو تسلیم کر لیا جاوے تو پھر قرآن شریف معجزہ نہیں رہ سکتا.اور اگر ہو بھی تو شاید ان عربیوں کے لئے جو بلاغت شناسی کا مذاق رکھتے ہیں.جاننا چاہیئے کہ کھل کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر ایک اہل زبان پر روشن ہوسکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر ایک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یوروپین یا امریکن یا کسی اور ملک کا ہوملزم وساکت و لا جواب کر سکتے ہیں.وہ غیر محدود و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں اور ہر ایک زمانہ کے خیالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں اگر قرآن شریف اپنے حقائق ودقائق کے لحاظ سے ایک محدود چیز ہوتی تو ہرگز وہ معجزہ تامہ نہیں ٹھہر سکتا تھا.فقط بلاغت و فصاحت ایسا امر نہیں ہے جس کی اعجازی کیفیت ہر ایک خواندہ ناخواندہ کو معلوم ہو جائے کھلا کھلا اعجاز اس کا تو یہی ہے کہ وہ غیر محدود معارف و دقائق اپنے اندر رکھتا ہے جو شخص قرآن شریف کے اس اعجاز کو نہیں مانتا وہ علم قرآن سے سخت بے نصیب ہے.و من لم يؤمن بذالک الاعجاز فو الله ماقدر القرآن حق قدره وما عرف الله حق معرفته وما و قرالرسول حق توقيره.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 257-255) اے بندگان خدا ! یقیناً یاد رکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہر ایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے اور ہر یک زمانہ اپنی نئی حالت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کرتا ہے یا جس کے اعلیٰ معارف کا دعوی کرتا ہے اس کی پوری مدافعت اور پورا الزام اور پورا پورا مقابلہ قرآن شریف میں موجود ہے کوئی شخص بر ہمو ی بدھ مذہب والا یا آریہ یا کسی اور رنگ کا فلسفی کوئی ایسی الہی صداقت نکال نہیں سکتا جو قرآن شریف میں پہلے سے موجود نہ ہو.قرآن شریف کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور جس طرح صحیفۂ فطرت کے عجائب وغرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں یہی حال ان صحف مطہرہ کا ہے تا خدائے تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 258-257)
332 اور مولویوں کا یہ کہنا کہ قرآن کے معنے اسی قدر درست ہیں جو احادیث صحیحہ سے نکل سکتے ہیں.اور اس سے بڑھ کر بیان کرنا معصیت ہے چہ جائیکہ موجب کمال سمجھا جائے.یہ سراسر خیالات باطلہ ہیں.ہمارا یہ دعوی ہے کہ قرآن اصلاح کامل اور تزکیہ اتم اور اکمل کے لئے آیا ہے اور وہ خود دعوی کرتا ہے کہ تمام کامل سچائیاں اس کے اندر ہیں جیسا کہ فرماتا ہے فِيهَا كُتُبْ قَيِّمَة.تو اس صورت میں ضرور ہے کہ جہاں تک سلسلہ معارف اور علوم الہیہ کا ممتد ہو سکے وہاں تک قرآنی تعلیم کا بھی دامن پہنچا ہوا ہو اور یہ بات صرف میں نہیں کہتا بلکہ قرآن خود اس صفت کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور اپنا نام اکمل الکتب رکھتا ہے پس ظاہر ہے کہ اگر معارف الہیہ کے بارے میں کوئی حالت منتظرہ باقی ہوتی جس کا قرآن شریف نے ذکر نہیں کیا تو قرآن شریف کا حق نہیں تھا کہ وہ اپنا نام اکمل الکتب رکھتا.حدیثوں کو ہم اس سے زیادہ درجہ نہیں دے سکتے کہ وہ بعض مقامات میں بطور تفصیل اجمالات قرآنی ہیں سخت جاہل اور نا اہل وہ اشخاص ہیں کہ جو قرآن شریف کی تعریف اس طور سے نہیں کرتے جو قرآن شریف میں موجود ہے بلکہ اس کو معمولی اور کم درجہ پر لانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں.(سراج منیر.ر.خ.جلد 12 صفحہ 41) قرآن کے اعجازی معارف جو غیر محدود ہیں ان پر ایک یہ بھی دلیل ہے کہ ظاہر اور معمولی معنے تو ہر ایک مومن اور فاسق اور مسلم اور کافر کو معلوم ہیں اور کوئی وجہ نہیں جو معلوم نہ ہوں.تو پھر نبیوں اور عارفوں کو ان پر کیا فوقیت ہوئی.اور پھر ا سکے کیا معنے ہوئے کہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ.(الواقعه: 80) قرآن کریم کی تفصیل (سراج منیر.رخ- جلد 12 صفحہ 42) پھر فرمایا ثُمَّ فَصَلَتْ (هود:2).ایک تو وہ تفصیل ہے جو قرآن کریم میں ہے دوسری یہ کہ قرآن کریم کے معارف و حقائق کے اظہار کا سلسلہ قیامت تک دراز کیا گیا ہے.ہر زمانے میں نئے معارف اور اسرار ظاہر ہوتے ہیں فلسفی اپنے رنگ میں طبیب اپنے مذاق پر صوفی اپنے طرز بیان پر کرتے ہیں اور پھر یہ تفصیل بھی حکیم وخبیر خدا نے رکھی ہے.حکیم اس کو کہتے ہیں کہ جن چیزوں کا علم مطلوب ہو وہ کامل طور پر ہو اور پھر عمل بھی کامل ہو.ایسا کہ ہر ایک چیز کو اپنے اپنے محل و موقع پر رکھ سکے.حکمت کے معنی وَضعُ الشَّيْء فِي مَحَلَّه اور خَبِير مبالغہ کا صیغہ ہے.یعنی ایسا وسیع علم کہ کوئی چیز اس کی خبر سے باہر نہیں، چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب مجید کو خاتم الکتب ٹھہرایا تھا اور اس کا زمانہ قیامت تک دراز تھا.وہ خوب جانتا تھا کہ کس طرح پر تعلیمیں ذہن نشین کرنی چاہئیں، چنانچہ اس کے مطابق تفاصیل کی ہیں.پھر اس کا سلسلہ جاری رکھا کہ جو مجد دو مصلح احیاء دین کے لئے آتے ہیں وہ خود مفصل آتے ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 346)
333 قرآن شریف میں غیر محدود معارف ہونے کا فلسفہ اگر دوسرے معنی بھی ہوں تو ان دونوں معنوں میں کوئی تناقض پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہدایت قرآنی میں کوئی نقص عائد حال ہوتا ہے بلکہ ایک نور کے ساتھ دوسرا نور مل کر عظمت فرقانی کی روشنی نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے اور چونکہ زمانہ غیر محدود انقلابات کی وجہ سے غیر محدود خیالات کا بالطبع محرک ہے لہذا اس کانٹے پیرا یہ میں ہو کر جلوہ گر ہونا یا نئے نئے علوم کو بمنصہ ظہور لانا نئے نئے بدعات اور محدثات کو دکھلانا ایک ضروری امر اس کے لئے پڑا ہوا ہے.اب اس حالت میں ایسی کتاب جو خاتم الکتب ہونے کا دعوی کرتی ہے اگر زمانہ کے ہر یک رنگ کے ساتھ مناسب حال اس کا تدارک نہ کرے تو وہ ہرگز خاتم الکتب نہیں ٹھہر سکتی اور اگر اس کتاب میں مخفی طور پر وہ سب سامان موجود ہے جو ہر یک حالت زمانہ کے لئے درکار ہے تو اس صورت میں ہمیں ماننا پڑے گا کہ قرآن بلا ریب غیر محدود معارف پر مشتمل ہے اور ہر یک زمانہ کی ضرورت لاحقہ کا کامل طور پر متکفل ہے.پرس پر (ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 261-260) قرآن کریم کو کھول کر دیکھو کتنے مقام میں اس مضمون کی آیتیں ہیں کہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ الجمعة: 3) یعنے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن اور قرآنی حکمت لوگوں کو سکھلاتا ہے اور پھر ایک جگہ اور فرماتا ہے وَلَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعه : 80) یعنے قرآن کے حقائق و دقائق انہیں پر کھلتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں.پس ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے سمجھنے کیلئے ایک ایسے معلم کی ضرورت ہے.جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہو.اگر قرآن کے سیکھنے کیلئے معلم کی حاجت نہ ہوتی تو ابتدائے زمانہ میں بھی نہ ہوتی.اور یہ کہنا کہ ابتدا میں تو حل مشکلات قرآن کے لئے ایک معلم کی ضرورت تھی لیکن جب حل ہو گئیں تو اب کیا ضرورت ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ حل شدہ بھی ایک مدت کے بعد پھر قابل حل ہو جاتی ہیں ماسوا اسکے امت کو ہر ایک زمانہ میں نئی مشکلات بھی تو پیش آتی ہیں اور قرآن جامع جمیع علوم تو ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زمانہ میں اس کے تمام علوم ظاہر ہو جائیں بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں اور ہر یک زمانہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کر نیوالے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں جو وارث رُسل ہوتے ہیں اور ظلی طور پر رسولوں کے کمالات کو پاتے ہیں اور جس مجدد کی کاروائیاں کسی ایک رسول کی منصبی کاروائیوں سے شدید مشابہت رکھتی ہیں وہ عند اللہ اسی رسول کے نام سے پکارا جاتا ہے.شہادت القران - ر-خ- جلد 6 صفحہ 348)
334 قرآن ذو المعارف ہے قرآن شریف ذوالمعارف ہے اور کئی وجوہ سے اس کے معنے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد نہیں اور جس طرح قرآن شریف یک دفعہ نہیں اترا اسی طرح اسکے معارف بھی دلوں پر یکدفعہ نہیں اترتے.( نزول المسیح.ر.خ.جلد 18 صفحہ 421) جس طرح اللہ تعالیٰ نے نباتات وغیرہ میں کئی قسم کے خواص رکھے ہیں مثلاً ایک بوٹی دماغ کو قوت دیتی ہے اور ساتھ ہی جگر کو بھی مفید ہے اسی طرح قرآن شریف کے ہر ایک آیت مختلف قسم کے معارف پر دلالت کرتی ہے.نزول المسیح - ر-خ- جلد 18 صفحہ نمبر 421 حاشیہ) وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةٌ مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ اَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِايْتِنَا لَا يُوْقِنُونَ.(النمل: 83) علم غیب خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے جس قدر وہ دیتا ہے اسی قدر ہم لیتے ہیں.پہلے اسی نے غیب سے مجھے یہ فہم عطا کیا کہ ایسے ست زندگی والے جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان تولاتے ہیں مگر عملی حالت میں بہت کمزور ہیں یہ دابتہ الارض ہیں یعنی زمین کے کیڑے ہیں آسمان سے انکو کچھ حصہ نہیں.اور مقدر تھا کہ آخری زمانہ میں یہ لوگ بہت ہو جائیں گے اور اپنے ہونٹوں سے اسلام کی شہادت دینگے مگر انکے دل تاریکی میں ہو نگے.یہ تو وہ معنی ہیں جو پہلے ہم نے شائع کئے اور یہ معنے بجائے خود صحیح اور درست ہیں.اب ایک اور معنے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس آیت کے متعلق کھلے جن کو ابھی ہم نے بیان کر دیا ہے یعنی یہ کہ دابتہ الارض سے مراد وہ کیڑا بھی ہے جو مقدر تھا جو مسیح موعود کے وقت میں زمین میں سے نکلے اور دنیا کو انکی بداعمالیوں کیوجہ سے تباہ کرے.یہ خوب یا د ر کھنے کے لائق ہے کہ جیسی یہ آیت دو معنوں پر مشتمل ہے ایسے ہی صدہا نمو نے اسی قسم کے کلام الہی میں پائے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے اسکو معجزانہ کلام کہا جاتا ہے جو ایک ایک آیت دس دس پہلو پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ تمام پہلو سچ ہوتے ہیں بلکہ قرآن شریف کے حروف اور انکے اعداد بھی معارف مخفیہ سے خالی نہیں ہوتے.نزول المسیح.رخ - جلد 18 صفحہ 422-421) حدیث رسول کے مطابق ابن سعد نے اپنی کتاب طبقات میں اور ابونعیم نے اپنی کتاب حلیہ میں ابی قلابہ سے روایت کی ہے کہ ابو الدرداء نے کہا ہے کہ انک لاتـفـقـه كـل الـفـقـه حتى ترى للقرآن وجوها یعنی تجھ کو قرآن کا پورا ہم کبھی عطا نہیں ہو گا جب تک تجھ پر یہ نہ کھلے کہ قرآن کئی وجوہ پر اپنے معنے رکھتا ہے.ایسا ہی مشکوۃ میں یہ مشہور حدیث ہے کہ قرآن کے لئے ظہر اور بطن ہے اور وہ علم اولین اور آخرین پر مشتمل ہے.(تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 216 حاشیہ )
335 قرآن کریم.ذوالمعارف وذو المعانی ہے....امثال وذ...وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِيْ عَيْنِ حَمِئَةٍ (الكيف: 87) پس واضح ہو کہ آیت قرآنی بہت سے اسرار اپنے اندر رکھتی ہے جس کا احاطہ نہیں ہو سکتا اور جس کے ظاہر کے نیچے ایک باطن بھی ہے لیکن وہ معنے جو خدا نے میرے پر ظاہر فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ آیت مع اپنے سابق اور لاحق کے مسیح موعود کے لئے ایک پیشگوئی ہے اور اس کے وقت ظہور کو مشخص کرتی ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ مسیح موعود بھی ذوالقرنین ہے کیونکہ قرن عربی زبان میں صدی کو کہتے ہیں اور آیت قرآنی میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ وعدہ کا مسیح جو کسی وقت ظاہر ہو گا اس کی پیدائش اور اس کا ظاہر ہونا دوصدیوں پر مشتمل ہوگا چنانچہ میرا وجو داسی طرح پر ہے.(لیکچر لاہور.ر.خ.جلد 20 صفحہ 199 حاشیہ ) ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُوْنَ.(سورة المومنون: 16) پھر یقینا تم بعد اس کے البتہ مرنے والے ہو موت کا لفظ قرآن کریم میں ذوالوجوہ ہے.کا فرکا نام بھی مردہ رکھا ہے اور ہوا و ہوس سے مرنا بھی ایک قسم کی موت ہے اور قریب الموت کا نام بھی میت ہے اور یہی تینوں وجوہ استعمال حیات میں بھی پائی جاتی یعنی (ازالہ اوھام - ر- خ - جلد 3 صفحہ 445) حیات بھی تین قسم کی ہیں.وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ 28 إِلَّا مَنْ شَاءَ اللهُ ، ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُوْنَ.(الزمر: 69) پھر بارھویں علامت مسیح موعود کا پیدا ہوتا ہے جس کو کلام الہی میں نفخ صور کے استعارہ میں بیان کیا گیا ہے.اور نفخ حقیقت میں دو قسم پر ہے.ایک نفخ اضلال اور ایک نفع ہدایت.جیسا کہ اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے.وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ.یہ آیتیں ذوالوجوہ ہیں قیامت سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور اس عالم سے بھی.جیسا کہ آیت اِعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحديد : 18) اور جیسا کہ آیت فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا.(الرعد: 18) اور اس عالم کے لحاظ سے ان آیتوں کے یہ معنی ہیں کہ آخری دنوں میں دوزمانے آئیں گے.ایک ضلالت کا زمانہ اور اس زمانہ میں ہر ایک زمینی اور آسمانی یعنے شقی اور سعید پر غفلت سی طاری ہوگی مگر جس کو خدا محفوظ رکھے اور پھر دوسرا زمانہ ہدایت کا آئیگا.پس ناگاہ لوگ کھڑے ہو جائیں گے اور دیکھتے ہو نگے.یعنی غفلت دور ہو جائے گی اور دلوں میں معرفت داخل ہو جائے گی.اور شقی اپنی شقاوت پر متنبہ ہو جائیں گے گوایمان نہ لاویں.شہادت القران-ر-خ- جلد 6 صفحہ 321)
336 وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ.(المرسلت : 12) اور جب رسول وقت مقرر پر لائے جائیں گے.یہ اشارہ در حقیقت مسیح موعود کے آنے کی طرف ہے اور اس بات کا بیان مقصود ہے کہ وہ عین وقت پر آئے گا اور یادر ہے کہ کلام اللہ میں رسل کا لفظ واحد پر بھی اطلاق پاتا ہے اور غیر رسول پر بھی اطلاق پاتا ہے اور یہ میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ اکثر قرآن کریم کی آیات کئی وجوہ کی جامع ہیں جیسا کہ یہ احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن شریف کے لئے ظہر بھی ہیں اور بطن بھی پس اگر رسول قیامت کے میدان میں بھی شہادت کے لئے جمع ہوں تو امنا و صدقنا لیکن اس مقام میں جو آخری زمانہ کی ابتر علامات بیان فرما کر پھر اخیر پر بھی فرما دیا کہ اس وقت رسول وقت مقرر پر لائے جائیں گے تو قرائن بینہ صاف طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس ظلمت کے کمال کے بعد خدا تعالیٰ کسی اپنے مرسل کو بھیجے گا تا مختلف قوموں کا فیصلہ ہو اور چونکہ قرآن شریف سے ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ظلمت عیسائیوں کی طرف سے ہو گی تو ایسا مامور من اللہ بلا شبہ انہیں کی دعوت کے لئے اور انہیں کے فیصلہ کے لئے آئے گا پس اسی مناسبت سے اس کا نام عیسی رکھا گیا ہے کیونکہ وہ عیسائیوں کے لئے ایسا ہی بھیجا گیا جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام ان کے لئے بھیجے گئے تھے اور آیت وَ إِذَ الرُّسُلُ أَتَتْ میں الف لام عبد خارجی پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ مجد د جس کا بھیجنا بزبان رسول کریم معہود ہو چکا ہے وہ اس عیسائی تاریکی کے وقت میں بھیجا جائے گا.( شہادت القرآن - ر - خ - جلد 6 صفحہ 320-319) اور اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً آیت هو الذی ارسل رسوله بالهدى و دين الحق ليظهره على الدين كله (الصف: 10) آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہے اور پھر یہی آیت مسیح موعود کے حق میں بھی ہے.جیسا کہ تمام مفسر اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں.پس یہ بات کوئی غیر معمولی امر نہیں ہے کہ ایک آیت کا مصداق آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہوں اور پھر مسیح موعود بھی اسی آیت کا مصداق ہو.بلکہ قرآن شریف جو ذ والوجوہ ہے اس کا محاورہ اسی طرز پر واقع ہو گیا ہے کہ ایک آیت میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم مراد اور مصدق ہوتے ہیں اور اس آیت کا مصداق مسیح موعود بھی ہوتا ہے جیسا کہ آیت هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَه بالهدى (الصف: 10) سے ظاہر ہے.اور رسول سے مراد جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اور مسیح بھی.(تحفہ گولڑویہ - ر - خ - جلد 17 صفحہ 217 ) کے صحیح لفظ " مصداق ہے.صبح
337 إِنَّا أَنْزَلْنَه....مَطْلَعِ الْفَجْرِ.( القدر 2 تا 6 ) قرآن شریف میں جولیلۃ القدر کا ذکر آیا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے یہاں لیلۃ القدر کے تین معنی ہیں اول تو یہ کہ رمضان میں ایک رات لیلتہ القدر کی ہوتی ہے دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی ایک لیلۃ القدر تھا یعنی سخت جہالت اور بے ایمانی کی تاریکی کے زمانہ میں وہ آیا جبکہ ملائکہ کا نزول ہوا کیونکہ نبی دنیا میں اکیلا نہیں آتا بلکہ وہ بادشاہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں ملائکہ کا لشکر ہوتا ہے جو ملائک اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں اور لوگوں کے دلوں کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں.سوم لیلتہ القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفی ہے.تمام وقت یکساں نہیں ہوتے.بعض وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کو کہتے کہ أَرِحْنَا يَا عَائِشَةُ یعنی اے عائشہ مجھے کو راحت و خوشی پہنچا اور بعض وقت آپ بالکل دعا میں مصروف ہوتے جیسا کہ سعدی نے کہا ہے.وقتے چنیں بودے کہ بجبرائیل و میکائیل پر داخته و دیگر وقت باحفصه و زینب در ساختے ترجمہ کسی وقت جبرائیل اور میکائیل کے ساتھ ہوتے اور کسی وقت ( اپنی ازواج ) حفصہ اور زینب کے ساتھ ہوتے جتنا جتنا انسان خدا کے قریب آتا ہے.یہ وقت اسے زیادہ میسر آتا ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 537-536) اسی طرف اللہ جلشانہ اشارہ فرماتا ہے کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ.یعنی اس لیلۃ القدر کے نور کو دیکھنے والا اور وقت کے مصلح کی صحبت سے شرف حاصل کرنے والا اس اسی برس کے بڈھے سے اچھا ہے جس نے اس نورانی وقت کو نہیں پایا اور اگر ایک ساعت بھی اس وقت کو پالیا ہے تو یہ ایک ساعت اس ہزار مہینے سے بہتر ہے جو پہلے گزر چکے.کیوں بہتر ہے؟ اس لئے کہ اس لیلۃ القدر میں خدا تعالیٰ کے فرشتے اور روح القدس اس مصلح کے ساتھ رب جلیل کے اذن سے آسمان سے اترتے ہیں نہ عبث طور پر بلکہ اس لئے کہ تا مستعد دلوں پر نازل ہوں اور سلامتی کی راہیں کھولیں.سو وہ تمام راہوں کے کھولنے اور تمام پردوں کے اٹھانے میں مشغول رہتے ہیں یہاں تک که ظلمت غفلت دور ہو کر صبح ہدایت نمودار ہو جاتی ہے.فتح اسلام - رخ جلد 3 صفحہ 33-32)
338 قرآنی حقائق و معارف ضرورت زمانہ کے مطابق نازل ہوتے ہیں وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَ مَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ - (الحجر: 22) دنیا کی تمام چیزوں کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر بقدر ضرورت و مقتضائے مصلحت و حکمت ہم ان کو اتارتے ہیں.اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہوا کہ ہر یک چیز جو دنیا میں پائی جاتی ہے وہ آسمان سے ہی اتری ہے اس طرح پر کہ ان چیزوں کے عمل موجبہ اسی خالق حقیقی کی طرف سے ہیں اور نیز اس طرح پر کہ اسی کے الہام اور القاء اور سمجھانے اور عقل اور فہم بخشنے سے ہر یک صنعت ظہور میں آتی ہے لیکن زمانہ کی ضرورت سے زیادہ ظہور میں نہیں آتے اور ہر یک مامور من اللہ کو وسعت معلومات بھی زمانہ کیضرورت کے موافق دی جاتی ہے.علی ہذا القیاس قرآن کریم کے دقائق و معارف و حقائق بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق ہی کھلتے ہیں.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 451-450) ہر ایک چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر ہم قدر ضرورت سے زیادہ ان کو نازل نہیں کیا کرتے پس یہ حکمت الہیہ کے برخلاف ہے کہ ایک نبی کو امت کی اصلاح کے لئے وہ علوم دئے جائیں جن علوم سے وہ امت مناسبت ہی نہیں رکھتی بلکہ حیوانات میں بھی خدا تعالیٰ کا یہی قانون قدرت پایا جاتا ہے.(حقیقۃ الوئی..خ.جلد 22 صفحہ 156-155) اصل حقیقت وحی کی یہ ہے جو نزول وحی کا بغیر کسی موجب کے جو مستدعی نزول وحی ہو ہرگز نہیں ہوتا بلکہ ضرورت کے پیش آجانے کے بعد ہوتا ہے اور جیسی جیسی ضرورتیں پیش آتی ہیں بمطابق ان کے وحی بھی نازل ہوتی ہے کیونکہ وحی کے باب میں یہی عادت اللہ جاری ہے کہ جب تک باعث محرک وحی پیدا نہ ہو لے تب تک وحی نازل نہیں ہوتی اور خود ظاہر بھی ہے جو بغیر موجودگی کسی باعث کے جو تحریک وحی کی کرتا ہو یونہی بلا موجب وحی کا نازل ہو جانا ایک بے فائدہ کام ہے جو خداوند تعالیٰ کی طرف جو حکیم مطلق ہے اور ہر یک کام برعایت حکمت اور مصلحت اور مقتضاء وقت کے کرتا ہے منسوب نہیں ہو سکتا.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 75 حاشیہ نمبر 2)
339 هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه - (الصف: 10) میں رسالہ فتح اسلام میں کسی قدر لکھ آیا ہوں کہ اسلام کے ضعف اور غربت اور تنہائی کے وقت میں خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے تا میں ایسے وقت میں جو اکثر لوگ عقل کی بد استعمالی سے ضلالت کی راہیں پھیلا رہے ہیں اور روحانی امور سے رشتہ مناسبت بالکل کھو بیٹھے ہیں اسلامی تعلیم کی روشنی ظاہر کروں.میں یقیناً جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ اسلام اپنا اصلی رنگ نکال لائے گا اور اپنا وہ کمال ظاہر کرے گا جس کی طرف آیت لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِه میں اشارہ ہے سنت اللہ اسی طرح واقع ہے کہ خزائن معارف و دقائق اسی قدر ظاہر کئے جاتے ہیں جس قدر ان کی ضرورت پیش آتی ہے سو یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے جو اس نے ہزار ہا عقلی مفاسد کو ترقی دے کر اور بے شمار معقولی شبہات کو بمنصہ ظہور لا کر بالطبع اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ ان اوہام واعتراضات کے رفع دفع کے لئے فرقانی حقائق و معارف کا خزانہ کھولا جائے بے شک یہ بات یقینی طور پر ماننی پڑے گی کہ جس قد ر حق کے مقابل پر اب معقول پسندوں کے دلوں میں اوہام باطلہ پیدا ہوئے ہیں اور عقلی اعتراضات کا ایک طوفان برپا ہوا ہے اس کی نظیر کسی زمانہ میں پہلے زمانوں میں سے نہیں پائی جاتی.لہذا ابتداء سے اس امر کو بھی کہ ان اعتراضات کا براہین شافیہ وکافیہ سے بحوالہ آیات قرآن مجید بکلی استیصال کر کے تمام ادیان باطلہ پر فوقیت اسلام ظاہر کر دی جائے اسی زمانہ پر چھوڑا گیا تھا کیونکر پیش از ظهور مفاسدان مفاسد کی اصلاح کا تذکرہ محض بے محل تھا.اسی وجہ سے حکیم مطلق نے ان حقائق اور معارف کو اپنی کلام پاک میں مخفی رکھا اور کسی پر ظاہر نہ کیا جب تک کہ ان کے اظہار کا وقت آ گیا.ہاں اس وقت کی اس نے پہلے سے اپنی کتاب عزیز میں خبر دے رکھی تھی جو آیت هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدی میں صاف اور کھلے کھلے طور پر مرقوم ہے.سواب وہی وقت ہے اور ہر یک شخص روحانی روشنی کا محتاج ہو رہا ہے سو خدائے تعالے نے اس روشنی کو دیکر ایک شخص کو دنیا میں بھیجاوہ کون ہے؟ یہی ہے جو بول رہا ہے.(ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 515-514) قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادٍ اً لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفِدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا.(الكهف : 110) یعنی اگر خدا کی کلام کے لکھنے کے لئے سمندر کو سیاہی بنایا جائے تو لکھتے لکھتے سمند رختم ہو جائے اور کلام میں کچھ کمی نہ ہو.گو ویسے ہی اور سمندر بطور مدد کے کام میں لائے جائیں.رہی یہ بات کہ ہم لوگ ختم ہونا وحی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کن معنوں سے مانتے ہیں سو اس میں اصل حقیقت یہ ہے کہ گو کلام الہی اپنی ذات میں غیر محدود ہے لیکن چونکہ وہ مفاسد کہ جن کی اصلاح کے لئے کلام الہی نازل ہوتی رہی یا وہ ضرور تیں کہ جن کو الہام ربانی پورا کرتا رہا ہے وہ قدر محدود سے زیادہ نہیں ہیں اس لئے کلام الہی بھی اسی قدر نازل ہوئی ہے کہ جس قدر بنی آدم کو اس کی ضرورت تھی.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 101-100 حاشیہ نمبر 9)
340 پانچویں فصل قرآن.کتاب مکنون قرآنی تعلیم انسانی فطرت کے مطابق ہے فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُوْمِ.وَ إِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِيمٌ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيْمٌ.فِي كِتَب مَّكْنُون لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ.(الواقعه: 76 تا 80) میں مواقع النجوم کی قسم کھاتا ہوں اور یہ بڑی قسم ہے اگر تمہیں علم ہوا اور قسم اس بات پر ہے کہ یہ قرآن عظیم الشان کتاب ہے اور اس کی تعلیمات سنت اللہ کے مخالف نہیں بلکہ اس کی تمام تعلیمات کتاب مکنون یعنی صحیفہء فطرت میں لکھی ہوئی ہیں اور اس کے دقائق کو وہی لوگ معلوم کرتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں.(کرامات الصادقین...خ.جلد 7 صفحہ 53-52) بلکہ یہ سارا صحیفہ قدرت کے مضبوط صندوق میں محفوظ ہے.کیا مطلب کہ یہ قرآن کریم ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے اس کا وجود کاغذوں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے جس کو صحیفہ فطرت کہتے ہیں یعنی قرآن کی ساری تعلیم کی شہادت قانون قدرت کے ذرہ ذرہ کی زبان سے ادا ہوتی ہے اس کی تعلیم اور اس کی برکات کتھا کہانی نہیں جومٹ جائیں.انسانی فطرت کا پورا اور کام کیس صرف قرآن شریف ہی ہے اگر قرآن نہ بھی آیا ہوتا.جب بھی اس تعلیم کے مطابق انسان سے سوال کیا جاتا کیونکہ یہ ایسی تعلیم ہے جو فطرتوں میں مرکوز اور قانون قدرت کے ہر صفحہ میں مشہور ہے.(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 41) ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 655) وَهذَا ذِكْرٌ مُبْرَكَ اَنْزَلْنَه، اَفَاَنْتُمْ لَهُ مُنْكِرُوْنَ.(الانبياء: 51) قرآن شریف صرف سماع کی حد تک محدود نہیں ہے کیونکہ اس میں انسانوں کے سمجھانے کے لئے بڑے بڑے معقول دلائل ہیں اور جس قدر عقائد اور اصول اور احکام اس نے پیش کئے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا امر نہیں جس میں زبردستی اور تحکم ہو جیسا کہ اس نے خود فرما دیا ہے کہ یہ سب عقائد وغیرہ انسان کی فطرت میں پہلے سے منقوش ہیں اور قرآن شریف کا نام ذکر رکھا ہے جیسا کہ فرماتا ہے هذَا ذِكْرٌ مُبرَک یعنی یہ قرآن با برکت کوئی نئی چیز نہیں لایا بلکہ جو کچھ انسان کی فطرت اور صحیفہ قدرت میں بھرا پڑا ہے اس کو یاد دلاتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.ر.خ.جلد 10 صفحہ 433)
341 آیت فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم:31) کے معنے یہی ہیں کہ اسلام فطرتی مذہب ہے.انسان کی بناوٹ جس مذہب کو چاہتی ہے وہ اسلام ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ اسلام میں بناوٹ نہیں ہے.اس کے تمام اصول فطرت انسانی کے موافق ہیں تثلیث اور کفارہ کی طرح نہیں ہیں جو سمجھ میں نہیں آسکتے.عیسائیوں نے خود مانا ہے کہ جہاں تثلیث نہیں گئی وہاں توحید کا مطالبہ ہو گا کیونکہ فطرت کے موافق تو حید ہی ہے.اگر قرآن شریف نہ بھی ہوتا تب بھی انسانی فطرت تو حید ہی کو مانتی کیونکہ وہ باطنی شریعت کے موافق ہے.ایسا ہی اسلام کی کل تعلیم باطنی شریعت کے موافق ہے برخلاف عیسائیوں کی تعلیم کے جو مخالف ہے.دیکھو حال ہی میں امریکہ میں طلاق کا قانون خلاف انجیل پاس کرنا پڑا.یہ وقت کیوں پیش آئی اس لئے کہ انجیل کی تعلیم فطرت کے موافق نہ تھی.( ملفوظات جلد دوم صفحه 450-449) جو کچھ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے قانون قدرت اس کو پوری مدد دیتا ہے گویا جو قرآن میں ہے وہی کتاب مکنون میں ہے اس کا راز انبیاءعلیہم السلام کی پیروی کے بدوں سمجھ میں نہیں آسکتا اور یہی وہ سر ہے جو لَا يَمَسُّه إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (الواقعه : 80) میں رکھا گیا ہے.اِنَّ هَذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِيْن - (الواقعة : 96) ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 343) قرآن متقیوں کو وہ سارے امور یاد دلاتا ہے جو ان کی فطرت میں مخفی اور مستور تھے اور یہ حق محض ہے جو انسان کو یقین تک پہنچاتا ہے.روحانی اور جسمانی نظام باہم مخالف نہیں ہیں جنگ مقدس.رخ.جلد 6 صفحہ 87) وَ هُوَ الَّذِى خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَّ صِهْرًا ط وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا - (الفرقان: 55) خدا وہ ذات قادر مطلق ہے جس نے بشر کو اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کیا پھر اس کے لئے نسل اور رشتہ مقرر کر دیا.اسی طرح وہ انسان کی روحانی پیدائش پر بھی قادر تھا یعنی اس کا قانون قدرت روحانی پیدائش میں بعینہ جسمانی پیدائش کی طرح ہے کہ اول وہ ضلالت کے وقت میں کہ جو عدم کا حکم رکھتا ہے کسی انسان کو روحانی طور پر اپنے ہاتھ سے پیدا کرتا ہے اور پھر اس کے متبعین کو کہ جو اس کی ذریت کا حکم رکھتے ہیں یہ برکت متابعت اس کی کے روحانی زندگی عطا فرماتا ہے سو تمام مرسل روحانی آدم ہیں اور ان کی امت کے نیک لوگ ان کی روحانی نسلیں ہیں اور روحانی اور جسمانی سلسلہ بالکل آپس میں تطابق رکھتا ہے اور خدا کے ظاہری اور باطنی قوانین میں کسی نوع کا اختلاف نہیں.( براھین احمدیہ - ر- خ - جلد 1 صفحہ 656-654)
342 عالم صغیر اور عالم کبیر کا نظام مشابہ ہے قیوم العالم جو تمام عالم کے بقا اور قیام کے لئے نفس مدبرہ کی طرح اور حکم آیت اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَ الأرْضِ ( النور : 36) ان کی حیات کا نور ہے تدبیر عالم کبیر کی بواسطہ ملا یک کے فرماتا ہے اور ہمیں اس بات کے ماننے سے چارہ نہیں کہ جو کچھ عالم صغیر میں ذات واحد لاشریک کا نظام ثابت ہوا ہے اسی کے مشابہ عالم کبیر کا بھی نظام ہے.کیونکہ یہ دونوں عالم ایک ہی ذات سے صادر ہیں اور اس ذات واحد لاشریک کا یہی تقاضا ہونا چاہیئے کہ دونوں نظام ایک ہی شکل اور طرز پر واقع ہوں تا دونوں مل کر ایک ہی خالق اور صانع پر دلالت کریں کیونکہ تو حید فی النظام توحید باری عزاسمہ کے مسئلہ کو موید ہے.وجہ یہ کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر کئی خالق ہوتے تو اس نظام میں اختلاف کثیر پایا جاتا.غرض یہ بات نہایت سیدھی اور صاف ہے کہ ملا یک اللہ عالم کبیر کے لئے ایسے ہی ضروری ہیں جیسے قومی روحانیہ وحسیہ نشاء انسانیہ کے لئے جو عالم صغیر ہے.(آئینہ کمالات اسلام.ر.خ.جلد 5 صفحہ 176 حاشیہ) خدا کا قول اور فعل یا ہم مطابق ہیں پس در حقیقت قرآن شریف خدا تعالیٰ کے اس قانون قدرت کی تصویر ہے جو ہمیشہ ہماری نظر کے سامنے ہے.یہ بات نہایت معقول ہے کہ خدا کا قول اور فعل دونوں مطابق ہونے چاہئیں.یعنی جس رنگ اور طرز پر دنیا میں خدا تعالیٰ کا فعل نظر آتا ہے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی کتاب اپنے فعل کے مطابق تعلیم کرے.نہ یہ کہ فعل سے کچھ اور ظاہر ہو اور قول سے کچھ اور ظاہر ہو.خدا تعالیٰ کے فعل میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ نرمی اور درگذر نہیں بلکہ وہ مجرموں کو طرح طرح کے عذابوں سے سزایاب بھی کرتا ہے ایسے عذابوں کا پہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے.ہمارا خدا صرف علیم خدا نہیں بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کا قہر بھی عظیم ہے.سچی کتاب وہ کتاب ہے جو اس کے قانون قدرت کے مطابق ہے اور سچا قول الہی وہ ہے جو اس کے فعل کے مخالف نہیں.(چشمہ مسیحی.رخ.جلد 5 صفحہ 176)
343 قرآن کا نام ذکر ہے قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذکر ہے اس ابتدائی زمانہ میں انسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش شدہ صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا.اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی رو سے کہ انا له لحفِظُونَ (الحجر: 10) اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْابِهِمْ (الجمعہ: 4) کا مصداق اور موعود ہے.وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے.(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 60) وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ - (الحاقة : 49) قرآن متقیوں کو وہ سارے امور یاد دلاتا ہے جو ان کی فطرت میں مخفی اور مستور تھے.جنگ مقدس - ر- خ - جلد 6 صفحہ 87) وعدہ فرمایا: که إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَافِظُوْنَ (الحجر: 10 ) قرآن کا نام ذکر ر کھنے کی وجہ اب دیکھو.قرآن کریم کا نام ذکر رکھا گیا ہے اس لئے کہ وہ انسان کی اندرونی شریعت یاد دلاتا ہے.جب اسم فاعل کو مصدر کی صورت میں لاتے ہیں.تو وہ مبالغہ کا کام دیتا ہے.جیسازیـد عدل کیا معنے ؟ زید بہت عادل ہے قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاد دلاتا ہے جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی صورت میں رکھی ہے علم ہے ایثار ہے، شجاعت ہے، جبر ہے غضب ہے قناعت ہے وغیرہ.غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی، قرآن نے اسے یاد دلایا.جیسے فنی کتب مكنون (الواقعۃ : 79) یعنی صحیفہ فطرت میں کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا.اسی طرح اس کتاب کا نام ذکر بیان کیا.تا کہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس نور قلب کو جو آسمانی ودیعت انسان کے اندر ہے یاد دلاوے.( ملفوظات جلد اول صفحه 60)
344 چھٹی فصل قرآن حکیم کی پیشگوئیاں قرآنی قصے دراصل پیشگوئیاں ہیں اور جس قدر قرآن شریف میں قصے ہیں وہ بھی در حقیقت قصے نہیں بلکہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو قصوں کے رنگ میں لکھی گئی ہیں ہاں وہ توریت میں تو ضرور صرف قصے پائے جاتے ہیں مگر قرآن شریف نے ہر ایک قصہ کو رسول کریم کے لئے اور اسلام کے لئے ایک پیشگوئی قرا دے دیا ہے اور یہ قصوں کی پیشگوئیاں بھی کمال صفائی سے پوری ہوئی ہیں.قرآن بہت سی پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے (چشمہ معرفت - ر- خ- جلد 23 صفحہ 271) الم.غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَ هُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ.فِي بِضْعِ سِنِيْنَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ وَ يَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ (الروم 2 تا5) قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے تذکرہ پر فرمایا کہ السم.غُلِبَتِ الرُّوْمُ میں کیسی عظیم الشان پیشگوئی ہے.ایرانی مشرک تھے اور رومن عیسائی تھے مگر قیصر روم نے جس کا نام ہر قتل تھا جیسا کہ بخاری میں درج ہے اسلام کی عظمت کا اعتراف کیا تھا اور اس طرح پر موحد ہی تھا.غرض جب ایرانیوں نے رومیوں پر فتح پائی تو کفار مکہ نے یہ سمجھ لیا کہ ہم بھی غالب ہوں گے لیکن خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں ان کو بتا دیا کہ ایرانی پھر مغلوب ہو جائیں گے.بعض نے اس پیشگوئی کو انکل کہا مگر انہیں یہ معلوم نہیں کہ اس میں دوہری پیشگوئی ہے کہ اسی دن اسلام کی بھی فتح ہوگی چنانچہ بدر کی لڑائی میں جب فتح ہوئی اسی دن ایرانی مغلوب ہوئے.الحکم جلد 5 نمبر 40 مورخہ 10 نومبر 1903، صفحہ 4) ( تفسیر حضرت اقدس جلد 7 صفحہ 5) قرآن میں انذاری پیشگوئیاں مشروط ہیں قَالَ يَقُوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ - ( نوح : 3 ) قرآن شریف میں حضرت نوح سے لے کر ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تک جس قدر نافرمانوں کے حق میں انذاری پیشگوئیاں ذکر فرمائی گئی ہیں وہ سب شرطی طور پر ہیں جن کے یہی معنے ہیں کہ فلاں عذاب تم پر آنے والا ہے.پس اگر تم تو بہ کرو اور نیک کام بجالا ؤ تو وہ موقوف رکھا جائے گا اور نہ تم ہلاک کئے جاؤ گے.الصل ایام اصلح.ر.خ.جلد 14 صفحہ 233 )
345 وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمْتِ أَنْ لَّا إِلهُ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ - (الانبياء : 88) دعا بہت بڑی سپر کامیابی کے لئے ہے.یونس کی قوم گریہ وزاری اور دعا کے سبب آنیوالے عذاب سے بچ گئی.میری سمجھ میں محا تبت مغاضبت کو کہتے ہیں اور حوت مچھلی کو کہتے ہیں اور نون تیزی کو بھی کہتے ہیں اور مچھلی کو بھی.پس حضرت یونس کی وہ حالت ایک مغاضبت کی تھی.اصل یوں ہے کہ عذاب کے ٹل جانے سے ان کو شکوہ اور شکایت کا خیال گزرا کہ پیشگوئی اور دعا یوں ہی رائیگاں گئی اور یہ بھی خیال گزرا کہ میری بات پوری کیوں نہ ہوئی.پس یہی مغاضبت کی حالت تھی.اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ تقدیر کو اللہ بدل دیتا ہے اور رونا دھونا اور صدقات فرد قرار داد جرم کو بھی ردی کر دیتے ہیں.اصول خیرات کا اسی سے نکلا ہے.یہ طریق اللہ کو راضی کرنے کے لئے ہیں.علم تعبیر الرویا میں مال کلیجہ ہوتا ہے.اس لیے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے.انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق و ثبات دکھاتا ہے.اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل و قال سے کچھ نہیں بنتا جیتک کہ عملی رنگ میں لا کر کسی بات کو نہ دکھایا جاوے.صدقہ اس کو اسی لیے کہتے ہیں کہ صادقوں پر نشان کر دیتا ہے.حضرت یونس کے حالات میں در منثور میں لکھا ہے کہ آپ نے کہا کہ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ جب تیرے سامنے کوئی آوے گا.تجھے رحم آ جائے گا این مشتِ خاک را گر نه بکشم چه کنم ترجمہ:.اگر اس مٹھی بھر خاک کو نہ بخشوں تو کیا کروں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 155) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ قرآن شریف کی یہ پیشگوئی ہے.کہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.(المائدہ:68) اور پہلی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخر زمان کسی کے ہاتھ سے قتل نہ ہوگا.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 364-363)
346 اسلام کے بارے میں پیشگوئیاں کفار نے کس دعوی کے ساتھ اپنی را ئیں ظاہر کیں کہ یہ دین ضرور معدوم ہو جائے گا اور ہم اس کو کالعدم کر دینگے اور ان کے مقابل پر یہ پیشگوئی کی گئی جو قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہرگز تباہ نہیں ہوگا یہ ایک بڑے درخت کی طرح ہو جائے گا اور پھیل جائے گا اور اس میں بادشاہ ہوں گے اور جیسا کہ گزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْتَه (الفتح: 30) میں اشارہ ہے.أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَئِكُمْ أَمْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ.أَمْ يَقُوْلُوْنَ جنگ مقدس.رخ جلد 6 صفحہ 291-290) نَحْنُ جَمِيعٌ مُنْتَصِرٌ.سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ - (القمر: 44 تا46) کیا تمہارے کا فرفرعونی گروہ سے کچھ بہتر ہیں یا تم خدا کی کتابوں میں معذب اور ماخوذ ہونے سے منتقلی اور بری قرار دیئے گئے ہو.کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت بڑی قومی جماعت ہے کہ جوز بر دست اور فتح مند ہے.عنقریب یہ ساری جماعت پیٹھ پھیرتے ہوئے بھاگے گی.( براھین احمدیہ.رخ - جلد 1 صفحہ 255 حاشیہ نمبر (11) آپ نے کس حوصلہ اور دلیری کے ساتھ مخالفوں کو مخاطب کر کے کہا کہ فَكِيْدُوْنِي جَمِيْعًا (هود: 56) یعنی کوئی دقیقہ مکر کا باقی نہ رکھو.سارے فریب مکر استعمال کرو قتل کے منصوبے کرو.اخراج اور قید کی تدبیریں کرو مگر یاد رکھو سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلَّوْنَ الدُّبُرَ آخر فتح میری ہے.تمہارے سارے منصوبے خاک میں مل جائیں گے.تمہاری ساری جماعتیں منتشر اور پراگندہ ہو جاویں گی اور پیٹھ دے نکلیں گی.جیسے وہ عظیم الشان دعوى انني رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا کسی نے نہیں کیا اور جیسے فکیدونی جمیعا کہنے کی کسی کی ہمت نہ ہوئی.یہ بھی کسی کے منہ سے نہ نکلا سَيُهْزَمُ الجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ.یہ الفاظ اسی مونہہ سے نکلے جو خدا تعالیٰ کے سائے کے نیچے الوہیت کی چادر میں لپٹا ہوا پڑا تھا.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 345) قرآن میں دو قسم کی پیشگوئیاں ہیں یادر ہے کہ قرآن شریف میں دو قسم کی پیشگوئیاں ہیں ایک قیامت کی اور ایک زمانہ آخری کی.مثلاً جیسے یا جوج ماجوج کا پیدا ہونا اور ان کا تمام ریاستوں پر فائق ہونا.یہ پیشگوئی آخری زمانہ کے متعلق ہے اور حدیث مسلم نے پیشگوئی يُتْرَكَ الْقَلاَصُ میں صاف تشریح کر دی ہے اور کھول کر بیان کر دیا ہے کہ مسیح کے وقت میں اونٹ کی سواری ترک کر دی جائے گی.(تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 198-197)
347 آخری زمانہ کی پیشگوئیاں قرآن شریف کی رو سے سلسلہ محمد یہ سلسلہ موسویہ سے ہر ایک نیکی اور بدی میں مشابہت رکھتا ہے.اسی کی طرف ان آیتوں میں اشارہ ہے کہ ایک جگہ یہود کے حق میں لکھا ہے.فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ.(الاعراف: 130) دوسری جگہ مسلمانوں کے حق میں لکھا ہے.لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ (يونس: 15) ان دونوں آیتوں کے یہ معنے ہیں کہ خدا تمہیں خلافت اور حکومت عطا کر کے پھر دیکھے گا کہ تم راستبازی پر قائم رہتے ہو یا نہیں.ان آیتوں میں جو الفاظ یہود کے لئے استعمال کیے ہیں.وہی مسلمانوں کے لئے.یعنی ایک ہی آیت کے نیچے ان دونوں کو رکھا ہے.پس ان آیتوں سے بڑھ کر اس بات کے لئے اور کونسا ثبوت ہوسکتا ہے.کہ خدا نے بعض مسلمانوں کو یہود قرار دیدیا ہے اور صاف اشارہ کر دیا ہے کہ جن بدیوں کے یہود مرتکب ہوئے تھے یعنی علماء ان کے.اس امت کے علماء بھی انہیں بدیوں کے مرتکب ہوں گے.اور اسی مفہوم کی طرف آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ (الفاتحة: 7) میں بھی اشارہ ہے.(تذکرۃ الشہادتین.ر.خ.جلد 20 صفحہ 13) ریل کی پیشگوئی جمعہ کی نماز سے پیشتر تھوڑی دیر حضرت اقدس علیہ السلام نے مجلس فرمائی.ریل وغیرہ کی ایجاد سے جو فوائد بنی نوع انسان کو پہنچے ہیں ان کا ذکر ہوتا رہا.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ :.انسانی صنعتوں کا انحصار خدا تعالیٰ کے فضل پر ہے.ریل کے واسطے قرآن شریف میں دو اشارے ہیں.اولاذَ النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ.(التكوير:8) دوم - إِذَا الْعِشَارُ عُطِلَتْ.(التكوير: 5 ) عشار حمل دار اونٹنی کو کہتے ہیں.حمل کا ذکر اس لئے کیا تا کہ معلوم ہو جاوے کہ قیامت کا ذکر نہیں ہے.صرف قرینہ کے واسطے یہ لفظ لکھا ہے ورنہ ضرورت نہ تھی.اگر پیشگوئیوں کا صدق اس دنیا میں نہ کھلے تو پھر اس کا فائدہ کیا ہوسکتا ہے اور ایمان کو کیا ترقی ہو؟ بیوقوف لوگ ہر ایک پیشگوئی کو صرف قیامت پر لگاتے ہیں اور جب پوچھو تو کہتے ہیں کہ اس دنیا کی نسبت کوئی پیشگوئی قرآن شریف میں نہیں ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 348)
348 یا جوج ماجوج اور دجال کی پیشگوئی قَالَ انْظُرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ.قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ.(الاعراف: 15 16) قرآن شریف اس شخص کو جس کا نام حدیثوں میں دجال ہے شیطان قرار دیتا ہے جیسا کہ وہ شیطان کی طرف سے حکایت کر کے فرماتا ہے قَالَ انْظُرْنِي إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ.یعنی شیطان نے جناب الہی میں عرض کی کہ میں اس وقت تک ہلاک نہ کیا جاؤں جب تک کہ وہ مردے جن کے دل مرگئے ہیں دوبارہ زندہ ہوں خدا نے کہا کہ میں نے تجھے اس وقت تک مہلت دی سو وہ دجال جس کا حدیثوں میں ذکر ہے وہ شیطان ہی ہے جو آخر زمانہ میں قتل کیا جائے گا.جیسا کہ دانیال نے بھی یہی لکھا ہے اور بعض حدیثیں بھی یہی کہتی ہیں اور چونکہ مظہر اتم شیطان کا نصرانیت ہے.اس لئے سورۃ فاتحہ میں دجال کا تو کہیں ذکر نہیں مگر نصاری کے شر سے خدا تعالی کی پناہ مانگنے کا حکم ہے.اگر دجال کوئی الگ مفسد ہو تا قرآن شریف میں بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا وَلا الضَّالِّينَ یہ فرمانا چاہیے تھا کہ ولا الدجال اور آیت الى يَوْمِ يُبْعَثُونَ سے مراد جسمانی بعث نہیں کیونکہ شیطان صرف اس وقت تک زندہ ہے جب تک کہ بنی آدم زندہ ہیں.ہاں شیطان اپنے طور سے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ بذریعہ اپنے مظاہر کے کرتا ہے.سو وہ مظاہر یہی انسان کو خدا بنانے والے ہیں اور چونکہ وہ گروہ ہے اس لئے اس کا نام دجال رکھا گیا ہے کیونکہ عربی زبان میں دجال گروہ کو بھی کہتے ہیں اور اگر دجال کو نصرانیت کے گمراہ واعظوں سے الگ سمجھا جائے تو ایک محذور لازم آتا ہے وہ یہ کہ جن حدیثوں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ آخری دنوں میں دجال تمام زمین پر محیط ہو جائیگا انہیں حدیثوں سے یہ پتہ بھی لگتا ہے کہ آخری دنوں میں کلیسیا کی طاقت تمام مذاہب پر غالب آ جائے گی.پس یہ تناقض بجز اس کے کیونکہ دور ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں.پیشگوئیوں میں اخفاء اور متشابہات ضروری ہے (حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 41) هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ ايَتٌ مُحْكَمْتُ هُنَّ أُمُّ الْكِتَبِ وَ أَخَرُ مُتَشبِهتْ ط فَلَمَّا الَّذِيْنَ فِي قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيْلِهِ ، وَ مَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَ الرَّسِحُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ امَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ، وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ.(ال عمران: 8) پیشگوئیوں کے ہمیشہ دو حصہ ہوا کرتے ہیں اور آدم سے اس وقت تک یہی تقسیم چلی آ رہی ہے کہ ایک حصہ متشابہات کا ہوا کرتا ہے اور ایک حصہ ہینات کا اب حدیبیہ کے واقعات کو دیکھا جاوے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تو سب سے بڑھ کر ہے مگر علم کے لحاظ سے میں کہتا ہوں کہ آپ کا سفر کرنا دلالت کرتا تھا کہ آپ کی رائے اسی طرف تھی کہ فتح ہو گی.نبی کی اجتہادی غلطی جائے عار نہیں ہوا کرتی اصل صورت جو معاملہ کی ہوتی ہے وہ پوری ہو کر رہتی ہے انسان اور خدا میں یہی تو فرق ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 320)
349 پیشگوئی میں کسی قدر اخفاء اور متشابہات کا ہونا بھی ضروری ہے اور یہی ہمیشہ سنت الہی ہے ملا کی بنی اگرا اپنی پیشگوئی میں صاف لکھ دیتا کہ الیاس خود نہ آئے گا بلکہ اس کا مثیل تو حضرت عیسی کے ماننے میں اس قدر وقتیں اس زمانے کے علماء کو پیش نہ آتیں.ایسا ہی اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو پیشگوئیاں توریت اور انجیل میں ہیں وہ نہایت ظاہر الفاظ میں ہوتیں کہ آنے والا نبی آخر زمان اسماعیل کی اولاد میں سے ہوگا اور شہر مکہ میں ہوگا تو پھر یہودیوں کو آپ کے ماننے سے کوئی انکار نہ ہوسکتا تھا لیکن خدا تعالیٰ اپنے نبدوں کو آزماتا ہے.کہ ان میں متقی کون ہے جو صداقت کو اس کے نشانات سے دیکھ کر پہچانتا اور اس پر ایمان لاتا ہے (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 218-217) یہ بات نہایت کارآمد اور یا در کھنے کے لائق تھی کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مامور ہو کر آتے ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی یا محدث اور مجدد.ان کی نسبت جو پہلی کتابوں ہیں یا رسولوں کی معرفت پیشگوئیاں کی جاتی ہیں ان کے دو حصے ہوتے ہیں.ایک وہ علامات جو ظاہری طور پر وقوع میں آتی ہیں اور ایک متشابہات جو استعارات اور مجازات کے رنگ میں ہوتی ہیں.پس جن کے دلوں میں زیغ اور کبھی ہوتی ہے وہ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور طالب صادق بینات اور محکمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 477-476)
350 ساتویں فصل ایک اہم نکتہ قصص قرآن حکیم قصص اور ہدایت میں فرق ہے قرآن کریم کے دو حصے ہیں.کوئی بات قصہ کے رنگ میں ہوتی ہے.اور بعض احکام ہدایت کے رنگ میں ہوتے ہیں.بہ حیثیت ہدایت جو پیش کرتا ہے اس کا منشاء ہے کہ مان لو جیسے اَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ.(البقره: 185) اب صوم شتر مرغ کی بیٹ کو کہتے ہیں.مگر اس کا یہ مطلب نہیں.احکام میں صفائی ہوتی ہے جبکہ اس ہدایت کے سلسلہ میں یہ فرمایا کہ ملک الموت آتا ہے اور پھر رفع ہوتا ہے اور حدیث میں اس کی تائید آئی ہے.ایک جگہ فرمایا ہے : فَيُمْسِكَ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (الزمر: 43 ) یعنی جس نفس پر موت کا حکم دے دیتا ہے.اس کو واپس آنے نہیں دیتا.دیکھو.یہ خدا کا کلام ہے.قصہ کے رنگ میں نہیں بلکہ ہدایت کے رنگ میں ہے.جو لوگ نقص اور ہدایت میں تمیز نہیں کرتے ، ان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قرآن کریم میں اختلاف ثابت کرنے کے موجب ہوتے ہیں اور گویا اپنی عملی صورت میں قرآن کریم کو ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں.کیونکہ قرآن شریف کی نسبت تو خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے.لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء: 83) اور عدم اختلاف اس کے منجانب اللہ ہونیکی دلیل ٹھہرائی گئی ہے لیکن یہ نا عاقبت اندلیش قصص اور ہدایات میں تمیز نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف پیدا کر کے اس کو مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ ٹھہراتے ہیں.افسوس ان کی دانش پر !!! ان لوگوں سے پوچھنا چاہیئے کہ مقدم ہدایات ہیں یا قصص؟ اور اگر دونوں میں تناقض پیدا ہو تو مقدم کس کو رکھو گے؟ اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ جو مر جاتے ہیں وہ واپس نہیں آتے اور ترمذی میں حدیث موجود ہے کہ ایک صحابی شہید ہوئے.انہوں نے عرض کی کہ یا الہی مجھے دنیا میں پھر بھیجو تو خدا تعالیٰ نے جواب یہی دیا.قَدْ سَبَقَ الْقَوْلُ مِنِّي (الحديث) وَ حَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَا هَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (الانبياء: 96)
351 اب قرآن کریم موجود ہے.اس کی شرح حدیث شریف میں صاف الفاظ میں موجود ہے.اس کے مقابلہ میں ایک خیالی اور فرضی کہانی کی کیا وقعت ہو سکتی ہے؟ ہم پوچھتے ہیں کہ اس کے بعد کیا چاہتے ہو.ہم قرآن اور حدیث پیش کرتے ہیں.پھر عقل سلیم اور تجربہ بھی اس کا شاہد ہے.ہماری طرف سے خود ساختہ بات ہوتی تو تم قصہ پیش کر دیتے ، مگر یہاں تو ہدایت اور اس کی تائید میں حدیث پیش کی جاتی ہے.اس کے بعد اور کیا چاہیئے.فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ.(يونس : 33) قصوں کے حقائق بتا نے خدا تعالیٰ کو ضرور نہیں، ان پر ایمان لاؤ اور ان کی تفاسیر حوالہ بخدا کرو.( ملفوظات جلد اول صفحه 359) ہمارے مخالفوں میں اگر دیانت اور خدا ترسی ہو تو عزیر کا قصہ بیان کرتے وقت ضرور ہے کہ وہ ان آیات کو بھی ساتھ رکھیں جس میں لکھا ہے کہ مردے واپس نہیں آتے.پھر ہم بطریق تنزل ایک اور جواب دیتے ہیں.اس بات کو ہم نے بیان کر دیا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ قصوں کے لئے اجمالی ایمان کافی ہے ہدایات میں چونکہ عملی رنگ لانا ضروری ہوتا ہے اس لئے اس کا سمجھنا ضروری ہے ماسوا اس کے یہ جو لکھا ہے کہ سو برس تک مردہ رہے.ام ان کے معنے انسام بھی آئے ہیں اور قوت نامید اور حسیہ کے زوال پر بھی موت کا لفظ قرآن کریم میں بولا گیا ہے بہر حال ہم سونے کے معنے بھی اصحاب کہف کے قصہ کی طرح کر سکتے ہیں اصحاب کہف اور عزیر کے قصہ میں فرق اتنا ہے کہ اصحاب کہف کے قصہ میں ایک کتا ہے اور یہاں گدھا ہے اور نفس کتے اور گدھے دونوں سے مشابہت رکھتا ہے.خدا نے یہودیوں کو گدھا بنایا ہے اور کتے کو بلعم کے قصہ میں بیان فرمایا ہے معلوم ہوتا ہے کہ نفس پیچھا نہیں چھوڑ تا جو بیہوش ہوتا ہے.اس کے ساتھ کہتا ہو گا یا گدھا.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 360)
352 قصص قرآن علمی حقیقت رکھتے ہیں سلسلہ احمدیہ نے قرآنی قصوں کو بھی ایک فلسفہ کی صورت میں پیش کیا یہ بات ہرگز ہرگز بھول جانے کے قابل نہیں ہے کہ قرآن شریف جو خاتم الکتب ہے دراصل قصوں کا مجموعہ نہیں ہے.جن لوگوں نے اپنی غلط فہمی اور حق پوشی کی بناء پر قرآن شریف کو قصوں کا مجموعہ کہا ہے انہوں نے حقائق شناس فطرت سے حصہ نہیں پایا.ورنہ اس پاک کتاب نے تو پہلے قصوں کو بھی ایک فلسفہ بنا دیا ہے اور یہ اس کا احسان عظیم ہے ساری کتابوں اور نبیوں پر.ورنہ آج ان باتوں پر جنسی کی جاتی.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس علمی زمانہ میں جبکہ موجودات عالم کے حقائق اور خواص الاشیاء کے علوم ترقی کر رہے ہیں.اس نے آسمانی علوم اور کشف حقائق کے لئے ایک سلسلہ کو قائم کیا.جس نے ان تمام باتوں کو جو بیج اعوج کے زمانہ میں ایک معمولی قصوں سے بڑھ کر وقعت نہ رکھتی تھیں اور اس سائنس کے زمانہ میں ان پرانسی ہو رہی تھی.علمی پیرایہ میں ایک فلسفہ کی صورت میں پیش کیا.قرآن کریم کے احسانات ( ملفوظات جلد دوم صفحه 112 ) پس یا درکھنا چاہیئے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے.جو ان کی تعلیموں کو جو قصہ کے رنگ میں تھیں.علمی رنگ دیدیا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پاسکتا جب تک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ انہ لقول فصل و ما هو بالهزل.(الطارق: 14-15) وہ میزان مہیمن ، نور اور شفاء اور رحمت ہے.جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اسے قصہ سمجھتے ہیں انہوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا بلکہ اس کی بے حرمتی کی ہے.ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لئے کہ ہم قرآن شریف کو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور حکمت اور معرفت ہے دکھانا چاہتے ہیں.اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں.ہم اس کو گوارا نہیں کر سکتے.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے.اس لئے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پر وا کریں.غرض میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشف حقائق کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ بدوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا.اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو.جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے.اس لئے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھ مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر.( ملفوظات جلد دوم صفحه 113 )
353 بهشت و دوزخ کی حقیقت پہلے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بالکل خیالی اور سادہ طور پر بہشت و دوزخ کو رکھا گیا تھا حضرت مسیح نے پھانسی پانے والے چور کو یہ تو کہہ دیا کہ آج ہم بہشت میں جائیں گے مگر بہشت کی حقیقت پر کوئی نکتہ بیان نہ فرمایا.ہم اس وقت اس سوال کو سامنے لانے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ عیسائیوں کے انجیلی عقیدے اور بیان کے موافق وہ بہشت میں گئے یا ہادیہ میں.بلکہ صرف یہ دکھانا ہے کہ بہشت کی حقیقت انہوں نے کچھ بیان نہیں کی.ہاں یوں تو عیسائیوں نے اپنے بہشت کی مساحت بھی کی ہوئی ہے.برخلاف اس کے قرآن شریف کسی تعلیم کو قصے کے رنگ میں پیش نہیں کرتا.بلکہ وہ ہمیشہ ایک علمی صورت میں اسے پیش کرتا ہے.مثلاً اسی بہشت و دوزخ کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے.مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَغمی.(بنی اسرائیل: 73) یعنی جواس دینا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا.کیا مطلب کہ خدا تعالیٰ اور دوسرے عالم کے لذات کے دیکھنے کے لئے اسی جہان میں حواس اور آنکھیں ملتی ہیں.جس کو اس جہان میں نہیں ملیں اس کو وہاں بھی نہیں ملیں گے.اب یہ امرانسان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ ان حواس اور آنکھوں کے حاصل کرنے کے واسطے اسی عالم میں کوشش اور سعی کرے تاکہ دوسرے عالم میں بینا اٹھے.ایسا ہی عذاب کی حقیقت اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے قرآن شریف فرماتا ہے.نار الله الـمـوقـدة التي تطلع على الافئدة.(الهمزة : 8-7 ) یعنی اللہ تعالیٰ کا عذاب ایک آگ ہے.جس کو وہ بھڑکاتا ہے اور انسان کے دل ہی پر اس کا شعلہ بھڑکتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ عذاب الہی اور جہنم کی اصل جڑ انسان کا اپنا ہی دل ہے اور دل کے ناپاک خیالات اور گندے ارادے اور عزم اس جہنم کا ایندھن ہیں.اور پھر بہشت کے انعامات کے متعلق نیک لوگوں کی تعریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يفجرونها تفجيرا.(الدھر: 7) یعنی اسی جگہ نہریں نکال رہے ہیں اور پھر دوسری جگہ مومنوں اور اعمال صالحہ کرنے والوں کی جزاء کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے جنت تجرى من تحتها الانهار.اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی ان باتوں کو قصہ قرار دے سکتا ہے.یہ کیسی کچی بات ہے جو یہاں آبپاشی کرتے ہیں وہی پھل کھائیں گے.غرض قرآن شریف اپنی ساری تعلیموں کو علوم کی صورت اور فلسفہ کے رنگ میں پیش کرتا ہے اور یہ زمانہ جس میں خدا تعالیٰ نے ان علوم حقہ کی تبلیغ کے لئے اس سلسلہ کو خود قائم کیا ہے.کشف حقائق کا زمانہ ہے.ریویو آف ریلیجنز جلد 1 نمبر 5 صفحہ 177) ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 113-112)
354 فَإِذَا سَوَّيْتُه وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِى....(الحجر: 30) اس آیت میں ایک عمیق راز کی طرف اشارہ ہے جو انتہائی درجہ کے کمال کا ایک نشان ہے اور وہ یہ کہ انسان ابتدا میں صرف صورت انسان کی ہوتی ہے مگر اندر سے وہ بیجان ہوتا ہے اور کوئی روحانیت اس میں نہیں ہوتی اور اس صورت میں فرشتے اس کی خدمت نہیں کرتے کیونکہ وہ ایک پوست بے مغز ہے لیکن بعد اس کے رفتہ رفتہ سعید انسان پر یہ زمانہ آ جاتا ہے کہ وہ خدا سے بہت ہی قریب جا رہتا ہے.تب جب ٹھیک ٹھیک ذوالجلال کی روشنی کے مقابل پر اس کا نفس جا پڑتا ہے اور کوئی حجاب درمیان نہیں ہوتا کہ اس روشنی کو روک دے تو بلا توقف الوہیت کی روشنی جس کو دوسرے لفظوں میں خدا کی روح کہہ سکتے ہیں اس انسان کے اندر داخل ہو جاتی ہے اور وہی ایک خاص حالت ہے جس کی نسبت کلام الہی میں کہا گیا کہ خدا نے آدم میں اپنی روح پھونک دی.اس حالت پر نہ کسی تکلف سے اور نہ ایسے امر سے جو شریعت کے احکام کے رنگ میں ہوتا ہے.فرشتوں کو یہ حکم ہوتا ہے کہ اس کے آگے سجدہ میں گریں یعنی کامل طور پر اس کی اطاعت کریں گویا وہ اس کو سجدہ کر رہے ہیں.یہ حکم فرشتوں کی فطرت کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے.کوئی مستحدث امر نہیں ہوتا.یعنی ایسے شخص کے مقابل پر جس کا وجود خدا کی صورت پر آ جاتا ہے خود فرشتے طبعاً محسوس کر لیتے ہیں کہ اب اس کی خدمت کیلئے ہمیں کرنا چاہیئے اور ایسے قصے در حقیقت قصے نہیں ہیں بلکہ قرآن کریم میں عادت الہی اسی طرح واقع ہے کہ ان قصوں کے نیچے کوئی علم حقیقت ہوتی ہے.پس اس جگہ یہی علمی حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس قصے کے پیرایہ میں ظاہر کرنا چاہا ہے کہ کامل انسان کی نشانی کیا ہے.تفسیر حضرت اقدس طبع اول جلد 5 صفحہ 128) ریویو آف ریجنز جلدانمبر 5 صفحہ 178،177 حاشیہ)
355 قرآنی قصص کے فوائد مضمون پڑھنے والے نے الہامی کتاب کی ایک یہ بھی نشانی لکھی ہے کہ اس میں کوئی قصہ درج نہ ہو مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کے ہوش و حواس قائم نہیں ہیں جو کچھ بیان کرتا ہے وہ صرف دعوی ہی ہوتا ہے ورنہ صاف ظاہر ہے کہ خدا جو عالم الغیب اور رحیم اور سر چشمہ تمام علوم ہے اس کی مربیانہ عادات میں یہ بھی داخل ہے کہ متاخرین کو متقدمین کے اخلاق اور عادات سے اطلاع دیتا ہے اور یہ جتلاتا ہے کہ پہلے اس سے ایسے ایسے صادق وفادار مومن گزر چکے ہیں جنہوں نے شدائد اور مصائب پر صبر کیا اور بڑے بڑے امتحانوں میں پڑ کر پورے نکلے اور انہوں نے خدا کی راہ میں آگے سے آگے قدم رکھا اور خدا نے ان کی وفاداری کو دیکھ کر ان پر بڑے بڑے فضل کئے اور ہر ایک امر میں ان کو کامیابی بخشی اور اپنے برگزیدہ بندوں میں ان کو داخل کیا اور ان کے مقابل پر ایک اور لوگ بھی گذرے ہیں جو خدا سے برگشتہ رہے اور دلیری سے ہر ایک قسم کے گناہ کئے اور خدا کے بندوں کو دکھ دیئے اور آخر وہ پکڑے گئے اور عذاب شدید میں مبتلا ہوئے.چشمه معرفت - ر- خ جلد 23 صفحہ 155 ) اور جس قدر قرآن شریف میں قصے ہیں وہ بھی در حقیقت قصے نہیں بلکہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو قصوں کے رنگ میں لکھی گئی ہیں ہاں وہ توریت میں تو ضرور صرف قصے پائے جاتے ہیں مگر قرآن شریف نے ہر ایک قصہ کو رسول کریم کے لئے اور اسلام کے لئے ایک پیشگوئی قرار دے دیا ہے اور یہ قصوں کی پیشگوئیاں بھی کمال صفائی سے پوری ہوئی ہیں غرض قرآن شریف معارف و حقائق کا ایک دریا ہے اور پیشگوئیوں کا ایک سمندر ہے.اور ممکن نہیں کہ کوئی انسان بجز ذریعہ قرآن شریف کے پورے طور پر خدا تعالیٰ پر یقین لا سکے کیونکہ یہ خاصیت خاص طور پر قرآن شریف میں ہی ہے کہ اس کی کامل پیروی سے وہ پر دے جو خدا میں اور انسان میں حائل ہیں سب دور ہو جاتے ہیں.(چشمہ معرفت...خ.جلد 23 صفحہ 271) وَيَسْتَلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ الاخر (الكهف: 84 تا 102) یہ زمانہ چونکہ کشف حقائق کا زمانہ ہے اور خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق اور معارف مجھ پر کھول رہا ہے.ذوالقرنین کے قصے کی طرف جو میری توجہ ہوئی تو مجھے یہ سمجھایا گیا کہ ذوالقرنین کے پیرایہ میں مسیح موعود ہی کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ذوالقرنین اس لئے رکھا ہے کہ قرآن چونکہ صدی کو کہتے ہیں اور مسیح موعود دو قرنوں کو پائے گا اس لئے ذوالقرنین کہلائے گا.چونکہ میں نے تیرھویں اور چودھویں صدی دونوں پائی ہیں اور اسی طرح پر دوسری صدیاں ہندوؤں اور عیسائیوں کی بھی پائی ہیں اس لحاظ سے تو ذوالقرنین ہے اور پھر اسی قصہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ذوالقرنین نے تین قومیں پائیں.اول وہ جو غروب آفتاب کے پاس ہے اور کیچڑ میں ہے اس سے مراد عیسائی قوم ہے جس کا آفتاب ڈوب گیا ہے یعنی شریعت حقہ ان کے پاس نہیں رہی.روحانیت مرگئی اور ایمان کی گرمی جاتی رہی یہ ایک کیچڑ میں پھنسے ہوئے ہیں.
356 دوسری قوم وہ ہے جو آفتاب کے پاس ہے اور جلنے والی دھوپ ہے.یہ مسلمانوں کی موجودہ حالت ہے.آفتاب یعنی شریعت حقہ ان کے پاس موجود ہے مگر یہ لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے کیونکہ فائدہ تو حکمت عملی سے اٹھایا جاتا ہے جیسے مثلا روٹی پکانا.وہ گوآگ سے پکائی جاتی ہے لیکن جب تک اس کے مناسب حال انتظام اور تدبیر نہ کی جاوے وہ روٹی تیار نہیں ہو سکتی اسی طرح پر شریعت حقہ سے کام لینا بھی ایک حکمت عملی کو چاہتا ہے.پس مسلمانوں نے اس وقت باوجود یکہ ان کے پاس آفتاب اور اس کی روشنی موجود تھی اور ہے لیکن کام نہیں لیا اور مفید صورت میں اس کو استعمال نہیں کیا اور خدا کے جلال اور عظمت سے حصہ نہیں لیا.اور تیسری وہ قوم ہے جس نے اس سے فریاد کی کہ ہم کو یا جوج اور ماجوج سے بچا یہ ہماری قوم ہے جو سیح موعود کے پاس آئی اور اس نے اس سے استفادہ کرنا چاہا ہے.غرض آج ان قصوں کا علمی رنگ ہے.ہمارا ایمان ہے کہ یہ قصہ پہلے بھی کسی رنگ میں گذرا ہے لیکن یہ سچی بات ہے کہ اس قصہ میں واقعہ آئندہ کا بیان بھی بطور پیشگوئی تھا جو آج اس زمانہ میں پورا ہو گیا.( ملفوظات جلد دوم صفحه 175-174) معانی و قرآن اور قصص قرآن وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيطِيْنُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَنَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَلكِنَّ الشَّيْطِيْنَ كَفَرُوا يُعَلِمُوْنَ النَّاسَ السّحرق...(البقره: 103) بعض نابکار قو میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو بت پرست کہتی ہیں اللہ تعالیٰ اس آیت میں ان کی تردید کرتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف واقعات پر بحث کرتا ہے اور قرآن کل دنیا کی صداقتوں کا مجموعہ اور سب دین کی کتابوں کا فخر ہے جیسے فرمایا ہے.فِيْهَا كُتُبْ قَيِّمَةٌ.اور يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً.(البينة: 3) پس قرآن کریم کے معنی کرتے وقت خارجی قصوں کو نہ لیں بلکہ واقعات کو مد نظر رکھنا چاہیئے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 388) حضرت عیسی کو اللہ تعالیٰ نے کلمۃ اللہ خصوصیت کے ساتھ کیوں کہا.اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی ولادت پر لوگ بڑے گندے اعتراض کرتے تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان الزاموں سے بری کرنے کے لئے فرمایا کہ وہ تو کلمتہ اللہ ہیں.ان کی ماں بھی صدیقہ ہے یعنی بڑی پاکباز اور عفیفہ ہے ورنہ یوں تو کلمۃ اللہ ہر شخص ہے.ان کی خصوصیت کیا تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمے اتنے ہیں کہ وہ ختم نہیں ہو سکتے.انہی اعتراضوں سے ہی بری کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کو کہا کہ وہ شیطان کے مس سے پاک تھے ورنہ کیا دوسرے انبیا ء شیطان کے ہاتھ سے مس شدہ ہیں؟ جو نعوذ باللہ دوسرے الفاظ میں یوں ہے کہ ان پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ شیطان کو کسی معمولی انسان پر بھی تسلط نہیں ہوتا تو انبیاء پر کس طرح ہو سکتا ہے؟ اصل وجہ صرف یہی تھی کہ ان پر برے اعتراض کئے گئے تھے.اسی واسطے ان کی بریت کا اظہار فرمایا.جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وماكفر سليمن (البقره: 103 ) کوئی کہے کہ کیا انبیاء بھی کافر ہوا کرتے ہیں؟ نہیں ایسا نہیں.لوگوں نے ان پر اعتراض کیا تھا کہ وہ بت پرست ہو گئے تھے ایک عورت کے لیے.اس اعتراض کا جواب دیا.یہی حال ہے حضرت عیسی کے متعلق.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 119-118)
357 آٹھویں فصل الہام حضرت اقدس مقطعات اور نسخ آیات (۱) حم.تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَبِ الْمُبِيْنِ (۲) راز کھل گیا.تفہیم.وہ جو خم ہے.اس میں خدا کے نوشتہ کے کئی نشان ہیں جو ظا ہر ہونے والے ہیں.ختم مقطعات میں کسی کا نام ہے.یہی تفہیم ہے.ظاہر ( ترجمه از مرتب) ختم یہ کھول کر بیان کرنے والی کتاب کے نشان ہیں.تذکرہ چوتھا ایڈیشن صفحہ 712 مطبوعہ 1977 )
358 الم ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ.(البقره: 2 تا 4) آیات مندرجہ بالا میں پہلے اس آیت پر یعنی السم.ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ.پرغور کرنا چاہیئے کہ کس لطافت اور خوبی اور رعایت ایجاد سے خدائے تعالیٰ نے وسوسہ مذکور کا جواب دیا ہے اول قرآن شریف کے نزول کی علت فاعلی بیان کی اور اس کی عظمت اور بزرگی کی طرف اشارہ فرمایا: اور کہا السم میں خدا ہوں جو سب سے زیادہ جانتا ہوں یعنی نازل کنندہ اس کتاب کا میں ہوں جو علیم و حکیم ہوں جس کے علم کے برابر کسی کا علم نہیں.(براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 200 حاشیہ نمبر 11) جب تک کسی کتاب کے علل اربعہ کامل نہ ہوں وہ کتاب کامل نہیں کہلا سکتی اس لیے خدا تعالیٰ نے ان آیات میں قرآن شریف کے علل اربعہ کا ذکر فرما دیا ہے اور وہ چار ہیں (۱) علت فاعلی (۲) علت مادی (۳) علت صوری (۴) علت غائی.اور ہر چہار کامل درجہ پر ہیں پس اسم علت فاعلی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے معنی ہیں انا اللہ اعلم یعنی کہ میں جو خدائے عالم الغیب ہوں میں نے اس کتاب کو اتارا ہے پس چونکہ خدا اس کتاب کی علت فاعلی ہے اس لئے اس کتاب کا فاعل ہر ایک فائل سے زبر دست اور کامل ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ.جلد 22 صفحہ 136 حاشیہ ) الركِيبٌ أُحْكِمَتْ ايتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ.(هود:2) الف سے مراد اللہ اور آل سے مراد جبرائیل اور ڈ سے مراد رسل ہیں چونکہ اس میں یہی قصہ ہے کہ کونسی چیزیں انسانوں کو ضروری ہیں اس لئے فرمایا: كتب أحْكِمَتْ الآيه.یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کی آیات پکی اور استوار ہیں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 343-342 ان وجوہات احکام آیات کے علاوہ میرے نزدیک اور بھی بہت سے وجوہات ہیں منجملہ ان کے ایک السر کے لفظ را سے پتہ لگتا ہے یہ لفظ مجددوں اور مرسلوں کے سلسلہ جاریہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو قیامت تک جاری ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 345)
359 نسخ آیات قرآنیہ ناسخ منسوخ مَا كَانَ اللَّهُ أَنْ يُرْسِلَ نَبِيًّا بَعْدَ نَبِيِّنَا خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَ مَا كَانَ أَنْ يُحْدِتَ سِلْسِلَةَ النُّبُوَّةِ ثَانِيَا بَعْدَ اِنْقِطَاعِهَا وَيَنْسَخُ بَعْضَ أَحْكَامِ الْقُرْآنِ وَ يَزِيْدَ عَلَيْهَا وَيُخْلِفَ وَعْدَهُ وَيَنْسَى اِكْمَالَهُ الْفُرْقَانَ وَ يُحْدِتَ الْفِتَنَ فِي الدِّيْنِ الْمَتِيْنِ.اَلَا تَقْرَءُ وْنَ فِى أَحَادِيثِ الْمُصْطَفَى سَلَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَصَلَّى أَنَّ الْمَسِيْحَ يَكُوْنُ اَحَدًا مِنْ أُمَّتِهِ وَيَتَّبِعُ جَمِيْعَ أَحْكَامِ مِلَّتِهِ وَيُصَلِّي مَعَ الْمُصَلَّيْنَ.( ترجمه از مرتب): اللہ تعالیٰ ہمارے نبی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں بھیجے گا اور نہ سلسلہ نبوت کے منقطع ہونے کے بعد اسے دوبارہ جاری کرے گا اور نہ ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ قرآن کریم کے بعض احکام کو منسوخ کرے یا ان میں اضافہ کرے اور اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کرے اور بھول جائے کہ وہ قرآن مجید کو کامل کر چکا ہے اور دین متین میں فتنے پیدا ہونے کی راہ کھول دے.کیا تم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نہیں پڑھتے کہ آنے والا مسیح آپ کی ہی امت کا ایک فرد ہوگا اور آپ کے دین کے تمام احکام کی اتباع کرے گا اور مسلمانوں کے طریق پر نماز ادا کرے گا.آئینہ کمالات اسلام - ر - خ - جلد 5 صفحہ 377) مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْنُنْسِهَانَاتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَاطَ أَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.(البقره: 107) صبح کو ایک الہام ہوا تھا میرا ارادہ ہوا کہ لکھ لوں.پھر حافظہ پر بھروسا کر کے نہ لکھا.آخر وہ ایسا بھولا کہ ہر چند یادو کیا مطلق یاد نہ آیا در اصل یہی بات ہے.مَا تَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ تُنْسِهَانَاتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْمِثْلِهَا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 60) میرا صد ہا مرتبہ کا تجربہ ہے کہ خدا ایسا کریم و رحیم ہے کہ جب اپنی مصلحت سے ایک دعا کو منظور نہیں کرتا تو اس کے عوض میں کوئی اور دعا منظور کر لیتا ہے جو اس کے مثل ہوتی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے مَانَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ اَوْ تُنْسِهَانَاتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا اَوْمِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.(البقرة:107) (حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 340)
360 قرآن کریم آپ فرماتا ہے مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْنُنْسِهَانَاتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْمِثْلِهَا یعنی کوئی آیت ہم منسوخ یا منسی نہیں کرتے جس کے عوض دوسری آیت ویسی ہی یا اس سے بہتر نہیں لاتے.پس اس آیت میں قرآن کریم نے صاف فرما دیا ہے کہ نسخ آیت کا آیت سے ہی ہوتا ہے اسی وجہ سے وعدہ دیا ہے کہ سخ کے بعد ضرور آیت منسوخہ کی جگہ آیت نازل ہوتی ہے ہاں علماء نے مساحت کی راہ سے بعض احادیث کو بعض آیات کی ناسخ ٹھیرایا ہے جیسا کہ حنفی فقہ کے رو سے مشہور حدیث سے آیت منسوخ ہو سکتی ہے.مگر امام شافعی اس بات کا قائل ہے کہ متواتر حدیث سے بھی قرآن کا نسخ جائز نہیں اور بعض محدثین خبر واحد سے بھی نسخ آیت کے قائل ہیں لیکن قائلین نسخ کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر حدیث سے آیت منسوخ ہو جاتی ہے بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ واقعی امر تو یہی ہے کہ قرآن پر نہ زیادت جائز ہے اور نہ نسخ کسی حدیث سے لیکن ہماری نظر قاصر میں جو استخراج مسائل قرآن سے عاجز ہے یہ سب باتیں صورت پذیر معلوم ہوتی ہیں.اور حق یہی ہے کہ حقیقی نسخ اور حقیقی زیادت قرآن پر جائز نہیں کیونکہ اس سے اس کی تکذیب لازم آتی ہے.حضرت اقدس کا عقید ہو اور تنسیخ آیات قرآنیہ الحق مباحثہ لدھیانہ.ر.خ.جلد 4 صفحہ 93-92) میں نے بار بار بیان کیا اور اپنی کتابوں کا مطلب سنایا کہ کوئی کلمہ کفران میں نہیں ہے نہ مجھے دعوئی نبوت و خروج از امت اور نہ میں منکر معجزات اور ملائک اور نہ لیلتہ القدر سے انکاری ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا قائل اور یقین کامل سے جانتا ہوں اور اس بات پر محکم ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے نبی صلعم خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد اس امت کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گا نیا ہو یا پرانا ہو اور قرآن کریم کا ایک شعشہ یا نقطہ منسوخ نہیں ہوگا.ہاں محدث آئیں گے جو اللہ جل شانہ سے ہمکلام ہوتے ہیں اور نبوت تامہ کی بعض صفات ظلمی طور پر اپنے اندر رکھتے ہیں اور بلحاظ بعض وجوہ شان نبوت کے رنگ سے رنگین کئے جاتے ہیں اور ان میں سے میں ایک ہوں.نشان آسمانی - ر - خ - جلد 4 صفحہ 391-390)
361 نویس فصل اللہ تعالیٰ کا قسم کھانا اسلام میں قسم کھانا جائز ہے وَيَسْتَبْتُوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ قُلْ إِيْ وَ رَبِّي إِنَّهُ لَحَقِّ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ.(يونس (54) یہ امر بالکل غلط ہے کہ اسلام میں قسم کھانا منع ہے.تمام نیک انسان مسلمانوں میں سے ضرورتوں کے وقت قسم کھاتے آئے ہیں.صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی ضرورتوں کے وقت قسم کھائی.ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بار ہا قسمیں کھائیں.خود خدا تعالیٰ نے قرآن میں قسمیں کھائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں مجرموں کو قسمیں دلائی گئیں.قسموں کا قرآن شریف میں صریح ذکر ہے.شریعت اسلام میں جب کسی اور ثبوت کا دروازہ بند ہو یا پیچیدہ ہو تو قسم پر مدار رکھا جاتا ہے اور صحیح البخاری جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب ہے اس میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے قسم کھا کر فرمایا کہ مسیح موعود جو آنے والا ہے جو تمہارا امام ہوگا وہ تم میں سے ہی ہو گا یعنی اسی امت میں سے ہو گا آسمان سے نہیں آئے گا.پھر صحیح بخاری جلد نمبر 4 صفحہ 106 میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قسموں کا ایک باب باندھا ہے.اس باب میں بہت سی قسمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھی ہیں جو دس سے کم نہیں.ایسا ہی صحیح نسائی جلد ثانی صفحہ 138 کتاب الایمان والنذور میں صفحہ 139 تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قسموں کا ذکر ہے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَيَسْتَنْبِنُوْنَکَ اَحَقٌّ هُوَ قُلْ إِلَى وَ رَبِّي إِنَّهُ لَحَقِّ (یونس : 54) یعنی تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ حق ہے.کہہ مجھے خدا کی قسم ہے کہ یہ حق ہے.ایسا ہی قرآن شریف میں یہ آیت ہے.وَاحْفَظُوْ آأَيْمَانَكُمْ (المائدة: 90) یعنی جب تم قسم کھاؤ تو جھوٹ اور بدعہدی اور بدنیتی سے اپنی قسم کو بچاؤ.ایسا ہی قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے اَرْبَعُ شَهدَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّدِقِينَ وَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الكذِبِينَ (النور: 8-7) یعنی شخص ملزم چار قسمیں خدا کی کھائے کہ وہ سچا اور پانچویں قسم میں یہ کہے کہ اس پر خدا کی لعنت ہوا گر وہ جھوٹا ہے.مجوعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 512-511 حاشیہ ) قسم کی فلاسفی اللہ تعالیٰ کی قسمیں اپنے اندر لامحدود اسرار معرفت کے رکھتی ہیں.جن کو اہل بصیرت ہی دیکھ سکتے ہیں.پس خدا تعالیٰ قسم کے لباس میں اپنے قانون قدرت کے بدیہات کی شہادت اپنی شریعت کے بعض دقائق حل کرنے کے لیے پیش کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی فعلی کتاب (قدرت) اس کی قولی کتاب ( قرآن شریف ) پر شاہد ہو جاوے اور اس کے قول اور فعل میں باہم مطابقت ہو کر طالب صادق کے لیے مزید معرفت اور سکنیت اور یقین کا موجب ہوا اور یہ طریق قرآن شریف میں عام ہے.مثلاً خدا تعالیٰ برہموؤں اور الہام کے منکروں پر یوں اتمام حجت کرتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 145)
362 مثلاً میں نے دیکھا ہے کہ آریہ اور عیسائی اعتراض کر دیتے ہیں کہ قرآن شریف میں قسمیں کیوں کھائی ہیں.اور پھر اپنی طرف سے حاشیہ چڑھا کر اس کو عجیب عجیب اعتراضوں کے پیرا یہ میں پیش کرتے ہیں.حالانکہ اگر ذرا بھی نیک نیتی اور فہم سے کام لیا جاوے تو ایسا اعتراض بیہودہ اور بیسود معلوم دیتا ہے.کیونکہ قسموں کے متعلق یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ قسم کھانے کا اصل مفہوم اور مقصد کیا ہوتا ہے.جب اس کی فلاسفی پر غور کیا جاوے تو پھر یہ خود بخودسوال حل ہو جاتا ہے اور زیادہ رنج اٹھانے کی نوبت ہی نہیں آتی.عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ قسم کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ قسم بطور قائم مقام گواہ کے ہوتی ہے.اور یہ مسلم بات ہے کہ عدالت جب گواہ پر فیصلہ کرتی ہے تو کیا اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ جھوٹ پر فیصلہ کرتی ہے.یا قسم کھانے والے کی قسم کو ایک شاہد صادق تصور کرتی ہے.یہ روز مرہ کی بات ہے.جہالت یا تعصب سے اعتراض کرنا اور بات ہے لیکن حقیقت کو مد نظر رکھ کر کوئی بات کہنا اور.اب جب کہ یہ عام طریق ہے کہ قسم بطور گواہ کے ہوتی ہے.پھر یہ کیسی سیدھی بات ہے کہ اسی اصول پر قرآن شریف کی قسموں کو دیکھ لیا جاوے.کہ وہاں اس سے کیا مطلب ہے.اللہ تعالیٰ نے جہاں کوئی قسم کھائی ہے تو اس سے یہ مراد ہے کہ نظری امور کے اثبات کے لئے بدیہی کو گواہ ٹھہراتا ہے.جیسے فرمایا: وَالسَّـــــــاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ إِنَّهُ لَقَوْل فَضل ( الطارق: 14-12 ) اب یہ بھی ایک قسم کا محل ہے.نادان قرآن شریف کے حقائق سے ناواقف اور نابلد.اپنی جہالت سے یہ اعتراض کر دیتا ہے کہ دیکھو زمین کی یا آسمان کی قسم کھائی.لیکن اس کو نہیں معلوم کہ اس قسم کے نیچے کیسے کیسے معارف موجود ہیں.اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وحی الہی کے دلائل اور قرآن شریف کی حقانیت کی شہادت پیش کرنی چاہتا ہے اور اس کو اس طرز پر پیش کیا ہے.غیر اللہ کی قسم کھا نا کلمہ کفر ہے ( ملفوظات جلد دوم صفحه 712-711) سواؤل قسم کے بارے میں خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ اللہ جل شانہ کی قسموں کا انسان کی قسموں پر قیاس کر لینا قیاس مع الفارق ہے خدا تعالیٰ نے جو انسان کو غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ انسان جب قسم کھاتا ہے تو اس کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی ہے اس کو ایک ایسے گواہ رویت کا قائم مقام ٹھہرا دے کہ جو اپنے ذاتی علم سے اس کے بیان کی تصدیق یا تکذیب کر سکتا ہے کیونکہ اگر سوچ کر دیکھو تو قسم کا اصل مفہوم شہادت ہی ہے.جب انسان معمولی شاہدوں کے پیش کرنے سے عاجز آ جاتا ہے تو پھر قسم کا محتاج ہوتا ہے تا اس سے وہ فائدہ اٹھا دے جو ایک شاہد رویت کی شہادت سے اٹھانا چاہئے لیکن یہ تجویز کرنا یا اعتقاد رکھنا کہ بجز خدا تعالیٰ کے اور بھی حاضر ناظر ہے.اور تصدیق یا تکذیب یا سزا دہی یا کسی اور امر پر قادر ہے صریح کلمہ کفر ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں انسان کے لئے یہی تعلیم ہے کہ غیر اللہ کی ہرگز فتم نہ کھاوے.( آئینہ کمالات اسلام.رخ- جلد 5 صفحہ 96-95 حاشیہ )
363 اللہ تعالیٰ غیر اللہ کی نہیں بلکہ اپنے افعال کی قسم کھاتا ہے اب ظاہر ہے کہ خدا تعالے کی قسموں کا انسان کی قسموں کے ساتھ قیاس درست نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کو انسان کی طرح کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آتی کہ جو انسان کو قسم کے وقت پیش آتی ہے بلکہ اس کا قسم کھانا ایک اور رنگ کا ہے جو اس کی شان کے لائق اور اس کے قانون قدرت کے مطابق ہے اور غرض اس سے یہ ہے کہ تا صحیفہ قدرت کے بدیہات کو شریعت کے اسرار دقیقہ کے حل کرنے کے لئے بطور شاہد کے پیش کرے اور چونکہ اس مدعا کو قسم سے ایک مناسبت تھی اور وہ یہ کہ جیسا ایک قسم کھانے والا جب مثلاً خدا تعالے کی قسم کھاتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالے میرے اس واقعہ پر گواہ ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے بعض کھلے کھلے افعال بعض چھپے ہوئے افعال پر گواہ ہیں.اس لئے اس نے قسم کے رنگ میں اپنے افعال بدیہیہ کو اپنے افعال نظریہ کے ثبوت میں جا بجا قرآن کریم میں پیش کیا اور اس کی نسبت یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے غیر اللہ کی قسم کھائی.کیونکہ وہ درحقیقت اپنے افعال کی قسم کھاتا ہے نہ کسی غیر کی اور اس کے افعال اس کے غیر نہیں ہیں مثلاً اس کا آسمان یا ستارہ کی قسم کھانا اس قصد سے نہیں ہے کہ وہ کسی غیر کی قسم ہے بلکہ اس نیت سے ہے کہ جو کہ کچھ اس کے ہاتھوں کی صنعت اور حکمت آسمان اور ستاروں میں موجود ہے اس کی شہادت بعض اپنے افعال مخفیہ کے سمجھانے کے لئے پیش کرے.( آئینہ کمالات اسلام.ر.خ.جلد 5 صفحہ 97-96 حاشیہ) قسم جسمانی نظام کو روحانی نظام کی تصدیق کرنے کی غرض سے ہے وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَمَاهُوَ بِالْهَزْلِ إِنَّهُمْ يَكِيْدُوْنَ كَيْدًا وَّاكِيْدُ كَيْدًا.(الطارق 17 تا12) قسم ہے آسمان کی جس سے مینہ نازل ہوتا ہے اور قسم ہے زمین کی جو پھوٹ کر اناج نکالتی ہے.یہ کلام یعنی قرآن شریف حق اور باطل میں فیصلہ کرنے والا ہے اور بے فائدہ نہیں.یعنی اس کلام کی ایسی ہی ضرورت ثابت ہے جیسا کہ جسمانی نظام میں مینہ کی ضرورت ثابت ہے.اگر مینہ نہ ہو تو آخر کار کنوئیں بھی خشک ہو جاتے ہیں اور دریا بھی.اور پھر نہ پینے کے لئے پانی رہتا ہے اور نہ کھانے کے لئے اناج کیونکہ ہر ایک برکت زمین کی آسمان سے ہی نازل ہوتی ہے.اس دلیل سے خدا نے ثابت کیا ہے کہ جیسا کہ پانی اور اناج کی ہمیشہ ضرورت ہے ایسا ہی خدا کی کلام اور اس کے تسلی دینے والے معجزات کی ہمیشہ ضرورت ہے کیونکہ محض گذشتہ قصوں سے تسلی نہیں ہو سکتی.چشمہ معرفت - ر-خ- جلد 23 صفحہ 102)
364 دسویں فصل حفاظت قرآن کریم إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ.(الحجر: 10) حفاظت قرآن کی قرآنی پیشگوئی اس کتاب کو ہم نے ہی نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ رہیں گے.سو تیرہ سو برس سے اس پیشین گوئی کی صداقت ثابت ہو رہی ہے.اب تک قرآن شریف میں پہلی کتابوں کی طرح کوئی مشر کا نہ تعلیم ملنے نہیں پائی اور آئندہ بھی عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ اس میں کسی نوع کی مشر کا نہ تعلیم مخلوط ہو سکے کیونکہ لاکھوں مسلمان اسکے حافظ ہیں.ہزار ہا اس کی تفسیریں ہیں.پانچ وقت اس کی آیات نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں.ہر روز اس کی تلاوت کی جاتی ہے.اسی طرح تمام ملکوں میں اس کا پھیل جانا کروڑ ہانسے اس کے دنیا میں موجود ہونا ہر ایک قوم کا اس کی تعلیم سے مطلع ہو جانا یہ سب امور ایسے ہیں کہ جن کے لحاظ سے عقل اس بات پر قطع واجب کرتی ہے کہ آئندہ بھی کسی نوع کا تغیر اور تبدل قرآن شریف میں واقع ہونا ممتنع اور محال ہے.(براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 102 حاشیہ نمبر 9) دو باتیں بڑی یا درکھنے والی ہیں ایک تو قرآن مجید کی حفاظت کی نسبت کہ روئے زمین پر ایک بھی ویسی کتاب نہیں جس کی حفاظت کا وعدہ خود اللہ کریم نے کیا ہو اور جس میں انا نحن نزلنا الذكر و انا له لحافظون.(الحجر: 10) کا پرزور اور متحد یا نہ دعولی موجود ہو.اور دوسرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی حالتوں کی نسبت.کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر ایک طرح کے اخلاق ظاہر کرنے کا موقعہ ملا.حضرت موسیٰ کو دیکھو کہ وہ راستہ میں ہی فوت ہو گئے تھے اور حضرت عیسی تو ہمیشہ مغلوب ہی رہے.معلوم نہیں اگر غالب ہوتے تو کیا کرتے.مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح سے اقتدار اور اختیار حاصل کر کے اپنے جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں کو اپنے سامنے بلا کر کہدیا.لا تثریب علیکم اليوم (یوسف:93 ) ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 338،339) تعریف : حفاظت قرآن اور قرآن کی حفاظت صرف اسی قدر نہیں جو اس کے صحف مکتو بہ کو خوب نگہبانی سے رکھیں کیونکہ ایسے کام تو اوائل حال میں یہود اور نصاری نے بھی کئے یہانتک کہ توریت کے نقطے بھی گن رکھے تھے.بلکہ اس جگہ مع حفاظت ظاہری حفاظت فوائد و تاثیرات قرآنی مراد ہے اور وہ موافق سنت اللہ کے تبھی ہو سکتی ہے کہ جب وقتا فوقتا نائب رسول آویں جن میں ظلی طور پر رسالت کی تمام نعمتیں موجود ہوں اور جکو وہ تمام برکات دی گئی ہوں جو نبیوں کو دیجاتی ہوں جیسا کہ ان آیات میں اسی امر عظیم کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنَا يَعْبُدُونَنِي لَايُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ (النور: 56 )
365 پس یہ آیت در حقیقت اس دوسری آیت إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَوَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ.(الحجر: 10) کے لئے بطور تفسیر کے واقعہ ہے اور اس سوال کا جواب دے رہی ہے کہ حفاظت قرآن کیونکر اور کس طور سے ہوگی.سوخدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس نبی کریم کے خلیفے وقتاً فوقتاً بھیجتا رہونگا اور خلیفہ کے لفظ کو اشارہ کیلئے اختیار کیا گیا کہ وہ نبی کے جانشین ہونگے اور اسکی برکتوں میں سے حصہ پائینگے جیسا کہ پہلے زمانوں میں ہوتارہا.اور انکے ہاتھ سے برجائی دین کی ہوگی اور خوف کے بعد امن پیدا ہو گا یعنے ایسے وقتوں میں آئینگے کہ جب اسلام تفرقہ میں پڑا ہوگا.پھر انکے آئیکے بعد جوان سے سرکش رہیگا وہی لوگ بدر کا راور فاسق ہیں.یہ اس بات کا جواب ہے کہ بعض جاہل کہا کرتے ہیں کہ کیا ہم پر اولیاء کا ماننا فرض ہے.سو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیشک فرض ہے اور ان سے مخالفت کرنے والے فاسق ہیں اگر مخالفت پر ہی مریں.شہادت القرآن - ر-خ- جلد 6 صفحہ 339) وَكَذَالِكَ قَالَ فِي آيَةٍ أُخْرَى لِقَوْمٍ يَسْتَرْشِدُوْنَ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّالَهُ لَحَافِظُوْنَ فَامْعَنُوْا فِيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَفَكَّرُوْنَ فَهَذِهِ إِشَارَةٌ إِلَى بَعْثِ مُجَدِدٍ فِي زَمَانٍ مُّفْسَدٍ كَمَا يَعْلَمُهُ الْعَاقِلُوْنَ وَلَا مَعْنَى لِحِفَاظَةِ الْقُرْآنِ مِنْ غَيْرِ حِفَاظَةِ عِطْرِهِ عِنْدَ شُيُوعِ فِتَنِ الطُّغْيَانِ وَإِثْبَاتِهِ فِي الْقُلُوْبِ عِنْدَ هَةٍ صَرَاصِرِ الطُّغْيَانِ كَمَالَا يَخْفَى عَلَى ذَوِى الْعِرْفَانِ وَالْمُتَدَبِّرِيْن سر الخلافة -ر-خ- جلد 8 صفحہ 362-361) (ترجمہ از مرتب) اور اسی طرح طالبان ہدایت کے لئے دوسری آیت میں فرمایا: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَوَ إِنَّا لَهُ لحفِظُونَ.پس اس میں غور کرو اگر تم صاحب فکر ہو.اس آیت میں ایسے زمانہ میں جو فساد سے پُر ہوا ایک مجدد کی بعثت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ ہر عقل مند جانتا ہے.کیونکہ حفاظت قرآن کے اور کوئی معنے ہی نہیں سوائے اس کے کہ اس کی روح اور اس کے خلاصہ کو محفوظ رکھا جائے بالخصوص اس وقت جبکہ سرکشی کے فتنے بکثرت موجود ہوں اور قرآن مجید کو دلوں میں قائم رکھا جائے جب کہ سرکشی کی تند ہوائیں چل رہی ہوں جیسا کہ صاحب علم و عرفان اور غور کرنے والے لوگوں پر مخفی نہیں.قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ دائمی ہے یہ آیت کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُوْن - بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ قرآن سینوں سے محو نہیں کیا جائے گا جس طرح کہ توریت اور انجیل یہود اور نصاریٰ کے سینوں سے محو کی گئی اور گوتوریت اور انجیل ان کے ہاتھوں اور ان کے صندوقوں میں تھی لیکن ان کے دلوں سے محو ہوگئی یعنی ان کے دل اس پر قائم نہ رہے اور انہوں نے توریت اور انجیل کو اپنے دلوں میں قائم اور بحال نہ کیا.غرض یہ آیت بلند آواز سے پکار رہی ہے کہ کوئی حصہ تعلیم قرآن کا بر باد اور ضائع نہیں ہوگا اور جس طرح روز اول سے اس کا پودا دلوں میں جمایا گیا.یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.ہم نے ہی اس کتاب کو اتارا اور ہم ہی اس تنزیل کی محافظت کریں گے.اس میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ کلام ہمیشہ زندہ رہے گا اوراس کی تعلیم کو تازہ رکھنے والے اور اس کا نفع لوگوں کو پہنچانے والے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے.شہادت القرآن.ر-خ- جلد 6 صفحہ 338) ( شہادت القرآن...خ.جلد 6 صفحہ 351)
366 یہ حديث ( ان الله يبعث لهذه الامة على راس كل مائة سنة من يجدد لها دينها.ناقل) إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَوَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُوْن کی شرح ہے.صدی ایک عام آدمی کی عمر ہوتی ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ سوسال بعد کوئی نہ رہے گا.جیسے صدی جسم کو مارتی ہے اسی طرح ایک روحانی موت بھی واقع ہوتی ہے.اس لئے صدی کے بعد ایک نئی ذریت پیدا ہو جاتی ہے.جیسے اناج کے کھیت.اب دیکھتے ہیں کہ ہرے بھرے ہیں ایک وقت میں بالکل خشک ہوں گے پھر نئے سر سے پیدا ہو جا ئیں گے اس طرح پر ایک سلسلہ جاری رہتا ہے.پہلے اکا بر سو سال کے اندر فوت ہو جاتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ ہر صدی پرنیا انتظام کر دیتا ہے جیسا رزق کا سامان کرتا ہے.پس قرآن کی حمایت کے ساتھ یہ حدیث تواتر کا حکم رکھتی ہے.کپڑا پہنتے ہیں تو اس کی بھی تجدید کی ضرورت پیدا ہوتی ہے اسی طریق پر نئی ذریت کو تازہ کرنے کیلئے سنت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ ہر صدی پر مجدد آتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 87-86) تکمیل وعدہ حفاظت قرآن مختلف ذرائع سے قرآن شریف میں یہ وعدہ تھا کہ خدا تعالیٰ فتنوں اور خطرات کے وقت میں دین اسلام کی حفاظت کریگا جیسا کہ وہ فرماتا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُوْن.سوخدا تعالیٰ نے بموجب اس وعدہ کے چار قسم کی حفاظت اپنی کلام کی کی اول حافظوں کے ذریعہ سے اس کے الفاظ اور ترتیب کو محفوظ رکھا اور ہر ایک صدی میں لاکھوں ایسے انسان پیدا کئے جو اس کی پاک کلام کو اپنے سینوں میں حفظ رکھتے ہیں ایسا حفظ کہ اگر ایک لفظ پوچھا جائے تو اس کا اگلا پچھلا سب بتا سکتے ہیں اور اس طرح پر قرآن کو تحریف لفظی سے ہر ایک زمانہ میں بچایا.دوسرے ایسے ائمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے جنہوں نے قرآن شریف کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کر کے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہر ایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا.تیسرے متکلمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق دے کر خدا کی پاک کلام کو کو نہ اندیش فلسفیوں کے استخفاف سے بچایا ہے.چوتھے روحانی انعام پانے والوں کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہر ایک زمانہ میں معجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ سے بچایا ہے.ایام الصلح - ر - خ - جلد 14 صفحہ 288 ) پوچھا گیا کہ قرآن کا جو نزول ہوا ہے وہ یہی الفاظ ہیں یا کس طرح؟ فرمایا: - یہی الفاظ ہیں اور یہی خدا کی طرف سے نازل ہوا.قرآت کا اختلاف الگ امر ہے ما اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَّلَا نَبِي (الحج: 53) میں لَا مُحَدَّثِ قرآت شازہ ہے اور یہ قرآت صحیح حدیث کا حکم رکھتی ہے جس طرح نبی اور رسول کی وحی محفوظ ہوتی ہے اسی طرح محدث کی وحی بھی محفوظ ہوتی ہے جیسا کہ اس آیت میں پایا جاتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 449)
367 معنوی حفاظت کے اعتبار سے فَإِنَّ الْقُرْآنَ كِتَابٌ قَدْ كَفَّلَ اللهُ صِحَتَهُ وَ قَالَ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ وَ إِنَّهُ لَا يَتَغَيَّرُ بِتَغَيُّرَاتِ الْأَزْمِنَةِ وَمُرُوْرِ الْقُرُوْنِ الْكَثِيرَةِ وَلَا يَنْقُصُ مِنْهُ حَرْفٌ وَّ لَا تَذِيْدُ عَلَيْهِ نُقْطَةٌ وَّ لَا تَمَسُّهُ أَيْدِي الْمَخْلُوْق وَلَا يُخَالِطُهُ قَوْلُ الْأَدَمِيِّينَ.( ترجمه از مرتب) قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کی صحت لفظی و معنوی کا اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے اور اس نے فرمایا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُوْنَ.زمانہ کے تغیرات اور زیادہ صدیاں گزر جانے کے باوجود اس کتاب میں کوئی تغیر نہیں ہو گا.اس سے نہ کوئی حرف کم ہو گا اور نہ اس میں کوئی نقطہ زیادہ ہوگا.نہ اس میں مخلوق دست برد کر سکے گی اور نہ اس میں انسانوں کا کلام شامل ہو سکے گا.(حمامة البشرئ - - -خ- جلد 7 صفحہ 216) ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے یعنی جب اس کے معانی میں غلطیاں وارد ہوں گی تو اصلاح کے لئے ہمارے مامور آیا کریں گے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 178) ارسال مجددین اور مرسلین کے ذریعہ سے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ (الحجر: 10 ) یہ امر قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت کرتا رہا ہے اور کرے گا جیسا کہ فرمایا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ یعنی بے شک ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.اِنَّا لَهُ لَحفِظُوْنَ کا لفظ صاف طور پر دلالت کرتا ہے کہ صدی کے سر پر ایسے آدمی آتے رہیں گے جو گم شدہ متاع کو لائیں اور لوگوں کو یاد دلائیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 629) ( یہ آیت ) صاف بتلا رہی ہے کہ جب ایک قوم پیدا ہوگی کہ اس ذکر کو دنیا سے مٹانا چاہے گی تو اس وقت خدا آسمان سے اپنے کسی فرستادہ کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کرے گا.( تحفہ گولڑویہ.ر - خ - جلد 17 صفحہ 267 حاشیہ نمبر 2 ) حفاظت قرآن کیونکر اور کس طرح سے ہو گی سو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس نبی کریم کے خلیفے وقتاً فوقتاً بھیجتا رہوں گا اور خلیفہ کے لفظ کو اشارہ کے لئے اختیار کیا گیا کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گے اور اس کی برکتوں میں سے حصہ پائیں گے جیسا کہ پہلے زمانوں میں ہوتا رہا اور ان کے ہاتھ سے برجائی دین کی ہوگی اور خوف کے بعد امن پیدا ہو گا یعنی ایسے وقتوں میں آئیں گے کہ جب اسلام تفرقہ میں پڑا ہو گا پھر ان کے آنے کے بعد جوان سے سرکش رہے گا وہی لوگ بدکار اور فاسق ہیں.شہادت القرآن - ر-خ- جلد 6 صفحہ 339 )
368 الر كِتَبٌ أحْكِمَتْ ايتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيْرٍ.(هود:2) الف سے مراد اللہ اور آل سے مراد جبرائیل اور را سے مراد رسل ہیں چونکہ اس میں یہی قصہ ہے کہ کونسی چیزیں انسانوں کوضروری ہیں اس لئے فرمایا کتب احكمت الآیہ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کی آیات کی اور استوار ہیں.قرآن کریم کی تعلیموں کو اللہ تعالیٰ نے کئی طرح پر متحکم کیا تا کہ کسی قسم کا شک نہ رہے اور اسی لئے شروع میں ہی فرمایا: لَا رَيْبَ فِيْهِ (البقرہ: 3 ) یہ استحکام کئی طور پر کیا گیا ہے.اولا قانون قدرت سے استواری اور استحکام قرآنی تعلیموں کا کیا گیا.جو کچھ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے قانون قدرت اس کو پوری مدد دیتا ہے.گویا جو قرآن میں ہے وہی کتاب مکنون میں ہے.اس کا راز انبیاء علیہم السلام کی پیروی کے بدوں سمجھ میں نہیں آسکتا.اور یہی وہ سر ہے جو لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (الواقعه: 80) میں رکھا گیا ہے.غرض پہلے قرآنی تعلیم کو قانون قدرت سے مستحکم کیا ہے مثلاً قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی صفت وحدہ لاشریک بتلائی.جب ہم قانون قدرت میں نظر کرتے ہیں تو مانا پڑتا ہے کہ ضرور ایک ہی خالق و مالک ہے کوئی اس کا شریک نہیں.دل بھی اسے ہی مانتا ہے اور دلائل قدرت سے بھی اسی کا پتہ لگتا ہے کیونکہ ہر ایک چیز جو دنیا میں موجود ہے وہ اپنے اندر کرویت رکھتی ہے جیسے پانی کا قطرہ اگر ہاتھ سے چھوڑیں تو وہ کروی شکل کا ہوگا اور کروی شکل تو حید کو مستلزم ہے اور یہی وجہ ہے کہ پادریوں کو بھی ماننا پڑا کہ جہاں تثلیث کی تعلیم نہیں پہنچی وہاں کے رہنے والوں سے توحید کی پرسش ہوگی چنانچہ پادری فنڈر نے اپنی تصنیفات میں اس امر کا اعتراف کیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر قرآن کریم دنیا میں نہ بھی ہوتا تب بھی ایک ہی خدا کی پرستش ہوتی.اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا بیان صحیح ہے کیونکہ اس کا نقش انسانی فطرت اور دل میں موجود ہے اور دلائل قدرت سے اس کی شہادت ملتی ہے برخلاف اس کے انجیلی تثلیث کا نقش نہ دل میں ہے نہ قانون قدرت اس کا مؤید ہے.یہی معنے ہیں کتب اُحْكِمَتْ الآيه کے یعنی قانون قدرت سے اس کی تعلیموں کو ایسا مستحکم اور استوار کیا گیا ہے کہ مشرک و عیسائی کو بھی ماننا پڑا کہ انسان کے مادۂ فطرت سے توحید کی باز پرس ہوگی.دوسری وجہ استحکام کی خدا تعالیٰ کے نشانات ہیں.کوئی نبی کوئی مامور دنیا میں ایسا نہیں آتا جس کے ساتھ تائیدات الہی شامل نہ ہوں اور یہ تائیدات اور نشانات ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت پر شوکت اور پر قوت تھے.آپ کے حرکات سکنات میں کلام میں نشانات تھے.گویا آپ کا وجود از سر تا پا نشانات الہی کا پتلا تھا.تیسرا احکام نبی کا پاک چال چلن اور راست بازی ہے.یہ منجملہ ان باتوں کے ہے جو عقلمندوں کے نزد یک امین ہونا بھی ایک دلیل ہے جیسے حضرت ابو بکر صدیق نے اس سے دلیل پکڑی.
369 چوتھا احکام جو ایک زبردست وجہ استواری اور استحکام کی ہے نبی کی قوت قدسیہ ہے جس سے فائدہ پہنچتا ہے.جیسے طبیب خواہ کتنا ہی دعویٰ کرے کہ میں ایسا ہوں اور ویسا ہوں اور اس کو سدیدی خواہ نوک زبان ہی کیوں نہ ہو.لیکن اگر لوگوں کو اس سے فائدہ نہ پہنچے تو یہی کہیں گے کہ اس کے ہاتھ میں شفا نہیں ہے.اسی طرح پر نبی کی قوت قدسی جس قد ر ز بر دست ہو اسی قدر اس کی شان اعلیٰ اور بلند ہوتی ہے.قرآن کریم کی تعلیم کے استحکام کے لئے یہ پشتیبان بھی سب سے پڑا پشتیبان ہے.ان وجوہات احکام آیات کے علاوہ میرے نزدیک اور بھی بہت سے وجوہات ہیں منجملہ ان کے ایک السر کے لفظ سے پتہ لگتا ہے یہ لفظ مجددوں اور مرسلوں کے سلسلہ جاریہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو قیامت تک جاری ہے.اب اس سلسلہ میں آنے والے مجددوں کے خوارق ان کی کامیابیوں ان کی پاک تا شیروں وغیرہ وجوہات احکام آیات کو گن بھی نہیں سکتے.اور یہ سب خوارق اور کامیابیاں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے متبعین مجددوں کے ذریعہ سے ہوئیں اور قیامت تک ہوں گی.درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی کامیابیاں ہیں.غرض ہر صدی کے سر پر مسجد کا آنا صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ مردوں سے استمداد خدا تعالیٰ کی منشاء کے موافق نہیں.اگر مردوں سے مدد کی ضرورت ہوتی تو پھر زندوں کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہزاروں ہزار جواولیاء اللہ پیدا ہوتے ہیں اس کا کیا مطلب تھا.مجد دین کا سلسلہ کیوں جاری کیا جا تا؟ اگر اسلام مردوں کے حوالے کیا جاتا تو یقیناً سمجھو کہ اس کا نام ونشان مٹ گیا ہوتا.یہودیوں کا مذہب مردوں کے حوالے کیا گیا.نتیجہ کیا ہوا؟ عیسائیوں نے مردہ پرستی سے بتلاؤ کیا پایا؟ مردوں کو پوجتے پوجتے خود مردہ ہو گئے.نہ مذہب میں زندگی کی روح رہی نہ ماننے والوں میں زندگی کے آثار باقی رہے.اول سے لے کر آخر تک مردوں ہی کا مجمع ہو گیا.اسلام ایک زندہ مذہب ہے.اسلام کا خدا حتی و قیوم خدا ہے پھر وہ مردوں سے پیار کیوں کرنے لگا.وه حتی و قیوم خدا تو بار بار مردوں کو جلاتا ہے يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحدید: 18) تو کیا مردوں کے ساتھ تعلق پیدا کرا کر جلاتا ہے.نہیں.ہر گز نہیں.اسلام کی حفاظت کا ذمہ اسی حی و قیوم خدا نے إِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ.(الحجر: (10) کہ کر اٹھایا ہوا ہے.پس ہر زمانہ میں یہ دین زندوں سے زندگی پاتا ہے اور مردوں کو جلاتا ہے.یادرکھو اس میں قدم قدم پر زندے آتے ہیں.پھر فرمایا: ثُمَّ فُصِّلَتْ.ایک تو وہ تفصیل ہے جو قرآن کریم میں ہے.دوسری یہ کہ قرآن کریم کے معارف و حقائق کے اظہار کا سلسلہ قیامت تک دراز کیا گیا ہے.ہر زمانے میں نئے معارف اور اسرار ظاہر ہوتے ہیں.فلسفی اپنے رنگ میں طبیب اپنے مذاق پر ا صوفی اپنے طرز پر بیان کرتے ہیں.اور پھر یہ تفصیل بھی حکیم و خبیر خدا نے رکھی ہے.حکیم اس کو کہتے ہیں کہ جن چیزوں کا علم مطلوب ہو وہ کامل طور پر ہو اور پھر عمل بھی کامل ہوا ایسا کہ ہر ایک چیز کو اپنے اپنے محل و موقع پر رکھ سکے.حکمت کے معنے وَضْعُ الشَّيْءٍ فِي مَحَلَّه اور خبیر مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی ایسا وسیع علم کہ کوئی چیز اس کی خبر سے باہر نہیں.چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب مجید کو خاتم الکتب ٹھہرایا تھا اور اس کا زمانہ قیامت تک دراز تھا.وہ خوب جانتا تھا کہ کس طرح پر یہ علیمیں ذہن نشین کرنی چاہئیں.چنانچہ اسی کے مطابق تفاصیل کی پہ ہیں.پھر اس کا سلسلہ جاری رکھا کہ جو مجد دو مصلح احیاء دین کے لئے آتے ہیں وہ خود مفصل آتے ہیں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 346-342)
370 بعثت حضرت اقدس علیہ السلام کے ذریعہ سے الصد اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ (الحجر: 10) قرآن شریف کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے چودھویں صدی کے سر پر مجھے بھیجا.(ملفوظات جلد اول صفحہ 433) لہذا اب یہ زمانہ ایسا زمانہ تھا کہ جو طبعا چاہتا تھا کہ جیسا کہ مخالفوں کے فتنہ کا سیلاب بڑے زور سے چاروں پہلوؤں پر حملہ کرنے کے لئے اٹھا ہے.ایسا ہی مدافعت بھی چاروں پہلوؤں کے لحاظ سے ہو اور اس عرصہ میں چودھویں صدی کا آغاز بھی ہو گیا.اس لئے خدا نے چودھویں صدی کے سر پر اپنے وعدہ کے موافق جو اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحْفِظُوْنَ ہے.اس فتنہ کی اصلاح کے لئے ایک مجدد بھیجا مگر چونکہ ہر ایک مجدد کا خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک خاص نام ہے اور جیسا کہ ایک شخص جب ایک کتاب تالیف کرتا ہے تو اس کے مضامین کے مناسب حال اس کتاب کا نام رکھ دیتا ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اس مجدد کا نام خدمات مفوضہ کے مناسب حال مسیح رکھا کیونکہ یہ بات مقرر ہو چکی تھی کہ آخر الزمان کے صلیبی فتنوں کی مسیح اصلاح کرے گا.پس جس شخص کو یہ اصلاح سپرد ہوئی ضرور تھا کہ اس کا نام مسیح موعود در کھا جائے.پس سوچو کہ يَكْسِرُ الصَّلِيْب کی خدمت کس کو سپرد ہے؟ اور کیا اب یہ وہی زمانہ ہے یا کوئی اور ہے؟ سوچو خدا تمہیں تھام لے.ایام اسح.رخ- جلد 14 صفحہ 290-289) قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذکر ہے اس ابتدائی زمانہ میں انسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش ہوئی ہوئی صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا.اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی رو سے کہ انا لَهُ لَحفِظُونَ اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الجمعة : 4 ) كا مصداق اور موعود ہے.وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 60) یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کیلئے غیور ہے.اس نے بیچ فرمایا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لحفظون (الحجر: 10) اس نے اس وعدہ کے موافق اپنے ذکر کی محافظت فرمائی اور مجھے مبعوث کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کے موافق کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آتا ہے اس نے مجھے صدی چہار دہم کا مجدد کیا جس کا نام کا سر الصلیب بھی رکھا ہے.اگر ہم اس دعوی میں غلطی پر ہیں تو پھر سارا کاروبار نبوت کا ہی باطل ہوگا اور سب وعدے جھوٹے ٹھہریں گے اور پھر سب سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہوگی کہ خدا تعالیٰ بھی جھوٹوں کی حمایت کرنے والا ثابت ہوگا (معاذ اللہ ) کیونکہ ہم اس سے تائیدیں پاتے ہیں اور اس کی نصرتیں ہمارے ساتھ ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحه 371-370) وہ پاک وعدہ جس کو یہ پیارے الفاظ ادا کر رہے ہیں کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ وَهِ انہیں دنوں کے لئے وعدہ ہے جو بتلا رہا ہے کہ جب اسلام پر سخت بلا کا زمانہ آئے گا اور سخت دشمن اس کے مقابل کھڑا ہو گا اور سخت طوفان پیدا ہو گا تب خدائے تعالیٰ آپ اس کا معالجہ کرے گا اور آپ اس طوفان سے بچنے کے لئے کوئی کشتی عنایت کرے گا وہ کشتی اس عاجز کی دعوت ہے.آئینہ کمالات اسلام - ر-خ- جلد 5 صفحہ 264 حاشیہ ) اس وقت میرے مامور ہونے پر بہت سی شہادتیں ہیں اول اندرونی شہادت دوم بیرونی شہادت سوم صدی کے سر پر آنے والے مجدد کی نسبت حدیث حج.چہارم إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ (الحجر: 10) کا وعدہ حفاظت.( ملفوظات جلد دوم صفحه 360)
371 حفاظت قرآن کریم.تاثیرات کے ذریعہ سے قرآن شریف میں اگر تدبر کریں تو اس کی روشن حقیقت آپ کو معلوم ہو جائے گی.توریت میں کوئی اثر باقی نہیں رہا.ورنہ چاہیے تھا کہ ان میں اولیاء اللہ اور صلحاء ہوتے.یہودی: چونکہ توریت پر عمل نہیں رہا.اس لیے ولی اور صلحا نہیں ہوتے.حضرت اقدس: اگر توریت میں کوئی تاثیر باقی ہوئی تو اسے ترک ہی کیوں کرتے ؟ اگر آپ کہیں کہ بعض نے ترک کیا ہے تو پھر بھی اعتراض بدستور قائم ہے کہ جنھوں نے ترک نہیں کیا.ان پر جو اثر ہوا ہے وہ پیش کرو.اور اگر کل ہی نے ترک کر دیا ہے تو یہ ترک تاثیر کو باطل کرتا ہے.ہم قرآن شریف کے لیے یہی نہیں مانتے.یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے.لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں.چنانچہ میں اس وقت اسی ثبوت کے لیے بھیجا گیا ہوں.اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اس کی حمایت اور تائید کے لیے بھیجتا رہا ہے.کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا.إِنَّا نَحْنُ نُزِّلْنَا الذِكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَافِظُون (الحجر: (10 ) یعنی بے شک ہم نے ہی اس ذکر ( قرآن شریف ) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.قرآن شریف کی حفاظت کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ توریت یا کسی اور کتاب کے لیے نہیں.اسی لیے ان کتابوں میں انسانی چالاکیوں نے اپنا کام کیا.قرآن شریف کی حفاظت کا یہ بڑا ز بر دست ذریعہ ہے کہ اس کی تاثیرات کا ہمیشہ تازہ بتازہ ثبوت ملتا رہتا ہے اور یہود نے چونکہ توریت کو بالکل چھوڑ دیا ہے اور ان میں کوئی اثر اور قوت باقی نہیں رہی جو ان کی موت پر دلالت کرتی ہے.ہے ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 450) ہے ہے شکر رب عزوجل خارج از بیاں جس کے کلام سے ہمیں اس کا ملا نشاں وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں ہو گی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں اس سے خدا کا چہرہ نمودار ہو گیا شیطاں کا مکر و وسوسہ بے کار ہو گیا وہ رہ جو ذات عزوجل کو دکھاتی وہ رہ جو دل کو پاک و مطهر بناتی وہ رہ جو یار گم شدہ کو کھینچ لاتی ہے وہ رہ جو جام پاک یقیں کا پلاتی ہے وہ رہ جو اس کے ہونے پر محکم دلیل ہے وہ راہ جو اس کے پانے کی کامل سبیل ہے اس نے ہر ایک کو وہی رستہ دکھا دیا جتنے شکوک و شبہ تھے سب کو مٹا دیا قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے! بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے ( در مشین اردو صفحہ 90-91 ) ( براہین احمدیہ.رخ.جلد 21 صفحہ 12-13)
372 گیارہویں فصل عظمت قرآن کریم بمقابل دیگر صحف سماوی قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے.دیگر صحف کی تکمیل کرتا.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائده: 4) یادر ہے کہ کسی مذہب کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یعنی اس بات کے ثبوت کے لئے کہ وہ مذہب منجانب اللہ ہے دو قسم کی فتح کا اس میں پایا جانا ضروری ہے.اول یہ کہ وہ مذ ہباپنے عقاید اور اپنی تعلیم اور اپنے احکام کی رو سے ایسا جامع اور اکمل اور اتم اور نقص سے دور ہو کہ اس سے بڑھ کر عقل تجویز نہ کر سکے اور کوئی نقص اور کمی اس میں دکھلائی نہ دے اور اس کمال میں وہ ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہو یعنی ان خوبیوں میں کوئی مذہب اس کے برابر نہ ہو.جیسا کہ یہ دعوی قرآن شریف نے آپ کیا ہے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا یعنی آج میں نے تمہارے لیے اپنا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کیا اور میں نے پسند کیا کہ اسلام تمہارا مذہب ہو یعنی وہ حقیقت جو اسلام کے لفظ میں پائی جاتی ہے جس کی تشریح خود خدا تعالیٰ نے اسلام کے لفظ کے بارہ میں بیان کی ہے اس حقیقت پر تم قائم ہو جاؤ اس آیت میں صریح یہ بیان ہے کہ قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطا کی ہے اور قرآن شریف کا ہی ایسا زمانہ تھا جس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی.پس یہ دعوی کامل تعلیم کا جو قرآن شریف نے کیا یہ اسی کا حق تھا اس کے سوا کسی آسمانی کتاب نے ایسا دعویٰ نہیں کیا جیسا کہ دیکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ توریت اور انجیل دونوں اس دعوئی سے دست بردار ہیں.کیونکہ توریت میں خدا تعالیٰ کا یہ قول موجود ہے کہ میں تمہارے بھائیوں میں سے ایک نبی قائم کرونگا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو شخص اس کے کلام کو نہ سنے گا میں اس سے مطالبہ کروں گا.پس صاف ظاہر ہے کہ اگر آئندہ زمانہ کی ضرورتوں کی رو سے توریت کا سننا کافی ہوتا تو کچھ ضرورت نہ تھی کہ کوئی اور نبی آتا اور مواخذہ الہیہ سے مخلصی پانا اس کلام کے سننے پر موقوف ہوتا جو اس پر نازل ہوتا.ایسا ہی انجیل نے کسی مقام میں دعوی نہیں کیا کہ انجیل کی تعلیم کامل اور جامع ہے بلکہ صاف اور کھلا کھلا اقرار کیا ہے کہ اور بہت سی باتیں قابل بیان تھیں مگر تم برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ سب کچھ بیان کرے گا.اب دیکھنا چاہیئے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی توریت کو ناقص تسلیم کر کے آنے والے نبی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی ایسا ہی حضرت عیسی نے بھی اپنی تعلیم کا نامکمل ہونا قبول کر کے یہ عذر پیش کر دیا کہ ابھی کامل تعلیم بیان کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ کامل تعلیم بیان کر دیگا مگر قرآن شریف نے توریت اور انجیل کی طرح کسی دوسرے کا حوالہ نہیں دیا بلکہ اپنی کامل تعلیم کا تمام دنیا میں اعلان کر دیا اور فرمایا کہ اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ
373 عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا اس سے ظاہر ہے کہ کامل تعلیم کا دعوی کرنے والا صرف قرآن شریف ہی ہے اور ہم اپنے موقعہ پر بیان کریں گے کہ جیسا کہ قرآن شریف نے دعوی کیا ہے ویسا ہی اس نے اس دعوے کو پورا کر کے دکھلا بھی دیا ہے اور اس نے ایک ایسی کامل تعلیم پیش کی ہے جس کو نہ توریت پیش کر سکی اور نہ انجیل بیان کر سکی.پس اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ وہ تعلیم کی رو سے ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہے اور کامل تعلیم کے لحاظ سے کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.(براہین احمدیہ.رخ.جلد 21 صفحہ 5-3 ) آؤ عیسائیو!! ادھر آؤ!!! نور حق دیکھو! راہ حق پاؤ! جس قدر خوبیاں ہیں فرقاں میں کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ! درد مندوں کی ہے دوا وہی ایک ہے خدا سے خدا نما وہی ایک ہم نے پایا خور ھدی وہی ایک ہم نے دیکھا ہے دل رُبا وہی ایک اُس کے منکر جو بات کہتے ہیں! یوں ہی اک واہیات کہتے ہیں! بات جب ہو کہ میرے پاس آویں میرے منہ پر وہ بات کہہ جاویں مجھ سے اس دل ستاں کا حال سنیں مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی نہ سہی.یونہی امتحان سہی خور بمعنی روشنی یا مینار در نشین اردو صفحہ 54 ) ( براہین احمدیہ - ر - خ - جلد 1 صفحہ 299-298 حاشیه در حاشیہ نمبر 2) دیگر کتب مختص الزمان مختص القوم تھیں میں اعتراض نہیں کرتا بلکہ میرا مقصد اس بیان سے اس امر کا اظہار ہے کہ یہ دونو کتا بیں صرف ایک ہی خاندان کی تھیں.نہ حضرت عیسی نے اور نہ حضرت موسیٰ نے کبھی یہ دعویٰ کیا کہ وہ تمام دنیا کے واسطے رسول ہو کر آئے تھے بلکہ وہ تو صرف اسرائیلی بھیڑوں تک ہی اپنی تعلیم محدود کرتے ہیں.ان کا اپنا اقرار موجود ہے.پس بلحاظ ضرورت کے ان کو جو کتاب ملی وہ بھی ایک قانون مختص الزمان اور مختص القوم تھا.اب ظاہر ہے کہ ایک چیز جو ایک خاص ضرورت کے لیے ایک خاص زمانے اور مکان کے واسطے آئی تھی.اگر اس کو زبردستی اور خواہ نخواہ تمام دنیا پر محیط ہونے کے واسطے کھینچ تان کی جائے گی تو اس کا لازماً یہی نتیجہ ہو گا کہ وہ اس کام سے عاری رہے گی جس بوجھ کے اٹھانے کے واسطے وہ وضع ہی نہیں کی گئی اس کی کیسے متحمل ہو سکے گی؟ اور یہی وجہ ہے کہ ان تعلیمات میں موجودہ زمانہ کے حالات کے ماتحت نقص ہیں.مگر قرآن مجید مختص الزمان نہیں، مختص القوم نہیں اور نہ ہی مختص المکان ہے بلکہ اس کامل اور مکمل کتاب کے لانے والے کا دعوی ہے کہ اپنی رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 159) اور ایک دوسری آیت میں یوں بھی آیا ہے.لِانْذِرَكُمْ بِهِ وَ مَنْ بَلَغَ (الانعام: 20) یعنی لازمی ہوگا کہ جس کو قرآنی تعلیم پہنچے وہ خواہ کہیں بھی ہو اور کوئی بھی ہو اس تعلیم کی پیروی کو اپنی گردن پر اٹھائے.
374 انسانی فطرت کا پورا اور کامل عکس صرف قرآن شریف ہی ہے.اگر قرآن نہ بھی آیا ہوتا جب بھی اسی تعلیم کے مطابق انسان سے سوال کیا جاتا کیونکہ یہ ایسی تعلیم ہے جو فطرتوں میں مرکوز اور قانون قدرت کے ہر صفحہ میں مشہور ہے.جن کی تعلیمات ناقص اور خاص قوم تک محدود ہیں اور وہ آگے ایک قدم بھی نہیں چل سکتیں ان کی نبوت کا دروازہ بھی ان کے اپنے ہی گھر تک محدود ہے.مگر قرآن شریف کہتا ہے اِن مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ (فاطر:25) دیکھو یہ کیسی پاک اور دل میں دخل کر جانے والی بات اور کیسا سچا اصول ہے مگر یہ لوگ ہیں کہ خدا کی خدائی کو صرف اپنے ہی گھر تک محدود خیال کرتے ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 655-654) قرآن کریم کی تعلیم کو جو دوسری تعلیموں پر کمال درجہ کی فوقیت ہے تو اس کی دو وجہ ہیں.اول یہ کہ پہلے نبی اپنے زمانہ کے جمیع بنی آدم کے لئے مبعوث نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ صرف اپنی ایک خاص قوم کیلئے بھیجے جاتے تھے جو خاص استعداد میں محدود اور خاص طور کے عادات اور عقائد اور اخلاق اور روش میں قابل اصلاح ہوتے تھے پس اس وجہ سے وہ کتابیں قانون مختص القوم کی طرح ہو کر صرف اسی حد تک اپنے ساتھ ہدایت لاتی تھیں جو اس خاص قوم کے مناسب حال اور انکے پیمانہ استعداد کے موافق ہوتی تھی.دوسری وجہ یہ کہ ان انبیاء علیہم السلام کو ایسی شریعت ملتی تھی جو ایک خاص زمانہ تک محدود ہوتی تھی وہ اور خدا تعالیٰ نے ان کتابوں میں یہ ارادہ نہیں کیا تھا کہ دنیا کے اخیر تک وہ ہدائتیں جاری رہیں اسلئے و کتابیں قانون مختص الزمان کی طرح ہو کر صرف اسی زمانہ کی حد تک ہدایت لاتی تھیں جو ان کتابوں کی پابندی کا زمانہ حکمت الہی نے اندازہ کر رکھا تھا.یہ دونوں قسم کے نقص جو ہم نے بیان کئے ہیں قرآن کریم بکلی ان سے مبرا ہے کیونکہ قرآن کریم کے اتارنے سے اللہ جل شانہ کا یہ مقصد تھا کہ وہ تمام بنی آدم اور تمام زمانوں اور تمام استعدادوں کی اصلاح اور تکمیل اور تربیت کر سکے اور اسلام کی پوری شکل اور پوری عظمت بنی آدم پر ظاہر ہو اور اسکے ظہور کا وقت بھی آ پہنچا تھا اسلئے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کو تمام قوموں اور تمام زمانوں کیلئے جو قیامت تک آنیوالے تھے ایک کامل اور جامع قانون کی طرح نازل فرمایا اور ہر یک درجہ کی استعداد کیلئے افادہ اور افاضہ کا دروازہ کھولدیا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ (الفاطر: 33) ( آئینہ کمالات اسلام.رخ - جلد 5 صفحہ 128-127-126)
375 قرآن کریم گذشتہ تعلیموں کا مستم اور مکمل ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ چونکہ انسان سہو ونسیان سے مرکب ہے اور نوع انسان میں خدا کے احکام عملی طور پر ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتے.اسلئے ہمیشہ نئے یاد دلانے والے اور قوت دینے والے کی ضرورت پڑتی ہے.لیکن قرآن شریف ان ہی دوضرورتوں کی وجہ سے نازل نہیں ہوا.بلکہ وہ پہلی تعلیموں کا در حقیقت متم اور مکمل ہے.مثلاً تو ریت کا زور حالات موجودہ کے لحاظ سے زیادہ تر قصاص پر ہے اور انجیل کا زور حالات موجودہ کے لحاظ سے عفو اور صبر اور درگذر پر ہے.اور قرآن ان دونوں صورتوں میں محل شناسی کی تعلیم دیتا ہے.ایسا ہی ہر ایک باب میں توریت افراط کی طرف گئی ہے اور انجیل تفریط کی طرف اور قرآن شریف وسط کی تعلیم کرتا اور محل اور موقعہ کا سبق دیتا ہے.گونفس تعلیم متینوں کتابوں کا ایک ہی ہے.مگر کسی نے کسی پہلو کوشد ومد کے ساتھ بیان کیا اور کسی نے کسی پہلو کو.اور کسی نے فطرت انسانی کے لحاظ سے درمیانہ راہ لیا جوطریق تعلیم قرآن ہے.اور چونکہ محل اور موقعہ کا لحاظ رکھنا یہی حکمت ہے.سو اس حکمت کو صرف قرآن شریف نے سکھلایا ہے توریت ایک بیہودہ سختی کی طرف کھینچ رہی ہے.اور انجیل ایک بیہودہ عفو پر زور دے رہی ہے.اور قرآن شریف وقت شناسی کی تاکید کرتا ہے.پس جس طرح پستان میں آکر خون دودھ بن جاتا ہے.اسی طرح توریت اور انجیل کے احکام قرآن میں آ کر حکمت بن گئے ہیں.اگر قرآن شریف نہ آیا ہوتا تو توریت اور انجیل اس اندھے کے تیر کی طرح ہوتیں کہ کبھی ایک آدھ دفعہ نشانہ پر لگ گیا اور سو دفعہ خطا گیا.غرض شریعت قصوں کے طور پر توریت سے آئی اور مثالوں کی طرح انجیل سے ظاہر ہوئی اور حکمت کے پیرایہ میں قرآن شریف سے حق اور حقیقت کے طالبوں کو ملی.( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.رخ.جلد 12 صفحہ 359 مع حاشیہ ) یختی اور نرمی اپنے اپنے زمانہ اور قوم کی موجودہ حالت کے لحاظ سے مناسب تعلیم تھی مگر حقیقی تعلیم نہیں تھی جو قابل ترک نہ ہو.منہ
376 قرآن کریم دنیا کی تمام اقوام کے لئے آیا ہے قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ.(الاعراف: 159) قرآن شریف نے ہی کھلے طور پر یہ دعوی کیا ہے کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کے لیے آیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا یعنی تمام لوگوں کو کہدے کہ میں تم سب کے لیے رسول ہو کر آیا ہوں اور پھر فرماتا ہے (کہ) وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء: 108) یعنی میں نے تمام عالموں کے لیے تجھے رحمت کر کے بھیجا ہے اور پھر فرماتا ہے لِيَكُونَ لِلْعَلَمِيْنَ نَذِيرًا (الفرقان (2) یعنی ہم نے اس لیے بھیجا ہے کہ تمام دنیا کو ڈراوے لیکن ہم بڑے زور سے کہتے ہیں کہ قرآن شریف سے پہلے دنیا کی کسی الہامی کتاب نے یہ دعوی نہیں کیا بلکہ ہر ایک نے اپنی رسالت کو اپنی قوم تک ہی محدود رکھا یہاں تک کہ جس نبی کو عیسائیوں نے خدا قرار دیا اس کے منہ سے بھی یہی نکلا کہ میں اسرائیل کی بھیڑوں کے سوا اور کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا اور زمانہ کے حالات نے بھی گواہی دی کہ قرآن شریف کا یہ دعوی تبلیغ عام کا عین موقعہ پر ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت تبلیغ عام کا دروازہ کھل گیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے بعد نزول اس آیت کے کہ قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کی طرف دعوت اسلام کے خط لکھے تھے کسی اور نبی نے غیر قوموں کے بادشاہوں کی طرف دعوت دین کے ہرگز خط نہیں لکھے کیونکہ وہ دوسری قوموں کی دعوت کے لیے مامور نہ تھے یہ عام دعوت کی تحریک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ہی شروع ہوئی اور مسیح موعود کے زمانہ میں اس کے ہاتھ سے کمال تک پہنچی.چشمہ معرفت صفحه - ر-خ- جلد 23 صفحہ 77-76) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا.کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدودوقت یا مخصوض قوم کے لئے نہ تھی جیسے آپ سے پہلے نبیوں کی ہوتی تھی بلکہ آپ کے لئے فرمایا گیا فل (یا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا اور وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ جس شخص کی بعثت اور رسالت کا دائرہ اس قدر وسیع ہو اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے.الحکم جلد 7 نمبر 20 مورخہ 31 مئی 1903 ء صفحہ 2)
377 دیگر صحف سماوی محرف مبدل ہیں قرآن شریف نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ انجیل یا توریت سے صلح کر یگا بلکہ ان کتابوں کو شرف مبدل اور ناقص اور نا تمام قرار دیا ہے اور تاج خاص أكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدہ: 4) کا اپنے لئے رکھا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ سب کتابیں انجیل توریت قرآن شریف کے مقابل پر کچھ بھی نہیں اور ناقص اور محرف اور مبدل ہیں اور تمام بھلائی قرآن میں ہے.( دافع البلاء صفحہ 19 - ر- خ - جلد 18 صفحہ 239) مِنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ وَيَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيَّا بِالْسِنَتِهِمْ وَطَعْنَا فِي الذِيْنِ وَ لَوْأَنَّهُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَكِنْ لَّعَنَهُمُ اللهِ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ إِلَّا قَلِيْلاً.(النساء: 47) یہودی بھی تو ایسے ہی کام کرتے تھے کہ اپنی رائے سے اپنی تفسیروں میں بعض آیات کے معنے کرنے کے وقت بعض الفاظ کو مقدم اور بعض کو مؤخر کر دیتے تھے جن کی نسبت قرآن مجید میں یہ آیت موجود ہے کہ يُحَرِّفُونَ الكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ (المائدہ: 14) ان کی تحریف ہمیشہ لفظی نہیں تھی بلکہ معنوی بھی تھی.سوایسی تحریفوں سے ہر یک مسلمان کو ڈرنا چاہیئے.الحق دہلی...خ.جلد 4 صفحہ 215) دجل یہ ہے کہ اندر ناقص چیز ہو اور اوپر کوئی صاف چیز ہو.مثلاً او پرسونے کا ملمع ہو اور اندر تانبہ ہو.یہ دجل ابتدائے دنیا سے چلا آتا ہے مکر و فریب سے کوئی زمانہ خالی نہیں رہا.زرگر کیا کرتے ہیں.جیسے دنیا کے کاموں میں دجل ہے ویسے ہی روحانی کاموں میں بھی دجل ہوتا ہے.يُحْرِفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ (النساء: 47) بھی دجل ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 295 ان کتابوں توریت اور انجیل) کی نسبت قرآن مجید میں يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعه(المائدہ: 14) لکھا ہے وہ لوگ شرح کے طور پر اپنی طرف سے بھی کچھ ملا دیا کرتے تھے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 338)
378 إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَوَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ.(الحجر: 10) بیشک ہم نے ہی اس ذکر ( قرآن شریف ) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.قرآن شریف کی حفاظت کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ توریت یا کسی اور کتاب کے لئے نہیں اسی لئے ان کتابوں میں انسانی چالاکیوں نے اپنا کام کیا.قرآن شریف کی حفاظت کا یہ بڑاز بر دست ذریعہ ہے کہ اس کی تاثیرات کا ہمیشہ تازہ بتازہ ثبوت ملتا رہتا ہے اور یہود نے چونکہ توریت کو بالکل چھوڑ دیا ہے اور ان میں کوئی اثر اور قوت باقی نہیں رہی جو ان کی موت پر دلالت کرتی ہے.سوال نمبر 2:.براہین احمدیہ میں آپ نے کلام الہی کی ایک نشانی یہ بھی لکھی ہے کہ وہ ہر ایک پہلو میں دوسری کلاموں سے افضل ہوتا ہے.توریت انجیل بھی تو خدا تعالیٰ کا کلام ہیں کیا ان میں بھی یہ وصف پایا جاتا ہے؟ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 450 ) حضرت اقدس نے فرمایا کہ :.ان کتابوں کی نسبت قرآن مجید میں يُحْرِفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِه (المائدة: 14) لکھا ہے وہ لوگ شرح کے طور پر اپنی طرف سے بھی کچھ ملادیا کرتے تھے.اس لیے جو کتابیں محرف مبدل ہو چکی ہیں ان میں یہ نشانی کب مل سکتی ہے؟ اس پر حضرت حکیم الامت نے عرض کی کہ حضور توریت میں لکھا ہے ” پھر موسیٰ خدا کا بندہ مر گیا اور موسیٰ جیسا نہ کوئی پیدا ہوا نہ ہوگا اور اس کی قبر بھی آج تک کوئی نہیں جانتا تو یہ کلام حضرت موسیٰ کی ہو ہی کس طرح سکتی ہے اور انجیل کی نسبت تو عیسائی خود قائل ہیں کہ وہ اصلی جو عیسی کی انجیل تھی نہیں ملتی.یہ سب تراجم در تراجم ہیں اور ترجمے مترجم کے اپنے خیالات کے مطابق ہوا کرتے ہیں.اور ان میں بہت سا حصہ اس قسم کا پایا جاتا ہے جو دوسروں کا بیان ہے جیسے صلیب کا واقعہ وغیرہ.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ :.یہ ٹھیک بات ہے.اگر تمام دنیا میں تلاش کریں تو قرآن مجید کی طرح خالص اور محفوظ کلام الہی کبھی نہیں مل سکتا بالکل محفوظ اور دوسروں کی دست برد سے پاک کلام تو صرف قرآن مجید ہی ہے.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 338) شکر خدائے رحماں ! جس نے دیا ہے قرآں غنچے تھے سارے پہلے اب گل کھلا یہی ہے کیا وصف اس کے کہنا ہر حرف اس کا گہنا دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے دیکھی ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خواہیں خالی ہیں ان کی قابیں خوان ہدی یہی ہے اس نے خدا ملایا وہ یار اس سے پایا راتیں تھیں جتنی گذریں اب دن چڑھا یہی ہے اس نے نشاں دکھائے طالب سبھی بلائے سوتے ہوئے جگائے بس حق نما یہی ہے پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب بگاڑے دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا یہی ہے کہتے ہیں حسنِ یوسف دلکش بہت تھا.لیکن خوبی و دلبری میں سب سے سوا یہی ہے ( در ثمن اردو صفحہ 76 ) ( قادیان کے آریہ اور ہم.رخ.جلد 20 صفحہ 455 )
379 قرآن کریم کی وحی اولین اور آخرین کی وحیوں سے اقومی اور المل اور ارفع ہے وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلَّمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ.(الشورى: 52) جس جگہ صفوت و عصمت و تبتل و محبت کامل و تام حزن و در دو شوق و خوف ہے اس جگہ انوار وحی کے کامل تجلیات بغیر آمیزش کسی نوع کی ظلمت کے وارد ہوتے رہتے ہیں اور آفتاب کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے رہتے ہیں اور جس جگہ یہ مرتبہ کمال تام کا نہیں اس جگہ وحی بھی اس عالی مرتبہ سے متزلزل ہوتی ہے.غرض وحی الہی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں خدائے تعالیٰ کی صفات عالیہ کا چہرہ حسب صفائی باطن نبی منزل علیہ کے نظر آتا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیا وصدق وصفا و توکل و وفا اور عشق الہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل وارفع و اعلی واصفا تھے اس لئے خدائے جل شانہ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ اور دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اس لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقومی و اکمل وارفع و تم ہو کر صفات الہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو.سرمه چشم آریہ.رخ.جلد نمبر 2 صفحہ 71 حاشیہ) وَإِنَّهُ مَا تَجَلَّى مِنْ قَبْلُ وَ لَا يَتَجَلَّى مِنْ بَعْدُ كَمِثْلِ تَجَلَيْهِ لِخَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ وَ لَيْسَ شَانُ وَحْيِ الْأَوْلِيَاءِ كَمِثْلِ شَانٍ وَحْيِ الْفُرْقَانِ وَ إِنْ أَوْحِيَ إِلَيْهِمْ كَلِمَةٌ كَمِثْلِ كَلِمَاتِ الْقُرْآنِ.فَإِنَّ دَائِرَة مَعَارِفَ الْقُرْآنِ أَكْبَرُ الدَّوَائِرِ وَإِنَّهَا أَحَاطَ الْعُلُوْمَ كُلَّهَا وَجَمَعَ فِي نَفْسِهَا أَنْوَاعَ السَّرَائِرِ وَ بَلَغَتْ دَقَائِقُهَا إِلَى الْمَقَامِ الْعَمِيْقِ الْغَائِرِ وَ سَبَقَ الْكُلَّ بَيَانًا وَبُرْهَانًا وَ زَادَ عِرْفَانًا وَإِنَّهُ كَلَامُ اللَّهِ الْمُعْجِزُ مَا قَرَعَ مِثْلُهُ اذَانًا وَلَا يَبْلُغُهُ قَوْلُ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ شَانًا.اور یہ یقینی بات ہے کہ خدا تعالی کی تجلی جیسی کہ خاتم الانبیاء پر ہوئی ایسی کسی پر نہ پہلے ہوئی اور نہ بھی پیچھے ہوگی اور جوشان قرآن کی وحی کی ہے وہ اولیاء کی وحی کی شان نہیں اگر چہ قرآن کے کلمات کی مانند کوئی کلمہ انہیں وحی کیا جائے اس لئے کہ قرآن کے معارف کا دائرہ سب دائروں سے بڑا ہے اور اس میں سارے علوم اور ہر طرح کی عجیب اور پوشیدہ باتیں جمع ہیں اور اس کی دقیق باتیں بڑے اعلیٰ درجہ کے گہرے مقام تک پہنچی ہوئی ہیں اور وہ بیان اور برہان میں سب سے بڑھ کر اور اس میں سب سے زیادہ عرفان ہے اور وہ خدا کا مجز کلام ہے جس کی مثل کانوں نے نہیں سنا اور اس کی شان کو جن وانس کا کلام نہیں پہنچ سکتا.الهدای ر.خ.جلد 18 صفحہ 276)
380 إِنَّ الْوَحْيَ كَمَا يَنْزِلُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ كَذَلِكَ يَنْزِلُ عَلَى الْأَوْلِيَاءِ وَلَا فَرْقَ فِي نُزُوْلِ الْوَحْيِ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ إِلى نَبِيِّ اَوْ وَلِي وَلِكُلّ حَظِّ مِنْ مُكَالِمَاتِ اللَّهِ تَعَالَى وَ مُخَاطَبَاتِهِ عَلَى حَسَبِ الْمَدَارِجِ نَعَمْ لِوَحْيِ الْأَنْبِيَاءِ شَأْنَ اتَمُ وَاَكْمَلُ وَ أَقْوَى أَقْسَامِ الْوَحْيِ وَحْيُ رَسُوْلِنَا خَاتَمِ النَّبِيِّينَ.ترجمه از مرتب:.وحی جیسے انبیاء پر نازل ہوتی ہے ویسے ہی وہ اولیاء پر نازل ہوتی ہے اور نبی اور ولی پر وحی کے نزول میں کوئی فرق نہیں ہوتا ان میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کے مکالمات اور مخاطبات سے علی حسب المدارج حصہ ملتا ہے ہاں انبیاء کی وحی کو ایک شان اتم اور اکمل حاصل ہوتی ہے اور وحی کی اقسام میں سے زیادہ قوی وہ وحی ہے جو ہمارے نبی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی.تحفہ بغداد - ر-خ- جلد 7 صفحہ 28-27 حاشیہ ) وحی صاحب وحی کی فطرت کے مطابق ہوتی ہے ہر یک وحی نبی منزل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں جلال اور غضب تھا.توریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی.حضرت مسیح علیہ السلام کے مزاج میں حلم اور نرمی تھی سوانجیل کی تعلیم بھی حلم اور نرمی پر مشتمل ہے مگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج پرمش بغایت درجہ وضع استقامت پر واقع تھا.نہ ہر جگہ حلم پسند تھا اور نہ ہر مقام غضب مرغوب خاطر تھا بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقع کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی.سو قرآن شریف بھی اسی طرز موزوں و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع شدت ورحمت و ہیبت و شفقت و نرمی و درشتی ہے.( براھین احمدیہ رخ - جلد 1 صفحہ 193 حاشیہ نمبر 1) ہر شخص کا کلام اس کی ہمت کے موافق ہوتا ہے جس قدر اس کی ہمت اور عزم اور مقاصد عالی ہوں گے اسی پایہ کا وہ کلام ہو.سووحی الہی میں بھی وہی رنگ ہوگا.جس شخص کی طرف اس کی وحی آئی ہے.جس قدر ہمت بلند رکھنے والا وہ ہوگا اسی پایہ کا کلام اسے ملے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملاوہ بھی اس پایہ اور رتبہ کیا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدودوقت یا مخصوص قوم کے لئے تھی جیسے آپ سے پہلے نبیوں کی ہوتی تھی.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 41-40) وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ.(الانبياء : 108) ایک شخص جو کل دنیا کی اصلاح کے لئے آنے والا تھا کب ہو سکتا تھا کہ وہ ایک معمولی انسان ہوتا ! جس قدر انبیاء علیہم السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آئے وہ سب ایک خاص خاص قوم کے لئے آئے تھے اس لئے ان کی شریعت مختص القوم اور مختص الزمان تھی.مگر ہمارے نبی وہ عظیم الشان نبی ہیں جن کے لئے حکم ہوا کہ وَمَا اَرْسَلْنگ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ.اور قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.(الاعراف: 159) اس لئے جس قدر عظمتیں آپ کی بیان ہوئی ہیں مصلحت الہی کا بھی یہی تقاضا تھا کیونکہ جس پر ختم نبوت ہونا تھا اگر وہ اپنے کمالات میں کمی رکھتا تو پھر وہی کمی آئندہ امت میں رہتی.کیونکہ جس قدر کمالات اللہ تعالیٰ کسی نبی میں پیدا کرتا ہے اسی قدر اس کی امت میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور جس قدر کمز ور تعلیم وہ لاتا ہے اتناہی ضعف اس کی امت میں نمودار ہو جاتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 663)
381 قرآن کریم ہر الہام پر یمن ہے وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلَّمَهُ اللَّهِ إِلَّا وَحْيَا أَوْمِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ.(الشورى: 52) یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر ایک الہام کے لئے وہ سنت اللہ بطور امام اور میمن اور پیش رو کے ہے جو قرآن کریم میں وارد ہو چکی ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی الہام اس سنت کو توڑ کر ظہور میں آوے کیونکہ اس سے پاک (انوار الاسلام - ر-خ- جلد 9 صفحہ 91) نوشتوں کا باطل ہونا لازم آتا ہے.جب تک کسی الہام پر خدا تعالیٰ کی مہر نہ ہو وہ ماننے کے لائق نہیں ہوتا.دیکھو قرآن شریف کو عربوں جیسے اشد کا فر کب مان سکتے تھے اگر خدا تعالیٰ کی مہر اس پر نہ ہوتی.ہمیں بھی اگر کوئی کشف رویا یا الہام ہوتا ہے تو ہمارا دستور ہے کہ اسے قرآن مجید پر عرض کرتے ہیں اور اس کے سامنے پیش کرتے ہیں.اور پھر یہ بھی یادرکھو کہ اگر کوئی الہام قرآن مجید کے مطابق بھی ہولیکن کوئی نشان ساتھ نہ ہو تو وہ قابل قبول نہیں ہوتا.قابل قبول الہام وہی ہوتا ہے جو قرآن مجید کے مطابق بھی ہو اور ساتھ ہی اس کی تائید میں نشان بھی ہوں.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 364) اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيْزَانَ طَ وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيْبٌ.(الشورى: 18) خدا وہ ہے جس نے کتاب یعنی قرآن شریف کو حق اور میزان کے ساتھ اتارا یعنی وہ ایسی کتاب ہے جو حق اور باطل کے پر کھنے کے لئے بطور میزان کے ہے.جنگ مقدس - ر - خ - جلد 6 صفحہ 86) وَ إِنَّ لِلْقُرْآنِ شَانًا أَعْظَمَ مِنْ كُلَّ شَانٍ وَ إِنَّهُ حَكَمٌ وَّ مُهَيْمِنٌ وَّ إِنَّهُ جَمَعَ الْبَرَاهِيْنَ وَبَدَّدَ الْعِدَا.وَإِنَّهُ كِتَابٌ فِيْهِ تَفْصِيلُ كُلَّ شَيْءٍ وَفِيْهِ أَخْبَارُ مَا يَأْتِي وَمَا مَضَى.وَلَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ وَإِنَّهُ نُوْرُ رَبَّنَا الْأَعْلَى.( ترجمہ اردو) اور قرآن کی وہ اعلیٰ شان ہے کہ ہر ایک شان سے بلند ہے وہ حکم ہے یعنی فیصلہ کر نیوالا اور وہ ہیمن ہے یعنی تمام ہدایتوں کا مجموعہ ہے اس نے تمام دلیلیں جمع کر دیں اور دشمنوں کی جمعیت کو تتر بتر کر دیا.اور وہ ایسی کتاب ہے کہ اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور اس میں آئندہ اور گذشتہ کی خبریں موجود ہیں اور باطل کو اس کی طرف راہ نہیں ہے نہ آگے سے نہ پیچھے سے اور وہ خدا کا نور ہے.(خطبہ الہامیہ.رخ.جلد 16 صفحہ 103)
382 قرآن کریم معجزہ ہے اور بے مثل ہے وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ وَادْعُوْا شُهَدَاءَ كُمْ مِنْ دُوْنِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ.فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِيْنَ.(البقره: 24 25) یہ بات خوب یا درکھو کہ جیسے ان تمام چیزوں کی نظیر اور شبیہ بنانا کہ جو صادر من اللہ ہیں غیر ممکن اور منع ہے ایسا ہی قرآن شریف کی نظیر بنانا بھی حدامکان سے خارج ہے.یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے عرب کے نامی شاعروں کو کہ جن کی عربی مادری زبان تھی اور جو طبعی طور پر اور نیز کسی طور پر مذاق کلام سے خوب واقف تھے مانا پڑا کہ قرآن شریف انسانی طاقتوں سے بلند تر ہے اور کچھ عرب پر موقوف نہیں بلکہ خود تم میں سے کئی اندھے تھے کہ جو اس کامل روشنی سے بینا ہو گئے اور کئی بہرے تھے کہ اس سے سننے لگ گئے اور اب بھی وہ روشنی چاروں طرف سے تاریکی کو اٹھاتی جاتی ہے اور قرآن شریف کے انوار حقہ دلوں کو منور کرتے جاتے ہیں.( براھین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 475-474 حاشیہ نمبر 3) وَقَالُوْا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ ايَتٌ مِّنْ رَّبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الْأَيْتُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ.أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ.قُلْ كَفَى بِاللَّهِ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ شَهِيدًا يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَ الَّذِيْنَ آمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَ كَفَرُوْا بِاللهِ أُولئِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ.وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاءَ هُمُ الْعَذَابُ أتِيَنهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ.(العنكبوت: 51تا54) فرمایا کہ ایسا ہی نشان چاہتے ہو جو تمہارے وجودوں پر وارد ہو جائے تو پھر عذاب کے نشان کی کیا حاجت ہے کیا اس مدعا کے حاصل کرنے کے لئے رحمت کا نشان کافی نہیں یعنی قرآن شریف جو تمہاری آنکھوں کو اپنے پُر نور اور تیز شعاعوں سے خیرہ کر رہا ہے اور اپنی ذاتی خوبیاں اور اپنے حقائق اور معارف اور اپنی فوق العادت خواص اس قدر دکھلا رہا ہے جس کے مقابلہ و معارضہ سے تم عاجز رہ گئے ہو اور تم پر اور تمہاری قوم پر ایک خارق عادت اثر ڈال رہا ہے اور دلوں پر وارد ہو کر عجیب در عجیب تبدیلیاں دکھلا رہا ہے.مدتہائے دراز کے مردے اس سے زندہ ہوتے چلے جاتے ہیں اور مادر زاد اندھے جو بے شمار پشتوں سے اندھے ہی چلے آتے تھے آنکھیں کھول رہے ہیں اور کفر اور الحاد کی طرح طرح کی بیماریاں اس سے اچھی ہوتی چلی جاتی ہیں اور تعصب کے سخت جذامی اس سے صاف ہوتے جاتے.اس سے نور ملتا ہے اور ظلمت دور ہوتی ہے اور وصل الہی میسر آتا ہے اور اس کے علامات پیدا ہوتے ہیں سوتم کیوں اس رحمت کے نشان کو چھوڑ کر جو ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہے عذاب اور موت کا نشان مانگتے ہو.پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ قوم تو جلدی سے عذاب ہی مانگتی ہے رحمت کے نشانوں سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتی ان کو کہہ دے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ عذاب کی نشانیاں وابستہ باوقات ہوتی ہیں تو یہ عذابی نشانیاں بھی کب کی نازل ہوگئی ہو تیں اور عذاب ضرور آئے گا اور ایسے وقت میں آئیگا کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوگی.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات صفحہ 12-7 شائع کردہ انجمن حمایت اسلام.لاہور )
383 فَإِلَّمْ يَسْتَجِيْبُوْالَكُمْ فَاعْلَمُوْا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ وَ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا هُوَ 0 فهل انتم مِّسْلِمُونَ.(هود: 15) پس جبکہ من کل الوجوہ ثابت ہے کہ جو فرق علمی اور عقلی طاقتوں میں مخفی ہوتا ہے وہ ضرور کلام میں ظاہر ہو جاتا ہے اور ہرگز ممکن ہی نہیں کہ جو لوگ من حیث العقل والعلم افضل اور اعلیٰ ہیں وہ فصاحت بیانی اور رفعت معانی میں یکساں ہو جائیں اور کچھ مابہ الامتیاز باقی نہ رہے تو اس صداقت کا ثابت ہونا اس دوسری صداقت کے ثبوت کومستلزم ہے کہ جو کلام خدا کا کلام ہو اس کا انسانی کلام سے اپنے ظاہری اور باطنی کمالات میں برتر اور اعلیٰ اور عدیم المثال ہونا ضروری ہے کیونکہ خدا کے علم تام سے کسی کا علم برابر نہیں ہو سکتا اور اسی کی طرف خدا نے بھی اشارہ فرما کر کہا ہے فَالَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ فَاعْلَمُوْا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللهِ الجزو نمبر 12 یعنی اگر کفار اس قرآن کی نظیر پیش نہ کرسکیں اور مقابلہ کرنے سے عاجز رہیں تو تم جان لو کہ یہ کلام علم انسان سے نہیں بلکہ خدا کے علم سے نازل ہوا ہے جس کے علم وسیع اور نام کے مقابلہ پر علوم انسانیہ بے حقیقت اور بیچ ہیں.اس آیت میں برہان انی کی طرز پر اثر کے وجود کو مؤثر کے وجود کی دلیل ٹھہرائی ہے جس کا دوسرے لفظوں میں خلاصہ مطلب یہ ہے کہ علم الہی بوجہ اپنی کمالیت اور جامعیت کے ہرگز انسان کے ناقص علم سے متشابہ نہیں ہو سکتا بلکہ ضرور ہے کہ جو کلام اس کامل اور بے مثل علم سے نکلا ہے وہ بھی کامل اور بے مثل ہی ہو اور انسانی کلاموں سے بکلی امتیاز رکھتا ہو.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 240-232) قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوْا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا.(بنی اسرائیل: 89) ان منکرین کو کہہ دے کہ اگر تمام جن و انس یعنی تمام مخلوقات اس بات پر متفق ہو جائے کہ اس قرآن کی کوئی مثل بنانی چاہئے تو وہ ہر گز اس بات پر قادر نہیں ہوں گے کہ ایسی ہی کتاب انہیں ظاہری باطنی خوبیوں کی جامع بنا سکیں.اگر چہ وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.سرمه چشم آریہ - ر-خ- جلد 2 صفحہ 61 حاشیہ) اس میں کیا کلام ہے کہ قرآن کریم اپنی بلاغت اور فصاحت کے رو سے بھی بے نظیر ہے لیکن قرآن کریم کا یہ منشاء نہیں ہے کہ اس کی بے نظیری صرف اسی وجہ سے ہے بلکہ اس پاک کلام کا یہ منشاء ہے کہ جن جن صفات سے وہ متصف کیا گیا ہے ان تمام صفات کے رو سے وہ بے نظیر ہے مگر یہ حاجت نہیں کہ وہ تمام صفات جمع ہو کر بینظیری پیدا ہو بلکہ ہر یک صفت جدا گانہ بینظیری کی حد تک پہنچی ہوئی ہے.کرامات الصادقین - ر - خ - جلد 7 صفحہ 51-50)
384 کوئی چیز اس کی مثل نہیں کیونکہ اس کے الفاظ اور ترتیب اور محفوظیت تامہ کا اہتمام خدائے تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور ماسوا اس کے حدیث ہو یا قول کسی صحابی کا ہو ان سب کا اہتمام انسانوں نے کیا ہے جو سہو اور نسیان سے بری نہیں رہ سکتے اور ہرگز وہ لوگ محفوظیت تامہ اور صحت کاملہ میں احادیث اور اقوال کو مثل قرآن نہیں بنا سکتے تھے اور یہ عجز ان کا اس آیت کریمہ کے اعجازات پیش کردہ میں داخل ہے قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوْا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُوْنَ بِمِثْلِهِ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا.(بنی اسرائیل: 89) جب ہر ایک بات میں مثل قرآن ممتنع ہے تو کیونکر وہ لوگ احادیث کو صحت اور محفوظیت میں مثل قرآن بنا سکتے ہیں.(ازالہ اوہام - رخ- جلد 3 صفحہ 616-615) جمال وحسن قرآن نورِ جانِ ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز اگر لولوئے عماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو وہاں قدرت.یہاں درماندگی.فرق نمایاں ہے ( در مشین اردو صفحہ 362 ) ( براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 198 تا 201) سحضرت پر سب سے اعلیٰ وحی کی تجلی ہوئی وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلَّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ طَ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ.(الشورى: 52) إِنَّهُ مُعْجِزَةٌ لَا يَأْتِي بِمِثْلِهِ اَحَدٌ مِنَ الْإِنْسِ وَالْجَانِّ وَ إِنَّهُ جَمَعَ مَعَارِفَ وَمَحَاسِنَ لَا يَجْمَعُهَا عِلْمُ الْإِنْسَانِ بَلْ إِنَّهُ وَحْيٌ لَيْسَ كَمِثْلِهِ غَيْرُهُ وَ إِنْ كَانَ بَعْدُهُ وَحْيَا آخَرَ مِنَ الرَّحْمَانِ فَإِنَّ لِلَّهِ تَجَلِيَاتٍ فِي إِبْحَائِهِ وَ إِنَّهُ مَا تَجَلَّى مِنْ قَبْلُ وَ لَا يَتَجَلَّى مِنْ بَعْدُ كَمِثْلِ تَجَلَّيْهِ لِخَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ وَ لَيْسَ شَانُ وَحْيِ الْأَوْلِيَاءِ كَمِثْلِ شَانٍ وَحْيِ الْفُرْقَانِ وَ اِنْ اُوْحِيَ إِلَيْهِمْ كَلِمَةٌ كَمِثْلِ كَلِمَاتِ الْقُرْآنِ.فَإِنَّ دَائِرَةَ مَعَارِفَ الْقُرْآنِ أَكْبَرُ الدَّوَائِرِ وَإِنَّهَا أَحَاطَ الْعُلُوْمَ كُلَّهَا وَجَمَعَ فِي نَفْسِهَا أَنْوَاعَ السَّرَائِرِ وَ بَلَغَتْ دَقَائِقُهَا إِلَى الْمَقَامِ الْعَمِيْقِ الْغَائِرِ وَ سَبَقَ الْكُلَّ بَيَانًا وَّ بُرْهَانًا وَ زَادَ عِرْفَانًا.وَإِنَّهُ كَلَامُ اللَّهِ الْمُعْجِزُ مَا قَرَعَ مِثْلُهُ اذَانًا وَلَا يَبْلُغُهُ قَوْلُ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ شَانًا.
385 ترجمہ از اصل :.قرآن کریم معجزہ ہے جس کی مثل کوئی انس و جن نہیں لاسکتا اور اس میں وہ معارف اور خوبیاں جمع ہیں جنہیں انسانی علم جمع نہیں کر سکتا بلکہ وہ ایسی وحی ہے کہ اس کی مثل اور کوئی وحی بھی نہیں اگر چہ رحمن کی طرف سے اس کے بعد اور کوئی وحی بھی ہو.اس لئے کہ وحی رسانی میں خدا کی تجلیات ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلی جیسی کہ خاتم الانبیاء پر ہوئی ایسی کسی پر نہ پہلے ہوئی اور نہ کبھی پیچھے ہوگی اور جوشان قرآن کی وحی کی ہے وہ اولیاء کی وحی کی شان نہیں اگر چہ قرآن کے کلمات کی مانند کوئی کلمہ انہیں وحی کیا جائے اس لئے کہ قرآن کے معارف کا دائرہ سب دائروں سے بڑا ہے اور اس میں سارے علوم اور ہر طرح کی عجیب اور پوشیدہ باتیں جمع ہیں اور اس کی دقیق باتیں بڑے اعلیٰ درجہ کے گہرے مقام تک پہنچی ہوئی ہیں اور وہ بیان اور برہان میں سب سے بڑھ کر اور اس میں سب سے زیادہ عرفان ہے اور وہ خدا کا معجز کلام ہے جس کی مثل کانوں نے نہیں سنا اور اس کی شان کو جن و انس کا کلام نہیں پہنچ سکتا.الهدی-رخ- جلد 18 صفحہ 276-275) قرآن کا حقیقی معجزه الم.ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ.(البقرة:32) بے نقط لکھنا کوئی اعلیٰ درجہ کی بات نہیں.یہ ایک قسم کا تکلف ہے اور تکلفات میں پڑنالغوامر ہے.مومنوں کی شان یہ ہے.وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ.(المومنون : 4) یعنی مومن وہ ہوتے ہیں جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں اگر بے نقط ہی کو معجزہ سمجھتے ہو تو قرآن شریف میں بھی ایک بے نقط منجزہ ہے اور وہ یہ ہے لا ريب فيه (البقرة:2) اس میں ریب کا کوئی لفظ نہیں.یہی اس کا معجزہ ہے لا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ.(حم السجدة: 42) اس سے بڑھکر اور کیا خوبی ہوتی.میں نے کئی بار اشتہار دیا ہے کہ کوئی ایسی سچائی پیش کرو جو ہم قرآن شریف سے نہ نکال سکیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 455-454) قرآن باطل سے پاک ہے إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالذِكْرِ لَمَّا جَاءَ هُمْ وَ إِنَّهُ لَكِتَبٌ عَزِيزٌ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيْدٍ.(حم السجدة : 43) وَإِنَّهُ لَكِتَبٌ عَزِيز الخ (حم السجدة: 42) اور وہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جو ہمیشہ باطل کی آمیزش سے منزہ رہے گی اور کوئی باطل اس کا مقابلہ نہیں کر سکا اور نہ آئندہ کسی زمانہ میں مقابلہ کرے گا.یعنی اس کی کامل صداقتیں کہ جو ہر ایک باطل سے منزہ ہیں تمام باطل پرستوں کو کہ جو پہلے اس سے پیدا ہوئے یا آئندہ کبھی پیدا ہوں ملزم اور لاجواب کرتی رہیں گی اور کوئی مخالفانہ خیال اس کے سامنے تاب مقاومت نہیں لائے گا.(براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 247 حاشیہ نمبر 11)
386 نبی کریم خاتم الانبیاء ہیں قرآن کریم آخری شریعت ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَ لَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ طَ وَ كَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا.(الاحزاب: 41) یہ خوب یادرکھنا چاہیئے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اسکی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے.(رسالہ الوصیت - ر - خ - جلد 20 صفحہ 311 حاشیہ ) خوب یاد رکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلم خاتم الانبیاء ہیں یعنی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت اور نئی کتاب نہ آئے گی.نئے احکام نہ آئیں گے.یہی کتاب اور یہی احکام رہیں گے جو الفاظ میری کتابوں میں نبی یا رسول کے میری نسبت پائے جاتے ہیں اس میں ہرگز یہ منشاء نہیں ہے کہ کوئی نئی شریعت یا نئے احکام سکھائے جاویں بلکہ منشاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ضرورت حقہ کے وقت کسی کو مامور کرتا ہے تو ان معنوں سے کہ مکالمات الہیہ کا شرف اس کو دیتا ہے اور غیب کی خبریں اس کو دیتا ہے اس پر نبی کا لفظ بولا جاتا ہے اور وہ مامور نبی کا خطاب پاتا ہے یہ معنے نہیں ہیں کہ نئی شریعت دیتا ہے یا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نعوذ باللہ منسوخ کرتا ہے بلکہ یہ جو کچھ اسے ملتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی کچی اور کامل اتباع سے ملتا ہے اور بغیر اس کے مل سکتا ہی نہیں.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 498) میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر.یہ تو ممکن ہے کہ کلام الہی کے معنے کرنے میں بعض مواقع میں ایک وقت تک مجھ سے خطا ہو جائے مگر یہ ممکن نہیں کہ میں شک کروں کہ وہ خدا کا کلام نہیں.اور چونکہ میرے نزدیک نبی اسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اسی لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے.شریعت کا حامل قیامت تک قرآن شریف ہے.(تجلیات الہیہ.ر.خ.جلد 20 صفحہ 412) ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل شریعت لے کر آئے جو نبوت کے خاتم تھے اسلئے زمانہ کی استعدادوں اور قابلیتوں نے ختم نبوت کر دیا تھا.پس حضور علیہ السلام کے بعد ہم کسی دوسری شریعت کے آنے کے قائل ہر گز نہیں.ہاں جیسے ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ تھے اسی طرح آپ کے سلسلہ کا خاتم جو خاتم الخلفاء یعنی مسیح موعود ہے ضروری تھا کہ مسیح علیہ السلام کی طرح آتا.پس میں وہی خاتم الخلفاء اور مسیح موعود ہوں.جیسے مسیح کوئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے بلکہ شریعت موسوی کے احیاء کے لئے آئے تھے میں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا اور میرا دل ہر گز نہیں مان سکتا کہ قرآن شریف کے بعد اب کوئی اور شریعت آسکتی ہے کیونکہ وہ کامل شریعت اور خاتم الکتب ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے شریعت محمدی کے احیاء کے لئے اس صدی میں خاتم الخلفاء کے نام سے مبعوث فرمایا ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 490)
387 الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ (المائدة: 4) شریعت وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور جو قرآن شریف نے دنیا کو سکھلائی.ایک نقطہ نہ گھٹایا گیا نہ بڑھایا گیا ہے.خدا جس طرح پہلے دیکھتا تھا اب بھی دیکھتا ہے اسی طرح جس طرح پہلے کلام کرتا تھا اسی طرح اب بھی صفت تکلم اس میں موجود ہے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اب خدا کلام نہیں کرتا.کیا خیال کیا جا سکتا ہے کہ پہلے تو خدا سنتا تھا.مگر اب نہیں سنتا.پس اللہ تعالیٰ کے تمام صفات جو پہلے موجود تھے اب بھی اس میں پائے جاتے ہیں خدا میں تغیر نہیں.شریعت چونکہ تکمیل پاچکی ہے.لہذا اب کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دینگم (المائدہ: 4) پس اکمال دین کے بعد اور کسی نئی شریعت کی حاجت نہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 542) قُل جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ.(سبا:50) عقل اس بات پر قطع واجب کرتی ہے کہ آئندہ بھی کسی نوع کا تغیر اور تبدل قرآن شریف میں واقع ہونا ممتنع اور محال ہے اور مسلمانوں کا پھر شرک اختیار کرنا اس جہت سے ممتعات میں سے ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس بارے میں بھی پیشگوئی کر کے آپ فرما دیا ہے مَا يُبْدِي الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ یعنی شرک اور مخلوق پرستی جس قدر دور ہو چکی ہے پھر وہ نہ اپنی کوئی نئی شاخ نکالے گی اور نہ اسی پہلی حالت پر عود کرے گی.سو اس پیشین گوئی کی صداقت بھی اظہر من الشمس ہے کیونکہ باوجود منقضی ہونے زمانہ دراز کے اب تک ان قوموں اور ان ملکوں میں کہ جن سے مخلوق پرستی معدوم کی گئی تھی پھر شرک اور بت پرستی نے تو حید کی جگہ نہیں لی اور آئندہ بھی عقل اس پیشین گوئی کی سچائی پر کامل یقین رکھتی ہے کیونکہ جب اوائل ایام میں کہ مسلمانوں کی تعداد بھی قلیل تھی تعلیم توحید میں کچھ تزلزل واقع نہیں ہوا بلکہ روز بروز ترقی ہوتی گئی تو اب کہ جماعت اس موحد قوم کی بیس کروڑ سے بھی کچھ زیادہ ہے کیونکر تزلزل ممکن ہے.علاوہ اس کے زمانہ بھی وہ آ گیا ہے کہ مشرکین کی طبیعتیں بباعث متواتر استماع تعلیم فرقانی اور دائمی صحبت اہل توحید کے کچھ کچھ تو حید کی طرف میل کرتی جاتی ہیں.جدھر دیکھو دلائل وحدانیت کے بہادر سپاہیوں کی طرح شرک کے خیالی اور وہمی برجوں پر گولہ اندازی کر رہے ہیں اور توحید کے قدرتی جوش نے مشرکوں کے دلوں پر ایک ہلچل ڈال رکھی ہے اور مخلوق پرستی کی عمارت کا بودا ہونا عالی خیال لوگوں پر ظاہر ہوتا جاتا ہے اور وحدانیت الہی کی پرزور بندوقیں شرک کے بدنما جھونپڑوں کو اڑاتی جاتی ہیں.پس ان تمام آثار سے ظاہر ہے کہ اب اندھیرا شرک کا ان اگلے دنوں کی طرح پھیلنا کہ جب تمام دنیا نے مصنوع چیزوں کی ٹانگ صانع کی ذات اور صفات میں پھنسا رکھی تھی ممتنع اور محال ہے اور جب کہ فرقان مجید کے اصول حقہ کا محرف اور مبدل ہو جانایا پھر ساتھ اس کے تمام خلقت پر تاریکی شرک اور مخلوق پرستی کا بھی چھا جانا عند العقل محال اور ممتنع ہوا تو نئی شریعت اور نئے الہام کے نازل ہونے میں بھی امتناع عقل لازم آیا کیونکہ جو امر ستلزم محال ہو وہ بھی محال ہوتا ہے پس ثابت ہوا کہ آنحضرت ”حقیقت میں خاتم الرسل ہیں.( براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 103-102 حاشیہ نمبر 9)
388 اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دینگے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جولوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے انکو آسمان پر مقدم رکھا جائیگا.نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول ااور شفیع نہیں مگر حمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.سوتم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اسکے غیر کو اسپر کسی نوع کی بڑائی مت دو.کشتی نوح...خ.جلد 19 صفحہ 13 ) قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة: 4) قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ میں کامل کتاب ہوں جیسا کہ فرماتا ہے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی.آج میں نے دین تمہارا تمہارے لیے کامل کیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کیا.جنگ مقدس.ر.خ.جلد 6 صفحہ 98) میرا یہ مذہب نہیں ہے کہ قرآن ناقص ہے اور حدیث کا محتاج ہے بلکہ وہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ (المائده:4) کا تاج لازوال اپنے سر پر رکھتا ہے اور تبیانًا لِكُلِّ شَيْءٍ کے وسیع اور مرصع تخت پر جلوہ افروز ہے قرآن میں نقصان ہرگز نہیں اور وہ داغ نا تمام اور ناقص ہونے سے پاک ہے.الحق لدھیانہ - ر - خ - جلد 4 صفحہ 106) کامل کتاب کی تعریف اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں اپنی کمال تعلیم کا آپ دعوئی فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي الخ کہ آج میں نے تمہارے لیے دین تمہارا کامل کیا اور اپنی نعمت یعنی تعلیم قرآنی کو تم پر پورا کیا.اور ایک دوسرے محل میں اس اکمال کی تشریح کے لیے کہ اکمال کس کو کہتے ہیں فرماتا ہے.اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ.تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ بِإِذْنِ رَبِّهَا ، وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْامْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ.وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةٍ جُتَنَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَالَهَا مِنْ قَرَارٍ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهِ الظَّلِمِينَ (ابراهيم: 25 تا 28)
389 اب اللہ تعالیٰ ان آیات میں کلام پاک اور مقدس کا کمال تین باتوں پر موقوف قرار دیتا ہے.اول یہ کہ أَصْلُهَا ثَابِت یعنی اصول ایما نیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور فی حد ذاتہ یقین کامل کے درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں اور فطرت انسانی اس کو قبول کرے کیونکہ ارض کے لفظ سے اس جگہ فطرۃ انسانی مراد ہے جیسا کہ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ کا لفظ صاف بیان کر رہا ہے....خلاصہ یہ کہ اصول ایمانیہ ایسے چاہئیں کہ ثابت شدہ اور انسانی فطرۃ کے موافق ہوں.پھر دوسری نشانی کمال کی یہ فرماتا ہے کہ فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ یعنی اس کی شاخیں آسمان پر ہوں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں یعنی صحیفہ قدرت کو غور کی نگاہ سے مطالعہ کریں تو اس کی صداقت ان پر کھل جائے اور دوسری یہ کہ وہ تعلیم یعنی فروعات اس تعلیم کے جیسے اعمال کا بیان احکام کا بیان اخلاق کا بیان یہ کمال درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں جس پر کوئی زیادہ متصور نہ ہوجیسا کہ ایک چیز جب زمین سے شروع ہو کر آسمان تک پہنچ جائے تو اس پر کوئی زیادہ متصور نہیں.پھر تیسری نشانی کمال کی یہ فرمائی کہ تُؤْتِي أكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ ہر ایک وقت اور ہمیشہ کے لیے وہ اپنا پھل دیتا رہے ایسا نہ ہو کہ کسی وقت خشک درخت کی طرح ہو جاوے.جو پھل پھول سے بالکل خالی ہے.اب صاحبود یکھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرموده الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ کی تشریح آپ ہی فرما دی کہ اس میں تین نشانیوں کا ہونا از بس ضروری ہے سوجیسا کہ اس نے یہ تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں اسی طرح پر اس نے ان کو ثابت کر کے بھی دکھلا دیا ہے اور اصول ایمانیہ جو پہلی نشانی ہے جس سے مراد کلمہ لا الہ الا اللہ ہے اس کو اس قدر بسط سے قرآن شریف میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ اگر میں تمام دلائل لکھوں تو پھر چند جزو میں بھی ختم نہ ہوں گے.جنگ مقدس - ر - خ - جلد 6 صفحہ 124-123 ) غرض یہ آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ مسلمانوں کے لیے کیسے فخر کی بات ہے.اکمال سے یہی مطلب نہیں کہ سورتیں اتار دیں بلکہ تکمیل نفس اور تطہیر قلب کی وحشیوں سے انسان پھر اس کے بعد عقل مند اور با اخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بنا دیا.اور تطہیر نفس - تکمیل اور تہذیب نفس کے مدارج طے کر دیے اور اسی طرح پر کتاب اللہ کو بھی پورا اور کامل کر دیا یہاں تک کہ کوئی سچائی اور صداقت نہیں جو قرآن شریف میں نہ ہو.میں نے اگنی ہوتری کو بار ہا کہا کہ کوئی ایسی سچائی بتاؤ جو قرآن شریف میں نہ ہو مگر وہ نہ بتاسکا.ایسا ہی ایک زمانہ مجھ پر گذرا ہے کہ میں نے بائیل کو سامنے رکھ کر دیکھا جن باتوں پر عیسائی ناز کرتے ہیں وہ تمام سچائیاں مستقل طور پر اور نہایت ہی اکمل طور پر قرآن مجید میں موجود ہیں.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں کو اس طرف توجہ نہیں وہ قرآن شریف پر تدبر ہی نہیں کرتے اور نہ ان کے دل میں کچھ عظمت ہے ورنہ یہ تو ایسا فخر کا مقام ہے کہ اس کی نظیر دوسروں میں ہے ہی نہیں.غرض الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ کی آیت دو پہلو رکھتی ہے ایک یہ کہ تمہاری تطہیر کر چکا دوئم کتاب مکمل کر چکا.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 673-672)
390 لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتَبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ.رَسُوْلٌ مِّنَ اللهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُطَهَّرَةً فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ.(البيئة: 2تا4) ہما را دعویٰ ہے کہ قرآن اصلاح کامل اور تزکیۂ اتم اور اکمل کے لئے آیا ہے اور وہ خود دعوی کرتا ہے کہ تمام کامل سچائیاں اس کے اندر ہیں جیسا کہ فرماتا ہے فِيهَا كُتُبْ قَيِّمَةٌ تو اس صورت میں ضرور ہے کہ جہاں تک سلسلہ معارف اور علوم الہیہ کا مند ہو سکے وہاں تک قرآنی تعلیم کا بھی دامن پہنچا ہوا ہو اور یہ بات صرف میں نہیں کہتا بلکہ قرآن خود اس صفت کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور اپنا نام اکمل الکتب رکھتا ہے.پس ظاہر ہے کہ اگر معارف الہیہ کے بارے میں کوئی حالت منتظرہ باقی ہوتی جس کا قرآن شریف نے ذکر نہیں کیا تو قرآن شریف کا حق نہیں تھا کہ وہ اپنا نام اکمل الکتب رکھتا.(سراج منیر.ر.خ.جلد 12 صفحہ 41) إِنَّهُ لَقَوْلُ فَصْلٌ وَّ مَا هُوَ بِالْهَزْلِ (الطارق : 15:14) یعنی علم معاد میں جس قدر تنازعات اٹھیں سب کا فیصلہ یہ کتاب کرتی ہے بے سود اور بریکار نہیں ہے.( براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 224 حاشیہ نمبر 11) وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَئِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ط مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ (الانعام: 39) ہر چند میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں کیونکہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے.....ما فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ یعنی ہم نے اس کتاب سے کوئی چیز باہر نہیں رکھی.لیکن ساتھ اس کے یہ بھی میرا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم سے تمام مسائل دینیہ کا استخراج واستنباط کرنا اور اس کی مجملات کی تفاصیل صحیحہ پر حسب منشاء الہی قادر (ہوتا) ہر ایک مجتہد اور مولوی کا کام نہیں بلکہ یہ خاص طور پر ان کا کام ہے جو وحی الہی سے بطور نبوت یا بطور ولایت عظمی مدددیئے گئے ہوں.الحق لدھیانہ.ر-خ- جلد 4 صفحہ 81-80)
391 قرآن جمیع کتب کی خوبیوں کا جامع ہے رَسُوْلٌ مِّنَ اللَّهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ.(البيئة:43) قرآن مجید لانے والا وہ شان رکھتا ہے کہ يَتْلُوْا صُحُفَامُطَهَّرَةٌ فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ ایسی کتاب جس میں ساری کتابیں اور ساری صداقتیں موجود ہیں.کتاب سے مراد اور عام مفہوم وہ عمدہ باتیں ہیں جو بالطبع انسان قابل تقلید سمجھتا ہے.قرآن شریف حکمتوں اور معارف کا جامع ہے اور رطب و یابس فضولیات کا ذخیرہ اس کے اندر نہیں.ہر ایک امر کی تفسیر وہ خود کرتا ہے اور ہر ایک قسم کی ضرورتوں کا سامان اس کے اندر موجود ہے.وہ ہر ایک پہلو سے نشان اور آیت ہے.اگر کوئی اس امر کا انکار کرے تو ہم ہر ایک پہلو سے اس کا اعجاز ثابت کرنے اور دکھلانے کو تیار ہیں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 52-51) میں قرآن شریف سے یہ استنباط کرتا ہوں کہ سب انبیاء کے وصفی نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے کیونکہ آپ تمام انبیاء کے کمالات متفرقہ اور فضائل مختلفہ کے جامع تھے اور اسی طرح جیسے تمام انبیاء کے کمالات آپ کو ملے قرآن شریف بھی جمیع کتب کی خوبیوں کا جامع ہے چنانچہ فرمایا.فِيهَا كُتُبْ قَيِّمَةٌ اور مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ ایسا ہی ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ تمام نبیوں کا اقتدا کر.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 95) یہ قرآن شریف وہ پاک اور اق ہیں جن میں تمام آسمانی کتابوں کا مغز اور لب لباب بھرا ہوا ہے.سرمه چشم آریہ.ر.خ.جلد 2 صفحہ 62-61 حاشیہ ) الغرض قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر ایک قسم کے معارف اور اسرار موجود ہیں لیکن ان کے حاصل کرنے کے لئے میں پھر کہتا ہوں کہ اسی قوت قدسیہ کی ضرورت ہے چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 85-84 ملفوظات جلد اول صفحہ 52)
392 قرآن کریم تمام انسانوں کو ایک قوم بنا دے گا قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُرَتِيْ حَقًّا.وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍيَّمُوْجُ فِي بَعْضٍ وَ نُفِخَ فِى الصُّوْرِ فَجَمَعْنَهُمْ جَمْعًا.وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِلْكَفِرِيْنَ عَرْضًا وَالَّذِيْنَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءِ عَنْ ذِكْرِى وَكَانُوْا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا.(الكهف: 99 :102) ایک قوم بنانے کا ذکر قرآن شریف کی سورہ کہف میں موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوْجُ فِي بَعْضٍ وَ نُفِخَ فِى الصُّوْرِ فَجَمَعْنَهُمْ جَمْعًا.یعنی ہم آخری زمانہ میں ہر ایک قوم کو آزادی دینگے تا اپنے مذہب کی خوبی دوسری قوم کے سامنے پیش کرے اور دوسری قوم کے مذہبی عقائد اور تعلیم پر حملہ کرے اور ایک مدت تک ایسا ہوتا رہے گا.پھر قرنا میں ایک آواز پھونک دی جائے گی تب ہم تمام قوموں کو ایک قوم بنا دیں گے اور ایک ہی مذہب پر جمع کر دیں گے.چشمہ معرفت.ر.خ.جلد 23 صفحہ 75 حاشیہ ) اصل بات یہ ہے کہ یہ وہ زمانہ آ گیا ہے کہ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے کہ وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍيَّمُوْجُ فِي بَعْضٍ وَ نُفِخَ فِى الصُّوْرِ فَجَمَعْنَهُمْ جَمْعًا.موجودہ آزادی کی وجہ سے انسانی فطرت نے ہر طرح کے رنگ ظاہر کر دیئے ہیں اور تفرقہ اپنے کمال کو پہنچ گیا ہے.گو یا ایسا زمانہ ہے کہ ہر شخص کا ایک الگ مذہب ہے.یہی امور دلالت کرتے ہیں کہ اب نفخ صور کا وقت بھی یہی ہے اور فَجَمَعْنَهُمْ جَمْعًا کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا یہی زمانہ ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 539-538) یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموع ان تمام کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستور العمل بھیجا اور پھر چاہا کہ جیسا کہ ایک خدا ہے وہ بھی ایک ہو جائیں تب سب کو اکٹھا کرنے کے لئے قرآن کو بھیجا اور خبر دی کہ ایک زمانہ آنے والا ہے کہ خدا تمام قوموں کو ایک قوم بنا دے گا اور تمام ملکوں کو ایک ملک کر دے گا اور تمام زبانوں کو ایک زبان بنا دے گا.سو ہم دیکھتے ہیں کہ دن بدن دنیا اس صورت کے قریب آتی جاتی ہے اور مختلف ملکوں کے تعلقات بڑھتے جاتے ہیں.سیاحت کے لئے وہ سامان میسر آ گئے ہیں جو پہلے نہیں تھے.خیالات کے مبادلہ کے لئے بڑی بڑی آسانیاں ہو گئی ہیں ایک قوم دوسری قوم میں ایسی پھنس گئی ہے کہ گویا وہ دونوں ایک ہونا چاہتی ہیں.(نسیم دعوت.ر-خ- جلد 19 صفحہ 429-428)
393 سو جیسے خدا نے آہستہ آہستہ امت کے اجتماع کو حج کے موقع پر کمال تک پہنچایا.اول چھوٹے چھوٹے موقعے اجتماع کے مقرر کئے اور بعد میں تمام دنیا کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع دیا.سو یہی سنت اللہ الہامی کتابوں میں ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ نوع انسان کی وحدت کا دائرہ کمال تک پہنچا دے.اول تھوڑے تھوڑے ملکوں کے حصوں میں وحدت پیدا کرے اور پھر آخر میں حج کے اجتماع کی طرح سب کو ایک جگہ جمع کر دیوے جیسا کہ اس کا وعدہ قرآن شریف میں ہے وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنَهُمْ جَمْعًا یعنی آخری زمانہ میں خدا اپنی آواز سے تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر جمع کر دے گا جیسا کہ وہ ابتداء میں ایک مذہب پر جمع تھے تا کہ اول اور آخر میں مناسبت پیدا ہو جائے.چشمہ معرفت - ر- خ- جلد 23 صفحہ 146-145) قرآن کریم پہلی کتابوں کا مصدق ہے حَدِيثًا يُفْتَرَى وَ لَكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَ تَفْصِيْلَ كُلَّ شَيْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ (يوسف: 112) قرآن ایسی کتاب نہیں کہ انسان اس کو بنا سکے بلکہ اس کے آثار صدق ظاہر ہیں کیونکہ وہ پہلی کتابوں کو سچا کرتا ہے یعنی کتب سابقہ انبیاء میں جو اس کے بارہ میں پیشین گوئیں موجود تھیں وہ اس کے ظہور سے بہ پایۂ صداقت پہنچ گئیں اور جن عقائد حقہ کے بارہ میں ان کتابوں میں دلائل واضح موجود نہ تھیں انکے قرآن نے دلائل بتلائے اور ان کی تعلیم کو مرتبہ کمال تک پہنچایا.اس طور پر ان کتابوں کو سچا کیا جس سے خود سچائی اس کی ثابت ہوتی ہے.دوسرے نشانِ صدق یہ کہ ہر یک صداقت دینی کو وہ بیان کرتا ہے اور تمام وہ امور بتلاتا ہے کہ جو ہدایت کامل پانے کے لئے ضروری ہیں.اور یہ اس لئے نشانِ صدق ٹھہرا کہ انسان کی طاقت سے یہ بات باہر ہے کہ اس کا علم ایسا وسیع ومحیط ہو جس سے کوئی دینی صداقت وحقائق دقیقہ باہر نہ رہیں.( براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 226 حاشیہ نمبر 11) قرآن کریم کے مصدق ہونے کی حقیقت دوسرا سوال اس مضمون کا تھا کہ جو قرآن جو انجیلوں کا مصدق ہے تو کیا انا جیل صحیح ہیں؟ فرمایا کہ : مصدق کے معنے قرآنی طور پر یہ ہیں کہ جو کچھ بیچ تھا اس کی تو نقل کر دی اور جو نہیں لیاوہ غلط تھا پھر انجیلوں کا آپس میں اختلاف ہے اگر قرآن نے تصدیق کی ہے تو بتلاؤ کونسی انجیل کی کی ہے قرآن نے یو نامتی وغیرہ کی انجیل کی کہیں تصدیق نہیں کی.ہاں پطرس کی دعا کی تصدیق کی ہے اسی طرح کونسی توریت کہیں جس کی تصدیق قرآن نے کی.پہلے توریت تو ایک بتاؤ قرآن تو تمہاری توریت کو محرف بتلاتا ہے اور تم میں خود اختلاف ہے کہ توریت مختلف ہیں.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 425)
394 اللہ جل شانہ مومنوں کو قرآن شریف میں فرماتا ہے فَسْتَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل : 44) یعنی فلاں فلاں باتیں اہل کتاب سے پوچھ لو اگر تم بے خبر ہو.پس ظاہر ہے کہ اگر ہر ایک بات میں پہلی کتابوں کی گواہی ناجائز ہوتی تو خدا تعالیٰ کیوں مومنوں کو فر ما تا کہ اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہل کتاب سے پوچھ لو.بلکہ اگر نبیوں کی کتابوں سے کچھ فائدہ اٹھانا حرام ہے تو اس صورت میں یہ بھی ناجائز ہوگا کہ ان کتابوں میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بطور استدلال پیشگوئیاں پیش کریں حالانکہ خود صحابہ رضی اللہ عنہم اور بعد ان کے تابعین بھی ان پیشگوئیوں کو بطور حجت پیش کرتے رہے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کتب سابقہ کے بیان تین قسم کے ہیں.(۱) ایک تو وہ باتیں ہیں جو واجب التصدیق ہیں جیسا کہ خدا کی تو حید اور ملا یک کا ذکر اور بہشت و دوزخ کے وجود کی نسبت بیان اگر ان کا انکار کریں تو ایمان جائے.(۲) دوسری وہ باتیں ہیں جو رد کرنے کے لائق ہیں جیسا کہ وہ تمام امور جو قرآن شریف کے مخالف ہیں.(۳) تیسری قسم کی وہ باتیں ہیں جو قرآن شریف میں اگر چہ ان کا ذکر مفصل نہیں مگر وہ باتیں قرآن شریف کے مخالف نہیں بلکہ اگر ذرا غور سے کام لیا جائے تو بالکل مطابق ہیں جیسے مثلاً یا جوج ماجوج کی قوم کہ اجمالی طور پر ان کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے بلکہ یہ ذکر بھی موجود ہے کہ آخری زمانہ میں تمام زمین پر انکا غلبہ ہو جائیگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَهُمْ مِنْ كُلَّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (الانبیاء : 97) (چشمه معرفت.ر.خ.جلد 23 صفحہ 84-83 حاشیہ)
395 جو علوم قرآن لیکر آیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں نہیں كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ (ال عمران: 111) اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان نبی مبعوث فرمایا جس کی امت کو حسنتم خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کہا کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو.کیونکہ وہ لوگ جن کو شریعت قصہ کے رنگ میں ملی تھی وہ دماغی علوم کی کتاب و شریعت کے ماننے والوں کے کب برابر ہو سکتے ہیں پہلے صرف قصص پر راضی ہو گئے.اور ان کے دماغ اس قابل نہ تھے کہ حقایق و معارف کو سمجھ سکتے مگر اس امت کے دماغ اعلیٰ درجہ کے تھے اسی لیے شریعت اور کتاب علوم کا خزانہ ہے.جو علوم قران مجید لیکر آیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں پائے نہیں جاتے اور جیسے شریعت کے نزول کے وقت وہ اعلیٰ درجہ کے حقایق و معارف سے لبریز تھی ویسے ہی ضروری تھی ترقی علوم و فنون سب اسی زمانہ میں ہوتا بلکہ کمال انسانیت بھی اسی میں پورا ہوا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 664) غور کی نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ بیضہ بشریت کے روحانی بچے جو روح القدس کی معرفت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی برکت سے پیدا ہوئے وہ اپنی کمیت اور کیفیت اور صورت اور نوع اور حالت میں تمام انبیاء کے بچوں سے اتم اور اکمل ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے جواللہ جل شانہ فرماتا ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ یعنی تم سب امتوں سے بہتر ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لیے پیدا کیے گئے ہوا اور در حقیقت جس قدرقرآنی تعلیم کے کمالات خاصہ ہیں وہ اس امت مرحومہ کے استعدادی کمالات پر شاہد ہیں.آئینہ کمالات اسلام.رخ.جلد 5 صفحہ 197) تمام انبیاء کے متفرق کمالات تھے اور متفرق طور پر ان پر فضل اور انعام ہوا.اب اس امت کو یہ دعا سکھلائی گئی کہ ان تمام متفرق کمالات کو مجھ سے طلب کرو.پس ظاہر ہے کہ جب متفرق کمالات ایک جگہ جمع ہو جائیں گے تو وہ مجموعہ متفرق کی نسبت بہت بڑھ جائے گا اسی بنا پر کہا گیا کہ کُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ یعنی تم اپنے کمالات کی رو سے سب امتوں سے بہتر ہو.(چشمہ مسیحی - ر- خ- جلد 20 صفحہ 381-380)
396 بارہویں فصل تاثیرات قرآن کریم وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ ايْتُنَا بَيِّنَتِ قَالُوْا مَا هَذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيْدُ أَنْ يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ابَاؤُكُمْ وَقَالُوْا مَا هَذَا إِلَّا إِفْكٌ مُفْتَرَى طَ وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَ هُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنَ.(سبا:44) قرآن شریف کی اعلیٰ درجے کی تاثیروں کو بھی دیکھئے کہ کس قوت سے اس نے وحدانیت الہی کو اپنے سچے متبعین کے دلوں میں بھرا ہے اور کس عجیب طور سے اس کی عالیشان تعلیموں نے صد ہا سالوں کی عادات راسخہ اور ملکات رڈیہ کا قلع و قمع کر کے اور ایسی رسوم قدیمہ کو کہ جوطبیعت ثانی کی طرح ہو گئیں تھیں دلوں کے رگ وریشہ سے اٹھا کر وحدانیت الہی کا شربت عذب کروڑ ہا لوگوں کو پلا دیا ہے.وہی ہے جس نے اپنا کار نمایاں اور نہایت عمدہ اور دیر پا نتائج دکھلا کر اپنی بینظیر تاثیر کی دو بدو شہادت سے بڑے بڑے معاندوں سے اپنی لاثانی فضیلتوں کا اقرار کرایا یہاں تک کہ سخت بے ایمانوں اور سرکشوں کے دلوں پر بھی اس کا اس قدراثر پڑا کہ جس کو انہوں نے قرآن شریف کی عظمت شان کا ایک ثبوت سمجھا اور بے ایمانی پر اصرار کرتے کرتے آخر اس قدر انہیں بھی کہنا پڑا کہ اِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ.جز ونمبر 22.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 214-213 حاشیہ نمبر (11) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقُرْآنُ فَيْضًا خَفِيرٌ جَالِبٌ نَحْوَ الجنان لَهُ نُوْرَانِ نُوْرٌ مِنْ عُلُوْمٍ وَنُوْرٌ مِنْ بَيَانِ كَالْجُمان كَلامٌ فَائِقٌ مَا رَاقَ طَرْفِيْ جَمَالٌ بَعْدَهُ وَالنَّيران -1 طرف لے جاتا ہے.-2 اور تو کچھ جانتا ہے کہ قرآن کریم فیض کی رو سے کیا چیز ہے.وہ ایک راہبر ہے جو بہشت کی اس میں دونور ہیں ایک تو علوم کا نور ہے اور دوسرے فصاحت و بلاغت کا نور ہے جو چاندی کے دانوں کی طرح چمکتا ہے.-3 وہ ایک ایسا کلام ہے جو ہر کلام پر فوقیت لے گیا ہے.اس کے بعد مجھے کوئی جمال اچھا معلوم نہ ہوا.اور نہ ہی آفتاب و قمر مجھے اچھے دکھائی دیئے.نور الحق - ر-خ- جلد 8 صفحہ 89)
397 إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَلَمِيْنَ.لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ (التكوير : 2928) قرآن --- ذِکر لِلْعَلَمِینَ ہے یعنی ہر ایک قسم کی فطرت کو اس کے کمالات مطلوبہ یاد دلاتا ہے اور ہر یک رتبہ کا آدمی اس سے فائدہ اٹھاتا ہے.جیسے ایک عامی ویسا ہی ایک فلسفی.یہ اس شخص کے لئے اترا ہے جو انسانی استقامت کو اپنے اندر حاصل کرنا چاہتا ہے یعنی انسانی درخت کی جس قدر شاخیں ہیں یہ کلام ان سب شاخوں کا پرورش کرنے والا اور حد اعتدال پر لانے والا ہے اور انسانی قومی کے ہریک پہلو پر اپنی تربیت کا اثر ڈالتا ہے.(کرامات الصادقین...خ.جلد 7 صفحہ 52) و و وَ يَخِرُّوْنَ لِلاذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُ هُمْ خُشُوْعًا.(بنی اسرائیل: 110) اور روتے ہوئے مونہہ پر گر پڑتے ہیں اور خدا کا کلام ان میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہے.( براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 578) ° لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ.(الحشر: 22) یہ قرآن جو تم پر اتارا گیا اگر کسی پہاڑ پر اتارا جاتا تو وہ خشوع اور خوف الہی سے ٹکڑہ ٹکڑہ ہو جاتا اور یہ مثالیں ہم اس لئے بیان کرتے ہیں کہ تالوگ کلام الہی کی عظمت معلوم کرنے کے لئے غور اور فکر کریں.سرمه چشم آریہ - ر- خ- جلد 2 صفحہ 63 حاشیہ) ایک تو اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف کی ایسی تاثیر ہے کہ اگر پہاڑ پر وہ اتر تا تو پہاڑ خوف خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور زمین کے ساتھ مل جاتا.جب جمادات پر اس کی ایسی تاثیر ہے تو بڑے ہی بیوقوف وہ لوگ ہیں جو اس کی تاثیر سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دوسرے اس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی شخص محبت الہی اور رضائے الہی کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک دو صفتیں اس میں پیدا نہ ہو جائیں.اول تکبر کو توڑنا جس طرح کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سر اونچا کیا ہوا ہوتا ہے گر کر زمین سے ہموار ہو جائے.اسی طرح انسان کو چاہیئے کہ تمام تکبر اور بڑائی کے خیالات کو دور کرے.عاجزی اور خاکساری کو اختیار کرے اور دوسرا یہ ہے کہ پہلے تمام تعلقات اس کے ٹوٹ جائیں جیسا کہ پہاڑ گر کر مُتَصَدِّعًا ہو جاتا ہے.اینٹ سے اینٹ جدا ہو جاتی ہے ایسا ہی اسکے پہلے تعلقات جو موجب گندگی اور الہی نارضامندی تھے وہ سب تعلقات ٹوٹ جائیں اور اب اس کی ملاقاتیں اور دوستیاں اور جتیں اور عداوتیں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے رہ جائیں.( ملفوظات جلد اول صفحه 511) قرآن کتاب رحمن سکھلائے راہِ عرفاں جو اس کو پڑھنے والے ان پر خدا کے فیضاں ان پر خدا کی رحمت جو اس پہ لائے ایماں روز کر مبارک سبحان من برانی ہے چشمہ ہدایت جس کو ہو یہ عنایت یہ ہیں خدا کی باتیں انسے ملے ولایت به نور دل کو بخشے دل کو کرے سرایت روز کر مبارک سبحان من برانی قراں کو یاد رکھنا پاک اعتقاد رکھنا فکر معاد رکھنا پاس اپنے زاد رکھنا اکسیر ہے پیارے صدق و سداد رکھنا روز کر مبارک سبحان من برانی ( در مشین اردو صفحہ 36 ) ( محمود کی آمین مطبوعہ 7 جون 1897ء)
398 يَأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَانَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ.(يونس: 58) قرآن میں دلوں کو روشن کرنے کے لئے ایک روحانی خاصیت بھی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے شِفَاء لِمَا فِي الصُّدُورِ یعنی قرآن اپنی خاصیت سے تمام بیماریوں کو دور کرتا ہے اس لئے اس کو منقولی کتاب نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ اعلیٰ درجہ کے معقول دلائل اپنے ساتھ رکھتا ہے اور ایک چمکتا ہوا نو ر اس میں پایا جاتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.ر.خ.جلد 10 صفحہ 433) یہ قرآن ظلمت سے نور کی طرف نکالتا ہے.اور اس میں تمام بیماریوں کی شفاء ہے اور طرح طرح کی برکتیں یعنی معارف اور انسانوں کو فائدہ پہنچانے والے امور اس میں بھرے ہوئے ہیں.(کرامات الصادقین...خ.جلد 7 صفحہ 59) اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللهِ يَهْدِى بِهِ مَنْ يَّشَاءُ وَ مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَالَهُ مِنْ هَادٍ.(الزمر: 24) يَعْنِي ذَالِكَ الْكِتَابُ كِتَابٌ مُّتَشَابِةٌ يَشْبَهُ بَعْضُهُ بَعْضًا لَيْسَ فِيْهِ تَنَاقُضْ وَلَا اخْتِلَاقِ مَفْنى فِيْهِ كُلُّ ذِكْرٍ لِيَكُوْنَ بَعْضُ الذِكْرِ تَفْسِيْرًا لِبَعْضِهِ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ يَعْنِي سَيَسْتَوِلِى جَلَالُهُ وَهَيْبَتُهُ عَلى قُلُوبِ الْعُشَّاقِ لِتَقْشَعِرَ جُلُودُهُمْ مِنْ كَمَالِ الْخَشْيَةِ وَالْخَوْفِ يُجَاهِدُوْنَ فِي طَاعَةِ اللَّهِ لَيْلًا وَنَهَارًا بِتَحْرِيْكِ تَأْثِيرَاتِ جَلَالِيَّةِ وَتَنْبِيْهَاتٍ قَهْرِيَّةٍ مِّنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ يُبَدِّلُ اللَّهِ حَالَتَهُمْ مِّنَ التَّأَلُم إِلَى التَّلَذُّذِ فَيَصِيْرُ الطَّاعَةُ جُزْوَ طَبِيْعَتِهِمْ وَخَاصَّةً فِطْرَتِهِمْ فَتَلِيْنُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ يَعْنِي لِيَسِيْلَ الذِّكْرُ فِي قُلُوْبِهِمْ كَسَيَلَانِ الْمَاءِ وَيَصْدُرُ مِنْهُمْ كُلُّ أَمْرِ فِي طَاعَةِ اللَّهِ بِكَمَالِ السُّهُوْلَةِ وَالصَّفَاءِ لَيْسَ فِيْهِ ثِقَلٌ وَّلَا تَكَلُّفٌ وَّلَا ضَيْقَ فِي صُدُوْرِهِمْ بَلْ يَتَلَذَّذُوْنَ بِاِمْتِثَالِ أَمْرِ الهِهِمْ وَ يَجِدُوْنَ لَذَّةً وَّ حَلَاوَةً فِي طَاعَةِ مَوْلَهُمْ وَهَذَا هُوَ الْمُنْتَهَى الَّذِيْ يَنْتَهِي إِلَيْهِ أَمْرُ الْعَابِدِيْنَ وَالْمُطِيْعِيِّينَ فَيُبَدِّلُ اللَّهُ الاَ مَهُمْ بِاللَّذَّاتِ.( ترجمه از ایڈیٹر (الحق) یعنی یہ کتاب متشابہ ہے جس کی آیتیں اور مضامین ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں.ان میں کوئی تنقض اور اختلاف نہیں.ہر ذکر اور وعظ اس میں دو ہرا دو ہرا کر بیان کئے گئے ہیں جس سے غرض یہ ہے کہ ایک مقام کا ذکر دوسرے مقام کے ذکر کی تفسیر ہو جائے.اس کے پڑھنے سے ان لوگوں کی کھالوں پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں یعنی اس کا جلال اور اس کی ہیبت عاشقوں کے دلوں پر غالب ہو
399 جاتی ہے اس لئے کہ ان کی کھالوں پر کمال خوف اور دہشت سے رونگٹے کھڑے ہو جائیں.وہ قرآن کی قہری تنبیہات اور جلالی تاثیرات کی تحریک سے رات دن اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں بہ دل و جان کوشش کرتے ہیں.پھر ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس حالت کو جو پہلے دکھ درد کی حالت ہوتی ہے لذت اور سرور سے بدل ڈالتا ہے چنانچہ اس وقت اطاعت الہی ان کی جزو بدن اور خاصہ فطرت ہو جاتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ان کے دلوں اور بدنوں پر رقت اولیت طاری ہوتی ہے یعنی ذکر ان کے دلوں میں پانی کی طرح بہنا شروع ہو جاتا ہے اور ہر بات اطاعت الہی کی ان لوگوں سے نہایت سہولت اور صفائی سے صادر ہوتی ہے نہ یہ کہ اس میں کوئی بوجھ ہو یا ان کے سینوں میں اس سے کوئی تنگی واقع ہو بلکہ وہ تو اپنے معبود کے امر کی فرمانبرداری میں لذت حاصل کرتے ہیں اور اپنے مولیٰ کی طاعت میں انہیں حلاوت آتی ہے.پس عابدوں اور مطیعوں کی غایت کار اور معراج یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دکھوں کو لذتوں سے بدل ڈالے.الحق لدھیانہ - ر- خ - جلد 4 صفحہ 38-37 حاشیہ) لاکھوں مقدسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کے اتباع سے برکات الہی دل پر نازل ہوتی ہیں اور ایک عجیب پیوند مولیٰ کریم سے ہو جاتا ہے خدائے تعالیٰ کے انوار اور الہام ان کے دلوں پر اترتے ہیں اور معارف اور نکات ان کے مونہہ سے نکلتے ہیں ایک قوی تو کل انکو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبت الہی جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے انکے دلوں میں رکھی جاتی ہے اگر انکے وجودوں کو ہادنِ مصائب میں پیسا جائے اور سخت شکنجوں میں دیکر نچوڑا جائے تو ان کا عرق بجز حب الہی کے اور کچھ نہیں.دنیا ان سے ناواقف اور وہ دنیا سے دور تر و بلند تر ہیں.خدا کے معاملات ان سے خارق عادت ہیں انہیں پر ثابت ہوا ہے کہ خدا ہے انہیں پر کھلا ہے کہ ایک ہے جب وہ دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی سنتا ہے.جب وہ پکارتے ہیں تو وہ انہیں جواب دیتا ہے جب وہ پناہ چاہتے ہیں تو وہ ان کی طرف دوڑتا ہے وہ باپوں سے زیادہ ان سے پیار کرتا ہے اور ان کی درودیوار پر برکتوں کی بارش برساتا ہے پس وہ اس کی ظاہری و باطنی و روحانی و جسمانی تائیدوں سے شناخت کئے جاتے ہیں اور وہ ہر یک میدان میں ان کی مدد کرتا ہے.کیونکہ وہ اس کے اور وہ ان کا ہے.سرمہ چشم آریہ.رخ- جلد 2 صفحہ 79 حاشیہ) یہودی: چونکہ توریت پر عمل نہیں رہا.اس لیے ولی اور صلحا نہیں ہوتے.حضرت اقدس: اگر توریت میں کوئی تاثیر باقی ہوتی تو اسے ترک ہی کیوں کرتے ؟ اگر آپ کہیں کہ بعض نے ترک کیا ہے تو پھر بھی اعتراض بدستور قائم ہے کہ جنہوں نے ترک نہیں کیا.ان پر جو اثر ہوا ہے وہ پیش کرو.اور اگر کل ہی نے ترک کر دیا ہے تو یہ ترک تا شیر کو باطل کرتا ہے.ہم قرآن شریف کے لیے یہی نہیں مانتے.یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے.لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ تازہ ہیں: چنانچہ میں اس وقت اسی ثبوت کے لیے بھیجا گیا ہوں.اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اس کی حمایت اور تائید کے لیے بھیجتارہا ہے.کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُوْنَ (الحجر: 10 ) یعنی بے شک ہم نے ہی اس ذکر ( قرآن شریف) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.
400 ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 450) قرآن شریف کی حفاظت کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ توریت یا کسی اور کتاب کے لیے نہیں اسی لیے ان کتابوں میں انسانی چالاکیوں نے اپنا کام کیا.قرآن شریف کی حفاظت کا یہ بڑاز بر دست ذریعہ ہے کہ اس کی تاثیرات کا ہمیشہ تازہ بتازہ ثبوت ملتا رہتا ہے اور یہود نے چونکہ توریت کو بالکل چھوڑ دیا ہے اور ان میں کوئی اثر اور قوت باقی نہیں رہی جوان کی موت پر دلالت کرتی ہے.چوں گمانے کنم اینجا مددِ روح قدس که مرا در دل شاں دیو نظر می آید میں یہاں روح القدس کی مد کا گمان کیونکر سکتا ہوں کہ مجھے تو ان کے دل میں دیو بیٹھا ہوا نظر آتا ہے.این مددهاست در اسلام چو خورشید عیاں اسلام میں یہ امدا د سورج کی طرح ظاہر ہے کہ ہر زمانہ کے لئے نیا مسیحا آتا ہے.کہ پہر عصر مجاے دگر می آید سرمه چشم آریہ.ر.خ.جلد 2 صفحہ 287) يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا وَ مَايَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ.(البقرة: 270) یعنی خدا جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی ہے یعنی حکمت خیر کثیر پر مشتمل ہے اور جس نے حکمت پائی اس نے خیر کثیر کو پالیا سو یہ علوم و معارف جو دوسرے لفظوں میں حکمت کے نام سے موسوم ہیں.یہ خیر کثیر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بحر محیط کے رنگ میں ہیں جو کلام الہی کے تابعین کو دئیے جاتے ہیں اور ان کے فکر اور نظر میں ایک ایسی برکت رکھی جاتی ہے جو اعلیٰ درجہ کے حقائق حقہ ان کے نفس آئینہ صفت پر منعکس ہوتے رہتے ہیں اور کامل صداقتیں ان پر منکشف ہوتی رہتی ہیں اور تائیدات الہیہ ہر ایک تحقیق اور تدقیق کے وقت کچھ ایسا سامان ان کے لیے میسر کر دیتی ہیں جس سے بیان ان کا ادھورا اور ناقص نہیں رہتا اور نہ کچھ غلطی واقع ہوتی ہے.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 534-533 حاشیہ 3) وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِيْنِ.وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطنٍ رَّحِيْمِ.فَأَيْنَ تَذْهَبُوْنَ.(التكوير : 25 تا 27) قرآن...غیب کے عطا کرنے میں بخیل نہیں ہے یعنی بخیلوں کی طرح اس کا یہ کام نہیں کہ صرف آپ ہی غیب بیان کرے اور دوسرے کو غیبی قوت نہ دے سکے بلکہ آپ بھی غیب پر مشتمل ہے اور پیروی کر نیوالے پر بھی پر فیضان غیب کرتا ہے.جنگ مقدس.ر.خ.جلد 6 صفحہ 87)
401 وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلَّمَهُ اللَّهِ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَّرَآيُّ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ.(الشورى: 52) کوئی چیز اپنی صفات ذاتیہ سے الگ نہیں ہو سکتی پھر خدا کا کلام جو زندہ کلام ہے کیونکر الگ ہو سکے.پس کیا تم کہہ سکتے ہو کہ آفتاب وحی الہی اگر چہ پہلے زمانوں میں یقینی رنگ میں طلوع کرتا رہا ہے مگر اب وہ صفائی اس کو نصیب نہیں گو یا یقینی معرفت تک پہنچنے کا کوئی سامان آگے نہیں رہا بلکہ پیچھے رہ گیا ہے اور گو یا خدا کی سلطنت اور حکومت اور فیض رسانی کچھ تھوڑی مدت تک رہ کر ختم ہو چکی ہے لیکن خدا کا کلام اس کے برخلاف گواہی دیتا ہے کیونکہ وہ یہ دعا سکھلاتا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ ( نزول اسیح - ر-خ- جلد 18 - صفحہ 487) عَلَيْهِمْ..قرآن شریف پر شریعت ختم ہو گئی مگر وحی ختم نہیں ہوئی کیونکہ وہ بچے دین کی جان ہے.جس دین میں وحی الہی کا سلسلہ جاری نہیں وہ دین مردہ ہے اور خدا اس کے ساتھ نہیں.(کشتی نوح -رخ- جلد 19 صفحہ 24 حاشیہ) إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَهُ فِي إِمَامٍ مُّبِيْنٍ.(يس: 13) قرآن شریف خود اپنے تئیں قیامت کا نمونہ ظاہر کرتا ہے جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءًا طُهُورًا لِنُحْيِي بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا (سورة فرقان 50،49) یعنی ہم نے آسمان سے پاک پانی اتارا ( یعنی قرآن ) تا کہ ہم اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندہ کریں پھر فرماتا ہے واحييـنــا بــه بلدة ميتا کذالک الخروج (سورة ق الجزو نمبر 26 ) یعنی قرآن کے ساتھ ہم نے زمین مردہ کو زندہ کیا.ایسا ہی حشر اجساد بھی ہوگا.پھر فرماتا إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْاوَ اثَارَهُمْ (الحدید : 18) یعنی ہم قرآن کے ساتھ مردوں کو زندہ کر رہے ہیں اور پھر فرماتا ہے اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا یعنی اے لوگو جان لو کہ زمین مرگئی تھی اور خدا اب نئے سرے اس کو زندہ کر رہا ہے.غرض جابجا قرآن شریف کو نمونہ قیامت ٹھہرایا گیا ہے.(ازالہ اوہام -رخ- جلد 3 صفحہ 325-322) ہے شکر رب عزوجل خارج از بیاں جس کے کلام سے ہمیں اس کا ملا نشاں وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں ہو گی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں اس سے ہمارا پاک دل و سینہ ہو گیا اپنے منہ کا آپ ہی آئینہ ہو گیا اس نے درخت دل کو معارف کا پھل دیا ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا اس سے خدا کا چہرہ نمودار ہو گیا شیطاں کا مکر و وسوسہ بے کار ہو گیا وہ رہ جو ذات عزوجل کو دکھاتی ہے وہ رہ جو دل کو پاک و مطہر بناتی وہ رہ جو یار گم شدہ کو کھینچ لاتی ہے وہ رہ جو جام پاک یقیں کا پلاتی وہ رہ جو اس کے ہونے پر محکم دلیل ہے وہ رہ جو اس کے پانے کی کامل سبیل ہے اس نے ہر ایک کو وہی رستہ دکھا دیا جتنے شکوک و شبہ تھے سب کو مٹا دیا قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے ( در شین اردو صفحه 91-92 ) ( براہین احمدیہ - ر - خ - جلد 21 صفحہ 11) وہ ہے ہے
402 تیرہویں فصل اسالیب قرآن کریم اصولی فرمودات سمجھنا چاہئے کہ قرآن شریف کی بلاغت ایک پاک اور مقدس بلاغت ہے.جس کا مقصد اعلیٰ یہ ہے کہ حکمت اور راستی کی روشنی کو فصیح کلام میں بیان کر کے تمام حقائق اور دقائق علم دین ایک موجز اور مدلل عبارت میں بھر دیے جائیں.اور جہاں تفصیل کی اشد ضرورت ہو.وہاں تفصیل ہو.اور جہاں اجمال کافی ہو.وہاں اجمال ہو اور کوئی صداقت دینی ایسی نہ ہو.جس کا مفصل گیا مجملاً ذکر نہ کیا جائے.اور باوصف اسکے ضرورت حقہ کے تقاضا سے ذکر ہو نہ غیر ضروری طور پر اور پھر کلام بھی ایسا فصیح اور سلیس اور متین ہو کہ جس سے بہتر بنانا ہر گز کسی کیلئے ممکن نہ ہو.اور پھر وہ کلام روحانی برکات بھی اپنے ہمراہ رکھتا ہو.یہی قرآن شریف کا دعویٰ ہے.جس کو اس نے آپ ثابت کر دیا ہے.اور جابجا فرما بھی دیا ہے کہ کسی مخلوق کیلئے ممکن نہیں کہ اسکی نظیر بنا سکے.(براہین احمدیہ -رخ- جلد 1 صفحہ 477-476 حاشیہ نمبر 3) کیونکہ خدا کا فصیح کلام معارف حقہ کو کمال ایجاز سے کمال ترتیب سے کمال صفائی اور خوش بیانی سے لکھتا ہے اور وہ طریق اختیار کرتا ہے جس سے دلوں پر اعلیٰ درجہ کا اثر پڑے اور تھوڑی عبارت میں وہ علوم الہیہ سا جائیں جن پر دنیا کی ابتدا سے کسی کتاب یا دفتر نے احاطہ نہیں کیا.یہی حقیقی فصاحت بلاغت ہے جو تکمیل نفس انسانی کے لئے ممدو معاون ہے جس کے ذریعہ سے حق کے طالب کمال مطلوب تک پہنچتے ہیں.اور یہی وہ صفت ربانی ہے جس کا انجام پذیر ہونا بجز الہی طاقت اور اس کے علم وسیع سے ممکن نہیں.( براہین احمدیہ - رخ - جلد 1 صفحہ 466-464 حاشیہ نمبر 3) وَ عِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ طَ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَبٍ مُّبِيْنٍ.(الانعام: 60 ) قرآن شریف کا طرز بیان مختلف ہے میں نے کئی بار اشتہا دیا ہے کہ کوئی ایسی سچائی پیش کرو جو ہم قرآن شریف سے نہ نکال سکیں.لاَ رَطْبٍ وَّلاً يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتب مُبِینٍ.یہ ایک نا پیدا کنار سمندر ہے اپنے حقائق اور معارف کے لحاظ سے اور اپنی فصاحت و بلاغت کے رنگ میں.اگر بشر کا کلام ہوتا توسطحی خیالات کا نمونہ دکھایا جاتا مگر یہ طرز ہی اور ہے جو بشری طرزوں سے الگ اور ممتاز ہے.اس میں باوجود اعلی درجہ کی بلند پردازی کے نمود و نمائش بالکل نہیں.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 455) پھر علاوہ اسکے قرآن شریف نے تائید دین میں اور اور علوم سے بھی اعجازی طور پر خدمت لی ہے اور منطق اور طبعی اور فلسفہ اور بہیت اور علم نفیس اور طبابت اور علم ہندسہ اور علم بلاغت و فصاحت وغیرہ علوم کے وسائل سے علم دین کا سمجھانا اور ذہن نشین کرنا یا اسکا تفہیم درجہ بدرجہ آسان کردینا یا اسپر کوئی برہان قائم کرنا یا اس سے کسی نادان کا اعتراض اٹھانا مد نظر رکھا ہے غرض طفیلی طور پر یہ سب علوم خدمت دین کے لئے بطور خارق عادت قرآن شریف میں اس عجیب طرز سے بھرے ہوئے ہیں جن سے ہر یک درجہ کا ذہن فائدہ اٹھا سکتا ہے.(سرمه چشم آریہ.رخ- جلد 2 صفحہ 75 حاشیہ )
403 قرآن طرز موزوں اور معتدل پر نازل ہوا ہے اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ......الاية (النور : 36) ہر یک وحی نبی منزل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں جلال اور غضب تھا.تو ریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی.حضرت مسیح علیہ السلام کے مزاج میں حلم اور نرمی تھی سو انجیل کی تعلیم بھی حلم اور نرمی پر مشتمل ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقع تھا.نہ ہر جگہ حلم پسند تھا اور نہ ہر مقام غضب مرغوب خاطر تھا بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقع کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی سو قرآن شریف بھی اسی طرز موزوں و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع شدت ورحمت و ہیبت و شفقت و نرمی و درشتی ہے.(براہین احمدیہ -رخ- جلد 1 صفحہ 193 حاشیہ نمبر (11) قرآن کی تعلیم قانون قدرت کے مطابق ہے لیکن قرآن کریم اخلاقی تعلیم میں قانون قدرت کے قدم بہ قدم چلا ہے.رحم کی جگہ جہاں تک قانون قدرت اجازت دیتا ہے رحم ہے اور قہر اور سزا کی جگہ اسی اصول کے لحاظ سے قہر اور سزا اور اپنی اندرونی اور بیرونی تعلیم میں ہر ایک پہلو سے کامل ہے اور اس کی تعلیمات نہایت درجہ کے اعتدال پر واقعہ ہیں جو انسانیت کے سارے درخت کی آبپاشی کرتی ہیں نہ کسی ایک شاخ کی.اور تمام قومی کی مربی ہیں نہ کسی ایک قوت کی.اور در حقیقت اسی اعتدال اور موزونیت کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا ہے.كِتَابًا مُتَشَابِهًا (الزمر: 24 ) پھر بعد اس کے مَشَانِي کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات معقولی اور روحانی دونوں طور کی روشنی اپنے اندر رکھتی ہیں.پھر بعد اس کے فرمایا کہ قرآن میں اس قدر عظمت حق کی بھری ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی آیتوں کی سننے سے ان کے دلوں پر قشعر یرہ پڑ جاتا ہے اور پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل یا دالہی کے لئے بہ نکلتے ہیں.اور پھر فرمایا کہ یہ کتاب حق ہے اور نیز میزان حق یعنی یہ حق بھی ہے اور اس کے ذریعہ سے حق شناخت بھی ہوسکتا ہے.اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے آسمان پر سے پانی اتارا.پس اپنے اپنے قدر پر ہر یک وادی بہن نکلی یعنی جسقدر دنیا میں طبائع انسانی ہیں قرآن کریم انکے ہر یک مرتبہ فہم اور عقل اور ادراک کی تربیت کر نیوالا ہے اور یہ امر مستلزم کمال تام ہے کیونکہ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم اس قدر وسیع دریائے معارف ہے کہ محبت الہی کے تمام پیا سے اور معارف حقہ کی تمام تشنہ لب اسی سے پانی پیتے ہیں.اور پھر فرمایا کہ ہم نے قرآن کریم کو اسلئے اتارا ہے کہ تا جو پہلی قوموں میں اختلاف ہو گئے ہیں ان کا اظہار کیا جائے.اور پھر فرمایا کہ یہ قرآن ظلمت سے نور کی طرف نکالتا ہے.اور اس میں تمام بیماریوں کی شفا ہے اور طرح طرح کی برکتیں یعنی معارف اور انسانوں کو فائدہ پہنچانے والے امور اس میں بھرے ہوئے ہیں اور اس لائق ہے کہ اس کو تدبر سے دیکھا جائے
404 اور عقلمند اسمیں غور کریں اور سخت جھگڑالو اس سے ملزم ہوتے ہیں اور ہر یک نشے کی تفصیل اس میں موجود ہے اور یہ ضرورت حقہ کے وقت نازل کیا گیا ہے.اور ضرورت حقہ کے ساتھ اترا ہے اور یہ کتاب عزیز ہے باطل کو اس کے آگے پیچھے راہ نہیں اور یہ نور ہے جس کے ذریعہ سے ہدایت دی جاتی ہے اس میں ہر ایک شے کا بیان موجود ہے اور یہ روح ہے اور یہ کتاب عربی فصیح بلیغ میں ہے اور تمام صداقتیں غیر متبدل اس میں موجود ہیں ان کو کہدے کہ اگر جن وانس اس کی نظیر بنانا چاہیں یعنی وہ صفات کا ملہ جو اس کی بیان کی گئی ہیں اگر کوئی ان کی مثل بنی آدم اور جنات میں سے بنانا چاہیں تو یہ ان کیلئے ممکن نہ ہوگا اگر چہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.کرامات الصادقین - ر - خ- جلد 7 صفحه 59-58) اسلوب قرآن تکرار بیان کے اعتبار سے فَبِأَيِّ الْآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَنِ.(الرحمن: 14) اس سوال کے جواب میں کہ سورۃ رحمن میں اعادہ کیوں ہوا ہے فرمایا:.اس قسم کا التزام اللہ تعالیٰ کے کلام کا ایک ممتاز نشان ہے.انسان کی فطرت میں یہ امر واقع ہوا ہے کہ موزوں کلام اسے جلد یاد ہو جاتا ہے اس لئے فرمایا وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ (القمر : 23) یعنی بیشک ہم نے یاد کرنے کے لئے قرآن شریف کو آسان کر دیا ہے....فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بنِ بار بار توجہ دلانے کے واسطے ہے.اسی تکرار پر نہ جاؤ قرآن شریف میں اور بھی تکرار ہے.میں خود بھی تکرار کو اسی وجہ سے پسند کرتا ہوں.میری تحریروں کو اگر کوئی دیکھتا ہے تو وہ اس تکرار کو بکثرت پائے گا.حقیقت سے بے خبر انسان اس کو منافی بلاغت سمجھ لے گا اور کہے گا کہ یہ بھول کر لکھا ہے حالانکہ یہ بات نہیں ہے.میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید پڑھنے والا پہلے جو کچھ لکھا ہے اسے بھول گیا ہو اس لئے بار بار یاد دلاتا ہوں تا کہ کسی مقام پر تو اس کی آنکھ کھلے.اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْنِيَّاتِ.علاوہ بریں تکرار پر اعتراض ہی بے فائدہ ہے اس لئے کہ یہ بھی تو انسانی فطرت میں ہے کہ جب تک بار بار ایک بات کو دہرائے نہیں وہ یاد نہیں ہوتی.سُبْحَانَ رَبِّيَ الأعْلیٰ اور سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمِ بار بار کیوں کہلوایا ایک بار ہی کافی تھا ؟ نہیں.اس میں یہی سر ہے کہ کثرت تکرار اپنا ایک اثر ڈالتی ہے اور غافل سے غافل قوتوں میں بھی ایک بیداری پیدا کر دیتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (الانفال: 46 ) یعنی اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تا کہ تم فلاح پا جاؤ.جس طرح یہ ذہنی تعلق ہوتا ہے اور کثرت تکرار ایک بات کو حافظہ میں محفوظ کر دیتی ہے.اسی طرح ایک روحانی تعلق بھی ہے اس میں بھی تکرار کی
405 حاجت ہے.بدوں تکرار وہ روحانی پیوند اور رشتہ قائم نہیں رہتا.حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک آیت اتنی مرتبہ پڑھتا ہوں کہ وہ آخر وحی ہو جاتی ہے.صوفی بھی اسی طرف گئے ہیں اور وَاذْكُرُوا الله كَثِيرًا کے یہ معنے ہیں کہ اس قدر ذکر کرو کہ گویا اللہ تعالیٰ کا نام کنٹھ ہو جائے.انبیاء علیہم السلام کے طرز کلام میں یہ بات عام ہوتی ہے کہ وہ ایک امر کو بار بار اور مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں.ان کی اصل غرض یہی ہوتی ہے کہ تا مخلوق کو نفع پہنچے.میں خود دیکھتا ہوں اور میری کتابیں پڑھنے والے جانتے ہیں کہ اگر چار صفحے میری کسی کتاب کے دیکھے جاویں تو ان میں ایک ہی امر کا ذکر پچاس مرتبہ آئے گا اور میری غرض یہی ہوتی ہے کہ شاید پہلے مقام پر اس نے غور نہ کیا ہو اور یونہی سرسری طور سے گذر گیا ہو.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 455 تا 457) وَلَقَدْ صَرَّفْنَهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا فَانّى اَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوْرًا.(الفرقان: 51) اور ہم پھیر پھیر کر مثالیں بتلاتے ہیں تا لوگ یاد کر لیں کہ نبیوں کے بھیجنے کا یہی اصول ہے.(براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 652) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.(الانفال:46) تکرار....بھی تو انسانی فطرت میں ہے کہ جب تک بار بار ایک بات کو دہرائے نہیں وہ یاد نہیں ہوتی.سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى اور سُبُحَانَ رَبِّيَ الْعَظیمِ بار بار کیوں کہلوایا؟ ایک بار ہی کافی تھا.نہیں اس میں یہی سر ہے کہ کثرت تکرار اپنا ایک اثر ڈالتی ہے اور غافل سے غافل قوتوں میں بھی ایک بیداری پیدا کر دیتی ہے.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ اذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ - یعنی اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تا کہ تم فلاح پا جاؤ جس طرح پر ذہنی تعلق ہوتا ہے اور کثرت تکرار ایک بات کو حافظہ میں محفوظ کر دیتی ہے اسی طرح ایک روحانی تعلق بھی ہے اس میں بھی تکرار کی حاجت ہے.بدوں تکرار وہ روحانی پیوند اور رشتہ قائم نہیں رہتا.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 456)
406 باعتبار اقوال غیر اللہ اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جیسے آجکل بعض کھلونے ایسے بنائے جاتے ہیں کہ ہوا کے اندر اور باہر آنے سے ان میں سے ایک آواز نکلتی ہے.یا جیسے بعض زمیندار اپنے کھیتوں پر چمڑہ کا ایک ڈھول سا بنا لیتے ہیں اور اس میں سے بھیڑیے کے مشابہ ایک آواز نکلتی ہے.ایسا ہی یہ بھی ایک کھلونا تھا.اور قوم کو دھوکہ دینے کے لئے اور نیز اس گوسالہ کو ایک مقدس ثابت کرنے کے لئے یہ ایک جھوٹا اور بے اصل بیان سامری نے پیش کر دیا.کہ رسول کے قدموں کی خاک کی برکت سے یہ آواز آتی ہے.تاوہ لوگ اس گوسالہ کو بہت ہی مقدس سمجھ لیں.اور تا سامری ایک کراماتی انسان مانا جائے.اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رونق اور عزت کم ہو جائے.قرآن شریف نے ہرگز اس بات کی تصدیق نہیں کی که در حقیقت وہ آواز رسول کی خاک قدم کی وجہ سے تھی.صرف سامری کا قول نقل کر دیا ہے.اور جیسا کہ قرآن شریف کی عادت ہے جو بعض اوقات کفار کے اقوال نقل کرتا ہے اور بوجہ بداہت بطلان ان اقوال کے رد کرنے کی حاجت نہیں دیکھتا بلکہ فقط قائل کا کاذب یا فاسق ہونا بیان کر کے دانشمندوں کو اصل حقیقت سمجھنے کے لئے متنبہ کرتا ہے.ایسا ہی اس جگہ بھی اس نے کیا.سواب سامری کے اس جھوٹے منصوبہ کی مشابہت لیکھرام سے یہ ہے کہ آریوں نے بھی محض دھوکہ دہی کی غرض سے لیکھرام کو ایک مقدس اور فاضل انسان قراردیدیا.تریاق القلوب.ر.خ.جلد 15 صفحہ 400-399) اور نیز اس جگہ یہ یادر ہے کہ خدا تعالئے جو اصدق الصادقین ہے اس نے اپنی کلام میں صدق کو دو قسم قرار دیا ہے.ایک صدق باعتبار ظاہر الاقوال.دوسرے صدق باعتبار التاویل والمآل.پہلی قسم صدق کی مثال یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیسی مریم کا بیٹا تھا.اور ابراہیم کے دو بیٹے تھے اسمعیل و اسحاق.کیونکہ ظاہر واقعات بغیر تاویل کے یہی ہیں.دوسری قسم صدق کی مثال یہ ہے کہ جیسے قرآن شریف میں کفار یا گذشتہ مومنوں کے کلمات کچھ تصرف کر کے بیان فرمائے گئے ہیں اور پھر کہا گیا کہ یہ انہی کے کلمات ہیں.اور یا جو قصے توریت کے ذکر کئے گئے ہیں اور ان میں بہت سا تصرف ہے.کیونکہ ظاہر ہے کہ جس اعجازی طرز اور طریق اور صحیح فقروں اور دلچسپ استعارات میں قرآنی عبارات ہیں اس قسم کے فصیح فقرے کافروں کے منہ سے ہرگز نہیں نکلے تھے اور نہ یہ ترتیب تھی.بلکہ یہ ترتیب قصوں کی جو قرآن میں ہے توریت میں بھی بالالتزام ہر گز نہیں ہے.حالانکہ فرمایا ہے ان هذالـفـى الصحف الاولى صحف ابراهيم و موسى (الاعلى: 19 20) اور اگر یہ کلمات اپنی صورت اور ترتیب اور صیغوں کے رو سے وہی ہیں جو مثلاً کافروں کے منہ سے نکلے تھے تو اس سے اعجاز قرآنی باطل ہوتا ہے.کیونکہ اس صورت میں وہ فصاحت کفار کی ہوئی نہ قرآن کی.اور اگر وہی نہیں تو بقول تمہارے کذب لازم آتا ہے.کیونکہ ان لوگوں نے تو اور اور لفظ اور اور ترتیب اور اور صیغے اختیار کئے تھے.اور جس طرح مُتَوَفِّیک اور تَوَفَّيْتَنِی دو مختلف صیغے ہیں.اسی طرح صد ہا جگہ ان کے صیغے اور قرآنی صیغے باہم اختلاف رکھتے تھے مثلاً توریت میں ایک قصہ یوسف ہے نکال کر دیکھ لو.اور پھر قرآن شریف کی سورہ یوسف سے اس کا مقابلہ کرو تو دیکھو کہ کس قدر صیغوں میں اختلاف اور بیان میں کمی بیشی ہے بلکہ بعض جگہ بظاہر معنوں میں بھی اختلاف ہے.ایسا ہی قرآن نے بیان کیا ہے.کہ ابراہیم کا باپ آزر تھا.لیکن اکثر مفسر لکھتے ہیں کہ اس کا باپ کوئی اور تھانہ آزر.اب اے نادان جلد تو بہ کر کہ تو نے پادریوں کی طرح قرآن پر بھی حملہ کر دیا.( تریاق القلوب - ر- خ - جلد 15 صفحہ 569-568)
407 سیاق و سباق بیان کے اعتبار سے جو شخص قرآن کریم کے اسالیب کلام کو بخوبی جانتا ہے اس پر یہ پوشیدہ نہیں کہ بعض اوقات وہ کریم ورحیم جل شانہ اپنے خواص عباد کے لئے ایسا لفظ استعمال کر دیتا ہے کہ بظاہر بدنما ہوتا ہے مگر معنا نہایت محمود اور تعریف کا کلمہ ہوتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے نبی کریم کے حق میں فرمایا.وَوَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَى (الضحی : 8) اب ظاہر ہے کہ ضال کے معنے مشہور اور متعارف جو اہل لغت کے منہ پر چڑھے ہوئے ہیں گمراہ کے ہیں جس کے اعتبار سے آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے (اے رسول اللہ ) تجھ کو گمراہ پایا اور ہدایت دی.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گمراہ نہیں ہوئے اور جو شخص مسلمان ہو کر یہ اعتقادر کھے کہ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر میں ضلالت کا عمل کیا تھا تو وہ کا فربے دین اور حد شرعی کے لائق ہے بلکہ آیت کے اس جگہ وہ معنی لینے چاہیئے جو آیت کے سیاق اور سباق سے ملتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا.اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاوَى وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدَى وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَاغْنى (الضحى: 9-7) یعنی خدا تعالیٰ نے تجھے یتیم اور بیکس پایا اور اپنے پاس جگہ دی اور تجھ کو ضال ( یعنی عاشق وجہ اللہ) پایا پس اپنی طرف کھینچ لایا اور تجھے درویش پایا پس غنی کر دیا.ان معنوں کی صحت پر یہ ذیل کی آیتیں قرینہ ہیں جو ان کے بعد آتی ہیں یعنی یہ کہ فَاَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ وَ أَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْهَرْ وَ أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِث.(الضحی : 12-10) کیونکہ یہ تمام آیتیں لف نشر مرتب کے طور پر ہیں اور پہلی آیتوں میں جو مد عامخفی ہے دوسری آیتیں اس کی تفصیل اور تصریح کرتی ہیں مثلا پہلے فرمایا.اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاوی.اس کے مقابل پر یہ فرمایا.فَلَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَر یعنی یاد کر کہ تو بھی یتیم تھا اور ہم نے تجھ کو پناہ دی ایسا ہی تو بھی یتیموں کو پناہ دے.پھر بعد اس آیت کے فرمایا.وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدی.اس کے مقابل پر یہ فرمایا.وَ أَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْهَر یعنی یاد کر کہ تو ہمارے وصال اور جمال کا سائل اور ہمارے حقائق اور معارف کا طالب تھا سوجیسا کہ ہم نے باپ کی جگہ ہو کر تیری جسمانی پرورش کی ایسا ہی ہم نے استاد کی جگہ ہو کر تمام دروازے علوم کے تجھ پر کھول دیئے اور اپنے لقاء کا شربت سب سے زیادہ عطا فر مایا اور جو تو نے مانگا سب ہم نے تجھ کو دیا سو تو بھی مانگنے والوں کو ر د مت کر اور ان کو مت جھڑک اور یاد کر کہ تو عائل تھا اور تیری معیشت کے ظاہری اسباب بکلی منقطع تھے سو خدا خود تیرا متولی ہوا اور غیروں کی طرف حاجت لے جانے سے تجھے غنی کر دیا.نہ تو والد کا محتاج ہوا نہ والدہ کا.نہ استاد کا اور نہ کسی غیر کی طرف حاجت لے جانے کا بلکہ یہ سارے کام تیرے خدا تعالیٰ نے آپ ہی کر دیے اور پیدا ہوتے ہی اس نے تجھ کو آپ سنبھال لیا سواس کا شکر بجالا اور حاجت مندوں سے تو بھی ایسا ہی معاملہ کر.اب ان تمام آیات کا مقابلہ کر کے صاف طور پر کھلتا ہے کہ اس جگہ ضال کے معنے گمراہ نہیں ہے بلکہ انتہائی درجہ کے تعشق کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ
408 حضرت یعقوب کی نسبت اسی کے مناسب یہ آیت ہے اِنَّكَ لَفِی ضَللِكَ الْقَدِيمِ.(يوسف: 96 ) سويه دونوں لفظ ظلم اور ضلالت اگر چہ ان معنوں پر بھی آتے ہیں کہ کوئی شخص جادہ اعتدال اور انصاف کو چھوڑ کر اپنے شہوات غض یہ یا بہیمیہ کا تابع ہو جاوے لیکن قرآن کریم میں عشاق کے حق میں بھی آئے ہیں جو خدا تعالیٰ کے راہ میں عشق کی مستی میں اپنے نفس اور اس کے جذبات کو پیروں کے نیچے پھل دیتے ہیں اسی کے مطابق حافظ شیرازی کا یہ شعر ہے.آسماں بار امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیوانه زدند اس دیوانگی سے حافظ صاحب حالت تعشق اور شدت حرص اطاعت مراد لیتے ہیں.آئینہ کمالات اسلام - رخ جلد 5 صفحہ 173-170 ) محاورہ ، قرآن کے اعتبار سے ان آیات میں کسی کم تجربہ آدمی کو یہ خیال نہ گذرے کہ ان دونوں مقامات کے بعد میں جہنم کا ذکر ہے اور بظاہر سیاق کلام چاہتا ہے کہ یہ قصہ آخرت سے متعلق ہو مگر یادر ہے کہ عام محاورہ قرآن کریم کا ہے اور صد ہا نظیریں اسکی اس پاک کلام میں موجود ہیں کہ ایک دنیا کے قصہ کے ساتھ آخرت کا قصہ پیوند کیا جاتا ہے.اور ہر ایک حصہ کلام کا اپنے قرائن سے دوسرے حصہ سے تمیز رکھتا ہے اس طرز سے سارا قرآن شریف بھرا پڑا ہے.مثلا قرآن کریم میں شق القمر کے معجزہ کو ہی دیکھو کہ وہ ایک نشان تھا لیکن ساتھ اس کے قیامت کا قصہ چھیڑ دیا گیا.جس کی وجہ سے بعض نادان قرینوں کو نظر انداز کر کے کہتے ہیں کہ شق القمر وقوع میں نہیں آیا بلکہ قیامت کو ہوگا.منہ اسالیب ادب کے اعتبار سے (شہادت القران.ر.خ.جلد 6 صفحہ 311 حاشیہ ) پھر تیسر الطیفہ اس سورۃ میں یہ ہے کہ باوجود التزام فصاحت و بلاغت یہ کمال دکھلایا ہے کہ محامد الہیہ کے ذکر کرنے کے بعد جو فقرات دعا وغیرہ کے بارہ میں لکھے ہیں ان کو ایسے عمدہ طور پر بطور لف و نشر مرتب کے بیان کیا ہے.جس کا صفائی سے بیان کرنا باوجود رعایت تمام مدارج فصاحت و بلاغت کے بہت مشکل ہوتا ہے اور جولوگ سخن میں صاحب مذاق ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے لف و نشر کیسا نازک اور دقیق کام ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ خداے تعالیٰ نے اول محامد الہیہ میں فیوض اربعہ کا ذکر فرمایا کہ وہ رب العالمین ہے.رحمان ہے رحیم ہے.مالک یوم الدین ہے اور پھر بعد اس کے فقرات تعبد اور استعانت اور دعا اور طلب جزا کو انہیں کے ذیل میں اس لطافت سے لکھا ہے کہ جس فقرہ کو کس قسم فیض سے نہایت مناسبت تھی اس کے نیچے وہ فقرہ درج کیا چنانچہ رب العالمین کے مقابلہ پر اِيَّاكَ نَعْبُدُ لکھا کیونکہ ربوبیت سے استحقاق عبادت شروع ہو جاتا ہے پس اسی کے نیچے اور اسی کے محاذات میں إِيَّاكَ نَعْبُدُ کا لکھنا نہایت موزوں اور مناسب ہے اور حمان کے مقابلہ پر ايَّاكَ نَسْتَعِينُ لکھا کیونکہ بندہ کے لیے اعانت الہی جو تو فیق عبادت اور ہر یک اس کے مطلوب میں ہوتی ہے جس پر اس کی دنیا اور آخرت کی صلاحیت
409 موقوف ہے یہ اس کے کسی عمل کا پاداش نہیں بلکہ محض صفت رحمانیت کا اثر ہے پس استعانت کو صفت رحمانیت سے بشدت مناسبت ہے اور رحیم کے مقابلہ پر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ لکھا کیونکہ دعا ایک مجاہدہ اور کوشش ہے اور کوششوں پر جوشمرہ مترتب ہوتا ہے وہ صفت رحیمیت کا اثر ہے.اور مالک یوم الدین کے مقابلہ پر صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرَ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ لکھا کیونکہ امرمجازات مالک یوم الدین کے متعلق ہے سوایسا فقرہ جس میں طلب انعام اور عذاب سے بچنے کی درخواست ہے اسی کے نیچے رکھنا موزوں ہے.منطقی دستور کے اعتبار سے ( براھین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 580-577 حاشیہ نمبر 11) منطقی لوگ تعریف کرتے وقت فصل جنس وغیرہ تقسیم کیا کرتے ہیں جیسے کہتے ہیں الْإِنْسَانُ حَيَوَانُ ناطق.سورۃ فاتحہ میں یہ رنگ بھی موجود ہے الْحَمْدُ لِلهِ کہا.پھر اس کے آگے رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اس کی فصل واقع ہوئی الرَّحْمَانِ الرَّحِيْمِ.مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ اس کی حد ہوگئی.اس سے بڑھ کر اور کوئی تعریف نہیں ہے.الحکم 10 فروری 1901 ، صفحہ 12 کالم نمبر 3 زیر عنوان نکات عشرہ فرمودہ 2 فروری 1901ء بوقت سیر ) ربط کلام کے اعتبار سے إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ و یک وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا.وَيَنْصُرَكَ اللهُ نَصْرًا عَزِيزًا.(الفتح: 2 تا 4 ) یہ آیت فتح مکہ کے وقت اُتری عیسائی اس آیت کا اس طرح ترجمہ کرتے ہیں ” ہم نے تجھے ایک صریح فتح دی تا کہ ہم تیرے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کریں...یہ معنے بالصراحت غلط ہیں کیونکہ اس آیت کا ربط ہی بگڑ جاتا ہے.ایک فتح کو گناہ کی معافی سے کیا تعلق ہے گناہوں کی معافی فتح کا کوئی نتیجہ نہیں ہوسکتا.یہاں لفظ ذنب سے وہ عیب مراد ہیں.یہ کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا کرتے تھے کہ یہ شخص مفتری اور جھوٹا ہے.خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح دی جو کہ آپ کی صداقت کی علامت تھی اور اس طرح خدا وند تعالیٰ نے آپ کے سلسلہ کو پوری کامیابی دی اور آپ کے دشمنوں کو ہلاک کیا اور اس طرح آپ کی سچائی کی شہادت دی.ربط کلام ان معنوں کی تائید کرتا ہے.(ریویو آف ریلیجنز ماه جون 1903 ء جلد 2 نمبر 6 صفحہ 244)
410 ابجد اور حساب جمل کے اعتبار سے قرآن شریف کے حروف اور ان کے اعداد بھی معارف مخفیہ سے خالی نہیں ہوتے.مثلاً سورۃ والعصر کی طرف دیکھو کہ ظاہری معنوں کی رو سے یہ بتلاتی ہے کہ یہ دنیوی زندگی جس کو انسان اس قدر غفلت سے گزار رہا ہے آخری یہی زندگی ابدی خسران اور وبال کا موجب ہو جاتی ہے اور اس خسران سے وہی بچتے ہیں جو خدائے واحد پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں کہ وہ موجود ہے اور پھر ایمان کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ اچھے اچھے عملوں سے اس کو راضی کریں اور پھر اسی پر کفایت نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ اس راہ میں ہمارے جیسے اور بھی ہوں جو سچائی کو زمین پر پھیلا دیں اور خدا کے حقوق پر کار بند ہوں اور بنی نوع پر بھی رحم کریں لیکن اس سورۃ کے ساتھ یہ ایک عجیب معجزہ ہے کہ اس میں آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت کے زمانہ تک دنیا کی تاریخ ابجد کے حساب سے یعنی حساب جمل سے بتلائی گئی ہے.غرض قرآن شریف میں ہزار ہا معارف و حقائق ہیں اور در حقیقت شمار سے باہر ہیں.( نزول المسیح.رخ - جلد 18 صفحہ 422) ایک دن خدا کے نزدیک تمہارے ہزار سال کے برابر ہے پس جبکہ خدا تعالیٰ کی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ دن سات ہیں پس اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہے جیسا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ سورۃ والعصر کے عدد جس قدر حساب جمل کی رو سے معلوم ہوتے ہیں اسی قدر زمانہ نسل انسانی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک تک بحساب قمری گذر چکا تھا کیونکہ خدا نے حساب قمری رکھا ہے اور اس حساب سے ہماری اس وقت تک نسل انسانی کی عمر چھ ہزار برس تک ختم ہو چکی ہے اور اب ہم ساتویں ہزار میں ہیں اور یہ ضرور تھا کہ مثیل آدم جس کو دوسرے لفظوں میں مسیح موعود کہتے ہیں چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جو جمعہ کے دن کے قائم مقام ہے جس میں آدم پیدا ہوا اور ایسا ہی خدا نے مجھے پیدا کیا پس اس کے مطابق چھٹے ہزار میں میری پیدائش ہوئی اور یہ عجیب اتفاق ہوا کہ میں معمولی دنوں کی رو سے بھی جمعہ کے دن پیدا ہوا تھا.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 458 457) و انزلنا من السماء ماء بقدر فاسكنه فى الارض و انا على ذهاب به لقدرون.(المومنون: 19) یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہوا جو کمال طغیان اس کا اس سنِ ہجری میں شروع ہوگا جو آیت وَ إِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُوْنَ میں بحساب جمل مخفی ہے یعنی ۱۲۷۴.(ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 455) مسیح ابن مریم کی آخری زمانہ میں آنے کی قرآن شریف میں پیشگوئی موجود ہے.قرآن شریف نے جو مسیح کے نکلنے کی چودہ سو برس تک مدت ٹھہرائی ہے.بہت سے اولیاء بھی اپنے مکاشفات کی رُو سے اس مدت کو مانتے ہیں اور آیت وَ إِنَّا عَلى ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُوْنَ جس کے بحساب جمل ۱۲۷۴ عدد ہیں.اسلامی چاند کی سطح کی راتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں نئے چاند کے نکلنے کی اشارت چھپی ہوئی ہے جو غلام احمد قادیانی کے عددوں میں بحساب جمل پائی جاتی ہے.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 464)
411 تقابل بیان کے اعتبار سے فَفَكَّرُوْا فِي أُمِّ الْكِتَبِ حَقَّ الْفِكْرِ لِمَ حَزَّرَكُمُ اللَّهُ أَنْ تَكُونُوا الْمَغْضُوْبَ عَلَيْهِمْ مَا لَكُمْ لَا تُفَكِّرُوْنَ.فَاعْلَمُوْا أَنَّ السِّرَّ فِيْهِ أَنَّ اللَّهَ كَانَ يَعْلَمُ أَنَّهُ سَوْفَ يَبْعَثُ فِيْكُمُ الْمَسِيحُ الثَّانِي كَأَنَّهُ هُوَ وَكَانَ يَعْلَمُ أَنَّ حِزْبًا مِنْكُمْ يُكَفِّرُوْنَهُ وَيُكَذِّبُوْنَهُ وَيُحَقِّرُوْنَهُ وَيَشْتُمُوْنَهُ وَيُرِيْدُوْنَ أَنْ يَقْتُلُوْهُ وَ يَلْعَنُوْنَهُ فَعَلَّمَكُمْ هَذَا الدُّعَاءَ رُحْمًا عَلَيْكُمْ وَ إِشَارَةً إِلَى نَبَاءِ قَدَّرَهُ فَقَدْ جَاءَ كُمْ مَّسِيْحُكُمْ فَإِنْ لَّمْ تَنْتَهُوا فَسَوْفَ تُسْتَلُوْنَ وَثَبَتَ مِنْ هَذَا الْمَقَامِ أَنَّ الْمُرَادَ مِنَ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ عِنْدَ اللَّهِ الْعَلَّامِ هُمُ الْيَهُوْدُ الَّذِيْنَ فَرَّطُوْا فِي أَمْرِ عِيْسَى رَسُوْلِ اللَّهِ الرَّحْمَانِ وَ كَفَرُوْهُ وَ اذَوْهُ وَ لُعِنُوْا عَلَى لِسَانِهِ فِي الْقُرْآنِ وَ كَذَالِكَ مَنْ شَابَهَهُمْ مِنْكُمْ بِتَكْفِيرِ مَسِيحَ آخِرِ الزَّمَانِ وَ تَكْذِيْبِهِ وَ إِيْدَاءِ هِ بِاللَّسَانِ وَالسَّمَنِّى لِقَتْلِهِ وَ لَوْ بِالْبُهْتَانِ كَمَا أَنْتُمْ تَفْعَلُوْنَ وَالْمُرَادُ مِنْ قَوْلِهِ الصَّالِيْنَ النَّصَارَى الَّذِيْنَ اَفْرَطُوا فِي أَمْرِ عِيْسَى وَ اَطْرَءُ وْهُ وَ قَالُوْا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ وَ هُوَ ثَالِثُ ثَلَثَةِ يَعْنِي الثَّالِثُ الَّذِي يُوْجَدُ فِيْهِ الصَّلقَةُ كَمَا هُمْ يَعْتَقِدُوْنَ.وَالْمُرَادُ مِنْ قَوْلِهِ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ هُمُ النَّبيُّونَ وَالْأَخْيَارُ الْأَخَرُوْنَ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ الَّذِى صَدَّقُوا الْمَسِيحَ وَ مَا فَرَّطُوْا فِيْ اَمْرِهِ وَ مَا اَفْرَطُوْا بِأَقَاوِيْلَ.وَكَذَالِكَ الْمُرَادُ عِيْسَى الْمَسِيحُ الَّذِي خُتِمَتْ عَلَيْهِ تِلْكَ السِّلْسِلَةُ وَ انْتَقَلَتِ النُّبُوَّةُ وَ سُدَّ بِهِ مَجْرَى الْفَيْضِ كَأَنَّهُ الْعَرِمَةُ وَكَأَنَّهُ لِهَذَا الْاِنْتِقَالِ الْعَلَمُ وَ الْعَلَامَةُ اَوِ الْحَشْرُ وَ الْقِيَامَةُ كَمَا أَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.وَ كَذَالِكَ الْمُرَادُ مِنْ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ فِى هَذِهِ الْآيَةِ هُوَ سِلْسِلَةُ ابْدَالِ هَذِهِ الْأُمَّةِ الَّذِيْنَ صَدَّقُوْا مَسِيحَ اخِرِ الزَّمَانِ وَ آمَنُوْا بِهِ وَ قَبِلُوْهُ بِصِدْقِ الطَّوِيَّةِ وَ الْجَنَانِ اَعْنِي الْمَسِيْحَ الَّذِي خُتِمَتْ عَلَيْهِ هذِهِ السّلْسِلَةُ وَ هُوَ الْمَقْصُوْدُ الأعْظَمُ مِنْ قَوْلِهِ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ كَمَا تَقْتَضَى الْمُقَابَلَةُ.وَلَا يُنْكِرُهُ الْمُتَدَبَّرُوْنَ.فَإِنَّهُ إِذَا عُلِمَ بِالْقَطْعِ وَ الْيَقِيْنِ وَ التَّصْرِيحِ وَ التَّعْمِيْنِ أَنَّ الْمَغْضُوْبَ عَلَيْهِمْ هُمُ الْيَهُودُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الْمَسِيحَ وَ حَسِبُوْهُ مِنَ الْمَلْعُوْنِيْنَ كَمَا يَدُلُّ عَلَيْهِ قَرِيْنَةُ قَوْلِهِ الصَّالِيْنَ فَلَا يَسْتَقِيْمُ التَّرْتِيْبُ وَلَا يَحْسُنُ نِظَامُ كَلامِ الرَّحْمَنِ إِلَّا بِاَنْ يُعْنى مِنْ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ مَسِيْحُ اخِرِ الزَّمَانِ فَإِنَّ رِعَايَةَ الْمُقَابَلَةِ مِنْ سُنَنِ الْقُرْآنِ وَ مِنْ اَهَمَ أُمُوْرِ الْبَلاغَةِ وَ حُسْنِ الْبَيَانِ وَلَا يُنْكِرُهُ إِلَّا الْجَاهِلُوْنَ فَظَهَرَ مِنْ هَذَا الْمَقَامِ.چاہئے کہ ام الکتاب میں خوب غور کرو کہ کیوں تم کو خدا نے اس سے ڈرایا کہ تم مغضوب علیہم ہو جاؤ.جان لو کہ اس میں یہ راز تھا کہ خدا جانتا تھا کہ مسیح ثانی تم میں پیدا ہو گا اور گویا وہ وہی ہوگا اور خدا جانتا تھا کہ ایک گروہ تم میں سے اس کو کافر اور جھوٹا کہے گا اسے گالیاں دیں گے اور حقیر جانیں گے اور اس کے قتل کا ارادہ کریں گے اور اس پر لعنت کریں گے.پس اس نے رحم کر کے اور اس خبر کی طرف جو مقدر تھی اشارہ کے لئے یہ دعائم کو سکھائی.پس تمہارا مسیح
412 تمہارے پاس آ گیا اب اگر تم ظلم سے باز نہ آئے تو ضرور پکڑے جاؤ گے اور اس مقام سے ثابت ہوا کہ خدا کے نزدیک مغضوب علیہم سے وہ یہودی مراد ہیں جنہوں نے عیسی کے معاملہ میں نا انصافی کی اور اسکو کافر کہا اور اس کو ستایا اور قرآن میں اس کی زبان پر لعنت کیے گئے.اور اسی طرح تم میں سے وہ جو سیح آخرالزمان کی تکفیر اور زبان سے اس کی تکذیب اور ایذا اور اسکے قتل کی آرزو کی وجہ سے ان یہودیوں سے مشابہہ ہو گئے.اور ضالین سے مراد نصاریٰ ہیں جو عیسی علیہ السلام کے بارہ میں حد سے گذر گئے اور کہا کہ مسیح ہی خدا ہے اور وہ تین میں سے ایک ہے ایسا کہ دونوں اس کے وجود میں موجود ہیں اور انعمت علیہم سے وہ انبیا اور بنی اسرائیل کے آخری برگزیدے مراد ہیں جنہوں نے مسیح کی تصدیق کی اور اس کے بارے میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور باتوں سے اس مسیح کے حق میں زیادتی نہیں کی اور اسی طرح مراد لفظ انعمت علیہم سے عیسی مسیح ہے جس پر وہ سلسلہ ختم ہوا اور اس کے وجود سے فیض کا چشمہ بند ہو گیا گویا کہ اسکا وجو د اس انتقال کے لئے ایک نشانی یا حشر اور قیامت تھا اور اسی طرح انعمت علیہم سے مراد اس امت کے ابدالوں کا سلسلہ مراد ہے جنہوں نے مسیح آخرالزمان کی تصدیق کی اور صدق دل سے اس کو قبول کیا یعنی اس مسیح کو جس پر یہ سلسلہ ختم ہوا اور انعمت علیہم سے وہی مقصود اعظم ہے کیونکہ مقابلہ اس کا مقتضی ہے اور تدبر کرنے والے اسکا انکار نہیں کر سکتے ( اور پھر جب اس بات کا قطعی یقینی صراحت اور تعیین کے ساتھ علم ہو گیا کہ ) مغضوب علیہم وہی یہودی ہیں جنہوں نے مسیح کو کا فرکہا اور اس کو ملعون جانا جیسا کہ الضالین کا لفظ اس پر دلالت کرتا ہے اس لئے ترتیب ٹھیک نہیں بیٹھتی اور قرآن کے کلام کا نظام درست نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ انعمت علیہم سے آخر زمانہ کا مسیح مراد لیا جائے کیونکہ قرآن شریف کی عادت ہے کہ مقابلہ کی رعایت رکھتا ہے اور مقابلہ کی رعایت رکھنا اعلیٰ درجہ کی بلاغت اور حسن بیان میں داخل ہے اور جاہل کے سوا کوئی اس معنے سے انکار نہیں کرتا.(خطبہ الہامیہ.رخ جلد 16 صفحہ 190 تا 197) إِنَّ لَفْظَ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ قَدْ حَدَى لَفْظَ الصَّالِيْنَ اَعْنِيْ وَقَعَ ذَالِكَ بِحِذَاءِ هَذَا كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى الْمُبْصِرِيْنَ فَثَبَتَ بِالْقَطْعِ وَ الْيَقِيْنِ أَنَّ مَغْضُوْبَ عَلَيْهِمْ هُمُ الَّذِيْنَ فَرَّطُوْا فِي أَمْرِ عِيْسَى بِالتَّكْفِيْرِ وَالْإِيْدَاءِ وَالتَّوْهِيْنِ كَمَا أَنَّ الصَّالِيْنَ هُمُ الَّذِيْنَ اَفْرَطُوْا فِي أَمْرِهِ بِاتِّخَاذِهِ رَبَّ الْعَالَمِيْنَ.(خطبة الهامية.ر.خ جلد 16 صفحه 192 193 حاشیه) ترجمہ: - لفظ مغضوب علیہم ضالین کے لفظ کے مقابل میں ہے.یعنی وہ لفظ اس لفظ کے مقابل پڑا ہے جیسا کہ دیکھنے والوں پر پوشیدہ نہیں پس قطع اور یقین سے ثابت ہو گیا کہ مغضوب علیہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت عیسی کے بارے میں تفریط کی اور کافر قرار دیا اور دکھ دیا اور اہانت کی اور ضالین سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے حضرت عیسی کے بارے میں افراط کیا اور ان کو خدا قرار دیدیا.
413 قرآن کریم کے بیان میں ایک ترتیب ہے یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت کیا باعتبار ترتیب مضامین کیا باعتبار تعلیم کیا باعتبار کمالات تعلیم کیا باعتبارات ثمرات تعلیم.غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی، بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے.یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کرو.خواہ بلحاظ فصاحت و بلاغت، خواه بلحاظ مطالب و مقاصد خواہ بلی ذاتعلیم، خواہ بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں.غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 27-26) پھر دیکھو کہ تقویٰ ایسی اعلیٰ درجہ کی ضروری شے قرار دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی علت غائی اسی کو ٹھہرایا ہے چنانچہ دوسری سورۃ کو جب شروع کیا ہے.تو یوں ہی فرمایا ہے : السم ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى للْمُتَّقِينَ (البقره 3-2) میرا مذ ہب یہی ہے کہ قرآن کریم کی یہ ترتیب بڑا مرتبہ رکھتی ہے خدا تعالیٰ نے اس میں علل اربعہ کا ذکر فرمایا ہے.علت فاعلی مادی صوری غائی.ہر ایک چیز کے ساتھ یہ چار ہی عمل ہوتی ہیں.قرآن کریم نہایت اکمل طور پر ان کو دکھاتا ہے.الم اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بہت جاننے والا ہے.اس کلام کو حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے.یعنی خدا اس کا فاعل ہے.ذلک الکتب یہ مادہ بتایا.یا یہ کہو کہ یہ علت مادی ہے.علت صوری لا رَيْبَ فِيْهِ ہر ایک چیز میں شک وشبہ اور ظنون فاسدہ پیدا ہو سکتے ہیں.مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے کہ اس میں کوئی ریب نہیں ہے.لاریب اسی کے لیے ہے.اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی شان یہ بتائی ہے کہ لَا رَيْبَ فِيْهِ.( ملفوظات جلد اول صفحه 282 وَالطَّيِّبَتُ لِلطَّيبين (النور : 27) خدا کے کلام کو اس طرح پر بے نقط سمجھنا چاہیئے کہ وہ لغوا اور جھوٹ اور بیہودہ گوئی کے نقطوں سے منزہ اور معرا ہے اور اس کی فصاحت بلاغت وہ بے بہا جو ہر ہے جس سے دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے.روحانی بیماریوں سے شفا حاصل ہوتی ہے.حقائق اور دقائق کا جاناحق کے طالبوں پر آسان ہوتا ہے.کیونکہ خدا کا فصیح کلام معارف حقہ کو کمال ایجاز سے کمال ترتیب سے کمال صفائی اور خوش بیانی سے لکھتا ہے اور وہ طریق اختیار کرتا ہے جس سے دلوں پر اعلیٰ درجہ کا اثر پڑے اور تھوڑی عبارت میں وہ علوم الہیہ سما جائیں جن پر دنیا کی ابتدا سے کسی کتاب یا دفتر نے احاطہ نہیں کیا.یہی حقیقی فصاحت بلاغت ہے جو تکمیل نفس انسانی کے لئے مدومعاون ہے جس کے ذریعہ سے حق کے طالب کمال مطلوب تک پہنچتے ہیں.اور یہی وہ صفت ربانی ہے جس کا انجام پذیر ہونا بجز الہی طاقت اور اس کے علم وسیع کے ممکن نہیں.خدائے تعالیٰ اپنے کلام کے ایک ایک فقرہ کی سچائی کا ذمہ دار ہے اور جو کچھ اسکی تقریر میں واقعہ ہے.خواہ وہ اخبارا اور آثار گذشتہ میں خواہ وہ آئندہ کی خبریں اور پیشگوئیاں ہیں اور خواہ وہ علمی اور دینی صداقتیں ہیں.وہ تمام کذب اور ہزل اور بیہودہ گوئی کے داغ سے منزہ ہیں.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 466-463 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
414 قرآن کریم میں اول سے آخر تک ظاہری ترتیب کا لحاظ رکھا ہے لیکن اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ اس بات پر دلیل کیا ہے کہ قرآن شریف میں اول سے آخر تک ظاہری ترتیب کا لحاظ رکھا گیا ہے.بجز دو چار مقام کے جو بطور شاذ و نادر ہیں.تو یہ ایک سوال ہے کہ خود قرآن شریف پر ایک نظر ڈال کر حل ہو سکتا ہے.یعنے اسپر یہ دلیل کافی ہے کہ اگر تمام قرآن اول سے آخر تک پڑھ جاؤ تو بجز چند مقامات کے جو بطور شاذ و نادر کے ہیں.باقی تمام قرآنی مقامات کو ظاہری ترتیب کی ایک زرین زنجیر میں منسلک پاؤ گے.اور جس طرح اس حکیم کے افعال میں ترتیب مشہور ہورہی ہے یہی ترتیب اس کے اقوال میں دیکھو گے.اور یہ اس بات پر کہ قرآن ظاہری ترتیب کو ملحوظ رکھتا ہے.ایسی پختہ اور بدیہی اور نہایت قوی دلیل ہے کہ اس دلیل کو سمجھ کر اور دیکھ کر بھی پھر مخالفت سے زبان کو بند نہ رکھنا صریح بے ایمانی اور بد دیانتی ہے.اگر ہم اس دلیل کو مبسوط طور پر اسجگہ لکھیں تو گویا تمام قرآن شریف کو اس جگہ درج کرنا ہوگا اور اس مختصر رسالہ میں یہ گنجائش نہیں.یہ تو ہم قبول کرتے ہیں شاذ و نادر کے طور پر قرآن شریف میں ایک دو مقام ایسے بھی ہیں.کہ جن میں مثلا عیسی پہلے آیا اور موسیٰ بعد میں آیا.یا کوئی اور نبی متاخر جو پیچھے آنے والا تھا اس کا نام پہلے بیان کیا گیا.اور جو پہلا تھا، وہ پیچھے بیان کیا گیا.لیکن یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ یہ چند مقامات بھی خالی از ترتیب ہیں.بلکہ ان میں بھی ایک معنوی ترتیب ہے جو بیان کرنے کے سلسلہ میں بعض مصالح کی وجہ سے پیش آگئی ہے.لیکن اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ قرآن کریم ظاہری ترتیب کا اشد التزام رکھتا ہے اور ایک بڑا حصہ قرآنی فصاحت اسی سے متعلق ہے.تریاق القلوب.رخ.جلد 15 صفحہ 456 حاشیہ ) قرآن کریم کے بیان میں ترتیب کی اہمیت یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ہم الہی کلام کی کسی آیت میں تغییر اور تبدیل اور تقدیم اور تا خیر اور فقرات تراشی کے مجاز نہیں ہیں مگر صرف اس صورت میں کہ جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہو اور یہ ثابت ہو جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ بذات خود ایسی تغییر اور تبدیل کی ہے اور جیتک ایسا ثابت نہ ہو تو ہم قرآن کی ترصیع اور ترتیب کو زیروز بر نہیں کر سکتے اور نہ اس میں اپنی طرف سے بعض فقرات ملا سکتے ہیں.اور اگر ایسا کریں تو عنداللہ مجرم اور قابل مواخذہ ہیں.اتمام الحجة - ر - خ - جلد 8 صفحہ 291) قرآن شریف کی ظاہری ترتیب پر جو شخص دلی یقین رکھتا ہے اس پر صد ہا معارف کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور صد بابار یک در باریک نکات تک پہونچنے کے لئے یہ ترتیب اسکور ہنما ہو جاتی ہے اور قرآن دانی کی ایک کنجی اسکے ہاتھ میں آجاتی ہے گو یا ترتیب ظاہری کے نشانوں سے قرآن خود اسے بتلاتا جاتا ہے کہ دیکھو میرے اندر یہ خزانے ہیں لیکن جو شخص قرآن کی ظاہری ترتیب سے منکر ہے وہ بلاشبہ قرآن کے باطنی معارف سے بھی بے نصیب ہے.منہ دیکھو خدا تعالیٰ کے نظام شمسی میں کیسی ترتیب پائی جاتی ہے اور خود انسان کی جسمانی ہیکل کیسی ابلغ اور احسن ترتیب پر مشتمل ہے پھر کس قدر بے ادبی ہوگی اگر اس احسن الخالقین کے کلمات پر حکمت کو پراگندہ اور غیر منتظم اور بے ترتیب خیال کیا جائے.منہ تریاق القلوب.ر.خ.جلد 15 صفحہ 457-456 حاشیہ )
415 قرآن کریم کی ترتیب الفاظ معجزانہ ہے محمد حسین بٹالوی اور قرآن کریم کی بے ادبی وو یہ ظاہری تک بندی تو مسیلمہ نے بھی کر لی تھی اس میں قرآن شریف کی خصوصیت کیا ہے.یہ ایک کلمہ ہے جو کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اول المکفرین کی قلم سے قرآن کریم کی شان میں نکلا ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :.اس سے بڑھ کر کیا بے ادبی ہوگی کہ قرآن شریف کی آیات کو جو کہ ہر ایک پہلو اور ہر ایک رنگ کیا بلحاظ ظاہر اور کیا بلحاظ باطن کے معجزہ ہے.تک بندی کہا جاتا ہے.جیسے قرآن شریف کا باطن معجزہ ہے ویسے ہی اس کے ظاہر الفاظ اور ترتیب بھی معجزانہ ہے.اگر ہم اس کے ظاہر کو معجزہ نہ مانیں تو پھر باطن کے معجزہ ہونے کی دلیل کیا ہو گی ؟ ایک انسان کا اگر ظاہر بھی گندہ ناپاک اور خبیث ہوگا تو اس کی روحانی حالت کیسے اچھی ہوسکتی ہے؟ عوام الناس اور موٹی نظر والوں کے واسطے تو ظاہری خوبی ہی معجزہ ہوسکتی ہے اور چونکہ قرآن ہر ایک قسم کے طبقہ کے لوگوں کے واسطے ہے اس لیے ہر ایک رنگ میں یہ عجزہ ہے.مامورمن اللہ کی عداوت کا نتیجہ کفر تک پہنچادیتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 301) الغرض قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر ایک قسم کے معارف اور اسرار موجود ہیں لیکن ان کے حاصل کرنے کے لیے میں پھر کہتا ہوں کہ اسی قوت قدسیہ کی ضرورت ہے.چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا.لَا يَمَسُّهُ إلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: (80) - ایسا ہی فصاحت بلاغت میں ( اس کا مقابلہ ناممکن ہے ) مثلاً سورۃ فاتحہ کی موجودہ ترتیب چھوڑ کر کوئی اور ترتیب استعمال کرو تو وہ مطالب عالیہ اور مقاصد عظمیٰ جو اس ترتیب میں موجود ہیں.ممکن نہیں کہ کسی دوسری ترتیب میں بیان ہوسکیں.کوئی سی سورۃ لے لو.خواہ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ ہی کیوں نہ ہو.جس قد رنرمی اور ملاطفت کی رعایت کوملحوظ رکھ کر اس میں معارف اور حقائق ہیں، وہ کوئی دوسرا بیان نہ کر سکے گا.یہ بھی فقط اعجاز قرآن ہی ہے.مجھے حیرت ہوتی ہے.جب بعض نادان مقامات حریری یا سبع معلقہ کو بے نظیر اور بے مثل کہتے ہیں اور اس طرح پر قرآن کریم کی بے مانندیت پر حملہ کرنا چاہتے ہیں.وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ اول تو حریری کے مصنف نے کہیں اس کے بے نظیر ہونے کا دعوی نہیں کیا اور دوم یہ کہ مصنف حریری خود قرآن کریم کی اعجازی فصاحت کا قائل تھا.علاوہ ازیں معترضین راستی اور صداقت کو ذہن میں نہیں رکھتے بلکہ ان کو چھوڑ کر محض الفاظ کی طرف جاتے ہیں مندرجہ بالا کتابیں حق اور حکمت سے خالی ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 53-52)
416 ترتیب مضامین قرآن واقعات خارجیہ کے مطابق ہے إِذْ قَالَ اللَّهُ يَعِيْسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ ثُمَّ إِلَى مَرْجِعُكُمْ فَاحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ (آل عمران:56) کیونکہ اس آیت کریمہ میں لف نشر مرتب ہے.پہلے وفات کا وعدہ ہے پھر رفع کا پھر تطہیر کا اور پھر یہ کہ خدا تعالیٰ ان کے متبعین کو ہر ایک پہلو سے غلبہ بخش کر مخالفوں کو قیامت تک ذلیل کرتار ہیگا.اگر اس ترتیب کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس میں بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ ترتیب جو واقعات خارجیہ نے ثابت کر دی ہے ہاتھ سے جاتی رہے گی.اور کسی کا اختیار نہیں ہے کہ قرآنی ترتیب کو بغیر کسی قوی دستاویز کے اٹھا دے.کیونکہ ایسا کرنا گویا یہودیوں کے قدم پر قدم رکھنا ہے.یہ توسیع ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ حرف واؤ کے ساتھ ہمیشہ ترتیب کا لحاظ واجب ہو.لیکن اس میں کیا شک ہے کہ خدا تعالیٰ اس آیت میں فقرہ متوفیک کو پہلے لایا ہے اور پھر فقر در افعک کو بعد اس کے.اور پھر اس کے بعد فقرہ مطھرک بیان کیا گیا ہے.اور بہر حال ان الفاظ میں ایک ترتیب ہے جس کو خدائے علیم و حکیم نے اپنی الغ واضح کلام میں اختیار کیا ہے.اور ہمارا اختیار نہیں ہے کہ ہم بلا وجہ اس ترتیب کو اٹھا دیں.اور اگر قرآن شریف کے اور مقامات یعنے بعض اور آیات میں مفسرین نے ترتیب موجودہ قرآن شریف کے برخلاف بیان کیا ہے تو یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ انہوں نے خود ایسا کیا ہے یا وہ ایسا کرنے کے مجاز تھے بلکہ بعض نصوص حدیثیہ نے اسی طرح ان کی شرح کی تھی یا قرآن شریف کے دوسرے مواضع کے قرائن واضحہ نے اس بات کے ماننے کے لئے انھیں مجبور کر دیا تھا کہ ظاہری ترتیب نظر انداز کی جائے.لیکن پھر بھی خدا تعالے کا ابلغ اور اصح کلام ترتیب سے خالی نہیں ہوتا.اگر اتفاقا کسی عبارت میں ظاہری ترتیب نہ ہو تو بلحاظ معنے ضرور کوئی ترتیب مخفی ہوتی ہے.مگر بہر حال ظاہری ترتیب مقدم ہوتی ہے.اور بغیر وجود کسی نہایت قوی قرینہ کے اس ظاہری ترتیب کو چھوڑ دینا سراسرالحاد اور خیانت اور تریاق القلوب...خ.جلد 15 صفحہ 455-454 حاشیہ ) تحریف ہوتی ہے.اس آیت میں خدائے تعالیٰ نے ترتیب وار اپنے تئیں فاعل ٹھہرا کر چار فعل اپنے یکے بعد دیگرے بیان کیسے ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ اے عیسی میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور کفار کے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دینے والا ہوں.اور ظاہر ہے کہ یہ ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کیے گئے ہیں کیونکہ اس میں شک نہیں کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کی طرف بلا یا جاوے اور از جعنی الی ربک کی خبر اس کو پہنچ جائے پہلے اس کا وفات پانا ضروری ہے پھر بموجب آیت کریمہ ارْجِعِي إِلى رَبِّكَ اور حدیث صحیح کے اُس کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے اور وفات کے بعد مومن کی روح کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع لازمی ہے جس پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ناطق ہیں.(ازالہ اوہام - ر- خ - جلد 3 صفحہ 606)
417 قرآن کریم کے بیان کی ترتیب صحیفہ قدرت کے مطابق ہے رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ.اس جگہ سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفتیں بیان فرمائیں.یعنے رب العالمین.رحمان رحیم.مالک یوم الدین.اور ان ہر چہار صفتوں میں سے رب العالمین کو سب سے مقدم رکھا اور پھر بعد اس کے صفت رحمان کو ذکر کیا.پھر صفت رحیم کو بیان فرمایا.پھر سب کے اخیر صفت مالک یوم الدین کو لائے.پس سمجھنا چاہیئے کہ یہ ترتیب خدائے تعالیٰ نے کیوں اختیار کی.اس میں نکتہ یہ ہے کہ ان صفات اربعہ کی ترتیب طبیعی یہی ہے.اور اپنی واقعی صورت میں اسی ترتیب سے یہ صفتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں.( براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 444 حاشیہ نمبر 11 ) یہ فیوض اربعہ ہیں جن کو ہم نے تفصیل وار لکھ دیا ہے.اب ظاہر ہے کہ صفت رحمان کو صفت رحیم پر مقدم رکھنا نہایت ضروری اور مقتضائے بلاغت کا ملہ ہے کیونکہ صحیفہ قدرت پر جب نظر ڈالی جائے تو پہلے پہل خدائے تعالیٰ کی عام ربوبیت پر نظر پڑتی ہے.پھر اسکی رحمانیت پر.پھر اسکی رحیمیت پر.پھر اسکے مالک یوم الدین ہونے پر اور کمال بلاغت اسی کا نام ہے کہ جو صحیفہ فطرت میں ترتیب ہو.وہی ترتیب صحیفہء الہام میں بھی ملحوظ رہے.کیونکہ کلام میں ترتیب قدرتی کا منقلب کرنا گویا قانون قدرت کو منقلب کرنا ہے اور نظام طبعی کو الٹاد دینا ہی کلام بلیغ کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ نظام کلام کا نظام طبعی کے ایسا مطابق ہو کہ گویا اسی کی عکسی تصویر ہو.اور جو امر طبعا اور وقوعاً مقدم ہو.اسکو وضعاً بھی مقدم رکھا جائے.سو آیت موصوفہ میں یہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت ہے کہ با وجود کمال فصاحت اور خوش بیانی کے واقعی ترتیب کا نقشہ کھینچ کر دکھلا دیا ہے اور وہی طرز بیان اختیار کی ہے جو کہ ہر یک صاحب نظر کو نظام عالم میں بدیہی طور پر نظر آ رہی ہے.کیا یہ نہایت سیدھا راستہ نہیں ہے کہ جس ترتیب سے نعماء الہی صحیفہ فطرت میں واقعہ ہیں.اسی ترتیب سے صحیفہ الہام میں بھی واقعہ ہوں.( براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 456 حاشیہ نمبر 11 )
418 قرآن کریم کی ترتیب بیان ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف بیٹی اور عیسی علیہ السلام کے قصہ کو ایک جا جمع کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جیسے بیٹی علیہ السلام کی پیدایش خوارق طریق سے ہے ویسے ہی مسیح کی بھی ہے پھر یحییٰ علیہ السلام کی پیدائیش کا حال بیان کر کے مسیح کی پیدائیش کا حال بیان کیا ہے.یہ ترتیب قرآنی بھی بتلاتی ہے کہ ادفی حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف ترقی کی ہے.یعنی جس قدر معجز نمائی کی قوت بیٹی کی پیدائیش میں ہے اس سے بڑھ کر مسیح کی پیدائیش میں ہے.اگر اس میں کوئی معجزانہ بات نہ تھی تو بیٹی کی پیدائیش کا ذکر کر کے کیوں ساتھ ہی مریم کا ذکر چھیٹر دیا اس سے کیا فائدہ تھا یہ اسی لیے کیا کہ تاویل کی گنجایش نہ رہے ان دونوں بیانوں کا ایک جاذکر ہونا اعجازی امر کو ثابت کرتے ہیں.اگر یہ نہیں ہے تو گویا قرآن تنزل پر آتا ہے جو کہ اس کی شان کے برخلاف ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 281-280) وہ (سیح علیہ السلام ) بن باپ ہوئے اس کا زبردست ثبوت یہ ہے کہ بیٹی اور عیسی کا قصہ ایک ہی جگہ بیان کیا ہے.پہلے بیٹی کا ذکر کیا.جو بانجھ سے پیدا ہوئے.دوسرا قصہ مسیح کا اس کے بعد بیان فرمایا.جو اس سے ترقی پر ہونا چاہیے تھا.اور وہ یہی ہے.کہ وہ بن باپ ہوئے.اور یہی امر خارق عادت ہے اگر بانجھ سے پیدا ہونے (والے) بیچی کے بعد باپ سے پیدا ہونے والے کا ذکر ہوتا.تو اس میں خارق عادت کی کیا بات ہوئی.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 571-570) اللہ جلہ شانہ نے آیہ کریمہ ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو مقدم رکھا تا اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ جو کچھ عملی اور علمی طور پر ہم کو پہلے تو فیق دی گئی ہے چاہئے کہ ہم اس کو بجالا ویں اور پھر جو ہمارے علم اور طاقت سے باہر ہو اس میں خدا تعالیٰ سے امداد چا ہیں.(البدر جلد 2 نمبر 36-25 ستمبر 1903 ء صفحہ 382 کالم نمبر 3.مکتوبات احمد.مکتوب بنام ایک شیعہ صاحب کے یہ خط برائے اندراج بدر مکرم سید مدثر شاہ صاحب نے بھیجا )
419 قرآن کریم کی ترتیب بیان کا لحاظ نہ رکھنا تحریف قرآن ہے ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ صحابہ کرام اور سلف صالح کی یہی عادت تھی کہ جب کہیں آیت اور حدیث میں تعارض و تخالف پاتے تو حدیث کی تاویل کی طرف مشغول ہوتے.مگر اب یہ ایسا زمانہ آیا ہے کہ قرآن کریم سے حدیثیں زیادہ پیاری ہو گئیں ہیں اور حدیثوں کے الفاظ قرآن کریم کے الفاظ کی نسبت زیادہ محفوظ سمجھے گئے ہیں.ادنی ادنی بات میں جب کسی حدیث کا قرآن کریں سے تعارض دیکھتے ہیں تو حدیث کی طرف ذرہ شک نہیں گذرتا یہودیوں کی طرح قرآن کریم کا بدلا نا شروع کر دیتے ہیں اور کلمات اللہ کو ان کے اصل مواضع سے پھیر کر کہیں کا کہیں لگا دیتے ہیں اور بعضے فقرے اپنی طرف سے بھی ملا دیتے ہیں اور اپنے تئیں يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ موَاضِعه (النساء: 47) کا مصداق بنا کر اس لعنتہ اللہ سے حصہ لے لیتے ہیں جو پہلے اس سے یہودیوں پر انہیں کاموں کی وجہ سے وارد و نازل ہوئی تھی.بعض تحریف کی یہ صورت اختیار کرتے ہیں کہ فقرہ متوفیک کو مقدم ہی رکھتے ہیں مگر بعد اس کے انی محییک کا فقرہ اپنی طرف سے ملا لیتے ہیں.ذرہ خیال نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ نے تحریف کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور بخاری نے اپنی صحیح کے آخر میں لکھا ہے کہ اہل کتاب کی تحریف یہی تھی کہ وہ پڑھنے میں کتاب اللہ کے کلمات کو ان کے مواضع سے پھیرتے تھے ( اور حق بات یہ ہے کہ وہ دونوں قسم کی تحریف تحریری و تقریری کرتے تھے ) مسلمانوں نے ایک قسم میں ( جو تقریری تحریف ہے ) ان سے مشابہت پیدا کر لی.اور اگر وعدہ صادق إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحْفِظُوْنَ (الحجر: 10) تصرف تحریری سے مانع نہ ہوتا تو کیا تعجب کہ یہ لوگ رفتہ رفتہ تحریر میں بھی ایسی تحریفیں شروع کر دیتے کہ فقرہ رافعک کومقدم اور انی متوفیک کو مؤخرلکھ دیتے.اور اگر ان سے پوچھا جائے کہ تم پر ایسی مصیبت کیا آپڑی ہے کہ تم کتاب اللہ کے زیروزبر اور محرف کرنے کی فکر میں لگ گئے تو اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ تا کسی طرح قرآن کریم ان حدیثوں کے مطابق ہو جاوے جن سے بظاہر معارض و مخالف معلوم ہوتا ہے.(ازالہ اوہام -رخ- جلد 3 صفحہ 611)
420 اول ترتیب مضامین قرآن ابتداء اور بطن اور آخر کے اعتبار سے سورت الفاتحہ میں قرآن کریم کے تمام مضامین مختصر بیان ہوئے ہیں اعْلَمْ أَنَّ هَذِهِ السُّوْرَةَ لَهَا أَسْمَاء كَثِيرَةً فَاَوَّلُهَا فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَ سُمِّيَتْ بِذَالِكَ لَآنَّهُ يُفْتَتَحَ بِهَا فِي الْمُصْحَفِ وَ فِى الصَّلوةِ وَ فِي مَوَاضِع الدُّعَاءِ مِنْ رَّبِّ الْأَرْبَابِ وَ عِنْدِي أَنَّهَا سُمِّيَتْ بِهَا لِمَا جَعَلَهَا اللهُ حَكَمًا لِلْقُرْآنِ وَ مُلِيَّ فِيْهَا مَا كَانَ فِيْهِ مِنْ أَخْبَارٍ وَّ مَعَارِفَ مِنَ اللَّهِ الْمَنَّانِ وَ اَنَّهَا جَامِعَةٌ لِكُلِّ مَا يَحْتَاجُ الْإِنْسَانُ إِلَيْهِ فِي مَعْرِفَةِ الْمَبْدَءِ وَالْمَعَادِ كَمِثْلِ الْإِسْتِدْلَالِ عَلَى وُجُوْدِ الصَّانِعِ وَ صُرُوْرَةِ النُّبُوَّةِ وَ الْخِلَافَةِ فِي الْعِبَادِ.وَ مِنْ اَعْظَمِ الْأَخْبَارِ وَاكْبَرِهَا أَنَّهَا تُبَشِّرُ بِزَمَانِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ.وَايَّامِ الْمَهْدِي الْمَعْهُوْدِ وَسَنَذْكُرُهُ فِي مَقَامِهِ بِتَوْفِيْقِ اللَّهِ الْوَدُوْدِ.سورۃ فاتحہ کا پہلا نام فاتحۃ الکتاب اور اس کی وجہ ( ترجمہ از مرتب ) جاننا چاہیے کہ سورۃ فاتحہ کے بہت سے نام ہیں جن میں سے پہلا نام فاتحۃ الکتاب ہے اور اس کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ قرآن مجید اسی سورۃ سے شروع ہوتا ہے.نماز میں بھی پہلے یہی سورۃ پڑھی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ سے جو رب الا رباب ہے دعا کرتے وقت اسی ( سورۃ ) سے ابتدا کی جاتی ہے.اور میرے نزدیک اس سورۃ کو فاتحہ اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کو قرآن کریم کے مضامین کے لیے حکم قرار دیا ہے.اور جو اخبار غیبیہ اور حقائق و معارف قرآن مجید میں احسان کرنے والے خدا کی طرف سے بیان کیے گئے ہیں وہ سب اس میں بھر دیئے گئے ہیں اور جن امور کا انسان کو مبدء و معاد ( دنیا اور آخرت ) کے سلسلہ میں جاننا ضروری ہے وہ سب اس میں موجود ہیں.مثلاً وجود باری ضرورت نبوت اور مومن بندوں میں سلسلہ خلافت کے قیام پر استدلال اور اس سورۃ کی سب سے بڑی اور اہم خبر یہ ہے کہ یہ سورۃ مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ کی بشارت دیتی ہے اور اسے ہم خدائے ودود کی دی ہوئی توفیق سے اس کے محل پر بیان کریں گے.اعجاز اح - ر-خ- جلد 18 صفحہ 71-70) سورۃ فاتحہ ایک معجزہ ہے سورۃ فاتحہ تو ایک معجزہ ہے اس میں امر بھی ہے.نہی بھی ہے.پیشگوئیاں بھی ہیں.قرآن شریف تو ایک بہت بڑا سمندر ہے.کوئی بات اگر نکالنی ہو تو چاہیے کہ سورۃ فاتحہ میں بہت غور کرے.کیونکہ یہ ام الکتاب ہے.اس کے بطن سے قرآن کریم کے مضامین نکلتے ہیں.الحام 10 فروری 1901 صفحہ 12 تفسیر حضرت اقدس سورۃ الفاتحہ جلد 1 صفحہ 17)
421 سورۃ الفاتحہ کے مضامین کی تفصیل بطن قرآن میں بیان ہوئی ہے وَلَقَدْ آتَيْنكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ.(الحجر : 88) ہم نے تجھے اے رسول سات آیتیں سورہ فاتحہ کی عطا کی ہیں جو مجمل طور پر تمام مقاصد قرآنیہ پر مشتمل ہیں اور ان کے مقابلہ پر قرآن عظیم بھی عطا فرمایا ہے جو مفصل طور پر مقاصد دینیہ کو ظاہر کرتا ہے اور اسی جہت سے اس سورہ کا نام ام الکتاب اور سورۃ الجامع ہے.ام الکتاب اس جہت سے کہ جمیع مقاصد قرآنیہ اس سے مستخرج ہوتے ہیں اور سورۃ الجامع اس جہت سے کہ علوم قرآنیہ کے جمیع انواع پر بصورت اجمالی مشتمل ہے.اسی جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ جس نے سورۃ فاتحہ کو پڑھا گویا اس نے سارے قرآن کو پڑھ لیا.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 580 حاشیہ نمبر 11).رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ.اس جگہ سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفتیں بیان فرما ئیں.یعنے رب العالمین.رحمان رحیم.مالک یوم الدین....یہ چار صداقتیں ہیں جن کا قرآن شریف میں مفصل بیان موجود ہے.اور قرآن شریف کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ ان صداقتوں کی تفصیل میں آیات قرآنی ایک دریا کی طرح بہتی ہوئی چلی جاتی ہیں.اور اگر ہم اس جگہ مفصل طور پر ان تمام آیات کو لکھتے.تو بہت سے اجزاء کتاب کے اس میں خرچ ہو جاتے.سو ہم نے اس نظر سے کہ انشاء اللہ عنقریب براہین قرآنی کے موقعہ پر وہ تمام آیات به تفصیل لکھے جائیں گے.ان تمہیدی مباحث میں صرف سورۃ فاتحہ کے قل و دل کلمات پر کفایت کی.(براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 444 اور 462-461 حاشیہ نمبر 11) یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے عیسائیت کی ضلالت کو دنیا کی سب ضلالتوں سے اول درجہ پر شمار کیا ہے اور فرمایا.کہ قریب ہے کہ آسمان وزمین پھٹ جائیں اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں کہ زمین پر یہ ایک بڑا گناہ کیا گیا کہ انسان کا خدا اور خدا کا بیٹا بنایا.اور قرآن کے اول میں بھی عیسائیوں کا رد اوران کا ذکر ہے.جیسا کہ آیت ایاک نَعْبُدُ اور وَلَا الضَّالِّينَ سے سمجھا جاتا ہے اور قرآن کے آخر میں بھی عیسائیوں کا رد ہے.جیسا کہ سورۃ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ سے سمجھا جاتا ہے.اور قرآن کے درمیان میں بھی عیسائی مذہب کے فتنہ کا ذکر ہے جیسا کہ آیت تَكَادُ السَّمَوَاتِ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ (مریم: (91) سے سمجھا جاتا ہے اور قرآن سے ظاہر ہے کہ جب سے کہ دنیا ہوئی.مخلوق پرستی اور دجل کے طریقوں پر ایساز ور کبھی نہیں دیا گیا.اسی وجہ سے مباہلہ کیلئے بھی عیسائی ہی بلائے گئے تھے نہ کوئی اور مشرک.کشتی نوح - ر- خ - جلد 19 صفحہ 84)
422 آخر قرآن میں فاتحہ کے مضامین کو دوبارہ بیان کیا گیا ہے سورۃ فاتحہ میں تین دعائیں سکھلائی گئی ہیں.(۱) ایک یہ دعا کہ خدا تعالیٰ اس جماعت میں داخل رکھے جو صحابہ کی جماعت ہے اور پھر اس کے بعد اس جماعت میں داخل رکھے جو مسیح موعود کی جماعت ہے جن کی نسبت قرآن شریف فرماتا ہے وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْابِهِمْ (الجمعة: 4) غرض اسلام میں یہی دو جماعتیں منعم علیہم کی جماعتیں ہیں اور انہی کی طرف اشارہ ہے صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں کیونکہ تمام قرآن پڑھ کر دیکھو جماعتیں دو ہی ہیں.ایک صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت.دوسری و آخرین منہم کی جماعت جو صحابہ کے رنگ میں ہے اور وہ مسیح موعود کی جماعت ہے.پس جب تم نماز میں یا خارج نماز کے یہ دعا پڑھو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو دل میں یہی محوظ رکھو کہ میں صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت کی راہ طلب کرتا ہوں.یہ تو سورۃ فاتحہ کی پہلی دعا ہے.(۲) دوسری دعا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود کو دکھ دیں گے اور اس دعا کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورہ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ ہے.(۳) تیسری دعاولا الضالین ہے.اور اس کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورہ اخلاص ہے یعنی قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ اور اس کے بعد دو اور سورتیں جو ہیں یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں سورہ تبت اور سورہ اخلاص کے لیے بطور شرح کے ہیں اور ان دونوں سورتوں میں اس تاریک زمانہ سے خدا کی پناہ مانگی گئی ہے جب کہ لوگ خدا کے مسیح کو دکھ دیں گے اور جب کہ عیسائیت کی ضلالت تمام دنیا میں پھیلے گی.پس سورہ فاتحہ میں ان تینوں دعاؤں کی تعلیم بطور براءت الاستبلال ہے یعنی وہ اہم مقصد جو قرآن میں مفصل بیان کیا گیا ہے سورہ فاتحہ میں بطور اجمال اس کا افتتاح کیا ہے اور پھر سورۃ تثبت اور سورہ اخلاص اور دوسورہ فلق اور سورہ الناس میں ختم قرآن کے وقت میں انہی دونوں بلاؤں سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے پس افتتاح کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں سے ہوا.اور پھر اختتام کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں پر کیا گیا.اور یاد رہے کہ ان دونوں فتنوں کا قرآن شریف میں مفصل بیان ہے اور سورہ فاتحہ اور آخری سورتوں میں اجمالاً ذکر ہے.مثلاً سورہ فاتحہ میں دعا ولا الضالین میں صرف دو لفظ میں سمجھا یا گیا ہے کہ عیسائیت کے فتنہ سے بچنے کے لیے دعا مانگتے رہو جس سے سمجھا جاتا ہے کہ کوئی فتنہ عظیم الشان در پیش ہے جس کے لیے یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ نماز کے پیچ وقت میں یہ دعا شامل کر دی گئی اور یہاں تک تاکید کی گئی کہ اس کے بغیر نماز ہو نہیں سکتی جیسا کہ حدیث لَا صَلوةَ إِلَّا بِالْفَاتِحَةِ سے ظاہر ہوتا ہے.(تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 219-217)
423 غرض سورت تبت میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے اور ولا الضالین کے مقابل قرآن شریف کے آخر میں سورہ اخلاص ہے اور اس کے بعد کی دونوں سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ان دونوں کی تفسیر ہیں ان دونوں سورتوں میں اس تیرہ و تار زمانہ سے پناہ مانگی گئی ہے جب کہ مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگا کر مغضوب علیہم کا فتنہ پیدا ہوگا اور عیسائیت کی ضلالت اور ظلمت دنیا پر محیط ہونے لگے گی.پس جیسے سورہ فاتحہ میں جو ابتدائے قرآن ہے ان دونوں بلاؤں سے محفوظ رہنے کی دعا سکھائی گئی ہے اسی طرح قرآن شریف کے آخر میں بھی ان فتنوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم کی تاکہ یہ بات ثابت ہو جاوے کہ اول بآخر نسبتے دارد.( ترجمہ اول کو آخر سے نسبت ہے.) جیسے سورت فاتحہ کو الضالین پر ختم کیا تھا ویسے آخری سورت میں خناس کے ذکر پر ختم کیا تا کہ خناس اور ضالین کا تعلق معلوم ہو اور آدم کے وقت میں بھی خناس جس کو عبرانی زبان میں نحاش کہتے ہیں جنگ کے لئے آیا تھا.اس وقت بھی مسیح موعود کے زمانہ میں جو آدم کا مثیل بھی ہے ضروری تھا کہ وہی نحاش ایک دوسرے لباس میں آتا اور اسی لئے عیسائیوں اور مسلمانوں نے باتفاق یہ بات تسلیم کی ہے کہ آخری زمانے میں آدم اور شیطان کی ایک عظیم الشان لڑائی ہوگی جس میں شیطان ہلاک کیا جاوے گا.اب ان تمام امور کو دیکھ کر ایک خدا ترس آدمی ڈر جاتا ہے.کیا یہ میرے اپنے بنائے ہوئے امور ہیں جو خدا نے جمع کر دیئے ہیں.کس طرح پر ایک دائرہ کی طرح خدا نے اس سلسلہ کو رکھا ہوا ہے وَلَا الضَّالِّينَ پر سورت فاتحہ کو جو قرآن کا آغاز ہے ختم کیا اور پھر قرآن شریف کے آخر میں وہ سورتیں رکھیں جن کا تعلق سورت فاتحہ کے انجام سے ہے.ادھر مسیح اور آدم کی مماثلت ٹھہرائی اور مجھے مسیح موعود بنایا تو ساتھ ہی آدم بھی میرا نام رکھا.یہ باتیں معمولی نہیں ہیں یہ ایک علمی سلسلہ ہے جس کو کوئی رد نہیں کر سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس کی بنیاد رکھی ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 170 169)
424 چودہویں فصل مضامین اور موضوعات قرآن حکیم ا.اصولی اور مجموعی فرمودات اعْلَمْ أَنَّ هَذِهِ السُّوْرَةَ لَهَا أَسْمَاء كَثِيرَةٌ فَاَوَّلُهَا فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَسُمِّيَتْ بِذَالِكَ لِأَنَّهُ يُفْتَتَحَ بِهَا فِي الْمُصْحَفِ وَفِي الصَّلوةِ وَ فِي مَوَاضِع الدُّعَاءِ مِنْ رَّبِّ الْأَرْبَابِ.وَعِنْدِي أَنَّهَا سُمِّيَتْ بِهَا لِمَا جَعَلَهَا اللَّهُ حَكَمًا لِلْقُرْآنِ وَ مُلِيَّ فِيْهَا مَا كَانَ فِيْهِ مِنْ أَخْبَارٍ وَّمَعَارِفَ مِنَ اللَّهِ الْمَنَّانِ وَأَنَّهَا جَامِعَةٌ لِكُلِّ مَايَحْتَاجُ الْإِنْسَانُ إِلَيْهِ فِي مَعْرِفَةِ الْمَبْدَءِ وَالْمَعَادِ كَمِثْلِ الْإِسْتِدْلَالِ عَلَى وُجُوْدِ الصَّائِعِ وَضُرُوْرَةِ النُّبُوَّةِ وَالْخِلَافَةِ فِي الْعِبَادِ.وَ مِنْ اَعْظَمِ الْأَخْبَارِ وَاكْبَرِهَا أَنَّهَا تُبَشِّرُ بِزَمَانِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ.وَأَيَّامِ الْمَهْدِي الْمَعْهُوْدِ.وَ سَنَذْكُرُهُ فِي مَقَامِهِ بِتَوْفِيقِ اللَّهِ الْوَدُوْدِ.اعجاز مسیح - ر - خ - جلد 18 صفحہ 71-70) (ترجمه از مرتب ) جاننا چاہیے کہ سورۃ فاتحہ کے بہت سے نام ہیں جن میں سے پہلا نام فاتحۃ الکتاب ہے اور اس کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ قرآن مجید اسی سورۃ سے شروع ہوتا ہے.نماز میں بھی پہلے یہی سورۃ پڑھی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ سے جو رب الا رباب ہے دعا کرتے وقت اسی (سورۃ ) سے ابتدا کی جاتی ہے.اور میرے نزدیک اس سورۃ کو فاتح اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کو قرآن کریم کے مضامین کے لیے حکم قرار دیا ہے.اور جو اخبار غیبیہ اور حقائق و معارف قرآن مجید میں احسان کرنے والے خدا کی طرف سے بیان کیے گئے ہیں وہ سب اس میں بھر دیئے گئے ہیں اور جن امور کا انسان کو مبدء و معاد ( دنیا اور آخرت) کے سلسلہ میں جاننا ضروری ہے وہ سب اس میں موجود ہیں.مثلاً وجود باری ضرورت نبوت اور مومن بندوں میں سلسلہ خلافت کے قیام پر استدلال اور اس سورۃ کی سب سے بڑی اہم چیز یہ ہے کہ یہ سورۃ مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ کی بشارت دیتی ہے.
425 وَمِنْهَا أُمُّ الْقُرْآنِ بِمَا جَمَعَتْ مَطَالِبَهُ كُلَّهَا بِأَحْسَنِ الْبَيَانِ.وَتَأَبَّطَتْ كَصَدَفٍ دُرَرَ الْفُرْقَانِ وَ صَارَتْ كَعُشّ لِطَيْرِالْعِرْفَانِ.فَإِنَّ الْقُرْآنَ جَمَعَ عُلُوْمًا اَرْبَعَةً فِي الْهَدَايَاتِ.عِلْمَ الْمَبْدَءِ وَ عِلْمَ الْمَعَادِ وَ عِلْمَ النُّبُوَّتِ وَ عِلْمَ تَوْحِيدِ الذَّاتِ وَالصّفَاتِ.وَلَا شَكُ أَنَّ هَذِهِ الْأَرْبَعَةَ مَوْجُوْدَةٌ فِي الْفَاتِحَةِ.وَمَوْءُ وْدَةٌ فِي صُدُورِ أَكْثَرِ عُلَمَاءِ الْأُمَّةِ.يَقْرَءُ وْنَهَا وَهِيَ لَا تُجَاوِزُ مِنَ الْحَنَاجِرِ.لَا يُفَجِّرُوْنَ اَنْهَارَهَا السَّبْعَةَ بَلْ يَعِيْشُوْنَ كَالْفَاجِرِ.سورۃ فاتحہ کا ایک نام ام القرآن سورۃ فاتحہ کا ایک نام ام القرآن بھی ہے کیونکہ وہ تمام قرآنی مطالب پر احسن پیرایہ میں حاوی ہے اور اس نے سیپ کی طرح قرآن کریم کے جواہرات اور موتیوں کو اپنے اندر لیا ہوا ہے اور یہ سورۃ علم وعرفان کے پرندوں کے لیے گھونسلوں کی مانند بن گئی ہے.یادر ہے کہ قرآن کریم میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے چار مضامین بیان کیئے گئے ہیں.ا علم مبدء.۲.علم معاد ۳ علم نبوت.۴.علم تو حید ذات وصفات.اور لا ریب یہ چاروں علوم سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں.اور یہ علوم اکثر علمائے امت کے سینوں میں زندہ درگور کی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ وہ لوگ سورۃ فاتحہ کو پڑھتے تو ہیں لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتی اور وہ اس کی ان سات نہروں کو پوری طرح جاری نہیں کرتے تا وہ خود بھی اور دوسرے لوگ بھی ان سے فائدہ اٹھائیں بلکہ وہ فاجر لوگوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں.(اعجاز مسیح رخ.جلد 18 صفحہ 75-74)
426 موضوعات قرآنیہ چوتھا لطیفہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ مجمل طور پر تمام مقاصد قرآن شریف پر مشتمل ہے گویا یہ سورہ مقاصد قرآنیہ کا ایک ایجاز لطیف ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے وَلَقَداتَيْنكَ سَبْعَامِّنَ الْمَثَانِي وَ الْقُرْآنَ الْعَظِيمَ مشتمل (الحجر: 88) یعنی ہم نے تجھے اے رسول سات آیتیں سورۃ فاتحہ کی عطا کی ہیں جو مجمل طور پر تمام مقاصد قر آنیہ پر ہیں اور ان کے مقابلہ پر قرآن عظیم بھی عطافرمایا ہے جو مفصل طور پر مقاصد دینیہ کو ظاہر کرتا ہے اور اسی جہت سے اس سورہ کا نام ام الکتاب اور سورۃ الجامع ہے.ام الکتاب اس جہت سے کہ جمیع مقاصد قرآنیہ اس سے مستخرج ہوتے ہیں اور سورۃ الجامع اس جہت سے کہ علوم قرآنیہ کے جمیع انواع پر بصورت اجمالی مشتمل ہے اسی جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ جس نے سورۃ فاتحہ کو پڑھا گویا اس نے سارے قرآن کو پڑھ لیا غرض قرآن شریف اور حدیث نبوی سے ثابت ہے کہ سورت فاتحہ ممدوحہ ایک آئینہ قرآن نما ہے.اس کی تصریح یہ ہے کہ قرآن شریف کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تمام محامد کاملہ باری تعالیٰ کو بیان کرتا ہے اور اس کی ذات کے لیے جو کمال تام حاصل ہے اس کو بوضاحت بیان فرماتا ہے سو یہ مقصد الحمدللہ میں بطور جمال آ گیا کیونکہ اس کے یہ معے ہیں کہ تمام محامد کاملہ اللہ کے لیے ثابت ہیں جو جمع جمیع کمالات اور ستحق جميع عبادات ہے.دوسرا مقصد قرآن شریف کا یہ ہے کہ وہ خدا کا صانع کامل ہونا اور خالق العلمین ہونا ظاہر کرتا ہے اور عالم کے ابتدا کا حال بیان فرماتا ہے اور جو دائرہ عالم میں داخل ہو چکا اس کو مخلوق ٹھہراتا ہے اور ان امور کے جو لوگ مخالف ہیں ان کا کذب ثابت کرتا ہے سو یہ مقصد رب العلمین میں بطورا جمال آ گیا.تیسرا مقصد قرآن شریف کا خدا کا فیضان بلا استحقاق ثابت کرنا اور اس کی رحمت عامہ کا بیان کرتا ہے سو یہ مقصد لفظ رحمان میں بطور ا جمال آ گیا.چوتھا مقصد قرآن شریف کا خدا کا وہ فیضان ثابت کرنا ہے جو محنت اور کوشش پر مترتب ہوتا ہے سو یہ مقصد لفظ رحیم میں آ گیا.پانچواں مقصد قرآن شریف کا عالم معاد کی حقیقت بیان کرتا ہے سو یہ مقصد مالک یوم الدین میں آ گیا.چھٹا مقصد قرآن شریف کا اخلاص اور عبودیت اور تزکیہ نفس عن غیر اللہ اور علاج امراض روحانی اور اصلاح اخلاق رد یہ اور توحید فی العبادت کا بیان کرنا ہے سو یہ مقصد ایاک نَعْبُدُ میں بطور اجمال آ گیا.ساتواں مقصد قرآن شریف کا ہر ایک کام میں فاعل حقیقی خدا کو ٹھہرانا اور تمام تو فیق اور لطف اور نصرت اور ثبات علی الطاعت اور عصمت عن العصیان اور حصول جمیع اسباب خیر اور صلاحیت دنیا و دین اسی کی طرف اسے قرار دینا اور ان تمام امور میں اسی سے مدد چاہنے کے لیے تاکید کرنا سو یہ مقصد ایاک نَسْتَعِيْنُ میں بطور ا جمال آ گیا.آٹھواں مقصد قرآن شریف کا صراطِ مستقیم کے دقائق کو بیان کرنا ہے اور پھر اس کی طلب کے لیے تاکید کرنا کہ دعا اور تضرع سے اس کو طلب کریں سو یہ مقصد اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں بطور اجمال کے آ گیا.نواں مقصد قرآن شریف کا ان لوگوں کا طریق وخلق بیان کرنا ہے جن پر خدا کا انعام وفضل ہوا تا طالبین حق کے دل جمعیت پکڑیں سو یہ مقصد صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں آ گیا.دسواں مقصد قرآن شریف کا ان لوگوں کا خلق و طریق بیان کرنا ہے جن پر خدا کا غضب ہوا.یا جو راستہ بھول کر انواع اقسام کی بدعتوں میں پڑ گئے تا حق کے طالب ان کی راہوں سے ڈریں سو یہ مقصد غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ میں بطور اجمال آ گیا ہے یہ مقاصد عشرہ ہیں جو قرآن شریف میں مندرج ہیں.جو تمام صداقتوں کا اصل الاصول ہیں سو یہ تمام مقاصد سورہ فاتحہ میں بطور اجمال آگئے.(براہین احمدیہ - ر- خ - جلد 1 صفحہ 585-580 حاشیہ نمبر (11)
427 قرآن کریم کا مرکزی موضوع توحید باری تعالیٰ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ ايتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ.إِلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيْرٌ.(هود:2-3) ایک عجیب بات سوال مقدر کے جواب کے طور پر بیان کی گئی ہے.یعنی اس قدر تفاصیل جو بیان کی جاتی ہیں ان کا خلاصہ اور مغز کیا ہے؟ الَّا تَعْبُدُوا إِلَّا الله خدا تعالیٰ کے سوا ہر گز ہرگز کسی کی پرستش نہ کرو.اصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے.جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 57) عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت، کبھی کو دور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنا دے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے.عرب کہتے ہیں مَوْرٌ مَّعَبَّدٌ جیسے سرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر.پتھر.ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گویا روح ہی روح ہو اس کا نام عبادت ہے.چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پیدا ہو جاتے ہیں.پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کبھی اور ناہمواری کنکر پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا.قرآن شریف یہ دعویٰ کرتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے اَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء: 83) یعنی کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے اور اگر وہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پایا جاتا.اور ظاہر ہے کہ جس زمانہ میں قرآن شریف کی نسبت خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اس میں اختلاف نہیں تو اس زمانہ کے لوگوں کا حق تھا کہ اگر ان کے نزدیک کوئی اختلاف تھا تو وہ پیش کرتے.مگر سب ساکت ہو گئے اور کسی نے دم نہ مارا اور اختلاف کیونکر اور کہاں سے ممکن ہے جس حالت میں تمام احکام ایک ہی مرکز کے گرد گھوم رہے ہیں یعنی علمی اور عملی رنگ میں اور درشتی اور نرمی کے پیرا یہ میں خدا کی تو حید پر قائم کرنا اور ہوا و ہوس چھوڑ کر خدا کی توحید کی طرف کھینچنا یہی قرآن کا مدعا ہے.چشمہ معرفت - ر- خ - جلد 23 صفحہ 198 ) ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 347-346)
428 وید کی تعلیمیں ہم نے بطور نمونہ کے بیان کی ہیں.اور ہم لکھ چکے ہیں کہ قرآن شریف کی تعلیمیں اس کے مخالف ہیں.وہ دنیا میں توحید قائم کرنے آیا ہے.اس میں توحید کی تعلیم شمشیر برہنہ کی طرح ہے.اسکواول سے آخر تک پڑھو.وہ یہ نہیں سکھاتا کہ خدا کے بغیر کسی چیز کی پرستش کرو.اور اس سے مرادیں مانگو.اور اس کی مہما اور استت بیان کرو.وہ خدا کی کتابوں کو نہ کسی خاص ملک سے محدود کرتا ہے.اور نہ کسی خاص قوم سے.وہ بیان کرتا ہے کہ وہ ایک دائرہ کو ختم کرنے آیا ہے.جس کے متفرق طور پر تمام دنیا میں نقطے موجود تھے.اب وہ ان تمام نقطوں میں خط کھینچ کر ان سب کو ایک دائرہ کی طرح بناتا ہے.اور اس طرح پر تمام قوموں کو ایک قوم بنانا چاہتا ہے.لیکن نہ وقت سے پہلے بلکہ ایسے وقت میں جبکہ خود وقت گواہی دیتا ہے.کہ اب ضرور یہ تمام قومیں ایک قوم ہو جائیں گی.(نیم دعوت.ر.خ.جلد 19 صفحہ 432-431) کلمہ توحید.قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ ہے فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَتِ وَ اللهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَنْوا يكُمْ.(محمد: 20) کلمہ جو ہم ہر روز پڑھتے ہیں اس کے کیا معنے ہیں؟ کلمہ کے یہ معنے ہیں کہ انسان زبان سے اقرار کرتا ہے اور دل سے تصدیق کہ میرا معبود محبوب اور مقصود خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں.الہ کا لفظ محبوب اور اصل مقصود اور معبود کیلئے آتا ہے.یہ کلمہ قرآن شریف کی ساری تعلیم کا خلاصہ ہے جو مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے.چونکہ ایک بڑی اور مبسوط کتاب کا یاد کرنا آسان نہیں اس لئے یہ کلمہ سکھا دیا گیا تا کہ ہر وقت انسان اسلامی تعلیم کے مغز کو مد نظر رکھے اور جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہ ہو جاوے بیچ یہی ہے کہ نجات نہیں اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 89) توحید کے مراتب ہوتے ہیں بغیر ان کے توحید کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی.نرا لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ ہی کہہ دینا کافی نہیں یہ تو شیطان بھی کہہ دیتا ہے.جب تک عملی طور پر لا إِلهَ إِلَّا اللہ کی حقیقت انسان کے وجود میں متحقق نہ ہو کچھ نہیں.یہودیوں میں یہ بات کہاں ہے آپ ہی بتا دیں.توحید کا ابتدائی مرحلہ اور مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے خلاف کوئی امر انسان سے سرزد نہ ہو اور کوئی فعل اس کا اللہ تعالیٰ کی محبت کے منافی نہ ہو.گویا اللہ تعالیٰ ہی کی محبت اور اطاعت میں محو اور فنا ہو جاوے اس واسطے اس کے معنے یہ ہیں لَا مَعْبُوْدَ لِيْ وَلَا مَحْبُوبَ لِيْ وَلَا مُطَاعَ لِى إِلَّا اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوانہ کوئی میرا معبود ہے اور نہ کوئی محبوب ہے اور نہ کوئی واجب الاطاعت ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 448)
429 إِنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُوْنَ.الصَّفْت: 36) قرآن کی تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ خدا جیسا کہ واحد لا شریک ہے ایسا ہی اپنی محبت کی رو سے اس کو واحد لاشریک ٹھہراؤ جیسا کہ کلمہ لا إِلهَ إِلَّا الله جو ہر وقت مسلمانوں کو دور دزبان رہتا ہے اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ الة ـ ولاہ سے مشتق ہے اور اس کے معنے ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جائے.یہ کلمہ نہ تو توریت نے سکھلایا اور نہ انجیل نے صرف قرآن نے سکھلایا اور یہ کلمہ اسلام سے ایسا تعلق رکھتا ہے کہ گویا اسلام کا تمغہ ہے.یہی کلمہ پانچ وقت مساجد کے مناروں میں بلند آواز سے کہا جاتا ہے جس سے عیسائی اور ہند وسب چڑتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو محبت کے ساتھ یاد کرنا ان کے نزدیک گناہ ہے.یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ صبح ہوتے ہی اسلامی مؤذن بلند آواز سے کہتا ہے اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی ہمارا پیارا اورمحبوب اور معبود بجز اللہ کے نہیں.پھر دو پہر کے بعد یہی آواز اسلامی مساجد سے آتی ہے.پھر عصر کو بھی یہی آواز پھر مغرب کو بھی یہی آواز اور پھر عشاء کو بھی یہی آواز گونجتی ہوئی آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے.کیا دنیا میں کسی اور مذہب میں بھی یہ نظارہ دکھائی دیتا ہے؟!! (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.ر.خ.جلد 12 صفحہ 367-366) وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُكُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَ تَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ.(هود: 124) إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأمْرُ كُلُّه ہر ایک بات میرے ہی قبضہ اقتدار میں اور میرے ہی امر سے ہوتی ہے یہ ثابت کرنا مقصود نہیں کہ سلسلہ کا ئنات کا مجبور مطلق ہے بلکہ اپنی عظمت اور اپنا علت العلل ہونا اور اپنامسبب الاسباب ہونا مقصود ہے کیونکہ تعلیم قرآنی کا اصل موضوع توحید خالص کو دنیا میں پھیلانا اور ہر ایک قسم کے شرک کو جو پھیل رہاتھا منانا ہے.جنگ مقدس یعنی اہل اسلام اور عیسائیوں میں مباحثہ.رخ- جلد 6 صفحہ 240)
430 محبت الہی روحانیت کے نشو و نما اور زندگی کے لیے صرف ایک ہی ذریعہ خدا تعالیٰ نے رکھا ہے اور وہ اتباع رسول ہے.قرآن شریف اگر کچھ بتاتا ہے تو یہ کہ خدا سے یوں محبت کرو کہ اَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقره: 166) کے مصداق بنو اور فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله پر عمل کرو اور ایسی فناء اتم تم پر آ جاوے کہ تَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيْلاً (المزمل :9) کے رنگ سے تم رنگین ہو جاؤ.اور خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر مقدم کرلو.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 559،558) قرآن شریف کی تعلیم کا خلاصہ مغز کے طور پر یہی بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت اس قدر استیلاء کرے کہ ماسوی اللہ جل جاوے یہی وہ عمل ہے جس سے گناہ جلتے ہیں اور یہی وہ نسخہ ہے جو اسی عالم میں انسان کو وہ حواس اور بصیرت عطا کرتا ہے جس سے وہ اُس عالم کی برکات اور فیوض کو اس عالم میں پاتا ہے اور معرفت اور بصیرت کے ساتھ یہاں سے رخصت ہوتا ہے.ایسے ہی لوگ ہیں جو اس زمرہ سے الگ ہیں.مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى (بنی اسرائیل : 73) اور ایسے ہی لوگوں کے لیے فرمایا ہے.وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (الرحمن : 47) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں ان کو دو جنت ملتے ہیں.ہمارے نزدیک اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک جنت تو وہ ہے جو مرنے کے بعد ملتی ہے.دوسری جنت اسی دنیا میں عطا ہوتی ہے اور یہی جنت اس دوسری جنت کے ملنے اور عطا ہونے پر بطور گواہ واقعہ ٹھہر جاتی ہے.ایسا مومن دنیا میں بہت سے دوز خوں سے رہائی پاتا ہے.مختلف قسم کی بد اخلاقیاں یہ بھی دوزخ ہی ہیں.جن چیزوں سے شدید تعلق ہو جاتا ہے.وہ بھی ایک قسم کا دوزخ ہی ہے.کیونکہ پھر ان کو چھوڑنے سے تکلیف ہوتی ہے.مثلا مال سے محبت ہو اور اسے چور لے جائیں تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے.یہاں تک کہ بعض اوقات ایسے لوگ مر ہی جاتے ہیں یا ان کی زبان بند ہو جاتی ہے.اسی طرح پر اور جن فانی اشیاء سے محبت ہے وہ اگر تلف ہو جائیں یا مر جاویں تو اس کو سخت رنج اور صدمہ ہوتا ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 398-397)
431 اور پھر فرمایا قَدْ خَابَ مَنْ دَشَهَا.(الشمس: 11) مٹی کے برابر ہو گیا وہ شخص جس نے نفس کو آلودہ کر لیا یعنی جو زمین کی طرف جھک گیا.گویا یہ ایک ہی فقرہ قرآن کریم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کس طرح خدا تعالیٰ تک پہنچتا ہے.یہ بالکل سچی اور پکی بات ہے کہ جب تک انسان قومی بشریہ کے برے طریق کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک خدا نہیں ملتا.دنیا کی گندگیوں سے نکلنا چاہتے ہو اور خدا تعالیٰ کو ملنا چاہتے ہو تو ان لذات کو ترک کرو.ورنہ سے ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں ایں خیال است و محال است و جنوں (ترجمہ: خدا کو بھی چاہتے ہو اور دنیا کو بھی.یہ خیال ہی ہے اور ایک مجنونانہ محال امر ہے.) لے حاشیہ بدر سے:.جس نے دین کو مقدم کیا وہ خدا کے ساتھ مل گیا.نفس کو خاک کے ساتھ ملا دینا چاہئے خدا تعالیٰ کو ہر بات میں مقدم کرنا چاہیئے.یہی دین کا خلاصہ ہے جتنے برے طریق ہیں ان سب کو ترک کر دینا چاہیئے.تب خدا ملتا ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 643-642) ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد: 18) مومن وہی ہیں جو ایک دوسرے کو صبر اور مرحمت کی نصیحت کرتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ شدائد پر صبر کرو.اور خدا کے بندوں پر شفقت کرو.اس جگہ بھی مرحمت سے مراد شفقت ہے کیونکہ مرحمت کا لفظ زبان عرب میں شفقت کے معنوں پر مستعمل ہے.پس قرآنی تعلیم کا اصل مطلب یہ ہے کہ محبت جس کی حقیقت محبوب کے رنگ سے رنگین ہو جاتا ہے بجز خدا تعالیٰ اور صلحاء کے اور کسی سے جائز نہیں بلکہ سخت حرام ہے.( نور القرآن...خ.جلد 9 صفحہ 434-433) قرآن شریف کی تعلیم کا اصل مقصد اور مدعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ جیسا وحدہ لاشریک ہے ایسا ہی محبت کی رو سے بھی اس کو وحدہ لاشریک یقین کیا جاوے اور کل انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا اصل منشاء ہمیشہ یہی رہا ہے.چنانچہ لا إلهَ إِلَّا اللهُ جیسے ایک طرف توحید کی تعلیم دیتا ہے ساتھ ہی توحید کی تکمیل محبت کی ہدایت بھی کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے یہ ایک ایسا پیارا اور پر معنی جملہ ہے کہ اس کی مانند ساری تو رات اور انجیل میں نہیں اور نہ دنیا کی کسی اور کتاب نے کامل تعلیم دی ہے.اللہ کے معنی ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جاوے.گویا اسلام کی یہ اصل محبت کے مفہوم کو پورے اور کامل طور پر ادا کرتی ہے.یاد رکھو کہ جو تو حید بدوں محبت کے ہو وہ ناقص اور ادھوری ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 137 )
432 مذہب اسلام کے اعتبار سے پس میں نے اس پورے سامان کے بعد ارادہ کیا کہ اول اس خاتمہ میں اسلام کی حقیقت لکھوں کہ اسلام کیا چیز ہے؟ اور بعد میں قرآن شریف کی اعلئے اور کامل تعلیم کا اس کی آیات کے حوالہ سے کچھ بیان کروں اور یہ ظاہر کروں کہ در حقیقت تمام آیات قرآنی کے لئے اسلام کا مفہوم بطور مرکز کے ہے اور تمام آیات قرآنی اسی کے گرد گھوم ( براہین احمدیہ.رخ - جلد 21 صفحہ 414-413) رہی ہیں.رفع اختلافات کے اعتبار سے وَ مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوْا فِيْهِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ.(النحل: 65) اور یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی کہ تا ان لوگوں کا رفع اختلافات کیا جائے اور جو امر حق ہے وہ کھول کر (براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 115 حاشیہ نمبر 10) سنایا جائے.ہم نے اس لئے کتاب کو نازل کیا ہے تا جو اختلافات عقول ناقصہ کے باعث سے پیدا ہو گئے ہیں یاکسی عمداً افراط و تفریط کرنے سے ظہور میں آئے ہیں ان سب کو دور کیا جائے اور ایمانداروں کے لئے سیدھا راستہ بتلایا جاوے.اس جگہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو فساد بنی آدم کے مختلف کلاموں سے پھیلا ہے اس کی اصلاح بھی کلام ہی پر موقوف ہے یعنی اس بگاڑ کے درست کرنے کے لئے جو بیہودہ اور غلط کلاموں سے پیدا ہوا ہے ایسے کلام کی ضرورت ہے جو تمام عیوب سے پاک ہو کیونکہ یہ نہایت بدیہی بات ہے کہ کلام کا رہنزدہ کلام ہی کے ذریعہ سے راہ پر آ سکتا ہے.صرف اشارات قانون قدرت تنازعات کلامیہ کا فیصلہ نہیں کر سکتے اور نہ گمراہ کو اس کی گمراہی پر بصفائی تمام ملزم کر سکتے ہیں.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 224 حاشیہ نمبر (11) هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدى وَالْفُرْقَان (الجزو نمبر (2) یعنی قرآن میں تین صفتیں ہیں.اول یہ کہ جو علوم دین لوگوں کو معلوم نہیں رہے تھے ان کی طرف ہدایت فرماتا ہے.دوسرے جن علوم میں پہلے کچھ اجمال چلا آتا تھا ان کی تفصیل بیان کرتا ہے.تیسرے جن امور میں اختلاف اور تنازعہ پیدا ہو گیا تھا ان میں قول فیصل بیان کر کے حق اور باطل میں فرق ظاہر کرتا ہے.( براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 225 حاشیہ نمبر 11)
433 اقوام کے ذکر کے اعتبار سے مغضوب قوت سبھی کے نیچے ہے.یہود اس قوت کے ماتحت اور مغلوب رہے اور عیسائی قوت واہمہ کے نیچے.شرک اسی قوت واہمہ سے پیدا ہوتا ہے.قوت سبعی والا تو افراط سے کام لیتا ہے کہ جہاں ڈرنے کا حق ہے وہاں بھی نہیں ڈرتا.اور قوت واہمہ کا مغلوب رسی کو سانپ سمجھ کر اس سے بھی ڈر جاتا ہے.پس عیسائی تو اس قدر گرے کہ انہوں نے ایک مردہ انسان کو خدا بنالیا اور یہودی اتنے بڑھے کہ انہوں نے سرے ہی سے انکار کر دیا.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں تین قوموں کا ذکر کیا ہے اور تین ہی قسم کے لوگ رکھے بھی ہیں.اول وہ جو اعتدال سے کام لینے والے ہیں یہ منعم علیہ گروہ ہوتا ہے ان کی راہ صراط مستقیم ہے دوم افراط والی قوم اس کا نام مغضوب ہے سوم تفریط سے کام لینے والے یہ ضالین ہیں.مغضوب کا لفظ بتا تا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی پر غضب نہیں کرتا.بلکہ خود انسان اپنے افعال بد سے اس غضب کو کھینچ لیتا ہے.( تفسیر حضرت اقدش جلد اوّل صفحہ 328 329) کیونکہ جب تک توحید کی زندہ روح انسان کے دل میں قائم نہ ہو.تب تک نجات نہیں ہو سکتی.یہودی مردوں کی طرح تھے اور باعث سخت دلی اور طرح طرح کی نافرمانیوں کے وہ زندہ روح ان میں سے نکل چکی تھی.انکو خدا کے ساتھ کچھ بھی میلان باقی نہیں رہا تھا.اور انکی توریت باعث نقصان تعلیم اور نیز بودہ لفظی اور معنوی تحریفوں کے اس لائق نہیں رہی تھی جو کامل طور پر رہبر ہو سکے.اس لئے خدا نے زندہ کلام تازہ بارش کی طرح اتارا.اور اس زندہ کلام کی طرف انکو بلایا.تا وہ طرح طرح کے دھوکوں اور غلطیوں سے نجات پا کر حقیقی نجات کو حاصل کریں.سو قرآن کے نزول کی ضرورتوں میں سے ایک یہ تھی کہ تا مردہ طبع یہودیوں کو زندہ تو حید سکھائے اور دوسرے یہ کہ تا انکی غلطیوں پر انکو متنبہ کرے.اور تیسرے یہ کہ تا وہ مسائل کہ جو توریت میں محض اشارہ کی طرح بیان ہوئے تھے جیسا کہ مسئلہ حشر اجساد اور مسئلہ بقاء روح اور مسئلہ بہشت اور دوزخ انکے مفصل حالات سے آگہی بخشے.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.رخ- جلد 12 صفحہ 352)
434 علوم حکمیہ کے اعتبار سے الر تِلْكَ ايْتُ الْكِتَبِ الْحَكِيمِ.(يونس:2) یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں کہ جو جامع علوم حکمیہ ہے.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 243 حاشیہ نمبر 11) قرآن حکیم ہے یعنی حکمت سے بھر ہوا ہے.کرامات الصادقین...خ.جلد 7 صفحہ 52) إِنَّ فِي هَذَا لَبَلْغَاً لِّقَوْمٍ عَبِدِيْنَ.(الانبياء:107) اس میں ان لوگوں کے لئے جو پرستار ہیں حقیقی پرستش کی تعلیم ہے.(ازالہ اوہام - ر- خ - جلد 3 صفحہ 454) يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَ مَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ.(البقرة: 270) قرآن شریف کو خدا تعالیٰ نے خیر کہا ہے چنانچہ فرمایا وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أَوْتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ( ملفوظات جلد اول صفحہ 530) پس قرآن شریف معارف اور علوم کے مال کا خزانہ ہے.خدا تعالیٰ نے قرآنی معارف اور علوم کا نام بھی مال رکھا ہے.دنیا کی برکتیں بھی اسی کے ساتھ آتی ہیں.یعنی جس کو خدا تعالیٰ چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی.حکمت سے مراد علم عظمت ذات وصفات باری ہے اور خیر کثیر سے مراد اسلام ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُوْنَ (یونس :59) پھر ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے قُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا ( طه : 115) یعنی اے میرے رب تو مجھے اپنی عظمت اور معرفت شیون اور صفات کا علم کامل بخش اور پھر دوسری جگہ فرمایا وَ بِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: 164) ان دونوں آنتیوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اول المسلمین ٹھہرے تو اس کا یہی باعث ہوا کہ اوروں کی نسبت علوم معرفت الہی میں اعلم میں یعنی علم ان کا معارف الہیہ کے بارے میں سب سے بڑھ کر ہے.اس لیے ان کا اسلام بھی سب سے اعلیٰ ہے اور وہ اول المسلمین ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زیادت علم کی طرف اس دوسری آیت میں بھی اشارہ ہے جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا.(النساء : 114 ) یعنی خدا تعالیٰ نے تجھ کو وہ علوم عطا کیے جو تو خود بخود نہیں جان سکتا تھا اور فضل الہی سے فیضان الہی سب سے زیادہ تیرے پر ہوا یعنی تو معارف الہیہ اور اسرار اور علوم ربانی میں سب سے بڑھ گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی معرفت کے عطر کے ساتھ سب سے زیادہ تجھے معطر کیا غرض علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے.( آئینہ کمالات اسلام.ر.خ.جلد 5 صفحہ 187-186)
435 اس کتاب میں دو خو بیاں ہیں ایک تو یہ کہ حکیم مطلق نے محکم اور مدل طور پر یعنی علوم حکمیہ کی طرح اس کو بیان کیا ہے بطور کتھا یا قصہ نہیں.دوسری یہ خوبی کہ اس میں تمام ضروریات علم معاد کی تفصیل کی گئی ہے.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 224-223 حاشیہ نمبر 11 ) حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ.(القمر: 6) حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ قرآن..انتہائی درجہ کی حکمت ہے.جنگ مقدس.ر.خ.جلد 6 صفحہ 87) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ ، إِنْ يُتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُوْنَ.(الانعام: 117) ترجمہ.اور اگر اطاعت کرے تو اکثر ان لوگوں کی جو زمین میں ہیں گمراہ کر دیں گے تجھے راہ سے اللہ کی نہیں پیروی کرتے سوائے گمان کے اور نہیں وہ مگر اٹکل کرتے.قرآن کریم کی محکمات اور بینات علم ہے اور مخالف قران کے جو کچھ ہے وہ فطن ہے اور جو شخص علم ہوتے ہوئے ظن کا اتباع کرے وہ اس آیت کے نیچے داخل ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ - ر-خ- جلد 4 صفحہ 94) فطرت انسانی کے اعتبار سے وَهَذَا ذِكْرٌ مُبرَكَ اَنْزَلْنَهُ ، اَفَانْتُمْ لَهُ مُنْكِرُوْنَ (الانبياء: 51) طَ قرآن شریف صرف سماع کی حد تک محدود نہیں ہے کیونکہ اس میں انسانوں کے سمجھانے کے لئے بڑے بڑے معقول دلائل ہیں اور جس قدر عقائد اور اصول اور احکام اس نے پیش کئے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا امر نہیں جس میں زبر دستی اور تحکم ہو جیسا کہ اس نے خود فرما دیا ہے کہ یہ سب عقائد وغیرہ انسان کی فطرت میں پہلے سے منقوش ہیں اور قرآن شریف کا نام ذکر رکھا ہے جیسا کہ فرماتا ہے هذَا ذِكْرٌ مُبرَک یعنی یہ قرآن با برکت کوئی نئی چیز نہیں لا یا بلکہ جو کچھ انسان کی فطرت اور صحیفہ قدرت میں بھرا پڑا ہے اس کو یاد دلاتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.رخ، جلد 10 ، صفحہ 433)
436 حضرت اقدس کے ذکر کے اعتبار سے یا درکھو اور خوب یاد رکھو کہ سورۃ فاتحہ میں صرف دوفتوں سے بچنے کے لئے دعا سکھلائی گئی ہے (۱) اوّل یہ فتنہ کہ اسلام کے مسیح موعود کو کا فرقراردیا.اس کی توہین کرنا.اس کی ذاتیات میں نقص نکالنے کی کوشش کرنا.اس کے قتل کا فتویٰ دینا.جیسا کہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں انہی باتوں کی طرف اشارہ ہے (۲) دوسرے نصاری کے فتنے سے بچنے کے لئے دعا سکھلائی گئی اور سورۃ کو اسی کے ذکر پر ختم کر کے اشارہ کیا گیا ہے کہ فتنہ نصاریٰ ایک سیل عظیم کی طرح ہو گا.اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں.غرض اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ اس عاجز کی نسبت قرآن شریف نے اپنی پہلی سورۃ میں ہی گواہی دے دی.ورنہ ثابت کرنا چاہیئے کہ کن مغضوب علیہم سے اس سورۃ میں ڈرایا گیا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ حدیث اور قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بعض علماء کو یہود سے نسبت دی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ مغضوب علیہم سے مراد وہ یہود ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جو سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ اور مسیح موعود تھے کا فرٹھیرایا تھا اور انکی سخت توہین کی تھی اور ان کے پرائیویٹ امور میں افترائی طور پر نقص ظاہر کئے تھے.پس جبکہ یہی لفظ مغضوب علیہم کا ان یہودیوں کے مثیلوں پر بولا گیا جن کا نام بوجہ تکفیر وتو بین حضرت میسج مغضوب علیہم رکھا گیا تھا.پس اس جگہ مغضوب علیہم کے پورے مفہوم کو پیش نظر رکھ کر جب سوچا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ آنے والے مسیح موعود کی نسبت صاف اور صریح پیشگوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے پہلے مسیح کی طرح ایذا اٹھائے گا.اور یہ دعا کہ یا الہی ہمیں مغضوب علیہم ہونے سے بچا اس کے قطعی اور یقینی معنے ہیں کہ ہمیں اس سے بچا کہ ہم تیرے مسیح موعود کو جو پہلے مسیح کا مثیل ہے ایذاء نہ دیں اس کو کافر نہ ٹھیرائیں.ان معنوں کے لئے یہ قرینہ کافی ہے کہ مغضوب علیہم صرف ان یہودیوں کا نام ہے جنہوں نے حضرت مسیح کو ایذاء دی تھی اور حدیثوں میں آخری زمانہ کے علماء کا نام یہو درکھا گیا ہے یعنی وہ جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی تکثیر و تو ہین کی تھی.اور اس دعا میں ہے کہ یا الہی ہمیں وہ فرقہ مت بنا جن کا نام مغضوب علیہم ہے.پس دعا کے رنگ میں یہ ایک پیشگوئی ہے جو دو خبر پر ہے.ایک یہ کہ اس امت میں بھی ایک مسیح موعود پیدا ہوگا.اور دوسری یہ پیشگوئی ہے کہ بعض لوگ اس امت میں سے اس کی بھی تکفیر اور توہین کرینگے اور وہ لوگ مورد غضب الہی ہونگے اور اس وقت کا نشان یہ ہے کہ فتنہ نصاری بھی ان دنوں میں حد سے بڑھا ہو ا ہوگا.جن کا نام ضالین ہے اور ضالین پر بھی یعنی عیسائیوں پر بھی اگر چہ خدا تعالیٰ کا غضب ہے کہ وہ خدا کے حکم کے شنوا نہیں ہوئے مگر اس غضب کے آثار قیامت کو ظاہر ہو نگے.اور اس جگہ مغضوب علیہم سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر بوجہ تکثیر و توہین و ایذاء وارادہ قتل مسیح موعود کے دنیا میں ہی غضب الہی نازل ہوگا.یہ میرے جانی دشمنوں کیلئے قرآن کی پیشگوئی ہے.یادرکھنا چاہئے کہ اگر چہ جو شخص راہ راست کو چھوڑتا ہے.وہ خدا تعالے کے غضب کے نیچے آتا ہے.مگر خدا تعالے کا اپنے مجرموں سے دو قسم کا معاملہ ہے اور مجرم دو قسم کے ہیں (۱) ایک وہ مجرم ہیں جو حد سے زیادہ نہیں بڑھتے اور گو نہایت درجہ کے تعصب سے ضلالت کو نہیں چھوڑتے مگر وہ ظلم اور ایذاء کے مشتمل
437 طریقوں میں ایک معمولی درجہ تک رہتے ہیں اپنے جو روستم اور بیبا کی کو انتہا تک نہیں پہنچاتے.پس وہ تو اپنی سزا قیامت کو پائیں گے اور خدائے علیم ان کو اس جگہ نہیں پکڑتا کیونکہ ان کی روش میں حد سے زیادہ بنتی نہیں.لہذا ایسے گناہوں کی سزا کے لئے صرف ایک ہی دن مقرر ہے جو یوم المجازات اور یوم الدین اور یوم الفصل کہلاتا ہے (۲) دوسری قسم کے وہ مجرم ہیں جو ظلم اور ستم اور شوخی اور بے باکی میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدا کے ماموروں اور رسولوں اور راستبازوں کو درندوں کی طرح پھاڑ ڈالیں اور دنیا پر سے ان کا نام ونشان مٹا دیں اور ان کو آگ کی طرح بھسم کر ڈالیں.ایسے مجرموں کیلئے جن کا غضب انتہا تک پہنچ جاتا ہے سنت اللہ یہی ہے کہ اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کا غضب ان پر بھڑکتا ہے اور اسی دنیا میں وہ سزا پاتے ہیں علاوہ اس سزا کے جو قیامت کو ملے گی.اس لئے قرآنی اصطلاح میں ان کا نام مغضوب علیہم ہے.اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں حقیقی مصداق اس نام کا ان یہودیوں کو ٹھیرایا ہے جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو نابود کرنا چاہا تھا.پس ان کے دائمی غضب کے مقابل پر خدا نے بھی ان کو دائمی غضب کے وعید سے پامال کیا جیسا کہ آیت وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ( ال عمران : 56) سے سمجھا جاتا ہے اس قسم کا غضب جو قیامت تک منقطع نہ ہو اسکی نظیر قرآن شریف میں بجز حضرت مسیح کے دشمنوں کے یا آنے والے مسیح موعود کے دشمنوں کے اور کسی قوم کے لئے پائی نہیں جاتی اور مغضوب علیہم کے لفظ میں دنیا کے غضب کی وعید ہے جو دونوں مسیحوں کے دشمنوں کے متعلق ہے.یہ ایسی نص صریح ہے کہ اس سے انکار قرآن سے انکار ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ.جلد 17 صفحہ 214-212) دو گروہوں کے اعتبار سے اور اگر چہ فیج اعوج میں بھی جماعت کثیر گمراہوں کے مقابل نیک اور اہل اللہ اور ہر صدی کے سر پر مجدد بھی ہوتے رہے ہیں لیکن حسب منطوق آیت ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْآخَرِيْنَ (الواقعة: 40-41) خالص محمدی گروہ جو ہر ایک پلید ملونی اور آمیزش سے پاک اور تو بہ نصوح سے غسل دیئے ہوئے ایمان اور دقائق عرفان اور علم اور عمل اور تقویٰ کے لحاظ سے ایک کثیر التعداد جماعت ہے یہ اسلام میں صرف دوگروہ ہیں یعنی گروہ اولین وگروہ آخرین جو صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت سے مراد ہے.اور چونکہ حکم کثرت مقدار اور کمال صفائی انوار پر ہوتا ہے اس لئے اس سورۃ میں اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے فقرہ سے مراد یہی دونوں گروہ ہیں یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم مع اپنی جماعت کے اور مسیح موعود معہ اپنی جماعت کے خلاصہ کلام یہ کہ خدا نے ابتدا سے اس امت میں دو گروہ ہی تجویز فرمائے ہیں اور انہی کی طرف سورۃ فاتحہ کے فقرہ انعَمتَ عَلَيْهِمْ میں اشارہ ہے (۱) ایک اولین جو جماعت نبوی ہے (۲) دوسرے آخرین جو جماعت مسیح موعود ہے.اور افراد کاملہ جو درمیانی زمانہ میں ہیں جو فیج اعوج کے نام سے موسوم ہے جو بوجہ اپنی کمی مقدار اور کثرت اشرار و فجار و هجوم افواج بد مذاہب و بدعقائد و بد اعمال شاذ و نادر کے حکم میں سمجھے گئے گو دوسرے فرقوں کی نسبت درمیانی زمانہ کے صلحائے امت محمدیہ بھی باوجو د طوفان بدعات کے ایک دریائے عظیم کی طرح ہیں.(تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 225-226 )
پندرہویں فصل 438 موازنہ قرآن وحدیث حضرت اقدس کے الہام کشوف ورویاء الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآن لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ.تذکرہ الشہا دتین...خ.جلد 20 صفحہ 6) تمام خیر قرآن میں ہے.اس کے حقائق معارف تک وہ لوگ پہنچتے ہیں جو پاک کئے جاتے ہیں.پس تم اس کے بعد یعنی اس کو چھوڑ کر کس حدیث پر ایمان لاؤ گے.مَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي نَبْتَلِيْهِ بِذُرِّيَّةٍ فَاسِقَةٍ مُلْحِدَةٍ يَمِيلُونَ إِلَى الدُّنْيَا وَ لَا يَعْبُدُونَنِي شَيْئًا.جو شخص قرآن سے کنارہ کرے گا ہم اس کو ایک خبیث اولاد کے ساتھ مبتلا کریں گے.جن کی ملحدانہ زندگی ہوگی.وہ دنیا پر گریں گے.اور میری پرستش سے ان کو کچھ بھی حصہ نہ ہوگا.یعنی ایسی اولاد کا انجام بد ہو گا.اور تو بہ اور تقویٰ نصیب نہیں ہوگا.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.ر.خ.جلد 19 صفحہ 213 حاشیہ ) ييَحْيَى خُذِ الْكِتَبَ بِقُوَّةٍ وَّاتَيْنَهُ الْحُكْمَ صِبِيًّا.(مريم :13) حضرت اقدس نے اپنا ایک پرانا الہام سنایا ییخیلی خُذِ الْكِتَبَ بِقُوَّةٍ (اور فرمایا) وَ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي القُرانِ.اور فرمایا کہ اس میں ہم کو حضرت بیٹی کی نسبت دی گئی ہے کیونکہ حضرت بیٹی کو یہود کی ان اقوام سے مقابلہ کرنا پڑا تھا جو کتاب اللہ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہورہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے.ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہل حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 203) آج رات مجھے رویا میں دکھایا گیا.کہ ایک درخت باردار اور نہایت لطیف اور خوبصورت پھلوں سے لدا ہوا ہے.اور کچھ جماعت تکلف اور زور سے ایک بوٹی کو اس پر چڑھانا چاہتی ہے.جس کی جڑ نہیں.بلکہ چڑھا رکھی ہے.وہ بوٹی افتیموں کی مانند ہے.اور جیسے جیسے وہ بوٹی اس درخت پر چڑھتی ہے.اس کے پھلوں کو نقصان پہنچاتی ہے.اور اس لطیف درخت میں ایک کھجو ہٹ اور بدشکلی پیدا ہورہی ہے.اور جن پھلوں کی اس درخت سے توقع کی جاتی ہے ان کے ضائع ہونے کا سخت اندیشہ ہے.بلکہ کچھ ضائع ہو چکے ہیں.تب میرا دل اس بات کو دیکھ کر گھبرایا اور پکھل گیا.اور میں نے ایک شخص کو جو ایک نیک اور پاک انسان کی صورت پر کھڑا تھا پو چھا کہ یہ درخت کیا ہے اور یہ بوٹی کیسی ہے.جس نے ایسے لطیف درخت کو شکنجہ میں دبا رکھا ہے؟ تب اس نے جواب میں مجھے یہ کہا.کہ یہ درخت قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ بوٹی وہ احادیث اور اقوال وغیرہ ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں یا مخالف ٹھہرائی جاتی ہیں.اور ان کی کثرت نے اس درخت کو دبا لیا ہے اور اس کو نقصان پہنچا رہی ہیں.تب میری آنکھ کھل گئی.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی-رخ- جلد 19 صفحہ 212 /حاشیہ )
439 کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز اگر ٹو ٹو ئے عثماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے خُدا کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرار لا علمی سخن میں اس کے ہمتائی کہاں مقدور انساں ہے بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا نور حق کا اُس پہ آساں ہے ( در مشین اردو صفحہ 3 ) ( براہین احمدیہ.رخ.جلد اول صفحہ 202-200) قرآن یقینی اور قطعی کلام ہے اب رہی حدیثیں سو سب سے اول یہ بات سوچنے کے لائق ہے کہ قرآن کریم کے مقابل پر حدیثوں کی کیا قدرا اور منزلت ہے اور جب قرآن کریم کے نصوص بینہ سے کوئی حدیث مخالف پڑے تو کہاں تک اس کے اعتبار کو وزن دے سکتے ہیں.سو جانا چاہیئے کہ قرآن کریم وہ یقینی او قطعی کلام الہی ہے جس میں انسان کا ایک نقطہ یا ایک شععہ تک دخل نہیں اور وہ اپنے الفاظ اور معنی کے ساتھ خدا تعالے کا ہی کلام ہے اور کسی فرقہ اسلام کو اس کے ماننے سے چارہ نہیں.اس کی ایک ایک آیت اعلیٰ درجہ کا تو اتر اپنے ساتھ رکھتی ہے وہ وحی متلو ہے جس کے حرف حرف گئے ہوئے ہیں وہ باعث اپنے اعجاز کے بھی تبدیل اور تحریف سے محفوظ ہے.لیکن احادیث تو انسانوں کے دخل سے بھری ہوئی ہیں.جو ان میں سے بیچ کہلاتی ہیں ان کا اتنا بھی مرتبہ نہیں جو ایک آیت کے مقابلہ پر ایک کروڑ ان میں سے وہ رنگ اورشان پیدا کر سکے جواللہ جلشانہ کی بے مثل کلام کو حاصل ہے اگر چہ حدیث صحیح بھی جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سند متصل ثابت ہو ایک قسم کی وحی ہے مگر وہ ایسی تو نہیں جو قائم مقام قرآن شریف ہو سکے.اسی وجہ سے قرآن شریف کی جگہ صرف حدیث پڑھ کر نماز نہیں ہوسکتی.حدیثوں میں ضعف کی وجوہات اس قدر ہیں کہ ایک دانا آدمی ان پر نظر ڈال کر ہمیشہ اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ ان کو تقویت دینے کے لئے کم سے کم نص قرآنی کا کوئی اشارہ ہی ہو.یہ سچ ہے کہ حدیثیں صحابہ کی زبان سے بتوسط کئی راویوں کے مؤلفین صحاح تک پہنچی ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ جہاں تک ممکن ہے مؤلفین صحاح نے حدیثوں کی تنقید وتفتیش میں بڑی بڑی کوششیں کی ہیں مگر پھر بھی ہمیں ان پر وہ بھروسہ نہیں کرنا چاہئے جو اللہ جلشانہ کی کلام پر کیا جاتا ہے.(ازالہ اوہام...خ.جلد 3 صفحہ 384 ) فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ.(المرسلات: 51) فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ یعنی قرآن کریم کے بعد کس حدیث پر ایمان لاؤ گے اور ظاہر ہے کہ ہم مسلمانوں کے پاس وہ ٹص جو اول درجہ پر قطعی اور یقینی ہے قرآن کریم ہی ہے اکثر احادیث اگر صحیح بھی ہوں تو مفید ظن ہیں و ان الظن لا يعنى من الحق شياء.(النجم : 29) (ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 453)
440 حسب آیت کریمہ فَبِي حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُون (المرسلات : 51) اور بحسب آیت کریمہ فَبِأَيِّ حَدِيث ؟ بَعْدَ اللَّهِ وَ آيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ (الجاثیہ : 7 ) ہر ایک حدیث جو صریح آیت کے معارض پڑے رد کرنے کے لائق ہے.اور آخری نصیحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیتھی کہ تم نے تمسک بکتاب اللہ کرنا ہے.(ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 610) اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِةٍ أَوْلِيَاءَ طَ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ.(الاعراف:4) اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمُ کیسے فیصلہ کرنے والی آیت ہے.جس سے صریح اور صاف طور پر صاف ثابت ہوتا ہے کہ اول توجہ مومن کی قرآن کریم کی طرف ہونی چاہئے پھر اگر اس توجہ کے بعد کسی حدیث یا قول من دونہ میں داخل دیکھے تو اس سے منہ پھیر لیوے.الحق مباحثہ لدھیانہ.ر.خ.جلد 4 صفحہ 42-41) فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ و آيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ (الجاثية : 7) یعنی خدا اور اس کی آیتوں کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے.اس جگہ حدیث کے لفظ کی تنکیر جو فائدہ عموم کا دیتی ہے صاف بتلا رہی ہے کہ جو حدیث قرآن کے معارض اور مخالف پڑے اور کوئی راہ تطبیق کی پیدا نہ ہو.اس کو رد کر دو.اور اس حدیث میں ایک پیشگوئی بھی ہے جو بطور اشارۃ النص اس آیت سے مترشح ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ آیتہ ممدوحہ میں اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی اس امت پر آنے والا ہے کہ جب بعض افراد اس امت کے قرآن شریف کو چھوڑ کر ایسی حدیثوں پر بھی عمل کریں گے جن کے بیان کردہ بیان قرآن شریف کے بیانات سے مخالف اور معارض ہو نگے.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکرالوی-رخ- جلد 19 صفحہ 207) خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں صراط مستقیم پر کھڑا رکھا ہے وہابیوں نے افراط کی اور قرآن پر حدیث کو قاضی ٹھہرایا اور قرآن کو اس کے آگے مستغیث کی طرح کھڑا کر دیا اور چکڑالوی نے تفریط کی کہ بالکل ہی حدیث کا انکار کر دیا.اس سے فتنے کا اندیشہ ہے اس کی اصلاح ضروری ہے ہم کو خدا تعالیٰ نے حکم ٹھہرایا ہے اس لئے ہم ایک اشتہار کے ذریعہ اس غلطی کو ظاہر کریں گے اور مضمون پیچھے لکھیں گے.اول خویش بعد درویش جس راہ پر خدا تعالیٰ نے ہم کو چلایا ہے اس پر اگر غور کیا جائے تو ایک لذت آتی ہے قرآن شریف نے کیا ٹھیک فیصلہ فرمایا فَبِاَتِي حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَايَتِهِ يُؤْمِنُونَ (الجاثیہ: 7) یہ ایک قسم کی پیشگوئی ہے جو ان وہابیوں کے متعلق ہے اور سنت کی نفی کرنے والوں کے لئے فرمایا.إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ.(ال عمران : 32) ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 536)
441 وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُمُ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَانْقَذَكُمْ مِنْهَا طَ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ ايَتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.(ال عمران : 104) کیا ہمیں قرآن کریم کے اس مرتبہ پر ایمان نہیں لانا چاہیئے جو مرتبہ وہ خود اپنے لیے قرار دیتا ہے؟ دیکھنا چاہیئے کہ وہ صاف الفاظ میں بیان فرماتا ہے وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوا.کیا اس حبل سے حدیثیں مراد ہیں؟ پھر جس حالت میں وہ اس حبل سے پنجہ مارنے کے لیے تاکید شدید فرماتا ہے تو کیا اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم ہر ایک اختلاف کے وقت قرآن کریم کی طرف رجوع کریں؟ الحق مباحثہ لدھیانہ.ر.خ.جلد 4 صفحہ 37) وَ مَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ أعمى.(طه: 125) جو شخص میرے فرمودہ سے اعراض کرے اور اس کے مخالف کی طرف مائل ہو تو اس کے لئے تنگ معیشت ہے یعنی وہ حقائق اور معارف سے بے نصیب ہے اور قیامت کو اندھا اُٹھایا جائے گا.اب ہم اگر ایک حدیث کو صریح قرآن کریم کے خلاف پائیں اور پھر مخالفت کی حالت میں بھی اس کو مان لیں اور اس تخالف کی کچھ بھی پرواہ نہ کریں تو گویا اس بات پر راضی ہو گئے کہ معارف حقہ سے بے نصیب رہیں اور قیامت کو اندھے اُٹھائے جائیں.الحق مباحثہ لدھیانہ.ر.خ.جلد 4 صفحہ 37)
442 وَ الْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا طَ إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَحِرٍ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى.(طه: 70) (اس سوال کے جواب میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کافروں نے جو جادو کیا تھا اس کی نسبت آپ کا کیا خیال ہے.فرمایا) جادو بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے رسولوں اور نبیوں کی یہ شان نہیں ہوتی کہ ان پر جادو کا کچھ اثر ہو سکے بلکہ ان کو دیکھ کر جادو بھاگ جاتا ہے جیسے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لَا يُفْلِحُ الشَّحِرُ حَيْثُ أَتى (طه: 70) دیکھو حضرت موسیٰ کے مقابل پر جادو تھا آخر موسیٰ غالب ہوا کہ نہیں.یہ بات بالکل غلط ہے کہ آنحضرت صلعم کے مقابلہ پر جادو غالب آ گیا ہم اس کو بھی نہیں مان سکتے.آنکھ بند کر کے بخاری اور مسلم کو مانتے جانا یہ ہمارے مسلک کے برخلاف ہے.یہ تو عقل بھی تسلیم نہیں کرسکتی کہ ایسے عالی شان بنی پر جادو اثر کر گیا ہو.ایسی ایسی باتیں کہ اس جادو کی تاثیر سے(معاذاللہ ) آنحضرت صلح کا حافظہ جا تار ہا یہ ہوگیا اور وہ ہو گیا کسی صورت میں صحیح نہیں ہوسکتیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی خبیث آدمی نے اپنی طرف سے ایسی باتیں ملا دی ہیں.گو ہم نظر تہذیب سے احادیث کو دیکھتے ہیں لیکن جو حدیث قرآن کریم کے برخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کے برخلاف ہو اس کو ہم کب مان سکتے ہیں.اس وقت احادیث جمع کرنے کا وقت تھا گو انہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا مگر پوری احتیاط سے کام نہیں لے سکے وہ جمع کرنے کا وقت تھا لیکن اب نظر اور غور کرنے کا وقت ہے آثار نبی جمع کرنا بڑے ثواب کا کام ہے لیکن یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جمع کرنے والے خوب غور سے کام نہیں لے سکتے.اب ہر ایک کا اختیار ہے کہ خوب غور اور فکر سے کام لے جو مانے والی ہو وہ مانے اور جو چھوڑنے والی ہو وہ چھوڑ دے ایسی بات کہ آنحضرت صلعم پر (معاذ اللہ ) جادو کا اثر ہو گیا تھا اس سے تو ایمان اُٹھ جاتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِذْ يَقُولُ الظَّلِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا (بنی اسرائیل: 48) ایسی ایسی باتیں کہنے والے تو ظالم ہیں نہ کہ مسلمان.یہ تو بے ایمانوں اور ظالموں کا قول ہے کہ آنحضرت صلعم پر (معاذ اللہ ) سحر اور جادو کا اثر ہو گیا تھا اتنا نہیں سوچتے کہ جب (معاذ اللہ ) آنحضرت کا یہ حال ہے تو پھر اُمت کا کیا ٹھکاناوہ تو پھر غرق ہو گئی معلوم نہیں ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جس معصوم نبی صلعم کو تمام انبیاء مست شیطان سے پاک سمجھتے آئے ہیں.یہ ان کی شان میں ایسے ایسے الفاظ بولتے ہیں.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 349-348)
443 قرآن.صحت حدیث پر محک اور ہیمن ہے اور آپکا یہ فرمانا کہ قرآن کریم کو کیوں محک صحت احادیث ٹھہراتے ہو.سو اس کا جواب میں بار بار یہی دونگا کہ قرآن کریم میمن اور امام اور میزان اور قول فصل اور ہادی ہے.اگر اسکومحک نہ ٹھہراؤں تو اور کس کو ٹھہراؤں؟ کیا ہمیں قرآن کریم کے اس مرتبہ پر ایمان نہیں لانا چاہیئے.جومرتبہ وہ خود اپنے لئے قرار دیتا ہے؟ دیکھنا چاہیئے کہ وہ صاف الفاظ میں بیان فرماتا ہے.وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَّلَا تَفَرَّقُوا (ال عمران : 104).کیا اس حبل سے حدیثیں مراد ہیں؟ پھر جس حالت میں وہ اس حبل سے پنجہ مارنے کیلئے تاکید شدید فرماتا ہے تو کیا اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم ہر ایک اختلاف کے وقت قرآن کریم کی طرف رجوع کریں؟ اور پھر فرماتا ہے وَ مُـنَ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكَاوَّ نَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ أَعْمَى.(طہ' :125).یعنی جو شخص میرےفرمودہ سے اعراض کرے اور ا سکے مخالف کی طرف مائل ہو تو اسکے لئے تنگ معیشت ہے یعنی وہ حقائق اور معارف سے بے نصیب ہے اور قیامت کو اندھا اٹھایا جائیگا.اب ہم اگر ایک حدیث کو صریح قرآن کریم کے خلاف پائیں اور پھر مخالفت کی حالت میں بھی اسکو مان لیں اور اس تخالف کی کچھ بھی پرواہ نہ کریں تو گویا اس بات پر راضی ہو گئے کہ معارف حقہ سے بے نصیب رہیں اور قیامت کو اندھے اٹھائے جائیں.پھر ایک جگہ فرماتا ہے.فَاسْتَمْسِكُ بِالَّذِى اَوْحَى إِلَيْكَ (الزخرف: 44) و انه لذکر لک و لقومک (الزخرف: 45) یعنی قرآن کریم کو ہر یک امر میں دستاویز پکڑو تم سب کا اسی میں شرف ہے کہ تم قرآن کو دستاویز پکڑو.اور اسی کو مقدم رکھو.اب اگر ہم مخالفت قرآن اور حدیث کے وقت میں قرآن کو دستاویز نہ پکڑیں تو گویا ہماری یہ مرضی ہوگی کہ جس شرف کا ہم کو وعدہ دیا گیا ہے اس شرف سے محروم رہیں.الحق مباحثہ لدھیانہ.ر.خ.جلد 4 صفحہ 37) قرآن کی قطعیت.قرآن کی حفاظت کے اعتبار سے احادیث کے اوپر نہ تو خدا کی مہر ہے نہ رسول اللہ صلعم کی اور قرآن شریف کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر: (10) اس لئے ہمارا یہ مذہب ہے کہ قرآن شریف سے معارض نہ ہونے کی حالت میں ضعیف سے ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جاوے لیکن اگر کوئی قصہ جو کہ قرآن شریف میں مذکور ہے اور حدیث میں اس کے خلاف پایا جاوے مثلاً قرآن میں لکھا ہے کہ اسحاق ابراہیم کے بیٹے تھے اور حدیث میں لکھا ہوا ہو کہ وہ نہیں تھے تو ایسی صورت میں حدیث پر کیسے اعتماد ہوسکتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحه 442)
444 علاوہ اس کمال خاص قرآن کے کہ وہ وحی متلو ہے محفوظیت کی رو سے بھی حدیثوں کو قرآن کریم سے کیا نسبت ہے.قرآن کریم کی جیسا کہ اس کی بلاغت و فصاحت و حقایق و معارف کی رو سے کوئی چیز مثل نہیں ٹھہر سکتی ایسا ہے اس کی صحت کاملہ اور محفوظیت اور لاریب فیہ ہونے میں کوئی چیز اس کی مثیل نہیں کیونکہ اس کے الفاظ اور ترتیب الفاظ اور محفوظیت تامہ کا اہتمام خدائے تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور ماسوا اس کے حدیث ہو یا قول کسی صحابی کا ہو ان سب کا اہتمام انسانوں نے کیا ہے جو سہوا ور نسیان سے بری نہی رہ سکتے اور ہرگز وہ لوگ محفوظیت تامہ اور صحت کاملہ میں احادیث اور اقوال کو مثل قرآن نہیں بنا سکتے تھے اور یہ بجز ان کا اس آیت کریمہ کے اعجازات پیشکر دہ میں داخل ہے.قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنُسُ وَالْجِنُّ عُلَى اَنْ يَّأْتُوا بِمِثْلِ هذَا الْقُرْآن لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا.(بنی اسرائیل: 89) جب ہرایک بات میں مثل قرآن ممتنع ہے تو کیونکر وہ لوگ احادیث کو صحت اور محفوظیت میں مثل قرآن بنا سکتے ہیں.(ازالہ اوھام -ر خ- جلد 3 صفحہ 616-615) منصب حدیث الحق مباحثہ لدھیانہ.ر.خ.جلد 4 صفحہ 107) وَمَا الكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.(الحشر 8) مَا الكُمُ الرَّسُول کا حکم بغیر کسی قید اور شرط کے نہیں.اول یہ تو دیکھ لینا چاہیئے کہ کوئی حدیث فی الواقع ما اتکم میں داخل ہے یا نہیں.ما اتکم میں تو وہ داخل ہوگا جس کو ہم شناخت کر لیں کہ درحقیقت رسول نے اس کو دیا ہے اور جب تک پورے طور پر اطمینان نہ ہو تو کیا یہ جائز ہے کہ حدیث کا نام سننے سے مَا اتکم میں اس کو داخل کر دیں.اب سمجھنا چاہیئے کہ گوا جمالی طور پر قرآن شریف اکمل دائم کتاب ہے مگر ایک حصہ کثیرہ دین کا اور طریقہ عبادات وغیرہ کا مفصل اور مبسوط طور پر احادیث سے ہی ہم نے لیا ہے اور اگر احادیث کو ہم بکلی ساقط الاعتبار سمجھ لیں تو پھر اس قدر بھی ثبوت دینا ہمیں مشکل ہو گا کہ در حقیقت حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما وعثمان ذوالنورین اور جناب علی مرتضی کرم اللہ وجہہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور امیر المومنین تھے اور وجود رکھتے تھے صرف فرضی نام نہیں کیونکہ قرآن کریم میں ان میں سے کسی کا نام نہیں.ہاں اگر کوئی حدیث قرآن شریف کی کسی آیت سے صریح مخالف و مغائر پڑے مثلاً قرآن شریف کہتا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا اور حدیث یہ کہے کہ فوت نہیں ہوا تو ایسی حدیث مردود اور نا قابل اعتبار ہوگی لیکن جو حدیث قرآن شریف کے مخالف نہیں بلکہ اس کے بیان کو اور بھی بسط سے بیان کرتی ہے وہ بشر طیکہ جرح سے خالی ہو قبول کرنے کے لائق ہے.پس یہ کمال درجہ کی بے نصیبی اور بھاری غلطی ہے کہ یک لخت تمام حدیثوں کو ساقط الاعتبار مجھ لیں اور ایسی متواتر پیشگوئیوں کو جو خیر القرون میں ہی تمام ممالک اسلام میں پھیل گئی تھیں اور مسلمات میں سے سمجھی گئی تھیں بعد موضوعات داخل کر دیں.(ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 400)
445 حدیث اور سنت میں فرق صراط مستقیم یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدائتیوں پر قائم ہونے کے لیے تین چیزیں ہیں (۱) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے.(۲) دوسری سنت اور اس جگہ ہم اہل حدیث کی اصطلاحات سے الگ ہوکر بات کرتے ہیں یعنی ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اور سنت الگ چیز.سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادت اللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لیے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں.(۳) تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصوں کے رنگ میں آنحضرت سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کیے گئے ہیں.سنت صحیحہ معلوم کرنے کا طریق ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی رخ.جلد 19 صفحہ 210-209) جب اسلام کے فرقوں میں اختلاف ہے تو سنت محمہ کیسے معلوم ہو؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ :.قرآن شریف احادیث اور ایک قوم کے تقوی طہارت اور سنت کو جب ملایا جاوے تو پھر پتہ لگ جاتا ہے کہ اصل سنت کیا ہے.صحابہ علماء سلف اور محدثین کا مذہب ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 265) اگر یہ کہا جائے کہ ہم یہ تحریفات و تبدیلات بلا ضرورت نہیں کرتے بلکہ آیات قرآنی کو بعض احادیث سے مطابق و موافق کرنے کے لئے بوجہ اشد ضرورت اس حرکت بے جا کے مرتکب ہوتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو آیت اور حدیث میں باہم تعارض واقع ہونے کی حالت میں اصول مفسرین و محدثین یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو حدیث کے معنوں میں تاویل کر کے اس کو قرآن کریم کے مطابق کیا جائے.جیسا کہ صحیح بخاری کی کتاب الجنائز صفحہ 172 میں صاف لکھا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے حدیث ان الميت يعذب ببعض بكاء اهله کو قرآن کریم کی اس آیت سے کہ لا تزر وازرة وزر اخرى (الانعام: 165) معارض و مخالف پا کر حدیث کی یہ تاویل کر دی کہ یہ مومنوں کے متعلق نہیں.بلکہ کفار کے متعلق ہے جو متعلقین کے جزع فزع پر راضی تھے بلکہ وصیت کر جاتے تھے پھر بخاری کے صفحہ 183 میں یہ حدیث جو لکھی ہے.قال هل وجد تم ما وعد كم ربكم حقا.اس حدیث کو حضرت عائشہ صدیقہ نے اس کے سیدھے اور حقیقی معنی کے رو سے قبول نہیں کیا اس عذر سے کہ یہ
446 قرآن کریم کے معارض ہے.اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے انک لا تسمع الموتى (النمل : 81) اور ابن عمر کی حدیث کو صرف اسی وجہ سے رد کر دیا ہے کہ ایسے معنے معارض قرآن ہیں.دیکھو بخاری صفحہ 183.ایسا ہی محققوں نے بخاری کی اس حدیث کو جو صفحہ 652 میں لکھی ہے یعنی یہ کہ مـا مـن مـولـوديـولـدالا و الشيطن يمسه حين يولد الامريم وابنها.قرآن کریم کی ان آیات سے مخالف پا کر کہ الا عبادك منهم المخلصين (الحجر: 41 ان عبادی لیس لک عليهم سلطان (الحجر : 43) و سلام عليه يوم ولد (مریم: 16) اس حدیث کی یہ تاویل کر دی کہ ابن مریم اور مریم سے تمام ایسے اشخاص مراد ہیں جو ان دونوں کی صفت پر ہوں جیسا کہ شارح بخاری نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے.قد طعن الزمخشرى فى معنى هذا الحديث و توقف فى صحته وقال ان صح فمعتاه كل من كان في صفتهما لقوله تعالى الا عبادك منهم المخلصين یعنی علامہ زمخشری نے بخاری کی اس حدیث میں طعن کیا ہے اور اس کی صحت میں اسکو شک ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث معارض قرآن ہے اور فقط اس صورت میں صحیح متصور ہو سکتی ہے کہ اس کے یہ معنے کئے جاویں کہ مریم اور ابن مریم سے مراد تمام ایسے لوگ ہیں جوان (ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 609 610) کی صفت پر ہوں.مُنِيُبَيِّنَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَاَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَلاَ تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ.(الروم : 32) تفسیر حسینی میں زیر تفسیر آیت وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَلاَ تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ لکھا ہے کہ کتاب تیسیر میں شیخ محمد ابن اسلم طوسی سے نقل کیا ہے کہ ایک حدیث مجھے پہنچی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”جو کچھ مجھ سے روایت کرو پہلے کتاب اللہ پر عرض کر لو اگر وہ حدیث کتاب اللہ کے موافق ہو تو وہ حدیث میری طرف سے ہوگی ورنہ نہیں.سو میں نے اس حدیث کو کہ مَنْ تَرَكَ الصَّلوةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ قرآن سے مطابق کرنا چاہا اور تمیں سال اس بارہ میں فکر کرتا رہا مجھے یہ آیت ملی وَاقِیمُوا الصَّلوةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ الحق مباحثہ لدھیانہ.ر.خ.جلد 4 صفحہ 40) إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ.(الحجر: (41) اسلام میں کفر.بدعت.الحاد.زندقہ وغیرہ.اسی طرح سے آئے ہیں کہ ایک شخص واحد کے کلام کو اس قدر عظمت دی گئی.جس قدر کہ کلام الہی کو دی جانی چاہیئے تھی.صحابہ کرام اسی لیے احادیث کو قرآن شریف سے کم درجہ پر مانتے تھے.ایک دفعہ حضرت عمر فیصلہ کرنے لگے تو ایک بوڑھی عورت نے اُٹھ کر کہا.حدیث میں یہ لکھا ہے.تو آپ نے فرمایا کہ میں ایک بڑھیا کے لیے کتاب اللہ کو ترک نہیں کر سکتا.اگر ایسی ایسی باتوں کو جن کے ساتھ وحی کی کوئی مدد نہیں وہی عظمت دی جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسیح کی حیات کی نسبت جو اقوال ہیں ان کو بھی بیچ مان لیا جاوے حالانکہ وہ قرآن شریف کے بالکل مخالف ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحه 520)
447 قرآن اور حدیث میں اختلاف ضروری امر تو صرف اسی قدر ہے کہ ہر یک حدیث مخالف ہونے کی حالت میں قرآن کریم پر پیش کرنی چاہیئے.چنانچہ یہ امر ایک مشکوۃ کی حدیث سے بھی حسب منشاء ہمارے بخوبی طے ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے.و ان الحارث الاعور قال مررت في المسجد فاذا الناس يخوضون في الاحاديث فدخلت على عـلـى فاخبرته فقال اوقد فعلوها قلت نعم قال اما اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم.يقول الا انها ستكون فتنة قلت ما المخرج منها يا رسول الله قال كتاب الله فيه خبر ما قبلكم و خبر ما بعد كم و حكم ما بينكم هو الفضل ليس بالهزل من تركه من جبار قصمه الله و من ابتغى الهدى في غيره اضله الله و هو حبل الله المتين من قال به صدق و من عمل به اجر و من حكم به عدل و من دعا اليه هدى الى صراط مستقیم یعنی روایت ہے حارث اعور سے کہ میں مسجد میں جہاں لوگ بیٹھے تھے اور حدیثوں میں خوض کر رہے تھے گزرا.سو میں یہ بات دیکھ کر کہ لوگ قرآن کو چھوڑ کر دوسری حدیثوں میں کیوں لگ گئے.علی کے پاس گیا اور اسکو جا کر یہ خبر دی.علی نے مجھے کہا کہ کیا سچ مچ لوگ احادیث کے خوض میں مشغول ہیں اور قرآن کو چھوڑ بیٹھے ہیں میں نے کہا ہاں تب علی نے مجھے کہا کہ یقینا سمجھ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ عنقریب ایک فتنہ ہوگا یعنی دینی امور میں لوگوں کو غلطیاں لگیں گی.اور اختلاف میں پڑینگے اور کچھ کا کچھ سمجھ بیٹھیں گے تب میں نے عرض کی کہ اس فتنہ سے کیونکر رہائی ہوگی تب آپ نے فرمایا کہ کتاب اللہ کے ذریعہ سے رہائی ہوگی اسمیں تم سے پہلوں کی خبر موجود ہے اور آنیوالے لوگوں کی بھی خبر ہے اور جو تم میں تنازعات پیدا ہوں انکا میں فیصلہ موجود ہے وہ قول فصل ہے.ہنزل نہیں جو شخص اسکے غیر میں ہدایت ڈھونڈیگا اور اس کو حکم نہیں بنائی گا خدا تعالیٰ اس کو گمراہ کر دیگا.وہ حبل اللہ المتین ہے جس نے اس کے حوالہ سے کوئی بات کہی.اس نے سچ کہا.اور جس نے اسپر عمل کیا وہ ماجور ہے.اور جس نے اس رو سے حکم کیا.اس نے عدالت کی.اور جس نے اس کی طرف بلایا اس نے راہ راست کی طرف بلایا.رواہ الترمذی والدار می.اب ظاہر ہے کہ اس حدیث میں صاف اور صریح طور پر خبر دی گئی ہے کہ اس وقت میں فتنہ ہو جائے گا.اور لوگ طرح طرح کی ہدایت نکال لیں گے.اور انواع و اقسام کے اختلافات اس وقت میں باہم پڑ جائیں گے.تب اس فتنہ سے مخلصی پانے کے لئے قرآن کریم ہی دلیل ہوگا.الحق مباحثہ لدھیانہ جلد 4 صفحہ 39)
448 سچی اور صحیح حدیث کی پہچان کسوف و خسوف والی حدیث کی صداقت میں یہ بھی تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس زمانہ کی تمام نبیوں نے خبر دی ہے.یہ آخری ہزار کا زمانہ آ گیا ہے اور دیکھو یہ وقت ہے جس کے لیے گیارہ سو برس پہلے کی کتابوں میں لکھا تھا کہ مہدی کے وقت رمضان میں کسوف خسوف ہوگا اور آدم سے لے کر اس وقت تک کبھی یہ نشان ظاہر نہیں ہوا.وہ نشان تم نے دیکھ لیا.پھر یہ کیسی قابل غور بات ہے.بعض جاہل اعتراض کرتے اور بہانہ بناتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے.احمق اتنا نہیں جانتے کہ جس حدیث نے اپنے آپ کو سچا کر دیا ہے وہ کیسے جھوٹ ہو سکتی ہے.محدثین کے اصول کے مطابق سچی اور صحیح حدیث تو وہی ہے جو اپنی سچائی آپ ظاہر کر دے.اگر یہ حدیث ضعیف ہوتی تو پھر پوری کیوں ہوتی ؟ دو مرتبہ کسوف خسوف ہوا.اس ملک میں بھی اور امریکہ میں بھی.اگر یہ حدیث ضعیف ہے تو پھر اس کی مثال پیش کریں کہ کسی اور کے زمانہ میں بھی ہوا ہو؟ یہ حدیث اہل سنت اور شیعہ دونوں کے ہاں کتابوں میں موجود ہے.پھر اس سے انکار کیونکر کیا جاسکتا ہے.یہ آسمان کا نشان تھا.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 668) احادیث کی تصحیح و تغلیط بذریعہ کشف احادیث کے متعلق خود یہ تسلیم کر چکے ہیں.خصوصاً مولوی محمد حسین اپنے رسالہ میں شائع کر چکا ہے کہ اہل کشف احادیث کی صحت بذریعہ کشف کرلیتے ہیں اور اگر کوئی حدیث محد ثین کے اصولوں کے موافق صیح بھی ہو تو اہل کشف اسے موضوع قرار دے سکتے ہیں اور موضوع کو صیح ٹھہر اسکتے ہیں.جس حال میں اہل کشف احادیث کی صحت کے اس معیار کے پابند نہیں جو محدثین نے مقرر کیا ہے بلکہ وہ بذریعہ کشف ان کی صحیح قرار دادہ احادیث کو موضوع ٹھہرانے کا حق رکھتے ہیں تو پھر جس کو حکم بنایا گیا ہے کیا اس کو یہ حق حاصل نہیں ہو گا ؟ خدا تعالیٰ جو اس کا نام حکم رکھتا ہے یہ نام ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ سارا رطب و یا بس جو اس کے سامنے پیش کی جاوے گا تسلیم نہیں کریگا بلکہ بہت سی باتوں کو ر ڈ کر دے گا اور جو صحیح ہونگی ان کے بیچ ہونے کا وہ فیصلہ دے گا اور نہ حکم کے معنے ہی کیا ہوئے؟ جب اس کی کوئی بات مانی ہی نہیں تو اس کے حکم ہونے سے فائدہ کیا ؟ ( ملفوظات جلد سوم صفحه 21-20) کیا آپ اس بات کو سمجھ نہیں سکتے کہ جس کو خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے فہم قرآن عطا کرے اور تفہیم الہی سے وہ مشرف ہو جاوے اور اسپر ظاہر کر دیا جائے کہ قرآن کریم کی فلاں آیت سے فلاں حدیث مخالف ہے اور یہ علم اس کا کمال یقین اور قطعیت تک پہنچ جائے تو اس کیلئے یہی لازم ہوگا کہ حتی الوسع اول ادب کی راہ سے اس حدیث کی تاویل کر کے قرآن شریف سے مطابق کرے.اور اگر مطابقت محالات میں سے ہوا اور کسی صورت سے نہ ہو سکے تو بدرجہ نا چاری اس حدیث کے غیر صحیح ہونے کا قائل ہو.کیونکہ ہمارے لئے یہ بہتر ہے کہ ہم بحالت مخالفت قرآن شریف حدیث کی تاویل کی طرف رجوع کریں.الحق مباحثہ لدھیانہ.ر-خ- جلد 4 صفحہ (21)
449 صحت حدیث اور حکم و عدل کا فیصلہ مسیح موعود بطور حکم و عدل حکم کا لفظ صاف ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت اختلاف ہوگا اور 73 فرقے موجود ہوں گے اور ہر فرقہ اپنے مسلمات کو جو اس نے بنا رکھے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ جھوٹے ہیں یا خیالی چھوڑ نا نہیں چاہتا بلکہ ہر ایک اپنی جگہ یہ چاہے گا کہ اس کی بات ہی مانی جاوے اور جو کچھ وہ پیش کرتا ہے وہ سب کچھ تسلیم کر لیا جاوے.ایسی صورت میں اس حکم کو کیا کرنا ہوگا.کیا وہ سب کی باتیں مان لے گا یا یہ کہ بعض رد کر یگا اور بعض کو تسلیم کرے گا.غیر مقلد تو راضی نہیں ہو گا جب تک اس کی پیش کردہ احادیث کا سارا مجموعہ وہ مان نہ لے اور ایسا ہی حنفی معتزلہ شیعہ وغیرہ کل فرقے تو تب ہی اس سے راضی ہوں گے کہ وہ ہر ایک کی بات تسلیم کرے اور کوئی بھی رد نہ کرے اور یہ ناممکن ہے.اگر یہ ہو کہ کوٹھڑی میں بیٹھا رہے گا اور اگر شیعہ اس کے پاس جائیگا تو اندر ہی اندر مخفی طور پر اسے کہ دیگا کہ تو سچا ہے اور پھر سنی اس کے پاس جائیگا تو اس کو کہ دیگا کہ تو سچا ہے.تو پھر تو بجائے حکم ہونے کے وہ پکا منافق ہوا اور بجائے وحدت کی روح پھونکنے کے اور سچا اخلاص پیدا کرنے کے وہ نفاق پھیلانے والا ٹھہرا.مگر یہ بالکل غلط ہے.آنے والا موعود حکم واقعی حکم ہوگا.اسکا فیصلہ قطعی اور یقینی ہے.ایک نقل مشہور ہے کہ کسی عورت کی دو لڑکیاں تھیں ایک بیٹ میں بیاہی ہوئی تھی اور دوسری بانگر میں اور وہ ہمیشہ یہ سوچتی رہتی تھی کہ دو میں سے ایک ہے نہیں اگر بارش زیادہ ہوگئی تو بیٹ والی نہیں ہے اور اگر نہ ہوئی تو بانگر والی نہیں ہے.یہی حال حکم کے آنے پر ہونا چاہیئے.وہ خودساختہ اور موضوع باتوں کو رد کر دیگا اور سچ کو لے گا.یہی وجہ ہے کہ اس کا نام حکم رکھا گیا ہے.اسی لیے آثار میں آیا ہے کہ اس پر کفر کا فتوی دیا جاوے گا کیونکہ وہ جس فرقہ کی باتوں کو رد کریگا وہی اس پر کفر کا فتوی دیگا.یہانتک کہا ہے کہ مسیح موعود کے نزول کے وقت ہر ایک شخص اُٹھ کر کھڑا ہوگا اور منبر پر چڑھ کر کہے گا.ان هذا الرَّجُلُ غَيَّرَ دِينَنَا.اس شخص نے ہمارے دین کو بدل دیا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت اس امر کا ہوگا کہ وہ بہت سی باتوں کو رڈ کر دیگا جیسا کہ اس کا منصب اس کو اجازت دیگا.غرض اس بات کو سرسری نظر سے ہرگز نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ غور کرنا چاہیئے کہ حکم عدل کا آنا اور اس کا نام دلالت کرتا ہے کہ وہ اختلاف کے وقت آئے گا اور اس اختلاف کو مٹائے گا.ایک کورد کریگا اور اندرونی غلطیوں کی اصلاح کریگا.وہ اپنے نور فراست اور خدا تعالیٰ کے اعلام والہام سے بعض ڈھیروں کے ڈھیر جلا دیگا اور پکی اور محکم باتیں رکھ لے گا.جب یہ مسلم امر ہے تو پھر مجھ سے یہ امید کیوں کی جاتی ہے کہ میں ان کی ہر بات مان لوں قطع نظر اس کے کہ وہ بات غلط اور بیہودہ ہے.اگر میں ان کا سارا رطب و یابس مان لوں تو پھر میں حکم کیسے ٹھہر سکتا ہوں؟ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 22-21)
450 حضرت اقدس کا مذہب مجھ کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی اشاعت کے لئے مامور کیا ہے تا میں جو ٹھیک ٹھیک منشاء قرآن کریم کا ہے لوگوں پر ظاہر کروں.اور اگر اس خدمتگذاری میں علماء وقت کا میرے پر اعتراض ہو اور وہ مجھکو فرقہ ضالہ نیچریہ کی طرف منسوب کریں تو میں ان پر کچھ افسوس نہیں کرتا.بلکہ خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ وہ بصیرت انہیں عطا فرمادے جو مجھے عطا فرمائی ہے.نیچریوں کا اول دشمن میں ہی ہوں اور ضرور تھا کہ علماء میری مخالفت کرتے کیونکہ بعض احادیث کا یہ منشا پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود د جب آئیگا تو علما اسکی مخالفت کرینگے اسی کی طرف مولوی صدیق حسن صاحب مرحوم نے آثار القیامہ میں اشارہ کیا ہے اور حضرت مجدد صاحب سرہندی نے بھی اپنی کتاب کے صفحہ (۱۰۷) میں لکھا ہے کہ مسیح موعود جب آئیگا تو علماء وقت اسکو اہل الرائے کہینگے یعنی یہ خیال کرینگے کہ یہ حدیثوں کو چھوڑتا ہے اور صرف قرآن کا پابند ہے اور اسکی مخالفت پر آمادہ ہو جا ئینگے وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.غلام احمد قادیانی 21 جولائی 1891 ( الحق مباحثہ لدھیانہ..خ.جلد 4 صفحہ 30) جماعت کو نصیحت ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہیئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنی درجہ کی حدیث ہوا سپر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اسکوترجیح دیں.اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حفی پر عمل کر لیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی سچے فتوئی نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا دادا اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اس حدیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اس حدیث کو چھوڑ دیں.یادرکھیں کہ ہماری جماعت بہ نسبت عبداللہ کے اہلحدیث سے اقرب ہے اور عبد اللہ چکڑالوی کے بیہودہ خیالات سے ہمیں کچھ بھی مناسبت نہیں.ہر ایک جو ہماری جماعت میں ہے اسے یہی چاہیئے کہ وہ عبداللہ چکڑالوی کے عقیدوں سے جو حدیثوں کی نسبت وہ رکھتا ہے بدل منتظر اور بیزار ہو.اور ایسے لوگوں کی صحبت سے حتی الوسع نفرت رکھیں کہ یہ دوسرے مخالفوں کی نسبت زیادہ بر بادشدہ فرقہ ہے.اور چاہیئے کہ نہ وہ مولوی محمد حسین کے گروہ کی طرح حدیث کے بارہ میں افراط کی طرف جھکیں اور نہ عبداللہ کی طرح تفریط کی طرف مائل ہوں بلکہ اس بارہ میں وسط کا طریق اپنا مذ ہب سمجھ لیں.یعنی نہ تو ایسے طور سے بکلی حدیثوں کو اپنا قبلہ و کعبہ قرار دیں جس سے قرآن متروک اور مہجور کی طرح ہو جائے.اور نہ ایسے طور سے ان حدیثوں کو معطل اور لغو قرار دیدیں جن سے احادیث نبویہ بلکلی ضائع ہو جائیں.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی-ر-خ- جلد 19 صفحہ 213-212)
451 لوگ مخلوق کو دھوکہ دیتے ہیں اور غلطیوں میں ڈالتے ہیں کہ ہم نے کوئی نیا کلمہ یا نماز تجویز کی ہے.ایسے افتراؤں کا میں کیا جواب دوں.اسی قسم کے افتراؤں سے وہ ایک عاجز انسان مسیح علیہ السلام کو تین خدا بنا بیٹھے.دیکھو.ہم مسلمان ہیں اور امت محمدی ہیں اور ہمارے نزدیک نئی نماز بنانی یا قبلہ سے روگردانی کفر ہے.کل احکام پیغمبری کو ہم مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے حکم کو ٹالنا بھی بدذاتی ہے.اور ہمارا دعویٰ قال اللہ اور قال الرسول کے ماتحت ہے.اتباع نبوی سے الگ ہو کر ہم نے کوئی کلمہ یا نماز یا حج یا ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد نہیں بنائی.ہمارا کام یہ ہے کہ اس دین کی خدمت کریں اور اس کو کل مذاہب پر غالب کر کے دکھا دیں.قرآن شریف کی اور احادیث کی جو پیغمبر خدا سے ثابت ہیں.اتباع کریں ضعیف سے ضعیف حدیث بھی بشر طیکہ وہ قرآن شریف کے مخالف نہ ہو ہم واجب العمل سمجھتے ہیں اور بخاری اور مسلم کو بعد کتاب اللہ اصح الکتب مانتے ہیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 107) میں نے سنا ہے کہ بعض تم میں سے حدیث کو بکلی نہیں مانتے.اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو سخت غلطی کرتے ہیں.میں نے یہ تعلیم نہیں دی کہ ایسا کرو.بلکہ میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں.سب سے اول قرآن ہے.دوسرا ذریعہ ہدایت کا سنت ہے یعنی وہ پاک نمو نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل اور عمل سے دکھلائے مثلاً نماز پڑھ کے دکھلائی کہ یوں نماز چاہیئے.اور روزہ رکھ کر دکھلایا کہ یوں روزہ چاہیئے.اس کا نام سنت ہے یعنی روش نبوی جو خدا کے قول کو فعل کے رنگ میں دکھلاتے رہے.سنت اسی کا نام ہے.تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے جو آپ کے بعد آپ کے اقوال جمع کئے گئے.اور حدیث کا رتبہ قرآن اور سنت سے کمتر ہے کیونکہ اکثر حدیثیں ظنی ہیں.لیکن اگر ساتھ سنت ہو تو وہ اسکو یقینی کر دے گی.منہ (کشتی نوح.ر.خ.جلد 19 صفحہ 26) ہمارا ضرور یہ مذہب ہونا چاہیئے کہ ہم ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول کو قرآن کریم پر عرض کریں تا ہمیں معلوم ہو کہ وہ واقعی طور پر اسی مشکوۃ وحی سے نور حاصل کرنے والے ہیں جس سے قرآن نکلا ہے یا اس کے مخالف ہیں.الحق مباحثہ لدھیانہ.ر-خ- جلد 4 صفحہ 22)
452
باب چہارم 453 فہم قرآن اور عقائد اور مسائل اقسام احکام باری تعالیٰ اوامر کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک امر شرعی ہوتا ہے جس کے بر خلاف انسان کر سکتا ہے دوسرے اوامر کونی ہوتے ہیں جس کا خلاف ہوہی نہیں سکتا جیسا کہ فرمایا قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ (الانبياء : 70) اس میں کوئی خلاف نہیں ہوسکتا.چنانچہ آگ اس حکم کے خلاف ہرگز نہ کر سکتی تھی.انسان کو جو حکم اللہ تعالیٰ نے شریعت کے رنگ میں دئے ہیں نماز کو قائم رکھو یا فرمایا وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ (البقره:46) ان پر جب وہ ایک عرصہ تک قائم رہتا ہے تو یہ احکام بھی شرعی رنگ سے نکل کر کوئی رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور پھر وہ ان احکام کی خلاف ورزی کر ہی نہیں سکتا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 351)
نمبر شمار عنوانات پہلی فصل مسئلہ نبوت 1 تعریف نبوت معانی ختم نبوت نبوت اور رسالت جاری ہے 454 فہرست مضامین صفحہ نمبر شمار 457 458 460 464 عنوانات صفحہ 20 اسلامی جنگوں کی تین وجوہات تھیں 490 21 جہاد دفاع کے لئے تھا 22 جہاد بطور سزا 23 جہاد جرائم پیشہ کے خلاف تھا 491 493 494 4 محد ثیت اور وراثت انبیاء 24 جہاد بغاوت دور کرنے اور 5 حضرت اقدس کے دعاوی و نبوت اور رسالت 466 آزادی مذہب کے لئے تھا 6 حضرت اقدس کی نبوت دراصل نبوت 25 جنگ کی ابتداء کافروں کی تھی محمد یہ ہے 7 معیار صدق دعویٰ دوسری فصل وفات مسیح 8 | حضرت اقدس کا عقیدہ ونزول مسیح کی حقیقت 468 469 470 26 جہاد کا حکم مختص الزمان والوقت تھا 495 497 27 جہاد اور جنگ نہ کرنے کا حکم 499 28 جہاد بالسیف اور حضرت اقدس کی تعلیم 500 10 زمین میں ہر چیز معرض فنا میں ہے 11 جنتی پر دو موتیں نہیں آتیں 471 472 502 29 یہ زمانہ تلوار سے جہاد کا نہیں ہے 30 موجودہ حالت میں مصلح کی ضرورت 503 31 اسلام میں حقیقی جہاد.نفسوں کو پاک کرنے کا جہاد 12 وفات مسیح آیات قرآنیہ کے اعتبار سے 473 32 | معجزات اور خدائی چمک دکھانے کا جہاد 504 13 وفات مسیح.حدیث رسول اللہ کے اعتبار سے 14 تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم کا اجماع اسلام میں جہاد تیسری فصل 15 لفظ جہاد کے لفظی معانی 16 جہاد کے حقیقی معانی 17 اسلام صلح اور امن کا دین ہے 18 اسلام میں جبر و اکراہ نہیں ہے 19 اسلام میں جہاد کی ضرورت 480 483 484 // // 486 489 اسلام کی برکات اور انوار سے جہاد 34 معجزات اور نشان دکھا کر 35 قلم سے جہاد // 505 506 36 اسلام کے جہاد پر اعتراضات کا جواب 507 37 | اسلامی جہاد اور لونڈیاں 38 | اسلام کا خدا تمام عبادت خانوں کا حامی اور محافظ ہے 509 39 جو حکومت شریعت کے خلاف حکم نہیں دیتی اس کی اطاعت لازم ہے 510
455 عنوانات چوتھی فصل وحی والہام 40 تعریف الهام 41 | الہام کا مادہ ہر انسان میں ہے 42 الہام کا حقیقی منصب 43 الہام قابل تعبیر ہوتا ہے 44 الہام اور اجتہادی غلطی صفحہ نمبر شمار 511 512 // 513 عنوانات صفحہ پانچویں فصل معجزات 65 تعریف معجزه 66 | معجزات کے تین اقسام 67 معجزات اور اسباب 68 حقیقی معجزه 69 معجزات اور خوارق 527 "/ 528 529 45 الہام پانے کی خواہش غلط ہے 46 وحی صرف مسلمان کو ہو سکتی ہے // 70 پیشگوئی اور نشان 71 پیشگوئی کا منصب 47 الہام بجز موافقت قرآن کے حجت نہیں ہے 514 72 | پیشگوئی.تعریف اور اقسام 48 اقسام کلام الہی 49 اکمل اور اتم وحی والہام 50 حدیث النفس اور شیطانی القاء 51 کیفیات نزول وحی والہام 52 کلام الہی اور الہام میں فرق 53 حضرت اقدس کا مکالمہ و مخاطبہ 54 | خصوصیات الہام مامورین 55 الهام مامورین 56 الہام اور اس کی ضرورت 57 الہام جاری ہے // 515 // 516 517 518 // 519 520 58 الہام جاری ہے.قانون قدرت کے اعتبار سے 521 59 الہام اور یقین 522 60 حضرت اقدس کا الہام اور وحی یقینی ہے 523 61 الہام اور دستور خداوندی 62 بچے الہام کی پہچان 63 الہام اور خدا کی فعلی شہادت 64 کثرت مکالمه مخاطبه 524 525 526 // 530 "/ 532 73 مفتری کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی 533 74 | مفتری کی پیشگوئی اس پر ہی پڑتی ہے 75 ظہور پیشگوئی کا وقت نہیں بتایا جاتا 76 | پیشگوئی کا صدق اس کے ظاہر ہونے پر قائم ہوتا ہے // 534 77 پیشگوئی اور نشان خدا کے ہاتھ میں ہے 535 78 | حضرت اقدس کی پیشگوئی 79 معراج صحیح مذہب 80 معراج روحانی بیداری میں ہوا 536 // 1 معراج آنحضرت کا روحانی مقام تھا 1537 82 معراج مکانی اور زمانی چھٹی فصل 83 | جنت دوزخ 84 | تعریف جنت دوزخ 85 کیفیات جنت 539 "/ 540 541 86 حقیقت نعماء جنت 87 مومن فوراً جنت میں داخل ہو جاتا ہے 542 نور جنت میں داخ
456 نمبر شمار عنوانات 88 دوزخی فوراً دوزخ میں جائے گا 89 عالم برزخ 90 جہنم دائی نہیں 91 | جزا سزا...رحمت باری عام ہے 92 جزا سزا کا فلسفہ 93 عذاب کیوں آتا ہے صفحہ نمبر شمار عنوانات ساتویں فصل شادی ، مہر اور طلاق 542 543 // 104 مہر 105 تعددازدواج 106 تعددازدواج میں عدل 544 107 دوسری شادی کی اجازت | 545 | 108 | طلاق.موجبات طلاق 94 عذاب انبیاء کے انکار سے آتا ہے 546 109 طلاق سے پر ہیز کرو 95 خدا کی ناراضگی ان پر ہوتی ہے جن پر 110 عورت کو ضلع کی اجازت ہے فضل وعنایات ہوں 96 خدا کے حضور توبہ 97 انبیاء کا استغفار 98 | ذنب انبیاء 99 | عصمت انبیاء 100 روح 101 روح فانی ہے 547 // // 548 // 549 102 صحت مند جسم میں صحت مند روح ہوتی ہے 550 103 | روح سے ملاقات 111 ناموافقت میں صلح کے لئے حکم کا قیام 112 مسئلہ سود.....اجتہادی مسئلہ ہے 113 سود کی تعریف 114 | اگر محنت میں شراکت ہو تو وہ آمد سود نہیں ہے صفحہ 551 552 553 554 555 556 "/ 557 558 // 115 اگر حکومت نفع دیتی ہے تو وہ سود نہیں 559 116 سود حرام ہے 117 سودی اموال اشاعت دین کے لئے جائز ہیں 118 انشورنس اور بیمہ 560 561 " 119 اسلامی فنڈ کا قیام
457 پہلی فصل مسئلہ نبوت تعریف نبوت وَدَاعِيًا إِلَى اللهِ بِاِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُّبِيرًا.(الاحزاب :47) انبیاء نجمله سلسله متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہو گئے ہیں اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے جیسا فرمایا ہے.قَدْ جَانَكُمْ مِنَ اللهِ نُورٌ وَّ كِتَابٌ مُّبِينٌ الجزونمبر 6 وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا منيرا الجز نمبر 22 یہی حکمت ہے کہ نو روحی جس کے لئے نور فطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہونا شرط ہے صرف انبیاءکو ملا اور انہیں سے مخصوص ہوا.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 196 حاشیہ ) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ وَ كَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا.(الاحزاب: 41) نبوت کے معنی اظہار ا مرغیب ہے اور نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے یعنی عبرانی میں اسی لفظ کو نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ نابا سے مشتق ہے جس کے یہ معنے ہیں خدا سے خبر پا کر پیشگوئی کرنا.اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.ایک غلطی کا ازالہ.ر.خ.جلد 18 صفحہ 210-209) نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کالا نا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو.پس ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے سے کوئی محذور لازم نہیں آتا بالخصوص اس حالت میں کہ وہ امتی اپنے اس نبی متبوع سے فیض پانے والا ہو بلکہ فساد اس حالت میں لازم آتا ہے کہ اس امت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک مکالمات الہیہ سے بے نصیب قرار دیا جائے.وہ دین دین نہیں ہے اور نہ وہ نبی نبی ہے جس کی متابعت سے انسان خدا تعالیٰ سے اس قدر نزدیک نہیں ہوسکتا کہ مکالمات الہیہ سے مشرف ہو سکے.(براہین احمدیہ.رخ.جلد 21 صفحہ 306) عَالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ اَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ....الاخر (الجن: 27 28) نبی کے معنے لغت کی رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا.پس جہاں یہ معنے صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفی کی خبر اس کو مل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ہے.لاَ يُظهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ - اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان معنوں کی رو سے نبی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب
458 اللہ ظاہر ہونگے بالضرورت اس پر مطابق آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِہ کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.اسی طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے گا اسی کو ہم رسول کہیں گے.فرق درمیان یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک ایسا نبی کوئی نہیں جس پر جدید شریعت نازل ہو یا جس کو بغیر توسط آنجناب اور ایسی فنافی الرسول کی حالت کے جو آسمان پر اس کا نام محمد اور احمد رکھا جائے یونہی نبوت کا لقب عنایت کیا جائے.وَ مَنِ ادَّعى فَقَدْ كَفَرَ.اس میں اصل بھید یہی ہے کہ خاتم النبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پر دہ مغائرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مہر کو توڑنے والا ہو گا جو خاتم النبین پر ہے لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ باعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہوا اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائیگا کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلی طور پر.( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 434-433) معانی ختم نبوت مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا اَحَدٍ مِنْ رَجَالِكُمْ وَ لَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ....الآخر.(الاحزاب: 41) آیت خاتم النبین میں وعدہ دیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں بتفریح بیان کیا گیا ہے کہ اب جبرئیل بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کے لئے وحی نبوت کے لانے سے منع کیا گیا ہے.یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر گز نہیں آ سکتا.(ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 414) یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النبین کے بعد پھر جبرئیل علیہ السلام کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمد ورفت شروع ہو جائے اور ایک نئی کتاب اللہ کو مضمون میں قرآن شریف سے تو ار درکھتی ہو پیدا ہو جائے اور جو امر مستلزم محال ہو وہ محال ہوتا ہے.فتدبر (ازالہ اوہام - ر - خ - جلد 3 صفحہ 414) قرآن کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا خواہ وہ نیا رسول ہو یا پرانا ہو کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبرئیل ملتا ہے اور باب نزول جبرائیل به پیرایہ وحی رسالت مسدود ہے اور یہ بات خود ممتنع ہے کہ دنیا میں رسول تو آوے مگر سلسلہ وحی رسالت نہ ہو.(ازالہ اوہام.رخ.جلد 3 صفحہ 511) الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ.....الاخر.(المائده: 4) ختم نبوت کے متعلق میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ خاتم النبیین کے بڑے معنے یہی ہیں کہ نبوت کے امور کو آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا.یہ موٹے اور ظاہر معنی ہیں دوسرے یہ معنے ہیں کہ کمالات نبوت کا دائرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا.یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ قرآن نے ناقص باتوں کا کمال کیا.اور نبوت ختم ہو گئی اس لیے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ (المائدة: 4) کا مصداق اسلام ہو گیا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 189)
459 یہ ایک مسلم بات ہے کہ کسی چیز کا خاتمہ اس کی علت غائی کے اختتام پر ہوتا ہے.جیسے کتاب کے جب کل مطالب بیان ہو جاتے ہیں تو اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اسی طرح پر رسالت اور نبوت کی علت غائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی اور یہی ختم نبوت کے معنے ہیں.کیونکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلا آیا ہے اور کامل انسان پر آ کر اس کا ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 35) خاتمہ ہو گیا.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَ لَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنِ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ( الاخراب : 41) اس ( خاتم النبین ) کے یہ معنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی صاحب شریعت نہیں آوے گا اور یہ کہ کوئی ایسا نبی آپ کے بعد نہیں آ سکتا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر اپنے ساتھ نہ رکھتا ہو...رئیس المتصو فین حضرت ابن عربی کہتے ہیں کہ نبوت کا بند ہو جانا اور اسلام کا مر جانا ایک ہی بات ہے.دیکھو حضرت موسیٰ کے زمانہ میں تو عورتوں کو بھی الہام ہوتا تھا چنانچہ خود موسیٰ کی ماں سے بھی خدا تعالیٰ نے کلام کیا ہے.وہ دین ہی کیا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ اس کے برکات اور فیوض آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں.اگر اب بھی خدا اسی طرح سنتا ہے جس طرح پہلے زمانہ میں سنتا تھا اور اسی طرح سے دیکھتا ہے جس طرح پہلے دیکھتا تھا تو کیا وجہ ہے کہ جب پہلے زمانہ میں سنے اور دیکھنے کی طرح صفت تنظم بھی موجود تھی تو اب کیوں مفقود ہوگئی.اگر ایسا ہی ہے تو کیا اندیشہ نہیں کر کسی وقت خدا تعالیٰ کی صفت سنے اور دیکھنے کی بھی معزول ہو جاوے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 566-565) یادر ہے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحب شریعت ہو یا بلا واسطہ متابعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی پا سکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے اور متابعت نبوی سے نعمت وحی حاصل کرنے کے لئے قیامت تک دروازے کھلے ہیں وہ وحی جو اتباع کا نتیجہ ہے کبھی منقطع نہیں ہوگی مگر نبوت شریعت والی یا نبوت مستقلہ منقطع ہو چکی ہے.ولا سبيل اليها الى يوم القيامة و من قال انى لست من امة محمد صلى الله عليه وسلم و ادعی انه نبى صاحب الشريعة او من دون الشريعة و ليس من الامة فمثله كمثل رجل غمره السيل المنهمر فالقاه وراءه ولم يغا درحتى مات..ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی-ر خ- جلد 19 صفحہ 214-213) إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ.فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ.(الكوثر:2تا 4) یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا.اِنَّا اَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ یہ اس وقت کی بات ہے کہ ایک کافر نے کہا کہ آپ کی اولاد نہیں.معلوم نہیں اس نے ابتر کا لفظ بولا تھا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ.تیرا دشمن ہی بے اولا در ہے گا.
460 روحانی طور پر جو لوگ آئیں گے وہ آپ ہی کی اولاد سمجھے جائیں گے اور وہ آپ کے علوم و برکات کے وارث ہوں گے اور اس سے حصہ پائیں گے.اس آیت کو مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنُ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ (الاحزاب: 41) کے ساتھ ملا کر پڑھو تو حقیقت معلوم ہو جاتی ہے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد بھی نہیں تھی تو پھر معاذ اللہ آپ ابتر ٹھہرتے ہیں جو آپ کے اعداء کے لئے ہے اور انا اَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ گوروحانی اولا د کثیر دی گئی ہے.پس اگر ہم یہ اعتقاد نہ رکھیں گے کہ کثرت کے ساتھ آپ کی روحانی اولاد ہوئی ہے تو اس پیشکوئی کے بھی منکر ٹھہریں گے.اس لئے ہر حالت میں ایک بچے مسلمان کو یہ ماننا پڑے گا اور ماننا چاہیئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات قدسی ابدالا باد کے لئے ویسی ہی ہیں جیسی تیرہ سو برس پہلے تھیں.چنانچہ ان تاثیرات کے ثبوت کے لئے ہی خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اب وہی آیات و برکات ظاہر ہورہے ہیں جو اس وقت ہورہے تھے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 39-38) اگر یہ مانا جائے جیسا کہ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ آپ کا نہ کوئی جسمانی بیٹا ہے نہ روحانی.تو پھر اس طرح پر معاذ اللہ یہ لوگ آپ کو ابتر ٹھہراتے ہیں مگر ایسا نہیں.آپ کی شان تو یہ ہے کہ إِنَّا أَعْطَيُنكَ الْكَوْثَرَ.فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ، إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابْتَرُ.نبوت اور رسالت جاری ہے ( ملفوظات جلد دوم صفحه 317) تمام نبوتیں اور تمام کتابیں جو پہلے گزر چکیں ان کی الگ طور پر پیروی کی حاجت نہیں رہی کیونکہ نبوت محمد یہ ان سب پر مشتمل اور حاوی ہے اور بجز اس کے سب راہیں بند ہیں.تمام سچائیاں جو خدا تک پہنچاتی ہیں اسی کے اندر ہیں.نہ اس کے بعد کوئی نئی سچائی آئے گی اور نہ اس سے پہلے کوئی ایسی سچائی تھی جو اس میں موجود نہیں اس لئے اس نبوت پر تمام نبوتوں کا خاتمہ ہے اور ہونا چاہیئے کیونکہ جس چیز کے لئے ایک آغاز ہے اس کے لئے ایک انجام بھی ہے لیکن یہ نبوت محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے.اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے مکالمہ مخاطبہ کا اس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا مگر اس کا کامل پیر وصرف نبی نہیں کہلا سکتا کیونکہ نبوت کا ملہ تامہ محمدیہ کی اس میں بہتک ہے ہاں امتی اور نبی دونوں لفظ اجتماعی حالت میں اس پر صادق آسکتے ہیں کیونکہ اس میں نبوت تامہ کاملہ محمدیہ کی بہتک نہیں بلکہ اس نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ تر ظاہر ہوتی ہے اور جبکہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا
461 اتفاق ہے.پس یہ ممکن نہ تھا کہ وہ قوم جس کے لئے فرمایا گیا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : 111) اور جن کے لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحه : 6,7) ان کے تمام افراد اس مرتبہ عالیہ سے محروم رہتے اور کوئی ایک فرد بھی اس مرتبہ کو نہ پاتا اور ایسی صورت میں صرف یہی خرابی نہیں تھی کہ امت محمدیہ ناقص اور نا تمام رہتی اور سب کے سب اندھوں کی طرح رہتے بلکہ یہ بھی نقص تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت فیضان پر داغ لگتا تھا اور آپ کی قوت قدسیہ ناقص ٹھہر تی تھی اور ساتھ اس کے وہ دعا جس کا پانچ وقت نماز میں پڑھنا تعلیم کیا گیا تھا اس کا سکھلا نا بھی عبث ٹھہرتا تھا مگر اس کے دوسری طرف یہ خرابی بھی تھی کہ اگر یہ کمال کسی فردامت کو براہ راست بغیر پیروی نور نبوت محمدیہ کے مل سکتا تو ختم نبوت کے معنے باطل ہوتے تھے.پس ان دونوں خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مکالمہ مخاطبہ کاملہ نامہ مطہرہ مقدسہ کا شرف ایسے بعض افراد کو عطا کیا جو نانی الرسول کی حالت تک اتم درجہ تک پہنچ گئے اور کوئی حجاب درمیان نہ رہا اور امتی ہونے کا مفہوم اور پیروی کے معنے اتم اور اکمل درجہ پر ان میں پائے گئے.ایسے طور پر کہ ان کا وجود اپنا وجود نہ رہا بلکہ ان کے محویت کے آئینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود منعکس ہو گیا اور دوسری طرف اتم اور اکمل طور پر مکالمه مخاطبہ الہیہ نبیوں کی طرح ان کو نصیب ہوا.(رسالہ الوصیت.رخ.جلد 20 صفحہ 312-311) زبان عرب میں لکن کا لفظ استدراک کے لئے آتا ہے یعنی جو امر حاصل نہیں ہو سکا.اس کے حصول کی دوسرے پیرا یہ میں خبر دیتا ہے جس کے رو سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی نرینہ اولاد کوئی نہیں تھی مگر روحانی طور پر آپ کی اولاد بہت ہوگی اور آپ تنبیوں کے لئے مہر ٹھہرائے گئے ہیں یعنی آئندہ کوئی نبوت کا کمال بجز آپ کی پیروی کی مہر کے کسی کو حاصل نہیں ہوگا.(چشمہ مسیحی.رخ.جلد 20 صفحہ 389-388) نبوت جو اللہ تعالیٰ نے اب قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حرام کی ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اب اس امت کو کوئی خیر و برکت ملے گی نہیں اور نہ اس کو شرف مکالمات اور مخاطبات ہوگا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے سوائے اب کوئی نبوت نہیں چل سکے گی.اس امت کے لوگوں پر جو نبی کا لفظ نہیں بولا گیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے بعد تو نبوت ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عالیجناب اولوالعزم صاحب شریعت کمال آنے والے تھے اسی وجہ سے ان کے واسطے یہ لفظ جاری رکھا گیا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چونکہ ہر ایک قسم کی نبوت بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بند ہو چکی تھی اس واسطے ضروری تھا کہ اس کی عظمت کی وجہ سے وہ لفظ نہ بولا جاتا.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ ابَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَ لكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ.(الاحزاب: 41) (ملفوظات جلد سوم صفحہ 248)
462 وَ إِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ.(فاطر:25) ہمارے اصول کی رو سے وہ ( اللہ تعالیٰ ) رب العالمین ہے اور اس نے اناج ہوا پانی روشنی وغیرہ سامان تمام مخلوق کے واسطے بنائے ہیں.اسی طرح سے وہ ہر ایک زمانہ میں ہر ایک قوم کی اصلاح کے واسطے وقتا فوقتا مصلح بھیجتارہا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے وَ اِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِیر خدا تعالیٰ ) تمام دنیا کا خدا ہے کسی خاص قوم سے اس کا کوئی رشتہ نہیں.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 619) اسلام ایک زندہ مذہب ہے.اسلام کا خدا حی و قیوم خدا ہے پھر وہ مردوں سے پیار کیوں کرنے لگا.وہ حی و قیوم خدا تو بار بار مردوں کو جلاتا ہے يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الروم:20) تو کیا مردوں کے ساتھ تعلق پیدا کرا کر جلاتا ہے.نہیں.ہرگز نہیں.اسلام کی حفاظت کا ذمہ اسی کی و قیوم خدا نے إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (الحجر: 10) کہہ کر اٹھایا ہوا ہے.پس ہر زمانہ میں یہ دین زندوں سے زندگی پاتا ہے اور مر دوں کو جلاتا ہے.یادر کھو اس میں قدم قدم پر زندے آتے ہیں پھر فرمایا ثُمَّ فُصِّلَتْ.ایک تو وہ تفصیل ہے جو قرآن کریم میں ہے.دوسری یہ کہ قرآن کریم کے معارف و حقائق کے اظہار کا سلسلہ قیامت تک دراز کیا گیا ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 346) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ....اگر یہ امت پہلے نبیوں کی وارث نہیں اور اس انعام میں سے ان کو کچھ حصہ نہیں تو یہ دعا کیوں سکھلائی گئی.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 104 حاشیہ ) إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ.....الاخر (القدر : 2 تا 6) اس ارحم الراحمین کی یوں عادت ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال تک پہنچ جاتی ہے اور خط تاریکی کا اپنے انتہائی نقطہ پر جا ٹھہرتا ہے یعنی اس غایت درجہ پر جس کا نام باطنی طور پر لیلتہ القدر ہے تب خدا وند تعالیٰ رات کے وقت میں کہ جس کی ظلمت باطنی ظلمت سے مشابہ ہے عالم ظلمانی کی طرف توجہ فرماتا ہے اور اس کے اذن خاص سے ملائکہ اور روح القدس زمین پر اترتے ہیں اور خلق اللہ کی اصلاح کے لئے خدائے تعالیٰ کا نبی ظہور فرماتا ہے تب وہ نبی آسمانی نور پا کر خلق اللہ کو ظلمت سے باہر نکالتا ہے اور جب تک وہ نور اپنے کمال تک نہ پہنچ جائے تب تک ترقی پر ترقی کرتا جاتا ہے اور اسی قانون کے مطابق وہ اولیاء بھی پیدا ہوتے ہیں کہ جو ارشاد اور ہدایت خلق کے لئے بھیجے جاتے ہیں کیونکہ وہ انبیاء کے وارث ہیں سوان کے نقش قدم پر چلائے جاتے ہیں.اب جاننا چاہیئے کہ خدائے تعالیٰ نے اس بات کو بڑے پر زور الفاظ سے قرآن شریف میں بیان کیا ہے کہ دنیا کی حالت میں قدیم سے ایک مدوجزر واقع ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا ہے تُولِجُ الَّيْلَ فِى النَّهَارِ وَ تُولِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ (ال عمران : 28) یعنی اے خدا کبھی تو رات کو دن میں اور کبھی دن کو رات میں داخل کرتا ہے یعنی ضلالت کے غلبہ پر ہدایت اور ہدایت کے غلبہ پر ضلالت کو پیدا کرتا ہے.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 645-644)
463 اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا.(الحديد: 18) اگر آسانی پانی نازل ہونا چھوڑ دے تو سب کنوئیں خشک ہو جائیں.اسی طرح پر ہم یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نور قلب ہر انسان کو دیا ہے اور اس کے دماغ میں عقل رکھی ہے جس سے وہ بُرے بھلے میں تمیز کرنے کے قابل ہوتا ہے لیکن اگر نبوت کا نور آسمان سے نازل نہ ہو اور یہ سلسلہ بند ہو جاوے تو دماغی عقلوں کا سلسلہ جاتا رہے اور نور قلب پر تاریکی پیدا ہو جاوے اور وہ بالکل کام دینے کے قابل نہ رہے کیونکہ یہ سلسلہ اسی نور نبوت سے روشنی پاتا ہے.جیسے بارش ہونے پر زمین کی روئید گیاں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں اور ہر تخم پیدا ہونے لگتا ہے اسی طرح پر نور نبوت کے نزول پر دماغی اور ذہنی عقلوں میں ایک صفائی اور نور فراست میں ایک روشنی پیدا ہوتی ہے.اگر چہ یہ علی قدر المراتب ہوئی ہے اور استعداد کے موافق ہر شخص فائدہ اٹھاتا ہے خواہ وہ اس امر کومحسوس کرے یا نہ کرے لیکن یہ سب کچھ ہوتا اسی نور نبوت کے طفیل ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 713) كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ.(المجادله:22) خدا مقرر کر چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوتے رہیں گے.یہ آیت بھی ہر ایک زمانہ میں دائر اور عادت مستمرہ الہیہ کا بیان کر رہی ہے.یہ نہیں کہ آئندہ رسول پیدا ہوں گے اور خدا انہیں غالب کرے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ کوئی زمانہ ہو حال یا استقبال یا گذشتہ سنت اللہ یہی ہے کہ رسول آخر کار غالب ہی ہو جاتے ہیں.الحق مباحثہ دہلی - ر - خ - جلد 4 صفحہ 163 ) اَلْيَوْمَ اَكُمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ....الآخر (المائده :4) قرآن کریم میں یہ آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمُ ہے اسی طرح توریت میں بھی آیات ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ نبی اسرائیل کو ایک کامل اور جلالی کتاب دیگئی ہے جس کا نام تو ریت ہے چنانچہ قرآن کریم میں بھی تو ریت کی یہی تعریف ہے لیکن باوجود اس کے بعد توریت کے صدہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب انکے ساتھ نہیں تھی بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے مطالب یہ ہوتے تھے کہ تا انکے موجودہ زمانہ میں جولوگ تعلیم توریت سے دور پڑ گئے ہوں پھر انکو توریت کے اصلی منشاء کی طرف کھینچیں.اور جن کے دلوں میں کچھ شکوک اور دہریت اور بے ایمانی ہوگئی ہو انکو پھر زندہ ایمان بخشیں چنانچہ اللہ جلشانہ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ لَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُل (البقرة : 88) یعنی موسیٰ کو ہم نے توریت دی اور پھر اس کتاب کے بعد ہم نے کئی پیغمبر بھیجے تا توریت کی تائید اور تصدیق کریں.اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تترا (المومنون:45) یعنی پھر پیچھے سے ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے.پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ اپنی کتاب بھیج کر پھر اسکی تائید اور تصدیق کیلئے ضرور انبیاء کو بھیجا کرتا ہے چنانچہ توریت کی تائید کیلئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی آیا.جن کے آنے پر اب تک بائیل شہادت دے رہی ہے.شہادت القران - ر- خ - جلد 6 صفحہ 341-340)
464 كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ.(التوبة: 119) اور یہ کہنا کہ ہمارے لئے قرآن اور احادیث کافی ہیں اور صحبت صادقین کی ضرورت نہیں یہ خود مخالفت تعلیم قرآن ہے کیونکہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبة: 119) اور صادق وہ ہیں جنہوں نے صدق کو علی وجہ البصیرت شناخت کیا اور پھر اسپر دل و جان سے قائم ہو گئے اور یہ اعلی درجہ بصیرت کا بجز اسکے ممکن نہیں کہ سماوی تائید شامل حال ہو کر اعلیٰ مرتبہ حق الیقین تک پہنچا دیوے.پس ان معنوں کر کے صادق حقیقی انبیاء اور رسل اور محدث اور اولیاء کاملین مکملین ہیں جن پر آسمانی روشنی پڑی اور جنہوں نے خدا تعالیٰ کو اسی جہان میں یقین کی آنکھوں سے دیکھ لیا اور آیت موصوفہ بالا بطور اشارت ظاہر کر رہی ہے کہ دنیا صادقوں کے وجود سے کبھی خالی نہیں ہوتی کیونکہ دوام حکم وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ دوام وجود صادقین کو ستلزم ہے.شہادت القران - ر - خ - جلد 6 صفحہ 347) محدثیت اور وراثت انبیاء پھر بعض اور آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور خدا وند کریم نے یہی ارادہ فرمایا ہے کہ روحانی معلم جو انبیاء کے وارث ہیں ہمیشہ ہوتے رہیں اور وہ یہ ہیں.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمُ (النور :56) وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ اَوْتَحُلُّ قَرِيبًا مِنْ دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِي وَعْدُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (الرعد: 32 الجزو نمبر (13) وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل : 16) یعنی خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے اے مومنان امت محمد یہ وعدہ کیا ہے کہ تمہیں بھی وہ زمین میں خلیفہ کر یگا جیسا کہ تم سے پہلوں کو کیا اور ہمیشہ کفار پر کسی قسم کی کوفتیں جسمانی ہوں یا روحانی پڑتی رہینگی یا ان کے گھر سے نزدیک آجائیں گی.یہانتک کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ آپہنچے گا.اورخدا تعالیٰ اپنے وعدوں میں تخلف نہیں کرتا.اور ہم کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ایک رسول بھیج نہ لیں.ان آیات کو اگر کوئی شخص تامل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیونکر کہوں کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ جائے کہ خدا تعالیٰ اس امت کے لئے خلافت دائگی کا صاف وعدہ فرماتا ہے.اگر خلافت دائی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہ دینا کیا معنی رکھتا تھا اور اگر خلافت راشدہ صرف تیس برس تک رہ کر پھر ہمیشہ کیلئے اس کا دور ختم ہو گیا تھا تو اس سے لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس امت پر ہمیشہ کیلئے ابواب سعادت مفتوح رکھے کیونکہ روحانی سلسلہ کی موت سے دین کی موت لازم آتی ہے اور ایسا مذہب ہرگز زندہ نہیں کہلا سکتا جس کے قبول کر نیوالے خود اپنی زبان سے ہے یہ اقرار کریں کہ تیرہ سو برس سے یہ مذہب مرا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس مذہب کے لئے ہر گز یہ ارادہ نہیں کیا کہ حقیقی زندگی کا وہ نور جو نبی کریم کے سینہ میں تھا وہ تو ارث کے طور پر دوسروں میں چلا آوے.( شہادت القران - ر-خ- جلد 6 صفحہ 353,352)
465 وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلَّمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيا اَوْ مِنْ وَرَاىءٍ حِجَابٍ.الايتة (الشورى: 52) صاحب وحی محدثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہم رنگ ہوتا ہے اور بغیر نبوت اور تجدید احکام کے وہ سب با تیں اس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں اور اس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اس پر وہ سب امور بطور انعام و اکرام کے وارد ہو جاتے ہیں جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں سوان کا بیان محض انکلیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے اور شکر بولتا ہے اور یہ راہ اس امت کے لئے کھلی ہے.ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ وارث حقیقی کوئی نہ رہے.محدث وہ لوگ ہیں جو شرف مکالمہ الہی سے مشرف ہوتے ہیں اور ان کا جو ہر نفس انبیاء کے جو ہر نفس سے اشد مشابہت رکھتا ہے اور وہ خواص عجیبہ نبوت کے لئے بطور آیات باقیہ کے ہوتے ہیں تا یہ دقیق مسئلہ نزول وحی کا کسی زمانہ میں بے ثبوت ہو کر صرف بطور قصہ کے نہ ہو جائے.برکات الدعا.رخ- جلد 6 صفحہ 21-20) برکات الدعا.رخ.جلد 6 صفحہ 24-23) وَيَجْعَلُ لَكُمْ نُورًا تَمُشُونَ به (الحديد: 29) وَيَجْعَلُ لَكُمْ نُورًا تَمُشُونَ بِه (الحديد: (29) فَالنُّورُ الَّذِى هُوَ الْأَمْرُ الْفَارِقُ بَيْنَ خَوَاصٌ عِبَادِ اللَّهِ وَ بَيْنَ عِبَادِ اخَرِيْنَ هُوَ الْإِلْهَامُ وَ الْكَشْفُ وَالتَّحْدِيثُ وَعُلُومٌ غَامِضَةٌ دَقِيقَةٌ تَنْزِلُ عَلَى قُلُوبِ الْخَوَاصِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ.(حمامتہ البشری - ر - خ - جلد 7 صفحہ 298) ترجمه از مرتب: - وَيَجْعَلُ لَكُمْ نُورًا تَمُشُونَ بِه - وہ نور جو اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں اور دوسرے بندوں میں فراق کرنے والا ہے وہ الہام اور کشف اور محدثیت ہیں.نیز ایسے گہرے اور دقیق مضامین ہیں جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے خاص بندوں کے دلوں پر نازل ہوتے ہیں.وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 4) یہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا اظہار بھی کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہد تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اور انبیاء کواپنے بروز پر غیرت نہیں ہوتی کیونکہ وہ انہی کی صورت اور انہی کا نقش ہے لیکن دوسرے پر ضرور غیرت آتی ہے.(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 440-439) یقین یا درکھو کہ کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع نہیں بن سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یقین نہ کرے.جب تک ان محدثات سے الگ نہیں ہوتا اور اپنے قول اور فعل سے آپ کو خاتم النبین نہیں مانتا.کچھ نہیں.سعدی نے کیا اچھا کہا ہے.بزہد و ورع کوش وصدق وصفا ولیکن میفز ائے ہر مصطفیٰ ترجمہ :.زہد اور پر ہیز گاری میں کوشش کرو مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے زیادہ نہیں.
466 ہمارا مدعا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم کی جائے جو ابد الآباد کے لئے خدا ( تعالیٰ ) نے قائم کی ہے اور تمام جھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کر دیا جائے جو ان لوگوں نے اپنی بدعتوں کے ذریعہ قائم کی ہیں.ان ساری گدیوں کو ،، دیکھ لو اور عملی طور پر مشاہدہ کرو کہ کیا رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ہم ایمان لائے ہیں یا وہ.یہ ظلم اور شرارت کی بات ہے کہ ختم نبوت سے خدا تعالیٰ کا اتنا ہی منشاء قرار دیا جائے کہ منہ سے ہی خاتم النبین مانو اور کرتو تیں وہی کرو جو تم پسند کرو اور اپنی ایک الگ شریعت بنا لو.بغدادی نماز معکوس نماز وغیرہ ایجاد کی ہوئی ہیں.کیا قرآن شریف یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس کا کہیں پتہ لگتا ہے اور ایسا ہی یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا الله “ کہنا اس کا ثبوت بھی کہیں قرآن شریف سے ملتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تو شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وجود بھی نہ تھا پھر یہ کس نے بتایا تھا.شرم کرو کیا شریعت اسلام کی پابندی اور التزام اسی کا نام ہے؟ اب خود ہی فیصلہ کرو کہ کیا ان باتوں کو مان کر اور ایسے عمل رکھ کر تم اس قابل ہو کہ مجھے الزام دو کہ میں نے خاتم النبیین کی مہر کو توڑا ہے اصل اور سچی بات یہی ہے کہ اگر تم اپنی مساجد میں بدعات کو دخل نہ دیتے اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی نبوت پر ایمان لا کر آپ کے طرز عمل اور نقش قدم کو اپنا امام بنا کر چلتے تو پھر میرے آنے ہی کی کیا ضرورت ہوتی.تمہاری ان بدعتوں اور ٹی نبوتوں نے ہی خدا تعالیٰ کی غیرت کوتحریک دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو ان جھوٹی نبوتوں کے بت کو توڑ کر نیست و نابود کرے پس اسی کام کے لئے خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 65-64) حضرت اقدس کے دعاوی ء نبوت اور رسالت مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ....الايه.(احزاب: 41) ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سواب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا اور میرا یہ قول دمن نیستم رسول و نیاورده ام کتاب اس کے معنے صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں ہاں یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہیئے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیئے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ سے پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.اسی واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مستمی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی.اور اس طور سے خاتم النبین کی مہر محفوظ رہی کیونکہ میں نے انعکاسی اور ظلی طور پر محبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا.اگر کوئی شخص اس وحی الہی پر ناراض ہو کہ کیوں خدا تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے تو یہ اس کی حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور رسول ہونے سے خدا کی مہر نہیں ٹوٹتی.ایک غلطی کا ازالہ.ر-خ- جلد 18 صفحہ 211-210)
467 یہ کہتے ہیں کہ خدا نے میرا نام نبی رکھا.یہ بالکل سچی بات ہے.ہم رسول اللہ علیہ وسلم کو چشمہ افادیت مانتے ہیں ایک چراغ اگر ایسا ہو جس سے کوئی دوسرا روشن نہ ہو وہ قابل تعریف نہیں ہے مگر رسول اللہ علیہ وسلم کو ہم ایسا نور مانتے ہیں کہ آپ سے دوسرے روشنی پاتے ہیں.یہ جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا اَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّنَ.یہ بالکل درست ہے.خدا تعالیٰ نے آپ کی جسمانی ابوت کی نفی کی لیکن آپ کی روحانی ابوت کا استثناء کیا ہے.اگر یہ مانا جائے جیسا کہ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ آپ کا نہ کوئی جسمانی بیٹا ہے نہ روحانی تو پھر اس طرح پر معاذ اللہ یہ لوگ آپ کو ابتر ٹھیراتے ہیں.مگر ایسا نہیں.آپ کی شان تو یہ ہے کہ انا أعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ.(الکوثر : 2 تا 4 ).اللہ تعالیٰ نے ختم نبوت کی آیت میں فرمایا ہے کہ جسمانی طور پر آپ آب نہیں مگر روحانی سلسلہ آپ کا جاری ہے لکن مافات کے لئے آتا ہے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ آپ خاتم ہیں آپ کی مہر سے نبوت کا سلسلہ چلتا ہے.ہم خود بخود نہیں بن گئے خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے موافق جو بنایا وہ بن گئے یہ اس کا فعل اور فضل ہے يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ خدا نے جو وعدے نبیوں سے کئے تھے ان کا ظہور ہوا ہے.براہین (احمدیہ ) میں یہ الہام اس وقت سے درج ہے.وَ كَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا.صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ.وَكَانَ أَمْرًا مَّفْعُولاً وغيره اس قسم کے بیسیوں الہام ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا ہوا تھا.اس میں ہمارا کچھ تصرف نہیں.کیا جس وقت اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے یہ وعدے فرمائے ( تھے ) ہم حاضر تھے.جس طرح خدا تعالیٰ مرسل بھیجتا ہے اسی طرح اپنے یہاں اپنے وعدہ کو پورا کیا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 317) میرا دعویٰ صرف یہ ہے کہ موجودہ مفاسد کے باعث خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اور میں اس امر کا اخفاء نہیں کر سکتا کہ مجھے مکالمہ مخاطبہ کا شرف عطا کیا گیا ہے اور خدا تعالیٰ مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور کثرت سے ہوتا ہے.اسی کا نام نبوت ہے مگر حقیقی نبوت نہیں.نباء ایک عربی لفظ ہے اسکے معنے خبر کے ہیں.اب جو شخص کوئی خبر خدا تعالیٰ سے پا کر خلق پر ظاہر کرے گا اس کو عربی میں نبی کہیں گے.میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہو کر کوئی دعویٰ نہیں کرتا یہ تو نزاع لفظی ہے.کثرت مکالمہ مخاطبہ کو دوسرے الفاظ میں نبوت کہا جاتا ہے.دیکھو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ قول که قولوا انه خاتم النبيين ولا تقولوا لا نبی بعدہ اس امر کی صراحت کرتا ہے.نبوت اگر اسلام میں موقوف ہو چکی ہے تو یقینا جانو کہ اسلام بھی مر گیا اور پھر کوئی امتیازی نشان بھی نہیں ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 667) و من قال بعد رسولنا و سیدنا انی نبی او رسول علی وجه الحقيقة والافتراء و ترک القرآن و احكام الشريعة الغراء فهو كا فر كذاب غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعوی کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن فیوض سے اپنے تئیں الگ کر کے اور اس پاک سر چشمہ سے جدا ہو کر آپ ہی براہ راست نبی اللہ بننا چاہتا ہے تو وہ ملحد بے دین ہے اور غالباً ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلمہ بنائے گا اور عبادات میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا اور احکام میں کچھ تغیر و تبدل کر دے گا.پس بلا شبہ وہ مسیلمہ کذاب کا بھائی ہے اور اس کے کافر ہونے میں کچھ شک نہیں ایسے خبیث کی نسبت کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن شریف کو مانتا ہے.انجام آتھم.ر.خ.جلد 11 صفحہ 28-27 حاشیہ )
468 الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام : - قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ اربعین - رخ.جلد 17 صفحہ 410 حاشیہ ) یہ مقام ہماری جماعت کے لئے سوچنے کا مقام ہے کیونکہ اس میں خداوند قد بر فرماتا ہے کہ خدا کی محبت اس سے وابستہ ہے کہ تم کامل طور پر پیرو ہو جاؤاور تم میں ایک ذرہ مخالفت باقی نہ رہے اور اس جگہ جو میری نسبت کلام الہی میں رسول اور نبی کا لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ یہ رسول اور نبی اللہ ہے یہ اطلاق مجاز اور استعارہ کے طور پر ہے کیونکہ جو شخص خدا سے براہ راست وحی پاتا ہے اور یقینی طور پر خدا اس سے مکالمہ کرتا ہے جیسا کہ نبیوں سے کیا اس پر رسول یا بنی کا لفظ بولنا غیر موزوں نہیں ہے بلکہ یہ نہایت فصیح استعارہ ہے اسی وجہ سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور انجیل اور دانی ایل اور دوسرے نبیوں کی کتابوں میں جہاں میراذ کر کیا گیا ہے وہاں میری نسبت نبی کا لفظ بولا گیا ہے.(اربعین.رخ.جلد 17 صفحہ 413 حاشیہ ) حضرت اقدس کی نبوت دراصل نبوت محمدیہ ہے اب بحر محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو.پس اسی بناء پر میں انتی بھی ہوں اور نبی بھی.اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک خلق ہے اور بجر اس کے کہ میری نبوت کچھ بھی نہیں وہی نبوت محمد یہ ہے جو مجھ میں ظاہر ہوئی ہے اور چونکہ میں محض ظل ہوں اور امتی ہوں اس لئے آنجناب کی اس سے کچھ کسر شان نہیں اور یہ مکالمہ الہیہ جو مجھے سے ہوتا ہے یقینی ہے.اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا یقینی او قطعی ہے اور جیسا کہ آفتاب اور اسکی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے.ایسا ہی میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسے کہ خدا کی کتاب پر.یہ تو ممکن ہے کہ کلام الہی کے معنے کرنے میں بعض مواقع میں ایک وقت تک مجھ سے خطا ہو جائے مگر یہ ممکن نہیں کہ میں شک کروں کہ وہ خدا کا کلام نہیں.اور چونکہ میرے نزدیک نبی اسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اسی لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے.شریعت کا حامل قیامت تک قرآن شریف ہے.تجلیات الہیہ.ر.خ.جلد 20 صفحہ 412) اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام پاک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے باپ ہونے کی نفی کی ہے لیکن بروز کی خبر دی ہے اگر بروز صحیح نہ ہوتا تو پھر آپ و آخرین منھم میں ایسے موعود کے رفیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کیوں ٹھہرتے اور نفی بروز سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے.جسمانی خیال کے لوگوں نے کبھی اس موعود کو حسن کی اولاد بنایا اور کبھی حسین کی اور کبھی عباس کی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف یہ مقصود تھا کہ وہ فرزندوں کی طرح اس کا وارث ہو گا.اس کے نام کا وارث اس کے خلق کا وارث اس کے علم کا وارث اس کی روحانیت کا وارث اور ہر ایک پہلو سے اپنے اندر اس کی تصویر دکھلائے گا اور وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ سب کچھ اس سے لے گا اور اس میں
469 فنا ہو کر اس کے چہرے کو دکھائے گا.پس جیسا کہ ظلی طور پر اس کا نام لے گا اس کا خلق لے گا اس کا علم لے گا ایسا ہی اس کا نبی لقب بھی لے گا کیونکہ بروزی تصویر پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ تصویر ہر ایک پہلو سے اپنے اصل کے کمال اپنے اندر نہ رکھتی ہو.پس چونکہ نبوت بھی نبی میں ایک کمال ہے اس لئے ضروری ہے کہ تصویر بروزی میں وہ کمال بھی نمودار ہو.تمام بنی اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر ہوتی ہے یہاں تک کہ نام بھی ایک ہو جاتا ہے.پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ جس طرح بروزی طور پر محمد اور احمد نام رکھے جانے سے دو محمد اور دو احمد نہیں ہو گئے اسی طرح بروزی طور پر نبی یا رسول کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خاتم النبیین کی مہر ٹوٹ گئی کیونکہ وجود بروزی کوئی الگ وجود نہیں اس طرح پر تو محمد کے نام کی نبوت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک ہی محدود رہی.تمام انبیاء علیہم السلام کا اس پر اتفاق ہے کہ بروز میں دُوئی نہیں ہوتی کیونکہ بروز کا مقام اس مضمون کا مصداق ہوتا ہے کہ من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری ( ترجمہ:.میں تم ہو گیا اور تم میں ہو گئے.میں جسم اور تم جان ہو گئے.یہ اس لئے ہوا کہ تا کوئی یہ نہ کہے کہ میں اور ہوں اور تم کوئی اور ہو ) ایک غلطی کا ازالہ.ر.خ.جلد 18 صفحہ 214-213) معیار صدق دعویٰ وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلَ.لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ.ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ.(الحاقة 47-45) خدا تعالیٰ قرآن شریف میں ایک شمیشر برہنہ کی طرح یہ حکم فرماتا ہے کہ یہ نبی اگر میرے پر جھوٹ بولتا اور کسی بات میں افتراء کرتا تو میں اس کی رگ جان کاٹ دیتا اور اس مدت دراز تک وہ زندہ نہ رہ سکتا.تو اب جب ہم اپنے اس مسیح موعود کو اس پیمانہ سے ناپتے ہیں تو براہین احمدیہ کے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ منجانب اللہ ہونے اور مکالمات الہیہ کا قریباً تیس برس سے ہے اور اکیس برس سے براہین احمدیہ شائع ہے پھر اگر اس مدت تک اس مسیح کا ہلاکت سے امن میں رہنا اس کے صادق ہونے پر دلیل نہیں ہے...کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ ایک جھوٹے مدعی ء رسالت کو تیس برس تک مہلت دی اور لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا کے وعدہ کا کچھ خیال نہ کیا تو اس طرح نعوذ باللہ یہ بھی قریب قیاس ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی باوجود کاذب ہونے کے مہلت دے دی ہومگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کا ذب ہونا محال ہے.پس جو مستلزم محال ہو وہ بھی محال.اور ظاہر ہے کہ یہ قرآنی استدلال بدیہی الظہور جبھی ٹھہر سکتا ہے جبکہ یہ قاعدہ کی مانا جائے کہ خدا اس مفتری کو جو خلقت کے گمراہ کرنے کیلئے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہو کبھی مہلت نہیں دیتا کیونکہ اس طرح پر اس کی بادشاہت میں گڑ بڑ پڑ جاتا ہے اور صادق اور کاذب میں تمیز اٹھ جاتی ہے.تحفہ گولڑویہ.ر- خ - جلد 17 صفحہ 42)
دوسری فصل 470 حضرت اقدس" کا عقیدہ وفات مسیح یہ خوب یادر ہے کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر روح بلا جسم ہرگز نہیں مانتے ہم مانتے ہیں کہ وہ وہاں جسم ہی کے ساتھ ہیں.ہاں فرق اتنا ہے کہ یہ لوگ جسم عنصری کہتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ وہ جسم وہی جسم ہے جو دوسرے رسولوں کو دیا گیا.دوزخیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ (الاعراف : 41) یعنی کافروں کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاویں گے اور مومنوں کے لئے فرماتا ہے.مُفَتَحَةً لَّهُمُ الْاَبْوَابُ (ص: 51) اب ان آیات میں لَهُمُ کا لفظ اجسام کو چاہتا ہے تو کیا یہ سب کے سب پھر اسی جسم عنصری کے ساتھ جاتے ہیں؟ نہیں.ایسا نہیں.جسم تو ہوتے ہیں مگر وہ وہ جسم ہیں جو مرنے کے بعد دئے جاتے ہیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 399) سچی بات یہی ہے کہ مسلمانوں اور یہود کا متفقہ اور مسلّم اعتقاد اس پر ہے کہ خدا کے نیک بندوں کا بعد وفات رفع روحانی ہوا کرتا ہے اور یہی قابل بڑائی بات ہے رفع جسمانی کے یہ نہ قائل ہیں اور نہ کوئی اس میں فضیلت مد نظر ہے چنانچہ قرآن شریف بھی اسی اصول کو یوں بیان فرماتا ہے کہ مُفَتَحَةً لَّهُمُ الْأَبْوَابُ (ص: 51) یعنی جو خدا کے نزدیک متقی اور برگزیدہ انسان ہوتے ہیں خدا ان کے لئے آسمانی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور ان کا رفع روحانی بعد الموت کیا جاتا ہے اور ان کے مقابل میں جو لوگ بد کار اور خدا ( تعالیٰ ) سے دور ہوتے ہیں اور ان کو خدا ( تعالی) سے کوئی تعلق صدق و اخلاص نہیں ہوتا ان کے واسطے آسمانی دروازے نہیں کھولے جاتے جیسا کہ فرمایا.لَا تُفْتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ (الاعراف : 41) ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 491) ووس نزول مسیح کی حقیقت وَ أَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ.( الحديد : 26) فانظروا الى القرآن الكريم كيف يبين معنى النزول فى آياته العظمى و تدبر وافي قوله تعالى و انزلنا الحديد (الحديد : 26).......و انتم تعلمون ان هذه الاشياء لا تنزل من السماء بل تحدث وتتولد في الارض و في طبقات الثرى و ان امعنتم النظر في كتاب الله تعالیٰ فيكشف عليكم ان حقيقت نزول المسيح من هذه الاقسام.( آئینہ کمالات اسلام -ر خ- جلد 5 صفحہ 442-441)
471 ترجمه از مرتب: تم قرآن مجید کو دیکھو کہ وہ اپنی بلندشان آیات میں لفظ نزول کے معنے کیسے بیان کرتا ہے اور تم اللہ تعالیٰ کے قول وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ پر بھی غور کرو اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ لوہا اور باقی ایسی ہی اشیاء آسمان سے نہیں اترتیں بلکہ زمین میں پیدا ہوتی ہیں.اور اگر تم خدا تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں غور کرو تو تم پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ نزول مسیح کی حقیقت بھی اسی قسم کی ہے.اِسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَ مَكْرَ السَّيِّيءِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّيءُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تحويلا.(فاطر: 44) حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف سے یہودیوں کو یہ جواب ملا ہے کہ ایلیا نبی کے دوبارہ آنے سے یوحنا نبی یعنی یکی کا آنا مراد تھا تو ایک دیندار آدمی سمجھ سکتا ہے کہ عیسی ابن مریم کا دوبارہ آنا بھی اسی طرز سے ہوگا کیونکہ یہ وہی سنت اللہ ہے جو پہلے گزر چکی ہے وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا.(الاحزاب: 63) (ایام اصلح - ر-خ- جلد 14 صفحہ 279) زمین میں ہر چیز معرض فنا میں ہے ہر یک چیز جو زمین میں موجود ہے اور زمین سے نکلتی ہے وہ معرض فنا میں ہے یعنی و مبدم فنا کی طرف میل کر رہی ہے.مطلب یہ کہ ہر ایک جسم خاکی کو نابود ہونے کی طرف ایک حرکت ہے اور کوئی وقت اس حرکت سے خالی نہیں.وہی حرکت بچہ کو جوان کر دیتی ہے اور جو ان کو بڑھا اور بڑھے کو قبر میں ڈال دیتی ہے اور اس قانون قدرت سے کوئی باہر نہیں.خدائے تعالیٰ نے کان کا لفظ اختیار کیا یفنی نہیں کہا تا معلوم ہو کہ فنا ایسی چیز نہیں کہ کسی آئندہ زمانہ میں یک دفعہ واقعہ ہوگی بلکہ سلسلہ فنا کا ساتھ ساتھ جاری ہے لیکن ہمارے مولوی یہ گمان کر رہے ہیں کہ مسیح ابن مریم اسی فانی جسم کے ساتھ جس میں بموجب نص صریح کے ہر دم فنا کام کر رہی ہے بلا تغیر و تبدل آسمان پر بیٹھا ہے اور زمانہ اس پر اثر نہیں کرتا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی مسیح کو کائنات الارض میں سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا.(ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 434) کیوں بنایا ابن مریم کو خدا سنت اللہ ޏ کیوں بنایا اس کو باشان کبیر غیب دان و خالق گئے سب پر وہ مرنے ނ بچا وہ کیوں باہر رہا و حی و قدیر اب تلک آئی نہیں اس فنا ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا اس خدا دانی تیرے مرحبا مولوی صاحب ! یہی توحید ہے سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے! جس پہ برسوں سے سے تمھیں اک ناز تھا کیا یہی توحید حق کا راز تھا کیا بشر میں ہے خدائی کا نشان! الاماں ایسے گماں الاماں (ازالہ اوہام.رخ.جلد 3 صفحہ 513 ( در مشین اردو صفحہ 11)
472 جنتی پر دو موتیں نہیں آتیں قوله تعالى الا موتتنا الاولى وكانت لا بى بكر رضى الله عنه مناسبة عجيبة بدقائق القران و رموزه و اسراره و معارفه و كان له ملكث كاملة في استنباط المسائل من القرآن الكريم فلذلك هدى قلبه الى الحق و فهم ان الرجوع الى الدنيا موتة ثانية وهى لا يجوز على اهل الجنة بدليل قوله تعالى حكاية عن اهلها الا موتتنا الا ولى و ما نحن بمعذ بين فان رجوع اهل الجنة الى الدنيا ثم موتهم و ورود الام السكرات والامراض عليهم نوع من التعذيب وقد نجا الله اياهم من كل عذاب و اواهم عنده باعطاء كل احبور و سرور من يوم انتقالهم الى الدار الاخرة فكيف يمكن ان يرجعوا الى دار التعذيبات مرة ثانية فهذا معنى قول اهل الجنة: و ما نحن بمعذبين.(الشعراء:139) حمامة البشرای-رخ- جلد 7 صفحہ 245) یہی آیت إِلَّا مَوْتَتَنَا الأولى ہی تھی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم کے دقائق رموز اسرار اور معارف سے عجیب مناسبت تھی اور قرآن کریم سے مسائل مستنبط کرنے میں کامل ملکہ حاصل تھا.پس اس وجہ سے آپ کا دل حق کی طرف ہدایت پا گیا اور آپ سمجھ گئے کہ دنیا کی طرف رجوع کرنا دوسری موت ہے اور جنتیوں کے لئے یہ جائز نہیں، اور آپ نے دلیل اس آیت اس سے پکڑی جو اللہ تعالیٰ نے اہل جنت سے حکایت کرتے ہوئے بیان کی ہے یعنی إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَى وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذِّبِينَ کیونکہ اہل جنت کا دنیا کی طرف واپس آنا پھر ان پر موت کا دوبارہ واقع ہونا اور ان پر سکرات موت اور امراض کا وارد ہونا عذاب ہی کی ایک قسم ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر عذاب سے نجات دے دی ہے اور دار آخرت کی طرف منتقل کر کے اور ہر ایک خوشی اور سرور عطا کر کے اپنے پاس پناہ دی ہے.پس یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس دنیا دارالعذاب کی طرف دوبارہ واپس آئیں.پس اہل جنت کے قول وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذِّبِینَ کے یہی معنے ہیں.وفات مسیح ناصری علیہ السلام کیوں نہیں لوگو تمھیں حق کا خیال دل میں اُٹھتا ہے مرے سو سو ابال گیا حق کی قسم داخل جنت ہوا وہ ابن مریم مارتا وہ محترم ہے اس کو فرقاں سربسر اس کے مر جانے کی دیتا ہے خبر نہیں باہر رہا اموات کوئی مُردوں سے سے ، کبھی آیا نہیں عهد شد از کردگار بے چگوں عزیزو! سوچ کر دیکھو ذرا ہو گیا ثابت یہ تمیں آیات سے تو فرقاں نے بھی بتلایا نہیں غور کن در انَّهُمْ لَا يَرْجِعُون سے بچتا کوئی دیکھا بھلا موت تو رہنے کا نہیں پیارو مکاں چل بسے سب انبیاء و راستاں ہاں نہیں پاتا کوئی اس سے نجات یوں ہی باتیں ہیں بنائیں واہیات ( در تشین اردو صفحه 10 ) (ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 513)
473 وفات مسیح آیات قرآنیہ کے اعتبار سے وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَ أَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَ أُمِّيَ الهَيْنِ مِنْ دُونِ اللهِ ط قَالَ سُبُحْنَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَالَيْسَ لِي بِحَقِّ اِنْ كُنْتُ قُلْتَهُ فَقَدْ عَلِمُتَهُ طَ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ.مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا اَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَ رَبَّكُمْ وَ كُنتُ عَلَيْهِمُ شَهِيدًا مَّادُمُتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَ اَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ.(المائده: 118-117) جب تو نے مجھے وفات دی تو تو ہی ان پر نگہبان تھا.تمام قرآن شریف میں توفی کے معنی یہ ہیں کہ روح کو قبض کرنا اور جسم کو بیکار چھوڑ دینا جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.قُلْ يَتَوَفَّكُمُ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ.(السجدة:12) اور پھر فرماتا ہے.وَلَكِنْ أَعْبُدُ اللهَ الَّذِي يَتَوَفَّكُمُ.(یونس :105) اور پھر فرماتا ہے.حَتَّى يَتَوَفَّهُنَّ الْمَوْتُ.(النساء : 16) اور پھر فرماتا ہے.حَتَّى إِذَا جَاءَ تُهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ.(الاعراف:38) اور پھر فرماتا ہے.تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا (الانعام (62) ایسا ہی قرآن شریف کے تئیس مقام میں برابر توفی کے معنی امانت اور قبض روح ہے لیکن افسوس کہ بعض علماء نے محض الحاد اور تحریف کی رو سے اس جگہ تَوَفَّيْتَنِی سے مراد رَفَعْتَنِی لیا ہے اور اس طرف ذرہ خیال نہیں کیا کہ یہ معنے نہ صرف لغت کے مخالف بلکہ سارے قرآن کے مخالف ہیں پس یہی تو الحاد ہے کہ جن خاص معنوں کا قرآن کریم نے اول سے آخر تک التزام کیا ہے ان کو بغیر کسی قرینہ قویہ کے ترک کر دیا گیا ہے تو فی کا لفظ نہ صرف قرآن کریم میں بلکہ جا بجا احادیث نبویہ میں بھی وفات دینے اور قبض روح کے معنوں پر ہی آتا ہے چنانچہ جب میں نے غور سے صحاح ستہ کو دیکھا تو ہر ایک جگہ جوتو فی کا لفظ ہمارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہے یا کسی صحابی کے منہ سے تو انہیں معنوں میں محدود پایا گیا.میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی ایک صحیح حدیث میں بھی کوئی ایسا تو فی کا لفظ نہیں ملے گا جس کے کوئی اور معنے ہوں.میں نے معلوم کیا ہے کہ اسلام میں بطور اصطلاح کے قبض روح کے لیے یہ لفظ مقرر کیا گیا ہے تا روح کی بقا پر دلالت کرے (ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 425-424) اسی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام پھر دنیا میں نہیں آئیں گے کیونکہ اگر وہ دنیا میں آنے والے ہوتے تو اس صورت میں یہ جواب حضرت عیسی کا محض جھوٹ ٹھہرتا ہے کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی کچھ خبر نہیں جو شخص دوبارہ دنیا میں آیا اور چالیس برس رہا.اور کروڑہا عیسائیوں کو دیکھا.جو اس کو خدا جانتے تھے اور صلیب کو توڑا اور تمام عیسائیوں کو مسلمان کیا وہ کیونکر قیامت کو جناب الہی میں یہ عذر کر سکتا ہے کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی کچھ خبر نہیں.(کشتی نوح-رخ- جلد 19 صفحہ 16 حاشیہ )
474 یا درکھو کہ اب عیسی تو ہر گز نازل نہیں ہوگا کیونکہ جو اقر ار اس نے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کی روسے قیامت کے دن کرنا ہے اس میں صفائی سے اس کا اعتراف پایا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئے گا اور قیامت کو اس کا یہی عذر ہے کہ عیسائیوں کے بگڑنے کی مجھے خبر نہیں اور اگر وہ قیامت کے پہلے دنیا میں آتا تو کیا وہ یہی جواب دیتا کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی کچھ خبر نہیں.لہذا اس آیت میں اس نے صاف اقرار کیا ہے کہ میں دوبارہ دنیا میں نہیں گیا اور اگر وہ قیامت سے پہلے دنیا میں آنے والا تھا اور برابر چالیس برس رہنے والا تب تو اس نے خدا تعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولا کہ مجھے عیسائیوں کے حالات کی کچھ خبر نہیں اس کو تو کہنا چاہیئے تھا کہ آمد ثانی کے وقت میں نے چالیس کروڑ کے قریب دنیا میں عیسائی پایا اور ان سب کو دیکھا اور مجھے ان کے بگڑنے کی خوب خبر ہے اور میں تو انعام کے لائق ہوں کہ تمام عیسائیوں کو مسلمان کیا اور صلیبوں کو توڑا.یہ کیسا جھوٹ ہے کہ عیسے کہے گا کہ مجھے خبر نہیں غرض اس آیت میں نہایت صفائی سے مسیح کا اقرار ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئے گا اور یہی سچ ہے کہ مسیح فوت ہو چکا اور سرینگر محلہ خانیار میں اس کی قبر ہے.اب خدا خود نازل ہوگا اور ان لوگوں سے آپ لڑے گا جو سچائی سے لڑتے ہیں.خدا کا لڑ نا قابل اعتراض نہیں کیونکہ وہ نشانوں کے رنگ میں ہے لیکن انسان کا لڑنا قابل اعتراض ہے کیونکہ وہ جبر کشتی نوح...خ.جلد 19 صفحہ 76) کے رنگ میں ہے.إِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ ثُمَّ إِلَى مَرْجِعُكُمْ فَاحُكُمْ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُونَ.(ال عمران:56) قرآن شریف کی نصوص بینہ اسی بات پر بصراحت دلالت کر رہی ہیں کہ مسیح اپنے اسی زمانہ میں فوت ہو گیا ہے جس زمانہ میں وہ نبی اسرائیل کے مفسد فرقوں کی اصلاح کے لیے آیا تھا جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے یعیسی إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ اب اس جگہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اِنِی مُتَوَفِّيكَ پہلے لکھا ہے اور رَافِعُكَ بعد اس کے بیان فرمایا ہے جس سے ثابت ہوا کہ وفات پہلے ہوئی اور رفع بعد از وفات ہوا اور پھر اور ثبوت یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ میں تیری وفات کے بعد تیرے متبعین کو تیرے مخالفوں پر جو یہودی ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا اب ظاہر ہے اور تمام عیسائی اور مسلمان اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح کے بعد اسلام کے ظہور تک بخوبی پوری ہوگئی کیونکہ خدائے تعالیٰ نے یہودیوں کو ان لوگوں کی رعیت اور ماتحت کر دیا جو عیسائی یا مسلمان ہیں اور آجتک صد ہا برسوں سے وہ ماتحت چلے آتے ہیں یہ تو نہیں کہ حضرت مسیح کے نزول کے بعد پھر ماتحت ہوں گے ایسے معنے تو بہ بداہت فاسد ہیں.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 331-330)
475 قراین قومیہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ مسیح جسم کے ساتھ آسمان پر ہرگز نہیں گیا اور نہ آسمان کا لفظ اس آیت میں موجود ہے بکہ لفظ تو صرف یہ ہے اِنِّی مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ پھر دوسری جگہ ہے.بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ جس کے یہ معنے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے مسیح کو موت دے کر پھر اپنی طرف اٹھا لیا جیسا کہ یہ عام محاورہ ہے کہ نیک بندوں کی نسبت جب وہ مرجاتے ہیں یہی کہا کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ کو خدائے تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا ہے.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 247-246) خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھائے جانے کے یہی معنے ہیں کہ فوت ہو جانا.خدائے تعالیٰ کا یہ کہنا کہ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكَ (الفجر : 29) اور یہ کہنا کہ اِنِّی مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ اِلَی ایک ہی معنے رکھتا ہے سوا اس کے جس وضاحت اور تفصیل اور توضیح کے ساتھ قرآن شریف میں مسیح کے فوت ہو جانے کا ذکر ہے اس سے بڑھ کر متصور نہیں کیونکہ خداوند عزوجل نے عام اور خاص دونوں طور پر مسیح کا فوت ہو جانا بیان فرمایا ہے.(ازالہ اوہام - ر - خ - جلد 3 صفحہ 265-264) اس بات کے دریافت کے لیے کہ متکلم نے ایک لفظ بطور حقیقت مسلمہ استعمال کیا ہے یا بطور مجاز اور استعارہ نادرہ کے بھی کھلی کھلی علامت ہوتی ہے کہ وہ حقیقت مسلمہ کو ایک متباور اور شائع و متعارف لفظ سمجھ کر بغیر احتیاج قراین کے یونہی مختصر بیان کر دیتا ہے مگر مجاز یا استعارہ نادرہ کے وقت ایسا اختصار پسند نہیں کرتا بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ کسی ایسی علامت سے جس کو ایک دانشمند سمجھ سکے اپنے اس مدعا کو ظاہر کر جائے کہ یہ لفظ اپنے اصل معنوں پر مستعمل نہیں ہوا.اب چونکہ یہ فرق حقیقت اور مجاز کا صاف طور پر بیان ہو چکا تو جس شخص نے قرآن کریم پر اول سے آخر تک نظر ڈالی ہوگی اور جہاں جہاں توفی کا لفظ موجود ہے بنظر غور دیکھا ہوگا وہ ایمان ہمارے بیان کی تائید میں شہادت دے سکتا ہے چنانچہ بطور نمونہ دیکھنا چاہیئے کہ یہ آیات (1) امـانـریـنـک بـعـض الـذي نعدهم اونتو فینک (يونس: 47) (2) توفنى مسلما (يوسف : 102)(3) و منكم من يتوفى (الحج:6) (4) تو فهم الملائكة (النساء : 98) (5) يتوفون منكم (البقرة : (241) (6) توفته رسلنا (الانعام : 62) (7) رسلنا يتوفونهم (الاعراف : 38) (8) توفنا مسلمين (الاعراف : 127) (9)و توفنا مع الابرار (ال عمران : 194) (10) ثم يتوفكم (النحل : 71) کیسی صریح اور صاف طور پر موت کے معنوں میں استعمال کی گئی ہیں مگر کیا قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت بھی ہے کہ ان آیات کی طرح مجرد تو فی کا لفظ لکھنے سے اس سے کوئی اور معنے مراد لیے گئے ہوں موت مراد نہ لی گئی ہو بلاشبہ قطعی اور یقینی طور پر اول سے آخرتک قرآنی محاورہ یہی ثابت ہے کے ہر جگہ در حقیقت توفی کے لفظ سے موت ہی مراد ہے تو پھر متنارعہ فیہ دو آیتوں کی نسبت جو إِنِّي مُتَوَفِّيكَ اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى (ال عمران : 56).ہیں اپنے دل سے کوئی معنے مخالف عام محاورہ قرآن کے گھڑ نا اگر الحاد اور تحریف نہیں تو اور کیا ہے؟ (ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 270-269)
476 مخالفین کی حالت پر رونا آتا ہے وہ نہیں سوچتے کہ اگر اس آیت انی متوفیک و رافعک الی سے ایک پاک موت کا بیان کرنا غرض نہیں تھا اور بجائے ملعون ہونے کے روحانی رفع کا بیان کرنا مقصود نہیں تھا تو اس قصے کو بیان کرنے کی کونسی ضرورت تھی اور جسمانی رفع کے لیے کونسی دینی ضرورت پیش آئی تھی افسوس صاف اور سیدھی بات کو ناحق بگاڑتے ہیں.بات تو صرف اتنی تھی کہ یہودی حضرت عیسی کو ملعون ٹھہرا کر ان کے رفع روحانی سے منکر ہو گئے تھے اب رافعک الی سے اس بات کا ظاہر کرنا مقصود تھا کہ حضرت عیسی ملعون نہیں ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف ان کا رفع ہو گیا اور توفی کے لفظ سے جس کے معنے صحیح بخاری میں مارنا کیا گیا حضرت عیسی کی موت ثابت ہوگئی.ایام اصلح.رخ - جلد 14 صفحہ 354 حاشیہ) فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيبٍ مُّقْتَدِرٍ.(القمر: 56) متقی لوگ جو خدا تعالیٰ سے ڈر کر ہر یک قسم کی سرکشی کو چھوڑ دیتے ہیں وہ فوت ہونے کے بعد جنات اور نہر میں ہیں.صدق کی نشست گاہ میں با اقتدار بادشاہ کے پاس.اب ان آیات کی رو سے صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالے نے دخول جنت اور مقعد صدق میں تلازم رکھا ہے یعنی خدائے تعالیٰ کے پاس پہنچنا اور جنت میں داخل ہونا ایک دوسرے کا لازم ٹھہرایا گیا ہے.سواگر رَافِعُكَ اِلَی کے یہی معنے ہیں جو مسیح خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھایا گیا تو بلا شبہ وہ جنت میں بھی داخل ہو گیا جیسا کہ دوسری آیت یعنی ارجعِي إِلى رَبِّك (الـفـجـر : 29) جو رَافِعُكَ اِلَی کے ہم معنی ہے بصراحت اسی پر دلالت کر رہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھائے جانا اور گذشتہ مقربوں کی جماعت میں شامل ہو جانا اور بہشت میں داخل ہو جانا یہ تینوں مفہوم ایک ہی آن میں پورے ہو جاتے ہیں.پس اس آیت سے بھی مسیح ابن مریم کا فوت ہونا ہی ثابت ہوا.فَالْحَمُدُ لِلَّهِ الَّذِى اَحَقَّ الْحَقَّ وَاَبْطَلَ الْبَاطِلَ وَ نَصَرَ عَبْدَهُ وَأَيَّدَ مَأْمُورَهُ.(ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 435) وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَ فَائِنُ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمُ ط وَ مَنْ يَنْقَلِبُ عَلى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ط وَ سَيَجْزِي اللَّهُ الشَّكِرِينَ.(ال عمران:145) یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم محض ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.پس کیا اگر وہ فوت ہو گئے یا قتل کیے گئے تو تم دین اسلام کو چھوڑ دو گے.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 391)
477 خدا وند عزوجل نے عام اور خاص دونوں طور پر مسیح کا فوت ہو جانا بیان فرمایا ہے عام طور پر جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَ فَائِنُ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمُ عَلَى أَعْقَابِكُمْ یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے ہر یک رسول جو آیا وہ گذر گیا اور انتقال کر گیا اب کیا تم اس رسول کے مرنے یا قتل ہو جانے کی وجہ سے دین اسلام چھوڑ دو گے اب دیکھو یہ آیت جو استدلالی طور پر پیش کی گئی ہے صریح دلالت کرتی ہے کہ ہر یک رسول کو موت پیش آتی رہی ہے خواہ وہ موت طبعی طور پر ہو یا قتل وغیرہ سے اور گذشتہ نبیوں میں سے کوئی ایسا نبی نہیں جو مرنے سے بچ گیا ہو سو اس جگہ ناظرین بہ بداہت سمجھ سکتے ہیں کہ اگر حضرت مسیح جو گذشتہ رسولوں میں سے ایک رسول ہیں اب تک مرے نہیں بلکہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے تو اس صورت میں مضمون اس آیت کا جو عام طور پر ہر یک گذشتہ نبی کے فوت ہونے پر دلالت کر رہا ہے صحیح نہیں ٹھہر سکتا بلکہ یہ استدلال ہی لغو اور قابل جرح ہوگا.(ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 265-264) ( الوصیت.ر.خ.جلد 20 صفحہ 314-313) قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَ فَيْهَا تَمُوتُونَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُونَ (الاعراف: 26) اگر وہ (حضرت عیسی علیہ السلام ناقل ) مع جسم عنصری آسمان پر ہیں اور بموجب تصریح اس آیت کے قیامت کے دن تک زمین پر نہیں اتریں گے تو کیا وہ آسمان پر ہی مریں گے اور آسمان میں ہی ان کی قبر ہو گی ؟ لیکن آسمان پر مرنا آیت فِيْهَا تَمُوتُونَ کے برخلاف ہے.پس اس سے تو یہی ثابت ہوا کہ وہ آسمان پر مع جسم عصری نہیں گئے بلکہ مرکر گئے.اور جس حالت میں کتاب اللہ نے کمال تصریح سے یہ فیصلہ کر دیا تو پھر کتاب اللہ کی مخالفت کرنا اگر معصیت نہیں تو اور کیا ہے.؟ قرآن شریف میں کئی جگہ صاف فرما دیا ہے کہ کوئی شخص مع جسم عنصری آسمان پر نہیں جائے گا بلکہ تمام زندگی زمین پر بسر کریں گے یہ خدا کا وعدہ ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفَيْهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ یعنی زمین پر ہی تم زندہ رہو گے اور زمین پر ہی تم مرو گے اور زمین میں سے ہی تم نکالے جاؤ گے.پس اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کا مع جسم عصری آسمان پر جانا اس وعدہ کے برخلاف ہے اور خدا پر تخلف وعدہ جائز نہیں اور اس وعدہ میں کوئی استثناء نہیں.(چشمہ معرفت.ر.خ.جلد 23 صفحہ 228) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کافروں نے قسمیں کھا کر بار بارسوال کیا کہ آپ مع جسم عصری آسمان پر چڑھ کر دکھلائیے.ہم ابھی ایمان لائیں گے.ان کو جواب دیا گیا.قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا.یعنی ان کو کہدے کہ میرا خدا عہد شکنی سے پاک ہے اور بموجب اس قول کے مع جسم عنصری آسمان پر نہیں جا سکتا.کیونکہ یہ امر خدا کے وعدہ کے برخلاف ہے وجہ یہ کہ وہ فرماتا ہے کہ فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفَيْهَا تَمُوتُونَ.وَ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ.چشم مسیجی.رخ- جلد 20 صفحہ 387 حاشیہ )
478 در حقیقت حضرت مسیح ابن مریم علیه السلام برطبق آیت فِيهَا تَحْيَوْنَ وَ فَيْهَا تَمُوتُونَ زمین پر ہی اپنی جسمانی زندگی کے دن بسر کر کے فوت ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کی سولہ آیتوں اور بہت سی حدیثوں بخاری اور مسلم اور دیگر صحاح سے ثابت ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر آباد ہونے اور بسنے کے لیے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے اور نہ حقیقی اور واقعی طور پر دو موتیں کسی پر واقع ہوتی ہیں اور نہ قرآن کریم میں واپس آنے والوں کے لیے کوئی قانون وراثت موجود ہے.(ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 602) و قال الله تعالى فيهـا تـحـيـون فخصص حياة الناس بالارض كما خصص موتهم : بالثرى.اتتركون كلام الله وشهادة نبيه وتتبعون اقوالا اخر بئس للظلئين بدلا.ايها الناس قدا عثـرنـى الله على هذا السر و علمنى مالم تعلموا و ارسلنى اليكم حكما عدلا لا كشف عليكم ما كان عليكم مستترا.فلا تما رواولا تجادلوا ( آئینہ کمالات اسلام - ر- خ - جلد 5 صفحہ 434-433) ( ترجمہ ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فيها تحيون ( کہ تم اسی زمین میں زندہ رہو گے ) پس اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی زندگی کو زمین سے مخصوص فرمایا ہے جس طرح ان کی موت کو مٹی سے خاص کر دیا.اے لوگو کیا تم اللہ کے کلام اور اس کے نبی کی شہادت کو چھوڑ کر دوسری باتوں کی اتباع کرتے ہو.ظالموں کا بدلہ نہایت ہی بُرا ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے اس راز سے آگاہ فرمایا ہے اور مجھے وہ کچھ سکھایا ہے جس کا تم کو علم نہیں اور مجھے تمہاری طرف حکم وعدل بنا کر بھیجا ہے تا کو تم پر وہ باتیں کھولوں جو پہلے تم پر پوشیدہ تھیں.پس شک نہ کرو اور نہ جھگڑا کرو.بعض نادان کہتے ہیں کہ یہ بھی تو عقیدہ اہل اسلام کا ہے کہ الیاس اور خضر زمین پر زندہ موجود ہیں اور ادریس آسمان پر مگر ان کو معلوم نہیں کہ علمائے محققین ان کو زندہ نہیں سمجھتے کیونکہ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ آج سے ایک سو برس کے گزرنے پر زمین پر کوئی زندہ نہیں رہے گا.پس جو شخص خضر اور الیاس کو زندہ جانتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کا مکذب ہے اور ادریس کو اگر آسمان پر زندہ مانیں تو پھر ماننا پڑیگا کہ وہ آسمان پر ہی مریں گے کیونکہ اُن کا دوبارہ زمین پر آنا نصوص سے ثابت نہیں اور آسمان پر مرنا آیت فيها تموتون کے منافی ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ.جلد 17 صفحہ 99-98 حاشیہ)
479 وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُبَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ مُّصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّورِيَةِ وَ مُبَشِّرًا بِرَسُولِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ ط فَلَمَّا جَاءَ هُمُ بِالْبَيِّنَتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ.(الصف:7) غضب کی بات ہے کہ اللہ جل شانہ تو اپنی پاک کلام میں حضرت مسیح کی وفات ظاہر کرے اور یہ لوگ اب تک اس کو زندہ سمجھ کر ہزار ہا اور بیشمار فتنے اسلام کے لئے برپا کر دیں اور مسیح کو آسمان کا حی و قیوم اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کا مردہ ٹھہرا وہیں حالانکہ مسیح کو گواہی قرآن کریم میں اس طرح پرلکھی ہے مُبَشِّرًا بِرَسُولِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِی اسْمُهُ أَحْمَدُ یعنی میں ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد یعنی میرے مرنے کے بعد آئے گا اور نام اس کا احمد ہوگا.پس اگر مسیح اب تک اس عالم جسمانی سے گزر نہیں گیا تو اس سے لازم آتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اب تک اس عالم میں تشریف فرما نہیں ہوئے کیونکہ نص اپنے کھلے کھلے الفاظ سے بتلا رہی ہے کہ جب مسیح اس عالم جسمانی سے رخصت ہو جائے گا تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عالم جسمانی میں تشریف لائیں گے وجہ یہ کہ آیت میں آنے کے مقابل پر جانا بیان کیا گیا ہے اور ضرور ہے کہ آنا اور جانا دونوں ایک ہی رنگ کے ہوں.یعنی ایک اس عالم کی طرف چلا گیا اور ایک اس عالم کی طرف سے آیا.آئینہ کمالات.رخ.جلد 5 صفحہ 42) قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ إلى حِينِ.(الاعراف:25) تمہارے قرار کی جگہ زمین ہی رہے گی پھر کیونکر ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسی کی قرارگاہ صدہا برس سے آسمان پر ہو.“ (براہین احمدیہ.رخ - جلد 21 صفحہ 300 حاشیہ ) خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا تھا کہ جس کا یہ مطلب ہے کہا اَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا.أَحْيَاءَ وَّ اَمْوَاتًا (المرسلات 27-26) ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کے سمیٹنے کیلئے کافی بنایا ہے اور اس میں ایک کشش ہے جس کی وجہ سے زمین والے کسی جگہ زندگی بسر کر ہی نہیں سکتے.اب اگر بشر آسمان پر گیا ہوا مان لیا جاوے تو نعوذ باللہ ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ نے اپنا وعدہ توڑ دیا.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 351) فَلاَ يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَّلَا إِلى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ.(يس: 51) وہ آیات جن میں لکھا ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر دنیا میں نہیں آتے ازاں جملہ یہ آیت ہے.وَ حَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (الانبياء : 96) اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ جن لوگوں پر واقعی موت وارد ہو جاتی ہے اور درحقیقت فوت ہو جاتے ہیں پھر وہ زندہ کر کے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 619 حاشیہ )
480 إِنَّكَ مَيِّتٌ وَّ إِنَّهُمْ مَّيِّتُونَ.و انهم ميتون.(الزمر: (31) خدا تعالیٰ کی عادت نہیں کہ دوبارہ دنیا میں لوگوں کو بھیجا کرے ورنہ ہمیں تو عیسی کی نسبت حضرت سیدنا محمد مصطفے کے دوبارہ دنیا میں آنے کی زیادہ ضرورت تھی اور اسی میں ہماری خوشی تھی مگر خدا تعالیٰ نے انک میت کہہ کر اس امید سے محروم کر دیا.مسلمانوں (تذکرۃ الشہادتیں...خ.جلد 20 صفحہ 22) تب ادبار آیا ! جب تعلیم قرآں کو بھلایا کو فلک پر سے بٹھایا ہے رسول حق کو مٹی میں سلایا یہ تو ہیں کر کے پھل ویسا ہی پایا اہانت نے انہیں کیا کیا دکھایا عزت خدا نے پھر تمھیں اب ہے بلایا کہ سوچو خير البرايا ره خدا نے خود دکھا دی فسبحان الذى اخز الاعادي ہمیں (بشیر احمد شریف احمد اور مبارکہ کی آمین در مشین اردو صفحہ 51) وفات مسیح حدیث رسول اللہ کے اعتبار سے بخاری کے صفحہ 640 میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت کی گئی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو بعض آدمی یہ گمان کرتے تھے کہ آنحضرت فوت نہیں ہوئے اور بعض کہتے تھے کہ فوت ہو گئے مگر پھر دنیا میں آئیں گے اس حالت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ حضرت عائشہ کے گھر گئے اور دیکھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تب وہ چادر کا پردہ اٹھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف جھکے اور چوما اور کہا کہ میرے ماں باپ تیرے پر قربان مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ خدا تیرے پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا.پھر لوگوں میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فوت ہو جانا ظاہر کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے اور پھر دنیا میں نہ آنے کی تائید میں یہ آیت پڑھی وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ - یعنی محمد اس سے زیادہ نہیں کہ وہ رسول اللہ ہے اور اس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے گذر چکے ہیں یادر ہے کہ مِنُ قَبْلِهِ الرُّسُلُ کا الف لام استغراق کا ہے جو رسولوں کی جمع افراد گذشتہ پر محیط ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر دلیل ناقص رہ جاتی ہے کیونکہ اگر ایک فرد بھی باہر رہ جائے تو پھر وہ استدلال جو مدعا قرآن کریم کا ہے اس آیت سے پیدا نہیں ہو سکتا.اس آیت کے پیش کرنے سے حضرت ابوبکر صدیق نے اس بات کا ثبوت دیا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گذرا کہ جو فوت نہ ہوا ہو.(ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 588) یعنی ماتوا كلهم كما استدل به الصديق الاكبر عند وفات النبي صلى الله عليه وسلم فما بقى شک بعد ذلک فی وفات المسيح و امتناع رجوعه ان كنتم بالله و اياته مؤمنين.تحفہ بغداد.ر.خ.جلد 7 صفحہ 9)
481 (ترجمہ) یعنی تمام کے تمام رسول فوت ہو گئے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس آیت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت استدلال کیا تھا پس اس کے بعد اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو حضرت مسیح کی وفات اور مسیح کے واپس نہ آنے کے متعلق کوئی شک باقی نہیں رہتا.بخاری میں عبد اللہ بن عباس کے قول سے ثابت ہو چکا ہے کہ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا.چنانچہ امام بخاری نے اسی مقام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث لکھ کر جس میں كَمَا قَالَ الْعَبُدُ الصَّالِحُ ہے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہی معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے ہیں.پھر بعد اس کے جو حضرت عیسی کی وفات کے بارے میں قرآن نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور عبداللہ بن عباس کے قول میں بھی یہی آیا دوسرے معنے کرنے یہودیوں کی طرح ایک خیانت ہے.غور کر کے دیکھ لو کہ تمام قرآن میں بجز روح قبض کرنے کے توفی کے اور کوئی معنے نہیں.تمام حدیثوں میں بجز مارنے کے اور کسی محل میں تو فی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا.تمام لغت کی کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ جب خدا تعالیٰ فاعل ہو اور کوئی انسان مفعول به مثلاً یہ قول ہو کہ توفی اللہ زیدا تو بجز روح قبض کرنے اور مارنے کے اور کوئی معنے نہیں لیے جاویں گے.پس جب اس صراحت اور تحقیق سے فیصلہ ہو چکا کہ تو فی کے معنے مارنا ہے اور آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی سے ثابت ہو چکا کہ حضرت عیسی کی توفی عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے ہو چکی ہے یعنی وہ خدا بنائے جانے سے پہلے فوت ہو چکے ہیں تو پھر اب تک ان کی وفات کو قبول نہ کرنا یہ طریق بحث نہیں بلکہ بے حیائی کی قسم ہے.خدا تعالیٰ نے چونکہ ان لوگوں کو ذلیل کرنا تھا کہ جو خواہ مخواہ حضرت عیسی کی حیات کے قائل ہیں اس لیے اس نے نہ ایک پہلو سے بلکہ بہت سے پہلوؤں سے حضرت عیسی کی موت کو ثابت کیا.توفی کے لفظ سے موت ثابت ہوئی اور پھر آیت وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ.(ال عمران : 145) سے موت ثابت ہوئی.پھر قرآن شریف کی آیت فِيْهَا تَحْيَونَ (الاعراف: 26) سے موت ثابت ہوئی.اور پھر قرآن شریف کی آیت وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ (البقرة : 37) سے موت ثابت ہوئی کیونکہ ان دونوں آیتوں سے ثابت ہوا کہ آسمان پر جسمانی زندگی اور قرار گاہ کسی انسان کا نہیں ہو سکتا.الصل ایام اسح.رخ- جلد 14 صفحہ 385-383) امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ) اسی غرض سے آیہ کریمہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمُ کو کتاب التفسیر میں لایا ہے اور اس ایراد سے ان کا منشا یہ ہے کہ تا لوگوں پر ظاہر کرے کہ تَوَفَّيْتَنِی کے لفظ کی صحیح تغییر وہی ہے جس کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرماتے ہیں یعنی مار دیا اور وفات دیدی اور حدیث یہ ہے.عن ابن عباس انه يجاء برجال من امتى فيؤخذ بهم ذات الشمال فاقول يارب اصیحابی فیقال
482 انک لاتدرى ما احد ثوا بعدك فاقول كما قال العبد الصلح و كنت عليهم شهيداما دمت فهم فلما توفيتنى كنت انت الرقيب عليهم (صفحه 665 بخاری 693 بخاری) یعنی قیامت کے دن میں بعض لوگ میری امت میں سے آگ کی طرف لائے جائیں گے تب میں کہوں گا کہ اے میرے رب یہ تو میرے اصحاب ہیں تب کہا جائے گا کہ تجھے ان کاموں کی خبر نہیں جو تیرے پیچھے ان لوگوں نے کیے سواس وقت میں وہی بات کہوں گا جوایک نیک بندہ نے کہی تھی یعنی مسیح ابن مریم نے جب کہ اس کو پوچھا گیا تھا کہ کیا یہ تو نے تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے ماننا اور وہ بات جو میں ابن مریم کی طرح کہوں گا) یہ ہے کہ میں جب ان میں تھا ان پر گواہ تھا پھر جب تو نے مجھے وفات دیدی تو اس وقت تو ہی ان کا نگہبان اور محافظ اور نگران تھا.اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قصہ اور مسیح ابن مریم کے قصہ کو ایک ہی رنگ کا قصہ قرار دیکر وہی لفظ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کا اپنے حق میں استعمال کیا ہے جس سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی سے وفات ہی مراد لی ہے کیونکہ اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور مدینہ منورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مزار شریف موجود ہے پس جبکہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کی شرح اور تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت وفات پانا ہے ثابت ہوا اور وہی لفظ حضرت مسیح کے منہ سے نکلا تھا اور کھلے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ جن الفاظ کو مسیح ابن مریم نے استعمال کیا تھا وہی الفاظ میں استعمال کروں گا پس اس سے بکلی منکشف ہو گیا کہ مسیح ابن مریم بھی وفات پا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات پاگئے اور دونوں برابر طور پر اثر آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی سے متاثر ہیں.(ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 586-585) قُلْ يَتَوَفَّكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلى رَبِّكُمُ ترجعون.(السجده: 12) تفسیر معالم کے صفحہ 162 میں زیر تفسیر آیت یعیسی إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ لکھا ہے کہ علی بن طلحہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ اِنّى مُمَيْتُک یعنی میں تجھ کو مارنے والا ہوں.اس پر دوسرے اقوال اللہ تعالیٰ کے دلالت کرتے ہیں.قُلْ يَتَوَفَّكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ (السجدة: 12) الَّذِينَ تَتَوَفَّهُمُ الْمَلَئِكَةُ طَيِّبِينَ (النحل : 33) الَّذِينَ تَتَوَفَّهُمُ الْمَلِئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسُهُمُ (النحل: 29).غرض حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اعتقاد یہی تھا کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 225-224)
483 تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم کا اجماع ان سب کے بعد وہ عظیم الشان آیت ہے جس پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوا اور ایک لاکھ سے زیادہ صحابی نے اس بات کو مان لیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور کل گذشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں اور وہ یہ آیت ہے و مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَائِنُ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (ال عمران : 145).اس جگہ خلت کے معنے خدا تعالیٰ نے آپ فرمادے کہ موت یا قتل پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے محل استدلال میں جمیع انبیا گذشتہ کی موت پر اس آیت کو پیش کر کے اور صحابہ نے ترک مقابلہ اور تسلیم کا طریق اختیار کر کے ثابت کر دیا کہ یہ آیت موت مسیح اور تمام گذشتہ انبیاء علیہم السلام پر قطعی دلیل ہے اور اس پر تمام اصحاب رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو گیا ایک فرد بھی باہر نہ رہا جیسا کہ میں نے اس بات کو مفصل طور پر رسالہ تحفہ غزنویہ میں لکھ دیا ہے پھر اس کے بعد تیرہ سو برس تک کبھی کسی مجتہد اور مقبول امام پیشوائے انام نے یہ دعوی نہیں کیا کہ حضرت مسیح زندہ ہیں بلکہ امام مالک نے صاف شہادت دی کہ فوت ہو گئے ہیں اور امام ابن حزم نے صاف شہادت دی کہ فوت ہو گئے ہیں اور تمام کامل مکمل ملہمین میں سے کبھی کسی نے یہ الہام نہ سنایا کہ خدا کا یہ کلام میرے پر نازل ہوا ہے کہ عیسی بن مریم برخلاف تمام نبیوں کے زندہ آسمان پر موجود ہے الغرض جبکہ میں نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ اور اقوال ائمہ اربعہ اور وحی اولیاء امت محمدیہ اور اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم میں بجز موت مسیح کے اور کچھ نہ پایا تو بنظر تکمیل لوازم تقوی انبیاء سابقین علیہم السلام کے قصص کی طرف دیکھا کہ کیا قرون گذشتہ میں اس کی کوئی نظیر بھی موجود ہے کہ کوئی آسمان پر چلا گیا ہو اور دوبارہ واپس آیا ہو تو معلوم ہوا کہ حضرت آدم سے لیکر اس وقت تک کوئی نظیر نہیں.(تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 92-91) تمام صحابہ کا ان ( حضرت مسیح علیہ السلام) کی موت پر اجماع ہو گیا اور اگر اجماع نہیں ہوا تھا تو ذرہ بیان تو کرو کہ جب حضرت عمر کے غلط خیال پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور پھر دوبارہ دنیا میں آئیں گے حضرت ابوبکر نے یہ آیت پیش کی کہ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ تو حضرت ابوبکر نے کیا سمجھ کر یہ آیت پیش کی تھی اور کونسا استدلال مطلوب تھا جو مناسب محل بھی تھا اور صحابہ نے اس کے معنے کیا سمجھے تھے اور کیوں مخالفت نہیں کی تھی اور کیوں اس جگہ لکھا ہے کہ جب یہ آیت صحابہ نے سنی تو اپنے خیالات سے رجوع کر لیا.تحفه غزنویہ - ر - خ- جلد 15 صفحہ 542) اسلام میں پہلا اجماع یہی تھا کہ کوئی نبی گذشتہ نبیوں میں سے زندہ نہیں ہے.جیسا کہ آیت مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ سے ثابت ہے.خدا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بہت بہت اجر دے.جو اس اجماع کا موجب ہوئے.اور منبر پر چڑھ کر اس آیت کو پڑھ سنایا.(لیکچر سیالکوٹ.ر.خ.جلد 20 صفحہ 247-246)
تیسری فصل 484 لفظ جہاد کے لفظی معافی اسلام میں جہاد جاننا چاہیئے کہ جہاد کا لفظ جہد کے لفظ سے مشتق ہے جس کے معنے ہیں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر دینی لڑائیوں کے لئے بولا گیا.اور معلوم ہوتا کہ ہندوؤں میں جو لڑائی کو یہ کہتے ہیں.دراصل یہ لفظ بھی جہاد کے لفظ کا ہی بگڑا ہوا ہے.چونکہ عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے.اور تمام زبانیں اسی میں سے نکلی ہیں اس لئے یہ ہ کا لفظ جو سنسکرت کی زبان میں لڑائی پر بولا جاتا ہے دراصل جہد یا جہاد ہے اور پھر جیم کو یاء کے ساتھ بدل دیا گیا اور کچھ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.ر.خ.جلد 17 صفحہ 3) جو تصرف کر کے تشدید کے ساتھ بولا گیا.جہاد کے حقیقی معافی اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللهِ وَ اللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.(البقره: 219) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لیے وطنوں سے یا نفس پرستیوں سے جدائی اختیار کی اور خدا کی راہ میں کوشش کی وہ خدا کی رحیمیت کے امیدوار ہیں اور خدا غفور اور رحیم ہے یعنی اس کا فیضان رحیمیت ضرور ان لوگوں کے شامل حال ہو جاتا ہے کہ جو اس کے مستحق ہیں کوئی ایسا نہیں جس نے اس کو طلب کیا اور نہ پایا.عاشق که شد که یار بحالش نظر نہ کرو اے خواجه درد نیست وگرنه طبیب هست ( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد اصفحہ 452-451 حاشیہ نمبر 11) اسلام صلح اور امن کا دین ہے أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ.(الحج: 40) اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اسلام میں کافروں کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم ہے تو پھر کیونکر اسلام صلح کاری کا مذہب ٹھیر سکتا ہے.پس واضح ہو کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر یہ تہمت ہے اور یہ بات سراسر جھوٹ ہے کہ دین اسلام میں جبرادین پھیلانے کے لئے حکم دیا گیا تھا.کسی پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں تیرہ برس تک سخت دل کا فروں کے ہاتھ سے وہ مصیبتیں اٹھا ئیں اور وہ دیکھ دیکھے کہ بجز ان برگزیدہ لوگوں کے جن کا خدا پر نہایت درجہ بھروسہ ہوتا ہے کوئی شخص ان دکھوں کی برداشت نہیں کر سکتا اور اس مدت
485 میں کئی عزیز صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت بے رحمی سے قتل کئے گئے اور بعض کو بار بارز دوکوب کر کے موت کے قریب کر دیا اور بعض دفعہ ظالموں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر پتھر چلائے کہ آپ سر سے پیر تک خون آلودہ ہو گئے اور آخر کار کافروں نے یہ منصوبہ سوچا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے اس مذہب کا فیصلہ ہی کر دیں.تب اس نیت سے انہوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور خدا نے اپنے نبی کوحکم دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ تو اس شہر سے نکل جاؤ.تب آپ اپنے ایک رفیق کے ساتھ جس کا نام ابوبکر تھا نکل آئے اور خدا کا یہ مجزہ تھا کہ باوجود یکہ صد ہا لوگوں نے محاصرہ کیا تھا مگر ایک شخص نے بھی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا اور آپ شہر سے باہر آ گئے اور ایک پتھر پر کھڑے ہو کر مکہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اے مکہ تو میرا پیارا شہر اور پیارا وطن تھا اگر میری قوم مجھ کو تجھ سے نہ نکالتی تو میں ہرگز نہ نکلتا.تب اس وقت بعض پہلے نوشتوں کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ وہ نبی اپنے وطن سے نکالا جائے گا مگر پھر بھی کفار نے اسی قدر پر صبر نہ کیا اور تعاقب کر کے چاہا کہ بہر حال قتل کر دیں لیکن خدا نے اپنے نبی کو ان کے شر سے محفوظ رکھا اور آنجناب پوشیدہ طور پر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف چلے آئے اور پھر بھی کفار اس تدبیر میں لگے رہے کہ مسلمانوں کو بکلی نیست و نابود کر دیں اور اگر خدا تعالے کی حمایت اور نصرت نہ ہوتی تو ان دنوں میں اسلام کا قلع قمع کرنا نہایت سہل تھا کیونکہ دشمن تو کئی لاکھ آدمی تھا مگر مکہ سے ہجرت کرنے کے وقت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے رفیق ستر سے زیادہ نہ تھے اور وہ بھی متفرق ملکوں کی طرف ہجرت کر گئے تھے.پس اس حالت میں ہر ایک سمجھ سکتا ہے جبر کرنے کی کونسی صورت تھی غرض جب کافروں کا ظلم نہایت درجہ تک پہنچ گیا اور وہ کسی طرح آزار دہی سے باز نہ آئے اور انہوں نے اس بات پر مصم ارادہ کر لیا کہ تلوار کے ساتھ مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں تب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دفاعی جنگ کے لئے اجازت فرمائی یعنی اس طرح کی جنگ جس کا مقصد صرف حفاظت خود اختیاری اور کفار کا حملہ دفع کرنا تھا جیسا کہ قرآن شریف میں تصریح سے اس بات کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ آیت یہ ہے.اِنَّ اللهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللهَ لاَ يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ.أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ - (الحج: 39:40) ( ترجمہ ) خدا کا ارادہ ہے کہ کفار کی بدی اور ظلم کو مومنوں سے دفع کرے یعنی مومنوں کو دفاعی جنگ کی اجازت دے تحقیقاً خدا خیانت پیشہ ناشکر لوگوں کو دوست نہیں رکھتا.خدا ان مومنوں کو لڑنے کی اجازت دیتا ہے جن پر کا فرقتل کرنے کے لئے چڑھ چڑھ کے آتے ہیں اور خدا حکم دیتا ہے کہ مومن بھی کافروں کا مقابلہ کریں کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور خدا ان کی مدد پر قدرت رکھتا ہے یعنی اگر چہ تھوڑے ہیں مگر خدا ان کی مدد پر قادر ہے.یہ قرآن شریف میں وہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ کی اجازت دی گئی.آپ خود سوچ لو کہ اس آیت سے کیا نکلتا ہے.کیا لڑنے کے لئے خود سبقت کرنا یا مظلوم ہونے کی حالت میں اپنے بچاؤ کے لئے مجبوری مقابلہ کرنا ہمارے مخالف بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ آج ہمارے ہاتھ میں وہی قرآن ہے جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شائع کیا تھا.پس اس کے اس بیان کے مقابل پر جو کچھ برخلاف اس کے بیان کیا جائے وہ سب جھوٹ اور افترا ہے.مسلمانوں کی قطعی اور یقینی تاریخ جس کتاب سے نکلتی ہے وہ قرآن شریف ہے.(پیغام صلح - ر - خ - جلد 23 صفحہ 392-390)
486 اور نیز ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ خدا تعالے قرآن شریف میں پیش دستی کر کے لڑائی کرنا ایک سخت مجرمانہ فعل قرار دیتا ہے بلکہ مومنوں کو جا بجا صبر کا حکم دیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اِدْفَعُ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ.(حم السجده: 35).یعنی تیرا دشمن جو تجھ سے بدی کرتا ہے اس کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کر اگر تو نے ایسا کیا تو وہ تیرا ایسا دوست ہو جائے گا کہ گویا رشتہ دار بھی ہے اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے.وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ.(ال عمران : 135) یعنی مومن وہ ہیں جو غصہ کھا جاتے ہیں اور لوگس کے ساتھ عفو اور درگذر سے پیش آتے ہیں اور اگر چہ انجیل میں بھی عفو اور درگذر کی تعلیم ہے جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں مگر وہ یہودیوں تک محدود ہے دوسروں سے حضرت عیسی نے اپنی ہمدردی کا کچھ واسطہ نہیں رکھا اور صاف طور پر فرما دیا کہ مجھے بجز بنی اسرائیل کے دوسروں سے کچھ غرض نہیں خواہ وہ غرق ہوں خواہ نجات پاویں.مگر قرآن شریف نے یہ فرمایا.قُل يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.(الاعراف: 159).یعنی اے تمام انسانو! جوزمین پر رہتے ہو میں سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں نہ کسی خاص قوم کی طرف اور سب کی ہمدردی میرا مقصد ہے.(پیغام صلح - ر-خ- 23 صفحہ 395) اور پھر ایک جگہ فرمایا ہے.مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا.(المائده: 33) یعنی جس شخص نے ایسے شخص کو قتل کیا کہ اس نے کوئی ناحق کا خون نہیں کیا تھا یا کسی ایسے شخص کو قتل کیا جو نہ بغاوت کے طور پر امین عامہ میں خلل ڈالتا تھا اور نہ زمین میں فساد پھیلا تا تھا تو اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا.یعنی بے وجہ ایک انسان کو قتل کر دینا خدا کے نزدیک ایسا ہے کہ گویا تمام نبی آدم کو ہلاک کر دیا.ان آیات سے ظاہر ہے کہ بے وجہ کسی انسان کا خون کرنا کس قدرا سلام میں جرم کبیر ہے.(پیغام صلح.رخ- جلد 23 صفحہ 394) اسلام میں جبر و اکراہ نہیں ہے لَا إِكْرَاهَ فِى الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرُوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا وَ اللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.(البقرة : 257) ہمیں خدا تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی تعلیم دی ہے.کہ دین اسلام میں اکراہ اور جبر نہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ اور جیسا کہ فرماتا ہے اَفَانتَ تُكْرِهُ النَّاسَ (یونس : 100) ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 45) یعنی دین میں کوئی جبر نہیں ہے تحقیق ہدایت اور گمراہی میں کھلا کھلا فرق ظاہر ہو گیا ہے پھر جبر کی کیا حاجت ہے تعجب کہ باوجود یکہ قرآن شریف میں اس قدر تصریح سے بیان فرمایا ہے کہ دین کے بارے میں جبر نہیں کرنا چاہیئے پھر بھی جن کے دل بغض اور دشمنی سے سیاہ ہو رہے ہیں ناحق خدا کے کلام پر جبر کا الزام دیتے ہیں.چشمہ معرفت - ر- خ- جلد 23 صفحہ 233-232)
487 میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.خدا تو قرآن شریف میں فرماتا ہے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة : 257).یعنی دین اسلام میں جبر نہیں.تو پھر کس نے جبر کا حکم دیا.اور جبر کے کون سے سامان تھے.اور کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کیے جاتے ہیں ان کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے کے باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں.اور جب ہزار تک پہنچ جائیں تو کئی لاکھ دشمن کو شکست دیدیں.اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کے لیے بھیڑوں بکریوں کی طرح سر کٹا دیں.اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہریں کر دیں.اور خدا کی توحید کے پھیلانے کے لیے ایسے عاشق ہوں.کہ درویشانہ طور پر سختی اٹھا کر افریقہ کے ریگستان تک پہنچیں.اور اس ملک میں اسلام کو پھیلا دیں.اور پھر ہر یک قسم کی صعوبت اٹھا کر چین تک پہنچیں نہ جنگ کے طور بلکہ محض درویشانہ طور پر اور اس ملک میں پہنچ کر دعوت اسلام کریں.جس کا نتیجہ یہ ہو کہ ان کے بابرکت وعظ سے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہو جائیں.اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں اور بہت سے حصہ آریہ ورت کو اسلام سے مشرف کر دیں اور یورپ کی حدود تک لا الہ الا اللہ کی آواز پہنچا ہیں.تم ایمانا کہو کہ کیا یہ کام ان لوگوں کا ہے جو جبراً مسلمان کیسے جاتے ہیں جن کا دل کا فر اور زبان مومن ہوتی ہے.نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نور ایمان سے بھر جاتے ہیں.اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے.(پیغام صلح - ر- خ- جلد 23 صفحہ 469-468) مذہبی امور میں آزادی ہونی چاہیئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ کہ دین میں کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے.اس قسم کا فقرہ انجیل میں تمہیں بھی نہیں ہے.لڑائیوں کی اصل جڑ کیا تھی.اس کے سمجھنے میں ان لوگوں سے غلطی ہوئی ہے.اگر لڑائی کا ہی حکم تھا تو تیرہ برس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تو پھر ضائع ہی گئے کہ آپ نے آتے ہی تلوار نہ اٹھائی.صرف لڑنے والوں کے ساتھ لڑائیوں کا حکم ہے.اسلام کا یہ اصول کبھی نہیں ہوا کہ خود ابتداء جنگ کریں.لڑائی کا سبب کیا تھا؟ اسے خود خدا نے بتلایا ہے کہ ظلِمُوا.خدا تعالیٰ نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مظلوم ہیں تو اب اجازت دیتا ہے کہ تم بھی لڑو.یہ نہیں حکم دیا کہ اب تلوار کا وقت ہے تم زبر دستی تلوار کے ذریعہ لوگوں کو مسلمان کرو بلکہ یہ کہا کہ تم مظلوم ہواب مقابلہ کرو.مظلوم کو تو ہر ایک قانون اجازت دیتا ہے کہ حفظ جان کے واسطے مقابلہ کرے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 653-652) وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلام کے بزور شمشیر پھیلائے جانے کا اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں.اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لیے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں اگر کسی کو شک ہے تو وہ میرے پاس رہ کر دیکھ لے کہ اسلام اپنی زندگی کا ثبوت براہین اور نشانات سے دیتا ہے...انگلستان اور فرانس اور دیگر ممالک یورپ میں یہ الزام بڑی سختی سے اسلام پر لگایا جاتا ہے کہ وہ جبر کے ساتھ پھیلا یا گیا ہے مگر افسوس اور سخت افسوس ہے کہ وہ نہیں دیکھتے کہ اسلام لَا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں نہیں معلوم کہ کیا وہ مذہب جو فتح پا کر بھی گرجے نہ گرانے کا حکم دیتا ہے کیا وہ جبر کر سکتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ ان ملانوں نے جو اسلام کے نادان دوست ہیں.یہ فساد ڈالا ہے.انہوں نے خود اسلام کی حقیقت کو سمجھا نہیں اور اپنے خیالی عقائد کی بنا پر دوسروں کو اعتراض کا موقعہ دیا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 130- 129 )
488 بهرزه طالب آن مهدی و مسیح مباش که کارشاں ہمہ خونریزی دوغا باشد بیہودگی سے تو اس مسیح اور مہدی کا طلبگار نہ ہو.جن کا کام سراسر خونریزی اور جنگ ہوگا.عزیز من رو تائید دین دگر را ہے ست نه این که تیغ برآری اگر ابا باشد اے میرے عزیز دین کی تائید کا اور ہی رستہ ہے یہ نہیں کہ اگر کوئی انکار کرے تو تو فورا تلوار نکال لے.چه حاجت است که تیغ از برائے دیں بکشی نه دین بود که به خونریزیش بقا باشد اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ تو دین کی خاطر تلوار کھینچے وہ دین دین نہیں جس کی بنا خونریزی پر ہو.چودیں مدلل و معقول و با ضیا باشد کدام دل کہ ازاں مذھبش ابا باشد جبکہ دین مدلل معقول اور روشن ہو تو وہ کونسا دل ہوگا جسے ایسے مذہب سے انکار ہو.درست بود خنجری نمی باید که زور قول موجه عجب نما باشد چودیں جب دین صحیح ہو تو اس کے لیے خنجر در کار نہیں کیونکہ بادلائل کلام کی طاقت معجز نما ہوتی ہے.تو از سرائے طبیعت نیا مدی بیروں ازیں ہمہ ہوست جبر با جفا باشد چونکہ تو ابھی نفسانی خواہشات کے چکر سے نہیں نکلا اس وجہ سے تیری ساری خواہش ظالمانہ جبر کے لیے ہے.ز جبر حجت حق بر جہاں نیا ید راست برو دلیل بده گر خرد ترا باشد سچائی کو دنیا میں جبراً پھیلا نا مناسب نہیں.اگر تجھے عقل ہے تو جا اور اس کے برخلاف دلائل پیش کر.ز جبر کو کینه صدق را شکست آید ازین بود که ره جبرها خطا باشد جبر سے تو راست بازوں کی جماعت ٹوٹ جاتی ہے.اسی وجہ سے جبر کا طریقہ غلط ہے.بهوش باش که جبراست خود دلیل گریز تسلی دل مردم ازین کجا باشد خبر دار ہو کہ جبر تو خود شکست کی دلیل ہے اس سے لوگوں کے دلوں کی تسلی کہاں ہوتی ہے.مرا بکفر کنی متهم ازین گفتار که کفر نزد تو ابرار را سزا باشد تو اس بات کی وجہ سے مجھ پر کفر کا الزام لگا تا ہے کیونکہ تیرے نزدیک نیکوں کو کافر کہنا درست ہے.درشین فارسی متر جم صفحہ 269-268) ( تریاق القلوب - ر-خ- جلد 15 صفحہ 133-132 )
489 اسلام میں جہاد کی ضرورت سورہ حج پارہ سترہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَواتٌ وَّ مَسجِدُ يُذْكَرُ فَيْهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا (الحج: 41) ( ترجمہ ) یعنی اگر خدا تعالے کی یہ عادت نہ ہوتی کہ بعض کو بعض کے ساتھ دفع کرتا تو ظلم کی نوبت یہاں تک پہنچتی کہ گوشہ گزینوں کے خلوت خانے ڈھائے جاتے اور عیسائیوں کے گرجے مسمار کئے جاتے اور یہودیوں کے معبد نابود کئے جاتے اور مسلمانوں کی مسجدیں جہاں کثرت سے ذکر خدا ہوتا ہے منہدم کی جاتیں.اس جگہ خدا تعالے یہ ظاہر فرماتا ہے کہ ان تمام عبادت خانوں کا میں ہی حامی ہوں اور اسلام کا فرض ہے کہ اگر مثلاً کسی عیسائی ملک پر قبصہ کرے تو ان کے عبادتخانوں سے کچھ تعرض نہ کرے اور منع کر دے کہ ان کے گرجے مسمار نہ کئے جائیں اور یہی ہدایت احادیث نبویہ سے مفہوم ہوتی ہے کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کہ کوئی اسلامی سپہ سالار کسی قوم کے مقابلہ کیلئے مامور ہوتا تھا تو اس کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے عبادت خانوں اور فقراء کے خلوتخانوں سے تعرض نہ کرے.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کس قدر تعصب کے طریقوں سے دور ہے کہ وہ عیسائیوں کے گر جاؤں اور یہودیوں کے معبدوں کا ایسا ہی حامی ہے جیسا کہ مساجد کا حامی ہے ہاں البتہ اس خدا نے جو اسلام کا بانی ہے یہ نہیں چاہا کہ اسلام دشمنوں کے حملوں سے فنا ہو جائے بلکہ اس نے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے اور حفاظت خود اختیاری کے طور پر مقابلہ کرنے کا اذن دیدیا ہے.جیسا کہ وہ قرآن شریف میں فرماتا ہے.اَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَ هَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُ وُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ (سورة التوبته: 13) فان جنحوا للسلم فاجنح لها (الانفال: 62) دیکھوسورۃ الانفال الجز و نمبر 10 ( ترجمہ ) کیا تم ایسی قوم سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں تو ڑ ڈالیں اور چاہا کہ رسول خدا کو جلا وطن کر دیں اور انہوں نے ہی پہلے تمہیں قتل کرنا شروع کیا.اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ.یعنی تم اس خیال سے کیوں ڈرتے ہو کہ ہم بہت ہی تھوڑے ہیں اور کفار مار میں بہت ہیں ہم کیونکر ان سے لڑ سکتے ہیں.(پیغام صلح.رخ.جلد 23 صفحہ 393/94) أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (الحج: 40) اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس زمانہ میں بڑی بڑی مشکلات کا سامنا تھا.آپ کے بہت سے جان نثار اور عزیز دوست ظالم کفار کے تیر و تفنگ کا نشانہ بنے اور طرح طرح کے قابل شرم عذاب ان لوگوں نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو پہنچائے حتی کہ آخر کار خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ کر لیا.چنانچہ آپ کا تعاقب بھی کیا.آپ کے قتل کرنے والے کے واسطے انعام مقرر کئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے.تعاقب کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی گئی.مگر یہ تو خدا تعالے کا تصرف تھا کہ آپ کو ان کی نظروں سے باوجود سامنے ہونے کے بچالیا اور ان کی آنکھوں میں خاک ڈال کر خود اپنے رسول کو ہاتھ دے کر بچا
490 لیا.آخر کار جب ان کفار کے مظالم کی کوئی حد نہ رہی اور مسلمانوں کو ان کے وطن سے باہر نکال کر بھی وہ سیر نہ ہوئے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ارشاد ہوا.اُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِير (الحج: 40) خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو تلوار اُٹھانے کی اجازت دی اور اس اجازت میں یہ ثابت کر دیا کہ واقع میں یہ لوگ ظالم تھے.اور شرارت ان کی حد سے بڑھ چکی تھی اور مسلمانوں کا صبر بھی اپنے انتہائی نقطہ تک پہنچ چکا تھا.اب خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے تلوار سے مقابلہ کیا وہ تلوار ہی سے ہلاک کئے جاویں اور گو یہ چند اور ضعیف ہیں مگر میں دکھا دوں گا کہ میں بوجہ اس کے کہ وہ مظلوم ہیں ان کی نصرت کرونگا اور تم کو ان کے ہاتھ سے ہلاک کراؤں گا.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 587) اسلامی جنگوں کی تین وجوہات تھیں کیا اس مذہب کو ہم جبر کا مذہب کہہ سکتے ہیں جس کی کتاب قرآن میں صاف طور پر یہ ہدایت ہے کہ لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة : 257) یعنی دین میں داخل کرنے کے لئے جبر جائز نہیں.کیا ہم اس بزرگ نبی کو جبر کا الزام دے سکتے ہیں جس نے مکہ معظمہ کے تیرہ برس میں اپنے تمام دوستوں کو دن رات یہی نصیحت دی کہ شرکا مقابلہ مت کرو اور صبر کرتے رہو.ہاں جب دشمنوں کی بدی حد سے گذرگئی اور دین اسلام کے مٹانے کے لئے تمام قوموں نے کوشش کی تو اس وقت غیرت الہی نے تقاضا کیا کہ جو لوگ تلوار اُٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں ورنہ قرآن شریف نے ہرگز جبر کی تعلیم نہیں دی اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتے کہ امتحانوں کے موقع پر بچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے لیکن ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی وفاداری ایک ایسا امر ہے کہ اس کے اظہار کی ہمیں ضرورت نہیں.یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ ان کے صدق اور وفاداری کے نمونے اس درجہ پر ظہور میں آئے کہ دوسری قوموں میں ان کی نظیر ملنا مشکل ہے.اس وفادار قوم نے تلواروں کے نیچے بھی اپنی وفاداری اور صدق کو نہیں چھوڑا بلکہ اپنے بزرگ اور پاک نبی کی رفاقت میں وہ صدق دکھلایا کہ کبھی انسان میں وہ صدق نہیں آ سکتا جب تک ایمان سے اس کا دل اور سینہ منور نہ ہو.غرض اسلام میں جبر کو دخل نہیں.اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں (۱) دفاعی طور پر یعنی بہ طریق حفاظت خود مختیاری (۲) بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون (۳) بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے.پس جس حالت میں اسلام میں یہ ہدایت ہی نہیں کہ کسی شخص کو جبر اور قتل کی دھمکی سے دین میں داخل کیا جائے تو پھر کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کی انتظار کرنا سرا سر غو اور بیہودہ ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآنی تعلیم کے برخلاف کوئی ایسا انسان بھی دنیا میں آوے جو تلوار کے ساتھ لوگوں کو مسلمان کرے.مسیح ہندوستان - ر- خ - جلد 15 صفحہ 12-11)
491 جہاد د فاع کے لئے تھا اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَ هَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُ وُكُم اَوَّلَ مَرَّةٍ (التوبة : 13) اس خدا نے جو اسلام کا بانی ہے یہ نہیں چاہا کہ اسلام دشمنوں کے حملوں سے فنا ہو جائے بلکہ اس نے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے اور حفاظت خود اختیاری کے طور پر مقابلہ کرنے کا اذن دیدیا ہے جیسا کہ وہ قرآن شریف میں فرماتا ہے اَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَ هَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُ وُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ (التوبة : 13) وَإِنْ جَنَحُوا لِلسّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا (الانفال:62) کیا تم ایسی قوم سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں تو ڑ ڈالیں اور چاہا کہ رسول خدا کو جلا وطن کر دیں اور انہوں نے ہی پہلے تمہیں قتل کرنا شروع کیا.(چشمہ معرفت - ر- خ - جلد 23 صفحہ 394) أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا...إِلَّا اَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ (الحج : 41-40) لڑائیوں کے سلسلہ کو دیکھنا از بس ضروری ہے اور جب تک آپ سلسلہ کو نہ دیکھو گے اپنے تئیں عمد ایا ہوا بڑی غلطی میں ڈالو گے.سلسلہ تو یہ ہے کہ اول کفار نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کا ارادہ کر کے آخر اپنے حملوں کی وجہ سے ان کو مکہ سے نکال دیا اور پھر تعاقب کیا اور جب تکلیف حد سے بڑھی تو پہلا حکم جولڑائی کے لئے نازل ہو اوہ یہ تھا.أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ (الحج : 41-40) یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی کہ ان پر ظلم ہوا اور خدا مظلوم کی حمایت کرنے پر قادر ہے.یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وطنوں سے ناحق نکالے گئے اور ان کا گناہ بجز اس کیے اور کوئی نہ تھا جو ہمارا رب اللہ ہے.( جنگ مقدس.ر.خ.جلد 6 صفحہ 255-254) اس بات کو مت بھولو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے حد سے گذرے ہوئے ظلم وستم پر تلوار اُٹھائی اور وہ حفاظت خود اختیاری تھی جو ہر مہذب گورنمنٹ کے قانون میں بھی حفاظت خود اختیاری کو جائز رکھا ہے.اگر ایک چور گھر میں گھس آوے اور وہ حملہ کر کے مارڈالنا چاہے اس وقت اس چور کو بچاؤ کے لئے مارڈالنا جرم نہیں ہے.پس جب حالت یہاں تک پہنچی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جان نثار خدام شہید کر دئے گئے اور مسلمان ضعیف عورتوں تک کو نہایت سنگدلی اور بے حیائی کے ساتھ شہید کیا گیا تو کیا حق نہ تھا کہ ان کو سزادی جاتی.اس وقت اگر اللہ تعالی کا یہ منشاء ہوتا کہ اسلام کا نام ونشان نہ رہے تو البتہ یہ ہوسکتا تھا کہ تلوار کا نام نہ آتا مگر وہ چاہتا تھا کہ اسلام دنیا میں پھیلے اور دنیا کی نجات کا ذریعہ ہو اس لئے اس وقت محض مدافعت کے لئے تلوار اٹھائی گئی.میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ اسلام کا اس وقت تلوار اٹھانا کسی قانون مذہب اور اخلاق کی رُو سے قابل اعتراض نہیں ٹھہرتا.وہ لوگ جو ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کی تعلیم دیتے ہیں وہ بھی صبر نہیں کر سکتے اور جن کے ہاں کیڑے کا مارنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے وہ بھی نہیں کر سکتے پھر اسلام پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟ (لیکچر لدھیانہ...خ.جلد 20 صفحہ 273)
492 پس جب کہ یقینی اور قطعی طور پر ثابت ہوا کہ ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرادین اسلام پھیلانے کے لئے کوئی جنگ نہیں کیا بلکہ کافروں کے بہت سے حملوں پر ایک زمانہ دراز تک صبر کر کے آخر نہایت مجبوری سے محض دفاعی طور پر جنگ شروع کیا گیا تھا تو پھر یہ خیالات کہ کوئی خونی مہدی یا مسیح آئے گا اور جبراً دین پھیلانے کے لئے لڑائیاں کرے گا.ان خیالات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مہدی اور مسیح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے طریق کی مخالفت کرے گا اور اپنی روحانی کمزوری کے سبب تلوار کا محتاج ہو گا.پس ان خیالات سے بڑھ کر اور کونسا خیال لغو ہوسکتا ہے.جس امر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کرنا نہیں چاہا اور صدہا مصیبتیں دیکھیں اور پھر صبر کیا وہ امر مہدی اور مسیح کے لئے کیونکر جائز ہو جائے گا.پیغام صلح.ر.خ.جلد 23 صفحہ 397-396) مذہبی امور میں آزادی ہونی چاہیئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ.کہ دین میں کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے.اس قسم کا فقرہ انجیل میں کہیں بھی نہیں.لڑائیوں کی اصل جڑھ کیا تھی.اس کے سمجھنے میں ان لوگوں سے غلطی ہوئی ہے.اگر لڑائی کا ہی حکم تھا تو تیرہ برس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تو پھر ضائع ہی گئے.کہ آپ نے آتے ہی تلوار نہ اٹھائی صرف لڑنے والوں کے ساتھ لڑائیوں کا حکم ہے.اسلام کا یہ اصول کبھی نہیں ہوا.کہ خود ابتدائے جنگ کریں.لڑائی کا کیا سبب تھا اسے خود خدا نے بتلایا ہے کہ ظلِمُوا.خدا نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مظلوم ہیں تو اب اجازت دیتا ہے کہ تم بھی لڑو.یہ نہیں حکم دیا کہ اب وقت تلوار کا ہے تم زبردستی تلوار کے ذریعہ لوگوں کو مسلمان کرو.بلکہ یہ کہا ہے کہ تم مظلوم ہو.اب مقابلہ کرو مظلوم کو تو ہر ایک قانون اجازت دیتا ہے کہ حفظ جان کے واسطے مقابلہ کرے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 653-652) اور یہ بھی فرق یادر ہے کہ اسلام نے صرف ان لوگوں کے مقابل پر تلوار اُٹھا نا حکم فرمایا ہے کہ جو اول آپ تلوار اُٹھا ئیں.اور انہیں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو اول آپ قتل کریں.یہ حکم ہرگز نہیں دیا کہ تم ایک کافر بادشاہ کے تحت میں ہو کر اور اس کے عدل اور انصاف سے فائدہ اٹھا کر پھر اسی پر باغیانہ حملہ کرو.قرآن کے رو سے یہ بد معاشوں کا طریق ہے نہ نیکوں کا لیکن توریت نے یہ فرق کسی جگہ نہیں کھول کر بیان فرمایا.اس سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف اپنے جلالی اور جمالی احکام میں اس خط مستقیم عدل اور انصاف اور رحم اور احسان پر چلتا ہے.جس کی نظیر دنیا میں کسی کتاب میں موجود نہیں.انجام آتھم.ر.خ.جلد 11 صفحہ 37) اسلام میں بجز دفاعی طور کی جنگ یا ان جنگوں کے سوا جو بغرض سزائے ظالم یا آزادی قائم کرنے کی نیت سے ہوں اور کسی صورت میں دین کے لئے تلوار اُٹھانے کی اجازت نہیں اور دفاعی طور کی جنگ سے مراد وہ لڑائیاں ہیں جن کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جبکہ مخالفوں کے بلوہ سے اندیشہ جان ہو.مسیح ہندوستان میں...خ.جلد 15 صفحہ 4)
493 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگ کئے وہ صرف دفاعی تھے.جب آپ کی اور آپ کے صحابہ کی تکالیف حد سے بڑھ گئیں اور بہت ستائے گئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے مقابلہ کا حکم دیا چنانچہ پہلی آیت جو جہاد کے متعلق ہے وہ یہ ہے.اُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ.الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقِّ الايۃ یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی جن کے مقابلہ قتل کے لئے مخالفوں نے چڑھائی کی ( اس لئے اجازت دی گئی) کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ تعالیٰ مظلوم کی حمایت کرنے پر قادر ہے.یہ وہ مظلوم ہیں جو ناحق اپنے وطنوں سے نکالے گئے.ان کا گناہ بجز اس کے اور کوئی نہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے.غرض آنحضرت صلعم کی لڑائیاں اس وقت تھیں جبکہ کفار کے ظلم انتہاء تک پہنچ گئے.الحکم جلد 6 نمبر 46 مورخہ 24 دسمبر 1902 صفحہ 9) ( تفسیر حضرت اقدس جلد 6 صفحہ 142) جہاد بطور سزا أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ.(الحج: 40 ) سارا قرآن بار بار کہہ رہا ہے کہ دین میں جبر نہیں اور صاف طور پر کہہ رہا ہے کہ جن لوگوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں لڑائیاں کی گئی تھیں وہ لڑائیاں دین کو جبر شائع کرنے کے لئے نہیں تھیں بلکہ یا تو بطور سزا تھیں یعنی ان لوگوں کو سزا دینا منظور تھا جنہوں نے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کو قتل کر دیا اور بعض کو وطن سے نکال دیا تھا اور نہایت سخت ظلم کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ یعنی ان مسلمانوں کو جن سے کفار جنگ کر رہے تھے بسبب مظلوم ہونے کے مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے کہ جو ان کی مدد کرے اور یا وہ لڑائیاں جو بطور مدافعت تھیں یعنی جو لوگ اسلام کے نابود کرنے کے لئے پیش قدمی کرتے تھے یا اپنے ملک میں اسلام کو شائع ہونے سے جبر ارو کتے تھے ان سے بطور حفاظت خود اختیاری یا ملک میں آزادی پیدا کرنے کے لئے لڑائی کی جاتی تھی بجز ان تین صورتوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقدس خلیفوں نے کوئی لڑائی نہیں کی بلکہ اسلام نے غیر قوموں کے ظلم کی اس قدر برداشت کی ہے جو اس کی دوسری قوموں میں نظیر نہیں ملتی.کشتی نوح.ر.خ.جلد 19 صفحہ 74) یاد رہے کہ قرآن کی تعلیم سے بے شک ثابت ہوتا ہے کہ یہود اور نصاری سے لڑائیاں ہوئیں مگر ان لڑائیوں کا ابتداء اہل اسلام کی طرف سے ہرگز نہیں ہوا اور یہ لڑائیاں دین میں جبراً داخل کرنے کے لئے ہرگز نہیں تھیں بلکہ اس وقت ہوئیں جبکہ خودا سلام کے مخالفوں نے آپ ایذاء دے کر یا موذیوں کو مدد دے کر ان لڑائیوں کے اسباب پیدا کیے اور جب اسباب انہیں کی طرف سے پیدا ہو گئے تو غیرت الہی نے ان قوموں کو سزا دینا چاہی اور اس سزا میں بھی رحمت الہی نے یہ رعایت رکھی کہ اسلام میں داخل ہونے والا یا جزیہ دینے والا اس عذاب سے بچ جائے.یہ رعایت بھی خدا کے قانون قدرت کے مطابق تھی کیونکہ ہر ایک مصیبت جو عذاب کے طور پر نازل ہوتی ہے مثلاً و بایا
494 قحط تو انسانوں کا کانشنس خود اس طرف متوجہ ہو جاتا ہے کہ وہ دعا اور توبہ اور تضرع اور صدقات اور خیرات سے اس عذاب کو موقوف کرانا چاہیں.چنانچہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے.اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ رحیم خدا عذاب کو دور کرنے کے لئے خود الہام دلوں میں ڈالتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ کی دعائیں کئی دفعہ منظور ہو کر بنی اسرائیل کے سر سے عذاب ٹل گیا.غرض اسلام کی لڑائیاں سخت طبع مخالفوں پر ایک عذاب تھا جس میں ایک رحمت کا طریق بھی کھلا تھا.سو یہ خیال کرنا دھوکہ ہے کہ اسلام نے توحید کے شائع کرنے کے لئے لڑائیاں کیں.یادرکھنا چاہئے کہ لڑائیوں کی بنیاد محض سزا دہی کے طور پر اس وقت سے شروع ہوئی کہ جب دوسری قوموں نے ظلم اور مزاحمت پر کمر باندھی.( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.ر.خ.جلد 12 صفحہ 351) جہاد جرائم پیشہ کے خلاف تھا فَإِنْ حَاجُوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ طَ وَ قُلْ لِلَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ وَالْأُمِّينَ أَسْلَمْتُمُ ، فَإِنْ اَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوُا وَ إِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ ط وَ اللهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ.(ال عمران: 21) اور اے پیغمبر اہل کتاب اور عرب کے جاہلوں کو کہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو.پس اگر اسلام قبول کر لیں تو ہدایت پاگئے اور اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکم الہی پہنچا دو.اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم ان سے جنگ کرو اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کے لیے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یا امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے اور یہ جنگ بحیثیت چشمه معرفت - ر-خ- جلد 23 صفحہ 243) بادشاہ ہونے کے تھانہ بحیثیت رسالت.جہاد بغاوت دور کرنے اور آزادی مذہب کے لئے تھا وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ.(الانفال:40) یعنی اس حد تک ان کا مقابلہ کرو کہ ان کی بغاوت دور ہو جائے اور دین کی روکیں اُٹھ جائیں اور حکومت اللہ کے دین کی ہو جائے.قَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلهِ يعنى عرب کے ان مشرکوں کو قتل کر د یہاں تک کہ بغاوت باقی نہ رہ جاوے اور دین یعنی حکومت اللہ تعالیٰ کی ہو جائے.اس سے کہاں جبر نکلتا ہے.اس سے تو صرف اس قدر پایا جاتا ہے کہ اس حد تک لڑو کہ ان کا زور ٹوٹ جائے اور شرارت اور فساداٹھ جائے اور بعض لوگ جیسے خفیہ طور پر اسلام لائے ہوئے ہیں ظاہر بھی اسلامی احکام ادا کرسکیں.اگر اللہ جل شانہ کا ایمان بالجبر منشا ہوتا جیسا کہ ڈپٹی صاحب سمجھ رہے ہیں تو پھر جزیہ اور صلح اور معاہدات کیوں جائز رکھے جاتے اور کیا وجہ تھی کہ یہود اور عیسائیوں کے لیے یہ اجازت دی جاتی کہ وہ جزیہ دیگر امن میں آجائیں اور مسلمانوں کے زیر سایہ امن کے ساتھ بسر کریں.جنگ مقدس - ر - خ- جلد 6 صفحہ 263)
495 یہ جہالت اور سخت نادانی ہے کہ اس زمانہ کے نیم ملا فی الفور کہہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرا مسلمان کرنے کے لیے تلوار اٹھائی تھی اور انہی شبہات میں ناسمجھ پادری گرفتار ہیں.مگر اس سے زیادہ کوئی جھوٹی بات نہیں ہوگی کہ یہ جبر اور تعدی کا الزام اس دین پر لگایا جائے جس کی پہلی ہدایت یہی ہے کہ لَا إِكْرَاهَ فِی الدین.یعنی دین میں جبر نہیں چاہئے بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ بزرگ صحابہ کی لڑائیاں یا تو اس لیے تھیں کہ کفار کے حملہ سے اپنے تئیں بچایا جائے.اور یا اس لیے تھیں کہ امن قائم کیا جائے اور جولوگ تلوار سے دین کو روکنا چاہتے ہیں ان کو تلوار سے پیچھے ہٹایا جائے.تریاق القلوب.ر.خ.جلد 15 صفحہ 158 ) اب جائے غور ہے کہ قرآن شریف نے جن اضطراری حالتوں میں جنگ کرنے کی اجازت دی ہے ان میں سے آج اس زمانہ میں کوئی بھی حالت موجود ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی جبر وتشد دکسی دینی معاملہ میں ہم پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر ایک کو پوری مذہبی آزادی دی گئی ہے.اب نہ کوئی جنگ کرتا ہے کسی دینی غرض کیلیے اور نہ ہی لونڈی غلام کوئی بناتا ہے نہ کوئی نماز روزے اذان حج اور ارکان اسلام کی ادائیگی سے روکتا ہے تو پھر جہاد کیسا اور لونڈی غلام کیسے؟ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 503) اسلام نے تلوار اُٹھانے میں سبقت نہیں کی اور اسلام نے صرف بوقت ضرورت امن قائم کرنے کی حد تک تلوار اُٹھائی ہے اور اسلام نے عورتوں اور بچوں اور راہبوں کے قتل کرنے کے لئے حکم نہیں دیا بلکہ جنہوں نے سبقت کر کے اسلام پر تلوار کھینچی وہ تلوار سے ہی مارے گئے اور تلوار کی لڑائیوں میں سب سے بڑھ کر تو ریت کی تعلیم ہے جس کی رو سے بے شمار عورتیں اور بچے بھی قتل کئے گئے.جس خدا کی نظر میں وہ بے رحمی اور سختی کی لڑائیاں بُری نہیں تھیں بلکہ اس کے حکم سے تھیں تو پھر نہایت بے انصافی ہوگی کہ وہی خدا اسلام کی ان لڑائیوں سے ناراض ہو جو مظلوم ہونے کی حالت میں یا امن قائم کرنے کی غرض سے خدا تعالیٰ کے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرنی پڑی تھیں.حجتہ الاسلام.ر-خ- جلد 6 صفحہ 47-46) جنگ کی ابتدا کافروں کی تھی اَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَ هَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُ وُكُمْ أَوَّلَ مَرَّة اَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ اَحَقُّ أَنْ تَخْشَرُهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ.(التوبة: 13) یہ نہایت درجہ کا ظلم ہے کہ اسلام کو ظالم کہا جاتا ہے حالانکہ ظالم وہ خود ہیں جو تعصب کی وجہ سے بے سوچے سمجھے اسلام پر بے جا اعتراض کرتے ہیں اور باوجود بار بار سمجھانے کے نہیں سمجھتے کہ اسلام کے کل جنگ اور مقابلے کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر دفاعی رنگ میں حفاظت جان و مال کی غرض سے کیے تھے اور کوئی بھی حرکت مسلمانوں کی طرف سے ایسی سرزد نہیں ہوئی جس کا ارتکاب اور ابتداء پہلے کفار کی طرف سے نہ ہوئی ہو.بلکہ بعض قابل نفرین حرکات کا مقابلہ بتقاضائے وسعت اخلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عمداً ترک کرنے کا حکم دے دیا تھا مثلاً کفار میں ایک سخت قابل نفرت رسم تھی جو کہ وہ مسلمان مردوں سے کیا کرتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیح فعل سے مسلمانوں کو قطعا روک دیا.
496 قرآن شریف میں بڑی بسط اور تفصیل سے اس امر کا ذکر موجود ہے مگر کوئی غور کرنے والا اور بے تعصب دل سچائی اور حق کی پیاس بھی اپنے اندر رکھتا ہو.قرآن شریف میں صاف طور سے اس امر کا ذکر آ گیا ہے وَهُمُ بَدَءُ وَكُمُ أَوَّلَ مَرَّةٍ یعنی ہر ایک شرارت اور فساد کی ابتداء پہلے کفار کی طرف سے ہوئی ہے...( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 503-502) ہمارے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائیوں کے لئے سبقت نہیں کی تھی بلکہ ان لوگوں نے خود سبقت کی تھی.خون کئے.ایذائیں دیں.تیرہ برس تک طرح طرح کے دکھ دئے.آخر جب صحابہ کرام سخت مظلوم ہو گئے تب اللہ تعالیٰ نے بدلہ لینے کی اجازت دی جیسے فرمایا.اُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (الحج 40) وَ قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتَلُونَكُمُ.(البقرة: 191) اُس زمانہ کے لوگ نہایت وحشی اور درندے تھے.خون کرتے تھے..اور ناحق کی ایذاد ہی اور خون ریزی پر کمر باندھے ہوئے تھے.خدا تعالیٰ) نے فیصلہ کر دیا کہ ایسے ظالموں کو سزا دینے کا اذن دیا جاتا ہے اور یہ ظلم نہیں بلکہ عین حق اور انصاف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے انہوں نے بڑی بڑی کوششیں کیں.طرح طرح کے منصوبے کئے یہاں تک کہ ہجرت کرنی پڑی مگر پھر بھی انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مد ینہ تک تعاقب کیا اور خون کرنے کے درپے ہوئے.غرض جب ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مدت تک صبر کیا اور مدت تک تکلیف اٹھائی تب خدا (تعالی) نے فیصلہ دیا کہ جنہوں نے تم لوگوں پر ظلم کئے اور تکلیفیں دیں ان کو سزا دینے کا اذن دیا جاتا ہے اور پھر بھی یہ فرماہی دیا کہ اگر وہ صلح پر آمادہ ہو دیں تو تم صلح کر لو.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو یتیم غریب بیکس پیدا ہوئے تھے وہ لڑائیوں کو کب پسند کر سکتے تھے.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 278-277) واضح رہے کہ اسلام کی لڑائیاں ایسے طور سے نہیں ہوئیں کہ جیسے ایک زبر دست بادشاہ کمزور لوگوں پر چڑھائی کر کے ان کو قتل کر ڈالتا ہے بلکہ سیچ نقشہ ان لڑائیوں کا یہ ہے کہ جب ایک مدت دراز تک خدا تعالیٰ کا پاک نبی اور اس کے پیر ومخالفوں کے ہاتھ سے دکھ اٹھاتے رہے چنانچہ ان میں سے کئی قتل کیے گئے اور کئی بُرے بُرے عذابوں سے مارے گئے یہاں تک کہ ہمارے نبی صلعم کے قتل کر دینے کے لیے منصوبہ کیا گیا اور یہ تمام کامیابیاں ان کے بتوں کے معبود برحق ہونے پر حمل کی گئیں اور ہجرت کی حالت میں بھی آنحضرت صلعم کو امن میں نہ چھوڑا گیا بلکہ خود آٹھ پڑاؤ تک چڑھائی کر کے خود جنگ کرنے کے لیے آئے تو اس وقت ان کے حملہ کو روکنے کے لیے اور نیز ان لوگوں کو امن میں لانے کے لیے جو ان کے ہاتھ میں قیدیوں کی طرح تھے اور نیز اس بات کے ظاہر کرنے کے لیے کہ ان کے معبود جن کی تائید پر یہ سابقہ کامیابیاں حمل کی گئی ہیں لڑائیاں کرنے کا حکم ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ إِذْ يَمُكُرُبِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ اَوْ يَقْتُلُوكَ اَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَ اللَّهُ خَيْرُ الْمَكِرِينَ.(الانفال: 31) جنگ مقدس.ر.خ.جلد 6 صفحہ 244)
497 قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ حَتَّى يُعْطُوا الجزيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّ هُمْ صَغِرُونَ (التوبة : 29) الله ان بے ایمانوں سے لڑو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے یعنی عملی طور پر فسق و فجور میں مبتلا ہیں اور حرام کو حرام نہیں جانتے اور سچائی کی راہیں اختیار نہیں کرتے جو اہل کتاب میں سے ہیں جب تک کہ وہ جزیہ اپنے ہاتھ سے دیں اور وہ ذلیل ہوں.دیکھو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے.اس سے تو یہی ثابت ہوا کہ جو اپنی بغاوتوں کی وجہ سے حق کے روکنے والے ہیں اور ناجائز طریقوں سے حق پر حملہ کرنے والے ہیں.ان سے لڑو اور ان سے دین کے طالبوں کو نجات دو.اس سے یہ کہاں ثابت ہو گیا کہ یہ لڑائی ابتداء بغیر ان کے کسی حملہ کے ہوئی تھی.لڑائیوں کے سلسلہ کو دیکھنا از بس ضروری ہے اور جب تک آپ سلسلہ کو نہ دیکھو گے اپنے تئیں عمد آیا سہو بڑی غلطیوں میں ڈالو گے.سلسلہ تو یہ ہے کہ اوّل کفار نے ہمارے نبی صلعم کے قتل کا ارادہ کر کے آخر اپنے حملوں کی وجہ سے ان کو مکہ سے نکال دیا اور پھر تعاقب کیا اور جب تکلیف حد سے بڑھی تو پہلا حکم جولڑائی کے لیے نازل ہوا وہ یہ تھا.أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرِنِ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ الحج آیت 41-40) اہل کتاب دعوت حق کے مزاحم ہوئے اور مشرکوں کو انہوں نے مددیں کیں اور ان کے ساتھ مل کر اسلام کو نابود کرنا چاہا جیسا کہ مفصل ذکر اس کا قرآن شریف میں موجود ہے تو پھر بجرالڑ نے اور دفع حملہ کے اور کیا تدبیر تھی مگر پھر بھی ان کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا.حَتَّى يُعْطُوا الجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمُ صغِرُونَ یعنی اس وقت تک ان سے لڑو.جب تک یہ جزیہ ذلت کے ساتھ دیدیں اور صاف طور پر فر ما دیا یعنی جہاد میں یعنی لڑنے میں اسلام سے ابتداء نہیں ہوئی.جنگ مقدس.ر.خ.جلد 6 صفحہ 256-254) جہاد کا حکم مختص الزمان والوقت تھا أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِير (الحج :40) وَإِنَّ خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شتر کا ہرگز مقابلہ نہ کرو.چنانچہ ان برگزیدہ راست بازوں نے ایسا ہی کیا.ان کے خونوں سے گوچے سُرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا.وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی.خد کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بارہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور
498 محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور انہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا تب اس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گذر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اس کا غضب شریروں پر بھڑ کا اور اس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں.میں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا.یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے.اُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرِ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ یعنی خدا نے ان مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سن لی اور ان کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے مگر یہ حکم مشخص الزمان والوقت تھا.ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اس زمانہ کے متعلق تھا جبکہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح کئے جاتے تھے.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.رخ.جلد 17 صفحہ 6-5) ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ قرآن شریف ہرگز جہاد کی تعلیم نہیں دیتا.اصلیت صرف اس قدر ہے کہ ابتدائی زمانہ میں بعض مخالفوں نے اسلام کو تلوار سے روکنا بلکہ نابود کرنا چاہا تھا.سوا سلام نے اپنی حفاظت کے لئے ان پر تلوار اُٹھائی اور انہی کی نسبت حکم تھا کہ یا قتل کئے جائیں اور یا اسلام لائیں.سو یہ حکم مختص الزمان تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا اور اسلام ان بادشاہوں کی کارروائیوں کا ذمہ دار نہیں ہے جو نبوت کے زمانہ کے بعد سراسر غلطیوں یا خود غرضیوں کی وجہ سے ظہور میں آئیں.اب جو شخص نادان مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے بار بار جہاد کا مسئلہ یاد دلاتا ہے گویا وہ ان کی زہریلی عادت کوتحریک دینا چاہتا ہے.کیا اچھا ہوتا کہ پادری صاحبان صحیح واقعات کو مدنظر رکھ کر اس بات پر زور دیتے کہ اسلام میں جہاد نہیں اور نہ جبر سے مسلمان کرنے کا حکم ہے.جس کتاب میں یہ آیت اب تک موجود ہے کہ لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ یعنی دین کے معاملہ میں زبردستی نہیں کرنی چاہیئے کیا اس کی نسبت ہم ظن کر سکتے ہیں کہ وہ جہاد ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 251-250) کی تعلیم دیتی ہے.مجھے بڑے ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عیسائیوں اور دوسرے معترضین نے اسلام پر حملے کرتے وقت ہرگز ہرگز اصلیت پر غور نہیں کیا.وہ دیکھتے کہ اس وقت تمام مخالف اسلام اور مسلمانوں کے استیصال کے در پے تھے اور سب کے سب مل کر اس کے خلاف منصوبے کرتے اور مسلمانوں کو دکھ دیتے تھے.ان دکھوں اور تکلیفوں کے مقابلہ میں اگر وہ اپنی جان نہ بچاتے تو کیا کرتے.قرآن شریف میں یہ آیت موجود ہے أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (الحج: 40) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اس وقت دیا گیا جب کہ مسلمانوں پر ظلم کی حد ہوگئی تو انہیں مقابلہ کا حکم دیا گیا.اس وقت کی یہ اجازت تھی دوسرے وقت کے لئے یہ حکم نہ تھا.لیکچر لدھیانہ - ر- خ - جلد 20 صفحہ 274)
499 جہاد اور جنگ نہ کرنے کا حکم لَا يَنْهِيكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ لَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ.(الممتحنه: 9) قرآن شریف میں بڑی بسط اور تفصیل سے اس امر کا ذکر موجود ہے مگر کوئی غور کرنے والا اور بے تعصب دل سچائی اور حق کی پیاس بھی اپنے اندر رکھتا ہو.قران شریف میں صاف طور اس امر کا ذکر آ گیا ہے.وَ هُمُ بَدَهُ وَكُمُ اَوَّلَ مَرَّةٍ (التوبه : 13) یعنی ہر ایک شرارت اور فساد کی ابتدا پہلے کفار کی طرف سے ہوئی ہے بلکہ قران شریف نے تو اس امر کی بڑی وضاحت کر دی ہے کہ جنہوں نے مقابلہ کیا ان کا مقابلہ تلوار سے کیا جاوے اور جولوگ الگ رہتے ہیں اور انہوں نے ایسی جنگوں میں کوئی حصہ نہیں لیا ان سے تم بھی جنگ مت کرو بلکہ ان سے بیشک احسان کرو اور ان کے معاملات میں عدل کرو.چنانچہ فرماتا ہے.لَا يَنْهِيكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ لَمُ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوُهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الممتحنه: 9) اب جائے غور ہے کہ قرآن شریف نے جن اضطراری حالتوں میں جنگ کرنے کی اجازت دی ہے ان میں سے آج اس زمانہ میں کوئی بھی حالت موجود ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی جبر وتشد دکسی دینی معاملہ میں ہم پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر ایک کو پوری آزادی دی گئی ہے اب نہ کوئی جنگ کرتا ہے کسی دینی غرض کے لیے اور نہ ہی لونڈی غلام کوئی بناتا ہے.نہ کوئی نماز روزے اذان حج اور ارکان اسلام کی ادائیگی سے روکتا ہے تو پھر جہاد کیسا اور لونڈی غلام کیسے؟ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 503-502) اور پھر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف پارہ اٹھائیں سورۃ الممتحنہ میں فرمایا ہے.لَا يَنْهِيكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِى الدِّينِ وَ لَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ترجمہ یعنی جن لوگوں نے تمہارے دین کونابود کر نیکی غرض سے تمہارے قتل کرنے کے لئے چڑھائی نہیں کی اور تمہیں اپنے وطن سے نہیں نکالا خدا تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ تم ان سے احسان کرو اور اپنے مال کا کوئی حصہ ان کو دے دو اور معاملات میں ان سے انصاف کا برتاؤ کرو اور خدا ان لوگوں سے پیار کرتا ہے جو اپنے دشمنوں سے بھی احسان اور مروت اور انصاف سے پیش آتے ہیں خاص کر ایسے دشمن جو بہت بہت دکھ دے چکے ہوں.اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے یعنی پارہ دہم سورہ تو بہ میں وَ اِنْ اَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَاجِرُهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَامَنَهُ ذَالِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ (التوبة: 6) - یعنی اگر لڑائی کے ایام میں کوئی شخص مشرکوں میں سے خدا کے کلام کو سننا چاہے تو اس کو پناہ دید وجب تک کہ وہ خدا کے کلام کو سن لے اور پھر اس کو اپنے امن کی جگہ میں پہنچا دو کیونکہ وہ ایک جاہل قوم ہے اور نہیں جانتے کہ وہ کس سے لڑائی کر رہے ہیں.(پیغام صلح - ر- خ - جلد 23 صفحہ 393)
500 وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.(الانفال: 62) اور اگر مخالف صلح کے واسطے جھکیں تو تم بھی جھک جاو اور خدا پر توکل کرو.(براہین احمدیہ - رخ - جلد 21 صفحہ 421) اب ظاہر ہے کہ قرآن شریف یہی بیان کرتا ہے کہ مسلمانوں کو لڑائی کا اس وقت حکم دیا گیا تھا جب وہ ناحق قتل کئے جاتے تھے اور خدا تعالے کی نظر میں مظلوم ٹھہر چکے تھے اور ایسی حالت میں دو صورتیں تھیں یا تو خدا کافروں کی تلوار سے ان کو فنا کر دیتا اور یا مقابلہ کی اجازت دیتا اور وہ بھی اس شرط سے کہ آپ ان کی مدد کرتا کیونکہ ان میں جنگ کی طاقت ہی نہیں تھی اور پھر ایک اور آیت ہے جس میں خدا نے اس اجازت کے ساتھ ایک اور قید بھی لگا دی ہے اور وہ آیت سے پارہ دوم سورۃ البقرۃ میں ہے اور اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ جو لوگ تمہیں قتل کر نیکے لئے آتے ہیں ان کا دفع شر کے لئے مقابلہ تو کرو مگر کچھ زیادتی نہ کرو اور وہ آیت یہ ہے:.وقاتلوا في سبيل الله الذين يقاتلولكم ولا تعتدوا ان الله لا يحب المعتدين (البقره: (191) یعنی خدا کی راہ میں ان لوگوں کے ساتھ لڑو جو لڑنے میں سبقت کرتے ہیں اور تم پر چڑھ چڑھ کے آتے ہیں مگر ان پر زیادتی نہ کرو اور تحقیق یا درکھو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.(پیغام صلح - ر-خ- جلد 23 صفحہ 392) جہاد با السیف اور حضرت اقدس کی تعلیم فَإِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَ إِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا....( محمد : 5) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گز کسی پر تلوار نہیں اٹھائی بجز ان لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلوار اٹھائی.اور سخت بیرحمی سے بے گناہ اور پر ہیز گار مردوں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیا.اور ایسے دردانگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی ان قصوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے.دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے.تا ہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائیگا توسیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائیگا.کیونکہ مسیح نہ تلوار اٹھائیگا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اس کی دعا اس کا حربہ ہو گا.اور اس کی عقد ہمت اس کی تلوار ہوگی.وہ صلح کی بنیاد ڈالیگا اور بکری اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر اکٹھے کریگا.اور اس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہوگا.ہائے افسوس! کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کلمہ یضح الحرب جاری ہو چکا ہے.جس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح موعود جب آئیگا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دیگا.اور اسی کی طرف اشارہ اس قرآنی آیت کا ہے
501 حتى تضع الحرب اوزارھا ہے.دیکھو بیچ بخاری موجود ہے جو قرآن شریف کے بعد اصح الکتب مانی گئی ہے.اس کو غور سے پڑھو.اے اسلام کے عالمو اور مولویو! میری بات سنو! میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب جہاد کا وقت نہیں ہے.خدا کے پاک بنی کے نا فرمان مت نبو مسیح موعود جو آنے والا تھا آ چکا.اور اس نے حکم بھی دیا کہ آئیندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اور گشت وخون کے ساتھ ہوئی ہیں باز آ جاؤ تو اب بھی خونریزی سے باز نہ آنا اور ایسے وعظوں سے مونہ بند نہ کرنا طریق اسلام نہیں ہے.جس نے مجھے قبول کیا ہے وہ نہ صرف ان وعظوں سے مونہہ بند کرے گا بلکہ اس طریق کو نہایت برا اور موجب غضب الہی جانے گا.( گورنمنٹ انگریزی اور جہاد..خ.جلد 17 صفحہ 9-8) غرض اب جب مسیح موعود آ گیا تو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاد سے باز آوے.اگر میں نہ آیا ہوتا تو شائد اس غلط فہمی کا کسی قدر عذر بھی ہوتا.مگر اب تو میں آ گیا اور تم نے وعدہ کا دن دیکھ لیا.اس لئے اب مذہبی طور پر تلوار اٹھانے والوں کا خدا تعالے کے سامنے کوئی عذر نہیں.جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حد بیٹوں کو پڑھتا اور قرآن کو دیکھتا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی کار بند ہورہے ہیں یہ اسلامی جہاد نہیں ہے.بلکہ یہ نفس امارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طرح خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.ر.خ.جلد 17 صفحہ 10-9) مسیح موعود دنیا میں آیا ہے تاکہ دین کے نام سے تلوار اٹھانے کے خیال کو دور کرے.اور اپنے حج اور براہین سے ثابت کر دکھائے کہ اسلام ایک ایسا مذ ہب ہے جو اپنی اشاعت میں تلوار کی مددکا ہر گز محتاج نہیں بلکہ اس کی تعلیم کی ذاتی خوبیاں اور اس کے حقائق و معارف وحج و براہین اور خدا تعالیٰ کی زندہ تائیدات اور نشانات اور اس کا ذاتی جذب ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ اس کی ترقی اور اشاعت کا موجب ہوئی ہیں.اس لئے وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلام کے بزور شمشیر پھیلائے جانے کا اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس دعوی میں جھوٹے ہیں.اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں.اگر کسی کو شک ہے تو وہ میرے پاس رہ کر دیکھ لے کہ اسلام اپنی زندگی کا ثبوت براہین اور نشانات سے دیتا ہے.اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے اور اس نے ارادہ فرمایا ہے کہ ان تمام اعتراضوں کو اسلام کے پاک وجود سے دور کر دے جو خبیث آدمیوں نے اس پر کئے ہیں.تلوار کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کا اعتراض کرنے والے اب سخت شرمندہ ہونگے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 129) آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا.اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اُٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتا ہے جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے.سواب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں.ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے.خدا تعالے کی طرف دعوت کرنے کی ایک راہ نہیں.پس جس راہ پر نادان لوگ اعتراض کر چکے ہیں خدا تعالے کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ اسی راہ کو پھر اختیار کیا جائے.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 296-295)
502 چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آ گیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے اب آسماں سے نورِ خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو کیوں بھولتے ہو تم يضع الحرب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر فرما چکا ہے سید کونین مصطفیٰ عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا جب آئیگا تو صلح کو وہ ساتھ لائیگا جنگوں کے سلسلے کو وہ یکسر مٹائیگا یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائیگا اک معجزہ کے طور سے یہ پیش گوئی ہے کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے القصہ یہ میسج کے آنے کا ہے نشان کر دیگا ختم آکے وہ دیں کی لڑائیاں تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار اب اسکا فرض ہے کہ وہ دل کر کے استوار لوگوں کو یہ بتائے کہ وقتِ مسیح اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے ہے اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا خدا (تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 80-77) یہ زمانہ تلوار سے جہاد کا نہیں ہے مسیح موعود کے لئے ابتداء سے یہی مقدر ہے کہ پہلے تو وہ تمہاری رنگ میں ظاہر ہوگا اور جہاں تک اسکی نظر کام کرتی ہے اس کے دم سے لوگ مریں گے یعنی وہ زمانہ جہاد اور تلوار سے لڑنے کا زمانہ نہیں ہو گا صرف مسیح موعود کی روحانی توجہ تلوار کا کام دکھلائیگی اور قہری نشان آسمان ہے نازل ہونگے جیسے طاعون اور زلزلے وغیرہ آفات.تب اس کے بعد خدا کا مسیح نوع انسان کو رحم کی نظر سے دیکھے گا اور آسمان سے رحم کے آثار ظاہر ہونگے اور عمروں میں برکت دی جائیگی اور زمین میں سے رزق کا سامان بکثرت پیدا ہوگا.منہ ( تجلیات الہیہ.رخ.جلد 20 صفحہ 399 حاشیہ )
503 موجودہ حالت میں مصلح کی ضرورت ایک دوست نے اپنا خواب بیان کیا جس میں یہ آیت بھی تھی.وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا.(الطلاق: 3) ایک عالمگیر عذاب کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے جس سے نجات کا ذریعہ صرف تقویٰ ہی ہے.دیکھو یہ قحط جو بڑھتا جاتا ہے یہ بھی شامت اعمال ہی ہے.جو اس سے بچنا چاہتے ہیں وہ اللہ کے حضور توبہ کریں مگر تو بہ کے آثار نظر نہیں آتے.یہ لوگ بار بار تکذیب کرتے ہیں.نشان پر نشان دیکھتے ہیں اور پھر نہیں مانتے.کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ یہ کیوں تکذیب و تکفیر پر کمر بستہ ہیں.نہ قرآن مجید ان کے ساتھ نہ احادیث ان کے ساتھ.موجودہ حالات پکار پکار کر ایک مصلح کی ضرورت جتا رہی ہیں.غرض عقلی نفلی دو نو طریق سے یہی جھوٹے ثابت ہورہے ہیں مگر پھر بھی باز نہیں آتے.بار بار جہاد کو پیش کرتے ہیں مگر یہ نہیں سمجھتے کہ جب کوئی گورنمنٹ مذہب کیلئے نہیں لڑتی تو وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا وہ کس لیے تلوار سے جہاد کرتا.اب تو زمانہ دلائل سے جہاد کرنے کا ہے جو ہو رہا ہے.یہ لوگ عجیب قسم کی تاریکی میں ہیں کہ انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا.جوان کے رہبر بنے ہوئے ہیں وہ عجیب قسم کے مکروں سے کام لے رہے ہیں.دنیا ہی ان کا مقصود ہے.اسلام میں ایک بیج بویا گیا تھا بجائے اس کے کہ اس کی آبیاری کرتے اس کو اُجاڑنے کے درپے ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 430) اسلام میں حقیقی جہاد نفسوں کو پاک کرنے کا جہاد دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں.وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے.مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے.اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے.صحیح بخاری کی اس حدیث کو سوچو.جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی مسیح جب آئیگا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دیگا.سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں.دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور درد مندوں کے ہمدرد بنیں.زمیں پر صلح پھیلا دیں کہ اس سے ان کا دین پھیلے گا اور اس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہوگا.کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی بہت زیادہ دوڑا کر دکھلا دیا ہے ایسا ہی اب وہ روحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا.بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہونگے اور بہت سی چمکیں پیدا ہونگی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد...خ.جلد 17 صفحہ 15)
504 معجزات اور خدائی چمک دکھانے کا جہاد ایسا ہی ایک اور حدیث صحیح مسلم میں ہے جو مسیح موعود کے بارے میں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے که مسیح موعود جنگ نہیں کرے گا.اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں.اَخْرَجُتُ عِبَادًا لِيْ لَا يَدَانِ لِقِتَالِهِمْ لِأَحَدٍ فَأَخْرِزْ عِبَادِى إِلَى الطُّورِ.یعنی اے آخری صحیح میں نے اپنے ایک بندے ایسی طاقتور زمین پر ظاہر کئے ہیں (یعنی یورپ کی قومیں ) کہ کسی کو ان کے ساتھ جنگ کرنے کی طاقت نہیں ہوگی.پس تو ان سے جنگ نہ کر بلکہ میرے بندوں کو طور کی پناہ میں لے آ.یعنی تجلیات آسمانی اور روحانی نشانوں کے ذریعہ سے ان بندوں کو ہدایت دے.سو میں دیکھتا ہوں کہ یہی حکم مجھے ہوا ہے.اب واضح ہو کہ ان بندوں سے مراد یورپ کی طاقتیں ہیں جو تمام دنیا میں پھیلتی جاتی ہیں اور طور سے مراد تجلیات اللہ کا مقام ہے جس میں انوار و برکات اور عظیم الشان منجزات اور ہیبت ناک آیات صادر ہوتی ہیں اور خلاصہ اس پیشگوئی کا یہ ہے کہ مسیح موعود جب آئے گا تو وہ ان زبر دست طاقتوں سے جنگ نہیں کرے گا بلکہ دین اسلام کو زمین پر پھیلانے کے لئے وہی چمکتے ہوئے نو ر اس پر ظاہر ہوں گے جو موسیٰ نبی پر کوہ طور میں ظاہر ہوئے تھے پس طور سے مراد چمکدار تجلیات الہیہ ہیں جو معجزات اور کرامات اور خرق عادت کے طور پر ظہور میں آ رہے ہیں اور آئیں گے اور دنیا دیکھے گی کہ وہ چمک کس طرح سطح دنیا پر محیط ہو جائے گی خدا بہت پوشیدہ اور مخی د مخفی ہے مگر جس طرح موسیٰ کے زمانہ میں ایک خوفناک تجلی اس نے ظاہر کی تھی یہاں تک کہ اس تجلی کی موسیٰ بھی برداشت نہ کر سکا اور غش کھا کر گر گیا اس زمانہ میں بھی وہ فوق العادت الہی چمک اپنا چہرہ دکھائے گی جس سے طالب حق تسلی پائیں گے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آج سے پچیس برس پہلے مجھے مخاطب کر کے ایک عظیم الشان پیشگوئی کی ہے جو میری کتاب براھین احمدیہ میں درج ہے جس کے الفاظ یہ ہیں.میں اپنی چہکار دکھلاؤں گا اور اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ پس اس الہامی عبارت میں خدا نے جو یہ فرمایا کہ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا یہ وہی چمکا ر ہے جو کوہ طور کی (پیغام صلح -ر خ- جلد 23 صفحہ 398-397) چکار سے مشابہت رکھتی ہے.اسلام کی برکات اور انوار سے جہاد علاوہ بریں اگر اللہ تعالیٰ کی یہ مرضی ہوتی کہ ایسے زمانہ میں اسلام کی ترقی جنگ سے وابستہ ہوتی تو ہر قسم کے ہتھیار مسلمانوں کو دئیے جاتے حالانکہ جس قدر ایجاد میں آلات حربیہ کے متعلق یورپ میں ہو رہی ہیں کسی جگہ نہیں ہوتی ہورہی ہیں.جس سے اللہ تعالیٰ کی مصلحت کا صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ لڑائی کا زمانہ نہیں ہے.اور کبھی بھی کوئی دین اور مذہب لڑائی سے نہیں پھیل سکتا.پہلے بھی اسلام کی ترقی اور اشاعت کے لیے تلوار نہیں اٹھائی گئی.اسلام اپنے برکات انوار اور تاثرات کے ذریعہ پھیلا ہے اور ہمیشہ اسی طرح پھیلے گا.پس یہ نہایت ہی غلط اور مکر وہ خیال ہے کہ مسیح کے وقت جنگ ہوگی اور نہ مسیح کو اس کی حاجت.وہ قلم سے کام لے گا اور اسلام کی حقانیت اور صداقت کو پُر زور دلائل اور تاثیرات کے ساتھ ثابت کر کے دکھائے گا اور دوسرے ادیان پر اس کو غالب کرے گا اور یہ ہورہا ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 447)
505 تمام سچے مسلمان جو دنیا میں گذرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلا نا چاہیئے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے.پس جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیئے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی تریاق القلوب.ر.خ.جلد 15 صفحہ 167 حاشیہ ) سے مشابہ ہے.معجزات اور نشان دکھا کر غرض یہ خیالات بھی کہ گویا کسی زمانہ میں کوئی مسیح اور مہدی اس غرض سے آئے گا کہ تا کافروں سے جنگ کر کے دین اسلام کو پھیلا دے یہ خیالات اس قدر بیہودہ اور لغو ہیں کہ خود قرآن شریف ان کے رد کرنے کے لئے کافی ہے.جس دین کے ہاتھ میں ہمیشہ اور ہر زمانہ میں آسمانی معجزات اور نشانات موجود ہیں اور حکمت اور حق سے بھرا ہوا ہے اس کو دین پھیلانے کے لئے زمینی ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے اس کا جنگ خدا کی چمکدار تائیدوں کے ساتھ ہے نہ لوہے کی تلوار کے ساتھ کاش دیوا نہ طبع مکہ کے کافر اسلام کو تلوار سے نابود کرنا نہ چاہتے تا خدا یہ طریق پسند نہ کرتا کہ وہ تلوار سے ہی مارے جائیں.پیغام صلح - ر- خ - جلد 23 صفحہ 396 ) اس زمانہ میں جو تیرہ سو برس عہد نبوت کو گزر گئے اور خود اسلام اندرونی طور پر تہتر فرقوں پر پھیل گیا.سچے مسیح کا یہ کام ہونا چاہیئے کہ دلائل کے ساتھ دلوں پر فتح پاوے نہ تلوار کے ساتھ اور صلیبی عقیدہ کو واقعی اور بچے ثبوت کے ساتھ توڑ دے نہ یہ کہ ان صلیبوں کو توڑتا پھرے جو چاندی یا سونے یا پیتل یا لکڑی سے بنائی جاتی ہیں اگر تم جبر کرو گے تو تمہارا جبر اس بات پر کافی دلیل ہے کہ تمہارے پاس اپنی سچائی پر کوئی دلیل نہیں.ہر یک نادان اور ظالم طبع جب دلیل سے عاجز آ جاتا ہے تو پھر تلوار یا بندوق کی طرف ہاتھ لمبا کرتا ہے مگر ایسا مذہب ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوسکتا جو صرف تلوار کے سہارے سے پھیل سکتا نہ کسی اور طریق سے اگر تم ایسے جہاد سے باز نہیں آ سکتے اور اس پر غصہ میں آ کر راستبازوں کا نام بھی دجال اور ملحد رکھتے ہو تو ہم ان دو فقروں پر اس تقریر کو ختم کرتے ہیں.فل يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ لَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ (الكافرون : 32) اندرونی تفرقہ اور پھوٹ کے زمانہ میں تمہارا فرضی مسیح اور فرضی مہدی کس کس پر تلوار چلائے گا کیا سنیوں کے نزدیک شیعہ اس لائق نہیں کہ ان پر تلوار اٹھائی جائے اور شیعوں کے نزدیک سنی اس لائق نہیں کہ ان سب کو تلوار سے نیست و نابود کیا جاوے پس جبکہ تمہارے اندرونی فرقے ہی تمہارے عقیدہ کی رو سے مستوجب سزا ہیں تو تم کس کس سے جہاد کرو گے.مگر یاد رکھو کہ خدا تلوار کا محتاج نہیں وہ اپنے دین کو آسمانی نشانوں کے ساتھ زمین پر پھیلائے گا اور کوئی اس کو روک نہیں سکے گا.کشتی نوح.ر.خ.جلد 19 صفحہ 76-75)
506 سے جہاد اب یہ زمانہ کسر صلیب کا ہے.تقریر کے مقابلہ پر تلوار سے کام لینا بالکل نادانی ہے.خدا تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جس طرح اور جن آلات سے کفار تم پر حملہ کرتے ہیں.انہی طریقوں اور آلات سے تم ان لوگوں کا مقابلہ کرو.اب ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے حملے اسلام پر تلوار سے نہیں ہیں بلکہ قلم سے ہیں.لہذا ضرور ہے کہ ان کا جواب قلم سے دیا جاوے اگر تلوار سے دیا جاوے گا تو یہ اعتدا ہو گا جس سے خدا تعالیٰ کی صریح ممانعت قرآن شریف میں موجود ہے.إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ.(البقرة: 191) پھراگر عیسائیوں کو تل بھی کر دیا جاوے تو اس سے وہ وساوس ہرگز دور نہ ہوں گے جو کہ دلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ وہ اور پختہ ہو جاویں گے اور لوگ کہیں گے کہ واقع میں اہل اسلام کے پاس اپنے مذہب کی حقانیت کی دلیل کوئی نہیں ہے لیکن اگر شیر میں کلامی اور نرمی سے ان کے وساوس کو دور کیا جاوے تو امید ہے کہ وہ سمجھ جاویں گے اور ہم نے دیکھا ہے کہ بعض عیسائی لوگ جو یہاں آتے ہیں ان کو جب نرمی سے سمجھایا جاتا ہے تو اکثر سمجھ جاتے ہیں اور تبدیل مذہب کر لیتے ہیں (جیسے کہ ماسٹر عبدالحق صاحب نومسلم ) پس ہماری رائے تو یہ ہے کہ جہانتک ہو سکے کمر بستہ ہو کر دین کی خدمت میں مصروف ہوں کیونکہ یہ وقت اسی کام کے لیے ہے اگر اب کوئی نہیں کرتا تو اور کب کرے گا ؟ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 231) ابتدائے اسلام میں دفاعی لڑائیوں اور جسمانی جنگوں کی اس لئے بھی ضرورت پڑتی تھی کہ دعوت اسلام کرنے والے کا جواب ان دنوں دلائل و براہین سے نہیں بلکہ تلوار سے دیا جاتا تھا اس لئے لاچار جواب الجواب میں تلوار سے کام لینا پڑا لیکن اب تلوار سے جواب نہیں دیا جا تا بلکہ قلم اور دلائل سے اسلام پر نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ سیف (تلوار) کا کام قلم سے لیا جاوے اور تحریر سے مقابلہ کر کے مخالفوں کو پست کیا جاوے اس لئے اب کسی کو شایاں نہیں کہ قلم کا جواب تلوار سے دینے کی کوشش کرے.گر حفظ مراتب نہ گنی زندیقی ( ملفوظات جلد اول صفحه 37) تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اُٹھایا ہم نے تیری الفت سے ہے معمور مرا ہر ذرہ اپنے سینے میں یہ اک شھر بسایا ہم نے صف دشمن کو کیا ہم نے بحجت پامال سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے نور دکھلا کے تیرا سب کو کیا ملزم و خوار سب کا دل آتش سوزاں میں جلایا ہم نے ( آئینہ کمالات اسلام -رخ- جلد 5 صفحہ 225 ) ( در مشین اردو صفحہ 14)
507 اللہ تعالیٰ بعض مصالح کے رُو سے ایک فعل کرتا ہے اور آئندہ جب وہ فعل معرض اعتراض ٹھہرتا ہے تو پھر وہ فعل نہیں کرتا.اولاً ہمارے رسول اکرم ﷺ نے کوئی تلوار نہ اٹھائی مگر ان کو سخت سے سخت تکالیف برداشت کرنی پڑیں.تیرہ سال کا عرصہ.اس لیے عرصہ میں کوئی یا کسی رنگ کی تکلیف نہ تھی جو اٹھانی نہ پڑی ہو.آخر کار وطن سے نکلے تو تعاقب ہوا.دوسری جگہ پناہ لی.تو دشمن نے وہاں بھی نہ چھوڑا.جب یہ حالت ہوئی تو مظلوموں کو ظالموں کے ظلم سے بچانے کے لئے حکم ہوا.أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ.وَالَّذِيْنَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا اَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ (الحج: (40-41) کہ جن لوگوں کے ساتھ لڑائیاں خواہ مخواہ کی گئیں اور گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس لئے کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے سو یہ ضرورت تھی کہ تلوار اٹھائی گئی.والا حضرت کبھی تلوار نہ اٹھاتے.ہاں ہمارے زمانہ میں ہمارے برخلاف قلم اٹھائی گئی.قلم سے ہم کو اذیت دی گئی اور سخت ستایا گیا اس لئے اس کے مقابل قلم ہی ہمارا حربہ بھی ہے.(ملفوظات.جلداول صفحہ 28-27) اسلام کے جہاد پر اعتراضات کا جواب اگر تلوار کے ذریعہ سے خدا کا عذاب نازل ہو نا خدا کی صفات کے مخالف ہے تو کیوں نہ یہ اعتراض اول موسیٰ سے ہی شروع کیا جائے جس نے قوموں کو قتل کر کے خون کی نہریں بہادیں اور کسی کی تو بہ کو بھی قبول نہ کیا.قرآنی جنگوں نے تو تو بہ کا دروازہ کھلا رکھا.جو عین قانون قدرت اور خدا کے رحم کے موافق ہے کیونکہ اب بھی جب خدا تعالی طاعون اور ہیضہ وغیرہ سے اپنا عذاب دنیا پر نازل کرتا ہے تو ساتھ ہی طبیبوں کو ایسی ایسی بوٹیاں اور تدبیروں کا بھی علم دے دیتا ہے جس سے اس آتش وباء کا انسداد ہو سکے.سو یہ موسیٰ کے طریق جنگ پر اعتراض ہے کہ ان میں قانوں قدرت کے موافق کوئی طریق بچاؤ قائم نہیں کیا گیا.ہاں بعض بعض جگہ قائم بھی کیا گیا ہے مگر کلی طور پر نہیں.الغرض جبکہ یہ سنت اللہ یعنی تلوار سے ظالم منکروں کو ہلاک کرنا قدیم سے چلی آتی ہے تو قرآن شریف پر کیوں خصوصیت کیساتھ اعتراض کیا جاتا ہے؟ کیا موسیٰ کے زمانہ میں خدا کوئی اور تھا؟ اور اسلام میں کوئی اور ہو گیا؟ یا خدا کو اس وقت لڑائیاں پیاری لگتی تھیں اور اب بری دکھائی دیتی ہیں؟ اور یہ بھی فرق یادر ہے کہ اسلام نے صرف ان لوگوں کے مقابل پر تلوار اٹھا نا حکم فرمایا ہے کہ جو اول آپ تلوار اُٹھا ئیں.اور انہیں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو اول آپ قتل کریں.یہ حکم ہرگز نہیں دیا کہ تم ایک کافر بادشاہ کے تحت میں ہو کر اور اس کے عدل اور انصاف سے فائدہ اٹھ کر پھر اسی پر باغیانہ حملہ کرو.قرآن کے رو سے یہ بدمعاشوں کا طریق ہے نہ نیکوں کا.لیکن توریت نے یہ فرق کسی جگہ نہیں کھول کر بیان نہیں فرمایا.اس سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف اپنے جلالی اور جمالی احکام میں اس خط مستقیم عدل اور انصاف اور رحم اور احسان پر چلتا ہے.جس کی نظیر دنیا میں کسی کتاب میں موجود نہیں.انجام آتھم.رخ - جلد 11 صفحہ 37)
508 خود قرآن شریف میں ان لڑائیوں کی یہ وجہ صاف لکھی ہے.أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ.الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقِّ یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی جن کے قتل کے لئے مخالفوں نے چڑھائی کی (اس لئے اجازت دی گئی ) کہ ان پر ظلم ہو ااور خدا تعالیٰ مظلوم کی حمایت کرنے پر قادر ہے.یہ وہ مظلوم ہیں جو ناحق اپنے وطنوں سے نکالے گئے.ان کا گناہ بجز اس کے اور کوئی نہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے.یہ وہ آیت ہے جس سے اسلامی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے.پھر جس قدر رعایتیں اسلامی جنگوں میں دیکھو گے ممکن نہیں کہ موسوی یا یشوعی لڑائیوں میں اس کی نظیر مل سکے.موسوی لڑائیوں میں لاکھوں بے گناہ بچوں کا مارا جانا بوڑھوں اور عورتوں کا قتل باغات اور درختوں کا جلا کر خاک سیاہ کر دینا تو رات سے ثابت ہے مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوصفیکہ ان شریروں سے وہ سختیاں اور تکلیفیں دیکھی تھیں جو پہلے کسی نے نہ دیکھی تھیں پھر ان دفاعی جنگوں میں بھی بچوں کو قتل نہ کرنے، عورتوں اور بوڑھوں کو نہ مارنے راہبوں سے تعلق نہ رکھنے اور کھیتوں اور شمر دار درختوں کو نہ جلانے اور عبادت گاہوں کے مسمار نہ کرنے کا حکم دیا جاتا تھا.اب مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ کس کا پلہ بھاری ہے.اسلامی جنگیں بالکل دفاعی لڑائیاں تھیں.جب کفار کی تکالیف اور شرارتیں حد سے گذر گئیں تو خدا (تعالی) نے ان کو سزا دینے کے لئے یہ حکم دیا مگر عیسائیوں نے جو مختلف اوقات میں مذہب کے نام سے لڑائیاں کی ہیں ان کے پاس خدا تعالیٰ کی کونسی دستاویز اور حکم تھا جس کی رو سے وہ لڑتے تھے ان کو تو ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 72-71) پھیر دینے کا حکم تھا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 437) مسلمان مظلوم تھے ان کی طرف سے ابتداء نہیں ہوئی تھی بلکہ بانی فساد کفار مکہ تھے.ایسی حالت میں بھی جب ان کی شرارتیں انتہائی درجہ تک جا پہنچیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدافعت کے واسطے مقابلہ کرنے کا حکم دیا.پس یہ اعتراض محض فضول اور لغو ہے کہ وہ لڑائیاں مذہب کے لئے تھیں.اگر محض مذہب کے لئے ہوتیں تو جزیہ دینے کی صورت میں ان کو کیوں چھوڑا جاتا.پھر میں کہتا ہوں کہ عیسائی تو اس قسم کا اعتراض کر ہی نہیں سکتے.وہ اپنے گھر میں دیکھیں کہ اسلامی لڑائیاں موسوی لڑائیوں سے زیادہ ہیں؟ اور جبکہ وہ حضرت عیسی کو موسیٰ علیہ السلام کا بھی (معاذ اللہ ) خدا مانتے ہیں تو پھر ان لڑائیوں کا الزام عیسائیوں پر بدستور قائم ہے خصوصاً ایسی حالت میں کہ وہ لڑائیاں اسلامی جنگوں سے زیادہ سخت اور خون ریز تھیں.اسلامی لڑائیوں میں بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا لحاظ کیا جا تا تھا اور ان کوقتل نہیں کیا جاتا تھا مگر موسوی لڑائیوں میں تو ان امور کی پرواہ نہیں کی جاتی تھی.ایسا ہی اسلامی جنگوں میں مذہبی عبادت گاہوں اور پھلدار درختوں کو بھی ضائع نہیں کیا جاتا تھا مگر موسوی لڑائیوں میں پھلدار درخت تباہ کر دیئے جاتے.غرض اسلامی جنگ موسوی لڑائیوں کے مقابلہ میں کچھ چیز ہی نہیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 677-476)
اسلامی جہاد اور لونڈیاں 509.اَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَالِكَ اَدْنى اَلَّا تَعُولُوا.الـ ا.(النساء : 4) نکاح کی اصل حقیقت یہ ہے کہ عورت اور اس کے ولی کی اور نیز مرد کی رضامندی لی جاتی ہے لیکن جس حالت میں ایک عورت اپنی آزادی کے حقوق کھو چکی ہے اور وہ آزاد نہیں بلکہ وہ ان ظالم طبع جنگ جولوگوں میں سے ہے جنہوں نے مسلمانوں کے مردوں اور عورتوں پر بیجا ظلم کیے ہیں تو ایسی عورت جب گرفتار ہو کر اپنے اقارب کے جرائم کی پاداش میں لونڈی بنائی گئی تو اس کی آزادی کے حقوق سب تلف ہو گئے لہذا وہ اب فتح یاب بادشاہ کی لونڈی ہے اور ایسی عورت کو حرم میں داخل کرنے کے لیے اس کی رضا مندی کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے جنگجو اقارب پر فتحیاب ہو کر اس کو اپنے قبضہ میں لانا یہی اس کی رضا مندی ہے یہی حکم تو ریت میں بھی موجود ہے ہاں قرآن شریف میں فک رقبۃ یعنی لونڈی غلام کو آزاد کرنا بڑے ثواب کا کام بیان فرمایا ہے اور عام مسلمانوں کو رغبت دی ہے کہ اگر وہ ایسی لونڈیوں اور غلاموں کو آزاد کر دیں تو خدا کے نزدیک بڑا اجر حاصل کریں گے اگر چہ مسلمان بادشاہ ایسے خبیث اور چنڈال لوگوں پر فتح یاب ہو کر غلام اور لونڈی بنانے کا حق رکھتا ہے مگر پھر بھی بدی کے مقابل پر نیکی کرنا خدا نے پسند فرمایا ہے یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے زمانہ میں اسلام کے مقابل پر جو کافر کہلاتے ہیں انہوں نے یہ تعدی اور زیادتی کا طریق چھوڑ دیا ہے اس لیے اب مسلمانوں کے لیے بھی روا نہیں کہ ان کے قیدیوں کو لونڈی غلام بناویں کیونکہ خدا قرآن شریف میں فرماتا ہے جو تم جنگجو فرقہ کے مقابل پر صرف اسی قدر زیادتی کرو جس میں پہلے انہوں نے سبقت کی ہو پس جبکہ اب وہ زمانہ نہیں ہے اور اب کافر لوگ جنگ کی حالت میں مسلمانوں کے ساتھ ایسی سختی اور زیادتی نہیں کرتے کہ ان کو اور ان کے مردوں اور عورتوں کو لونڈیاں اور غلام بنا دیں بلکہ وہ شاہی قیدی سمجھے جاتے ہیں اس لیے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کو بھی ایسا کرنا نا جائز اور حرام ہے.(چشمہ معرفت..خ.جلد 23 صفحہ 253 حاشیہ) اسلام کا خدا تمام عبادت خانوں کا حامی اور محافظ ہے وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهُ النَّاسَ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّ صَلَواتٌ وَّ مَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا ط وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ.(الحج : 41) یعنی اگر خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہ ہوتی کہ بعض کو بعض کے ساتھ دفع کرتا تو ظلم کی نوبت یہاں تک پہنچتی کہ گوشہ گزینوں کے خلوت خانے ڈھائے جاتے اور عیسائیوں کے گرجے مسمار کئے جاتے اور یہودیوں کے معبد نابود کئے جاتے اور مسلمانوں کی مسجدیں جہاں کثرت سے ذکر خدا ہوتا ہے منہدم کی جاتیں.اس جگہ خدا تعالیٰ یہ ظاہر فرماتا ہے کہ ان تمام عبادت خانوں کائیں ہی حامی ہوں اور اسلام کا فرض ہے کہ اگر مثلا کسی عیسائی ملک پر
510 قبضہ کرے تو تو ان کے عبادت خانوں سے کچھ تعرض نہ کرے اور منع کر دے کہ ان کے گرجے مسمار نہ کئے جائیں اور یہی ہدایت احادیث نبویہ سے مفہوم ہوتی ہے کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جبکہ کوئی اسلامی سپہ سالار کسی قوم کے مقابلہ کے لئے مامور ہوتا تھا تو اس کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے عبادت خانوں اور فقراء کے خلوت خانوں سے تعرض نہ کرے اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کس قدر تعصب کے طریقوں سے دور ہے کہ وہ عیسائیوں کے گر جاؤں اور یہودیوں کے معبدوں کا ایسا ہی حامی ہے جیسا کہ مساجد کا حامی ہے.ہاں البتہ اس خدا نے جو اسلام کا بانی ہے یہ نہیں چاہا کہ اسلام دشمنوں کے حملوں سے فنا ہو جائے بلکہ اس نے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے اور حفاظت خود اختیاری کے طور پر مقابلہ کرنے کا اذن دے دیا ہے.(چشمہ معرفت.رخ.جلد 23 صفحہ 394-393) جو حکومت شریعت کے خلاف حکم نہیں دیتی اس کی اطاعت لازم ہے يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنكُمُ فَإِنْ تَنَازَعْتُمُ فِى شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَأْوِيلًا.(النساء:60) قرآن میں حکم ہے.اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ.اب اولی الامركي اطاعت کا صاف حکم ہے.اور اگر کوئی کہے کہ گورنمنٹ منکم میں داخل نہیں.تو یہ اس کی صریح غلطی ہے.گورنمنٹ جو بات شریعت کے موافق کرتی ہے.وہ منکم میں داخل ہے.جو ہماری مخالفت نہیں کرتا.وہ ہم میں داخل ہے.اشارۃ النص کے طور پر قرآن سے ثابت ہوتا ہے.کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہیئے.اور اس کی (رسالہ الانذار صفحہ 69) باتیں مان لینی چاہیئے.أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمُ يعنی اللہ اور رسول اور اپنے بادشاہوں کی (شہادت القرآن...خ.جلد 6 صفحہ 332) تابعداری کرو.أولى الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے.اور جسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہو سکے وہ ہم میں سے ہے.( ضرورت الامام.ر.خ.جلد 13 صفحہ 493)
511 چوتھی فصل تعریف البام وحی والہام وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلَّمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوْحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَآءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ.(الشورى: 52) الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ او تر ڈدا ور تفکر اور تدبیر پر موقوف نہیں ہوتا اور ایک واضح اور منکشف احساس ہے کہ جیسے سامع کو متکلم سے یا مضروب کو ضارب سے یا ملموس کولامس سے ہو محسوس ہوتا ہے اور اس سے نفس کو مثل حرکات فکریہ کے کوئی الم روحانی نہیں پہنچتا بلکہ جیسے عاشق اپنے معشوق کی رؤیت سے بلا تکلف انشراح اور انبساط پاتا ہے ویسا ہی روح کو الہام سے ایک ازلی اور قدیمی رابطہ ہے کہ جس سے روح لذت اٹھاتا ہے.غرض یہ منجانب اللہ اعلام لذیذ ہے کہ جس کو نفث فی الروع اور وحی بھی کہتے ہیں.پرانی تحریریں...خ.جلد 2 صفحہ 20) إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ.ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ.(حم السجده: 31) الہام کیا چیز ہے؟ وہ پاک اور قادر خدا کا ایک برگزیدہ بندہ کے ساتھ یا اس کے ساتھ جس کو برگزیدہ کرنا چاہتا ہے ایک زندہ اور باقدرت کلام کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے.سو جب یہ مکالمہ اور مخاطبہ کافی اور تسلی بخش سلسلہ کے ساتھ شروع ہو جائے اور اس میں خیالات فاسدہ کی تاریکی نہ ہواور نہ غیر متفھی اور چند بے سر و پا لفظ ہوں اور کلام لذیذ اور پُر حکمت اور پُر شوکت ہو تو وہ خدا کا کلام ہے جس سے وہ اپنے بندے کو تسلی دنیا چاہتا ہے اور اپنے تئیں اس پر ظاہر کرتا ہے.ہاں کبھی ایک کلام محض امتحان کے طور پر ہوتا ہے اور پورا اور بابرکت سامان ساتھ نہیں رکھتا.اس میں خدائے تعالیٰ کے بندہ کو اس کی ابتدائی حالت میں آزمایا جاتا ہے تا وہ ایک ذرہ الہام کا مزہ چکھ کر پھر واقعی طور پر اپنا حال وقال بچے ملہموں کی طرح بناوے یا ٹھو کر کھاوے.پس اگر وہ حقیقی راست بازی صدیقوں کی طرح اختیار نہیں کرتا تو اس نعمت کے کمال سے محروم رہ جاتا ہے اور صرف بیہودہ لاف زنی اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے.کروڑ ہا نیک بندوں کو الہام ہوتا رہا ہے مگر ان کا مرتبہ خدا کے نزدیک ایک درجہ کا نہیں بلکہ خدا کے پاک نبی جو پہلے درجہ پر کمال صفائی سے خدا کا الہام پانے والے ہیں وہ بھی مرتبہ میں برابر نہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی...خ.جلد 10 صفحہ 439-438)
512 مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ (الزاريات:57) الہام کا مادہ ہر انسان میں ہے فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوهَا.(الشمس: 9) یعنی بر یک انسان کو ایک قسم کا خدا نے الہام عطا کر رکھا ہے جس کو نور قلب کہتے ہیں اور وہ یہ کہ نیک اور بد کام میں فرق کر لینا.جیسے کوئی چور یا خونی چوری یا خون کرتا ہے تو خدا اس کے دل میں اس وقت ڈال دیتا ہے کہ تو نے یہ کام بُرا کیا اچھا نہیں کیا لیکن وہ ایسے القاء کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا کیونکہ اس کا نور قلب نہایت ضعیف ہوتا ہے اور عقل بھی ضعیف اور قوت بہیمیہ غالب اور نفس طالب.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 186 حاشیہ) وَ مَا كَانَ لِبَشَرٌ أَنْ يُكَلَّمَهُ الله.....الاية.(الشورى: 52) اللہ تعالیٰ نے وحی اور الہام کا مادہ ہر شخص میں رکھ دیا ہے کیونکہ اگر یہ مادہ نہ رکھا ہوتا تو پھر حجت پوری نہ ہو سکتی اس لئے جو نبی آتا ہے اس کی نبوت اور وحی والہام کے سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی فطرت میں ایک ودیعت رکھی ہوئی ہے اور وہ ودیعت خواب ہے اگر کسی کو کوئی خواب بچی کبھی نہ آئی ہو تو وہ کیونکر مان سکتا ہے کہ الہام اور وحی بھی کوئی چیز ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.(البقرة: 287) اس لئے یہ مادہ اس نے سب میں رکھ دیا ہے.میرا یہ مذہب ہے کہ ایک بدکار اور فاسق فاجر کو بھی بعض وقت کچی رویا آ جاتی ہے اور کبھی کبھی الہام بھی ہو جاتا ہے گو وہ شخص اس کیفیت سے کوئی فائدہ اٹھا دے یا نہ اٹھاوے جبکہ کافر اور مومن دونوں کو سچی رؤیا آجاتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے.عظیم الشان فرق تو یہ ہے کہ کافر کی رؤیا بہت کم بچی نکلتی ہے اور مومن کی کثرت سے بچی نکلتی ہے گویا پہلا فرق کثرت اور قلت کا ہے دوسرے مومن کے لئے بشارت کا حصہ زیادہ ہے جو کا فر کی رویا میں نہیں ہوتا.سوم مومن کی رؤیا مصفا اور روشن ہوتی ہے بحالیکہ کا فر کی رؤیا مصفا نہیں ہوتی چہارم مومن کی رؤیا اعلیٰ درجہ کی ہوگی.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 281-280) الہام کا حقیقی منصب وَنَا دَيْنَهُ أَنْ يُإِبْرَاهِيمُ.قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءُ يَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِينَ.(الصفت 106-105) صوفیوں نے لکھا ہے کہ ادائل سلوک میں جو دیا یا وحی ہو اس پر توجہ نہیں کرنی چاہیئے وہ اکثر اوقات اس راہ میں روک ہو جاتی ہے.انسان کی اپنی خوبی اس میں تو کوئی نہیں کیونکہ یہ تواللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو وہ کسی کو کوئی اچھی خواب دکھاوے یا کوئی الہام کرے اس نے کیا کیا؟ دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت وحی ہوا کرتی تھی لیکن اس کا کہیں ذکر بھی نہیں کیا گیا کہ اس کو یہ الہام ہوا یہ وحی ہوئی بلکہ ذکر کیا گیا ہے تو اس بات کا اِبْراهِيمَ الَّذِي وفی (النجم : 38) وہ ابراہیم جس نے وفاداری کا کامل نمونہ دکھایا یا یہ کہ بِإِبْرَاهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءُ يَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ وحی الہی کے انوار قبول کرنے کے لئے فطرت قابلہ شرط ہے جس میں وہ انوار منعکس ہوسکیں جو خدائے تعالی کسی وقت اپنے خاص ارادہ سے نازل کرے.( آئینہ کمالات اسلام.رخ.جلد 5 صفحہ 237 حاشیہ ) ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 638-637)
513 الہام قابل تعبیر ہوتا ہے ان الله تعالى قد يوحى الى انبيائه ورسله في حلل المجازات والاستعارات والتمثيلات و نظائره كثيرة في وحى خير الرسل صلى الله عليه وسلم (حمامته البشرى.ر.خ.جلد 7 صفحه 191-190 حاشیه) ترجمه از مرتب:.اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور مرسلوں کو کبھی کبھی مجاز استعار عداور تمثیل کے رنگ میں وحی کرتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی میں اس کی بہت سی نظائر موجود ہیں.الہام اور اجتہادی غلطی کبھی نبی کی وحی خبر واحد کی طرح ہوتی ہے اور مع ذالک مجمل ہوتی ہے اور کبھی وحی ایک امر میں کثرت سے اور واضح ہوتی ہے.پس اگر مجمل وحی میں اجتہاد کے رنگ میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو بینات محکمات کو اس سے کچھ صدمہ نہیں پہنچتا.پس میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ کبھی میری وحی بھی خبر واحد کی طرح ہوا اور مجمل ہو اور اس کے سمجھنے میں اجتہادی رنگ کی غلطی ہو.اس بات میں تمام انبیاء شریک ہیں.(لیکچر سیالکوٹ.ر.خ.جلد 20 صفحہ 245) الہام پانے کی خواہش غلط ہے إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ أُولئِكَ هُمُ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ (البيِّنة: 8) انسان کو چاہئے کہ اپنا فرض ادا کرے اور اعمال صالحہ میں ترقی کرے.الہام کرنا اور رویا دکھانا یہ تو خدا تعالیٰ کا فعل ہے اس پر ناز نہیں کرنا چاہیئے.اپنے اعمال کو درست کرنا چاہیئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ أُولئِكَ هُمُ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ یہ نہیں کہا کہ جن کو کشوف اور الہامات ہوتے ہیں وہ خیر البریۃ ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 367) وحی صرف مسلمان کو ہوسکتی ہے وحی ایسی شئی ہے جو کہ اس سے بدر جہا بڑھ کر صاف ہے اور اس کے حاصل ہونے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے.کشف تو ایک ہندو کو بھی ہو سکتا ہے بلکہ ایک دہریہ بھی جو خدا تعالیٰ کو نہ مانتا ہو وہ بھی اس میں کچھ نہ کچھ کمال حاصل کر لیتا ہے لیکن وحی سوائے مسلمان کے دوسرے کو نہیں ہو سکتی یہ اسی امت کا حصہ ہے کیونکہ کشف تو ایک فطرتی حصہ انسان کا ہے اور ریاضت سے یہ حاصل ہو سکتا ہے خواہ کوئی کرے.کیونکہ فطرتی امر جیسے جیسے کوئی اس میں مشق اور محنت کرے گا ویسے ویسے اس پر اس کی حالتیں طاری ہوں گی اور ہر ایک نیک و بد کورڈیا کا ہونا اس امر پر دلیل ہے.دیکھا ہوگا کہ کچی خوا ہیں بعض فاسق فاجر لوگوں کو بھی آ جاتی ہیں.پس جیسے ان کو کچی خوا میں آتی ہیں ویسے ہی زیادہ مشق سے کشف بھی ان کو ہو سکتے ہیں تھی کہ حیوان بھی صاحب کشف ہو سکتا ہے لیکن الہام یعنی وحی الہی ایسی شئے ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ سے پوری صلح نہ ہو اور اس کی اطاعت کے لئے اس نے گردن نہ رکھ دی ہو تب تک وہ کسی کو
514 حاصل نہیں ہوسکتی.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ الَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُو بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ (حم السجدة: 31) سیاسی امر کی طرف اشارہ ہے.نزول وحی کا ان کے ساتھ وابستہ ہے جو کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مستقیم ہیں اور وہ صرف مسلمان ہی ہیں.وحی ہی وہ شئی ہے کہ جس سے انا الموجود کی آواز کان میں آ کر ہر ایک شک وشبہ سے ایمان کو نجات دیتی ہے اور بغیر جس کے مرتبہ یقین کامل انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا لیکن کشف میں یہ آواز کبھی نہیں سنائی دیتی اور یہی وجہ ہے کہ صاحب کشف ایک دہر یہ بھی ہوسکتا ہے لیکن صاحب وحی بھی دہر یہ نہیں ہوگا.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 246) قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا.(الشمس: 10) ایک مسلمان کا کشف جس قدر صاف ہوگا اس قدر غیر مسلم کا ہرگز صاف نہ ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ ایک مسلم اور غیر مسلم میں تمیز رکھتا ہے اور فرماتا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّهَا.الہام بجز موافقت قرآن کے حجت نہیں ہے (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 247) الہام ولایت یا الہام عامہ مومنیں بجز موافقت و مطابقت قرآن کریم کے حجت بھی نہیں.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 440) اقسام کلام الہی وَ مَا كَانَ لِبَشَرِ أَنْ يُكَلَّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْمِنُ وَّرَآئِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ.(الشورى :52) قبل اس کے کہ اس آیت کے حل کی طرف ہم متوجہ ہوں ہم عملاً دیکھتے ہیں وہ تین ہی طریقے ہیں خدا تعالیٰ کے کلام کرنے کے چوتھا کوئی نہیں (1) رویا (2) مکاشفہ (3) وحی...مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ سے مرادر ویا کا ذریعہ ہے.مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ کے معنی یہ ہیں کہ اس پر استعارے غالب رہتے ہیں جو حجاب کا رنگ رکھتے ہیں اور یہی رؤیا کی ہیئت ہے.يُرْسِلَ رَسُولًا سے مراد مکاشفہ ہے.رسول کا تمثل بھی مکاشفہ میں ہی ہوتا ہے اور مکاشفہ کی حقیقت یہی ( ملفوظات جلد اول صفحہ 381) ہے کہ وہ تمثلات ہی کا سلسلہ ہوتا ہے.(فارسی متن ) کلام الہی بر سه قسم است - وحی - رویا - کشف.وحی آنکہ بلا واسطے شخصے بر قلب مطہرہ نبوی فرود آید.و آں کلام اجلی و روشن می باشد - نظیرش بیان فرمودند که مثلاً حافظ صاحب نابینا که پیش ما نشسته اند در سماع کلام ماہرگز غلطی نمی خورند و نمے دانند که آواز مسموع کلام غیر ما باشد.اگر چه از چشم ظاہر مارا نمی بینند.دیگر رؤیا و منام ست کہ آں کلام رنگین و لطیف و کنایه دارو و ذوی الوجوه است چون ویدن رسول اللہ علیہ وسلم سوارین در دست مبارک خویش یا معائنہ فرمودن یکے زوجہ مطہرہ خود را طویل یدین و دیدن بقرہ وغیرہ ایں چنیں کلام الہی تعبیر طلب است سوم کشف است و آن تمثل است خواه بصورت جبریل باشد یا فرشته یا دیگر اشیاء.پس آیت شریفہ خواندند أَنْ يُكَلِمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيا اَوْمِنُ وَرَائِ حِجَابٍ اَوْيُرُسِلَ رَسُولًا ارشاد شد کہ سوائے امور ثلاثہ مذکورہ کلام الہی را طریقے نیست.( ملفوظات جلد اول صفحه 383)
515 ( ترجمه از مرتب ) کلام الہی کی تین قسمیں ہیں وحی.رؤیا.کشف.وحی وہ ہے جو کسی واسطہ کے بغیر نبی کے پاک اور مطہر دل پر نازل ہو اور یہ کلام زیادہ صاف اور روشن ہوتا ہے.اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ مثلاً یہ حافظ صاحب نابینا جو ہمارے سامنے بیٹھے ہیں وہ ہمارے کلام کے سنے میں ہرگز کوئی غلطی نہیں کرتے اور نہیں جانتے کہ سنی ہوئی آواز ہمارے غیر کی آواز ہو سکتی ہے.اگر چہ وہ ظاہری آنکھ سے ہمیں نہیں دیکھ رہے.دوسری قسم رویا اور خواب ہے کہ یہ کلام رنگین اور لطیف ہوتا ہے اور اس میں کنا یہ ہوتا ہے اور وہ ذوالوجوہ ہوتا ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے دونوں مبارک ہاتھوں میں دو کنگنوں کا دیکھنا یا اپنی ایک بیوی کے سب سے زیادہ لمبے ہاتھ دیکھنا یا گائے وغیرہ کو دیکھنا.اس قسم کا کلام تعبیر طلب ہوتا ہے.تیسری قسم کلام کی کشف ہے اور یہ تمثل کی صورت میں ہوتا ہے چاہے وہ بصورت جبرائیل علیہ السلام ہو یا کسی اور فرشتہ یا کسی دوسری چیز کی صورت میں ہو...پس آیت آن يُكَلَّمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيا اَوْمِنْ وَرَآئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا میں سوائے مذکورہ بالا تین طریقوں کے کلام الہی کا اور کوئی طریق نہیں بتایا گیا.اکمل اور اتم وحی والہام وجی کے اقسام ثلاثہ میں اکمل اور تم وہ وحی ہے جو علم کی تیسری قسم میں داخل ہے جس کا پانے والا انوار سبحانی میں سرا پا غرق ہوتا ہے اور وہ تیسری قسم حق الیقین کے نام سے موسوم ہے.(حقیقۃ الوحی-رخ- جلد 22 صفحہ 50) ان الوحي كـمـا يـنـزل عـلـى الانبياء كذلك ينزل على الاولياء و لا فرق في نزول الوحى بين ان يكون الى نبى او ولى و لكل حظ من مكالمات الله تعالىی و مخاطباته على حسب المدارج.نعم يوحى الانبياء شان اتم و اكمل و اقوى اقسام الوحى وحى رسولنا خاتم النبيين.(تحفہء بغداد.ر.خ.جلد 7 صفحہ 28-27 حاشیہ) ترجمه از مرتب :.وحی جیسے انبیاء پر نازل ہوتی ہے ویسے ہی وہ اولیا ء پر نازل ہوتی ہے اور نبی اور ولی پر وحی کے نزول میں کوئی فرق نہیں ہوتا ان میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کے مکالمات اور مخاطبات سے علی حسب المدارج حصہ ملتا ہے ہاں انبیاء کی وحی کو ایک شان اتم اور اکمل حاصل ہوتی ہے اور وحی کی اقسام میں سے زیادہ قوی وہ وحی ہے جو ہمارے نبی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی.حدیث النفس اور شیطانی القاء إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا.(المزمل :6) بعض لوگ حدیث النفس اور شیطان کے القاء کو الہام الہی سے تمیز نہیں کر سکتے اور دھوکا کھا جاتے ہیں.خدا کی طرف سے جو بات آتی ہے وہ پر شوکت اور لذیذ ہوتی ہے.دل پر ایک ٹھوکر مارنے والی ہوتی ہے.وہ خدا کی انگلیوں سے نکلی ہوئی ہوتی ہے.اس کا ہم وزن کوئی نہیں وہ فولاد کی طرح گرنے والی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے إِنَّا سَنُلْقِی عَلَيْكَ قَوْلًا تَقِیلا.ثقیل کے یہی معنی ہیں مگر شیطان اور نفس کا القاء ایسا نہیں ہوتا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 470)
516 وحی دو قسم کی ہے وحی الابتلاء اور وحی الاصطفاء.وحی الابتلاء بعض اوقات موجب ہلاکت ہو جاتی ہے جیسا کہ بلعم اسی وجہ سے ہلاک ہو انگر صاحب وحی الاصطفاء کبھی ہلاک نہیں ہوتا.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 11) درجات الهام اگر الہامات کسی ناواقف اور ناخواندہ کے الہامی فقروں میں نحوی اور صرفی غلطی ہو جاوے تو نفس الہام قابل اعتراض نہیں ہوسکتا.بی ادنی درجہ کا الہام کہلاتا ہے جو خدا تعالیٰ کے نور کی پوری تجلی سے رنگ پذیر نہیں ہوتا کیونکہ الہام تین طبقوں کا ہوتا ہے ادنی اور اوسط اور اعلیٰ.(ضرورت الامام.رخ.جلد 13 صفحہ 499) کیفیات نزول وحی والہام وَ مَا كَانَ لِبَشَرِ أَنْ يُكَلَّمَهُ اللهُ....الاية.(الشورى: 52) ( برکات الدعا.رخ.جلد 6 صفحہ 26) میں نے دیکھا ہے کہ اس وحی کے وقت جو برنگ وحی ولایت میرے پر نازل ہوتی ہے ایک خارجی اور شدیدالاثر تصرف کا احساس ہوتا ہے اور بعض دفعہ یہ تصرف ایسا قوی ہوتا کہ مجھ کو اپنے انوار میں ایساد با لیتا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں اس کی طرف ایسا کھینچا گیا ہوں کہ میری کوئی قوت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اس تصرف میں کھلا اور روشن کلام سنتا ہوں.بعض دفعہ ملائکہ کو دیکھتا ہوں اور سچائی میں جو اثر اور ہیبت ہوتی ہے مشاہدہ کرتا ہوں اور وہ کلام بسا اوقات غیب کی باتوں پر مشتمل ہوتا اور ایسا تصرف اور اخذ خارجی ہوتا ہے جس سے خدا تعالیٰ کا ثبوت ملتا ہے اب اس سے انکار کرنا بھی ایک کھلی کھلی صداقت کا خون کرنا ہے.الہام کے بارے میں ہمارا تجربہ ہے کہ تھوڑی سی غنودگی ہو کر اور بعض اوقات بغیر غنودگی کے خدا کا کلام ٹکڑہ ٹکڑہ ہو کر زبان پر جاری ہوتا ہے.جب ایک ٹکڑہ ختم ہو چکتا ہے تو حالت غنودگی جاتی رہتی ہے پھر ملہم کے کسی سوال سے یا خود بخود خدا تعالیٰ کی طرف سے دوسرا ٹکڑہ الہام ہوتا ہے اور وہ بھی اسی طرح کہ تھوڑی غنودگی وارد ہو کر زبان پر جاری ہو جاتا ہے.اسی طرح بسا اوقات ایک ہی وقت میں تسبیح کے دانوں کی طرح نہایت بلیغ فصیح لذیذ فقرے غنودگی کی حالت میں زبان پر جاری ہوتے جاتے ہیں اور ہر ایک فقرہ کے بعد غنودگی دور ہو جاتی ہے اور وہ فقرے یا تو قرآن شریف کی بعض آیات ہوتی ہیں یا اس کے مشابہہ ہوتے ہیں اور اکثر علوم غیبیہ پرمشتمل ہوتے ہیں اور ان میں ایک شوکت ہوتی ہے اور دل پر اتر آتے ہیں اور ایک لذت محسوس ہوتی ہے اس وقت دل نور میں غرق ہوتا ہے گویا خدا اس میں نازل ہوتا ہے اور دراصل اس کو الہام نہیں کہنا چاہیئے بلکہ یہ خدا کا کلام ہے.چشمہ معرفت.ر.خ.جلد 23 صفحہ 314 حاشیہ) جب سماع کے ذریعہ سے کوئی خبر دی جاتی ہے تو اسے وحی کہتے ہیں اور جب رویت کے ذریعہ سے کچھ بتلا یا جاوے تو اسے کشف کہتے ہیں.اس طرح میں نے دیکھا ہے کہ بعض وقت ایک ایسا امر ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق صرف قوت شامہ سے ہوتا ہے مگر اس کا نام نہیں رکھ سکتے جیسے یوسف کی نسبت حضرت یعقوب کو خوشبو آئی تھی إِنِّي لَا جِدُ رِيحَ يُوْسُفَ لَوْ لَا اَنْ تُفَنِّدُونِ.(یوسف :95) اور بھی ایک امر ایسا ہوتا ہے کہ جسم اسے محسوس کرتا ہے گویا کہ حواس خمسہ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنی باتیں اظہار کرتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 263-262)
517 مجھے اس اللہ جلشانہ کی قسم ہے کہ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ وحی آسمان سے دل پر ایسی گرتی ہے جیسے کے آفتاب کی شعاع دیوار پر.میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب مکالمہ الہیہ کا وقت آتا ہے تو اول ایک دفعہ مجھ پر ایک ر بودگی طاری ہوتی ہے تب میں ایک تبدیل یافتہ چیز کی مانند ہو جاتا ہوں اور میری حس اور میرا ادراک اور ہوش گو بگفتن باقی ہوتا ہے مگر اس وقت میں پاتا ہوں کہ گویا ایک وجود شدید الطاقت نے میرے تمام وجود کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اور اس وقت احساس کرتا ہوں کہ میری ہستی کی تمام رگیں اس کے ہاتھ میں ہیں اور جو کچھ میرا ہے اب وہ میرا ( برکات الدعا.رخ- جلد 6 صفحہ 22 حاشیہ ) نہیں بلکہ اس کا ہے.ا لَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَ يُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ وَ مَنْ يُضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ.(الزمر: 37) میرے والد صاحب میرزا غلام مرتضی مرحوم کی وفات کا جب وقت قریب آیا اور صرف چند پہر باقی رہ گئے تو خدا تعالیٰ نے ان کی وفات سے مجھے ان الفاظ عزا پر سی کے ساتھ خبر دی.وَ السَّمَاءِ وَ الطَّارِقِ یعنی قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آفتاب کے غروب کے بعد ظہور میں آئے گا اور چونکہ ان کی زندگی سے بہت سے وجود معاش ہمارے وابستہ تھے اس لئے بشریت کے تقاضا سے یہ خیال دل میں گذرا کہ ان کی وفات ہمارے لئے بہت سے مصائب کا موجب ہوگی کیونکہ وہ رقم کثیر آمدنی کی ضبط ہو جائے گی جو ان کی زندگی سے وابستہ تھی.اس خیال کے آنے کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا الَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے.تب وہ خیال یوں اُڑ گیا جیسا کہ روشنی کے نکلنے سے تاریکی اُڑ جاتی ہے.( تریاق القلوب - ر-خ- جلد 15 صفحہ 198) کلام الہی اور الہام میں فرق کلام اور الہام میں فرق یہ ہے کہ الہام کا چشمہ تو گویا ہر وقت مقرب لوگوں میں بہتا ہے اور وہ روح القدس کے بلائے بولتے اور روح القدس کے دکھائے دیکھتے اور روح القدس کے سنائے سنتے اور ان کے تمام ارادے روح القدس کے نفخ سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے...کہ وہ خلقی طور پر اس آیت کے مصداق ہوتے ہیں.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم: 4.5) لیکن مکالمہ الہيہ ایک الگ امر ہے اور وہ یہ ہے کہ وحی متلو کی طرح خدا تعالیٰ کا کلام ان پر نازل ہوتا ہے اور وہ اپنے سوالات کا خدائے تعالیٰ سے ایسا جواب پاتے ہیں کہ جیسا ایک دوست دوست کو جواب دیتا ہے.( آئینہ کمالات اسلام - ر - خ - جلد 5 صفحه - 231)
518 حضرت اقدس کا مکالمہ و مخاطبہ احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ایک شخص پیدا ہو گا جو عیسی اور ابن مریم کہلائے گا اور نبی کے نام سے موسوم کیا جائے گا یعنی اس کثرت سے مکالمہ ومخاطبہ کا شرف اس کو حاصل ہوگا اور اس کثرت سے امور غیبیہ اس پر ظاہر ہوں گے کہ بجز نبی کے کسی پر ظاہر نہیں ہو سکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ اَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ.(الجن (28-27) یعنی خدا اپنے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہیں بخشا جو کثرت اور صفائی سے حاصل ہو سکتا ہے بجز اس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ ومخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی.اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 406) خصوصیات الهام مامورین کھلاغیب صرف نبی مامور پر ظاہر ہوتا ہے ہر ایک مومن پر غیب کامل کے امور ظاہر نہیں کئے جاتے بلکہ محض ان بندوں پر جو اصطفاء اور اجتہاء کا مرتبہ رکھتے ہیں ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا.إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ.(الجن (28-27) یعنی اللہ اپنے غیب پر کسی کو غالب ہونے نہیں دیتا مگر ان لوگوں کو جو اس کے رسول اور اس کی درگاہ کے پسندیدہ ہوں.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 86 ) کھلی کھلی غیب کی بات بتلانا بجز نبی کے اور کسی کا کام نہیں ہے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ.الجن) 28-27) یعنی خدا اپنے غیب پر بجز برگزیدہ (حقیقۃ الوحی - ر- خ- جلد 22 صفحہ 204) رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا.الهام مامورین نزول وحی کا فلسفہ نور وحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے تاریکی پروار نہیں ہوتا کیونکہ فیضان کے لئے مناسبت شرط ہے اور تاریکی کونور سے کچھ مناسبت نہیں بلکہ نور کو نور سے مناسبت ہے اور حکیم مطلق بغیر رعائت مناسبت کونور کوئی کام نہیں کرتا ایسا ہی فیضان نور میں بھی اس کا یہی قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نور ہے اس کو اور نور بھی دیا جاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کو کچھ نہیں دیا جاتا.جو شخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کا نور پاتا ہے اور جس کے پاس آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی کم ہی ملتا ہے اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 196-195)
519 الہام اور اس کی ضرورت إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ الَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ.(حم السجدة: 31) بچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس مذہب کی تعلیم سے ایسے راستباز پیدا ہوتے رہیں جو محدث کے مرتبہ تک پہنچ جائیں جن سے خدا تعالیٰ آمنے سامنے کلام کرے اور اسلام کی حقیقت اور حقانیت کی اول نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راستباز جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہو پیدا ہوتے ہیں تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ الَّا تَخَافُوا وَ لا تَحْزَنُوا (حم السجدة : 31) سو یہی معیار حقیقی بچے اور زندہ اور مقبول مذہب کی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ نور صرف اسلام میں ہے عیسائی مذہب اس روشنی سے بے نصیب ہے.(حجۃ الاسلام -ر خ- جلد 6 صفحہ 43) قرآن شریف پر شریعت ختم ہو گئی مگر وحی ختم نہیں ہوئی کیونکہ وہ بچے دین کی جان ہے.جس دین میں وحی الہی کا سلسلہ جاری نہیں وہ دین مردہ ہے اور خدا اس کے ساتھ نہیں.(کشتی نوح-ر-خ- جلد 19 صفحہ 24 حاشیہ ) پھر وہ خدا جو مردہ کی مانند ہے پڑا پس کیا امید ایسے سے اور خوف اس سے کیا ایسے خدا کے خوف سے دل کیسے پاک ہو سینہ میں اس کے عشق سے کیونکر تپاک ہو بن دیکھے کس طرح کسی مہ رُخ پہ آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی جب تک خدائے زندہ کی تم کو خبر نہیں بے قید اور دلیر ہو کچھ دل میں ڈر نہیں ( در متین اردو صفحه 101) ( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 17 ) أمْ يَقُولُونَ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا فَإِنْ يَّشَ اللَّهُ يَخْتِمُ عَلَى قَلْبِكَ وَ يَمُحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَتِهِ ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ.(الشورى: 25) کیا یہ منکر لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں اور خدا پر جھوٹ باندھا ہے اگر خدا چاہے تو اس کا اترنا بند کر دے پر وہ بند نہیں کرتا کیونکہ اس کی عادت اسی پر جاری ہے کہ وہ احقاق حق اور ابطال باطل اپنے کلمات سے کرتا ہے اور یہ منصب اسی کو پہنچتا ہے کیونکہ امراض روحانی پر اسی کو اطلاع ہے اور ازالہ ء مرض اور استرداد صحت پر وہی قادر ہے.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 664-663)
520 کوئی چیزا اپنی صفات ذاتیہ سے الگ نہیں ہو سکتی پھر خدا کا کلام جوزندہ کلام ہے کیونکر الگ ہو سکے.پس کیا تم کہہ سکتے ہو کہ آفتاب وحی الہی اگر چہ پہلے زمانوں میں یقینی رنگ میں طلوع کرتا رہا ہے مگر اب وہ صفائی اس کو نصیب نہیں گویا یقینی معرفت تک پہنچنے کا کوئی سامان آگے نہیں.بلکہ پیچھے رہ گیا ہے اور گویا خدا کی سلطنت اور حکومت اور فیض رسانی کچھ تھوڑی مدت تک رہ کر ختم ہو چکی ہے لیکن خدا کا کلام اس کے برخلاف گواہی دیتا ہے کیونکہ وہ یہ دعا سکھلاتا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.( نزول المسیح - ر-خ- جلد 18 صفحہ 487) الہام جاری ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَ لَكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبيِّنَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا.(الاحزاب: 41) کہتے ہیں کہ یہ دروازہ مکالمات و مخاطبات کا اس وجہ سے بند ہو گیا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَ لَكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبین ہیں اس لئے آپ کے بعد یہ فیض اور فضل بند ہو گیا مگران کی عقل اور علم پر افسوس آتا ہے کہ یہ نادان اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ ختم نبوت کے ساتھ ہی اگر معرفت اور بصیرت کے دروازے بھی بند ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( معاذ اللہ ) خاتم النبین تو کجا نبی بھی ثابت نہ ہوں گے کیونکہ نبی کی آمد اور بعثت تو اس غرض کے لئے ہوتی ہے تا کہ اللہ تعالیٰ پر ایک یقین اور بصیرت پیدا ہو اور ایسا ایمان ہو جو لذیذ ہو.اللہ تعالے کے تصرفات اور اس کی قدرتوں اور صفات کی بجلی کو انسان مشاہدہ کرے اور اس کا ذریعہ یہی اس کے مکالمات و مخاطبات اور خوارق عادات ہیں لیکن جب یہ دروازہ ہی بند ہو گیا تو پھر اس بعثت سے فائدہ کیا ہوا.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 430-429) یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے وحی اور الہام کے دروازہ کو بند نہیں کیا جو لوگ اس امت کو الہام و وحی کے انعامات سے بے بہرہ ٹھیراتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں اور قرآن شریف کے اصل مقصد کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں.ان کے نزدیک یہ امت وحشیوں کی طرح ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات اور برکات کا معاذ اللہ خاتمہ ہو چکا اور وہ خدا جو ہمیشہ سے متکلم خدا رہا ہے.اب اس زمانہ میں آکر خاموش ہو گیا.وہ نہیں جانتے کہ اگر مکالمہ جو مخاطبہ نہیں تو ھدی للمتقین کا مطلب ہی کیا ہوا.بغیر مکالمہ مخاطبہ کے تو اس کی ہستی پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکتی؟ اور پھر قرآن شریف میں یہ کیوں کہا وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70) اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا حم السجدة (31) یعنی جن لوگوں نے اپنے قول اور فعل سے بتا دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر انہوں نے استقامت دکھائی ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے.اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ فرشتوں کا نزول ہو اور مخاطبہ نہ ہو.نہیں بلکہ وہ انہیں بشارتیں دیتے ہیں.یہی تو اسلام کی خوبی اور کمال ہے جو دوسرے مذاہب کو حاصل نہیں ہے.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 613)
521 ہے غضب کہتے ہیں اب وحی خدا مفقود ہے اب قیامت تک ہے اس امت کا قصوں پر مدار عقیده برخلاف گفته دادار ہے پر اتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار بولتا ( در مشین اردو صفحہ 137 ) ( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 137 ) الہام جاری ہے.قانون قدرت کے اعتبار سے وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِ.(الطارق:12) وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِ اس جگہ آسمان سے مراد وہ کرہ زمہریر ہے جس سے پانی برستا ہے اور اس آیت میں اس کرہ زمہریر کی قسم کھائی گئی ہے جو مینہ برساتا ہے اور رجع کے معنے مینہ ہے اور خلاصہ معنی آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں وحی کا ثبوت دینے کے لئے آسمان کو گواہ لاتا ہوں جس سے پانی برستا ہے.یعنی تمہاری روحانی حالت بھی ایک پانی کی محتاج ہے اور وہ آسمان سے ہی آتا ہے جیسا کہ تمہارا جسمانی پانی آسمان سے آتا ہے.اگر وہ پانی نہ ہو تو تمہاری عقلوں کے پانی بھی خشک ہو جائیں.عقل بھی اسی آسمانی پانی یعنی وحی الہی سے تازگی اور روشنی پاتی ہے.غرض جس خدمت میں آسمان لگا ہوا ہے یعنی پانی برسانے کی خدمت.یہ کام آسمان کا خدا تعالیٰ کی پہلی صفت کا ایک ظل ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ ابتداء ہر ایک چیز کا پانی سے ہے.انسان بھی پانی سے ہی پیدا ہوتا ہے اور دید کی رو سے پانی کا دیوتا اکاش ہے جس کو وید کی اصطلاح میں اندر کہتے ہیں مگر یہ سمجھنا غلطی ہے کہ یہ اندر کچھ چیز ہے بلکہ وہی پوشیدہ اور نہاں در نہاں طاقت عظمیٰ جس کا نام خدا ہے اس میں کام کر رہی ہے.(نسیم دعوت - ر-خ- جلد 19 صفحہ 413-412) وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ.(النحل: 69) یہ امر ضروری ہے کہ وحی شریعت اور وحی غیر شریعت میں فرق کیا جاوے بلکہ اس امتیاز میں تو جانوروں کو جو وحی ہوتی ہے اس کو بھی مدنظر رکھا جاوے.بھلا آپ بتلا دیں کہ قرآن شریف میں جو یہ لکھا ہے وَ أَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحل تو اب آپ کے نزدیک شہد کی مکھی کی وحی ختم ہو چکی ہے یا جاری ہے؟ جب مکھی کی وحی اب تک منقطع نہیں ہوئی تو انسانوں پر جو وحی ہوتی ہے وہ کیسے منقطع ہوسکتی ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 417)
522 الہام اور یقین اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّورِ.(البقرة: 258) (البقرة:258) یا درکھو کہ گناہ سے پاک ہونا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.فرشتوں کی سی زندگی بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں دنیا کی بے جا عیاشیوں کو ترک کرنا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لینا اور خدا کی طرف ایک خارق عادت کشش سے کھینچے جانا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.زمین کو چھوڑنا اور آسمان پر چڑھ جانا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.خدا سے پورے طور پر ڈرنا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنا اور اپنے عمل کو ریا کاری کی ملونی سے پاک کر دینا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.ایسا ہی دنیا کی دولت اور حشمت اور اسکی کیمیا پر لعنت بھیجنا اور بادشاہوں کے قرب سے بے پروا ہو جانا اور صرف خدا کو اپنا ایک خزانہ سمجھنا بجز یقین کے ہرگز ممکن نہیں.اب جتلا ؤ اے مسلمان کہلانے والو کہ ظلمات شک سے نوریقین کی طرف تم کیونکر پہنچ سکتے ہو یقین کا ذریعہ تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّورِ (البقرة:258) کا مصداق ہے.( نزول المسیح - ر - خ - جلد 18 صفحہ 470-469) گر میسر نمی شود دیدار زیں سبب هست حاجت گفتار اسی واسطے الہام کی ضرورت ہے کیونکہ خدا تعالے ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتا.شہادت آیات کے یقین میشود که هست آں ذات کلام و بغیر کلام اور نشانات کی گواہی کے کس طرح یقین آئے کہ وہ ذات موجود ہے.بے یقین کے ہمی شود دل پاک مُرده چون سر بر مرده چون سر بر آرد از ته خاک بغیر یقین کے دل بھی کب پاک ہو سکتا ہے خاک کے نیچے سے مردہ کیونکر سر اٹھا سکتا ہے.گر یقیں نیست نیز ایمان نیست زہد و صدق و ثبات و عرفان نیست اگر یقین نہیں تو ایمان بھی نہیں اس طرح بغیر یقین کے زہد.صدق.استقلال اور عرفان بھی حاصل نہیں ہوتا.جو یقین مشکل ست صدق و ثبات سخت دشوار ترک منهيات بغیر یقین کے وفاداری اور استقامت مشکل ہے اور گناہوں کا ترک کرنا بھی سخت دشوار ہے.زیں سبب خلق شد چو مُرداری سر نہی گشت از سر یارے اسی وجہ سے خلقت مردار کی طرح ہوگئی اور یار کی محبت سے دل خالی ہو گیا.( نزول مسیح - ر- خ - جلد 18 صفحہ 476( درشین فارسی متر جم صفحه 327-326)
523 تمام برکات اور یقین کے حصول کا ذریعہ خدا کا مکالمہ اور مخاطبہ ہے اور انسان کی یہ زندگی جو شکوک اور شبہات سے بھری ہوئی ہے بجز مکالمات الہیہ کے سرچشمہ صافیہ کے یقین تک ہرگز نہیں پہنچ سکتی مگر خدا تعالیٰ کا وہ مکالمہ یقین تک پہنچاتا ہے جو یقینی اور قطعی ہو جس پر ایک مہم قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ وہ اسی رنگ کا مکالمہ ہے جس رنگ کا مکالمہ آدم سے ہوا اور پھر شیث سے ہوا اور پھر نوع سے ہوا اور پھر ابراہیم سے اور پھر اسحاق سے اور پھر اسمعیل سے اور پھر یعقوب سے ہوا اور پھر یوسف سے اور پھر چار سو برس کے بعد موسیٰ سے اور پھر یشوع بن نون سے ہوا....اور سب سے اتم اور اکمل طور پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو الیکن اگر کوئی کلام یقین کے مرتبہ سے کم تر ہو تو وہ شیطانی کلام ہے نہ ربانی.( نزول مسیح -ر-خ- جلد 18 صفحہ 486) حضرت اقدس کا الہام اور وحی یقینی ہے ہم کو تو خدا تعالیٰ کے اس کلام پر جو ہم پر وحی کے ذریعہ نازل ہوتا ہے اس قدر یقین اور علی وجہ البصیرت یقین ہے کہ بیت اللہ میں کھڑا کر کے جس قسم کی چاہو قسم دے دو.بلکہ میرا تو یقین یہاں تک ہے کہ اگر میں اس بات کا انکار کروں یا وہم بھی کروں کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں تو معا کافر ہو جاؤں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 400) مکہ معظمہ میں داخل ہو کر اگر خدا تعالیٰ کی قسم دی جاوے تو میں کہوں گا کہ میرے الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.جس شخص نے خیالی طور پر دعویٰ کیا ہو وہ ہرگز جرات نہیں کر سکتا.کبھی وہ شخص جو کامل یقین رکھتا ہو اور وہ جو مشکوک ہے برابر ہو سکتے ہیں.آنچه من بشنوم از وحی خدا بخدا پاک دانمش ز جو کچھ خدا کی وحی سے میں سنتا ہوں خدا کی قسم میں اسے غلطی سے پاک سمجھتا ہوں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 20) خطا ہمچو قرآن منزه اش دانم از خطابا ہمیں است ایما نم بخدا میں اسے قرآن کی طرح غلطیوں سے پاک جانتا ہوں اور یہی میرا ایمان ہے.هست من خدا را بدو شناخته ام دل بدین آتشش گداخته ام میں نے خدا کو اسی کے ذریعہ سے پہچانا ہے خدا کی اس آگ سے ہی میں نے اپنے دل کو گدا ز کیا ہے.این کلام مجید از دهان خدائے پاک و وحید خدا کی قسم یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور وہ خدائے قدوس اور واحد کے منہ سے نکلا ہوا ہے.آنچه بر من عیاں شد از دادار آفتابی است بادو صد انوار جو کچھ مجھ پر خدا کی طرف سے ظاہر ہوا ہے اوہ ایک آفتاب ہے جو سینکڑوں انوار اپنے ساتھ رکھتا ہے.
524 انبیاء بوده اند ہے من بعرفاں نہ کمترم ز کسے اگر چہ انبیاء بہت ہوئے ہیں.مگر میں معرفت الہی میں کسی سے کم نہیں ہوں.مصطف وارث شدم به یقین شده رنگین برنگ یار میں یقینا مصطفے کا وارث ہوں اور اس حسین محبوب کے رنگ میں رنگین ہوں.سیں نزول المسیح.رخ - جلد 18 صفحہ 477 ( در مشین فاری متر جم صفحہ 335) الہام اور دستور خداوندی وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ إِنَّهُ لَقَولٌ فَصْلٌ وَّ مَا هُوَ بِالْهَزْلِ.(الطارق 15-12) در اصل زمین کے پانی کا وجود بھی آسمان کی بارش پر موقوف ہے اسی وجہ سے جب کبھی آسمان سے پانی برستا ہے تو زمین کے کنوؤں کا پانی چڑھ آتا ہے.کیوں چڑھ آتا ہے؟ اس کا یہی سبب ہے کہ آسمانی پانی زمین کے پانی کو اوپر کی طرف کھینچتا ہے.یہی رشتہ وحی اللہ اور عقل میں ہے.وحی اللہ یعنی الہام الہی آسمانی پانی ہے اور عقل زمینی پانی ہے اور یہ پانی ہمیشہ آسمانی پانی سے جو الہام ہے تربیت پاتا ہے اور اگر آسمانی پانی یعنی وحی ہونا بند ہو جائے تو یہ زمینی پانی بھی رفتہ رفتہ خشک ہو جاتا ہے.اور ہر ایک وقت میں جب دنیا میں خدا کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور غفلت کی وجہ سے حقیقی پاک باطنی میں فتور آتا ہے تو خدا کسی کو اپنے بندوں میں سے الہام دے کر دلوں کو صاف کرنے کے لیے کھڑا کر دیتا ہے.سواس زمانہ میں اس کام کے لئے جس شخص کو اس نے اپنے ہاتھ سے صاف کر کے کھڑا کیا ہے وہ یہی عاجز ہے.خدا اسلامی اصول کی فلاسفی - ر - خ- جلد 10 صفحہ 429) ( کشف الغطاء.ر.خ.جلد 14 صفحہ 191) یہ سچ ہے کہ جو پاک ہو جاتے ہیں سے خدا کی خبر لاتے ہیں اگر اُس طرف سے نہ آوے خبر تو ہو جائے راه زیر و زبر طلب گار ہو جائیں اُس کے تباہ وہ مر جائیں دیکھیں اگر بند راہ مگر کوئی معشوق ایسا نہیں که عاشق سے رکھتا ہو یہ بغض و کیں خدا پر تو پھر یہ گماں عیب ہے کہ وہ راحم و عالم الغیب ہے ( در مشین اردو صفحہ 21) (ست بچن.ر.خ.جلد 10 صفحہ 166)
525 نشانیاں ہیں.سچے الہام کی پہچان اکثر لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ پھر رحمانی الہام کی نشانی کیا ہے.اس کا جواب یہی ہے کہ اس کی کئی (۱) اول یہ کہ الہی طاقت اور برکت اس کے ساتھ ایسی ہوتی ہے کہ اگر چہ اور دلائل ابھی ظاہر نہ ہوں وہ طاقت بڑے جوش اور زور سے بتلاتی ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور مہم کے دل کو ایسا اپنا مسخر بنا لیتی ہے کہ اگر اس کو آگ میں کھڑا کر دیا جائے یا ایک بجلی اس پر پڑنے لگے وہ کبھی نہیں کہ سکتا کہ یہ الہام شیطانی ہے یا حدیث النفس ہے یا شکی ہے یا ظنی ہے بلکہ ہر دم اس کی روح بولتی ہے کہ یہ یقینی ہے اور خدا کا کلام ہے.(۲) دوسرے خدا کے الہام میں ایک خارق عادت شوکت ہوتی ہے (۳) تیسری وہ پُر زور آواز اور قوت سے نازل ہوتا ہے (۴) چوتھی اس میں ایک لذت ہوتی ہے (۵) اکثر اس میں سلسلہ سوال و جواب پیدا ہو جاتا ہے بندہ سوال کرتا ہے خدا جواب دیتا ہے اور پھر بندہ سوال کرتا ہے خدا جواب دیتا ہے.خدا کا جواب پانے کے وقت بندہ پر ایک غنودگی طاری ہوتی ہے لیکن صرف غنودگی کی حالت میں کوئی کلام زبان پر جاری ہونا وحی الہی کی قطعی دلیل نہیں کیونکہ اس طرح پر شیطانی الہام بھی ہو سکتا ہے (1) چھٹی وہ الہام کبھی ایسی زبانوں میں بھی ہو جاتا ہے جن کا ملہم کو کچھ بھی علم نہیں (۷) خدائی الہام میں ایک خدائی کشش ہوتی ہے.اول وہ کشش ملہم کو عالم تفرید اور انقطاع کی طرف کھینچ لے جاتی ہے اور آخراس کا اثر بڑھتا بڑھتا طبائع سلیمہ مائعین پر جا پڑتا ہے.تب ایک دنیا اس کی طرف کھینچی جاتی ہے اور بہت سی روحیں اس کے رنگ میں بقدر استعداد آ جاتی ہیں (۸) آٹھویں سچا الہام غلطیوں سے نجات دیتا اور بطور حکم کے کام کرتا ہے اور قرآن شریف کے کسی بیان میں مخالف نہیں ہوتا.(۹) بچے الہام کی پیشگوئی فی حد ذاتہ کچی ہوتی ہے گو اس کے سمجھنے میں لوگوں کو دھوکا ہو (۱۰) دسویں سچا الہام تقوی کو بڑھاتا اور اخلاقی قوتوں کو زیادہ کرتا اور دنیا سے دل پر داشتہ کرتا اور معاصی سے متنفر کر دیتا ہے (۱) سچا الہام چونکہ خدا کا قول ہے اس لئے وہ اپنی تائید کے لئے خدا کے فعل کو ساتھ لاتا ہے اور اکثر بزرگ پیشگوئیوں پر مشتمل ہوتا ہے جو بچی نکلتی ہیں اور قول اور فعل دونوں کی آمیزش سے یقین کے دریا جاری ہو جاتے ہیں اور انسان سفلی زندگی سے منقطع ہو کر ملکوتی صفات بن جاتا ہے.( نزول اسیح - ر.خ.جلد 18 صفحہ 493-492) پیچ دانی کلام رحمان چیست دانکہ آں خور بیافت آں مہ کیست تجھے خبر بھی ہے؟ کہ رحمان کا کلام کیا چیز ہے اور وہ چاند کونسا ہے جس کے پاس کلام رحمان کا سورج ہے.آں کلامش که نور با دارد شک وریب از قلوب بردارد اس کا وہ کلام جو اپنے اندرا نوار رکھتا ہے دلوں سے شک وشبہ کو دور کر دیتا ہے.نور در ذات خویش و نور دهد رگ ہر شک و ہر گماں ببرد وہ خود بھی نور ہے اور دوسروں کو بھی نور عطا کرتا ہے اور ہر شک اور گمان کی جڑ کاٹ دیتا ہے.
526 دل که باشد گرفته اوہام ہمچو میخ کہ زو یا بداز دے سکیت و آرام دل جو وہم میں گرفتار ہواسی سے تسکین اور آرام پاتا ہے.بست فولادی! در دل آید فزایدت شادی ایک فولادی میخ کی طرح دل میں گڑ جاتا ہے اور خوشی کو بڑھاتا ہے.رہد عادت فساد و شقاق چاره زہر نفس چوں تریاق ان کی برکت سے فساد اور جھگڑے کی عادت دور ہوتی ہے اور وہ تریاق کی طرح نفس کے زہر کا علاج ہے.در شین فاری مترجم صفحه 329 ( نزول مسیح.ر-خ- جلد 18 صفحہ 476) الہام اور خدا کی فعلی شہادت لیکن وہ لوگ جو خدا کے نزدیک ملہم اور مکلم کہلاتے ہیں اور مکالمہ اور مخاطبہ کا شرف رکھتے ہیں اور دعوت خلق کے لئے مبعوث ہوتے ہیں ان کی تائید میں خدا تعالیٰ کے نشان بارش کی طرح برستے ہیں اور دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور فعل الہی اپنی کثرت کے ساتھ گواہی دیتا ہے کہ جو کلام وہ پیش کرتے ہیں وہ کلام الہی ہے اگر الہام کا دعوی کرنے والے اس علامت کو مدنظر رکھتے تو وہ اس فتنہ سے بچ جاتے.(حقیقۃ الوحی - ر- خ - جلد 22 صفحہ 538) محض الہام جب تک اس کے ساتھ فعلی شہادت نہ ہو ہر گز کسی کام کا نہیں.دیکھو جب کفار کی طرف سے اعتراض ہوا لَسْتَ مُرُسَلًا تو جواب دیا گیا كَفَی بِاللهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمُ (الرعد: 44) یعنی عنقریب خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت میری صداقت کو ثابت کر دے گی.پس الہام کے ساتھ فعلی شہادت بھی چاہیئے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 204 ) میرا مذ ہب تو یہ ہے کہ جب تک درخشاں نشان اس کے ساتھ بار بار نہ لگائے جاویں تب تک الہامات کا نام لینا بھی سخت گناہ اور حرام ہے.پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ قرآن مجید اور میرے الہامات کے خلاف تو ( ملفوظات جلد پنجم صفحه 141 حاشیہ ) نہیں.اگر ہے تو یقینا خدا کا نہیں بلکہ شیطانی القاء ہے.کثرت مکالمه مخاطبه خدا کے الہام میں یہ ضروری ہے کہ جس طرح ایک دوست دوسرے دوست سے مل کر باہم ہمکلام ہوتا ہے اسی طرح رب اور اس کے بندے میں ہمکلامی واقع ہوا اور جب یہ کسی امر میں سوال کرے تو اس کے جواب میں ایک کلام لذیذ فصیح خدائے تعالی کی طرف سے سنے جس میں اپنے نفس اور فکر اور غور کا کچھ بھی دخل نہ ہو اور وہ مکالمہ اور مخاطبہ اس کے لئے موہبت ہو جائے تو وہ خدا کا کلام ہے اور ایسا بندہ خدا کی جناب میں عزیز ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی - ر - خ - جلد 10 صفحہ 440-439)
527 پانچویں فصل تعریف معجزه معجزات وَ لَقَدْ آتَيْنَا دَاوُدَ مِنَّا فَضْلًا ، يجِبَالُ اَوِبِى مَعَهُ وَالطَّيْرَ ، وَالنَّا لَهُ الْحَدِيدَ.(سبا: 11).يجِبَالُ اَوِبِي مَعَهُ وَالطَّير اے پہاڑ و اوراے پرندو میرے اس بندہ کے ساتھ وجد اور رقت سے میری (حقیقۃ الوحی.رخ.جلد 22 صفحہ 93) یادکرو.تدابیر مشہودہ سے الگ ہو کر جو فعل ہوتا ہے اس میں اعجازی رنگ ہوتا ہے.معجزات جن باتوں میں صادر ہوتے ہیں ان میں سے بہت سے افعال ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ان میں شریک ہوتے ہیں مگر نبی ان تدابیر اور اسباب سے الگ ہو کر وہی فعل کرتا ہے اس لئے وہ معجزہ ہوتا ہے اور یہی بات یہاں سلیمان کے قصہ میں ہے.آنحضرت صلی علیہ وسلم سے پہلے کیا لوگ قصائد نہ کہتے تھے؟ کہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلام فصیح و بلیغ پیش کیا تو وہ جوڑ توڑ کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وحی سے تھا اس لئے معجزہ تھا کہ درمیان اسباب عادیہ نہ تھے.آپ نے کوئی تعلیم نہ پائی تھی اور بدوں کوشش کے وہ کلام آپ نے پیش کیا.غرض اسی طرح پر لوہا نرم کرنے کا معجزہ ہے کہ اس میں اسباب عادیہ نہ تھے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اور معنی بھی ہوں.مشکلات صعب سے بھی مرادلو ہا ہوتا ہے.وہ حضرت سلیمان پر آسان ہو گئیں مگر اصل اعجاز کا کسی حال میں ہم انکار نہیں کرتے ورنہ اگر خدا تعالیٰ کی ان قدرتوں پر ایمان نہ ہو تو پھر خدا کو کیا مانا ہم اس کو خارق عادت نہیں مان سکتے جو قرآن شریف کے بیان کردہ قانون قدرت کے خلاف ہو.معجزات کے تین اقسام فرمایا:.معجزات تین اقسام کے ہوتے ہیں:.(1) دعائیہ (۲) ارہا میہ (۳) قوت قدسیه ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 448) ارہا صیہ میں دعا کو دخل نہیں ہوتا.قوت قدسیہ کے معجزات ایسے ہوتے ہیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی میں انگلیاں رکھدیں اور لوگ پانی پیتے رہے یا ایک تلخ کوئیں میں اپنا لب گراد یا اور اس کا پانی میٹھا ہو گیا مسیح کے معجزات میں بھی یہ رنگ پایا جاتا ہے.خود ہم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.مسیح کے معجزات کے متعلق جو ہم نے عمل التقرب کا ذکر کیا ہے.اس سے مراد یہ ہے کہ جو قو تیں اللہ تعالیٰ نے خلقی طور پر انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہیں وہ توجہ سے سرسبز ہوتی ہیں.رہی یہ بات کہ مسیح کے معجزات کو مکروہ کہا ہے.یہ ایسی بات ہے کہ بعض اوقات ایک امر جائز ہوتا ہے اور دوسرے وقت نہیں.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 308)
528 معجزات اور اسباب ينَارُ كُونِي بَرْدًا وَّ سَلَمًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ (الانبياء: 70) یہ سچی بات ہے کہ خدائے تعالیٰ غیر معمولی طور پر کوئی کام نہیں کرتا.اصل بات یہ ہے کہ وہ خلق اسباب کرتا ہے خواہ ہم کو ان اسباب پر اطلاع ہو یا نہ ہو.الغرض اسباب ضرور ہوتے ہیں.اس لئے شق القمر ينَارُ كُونِي بَرْدًا وَّ سَلَمًا (الانبیاء: 70) کے معجزات بھی خارج از اسباب نہیں.بلکہ وہ بھی بعض مخفی در مخفی اسباب کے نتائج ہیں اور بچے اور حقیقی سائنس پر مبنی ہیں.کوتاہ اندیش اور تاریک فلسفہ کے دلدادہ اسے نہیں سمجھ سکتے.مجھے تو یہ حیرت آتی ہے کہ جس حال میں یہ ایک امر مسلم ہے کہ عدم علم سے عدم شئے لازم نہیں آتا تو نادان فلاسفر کیوں ان اسباب کی بے علمی پر جو ان معجزات کا موجب ہیں اصل معجزات کی نفی کی جرات کرتا ہے.ہاں ہمارا یہ مذہب ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو اپنے کسی بندے کو ان اسباب مخفیہ پر مطلع کر دے لیکن یہ کوئی لا زم بات نہیں ہے.دیکھو انسان اپنے لئے جب گھر بناتا ہے تو جہاں اور سب آسائش کے سامانوں کا خیال رکھتا ہے سب سے پہلے اس امر کو بھی ملحوظ رکھ لیتا ہے کہ اندر جانے اور باہر نکلنے کے لئے بھی کوئی دروازہ بنالے اور اگر زیادہ ساز وسامان ہاتھی گھوڑے گاڑیاں بھی پاس ہیں تو علی قدر مراتب ہر ایک چیز اور سامان کے نکلنے اور جانے کے واسطے دروازہ بناتا ہے نہ یہ کہ سانپ کی بانبی کی طرح ایک چھوٹا سا سوراخ.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے فعل یعنی قانون قدرت پر ایک وسیع اور پر غور نظر کرنے سے ہم پتہ لگا سکتے ہیں کہ اس نے اپنی مخلوق کو پیدا کر کے یہ کبھی نہیں چاہا کہ وہ عبودیت سے سرکش ہو کر ربوبیت سے متعلق نہ ہو.ربوبیت نے عبودیت کو دور کرنے کا ارادہ بھی نہیں کیا.سچا فلسفہ یہی ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 72) انِى اَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطَّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَانْفُخُ فِيْهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ الله..الاية (ال عمران: 50) فاعلم حقیقی معجزه ن باحیاء اعجازی و خلق اعجازى ولا نؤمن باحياء حقیقی و خلق حقیقی کاحیاء الله و خلق الله و لو كان كذلك لتشابه الخلق والاحياء و قال الله سبحانه فيكون طيرا باذن الله وما قال فيكون حيا باذن الله وما قال فيصير طيرا باذن الله و ان مثل طير عیسی کمثـل عـصـا مـوسـى ظهرت كحية تسعى ولكن ماتركت للدوام سيرته الاولى وكذلك قال المحققون ان طير عيسى كان يطير امام اعين الناس و اذا غاب فكان يسقط ويرجع الى سيرته الاولى فاين حصل له الحيات الحقیقی و کذلک کان حقيقة الاحياء اعنى انه مارد الى ميت قط لوازم الحياة كلها بل كان يرى جلوة من حياة الميت بتاثير روحه الطيب وكان الميت حيا مادام عيسى قائما عليه او قاعدا فاذا ذهب فعاد الميت الى حاله الاول و مات فكان هذا احياء ا اعجازيا لا حقيقيا.( حمامتہ البشری.ر.خ.جلد 7 صفحہ 316-315)
529 (ترجمه) - (وَ أحْيِ الْمَوْتَى باذن الله ) جان لو کہ ہم احیاء اعجازی اور خلق اعجازی پر ایمان لاتے ہیں نہ کہ حقیقی طور پر زندہ کرنے اور پیدا کرنے پر جیسا کہ خدا تعالیٰ زندہ کرتا ہے اور پیدا کرتا ہے.کیونکہ اگر ایسا ہو تو یہ احیاء اور خلق ( خدا تعالیٰ کے خلق اور احیاء سے متشابہ ہو جاتے.اللہ تعالیٰ نے فَيَكُونُ طُيْرًا بِاِذْنِ اللهِ کہا ہے اور یہ ہیں کہا کہ فَيَكُونُ حَيًّا بِإِذْنِ اللهِ اور نہ یہ فرمایا کہ فَيَصِيرُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللہ.اور عیسی علیہ السلام کے پرندوں کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کی مثال ہے جو بھاگتے ہوئے سانپ کی شکل میں ظاہر ہوا لیکن اس نے ہمیشہ کے لیے اپنی پہلی سیرت کو چھوڑ نہیں دیا تھا.اور اسی طرح محققین نے کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پرندے جب تک لوگوں کی آنکھوں کے سامنے رہتے تھے اڑتے تھے اور جونہی وہ نظروں سے غائب ہوتے.نیچے گر جاتے اور اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ آتے.پھر ان پرندوں کو حقیقی زندگی کہاں حاصل ہوئی تھی یہی حقیقت ان کے مردے زندہ کرنے کی ہے یعنی انہوں نے کسی مردہ میں کبھی تمام لوازمات زندگی دوبارہ نہیں لوٹائے.بلکہ ان کی پاکیزہ روح کی تاثیر سے مردہ میں زندگی کا ایک جلوہ دکھلایا جاتا تھا اور وہ مردہ اس وقت تک زندہ رہتا تھا جب تک حضرت عیسی علیہ السلام اس کے پاس کھڑے یا بیٹھے رہتے.جب آپ وہاں سے چلے جاتے تو مردہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آتا اور مرجاتا پس یہ زندہ کرنا احیاء اعجازی تھا حقیقی نہ تھا.معجزات اور خوارق قُلْنَا يَنَارُ كُونِي بَرُدًا وَّ سَلَمًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ.(الانبياء: 70 ) اس دقیقہ کو دنیا کی عقل نہیں سمجھ سکتی کہ انسان کامل خدا تعالیٰ کے روح کا جلوہ گاہ ہوتا ہے اور جب کبھی کامل انسان پر ایک ایسا وقت آ جاتا ہے کہ وہ اس جلوہ کا عین وقت ہوتا ہے تو اس وقت ہر ایک چیز اس سے ایسی ڈرتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ سے.اس وقت اس کو درندہ کے آگے ڈال دو.آگ میں ڈال دو وہ اس سے کچھ بھی نقصان نہیں اٹھائے گا کیونکہ اس وقت خدا تعالیٰ کی روح اس پر ہوتی ہے اور ہر یک چیز کا عہد ہے کہ اس سے ڈرے.یہ معرفت کا ایک اخیری بھید ہے جو بغیر صحبت کا ملین سمجھ میں نہیں آ سکتا.چونکہ یہ نہایت دقیق اور پھر نہایت درجہ نادر الوقوع ہے اس لئے ہر ایک فہم اس فلاسفی سے آگاہ نہیں مگر یہ یاد رکھو کہ ہر یک چیز خدا تعالیٰ کی آواز سنتی ہے.ہر یک چیز پر خدا تعالیٰ کا تصرف ہے اور ہر یک چیز کی تمام ڈوریاں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اس کی حکمت ایک بے انتہاء حکمت ہے جو ہر یک ذرہ کی جڑھ تک پہنچی ہوئی ہے اور ہر ایک چیز میں اتنی ہی خاصیتیں ہیں جتنی اس کی قدرتیں ہیں.جو شخص اس بات پر ایمان نہیں لاتا وہ اس گروہ میں داخل ہے جو مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ (الانعام:92) کے مصداق ہیں اور چونکہ انسان کامل مظہر اتم تمام عالم کا ہوتا ہے اس لئے تمام عالم اس کی طرف وقتا فوقتا کھینچ جاتا ہے.وہ روحانی عالم کا ایک عنکبوت ہوتا ہے اور تمام عالم اس کی تاریں ہوتی ہیں اور خوارق کا یہی سر ہے.بر کاروبار ہستی اثری ست عارفان را زجہاں چہ دید آں کس کہ ندید ایں جہاں را ( ترجمہ: - زندگی کے کاروبار میں عارفین مؤثر ہوتے ہیں.جس نے یہ مشاہدہ نہیں کیا اس نے دنیا میں کیا دیکھا ہے.) ( برکات الدعا.رخ- جلد 6 صفحہ 31-30 حاشیہ )
530 خدا راست آں بندگان کرام که از بهر شان می کند صبح و شام خدا کے نیک بندے ایسے بھی ہیں جن کے لیے خدا صبح و شام کو پیدا کرتا ہے.بنگرند جہانے بد بنال خودم بدنبال چشمے چومے جب وہ کن آنکھیوں سے دیکھتے ہیں تو ایک جہاں کو اپنے پیچھے کھینچ لیتے ہیں.دراو شاں اظہار ہر خیر وشر خیر وشر نهادست حق بگفتن خاصیت ان میں نیکی اور بدی کے اظہار کے لیے خدا تعالے نے مخفی خاصیت رکھ دی ہے.خدا نیستند ولی از خدا ہم اگر چہ کہنے کو وہ خدا نہیں ہیں لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہیں.کشند مستتر نیستند در مشین فارسی مترجم صفحه 322( اخبار بدر جلد 8 نمبر 27 مورخہ 29 اپریل 1909) پیشگوئی اور نشان وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيْمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللهُ وَقَدْ جَاءَ كُمُ بِالْبَيِّنَتِ مِنْ رَّبِّكُمُ ، وَ إِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَ إِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبُكُمُ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِقٌ كَذَّابٌ.(المومن: 29) پیشگوئی کا منصب اگر یہ صحیح ہے کہ خدا صادق کا حامی ہوتا ہے اور اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے نہ افتراؤں کو.تو اس اصول کو ماننا ایک منصف کے لئے ضروری ہوگا کہ جو پیشگوئی خدا کے نام پر کی جائے اور وہ پوری ہو جائے تو وہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر اس اصول کو نہ مانا جائے تو خدا کی ساری کتابیں بے دلیل رہ جائیں گی اور ان کی سچائی پر یقین کرنے کی راہیں بند ہو جائیں گی.اسی کی طرف خدا تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے اور کہتا ہے وَ اِنْ يَّكَ صَادِقًا يُصِبُكُمُ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمُ یعنی صادق کی یہ نشانی ہے کہ اس کی بعض پیشگوئیاں پوری ہو جاتی ہیں.بعض کی شرط اس لئے لگا دی کہ وعید کی پیشگوئیوں میں رجوع اور توبہ کی حالت میں عذاب کا تخلف جائز ہے گو کوئی بھی شرط نہ ہو پس ممکن ہے عذاب کی پیشگوئیاں ملتوی رکھی جائیں اور اپنی میعاد کے اندر پوری نہ ہوں جیسا کہ یونس کی قوم کے لئے ہوا.غرض خدا کے نام پر جو پیشگوئی پوری ہو جائے اس کی نسبت شک کرنا اور اس کو اتفاق پر محمول کر دینا گویا خدا تعالیٰ کے دینی انتظام پر ایک حملہ ہے اور نبوت کی تمام عمارت کو گرانے کا ارادہ ہے.(استفتاء.رخ.جلد 12 صفحہ 112)
531 یقیناً سمجھو کہ خدا تعالیٰ کے مرسل ان نشانات اور تائیدات سے شناخت کئے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ ان کے لئے دکھاتا اور ان کی نصرت کرتا ہے.میں اپنے قول میں سچا ہوں اور خدا تعالیٰ جو دلوں کو دیکھتا ہے وہ میرے دل کے حالات سے واقف اور خبر دار ہے.کیا تم اتنا بھی نہیں کہہ سکتے جو آل فرعون کے ایک آدمی نے کہا تھا وَ اِنْ يَّكَ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِی يَعِدُكُمُ کیا تم یہ یقین نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹوں کا سب سے زیادہ دشمن ہے تم سب مل کر جو مجھ پر حملہ کرو خدا تعالیٰ کا غضب اس سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے پھر اس کے غضب سے کون بچا سکتا ہے.لیکچرلدھیانہ.ر.خ.جلد 20 صفحہ 276) پیشگوئی کا مقام اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ درجہ کے قرب کے بدوں ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ مقام ہوتا ہے جہاں وہ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى کا مصداق ہوتا ہے اور یہ درجہ تب ملتا ہے جب دَنی فَتَدَلی کے مقام پر پہنچے.جب تک ظلمی طور پر اپنی انسانیت کی چادر کو پھینک کر الوہیت کی چادر کے نیچے اپنے آپ کو نہ چھپائے یہ مقام اسے کب مل سکتا ہے.یہ وہ مقام ہے جہاں بعض سلوک کی منزلوں سے ناواقف صوفیوں نے آ کر ٹھوکر کھائی ہے اور اپنے آپ کو وہ خدا سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کی اس ٹھوکر سے ایک خطر ناک غلطی پھیلی ہے جس نے بہتوں کو ہلاک کر ڈالا اور وہ وحدت الوجود کا مسئلہ ہے جس کی حقیقت سے یہ لوگ ناواقف محض ہوتے ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحه 275) میرا مطلب صرف اس قدر ہے کہ میں تمہیں یہ بتاؤں کہ وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى کے درجہ پر جب تک انسان نہ پہنچے اس وقت تک اسے پیشگوئی کی قوت نہیں مل سکتی اور یہ درجہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جبکہ انسان قرب الہی حاصل کرے.پیشگوئیوں کا پورا ہونا لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا.(الاحزاب : 63) سارے نشانات عام لوگوں کے خیالات کے موافق کبھی پورے نہیں ہوا کرتے ہیں تو پھر انبیاء کے وقت اختلاف اور انکار کیوں ہو؟ یہودیوں سے پوچھو کہ کیا وہ مانتے ہیں کہ میچ کے آنے کے وقت سارے نشانات پورے ہو چکے تھے؟ نہیں.یادرکھو قانون قدرت اور سنت اللہ اس معاملہ میں یہی ہے جو میں پیش کرتا ہوں لَــن تــجــد لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا.(الاحزاب : 63) ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 381) وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْيَاتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ.(الحج : 56) فثبت من قوله عزوجل اعنى ولا يزال الذين كفروا فى مرية منه ان العلامات القطعية المزيلة للمرية و الامارات الظاهرة الناطقة الدالة على قرب القيامة لا تظهر ابدا و انما تظهر ايات نظرية التي تحتاج الى التاويلات و لا تظهر الا في حلل الاستعارات و الا فكيف يمكن ان تنفتح ابواب السماء و ينزل منها عيسى امام اعين الناس و في يده حربة وتنزل الملئكة معه.( حمامة البشرا ی.ر.خ.جلد 7 صفحہ 303)
532 ( ترجمه از مرتب اللہ عزوجل کے قول سے ثابت ہوتا ہے کہ شک وشبہ کو دور کر دینے والی قطعی علامات اور واضح نشانیاں جو بزبان حال قرب قیامت کا پتہ دیتی ہوں کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتیں.ہاں صرف ایسی نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں جو غور و فکر اور تاویل کی محتاج ہوتی ہیں اور استعارات کے پردوں میں ہوتی ہیں.ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آسمان کے دروازے سے ظاہری طور پر کھل جائیں اور ان میں سے عیسی علیہ السلام لوگوں کی نظروں کے سامنے ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے نازل ہوں اور فرشتے ان کے ہمراہ ہوں.پیشگوئی.تعریف اور اقسام پیشگوئی اور ارادہ الہی میں صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ پیشگوئی کی اطلاع نبی کو دی جاتی ہے اور ارادہ الہی پر کسی کو اطلاع نہیں ہوتی اور وہ مخفی رہتا ہے.اگر وہی ارادہ الہی نبی کی معرفت ظاہر کر دیا جاتا تو وہ پیشگوئی ہوتی اگر پیشگوئی نہیں مل سکتی تو پھر ارادہ الہی بھی صدقہ و خیرات سے نہیں مل سکتا لیکن یہ بالکل غلط بات ہے.چونکہ وعید کی پیشگوئیاں ٹل جاتی ہیں اس لئے فرمایا اِن يُكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمُ.(المومن:29) اب اللہ تعالیٰ خود گواہی دیتا ہے کہ بعض پیشگوئیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ٹل گئیں.حضرت یونس کا قصہ نہایت دردناک اور عبرت بخش ہے اور وہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے اسے غور سے پڑھو.یہاں تک کہ وہ دریا میں گرائے گئے اور مچھلی کے پیٹ میں گئے تب تو بہ منظور ہوئی.یہ سزا اور عتاب حضرت یونس پر کیوں ہوا؟ اس لئے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو قادر نہ سمجھا کہ وہ وعید کو ٹال دیتا ہے پھر تم لوگ کیوں میرے متعلق جلدی کرتے ہو؟ اور میری تکذیب کیلئے ساری نبوتوں کو جھٹلاتے ہو.لیکچرلدھیانہ.رخ_جلد 20 صفحہ 279-277) یہ نکتہ بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ وعید کی پیشگوئیاں بعض پوری کر دے گا کل نہیں کہا.اس میں حکمت کیا ہے؟ حکمت یہی ہے کہ وعید کی پیشگوئیاں مشروط ہوتی ہیں.وہ تو بہ استغفار اور رجوع الی الحق سے مل جایا کرتی ہیں.پیشگوئی دو قسم کی ہوتی ہے.ایک وعدہ کی جیسے فرمایا وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ (النور: 56) اہل سنت مانتے ہیں کہ اس قسم کی پیشگوئیوں میں مختلف نہیں ہوتا کیونکہ خدا تعالیٰ کریم ہے لیکن وعید کی پیشگوئیوں میں وہ ڈرا کر بخش بھی دیتا ہے اس لئے کہ وہ رحیم ہے.بڑا نادان اور اسلام سے دور پڑا ہوا ہے وہ شخص جو کہتا ہے وعید کی سب پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں.وہ قرآن کریم کو چھوڑتا ہے اس لئے کہ قرآن کریم تو کہتا ہے يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ.(المومن: 29) (لیکچرلدھیانہ.ر.خ.جلد 20 صفحہ 277-276)
533 مفتری کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی وَ قَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيْمَانَهُ اَ تَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَ كُمُ بِالْبَيِّنَتِ مِنْ رَّبِّكُمُ ، وَ اِنْ يَّكَ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ، وَ إِنْ يَكُ صَادِقًا و يُصِبُكُمْ بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمْ ط إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ.(المومن: 29) خدا تعالیٰ ایک مفتری کی پیشگوئی کہ جو ایک جھوٹے دعوی کے لئے بطور شاہد صدق بیان کی گئی ہرگز سچی نہیں کر سکتا.وجہ یہ کہ اس میں خلق اللہ کو دھو کہ لگتا ہے جیسا کہ جل شانہ خود مدعی صادق کے لئے یہ علامت قرار دے کر فرماتا ہے وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبُكُمُ بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُم.....خدا تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ اِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُشرِق كَذَّاب سوچ کر دیکھو کہ اس کے یہی معنی ہیں جو شخص اپنے دعوی میں کا ذب ہو اس کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی.آئینہ کمالات اسلام -ر-خ-جلد 5 صفحہ 323) مفتری کی پیشگوئی اس پر ہی پڑتی ہے جو کام نفاق طبعی اور دنیا کی گندی زندگی کے ساتھ ہوں گے وہ خود ہی اس زہر سے ہلاک ہو جائیں گے.کیا کا ذب کبھی کامیاب ہو سکتا ہے؟ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ مُسْرِق كَذَّابٌ (المومن: 29) - کذاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کذب ہی کافی ہے.لیکن جو کام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لئے ہوں اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگا ہوا پودا ہو.پھر اس کی حفاظت تو خود فر شتے کرتے ہیں.کون ہے؟ جو اس کو تلف کر سکے؟ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 473-472) وَ مِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّ يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ ط عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَ اللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.(التوبه : 98) غلام دستگیر قصوری کے بارے میں ذکر تھا.حضور نے فرمایا :.بطریق تنزل ہم مان لیتے ہیں کہ اس نے صرف ہمارے لیے بددعا کی مگر اب بتاؤ کہ اس کی بددعا کا اثر کیا ہوا؟ کیا وہ الفاظ جو میرے حق میں کہے اور وہ دعا جو میرے برخلاف کی الٹی اس پر ہی نہیں پڑی ؟ اب بتلاؤ کہ کیا مقبولان الہی کا یہی نشان ہے کہ جود عاوہ نہایت تضرع و ابتہال سے کریں اس کا الٹا اثر ہو اور اثر بھی یہ کہ خود ہی ہلاک ہو کر اپنے کاذب ہونے پر مہر لگا جاویں.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 200)
534 ظہور پیشگوئی کا وقت نہیں بتایا جاتا وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ.(النمل: 72) خدا چاہتا ہے کہ نیکوں کو بچائے اور بدوں کو ہلاک کرے.اگر وقت اور تاریخ بتلائی جائے تو ہر ایک شریر سے شریر اپنے واسطے بچاؤ کا سامان کر سکتا ہے.اگر وقت کے نہ بتلانے سے پیشگوئی قابل اعتراض ہو جاتی ہے تو پھر تو قرآن شریف کی پیشگوئیوں کا بھی یہی حال ہے.وہاں بھی اس قسم کے لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ متى هذا الوَعْدُ (يونس : 49) یہ وعدہ کب پورا ہو گا ہمیں وقت اور تاریخ بتلاؤ مگر بات یہ ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں تعین نہیں ہوتا ورنہ کا فر کبھی بھاگ کر بچ جائے.قُلْ اِنْ اَدْرِى أَقَرِيبٌ مَّا تُوعَدُونَ اَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا.(الجن: 26) ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 293) ان کو کہہ دے کہ میں نہیں جانتا کہ عذاب قریب ہے یا دور ہے.اب اے سننے والو یا درکھو کہ یہ بات سچ ہے اور بالکل سچ ہے اور اس کے ماننے کے بغیر چارہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں بھی ظاہر پر پوری ہوتی ہیں اور کبھی استعارہ کے رنگ میں.پس کسی نبی یا رسول کو یہ حوصلہ نہیں کہ ہر جگہ اور ہر پیشگوئی میں یہ دعویٰ کر دے کہ اس طور پر یہ پیشگوئی پوری ہوگی ہاں اس امر کا دعویٰ کرنا نبی کا حق ہے کہ وہ پیشگوئی جس کو وہ بیان کرتا ہے خارق عادت ہے یا انسانی علم سے وراء الورا ہے.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 253).....پیشگوئی کا صدق اس کے ظاہر ہونے پر قائم ہوتا ہے بہت سی باتیں پیشگوئیوں کے طور پر نبیوں کی معرفت لوگوں کو پہنچتی ہیں اور جب تک وہ اپنے وقت پر ظاہر نہ ہوں ان کی بابت کوئی یقینی رائے قائم نہیں کی جاسکتی لیکن جب ان کا ظہور ہوتا ہے اور حقیقت کھلتی ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس پیشگوئی کا یہ مفہوم اور منشا تھا اور جو شخص اس کا مصداق ہو یا جس کے حق میں ہو اس کو اس کو علم دیا جاتا ہے...حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق میں چالیس سال تک روتے رہے آخر جا کر آپ کو خبر ملی تو کہا اِنِّی لَا جِدُ رِيحَ يُوْسُفَ (يوسف : 195) ورنہ اس سے پہلے آپ کا یہ حال ہوا کہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے وَ ابْيَضَّتْ عَيْنَهُ (يوسف : 85) تک نوبت پہنچی.اسی کے متعلق کیا اچھا کہا ہے پیر خرد مند کے پرسیدزاں گم کرده فرزند کہ اے روشن گہر ز مصرش بوئے پیراہن شمیدی چرا چاه کنعانش نه دیدی در ( ملفوظات جلد دوم صفحه 375) (ترجمہ: کسی نے گمشدہ بیٹے کے باپ سے پوچھا کہ اے خوش قسمت اور دانشمند بزرگ تم نے مصر سے اپنے بیٹے کی قمیض کی بوسونگھ لی مگر کنعان کے کوئیں کے اندر کیوں نہ دیکھا.)
535 پیشگوئی اور نشان خدا کے ہاتھ میں ہے وَ قَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ ايْتُ مِنْ رَّبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الْأَيتُ عِندَ الله.....الاية (العنكبوت: 51) قُلْ إِنَّمَا الأيْتُ عِندَ الله (الانعام: 110) یعنی ان کو کہہ دو کہ نشان اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جس نشان کو چاہتا ہے اس نشان کو ظاہر کرتا ہے بندہ کا اس پر زور نہیں ہے کہ جبر کے ساتھ اس سے ایک نشان لیوے یہ جبر اور اقتدار تو آپ ہی کی کتابوں میں پایا جاتا ہے بقول آپ کے مسیح اقتداری معجزات دکھلاتا تھا اور اس نے شاگردوں کو بھی اقتدار بخشا اور آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ اب بھی حضرت مسیح زندہ ھی و قیوم قادر مطلق عالم الغیب دن رات آپ کے ساتھ ہے جو چاہو وہی دے سکتا ہے.پس آپ حضرت مسیح سے درخواست کریں کہ ان تینوں بیماروں کو آپ کے ہاتھ رکھنے سے اچھا کر دیویں تا نشانی ایمان داری کی آپ میں باقی رہ جاوے ورنہ یہ تو مناسب نہیں کہ ایک طرف اہل حق کے ساتھ بحیثیت سچے عیسائی ہونے کے مباحثہ کریں اور جب بچے عیسائی کے نشان مانگے جائیں تب کہیں کہ ہم میں استطاعت نہیں.حضرت اقدس کی پیشگوئی جنگ مقدس - ر- خ- جلد 6 صفحہ 155) خوب یا درکھنا چاہیئے کہ میری پیشگوئیوں میں کوئی بھی امرایسا نہیں ہے جس کی نظیر پہلے انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیوں میں نہیں ہے.یہ جاہل اور بے تمیز لوگ چونکہ دین کے باریک علوم اور معارف سے بے بہرہ ہیں اس لیے قبل اس کے جو عادۃ اللہ سے واقف ہوں بخل کے جوش سے اعتراض کرنے کے لیے دوڑتے ہیں اور ہمیشہ بموجب آیت کریمہ يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ (التوبة: 98) میری کسی گردش کے منتظر ہیں اور عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ (التوبة: 98) کے مضمون سے بے خبر یادرکھنا چاہیئے کہ زندگی کے درمیانی حصوں میں انبیاء علیہم السلام بھی بلاؤں سے محفوظ نہیں رہے مگر انجام بخیر ہوا.اسی طرح اگر ہمیں بھی اس درمیانی مراحل میں کوئی غم پہنچے یا کوئی مصیبت پیش آوے تو اس کو خدا تعالیٰ کا آخری حکم سمجھنا غلطی ہے.خدا تعالیٰ کا حتمی وعدہ ہے کہ وہ ہمارے سلسلہ میں برکت ڈالے گا اور اپنے اس بندہ کو بہت برکت دیگا یہاں تک کہ بادشاہ اس بندہ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے وہ ہر یک ابتلا اور پیش آمدہ ابتلا کا بھی انجام بخیر کرے گا اور دشمنوں کے ہر ایک بہتان سے انجام کاربریت ظاہر کر دے گا.(حقیقۃ المہدی.رخ- جلد 14 صفحہ 443) معراج سُبُحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الاقصا الَّذِى بَرَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ ايْتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ.(بنى اسرائيل :2) ترجمہ :.پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو رات کے وقت میں سیر کرایا یعنی ضلالت اور گمراہی کے زمانہ میں جو رات سے مشابہ ہے مقامات معرفت اور یقین تک لڑنی طور سے پہنچایا.( براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 600 حاشیه در حاشیہ نمبر 3)
536 معراج ریح مذہب فان المعراج على المذهب الصحيح كان كشفا لطيفا مع اليقظة الروحانية كما لا يخفى على العقل الوهاج و ما صعد الى السماء الا روح سيدنا و نبينا مع جسم نوراني الذي هو غير الجسم العنصري الذي ما خلق من التربة.و ما كان لجسم ارضى ان يرفع الى السماء.وعد من الله ذى الجبروت والعزة.وان كنت في ريب فاقرء الم نجعل الارض كفاتا احياء و امواتا (المرسلات: 26/27) (الهدى.ر.خ.جلد 18 صفحه 364) (ترجمہ از مرتب ) معراج کے بارے میں صحیح مذہب یہ ہے کہ وہ ایک لطیف کشف تھا جو روحانی بیداری کی حالت میں ہوا جیسا کہ روشن عقل کے لئے واضح ہے اور آسمان کی طرف صرف ہمارے آقا اور نبی صلم کی روح نورانی جسم کے ساتھ صعود فرما ہوئی تھی.نورانی جسم وہ ہے جو مادی جسم کے علاوہ ہے جو مٹی سے پیدا نہیں ہوا اور مادی اور جسمانی جسم کے لئے روا نہیں کہ اسے آسمان کی طرف اٹھایا جائے.یہ خدائے قادر وعزیز کا وعدہ ہے اور اگر تمہیں اس بارے میں شک ہو تو آیت کریمہ الم نجعل الارض كفاتا احیاء و امواتا کو پڑھو.انسان کے جسم دو ہیں ایک زمینی اور دوسرا آسمانی جسم ہے.زمینی جسم کے متعلق قرآن شریف میں آیا ہے.الـمُ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا (المرسلت : 26 - پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج جس جسم کے ساتھ ہو اوہ آسمانی جسم تھا.معراج روحانی بیداری میں ہوا ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 342) وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءُ يَا الَّتِي أَرَيْنَكَ إِلَّا فِتْنَةٌ لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآن وَ نُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُ هُمُ إِلَّا طُغْيَانًا بيرًا.(بنی اسرائیل: 61) بخاری میں جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ الباری ہے تمام معراج کا ذکر کر کے اخیر میں فاستيقظ لکھا ہے اب تم خود سمجھ لو کہ وہ کیا تھا.قرآن مجید میں بھی اس کے لئے رویا کا لفظ ہے وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي اَرَيْنكَ.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 634) معراج ہوئی تھی مگر یہ فانی بیداری اور فانی اشیاء کے ساتھ نہ تھی بلکہ وہ اور رنگ تھا.جبرئیل بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تھا اور نیچے اترتا تھا.جس رنگ میں اس کا اتر نا تھا اسی رنگ میں آنحضرت کا چڑھنا ہوا تھا.نہ اتر نے والا کسی کو ا تر تا نظر آتا تھا اور نہ چڑھنے والا کوئی چڑھتا ہوا دیکھ سکتا تھا.حدیث شریف میں جو بخاری میں آیا ہے کہ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ یعنی پھر جاگ اُٹھے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 526)
537 معراج آنحضرت کا روحانی مقام تھا معراج انقطاع تام تھا اور ستر اس میں یہ تھا کہ تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفقط نفسی کو ظاہر کیا جاوے آسمان پر ہر ایک روح کے لئے ایک نقطہ ہوتا ہے اس سے آگے وہ نہیں جاتی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نفق نفسی عرش تھا اور رفیق اعلیٰ کے معنے بھی خدا ہی کے ہیں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کوئی معزز و مکرم نہیں ہے.معراج مکانی اور زمانی ( ملفوظات جلد اول صفحه 396) سُبْحَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الا قُصَى الَّذِي بَرَكْنَا حَوْلَهُ.(بنی اسرائیل :2) قرآن شریف کی یہ آیت معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص پرمش رہتا ہے.پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہنچادیا تھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکات اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا.پس اس پہلو کے رو سے جو اسلام کے انتہاء زمانہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سیر کشفی ہے.مسجد اقصٰی سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے.مُبَارَكَ وَ مُبَارَكَ وَ كُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَكٌ يُجْعَلُ فِيْهِ اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا قرآن شریف کی آیت بَارَكْنَا حَوْلَهُ کے مطابق ہے.پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سُبُحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الَا قُصَى الَّذِي بَرَكْنَا حَوْلَہ اس آیت کے ایک تو وہی معنے ہیں جو علماء میں مشہور ہیں یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکانی معراج کا یہ بیان ہے مگر کچھ شک نہیں کہ اس کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک زمانی معراج بھی تھا جس سے یہ غرض تھی کہ تا آپ کی نظر کشفی کا کمال ظاہر ہواور نیز ثابت ہو کہ مسیحی زمانہ کے برکات بھی درحقیقت آپ ہی کے برکات ہیں جو آپ کی توجہ اور ہمت سے پیدا ہوئی ہیں
538 اسی وجہ سے مسیح ایک طور سے آپ ہی کا رُوپ ہے اور وہ معراج یعنی بلوغ نظر کشفی دنیا کی انتہا تک تھا جو مسیح کے زمانہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس معراج میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک سیر فرما ہوئے وہ مسجد اقصی یہی ہے جو قادیان میں بجانب مشرق واقع ہے جس کا نام خدا کے کلام نے مبارک رکھا ہے.یہ مسجد جسمانی طور پر مسیح موعود کے حکم سے بنائی گئی ہے اور روحانی طور پر مسیح موعود کے برکات اور کمالات کی تصویر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بطور موہبت ہیں اور جیسا کہ مسجد الحرام کی روحانیت حضرت آدم اور حضرت ابراہیم کے کمالات ہیں اور بیت المقدس کی روحانیت انبیاء بنی اسرائیل کے کمالات ہیں ایسا ہی مسیح موعود کی یہ مسجد اقصی جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے اس کے روحانی کمالات کی تصویر ہے.آنحضرت کے معراج کی تین اقسام (خطبہ الہامیہ.رخ.جلد 16 صفحہ 22-21 حاشیہ ) خلاصہ کلام یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج تین قسم پر منقسم ہے.سیر مکانی اور سیر زمانی اور سیر لا مکانی ولا زمانی.سیر مکانی میں اشارہ ہے طرف غلبہ اور فتوحات کے یعنی یہ اشارہ کہ اسلامی ملک مکہ سے بیت المقدس تک پھیلے گا اور سیر زمانی میں اشارہ ہے طرف تعلیمات اور تاثیرات کے یعنی یہ کہ مسیح موعود کا زمانہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات سے تربیت یافتہ ہوگا جیسا کہ قرآن میں فرمایا ہے وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 4) اور سیر لامکانی ولا زمانی میں اشارہ ہے طرف اعلیٰ درجہ کے قرب اللہ اور مدانات کی جس پر دائرہ امکان قرب کا ختم ہے.(خطبہ الہامیہ.ر.خ.جلد 16 صفحہ 26 حاشیہ)
539 چھٹی فصل جنت دوزخ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عمل والے کو میں کس طرح جزاء دوں گا فَأَمَّا مَنْ طَغَى.وَاثَرَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأوى (الشرعت 40-38) جو شخص میرے حکموں کو نہیں مانے گا میں اس کو بہت بُری طرح سے جہنم میں ڈالوں گا اور ایسا ہو کہ آخر جہنم تمہاری جگہ ہوگی.وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى.فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى الترعت (42-41) اور جو شخص میری عدالت کے تخت کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے گا اور خیال رکھے گا تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کا ٹھکانہ جنت میں کروں گا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 371) تعریف جنت دوزخ رحم الہی کی تجلی عظمی راست بازوں اور ایمان داروں پر ایک جدید طور سے لذات کاملہ کی بارش کر کے اور تمام سامان بہشتی زندگی کا حسی اور جسمانی طور پر ان کو دکھلا کر اس نئے طور کے دارالسلام میں ان کو داخل کر دے گی.ایسا ہی خدا تعالیٰ کی قہری تجلی جہنم کو بھی بعد از حساب اور الزام صریح کے نئے رنگ میں دکھلا کر گویا جہنمی لوگوں کو نئے سرے جہنم میں داخل کرے گی.روحانی طور پر بہشتیوں کا بلا توقف بعد موت کے بہشت میں داخل ہو جانا اور دوزخیوں کا دوزخ میں گرایا جانا متواتر قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے.(ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ (279) يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ مَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ وَ يُدْخِلَكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ....التحريم: 9) اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن شریف کی رو سے دوزخ اور بہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے اظلال اور آثار ہیں کوئی ایسی نئی جسمانی چیز نہیں ہے کہ جو دوسری جگہ سے آوے.یہ بیچ ہے کہ وہ دونوں جسمانی طور سے متمثل ہوں گے مگر وہ اصل روحانی حالتوں کے اظلال و آثار ہوں گے.ہم لوگ ایسی بہشت کے قائل نہیں کہ صرف جسمانی طور پر ایک زمین پر درخت لگائے گئے ہوں اور نہ ایسی دوزخ کے ہم قائل ہیں جس میں در حقیقت گندھک کے پتھر ہیں مگر اسلامی عقیدہ کے موافق بہشت دوزخ انہی اعمال کے انعکا سات ہیں جو دنیا میں انسان کرتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی - ر - خ - جلد 10 صفحہ 414-413)
540 وَ مَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكَبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ.(النمل: 91) بدی کرنے والے اس دن جہنم میں گرائے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ یہ جزا در حقیقت وہی تمہارے اعمال ہیں جو تم دنیا میں کرتے تھے یعنی خدا تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرے گا بلکہ نیکی کے اعمال جنت کی صورت میں اور بدی کے اعمال دوزخ کی صورت میں ظاہر ہو جائیں گے.آئینہ کمالات اسلام - ر - خ - جلد 5 صفحہ 148) نَارُ اللَّهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ.(الهمزة: 8-7) میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے کہ انسان مال و دولت یازن و فرزند کی محبت کے جوش اور نشے میں ایسادیوانہ اور از خود رفتہ نہ ہو جاوے کہ اس میں اور خدا تعالیٰ میں ایک حجاب پیدا ہو جاوے مال اور اولا داسی لئے تو فتنہ کہلاتی ہے ان سے بھی انسان کے لئے ایک دوزخ تیار ہوتا ہے اور جب وہ ان سے الگ کیا جاتا ہے تو سخت بے چینی اور گھبراہٹ ظاہر کرتا ہے اور اس طرح پر یہ بات کہ نَارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ (الهمزة : 8-7) منقولی رنگ میں نہیں رہتا بلکہ معقولی شکل اختیار کر لیتا ہے.پس یہ آگ جو انسانی دل کو جلا کر کباب کر دیتی ہے اور ایک جلے ہوئے کوئلے سے بھی سیاہ اور تاریک بنا دیتی ہے یہ وہی غیر اللہ کی محبت ہے.دو چیزوں کے باہم تعلق اور رگڑ سے ایک حرارت پیدا ہوتی ہے اسی طرح پر انسان کی محبت اور دنیا اور دنیا کی چیزوں کی محبت کی رگڑ سے الہی محبت جل جاتی ہے اور دل تاریک ہو کر خدا سے دور ہو جاتا اور ہر قسم کی بیقراری کا شکار ہو جاتا ہے.کیفیات جنت ( ملفوظات جلد اول صفحه 371) و مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِى وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا انْهَرٌ مِّنْ مَّاءٍ غَيْرِ اسِنٍ وَأَنْهَرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ وَأَنْهَرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةِ لِلشَّرِبِينَ وَ أَنْهَرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى وَ لَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمُ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَ هُمُ.(محمد: 16) وہ بہشت جو پر ہیز گاروں کو دیا جائے گا اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک باغ ہے اس میں اس پانی کی نہریں ہیں جو کبھی متعفن نہیں ہوتا اور نیز اس میں اس دودھ کی نہریں ہیں جس کا کبھی مزہ نہیں بدلتا.نیز اس میں شراب کی نہریں ہیں جو سراسر سرور بخش ہیں جس کے ساتھ خمار نہیں.نیز اس میں اس شہد کی نہریں ہیں جو نہایت صاف ہیں جسکے ساتھ کوئی کثافت نہیں.اس جگہ صاف طور پر فرمایا کہ اس بہشت کو مثالی طور پر یوں سمجھ لو کہ ان تمام چیزوں کی اس میں نا پیدا کنار نہریں ہیں.وہ زندگی کا پانی جو عارف دنیا میں روحانی طور پر پیتا ہے اس میں ظاہری طور پر موجود ہے اور وہ روحانی دودھ جس سے وہ شیر خوار بچہ کی طرح روحانی طور پر پرورش پاتا ہے بہشت میں ظاہر ظاہر دکھائی دے گا اور وہ خدا
541 کی محبت کی شراب جس سے وہ دنیا میں روحانی طور پر ہمیشہ مست رہتا تھا اور اب بہشت میں ظاہر ظاہر اسکی نہریں نظر آئیں گی اور وہ حلاوت ایمانی کا شہر جود نیا میں روحانی طور پر عارف کے منہ میں جاتا تھا وہ بہشت میں محسوس اور نمایاں نہروں کی طرح دکھائی دیگا اور ہر ایک بہشتی اپنی نہروں اور اپنے باغوں کے ساتھ اپنی روحانی حالت کا اندازہ بر ہنہ کر کے دکھلا دے گا اور خدا بھی اس دن بہشتیوں کے لئے حجابوں سے باہر آ جائے گا.غرض روحانی حالتیں مخفی نہیں رہیں گی بلکہ جسمانی طور پر نظر آئیں گی.اسلامی اصول کی فلاسفی.رخ.جلد 10 صفحہ 412-411) يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً.فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي.(الفجر: 28 تا 31) اے نفس خدا کے ساتھ آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ.وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی.پس میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری بہشت کے اندر آجا....یاد رکھنا چاہیئے کہ اعلیٰ درجہ کی روحانی حالت انسان کی اس دنیوی زندگی میں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ آرام پا جائے اور تمام اطمینان اور سرور اور لذت اس کی خدا میں ہی ہو جائے.یہی وہ حالت ہے جس کو دوسرے لفظوں میں بہشتی زندگی کہا جاتا ہے.اس حالت میں انسان اپنے کامل صدق اور صفا اور وفا کے بدلہ میں ایک نقد بہشت پالیتا ہے اور دوسرے لوگوں کی بہشت موعود پر نظر ہوتی ہے اور یہ بہشت موجود میں داخل ہوتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.رخ.جلد 10 صفحہ 378) حقیقت نعماء جنت بِاكْوَابٍ وَّابَارِيْقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَّعِينٍ لَّا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنْزِفُونَ.(الواقعة : 20-19) اور شراب صافی کے پیالے جو آب زلال کی طرح مصفی ہوں گے بہشتیوں کو دئے جائیں گے.وہ شراب ان سب عیبوں سے پاک ہوگی کہ دردسر پیدا کرے یا بیہوشی اور بدمستی اس سے طاری ہو.ظاہر ہے کہ وہ بہشتی شراب دنیا کی شرابوں سے کچھ مناسبت اور مشابہت نہیں رکھتی بلکہ وہ اپنی تمام صفات میں ان شرابوں سے مبائن اور مخالف ہے اور کسی جگہ قرآن شریف میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ وہ دنیوی شرابوں کی طرح انگور سے یا قند سیاہ اور کیکر کے چھلکوں سے یا ایسا ہی کسی اور دنیوی مادہ سے بنائی جائے گی بلکہ بار بار کلام الہی میں یہی بیان ہوا کہ اصل تخم اس شراب کا محبت اور معرفت الہی ہے جس کو دنیا سے ہی بندہ مومن ساتھ لے جاتا ہے اور یہ بات کہ وہ روحانی امر کیونکر شراب کے طور پر نظر آ جائے گا یہ خدائے تعالیٰ کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے جو عارفوں پر مکاشفات کے ذریعہ سے کھلتا ہے اور عقلمند لوگ دوسری علامات و آثار سے اس کی حقیقت تک پہنچتے ہیں.سرمه چشم آریہ - ر-خ- جلد 2 صفحہ 157-156 ) وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتْنِ.(الرحمن: 47 ) اپنے وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ...هِيَ الْمَأوى.(النزعات 42-41) یعنی جو شخصا - پروردگار سے ڈر کر تزکیہ نفس کرے اور ماسوائے اللہ سے منہ پھیر کر خدائے تعالیٰ کی طرف رجوع لے آئے تو وہ جنت میں ہے اور جنت اس کی جگہ ہے یعنی خود ایک روحانی جنت باعث قوت ایمانی و حالت عرفانی اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے جو اس کے ساتھ رہتی ہے اور وہ اس میں رہتا ہے.(سرمہ چشم آریہ.رخ.جلد 2 صفحہ 143)
542 مومن فوراً جنت میں داخل ہو جاتا ہے قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَلَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَ جَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ.(يس: 28-27) فاعلم يا اخي ان هذه العقيدث ردية فاسدة ومملوة من سوء الادب.اماقرات ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الجنة تحت قبرى و قال ان قبر المومن روضة من روضات الجنة وقال عزوجل فى كتابه المحكم يايتها النفس المطمئنة ارجعى الى ربك راضية مرضية فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی (الفجر : 31-28) و قال فى مقام اخر قيل ادخل الجنة.حمامة البشرای.ر.خ.جلد 7 صفحہ 249) اے میرے بھائی جان لے کہ یہ عقیدہ رڈی اور فاسد ہے اور بے ادبی سے پُر ہے.کیا تو نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نہیں پڑھی کہ جنت میری قبر کے نیچے ہے.نیز آپ نے فرمایا کہ مومن کی قبر جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور خدائے عز وجل نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.يَآيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّک.(الفجر: 31-28) یعنی اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اسے پسند کرنے والا بھی ہے اور اس کا پسندیدہ بھی.پھر تیرا رب تجھے کہتا ہے کہ آ میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور آمیری جنت میں بھی داخل ہو جا.اسی طرح ایک اور جگہ قرآن کریم میں فرماتا ہے اسے کہا گیا کہ تو بہشت میں داخل ہو جا.دوزخی فوراً دوزخ میں جائیگا مِمَّا خَطِيئَتِهِمُ اغْرِقُوا فَأَدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِّنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا.(نوح: 26) جو لوگ اپنی کثرت نافرمانی کی وجہ سے ایسے فنافی الشیطان ہونے کی حالت میں دنیا سے جدا ہوتے ہیں کہ شیطان کی فرمانبرداری کی وجہ سے بکلی تعلقات اپنے مولیٰ سے توڑ دیتے ہیں ان کے لئے ان کی موت کے بعد صرف دوزخ کی طرف کھڑ کی ہی نہیں کھولی جاتی بلکہ وہ اپنے سارے وجود اور سارے قوی کے ساتھ خاص دوزخ میں ڈال دئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے مِمَّا خَطِيئَتِهِمُ اغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا مگر پھر بھی وہ لوگ قیامت کے دن سے پہلے اکمل اور اتم طور پر عقوبات جہنم کا مزہ نہیں چکھتے.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 284-283)
543 عالم برزخ وَازْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ.وَ بُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغَوِينَ.(الشعراء :92-91) اس درجہ سے اوپر جوا بھی ہم نے بہشتیوں اور دوزخیوں کے لئے بیان کیا ہے ایک اور درجہ دخول جنت دخول جہنم ہے جس کو درمیانی درجہ کہنا چاہیئے اور وہ حشر اجساد کے بعد اور جنت عظمی یا جہنم کبری میں داخل ہونے سے پہلے حاصل ہوتا ہے اور بوجہ تعلق جسد کامل قوای میں ایک اعلی درجہ کی تیزی پیدا ہوکر اورخدا تعالیٰ کی تجلی رحم یا جی قبر کا حسب حالت اپنے کامل طور پر مشاہدہ ہو کر اور جنت عظمی کو بہت قریب پا کر یا جہنم کماری کو بہت ہی قریب دیکھ کر وہ لذات یا عقوبات ترقی پذیر ہو جاتے ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ آپ فرماتا ہے.وَأُخْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ.وَ بُرِزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغَوِينَ.(الشعرا : 91,92) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ صَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ وَ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ أُولئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ.(عبس : 43-39) اس دوسرے درجہ میں بھی لوگ مساوی نہیں ہوتے بلکہ اعلیٰ درجہ کے بھی ہوتے ہیں جو بہشتی ہونے کی حالت میں بہشتی انوارا اپنے ساتھ رکھتے ہیں.ایسا ہی دوزخی ہونے کی حالت میں اعلیٰ درجہ کے کفار ہوتے ہیں کہ قبل اس کے جو کامل طور پر دوزخ میں پڑیں ان کے دلوں پر دوزخ کی آگ بھڑکائی جاتی ہے.(ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 284) جہنم دائگی نہیں وَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِايْتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ.(البقرة : 40) ہمارا ایمان یہی ہے کہ دوزخ میں ایک عرصہ تک آدمی رہے گا پھر نکل آئے گا گویا جن کی اصلاح نبوت سے نہیں ہو سکی ان کی اصلاح دوزخ کریگا.حدیث میں آیا ہے.يَأْتِی عَلى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَيْسَ فِيهَا أَحَدٌ - یعنی دوزخ پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس میں کوئی متنفس نہیں ہو گا اور نسیم صبا اس کے دروازوں کو کھٹکھٹائے گی.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 309) رحمت باری عام ہے جزا سزا وَاكْتُبُ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَاكُتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَالَّذِينَ هُمُ بِايَتِنَا يُؤْمِنُونَ.(الاعراف: 157) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت عام اور وسیع ہے اور غضب یعنی عدل بعد کسی خصوصیت کے پیدا ہوتی ہے یعنی یہ مفت قانون الہی سے تجاوز کرنے کے بعد اپنا حق پیدا کرتی ہے اور اس کے لیے ضرور ہے کہ اول قانون الہی ہو اور قانون الہی کی خلاف ورزی سے گناہ پیدا ہو اور پھر یہ صفت ظہور میں آتی ہے اور اپنا تقاضا پورا کرنا چاہتی ہے.جنگ مقدس.ر.خ.جلد 6 صفحہ 207)
544 وعید میں دراصل کوئی وعدہ نہیں ہوتا.صرف اس قدر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدوسیت کی وجہ سے تقاضا فرماتا ہے کہ شخص مجرم کو سزا دے اور بسا اوقات اس تقاضا سے اپنے مسلمین کو اطلاع بھی دیتا رہتا ہے پھر جب شخص مجرم تو به اور استغفار اور تفرع اور زاری سے اس تقاضا کا حق پورا کر دیتا ہے تو رحمت الہی کا تقاضا غضب کے تقاضا پر سبقت لے جاتا ہے اور اس غضب کو اپنے اندر مجوب ومستور کر دیتا ہے یہی معنے ہیں اس آیت کے کہ عذابی أَصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ.يعنی رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي.- اگر یہ اصول نہ مانا جائے تو تمام شریعتیں باطل ہو جاتی ہیں.تحفہ غزنویہ.ر.خ.جلد 15 صفحہ 537) فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ.وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ.(الزلزال:8) یعنی جو شخص ایک ذرہ بھر بھی نیک کام کرے وہ بھی ضائع نہیں ہوگا اور ضرور اس کا اجر پائے گا.انوار الاسلام - ر - خ - جلد 9 صفحہ 56) خدا تعالیٰ سے جب انسان جدائی لے کر جاتا ہے تو اس کے تمثلات دوزخ ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کے کلام میں کذب نہیں ہے.مَنْ يَّاتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا.( طه :75) سچ فرمایا ہے جب انسان عذاب اور درد میں مبتلا ہے اگر وہ زندہ ہے لیکن مردوں سے بھی بدتر ہے وہ زندگی جو مرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے وہ صلاح اور تقوی کے بدوں نہیں مل سکتی.جس کو تپ چڑھی ہوئی ہے اسے کیونکر زندہ کہ سکتے ہیں.سخت تپ میں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ رات ہے یا دن ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 319) ضروری اور واقعی طور پر یہ سزائیں نہیں ہیں جو یہاں دی جاتی ہیں بلکہ یہ ایک فل ہے اصل سزاؤں کا اور ان کی غرض ہے عبرت.دوسرے عالم کے مقاصد اور ہیں اور وہ بالاتر اور بالاتر ہیں.وہاں تو مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهُ کا انعکاسی نمونہ لوگ دیکھ لیں گے اور انسان کو اپنے مخفی در مخفی گناہوں اور عزیھوں کی سزا بھگتنی پڑے گی.دنیا اور آخرت کی سزاؤں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ دنیا کی سزائیں امن قائم کرنے اور عبرت کے لئے ہیں اور آخرت کی سزائیں افعال انسانی کے آخری اور انتہائی نتائج ہیں.وہاں اسے ضرور سزا منی ٹھہری کیونکہ اس نے زہر کھائی ہوئی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ بد وں تریاق وہ اس زہر کے اثر سے محفوظ رہ سکے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 19-18 ) جزا سزا کا فلسفہ وَ مَا أَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ...(الشورى: 31) انسان کسی اپنی ذاتی لیاقت اور ہنر کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے انصاف کا مطالبہ ہرگز نہیں کر سکتا.قرآن شریف کی رو سے خدا کے کام سب مالکانہ ہیں.جس طرح کبھی وہ گناہ کی سزادیتا ہے ایسا ہی وہ کبھی گناہ کو بخش بھی دیتا ہے یعنی دونوں پہلوؤں پر اس کی قدرت نافذ ہے جیسا کہ مقتضائے مالکیت ہونا چاہیئے اور اگر وہ ہمیشہ گناہ کی سزا دے تو پھر انسان کا کیا ٹھکانہ ہے بلکہ اکثر وہ گناہ بخش دیتا ہے اور تنبیہ کی غرض سے کسی گناہ کی سزا بھی دیتا ہے تا غافل انسان متنبہ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو جیسا کہ قرآن شریف میں یہ آیت ہے وَمَا أَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ.( ترجمہ ) اور جو کچھ تمہیں کچھ مصیبت پہنچتی ہے پس تمہاری بداعمالی کے سبب سے ہے اور خدا بہت سے گناہ بخش دیتا ہے اور کسی گناہ کی سزا دیتا ہے.(چشمہ معرفت..خ.جلد 23 صفحہ 24-23)
545 وَكُلُّ إِنْسَانِ الزَمْنَهُ طَبَرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ كتبايلُقَهُ مَنْشُورًا.(بنی اسرائیل : 14) یہ قرآنی اصول ہے کہ ہر ایک عمل پوشیدہ طور پر اپنے نقوش جماتارہتا ہے.جس طور کا انسان کا فعل ہوتا ہے اسی کے مناسب حال ایک خدا تعالیٰ کا فعل صادر ہوتا ہے اور وہ فعل اس گناہ کو یا اس کی نیکی کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اس کے نقوش دل پر منہ پر آنکھوں پر ہاتھوں پر پیروں پر لکھے جاتے ہیں اور یہی پوشیدہ طور پر ایک اعمال نامہ ہے جو دوسری زندگی میں کھلے طور پر ظاہر ہو جائے گا.( اسلامی اصول کی فلاسفی.ر.خ.جلد 10 صفحہ 401) عذاب کیوں آتا ہے نَارُ اللَّهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ (الهمزة: 8-7) یا اگر مثلاً ایک انسان اپنی زبان کو کاٹ ڈالے تو خدا تعالیٰ قوت گویائی اس سے چھین لیتا ہے.یہ سہ خدا تعالیٰ کے فعل ہیں جو انسان کے فعل کے بعد پیدا ہوتے ہیں.ایسا ہی عذاب دینا خدا تعالیٰ کا فعل ہے جو انسان کے اپنے ہی فعل سے پیدا ہوتا اور اسی میں جوش مارتا ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے.نَارُ اللَّهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ یعنے خدا کا عذاب ایک عذاب ہے جس کو خدا بھڑکا تا ہے اور پہلا شعلہ اس کا انسان کے اپنے دل پر سے ہی اٹھتا ہے.یعنی جڑ اس کی انسان کا اپنا ہی دل ہے اور دل کے ناپاک خیالات اس جہنم کے ہیزم ہیں.پس جبکہ عذاب کا اصل تختم اپنے وجود کی ہی ناپاکی ہے جو عذاب کی صورت پر متمثل ہوتی ہے تو اس سے ماننا پڑتا ہے کہ وہ چیز جو اس عذاب کو دور کرتی ہے وہ راستبازی اور پاکیزگی ہے.(کتاب البریہ - ر- خ - جلد 13 صفحہ 82) خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَ عَلَى سَمْعِهِمْ وَ عَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ.(البقرة:8) ہمار کے فعل کے ساتھ ایک فعل خدا کا ضرور ہوتا ہے جو ہمارے فعل کے بعد ظہور میں آتا اور اس کا نتیجہ لازمی ہوتا ہے.سو یہ انتظام جیسا کہ ظاہر سے متعلق ہے ایسا ہی باطن سے بھی متعلق ہے.ہر ایک ہمارا نیک یا بدکام ضرور اپنے ساتھ ایک اثر رکھتا ہے جو ہمارے فعل کے بعد ظہور میں آتا ہے.اور قرآن شریف میں جو خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِم آیا ہے اس میں خدا کے مہر لگانے کے یہی معنی ہیں کہ جب انسان بدی کرتا ہے تو بدی کا نتیجہ اثر کے طور پر اس کے دل پر اور مونہہ پر خدا تعالیٰ ظاہر کر دیتا ہے اور یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمُ الصف : 6) یعنی جبکہ وہ حق سے پھر گئے تو خدا تعالیٰ نے ان کے دل کو حق کی مناسبت سے دور ڈال دیا اور آخر کو معاندانہ جوش کے اثروں سے ایک عجیب کا یا پلٹ ان میں ظہور میں آئی اور ایسے بگڑے کہ گویا وہ وہ نہ رہے اور رفته رفتہ نفسانی مخالفت کے زہر نے ان کے انوار فطرت کو دبا لیا.(کتاب البریہ.ر.خ.جلد 13 صفحہ 48-47)
546 عذاب انبیاء کے انکار سے آتا ہے مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِ وَ مَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا.(بنی اسرائیل: 16) عادت اللہ ہمیشہ سے اس طرح پر جاری ہے کہ جب دنیا ہر ایک قسم کے گناہ کرتی ہے اور بہت سے گناہ ان کے جمع ہو جاتے ہیں تب اس زمانے میں خدا اپنی طرف سے کسی کو مبعوث فرماتا ہے اور کوئی حصہ دنیا کا اس کی تکذیب کرتا ہے تب اس کا مبعوث ہونا دوسرے شریر لوگوں کی سزا دینے کے لئے بھی جو پہلے مجرم ہو چکے ہیں ایک محرک ہو جاتا ہے اور جو شخص اپنے گذشتہ گناہوں کی سزا پاتا ہے اس کے لئے اس بات کا علم ضروری نہیں کہ اس زمانہ میں خدا کی طرف سے کوئی نبی یا رسول بھی موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا.اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا اتمام حجت کے لئے نبی کو لاتا (حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 165-164) ہے اور اس کے قائم ہونے کے لئے ضرورت پیدا کرتا ہے اور سخت عذاب بغیر نبی قائم ہونے کے آتا ہی نہیں جیسا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا.تجلیات الہیہ.رخ.جلد 20 صفحہ 400) اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا.وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً.اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں ان پر رحم کیا جائے گا.(حقیقۃ الوحی.رخ - جلد 22 صفحہ 268) وَ قَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا.(نوح: 27) جب ارادہ الہی کسی قوم کی تباہی سے متعلق ہوتا ہے تو نبی میں درد کی حالت پیدا ہوتی ہے وہ دعا کرتا ہے پھر اس قوم کی تباہی یا خیر خواہی کے اسباب مہیا ہو جاتے ہیں.دیکھو نوح علیہ السلام پہلے صبر کرتے رہے اور بڑی مدت تک قوم کی ایذائیں سہتے رہے.پھر ارادہ الہی جب ان کی تباہی سے متعلق ہوا تو درد کی حالت پیدا ہوئی اور دل سے نکلا.وَ قَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا.جب تک خدا تعالیٰ کا ارادہ نہ ہو وہ حالت پیدا نہیں ہوتی.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال پہلے صبر کرتے رہے پھر جب درد کی حالت پیدا ہوئی تو قبال کے ذریعہ مخالفین پر عذاب نازل ہوا.خود ہماری نسبت دیکھو جب یہ شجھ چپک جاری ہوا تو اسکا ذکر تک بھی نہیں کیا گیا مگر جب ارادہ الہی اس کی تباہی کے متعلق ہوا تو ہماری توجہ اس طرف بے اختیار ہوگئی اور پھر تم دیکھتے ہو کہ رسالہ ابھی اچھی طرح شائع بھی نہ ہونے پایا کہ خدا تعالیٰ کی باتیں پوری ہوگئیں.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 199)
547 خدا کی ناراضگی ان پر ہوتی ہے جن پر فضل وعنا وعنایات ہوں اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ ہمیشہ اس کا عتاب ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پر اس کے فضل اور عطایات بے شمار ہوں اور جنہیں وہ اپنے نشانات دکھا چکا ہوتا ہے.وہ ان لوگوں کی طرف بھی متوجہ نہیں ہوتا کہ انہیں عتاب یا خطاب یا ملامت کرے جن کے خلاف اس کا آخری فیصلہ نافذ ہونا ہوتا ہے چنانچہ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے.فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلُ لَّهُمُ (الاحقاف: 36) اور فرماتا ہے.وَلَا تَكُنُ كَصَاحِبِ الْحُوتِ.(القلم 49) یہ حجت آمیز عتاب اس بات پر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت جلد فیصلہ کفار کے حق میں چاہتے تھے.مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور سنن کے لحاظ سے بڑے تو قف اور علم کے ساتھ کام کرتا ہے لیکن آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ ان کا نام ونشان مٹادیا.( ملفوظات جلد دوم صفحه 212 ) خدا کے حضور توبہ وَ مَنْ يَّعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهُ.(الزلزال: 9) وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَ يَعْفُوا عَنِ السَّيَاتِ (الشوری: 26) یعنی تمہارا خداوہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی بدیاں ان کو معاف کر دیتا ہے.کسی کو یہ دھو کہ نہ لگے کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے وَ مَنْ يَّعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهُ يعنی جو شخص ایک ذرہ بھی شرارت کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا.پس یادر ہے کہ اس میں اور دوسری آیات میں کچھ تناقض نہیں کیونکہ اس شر سے وہ شتر مراد ہے جس پر انسان اصرار کرے اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور توبہ نہ کرے.اسی غرض سے اس جگہ شتر کا لفظ استعمال کیا ہے نہ ذنب کا.تا معلوم ہو کہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریر آدمی باز آنا نہیں چاہتا ورنہ سارا قرآن شریف اس بارہ میں بھرا پڑا ہے کہ ندامت اور توبہ اور ترک اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے.چشمه معرفت - ر- خ- جلد 23 صفحہ 24) انبیاء کا استغفار فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ ، إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا.(النصر:4) چونکہ ان (انبیاء) کی معرفت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مقام کو شناخت کرتے ہیں اس لئے نہایت انکسار اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں.نادان جن کو اس مقام کی خبر نہیں ہے وہ اس پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ یہ ان کی کمال معرفت کا نشان ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اذا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا آیا ہے.اس میں صاف فرمایا ہے تو استغفار کر.اس سے کیا مراد ہے.اس سے یہی مراد ہے کہ تبلیغ کا جو عظیم الشان کام تیرے سپرد تا دقائق تبلیغکا پورا پور علم تواللہ تعالیٰ ہی کو ہے اس لئے اگر اس میں کوئی کمی رہی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے.یہ استغفار تو نبیوں اور راست بازوں کی جاں بخش اور عزیز بخش چیز ہے.اب اس پر نادان اور کوتاہ اندیش اعتراض کرتے ہیں.جہاں استغفار کا لفظ انہوں نے سن لیا جھٹ اعتراض کر دیا حالانکہ اپنے گھر میں دیکھیں تو مسیح کہتا ہے مجھے نیک مت کہہ.اس کی تاویل عیسائی یہ کرتے ہیں کہ مسیح کا منشاء یہ تھا کہ مجھے خدا
548 کہو.یہ کیسے تعجب کی بات ہے.کیا مسیح کو ان کی والدہ مریم یا ان کے بھائی خدا کہتے تھے جو وہ یہی آرزو اس شخص رکھتے تھے کہ بھی خدا کہے.انہوں نے یہ لفظ تو اپنے عزیزوں اور شاگردوں سے بھی نہیں سنا تھا.وہ بھی استاد استاد ہی کرتے تھے پھر یہ آرزو اس غریب سے کیونکر ان کو ہوئی.کیا وہ خوش ہوتے تھے کہ کوئی انہیں خدا کہے یہ بالکل غلط ہے ان کو نہ کسی نے خدا کہا اور نہ انہوں نے کہلوایا.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 316-315) إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا.لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا.(الفتح: 3-2) ذنب انبیاء ہم نے ایک فتح عظیم جو ہماری طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے تجھ کو عطا کی ہے تا ہم وہ تمام گناہ جو تیری طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان پر اس فتح نمایاں کی نورانی چادر ڈال کر نکتہ چینوں کا خطا کار ہونا ثابت کریں.اربعین.رخ.جلد 17 صفحہ 451) كَانُوا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ.وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ.(الدريت آيات 19-18) ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے.کہ خدائے تعالیٰ ہمیں یہی حکم نہیں کرتا کہ جس وقت تم سے کوئی گناہ سرزد ہو اس وقت استغفار کیا کرو.بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ بغیر گناہوں کے ارتکاب کے بھی ہم استغفار کیا کریں.(ریویو آف ریلیجنز جلد دوم نمبر 6 بابت جون 1903 صفحہ 243) عصمت انبیاء عصمت انبیاء فرمایا:- صلیب چونکہ جرائم پیشہ کے واسطے ہے اس واسطے نبی کی شان سے بعید ہے کہ اسے بھی صلیب دی جاوے.اس لئے توریت میں لکھا تھا کہ جو کا ٹھ پر لٹکا یا جاویے وہ ملعون ہے.آتشک وغیرہ جو خبیث امراض خبیث لوگوں کو ہوتے ہیں اس سے بھی انبیاء محفوظ رہتے ہیں نفس قتل انبیاء کے لئے معیوب نہیں ہے مگر کسی نبی کا قتل ہونا ثابت نہیں ہے جس آلہ سے خبیث قتل ہو.اس آلہ سے نبی قتل نہیں ہوتا.( ملفوظات جلد سوم صفحه 201) وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ.(المائده : 68) وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس - خدا تجھے ان لوگوں کے شر سے بچائے گا کہ جو تیر ے قتل کرنے کی گھات (براہین احمدیہ - - خ - جلد 1 صفحہ 250) میں ہیں.خدا نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور اس پر ہمارا ایمان ہے وہ وعدہ وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کا ہے پس اسے کوئی مخالف آزمائے اور آگ جلا کر ہمیں اس میں ڈال دے آگ ہرگز ہم پر کام نہ کریگی اور وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے موافق بچالے گا لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہم خود آگ میں کودتے پھریں یہ طریق انبیاء کا نہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ.(البقرة : 196) پس ہم خود آگ میں دیدہ دانستہ نہیں پڑتے بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ آگ میں ہمیں جلانا چاہیں تو ہم ہرگز نہ جلیں گے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 480)
549 روح قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي (بنی اسرائیل : 86) روح کی تعریف غور کرنا چاہئے کہ ان آیات شریفہ متذکرہ بالا کا کیسا مطلب صاف صاف تھا کہ کفار کی ایک جماعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارے میں سوال کیا کہ روح کیا چیز ہے تب ایسی جماعت کو جیسا کہ صورت موجود تھی بصیغہ جمع مخاطب کر کے جواب دیا گیا کہ روح عالم امر میں سے ہے یعنی کلمتہ اللہ یا طل کلمہ ہے جو بحکمت و قدرت الہی روح کی شکل پر وجود پذیر ہو گیا ہے اور اس کو خدائی سے کچھ حصہ نہیں بلکہ وہ درحقیقت حادث اور بندہ خدا ہے اور یہ قدرت ربانی کا ایک بھید دقیق ہے جس کو تم اے کا فرو مجھ نہیں سکتے مگر کچھ تھوڑ اسا جس کی وجہ سے تم مکلف بایمان ہو تمہاری عقلیں بھی دریافت کر سکتی ہیں.یہ ایک بڑی بھاری صداقت کا بیان ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ ربوبیت الہی دوطور سے نا پیدا چیزوں کو پیدا کرتی ہے اور دونوں طور کے پیدا کرنے میں پیدا شدہ چیزوں کے الگ الگ نام رکھے جاتے ہیں.جب خدائے تعالیٰ کسی چیز کو اس طور سے پیدا کرے کہ اس چیز کا کچھ بھی وجود نہ ہو تو ایسے پیدا کرنے کا نام اصطلاح قرآنی میں امر ہے اور اگر ایسے طور سے کسی چیز کو پیدا کرے کہ پہلے وہ چیز کسی اور صورت میں اپنا وجود رکھتی ہو تو اس طر ز پیدائیش کا نام خلق ہے.خلاصہ کلام یہ کہ بسیط چیز کا عدم محض سے پیدا کرنا عالم امر میں سے ہے اور مرکب چیز کو کسی شکل یا ہیئت خاص سے متشکل کرنا عالم خلق سے ہے جیسے اللہ تعالیٰ دوسرے مقام میں قرآن شریف میں فرماتا ہے اَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأمْرُ (الاعراف : 55) یعنی بسائط کا عدم محض سے پیدا کرنا اور مرکبات کو ظہور خاص میں لا نا دونوں خدا کے فعل ہیں اور بسیط اور مرکب دونوں خدائے تعالیٰ کی پیدائش ہے.سرمه چشم آریہ.ر.خ.جلد 2 صفحہ 176-173) روح فانی ہے روحوں اور اجزاء صغار عالم کا غیر مخلوق اور قدیم اور انادی ہونا اصول آریہ سماج کا ہے اور یہ اصول صریح خلاف عقل ہے اگر ایسا ہو تو پر میشر کی طرح ہر ایک چیز واجب الوجود ٹھہر جاتی ہے اور خدائے تعالیٰ کے وجود پر کوئی دلیل قائم نہیں رہتی بلکہ کاروبار دین کا سب کا سب ابتر اور خل پذیر ہو جاتا ہے کیونکہ اگر ہم سب کے سب خدائے تعالی کی طرح غیر مخلوق اور انادی ہی ہیں تو پھر خدائے تعالیٰ کا ہم پر کونسا حق ہے اور کیوں وہ ہم سے اپنی عبادت اور پرستش اور شکر گذاری چاہتا ہے اور کیوں گناہ کرنے سے ہم کو سزا دینے کو طیار ہوتا ہے اور جس حالت میں ہماری روحانی بینائی اور روحانی تمام قو تیں خود بخود دقدیم سے ہیں تو پھر ہم کو فانی قوتوں کے پیدا ہونے کے لئے کیوں پر میشر کی حاجت ٹھہری.سرمه چشم آریہ.ر- خ- جلد 2 صفحہ 110)
550 وہ جب تک کسی کو چاہے رکھے.ہر ایک چیز فناء ہو جانے والی ہے باقی رہنے والی ذات صرف خدا کی ہی ہے روح میں جبکہ ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی ہوتا ہے تو پھر اس کو ہمیشہ کے واسطے قیام کس طرح ہو سکتا ہے.جب تک روح کا قیام ہے وہ امرالہی کے قیام کے نیچے ہے.خدا کے امر کے ماتحت ہی کسی کا قیام ہوسکتا ہے اور وہی فناء بھی کرتا ہے.وہ ہمیشہ خالق بھی ہے اور ہمیشہ خلق کو مٹاتا بھی ہے.مسلمان قدامت کا قائل ہے مگر قدامت نوعی کا نہ کہ قدامت شخصی کا.اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ پہلے کیا چیزیں تھیں اور کیا نہ تھیں.اگر اس کے برخلاف قدامت شخصی کا عقیدہ رکھا جاوے تو وہ دہریت میں داخل ہونا ہوتا ہے.صحت مند جسم میں صحت مند روح ہوتی ہے ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 87) وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُتَوَفَّى وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُرَدُّ إِلى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا.(الحج: 6) ہم بالکل نہیں سمجھ سکتے کہ وہ ہماری روح جو جسم کے ادنی ادنی خلل کے وقت بیکار ہوکر بیٹھ جاتی ہے وہ اس روز کیونکر کامل حالت پر رہے گی جبکہ بالکل جسم کے تعلقات سے محروم کی جائے گی.کیا ہر روز ہمیں تجر بہ نہیں سمجھا تا کہ روح کی صحت کے لئے جسم کی صحت ضروری ہے.جب ایک شخص ہم میں سے پیر فرتوت ہو جاتا ہے تو ساتھ ہی اس کی روح بھی بڑھی ہو جاتی ہے.اس کا تمام علمی سرمایہ بڑھاپے کا چور چرا کر لے جاتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.لِكَيْلا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا.(الحج: 6) یعنی انسان بڑھا ہو کر ایسی حالت تک پہنچ جاتا ہے کہ پڑھ پڑھا کر جاہل بن جاتا ہے پس ہمارا یہ مشاہدہ اس بات پر کافی دلیل ہے کہ روح بغیر جسم کے کچھ چیز نہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی - رخ.جلد 10 صفحہ 404) روح سے ملاقات یہ بات ممکن تو ہے کہ کشفی طور سے روحوں سے انسان مل سکتا ہے مگر اس امر کے حصول کے واسطے ریاضات شاقہ اور مجاہدات سخت کی اشد ضرورت ہے.ہم نے خود آزمایا ہے اور تجربہ کیا ہے اور بعض اوقات روحوں سے ملاقات کر کے باتیں کی ہیں.انسان ان سے بعض مفید مطلب امور اور دوائیں وغیرہ بھی دریافت کر سکتا ہے.ہم نے خود حضرت عیسی کی روح اور آنحضرت اور بعض صحابہ کرام سے بھی ملاقات کی ہے اور اس معاملہ میں صاحب تجربہ ہیں لیکن انسان کے واسطے مشکل یہ ہے کہ جب تک اس راہ میں مشق اور قاعدہ کی پابندی سے مجاہدات نہیں کرتا یہ امر حاصل نہیں ہو سکتا.اور چونکہ ہر ایک کو یہ امر میسر بھی نہیں آ سکتا اس واسطے اس کے نزدیک یہ ایک قصہ کہانی ہی ہوتی ہے اور اس میں حقیقت نہیں ہوتی.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 626)
551 ساتویں فصل شادی مہر اور طلاق نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُم وَقَدِمُوا لأنفُسِكُمْ وَ اتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلْقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ.(البقرة:224) اسلام نے نکاح کرنے سے علت غائی ہی یہی رکھی ہے کہ تا انسان کو وجہ حلال سے نفسانی شہوات کا وہ علاج میسر آوے جو ابتدا سے خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں رکھا گیا ہے اور اس طرح اس کو عفت اور پر ہیز گاری حاصل ہو کر نا جائز اور حرام شہوت رانیوں سے بچار ہے کیا جس نے اپنی پاک کلام میں فرمایا کہ نِسَاؤُكُمْ حَرُتْ لكُم یعنی تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں اس کی نسبت کہ سکتے ہیں کہ اس کی غرض صرف یہ تھی کہ تالوگ شہوت رانی کریں اور کوئی مقصد نہ ہو کیا کھیتی سے صرف لہو ولعب ہی غرض ہوتی ہے یا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو بیج بویا گیا ہے اس کو کامل طور پر حاصل کر لیں.پھر میں کہتا ہوں کہ کیا جس نے اپنی مقدس کلام میں فرمایا.مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ.(النساء: 25) یعنی تمھارے نکاح کا یہ مقصود ہونا چاہیے کہ تمھیں عفت اور پر ہیز گاری حاصل ہو اور شہوت کے بدنتائج سے بچ جاؤ.یہ نہیں مقصود ہونا چاہیے کہ تم حیوانات کی طرح بغیر کسی پاک غرض کے شہوت کے بندے ہو کر اس کام میں مشغول ہو کیا اس حکیم خدا کی نسبت یہ خیال کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی تعلیم میں مسلمانوں کو صرف شہوت پرست بنانا چاہا اور یہ باتیں فقط قرآن شریف میں نہیں بلکہ ہماری معتبر حدیث کی دو کتابیں بخاری اور مسلم میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی روایت ہے.آریہ دھرم.ر.خ.جلد 10 صفحہ 44) مہر وا تُوهُنَّ اُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.(النساء: 26) (مہر کی مقدار کس قدر ہو؟) فرمایا کہ تراضی طرفین سے جو ہو اس پر کوئی حرف نہیں آتا.اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروجہ مہر سے ہوا کرتی ہے ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے اور محض نمود کے لیے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے.صرف ڈراوے کے لیے یہ لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے اور نہ خاوند کی دینے کی.میرا مذ ہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنازعہ آ پڑے تو جب تک اس کی نیت یہ ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا ورغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقررہ شدہ ہے تب تک مقرر شدہ نہ دلایا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کومد نظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بدنیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 284)
552 تعدد ازدواج وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَمَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلكَ وَ رُبعَ ۚ فَإِنْ خِفْتُمُ الَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا.(النساء:4) اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرت ازدواج کی سینکڑوں اور ہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور اسلام نے تعدد ازدواج کو کم کیا ہے.نہ زیادہ بلکہ یہ قرآن میں ہی ایک فضیلت خاص ہے کہ اس نے ازدواج کی بیدی اور بے قیدی کو رد کر دیا ہے.اور کیا وہ اسرائیلی قوم کے مقدس نبی جنہوں نے سوسو بیوی کی بلکہ بعض نے سات سو تک نوبت پہنچائی وہ اخیر عمر تک حرامکاری میں مبتلا ر ہے.اور کیا ان کی اولا د جن میں سے بعض راست باز بلکہ نبی بھی تھے ناجائز طریق کی اولاد سمجھی جاتی ہے.(حجتہ الاسلام.ر.خ.جلد 6 صفحہ 47) کثرت ازدواج کے متعلق صاف الفاظ قرآن کریم میں دو دو تین تین چار چار کر کے ہی آ رہے ہیں مگر اسی آیت میں اعتدال کی بھی ہدایت ہے.اگر اعتدال نہ ہو سکے اور محبت ایک طرف زیادہ ہو جائے یا آمدنی کم ہو اور یا قوائے رجولیت ہی کمزور ہوں تو پھر ایک سے تجاوز کرنا نہیں چاہیے.ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے 13- تئیں ابتلاء میں نہ ڈالئے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ.(البقره : 191) غرض اگر حلال کو حلال سمجھ کر بیویوں کا ہی بندہ ہو جائے تو بھی غلطی کرتا ہے.ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی منشاء کو نہیں سمجھ سکتا.اس کا یہ منشاء نہیں کہ بالکل زن مرید ہو کر نفس پرست ہی ہو جا ؤ اور وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ رہبانیت اختیار کرو بلکہ اعتدال سے کام لو اور اپنے تئیں بے جا کاروائیوں میں نہ ڈالو.انبیاء علیہم السلام کے لیے کوئی نہ کوئی تخصیص اگر اللہ تعالی کر دیتا ہے تو یہ کوتاہ اندیش لوگوں کی ابلہ فریبی اور غلطی ہے کہ اس پر اعتراض کرتے ہیں.دیکھو توریت میں کاہنوں کے فرقہ کے ساتھ خاص مراعات ملحوظ رکھی گئی ہیں.اور ہندوؤں کے برہمنوں کے لیے خاص رعائتیں ہیں.پس بینادانی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی کی تخصیص پر اعتراض کیا جاوے.ان کا نبی ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے جو اور لوگوں میں موجود نہیں.تعد دازواج میں عدل ( ملفوظات جلد اوّل صفحه 155-154) ایک احمدی صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ تعدد ازواج میں جو عدل کا حکم ہے کیا اس سے یہی مراد ہے کہ مرد بحیثیت الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء : 35 ) کے خود ایک حاکم عادل کی طرح جس بیوی کو سلوک کے قابل پاوے ویسا سلوک اس سے کرے یا کچھ اور معنے ہیں.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہیئے مثلاً پار چہ جات - خرچ خوراک.معاشرت حتی کہ مباشرت میں بھی مساوات برتے.یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈ وار ہنا پسند کرے.خدا تعالیٰ کی
553 تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی ان کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے.ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے تعد ازواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بیچار ہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لیے دوسری شادی کر لے لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 49-48) دوسری شادی کی اجازت اگر چہ عورت بجائے خود پسند نہیں کرتی کہ کوئی اور اس کی سوت آوے مگر اسلام نے جس اصول پر کثرت ازدواج کو رکھا ہے وہ تقویٰ کی بنا پر ہے.بعض وقت اولا د نہیں ہوتی اور بقائے نوع کا خیال انسان میں ایک فطرتی تقاضا ہے اس لیے دوسری شادی کرنے میں کوئی عیب نہیں ہوتا.بعض اوقات پہلی بیوی کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے اور بہت سے اسباب اس قسم کے ہوتے ہیں پس اگر عورتوں کو پورے طور پر خدا تعالیٰ کے احکام سے اطلاع دی جاوے اور انہیں آگاہ کیا جاوے تو وہ خود بھی دوسری شادی کی ضرورت پیش آنے پر ساعی ہوتی ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 585-584) وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَّ يَجْعَلَ اللهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا.(النساء:20) در حقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے.پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ظہر و اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:20) یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو.اور حدیث میں ہے.خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لا هُلِہ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے.سوروحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لیے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کرو کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے.جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو.(تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 75 حاشیہ ) چاہیئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے.کہ خدا سے صلح ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لَاهْلِهِ تم میں سے اچھاوہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 301-300)
554 طلاق الطَّلَاقَ مَرَّتَنِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيْحُ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأخُذُوا مِمَّا اتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمُ الَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه.....اية (البقرة: 230) موجبات طلاق عورت کا جوڑا اپنے خاوند سے پاک دامنی اور فرماں برداری اور باہم رضامندی پر موقوف ہے اور اگران تین باتوں میں سے کسی ایک بات میں بھی فرق آ جاوے تو پھر یہ جوڑ قائم رہنا محالات میں سے ہو جاتا ہے انسان کی بیوی اس کے اعضاء کی طرح ہے پس اگر کوئی عضو سر گل جائے یا ہڈی ایسی ٹوٹ جائے کہ قابل پیوند نہ ہو تو پھر بجز کاٹنے کے اور کیا علاج ہے اپنے عضو کو اپنے ہاتھ سے کانا کوئی نہیں چاہتا کوئی بڑی ہی مصیبت پڑتی ہے تب کا ٹا جاتا ہے پس جس حکیم مطلق نے انسان کے مصالح کے لیے نکاح تجویز کیا ہے اور چاہا ہے کہ مرد اور عورت ایک ہو جائیں اسی نے مفاسد ظاہر ہونے کے وقت اجازت دی ہے کہ اگر آرام اس میں متصور ہو کہ کرم خوردہ دانت یا سڑے ہوئے عضو یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کی طرح موذی کو علیحدہ کر دیا جائے تو اسی طرح کار بند ہو کر اپنے تئیں فوق الطاقت آفت سے بچالیں کیونکہ جس جوڑ سے وہ فواید مترتب نہیں ہو سکتے کہ جو اس جوڑ کی علت غائی ہیں بلکہ ان کی ضد پیدا ہوتی ہے تو وہ جوڑ در حقیقت جوڑ نہیں ہے.آریہ دھرم - ر-خ- جلد 10 صفحہ 66-65) الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا ط الله اَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ، فَالصَّلِحْتُ قِنِتَتُ حَفِظَتْ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ الَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ وَ أَطَعْنَكُمْ فَلا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا.(النساء : 35) * یہ بھی عورتوں میں خراب عادت ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں.اور ناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ بُرا بھلا ان کے حق میں کہہ دیتی ہیں.ایسی عورتیں اللہ اور رسول کے نزدیک لعنتی ہیں.ان کا نماز روزہ اور کوئی عمل منظور نہیں.اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے.کہ کوئی عورت نیک نہیں ہوسکتی.جب تک پوری پوری اپنے خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے.اور دلی محبت سے اس کی تعظیم بجانہ لائے.اور پس پشت یعنی اس کے پیچھے اس کی خیر خواہ نہ ہو اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
555 عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار ر ہیں.ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں.اور نیز فرمایا ہے کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز ہوتا.تو میں حکم کرتا.کہ عورتیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں.اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بد زبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے.اور حکم ربانی سن کر پھر بھی باز نہیں آتی.تو وہ لعنتی ہے.خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں.عورتوں کو چاہیئے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چرا دیں.اور نامحرم سے اپنے تئیں بچائیں.اور یا درکھنا چاہیئے.کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جتنے مرد ہیں.ان سے پردہ کرنا ضروری ہے جو عورتیں نامحرم لوگوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ساتھ ہے.عورتوں پر یہ بھی لازم ہے.کہ بدکار اور بد وضع عورتوں کو اپنے گھروں میں نہ آنے دیں.اور ان کو اپنی خدمت میں نہ رکھیں.کیونکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے.کہ بدکار عورت نیک عورت کی ہم صحبت ہو.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 69-68) بعض وقت عورت گوولی ہو اور بڑی عابد اور پر ہیز گار اور پاکدامن ہو اور اس کو طلاق دینے میں خاوند کو بھی رحم آتا ہو بلکہ وہ روتا بھی ہومگر پھر بھی چونکہ اس کی طرف سے کراہت ہوتی ہے اس لیے وہ طلاق دے سکتا ہے.مزاجوں کا آپس میں موافق نہ ہونا یہ بھی ایک شرعی امر ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 276) اگر کوئی عورت اذیت اور مصیبت کا باعث ہو تو ہم کو کیونکر یہ خیال کرنا چاہیے کہ خدا ہم سے ایسی عورت کے طلاق دینے سے ناخوش ہو گا.میں دل کی سختی کو اس شخص سے منسوب کرتا ہوں جو اس عورت کو اپنے پاس رہنے دے نہ اس شخص سے جو اس کو ایسی صورتوں میں اپنے گھر سے نکال دے ناموافقت سے عورت کو رکھنا ایسی سختی ہے جس میں طلاق سے زیادہ بیرحمی ہے.طلاق سے پر ہیز کرو آریہ دھرم - ر - خ - جلد 10 صفحہ 53 حاشیہ) روحانی اور جسمانی پور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لیے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کر و کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے.جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو.( ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 75 حاشیہ) الطَّلَاقُ مَرَّتَنِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ اَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَان......الاية (البقره:230) طلاق ایک وقت میں کامل نہیں ہو سکتی طلاق میں تین طہر ہونے ضروری ہیں فقہا نے ایک ہی مرتبہ تین طلاق دے دینی جائز رکھی ہے مگر ساتھ ہی اس میں یہ رعایت بھی ہے کہ عدت کے بعد اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو وہ عورت اسی خاوند سے نکاح کر سکتی ہے اور دوسرے شخص سے بھی کر سکتی ہے.قرآن کریم کی رو سے جب تین طلاق دے دی جاویں تو پہلا خاوند اس عورت سے نکاح نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کسی اور کے نکاح میں آوے اور پھر وہ دوسرا خاوند بلا عمداً اسے طلاق دے دیوے اگر وہ عمداً اسی لیے طلاق دے گا کہ اپنے پہلے خاوند سے وہ پھر نکاح کر لیوے تو یہ حرام ہوگا کیونکہ اسی کا نام حلالہ ہے جو کہ حرام ہے فقہا نے جو ایک دم کی تین طلاقوں کو جائز رکھا ہے اور پھر عدت کے گزرنے کے بعد اسی خاوند سے نکاح کا حکم دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اول اسے شرعی طریق سے طلاق نہیں دی.
556 قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو طلاق بہت ناگوار ہے کیونکہ اس سے میاں بیوی دونوں کی خانہ بر بادی ہو جاتی ہے اس واسطے تین طلاق اور تین طہر کی مدت مقرر کی کہ اس عرصہ میں دونوں اپنا نیک و بد سمجھ کر اگر صلح چاہیں تو کر لیویں.عورت کو خلع کی اجازت ہے ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 215) شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا نا موافقت پاوے تو عورت کو طلاق دے دے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے.اور جب عورت بذریعہ حاکم کے طلاق لیتی ہے تو اسلامی اصطلاح میں اس کا نام ضلع ہے.جب عورت مرد کو ظالم پاوے یا وہ اس کو ناحق مارتا ہو یا اور طرح سے نا قابل برداشت بدسلوکی کرتا ہو یا کسی اور وجہ سے نا موافقت ہو یا وہ مرد در اصل نامرد ہو یا تبدیل مذہب کرے یا ایسا ہی کوئی اور سبب پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے عورت کو اس کے گھر میں آبادرہنا نا گوار ہو تو ان تمام حالتوں میں عورت یا اس کے کسی ولی کو چاہئیے کہ حاکم وقت کے پاس یہ شکایت کرے اور حاکم وقت پر یہ لازم ہوگا کہ اگر عورت کی شکایت واقعی درست سمجھے تو اس عورت کو اس مرد سے اپنے حکم سے علیحدہ کر دے اور نکاح کو توڑ دے لیکن اس حالت میں اس مرد کو بھی عدالت میں بلا نا ضروری ہوگا کہ کیوں نہ اس عورت کو اس سے علیحدہ کیا جائے.(چشمہ معرفت.رخ- جلد 23 صفحہ 289-288) مجبوریوں کے وقت عورتوں کے لیے بھی راہ کھلی ہے کہ اگر مرد بیکار ہو جاوے تو حاکم کے ذریعہ سے خلع کرالیں جو طلاق کا قائمقام ہے.اگر عورت مرد کے تعدد ازواج پر ناراض ہے تو وہ بذریعہ حاکم ضلع کر سکتی ہے.کشتی نوح.ر.خ.جلد 19 صفحہ 81-80) ناموافقت میں صلح کے لئے حکم کا قیام وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنِهِمَاء إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا.(النساء:36) اگر میاں بیوی کی مخالفت کا اندیشہ ہو تو ایک منصف خاوند کی طرف سے مقرر کرو اور ایک منصف بیوی کی طرف سے اگر منصف صلح کرانے کے لیے کوشش کریں گے تو خدا توفیق دید یگا.(آریہ دھرم - ر- خ - جلد 10 صفحہ 51) وَ الَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا....البقرة : 235) اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور جو روئیں رہ جائیں تو وہ چار مہینے اور دس دن نکاح کرنے سے رکی رہیں.( شہادت القرآن.ر-خ- جلد 6 صفحہ 336)
557 مسئله سود الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبوا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطنُ مِنَ الْمَسِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرّبوا وَ اَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبوا فَمَنْ جَاءَهُ مَوِعْظَةٌ مِنْ رَّبِّهِ فَانْتَهى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَ أَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَ مَنْ عَادَ فَأُولئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمُ فِيهَا خَلِدُونَ.يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبوا وَيُرْبِي الصَّدَقتِ وَ اللهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُا الزَّكَوةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبوا إِنْ كُنتُم مُؤْمِنِينَ.فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ إِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُ وُسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ.(البقرة: 280-276) سود اجتہادی مسئلہ ہے ایک شخص نے ایک لمبا خط لکھا کہ سیونگ بنگ کا سود اور دیگر تجارتی کارخانوں کا سود جائز ہے یا نہیں کیونکہ اس کے ناجائز ہونے سے اسلام کے لوگوں کو تجارتی معاملات میں بڑا نقصان ہو رہا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور جب تک کہ اس کے سارے پہلوؤں پر غور نہ کی جائے اور ہر قسم کے ہرج اور فوائد جو اس سے حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے پیش نہ کیے جاویں.ہم اس کے متعلق اپنی رائے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہ جائز ہے.اللہ تعالیٰ نے ہزاروں طریق روپیہ کمانے کے پیدا کیے ہیں.مسلمان کو چاہیئے کہ ان کو اختیار کرے اور اس سے پر ہیز رکھے ایمان صراط مستقیم سے وابستہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو اس طرح سے ٹال دینا گناہ ہے مثلاً اگر دنیا میں سور کی تجارت ہی سب سے زیادہ نفع مند ہو جاوے تو کیا مسلمان اس کی تجارت شروع کر دیں گے.ہاں اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس کو چھوڑنا اسلام کے لیے ہلاکت کا موجب ہوتا ہے تب ہم فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ (الانعام: 146) کے نیچے لا کر اس کو جائز کہہ دیں گے مگر یہ کوئی ایسا امر نہیں اور یہ ایک خانگی امر اور خود غرضی کا مسئلہ ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 211-210)
558 سود کی تعریف ایک صاحب نے سوال کیا کہ ریلوے میں جو لوگ ملازم ہوتے ہیں ان کی تنخواہ میں سے ار (ایک آنہ ) فی رو پیر کاٹ کر رکھا جاتا ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ روپیہ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ اور زائد بھی وہ دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ شرع میں سود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدے کے لیے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے.یہ تعریف جہاں صادق آویگی وہ سود کہلا دیگا.لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ و عید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے تو وہ سود سے باہر ہے چنانچہ انبیاء ہمیشہ شرائط کی رعایت رکھتے آئے ہیں اگر بادشاہ کچھ روپیہ لیتا ہے اور وہ اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ سود ہے تو وہ بھی سود میں داخل نہیں ہے وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے.پیغمبر خدا نے کسی سے ایسا قرضہ نہیں لیا کہ ادا ئیگی وقت اسے کچھ نہ کچھ ضرور زیادہ (نہ) دید یا ہو یہ خیال رہنا چاہیئے کہ اپنی خواہش نہ ہو.خواہش کے برخلاف جوز زیادہ ملتا ہے وہ سود میں داخل نہیں ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 167-166) اگر محنت میں شراکت ہو تو وہ آمد سود نہیں ہے حضرت حکیم نورالدین صاحب نے ایک مسئلہ حضرت اقدس سے دریافت کیا.کہ یہ ایک شخص ہیں.جن کے پاس ہیں بائیس ہزار کے قریب روپیہ موجود ہے.ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجارت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور ان کے اطمینان کے لیے اس نے تجویز کی ہے.کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں.لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے.اسی طرح ہر ایک شے خرید کر جہاں کہے.وہاں روانہ کریں.اور جو روپیہ آ وے.وہ امانت رہے.سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سورو پید ان کو منافع کا دے دیا کرے گا.یہ اس غرض سے یہاں فتوی دریافت کرنے آئے ہیں.کہ یہ روپیہ جوان کو سال کے بعد ملے گا اگر سود نہ ہو تو شرکت کر لی جاوے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ چونکہ انھوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے.اس لیے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ہوا کرتی ہے.دس دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں.لہذا میرے نزدیک تو یہ روپیہ جو ان کو وہ دیتا ہے.سود نہیں ہے.اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں.اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروز بر ہو گئے ہیں.کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے.اس لیے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 166-165)
559 اگر حکومت نفع دیتی ہے تو وہ سود نہیں ایک صاحب نے بیان کیا کہ سید احمد خان صاحب نے لکھا ہے اضعَافًا مُّضْعَفَةً.(ال عمران : 131) کی ممانعت ہے.فرمایا کہ یہ بات غلط ہے کہ سود در سود کی ممانعت کی گئی ہے اور سود جائز رکھا ہے شریعت کا ہرگز یہ منشا نہیں ہے یہ فقرے اسی قسم کے ہوتے ہیں جیسے کہا جاتا کہ گناہ در گناہ مت کرتے جاؤ اس سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ گناہ ضرور کرو.اس قسم کا روپیہ جو کہ گورنمنٹ سے ملتا ہے وہ اسی حالت میں سود ہوگا جبکہ لینے والا اسی خواہش سے روپیہ دیتا ہے کہ مجھ کو سود ملے ورنہ گورنمنٹ جو اپنی طرف سے احسانا دیوے وہ سود میں داخل نہیں ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 167) سود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدے کے لئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے یہ تعریف جہاں صادق آوئے گی وہ سود کہلا ویگا.لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ سود ہے وہ بھی سود میں داخل نہیں ہے.وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے پیغمبر خدا نے کسی سے ایسا قرض نہیں لیا کہ ادائیگی کے وقت اسے کچھ نہ کچھ ضرور زیادہ (نہ) دید یا ہو.یہ خیال رہنا چاہیئے کہ اپنی خواہش نہ ہو.خواہش کے برخلاف جو زیادہ ملتا ہے وہ سود میں داخل نہیں ہے.سود حرام ہے ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 167-166 ) إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.(البقرة: 174) دیکھوسود کا کس قدر سنگین گناہ ہے.کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں سور کا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا ہے چنانچہ فرماتا ہے.فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.(البقرة: 174) یعنی جو شخص باغی نہ ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں.اللہ غفور رحیم ہے مگر سود کے لئے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے بلکہ اس کے لئے تو ارشاد ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرّبوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ.فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ (البقرة:280-279) اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ جو خدا تعالیٰ پر تو کل کرتا ہے اسے حاجت ہی نہیں پڑتی.مسلمان اگر ابتلاء میں ہیں تو یہ ان کی اپنی ہی بدعملیوں کا نتیجہ ہے.ہندو اگر یہ گناہ کرتے ہیں تو مالدار ہو جاتے ہیں مسلمان یہ گناہ کرتے ہیں تو تباہ ہو جاتے ہیں.خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ کے مصداق.پس کیا ضروری نہیں کہ مسلمان اس سے باز آئیں؟ ( ملفوظات جلد پنجم صفحه : 435)
560 دیکھو جو حرام پر جلدی نہیں دوڑتا بلکہ اس سے بچتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے لیے حلال کا ذریعہ نکال دیتا ہے.مَنْ يَّتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (الطلاق: 3) جو سود دینے اور ایسے حرام کاموں سے بچے خدا تعالیٰ اس کے لیے کوئی سبیل بنا دے گا.ایک کی نیکی اور نیک خیال کا اثر دوسرے پر بھی پڑتا ہے.کوئی اپنی جگہ پر استقلال رکھے تو (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 436-435) سود خور بھی مفت دینے پر راضی ہو جاتے ہیں.سودی اموال اشاعت دین کے لئے جائز ہیں سود کا روپیہ تصرف ذاتی کے واسطے نا جائز ہے.لیکن خدا کے واسطے کوئی شے حرام نہیں.خدا کے کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ حرام نہیں ہے.اس کی مثال اس طرح سے ہے.کہ گولی بارود کا چلا نا کیساہی ناجائز اور گناہ ہو.لیکن جو شخص اسے ایک جانی دشمن پر مقابلہ کے واسطے نہیں چلاتا وہ قریب ہے.کہ خود ہلاک ہو جائے کیا خدا نے نہیں فرمایا.کہ تین دن کے بھوکے کے واسطے سو ر بھی حرام نہیں بلکہ حلال ہے.پس سود کا مال اگر ہم خدا کے لیے لگائیں تو پھر کیونکر گناہ ہو سکتا ہے اس میں مخلوق کا حصہ نہیں.لیکن اعلائے کلمہ اسلام میں اور اسلام کی جان بچانے کے لیے اس کا خرچ کرنا ہم اطمینان اور شلج قلب سے کہتے ہیں.کہ یہ بھی فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ (البقرة : 174) میں داخل ہے.یہ ایک استثناء ہے.اشاعت اسلام کے واسطے ہزاروں حاجتیں ایسی پڑتی ہیں.جن میں مال کی ضرورت ہے.بینک کے سود کے متعلق فرمایا ( بدر جلد اول نمبر 26 مورخہ ستمبر 1905 صفحہ 4) (تفسیر حضرت اقدس جلد دوم صفحہ 388) ہمارا یہی مذہب ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ہمارے دل میں ڈالا ہے کہ ایسا روپیہ اشاعت دین کے کام میں خرچ کیا جاوے.یہ بالکل سچ ہے کہ سود حرام ہے لیکن اپنے نفس کے واسطے اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں جو چیز جاتی ہے وہ حرام نہیں رہ سکتی ہے کیونکہ حرمت اشیاء کی انسان کے لیے ہے نہ اللہ تعالیٰ کے واسطے.پس سودا اپنے نفس کے لیے بیوی بچوں احباب رشتہ داروں اور ہمسایوں کے لیے بالکل حرام ہے.لیکن اگر یہ روپیہ خالصتہ اشاعت دین کے لیے خرچ ہو تو ہر ج نہیں ہے خصوصاً اسی حالت میں کہ اسلام بہت کمزور ہو گیا ہے اور پھر اس پر دوسری مصیبت یہ ہے کہ لوگ زکوۃ بھی نہیں دیتے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 368) میرا مذ ہب جس پر خدا نے مجھے قائم کیا ہے.اور جو قرآن شریف کا مفہوم ہے وہ یہ ہے کہ اپنے نفس عیال اطفال دوست عزیز کے واسطے اس سود کو مباح نہیں کر سکتے.بلکہ یہ پلید ہے.اور اس کا گناہ ( استعمال ) حرام ہے.لیکن اس ضعف اسلام کے زمانہ میں جبکہ دین مالی امداد کاسخت محتاج ہے اسلام کی مدد ضرور کرنی چاہیے.جیسا کہ ہم نے مثال کے طور پر بیان کیا ہے.کہ جاپانیوں کے واسطے ایک کتاب لکھی جاوے.اور کسی فصیح بلیغ جاپانی کو ایک ہزار روپیہ دے کر ترجمہ کرایا جائے.اور پھر اس کا دس ہزار نسخہ چھاپ کر جاپان میں شائع کر دیا جاوے.ایسے
561 موقعہ پر سود کا روپیہ لگانا جائز ہے کیونکہ ہر ایک مال خدا کا ہے.اور اس طرح پر وہ خدا کے ہاتھ میں جائے گا.مگر بایں ہمہ اضطرار کی حالت میں ایسا ہو گا.اور بغیر اضطرار یہ بھی جائز نہیں...ہمارا منشاء صرف یہ ہے کہ اضطراری حالت میں جب خنزیر کھانے کی اجازت نفسانی ضرورتوں کے واسطے جائز ہے.تو اسلام کی ہمدردی کے واسطے اگر انسان دین کو ہلاکت سے بچانے کے واسطے سود کے روپے کو خرچ کر لے.تو کیا قباحت ہے.یہ اجازت مختص المقام اور مختص الزمان ہے.یہ نہیں کہ ہمیشہ کے واسطے اس پر عمل کیا جائے.جب اسلام کی نازک حالت نہ رہے.تو پھر اس ضرورت کے واسطے بھی سود لینا ویسا ہی حرام ہے.کیونکہ دراصل سود کا عام حکم تو حرمت ہی ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 373 حاشیہ ) انشورنس اور بیمہ انشورنس اور بیمہ پر سوال کیا گیا فرمایا.کہ سود اور قمار بازی کو الگ کر کے دوسرے اقراروں اور ذمہ داریوں کو شریعت نے صحیح قرار دیا ہے قمار بازی میں ذمہ داری نہیں ہوتی.دنیا کے کاروبار میں ذمہ داری کی ضرورت ہے.دوسرے ان تمام سوالوں میں اس امر کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ قرآن شریف میں حکم ہے کہ بہت کھوج نکال نکال کر مسائل نہ پوچھنے چاہئیں.مثلاً اب کوئی دعوت کھانے جاوے تو اب اسی خیال میں لگ جاوے کہ کسی وقت حرام کا پیسہ ان کے گھر آیا ہو گا پھر اس طرح تو آخر کار دعوتوں کا کھانا ہی بند ہو جاوے گا.خدا کا نام ستار بھی ہے ورنہ دنیا میں عام طور پر راست باز کم ہوتے ہیں مستور الحال بہت ہوتے ہیں یہ بھی قرآن میں لکھا ہے.وَلَا تَجَسَّسُوا (الحجرات:13) یعنی تجنس مت کیا کرو ورنہ اس طرح تم مشقت میں پڑو گے.اسلامی فنڈ کا قیام ( ملفوظات جلد سوم صفحه 168-167) انسان کو چاہئے کہ اپنے معاش کے طریق میں پہلے ہی کفایت شعاری مدنظر رکھے تاکہ سودی قرضہ اٹھانے کی نوبت نہ آئے جس سے سود اصل سے بڑھ جاتا ہے.ابھی کل ایک شخص کا خط آیا تھا کہ ہزار روپیہ دے چکا ہوں ابھی پانچ چھ سو باقی ہے پھر مصیبت یہ ہے کہ عدالتیں بھی ڈگری دے دیتی ہیں.مگر اس میں عدالتوں کا کیا گناہ.جب اس کا اقرار موجود ہے تو گویا اس کے یہ معنے ہیں کہ سود دینے پر راضی ہے پس وہاں سے ڈگری جاری ہو جاتی ہے.اس سے یہ بہتر تھا کہ مسلمان اتفاق کرتے اور کوئی فنڈ جمع کر کے تجارتی طور پر اسے فروغ دیتے تاکہ کسی بھائی کو سود پر قرضہ لینے کی حاجت نہ ہوتی بلکہ اس مجلس سے ہر صاحب ضرورت اپنی حاجت روائی کر لیتا اور میعاد مقررہ پر واپس ( ملفوظات جلد پنجم صفحه 435) دے دیتا.
562
563 باب پنجم فہم قرآن اور ارکان ایمان ایمان کی تعریف أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.(العنكبوت:3) جو شخص ایمان لاتا ہے اس کو عرفان دیا جاتا ہے.ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اس حالت میں مان لیتا کہ جبکہ ابھی علم کمال تک نہیں پہنچا اور شکوک و شبہات سے ہنوز لڑائی ہے.پس جو شخص ایمان لاتا ہے یعنی با وجود کمزوری اور نہ مہیا ہونے کل اسباب یقین کے اس بات کو اغلب احتمال کی وجہ سے قبول کر لیتا ہے وہ حضرت احدیت میں صادق اور راستباز شمار کیا جاتا ہے اور پھر اس کو موہبت کے طور پر معرفت تامہ حاصل ہوتی ہے اور ایمان کے بعد عرفان کا جام اس کو پلایا جاتا ہے.(ایام الصلح - ر-خ- جلد 14 صفحہ 261)
564
565 نمبر شمار عنوانات پہلی فصل ارکان ایمان 1 ایمان کی تعریف ایمان کے مدارج 3 مومن کی تعریف 4 ایمان باللہ 5 اسماء باری تعالی...اسم اللہ 6 تعریف اسم اللہ 7 خدا کا اسم اعظم 8 توحید مدارا ایمان ہے و حقیقی توحید 10 توحید کی اقسام 11 توحید کے مراتب فہرست مضامین صفحہ نمبر شمار 567 568 // 569 // 571 572 // 574 575 // عنوانات صفحہ شناخت فطرتی ہے 580 21 توحید کا نقش قدرت کی ہر چیز میں ہے 581 22 | مصنوع اور صانع کے اعتبار سے 23 مخلوق کی طاقت کی حد بندی کے اعتبار سے 24 دعا کو سننے کے اعتبار سے "/ 582 583 25 اگر کوئی اور بھی خدا ہوتا تو دونوں بگڑ جاتے 585 دوسری فصل ایمان بر ملائکہ 26 معنی لفظ ملا یک 586 27 فرشتوں کی حقیقت معلوم کرنا منع ہے 589 28 ایمان بر ملائکہ اور ابلیس 29 ملائکہ اور صفات باری تعالیٰ 30 | نزول ملائکہ // 591 // 592 " 594 595 598 // 599 600 12 صفات باری تعالیٰ.صفات باری تعالیٰ خدا نما ہیں | ار 31 درجات ملائکہ 13 اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتی 14 ام الصفات باری تعالیٰ 15 خدا تعالیٰ کی صفات تشبیہی اور تنزیہی 32 | ملائکہ کا دائرہ کار 33 ایمان بر کتب سماوی 576 577 // تیسری فصل ایمان بر کتب سماوی 16 صفات باری تعالیٰ نوبت به نوبت طلوع 34 | قرآن شریف آخری کتاب ہے کرتی ہیں 17 صفات باری تعالیٰ از لی اور ابدی ہیں 18 خداشناسی میں وسط کی تعلیم 578 // 579 چوتھی فصل ایمان بالرسول 35 ایمان بالرسل کی ضرورت 36 نبی کی تعریف 19 | خدا تعالیٰ صفات کاملہ کے منافی کام 37 انبیاء کی ضرورت نہیں کرتا 20 ثبوت ہستی باری تعالی....خدا تعالیٰ کی 38 انتخاب انبیاء
صفحہ 607 608 610 611 612 613 566 صفحہ نمبر شمار عنوانات 600 603 // 604 // 51 انبیاء قوت عشقیہ لے کر آتے ہیں 49 انبیاء کا قتل پانچویں فصل یوم آخر اور قیامت پر ایمان 50 قیامت برحق ہے // 605 // 51 | کیفیت ظہور قیامت 606 // 52 علامات قرب قیامت 53 قیامت کب آئے گی 54 ظہور قیامت اور حضرت اقدس کا عقیدہ نمبر شمار عنوانات 39 آنحضرت کی فضیلت تمام انبیاء پر 40 نبوت جاری ہے 41 انبیاء کی اطاعت 42 انبیاء شرک کے مرتکب نہیں ہو سکتے 43 انبیاء پر جادو کا اثر نہیں ہو سکتا 44 نبی معصوم ہوتے ہیں 45 انبیاء اور اجتہادی غلطی 46 انبیاء کی ترقی تدریجی ہے 47 نبی اور دعا 48 نبی اعلیٰ درجہ کی قوم سے ہوتا ہے
567 پہلی فصل ارکان ایمان امَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَ مَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهِ وَ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ.(البقره: 286) یعنی رسول اور اس کے ساتھ کے مومن اس کتاب پر ایمان لائے ہیں جوان پر نازل کی گئی اور ہر ایک خدا پر ایمان لایا اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور ان کا یہ اقرار ہے کہ ہم خدا کے رسولوں میں تفرقہ نہیں ڈالتے.اس طرح پر کہ بعض کو قبول کریں اور بعض کو رد کر دیں.بلکہ ہم سب کو قبول کرتے ہیں.ہم نے سنا اور ایمان لائے اے خدا ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری طرف ہی ہماری بازگشت ہے.ایمان کی تعریف (چشمہ معرفت.رخ- جلد 23 صفحہ 378-377) أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.(العنكبوت:3) جو شخص ایمان لاتا ہے اس کو عرفان دیا جاتا ہے.ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اس حالت میں مان لینا کہ جبکہ ابھی علم کمال تک نہیں پہنچا اور شکوک و شبہات سے ہنوز لڑائی ہے.پس جو شخص ایمان لاتا ہے یعنی با وجود کمزوری اور نہ مہیا ہونے کل اسباب یقین کے اس بات کو اغلب احتمال کی وجہ سے قبول کر لیتا ہے وہ حضرت احدیت میں صادق اور راستباز شمار کیا جاتا ہے اور پھر اس کو موہبت کے طور پر معرفت تامہ حاصل ہوتی ہے اور ایمان کے بعد عرفان کا جام اس کو پلایا جاتا ہے.اسی لئے ایک مرد متقی رسولوں اور نبیوں اور مامورین من اللہ کی دعوت کو سنکر ہر ایک پہلو پر ابتداء امر میں ہی حملہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ حصہ جو کسی مامورمن اللہ کے منجانب اللہ ہونے پر بعض صاف اور کھلے کھلے دلائل سے سمجھ آ جاتا ہے اسی کو اپنے اقرار اور ایمان کا ذریعہ ٹھہرا لیتا ہے اور وہ حصہ جو سمجھ نہیں آتا اس میں سنت صالحین کے طور پر استعارات اور مجازات قرار دیتا ہے اور اس طرح تناقض کو درمیان سے اٹھا کر صفائی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لے آتا ہے تب خدا تعالیٰ اس کی حالت پر رحم کر کے اور اس کے ایمان پر راضی ہو کر اور اس کی دعاؤں کو سنکر معرفت تامہ کا دروازہ اس پر کھولتا ہے اور الہام اور کشوف کے ذریعہ سے اور دوسرے آسمانی نشانوں کے وسیلہ سے یقین کامل تک اس کو پہنچا تا ہے.ایام اصلح.رخ.جلد 14 صفحہ 261)
568 ایمان کے مدارج كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ.لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ.ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِين.(التكاثر : 6 تا 8) ایمان اس اقرار لسانی و تصدیق قلبی سے مراد ہے جو تبلیغ و پیغام کسی نبی کی نسبت محض تقوی اور دوراندیشی کے لحاظ سے صرف نیک ظنی کی بنیاد پر یعنی بعض وجوہ کو معتبر سمجھ کر اور اس طرف غلبہ اور رجحان پا کر بغیر انتظار کامل اور قطعی اور واشگاف ثبوت کے دلی انشراح سے قبولیت و تسلیم ظاہر کی جائے لیکن جب ایک خبر کی صحت پر وجوہ کاملہ قیاسیہ اور دلائل کا فیہ عقلیہ مل جائیں تو اس بات کا نام ایقان ہے جس کو دوسرے لفظوں میں علم الیقین بھی کہتے ہیں اور جب خدائے تعالیٰ خود اپنے خاص جذبہ اور موہبت سے خارق عادت کے طور پر انوار ہدایت کھولے اور اپنے آلاء ونعماء سے آشنا کرے اور لدنی طور پر عقل اور علم عطا فرمادے اور ساتھ اس کے ابواب کشف اور الہام بھی منکشف کر کے عجائبات الوہیت کا سیر کرا دے اور اپنے محبوبانہ حسن و جمال پر اطلاع بخشے تو اس مرتبہ کا نام عرفان ہے جس کو دوسرے لفظوں میں عین الیقین اور ہدایت اور بصیرت سے بھی موسوم کیا گیا ہے اور جب ان تمام مراتب کی شدت اثر سے عارف کے دل میں ایک ایسی کیفیت حالی عشق اور محبت کے بازنہ تعالیٰ پیدا ہو جائے کہ تمام وجود عارف کا اس کی لذت سے بھر جائے اور آسمانی انوار اس کے دل پر بکلی احاطہ کر کے ہر ایک ظلمت و قبض و شنگی کو درمیان سے اٹھا دیں یہانتک کہ بوجہ کمال رابطه عشق و محبت و باعث انتہائی جوش صدق وصفا کی بلا اور مصیبت بھی محسوس اللذت و مدرک الحلاوت ہو تو اس درجہ کا نام اطمینان ہے جس کو دوسرے لفظوں میں حق الیقین اور فلاح اور نجات سے بھی تعبیر کرتے ہیں مگر یہ سب مراتب ایمانی مرتبہ کے بعد ملتے ہیں.جو شخص اپنے ایمان میں قوی ہوتا ہے وہ رفتہ رفتہ ان سب مراتب کو پالیتا ہے لیکن جو شخص ایمانی طریق کو اختیار نہیں کرتا اور ہر یک صداقت کے قبول کرنے سے اول قطعی اور یقینی اور نہایت واشگاف ثبوت مانگتا ہے اس کی طبیعت کو اس راہ سے کچھ مناسبت نہیں اور وہ اس لائق ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اس قادر غنی بے نیاز کے فیوض حاصل کرے.(سرمه چشم آرید - ر-خ- جلد 2 صفحه 79-73) قادر مومن کی تعریف إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِاَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولئِكَ هُمُ الصَّدِقُونَ.(الحجرات: 16) سوا اس کے نہیں کہ مومن وہ لوگ ہیں جو خدا اور رسول پر ایمان لائے پھر بعد اس کے ایمان پر قائم رہے اور شکوک وشبہات میں نہیں پڑے.دیکھو ان آیات میں خدا تعالیٰ نے حصر کر دیا کہ خدا کے نزدیک مومن و ہی لوگ ہیں کہ جو صرف خدا پر ایمان نہیں لاتے بلکہ خدا اور رسول دونوں پر ایمان لاتے ہیں پھر بغیر ایمان بالرسول کے نجات کیونکر ہوسکتی ہے اور بغیر رسول پر ایمان لانے کے صرف تو حید کس کام آ سکتی ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ.جلد 22 صفحہ 132)
569 یہ تمام آیات ( آیت زیر تفسیر اور بعض اور جن کا ذکر اس جگہ کیا گیا ہے.ناقل ) ان لوگوں کے متعلق ہیں جنہوں نے رسول کے وجود پر اطلاع پائی اور رسول کی دعوت ان کو پہنچ گئی اور جولوگ رسول کے وجود سے بالکل بے خبر رہے اور نہ ان کو دعوت پہنچی ان کی نسبت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.ان کے حالات کا علم خدا کو ہے ان سے وہ وہ معاملہ کرے گا جو اس کے رحم اور انصاف کا مقتضاء ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ.جلد 22 صفحہ 132 حاشیہ ) مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں.جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور ان کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں.ایمان با اللہ ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 545) لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلِئِكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِيِّنَ وَ اتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَحْمَى وَالْمَسْكِيْنَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ وَ السَّائِلِينَ وَ فِى الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَآتَى الزَّكَوةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَهَدُوا وَ الصَّبِرِينَ فِي الْبَاسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَ حِيْنَ الْبَأْسِ أُولئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ.(البقرة : 178) بسم الله الرحمن الرحيم اسماء باری تعالیٰ اعلم وهب لك الله علم اسماءه و هداك الى طرق مرضاته و سبل رضائه ان الاسم مشتق من الوسم الذى هو اثر الكى فى اللسان العربية يقال اتسم الرجل اذا جعل لنفسه اعجاز اسیح - ر- خ- جلد 18 صفحہ 90-89) سمةً يعرف بها و يميز بها عندالعامة.( ترجمہ ) اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے اسماء کا علم عطا فرمائے اور اپنی رضاء اور خوشنودی کی راہوں اور طریقوں پر چلائے.جان لیں کہ اسم کا لفظ ( جو بسم اللہ میں آیا ہے ) وسم سے مشتق ہے اور وسم عربی زبان میں داغ دینے کے نشان کو کہتے ہیں.چنانچہ لغت عرب میں اتسم الرجل اس وقت کہتے ہیں جب کوئی شخص اپنے لیے کوئی ایسی علامت مقرر کرلے جس سے وہ پہچانا جا سکے اور عوام الناس اسے دوسرے اشخاص سے الگ سمجھ سکیں.اسم الله و انت تعلم ان اسم الشيء عند العامة مايعرف به ذالک الشیء.واما عندالخواص واهل المعرفة فالاسم الاصل الحقيقة الفيء.بل لا شك ان الاسماء المنسوبة الى المسميات من الحضرة الاحدية قد نزلت منها منزلة الصور النوعية وصارت كوكنات لطيور المعاني والعلوم الحكمية وكذالك اسم الله والرحمن والرحيم في هذه الآية المباركة.فان كل واحد منها يدل على خصائصه وهويته المكتومة.والله اسم للذات الالهية الجامعة لجميع انواع الكمال.اعجاز امسیح.ر.خ.جلد 18 صفحہ 92-91)
570 ( ترجمہ ) اور آپ جانتے ہیں کہ عوام الناس کے نزدیک کسی چیز کا اسم وہ ہوتا ہے جس سے وہ چیز پہچانی جاتی ہے عین خواص اور اہل علم کے نزدیک اسم شے کی اصل حقیقت کے لیے بطور ظل کے ہے بلکہ یہ امر یقینی ہے کہ اشیاء کے جو نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں یہ تمام نام ان چیزوں کے لیے ان کی نوعی صورتوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ نام معانی اور علوم حکمیہ کے پرندوں کے لیے بمنزلہ گھونسلوں کے ہیں.اور اس با برکت آیت میں اللہ رحمن اور رحیم ناموں کا یہی حال ہے.کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنے خصائص اور اپنی مخفی ماہیت پر دلالت کرتا ہے اور اللہ اس ذات الہی کا نام ہے جو تمام کمالات کی جامع ہے اور اس جگہ الرحمن اور الرحیم دونوں اسبات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ دونوں صفتیں اللہ کے لیے ثابت ہیں جو ہر قسم کے جمال اور جلال کا جامع ہے.ثم تكرر خلاصة الكلام فى تفسير بسم الله الرحمن الرحيم.فاعلم ان اسم الله اسم ا جامد لا يعلم معناه الا الخبير العليم.وقد اخبر عز اسمه بحقيقة هذا الاسم في هذه الآية.واشار الى انه ذات متصفة بالرحمانية والرحيمية.اى متصفة برحمة الامتنان ورحمة مقيدة بالحالة الايمانية.و هاتان رحمتان كماء اصفى وغذاء احلى من منبع الربوبية.وكل ما هو دونهما من صفات فهو كشعب لهذه الصفات.اعجاز مسیح.ر.خ.جلد 18 صفحہ 116-115) ( ترجمہ ) : - اب ہم بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تفسیر کا خلاصہ دوبارہ بیان کرتے ہیں.پس واضح ہو کہ اللہ کا لفظ اسم جامد ہے اور اس کے معنے سوائے خدائے خبیر و علیم کے اور کوئی نہیں جانتا.اور اللہ تعالیٰ عزاسمہ نے اس آیت میں اس اسم کی حقیقت بتائی ہے اور اشارہ کیا ہے کہ اللہ اس ذات کا نام ہے جو رحمانیت اور رحیمیت کی صفات سے متصف ہے یعنی ( بلا استحقاق ) احسان والی رحمت اور ایمانی حالت سے وابستہ رحمت ہر دور حمتوں سے ( وہ ذات ) متصف ہے.یہ دونوں رحمتیں صاف پانی اور شیر میں غذا کی مانند ہیں جور بوبیت کے چشمہ سے نکلتی ہیں اور ان دونوں کے علاوہ باقی تمام صفات ان دوصفات کے لیے بمنزلہ شاخوں کے ہیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.مَلِكِ يَوْمِ الدِّينَ.الحمد الله - تمام محامد اس ذات معبود برحق مجمع جمیع صفات کا ملہ کو ثابت ہیں جس کا نام اللہ ہے...قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق مستجمع جمیع صفات کا ملہ اور تمام رزائل سے منزہ اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء وصفات کا موصوف ٹھہرایا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا.پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کا ملہ پر مشتمل ہے پس خلاصه مطلب الحمد لله کا یہ نکلا کہ تمام اقسام حمد کے کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے
571 مخصوص ہیں اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں اور نیز جس قد ر حامد صحیحہ اور کمالات تامہ کوعقل کسی عاقل کی سوچ سکتی ہے یا فکر کسی متفکر کا ذہن میں لاسکتا ہے وہ سب خوبیاں اللہ تعالیٰ میں موجود ہیں اور کوئی ایسی خوبی نہیں کہ عقل اس خوبی کے امکان پر شہادت دے.مگر اللہ تعالیٰ بدقسمت انسان کی طرح اس خوبی سے محروم ہو بلکہ کسی عاقل کی عقل ایسی خوبی پیش ہی نہیں کر سکتی کہ جو خدا میں نہ پائی جائے.جہاں تک انسان زیادہ سے زیادہ خوبیاں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من کل الوجوہ کمال حاصل ہے اور رذائل سے بکلی منزہ ہے.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 436-435 حاشیہ نمبر 11) اللہ جس کا ترجمہ ہے وہ معبود.یعنی وہ ذات جو غیر مدرک اور فوق العقول اور وراء الورا اور دقیق در دقیق ہے جس کی طرف ہر ایک چیز عابدانہ رنگ میں یعنی عشقی فنا کی حالت میں جو نظری فنا ہے یا حقیقی فنا کی حالت میں جو موت ہے رجوع کر رہی ہے.(تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 268 ) تعریف اسم اللہ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَابَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَؤُدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ.(البقره:256) اللہ جو جامع صفات کا ملہ اور مستحق عبادت ہے اس کا وجود بدیہی الثبوت ہے کیونکہ وہ جی بالذات اور قائم بالذات ہے بجز اس کے کوئی چیز جی بالذات اور قائم بالذات نہیں یعنی اس کے بغیر کسی چیز میں یہ صفت پائی نہیں جاتی کہ بغیر کسی علت موجدہ کے آپ ہی موجود اور قائم رہ سکے یا کہ اس عالم کی جو کمال حکمت اور ترتیب محکم اور موزون سے بنایا گیا ہے علت موجبہ ہو سکے.( براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 514-511 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3) الم.اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ.(ال عمران : 2تا4) قرآنی عقیدہ یہ بھی ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ ہر ایک چیز کا خالق اور پیدا کنندہ ہے اسی طرح وہ ہر ایک چیز کا واقعی اور حقیقی طور پر قیوم بھی ہے یعنی ہر ایک چیز کا اسی کے وجود کے ساتھ بقا ہے اور اس کا وجود ہر یک چیز کے لیے بمنزلہ جان ہے اور اگر اس کا عدم فرض کر لیں تو ساتھ ہی ہر یک چیز کا عدم ہوگا.غرض ہر یک وجود کے بقا اور قیام کے لیے اس کی معیت لازم ہے.ست بچن - ر- خ- جلد 10 صفحہ 299)
572 خدا کا اسم اعظم الله حي قيوم بالاتفاق خدا کا اسم اعظم ہے جس کے معنے ہیں روحانی اور جسمانی طور پر زندہ کرنے والا اور ہر دو قسم کی زندگی کا دائمی سہارا اور قائم بالذات اور سب کو اپنی ذاتی کشش سے قائم رکھنے والا اور اللہ جس کا ترجمہ ہے وہ معبود.یعنی وہ ذات جو غیر مدرک اور فوق العقول اور وراء الوراء اور دقیق در دقیق ہے جس کی طرف ہر ایک چیز عا بدانہ رنگ میں یعنی عشقی فنا کی حالت میں جو نظری فنا ہے یا حقیقی فنا کی حالت میں جو موت ہے رجوع کر رہی ہے.جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ تمام نظام اپنے خواص کو نہیں چھوڑ تا گویا ایک حکم کا پابند ہے.اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ جو خدا تعالیٰ کا اسم اعظم ہے یعنی اللہ الحی القیوم اس کے مقابل پر شیطان کا اسم اعظم الدجال ہے توحید مدار ایمان ہے (تحفہ گولڑویہ.رخ.جلد 17 صفحہ 268) قرآن میں ہمارا خدا اپنی خوبیوں کے بارے میں فرماتا ہے.قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ.اَللَّهُ الصَّمَدُ.لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ.وَ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ.یعنی تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے.نہ کوئی ذات اس کی ذات جیسی از لی اور ابدی یعنی انادی اور ا کال ہے نہ کسی چیز کے صفات اس کی صفات کے مانند ہیں.انسان کا علم کسی معلم کا محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر اس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور بائیں ہمہ غیر محدود ہے انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محدود نہیں.اور انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر خدا کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے.ایسا ہی انسان کی پیدا کرنے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود ہے لیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کسی مادہ کی محتاج ہے نہ کسی وقت کی محتاج اور غیر محدود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات بے مثل و مانند ہیں اور جیسے کہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات کی بھی کوئی مثل نہیں.اگر ایک صفت میں وہ ناقص ہو تو پھر تمام صفات میں ناقص ہوگا.اس لئے اس کی تو حید قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اپنی ذات کی طرح اپنے تمام صفات میں بے مثل و مانند نہ ہو.پھر اس سے آگے آیت ممدوحہ بالا کے یہ معنے ہیں کہ خدا نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کوئی اس کا بیٹا ہے کیونکہ وہ غنی بالذات ہے.اس کو نہ باپ کی حاجت ہے اور نہ بیٹے کی یہ تو حید ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی ہے جو مدار ایمان ہے.لیکچر لاہور.ر.خ.جلد 20 صفحہ 155-154)
573 ( ملفوظات جلد اول صفحہ 472-471) قرآن کریم کی صاف تعلیم یہ ہے کہ وہ خداوند وحید وحمید جو بالذات تو حید کو چاہتا ہے اس نے اپنی مخلوق کو نتشارک الصفات رکھا ہے اور بعض کو بعض کا مثیل اور شبیہہ قرار دیا ہے تا کسی فرد خاص کی کوئی خصوصیت جو ذات و افعال و اقوال اور صفات کے متعلق ہے اس دھو کہ میں نہ ڈالے کہ وہ فرد خاص اپنے بنی نوع سے بڑھ کر ایک ایسی خاصیت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص نہ اصلا نہ ظلاً اس کا شریک نہیں اور خدا تعالی کی طرح کسی اپنی صفت میں واحد لا شریک ہے چنانچہ قرآن کریم میں سورۃ اخلاص اسی بھید کو بیان کر رہی ہے کہ احدیت ذات وصفات خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے.دیکھو اللہ جل شانہ فرماتا ہے.قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ ( آئینہ کمالات اسلام.رخ - جلد 5 صفحہ 45-44) نصاری کا فتنہ سب سے بڑا ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک سورت قرآن شریف کی تو ساری کی ساری صرف ان کے متعلق خاص کر دی ہے یعنی سورۃ اخلاص اور کوئی سورت ساری کی ساری کسی قوم کے واسطے خاص نہیں ہے.احد خدا کا اسم ہے اور احد کا مفہوم واحد سے بڑھ کر ہے.صمد کے معنی ہیں ازل سے غنی بالذات جو بالکل محتاج نہ ہو.اقنوم ثلثہ کے ماننے سے وہ محتاج پڑتا ہے.خوب یادرکھو اور پھر یاد رکھو! کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے.نماز اور تو حید کچھ ہی ہو کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے اسی وقت بے برکت اور بے سود ہوتی ہے جب اس میں نیتی اور تذلیل کی روح اور حنیف دل نہ ہو! سنو!وہ دعا جس کے لیے اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمُ (المومن (61) فرمایا ہے اس کے لیے یہی کچی روح مطلوب ہے.اگر اس تضرع اور خشوع میں حقیقت کی روح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 31) لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ.(الانعام: 104) خدا تعالیٰ کی ذات تو مخفی در مخفی اور غیب در غیب اور وراء الوراء ہے اور کوئی عقل اس کو دریافت نہیں کر سکتی.جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے.لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِکُ الابصار یعنی بصارتیں اور بصیر تیں اس کو پانہیں سکتیں اور وہ ان کے انتہا کو جانتا ہے اور ان پر غالب ہے.پس اس کی توحید محض عقل کے ذریعہ سے غیر ممکن ہے کیونکہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ انسان آفاقی باطل معبودوں سے کنارہ کرتا ہے یعنی بتوں یا انسانوں یا سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے دستکش ہوتا ہے ایسا ہی انفسی باطل معبودوں سے پر ہیز کرے یعنی اپنی روحانی جسمانی طاقتوں پر بھروسہ کرنے سے اور ان کے ذریعہ سے عجب کی بلا میں گرفتار ہونے سے اپنے تئیں بچاوے پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ بجز ترک خودی اور رسول کا دامن پکڑنے کے توحید کامل حاصل نہیں ہو سکتی اور جو شخص اپنی کسی قوت کو شریک باری ٹھہراتا ہے وہ کیونکر موحد کہلا سکتا ہے.(حقیقۃ الوحی -ر خ- جلد 22 صفحہ 148-147) بجز اس طریق کے کہ خدا خود ہی بجلی کرے اور کوئی دوسرا طریق نہیں ہے جس سے اس کی ذات پر یقین کامل حاصل ہو لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ابصار پر وہ آپ ہی روشنی ڈالے تو ڈالے.ابصار کی مجال نہیں ہے کہ خود اپنی قوت سے اسے شناخت کر لیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 480)
574 حقیقی توحید فَاعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ اسْتَغْفِرُ لِذَنْبكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوِيكُمْ.(محمد:20) قرآن شریف کی تعلیم کا اصل مقصد اور مدعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ جیسا وحدہ لاشریک ہے ایسا ہی محبت کی رو سے بھی اس کو وحدہ لاشریک یقین کیا جاوے اور کل انبیا علیہم السلامکی تعلیم کا اصل منشاء ہمیشہ ہی رہا ہے.چنانچہ لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ جیسے ایک طرف تو حید کی تعلیم دیتا ہے ساتھ ہی تو حید کی تکمیل محبت کی ہدایت بھی دیتا ہے اور جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے یہ ایک ایسا پیارا اور پر معنی جملہ ہے کہ اس کی مانند ساری تو رات اور انجیل میں نہیں اور نہ دنیا کی کسی اور کتاب نے کامل تعلیم دی ہے.الہ کے معنی ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جاوے.گویا اسلام کی یہ اصل محبت کے مفہوم کو پورے اور کامل طور پر ادا کرتی ہے.یادرکھو کہ جو تو حید بڑوں محبت کے ہو وہ ناقص اور ادھوری ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 137) توحید کے مراتب ہوتے ہیں بغیر ان کے توحید کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی.نرا لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ ہی کہہ دینا کافی نہیں یہ تو شیطان بھی کہ دیتا ہے.جب تک عملی طور پر لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کی حقیقت انسان کے وجود میں متحقق نہ ہو کچھ نہیں.یہودیوں میں یہ بات کہاں ہے آپ ہی بتا دیں.توحید کا ابتدائی مرحلہ اور مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے خلاف کوئی امر انسان سے سرزد نہ ہو اور کوئی فعل اس کا اللہ تعالیٰ کی محبت کے منافی نہ ہو.گویا اللہ تعالیٰ ہی کی محبت اور اطاعت میں محو اور فنا ہو جاوےاس واسطے اس کے معنے یہ ہیں لَا مَعُبُودَ لِی وَلَا مَحْبُوبَ لِي وَلَا مُطَاعَ لِى یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی میرا معبود ہے اور نہ کوئی محبوب ہے اور نہ کوئی واجب الاطاعت ہے.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 448) وَلَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَّ لَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا.وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِةٍ الِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَّهُمْ يُخْلَقُونَ.وَلَا يَمْلِكُونَ لا نُفُسِهِمْ ضَرَّ اوَّلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيوةً وَّلَا نُشُورًا.(الفرقان:4,3) یعنی خداوہ خدا ہے جو تمام زمین و آسمان کا اکیلا مالک ہے کوئی اس کا حصہ دار نہیں اس کا کوئی بیٹا نہیں اور نہ اس کے ملک میں کوئی اس کا شریک اور اسی نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور پھر ایک حد تک اس کے جسم اور اس کی طاقتوں اور اس کی عمر کو محدود کر دیا اور مشرکوں نے بجز اس خدائے حقیقی کے اور اور ایسے ایسے خدا مقرر کر رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ آپ پیدا شدہ اور مخلوق ہیں اپنے ضرر اور نفع کے مالک نہیں ہیں اور نہ موت اور زندگی اور جی اُٹھنے کے مالک ہیں اب دیکھو خدائے تعالیٰ صاف صاف طور پر فرما رہا ہے کہ بجز میرے کوئی اور خالق نہیں بلکہ ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ تمام جہان مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتا اور صاف فرما تا ہے کہ کوئی شخص موت اور حیات اور ضر ر اور نفع کا مالک نہیں ہو سکتا.اس جگہ ظاہر ہے کہ اگر کسی مخلوق کو موت اور حیات کا مالک بنادینا اور اپنی صفات میں شریک کر دینا اس کی عادت میں داخل ہوتا تو وہ بطور استثناء ایسے لوگوں کو ضرور باہر رکھ لیتا اور ایسی اعلیٰ تو حید کی ہمیں ہرگز تعلیم نہ دیتا.(ازالہ اوہام -رخ- جلد 3 صفحہ 260-259 حاشیہ)
575 توحید کی اقسام توحید تین قسم کی ہے ایک توحید علمی کہ جو صحیح عقائد سے حاصل ہوتی ہے.دوسری توحید عملی کہ جو قویٰ اخلاقی کو خدا کے راستہ میں کرنے سے یعنی فنافی اخلاق اللہ سے حاصل ہوتی ہے.تیسری توحید حالی جو اپنے ہی نفس کا حال اچھا بنانے سے حاصل ہوتی ہے یعنی نفس کو کمال تزکیہ کے مرتبہ تک پہنچانا اور غیر اللہ سے صحن قلب کو بالکل خالی کرنا.اور نابود اور بے نمود ہوجانا یہ تو حید بوجہ کامل تب میسر آتی ہے کہ جب جذ بہ الہی انسان کو پکڑے اور بالکل اپنے نفس سے نابود کر دے اور بحجر فضل الہی کے نہ یہ علم سے حاصل ہو سکتی ہے اور نہ عمل سے.اسی کے لیے عابدین مخلصین کی زبان پر نعرہ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہے.(تفسیر حضرت اقدس مسیح موعود جلد 1 صفحہ 209 ) (اشکم 24 ستمبر 1905 صفحہ 4) توحید کے مراتب توحید تین درجہ پر منقسم ہے درجہ اول عوام کے لئے یعنے ان کے لئے جو خدا تعالیٰ کے غضب سے نجات پانا چاہتے ہیں.دوسرا درجہ خواص کے لئے یعنے ان کے لئے جو عوام کی نسبت زیادہ تر قرب الہی کے ساتھ خصوصیت پیدا کرنی چاہتے ہیں.اور تیسرا درجہ خواص الخواص کیلئے جو قرب کے کمال تک پہنچنا چاہتے ہیں.اوّل مرتبہ تو حید کا تو یہی ہے کہ غیر اللہ کی پرستش نہ کی جائے اور ہر ایک چیز جو محدود اور مخلوق معلوم ہوتی ہے خواہ زمین پر خواہ آسمان پر اس کی پرستش سے کنارہ کیا جائے.دوسرا مرتبہ تو حید کا یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے تمام کاروبار میں موثر حقیقی خدا تعالے کو سمجھا جائے اور اسباب پر اتنا زور نہ دیا جائے جس سے وہ خدا تعالیٰ کے شریک ٹھہر جائیں.مثلاً یہ کہنا کہ زید نہ ہوتا تو میرا یہ نقصان ہوتا اور بکر نہ ہوتا تو میں تباہ ہو جاتا.اگر یہ کلمات اس نیت سے کہے جائیں کہ جس سے حقیقی طور پر زید و بکر کو کچھ چیز سمجھا جائے تو یہ بھی شرک ہے.تیسری قسم توحید کی یہ ہے کہ خدا تعالے کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھانا اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کرنا.( کتاب البریہ.ر.خ - جلد 13 صفحہ 84-83) صفات باری تعالیٰ خدا نما ہیں صفات باری تعالی الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى (طه: 6 ) خدارحمان ہے جس نے عرش پر قرار پکڑا.اس قرار پکڑنے سے یہ مطلب ہے کہ اگر چہ اس نے انسان کو پیدا کر کے بہت سا قرب اپنا اس کو دیا مگر یہ تمام تجلیات مختص الزمان ہیں یعنی تمام کشمیری تجلیات اس کی کسی خاص وقت میں ہیں جو پہلے نہیں تھیں مگر از لی طور پر قرارگاہ خدا تعالیٰ کی عرش ہے جو تنزیہ کا مقام ہے کیونکہ جو فانی چیزوں سے تعلق کر کے تشبیہ کا مقام پیدا ہوتا ہے وہ خدا کی قرار گاہ نہیں کہلا سکتا وجہ یہ کہ وہ معرض زوال میں ہے اور ہر ایک وقت میں زوال اس کے سر پر ہے بلکہ خدا کی قرارگاہ وہ مقام ہے جو فنا اور زوال سے پاک ہے پس وہ مقام عرش ہے.چشمه معرفت - خ- جلد 23 صفحہ 277,278)
576 خوب یاد رکھو کہ یہ امہات الصفات روحانی طور پر خدا نما تصویر ہیں کہ ان پر غور کرتے ہی معا خدا سامنے ہو جاتا ہے اور روح ایک لذت کے ساتھ اچھل کر اس کے سامنے سر بسجو د ہو جاتی ہے چنانچہ الحمد للہ سے جو شروع کیا گیا تھا تو غائب کی صورت میں ذکر کیا ہے لیکن ان صفات اربعہ کے بیان کے بعد معاً صورت بیان تبدیل ہوگئی ہے کیونکہ ان صفات نے خدا کو سامنے حاضر کر دیا ہے اس لیے حق تھا اور فصاحت کا تقاضا تھا کہ اب غائب نہ رہے بلکہ حاضر کی صورت اختیار کی جاوے پس اس دائرہ کی تکمیل کے تقاضا نے مخاطب کی طرف منہ پھیرا اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہا.( ملفوظات جلد اول صفحه 127) خدا تعالیٰ نے تمام اجرام سماوی وارضی پیدا کر کے پھر اپنے وجود کو وراء الوراء مقام میں مخفی کیا جس کا نام عرش ہے اور یہ ایسا نہاں در نہاں مقام ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی چار صفات ظہور پذیر نہ ہوتیں جو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیات میں ہی درج ہیں تو اس کے وجود کا کچھ پتہ نہ لگتا یعنی ربوبیت.رحمانیت.رحیمیت.مالک یوم الجزاء ہونا سو یہ چاروں صفات استعارہ کے رنگ میں چار فرشتے خدا کی کلام میں قرار دیئے گئے ہیں جو اس کے عرش کو اٹھا رہے ہیں یعنی اس وراء الوراء مقام میں جو خدا ہے اس مخفی مقام سے اس کو دکھلا رہے ہیں اور نہ خدا کی شناخت کے لئے کوئی ذریعہ نہ تھا.اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتی چشمه معرفت - ر-خ- جلد 23 صفحہ 279 حاشیہ ) ثم اعلم ان الله تعالى صفات ذاتية ناشئة من اقتضاء ذاته و عليها مدار العالمين كلها و هي اربع ربوبية و رحمانية و رحيمية و ما لكية كما اشار الله تعالى اليها في هذه السورة وقال رب الـعـالـمـيـن الـرحـمـن الـرحيـم ملك يوم الدين فهذه الصفات الذاتية سابقة على كل شئ و محيطة بكل شئ و منها وجود الاشياء و استعدادها و قابلیتها و وصولها الى كمالاتها واما صفة الغضب فليست ذاتية الله تعالى بل هى ناشئة من عدم قابلية بعض الاعيان للكمال المطلق و کذالک صفة الاضلال لا يبدو الا بعد زيغ الضالين.(کرامات الصادقین.ر.خ.جلد 7 صفحہ 129-128 ) (ترجمہ :.پھر واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ذاتی ہیں جو اس کی ذات کے تقاضا سے پیدا ہونے والی ہیں اور انہیں پر سب جہانوں کا مدار ہے اور وہ چار ہیں.ربوبیت.رحمانیت.رحیمیت اور مالکیت.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے.رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ.پس یہ ذاتی صفات ہر چیز پر سبقت رکھتی ہیں اور ہر چیز پر محیط ہیں تمام اشیاء کا وجود ان کی استعدادیں ان کی قابلیت اور ان کا اپنے کمالات کو پہنچنا انہیں (صفات) کے ذریعہ سے ہے لیکن غضب کی صفت خدا کی ذاتی (صفت) نہیں ہے بلکہ وہ بعض موجودات کے مطلقاً کمال قبول نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح گمراہ ٹھہرانے کی صفت کا ظہور بھی گمراہ ہونے والوں میں کبھی پیدا ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے.
577 ام الصفات باری تعالیٰ خدا تعالی کی چار اعلیٰ درجہ کی صفتیں ہیں جو ام الصفات ہیں اور ہر ایک صفت ہماری بشریت سے ایک امر مانگتی ہے اور وہ چار صفتیں یہ ہیں :.ربوبیت.رحمانیت.رحیمیت.مالکیت یوم الدین.( 1 ) ربوبیت اپنے فیضان کے لیے عدم محض یا مشابہ بالعدم کو چاہتی ہے اور تمام انواع مخلوق کی جاندار ہوں یا غیر جاندار اسی سے پیرا یہ وجود پہنتے ہیں.(2) رحمانیت اپنے فیضان کے لیے صرف عدم کو ہی چاہتی ہے.یعنی اس عدم محض کو جس کے وقت میں وجود کا کوئی اثر اور ظہور نہ ہواور صرف جانداروں سے تعلق رکھتی ہے اور چیزوں سے نہیں.(3) رحیمیت اپنے فیضان کے لئے موجود ذوالعقل کے منہ سے نیستی اور عدم کا اقرار چاہتی ہے اور صرف نوع انسان سے تعلق رکھتی ہے.(4) مالکیت یوم الدین اپنے فیضان کے لیے فقیرانہ تضرع اور الحاح کو چاہتی ہے اور صرف ان انسانوں سے تعلق رکھتی ہے جو گداؤں کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرتے ہیں اور فیض پانے کے لیے دامن افلاس پھیلاتے ہیں.اور سچ مچ اپنے تئیں تہی دست پا کر خدا تعالیٰ کی مالکیت پر ایمان لاتے ہیں.یہ چارا ہی صفتیں ہیں جو دنیا میں کام کر رہی ہیں اور ان میں سے جو رحیمیت کی صفت ہے وہ دعا کی تحریک کرتی ہے اور مالکیت کی صفت خوف اور قلق کی آگ سے گداز کر کے سچا خشوع اور خضوع پیدا کرتی ہے کیونکہ اس صفت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالی مالک جزا ہے.کسی کا حق نہیں جو دعویٰ سے کچھ طلب کرے اور مغفرت اور ایام اسح - رخ- جلد 14 صفحہ 243-242) نجات محض فضل پر ہے.خدا تعالیٰ کی صفات تشبیہی اور تنزیہی قرآن شریف اسی وجہ سے ہر ایک دھوکہ دہی کی بات سے محفوظ ہے کہ اس نے خدا تعالیٰ کے ایسے طور سے صفات بیان کئے ہیں جن سے توحید باری تعالیٰ شرک کی آلائش سے بکلی پاک رہتی ہے کیونکہ اول اس نے خدا تعالیٰ کے وہ صفات بیان کیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کیونکر وہ انسان سے قریب ہے اور کیونکر اسکے اخلاق سے انسان حصہ لیتا ہے ان صفات کا نام تو شیبہی صفات ہیں.پھر چونکہ شیہی صفات سے یا اندیشہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو محد و خیال نہ کیا جائے یا مخلوق چیزوں سے مشابہ خیال نہ کیا جائے اس لئے ان اوہام کے دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنی ایک دوسری صفت بیان کر دی یعنی عرش پر قرار پکڑنے کی صفت جس کے یہ معنی ہیں کہ خدا سب مصنوعات سے برتر و اعلیٰ مقام پر ہے کوئی چیز اس کی شبیہ اور شریک نہیں اور اس طرح پر خدا تعالیٰ کی توحید کامل طور پر ثابت ہوگئی.(چشمہ معرفت - ر-خ- جلد 23 صفحہ 122-121 ) فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الأَمْثَالَ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ.(النحل: 75) : قرآن شریف فرماتا ہے کہ خداد یکھتا.سنتا.جانتا.بولتا.کلام کرتا ہے اور پھر مخلوق کی مشابہت سے بچانے کے لئے یہ بھی فرماتا ہے.لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ (الشورى: 12) فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ یعنی خدا کی ذات اور صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں.اس کے لئے مخلوق سے مثالیں مت دو.سوخدا کی ذات کو تشبیہ اور تنزیہ کے بین بین رکھنا یہی وسط ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی.ر.خ.جلد 10 صفحہ 377-376)
578 اللَّهُ الَّذِى رَفَعَ السَّمَواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِى لَاَجَلٍ مُّسَمًّى يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَتِ لَعَلَّكُمُ بِلِقَاءِ رَبِّكُمُ تُوقِنُونَ.(الرعد: 3) تمہارا خداوہ خدا ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے بلند کیا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو اور پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا.اس آیت کے ظاہری معنے کے رو سے اس جگہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پہلے خدا کا عرش پر قرار نہ تھا اس کا یہی جواب ہے کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے بلکہ وراء الوراء ہونے کی ایک حالت ہے جو اس کی صفت ہے پس جب کہ خدا نے زمین و آسمان اور ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور کلی طور پر اپنے نور سے سورج چاند اور ستاروں کونور بخشا اور انسان کو بھی استعارہ کے طور پر اپنی شکل پر پیدا کیا اور اپنے اخلاق کریمہ اس میں پھونک دیئے تو اس طور سے خدا نے اپنے لئے ایک تشبیہ قائم کی مگر چونکہ وہ ہر ایک تشبیہ سے پاک ہے اس لئے عرش پر قرار پکڑنے سے اپنے منہ کا ذکر کر دیا.خلاصہ یہ کہ وہ سب کچھ پیدا کر کے پھر مخلوق کا عین نہیں ہے بلکہ سب سے الگ اور وراء الوراء مقام پر ہے.(چشمہ معرفت-رخ- جلد 23 صفحہ 277) صفات باری تعالیٰ نوبت به نوبت طلوع کرتی ہیں یادر ہے کہ جس طرح ستارے ہمیشہ نوبت به نوبت طلوع کرتے رہتے ہیں اسی طرح خدا کے صفات بھی طلوع کرتے رہتے ہیں کبھی انسان خدا کے صفات جلالیہ اور استغنائے ذاتی کی پر تو ہ کے نیچے ہوتا ہے اور کبھی صفات جمالیہ کا پر وہ اس پر پڑتا ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَانِ (الرحمن: 30).پس یہ سخت نادانی کا خیال ہے کہ ایسا گمان کیا جائے کہ بعد اس کے کہ مجرم لوگ دوزخ میں ڈالے جائیں گے.پھر صفات کرم اور رحم ہمیشہ کے لئے معطل ہو جائیں گی اور کبھی ان کی تجلی نہیں ہوگی کیونکہ صفات الہیہ کا تطل ممتنع ہے بلکہ حقیقی صفت خدا تعالیٰ کی محبت اور رحم ہے اور وہی اتم الصفات ہے اور وہی کبھی انسانی اصلاح کے لئے صفات جلالیہ اور غصبیہ کے رنگ میں جوش مارتی ہے اور جب اصلاح ہو جاتی ہے تو محبت اپنے رنگ میں ظاہر ہو جاتی ہے اور پھر بطور موہبت ہمیشہ کے لئے رہتی ہے.خدا ایک چڑ چڑے انسان کی طرح نہیں ہے جو خواہ نخواہ عذاب دینے کا شائق ہو.اور وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ اپنے پر آپ ظلم کرتے ہیں.اس کی محبت میں تمام نجات اور اس کو چھوڑنے میں تمام عذاب ہے.صفات باری تعالیٰ از لی اور ابدی ہیں (چشمہ مسیحی.رخ - جلد 20 صفحہ 370-369) وہ (خدا) اور اس کی صفات قدیم ہی سے ہیں مگر اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہر ایک صفت کا علم ہم کو دے دے اور نہ اس کے کام اس دنیا میں سما سکتے ہیں.خدا کے کلام میں دقیق نظر کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ وہ ازلی اور ابدی ہے اور مخلوقات کی ترتیب اس کے ازلی ہونے کی مخالف نہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحه 70)
579 مگر یہ بات یا درکھنے کے لائق ہے کہ دائمی طور پر افضل صفات الہیہ بھی نہیں ہوتا اور جز خدا کے کسی چیز کے لیے قدامت شخصی تو نہیں مگر قدامت نوعی ضروری ہے اور خدا کی کسی صفت کے لیے تعطل دائمی تو نہیں مگر تعطل میعادی کا ہونا ضروری ہے اور چونکہ صفت ایجاد اور صفت افتاء کی صفت کا ایک کامل دور آ جاتا ہے تو صفت ایجاد ایک میعاد تک معطل رہتی ہے غرض ابتداء میں خدا کی صفت وحدت کا دور تھا اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس دور نے کتنی دفعہ ظہور کیا بلکہ یہ دور قدیم اور غیر متناہی ہے بہر حال صفت وحدت کے دور کو دوسری صفات پر تقدم زمانی ہے.پس اسی بناء پر کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں خدا کیلا تھا اور اس کے ساتھ کوئی نہ تھا.خداشناسی میں وسط کی تعلیم (چشمہ معرفت - رخ- جلد 23 صفحہ 275-274) فَاطِرَ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ جَعَلَ لَكُمُ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَّ مِنَ الْأَنْعَامِ اَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ.(الشورى :12) خداشناسی کے بارے میں وسط کی شناخت یہ ہے کہ خدا کی صفات بیان کرنے میں نہ تو نفی صفات کے پہلو کی طرف جھک جائے اور نہ خدا کو جسمانی چیزوں کا مشابہ قرار دے.یہی طریق قرآن شریف نے صفات باری تعالیٰ میں اختیار کیا ہے.چنانچہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ خداد یکھتا، سنتا جانتا بولتا، کلام کرتا ہے اور پھر مخلوق کی مشابہت سے بچانے کے لئے یہ بھی فرماتا ہے لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيء...یعنی خدا کی ذات اور صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں اس کے لئے مخلوق سے مثالیں مت دو سو خدا کی ذات کو تشبیہ اور تنزیہ کے بین بین رکھنا یہی وسط ہے.( اسلامی اصول کی فلاسفی.ر.خ.جلد 10 صفحہ 377-376) خداتعالی صفات کا ملہ کے منافی کام نہیں کرتا يَسْتَلُهُ مَنْ فِي السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَانٍ (الرحمن :30) ہمارا خداوند قادر مطلق تمام ذرات عالم اور ارواح اور جمیع مخلوقات کو پیدا کرنے والا ہے.اس کی قدرت کی نسبت اگر کوئی سوال کیا جائے تو بجز ان خاص باتوں کے جو اس کی صفات کا ملہ اور مواعید صادقہ کے منافی ہوں.باقی سب امور پر وہ قادر ہے اور یہ بات کہ گو وہ قادر ہومگر کرنا نہیں چاہتا یہ عجیب بیہودہ الزام ہے جب کہ اس صفات میں كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَان بھی داخل ہے اور ایسے تصرفات کہ پانی سے برودت دور کرے یا آگ سے خاصیت احراق زائل کر دیوے اس کی صفات کا ملہ اور مواعید صادقہ کی منافی نہیں ہیں.( برکات الدعا- ر- خ - جلد 6 صفحہ 29-28 ) بعض لوگوں کا اعتقاد ہے.کہ چونکہ خدا تعالٰی عَلى كُلّ شَيْءٍ قَدِير (الاحقاف: 34) ہے اس واسطے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ جھوٹ بولے.ایسا اعتقاد بے ادبی میں داخل ہے.ہر ایک امر جو خدا تعالیٰ کے وعدہ اس کی ذات جلال اور صفات کے برخلاف ہے وہ اس کی طرف منسوب کرنا بڑا گناہ ہے.جو امر اس کی صفات کے برخلاف ہے ان کی طرف اس کی توجہ ہی نہیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 363)
580 ثبوت ہستی باری تعالی خدا تعالیٰ کی شناخت فطرتی ہے وَ إِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمُ وَ أَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمُ السُتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا اَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا عَفِلِينَ.(الاعراف:173) اَلَستُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی (الجزو نمبر 9) هر یک روح نے ربوبیت الہیہ کا اقرار کیا.کسی نے انکار نہ کیا.یہ بھی فطرتی اقرار کی طرف اشارہ ہے.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 185-184 حاشیہ نمبر 11) انسان تعبد ابدی کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور طبعی طور پر اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت موجود ہے.ނ پس اس وجہ سے انسان کی روح کو خدا تعالے سے ایک تعلق ازلی ہے جیسا کہ آیت اَلَسْتُ بِرَبِّكُمُ قَالُوا بَلَى - (براہین احمد یہ رخ - جلد 21 صفحہ 200 ) ظاہر ہوتا ہے.وہ خدا جس کا پتہ قرآن شریف بتلاتا ہے اپنی موجودات پر فقط قہری حکومت نہیں رکھتا بلکہ موافق آیت کریمہ الَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی (الاعراف: 173) کے ہر یک ذرہ ذرہ اپنی طبیعت اور روحانیت سے اس کا حکم بردار ہے.اس کی طرف جھکنے کے لیے ہر یک طبیعت میں ایک کشش پائی جاتی ہے اس کشش سے ایک ذرہ بھی خالی نہیں اور یہ ایک بڑی دلیل اس بات پر ہے کہ وہ ہر یک چیز کا خالق ہے.کیونکہ نور قلب اس بات کو مانتا ہے کہ وہ کشش جو اس کی طرف جھکنے کے لیے تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے وہ بلاشبہ اسی کی طرف سے ہے جیسا کہ قرآن شریف نے اس آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے.کہ اِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمدِه.(بنی اسرائیل :45) یعنی هر یک چیز اس کی پاکی اور اس کے محامد بیان کر رہی ہے اگر خدا ان چیزوں کا خالق نہیں تھا تو ان چیزوں میں خدا کی طرف کشش کیوں پائی جاتی ہے ایک غور کرنے والا انسان ضرور اس بات کو قبول کرلے گا کہ کسی مخفی تعلق کی وجہ سے یہ کشش ہے پس اگر وہ تعلق خدا کا خالق ہونا نہیں تو کوئی آریہ وغیرہ اس بات کا جواب دیں کہ اس تعلق کی وید وغیرہ میں کیا ماہیت لکھی ہے اور اس کا کیا نام ہے.(رسالہ معیار المذاہب.ر.خ.جلد 9 صفحہ 487-486) نجات کا تمام مدار خدا تعالیٰ کی محبت ذاتیہ پر ہے اور محبت ذاتیہ اس محبت کا نام ہے جو روحوں کی فطرت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مخلوق ہے پھر جس حالت میں ارواح پر میشر کی مخلوق ہی نہیں ہیں تو پھر ان کی فطرتی محبت پر میشر سے کیونکر ہوسکتی ہے اور کب اور کس وقت پر میشر نے ان کی فطرت کے اندر ہاتھ ڈال کر یہ محبت اس میں رکھ دی یہ تو غیر ممکن ہے وجہ یہ کہ فطرتی محبت اس محبت کا نام ہے جو فطرت کے ساتھ ہمیشہ سے لگی ہوئی ہو اور پیچھے سے لاحق نہ ہو جیسا کہ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ اس کا یہ قول ہے الستُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى (الاعراف: 173) یعنی میں نے روحوں سے سوال کیا کہ کیا میں تمہارا پیدا کنندہ نہیں ہوں تو روحوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں.اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ انسانی روح کی فطرت میں یہ شہادت موجود ہے کہ اس کا خدا پیدا کنندہ ہے.پس روح کو اپنے پیدا کنندہ سے طبعا وفطر تا محبت ہے اس لیے کہ وہ اس کی پیدائش ہے.(چشمہ مسیحی.رخ.جلد 20 صفحہ 364-363)
581 توحید کا نقش قدرت کی ہر چیز میں ہے انسان کی فطرت ہی میں اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى (الاعراف : 173) نقش کیا گیا ہے.اور تثلیث سے کوئی مناسبت جبلت انسانی اور تمام اشیائے عالم کو نہیں ایک قطرہ پانی کا دیکھو تو وہ گول نکلتا ہے.مثلث کی شکل میں نظر نہیں آتا اس سے بھی صاف طور پر یہی پایا جاتا ہے کہ توحید کا نقش قدرت کی ہر چیز میں رکھا ہوا ہے.خوب غور سے دیکھو کہ پانی کا قطرہ گول ہوتا ہے.اور گر وی شکل میں تو حید ہی ہوتی ہے.اس لیے کہ وہ جہت کو نہیں چاہتی.اور مثلث شکل جہت کو چاہتی ہے.چنانچہ آگ کو دیکھو شکل بھی مخروطی ہے.اور وہ بھی کر ویت اپنے اندر رکھتی ہے.اس سے بھی توحید کا نور چمکتا ہے.زمین کو لو اور انگریزوں ہی سے پوچھو کہ اس کی شکل کیسی ہے؟ کہیں گے گول.الغرض طبعی تحقیقا تیں جہاں تک ہوتی چلی جائیں گی وہاں تو حید ہی تو حید نکلتی چلی جائے گی.مصنوع اور صانع کے اعتبار سے ( ملفوظات جلد اول صفحه 40) قَالَتْ رُسُلُهُمْ وَ فِي اللَّهِ شَكٍّ فَاطِرِ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى.(ابراهيم: 11) کیا اللہ کے وجود میں بھی شک ہوسکتا ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے.دیکھو یہ تو بڑی سیدھی اور صاف بات ہے کہ ایک مصنوع کو دیکھ کر صانع کو مانا پڑتا ہے.ایک عمدہ جوتے یا صندوق کو دیکھ کر اس کے بنانے والے کی ضرورت کا معا اعتراف کرنا پڑتا ہے پھر تعجب پر تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی میں کیونکر انکار کی گنجائش ہوسکتی ہے.ایسے صانع کے وجود کا کیونکر انکار ہوسکتا ہے جس کے ہزار ہا عجائبات سے زمین و آسمان پر ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 34-33) إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِى فِى الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَّآءٍ فَأَحْيَا بهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ لَايتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (البقرة: 165) یعنی تحقیق آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے اختلاف اور ان کشتیوں کے چلنے میں جو دریا میں لوگوں کے نفع کے لیے چلتی ہیں اور جو کچھ خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا اور زمین میں ہر ایک قسم کے جانور بکھیر دیئے اور ہواؤں کو پھیرا اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں مسخر کیا یہ سب خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید اور اس کے الہام اور اس کے مد بر بالا رادہ ہونے پر نشانات ہیں.
582 اب دیکھئے اس آیت میں اللہ جل شانہ نے اپنے اس اصول ایمانی پر کیسا استدلال اپنے اس قانون قدرت سے کیا یعنی اپنے ان مصنوعات سے جو زمین و آسمان میں پائی جاتی ہیں جن کے دیکھنے سے مطابق منشاء اس آیت کریمہ کے صاف صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بیشک اس عالم کا ایک صانع قدیم اور کامل اور وحدہ لاشریک اور مد بر بالا رادہ اور اپنے رسولوں کو دنیا میں بھیجنے والا ہے.وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام یہ مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے یہ صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں بلکہ اس کا ایک موجد اور صانع ہے جس کے لیے یہ ضروری صفات ہیں کہ وہ رحمان بھی ہو اور رحیم بھی ہو اور قادر مطلق بھی ہو اور واحد لاشریک بھی ہو اور ازلی ابدی بھی ہو اور مد بر بالا رادہ بھی ہو اور مجمع جمیع صفات کاملہ بھی ہو اور وحی کو نازل کرنے والا بھی ہو.جنگ مقدس.ر.خ.جلد 6 صفحہ 125) مخلوق کی طاقت کی حد بندی کے اعتبار سے لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (الحديد : (3) خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان :3) یعنی زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب خدا تعالیٰ کی ملکیت ہے کیونکہ وہ سب چیزیں اسی نے پیدا کی ہیں.اور پھر ہر ایک مخلوق کی طاقت اور کام کی ایک حد مقرر کر دی ہے تا محدود چیزیں ایک محمد د پر دلالت کریں جو خدا تعالے ہے سو ہم دیکھتے ہیں کہ جیسا کہ اجسام اپنے اپنے حدود میں مقید ہیں اور اس حد سے باہر نہیں ہو سکتے اسی طرح ارواح بھی مقید ہیں اور اپنی مقررہ طاقتوں سے زیادہ کوئی طاقت پیدا نہیں کر سکتے.اب پہلے ہم اجسام کے محدود ہونے کے بارہ میں بعض مثالیں پیش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مثلاً چاند ایک مہینہ میں اپنا دورہ ختم کر لیتا ہے یعنی انتیس یا تھیں دن تک مگر سورج تین سو چونسٹھ دن میں اپنے دورہ کو پورا کرتا ہے اور سورج کو یہ طاقت نہیں ہے کہ اپنے دورہ کو اس قدرکم کر دے جیسا کہ چاند کے دورہ کا مقدار ہے اور نہ چاند کی یہ طاقت ہے کہ اس قدر اپنے دورہ کے دن بڑھا دے کہ جس قدر سورج کے لیے دن مقرر ہیں اور اگر تمام دنیا اس بات کے لیے اتفاق بھی کر لے کہ ان دونوں نیروں کے دوروں میں کچھ کمی بیشی کر دیں تو یہ ہرگز ان کے لیے ممکن نہیں ہوگا اور نہ خود سورج اور چاند میں یہ طاقت ہے کہ اپنے اپنے دوروں میں کچھ تغیر وتبدل کر ڈالیں.پس وہ ذات جس نے ان ستاروں کو اپنی اپنی حد پر ٹھہرا رکھا ہے یعنی جو ان کا محد داور حد باندھنے والا ہے وہی خدا ہے.چشمه معرفت - ر- خ- جلد 23 صفحہ 17 وَ لَمْ يَكُن لَّهُ شَرِیک فِی الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا یعنی اس کے ملک میں کوئی اس کا شریک نہیں وہ سب کا خالق ہے اور اس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہر ایک چیز کو ایک اندازہ مقرری پر پیدا کیا ہے کہ جس سے وہ تجاوز نہیں کر سکتی بلکہ اسی اندازہ میں محصور اور محدود ہے.اس دلیل کی شکل منطقی اس طرح پر ہے کہ ہر جسم اور روح ایک اندازہ مقرری میں محصور اور محدود ہے اور ہر ایک وہ چیز کہ کسی اندازہ مقرری میں محصور اور محدود ہو اس کا کوئی حاصر اور محمد دضرور ہوتا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ایک جسم اور روح کے لئے ایک حاصر اور محد د ہے.پرانی تحریریں.ر.خ.جلد 2 صفحہ 8)
583 يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتب (الرعد:40) اللہ تعالیٰ کی شناخت کی یہ زبردست دلیل اور اس کی ہستی پر بڑی بھاری شہادت ہے کہ محوداثبات اس کے ہاتھ میں ہے.يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 150) ہمارا تو اعتقاد ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.وہ عمر کو کم بھی کر سکتا ہے اور زیادہ بھی کر سکتا ہے.يَمْحُوا الله مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ...عیسائیوں کا بھی یہی اعتقاد ہے ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک شخص کی پندرہ دن کی عمر باقی رہ گئی تھی دعا سے پندرہ سال ہو گئے.وَ أَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهى.(النجم:43) ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 117) تمام سلسلہ عمل و معلولات کا تیرے رب پر ختم ہو جاتا ہے.تفصیل اس دلیل کی یہ ہے کہ نظر تعمیق سے معلوم ہوگا کہ یہ تمام موجودات علل و معلول کے سلسلہ سے مربوط ہے اور اسی وجہ سے دنیا میں طرح طرح کے علوم پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ کوئی حصہ مخلوقات کا نظام سے باہر نہیں.بعض بعض کے لئے بطور اصول اور بعض بطور فروع کے ہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ علت یا تو خود اپنی ذات سے قائم ہوگی یا اس کا وجود کسی دوسری علت کے وجود پر مخصر ہوگا اور پھر یہ دوسری علت کسی اور علت پر و على هذا القیاس.اور یہ تو جائز نہیں کہ اس محدود دنیا میں علل و معلول کا سلسلہ کہیں جا کرختم نہ ہواور غیر متاہی ہوتو بالضرورت مانا پڑا کہ یہ سلسلہ ضرور کی اخیر علت پر جا کر تم ہو جاتا ہے.پس جس پر اس تمام کی انتہاء ہے وہی خدا ہے آنکھ کھول کر دیکھ لو کہ آیت وَ أَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنتَھی اپنے مختصر لفظوں میں کس طرح اس دلیل مذکورہ بالا کو بیان فرمارہی ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ انتہاء تمام سلسلہ کی تیرے رب تک ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی - ر- خ - جلد 10 صفحہ 369) دعا کو سننے کے اعتبار سے ا فَلَا يَرَوْنَ إِلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَّلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا.(طه: 90) قرآن شریف میں ایک مقام پر ان لوگوں کے لئے جو گوسالہ پرستی کرتے ہیں اور گوسالہ کو خدا بناتے ہیں آیا ہے الَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمُ قَوْلًا کہ وہ ان کی بات کا کوئی جواب ان کو نہیں دیتا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو خدا بولتے نہیں ہیں وہ گوسالہ ہی ہیں.ہم نے عیسائیوں سے بار ہا پوچھا ہے کہ اگر تمہارا خدا ایسا ہی ہے جو دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کے جواب دیتا ہے تو بتاؤ وہ کس سے بولتا ہے؟ تم جو یسوع کو خدا کہتے ہو پھر اس کو بلا کر دکھاؤ.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ سارے عیسائی اکٹھے ہو کر بھی یسوع کو پکاریں وہ یقیناً کوئی جواب نہ دے گا کیونکہ وہ مر گیا.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 148) مجیب اور ناطق خدا ہمارا ہی ہے جو ہماری دعاؤں کو سنتا اور ان کے جواب دیتا ہے اور دوسرے مذاہب کے لوگ جو خدا پیش کرتے ہیں وہ الَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمُ قَوْلًا کا مصداق ہو رہا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ بوجہ ان کے کفر اور بے دینی کے ان کی دعائیں مَادُعَاءُ الْكَفِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (الرعد :15) کی مصداق ہوگئی ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ تو سب کا ایک ہی ہے مگر ان لوگوں نے اس کی صفات کو سمجھا ہی نہیں ہے.پس یا درکھو کہ ہمارا خدا ناطق خدا ہے وہ ہماری دعائیں سنتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 710)
584 ا مَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ وَ إِلَةٌ مَّعَ اللهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ.(النمل: 63) خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایک جگہ پر اپنی شناخت کی یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ تمہارا خدا وہ خدا ہے جو بیقراروں کی دعا سنتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے اَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ پھر جب کہ خدا تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کو اپنی ہستی کی علامت ٹھہرائی ہے تو پھر کس طرح کوئی عقل اور حیا والا گمان کر سکتا ہے کہ دعا کرنے پر کوئی آثار صریحہ اجابت کے مترتب نہیں ہوتے اور محض ایک رسمی امر ہے جس میں کچھ بھی روحانیت نہیں میرے خیال میں ہے کہ ایسی بے ادبی کوئی سچے ایمان والا ہر گز نہیں کرے گا جبکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ جس طرح زمین و آسمان کی صفت پر غور کرنے سے سچا خدا پہچانا جاتا الصمد ہے اسی طرح دعا کی قبولیت کو دیکھنے سے خدا تعالیٰ پر یقین آتا ہے.ایام اسیح.رخ- جلد 14 صفحہ 260-259) ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ.سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے دنیا میں جس قدر قو میں ہیں کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعاؤں کو سنتا ہو.کیا ایک ہندو ایک پتھر کے سامنے بیٹھ کر یا درخت کے آگے کھڑا ہو کر یا بیل کے رو برو ہاتھ جوڑ کر کہ سکتا ہے کہ میرا خدا ایسا ہے کہ میں اس سے دعا کروں تو یہ مجھے جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں کیا ایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے وہ میری دعا کوسنتا اور اس کا جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں.بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے جس نے کہا اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ (المؤمن: 61) ( ملفوطات جلد دوم صفحہ 148-147) وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: 187) یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں کہ خدا کے وجود پر دلیل کیا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ میں بہت نزدیک ہوں یعنی کچھ بڑے دلائل کی حاجت نہیں.میر اوجود نہایت اقرب طریق سے سمجھ آ سکتا ہے اور نہایت آسانی سے میری ہستی پر دلیل پیدا ہوتی ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی سنتا ہوں اور اپنے الہام سے اس کی کامیابی کی بشارت دیتا ہوں جس سے نہ صرف میری ہستی پر یقین آتا ہے بلکہ میرا قادر ہونا بھی بپا یہ یقین پہنچتا ہے.لیکن چاہیئے کہ لوگ ایسی حالت تقویٰ اور خدا ترسی کی پیدا کریں کہ میں ان کی آواز سنوں.اور نیز چاہیئے کہ وہ مجھ پر ایمان لاویں اور قبل اس کے جوان کو معرفت تامہ ملے اس بات کا اقرار کریں کہ خدا موجود ہے تو تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے.کیونکہ جو شخص ایمان لاتا ہے اس کوعرفان دیا جا تا ہے.ایام اصلح - ر- خ - جلد 14 صفحہ 261-260)
585 دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے چنانچہ خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.وَ إِذَا سَالَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَان - یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہدو کہ وہ بہت ہی قریب ہے.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کو جواب دیتا ہوں یہ جواب کبھی رویا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے.اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے.جب کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے.اور قرآن شریف میں جابجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنے مشکلات سے نجات پائی.انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو.دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہوگی جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاویگا.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 207) اگر کوئی اور بھی خدا ہوتا.تو دونوں بگڑ جاتے لَوْ كَانَ فِيْهِمَا الِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبُحْنَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ.(الانبياء: 23) اس (یعنی خدا تعالیٰ.ناقل ) کے وحدہ لا شریک ہونے پر ایک عقلی دلیل بیان فرمائی اور کہا لَوُكَانَ فِيهِمَا الِهَةٌ إِلَّا اللهُ لَفَسَدَتَا (الانبياء : 23) وَ مَا كَانَ مَعَهُ مِنْ الهِ (المومنون : 92) یعنی اگر زمین آسمان میں بجز اس ایک ذات جامع صفات کاملہ کے کوئی اور بھی خدا ہوتا تو وہ دونوں بگڑ جاتے کیونکہ ضرور تھا کہ کبھی وہ جماعت خدائیوں کی ایک دوسرے کے برخلاف کام کرتے.پس اسی پھوٹ اور اختلاف سے عالم میں فساد راہ پاتا اور نیز اگر الگ الگ خالق ہوتے تو ہر واحد ان میں سے اپنی ہی مخلوق کی بھلائی چاہتا اور ان کے آرام کے لئے دوسروں کا برباد کر ناروا ر کھتا.پس یہ بھی موجب فساد عالم ٹھہرتا.(براہین احمدیہ ر.خ.جلد 1 صفحہ 518,519)
586 دوسری فصل ایمان بر ملائکہ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَ مَلئِكَتِهِ وَ رُسُلِهِ وَ جِبْرِيلَ وَ مِیكَيلَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَفِرِينَ.(البقرة :99) یعنی جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کے پیغمبروں اور جبریل اور میکائیل کا دشمن ہو تو خدا ایسے کافروں کا خود دشمن ہے.اب ظاہر ہے کہ جو شخص تو حید خشک کا تو قائل ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذب ہے وہ در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے لہذا بموجب منشاء اس آیت کے خدا اس کا دشمن ہے اور وہ خدا کے نزدیک کافر ہے تو پھر اس کی نجات کیونکر ہوسکتی ہے.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 129-128 ) و الله ادخل وجود الملائكة فى الايمانيات كما ادخل فيها نفسه و قال و لكن البر من امن بالله واليوم الاخر والملئكة و الكتب والنبين (البقرة:178) و قال و ما يعلم جنود ربک الا هو (المدثر : 32) فبين للناس ان حقيقة الملائكة و حقيقة صفاتهم متعالية عن طور العقل ولا يعلمها احد الا الله فلا تضربوا الله و لا لملائكته الامثال واتوه مسلمين.(حمامتہ البشری.ر.خ.جلد 7 صفحہ 272) ( ترجمہ ) اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے وجود کو ایمانیات میں شامل کیا ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح اس نے اپنے آپ کو شامل کیا ہے.اور فرمایا ہے وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَئِكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِيِّنَ اور فرمایا ہے وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوُ.پس اس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو کھول کر بتا دیا کہ ملائکہ اور ان کی صفات کی حقیقت عقل سے بالا تر ہے جسے اللہ تعالے کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اس لیے تم اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کے متعلق اپنے پاس سے باتیں نہ بنایا کرو اور ا سکے حضور میں فرمانبردار بنکر حاضر ہو.معنی لفظ ملائک ملا یک اس معنی سے ملا یک کہلاتے ہیں کہ وہ ملاک اجرام سماویہ اور ملاک اجسام الارض ہیں یعنی ان کے قیام اور بقا کے لیے روح کی طرح ہیں اور نیز اس معنی سے بھی ملائک کہلاتے ہیں کہ وہ رسولوں کا کام دیتے ہیں.توضیح مرام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 68 حاشیہ) فرشتہ کا لفظ قرآن شریف میں عام ہے ہر ایک چیز جو اس کی آواز سنتی ہے وہ اس کا فرشتہ ہے.پس دنیا کا ذرہ ذرہ خدا کا فرشتہ ہے کیونکہ وہ اس کی آواز سنتے ہیں اور اس کی فرماں برداری کرتے ہیں.اور اگر ذرہ ذرہ اس کی آواز سنتا نہیں تو خدا تعالیٰ نے زمین آسمان کے اجرام کو کس طرح پیدا کر لیا اور یہ استعارہ جو ہم نے بیان کیا ہے اس طرح خدا کے کلام میں بہت سے استعارات ہیں جو نہایت لطیف علم اور حکمت پر مشتمل ہیں.نسیم دعوت.ر.خ.جلد 19 صفحہ 457)
587 اعلم من ربى ان الملائكة مدبرات للشمس والقمر والنجوم و كل ما في السماء والارض و قد قال الله تعالى و ان كل نفس لما عليها حافظ (الطارق:5) و قال و المدبرات امرا و مثل تلك الايات كثير فى القران فطوبى للمتدبرين.(حمامتہ البشرا ی...خ.جلد 7 صفحہ 296) ترجمہ از مرتب : - میں نے اپنے رب سے یہ علم پایا ہے کہ فرشتے سورج چاند ستاروں اور آسمان وزمین کی ہر چیز کا انتظام کرنے والے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ - ( الطارق : 5 ) اسی طرح فرمایا فَا الْمُدَتِرَاتِ اَمْرًا ) النزعت : 6 - اور اسی مضمون کی بہت سی آیات قرآن کریم میں ہیں.پس مبارک ہیں وہ جو تد بر کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے جو ملائکہ کی تعریف کی ہے وہ ہر ایک ذرہ ذرہ پر صادق آ سکتی ہے جیسے فرمایا.ان مــــن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ (بنی اسرائیل : 45) ویسے ملائکہ کی نسبت فرمایا - يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل : 51) اس کی تشریح کنیم دعوت میں خوب کر دی ہے.ہر ایک ذرہ ملائکہ میں داخل ہے اگر ان اعلیٰ کی سمجھ نہیں آتی تو پہلے ان چھوٹے چھوٹے ملائک پر نظر ڈال کر دیکھو ملائکہ کا انکار انسان کود ہر یہ بنادیتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 226-225) وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا اَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُونَ.(البقرة: 31) حکیم مطلق نے اس عالم کے احسن طور پر کاروبار چلانے کے لیے دو نظام رکھے ہوئے ہیں اور باطنی نظام فرشتوں کے متعلق ہے اور کوئی جز ظاہری نظام کی ایسی نہیں جس کے ساتھ در پردہ باطنی نظام نہ ہو...اس عالم کی حرکات اور حوادث خود بخود نہیں اور نہ بغیر مرضی مالک اور نہ عبث بے ہودہ ہیں بلکہ در پردہ تمام اجرام علوی اور اجسام سفلی کے لیے منجانب اللہ مد بر مقرر ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں ملا یک کہتے ہیں اور جب تک کوئی انسان پابند اعتقاد وجود ہستی باری ہے اور دہر یہ نہیں اس کو ضرور یہ بات ماننی پڑے گی کہ یہ تمام کا رو با رعبث نہیں بلکہ ہر یک حدوث اور ظہور پر خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت بالا رادہ کا ہاتھ ہے اور وہ ارادہ تمام انتظام کے موافق بتوسط اسباب ظہور پذیر ہوتا ہے چونکہ خدا تعالیٰ نے اجرام اور اجسام کو علم اور شعور نہیں دیا اس لیے ان باتوں کے پورا کرنے کے لیے جن میں علم اور شعور درکار ہے ایسے اسباب یعنی ایسی چیزوں کی توسط کی حاجت ہوئی جن کو علم اور شعور دیا گیا ہے اور وہ ملا یک ہیں.آئینہ کمالات اسلام -ر خ- جلد 5 صفحہ 128-125 حاشیہ )
588 إِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ (بنی اسرائیل: 45) جو لوگ ملائک سے انکار کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں ان کو اتنا معلوم نہیں کہ دراصل جس قد را شیا دنیا ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 262) میں موجود ہیں ذرہ ذرہ پر ملائکہ کا اطلاق ہوتا ہے اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ بغیر اس کے اذان کے کوئی چیز اپنا اثر نہیں کر سکتی یہاں تک کہ پانی کا ایک قطرہ بھی اندر نہیں جاسکتا اور نہ وہ مؤثر ہوسکتا ہے وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِہ کے یہی معنے ہیں.ذرہ ذرہ عالم کا جس سے انواع و اقسام کے تغیرات ہوتے رہتے ہیں یہ سب خدا کے فرشتے ہیں اور توحید پوری نہیں ہوتی جب تک ہم ذرہ ذرہ کو خدا کے فرشتے مان نہ لیں کیونکہ اگر ہم تمام مؤثرات کو جود نیا میں پائی جاتی ہیں خدا کے فرشتے تسلیم نہ کر لیں تو پھر ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ تمام تغیرات انسانی جسم اور تمام عالم میں بغیر خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ اور مرضی کے خود بخود ہورہے ہیں اور اس صورت میں خدا تعالیٰ کو محض معطل اور بے خبر ماننا پڑے گا.پس فرشتوں پر ایمان لانے کا یہ راز ہے کہ بغیر اس کے تو حید قائم نہیں رہ سکتی اور ہر ایک چیز کو اور ہر ایک تاثیر کوخدا تعالیٰ کے ارادہ سے باہر ماننا پڑتا ہے اور فرشتہ کا مفہوم تو یہی ہے کہ فرشتے وہ چیزیں ہیں جو خدا کے حکم سے کام کر رہی ہیں پس جبکہ یہ قانون ضروری اور مسلم ہے تو پھر جبرائیل اور میکائیل سے کیوں انکار کیا جائے؟ (چشمہ معرفت.رخ.جلد 23 صفحہ 181 حاشیہ) وَأَنَّا لَمَسُنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَها مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَ شُهُبًا.(الجن: 9) اور ہم فرشتوں کے وجود اور ان کی ان خدمات پر کسی قدر اس رسالہ میں بحث کر آئے ہیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ فرشتوں کا وجود ماننے کے لئے نہایت سہل اور قریب راہ یہ ہے کہ ہم اپنی عقل کی توجہ اس طرف مبذول کریں کہ یہ بات طے شدہ اور فیصل شدہ ہے کہ ہمارے اجسام کی ظاہری تربیت اور تکمیل کے لئے اور نیز اس کام کے لئے کہ تا ہمارے ظاہری حواس کے افعال مطلوبہ کما ینبغی صادر ہو سکیں.خدا تعالیٰ نے یہ قانون قدرت رکھا ہے کہ عناصر اور شمس وقمر اور تمام ستاروں کو اس خدمت میں لگا دیا ہے کہ وہ ہمارے اجسام اور قومی کو مدد پہنچا کر ان سے بوجہ احسن ان کے تمام کام صادر کرا دیں اور ہم ان صداقتوں کے ماننے سے کسی طرف بھاگ نہیں سکتے کہ مثلاً ہماری آنکھ اپنی ذاتی روشنی سے کسی کام کو بھی انجام نہیں دے سکتی جب تک آفتاب کی روشنی اس کے ساتھ شامل نہ ہو اور ہمارے کان محض اپنی قوت شنوائی سے کچھ بھی سن نہیں سکتے.جب تک کہ ہوا متکیف الصوت ان کی مد و معاون نہ ہو.پس کیا اس سے ثابت نہیں کہ خدا تعالیٰ کے قانون نے ہمارے قومی کی تکمیل اسباب خارجیہ میں رکھی ہے اور ہماری فطرت ایسی نہیں ہے کہ اسباب خارجیہ کی مدد سے مستغنی ہو اگر غور سے دیکھو تو نہ صرف ایک دو بات میں بلکہ ہم اپنے تمام حواس تمام قومی تمام طاقتوں کی تکمیل کے لئے خارجی امدادات کے محتاج ہیں پھر جبکہ یہ قانون اور انتظام خدائے واحد لاشریک کا جس کے کاموں میں وحدت اور تناسب ہے ہمارے خارجی قومی اور حواس اور اغراض جسمانی کی نسبت نہایت شدت اور استحکام اور کمال التزام سے پایا جاتا ہے تو پھر کیا یہ بات ضروری اور لازمی نہیں کہ ہماری روحانی تکمیل اور روحانی اغراض کے لئے بھی یہی انتظام ہوتا.دونوں انتظام ایک ہی طرز پر واقع ہو کر صانع واحد پر دلالت کریں اور خود ظاہر ہے کہ جس
589 م مطلق نے ظاہری انتظام کی یہ بنا ڈالی ہے اور اسی کو پسند کیا ہے کہ اجرام سماوی اور عناصر وغیرہ اسباب خارجیہ کے اثر سے ہمارے ظاہر اجسام اور قومی اور حواس کی تکمیل ہو اس حکیم قادر نے ہماری روحانیت کے لئے بھی یہی انتظام پسند کیا ہوگا کیونکہ وہ واحد لاشریک ہے اور اس کی حکمتوں اور کاموں میں وحدت اور تناسب ہے اور دلائل انیہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں.سو وہ اشیاء خارجیہ جو ہماری روحانیت پر اثر ڈال کر شمس اور قمر اور عناصر کی طرح جو اغراض جسمانی کے لئے محمد ہیں ہماری اغراض روحانی کو پورا کرتی ہیں انہیں کا نام ہم ملائک رکھتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام - ر-خ- جلد 5 صفحہ 135-133 حاشیہ) فرشتوں کی حقیقت معلوم کرنا منع ہے فكذلك الملائكة الذين كانوا فى صبغة صفات ربهم كمثل انصباغ الظل بصبغة اصــلـه لا نعرف حقيقتها و نومن بها كيف نشبه احوالهم باحوال انسان نعرف حقيقة صفاته و حدود خواصه وسكناته وحركاته و قد منعنا الله من هذا و قال ما يعلم جنو دربك الاهو.فاتقوا الله يا ارباب النهى.آئینہ کمالات اسلام.رخ - جلد 5 صفحہ 387-386) ( ترجمہ ) اسی طرح ملائکہ کا حال ہے جو اپنے خدا کی صفات میں اسی طرح رنگین ہیں جس طرح سایہ اپنے اصل کا رنگ رکھتا ہے.ہم اس کی حقیقت کو نہیں جانتے لیکن اس پر ایمان رکھتے ہیں.پھر ہم ان کے حالات کو کس طرح ایسے انسان کے حالات سے مشابہہ قرار دے سکتے ہیں جس کی صفات کی حقیقت کو ہم جانتے ہیں.اس کی خاصیتوں کی حدود.سکنات اور حرکات کو جانتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرشتوں کی حقیقت میں جانے سے منع فرمایا ہے اور کہا ہے مَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ( المدثر : 32) کہ اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا.پس اے عظمندو! اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کرو.ایمان بر ملائکہ اور ابلیس وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلِئِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ اَفَتَتَّخِذُونَهُ وَ ذُرِّيَّتَهُ اَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ للظَّلِمِينَ بَدَلًا.(الكهف: 51) اصل بات یہ ہے کہ قانون الہی ملائکہ و ابلیس کی تحریکات کا دوش بدوش چلتا ہے لیکن آخر کا ر ارادہ الہی غالب آجاتا ہے گویا پس پردہ ایک جنگ ہے جو خود بخود جاری رہ کر آخر قادر ومقتدرحق کا غلبہ ہو جاتا ہے اور باطل کی شکست.چار چیزیں ہیں جن کی کنہ وراز کو معلوم کرنا انسان کی طاقت سے بالا تر ہے.اول.اللہ جل شانہ.دویم روح.سویم.ملائکہ چہارم.اہلیں.ہر شخص ان چہاروں میں سے خدا تعالیٰ کے وجود کا قائل ہے اور اس کے صفات الوہیت پر ایمان رکھتا ہے.ضرور ہے کہ وہ ہر سہ اشیاء روح و ملائکہ وابیس پر ایمان لائے.
590 انسان کو ہر حال میں رضائے الہی پر چلنا چاہیئے اور کارخانہ الہی میں دخل در معقولات نہیں دینا چاہیئے.تقویٰ اور طہارت اطاعت و وفا میں ترقی کرنی چاہیئے اور یہ سب باتیں تب ممکن ہیں جب انسان کامل ایمان اور یقین سے ثابت قدم رہے اور صدق و اخلاص اپنے مولی تکریم سے دکھلائے اور وہ باتیں جوعلم الہی میں مخفی ہیں اس کے کنہ معلوم کرنے میں بے سود کوشش نہ کرے جو شخص ہر ایک چیز کی خواص و ماہیت دریافت کرنے کے پیچھے لگ جاتا ہے وہ نادانی سے کارخانہ ربی اور اس کی منشاء سے بالکل ناواقف و نابلد ہے اگر کوئی کہے کہ شیطان وملائکہ دکھلاؤ تو کہنا چاہئے کہ تمہارے اندر یہ خواص کہ بیٹھے بٹھائے آناً فاناً بدی کی طرف متوجہ ہو جانا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ذات سے بھی منکر ہو جانا اور کبھی نیکی میں ترقی کرنا اور انتہا درجہ کی انکسار و فروتنی و عجز و نیاز میں گر جانا یہ اندرونی کششیں جو تمہارے اندر موجود ہیں ان سب کے محرک جو قومی ہیں وہ ان دو الفاظ ملک و شیطان کے وجود میں مجسم ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 313-312) شیطان کے معنے ہیں ہلاک ہونے والا یہ لفظ شریط سے نکلا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی - ر.خ.جلد 10 صفحہ 39) جو وجود شرانگیز ہے.یعنی وجود شیطان جس کا مقام ذوالعقول کے قسم میں انتہائی نقطہ انخفاض میں واقع ہے اس کا اثر ہریک دل کو جو اس سے کچھ نسبت رکھتا ہے شرک کی طرف کھینچتا ہے جس قدر کوئی اس سے مناسبت پیدا کرتا ہے اس قدر بے ایمانی اور خباثت کے خیال اس کو سو جھتے ہیں یاں تک کہ جس کو مناسبت تام ہو جاتی ہے وہ اسی کے رنگ اور روپ میں آ کر پورا پورا شیطان ہو جاتا ہے اور ظلی طور پر ان سب کمالات خباثت کو حاصل کر لیتا ہے جو اصلی شیطان کو حاصل ہیں.سرمه چشم آریہ.ر.خ.جلد 2 صفحہ 251-250 حاشیہ ) بعض فرقے جو شیطان کے وجود سے منکر ہیں وہ تعجب کریں گے کہ شیطان کیا چیز ہے پس ان کو یا در ہے کہ انسان کے دل کے ساتھ دو کششیں ہر وقت نوبت به نوبت لگی رہتی ہیں ایک کشش خیر کی اور ایک کشش شرکی.پس جو خیر کی کشش ہے شریعت اسلام اس کو فرشتہ کی طرف منسوب کرتی ہے اور جو شر کی کشش ہے اس کو شریعت اسلام شیطان کی طرف منسوب کرتی ہے اور مدعا صرف اس قدر ہے کہ انسانی سرشت میں دو کششیں موجود ہیں کبھی انسان نیکی کی طرف جھکتا ہے اور کبھی بدی کی طرف.لیکچر لاہور.ر.خ.جلد 20 صفحہ 179)
591 ملائکہ اور صفات باری تعالیٰ وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا.(الفجر: 23) القرآن الكريم يبين ان الملائكة يشابهون بصفاتهم صفات الله تعالى كما قال عز وجل.وجاء ربک والملک صفا صفا فانظر رزقك الله دقائق المعرفة انه تعالى كيف اشار في هذه الآية الى ان مجيئه ومجيئ الملائكة ونزوله ونزول الملائكة متحد في الحقيقة والكيفية.( حمامتہ البشرای-رخ- جلد 7 صفحہ (272) ترجمه از مرتب : - قرآن کریم یہ بیان فرماتا ہے کہ ملائکہ اپنی صفات میں اللہ تعالیٰ کی صفات سے مشابہت رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا.یعنی تیرا رب اس شان میں آئیگا کہ فرشتے صفیں باندھے کھڑے ہوں گے.اللہ تعالیٰ تمہیں وقائق معرفت عطا کرے.تم غور کرو کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کا آنا اور فرشتوں کا آنا اور اس کا اترنا اور فرشتوں کا اترنا.حقیقت اور کیفیت میں متحد ہے.يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ.(النحل: 51) دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہے اور حقیقت میں ان کی شان ملائکہ ہی کی سی تھی.انسانی قومی بھی ایک طرح پر ملائکہ ہی کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ جیسے ملائکہ کی یہ شان ہے کہ يَفْعَلُونَ مَايُؤْمَرُونَ اسی طرح پر انسانی قوی کا خاصہ ہے کہ جوحکم ان کو دیا جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں.ایسا ہی تمام قومی اور جوارح حکم انسانی کے نیچے ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحه 120) نزول ملائکہ وَ مَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ.(الصَّفْت: 165) و مقامات الملئكة في السموت ثابتة لا ريب فيها كما قال عزوجل حكاية عنهم.و ما منا الا له مقام معلوم (الصفت: 165) و ما نرى فى القران اية تشير الى انهم يتركون مقاماتهم في وقت من الاوقات بـل القرآن يشير الى انهم لا يتركون مقاماتهم التي ثبتهم الله عليها و مع ذلك ينزلون الى الارض ويدركون اهلها باذن الله تعالى و يتبرزون في برزات كثيرة فتارة يتمثلون للانبياء في صور بنى ادم و مرة يتراؤون كالنور وكرة يراهم اهل الكشف كالاطفال واخرى كالا مارد و يخلق لهم الله في الارض اجسادا جديدة غير اجسادهم الاصلية بقدرته اللطيفة المحيطة ومع ذلك تكون لهم اجساد في السماء و هم لا يفارقون اجساد هم السماوية و لا يبرحون مقاماتهم و يجيئون الانبياء وكل من ارسلوا اليه مع انهم لا يتركون المقامات وهذا سر من اسرار الله فلا تعجب منه الم تعلم ان الله على كل شئ قدير فلاتكن من المكذبين.حمامة البشرای-رخ- جلد 7 صفحہ 273)
592 ترجمہ از مرتب:.اس میں کوئی شک نہیں کہ آسمانوں میں فرشتوں کے مقامات ثابت ہیں جیسا کہ اللہ عز وجل ان کی طرف سے حکایت بیان فرمایا ہے.وَ مَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَّعْلُوم اور ہم قرآن کریم میں ایک آیت بھی ایسی نہیں پاتے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہو کہ فرشتے اپنے مقامات کو کسی وقت چھوڑ دیتے ہیں بلکہ قرآن کریم اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ ان مقامات کو جن پر اللہ تعالیٰ نے ان کو قائم کیا ہے نہیں چھوڑتے اور اس کے باوجود وہ زمین پر اترتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے زمین والوں سے ملاقات کرتے ہیں اور مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں.کبھی تو وہ انبیاء کے لئے بنی آدم کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی وہ نور کی طرح نظر آتے ہیں اور کبھی ان کو اہل کشف بچوں اور بے ریش نوجوانوں کی شکل میں دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے زمین میں ان کے اصلی وجودوں کے علاوہ نئے وجودا اپنی لطیف اور محیط قدرت سے پیدا کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی آسمانوں میں بھی ان کے اجسام ہوتے ہیں اور وہ ان سماوی اجسام سے علیحدہ نہیں ہوتے اور اپنے مقامات سے نہیں ہٹتے اور انبیاء پر اور دوسرے سب لوگوں کی طرف جن کی طرف وہ بھیجے جاتے ہیں، نازل ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے اصل مقامات کو نہیں چھوڑتے اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے تو اس سے تعجب نہ کر.کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر امر پر قادر ہے.پس تو جھٹلانے والوں میں سے نہ بن.درجات ملائکہ ملا یک اللہ (جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں) ایک ہی درجہ کی عظمت اور بزرگی نہیں رکھتے نہ ایک ہی قسم کا کام انہیں سپرد ہے بلکہ ہر ایک فرشتہ علیحدہ علیحدہ کاموں کے انجام دینے کے لیے مقرر کیا گیا ہے دنیا میں جس قدرتم تغیرات وانقلابات دیکھتے ہو یا جو کچھ کمن قوۃ سے حیر فعل میں آتا ہے یا جس قدر ارواح واجسام اپنے کمالات مطلوبہ تک پہنچتے ہیں ان سب پر تاثیرات ساو یہ کام کر رہی ہیں اور کبھی ایک ہی فرشتہ مختلف طور کی استعدادوں پر مختلف طور کے اثر ڈالتا ہے.توضیح مرام - ر- خ - جلد 3 صفحہ 86-85) ملائکہ کا دائرہ کار فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا.(النزعت : 6) خدا تعالیٰ نے آیت فَالْمُدَتِرَاتِ اَمْرًا.میں فرشتوں اور ستاروں کو ایک ہی جگہ جمع کر دیا ہے.یعنی اس آیت میں کواکب سبع کو ظاہری طور پر مُدَبِّرُ مَا فِی الْأَرْضِ ٹھہرایا ہے اور ملا یک کو باطنی طور پر ان چیزوں کا مد برقرار دیا ہے.چنانچہ تفسیر فتح البیان میں معاذ بن جبل اور قشیری سے یہ دونوں روایتیں موجود ہیں اور ابن کثیر نے حسن سے یہ روایت ملا یک کی نسبت کی ہے کہ تُدَبِّرُ الأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْاَرْضِ یعنی آسمان سے زمین تک جس قدر امور کی تدبیر ہوتی ہے وہ سب ملایک کے ذریعہ سے ہوتی ہے اور ابن کثیر لکھتا ہے کو یہ متفق علیہ قول ہے کہ مدبرات امر ملا یک ہیں.
593 اور ابن جریر نے بھی آیات فَالْمُدَتِرَاتِ اَمُرًا کے نیچے یہ شرح کی ہے کہ اس سے مراد ملا یک ہیں جو مد بر عالم ہیں یعنی گو بظاہر نجوم اور شمس و قمر و عناصر وغیرہ اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں مگر در حقیقت مد بر ملا یک ہی ہیں.اب جبکہ خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کے رو سے یہ بات نہایت صفائی سے ثابت ہوگئی کہ نظام روحانی کے لئے بھی نظام ظاہری کی طرح موثرات خارجیہ ہیں جن کا نام کلام الہی میں ملا یک رکھا ہے تو اس بات کا ثابت کرنا باقی رہا کہ نظام ظاہری میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے ان تمام افعال اور تغیرات کا بھی انجام اور انصرام بغیر فرشتوں کی شمولیت کے نہیں ہوتا.سوؤمنقولی طور پر اس کا ثبوت ظاہر ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کا نام مدبرات اور مقسمات امر رکھا ہے اور ہر یک عرض اور جو ہر کے حدوث اور قیام کا وہی موجب ہیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے عرش کو بھی وہی اٹھائے ہوئے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام -ر خ- جلد 5 صفحہ 136-135 حاشیہ) إِنَّ عَلَيْكُمْ لَحفِظِينَ.كِرَامًا كَاتِبِينَ.يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ.(الانفطار : 11 تا 13) قرآن کریم میں اور بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی تربیت اور حفاظت ظاہری و باطنی کے لئے اور نیز اس کے اعمال کے لکھنے کے لئے ایسے فرشتے مقرر ہیں کہ جو دائمی طور پر انسانوں کے پاس رہتے ہیں.وَ إِنَّ عَلَيْكُمْ لَحفِظِينَ کہ تم پر حفاظت کرنے والے مقرر ہیں.آئینہ کمالات اسلام - ر- خ- جلد 5 صفحہ 79-78) اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ (الطارق : 5) - اگر چه ملائک جسمانی آفات سے بھی بچاتے ہیں لیکن ان کا بچانا روحانی طور پر ہی ہے.مثلاً ایک شخص ایک گرنے والی دیوار کے نیچے کھڑا ہے تو یہ تو نہیں کہ فرشتہ اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اس کو دور لے جائے گا بلکہ اگر اس شخص کا اس دیوار سے بچنا مقدر ہے تو فرشتہ اس کے دل میں الہام کر دے گا کہ یہاں سے جلد کھسکنا چاہیئے لیکن ستاروں اور عناصر وغیرہ کی حفاظت جسمانی ہے.آئینہ کمالات اسلام.ر.خ.جلد 5 نوٹ برصفحہ 99) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلئِكَةٌ غِلاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ.(التحريم: 7) پس یہی وجہ کہ انسان کی روحانی تربیت بلکہ جسمانی تربیت کے لئے بھی فرشتے وسائط مقرر کئے گئے مگر یہ تمام وسائط خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں مجبور اور ایک کل کی طرح ہیں جس کو اس کا پاک ہاتھ چلا رہا ہے اپنی طرف سے نہ کوئی ارادہ رکھتے ہیں نہ کوئی تصرف.جس طرح ہوا خدا تعالیٰ کے حکم سے ہمارے اندر چلی جاتی ہے اور اسی کے حکم سے تاثیر کرتی ہے یہی صورت اور بتمامہ یہی حال فرشتوں کا ہے.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ آئینہ کمالات اسلام.ر.خ.جلد 5 صفحہ 87 حاشیہ )
594 تیسری فصل ایمان بر کتب سماوی يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللهِ وَ رَسُولِهِ وَالْكِتَبِ الَّذِى نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَبِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلِ وَ مَنْ يَكْفُرُ بِاللَّهِ وَمَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا.(النساء: 137) ( ترجمہ ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا پر ایمان لاؤ.اور اس کے رسول پر اور اسکی اس کتاب پر جو اس کے رسول پر نازل ہوئی ہے یعنی قرآن شریف پر اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو پہلے نازل ہوئی.یعنی تو ریت وغیرہ پر.اور جو شخص خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اسکے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لائے گا اور حق سے بہت دور جا پڑا یعنی نجات سے محروم رہا.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 129 ) امَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَ مَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ.(البقرة : 286) یعنی رسول اور اس کے ساتھ کے مومن اس کتاب پر ایمان لائے ہیں جو ان پر نازل کی گئی اور ہر ایک خدا پر ایمان لایا اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور ان کا یہ اقرار ہے کہ ہم خدا کے رسولوں میں تفرقہ نہیں دالتے.اس طرح پر کہ بعض کو قبول کریں اور بعض کو رد کر دیں.بلکہ ہم سب کو قبول کرتے ہیں.ہم نے سنا اور ایمان لائے اے خدا ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری طرف ہی ہماری بازگشت ہے.ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف ان تمام نبیوں کا ماننا جن کی قبولیت دنیا میں پھیل چکی ہے مسلمانوں کا فرض ٹھہراتا ہے اور قرآن شریف کی رو سے ان نبیوں کی سچائی کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ دنیا کے ایک بڑے حصہ نے ان کو قبول کیا اور ہر ایک قدم میں خدا کی مدد اور نصرت ان کے شامل حال ہوگئی.خدا کی شان اس سے بلند تر ہے کہ وہ کروڑ ہا انسانوں کو اس شخص کا سچا تابع اور جاں نثار کرے جس کو وہ جانتا ہے کہ خدا پر افترا کرتا ہے اور دنیا کو دھوکہ دیتا ہے اور دروغ گو ہے اور اگر کاذب کو ایسی ہی عزت دی جائے جیسا کہ صادق کو تو امان اُٹھ جاتا ہے اور امر نبوت صادقہ مشتبہ ہو جاتا ہے.پس یہ اصول نہایت صحیح اور سچا کہ جن نبیوں کو قبولیت دی جاتی ہے اور ہر ایک قدم میں حمایت اور نصرت الہی ان کے شامل حال ہو جاتی ہے وہ ہر گز جھوٹے ہوا نہیں کرتے.ہاں ممکن ہے کہ پیچھے آنے والے ان کے نوشتوں میں تحریف تبدیل کر دیں اور اپنی نفسانی تفسیروں سے ان کے مطالب کو الٹا دیں بلکہ پرانی کتابوں کے لیے یہ بھی ایک لازمی امر ہے کہ مختلف خیالات کے آدمی اپنے خیال کے طور پر ان کے معنے کرتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ وہی معنے جزو کتاب کی سمجھے جاتے ہیں.اور پھر انھیں مختلف خیالات کی کشش کی وجہ سے کئی فرقے ہو جاتے ہیں اور ہر ایک فرقہ دوسرے فرقہ کے مخالف معنے کرتا ہے.(چشمہ معرفت.ر-خ- جلد 22 صفحہ 378-377)
595 سورہ بقرہ کے شروع میں یہ آیات ہیں ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنهُم يُنفِقُونَ.وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ.أُولئِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.(البقرة: 3 تا 6) ترجمہ.یہ کتاب جو شکوک و شبہات سے پاک ہے متقیوں کے لئے ہدایت نامہ ہے اور متقی وہ لوگ ہیں جو خدا پر (جس کی ذات مخفی در مخفی ہے ) ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے خدا کی راہ میں کچھ دیتے اور اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تیرے پر نازل ہوئی اور نیز ان کتابوں پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ سے پہلے نازل ہوئیں وہی لوگ خدا کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی ہیں جو نجات پائیں گے.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 136-135 ) قرآن شریف آخری کتاب ہے ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہوسکتا اور نہ کم ہوسکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغیر کر سکتا ہواگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج او ملحد اور کافر ہے اور ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بجز اقتدا اس امام الرسل کے حاصل ہو سکیں کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صل اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلی اور طفیلی طور پر ملتا ہے.(ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 170)
596 چوتھی فصل ایمان بالرسول إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجْهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّدِقُونَ.(الحجرات : 16) سوا اس کے نہیں کہ مومن وہ لوگ ہیں جو خدا اور رسول پر ایمان لائے پھر بعد اس کے ایمان پر قائم رہے اور شکوک و شبہات میں نہیں پڑے.دیکھو ان آیات میں خدا تعالیٰ نے حصر کر دیا کہ خدا کے نزدیک مومن وہی لوگ ہیں کہ جو صرف خدا پر ایمان نہیں لاتے بلکہ خدا اور رسول دونوں پر ایمان لاتے ہیں.پھر بغیر ایمان بالرسول کے نجات کیونکر ہوسکتی ہے اور بغیر رسول پر ایمان لانے کے صرف تو حید کس کام آ سکتی ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ.جلد 22 صفحہ 132 ) وَ مَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلوةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَرِهُونَ.(التوبة: 54) یعنی اس بات کا سبب جو کفار کے صدقات قبول نہیں کیے جاتے صرف یہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول سے منکر ہیں.اب دیکھو.صاف ظاہر ہے کہ جولوگ رسول پر ایمان نہیں لاتے ان کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں.خدا ان کو قبول نہیں کرتا اور پھر جب اعمال ضائع ہوئے تو نجات کیونکر ہوگی.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 132) خشک تو حید کے قائل تو اور مذاہب بھی ہیں مثلاً یہود پھر برھموساج.یہ سوال ہوسکتا ہے کہ لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ پڑھنے کا کیا فائدہ ہے.یہی تو فائدہ ہے کہ سید نا محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی متابعت و پیروی و تصدیق رسالت اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور ان انعامات کا وارث جو اگلے برگزیدہ انبیاء پر ہوئے.چنانچہ فرمایا.يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا (الانفال: 30) یعنی وہ تمہیں ایک فرقان دے گا.پس دوسرے مذاہب اور اس میں ایک مابہ الامتیاز اسی جہان میں ہونا ضروری ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 633) اگر چہ ہمارا ایمان ہے کہ نری خشک تو حید مدار نجات نہیں ہو سکتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے علیحدہ ہو کر کوئی عمل کرنا انسان کو ناجی نہیں بنا سکتا.لیکن طمانیت قلب کے لیے عرض پرداز ہیں.کہ عبدالحکیم خاں نے جو آیات لکھی ہیں ان کا کیا مطلب ہے مثلاً إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَ النَّصْرَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ امَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمُ اور جیسا کہ یہ آیت بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ.اور جیسا کہ یہ آیت تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اَنْ لَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ.
597 واضح ہو کہ قرآن شریف میں ان آیات کے ذکر کرنے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر اس کے جو رسول پر ایمان لایا جائے نجات ہوسکتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ بغیر اس کے کہ خدائے واحد لاشریک اور یوم آخرت پر ایمان لا یا جاوے نجات نہیں ہو سکی اور اللہ پر پورا ایمان بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے رسولوں پر ایمان لاوے وجہ یہ کہ وہ اس کی صفات کے مظہر ہیں اور کسی چیز کا وجود بغیر وجود اس کی صفات کے پایہ ثبوت نہیں پہنچتا.لہذ ابغیر علم صفات باری تعالیٰ کے معرفت باری تعالٰی ناقص رہ جاتی ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ- جلد 22 صفحہ 173-172) (10) يايها لناس قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم فامنوا خيراً لكم وان تكفروا فان الله ما فى السموات والارض وكان الله عليما حكيما.(الجزو نمبر 6 سورة نساء) (ترجمہ) اے لوگو! تمہارے پاس رسول حق کے ساتھ آیا ہے.پس تم اس رسول پر ایمان لاؤ.تمہاری بہتری اسی میں ہے اور اگر تم کفر اختیار کرو تو خدا کو تمہاری کیا پروا ہے.زمین و آسمان سب اسی کا ہے اور سب اس کی اطاعت کر رہے ہیں اور خدا علیم اور حکیم ہے.وَإِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّنَ لَمَا أَتَيْتُكُم مِّنْ كِتَبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَ كُمُ رَسُولٌ مُّصَدِّقَ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ (حقیقۃ الوحی.رخ- جلد 22 صفحہ 132-131 ) اِصْرِيْ قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَ أَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّهِدِينَ.(ال عمران : 82) ( ترجمہ ) اور یاد کر جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دونگا اور پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کریگا تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی اور کہا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس عہد پر استوار ہو گئے انہوں نے کہا کہ ہم نے اقرار کر لیا.تب خدا نے فرمایا کہ اب اپنے اقرار کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ اس بات کا گواہ ہوں.اب ظاہر ہے کہ انبیاء تو اپنے اپنے وقت پر فوت ہو گئے تھے یہ حکم ہر نبی کی امت کے لیے ہے کہ جب وہ رسول ظاہر ہو تو اس پر ایمان لاؤ ورنہ مواخذہ ہو گا.اب بتلاویں میاں عبدالحکیم خان نیم ملا خطرہ ایمان ! اگر صرف تو حید خشک سے نجات ہو سکتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ ایسے لوگوں سے کیوں مواخذہ کریگا جو گو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے مگر تو حید باری کے قابل ہیں.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 134-133)
598 ایمان بالرسل کی ضرورت پھر اسی خط میں ایک دوسرا سوال یہ بھی تھا کہ کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی؟ اس پر فرمایا کہ :.رسول وہ ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات ہوتے ہیں.پس جو شخص اس کا انکار کرتا ہے وہ بہت خطرناک جرم کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ وہ شریعت کے سارے سلسلہ کو باطل کرنا چاہتا ہے اور حلت و حرمت کی قید اٹھا کر باحت کا مسئلہ پھیلانا چاہتا ہے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیسے نجات کا مانع نہ ہو؟ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جولا انتہا برکات اور فیوض لے کر آیا ہے اس کا انکار ہو اور پھر نجات کی امید.اس کا انکار کرنا ساری بدکاریوں اور بدمعاشیوں کو جائز سمجھنا ہے کیونکہ وہ ان کو حرام ٹھہراتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 394) (14) قوله تعالى.و الذين امنوا و عملوالصالحات و امنوا بما نزّل على محمد و هو الحق من ربهم كفر عنهم سياتهم واصلح بالهم.الجزو نمبر 26سورة محمد2-3) ترجمہ.جولوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اور وہ کلام جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اس پر ایمان لائے اور وہی حق ہے ایسے لوگوں کے خدا گناہ بخش دیگا اور انکے دلوں کی اصلاح کریگا.اب دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی وجہ سے کس قدر خدا تعالیٰ اپنی خوشنودی ظاہر فرماتا ہے کہ ان کے گناہ بخشتا ہے اور ان کے تزکیہ نفس کا خود متکفل ہوتا ہے.پھر کیسا بد بخت وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں اور غرور اور تکبر سے اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے.سعدی نے سچ کہا ہے:.ست سعدی که راه صفا تواں رفت جز درپئے مصطفیٰ برد مهر آں شاہ سوئے بہشت حرام اهست بر غیر بوئے بہشت ترجمہ.رسول اکرم کی پیروی کے بغیر نیکی کی راہ اختیار نہیں ہو سکتی اس بادشاہ کی محبت بہشت تک لے جاتی ہے.غیر کے در تک بہشت کی خوشبو نہیں پہنچتی.محال نبی کی تعریف (حقیقۃ الوحی.رخ- جلد 22 صفحہ 133 ) لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبَةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ.(الجن: 28-27) نبی کے معنے لغت کی رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا.پس جہاں یہ معنے صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفی کی خبر اس کو مل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ہے لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ.(الجن : 28-27).اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان معنوں کی رو سے نبی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہونگے بالضرورت اس پر مطابق آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبہ کے مفہوم نبی کا صادق
599 آئے گا.اسی طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے گا اسی کو ہم رسول کہیں گے.فرق درمیان یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک ایسا نبی کوئی نہیں جس پر جدید شریعت نازل ہو یا جس کو بغیر توسط آنجناب اور ایسی فنافی الرسول کی حالت کے جو آسمان پر اس کا نام محمد اور احمد رکھا جائے یونہی نبوت کا لقب عنایت کیا جائے.وَ مَنِ ادَّعَى فَقَدْ كَفَرَ.اس میں اصل بھید یہی ہے کہ خاتم النبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ.تقاضا کہ مغائرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مہر کو توڑنے والا ہو گا جو خاتم النبیین پر ہے لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ باعث نہایت اتحاد اور فی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلا ئیگا کیونکہ وہ محمد ہے گولی طور پر.مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 434-433) انبیاء کی ضرورت اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران: 32) خدا کی ذات میں بخل نہیں.اور نہ انبیاء اس لیے آتے ہیں کہ ان کی پوجا کی جاوے.بلکہ اس لیے کہ لوگوں کو تعلیم دیں کہ ہماری راہ اختیار کرنے والے ہمارے حل کے نیچے آ جاویں گے.جیسے فرمایا.انی كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله یعنی میری پیروی میں تم خدا کے محبوب بن جاؤ گے.آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر محبوب ہونے کی بدولت یہ سب اکرام ہوئے مگر جب کوئی اور شخص محبوب بنے گا.تو اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا.اگر اسلام ایسا مذہب ہے تو سخت بیزاری ہے ایسے اسلام سے.مگر ہرگز اسلام ایسا مذہب نہیں.آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو وہ مائدہ لائے ہیں کہ جو چاہے اس کو حاصل کرے.وہ نہ تو دنیا کی دولت لائے اور نہ مہاجن بن کر آئے تھے.وہ تو خدا کی دولت لائے تھے اور خود اس کے قاسم تھے پھر اگر وہ مال دینا نہیں تھا تو کیا وہ گھڑی واپس لے گئے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 177-176 ) نبی کا آنا ضروی ہوتا ہے.اس کے ساتھ قوت قدسی ہوتی ہے اور ان کے دل میں لوگوں کی ہمدردی نفع رسانی اور عام خیر خواہی کا بیتاب کر دینے والا جوش ہوتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ الَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: 4) یعنی کیا تو اپنی جان کو ہلاک کر دے گا اس خیال سے کہ وہ مومن نہیں ہوتے؟ اس کے دو پہلو ہیں ایک کافروں کی نسبت کہ وہ مسلمان کیوں نہیں ہوتے دوسرا مسلمانوں کی نسبت کہ ان میں وہ اعلیٰ درجہ کی روحانی قوت کیوں نہیں پیدا ہوتی جو آپ چاہتے ہیں.چونکہ ترقی تدریجا ہوتی ہے اس لئے صحابہ کی ترقیاں بھی تدریجی طور پر ہوئی تھیں مگر انبیاء کے دل کی بناوٹ بالکل ہمدردی ہی ہوتی ہے اور پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو جامع جمیع کمالات نبوت تھے آپ میں یہ ہمدردی کمال درجہ پر تھی آپ صحابہ کو دیکھ کر چاہتے تھے کہ پوری ترقیات پر پہنچیں لیکن یہ عروج ایک وقت پر مقدر تھا آخر صحابہ نے وہ پایا جو دنیا نے کبھی نہ پایا اوروہ دیکھا جوکسی نے نہ دیکھا تھا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 338)
600 انتخاب انبیاء ذراغور کرنے سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ جسے خدا تعالیٰ مامور کرتا ہے ضرور ہے کہ اس کے لیے اجتبا اور اصطفا ہو اور کچھ نہ کچھ اس میں ضرور خصوصیت چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کل مخلوق میں سے اسے برگزیدہ کرے.خدا کی نظر خطا جانے والی نہیں ہوتی.پس جب وہ کسی کو منتخب کرتا ہے وہ معمولی آدمی نہیں ہوتا.قرآن شریف میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ (الانعام: 125).آنحضرت کی فضیلت تمام انبیاء پر ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 547) وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَ رَحْمَتُهُ لَهَمَّتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا اَنْفُسَهُمْ وَ مَا يَضُرُّونَكَ مِنْ شَيْءٍ وَ اَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَ كَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا.(النساء:114) وَ كَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا.یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے اور کوئی نبی تیرے اور مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا.یہی تعریف بطور پیشگوئی زبور باب 45 میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں موجود ہے جیسا کہ فرمایا کہ خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 606 حاشیه در حاشیہ نمبر (3) حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی فضیلت ہے جو کسی نبی میں نہیں ہے میں اس کو عزیز رکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کو جو شخص بیان نہیں کرتاوہ میرے نزدیک کافر ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 19) یعنی خدا تعالیٰ نے تجھ کو وہ علوم عطا کیے جو تو خود بخود نہیں جان سکتا تھا اور فضل الہی سے فیضان الہی سب سے زیادہ تیرے پر ہوا یعنی تو معارف الہیہ اور اسرار اور علوم ربانی میں سب سے بڑھ گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی معرفت کے عطر کے ساتھ سب سے زیادہ تجھے معطر کیا غرض علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے.آئینہ کمالات اسلام.رخ.جلد 5 صفحہ 187) وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ ہی ہے یار لامکانی وہ دلبر نہانی دیکھا ہے ہم نے اس سے بس راہ نما یہی ہے وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے وہ طیب و امیں ہے اس کی ثنا یہی ہے وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 4) وہ روحانی زندگی کے لحاظ سے ہم تمام نبیوں میں سے اعلیٰ درجے پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ سمجھتے ہیں اور قرآن شریف کی آیت میں اس زندگی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس کا یہی مطلب ہے کہ جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باطنی فیض پایا ایسا ہی آخری زمانہ میں ہوگا کہ مسیح موعود اور اس کی جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پائے گی جیسا کہ اب ظہور میں آ رہا ہے.تبلیغ رسالت ( مجموعہ اشتہارات ) جلد نهم صفحه 16)
601 رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ.(البينة 9) جو جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میسر آئی تھی اور جس نے آپ کی قوت قدسی سے اثر پایا تھا اس کے لئے قرآن شریف میں آیا ہے رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (البيئة: 9) اس کا سبب کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کا نتیجہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجوہ فضیلت میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ آپ نے ایسی اعلیٰ درجہ کی جماعت تیار کی.میرا دعوی ہے کہ ایسی جماعت آدم سے لیکر آخر تک کسی کو نہیں ملی.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 592-591) أُولئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُد هُمُ اقْتَدِهُ قُلْ لَّا أَسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَلَمِينَ.(الانعام: 91) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسیٰ بھی اور آدم بھی اور ابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے فَبِهُداهُمُ اقْتَدِه یعنی اے رسول اللہ تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کر لے.جو ہر یک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا.پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شانیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیں اور در حقیقت محمد کا نام صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنے ہیں کہ بغایت تعریف کیا گیا اور غایت درجہ کی تعریف تبھی متصور ہوسکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اور صفات خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں.آئینہ کمالات اسلام - ر-خ- جلد 5 صفحہ 343) مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ.(الانبياء: 108) مَا اَرْسَلْنكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتا ہے کہ جب آپ ہر ایک قسم کے خلق سے ہدایت کو پیش کرتے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ نے اخلاق، صبر نرمی اور نیز مار ہر ایک طرح سے اصلاح کے کام کو پورا کیا اور لوگوں کو خدا کی طرف توجہ دلائی.مال دینے میں نرمی برتنے میں عقلی دلائل اور معجزات کے پیش کرنے میں آپ نے کوئی فرق نہیں رکھا.اصلاح کا ایک طریق مار بھی ہوتا ہے کہ جیسے ماں ایک وقت بچہ کو مار سے ڈراتی ہے وہ بھی آپ نے برت لیا تو مار بھی ایک خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ جو آدمی اور کسی طریق سے نہیں سمجھتے خدا ان کو اس طریق سے سمجھاتا ہے کہ وہ نجات پاویں.خدا تعالیٰ نے چار صفات جو مقرر کی ہیں جو کہ سورۃ فاتحہ کے شروع میں ہیں رسول اللہ صلعم نے ان چاروں سے کام لے کر تبلیغ کی ہے مثلاً پہلے رب العالمین یعنی عام ربوبیت ہے تو آیت مَا اَرْسَلْنكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ اسکی طرف اشارہ کرتی ہے.پھر ایک جلوہ رحمانیت کا بھی ہے کہ آپ کے فیضان کا بدل نہیں ہے.ایسی ہی دوسری صفات.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 380)
602 إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: 5) گل انسانوں کے کمالات بہینت مجموعی ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہیں اور اسی لیے آپ کل دنیا کے لیے مبعوث ہوئے اور رحمۃ للعالمین کہلائے اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: 5).میں بھی ایسی مجموعہ کمالات انسانی کی طرف اشارہ ہے.اسی صورت میں عظمت اخلاق محمدی کی نسبت غور کر سکتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ پر نبوت کاملہ کے کمالات ختم ہوئے.یہ ایک مسلم بات ہے کہ کسی چیز کا خاتمہ اس کی علت غائی کے اختتام پر ہوتا ہے.جیسے کتاب کے جب کل مطالب بیان ہو جاتے ہیں تو اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اسی طرح پر رسالت اور نبوت کی علت غائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرختم ہوئی اور یہی ختم نبوت کے معنے ہیں.کیونکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلا آیا ہے اور کامل انسان پر آ کر اس کا خاتمہ ہوگیا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 35) إِنَّ اللَّهَ وَ مَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57) دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گذرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا.ان قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے جیسے حضرت موسیٰ حضرت داؤؤ حضرت عیسی علیہم السلام اور دوسرے انبیاء سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم چشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گذشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں اور ممکن ہے کہ وہ تمام معجزات جوان کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں کیونکہ اب ان کا نام ونشان نہیں بلکہ ان گذشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ ہی نہیں لگتا اور یقیناً سمجھ نہیں سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلام ہوتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آگئے اب ہم نہ قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الہیہ کیا چیز ہوتا ہے اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قو میں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے.کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے.محمد عربی بادشاہ دوسرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پر کہتا ہوں کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدادانی یہ ہر چشمہ معرفت - ر- خ - جلد 23 صفحہ 302-301)
603 نبوت جاری ہے سورہ فاتحہ میں تمہیں دعا سکھلائی گئی ہے.یعنی یہ دعا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ پس جبکہ خدا تمہیں یہ تاکید کرتا ہے.کہ پنج وقت یہ دعا کرو کہ وہ نعمتیں جو نبیوں اور رسولوں کے پاس ہیں وہ تمہیں بھی ملیں.پس تم بغیر نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ کے وہ نعمتیں کیونکر پاسکتے ہو.لہذا ضرور ہوا کہ تمہیں یقین اور محبت کے مرتبہ پر پہنچانے کے لیے خدا کے انبیاء وقتا بعد وقت آتے رہیں.جن سے تم وہ نعمتیں پاؤ.(لیکچر سیالکوٹ.ر.خ.جلد 20 صفحہ 227) كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران: 111) اگر نبوت کا دروازہ بالکل بند سمجھا جاوے تو نعوذ باللہ اس سے تو انقطاع فیض لازم آتا ہے.اور اس میں تو نحوست ہے.اور نبی کی بہتک شان ہوتی ہے.گویا اللہ تعالیٰ نے اس امت کو یہ جو کہا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ یہ جھوٹ تھا.نعوذ باللہ.اگر یہ معنے کیے جاویں کہ آئیندہ کے واسطے نبوت کا دروازہ ہر طرح سے بند ہے تو پھر خیر الامتہ کی بجائے شر الامم ہوئی یہ امت.جب اس کو اللہ تعالیٰ سے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی نصیب نہ ہوا تو یہ تو كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ (اعراف:180) ہوئی اور بہائم سیرت اسے کہنا چاہئے نہ کہ خیر الام.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 249) انبیاء کی اطاعت قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَ إِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَ مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلغُ الْمُبِينُ.(النور:55) کہ خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور یہ مسلم اور بدیہی امر ہے کہ خدا کے احکام سے تخلف کرنا معصیت اور موجب دخول جہنم ہے اور اس مقام میں جس طرح خدا اپنی اطاعت کے لئے حکم فرماتا ہے ایسا ہی رسول کی اطاعت کے لئے حکم فرماتا ہے.سو جو شخص اس کے حکم سے منہ پھیرتا ہے وہ ایسے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس (حقیقۃ الوحی.رخ.جلد 22 صفحہ 128 ) کی سزا جہنم ہے.انبیاء علیہم السلام کے گلہ کرنے سے بھی انسان کا فر ہو جاتا ہے.چونکہ وہ ان تعلقات سے محض نا آشنا ہوتا ہے جو انبیاء ورسل اور اللہ تعالیٰ میں ہوتے ہیں اس لیے کسی ایسے امر کو جو ہماری سمجھ اور دانش سے بالا تر اور بالا تر ہے اپنی عقل کے پیمانہ سے ناپنا صریح حماقت ہے.مثلاً آدم علیہ السلام کا گلہ کرنے لگے کہ انہوں نے درخت ممنوع کا پھل کھایا.یا عَبَسَ وَ تَوَلَّی کو لے بیٹھے.ایسی حرکت آداب الرسل کے خلاف ہے اور کفر کی حد تک پہنچا دیتی ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحه 632)
604 انبیاء شرک کے مرتکب نہیں ہو سکتے وَ لَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى ادَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا.(طه: 116) یہی حال حضرت آدم علیہ السلام کا ہے.ہمیں بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ تو ا نے ان کو یہ پھل دیا تھا ان کو یہ علم نہ تھا کہ یہ وہی ممنوع پھل ہے.ان کا یہ کام بیشک خدائے تعالیٰ کے حکم کے خلاف تھا مگر انہوں نے اس حکم کو عمد انہیں تو ڑا اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے گناہ کیا.اس پھل کے کھانے کا وہی نتیجہ نکلا جوز ہر کھانے سے نکلتا ہے کیونکہ قدرت اپنا کام کرنے سے نہیں رک سکتی.مگر اس صورت میں کوئی گناہ نہیں تھا کیونکہ ارادہ نہیں تھا.حضرت آدم کبھی شرک کے مرتکب نہیں ہوئے.شرک ایک نا قابل عفو گناہ ہے اور خدا کے پاک لوگ ایسا گناہ نہیں کر سکتے.جس آیت کا عیسائی حوالہ دیتے ہیں اس میں حضرت آدم کا نام نہیں ہے اس میں صرف عام انسانوں کے میلان کا ذکر ہے جو شرک کی طرف ان میں پایا جاتا ہے.ریویو آف ریلیجنز جلد دوم نمبر 6 صفحه 250 ) انبیاء پر جادو کا اثر نہیں ہوسکتا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَ إِذْ هُمْ نَجْوَى إِذْ يَقُولُ الظَّلِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا.(بنی اسرائیل : 48) ایسی بات کہ آنحضرت صلعم پر (معاذ اللہ ) جادو کا اثر ہو گیا تھا اس سے تو ایمان اٹھ جاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِذْ يَقُولُ الظَّلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ایسی ایسی باتیں کہنے والے تو ظالم ہیں نہ کہ مسلمان.یہ تو بے ایمانوں اور ظالموں کا قول ہے کہ آنحضرت صلعم پر ( معاذ اللہ ) سحر اور جادو کا اثر ہو گیا تھا.اتنا نہیں سوچتے کہ جب ( معاذ اللہ ) آنحضرت کا یہ حال ہے تو پھر امت کا کیا ٹھکانا وہ تو پھر غرق ہوگئی.معلوم نہیں ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جس معصوم نبی صلعم کو تمام انبیاء میں شیطان سے پاک سمجھتے آئے ہیں یہ ان کی شان میں ایسے ایسے الفاظ بولتے ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 349) نبی معصوم ہوتے ہیں نبی کیوں معصوم ہوتے ہیں؟ تو اس کا یہی جواب ہے کہ وہ استغراق محبت الہی کے باعث معصوم ہوتے ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 33) عصمت کا مفہوم صرف اس حد تک ہے کہ انسان گناہ سے بچے اور گنہ کی تعریف یہ ہے کہ انسان خدا کے حکم کو عمدا تو ڑ کر لائق سزا ٹھہر ے تعریف مذکورہ بالا کے رو سے نابالغ بچے اور پیدائشی مجنون بھی معصوم ہیں وجہ یہ کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ کوئی گناہ عمدا کریں.پس بلا شبہ وہ حق رکھتے ہیں کہ ان کو معصوم کہا جائے.ریویو آف ریجنز جلد اول نمبر 5 صفحہ 180)
605 انبیاء اور اجتہادی غلطی اگر یہ کہا جائے کہ انہیں احادیث کی کتابوں میں بعض امور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجتہادی غلطی کا بھی ذکر ہے.اگر کل قول و فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجی سے تھا تو پھر وہ غلطی کیوں ہوئی.گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے قبضہ سے ایک دم جدا نہیں ہوتے تھے.پس اس اجتہادی غلطی کی ایسی ہی مثل ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں چند دفعہ سہو واقع ہوا تا اس سے دین کے مسائل پیدا ہوں.سواسی طرح بعض اوقات اجتہادی غلطی ہوئی تا اس سے بھی تکمیل دین ہو اور بعض بار یک مسائل اس کے ذریعہ سے پیدا ہوں اور وہ سہو بشریت بھی تمام لوگوں کی طرح سہو نہ تھا بلکہ دراصل ہم رنگ وحی تھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص تصرف تھا جو نبی کے وجود پر حاوی ہو کر اس کو کبھی ایسی طرف مائل کر دیتا تھا جس میں خدا تعالیٰ کے بہت مصالح تھے.آئینہ کمالات اسلام - ر- خ - جلد 5 صفحہ 115-113 ) انبیاء کی ترقی تدریجی ہے انبیاء کے علم میں بھی تدریجا ترقی ہوتی ہے اسواسطے قرآن شریف میں آیا ہے.قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه: 115) ( ملفوظات جلد اول صفحہ 456) انبیاء علیہم السلام ہمیشہ دعا میں لگے رہتے ہیں اور ہمیشہ زیادہ نو ر مانگتے رہتے ہیں.وہ کبھی اپنی روحانی ترقی پر سیر نہیں ہوتے اس لئے ہمیشہ استغفار میں لگے رہتے ہیں کہ خدا ان کی ناقص حالت کو ڈھاپنے اور پورا روشنی کا پیمانہ دے اسی وجہ سے خدائے تعالیٰ اپنے نبی کو فرماتا ہے قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا یعنی ہمیشہ علم کے لئے دعا کرتارہ کیونکہ جیسا خدا بے حد ہے ایسا ہی اس کا علم بھی بے حد ہے.ریویو آف ریلیچنز جلد دوم نمبر 6 صفحه 244) اس پر عرض کیا گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے احیائے موتی کی کیفیت کے متعلق اطمینان چاہا تھا.کیا ان کو پہلے اطمینان نہ تھا.فرمایا:.اصل بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے مکتب میں تعلیم پانے والے ہوتے ہیں اور تلامیذ الرحمان کہلاتے ہیں.ان کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قرآن شریف میں آیا ہے گذلِک لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنَهُ تَرْتِيلاً (الفرقان: 33).پس میں اس بات کو خوب جانتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کی حالت کیسی ہوتی ہے.جس دن نبی مامور ہوتا ہے اس دن اور اس کی نبوت کے آخری دن میں ہزاروں کوس کا فرق ہو جاتا ہے.پس یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا کہا.ابراہیم تو وہ شخص ہے جس کی نسبت قرآن شریف نے خود فیصلہ کر دیا ہے.اِبرَاهِيمَ الَّذِى وَ فى (النجم : 38) پھر یہ اعتراض کس طرح ہو سکتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 246)
606 نبی اور دعا وَاسْتَفْتَحُوا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ.(ابراهيم: 16) نبیوں نے اپنے تئیں مجاہدہ کی آگ میں ڈال کر فتح چاہتی.پھر کیا تھا ہر ایک ظالم سرکش تباہ ہو گیا اور اسی کی طرف اس شعر میں اشارہ ہے تا دل مرد خدا نامد بدرد ی قومی را خدا رسوا نکرو ترجمہ :.جب تک وہ کسی مرد خدا کا دل نہ دکھائے.خدا کسی قوم کو رسوا نہیں کرتا.(حقیقۃ الوحی.رخ- جلد 22 صفحہ 324) ہر نبی پہلے صبر کی حالت میں ہوتا ہے پھر جب ارادہ الہی کسی قوم کی تباہی سے متعلق ہوتا ہے تو نبی میں درد کی حالت پیدا ہوتی ہے.وہ دعا کرتا ہے پھر اس قوم کی تباہی یا خیر خواہی کے اسباب مہیا ہو جاتے ہیں.دیکھو نوح علیہ السلام پہلے صبر کرتے رہے اور بڑی مدت تک قوم کی ایذائیں سہتے رہے پھر ارادہ الہی جب ان کی تباہی سے متعلق ہوا تو درد کی حالت پیدا ہوئی اور دل سے نکلا - (رَبِّ) لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا.(نوح: 27) جب تک خدا کا ارادہ نہ ہو وہ حالت پیدا نہیں ہوتی.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال پہلے صبر کرتے رہے پھر جب درد کی حالت پیدا ہوئی تو قتال کے ذریعے مخالفین پر عذاب نازل ہوا.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 199) نبی اعلیٰ درجہ کی قوم سے ہوتا ہے يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَّانْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ.(الحجرات : 14) ہم اس سے پہلے ابھی بیان کر چکے ہیں کہ ایسے اولیاء اللہ جو مامور نہیں ہوتے یعنی نبی یا رسول یا محدث نہیں ہوتے اور ان میں سے نہیں ہوتے جو دنیا کو خدا کے حکم اور الہام سے خدا کی طرف بلاتے ہیں ایسے ولیوں کوکسی اعلیٰ خاندان یا اعلیٰ قوم کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان کا سب معاملہ اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے لیکن ان کے مقابل پر ایک دوسری قوم کے ولی ہیں جو رسول یا نبی یا محدث کہلاتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک منصب حکومت اور قضا کا لے کر آتے ہیں اور لوگوں کو حکم ہوتا ہے کہ ان کو اپنا امام اور سردار اور پیشو سمجھ لیں اور جیسا کہ وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اس کے بعد خدا کے ان نائبوں کی اطاعت کریں.اس منصب کے بزرگوں کے متعلق قدیم سے خدا تعالیٰ کی یہی عادت ہے کہ ان کو اعلیٰ درجہ کی قوم اور خاندان میں سے پیدا کرتا ہے تا ان کے قبول کرنے اور ان کی اطاعت کا جو آ اٹھانے میں کسی کو کراہت نہ ہو اور چونکہ خدا نہایت رحیم و کریم ہے اس لئے نہیں چاہتا کہ لوگ ٹھوکر کھاویں اور ان کو ایسا ابتلا پیش آوے جو ان کو اس سعادت عظمی سے محروم رکھے کہ وہ اس کے مامور کے قبول کرنے سے اس طرح پر رک جائیں کہ اس شخص کی پیچ قوم کے لحاظ سے ننگ اور عاران پر غالب ہو اور وہ دلی نفرت کے ساتھ اس بات سے کراہت کریں کہ اس کے تابعدار بنیں اور اس کو اپنا بزرگ قرار دیں اور انسانی جذبات اور تصورات پر نظر کر کے یہ بات خوب ظاہر ہے کہ یہ ٹھو کر طبعا انسان کو پیش آ جاتی ہے.( تریاق القلوب.ر.خ.جلد 15 صفحہ 279)
607 لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ.(التوبة: 128) جیسا کہ خدا تعالیٰ قادر ہے.حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت اور مصلحت چاہتی ہے کہ اپنے نبیوں اور ماموروں کو ایسی اعلیٰ قوم اور خاندان اور ذاتی نیک چال چلن کے ساتھ بھیجے تا کہ کوئی دل ان کی اطاعت سے کراہت نہ کرے.یہی وجہ ہے کہ جو تمام نبی علیہم السلام اعلیٰ قوم اور خاندان میں سے آتے رہے ہیں.اسی حکمت اور مصلحت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود کی نسبت ان دونوں خوبیوں کا تذکرہ فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُم (التوبة : 128) یعنی تمہارے پاس وہ رسول آیا ہے جو خاندان اور قبیلہ اور قوم کے لحاظ سے تمام دنیا سے بڑھ کر ہے اور سب سے زیادہ پاک اور بزرگ خاندان رکھتا ہے.تریاق القلوب.ر.خ.جلد 15 صفحہ 281) انبیاء قوت عشقیہ لیکر آتے ہیں کوئی نبی اور ولی قوت عشقیہ سے خالی نہیں ہوتا یعنی ان کی فطرت میں حضرت احدیت نے بندگان خدا کی بھلائی کے لئے ایک قسم کا عشق ڈالا ہو اہوتا ہے.پس وہی عشق کی آگ ان سے سب کچھ کراتی ہے اور اگر ان کو خدا کا یہ حکم بھی پہنچے کہ اگر تم دعا اور غم خواری خلق اللہ نہ کر تو تمہارے اجر میں کچھ قصور نہیں.تب بھی وہ اپنے فطرتی جوش سے رہ نہیں سکتے اور ان کو اس بات کی طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ ہم کو اس جان کنی سے کیا اجر ملے گا کیونکہ ان کے جوشوں کی بناء کسی غرض پر نہیں بلکہ وہ سب کچھ قوت عشقیہ کی تحریک سے ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ الَّايَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: 4) خدا اپنے نبی کو سمجھاتا ہے کہ اس قدر غم اور در دکو تو لوگوں کے مومن بن جانے کے لئے اپنے دل پر اٹھاتا ہے اس سے تیری جان جاتی رہے گی.سو وہ عشق ہی تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جان جانے کی کچھ پرواہ نہ کی.پس حقیقی پیری مریدی کا یہی احوال ہے اور صادق اسی سے شناخت کئے جاتے ہیں کیونکہ خدا کا قدیمی احوال ہے کہ قوت عشقیہ صادقوں کے دلوں میں ضرور ہوتی ہے تا وہ بچے غم خوار بنے کیلئے لائق ٹھہر میں جیسے والدین اپنے بچہ کے لئے ایک قوت عشقیہ رکھتے ہیں تو ان کی دعا بھی اپنے بچوں کی نسبت قبولیت کی استعداد زیادہ رکھتی ہے اسی طرح جو شخص صاحب قوت عشقیہ ہے وہ خلق اللہ کے لئے حکم والدین رکھتا ہے اور خواہ نخواہ دوسروں کا غم اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے کیونکہ قوت عشقیہ اس کو نہیں چھوڑتی اور یہ خداوند کریم کی طرف سے ایک انتظامی بات ہے کہ اس نے بنی آدم کو مختلف فطرتوں پر پیدا کیا ہے مثلاً دنیا میں بہادروں اور جنگ جو لوگوں کی ضرورت ہے سو بعض فطرتیں جنگ جوئی کی استعدا در کھتی ہیں.اسی طرح دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے کہ جن کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح ہوا کرے.سو بعض فطرتیں یہی استعداد لے کر آتی ہیں اور قوت عشقیہ سے بھری ہوئی ہوتی ہیں.(مکتوبات بنام مولوی عبد القادر صاحب مندرجہ الحکام جلد دوم نمبر 25-24 مورخہ 20/27 اگست )
608 انبیاء کا قتل ولكـن لـو كـان هـذا الرجل مطلعا على شان نزول هذه الآية ترجع من قوله بل ما التفت الى معنى يخالف طريق المعقول والمنقول وما تكلم بالفضول وكان من المتندمين فاسمع ايها العزيز ان اليهود كانوا يقرء ون فى التوارات ان الكاذب في دعوى النبوت يقتل و ان الذي صلب فهو ملعون لا يرفع الى الله وكانت عقيدتهم مستحكمة على ذلك ثم شبه لهم ابتلاء من عند الله كانهم صلبوا المسيح ابن مريم وقتلوه فحسبوه ملعوناغير مرفوع ورتبوا الشكل هكذا المسيح ابن مريم مصلوب.وكل مصلوب ملعون و ليس بمرفوع فثبت عندهم من الشكل الاول الذي هو بين الانتاج ان عيسى (نعوذ بالله) ملعون و ليس بمرفوع فاراد الله ان يزيل هذا الوهم ويبرء عيسى من هذا البهتان فقال ماقتلوه وما صلبوه ولكن شبـه لـهـم بـل رفعه الله و حاصل کلام الله تعالی ان شان عیسی منزه عن الصلب و النتيجة التي هي الـمـلـعـونيـة وعدم الرفع بل هومات حتف انفه و رفع الى الله كما يرفع المقربون و ما كان من الملعونين.وهذا هو السبب الذي ذكر الله تعالى لا جله قصة عدم صـلـب عیسی و براه مما قالوا والا فاى ضرورة كانت داعية الى ذكر هذه القصة و ما كان موت القتل نقصا لانبياءه وكسراً لشانهم وعزتهم وكاين من النبين قتلوا في سبيل الله کیحیی علیه السلام وابيه فتفكر و اطلب صراط المهتدين ولا تجلس مع الغاوين.(حمامتہ البشری..خ.جلد 7 صفحہ 255 حاشیہ ) لیکن اگر یہ شخص اس آیت کے شان نزول سے واقف ہوتا تو اپنے اس قول سے ضرور رجوع کر لیتا بلکہ ان معنی کی طرف جو معقول اور منقول طریق کے مخالف ہیں تو جہ ہی نہ کرتا اور ایسی فضول باتیں منہ پر نہ لاتا جن کے نتیجہ میں وہ نادم اور شرمندہ ہوتا.پس اے عزیز سنو! یہودی لوگ تو رات میں یہ پڑھا کرتے تھے کہ جھوٹا دعوی نبوت کرنے والا قتل کیا جائے گا اور یہ کہ جس کو صلیب پر مارا جائے وہ ملعون ہوتا ہے اس کا اللہ کی طرف رفع نہیں ہوتا.یہ ان کا پختہ اعتقاد تھا پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ابتلاء انہیں اس شبہ میں ڈال دیا گیا کہ گویا انہوں نے حضرت مسیح ابن مریم کو صلیب پر مار دیا ہے اور قتل کر دیا ہے.پس انہوں نے حضرت مسیح کو مرفوع نہیں بلکہ ملعون خیال کر لیا اور قضیہ کو اس شکل میں مرتب کیا کہ مسیح ابن مریم صلیب پر مارا گیا.اور ہر مصلوب ملعون ہوتا ہے.مرفوع الی اللہ نہیں ہوتا.پس ان کے نزدیک اس شکل اول سے جو بین الانتاج ہوتی ہے یہ ثابت ہو گیا کہ عیسی
609 نعوذ باللہ ملعون ہیں اور ان کا رفع خدا کی طرف نہیں ہوا.پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ یہود کے اس وہم کو دور کرے اور عیسی علیہ السلام کو اس بہتان سے بری ٹھہرائے سو اس لیے فرمایا کہ.وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ.(النساء: 158) خدا تعالیٰ کے اس کلام کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی شان صلیب پر مارے جانے اور اس کے نتیجہ یعنی ملعونیت اور عدم رفع سے پاک ہے بلکہ انہوں ( یعنی حضرت عیسی ) نے اپنی طبعی موت سے وفات پائی تھی اور مقرب الی اللہ لوگوں کی طرح ان کا بھی خدا تعالے کی طرف رفع ہوا تھا اور آپ ہرگز ملعون لوگوں میں سے نہیں تھے اور اس سبب سے اللہ تعالے نے ( قرآن مجید میں ) حضرت عیسی علیہ السلام کے صلیب پر وفات نہ پانے کے قصہ کو بیان کیا ہے.اور انہیں لوگوں کے الزام سے بری قرار دیا ہے وگر نہ اس قصہ کے بیان کی کونسی ضرورت مقتضی تھی.قتل کے ذریعہ انبیاء کا وفات پانا ان کی تنقیص اور کسر شان اور ان کی عزت کے منافی نہیں ہوتا.اور کئی ایک نبی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قتل کیے گئے جیسے پیچی علیہ السلام اور ان کے باپ زکریا علیہ السلام.پس غور کرو اور ہدایت یافتہ لوگوں کا طریق تلاش کرو اور گمراہ ہونے والوں کے ساتھ نہ بیٹھو.قتل انبیاء توریت میں لکھا ہے کہ جھوٹا نبی قتل کیا جاوے گا اس کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر قرآن کی نص صریح سے پایا جاوے یا حدیث کے تواتر سے ثابت ہو کہ نبی قتل ہوتے رہے ہیں تو پھر ہم کو اس سے انکار نہیں کرنا پڑے گا.بہر حال یہ کچھ ایسی بات نہیں کہ نبی کی شان میں خلل انداز ہو کیونکہ قتل بھی شہادت ہوتی ہے.مگر ہاں نا کام قتل ہو جانا انبیاء کی علامات میں سے نہیں.یہ مصالح پر موقوف ہے کہ ایک شخص کے قتل سے فتنہ برپا ہوتا ہے تو مصلحت البہی نہیں چاہتی کہ اس کو قتل کرا کر فتنہ برپا کیا جاوے.جس کے قتل سے ایسا اندیشہ نہ ہو اس میں ہر ج نہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 261 )
پانچویں فصل 610 قیامت برحق ہے یوم آخر اور قیامت پر ایمان وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ.(البقرة :5) طالب نجات وہ ہے جو خاتم النبین پیغمبر آخرالزمان پر جو کچھ اوتارا گیا ہے.اوس پر ایمان لاوے اور اس پیغمبر سے پہلے جو کتا ہیں اور صحیفے سابقہ انبیاء اور رسولوں پر نازل ہوئے ان کو بھی مانے.وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ اور طالب نجات وہ ہے جو پچھلی آنے والی گھڑی یعنی قیامت پر یقین رکھے اور جزاوسز امانتا ہو.الحکم جلد 8 نمبر 35-34 صفحہ 9 مورخہ 10/7 اکتوبر 1904) كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان وَيَبْقَى وَجُهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.(الرحمن : 27-28) خدا تعالیٰ قدیم سے خالق چلا آتا ہے لیکن اس کی وحدت اس بات کو بھی چاہتی ہے کہ کسی وقت سب کو فتا کردے.كُلُّ مُنْ عَلَيْهَا فَان سب جو اس پر ہیں فنا ہو جانے والے ہیں خواہ کوئی وقت ہو.ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ وقت کب آئے گا مگر ایسا وقت ضرور آنے والا ہے.یہ اس کے آگے ایک کرشمہ قدرت ہے وہ چاہے پھر خلق جدید کر سکتا ہے تمام آسمانی کتابوں سے ظاہر ہے کہ ایسا وقت ضرور آنے والا ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 152) ہم کو اس ( خدا ) نے قرآن اور حدیث کے ذریعہ خبر دی ہے کہ ایک زمانہ اور بھی آنے والا ہے.جبکہ خدا کے ساتھ کوئی نہ ہوگا.وہ زمانہ بڑا خوفناک زمانہ ہے.چونکہ اس پر ایمان لانا ہر مومن اور مسلمان کا کام ہے.جواس پر ایمان نہیں لاتا.وہ مسلمان نہیں.کافر ہے.اور بے ایمان ہے.جس طرح سے بہشت.دوزخ.انبیاء علیہم السلام اور اور کتابوں پر ایمان لانے کا حکم ہے.ویسا ہی اس ساعت پر ایمان لانا لازم ہے.جب نفخ صور ہو کر سب نیست و نابود ہو جاویں گے یہ سنت اللہ اور عادت اللہ ہے.(رسالہ الانذار صفحہ 56-55) فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ.(الشورى: 8) اگر کوئی کہے کہ دنیا ہمیشہ رہے گی اور یہاں ہی دوزخ بہشت ہوگا ہم نہیں مان سکتے.اس کی صفت مَلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے خلاف ہے اور اس کے خلاف جا ٹھہرتا ہے.فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ - ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 448)
611 قیامت کے مجازی معانی قیامت کی خبر سننا“ کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: - اس سے مراد ہے کہ دینداروں کی فتح ہوگی اور دشمنوں کو ذلت.کیونکہ قیامت کو بھی یہی ہونا ہے.قرآن شریف میں ہے کہ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَ فَرِيقٌ فِی السَّعِيرِ یہ اسی دن ہوگا.دنیا کی رنگارنگ کی وبائیں بھی قیامت ہی ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحه 658) مامور کا زمانہ بھی ایک قیامت ہے.جیسے لوگ یوم جزا کے دن دو فریقوں میں تقسیم ہو جائیں گے یعنی فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِی السَّعِيرِ ایسے ہی مامور کی بعثت کے وقت بھی دوفریق ہو جاتے ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحه 312) کیفیت ظهور قیامت يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلَّ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَانَا أَوَّلَ خَلْقٍ تُعِيْدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَعِلِينَ.(الانبياء:105) ہم اس دن آسمانوں کو ایسا لپیٹ لیں گے جیسے ایک خط متفرق مضامین کو اپنے اندر لپیٹ لیتا ہے اور جس طرز سے ہم نے اس عالم کو وجود کی طرف حرکت دی تھی انہیں قدموں پر پھر یہ عالم عدم کی طرف لوٹایا جائے گا.یہ وعدہ ہمارے ذمہ ہے جس کو ہم کرنے والے ہیں.بخاری نے بھی اس جگہ ایک حدیث لکھی ہے جس میں جائے غور یہ لفظ ہیں.و تكُونُ السَّمَوتُ بِيَمِينِهِ یعنی لینے کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں چھپالے گا.اور جیسا کہ اب اسباب ظاہر اور مسبب پوشیدہ ہے اس وقت مسبب ظاہر اور اسباب زاویہ عدم میں چھپ جائیں گے اور ہر یک چیز اس کی طرف رجوع کر کے تجلیات قہر یہ میں مخفی ہو جائے گی اور ہر ایک چیز اپنے مکان اور مرکز کو چھوڑ دے گی اور تجلیات الہیہ اس کی جگہ لیں گی اور عمل ناقصہ کے فنا اور انعدام کے بعد علت تامہ کاملہ کا چہرہ نمودار ہو جائے گا.( آئینہ کمالات اسلام.ر.خ.جلد 5 صفحہ 154-152 حاشیہ در حاشیه ) يَوْمَ هُمُ برِزُونَ لَا يَخْفَى عَلَى اللهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ.(المومن: 17) جیسا کہ اب اسباب ظاہر اور مسبب پوشیدہ ہے اس ( دنیا کے فنا کرنے کے.ناقل ) وقت مسبب ظاہر اور اسباب زاویہ عدم میں چھپ جائیں گے اور ہر یک چیز اس کی طرف رجوع کر کے تجلیات قہر یہ میں مخفی ہو جائے گی اور ہر یک چیز اپنے مکان اور مرکز کو چھوڑ دے گی اور تجلیات الہیہ اس کی جگہ لیں گی اور علل ناقصہ کے فنا اور انعدام کے بعد علت تامہ کاملہ کا چہرہ نمودار ہو جائے گا.اسی کی طرف اشارہ ہے كُلُّ مُـنْ عَلَيْهَا فَانِ.وَيَبْقَى وَّجُهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.(الرحمن: 27-28).لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (المومن:17) یعنی خدا تعالیٰ اپنی قہری تجلی سے ہر یک چیز کو معدوم کر کے اپنی وحدانیت اور یگانگت دکھلائے گا.(آئینہ کمالات اسلام -رخ- جلد 5 صفحہ 154-153 حاشیه در حاشیه )
612 کامل جزاء بجز تجلی مالکیت تامہ کے کہ جو ہم بنیان اسباب کوستلزم ہے ظہور میں نہیں آ سکتی چنانچہ اسی کی طرف دوسری جگہ بھی اشارہ فرما کر کہا ہے.لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (المؤمن: 17) یعنی اس دن ربوبیت الہیہ بغیر توسط اسباب عادیہ کے اپنی تجلی آپ دکھائے گی اور یہی مشہود اور محسوس ہوگا کہ بجز قوت عظمی اور قدرت کاملہ حضرت باری تعالیٰ کے اور سب بیچ ہیں تب سا را آرام و سرور اور سب جزاء اور پاداش بنظر صاف وصریح خدا ہی کی طرف سے دکھلائی دے گا اور کوئی پردہ اور حجاب درمیان میں نہیں رہے گا اور کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہے گی تب جنہوں نے اس کے لئے اپنے تئیں منقطع کر لیا تھا وہ اپنے تئیں ایک کامل سعادت میں دیکھیں گے کہ جو ان کے جسم اور جان اور ظاہر اور باطن پر محیط ہو جائے گی اور کوئی حصہ وجود ان کے کا ایسا نہیں ہو گا کہ جو اس سعادت عظمی کے پانے سے بے نصیب رہا ہو.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 455-454 حاشیہ ) علامات قرب قیامت اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ.(القمر:2) تمام علامتیں قرب قیامت کی ظاہر ہو چکی ہیں اور دنیا پر ایک انقلاب عظیم آ گیا ہے اور جبکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قرب قیامت کا زمانہ ہے جیسا کہ آیت اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ سمجھا جاتا ہے تو پھر یہ زمانہ جس پر تیرہ سو برس اور گذر گیا اس کے آخری زمانہ ہونے میں کس کو کلام ہوسکتا ہے.تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 243) یہ جو کہا گیا کہ قیامت کی گھڑی کا کسی کو علم نہیں اس سے یہ مطلب نہیں کہ کسی وجہ سے بھی علم نہیں اگر یہی بات ہے تو پھر آثار قیامت جو قرآن شریف اور احادیث صحیح میں کہے گئے ہیں وہ بھی قابل قبول نہیں ہوں گے کیونکہ ان کے ذریعہ سے بھی قرب قیامت کا ایک علم حاصل ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں لکھا تھا کہ آخری زمانہ میں زمین پر بکثرت نہریں جاری ہوں گی.کتابیں بہت شائع ہوں گی جن میں اخبار بھی شامل ہیں اور اونٹ بریکار ہو جائیں گے سو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب باتیں ہمارے زمانے میں پوری ہو گئیں اور اونٹوں کی جگہ ریل کے ذریعہ سے تجارت شروع ہو گئی سو ہم نے سمجھ لیا کہ قیامت قریب ہے اور خود مدت ہوئی کہ خدا نے آیت اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ اور دوسری آیتوں میں قرب قیامت کی ہمیں خبر دے رکھی ہے.سو شریعت کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت کا وقوع ہر ایک پہلو سے پوشیدہ ہے بلکہ تمام نبی آخری زمانہ کی علامتیں لکھتے آئے ہیں اور انجیل میں بھی لکھی ہیں.پس مطلب یہ ہے کہ اس خاص گھڑی کی کس کو خبر نہیں.خدا قادر ہے کہ ہزار سال گذرنے کے بعد چند صدیاں اور بھی زیادہ کر دے.لیکچر سیالکوٹ.ر.خ.جلد 20 صفحہ 210)
613 قیامت کب آئے گی وَتَبْرَكَ الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ.(الزخرف:86) اصل قیامت کا علم تو سوائے خدا کے کسی کو بھی نہیں حتی کہ فرشتوں کو بھی نہیں اور وہاں ساعۃ کا لفظ ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ عورتوں کے حمل کی میعاد نو ماہ دس دن ہوتی ہے جب نو ماہ پورے ہو جائیں تو اب باقی دس دنوں میں کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ کونسے دن وضع حمل ہوگا.گھر کا ہر ایک آدمی بچہ جننے کی گھڑی کا منتظر رہتا ہے.اسی لئے قیامت کا نام ساعۃ رکھا ہے کہ اس ساعۃ کی خبر نہیں.خدا کی کتابوں میں جو اس کی علامات ہیں ممکن ہے کہ ان سے کوئی آدمی قریب قریب اس زمانہ کا پتہ بھی دے دے مگر اس ساعة کی کسی کو خبر نہیں ہے جیسے وضع حمل کی ساعت کی کسی کو خبر نہیں.ایک ڈاکٹر سے بھی پوچھو تو وہ بھی کہے گا نو ماہ اور دس دن.مگر جونہی 9 ماہ گذریں پھر فکر رہتی ہے کہ دیکھیں کو نسے دن ہو اور کون سی گھڑی.کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ چھ ہزار سال کے بعد قیامت قریب ہے اب چھ ہزار سال تو گذر گئے ہیں قیامت تو قریب ہوگی مگر اس گھڑی کی خبر نہیں.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 504-503) یہ بات واقعی ہے اور قرآن پاک سے بھی ثابت ہے کہ ساعۃ سے اس جگہ مراد یہودیوں کی تباہی کا زمانہ ہے یہ وہی زمانہ تھا اور جس ساعت کے یہ لوگ منتظر ہیں اس کا تو ابھی تک کہیں پتہ بھی نہیں ہے.ایک پہلو سے اول مسیح کے وقت یہودیوں نے بدبختی لے لی اور دوسرے وقت میں نصاری نے بدبختی کا حصہ لے لیا.مسلمانوں نے بھی پوری مشابہت یہود سے کر لی.اگر ان کی سلطنت یا اختیار ہوتا تو ہمارے ساتھ بھی مسیح والا معاملہ کرتے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 428-427) ظہور قیامت اور حضرت اقدس کا عقیدہ وَ الْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ.(العصر : 3-2) ہمارا عقیدہ جو قرآن شریف نے ہمیں سکھلایا ہے کہ خدا ہمیشہ سے خالق ہے اگر چاہے تو کروڑوں مرتبہ زمین و آسمان کوفتنا کر کے پھر ایسے ہی بنا دے اور اس نے ہمیں خبر دی ہے کہ وہ آدم جو پہلی امتوں کے بعد آیا جو ہم سب کا باپ تھا اس کے دنیا میں آنے کے وقت سے یہ سلسلہ انسانی شروع ہوا ہے اور اس سلسلہ کی عمر کا پورا دور سات ہزار برس تک ہے.یہ سات ہزار خدا کے نزدیک ایسے ہیں جیسے انسانوں کے سات دن.یادر ہے کہ قانون الہی نے مقرر کیا ہے کہ ہر ایک امت کے لئے سات ہزار برس کا دور ہوتا ہے اسی دور کی طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانوں میں سات دن مقرر کئے گئے ہیں.غرض بنی آدم کی عمر کا دور سات ہزار برس مقرر ہے اور اس میں سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پانچ ہزار برس کے قریب گزر چکا تھا یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہو کہ خدا کے دنوں میں سے پانچ دن کے قریب
614 گزر چکے تھے جیسا کہ سورۃ والعصر میں یعنی اس کے حروف میں ابجد کے لحاظ سے قرآن شریف میں اشارہ فرما دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جب وہ سورۃ نازل ہوئی تب آدم کے زمانہ پر اسی قدر مدت گذر چکی تھی جو سورۃ موصوفہ کے عددوں سے ظاہر ہے.اس حساب سے انسانی نوع کی عمر میں سے اب اس زمانہ میں چھ ہزار برس گذر چکے ہیں اور ایک ہزار برس باقی ہیں.قرآن شریف میں بلکہ اکثر پہلی کتابوں میں بھی یہ نوشتہ موجود ہے کہ وہ آخری مُرسل جو آدم کی صورت پر آئے گا اور مسیح کے نام سے پکارا جائے گا ضرور ہے کہ وہ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا.یہ تمام نشان ایسے ہیں کہ تدبر کرنے والے کے لئے کافی ہیں.لیکچر لاہور.رخ - جلد 20 صفحہ 185-184)
ششم 615 فہم قرآن اور ارکان اسلام حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم : بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةُ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ وَ إِقَامَ الصَّلَوةِ وَ إِيْتَاءَ الذُّكُوةِ وَالْحَجَّ وَ صَوْمَ رَمَضَان.(بخاری.کتاب الایمان)
616 فہرست مضامین عنوانات صفحہ نمبر شمار عنوانات صفحہ پہلی فصل توحید باری تعالیٰ 18 نماز رسم اور عادت کے طور پر درست نہیں 627 اور نبی اکرم ﷺ پر ایمان تیسری فصل روزه 628 // // 629 630 "/ // 631 632 " 634 635 636 نمبر شمار 1 ہمارا مذہب 2 کلمہ طیبہ کی اصل روح دوسری فصل نماز صلوۃ کے حقیقی معانی 4 نماز توحید کا عملی اقرار ہے 5 نماز جامع حسنات اور مقام ادب ہے 6 حسنات سے مراد نماز ہے 617 618 619 620 // 621 19 روزہ فرض ہے 20 | تلقین روزه 21 روزہ کی حکمت 22 روزہ کے احکام 23 روزہ کی رخصت.مرض اور سفر 24 سفر کی تعریف 25 رخصت پر عمل کرنا 26 فدیہ کے احکام 7 مسلمانوں کا زوال ترک نماز سے ہے 622 حقیقی نماز و کمال عبادت 10 | نماز کا مغز اور اصل دعا ہے 11 ذکر سے مراد نماز ہے 12 نماز سے دین اور دنیا سنور جاتی ہے 13 نماز میں لذت ہے 14 قصر نماز 15 نماز عربی زبان میں پڑھنی چاہئے 16 ارکان نماز کی حکمت 17 نا مقبول نماز // 623 624 // 625 // 626 // 627 چوتھی فصل 27 حقیقی زکوة 28 اموال پر زکوۃ 29 زیورات پر زکوة پانچویں فصل حج 30 | حج کی عبادت کی حکمت 31 حج کمال سلوک ہے زكوة 32 ممنوعات حج 33 حج کے لئے نہ جانے کی وجہ
617 پہلی فصل توحید باری تعالٰی اور نبی اکرم ﷺ پر ایمان نبی علی ہمارا مذہب زعشاق فرقان و پیغمبریم بدین آمدیم و بدین بگذریم (ترجمہ : ہم قرآن کریم اور رسول اکرم حیلہ کے عاشقوں میں ہیں.اسی پر ہم آئے ہیں اور اسی حالت میں گزر جائیں گے ) ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں.جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باریتعالی اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سید نا مولینا محمد مصطفی صل اللہ علیہ وسلم خاتم النبین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.(ازالہ اوہام.رخ- جلد 3 صفحہ 170-169) فَاعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرُ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ وَ اللهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوِيكُمُ.(محمد: 20) جیسا تم دیکھتے ہو کہ نور کے آنے سے ظلمت قائم نہیں رہ سکتی ایسا ہی جب لا اله الا اللہ کا نورانی پر توہ دل پر پڑتا ہے تو نفسانی ظلمت کے جذبات کا لمعدوم ہو جاتے ہیں.گناہ کی حقیقت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ سرکشی کی ملونی سے نفسانی جذبات کا شور و غوغا ہو جس کی متابعت کی حالت میں ایک شخص کا نام گناہ گار رکھا جاتا ہے اور لا اله الا اللہ کے معنے جو لغت عرب کے موار داستعمال سے معلوم ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ لَا مَطْلُوبَ لِی وَلَا مَحْبُوبَ لِي وَلَا مَعْبُودَ لِي وَ لَا مُطَاعَ لِي إِلَّا الله یعنی بجز اللہ کے اور کوئی میرا مطلوب نہیں اور محبوب نہیں اور معبود نہیں اور مطاع نہیں اب ظاہر ہے کہ یہ معنی گناہ کی حقیقت اور گناہ کے اصل منبع سے بالکل مخالف پڑے ہیں.پس جو شخص ان معنی کو خلوص دل کے ساتھ اپنی جان میں جگہ دے گا تو بالضرورت مفہوم مخالف اس کے دل سے نکل جائے گا کیونکہ ضدین ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں.پس جب نفسانی جذبات نکل گئے تو یہی وہ حالت ہے جس کو کچی پاکیزگی اور حقیقی راست بازی کہتے ہیں اور خدا کے بھیجے ہوئے پر ایمان لانا جو دوسرے جز کلمہ کا مفہوم ہے.اس کی ضرورت یہ ہے کہ تا خدا کے کلام پر بھی ایمان حاصل ہو جائے.کیونکہ جو شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ میں خدا کا فرمانبردار بننا چاہتا ہوں اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے فرمانوں پر ایمان بھی لاوے اور فرمان پر ایمان لا نا بجز اس کے ممکن نہیں کہ اس پر ایمان لاوے جس کے ذریعہ سے دنیا میں فرمان آیا.پس یہ حقیقت کلمہ کی ہے.( نور القرآن...خ.جلد 9 صفحہ 420-419)
618 إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا وَ جَهَدُوا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِى سَبِيلِ اللهِ أُولئِكَ هُمُ الصَّدِقُونَ.(الحجرات: 16) سوا اس کے نہیں کہ مومن وہ لوگ ہیں جو خدا اور رسول پر ایمان لائے پھر بعد اس کے ایمان پر قائم رہے اور شکوک وشبہات میں نہیں پڑے.دیکھو ان آیات میں خدا تعالیٰ نے حصر کر دیا کہ خدا کے نزدیک مومن وہی لوگ ہیں کہ جو صرف خدا پر ایمان نہیں لاتے بلکہ خدا اور رسول دونوں پر ایمان لاتے ہیں.پھر بغیر ایمان بالرسول کے نجات کیونکر ہو سکتی ہے اور بغیر رسول پر ایمان لانے کے صرف تو حید کس کام آ سکتی ہے.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 132) اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ.(البقرة : 256) یعنی وہی خدا ہے اس کے سوا کوئی نہیں وہی ہر ایک جان کی جان اور ہر ایک وجود کا سہارا ہے.اس آیت کے لفظی معنے یہ ہیں کہ زندہ وہی خدا ہے اور قائم بالذات وہی خدا ہے.پس جبکہ وہی ایک زندہ ہے اور وہی ایک قائم بالذات ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک شخص جو اس کے سوا زندہ نظر آتا ہے وہ اس کی زندگی سے زندہ ہے اور ہر ایک جو زمین یا آسمان میں قائم ہے وہ اسی کی ذات سے قائم ہے.(چشمہ معرفت.ر.خ.جلد 23 صفحہ 120) کلمہ طیبہ کی اصل روح میں نے عرض کیا کہ حضور لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ بار بار پڑھنے اور اس کے ذکر کا بھی ثواب ہے یا نہیں؟ فرمایا:.دل میں خدا تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر زیادہ تشریح طلب کرنے پر فرمایا:.اصل بات یہ ہے کہ میرا مذ ہب یہ نہیں کہ زبانی جمع خرچ کیا جاوے.ان طریقوں میں بہت سی غلطیاں ہیں ان تمام اذکار کی اصل روح اس پر عمل کرنا ہے.ایک دفعہ صحابہ کرام اللہ بآواز بلند کہہ رہے تھے تو حضرت نے فرمایا تمہارا خدا بہرہ نہیں تو مطلب یہ ہے کہ کلمہ سے مراد ہے تو حید کو قائم رکھنا اور اس کے رسول کی اطاعت.اب ثواب اس میں ہے کہ ہر بات میں اللہ کو مقدم رکھے اور اللہ پر پورا پورا ایمان لائے.اس کی صفات کے خلاف کوئی کلام کوئی کام نہ کرے حتی کہ خیال بھی نہ لائے.وہ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةً وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ (النور:38) اس سے بھی یہی مراد ہے کہ دنیا کے کاموں میں بھی میرے احکام کو نہیں بھلاتے.دیکھو اس وقت ہم ان طریقوں کی طرح ذکر نہیں کر رہے مگر حقیقت میں اسی کی عظمت وجلال کا ذکر ہے.پس یہی ذکر ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 141)
دوسری فصل 619 نماز الم.ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ.وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ.(البقرة: 5-2) نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یار رسول اللہ ہمیں نماز معاف فرما دی جائے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا ؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.نماز کیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجز و نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا.کبھی اس کی عظمت اور اس کے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدہ میں گر جانا.اس سے اپنی حاجات کا مانگتا یہی نماز ہے.ایک سائل کی طرح کبھی اس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے تو ایسا ہے.اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کر کے اس کی رحمت کو جنبش دلا نا پھر اس سے مانگنا.پس جس دین میں یہ نہیں وہ دین ہی کیا ہے.حقیقت میں جو شخص نماز کو چھوڑتا ہے وہ ایمان کو چھوڑتا ہے اس سے خدا کے ساتھ تعلقات میں فرق آ جاتا ہے.اس طرف سے فرق آیا تو معاً اس طرف سے بھی فرق آ جاتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 236-235) انسان کی خداترسی کا اندازہ کرنے کے لیے اس کے التزام نماز کو دیکھنا کافی ہے کہ کس قدر ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نماز ادا کرتا ہے اور خوف اور بیماری اور فتنہ کی حالتیں اس کو نماز سے روک نہیں سکتیں وہ بیشک خدائے تعالی پر ایک سچا ایمان رکھتا ہے مگر یہ ایمان غریبوں کو دیا گیا دولتمند اس نعمت کو پانے (ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 540) والے بہت ہی تھوڑے ہیں.صلوۃ کے حقیقی معانی ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 188) ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ.(البقرة: 42) ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوۃ میں اور دعا میں کیا فرق ہے.حدیث شریف میں آیا ہے الصلوةُ هِيَ الدُّعَاءِ.اَلصَّلَوةُ مُخُ الْعِبَادَةِ یعنی نماز ہی دعا ہے.نماز عبادت کا مغز ہے.
620 جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لیے ہو تو اس کا نام صلوۃ نہیں.لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے.اور ادب انکسار تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے.تب وہ صلوٰۃ میں ہوتا ہے.نماز توحید کا عملی اقرار ہے ( ملفوظات جلد چہارم صفحه (283) خوب یاد رکھو اور پھر یاد رکھو! کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے.نماز اور تو حید کچھ ہی ہو کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے اسی وقت بے برکت اور بے سود ہوتی ہے جب اس میں نیستی اور تذلیل کی روح اور حنیف دل نہ ہو!! سنو!وہ دعا جس کے لیے اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمُ (المومن: 61) فرمایا ہے اس کے لیے یہی کچی روح مطلوب ہے.اگر اس تضرع اور خشوع میں حقیقت کی روح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے.نماز جامع حسنات اور مقام ادب ہے ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 107) یقیناً یا درکھو کہ ہمیں اور ہر ایک طالب حق کو نماز ایسی نعمت کے ہوتے ہوئے کسی اور بدعت کی ضرورت نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی تکلیف یا ابتلا کو دیکھتے تو فوراً نماز میں کھڑے ہو جاتے تھے اور ہمارا اپنا اور ان راست بازوں کو جو پہلے ہو گزرے ہیں ان سب کا تجربہ ہے کہ نماز سے بڑھ کر خدا کی طرف لے جانے والی کوئی چیز نہیں جب انسان قیام کرتا ہے تو وہ ایک ادب کا طریق اختیار کرتا ہے ایک غلام جب اپنے آقا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ دست بستہ کھڑا ہوتا ہے پھر رکوع بھی ادب ہے جو قیام سے بڑھکر ہے اور سجدہ ادب کا انتہائی مقام ہے جب انسان اپنے آپ کو فنا کی حالت میں ڈال دیتا ہے اس وقت سجدہ میں گر پڑتا ہے افسوس ان نادانوں اور دنیا پرستوں پر جو نماز کی ترمیم کرنا چاہتے ہیں اور رکوع سجود پر اعتراض کرتے ہیں.یہ تو کمال درجہ کی خوبی کی باتیں ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جب تک انسان اس عالم سے حصہ نہ رکھتا ہو جہاں سے نماز آئی ہے....تب تک انسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں مگر جس شخص کا یقین خدا پر نہیں وہ نماز پر کس طرح یقین کر سکتا ہے نماز جامع حسنات ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 94-93 مع حاشیہ نمبر 1)
621 حسنات سے مراد نماز ہے إِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ (هود: 115) نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں.پس ان حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دعا کرے کہ وہ نماز جو صدیقوں اور محسنوں کی ہے وہ نصیب کرے.یہ جو فرمایا ہے کہ اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاتِ (هود:115) یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کو دور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ.وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں ان کی روح مردہ ہے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا اور الصلواۃ کا لفظ نہیں رکھا باوجود یکہ معنی وہی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن و جمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی روح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے.وہ نماز یقینا برائیوں کو دور کرتی ہے.ریویو آف ریلیچز جلد سوم نمبر 1 صفحہ 5) ( تفسیر حضرت اقدس سورۃ ھود جلد 5 صفحہ 57-56) جب تک انسان کامل طور پر توحید پر کار بند نہیں ہوتا.اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی...نماز کی لذت اور سرور اسے حاصل نہیں ہو سکتا.مدار اسی بات پر ہے کہ جب تک بُرے ارادے ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں انانیت اور شیخی دور ہو کر نیستی اور فروتنی نہ آئے خدا کا سچا بندہ نہیں کہلا سکتا اور عبودیت کا ملہ کے سکھانے کے لیے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے.میں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق.حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کار بند ہو جاؤ اور ایسے کار بند بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں.لملفوظات جلد اول صفحہ 108) نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو وفا اور صدق کا خیال رکھو اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہوا ہے نماز ہرگز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے اندر خودزہر ہے جیسے بیمار کو شیرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزا نہیں آتا.یہ دین کو درست کرتی ہے.اخلاق کو درست کرتی ہے دنیا کو درست کرتی ہے نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے لذات جسمانی کے لیے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں اور یہ مفت کا بہشت ہے جوا سے ملتا ہے.قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحه 592-591)
622 مسلمانوں کا زوال ترک نماز سے ہے اصل میں مسلمانوں نے جب سے نماز کو ترک کیا یا اسے دل کی تسکین آرام اور محبت سے اس کی حقیقت سے غافل ہوکر پڑھنا ترک کیا ہے تب ہی سے اسلام کی حالت بھی معرض زوال میں آئی ہے.وہ زمانہ جس میں نماز سنوار کر پڑھی جاتی تھی غور سے دیکھ لو کہ اسلام کے واسطے کیسا تھا ایک دفعہ تو اسلام نے تمام دنیا کو زیر پا کر دیا تھا.جب سے اسے ترک کیا وہ خود متروک ہو گئے ہیں.درد دل سے پڑھی ہوئی نماز ہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے ہمارا بارہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دعا کی جاتی ہے ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں کہ خدا نے اس امر کوحل اور آسان کر دیا ہوا ہوتا ہے.نماز میں کیا ہوتا ہے یہی کہ عرض کرتا ہے التجا کے ہاتھ بڑھاتا ہے اور دوسرا اس کی عرض کو اچھی طرح سنتا ہے.پھر ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے کہ جوسنتا تھا وہ بولتا ہے اور گذارش کرنے والے کو جواب دیتا ہے.نمازی کا یہی حال ہے خدا کے آگے سر بیجھ درہتا ہے اور خدا کو اپنے مصائب اور حوائج سناتا ہے پھر آخر کچی اور حقیقی نماز کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک وقت جلد آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے جواب کے واسطے بولتا اور اس کو جواب دیکر تسلی دیتا ہے.بھلا یہ بجر حقیقی نماز کے ممکن ہے؟ ہر گز نہیں.حقیقی نماز إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِي ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 189-190) اعلم ان حقيقة العبادة التي يقبلها المولى بامتنانه هي التذلل التام برؤيت عظمته وعلوشانه.والثناء عليه بمشا هدة مننه وانواع احسانه و ایثاره علی کل شئ بمحبت حضرته و تصور محامده وجماله ولمعانه و تطهيرا لجنان من وساوس الجنت نظرا الى جنانه.و من افضل العبادات ان يكون الانسان محافظا على الصلوت الخمس فى اوائل اوقاتها.و ان يجهد للحضور والذوق و الشوق وتحصيل بركاتها.مواظبا على اداء مفروضاتها و مسنوناتها.اعجاز مسیح - ر - خ - جلد 18 صفحہ 166-165) واضح ہو کہ اس عبادت کی حقیقت جسے اللہ تعالیٰ اپنے کرم و احسان سے قبول فرماتا ہے ( وہ درحقیقت چند پر مشتمل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی بلند و بالاشان کو دیکھ کر مکمل فروتنی اختیار کرنا نیز اس کی مہر بانیاں اور قسم قسم کے احسان دیکھ کر اس کی حمد و ثنا کرنا اس کی ذات سے محبت رکھتے ہوئے اور اس کی خوبیوں جمال اور نور کا تصور کرتے ہوئے اسے ہر چیز پر ترجیح دینا اور اس کی جنت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے دل کو شیطانوں کے وسوسوں امور ہے سے پاک کرنا ہے.
623 اور سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ انسان التزام کے ساتھ پانچوں نمازیں ان کے اول وقت پر ادا کرنے اور فرض اور سنتوں کی ادائیگی پر مداومت رکھتا ہو اور حضور قلب ذوق شوق اور عبادت کی برکات کے حصول میں پوری طرح کوشاں رہے.أتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَ اَقِمِ الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَ لَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ وَ اللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ.(العنكبوت:46) نماز میں لذت اور سرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا ہوتا ہے.جب تک اپنے آپ کو عدم محض یا مشابہہ بالعدم قرار دے کر جور بوبیت کا ذاتی تقاضا ہے نہ ڈال دے اس کا فیضان اور پر تو اس پر نہیں پڑتا اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ درجہ کی لذت حاصل ہوتی ہے جس سے بڑھ کر کوئی حظ نہیں ہے.اس مقام پر انسان کی روح جب ہمہ نیستی ہو جاتی ہے تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے اور ماسوی اللہ سے اسے انقطاع تام ہو جاتا ہے اس وقت خدائے تعالیٰ کی محبت اس پر گرتی ہے.اس اتصال کے وقت ان دو جوشوں سے جو اوپر کی طرف سے ربوبیت کا جوش اور نیچے کی طرف سے عبودیت کا جوش ہوتا ہے ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کا نام صلوۃ ہے جو سیات کو بھسم کر جاتی ہے اور اپنی جگہ ایک نور اور چمک چھوڑ دیتی ہے جو سالک کو راستہ کے خطرات اور مشکلات کے وقت ایک منور شمع کا کام دیتی ہے اور ہر قسم کے خش و خاشاک اور ٹھوکر کے پتھروں اور خار و خس سے جو اس کی راہ میں ہوتے ہیں آگاہ کر کے بچاتی ہے اور یہی وہ حالت ہے جبکہ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ کا اطلاق اس پر ہوتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ میں نہیں.نہیں اس کے شمع دان دل میں ایک روشن چراغ رکھا ہوا ہوتا ہے اور یہ درجہ کامل تذلیل کامل نیستی اور فروتنی اور پوری اطاعت سے حاصل ہوتا ہے پھر گناہ کا خیال اسے آ کیونکرسکتا ہے اور انکار اس میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا.فحشاء کی طرف اس کی نظر اُٹھ ہی نہیں سکتی.غرض اسے ایسی لذت ایسا سرور حاصل ہوتا ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اسے کیونکر بیان کروں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 105) کمال عبادت میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ الْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدین سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان ان صفات کو اپنے اندر لے یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ساری صفتیں سزاوار ہیں جو رَبِّ الْعَلَمِينَ ہے یعنی ہر عالم میں نطفہ میں مضغہ وغیرہ سارے عالموں میں غرض ہر عالم میں پھر رحمن ہے رحیم ہے اور مَالِكِ يَوْمِ الدِین ہے.اب اِيَّاكَ نَعْبُدُ جو کہتا ہے تو گویا اس عبادت میں وہی ربوبیت رحمانیت رحیمیت مالکیت صفات کا پر تو انسان کو اپنے اندر لینا چاہیے کمال عبد انسان کا یہ ہے کہ تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق میں رنگین ہو جاوے جب تک اس مرتبہ تک نہ پہنچ جائے نہ تھکے نہ ہارے.اس کے بعد خود ایک کشش اور جذب پیدا ہو جاتا ہے جو عبادت الہی کی طرف اسے لیے جاتا ہے.اور وہ حالت اس پر وارد ہو جاتی ہے جو يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل : 51) کی ہوتی ہے.( ملفوظات جلد اول صفحه 393)
624 جب تک انسان کامل طور پر تو حید پر کار بند نہیں ہوتا.اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی نماز کی لذت اور سرور سے حاصل نہیں ہو سکتا.مدار اسی بات پر ہے کہ جب تک بُرے ارادے نا پاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں انانیت اور شیخی دور ہو کر نیستی اور فروتنی نہ آئے خدا کا سچا بندہ نہیں کہلا سکتا اور عبودیت کاملہ کے سکھانے کے لیے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے.میں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق.حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کار بند ہو جاؤ اور ایسے کاربند بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 108) نماز کا مغز اور اصل دعا ہے نماز کیا ہے؟ ایک قسم کی دعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعام الہیہ کا مورد بنادیتی ہے.کہا گیا ہے کہ اللہ اسم اعظم ہے.اللہ تعالیٰ نے تمام صفات کو اس کے تابع رکھا ہے.اب ذرا غور کر ونماز کی ابتداء اذان سے شروع ہوتی ہے.اذان اللہ اکبر سے شروع ہوتی ہے.یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کر لا اله الا اللہ یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے.یہ فخر اسلامی عبادت ہی کو ہے کہ اس میں اول اور آخر میں اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اور.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم اور ملت میں نہیں ہے.پس نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے.ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے.اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 37) ذکر سے مراد نماز ہے الا بذكرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 29) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اس لئے فرمایا ہے أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 29) اطمینان سکینت قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.نماز سے دین اور د نیا سنور جاتی ہے ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 311) نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی نماز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بدعملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے مگر جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور جب تک انسان دعاؤں میں نہ لگار ہے اس طرح کا خشوع اور خضوع پیدا نہیں ہو سکتا اس لئے چاہیئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 403)
625 نماز میں لذت ہے نماز خواہ نخواہ کا ٹیکس نہیں بلکہ عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لیے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے اور اس میں ایک لذت رکھ دی ہے جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اگر ان کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو تو فساد ہوتا ہے ایسے ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے دروازہ بند کر کر کے دعا کرنی چاہیئے کہ وہ رشتہ قائم رہے اور لذت پیدا ہوجو تعلق عبود بیت کار بوبیت سے ہے وہ بہت گہرا اور انوار سے پُر ہے جس کی تفصیل نہیں ہو سکتی جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے.اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہو جائے تو اس چاشنی کا حصہ مل گیا لیکن جسے دو چار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمی (بنی اسرائیل : 73 ) آئندہ کے سب وعدے اسی سے وابستہ ہیں.قصر نماز ( ملفوظات جلد سوم صفحه 592) وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلوةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنَّ الْكَفِرِيْنَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا.(النساء102) فرمایا جو شخص تین دن کے واسطے یہاں آوے اس کے واسطے قصر جائز ہے.میری دانست میں جس سفر میں عزم سفر ہو پھر خواہ وہ تین چار کوس ہی کا سفر کیوں نہ ہو اس میں قصر جائز ہے.یہ ہماری سیر سفر نہیں ہے.ہاں اگر امام مقیم ہو تو اس کے پیچھے پوری ہی نماز پڑھنی پڑے گی.حکام کا دورہ سفر نہیں ہوسکتا.وہ ایسا ہے جیسے کوئی اپنے باغ کی سیر کرتا ہے.خواہ نخواہ قصر کرنے کا تو کوئی وجود نہیں.اگر دوروں کی وجہ سے انسان قصر کرنے لگے تو پھر یہ دائی قصر ہوگا.جس کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے.حکام کہاں مسافر کہلا سکتے ہیں سعدی نے بھی کہا ہے.؎ منعم بکوه و دشت و بیاباں غریب نیست هر جا که رفت خیمه زد و خواب گاه ساخت ہر کہ ( ترجمه از مرتب : - سخاوت کرنے والا انسان کبھی بے وطن نہیں ہوتا وہ جہاں بھی جاتا ہے خیمہ تان کر اپنا ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 227) گھر بنالیتا ہے.) سفر تو وہ ہے جوضرور تا گاہے گاہے ایک شخص کو پیش آوے نہ یہ کہ اس کا پیشہ ہی یہ ہو کہ آج یہاں کل وہاں اپنی تجارت کرتا پھرے.یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ ایسا آدمی آپ کو مسافروں میں شامل کر کے ساری عمر نماز قصر کرنے میں ہی گزار دے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 185) مرض کی حالت میں قصر نماز نہیں چاہئے البتہ اگر طاقت کھڑے ہونے کی نہ ہوتو بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں.( مکتوبات جلد 5 نمبر 5 صفحہ 54( مکتوب بنام حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب)
626 إِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتبًا مَّوْقُوتًا.(النساء : 104) میں طبعا اور فطرتا اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جاوے.اور نماز موقونہ کے مسئلہ کو بہت ہی عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جاوے اگر چہ شیعوں نے اور غیر مقلدوں نے اس پر بڑے بڑے مباحثے کیسے ہیں مگر ہم کو ان سے کوئی غرض نہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 45) نماز عربی زبان میں پڑھنی چاہیے نماز اپنی زبان میں نہیں پڑھنی چاہیے.خدا تعالیٰ نے جس زبان میں قرآن شریف رکھا ہے.اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے.ہاں اپنی حاجتوں کو اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے سامنے بعد مسنون طریق اور اذکار کے بیان کر سکتے ہیں ، مگر اصل زبان کو ہرگز نہیں چھوڑ نا چاہیے.عیسائیوں نے اصل زبان کو چھوڑ کر کیا پھل پایا.کچھ بھی باقی نہ رہا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 216) ارکان نماز کی حکمت ارکان نماز دراصل روحانی نشست و برخاست ہیں.انسان کو خدا تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آداب خدمتگاران میں سے ہے.رکوع جو دوسرا حصہ ہے.بتلاتا ہے کہ گویا تیاری ہے کہ وہ تعمیل حکم کوکس قدر گردن جھکاتا ہے اور سجدہ کمال آداب اور کمال تذلیل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے.یہ آداب اور طرق ہیں جو خدا تعالیٰ نے بطور یادداشت کے مقرر کر دئے ہیں اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقرر کیا ہے علاوہ ازیں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے.اب اگر ظاہری طریق میں ( جو اندرونی اور باطنی طریق کا ایک عکس ہے.صرف نقال کی طرح نقلیں اتاری جاویں اور اسے ایک بارگراں سمجھ کر اتار پھینکنے کی کوشش کی جاوے تو تم ہی بتلاؤ.اس میں کیا لذت اور حظ آ سکتا ہے اور جب تک لذت اور سرور نہ آئے اس کی حقیقت کیونکر متفق ہوگی اور یہ اس وقت ہو گا جب کہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذلل تام ہو کر آستانہ الوہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے روح بھی بولے اس وقت ایک سرور اور نوراور تسکین حاصل ہو جاتی ہے.( ملفوظات جلد اول صفحه 105-104) (نمازوں میں تعداد رکعات کے متعلق فرمایا.) اس میں اللہ تعالیٰ نے اور اسرار رکھے ہیں جو شخص نماز پڑھے گا وہ کسی نہ کسی حد پر تو آخر ر ہے گا ہی اور اسی طرح پر ذکر میں بھی ایک حد تو ہوتی ہے لیکن وہ حدوہی کیفیت اور ذوق و شوق ہوتا ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے جب وہ پیدا ہو جاتی ہے تو وہ بس کر جاتا ہے.دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے.اصل غرض ذکر الہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے اس طریق پر وہ گنا ہوں سے بچارہے گا.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 15)
627 نا مقبول نماز فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ.الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ.(الماعون: 6-5) کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ تمھیں تمہیں برس تک برابر نماز پڑھتے ہیں پھر کورے کے کورے ہی رہتے ہیں کوئی اثر روحانیت اور خشوع و خضوع کا ان میں پیدا نہیں ہوتا.اس کا یہی سبب ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں جس پر خدا تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے.ایسی نمازوں کے لئے ویل آیا ہے.دیکھو جس کے پاس اعلیٰ درجہ کا جو ہر ہوتو کیا کوڑیوں اور پیسوں کے لئے اسے پھینک دینا چاہیئے.ہر گز نہیں.اول اس جوہر کی حفاظت کا اہتمام کرے اور پھر پیسوں کو بھی سنبھالے.اس لئے نماز کو سنوار سنوار اور سمجھ سمجھ کر پڑھے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 346) قرآن شریف تقوی ہی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی اس کی علت غائی ہے اگر انسان تقوی اختیار نہ کرے تو اس کی نمازیں بھی بے فائدہ اور دوزخ کی کلید ہوسکتی ہیں چنانچہ اس کی طرف اشارہ کر کے سعدی کہتا ہے کلید در دوزخ است ان نماز که در چشم مردم گزاری دراز (ترجمہ:- دوزخ میں داخل ہونے کی چابی ایسی نماز ہے جو لوگوں کو دکھانے کے لئے لمبی لمبی پڑھی جائے ) ( ملفوظات جلد دوم صفحه 391-390) نماز رسم اور عادت کے طور پر درست نہیں خدا کا یہی منشاء ہے کہ لفظی اور زبانی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنایا جاوے.یہودی کیا توریت پر ایمان نہیں لاتے تھے؟ قربانیاں نہ کرتے تھے ؟ مگر خدا تعالیٰ نے ان پر لعنت بھیجی اور کہا کہ تم مومن نہیں ہو.بلکہ بعض نمازیوں کی نماز پر بھی لعنت بھیجی ہے.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ.(الماعون: 5,6) یعنی لعنت ہے ایسے نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں صلوۃ اصل میں آگ میں پڑنے اور محبت الہی اور خوف الہی کی آگ میں پڑ کر اپنے آپ سے جل جانے اور ماسوی اللہ کو جلا دینے کا نام ہے اور اس حالت کا نام ہے کہ صرف خدا ہی خدا اس کی نظر میں رہ جاوے اور انسان اس حالت تک ترقی کر جاوے کہ خدا کے بلانے سے بولے اور خدا کے چلانے سے چلے.اس کے کل حرکات اور سکنات اس کا فعل اور ترک فعل سب اللہ ہی کی مرضی کے مطابق ہو جاوےخودی دور ہو جاوے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 590)
تیسری فصل 628 روزه يَأَيُّهَا الَّذِينَا مَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.(البقرة : 184) جو تم میں سے مریض یا سفر پر ہو وہ اتنے روزے اور رکھ لے.(شہادت القرآن.ر-خ- جلد 6 صفحہ 331) روزہ فرض ہے تلقین روز و كُتب سے فرضی روزے مراد ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 147) میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی یہ مبارک دن ہیں اور اللہ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 440-439) روزہ کی حکمت تیسری بات جو اسلام کا رکن ہے وہ روزہ ہے روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے.روزہ اتناہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے.انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قو تیں بڑھتی ہیں.خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کوکم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ.ہمیشہ روزہ دار کو یہ مد نظر رکھنا چاہیئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو.پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کے لیے تسلی اور سیری کا باعث ہے.اور جولوگ محض خدا کے لیے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور نبی اور تہلیل میں لگے رہیں.جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 102) روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں.روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے.نماز سے ایک سوز وگداز پیدا ہوتی ہے.اس واسطے وہ افضل ہے.روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں.مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جو گیوں میں بھی پیدا ہو سکتی ہے.لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پیدا ہوتی ہے.اس میں کوئی شامل نہیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 293-292)
629 روزہ کے احکام ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں فرمایا اسی طرح ایک اور سوال پیش ہوا کہ حالت روزہ میں سر کو یا ڈاڑھی کو تیل لگا نا جائز ہے یا نہیں.جائز ہے.فرمایا: جائز ہے.فرمایا: جائز ہے.سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبولگا نا جائز ہے یا نہیں.سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے.فرمایا: مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے.رات کو سرمہ لگا سکتا ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 136-135 ) فرمایا کہ بے خبری میں کھایا پیا تو اس پر اس روزہ کے بدلے میں دوسرار وزہ لازم نہیں آیا.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 147) ایک شخص کا حضرت کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں.فرما یاضروری نہیں ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 168) اسی شخص کا سوال پیش ہوا کہ محرم کے پہلے دس دن کا روزہ رکھنا ضروی ہے کہ نہیں؟“ فرمایا.ضروری نہیں ہے.“ ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میں مکان کے اندر بیٹھا ہوا تھا اور میرا یقین تھا کہ ہنوز روزہ رکھنے کا وقت ہے اور میں نے کچھ کھا کر روزہ کی نیت کی.مگر بعد میں ایک دوسرے شخص سے معلوم ہوا کہ اس وقت سفیدی ظاہر ہو گئی تھی.اب میں کیا کروں حضرت نے فرمایا کہ ایسی حالت میں اس کا روزہ ہو گیا.دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنی طرف سے اس کی احتیاط کی اور نیت میں فرق نہیں صرف غلطی لگ گئی اور چند منٹوں کا فرق پڑ گیا.( بدر جلد 6 صفحه 147 فروری 1905 صفحہ 18 ) ( تفسير سورة البقرة صفحه 259)
630 روزہ کی رخصت.مرض اور سفر أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْعَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ اُخَرَ وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.(البقرة: 185) یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے اس میں امر ہے یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ جس کا اختیار ہو رکھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہیئے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں اس لیے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی ہرج نہیں مگر عدة من ايام اخر کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہئے..سفر میں تکالیف اٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا یہ غلطی ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے.سفر کی تعریف ( ملفوظات جلد اول صفحه 193) میرا مذ ہب یہ ہے کہ انسان بہت وقتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے.عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں خواہ وہ دو تین کوس ہی ہو اس میں قصر وسفر کے مسائل پر عمل کرنے إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں مگر کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھڑی اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتا ہے.شریعت کی بنادوقت پر نہیں ہے جس کو تم عرف میں سفر سمجھو وہی سفر ہے اور جیسا کہ خدا کے فرائص پر عمل کیا جاتا ہے ویسا ہی اس کی رخصتوں پر عمل کرنا چاہیئے فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اور رخصت بھی خدا کی طرف سے.رخصت پر عمل کرنا ( ملفوظات جلد اول صفحہ 446) اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لیے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہیئے میں نے پڑھا ہے کہ اکثرا کا براس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرماں برداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے.اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے.اس نے تو یہی حکم دیا ہے فَمَنْ كَانَ مِنْكُمُ مَّرِيضًا أَوْعَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَر.اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 68-67) چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا.
631 جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے.مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے.خدا کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیئے.کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا.کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو.بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے.مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے.تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 321) فدیہ کے احکام وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ کی نسبت فرمایا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 297) اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بنا آسانی پر رکھی ہے جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہوں ان کو چاہیئے.کہ روزہ کی بجائے فدیہ دیدیں.فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 321) صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے.جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے.ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پا کر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں.صرف فدیہ کا خیال کرتا اباحت کا دروازہ کھول دنیا ہے.جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں.اس طرح سے خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ میرے راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جاوے گی.فرمایا.خدا تعالیٰ نے دین اسلام میں پانچ مجاہدات مقرر فرمائے ہیں.نماز روزہ.زکوۃ صدقات.حج.اسلامی دشمن کا ذب اور دفع خواہ سیفی ہو.خواہ قلمی.یہ پانچ مجاہدے قرآن شریف سے ثابت ہیں مسلمانوں کو چاہیئے کہ ان میں کوشش کریں اور ان کی پابندی کریں.یہ روزے تو سال میں ایک ماہ کے ہیں.بعض اہل اللہ تو نوافل کے طور پر اکثر روزے رکھتے رہتے ہیں اور ان میں مجاہدہ کرتے.ہاں دائگی روزے رکھنا منع ہیں یعنی ایسا نہیں چاہیئے کہ آدمی ہمیشہ روزے ہی رکھتا ہے بلکہ ایسا کرنا چاہئے کہ نفلی روزہ کبھی رکھے اور کبھی چھوڑ دے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 322) وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنَ) ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ یہ فدیہ کس لیے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ تو فیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی تو فیق اس سے حاصل ہو خدا ہی کی ذات ہے جو تو فیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا ہی سے طلب کرنی چاہیئے خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جاوے اور یہ خدا کے فضل سے ہوتا ہے پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان) دعا کرے کہ الہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کرسکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا طاقت بخش دے گا.( ملفوظات جلد دوم صفحه 563)
632 چوتھی فصل زكوة وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكَوةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّكِعِينَ.(البقرة:44) ہر ایک جوز کوۃ کے لایق ہے وہ زکوۃ دے.(کشتی نوح.ر.خ.جلد 19 صفحہ 15) حقیقی زکوة بہت سے لوگ زکوۃ دیتے ہیں.مگر وہ اتنا بھی نہیں سوچتے اور سمجھتے کہ یہ کس کی زکوۃ ہے اگر کتے کو ذبح کر دیا جاوے یا سور کو ذبح کر ڈالو تو وہ صرف ذبح کرنے سے حلال نہیں ہو جائے گا.زکوۃ تزکیہ سے نکلی ہے مال کو پاک کرو.اور پھر اس میں سے زکوۃ دو.جو اس میں سے دیتا ہے.اس کا صدق قائم ہے لیکن جو حلال وحرام کی تمیز نہیں کرتا وہ اس کے اصل مفہوم سے دور پڑا ہوا ہے اس قسم کی غلطیوں سے دست بردار ہونا چاہیئے اور ان ارکان کی حقیقت کو بخوبی سمجھ لینا چاہیئے تب یہ ارکان نجات دیتے ہیں ورنہ نہیں اور انسان کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے یقینا سمجھوکہ فخر کرنے کی کوئی چیز نہیں ہے اور خدا تعالیٰ کا کوئی نفسی یا آفاقی شریک نہ ٹھیراو اور اعمال صالح بجالاؤ.مال سے محبت نہ کرو.اموال برزکوة ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 103) ایک صاحب نے دریافت کی کہ تجارت کا مال جو ہے جس میں بہت سا حصہ خریداروں کی طرف ہوتا ہے اور اگراہی میں پڑا ہوتا ہے اس پر زکوۃ ہے یا نہیں.فرمایا جو مال معلق ہے اس پر زکوۃ نہیں جب تک کہ اپنے قبضہ میں نہ آ جائے لیکن تاجر کو چاہیئے کہ حیلہ بہانے سے زکوۃ کو نہ ٹال دے.آخر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اخراجات بھی تو اسی مال میں سے برداشت کرتا ہے.تقویٰ کے ساتھ اپنے مال موجودہ اور معلق پر نگاہ ڈالے اور مناسب زکوۃ دیکر خدا تعالیٰ کو خوش کرتا رہے.بعض لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی حیلے بہانے کرتے ہیں.یہ درست نہیں ہے.اس سوال کے جواب میں کہ جو روپیہ قرض کسی کو دیا گیا ہے اس پر زکوۃ ہے؟ فرمایا.”نہیں“ زیورات پر زکوة ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 234) ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 153) جوز یور استعمال میں آتا ہے اور مثلاً کوئی بیاہ شادی پر مانگ کر لے جاتا ہے تو دید یا جاوے وہ زکوۃ سے ے ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 206 )
633 زیورات کی نسبت جو آپ نے دریافت کیا ہے.یہ اختلافی مسئلہ ہے.مگر اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ جوزیور مستعمل ہو اس کی زکوۃ نہیں ہے.مگر بہتر ہے کہ دوسرے کو عاریتاً کبھی دیدیا کریں مثلاً دو تین روز کے لیے کسی عورت کو اگر عاریتا پہننے کے لیے دیدیا جائے تو پھر بالا تفاق ساقط ہو جاتی ہے.( مکتوبات جلد پنجم صفحہ 55 مکتوب نمبر 13/5 بنام منشی حبیب الرحمان صاحب) عزیز و! یہ دین کے لیے اور دین کی اغراض کے لیے خدمت کا وقت ہے اس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا چاہیئے کہ زکوۃ دینے والا اسی جگہ اپنی زکوۃ بھیجے اور ہر ایک شخص فضولیوں سے اپنے تئیں بچاوے اور اس راہ میں وہ روپیہ لگاوے اور بہر حال صدق دکھاوے تافضل اور روح القدس کا انعام پاوے کیونکہ یہ انعام ان لوگوں کے لیے تیار ہے جو اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.(کشتی نوح.ر.خ.جلد 19 صفحہ 83) اگر میری جماعت میں ایسے احباب ہوں جو ان پر بوجہ املاک و اموال وزیورات وغیرہ کے زکوۃ فرض ہو تو ان کو سمجھنا چاہیئے کہ اس وقت دین اسلام جیسا غریب اور یتیم اور بے کس کوئی بھی نہیں اور زکوۃ نہ دینے میں جس قدر تہدید شرع وارد ہے وہ بھی ظاہر ہے.اور عنقریب ہے جو منکر زکوۃ کا فر ہو جائے.پس فرض عین ہے.جواسی راہ میں اعانت اسلام میں زکوۃ دی جاوے.زکوۃ میں کتابیں خریدی جائیں اور مفت تقسیم کی جائیں.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه (325)
634 پانچویں فصل حج فيه ايتٌ بَيْنَتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهُ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِيْنَ.(ال عمران :98) حج کی عبادت کی حکمت ( ملفوظات جلد دوم صفحه 225) اسلام نے محبت کی حالت کے اظہار کے لیے حج رکھا ہے خوف کے جس قدر ارکان ہیں وہ نماز کے ارکان سے بخوبی واضح ہیں کہ کس قدر تذلل اور اقرار عبودیت اس میں موجود ہے اور حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں بعض وقت شدت محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی.عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے کپڑوں کو سنوار کر رکھنا یہ عشق میں نہیں رہتا.سیالکوٹ میں ایک عورت ایک درزی پر عاشق تھی اسے بہتیرا پکڑ کر رکھتے تھے وہ کپڑے پھاڑ کر چلی آتی تھی غرض یہ نمونہ جو انتہائے محبت کا لباس میں ہوتا ہے وہ حج میں موجود ہے.سرمنڈا یا جاتا ہے.دوڑتے ہیں محبت کا بوسہ رہ گیا وہ بھی ہے جو خدا کی ساری شریعتوں میں تصویری زبان میں چلا آیا ہے پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے.جسمانی افعال کا روح پر اثر پڑتا ہے اور روحانی افعال کا جسم پر اثر پڑتا ہے.پس ایسا ہی عبادت کی دوسری قسم میں بھی جو محبت اور ایثار ہے انہیں تاثیرات کا جسم اور روح میں عوض معاوضہ ہے.محبت کے عالم میں انسانی روح ہر وقت اپنے محبوب کے گرد گھومتی ہے اور اس کے آستانہ کو بوسہ دیتی ہے ایسا ہی خانہ کعبہ جسمانی طور پر محبان صادق کے لیے ایک نمونہ دیا گیا ہے اور خدا نے فرمایا کہ دیکھو یہ میرا گھر ہے اور یہ حجر اسود میرے آستانہ کا پتھر ہے اور ایسا حکم اس لیے دیا کہ تا انسان جسمانی طور پر اپنے ولولہ عشق اور محبت کو ظاہر کرے.سو حج کرنے والے حج کے مقام میں جسمانی طور پر اس گھر کے گردگھومتے ہیں ایسی صورتیں بنا کر کہ گویا خدا کی محبت میں دیوانہ اور مست ہیں زینت دور کر دیتے ہیں سرمنڈوا دیتے ہیں اور مجز وبوں کی شکل بنا کر اس کے گھر کے گرد عاشقانہ طواف کرتے ہیں اور اس پتھر کو خدا کے آستانہ کا پتھر تصور کر کے بوسہ دیتے ہیں اور یہ جسمانی ولولہ روحانی تپش اور محبت کو پیدا کر دیتا ہے اور جسم اس گھر کے گرد طواف کرتا ہے اور سنگ آستانہ کو چومتا ہے اور روح اس وقت محبوب حقیقی کے گرد طواف کرتی ہے اور اس کے روحانی آستانہ کو چومتا ہے اور اس طریق میں کوئی شرک نہیں.ایک دوست ایک دوست جانی کا خط پا کر بھی اس کو چومتا ہے کوئی مسلمان خانہ کعبہ کی پرستش نہیں کرتا اور نہ احجر اسود سے مرادیں مانگتا ہے بلکہ صرف خدا کا قرار دادہ ایک جسمانی نمونہ سمجھا جاتا ہے ویس.جس طرح ہم زمین پر سجدہ کرتے ہیں مگر وہ سجدہ زمین کے لیے نہیں ایسا ہی ہم حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں مگر وہ بوسہ اس پتھر کے لیے نہیں پتھر تو پتھر ہے جو نہ کسی کو نفع دے سکتا ہے نہ نقصان مگر اس محبوب کے ہاتھ کا ہے.جس نے اس کو اپنے آستانہ کونمونہ ٹھیرایا.(چشمہ معرفت-ر-خ- جلد 23 صفحہ 101-100)
635 حج کمال سلوک ہے حج سے صرف اتنا ہی مطلب نہیں کہ ایک شخص گھر سے نکلے اور سمندر چیر کر چلا جاوے اور رسمی طور پر کچھ لفظ منہ سے بول کر ایک رسم ادا کر کے چلا آوے اصل بات یہ ہے کہ حج ایک اعلیٰ درجہ کی چیز ہے جو کمال سلوک کا آخری مرحلہ ہے سمجھنا چاہیئے کہ انسان کا اپنے نفس سے انقطاع کا یہ حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی محبت میں کھویا جاوے اور تعشق باللہ اور محبت الہی ایسی پیدا ہو جاوے کہ اس کے مقابلہ میں نہ اسے کسی سفر کی تکلیف ہو اور نہ جان و مال کی پروا ہو نہ عزیز واقارب سے جدائی کا فکر ہو.جیسے عاشق اور محبت اپنے محبوب پر جان قربان کرنے کو طیار ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی کرنے سے دریغ نہ کرے اس کا نمونہ حج میں رکھا ہے جیسے عاشق اپنے محبوب کے گرد طواف کرتا ہے اسی طرح حج میں بھی طواف رکھا ہے یہ ایک باریک نکتہ ہے جیسا بیت اللہ ہے ایک اس سے بھی اوپر ہے جب تک اس کا طواف نہ کرو یہ طواف مفید نہیں اور ثواب نہیں.اس کے طواف کرنے والوں کی بھی یہی حالت ہونی چاہیئے جو یہاں دیکھتے جو کہ ایک مختصر سا کپڑا رکھ لیتے ہیں اسی طرح اس کا طواف کرنے والوں کو چاہیئے کہ دنیا کے کپڑے اتار کر فروتنی اور انکساری اختیار کرے اور عاشقانہ رنگ میں پھر طواف کرے.طواف عشق الہی کی نشانی ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ گویا مرضات اللہ ہی کے گردطواف کرنا چاہیئے.اور کوئی غرض باقی نہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 103-102) ممنوعات حج حج کا مانع صرف زادراہ نہیں اور بہت سے امور ہیں جو عند اللہ حج نہ کرنے کے لیے عذر صحیح ہیں.چنانچہ ان میں سے صحت کی حالت میں کچھ نقصان ہوتا ہے.اور نیز ان میں سے وہ صورت ہے کہ جب راہ میں یا خود مکہ میں امن کی صورت نہ ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا.(ال عمران: 98) (ایام اصلح.ر.خ.جلد 14 صفحہ 415) ایک حج کے ارادہ کرنے والے کے لیے اگر یہ بات پیش آ جائے.کہ وہ اس مسیح موعود کو دیکھ لے جس کا تیرہ سو برس سے اہل اسلام میں انتظار ہے.تو بموجب نص صریح قرآن اور احادیث کے وہ بغیر اس کی اجازت کے حج کو نہیں جاسکتا ہاں باجازت اس کے دوسرے وقت میں جاسکتا ہے.( تذکرۃ الشہادتین - ر - خ - جلد 20 صفحہ 49) اصل میں جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں ان کی خدمت میں دین سیکھنے کے واسطے جانا بھی ایک طرح کا حج ہی ہے.حج بھی خدا تعالیٰ کے حکم کی پابندی ہے اور ہم بھی تو اس کے دین اور اس کے گھر یعنی خانہ کعبہ کی حفاظت کے واسطے آئے ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحه 122)
636 حج کے لئے نہ جانے کی وجہ ایک شخص نے عرض کی کہ مخالف موادی اعتراض کرتے ہیں کہ فرمایا: - مرزا صاحب حج کو کیوں نہیں جاتے؟ یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مدینہ میں رہے.صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا.حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے.لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو.وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں.جب وحشی طبع علماء اس جگہ ہم پر قتل کا فتویٰ لگارہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے لیکن ان لوگوں کو اس امر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے.کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے؟ اچھا یہ تمام مسلمان علماء اوّل ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر تو بہ کر کے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے.اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تا کہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو.ناحق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے.یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صرف آخری سال میں حج کیا تھا.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 248)
637 فہم قرآن کے علمی لوازمات ( شرائط) عربی زبان کا علم نہم قرآن کی کنجی ہے هذا شرط بینی و بینکم فسنوا انفسكم.ثم انتم تعلمون ان فضيلة العلماء باللسان العربية.و هي المفتاح لفتح اسرار العلوم الدينية.و هي مدار فهم المعارف الفرقانية.و الذى ليس مــن نـحـارير الادباء.و لاكمثل نوابغ الشعراء.فلايمكن ان يكون من فحول الفقهاء.و الـراســخـيـن فـي الشريعة الغراء او من العارفين الفقراء.بل هو كالانعام.و احد من العوام و الجاهلين.ترجمہ:.یہ میرے اور تمہارے درمیان شرط ہے.پس اپنے آپ کو بلند کرو.پھر تم یہ بھی جانتے ہو کہ علماء کی فضیلت عربی زبان سے وابستہ ہے اور یہ ( زبان ) دینی علوم کے رموز کھولنے کی ایک کنجی اور معارف قرآنی کو سمجھنے کے لئے ایک مدار ہے.جو شخص ماہرین علم ادب میں سے نہیں اور نہ ہی وہ نابغہ روزگار شعراء جیسا ہے تو ایسے شخص کے لئے ممکن نہیں کہ اس کا فقہاء کے مردان کرمیں اور شریعت غزاء میں راسخ علم رکھنے والوں میں یا صاحبانِ عرفان فقراء میں شمار ہو.بلکہ وہ شخص تو چو پاؤں جیسا ہے اور جاہل عوام الناس میں سے ہے.انجام انتقم - ر- خ - جلد 11 صفحہ 265)
638
639 نمبر شمار عنوانات فہرست مضامین صفحہ نمبر شمار عنوانات پہلی فصل عربی زبان کی اہمیت 16 ماضی.مضارع کے معنوں پر بھی 641 // آجاتی ہے 17 | ہر مقام پر نون ثقیلہ استقبال کے معنوں 1 | عربی الہامی زبان ہے عربی دینی معارف کی زبان ہے عربی زبان کا علم ہم قرآن کی کنجی ہے 642 یر مستعمل نہیں ہوتا عربی زبان حب رسول اور حب قرآن کے لئے ایک معیار ہے دوسری فصل لغات قرآن 643 چوتھی فصل 18 فہم قرآن اور حساب جمل 19 معانی قرآن حقیقی اور مجازی صفحہ 661 662 665 666 5 زبان کا حقیقی مالک خدا تعالیٰ ہے اور اس کا 20 قرآن کریم میں مجاز اور استعارات 668 رسول ہے لغت کا احاطہ کرنا معجزات انبیاء میں سے ہے 7 لغات قرآن کے ماخذ 645 646 647 قرآن اپنی لغت خود متعین کرتا ہے 649 9 قرآن کا محاورہ 650 21 عہد نامہ قدیم وجدید میں استعارات کا استعمال اور یہود کا ابتلاء 22 | حقیقت واستعاره 23 الہام وحی رویاء و کشوف پر اکثر استعارات غالب ہوتے ہیں // 669 671 672 674 10 لغت قرآن اور حدیث شریف 11 لغت عربی کے مفردات کا علم 12 | ادب جاہلیہ اور لغت قرآن 13 لغات قرآن.چند مثالیں تیسری فصل // 651 652 653 24 کلام الہی میں استعارات 25 | مجاز.استعارہ اور کلام انبیاء 26 قرآن کریم کے مجازی معانی کی ضرورت الفاظ کے معنی وسیع کرنے کے لئے 675 27 بیان کی وضاحت کی غرض سے 676 28 | مجازی معانی اختیار کرنے کے لئے قرآن کریم کی گرائمر اور صرف و نحو قرینہ کا قیام ضروری ہے 677 29 مجازی معانی.یعنی استعارہ اور تشبیہ کی 14 اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول انسانی صرف نحو کا تابع نہیں 658 تعریف اور حدود 15 قرآن کریم میں اکثر اوقات واحد متکلم 30 خدا تعالیٰ کی ذات وصفات اور ان کی سے جمع متکلم مراد ہوتی ہے مت 660 شي حدود 678 680
مبر شمار عنوانات 31 قرآنی مجاز کے چندا مثال 32 آخری زمانے کی علامات 33 عرش کی حقیقت 34 قرآنی بہشت کی حقیقت 35 آسمان کے متعدد معانی 36 مقام ابراہیم کے معانی 640 صفحہ نمبر شمار 680 681 682 683 // 684 عنوانات صفحہ 53 قرآن کریم میں رسول کا لفظ عام ہے 695 54 انسان کی زمین سے تشبیہ 55 زمین سے مراد انسان اور انسان کا دل ہے 1696 56 زنجیروں سے مراد دنیا میں گرفتار انسان ہے 57 ستارے اور ان کے گرنے سے مراد علماء ربانی ختم ہو جانا ہے 58 ظلوم جبول کے معانی 698 // 699 37 الہام اور وحی اور قرآن کریم کو پانی سے مشابہت 685 59 ضلالت کے معانی 38 انبیاء کی آمد کو قرناء (صور) سے مشابہت 686 39 انبیاء من حیث الظل باقی رکھے جاتے ہیں 687 60 کتاب سے مراد فہیم کتاب اور قابل تقلید 40 آنحضرت ﷺ کا مقام // // 41 انبیاء کی چراغ اور نور سے مشابہت 42 امانت سے مراد عشق الہی اور انسانی قومی 689 43 امت کی مثال عورت سے // عمدہ باتیں ہیں 61 کرسی سے مراد عظمت باری تعالیٰ سے // 62 لفظ کلمہ سے مراد عام ارواح اور ارواح طیبہ 700 63 لباس تقوی کے معنوں میں.اور دل 44 پاک کلمات کی درختوں سے مشابہت 690 کے معنوں میں 45 ایمان کی باغ کے ساتھ تشبیہ اعمال کی نہر اور پانی کے ساتھ تشبیہ 691 64 مہدی خدا تعالیٰ ہی سے علم دین حاصل کرنے والا ہوتا ہے 46 پلید کلمہ کی خبیث درخت سے مشابہت " 65 موت کے معانی 701 // 47 انبیاء کی بعثت کی بارش سے تشبیہ 48 پہاڑ سے مراد مشکلات ہیں 692 693 66 موت وحیات سے مراد.روحانی موت اور زندگی.کامیابی اور نا کامی بھی ہے 702 49 خلق کے معانی.حضرت عیسی کا خلق 67 مغضوب اور ضال.یہودی اور عیسائی 1703 حقیقی نہیں تھا 68 مومن اور کافر کی مثال 50 خدا کے ہاتھ سے مراد اس کے قادرانہ 69 بے سایہ درخت یعنی ناقص دین تصرفات ہیں 51 دین کو تجارت سے تشبیہ // 694 704 705 70 نذیر لفظ کی علامت عذاب کا نازل ہونا ہے // 71 قرآن میں روح القدس کا نام نور ہے 52 رات دن سے انتشار ضلالت اور انتشار 72 قرآن میں آنحضرت کا نام نور اللہ اور ہدایت مراد ہے // سراج منیر ہے 706
641 پہلی فصل عربی الہامی زبان ہے عربی زبان کی اہمیت یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ یہ زبان نہ صرف ام الالسنہ ہے بلکہ الہی زبان ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص ارادہ اور الہام سے پہلے انسان کو سکھائی گئی اور کسی انسان کی ایجاد نہیں اور پھر اس بات کا نتیجہ کہ تمام زبانوں میں سے الہامی زبان صرف عربی ہی ہے یہ مانا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی اکمل اور اتم وحی نازل ہونے کے لئے صرف عربی زبان ہی مناسبت رکھتی ہے کیونکہ یہ نہایت ضروری ہے کہ کتاب الہی جو تمام قوموں کی ہدایت کے لئے آئی ہے وہ الہامی زبان میں ہی نازل ہو اور ایسی زبان میں ہو جو ام الالسنہ ہوتا اس کو ہر یک زبان اور اہل زبان سے ایک فطری مناسبت ہو اور تا وہ الہامی زبان ہونے کی وجہ سے وہ برکات اپنے اندر رکھتی ہو جو اُن چیزوں میں ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے مبارک من الرحمن - ر - خ - جلد 9 صفحہ 129 ) ہاتھ سے نکلتی ہیں.جس ذات کامل نے انسان اور اس کے خیالات کو پیدا کیا اسی نے ان خیالات کے ادا کرنے کے لئے قدیم سے وہ مفردات بھی پیدا کر دیئے اور ہمارا دلی انصاف اس بات کے قبول کرنے کے لئے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اگر یہ خصوصیت کسی زبان میں پائی جائے کہ وہ زبان انسانی خیالات کے قدوقامت کے موافق مفردات کا خوبصورت پیرا یہ اپنے اندر طیار رکھتی ہے اور ہر یک بار یک فرق جو افعال میں پایا جاتا ہے وہی بار یک فرق اقوال کے ذریعہ سے دکھاتی ہے اور اس کے مفردات خیالات کے تمام حاجتوں کے متکفل ہیں تو وہ زبان بلاشبہ الہامی ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے جو اس نے انسان کو ہزارہا طور کے خیالات ظاہر کرنے کے لئے مستعد پیدا کیا ہے.پس ضرور تھا کہ انہیں خیالات کے اندازہ کے موافق اس کو ذخیرہ قولی مفردات بھی دیا جاتا تا خدا تعالیٰ کا قول اور فعل ایک من الرحمن...خ.جلد 9 صفحہ 141) ہی مرتبہ پر ہو.عربی دینی معارف کی زبان ہے و من اجلى البديهيات ان الشريعة الكبرى الابدية و الملة المحيطة الكاملة.تقتضى ان تنزل بلسان تكون اكمل الالسنة و اوسع الادعية و لا سيما شريعة جاء ت بكتاب فيه اعجاز البلاغة والفصاحة.و هو يطلب عبارات من مثله من جميع الالسن و كافة البرية.فانت تعلم ان هذا الاعجاز تحتاج الى كمال اللسان ويقتضى ان يكون ظرفها و سيعاً كمثل قوى الانسان.فان اللسان كدعاء لمتاع البيان و كصدف لدرر العرفان.فلو فرضنا ان لسانا اخرى اكمل من العربية.فلزمنا ان نقرانها اسبق منها في ميادين البلاغة.و انسب لحسن اداء المعارف الدينية.فكان الله اخطاء نی ترکه ایاه و انزاله القران فى هذه اللهجة الناقصة.فتب ايها المسكين و لا تتبع اهواء النفس المارة.انجام آھم ر.خ.جلد 11 صفحہ 260 حاشیہ)
642 ترجمہ :.نیز یہ امر اعلیٰ بدیہات میں سے ہے کہ ایک ابدی شریعت کبری اور ساری دنیا پر محیط امت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ (شریعت) تمام زبانوں سے اکمل زبان میں نازل ہو اور وہ وسیع الظرف ہو.خصوصاً وہ شریعت جس نے ایک ایسی کتاب کو پیش کیا جس میں بلاغت و فصاحت اعجاز موجود ہے.اور وہ سب زبانوں اور تمام جہاں سے اپنی عبارتوں کی نظیر پیش کرنے کا مطالبہ کرتی ہے.سو تو جانتا ہے کہ یہ اعجاز زبان کے کمال کا محتاج ہوتا ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ اس کا ظرف ویسا ہی وسیع ہو جیسا انسانی قومی کا.زبان متاع بیان کے لئے ایک برتن اور عرفان کے موتیوں کے لئے ایک صدف کی مانند ہوتی ہے.پس اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ دوسری زبان عربی زبان سے زیادہ کامل ہے تو اس سے لازماً ہمیں یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ زبان بلاغت کے جملہ میدانوں میں اس زبان سے آگے بڑھی ہوئی ہے اور وہ معارف دینیہ کی حسن ادا ئیگی میں زیادہ انسب واولی ہے.اس طرح گویا ( نعوذ باللہ ) اللہ نے اس افضل زبان کو تو چھوڑ دیا اور قرآن کو اس ناقص زبان میں نازل کر دیا سواے بھولے مسکین ! توبہ کر اور نفس امارہ کی خواہشات کی پیروی نہ کر.عربی زبان کا علم فہم قرآن کی کنجی ہے هذا شرط بینی و بینکم.فسنوا انفسكم.ثم انتم تعلمون ان فضيلة العلماء باللسان العربية.وهي المفتاح لفتح اسرار العلوم الدينية.وهي مدار فهم المعارف الفرقانية.و الذى ليس من نحارير الادباء و لاكمثل نوابغ الشعراء فلايمكن ان يكون من فحول الفقهاء.و الراسخين في الشريعة الغراء او من العارفين الفقراء.بل هو كالانعام.واحد من العوام و الجاهلين.ترجمہ :- یہ میرے اور تمہارے درمیان شرط ہے.پس اپنے آپ کو بلند کرو.پھر تم یہ بھی جانتے ہو کہ علماء کی فضیلت عربی زبان سے وابستہ ہے اور یہ ( زبان ) دینی علوم کے رموز کھولنے کی ایک کنجی اور معارف قرآنی کو سمجھنے کے لئے ایک مدار ہے.جو شخص ماہرین علم ادب میں سے نہیں اور نہ ہی وہ نابغہ روزگار شعراء جیسا ہے تو ایسے شخص کے لئے ممکن نہیں کہ اس کا فقہاء کے مردان کرمیں اور شریعت غراء میں راسخ علم رکھنے والوں میں یا صاحبانِ عرفان فقراء میں شمار ہو.بلکہ وہ شخص تو چو پاؤں جیسا ہے اور جاہل عوام الناس میں سے ہے.( انجام انتم.رخ جلد 11 صفحہ 265) پس اگر یہ کہیں کہ انسان کا کلام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تو یہ کہنا پڑے گا کہ انسان کی انسانیت خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں لیکن ظاہر ہے کہ خدا انسان کا خالق ہے اس لئے زبان کا معلم بھی وہی ہے اور اس جھگڑے کے فیصلے کے لئے کہ وہ کس زبان کا معلم ہے ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ اس کی طرف سے وہی زبان ہے کہ جو بموجب منطوق و ما خلقت الجن والانس الاليعبدون (الذريت : 57) اسی طرح معرفت الہی کی خادم
643 ہوسکتی ہے جیسا کہ انسان کے وجود کی دوسری بناوٹ اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ ان صفات سے موصوف صرف عربی ہی ہے اور اس کی خدمت یہ ہے کہ وہ معرفت باری تک پہنچانے کے لئے اپنے اندر ایک ایسی طاقت رکھتی ہے جو الہیات کے ایک معنوی تقسیم کو جو قانون قدرت میں پائی جاتی ہے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے مفردات میں دکھاتی ہے اور صفات الہیہ کے نازک اور باریک فرقوں کو جو صحیفہ فطرت میں نمودار ہیں اور ایسا ہی تو حید کے دلائل کو جو اسی صحیفہ سے مترشح ہیں اور خدا تعالیٰ کے انواع اقسام کے ارادوں کو جو اس کے بندوں سے متعلق اور صحیفہ قدرت میں نمایاں ہیں ایسے طور سے ظاہر کر دیتی ہے کہ گویا ان کا ایک نہایت لطیف نقشہ کھینچ کر آگے رکھ دیتی ہے اور ان دقیق امتیازوں کو جو خدا تعالیٰ کے اسماء اور صفات اور افعال اور ارادوں میں واقع ہیں جن کی شہادت اس کا قانون قدرت دے رہا ہے ایسی صفائی سے دکھا دیتی ہے کہ گویا ان کی تصویر کو آنکھوں کے سامنے لے آتی ہے.چنانچہ یہ بات ببداہت معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے صفات اور افعال اور ارادوں کی چہرہ نمائی اور نیز اپنے فعل اور قول کے تطبیق کے لئے زبان عربی کو ایک متکفل خادم پیدا کیا ہے اور ازل سے یہی چاہا ہے کہ الہیات کے سر مکتوم اور مقفل کے لئے یہی زبان کنجی ہو.من الرحمن - ر - خ - جلد 9 صفحہ 147-146 حاشیہ ) عربی زبان.حب رسول اور حب قرآن کے لئے ایک معیار ہے و من ادعى انه من الواصلين والفقراء العرفاء و ليس من عارفي هذه اللسان كالادباء.ففقره ليس ففر سيد الكونين.بل هو سواد الوجه فى الدارين.ولاتعجب بهذا البيان.ولاتغضب قبل العرفان.فان الذي يداعى محبة الفرقان.كيف يصدء ذهنه في هذه اللسان.و كيف تقاصر مع دعاوى المحبة وشوق الجنان.وكيف يمكن ان لايتجلى لقلبه لطف الرحمن.ولا يعلمه الله لسان نبيه بالامتنان.ثم انها معيار لحب الرسول و الفرقان.فان الذي احب العربية فبمحب الرسول و الفرقان احبها.و من ابغضها فبغض الرسول و الفرقان ابغضها.فان المحبين يعرفون بالعلامات و ادنى درجة الحب ان تحثك المضاهات.حتى توثر طرق المحبوب وتجعلها من المحبوبات و من لم يعرف هذا الذوق فانه من الكافرين في مشرب العاشقين و من احب الفرقان و سيدنا خاتم الانبياء كما هو شرط المحبة والوفاء.فما اظن ان يبقى في العربية كالجهلاء.بل يقوده حبه الى اعلى مراتب الكمال.و يسبق كل سابق في المقال.ويصير نطقه كالدرة البيضاء.و يضمخ كلامه بطيب عجیب و يودع انواع الصفاء.ففكر كالمحبين.ولولا الحب لما اعطيتها.فمن الحب لقيتها.فهذا آية حبى من ارحم الراحمين.و الحمد لله على ما اعطى و هو خير المنعمين.(انجام آتھم.ر.خ.جلد 11 صفحہ 265-266)
644 ترجمہ: اور جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ خدا رسیدہ اور فقراء اور عارفوں کے زمرے میں شامل ہے لیکن صورت حال یہ ہو کہ وہ ادیبوں کی طرح اس زبان (عربی) سے نا آشنا ہے تو ایسے شخص کا فقر وہ فقر نہیں جو حضرت سید الکونین کا فقر تھا.بلکہ وہ تو دونوں جہانوں میں روسیاہ ہے.(اے مخاطب!) تو میرے (اس) بیان پر تعجب نہ کر.اور قبل از عرفان غضبناک نہ ہو.کیونکہ ایسا شخص جو فرقانِ حمید سے محبت کرنے کا مدعی ہو.اس کا ذہن اس زبان سے زنگ خوردہ کیسے ہوسکتا ہے.اور محبت اور دلی اشتیاق کے دعووں کے باوجود وہ اس زبان کی تحصیل سے کیسے کو تا ہی کر سکتا ہے.اور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے شخص کے دل پر رحمان خدا کی تجلی کا ظہور نہ ہو.اور اللہ اسے بطیب خاطر اپنے نبی کی زبان نہ سکھائے.مزید براں یہ بھی تو ہے کہ یہ زبان حب رسول اور حب فرقان کے لئے ایک معیار ہے.پس جو شخص عربی (زبان) سے رسول کریم اور فرقان حمید سے محبت کرنے کی وجہ سے محبت کرتا ہے تو وہ اس ( زبان ) سے محبت کرتا ہے.اور جس نے اس ( زبان ) سے بغض رکھا تو اس نے رسول کریم اور فرقان حمید سے بغض رکھنے کی وجہ سے اس سے بغض رکھا.کیونکہ پیار کرنے والے علامات سے شناخت کئے جاتے ہیں.اور محبت کا ادنی ترین درجہ وہ ہے جو تجھے اس حد تک مشابہت پر آمادہ کرے کہ تو محبوب کے تمام طور طریقوں کو مقدم کرنے لگے.اور انہیں محبوب بنا لے.ہاں البتہ وہ شخص جو اس ذوق اور چاشنی سے نا آشنا ہے تو وہ عاشقوں کے مشرب میں کافروں کے زمرے میں شمار ہوگا.اور جس شخص نے محبت و وفا کے تقاضے کے مطابق فرقان حمید اور سید نا خاتم الانبیاء سے محبت کی تو میں ایسے شخص کے متعلق نہیں سمجھتا کہ وہ عربی (زبان) سے جاہل ہوگا.نہیں، بالکل نہیں بلکہ اس کی محبت اسے کمال کے اعلیٰ مراتب تک لے جائے گی.بلکہ سخن وری میں وہ ہر آگے بڑھنے والے شخص سے آگے بڑھ جائے گا.اور اس کی گفتار ایک در تاباں کی طرح ہو جائے گی اور اس کے کلام کو ایک عجیب خوشبو سے معطر کر دے گی اور اس میں گونا گوں پاکیزگی پیدا کر دے گی.پس اے مخاطب ! تو محبت کرنے والوں کی طرح غور و فکر کر.اگر محبت نہ ہوتی تو مجھے اس زبان ( عربی ) کا علم نہ دیا جاتا.وہ محبت ہی تھی جس کیوجہ سے مجھے یہ علم حاصل ہوا.پس یہ ارحم الراحمین کی طرف سے.میری محبت کا ایک نشان ہے.اللہ کی اس عطا کردہ نعمت پر الحمدللہ.اور وہ سب سے بہتر انعام کرنے والا ہے.وينصر من يشاء ويكفل الصالحين.فيندمل جريحهم.و يستريح طليحهم.ولاتركد ريحهم.ولا تكمد مصابيحهم.و منصوره يملا من علم الفرقان و لسان العرب.كما يملا الدلوالى عقد الكرب.و انه اناو لافخر و ان دعائى يذيب الصخر.و ان يومى هذا يوم الفتح ويوم الضياء بعد الليلة الليلاء.(اعجاز مسیح -ر-خ- جلد 18 صفحہ 60) ترجمہ: اور وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور نیک لوگوں کی کفالت کرتا ہے.نیز وہ ان کے زخم مندمل کرتا اوران کے در ماندوں کو آرام پہنچاتا ہے.نہ ان کی (شہرت کی ) ہوا ٹھہرتی ہے اور نہ ان کے چراغ گل ہوتے ہیں.اس کا نصرت یافتہ علم قرآن اور عربی زبان بعینہ اسی طرح پر کیا جاتا ہے.جیسے ایک ( چرخی ) ڈول کو ڈوری کے بندھن تک بھر دیا جائے.اور ( یا درکھو کہ ) وہ خدا کا تائید یافتہ (بندہ ) میں ہی ہوں لیکن بایں ہمہ کوئی فخر نہیں.میری دعا چٹان کو موم کر دیتی ہے اور میرا یہ دن فتح کا دن ہے.اور میں شب تار کے بعد ایک روزہ مہر تاباں ہوں.
645 دوسری فصل لغات قرآن زبان کا حقیقی مالک خدا تعالیٰ اور اس کا رسول ہے ( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 162) وحى الى يعنى عَفَتِ الذِيَارُ مَحِلُّهَا وَ مَقَامُهَا یہ وہ کلام ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے خدا تعالیٰ نے لبید بن ربیعہ العامری کے دل میں ڈالا تھا جو اس کے اس قصیدہ کا اول مصرع ہے جو سبعہ معلقہ کا چوتھا قصیدہ ہے اور لبید نے زمانہ اسلام کا پایا تھا اور مشرف باسلام ہو گیا تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں داخل تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کے کلام کو یہ عزت دی کہ جو آخری زمانہ کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ ایسی ایسی تباہیاں ہوں گی جن سے ایک ملک تباہ ہو گا وہ اسی کے مصرع کے الفاظ میں بطور وحی فرمائی گئی جو اس کے منہ سے نکلی تھی.پس یہ تعجب سخت نادانی ہے کہ ایک کلام جو مسلمان کے منہ سے نکلا ہے وہ کیوں وحی الہی میں داخل ہو ا کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں وہ کلام جو عبد اللہ بن ابی سرح کے منہ سے نکلا تھا یعنی فَتَبَارَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِينَ.(المومنون: 15) وہی قرآن شریف میں نازل ہو ا جس کی وجہ سے عبداللہ بن ابی سرح مرتد ہو کر مکہ کی طرف بھاگ گیا.پس جبکہ خدا تعالیٰ کے کلام کا ایک مرتد کے کلام سے تو ارد ہوا تو اس سے کیوں تعجب کرنا چاہیئے کہ لبید جیسے صحابی بزرگوار کے کلام سے اس کے کلام کا توار د ہو جائے خدا تعالیٰ جیسے ہر ایک چیز کا وارث ہے ہر ایک پاک کلام کا بھی وارث ہے ہر ایک پاک کلام اسی کی توفیق سے منہ سے نکلتا ہے.پس اگر ایسا کلام بطور وحی نازل ہو جائے تو اس بارے میں وہی شخص شک کرے گا جس کو اسلام میں شک ہو.ثم اور ثنا الكتب الذين اصطفينا من عبادنا فمنهم ظالم لنفسه ومنهم و منهم سابق بالخيرات باذن الله ذلك هو الفضل الكبير (الفاطر: 33) ہمین ماننا پڑا کہ اس جگہ ظالم کا لفظ کسی مذموم معنی کے لئے استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک ایسے محمود اور قابل تعریف معنوں کے لئے استعمال ہوا ہے جو درجہ سابق بالخیرات سے حصہ لینے کے مستحق اور اس درجہ فاضلہ کے چھوٹے بھائی ہیں اور وہ معنے بجز اس کے اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ ظالم سے مراد اس قسم کے لوگ رکھے جائیں کہ جو خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس مخالف پر جبر اور اکراہ کرتے ہیں اور نفس کے جذبات کم کرنے کے لئے دن رات مجاہدات شاقہ میں مشغول ہیں کیونکہ یہ تو لغت کی رو سے ثابت ہے کہ ظالم کا لفظ بغیر کسی اور لحاظ کے فقط کم کرنے کے لئے بھی آیا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام میں فرماتا ہے وَلَمْ تَظْلِمُ مِنْهُ شَيْئًا (الكهف : 34) أَى وَلَمْ تَنْقُصُ اور خدا تعالیٰ کی راہ میں نفس کے جذبات کو کم کرنا بلاشبہ ان معنوں کی رو سے ایک ظلم ہے ماسوا اس کے ہم ان کتب لغت کو جو صد ہا برس قرآن کریم کے بعد اپنے زمانہ کے محاورات کے موافق طیار ہوئی ہیں قرآن مجید کا حکم نہیں ٹھہرا سکتے.قرآن کریم اپنی لغات کے لئے آپ متکفل ہے اور اس کی بعض آیات بعض دوسری آیات کی شرح کرتی ہیں.( آئینہ کمالات اسلام.رخ.جلد 5 صفحہ 135 تا138 ) مقتصد
646 الا ان الا قلام كلها لله وهى معجزة من معجزات كتاب مبين.ثم يتلقاها المقربون على قدر اتباع خير المرسلين فان المعجزات تقتضى الكرامات ليبقى اثرها الى يوم الدين.و ان الذين ورثوا نبيهم يعطون من نعمه على الطريقة الظلية.ولولا ذالك لبطلت فيوض النبوة فانهم كاثر لعين انقضى وكعكس لصورة في المراة يرى.سنوساری علی کی قلمیں خدا کے قبضے میں اور وہ کتاب مبین کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہیں.پھر وہی قلمیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کی قدر پر مقربوں کو عطا ہوتی ہیں اسلئے کہ معجزات چاہتے ہیں کرامات کو تا کہ ان کا نشان قیامت تک باقی رہے اور اپنے بنی علیہ السلام کے وارثوں کو بطور ظلیت کے آپ کی نعمتیں مرحمت ہوتی ہیں.اور اگر یہ قاعدہ جاری نہ رہتا تو نبوت کے فیض بالکل باطل ہو جاتے.اس لئے کہ یہ وارث نقش ہوتے ہیں اصل کے جو گزرچکی ہوتی ہے اور گویا عکس ہوتے ہیں ایک صورت کے جو شیشہ میں نظر آتا ہے.الهدای-رخ- جلد 18 صفحہ 275-274) لغت کا احاطہ کرنا معجزات انبیاء میں سے ہے اور لغت عرب جو صرف نحو کی اصل کنجی ہے وہ ایک ایسا نا پیدا کنار دریا ہے جو اسکی نسبت امام شافعی رحمتہ اللہ کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے لا یعلمہ الا نبی یعنی اس زبان کو اور اس کے انواع اقسام کے محاورات کو بجز نبی کے اور کوئی شخص کامل طور پر معلوم ہی نہیں کر سکتا.اس قول سے بھی ثابت ہوا کہ اس زبان پر ہر ایک پہلو سے قدرت حاصل کرنا ہر ایک کا کام نہیں بلکہ اس پر پورا احاطہ کرنا منجزات انبیاء علیہم السلام سے ہے.( نزول مسیح...خ.جلد 18 صفحہ 437) میرے پاس آؤ اور میری سنو ! میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں بلکہ میری حیثیت سفن انبیاء کی سی حیثیت ہے.مجھے ایک سماوی آدمی مانو.پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزا ئیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں، ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حکم بن کر آیا ہے.جو معنے قرآن شریف کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوں گے اور جس حدیث کو وہ صیح قرار دے گا وہی حدیث صحیح ہوگی." نور فرقاں نہ تافت است چناں ( ملفوظات جلد اول صفحه 399) کو بماند نہاں زدیدہ قرآن کا نور ایسا نہیں چمکتا ہے کہ دیکھنے والوں کی نظر سے مخفی رہ سکے وراں آں چراغ ہدی سرت دنیا را رہنما رہبرو ست دنیا را رحمتی از خدا ست دنیا را نعمتی از سما ست دنیا را وہ تو تمام دنیا کے لیے ہدایت کا چراغ ہے اور جہان بھر کے لیے رہبر اور رہنما وہ خدا کی طرف سے دنیا کے لیے ایک رحمت ہے اور آسمان سے اہل جہان کے لیے ایک نعمت مخزن راز ہائے ربانی از خدا آله خدا دانی وہ خداوند کے اسرار کا خزانہ ہے اور خدا کی طرف سے خداشناسی کا آلہ ( در مشین فارسی متر جم صفحه 77) (براہین احمدیہ.رخ جلد 1 صفحہ 359)
لغات قرآن کے ماخذ 647 ہم ان کتب لغت کو جو صد ہا برس قرآن کریم کے بعد اپنے زمانہ کے محاورات کے موافق طیار ہوئی ہیں قرآن مجید کا حکم نہیں ٹھہرا سکتے.قرآن کریم اپنی لغات کے لئے آپ متکفل ہے اور اس کی بعض آیات بعض دوسری آیات کی شرح کرتی ہیں.آئینہ کمالات اسلام.ر.خ.جلد 5 صفحہ 137-138 ) 1 - قرآن کریم -2 حدیث شریف - لغت عرب 4.ادب جاہلیہ چند مولویوں کو حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک تحریر لکھ کر دی کہ آپ کیوں مسیح کی وفات کے قائل ہیں؟ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ تحریر درج ذیل کی جاتی ہے:.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم وجوہ مفصلہ ذیل ہیں جن کی رو سے میں حضرت عیسی علیہ السلام کو فوت شدہ قرار دیتا ہوں.(1) قرآن شریف میں حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت یہ آیات ہیں.يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ.(آل عمران:56) فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي (المائده: 118) ان آیات کے معنی صحیح بخاری کتاب التفسیر میں موت لکھے ہیں.جیسا کہ اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے لکھا ہے.مُتَوَفِّيكَ مُمِيتُكَ اور پھر تظاہر آیات کے لیے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کا اس جگہ ذکر کیا ہے اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول بھی ذکر کیا ہے کہ میں قیامت کے دن یہی عرض کروں گا کہ یہ لوگ میری وفات کے بعد بگڑے ہیں.جیسا کہ لکھا ہے کما قال العبد الصالح.(الخ) (2) دوسری دلیل توفی کے ان معنوں پر جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں.لغت عرب کی کتابیں ہیں.میں نے جہانتک ممکن تھا قریباً تمام شائع شدہ کتابیں لغت کی دیکھی ہیں.جیسے قاموس تاج العروس صراح صحاح جو ہری لسان العرب اور وہ کتابیں جو حال میں بیروت میں تالیف کر کے عیسائیوں نے شائع کی ہیں.ان تمام کتابوں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ محاورہ عرب اسی طرح پر ہے کہ جب کسی جملہ میں خدا تعالیٰ فاعل ہواور کوئی علم انسان مفعول یہ ہو جیسا کہ تَوَفَّى اللهُ زَيْدًا.تو ایسی صورت میں بجز اماتت اور قبض روح اور کوئی معنے نہیں ہوتے.اور جو شخص اس سے انکار کرے اس پر لازم ہے کہ اس کے برخلاف لغت کی کتابوں سے کوئی نظیر مخالف پیش کرے.(3) میں نے بہت محنت اور کوشش سے جہاں تک میرے لئے ممکن تھا.صحاح ستہ وغیرہ حدیث کی کتا میں غور سے دیکھی ہیں اور میں نے کسی ایک جگہ پر تو فی کے معنے بجز وفات دینے کے حدیث میں نہیں پائے بلکہ تین سو کے قریب ایسی جگہ پائی ہیں جہاں ہر جگہ موت دینے کے ہی معنے ہیں.
648 (4) میں نے جہاں تک میرے لیے ممکن تھا، عرب کے مختلف دیوان بھی دیکھے ہیں مگر نہ میں نے جاہلیت کے زمانہ کے شعراء اور نہ اسلام کے زمانہ کے مستند شعراء کے کلام میں کوئی ایسا فقرہ پایا ہے کہ ایسی صورت میں جو اوپر بیان کی گئی ہے بجز وفات دینے کے کوئی اور معنے ہوں.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 527-526) کیا قرآن شریف میں نَعِدُهُمُ اَوْنَتَوَفَّيَنَّكَ (یونس: 47) رسول اللہ علیہ وسلم کے لیے نہیں آیا؟ اور وہی لفظ مسیح کے لیے مُتَوَفِّیک اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی میں آیا ہے.پھر یہ کیا ہو گیا کہ ایک جگہ کچھ اور معنے اور ایک جگہ کچھ اور.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کمزور نبی سمجھا ہے جو انہیں زمین میں دفن کرتے ہیں اور مسیح کو آسمان پر چڑھاتے ہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوتی اور آپ کے جلال اور شوکت کے لیے غیرت ہے تو کیوں نہیں کہہ دیتے کہ وہ بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں.تب میں بھی سمجھ لیتا کہ یہ مسیح کی خصوصیت نہیں ٹھہراتے مگر موجودہ حالت میں میرا دل گوارا نہیں کر سکتا کہ میں قرآن شریف کے ایسے معنے کروں جو خود قرآن شریف اور لغت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کے خلاف ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک شان کا باعث ہوں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 160-159) جس پاک اور کامل نبی پر قرآن نازل ہوا وہ سب سے بہتر قرآن شریف کے معنی جانتا ہے غرض اتم اور اکمل طریق معنے کرنے کا تو یہ ہے لیکن اگر کسی آیت کے بارے میں حدیث صحیح مرفوع متصل نہ مل سکے تو اد نئے درجہ استدلال کا یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت کے معنی دوسری آیات بینات سے کئے جاویں.لیکن ہرگز یہ درست نہیں ہو گا کہ بغیر ان دونوں قسم کے التزام کے اپنے ہی خیال اور رائے سے معنی کریں کاش اگر پادری عمادالدین وغیرہ اس طریق کا التزام کرتے تو نہ آپ ہلاک ہوتے اور نہ دوسروں کی ہلاکت کا موجب ٹھہرتے.(آریہ دھرم.رخ.جلد 10 صفحہ 81-80 حاشیہ) پانچواں معیار لغت عرب بھی ہے.لیکن قرآن کریم نے اپنے وسائل آپ اس قدر قائم کر دیئے ہیں کہ چنداں لغات عرب کی تفتیش کی حاجت نہیں ہاں موجب زیادت بصیرت بے شک ہے بلکہ بعض اوقات قرآن کریم کے اسرار مخفیہ کی طرف لغت کھودنے سے توجہ پیدا ہو جاتی ہے اور ایک بھید کی بات نکل آتی ہے.( بركات الدعاء.ر.خ.جلد 6 صفحہ 19)
649 قرآن اپنی لغت خود متعین کرتا ہے اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں اپنی کمال تعلیم کا آپ دعوئی فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اليوم اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمُ نِعْمَتِى (المانده:4) کہ آج میں نے تمہارے لیے دین تمہارا کامل کیا اور اپنی نعمت یعنی تعلیم قرآنی کو تم پر پورا کیا.اور ایک دوسرے محل میں اس اکمال کی تشریح کے لیے کہ اکمال کس کو کہتے ہیں فرماتا ہے.اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ.تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ.وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةِ الجُتَتَّتُ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَالَهَا مِنْ قَرَارٍ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللهُ الظَّلِمِينَ.(ابراهیم 25 تا 28 ) کیا تو نے نہیں دیکھا کیونکر بیان کی اللہ نے مثال یعنی مثال دین کامل کی کہ بات پاکیزہ درخت پاکیزہ کی مانند ہے جس کی جڑ ثابت ہو اور شاخیں اس کی آسمان میں ہوں اور وہ ہر ایک وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہو اور یہ مثالیں اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے تا لوگ ان کو یاد کر لیں اور نصیحت پکڑ لیں اور ناپاک کلمہ کی مثال اس ناپاک درخت کی ہے جو زمین پر سے اکھڑا ہوا ہے اور اس کو قرار وثبات نہیں سو اللہ تعالیٰ مومنوں کو قول ثابت کے ساتھ یعنی جو قول ثابت شدہ اور مدلل ہے اس دنیا کی زندگی اور آخرت میں ثابت قدم کرتا ہے اور جو لوگ ظلم اختیار کرتے ہیں ان کو گمراہ کرتا ہے یعنی ظالم خدا تعالیٰ سے ہدایت کی مد نہیں پاتا جب تک ہدایت کا طالب نہ ہو کسی آیتہ کے وہ معنے کرنے چاہیئے کہ الہامی کتاب آپ کرے اور الہامی کتاب کی شرح دوسری شرحوں پر مقدم ہے.اب اللہ تعالیٰ ان آیات میں کلام پاک اور مقدس کا کمال تین باتوں پر موقوف قرار دیتا ہے.( جنگ مقدس.رخ- جلد 6 صفحہ 123-124 ) بعض نادان یہ خیال کرتے کہ وہ آیات ذو معنین ہیں یہ خیال سراسر فاسد ہے مومن کا یہ کام نہیں کہ تفسیر بالراے کرے بلکہ قرآن شریف کے بعض مقامات بعض دوسرے مقامات کے لیے خود مفسر اور شارح ہیں اگر یہ بات سچ نہیں کہ مسیح کے حق میں جو یہ آیتیں ہیں کہ اِنِّی مُتَوَفِّيكَ اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي (المائده: 118) یہ در حقیقت مسیح کی موت پر ہی دلالت کرتی ہیں بلکہ ان کے کوئی اور معنے ہیں تو اس نزاع کا فیصلہ قرآن شریف سے ہی کرانا چاہیئے.اور اگر قرآن شریف مساوی طور پر بھی اس لفظ کو موت کے لیے استعمال کرتا ہے اور کبھی ان معنوں کے لیے جو موت سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے تو محل متنازعہ فیہ میں مساوی طور پر احتمال رہے گا اور اگر ایک خاص معنے اغلب اور اکثر طور پر مستعملات قرآنی میں سے ہیں تو انہی معنوں کو اس مقام بحث میں ترجیح ہوگی اور اگر قرآن شریف اول سے آخر تک اپنے کل مقامات میں ایک ہی معنوں کو استعمال کرتا ہے تو محل محوث فیہ میں بھی یہی قطعی فیصلہ ہو گا کہ جو معنے توفی کے سارے قرآن شریف میں لیے گئے ہیں وہی معنے اس جگہ بھی مراد ہیں کیونکہ یہ بالکل غیر ممکن اور بعید از قیاس ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے بلیغ اور صحیح کلام میں ایسے تنازع کی جگہ میں جو اس کے علم میں ایک معرکہ کی جگہ ہے ایسے شاذ اور مجہول الفاظ استعمال کرے جو اس کے تمام کلام میں ہرگز استعمال نہیں ہوئے اگر وہ ایسا کرے تو گویا وہ خلق اللہ کو آپ ورطہ شبہات میں ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس نے ہرگز ایسا نہیں کیا ہوگا یہ کیونکر ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے قرآن کریم کے تنیس مقام میں تو ایک لفظ کے ایک ہی معنے مراد لیتا جاوے اور پھر دو مقام میں جو زیادہ تر محتاج صفائی بیان کے تھے کچھ اور کا اور مراد لیکر آپ ہی خلق اللہ کو گمراہی میں ڈال دے.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 266-267)
650 قرآن کا محاورہ اب چونکہ یہ فرق حقیقت اور مجاز کا صاف طور پر بیان ہو چکا تو جس شخص نے قرآن کریم پر اول سے آخر تک نظر ڈالی ہوگی اور جہاں جہاں توفی کا لفظ موجود ہے بنظر غور دیکھا ہوگا وہ ایمان ہمارے بیان کی تائید میں شہادت دے سکتا ہے چنانچہ بطور نمونہ دیکھنا چاہئے کہ یہ آیات (۱) اما نـریـنـک بــعــض الـذي نـعـدهـم او نتوفینک (۲) توفنی مسلما(۳) ومنكم من يتوفى (٤) توفهم الملائكة (۵) يتوفون منكم (۲) توفته رسلنا (۷) رسلنا يتوفونهم (۸) توفنا مسلمين (۹) وتوفنا مع الابرار ( ١٠ ) ثم یتو فیکم کیسی صریح اور صاف طور پر موت کے معنوں میں استعمال کی گئی.کیا قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت بھی ہے کہ ان آیات کی طرح مجرد توفی کا لفظ لکھنے سے اس سے کوئی اور معنے مراد لیے گئے ہوں موت مراد نہ لی گئی ہو بلاشبہ قطعی اور یقینی طور پر اول سے آخر تک قرآنی محاورہ یہی ثابت ہے کہ ہر جگہ در حقیقت توفی کے لفظ سے موت ہی مراد ہے تو پھر متنازعہ فیہ دو آیتوں کی نسبت جو انِي مُتَوَقِيكَ اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی.ہیں اپنے دل سے کوئی معنے مخالف عام محاورہ قرآن کے گھڑنا اگر الحاد اور تحریف نہیں تو اور کیا ہے.(ازالہ اوہام - ر- خ - جلد 3 صفحہ 270) لغت قرآن اور حدیث شریف اول یہ کہ وہ اسلام کے مقابل پر ان بیہودہ روایات اور بے اصل حکایات سے مجتنب رہیں جو ہماری مسلم اور مقبول کتابوں میں موجود نہیں اور ہمارے عقیدہ میں داخل نہیں اور نیز قرآن کے معنی اپنے طرف سے نہ گھڑ لیا کریں بلکہ وہی معنی کریں جو تو اتر آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں اور پادری صاحبان اگر چہ انجیل کے معنے کرنے کے وقت ہر یک بے قیدی کے مجاز ہوں.مگر ہم مجاز نہیں ہیں اور انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے معصیت عظیمہ ہے.قرآن کی کسی آیت کے معنی اگر کر میں تو اس طور سے کرنے چاہئے کہ دوسری قرآنی آئتیں ان معنوں کی موید اور مفسر ہوں اختلاف اور تناقض پیدا نہ ہو کیونکہ قرآن کی بعض آیتیں بعض کے لئے بطور تفسیر کے ہیں اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی انہیں معنوں کی مفسر ہو کیونکہ جس پاک اور کامل نبی پر قرآن نازل ہوا وہ سب سے بہتر قرآن شریف کے معنی جانتا ہے.غرض اتم اور اکمل طریق معنے کرنے کا تو یہ ہے لیکن اگر کسی آیت کے بارے میں حدیث صحیح مرفوع متصل نہ مل سکے تو ادنے درجہ استدلال کا یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت کے معنی دوسری آیات بینات سے کئے جاویں.لیکن ہرگز یہ درست نہیں ہوگا کہ بغیر ان دونوں قسم کے التزام کے اپنے ہی خیال اور رائے سے معنی کریں کاش اگر پادری عمادالدین وغیرہ اس طریق کا التزام کرتے تو نہ آپ ہلاک ہوتے اور نہ دوسروں کی ہلاکت کا موجب ٹھہرتے.(آریہ دھرم - ر - خ- جلد 10 صفحہ 81 80 حاشیہ) یولس : ۲۴۷ یوسف : ۱۰۲ ۳ الج: ۶ ۴ النساء: ۹۸ ۵ البقرة : ۲۴۱ ، الانعام: ۶۲ کے الاعراف: ۳۸ الاعراف: ۱۲۷ ال عمران : ۱۹۴ ما النحل: اے
651 قرآن مجید نے خود حدیث کو اپنا خادم مفسر قرار دیا ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض احکام ایسے طور پر بیان کئے ہیں کہ وہ بلاتفصیل صاحب حدیث صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی مسلمان مخاطب قرآن کی سمجھ میں نہ آتی اور نہ وہ دستورالعمل ٹھہرائی جاسکتی.ایک حکم نماز ہی کولو قرآن میں اس کی نسبت صرف یہ ارشاد ہے اقيموا الصلوۃ اورکہیں اس کی تفسیر نہیں ہے کہ نماز کیونکر قائم کی جائے.صاحب الحدیث آنحضرت صلعم ( بابی هورامی ) نے قولی و علی حدیثوں سے بتایا کہ نماز یوں پڑھی جاتی ہے تو وہ حکم قرآن سمجھ عمل میں آیا.(احق مباحث لدھیانہ رخ- جلد 4 صفحہ 55) توفی کے معنے وفات دینے کے صرف اجتہادی طور پر ہم نے معلوم نہیں کیے بلکہ مشکوۃ کے باب الحشر میں بخاری اور مسلم کی حدیث جو ابن عباس سے ہے صریح اور صاف طور پر اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَی کی یہی تفسیر فرماتے ہیں کہ در حقیقت اس سے وفات ہی مراد ہے بلکہ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ سوال حضرت مسیح سے عالم برزخ میں ان کی وفات کے بعد کیا گیا تھا نہ یہ کہ قیامت میں کیا جائے گا پس جس آیت کی تفسیر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی کھول دیا پھر اگر کوئی تفسیر نبوی کو بھی سن کر شک میں رہے تو اس کے ایمان اور اسلام پر اگر افسوس اور تعجب نہ کریں تو اور کیا کریں دیکھو اس حدیث کو امام بخاری انہیں معنوں کی طرف اشارہ کرنے کی غرض سے اپنی صحیح کی کتاب التفسیر میں لایا ہے دیکھو صفحہ 665 بخاری.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 503) لغت عربی کے مفردات کا علم پس جبکہ ثابت ہو گیا کہ ہماری تربیت اور تکمیل کے لئے دور حمتوں کے دو چشمے قادر کریم نے جاری کر رکھے ہیں اور وہ اس کی دو صفتیں ہیں جو ہمارے درخت وجود کی آبپاشی کے لیے دورنگوں میں ظاہر ہوئے ہیں تو اب دیکھنا چاہیئے کہ وہ دو چشمے زبان عربی میں منعکس ہو کر کس کس نام سے پکارے گئے ہیں پس واضح ہو کہ پہلے قسم کی رحمت کے لحاظ سے زبان عربی میں خدا تعالیٰ کو رحمن کہتے ہیں اور دوسرے قسم کی رحمت کے لحاظ سے زبان موصوف میں اس کا نام رحیم ہے.اسی خوبی کے دکھلانے کے لیے ہم عربی خطبہ کے پہلی ہی سطر میں رحمان کا لفظ لائے ہیں.اب اس نمونہ سے دیکھ لو کہ چونکہ یہ رحم کی صفت اپنی ابتدائے تقسیم کے لحاظ سے الہی قانون قدرت کے دو قسم پر مشتمل تھی لہذا اس کے لئے زبان عربی میں دو مفرد لفظ موجود ہیں اور یہ قاعدہ طالب حق کے لیے نہایت مفید ہوگا کہ ہمیشہ عربی کے باریک فرقوں کو پہچاننے کے لیے صفات اور افعال الہیہ کو جو صحیفہ قدرت میں نمایاں ہیں معیار قرار دیا جائے اور ان کے اقسام کو جو قانون قدرت سے ظاہر ہوں عربی کے مفردات میں ڈھونڈا جائے اور جہاں کہیں عربی کے ایسے مترادف لفظوں کا فرق ظاہر کرنا مقصود ہو جو صفات یا افعال الہی کے متعلق ہیں تو صفات یا افعال الہی کی اس تقسیم کی طرف متوجہ ہوں جو نظام قانون قدرت دکھلا رہا ہے کیونکہ عربی کی اصل غرض اللہیات کی خدمت ہے جیسا کہ انسان کے وجود کی اصل غرض معرفت باری تعالیٰ ہے اور ہر ایک چیز جس غرض کے لیے پیدا کی گئی ہے اسی غرض کو سامنے رکھ کر اس کے عقدے کھل سکتے ہیں اور اس کے جو ہر معلوم ہو سکتے ہیں.من الرحمن - ر-خ- جلد 9 صفحہ 148-149 )
652 قرآن کریم نے جو سورہ فاتحہ کو الحمد لله رب العلمين الرحمن الرحيم.مالک یوم الدین الله اسماء سے شروع کیا تو اس میں کیا راز تھا.چونکہ بعض تو میں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر اس کی صفات رب.رحیم.مالک یوم الدین سے منکر تھیں اس لیے اس طرز کو لیا یہ یا درکھو کہ جس نے قرآن کریم کے الفاظ اور فقرات کو جو قانونی ہیں ہاتھ میں نہیں لیا اس نے قرآن کا قدر نہیں سمجھا.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 388-389) جس ذات کامل نے انسان اور اس کے خیالات کو پیدا کیا اسی نے ان خیالات کے ادا کرنے کے لئے قدیم سے وہ مفردات بھی پیدا کر دیئے اور ہما را دلی انصاف اس بات کے قبول کرنے کے لئے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اگر یہ خصوصیت کسی زبان میں پائی جائے کہ وہ زبان انسانی خیالات کے قدوقامت کے موافق مفردات کا خوبصورت پیرا یہ اپنے اندر طیار رکھتی ہے اور ہر یک بار یک فرق جو افعال میں پایا جاتا ہے وہی باریک فرق اقوال کے ذریعہ سے دکھاتی ہے اور اس کے مفردات خیالات کے تمام حاجتوں کے متکفل ہیں تو وہ زبان بلا شبہ الہامی ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے جو اس نے انسان کو ہزارہا طور کے خیالات ظاہر کرنے کے لئے مستعد پیدا کیا ہے.پس ضرور تھا کہ انہیں خیالات کے اندازہ کے موافق اس کو ذخیرہ قولی مفردات بھی دیا جاتا تا خدا تعالے کا قول اور فعل ایک ہی مرتبہ پر ہولیکن حاجت کے وقت ترکیب سے کام لینا یہ بات کسی خاص زبان سے خصوصیت نہیں رکھتی.ہزار ہاز بانوں پر یہ عام آفت اور نقص در پیش ہے کہ وہ مفردات کی جگہ مرکبات سے کام لیتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ ضرورتوں کے وقت وہ مرکبات انسانوں نے خود بنالئے ہیں.پس جو زبان ان آفتوں سے محفوظ ہوگی اور اپنی ذات میں مفردات سے کام نکالنے کی خصوصیت رکھے گی اور اپنے اقوال کو خدا تعالیٰ کے فعل کے مطابق یعنی خیالات کے جوشوں کے مطابق اور ان کے ہموزن دکھلائے گی.بلا شبہ وہ ایک خارق العادات مرتبہ پر ہو کر اور تمام زبانوں کی نسبت ایک خصوصیت پیدا کر کے اس لائق ہو جائے گی کہ اس کو اصل الہامی زبان اور فطرت اللہ کہا جائے.( من الرحمن -ر-خ-جلد 9 صفحہ 141) ادب جاہلیہ اور لغت قرآن علاوہ اس کے اس ملک میں صرفی نحوی قواعد سے بھی لوگوں کو اچھی طرح واقفیت نہیں اصل بات یہ ہے کہ جیتک زبان عرب میں پورا پورا توغل نہ ہو اور جاہلیت کے تمام اشعار نظر سے نہ گذر جائیں اور کتب قدیمہ مبسوطہ لغت جو محاورات عرب پر مشتمل ہیں غور سے نہ پڑھے جائیں اور وسعت علمی کا دائرہ کمال تک نہ پہنچ جائے تب تک عربی محاورات کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا اور نہ انکی صرف اور نحو کا باستیفاء علم ہوسکتا ہے ایک نادان نکتہ چینی کرتا ہے کہ فلاں صلہ درست نہیں یا ترکیب غلط ہے اور اسی قسم کا صلہ اور اس قسم کی ترکیب اور اسی قسم کا صیغہ قدیم جاہلیت کے کسی شعر میں نکل آتا ہے اور اس ملک میں جو لوگ علماء کہلاتے ہیں بڑی دوڑ ان کی قاموس تک ہے حالانکہ قاموس کی تحقیق پر بہت جرح ہوئی نہیں اور کئی مقامات میں اس نے دھوکہ کھایا ہے.یہ بیچارے جو علماء یا مولوی کہلاتے ہیں انکو تو قدیم معتبر کتابوں کے نام بھی یاد نہیں اور نہ ان کو تحقیق اور تو غل زبان عربی سے کچھ دلچسپی.ی ہے..مشکوۃ یا ہدا یہ پڑھ لیا تو مولوی کہلائے اور پھر وہ بدہ پیٹ کیلئے وعظ کرنا شروع کر دیا.( نزول ایج - ر - خ - جلد 18 صفحہ 436)
653 اگر اردو میں بھی مثلاً ایک فصیح شخص تقریر کرتا ہے اور اس میں کہیں مثالیں لاتا ہے کہیں دلچسپ فقرے بیان کرتا ہے تو دوسرا فصیح بھی اسی رنگ میں کہدیتا ہے اور بجز ایک پاگل آدمی کے کوئی خیال نہیں کرتا کہ یہ سرقہ ہے انسان تو انسان خدا کے کلام میں بھی یہی پایا جاتا ہے.اگر بعض پر فصاحت فقرے اور مثالیں جو قرآن شریف میں موجود ہیں شعرائے جاہلیت کے قصائد میں دیکھی جائیں تو ایک لمبی فہرست طیار ہوگی اور ان امور کو متقین نے جائے اعتراض نہیں سمجھا بلکہ اسی غرض سے ائمہ راشدین نے جاہلیت کے ہزار ہا اشعار کو حفظ کر رکھا تھا اور قرآن شریف کی بلاغت فصاحت کے لئے انکو بطور سند لاتے تھے.( نزول مسیح - ر- خ - جلد 18 صفحہ 434) رباط لغات قرآن، چند مثالیں لغت عرب بھی عجیب چیز ہے.رباط کا لفظ جو آیہ مذکورہ میں آیا ہے.جہاں دنیا وی جنگ و جدل اور فنون جنگ کی فلاسفی پر مشتمل ہے وہاں روحانی طور پر اندرونی جنگ اور مجاہدہ نفس کی حقیقت اور خوبی کو بھی ظاہر کرتا ہے.یہ ایک عجیب سلسلہ ہے اب دیکھو یہی رباط کا لفظ جو ان گھوڑوں پر بولا جاتا ہے جو سرحد پر دشمنوں سے حفاظت کے لیے باندھے جاتے ہیں.ایسا ہی یہ لفظ ان نفسوں پر بھی بولا جاتا ہے جو اس جنگ کی تیاری کے لیے تعلیم یافتہ ہوں جو انسان کے اندر ہی اندر شیطان سے ہر وقت جاری ہے.صراط 1......( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 36-37) صراط لغت عرب میں ایسی راہ کو کہتے ہیں.جو سیدھی ہو یعنی تمام اجزاء اس کے وضع استقامت پر واقع ہوں اور ایک دوسرے کی نسبت عین محاذات پر ہوں.(احکام 10 فروری 1905 صفحہ 4) ( تفسیر حضرت اقدس جلداول صفحہ 217) طریق وقيل ان الطريق لا يسمى صراطا عند قوم ذوی قلب و نور حتے يتضمن خمسة امور من امور الدين.و هي الاستقامة و الايصال الى المقصود باليقين و قرب الطريق وسعته للمارين وتعيينه طريقا للمقصود في اعين السالكين.و هو تارة يضاف الى الله اذ هو شرعه و هو سوى سبله للماشين.وتارة يضاف الى العباد لكونهم اهل السلوك والمارين عليها والعابرين ترجمہ :.اور کہتے ہیں کہ صاحب دل اور روشن ضمیر لوگوں کے نزدیک طریق (راستہ) کو اس وقت تک صراط کا نام نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ وہ امور دین میں سے پانچ امور پر مشتمل نہ ہو اور وہ یہ ہیں:.
654 (1) استقامت (2) یقینی طور پر مقصود تک پہنچانا (3) اس کا نز دیک ترین ( راہ ) ہونا.(4) گزرنے والوں کے لیے اس کا وسیع ہونا.اور (5) سالکوں کی نگاہ میں مقصود تک پہنچنے کے لیے اس راستہ کا متعین کیا جاتا.اور صراط کا لفظ بھی تو خدا تعالیٰ کی طرف مضاف کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کی شریعت ہے اور وہ چلنے والوں کے لیے ہموار راستہ ہے اور کبھی اسے بندوں کی طرف مضاف کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اس پر چلنے والے اور گزرنے والے اور اسے عبور کرنے والے ہیں.کرامات الصادقین.ر.خ.جلد 7 صفحہ 137 ) عاشق مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ غَاسِقٍ عربی میں تاریکی کو کہتے ہیں جو کہ بعد زوال شفق اول چاند کو ہوتی ہے اور اسی لئے لفظ قمر پر بھی اس کی آخری راتوں میں بولا جاتا ہے جبکہ اس کا نور جاتا رہتا ہے اور خسوف کی حالت میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے.قرآن شریف میں مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ (الفلق : 4) کے یہ معنے ہیں مِنْ شَرِّ ظُلْمَةٍ إِذَا دَخَلَ یعنی ظلمت کی برائی سے جب وہ داخل ہو.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 55) كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمُ مَّشَوْا فِيْهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا (البقرة: 21) منافقوں کا کام ہے مگر یہ لوگ قَامُوا میں داخل ہیں احتیاط سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے تاریکی جب خدا کی طرف منسوب ہو تو دشمن کی آنکھ میں ابتلا کا موقع اس سے مراد ہوتا ہے اور اس لیے اس کو غاسق اللہ کہتے ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 56) تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُم مَّنْ كَلَّمَ اللَّهُ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتٍ.(البقرة: 254) جاننا چاہئے کہ رفع کا لفظ قرآن شریف میں جہاں کہیں انبیا اور اخیار ابرار کی نسبت استعمال کیا گیا ہے عام طور پر اس سے یہی مطلب ہے کہ جوان برگزیدہ لوگوں کو خدائے تعالیٰ کی جناب میں باعتبار اپنے روحانی مقام اور نفسی نقطہ کے آسمانوں میں کوئی بلند مرتبہ حاصل ہے اس کو ظاہر کر دیا جائے اور ان کو بشارت دی جائے کہ بعد موت و مفارقت بدن ان کی روح اس مقام تک جو ان کے لیے قرب کا مقام ہے اٹھائی جائے گی جیسا کہ اللہ جلشانہ ہمارے سید و مولیٰ کا اعلیٰ مقام ظاہر کرنے کی غرض سے قرآن شریف میں فرماتا ہے تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُم مَّنْ كَلَّمَ اللهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمُ دَرَجت.یعنی یہ تمام رسول اپنے مرتبہ میں یکساں نہیں بعض ان میں سے وہ ہیں جن کو رو بر و کلام کرنے کا شرف بخشا گیا اور بعض وہ ہیں جن کا رفع درجات سب سے (ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 275 ) بڑھ کر ہے.
655 توفی وَإِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلِّغُ وَ عَلَيْنَا الْحِسَابُ.(الرعد: 41) اگر ہمارے علماء اس جگہ بھی توفی کے معنے یہی لیتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں تو ہمیں ان پر کچھ بھی افسوس نہ ہوتا مگر ان کی بیبا کی اور گستاخی تو دیکھو کہ توفی کا لفظ جہاں کہیں قرآن کریم میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے تو اس کے معنے وفات کے لیتے ہیں اور پھر جب وہی لفظ حضرت مسیح کے حق میں آتا ہے تو اس کے معنی زندہ اٹھائے جانے کے بیان کرتے ہیں اور کوئی ان میں سے نہیں دیکھتا کہ لفظ تو ایک ہی ہے.اندھے کی طرح ایک دوسرے کی بات کو مانتے جاتے ہیں.جس لفظ کو خدا تعالیٰ نے چھپیس مرتبہ اپنی کتاب قرآن کریم میں بیان کر کے صاف طور پر کھول دیا کہ اس کے معنے روح کا قبض کرنا ہے نہ اور کچھ.اب تک یہ لوگ اس لفظ کے معنی مسیح کے حق میں کچھ اور کے اور کر جاتے ہیں.گویا تمام جہان کے لئے توفی کے معنے تو قبض روح ہی ہیں مگر حضرت ابن مریم کے لئے زندہ اٹھا لینا اس کے معنی ہیں.اطراف ( آئینہ کمالات اسلام - ر-خ- جلد 5 صفحہ 43) أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا وَ اللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَ هُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ.(الرعد: 42) سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے آتا ہے اور اس کی تکذیب کی جاتی ہے تو طرح طرح کی آفتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں جن میں اکثر ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں جن کا اس تکذیب سے کچھ تعلق نہیں.پھر رفتہ رفتہ ائمتہ الکفر پکڑے جاتے ہیں اور سب سے آخر بڑے شریروں کا وقت آتا ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے اَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الرعد: 42) یعنی ہم آہستہ آہستہ زمین کی طرف آتے جاتے ہیں.(حقیقتہ الوحی...خ.جلد 22 صفحہ 166)
656 اوى وَإِذَا عُتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ فَا وا إِلَى الْكَهْفِ يَنْشُرُ لَكُمْ رَبُّكُم مِّنْ رَّ.م مِّنْ رَّحْمَتِهِ وَيُهَتِى لَكُمْ مِّنْ أَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا.(الكهف : 17) قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اولی کا لفظ یہ چاہتا ہے کہ اول کوئی مصیبت واقع ہو.اسی طرح الہام إِنَّهُ اوَى الْقَرْيَةَ چاہتا ہے کہ ابتداء میں خوفناک صورتیں ہوں.اصحاب کہف کی نسبت بھی یہ ہے فاوا اِلَی الْكَهْفِ اور ایک اور جگہ اويُهُمَا إِلى رَبُوَةٍ ہے.ان تمام مقامات سے یہی مطلب ہے کہ قبل اس کے کہ خدا تعالی آرام دیوے مصیبت اور خوف کا نظارہ پیدا ہوگا.( ملفوظات جلد دوم صفحه 531) اوی کا لفظ عربی زبان میں اس پناہ دینے کو کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی حد تک مصیبت رسیدہ ہو کر پھر امن میں آجاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَاوَى (الضحی : 7 ) یعنی خدا نے تجھے یتیم پایا اور یتیمی کے مصائب میں تجھے مبتلا دیکھا پھر پناہ دی اور جیسا کہ فرماتا ہے و اونهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مُعِينٍ (المومنون : 51) یعنی ہم نے عیسی اور اس کی ماں کو بعد اس کے جو یہودیوں نے ان پر ظلم کیا اور حضرت عیسی کو سولی دینا چاہا.ہم نے عیسی اور اس کی ماں کو پناہ دی اور دونوں کو ایک ایسے پہاڑ پر پہنچادیا جوسب پہاڑوں سے اونچا تھا یعنی کشمیر کا پہاڑ جس میں خوشگوار پانی تھا اور بڑی آسائش اور آرام کی جگہ تھی.اور جیسا کہ سورۃ الکہف میں یہ آیت ہے فاوا السی الْكَهْفِ يَنْشُرُ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ رَّحْمَتِه.(الجزو نمبر 15) یعنی غار کی پناہ میں آ جاؤ.اس طرح پر خدا اپنی رحمت تم پر پھیلائے گا یعنی تم ظالم بادشاہ کی ایذا سے نجات پاؤ گے.غرض اولی کا لفظ ہمیشہ اس موقعہ پر آتا ہے کہ جب ایک شخص کسی حد تک کوئی مصیبت اٹھا کر پھر امن میں داخل کیا جاتا ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ.جلد 22 صفحہ 243-244) ظالم كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ اتَتْ أكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمُ مِّنْهُ شَيْئًا وَّ فَجَّرُنَا خِللَهُمَا نَهَرًا.(الكهف: 34) لغت کی رو سے بھی ثابت ہے کہ ظالم کا لفظ بغیر کسی اور لحاظ کے فقط کم کرنے کے لئے بھی آیا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَمْ تَظْلِمُ مِنْهُ شَيْئًا (الكهف: 34) أَى وَ لَمْ تَنْقُصُ اور خدا تعالیٰ کی راہ میں نفس کے جذبات کو کم کرنا بلا شبہ ان معنوں کی رو سے ایک ظلم ہے.( آئینہ کمالات اسلام -ر خ- جلد 5 صفحہ 137-136 )
657 الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا (الانبیاء : 92) اس سوال کے جواب میں کہ اس امر کی تائید میں کہ مریم علیہا السلام نے ساری عمر نکاح نہیں کیا یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ قرآن میں آیا ہے وَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فرمایا محصنات تو قرآن شریف میں خود نکاح والی عورتوں پر بول گیا ہے وَ المُحْصَنَاتِ مِنَ النِّسَاءِ (النساء: 25) اور الَّتِي اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا کے معنے تو یہ ہیں کہ اس نے زنا سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا.یہ کہاں سے نکلا کہ اس نے ساری عمر نکاح ہی نہیں کیا.( ملفوظات جلد دوم صفحه 291-290) نزول وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْأَنْعَامِ (الزمر :7) اور تمہارے لئے چار پائے اتارے....ظاہر ہے کہ اترنے کا لفظ آسمان سے اترنے پر ہرگز دلالت نہیں کرتا اور اترنے کے ساتھ آسمان کا لفظ زیادہ کر لینا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی بھوکے سے پوچھا جائے کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو وہ جواب دے کہ چار روٹیاں.(ازالہ اوہام -رخ- جلد 3 صفحہ 245 حاشیہ ) نزول کے لفظ سے در حقیقت آسمان سے نازل ہونا ثابت نہیں ہوتا.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کھلے کھلےطور پر قرآن شریف میں آیا ہے قَدْ انْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُولًا (الطلاق: 11 12) تو کیا اس سے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آسمان سے ہی اترے تھے.(ازالہ اوہام...خ.جلد 3 صفحہ 450) ایک علو تو اس رنگ میں ہوتا ہے جیسے کہ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِث (الضحی: 12 ) اور ایک علو شیطان کا ہوتا ہے جیسے اَبی وَ اسْتَكْبَرَ (البقرة: 35) اور اس کے بارے میں ہے امُ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ (ص:76) یہ اس سے سوال ہے کہ تیرا علو تکبر کے رنگ میں ہے یا واقعی ہے.خدا تعالیٰ کے بندوں کے واسطے بھی اعلی کا لفظ آیا اور ہمیشہ آتا ہے جیسے إِنَّكَ أَنتَ الأغلى (طه: 69) مگر یہ تو انکسار سے ہوتا ہے اور وہ تکبر سے ملا ہوا ہوتا ہے.عدل ( ملفوظات جلد دوم صفحه 404) الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّى فَعَدَلَكَ (الانفطار : 8)...حسن تناسب اعضاء کا نام ہے.جب تک یہ نہ ہو ملاحت نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ نے اسی لئے اپنی صفت فَسَوَّكَ فَعَدَلَكَ (الانفطار : 8) فرمائی ہے.عدلک کے معنے تناسب کے ہیں کہ نسبتی اعتدال ہر جگہ ملحوظ رہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 201)
658 دوسری فصل قرآن کریم کی گرائمر اور صرف و نحو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول انسانی صرف نحو کا تابع نہیں اغراض نفسانیہ کے ساتھ زبان پر کیونکر احاطہ ہو سکے اور معارف قرآنیہ کیونکر حاصل ہو سکیں اور لغت عرب جو صرف نحو کی اصل کنجی ہے وہ ایک ایسا نا پیدا کنار دریا ہے جو اس کی نسبت امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا نَبِی یعنی اس زبان کو اور اس کے انواع اقسام کے محاورات کو بجز نبی کے اور کوئی شخص کامل طور پر معلوم ہی نہیں کر سکتا.اس قول سے بھی ثابت ہوا کہ اس زبان پر ہر ایک پہلو سے قدرت حاصل کرناہر ایک کا کام نہیں بلکہ اس پر پورا احاطہ کرنا معجزات انبیاء علیہم السلام سے ہے.نزول مسیح جلد 18 صفحہ 437-436) آپ نے اپنی اس شرط کا کچھ خیال نہیں رکھا جو پہلے ہم دونوں کے درمیان قرار پا چکی تھی جو قال اللہ اور قال الرسول سے باہر نہیں جائیں گے اور نہ ان بزرگوں کی عزت اور مرتبت کا کچھ پاس کیا جو اہل زبان اور صرف اور نحو کو آپ سے بہتر جاننے والے تھے صرف اور نحو ایک ایسا علم ہے جس کو ہمیشہ اہل زبان کے محاورات اور بول چال کے تابع کرنا چاہئے اور اہل زبان کی مخالفانہ شہادت ایک دم میں نحو و صرف کے بناوٹی قاعدہ کو رد کر دیتی ہے.ہمارے پر اللہ اور رسول نے یہ فرض نہیں کیا کہ ہم انسانوں کے خود تراشیدہ قواعد صرف و نحو کو اپنے لئے ایسار ہبر قرار دیدیں کہ باوجود یکہ ہم پر کافی اور کامل طور پر کسی آیت کے معنے کھل جائیں اور اس پر اکابر مومنین اہل زبان کی شہادت مل جائے تو پھر بھی ہم اس قاعدہ یا تحوکو ترک نہ کریں اس بدعت کے الزام کی ہمیں حاجت کیا ہے.کیا ہمارے لئے کافی نہیں کہ اللہ و رسول اور صحابہ کرام ایک صحی معنے ہم کو بتلا دیں نحو اور صرف کے قواعد طراد بعد الوقوع ہے اور یہ ہمارا مذہب نہیں کہ یہ لوگ اپنے قواعد تراشی میں بکلی غلطی سے معصوم ہیں.اور ان کی نظریں ان گہرے محاورات کلام الہی پر پہنچ گئی ہیں جس سے آگے تلاش اور تبع کا دروازہ بند ہے میں جانتا ہوں کہ آپ بھی ان کو معصوم نہیں سمجھتے ہوں گے.آپ جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں اِن هَذَانِ لَسَا حِرَانِ (طه:64) بھی آیت موجود ہے لیکن کیا آپ نظیر کے طور پر کوئی قول عرب قدیم کا پیش کر سکتے ہیں جس میں بجائے ان ہذین کے ان ہذان لکھا ہو.کسی نحوی نے آج تک یہ دعوی بھی نہیں کیا کہ ہم قواعد صرف و نحو کو ایسے کمال تک پہنچا چکے ہیں کہ اب کوئی نیا امر پیش آنا یا ہماری تحقیق میں کسی قسم کا نقص نکلنا غیر ممکن ہے.غرض التزام قواعد مخترعہ صرف ونحو کا حج شرعیہ میں سے نہیں یہ علم محض از قبیل اطراد بعد الوقوع ہے اور ان لوگوں کی معصومیت پر کوئی دلیل شرعی نہیں مل سکتی.خواص علم لغت ایک دور یا نا پیدا کنار ہے افسوس کہ ہماری صرف ونحو کے قواعد مرتب کرنے والوں نے بہت جلد ہمت ہار دی اور جیسا کہ حق تفتیش کا تھا بجا نہیں لائے.اور کبھی انہوں نے ارادہ نہیں کیا اور نہ کر سکے کہ ایک گہری اور عمیق نظر سے قرآنی وسیع المفہوم الفاظ کو پیش نظر رکھ کر قواعد تامہ کا ملہ مرتب کریں اور یوں ہی نا تمام اپنے کام کو چھوڑ گئے ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہونا چاہئے کہ ہم کسی طرح قرآن کریم کو ان کا تابع نہ ٹھہرا دیں بلکہ جیسے جیسے خواص وسیع المفہوم قرآن کریم کے الفاظ کھلنے چاہئیں اسی کے مطابق اپنی پرانی اور نا تمام محو کوبھی درست کر لیں.الحق مباحثہ دہلی.ر.خ.جلد 4 صفحہ 183)
659 اللہ جل شانہ نے ہمیں یہ فرمایا ہے فان تنارغتم في شيء فردوه الى الله والرسول(النساء: 60) بھنے اگر تم کسی بات میں تنازع کرو تو اس امر کا فیصلہ اللہ اور رسول کی طرف رڈ کرو اور صرف اللہ اور رسول کو حکم بناؤ نہ کسی اور کو اب یہ کیونکر ہو سکے کہ ناقص العلم صرفیوں اور نحویوں کو اللہ اور رسول کو چھوڑ کر اپنا حکم بنایا جائے کیا اسپر کوئی دلیل ہے.تعجب کہ متبع سنت کہلا کر کسی اور کیطرف بجز سر چشمہ طیبہ مطہرہ اللہ رسول کے رجوع کریں.آپ کو یادر ہے کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے کہ قواعد موجودہ صرف و نح غلطی سے پاک ہیں یا ہمہ وجوہ ستم مکمل ہیں.اگر آپ کا یہ مذہب ہے تو اس مذہب کی تائید میں تو کوئی آیت قرآن کریم پیش کیجئے یا کوئی حدیث صحیح دکھلائیے ورنہ آپ کی یہ بحث بے مصرف فضول خیال ہے الحق مباحثہ دہلی.ر- خ - جلد 4 صفحہ 184) حجت شرعی نہیں.قالوا ان هذان لسحران يريدان ان يخرجكم من ارضكم بسحرهما ويذهبا بطريقتكم المثلى.(طه:64) یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض جگہ خدا تعالیٰ انسانی محاورات کا پابند نہیں ہوتا یاکسی اور زمانہ کے متروکہ محاورہ کو اختیار کرتا ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ بعض جگہ انسانی گریمر یعنی صرف ونحو کے ماتحت نہیں چلتا اس کی نظیریں قرآن شریف میں بہت پائی جاتی ہیں مثلاً یہ آیت ان هذنِ لَسَاحِرَانِ انسانی نحو کی رو سے إِنَّ هَذَینِ چاہیئے.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 317 حاشیہ) اس کلام میں مجھے فارسی الاصل ٹھہرایا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی براہین احمدیہ میں فرماتا ہے خُذُوا التَّوْحِيْدَ التَّوْحِيْدَ يَا ابْنَاءَ الْفَارِسِ (ترجمہ) تو حید کو پکڑ وتو حید کو پکڑ والے فارس کے بیٹو.....فارس کے لفظ پر خدا تعالیٰ نے الف لام لگا دیا ہے جو موجودہ نحو کے قاعدہ کی رو سے صرف فارس چاہیئے تھا خدا کا کلام انسانی نحو سے ہر ایک جگہ موافق نہیں ہوتا ایسے الفاظ اور فقرات اور ضمائر جو انسانی نحو سے مخالف ہیں قرآن شریف میں بھی پائے جاتے ہیں.(چشمہ معرفت - ر- خ- جلد 23 صفحہ (331) وَ مَا كَانَ لِبَشَرِاَنْ يُكَلَّمَهُ اللهُ....الخ (الشورى:52) یہ عجیب بات ہے کہ بعض اوقات بعض فقروں میں خدا تعالیٰ کی وحی انسانوں کی بنائی ہوئی صرفی نحوی قواعد کی بظاہر اتباع نہیں کرتی مگر ادنی توجہ سے تطبیق ہو سکتی ہے اسی وجہ سے بعض نادانوں نے قرآن شریف پر بھی اپنی مصنوعی نحو کو پیش نظر رکھ کر اعتراض کئے ہیں مگر یہ تمام اعتراض بیہودہ ہیں.زبان کا علم وسیع خدا کو ہے نہ کسی اور کو اور زبان جیسا کہ تغیر مکانی سے کسی قدر بدلتی ہے ایسا ہی تغیر زمانی سے بھی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں آجکل کی عربی زبان کا اگر محاورہ دیکھا جائے جو مصر اور مکہ اور مدینہ اور دیار شام وغیرہ میں بولی جاتی ہے گویا وہ محاورہ صرف ونحو کے تمام قواعد کی بیانی کر رہا ہے اور مکن ہے کہ اس قسم کا محاورہ کسی زمانہ میں پہلے بھی گذر چکا ہو.پس خدا تعالیٰ کی وحی کو اس بات سے کوئی روک نہیں ہے کہ بعض فقرات سے گذشتہ محاورہ یا موجودہ محاورہ کے موافق بیان کرے.( نزول ایج - ر - خ- جلد 18 صفحہ 436)
660 قرآن کریم میں اکثر اوقات واحد متکلم سے جمع متکلم مراد ہوتی ہے رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ..الخ (نوح: 29) قرآن مجید میں دونوں طرح دعائیں سکھائی گئی ہیں.واحد کے صیغہ میں بھی جیسے رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَيَّ..الخ (نوح: 29) اور جمع کے صیغہ میں بھی جیسے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة: 202) اور اکثر اوقات واحد متکلم سے جمع متکلم مراد ہوتی ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 586585) أَفَغَيْرَ اللَّهِ اَبْتَغِى حَكَمًا وَّ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَبَ مُفَصَّلا و الَّذِينَ آتَيْنهُمُ الْكِتَبَ يَعْلَمُونَ اَنَّهُ مُنَزَّلُ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ.(الانعام: 115) پھر اگر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اگر شک کرنے سے بعض ایسے نو مسلم یا متر در منع کیے گئے تھے جو ضعیف الایمان تھے تو ان کو یوں کہنا چاہئے تھا کہ تم شک مت کرو نہ یہ کہ تو شک مت کر کیونکہ ضعیف الایمان آدمی صرف ایک ہی نہیں ہوتا بلکہ کئی ہوتے ہیں بجائے جمع کے واحد مخاطب کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا.اس کا جواب یہ ہے کہ اس وحدت سے وحدت جنسی مراد ہے جو جماعت کا حکم رکھتی ہے اگر تم اول سے آخر تک قرآن شریف کو پڑھو تو یہ عام محاورہ اس میں پاؤ گے کہ وہ اکثر مقامات میں جماعت کو فرد واحد کی صورت میں مخاطب کرتا ہے مثلاً نمونہ کے طور پر ان آیات کو دیکھو.وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا طَإِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا أَةٍ وَلَا تَنْهَرُهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا.وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا.(بنی اسرائیل : 24 تا25) اب دیکھو کہ ان آیات میں یہ ہدایت ظاہر ہے کہ یہ واحد کا خطاب جماعت امت کی طرف ہے جن کو بعض دفعہ انہیں آیتوں میں تم کر کے بھی پکارا گیا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات میں مخاطب نہیں کیونکہ ان آیتوں میں والدین کی تعظیم و تکریم اور ان کی نسبت برو احسان کا حکم ہے اور ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین تو صغیر سنی کے زمانے میں بلکہ ممدوح کی شیر خوارگی کے وقت میں ہی فوت ہو چکے تھے سو اس جگہ سے اور نیز ایسے اور مقامات سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ جماعت کو واحد کے طور پر مخاطب کر کے پکارنا یہ قرآن شریف کا ایک عام محاورہ ہے کہ جو ابتدا سے آخر تک جابجا ثابت ہوتا چلا جاتا ہے یہی محاورہ توریت کے احکام میں بھی پایا جاتا ہے کہ واحد مخاطب کے لفظ سے حکم صادر کیا جاتا ہے اور مراد بنی اسرائیل کی جماعت ہوتی ہے.ایک عیسائی کے تین سوالوں کا جواب صفحہ 6-2 مطبوعہ وشائع کردہ انجمن حمایت اسلام لاہور ) ( مکتوبات احمد جلد سوم صفحہ 36-35)
661 يوم يقوم الروح والملائكة صفا لا يتكلمون الا من اذن له الرحمن وقال صوابا.(النبا: 39) ترجمہ :.اس روز یعنی قیامت کے دن روح اور فرشتے کھڑے ہونگے اور شفاعت کے بارے میں کوئی بول نہیں سکے گا مگر وہی جسکو خدا تعالیٰ کی طرف سے اجازت ملے اور کوئی نالائق شفاعت نہ کرے.والقى فى روعى ان المراد من لفظ الروح فى أية يوم يقوم الروح جماعة الرسل و النبيين والمحدثين اجمعين الذين يلقى الروح عليهم ويجعلون مکلمین و اما ذکر هم بلفظ الروح لا بلفظ الارواح فاعلم انه قد يذكر الواحد في القران ويرادمنه الجمع وبالعكس سنة قد جرت في كتاب مبين.ترجمہ :.اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس آیت میں لفظ روح سے مراد رسولوں اور نبیوں اور محدثوں کی جماعت ہے جن پر روح القدس ڈالا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہمکلام ہوتے ہیں مگر یہ شبہ کہ روح کے لفظ سے ان کو یاد کیا ارواح کے لفظ سے کیوں یاد نہیں کیا.پس جان کہ قرآن کا محاورہ ایسا ہے کہ کبھی وہ واحد کے لفظ سے جمع مراد لے لیتا ہے اور کبھی جمع سے واحد ارادہ رکھتا ہے یہ قرآن شریف کی ایک عادت مستمرہ ہے.(نور الحق...خ.جلد 8 صفحہ 98) خدا کا کلام صیغہ واحد اور جمع خدا تعالیٰ جب توحید کے رنگ میں بولے تو وہ بہت ہی پیار اور محبت کی بات ہوتی ہے اور واحد کا صیغہ محبت کے مقام پر بولا جاتا ہے.جمع کا صیغہ جلالی رنگ میں آتا ہے جہاں کسی کو سزا دینی ہوتی ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 413) ماضی.مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے جس شخص نے کا فیہ یا ہدایت الخوبھی پڑھی ہوگی وہ خوب جانتا ہے کہ ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے بلکہ ایسے مقامات میں جبکہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقینی الوقوع ہو مضارع کو ماضی کے صیغہ پر لاتے ہیں تا کہ اس امر کا یقینی الوقوع ہونا ظاہر ہو.اور قرآن شریف میں اس کی بہت نظیریں ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ونفخ في الصورفا ذاهم من الأجداث الى ربهم ينسلون (يس:52) اور جیسا کہ فرماتا ہے.واذ قال الله یا عیسی ابن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی و امى الهين من دون الله (المائده : 117) قال الله هذا يوم ينفع الصادقين صدقهم (المائده: 120) اور جیسا کہ فرماتا ہے.ونزعنا ما في صدورهم من غل اخوانا على سرر متقابلین (الحجر: (48) اور جیسا کہ فرماتا ہے.ونادی اصحاب الجنة اصحاب النار ان قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا فهل وجد تم ماوعد ربكم حقا قالوا نعم (الاعراف: 45) اور جیسا کہ فرماتا ہے.تبت یدا ابي لهب وتـب مـا اغـنـي عنه ماله و ما كسب اللهب :2-3) اور جیسا کہ فرماتا ہے.ولو ترى اذو قفوا على النار (الانعام: 28) اور جیسا کہ فرماتا ہے.ولو ترى اذو قفوا على ربهم قال اليس هذا بالحق قالوا بلى و ربنا.(الانعام: (31)
662 مثلاً جس شخص کو بہت سی زہر قاتل دی گئی ہو وہ کہتا ہے کہ میں تو مر گیا.اور ظاہر ہے کہ مرگیا ماضی کا صیغہ ہے مضارع کا صیغہ نہیں ہے.اس سے مطلب اس کا یہ ہوتا ہے کہ میں مرجاؤں گا.اور مثلاً ایک وکیل جس کو ایک قوی اور کھلی کھلی نظیر فیصلہ چیف کورٹ کی اپنے مؤکل کے حق میں مل گئی ہے وہ خوش ہو کر کہتا ہے کہ بس اب ہم نے فتح پالی.حالانکہ مقدمہ ابھی زیر تجویز ہے کوئی فیصلہ نہیں لکھا گیا.پس مطلب اس کا یہ ہوتا ہے کہ ہم یقینا فتح پالیں گے اسی لئے وہ مضارع کی جگہ ماضی کا صیغہ استعمال کرتا ہے.منہ ( براہین احمدیہ.رخ - جلد 21 صفحہ 159 مع حاشیہ) خدا تعالیٰ نے جابجا قرآن شریف میں عظیم الشان پیشگوئیوں کو ماضی کے لفظ سے بیان کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَبَّتْ يَا أَبِي لَهَبٍ وَّ تَبَّ.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 170 ) ہر مقام برنون ثقیلہ استقبال کے معنوں پر مستعمل نہیں ہوتا قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَهَا فَوَلَّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلَّوْا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ لَيَعْلَمُونَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ وَ مَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ.(البقرة:145) آپ ( مولوی محمد بشیر بھوپالوی) نے جو نون ثقیلہ کا قاعدہ پیش کیا ہے وہ سراسر مخدوش اور باطل ہے.حضرت ہر ایک جگہ اور ہر ایک مقام میں نون ثقیلہ کے ملانے سے مضارع استقبال نہیں بن سکتا.قرآن کریم کے لیے قرآن کریم کی نظیریں کافی ہیں اگر چہ یہ سچ ہے کہ بعض جگہ ایسی بھی ہیں کہ حال کے معنے قائم رہے ہیں یا حال اور استقبال بلکہ ماضی بھی اشترا کی طور پر ایک سلسلہ متصل ممتدہ کی طرح مراد لیے گئے ہیں یعنی ایسا سلسلہ جو حال یا ماضی سے شروع ہوا اور استقبال کی انتہا تک بلا انقطاع برابر چلا گیا.پہلی آیات کی نظیر یہ ہے کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے فَلَنُوَلِيَنَّكَ قِبْلَةً تَرُضُهَا فَوَلَّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اب ظاہر ہے کہ اس جگہ حال ہی مراد ہے.کیونکہ بمجرد نزول آیت کے بغیر توقف اور تراخی کے خانہ کعبہ کی طرف مونہہ پھیرنے کا حکم ہو گیا یہاں تک کہ نماز میں ہی مونہہ پھیر دیا گیا.اگر یہ حال نہیں تو پھر حال کس کو کہتے ہیں.استقبال تو اس صورت میں ہوتا کہ خبر اور ظہور خبر میں کچھ فاصلہ بھی ہوتا سو آیت کے یہ معنے ہیں کہ ہم تجھ کو اس قبلہ کی طرف پھیرتے ہیں جس پر تو راضی ہے سو تو مسجد حرام کر طرف منہ کر.الحق مباحثہ دہلی.ر.خ.جلد 4 صفحہ 162-163)
663 قَالَ فَاذْهَبُ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَوةِ أَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَهُ وَ انْظُرُ إِلَى الهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَتَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسُفًا.(طه: 98) اگر چہ یہ سچ ہے کہ بعض جگہ قرآن کریم کے مضارعات پر جب نونِ ثقیلہ ملا ہے تو وہ استقبال کے معنوں پر مستعمل ہوئے ہیں.لیکن بعض جگہ ایسی بھی ہیں کہ حال کے معنے قائم رہے ہیں یا حال اور استقبال بلکہ ماضی بھی اشترا کی طور پر ایک سلسلہ متصلہ ممتدہ کی طرح مراد لئے گئے ہیں یعنی ایسا سلسلہ جو حال یا ماضی سے شروع ہوا اور استقبال کی انتہا تک بلا انقطاع برابر چلا گیا.پہلی آیات کی نظیر یہ ہے کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.وانظرُ إِلى الهِكَ الَّذِي ظَلَّتْ عَلَيْهِ عَاكِفًا لَنُحَرقَنَّهُ الخ یعنی اپنے معبود کی طرف دیکھ جس پر تو مختلف تھا کہ اب ہم اس کو جلاتے ہیں.اس جگہ بھی استقبال مراد نہیں کیونکہ استقبال اور حال میں کسی قدر بعد زمان کا ہونا شرط ہے.مثلاً اگر کوئی کسی کو یہ کہے کہ میں تجھے دس روپیہ دیتا ہوں سولے مجھ سے دس روپیہ.تو اس سے یہ ثابت نہیں ہو گا کہ اس نے استقبال کا وعدہ کیا ہے بلکہ یہ کہا جائے گا کہ یہ سب کارروائی حال میں ہی ہوئی.الحق مباحثہ دہلی.ر.خ.جلد 4 صفحہ 162 163 ) وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَنُدْخِلَنَّهُمُ فِي الصَّلِحِينَ.(العنكبوت: 10) یعنی ہماری سنت مستمرہ قدیمہ ہے کہ جو لوگ ایمان لاویں اور عمل صالح کریں ہم ان کو صالحین میں داخل کر لیا کرتے ہیں.اب حضرت مولوی صاحب دیکھئے کہ لندخِلَنَّهُمُ میں نون ثقیلہ ہے لیکن اگر اس جگہ آپ کی طرز پر معنی کئے جائیں تو اس قدر فساد لازم آتا ہے جو کسی پر پوشیدہ نہیں کیونکہ اس صورت میں مانا پڑتا ہے کہ یہ قاعدہ آئندہ کے لئے باندھا گیا ہے اور اب تک کوئی نیک اعمال بجالا کر صلحاء میں داخل نہیں کیا گیا.گویا آئندہ کے لئے گنہ گارلوگوں کی تو بہ منظور ہے اور پہلے اس سے دروازہ بند ہورہا ہے.سو آپ سوچیں کہ ایسے معنی کرنا کس قدر مفاسد کو مستلزم ہے.الحق مباحثہ دہلی.ر.خ.جلد 4 صفحہ 164) وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهَ مَنْ يَّنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (الحج : 41) یعنی وہ جو خدا تعالیٰ کی مدد کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کی مددکرتا ہے.اب حضرت دیکھئے آیت کے لفظ لَيَنصُرَنَّ کے آخر میں نون ثقیلہ ہے لیکن اگر اس آیت کے یہ معنے کریں کہ آئندہ کسی زمانہ میں اگر کوئی ہماری مدد کرے گا تو ہم اس کی مدد کریں گے تو یہ معنے بالکل فاسد اور خلاف سنت مستمرہ الہیہ ٹھہریں گے کیونکہ اللہ جل شانہ کے قدیم سے اور اسی زمانہ سے کہ جب بنی آدم پیدا ہوئے یہی سنت مستمرہ ہے کہ وہ مددکرنے والوں کی مدد کرتا ہے.یوں کیونکر کہا جائے کہ پہلے تو نہیں مگر آئندہ کسی نامعلوم زمانہ میں اس قاعدہ کا پابند ہو جائے گا اور اب تک تو صرف وعدہ ہی ہے عمل درآمد نہیں سُبْحَانَهُ هذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ - الحق مباحثہ دہلی.ر- خ - جلد 4 صفحہ 164)
664 ایک نکتۂ معرفت قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کے نام کے ساتھ کوئی صفت مفعول کے صیغہ میں نہیں ہے.قدوس تو ہے مگر معصوم نہیں ہے کیونکہ معصوم کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ اس کو بچانے والا کوئی اور ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ تو اپنی ذات ہی میں بے عیب پاک خدا ہے اور وحدہ لاشریک اکیلا خدا ہے اس کو بچانے والا کون ہو سکتا ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 466) وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَ إِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (العنكبوت: 70) جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور کریں گے ہم ان کو اپنی راہیں دکھلا رہے ہیں اور دکھلائیں گے.صاف ظاہر ہے کہ اگر اس جگہ مجزر داستقبال مراد لیا جائے تو اس سے معنے فاسد ہو جائیں گے اور یہ کہنا پڑے گا کہ یہ وعدہ صرف آئندہ کے لئے ہے اور حال میں جو لوگ مجاہدہ میں مشغول ہیں یا پہلے مجاہدات بجالا چکے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی راہوں سے بے نصیب ہیں بلکہ اس آیت میں عادت مستمرہ جار یہ دائرہ میں الا زمنہ الثلثہ کا بیان ہے جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ ہماری یہی عادت ہے کہ مجاہدہ کرنے والوں کو اپنی راہیں دکھلایا کرتے ہیں.کسی زمانہ کی خصوصیت نہیں بلکہ سنت مستمرہ دائرہ سائرہ کا بیان ہے جس کے اثر سے کوئی زمانہ باہر نہیں.الحق مباحثہ دہلی.ر.خ.جلد 4 صفحہ 163)
665 تیسری فصل فہم قرآن اور حساب جمل وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَاسْكَتْهُ فِي الْأَرْضِ وَ إِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُونَ (المومنون: 19) یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہوا جو کمال طغیان اس کا اس سن ہجری میں شروع ہو گا جو آیت وَ إِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَدِرُونَ.میں بحساب جمل مخفی ہے یعنی 1274 - (ازالہ اوہام - رخ جلد 3 صفحہ 455) مسیح ابن مریم کی آخری زمانہ میں آنے کی قرآن شریف میں پیشگوئی موجود ہے.قرآن شریف نے جو مسیح کے نکلنے کی چودہ سو برس تک مدت ٹھہرائی ہے.بہت سے اولیاء بھی اپنے مکاشفات کی رو سے اس مدت کو مانتے ہیں اور آیت وَ إِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُونَ.جس کے بحساب جمل 1274 عدد ہیں.اسلامی چاند کی سلح راتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں نئے چاند کے نکلنے کی اشارت چھپی ہوئی ہے جو غلام احمد قادیانی کے عددوں میں بحساب جمل پائی جاتی ہے.(ازالہ اوہام...خ.جلد 3 صفحہ 464) قرآن شریف کے حروف اور ان کے اعداد بھی معارف مخفیہ سے خالی نہیں ہوتے.مثلاً سورۃ والعصر کی طرف دیکھو کہ ظاہری معنوں کی رو سے یہ بتلاتی ہے کہ یہ دنیوی زندگی جس کو انسان اس قدر غفلت سے گزار رہا ہے آخر یہی زندگی ابدی خسران اور وبال کا موجب ہو جاتی ہے اور اس خسر ان سے وہی بچتے ہیں جو خدائے واحد پر نیچے دل سے ایمان لے آتے ہیں کہ وہ موجود ہے اور پھر ایمان کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ اچھے اچھے عملوں سے اس کو راضی کریں اور پھر اسی پر کفایت نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ اس راہ میں ہمارے جیسے اور بھی ہوں جو سچائی کو زمین پر پھیلا دیں اور خدا کے حقوق پر کار بند ہوں اور بنی نوع پر بھی رحم کریں لیکن اس سورت کے ساتھ یہ ایک عجیب معجزہ ہے کہ اس میں آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت کے زمانہ تک دنیا کی تاریخ ابجد کے حساب سے یعنی حساب جمل سے بتلائی گئی ہے.غرض قرآن شریف میں ہزار ہا معارف و حقائق ہیں اور در حقیقت شمار سے باہر ہیں.( نزول المسیح - ر - خ جلد 18 صفحہ 422)
666 معانی قرآن حقیقی اور مجازی إِنَّ الْمُصَّدِقِينَ وَالْمُصَّدِقتِ وَاَقْرَضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ.(الحديد: 19) قرآن کریم میں یہ سنت اللہ ہے کہ بعض الفاظ اپنی اصلی حقیقت سے پھر کر مستعمل ہوتے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے وَاَقْرَضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا یعنی قرض دو اللہ کو قرض اچھا.اب ظاہر ہے کہ قرض کی اصل تعریف کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ انسان حاجت اور لاچاری کے وقت دوسرے سے بوقت دیگر ادا کرنے کے عہد پر کچھ مانگتا ہے لیکن اللہ جل شانہ حاجت سے پاک ہے.پس اس جگہ قرض کے مفہوم میں سے صرف ایک چیز مراد لی گئی یعنی اس طور سے لینا کہ پھر دوسرے وقت اس کو واپس دے دینا اپنے ذمہ واجب ٹھہرایا ہو.( آئینہ کمالات اسلام.رخ- جلد 5 صفحہ 154-155) إذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتُ.(الانشقاق:2) یہ بات بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ قرآن کریم کے ہر یک لفظ کو حقیقت پر حمل کرنا بھی بڑی غلطی ہے اور اللہ جل شانہ کا یہ پاک کلام بوجہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت کے استعارات لطیفہ سے بھرا ہوا ہے سو ہمیں اس فکر میں پڑنا کہ انشقاق اور انفجار آسمانوں کا کیونکر ہوگا.درحقیقت ان الفاظ کے وسیع مفہوم میں ایک دخل بیجا ہے صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام الفاظ اور اس قسم کے اور بھی عالم مادی کے فنا کی طرف اشارہ ہے.الہی کلام کا مدعا یہ ہے کہ اس عالم کون کے بعد فساد بھی لا زم پڑا ہوا ہے.ہر یک جو بنایا گیا تو ڑا جائے گا اور ہر یک ترکیب پاش پاش ہو جائے گی اور ہر یک جسم متفرق اور ذرہ ذرہ ہو جائے گا اور ہر یک جسم اور جسمانی پر عام فنا طاری ہوگی اور قرآن کریم کے بہت سے مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ انشقاق اور انفجار کے الفاظ جو آسمانوں کی نسبت وارد ہیں ان سے ایسے معنی مراد نہیں ہیں جو کسی جسم صلب اور کثیف کے حق میں مراد لئے جاتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام.رخ - جلد 5 صفحہ 150-151 حاشیه در حاشیه ) یا درکھو.الفاظ کے معنے کرنے میں بڑی غلطی کھاتے ہیں.بعض وقت الفاظ ظاہر پر آتے ہیں اور بعض اوقات استعارہ کے طور پر آتے ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کے سب سے پہلے لمبے ہاتھوں والی بی بی فوت ہوں گی.اور آپ کے سامنے ساری بیبیوں نے باہم ہاتھ ناپنے بھی شروع کر دیئے اور آپ نے منع بھی نہ فرمایا.لیکن جب بی بی زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا.تو اس کے معنے کھلے کہ لمبے ہاتوں والی سے مراد اس بی بی سے تھی جو سب سے زیادہ بھی تھی.ایسا ہی اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایسی آیتیں موجود ہیں جن کے اگر ظاہر معنے کئے جائیں تو کچھ بھی مطلب نہیں نکل سکتا.جیسے فرمایا مَنْ كَانَ فِى هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِى الْآخِرَةِ أَعْمَى (بنى اسرائيل: 73)
667 اب آپ وزیر آباد میں ہی حافظ عبدالمنان سے جو اس سلسلہ کا سخت دشمن ہے دریافت کریں کہ کیا اس آیت کا یہی مطلب ہے کہ جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اٹھایا جائے گا یا ظاہر پر اس سے مراد نہیں لی جاتی ، کچھ اور مطلب ہے.یقیناً اس کو یہی کہنا پڑے گا.کہ بیشک اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہر اندھا اور نابینا قیامت کو بھی اندھا اور نا بینا اٹھے بلکہ اس سے مراد معرفت اور بصیرت کی نابینائی ہے.جب یہ ثابت ہے کہ الفاظ میں استعارات بھی ہوتے ہیں اور خصوصاً پیشگوئیوں میں.تو پھر مسیح کے نزول کے متعلق جو پیشگوئیوں میں الفاظ آئے ہیں ان کو بالکل ظاہر ہی پر حمل کر لینا کونسی دانشمندی ہے؟ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ظاہر پرستی سے کام لیتے ہیں اور نظن سے کام لیتے ہیں.مگر یا درکھیں کہ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا (النجم : 29) اور بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ (الحجرات: 13) ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 372-371) غرض تو ہنسی ٹھٹھا ہے نہ تحقیق.بعض سرسری نظر سے خدا کی کتاب کو دیکھ کر بغیر اس کے جو پوری سمجھ سے کام لیں فی الفور اعتراض کر دیتے ہیں خدا کی کلام میں کئی جگہ استعارہ ہوتا ہے کئی جگہ مجاز ہوتا ہے اور کئی جگہ حقیقت کا دکھلا نا مقصود ہوتا ہے.پس جب پورا علم نہ ہو اور اس کے ساتھ اپنا دل صاف نہ ہوتو اعتراض کرنا جہالت ہے.خدا کے کلام کے صحیح معنے سمجھنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو خدا سے ملتے ہیں.ایک شخص سراپا دنیا کی پلیدی میں غرق آنکھیں اندھی اور دل نا پاک ہے وہ اس حالت میں خدا کے کلام پر کیا اعتراض کرے گا.اول چاہیئے کہ اپنے دل کو پاک بناوئے نفسانی جذبات سے اپنے تئیں الگ کرے پھر اعتراض کرے.( سناتن دھرم.رخ.جلد 19 صفحہ 473) قرآن شریف ذوالمعارف ہے اور کئی وجوہ سے اسکے معنے ہوتے * جو ایک دوسرے کی ضد نہیں اور جس طرح قرآن شریف یک دفعہ نہیں اترا اسی طرح اسکے معارف بھی دلوں پر یکدفعہ نہیں اتر تے اسی بنا پر متفقین کا یہی مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معارف بھی یکدفعہ آپکو نہیں ملے بلکہ تدریجی طور پر آپ نے علمی ترقیات کا دائرہ پورا کیا ہے.ایسا ہی میں ہوں جو بروزی طور پر آپ کی ذات کا مظہر ہوں.آنحضرت کی تدریجی ترقی میں ستر یہ تھا کہ آپکی ترقی کا ذریعہ محض قرآن تھا پس جبکہ قرآن شریف کا نزول تدریجی تھا اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل معارف بھی تدریجی تھی اور اسی قدم پر مسیح موعود ہے جو اس وقت تم میں ظاہر ہوا.علم غیب خدا تعالے کا خاصہ ہے جس قدر وہ دیتا ہے اسی قدر ہم لیتے ہیں.( نزول اصیح.ر.خ.جلد 18 صفحہ 421) ان اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِى الْيَمَ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذُهُ عَدُوِّلِي وَعَدُولَّهُ وَ الْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّى وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي.(طه: 40) محبت لفظ جہاں کہیں باہم انسانوں کی نسبت آیا بھی ہو اس سے در حقیقت حقیقی محبت مراد نہیں ہے بلکہ اسلامی تعلیم کی رو سے حقیقی محبت صرف خدا سے خاص ہے اور دوسری محبتیں غیر حقیقی اور مجازی طور پر ہیں.( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.رخ.جلد 12 صفحہ 369 حاشیہ ) جس طرح اللہ تعالیٰ نے نباتات وغیرہ میں کئی قسم کے خواص رکھے ہیں مثلاً ایک بوٹی دماغ کو قوت دیتی ہے اور ساتھ ہی جگر کو بھی مفید ہے اسی طرح قرآن شریف کے ہر ایک آیت مختلف قسم کے معارف پر دلالت کرتی ہے.منہ
668 قرآن کریم میں مجاز اور استعارات وجی حق پر از اشارات خداست گر نہ فہد جاہلے سج دل رواست خدا کی وحی اشاروں سے بھری ہوئی ہوتی ہے اگر کوئی جاہل اور کم فہم نہ سمجھے تو یہ عین ممکن ہے چشمه فیض است وحی ءِ ایزدی لیکن آں فهمد که باشد مهتدی خدا کی وحی فیضان کا ایک چشمہ ہے لیکن اسے وہی سمجھ سکتا ہے جو خود ہدایت یافتہ ہو.وحی قرآن راز ها دارد بسے نسبتی باید که تا فهمد کسے قرآنی وحی میں بکثرت اسرار ہیں مناسبت ہونی چاہیئے تا کہ کوئی اسے سمجھ سکے.واجب آمد نسبت اندر دیں نخست کارِ بے نسبت نمے آید درست دین کے لیے پہلے مناسبت ہونی ضروری ہے بغیر مناسبت کے کام ٹھیک نہیں بیٹھتا.(ضیاء الحق -ر خ- جلد 9 صفحہ 308) ( درشین فارسی صفحه 213) ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ کیوں ناحق ایک ایسی بات پر زور دیتے ہیں جس کے لئے ان کے پاس کوئی یقینی ثبوت نہیں.یہ لوگ خدا تعالیٰ کی کتابوں کی زبان سے محض ناواقف ہیں اگر واقف ہوتے تو سمجھتے کہ پیشگوئیوں میں کس قدر استعارات سے کام لیا جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ سونے کے کڑے پہنے ہوئے ہیں تو اس سے مراد جھوٹے نبی تھے اور جب آپ کو گائیوں کا ذبح ہونا دکھایا گیا تو اس سے مراد صحابہ کی شہادت تھی.اور یہ کوئی خاص بات نہیں عام طور پر قانون الہی رؤیا اور پیشگوئیوں کے متعلق اس قسم کا ہے.دیکھو حضرت یوسف کی رؤیا جو قرآن شریف میں ہے کیا اس سے سورج اور چاند اور ستارے مراد تھے؟ یا عزیز مصر کی رویا جس میں گائیں دکھائی گئی تھیں اس سے فی الواقعہ کا ئیں مراد تھیں یا کچھ اور ؟ اس قسم کی ایک دو نہیں ہزاروں ہزار شہادتیں ملتی ہیں.مگر تعجب کی بات ہے کہ نزول مسیح کے معاملہ میں یہ لوگ ان کو بھول جاتے ہیں اور ظاہر الفاظ پر زور دینے لگتے ہیں ان معاملات میں اختلاف کی جڑ دوہی باتیں ہوا کرتی ہیں کہ مجاز اور استعارہ کو چھوڑ کر اس کو ظاہر پر حمل کر لیا جائے اور جہاں ظاہر مراد ہے وہاں استعارہ قرار دیا جائے اگر پیشگوئیوں میں مجاز اور استعارہ نہیں ہے تو پھر کسی نبی کی نبوت کا ثبوت بہت مشکل ہو جاوے گا.( ملفوظات جلد دوم صفحه 372) عہد نامہ قدیم وجدید میں استعارات کا استعمال اور یہود کا ابتلاء یہودیوں کو یہی مشکل اور آفت تو پیش آئی کیونکہ حضرت مسیح کے لئے لکھا تھا کہ اس کے آنے سے پہلے ایلیا آئے گا.چنانچہ ملا کی نبی کی کتاب میں یہ پیشگوئی بڑی صراحت سے درج ہے.یہودی اس پیشگوئی کے موافق منتظر تھے.کہ ایلیا آسمان سے آوے لیکن جب مسیح آگیا اور ایلیا آسمان سے نہ اتر اتو وہ گھبرائے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 372)
669 حقیقت و استعاره پھر فرمایا: ”انبیاء علیہم السلام کے آنے کے وقت لوگوں کے حالات دو قسم کے ہوتے ہیں.وہ استعارات کو حقیقت پر محمول کرنا چاہتے ہیں اور حقیقت کو استعارہ بنانا چاہتے ہیں.یہی مصیبت اب ان کو پیش آئی ہے.یہ کوئی ایسا دجال دیکھنا چاہتے ہیں.جس کی آنکھ در حقیقت باہر نکلی ہوئی ہو اور پورے ستر گز کا اس کا گدھا ہو اور آسمان سے حضرت عیسی کبوتر کی طرح منڈلاتے ہوئے اتریں.یہ کبھی ہونا ہی نہ تھا.یہودیوں کو بھی حضرت عیسی کے وقت یہی مصیبت پیش آئی.وہ بھی یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ مسیح سے پہلے جیسا کہ ملا کی نبی کی کتاب میں لکھا ہے آسمان سے ایلیا اترے گا چنانچہ جب صحیح آیا تو انھوں نے یہی اعتراض کیا.مگر مسیح نے ان کو جواب میں یہی کہا کہ ایلیا آ چکا اور وہ یہی یحیی بن زکریا ہے.یہودی سمجھتے تھے کہ خود ایلیا آئے گا.اس لیے وہ منکر ہو گئے.چنانچہ ایک یہودی کی کتاب میں نے منگوائی تھی.اس میں وہ صاف لکھتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ہم سے مواخذہ کرے گا، تو ہم ملا کی نبی کی کتاب کھول کر رکھ دیں گے اس میں تو صاف لکھا ہوا ہے کہ ایلیا پہلے آسمان سے آئے گا.یہ کہاں لکھا ہے کہ وہ بیٹی ہی ہو گا.اب ہمارا دعوئی تو حضرت مسیح کی ہائیکورٹ سے فیصلہ ہو گیا کہ جس کے دوبارہ آنے کا وعدہ ہوتا ہے اس کی آمد ثانی کا یہ رنگ ہوتا ہے اس کی خوبو اور خواص پر کوئی دوسرا آتا ہے.یہی دھوکا اور غلطی ہمارے علماء کو لگی ہے.یہ اصل میں ایک استعارہ ہے.جس کو انھوں نے حقیقت پر حمل کر لیا ہے.ایسا ہی دجال اور اس کے دوسرے لوازمات کو حقیقت بنایا.عیسائیوں نے بھی دھوکا کھایا.حضرت عیسی نے اپنے بعد فارقلیط کے آنے کی پیشگوئی کی تھی.عیسائیوں نے روح القدس مراد لی حالانکہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد تھے.یہ لفظ فارقلیط فارق اور لیسط سے مرکب ہے.لیط شیطان کو کہتے ہیں.(اور فارق کے معنی ہیں جدا کر نیوالا یعنی شیطان کو دور کرنے والا.ناقل ) غرض یہ بڑی خطرناک غلطی ہے جو انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے وقت لوگ کھاتے ہیں کہ استعارات کو حقیقت پر اور حقیقت کو استعارات پر محمول کر لیتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 586)
670 وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَهُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَرَزَقْنَهُمْ مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلُنهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيَّلًا.(بنی اسرائیل: 71) وَحَمَلْتَهُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ یعنی اٹھا یا ہم نے ان کو جنگلوں میں اور دریاؤں میں.اب کیا اس کے یہ معنے کرنے چاہئے کہ حقیقت میں خدائے تعالیٰ اپنی گود میں لے کر اٹھائے پھرا.سواسی طرح ملا یک کے پروں پر ہاتھ رکھنا حقیقت پر محمول نہیں.(ازالہ اوھام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 476) قرآن شریف میں ہمیں صاف تا کید فرمائی گئی ہے آیات متشابہات یعنی جن کا سمجھنا عقل پر مشتبہ رہے ان کے ظاہری معانی پر ہرگز زور نہیں دینا چاہیئے در حقیقت یہی مطلب اور مراد خدا تعالیٰ کی ہے.بلکہ اس پر ایمان لانا چاہئے اور اس کی اصل حقیقت کو حوالہ بخدا کر دینا چاہیئے.اب دیکھو کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی کامل تعلیم ہے کہ اسی برکت سے ہم ہزار ہا ایسے جھگڑوں سے نجات پاسکتے ہیں جو قصص ماضیہ یا پیشگوئیوں کی نسبت اس زمانہ میں پیدا ہورہے ہیں کیونکہ ہر یک اعتراض خلاف عقل معنے کو حقیقت پر حمل کرنے سے پیدا ہوتا ہے.پس جبکہ ہم نے اس ضد کو ہی چھوڑ دیا اور اپنے مولیٰ کی ہدایت کے موافق تمام متشابہات میں جن کا سمجھنا عقل پر مشتبہ رہتا ہے.یہی اصول مقرر کر رکھا کہ ان پر اجمالی طور پر ایمان لاویں اور ان کی اصل حقیقت حوالہ بخدا کریں تو پھر اعتراض کے لئے کوئی بنیاد پیدا نہیں ہوسکتی.(ازالہ اوہام - ر- خ - جلد 3 صفحہ 252-251) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ.(الانعام: 104) اس جگہ بظاہر انکار دیدار ہے اور اس کے مخالف یہ آیت ہے اِلى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القيامة : 24) اس سے دیدار ثابت ہوتا ہے.سوسیح اور بیٹی کے کلمات میں اسی قسم کا تناقض ہے جو دراصل تناقض نہیں ایک نے مجاز کو ذہن میں رکھا اور دوسرے نے حقیقت کو اس لیے کچھ تناقض نہ ہوا.(ضمیمہ تریاق القلوب.ر.خ.جلد 15 صفحہ 463 حاشیہ )
671 الهام وحی رویاء و کشوف پر اکثر استعارات غالب ہوتے ہیں وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلَّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَرَا آی حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوْحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ.(شوری: 52) وحی وراء الحجاب کی خدا تعالیٰ کی کلام میں ہزاروں مثالیں ہیں اس سے انکار کرنا منصف کا کام نہیں.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دوجھوٹے نبیوں کو دوکڑوں کی شکل میں دیکھنا اس قسم کی وحی تھی.گائیں ذبح ہوتے دیکھنا بھی اسی قسم کی وحی تھی.لمبے ہاتھوں والی بیوی کا سب بیویوں سے پہلے فوت ہو نا دیکھنا بھی اسی قسم کی وحی تھی اور ملا کی نبی کی وحی میں یہ ظاہر کیا جانا کہ ایلیاء نبی دوبارہ آئے گا اور یہود کی بستیوں میں سے فلاں مقام پر نازل ہوگا یہ بھی اسی قسم کی جی تھی اور مدینہ کی وباء کا عورت پراگندہ شکل کے طور پر نظر آنا یہ بھی اس قسم کی وحی تھی.اسی طرح دجال بھی جو ایک دجل کرنے والا گروہ ہے ایک شخص مقرر کی طرح نظر آیا یہ بھی اس قسم کی وحی ہے.نبیوں کی وحیوں میں ہزاروں ایسے نمونے ہیں جن میں روحانی امور جسمانی رنگ میں نظر آئے یا ایک جماعت ایک شخص کی صورت میں نظر آئی.تمام نوع انسان کے لئے جس میں انبیاء علیہم السلام بھی داخل ہیں خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ الہام اور وحی اور رویا اور کشف پراکثر استعارات غالب ہوتے ہیں مثلاً دو چار سو آدمی جمع کر کے ان کی خوا ہیں سنو تو اکثر ان میں استعارات ہوں گے.کسی نے سانپ دیکھا ہوگا کسی نے بھیڑیا اور کسی نے سیلاب اور کسی نے باغ اور کسی نے پھل اور کسی نے آگ اور تمام یہ مور قابل تاویل ہوں گے.حدیثوں میں ہے کہ قبر میں عمل صالح اور غیر صالح انسان کی صورت پر دکھائی دیتے ہیں سو یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس سے تمام تناقض دور ہوتے ہیں اور حقیقت کھلتی ہے مبارک وہ جو اس میں غور کریں.(ایام الصلح.رخ.جلد 14 صفحہ 277) قبل اس کے کہ اس آیت کے حل کی طرف ہم متوجہ ہوں ہم عملا دیکھتے ہیں کہ تین ہی طریقے ہیں خدا تعالیٰ کے کلام کرنے کے چوتھا کوئی نہیں (1) رویا ( 2 ) مکاشفہ (3) وحی...من ورای حجاب سے مرادر دیا کا ذریعہ ہے من ورای حجاب کے معنی یہ ہیں کہ اس پر استعارے غالب رہتے ہیں جو حجاب کا رنگ رکھتے ہیں اور یہی رویا کی ہیئت ہے.يُرْسِلَ رَسُولًا سے مراد مکاشفہ ہے.رسول کا تمثل بھی مکاشفہ میں ہی ہوتا ہے اور مکاشفہ کی حقیقت یہی ہے کہ وہ تمثلات ہی کا سلسلہ ہوتا ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 381)
672 وَ نُفِخَ فِى الصُّوْرِ فَجَمَعُنهُمْ جَمْعًا (الكهف (100) غرض اس وقت ہر ایک رشید خدا کی آواز سن لے گا اور اس کی طرف کھینچا جائے گا اور دیکھ لے گا کہ اب زمین اور آسمان دوسرے رنگ میں ہیں نہ وہ زمین ہے اور نہ وہ آسمان جیسا کہ مجھے پہلے اس سے ایک کشفی رنگ میں دکھلایا گیا کہ میں نے ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنایا ایسا ہی عنقریب ہونے والا ہے اور کشفی رنگ میں یہ بنانا میری طرف منسوب کیا گیا کیونکہ خدا نے اس زمانہ کے لئے مجھے بھیجا ہے لہذا اس نئے آسمان اور نئی زمین کا میں ہی موجب ہوا اور ایسے استعارات خدا کی کلام میں بہت ہیں.براهین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 109) إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ.(الاعراف:55) عرش اللہ تعالیٰ کی جلالی و جمالی صفات کا مظہر اتم ہے عرش کے مخلوق یا غیر مخلوق کے متعلق میں کچھ نہیں کہتا.اس کی تفصیل حوالہ بخدا کرنی چاہیئے.جنہوں نے مخلوق کہا ہے انہوں نے بھی غلطی کھائی ہے کیونکہ پھر اس سے وہ محدود لازم آتا ہے.اور جو غیر مخلوق کہتے ہیں وہ توحید کے خلاف کہتے ہیں کیونکہ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ اگر یہ غیر مخلوق ہو تو پھر اس سے باہر رہ جاتی ہے.مومن موقد اس کو تسلیم نہیں کر سکتا.ہم اس کے متعلق کچھ نہیں کہتے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.یہ ایک استعارہ ہے جیسے اُفَطِرُ وَ اَصُومُ يا أُخْطِئُ وَ أصِيبُ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ استعارات کے ذریعہ کلام کرتا ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی کیفیت کو حوالہ بخدا کرتے ہیں پس ہمارا مذ ہب عرش کے متعلق یہی ہے کہ اس کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کی بحث میں دخل نہ دو.ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ اعلیٰ درجہ کی جلالی ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 634) و جمالی تجلیات کا مظہر ہے.کلام الہی میں استعارات اس پر ایک شخص نے عرض کی کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خدا بھی اب روزے رکھنے لگ گیا ہے.فرمایا:.ساری کتابوں میں اس قسم کے فقرات پائے جاتے ہیں.فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَ كُمُ اوُ أَشَدَّ ذِكْرًا (البقرة: 201) اور يَدُ اللهِ فَوقَ أَيْدِيهِمُ (الفتح: 11) ایسے فقرات قرآن مجید میں لکھے ہیں.حدیث شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ تر ڈد کرتا ہے.توریت میں لکھا ہے خدا طوفان لا کے پھر پچھتایا.یہ تو استعارات ہوتے ہیں.ان پر اعتراض کرنے کے معنے ہی کیا.بلکہ ان سے تو سمجھا جاتا ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے اس بات کو سوچنا چاہیئے کہ بناوٹ والے انسان کو کیا مشکل بنی ہے جو وہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کرے جن پر خواہ نخواہ اعتراض ہوں.
673 دیکھو.قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کو قرض حسنہ دو.اس وقت بھی بعض نادان لوگ کہنے لگ گئے تھے کہ اب خدا مفلس اور محتاج ہو گیا ہے.خوب یا درکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ایسے الفاظ استعمال نہ کرتا.اصلیت دیکھنی چاہیئے.قرض کا مفہوم تو صرف اس قدر ہے کہ وہ یے جس کے واپس دینے کا وعدہ ہو.ضروری نہیں کہ لینے والا مفلس بھی ہو.ایسی باتیں ہر کتاب میں پائی جاتی ہیں.حدیث شریف میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کو لوگوں کو کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا.میں بیمار تھا تم نے بیمار پرسی نہ کی.وغیرہ وغیرہ یہ تو سب استعارات ہوتے ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 315-314) خدا نے قرآن کا نام مال رکھا ہے اور حکمت کا نام بھی مال رکھا ہے جیسا کہ فرماتا ہے يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا.مفسر لکھتے ہیں کہ اس کے معنے ہیں مَالًا كَثِيرًا.لغت میں خیر کے معنے مال کے لکھے ہیں اور ایک اور حدیث میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بڑی دعوت کی اور ہر ایک قسم کا کھانا پکایا تو بعض کھانا کھانے کے لیے آئے انہوں نے کھانا کھا کر حظ اٹھایا اور بعض نے اس دعوت سے انکار کیا وہ بے نصیب رہے.اب دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پلا ؤ اور قورمہ وغیرہ پکایا تھا یا روحانی کھانے تھے.اصل بات یہ ہے کہ انبیاء اکثر روحانی امور کو طرح طرح کے پیرایوں میں بیان فرمایا کرتے ہیں اور نفسانی آدمی ان کو جسمانی امور کی طرف لے جاتے ہیں.بھلا ہم پوچھتے ہیں کہ مسیح آ کر درہم و دینار بہت سے تقسیم کرے گا کہ علماء وغیرہ کے گھر سونے چاندی سے بھر جائیں گے لیکن اس کا کہاں تذکرہ ہے کہ وہ لوگ جو روحانی طور پر بھوکے پیاسے ہونگے ان کی اسی طور سے پوری حاجت براری کرے گا.پس اگر یہ تذکرہ کسی اور جگہ نہیں تو یقیناً یاد رکھو کہ یہ وہی تذکرہ ہے جو استعارہ کے رنگ پر بیان کیا گیا ہے.( مکتوبات احمد محررہ 22 جولائی 1900 از قادیان مندرجہ الحکم جلد 4 نمبر 27 مورخہ 23 جولائی 1900 صفحہ 3) وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطَّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِى فَتَنْفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي.(المائده: 111) اور چونکہ قرآن شریف اکثر استعارات سے بھرا ہوا ہے اس لئے ان آیات کے روحانی طور پر معنی بھی کر سکتے ہیں کہ مٹی کی چڑیوں سے مراد وہ امی اور نادان لوگ ہیں جن کو حضرت عیسی نے اپنار فیق بنایا گویا اپنی صحبت میں لے کر پرندوں کی صورت کا خا کہ کھینچا پھر ہدایت کی روح ان میں پھونک دی جس سے وہ پرواز کرنے لگے.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 255 حاشیہ )
674 الم.غُلِبَتِ الرُّومُ فِى أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْآمُرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ (الروم 2-5) جبکہ خدا تعالیٰ کے قانون قدرت نے مکاشفات اور رویائے صالحہ کے لئے یہی اصل مقرر کر دیا ہے کہ وہ اکثر استعارات سے پر ہوتے ہیں تو اس اصل سے معنی کو پھیرنا اور یہ دعوی کرنا کہ ہمیشہ پیشگوئیاں ظاہر پر ہی محمول ہوتی ہیں.اگر الحاد نہیں تو اور کیا ہے؟ صوم اور صلوۃ کی طرح پیشگوئی کو بھی ایک حقیقت منکشفہ سمجھنا بڑی غلطی اور بڑا بھارا دھوکہ ہے.یہ احکام تو وہ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھلا دیئے اور بکلی اُن کا پردہ اُٹھاد یا مگر کیا ان پیشگوئیوں کے حق میں بھی آنحضرت نے یہ فرمایا ہے کہ یہ من کل الوجوہ مکشوف ہیں اوران میں کوئی ایسی حقیقت اور کیفیت مخفی نہیں جو ظہور کے وقت سمجھ آ سکے.گر کوئی حدیث صحیح موجود ہے تو کیوں پیش نہیں کی جاتی.آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابو جہل سے شرط لگائی اور قرآن شریف کی وہ پیشگوئی مدار شرط رکھی کہ الم.غُلِبَتِ الرُّومُ.فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ.اور تین برس کا عرصہ ٹھہرایا تو آپ پیشگوئی کی صورت کو دیکھ کر فی الفور دوراندیشی کو کام میں لائے اور شرط کی کسی قدر ترمیم کرنے کے لئے ابوبکر صدیق کو حکم فرمایا اور فرمایا کہ بضع سنین کا لفظ مجمل ہے اور اکثر نو برس تک اطلاق پاتا ہے.(ازالہ اوہام.رخ.جلد 3 صفحہ 310,311) مجاز.استعارہ اور کلام انبیاء علیہم السلام اتعجبون من هذه الاستعارة ولا تعلمون ان الاستعارات حلل كلام الانبياء فهم في حلل ينطقون.اذكروا قول ابراهيم عليه السلام اعنى قوله غير عتبة بابک ثم انظروا الى اسماعيل عليه السلام كيف فهم اشارة ابيه افهم من العتبة عتبة او زوجته فتفكر وا ايها المسلمون.وانظروا الى الفاروق رضى الله عنه كيف فهم من كسر الباب موته كا كسر الباب حقيقة و ان شئتم فاقرء واحديث حذيفة في الصحيح للبخارى لعلكم تهتدون.( آئینہ کمالات اسلام -ر خ- جلد 5 صفحہ 459-458) ( ترجمه از مرتب) تم اس استعارہ پر کیوں تعجب کرتے ہو.کیا تمہیں معلوم نہیں کہ انبیاء استعارہ کے لباس میں کلام کرتے ہیں اور اس پردہ کے پیچھے سے گفتگو کرتے ہیں.چنانچہ تمہیں چاہئے کہ تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قول کو یاد کر یعنی اپنے دروازے کی چوکھٹ تبدیل کر دو.آپ کو غور کرنا چاہئے کہ حضرت اسماعیل نے اپنے باپ کے اشارے کو کس طور سے سمجھا.یعنی چوکھٹ سے دروازہ کی چوکھٹ سمجھا یا اس سے اپنی بیوی مراد لی.اے مسلمانوں ! غور کرو کہ حضرت عمر فاروق نے دروازے کے ٹوٹنے سے اپنی موت مراد لی نہ حقیقت میں دروازہ ٹوٹنا.اگر تم چاہتے ہو تو اس مضمون میں حذیفہ کی بیان کردہ حدیث (جو کہ صحیح بخاری میں درج ہے ) کا مطالعہ کرو تا کہ تم پر حقیقت کھل جائے.
675 قرآن کریم کے مجازی معانی کی ضرورت الفاظ کے معانی وسیع کرنے کے لئے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن شریف کے ایک معنے کے ساتھ اگر دوسرے معنی بھی ہوں تو ان دونوں معنوں میں کوئی تناقص پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہدایت قرآنی میں کوئی نقص عائد حال ہوتا ہے بلکہ ایک نور کے ساتھ دوسرا نو مل کر عظمت فرقانی کی روشنی نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے.اور چونکہ زمانہ غیر محدود انقلابات کی وجہ سے غیر محدود خیالات کا بالطبع محرک ہے لہذا اس کا نئے پیرایہ میں ہو کر جلوہ گر ہونا یا نئے نئے علوم کو بمنصہ ظہور لانا نئے نئے بدعات اور محدثات کو دکھلانا ایک ضروری امر اس کے لئے پڑا ہوا ہے.اب اس حالت میں ایسی کتاب جو خاتم الکتب ہونے کا دعوی کرتی ہے اگر زمانہ کے ہر یک رنگ کے ساتھ مناسب حال اس کا تدارک نہ کرے تو وہ ہرگز خاتم الکتب نہیں ٹھہر سکتی اور اگر اس کتاب میں مخفی طور پر وہ سب سامان موجود ہے جو ہر یک حالت زمانہ کے لئے درکار ہے تو اس صورت میں ہمیں ماننا پڑے گا کہ قرآن بلا ریب غیر محدود معارف پر مشتمل ہے اور ہر یک زمانہ کی ضرورت لاحقہ کا کامل طور پر (ازالہ اوہام.رخ - جلد 3 صفحہ 261-259) متکفل ہے.علامہ زمخشر کی آیت انی متوفیک کے یہی معنی کرتا ہے انہی ممیتک حتف انفک یعنی اے عیسی امیں تجھے طبعی موت سے ماروں گا.حتف لغت عرب میں موت کو کہتے ہیں اور انف ناک کو.اور عربوں میں قدیم سے یہ عقیدہ چلا آتا ہے کہ انسان کی جان ناک کی راہ سے نکلتی ہے اس لیے طبعی موت کا نام انہوں نے تف انف رکھ دیا.اور عربی زبان میں توٹی کے لفظ کا اصل استعمال طبعی موت کے محل پر ہوتا ہے اور جہاں کوئی شخص قتل کے ذریعہ سے ہلاک ہو وہاں قتل کا لفظ استعمال کرتے ہیں.اور یہ ایسا محاورہ ہے کہ جو کسی عربی دان پر پوشیدہ نہیں ہاں یہ عرب کے لوگوں کا قاعدہ ہے کہ کبھی ایسے لفظ کو کہ جو اپنی اصل وضع میں استعمال اس کی کسی خاص محل کے لیے ہوتا ہے ایک قرینہ قائم کر کے کسی غیر محل پر بھی مستعمل کر دیتے ہیں یعنی استعمال اس کا وسیع کر دیتے ہیں اور جب ایسا قرینہ موجود نہ ہو تو پھر ضروری ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں وہ لفظ اپنی اصل وضع پر استعمال پاوے.براھین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 381) عمدہ اور بلیغ مجازی کلمات کو حقیقت پر اتارنا گویا ایک خوبصورت معشوق کا ایک دیو کی شکل میں خاکہ کھینچنا ہے.بلاغت کا تمام مدار استعارات لطیفہ پر ہوتا ہے.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ کے کلام نے بھی جو ابلغ الکلم ہے جس قدر استعاروں کو استعمال کیا ہے اور کسی کے کلام میں یہ طرز لطیفہ نہیں ہے.اب ہر جگہ اور ہرمحل میں ان پاکیزہ استعاروں کو حقیقت پر حمل کرتے جانا گویا اس کلام معجز نظام کو خاک میں ملا دیتا ہے پس اس طریق سے نہ صرف خدا تعالیٰ کی پر بلاغت کلام کا اصلی منشاء درہم برہم ہوتا ہے بلکہ ساتھ ہی اس کلام کے اعلیٰ درجہ کی بلاغت کو برباد کر دیا جاتا ہے.خوبصورت اور دلچسپ طریقے تفسیر کے وہ ہوتے ہیں جن میں متکلم کی اعلیٰ شان بلاغت اور اس کے روحانی اور بلند ارادوں کا بھی خیال رہے.نہ یہ کہ نہایت درجہ کے سفلی اور بدنما اور بے طرح موٹے معنے جو ہجو ملیح کے حکم میں ہوں اپنی طرف سے گھڑے جائیں اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کو جو پاک اور نازک دقائق پر مشتمل ہے صرف دہقانی لفظوں تک محدود خیال کر لیا جائے.( توضیح مرام.رخ.جلد 3 صفحہ 58)
676 بیان کی وضاحت کی غرض سے حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَّ وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا قُلْنَائِذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَنْ تَتَّخِذَ فِيهِم حُسُنًا.حُسُنَا.(الكهف: 87) ان آیات کا سیاق سباق دیکھو کہ اس جگہ حکیمانہ تحقیق کا کچھ ذکر بھی ہے فقط ایک شخص کی دور دراز سیاحت کا ذکر ہے اور ان باتوں کے بیان کرنے سے اسی مطلب کا اثبات منظور ہے کہ وہ ایسے غیر آباد مقام پر پہنچا.سواس جگہ ہیئت کے مسائل لے بیٹھنا بالکل بے محل نہیں تو اور کیا ہے.مثلاً اگر کوئی کہے کہ آج رات بادل وغیرہ سے آسمان خوب صاف ہو گیا تھا اور ستارے آسمان کے نقطوں کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے تھے اور اس سے یہ جھگڑالے بیٹھیں کہ کیا ستارے نقطوں کی مقدار پر ہیں اور ہیئت کی کتابیں کھول کھول کر پیش کریں تو بلاشبہ یہ حرکت بے خبروں کی سی حرکت ہوگی کیونکہ اس وقت متکلم کی نیت میں واقعی امر کا بیان کرنا مقصود نہیں وہ تو صرف مجازی طور پر جس طرح ساری دنیا جہاں بولتا ہے بات کر رہا ہے.اے وہ لو گو جو عشائے ربانی میں مسیح کا لہو پیتے اور گوشت کھاتے ہو کیا ابھی تک تمہیں مجازات اور استعارات کی خبر نہیں.سب جانتے ہیں کہ ہر ایک ملک کی عام بول چال میں مجازات اور استعارات کے استعمال کا نہایت وسیع دروازہ کھلا ہے اور وحی الہی انہیں محاورات واستعارات کو اختیار کرتی ہے جو سادگی سے عوام الناس نے اپنی روزمرہ کی بات چیت اور بول چال میں اختیار کر رکھی ہیں.فلسفہ کی دقیق اصطلاحات کی ہر جگہ اور ہر حل میں پیروی کرنا وحی کی طرز نہیں کیونکہ روئے سخن عوام الناس کی طرف ہے.پس ضرور ہے کہ ان کی سمجھ کے موافق اور ان کے محاورات کے لحاظ سے بات کی جائے.حقائق ودقائق کا بیان کرنا بجائے خود ہے مگر محاورات کا چھوڑنا اور مجازات و استعارات عادیہ سے یک لخت کنارہ کش ہوتا ایسے شخص کے لئے ہر گز روا نہیں جو عوام الناس کے مذاق پر بات کرنا اس کا فرض منصب ہے تا وہ اس کی بات کو سمجھیں اور ان کے دلوں پر اس کا اثر ہو.لہذا یہ مسلم ہے کہ کوئی ایسی الہامی کتاب نہیں جس میں مجازات اور استعارات سے کنارہ کیا گیا ہو یا کنارہ کرنا جایز ہو.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات صفحہ 30-32) مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ.(النور: 36) یہ تو عام فیضان ہے جس کا بیان آیت اللَّهُ نُورُ السَّمواتِ وَ الْاَرْضِ میں ظاہر فرمایا گیا.یہی فیضان ہے جس نے دائرہ کی طرح ہر ایک چیز پر احاطہ کر رکھا ہے جس کے فائز ہونے کے لئے کوئی قابلیت شرط نہیں لیکن بمقابلہ اس کے ایک خاص فیضان بھی ہے جو مشروط بشرائط ہے اور انہیں افراد خاصہ پر فائز ہوتا ہے جن میں اس کے قبول کرنے کی قابلیت و استعداد موجود ہے یعنی نفوس کا ملہ انبیاء علیہم السلام پر جن میں سے افضل و اعلیٰ ذات جامع البرکات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے دوسروں پر ہرگز نہیں ہوتا.اور چونکہ وہ فیضان ایک نہایت بار یک صداقت ہے اور دقائق حکمیہ میں سے ایک دقیق مسئلہ ہے اس لئے خداوند تعالیٰ نے اول فیضان عام کو ( جو بدیہی الظہور ہے ) بیان کر کے پھر اس فیضان خاص کو بغرض اظہار کیفیت نور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ایک مثال میں بیان فرمایا ہے کہ جو اس آیت سے شروع ہوتی ہے مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الخ اور بطور مثال اس لئے بیان کیا کہ تا اس دقیقہ ء نازک کے سمجھنے میں ابہام اور وقت باقی نہ رہے کیونکہ معانی معقولہ کو مصور محسوسہ میں بیان کرنے سے ہر ایک نجی و بلید بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے.(براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 192 حاشیہ نمبر 1)
677 مجازی معانی اختیار کرنے کے لئے قرینہ کا قیام ضروری ہے نام سورة الجزو الانعام زمر 7 آیت قرآن کریم هُوَ الَّذِى يَتَوَفَّيكُمُ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمُ بِالنَّهَارِثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى اَجَلٌ مُّسَمًّى.42 اللَّهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِي لَمْ تَمُتُ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى.اب ظاہر ہے کہ ان تمام مقامات قرآن کریم میں توفی کے لفظ سے موت اور قبض روح ہی مراد ہے اور دو موخرالذکر آیتیں اگر چہ بظاہر نیند سے متعلق ہیں مگر در حقیقت ان دونوں آیتوں میں کبھی نیند نہیں مراد لی گئی بلکہ اس جگہ بھی اصل مقصد اور مدعاموت ہے اور یہ ظاہر کرنا منظور ہے کہ نیند بھی ایک قسم کی موت ہی ہے اور جیسی موت میں روح قبض کی جاتی ہے نیند میں بھی روح قبض کی جاتی ہے سو ان دونوں مقامات میں نیند پر توفی کے لفظ کا اطلاق کرنا ایک استعارہ ہے جو بہ نصب قرینہ نوم استعمال کیا گیا ہے یعنی صاف لفظوں میں نیند کا ذکر کیا گیا ہے تا ہر ایک شخص سمجھ لیوے کہ اس جگہ توفی سے مراد حقیقی موت نہیں بلکہ مجازی موت مراد ہے جو نیند ہے.یہ بات ادنی ذی علم کو بھی معلوم ہوگی کہ جب کوئی لفظ حقیقت مسلمہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یعنی ایسے معنوں پر جن کے لیے وہ عام طور پر موضوع یا عام طور پر مستعمل ہو گیا ہے تو اس جگہ متکلم کے لیے کچھ ضروری نہیں ہوتا کہ اس کی شناخت کے لیے کوئی قرینہ قائم کرے کیونکہ وہ ان معنوں میں شائع متعارف اور متبادر الفہم ہے.لیکن جب ایک متکلم کسی لفظ کے معانی حقیقت مسلمہ سے پھیر کر کسی مجازی معنی کی طرف لے جاتا ہے تو اس جگہ صراحتا یا کنا بتایا کسی دوسرے رنگ کے پیرایہ میں کوئی قرینہ اس کو قائم کرنا پڑتا ہے تا اس کا سمجھنا مشتبہ نہ ہو.اور اس بات کے دریافت کے لیے کہ متکلم نے ایک لفظ بطور حقیقت مسلّمہ استعمال کیا ہے یا بطور مجاز اور استعارہ نادرہ کے بھی کھلی کھلی علامت ہوتی ہے کہ وہ حقیقت مسلمہ کو ایک متبادر اور شائع و متعارف لفظ سمجھ کر بغیر احتیاج قراین کے یونہی مختصر بیان کر دیتا ہے مگر مجاز یا استعارہ نادرہ کے وقت ایسا اختصار پسند نہیں کرتا بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ کسی ایسی علامت سے جس کو ایک دانشمند سمجھ سکے اپنے اس مدعا کو ظاہر کر جائے کہ یہ لفظ اپنے اصل معنوں پر مستعمل نہیں ہوا.(ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 268-269)
678 واضح رہے کہ قرآن شریف میں الناس کا لفظ بمعنی دقبال معہود بھی آتا ہے اور جس جگہ ان معنوں کو قرینہ قویہ متعین کرے تو پھر اور معنے کرنا معصیت ہے چنانچہ قرآن شریف کے ایک اور مقام میں الناس کے معنے دجال ہی لکھا ہے اور وہ یہ لَخَلْقُ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ (المؤمن: 58) یعنی جو کچھ آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں اسرار اور عجائبات پر ہیں دجال معہود کی طبائع کی بناوٹ اس کے برابر نہیں.یعنی گووہ لوگ اسرار زمین و آسمان کے معلوم کرنے میں کتنی ہی جان کا ہی کریں اور کیسی ہی طبع وقا دلاویں پھر بھی ان کی طبیعتیں ان اسرار کے انتہاء تک پہنچ نہیں سکتیں.یادر ہے کہ اس جگہ بھی مفسرین نے الناس سے مرادد جال معہود ہی لیا ہے دیکھو تفسیر معالم وغیرہ.اور قرینہ تو یہ اس پر یہ ہے کہ لکھا ہے کہ دجال معہود اپنی ایجادوں اور صنعتوں سے خدا تعالیٰ کے کاموں پر ہاتھ ڈالے گا اور اس طرح پر خدائی کا دعوی کرے گا اور اس بات کا سخت حریص ہو گا کہ خدائی باتیں جیسے بارش برسانا اور پھل لگانا اور انسان وغیرہ حیوانات کی نسل جاری رکھنا اور سفر اور حضر اور صحت کے سامان فوق العادت طور پر انسان کے لئے مہیا کرنا ان تمام باتوں میں قادر مطلق کی طرح کا رروائیاں کرے اور سب کچھ اس کے قبضہ قدرت میں ہو جائے اور کوئی بات اس کے آگے انہونی نہ رہے اور اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے.(تحفہ گولڑویہ.رخ.جلد 17 صفحہ 120) وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِايَتِهِ ط إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّلِمُونَ (الانعام: 22) ظالم سے مراد اس جگہ کا فر ہے اس پر قرینہ یہ ہے کہ مفتری کے مقابل پر مکذب کتاب اللہ کو ظالم ٹھہرایا ہے اور بلا شبہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کرتا ہے کا فر ہے سو جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قرار دیکر مجھے کا فر ٹھہراتا ہے.اس لیے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کا فر بنتا ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ - جلد 22 صفحہ 167 حاشیہ ) مجازی معانی.یعنی استعارہ اور تشبیہہ کی تعریف اور حدود اب پہلے ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ خدا تعالے نے مجھ پر یہ ظاہر فرما دیا ہے کہ یہ قصبہ قادیان بوجہ اس کے کہ اکثر یزیدی الطبع لوگ اس میں سکونت رکھتے ہیں دمشق سے ایک مناسبت اور مشابہت رکھتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ تشبیہات میں پوری پوری تطبیق کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات ایک ادنے مماثلت کی وجہ سے بلکہ صرف ایک جزو میں مشارکت کے باعث سے ایک چیز کا نام دوسری چیز پر اطلاق کر دیتے ہیں مثلاً ایک بہادر انسان کو کہہ دیتے ہیں کہ یہ شیر ہے اور شیر نام رکھنے میں یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ شیر کی طرح اس کے پنجے ہوں اور ایسی ہی بدن پر پشم ہو اور ایک دم بھی ہو بلکہ صرف صفت شجاعت کے لحاظ سے ایسا اطلاق ہو جاتا ہے اور عام طور پر جمیع انواع استعارات میں یہی قاعدہ ہے.سو خدائے تعالیٰ نے اسی عام قاعدہ کے موافق اس قصبہ قادیان کو دمشق سے مشابہت دی اور اسبارہ میں قادیان کی نسبت مجھے یہ بھی الہام ہوا کہ اخرج منه اليزيديون یعنی اس میں یزیدی لوگ پیدا کئے گئے ہیں.اب اگر چہ میرا یہ دعویٰ تو نہیں اور نہ ایسی کامل تصریح سے خدائے تعالے نے میرے پر کھول
679 دیا ہے کہ دمشق میں کوئی مثیل مسیح پیدا نہیں ہوگا بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ کسی آئندہ زمانہ میں خاص کر دمشق میں بھی کوئی مثیل مسیح پیدا ہو جائے مگر خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے اور وہ اسبات کا شاہد حال ہے کہ اس نے قادیان کو دمشق سے مشابہت دی ہے اور ان لوگوں کی نسبت یہ فرمایا ہے کہ یہ یزیدی الطبع ہیں یعنی اکثر وہ لوگ جو اس جگہ رہتے ہیں وہ اپنی فطرت میں یزیدی لوگوں کی فطرت سے مشابہ ہیں.(ازالہ اوہام - ر- خ - جلد 3 صفحہ 138 حاشیہ ) پادری عبد اللہ اتم کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.آپ لکھتے ہیں دلدل میں آفتاب کا غروب ہونا سلسلہ مجازات میں داخل نہیں مگر عین حمئة سے تو کالا پانی مراد ہے اور اس میں اب بھی لوگ یہی نظارہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور مجازات کی بنا مشاہدات عینیہ پر ہے جیسے ہم ستاروں کو بھی نقطہ کے موافق کہہ دیتے ہیں اور آسمان کو کبود رنگ کہہ دیتے ہیں اور زمین کو ساکن کہ دیتے ہیں پس جبکہ انہیں اقسام میں سے یہ بھی ہے تو اس سے کیوں انکار کیا جائے.(جنگ مقدس.ر.خ.جلد 6 صفحہ 287-288) وَ قَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصْرَى نَحْنُ اَبْنَوا اللَّهِ وَاحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بذُنُوبِكُمْ بَلْ أَنْتُمُ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاءُ وَلِلَّهِ ملك السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا وَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ.(المائده: 19) اللہ تعالیٰ نے جو ہم کو مخاطب کیا ہے کہ انتَ مِنَى بِمَنْزِلَةِ أَوْلَادِی.اس جگہ یہ تو نہیں کہا کہ تو میری اولاد ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ بمنزلہ اولاد کے ہے یعنی اولاد کی طرح ہے اور دراصل یہ عیسائیوں کی اس بات کا جواب ہے جو وہ حضرت عیسی کو حقیقی طور پر ابن اللہ مانتے ہیں.حالانکہ خدا کی کوئی اولاد نہیں اور خدا نے یہودیوں کے اس قول کا عام طور پر کوئی رڈ نہیں کیا جو کہتے تھے.کہ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللهِ وَاحِبَّاؤُهُ.(المائدہ: 19) بلکہ یہ ظاہر کیا ہے تم ان ناموں کے مستحق نہیں ہو.دراصل یہ ایک محاورہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے برگزیدوں کے حق میں اکرام کے طور پر ایسے الفاظ بولتا ہے جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ میں اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں اور میں اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں اور جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ اے بندے میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہ دیا اور میں بھوکا تھا تو نے مجھے روٹی نہ دی.ایسا ہی توریت میں بھی لکھا ہے کہ یعقوب خدا کا فرزند بلکہ تخت زادہ ہے.سو یہ سب استعارے ہیں.جو عام طور پر خدا تعالیٰ کی عام کتابوں میں پائے جاتے ہیں اور احادیث میں ہے.اور خدا تعالیٰ نے یہ الفاظ میرے حق میں اسی واسطے استعمال کیے ہیں کہ تا عیسائیوں کا رڈ ہو.کیونکہ باوجود ان لفظوں کے میں کبھی ایسا دعویٰ نہیں کرتا.کہ نعوذ باللہ میں خدا کا بیٹا ہوں.بلکہ ایسا دعویٰ کرنا کفر سمجھتے ہیں اور ایسے الفاظ جو انبیاء کے حق میں خدا تعالیٰ نے بولے ہیں ان میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑاعزت کا خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا.قُلْ لِعِبَادِی جس کے معنے ہیں کہ اے میرے بندو! اب ظاہر ہے.کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے بندے تھے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے اس فقرہ سے ثابت ہوتا کہ ایسے الفاظ کا اطلاق استعارہ کے رنگ میں کہاں تک وسیع ہے.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 356)
680 خدا تعالیٰ کی ذات وصفات اور ان کی تنبیہی حدود خدا شناسی کے بارے میں وسط کی شناخت یہ ہے کہ خدا کی صفات بیان کرنے میں نہ تو نفی صفات کے پہلو کی طرف جھک جائے اور نہ خدا کو جسمانی چیزوں کا مشابہ قرار دے.یہی طریق قرآن شریف نے صفات باری تعالیٰ میں اختیار کیا ہے.چنانچہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ خدا د یکھتا سنتا جانتا بولتا کلام کرتا ہے.اور پھر مخلوق کی مشابہت سے بچانے کے لئے یہ بھی فرماتا ہے:.لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْيٌّ (الشورى:12) فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالُ.(النحل :75) یعنی خدا کی ذات اور صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں.اس کے لئے مخلوق سے مثالیں مت دو.سوخدا کی ذات کو تشبیہہ اور تنزیہ کے بین بین رکھنا یہی وسط ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی.ر.خ.جلد 10 صفحہ 377-376) ازل سے اور قدیم سے خدا میں دو صفتیں ہیں ایک صفت تشبیہی دوسری صفت تنزیہی اور چونکہ خدا کے کلام میں دونوں صفات کا بیان کرناضروری تھا یعنی ایک تشبیہی صفت اور دوسری تنزیہی صفت اس لئے خدا نے شیہی صفات کے اظہار کے لئے اپنے ہاتھ آنکھ محبت غضب وغیرہ صفات قرآن شریف میں بیان فرمائے اور پھر جبکہ احتمال تشبیہ کا پیدا ہوا تو بعض جگہ لَیسَ كَمِثْلِهِ کہ دیا اور بعض جگہ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ کہہ دیا.چشمہ معرفت.ر.خ.جلد 23 صفحہ 277) قرآنی مجاز کے چند امثال هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ ايتٌ مُّحْكَمْتُ هُنَّ أُمُّ الْكِتَبِ وَأَخَرُ مُتَشبهت.(آل عمران: 8 ) ترجمہ :.وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر وہ کتاب کہ بعض اس سے آیتیں ہیں محکم کہ وہ اصل ہیں کتاب کی اور کچھ اور متشابہ ہیں.یہ بات نہایت کار آمد اور یا درکھنے کے لائق تھی کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مامور ہو کر آتے ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی یا محدث اور مجدد ان کی نسبت جو پہلی کتابوں میں یا رسولوں کی معرفت پیشگوئیاں کی جاتی ہیں ان کے دو حصے ہوتے ہیں.ایک وہ علامات جو ظاہری طور پر وقوع میں آتی ہیں اور ایک متشابہات جو استعارات اور مجازات کے رنگ میں ہوتی ہیں.پس جن کے دلوں میں زیغ اور بھی ہوتی ہے وہ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور طالب صادق بینات اور محکمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں.یہود اور عیسائیوں کو یہ ابتلا پیش آ چکے ہیں.پس مسلمانوں کے اولوالابصار کو چاہیئے کہ ان سے عبرت پکڑیں اور صرف متشابہات پر نظر رکھ کر تکذیب میں جلدی نہ کریں اور جو باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے کھل جائیں ان سے اپنی ہدایت کے لیے فائدہ اٹھا دیں یہ تو ظاہر ہے کہ شک یقین کو رفع نہیں کر سکتا پس پیشگوئیوں کا وہ دوسرا حصہ جو ظاہری طور پر ابھی پورا نہیں ہواوہ ایک امر کی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایلیا کے دوبارہ آنے کی طرح وہ حصہ استعارات یا مجاز کے رنگ میں پورا ہو گیا ہومگر انتظار کرنے والا اس غلطی میں پڑا ہو کہ وہ ظاہری طور پر کسی دن پورا ہوگا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 476-477)
681 قُلْ اِنْ اَدْرِى أَقَرِيبٌ مَّا تُوعَدُونَ اَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا.(سورة الجنّ: 26) ان کو کہہ دے کہ میں نہیں جانتا کہ عذاب قریب ہے یا دور ہے.اب اے سننے والو یا درکھو کہ یہ بات سچ ہے اور بالکل سچ ہے اور اس کے ماننے کے بغیر چارہ نہیں خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں کبھی ظاہر پر پوری ہوتی ہیں اور کبھی استعارہ کے رنگ میں.پس کسی نبی یا رسول کو یہ حوصلہ نہیں کہ ہر جگہ اور ہر پیشگوئی میں یہ دعویٰ کر دے کہ اس طور پر یہ پیشگوئی پوری ہوگی ہاں....اس امر کا دعوی کرنا نبی کا حق ہے کہ وہ پیشگوئی جس کو وہ بیان کرتا ہے خارق عادت ہے یا ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ - جلد 21 صفحہ 253) انسانی علم سے وراء الورا ہے.آخری زمانے کی علامات إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ وَإِذَا الْبِحَارُ فُجَرَتْ.(الانفطار : 2 تا4) اسی زمانے کی علامات میں جبکہ ارضی علوم و فنون زمین سے نکالے جائیں گے بعض ایجادات اور صناعات کو بطور نمونہ کے بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَإِذَا الْبِحَارُ فُجَرَتْ اور جس وقت دریا چیرے جاویں گے یعنی زمین پر نہریں پھیل جائیں گی اور کاشت کاری کثرت سے ہوگی...وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ اور جس وقت تارے جھڑ جائیں گے یعنی ربانی علماء فوت ہو جائیں گے کیونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ زمین پر تارے گریں اور پھر زمین پر لوگ آبادرہ سکیں.یادر ہے کہ مسیح موعود کے آنے کے لئے اسی قسم کی پیشگوئی انجیل میں بھی ہے کہ وہ اس وقت آئے گا کہ جب زمین پر تارے گر جائیں گے اور سورج اور چاند کا نور جاتا رہے گا.اور ان پیشگوئیوں کو ظاہر پر حمل کرنا اس قدر خلاف قیاس ہے کہ کوئی دانا ہر گز یہ تجویز نہیں کرے گا کہ در حقیقت سورج کی روشنی جاتی رہے گی اور ستارے زمین پر گر پڑیں اور پھر زمین بدستور آدمیوں سے آباد ہو اور اس حالت میں مسیح موعود آوے.....ایسا ہی فرمایا إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَت اور انجیل میں بھی اسی کے مطابق مسیح موعود کے آنے کی خبر دی ہے مگر ان آیتوں سے یہ مراد نہیں ہے کہ در حقیقت اس وقت آسمان پھٹ جائے گایا اس کی قوتیں ست ہو جائیں گی بلکہ مدعا یہ ہے کہ جیسے پھٹی ہوئی چیز بیکار ہو جاتی ہے ایسا ہی آسمان بھی بریکارسا ہو جائے گا.آسمان سے فیوض نازل نہیں ہوں گے اور دنیا ظلمت اور تاریکی سے بھر جائے گی.شہادت القرآن -رخ- جلد 6 صفحہ 317-319) إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا....الآخر وہ آیات جن میں اول ارضی تاریکی زور کے ساتھ پھیلنے کی خبر دی گئی ہے اور پھر آسمانی روشنی کے نازل ہونے کی علامتیں بتائی گئی ہیں وہ یہ ہیں إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ الخ یعنی آخری زمانہ اس وقت آئے گا کہ جس وقت زمین ایک ہولناک جنبش کے ساتھ جو اس کی مقدار کے مناسب حال ہے ہلائی جائے گی.یعنی اہل الارض میں ایک تغیر عظیم آئے گا اور نفس اور دنیا پرستی کی طرف لوگ جھک جائیں گے اور پھر فرمایا کہ زمین اپنے تمام بوجھ نکال ڈالے
682 گی.یعنی زمینی علوم اور زمینی مکر اور زمینی چالاکیاں اور زمینی کمالات جو کچھ انسان کی فطرت میں مودع ہیں سب کی سب ظہور میں آجائیں گی اور نیز زمین جس پر انسان رہتے ہیں اپنے تمام خواص ظاہر کر دے گی اور علم طبعی اور فلاحت کے ذریعہ سے بہت سی خاصیتیں اس کی معلوم ہو جائیں گی اور کا نیں نمودار ہوں گی اور کاشت کاری کی کثرت ہو جائے گی.غرض زمین زرخیز ہو جائے گی اور انواع و اقسام کی کھلیں ایجاد ہوں گی یہاں تک کہ انسان کہے گا کہ یہ کیا ماجرا ہے اور یہ نئے نئے علوم اور نئے نئے فنون اور نئی نئی صنعتیں کیونکر ظہور میں آتی جاتی ہیں تب زمین یعنی انسانوں کے دل زبان حال سے اپنے قصے سنائیں گے کہ یہ نئی باتیں جو ظہور میں آ رہی ہیں یہ ہماری طرف سے نہیں یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم کی وحی ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ انسان اپنی کوششوں سے اس قدر علوم عجیبہ پیدا کر سکے.اور یادر ہے کہ ان آیات کے ساتھ جو قرآن کریم میں بعض دوسری آیات جو آخرت کے متعلق ہیں شامل کی گئی ہیں وہ درحقیقت اسی سنت اللہ کے موافق شامل فرمائی گئی ہیں جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ورنہ اس میں کچھ شک نہیں کہ حقیقی اور مقدم معنے ان آیات کے یہی ہیں جو ہم نے بیان کئے اور اس پر قرینہ جو نہایت قوی اور فیصلہ کرنے والا ہے یہ ہے کہ اگر ان آیات کے حسب ظاہر معنے کئے جائیں تو ایک فساد عظیم لازم آتا ہے.یعنی اگر ہم اس طور سے معنی کریں کہ کسی وقت با وجود قائم رہنے اس آبادی کے جو دنیا میں موجود ہے ایسے سخت زلزلے زمین پر آئیں گے جو تمام زمین کے اوپر کا طبقہ نیچے اور نیچے کا اوپر ہو جائے گا تو یہ بالکل غیر ممکن اور ممتمعات میں سے ہے.آیت موصوفہ میں صاف لکھا ہے کہ انسان کہیں گے کہ زمین کو کیا ہو گیا.پھر اگر حقیقتا یہی بات سچ ہے کہ زمین نہایت شدید زلزلوں کے ساتھ زیروز بر ہو جائے گی تو انسان کہاں ہوگا جو زمین سے سوال کرے گا تو وہ پہلے ہی زلزلہ کے ساتھ زاویہ عدم میں مخفی ہو جائے گا.علوم حسیہ کا تو کسی طرح انکار نہیں ہوسکتا.پس ایسے معنے کرنا جو بداہت باطل اور قرائن موجودہ کے مخالف ہوں گو یا اسلام سے بنی کرانا اور مخالفین کو اعتراض کے لئے موقع دینا ہے.پس واقعی اور حقیقی معنے یہی ہیں جو ابھی ہم نے بیان کئے.(شہادت القرآن.ر-خ- جلد 6 صفحہ 314-316) عرش کی حقیقت الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى.(طه: 6) خدا رحمان ہے جس نے عرش پر قرار پکڑا.اس قرار پکڑنے سے یہ مطلب ہے کہ اگر چہ اس نے انسان کو پیدا کر کے بہت سا قرب اپنا اس کو دیا مگر یہ تمام تجلیات مختص الزمان ہیں یعنی تمام شیمی تجلیات اس کی کسی خاص وقت میں ہیں جو پہلے نہیں تھیں مگر از لی طور پر قرارگاہ خدا تعالیٰ کی عرش ہے جو تنزیہ کا مقام ہے کیونکہ جو فانی چیزوں سے تعلق کر کے تشبیہ کا مقام پیدا ہوتا ہے وہ خدا کی قرار گاہ نہیں کہلا سکتا وجہ یہ کہ وہ معرض زوال میں ہے اور ہر ایک وقت میں زوال اس کے سر پر ہے بلکہ خدا کی قرارگاہ وہ مقام ہے جو فنا اور زوال سے پاک ہے پس وہ مقام عرش ہے.چشمہ معرفت - ر- خ - جلد 23 صفحہ 277-278)
683 قرآنی بہشت کی حقیقت ہمارا یہ ایمان کے کہ کوئی فلسفہ اور سائنس خواہ وہ اپنی اس موجودہ حالت سے ہزار درجہ ترقی کر جاوے مگر قرآن ایک ایسی کامل کتاب ہے کہ یہ نئے علوم بھی بھی اس پر غالب نہیں آ سکتے.مگر اس شخص کی نسبت ہم کیونکر ایسی رائے قائم کر سکتے ہیں کہ جس کی نسبت ہمیں معلوم ہے کہ اس کو علوم قرآن سے مس ہی نہیں اور اس نے اس طرف کبھی توجہ ہی نہیں کی بلکہ بھی ایک سطر بھی قرآن شریف کی غور و تدبر کی نظر سے نہیں پڑھی.مثال کے طور پر قرآن کی تعلیم روحانی کا ایک فلسفہ بیان ہوا ہے جو بعد الموت اعمال کے نتیجہ میں انسان کو بہشت کے رنگ میں ملے گا جس کے نیچے نہریں چلتی ہوں گی.بظاہر یہ ایک قصہ ہے مگر قصہ نہیں گو کہ قصہ کے رنگ میں آ گیا ہے.اس کی حقیقت یہی ہے کہ اس وقت کے لوگ علوم روحانی کے نہ جاننے کی وجہ سے نادان بچوں کی طرح تھے.ایسے باریک اور روحانی علوم کے سمجھانے کے واسطے ان کے مناسب حال استعاروں سے کام لینا اور مثالوں کے ذریعہ سے اصل حقیقت کو ان کے ذہن نشین کرنا ضروری تھا اسی واسطے قرآن شریف نے بہشت کی حقیقت سمجھانے کے واسطے اس طریق کو اختیار کیا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ (محمد : 16) یہ ایک مثال ہے نہ کہ حقیقت قرآن شریف کے ان الفاظ سے صاف عیاں ہے کہ وہ جنت کوئی اور ہی چیز ہے اور حدیث میں صاف یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ ان ظاہری جسمانی دنیوی امور پر نعماء جنت کا قیاس نہ کیا جاوے کیونکہ وہ ایسی چیز ہے کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھی نہ کسی کان نے سنی وغیرہ.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 648) آسمان کے متعد د معانی آسمان.سماء إذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتُ.(الانشقاق:2) جس وقت آسمان پھٹ جاوے.یہ مراد نہیں ہے کہ در حقیقت اس وقت آسمان پھٹ جائے گا یا اس کی قوتیں سست ہو جائیں گی بلکہ مدعا یہ ہے کہ جیسے پھٹی ہوئی چیز بیکار ہو جاتی ہے ایسا ہی آسمان بھی بیکا رسا ہو جائے گا.آسمان سے فیوض نازل نہیں ہوں گے اور دنیا ظلمت اور تاریکی سے بھر جائے گی.شہادت القرآن...خ.جلد 6 صفحہ 319) قرآن شریف میں سماء کا لفظ نہ صرف آسمان پر بولا جاتا ہے جیسا کہ عوام کا خیال ہے بلکہ کئی معنوں پر سماء کا لفظ قرآن شریف میں آیا ہے.چنانچہ مینہ کا نام بھی قرآن شریف میں سماء ہے اور اہل عرب مینہ کو سماء کہتے ہیں اور کتب تعبیر میں سماء سے مراد بادشاہ بھی ہوتا ہے اور آسمان کے پھٹنے سے بدعتیں اور ضلالتیں اور ہر ایک قسم کا جو را اور ظلم مراد لیا جاتا ہے اور نیز ہر قسم کے فتنوں کا ظہور مراد لیا جاتا ہے.کتاب تعطیر الا نام میں لکھا ہے فَإِنْ رَأَى السَّمَاءَ انْشَقَّتْ دَلَّ عَلَى الْبِدْعَةِ وَالضَّلَالَةِ.دیکھو صفحہ 305 تعطیر الانام.(تحفہ گولڑویہ.رخ.جلد 17 صفحہ 242 حاشیہ )
684 قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور حال کی تحقیقا تیں بھی اس کی مصدق ہیں کہ عالم کبیر بھی اپنے کمال خلقت کے وقت تک ایک گٹھڑی کی طرح تھا جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے اَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَواتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيّ (الانبياء: 31) الجزونمبر 17 یعنی فرماتا ہے کہ کیا کافروں نے آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا کہ گٹھڑی کی طرح آپس میں بندھے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو کھول دیا.سو کافروں نے تو آسمان اور زمین بنتا نہیں دیکھا اور نہ ان کی گٹھڑی دیکھی لیکن اس جگہ روحانی آسمان اور روحانی زمین کی طرف اشارہ ہے جس کی گٹھڑی کفار عرب کے روبرو کھل گئی اور فیضان سماوی زمین پر جاری ہو گئے.( آئینہ کمالات اسلام - ر- خ - جلد 5 صفحہ 190-193 حاشیه در حاشیه ) مقام ابراہیم کے معانی وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَ اَمْنًا ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِمَ ط مُصَلَّى، وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِمَ وَ إِسْمَعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَ الْعَكِفِينَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُودِ.(البقرة: 126) وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّی اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو.اس جگہ مقام ابراہیم سے اخلاق مرضیۃ ومعاملہ باللہ مراد ہے یعنی محبت الہیہ اور تفویض اور رضا اور وفا یہی حقیقی مقام ابراہیم کا ہے جو امت محمدیہ کو بطور تبعیت و وراثت عطا ہوتا ہے اور جو شخص قلب ابراہیم پر مخلوق ہے.اس کی اتباع بھی اسی میں ہے.براهین احمدیہ - ر- خ - جلد 1 صفحہ 608 حاشیہ ) اور یہ جوفرمایا کہ وَاتَّخَذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى يه قرآن شریف کی آیت ہے اور اس مقام میں اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ ابراھیم جو بھیجا گیا تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجالا ؤ.اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ.اور جیسا کہ آیت و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمه احمد (القف:6) میں یہ اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخر زمانہ میں ایک مظہر ظاہر ہوگا.گویا وہ اس کا ایک ہاتھ ہو گا جس کا نام آسمان پر احمد ہوگا اور وہ حضرت مسیح کے رنگ میں جمالی طور پر دین کو پھیلائیگا.ایسا ہی یہ آیت وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْراهِمَ مُصَلَّی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراهیم پیدا ہو گا ور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائیگا کہ اس ابراہیم کا پیرو ہوگا.( اربعین...خ.جلد 17 صفحہ 420,421)
685 الہام اور وحی اور قرآن کریم کو پانی سے مشابہت وَ اللَّهُ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَحْيَابِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ.(النحل: 66) اور حقیقت حال یہ ہے کہ زمین ساری کی ساری مرگئی تھی.خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور نئے سرے اس مردہ زمین کو زندہ کیا.یہ ایک نشان صداقت اس کتاب کا ہے پر ان لوگوں کے لئے جو سنتے ہیں یعنی طالب حق ہیں.اب غور سے دیکھنا چاہیئے کہ وہ تینوں مقدمات متذکرہ بالا کہ جن سے ابھی ہم نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بچے ہادی ہونے کا نتیجہ نکالا تھا کس خوبی اور لطافت سے آیات محدوحہ (64 تا 66 ) میں درج ہیں.اول گمراہوں کے دلوں کو جو صد ہا سال کی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے زمین خشک اور مردہ سے تشبیہ دے کر اور کلام الہی کو مینہ کا پانی جو آسمان کی طرف سے آتا ہے ٹھہرا کر اس قانون قدیم کی طرف اشارہ فرمایا جو امساک باراں کی شدت کے وقت میں ہمیشہ رحمت الہی بنی آدم کو برباد ہونے سے بچالیتی ہے اور یہ بات جتلا دی کہ یہ قانون قدرت صرف جسمانی پانی میں محدود نہیں بلکہ روحانی پانی بھی شدت اور صعوبت کے وقت میں جو پھیل جانا عام گمراہی کا ہے ضرور نازل ہوتا ہے اور اس جگہ بھی رحمت الہی آفت قلوب کا غلبہ توڑنے کے لئے ضرور ظہور کرتی ہے اور پھر انہیں آیات میں یہ دوسری بات بھی بتلادی کہ آنحضرت کے ظہور سے پہلے تمام زمین گمراہ ہو چکی تھی اور اسی طرح اخیر پر یہ بھی ظاہر کر دیا کہ ان روحانی مردوں کو اس کلام پاک نے زندہ کیا اور آخر یہ بات کہہ کر کہ اس میں اس کتاب کی صداقت کا نشان ہے.طالبین حق کو اس نتیجہ نکالنے کی طرف توجہ دلائی کہ فرقان مجید خدا کی کتاب ہے.( براھین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 115-116 حاشیہ 10) أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدَارَّابِيَاء وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِى النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْمَتَاعِ زَبَدٌ مِثْلُهُ طَ كَذلِكَ يَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ، فَاَمَّا الذَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمُكُتُ فِي الْأَرْضِ كَذلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ.(الرعد: 18) خدا نے آسمان سے پانی (اپنا کلام) اتارا سو اس پانی سے ہر یک وادی اپنی قدر کے موافق یہ نکلی.یعنی ہر ایک کو اس میں سے اپنی طبیعت اور خیال اور لیاقت کے موافق حصہ ملا.طبایع عالیہ اسرار حکمیہ سے متمتع ہوئیں اور جو ان سے بھی اعلیٰ تھے انہوں نے ایک عجیب روشنی پائی کہ جو حد تحریر و تقریر سے خارج ہے اور جو کم درجہ پر تھے انہوں نے مخبر صادق کی عظمت اور کمالیت ذاتی کو دیکھ کر دلی اعتقاد سے اس کی خبروں پر یقین کر لیا اور اس طرح پر وہ بھی یقین کی کشتی میں بیٹھ کر ساحل نجات تک جا پہنچے اور صرف وہی لوگ باہر رہ گئے جن کو خدا سے کچھ غرض نہ تھی اور فقط دنیا کے ہی کیڑے تھے.(براہین احمد یہ ر - خ - جلد 1 صفحہ 212 حاشیہ نمبر (11)
686 خدا تعالیٰ نے آسمان پر سے پانی اتارا پس اپنے اپنے قدر پر ہر یک وادی بہ نکلی یعنی جس قدر دنیا میں طبائع انسانی ہیں قرآن کریم ان کے ہر یک مرتبہ فہم اور عقل اور ادراک کی تربیت کرنے والا ہے اور یہ امر ستلزم کمال تام ہے کیونکہ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم اس قدر وسیع دریائے معارف ہے کہ محبت الہی کے تمام پیاسے اور معارف حقہ کے تمام تشنہ لب اسی سے پیتے ہیں.(کرامات الصادقین.ر.خ.جلد 7 صفحہ 59) میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار ( براہین احمدیہ.رخ.جلد 21 صفحہ 145) انبیاء کی آمد کو قرناء ( صور ) سے مشابہت وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَّ نُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَهُمُ جَمْعًا.(الكهف : 100) ترجمہ :.اور چھوڑ دیں گے ہم بعض کو ان کے اس دن کہ موجیں ماریں گے بعض میں اور پھونکا جاویگا بگل پس جمع کر دیں گے ہم انکو اچھی طرح جمع کرنا.خدا تعالیٰ کی طرف سے صور پھونکا جائے گا تب ہم تمام فرقوں کو ایک ہی مذہب پر جمع کر دیں گے.صور پھونکنے سے اس جگہ یہ اشارہ ہے کہ اس وقت عادت اللہ کے موافق خدا تعالیٰ کی طرف سے آسمانی تائیدوں کے ساتھ کوئی مصلح پیدا ہو گا اور اسکے دل میں زندگی کی روح پھونکی جائے گی اور وہ زندگی دوسروں میں سرایت کرے گی.یادر ہے کہ صور کا لفظ ہمیشہ عظیم الشان تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے.گویا جب خدا تعالیٰ اپنی مخلوقات کو ایک صورت سے منتقل کر کے دوسری صورت میں لاتا ہے تو اس تغیر صور کے وقت کو نفخ صور سے تعبیر کرتے ہیں اور اہل کشف پر مکاشفات کی رو سے اس صور کا ایک وجود جسمانی بھی محسوس ہوتا ہے اور یہ عجائبات اس عالم میں سے ہیں جن کے سر اس دنیا میں بجر منقطعین کے اور کسی پرکھل نہیں سکتے.بہر حال آیات موصوفہ بالا سے ثابت ہے کہ آخری زمانہ میں عیسائی مذہب اور حکومت کا زمین پر غلبہ ہوگا اور مختلف قوموں میں بہت سے تنازعات مذہبی پیدا ہوں گے اور ایک قوم دوسری قوم کو دبانا چاہے گی اور ایسے زمانہ میں صور پھونک کر تمام قوموں کو دین اسلام پر جمع کیا جاوے گا یعنی سنت اللہ کے موافق آسمانی نظام قائم ہو گا اور ایک آسمانی مصلح آئے گا در حقیقت اسی مصلح کا نام شہادت القرآن -ر خ- جلد 6 صفحہ 311-312) مسیح موعود ہے..
687 انبیاء من حیث الظل باقی رکھے جاتے ہیں وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ (الرعد: 18) یعنی جو چیز انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے اب ظاہر ہے کہ دنیا میں زیادہ تر انسانوں کو نفع پہنچانے والے گروہ انبیاء ہیں کہ جو خوارق سے معجزات سے پیشگوئیوں سے حقائق سے معارف سے اپنی راست بازی کے نمونہ سے انسانوں کے ایمان کو قوی کرتے ہیں اور حق کے طالبوں کو دینی نفع پہنچاتے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دنیا میں کچھ بہت مدت تک نہیں رہتے بلکہ تھوڑی سی زندگی بسر کر کے اس عالم سے اٹھائے جاتے ہیں لیکن آیت کے مضمون میں خلاف نہیں اور ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام خلاف واقع ہو.پس انبیاء کی طرف نسبت دے کر معنی آیت کے یوں ہوں گے کہ انبیاء من حیث القلق باقی رکھے جاتے ہیں اور خدا تعالی ظلمی طور پر ہر یک ضرورت کے وقت میں کسی اپنے بندہ کو ان کی نظیر اور مثیل پیدا کر دیتا ہے جو انہیں کے رنگ میں ہو کر ان کی دائمی زندگی کا موجب ہوتا ہے.(شہادة القرآن-ر-خ-جلد 6 صفحہ 351-352) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ (البقرة: 254) اس جگہ صاحب درجات رفیعہ سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں جن کو ظلی طور پر انتہائی درجہ کے کمالات جو کمالات الوہیت کے اظلال و آثار ہیں بخشے گئے اور وہ خلافت حقہ جس کے وجود کامل کے تحقیق کے لیے سلسلہ بنی آدم کا قیام بلکہ ایجاد کل کائنات کا ہوا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود سے اپنے مرتبہ اتم و اکمل میں ظہور پذیر ہوکر آئینہ خدا نما ہوئے.(سرمہ چشم آرید- ر-خ- جلد 2 صفحہ 234 235 حاشیہ) اس رفع درجات سے وہی انتہائی درجہ کا ارتفاع مراد ہے جو ظاہری اور باطنی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اور یہ وجود باجود خیر مجسم ہے مقربین کے تین قسموں سے اعلیٰ و اکمل ہے جو الوہیت کا مظہر اتم کہلاتا ہے.سرمه چشم آریہ.ر-خ- جلد 2 صفحہ 252 حاشیہ ) انبیاء کی چراغ اور نور سے مشابہت وَّدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِاِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُّبِيرًا.(الاحزاب:47) انبیاء منجمله سلسله متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہو گئے ہیں اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے جیسا فرمایا ہے قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورٌ وَّ كِتَابٌ مُّبِينٌ الجز نمبر 6 وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا منيرا الجز نمبر 22 یہی حکمت ہے کہ نو روحی جس کے لئے نو ر فطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہونا شرط ہے صرف انبیاء کو ملا اور انہیں سے مخصوص ہوا.( براہین احمدیہ.رخ - جلد 1 صفحہ 196 حاشیہ نمبر (11)
688 خدا تعالیٰ کی طرف سے روحانی اصلاح کے لیے مقرر ہونے والے لوگ چراغ کی طرح ہوتے ہیں.اسی واسطے قرآن شریف میں آپ کا نام دَاعِيًا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا (الاحزاب:47) آیا ہے دیکھوسی اندھیرے مکان میں جہاں سو پچاس آدمی ہوں اگر ان میں سے ایک کے پاس چراغ روشن ہو تو سب کو اس کی طرف رغبت ہوگی اور چراغ ظلمت کو پاش پاش کر کے اجالا اور نور کر دے گا.اس جگہ آپ کا نام چراغ رکھنے میں ایک اور بار یک حکمت یہ ہے کہ ایک چراغ سے ہزاروں لاکھوں چراغ روشن ہو سکتے ہیں اور اس میں کوئی تقص بھی نہیں آتا.چاند سورج میں یہ بات نہیں.اس سے مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اطاعت کرنے سے ہزاروں لاکھوں انسان اس مرتبہ پر پہنچیں گے اور آپ کا فیض خاص نہیں بلکہ عام اور جاری ہوگا.غرض یہ سنت اللہ ہے کہ ظلمت کی انتہا کے وقت اللہ تعالیٰ اپنی بعض صفات کی وجہ سے کسی انسان کو اپنی طرف سے علم اور معرفت دے کر بھیجتا ہے اور اس کے کلام میں تاثیر اور اس کی توجہ میں جذب رکھ دیتا ہے.اس کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں.مگر وہ ان ہی کو جذب کرتے ہیں اور ان ہی پر ان کی تاثیرات اثر کرتی ہیں جو اس انتخاب کے لائق ہوتے ہیں.دیکھو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سرا جا منیرا ہے.مگر ابوجہل نے کہاں قبول کیا ؟ باران که در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لاله روید و در شوره بوم و خس و (ترجمہ: بارش جو طبعی طور پر اچھی ہے.مگر وہ باغ میں پھول اور شورہ زمین میں خس و خاشاک پیدا کرتی ہے.) ( ملفوظات جلد پنجم صفحه 664-665) من در حریم قدس چراغ صداقتم دستش محافظ است زہر باد صرصرم (ترجمہ:.میں درگاہ قدس میں صداقت کا چراغ ہوں.اسی کا ہاتھ ہر تیز ہوا سے میری حفاظت کرنے والا ہے.) (ازالہ اوہام حصہ اول ) ( در نمین فارسی مترجم صفحه 1666) و کذالک لفظ المنارة التى جاء في الحديث فانه یعنی به موضع نور و قد يطلق على علم یهندی به فهذه اشارة الى ان المسيح الأتى يعرف بانوار تسبق دعواه فهى تكون له كعلم به يهتدون و نظيره في القران قوله تعالی و داعيا الى الله باذنه و سراجا منيرا.(الاحزاب:47) ترجمه از مرتب :.حدیث میں جو لفظ منارہ آیا ہے اس سے نور کی جگہ مراد ہے اور کبھی اس کا اطلاق اس نشان راہ پر ہوتا ہے جس سے راہنمائی حاصل کی جاتی ہے.پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آنے والا یح اپنے دعوئی سے پہلے ظاہر ہونے والے انوار کی وجہ سے پہچانا جائے گا اور وہ اس کے لئے ایسی علامات کی مانند ہوں گے جس کے ذریعہ لوگ ہدایت پائیں گے اور اس کی نظیر قرآن مجید میں موجود ہے جیسے فرمایا وَّ دَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُّنِيرًا.آئینہ کمالات اسلام -ر خ- جلد 5 صفحہ 457-458) ایک گاؤں میں سو گھر تھے اور صرف ایک گھر میں چراغ جلتا تھا تب جب لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ اپنے اپنے چراغ لے کر آئے اور سب نے اس چراغ سے اپنے چراغ روشن کئے.اسی طرح ایک روشنی سے کثرت ہو سکتی ہے.اسی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ کر کے فرماتا ہے.وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُنِيرًا.(براہین احمدیہ.رخ.جلد 21 صفحہ 425)
689 امانت سے مراد عشق الہی اور انسانی قومی إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْأَنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا.(الاحزاب:73) إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوَاتِ وَ الْاَرْضِ.....إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا.یعنی ہم نے اپنی امانت کو جس سے مراد عشق محبت الہی اور مورد ابتلا ہو کر پھر پوری اطاعت کرنا ہے.آسمان کے تمام فرشتوں اور زمین کی تمام مخلوقات اور پہاڑوں پر پیش کیا جو بظاہر قوی ہیکل چیزیں تھیں.سو ان سب چیزوں نے اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس کی عظمت کو دیکھ کر ڈر گئیں مگر انسان نے اس کو اٹھا لیا کیونکہ انسان میں یہ دو خو بیاں تھیں ایک یہ کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس پر ظلم کر سکتا تھا دوسری یہ خوبی کہ وہ خدائے تعالیٰ کی محبت میں اس درجہ تک پہنچ سکتا تھا جو غیر اللہ کو بکلی فراموش کر دے.توضیح مرام - رخ - جلد 3 صفحہ 75-76) إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمُ بِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا (النساء:59) امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قومی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے اور پھر انسان کامل برطبق آیت إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الامنتِ إِلَى اَهْلِهَا اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دیدیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کے راہ میں وقف کر دیتا ہے...اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی امی صادق مصدوق محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی.( آئینہ کمالات اسلام - ر- خ - جلد 5 صفحہ 161-162 حاشیہ ) امت کی مثال عورت سے حضرت کرشن علیہ السلام کے متعلق فرمایا:.ان کے متعلق جو گو پیوں کی کثرت مشہور ہے اصل میں ہمارے خیال میں بات یہ ہے کہ امت کی مثال عورت سے بھی دی جاتی ہے چنانچہ قرآن شریف سے بھی اس کی نظیر ملاتی ہے جیسا کہ فرماتا ہے ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ (التحریم: 12) یہ ایک نہایت ہی بار یک رنگ کا لطیف استعارہ ہوتا ہے.امت میں جو ہر صلاحت ہوتا اور نبی اور امت کے تعلق سے بڑے بڑے حقائق معارف اور فیض کے چشمے پیدا ہوتے ہیں اور نبی اور امت کے بچے تعلق سے وہ نتائج پیدا ہوتے ہیں جن سے خدائی فیضان اور رحم کا جذب ہوتا ہے.پس کرشن اور گوپیوں کے ظاہری قصہ کی تہہ میں ہمارے خیال میں یہی راز حقیقت پنہاں ہے.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 461)
690 خدا تعالیٰ کی کتب میں نبی کے ماتحت امت کو عورت کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ایک جگہ نیک بندوں کی تشبیہ فرعون کی عورت سے دی گئی ہے اور دوسری جگہ عمران کی بیوی سے مشابہت دی گئی ہے.انا جیل میں بھی مسیح کو دولہا اور امت کو دلہن قرار دیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ امت کے واسطے نبی کی ایسی ہی اطاعت لازم ہے جیسی کہ عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم ہے.بنی اسرائیل کے معانی ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 360-361) یبنی اسراءیل اذكروا نعمتي التي انعمت علیکم و اوفو ابعهدی اوف بعهدكم وایای فارهبون.(البقرة: 41) بنی اسرائیل خدا تعالیٰ کا دیا ہوا لقب ہے اسرائیل کے معنے ہیں جو خدا سے بے وفائی نہیں کرتے اس کی اطاعت اور محبت کے رشتہ میں منسلک قوم حقیقی اور اصلی طور پر اسلام کے یہی معنے ہیں بہت سی پیشگوئیوں میں جو اسرائیل کا نام رکھا ہے.یہ قلت فہم کی وجہ سے لوگوں کو سمجھ نہیں آئی ہیں اسرائیل سے مراد اسلام ہی ہے اور وہ پیشگوئیاں اسلام کے حق میں ہیں.باک کلمات کی درختوں سے مشابہت ( ملفوظات جلد دوم صفحه 451) اَلَمْ تَرَكَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ ط وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ هِ تُؤْتِى أُكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ بِإِذْنِ رَبِّهَا ، وَ يَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ.(ابراهيم: 25-26) پاک کلمات پاک درختوں سے مشابہت رکھتے ہیں جن کی جڑھ مضبوط ہے اور شاخیں آسمان میں اور ہمیشہ اور ہر وقت تر و تازہ پھل دیتے ہیں.سرمه چشم آریہ - ر-خ- جلد 2 صفحہ 158) کلمہ طیبہ درخت کی مثال ہے.اب اس جگہ اللہ تعالیٰ نے کھول دیا کہ وہ ایمان جو ہے وہ بطور تخم اور شجر کے ہے اور اعمال جو ہیں وہ آبپاشی کی بجائے ہیں قرآن شریف میں کسان کی مثال ہے کہ جیسا وہ زمین میں تخمریزی کرتا ہے ویسا ہی یہ ایمان کی تخمریزی ہے.وہاں آبپاشی ہے یہاں اعمال.پس یا درکھنا چاہئے کہ ایمان بغیر اعمال کے ایسا ہے جیسے کوئی باغ بغیر انہار کے.جو درخت لگایا جاتا ہے اگر مالک اس کی آبپاشی کی طرف توجہ نہ کرے تو ایک دن خشک ہو جائے گا اسی طرح ایمان کا حال ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا (العنكبوت: 70) یعنی تم ہلکے ہلکے کام پر نہ رہو بلکہ اس راہ میں بڑے بڑے مجاہدات کی ضرورت ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 649 مع حاشیہ )
691 ایمان کی باغات کے ساتھ تشبیہہ اعمال کی نہر اور پانی کے ساتھ تشبیہ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَّهُمْ فِيهَا خَلِدُونَ.(البقرة: 26) یعنی جو لوگ ایمان لاتے اور اچھے عمل بجالاتے ہیں وہ ان باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اس آیت میں خدا تعالیٰ نے ایمان کو باغ کے ساتھ مشابہت دی جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں.پس واضح رہے کہ اس جگہ ایک اعلیٰ درجہ کی فلاسفی کے رنگ میں بتلایا گیا ہے کہ جو رشتہ نہروں کا باغ کے ساتھ ہے وہی رشتہ اعمال کا ایمان کے ساتھ ہے پس جیسا کہ کوئی باغ بغیر پانی کے سرسبز نہیں رہ سکتا ایسا ہی کوئی ایمان بغیر نیک کاموں کے زندہ ایمان نہیں کہلا سکتا اگر ایمان ہو اور اعمال نہ ہوں تو وہ ایمان بیچ ہے اور اگر اعمال ہوں اور ایمان نہ ہو تو وہ اعمال ریا کاری ہیں اسلامی بہشت کی یہی حقیقت ہے کہ وہ اس دنیا کے ایمان اور عمل کا ایک ظل ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں جو باہر سے آکر انسان کو ملے گی بلکہ انسان کی بہشت انسان کے اندر سے ہی نکلتی ہے اور ہر ایک کی بہشت اسی کا ایمان اور اسی کے اعمال صالحہ ہیں جن کی اسی دنیا میں لذت شروع ہو جاتی ہے اور پوشیدہ طور پر ایمان اور اعمال کے باغ نظر آتے ہیں.اور نہریں بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھلے طور پر محسوس ہوں گے خدا کی پاک تعلیم ہمیں یہی بتلاتی ہے کہ سچا اور پاک اور متحکم اور کامل ایمان جو خدا اور اس کی صفات اور اس کے ارادوں کے متعلق ہو وہ بہشت خوش نما اور بار آور درخت ہے اور اعمال صالحہ اس بہشت کی نہریں ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی.رخ.جلد 10 صفحہ 390) پلید کلمہ کی خبیث درخت سے مشابہت وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتَتَّتُ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَالَهَا مِنْ قَرَارٍ.(ابراهيم: 27) پلید کلمہ اس درخت کے ساتھ مشابہ ہے جو زمین میں سے اکھڑا ہوا ہو یعنی فطرت انسانی اس کو قبول نہیں کرتی اور کسی طور سے وہ قرار نہیں پکڑتا.نہ دلائل عقلیہ کے رو سے نہ کچھ قانون قدرت کی رو سے نہ کانشنس کی رو سے صرف قصہ اور کہانی کے رنگ میں ہوتا ہے اور جیسا کہ قرآن شریف نے عالم آخرت میں ایمان کے پاک درختوں کو انگور اور انار اور عمدہ عمدہ میووں سے مشابہت دی ہے اور بیان فرمایا ہے کہ اس روز وہ ان میووں کی صورت میں متمثل ہوں گے اور دکھائی دیں گے.ایسا ہی بے ایمانی کے خبیث درخت کا نام عالم آخرت میں زقوم رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے اذلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُوْمِ.(الصَّقْت: 63) (اسلامی اصول کی فلاسفی.رخ.جلد 10 صفحہ 392-391)
692 اذَلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُوْمِ o إِنَّا جَعَلْنَهَا فِسَةً لِلظَّلِمِينَ إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِى اَصْلِ الْجَحِيمِ طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُ رُسُ الشَّيطِيْنِ (الصفت 63-66) جیسا کہ قرآن شریف نے عالم آخرت میں ایمان کے پاک درختوں کو انگور اور انار اور عمدہ عمدہ میووں سے مشابہت دی ہے اور بیان فرمایا ہے کہ اس روز وہ ان میووں کی صورت میں متمثل ہوں گے اور دکھائی دیں گے ایسا ہی بے ایمانی کے خبیث درخت کا نام عالم آخرت میں زقوم رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ اذلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمُ شَجَرَةُ الرَّقُومِ...تم بتلاؤ کہ بہشت کے باغ اچھے ہیں یا زقوم کا درخت جو ظالموں کے لئے ایک بلا ہے.وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی جڑھ میں سے نکلتا ہے یعنی تکبر اور خود بینی سے پیدا ہوتا ہے.یہی دوزخ کی جڑھ ہے اس کا شگوفہ ایسا ہے جیسا کہ شیطان کا سر شیطان کے معنے ہیں ہلاک ہونے والا.یہ لفظ شیط سے نکلا ہے.پس حاصل کلام یہ ہے کہ اس کا کھانا ہلاک ہونا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.ر.خ.جلد 10 صفحہ 392) انبیاء کی بعثت کی بارش سے تشبیہہ وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا كَذلِكَ نُصَرِّفُ الْأَيْتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ.(الاعراف: 59) قرآن شریف نے انبیاء ورسل کی بعثت کی مثال مینہ سے دی ہے وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا.تمثیل اسلام کی ہے جب کوئی رسول آتا ہے تو انسانی فطرتوں کے سارے خواص ظاہر ہو جاتے ہیں ان کے ظہور کا یہ خاصہ اور علامات ہیں.کہ مخلص سعید الفطرت اور مستعد طبیعت کے لوگ اپنے اخلاص اور ارادت میں ترقی کرتے ہیں اور شریری شرارت میں بڑھ جاتے ہیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 422) وَهُوَ الَّذِى يُنَزِّلُ الْغَيْتَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَ يَنْشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ.(الشورى: 29) اللہ وہ ذات کامل الرحمت ہے کہ اس کا قدیم سے یہی قانون قدرت ہے کہ اس تنگ حالت میں وہ ضرور مینہ برساتا ہے کہ جب لوگ ناامید ہو چکتے ہیں پھر زمین پر اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے اور وہی کارساز حقیقی اور ظاہر و باطناً قابل تعریف ہے یعنی جب سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے اور کوئی صورت مخلصی کی نظر نہیں آتی تو اس صورت میں اس کا یہی قانون قدیم ہے کہ وہ ضرور عاجز بندوں کی خبر لیتا ہے اور ان کو ہلاکت سے بچاتا ہے اور جیسے وہ جسمانی سختی کے وقت رحم فرماتا ہے اسی طرح جب روحانی سختی یعنی ضلالت اور گمراہی اپنی حد کو پہنچ جاتی ہے اور لوگ راہ راست پر قائم نہیں رہتے تو اس حالت میں بھی وہ ضرور اپنی طرف سے کسی کو مشرف بوحی کر کے اور اپنے نور خاص کی روشنی عطا فرما کر ضلالت کی مہلک تاریکی کو اس کے ذریعہ سے اٹھاتا ہے.(براہین احمدیہ - ر- خ - جلد 1 صفحہ 665-664)
693 پہاڑ سے مراد مشکلات ہیں وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرُ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَينِي وَلَكِنِ انظُرُ إِلَى الْجَبَلِ فِإِن اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَينِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكَّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَنَكَ کا.تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ.(الاعراف: 144) فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكَّا.پس جب کہ خدا نے پہاڑ پر بجلی کی تو اس کو پاش پاش کر دیا.یعنی مشکلات کے پہاڑ آسان ہوئے.(براہین احمدیہ.رخ - جلد 1 صفحہ 615,616 حاشیه در حاشیہ نمبر 3) جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلی کرے گا تو انہیں پاش پاش کر دے گا.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحه 665 حاشیه در حاشیہ نمبر (4) خلق کے معافی.حضرت عیسی کا خلق حقیقی نہیں تھا.اگر یہ وسواس دل میں گذرے کہ پھر اللہ جل شانہ نے مسیح ابن مریم کی نسبت اس قصہ میں جہاں پرندہ بنانے کا ذکر ہے تخلق کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے جس کے بظاہر یہ معنی ہیں کہ تو پیدا کرتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ حضرت عیسی کو خالق قرار دینا بطور استعارہ ہے جیسا کہ اس ددوسری آیت میں فرمایا ہے فَتَبَارَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِينَ.(المؤمنون: 15) بلاشبہ حقیقی اور سچا خالق خدا تعالیٰ ہے اور جولوگ مٹی یا لکڑی کے کھلونے بناتے ہیں وہ بھی خالق ہیں مگر جھوٹے خالق جن کے فعل کی اصلیت کچھ بھی نہیں.(ازالہ اوھام...خ.جلد 3 صفحہ 260 حاشیہ) خدا کے ہاتھ سے مراد.اس کے قادرانہ تصرفات ہیں وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَ لُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَهُ مَبْسُوطَتَنِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَآءُ.(المائده : 65) یہود نے کہا کہ خدا کا ہاتھ باندھا ہوا ہے یعنی جو کچھ ہے انسان کی تدبیروں سے ہوتا ہے اور خدا اپنے قادرانہ تصرفات سے عاجز ہے سوخدا نے ہمیشہ کے لیے یہودیوں کے ہاتھ کو باندھ دیا ہے تا اگر ان کے فکر اور ان کی تدبیریں کچھ چیز ہیں تو ان کے زور سے دنیا کی حکومتیں اور بادشاہتیں حاصل کرلیں.( براھین احمدیہ...خ.جلد 1 صفحہ 249 حاشیہ ) جیسا کہ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ خَلَقْتُ بِيَدَی یعنی آدم کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے.ظاہر ہے کہ خدا کے ہاتھ انسان کی طرح نہیں ہیں.پس دونوں ہاتھ سے مراد جمالی اور جلالی تجلی ہے.پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آدم کو جلالی اور جمالی تجلی کا جامع پیدا کیا گیا.تحفہ گولڑویہ.ر - خ - جلد 17 صفحہ 281-282 حاشیہ )
694 دین کو تجارت سے تشبیہہ مال چونکہ تجارت سے بڑھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی طلب دین اور ترقی دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا ہے چنانچہ فرمایا ہے هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ.(الصف: 11) سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے جو درد ناک عذاب سے نجات دیتی ہے.پس میں بھی خدا تعالیٰ کے ان ہی الفاظ میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ.( ملفوظات جلد دوم صفحه 142) رات اور دن سے انتشار ضلالت اور انتشار ہدایت مراد ہے وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ايَتَيْنِ فَمَحَوْنَا آيَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَ الْحِسَابَ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَهُ تَفْصِيلًا.(بنی اسرائیل: 13) ہم نے رات اور دن دو نشانیاں بنائی ہیں یعنی انتشار ضلالت جو رات سے مشابہ ہے اور انتشار ہدایت جو دن سے مشابہ.رات جب اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو دن کے چڑھنے پر دلالت کرتی ہے اور دن جب اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو رات کے آنے کی خبر دیتا ہے سو ہم نے رات کا نشان محو کر کے دن کا نشان رہنما بنایا یعنی جب دن چڑھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے اندھیرا تھا سو دن کا نشان ایسا روشن ہے کہ رات کی حقیقت بھی اسی سے کھلتی ہے اور رات کا نشان یعنی ضلالت کا زمانہ اس لئے مقرر کیا گیا کہ دن کے نشان یعنی انتشار ہدایت کی خوبی اور زیبائی اسی سے ظاہر ہوتی ہے کیونکہ خوبصورت کا قدرومنزلت بدصورت سے ہی معلوم ہوتا ہے اس لئے حکمت الہیہ نے یہی چاہا کہ ظلمت اور نور علی سبیل التبادل دنیا میں دور کرتے ر ہیں جب نو را اپنے کمال کو پہنچ جائے تو ظلمت قدم بڑھاوے اور جب ظلمت اپنے انتہائی درجہ تک پہنچ جائے تو پھر نو را پنا پیارا چہرہ دکھاوے.سو استیلا ظلمت کا نور کے ظہور پر ایک دلیل ہے اور استیلا نور کا ظلمت کے آنے کا ایک سبیل ہے.ہر کمال را زوالے مثل مشہور ہے.سو اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال کو پہنچ گئی اور بر و بحر ظلمت سے بھر گئے تو ہم نے مطابق اپنے قانون قدیم کے نور کے نشان کو ظاہر کیا تا دانشمند لوگ قادر مطلق کی قدرت نمایاں کو ملاحظہ کر کے اپنے یقین اور معرفت کو زیادہ کریں.(براہین احمدیہ -ر خ- جلد 1 صفحہ 635-637)
695 تُولِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ تُولِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ.(ال عمران : 28) جانا چاہیئے کہ خدائے تعالیٰ نے اس بات کو بڑے پر زور الفاظ سے قرآن شریف میں بیان کیا ہے کہ دنیا کی حالت میں قدیم سے ایک مدوجزر واقعہ ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا ہے تُولِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ تُولِجُ النَّهَارَ فِي الَّیلِ یعنی اے خدا کبھی تو رات کو دن میں اور کبھی دن کو رات میں داخل کرتا ہے یعنی ضلالت کے غلبہ پر ہدائت اور ہدائت کے غلبہ پر ضلالت کو پیدا کرتا ہے اور حقیقت اس مدوجزر کی یہ ہے کہ کبھی بامر اللہ تعالیٰ انسانوں کے دلوں میں ایک صورت انقباض اور مجو بیت کی پیدا ہو جاتی ہے اور دنیا کی آرائشیں ان کو عزیز معلوم ہونے لگتی ہیں اور تمام ہمتیں ان کی اپنی دنیا کے درست کرنے میں اور اس کے عیش حاصل کرنے کی طرف مشغول ہو جاتی ہیں یہ ظلمت کا زمانہ ہے جس کے انتہائی نقطہ کی رات لیلتہ القدر کہلاتی ہے اور وہ لیلۃ القدر ہمیشہ آتی ہے مگر کامل طور پر اس وقت آئی تھی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا دن آ پہنچا تھا.( براہین احمدیہ.رخ - جلد 1 صفحہ 645-646) قرآن کریم میں رسول کا لفظ عام ہے.علِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا.(الجن: 27-28) رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں.آئینہ کمالات اسلام...خ.جلد 5 صفحہ 322) کامل طور پر غیب کا بیان کرنا صرف رسولوں کا کام ہے دوسرے کو یہ مرتبہ عطا نہیں ہوتا.رسولوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں خواہ وہ نبی ہوں یا رسول یا محدث اور محمد دہوں.ایام اصلح - ر-خ- جلد 14 صفحہ 419 حاشیہ ) انسان کی زمین سے تشبیہہ انسان کو زمین سے بھی تشبیہ دی گئی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر ہے کہ اِعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا.(الحديد : 18) ارض کے زندہ کرنے سے مراد اہل زمین ہیں.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 462) یہ عام محاورہ قرآن شریف کا ہے کہ زمین کے لفظ سے انسانوں کے دل اور ان کی باطنی قومی مراد ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ ایک جگہ فرماتا ہے اَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا.(ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 168)
696 زمین سے مراد.انسان اور انسان کا دل ہے خدا تعالیٰ نے قلب کا نام بھی زمین رکھا ہے.اَنَّ اللهَ يُحْيِ الأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحديد : 18) زمین کا کس قدر ڈو کرنا پڑتا ہے بیل خریدتا ہے، ہل چلاتا ہے تخمریزی کرتا ہے آبپاشی کرتا ہے.غرضیکہ بہت بڑی محنت کرتا ہے اور جب تک خود دخل نہ دے کچھ بھی نہیں بنتا ٹھیک اسی طرح پر ارض دل کی خاصیت ہے جو اس کو بے عزتی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس کو خدا تعالیٰ کا فضل اور برکت نہیں ملتی.(ملفوظات جلد اول صفحہ 351) إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا یہ اس جگہ زمین سے مرادزمین کے رہنے والے ہیں اور یہ عام محاورہ قرآن شریف کا ہے کہ زمین کے لفظ سے انسانوں کے دل اور ان کی باطنی قومی مراد ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ ایک جگہ فرماتا ہے اِعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحديد: 18) جیسا کہ فرماتا ہے وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِى خَبُتَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا (الاعراف: 59) ایسا ہی قرآن شریف میں بیسیوں نظیریں موجود ہیں جو پڑھنے والوں پر پوشیدہ نہیں.(ازالہ اوہام - ر- خ - جلد 3 صفحہ 169 - 168 ) قرآن کریم کی پانی سے تشبیہ ہم نے آسمان سے پاک پانی اتارا یعنی قرآن تاہم اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندہ کریں.(ازالہ اوھام -ر خ- جلد 3 صفحہ 322) زنجیروں سے مراد د نیا میں گرفتار انسان ہے إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ سَلْسِلًا وَأَغْلَلاً وَّ سَعِيرًا.(الدهر: 5) ہم نے منکروں کے لئے جو سچائی کو قبول کرنا نہیں چاہتے زنجیریں تیار کر دی اور طوق گردن اور ایک افروختہ آگ کی سوزش.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ سچے دل سے خدائے تعالیٰ کو نہیں ڈھونڈتے ان پر خدا کی طرف سے رجعت پڑتی ہے.وہ دنیا کی گرفتاریوں میں ایسے مبتلا رہتے ہیں کہ گویا پابہ زنجیر ہیں اور زمینی کاموں میں ایسے نگونسار ہوتے ہیں کہ گویا ان کی گردن میں ایک طوق ہے جو ان کو آسمان کی طرف سر نہیں اٹھانے دیتا اور ان کے دلوں میں حرص و ہوا کی ایک سوزش لگی ہوئی ہوتی ہے کہ یہ مال حاصل ہو جائے اور یہ جائیدا دل جائے اور فلاں ملک ہمارے قبضہ میں آ جائے اور فلاں دشمن پر ہم فتح پائیں.اس قدر روپیہ ہو.اتنی دولت ہو.سو چونکہ خدائے تعالیٰ ان کو نالائق دیکھتا ہے اور برے کاموں میں مشغول پاتا ہے اس لئے یہ تینوں بلائیں ان کو لگا دیتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی - ر- خ - جلد 10 صفحہ 388)
697 خُذُوهُ فَعَلُوهُ.ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ (الحاقة: 31-33) اس جہنمی کو پکڑو.اس کی گردن میں طوق ڈالو.پھر دوزخ میں اس کو جلاؤ.پھر ایسی زنجیر میں جو پیمائش میں ستر گز ہے اس کو داخل کرو.جاننا چاہیئے کہ ان آیات میں ظاہر فرمایا کہ دنیا کا روحانی عذاب علم معاد میں جسمانی طور پر نمودار ہو گا چنانچہ طوق گردن دنیا کی خواہشوں کا جس نے انسان کے سرکوزمین کی طرف جھکا رکھا تھا وہ عالم ثانی میں ظاہری صورت میں نظر آ جائے گا اور ایسا ہی دنیا کی گرفتاریوں کی زنجیر پیروں میں پڑی ہوئی دکھائی دے گی اور دنیا کی خواہشوں کی سوزشوں کی آگ ظاہر ظاہر بھڑ کی ہوئی نظر آئے گی.فاسق انسان دنیا کی زندگی میں ہوا و ہوس کا ایک جہنم اپنے اندر رکھتا ہے اور ناکامیوں میں اس جہنم کی سوزشوں کا احساس کرتا ہے.پس جبکہ اپنی فانی شہوات سے دور ڈالا جائے گا اور ہمیشہ کی ناامیدی طاری ہوگی خدائے تعالیٰ ان حسرتوں کو جسمانی آگ کے طور پر اس پر ظاہر کرے گا جیسا کہ فرماتا ہے.وَحِيْل بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ (سبا: 55) یعنی ان میں اور ان کی خواہشوں کی چیزوں میں جدائی ڈالی جائے گی اور یہی عذاب کی جڑھ ہوگی اور پھر جو فر مایا کہ ستر گز کی زنجیر میں اس کو داخل کرو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک فاسق بسا اوقات ستر برس کی عمر پالیتا ہے بلکہ کئی دفعہ اس دنیا میں اس کو ایسے برس بھی ملتے ہیں کہ خوردسالی کی عمر اور پیر فرتوت ہونے کی عمرا الگ کر کے پھر اس قد رصاف اور خالص حصہ عمر کا اس کو ملتا ہے جو عقلمندی اور محنت اور کام کے لائق ہوتا ہے لیکن وہ بد بخت اپنی عمدہ زندگی کے ستر برس دنیا کی گرفتاریوں میں گزارتا ہے اور اس زنجیر سے آزاد ہونا نہیں چاہتا.سوخدائے تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ وہی ستر برس جو اس نے گرفتاری دنیا میں گزارے تھے عالم معاد میں زنجیر کی طرح متمثل ہو جائیں گے جوستر گز کی ہوگی.ہر ایک گز بجائے ایک سال کے ہے.اس جگہ یاد رکھنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف سے بندہ پر کوئی مصیبت نہیں ڈالتا بلکہ وہ انسان کے اپنے ہی بُرے کام اس کے آگے رکھ دیتا ہے.( اسلامی اصول کی فلاسفی.رخ.جلد 10 صفحہ 409-410)
698 ستارے اور ان کے گرنے سے مراد علماء ربانی ختم ہو جانا ہے وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ.(الانفطار : 3) و اما انتشار الكواكب فهو اشارة الى فتن العلماء و ذهاب المتقين منهم كما انكم ترون ان اثار العلم قد امتحت وعفت والذين كانوا اوتوا العلم فبعضهم ماتوا و بعضهم عموا و صمواثم تاب الله عليهم ثم عمو ا وصموا و كثير منهم فاسقون و الله بصير بما يعملون.ترجمہ از مرتب :.ستاروں کے گرنے سے علماء کے فتنوں اور ان میں سے متقی لوگوں کے ختم ہو جانے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ علم کے آثار کو ہو گئے ہیں اور مٹ گئے ہیں اور جن لوگوں کو علم عطا کیا گیا تھا ان میں سے بعض تو مر گئے ہیں اور بعض ان میں سے اندھے اور بہرے ہو گئے ہیں پھر اللہ تعالیٰ ان پر رجوع برحمت ہو الیکن پھر وہ اندھے اور بہرے ہو گئے اور اکثر ان میں سے فاسق ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو جو وہ کر رہے ہیں دیکھنے والا ہے.( آئینہ کمالات اسلام -ر خ- جلد 5 صفحہ 473-474) ظلوم.جہول کے معانی اِنَّا عَرَضْنَا الْامَانَةَ عَلَى السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا.(الاحزاب: 73) إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ......إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولاً یعنی ہم نے اپنی امانت کو جس سے مراد عشق محبت الہی اور مورد ابتلا ہو کر پھر پوری اطاعت کرنا ہے.آسمان کے تمام فرشتوں اور زمین کی تمام مخلوقات اور پہاڑوں پر پیش کیا جو بظاہر قوی ہیکل چیزیں تھیں.سوان سب چیزوں نے اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دی اور اس کی عظمت کو دیکھ کر ڈر گئیں مگر انسان نے اس کو اٹھالیا کیونکہ انسان میں یہ دوخو بیاں تھیں ایک یہ کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس پر ظلم کر سکتا تھا دوسری یہ خوبی کہ وہ خدائے تعالیٰ کی محبت میں اس درجہ تک پہنچ سکتا تھا جو غیر اللہ کو بکلی فراموش کر دے.توضیح مرام - ر- خ - جلد 3 صفحہ 75-76)
699 ضلالت کے معافی قَالُوا تَاللَّهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلَلِكَ الْقَدِيمِ.(يوسف: 96) ضال کے معنی گمراہ نہیں ہے بلکہ انتہائی درجہ کے تعشق کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ حضرت یعقوب کی نسبت اسی کے مناسب یہ آیت ہے.اِنَّكَ لَفِی ضَلِلِكَ الْقَدِيم.سو یہ دونوں لفظ ظلم اور ضلالت اگر چہان معنوں پر بھی آتے ہیں کہ کوئی شخص جادہ اعتدال اور انصاف کو چھوڑ کر اپنے شہوات غصبیہ یا بہیمیہ کا تابع ہو جاوے لیکن قرآن کریم میں عشاق کے حق میں بھی آئے ہیں جو خدا تعالیٰ کے راہ میں عشق کی مستی میں اپنے نفس اور اس کے جذبات کو پیروں کے نیچے کچل دیتے ہیں.اسی کے مطابق حافظ شیرازی کا یہ شعر ہے آسمان بار امانت نتوانست کشید قرعه فال بنام من دیوانه زدند اس دیوانگی سے حافظ صاحب حالت تعشق اور شدت حرص اطاعت مراد لیتے ہیں.آئینہ کمالات اسلام...خ.جلد 5 صفحہ 173) ضلالت کے یہ بھی معنے ہیں کہ افراط محبت سے ایک شخص کو ایسا اختیار کیا جائے کہ دوسرے کا عزت کے ساتھ نام سنے کی بھی برداشت نہ رہے جیسا کہ اس آیت میں بھی یہی معنے مراد ہیں کہ إِنَّكَ لَفِي ضَلِلِكَ الْقَدِيمِ.(تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 269 حاشیہ در حاشیه ) کتاب سے مراد فہم کتاب.اور قابل تقلید عمدہ باتیں ہیں قَالَ إِنِّى عَبْدُ اللهِ ذاتنِيَ الْكِتَبَ وَجَعَلَنِى نَبِيًّا.(مريم: 31) ( ملفوظات جلد اول صفحہ 569) اتنِيَ الْكِتَبَ سے مراد ہم کتاب.مگر افسوس تو یہ ہے کہ وہ اتنا نہیں جانتے کہ قرآن مجید لانے والا وہ شان رکھتا ہے کہ يَتْلُوا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً فِيهَا كُتُبْ قَيِّمَةٌ (البيئة: 4:3) ایسی کتاب جس میں ساری کتابیں اور ساری صداقتیں موجود ہیں.کتاب سے مراد عام مفہوم وہ عمدہ باتیں ہیں جو بالطبع انسان قابل تقلید سمجھتا ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 52-51) کرسی سے مراد عظمت باری تعالیٰ ہے.وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَتُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ.یعنی خدائی کرسی کے اندر تمام زمین و آسمان سمائے ہوئے ہیں اور وہ ان سب کو اٹھائے ہوئے ہے ان کے اٹھانے سے وہ تھکتا نہیں ہے اور وہ نہایت بلند ہے کوئی عقل اس کی کنہ تک پہنچ نہیں سکتی اور نہایت بڑا ہے اس کی عظمت کے آگے سب چیزیں بیچ ہیں.یہ ہے ذکر کرسی کا اور یہ حض ایک استعارہ ہے جس سے یہ جتلا نا منظور ہے کہ زمین و آسمان سب خدا کے تصرف میں ہیں اور ان سب سے اس کا مقام دور تر ہے اور اس کی عظمت نا پیدا کنار ہے.(چشمہ معرفت - ر-خ-جلد 23 صفحہ 118 حاشیہ )
700 لفظ کلمہ سے مراد ( عام ارواح اور ارواح طیبہ ) إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (الفاطر : 11) اسی رحمن کی طرف کلمات طیبہ (براہین احمد یہ ر.خ.جلد 1 صفحہ 661 حاشیہ ) صعود کرتے ہیں.اس جگہ خدا تعالیٰ نے روح کا نام کلمہ رکھا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ درحقیقت تمام ارواح کلمات اللہ ہی ہیں جو ایک لائیڈ رک بھید کے طور پر جس کی تہہ تک انسان کی عقل نہیں پہنچ سکتی روحیں بن گئی ہیں اسی بناء پر اس آیت کا مضمون بھی ہے وَ كَلِمَتُهُ الْقَيْهَا إِلى مَرْيَمَ اور چونکہ یہ سر ربوبیت ہے اس لئے کسی کی مجال نہیں کہ اس سے بڑھ کر کچھ بول سکے کہ کلمات اللہ ہی بحکم و باذن ربی لباس روح کا پہن لیتے ہیں اور ان میں وہ تمام طاقتیں اور تو تیں اور خاصیتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو روحوں میں پائی جاتی ہیں اور پھر چونکہ ارواح طیبہ فنافی اللہ ہونے کی حالت میں اپنے تمام قولی چھوڑ دیتی ہیں اور اطاعت الہی میں فانی ہو جاتی ہیں تو گویا پھر وہ روح کی حالت سے باہر آ کر کلمتہ اللہ ہی بن جاتی ہیں جیسا کہ ابتداء میں وہ کلمتہ اللہ تھیں سو کلمتہ اللہ کے نام سے ان پاک روحوں کو یاد کرنا ان کے اعلیٰ درجہ کے کمال کی طرف اشارہ ہے سو انہیں نور کا لباس ملتا ہے اور اعمال صالحہ کی طاقت سے ان کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے اور ہمارے ظاہر بین علماء اپنے محدود خیالات کی وجہ سے کلمات طیبہ سے مراد محض عقائد یا اذکار و اشغال رکھتے ہیں اور اعمال صالحہ سے مراد بھی اذکار و خیرات وغیرہ ہیں تو گویا وہ اس تاویل سے علت اور معلول کو ایک کر دیتے ہیں اگر چہ کلمات طیبہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں لیکن عارفوں کے لئے یہ بطنی معنے ہیں جن پر قرآن کریم کے دقیق اشارات مشتمل ہیں.(ازالہ او حام -ر خ- جلد 3 صفحہ 333-334) لباس تقوی کے معنوں میں اور دل کے معنوں میں قُمْ فَانْذِرُ.وَرَبَّكَ فَكَبِّرُ.وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ.وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ.(المدثر 3 تا 6) دریس اشارت است که بر دست اوبتان مقهور خواهند شد و جلال و عظمت الہی ظاہر خواہد شد واز پلیدی ها جدا باش.ایں اشارت است که سوئے اینکه از ہر قسم پلیدی دور باید ماند و نیز سوئے ایں اشارت است که خدا اراده فرموده است که از صحبت مشرکاں کہ نجس اند تر اجدا کند و شرک را از زمین مکہ بردارد و جامہ ہائے خود او دل خود را پاک کن (شوب بمعنی دل نیز آمده) این اشارت است سوئے اینکه خدا اراده فرموده است که دلبار از هر تم شرک ظلم والتفات الى ماسوی اللہ پاک کند.و نیز ایس ہم دریں آیت با اشاره می کنند که این شریعت بریں همه اجزا مشتمل است (لجه النور - ر - خ - جلد 16 صفحه 394) ( ترجمہ از مرتب ) ان آیات میں اشارہ ہے کہ آپ کے ہاتھ پر بت مشہور ہوں گے اور جلال اور عظمت الہی ظاہر ہوگی اور آپ پلیدی سے الگ ہو جائیں.اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس طرف آنے کے لئے ہر قسم کی پلیدی دور ہونی چاہیئے.نیز اس طرف اشارہ ہے کہ خدا نے ارادہ فرمایا ہے مشرکوں کی مجلس سے کہ جو نا پاک ہیں تجھے الگ کر دیں گے اور مکہ کی سرزمین سے شرک مٹا دیا جائے گا اور اپنے لباس اور دل کو پاک کر ( ثوب کے معنے دل کے بھی ہیں) میں یہ اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دلوں کو ہر قسم کے شرک ظلم اور غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے پاک کر دیا جائے گا نیز ان آیات میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ شریعت ان تمام اجزاء پر مشتمل ہے.
701 يبَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوَاتِكُمْ وَرِيْشًا وَ لِبَاسُ التَّقْوى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ ايَتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ.(الاعراف: 27) خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوى قرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقوی یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلووں پر تا بمقد ور کار بند ہو جائے.براهین احمدیہ - رخ - جلد 21 صفحہ 210) مہدی.صرف خدا تعالیٰ ہی سے علم دین حاصل کرنے والا ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مہدی تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَوَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَى (الضحی : 8) اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا تھا.مگر حضرت عیسے اور حضرت موسے مکتبوں میں بیٹھے تھے.اور حضرت عیسی نے ایک یہودی استاد سے تمام توریت پڑھی تھی.غرض اسی لحاظ سے کہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے کسی استاد سے نہیں پڑھا خدا آپ ہی استاد ہوا.اور پہلے پہل خدا نے ہی آپ کو اِقْرَءُ کہا.یعنی پڑھ.اور کسی نے نہیں کہا.اس لئے آپ نے خاص خدا کے زیر تربیت تمام دینی ہدایت پائی اور دوسرے نبیوں کے دینی معلومات انسانوں کے ذریعہ سے بھی ہوئے.سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا.سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کریگا.اور قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوگا.سو میں حلقاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے.یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے.پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے.اور اسرار دین بلا واسطہ میرے پر کھولے گئے.موت کے معانی الصد ایام اس.رخ - جلد 14 صفحہ 394-393) ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ.(المومنون: 16) موت کا لفظ قرآن کریم میں ذوالوجوہ ہے.کافر کا نام بھی مردہ رکھا ہے اور ہوا و ہوس سے مرنا بھی ایک قسم کی موت ہے اور قریب الموت کا نام بھی میت ہے اور یہی تینوں وجوہ استعمال حیات میں بھی پائی جاتی یعنی حیات بھی تین قسم کی ہیں.(ازالہ اوھام - رخ - جلد 3 صفحہ 445)
702 لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَ هُمْ أَوْ أَبْنَاءَ هُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيْرَتَهُمْ أُولَئِكَ دو كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَ هُم بِرُوحِ مِنْهُ.(المجادلة:23) یہ بھی بیان فرمایا کہ روح القدس سے ہم نے ان کو تائید دی کیونکہ جب ایمان دلوں میں لکھا گیا اور فطرتی حروف میں داخل ہو گیا تو ایک نئی پیدائش انسان کو حاصل ہوگئی اور یہ ئی پیدائش بجز تائید روح القدس کے ہر گز نہیں مل سکتی.روح القدس کا نام اسی لئے روح القدس ہے کہ اس کے داخل ہونے سے ایک پاک روح انسان کو مل جاتی ہے.قرآن کریم روحانی حیات کے ذکر سے بھرا پڑا ہے اور جابجا کامل مومنوں کا نام احیاء یعنی زندے اور کفار کا نام اموات یعنی مردے رکھتا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کامل مومنوں کو روح القدس کے دخول سے ایک جان مل جاتی ہے اور کفار گو جسمانی طور پر حیات رکھتے ہیں مگر اس حیات سے بے نصیب ہیں جو دل اور دماغ کو ایمانی زندگی بخشتی ہے.( آئینہ کمالات اسلام -ر خ- جلد 5 صفحہ 101-102) وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ.(الحجر: 100) اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے کہ تو عبادت کرتا رہ جب تک کہ تجھے یقین کامل کا مرتبہ حاصل نہ ہوا اور تمام حجاب اور ظلماتی پر دے دور ہو کر یہ سمجھ میں نہ آجاوے کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو پہلے تھا بلکہ اب تو نیا ملک نئی زمین نیا آسمان ہے اور میں بھی کوئی نئی مخلوق ہوں یہ حیات ثانی وہی ہے جس کو صوفی بقا کے نام سے موسوم کرتے ہیں.جب انسان اس درجہ پر پہنچ جاتاہے تو اللہ تعالی کی روح کا نفخ اس میں ہوتا ہے.ملائکہ کا اس پر نزول ہوتا ہے.یہی وہ راز تھا جس پر پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت فرمایا کہ اگر کوئی چاہے کہ مردہ میت کو زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو وہ ابو بکر کو دیکھے.اور ابوبکر کا درجہ اس کے ظاہری اعمال سے ہی نہیں بلکہ اس بات سے ہے جو اس کے دل میں ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 368-369) موت وحیات سے مراد.روحانی موت اور زندگی.کامیابی اور نا کامی بھی ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا سُتَجِيبُوا لِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمُ لِمَا يُحْيِيكُمُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ.(الانفال : 25) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے ہاتھ پر مردے زندہ ہوتے ہیں لِمَا يُحْيِيكُمُ اور سب کو معلوم ہے کہ اس سے مراد روحانی مردوں کا زندہ ہونا ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 633)
703 الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا، وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ.(الملک: 3) دنیا کی کامیابیاں ابتلاء سے خالی نہیں ہوتی ہیں.قرآن شریف میں آیا ہے خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَوةَ لِيَبْلُوَكُمْ یعنی موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ ہم تمہیں آزمائیں.کامیابی اور نا کامی بھی زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے.کامیابی ایک قسم کی زندگی ہوتی ہے.جب کسی کو اپنے کامیاب ہونے کی خبر پہنچتی ہے تو اس میں جان پڑ جاتی ہے اور گویا نئی زندگی ملتی ہے اور اگر نا کامی کی خبر آ جائے تو زندہ ہی مر جاتا ہے اور بسا اوقات بہت سے کمزور دل آدمی ہلاک بھی ہو جاتے ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحه 97-98) مغضوب اور ضال.یہودی اور عیسائی ضالین سے مراد صرف گمراہ نہیں بلکہ وہ عیسائی مراد ہیں جو افراط محبت کی وجہ سے حضرت عیسی کی شان میں غلو کرتے ہیں.کیونکہ ضلالت کے یہ بھی معنے ہیں کہ افراط محبت سے ایک شخص کو ایسا اختیار کیا جائے کہ دوسرے کا عزت کے ساتھ نام سننے کی بھی برداشت نہ رہے جیسا کہ اس آیت میں بھی یہی معنے مراد ہیں کہ اِنَّكَ لَفِی ضَلَالِكَ الْقَدِيم (یوسف : 96) اور المغضوب علیھم سے وہ علماء یہودی مراد ہیں جنہوں سے شدت عداوت کی وجہ سے حضرت عیسلے کی نسبت یہ بھی روانہ رکھا کہ انکو مومن قرار دیا جائے بلکہ کافر کہا اور واجب القتل قرار دیا.اور مغضوب علیہ وہ شدید الغضب انسان ہوتا ہے جس کے غضب کے غلق پر دوسرے کو غضب آوے.اور یہ دونوں لفظ باہم مقابل واقع ہیں.یعنی ضالین وہ ہیں جنہوں نے افراط محبت سے حضرت عیسی کو خدا بنایا اور المغضوب علیھم وہ یہودی ہیں جنہوں نے خدا کے مسیح کو افراط عداوت سے کا فرقرار دیا اس لئے مسلمانوں کو سورۃ فاتحہ میں ڈرایا گیا اور اشارہ کیا گیا کہ تمہیں یہ دونوں امتحان پیش آئینگے.مسیح موعود آئیگا اور پہلے مسیح کی طرح اسکی بھی تکفیر کی جائینگی اور ضالین یعنی عیسائیوں کا غلبہ بھی کمال کو پہنچ جائیگا جو حضرت عیسی کو خدا کہتے ہیں تم ان دونوں فتنوں سے اپنے تئیں بچاؤ اور بچنے کیلئے نمازوں میں دعائیں کرتے رہو.(تحفہ گولڑویہ جلد 17 صفحہ 269 حاشیه در حاشیه ) غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد مولوی ہیں کیونکہ ایسی باتوں میں اول نشانہ مولوی ہی ہوا کرتے ہیں.دنیا داروں کو تو دین سے تعلق ہی کم ہوتا ہے جب سے یہ سلسلہ نبوت کا جاری ہے یہ اتفاق کبھی نہیں ہوا کہ مولویوں کے پاس جس قدر ذخیرہ رطب و یابس کا ہو وہ حرف بحرف پورا ہوا ہو.دیکھ لوان ہی باتوں سے ابتک یہود نے نہ میسیج کو مانا نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو.حق کو قبول کرنا ایک نعمت الہی ہے یہ ہر ایک کو نہیں ملا کرتی اس لیے ہمیشہ دعا کرنی چاہیئے کہ خدا تعالیٰ اسے قبول کرنے کی توفیق عطا کرے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 297)
704 بہتریں دعا وہ ہوتی ہے جو جامع ہو تمام خیروں کی اور مانع ہو تمام مضرات کی.اس لیے انعمت عليهم کی دعا میں آدم سے لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک کے کل منعم علیہم لوگوں کے انعامات کے حصول کی دعا ہے اور غير المغضوب عليهم ولا الضلین میں ہر قسم کی مضرتوں سے بچنے کی دعا ہے.چونکہ مغضوب سے مراد یہود اور ضالین سے مراد نصاری بالا تفاق ہیں تو اس دعا کی تعلیم کا منشا صاف ہے کہ یہود نے جیسے بیجا عداوت کی تھی.مسیح موعود کے زمانہ میں مولوی لوگ بھی ویسا ہی کریں گے اور حدیثیں اس کی تائید کرتی ہیں یہانتک کہ وہ یہودیوں کے قدم بہ قدم چلیں گے.مومن اور کافر کی مثال ( ملفوظات جلد سوم صفحه 309) مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَاتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ.وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرُجَهَا فَنَفَخُنَا فِيْهِ مِنْ رُّوحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمْتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقِنِتِينَ.(التحريم: 13:12) قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں.ایک مثال فرعون کی عورت سے ہے جو کہ اس قسم کے خاوند سے خدا کی پناہ چاہتی ہے.یہ ان مومنوں کی مثال ہے جو نفسانی جذبات کے آگے گر جاتے ہیں اور غلطیاں کر بیٹھتے ہیں پر پچھتاتے ہیں تو بہ کرتے ہیں خدا سے پناہ مانگتے ہیں.ان کا نفس فرعون سے خاوند کی طرح ان کو تنگ کرتارہتا ہے.وہ لوگ نفس تو امہ رکھتے ہیں.بدی سے بچنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں.دوسرے مومن وہ ہیں جو اس سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں.وہ صرف بدیوں سے ہی نہیں بچتے بلکہ نیکیوں کو حاصل کرتے ہیں.ان کی مثال اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم سے دی ہے اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوحِنَا ہر ایک مومن جو تقوی وطہارت میں کمال پیدا کرے وہ بروزی طور پر مریم ہوتا ہے اور خدا اس میں اپنی روح پھونک دیتا ہے جو کہ ابن مریم بن جاتی ہے.زمخشری نے بھی اس کے یہی معنے کئے ہیں کہ یہ آیت عام ہے اور اگر یہ معنے نہ کئے جاویں تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ مریم اور ابن مریم کے سوامس شیطان سے کوئی محفوظ نہیں.اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ تمام انبیاء پر شیطان کا دخل تھا.پس دراصل اس آیت میں بھی اشارہ ہے کہ ہر ایک مومن جو اپنے تئیں اس کمال کو پہنچائے خدا کی روح اس میں پھونکی جاتی ہے اور وہ ابن مریم بن جاتا ہے اور اس میں ایک پیشگوئی ہے کہ اس امت میں ابن مریم پیدا ہو.تعجب ہے کہ لوگ اپنے بیٹوں کا نام محمد اور عیسی اور موسیٰ اور یعقوب اور اسحق اور اسمعیل اور ابراھیم رکھ لیتے ہیں اور اس کو جائز جانتے ہیں پر خدا کے لئے جائز نہیں جانتے کہ وہ کسی کا نام عیسٹی یا ابن مریم رکھ دے.( ملفوظات جلد اول صفحه 523-522)
705 بے سایہ درخت یعنی ناقص دین اِنْطَلِقُوا إِلَى مَا كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِبُونَ انْطَلِقُوا إِلَى ظِلَّ ذِي ثَلَثِ شُعَبِ لَّا ظَلِيلٍ وَّلَا يُغْنِى مِنَ اللَّهَبِ (المرسلت: 30تا32) اس جگہ یاد رکھنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف سے بندہ پر کوئی مصیبت نہیں ڈالتا بلکہ وہ انسان کے لئے اپنے بُرے کام اس کے آگے رکھ دیتا ہے.پھر اس اپنی سنت کے اظہار میں خدا تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے.انْطَلِقُوا إِلَى ظِلَّ ذِى ثَلكِ شُعَبِ.لَّا ظَلِيْلٍ وَّلَا يُغْنِى مِنَ اللَّهَب.یعنی اے بد کارو گرا ہو! سہ گوشہ سایہ کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہیں جو سایہ کا کام نہیں دے سکتیں اور نہ گرمی سے بچا سکتی ہیں.اس آیت میں تین شاخوں سے مراد قوت سبھی اور بہیمی اور وہی ہے جو لوگ ان تینوں قوتوں کو اخلاقی رنگ میں نہیں لاتے اور ان کی تعدیل نہیں کرتے ان کی یہ قوتیں قیامت میں اس طرح پر نمودار کی جائیں گی کہ گویا تین شاخیں بغیر چوں کے کھڑی ہیں اور گرمی سے بچا نہیں سکتیں اور وہ گرمی سے جلیں گے.اسلامی اصول کی فلاسفی.رخ.جلد 10 صفحہ 410) نذیر لفظ کی علامت عذاب کا نازل ہونا ہے فَقَدْ جَاءَ كُمُ بَشِيرٌ وَّ نَذِيرٌ وَ اللهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.(المائده: 20) نذیر کا لفظ اسی مرسل کے لیے خدا تعالیٰ استعمال کرتا ہے جس کی تائید میں یہ مقدر ہوتا ہے کہ اس کے منکروں پر کوئی عذاب نازل ہوگا کیونکہ نذیرڈرانے والے کو کہتے ہیں اور وہی نبی ڈرانے والا کہلاتا ہے جس کے وقت میں کوئی عذاب نازل ہونا مقدر ہوتا ہے پس آج سے چھبیس برس پہلے جو براہین احمدیہ میں میرا نام نذیر رکھا گیا اس میں صاف اشارہ تھا کہ میرے وقت میں عذاب نازل ہوگا.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 486) قرآن میں روح القدس کا نام نور ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ.(الانفال: 30) روح القدس کے بارہ میں جو قرآن کریم میں آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ کے لیے کامل مومنوں کو روح القدس دیا جاتا ہے منجملہ ان کے ایک یہ آیت ہے یعنی اے وے لوگو جو ایمان لائے ہوا گر تم تقویٰ اختیار کرو اور اللہ جل شانہ سے ڈرتے رہو تو خدا تعالیٰ تمہیں وہ چیز عطا کرے گا (یعنی روح القدس ) جس کے ساتھ تم غیروں سے امتیاز کلی پیدا کرلو گے اور تمہارے لیے ایک نور مقرر کر دیگا (یعنی روح القدس) جو تمہارے ساتھ ساتھ چلے گا.قرآن کریم میں روح القدس کا نام نور ہے.آئینہ کمالات اسلام.رخ.جلد 5 صفحہ 97-98)
706 اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنُ مَّثَلُهُ فِى الظُّلُمَتِ لَيْسَ بِخَارِجِ مِنْهَا كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكَفِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.(الانعام:123) کیا وہ شخص جو مردہ تھا اور ہم نے اس کو زندہ کیا اور ہم نے اس کو ایک نور عطا کیا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے یعنی اس نور کی برکات لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں کیا ایسا آدمی اس آدمی کی مانند ہو سکتا ہے جو سراسر تاریکی میں اسیر ہے اور اس سے نکل نہیں سکتا.نور اور حیات سے مراد روح القدس ہے کیونکہ اس سے ظلمت دور ہوتی ہے اور وہ دلوں کو زندہ کرتا ہے.اسی لیے اس کا نام روح القدس ہے یعنی پاکی کی روح جس کے داخل ہونے سے ایک پاک زندگی حاصل ہوتی ہے.آئینہ کمالات اسلام - ر - خ - جلد 5 صفحہ 99) قرآن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اللہ اور سراج منیر ہے وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُّبِيرًا.(الاحزاب:47) انبیاء منجمله سلسله متفاوتهہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہو ا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہو گئے ہیں اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے جیسا فرمایا ہے قَدْ جَاءَ كُمْ مِنَ اللهِ نُورٌ وَّ كِتَابٌ مُّبِينٌ الجزو نمبر 6 وَدَاعِيًا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُّبِيرًا الجزو نمبر 22 یہی حکمت ہے کہ نو روحی جس کے لئے نور فطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہونا شرط ہے صرف انبیاء کو ملا اور انہیں سے مخصوص ہو ا.( براھین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 196 حاشیہ ) ایک گاؤں میں سو گھر تھے اور صرف ایک گھر میں چراغ جلتا تھا تب جب لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ اپنے اپنے چراغ لے کر آئے اور سب نے اس چراغ سے اپنے چراغ روشن کئے.اسی طرح ایک روشنی سے کثرت ہوسکتی ہے.اسی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ کر کے فرماتا ہے وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُّبِيرًا.( براھین احمدیہ.رخ.جلد 21 صفحہ 425)
707 فہیم قرآن کے روحانی لوازمات لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ.(الواقعة : 80) دینی علم اور پاک معارف کے سمجھنے اور حاصل کرنے کے لئے پہلے چی پاکیزگی کا حاصل کر لینا اور ناپاکی کی راہوں کا چھوڑ دینا از بس ضروری ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ یعنی خدا کی پاک کتاب کے اسرار کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو پاک دل ہیں اور پاک فطرت اور پاک عمل رکھتے ہیں.دنیوی چالاکیوں سے آسمانی علم ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے.ست بچن.رخ جلد 10 صفحہ 126) راز قرآن را کجا فهمد کسے بہر نورے نور می باید بسے تب تک کوئی قرآنی اسرار کو کیونکر سمجھ سکتا ہے نور کے سمجھنے کے لئے بہت سانور باطن ہونا چاہئے.ایں نہ من قرآں ہمیں فرموده است اندر و شرط تطهر بوده است یہ میری بات نہیں بلکہ قرآن نے بھی یہی فرمایا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے پاک ہونے کی شرط ہے.گر بقرآں ہر کسے را راه بود پس چرا شرط تطهر را فزود اگر ہر شخص قرآن کو ( خود ہی سمجھ سکتا تو خدا نے تطہیر کی شرط کیوں زائد لگائی.نور را داند کسے کو نور شد و از حجاب سرکشی با دور شد نور کو وہی شخص سمجھتا ہے جو خود نور ہو گیا ہو.اور سرکشی کے حجابوں سے دُور ہو گیا ہو.(در مشین فارسی متر جم صفحه 227-226) (سراج منیر.ر.خ.جلد 12 صفحہ 96)
708
نمبر شمار 709 فہرست مضامین عنوانات صفحہ نمبر شمار پہلی فصل 12 عنوانات قرآن ایک آسمانی نور ہے صفحہ 728 ارسال انبیاء اور فہم قرآن 1 ارسال انبیاء.عادت اللہ ہے 2 قرآن اور رسول با ہم تو ام ہیں عادت اللہ کی حکمت 711 713 714 13 | نور اسی کو عطا کیا جاتا ہے جو خودنور ہو گیا ہو 14 حضرت اقدس خدا کے نوروں سے آخری نور ہیں 4 فہم قرآن اور امام ہائے ربانی اور معلمین باری تعالیٰ 715 15 قرآن کریم کے دقائق عالیہ خدا تعالیٰ کے خاص بندوں سے مخصوص ہیں 5 کتاب کے ساتھ استاد کی ضرورت 716 16 قرآن کے دقائق و معارف ضرورت زمانہ 6 فہم قرآن اور علماء عارف باللہ اور اولیاء عظام دوسری فصل 7 فہم قرآن اور تائید وحی و الہام 8 717 720 وحی ولایت اہم معیار فہم قرآن ہے 721 9 حضرت اقدس کا فہم قرآن وحی الہی 10 اور الہام کی تائید کے ساتھ ہے تیسری فصل حضرت اقدس کے دعاوی کا عرفان فہم قرآن کی کلید ہے 11 کشف و رویاء اور وحی و مخفی 722 723 726 کے مطابق کھلتے ہیں 17 زمانے کی ضرورت کے مطابق روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں 18 | حضرت اقدس کو آپ کے زمانہ کی 730 732 733 735 // ضرورت کے مطابق معارف عطا ہوئے 736 19 صاحب نور خدا کی طرف سے آتا ہے / 20 قرآن کریم برسبیل قال نہیں بلکہ برسبیل حال نازل ہوا ہے چوتھی فصل 21 فہم قرآن اور تقویٰ 22 | قرآنی علوم کے انکشاف کیلئے تقویٰ شرط ہے 738 739
710 عنوان 23 | تقوی علوم دینیہ کی کلید ہے پانچویں فصل 740 نمبر شمارا عنوان صفحہ 29 | صدق اور قرآن سے محبت 30 معیت صادق اور فہم قرآن فہم قرآن اور مقام صدق 31 صدق اور تائید النبی 24 صدق مجسم قرآن کریم اور آنحضرت 32 فہم قرآن اور مومن کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے 742 33 فہم قران اور اصحاب عقل و دانش 747 748 749 750 751 752 25 صدیق پر معارف قرآنی کھولے جاتے ہیں اور 34 فہم قرآن اور عاجزی وانکساری 26 صادق کی تعریف 27 | کمال صدیقیت کے مراتب 28 | صادق کامل 744 745 746 35 فہم قران پاک اور مطہر زندگی 753.36 فہم قرآن دنیا پرست کو نہیں ملتا 754
711 پہلی فصل ارسال انبیاء اور فہم قرآن ارسال انبیاء.عادت اللہ ہے اللہ جلشانہ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ (البقرة : 88) یعنی موسیٰ کو ہم نے توریت دی اور پھر اس کتاب کے بعد ہم نے کئی پیغمبر بھیجے تا توریت کی تائید اور تصدیق کریں.اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتُرَا (المومنون:45) یعنی پھر پیچھے سے ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے.پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ اپنی کتاب بھیج کر پھر اسکی تائید اور تصدیق کیلئے ضرور انبیاء کو بھیجا کرتا ہے چنانچہ توریت کی تائید کیلئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی آیا.جن کے آنے پر اب تک بائییل شہادت دے رہی ہے.( شہادت القرآن.ر.خ.جلد 6 صفحہ 341-340) من والصلوة والسلام على خاتم الرسل الذى اقتضى ختم نبوته.ان تبعث مثل الانبياء امته.و ان تنور وتثمر الى انقطاع هذا العالم اشجاره.ولا تعفى اثاره.ولا تغيب تذكاره.فلاجل ذلك جرت عادة الله انه يرسل عباد امن الذين استطا بهم لتجديد هذا الدين.و يعطيهم من عنده علم اسرار القرآن ويبلغهم الى حق اليقين ليظهروا معارف الحق على الخلق بسلطانها.وقوتها ولمعانها.ويبينوا حقيقتها وهويتها و سبلها و اثار عرفانها.ويخلصوا الناس من البدعات والسيئات وطوفانها وطغيانها.و ليقيموا الشريعة ويفرشوا بساطها.ويبسطوا انماطها.ويزيلواتفريطها و افراطها.واذا اراد الله لاهل الارض ان يصلح دينهم.وينير براهينهم.اوينصرهم عند حلول الاهوال والمصائب والأفات اقام بينهم احدا من هذه السادات.اور صلوۃ اور سلام خاتم رسل پر جس کی نبوت کے ختم نے چاہا کہ آپ کی امت سے نبیوں کی مانند لوگ پیدا ہوں.اور آپ کے درخت زمانہ کے آخر تک پھلتے پھولتے رہیں اور نہ آپ کے نشان مٹائے جائیں.اور نہ آپ کی یاد دنیا سے بھول جائے.اسی لئے خدا کی عادت ہے کہ وہ ایسے بندوں کو بھیجا کرتا ہے جنھیں اس دین کی تجدید کے لئے پسند فرمالیتا ہے اور انھیں اپنے حضور سے قرآن کے اسرار عطا کرتا.اور حق الیقین تک پہنچاتا ہے.اسلئے کہ وہ لوگوں پر حق کے معارف کو پوری قوت اور غلبہ اور چمک کے رنگ میں ظاہر کریں.اور ان معارف کی حقیقت اور کیفیت اور راہوں اور انکی شناخت کے نشانوں کو بیان کریں.اور لوگوں کو بدعتوں اور بدکرداریوں سے اور انکے طوفان وطغیان سے چھڑائیں.اور شریعت کو قائم کریں اور اسکی بساط کو بچھائیں اور افراط و تفریط کو جو اس میں داخل کی گئی ہے دور کریں.اور جب خدا اہل زمین کے لئے چاہتا ہے کہ انکے دین کو سنوارے اور ان کے برہانوں کو روشن کرے اور ہول اور مصیبت کے پیش آنے پر ان کو مدد دے.تب ان بزرگوں میں سے کسی کو ان میں کھڑا کر دیتا ہے.الھدی -ر خ- جلد 18 صفحہ 248-247)
712 دوم جس طرح پر کہ عقل اس بات کو واجب اور تم ٹھہراتی ہے کہ کتب الہی کی دائی تعلیم اور تفہیم کیلئے ضروری ہے کہ ہمیشہ انبیاء کی طرح وقتا فوقتا ملہم اور مکم اور صاحب علم لدنی پیدا ہوتے رہیں.اسی طرح جب ہم قرآن پر نظر ڈالتے ہیں اور غور کی نگہ سے اسکودیکھتے ہیں تو وہ بھی بآواز د بلند یہی فرما رہا ہے کہ روحانی معلموں کا ہمیشہ کیلئے ہونا اسکے ارادہ قدیم میں مقرر ہو چکا ہے.دیکھو اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمُكُتُ فِي الْاَرْضِ الجزو نمبر 13 نے جو چیز انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے اب ظاہر ہے کہ دنیا میں زیادہ تر انسانوں کو نفع پہنچا نیوالے گروہ انبیاء ہیں کہ جو خوارق سے معجزات سے پیشگوئیوں سے حقائق سے معارف سے اپنی راستبازی کے نمونہ سے انسانوں کے ایمان کو قوی کرتے ہیں اور حق کے طالبوں کو دینی نفع پہنچاتے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دنیا میں کچھ بہت مدت تک نہیں رہتے بلکہ تھوڑی سی زندگی بسر کر کے اس عالم سے اٹھائے جاتے ہیں.لیکن آیت کے مضمون میں خلاف نہیں اور ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام خلاف واقع ہو.پس انبیاء کی طرف نسبت دیگر معنی آیت کے یوں ہونگے کہ انبیاء من حیث الفل باقی رکھے جاتے ہیں اور خدا تعالی ظلمی طور پر ہر یک ضرورت کے وقت میں کسی اپنے بندہ کو ان کی نظیر اور مثیل پیدا کر دیتا ہے جو انہیں کے رنگ میں ہو کر انکی دائمی زندگی کا موجب ہوتا ہے اور اسی طقی وجود قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ یعنے اے خدا ہمارے ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو تیرے ان بندوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا انعام جو انبیاء پر ہوا تھا جس کے مانگنے کیلئے اس دعا میں حکم ہے اور وہ درم اور دینار کی قسم میں سے نہیں بلکہ وہ انوار اور برکات اور محبت اور یقین اور خوارق اور تائید سماوی اور قبولیت اور معرفت تامہ کاملہ اور وحی اور کشف کا انعام ہے اور خدا تعالیٰ نے اس امت کو اس انعام کے مانگنے کے لئے تبھی حکم فرمایا کہ اول اس انعام کے عطا کرنے کا ارادہ بھی کر لیا پس اس آیت سے بھی کھلے کھلے طور پر یہی ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ اس امت کو ظلی طور پر تمام انبیاء کا وارث ٹھہراتا ہے تا انبیاء کا وجود خلتی طور پر ہمیشہ باقی رہے اور دنیا ان کے وجود سے کبھی خالی نہ ہوا اور نہ صرف دعا کے لئے حکم کیا بلکہ ایک آیت میں وعدہ بھی فرمایا ہے اور وہ یہ ہے والَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.(العنکبوت : 70) یعنے جو لوگ ہماری راہ میں جو صراط مستقیم ہے مجاہدہ کرینگے تو ہم ان کو اپنی راہیں بتلا دینگے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہیں وہی ہیں جو انبیاء کو دکھلائی گئیں تھیں.( شہادت القران-رخ- جلد 6 صفحہ 352-351)
713 قرآن اور رسول.باہم توام ہیں وانـي انـــا الـمـوعـود والقائم الذي به تملان الارض عدلا و تثمر بنفسی تـجــلـــت طلعة الله للورى فیا طالبی رشد علی بانی احضروا خذوا حظكم منی فانی امامکم اذکر کــــم ایـــامــكــم وابشــر وقد جئتكم يا قوم عند ضرورة فهل من رشيــد عــــاقـل يـتـدبــر وما البر الاترك بخل من التقى وما البخل الا رد من يتبقـر وقــالـوا الــى الـمـوعود ليس بحاجة فان کتاب الله يهدى و يخبـــر ومــــاهـــى الا بالغيور دعابة فيا عجبا من فطرة تتهور وقد جاء قول الله بالرسل تواما ومن دونهم فهم الهدى متعسر فان ظبي الاسياف تحتاج دائما الى ساعد يجرى الدماء ويندر.اور میں مسیح موعود اور وہ امام قائم ہوں جو زمین کو عدل سے بھرے گا اور ویران جنگلوں کو پھل دار کر دیگا..میرے ساتھ صورت خدا کی خلقت پر ظاہر ہوگی.پس اے ہدایت کے طالبو! میرے دروازے پر حاضر ہو جاؤ..اپنا حصہ مجھ سے لے لو کہ میں تمہارا امام ہوں.تمہیں تمہارے دن یاد دلاتا ہوں اور بشارت دیتا ہوں..اوراے میری قوم ! ضرورت کے وقت تمہارے پاس آیا ہوں.پس کیا کوئی تم میں رشید اور عقلمند ہے جو اس بات کو سوچے.ہے.اور نیکی بجز اس کے کوئی چیز نہیں کہ تقویٰ کی راہ سے بخل کو دور کر دیا جاوے.اور بخل بجز اس کے کچھ نہیں کہ جس کا علم وسیع اور کامل ہے اور اپنے سے بہتر ہے اس کو قبول نہ کیا جائے..اور انہوں نے کہا کہ مسیح موعود کی طرف کچھ حاجت نہیں.کیونکہ اللہ کی کتاب ہدایت دیتی اور خبر دیتی ہے..اور یہ تو خدائے غیور کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا ہے.پس ایسی بیباک فطرتوں پر تعجب آتا ہے..اور اصل حقیقت یہ ہے کہ خدا کا کلام اور رسول با ہم تو ام ہیں.اور ان کے بغیر خدا کے کلام کا سمجھنا مشکل ہے.ہیں.کیونکہ تلواروں کی دھار ہمیشہ ایسے بازو کی طرف محتاج ہے.جو خون کو جاری کرتا اور س کو بدن سے الگ کر دیتا ہے.( اعجاز احمدی.ر.خ.جلد 19 صفحہ 173-172) دیں ہماں دیں بود که وحی خدا نشود زو به هیچ وقت جدا دین تو وہی دین ہوتا ہے جس سے خدا کی وحی کسی وقت بھی جدا نہ ہو.وحی و دینِ خداست چون توام یک چو گم شد دگر شود گم ہم وجی اور دین خدا چونکہ دونوں جڑواں چیزیں ہیں.پس اگر ایک جاتی رہے گی تو دوسری بھی کم ہو جائے گی.( در شین فارسی مترجم صفحه 358 ) ( نزول مسیح.رخ جلد 18 صفحہ 482)
714 عادت اللہ کی حکمت سچ ہے کہ قرآن شریف ان کے پاس تھا اور قرآن شریف اس ذوالفقار تلوار کی مانند ہے جس کے دو طرف دھاریں ہیں ایک طرف کی دھار مومنوں کی اندرونی غلاظت کو کاٹتی ہے اور دوسری طرف کی دھار دشمنوں کا کام تمام کرتی ہے مگر پھر بھی وہ تلوار اس کام کے لئے ایک بہادر کے دست و بازو کی محتاج ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ (الجمعة: 3) پس قرآن سے جوتز کیہ حاصل ہوتا ہے اس کو اکیلا بیان نہیں کیا.بلکہ وہ نبی کی صفت میں داخل کر کے بیان کیا یہی وجہ ہے کہ خدا تعالے کا کلام یوں ہی آسمان پر سے کبھی نازل نہیں ہوا بلکہ اس تلوار کو چلانے والا بہادر ہمیشہ ساتھ آیا ہے جو اس تلوار کا اصل جو ہر شناس ہے لہذا قرآن شریف پر سچا اور تازہ یقین دلانے کیلئے اور اس کے جوہر دکھلانے کے لئے اور اس کے ذریعہ سے اتمام حجت کرنے کیلئے ایک بہادر کے دست و بازو کی ہمیشہ حاجت ہوتی رہی ہے اور آخری زمانہ میں یہ حاجت سب سے زیادہ پیش پیش آئی کیونکہ دجالی زمانہ ہے اور زمین و آسمان کی باہمی لڑائی ہے.( نزول مسیح جلد 18 صفحہ 468-469) قرآن شریف اگر چہ عظیم الشان معجزہ ہے مگر ایک کامل کے وجود کو چاہتا ہے کہ جو قرآن کے اعجازی جواہر پر مطلع ہو اور وہ اس تلوار کی طرح جو در حقیقت بینظیر ہے لیکن اپنا جو ہر دکھلانے میں ایک خاص دست و بازو کی محتاج ہے اس پر دلیل شاہد یہ آیت ہے کہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة:80) پس وہ ناپاکوں کے دلوں پر معجزہ کے طور پر اثر نہیں کر سکتا بجز اس کے کہ اس کا اثر دکھلانے والا بھی قوم میں ایک موجود ہو اور وہ وہی ہوگا جس کو یقینی طور پر نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ نصیب ہوگا.نزول المسیح - ر-خ- جلد 18 صفحہ 486) هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينَ.(الجمعة: 3) ترجمہ :.وہی ہے جس نے بھیجا امیوں میں رسول انہی میں سے کہ پڑھتا ہے ان پر اس کی آیات اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور حکمت اور یقیناً تھے وہ پہلے اس سے البتہ گمراہی ظاہر میں اور.اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قران کے بڑے فائدے دو ہیں جن کے پہنچانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ایک حکمت فرقان یعنی معارف و دقائق قرآن دوسری تاثیر قرآن جو موجب تزکیہ نفوس ہے اور قرآن کی حفاظت صرف اسی قدر نہیں جو اس کے صحف مکتو بہ کو خوب نگہبانی سے رکھیں کیونکہ ایسے کام تو اوائل حال میں یہود اور نصاری نے بھی کئے یہاں تک کہ توریت کے نقطے بھی گن رکھے تھے بلکہ اس جگہ مع حفاظت ظاہری فوائد و تا ثیرات قرآنی مراد ہیں اور وہ موافق سنت اللہ کے تبھی ہو سکتی ہے کہ جب وقتاً فوقتاً رسول آویں جن میں ظلمی طور پر رسالت کی تمام نعمتیں موجود ہوں اور جن کو وہ تمام برکات دی گئی ہوں جو نبیوں کو دی جاتی ہوں.( شہادت القرآن.ر-خ- جلد 6 صفحہ 338)
715 علم دین آسمانی علوم میں سے ہے اور یہ علوم تقویٰ اور طہارت اور محبت الہیہ سے وابستہ ہیں اور سگ دنیا کومل نہیں سکتے.سو اس میں کچھ شک نہیں کہ قول موجہ سے اتمام محبت کرنا انبیاء اور مردان خدا کا کام اور حقانی فیوض کا مورد ہونا فانیوں کا طریق ہے اور اللہ جل شانہ فرماتا ہے لا ی ه إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.(الواقعة : 80) پس کیونکر اُس دل پر روح القدس بول سکتا ہے جس میں شیطان بولتا ہو.البلاغ یا فریاد درد - ر - خ - جلد 13 صفحہ 372-373) اور احادیث صحیحہ قرآن سے باہر نہیں.کیونکہ وحی غیر متلو کی مدد سے وہ تمام مسائل قرآن سے مستخرج اور مستنبط کئے گئے ہیں.ہاں یہ سچ ہے کہ وہ استخراج اور استباط بجز رسول اللہ یا اسی شخص کے جو ظلی طور پر ان کمالات تک پہنچ گیا ہو ہر ایک کا کام نہیں.اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جن کو ظلی طور پر عنایات الہیہ نے وہ علم بخشا ہو جو اس کے رسول متبوع کو بخشا تھا وہ حقائق و معارف دقیقہ قرآن کریم پر مطلع کیا جاتا ہے.الحق.بحث لدھیانہ.ر.خ.جلد 4 صفحہ 93) فہم قرآن اور امام ہائے ربانی اور معلمین باری تعالیٰ خوب یا درکھو کہ قلوب کی اصلاح اسی کا کام ہے جس نے قلوب کو پیدا کیا ہے.نرے کلمات اور چرب زبانیاں اصلاح نہیں کر سکتی ہیں بلکہ ان کلمات کے اندر ایک روح ہونی چاہئے.پس جس شخص نے قرآن شریف کو پڑھا اور اس نے اتنا بھی نہیں سمجھا کہ ہدایت آسمان سے آتی ہے تو اس نے کیا سمجھا ؟ الم يَأْتِكُمُ نذیر کا جب سوال ہوگا تو پتہ لگے گا.اصل بات یہ ہے کہ خدارا بخدا تواں شناخت اور یہ ذریعہ بغیر امام نہیں مل سکتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانوں کا مظہر اور اس کی تجلیات کا مورد ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے مَنْ لَّمْ يَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدُمَاتَ مِيْتَةَ الْجَاهِلِيَّةِ یعنی جس نے زمانہ کے امام کو شناخت نہیں کیا وہ جہالت کی موت مر گیا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 344-345) یہ بات بھی درست ہے کہ قرآن ہدایت کیلئے نازل ہوا ہے مگر قرآن کی ہدا یتیں اس شخص کے وجود کے ساتھ وابستہ ہیں جس پر قرآن نازل ہوا یا وہ شخص جو منجانب اللہ اس کا قائم مقام ٹھہرایا گیا اگر قرآن اکیلا ہی کافی ہوتا تو خدا تعالیٰ قادر تھا کہ قدرتی طور پر درختوں کے پتوں پر قرآن لکھا جا تایا لکھا لکھایا آسمان سے نازل ہو جاتا مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا بلکہ قرآن کو دنیا میں نہیں بھیجا جب تک معلم القرآن دنیا میں نہیں بھیجا گیا.قرآن کریم کو کھول کر دیکھو کتنے مقام میں اس مضمون کی آیتیں ہیں کہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (الجمعة: 3) یعنی وہ
716 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن اور قرآنی حکمت لوگوں کو سکھلاتا ہے اور پھر ایک جگہ اور فرماتا ہے وَلَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: 80) یعنے قرآن کے حقائق و دقائق انھیں پر کھلتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں.پس ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے سمجھنے کے لیے ایک ایسے معلم کی ضرورت ہے جسکو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہو.اگر قرآن کے سیکھنے کیلئے معلم کی حاجت نہ ہوتی تو ابتدائے زمانہ میں بھی نہ ہوتی.اور یہ کہنا کہ ابتدا میں تو حل مشکلات قرآن کے لئے ایک معلم کی ضرورت تھی لیکن جب حل ہو گئیں تو اب کیا ضرورت ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ حل شدہ بھی ایک مدت کے بعد پھر قابل حل ہو جاتی ہیں ماسوا ا سکے امت کو ہر ایک زمانہ میں نئی مشکلات بھی تو پیش آتی ہیں اور قرآن جامع جمیع علوم تو ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زمانہ میں اسکے تمام علوم ظاہر ہو جائیں بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں اور ہر یک زمانہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کر نیوالے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں جو وارث رسل ہوتے ہیں اور ظلی طور پر رسولوں کے کمالات کو پاتے ہیں اور جس مجدد کی کارروائیاں کسی ایک رسول کی منصبی کارروائیوں سے شدید مشابہت رکھتی ہیں وہ عند اللہ اسی رسول کے نام سے پکارا جاتا ہے.کتاب کے ساتھ استاد کی ضرورت ( شہادت القران.رخ.جلد 6 صفحہ 347-348) نبی بھی ایک استاد ہوتا ہے جو کہ خدا کی کلام کو سمجھا کر اس پر عمل کرنے کا طریق بتلاتا ہے.دیکھو میں الہام بیان کرتا ہوں تو ساتھ ہی تفہیم بیان کر دیتا ہوں اور یہ عادت نہ انسانوں میں دیکھی جاتی ہے نہ خدا میں.کہ ایک علمی بات بیان کر کے پھر اسے عملدرآمد میں لانے کے واسطے نہ سمجھا وے.جو استاد کا محتاج نہیں ہے وہ ضرور ٹھو کر کھائے گا.جیسے طبیب بلا استاد کے طبابت کرے تو دھوکا کھاوے گا ایسے ہی جو شخص بلا توسل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اگر خود بخود قرآن سمجھتا ہے تو ضرور دھوکا کھاوے گا.( ملفوظات.جلد سوم صفحہ 413) کہتے ہیں اسلام کو کسی کی کیا ضرورت ہے جبکہ قرآن موجود ہے اور مولوی موجود ہیں یہ نہیں جانتے کہ ان کے مولوی جو ان بھیڑوں کے گلہ بان ہیں خود بھیڑیئے ہیں اور وہ ریوڑ کیسے خطرہ میں ہے جس کا کوئی گلہ بان نہ ہو.اسلام پر اندرونی اور بیرونی حملے ہو رہے ہیں اور ماریں کھا رہا ہے.پس ایسے شخص کی ضرورت تھی کہ مغالطے اور مشکلات دور کر کے پیچیدہ مسائل کو حل کر کے رستہ صاف کرتا ور اسلام کی اصلی روشنی اور سچا نور دوسری قوموں کے سامنے پیش کرتا.دیکھو ایک وہ زمانہ تھا کہ عیسائی لوگ کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ کوئی پیشگوئی ہے نہ معجزہ.مگراب میرے سامنے کوئی نہیں آتا حالانکہ ہم بلاتے ہیں.
717 خدا تعالیٰ کا یہی ارادہ تھا.اس نے اپنے وعدہ کے موافق وقت پر اپنے دین کی خبر گیری اور دستگیری فرمائی ہے.اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكُرَوَ إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر :10) اسلام کو اس نے دنیا میں قائم کیا.قرآن کی تعلیم پھیلائی اور اس کی حفاظت کا بھی وہی خود د ذمہ دار ہے.جب انسان اپنے لگائے ہوئے بوٹے کو التزام سے پانی دیتا ہے تا وہ خشک نہ ہو جاوے تو کیا خدا انسان سے بھی گیا گزرا اور لا پرواہ ہے ؟ یاد رکھو کہ اسلام نے جن راہوں سے پہلے ترقی کی تھی اب بھی انہی راہوں سے ترقی کرے گا.خشک منطق ایک ڈائن ہے اس سے انجان آدمی کے اعتقاد میں خلل آ جاتا ہے اور ظاہری فلسفے روحانی فلسفے کے بالکل مخالف ہیں.صاحبان ! یہ امور ہیں جن کی اصلاح کے واسطے میں بھیجا گیا ہوں.( ملفوظات جلد پنجم صفحه : 670 ) اے اسیر عقل خود بر هستی خود کم بناز کیں سپہر بوالعجائب جوں تو بسیار آورد اے اپنی عقل کے قیدی اپنی ہستی پر ناز نہ کر کہ یہ عجیب آسمان تیری طرح کے بہت سے آدمی لایا کرتا ہے غیر را ہرگز نمی باشد گذر در کوئے حق ہر کہ آید ز آسماں اور ا ز آن یار آورد خدا کے کوچہ میں غیر کو ہر گز دخل نہیں جو آسمان سے آتا ہے وہی اس یار کے اسرار ہمراہ لاتا ہے خود بخود فهمیدن قرآن گمان باطل است هر که از خود آورد اونجس و مردار آورد آپ ہی آپ قرآن کو سمجھ لینا ایک غلط خیال ہے جو شخص اپنے پاس سے اس کا مطلب بیان کرتا وہ گندگی اور مردار پیش کرتا ہے ( بركات الدعا: ر.خ.جلد 6 صفحہ 5) فہم قرآن اور علماء عارف بااللہ اور اولیاء عظام جو علما عارف باللہ اور موید من اللہ ہوتے ہیں.وہ بتائید روح القدس جملہ علوم کا استخراج قرآن مجید سے کر سکتے ہیں.قال اللہ تعالى لَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِى كِتَبٍ مُّبِينٍ (الانعام: 60) وايضاً قال اللہ تعالیٰ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: 70) وايضا قال الله تعالى وَ عَلَّمْنَهُ مِنْ لَّدُنَّا علم الكهف : 66).اور علماء ظاہر کو یہ بات نصیب نہیں ہو سکتی ان کو البتہ اشد احتیاج طرف علوم رسمیہ اور فنون و رسیہ کی ہوتی ہے.الحق مباحثہ دہلی...خ.جلد 4 صفحہ 294)
718 وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ (الانعام: 39) ہر چند میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں کیونکہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے.وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (النحل: 90) یعنے ہم نے تیرے پر وہ کتاب اتاری ہے جس میں ہر ایک چیز کا بیان ہے.اور پھر فرماتا ہے مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ (الانعام: 39) یعنی ہم نے اس کتاب سے کوئی چیز باہر نہیں رکھی.لیکن ساتھ اس کے یہ بھی میرا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم سے تمام مسائل دینیہ کا استخراج واستنباط کرنا اور اسکی مجملات کی تفاصیل صحیحہ پر حسب منشاء الہی قادر ہر ایک مجتہد اور مولوی کا کام نہیں بلکہ یہ خاص طور پر انکا کام ہے جو وحی الہی سے بطور نبوت یا بطور ولایت عظمے مدد دیئے گئے ہوں.سو ایسے لوگوں کیلئے جو استخراج و استنباط معارف قرآنی پر بعلت غیر ملہم ہونے کے قادر نہیں ہو سکتے یہی سیدھی راہ ہے کہ وہ بغیر قصد استخراج و استنباط قرآن کے ان تمام تعلیمات کو جو سنن متوارثہ متعاملہ کے ذریعہ سے ملی ہیں.بلا تامل و توقف قبول کر لیں.اور جو لوگ وحی ولایت عظمی کی روشنی سے منور ہیں اور الا المطہرون کے گروہ میں داخل ہیں ان سے بلاشبہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ وقتا فوقتادقائق مخفیہ قرآن کے ان پر کھولتا رہتا ہے اور یہ بات ان پر ثابت کردیتا ہے کہ کوئی زاید تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز نہیں دی.بلکہ احادیث صحیحہ میں مجملات و اشارات قرآن کریم کی تفصیل ہے سومعرفت کے پانے سے اعجاز قرآن کریم ان پر کھل جاتا ہے اور نیز ان آیات بینات کی سچائی ان پر روشن ہو جاتی ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے.جو قرآن کریم سے کوئی چیز باہر نہیں.اگر چہ علماء ظاہر بھی ایک قبض کی حالت کے ساتھ ان آیات پر ایمان لاتے ہیں تا ان کی تکذیب لازم نہ آوے.لیکن وہ کامل یقین اور سکینت اور اطمینان جو ملہم کامل کو بعد معائنہ مطابقت و موافقت احادیث صحیحہ اور قرآن کریم اور بعد معلوم کرنے اس احاطہ نام کے جو درحقیقت قرآن کو تمام احادیث پر ہے ملتی ہے وہ علماء ظاہر کو کسی طرح مل نہیں سکتی.بلکہ بعض تو قرآن کریم کو ناقص و نا تمام خیال کر بیٹھتے ہیں اور جن غیر محدود صداقتوں اور حقائق اور معارف پر قرآن کریم کے دائمی اور تمامتر اعجاز کی بنیاد ہے اس سے وہ منکر ہیں اور نہ صرف منکر بلکہ اپنے انکار کی وجہ سے ان تمام آیات بینات کو جھٹلاتے ہیں جن میں صاف صاف اللہ جلشانہ نے فرمایا ہے کہ قرآن جميع تعلیمات دینیہ کا جامع ہے!!! (الحق - مباحثہ لدھیانہ - ر-خ- جلد 4 صفحہ 81-80) یہ اول فضیلت اور کمال کسی ولی کا یہ ہے کہ علم قرآن اس کو عطا کیا جائے کیونکہ وہی تو ہم مسلمان لوگوں کا متداد پیشوا ہادی و رہنما ہے.اگر اسی سے بیخبری ہوئی تو پھر قدم قدم پر ہلاکت اور موت موجود ہے جس پر خدا تعالیٰ نے یہ مہربانی نہ کی جو اپنے پاک کلام کا علم اس کو عطا کرتا اور اس کے حقائق سے اطلاع دیتا اور اس کے معارف پر مطلع فرماتا.ایسے بدنصیب شخص پر دوسری مہربانی اور کیا ہو گی حالانکہ وہ آپ فرماتا ہے کہ میں جس کو حقیقی پاکیزگی بخشتا ہوں اس پر قرآنی علوم کے چشم کھولتا ہوں.اور نیز فرماتا ہے کہ جس کو چاہتا ہوں علم قرآن دیتا ہوں اور جس کو علم قرآن دیا گیا اس کو وہ چیز دی گئی جس کے ساتھ کوئی چیز برابر نہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے اس بیان سے ہر یک سچا مسلمان اتفاق کرے گا بجز ایسے شخص کے کہ کوئی پوشیدہ بہت آستین میں رکھتا ہے اور قرآن کریم کی سچی محبت اور سچی دلدادگی سے بے نصیب اور محروم ہے.آئینہ کمالات اسلام - ر-خ- جلد 5 صفحہ 363)
719 الله نور فيميل الى النور.وعادته البدور الى البدور ولما كانت هذه عادة الله باولياء ه.وسنته بعباده المنقطعين واصفياء ٥ لزم ان لايرى عبده المقبول وجه ذلة.ولا ينسب الى ضعف و علة عند مقابلة من اهل ملة و يفوق الكل عند تفسير القرآن.بانواع علم و معرفة.و قد قيل ان الولي يخرج من القرآن و القرآن يخرج من الولى.و ان خفايا القرآن لا يظهر الا على الذي ظهر من يدى العليم العلى.فان كان رجل ملك وحده هذا الفهم الممتاز.فمثله كمثل رجل اخرج الركاز.(اعجاز امسح - ر-خ - جلد 18 صفحہ 47-46) ( ترجمه از مرتب) چونکہ اللہ تعالیٰ نور ہے وہ نور ہی سے دوستی رکھتا ہے اور اس کی عادت ہے کہ چودھویں کے چاندوں ہی کو روشن کرتا ہے.جبکہ اولیاء اور منقطعین اور اصفیاء سے اللہ کی یہی سنت ہے تو پھر لازم ہے کہ اس کا مقبول انسان کبھی ذلت کا منہ نہ دیکھے اور قوم سے مقابلہ کے وقت اس میں کوئی کمزوری اور کم علمی ظاہر نہ ہو اور وہ تفسیر قرآن میں دیگر سب مفسرین سے بہتر ہو.اور کہا گیا ہے کہ ولی قرآن سے پیدا ہوتا ہے اور قرآن ولی سے.اور قرآن کے مخفی راز صرف اسی پر کھلتے ہیں.جو علیم اور اعلیٰ اور اعلیٰ خدا کے ہاتھ سے ظاہر ہوا.اگر کسی انسان کو قرآن کا ایسا ممتاز فہم عطا ہوا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے کہ اس نے ایک مدفون خزینہ معلوم کر لیا ہو.گفت پیغمبر ستوده صفات از خدائے علیم مخفیات ستودہ صفات پیغمبر نے.غیب دان علیم خدا سے علم پا کر کہا ہے.بر سر ہر صدی برون آید آنکه این کار را ہے شاید کہ ہر صدی کے سر پر ایسا شخص ظاہر ہوتا ہے جو اس کام کے لایق ہوتا ہے.شود پاک ملت از بدعات تا بیابند خلق و برکات تا کہ مذہب بدعات سے پاک ہو جائے.اور مخلوق اس سے برکتیں حاصل کرے.الغرض ذات اولیائے کرام ہست مخصوص ملت اسلام خلاصہ کلام یہ کہ اولیائے کرام کی ذات مذہب اسلام کے ساتھ مخصوص ہے.در مشین فارسی مترجم صفحه 84 ) ( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 362)
720 دوسری فصل فہم قرآن اور تائید وحی والہام یہ بات تو سچ ہے کہ قرآن کریم ہدایت دینے کے لئے کافی ہے مگر قرآن کریم جس کو ہدایت کے چشمہ تک پہنچاتا ہے اس میں پہلی علامت یہی پیدا ہو جاتی ہے کہ مکالمہ طیبہ الہیہ اس سے شروع ہو جاتا ہے جس سے نہایت درجہ کی انکشافی معرفت اور چشمدید برکت و نورانیت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ عرفان حاصل ہونا شروع ہو جاتا ہے جو مجرد تقلیدی انکلوں یا عقلی ڈھکوسلوں سے ہرگز مل نہیں سکتا کیونکہ تقلیدی علوم محمد و دو مشتبہ ہیں اور عقلی خیالات ناقص و نا تمام ہیں اور ہمیں ضرور حاجت ہے کہ براہ راست اپنے عرفان توسیع کریں.کیونکہ جس قدر ہمارا عرفان ہو گا اسی قدرہم میں ولولہ وشوق جوش مارے گا.کیا ہمیں باوجود ناقص عرفان کے کامل ولولہ وشوق کی کچھ توقع ہے؟ نہیں کچھ بھی نہیں.سوحیرت اور تعجب ہے کہ وہ لوگ کیسے بد ہم ہیں جو ایسے ذریعہ کاملہ وصول حق سے اپنے تئیں مستغنی سمجھتے ہیں جس سے روحانی زندگی وابستہ ہے.یا درکھنا چاہیئے کہ روحانی علوم اور روحانی معارف صرف بذریعہ الہامات و مکاشفات ہی ملتے ہیں اور جب تک ہم وہ درجہ روشنی کا نہ پالیں تب تک ہماری انسانیت کسی حقیقی معرفت یا حقیقی کمال سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتی.صرف کوے کی طرح یا کھیڈی کی مانند ایک نجاست کو ہم حلوہ سمجھتے رہیں گے اور ہم میں ایمانی فراست بھی نہیں آئے گی.صرف لومڑی کی طرح داؤ پیچ بہت یاد ہوں گے.(ازالہ اوہام جلد 3 صفحہ 328-327) لہذا اصل حق الامر یہی ہے کہ جو چیز قرآن سے باہر یا اسکے مخالف ہے وہ مردود ہے اور احادیث صحیحہ قرآن سے باہر نہیں.کیونکہ وحی غیر متلو کی مدد سے وہ تمام مسائل قرآن سے مستخرج اور مستنبط کئے گئے ہیں.ہاں یہ سچ ہے کہ وہ استخراج اور استنباط بجز رسول اللہ یا اسی شخص کے جو ظلی طور پر ان کمالات تک پہنچ گیا ہو ہر ایک کا کام نہیں.اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جن کو ظلی طور پر عنایات الہیہ نے وہ علم بخشا ہو جو ا سکے رسول متبوع کو بخشا تھا وہ حقائق و معارف دقیقه قرآن کریم پر مطلع کیا جاتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ کا وعدہ ہے لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : 80) اور جیسا کہ وعدہ ہے.يؤتى الحكمة من يشاء و من يؤت الحكمة فقداوتى خيرا كثيرًا (البقرة:270) اس جگہ حکمت سے مراد علم قرآن ہے.سو ایسے لوگ وحی خاص کے ذریعہ سے علم اور بصیرت کی راہ سے مطلع کئے جاتے ہیں اور صحیح اور موضوع میں اس خاص طور کے قاعدہ سے تمیز کر لیتے ہیں.گوعوام اور علماء ظواہر کو اس کی طرف راہ نہیں.الحق بحث لدھیانہ...خ.جلد 4 صفحہ 93) اب یہ بھی یادر ہے کہ عادت اللہ ہر ایک کامل مہم کے ساتھ یہی رہی ہے کہ عجائبات مخفیہ فرقان اس پر ظاہر ہوتے رہے ہیں بلکہ بسا اوقات ایک مہم کے دل پر قرآن شریف کی آیت الہام کے طور پر القاء ہوتی ہے اور اصل معنی سے پھیر کر کوئی اور مقصود اس سے ہوتا ہے (ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 261)
721 وجی ولایت اہم معیار فہم قرآن ہے ساتواں معیار وحی ولایت اور مکاشفات محدثین ہیں.اور یہ معیار گویا تمام معیاروں پر حاوی ہے کیونکہ صاحب وحی محدثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہمرنگ ہوتا ہے اور بغیر نبوت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں اور اس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ اس پر وہ سب امور بطور انعام واکرام کے وارد ہو جاتے ہیں جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں.سو اس کا بیان محض اٹکلیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے اور سنکر بولتا ہے اور یہ راہ اس امت کے لئے کھلی ہے ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ وارث حقیقی کوئی نہ رہے اور ایک شخص جو دنیا کا کیڑا اور دنیا کے جاہ وجلال اور ننگ و ناموس میں مبتلا ہے وہی وارث علم نبوت ہو کیونکہ خدا تعالیٰ وعدہ کر چکا ہے کہ بجز مطہرین کے علم نبوت کسی کو نہیں دیا جائے گا بلکہ یہ تو اس پاک علم سے بازی کرنا ہے کہ ہر ایک شخص باوجود اپنی آلودہ حالت کے وارث النبی ہونے کا دعوی کرے.اور یہ بھی ایک سخت جہالت ہے کہ ان وارثوں کے وجود سے انکار کیا جائے.( بركات الدعاء - ر-خ- جلد 6 صفحہ 19 تا 21) اے اسیر عقل خود بر ہستی ، خود کم بناز کیں سپر بوالعجائب چوں تو بسیار آورد اے اپنی عقل کے قیدی اپنی ہستی پر ناز نہ کر کہ یہ عجیب آسمان تیری طرح کے بہت سے آدمی لا یا کرتا ہے.غیر را ہرگز نمے باشد گذر در کوئے حق ہر کہ آید ز آسماں او ر از آن یار آورد خدا کے کوچہ میں غیر کو ہر گز دخل نہیں جو آسمان سے آتا ہے وہی اس یار کے اسرار ہمراہ لاتا ہے.خود بخود فهمیدن قرآن گمان باطل است ہر که از خود آورد اونجس و مردار آورد آپ ہی آپ قرآن کو سمجھ لینا ایک غلط خیال ہے جو شخص اپنے پاس سے اس کا مطلب بیان کرتا ہے وہ گندگی اور مردار پیش کرتا ہے.بركات الدعا- ر- خ- جلد 6 صفحہ 5 )
722 حضرت اقدس کا فہم قرآن وحی الہی اور الہام کی تائید کے ساتھ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام :.یہ خدا کا بڑا افضل ہے اور خوش قسمتی آپ کی ہے کہ آپ ادھر آ نکلے.یہ بات واقعی سچ ہے کہ جو مسلمان ہیں یہ قرآن شریف کو بالکل نہیں سمجھتے لیکن اب خدا کا ارادہ ہے کہ صحیح معنے قرآن کے ظاہر کرے خدا نے مجھے اسی لیے مامور کیا ہے اور میں اس کے الہام اور وحی سے قرآن شریف کو سمجھتا ہوں قرآن شریف کی ایسی تعلیم ہے کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں آسکتا.اور معقولات سے ایسی پر ہے کہ ایک فلاسفر کو بھی اعتراض کا موقعہ نہیں ملتا مگر ان مسلمانوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا ہے اور اپنی طرف سے ایسی ایسی باتیں بنا کر قرآن شریف کی طرف منسوب کرتے ہیں جس سے قدم قدم پر اعتراض وارد ہوتا ہے اور ایسے دعاوی اپنی طرف سے کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں نہیں ہے اور وہ سراسر اس کے خلاف ہیں مثلاً اب یہی واقعہ صلیب کو دیکھو کہ اس میں کسقد را افتراء سے کام لیا گیا ہے اور قرآن کریم کی مخالفت کی گئی ہے اور یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے اور قرآن کے بھی برخلاف ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 451-450) گندم از گندم بروید جو ز جو از مکافات عمل غافل مشو گندم، گندم سے اور جو ، جو سے اگتی ہے.اعمال کے نتائج سے غافل نہ ہو جاؤ میں اس بصیرت کے مقابل پر جو مجھے آسمان سے عطا کی گئی ہے ان سفلی ملاؤں کو سراسر بے بصر سمجھتا ہوں اور بخدا ایک مرے ہوئے کیڑے کے برابر بھی میں انھیں خیال نہیں کرتا.کیا کوئی زندہ مردوں سے ڈرا کرتا ہے.یقیناً سمجھو کہ علم دین ایک آسمانی بھید ہے اور وہی کما حقہ آسمانی بھید جانتا ہے جو آسمان سے فیض پاتا ہے جو خدائے تعالیٰ تک پہنچتا ہے وہی اسکی کلام کے اسرار عمیقہ تک بھی پہنچتا ہے جو پوری روشنی میں نشست رکھتا ہے وہی ہے جو پوری بصیرت بھی رکھتا ہے.آسمانی فیصلہ.رخ.جلد 4 صفحہ 321-320)
723 تیسری فصل حضرت اقدس کے دعاوی کا عرفان فہم قرآن کی کلید ہے اَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ (الغاشية: 18) میرے دعوی کا فہم کلید ہے نبوت اور قرآن شریف کی.جو شخص میرے دعوئی کو سمجھ لے گا نبوت کی حقیقت اور قرآن شریف کے فہم پر اس کو اطلاع دی جائے گی اور جو میرے دعوی کو نہیں سمجھتا اس کو قرآن شریف پر اور رسالت پر پورا یقین نہیں ہوسکتا.اونٹ کی سرشت میں اتباع امام کا مسئلہ ایک مانا ہوا مسئلہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الابل کہہ کر اس مجموعی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ اونٹ ایک قطار میں جارہے ہوں.اسی طرح پر ضروری ہے کہ تمدنی اور اتحادی حالت کو قائم رکھنے کے واسطے ایک امام ہو.پھر یہ بھی یادر ہے کہ یہ قطار سفر کے وقت ہوتی ہے.پس دنیا کے سفر کو قطع کرنے کے واسطے جب تک ایک امام نہ ہو انسان بھٹک بھٹک کر ہلاک ہو جاوے.میرے پاس آؤ اور میری سنو ! ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 394-393) میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ میری حیثیت سننِ انبیاء کی سی حیثیت ہے.مجھے ایک سماوی آدمی مانو.پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزا ئیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں، ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حکم بن کر آیا ہے.جو معنے قرآن شریف کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوں گے اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی حدیث صحیح ہوگی.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 399) و ما كتبته من حولي.و انی ضعیف و کمثلی قولی.بل الله و الطافه اغلاق خزائنه..و من عنده اسرار دفائنه جمعت فيه انواع المعارف و رتبت و صففت شواردا النكات و الجمت من عرفه عرف القرآن ترجمہ :.میں نے یہ کتاب اپنی قابلیت پر انحصار کر کے نہیں لکھی کیونکہ میں کمزور ہوں اور میری بات بھی کمزور ہے.بلکہ اسی کتاب کے خزانوں کی چابی خدا تعالیٰ کی مہربانیاں ہیں.اور یہ اسی کی طرف سے یہ اسرار کے دفینے ہیں.میں نے اس کتاب میں ہر قسم کے معارف جمع کئے ہیں اور ان کو ترتیب دی ہے.اور معارف کے گھوڑوں کو صف بصف کھڑا کیا ہے.اور ان کو لگام دی ہے.جو بھی اس کتاب کو سمجھ لے گا وہ قرآن کریم کا فہم پائیگا.اعجاز اسیح - ر-خ- جلد 18 صفحہ 58-57) علم قرآن علم آں طیب زباں علم غیب از وحی خلاق جہاں قرآن کا علم.اس پاک زبان کا علم اور الہام الہی سے غیب کا علم.این سه علم چوں نشانها داده اند ہر سہ ہمیچوں شاہداں استادہ یہ تین علم مجھے نشان کے طور پر دیئے گئے ہیں اور تینوں بطور گواہ میری تائید میں کھڑے ہیں.اند ( تحفہ غزنوی - ر -خ- جلد 15 صفحہ 533) ( درشین فاری مترجم صفحه 260)
724 و والله انـي جـئـت مـنــه مجددا بوقت أضل الناس غول مسخر وعلمنــی ربی علوم کتـابـه واعطيت مما كان يخفى ويستر واسرار قرآن مجید تبینت على ويسرلی علیم میسر اورخدا کی قسم ا یقینا میں اس کی طرف سے مجد ہو کر آیا ہوں ایسے وقت میں کہ قابو کر لینے والے دیو نے لو گوں کو گمراہ کر دیا تھا..مجھے میرے رب نے اپنی کتاب کے علوم سکھائے اور مجھے وہ علم دیا گیا جو مخفی اور مستور تھا..اور قرآن مجید کے بھید مجھ پر ظاہر ہو گئے.آسانی پیدا کرنے والے خدائے علیم نے میرے لئے آسانی پیدا کر دی.القصائد الاحمدیہ صفحہ 49 ) ( حمامۃ البشری - ر- خ- جلد 7 صفحہ 334) دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 522.اور خوب غور کرو کہ میرے نشانوں سے کیا مد عائھہرایا گیا.ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ اسی مطلب کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام آئے تھے تا تکذیب کی حالت میں نئے نشانوں کے ساتھ تو ریت کی تصدیق کریں اور اسی مطلب کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تانے نشانوں کے ساتھ قرآن شریف کی سچائی غافل لوگوں پر ظاہر کی جائے.اسی کی طرف الہام الہی میں اشارہ ہے کہ پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد اور یہی اشارہ اس دوسرے الہام براہین احمدیہ میں ہے الـرحـمـان عـلـم القرآن.لتنذر قوماما انذر اباء هم و لتستبين سبيل المجرمين قل انى امرت و انا اول المؤمنين.ایام اسح.رخ.جلد 14 صفحہ 308) الصد نور دل جاتا رہا اک رسم دیں کی رہ گئی پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلح دیں کیا بکار راگ وہ گاتے ہیں جس کو آسماں گا تا نہیں وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلاف شہر یار ( براھین احمدیہ - ر- خ - جلد 21 صفحہ 132 ) ( در شین اردو صفحه (122) فان الفرقان مملومن عجائب الاسرارو دقائقها و لطائفها ولكن لا يمسه من صبغة الله الا المطهرون.ولا يستنبط سره ولا يطلع على غموض معانيه الا الذى اصابه حظ ترجمہ:.یقینا قرآن کریم عجیب اسرار وقائق اور لطائف سے بھر پور ہے لیکن ان اسرار دقائق اور معارف کو سوائے پاکیزہ لوگوں کے کوئی حاصل نہیں کر سکتا اور اس کے اسرار کو وہی مستنبط کر سکتا ہے اور اس کے معانی کی گہرائیوں پر وہی مطلع ہو سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کے رنگ سے ایک حصہ نصیب ہوا ہو.(آئینہ کمالات اسلام.ر.خ.جلد 5 صفحہ 394) هل العلم شي غير تعليم ربنا وای حدیث بــعــده نـتـخيـــر کتاب کـریـم احكمت آياته وحياته يحيى القلوب ويـزهـر يدع الشقى ولا يمس نكاته ويروى التقى هدى فينمو ويثمر و متعنى من فيضه لطف خالقی وانی رضیع کتابه و مخفر كريم فيؤتى من يشاء علومه قدير فكيف تكذبن و تهکر
725 ☆ کیا وہ علم کوئی چیز ہے جسے ہمارے رب نے نہ سکھایا ہو اور کونسی بات ہم اس کے بعد اختیار کر سکتے ہیں؟ وہ کتاب کریم ہے اس کی آیات محکم ہیں اور اس کی زندگی دلوں کو زندہ اور روشن کرتی ہے.وہ بد بخت کو دھکے دیتی ہے اور وہ اس کے نکات کو نہیں چھوسکتا اور وہ پر ہیز گار کو ہدایت سے سیراب کرتی ہے سو وہ نشو و نما پاتا ہے اور پھل دیتا ہے..اور میرے رب کی مہربانی نے اپنے فیض سے مجھے بہرہ ور کیا ہے.میں اس کی کتاب کا شیر خوار ہوں اور اسکی حفاظت میں ہوں.وہ کریم ہے.وہ جسے چاہتا ہے اپنے علوم دیتا ہے وہ قدیر ہے.سوتو (اس بات کی ) کیسے تکذیب کرتا ہے اور کیسے (اس پر ) تعجب کرتا ہے.( کرامات الصادقین.ر.خ.جلد 7 صفحہ 87) ( در شین عربی القصائد الاحمدیہ صفحہ 68) وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَّنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (سبا: 29) ہم ایسے نبی کے وارث ہیں جو رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ اور كَافَّةً لِلنَّاسِ کے لئے رسول ہو کر آیا.جس کی کتاب کا خدا محافظ اور جس کے حقائق و معارف سب سے بڑھ کر ہیں پھر ان معارف اور حقائق کو پانے والا کیوں کم ہے؟ ( ملفوظات جلد دوئم صفحہ 291) يقولون انا لا نرى ضرورة مسيح و لا مهدی و كفانا القران و انا مهتدون.و يعلمون ان القرآن كتاب لا يمسه الا المطهرون.فاشتدت الحاجة الى مفسر زكى من ايدى الله و ادخل في الذين يبصرون.ترجمہ از اصل:.کہتے ہیں کہ ہم کو سیح اور مہدی کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ قرآن ہمارے لئے کافی ہے اور ہم سیدھے رستے پر ہیں.حالانکہ جانتے ہیں کہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ سوائے پاکوں کے اور کسی کی فہم اس تک نہیں پہنچتی.اس وجہ سے ایک ایسے مفسر کی حاجت پڑی کہ خدا کے ہاتھ نے اسے پاک کیا ہو اور بینا بنایا ہو.(خطبہ الہامیہ.ر-خ- جلد 16 صفحہ 183-184) تا نہ فضلش در تو بگشاید صد فضولی بکن چه کار آید جب تک اس کا فضل تیرے لئے دروازہ نہ کھولے تو تو اگر سینکڑوں فضولیاں بھی کرتا ر ہے سب بیکار ہیں.آں خدائے کہ وعدہ حکم داد از راه رحم لطف ھے و وہ خدا جس نے ایک حکم کا وعدہ اپنے لطف اور رحم کی راہ سے کیا تھا.او بدانست از ازل که انام راه خود گم کنند از اوهام وہ ازل سے یہ جانتا تھا کہ مخلوقات شک وشہبات میں پڑ کر اپنا راستہ بھول جائے گی.درنه کار چه خواهد بود ره نمائی بمرد راه چه سود ور نہ پھر حکم کا کام کیا ہو گا ٹھیک راستے پر چلنے والے انسان کو راہ دکھانے کا کیا فائدہ.راه گم کرده را حکم باید تا بدو راه راست بنماید حکم تو گمراہ کے لیے درکار ہوتا ہے تا کہ وہ اس کو سیدھا رستہ دکھائے.
726 این مگو ما خودیم عالم دین تو به کن از مکالمات چنیں تو یہ نہ کہہ ہم خود دین کے عالم ہیں.ایسی باتوں سے تو بہ کر.هر که آگاه از خدا آگاه کور را کور کے نماید راه اندھے کو اندھا کس طرح راستہ دکھا سکتا ہے جو بھی واقف راہ ہے وہ خدا کی طرف سے آگاہ کیا گیا ہے آں یکے از دہانِ دلداری نکتہ ہائے شنید و اسرارے ایک شخص تو وہ ہے جو اپنے معشوق کے منہ سے نکتے اور اسرارسنتا ہے.واں دگر از خیال خود بگماں پس کجا باشد ایں دوکس یکساں رد وسر الشخص وہ ہے جو اپنے خیالات کی بنیاد پر شک اور گمان میں مبتلا ہے پس کس طرح یہ دونو برابر ہوسکتے ہیں.نزول المسیح - ر-خ- جلد 18 صفحہ 480-482 ) ( در شین فارسی متر جم صفحه 358,348) کشف و رویاء اور وحی ءِ خفی غرض قرآن ایسی مجمل کتاب نہیں جو کبھی اور کسی صورت میں معیار کا کام نہ دے سکے.جس کا ایسا خیال ہے بے شک وہ سخت نادان ہے.بلکہ ایمان اس کا خطرہ کی حالت میں ہے اور حدیث انـــی اوتیت الكتاب و مثلہ سے آپ کے خیال کو کیا د دو انچ سکتی ہے؟ آپ کو معلوم نہیں کہ وحی متلو کا خاصہ ہے جو اس کے ساتھ تین چیزیں ضرور ہوتی ہیں خواہ وہ وحی رسول کی ہو یا نبی کی یا محدث کی.اول.مکاشفات صحیحہ جو اخبارات اور بیانات وحی کو کشفی طور پر ظاہر کرتے ہیں.گویا خبر کو معائنہ کر دیتے ہیں.جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ بہشت اور دوزخ دکھلایا گیا جس کا قرآن کریم نے بیان کیا تھا.اور ان گذشتہ رسولوں سے ملاقات کرائی گئی جن کا قران حمید میں ذکر کیا گیا تھا ایسا ہی بہت سی معاد کی خبریں کشفی طور پر ظاہر کی گئیں.تا وہ علم جو قرآن کے ذریعہ سے دیا گیا تھا.زیادہ تر انکشاف پکڑے اور موجب طمانیت اور سکینت کا ہو جائے.دوئم.وحی متلو کے ساتھ رویائے صالحہ دی جاتی ہے جو نبی اور رسول اور محدث کیلئے ایک قسم کی وحی میں ہی داخل ہوتی ہے اور باوجود کشف کے رویاء کی اس لئے ضرورت ہوتی ہے کہ تاعلم استعارات کا جو رویا پر غالب ہے وجی یاب پر کھل جائے اور علوم تعبیر میں مہارت پیدا ہواور تا کشف اور رویا اور وحی باعث تعد دطرق کے ایک دوسرے پر شاہد ہوں اور اس وجہ سے نبی اللہ کمالات اور معارف یقینیہ کی طرف ترقی رکھے.
727 سوئم.وحی متلو کے ساتھ ایک خفی وحی عنایت ہوتی ہے جو تمہیمات الہیہ سے نامزد ہوسکتی ہے یہ وحی ہے جسکو وحی غیر متلو کہتے ہیں اور متصوفہ اس کا نام وحی خفی اور وحی دل بھی رکھتے ہیں.اس وحی سے یہ غرض ہوتی ہے کہ بعض مجملات اور اشارات وحی متلو کے منزل علیہ پر ظاہر ہوں.سو یہ وہ تینوں چیزیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اوتیت الکتاب کے ساتھ مثلہ کا مصداق ہیں.اور ہر ایک رسول اور نبی اور محدث کو اس کی وحی کے ساتھ یہ تینوں چیزیں حسب مراتب اپنی اپنی حالت قرب کے دی جاتی ہیں.چنانچہ اس بارے میں راقم تقریر ہذا صاحب تجربہ ہے یہ مویدات ثلثہ یعنے کشف اور رویا اور وحی خفی در اصل امور زائدہ نہیں ہوتے بلکہ وحی متلو کے جو متن کی طرح ہے مفسر اور مبین ہوتے ہیں.فتدبر الحق بحث لدھیانہ - ر - خ- جلد 4 صفحہ 109-108) ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَبَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا (فاطر: 33) ہم نے کتاب کا وارث اپنے بندوں میں سے ان کو بنایا جن کو ہم نے چن لیا.یعنی ان لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جیسے ایک مکان کی کل کھڑکیاں کھلی ہیں کہ کوئی گوشہ تاریکی کا اس میں نہیں اور روشنی خوب صاف اور کھلی آ رہی ہے.اسی طرح ان کے مکالمہ کا حال ہوتا ہے ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 53 ) کہ اجلی اور بہت کثرت سے ہوتا ہے.لہذا عند العقل یہ بات نہ صرف احسن بلکہ واجب ہے کہ خدا تعالیٰ کے پاک نبی جو شریعت اور کتاب لیکر آتے ہیں اور اپنے نفس میں تاثیر اور قوت قدسیہ رکھتے ہیں یا تو وہ ایک لمبی عمر لیکر آویں اور ہمیشہ اور ہر صدی میں ہر یک اپنی نئی امت کو اپنی ملاقات اور صحبت سے شرف پہنچا دیں جو انھوں نے ابتداء زمانہ میں پہنچائی تھی اور اگر ایسا نہیں تو پھر انکے وارث جو انھیں کے کمالات اپنے اندر رکھتے ہوں اور کتاب الہی کے دقائق اور معارف کو وحی اور الہام سے بیان کر سکتے ہوں اور منقولات کو مشہورات کے پیرایہ میں دکھلا سکتے ہوں اور طالب حق کو یقین تک پہنچا سکتے ہوں ہمیشہ فتنہ اور فساد کے وقتوں میں ضرور پیدا ہونے چاہیئے.شہادت القران - ر-خ- جلد 6 صفحہ 345) دیں ھماں دیں بود که وحی ءِ خدا نشود زو به هیچ وقت جدا دین تو وہی دین ہوتا ہے جس سے خدا کی وحی کسی وقت بھی جدا نہ ہو.وحی و دین خداست چون توام یک چوگم شد دگر شود گم هم وحی اور دین خدا چونکہ دونوں جڑواں چیزیں ہیں.پس اگر ایک جاتی رہے گی تو دوسری بھی گم ہو جائے گی.( نزول المسیح - ر-خ- جلد 18 صفحہ 482)
728 قرآن ایک آسمانی نور ہے از نور پاک قرآن صبح صفا دمیده بر غنچہ ہائے دلہا باد صبا و زیده قرآن کے پاک نور سے روشن صبح نمودار ہوگئی اور دلوں کے غیچوں پر بادصبا چلنے لگی.این روشنی و لمعاں شمس الضحی ندارد وائیں دلبری و خوبی کس در قمر ندیده ایسی روشنی اور چمک تو دوپہر کے سورج میں بھی نہیں اور ایسی کشش اور حسن تو کسی چاندنی میں بھی نہیں.اے کان دلربائی دانم که از کجائی تو نور آں خدائی کیس خلق آفریدہ اے کان حسن میں جانتا ہوں کہ تو کس سے تعلق رکھتی ہے تو تو اس خدا کا نور ہے جس نے یہ مخلوقات پیدا کی.میلم نماند باکس محبوب من توئی بس زیرا کہ زاں فغاں رس نورت بما رسیده مجھے کسی سے تعلق نہ رہا اب تو ہی میرا محبوب ہے کیونکہ اس خدائے فریادرس کی طرف سے تیرا نور ہم کو پہنچا ہے.( براھین احمدیہ - رخ - جلد 1 صفحہ 304-305 حاشیہ نمبر 2 ) ( در مشین فارسی نیا ایڈیشن صفحہ 45) الراكِتُبْ أَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ.(ابراهيم: 2) یہ عالی شان کتاب ہم نے تجھ پر نازل کی تا کہ تو لوگوں کو ہر یک قسم کی تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کرے.یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جس قدر انسان کے نفس میں طرح طرح کے وساوس گزرتے ہیں اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ان سب کو قرآن شریف دور کرتا ہے اور ہر یک طور کے خیالات فاسدہ کو مٹاتا ہے اور معرفت کامل کا نور بخشتا ہے یعنی جو کچھ خدا کی طرف رجوع ہونے اور اس پر یقین لانے کے لئے معارف و حقایق درکار ہیں سب عطا فرماتا ہے.( براھین احمدیہ.رخ - جلد 1 صفحہ 225 حاشیہ (11) جمال وحسن قرآن نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے بہار جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بستاں ہے کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز اگر ٹوگوئے عماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے (براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 200-198)
729 يأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا.(النساء: 175) اے لوگو! قرآن ایک برہان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تم کو ملی ہے اور ایک کھلا کھلا نور ہے جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے.کرامات الصادقین - ر-خ- جلد 7 صفحہ 56) اَلرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ (الرحمن: 32) علم نور ہے وہ حجاب نہیں ہو سکتا بلکہ جہالت حجاب اکبر ہے.خدا کا نام علیم ہے اور پھر قرآن میں آیا ہے الرَّحْمَنُ.عَلَّمَ الْقُرْآنَ.اسی لئے ملائکہ نے کہا لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا.(البقرة:33) الحکم جلد 6 نمبر 25 مورخہ 17 جولائی 1902 صفحہ 2 ) ( ملفوظات جلد دوئم صفحہ 223) وَ كَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا طَ مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَبُ وَلَا الْإِيْمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ.(شورى:53) ترجمہ :.اور اسی طرح وحی کیا ہم نے طرف تیری کلام اپنے حکم سے نہ تھا تو جانتا کیا ہے کتاب اور نہ ایمان ولیکن بنایا ہم نے اسے نور ہم ہدایت دیتے ساتھ اسکے جسے چاہتے ہیں اپنے بندوں میں سے اور یقیناً تو البتہ ہدایت دیتا ہے طرف راہ سیدھی کی.اور اسی طرح ہم نے اپنے امر سے تیری طرف ایک روح نازل کی ہے.تجھے معلوم نہ تھا کہ کتاب اور ایمان کسے کہتے ہیں پر ہم نے اس کو ایک نور بنایا ہے جس کو ہم چاہتے ہیں بذریعہ اس کے ہدایت دیتے ہیں اور بہ تحقیق سیدھے راستہ کی طرف تو ہدایت دیتا ہے.نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا ناگہاں غیب سے یہ چشمه اصفی نکلا قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور ایسا چمکا ہے کہ صد نیر بیضا نکلا زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دنیا میں جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل اعمی نکلا جلنے سے آگے ہی یہ لوگ تو جل جاتے ہیں جن کی ہر بات فقط جھوٹ کا پتلا نکلا ( براھین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 305-306 حاشیہ نمبر 2) ( براھین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 568) ނ نہ انوار کا دریا نکلا! نور فرقاں نه تافت است چناں کو بماند نہاں زدیدہ وراں قرآن کا نور ایسا نہیں چمکتا ہے کہ دیکھنے والوں کی نظر سے مخفی رہ سکے.آں چراغ بدی است دنیا را رہبر و رہنما ست دنیا را وہ تو تمام دنیا کے لیے ہدایت کا چراغ ہے اور جہان بھر کے لیے رہبر اور رہنما.رحمتے از خدا ست دنیا را نعمت از سما ست دنیا را وہ خدا کی طرف سے دنیا کے لیے ایک رحمت ہے اور آسمان سے اہل جہان کے لیے ایک نعمت.در مشین فارسی نیا ایڈیشن صفحہ 47 ) ( براھین احمدیہ -ر- خ - جلد 1 صفحہ 359)
730 و نور اسی کو عطا کیا جاتا ہے جو خود نور ہو گیا ہو یک قدم دوری ازاں روشن کتاب نزد ما کفر است و خسران و تباب اس نورانی کتاب سے ایک قدم بھی دور رہنا ہمارے نزدیک کفروزیاں اور ہلاکت ہے.لیک دوناں را بمغزش راه نیست ہر دلے از سر آن آگاه نیست لیکن ذلیل لوگوں کو قرآن کی حقیقت کی خبر نہیں ہر ایک دل اس کے بھیدوں سے واقف نہیں ہے.تا نباشد طالبے پاک اندروں تا نجوشد عشق یارِ بے چگوں! جب تک طالب حق پاک باطن نہیں ہوتا اور جب تک اس یار بے مثال کا عشق اس کے دل میں جوش نہیں مارتا.راز قرآن را کجا فهمد کسے بہر نورے نور می باید بسے! تب تک کوئی قرآنی اسرار کو کیونکر سمجھ سکتا ہے نور کے سمجھنے کے لیے بہت سانور باطن ہونا چاہیئے.ایں نہ من قرآں ہمیں فرموده است اندر و شرط تظهر بوده است یہ میری بات نہیں بلکہ قرآن نے بھی یہی فرمایا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے پاک ہونے کی شرط ہے.گر بقرآں ہر کسے را راه بود پس چرا شرط تطهر را فزود اگر ہر شخص قرآن کو ( خود ہی سمجھ سکتا.تو خدائے تطہیر کی شرط کیوں زاید لگائی.نور را داند کسے کو نور شد واز حجاب سرکشی با دور شد نور کو وہی شخص سمجھتا ہے جو خود نور ہو گیا ہو.اور سرکشی کے حجابوں سے دور ہو گیا ہو.(سراج منیر.ر.خ.جلد 12 صفحہ 96)( در مشین فارسی متر جم صفحه 227 226) فان الله نور فيميل الى النور.وعادته البدور الى البدور.و لما كانت هذه عادة الله باولياء ه.و سنته بعباده المنقطعين واصفياء ٥ لزم ان لايرى عبده المقبول وجه ذلة.لا يُنسب الى ضعف و علة عند مقابلة من اهل ملة و يفوق الكل عند تفسير القرآن.بانواع علم ومعرفة.وقد قيل ان الولي يخرج من القرآن والقرآن يخرج من الولى.وان خفايا القـرآن لا يظهر الا عـلـى الذي ظهر من يدى العليم العلي.فان كان رجل مَلَكَ ه هذا الفهم الممتاز.نمثله كمثل رجل اخرج الركاز.وحده.( ترجمه از مرتب :.چونکہ اللہ تعالیٰ نور ہے اس لئے وہ نور ہی سے دوستی رکھتا ہے اور اس کی عادت ہے کہ چودھویں کے چاندوں ہی کو روشن کرتا ہے جبکہ اولیاء اور منقطعین اور اصفیاء سے اللہ کی یہی سنت ہے تو پھر لازم ہے کہ اس کا مقبول انسان کبھی ذلت کا منہ نہ دیکھے اور قوم سے مقابلہ کے وقت اس میں کوئی کمزوری اور کم علمی ظاہر نہ ہو اور وہ تفسیر قرآن میں دیگر سب مفسرین سے بہتر ہو.اور کہا گیا ہے کہ ولی قرآن سے پیدا ہوتا ہے اور قرآن ولی سے اور قرآن کے مخفی راز صرف اسی پر کھلتے ہیں جو علیم اور اعلیٰ خدا کے ہاتھ سے ظاہر ہوا ہو.اگر کسی انسان کو قرآن کا ایسا ممتاز فہم عطا ہوا ہے.تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ اس نے ایک مدفون خزینہ معلوم کر لیا ہو.اعجاز اسیح - ر-خ- جلد 18 صفحہ 47-46)
731 اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ.(النور: 36) نُورٌ عَلى نُور - نور فائض ہو انور پر (یعنی جب کہ وجود مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی نور جمع تھے.سوان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا پس اس میں یہ اشارہ فرمایا کہ نور وحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے تاریکی پر وارد نہیں ہوتا کیونکہ فیضان کیلئے مناسب شرط ہے اور تاریکی کونور سے کچھ مناسبت نہیں بلکہ نور کونور سے مناسبت ہے اور حکیم مطلق بغیر رعایت مناسبت کوئی کام نہیں کرتا.ایسا ہی فیضان نور میں بھی اس کا یہی قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نور ہے اس کو اور نور بھی دیا جاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کو کچھ نہیں دیا جاتا.جوشخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کا نور پاتا ہے اور جس کے پاس آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی کم ہی ملتا ہے اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اسکو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے اور انبیاء منجملہ سلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہو گئے ہیں.اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے جیسا فرمایا ہے قَدْ جَاءَ كُم مِّنَ اللهِ نُورٌ وَّ كِتَابٌ مُّبِينٌ الجزو نمبر 6 وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا الجزو نمبر 22 یہی حکمت ہے کہ نوروجی جس کے لئے نور فطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہونا شرط ہے صرف انبیاء کو ملا اور انہیں سے مخصوص ہوا.( براھین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 195-196 حاشیہ 11 ) کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اک معجزہ معنی راز نبوت ہے اسی سے آشکار نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار روشنی میں مہر تاباں کی بھلا کیا فرق ہو گرچہ نکلے روم کی سرحد سے یا از زنگ بار ( در مشین اردو صفحہ 135 براھین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 144) و الحق ان للملك لمة بقلب بنى ادم و للشياطين لمة فاذا اراد الله ان يبعث مصلحا من رسول اونبى او محدث فيقوى لمة الملك و يجعل استعدادات الناس قريبة لقبول الحق و يعطيهم عقلا و فهما و همة وقوة تحمل المصائب و نور فهم القرآن ما كانت لهم قبل ظهور ذلك المصلح فتصفى الاذهان وتتقوى العقول وتعلو الهمم ويجد كل احد كانه اوقظ من نومه و كان نورا ينزل من غيب على قلبله و كان معلما قام ببطنه و يكون الناس كان الله بدل مزاجهم و طبیعتهم و شحذ اذهانهم و افکارهم فاذ اظهرت و اجتمعت هذه العلامات كلها فتدل بدلالة قطعية على ان المجدد الاعظم قد ظهر والنور النازل قد نزل.
732 ترجمہ از مرتب : حق بات یہ ہے کہ فرشتے بنی آدم کے دلوں پر اترتے ہیں اور اسی طرح شیاطین بھی پس جب اللہ تعالیٰ کسی مصلح یعنی رسول نبی یا محدث کو دنیا میں مبعوث کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ فرشتوں کے نزول کو قوت دیتا ہے اور لوگوں کی استعدادوں کو قبول حق کے قریب کر دیتا ہے اور انہیں عقل، فہم، ہمت اور مصائب کو برداشت کرنے والی قوت عطا کرتا ہے اور فہم قرآن کا وہ نور بخشتا ہے جو اس مصلح کے ظہور سے قبل انہیں حاصل نہیں تھا.بس ذہن صاف ہو جاتے ہیں اور عقلیں تقویت پکڑتی ہیں اور ہمتیں بلند ہو جاتی ہیں اور ہر شخص یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا اسے نیند سے بیدار کر دیا گیا ہے اور یہ کہ غیب سے ایک نور اس کے قلب پر نازل ہورہا ہے اور کوئی معلم اس کے خود اندر سے کھڑا ہو گیا ہے اور لوگوں کی حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے مزاج اور ان کی طبیعت کو بدل دیا ہے اور ان کے اذہان اور افکار کو تیز کر دیا ہے.پس جب یہ علامات ظاہر ہو جائیں اور سب کی سب جمع ہو جائیں تو وہ اس بات پر قطعی دلالت کریں گی کہ مجد داعظم ظاہر ہو گیا ہے اور نازل ہونے والا نو را تر آیا ہے.حمامة البشرکی.ر.خ.جلد 7 صفحہ 319) اپنے منہ سے کوئی مرتبہ انسان کو نہیں مل سکتا جب تک آسمانی نور اس کے ساتھ نہ ہو.اور جس علم کے ساتھ آسمانی نور نہیں وہ علم نہیں وہ جہل ہے.وہ روشنی نہیں وہ ظلمت ہے.وہ مغز نہیں وہ استخواں ہے.ہمارا دین آسمان سے آیا ہے اور وہی اسکو سمجھتا ہے جو وہ بھی آسمان سے ہی آیا ہو.کیا خدا تعالیٰ نے نہیں فرمایا لا يــــمــــــه الا المطهرون (الواقعة: 80) میں قبول نہیں کروں گا اور ہر گز نہیں مانوں گا کہ آسمانی علوم اور ان کے اندرونی بھید اور ان کے تہ در تہ چھپے ہوئے اسرا رز مینی لوگوں کو خود بخود آ سکتے ہیں.زمینی لوگ دابتہ الارض ہیں مسیح السماء نہیں ہیں.مسیح السماء آسمان سے اترتا ہے اور اس کا خیال آسمان کو سح کر کے آتا ہے اور روح القدس اس پر نازل ہوتا ہے اس لئے وہ آسمانی روشنی ساتھ رکھتا ہے.لیکن دابتہ الارض کے ساتھ زمین کی غلاظتیں ہوتی ہیں اور نیز وہ انسان کی پوری شکل نہیں رکھتا بلکہ اس کے بعض اجزاء مسخ شدہ بھی ہوتے ہیں.اسی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ آپ ناراض نہ ہوں.آپ دین کے حقیقی علم سے بے خبر ہیں.خدا تعالے آپ کے ہر یک تکبر کو توڑو دے گا اور آپ کا چہرہ آپ کو دکھلا دے گا.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 574-573) مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا.میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں.بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے.(کشتی نوح.ر.خ.جلد 19 صفحہ 77)
733 قرآن کریم کے دقائق عالیہ خدا تعالیٰ کے خاص بندوں سے مخصوص ہیں فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ ، وَ إِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ o إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَبٍ مَّكْنُونٍ O لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ) (الواقعه : 76-80) میں مواقع النجوم کی قسم کھاتا ہوں اور یہ بڑی قسم ہے اگر تمہیں علم ہوا اور قسم اس بات پر ہے کہ یہ قرآن عظیم الشان کتاب ہے اور اس کی تعلیمات سنت اللہ کے مخالف نہیں بلکہ اس کی تمام تعلیمات کتاب مکنون یعنی صحیفہ فطرت میں لکھی ہوئی ہیں اور اس کے دقائق کو وہی لوگ معلوم کرتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں اس جگہ اللہ جل شانہ نے مواقع النجوم کی قسم کھا کر اس طرف اشارہ کیا کہ جیسے ستارے نہایت بلندی کی وجہ سے نقطوں کی طرح نظر آتے ہیں مگر وہ اصل میں نقطوں کی طرح نہیں بلکہ بہت بڑے ہیں ایسا ہی قرآن کریم اپنی نہایت بلندی اور علق شان کی وجہ سے کم نظروں کے آنکھوں سے مخفی ہے اور جن کی غبار دور ہو جاوے وہ ان کو دیکھتے ہیں اور اس آیت میں اللہ جل شانہ نے قرآن کریم کے دقائق عالیہ کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں سے مخصوص ہیں جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے پاک کرتا ہے اور یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ اگر علم قرآن مخصوص بندوں سے خاص کیا گیا ہے تو دوسروں سے نافرمانی کی حالت میں کیونکر مواخذہ ہوگا کیونکہ قرآن کریم کی وہ تعلیم جو مدار ایمان ہے وہ عام فہم ہے جس کو ایک کا فر بھی سمجھ سکتا ہے اور ایسی نہیں ہے کہ کسی پڑھنے والے سے مخفی رہ سکے اور اگر وہ عام فہم نہ ہوتی تو کارخانہ تبلیغ ناقص رہ جاتا.مگر حقائق معارف چونکہ مدار ایمان نہیں صرف زیادت عرفان کے موجب ہیں اس لئے صرف خواص کو اس کو چہ میں راہ دیا کیونکہ وہ در اصل مواہب اور روحانی نعمتیں ہیں جو ایمان کے بعد کامل الایمان لوگوں کو ملا کرتی ہیں.کرامات الصادقین - ر-خ- جلد 7 صفحہ 52-53) میں قسم کھاتا ہوں مطالع اور مناظر نجوم کی اور یہ تم ایک بڑی قسم ہے.اگر تمہیں حقیقت پر اطلاع ہو کہ یہ قرآن ایک بزرگ اور عظیم الشان کتاب ہے اور اس کو وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک باطن ہیں اور اس قسم کی مناسبت اس مقام میں یہ ہے کہ قرآن کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ کریم ہے یعنی روحانی بزرگیوں پر مشتمل ہے اور باعث نہایت بلند اور رفیع دقائق حقائق کے بعض کو تاہ بینوں کی نظروں میں اسی وجہ سے چھوٹا معلوم ہوتا ہے جس وجہ سے ستارے چھوٹے اور نقطوں سے معلوم ہوتے ہیں اور یہ بات نہیں کہ درحقیقت وہ نقطوں کی مانند ہیں بلکہ چونکہ مقام ان کا نہایت اعلیٰ وارفع ہے اس لئے جو نظریں قاصر ہیں ان کی اصل ضخامت کو معلوم نہیں کر سکتیں.جنگ مقدس - ر- خ - جلد 6 صفحہ 87)
734 و ارسـلـنــي ربـی بــايـات فـضـلـه لاعمر ماهد اللئام ودعثروا اور خدا نے اپنے نشانوں کے ساتھ مجھے بھیجا.تاکہ میں اس عمارت کو بناؤں جو ٹیموں نے اس کو تو ڑا اور ویران کیا و فی الدین اسرار وسبل خفية ويظهرها ربي لعبــدیـخيـر اور دین میں بھید ہیں اور پوشیدہ راہیں ہیں.اور میرا رب وہ بھید اس بندہ پر ظاہر کرتا ہے جس کو چن لیتا ہے و كم من حقائق لا يرى كيف شبحها كنجم بعيد نورها يتستر اور بہت سی حقیقتیں ہیں جو ان کی صورت نظر نہیں آتی.اس ستارہ کی طرح جو دور تر ہے.باعث دوری ان حقائق کا نور چھپ جاتا ہے فيـــــاتــــى مــــن الله الـعـلـيـم مــعــلــم ويهدى الى اسرارها ويفسر پس خدا کی طرف سے ایک معلم آتا ہے.اور اس کے بھید ظاہر کرتا ہے اور بیان فرماتا ہے.( نزول مسیح.ر.خ.جلد 19 صفحہ 189 ) خدا تعالیٰ کے خاص دوستوں کی علامات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.پندرھویں علامت ان کی علم قرآن کریم ہے.قرآن کریم کے معارف اور حقائق و لطائف جس قدر ان لوگوں کو دیئے جاتے ہیں دوسرے لوگوں کو ہر گز نہیں دیئے جاتے.یہ لوگ وہی مطہرون ہیں جن کے حق میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ - (ازالہ اوھام - ر- خ- جلد 3 صفحہ 337) لیکن آں روئے حسیں از غافلاں ماند نہاں عاشقی باید که بردارند از بهرش نقاب لیکن وہ حسین چہرہ غافلوں سے پوشیدہ ہے سچا عاشق چاہیے تا کہ اس کی خاطر نقاب اٹھائی جائے دامن پاکش زنخوتهانمی آید بدست پیچ راہے نیست غیر از عجز و درد واضطراب اس کا مقدس دامن تکبر سے ہاتھ نہیں آتا اس کے لیے کوئی راہ سوائے درد اور بے قراری کے نہیں ہے بس خطرناک است راه کوچه یار قدیم جاں سلامت بایدت از خودروی با سرتاب اس محبوب از لی کا راستہ بہت خطرناک ہے اگر تجھے جان کی سلامتی چاہیئے تو خودروی کو ترک کر دے تا کلامش فهم و عقل ناسزایاں کم رسد هر که از خود گم شود او یا بدآن راه صواب نااہل لوگوں کی عقل اس کے کلام کی تہ تک نہیں پہنچ سکتی جو خودی کا تارک ہو اسی کو وہ صحیح راستہ ملتا ہے مشکل قرآن نہ از ابنائے دنیا حل شود ذوق آں مے داند آں مستے کہ نوشد آن شراب قرآن کو سمجھنے کا مسئلہ اہل دنیا سے حل نہیں ہو سکتا اس شراب کا مزا ہی جانتا ہے جو اس شراب کو پیتا ہے ایکہ آگاہی ندادندت از انوار دروں در حق ماہر چہ گوئی نیستی جائے عتاب اے وہ شخص جسے باطنی انوار کی کچھ خبر نہیں تو جو کچھ بھی ہمارے حق میں کہے ناراضگی کا موجب نہیں.درشین فارسی مترجم صفحه 198 ) ( برکات الدعاء - ر- خ - جلد 6 صفحہ 33)
735 يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًاء وَ مَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ.(البقره:270) اس جگہ حکمت سے مراد علم قرآن ہے سو ایسے لوگ وحی خاص کے ذریعہ سے علم اور بصیرت کی راہ سے مطلع کیے جاتے ہیں اور صحیح اور موضوع میں اس خاص طور کے قاعدہ سے تمیز کر لیتے ہیں.گوعوام اور علماء ظواہر کو اس کی طرف راہ نہیں.الحق مباحثہ لدھیانہ.ر.خ.جلد 4 صفحہ 93) قرآن کے دقائق و معارف ضرورتِ زمانہ کے مطابق کھلتے ہیں قرآن شریف میں یہ بھی آیت ہے و ان من شيء الا عندنا خزائنه وما ننزله الا بقدر معلوم (الحجر: 22) یعنی دنیا کی تمام چیزوں کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر بقد رضرورت و مقتضائے مصلحت و حکمت ہم ان کو اُتارتے ہیں.اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہوا کہ ہر یک چیز جود نیا میں پائی جاتی ہے وہ آسمان سے ہی اتری ہے.اس طرح پر کہ ان چیزوں کے عمل موجبہ اسی خالق حقیقی کی طرف سے ہیں اور نیز اس طرح پر کہ اسی کے الہام اور القاء اور سمجھانے اور عقل اور فہم بخشنے سے ہر ایک صنعت ظہور میں آتی ہے لیکن زمانہ کی ضرورت سے زیادہ ظہور میں نہیں آتے اور ہر یک مامور من اللہ کو وسعت معلومات بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق دی جاتی ہے.علی ہذا القیاس قرآن کریم کے دقائق و معارف و حقائق بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق ہی کھلتے ہیں.مثلاً جس زمانہ میں ہم ہیں اور جن معارف فرقانیہ کے بمقابل دجالی فرقوں کے ہمیں اس وقت ضرورت آپڑی ہے وہ ضرورت ان لوگوں کو نہیں تھی جنہوں نے ان دجالی فرقوں کا زمانہ نہیں پایا.وہ باتیں ان پرمخفی رہیں اور ہم پر کھولی گئیں.(ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 451-450) زمانے کی ضرورت کے مطابق روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (الجمعة : 3) یعنے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن اور قرآنی حکمت لوگوں کو سکھلاتا ہے......قرآن جامع جمیع علوم تو ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زمانہ میں اس کے تمام علوم ظاہر ہو جائیں.بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں اور ہر یک زمانہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کرنے والے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں جو وارث رسل ہوتے ہیں اور ظلی طور پر رسولوں کے کمالات کو پاتے ہیں اور جس مجدد کی کارروائیاں کسی ایک رسول کی منصبی کارروائیوں سے شدید مشابہت رکھتی ہیں وہ عند اللہ اسی رسول کے نام سے پکارا جاتا ہے.(شہادت القرآن - ر-خ- جلد 6 صفحہ 348)
736 حضرت اقدس کو آپ کے زمانہ کی ضرورت کے مطابق معارف عطا ہوئے میں اس وقت محض اللہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں.( بركات الدعا.ر-خ- جلد 6 صفحہ 34) صاحب نور خدا کی طرف سے آتا ہے على لــربــى نـعـمـة بـعـد نعمة فلازلت فـي نـعـمــائــه اتـقـلـب مجھ پر میرے خدا کی نعمت پر نعمت ہے.میں ہمیشہ اس کی نعمتوں میں لوٹ پوٹ رہتا ہوں وان رسول الله شمس منيرة و بعد رسول الله بدر و کوکب اور بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو روشنی دینے والے سورج ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں کا چاند اور ستارے ہیں جرت عادة الله الذي هو ربـــنــــا یری وجه نور بعد نور يذهب اللہ تعالیٰ جو ہمارا رب ہے اس کی یہ عادت جاری ہے کہ وہ ایک نور کے جانے کے بعد دوسرے نور کا چہرہ دکھا دیتا ہے كذلك فـي الــدنيـــا نـــرى قـانـونــه نجوم السما تبدوا اذا الشمس تغرب اسی طرح دنیا میں ہم اس کا قانون پاتے ہیں کہ جب سورج غروب ہو جاتا ہے تو آسمان کے ستارے ظاہر ہو جاتے ہیں (کرامات الصادقین.ر.خ.جلد 7 صفحہ 103 ) ( در نشین عربی.القصائد العربیہ نیا ایڈیشن صفحہ 102) سچ تو یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانتا وہ قرآن کو بھی نہیں پہچان سکتا.ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ قرآن ہدایت کیلئے نازل ہوا ہے مگر قرآن کی ہدایتیں اس شخص کے وجود کے ساتھ وابستہ ہیں جسپر قرآن نازل ہوا یا وہ شخص جو منجانب اللہ اس کا قائم مقام ٹھہرایا گیا اگر قرآن اکیلا ہی کافی ہوتا تو خدا تعالیٰ قادر تھا کہ قدرتی طور پر درختوں کے پتوں پر قرآن لکھا جاتا یا لکھا لکھا یا آسمان سے نازل ہو جاتا مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا بلکہ قرآن کو دنیا میں نہیں بھیجا جب تک معلم القرآن دنیا میں نہیں بھیجا گیا.قرآن کریم کو کھول کر دیکھو کتنے مقام میں اس مضمون کی آیتیں ہیں کہ یعلمهم الكتاب والحكمة (الجمعة: 3) پہنے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن اور قرآنی حکمت لوگوں کو سکھلاتا ہے اور پھر ایک جگہ اور فرماتا ہے ولا يمسه الا المطهرون (الواقعة:80) نے قرآن
737 کے حقائق ودقائق انھیں پر کھلتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں.پس ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے سمجھنے کیلئے ایک ایسے معلم کی ضرورت ہے.جسکو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہو.اگر قرآن کے سیکھنے کے لئے معلم کی حاجت نہ ہوتی تو ابتدائے زمانہ میں بھی نہ ہوتی.اور یہ کہنا کہ ابتدا میں تو حل مشکلات قرآن کے لئے ایک معلم کی ضرورت تھی لیکن جب حل ہو گئیں تو اب کیا ضرورت ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ حل شدہ بھی ایک مدت کے بعد پھر قابل حل ہو جاتی ہیں ماسوا اسکے امت کو ہر ایک زمانہ میں نئی مشکلات بھی تو پیش آتی ہیں اور قرآن جامع جمیع علوم تو ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زمانہ میں اسکے تمام علوم ظاہر ہو جائیں بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں اور ہر یک زمانہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کر نیوالے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں جو وارث رسل ہوتے ہیں اور ظلی طور پر رسولوں کے کمالات کو پاتے ہیں اور جس مجدد کی کارروائیاں کسی ایک رسول کی منصبی کارروائیوں سے شدید مشابہت رکھتی ہیں وہ عند اللہ اسی رسول کے نام سے پکارا جاتا ہے.شہادت القران-رخ- جلد 6 صفحہ 348-347) نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار پشتی ءِ دیوار دیں ہوں مامنِ اسلام ہوں نارسا ہے دست دشمن تا بفرق ایں جدار میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار در مشین اردو صفحہ 137 136 ) ( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 144 143) قرآن شریف اس ذوالفقار تلوار کی مانند ہے جس کے دو طرف دھاریں ہیں ایک طرف کی دھار مومنوں کی اندرونی غلاظت کو کاٹتی ہے اور دوسری طرف کی دھار دشمنوں کا کام تمام کرتی ہے مگر پھر بھی وہ تلوار اس کام کے لئے ایک بہادر کے دست و بازو کی محتاج ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یتلوا عليهم ايته ويزكيهم و يعلمهم الکتب پس قرآن سے جوتز کیہ حاصل ہوتا ہے اس کو اکیلا بیان نہیں کیا بلکہ وہ نبی کی صفت میں داخل کر کے بیان کیا یہی وجہ کہ خدا تعالیٰ کا کلام یوں ہی آسمان پر سے کبھی نازل نہیں ہوا بلکہ اس تلوار کو چلانے والا بہادر ہمیشہ ساتھ ہے جو اس تلوار کا اصلی جو ہر شناس ہے لہذا قرآن شریف پر سچا اور تازہ یقین دلانے کے لئے اور اس کے جوہر دکھلانے کے لئے اور اس کے ذریعہ سے اتمام حجت کرنے کے لئے ایک بہادر کے دست و بازو کی ہمیشہ حاجت ہوتی رہی ہے اور آخری زمانہ میں یہ حاجت سب سے زیادہ پیش آئی کیونکہ دجالی زمانہ ہے اور زمین و آسمان کی باہمی لڑائی ہے.نزول مسیح -ر- خ - جلد 18 صفحہ 468-469)
738 قرآن کریم بر سبیل قال نہیں بلکہ برسبیل حال نازل ہوا ہے اب نئے معلموں کی اس وجہ سے بھی ضرورت پڑتی ہے کہ بعض حصے تعلیم قرآن شریف کے از قبیل حال ہیں نہ از قبیل قال.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہلے معلم اور اصل وارث اس تخت کے ہیں حالی طور پر ان دقائق کو اپنے صحابہ کو سمجھایا ہے مثلاً خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ میں عالم الغیب ہوں اور میں مجیب الدعوات ہوں اور میں قادر ہوں اور میں دعاؤں کو قبول کرتا ہوں اور طالبوں کو حقیقی روشنی تک پہنچا تا ہوں اور میں اپنے صادق بندوں کو الہام دیتا ہوں اور جس پر چاہتا ہوں اپنے بندوں میں سے اپنی روح ڈالتا ہوں یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ جبتک معلم خود ان کا نمونہ بن کر نہ دکھلاوے تب تک یہ کسی طرح سمجھ ہی نہیں آسکتیں پس ظاہر ہے کہ صرف ظاہری علماء خود اندھے ہیں ان تعلیمات کو سمجھا نہیں سکتے بلکہ وہ تو اپنے شاگردوں کو ہر وقت اسلام کی عظمت سے بدظن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ باتیں آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں اور ان کے اپنے بیانات سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ گویا اسلام اب زندہ مذہب نہیں اور اس کی حقیقی تعلیم پانے کے لئے اب کوئی بھی راہ نہیں.لیکن ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا اپنی مخلوق کے لئے یہ ارادہ ہے کہ وہ ہمیشہ قرآن کریم کے چشمہ سے ان کو پانی پلا دے تو بیشک وہ اپنے ان قوانین قدیمہ کی رعائیت کرے گا جو قدیم سے کرتا آیا ہے.اور اگر قرآن کی تعلیم صرف اسی حد تک محدود ہے جس حد تک ایک تجربہ کار اور لطیف الفکر فلاسفر کی تعلیم محدود ہو سکتی ہے اور آسمانی تعلیم جو محض حال کے نمونہ سے سمجھائی جاتی ہے اس میں نہیں تو پھر نعوذ باللہ قرآن کا آنا لا حاصل ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اگر کوئی ایک دم کے واسطے بھی اس مسئلہ میں فکر کرے کہ انبیاء کی تعلیم اور حکیموں کی تعلیم میں بصورت فرض کرنے صحت ہر دو تعلیم کے مابہ الامتیاز کیا ہے تو بجز اس کے اور کوئی ما بہ الامتیاز قرار نہیں دے سکتا کہ انبیاء کی تعلیم کا بہت سا حصہ فوق العقل ہے جو بجز کا جو ستقیم اور تعلیم کے اور کسی راہ سے سمجھ ہی نہیں آ سکتا.اور اس حصہ کو وہی لوگ دلنشین کراسکتے ہیں جو صاحب حال ہوں مثلاً ایسے ایسے مسائل کہ اس طرح پر فرشتے جان نکالتے ہیں اور پھر یوں آسمان پر لیجاتے ہیں اور پھر قبر میں حساب اس طور سے ہوتا ہے اور بہشت ایسا ہے اور دوزخ ایسا.اور پل صراط ایسا.اور عرش اللہ کو چار فرشتے اٹھارہے ہیں اور پھر قیامت کو آٹھ اٹھا ئیں گے.اور اس طرح پر خدا اپنے بندوں پر وحی نازل کرتا ہے یا مکاشفات کا دروازہ ان پر کھولتا ہے یہ تمام حالی تعلیم ہے اور مجرد قیل و قال سے سمجھ نہیں آسکتی اور جبکہ یہ حال ہے تو پھر میں دوبارہ کہتا ہوں کہ اگر اللہ جل شانہ نے اپنے بندوں کے لئے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس کی کتاب کا یہ حصہ تعلیم ابتدائی زمانہ تک محدود نہ رہے تو بیشک اس نے یہ انتظام کیا ہوگا کہ اس حصہ تعلیم کے معلم بھی ہمیشہ آتے رہیں.شہادت القرآن...خ.جلد 6 صفحہ 349-348) نوجوان نے عرض کی کہ میں نے عربی بھی ساتھ ساتھ پڑھی ہے.حضرت نے فرمایا: ہم تو صرف اتنے پر بھی خوش نہیں ہو سکتے.کیا ہزاروں مولوی ایسے نہیں ہیں جو بڑے بڑے علوم عربیہ کی تحصیل کر چکے ہیں.مگر پھر بھی وہ اس سلسلہ حقہ کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ علوم ان کے واسطے اور بھی زیادہ حجاب کا موجب ہو رہے ہیں.ہزاروں مولوی ہیں جو بجز گالیاں دینے کے اور کچھ کام نہیں رکھتے بیشک معارف قرآنی کا ذخیرہ سب عربی میں ہے تاہم جب ایک مدت گذر جاتی ہے اور خدا کے ایک رسول کو بہت زمانہ گذر جاتا ہے تب لوگوں کے ہاتھ میں صرف الفاظ ہی رہ جاتے ہیں جن کے معانی اور معارف کسی پر نہیں کھل سکتے جیتک کہ اللہ تعالٰی ان کے واسطے کوئی چابی پیدا نہ کر دے.جب خدا کی طرف سے راہ کھلتا ہے تب کوئی منور قلب والا زندہ دل پیدا کیا جاتا ہے.وہ صاحب حال ہوتا ہے اس واسطے اسکی تفسیر درست ہوتی ہے.زندہ دل کے سوا کچھ نہیں.یہ باتیں سیدھی ہیں مگر افسوس ہے کہ ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 277)
739 چوتھی فصل فہم قرآن اور تقویٰ الَم.ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.(البقرة:32) ترجمہ:.الف لام میم یہ ( کامل ) کتاب ہے نہیں کوئی شک ( کی بات ) جس میں ہدایت ہے متقیوں کے لیے.اور یہ بات بدیہی ہے کہ جب تک انسان اپنے اخلاق رڈیہ کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک ان اخلاق کے مقابل پر جو اخلاق فاضلہ ہیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں ان کو قبول نہیں کرسکتا کیونکہ دوضڈین ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتیں.اس کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی ابتداء میں اس نے فرمایا.هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یعنی قرآن شریف ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متقی ہیں.یعنی وہ لوگ جو تکبر نہیں کرتے اور خشوع اور انکسار سے خدا تعالیٰ کے کلام میں غور کرتے ہیں وہی ہیں جو آخر کو ہدایت پاتے ہیں.قرآنی علوم کے انکشاف کے لیے تقویٰ شرط ہے ( براھین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 230 ) مگر علوم آسمانی اور اسرار قرآنی کی واقفیت کے لیے تقویٰ پہلی شرط ہے.اس میں تو بتہ النصوح کی ضرورت ہے.جیتک انسان پوری فروتنی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ اٹھا لے.اور اس کے جلال و جبروت سے لرزاں ہو کر نیاز مندی کے ساتھ رجوع نہ کرے.قرآنی علوم کا دروازہ نہیں کھل سکتا اور روح کے ان خواص اور قومی کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا جس کو پا کر روح میں ایک لذت اور تسلی پیدا ہوتی ہے.قرآن شریف اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے علوم خدا کے ہاتھ میں ہیں.پس اس کے لیے تقویٰ بطور نردبان کے ہے پھر کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ بے ایمان شریر خبیث النفس.ارضی خواہشوں کے اسیران سے بہرہ ور ہوں.اس واسطے اگر ایک مسلمان مسلمان کہلا کر خواہ وہ صرف و نحو معانی و بدیع وغیرہ علوم کا کتنا ہی بڑا فاضل کیوں نہ ہو.دنیا کی نظر میں شیخ الکل فی الکل بنا بیٹھا ہو لیکن اگر تزکیہ نفس نہیں کرتا، تو قرآن شریف کے علوم سے اس کو حصہ نہیں دیا جاتا.( ملفوظات جلد اول صفحه (283)
740 تقوی علوم دینیہ کی کلید ہے قرآن شریف نے شروع میں ہی فرمایا هُدًى لِلْمُتَّقِینَ.پس قرآن شریف کے سمجھنے اور اس کے موافق ہدایت پانے کے لیے تقویٰ ضروری اصل ہے ایسا ہی دوسری جگہ فرمایا لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.دوسرے علوم میں یہ شرط نہیں.ریاضی.ہندسہ و ہیت وغیرہ میں اس امر کی شرط نہیں کہ سیکھنے والا ضر و متقی اور پرہیز گار ہو بلکہ وہ کیسا ہی فاسق وفاجر ہی ہو وہ بھی سیکھ سکتا ہے مگر علم دین میں خشک منطقی اور فلسفی ترقی نہیں کر سکتا اور اس پر وہ حقائق اور معارف نہیں کھل سکتے جس کا دل خراب ہے اور تقویٰ سے حصہ نہیں رکھتا اور پھر کہتا ہے کہ علوم دین اور حقائق اس کی زبان پر جاری ہوتے ہیں وہ جھوٹ بولتا ہے ہرگز ہرگزا سے دین کے حقائق اور معارف سے حصہ نہیں ملتا بلکہ دین کے لطائف اور نکات کے لیے متقی ہونا شرط ہے جیسا کہ یہ فارسی شعر ہے عروس حضرت قرآن نقاب آنگاه بر دارد که دارالملک معنے را کند خالی زہر غوغا ترجمہ: قرآن کی دلہن اس وقت نقاب اٹھاتی ہے جبکہ انسان اپنے ذہن کو خیالات سے خالی کر لیتا.جب تک یہ بات پیدا نہ ہو اور دارالملک معنے خالی نہ ہو وہ غوغا کیا ہے؟ یہی فسق و فجور دنیا پسندی ہے.ہاں یہ جدا امر ہے کہ چور کی طرح کچھ کہلائے تو کہدے لیکن جو روح القدس سے بولتے ہیں وہ بجز تقومی کے نہیں بولتے.یہ خوب یادرکھو کہ تقوی تمام دینی علوم کی کنجی ہے انسان تقویٰ کے سوا ان کو نہیں سیکھ سکتا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمايا الم ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یہ کتاب تقومی کرنے والوں کو ہدایت کرتی ہے اور وہ کون ہیں الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں.یعنی ابھی وہ خدا نظر نہیں آتا.اور پھر نماز کوکھڑی کرتے ہیں یعنی نماز میں ابھی پورا سرور اور ذوق پیدا نہیں ہوتا تاہم بے لطفی اور بے ذوقی اور وساوس میں ہی نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ تجھ پر یا تجھ سے پہلے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 122-121) الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرِيَةِ وَالْإِنْجِيلِ.(الاعراف: 158) چالاکی سے علوم القرآن نہیں آتے.دماغی قوت اور دینی ترقی قرآنی علوم کو جذب کرنے کا اکیلا باعث نہیں ہو سکتا اصل ذریعہ تقویٰ ہی ہے متقی کا معلم خدا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ نبیوں پر امیت غالب ہوتی ہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے اُمی بھیجا کہ باوجود یکہ آپ نے نہ کسی مکتب میں تعلیم پائی اور نہ کسی کو استاد بنایا.پھر آپ نے وہ معارف اور حقائق بیان کیے جنہوں نے دنیوی علوم کے ماہروں کو دنگ اور حیران کر دیا قرآن شریف
741 جیسی پاک.کامل کتاب آپ کے لبوں پر جاری ہوئی.جس کی فصاحت و بلاغت نے سارے عرب کو خاموش کرا دیا.وہ کیا بات تھی جس کے سبب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علوم میں سب سے بڑھ گئے.وہ تقومی ہی تھا.رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مطہر زندگی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ قرآن شریف جیسی کتاب وہ لائے.جس کے علوم نے دنیا کو حیران کر دیا ہے.آپ کا امی ہونا ایک نمونہ اور دلیل ہے اس امر کی کہ قرآنی علوم یا آسمانی علوم کے لیے تقومی مطلوب ہے نہ دنیوی چالاکیاں.ہمیں اس یار سے تقویٰ عطا ہے الحکم جلد 5 نمبر 12 مؤرخہ 31 مارچ 1901 صہ 2-3) نہ یہ ہم سے.کہ احسانِ خدا ہے کرو کوشش اگر صدق و صفا ہے که به حاصل ہو جو شرط لقا ہے نہیں آئینہ خالق نما ہے یہی اک جوہر سیف دعا ہے ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے (الہامی مصرعہ ) یہی اک فیر شان اولیا ہے بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے اگر سوچو یہیں دار الجزاء ہے ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے مجھے تقویٰ سے اس نے یہ جزا دی فسبحان الذى اخزى الاعادي عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک سنو مسلمانو! وہ ہے جس کا کام تقویٰ ہے حاصل اسلام تقویٰ خدا کا عشق مے اور جام تقویٰ بناؤ تام تقویٰ یہ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی کہاں ایماں اگر ہے خام تقویٰ فسبحان الذي اخزى الاعادي ( در شین اردو)
742 پانچھ میں فصل فہم قرآن اور مقام صدق صدق مجسم قرآن کریم اور آنحضرت صلعم کی ذات ہے وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ الرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَ الصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولئِكَ رَفِيقًا.(النساء:70) صدیق پر معارف قرآنی کھولے جاتے ہیں اسی طرح جب عام طور پر ایک انسان راستی اور راستبازی سے محبت کرتا ہے اور صدق کو اپنا شعار بنا لیتا ہے.تو وہی راستی اس عظیم الشان صدق کو کھینچ لاتی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھا دیتی ہے.صدق مجسم قرآن شریف ہے اور پیکر صدق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات ہے اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ کے ماموردو مرسل حق اور صدق ہوتے ہیں.پس جب وہ اس صدق تک پہنچ جاتا ہے تب اس کی آنکھ کھلتی ہے اور اسے ایک خاص بصیرت ملتی ہے.جس سے معارف قرآنی اس پر کھلنے لگتے ہیں.میں اس بات کے ماننے کے لیے کبھی بھی تیار نہیں ہوں کہ وہ شخص جو صدق سے محبت نہیں رکھتا اور راستبازی کو اپنا شعار نہیں بناتا وہ قرآن کریم کے معارف کو سمجھ بھی سکے.اس لیے کہ اس کے قلب کو اس سے مناسبت ہی نہیں، کیونکہ یہ تو صدق کا چشمہ ہے اور اس سے وہی پی سکتا ہے جس کو صدق سے محبت ہو.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ معارف قرآنی صرف اسی بات کا نام نہیں کہ کبھی کسی نے کوئی نکتہ بیان کر دیا.اس کی تو وہی مثال ہے.گاه باشد که کود کے ناداں بغلط بر ہدف زند تیرے ترجمہ: کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نادان بچہ بھی بغیر ہنر کے ہدف پر نشانہ لگا لیتا ہے.انہیں قرآنی حقائق و معارف کے بیان کرنے کے لیے قلب کو مناسبت اور کشش اور تعلق حق اور صدق سے ہو جاتا ہے اور پھر یہانتک اس میں ترقی اور کمال ہوتا ہے کہ وہ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (النجم: 4) کا مصداق ہو جاتا ہے.اس کی نگاہ جب پڑتی ہے.صدق پر ہی پڑتی ہے.اور اس کو ایک خاص قوت اور امتیازی طاقت دی جاتی ہے جس سے وہ حق و باطل میں فی الفور امتیاز کر لیتا ہے.یہانتک کہ اس کے دل میں ایک قوت آجاتی ہے جس کی ایسی تیز جس ہوتی ہے کہ اسے دور سے ہی باطل کی بو آ جاتی ہے.یہ وہ سر ہے جو لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعہ : 80) میں رکھا گیا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 243)
743 بكار خانہ قدرت ہزارہا نقش اند مگر تجلی رحماں نقش ما باشد قدرت کے کارخانے میں ہزاروں نقش ہیں.مگر رحمن کا جلوہ صرف ہمارے نقش سے نظر آتا ہے.بیامدم که ره صدق را درخشانم بدلستاں برم آن را که پارسا باشد میں اس لیے آیا ہوں کہ صدق کی راہ کو روشن کروں اور دلبر کے پاس اسے لے چلوں جو نیک و پارسا ہے.بیامدم که در علم و رشد بکشایم بخاک نیز نمایم که در سما باشد میں اس لیے آیا ہوں کہ علم وہدایت کا دروازہ کھولوں اور اہل زمین کو وہ چیزیں دکھاؤں جو آسمانی ہیں.( در مشین فارسی مترجم صفحه 273 ) ( تریاق القلوب - ر.خ.جلد 15 صفحہ 134) صدق کامل اس وقت تک جذب نہیں ہوتا جب تک تو بتہ النصوح کے ساتھ صدق کو نہ کھینچے قرآن کریم تمام صداقتوں کا مجموعہ اور صدق تام ہے جب تک خود صادق نہ بنے صدق کے کمال اور مراتب سے کیونکر واقف ہوسکتا ہے.صدیق کے مرتبہ پر قرآن کریم کی معرفت اور اس سے محبت اور اس کے نکات و حقائق پر اطلاع ملتی ہے کیونکہ کذب کذب کو کھینچتا ہے اس لیے کبھی بھی کاذب قرآنی معارف اور حقائق سے آگاہ نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: 80) فرمایا گیا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 276) انسان کو انوار و برکات سے حصہ نہیں مل سکتا جب تک وہ اسی طرح عمل نہ کرے جس طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ.( التوبة : 119 ) بات یہی ہے کہ خمیر سے خمیر لگتا ہے اور یہی قاعدہ ابتداء سے چلا آتا ہے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ کے ساتھ انوار و برکات تھے جن میں سے صحابہ نے بھی حصہ لیا پھر اسی طرح خمیر کی لاگ کی طرح آہستہ آہستہ ایک لاکھ تک ان کی نوبت پہنچی.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 518 ) مرا بگلشن رضوان حق شد ست گذر مقام من چمن قدس و اصطفا باشد اللہ تعالیٰ کی رضا کے باغ میں میرا گذر ہوا.میرا مقام برگزیدگی اور تقدس کا چمن ہے.کمال پاکی و صدق وصفا که گم شده بود دوباره از سخن و وعظ من بپا باشد پاکیزگی اور صدق وصفا کا کمال جو معدوم ہو گیا تھاوہ دوبارہ میرے کلام اور وعظ سے قائم ہوا ہے.مرنج از تخم ایکه سخت بے خبری که اینکه گفته ام از وحی کبریا باشد اے وہ شخص جو بالکل بیخبر ہے میری بات سے ناراض نہ ہو کہ جو میں نے کہا ہے یہ خدا کی وحی سے کہا ہے.کیکه گم شده از خود بنور حق پیوست ہر آنچه از دهنش بشنوی بجا باشد جو شخص اپنی خودی کو چھوڑ کر خدا کے نور میں جاملا اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات حق ہوگی.در مشین فارسی مترجم صفحه 272 ) ( تریاق القلوب - ر.خ.جلد 15 صفحہ 134)
744 صادق کی تعریف صدیق وہ ہوتا ہے جس کو سچائیوں کا کامل طور پر علم بھی ہواور پھر کامل اور طبعی طور پر ان پر قائم بھی ہو.مثلاً اس کو ان معارف کی حقیقت معلوم ہو کہ وحدانیت باری تعالیٰ کیا شے ہے اور اس کی اطاعت کیا شے اور محبت باری عزاسمہ کیا شے اور شرک سے کس مرتبہ اخلاص پر مخاصی حاصل ہو سکتی ہے اور عبودیت کی کیا حقیقت ہے اور اخلاص کی حقیقت کیا اور توبہ کی حقیقت کیا اور صبر اور توکل اور رضا اور محویت اور فنا اور صدیق اور وفا اور تواضع اور سخا اور ابتہال اور دعا اور عفوا اور حیا اور دیانت اور امانت اور اتقاوغیرہ اخلاق فاضلہ کی کیا کیا حقیقتیں ہیں.پھر ماسوا اس کے ان تمام صفات فاضلہ پر قائم بھی ہو.تریاق القلوب - ر- خ- جلد 15 صفحہ 420) صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے.یعنی جو بالکل راست بازی میں فنا شدہ ہو.اور کمال درجہ کا پابند راست بازی اور عاشق صادق ہو.اس وقت وہ صدیق کہلاتا ہے.یہ ایک ایسا مقام ہے جب ایک شخص اس درجہ پر پہنچتا ہے تو وہ ہر قسم کی صداقتوں اور راست بازیوں کا مجموعہ اور ان کو کشش کرنے والا ہو جاتا ہے جس طرح پر آتشی شیشہ سورج کی شعاعوں کو اپنے اوپر جمع کر لیتا ہے اسی طرح پر صدیق کمالات صداقت کا جذب کرنے والا ہوتا ہے.بقول شخصے.زرزر کشد در جہاں گنج گنج جب ایک شے بہت بڑا ذخیرہ پیدا کر لیتی ہے تو اس قسم کی اشیاء کو جذب کرنے کی قوت اس ( ملفوظات جلد اول صفحہ 242) میں پیدا ہو جاتی ہے.صدیق وہ ہوتے ہیں جو صدق سے پیار کرتے ہیں سب سے بڑا صدق لَا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ ہے اور پھر دوسرا صدق مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ ہے وہ صدق کی تمام راہوں سے پیار کرتے ہیں اور صدق ہی چاہتے ہیں...صدیق عملی طور پر صدق سے پیار کرتا اور کذب سے پر ہیز کرتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحه (342) صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے یعنی ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کو معلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں اور اس صدیق کے صدق پر گواہی دیں.الہامی اشعار صادق آن باشد که ایام بلا اگر قضا را عاشقی گردد اسیر! تریاق القلوب - ر- خ - جلد 15 صفحہ 516) گذارد با محبت با وفال بوسد آن زنجیر را کز آشنا! ے صادق وہ ہوتا ہے کہ ابتلاؤں کے دن محبت اور وفاداری سے گذارتا ہے.اگر قضائے الہی سے عاشق قید ہو جاتا ہے تو وہ اس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہو.(کتاب البرية - ر-خ- جلد 13 سرورق ) ، ۲: دونوں شعر الہامی ہیں.تذکرہ
745 کمال صدیقیت کے مراتب گر کفر این بود بخدا سخت کافرم بعد از خدا بعشق محمد محمرم خدا کے بعد میں محمد کے عشق میں سرشار ہوں.اگر یہی کفر ہے تو بخدا میں سخت کا فر ہوں.ہر تارو پود من بسراید بعشق او از خود تهی و از غم آن دلستاں پرم میرے ہر رگ وریشہ میں اس کا عشق رچ گیا ہے میں اپنی خواہشات سے خالی اور اس معشوق کے غم سے پُر ہوں.من در حریم قدس چراغ صداقتم دستش محافظ است زہر بادِ صرصرم میں درگاہ قدس میں صداقت کا چراغ ہوں.اسی کا ہاتھ ہر تیز ہوا سے میری حفاظت کرنے والا ہے.( درشین فارسی متر جم صفحه 166 ) (ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 185) اور دوسرا کمال جو بطور نشان کے امام الاولیاء اور سید الاصفیاء کے لئے ضروری ہے وہ فہم قرآن اور معارف کی اعلیٰ حقیقت تک وصول ہے.یہ بات ضروری طور پر یا درکھنے کے لائق ہے کہ قرآن شریف کی ایک ادنیٰ تعلیم ہے اور ایک اوسط اور ایک اعلیٰ.اور جو اعلیٰ تعلیم ہے.وہ اس قدر انوار معارف اور حقائق کی روشن شعاعوں اور حقیقی حسن اور خوبی سے پر ہے جواد فی ایا اوسط استعداد کا اس تک ہرگز گز ر نہیں ہوسکتا.بلکہ وہ اعلیٰ درجہ کے اہل صفوت اور ارباب طہارت فطرت ان سچائیوں کو پاتے ہیں جن کی سرشت سراسر نور ہو کر نور کو اپنی طرف کھینچتی ہے.سواؤل مرتبہ صدق کا جو انکو حاصل ہوتا ہے دنیا سے نفرت اور ہر ایک لغو امر سے طبعی کراہت ہے.اور اس عادت کے راسخ ہونے کے بعد ایک دوسرے درجہ پر صدق پیدا ہوتا ہے.جس کو انس اور شوق اور رجوع الی اللہ سے تعبیر کر سکتے ہیں.اور اس عادت کے راسخ ہونے کے بعد ایک تیسرے درجہ کا صدق پیدا ہوتا ہے جس کو تبدل اعظم اور انقطاع اتم اور محبت ذاتیہ اور فنافی اللہ کے درجہ سے تعبیر کر سکتے ہیں.اور اس عادت کے راسخ ہونے کے کے بعد روح حق انسان میں حلول کرتی ہے اور تمام پاک سچائیاں اور اعلیٰ درجہ کے معارف و حالات بطریق طبیعت و جبلت بکمال وجد و شرح صدر اس شخص کے نفس پاک پر وارد ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اور عمیق در عمیق معارف قرآنیہ ونکات شرعیہ اس شخص کے دل میں جوش مارتے اور زبان پر جاری ہوتے ہیں.اور وہ اسرار شریعت اور لطائف طریقت اسپر کھلتے ہیں جو اہل رسم اور عادت کی عقلیں ان تک پہنچ نہیں سکتیں.کیونکہ یہ شخص مقام نفحات الہیہ پر کھڑا ہوتا ہے.اور روح القدس اس کے اندر بولتی ہے اور تمام کذب اور دروغ کا حصہ اس کے اندر سے کاٹا جاتا ہے.کیونکہ یہ روح سے پاتا اور روح سے بولتا اور روح سے لوگوں پر اثر ڈالتا ہے.اور اس حالت میں اس کا نام صدیق ہوتا ہے.کیونکہ اس کے اندر سے بکلی کذب کی تاریکی نکلتی اور اس کی جگہ سچائی کی روشنی اور پاکیزگی اپنادخل کرتی ہے اور اس مرتبہ پر اعلی درجہ کی سچائیوں کا ظہور اور اعلیٰ معارف کا اس کی زبان پر جاری ہونا اس کے لئے بطور نشان کے ہوتا ہے.اسکی پاک تعلیم جو سچائی کے نور سے خمیر شدہ ہوتی ہے.دنیا کو حیرت میں ڈالتی ہے.اسکے پاک معارف جو سر چشمہ فنافی اللہ اور حقیقت شناسی سے نکلتے ہیں تمام لوگوں کو تعجب میں ڈالتے ہیں.اور اس قسم کا کمال صدیقیت کے کمال سے موسوم ہے.تریاق القلوب -رخ- جلد 15 صفحہ 419-418)
746 صادق کامل لَّوْشَاءَ اللهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرِيكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُرًا منْ قَبْلِهِ اَفَلَا تَعْقِلُونَ.(يونس: 17) انبیاء وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی کامل راست بازی کی قومی حجت پیش کر کے اپنے دشمنوں کو بھی الزام دیا جیسا کہ یہ الزام قرآن شریف میں ہے.حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موجود ہے جہاں فرمایا ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ (سوره يونس الجزو (11) یعنی میں ایسا نہیں کہ جھوٹ بولوں اور افترا کروں.دیکھو میں چالیس برس اس سے پہلے تم میں ہی رہتا رہا ہوں کیا کبھی تم نے میرا کوئی جھوٹ یا افترا ثابت کیا.پھر کیا تم کواتنی سمجھ نہیں یعنی یہ سمجھے کہ جس نے بھی آج تک کسی قسم کا جھوٹ نہیں بولا وہ اب خدا پر کیوں جھوٹ بولنے لگا.غرض انبیاء کے واقعات عمری اور ان کی سلامت روشی ایسی بدیہی اور ثابت ہے کہ اگر سب باتوں کو چھوڑ کر ان کے واقعات کو ہی دیکھا جائے تو ان کی صداقت ان کے واقعات سے ہی روشن ہورہی ہے.( براهین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 107-108) اسی طور سے خدا تعالیٰ نے میرے مخالفین اور مکذبین کو ملزم کیا ہے چنانچہ براہین احمدیہ کے صفحہ 512 میں میری نسبت یہ الہام ہے جس کے شائع کرنے پر بیس برس گزر گئے اور وہ یہ ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُون یعنی ان مخالفین کو کہہ دے کہ میں چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں اور اس مدت دراز تک تم مجھے دیکھتے رہے ہو کہ میرا کام افترا اور دروغ نہیں ہے اور خدا نے ناپاکی کی زندگی سے مجھے محفوظ رکھا ہے تو پھر جو شخص اس قدر مدت دراز تک یعنی چالیس برس تک ہر ایک افترا اور شرارت اور مکر اور خباثت سے محفوظ رہا اور کبھی اس نے خلقت پر جھوٹ نہ بولا تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ بر خلاف اپنی عادت قدیم کے اب وہ خدا تعالیٰ پر افترا کرنے لگا.تریاق القلوب - ر- خ- جلد 15 صفحہ 283) الرا كِتَبٌ أَحْكِمَتْ ايْتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ.(هود:2) قرآن کریم کی تعلیموں کو اللہ تعالیٰ نے کئی طرح پر مستحکم کیا تا کہ کسی قسم کا شک نہ رہے اور اسی لئے شروع میں ہی فرمایا لاَ رَيْبَ فِيهِ (البقرہ:3) یہ استحکام کئی طور پر کیا گیا ہے.تیسرا احکام نبی کا پاک چال چلن اور راست بازی ہے.یہ منجملہ ان باتوں کے ہے جو عقلمندوں کے نزدیک امین ہونا بھی ایک دلیل ہے جیسے حضرت ابوبکر صدیق نے اس سے دلیل پکڑی.( ملفوظات جلد اول صفحہ 343)
747 صدق اور قرآن سے محبت فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِايَتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ.(يونس:18) فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا یعنی اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور افترا باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے یقیناً یاد رکھو کہ یہ جھوٹ بہت ہی بری بلا ہے انسان کو ہلاک کر دیتا ہے اس سے بڑھ کر جھوٹ کا خطرناک نتیجہ کیا ہوگا کہ انسان خدا تعالیٰ کے مرسلوں اور اس کی آیات کی تکذیب کر کے سزا کا مستحق ہو جاتا ہے.پس صدق اختیار کرو جس قدر انسان صدق کو اختیار کرتا ہے اور صدق سے محبت کرتا ہے اسی قدر اس کے دل میں خدا کے کلام اور نبیوں کی محبت اور معرفت پیدا ہوتی ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 245-246) صدیق کے مرتبہ پر قرآن کریم کی معرفت اور اس سے محبت اور اس کے نکات و حقائق پر اطلاع ملتی ہے کیونکہ کذب کذب کو کھینچتا ہے اس لئے کبھی بھی کاذب قرآنی معارف اور حقائق سے آگاہ نہیں ہو سکتا یہ وجہ ہے کہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: 80) فرمایا گیا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 276) قرآنی حقائق و معارف کے بیان کرنے کے لئے قلب کو مناسبت اور کشش اور تعلق حق اور صدق سے ہو ( ملفوظات جلد اول صفحہ 243) جاتا ہے اور پھر یہاں تک اس میں ترقی اور کمال ہوتا ہے کہ وہ مَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى (النجم: 4) کا مصداق ہو جاتا ہے.اس کی نگاہ جب پڑتی ہے صدق پر ہی پڑتی ہے اور اس کو ایک خاص قوت اور امتیازی طاقت دی جاتی ہے جس سے وہ حق و باطل میں فی الفور امتیاز کر لیتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل میں ایک قوت آجاتی ہے جس کی ایسی تیز جس ہوتی ہے کہ اسے دور سے ہی باطل کی بو آ جاتی ہے یہی وہ سر ہے جو لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة:80) میں رکھا گیا ہے.قرآں کتاب رحمن سکھلائے راہِ عرفاں جو اسکو پڑھنے والے ان پر خدا کے فیضاں ان پر خدا کی رحمت جو اس پہ لائے ایماں یہ روز کر مبارک سبحـان مــن یــرانـی ہے چشمہ ہدایت جس کو ہو یہ عنایت یہ ہیں خدا کی باتیں ان سے ملے ولایت یہ نور دل کو بخشے دل میں کرے سرایت یہ روز کر مبارک سبـحـــان مــن یــرانـی قرآں کو یاد رکھنا پاک اعتقاد رکھنا فکر معاد رکھنا پاس اپنے زاد رکھنا اکسیر ہے پیارے صدق و سداد رکھنا یہ روز کر مبارک سبحـان مـن یـرانــی ( در نشین اردو ) ( محمود کی آمین.ر.خ.جلد 12 صفحہ 324-323)
748 دوسرا کمال أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں صدیقوں کا کمال ہے.اس کمال کے حاصل ہونے پر قرآن شریف کے حقائق اور معارف کھلتے ہیں.لیکن یہ فضل اور فیض بھی محض انہی تائید سے آتا ہے.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائید اور فضل کے بغیر ایک انگلی کا ہلانا بھی مشکل ہے.ہاں یہ انسان کا فرض ہے کہ سعی اور مجاہدہ کرے جہاں تک اس سے ممکن ہے اور اس کی توفیق بھی خدا تعالیٰ ہی سے چاہے.کبھی اس سے مایوس نہ ہو کیونکہ مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود بھی فرمایا.لَا يَايُنَسُ مِنْ رَّوْحِ اللهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (يوسف: 88) الله تعالیٰ کی رحمت سے کافر ناامید ہوتے ہیں.نا امیدی بہت ہی بری چیز ہے.اصل میں نا امید وہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے یہ خوب یاد رکھو کہ ساری خرابیاں اور برائیاں بدظنی سے پیدا ہوتی ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت منع کیا ہے اور فرمایا إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ (الحجرات: 13) ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 246) جب انسان إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہ کر صدق اور وفاداری کے ساتھ قدم اٹھاتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک بڑی نہر صدق کی کھول دیتا ہے جو اس کے قلب پر آ کر گرتی ہے اور اسے صدق سے بھر دیتی ہے وہ اپنی طرف سے بضاعة مزجاة لاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کی گراں قدر جنس اس کو عطا کرتا ہے اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس مقام میں انسان یہاں تک قدم مارتا ہے کہ وہ صدق اس کے لیے ایک خارق عادت نشان ہو.اس پر اس قدر معارف اور حقائق کا دریا کھاتا ہے اور ایسی قوت دی جاتی ہے کہ ہر شخص کی طاقت نہیں ہے کہ اس کا مقابلہ کر سکے.( ملفوظات جلد اول صفحه (253) عزیزاں بے خلوص و صدق نکشایند را ہے را مصفا قطره باید که تا گوھر شود پیدا اے عزیز و بغیر اخلاص اور سچائی کے کوئی راہ نہیں کھل سکتی.مصفا قطرہ چاہیے تا کہ موتی پیدا ہو.در شین فارسی مترجم صفحه 169 ) (ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 546) و معیت صادق اور فہم قرآن ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ.(التوبة: 119) شریعت کی کتابیں حقائق اور معارف کا ذخیرہ ہوتی ہیں لیکن حقائق اور معارف پر کبھی پوری اطلاع نہیں مل سکتی جب تک صادق کی صحبت اخلاص اور صدق سے اختیار نہ کی جاوے اسی لیے قرآن شریف فرماتا ہے يايها الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور ارتقاء کے مدارج کامل طور پر کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جب تک صادق کی معیت اور صحبت نہ ہو کیونکہ اس کی صحبت میں رہ کر وہ اس کے انفاس طیبہ عقد ہمت اور توجہ سے فائدہ اٹھاتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 163)
749 یہ کہنا کہ ہمارے لیے قرآن اور احادیث کافی ہیں اور صحبت صادقین کی ضرورت نہیں یہ خود مخالفت تعلیم قرآن ہے کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ اور صادق وہ ہیں جنہوں نے صدق کو علی وجہ البصیرت شناخت کیا اور پھر اس پر دل و جان سے قائم ہو گئے اور یہ اعلیٰ درجہ بصیرت کا بجز اس کے ممکن نہیں که سماوی تائید شامل حال ہو کر اعلیٰ مرتبہ حق الیقین تک پہنچا د یوے.پس ان معنوں کر کے صادق حقیقی انبیاء اور رسل اور محدث اور اولیاء کاملین مکملین ہیں.جن پر آسمانی روشنی پڑی اور جنہوں نے خدا تعالے کو اسی جہان میں یقین کی آنکھوں سے دیکھ لیا اور آیت موصوفہ بالا بطور اشارت ظاہر کر رہی ہے کہ دنیا صادقوں کے وجود سے کبھی خالی نہیں ہوتی کیونکہ دوام حكم كُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ دوام وجود صادقین کو ستلزم ہے علاوہ اس کے مشاہدہ صاف بتلا رہا ہے کہ جو لوگ صادقوں کی صحبت سے لا پروا ہو کر عمر گزارتے ہیں ان کے علوم و فنون جسمانی جذبات سے ان کو ہرگز صاف نہیں کر سکتے اور کم سے کم اتنا ہی مرتبہ اسلام کا کہ دلی یقین اس بات پر ہو کہ خدا ہے ان کو ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا اور جس طرح وہ اپنی اس دولت پر یقین رکھتے ہیں جو ان کے صندوقوں میں بند ہو یا اپنے ان مکانات پر جو ان کے قبضہ میں ہوں ہر گز ان کو ایسا یقین خدا تعالیٰ پر نہیں ہوتا.وہ سم الفار کھانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ یقینا جانتے ہیں کہ وہ ایک زہر مہلک ہے لیکن گناہوں کی زہر سے نہیں ڈرتے.صدق اور تائید الہی شہادت القرآن - ر-خ- جلد 6 صفحہ 347) غرض صدق ایسی شے ہے جو انسان کو مشکل سے مشکل وقت میں بھی نجات دلا دیتی ہے سعدی نے سچ کہا ہے کہ کس ندیدم کہ گم شد از ره راست.پس جس قدر انسان صدق کو اختیار کرتا ہے اور صدق سے محبت کرتا ہے اسی قدر اس کے دل میں خدا تعالیٰ کے کلام اور انبیاء کی محبت اور معرفت پیدا ہوتی ہے کیونکہ وہ تمام راستبازوں کے نمونے اور چشمے ہوتے ہیں.كُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ (التوبہ: 119) کا ارشاد اسی اصول پر ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 246) صدق را ہر دم مدد آید ز رب العالمیں صادقان را دست حق باشد نہاں در آستیں سچائی کو ہر دم رب العالمین سے مدد پہنچتی ہے صادقوں کی آستین میں خدا کا ہاتھ پوشیدہ ہوتا ہے.ہر بلا کر آسماں بر صادقی آید فرود آخرش گردد نشانی از برائے طالبیں ہر وہ مصیبت جو آسمان سے کسی صادق پر آتی ہے وہ آخر میں طالبان حق کے لیے ایک نشان ہو جاتی ہے.( ضرورت الامام.رخ.جلد 13 صفحہ 506)( درثمین فارسی متر جم صفحه 245) چوں مرا بخشیده صدق اندریں سوز و گداز نیست امیدم که ناکامم بمیرانی دریں جب تو نے مجھے اس سوز و گداز میں صدق بخشا ہے تو مجھے یہ امید نہیں کہ تو اس معاملہ میں مجھے نا کامی کی موت دیگا.کاروبار صادقاں ہرگز نماند ناتمام صادقان را دست حق باشد نہاں در آستین بچوں کا کاروبار ہرگز نا مکمل نہیں رہتا.صادقوں کی آستین میں خدا کا ہاتھ مخفی ہوتا ہے.(فتح اسلام - رخ.جلد 3 صفحہ 46 ( درشین فاری متر جم صفحہ 158)
750 فہم قرآن اور مومن کامل اب جانا چاہیئے کہ خدائے تعالیٰ نے قرآن کریم میں چار عظیم الشان آسمانی تائیدوں کا کامل متقیوں اور کامل مومنوں کیلئے وعدہ دیا ہے اور وہی کامل مومن کی شناخت کے لئے کامل علامتیں ہیں اور وہ یہ ہیں.اول یہ کہ مومن کامل کو خدائے تعالیٰ سے اکثر بشارتیں ملتی ہیں یعنے پیش از وقوع خوشخبریاں جو اسکی مرادات یا اسکے دوستوں کے مطلوبات ہیں اسکو بتلائی جاتی ہیں دوم یہ کہ مومن کامل پر ایسے امور غیبیہ کھلتے ہیں جو نہ صرف اسکی ذات یا اسکے واسطے داروں سے متعلق ہوں بلکہ جو کچھ دنیا میں قضا و قدر نازل ہونے والی ہے یا بعض دنیا کے افراد مشہورہ پر کچھ تغیرات آنیوالے ہیں ان سے برگزیدہ مومن کو اکثر اوقات خبر دیجاتی ہے.سوم یہ کہ مومن کامل کی اکثر دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور اکثر ان دعاؤں کی قبولیت کی پیش از وقت اطلاع بھی دیجاتی ہے چہارم یہ کہ مومن کامل پر قرآن کریم کے دقائق و معارف جدیدہ و لطائف و خواص عجیبہ سب سے زیادہ کھولے جاتے ہیں.ان چاروں علامتوں میں مومن کامل نسبتی طور پر دوسروں پر غالب رہتا ہے.اور اگر چہ دائمی طور پر یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ ہمیشہ مومن کامل کو منجانب اللہ بشارتیں ہی ملتی رہیں یا ہمیشہ بلا تخلف ہر ایک دعا اس کی منظور ہی ہو جایا کرے اور نہ یہ کہ ہمیشہ ہر ایک حادثہ زمانہ سے اسکو اطلاع دیجائے اور نہ یہ کہ ہر وقت معارف قرآنی اس پر کھلتے رہیں لیکن غیر کے مقابلہ کے وقت ان چاروں علامتوں میں کثرت مومن ہی کی طرف رہتی ہے.اگر چہ ممکن ہے کہ غیر کو بھی مثلاً جو مومن ناقص ہے شاذ و نادر کے طور پر ان نعمتوں سے کچھ حصہ دیا جاوے مگر اصلی وارث ان نعمتوں کا مومن کا مل ہی ہوتا ہے.آسمانی فیصلہ.ر.خ.جلد 4 صفحہ 323) ہماں ز نوع بشر کامل از خدا باشد که با نشان نمایاں خدا نما باشد انسانوں میں وہی خدا کی طرف سے کامل ہوتا ہے جو روشن نشانوں کے ساتھ خدا نما ہوتا ہے.بتابد از رخ او نور عشق و صدق و وفا ز خلق أو كرم و غربت و حیا باشد اس کے چہرہ سے عشق اور صدق وصفا کا نور چمکتا ہے.کرم انکسار اور حیا اس کے اخلاق ہوتے ہیں.صفات او همه ظل صفاتِ حق باشند ہم استقامت او ہمچو انبیا باشد اس کی ساری صفات خدا کی صفات کا پر تو ہوتی ہیں اور اس کا استقلال بھی انبیا کے استقلال کی مانند ہوتا ہے.روان بچشمه او بحر سرمدی باشد عیاں در آئینه اش روئے کبریا باشد اس کے سر چشمہ سے ابدی فیضان کا سمند ر جاری ہوتا ہے اور اس کے چہرہ میں خدائے بزرگ کا چہرہ نظر آتا ہے.تریاق القلوب - رخ - جلد 15 صفحہ 129 ) ( در شین فارسی مترجم صفحه 261)
751 فہم قرآن اور اصحاب عقل و دانش وَتِلْكَ الأمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَ مَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَلِمُونَ (العنكبوت: 44) جس طرح آفتاب کا قدر آنکھ ہی سے پیدا ہوتا ہے اور روز روشن کے فوائد اہل بصارت ہی پر ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح خدا کی کلام کا کامل طور پر انہیں کو قدر ہوتا ہے کہ جو اہل عقل ہیں جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے و تِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَ مَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَلِمُونَ یعنی یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں پر ان کو معقول طور پر وہی سمجھتے ہیں کہ جو صاحب علم اور دانشمند ہیں.( براھین احمدیہ...خ.جلد 1 صفحہ 300-301 حاشیہ نمبر 1) قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو عقل سے کام لیتے ہیں اولوالالباب فرمایا ہے.پھر اس کے آگے فرمایا ہے الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَّ قُعُودًا وَّ عَلَى جُنُوبِهِمُ (آل عمران : 192) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوسرا پہلو بیان کیا ہے کہ اولوالالباب اور عقل سلیم بھی وہی رکھتے ہیں جو اللہ جل شانہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے کرتے ہیں.یہ گمان نہ کرنا چاہیئے کہ عقل و دانش ایسی چیزیں ہیں جو یونہی حاصل ہوسکتی ہیں.نہیں بلکہ سچی فراست اور کچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتی.اسی واسطے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو.کیونکہ وہ الہی نور سے دیکھتا ہے صیح فراست اور حقیقی دانش جیسا میں نے ابھی کہا کبھی نصیب نہیں ہو سکتی جب تک تقویٰ میسر نہ ہو.اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو عقل سے کام لو.فکر کرو.سوچو.تدبر اور فکر کے لیے قرآن کریم میں بار بار تاکیدمیں موجود ہیں.کتاب مکنون اور قرآن کریم میں فکر کرو اور پار ساطبع ہو جاؤ.جب تمہارے دل پاک ہو جائیں گے.اور ادھر عقل سلیم سے کام لو گے اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.پھر ان دونوں کے جوڑ سے وہ حالت پیدا ہو جائے گی کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبُحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (ال عمران : 192) تمہارے دل سے نکلے گا.اس وقت سمجھ میں آجائیگا کہ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ صانع حقیقی کی حقانیت اور ثبات پر دلالت کرتی ہے تا کہ طرح طرح کے علوم و فنون جو دین کو مدد دیتے ہیں ظاہر ہوں.( ملفوظات جلد اول صفحه 41-42 ) عقل روح کی صفائی سے پیدا ہوتی ہے.جس جس قدر انسان روح کی صفائی کرتا ہے اسی اسی قدر عقل میں تیزی پیدا ہوتی ہے اور فرشتہ سامنے کھڑا ہو کر اس کی مدد کرتا ہے مگر فاسقانہ زندگی والے کے دماغ میں روشنی نہیں آسکتی.تقویٰ اختیار کرو کہ خدا تمہارے ساتھ ہو.تقویٰ اور خدا ترسی علم سے پیدا ہوتی ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر: 29) یعنی اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو عالم ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی علم خشیت اللہ کو پیدا کر دیتا ہے اور خدا تعالیٰ نے علم کو تقویٰ سے وابستہ کیا ہے کہ جو شخص پورے طور پر عالم ہو گا اس میں ضرور خشیت اللہ پیدا ہوگی.علم سے مراد میری دانست میں علم القرآن ہے اس سے فلسفہ سائنس یا اور علوم مروجہ مراد نہیں کیونکہ ان کے حصول کے لئے تقویٰ اور نیکی کی شرط نہیں بلکہ جیسے ایک فاسق فاجر ان کو سیکھ سکتا ہے ویسے ہی ایک دیندار بھی.لیکن علم القرآن بحجر متقی اور دیندار کے کسی دوسرے کو دیا ہی نہیں جاتا.پس اس جگہ علم سے مراد علم القرآن ہی ہے جس سے تقویٰ اور خشیت پیدا ہوتی ہے.( ملفوظات جلد دوئم صفحہ 717) ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 599)
752 فہم قرآن اور عاجزی و انکساری لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ.(الحشر: 22) یہ قرآن جو تم پر اتارا گیا اگر کسی پہاڑ پر اتار جاتا تو وہ خشوع اور خوف الہی سے ٹکڑرہ ٹکڑہ ہوجاتا اور یہ مثالیں ہم اس لئے بیان کرتے ہیں کہ تالوگ کلام الہی کی عظمت معلوم کرنے کے لئے غور اور فکر کریں.سرمه چشم آریہ.رخ.جلد 2 صفحہ 63 حاشیہ) ایک تو اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف کی ایسی تاثیر ہے کہ اگر پہاڑ پر وہ اتر تا تو پہاڑ خوف خدا سے ٹکڑے ٹکرے ہو جاتا اور زمین کے ساتھ مل جاتا.جب جمادات پر اس کی ایسی تاثیر ہے تو بڑے ہی بیوقوف وہ لوگ ہیں جو اس کی تاثیر سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دوسرے اس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی شخص محبت الہی اور رضائے الہی کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک دو صفتیں اس میں پیدا نہ ہو جائیں.اول تکبر کو توڑنا جس طرح کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سر اونچا کیا ہوا ہوتا ہے گر کر زمین سے ہموار ہو جائے.اسی طرح انسان کو چاہئے کہ تمام تکبر اور بڑائی کے خیالات کو دور کرے.عاجزی اور خاکساری کو اختیار کرے اور دوسرا یہ ہے کہ پہلے تمام تعلقات اس کے ٹوٹ جائیں جیسا کہ پہاڑ گر کر متصدعا ہو جاتا ہے.اینٹ سے اینٹ جدا ہو جاتی ہے ایسا ہی اسکے پہلے تعلقات جو موجب گندگی اور الہی نارضامندی تھے وہ سب تعلقات ٹوٹ جائیں اور اب اس کی ملاقاتیں اور دوستیاں اور محبتیں اور عداوتیں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے رہ جائیں.نہیں ملتا وہ دلدار ( ملفوظات جلد اول صفحه (511) تکبر سے ملے جو خاک سے اس کو ملے یار کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے پسند آتی ہے اس کو خاکساری تذلیل ہے رہ درگاه باری ( در شین اردو صفحہ 84) (حقیقۃ الوحی - ر - خ- جلد 22 صفحہ 551) به نخوت با نمی آید بدست آن دامن پاکش کسے عزت از و یا بد که سوز درخت عزت را اس کا مقدس دامن تکبر سے ہاتھ نہیں آتا.اس کے ہاں اسی کو عزت ملتی ہے جو لباس عزت جلا دیتا ہے.اگر خواصی رہ مولے زلاف علم خالی شو که ره ندهند در کولیش اسیر کبر و نخوت را اگر مولا کی راہ چاہتا ہے تو علم کی شیخی ترک کر کہ اس کے کوچہ میں اسیر کبر و نخوت کو گھنے نہیں دیتے.منه دل در تنعم ہائے دنیا گر خدا خواہی کہ مے خواہد نگار من تهیدستان عشرت را اگر خدا کا طلبگار ہے تو دنیوی نعمتوں سے دل نہ لگا کہ میرا محبوب ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو عیش کے تارک ہوں.مصفا قطره باید که تا گوہر شود پیدا کجا بیند دلِ نا پاک روئے پاک حضرت را پانی کا مصفا قطرہ چاہئے تا کہ اس سے موتی پیدا ہو.نا پاک دل خدا کے چہرہ کو کہاں دیکھ سکتا ہے.ہے.یہ مصرع الہامی ہے.( در نمین فارسی متر جم صفحه 186 ) ( آئینہ کمالات اسلام -رخ- جلد 5 صفحہ 55)
753 وہ دور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دور ہیں ہر دم اسیر نخوت و کبر و غرور ہیں تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اس یار کے لئے رہ عشرت کو چھوڑ دو لعنت کی ہے یہ راہ سولعنت کو چھوڑ دو ورنہ خیال حضرت عزت کو چھوڑ دو در مشین اردو صفحہ 103-102 ) ( براہین احمدیہ.رخ - جلد 21 صفحہ 18-17 ) فہم قرآن.پاک اور مطہر زندگی مطہرین کی علامتوں میں سے یہ بھی ایک عظیم الشان علامت ہے کہ علم معارف قرآن حاصل ہو کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الوقعة: 80) (ازالہ اوھام.رخ.جلد 3 صفحہ 443) دینی علم اور پاک معارف کے سمجھنے اور حاصل کرنے کے لئے پہلے سچی پاکیزگی کا حاصل کر لینا اور ناپاکی کی راہوں کا چھوڑ دینا از بس ضروری ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ یعنی خدا کی پاک کتاب کے اسرار کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو پاک دل ہیں اور پاک فطرت اور پاک عمل رکھتے ہیں دنیوی چالاکیوں سے آسمانی علم ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے.قرآنی حقائق صرف انہی لوگوں پر کھلتے ہیں جن کو خدائے تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف اور پاک کرتا ہے ست بیچن...خ.جلد 10 صفحہ 126) ( براہین احمدیہ - رخ.جلد 1 صفحہ 613 حاشیہ نمبر (3) یک قدم دوری ازاں روشن کتاب نزد ما کفر است و خسران و تاب اس نورانی کتاب سے ایک قدم بھی دور رہنا ہمارے نزدیک کفروزیاں اور ہلاکت ہے.ہر دلے از سر آن آگاه نیست لیک دوناں را بمغرش راه نیست لیکن ذلیل لوگوں کو قرآن کی حقیقت کی خبر نہیں ہر ایک دل اس کے بھیدوں سے واقف نہیں ہے.تا نباشد طالبے پاک اندروں تا نجوشد عشق یار بے چکوں! جب تک طالب حق پاک باطن نہیں ہوتا اور جب تک اس یار بے مثال کا عشق اس کے دل میں جوش نہیں مارتا.راز قرآن را کجا فهمد کسے بہر نورے نور می باید بسے! تب تک کوئی قرآنی اسرار کو کیونکر سمجھ سکتا ہے نور کے سمجھنے کے لیے بہت سا نور باطن ہونا چاہیئے.اں نہ من قرآن ہمیں فرموده است و شرط تطهر بوده است یہ میری بات نہیں بلکہ قرآن نے بھی یہی فرمایا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے پاک ہونے کی شرط ہے.گر بقرآں ہر کسے را راه بود اگر ہر شخص قرآن خود سمجھ سکتا.تو خدا نے تطہیر کی شرط کیوں زائد لگائی.اندر پس چرا شرط تظهر را فزود نور را داند کسے کو نور شد واز حجاب سر کشی با دور شد نور کو وہی شخص سمجھتا ہے جو خود نور ہو گیا ہو.اور سرکشی کے حجابوں سے دور ہو گیا ہو.در مشین فارسی مترجم صفحه 227-226) (سراج منیر - ر-خ- جلد 12 صفحہ 96)
754 کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے جو جلتا ہے وہی مردے جلاوے جو مرتا ہے وہی زندوں میں جاوے ہے دور کا کب غیر کھاوے چلو اوپر کو ثمر وہ نیچے نہ آوے نہاں اندر نہاں ہے کون لاوے غریق عشق موتی اُٹھاوے وہ دیکھے نیستی رحمت دکھاوے مجھے تو نے یہ دولت اے خدا دی وہ خودی اور خودروی کب اس کو بھاوے فسبحان الذي اخزى الاعادي بشیر احمد.شریف احمد اور مبارکہ بیگم کی آمین در شین اردو) فہم قرآن دنیا پرست کو نہیں ملتا لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : 80) عزیزاں بے خلوص وصدق نکشانید را ہے را مصفا قطره باید که تا گوہر شود پیدا اے عزیز و بغیر اخلاص اور سچائی کے کوئی راہ نہیں کھل سکتی مصفا قطرہ چاہیے تا کہ موتی پیدا ہو.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 546) علم دین آسمانی علوم میں سے ہے اور یہ علوم تقویٰ اور طہارت اور محبت الہیہ سے وابستہ ہیں اور سگ دنیا کو مل نہیں سکتے.سو اس میں کچھ شک نہیں کہ قول موجہ سے اتمام حجت کرنا انبیاء اور مردان خدا کا کام ہے اور حقانی فیوض کا مورد ہونا فانیوں کا طریق ہے اور اللہ جل شانہ فرماتا ہے لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.پس کیونکر ایک گندہ اور منافق اور دنیا پرست ان آسمانی فیضوں کو پاسکتا ہے جن کے بغیر کوئی فتح نہیں ہو سکتی اور کیونکر اس دل پر روح القدس بول سکتا ہے جس میں شیطان بولتا ہو.البلاغ-رخ- جلد 13 صفحہ 373-372) دوسرے علوم میں یہ شرط نہیں.ریاضی، ہندسہ و ہیئت وغیرہ میں اس امر کی شرط نہیں کہ سیکھنے والاضر ور متقی اور پر ہیز گار ہو بلکہ خواہ کیسا ہی فاسق و فاجر ہو وہ بھی سیکھ سکتا ہے مگر علم دین میں خشک منطقی اور فلسفی ترقی نہیں کر سکتا اور اس پر وہ حقائق اور معارف نہیں کھل سکتے.جس کا دل خراب ہے اور تقویٰ سے حصہ نہیں رکھتا اور پھر کہتا ہے کہ علوم دین اور حقائق اس کی زبان پر جاری ہوتے ہیں وہ جھوٹ بولتا ہے ہرگز ہرگز اسے دین کے حقائق اور معارف سے حصہ نہیں ملتا بلکہ دین کے لطائف اور نکات کے لئے متقی ہونا شرط ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 121)
755 دینی علم اور پاک معارف کے سمجھنے اور حاصل کرنے کے لئے پہلے کچی پاکیزگی کا حاصل کر لیتا اور ناپاکی کی راہوں کا چھوڑ دینا از بس ضروری ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ یعنی خدا کی پاک کتاب کی اسرار کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو پاک دل فطرت اور پاک عمل رکھتے ہیں.دنیوی چالاکیوں سے آسمانی علم ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے.دست بچن - ر- خ - جلد 10 صفحہ 126) مکذبین کے دلوں پر خدا کی لعنت ہے خدا ان کونہ قرآن کا نور دکھلائے گا.نہ بالمقابل دعا کی استجابت جواعلام قبل از وقت کے ساتھ ہواور نہ امور غیبی پر اطلاع دے گا لا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ (الجن:27,28) انجام آتھم رخ - جلد 11 صفحہ 303 حاشیہ) وليس هـذا الـمـوطـن الا للمتقين.و لا تفتح هذه الابواب الا على الصالحين.ولا يمسه الا الذي كان من المطهرين.وان الله لا يهدى كيد الخائنين.الذين يجعلون المكائد منتجعا.والاكاذيب كهفا و مرجعا ولهم قلوب كليل اردف اذنابه.وظلام مدالی مدی.الابصار اطنابه.لا يعلمون ما القرآن وما العلم ولاعرفان ومن لم يعلم القرآن وما اوتى البيان.ترجمہ :.یہ مقام بجز پر ہیز گاروں کے کسی کو نصیب نہیں ہوتا.اور یہ دروازہ صالحین کے سوا کسی کے لئے کھولا نہیں جاتا.اور جب تک کسی کا ہاتھ پاک نہ ہو وہ وہاں نہیں پہنچ سکتا.(انجام آتھم ر.خ.جلد 11 صفحہ 303 حاشیہ ) خدا تعالی خیانت کرنے والوں کو جنہوں نے دھوکا دہی کا پیشہ اختیار کیا ہے اور جھوٹ کی پناہ لے لی ہے.تا کہ ضرورت کے وقت اس کو اختیار کیا جائے ہدایت نہیں دیتا.ان کے دل ایک تاریک رات کی طرح سے ہیں جو اپنی ظلمت میں کامل ہو.ان کو معلوم نہیں کہ قرآن کیا ہے.اور جس کو قرآن کا علم اور بیان کی طاقت نصیب نہیں اس کا کیا علم اور کیا عرفان ہے.هل العلم شی غیر تعلیم ربنا اعجاز اسی ر.خ.جلد 18 صفحہ 48) وای حــديـــث بــعــده نـتـخـيــر کیا وہ علم کوئی چیز ہے جسے ہمارے رب نے نہ سکھایا ہو اور کونسی بات ہم اس کے بعد اختیار کر سکتے ہیں؟ کتاب کــریـم احـکـمـت ایـاتـه وحياته يـحـيـى القلوب ويزهر وہ کتاب کریم ہے اس کی آیات محکم ہیں اور اس کی زندگی دلوں کو زندہ اور روشن کرتی ہے.ويروى التقى هدى فينمو و يثمر يدع الشقى ولا يمس نكاته وہ بد بخت کو دھکے دیتی ہے اور وہ اس کے نکات کو نہیں چھوسکتا اور وہ پر ہیز گارکو ہدایت سے سیراب کرتی ہے سودہ نشو ونما پاتا ہے اور پھل دیتا ہے.و متعنى من فيضه لطف خالقی اور میرے رب کی مہربانی نے اپنے فیض سے مجھے بہرہ ور کیا ہے.میں اس کی کتاب کا شیر خوار ہوں اور اسکی حفاظت میں ہوں.وانی رضیع کتابه و مخفر کریم فیوتى من يشاء علومه قدیر فكيف تكذبن و تهکر وہ کریم ہے.وہ جسے چاہتا ہے اپنے علوم دیتا ہے وہ قدیر ہے.سوتو (اس بات کی) کیسے تکذیب کرتا ہے اور کیسے (اس پر ) تعجب کرتا ہے.کرامات الصادقین ر.خ.جلد 7 صفحہ 87) (القصائد الاحمدیہ صفحہ 68)
756 اے اسیر عقل خود برہستی خود کم نباز کیں سپہر بوالعجائب چوں تو بسیار آورد اے اپنے عقل کے قیدی اپنی ہستی پر ناز نہ کر کہ یہ عجیب آسمان تیری طرح کے بہت سے آدمی لایا کرتا ہے.غیر را ہر گز نمی باشد گذر در کوئے حق ہر کہ آید ز آسماں او ر از آن یار آورد خدا کے کوچہ میں غیر کو ہر گز دخل نہیں جو آسمان سے آتا ہے وہی اس یار کے اسرار ہمراہ لاتا ہے.خود بخود فهمیدن قرآن گمان باطل است هر که از خوآورد اونجس و مردار آورد آپ ہی آپ قرآن کو سمجھ لینا ایک غلط خیال ہے جو شخص اپنے پاس سے اس کا مطلب بیان کرتا ہے وہ گندگی اور مردار پیش کرتا ہے.(برکات الدعا- ر- خ - جلد 6 صفحہ 5) ( درشین فارسی متر جم صفحه 196-195)
757 باب نهم اصول تفسیر قرآن کریم پس اغراض نفسانیہ کے ساتھ زبان پر کیونکر احاطہ ہو سکے اور معارف قرآنیہ کیونکر حاصل ہو سکیں اور لغت عرب جو صرف نحو کی اصل کنجی ہے وہ ایک ایسا نا پیدا کنار دریا ہے جو اسکی نسبت امام شافعی رحمتہ اللہ کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا نَبی یعنی اس زبان کو اور ا سکے انواع اقسام کے محاورات کو بجزہ نبی کے اور کوئی شخص کامل طور پر معلوم ہی نہیں کر سکتا.اس قول سے بھی ثابت ہوا کہ اس زبان پر ہر ایک پہلو سے قدرت حاصل کرنا ہر ایک کا کام نہیں بلکہ اس پر پورا احاطہ کرنا مجزات انبیاء علیہم السلام سے ہے.(نزول المسیح - ر- خ - جلد 18 صفحہ 436) اے اسیر عقل خود برہستیءِ خود کم بناز کیں سپہر بوالعجائب چوں تو بسیار آورد اپنی عقل کے قیدی اپنی ہستی پر ناز نہ کر کہ یہ مجیب آسمان تیری طرح کے بہت سے آدمی لا یا کرتا ہے غیر را ہر گز نمی باشد گذر در کوئے حق ہر کہ آید ز آسماں اور از آن یار آورد خدا کے کوچہ میں غیر کو ہرگز دخل نہیں ہوتا جو آسمان سے آتا ہے وہی اس یار کے اسرار ہمراہ لاتا ہے خود بخود فهمیدن قرآن گمان باطل است هر که از خود آورد اونجس و مردار آورد آپ ہی آپ قرآن کو مجھ لینا ایک غلط خیال ہے جو شخص اپنے پاس سے اسکا مطلب پیش کرتا ہے وہ گندگی اور مردار ہی پیش کرتا ہے.(برکات الدعا.رخ - جلد 6 صفحہ 5 ) ( در نشین فارسی متر جم صفحه 196-195)
758
759 فہرست مضامین عنوانات 15 معانی قرآن آیات محکمات کے مطابق نمبر شمار عنوانات صفحہ نمبر شمار 1 ضرورت اور اہمیت 3 قرآن کریم کی غلط تفسیر 761 762 763 2 قرآن کریم کی صحیح تفسیر کے معیار صفحه ہونے ضروری ہیں 777 16 قرآن کو یکجائی نظر سے دیکھنا چاہئے 778 4 تفسیر قرآن کریم کی حدود اور 17 | تفسیر قرآن محاورات قرآن اور تدبر في القرآن 5 تفسیر قرآن اور تائید روح القدس 6 تفسیر قرآن واقعات اور موقع کے مطابق ہونی چاہیئے 7 تفسیر قرآن اور سنت رسول 8 تفسیر قرآن.فرمودات قرآن حدیث 764 765 766 مصطلحات قرآن کے مطابق ہو 18 لغت عرب اور محاورہ عرب کا کامل علم انبیاء کا معجزہ ہے 19 اصطلاحات و محاورات قرآن کی چند امثال اور لغت عرب کے مطابق ہونی چاہئے 767 20 | قرآنی معانی کے خلاف معانی کرنا // تحریف والحاد ہے 9 قرآن اپنی تفسیر آپ کرتا ہے 10 سیاق و سباق آیت کے مطابق معانی 769 21 | تحریف معنوی 11 معانی ءِ آیات میں باہم معنوی 22 تحریف تقریری اختلاف نہ ہو 771 23 | تحریف اور یہود 12 قرآن حکیم کی آیات محکمات 24 کسی کو کلام الہی میں تغییر و تبدل کا متشابہات ہیں 13 تعریف آیات محکمات و متشابہات 14 آیات متشابہات قلیل الوجود اور شاذ و نادر ہیں متواتر اور کثیر آیات قرآنی محکمات ہیں 774 775 776 اختیار نہیں 25 تفسیر بالرائے 779 780 " 787 789 790 791 792
760
761 ضرورت اور اہمیت اصول تفسیر قرآن کریم صرف قرآن کا ترجمہ اصل میں مفید نہیں جب تک اس کے ساتھ تغیر نہ ہو مثلاً غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.كکی نسبت کسی کو کیا سمجھ آ سکتا ہے کہ اس سے مراد یہود و نصاری ہیں جب تک کہ کھول کر نہ بتلایا جاوے اور پھر یہ دعا مسلمانوں کو کیوں سکھلائی گئی اس کا یہی منشا تھا کہ جیسے یہودیوں نے حضرت مسیح کا انکار کر کے خدا کا غضب کمایا.ایسے ہی آخری زمانہ میں اس امت نے بھی مسیح موعود کا انکار کر کے خدا کا غضب کما نا تھا اسی لیے اول ہی ان کو بطور پیشگوئی کے اطلاع دی گئی کہ سعید روحیں اس وقت غضب سے بچ سکیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 449) ام يقولون انا لا نرى ضرورة مسيح ولا مهدى وكفانا القرآن و انا مهتدون و يعلمون ان القرآن كتاب لا يمسه الا المطهرون (الواقعة : 80) فاشتدت الحاجة الى مفسر زکی من ايدى الله و ادخل في الذين يبصرون.ترجمہ :.کہتے ہیں کہ ہم کو مسیح اور مہدی کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ قرآن ہمارے لئے کافی ہے اور ہم سیدھے رستے پر ہیں.حالانکہ جانتے ہیں کہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ سوائے پاکوں کے اور کسی کی فہم اس تک نہیں پہنچتی.اس وجہ سے ایک ایسے مفسر کی حاجت پڑی کہ خدا کے ہاتھ نے اسے پاک کیا ہو.اور بینا بنایا ہو.(خطبہ الہامیہ.رخ- جلد 16 صفحہ 184-183) حضرت مسیح موعود علیہ السلام :.یہ خدا کا بڑا فضل ہے اور خوش قسمتی آپ کی ہے کہ آپ ادھر آ نکلے.یہ بات واقعی سچ ہے کہ جو مسلمان ہیں یہ قرآن شریف کو بالکل نہیں سمجھتے لیکن اب خدا کا ارادہ ہے کہ صحیح معنے قرآن کے ظاہر کرے خدا نے مجھے اسی لیے مامور کیا ہے اور میں اس کے الہام اور وحی سے قرآن شریف کو سمجھتا ہوں قرآن شریف کی ایسی تعلیم ہے کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں آ سکتا.اور معقولات سے ایسی پُر ہے کہ ایک فلاسفر کو بھی اعتراض کا موقعہ نہیں ملتا مگر ان مسلمانوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا ہے اور اپنی طرف سے ایسی ایسی باتیں بنا کر قرآن شریف کی طرف منسوب کرتے ہیں جس سے قدم قدم پر اعتراض وارد ہوتا ہے اور ایسے دعاوی اپنی طرف سے کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں نہیں ہے اور وہ سراسر اس کے خلاف ہیں مثلاً اب یہی واقعہ صلیب کو دیکھو کہ اس میں کسقد رافتراء سے کام لیا گیا ہے اور قرآن کریم کی مخالفت کی گئی ہے اور یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے اور قرآن کے بھی برخلاف ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 451-450)
762 قرآن کریم کی صحیح تفسیر کے معیار سب سے اول معیار تغیر صحیح کا شواہد قرآنی ہیں یہ بات نہایت توجہ سے یاد رکھنی چاہیئے کہ قرآن کریم اور معمولی کتابوں کی طرح نہیں جو اپنی صداقتوں کے ثبوت یا انکشاف کے لئے دوسرے کا محتاج ہو.وہ ایک ایسی متناسب عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ ہلانے سے تمام عمارت کی شکل بگڑ جاتی ہے.اس کی کوئی صداقت ایسی نہیں ہے جو کم سے کم دس یا میں شاہد اس کے خود اسی میں موجود نہ ہوں سوا اگر ہم قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک معنے کریں تو ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ ان معنوں کی تصدیق کیلئے دوسرے شواہد قرآن کریم سے ملتے ہیں یا نہیں.اگر دوسرے شواہد دستیاب نہ ہوں بلکہ ان معنوں کی دوسری آیتوں سے صریح معارض پائے جاویں تو ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ وہ معنی بالکل باطل ہیں کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم میں اختلاف ہو اور بچے معنوں کی یہی نشانی ہے کہ قرآن کریم میں سے ایک لشکر شواہد بینہ کا اس کا مصدق ہو.دوسرا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن کے معنے سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ نبی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تفسیر ثابت ہو جائے.تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلا توقف اور بلا دغدغہ قبول کرے نہیں تو اسمیں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہوگی.تیسرا معیار صحابہ کی تفسیر ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت کے نوروں کو حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث تھے اور خدا تعالیٰ کا ان پر بڑا فضل تھا اور نصرت الہی ان کی قوت مدرکہ کے ساتھ تھی کیونکہ ان کو نہ صرف قال بلکہ حال تھا.چوتھا معیار خود اپنا نفس مطہر لے کر قرآن کریم میں غور کرنا ہے کیونکہ نفس مطہرہ سے قرآن کریم کو مناسبت ہے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے لا يمسه الا المطهرون (الواقعة: 80) یعنی قرآن کریم کے حقائق صرف ان پر کھلتے ہیں جو پاک دل ہوں.کیونکہ مظہر القلب انسان پر قرآن کریم کے پاک معارف بوجہ مناسبت کھل جاتے ہیں اور وہ ان کو شناخت کر لیتا ہے اور سونگھ لیتا ہے اور اس کا دل بول اٹھتا ہے کہ ہاں یہی راہ بچی ہے اور اس کا نور قلب سچائی کی پر کھ کے لئے ایک عمدہ معیار ہوتا ہے.پس جب تک انسان صاحب حال نہ ہو اور اس تنگ راہ سے گذرنے والا نہ ہو جس سے انبیاء علیہم السلام گذرے ہیں تب تک مناسب ہے کہ گستاخی اور تکبر کی جہت سے مفسر قرآن نہ بن بیٹھے ورنہ وہ تفسیر بالرائے ہوگی جس سے نبی علیہ السلام نے منع فرمایا ہے اور کہا کہ من فسـر الـقـران بــرائيـة فـاصاب فقد اخطاء یعنی جس نے صرف اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کی اور اپنے خیال میں اچھی کی تب بھی اس نے بری تفسیر کی.پانچواں معیار لغت عرب بھی ہے.لیکن قرآن کریم نے اپنے وسائل آپ اس قدر قائم کر دیئے ہیں کہ چنداں لغات عرب کی تفتیش کی حاجت نہیں ہاں موجب زیادت بصیرت بے شک ہے بلکہ بعض اوقات قرآن کریم کے اسرار مخفیہ کی طرف لغت کھودنے سے توجہ پیدا ہو جاتی ہے اور ایک بھید کی بات نکل آتی ہے.چھٹا معیار روحانی سلسلہ کے سمجھنے کے لئے سلسلہ جسمانی ہے کیونکہ خدا وند تعالیٰ کے دونوں سلسلوں میں بکلی تطابق ہے.
763 ساتواں معیار وحی ولایت اور مکاشفات محدثین ہیں.اور یہ معیار گویا تمام معیاروں پر حاوی ہے کیونکہ صاحب وحی محد ثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہمرنگ ہوتا ہے اور بغیر نبوت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں اور اس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ اس پر وہ سب امور بطور انعام واکرام کے وارد ہو جاتے ہیں جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں.سو اس کا بیان محض انکلیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے اور سنکر بولتا ہے اور یہ راہ اس امت کے لئے کھلی ہے ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ وارث حقیقی کوئی نہ رہے اور ایک شخص جو دنیا کا کیڑا اور دنیا کے جاہ و جلال اور تنگ و ناموس میں مبتلا ہے وہی وارث علم نبوت ہو کیونکہ خدا تعالیٰ وعدہ کر چکا ہے کہ بجو مطہرین کے علم نبوت کسی کو نہیں دیا جائیگا بلکہ یہ تو اس پاک علم سے بازی کرتا ہے کہ ہر ایک شخص باوجود اپنی آلودہ حالت کے وارث النبی ہونے کا دعویٰ کرے.(برکات الدعاء.ر.خ.جلد 6 صفحہ 17-21) قرآن کریم کی غلط تفسیر آیت إِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُونَ (المومنون: 19) میں 1857ء کی طرف اشارہ ہے جس میں ہندوستان میں ایک مفسدہ عظیم ہو کر آثار باقیہ اسلامی سلطنت کے ملک ہند سے نا پید ہو گئے تھے کیونکہ اس آیت کے اعداد بحساب جمل 1274 ہیں اور 1274 کے زمانہ کو جب عیسوی تاریخ میں دیکھنا چاہیں تو 1857ء ہوتا ہے.سو در حقیقت ضعف اسلام کا زمانہ ابتدائی یہی 1857ء ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ آیت موصوفہ بالا میں فرماتا ہے کہ جب وہ زمانہ آئے گا تو قرآن زمین پر سے اٹھایا جائے گا سو ایسا ہی 1857ء میں مسلمانوں کی حالت ہو گئی تھی پس اس حکیم و علیم کا قرآن کریم میں یہ بیان فرمانا کہ 1857ء میں میرا کلام آسمان پر اٹھایا جائے گا یہی معنے رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے کتاب الہی کی غلط تفسیروں نے انہیں بہت خراب کیا ہے اور ان کے دل اور دماغی قومی پر بہت برا اثران سے پڑا ہے اس زمانہ میں بلاشبہ کتاب الہی کے لئے ضروری ہے کہ اس کی ایک نئی اور صحیح تفسیر کی جائے کیونکہ حال میں جن تغییروں کی تعلیم دی جاتی ہے وہ نہ اخلاقی حالت کو درست کر سکتی ہیں اور نہ ایمانی حالت پر نیک اثر ڈالتی ہیں بلکہ فطرتی سعادت اور نیک روشنی کے مزاحم ہورہی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دراصل اپنے اکثر زوائد کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم نہیں ہے.قرآنی تعلیم ایسے لوگوں کے دلوں سے مٹ گئی ہے کہ گویا قرآن آسمان پر اٹھایا گیا ہے.وہ ایمان جو قرآن نے سکھلایا تھا اس سے لوگ بے خبر ہیں.وہ عرفان جو قرآن نے بخشا تھا اس سے لوگ غافل ہو گئے ہیں.ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر تا.انہیں معنوں سے کہا گیا ہے کہ آخری زمانے میں قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گا پھر انہیں حدیثوں میں لکھا ہے کہ پھر دوبارہ قرآن کو زمین پر لانے والا ایک مرد فارسی الاصل ہوگا جیسا کہ فرمایا ہے لو كان الايمان معلقا عند الثريا لناله رجل من فارس یہ حدیث در حقیقت اسی زمانہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو آیت انا علی ذهاب به لقدرون میں اشارہ بیان کیا گیا ہے.(ازالہ اوھام -ر خ- جلد3 صفحہ 489-493 حاشیہ )
764 قُلْ اِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى.(الانعام:72) الہام حضرت اقدس قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدی ان کو کہدے کہ تمہارے خیالات کیا چیز ہیں ہدایت وہی ہے جو خدا تعالیٰ براہ راست آپ دیتا ہے ورنہ انسان اپنے غلط اجتہادات سے کتاب اللہ کے معنی بگاڑ دیتا ہے اور کچھ کا کچھ سمجھ لیتا ہے.وہ خدا ہی ہے جو غلطی نہیں کھاتا لہذا ہدایت اس کی ہدایت ہے انسانوں کے اپنے خیالی معنے بھروسے کے لائق نہیں ہیں.( براھین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 87-88) تفسیر قرآن کی حدود اور تدبر فی القرآن وَاقْصِد فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ انْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوتُ الْحَمِيرِ.(لقمن: 20) ہمارا مطلب و مدعا یہ ہے کہ ایسے امور کی موشگافی اور تہ بینی کی امید سے اپنی عقلوں اور فکروں کو آوارہ مت کرو جو تمہاری بساط سے باہر ہیں.کیا یہ سچ نہیں کہ بہتیرے ایسے لوگ ہیں کہ ناجائز فکروں میں پڑ کر اپنی اس معین اور مقرر وسعت سے جو قدرت نے ان کو دے رکھی ہے باہر چلے جاتے ہیں اور اپنی محدود عقل سے کل کائنات کے عمیق در عمیق رازوں کو حل کرنا چاہتے ہیں.سو یہ افراط ہے جیسے بکلی تحقیق و تفتیش سے منہ پھیر لینا تفریط ہے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَاقْصِدُ فِی مَشْیک یعنی اپنی چال میں تو سط اختیار کر نہ ایسا فکر کومنجمد کر لینا چاہیئے کہ جو ہزار ہا نکات و لطائف الہیات قابل دریافت ہیں ان کی تحصیل سے محروم رہ جائیں اور نہ اس قدر تیزی کرنی چاہیئے کہ ان فکروں میں پڑ جائیں کہ خدائے تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے اور یا اس نے اس قد رارواح اور اجسام کس طرح بنالئے ہیں اور یا اس نے کیونکر اکیلا ہونے کی حالت میں اس قدر وسیع عالم بنا ڈالا ہے.تفسیر نویسی سرمه چشم آریہ.ر.خ.جلد 2 صفحہ 166-167) تفسیر قرآن اور تائید روح القدس اس بات کا ذکر آیا کہ آج کل لوگ بغیر بے علم اور واقفیت کے تفسیریں لکھنے بیٹھ جاتے ہیں.اس پر فرمایا: و تفسیر قرآن میں دخل دینا بہت نازک امر ہے.مبارک اور سچا دخل اس کا ہے جو روح القدس سے مدد لے کر دخل دے اور نہ علوم مروجہ کا لکھناد نیا داروں کی چالاکیاں ہیں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 505)
765 تفسیر قرآن واقعات اور موقعہ کے مطابق ہونی چاہیئے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ اس امر کے اظہار کے واسطے کافی ہے کہ یہ کل دنیا کی زمینی طاقتوں کو زیر پا کریں گی ورنہ اس کے سوا اور کیا معنے ہیں.کیا یہ تو میں دیواروں اور ٹیلوں کو کودتی اور پھاندتی پھریں گی.نہیں بلکہ اس کے یہی معنے ہیں کہ وہ دنیا کی کل ریاستوں اور سلطنتوں کو زیر پا کرلیں گی اور کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہ کر سکے گی.واقعات جس امر کی تفسیر کریں وہی تغییر ٹھیک ہوا کرتی ہے.اس آیت کے معنے خدا تعالیٰ نے واقعات سے بتا دیئے ہیں.ان کے مقابلہ میں اگر کسی قسم کی سیفی قوت کی ضرورت ہوتی تو اب جیسے کہ بظاہر اسلامی دنیا کے امیدوں کے آخری دن ہیں چاہیئے تھا کہ اہل اسلام کی سیفی طاقت بڑھی ہوئی ہوتی اور اسلامی سلطنتیں تمام دنیا پر غلبہ پاتیں اور کوئی ان کے مقابل پر ٹھہر نہ سکتا مگر اب تو معاملہ اس کے برخلاف نظر آتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور تمہید یا عنوان کے یہ زمانہ ہے کہ ان کی فتح اور ان کا غلبہ دنیوی ہتھیاروں سے نہیں ہو سکے گا بلکہ ان کے واسطے آسمانی طاقت کام کرے گی جس کا ذریعہ دعا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 191) إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا.وَاَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا وَ قَالَ الْإِنْسَانُ مَالَهَا.(الزلزال:2-4) آیت موصوفہ میں صاف لکھا ہے کہ انسان کہیں گے کہ زمین کو کیا ہو گیا.پھر اگر حقیقتا یہی بات سچ ہے کہ زمین نہایت شدید زلزلوں کے ساتھ زیر و زبر ہو جائے گی تو انسان کہاں ہو گا جو زمین سے سوال کرے گا تو وہ پہلے ہی زلزلہ کے ساتھ زاویہ عدم میں مخفی ہو جائے گا.علوم حسیہ کا تو کسی طرح انکار نہیں ہو سکتا.پس ایسے معنے کرنا جو بیداہت باطل اور قرائن موجودہ کے مخالف ہوں گویا اسلام سے ہنسی کرانا اور مخالفین کو اعتراض کے لئے موقع دینا ہے پس واقعی اور حقیقی معنے یہی ہیں جو ابھی ہم نے بیان کئے.شہادت القرآن-رخ- جلد 6 صفحہ 316-315) قرآن کل دنیا کی صداقتوں کا مجموعہ ہے اور سب دین کی کتابوں کا فخر ہے جیسے فرمایا ہے فِيهَا كُتُب قَيِّمَةٌ اور يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً (البينة: 3) پس قرآن کریم کے معنی کرتے وقت خارجی قصوں کو نہ لیں بلکہ واقعات کو مد نظر رکھنا چاہیئے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 388)
766 تفسیر قرآن اور سنت رسول فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوُا ءِ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ.(هود: 113) رسول اللہ صل اللہ علیہ وسل کو دیکھو صرف اس ایک حکم نے کہ فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ نے ہی بوڑھا کر دیا.کس قدر احساس موت ہے.آپ کی یہ حالت کیوں ہوئی صرف اس لئے کہ تاہم اس سے سبق لیں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہادی کامل اور پھر قیامت تک کے لئے اور اس پر کل دنیا کے لئے مقررفرمایا مگر آپ کی زندگی کے کل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں.جس طرح پر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہے اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو و یا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے.ر یو یو آف ریجنز جلد سوم صفحہ 11 بابت ماہ جنوری 1904) ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اور سنت الگ چیز.سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادت اللہ یہی ہے کہ انبیا علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لیے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تغییر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے.اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصوں کے رنگ میں آنحضرت سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کیے گئے ہیں.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی - ر- خ - جلد 19 صفحہ 209-210)
767 تفسیر قرآن - فرمودات قرآن حدیث اور لغت عرب کے مطابق ہونی ضروری ہے موجودہ حالت میں میرا دل گوارا نہیں کر سکتا کہ میں قرآن شریف کے ایسے معنے کروں جو خود قرآن شریف اور لغت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کے خلاف ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک شان کا باعث ہوں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 160 ) اول یہ کہ وہ اسلام کے مقابل پر ان بیہودہ روایات اور بے اصل حکایات سے مجتنب رہیں جو ہماری مسلم اور مقبول کتابوں میں موجود نہیں اور ہمارے عقیدہ میں داخل نہیں اور نیز قرآن کے معنی اپنے طرف سے نہ گھڑ لیا کریں بلکہ وہی معنی کریں جو تو اتر آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں اور پادری صاحبان اگر چه انجیل کے معنے کرنے کے وقت ہر یک بے قیدی کے مجاز ہوں.مگر ہم مجاز نہیں ہیں اور انہیں یا د رکھنا چاہیئے کہ ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے معصیت عظیمہ ہے قرآن کی کسی آیت کے معنی اگر کریں تو اس طور سے کرنے چاہیئے کہ دوسری قرآنی آئتیں ان معنوں کی موید اور مفسر ہوں اختلاف اور تناقض پیدا نہ ہو.کیونکہ قرآن کی بعض آیتیں بعض کے لئے بطور تفسیر کے ہیں اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی بھی انہیں معنوں کی مفسر ہو کیونکہ جس پاک اور کامل نبی پر قرآن نازل ہوا وہ سب سے بہتر قرآن شریف کے معنی جانتا ہے.غرض اتم اور اکمل طریق معنے کرنے کا تو یہ ہے لیکن اگر کسی آیت کے بارے میں حدیث صحیح مرفوع متصل نہ مل سکے تو ادنے درجہ استدلال کا یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت کے معنی دوسری آیات بینات سے کئے جاویں.لیکن ہرگز یہ درست نہیں ہوگا کہ بغیر ان دونوں قسم کے التزام کے اپنے ہی خیال اور رائے سے معنی کریں کاش اگر پادری عمادالدین وغیرہ اس طریق کا التزام کرتے تو نہ آپ ہلاک ہوتے اور نہ دوسروں کی ہلاکت کا موجب ٹھہرتے.(آریہ دھرم -ر خ- جلد 10 صفحہ 81-80 حاشیہ ) قرآن اپنی تفسیر آپ کرتا ہے قرآن کی تفسیر کے متعلق فرمایا کہ خدا کے کلام کے صحیح معنی تب سمجھ میں آتے ہیں کہ اس کے تمام رشتہ کی سمجھ ہو جیسے قرآن شریف کی نسبت ہے کہ اس کا بعض حصہ بعض کی تفسیر کرتا ہے.اس کے سوا جو اور کلام ہو گا وہ تو اپنا کلام ہوگا.دیکھا گیا ہے کہ بعض وقت ایک آیت کے معنے کرنے کے وقت دوسو آیتیں شامل ہوتی ہیں.ایجادی معنے کرنے والوں کا منہ اس سے بند ہو جاتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 170 )
768 اور پھر فرماتا ہے.اللہ نزل احسن الحديث كتابا متشابها مثاني تقشعر منه جلود الذين يخشون ربهم ثم تلين جلودهم و قلوبهم الى ذكر الله (الزمر: 24).....اب ان تمام محامد سے جو قرآن کریم اپنی نسبت بیان فرماتا ہے صاف اور صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد عظیمہ کی آپ تفسیر فرماتا ہے.اور اسکی بعض آیات بعض کی تفسیر واقع ہیں یہ نہیں کہ وہ اپنی تفسیر میں بھی حدیثوں کا محتاج ہے.بلکہ صرف ایسے امور جو سلسلہ تعامل کے محتاج تھے وہ اسی سلسلہ کے حوالہ کر دئیے گئے ہیں اور ماسوا ان امور کے جس قدرا مور تھے انکی تفسیر بھی قرآن کریم میں موجود ہے.ہاں باوجود اس تفسیر کے حدیثوں کے رو سے بھی عوام کے سمجھانے کیلئے جو لا یمسہ کے گروہ میں داخل ہیں زیادہ تر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے.لیکن جو اس امت میں الا المطهرون کا گروہ ہے.وہ قرآن کریم کی اپنی تفسیروں سے کامل طور پر فائدہ حاصل کرتا ہے لیکن اس کا زیادہ لکھنا چنداں ضروری نہیں.الحق - بحث لدھانہ جلد 4 صفحہ 38-37) اور پھر فرماتا ہے.اللہ نزل احسن الـحـديـث كتـابـا متسابها مثاني تقشعر منه جلود الذين يخشون ربهم ثم تلين جلودهم و قلوبهم الى ذكر الله (الزمر : 24) یعنی ذالک الکتب کتاب متشابه يشبه بعضه بعضاليس فيه تناقض ولا اختلاف مثنى فيه كل ذكر ليكون بعض الذكر تفسيرا لبعضه.ترجمہ :.یعنے یہ کتاب متشابہ ہے جسکی آیتیں اور مضامین ایکدوسرے سے ملتے جلتے ہیں انمیں کوئی تناقص اور اختلاف نہیں ہر ذکر اور وعظ آسمیں دو ہر دو ہرا کر بیان کی گئی ہے جس سے غرض یہ ہے کہ ایک مقام کا ذکر دوسرے مقام کے ذکر کی تفسیر ہو جائے.الحق بحث لدھیانہ.ر.خ.جلد 4 صفحہ 38-37) اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہیئے کہ قرآن شریف کے بعض حصہ دوسرے کی تفسیر اور شرح ہیں ایک جگہ ایک امر بطریق اجمال بیان کیا جاتا ہے اور دوسری جگہ وہی امر کھول کر بیان کر دیا گیا ہے گویا دوسرا پہلے کی تفسیر ہے.پس اس جگہ جو یہ فرمایا.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ تو یہ بطریق اجمال ہے لیکن دوسرے مقام پر منعم علیہم کی خود ہی تفسیر کر دی ہے مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ (النساء: 70 ) منعم علیہ چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں نبی.صدیق.شہدا اور صالح.انبیاء علیہم السلام میں چاروں شانیں جمع ہوتی ہیں کیونکہ یہ اعلی کمال ہے.ہر ایک انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کمالات کے حاصل کرنے کے لیے جہاں مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے اس طریق پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھایا ہے کوشش کرے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 236) یہودیوں کی کارستانیوں کا نمونہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ انہوں نے کلام الہی میں تحریف اور الحاد اختیار کر کے کیا نام رکھا یا قرآن کریم کی کسی آیت کے ایسے معنے کرنے چاہیئے کہ جو صد ہا دوسری آیات سے جو اسکی تصدیق کیلئے کھڑی ہوں مطابق ہوں اور دل مطمئن ہو جائے اور بول اٹھے کہ ہاں یہی منشاء اللہ جل شانہ کا اسکے پاک کلام میں سے یقینی طور سے ظاہر ہوتا ہے.یہ سخت گناہ اور معصیت کا کام ہے کہ ہم قرآن کریم کی ایسی دور از حقیقت تاویلیں کریں کہ گویا ہم اسکے عیب کی پردہ پوشی کر رہے ہیں یا اسکو وہ باتیں جتلا رہے ہیں جو اسکو معلوم نہیں تھیں.آئینہ کمالات اسلام - ر-خ- جلد 5 صفحہ 229 حاشیہ )
769 اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا کہ اس کی تفصیل بعض آیت کی بعض آیت سے ہوتی ہے اول کی تفسیر یہ ہے کہ كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُن مَّعَهُ شَيْءٌ آخِرَ کے معنے کے كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ.ہم تو انہی معنوں کو پسند کرتے ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 334) ہیں جو خدا نے بتلائے ہیں.قرآن لانے والا وہ شان رکھتا ہے کہ يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البينة: (4) الى کتاب جس میں ساری کتابیں اور ساری صداقتیں موجود ہیں.کتاب سے مراد اور عام مفہوم وہ عمدہ باتیں ہیں جو بالطبع انسان قابل تقلید سمجھتا ہے.قرآن شریف ایسی حکمتوں اور معارف کا جامع ہے اور رطب و یابس کا ذخیرہ اس کے اندر نہیں.ہر ایک چیز کی تفسیر وہ خود کرتا ہے اور ہر ایک قسم کی ضرورتوں کا سامان اس کے اندر موجود ہے.وہ ہر پہلو سے نشان اور آیت ہے.اگر کوئی انکار کرے تو ہم ہر پہلو سے اس کا اعجاز ثابت کرنے اور دکھلانے کو تیار ہیں.(ملفوظات جلد اول صفحہ 52,51) سب سے اول معیار تفسیر صحیح کا شواہد قرآنی ہیں.یہ بات نہایت توجہ سے یا د رکھنی چاہیئے کہ قرآن کریم اور معمولی کتابوں کی طرح نہیں جو اپنی صداقتوں کے ثبوت یا انکشاف کے لئے دوسرے کا محتاج ہو.وہ ایک ایسی متناسب عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ ہلانے سے تمام عمارت کی شکل بگڑ جاتی ہے.اس کی کوئی صداقت ایسی نہیں ہے جو کم سے کم دس یا ہمیں شاہد اس کے خود اسی میں موجود نہ ہوں.سواگر ہم قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک معنے کریں تو ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ ان معنوں کی تصدیق کیلئے دوسرے شواہد قرآن کریم سے ملتے ہیں یا نہیں.اگر دوسرے شواہد دستیاب نہ ہوں بلکہ ان معنوں کی دوسری آیتوں سے صریح معارض پائے جاویں تو ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ وہ معنی بالکل باطل ہیں کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم میں اختلاف ہو اور بچے معنوں کی یہی نشانی ہے کہ قرآن کریم میں سے ایک لشکر شواہد بینہ کا اس کا مصداق ہو.( برکات الدعاء.ر.خ.جلد 6 صفحہ 18-17 ) سیاق و سباق آیت کے مطابق معانی جو شخص قرآن کریم کی اسالیب کلام کو بخوبی جانتا ہے اسپر یہ پوشیدہ نہیں کہ بعض اوقات وہ کریم و رحیم جلشانہ اپنے خواص عباد کے لئے ایسا لفظ استعمال کر دیتا ہے کہ بظاہر بدنما ہوتا ہے مگر معنا نہایت محمود اور تعریف کا کلمہ ہوتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے نبی کریم کے حق میں فرمایا.وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَھدی اب ظاہر ہے کہ ضال کے معنے مشہور اور متعارف جو اہل لغت کے منہ پر چڑھے ہوئے ہیں گمراہ کے ہیں جس کے اعتبار سے آیت کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے (اے رسول اللہ ) تجھ کو گمراہ پایا اور ہدایت دی.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گمراہ نہیں ہوئے اور جو شخص مسلمان ہو کر یہ اعتقاد رکھے کہ کبھی آنحضرت صلعم نے اپنی عمر میں ضلالت کا عمل کیا تھا تو وہ کا فربے دین اور حد شرعی کے لائق ہے بلکہ آیت کے اس جگہ وہ معنی لینے چاہیئے جو آیت کے سیاق اور سباق سے ملتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے پہلے آنحضرت صلعم کی نسبت فرمایا.الـمُ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَاوَى وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدَى وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَاغْنى.(الضحى: 7-9) یعنی خدا تعالیٰ نے تجھے یتیم اور بیکس پایا اور اپنے پاس جگہ دی اور تجھ کو ضال ( یعنی عاشق وجہ اللہ ) پایا.پس اپنی طرف کھینچ لایا اور تجھے درویش پایا پس غنی کر دیا.ان معنوں کی صحت پر یہ ذیل کی آیتیں قرینہ ہیں جو انکے بعد آتی ہیں یعنی یہ کہ فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرُ وَ أَمَّا
770 السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرُ وَ أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ.(الضحی : 10-12) کیونکہ یہ تمام آیتیں لف نشر مرتب کے طور پر ہیں اور پہلی آیتوں میں جو مدعا مخفی ہے دوسری آیتیں اسکی تفصیل اور تصریح کرتی ہیں مثلاً پہلے فرمایا.الَم يَجِدُكَ يَتِيما فاوی اس کے مقابل پر یہ فرمایا.فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرُ یعنی یاد کر کہ تو بھی یتیم تھا اور ہم نے تجھ کو پناہ دی ایسا ہی تو بھی یتیموں کو پناہ دے.پھر بعد اس آیت کے فرمایا.وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدی اس کے مقابل پر یہ فرمایا.وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرُ یعنے یاد کر کہ تو ہمارے وصال اور جمال کا سائل اور ہمارے حقائق اور معارف کا طالب تھا سوجیسا کہ ہم نے باپ کی جگہ ہو کر تیری جسمانی پرورش کی ایسا ہی ہم نے استاد کی جگہ ہو کر تمام دروازے علوم کے تجھ پر کھولد ئیے اور اپنے لقا کا شربت سب سے زیادہ عطا فر مایا اور جو تو نے مانگا سب ہم نے تجھ کو دیا سوتو بھی مانگنے والوں کو ر ڈ مت کر اور انکومت جھڑک اور یاد کر کہ تو عائل تھا اور تیری معیشت کے ظاہری اسباب بکلی منقطع تھے سوخدا خود تیرا متولی ہوا اور غیروں کیطرف حاجت لیجانے سے مجھے غنی کر دیا.نہ تو والد کا محتاج ہوانہ والدہ کا نہ استاد کا اور نہ کسی غیر کیطرف حاجت لیجانے کا بلکہ یہ سارے کام تیرے خدا تعالیٰ نے آپ ہی کر دیئے اور پیدا ہوتے ہی اس نے تجھ کو آپ سنبھال لیا.سو اس کو شکر بجالا اور ہاجتمندوں سے تو بھی ایسا ہی معاملہ کر.اب ان تمام آیات کا مقابلہ کر کے صاف طور پر کھلتا ہے کہ اس جگہ ضال کے معنے گمراہ نہیں ہے بلکہ انتہائی درجہ کے تعشق کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ حضرت یعقوب کی نسبت اسی کے مناسب یہ آیت ہے.اِنَّكَ لَفِی ضَلالِكَ الْقَدِيمِ (يوسف: 96) سويه دونوں لفظ ظلم اور ضلالت اگر چہ ان معنوں پر بھی آتے ہیں کہ کوئی شخص جادہ اعتدال اور انصاف کو چھوڑ کر اپنے شہوات غصبیہ یا بہیمیہ کا تابع ہو جاوے.لیکن قرآن کریم میں عشاق کے حق میں بھی آئے ہیں جو خدا تعالیٰ کے راہ میں عشق کی مستی میں اپنے نفس اور ا سکے جذبات کو پیروں کے نیچے پھل دیتے ہیں.اسی کے مطابق حافظ شیرازی کا یہ شعر ہے.آسمان بار امانت نتوانست کشید قرعه فال بنام من دیوانه زدند اس دیوانگی سے حافظ صاحب حالت تعشق اور شدت حرص اطاعت مراد لیتے ہیں.( ترجمه: - آسمان محبت الہی کے بوجھ کو برداشت نہ کر سکا تو قرعہ فال مجھے دیوانے کے نام پر نکلا ) ( آئینہ کمالات اسلام -ر خ- جلد 5 صفحہ 170-173 ) انَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا (الفتح : 2-3) یہ آیت فتح مکہ کے وقت اتری...عیسائی اس آیت کا اس طرح ترجمہ کرتے ہیں ” ہم نے تجھے ایک صریح فتح دی تا کہ ہم تیرے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کریں.یہ معنے بالصراحت غلط ہیں کیونکہ اس آیت کا ربط ہی بگڑ جاتا ہے.ایک فتح کو گناہ کی معافی سے کیا تعلق ہے گناہوں کی معافی فتح کا کوئی نتیجہ نہیں ہوسکتا.یہاں لفظ ذنب سے وہ عیب مراد ہیں.کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا کرتے تھے کہ یہ شخص مفتری اور جھوٹا ہے.خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح دی جو کہ آپ کی صداقت کی علامت تھی اور اس طرح خداوند تعالیٰ نے آنحضرت کو فتح دے کر ان تمام الزاموں کو دور کر دیا جو کفار آنحضرت صلعم کی طرف منسوب کیا کرتے تھے.خدائے تعالیٰ نے آپ کے سلسلہ کو پوری کامیابی دی اور آپ کے دشمنوں کو ہلاک کیا اور اس طرح آپ کی سچائی کی شہادت دی.ربط کلام ان معنوں کی تائید کرتا ہے.ریویو آف ریجنز جلد دوم نمبر 6 صفحه 244 ماه جون 1903 )
771 معانی و آیات میں باہم معنوی اختلاف نہ ہو.أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ، وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا.(النساء: 83) فاشار في هذه الاية ان الاختلاف لا يوجد في القرآن و هو كتاب الله و شانه ارفع من هذا و اذ اثبت ان كتاب الله منزه عن الاختلافات فوجب علينا ان لا نختار في تفسيره طريقا يوجب التعارض والتناقض.(حمامتہ البشری.رخ.جلد 7 صفحہ 256 حاشیہ الف) (ترجمہ) اس آیت میں (اللہ تعالیٰ نے ) اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآن مجید میں اختلاف نہیں پایا جاتا اور وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اللہ کی شان ایسے امور سے بالا ہے اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ قرآن مجید اختلافات سے پاک ہے تو ہم پر واجب ہے کہ اس کی تفسیر کرتے وقت ہم کوئی ایسا طریق اختیار نہ کریں جو تعارض اور تناقض کا موجب ہو.اگر وحی نبوت میں کبھی کچھ بیان ہو اور کبھی کچھ تو اس سے امان اٹھ جاتا ہے (ایام الصلح.ر.خ.جلد 14 صفحہ 409) یعنی کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے اور اگر وہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پایا جاتا اور ظاہر ہے کہ جس زمانہ میں قرآن شریف کی نسبت خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اس میں اختلاف نہیں تو اس زمانہ کے لوگوں کا حق تھا کہ اگر ان کے نزدیک کوئی اختلاف ہوتا تو وہ پیش کرتے.مگر سب ساکت ہو گئے اور کسی نے دم نہ مارا اور اختلاف کیونکہ اور کہاں سے ممکن ہے جس حالت میں تمام احکام ایک ہی مرکز کے گردگھوم رہے ہیں یعنی علمی اور عملی رنگ میں اور درشتی اور نرمی کے پیرایہ میں خدا کی توحید پر قائم کرنا اور ہوا و ہوس چھوڑ کر خدا کی توحید کی طرف کھینچنا یہی قرآن کا مدعا ہے.ہم علی وجہ البصیرت یقین رکھتے ہیں کہ توفی کے معنی لغت عرب میں نہ کلام خدا اور رسول میں ہرگز مع جسم عنصری اٹھائے جانے کے نہیں ہیں.تمام قرآن شریف کو یکجائی نظر سے دیکھنا چاہیئے قرآن خدائے علیم و خبیر کی طرف سے کامل علم اور حکمت سے نازل کیا گیا ہے اس میں اختلاف ہرگز نہیں.بعض آیات بعض کی تفسیر واقع ہوئی ہیں اگر ایک متشابہات ہیں تو دوسری محکمات ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 599) چشمه معرفت - ر- خ - جلد 23 صفحہ 198 )
772 إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَ النَّصْرَى وَالصَّبِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(البقرة: 63) یعنی جو لوگ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور جو لوگ یہود و نصاری اور ستارہ پرست ہیں جو شخص ان میں سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور اعمال صالحہ بجالائے گا خدا اس کو ضائع نہیں کر یگا اور ایسے لوگوں کا اجران کے رب کے پاس ہے اور ان کو کچھ خوف نہیں ہوگا اور نہ غم.یہ آیت ہے جس سے باعث نادانی اور کج فہمی یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی کچھ ضرورت نہیں نہایت افسوس کا مقام ہے کہ یہ لوگ اپنے نفس امارہ کے پیرو ہو کر حکمات اور بینات قرآنی کی مخالفت کرتے اور اسلام سے خارج ہونے کے لیے متشابہات کی پناہ ڈھونڈتے ہیں.ان کو یاد رہے کہ اس آیت سے وہ کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور آخرت پر ایمان لانا اس بات کو مستلزم پڑا ہوا ہے کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا جائے وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اللہ کے نام کی قرآن شریف میں یہ تعریف کی ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو رب العالمین اور رحمن اور رحیم ہے جس نے زمین اور آسمان کو چھ دن میں بنایا اور آدم کو پیدا کیا اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب کے آخر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل ہے.اور یوم آخر قرآن شریف کی رو سے یہ ہے جس میں مردے جی اٹھیں گے اور پھر ایک فریق بہشت میں داخل کیا جائے گا جو جسمانی اور روحانی نعمت کی جگہ ہے.اور ایک فریق دوزخ میں داخل کیا جاوے گا جو روحانی اور جسمانی عذاب کی جگہ ہے.اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس یوم آخر پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جو اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں.پس جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود لفظ اللہ اور یوم آخر کے بتفریح ایسے معنی کر دیئے جو اسلام سے مخصوص ہیں تو جو س اللہ پر ایمان لائے گا اور یوم آخر پر ایمان لائے گا اس کے لئے یہ لازمی امر ہوگا کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاوے اور کسی کا اختیار نہیں ہے کہ ان معنوں کو بدل ڈالے اور ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ایسے معنے ایجاد کریں کہ جو قرآن شریف کے بیان کردہ معنوں سے مغائر اور مخالف ہوں ہم نے اوّل سے آخر تک قرآن شریف کو غور سے دیکھا ہے اور توجہ سے دیکھا.اور بار بار دیکھا اور اس کے معنی میں خوب تدبر کیا ہے ہمیں بدیہی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف میں جس قدر صفات اور افعال الہیہ کا ذکر ہے ان سب صفات کا موصوف اسم اللہ ٹھہرایا گیا ہے مثلاً کہا گیا ہے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ایسا ہی اس قسم کی اور بہت سی آیات ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے قرآن اتارا.اللہ وہ ہے جس نے محمد رسول اللہ
773 صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا.پس جبکہ قرآنی اصطلاح میں اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان لاوے تبھی اس کا ایمان معتبر اور صحیح سمجھا جائے گا.جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاوے.خدا تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ مَنْ آمَنَ بِالرَّحْمَنِ یا مَنْ آمَنَ بِالرَّحِيمِ يَا مَنْ آمَنَ بِالْكَرِيمِ بلکہ یہ فرمایا کہ مَنْ آمَنَ بِاللهِ اور اللہ سے مراد وہ ذات ہے جو مجمع جمیع صفات کا ملہ ہے اور ایک عظیم الشان صفت اس کی یہ ہے کہ اس نے قرآن شریف کوا تارا.اس صورت میں ہم صرف ایسے شخص کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان لایا جبکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا ہو اور قرآن شریف پر بھی ایمان لایا ہوا اگر کوئی کہے کہ پھر اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا کے کیا معنی ہوئے تو یادر ہے کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جو لوگ محض خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان معتبر نہیں ہے جب تک خدا کے رسول پر ایمان نہ لاویں یا جب تک اس ایمان کو کامل نہ کریں.اس بات کو یا درکھنا چاہئے کہ قرآن شریف میں اختلاف نہیں ہے پس یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ صدہا آیتوں میں تو خدا تعالیٰ یہ فرمادے کہ صرف تو حید کافی نہیں ہے.بلکہ اس کے نبی پر ایمان لانا نجات کے لیے ضروری ہے بجز اس صورت کے کہ کوئی اس نبی سے بغیر رہا ہو اور پھر کسی ایک آیت میں برخلاف اس کے یہ بتلا دے کہ صرف توحید سے ہی نجات ہو سکتی ہے قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی کچھ ضرورت نہیں اور طرفہ یہ کہ اس آیت میں توحید کا ذکر بھی نہیں اگر تو حید مراد ہوتی تو یوں کہنا چاہیئے تھا کہ من آمَنَ بِالتَّوحِيدِ مگر آیت کا تو یہ لفظ ہے کہ مَنْ آمَنَ بِاللهِ پس آمَنَ بِاللہ کا فقرہ ہم پر یہ واجب کرتا ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ قرآن شریف میں اللہ کا لفظ کن معنوں پر آتا ہے.ہماری دیانت کا یہ تقاضا ہونا چاہیئے کہ جب ہمیں خود قرآن سے ہی یہ معلوم ہو کہ اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے قرآن بھیجا اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو ہم اسی معنی کو قبول کر لیں جو قرآن شریف نے بیان کیے اور خودروی اختیار نہ کریں.(حقیقۃ الوحی.رخ - جلد 22 صفحہ 144-147) قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُونَ (الاعراف: 26) زمین پر ہی تم زندگی بسر کرو گے.اب دیکھو اگر کوئی آسمان پر جا کر بھی کچھ حصہ زندگی کا بسر کرتا ہے تو اس سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے.(تحفہ گولڑویہ.ر.خ.جلد 17 صفحہ 90-91) قرآن شریف میں اول سے آخر تک جس جس جگہ تو فی کا لفظ آیا ہے ان تمام مقامات میں توفی کے معنی موت ہی لیے گئے ہیں.(ازالہ اوهام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 224 حاشیہ )
774 وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يُعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ.....الآخر (المائده: 117118) ہم علی وجہ البصیرت یقین رکھتے ہیں کہ توفی کے معنی لغت عرب میں اور کلام خدا اور رسول میں ہرگز مع جسم عصری اٹھائے جانے کے نہیں ہیں.تمام قرآن شریف کو یکجائی نظر سے دیکھنا چاہئے قرآن خدائے علیم وخبیر کی طرف سے کامل علم اور حکمت سے نازل کیا گیا ہے اس میں اختلاف ہر گز نہیں.بعض آیات بعض کی تفسیر واقع ہوئی ہیں اگر ایک متشابہات ہیں تو دوسری محکمات ہیں.جب یہی لفظ اور مقامات میں دوسرے انبیاء کے حق میں بھی وارد ہے تو اس کے معنے بجز موت کے اور کچھ نہیں لیے جاتے تو پھر نہ معلوم کہ کیوں حضرت مسیح کو ایسی خصوصیت دی جاتی ہے کیا ابھی تک مسیح کو خصوصیت دینے کا انہوں نے مزہ نہیں چکھا.( ملفوظات جلد پنچم صفحہ: 599) قرآن حکیم کی آیات محکمات و متشابہات ہیں هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ ايَتٌ مُّحْكَمْتُ هُنَّ أُمُّ الْكِتَبِ وَأَخَرُ مُتَشبِهتْ ، فَلَمَّا الَّذِيْنَ فِي قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ ، الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَاءَ تَأْوِيْلِهِ وَ مَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّسِحُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ امَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَايَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ.(آل عمران:8) ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اس حالت میں مان لینا جبکہ ابھی علم کمال تک نہیں پہنچا اور شکوک اور شبہات سے ہنوز لڑائی ہے پس جو شخص ایمان لاتا ہے یعنی با وجود کمزوری اور نہ مہیا ہونے کل اسباب یقین کے اس بات کو اغلب احتمال کی وجہ سے قبول کر لیتا ہے وہ حضرت احدیت میں صادق اور راستباز شمار کیا جاتا ہے اور پھر اس کو موہبت کے طور پر معرفت تامہ حاصل ہوتی ہے اور ایمان کے بعد عرفان کا جام اس کو پلایا جاتا ہے.اس لیے ایک مرد متقی رسولوں اور نبیوں اور مامورین من اللہ کی دعوت کو سن کر ہر ایک پہلو پر ابتداء امر میں ہی حملہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ حصہ جو کسی مامور من اللہ ہونے پر بعض صاف اور کھلے کھلے دلائل سے سمجھ آجاتا ہے اُسی کو اپنے اقرار اور ایمان کا ذریعہ ٹھہرا لیتا ہے اور وہ حصہ جو سمجھ میں نہیں آتا اس میں سنت صالحین کے طور پر استعارات اور مجازات قرار دیتا ہے اور اس طرح تناقض کو درمیان سے اٹھا کر صفائی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لے آتا ہے.تب خدا تعالیٰ اس کی حالت پر رحم کر کے اور اس کے ایمان پر راضی ہو کر اور اس کی دعاؤں کو سن کر معرفت تامہ کا دروازہ اس پر کھولتا ہے اور الہام اور
775 کشوف کے ذریعے سے اور دوسرے آسمانی نشانوں کے وسیلہ سے یقین کامل تک اس کو پہنچا تا ہے لیکن متعصب آدمی جو عناد سے پر ہوتا ہے ایسا نہیں کرتا اور وہ ان امور کو جو حق کے پہچاننے کا ذریعہ ہو سکتے ہیں تحقیر اور توہین کی نظر سے دیکھتا ہے اور ٹھٹھے اور جنسی میں ان کو اڑادیتا ہے اور وہ امور جو ہنوز اس پر مشتبہ ہیں ان کو اعتراض کرنے کی دستاویز بنا تا ہے اور ظالم طبع لوگ ہمیشہ ایسا ہی کرتے رہے ہیں.چنانچہ ظاہر ہے کہ ہر ایک نبی کی نسبت جو پہلے نبیوں نے پیشگوئیاں کیں ان کے ہمیشہ دو حصے ہوتے رہے ہیں.ایک بینات اور محکمات جن میں کوئی استعارہ نہ تھا اور کسی تاویل کی محتاج نہ تھیں اور ایک متشابہات جو محتاج تاویل تھیں اور بعض استعارات اور مجازات کے پردے میں محجوب تھیں پھر ان نبیوں کے ظہور اور بعثت کے وقت جو ان پیشگوؤں کے محتاج تھے دو فریق ہوتے رہے ہیں.ایک فریق سعیدوں کا جنہوں نے بینات کو دیکھ کر ایمان لانے ہیں تاخیر نہ کی اور جو حصہ متشابہات کا تھا اس کو استعارات اور مجازات کے رنگ میں سمجھ لیا آئندہ کے منتظر رہے اور اس طرح پر حق کو پالیا اور ٹھوکر نہ کھائی.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 475-474) تعریف آیات محکمات و متشابہات پھر یہ بھی واضح ہو کہ قرآن شریف میں دو قسم کی آیات ہیں ایک محکمات اور بینات جیسا کہ یہ آیت ان الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ اَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَ رُسُلِهِ وَ يَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا.أُولئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا.(النساء:152-151) یعنی جو لوگ ایسا ایمان لانا نہیں چاہتے جو خدا پر بھی ایمان لاوے اور اس کے رسول پر بھی اور چاہتے ہیں کہ خدا کو اس کے رسولوں سے علیحدہ کر دیں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں یعنی خدا پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں پر نہیں یا بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں اور ارادہ کرتے ہیں کہ بین بین راہ اختیار کر لیں یہی لوگ واقعی طور پر کافر اور پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے.یہ تو آیات محکمات ہیں جن کی ہم ایک بڑی تفصیل بھی لکھ چکے ہیں.دوسری قسم کی آیات متشابہات ہیں جن کے معنے باریک ہوتے ہیں اور جو لوگ راسخ فی العلم ہیں ان لوگوں کو ان کا علم دیا جاتا ہے اور جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ آیات محکمات کی کچھ پروا نہیں رکھتے اور متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور محکمات کی علامت یہ ہے کہ محکمات آیات خدا تعالیٰ کے کلام میں بکثرت موجود ہیں اور خدا تعالیٰ کا کلام ان سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور ان کے معنے کھلے کھلے ہوتے ہیں اور انکے نہ ماننے سے فسادلازم آتا ہے مثلاً اسی جگہ دیکھ لو کہ جو شخص محض خدا تعالے پر ایمان لاتا ہے اور اس کے رسولوں پر ایمان نہیں لاتا اس کو خدا تعالیٰ کی صفات سے منکر ہونا پڑتا ہے.مثلاً ہمارے زمانہ میں برہمو جو ایک نیا فرقہ ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں مگر نبیوں کو نہیں مانتے وہ خدا تعالیٰ کے کلام سے منکر ہیں اور ظاہر ہے اگر خدا تعالیٰ سنتا ہے تو بولتا بھی ہے.پس اگر اس کا بولنا ثابت نہیں تو سنا بھی ثابت نہیں.اس طرح پر ایسے لوگ صفات باری سے انکار کر کے
776 دہریوں کے رنگ میں ہو جاتے ہیں اور صفات باری جیسے ازلی ہیں ویسے ابدی بھی ہیں اور ان کو مشاہدہ کے طور پر دکھلانے والے محض انبیاء علیہم السلام ہیں اور نفی صفات باری نفی وجود باری کوستلزم ہے.اس تحقیق سے ثابت ہے کہ اللہ تعالے پر ایمان لانے کیلئے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا کس قدر ضروری ہے کہ بغیر ان کے خدا پر ایمان لا نا ناقص اور نا تمام رہ جاتا ہے اور نیز آیات محکمات کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ ان کی شہادت نہ محض کثرت آیات سے بلکہ عملی طور پر بھی ملتی ہے.یعنی خدا کے نبیوں کی متواتر شہادت ان کے بارہ میں پائی جاتی ہے جیسا کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف اور دوسرے نبیوں کی کتابوں کو دیکھے گا.اس کو معلوم ہوگا کہ نبیوں کی کتابوں میں جس طرح خدا پر ایمان لانے کی تاکید ہے ایسا ہی اسکے رسولوں پر بھی ایمان لانے کی تاکید ہے اور متشابہات کی یہ علامت ہے کہ ان کے ایسے معنی ماننے سے جو مخالف محکمات کے ہیں فساد لازم آتا ہے اور نیز دوسری آیات سے جو کثرت کے ساتھ ہیں مخالف پڑتی ہیں خدا تعالیٰ کے کلام میں تناقض ممکن نہیں اس لئے جو قلیل ہے بہر حال کثیر کے تابع کرنا پڑتا ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ.جلد 22 صفحہ 175-174) آیات متشابہات قلیل الوجود اور شاذ و نادر ہیں متواتر اور کثیر آیات قرآنیہ محکمات ہیں اس اشکال کا جواب یہی ہے کہ ایسے اعتراضات صرف بدظنی سے پیدا ہوتے ہیں.اگر کوئی حق کا طالب اور متقی طبع ہے تو اس کیلئے مناسب طریق یہ ہے کہ ان کاموں پر اپنی رائے ظاہر نہ کرے جو متشابہات میں سے اور بطور شاذ نادر ہیں کیونکہ شاذ نادر میں کئی وجوہ پیدا ہو سکتے ہیں.اور یہ فاسقوں کا طریق ہے کہ نکتہ چینی کے وقت میں اس پہلو کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے صدہا نظائر موجود ہیں.اور بدنیتی کے جوش سے ایک ایسے پہلو کو لے لیتے ہیں جو نہایت قلیل الوجود اور متشابہات کے حکم میں ہوتا ہے اور نہیں جانتے کہ یہ متشابہات کا پہلو جوشاذ نادر کے طور پر پاک لوگوں کے وجود میں پایا جاتا ہے یہ شریر انسانوں کے امتحان کے لئے رکھا گیا ہے اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اپنے پاک بندوں کا طریق اور عمل ہر ایک پہلو سے ایسا صاف اور روشن دکھلاتا.کہ شریر انسان کو اعتراض کی گنجائش نہ ہوتی.مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہ کیا تا وہ خبیث طبع انسانوں کا خبث ظاہر کرے.نبیوں اور رسولوں اور اولیاء کے کارناموں میں ہزار ہانمونے ان کی تقویٰ اور طہارت اور امانت اور دیانت اور صدق اور پاس عہد کے ہوتے ہیں.اور خود خدا تعالیٰ کی تائیدات ان کی پاک باطنی کی گواہ ہوتی ہیں.لیکن شریر انسان ان نمونوں کو نہیں دیکھتا اور بدی کی تلاش میں رہتا ہے.آخر وہ حصہ متشابہات کا جو قرآن شریف کی طرح اس کے نسخہ وجود میں بھی ہوتا ہے.مگر نہایت کم شریر انسان اسی کو اپنے اعتراض کا نشانہ بناتا ہے.اور اس طرح ہلاکت کی راہ اختیار کر کے جہنم میں جاتا ہے.تریاق القلوب - رخ - جلد 15 صفحہ 425-424 حاشیہ )
777 وَ إِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُوْنَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُوْنَ.(الانعام: 117) قرآن کریم کی محکمات اور بینات علم ہے اور مخالف قرآن کے جو کچھ ہے وہ وطن ہے اور جو شخص علم ہوتے ظن کا اتباع کرے وہ اس آیت کے نیچے داخل ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ.ر.خ.جلد 4 صفحہ 94) معانی قرآن آیات محکمات کے مطابق ہونے ضروری ہیں سوال (8).اگر چہ ہمارا ایمان ہے کہ نری خشک تو حید مدار نجات نہیں ہو سکتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے علیحدہ ہوکر کوئی عمل کرنا انسان کو ناجی نہیں بنا سکتا.لیکن طمانیت قلب کے لئے عرض پرداز ہیں کہ عبد الحکیم خان نے جو آیات لکھی ہیں انکا کیا مطلب ہے.مثلا ان الذين امنوا والذين هادوا و النصارى والصابئين من امن بالله واليوم الأخر و عمل صالحاً فلهم اجرهم عند ربهم (البقرة :63) اور جیسا کہ یہ آیت بلی من اسلم وجهه الله و هو محسن فله اجره عندربه (البقرة: 113) اور جیسا کہ یہ آیت تعالواالی سواء بيننا وبينكم الا نعبد الا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من كلمة دون الله.(آل عمران:65) الجواب.واضح ہو کہ قرآن شریف میں ان آیات کے ذکر کرنے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر اسکے جو رسول پر ایمان لایا جائے نجات ہو سکتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ بغیر اس کے کہ خدائے واحد لاشریک اور یوم آخرت پر ایمان لایا جاوے نجات نہیں ہو سکتی.اور اللہ پر پورا ایمان بھی ہوسکتا ہے کہ اسکے رسولوں پر ایمان لاوے.وجہ یہ کہ وہ اسکی صفات کے مظہر ہیں اور کسی چیز کا وجود بغیر وجود اسکی صفات کے بپائیہ ثبوت نہیں پہنچتا.لہذا بغیر علم صفات باری تعالیٰ کے معرفت باری تعالیٰ ناقص رہ جاتی ہے.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 173-172) قرآن شریف میں عادت اللہ ہے کہ بعض جگہ تفصیل ہوتی ہے اور بعض جگہ اجمال سے کام لیا جاتا ہے اور پڑھنے والے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ مجمل آیتوں کے ایسے طور سے معنی کرے کہ آیات مفصلہ سے مخالف نہ ہو جائیں.مثلاً خدا تعالیٰ نے تصریح سے فرما دیا کہ شرک نہیں بخشا جائیگا.مگر قرآن شریف کی یہ آیت کہ ان الله يـغـفـر الذنوب جميعا(الزمر:54) اس آیت سے مخالف معلوم ہوتی ہے جس میں لکھا ہے کہ شرک نہیں بخشا جائیگا.پس یہ الحاد ہو گا کہ اس آیت کے وہ معنی کئے جائیں کہ جو آیات محکمات بینات کے مخالف ہیں.(حقیقۃ الوحی.رخ.جلد 22 صفحہ 173 حاشیہ )
778 قرآن کو یکجائی نظر سے دیکھنا چاہیئے وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ الآخر (المائده: 118-117) ہم علی وجہ البصیرت یقین رکھتے ہیں کہ توفی کے معنی لغت عرب میں اور کلام خدا اور رسول میں ہرگز مع جسم عنصری اٹھائے جانے کے نہیں ہیں.تمام قرآن شریف کو یکجائی نظر سے دیکھنا چاہیئے قرآن خدائے علیم وخبیر کی طرف سے کامل علم اور حکمت سے نازل کیا گیا ہے اس میں اختلاف ہر گز نہیں.بعض آیات بعض کی تفسیر واقع ہوئی ہیں اگر ایک متشابہات ہیں تو دوسری محکمات ہیں.جب یہی لفظ اور مقامات میں دوسرے انبیاء کے حق میں بھی وارد ہے تو اس کے معنے بجز موت کے اور کچھ نہیں لئے جاتے تو پھر نہ معلوم کہ کیوں حضرت مسیح کو ایسی خصوصیت دی جاتی ہے کیا ابھی تک مسیح کو خصوصیت دینے کا انہوں نے مزہ نہیں چکھا.دیکھو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں صاف یہ لفظ ہیں إِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ (یونس : 47) پھر حضرت یوسف کے متعلق بھی قرآن شریف میں یہی تو فی کا لفظ وارد ہے اور اس کے معنی بجز موت اور ہر گز نہیں دیکھو تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَّالْحِقْنِي بِالصَّلِحِينَ.(يوسف: 102) یہ حضرت یوسف کی دعا ہے تو کیا اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ اے خدا مجھے زندہ مع جسم عصری آسمان پر اٹھالے اور پہلے صلحاء کے ساتھ شامل کر دے جو کہ زندہ آسمان پر موجود ہیں.تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يَصِفُوْنَ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل میں جو ساحر فرعون نے بلائے تھے ان کے ذکر میں تو فی کا لفظ مذکور ہے جہاں فرمایا.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ.(الاعراف: 127) اب ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ خدا اور اس کے کلام کے مقابلہ میں دم مارے.قرآن حضرت عیسیٰ کو سراسر مارتا ہے اور ان کے وفات پا جانے کو دلائل اور اور براہین قطعیہ سے ثابت کرتا ہے اور رسول اکرم نے اس کو معراج کی رات میں وفات یافتہ انبیاء میں دیکھا.جائے غور ہے کہ اگر حضرت عیسی زندہ مع جسم عنصری آسمان پر اٹھائے جاچکے تھے تو پھر ان کو وفات شدہ انبیاء سے کیا مناسبت.زندہ کو مردہ د سے کیا تعلق اور کیسی نسبت ؟ ان کے لئے تو کوئی الگ کوٹھڑی چاہیئے تھی.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 600-599)
779 تفسیر قرآن محاورات قرآن اور مصطلحات قرآن کے مطابق ہو بعض چالاکی سے قرآن شریف کے کھلے کھلے ثبوت پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ توفی کا لفظ لغت کی کتابوں میں کئی معنوں پر آیا ہے حالانکہ اپنے دلوں میں خوب جانتے ہیں کہ جن لفظوں کو قرآن شریف اصطلاحی طور پر بعض معانی کے لئے خاص کر لیتا ہے اور اپنے متواتر بیان سے بخوبی سمجھا دیتا ہے کہ فلاں معنے کے لئے اس نے فلاں لفظ خاص کر رکھا ہے اس معنے سے اس لفظ کو صرف اس خیال سے پھیر نا کہ کسی لغت کی کتاب میں اس کے اور معنے بھی آئے ہیں صریح الحاد ہے.مثلا کتب لغت میں اندھیری رات کا نام بھی کافر ہے مگر تمام قرآن شریف میں کا فر کا لفظ صرف کا فردین یا کا فرنعمت پر بولا گیا ہے.اب اگر کوئی شخص کفر کا لفظ الفاظ مروجہ فرقان سے پھیر کر اندھیری رات اس سے مراد لے اور یہ ثبوت دے کہ لغت کی کتابوں میں یہ معنے بھی لکھے ہیں تو سچ کہو کہ اس کا یہ ملحدانہ طریق ہے یا نہیں ؟ اسی طرح کتب لغت میں صوم کا لفظ صرف روزہ میں محدود نہیں بلکہ عیسائیوں کے گرجا کا نام بھی صوم ہے اور شتر مرغ کے سرگین کو بھی صوم کہتے ہیں.لیکن قرآن شریف کی اصطلاح میں صوم صرف روزہ کا نام ہے.اور اسی طرح صلوۃ کے لفظ کے معنے بھی لغت میں کئی ہیں مگر قرآن شریف کی اصطلاح میں صرف نماز اور درود اور دعا کا نام ہے.یہ بات سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ہر ایک فن ایک اصطلاح کا محتاج ہوتا ہے اور اہل اس فن کے حاجات کے موافق بعض الفاظ کو متعدد معنوں سے مجرد کر کے کسی ایک معنی سے مخصوص کر لیتے ہیں.مثلاً طبابت کے فن کو دیکھئے کہ بعض الفاظ جو کئی معنے رکھتے ہیں صرف ایک معنے میں اصطلاحی طور پر محصور ومحد ودر کھے گئے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی علم بغیر اصطلاحی الفاظ کے چل ہی نہیں سکتا.پس جو شخص الحاد کا ارادہ نہیں رکھتا اس کے لئے سیدھی راہ یہی ہے کہ قرآن شریف کے معنے اس کے مروجہ اور مصطلحہ الفاظ کے لحاظ سے کرے ورنہ تفسیر بالرائے ہوگی.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 350-349) یہ عجیب بات ہے کہ بعض اوقات بعض فقروں میں خدا تعالیٰ کی وحی انسانوں کی بنائی ہوئی صرفی نحوی قواعد کی بظاہر اتباع نہیں کرتی مگر ادنی توجہ سے تطبیق ہو سکتی ہے اسی وجہ سے بعض نادانوں نے قرآن شریف پر بھی اپنی مصنوعی نحو کو پیش نظر رکھ کر اعتراض کئے ہیں مگر یہ تمام اعتراض بیہودہ ہیں زبان کا علم وسیع خدا کو ہے نہ کسی اور کو.اور زبان جیسا کہ تغیر مکانی سے کسی قدر بدلتی ہے ایسا ہی تغییر زمانی سے بھی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں.آجکل کی عربی زبان کا اگر محاورہ دیکھا جائے جو مصر اور مکہ اور مدینہ اور دیار شام وغیرہ میں بولی جاتی ہے تو گویا وہ محاورہ صرف ونحو کے تمام قواعد کی بیجگنی کر رہا ہے اور ممکن ہے کہ اسی قسم کا محاورہ کسی زمانہ میں پہلے بھی گذر چکا ہو.پس خدا تعالیٰ کی وحی کو اس بات سے کوئی روک نہیں ہے کہ بعض فقرات سے گذشتہ محاورہ یا موجودہ محاورہ کے موافق بیان کرے اسی وجہ سے قرآن میں بعض خصوصیات ہیں.( نزول المسیح - ر - خ - جلد 18 صفحہ 436)
780 اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا (التحریم: 13) کے متعلق اس اعتراض کے جواب میں کہ یہ تہذیب کے خلاف ہے فرمایا کہ جو خدا تعالیٰ کو خالق سمجھتے ہیں تو کیا اس خلق کو لغو اور باطل قرار دیتے ہیں.جب اس نے ان اعضاء کو خلق کیا اس وقت تہذیب نہ تھی.خالق مانتے ہیں اور خلق پر اعتراض نہیں کرتے ہیں تو پھر اس ارشاد پر اعتراض کیوں؟ دیکھنا یہ ہے کہ زبان عرب میں اس لفظ کا استعمال ان کے عرف کے نزدیک کوئی خلاف تہذیب امر ہے جب نہیں تو دوسری زبان والوں کا حق نہیں کہ اپنے عرف کے لحاظ سے اسے خلاف تہذیب ٹھہرائیں.ہر سوسائٹی کے عرفی الفاظ اور مصطلحات الگ الگ ہیں اور تہذیب اور خلاف تہذیب امورا لگ.( ملفوظات جلد دوم صفحه 460) لغت عرب اور محاورہ عرب کا کامل علم انبیاء کا معجزہ ہے پس اغراض نفسانیہ کے ساتھ زبان پر کیونکر احاطہ ہو سکے اور معارف قرآنیہ کیونکر حاصل ہو سکیں اور لغت عرب جو صرف نحو کی اصل کنجی ہے وہ ایک ایسا نا پیدا کنار دریا ہے جو اسکی نسبت امام شافعی رحمتہ اللہ کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا نَبِى یعنی اس زبان کو اور اسکے انواع اقسام کے محاورات کو بجز نبی کے اور کوئی شخص کامل طور پر معلوم ہی نہیں کر سکتا.اس قول سے بھی ثابت ہوا کہ اس زبان پر ہر ایک پہلو سے قدرت حاصل کرنا ہر ایک کا کام نہیں بلکہ اس پر پورا احاطہ کرنا مجزات انبیاء علیہم السلام سے ہے.( نزول اسیح - رخ- جلد 18 صفحہ 436,437) آسمان اصطلاحات و محاورات قرآن کی چند امثال قرآن شریف کی اصطلاح کی رو سے جو فضا یعنی پول اُوپر کی طرف ہے جس میں بادل جمع ہو کر مینہ برستا ہے اس کا نام بھی آسمان ہے جس کو ہندی میں اکاش کہتے ہیں.(نسیم دعوت.رخ.جلد 19 صفحہ 412 حاشیہ) اسلام اِنَّ الدِّينَ عِنْدِ اللَّهِ الْإِسْلَامُ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ، وَمَنْ يَكْفُرُ بِايَتِ اللهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ.(ال عمران:20) واضح ہو کہ لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سو نہیں اور یا یہ کہ صلح کے طالب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں.اور اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بلی مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لیے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لیے وقف کر د یوے.اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لیے قائم ہو جائے.اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے.مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے.
781 اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو در حقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی طاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے بنائی گئی ہے اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالص اللہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر ایک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجالا وے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.آئینہ کمالات اسلام.رخ.جلد 5 صفحہ 57-58) اِسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا.(ال عمران: 46) اسْمُهُ الْمَسِيحُ ) یہ لفظ شیح ہے جس کے معنے خلیفہ کے ہیں عربی اور عبرانی میں حدیثوں میں مسیح لکھا ہے اور قرآن شریف میں خلیفہ لکھا ہے.اور توفی ( ملفوظات جلد دوم صفحه 144) اب چونکہ یہ فرق حقیقت اور مجاز کا صاف طور پر بیان ہو چکا تو جس شخص نے قرآن کریم پر اول سے آخر تک نظر ڈالی ہوگی اور جہاں جہاں توفی کا لفظ موجود ہے بنظر غور دیکھا ہوگا وہ ایما نا ہمارے بیان کی تائید میں شہادت دے سکتا ہے.چنانچہ بطور نمونہ دیکھنا چاہیئے کہ یہ آیات (1) اما نرینک بعض الذی نعدهم اونتوفینک (يونس: 47) (2) توفنى مسلما (يوسف): 102) (3) و منكم من يتوفى (الحج:6) (4) توفهم الملئكة (النساء : 98) (5) يتوقون منكم (البقرة: 241) (6) توفته رسلنا (الانعام: 62) (7) رسلنا يتوفونهم (الاعرف:38) (8) تو فنا مسلمين (الاعراف: 127) (9) و تو فنا مع الابرار (ال عمران:194) (10) ثم يتوفكم (انحل: 71) کیسی صریح اور صاف طور پر موت کے معنوں میں استعمال کی گئی ہیں مگر قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت بھی ہے کہ ان آیات کی طرح مجرد تو فی کا لفظ لکھنے سے اس سے کوئی اور معنے مراد لئے گئے ہوں.موت مراد نہ لی گئی ہو.بلاشبہ قطعی اور یقینی طور پر اول سے آخر تک قرآنی محاورہ یہی ثابت ہے کہ ہر جگہ در حقیقت توفی کے لفظ سے موت ہی مراد ہے تو پھر متنازعہ فیہ دو آیتوں کی نسبت جو انی متوفیک اور فلما تو فیتنی ہیں اپنے دل سے کوئی معنے مخالف عام محاورہ قرآن کے گھڑنا اگر الحاد اورتحریف نہیں تو اور کیا ہے؟ (ازالہ اوہام..خ.جلد 3 صفحہ 270) حیات یہ مسئلہ ہی غلط ہے جو کہے کہ فلاں شخص زندہ کرتا ہے.اگر زندہ کرنے کا مفہوم اور مطلب اور نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ کیوں فَيُمُسِكَ الَّتِى قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (الزمر: 43) فرماتا اس سے معلوم ہوا کہ یہ محاورہ ہی اور ہے ورنہ اس سے تو تناقص لازم آتا ہے کہ ایک طرف کہے کہ زندہ نہیں ہوتا اور دوسری طرف کہہ دے کہ زندہ ہو جاتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 125)
782 خلق اور امر الا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ) جب خدائے تعالیٰ کسی چیز کو اس طور سے پیدا کرے کہ پہلے اس چیز کا کچھ بھی وجود نہ ہو تو ایسے پیدا کرنے کا نام اصطلاح قرآنی میں امر ہے اور اگر ایسے طور سے کسی چیز کو پیدا کرے کہ پہلے وہ چیز کسی اور صورت میں اپنا وجود رکھتی ہو تو اس طرز پیدائش کا نام خلق ہے خلاصہ کلام یہ کہ بسیط چیز کا عدم محض سے پیدا کرنا عالم امر میں سے ہے اور مرکب چیز کو کسی شکل یا ہیئت خاص سے متشکل کرنا عالم خلق سے ہے جیسے اللہ تعالیٰ دوسرے مقام میں قرآن شریف میں فرماتا ہے الا لَهُ الْخَلْقُ وَالأمر (الاعراف: 55) یعنی بسائط کا عدم محض سے پیدا کرنا اور مرکبات کو ظہور خاص میں لانا دونوں خدا کا فعل ہیں اور بسیط اور مرکب دونوں خدائے تعالے کی پیدائش ہے.یہ کیسی اعلیٰ اور عمدہ صداقت ہے جس کو ایک مختصر آیت اور چند معدود لفظوں میں خدائے تعالیٰ نے بیان کر دیا.سرمه چشم آریہ.ر-خ- جلد 2 صفحہ 176-175) رَبُوَة وَاوَيُنهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِينٍ (المومنون : 51) یعنی ہم نے واقعہ صلیب کے بعد جو ایک بڑی مصیبت تھی عیسی اور اس کی ماں کو ایک بڑے ٹیلہ پر جگہ دی جو بڑے آرام کی جگہ اور پانی خوشگوار تھا یعنی خطہ کشمیر.اب اگر آپ لوگوں کو عربی سے کچھ بھی مس ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اوای کا لفظ اسی موقع پر آتا ہے کہ جب کسی مصیبت پیش آمدہ سے بچا کر پناہ دی جاتی ہے.یہی محاورہ تمام قرآن شریف میں اور تمام اقوال عرب میں اور احادیث میں موجود ہے.( نزول امسیح...خ.جلد 19 صفحہ 127 ) رفع اور رجوع تمام قرآن میں یہی محاورہ ہے کہ خدا کی طرف اٹھائے جانے یا رجوع کرنے سے موت مراد ہوتی ہے جیسا کہ آیت ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (الفجر : 29) سے بھی موت ہی مراد ہے.امام اصلح - ر - خ - جلد 14 صفحہ 385) رَفَع پس جب خدا تعالیٰ کی طرف واپس جانا بموجب نص صریح قرآن شریف کے موت ہے تو پھر خدا کی طرف اٹھائے جانا جیسا کہ آیت بَلْ رَفَعَهُ اللهُ الَیہ سے ظاہر ہوتا ہے.کیوں موت نہیں.یہ تو انصاف اور عقل اور تقوی کے برخلاف ہے کہ جو معنے نصوص قرآنیہ سے ثابت اور متحقق ہوتے ہیں ان کو ترک کیا جائے اور جن معنوں اور جس محاورہ کی اپنے پاس کوئی بھی دلیل نہیں اس پہلو کو اختیار کیا جائے.کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ رفع الی اللہ کے زبان عرب اور محاورہ عرب میں بجز وفات دیئے جانے کے کوئی اور بھی معنے ہیں.ہاں اس وفات سے ایسی وفات مراد ہے جس کے بعد روح خد تعالی کی طرف اٹھائی جاتی ہے جیسے مومنوں کی وفات ہوتی ہے.یہی محاورہ خدا تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں موجود ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ - جلد 21 صفحہ 386-385)
783 زمین اور یہ عام محاورہ قرآن شریف کا ہے کہ زمین کے لفظ سے انسانوں کے دل اور ان کی باطنی قومی مراد ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ ایک جگہ فرماتا ہے.اِعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحديد: 18 ) اور جیسا کہ فرماتا ہے وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِى خَبُثَتْ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا (الاعراف: 59) ایسا ہی قرآن شریف میں بیسیوں نظیریں موجود ہیں جو پڑھنے والوں پر پوشیدہ نہیں ماسوا اس کے روحانی واعظوں کا ظاہر ہونا اور ان کے ساتھ فرشتوں کا آنا ایک روحانی قیامت کا نمونہ ہوتا ہے جس سے مردوں میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور جو قبروں کے اندر ہیں وہ باہر آ جاتے ہیں اور نیک اور بدلوگ اپنی سزا و جزاء پالیتے ہیں.سواگر سورۃ الزلزال کو قیامت کے آثار میں قرار دیا جائے تو اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ ایسا وقت روحانی طور پر ایک قسم کی قیامت ہی ہوتی ہے.خدائے تعالیٰ کے تائید یافتہ بندے قیامت کا ہی روپ بن کر آتے ہیں اور انہیں کا وجود قیامت کے نام سے موسوم ہوسکتا ہے جس کے آنے سے روحانی مردے زندہ ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور نیز اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ جب ایسا زمانہ آ جائے گا.کہ تمام انسانی طاقتیں اپنے کمالات کو ظاہر کر دکھائیں گی اور جس حد تک بشری عقول اور افکار کا پروازممکن ہے اس حد تک وہ پہنچ جائیں گی اور جن مخفی حقیقتوں کو ابتداء سے ظاہر کرنا مقدر ہے وہ سب ظاہر ہو جائیں گی تب اس عالم کا دائرہ پورا ہوکر یک دفعہ اس کی صف لپیٹ دی جائے گی.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان.ويَبْقَى وَجُهُ رَبِّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ.(الرحمن: 27-28) شقی اور سعید (ازالہ اوھام -ر خ- جلد 3 صفحہ 168-169) يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ.(هود: 106) ایسا شخص جور بانی فیض کے رنگ سے کم حصہ رکھتا ہے اس کو قرآنی اصطلاح میں شقی کہتے ہیں اور جس نے کافی حصہ لیا اس کا نام سعید ہے.خدا تعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں مخلوقات کو سعادت اور شقاوت کے دو حصوں پر تقسیم کر دیا ہے مگر ان کو حسن اور فتح کے دوحصوں پر تقسیم نہیں کیا.اس میں حکمت یہ ہے کہ جو خدا تعالیٰ سے صادر ہو اس کو برا تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس نے جو کچھ بنایا وہ سب اچھا ہے.ہاں اچھوں میں مراتب ہیں.پس جو شخص اچھا ہونے کے رنگ میں نہایت ہی کم حصہ رکھتا ہے وہ حکمی طور پر برا ہے اور حقیقی طور پر کوئی بھی برا نہیں.ست بچن.رخ.جلد 10 صفحہ 138 حاشیہ )
784 نزول متصوفین کے مذاق کے موافق صعود اور نزول کے ایک خاص معنے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ جب انسان خلق اللہ سے بکلی انقطاع کر کے خدائے تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو اس حالت کا نام متصوفین کے نزدیک صعود ہے اور جب مامور ہو کر نیچے کو اصلاح خلق اللہ کے لئے آتا ہے تو اس حالت کا نام نزول ہے.اسی اصطلاحی معنی کے لحاظ سے نزول کا لفظ اختیار کیا گیا ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اس آیت میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ بِالْحَقِّ أَنْزَلْنَهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ.(بنی اسرائیل : 106) (ازالہ اوھام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 420) خروج اور نزول دابتہ الارض یعنی وہ علماء و واعظین جو آسمانی قوت اپنے اندر نہیں رکھتے ابتداء سے چلے آتے ہیں لیکن قرآن کا مطلب یہ ہے کہ آخری زمانہ میں ان کی حد سے زیادہ کثرت ہوگی اور ان کے خروج سے مراد وہی ان کی کثرت ہے.اور یہ نکتہ بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ جیسی ان چیزوں کے بارے میں جو آسمانی قوت اپنے اندر نہیں رکھتیں اور آخری زمانہ میں پورے جوش اور طاقت کے ساتھ ظہور کریں گی خروج کا لفظ استعمال ہوا ہے.ایسا ہی اس شخص کے بارے میں جو حدیثوں میں لکھا ہے کہ آسمانی وحی اور قوت کے ساتھ ظہور کر یگا نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.سوان دونوں لفظوں خروج اور نزول میں در حقیقت ایک ہی امر مد نظر رکھا گیا ہے.یعنی اس بات کا سمجھانا منظور ہے کہ یہ ساری چیزیں جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والی ہیں باعتبار اپنی قوت ظہور کے خروج اور نزول کی صفت سے متصف کی گئی ہیں جو آسمانی قوت کے ساتھ آنے والا تھا اس کو نزول کے لفظ سے یاد کیا گیا اور جوز مینی قوت کے ساتھ نکلنے والا تھا اس کو خروج کے لفظ کے ساتھ پکارا گیا تا نزول کے لفظ کے ساتھ آنے والے کی ایک عظمت سمجھی جائے اور خروج کے لفظ سے ایک خفت اور حقارت ثابت ہو اور نیز یہ بھی معلوم ہو کہ نازل خارج پر غالب ہے.(ازالہ اوھام -ر خ- جلد 3 صفحہ 373-374) يبَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوَاتِكُمْ وَرِيشَاء وَلِبَاسُ التَّقْوى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ ايَتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ.(الاعراف: 27) ثم انظرانه تعالى قال فى مقام آخر قد انزلنا عليكم.لباسا و قال انزلنا الحديد و انزل لكم من الانعام.ومعلوم ان هذه الاشياء لا تنزل من السماء فما عزاها الله اليها الا اشارة الى ان العلة الاولى من العلل التى قدر الله تعالى لخلق تلک الاشیاء و تولدها و تكونها تاثيرات فلكية و شمسية و قمرية و نجومية و اشار عز وجل فى هذه الايات الى ان الارض كامراة والسماع كبعلها ولا يتم فعل احدها الا بالاخرى فزو جهما حكمة من عنده وكان الله عليما حكيما.حمامة البشرکی.ر.خ.جلد 7 صفحہ 289)
785 ( ترجمہ ) اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے قَدانَزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا اور پھر فرمایا.اَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ (الحديد: 26) نیز فرمایا - اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْأَنْعَامِ (الزمر: 7) اور یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ یہ سب چیزیں آسمان سے نہیں اترتیں.ہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمان کی طرف یہ اشارہ کرنے کے لیے منسوب کیا ہے کہ ان اسباب میں سے جو اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کی تخلیق اور تکوین اور پیدا کرنے کے لیے مقدر فرمائے ہیں ان میں سے پہلی علت آسمان، سورج چاند اور ستاروں کی تاثیرات ہیں اور ان آیات میں اللہ عزوجل نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ زمین عورت کی ماند ہے اور آسمان اس کے خاوند کے مانند ہے ان میں سے ایک کا کام دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا.پس ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت جوڑ دیا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور حکمت والا ہے.اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ (الطارق:5) ترجمہ : نہیں کوئی جی مگر اس پر ایک نگہبان ہے.الغرض جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں یہ بات نہایت احتیاط سے اپنے حافظہ میں رکھ لینی چاہیئے کہ مقربوں کاروح القدس کی تاثیر سے علیحدہ ہونا ایک دم کے لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ ان کی نئی زندگی کی روح یہی روح القدس ہے پھر وہ اپنی روح سے کیونکر علیحدہ ہو سکتے ہیں اور جس علیحدگی کا ذکر احادیث اور بعض اشارات قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اس سے مراد صرف ایک قسم کی جلی ہے کہ بعض اوقات بوجہ مصالح الہی اس قسم کی تجلی میں کبھی دیر ہو گئی ہے اور اصطلاح قرآن کریم میں اکثر نزول سے مراد وہی تجلی ہے.ساعة نزول سے مراد عزت و جلال کا اظہار ہوتا ہے.آئینہ کمالات اسلام - ر-خ- جلد 5 صفحہ 90-91 حاشیہ ) ( لمفوطات جلد اوّل صفحہ 396 ) افسوس کہ سادہ لوح حجرہ نشین مولویوں کی نظر محدود ہے ان کو معلوم نہیں کہ پہلی کتابوں میں اسی ساعت کا وعدہ تھا جوطیطوس کے وقت یہودیوں پر وارد ہوئی اور قرآن شریف صاف کہتا ہے کہ عیسی کی زبان پر ان پر لعنت پڑی اور عذاب عظیم کے واقعہ کو ساعة کے لفظ سے بیان کرنا نہ صرف قرآن شریف کا محاورہ ہے بلکہ یہی محاورہ پہلی آسمانی کتابوں میں پایا جاتا ہے اور بکثرت پایا جاتا ہے پس نہ معلوم ان سادہ لوح مولویوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ ساعۃ کا لفظ ہمیشہ قیامت پر ہی بولا جاتا ہے.( اعجاز احمدی.رخ.جلد 19 صفحہ 131 )
وحی 786 جابجا مفسروں نے وحی کے لفظ کو الہام ہی سے تعبیر کیا ہے.کئی احادیث میں بھی یہی معنے ملتے ہیں.سواد اعظم علماء کا الہام کو وحی کا مترادف قرار دینے میں متفق ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو استعمال کیا ہے تو پھر اس سے انحراف کرنا صریح تحکم ہے.علم شریعت میں اسی طرح صد با عرفی الفاظ ہیں جن کے مفہوم کولغوی معنوں میں محدود کرنا ایک ضلالت ہے.خود وحی کے لفظ کو دیکھئے کہ اس کے وہ معنے جن کی رو سے خدا کی کتا ہیں وحی رسالت کہلاتی ہیں کہاں لغت سے ثابت ہوتے ہیں اور کسی کتاب لغت میں وہ کیفیت نزول وحی لکھی ہے جس کیفیت سے خدا اپنے مرسلوں سے کلام کرتا ہے اور ان پر اپنے احکام نازل کرتا ہے.جیہہ ( براھین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 244-245 حاشیه در حاشیہ نمبر 1) قوله ، میچ کے دوبارہ آنے پر ایک یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.(ال عمران: 46) حضرت مسیح نے اس زمانہ میں جبکہ وہ یہودیوں کے لیے مبعوث ہوئے عزت نہیں پائی اس لیے ماننا پڑا کہ پھر وہ آویں گے تب دنیا کی وجاہت ان کو نصیب ہوگی.اقول.یہ خیال بالکل بیہودہ ہے.قرآن شریف میں یہ لفظ نہیں کہ وَجِيْهَا عِنْدَ أَهْلِ الدُّنْيَا - دنیاداروں اور دنیا کے کتوں کی نظر میں تو کوئی نبی بھی اپنے زمانے میں وجہ نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے کسی نبی کو تسلیم نہیں کیا بلکہ قبول کرنے والے اکثر ضعفاء اور غرباء ہوئے ہیں جو دنیا سے بہت کم حصہ رکھتے تھے سو آیت کے یہ معنے نہیں کہ پہلے زمانے میں عیسی کو دنیا کے رئیسوں اور امیروں اور کرسی نشینوں نے قبول نہ کیا لیکن دوسری مرتبہ قبول کریں گے.بلکہ قرآن کے عام محاورہ کے رو سے آیت کے یہ معنے ہیں کہ دنیا میں بھی راستباوں میں مسیح کی عزت ہوئی اور وجاہت مانی گئی جیسا کہ بیچی نبی نے ان کو مع اپنی تمام جماعت کے قبول کیا اور ان کی تصدیق کی اور بہتوں نے تصدیق کی اور قیامت میں بھی وجاہت ظاہر ہوگی.ایام الصلح - ر - خ- جلد 14 صفحہ 412) یوم قُل لَّكُمْ مِيْعَادُ يَوْمٍ لَا تَسْتَأْخِرُونَ.خِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَّلَا تَسْتَقْدِمُونَ.(سبا: 31) یوم سے مراد اس جگہ برس ہے چنانچہ بائبل میں بھی یہ محاورہ پایا جاتا ہے سو پورے برس کے بعد بدر کی لڑائی کا عذاب مکہ والوں پر نازل ہوا جو پہلی لڑائی تھی.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات صفحہ 18 حاشیہ )
787 یہود یہ بات بھی یا درکھنے کے لائق ہے کہ انجیل اور قرآن شریف میں جہاں یہودیوں کا کچھ خراب حال بیان کیا ہے وہاں دنیا داروں اور عوام کا تذکرہ نہیں بلکہ ان کے مولوی اور فقیہ اور سردار کا ہن مراد ہیں جن کے ہاتھ میں کفر کے فتوے ہوتے ہیں اور جن کے وعظوں پر عوام افروختہ ہو جاتے ہیں اسی واسطے قرآن شریف میں ایسے یہودیوں کی اس گدھے سے مثال دی ہے جو کتابوں سے لدا ہوا ہو.ظاہر ہے کہ عوام کو کتابوں سے کچھ سروکار نہیں کتا ہیں تو مولوی لوگ رکھا کرتے ہیں لہذا یہ بات یا درکھنے کے لائق ہے کہ جہاں انجیل اور قرآن اور حدیث میں یہودیوں کا ذکر ہے وہاں ان کے مولوی اور علماء مراد ہیں اور اسی طرح غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے لفظ سے عام مسلمان مراد نہیں ہیں بلکہ ان کے مولوی مراد ہیں.(تحفہ گولڑویہ.رخ- جلد 17 صفحہ 330-329) قرآنی معافی کے خلاف معافی کرنا تحریف والحاد ہے فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ.(المومن : 78) انصاف کی آنکھ سے دیکھنا چاہیئے کہ جس طرح حضرت مسیح کے حق میں اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں إِنِّي مُتَوَفِّيكَ فرمایا ہے اسی طرح ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ (یونس: (47) یعنی دونوں جگہ مسیح کے حق میں اور ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں توفی کا لفظ موجود ہے پھر کس قدر نا انصافی کی بات ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ کی نسبت جو توفی کا لفظ آیا ہے تو اس جگہ تو ہم وفات کے ہی معنے کریں اور اسی لفظ کو حضرت عیسی کی نسبت اپنے اصلی اور شائع متعارف سے پھیر کر اور ان متفق علیہ معنے سے جو اول سے آخر تک قرآن شریف سے ظاہر ہورہے ہیں انحراف کر کے اپنے دل سے کچھ اور کے اور معنے تراش لیں.اگر یہ الحاد اور تحریف نہیں تو پھر الحاد اور تحریف کس کو کہتے ہیں؟ (ازالہ اوہام - ر-خ- جلد 3 صفحہ 274) مِنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ وَيَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَ عَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَع وَّرَاعِنَا لَيَّا بِالْسِنَتِهِمْ وَطَعْنَا فِي الدَيْنِ ، وَ لَوْأَنَّهُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ ، وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَاقْوَمَ وَلَكِنْ لَّعَنَهُمُ اللهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ إِلَّا قَلِيلاً.(النساء: 47) یہودی بھی تو ایسے ہی کام کرتے تھے کہ اپنی رائے سے اپنی تفسیروں میں بعض آیات کے معنے کرنے کے وقت بعض الفاظ کو مقدم اور بعض کو موخر کر دیتے تھے جن کی نسبت قرآن مجید میں یہ آیت موجود ہے کہ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہ ان کی تحریف ہمیشہ لفظی نہیں تھی بلکہ معنوی بھی تھی.سوایسی تحریفوں سے ہر ایک مسلمان کو ڈرنا چاہیئے.الحق مباحثہ دہلی.ر- خ - جلد 4 صفحہ 215)
788 دجل یہ ہے کہ اندر ناقص چیز ہواور اوپر کوئی صاف چیز ہو.مثلاً او پرسونے کا ملمع ہواور اندر تانبا ہو.یہ دجل ابتدائے دنیا سے چلا آتا ہے مکر وفریب سے کوئی زمانہ خالی نہیں رہا.زرگر کیا کرتے ہیں.جیسے دنیا کے کاموں میں دجل ہے ویسے ہی روحانی کاموں میں بھی دجل ہوتا ہے يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ (النساء: 47) بھی دجل ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 295) ان کتابوں ( توریت اور انجیل) کی نسبت قرآن مجید میں يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِه لکھا ہے وہ لوگ شرح کے طور پر اپنی طرف سے بھی کچھ ملا دیا کرتے تھے.قرآن مجید کے ہوتے ہوئے ایک مصلح کی ضرورت ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 338) پھر اسی نوجوان نے عرض کیا کہ انہوں نے یہ سوال بھی مجھ سے کیا کہ قرآن شریف تو محرف مبدل نہیں ہوا کسی کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا کہ :.کیا خدا کی طرف سے کسی کے آنے کی ضرورت کا ایک یہی باعث ہے کہ قرآن شریف محرف مبدل ہو اور علاوہ بریں قرآن شریف کی معنوی تحریف تو کی جاتی ہے جبکہ اس میں لکھا ہے کہ مسیح مر گیا اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ زندہ آسمان پر چڑھ گیا اور تحریف کیا ہوتی ہے؟ یہ لوگ تحریف تو کر رہے ہیں اور پھر مسلمانوں کی عملی حالت بہت ہی خراب ہو رہی ہے نیچر یوں ہی کو دیکھو.انہوں نے کیا چھوڑا ہے بہشت دوزخ کے وہ قائل نہیں.وحی اور دعا اور معجزات کے وہ منکر ہیں انہوں نے یہودیوں کے بھی کان کاٹے یہاں تک کہ تثلیث میں بھی نجات مان لی.یہ حالت ہو چکی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ کسی آنے والے کی ضرورت نہیں.تعجب کی بات ہے کہ دنیا تو گناہ سے بھر گئی ہے مگران کی حالت ایسی مسخ ہوئی ہے کہ وہ محسوس ہی نہیں کرتے کہ کسی مصلح کی بھی ضرورت ہے مگر عنقریب وقت آتا ہے کے خدا تعالیٰ ان کو معلوم کرائے گا اور اس کے غضب کا ہاتھ اب نکلتا آتا ہے.زمانہ تو ایسا تھا کہ رورو کر راتیں کاٹتے مگر ان کی شوخی سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے ہی بد بخت ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحه 398) نور دل جاتا رہا اک رسم دیں کی رہ گئی پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلح دیں کیا بکار راگ وہ گاتے ہیں جس کو آسماں گا تا نہیں وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلاف شہریار (براہین احمدیہ - ر- خ - جلد 21 صفحہ 132
789 تحریف معنوی مِنَ الَّذِيْنَ هَادُوْايُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ (النساء: 47) قرآن کریم کے عموم محاورہ پر نظر ڈالنے سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تمام قرآن میں تو فی کا لفظ قبض روح کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے یعنی اس قبض روح میں جو موت کے وقت ہوتا ہے دو جگہ قرآن کریم میں وہ قبض روح بھی مراد لیا ہے جو نیند کی حالت میں ہوتا ہے.لیکن اس جگہ قرینہ قائم کر دیا ہے.جس سے سمجھا گیا ہے کہ حقیقی معنے توفی کے موت لئے ہیں.اور جو نیند کی حالت میں قبض روح ہوتا ہے.وہ بھی ہمارے مطلب کے مخالف نہیں.کیونکہ اس کے تو یہی معنے ہیں کہ کسی وقت تک انسان سوتا ہے اور اللہ اس کی روح کو اپنے تصرف میں لے لیتا ہے اور پھر انسان جاگ اٹھتا ہے سو یہ وقوعہ ہی الگ ہے اس سے ہمارے مخالف کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.بہر حال جبکہ قرآن میں لفظ تو فی کا قبض روح کے معنوں میں ہی آیا ہے اور احادیث میں ان تمام مواضع میں جو خدا تعالیٰ کو فاعل ٹھہرا کر اس لفظ کو انسان کی نسبت استعمال کیا ہے جا بجا موت ہی معنے لیے ہیں.تو بلاشبہ یہ لفظ قبض روح اور موت کے لئے قطعیتہ الدلالت ہو گیا.اور بخاری جو اصح الکتب ہے اس میں بھی تفسیر آیت فلما توفیتنی کی تقریب میں متوفیک کے معنے ممیتک لکھا ہے.اور یہ بات ظاہر ہے کہ موت اور رفع میں ایک ترتیب طبعی واقع ہے ہر ایک مومن کی روح پہلے فوت ہوتی ہے پھر اس کا رفع ہوتا ہے.اسی ترتیب طبیعی پر یہ ترتیب وضعی آیت کی دلالت کر رہی ہے کہ پہلے انی متوفیک فرمایا اور پھر بعد اس کے رافعک کہا اور اگر کوئی کہے کہ رافعک مقدم اور متوفیک مؤخر ہے یعنی رافعک آیت کے سر پر اور متوفیک فقرہ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا (ال عمران : 56) کے بعد اور بیچ میں یہ فقرہ محذوف ہے ثُمَّ مُنَزِلُكَ اِلَى الْأَرْضِ سویہ ان یہودیوں کی تحریف ہے جن پر بوجہ تحریف کے لعنت ہو چکی ہے.کیونکہ اس صورت میں اس آیت کو اس طرح پر زیروز بر کرنا پڑے گا.یا عیسی انــی رافعک الی السماء و مطهرك من الذين كفروا و جاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا الى يوم القيامة ثم منزلك الى الارض و متوفیک اب فرمائیے کیا اس تحریف پر کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل مل سکتی ہے.یہودی بھی تو ایسے ہی کام کرتے تھے کہ اپنی رائے سے اپنی تفسیروں میں بعض آیات کے معنے کرنے کے وقت بعض الفاظ کو مقدم اور بعض کو موخر کر دیتے تھے جن کی نسبت قرآن مجید میں یہ آیت موجود ہے کہ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ موَاضِعِہ ان کی تحریف ہمیشہ لفظی نہیں تھی بلکہ معنوی بھی تھی.سو ایسی تحریفوں سے ہر یک مسلمان کو ڈرنا چاہیئے اگر کسی حدیث صحیح میں ایسی تحریف کی اجازت ہے تو بسم اللہ وہ دکھلائیے.غرض آیت یا عیسی انی متوفیک میں اگر قرآن کریم کا عموم محاورہ ملحوظ رکھا جائے اور آیت کو تحریف سے بچایا جائے تو پھر موت کے بعد اور دوسرے معنے کیا الحق مباحثہ دہلی.ر-خ- جلد 4 صفحہ 215-214) نکل سکتے ہیں.
790 میرا معاملہ اگر سمجھ میں نہیں آتا تو طریق تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگو تا کہ وہ خود تم پر اصل حقیقت کھول دے.خدا تعالیٰ کے کلام کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ طریق نجات بھول جانے کا اندیشہ ہے.آج وقت ہے بصیرت سے کام لو.قرآن شریف قانون آسمانی اور نجات کا ذریعہ ہے.اگر ہم اس میں تبدیلی کریں تو یہ بہت ہی سخت گناہ ہے.تعجب ہوگا کہ ہم یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور پھر قرآن شریف کے لئے وہی روار کھتے ہیں.مجھے اور بھی افسوس اور تعجب آتا ہے کہ وہ عیسائی جن کی کتابیں فی الواقعہ محرف مبدل ہیں وہ تو کوشش کریں کہ تحریف ثابت نہ ہو اور ہم خود تحریف کرنے کی فکر میں !!! اس سے بچو.دیکھو افتراء کرنے والا خبیث اور موذی ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے کلام میں تحریف کرنا.یہ بھی افتراء ہے ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 130 ) تحریف تقریری ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ صحابہ کرام اور سلف صالح کی یہی عادت تھی کہ جب کہیں آیت اور حدیث میں تعارض و تخالف پاتے تو حدیث کی تاویل کی طرف مشغول ہوتے.مگر اب یہ ایسا زمانہ آیا ہے کہ قرآن کریم سے حدیثیں زیادہ پیاری ہو گئیں ہیں اور حدیثوں کے الفاظ قرآن کریم کے الفاظ کی نسبت زیادہ محفوظ سمجھے گئے ہیں.ادنیٰ ادنی بات میں جب کسی حدیث کا قرآن کریم سے تعارض دیکھتے ہیں تو حدیث کی طرف ذرہ شک نہیں گذرتا یہودیوں کی طرح قرآن کریم کا بدلا نا شروع کر دیتے ہیں اور کلمات اللہ کو ان کے اصل مواضع سے پھیر کر کہیں کا کہیں لگا دیتے ہیں اور بعضے فقرے اپنی طرف سے بھی ملا دیتے ہیں اور اپنے تئیں یحرفون الكلم عن مواضعه (النساء:47) كا مصداق بنا کر اس لعنتہ اللہ سے حصہ لے لیتے ہیں جو پہلے اس سے یہودیوں پر انہیں کاموں کی وجہ سے وار دو نازل ہوئی تھی.بعض تحریف کی یہ صورت اختیار کرتے ہیں کہ فقرہ متو فیک کو مقدم ہی رکھتے ہیں مگر بعد اس کے انی محییک کا فقرہ اپنی طرف سے ملا لیتے ہیں.ذرہ خیال نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ نے تحریف کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور بخاری نے اپنی صحیح کے آخر میں لکھا ہے کہ اہل کتاب کی تحریف یہی تھی کہ وہ پڑھنے میں کتاب اللہ کے کلمات کو ان کے مواضع سے پھیرتے تھے اور حق بات یہ ہے کہ وہ دونوں قسم کی تحریف تحریری و تقریری کرتے تھے مسلمانوں نے ایک قسم میں ( جو تقریری تحریف ہے ) ان سے مشابہت پیدا کر لی.اور اگر وعدہ صادقہ انا نحن نزلنا الذكر وانا له لحفظون (الحجر: 10) تصرف تحریری سے مانع نہ ہوتا تو کیا تعجب کہ یہ لوگ رفتہ رفتہ تحریر میں بھی ایسی تحریفیں شروع کر دیتے کہ فقر در افعک کو مقدم اورانی متوفیک کو مؤخرلکھ دیتے.اور اگر ان سے پوچھا جائے کہ تم پر ایسی مصیبت کیا آپڑی ہے کہ تم کتاب اللہ کے زیروز بر اور محرف کرنے کی فکر میں لگ گئے تو اس کا یہ جواب دیتے ہیں که تا کسی طرح قرآن کریم ان حدیثوں کے مطابق ہو جاوے جن سے بظاہر معارض و مخالف معلوم ہوتا ہے.(ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 611)
791 تحریف.اور یہود اللہ تعالیٰ نے توریت میں یہودیوں کو یہ حکم دیا کہ تم نے توریت کی تحریف نہ کرنا سواس حکم کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض یہود نے توریت کی تحریف کی مگر قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو کہیں یہ حکم نہیں دیا کہ تم نے قرآن کی تعریف نہ کرنا بلکہ یہ فرمایا کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّالَهُ، لَحفِظُونَ.(الحجر: 10) یعنی ہم نے ہی قرآن شریف کو اتارا اور ہم ہی اس کی محافظت کریں گے.اسی وجہ سے قرآن شریف تحریف سے محفوظ رہا.غرض یہ قطعی اور یقینی اور مسلم سنت الہی ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی کتاب میں کسی قوم یا جماعت کو ایک برے کام سے منع کرتا ہے یا نیک کام کے لئے حکم فرماتا ہے تو اس کے علم قدیم میں یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ اس کے حکم کی مخالفت بھی کریں گے.تذکرہ الشہادتین.ر.خ.جلد 20 صفحہ 15-14) قرینہ چہارم دابتہ الارض کے طاعون ہونے پر یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں ایک رنگ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ کسی وقت بعض مسلمان بھی وہ یہودی بن جائینگے جو حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں تھے جو آخر کار طاعون وغیرہ بلاؤں سے ہلاک کئے گئے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ عادت ہے کہ جب ایک قوم کو کسی فعل سے منع کرتا ہے تو ضرور اسکی تقدیر میں یہ ہوتا ہے کہ بعض ان میں سے اس فعل کے ضرور مرتکب ہو نگے جیسا کہ اس نے توریت میں یہودیوں کو منع کیا تھا کہ تم نے توریت اور دوسری خدا کی کتابوں کی تحریف نہ کرنا.سو آخران میں سے بعض نے تحریف کی مگر قرآن میں یہ نہیں کہا گیا کہ تم نے قرآن کی تحریف نہ کرنا بلکہ یہ کہا گیا.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّالَهُ، لَحْفِظُوْنَ.سوسورت فاتحہ میں خدا نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.اس جگہ احادیث صحیحہ کے رو سے بکمال تواتر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ المغضوب علیھم سے مراد بدکار اور فاسق یہودی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کو کا فرقراردیا اور قتل کے درپے رہے اور اس کی سخت تو ہین وتحقیر کی اور جن پر حضرت عیسی نے لعنت بھیجی جیسا کہ قرآن میں مذکور ہے.( نزول اسیح - رخ - جلد 18 صفحہ 419-418) پھر وہ دن جب آگئے اور چودھویں آئی صدی سب سے اوّل ہو گئے منکر یہی دیں کے منار پھر دوبارہ آگئی اخبار میں رسم یہود پھر مسیح وقت کے دشمن ہوئے یہ جبہ دار تھا نوشتوں میں یہی از ابتدا تا انتہا پھر مٹے کیونکر کہ ہے تقدیر نے نقش جدار (براہین احمدیہ.ر - خ - جلد 21 صفحہ 138 ) ( در شین اردو صفحه 128)
792 کسی کو کلام الہی میں تغیر و تبدل کا اختیار نہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ہم الہی کلام کی کسی آیت میں تغیر اور تبدیل اور تقدیم اور تاخیر اور فقرات تراشی کے مجاز نہیں ہیں مگر صرف اس صورت میں کہ جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہو اور یہ ثابت ہو جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ بذات خود ایسی تغییر اور تبدیل کی ہے اور جب تک ایسا ثابت نہ ہو تو ہم قرآن کی ترصیع اور ترتیب کو زیروز بر نہیں کر سکتے اور نہ اس میں اپنی طرف سے بعض فقرات ملا سکتے ہیں.اور اگر ایسا کریں تو عند اللہ مجرم اور قابل مواخذہ ہیں.تفسیر بالرائے تفسیر قرآن کریم کے معیار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.(اتمام الحجة-ر-خ- جلد 8 صفحہ 291) چوتھا معیار خود اپنا نفس مطہر لے کر قرآن کریم میں غور کرنا ہے کیونکہ نفس مطہر ہ سے قرآن کریم کو مناسبت ہے اللہ جل شانہ فرماتا ہے لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ یعنی قرآن کریم کے حقائق صرف ان پر کھلتے ہیں جو پاک دل ہوں.کیونکہ مطبر القلب انسان پر قرآن کریم کے پاک معارف بوجہ مناسبت کھل جاتے ہیں اور وہ ان کو شناخت کر لیتا ہے اور سونگھ لیتا ہے اور اس کا دل بول اٹھتا ہے کہ ہاں یہی راہ کچی ہے اور اس کا نور قلب سچائی کی پرکھ کے لئے ایک عمدہ معیار ہوتا ہے.پس جب تک انسان صاحب حال نہ ہو اور اس تنگ راہ سے گذرنے والا نہ ہو جس سے انبیاء علیہم السلام گذرے ہیں تب تک مناسب ہے کہ گستاخی اور تکبر کی جہت سے مفسر قرآن نہ بن بیٹھے ورنہ وہ تفسیر بالرائے ہوگی جس سے نبی علیہ السلام نے منع فرمایا ہے اور کہا ہے مَنْ فَسَّرَ الْقُرْآنَ برَأيهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَا يعنى جس نے صرف اپنی رائے سے قرآن کریم کی تفسیر کی اور اپنے خیال میں اچھی کی تب بھی اس نے بُری تفسیر کی.برکات الدعاء.ر-خ- جلد 6 صفحہ 18-19) اول یہ کہ وہ اسلام کے مقابل پر ان بیہودہ روایات اور بے اصل حکایات سے مجتنب رہیں جو ہماری مسلم اور مقبول کتابوں میں موجود نہیں اور ہمارے عقیدہ میں داخل نہیں اور نیز قرآن کے معنی اپنے طرف سے نہ گھڑ لیا کریں بلکہ وہی معنی کریں جو تو اتر آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں اور پادری صاحبان اگر چہ انجیل کے معنے کرنے کے وقت ہر یک بے قیدی کے مجاز ہوں.مگر ہم مجاز نہیں ہیں اور انہیں یا د رکھنا چاہیئے کہ ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے معصیت عظیمہ ہے قرآن کی کسی آیت کے معنی اگر
793 کریں تو اس طور سے کرنے چاہیئے کہ دوسری قرآنی آئتیں ان معنوں کی موید اور مفسر ہوں اختلاف اور تناقض پیدا نہ ہو.کیونکہ قرآن کی بعض آیتیں بعض کے لئے بطور تفسیر کے ہیں اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی بھی انہیں معنوں کی مفسر ہو کیونکہ جس پاک اور کامل نبی پر قرآن نازل ہوا وہ سب سے بہتر قرآن شریف کے معنی جانتا ہے.غرض اتم اور اکمل طریق معنے کرنے کا تو یہ ہے لیکن اگر کسی آیت کے بارے میں حدیث صحیح مرفوع متصل نہ مل سکے تو ا د نے درجہ استدلال کا یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت کے معنی دوسری آیات بینات سے کئے جاویں.لیکن ہرگز یہ درست نہیں ہوگا کہ بغیر ان دونوں قسم کے التزام کے اپنے ہی خیال اور رائے سے معنی کریں کاش اگر پادری عمادالدین وغیرہ اس طریق کا التزام کرتے تو نہ آپ ہلاک ہوتے اور نہ دوسروں کی ہلاکت کا (آریہ دھرم -ر خ- جلد 10 صفحہ 81-80 حاشیہ) موجب ٹھہرتے.یا د رہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اور نیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسر نہ آ سکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسر ہو غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائیز نہیں پس ہر یک معترض پر لازم ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے.آریہ دھرم - ر- خ- جلد 10 صفحہ 86 حاشیہ ) اے اسیر عقل خود بر ہستی خود کم بناز کیں پہر بوالعجائب چوں تو بسیار آورد اپنی عقل کے قیدی اپنی ہستی پر ناز نہ کر کہ یہ عجیب آسمان تیری طرح کے بہت سے آدمی لا یا کرتا ہے غیر را ہر گز نمی باشد گذر در کوئے حق ہر کہ آید ز آسماں اور از آن یار آورد خدا کے کوچہ میں غیر کو ہر گز دخل نہیں ہوتا جو آسمان سے آتا ہے وہی اس یار کے اسرار ہمراہ لاتا ہے خود بخود فهمیدن قرآن گمان باطل است هر که از خود آورد اونجس و مردار آورد آپ ہی آپ قرآن کو سمجھ لینا ایک غلط خیال ہے جو شخص اپنے پاس سے اسکا مطلب پیش کرتا ہے وہ گندگی اور مردار ہی پیش کرتا ہے.( برکات الدعا.ر.خ.جلد 6 صفحہ 5) ( در نین فاری متر جم صفحه 196-195)
794
795 ب دہم سلوک یعنی محبت الہی ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 176-177) إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّون اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (آل عمران:۳۲) خدا کی ذات میں بخل نہیں اور نہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ ان کی پوجا کی جاوے بلکہ اس لئے کہ لوگوں کو تعلیم دیں کہ ہماری راہ اختیار کرنے والے ہمارے کل کے نیچے آ جاویں گے جیسے فرمایا.اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْنِكُمُ اللهُ ( آل عمران :۳۲) یعنی میری پیروی میں تم خدا تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرمحبوب ہونے کی بدولت یہ سب اکرام ہوئے مگر جب کوئی اور شخص محبوب بنے گا تو اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا؟ اگر اسلام ایسا مذہب ہے تو سخت بیزاری ہے ایسے اسلام سے مگر ہرگز اسلام ایسا مذہب نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ مائدہ لائے ہیں کہ جو چاہے اس کو حاصل کرے.بجز اسیری عشق رخش رہائی نیست بدري أو همه امراض را دوا باشد ہمہ اُس کے چہرہ کے عشق کی قید کے سوا کوئی آزادی نہیں اور اُس کا در دہی سب بیماریوں کا علاج ہے.عنایت و و کرمش به بینی اش اگرت چشم خویش وا باشد اس کا فضل و کرم ہر وقت میری پرورش کرتا ہے اگر تیری آنکھیں کھلی ہیں تو تجھے یہ بات نظر آ جائے گی.بکار خانہ قدرت ہزار ہا نقش اند مگر تحلی" رحماں ز نقش ما باشد قدرت کے کارخانے میں ہزاروں نقش ہیں.مگر رحمن کا جلوہ صرف ہمارے نقش سے نظر آتا ہے.بیامدم که ره صدق را درخشانم بدلستاں برم آن را که پارسا باشد میں اس لئے آیا ہوں کہ صدق کی راہ کو روشن کروں اور دلبر کے پاس اُسے لے چلوں جو نیک و پارسا ہے.بیامدم که در علم و رشد بکشائیم بخاک نیز نمایم که در سما باشد پرورد مرا هردم میں اس لئے آیا ہوں کہ علم و ہدایت کا دروازہ کھولوں اور اہل زمین کو وہ چیزیں دکھاؤں جو آسمانی ہیں.تریاق القلوب رخ، جلد 15 صفحہ 134) لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے ایک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار کوئی ره نزدیک تر راہ محبت سے نہیں طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشت خار اُس کے پانے کا یہی اے دوستو اک راز ہے کیمیا ہے جس سے ہاتھ آ جائے گا زر بے شمار تیر تاثیر محبت کا خطا جاتا نہیں تیر اندازو! نہ ہونا سُست اس میں زینہار ہے یہی اگ آگ تا تم کو بچاوے آگ سے ہے یہی پانی کہ نکلیں جس سے صدہا آبشار اس سے خود آ کر ملے گا تم سے وہ یار ازل اس سے تم عرفانِ حق سے پہنو گے پھولوں کے ہار وہ کتاب پاک و برتر جس کا فرقاں نام ہے وہ یہی دیتی ہے طالب کو بشارت بار بار (در تین اردو - صفحه 141)
796
797 فہرست مضامین عنوانات 16 حضرت اقدس نے یہ مقام آنحضرت نمبر شمار عنوانات صفحہ نمبر شمار پہلی فصل 1 تعریف 801 2 محبت الہی انسان کی فطرت میں ہے 802 محبت کا لفظ حقیقی طور سے خدا کے لئے خاص ہے 4 انسان کے معانی ہیں دوانس 5 خدا تعالیٰ سے محبت کا طریق 6 محبت یکطرفہ نہیں ہوتی 7 حقیقی محبت الہی 804 805 806 کی پیروی سے پایا صفحہ 817 17 آنحضرت ﷺ کا روحانی مقام 1818 تیسری فصل 18 ر ذکر الہی.یا دالہی 19 حقیقی آداب ذکر الہی 20 درود شریف اور محبت الہی | 21 ورداور وظائف 22 بہترین وظیفه 8 حضرت اقدس کی بعثت کی علت غائی 23 ریاضتیں اور چلہ کشیاں محبت الہی ہے 9 | حصول دیدار باری تعالیٰ دوسری فصل 811 10 محبت الہی اور اتباع رسول اکرم 812 11 قرب الہی کا واسطہ قرآن اور آنحضرت ﷺ ہیں 12 رہبر کامل 813 814 24 | حقیقی وظیفہ نماز ہے 25 انقطاع الی اللہ.موت کو اختیار کرنا 26 دنیا کی خواہشات کا ترک کرنا چوتھی فصل 27 وحی والہام خدا کا وعدہ ہے 28 وحی والہام بچے مذہب کی نشانی ہے 819 // 820 821 822 823 824 // 826 827 // 13 محبت الہی اور نجات اتباع رسول میں ہے اور 29 کامل معرفت کیلئے الہام ضروری ہے 828 14 انبیاء نمونہ قائم کرنے کے لئے آتے 30 وحی والہام کا دروازہ کھلا ہے ہیں.حضرت اقدس رسول اکرم کا کامل نمونہ ہیں 815 15 انبیاء اپنا مثل قائم کرنا چاہتے ہیں 816 // وحی والہام کی خواہش کرنا درست نہیں ہے 830 // 32 ابتدائی الہام پر تسلی نہیں چاہئے 33 عشق الہی اور وحی والہام باری تعالی 1831
عنوانات صفحہ 858 859 860 861 862 // // 864 865 866 867 868 869 // 870 // 871 872 // // 873 || 874 798 صفحہ نمبر شمار 56 نیکی کا حکم عام ہے آٹھویں فصل 57 آداب عبادات 58 آداب نماز 59 نماز میں توجہ اور حضوری 60 | عبادت میں لذت ہے 61 نماز سب سے بڑا وظیفہ ہے 62 | روزه 63 | دعا اور اس کا فلسفہ 64 خدا کو خدا سے پانا 65 دعا کی اہمیت 66 آداب دعا 67 دعا اور تقویٰ 68 دُعا.صبر اور استقلال 69 سب حاجتیں خدا سے مانگو 70 دعا اور تدابیر 71 | شرائط دعا 72 اصل دُعا دین کے لئے ہے 73 دعا کی عظمت 74 دعا اسم اعظم ہے 75 سب دعائیں قبول نہیں ہوتیں 76 دُعا مسلمانوں کا فخر ہے 77 ہر نبی نے دُعا کی تعلیم دی ہے 78 | آڑے وقت کی دعا 79 مقبولوں کی پہچان قبولیت دعا ہے 832 833 834 835 // 836 840 // 841 843 846 847 848 849 850 // 852 853 854 855 857 بر شمار پانچویں فصل 34 | طریقت کی تعریف عنوانات ہدایت اور معرفت کے طریق 36 | حصول معرفت کے تین مدارج 37 حقیقی زندگی کا حصول 38 | امن کی راہ 39 طریقت کی چھ حالتیں 40 طریقت نفس کے تین درجے 41 پاکبازی کی اصل جڑ ایمان باللہ ہے 42 مقامات سلوک چھٹی فصل 43 سالک تھوڑے ہوتے ہیں 44 اولیاء اللہ میں درجات ساتویں فصل 45 | مجاہدہ ضروری ہے 46 | مجاہدہ اور الہام حضرت اقدس 47 عملی مجاہدہ 48 حقیقی مجاہدہ 49 مجاہدات کے نتائج 50 ابتلاء ضرور آتے ہیں 51 ابتلاء کا فلسفہ 52 ابتلاء میں لذت ہے 53 جہاد مالی اور جانی 54 استقامت 55 نیکی خالص اللہ کے لئے -
891 // 893 894 895 896 // 898 899 900 901 // // 903 905 // 906 // 907 908 // 909 799 بر شمار 80 دعا کا قبول نہ ہونا عنوانات 81 دعا پر اعتقاد نہ رکھنا 82 دعا مسلمانوں پر فرض ہے 83 امن کی حالت میں دُعا کرنا 84 قبولیت دعا کے آثار 85 قبولیت دعا کے ذرائع 86 غیروں کی دعا بھی قبول ہوتی ہے 87 احمدیوں کو نصیحت "/ 875 // صفحہ نمبر شمار گیارہویں فصل 102 | تقوی عنوانات 103 حصول تقوی 104 متقی کو سب نعمتیں ملتی ہیں بارہویں فصل کیفیات سالکین 105 خدا کے لئے جینا اور مرنا // 876 877 106 مومن میں آثار عبودیت 107 مومن میں تکلف نہیں آتا 88 ہجوم مشکلات میں کامیابی حاصل کرنے 108 مقامات مقربینِ الہی کا طریق 109 مقام صدق 110 مقام صالحیت 111 مقام شہادت 112 مقامات مجموعی اعتبار سے 113 - مقام ولایت 114 ولی بننے کے لئے ابتلا ضروری ہیں 115 روحانی مقام موہبت اور فضل الہی تیرہویں فصل 116 اخلاق کا فلسفہ 117 کل صفات نیک ہیں 118 اخلاق کی تعریف 119 اخلاق نیکیوں کی ماں ہے 120 بُرے اخلاق 121 اخلاق فاضلہ کی تکمیل 122 حقیقی اخلاق 123 صبر 878 879 880 // 881 882 // 883 884 886 887 888 890 نویس فصل 89 | تو بہ اور استغفار 90 توبہ کی معافی 91 توبہ کے شرائط 92 حضرت اقدس کی بیعت.بیعت تو بہ ہے 93 توبہ قبول ہوتی ہے 94 توبہ قبول نہ ہونے کا وقت 95 استغفار کی اہمیت 96 استغفار کے معافی 97 | استغفار سے رو بلا ہوتا ہے 98 | حقیقی تو به اور استغفار 99 | استغفار اور توبہ کا فلسفہ دسویں فصل 100 صحبت صالحین 101 مرید اور مرشد کا تعلق
800 عنوانات 124 عاجزی انکساری 125 توکل 126 توکل کی تعریف صفحہ نمبر شمار عنوانات صفحہ 911 | 132 خدا کی راہ میں خرچ کرنا 913 914 133 | صدق اور وفا 134 غیبت اور سوءظن 135 سلوک کامل 919 // 920 921 127 غصہ پر صبر // 128 عزبت اور مسکینی کی زندگی 915 | 136 | معرفت انسان کامل 129 رياء 130 متفرق اخلاق حسنه چودہویں فصل // 917 137 سالک کامل 131 آنحضرت ﷺ کے اخلاق کا اتباع 918 |131| 923 924
801 پہلی فصل تعریف سلوک یعنی محبت الہی قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ.(آل عمران: 32) سلوک صوفیوں نے ترقیات کی دورا ہیں لکھی ہیں.ایک سلوک دوسرا جذب.سلوک وہ ہے جو لوگ آپ عقلمندی سے سوچ کر اللہ ورسول کی راہ اختیار کرتے ہیں.جیسے فرمایا.قُل إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله ( آل عمران:32) یعنی اگر تم اللہ کے پیارے بنا چاہتے ہوتو رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کی پیروی کرو.وہ ہادی کامل وہی رسول ہیں جنہوں نے وہ مصائب اٹھا ئیں کہ دنیا اپنے اندر نظیر نہیں رکھتی.ایک دن بھی آرام نہ پایا.اب پیروی کرنے والے بھی حقیقی طور سے وہی ہوں گے.جو اپنے متبوع کے ہر قول وفعل کی پیروی پوری جد و جہد سے کریں.متبع وہی ہے جو سب طرح پیروی کرے گا.سہل انگار اور سخت گزار کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے غضب میں آوے گا.یہاں جو اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا حکم دیا تو سالک کا کام یہ ہونا چاہئے کہ اول رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل تاریخ دیکھے اور پھر پیروی کرے.اسی کا نام سلوک ہے.اس راہ میں بہت مصائب و شدائد ہوتے ہیں.ان سب کو اٹھانے کے بعد ہی انسان سالک ہوتا ہے.جذب اہل جذب کا درجہ سالکوں سے بڑھا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں سلوک کے درجہ پر ہی نہیں رکھتا بلکہ خودان کو مصائب میں ڈالتا اور جاذبہ ازلی سے اپنی طرف کھینچتا ہے.کل انبیاء مجذوب ہی تھے.جس وقت انسانی روح کو مصائب کا مقابلہ ہوتا ہے ان سے فرسودہ کار اور تجربہ کار ہو کر روح چمک اٹھتی ہے.جیسے تو ہایا شیشہ اگر چہ چمک کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے.لیکن صیقلوں کے بعد ہی مجتبی ہوتا ہے.حتی کہ اس میں منہ دیکھنے والے کا منہ نظر آ جاتا ہے.مجاہدات بھی صیقل کا ہی کام کرتے ہیں.دل کا صیقل یہاں تک ہونا چاہئے کہ اس میں سے بھی منہ نظر آ جاوے.منہ کا نظر آنا کیا ہے؟ تَخَلَّقُوا بِاَخلاقِ اللہ کا مصداق ہونا.سالک کا دل آئینہ ہے جس کو مصائب و شدائد اس قدر صیقل کر دیتے ہیں کہ اخلاق النبی اس میں منعکس ہو جاتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے.جب بہت مجاہدات اور تزکیوں کے بعد اس کے اندر کسی قسم کی کدورت یا کثافت نہ رہے تب یہ درجہ نصیب ہوتا ہے.ہر ایک مومن کو ایک حد تک ایسی صفائی کی ضرورت ہے.کوئی مومن بلا آئینہ ہونے کے نجات نہ پائے گا.سلوک والا خود یہ میقل کرتا ہے اپنے کام سے مصائب اٹھاتا ہے لیکن جذب والا مصائب میں ڈالا جاتا ہے.خدا خوداس کا مصقل ہوتا ہے اور طرح طرح کے مصائب و شدائد سے میںقل کر کے اس کو آئینہ کا درجہ عطا کر دیتا ہے.دراصل سالک و مجذوب دونوں کا ایک ہی نتیجہ ہے.سو متقی کے دو حصے ہیں.سلوک و جذب.( ملفوظات جلد اول صفحہ 18 17 )
802 محبت الہی انسان کی فطرت میں ہے وَإِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلَى اَنْفُسِهِمُ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ، قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هذَا غُفِلِينَ.(الاعراف : 173) نجات کا تمام مدار خدا تعالیٰ کی محبت ذاتیہ پر ہے اور محبت ذاتیہ اس محبت کا نام ہے جو روحوں کی فطرت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مخلوق ہے پھر جس حالت میں ارواح پر میشر کی مخلوق ہی نہیں ہیں تو پھر ان کی فطری محبت پر میشر سے کیونکر ہو سکتی ہے.اور کب اور کس وقت پر میشر نے ان کی فطرت کے اندر ہاتھ ڈال کر یہ محبت اس میں رکھ دی یہ تو غیر ممکن ہے.وجہ یہ ہے کہ فطرتی محبت اس محبت کا نام ہے جو فطرت کے ساتھ ہمیشہ سے لگی ہوئی ہو اور پیچھے سے لاحق نہ ہو جیسا کہ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ اس کا یہ قول ہے الست بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی یعنی میں نے روحوں سے سوال کیا کہ کیا میں تمہارا پیدا کنندہ نہیں ہوں تو روحوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں.اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ انسانی روح کی فطرت میں یہ شہادت موجود ہے کہ اس کا خدا پیدا کنندہ ہے.پس روح کو اپنے پیدا کنندہ سے طبعاً محبت ہے اس لیے کہ وہ اس کی پیدائش ہے.(چشمہ مسیحی.ر خ جلد 20 صفحہ 364 363) کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشان اس میں جمالِ یار کا خوبرویوں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس ترے گلزار کا ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا چشم مست ہر تو نے خود روحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑ کا نمک اس سے ہے شورِ محبت عاشقان زار کا ش شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا سرمه چشم آریہ - ر-خ- جلد 2 صفحہ 52 ) ( در مشین اردو)
803 جاں فدائے آنکه او جاں آفرید دل ثار آنکه زوشد دل پدید جان اس پر قربان ہے جس نے اس جان کو پیدا کیا دل اس پر نثار ہے جس نے دل کو بنایا.جال از و پیداست زیں مے جویدش رَبُّنَا اللهُ رَبُّنَا الله گویدش جان چونکہ اس کی مخلوق ہے اس لیے اسے ڈھونڈتی ہے اور کہتی ہے کہ تو ہی میرا رب ہے تو ہی میرا رب ہے.گر وجودِ جاں نبودے زو عیاں کے شدے مہر جمالش نقش جاں اگر جان کا وجود اس کی طرف سے ظاہر نہ ہوتا.تو اس کے حسن کی محبت جان پر کس طرح نقش ہوتی.جسم و جاں را کرد پیدا آں لگاں زین دود دل سوئے اوچوں عاشقاں جسم اور جان کو اسی یکتا نے پیدا کیا ہے اسی لیے عاشقوں کی طرح دل اس کی طرف دوڑتا ہے.(ست بچن.رخ.جلد 10 صفحہ 113 ) ( درشین فارسی متر جم صفحه 215) فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا.(الروم : 31) اسلام انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے اور خدا تعالیٰ نے انسان کو اسلام پر پیدا کیا اور اسلام کے لئے پیدا کیا ہے یعنی یہ چاہا ہے کہ انسان اپنے تمام قومی کے ساتھ اس کی پرستش اطاعت اور محبت میں لگ جائے اسی وجہ سے اس قادر کریم نے انسان کو تمام قومی اسلام کے مناسب حال عطا کئے ہیں.انسان کو جو کچھ اندرونی اور بیرونی اعضاء دیے گئے ہیں یا جو کچھ قو تیں عنایت ہوئی ہیں اصل مقصود ان سے خدا کی معرفت اور خدا کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی محبت ہے اسی وجہ سے انسان دنیا میں ہزاروں شغلوں کو اختیار کر کے پھر بھی بجز خدا تعالیٰ کے اپنی سچی خوشحالی کسی میں نہیں پاتا.بڑا دولتمند ہو کر بڑا عہدہ پا کر بڑا تاجر بن کر بڑی بادشاہی تک پہنچ کر بڑا فلاسفر کہلا کر آخران دنیوی گرفتاریوں سے بڑی حسرتوں کے ساتھ جاتا ہے اور ہمیشہ دل اس کا دنیا کے استغراق سے اس کو ملزم کرتا رہتا ہے اور اس کے مکروں اور فریبوں اور نا جائز کاموں میں کبھی اس کا کانشنس اس سے اتفاق نہیں کرتا.(اسلامی اصول کی فلاسفی.ر.خ.جلد 10 صفحہ 415) مجھے اس یار سے پیوند جاں ہے وہی جنت وہی دارالاماں ہے بیان اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے یہ کیا احساں ہیں تیرے میرے ہادی فسبحان الذي اخزى الاعادى ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھکو پاؤں محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں محبت چیز کیا کس کو بتاؤں وفا کیا راز ہے کس کو سناؤں میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دنیائے مادی فسبحان الذي اخزى الاعادي بشیر احمد شریف احمد اور مبارکہ کی آمین ) ( در نتین اردو صفحہ 50)
804 محبت کا لفظ حقیقی طور سے خدا کے لئے خاص ہے اور اس سوال کی تیسری جزیہ ہے کہ قرآن شریف میں یہ کہاں لکھا ہے کہ انسان انسان کے ساتھ محبت کرے.اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے اس جگہ بجائے محبت کے رحم اور ہمدردی کا لفظ لیا ہے کیونکہ محبت کا انتہا عبادت ہے اسلئے محبت کا لفظ حقیقی طور پر خدا سے خاص ہے.اور نوع انسان کیلئے بجائے محبت کے خدا کے کلام میں رحم اور احسان کا لفظ آیا ہے کیونکہ کمال محبت پرستش کو چاہتا ہے اور کمال رحم ہمدردی کو چاہتا ہے.اس فرق کو غیر قوموں نے نہیں سمجھا.اور خدا کا حق غیروں کو دیا.میں یقین نہیں رکھتا کہ یسوع کے منہ سے ایسا مشر کا نہ لفظ نکلا ہو.بلکہ میرا گمان ہے کہ پیچھے سے یہ مکروہ الفاظ انجیلوں میں ملا دیئے گئے ہیں.محبت کا لفظ جہاں کہیں با ہم انسانوں کی نسبت آیا بھی ہو اس سے در حقیقت حقیقی محبت مراد نہیں بلکہ اسلامی تعلیم کی رو سے حقیقی محبت صرف خدا سے خاص ہے.اور دوسری محبتیں غیر حقیقی اور مجازی طور پر ہیں.انسان کے معانی ہیں دو انس (سراج الدین عیسائی کے چارسوالوں کا جواب.ر.خ.جلد 12 صفحہ 369 مع حاشیہ ) حکمت الہیہ نے آدم کو ایسے طور سے بنایا کہ فطرت کی ابتدا سے ہی اس کی سرشت میں دو قسم کے تعلق قائم کر دیے.یعنی ایک تعلق تو خدا سے قائم کیا جیسا قرآن شریف میں فرمایا فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوحِى فَقَعُوا لَهُ سَجِدِینَ یعنی جب میں اس کو ٹھیک ٹھاک بنالوں اور میں اپنی روح اس میں پھونک دوں تو اے فرشتو اس وقت تم سجدہ میں گر جاؤ.مذکورہ بالا آیت سے صاف ثابت ہے کہ خدا نے آدم میں اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی روح پھونک کر اس کی فطرت کو اپنے ساتھ ایک تعلق قائم کر دیا.سو یہ اس لئے کیا گیا کہ تا انسان کو فطر تا خدا سے تعلق پیدا ہو جا دے.ایسا ہی دوسری طرف یہ بھی ضروری تھا کہ ان لوگوں سے بھی فطرتی تعلق ہو جو بنی نوع کہلائیں گے کیونکہ جبکہ ان کا وجود آدم کی ہڈی میں سے ہڈی اور گوشت میں سے گوشت ہوگا تو وہ ضرور اس روح میں سے بھی حصہ لیں گے جو آدم میں پھونکی گئی.( ریویو آف ریلیجنز جلد 11 نمبر 5 صفحہ 177-178 بابت مئی 1902 ) ( تفسیر حضرت اقدس جلد پنجم صفحہ 128) خدا تعالیٰ سے محبت کا طریق تمام طریق جن کا قرآن شریف میں کوئی ذکر نہیں انسانی اختراع اور خیالات ہیں جن کا نتیجہ کبھی کچھ نہیں ہوا.قرآن شریف اگر کچھ بتاتا ہے تو یہ کہ خدا سے یوں محبت کرو.اَشَدُّ حُبًّا للهِ (البقرة: 166) کے مصداق بنو اور فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : 32) پر عمل کرو اور ایسی فناء اتم تم پر آجاوے کہ تَبَتِّلُ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا (المزمل: 9) کے رنگ سے تم رنگین ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر مقدم کر لو یہ امور ہیں جن کے حصول کی ضرورت ہے.نادان انسان اپنے عقل اور خیال کے پیمانہ سے خدا کو ناپنا چاہتا ہے اور اپنی اختراع سے چاہتا ہے کہ اس سے تعلق پیدا کرے اور یہی ناممکن ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 559)
805 پس مبارک وہ مذہب جس کا نام اسلام ہے.ایسا ہی خدا کی محبت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ آمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقرة : 166 ) یعنے ایمانداروہ ہیں جو سب سے زیادہ خدا سے محبت رکھتے ہیں.پھر ایک جگہ فرماتا ہے.فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِكُمْ آبَاء كُمُ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا (البقرة: 201) یعنے خدا کوالیسایادکر وجیها کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے تھے بلکہ اس سے زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو.اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے.قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتي لله رب العلمين (الانعام: 163) یعنے انکو جو تیری پیروی کرنا چاہتے ہیں یہ کہدے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا زندہ رہنا سب اللہ تعالیٰ کیلئے ہے یعنے جو میری پیروی کرنا چاہتا ہے وہ بھی اس قربانی کو ادا کرے.اور پھر ایک جگہ فرمایا کہ اگر تم اپنی جانوں اور اپنے دوستوں اور اپنے باغوں اور اپنی تجارتوں کو خدا اور اسکے رسول سے زیادہ پیاری چیزیں جانتے ہو تو الگ ہو جاؤ.جب تک خدا تعالیٰ فیصلہ کرے.اور ایسا ہی ایک جگہ فرمایا.وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيمًا وَّآسِيْرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الدھر 9-10) یعنے مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں اور انھیں کہتے ہیں کہ ہم محض خدا کی محبت اور اسکے منہ کیلئے تمہیں دیتے ہیں.ہم تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتے اور نہ شکر گذاری چاہتے ہیں.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.ر-خ- جلد 12 صفحہ 368-367) محبت یکطرفہ نہیں ہوتی وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ.(الذريت: 57) میں نے پرستش کے لئے ہی جن و انس کو پیدا کیا ہے.ہاں یہ پرستش اور حضرت عزت کے سامنے دائمی حضور کے ساتھ کھڑا ہونا بجز محبت ذاتیہ کے ممکن نہیں اور محبت سے مراد یکطرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں تا بجلی کی آگ کی طرح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اور جو اس وقت اس انسان کے اندر سے نکلتی ہے بشریت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام روحانی وجود پر قبضہ کر لیں.( براھین احمدیہ حصہ پنجم.رخ - جلد 21 صفحہ 218-217) قُلْ إِنَّ صَلوتِي وَ نُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.(الانعام: 163) یعنی کہہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے ہے اور جب انسان کی محبت خدا کے ساتھ اس درجہ تک پہنچ جائے کہ اس کا مرنا اور جینا اپنے لئے نہیں بلکہ خدا ہی کے لئے ہو جائے.تب خدا جو ہمیشہ سے پیار کرنے والوں کے ساتھ پیار کرتا آیا ہے اپنی محبت کو اس پر اتارتا ہے اور ان دونوں محبتوں کے ملنے سے انسان کے اندر ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو دنیا نہیں پہچانتی اور نہ سمجھ سکتی ہے اور ہزاروں صدیقوں اور برگزیدوں کا اس لئے خون ہوا کہ دنیا نے ان کو نہیں پہچانا.وہ اسی لئے مکار اور خود غرض کہلائے کہ دنیا ان کے نورانی چہرہ کو دیکھ نہ سکی جیسا کہ فرماتا ہے.يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (الاعراف: 199) یعنی وہ جو منکر ہیں تیری طرف دیکھتے تو ہیں مگر تو انہیں نظر نہیں آتا.اسلامی اصول کی فلاسفی - ر.خ.جلد 10 صفحہ 384)
806 حقیقی محبت الہی یا د رکھنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ سے کمال محبت کی یہ علامت ہے کہ محبت میں ظلی طور پر الہی صفات پیدا ہو جائیں اور جب تک ایسا ظہور میں نہ آوے تب تک دعوئی محبت جھوٹ ہے.محبت کاملہ کی مثال بعینہ لوہے کی وہ حالت ہے جب کہ وہ آگ میں ڈالا جائے اور اس قدر آگ اس میں اثر کرے کہ وہ خود آگ بن جائے.پس اگر چہ وہ اپنی اصلیت میں لوہا ہے آگ نہیں ہے مگر چونکہ آگ نہایت درجہ اس پر غلبہ کر گئی ہے اس لئے آگ کے صفات اس سے ظاہر ہوتے ہیں.وہ آگ کی طرح جلا سکتا ہے آگ کی طرح اس میں روشنی ہے.پس محبت الہیہ کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اس رنگ سے رنگین ہو جائے.( براھین احمدیہ حصہ پنجم.رخ - جلد 21 صفحہ 124-123) صوفی کہتے ہیں جب تک محبت ذاتی نہ ہو جاوے ایسی محبت کہ بہشت اور دوزخ پر بھی نظر نہ ہو اس وقت تک کامل نہیں ہوتا اس سے پہلے اس کا خدا بہشت اور دوزخ ہوتے ہیں لیکن جب وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کیلئے اِعْمَلُوا مَاشِمُتُم حم السجدة : 41) کا حکم ہوتا ہے کیونکہ ان کی رضا خدا کی رضا ہوتی ہے.جب تک یہ حال نہ ہوا ندیشہ ہو تا کہ نیکی ضائع نہ ہو جائے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 631) حضرت اقدس کی بعثت کی علت غائی محبت الہی ہے ہماری بعثت کی علت غائی بھی تو یہی ہے کہ رستہ منزلِ جاناں کے بھولے بھٹکوں، دل کے اندھوں جذام ضلالت کے مبتلاؤں.ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والے کو رباطنوں کو صراط مستقیم پر چلا کر وصال ذات ذوالجلال کا شیریں جام پلایا جاوے اور عرفانِ الہی کے اس نقطہ انتہائی تک ان کو پہنچایا جاوے تا کہ ان کو حیات ابدی و راحت دائمی نصیب ہو اور جوار رحمت ایزدی میں جگہ لے کر مست و سرشار رہیں.ہماری معیت اور رفاقت کی پاک تاثیرات کے ثمرات حسنہ بالکل صاف ہیں.ہاں ان کے ادراک کیلئے فہم رسا چاہیئے.ان کے حصول کے لیے رشد و صفا چاہیئے.ساتھ ہی استقامت کے لیے انتقا چاہیئے ورنہ ہماری جانب سے تو چار دانگ کے عالم کے کانوں میں عرصہ سے کھول کھول کر منادی ہورہی ہے.بیآمدم که ره صدق را در خشانم بدلستاں برم آنرا که پارسا باشد کسیکه ساید بال ہماش سود نداد ببایدش که دو روزے بظل ما باشد گلے کہ روئے خزاں کا گہے نخواهد دید بانغ ماست اگر قسمتت رسا باشد را
807 ترجمہ :.میں اس لئے آیا ہوں کہ سچائی کی راہ دکھاؤں.اور جو نیک ہے اس کو محبوب تک پہنچاؤں.ایسا شخص جس کو ہما کا سایہ بھی فائدہ نہیں چاہتا اس کو چاہئے کہ ایک دو دن میرے سائے میں بیٹھے.وہ پھول جو کبھی خزاں کا منہ نہیں دیکھتا وہ میرے پاس ہے.اگر تیری قسمت ہے تو لے لے.ہم نے تو اس مائدہ الہی کو ہر کس و ناکس کے آگے رکھنے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑ ا مگر آگے ان کی اپنی قسمت و ما علينا الا البلاغ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 466) إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّةٌ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ.(البقره: 132) میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں کہ آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یا نہ سنے کہ اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ اور ابدی زندگی کا طلب گار ہے تو وہ اللہ کے لیے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی میری موت میری قربانیاں میری نمازیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور حضرت ابراہیم کی طرح اس کی روح بول اٹھے اَسْلَمُتُ لِرَبِّ الْعَلَمِینَ جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جا تا خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی پانہیں سکتا.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لیے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل اور غرض سمجھتا ہوں پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لیے پسند کرتے اور خدا کے لیے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحه 370) روئے دلبر از طلبگاراں نمی دارد حجاب می درخشند در خورد می تا بداندر ماہتاب دلبر کا چہرہ طالبوں سے پوشیدہ نہیں ہے وہ سورج میں بھی چمکتا ہے اور چاند میں بھی.لیکن آں روئے حسین از غافلاں ماند نہاں عشق باید که بردارند از بهرش نقاب لیکن وہ حسین چہر ہ غافلوں سے پوشیدہ ہے سچا عاشق چاہیے تا کہ اس کی خاطر نقاب اٹھائی جائے.دامن پاکش زنخوتها نمے آید بدست بیچ را ہے نسیت غیر از عجز و درد و اضطراب اس کا مقدس دامن تکبر سے ہاتھ نہیں آتا اس کے لیے کوئی راہ سوائے درد اور بے قراری کے نہیں ہے.بس خطرناک است راه کوچه یار قدیم جاں سلامت بایدت از خودروی هاسر بتاب اس محبوب از لی کا راستہ بہت خطرناک ہے اگر تجھے جان کی سلامتی چاہیئے تو خودروی کو ترک کر دے.( در شین فارسی مترجم صفحه 198-197 ) ( برکات الدعا.ر.خ.جلد 6 صفحہ 33)
808 قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسَكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَ اللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ.(التوبه: 24) یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ مال جو تم نے محنت سے کمائے ہیں اور تمہاری سوداگری جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری حویلیاں جو تمہارے دل پسند ہیں خدا سے اور اس کے رسول سے اور خدا کی راہ میں اپنی جانوں کو لڑانے سے زیادہ پیارے ہیں تو تم اس وقت تک منتظر رہو کہ جب تک خدا اپنا حکم ظاہر کرے اور خدا بد کاروں کو کبھی اپنی راہ نہیں دکھائے گا.ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ خدا کی مرضی کو چھوڑ کر اپنے عزیزوں اور مالوں سے پیار کرتے ہیں وہ خدا کی نظروں میں بدکار ہیں.وہ ضرور ہلاک ہوں گے کیونکہ انہوں نے غیر کو خدا پر مقدم رکھا.یہی وہ تیسرا مرتبہ ہے جس میں وہ شخص با خدا بنتا ہے جو اس کے لیے ہزاروں بلائیں خریدے اور خدا کی طرف ایسے صدق اور اخلاص سے جھک جائے کہ خدا کے سوا کوئی اس کا نہ رہے گویا سب مر گئے.اسلامی اصول کی فلاسفی.رخ - جلد 10 صفحہ 383-382) سینہ مے باید تهی از غیر یار ! دل ہے باید پر از یاد نگار ! یار کے سوا ہر چیز سے سینہ خالی ہونا چاہیئے اور دل محبوب کی یاد سے بھرا رہنا چاہیئے.جاں ہے باید براه او فدا سر ہے باید بپائے او ثار جان اس کی راہ میں قربان ہونی چاہیئے اور سر اُس کے قدموں میں شمار ہونا چاہیئے.وار بیچ دانی چیست دین عاشقاں گویمت گربشنوی عشاق کیا تجھے معلوم ہے کہ عاشقوں کا دین کیا ہوتا ہے؟ میں تجھے بتا تا ہوں اگر تو عاشقوں کی طرح سنے.لوح دل شستن ز غیر دوستدار عالم فرو بستن نظر ہمہ از وہ یہ ہے کہ سارے جہاں کی طرف سے آنکھ بند کر لینا اور دوست کے سوا ہر چیز سے دل کی سختی کو دھوڈالنا.( در شین فارسی مترجم صفحه 150) (سرمه چشم آریہ - ر-خ- جلد 2 صفحہ 258 حاشیہ)
809 اصل حقیقت اور اصل سرچشمہ نجات کا محبت ذاتی ہے جو وصال الہی تک پہنچاتی ہے وجہ یہ کہ کوئی محبت اپنے محبوب سے جدا نہیں رہ سکتا اور چونکہ خدا خود نور ہے اس لیے اس کی محبت سے نور نجات پیدا ہو جاتا ہے اور وہ محبت جو انسان کی فطرت میں ہے خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کی محبت ذاتی انسان کی محبت ذاتی میں ایک خارق عادت جوش بخشتی ہے اور ان دونوں محبتوں کے ملنے سے ایک فنا کی صورت پیدا ہو کر بقاء باللہ کا نور پیدا ہو جاتا ہے اور یہ بات کہ دونوں محبتوں کا باہم ملنا ضروری طور پر اس نتیجہ کو پیدا کرتا ہے کہ ایسے انسان کا انجام فنافی اللہ ہو اور خاکستر کی طرح یہ وجود ہو کر ( جو حجاب ہے) سراسر عشق الہی میں روح غرق ہو جائے.اس کی مثال وہ حالت ہے کہ جب انسان پر آسمان سے صاعقہ پڑتی ہے تو اس آگ کی کشش سے انسان کے بدن کی اندرونی آگ یک دفعہ باہر آ جاتی ہے تو اس کا نتیجہ جسمانی فنا ہوتا ہے پس دراصل یہ روحانی موت بھی اسی طرح دو قسم کی آگ کو چاہتی ہے ایک آسمانی آگ اور ایک اندرونی آگ اور دونوں کے ملنے سے وہ فنا پیدا ہو جاتی ہے جس کے بغیر سلوک تمام نہیں ہوسکتا یہی فناوہ چیز ہے جس پر سالکوں کا سلوک ختم ہو جاتا ہے اور جو انسانی مجاہدات کی آخری حد ہے.اس فنا کے بعد فضل اور موہبت کے طور پر مرتبہ بقا کا انسان کو حاصل ہوتا ہے.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پر ملا یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کا اجر اور یہ عشق الہی کا آخری نتیجہ ہے جس سے ہمیشہ کی زندگی حاصل ہوتی ہے اور موت سے نجات ہوتی ہے.(چشمہ مسیحی.رخ - جلد 20 صفحہ 365-364) إِنَّمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّ لَهُوٌ وَ اِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْتَلْكُمُ أَمْوَالَكُمْ.(محمد: 37) خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان کا ایک خاص تعلق ہے.اہل عرفان لوگوں نے بشریت اور ربوبیت کے جوڑہ پر بہت لطیف بخشیں کی ہیں.اگر بچے کا منہ پتھر سے لگا ئیں تو کیا کوئی دانشمند خیال کر سکتا ہے کہ اس پتھر میں سے دودھ نکل آئے گا اور بچہ سیر ہو جائے گا ہر گز نہیں.اسی طرح پر جب تک انسان خدا تعالیٰ کے آستانہ پر نہیں گرتا اس کی روح ہمہ نیستی ہوکر ربوبیت سے تعلق پیدا نہیں کرتی اور نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ عدم یا مشابہہ بالعدم نہ ہو کیونکہ ربوبیت اس کو چاہتی ہے اس وقت تک وہ روحانی دودھ سے پرورش نہیں پاسکتا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 137)
810 تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرص یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ.دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو.میں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے اس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دور پڑا ہوا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو.بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو.اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشا نہیں اسلام تو انسان کو چست ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے اس لئے میں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جد و جہد سے کرو.حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو وہ اس کا تر ڈونہ کرے تو اس سے مواخذہ ہوگا.پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جاوے وہ غلطی کرتا ہے نہیں اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کا روبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہوا اور اس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کو مقدم نہ کرنا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 118) اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اُس یار کے لئے رہ عشرت کو چھوڑ دو لعنت کی ہے یہ راہ سولعنت کو چھوڑ دو ورنہ خیال حضرت عزت کو چھوڑ دو تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول تا تم پہ ہو ملائکہ عرش کا نزول اسلام چیز کیا ہے ؟ خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش ہے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس رہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات ( در مشین صفحه 103 ) ( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 21 صفحہ 18) وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَاسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنُجَبيَّلًا.عَيْنًا فِيْهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا.(الدهر : 18-19) وہ جو نیکو کار ہیں وہ اسی دنیا میں ایسا کا فوری شربت پی رہے ہیں جس نے ان کے دلوں میں سے دنیا کی محبت ٹھنڈی کر دی ہے اور دنیا طلبی کی پیاس بجھادی ہے.کا فوری شربت کا ایک چشمہ ہے جو ان کو عطا کیا جاتا ہے اور وہ اس چشمہ کو پھاڑ پھاڑ کر نہر کی صورت پر کر دیتے ہیں تا وہ نزدیک اور دور کے پیاسوں کو اس میں شریک کر دیں اور جب وہ چشمہ نہر کی صورت پر آ جاتا ہے اور قوت ایمانی بڑھ جاتی ہے اور محبت الہی نشو و نما پانے لگتی ہے تب ان کو ایک اور شربت پلایا جاتا ہے جو ز کیلی شربت کہلاتا ہے.یعنی پہلے تو وہ کا فوری شربت پیتے ہیں جس کا کام اس قدر ہے کہ دنیا کی محبت ان کے دلوں پر سے ٹھنڈی کر دے لیکن بعد اس کے وہ ایک گرم شربت کے بھی محتاج ہیں تا خدا کی محبت کی گرمی ان میں بھڑ کے کیونکہ صرف بدی کا ترک کرنا کمال نہیں ہے.پس اس کا نام تحصیلی شربت ہے اور اس چشمہ کا نام سلسبیل ہے جس کے معنے ہیں خدا کی راہ پوچھ.لیکچر لاہور.رخ - جلد 20 صفحہ 159-158)
811 إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الامنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَ إِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا (النساء : 59) امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قومی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے اور پھر انسان کامل برطبق آیت اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دید یتا ہے یعنی اس میں فانی ہوکر اس کے راہ میں وقف کر دیتا ہے.اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور تم طور پر ہمارے سید ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی امی صادق مصدوق محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی.آئینہ کمالات اسلام - ر-خ- جلد 5 صفحہ 161-162) حصول دیدار باری تعالی قرآن شریف میں اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں دیدار الہی میسر آ سکتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.مَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لَا يُشْرِكَ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا (الكهف: 111 ) یعنی جوشخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے پس چاہئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فساد نہ ہو.یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں نہ ان کی وجہ سے دل میں تکبر پیدا ہو کہ میں ایسا ہوں اور ایسا ہوں اور نہ وہ عمل ناقص اور نا تمام ہوں اور نہ ان میں کوئی ایسی بدبو ہو جو محبت ذاتی کے برخلاف ہو بلکہ چاہئے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پر ہیز ہو نہ سورج نہ چاند نہ آسمان کے ستارے نہ ہوا نہ آگ نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا ان پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کے قسموں میں سے ایک قسم ہے بلکہ سب کچھ کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا.اور نہ اپنے علم پر کوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز.بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت روح گری رہے اور دعاؤں کے ساتھ اس کے فیض کو اپنی طرف کھینچا جائے.اور اس شخص کی طرح ہو جائیں کہ جو سخت پیاسا اور بے دست و پا بھی ہے اور اس کے سامنے ایک چشمہ نمودار ہوا ہے نہایت صافی اور شیر ہیں.پس اس نے افتان و خیزاں بہر حال اپنے تئیں اس چشمہ تک پہنچا دیا اور اپنی لبوں کو اس چشمہ پر رکھ دیا اور علیحدہ نہ ہوا لیکچر لاہور.ر.خ.جلد 20 صفحہ 154) جیتک سیراب نہ ہوا.
دوسری فصل 812 محبت الہی اور اتباع رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْيِيكُمُ اللهُ ويَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُم.28, و الله غفورٌ رَّحِيم.(آل عمران: 32) روحانیت کے نشو و نما اور زندگی کے لئے صرف ایک ہی ذریعہ خدا تعالیٰ نے رکھا ہے اور وہ اتباع رسول ہے.قرآن شریف اگر کچھ بتا تا ہے تو یہ کہ خدا سے یوں محبت کرو.اَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ کے مصداق بنو اور فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله پر عمل کرو ایسی فناء اتم تم پر آ جاوے کہ تبلُ إِلَيْهِ تَبتِیلاً کے رنگ سے تم رنگین ہو جاؤ.اور خدا تعالیٰ ( ملفوظات جلد اول صفحه 559-558) ط کوسب چیزوں پر مقدم کرلو.اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرز عمل کو اپنا رہبر اور ہادی نہ بنالے چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا ہے قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله یعنی محبوب الہی بننے کے لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جاوے.بچی اتباع آپ کے اخلاق فاضلہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 62) ان کو کہ دو کہ تم اگر چاہتے ہو کہ محبوب الہی بن جاؤ اور تمہارے گناہ بخش دیئے جاویں تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اطاعت کرو.کیا مطلب کہ میری پیروی ایک ایسی شے ہے جو رحمت الہی سے ناامید ہونے نہیں دیتی گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنادیتی ہے.اور تمہارا یہ دعویٰ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اسی صورت میں سچا اور صحیح ثابت ہوگا کہ تم میری پیروی کرو.اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی خود تراشیدہ طرز ریاضت و مشقت اور جپ پ سے اللہ تعالٰی کا محبوب اور قرب الہی کا حقدار نہیں بن سکتا انوار و برکات الہیہ کسی پر نازل نہیں ہوسکتیں جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کھویا نہ جاوے.اور جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں گم ہو جاوے اور آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے اس کو وہ نور ایمان.محبت اور عشق دیا جاتا ہے جو غیر اللہ سے رہائی دلا دیتا ہے.اور گناہوں سے رستگاری اور نجات کو موجب ہوتا ہے.اسی دنیا میں وہ ایک پاک زندگی پاتا ہے.اور نفسانی جوش و جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے نکال دیا جاتا ہے اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِی یعنی میں وہ مردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 427-426) ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا بارے خدایا ہم نے
813 قرب الہی کا واسطہ قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ہر ایک شخص کو خود بخود خدا سے ملاقات کرنے کی طاقت نہیں اس کے واسطے واسطہ ضرور ہے اور وہ واسطہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اس واسطے جو آپ کو چھوڑتا ہے وہ کبھی با مراد نہ ہو گا انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے اسے قبول کرے اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہو جاؤ قرآن کریم میں خدا فرماتا ہے قُلُ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ (الزمر: 54) اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں.نہ کہ مخلوق.رسول کریم کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپ پر درود پڑھو اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو.سب حکموں پر کار بند ر ہو جیسے کہ حکم ہے قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران :32) اگر تم خدا سے پیار کرنا چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے فرماں بردار بن جاؤ اور رسول کریم کی راہ میں فنا ہو جاؤ تب خدا تم سے محبت کریگا.کل انبیاء اولیاء.اتقیا.اور صالحین کا ایک یہ مجموعی مسئلہ ہے کہ پاک کرنا خدا کا کام ہے اور خدا کے اس فضل کے جذب کے واسطے اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم از بس ضروری اور لازمی ہے.جیسا کہ فرماتا ہے قُل اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : 32) سورج دنیا میں موجود ہے مگر چشم بینا بھی تو چاہئے.خدا تعالیٰ کا قانون قدرت لغو اور بے فائدہ نہیں ہے.جو ذرائع کسی امر کے حصول کے خدا نے بنائے ہیں آخر انہیں کی پابندی سے وہ نتائج حاصل ہوتے ہیں.کان سننے کے واسطے خدا نے بنائے ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے.آنکھ جود یکھنے کے واسطے بنائی گئی ہے وہ سنے کا کام نہیں کر سکتی.بس اسی طرح خدا کے فضل کے فیضان کے حصول کی جو راہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے اس سے باہر رہ کر کیسے کوئی کامیاب ہو سکتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 234 233 ) حقیقی پاکیزگی اور طہارت ملتی ہے اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیونکہ خود خدا نے فرما دیا کہ اگر خدا کے محبوب بنا چاہتے ہو تو رسول کی پیروی کرو.پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں کسی نبی یا رسول کی کیا ضرورت ہے وہ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کو باطل کرنا چاہتے ہیں.محمد پر ہماری جاں فدا ہے کہ وہ کوئے صنم کا راہ نما ہے ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 564)
814 رہبر کامل سیدشان آنکه نامش مصطفی است رہیم ہر زمره صدق و صفا است ان لوگوں کا سردار وہ ہے جس کا نام مصطفیٰ ہے تمام اہل صدق وصفا کا وہی رہنما ہے.می درخشد روئے حق در روئے اُو ہوئے حق آید زبام و کوئے اُو اس کے چہرہ میں خدا کا چہرہ چمکتا نظر آتا ہے اس کے درودیوار سے خدا کی خوشبو آتی ہے.ہر کمال رہبری بروے تمام پاک روی و پاک ردیاں را امام رہبری کے تمام کمال اس پر ختم ہیں خود بھی مقدس ہے اور سب مقدسوں کا امام ہے.اے خدا : اے چارہ آزار ما کن شفاعت ہائے او در کار ما اے خدا.اے ہماری تکلیفوں کی دوا ہمارے معاملہ میں اس کی شفاعت ہمیں نصیب کر.ہر کہ مهرش در دل و جانش فتد ناگہاں جانے در ایمانش فتد جس کے جان و دل میں اس کی محبت داخل ہو جاتی ہے تو یکدم اس کے ایمان میں ایک جان پڑ جاتی ہے.(ضیاء الحق.ر-خ- 9 صفحہ 254 ) ( در مشین فارسی متر جم صفحه 209) محبت الہی اور نجات اتباع رسول میں ہے جو شخص یہ کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر نجات ہوسکتی ہے.وہ جھوٹا ہے.خدا تعالیٰ نے جو بات ہم کو سمجھاتی ہے وہ بالکل اس کے برخلاف ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحيكُمُ اللهُ (آل عمران :(32) اے رسول (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے پیار کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرد تم خدا کے محبوب بن جاؤ گے.بغیر متابعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شخص نجات نہیں پاسکتا.جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغض رکھتے ہیں ان کی کبھی خیر نہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 24) قُلْ يَعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الزمر:54) اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ ماحصل اس آیت کا یہ ہے کہ جو لوگ دل و جان سے تیرے یارسول اللہ غلام بن جائیں گے ان کو وہ نو رایمان اور محبت اور عشق بخشا جائے گا کہ جوان کو غیر اللہ سے رہائی دے دے گا اور وہ گناہوں سے نجات پا جائیں گے اور اسی دنیا میں ایک پاک زندگی ان کو عطا کی جائے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے.اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِی یعنی میں وہ مردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام -ر-خ- جلد 5 صفحہ 194-193)
815 انبیاء نمونہ قائم کرنے کے لئے آتے ہیں حضرت اقدس رسول اکرم کا کامل نمونہ ہیں بھیجیں عشقم بروئے مصطفے دل پروچوں مرغ سوئے مصطفیٰ ایسا ہی عشق مجھے مصطفے کی ذات سے ہے میرا دل ایک پرندہ کی طرح مصطفے کی طرف اُڑ کر جاتا ہے.تا مرا دادند از حسنش خبر شد دلم از عشق او زیر و زبر جب سے مجھے اس کے حسن کی خبر دی گئی ہے میرا دل اس کے عشق میں بے قرار رہتا ہے.منکہ مے بینم رخ آں دلبرے جاں فشانم گر دہر دل دیگرے میں اس دلبر کا چہرہ دیکھ رہا ہوں.اگر کوئی اسے دل دے تو میں اس کے مقابلہ پر جان نثار کر دوں.ہر زماں مستم کند از ساغری ساقی من هست آں جاں پرورے وہی روح پرور شخص تو میرا ساقی ہے جو ہمیشہ جام شراب سے مجھے سرشار رکھتا ہے.محو روئے او شد است ایں روئے من ہوئے او آید زبام و کوئے من میرا چہرہ اس کے چہرہ میں محو اور گم ہو گیا اور میرے مکان اور کوچہ سے اسی کی خوشبو آ رہی ہے.بسکه من در عشق او هستم نہاں من ہمانم من ہمانم من ہماں بسکہ میں اس کے عشق میں غائب ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.جان من از جان او یا بد غذا از گریبانم عیاں شد آں ذکا! میری روح اس کی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریباں سے وہی سورج نکل آیا ہے.احمد اندر جان احمد شد پدید اسم من گردید آں اسم وحید میری جان کے اندراحمد ظاہر ہو گیا اس لیے میرا وہی نام ہو گیا جو اس لاثانی انسان کا نام ہے.(سراج منیر.رخ - جلد 12 صفحہ 97-96 ) ( درشین فارسی متر جم صفحه 228) ان كمالات النبيين ليست ككمالات رب العالمين و ان الله احد صمد وحيد لا شريك له فى ذاته ولا فى صفاته واما الانبياء فليسوا كذالك بل جعل الله لهم وارثين من المتبعين الصادقين.فامتهم ورثاء هم يجدون ما وجد انبياء هم ان كانوا لهم متبعين و الى هذا اشار في قوله عز وجل قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله فانظر كيف جعل الامة احباء الله بشرط اتباعهم و اقتداء هم بسيد المحبوبين.
816 (ترجمہ) نبیوں کے کمالات پروردگار عالم کے کمالات کی طرح نہیں ہوتے.اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا بے نیاز اور یگانہ ہے اس کی ذات اور صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں لیکن نبی ایسے نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے بچے متبعین میں سے ان کے وارث بناتا ہے.پس ان کی امت ان کی وارث ہوتی ہے وہ سب کچھ پاتے ہیں جو ان کے نبیوں کو ملا ہو بشر طیکہ وہ ان کے پورے پورے متبع بنیں.اور اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے آیت قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (آل عمران : 32) میں اشارہ فرمایا ہے.پس دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے افرا دامت کو اپنے محبوب قرار دیا ہے بشرطیکہ وہ محبوبوں کے سردار ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کریں اور آپ کے نمونہ پر چلیں.(کرامات الصادقین...خ.جلد 7 صفحہ 131) انبیاء اپنا مثل قائم کرنا چاہتے ہیں خدا نے انبیاء علیہم السلام کو اسی لیے دنیا میں بھیجا ہے کہ تا دنیا میں ان کے مثیل قائم کرے اگر یہ بات نہیں تو پھر نبوت لغو ٹھہرتی ہے.نبی اس لیے نہیں آتے کہ ان کی پرستش کی جائے بلکہ اس لیے آتے ہیں کہ لوگ ان کے نمونے پر چلیں اور ان سے تشبہ حاصل کریں اور ان میں فنا ہو کر گویا ہی بن جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُل اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : 32) پس خدا جس سے محبت کر یگا کونسی نعمت ہے جو اس سے اٹھارکھے گا اور اتباع سے مراد بھی مرتبہ فنا ہے جو مثیل کے درجے تک پہنچاتا ہے.اور یہ مسئلہ سب کا مانا ہوا ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کریگا مگر وہی جو جاہل سفیہ یا ملحد بے دین ہوگا.(ایام الصلح.رخ.جلد 14 صفحہ 412-411) خدا کی ذات میں بخل نہیں.اور نہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ ان کی پوجا کی جاوے.بلکہ اس لیے کہ لوگوں کو تعلیم دیں کہ ہماری راہ اختیار کرنے والے ہمارے ظل کے نیچے آجاویں گے.جیسے فرمایا.إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران (32) یعنی میری پیروی میں تم خدا کے محبوب بن جاؤ گے.آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر محبوب ہونے کی بدولت یہ سب اکرام ہوئے مگر جب کوئی اور شخص محبوب بنے گا.تو اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا.اگر اسلام ایسامذہب ہے.تو سخت بیزاری ہے ایسے اسلام سے.مگر ہرگز اسلام ایسا مذ ہب نہیں.آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو وہ مائدہ لائے ہیں کہ جو چاہے اس کو حاصل کرے.وہ نہ تو دنیا کی دولت لائے اور نہ مہاجن بن کر آئے تھے.وہ تو خدا کی دولت لائے تھے اور خود اس کے قاسم تھے پس اگر وہ مال دینا نہیں تھا تو کیا وہ گٹھڑی واپس لے گئے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 177-176)
817 آنکه اورا ظلمت گیرد براہ نیستش چوں روئے احمد مہر و ماہ وہ شخص جسے تاریکی گھیر لے اس کے لیے احمد کے چہرہ کی طرح اور کوئی چاند سورج نہیں ہے.تا بعش بحر معافی مے شود از زمینی آسمانی می شود اس کا پیر ومعرفت کا ایک سمندر بن جاتا ہے اور زمینی سے آسمانی ہو جاتا ہے.انبیاء را شد مثیل آں محترم ہر که در راه محمد زد قدم جس نے محمد کے طریقہ پر قدم مارا.وہ قابل عزت شخص نبیوں کا مثیل بن جاتا ہے.تو عجب داری نیز فوز این مقام پائی بند نفس گشته صبح و شام تو اس درجہ کی کامیابی پر تعجب کرتا ہے کیونکہ تو ہر وقت اپنے نفس کا غلام ہے.(ضیاءالحق...خ.9 صفحہ 254) حضرت اقدس نے یہ مقام آنحضرت کی پیروی سے پایا میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی.اور میرے لیے اس نعمت کا پا ناممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا.میں اپنے بچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پاسکتا ہے.اور میں اس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ بچی اور کامل پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے سو یا در ہے کہ وہ قلب سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے پھر بعد اس کے ایک مصفی اور کامل محبت الہی باعث اس قلب سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (آل عمران : 32) یعنی ان کو کہدے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے بلکہ یکطرفہ محبت کا دعوی بالکل ایک جھوٹ اور لاف و گزاف ہے جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اس سے محبت کرتا ہے تب زمین پر اس کے لیے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اس کی ڈال دی جاتی ہے.(حقیقۃ الوحی.رخ.جلد 22 صفحہ 65-64)
818 آں رسولی کش محمد ہست نام دامن پاکش بدست ما مدام! وہ رسول جس کا نام محمد ہے.اس کا مقدس دامن ہر وقت ہمارے ہاتھ میں ہے.جان شد و با جان بدر خواهد شدن مهر او با شیر شد اندر بدن اس کی محبت ماں کے دودھ کے ساتھ ہمارے بدن میں داخل ہوئی وہ جان بن گئی اور جان کے ساتھ ہی باہر نکلے گی.هست او خیر الرسل خیر الانام ہر نبوت را برو شد اختتام وہی خیر الرسل اور خیر الا نام ہے اور ہر قسم کی نبوت کی تکمیل اس پر ہوگئی.ما از و نوشیم ہر آبے کہ ہست زو شده سیراب سیرا بے کہ ہست جو بھی پانی ہے وہ ہم اسی سے لے کر پیتے ہیں جو بھی سیراب ہے وہ اسی سے سیراب ہوا ہے.آنچه ما را وحی و ایمائے بود! آن نه از خود از ہماں جائے بود! جو وحی والہام ہم پر نازل ہوتا ہے وہ ہماری طرف سے نہیں وہیں سے آتا ہے.ما از و یا بیم ہر نور و کمال! وصل دلدار ازل بے او محال! ہم ہر روشنی اور ہر کمال اسی سے حاصل کرتے ہیں محبوب از لی کا وصل بغیر اس کے ناممکن ہے.افتدائے قول او در جانِ ماست ہرچہ زو ثابت شود ایمان ماست اس کے ہر ارشاد کی پیروی ہماری فطرت میں ہے جو بھی اس کا فرمان ہے اس پر ہمارا پورا ایمان ہے.(سراج منیر.ر-خ- جلد 12 صفحه 95 ) ( در نمین فارسی متر جم صفحه 225) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی مقام سوال: مسیح نے اپنی نسبت یہ کلمات کہے ” میرے پاس آؤ تم جو تھکے اور باندے ہو کہ میں تمہیں آرام دونگا.اور یہ کہ ”میں روشنی ہوں اور میں راہ ہوں میں زندگی اور راستی ہوں.کیا بانی اسلام نے یہ کلمات یا ایسے کلمات کسی جگہ اپنی طرف منسوب کیے ہیں.الجواب: قرآن شریف میں صاف فرمایا گیا ہے.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ.الخ (ال عمران : 32) یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے.یہ وعدہ کہ میری پیروی سے انسان خدا کا پیارا بن جاتا ہے مسیح کے گذشتہ اقوال پر غالب ہے.کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی مقام نہیں کہ انسان خدا کا پیارا ہو جائے.پس جس کی راہ پر چلنا انسان کو محبوب الہی بنا دیتا ہے اس سے زیادہ کس کا حق ہے کہ اپنے تئیں روشنی کے نام سے موسوم کرے.( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.ر.خ.جلد 12 صفحہ (372) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا مقام تو یہ تھا کہ آپ محبوب الہی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو بھی اس مقام پر پہنچنے کی راہ بتائی جیسا کہ فرمایا.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوب الہی بن جاؤ تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنالے گا.اب غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع محبوب الہی بنادیتی ہے.تو پھر اور کیا چاہیئے.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 407)
819 تیسری فصل ذکر الہی.یا دالہی فَاذْكُرُونِى اَذْكُرُكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ.(البقرة: 153) اے میرے بندو تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھونگا اور میرا شکر کیا کرو میرے انعام کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو.اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الہی کے ترک اور اس سے غفلت کا نام کفر ہے پس جو دم غافل وہ دم کا فروالی بات صاف ہے.(ملفوظات جلد سوم 189) حقیقی آداب ذکر الہی فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِكُمْ آبَاءَ كُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا.(البقرة: 201) فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكُرِكُمْ آبَاءَ كُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا یعنی اپنے اللہ جل شانہ کو ایسے دلی جوش محبت سے یاد کرو جیسا باپوں کو یاد کیا جاتا ہے.یا درکھنا چاہیے کہ مخدوم اس وقت باپ سے مشابہ ہو جاتا ہے جب محبت میں غایت درجہ شدت واقعہ ہو جاتی ہے.اور حب جو ہر یک کدورت اور غرض سے مصفا ہے دل کے تمام پردے چیر کر دل کی جڑھ میں اس طرح سے بیٹھ جاتی ہے کہ گویا اس کی جز ہے تب جس قدر جوش محبت اور پیوند شدید اپنے محبوب سے ہے وہ سب حقیقت میں مادر زاد معلوم ہوتا ہے اور ایسا طبیعت سے ہمرنگ اور اس کی جز ہو جاتا ہے کہ سعی اور کوشش کا ذریعہ ہرگز یاد نہیں رہتا اور جیسے بیٹے کو اپنے باپ کا وجود تصور کرنے سے ایک روحانی نسبت محسوس ہوتی ہے ایسا ہی اس کو بھی ہر وقت باطنی طور پر اس نسبت کا احساس ہوتا رہتا ہے اور جیسے بیٹا اپنے باپ کا حلیہ اور نقوش نمایاں طور پر اپنے چہرہ پر ظاہر رکھتا ہے اور اس کی رفتار اور کردار اور خو اور بو بصفائی تام اس میں پائی جاتی ہے علی ہذا القیاس یہی حال اس میں ہوتا ہے.سرمه چشم آریہ - ر-خ- جلد 2 صفحہ 260-259 حاشیہ ) یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد کرو جس طرح پر تم اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.اس جگہ دورمز ہیں ایک تو ذکر اللہ کو ذکر اباء سے مشابہت دی ہے اس میں یہ سر ہے کہ اباء کی محبت ذاتی اور فطرتی محبت ہوتی ہے.دیکھو بچہ کو جب ماں مارتی ہے وہ اس وقت بھی ماں ماں ہی پکارتا ہے گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو ایسی تعلیم دیتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے فطری محبت کا تعلق پیدا کرے اس محبت کے بعد اطاعت امر اللہ کی خود بخود پیدا ہوتی ہے.یہی وہ اصلی مقام معرفت کا ہے جہاں انسان کو پہنچنا چاہیے یعنی اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے فطری اور ذاتی محبت پیدا ہو جاوے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 556-555)
820 الا بذكرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 29) قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی شئے ہے جو قلوب کو اطمینان عطا کرتا ہے جیسا کہ فرمایا.آلا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب.پس جہاں تک ممکن ہو ذکر الہی کرتا رہے اسی سے اطمینان حاصل ہو گا ہاں اس کے واسطے صبر اور محنت درکار ہے.اگر گھبرا جاتا اور تھک جاتا ہے تو پھر یہ اطمینان نصیب نہیں ہو سکتا.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 240 239) أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب اس کے عام معنی تو یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے قلوب اطمینان پاتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اور فلاسفی یہ ہے کہ جب انسان بچے اخلاص اور پوری وفاداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور ہر وقت اپنے آپ کو اس کے سامنے یقین کرتا ہے.اس سے اس کے دل پر ایک خوف عظمت الہی کا پیدا ہوتا ہے.وہ خوف اس کو مکروہات اور منہیات سے بچاتا ہے اور انسان تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ اس پر نازل ہوتے ہیں اور وہ اس کو بشارتیں دیتے ہیں اور الہام کا دروازہ اس پر کھولا جاتا ہے اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کو گویا دیکھ لیتا ہے اور اس کی وراء الوراء طاقتوں کو مشاہدہ کرتا ہے.پھر اس کے دل پر کوئی ہم وعم نہیں آسکتا اور طبیعت ہمیشہ ایک نشاط اور خوشی میں رہتی ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 356 355 ) درود شریف اور محبت الہی یہاں ایک اور بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے وفات پا جانا تھا اس لیے ظاہری طور پر ایک نمونہ اور خدا نمائی کا آلہ دنیا سے اٹھنا تھا اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک آسان راہ رکھ دی کہ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی.کیونکہ محبوب اللہ مستقیم ہی ہوتا ہے.زیغ رکھنے والا کبھی محبوب نہیں بن سکتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی ازدیاد اور تجدید کے لیے ہر نماز میں درودشریف کا پڑھنا ضروری ہو گیا.تا کہ اس دعا کی قبولیت کے لیے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 38) ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا.کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں.جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے وابتغوا الیه الوسيلة (المائدة: 36) تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دوستے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں هـذا بـمـا صليت على محمد.منہ (حقیقۃ الوحی.رخ- جلد 22 صفحہ 131 حاشیہ ) ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 77)
821 اِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا.(الاحزاب:57) ( ملفوظات جلد اول صفحہ 24) خدا اور اس کے سارے فرشتے اس نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں.اے ایماندارو تم بھی اس پر درود بھیجو اور نہایت اخلاص اور محبت سے سلام کرو.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 265 حاشیہ نمبر 11 ) اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا.لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے.یعنی آپ کے اعمالِ صالحہ کی تعریف تحدید سے بیروں تھی.اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی.آپ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات پیش آمدہ کی اگر معرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ہو کہ اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور آپ نے آ کر کیا کیا تو انسان وجد میں آکر اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ کہہ اٹھتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے قرآن شریف اور دنیا کی تاریخ اس امر کی پوری شہادت دیتی ہے کہ نبی کریم نے کیا کیا ورنہ وہ کیا بات تھی جو آپ کے لئے مخصوصاً فرمایا گیا إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا کسی دوسرے نبی کے لئے یہ صدا نہیں آئی.پوری کامیابی پوری تعریف کے ساتھ یہی ایک انسان دنیا میں آیا جو مجھ کہلا یا صلی اللہ علیہ وسلم.(ملفوظات جلد اول صفحہ 421) قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں اول إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي - دومِ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا سوم موهبت الى - درد اور وظائف ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 38) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا.(الاحزاب:22) میں یہ بھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے تراشے ہوئے وظائف اور اور اد کے ذریعہ سے ان کمالات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ جوطریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا وہ محض فضول ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر منم علیہ کی راہ کا سا تجربہ کار اورکون ہوسکتا ہے جن پر نبوت کے بھی سارے کمالات ختم ہو گئے.آپ نے جو راہ اختیار کیا ہے وہ بہت ہی صحیح اور اقرب ہے اس راہ کو چھوڑ کر اور ایجاد کرنا خواہ وہ بظاہر کتنا ہی خوش کرنے والا معلوم ہوتا ہو میری رائے میں ہلاکت ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے اتباع سے خدا ملتا ہے اور آپ کے اتباع کو چھوڑ کر خواہ کوئی ساری عمر ٹکریں مارتا ر ہے گوہر مقصود اس کے ہاتھ میں نہیں آسکتا چنانچہ سعدیؒ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی ضرورت بتاتا ہے.
822 بزہد و ورع کوش و صدق و صفا ولیکن میفزائے مصطف پر ترجمہ: زہد و ورع اور صدق وصفا میں ترقی کرو.مگر آنحضرت کی سنت کے مطابق.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ کو تو نہ چھوڑو.میں دیکھتا ہوں کہ قسم قسم کے وظیفے لوگوں نے ایجاد کر لئے ہیں.الٹے سیدھے لٹکتے ہیں اور جوگیوں کی طرح راہبانہ طریقے اختیار کئے جاتے ہیں لیکن یہ سب بے فائدہ ہیں انبیاء علیہم السلام کی یہ سنت نہیں کہ وہ الٹے سیدھے لٹکتے رہیں یا نفی اثبات کے ذکر کریں اور اڑہ کے ذکر کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسوہ حسنہ فرمایا لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ آخَضِرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو اور ایک ذرہ بھر بھی ادھر یا ادھر ہونے کی کوشش نہ کرو.( ملفوظات جلد اول صفحه 237-236) تزکیہ نفس کے لیے چلہ کشیوں کی ضرورت نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے چلہ کشیاں نہیں کی تھیں.اڑہ اور نفی واثبات وغیرہ کے ذکر نہیں کیے تھے.بلکہ ان کے پاس ایک اور ہی چیز تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں محو تھے جو نور آپ میں تھا وہ اس اطاعت کی نالی میں سے ہو کر صحابہ کے قلب پر گر تا تھا اور ماسوی اللہ کے خیالات کو پاش پاش کرتا جاتا تھا تاریکی کے بجائے ان سینوں میں نور بھرا جاتا تھا.بہترین وظیفه سوال:.بہترین وظیفہ کیا ہے؟ جواب: - نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 121 استغفار ہے اور درود شریف تمام وظائف اور اوراد کا مجموعہ ہی نماز ہے اور اس سے ہر قسم کے غم وہم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اور اسی لیے فرمایا ہے أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ - اطمینان و سکینت قلب کے لیے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.لوگوں کے درد اور وظیفے اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے اور ایک نئی شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مقابلہ میں بنادی ہوئی ہے.مجھ پر تو الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر میں دیکھتا ہوں اور حیرت سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے خود شریعت بنائی ہے اور نبی بنے ہوئے ہیں اور دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں.ان وظائف اور اور اد میں دنیا کو ایسا ڈالا ہے کہ وہ خدا تعالے کی شریعت اور احکام کو بھی چھوڑ بیٹھے ہیں.بعض لوگ دیکھتے جاتے ہیں کہ پنے معمول اور اور اد میں ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ نمازوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے.میں نے مولوی صاحب سے سنا ہے که تبعض گدی نشین شاکت مت والوں کے منتر اپنے وظیفوں میں پڑھتے ہیں.میرے نزدیک سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے.نماز ہی کو سنوار سنوار کر پڑھنا چاہیئے اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور مسنون دعاؤں کے بعد اپنے لیے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہو گا اور سب مشکلات خدا تعالیٰ چاہے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی.نماز یاد الہی کا ذریعہ ہے.اس لئے فرمایا ہے اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى.(طه: 15) (ملفوظات جلد سوم صفحہ 311 310)
823 ریاضتیں اور چلہ کشیاں وَرَهْبَانِيَّةَ نِ ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبُهَا عَلَيْهِمُ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رَعَايَتِهَا فَأَتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَسِقُونَ (الحديد : 28) خطر ناک ریاضتیں کرنا اور اعضاء اور قوی کو مجاہدات میں بریکار کر دینا محض علمی بات اور لاحاصل ہے.اسی لئے ہمارے ہادی کامل علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا لَا رَهْبَانِيَّةَ فِي الإسلام یعنی جب انسان کو صفت اسلام گردن نهادن بر حکم خدا و موافقت تامہ بمقادیر الہیہ ) میسر آ جائے تو پھر رہبانیت یعنی اسے مجاہدوں اور ریاضتوں کی کوئی ضرورت نہیں.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت کو نہیں رکھا اس لئے کہ وہ معرفت تامہ کا ذریعہ نہیں ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 214) رہبانیت اور اباحت انسان کو اس صدق اور وفا سے دور رکھتے تھے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اس لئے ان سے الگ رکھ کر اطاعت الہی کا حکم دے کر صدق اور وفا کی تعلیم دی جو ساری روحانی لذتوں کی جاذب ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحه 700) لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ.(النور: 38) ہم یہ نہیں کہتے کہ زراعت والا زراعت کو اور تجارت والا تجارت کو.ملا زمت والا ملا زمت کو اور صنعت و حرفت والا اپنے کاروبار کو ترک کر دے اور ہاتھ پاؤں تو ڑ کر بیٹھ جائے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ والا معاملہ ہو.دست با کار دل بایار والی بات ہو.تاجر اپنے کاروبار تجارت میں اور زمیندار اپنے امور زراعت میں اور بادشاہ اپنے تخت حکومت پر بیٹھ کر.غرض جو جس کام میں ہے اپنے کاموں میں خدا کو نصب العین رکھے اور اس کی عظمت اور جبروت کو پیش نظر رکھ کر اس کے احکام اور اوامر و نواہی کا لحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے.اللہ سے ڈر اور سب کچھ کر.اسلام کہاں ایسی تعلیم دیتا ہے کہ تم کاروبار چھوڑ کر لنگڑے کولوں کی طرح لکھے بیٹھ رہو اور بجائے اس کے اوروں کی خدمت کرو خود دوسروں پر بوجھ بن نہیں بلکہ ست ہونا گناہ ہے.بھلا ایسا آدمی پھر خدا اور اس کے دین کی کیا خدمت کر سکے گا.عیال واطفال جو خدا نے اس کے ذمے لگائے ہیں ان کو کہاں سے کھلائے گا.پس یا درکھو کہ خدا کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ تم دنیا کو بالکل ترک کر دو بلکہ اس کا جو منشا ہے وہ یہ ہے کہ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زكها (الشمس: 10) تجارت کرو زراعت کرو ملازمت کرو اور حرفت کرو.جو چا ہو کر دیگر نفس کو خدا کی نافرمانی سے روکتے رہواور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کر دیں پھر جو تمہاری دنیا ہے وہ بھی دین کے حکم میں آجاوے گی.انسان دنیا کے واسطے پیدا نہیں کیا گیا.دل پاک ہو اور ہر وقت یہ لو اور تڑپ لگی ہوئی ہو کہ کسی طرح خدا خوش ہو جائے تو پھر دنیا بھی اس کے واسطے حلال ہے.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 550)
824 حقیقی وظیفہ نماز ہے اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَ اَقِمِ الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ لَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُه وَ اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (العنكبوت: 46) ط نماز میں لذت اور سرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا ہوتا ہے.جب تک اپنے آپ کو عدم محض یا مشابہ بالعدم قرار دے کر جور بوبیت کا ذاتی تقاضا ہے نہ ڈال دے اس کا فیضان اور پر تو اس پر نہیں پڑتا اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ درجہ کی لذت حاصل ہوتی ہے جس سے بڑھ کر کوئی حظ نہیں ہے.اس مقام پر انسان کی روح جب ہمہ نیستی ہو جاتی ہے تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے اور ماسوی اللہ سے اسے انقطاع تام ہو جاتا ہے اس وقت خدائے تعالیٰ کی محبت اس پر گرتی ہے.اس اتصال کے وقت ان دو جوشوں سے جو اوپر کی طرف سے ربوبیت کا جوش اور نیچے کی طرف سے عبودیت کا جوش ہوتا ہے ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کا نام صلوۃ ہے جو سیات کو بھسم کر جاتی ہے اور اپنی جگہ ایک نور اور چمک چھوڑ دیتی ہے جو سالک کو راستہ کے خطرات اور مشکلات کے وقت ایک منور شمع کا کام دیتی ہے اور ہر قسم کے خس و خاشاک اور ٹھوکر کے پتھروں اور خارونس سے جو اس کی راہ میں ہوتے ہیں آگاہ کر کے بچاتی ہے اور یہی وہ حالت ہے جبکہ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَرِ کا اطلاق اس پر ہوتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ میں نہیں.نہیں اس کے شمع دان دل میں ایک روشن چراغ رکھا ہو ا ہوتا ہے اور یہ درجہ کامل تذلل کامل نیستی اور فروتنی اور پوری اطاعت سے حاصل ہوتا ہے پھر گناہ کا خیال اسے آ کیونکرسکتا ہے اور انکار اس میں پیدا ہی نہیں ہوسکتا.فحشاء کی طرف اس کی نظر اٹھ ہی نہیں سکتی.غرض اسے ایسی لذت ایسا سرور حاصل ہوتا ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اسے کیونکر بیان کروں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 105) انقطاع الی اللہ.موت کو اختیار کرنا ہے وَاعْبُدُ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ.(الحجر: 100) پس یہ کچی بات ہے کہ نفس امارہ کی تاروں میں جو یہ جکڑا ہوا ہے اس سے رہائی بغیر موت کے ممکن ہی نہیں.اسی موت کی طرف اشارہ کر کے قرآن شریف میں فرمایا ہے وَاعْبُدُ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ..اس جگہ یقین سے مراد موت بھی ہے یعنی انسان کی اپنی ہوا و ہوس پر پوری فنا طاری ہوکر اللہ تعالیٰ کی اطاعت رہ جاوے اور وہ یہاں تک ترقی کرے کہ کوئی جنبش اور حرکت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نہ ہو.( ملفوظات جلد سوم صفحه 399)
825 وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّةً اَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَ اتَّبَعُ هَوَيهُ.(الاعراف: 177) ابتدائی رؤیا یا الہام کے ذریعہ سے خدا بندہ کو بلانا چاہتا ہے مگر وہ اس کے واسطے کوئی حالت قابل تشفی نہیں ہوتی چنا نچہ بلغم کو الہامات ہوتے تھے مگر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے کہ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعُهُ ثابت ہوتا ہے کہ اس کا رفع نہیں ہوا تھا یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور میں وہ کوئی برگزیدہ اور پسندیدہ بندہ ابھی تک نہیں بنا تھا.یہاں تک کہ وہ گر گیا.ان الہامات وغیرہ سے انسان کچھ بن نہیں سکتا.انسان خدا کا بن نہیں سکتا جب تک کہ ہزاروں موتیں اس پر نہ آویں اور بیضئہ بشریت سے وہ نکل نہ آئے.وَالَّذِي يُمِيتُنِى ثُمَّ يُحْيِينِ.(الشعراء: 82) ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 486) فگند وہ خدا جو مجھے مارتا ہے اور پھر زندہ کرتا ہے.اس موت اور حیات سے مراد صرف جسمانی موت اور حیات نہیں بلکہ اس موت اور حیات کی طرف اشارہ ہے جو سالک کو اپنے مقامات و منازل سلوک میں پیش آتی ہے چنانچہ وہ خلق کی محبت ذاتی سے مارا جاتا اور خالق حقیقی کی محبت ذاتی کے ساتھ زندہ کیا جاتا ہے اور پھر اپنے رفقاء کی محبت ذاتی سے مارا جاتا ہے اور رفیق اعلیٰ کی محبت ذاتی کے ساتھ زندہ کیا جاتا ہے اور پھر اپنے نفس کی محبت ذاتی سے مارا جاتا ہے اور محبوب حقیقی کی محبت ذاتی کے ساتھ زندہ کیا جاتا ہے.اسی طرح کئی موتیں اس پر وارد ہوتی رہتی ہیں اور کئی حیاتیں یہاں تک کہ کامل حیات کے مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے سو وہ کامل حیات جو اس سفلی دنیا میں چھوڑنے کے بعد ملتی ہے وہ جسم خاکی کی حیات نہیں بلکہ اور رنگ اور شان کی حیات ہے.(ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 432) بست آں عالیجنا ہے بس بلند بر وصلش شوربا باید وہ بارگاہ نہایت اونچی اور عالی شان ہے اس کے وصل کے لیے بہت آہ وزاری کرنی چاہیئے.در مردن و عجز و بکاست هر که افتاد ست او آخر بخاست زندگی مرنے اور انکسار اور گریہ وزاری میں ہے جو گر پڑا وہی آخر ( زندہ ہوکر ) اُٹھے گا.تا نه کار در دکس تا جاں رسد کے فغانش تا در جاناں رسد جب تک درد کا معاملہ جان لینے تک نہ پہنچے تب تک اس کی آہ وفریاد در جاناں تک نہیں پہنچتی.تانه قربانِ خدائے خود شویم! جب تک ہم اپنے خدا پر قربان نہ ہو جائیں اور جب تک اپنے دوست کے اندر جو نہ ہو جائیں.از وجود خود بروں تانه گردد پرز مهرش اندروں زندگی تانه تانه محو آشنائے خود شویم! جب تک ہم اپنے وجود سے علیحدہ نہ ہوجائیں اور جب تک سینہ اس کی محبت سے بھر نہ جائے.تانه بر ما مرگ آید صد ہزار کے حیاتی تازه بینیم از نگار ہم پر لاکھوں موتیں وارد نہ ہوں تب تک ہمیں اس محبوب کی طرف سے نئی زندگی کب مل سکتی ہے.تا نہ ریزد ہر پرو بالے کہ ہست مرغ این ره را پریدن مشکل است جب تک اپنے اگلے بال و پر نہ جھاڑ ڈالے تب تک اس راہ کے پرندے کے لیے اُڑ نا مشکل ہے.(سراج منیر.رخ- جلد 12 صفحہ 100 ) ( در متین فارسی صفحه 237-236)
826 دنیا کی خواہشات ترک کرنا أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِايَتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَزُنًا.(الكهف : 106) فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ وَزُنًا.میں گناہ کا ذکر نہیں ہے.اس کا باعث صرف یہ ہے کہ ان لوگوں نے دنیا کی خواہشوں کو مقدم رکھا ہوا تھا.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ دنیا کا حظ پا چکے.وہاں بھی گناہ کا ذکر نہیں بلکہ دنیا کی لذات جن کو خدا تعالیٰ نے جائز کیا ہے ان میں منہمک ہو جانے کا ذکر ہے.اس قسم کے لوگوں کا مرتبہ عند اللہ کچھ نہ ہو گا اور نہ ان کو کوئی عزت کا مقام دیا جائے گا.شیریں زندگی اصل میں ایک شیطان ہے جو کہ انسان کو دھوکہ دیتی ہے.مومن تو خود مصیبت خریدتا ہے ورنہ اگر وہ مداہنہ برتے تو ہر طرح آرام سے رہ سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس طرح کرتے تو اس قدر جنگیں کیوں ہوتیں لیکن آپ نے دین کو مقدم رکھا اس لئے سب دشمن ہو گئے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 84) مومن آدمی کا سب ہم و غم خدا کے واسطے ہوتا ہے دنیا کے لئے نہیں ہوتا اور وہ دنیاوی کاموں کو کچھ خوشی سے نہیں کرتا بلکہ اداس سا رہتا ہے اور یہی نجات حیات کا طریق ہے اور وہ جو دنیا کے پھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے ہم وغم سب دنیا کے ہی لئے ہوتے ہیں ان کی نسبت تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَزُنًا ہم قیامت کو ان کا ذرہ بھر بھی قدر نہیں کریں گے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 306) اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اُس یار کے لئے رہ عشرت کو چھوڑ دو لعنت کی ہے یہ راہ سو لعنت کو چھوڑ دو ورنہ خیال حضرت عزت کو چھوڑ دو تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول تم پہ ہو ملائکہ عرش کا نزول براہین احمدیہ حصہ پنجم.ر.خ.جلد 21 صفحہ 18) فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَّ لَيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ.(التوبة : 82) صوفیوں نے لکھا ہے کہ اگر چالیس دن تک رونا نہ آوے تو جانو کہ دل سخت ہو گیا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَّ لَيَبْكُوا كَثِيرًا کہ ہنسو تھوڑا اور دو بہت مگر اس کے برعکس دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ہنتے بہت ہیں اب دیکھو کہ زمانہ کی کیا حالت ہے اس سے یہ مراد نہیں کہ انسان ہر وقت آنکھوں سے آنسو بہاتا رہے بلکہ جس کا دل اندر سے رورہا ہے وہی روتا ہے.انسان کو چاہیئے کہ دروازہ بند کر کے اندر بیٹھ کر خشوع اور خضوع سے دعا میں مشغول ہو.اور بالکل عجز و نیاز سے خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر پڑے تا کہ وہ اس آیت کے نیچے نہ آوے.جو بہت ہنستا ہے وہ مومن نہیں اگر سارے دن کا نفس کا محاسبہ کیا جاوے تو معلوم ہوگا کہ بنسی اور تمسخر کی میزان زیادہ ہے اور رونے کی بہت کم ہے بلکہ اکثر جگہ بالکل ہی نہیں.اب دیکھو کہ زندگی کس غفلت میں گذر رہی ہے اور ایمان کی راہ کس قدر مشکل ہے گویا ایک طرح سے مرنا ہے اور اصل میں اسی کا نام ایمان ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 456)
827 چوتھی فصل وحی والہام خدا کا وعدہ ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الانهرُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدَاء وَعْدَ اللَّهِ حَقًّاء وَ مَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا (النساء: 123) اگر خدا کی طرف سے ہمیشہ چپ چاپ ہی ہو تو پھر اگر خدا کی راہ میں کوئی محنت بھی کرے تو کس بھروسہ پر.کیا وہ اپنے ہی تصورات کو خدا کے وعدے قرار دے سکتا ہے ہر گز نہیں جس کا ارادہ ہی معلوم نہیں کہ وہ کونسا بدلہ دیگا اور کیونکر دیگا اور کب تک دیگا اس کے کام پر کون خود بخود پختہ امید کر سکتا ہے اور ناامیدی کی حالت میں کیونکر محنتوں اور کوششوں پر دل لگا سکتا ہے انسان کی کوششوں کو حرکت دینے والے اور انسان کے دل میں کامل جوش پیدا کرنے والے خدا کے وعدے ہیں انہیں پر نظر کر کے عقلمند انسان اس دنیا کی محبت کو چھوڑتا ہے اور ہزاروں پیوندوں اور تعلقوں اور زنجیروں سے خدا کے لیے الگ ہو جاتا ہے و ہی وعدے ہیں کہ جو ایک آلودہ حرص و ہوا کو ا یکبارگی خدا کی طرف کھینچ لاتے ہیں جبھی کہ ایک شخص پر یہ بات کھل جاتی ہے کہ خدا کا کلام برحق ہے اور اس کا ہر یک وعدہ ضرور ایک دن ہونے والا ہے تو اسی وقت دنیا کی محبت اس پر سرد ہو جاتی ہے ایک دم میں وہ کچھ اور ہی چیز ہو جاتا ہے اور کسی اور ہی مقام پر پہنچ جاتا ہے خلاصہ کلام یہ کہ کیا ایمان کے رو سے اور کیا عمل کے رو سے اور کیا جزا سزا کی امید کے رو سے کھلا ہوا اور مفتوح دروازہ خدا کے بچے الہام اور پاک کلام کا دروازہ ہے ویس.کلامِ پاک آن بیچون دهد صد جامِ عرفان را کسے کو بیخبر زان می چه داند ذوق ایمان را نه چشم است آنکه در کوری ہمہ عمرے بسر کر دست نه گوش ست آنکه نه شنیدست گا ہے قولِ جانان را ( ترجمہ:.اس لیگا نہ کا کلام عرفان کے جام پلاتا ہے.جس کو یہ علم نہیں اس کو ایمان کا ذوق نہیں.وہ کیا آنکھ ہے جس نے اندھے پن میں زندگی گزار دی اور وہ کیا کان ہے جس نے کبھی محبوب کی بات نہیں سنی.) (براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 223-222 حاشیہ) وحی والہام سچے مذہب کی نشانی ہے ہے غضب کہتے ہیں اب وہی خدا مفقود ہے اب قیامت تک ہے اس امت کا قصوں پر مدار یہ عقیده برخلاف گفته دادار ہے ! پر اتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
828 گوہر وحی خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر اک یہی دیں کیلئے ہے جائے عزّ و و افتخار یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اسپہ ہو مشک تتار یہ وہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے در کھلیں یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں روئے نگار بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے بس یہی اک قصر ہے جو عافیت کا ہے حصار خدا دانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں محض قصوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفاں سے پار ہے یہی وحی خدا عرفان مولی کا نشان جس کو یہ کامل ملے اسکو ملے وہ دوستدار ( براھین احمدیہ - ر- خ - جلد 21 صفحہ 137 ) ( در شین اردو صفحہ 128-127) ہے کامل معرفت کے لئے الہام ضروری ہے علاوہ اس کے اگر وحی نہ ہو تو پھر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة : 6-7) کے کیا معنے ہوں گے کیا یہاں انعام سے مراد گوشت پلا دوغیرہ ہے یا خلعت نبوت اور مکالمہ والہی وغیرہ جو کہ انبیاء کو عطا ہوتا رہا.غرضکہ معرفت تمام انبیاء کو سوائے وحی کے حاصل نہیں ہو سکتی.جس غرض کے لیے انسان اسلام قبول کرتا ہے.اس کا مغز یہی ہے کہ اسکے اتباع سے وحی ملے.اور پھر اگر وحی منقطع ہوئی مانی بھی جاوے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی منقطع ہوئی نہ اس کے اظلال اور آثار بھی منقطع ہوئے.وہ وحی والہام کا دروازہ کھلا ہے ( ملفوظات جلد سوم صفحه 417) دلبر کی آواز بن جاتے ہیں وہ اس جاں کے ہمراز بن جاتے ہیں وہ ناداں جو کہتا ہے در بند ہے نہ الہام ہے نہ پیوند ہے نہیں عقل اس کو نہ کچھ غور کرا ہے وید ہے یا کوئی اور ہے سچ ہے کہ جو پاک ہو جاتے ہیں خدا سے خدا کی خبر لاتے ہیں تو ہو جائے راه زیر و زبر اگر اس طرف سے نہ آوے خبر طلب گار ہو جائیں اس کے تباہ وہ مر جائیں دیکھیں اگر بند راہ مگر کوئی معشوق ایسا نہیں کہ عاشق سے رکھتا ہو یہ بغض وکیں تو پھر یہ گماں عیب ہے کہ وہ راحم و عالم الغیب اگر وہ نہ بولے تو کیونکر کوئی یقیں کر کے جانے کہ خدا پر کرتا خود ہے وہ اپنے الغیب ہے ہے مختفی رہ میں نہیں نامراد کوئی اس کی بھگتوں کو یاد ست بچن...خ.جلد 10 صفحه 166 ) ( در شین اردو صفحه 21)
829 اگر خدا تعالیٰ نے حق کے طالبوں کو کامل معرفت دینے کا ارادہ فرمایا ہے تو ضرور اس نے اپنے مکالمہ اور مخاطبہ کا طریق کھلا رکھا ہے.اس بارے میں اللہ جل شانہ قرآن شریف میں یہ فرماتا ہے:.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ.یعنی اے خدا ہمیں وہ استقامت کی راہ بتلا جو راہ ان لوگوں کی ہے جن پر تیرا انعام ہوا ہے.اس جگہ انعام سے مراد الہام اور کشف وغیرہ آسمانی علوم ہیں جو انسان کو براہ راست ملتے ہیں.ایسا ہی ایک دوسری جگہ فرماتا ہے:.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ.حم سجدة: 31) یعنی جو لوگ خدا پر ایمان لا کر پوری پوری استقامت اختیار کرتے ہیں.ان پر خدائے تعالیٰ کے فرشتے اترتے ہیں.اور یہ الہام ان کو کرتے ہیں کہ تم کچھ خوف اور غم نہ کرو تمہارے لئے وہ بہشت ہے جس کے بارے میں تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.سو اس آیت میں بھی صاف لفظوں میں فرمایا ہے.کہ خدائے تعالیٰ کے نیک بندے غم اور خوف کے وقت خدا سے الہام پاتے ہیں.اور فرشتے اتر کر ان کی تسلی کرتے ہیں.اور پھر ایک اور آیت میں فرمایا ہے :.لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ (يونس:65) یعنی خدا کے دوستوں کو الہام اور خدا کے مکالمہ کے ذریعہ سے اس دنیا میں خوشخبری ملتی ہے اور آئندہ زندگی میں بھی ملے گی.( اسلامی اصول کی فلاسفی - ر- خ - جلد 10 صفحہ 437-436) پھر وہ خدا جو مردہ کی مانند ہے پڑا پس کیا اُمید ایسے سے اور خوف اس سے کیا ایسے خدا کے خوف سے دل کیسے پاک ہو سینہ میں اس کے عشق سے کیونکر تیاک ہو بن دیکھے کس طرح کسی مد رخ پر آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حسن و جمالِ یار کے آثار ہی سہی ( در نمین اردو صفحه 101) ( براہین احمدیہ پنجم...خ.جلد 21 صفحہ 17) چونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سفر کرنا ایک نہایت دقیق در دقیق راہ ہے اور اس کے ساتھ طرح طرح کے مصائب اور دکھ لگے ہوئے ہیں اور ممکن ہے کہ انسان اس نادیدہ راہ میں بھول جاوے یا نا امیدی طاری ہو اور آگے قدم بڑھانا چھوڑ دے اس لئے خدا تعالیٰ کی رحمت نے چاہا کہ اپنی طرف سے اس سفر میں ساتھ ساتھ اس کو تسلی دیتی رہے اور اس کی دل دہی کرتی رہے اور اس کی کمر ہمت کو باندھتی رہے اور اس کے شوق کو زیادہ کرے سواس کی سنت اس راہ کے مسافروں کے ساتھ اس طرح پر واقع ہے کہ وہ وقتا فوقتا اپنے کلام اور الہام سے ان کو تسلی دیتا اور ان پر ظاہر کرتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.تب وہ قوت پا کر بڑے زور سے اس سفر کو طے کرتے ہیں چنانچہ اس بارے میں وہ فرماتا ہے لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ.(يونس: 65) اسلامی اصول کی فلاسفی - ر-خ- جلد 10 صفحہ 422)
830 وحی والہام کی خواہش کرنا درست نہیں ہے انسان کو کشوف اور وحی اور الہام کا بھی طالب نہ ہونا چاہیئے بلکہ یہ سب تقویٰ کا نتیجہ ہیں.جب جڑ ٹھیک ہوگی تو اس کے لوازم بھی خود بخود آجائیں گے.دیکھو جب سورج نکلتا ہے تو دھوپ اور گرمی جو اس کا خاصہ ہیں خود بخود ہی آجاتے ہیں.اسی طرح جب انسان میں تقویٰ آجاتا ہے تو اس کے لوازم بھی اس میں ضرور آ جاتے ہیں.دیکھو جب کوئی دوست کسی کے ملنے کے واسطے جاوے تو اس کو یہ امید تو نہ رکھنی چاہیئے کہ میں اس کے پاس جاتا ہوں کہ وہ مجھے پلاؤ زردے اور قورمے اور قلیے کھلائے گا اور میری خاطر تواضع کریگا نہیں بلکہ صادق دوست کی ملاقات کی خواہش ہوتی ہے بجز اس کے اور کسی کھانے یا مکان یا خدمت کی پروا اور خیال بھی نہیں ہوتا مگر جب وہ اپنے صادق دوست کے پاس جو اس سے مجبور تھا.جاتا ہے تو کیا وہ اس کی خاطر داری کا کوئی دقیقہ باقی بھی اٹھا رکھتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ جہانتک اس سے بن پڑتا ہے وہ اپنی طاقت سے بڑھ کر بھی اس کی تواضع کے واسطے مکلف سامان کرتا ہے.ابتدائی الہام پر تسلی نہیں چاہئے ( ملفوظات جلد سوم صفحه 102) وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعُنْهُ بِهَا وَ لَكِنَّهُ اَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَوَيهُ (الاعراف : 177) ابتدائی رؤیا یا الہام کے ذریعہ سے خدا بندہ کو بلانا چاہتا ہے مگر وہ اس کے واسطے کوئی حالت قابل تشفی نہیں ہوتی چنانچہ بلعم کو الہامات ہوتے تھے مگر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے کہ لَوْ شِـنـنَـا لَرَفَعُنه ثابت ہوتا ہے کہ اس کا رفع نہیں ہوا تھا یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور میں وہ کوئی برگزیدہ اور پسندیدہ بندہ ابھی تک نہیں بنا تھا.یہاں تک کہ وہ گر گیا.ان الہامات وغیرہ سے انسان کچھ بن نہیں سکتا.انسان خدا کا بن نہیں سکتا جب تک کہ ہزاروں موتیں اس پر نہ آویں اور بیضئہ بشریت سے وہ نکل نہ آئے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 486)
831 عشق الہی اور وحی والہام باری تعالیٰ ہر کہ ذوق یار جانی یافت است آن ز وحی آسمانی یافت است جس نے اس دلی دوست کے وصل کا لطف اٹھایا.اس نے صرف آسمانی وحی کی بدولت اُٹھایا.عشق از الهام آمد در جہاں درد از الهام شد آتش فشاں عشق الہام ہی کی وجہ سے دنیا میں آیا اور درد نے بھی الہام ہی کی وجہ سے آتش فشانی کی.شوق و انس و الفت و مهر و وفا جمله از الهام می دارد ضیا شوق انس الفت اور مہر و وفا ان سب کی رونق الہام کی وجہ سے ہے.هر که حق را یافت از الهام یافت ہر رخے کو تافت از الهام تافت جس کسی نے خدا کو پایا الہام سے پایا.ہر ایک چہرہ جو چپکا وہ الہام سے چپکا.تو نہ اہل محبت میں سبب از کلام یار مے داری عجب ! تو محبت کے کوچہ کا واقف نہیں اس لیے کلام یار پر تعجب کرتا ہے.عشق مے خواہد کلام یار را رو به پرس از عاشق این اسرار را در مشین فارسی مترجم صفحه 52-54) (براہین احمدیہ.ر - خ - جلد 1 صفحہ 172) عشق تو دوست کے کلام کو چاہتا ہے.جا اور عاشق سے اس راز کو پوچھ.
832 پانچویں فصل طریقت کی تعریف وقيل ان الطريق لا يسمى صراطا عند قوم ذوی قلب و نور حتى يتضمن خمسة امور من امور الدين.و هى الاستقامة و الايصال الى المقصود باليقين و قرب الطريق و سعته للمارين و تعيينه طريقا للمقصود في اعين السالكين.و هو تارة يضاف الى الله اذ هو شرعه و هو سوى سبله للماشين و تارة يضاف الى العباد لكونهم اهل السلوك و المارين عليها و كرامات الصادقين.ر.خ.جلد 7 صفحه 137) العابرين.ترجمہ:.اور کہتے ہیں کہ صاحب دل اور روشن ضمیر لوگوں کے نزدیک طریق (راستہ) کو اس وقت تک صراط کا نام نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ وہ امور دین میں سے پانچ امور پرمش مشتمل نہ ہو اور وہ یہ ہیں:.(1) استقامت (2) یقینی طور پر مقصود تک پہنچانا (3) اس کا نزدیک ترین ( راہ ) ہونا.(4) گزرنے والوں کے لیے اس کا وسیع ہونا.اور (5) سالکوں کی نگاہ میں مقصود تک پہنچنے کے لیے اس راستہ کا متعین کیا جاتا.اور صراط کا لفظ کبھی تو خدا تعالیٰ کی طرف مضاف کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کی شریعت ہے او وہ چلنے والوں کے لیے ہموار راستہ ہے.اور کبھی اسے بندوں کی طرف مضاف کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اس پر چلنے والے اور گزرنے والے اور اسے عبور کرنے والے ہیں.الطَّرِيقَةُ كُلُّهَا آدَبٌ ایک شخص نو مسلم چکڑالوی کے خیالات کا متبع آیا ہوا تھا.اس نے نشان دیکھنا چاہا حضرت حجتہ اللہ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے سوال کو طریق ادب و طالب کے خلاف پا کر حکم دیا تھا کہ تم واپس چلے جاؤ.اس پر اس نے ایک معافی نامہ پیش کیا جس پر حضرت حجتہ اللہ نے فرمایا:.یہ بات محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے کہ کوئی بات کسی کو سمجھا دے لیکن اسے سمجھ دیتا ہے جو ادب کے طریق پر سچا طالب ہو کر تلاش کرتا ہے الطريقة كلها ادب خدا تعالیٰ کا یہ سچا وعدہ ہے کہ جو شخص صدق دل اور نیک نیتی کے ساتھ اس کی راہ کی تلاش کرتے ہیں وہ ان پر ہدایت و معرفت کی راہیں کھول دیتا ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: 70) یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں.ہم میں ہو کر سے یہ مراد ہے کہ محض اخلاص اور نیک نیتی کی بناء پر خدا جوئی اپنا مقصد رکھ کر.لیکن اگر کوئی استہزاء اور ٹھٹھے کے طریق پر آزمائش کرتا ہے.وہ بدنصیب محروم رہ جاتا ہے.پس اسی پاک اصول کی بناپر اگر تم سچے دل سے کوشش کرو اور دعا کرتے رہوتو وہ غفور رحیم ہے لیکن اگر کوئی اللہ تالے کی پروانہیں کرتاوہ بے نیاز ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 640)
833 ہدایت اور معرفت کے طریق اما قوله تعالى اهدنا الصراط المستقيم فمعناه ارنا النهج القويم وثبتنا على طريق يوصل الى حضرتك وينجى من عقوبتك ثم اعلم ان لتحصيل الهداية.طرقا عندا لصوفية.مستخرجة من الكتاب والسنة.احدا طلب المعرفة.بالدليل و الحجة.والثانى تصفية الباطن بانواع الرياضة.و الثالث الانقطاع الى الله وصفاء المحبة وطلب المدد من الحضرة بالموافقة التامة و بنفى التفرقة و بالتوبة الى الله والابتهال والدعاء و عقد الهمة.ثم لما كان طريق طلب الهدية والتصفية لا يكفى للوصول من غير توسل الائمة والمهديين من الامة.مارضى الله سبحانه على هذا القدر من تعليم الدعاء.بل حث بقوله صراط الذين على تحسس المرشدين والهادين من اهل الاجتهاد والاصطفاء من المرسلين والانبياء.فانهم قوم اثروا دار الحق على دار الذور و الغرور.اعجاز اسیح - ر-خ- جلد 18 صفحہ 172-171 ) ترجمه كلام الى اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے معنی یہ ہیں کہ (اے ہمارے پروردگار) ہمیں سیدھا رستہ دکھا اور ہمیں اس راستہ پر قائم رکھ جو تیری جناب تک پہنچا تا ہو اور تیری سزا سے بچا تا ہو.پھر واضح ہو کہ صوفیوں کے نزدیک ہدایت کے حصول کے کئی طریق ہیں جو کتاب ( الہی ) اور سنت (رسول) سے اخذ کیے گئے ہیں.ان میں سے پہلا طریق دلیل اور برہان کے ساتھ خدا کی معرفت طلب کرنا ہے.دوسرا طریق مختلف قسم کی ریاضتوں کے ذریعہ اپنے باطن کو صاف کرنا ہے اور تیسرا ( طریق ) ہے سب سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رخ کرنا اور اس سے اپنی محبت کو خالص کرنا.اور اس کی صفات سے پوری موافقت پیدا کر کے اور خدا سے علیحدگی ترک کر کے تو بہ زاری دعاء اور عقد ہمت کے ساتھ بارگاہ ایزدی سے مدد طلب کرنا ہے.پھر چونکہ تلاش ہدایت اور تصفیہ نفس کا طریق ائمہ اور امت کے ہدایت یافتہ لوگوں کے وسیلہ کے بغیر وصول الی اللہ کے لیے کافی نہیں اس لیے خدا تعالیٰ محض اس قدر ( یعنی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ تک ) دعاء سکھانے پر راضی نہ ہوا.بلکہ اس نے صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہ کر ان مرشدوں اور ہادیوں کی تلاش کی ترغیب دلائی جو صاف باطن اور اجتہاد کرنے والے لوگوں میں سے ہادی اور راہنما ہیں یعنی رسولوں اور نبیوں کی.کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے جھوٹ اور فریب یعنی دارد نیا پر دار الحق (آخرت) کو ترجیح دی.
834 حصول معرفت کے تین مدارج إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْإِحْسَانِ وِايْتَايُّ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى.الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.(النحل : 91) پہلے طور پر اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم اپنے خالق کے ساتھ اس کی اطاعت میں عدل کا طریق مرعی رکھو ظالم نہ بنو.پس جیسا کہ در حقیقت بجز اس کے کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں.کوئی بھی محبت کے لائق نہیں.کوئی بھی تو کل کے لائق نہیں کیونکہ بوجہ خالقیت اور قیومیت وربوبیت خاصہ کے ہر ایک حق اسی کا ہے اسی طرح تم بھی اس کے ساتھ کسی کو اس کی پرستش میں اور اس کی محبت میں اور اس کی ربوبیت میں شریک مت کرو.اگر تم نے اس قدر کر لیا تو یہ عدل ہے جس کی رعایت تم پر فرض تھی.پھر اگر اس پر ترقی کرنا چا ہو تو احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اس کی عظمتوں کے ایسے قابل ہو جاؤ اور اس کے آگے اپنی پرستشوں میں ایسے متادب بن جاؤ اور اس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گو یا تم نے اس کی عظمت اور جلال اور اس کے حسن لا زوال کو دیکھ لیا ہے.بعد اس کے ایتائی ذی القربی کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہاری پرستش اور تمہاری محبت اور تمہاری ذِي فرماں برداری سے بالکل تکلف اور تصنع دور ہو جائے اور تم اس کو ایسے جگری تعلق سے یاد کرو کہ جیسے مثلا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور تمہاری محبت اس سے ایسی ہو جائے کہ جیسے مثلاً بچہ اپنی پیاری ماں سے محبت رکھتا ہے.اور دوسرے طور پر جو ہمدردی بنی نوع سے متعلق ہے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اور اپنے حقوق سے زیادہ ان سے کچھ تعرض نہ کرو اور انصاف پر قائم رہو.اور اگر اس درجہ سے ترقی کرنی چاہو تو اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل نیکی کرے اور اس کی آزار کی عوض میں تو اس کو راحت پہنچاوے اور مروت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے.سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے کہ ہمدردی خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یا مدعا یا غرض درمیان نہ ہو بلکہ اخوت و قرابت انسانی کا جوش اس اعلیٰ درجہ پر نشو و نما پا جائے کہ خود بخود بغیر کسی تکلف کے اور بغیر پیش نہا در کھنے کسی قسم کے شکر گزاری یاد عایا اور کسی قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو.(ازالہ اوہام -ر خ- جلد 3 صفحہ 552-550)
835 حقیقی زندگی کا حصول إِنَّهُ مَنْ يَّاتِ رَبَّهُ مُجُرمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى.(طه: 75) کسی چیز کی بجز خدا کے کوئی ہستی نہیں محض خدا ہے جس کا نام ہست ہے پھر اس کے زیر سایہ ہو کر اور اس کی محبت میں محو ہو کر واصلوں کی روحیں حقیقی زندگی پاتی ہیں اور اس کے وصال کے بغیر زندگی حاصل نہیں ہوسکتی اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں کافروں کا نام مردے رکھتا ہے اور دوزخیوں کی نسبت فرماتا ہے إِنَّهُ مَنُ يَّاتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ ، لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَی (طه: 75).یعنی جو شخص مجرم ہونے کی حالت میں اپنے رب کو ملے گا اس کے لئے جہنم ہے.نہ اس میں مرے گا نہ زندہ رہے گا یعنی اس لئے نہیں مرے گا کہ دراصل وہ تعبد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے لہذا اس کا وجو د ضروری ہے اور اس کو زندہ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ حقیقی زندگی وصال الہی سے حاصل ہوتی ہے اور حقیقی زندگی عین نجات ہے اور وہ بجز عشق الہی اور وصال حضرت عزت کے حاصل نہیں ہو سکتی.اگر غیر قوموں کو حقیقی زندگی کی فلاسفی معلوم ہوتی تو وہ کبھی دعویٰ نہ کرتے کہ تمام ارواح خود بخود قدیم سے اپنا وجود رکھتے ہیں اور حقیقی زندگی سے بہرہ ور ہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہ علوم آسمانی ہیں اور آسمان سے ہی نازل ہوتے ہیں اور آسمانی لوگ ہی ان کی حقیقت کو جانتے ہیں اور دنیا ان سے بے خبر ہے.چشمہ سیچی - ر- خ - جلد 20 صفحہ 366) امن کی راہ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا.(الشمس :10) نہایت امن کی راہ یہی ہے کہ انسان اپنی غرض کو صاف کرے اور خالصتاً رو بخدا ہو.اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو صاف کرے اور بڑھائے اور وجہ اللہ کی طرف دوڑے.وہی اس کا مقصود اور محبوب اور تقویٰ پر قدم رکھ کر اعمال صالحہ بجالا وے پھر سنت اللہ اپنا کام آپ کرے گی.اس کی نظر نتائج پر نہ ہو بلکہ نظر تو اسی ایک نقطہ پر ہو.اس حد تک پہنچنے کے لئے اگر یہ شرط ہو کہ وہاں پہنچ کر سب سے زیادہ سزا ملے گی تب بھی اسی کی طرف جاوے.یعنی کوئی ثواب یا عذاب اس کی طرف جانے کا اصل مقصد نہ ہو محض خدا تعالیٰ ہی اصل مقصد ہو.جب وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اس کی طرف آئے گا اور اس کا قرب حاصل ہوگا تو یہ وہ سب کچھ دیکھے گا جو ا سکے وہم و گمان میں بھی کبھی نہ گذرا ہوگا اور کشوف اور خواب تو کچھ چیز ہی نہ ہوں گے.پس میں تو اس راہ پر چلانا چاہتا ہوں اور یہی اصل غرض ہے اسی کو قرآن شریف میں فلاح کہا گیا ہے.قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 77)
836 الہام حضرت اقدس:.امن است در مکان محبت سرائے ما ترجمہ :.ہمارے قیام کی محبت سرا میں امن ہی امن ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 257) طریقت کی چھ حالتیں بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِى صَلَاتِهِمْ حَشِعُونَ.وَ الَّذِينَ هُمُ عَن اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ.وَالَّذِينَ هُمُ لِلزَّكَوةِ فَعِلُونَ.وَ الَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَفِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمُ اَوْمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ.فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْعَدُونَ.وَالَّذِينَ هُمُ لا مَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَعُونَ.وَالَّذِينَ هُمُ عَلَى صَلَوتِهِمْ يُحَافِظُونَ.أُولَئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ.(المومنون 1 تا 12) اس تمام تقریر سے ثابت ہے کہ یہ مراتب ستہ عقل سلیم کے نزدیک اس مومن کی راہ میں پڑے ہیں جو اپنے وجود روحانی کو کمال تک پہنچانا چاہتا ہے اور ہر ایک انسان تھوڑے سے غور کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ضرور مومن پر اس کے سلوک کے وقت چھ حالتیں آتی ہیں.وجہ یہ کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ سے کامل تعلق نہیں پکڑتا تب تک اس کا نفس ناقص پانچ خراب حالتوں سے پیار کرتا ہے اور ہر ایک حالت کا پیار دور کرنے کے لئے ایک ایسے سبب کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس پیار پر غالب آجائے.اور نیا پیار پہلے پیار کا علاقہ تو ڑ دے.براهین احمدیہ حصہ پنجم.رخ - جلد 21 صفحہ 234) پہلی حالت چنانچہ پہلی حالت جس سے وہ پیار کرتا ہے یہ ہے کہ وہ ایک غفلت میں پڑا ہوتا ہے اور اسکو بالکل خدا تعالیٰ سے بعد اور دوری ہوتی ہے اور نفس ایک کفر کے رنگ میں ہوتا ہے اور غفلت کے پردے تکبر اور لا پروائی اور سنگدلی کی طرف اس کو کھینچتے ہیں اور خشوع اور خضوع اور تواضع اور فروتنی اور انکسار کا نام ونشان اس میں نہیں ہوتا اور اسی اپنی حالت سے وہ محبت کرتا ہے اور اس کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے اور پھر جب عنایت الہیہ اس کی اصلاح کی طرف توجہ کرتی ہے تو کسی واقعہ کے پیدا ہونے سے یا کسی آفت کے نازل ہونے سے خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت اور جبروت کا اس کے دل پر اثر پڑتا ہے اور اس اثر سے اس پر ایک حالت خشوع پیدا ہو جاتی ہے جو اس کے تکبر اور گردن کشی اور غفلت کی عادت کو کالعدم کر دیتی ہے اور اس سے علاقہ محبت تو ڑ دیتی ہے.( براھین احمدیہ.رخ - جلد 21 صفحہ 235-234)
837 دوسری حالت پھر اس کے بعد دوسری حالت یہ ہے کہ ایسے مومن کو خدا تعالیٰ کی طرف کچھ رجوع تو ہو جاتا ہے مگر اس رجوع کے ساتھ لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو شغلوں کی پلیدی لگی رہتی ہے جس سے وہ اُنس اور محبت رکھتا ہے.ہاں کبھی نماز میں خشوع کے حالات بھی اس سے ظہور میں آتے ہیں.لیکن دوسری طرف لغو حرکات بھی اس کے لازم حال رہتی ہیں اور لغو تعلقات اور لغو مجلسیں اور لغو ہنسی ٹھٹھا اس کے گلے کا ہار رہتا ہے.گویا وہ دور نگ رکھتا ہے کبھی کچھ کبھی کچھ.واعظاں میں جلوہ بر محراب و منبر می کند چوں بخلوت مے رونداں کارِ دیگر می کنند ترجمہ : واعظ جو محراب اور ممبر پر چڑھ کر تقریریں کرتے ہیں جب خلوت میں جاتے ہیں تو غلط کام کرنے لگتے ہیں.پھر جب عنایت الہیہ اس کو ضائع کرنا نہیں چاہتی تو پھر ایک اور جلوہ عظمت اور ہیبت اور جبروت الہی کا اس کے دل پر نازل ہوتا ہے جو پہلے جلوہ سے زیادہ تیز ہوتا ہے اور قوت ایمانی اس سے تیز ہو جاتی ہے اور ایک آگ کی طرح مومن کے دل پر پڑ کر تمام خیالات لغو اس کے ایک دم میں بھسم کر دیتی ہے.اور یہ جلوہ عظمت اور جبروت الہی کا اس قدر حضرت عزت کی محبت اس کے دل میں پیدا کرتا ہے کہ لغو کاموں اور لغوشغلوں کی محبت پر غالب آ جاتا ہے اور ان کو دفع اور دور کر کے ان کی جگہ لے لیتا ہے.اور تمام بیہودہ شغلوں سے دل کو سرد کر دیتا ہے تب لغو کاموں سے دل کو ایک کراہت پیدا ہو جاتی ہے.براهین احمدیہ حصہ پنجم.رخ - جلد 21 صفحہ 236-235) تیسری حالت پھرلغوشغلوں اور لغو کاموں کے دور ہونے کے بعد ایک تیسری خراب حالت مومن میں باقی رہ جاتی ہے جس سے وہ دوسری حالت کی نسبت بہت محبت رکھتا ہے یعنی طبعا مال کی محبت اس کے دل میں ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی اور آرام کا مدار مال کو ہی سمجھتا ہے اور نیز اس کے حاصل ہونے کا ذریعہ صرف اپنی محنت اور مشقت خیال کرتا ہے.پس اس وجہ سے اس پر خدا تعالیٰ کی راہ میں مال کا چھوڑ نا بہت بھاری اور تلخ ہوتا ہے.پھر جب عنایت الہیہ اس ورطہ عظیمہ سے اس کو نکالنا چاہتی ہے تو رازقیت الہیہ کا علم اس کو عطا کیا جاتا ہے اور تو کل کا بیج اس میں بویا جاتا ہے اور ساتھ اس کے ہیبت الہیہ بھی کام کرتی ہے اور دونوں تجلیات جمالی اور جلالی اس کے دل کو اپنے قابو میں لے آتی ہیں.تب مال کی محبت بھی دل میں سے بھاگ جاتی ہے اور مال دینے والے کی محبت کا تختم دل میں بویا جاتا ہے اور ایمان قوی کیا جاتا ہے.(براہین احمدیہ پنجم.رخ.جلد 21 صفحہ 236)
838 چوتھی حالت پھر بعد اس کے چوتھی حالت ہے جس سے نفس امارہ بہت ہی پیار کرتا ہے.اور جو تیسری حالت سے بدتر ہے.کیونکہ تیسری حالت میں تو صرف مال کا اپنے ہاتھ سے چھوڑنا ہے.مگر چوتھی حالت میں نفس امارہ کی شہوات محتر مہ کو چھوڑنا ہے.اور ظاہر ہے کہ مال کا چھوڑنا بہ نسبت شہوات کے چھوڑنے سے انسان پر طبعا سہل ہوتا ہے.اس لئے یہ حالت بہ نسبت حالت گذشتہ کے بہت شدید اور خطرناک ہے اور فطرتا انسان کو شہوات نفسانیہ کا تعلق بہ نسبت مال کے تعلق کے بہت پیارا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ وہ مال کو جو اس کے نزدیک مدار آسائش ہے بڑی خوشی سے شہوات نفسانیہ کی راہ میں فدا کر دیتا ہے.اور اس حالت کے خوفناک جوش کی شہادت میں یہ آیت کافی ہے.وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا اَنْ رَّا بُرْهَانَ رَبِّهِ (يوسف : 25) یعنی یہ ایسا منہ زور جوش ہے کہ اس کا فرو ہونا کسی برہان قومی کا محتاج ہے.پس ظاہر ہے کہ درجہ چہارم پر قوت ایمانی بہ نسبت درجہ سوم کے بہت قوی اور زبردست ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت اور جبروت کا مشاہدہ بھی پہلے کی نسبت اس میں زیادہ ہوتا ہے پانچویں حالت (براہین احمدیہ پنجم.رخ - جلد 21 صفحہ 237) پھر چوتھی حالت کے بعد پانچویں حالت ہے جس کے مفاسد سے نہایت سخت اور شدید محبت نفس امارہ کو ہے.کیونکہ اس مرتبہ پر صرف ایک لڑائی باقی رہ جاتی ہے اور وہ وقت قریب آ جاتا ہے کہ حضرت عزت جلشانہ کے فرشتے اس وجود کی تمام آبادی کو فتح کرلیں اور اس پر اپنا پورا تصرف اور دخل کر لیں اور تمام نفسانی سلسلہ کو درہم برہم کر دیں.اور نفسانی قومی کے قریہ کو ویران کر دیں.اور اس کے نمبر داروں کو ذلیل اور پست کر کے دکھلاویں اور پہلی سلطنت پر ایک تباہی ڈال دیں.اور انقلاب سلطنت پر ایسا ہی ہوا کرتا ہے.اِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً اَفْسَدُوُهَا وَجَعَلُوا اَعِزَّةَ اَهْلِهَا اَذِلَّةً وَ كَذلِكَ يَفْعَلُونَ (النمل: 35) اور یہ مومن کیلئے ایک آخری امتحان اور آخری جنگ ہے جس پر اس کے تمام مراتب سلوک ختم ہو جاتے اور اس کا سلسلہ ترقیات جو کسب اور کوشش سے ہے انتہا تک پہنچ جاتا ہے.اور انسانی کوششیں اپنے اخیر نقطہ تک منزل طے کر لیتی ہیں.پھر بعد اس کے صرف موہبت اور فضل کا کام باقی رہ جاتا ہے جو خلق آخر کے متعلق ہے.(براہین احمدیہ پنجم.رخ.جلد 21 صفحہ 238)
839 چھٹی حالت پھر بعد اس کے وجود روحانی کا مرتبہ ششم ہے یہ وہی مرتبہ ہے جس میں مومین کی محبت ذاتیہ اپنے کمال کو پہنچ کر اللہ جل شانہ کی محبت ذاتیہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب خدا تعالیٰ کی وہ محبت ذاتی مومن کے اندر داخل ہوتی ہے اور اس پر احاطہ کرتی ہے جس سے ایک نئی اور فوق العادت طاقت مومن کو ملتی ہے اور وہ ایمانی طاقت ایمان میں ایک ایسی زندگی پیدا کرتی ہے جیسے ایک قالب بے جان میں روح داخل ہو جاتی ہے بلکہ وہ مومن میں داخل ہو کر در حقیقت ایک روح کا کام کرتی ہے.تمام قومی میں اس سے ایک نور پیدا ہوتا ہے.اور روح القدس کی تائید ایسے مومن کے شامل حال ہوتی ہے کہ وہ باتیں اور وہ علوم جو انسانی طاقت سے برتر نہیں وہ اس درجہ کے مومن پر کھولے جاتے ہیں اور اس درجہ کا مومن ایمانی ترقیات کے تمام مراتب طے کر کے ان ظالی کمالات کی وجہ سے جو حضرت عزت کے کمالات سے اس کو ملتے ہیں آسمان پر خلیفتہ اللہ کا لقب پاتا ہے.ایسا ہی اس درجہ کا مومن جو نہ صرف ترک نفس کرتا ہے بلکہ نفی وجود اور ترک نفس کے کام کو اس درجہ کے کمال تک پہنچاتا ہے کہ اس کے وجود میں سے کچھ بھی نہیں رہتا اور صرف آئینہ کے رنگ میں ہو جاتا ہے.تب ذات الہی کے تمام نقوش اور تمام اخلاق اس میں مندرج ہو جاتے ہیں اور جیسا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ آئینہ جو ایک سامنے کھڑے ہو نیوالے منہ کے تمام نقوش اپنے اندر لے کر اس منہ کا خلیفہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایک مومن بھی ظلمی طور پر ا اخلاق اور صفات الہیہ کو اپنے اندر لے کر خلافت کا درجہ حاصل کرتا ہے اور ظلمی طور پر الہی صورت کا مظہر ہو جاتا ہے اور جیسا کہ خدا غیب الغیب ہے اور اپنی ذات میں وراء الوراء ہے ایسا ہی یہ مومن کامل اپنی ذات میں غیب الغیب اور وراء الوراء ہوتا ہے.دنیا اس حقیقت تک پہنچ نہیں سکتی.کیونکہ وہ دنیا کے دائرہ سے بہت ہی دور چلا جاتا ہے.(براہین احمدیہ پنجم.رخ - جلد 21 صفحہ 242-241) خدا بدنبال راست آن بندگان کرام که از بهر شان می کند صبح و شام خدا کے نیک بندے ایسے بھی ہیں جن کے لیے خدا صبح و شام کو پیدا کرتا ہے.بنگرند جہانے بدنبال خودم شند چشم چومے جب وہ کن آنکھیوں سے دیکھتے ہیں تو ایک جہان کو اپنے پیچھے کھینچ لیتے ہیں.اثر هاست در گفتگو ہائے شاں چکد نور وحدت نے روہائے شاں ان کے کلام میں اثر ہوتا ہے اور ان کے چہروں سے توحید کا نور ٹپکتا ہے.در اوشان به اظہار ہر خیر و شر خیر و شر نهادست حق خاصیت مسنتر ان میں نیکی اور بدی کے اظہار کے لیے خدا تعالیٰ نے مخفی خاصیت رکھ دی ہے.بتن کسے اگر چہ خدا نیستند ولی از خدا ہم جدا نیستند اگر چہ کہنے کو وہ خدا نہیں ہیں.لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہیں.که او ظل یزداں بود قیاسش بخود جہل و طغیاں بود جو شخص خدا کاظل ہو اس کو اپنے پر قیاس کرنا جہالت اور سرکشی ہے.( اخبار بدر جلد 8 نمبر 27 مورخہ 29 اپریل 1909ء ) ( در نشین فارسی صفحه 322)
840 طریقت.نفس کے تین درجے وَ مَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي عفور رحيم.(يوسف : 54 قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس انسانی کی تین حالتیں ہیں ایک امارہ.دوسری لوامہ.تیسری مطمئنہ نفس امارہ کی حالت میں انسان شیطان کے پنجہ میں گویا گرفتار ہوتا ہے اور اس کی طرف بہت جھکتا ہے لیکن نفس لوامہ کی حالت میں وہ اپنی خطا کاریوں پر نادم ہوتا اور شرمسار ہو کر خدا کی طرف جھکتا ہے مگر اس حالت میں بھی ایک جنگ رہتی ہے کبھی شیطان کی طرف جھکتا ہے اور کبھی رحمان کی طرف مگر نفس مطمئنہ کی حالت میں وہ عبادالرحمان کے زمرہ میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ گویا ارتفاعی نقطہ ہے جس کے بالمقابل نیچے کی طرف امارہ ہے.اس میزان کے بیچ میں لوامہ ہے جو تر از و کی زبان کی طرح ہے.انخفاضی نقطہ کی طرف اگر زیادہ جھکتا ہے تو حیوانات سے بھی بدتر اور ارذل ہو جاتا ہے اور ارتفاعی نقطہ کی طرف جس قدر رجوع کرتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ کی طرف قریب ہوتا جاتا ہے اور سفلی اور ارضی حالتوں سے نکل کر علوی اور سماوی فیضان سے حصہ لیتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 69-68) یا کبازی کی اصل جڑایمان باللہ ہے یقینا سمجھو کہ ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصلی جز خدا پر ایمان لانا ہے.جس قدر انسان کا ایمان باللہ کمزور ہوتا ہے اسی قدر اعمال صالحہ میں کمزوری اور ستی پائی جاتی ہے لیکن جب ایمان قوی ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفات کاملہ کے ساتھ یقین کر لیا جائے اسی قدر عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے خدا پر ایمان رکھنے والا گناہ پر قادر نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایمان اس کی نفسانی قوتوں اور گناہ کے اعضا کو کاٹ دیتا ہے.دیکھو اگر کسی کی آنکھیں نکال دی جاویں تو وہ آنکھوں سے بد نظری کیونکر کر سکتا ہے اور آنکھوں کا گناہ کیسے کرے گا اور اگر ایسا ہی ہاتھ کاٹ دیئے جاویں یا شہوانی قومی کاٹ دیئے جاویں.پھر وہ گناہ جو ان اعضا سے متعلق ہیں کیسے کر سکتا ہے؟ ٹھیک اسی طرح پر جب ایک انسان نفس مطمئنہ کی حالت میں ہوتا ہے تو نفس مطمئنہ اسے اندھا کر دیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں گناہ کی قوت نہیں رہتی.وہ دیکھتا ہے پر نہیں دیکھتا کیونکہ آنکھوں کے گناہ کی نظر ساب ہو جاتی ہے.وہ کان رکھتا ہے مگر بہرہ ہوتا ہے اور وہ باتیں جو گناہ کی میں نہیں سن سکتا.اسی طرح پر اس کی تمام نفسانی اور شہوانی قوتیں اور اندرونی اعضا کاٹ دیئے جاتے ہیں.اس کی ان ساری طاقتوں پر جن سے گناہ صادر ہوسکتا تھا ایک موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ بالکل ایک میت کی طرح ہوتا ہے.اور خدا تعالیٰ ہی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے.وہ اس کے سوا ایک قدم نہیں اٹھا سکتا.یہ وہ حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامل اطمینان اسے دیا جاتا ہے.یہی وہ مقام ہے جو انسان کا اصل مقصود ہونا چاہیئے اور ہماری جماعت کو اسی کی ضرورت ہے اور اطمینان کامل کے حاصل کرنے کے واسطے ایمان کامل کی ضرورت ہے پس ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے.کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان حاصل کر لے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 504)
841 ہمیں اس یار سے تقویٰ عطا ہے نہ یہ ہم کہ احسانِ خدا ہے کرو کوشش اگر صدق و صفا ہے یہی آئینہ خالق نما که حاصل ہو جو شرط لقا ہے ہے یہی اک جوہر سیف دعا ہے ہر اک نیکی کی جڑھ اتقا ہے اگر بڑھ رہی سب نہ کچھ رہا ہے یہی اک فخر شانِ اولیاء ہے بجو تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے اگر سوچو - یہی دار الجزاء ہے مجھے تقویٰ سے اس نے جزا دی فسبحان الذى اخزى الاعادي عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک سنو! وہ ہے جس کا کام تقویٰ تقوی ہے حاصل اسلام تقویٰ خدا کا عشق مے اور جام بناؤ تام تقویٰ کہاں ایماں اگر یہ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی فسبحان الذى اخزى الاعادي مسلمانو ! مقامات سلوک - مقام فنا ہے خام تقویٰ در شین اردو) اس جگہ یہ نکتہ بھی یادر ہے کہ آیت موصوفہ بالا یعنے بلى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة: 113) سعادت تامہ کے تینوں ضروری درجوں یعنے فنا اور بقا اور لقا کی طرف اشارت کرتی ہے.کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ کا فقرہ یہ تعلیم کر رہا ہے کہ تمام قومی اور اعضا اور جو کچھ اپنا ہے خدا تعالیٰ کو سونپ دینا چاہیئے اور اس کی راہ میں وقف کر دینا چاہیئے اور یہ وہی کیفیت ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں فنا ہے.وجہ یہ کہ جب انسان نے حسب مفہوم اس آیت ممدوحہ کے اپنا تمام وجود معہ اسکی تمام قوتوں کے خدا تعالیٰ کو سونپ دیا اور اسکی راہ میں وقف کر دیا اور اپنی نفسانی جنبشوں اور سکونوں سے بکلی باز آ گیا.تو بلا شبہ ایک قسم کی موت اسپر طاری ہوگئی اور اسی موت کو اہل تصوف فنا کے نام سے موسوم کرتے ہیں.مقام بقا پھر بعد اسکے وَهُوَ مُحْسِن کا فقرہ مرتبہ بقا کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ جب انسان بعد فنائے اکمل واتم وسلب جذبات نفسانی.الہبی جذبہ اور تحریک سے پھر جنبش میں آیا اور بعد منقطع ہو جانے تمام نفسانی حرکات کے پھر ربانی تحریکوں سے پر ہو کر حرکت کرنے لگا تو یہ وہ حیات ثانی ہے جس کا نام بقا رکھنا چاہیئے.
842 مقام لقا پھر بعدا سکے یہ فقرات فَلَةٌ أَجُرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - جو اثبات و ایجاب اجر و نفی و سلب خوف و حزن پر دلالت کرتی ہیں یہ حالت لقا کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جس وقت انسان کے عرفان اور یقین اور توکل اور محبت میں ایسا مرتبہ عالیہ پیدا ہو جائے کہ اس کے خلوص اور ایمان اور وفا کا اجر اسکی نظر میں وہمی اور خیالی اور ظنی نہ رہے بلکہ ایسا یقینی اور قطعی اور مشہود اور مرئی اور محسوس ہو کہ گویا وہ اس کومل چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجود پر ایسا یقین ہو جائے کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے اور ہر یک آئندہ کا خوف اس کی نظر سے اٹھ جاوے اور ہر یک گذشتہ اور موجودہ غم کا نام ونشان نہ رہے اور ہر یک روحانی تحسم موجود الوقت نظر آ وے تو یہی حالت جو ہر یک قبض اور کدورت سے پاک اور ہر یک دغدغہ اور شک سے محفوظ اور ہر یک در دا نتظار سے منزہ ہے لقا کے نام سے موسوم ہے اور اس مرتبہ لقا پر محسن کا لفظ جو آیت میں موجود ہے نہایت صراحت سے دلالت کر رہا ہے کیونکہ احسان حسب تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت کا ملہ کا نام ہے کہ جب انسان اپنی پرستش کی حالت میں خدا تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کرے کہ گویا اسکو دیکھ رہا ہے.آئینہ کمالات اسلام - ر- خ - جلد 5 صفحہ 64-63)
843 چھٹی فصل سالک تھوڑے ہوتے ہیں اِعْمَلُوا الَ دَاوُدَ شُكْرًاء وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ.(سبا: 14) خوش قسمت وہی انسان ہے جو ایسے مردانِ خدا کے پاس رہ کر ( جن کو اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر بھیجتا ہے ) اس غرض اور مقصد کو حاصل کرے جس کے لئے وہ آتے ہیں.ایسے لوگ اگر چہ تھوڑے ہوتے ہیں لیکن ہوتے ( ملفوظات جلد اول صفحه (412) ضرور ہیں.وَ قَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ.اگر تھوڑے نہ ہوتے تو پھر بے قدری ہو جاتی.یہی وجہ ہے کہ سونا چاندی لو ہے اور ٹین کی طرح عام نہیں ہے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے قَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ کہ شاکر اور سمجھدار بندے ہمیشہ کم ہوتے ہیں جو کہ حقیقی طور پر قرآن مجید پر چلنے والے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ان کو اپنی محبت اور تقویٰ عطا کیا ہے.وہ خواہ قلیل ہوں مگر اصل میں وہی سواد اعظم ہے.اللہ تعالیٰ کثرت اور تعداد کے رعب میں نہیں آتا قَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ.دیکھو حضرت نوح کے وقت ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 548) کس قدر مخلوق غرق آب ہوئی اور ان کے بالمقابل جو لوگ بچ گئے ان کی تعداد کس قدر تھی.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 19) اولیاء اللہ میں درجات تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ.(البقرة : 254) یہ بات بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ اولیاء اللہ کے بھی کئی درجات ہوتے ہیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْض بعض بعض پر فضیلت رکھتے ہیں بلکہ بعض اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں کہ ادنی درجہ کے صلحاء ان کو شناخت نہیں کر سکتے اور ان کے مقام عالی سے منکر رہتے ہیں اور یہ ان کے لیے ابتلا اور ٹھوکر کا باعث ہو جاتا ہے اصل بات یہ ہے کہ ربوبیت کی تجلیات الگ الگ ہوتی ہیں.جو اخص العباد ہوتے ہیں وہ اعلیٰ درجہ کی تجلی سے مخصوص کیے جاتے ہیں دوسروں کو اس تجلی سے کوئی حصہ نہیں ملتا.اگر چہ خدا ایک ہے اور واحد لاشریک ہے مگر پھر بھی مختلف تجلیات کے اعتبار سے ہر ایک کا جدا جدا رب ہے یہ نہیں کہ رب بہت ہیں رب ایک ہی ہے جو سب کا رب ہے اور کثرت کا قابیل کا فر ہے مگر تعلقات کے مختلف مراتب کے لحاظ سے اور صفات الہیہ کے ظہور کی کمی بیشی کے لحاظ سے ہر ایک کا جدا جدا رب کہنا پڑتا ہے جیسا کہ بہت سے آئینے اگر ایک چہرہ کے مقابل پر رکھے جائیں جن میں سے بعض آئینے اس قدر چھوٹے ہوں کہ جیسے آرسی کا شیشہ ہوتا ہے اور بعض اس سے بھی چھوٹے اور بعض اس قدر چھوٹے کہ گویا آرسی کے آئینہ سے پچاسواں حصہ ہیں اور بعض آرسی کے آئینہ سے کسی قدر بڑے ہیں اور بعض
844 اس قدر بڑے ہیں کہ ان میں پورا چہرہ نظر آ سکتا ہے پس اس میں شک نہیں کہ اگر چہ چہرہ ایک ہی ہے لیکن جس قدر آئینہ چھوٹا ہو گا چہرہ بھی اس میں چھوٹا دکھائی دیگا.یہاں تک کہ بعض نہایت چھوٹے آئینوں میں ایک نقطہ کی طرح چہرہ نظر آئے گا اور ہرگز پورا چہرہ نظر نہیں آئے گا جب تک پورا آئینہ نہ ہو پس اس میں کچھ شک نہیں کہ چہرہ تو ایک ہے اور یہ بات واقعی صحیح ہے لیکن جو بظاہر مختلف آئینوں میں نظر آتا ہے اس کی نسبت یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ وہ باعتبار اس نمائش کے ایک چہرہ نہیں ہے بلکہ کئی چہرے ہیں اسی طرح ربوبیت الہیہ ہر ایک کے لیے ایک درجہ پر ظاہر نہیں ہوتی انسانی نفس تزکیہ کے بعد ایک آئینہ کا حکم رکھتا ہے جس میں ربوبیت الہیہ کا چہرہ منعکس ہوتا ہے مگر گوکسی کے لیے تزکیہ نفس حاصل ہو گیا ہو مگر فطرت کے لحاظ سے تمام نفوس انسانیہ برابر نہیں ہیں کسی کا دائرہ استعداد بڑا ہے اور کسی کا چھوٹا.جس طرح اجرام سماویہ چھوٹے بڑے ہیں.پس جو چھوٹی استعداد کانفس ہے گو اس کا تزکیہ بھی ہو گیا مگر چونکہ استعداد کی رو سے اس نفس کا ظرف چھوٹا ہے اس لیے ربوبیت الہیہ اور تجلیات ربانیہ کا عکس بھی اس میں چھوٹا ہوگا.پس اس لحاظ سے اگر چہ رب ایک ہے لیکن ظروف نفسانیہ میں منعکس ہونے کے وقت بہت سے رب نظر آئیں گے.یہی بھید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہی کہتے تھے کہ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَىٰ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظیم یعنے میرا رب سب سے بڑا اور بزرگ ہے.پس اگر چہ رب تو ایک ہے مگر تجلیات عظیمہ اور ربوبیت عالیہ کی وجہ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رب سب سے اعلیٰ ہے.(چشمہ معرفت - ر - خ - جلد 23 صفحہ 348-347) أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ ط زَبَدَارًا بِيًا ، وَ مِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِى النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْمَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهُ كَذلِكَ يَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا الذَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَ أَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمُكُتُ فِي الْأَرْضِ كَذلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ.(الرعد : 18) خدا نے آسمان سے پانی (اپنا کلام ) اتار اسو اس پانی سے ہر یک وادی اپنی قدر کے موافق بہ نکلا.یعنی ہر یک کو اس میں سے اپنی طبیعت اور خیال اور لیاقت کے موافق حصہ ملا.طبایع عالیہ اسرار حکمیہ سے متمتع ہوئیں اور جوان سے بھی اعلیٰ تھے ان سے بھی اعلیٰ تھے انہوں نے ایک عجیب روشنی پائی کہ جو حد تحریر و تقریر سے خارج ہے اور جو کم درجہ پر تھے انہوں نے مخبر صادق کی عظمت اور کمالیت ذاتی کو دیکھ کر دلی اعتقاد سے اس کی خبروں پر یقین کر لیا اور اس طرح پر وہ بھی یقین کی کشتی میں بیٹھ کر ساحل نجات تک جاپہنچے اور صرف وہی لوگ باہر رہ گئے جن کو خدا سے کچھ غرض نہ تھی اور فقط دنیا کے ہی کیڑے تھے.( براہین احمدیہ.رخ.جلد 1 صفحہ 212 حاشیہ نمبر 11)
845 وَالْقَمَرَ قَدَّرُنَهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرُجُونِ الْقَدِيمِ.لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يُسْبَحُونَ (يس 41-40) ایک اور نکتہ قابل یادداشت ہے اور وہ یہ کہ تیسری قسم کے لوگ بھی جن کا خدا تعالیٰ سے کامل تعلق ہوتا ہے اور کامل اور مصفی الہام پاتے ہیں قبول فیوض الہیہ میں برابر نہیں ہوتے اور ان سب کا دائرہ استعدا د فطرت باہم برابر نہیں ہوتا بلکہ کسی کا دائرہ استعداد فطرت کم درجہ پر وسعت رکھتا ہے اور کسی کا زیادہ وسیع ہوتا ہے اور کسی کا بہت زیادہ اور کسی کا اس قدر جو خیال و گمان سے برتر ہے اور کسی کا خدا تعالیٰ سے رابطہ محبت قوی ہوتا ہے اور کسی کا اقومی اور کسی کا اس قدر کہ دنیا اس کو شناخت نہیں کر سکتی اور کوئی عقل اس کے انتہاء تک نہیں پہنچ سکتی اور وہ اپنے محبوب از لی کی محبت میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ کوئی رگ وریشہ ان کی ہستی اور وجود کا باقی نہیں رہتا اور یہ تمام مراتب کے لوگ بموجب آیت كُلِّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُون (الانبیاء: 34) اپنے دائرہ استعداد فطرت سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتے اور کوئی ان میں سے اپنے دائرہ فطرت سے بڑھ کر کوئی نور حاصل نہیں کر سکتا اور نہ کوئی روحانی تصویر آفتاب نورانی کی اپنی فطرت کے دائرہ سے بڑھ کر اپنے اندر لے سکتا ہے اور خدا تعالیٰ ہر ایک کی استعدا د فطرت کے موافق اپنا چہرہ اس کو دکھا دیتا ہے اور فطرتوں کی کمی بیشی کی وجہ سے وہ چہرہ کہیں چھوٹا ہو جاتا ہے اور کہیں بڑا.(حقیقۃ الوحی.رخ- جلد 22 صفحہ 28-27) من اندر کار خود حیرانم و رازش نمے دانم کہ من بے خدمتے دیدم چنیں نعماء وحشمت را مگر میں اپنے معاملہ میں حیران ہوں اور اس کا بھید نہیں جانتا کیونکہ بغیر کسی خدمت کے ایسی نعمتیں اور عزتیں مجھے مل گئیں.نہاں اندر نہاں اندر نہاں اندر نہاں ہستم کجا باشد خبر از ما گرفتاران نخوت را میں پوشیدہ در پوشیدہ ہوں.پس ہمارے متعلق متکبر انسانوں کو کیا خبر ہو سکتی ہے.( در شین فارسی صفحه 310) ( براہین احمدیہ.رخ - جلد 21 صفحہ 76)
846 ساتویں فصل مجاہدہ ضروری ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اس سورۃ میں جس کا نام خاتم الکتاب اور ام الکتاب بھی ہے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ انسانی زندگی کا کیا مقصد ہے اور اس کے حصول کی کیا راہ ہے؟ إِيَّاكَ نَعْبُدُ گویا انسانی فطرت کا اصل تقاضا اور منشاء ہے اسے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر مقدم کر کے یہ بتایا ہے کہ پہلے ضروری ہے کہ جہاں تک انسان کی اپنی طاقت.ہمت اور سمجھ میں ہو خدا تعالیٰ کی رضامندی کی راہوں کے اختیار کرنے میں سعی اور مجاہدہ کرے اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں سے پورا کام لے اور اس کے بعد پھر خدا تعالیٰ سے اس کی تکمیل اور نتیجہ خیز ہونے کے لیے دعا کرے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 235) وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.(العنكبوت: 70) جو لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی محنت اور مشقت نہ کرنی پڑے وہ بیہودہ خیال کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرمایا ہے وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا..اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دروازوں کے کھلنے کیلئے مجاہدہ کی ضرورت ہے اور وہ مجاہدہ اسی طریق پر ہو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے.اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اور اسوہ حسنہ ہے بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر سبز پوش یا گیروے پوش فقیروں کی خدمت میں جاتے ہیں کہ پھونک مار کر کچھ بنا دیں.یہ بیہودہ بات ہے.ایسے لوگ جو شرعی امور کی پابندیاں نہیں کرتے اور ایسے بیہودہ دعوے کرتے ہیں وہ خطر ناک گناہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بھی اپنے مراتب کو بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور وہ مشت خاک ہو کر خود ہدایت دینے کے مدعی ہوتے ہیں.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 240) بموجب تعلیم قرآن شریف ہمیں یہ امر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اپنے کرم.رحم لطف اور مہر بانیوں کے صفات بیان کرتا ہے اور رحمن ہونا ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف فرماتا ہے کہ ان لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلَّا مَاسَعى (النجم :(40) اور وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهُدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.(اعنكبوت: 70) فرما کر اپنے فیض کو عی اور مجاہدہ میں منحصر فرماتا ہے نیز اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم ) کا طرز عمل ہمارے واسطے ایک اسوہ حسنہ اور عمدہ نمونہ ہے.صحابہ کی زندگی میں غور کر کے دیکھو بھلا انہوں نے محض معمولی نمازوں سے ہی وہ مدارج حاصل کر لئے تھے؟ نہیں.بلکہ انہوں نے تو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے واسطے اپنی جانوں تک کی پرواہ نہیں کی اور بھیڑ بکریوں کی طرح خدا کی راہ میں قربان ہو گئے جب جا کر کہیں ان کو یہ رتبہ حاصل ہوا تھا.اکثر لوگ ہم نے ایسے دیکھے ہیں وہ یہی چاہتے ہیں کہ ایک پھونک مار کر ان کو وہ درجات دلا دئے جاویں اور عرش تک ان کی رسائی ہو جاوے.
847 ہمارے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بڑھ کر کون ہوگا.وہ افضل البشر افضل الرسل والانبیاء تھے جب انہوں نے ہی پھونک سے وہ کام نہیں کئے تو اور کون ہے جو ایسا کر سکے.دیکھو آپ نے غار حراء میں کیسے کیسے ریاضات کئے.خدا جانے کتنی مدت تک تضرعات اور گریہ وزاری کیا کئے.تزکیہ کے لئے کیسی کیسی جانفشانیاں اور سخت سے سخت محنتیں کیا کئے جب جا کر کہیں خدا کی طرف سے فیضان نازل ہوا.اصل بات یہی ہے کہ انسان خدا کی راہ میں جب تک اپنے اوپر ایک موت اور حالت فنا وارد نہ کر لے تب تک ادھر سے کوئی پرواہ نہیں کی جاتی.البتہ جب خدا دیکھتا ہے کہ انسان نے اپنی طرف سے کمال کوشش کی ہے اور میرے پانے کے واسطے اپنے اوپر موت وارد کر لی ہے تو پھر وہ انسان پر خود ظاہر ہوتا ہے اور اس کو نوازتا اور قدرت ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 507 ) نمائی سے بلند کرتا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو کیا کوئی ولی بننا ہے ؟ افسوس انہوں نے کچھ قدر نہ کی.بے شک انسان نے ولی بننا ہے.اگر وہ صراط مستقیم پر چلے گا تو خدا بھی اس کی طرف چلے گا اور پھر ایک جگہ پر اس کی ملاقات ہو گی.اس کی اس طرف سے حرکت خواہ آہستہ ہو گی لیکن اس کے مقابل خدا تعالیٰ کی حرکت بہت جلد ہوگی چنانچہ یہ آیت اسی طرف اشارہ کرتی ہے وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا الخَ مجاہدہ اور الہام حضرت اقدس پھر بعد اس کے الہام ہوا.قَدِ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 28) ترجمہ.مومنوں پر ایک اتلا آیا.یعنی بوجہ اس مقدمہ کے تمہاری جماعت ایک امتحاں میں پڑے گی.پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ لِيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَلِيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ.یہ میری جماعت کی طرف خطاب ہے کہ خدا نے ایسا کیا.تا خدا تمھیں جتلا دے کہ تم میں سے وہ کون ہے کہ اس کے مامور کی راہ میں صدق دل سے کوشش کرتا ہے اور وہ کون ہے جو اپنے دعوی بیعت میں جھوٹا ہے.سوالیسا ہی ہوا.ایک گروہ تو اس مقدمہ اور دوسرے مقدمہ میں جو مسٹر ڈوئی صاحب کی عدالت میں فیصلہ ہوا.صدق دل سے اور کامل ہمدردی سے تڑپتا پھرا.اور انہوں نے اپنی مالی اور جانی کوششوں میں فرق نہیں رکھا.اور دکھ اٹھا کر اپنی سچائی دکھلائی.اور دوسرا گر وہ وہ بھی تھا.کہ ایک ذرہ ہمدردی میں شریک نہ ہو سکے سو ان کے لئے وہ کھڑ کی بند ہے جوان صادقوں کے لئے کھولی گئی.ا یعنی مقدمه اقدام قتل منجانب مارٹن کلارک (مرتب)
پھر یہ الہام ہوا کہ 848 صادق آن باشد که ایام بلا ی گذارد با محبت باوفا یعنی خدا کی نظر میں صادق وہ شخص ہوتا ہے کہ جو بلا کے دنوں کو محبت اور وفا کے ساتھ گزارتا ہے.پھر اس کے بعد میرے دل میں ایک اور موزوں کلمہ ڈالا گیا.لیکن نہ اس طرح پر کہ جو الہام جلی کی صورت ہوتی ہے.بلکہ الہام خفی کے طور پر دل اس مضمون سے پھر گیا.اور وہ یہ تھا.گر قضارا عاشقی گردد اسیر بوسد آن زنجیر را کز آشنا یعنی اگر اتفاقاً کوئی عاشق قید میں پڑ جائے.تو اس زنجیر کو چومتا ہے.جس کا سبب آشنا ہوا.عملی مجامده ( تذکره صفحه 307) إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد: 12) جب تک انسان مجاہدہ نہ کرے گا.دعا سے کام نہ لے گا وہ ثمرہ جو دل پر پڑ جاتا ہے دور نہیں ہوسکتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے إِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد: 12) یعنی خدا تعالیٰ ہر ایک قسم کی آفت اور بلا کو جو قوم پر آتی ہے دور نہیں کرتا ہے جب تک خود قوم اس کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے.ہمت نہ کرے.شجاعت سے کام نہ لے تو کیونکر تبدیلی ہو.اللہ تعالیٰ کی ایک لا تبدیل سنت ہے جیسے فرمایا وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا (الاحزاب : 63).پس ہماری جماعت ہو یا کوئی ہو وہ تبدیل اخلاق اسی صورت میں کر سکتے ہیں جبکہ مجاہدہ اور دعا سے کام لیں ورنہ ممکن نہیں ہے.( ملفوظات جلد اول صفحه 87) وَنَادَيْنَهُ أَنْ يَابْراهِيمُ.قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءُ يَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِينَ (الصافات 105-106) صوفیوں نے لکھا ہے کہ اوائل سلوک میں جور و یا ی وحی ہو اس پر توجہ نہیں کرنی چاہیئے وہ اکثر اوقات اس راہ میں روک ہو جاتی ہے.انسان کی اپنی خوبی اس میں تو کوئی نہیں کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو وہ کسی کو کوئی اچھی خواب دکھاوے یا کوئی الہام کرے اس نے کیا کیا؟ دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت وحی ہوا کرتی تھی لیکن اس کا کہیں ذکر بھی نہیں کیا گیا کہ اس کو یہ الہام ہوا یہ وحی ہوئی بلکہ ذکر کیا گیا ہے تو اس بات کا إِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى وه ابراہیم جس نے وفاداری کا کامل نمونہ دکھایا یا یہ کہ پابُراهِيمُ.قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءُ يَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِينَ.(الصافات (106) یہ بات ہے جو انسان کو حاصل کرنی چاہئے اگر یہ پیدا نہ ہو تو پھر رویا والہام سے کیا فائدہ؟ مومن کی نظر ہمیشہ اعمال صالحہ پر ہوتی ہے اگر اعمال صالحہ پر نظر نہ ہو تو اندیشہ ہے کہ وہ مکر اللہ کے نیچے آجائے گا.ہم کو تو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور اس کے لئے ضرورت ہے اخلاص کی صدق دوفا کی.نہ یہ کہ قیل و قال تک ہی ہماری ہمت و کوشش محدود ہو.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 637)
849 وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلاً.(الاحزاب: 63) اللہ تعالیٰ ایک تبدیلی چاہتا ہے اور وہ پاکیزہ تبدیلی ہے جب تک وہ تبدیلی نہ ہو عذاب الہی سے رستگاری اور مخاصی نہیں ملتی.یہ خدا تعالیٰ کا ایک قانون اور سنت ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی کیونکہ خود اللہ تعالی نے ہی یہ فیصلہ کر دیا ہے وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلاً.سنت اللہ میںکوئی تبدیلی نہیں ہوتی.پس جو شخص چاہتا ہے کہ آسمان میں اس کے لئے تبدیلی ہو یعنی وہ ان عذابوں اور دکھوں سے رہائی پائے جو شامت اعمال نے اس کیلئے تیار کئے ہیں اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی کرے.جب وہ خود تبدیلی کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق جو اس نے إِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمُ (الرعد: 12) میں کیا ہے اس کے عذاب اور دکھ کو بدلا دیتا ہے اور دکھ کو سکھ سے تبدیل کر دیتا ہے.حقیقی مجاہدہ (ملفوظات جلد چہارم صفحه 119) لَنْ يَّنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَ لَكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوَى (الحج:38) ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ پر ریاضتیں کرتے ہیں.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھا دیتے ہیں اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشیں اور نہ کوئی سکینیت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا.اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَ لَكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوى یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے.حقیقت میں خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتا ہے.اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اسی طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی ضرورت کیا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیاز مندی اور عبودیت پیدا نہیں ہو سکتی جو اصل مقصد ہے.اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں.روح اور جسم کا باہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے...غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں.روح میں جب عاجزی پیدا ہوتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے جب روح میں واقع میں عاجزی اور نیازمندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخو دظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 697-696)
850 قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا (الشمس: 10) یا درکھو کہ خدا کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ تم دنیا کو بالکل ترک کرد و بلکہ اس کا جومنشاء ہے وہ یہ ہے کہ قـــد اَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا (الشمس: 10) تجارت کرو زراعت کرو ملازمت کرو اور حرفت کرو جو چا ہو کر دونگر نفس کو خدا کی نافرمانی سے روکتے رہو اور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کر دیں.پھر جو تمہاری دنیا ہے یہی دین کے حکم میں آجاوے گی.مجاہدات کے نتائج ( ملفوظات جلد پنجم صفحه 550) وَ أَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمُكُتُ فِي الْأَرْضِ.(الرعد: 18) ہر قسم کی راحت صحت عمر و دولت یہ سب اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے.جب انسان کا وجود ایسا نافع اور سود مند ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا جیسے باغ میں کوئی درخت عمدہ پھل دینے والا ہو تو اسے باغبان کاٹ نہیں ڈالتا بلکہ اس کی حفاظت کرتا ہے اسی طرح نافع اور مفید وجود کو اللہ تعالیٰ بھی محفوظ رکھتا ہے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الأرْضِ جو لوگ دنیا کے لئے نفع رساں لوگ بنتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی عمریں بڑھا دیتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں جو بچے ہیں اور کوئی ان کو جھٹلا نہیں سکتا.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بچے اور فرمانبردار بندے ایسی بلاؤں سے محفوظ رہتے ہیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 184-183) ابتلا ضرور آتے ہیں وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرة.156-158) یا درکھو کہ خدا کے فضل کے حاصل کرنے کے دوراہ ہیں.ایک تو زہد نفس کشی اور مجاہدات کا ہے.اور دوسرا قضا و قدر کا لیکن مجاہدات سے اس راہ کا طے کرنا بہت مشکل ہے.کیونکہ اس میں انسان کو اپنے ہاتھ سے اپنے بدن کو مجروح اور خستہ کرنا پڑتا ہے عام طبائع بہت کم اس پر قادر ہوتی ہیں.کہ وہ دیدہ و دانسته تکلیف جھیلیں.لیکن قضاء وقدر
851 ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 89-88) کی طرف سے جو واقعات اور حادثات انسان پر آ کر پڑتے ہیں.وہ ناگہانی ہوتے ہیں اور جب آپڑتے ہیں.تو قهر در ویش بر جان در ولیش ان کو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے جو کہ اس کے تزکیہ نفس کا باعث ہو جاتا ہے جیسے شہدا کو دیکھو.کہ جنگ کے بیچ میں لڑتے لڑتے جب مارے جاتے ہیں تو خدا کے نزدیک کس قد راجر کے مستحق ہوتے ہیں.یہ درجات قرب بھی ان کو قضاء وقدر سے ہی ملتے ہیں.ورنہ اگر تنہائی میں ان کو اپنی گردنیں کاٹنی پڑیں.تو شاید بہت وڑے ایسے نکلیں جو شہید ہوں.اسی لئے اللہ تعالیٰ غربا کو بشارت دیتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَ الْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَّ أُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ.اس کا یہی مطلب ہے.کہ قضاء وقدر کی طرف سے ان کو ہر ایک قسم کے نقصان پہنچتے ہیں.اور پھر وہ جو صبر کرتے ہیں.تو خدا تعالیٰ کی عنایتیں اور رحمتیں ان کے شامل حال ہوتی ہیں.کیونکہ تلخ زندگی کا حصہ ان کو بہت ملتا ہے.لیکن امراء کو یہ کہاں نصیب.أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا اَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.(العنكبوت:3) کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف زبانی قیل و قال پر ہی ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور صرف اتنا کہنے سے ہی کہ ہم ایمان لے آئے دیندار سمجھے جائیں گے اور ان کا امتحان نہ ہوگا بلکہ امتحان اور آزمائش کا ہونا نہایت ضروری ہے.سب انبیاء کا اس پر اتفاق ہے کہ ترقی مدارج کے لئے آزمائش ضروری ہے اور جب تک کوئی شخص آزمائش اور امتحان کی منازل طے نہیں کرتا دیندار نہیں بن سکتا.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 330-329) ہر بلا کیں قوم را او داده است زیر آن یک گنج با بنهاده است ( ترجمہ: قوم کو جو بھی ابتلاء اللہ کی طرف سے آتا ہے اس کے نیچے بہت سے خزانے چھپے ہوئے ہوتے ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تکالیف کا نتیجہ تھا کہ مکہ فتح ہو گیا.دعا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ شرط باندھنا بڑی غلطی اور نادانی ہے.جن مقدس لوگوں نے خدا کے فضل اور فیوض کو حاصل کیا.انہوں نے اس طرح حاصل کیا کہ خدا کی راہ میں مر مر کر فنا ہو گئے.خدا تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو دس دن کے بعد گمراہ ہو جانے والے ہوتے ہیں.وہ اپنے نفس پر خود گواہی دیتے ہیں جبکہ لوگوں سے شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 299-298)
852 ابتلاء کا فلسفہ انسان کے واسطے ترقی کرنے کے دو ہی طریق ہیں اول تو انسان تشریعی احکام.یعنی نماز روزہ زکوۃ اور حج وغیرہ تکالیف شرعیہ کی پابندی سے جو کہ خدا کے حکم کے موجب خود بجالا کر کرتا ہے.مگر یہ امور چونکہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتے ہیں اس لیے بھی اس میں ستی اور تساہل بھی کر بیٹھتا ہے.اور کبھی ان میں کوئی آسانی اور آرام کی صورت ہی پیدا کر لیتا ہے لہذا دوسرا وہ طریق ہے.جو براہ راست خدا کی طرف سے انسان پر وارد ہوتا ہے.اور یہی انسان کی اصلی ترقی کا باعث ہوتا ہے.کیونکہ تکالیف شرعیہ میں انسان کوئی نہ کوئی راہ بچاؤ یا آرام و آسائیش کی نکال ہی لیتا ہے دیکھو کسی کے ہاتھ میں تازیا نہ دے کر اگر اسے کہا جاوے کہ اپنے بدن پر مارو.تو قاعدہ کی بات ہے.کہ آخر اپنے بدن کی محبت دل میں آ ہی جاتی ہے کون ہے جو اپنے آپ کو دکھ میں ڈالنا چاہتا ہے؟ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے انسانی تکمیل کے واسطے ایک دوسری راہ رکھدی اور فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ط وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.(البقرة :157-156) ہم آزماتے رہیں گے.تم کو کبھی کسی قدر خوف بھیج کر کبھی فاقہ سے کبھی مال جان اور پچھلوں پر نقصان وارد کرنے سے مگر ان مصائب شدائد اور فقر وفاقہ پر صبر کر کے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہنے والے کو بشارت دیدو کہ ان کے واسطے بڑے بڑے اجر خدا کی رحمتیں اور اس کے خاص انعامات مقرر ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 662-661) رنگ رلیوں میں رہنے سے آخر خدا کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے خدا کی محبت یہی ہے کہ ابتلاء میں ڈالتا ہے اور اس سے اپنے بندے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے مثلاً کسر کی اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کا حکم نہ دیتا تو یہ معجزہ کہ وہ اسی رات مارا گیا کیسے ظاہر ہوتا اور اگر مکہ والے لوگ آپ کو نہ نکالتے تو فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا کی آواز کیسے سنائی دیتی.ہر ایک معجزہ ابتلا سے وابستہ ہے غفلت اور عیاشی کی زندگی کو خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے کامیابی ہو تو تضرع اور ابتہال کا رشتہ تو بالکل رہتا ہی نہیں ہے حالانکہ خدا تعالیٰ اسی کو پسند کرتا ہے اس لیے ضرور ہے کہ درد ناک حالتیں پیدا ہوں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 587-586) یہ ضروری ہے کہ ایک آدمی کی ایمانی کیفیتوں کے اظہار کے لئے اس پر ابتلاء آویں اور وہ امتحان کی چکی میں پیسا جاوے.کسی نے کیا اچھا کہا ہے.ہر بلا کیں قوم راحق داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند قوم کو جو بھی ابتلا خدا کی طرف سے پیش آتا ہے اس کے نیچے بہت اکرام کے خزانے چھپے ہوتے ہیں ابتلاؤں اور امتحانوں کا آنا ضروری ہے بغیر اس کے کشف حقائق نہیں ہوتا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 376-375)
853 ابتلاء میں لذت ہے غرض الفاظ وفا نہیں کرتے جو اس لذت کو بیان کر سکیں جو اخیار وابرار کو ان بلاؤں کے ذریعہ آتی ہے.یہ لذت تمام سفلی لذتوں سے بڑھی ہوئی ہے اور فوق الفوق لذت ہوتی ہے.یہ مصیبت کیا ہے؟ ایک عظیم الشان دعوت ہے جس میں قسم قسم کے انعام واکرام اور پھل اور میوے پیش کیے جاتے ہیں.خدا اس وقت قریب ہوتا ہے فرشتے ان سے مصافحہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے مکالمہ کا شرف عطا کیا جاتا ہے اور وحی اور الہام سے اس کی تسلی اور سکینت دی جاتی ہے.لوگوں کی نظر میں یہ بلاؤں اور مصیبتوں کا وقت ہے مگر دراصل اس وقت اللہ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض کی بارش کا وقت ہوتا ہے.سفلی اور سطحی خیال کے لوگ اس کو سمجھ نہیں سکتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ بلاؤں اور غموں ہی کا وقت ہے جو مزا آتا ہے اور راحت ملتی ہے.کیونکہ خدا جوانسان کا اصل مقصود ہے اس وقت اپنے بندے کے بہت ہی قریب ہوتا ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن جو دیا گیا ہے غم کی حالت میں دیا گیا ہے پس تم بھی اس کو غم کی حالت میں پڑھو.غرض میں کہاں تک بیان کروں کہ ان بلاوں میں کیا لذت اور مزا ہوتا ہے اور عاشق صادق کہاں تک ان سے محظوظ ہوتا ہے.مختصر طور پر یا درکھو کہ ان بلاؤں کا پھل اور نتیجہ جوا بر ار اور اخیار پر آتی ہیں.جنت اور ترقی درجات ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 118) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَ الْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَات (البقرة:156) کبھی ہم تم کو نہایت فقر وفاقہ سے آزمائیں گے اور کبھی تمہارے بچے مر جاویں گے.تو جو لوگ مومن ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا کا ہی مال تھا.ہم بھی تو اسی کے ہیں.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہی لوگوں نے جوصبر کرتے ہیں میرے مطلب کو سمجھا ہے ان پر میری بڑی رحمتیں ہیں جن کا کوئی حد و حساب نہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 373) وَلَا أَخْشَى العَدَا فِي سُبُلِ رَبِّي وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ بِسَاحُ لَنَا عِنْدَ الْمَصَائِبِ يَا حَبِيبِيِّ رِضَاءٌ ثُمَّ ذَوْق وَ ارْتِيَاحُ ( ترجمہ:- اور میں اپنے رب کی راہوں میں دشمنوں سے نہیں ڈرتا اور اللہ کی زمین وسیع ہے.نہایت وسیع.اے میرے پیارے! ہمیں مصائب کے وقت ( پہلے تسلیم ورضا پر ذوق اور فرحت حاصل ہوتی ہے) تحفہ بغداد.ر.خ.جلد 7 صفحہ 37)
854 جہاد مالی اور جانی اِنْفِرُوا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَ جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِى سَبِيلِ اللهِ ، ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (التوبة: 41) اصل مقصود کے پانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجاہدہ ٹھہرایا ہے.یعنی اپنا مال خدائے تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی طاقتوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی جانوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی عقل کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اس کو ڈھونڈا جائے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.جاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ.....یعنی اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنے نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرو.( اسلامی اصول کی فلاسفی رخ جلد 10 صفحہ 419 418) ط مِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَ مِنْهُم مَّنْ يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا.(الاحزاب : 24) صحابہ کے دلی ارادے اور نفسانی جذبات بالکل دور ہو گئے تھے.ان کا اپنا کچھ رہا ہی نہ تھا.نہ کوئی خواہش تھی نہ آرزو بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو اور اس کے لئے وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح ہو گئے.قرآن شریف ان کی اس حالت کے متعلق فرماتا ہے مِنْهُم مَّنْ قَضى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا.(الاحزاب : 24) یہ حالت انسان کے اندر پیدا ہو جانا آسان بات نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کو آمادہ ہو جاوے مگر صحابہ کی حالت بتاتی ہے کہ انہوں نے اس فرض کو ادا کیا.جب انہیں حکم ہوا کہ اس راہ میں جان دے دو پھر وہ دنیا کی طرف نہیں جھکے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ.(المنفقون: 10) ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 595) رزق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک ابتلاء کے طور پر دوسرے اصطفاء کے طور پر.رزق ابتلاء کے طور پر تو وہ رزق ہے جس کو اللہ سے کوئی واسطہ نہیں رہتا بلکہ یہ رزق انسان کو خدا سے دور ڈالتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو ہلاک کر دیتا ہے.اسی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کر کے فرمایا ہے لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ تمہارے مال تم کو ہلاک نہ کر دیں.اور رزق اصطفاء کے طور پر وہ ہوتا ہے جو خدا کے لئے ہو.ایسے لوگوں کا متولی خدا ہو جاتا ہے اور جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے وہ اس کو خدا ہی کا سمجھتے ہیں اور اپنے عمل سے ثابت کر دکھاتے ہیں.صحابہ کی حالت دیکھو ! جب امتحان کا وقت آیا تو جو کچھ کسی کے پاس تھا اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیا.حضرت ابوبکر صدیق ” سب سے اول کمبل پہن کر آگئے.پھر اس کمبل کی جزا بھی اللہ تعالیٰ نے کیا دی کہ سب سے اول خلیفہ وہی ہوئے.غرض یہ ہے کہ اصلی خوبی خیر اور روحانی لذت سے بہرہ ور ہونے کے لئے وہی مال کام آ سکتا ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جاوے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 137-136)
855 استقا (1) اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.(2) الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا....الاية استقامت..وہی ہے جس کو صوفی لوگ اپنی اصطلاح میں فنا کہتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے معنے بھی فنا ہی کے کرتے ہیں.یعنی روح.جوش اور ارادے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہو جائیں اور اپنے جذبات اور نفسانی خواہشیں بالکل مر جائیں.بعض انسان جو اللہ تعالیٰ کی خواہش اور ارادے کو اپنے ارادوں اور جوشوں پر مقدم نہیں کرتے وہ اکثر دفعہ دنیا ہی کے جوشوں اور ارادوں کی ناکامیوں میں اس دنیا سے اٹھ جاتے ہیں.نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے.ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے.اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں.اللہ تعالیٰ نے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں اس کی طرف ہی اشارہ فرمایا ہے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ( حم السجدة: 31) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے نیچے آگئے اور اس کے اسم اعظم استقامت کے نیچے جب بیضئہ بشریت رکھا گیا پھر اس میں اس قسم کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ ملائکہ کا نزول اس پر ہوتا ہے اور کسی قسم کا خوف و حزن ان کو نہیں رہتا.میں نے کہا ہے کہ استقامت بڑی چیز ہے.استقامت سے کیا مراد ہے؟ ہر ایک چیز جب اپنے عین محل اور مقام پر ہو وہ حکمت اور استقامت سے تعبیر پاتی ہے مثلاً دور بین کے اجزا کو اگر جدا جدا کر کے ان کو اصل مقامات سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دیں وہ کام نہ دے گی.غرض وضع الشئی فی محلہ کا نام استقامت ہے یادوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ بیت طبیعی کا نام استقامت ہے پس جب تک انسانی بناوٹ کو ٹھیک اسی حالت پر نہ رہنے دیں اور اسے مستقیم حالت میں نہ رکھیں وہ اپنے اندر کمالات پیدا نہیں کر سکتی.دعا کا طریق یہی ہے کہ دونوں اسم اعظم جمع ہوں اور یہ خدا کی طرف جاوے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے خواہ وہ اس کی ہوا و ہوس ہی کا بت کیوں نہ ہو؟ جب یہ حالت ہو جائے تو اس وقت ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ (المومن:61) کا مزا آ جاتا ہے.جو اللہ تعالیٰ کی طرف آجاتے ہیں وہ صرف اللہ تعالٰی کے ہی راستہ پر نہیں آتے بلکہ اس صراط مستقیم پر استقامت بھی دکھلاتے ہیں نتیجہ کیا ہوتا کہ ظہر و تنویر قلوب کی منزلیں طے کر لیتے ہیں اور بعد انشراح صدر کے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو حاصل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کو اپنی خاص نعمتوں سے متمتع فرماتا ہے.محبت و ذوق الہی ان کی غذا ہو جاتی ہے.مکالمہ البی، وحی الہام و کشف وغیرہ انعامات الہی سے مشرف و بهرمند کئے جاتے ہیں.درگاہ رب العزت سے طمانیت و سکینت ان پر اترتی ہے.حزن و مایوسی ان کے نزدیک تک نہیں پھٹکتی.ہر وقت جذ بہ محبت و ولولہ عشق الہی میں سرشار رہتے ہیں گویا لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة: 113) کے پورے مصداق ہو جاتے ہیں.مَا دُرُّ مَا قَالَ کلید ایں ہمہ دولت محبت است و وفا خوشا کسیکه چنیں دولتش عطا باشد ترجمہ :- ان تمام کامیابیوں کی کنجی محبت اور وفا ہے.کیا ہی خوش قسمت وہ ہے جس کو یہ دولت عطا ہو.غرض استقامت بڑی چیز ہے.استقامت ہی کی بدولت تمام گروہ انبیاء ہمیشہ مظفر منصور و بامراد ہوتا چلا آیا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 465-464) ( ملفوظات جلد سوم صفحه 37-35)
856 اس سے بھی مراد تقی ہیں ثُمَّ اسْتَقَامُوا یعنی ان پر زلزلے آئے.ابتلاء آئے.آندھیاں چلیں مگر ایک عہد جو اس سے کر چکے اس سے نہ پھرے.پھر آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہوں نے ایسا کیا اور صدق اور وفا دکھلائی تو اس کا اجر یہ ملا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلِئِكَةُ یعنی ان پر فرشتے اترے اور کہا کہ خوف اور حزن مت کرو تمہارا خدا متولی ہے وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ اور بشارت دی کہ تم خوش ہو اس جنت سے.اور اس جنت سے یہاں مراد دنیا کی جنت ہے جیسے قرآن مجید میں ہے وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّيْنِ (الرحمن: 47) پھر آگے ہے نَحْنُ اَوْلِيَقُ كُمُ فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ حم السجدة :32) دنیا اور آخرت میں ہم تمہارے ولی اور متکفل ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 559-558) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.یعنی اے ہمارے خدا تعالیٰ ! ہمیں استقامت کی راہ دکھلا.وہی راہ جس پر تیرا انعام واکرام مترتب ہوتا ہے اور تو راضی ہو جاتا ہے.اور اسی کی طرف اس دوسری آیت میں اشارہ فرمایا.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ.(الاعراف: 127) اے خدا! اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آجائے.اور ایسا کر کہ ہماری موت اسلام پر ہو.جاننا چاہئے کہ دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نورا تارتا ہے جس سے وہ قوت پا کر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوت ایمانی سے ان زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں.جب با خدا آدمی پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور موت کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے رب کریم سے خواہ نخواہ کا جھگڑا شروع نہیں کرتا کہ مجھے ان بلاؤں سے بچا.کیونکہ اس وقت عافیت کی دعا میں اصرار کرنا خدا تعالیٰ سے لڑائی اور موافقت تامہ کے مخالف ہے.بلکہ سچا محبت بلا کے اترنے سے اور آگے قدم رکھتا ہے.اور ایسے وقت میں جان کو نا چیز سمجھ کر اور جان کی محبت کو الوداع کہکر اپنے مولیٰ کی مرضی کا بکلی تابع ہو جاتا ہے اور اس کی رضا چاہتا ہے.اس کے حق میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے.وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ ط وَاللَّهُ رَءُ وُق بِالْعِبَادِ.(البقره: 208) یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا تعالیٰ کی مرضی خرید لیتا ہے.وہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت خاص کے مورد ہیں.غرض وہ استقامت جس سے خدا ملتا ہے اس کی یہی روح ہے جو بیان کی گئی.جس کو سمجھنا ہو سمجھ لے.نتابد از ره جانان خود سر اخلاص براہِ یار عزیز از بلا نه پرهیزد اسلامی اصول کی فلاسفی رخ جلد 10 صفحہ 421-420) اگرچہ سیل مصیبت بزور ها باشد اگر چه در ره آن یار اژدہا باشد بدولت دو جہاں سرفرو نے آرند بعشق یار دل زار شاں دو تا باشد ترجمہ:- ایسے لوگ محبوب سے اخلاص کو قائم رکھتے ہیں.خواہ مصیبت کا سیلاب تیزی سے آئے.وہ اپنے محبوب کی راہ کو نہیں چھوڑتے.اگر چہ اس راہ میں اثر دھا بیٹھا ہو وہ دونوں جہانوں کی دولت سے بے پرواہ ہوتے ہیں.ان کا دل محبوب کے عشق میں دولخت ہوتا ہے.( تریاق القلوب - - خ - جلد 15 صفحہ : 129)
857 نیکی خالص اللہ کے لئے لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَّلَا شَكُورًا (الدهر :10) لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شَكُورًا یعنی خدا رسیدہ اور اعلیٰ ترقیات پر پہنچے ہوئے انسان کا یہ قاعدہ ہے کہ اس کی نیکی خالصتا اللہ ہوتی ہے اور اس کے دل میں یہ بھی خیال نہیں ہوتا کہ اس کے واسطے دعا کی جاوے یا اس کا شکریہ ادا کیا جاوے.نیکی محض اس جوش کے تقاضا سے کرتا ہے جو ہمدردی بنی نوع انسان کے واسطے اس کے دل میں رکھا گیا ہے.ایسی پاک تعلیم نہ ہم نے توریت میں دیکھی اور نہ انجیل میں.ورق ورق کر کے ہم نے پڑھا ہے مگر ایسی پاک اور مکمل تعلیم کا نام ونشان نہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 664) کامل راست باز جب غریبوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں تو محض خدا کی محبت سے دیتے ہیں نہ کسی اور غرض سے دیتے ہیں اور وہ انہیں مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ یہ خدمت خاص خدا کے لئے ہے.اس کا ہم کوئی بدلہ نہیں چاہتے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا شکر کرو.لیکچر لاہور.ر.خ.جلد 20 صفحہ 156 ) إِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (التوبه : 120) یاد رکھ کسی نیکی کو بھی اس لئے نہیں کرنا چاہئے کہ اس نیکی کے کرنے پر ثواب یا اجر ملے گا کیونکہ اگر محض اس خیال سے نیکی کی جاوے تو وہ ابتغاء مرضات اللہ نہیں ہو سکتی بلکہ اس ثواب کی خاطر ہوگی.اور اس سے اندیشہ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت وہ اسے چھوڑ بیٹھے.مثلاً اگر کوئی شخص ہر روز ہم سے ملنے کو آ وے اور ہم اس کو ایک روپیہ دے دیا کریں تو وہ بجائے خود یہی سمجھے گا کہ میرا جانا صرف روپے کے لئے ہے جس دن سے روپیہ نہ ملے اسی دن سے آنا چھوڑ دے گا.غرض یہ ایک قسم کا بار یک شرک ہے اس سے بچنا چاہئے نیکی کومحض اس لئے کرنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ خوش ہو اور اس کی رضا حاصل ہو اور اس کے حکم کی تعمیل ہو.قطع نظر اس کے کہ اس پر ثواب ہو یا نہ ہو.ایمان تب ہی کامل ہوتا ہے جبکہ یہ وسوسہ اور و ہم درمیان سے اٹھ جاوے اگر چہ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْـــرَ الْمُحْسِنِينَ (التوبه : 120) مگر نیکی کرنے والے کو اجر مد نظر نہیں رکھنا چاہیئے.دیکھو اگر کوئی مہمان یہاں محض اس لئے آتا ہے کہ وہاں آرام ملے گا.ٹھنڈے شربت ملیں گے یا تکلف کے کھانے ملیں گے تو وہ گویا ان اشیاء کے لئے آتا ہے حالانکہ خود میزبان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حتی المقدور ان کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ کرے اور اس کو آرام پہنچاوے اور وہ پہنچاتا ہے لیکن مہمان کا خود ایسا خیال کرنا اس کے لئے نقصان کا موجب ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 562-561)
858 نیکی کا حکم عام ہے هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ.(الرحمن: 61) نیکی کرنے کی پاداش نیکی ہے.اگر ہم صرف مسلمان نیکی کرنے والے سے نیکی کریں اور غیر مذہب والوں سے نیکی نہ کریں تو ہم خدا تعالیٰ کی تعلیم کو چھوڑتے ہیں کیونکہ اس نے نیکی کی پاداش میں کسی مذہب کی قید نہیں لگائی بلکہ صاف فرمایا ہے کہ اس شریر پر خدا راضی نہیں کہ جو نیکی کرنے والوں سے بدی کرتا ہے.( ایام الصلح.ر.خ.جلد 14 صفحہ 367) وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلى حُبّهِ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيمًا وَّ أَسِيرًا.(الدهر : 9) تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یا درکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتِيمًا وَّاسِيرًا (الدھر : 9) وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفا ر ہی ہوتے تھے.اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہاء کیا ہے.میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 219) إِنَّمَا يَنْهَكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ قَتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ اَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَ ظَهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوهُمْ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ.(الممتحنة: 10) خدا نے جو تمہیں ہمدردی اور دوستی سے منع کیا ہے تو صرف ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے دینی لڑائیاں تم سے کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نکالا اور بس نہ کیا جب تک باہم مل کر تمہیں نہ نکال دیا سوان کی دوستی حرام ہے کیونکہ یہ دین کو مٹانا چاہتے ہیں.اس جگہ یا در کھنے کے لائق ایک نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تولی عربی زبان میں دوستی کو کہتے ہیں جس کا دوسرا نام مودت ہے اور اصل حقیقت دوستی اور مودت کی خیر خواہی اور ہمدردی ہے.سومومن نصاری اور یہود اور ہنود سے دوستی اور ہمدردی اور خیر خواہی کر سکتا.احسان کر سکتا ہے مگر ان سے محبت نہیں کر سکتا.یہ ایک باریک فرق ہے اس کو خوب یا درکھو.ہے.( نور القرآن...خ.جلد 9 صفحہ 436-435)
859 آٹھویں فصل آداب عبادات أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنَّنِى لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَّ بَشِيرٌ.(هود:3) ایک عجیب بات سوال مقدر کے جواب کے طور پر بیان کی گئی ہے.یعنی اس قدر تفاصیل جو بیان کی جاتی ہیں ان کا خلاصہ اور مغز کیا ہے؟ إِلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا الله خدا تعالیٰ کے سوا ہر گز ہرگز کسی کی پرستش نہ کرو.اصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے.جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الدريت : 57) عبادات اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت.کبھی کو دور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے.عرب کہتے ہیں مورٌ مُّعَبَّد جیسے سرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر.پتھر.ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گویا روح ہی روح ہو اس کا نام عبادت ہے.چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آ جاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع واقسام کے پھل پیدا ہو جاتے ہیں.پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کبھی اور ناہمواری.کنکر پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا.میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اس میں پیدا ہو کر نشو ونما پائیں گے اور وہ اثمار شیر میں وطیب ان میں لگیں گے جو اُكُلُهَا دَائِم (الرعد: 36) کے مصداق ہوں گے.یادرکھو کہ یہ وہی مقام ہے جہاں صوفیوں کے سلوک کا خاتمہ ہے.جب سالک یہاں پہنچتا ہے تو خدا ہی خدا کا جلوہ دیکھتا ہے.اس کا دل عرش الہی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر نزول فرماتا ہے.سلوک کی تمام منزلیں یہاں آ کر ختم ہو جاتی ہیں کہ انسان کی حالت تعبد درست ہو جس میں روحانی باغ لگ جاتے ہیں اور آئینہ کی طرح خدا نظر آتا ہے اسی مقام پر پہنچ کر انسان دنیا میں جنت کا نمونہ پاتا ہے اور یہاں ہی هذَا الَّذِى رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا (البقرة: 26) کہنے کا حظ اور لطف اٹھاتا ہے.غرض حالت تعبد کی درستی کا نام عبادت ہے.پھر فرمایا اِنَّنِی لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَّ بَشِيرٌ - چونکہ یہ تعبد تام کا عظیم الشان کام انسان بدوں کسی اسوہ حسنہ اور نمونہ کاملہ کے اور کسی قوت قدسی کے کامل اثر کے بغیر نہیں کر سکتا تھا اس لئے رسول اللہ صلعم فرماتے ہیں کہ میں اسی خدا کی طرف سے نذیر اور بشیر ہو کر آیا ہوں اگر میری اطاعت کرو گے اور مجھے قبول کرو گے تو تمہارے لئے بڑی بڑی بشارتیں ہیں کیونکہ میں بشیر ہوں اور اگر رد کرتے ہو تو یا درکھو کہ میں نذیر ہو کر آیا ہوں.پھر تم کو بڑی بڑی عقوبتوں اور دکھوں کا سامنا ہوگا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 346-347)
860 يايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي.وَ ادْخُلِي جَنَّتِي.(الفجر: 28 تا 31) اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ.تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی.سو میرے بندوں میں داخل ہو اور میرے بہشت میں اندر آجا.ان دونوں آیات جامع البرکات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ انسان کی روح کے لئے بندگی اور عبودیت دائمی اور لازمی ہے اور اسی عبودیت کی غرض سے وہ پیدا کیا گیا ہے بلکہ آیت مؤخر الذکر میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ جو انسان اپنی سعادت کا ملہ کو پہنچ جاتا ہے اور اپنے تمام کمالات فطرتی کو پالیتا ہے اور اپنی جمیع استعدادات کو انتہائی درجہ تک پہنچا دیتا ہے اس کو اپنی آخری حالت پر عبودیت کا ہی خطاب ملتا ہے اور فَادْخُلَى فِى عِبَادِی کے خطاب سے پکارا جاتا ہے.سواب دیکھئے اس آیت سے کس قدر بصراحت ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا کمال مطلوب عبودیت ہی ہے اور سالک کا انتہائی مرتبہ عبودیت تک ہی ختم ہو جاتا ہے.(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 76-75) آداب نماز وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ ، وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ.(البقرة:46) نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو نماز کیا چیز ہے وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں.کشتی نوح - ر-خ- جلد 19 صفحہ 69-68) انسان کو جو حکم اللہ تعالیٰ نے شریعت کے رنگ میں دیئے ہیں جیسے اَقِیمُوا الصَّلوةَ نماز کو قائم رکھو یا فرمایا وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ ان پر جب وہ ایک عرصہ تک قائم رہتا ہے تو یہ احکام بھی شرعی رنگ سے نکل کر کونی رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور پھر وہ ان احکام کی خلاف ورزی کر ہی نہیں سکتا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 352-351) قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمُ فِى صَلَاتِهِمْ حَشِعُونَ (المومنون: 3-2) جب تک انسان کتاب اللہ کو مقدم نہیں کرتا اور اس کے مطابق عمل درآمد نہیں کرتا تب تک اس کی نمازیں محض وقت کا ضائع کرنا ہے.قرآن مجید میں تو صاف طور پر لکھا ہے قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي هم خشِعُون یعنی جب دعا کرتے کرتے انسان کا دل پھل جائے اور آستانہ الوہیت پر ایسے خلوص اور صدق سے گر جاوے کہ بس اسی میں محو ہو جاوے اور سب خیالات کو مٹا کر اسی سے فیض اور استعانت طلب کرے اور ایسی یکسوئی حاصل ہو جائے کہ ایک قسم کی رقت اور گداز پیدا ہو جائے تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے جس سے دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے کیونکہ دو محبتیں ایک جگہ جمع نہیں رہ سکتیں جیسے لکھا ہے ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں ایں خیال است و محال است و جنوں ( ملفوظات جلد پنجم صفحه 400) ترجمہ: تم خدا اور دنیا کی محبت دونوں کو چاہتے ہو.یہ ایک خیال ہے.اور ناممکن ہے اور دیوانگی ہے.
861 قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَ مَحَيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.(الانعام: 163) کہہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے ہے اور جب انسان کی محبت خدا کے ساتھ اس درجہ تک پہنچ جائے کہ اس کا مرنا اور جینا اپنے لئے نہیں بلکہ خدا ہی کے لئے ہو جائے.تب خدا جو ہمیشہ سے پیار کرنے والوں کے ساتھ پیار کرتا آیا ہے اپنی محبت کو اس پر اتارتا ہے اوران دونوں محبتوں کے ملنے سے انسان کے اندر ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو دنیا نہیں پہچانتی اور نہ سمجھ سکتی ہے اور ہزاروں صدیقوں اور برگزیدوں کا اسی لئے خون ہوا کہ دنیا نے ان کو نہیں پہچانا.وہ اسی لئے مکار اور خود غرض کہلائے کہ دنیا ان کے نورانی چہرہ کو دیکھ نہ سکی.اسلامی اصول کی فلاسفی رخ جلد 10 صفحہ 384) ط وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَاَمْنًا ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِم مُصَلَّى ، وَ عَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِمَ وَ إِسْمَعِيلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَ الْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ.(البقره: 126) آیت وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى - اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہوگا اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اربعین-رخ- جلد 17 صفحہ 421) اس ابراہیم کا پیر و ہوگا.تم اپنی نماز گاہ ابراہیم کے قدموں کی جگہ بناؤ یعنی کامل پیروی کرو تا نجات پاؤ.یہ ابراہیم جو بھیجا گیا تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجالاؤ.اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ.(اربعین-رخ- جلد 17 صفحہ 421-420) نماز میں توجہ اور حضوری دعا میں سورت فاتحہ کے تکرار کا اثر نماز میں سورۃ فاتحہ کی دعا کا تکرار نہایت موثر چیز ہے.کیسی بے ذوقی و بے مزگی ہو اس عمل کو برابر جاری رکھنا چاہیے یعنی کبھی تکرار آیت ایاک نعبد و ایاک نستعین کا اور کبھی تکرار آیت احد نا الصراط المستقیم کا اور سجدہ میں يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيتُ.( تفسیر سورۃ فاتحہ از حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 22 ) ( الحکم 20 فروری1898 صفحہ 9) سورت فاتحہ کا ورد نماز میں بہتر ہے.بہتر ہے کہ نماز تہجد میں اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليهم کا بدلی توجہ و خضوع تکرار کریں اور اپنے دل کو نزول انوار الہیہ کے لیے پیش کریں اور کبھی تکرار آیت ایاک نعبد و ایاک نستعین کا کیا کریں.ان دونوں آیتوں کا تکرار انشاء اللہ القدیر تنویر قلب و تزکیہ نفس کا موجب ہوگا.(الحکم 24 جون 1903 صفحہ 3)
862 عبادت میں لذت ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذريت: 57).اب انسان جب کہ عبادت ہی کے لئے پیدا ہوا ہے ضروری ہے کہ عبادت میں لذت اور سرور بھی درجہ ء غایت کا رکھا ہو.اس بات کو ہم اپنے روزمرہ کے مشاہدہ اور تجربے سے خوب سمجھ سکتے ہیں.مثلاً دیکھواناج اور تمام خوردنی اور نوشیدنی اشیاء انسان کے لئے پیدا ہوئی ہیں تو کیا ان سے وہ ایک لذت اور حفظ نہیں پاتا ہے؟ کیا اس ذائقہ مزے اور احساس کے لئے اس کے منہ میں زبان موجود نہیں.کیا وہ خوبصورت اشیاء دیکھ کر نباتات ہو یا جمادات حیوانات ہوں یا انسان حفظ نہیں پاتا.کیا دل خوشکن اور سریلی آوازوں سے اس کے کان محظوظ نہیں ہوتے ؟ پھر کیا کوئی دلیل اور بھی اس امر کے اثبات کے لئے مطلوب ہے کہ عبادت میں لذت نہیں.( ملفوظات جلد اول صفحه (101) نماز سب سے بڑا وظیفہ ہے إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى.(طه: 15) نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے استغفار ہے اور درود شریف تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر ایک قسم کے غم و ہم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اسی لئے فرمایا ہے اَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ اطمینان سکینت قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.روزه ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 311-310) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.(البقرة: 184) پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کے لیے تسلی اور سیری کا باعث ہے.اور جولوگ محض خدا کے لیے روزے رکھتے ہیں اور مرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالی کی حد اور تیج اور تہلیل میں لگے رہیں.جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 102)
863 روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں.روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے.نماز سے ایک سوز وگداز پیدا ہوتی ہے اس واسطے وہ افضل ہے.روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں.مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جو گیوں میں بھی پیدا ہوسکتی ہے.لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پیدا ہوتی ہے.اس میں کوئی شامل نہیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 293-292) شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَ بَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَان فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمُهُ.(البقرة: 186) شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرآن سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے.صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لیے عمدہ مہینہ ہے کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم ( روزه) تجلی قلب کرتا ہے.تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جاوے اور تجلی قلب سے یہ مراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لیوے.پس شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ القُرآن میں یہی اشارہ ہے اس میں شک وشبہ کوئی نہیں روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہیں مجھے یاد ہے کہ جوانی کے ایام میں میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ روزہ رکھنا سنت اہل بیت ہے میرے حق میں پیغمبر خدا نے فرمایا سَلْمَانُ مِنَّا اَهْلِ الْبَيْتِ سلمان یعنی الصلحان کہ اس شخص کے ہاتھ سے دو صلح ہوگی ایک اندرونی دوسری بیرونی اور یہ اپنا کام رفق سے کرے گا نہ کہ شمشیر سے اور میں مشرب حسین پر نہیں ہوں کہ جس نے جنگ کی بلکہ مشرب حسن پر ہوں کہ جس نے جنگ نہ کی میں نے سمجھا کہ روزہ کی طرف اشارہ ہے.چنانچہ میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے.اس اثنا میں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جا رہے ہیں یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے.لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہوسکتا تھا اور اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا....خدا تعالیٰ کے احکام دو قسموں میں تقسیم ہیں ایک عبادات مالی دوسرے عبادات بدنی.عبادات مالی تو اسی کے لیے ہیں جس کے پاس مال ہوا اور جس کے پاس نہیں وہ معذور ہیں.اور عبادات بدنی کو بھی انسان عالم جوانی میں ہی ادا کر سکتا ہے ورنہ 60 سال جب گذرے تو طرح طرح کے عوارضات لاحق ہوتے ہیں نزول الماء وغیرہ شروع ہو کر بینائی میں فرق آ جاتا ہے ( کسی نے ) یہ ٹھیک کہا ہے کہ پیری وصد عیب.اور جو کچھ انسان اپنی جوانی میں کر لیتا ہے اس کی برکت بڑھاپے میں بھی ہوتی ہے اور جس نے جوانی میں کچھ نہیں کیا اسے بڑھاپے میں بھی صد ہا رنج برداشت کرنے پڑتے ہیں.موئے سفید از اجل آرد پیام.انسان کا یہ فرض ہونا چاہیئے کہ حسب استطاعت خدا کے فرائض بجالا وے روزہ کے بارے میں خدا فرماتا ہے وَ اَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ یعنی اگر تم روزہ رکھ بھی لیا کر و تو تمہارے واسطے بڑی خیر ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 563-561)
864 دعا اور اسکا فلسفہ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ.(المومن: 61) استجابت دعا کا مسئلہ در حقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اسکو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں اور دھو کے لگتے ہیں...دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب میں ایک تعلق جاذبہ ہے.یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے.پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے.سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے.پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوھیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں.تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے.تب اللہ جل شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے.اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں.جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں.مثلاً اگر بارش کے لئے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبیعہ جو بارش کے لئے ضروری ہوتے ہیں.اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں.اور اگر قحط کے لئے بد دعا ہے.تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے.اسی وجہ سے یہ بات ارباب کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل کی دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے.یعنی باز نہ تعالیٰ وہ دعا عالم سفلی اور علوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب ہے.( بركات الدعا ر خ جلد 6 صفحہ 910 مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِةٍ.(الانعام :92) یا درکھو کہ ہر ایک چیز خدا تعالیٰ کی آواز سنتی ہے.ہر ایک چیز پر خدا تعالیٰ کا تصرف ہے اور ہر ایک چیز کی تمام ڈوریاں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اس کی حکمت ایک بے انتہا حکمت ہے جو ہر ایک ذرہ کی جڑھ تک پہنچی ہوئی ہے اور ہر ایک چیز میں اتنی ہی خاصیتیں ہیں جتنی اس کی قدرتیں ہیں جو شخص اس بات پر ایمان نہیں لاتا وہ اس گروہ میں داخل ہے جو مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِةٍ کے مصداق ہیں اور چونکہ انسان کامل مظہر اتم تمام عالم کا ہوتا ہے اس لئے تمام عالم اس طرف وقتاً فوقتاً کھینچا جاتا ہے وہ روحانی عالم کا ایک عنکبوت ہوتا ہے اور تمام عالم اس کی تاریں ہوتی ہیں اور خوارق کا یہی سر ہے.
865 بر کاروبار ہستی اثری ست عارفاں رہ ز جہاں چہ دید آں کس کہ ندید ایں جہاں را ( ترجمہ: - زندگی کے کاروبار پر عارف مؤثر ہوتے ہیں.جس نے دنیا میں یہ نہیں دیکھا.اس نے اس جہان کو نہیں دیکھا.) ( برکات الدعا.ر.خ.جلد 6 صفحہ 31-30 حاشیہ ) جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے.بچہ کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتہ کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر اگر دعا کی فلاسفی پر غور کرے تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے.دوسری قسم کا رحم یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک رحم مانگنے کے بعد پیدا ہوتا ہے مانگتے جاؤ گے ملتا جاوے گا.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ کوئی لفاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا.جو نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا وہ جھوٹا ہے.بچہ کی جو مثال میں نے بیان کی ہے وہ دعا کی فلاسفی خوب حل کر کے دکھاتی ہے.خدا کو خدا سے پانا ( ملفوظات جلد اول صفحہ 82) ہم اس کی وقیوم کو محض اپنی تدبیروں سے ہرگز پا نہیں سکتے بلکہ اس راہ میں صراط مستقیم صرف یہ ہے کہ پہلے ہم اپنی زندگی معہ اپنی تمام قوتوں کے خدائے تعالیٰ کی راہ میں وقف کر کے پھر خدا کے وصال کے لیے دعا میں لگے رہیں تا خدا کو خدا ہی کے ذریعہ سے پاویں.اور سب سے پیاری دعا جو عین محل اور موقعہ سوال کا ہمیں سکھاتی ہے اور فطرت کے روحانی جوش کا نقشہ ہمارے سامنے رکھتی ہے وہ دعا ہے جو خدائے کریم نے اپنی پاک کتاب قرآن شریف میں یعنی سورہ فاتحہ میں ہمیں سکھائی ہے اور وہ یہ ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العلمین تمام پاک تعریفیں جو ہوسکتی ہیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا اور قائم رکھنے والا ہے الرحمن الرحیم وہی خدا جو ہمارے اعمال سے پہلے ہمارے لیے رحمت کا سامان میسر کرنے والا ہے اور ہمارے اعمال کے بعد رحمت کے ساتھ جزا د ینے والا ہے مالک یوم الدین وہ خدا جو جزا کے دن کا وہی ایک مالک ہے کسی اور کو وہ دن نہیں سونپا گیا ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اے وہ جوان تعریفوں کا جامع ہے ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور ہم ہر ایک کام میں تو فیق تجھ ہی سے چاہتے ہیں اس جگہ ہم کے لفظ سے پرستش کا اقرار کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہمارے تمام قومی تیری پرستش میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے آستانہ پر جھکے ہوئے ہیں کیونکہ انسان باعتبار اپنے اندرونی قومی کے ایک جماعت اور ایک امت ہے اور اس طرح پر تمام قویٰ کا خدا کو سجدہ کرنا یہی وہ حالت ہے جس کو اسلام کہتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ہمیں اپنی سیدھی راہ دکھلا اور اس پر ثابت قدم کر کے ان لوگوں کی راہ دکھلا جس پر تیرا انعام واکرام ہے اور تیرے مورد فضل و کرم ہو گئے ہیں غیر المغضوب علیہم ولا الضالین اور ہمیں ان لوگوں کی راہوں سے بچا جن پر تیرا غضب ہے اور جو تجھ تک نہیں پہنچ سکے اور راہ کو بھول گئے آمین اے خدا ایسا ہی کر.(اسلامی اصول کی فلاسفی.ر.خ.جلد 10 صفحہ 382-381)
866 دُعا کی اہمیت مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے.مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں ست نہیں ہوتے.کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے.مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں.کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائینگے.مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے.اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھا نیکے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنادیتی ہے.کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا.وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم حیا والا صادق و فادار عاجزوں پر رحم مرنے والا ہے.پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ.اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو.خدا کے لئے ہارا ختیار کر لو اور شکست کو قبول کر لوتا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ.دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا.اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی.دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے.دعا سے خدا ایسا نز دیک ہو جاتا ہے.جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے.دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں.مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلی ہے.جس کو دنیا نہیں جانتی.گویا وہ اور خدا ہے.حالانکہ اور کوئی خدا نہیں.مگرنئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے.تب اس خاص تجلی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کیلئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا.یہی وہ خوارق ہے.(لیکچر سیالکوٹ.رخ جلد 20 صفحہ 223 222) وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ الآية (المومن: 61) یا درکھنا چاہیئے کہ قرآن شریف دہریوں کی طرح تمام امور کو اسباب طبیعیہ تک محدود رکھنا نہیں چاہتا بلکہ خالص توحید تک پہنچانا چاہتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے دعا کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور نہ قضا و قدر کے تعلقات کو جو دعا کے ساتھ ہیں تدبر کی نگاہ سے دیکھا ہے جو لوگ دعا سے کام لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے راہ کھول دیتا ہے.وہ دعا کو رد نہیں کرتا.ایک طرف دعا ہے دوسری طرف قضا و قدر.خدا نے ہر ایک کے لئے اپنے رنگ میں اوقات مقرر کر دیئے ہیں اور ربوبیت کے حصہ کو عبودیت میں دیا گیا اور فرمایا ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم (المومن : 61) مجھے پکارو میں جواب دوں گا.قضا و قدر کا دعا کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے.دعا کے ساتھ معلق تقدیر مل جاتی ہے.جب مشکلات پیدا ہوتے ہیں تو دعا ضرور اثر کرتی ہے.جولوگ دعا سے منکر ہیں ان کو ایک دھوکا لگا ہوا ہے.قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں ایک پہلو میں اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے.
867 وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ.(البقرة : 156) میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے.نون ثقیلہ کے ذریعہ جو اظہار تاکید کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ قضائے مُبرم کو ظاہر کریں گے تو اس کا علاج إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرة : 157) ہی ہے اور دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے وہ اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمْ میں ظاہر کیا ہے.پس مومن کو ان دونو مقامات کا پورا علم ہونا چاہیئے.صوفی کہتے ہیں کہ فقر کامل نہیں ہوتا جب تک محل اور موقع کی شناخت حاصل نہ ہو بلکہ کہتے ہیں کہ صوفی دعا نہیں کرتا جب تک کہ وقت کو شناخت نہ کرے.سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا کے ساتھ شقی سعید کیا جاتا ہے بلکہ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ شدید الاختفاء امور مشبہ بالمبرم بھی دور کئے جاتے ہیں.الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بھی اللہ تعالی انی منوانا چاہتا ہے اور بھی وہ مان لیتا ہے.یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی عظیم الشان قبولیت دعاؤں کی ہے اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں.آداب دعا ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 168-167) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ.الآية.(البقرة : 156) خدا کی کتاب نے دعا کے بارہ میں یہ قانون پیش کیا ہے کہ وہ نہایت رحم سے نیک انسان کے ساتھ دوستوں کی طرح معاملہ کرتا ہے یعنی کبھی تو اپنی مرضی کو چھوڑ کر اس کی دعا سنتا ہے جیسا کہ خود فرمایا اُدْعُونى اسْتَجِبْ لَكُمْ اور کبھی کبھی اپنی مرضی ہی منوانا چاہتا ہے جیسا کہ فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوع ایسا اس لیے کیا کہ تا کبھی انسان کی دعا کے موافق اس سے معاملہ کر کے یقین اور معرفت میں اس کو ترقی دے اور کبھی اپنی مرضی کے موافق کر کے اپنی رضا کی اس کو خلعت بخشے اور اس کا مرتبہ بڑھاوے اور اس سے محبت کر کے ہدایت کی راہوں میں اس کو ترقی دیوے.(کشتی نوح.ر.خ.جلد 19 صفحہ 21 حاشیہ ) ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ.(المومن: 61) إِيَّاكَ نَعْبُدُ اور إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم کو ملایا ہے.نعبد تو یہی ہے کہ بھلائی اور برائی کا خیال نہ رہے.سلب امید دامانی ہو.اور اِيَّاكَ نَسْتَعِینُ میں دعا کی تعلیم ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 299)
868 دعا اور تقویٰ يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ.(المائده : 28) دعا کی راہ میں دو بڑے مشکل امر ہیں جن کی وجہ سے اکثر دلوں سے عظمت دعا کی پوشیدہ رہتی ہے (1) اول تو شرط تقویٰ اور راست بازی اور خدا تری ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ.یعنی اللہ تعالیٰ پر ہیز گار لوگوں کی دعا قبول کرتا ہے.ایام اصلح.رخ.جلد 14 صفحہ 260) تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت ہیں.لیکن اگر طالب صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پالیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدہ : 28) گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تخلف نہیں ہوتا.جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ (الرعد: 32).پناہ دیں بود و ملجاء مسلماناں ( ملفوظات جلد اول صفحہ 68) بعقد همت خود دافع قضا باشد وہ دین کی پناہ اور مسلمانوں کی جائے حفاظت ہوتا ہے اور اپنی ہمت کے زور سے قضا کو دفع کر دیتا ہے.ہزار سرزنی و مشکلی نه گردد حل چو پیش او بروی کار یک دعا باشد تو ہزار ٹکریں مارتار ہے مگر تری مشکل حل نہیں ہوتی لیکن جب تو اس کے سامنے جاتا ہے تو اس کی ایک دعا کافی ہوتی ہے.تریاق القلوب -رخ- جلد 15 صفحہ 130- 129) دعا.صبر اور استقلال میرے خدائے کریم و قدیر کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے ارادوں کو جو دعاؤں کی قبولیت کے بعد ظاہر کرنا چاہتا ہے اکثر دیر اور آہستگی سے ظاہر کرتا ہے تاجو بد بخت اور شتاب کار ہیں وہ بھاگ جائیں اور اس خاص طور کے فضل کا انہیں کو حصہ ملے جو خدا تعالیٰ عزوجل کے دفتر میں سعید لکھے گئے ہیں.مکتوبات احمد جلد پنجم حصہ اول صفحہ 34 مکتوب نمبر 82 بنام حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی ) دعاؤں میں استقلال اور صبر ایک الگ چیز ہے اور اڑ کر مانگنا اور بات ہے.یہ کہنا کہ میر افلاں کام اگر نہ ہوا تو میں انکار کر دوں گا یا یہ کہہ دوں گا یہ بڑی نادانی اور شرک ہے اور آداب الدعا سے ناواقفیت ہے.ایسے لوگ دعا کی فلاسفی سے ناواقف ہیں.قرآن شریف میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ ہر ایک دعا تمہاری مرضی کے موافق میں قبول کروں گا.بیشک یہ ہم مانتے ہیں کہ قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن: 61) لیکن ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ اسی قرآن شریف میں یہ بھی لکھا ہوا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ الايه ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ میں اگر تمہاری مانتا ہے تو لَنَبْلُوَنَّكُمُ میں اپنی منوانی چاہتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا احسان اور اس کا کرم ہے کہ وہ اپنے بندہ کی بھی مان لیتا ہے ورنہ اس کی الوہیت اور ربوبیت کی شان کے یہ ہرگز خلاف نہیں کہ اپنی ہی منوائے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 297-296)
869 اہل اللہ کے دوہی کام ہوتے ہیں جب کسی بلا کے آثار دیکھتے ہیں تو دعا کرتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں کہ قضا وقد ر اس طرح پر ہے تو صبر کرتے ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچوں کی وفات پر صبر کیا جن میں سے ایک بچہ ابراہیم بھی تھاجبکہ خدا تعالیٰ نے یہ دو قسمیں رکھ دی ہیں اور یہ اس کی سنت ٹھہر چلی ہے اور یہ بھی اس نے فرمایا ہے لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا (الفاطر: 44) پھر کس قدر غلطی ہے جو انسان اس کے خلاف چاہے.سب حاجتیں خدا سے مانگو ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 297) ادنی اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل معطی وہی ہے.بہت نیک وہی ہے جو بہت دعا کرتا ہے کیونکہ اگر کسی بخیل کے دروازہ پر سوالی ہر روز جا کر سوال کرے گا تو آخر ایک دن اس کو بھی شرم آ جاوے گی.پھر خدا تعالیٰ سے مانگنے والا جو بیشل کریم ہے کیوں نہ پائے؟ پس مانگنے والا کبھی نہ کبھی ضرور پالیتا ہے.نماز کا دوسرا نام دعا بھی ہے جیسے فرمایا.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : 61) ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 175) دعا اور تدابیر فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا (النازعات: 6) دعا کے ساتھ تدابیر کو نہ چھوڑے کیونکہ اللہ تعالیٰ تدبیر کو بھی پسند کرتا ہے اور اسی لئے فَالْمُدَبِرَاتِ اَمْرًا کہہ کر قرآن شریف میں قسم بھی کھائی ہے.جب وہ اس مرحلہ کو طے کرنے کے لئے دعا بھی کرے گا اور تدبیر سے بھی اس طرح کام لے گا کہ جو مجلس اور صحبت اور تعلقات اس کو حارج ہیں ان سب کو ترک کر دے گا اور رسم عادت اور بناوٹ سے الگ ہو کر دعا میں مصروف ہوگا تو ایک دن قبولیت کے آثار مشاہدہ کر لے گا.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 102) یادرکھو کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے.نماز اور توحید کچھ ہی ہو کیونکہ تو حید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے اس وقت بے برکت اور بے سود ہوتی ہے جب اس میں نیستی اور تذلیل کی روح اور حنیف دل نہ ہو.سنو وہ دعا جس کے لئے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ.(المومن (61) فرمایا ہے اس کے لئے بھی کچی روح مطلوب ہے.اگر اس تصرع اور خشوع میں حقیقت کی روح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے.پھر کوئی کہ سکتا ہے کہ اسباب کی رعایت ضروری نہیں ہے.یہ ایک غلط نہی ہے.شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے اور سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب نہیں؟ یا اسباب دعا نہیں ؟ تلاش اسباب بجائے خود ایک دعا ہے اور دعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ انسان کی ظاہری بناوٹ اس کے دو ہاتھ دو پاؤں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا ایک قدرتی راہنما ہے.جب یہ نظارہ خود انسان میں موجود ہے پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوى (المائدہ :3) کے معنے سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے.ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ تلاش اسباب بھی بذریعہ دعا کرو.میں نہیں سمجھتا کہ جب میں تمہارے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ کا ایک قائم کردہ سلسلہ اور کامل را ہنما سلسلہ دکھاتا ہوں تو اس سے انکار کرو.اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اور بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر
870 کھول دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا.اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اور قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دے مگر پھر بھی ایک وقت ان پر آتا ہے کہ وہ نُ انصارِى إِلَى اللهِ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.کیا وہ ایک ٹکر گرا فقیر کی طرح بولتے ہیں؟ مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللہ کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے وہ دنیا کو ایک رعایت اسباب سکھانا چاہتے ہیں جو دعا کا ایک شعبہ ہے ورنہ اللہ تعالیٰ پر ان کو کامل ایمان اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے.دنیا اور دنیا کی مدد یں ان لوگوں کے سامنے کلیت ہوتی ہیں اور مردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں لیکن دنیا کو دعا کا ایک موٹا طریق بتلانے کے لئے وہ یہ راہ بھی اختیار کرتے ہیں.شرائط دعا (ریویو آف ریلیجنز جلد سوم نمبر 1 صفحہ 8-7) جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے.کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے.تب تیری دعا منظور ہوگی.اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا.جو ہم نے دیکھے.اور ہماری گواہی رویت سے ہے.نہ بطور قصہ کے اس شخص کی دعا کیوں کر منظور ہو اور خود کیونکر اس کو بڑی مشکلات کے وقت جو اس کے نزدیک قانون قدرت کے مخالف ہیں دعا کرنے کا حوصلہ پڑے.جو خدا کو ہر ایک چیز پر قادر نہیں سمجھتا..‘“ کشتی نوح-ر-خ- جلد 19 صفحہ 21) قبولیت دعا کے واسطے چار شرطوں کا ہونا ضروری ہے تب کسی کے واسطے دعا قبول ہوتی ہے.شرط اول یہ ہے کہ انقا ہو یعنی جس سے دعا کرائی جاوے وہ دعا کرنے والا متقی ہو.دوسری شرط قبولیت دعا کے واسطے یہ ہے کہ جس کے واسطے انسان دعا کرتا ہو اس کے لیے دل میں درد ہو أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ.تیسری شرط یہ ہے کہ وقت اصفی میسر آوے ایسا وقت کہ بندہ اور اس کے رب میں کچھ حائل نہ ہو....چوتھی شرط یہ ہے کہ پوری مدت دعا کی حاصل ہو یہاں تک کہ خواب یا وحی سے اللہ تعالیٰ خبر دے.محبت وا خلاص والے کو جلدی نہیں چاہیے بلکہ صبر کے ساتھ انتظار کرنا چاہیے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 537-535) اصل دعا دین کے لئے ہے دنیا کے لیے جو دعا کی جاتی ہے وہ جہنم ہے.دعا صرف خدا کو راضی کرنے اور گناہوں سے بچنے کی ہونی چاہیئے باقی جتنی دعائیں ہیں وہ خود اس کے اندر آ جاتی ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ بڑی دعا ہے صراط مستقیم گویا خدا کو شناخت کرنا ہے اور اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کل گناہوں سے بچنا ہے اور صالحین میں داخل ہونا ہے اگر ایک آدمی با خدا ہو تو سات پشت تک خدا تعالیٰ اس کی اولاد کی خبر گیری کرتا ہے....دعا ایسی کرنی چاہیئے کہ نفس امارہ گداز ہو کر نفس مطمئنہ کی طرف آجاوے اگر وہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ( جیسے کہ معنے مذکور ہوئے ) طلب کرتا رہے گا تو دوسری جو اسے ضرورتیں ہیں جن کے لیے وہ دعا چاہتا ہے وہ خدا خود پوری کر دے گا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 603-602 بمعہ حاشیہ )
871 ہماری جماعت کو چاہئے کہ راتوں کو رو رو کر دعائیں کریں.اس کا وعدہ ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ.عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ دعا سے مراد دنیا کی دعا ہے.وہ دنیا کے کیڑے ہیں اس لئے اس سے پرے نہیں جاسکتے اصل دعا دین ہی کی دعا ہے لیکن یہ مت سمجھو کہ ہم گنہ گار ہیں یہ دعا کیا ہوگی اور ہماری تبدیلی کیسے ہو سکے گی یہ غلطی ہے بعض وقت انسان خطاؤں کے ساتھ ہی ان پر غالب آ سکتا ہے اس لئے کہ اصل فطرت میں پاکیزگی ہے دیکھو پانی خواہ کیسا ہی گرم ہو لیکن جب وہ آگ پر ڈالا جاتا ہے تو وہ بہر حال آگ کو بجھا دیتا ہے اس لئے کہ فطرتا برودت اس میں ہے.ٹھیک اسی طرح پر انسان کی فطرت میں پاکیزگی ہے.ہر ایک میں یہ مادہ موجود ہے.وہ پاکیزگی کہیں نہیں گئی.اسی طرح تمہاری طبیعتوں میں خواہ کیسے ہی جذبات ہوں رو کر دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ دور کر دے گا.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 133-132) دعا کی عظمت وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گذرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا.وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللھم صَلِّ وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَ الِهِ بِعَدَدِ هَمِّهِ وَ غَمِهِ وَ حُزْنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَاَنْزِلْ عَلَيْهِ أَنْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ اور میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بھی بڑھ کر ہے.بلکہ اسباب طبیعہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم الا خیر نہیں جیسی کہ دعا ہے.“ بركات الدعا- ر- خ - جلد 6 صفحہ 10-11) قرآن شریف سے جو عقیدہ نجات کے بارے میں استنباط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ نجات نہ تو صوم سے ہے نہ صلوۃ سے نہ زکوۃ اور نہ صدقات سے بلکہ محض دعا اور خدا کے فضل سے ہے اسی لیے خدا تعالی نے دعا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ تعلیم فرمائی ہے کہ جب وہ قبول ہو کر خدا تعالی کے فضل کو جذب کرتی ہے اعمال صالحہ اس کے ساتھ شرائط ہیں مگر لوازم میں سے نہیں یعنی جب انسان کی دعا قبول ہوتی ہے تو اس کے ساتھ تمام شرائط خود ہی مرتب ہوتی ہیں ورنہ اگر اعمال پر نجات کا مدار رکھا جائے تو یہ بار یک شرک ہے اور اس سے ثابت ہو گا کہ انسان خود بخود نجات پاسکتا ہے کیونکہ اعمال تو انسان کے اختیاری امور ہیں اور انسان خود بخو داسے بجالاتے ہیں.دعا جب تمام شرائط کے ساتھ ہوتی ہے تو وہ فضل کو جذب کرتی ہے اور فضل کے بعد شرائط خود بخود پورے ہوتے جاتے ہیں اسلامی نجات یہی ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 389-388)
872 دعا اسم اعظم ہے دعا کرنا اور کرانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.دعا کے لئے جب درد سے دل بھر جاتا ہے اور سارے حجابوں کو توڑ دیتا ہے اس وقت سمجھنا چاہیئے کہ دعا قبول ہو گئی.یہ اسم اعظم ہے.اس کے سامنے کوئی انہونی چیز نہیں ہے.ایک خبیث کے لئے جب دعا کے ایسے اسباب میسر آجائیں تو یقیناً وہ صالح ہو جاوے اور بغیر دعا کے وہ اپنی تو بہ پر بھی قائم نہیں رہ سکتا.بیمار اور مجوب اپنی دستگیری آپ نہیں کر سکتا.سنت اللہ کے موافق یہی ہوتا ہے کہ جب دعائیں انتہا تک پہنچتی ہیں تو ایک شعلہ نور کا اس کے دل پر گرتا ہے جو اس کی خباثتوں کو جلا کر تار یکی دور کر دیتا ہے اور اندر ایک روشنی پیدا کر دیتا ہے کہ یہ طریق استجابت دعا کا رکھتا ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 100) سب دعائیں قبول نہیں ہوتیں یہ خیال کہ مقبولین کی ہر ایک دعا قبول ہو جاتی ہے یہ سراسر غلط ہے بلکہ حق بات یہ ہے کہ مقبولین کے ساتھ خدا تعالیٰ کا دوستانہ معاملہ ہے کبھی وہ ان کی دعائیں قبول کر لیتا ہے اور کبھی وہ اپنی مشیت ان سے منوانا چاہتا ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ دوستی میں ایسا ہی ہوتا ہے بعض وقت ایک دوست اپنے دوست کی بات کو مانتا ہے اور اسکی مرضی کے موافق کام کرتا ہے اور پھر دوسرا وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اپنی بات اس سے منوانا چاہتا ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ ایک جگہ قرآن شریف میں مومنوں کی استجابت دعا کا وعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُم ( المومن: 61) یعنی تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور دوسری جگہ اپنی نازل کردہ قضا و قدر پر خوش اور راضی رہنے کی تعلیم کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ (البقرة : 156) (حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد22 صفحہ 21) دعا مسلمانوں کا فخر ہے دوسرا طریق حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لئے جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے وہ دعا ہے اس لئے جس قدر ہو سکے دعا کرو یہ طریق بھی اعلیٰ درجہ کا مجرب اور مفید ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن: 61) تم مجھ سے دعا کرو میں تمہارے لئے قبول کروں گا.دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو فخر کرنا چاہیئے.دوسری قوموں کو دعا کی کوئی قدر نہیں اور نہ انہیں اس پاک طریق پر کوئی فخر اور ناز ہو سکتا ہے.بلکہ یہ فخر اور ناز صرف صرف اسلام ہی کو ہے.دوسرے مذاہب اس سے بکلی بے بہرہ ہیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 202)
873 دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے.دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے.جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے.دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں.مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلی ہے.جس کو دنیا نہیں جانتی.گویاوہ اور خدا ہے.حالانکہ اور کوئی خدا نہیں.مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے.تب اس خاص تجلی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کیلئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا.یہی وہ لیکچر سیالکوٹ رخ جلد 20 صفحہ 223 ) خوارق ہے.ہر نبی نے دعا کی تعلیم دی ہے دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی.یہ دعا ایک ایسی شئی ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے.اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے.لیکن جو قدم رکھتا ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے.جب انسان خدا تعالیٰ سے متواتر دعائیں مانگتا ہے تو وہ اور ہی انسان ہو جاتا ہے اس کی روحانی کدورتیں دور ہو کر اس کو ایک قسم کی راحت اور سرور ملتا ہے اور ہر قسم کے تعصب اور ریا کاری سے الگ ہو کر وہ تمام مشکلات کو جو اس کی راہ میں پیدا ہوں برداشت کر لیتا ہے خدا کے لئے ان تختیوں کو جو دوسرے برداشت نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے صرف اس لیے کہ خدا تعالیٰ راضی ہو جاوے برداشت کرتا ہے تب خدا تعالیٰ جو رحمان رحیم خدا ہے اور سراسر رحمت ہے اس پر نظر کرتا ہے اور اس کی ساری کلفتوں اور کدورتوں کو سرور سے بدل دیتا ہے.آڑے وقت کی دعا لملفوظات جلد اول صفحہ 492) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی فرماتے ہیں.مجھ حقیر اور نا چیز کو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و احسان سے کثرت کے ساتھ دعائیں کرنے کی توفیق بخشی ہے اور میری بہت سی عاجزانہ دعاؤں کو محض اپنی ازلی و ابدی اور بے پایاں رحمت سے شرف قبولیت بھی بخشا ہے میں نے اپنی التجاؤں میں قرآن کریم اور احادیث کی دعاؤں کے علاوہ سید نا حضرت مسیح موعود کی آڑے وقت کی دعا سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.یہ دعا حضرت اقدس کے ایک خط سے جو آپ نے حضرت مولانا نورالدین صاحب کے نام تحریر فرمایا ماخوذ کی گئی ہے.اس کے الفاظ یہ ہیں.”اے میرے محسن اور اے میرے خدا میں ایک تیرا نا کارہ بندہ پر معصیت اور پُر غفلت ہوں.تو نے مجھے سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے متمتع کیا.سو اب بھی مجھے نالائق اور پُر گناہ پر رحم کر اور میری بیا کی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اور کوئی چارہ گر نہیں، آمین.( حیات قدسی جلد 3 صفحہ 12 )
874 مقبولوں کی پہچان قبولیت دعا ہے مقبولوں کی اول علامت مستجاب الدعوات ہونا ہے خاص کر اس حالت میں جب کہ ان کا درد دل نہایت تک پہنچ جائے.پھر اس بات کو سوچیں کہ کیونکر ممکن ہے کہ باوجود یکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے مارے غم کے بیجان اور نا تواں ہو کر ایک باغ میں جو پھل لانے کی جگہ ہے بکمال در دساری رات دعا کی اور کہا کہ اے میرے باپ اگر ممکن ہو تو یہ پیالہ مجھ سے ٹال دیا جائے مگر پھر بھی بایں ہمہ سوز و گداز اپنی دعا کا پھل دیکھنے سے نامراد رہا.یہ بات عارفوں اور ایمانداروں کے نزدیک ایسی جھوٹ ہے جیسا کہ دن کو کہا جائے کہ رات ہے یا اُجالے کو کہا جائے کہ اندھیرا ہے یا چشمہء شیریں کو کہا جائے کہ تلخ اور شور ہے.جس دعا میں رات کے چار پہر برابر سوز و گداز اور گر یہ وازاری اور سجدات اور جانکا ہی میں گذریں کبھی ممکن نہیں کہ خدائے کریم ورحیم ایسی دعا کو نا منظور کرے خاص کر وہ دعا جو ایک مقبول کے منہ سے نکالی ہو.تریاق القلوب -ر خ- جلد 15 صفحہ 242-241) دعا کا قبول نہ ہونا بعض اوقات انسان کسی دعا میں ناکام رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے دعا رد کر دی حالانکہ خدائے تعالیٰ اس کی دعا کوسن لیتا ہے اور وہ اجابت بصورت رد ہی ہوتی ہے کیونکہ اس کے لئے در پردہ اور حقیقت میں بہتری اور بھلائی اس کے رد ہی میں ہوتی ہے.انسان چونکہ کوتاہ بین اور دور اندیش نہیں بلکہ ظاہر پرست ہے اس لئے اس کو مناسب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرے اور وہ بظاہر اس کے مفید مطلب نتیجہ خیز نہ ہو تو خدا پر بدظن نہ ہو کہ اس نے میری دعا نہیں سنی.وہ تو ہر ایک کی دعا سنتا ہے اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمُ (المومن : 61) فرماتا ہے.راز اور بھید یہی ہوتا ہے کہ داعی کے لئے خیر اور بھلائی رد دعا ہی میں ہوتی ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 67) وَ قَالُوا آمَنَّا بِهِ وَانّى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍ بَعِيدٍ.(سبا:53) جو مجھ سے دور ہو اس کی دعا کیونکر سنوں.یہ گویا عام قانون قدرت کے نظارہ سے ایک سبق دیا ہے.یہ نہیں کہ خدا سن نہیں سکتا.وہ تو دل کے مخفی در مخفی ارادوں سے بھی واقف ہے جوا بھی پیدا نہیں ہوئے مگر یہاں انسان کو قرب الہی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جیسے دور کی آواز سنائی نہیں دیتی.اسی طرح پر جو شخص غفلت اور فسق و فجور میں مبتلا رہ کر مجھ سے دور ہوتا جاتا ہے.جس قدر وہ دور ہوتا ہے اسی قد رحجاب اور فاصلہ اس کی دعاؤں کی قبولیت میں ہوتا جاتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 436)
875 د عامر اعتقاد نہ رکھنا از دعا کن چاره آزار انکار دُعا چوں علاج کے زمے وقت خمار والتہاب انکار دعا کے مرض کا علاج دعاہی سے کر جیسے خمار کے وقت شراب کا علاج شراب سے ہی کیا جاتا ہے.ایکہ گوئی گر دعا ہارا اثر بودے کجاست سوئے من بشتاب نیمایم ترا چون آفتاب اے وہ شخص جو کہتا ہے کہ اگر دعاؤں میں اثر ہے تو دکھاؤ کہاں ہے.پس میری طرف دوڑتا کہ میں تجھے سورج کی طرح وہ اثر دکھاؤں.ہاں مکن انکار زیں اسرار قدرتہائے حق قصہ کوتاہ کن ہیں از ما دعائے مستجاب خدا کی قدرتوں کے بھیدوں کا انکار نہ کر بات ختم کر.اور ہم سے دعائے مستجاب دیکھ لے.دعا مسلمانوں پر فرض ہے بركات الدعا.رخ - جلد 6 صفحہ 33) دعا جو خدا تعالیٰ کی پاک کلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہے.اس کی فرضیت کے چار سبب ہیں.ایک یہ کہ تا ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر تو حید پر پختگی حاصل ہو.کیونکہ خدا سے مانگنا اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ مرادوں کا دینے والا صرف خدا ہے.دوسرے یہ کہ تا دعا کے قبول ہونے اور مراد کے ملنے پر ایمان قوی ہو.تیسرے یہ کہ اگر کسی اور رنگ میں عنایت الہی شامل حال ہو.تو علم اور حکمت زیادت پکڑے.چوتھے یہ کہ اگر دعا کی قبولیت کا الہام اور رویا کے ساتھ وعدہ دیا جائے اور اسی طرح ظہور میں آ وے تو معرفت الہی ترقی کرے اور معرفت سے یقین اور یقین سے محبت اور محبت سے ہر ایک گناہ اور غیر اللہ سے انقطاع حاصل ہو جو حقیقی نجات کا ثمرہ ہے.(ایام الصلح رخ جلد 14 صفحہ 242) امن کی حالت میں دعا کرنا اللہ کا رحم ہے اس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی مصیبت کے وارد ہونے پر ڈرتا ہے.جو امن کے وقت خدا تعالے کو نہیں بھلاتا.خدا تعالیٰ اسے مصیبت کے وقت نہیں بھلاتا.اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے.اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعا ئیں بھی قبول نہیں ہوتیں.جب عذاب الہی کا نزول ہوتا ہے تو تو بہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے پس کیا ہی سعید وہ ہے.جو عذاب الہی کے نزول سے پیشتر دعا میں مصروف رہتا ہے.صدقات دیتا ہے.اور مرالہی کی تعظیم اور خلق اللہ پر شفقت کرتا ہے.اپنے اعمال کو سنوار کر بجالاتا ہے یہی سعادت کے نشان ہیں.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح سعید اور شقی کی شناخت بھی آسان ہوتی ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 539)
876 قبولیت دعا کے آثار عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ.(البقره: 217 ) دعا جب قبول ہونے والی ہوتی ہے.تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دل میں ایک سچا جوش اور اضطراب پیدا کر ( ملفوظات جلد دوم صفحه 164) دیتا ہے.اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ خود ہی ایک دعا سکھاتا ہے.اور الہامی طور پر اس اس کا پیرا یہ بتا دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے.فتلقی ادم من ربه کلمات (البقره: 38) اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے راستباز بندوں کو قبول ہونے والی دعائیں خود الہاما سکھا دیتا ہے.بعض وقت ایسی دعا میں ایسا حصہ بھی ہوتا ہے جس کو دعا کرنے والا نا پسند کرتا ہے مگر وہ قبول ہو جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہے عــــــــــی آن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُم دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجہ کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہو جاتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں.پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں.یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہو اسے چاہئے کہ دعا کرے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 618) قبولیت دعا کے ذرائع قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ.(آل عمران: 32) قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں.اول قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ دوم يايها الذى آمنوا صلوا عليه و سلّموا تسليما.(الاحزاب:57) تیسرا موہبت الہی.قبولیت دعا کے طریق ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 38) دعا اسی حالت میں دعا کہلا سکتی ہے کہ جب در حقیقت اس میں ایک قوت کشش ہو اور واقعی طور پر دعا کرنے کے بعد آسمان سے ایک نو را ترے جو ہماری گھبراہٹ کو دور کرے اور ہمیں انشراح صدر بخشے اور سکینت اور اطمینان عطا کرے.ہاں حکیم مطلق ہماری دعاؤں کے بعد دوطور سے نصرت اور امداد کو نازل کرتا ہے (1) ایک یہ کہ اس بلا کو دور کر دیتا ہے جس کے نیچے ہم دب کر مرنے کو تیار ہیں (2) دوسرے یہ کہ بلا کی برداشت کے لئے ہمیں فوق العادت قوت عنایت کرتا ہے بلکہ اس میں لذت بخشتا ہے اور انشراح صدر عنایت فرماتا ہے.پس ان دونوں طریقوں سے ثابت ہے کہ دعا سے ضرور نصرت الہی نازل ہوتی ہے.(ریویو آف ریلیجنز جلد سوم نمبر 2 صفحہ 48 تفسیر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سورۃ المومن جلد 7 صفحہ 208)
877 غیروں کی دعا بھی قبول ہوتی ہے دعا وہ ہوتی ہے جو خدا کے پیارے کرتے ہیں ورنہ یوں تو خدا تعالیٰ ہندوؤں کی بھی سنتا ہے اور بعض ان کی مرادیں پوری ہو جاتی ہیں مگر ان کا نام ابتلاء ہے دعا نہیں.مثلاً اگر خدا سے کوئی روٹی مانگے تو کیا نہ دے گا؟ اس کا وعدہ ہے.مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا.(سورة هود : 7) کتے بلی بھی تو اکثر پیٹ پالتے ہیں.کیڑوں مکوڑوں کو بھی رزق ملتا ہے مگر اِصْطَفَيْنَا.(فاطر: 33) کا لفظ خاص موقعوں کے لئے ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 682) احمد یوں کو نصیحت ہماری جماعت کو چاہیئے کہ راتوں کورو رو کر دعائیں کریں.اس کا وعدہ ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ (المومن : 61) عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ دعا سے مراد دنیا کی دعا ہے.وہ دنیا کے کیڑے ہیں اس لئے اس سے پر- نہیں جاسکتے اصل دعا دین ہی کی دعا ہے لیکن یہ مت سمجھو کہ ہم گنہ گار ہیں یہ دعا کیا ہوگی اور ہماری تبدیلی کیسے ہو سکے گی غلطی ہے بعض وقت انسان خطاؤں کے ساتھ ہی ان پر غالب آ سکتا ہے اس لئے کہ اصل فطرت میں پاکیزگی ہے دیکھو پانی خواہ کیسا ہی گرم ہو لیکن جب وہ آگ پر ڈالا جاتا ہے تو وہ بہر حال آگ کو بجھا دیتا ہے اس لئے کہ فطرتا برودت اس میں ہے.ٹھیک اسی طرح پر انسان کی فطرت میں پاکیزگی ہے.ہر ایک میں یہ مادہ موجود ہے.وہ پاکیزگی کہیں نہیں گئی.اسی طرح تمہاری طبیعتوں میں خواہ کیسے ہی جذبات ہوں رو کر دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ دور کر دے گا.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 133-132) ہجوم مشکلات میں کامیابی حاصل کرنے کا طریق ذیل میں جو نظم درج کی جاتی ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک صاحب شیخ محمد بخش رئیس کڑیا نوالہ ضلع گجرات کو لکھ کر عطا فرمائی تھی جبکہ وہ سخت مالی مشکلات میں مبتلا تھے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کے طفیل ان کی تکالیف دور کر دیں.( منقول از اخبار’الفضل‘ 13 جنوری 1928ء) اک نہ اکدن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایکدن ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے مستقل رہنا ہے لازم اے بشر تجھ کو سدا رنج و غم یاس و الم فکر و بلا کے سامنے بارگاہِ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل گشا کے سامنے حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دُوئی سر جھکا بس مالک ارض و سما کے سامنے چاہئے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار ایکدن جانا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھلا قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے
نویس فصل 878 ایک تو بہ اور استغفار و ان اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِى فَضْلٍ فَضْلَهُ وَ إِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ.(هود:4) طبعا سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مشکل کام کیونکر حل ہو.اس کا علاج خود ہی بتلایا و ان اسـتغـفـروا ربكم ثم توبوا اليه - (هود: 4) یا درکھو کہ یہ دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں.ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے.دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے.قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں.صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کو اٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے.اسی طرح روحانی مگدر استغفار ہے.اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے.جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے.غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں.استغفار سے انسان ان جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے.جو خدا تعالیٰ سے روکتے ہیں.پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کر کے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں.ان پر غالب آ وے اور خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو قسم کے مادے رکھے ہیں.ایک سمی مادہ ہے.جس کا موکل شیطان ہے اور دوسرا تریاقی مادہ ہے.جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مدد نہیں لیتا.تو سمی قوت غالب آجاتی ہے لیکن جب اپنے تئیں ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اور اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہے.جس سے اس کی روح گداز ہو کر بہن نکلتی ہے اور یہی استغفار کے معنی ہیں.یعنی یہ کہ اس قوت کو پا کر زہریلے مواد پر غالب آجاوے.غرض اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت پر یوں قائم رہو.اول رسول کی اطاعت کرو.دوسرے ہر وقت خدا سے مدد چاہو.ہاں پہلے اپنے رب سے مدد چا ہو.جب قوت مل گئی تو تُوبُوا إِلَيْهِ یعنی خدا کی طرف رجوع کرو.استغفار اورتو به دو چیزیں ہیں.ایک وجہ سے استغفار کوتو بہ پر تقدم ہے کیونکہ استغفار مدداور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے اور تو بہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا ہے.عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لیے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی جس کا نام تُوبُوا إِلَيْهِ ہے.اس لیے طبعی طور پر بھی یہی ترتیب ہے.غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا تعالیٰ سے استمداد
879 چاہے.سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائے گا.کیا کر سکے گا.توبہ کی تو فیق استغفار کے بعد ملتی ہے.اگر استغفار نہ ہو تو یقیناًیا درکھو کہ تو بہ کی قوت مرجاتی ہے.پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر تو بہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہو گا - يُمَتِعُكُمُ مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى (هود: 4) سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور توبہ کرو گے تو اپنے مراتب پالو گے.ہر ایک شخص کے لئے ایک دائرہ ہے جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے.ہر ایک آدمی نبی رسول صدیق، شہید نہیں ہو سکتا.غرض اس میں شک نہیں کہ تفاضل درجات امر حق ہے.اس کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان امور پر مواطنت کرنے سے ہر ایک سالک اپنی اپنی استعداد کے موافق درجات اور مراتب کو پالے گا.یہی مطلب ہے آیت کا وَيُؤْتِ كُلَّ ذِى فَضْلٍ فَضْلَۂ لیکن اگر زیادت لے کر آیا ہے تو خدا تعالیٰ اس مجاہدہ میں اس کو زیادت دے دیگا اور اپنے فضل کو پالے گا جو طبعی طور پر اس کا حق ہے.ذی الفضل کی اضافت ملکی ہے.مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ محروم نہ رکھے گا.تو بہ کے معانی ( ملفوظات جلد اول صفحہ 348-349) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا أَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الضَّالُونَ.(ال عمران: 91) تو بہ کا لفظ نہایت لطیف اور روحانی معنے اپنے اندر رکھتا ہے جس کی غیر قوموں کو خبر نہیں یعنی تو بہ کہتے ہیں اس رجوع کو کہ جب انسان تمام نفسانی جذبات کا مقابلہ کر کے اور اپنے پر ایک موت کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ کی طرف چلا آتا ہے.سو یہ کچھ سہل بات نہیں ہے اور ایک انسان کو اسی وقت تائب کہا جاتا ہے جبکہ وہ بکلی نفس امارہ کی پیروی سے دست بردار ہو کر اور ہر ایک تلخی اور ہر ایک موت خدا کی راہ میں اپنے لیے گوارا کر کے آستانہ حضرت احدیت پر گر جاتا ہے تب وہ اس لائق ہو جاتا ہے کہ اس موت کے عوض میں خدا تعالیٰ اس کو زندگی بخشے.( قادیان کے آریہ اور ہم.ر.خ.جلد 20 صفحہ 448) تو بہ کے معنے ہی یہ ہیں کہ گناہ کو ترک کرنا اور خدا کی طرف رجوع کرنا.بدی چھوڑ کر نیکی کی طرف آگے قدم بڑھانا.تو بہ ایک طرف (موت) کو چاہتی ہے جس کے بعد انسان زندہ کیا جاتا ہے اور پھر نہیں مرتا.تو بہ کے بعد انسان ایسا بن جاوے کہ گویائی زندگی پا کر دنیا میں آیا ہے نہ اس کی وہ چال ہو نہ اس کی وہ زبان نہ ہاتھ نہ پاؤں سارے کا سارا نیا وجود ہو جو کسی دوسرے کے ماتحت کام کرتا ہوا نظر آ جاوے.دیکھنے والے جان لیں کہ یہ وہ نہیں یہ تو کوئی اور ہے.خلاصہ کلام یہ کہ یقین جانو کہ تو بہ میں بڑے بڑے ثمرات ہیں.یہ برکات کا سر چشمہ ہے.درحقیقت اولیاء اور صلحاء یہی لوگ ہوتے ہیں جو تو بہ کرتے اور پھر اس پر مضبوط ہو جاتے ہیں وہ گناہ سے دور اور خدا کے قریب ہوتے جاتے ہیں کامل تو بہ کرنے والا شخص ہی ولی قطب اور غوث کہلا سکتا ہے.اسی حالت میں وہ خدا کا محبوب بنتا ہے.اس کے بعد بلائیں جو انسان کے واسطے مقدر ہوتی ہیں ٹل جاتی ہیں.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 147-146)
880 توبہ کی شرائط تو به در اصل حصول اخلاق کے لئے بڑی محرک اور مؤید چیز ہے اور انسان کو کامل بنادیتی ہے یعنی جو شخص اپنے اخلاق ستیہ کی تبدیلی چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ بچے دل اور پکے ارادے کے ساتھ تو بہ کرے.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ تو بہ کیلئے تین شرائط ہیں بدوں ان کی تعمیل کے کچی تو بہ جسے توبتہ النصوح کہتے ہیں حاصل نہیں ہوتی.ان ہر سہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اقلاع کہتے ہیں یعنی ان خیالات فاسدہ کو دور کر لیا جاوے جوان خصائل ردیہ کے محرک ہیں....دوسری شرط ندم ہے یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا.ہر انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر برائی پر متنبہ کرتا ہے مگر بد بخت انسان اس کو معطل چھوڑ دیتا ہے پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پر پشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذات عارضی اور چند روزہ ہیں اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذت اور حظ میں کمی ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ بڑھاپے میں اگر جبکہ قومی بیکار اور کمزور ہو جاویں گے آخر ان سب لذات دنیا کو چھوڑ نا ہو گا.پس جب کہ خود زندگی ہی میں یہ سب باتیں چھوڑ جانے والی ہیں تو پھر ان کے ارتکاب سے کیا حاصل ہے.بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو تو بہ کی طرف رجوع کرے اور جس میں اول اقلاع کا خیال پیدا ہو یعنی خیالات فاسدہ و تصورات بے ہودہ کو قلع و قمع کرے تب یہ نجاست اور نا پا کی نکل جاوے تو پھر نادم ہو اور اپنے کئے پر پشیمان ہو.تیسری شرط عزم ہے.یعنی آئندہ کے لئے مصم ارادہ کرلے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کروں گا اور جب وہ مداومت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطا کرے گا یہاں تک کہ وہ سیئات اس سے قطعاً زائل ہو کر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر.اس پر قوت اور طاقت بخشنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے جیسے فرمایا إِنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (البقرة : 166) ( ملفوظات جلد اول صفحہ 88-87) حضرت اقدس کی بیعت.بیعت تو بہ ہے إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ (البقرة:223) اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات تو بہ ہے.جس کے معنے رجوع کے ہیں.توبہ اس حالت کا نام ہے.کہ انسان اپنے معاصی سے جس سے اس کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں.اور اس نے اپنا وطن انھیں مقرر کر لیا ہوا ہے.گویا کہ گناہ میں اس نے بود و باش مقرر کر لی ہوئی ہے.تو تو بہ کے معنے یہ ہیں.کہ اس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنے پاکیزگی کو اختیار کرنا.اب وطن کو چھوڑ نا بڑا گراں گزرتا ہے.اور ہزاروں تکلیفیں ہوتی ہیں.ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر سے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کو چھوڑنے میں تو اس کو سب یار دوست سے قطع تعلق کرنا
881 پڑتا ہے.اور سب چیزوں کو شل چار پائی فرش و ہمسائے ونگلیاں کوچے باز ارسب چھوڑ چھاڑ کر ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے.یعنی اس وطن میں کبھی نہیں آنا.اس کا نام تو بہ ہے.معصیت کے دوست اور ہوتے ہیں.اور تقوی کے دوست اور.اس تبدیلی کو صوفیاء نے موت کہا ہے.جو تو بہ کرتا ہے اسے بڑا حرج اٹھانا پڑتا ہے اور کچی تو بہ کے وقت بڑے بڑے حرج اس کے سامنے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ رحیم کریم ہے وہ جب تک اس کل کا نعم البدل عطانہ فرماوے نہیں مارتا.إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ میں یہی اشارہ ہے کہ وہ تو بہ کر کے غریب بیکس ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اسے محبت اور پیار کرتا ہے اور اسے نیکیوں کی جماعت میں داخل کرتا ہے.تو بہ قبول ہوتی ہے ( ملفوظات جلد اول صفحه (2) إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرة:223) یہ سچی بات ہے کہ تو بہ اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے.إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ بچی تو بہ کرنے والا معصوم کے رنگ میں ہوتا ہے پچھلے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں پھر آئندہ کے لیے خدا سے معاملہ صاف کر لے.اس طرح پر خدا تعالیٰ کے اولیاء میں داخل ہو جائے گا اور پھر اس پر کوئی خوف وحزن نہ ہوگا.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 595-594) وَ هُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَ يَعْفُوا عَن السَّيَاتِ وَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ.(الشورى 26) تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی بدیاں ان کو معاف کر دیتا ہے کسی کو یہ دھوکا نہ لگے کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے وَ مَنْ يَّعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَةَ (الزلزال:9) یعنی جو شخص ایک ذرہ بھی شرارت کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا.پس یادر ہے کہ اس میں اور دوسری آیات میں کچھ تناقض نہیں کیونکہ اس شر سے وہ شرمراد ہے جس پر انسان اصرار کرے اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور توبہ نہ کرے اسی غرض سے اس جگہ شتر کا لفظ استعمال کیا ہے نہ ذنب کا تا معلوم ہو کہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریر آدمی باز آنا نہیں چاہتا.ورنہ سارا قرآن شریف اس بارہ میں بھرا پڑا ہے کہ ندامت اور توبہ اور ترک اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے.چشمه معرفت - ر- خ- جلد 23 صفحہ 24 وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَقَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِى وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللهِ ط اِلَيْكُمْ ، فَلَمَّا زَاغُوا اَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ، وَ اللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ.(الصف:6) جب انہوں نے کبھی اختیار کی تو خدا نے ان کو سچ کر دیا.اس کا نام مہر ہے لیکن ہمارا خدا ایسا نہیں کہ پھر اس مُمبر کو دور نہ کر سکے.چنانچہ اس نے اگر مُہر لگنے کے اسباب بیان کئے ہیں تو ساتھ ہی وہ اسباب بھی بتلا دیئے ہیں جن سے یہ مہر اُٹھ جاتی ہے جیسے کہ یہ فرمایا ہے إِنَّهُ كَانَ لِلَا وَّابِينَ غَفُورًا.(بنی اسرائیل: 26) ( ملفوظات جلد سوم صفحه 425)
882 تو بہ قبول نہ ہونے کا وقت وَ لَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الأدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (السجدة: 22) ایسے وقت میں جبکہ شرارت انتہاء کو پہنچتی ہے اور قطعی فیصلے کا وقت آ جاتا ہے تو مخالفوں کے حق میں انبیاء علیہم السلام کی بھی دعا قبول نہیں ہوتی.دیکھو حضرت نوح علیہ السلام نے طوفان کے وقت اپنے بیٹے کنعان کے لئے جو کافروں اور منکروں سے تھا دعا کی اور قبول نہ ہوئی (دیکھو سورہ ہو درکوع 4 ) اور ایسا ہی جب فرعون ڈوبنے لگا تو خدا پر ایمان لایا مگر قبول نہ ہوا.ہاں اس خاص وقت سے پہلے اگر رجوع کیا جاوے تو البتہ قبول ہوتا ہے وَ لَنُذِيقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ یعنی جب خفیف سے آثار عذاب کے ظاہر ہوں تو اس وقت کی تو بہ قبول ہوتی ہے.(حقیقۃ الوحی.ر.خ.جلد 22 صفحہ 427) استغفار کی اہمیت روحانی سرسبزی کے محفوظ اور سلامت رہنے کے لئے یا اس سرسبزی کی ترقیات کی غرض سے حقیقی زندگی کے چشمہ سے سلامتی کا پانی مانگنا یہی وہ امر ہے جس کو قرآن کریم دوسرے لفظوں میں استغفار سے موسوم کرتا ہے.نور القرآن رخ جلد 9 صفحه 357) جو شخص دعوی سے کہتا ہے کہ میں گناہ سے بچتا ہوں وہ جھوٹا ہے جہاں شیرینی ہوتی ہے وہاں چیونٹیاں ضرور آتی ہیں اس طرح نفس کے تقاضا ہائے تو ساتھ لگے ہی ہیں ان سے نجات کیا ہوسکتی ہے خدا کے فضل اور رحمت کا ہاتھ نہ ہو تو انسان گناہ سے نہیں بچ سکتا نہ کوئی نبی نہ ولی اور نہ ان کے لئے یہ فخر کا مقام ہے کہ ہم سے گناہ صادر نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ خدا کا فضل مانگتے تھے اور نبیوں کے استغفار کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ خدا کے فضل کا ہاتھ ان پر رہے ورنہ اگر انسان اپنے نفس پر چھوڑا جاوے تو وہ ہرگز معصوم اور محفوظ نہیں ہو سکتا اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَ بَيْنَ خَطَايَايَ - ادوسری دعائیں بھی استغفار کے اس مطلب کو بتلاتی ہیں.عبودیت کا ستر یہی ہے کہ انسان خدا کی پناہ کے نیچے اپنے آپ کو لے آوے جو خدا کی پناہ نہیں چاہتا ہے وہ مغرور اور متکبر ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 346) پس استغفار کیا چیز ہے.یہ اس آلہ کی مانند ہے جس کی راہ سے طاقت اترتی ہے.تمام راز توحید اس اصول سے وابستہ ہے کہ صفت عصمت کو انسان کی ایک مستقل جائیداد قرار نہ دیا جائے بلکہ اس کے حصول کے لئے محض خدا کو سر چشمہ سمجھا جائے ذات باری تعالی کو تمثیل کے طور پر دل سے مشابہت ہے جس میں مصفا خون کا ذخیرہ جمع رہتا ہے اور انسان کامل کا استغفار ان شرائین اور عروق کی مانند ہے جو دل کے ساتھ پیوستہ ہیں اور خون صافی اس میں سے کھینچتی ہیں اور تمام اعضاء پر تقسیم کرتے ہیں جو خون کی محتاج ہیں.ریویو آف ریلیجنز جلد 1 نمبر 5 صفحہ 193-187)
883 استغفار کے معانی ثُمَّ أَقِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.(البقره:200) استغفار جسکے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے.ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو جو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خدا تعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہو کر اس سے مدد چاہنا.یہ استغفار تو مقتربوں کا ہے.جو ایک طرفہ العین خدا سے علیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے.اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے تا پاک نشو و نما پا کر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیا.کیونکہ غفر جس سے استغفار نکلا ہے ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں.گویا استغفار سے یہ مطلب ہے کہ خدا اس شخص کے گناہ جو اسکی محبت میں اپنے تئیں قائم کرتا ہے دبائے رکھے.اور بشریت کی جڑیں تنگی نہ ہونے دے.بلکہ الوہیت کی چادر میں لیکر اپنی قدوسیت میں سے حصہ دے.یا اگر کوئی جز گناہ کے ظہور سے تنگی ہوگئی ہو پھر اسکو ڈھانک دے.اور اسکی برہنگی کے بداثر سے بچائے.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.رخ جلد 12 صفحہ 347 346) جب انسان کے اندر محبت کا چشمہ جوش مارتا ہے تو وہ محبت طبعا یہ تقاضا کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو پس محبت کی کثرت کی وجہ سے استغفار کی بھی کثرت ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا سے کامل طور پر پیار کرنے والے ہر دم اور ہر لحظہ استغفار کو اپنا ور در کھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر معصوم کی یہی نشانی ہے کہ وہ سب سے زیادہ استغفار میں مشغول رہے.چشمه مسیحی رخ جلد 20 صفحه 379) الصَّبِرِينَ وَالصَّدِقِينَ وَالْقِنِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَ الْمَسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ.(آل عمران: 18) خدا ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم ہر روز صبح کے وقت استغفار کیا کرو.وہ فرماتا ہے الصَّبِرِينَ وَ الصَّدِقِينَ وَالْقَنِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمَسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ پھر فرماتا ہے.اِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلُ ذَالِكَ مُحْسِنِينَ كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ وَ بِالْأَسْحَارِهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ - ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے.کہ خدائے تعالیٰ ہمیں یہی حکم نہیں کرتا کہ جس وقت تم سے کوئی گناہ سرزد ہو اس وقت استغفار کیا کرو.بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ بغیر گناہوں کے ارتکاب کے بھی ہم استغفار کیا کریں.ریویو جلد 2 بابت جون 1903 صفحہ 243) سایہ بھی ہو جائے ہے اوقات ظلمت میں جدا پر رہا وہ ہر اندھیرے میں رفیق و غمگسار اس قدر نصرت تو کاذب کی نہیں ہوتی کبھی گر نہیں باور نظیر میں اس کی تم لاؤ دو چار پھر اگر ناچار ہو اس سے کہ دو کوئی نظیر اس مہیمن سے ڈرو جو بادشاہ ہر دو وار یہ کہاں سے سن لیا تم نے کہ تم آزاد ہو کچھ نہیں تم پر عقوبت گو کرو عصیاں ہزار نعة إِنَّا ظَلَمْنَا سنت ابرار ہے زہر منہ کی مت دکھاؤ تم نہیں ہونسلِ مار (براہین احمدیہ حصہ پنجم رخ جلد 21 صفحه 135)
884 استغفار سے رو بلا ہوتا ہے مَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (انفال: 34) یہ تمام اقوام کا مذہب ہے کہ صدقہ سے رڈ بلا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے.مَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُون - استغفار عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہے.ہمارے تجربوں کی طرف کوئی جائے تو ایک منذ را مر صبح کو ہو تو شام کو منسوخ ہو جاتا ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 212) تمام انبیاء کرام کا اجماعی مسئلہ ہے کہ صدقہ و استغفار سے رڈ بلا ہوتا ہے.بلا کیا چیز ہے یعنی وہ تکلیف دہ امر جو خدا کے ارادہ میں مقدر ہو چکا ہے.اب اس بلا کی اطلاع جب کوئی نبی دے تو وہ پیشگوئی بن جاتی ہے.مگر اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے.وہ تضرع کرنے والوں پر اپنی رحمت سے رجوع کرتا ہے.اس لیے ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ وعید کی پیشگوئیاں اٹیل ہیں.بلکہ وہ ٹل جاتی ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 630) جو لوگ قبل از نزول بلا دعا کرتے ہیں اور استغفار کرتے اور صدقات دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے اور عذاب الہی سے ان کو بچالیتا ہے.میری ان باتوں کو قصہ کے طور پر نہ سنو میں نصح اللہ کہتا ہوں اپنے حالات پر غور کرو.اور آپ بھی اور اپنے دوستوں کو بھی دعا میں لگ جانے کے لئے کہو.استغفار عذاب الہی اور مصائب شدیدہ کے لئے سپر کا کام دیتا ہے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُون اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذاب الہی سے تم محفوظ رہو تو استغفار کثرت سے پڑھو.(ملفوظات جلد اول صفحہ 134) فَاعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرُ لِذَنْبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَتِ وَاللهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوِيكُمْ.(محمد: 20) وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ ذَنُب کے معنی (الف) عیسائی بیان کرتے ہیں کہ قرآن شریف انبیاء کو ایسا ہی گنہ گار ٹھہراتا ہے جیسا کہ معمولی آدمیوں کو.یہ صریحاً غلط ہے.اگر ایسی بات ہے تو قران شریف ایسے الفاظ کو مثلاً جرم فسق، جناح، اثم وغیرہ انبیاء کے متعلق کیوں استعمال نہیں کرتا حالانکہ ایسے الفاظ اکثر دوسرے لوگوں کی نسبت استعمال ہوئے ہیں.اگر قرآن شریف ان کو ایسا ہی گنہ گار سمجھتا ہے جیسا کہ دوسرے آدمیوں کو تو کیوں وہ ان کے متعلق ویسے الفاظ استعمال کرنے سے پر ہیز کرتا ہے جو دوسرے گنہ گاروں کے متعلق اکثر استعمال کرتا ہے.لفظ فسق جرم اثم جناح وغيره قرآن میں قریباً دو سو دفعہ آئے ہیں لیکن باوجود ان کی اس قدر کثرت استعمال کے کسی نبی کی نسبت وہ ایک دفعہ بھی استعمال نہیں کئے گئے.اگر لفظ ذنب اور جرم وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ قرآن شریف نے انبیاء کے لئے صرف ذنب کا لفظ چن لیا ہے اور ہمیشہ جرم وغیرہ الفاظ کے استعمال سے پر ہیز کی ہے.قرآن شریف میں جرم فستق ائم وغیرہ کی نسبت ذنب کا استعمال بہت کم ہے لیکن باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف دوسرے لفظوں کو چھوڑ کر انبیاء کی نسبت صرف ذنب کا لفظ استعمال کرتا ہے.قرآن شریف نے صریحاً انبیاء کے متعلق جرم اور ذنب کے لفظ کے استعمال میں تمیز رکھی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کبھی انبیاء کی نسبت ذنب کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو وہ جرم وغیرہ کا مترادف نہیں ہوتا.( تفسیر حضرت اقدس جلد 7 صفحه 337 ) ( ریویو آف ریلیجنز جلد 2 نمبر 6 صفحه 240)
885 وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (البقره: 200) استغفار کے معنی یہ ہیں کہ خدا سے اپنے گذشتہ جرائم اور معاصی کی سزا سے حفاظت چاہنا.اور آئیندہ گناہوں کے سرزد ہونے سے حفاظت مانگنا.استغفار انبیاء بھی کیا کرتے ہیں اور عوام بھی.بعض نادان پادریوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار پر اعتراض کیا ہے اور لکھا ہے ان کے استغفار کرنے سے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گناہ کا ہونا ثابت ہوتا ہے.یہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ استغفار تو ایک اعلیٰ صفت ہے.انسان فطرتاً ایسا بنا ہے کہ کمزوری اور ضعف اس کا فطری تقاضا ہے.انبیاء اس فطرتی کمزوری اور ضعف بشریت سے خوب واقف ہوتے ہیں.لہذا وہ دعا کرتے ہیں کہ یا الہی تو ہماری ایسی حفاظت کر کہ وہ بشری کمزوریاں ظہور پذیر ہی نہ ہوں.غفر کہتے ہیں ڈھکنے کو.اصل بات یہی ہے کہ جو طاقت خدا کو ہے وہ نہ کسی نبی کو ہے نہ ولی کو اور نہ رسول کو.کوئی دعوی نہیں کر سکتا کہ میں اپنی طاقت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں.پس انبیاء بھی حفاظت کے واسطے خدا کے محتاج ہیں پس اظہار عبودیت کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور انبیاء کی طرح '1.......اپنی حفاظت خدا سے مانگا کرتے تھے.استغفار ایک عربی لفظ ہے.اس کے معنے ہیں.طلب مغفرت کرنا.کہ یا الہی ہم سے پہلے جو گناہ سرزد ہو چکے ہیں.ان کے بدنتائج سے ہمیں بچا کیونکہ گناہ ایک زہر ہے.اور اسکا اثر بھی لازمی ہے.اور آئیندہ ایسی حفاظت کر کہ گناہ ہم سے سرزد ہی نہ ہوں.صرف زبانی تکرار سے مطلب حاصل نہیں ہوتا...پس چاہئے کہ تو بہ استغفار منتر جنتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ ان کے مفہوم اور معانی کو مدنظر رکھ کر تڑپ اور کچی پیاس سے خدا کے حضور دعائیں کرو.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 607608) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا.(النصر: 4) یہ سورۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب زمانہ وفات میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ زور دیکر اپنی نصرت اور تائید اور تکمیل مقاصد دین کی خبر دیتا ہے کہ اب تو اے نبی خدا کی تسبیح کر اور تمجید کر اور خدا سے مغفرت چاہ.وہ تو اب ہے.اس موقع پر مغفرت کا ذکر کرنا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب کام تبلیغ ختم ہو گیا.خدا سے دعا کر کہ اگر خدمت تبلیغ کے دقائق میں کوئی فرو گذاشت ہوئی ہو تو خدا اس کو بخش دے.موسیٰ بھی تو ریت میں اپنے قصوروں کو یاد کر کے روتا ہے اور جس کو عیسائیوں نے خدا بنا رکھا ہے کسی نے اس کو کہا کہ اے نیک استاد.تو اس نے جواب دیا کہ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے نیک کوئی نہیں مگر خدا.یہی تمام اولیاء کا شعار رہا ہے.سب نے استغفار کو اپنا شعار قرار دیا ہے بجز شیطان کے.(براہین احمدیہ - ر- خ جلد 21 صفحہ 271)
886 حقیقی تو به اور استغفار حقیقی تو بہ انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنادیتی ہے اور اس سے پاکیزگی اور طہارت کی توفیق ملتی ہے.جیسے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرة: 223) یعنی اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور نیز ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گناہوں کی کشش سے پاک ہونے والے ہیں.تو بہ حقیقت میں ایک ایسی شے ہے کہ جب وہ اپنے حقیقی لوازمات کے ساتھ کی جاوے تو اس کے ساتھ ہی انسان کے اندر ایک پاکیزگی کا یج بویا جاتا ہے جو اس کو نیکیوں کا وارث بنا دیتا ہے.یہی باعث ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ گناہوں سے تو بہ کرنے والا ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ نہیں کیا.یعنی تو بہ سے پہلے کے گناہ اس کے معاف ہو جاتے ہیں.اس وقت سے پہلے جو کچھ بھی اس کے حالات تھے.اور جو بے جا حرکات اور بے اعتدالیاں اس کے چال چلن میں پائی جاتی تھیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو معاف کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک عہد صلح باندھا جاتا ہے اور نیا حساب شروع ہوتا ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 432) خوب یاد رکھو کہ لفظوں سے کچھ کام نہیں بنے گا اپنی زبان میں بھی استغفار ہو سکتا ہے کہ خدا پچھلے گناہوں کو معاف کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق دے اور یہی حقیقی استغفار ہے کچھ ضرورت نہیں کہ یونہی استغفر الله استغفر اللہ کہتا پھرے اور دل کو خبر تک نہ ہو.یادرکھو کہ خدا تک وہی بات پہنچتی ہے جو دل سے نکلتی ہے.اپنی زبان میں ہی خدا سے بہت دعائیں مانگنی چاہئیں.اس سے دل پر بھی اثر ہوتا ہے.زبان تو صرف دل کی شہادت دیتی ہے اگر دل میں جوش پیدا ہو اور زبان بھی ساتھ مل جائے تو اچھی بات ہے بغیر دل کے صرف زبانی دعا ئیں عبث ہیں ہاں دل کی دعائیں اصلی دعائیں ہوتی ہیں.جب قبل از وقت بلا انسان اپنے دل ہی دل میں خدا سے دعائیں مانگتارہتا ہے اور استغفار کرتا رہتا ہے.تو پھر خداوند رحیم و کریم ہے وہ بلا ٹل جاتی ہے لیکن جب بلا نازل ہو جاتی ہے پھر نہیں ٹلا کرتی.بلا کے نازل ہونے سے پہلے دعائیں کرتے رہنا چاہئے اور بہت استغفار کرنا چاہئے اس طرح سے خدا بلا کے وقت محفوظ رکھتا ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 282)
887 استغفار اور توبہ کا فلسفہ فَاقِمُ وَجُهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ * ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ.(الروم: 31) سو اس طور کی طبیعتیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں جن کا وجود روزمرہ کے مشاہدات سے ثابت ہوتا ہے.اس کے نفس کا شورش اور اشتعال جو فطرتی ہے کم نہیں ہو سکتا.کیونکہ جو خدا نے لگا دیا اس کو کون دور کرے.ہاں خدا نے ان کا ایک علاج بھی رکھا ہے.وہ کیا ہے؟ تو بہ واستغفار اور ندامت پھینے جب کہ برافعل جو ان کے نفس کا تقاضا ہے ان سے صادر ہو.یا حسب خاصہ فطرتی کوئی برا خیال دل میں آوے.تو اگر وہ تو بہ اور استغفار سے اس کا تدارک چاہیں تو خدا اس گناہ کو معاف کر دیتا ہے.جب وہ بار بار ٹھو کر کھانے سے بار بار نادم اور تائب ہوں تو وہ ندامت اور تو بہ اس آلودگی کو دھو ڈالتی ہے.یہی حقیقی کفارہ ہے جو اس فطرتی گناہ کا علاج ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے.ومـن يـعـمــل سـوء او يظلم نفسه ثم يستغفر الله يـجـدالله غفورا رحيما.(النساء: 111) الجز نمبر.یعنے جس سے کوئی بدعملی ہو جائے یا اپنے نفس پر کسی نوع کا ظلم کرے اور پھر پشیمان ہو کر خدا سے معافی چاہے تو وہ خدا کو غفور و رحیم پائے گا.اس لطیف اور پر حکمت عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے لغزش اور گناہ نفوس ناقصہ کا خاصہ ہے جو ان سے سرزد ہوتا ہے.اس کے مقابلہ پر خدا کا ازلی اور ابدی خاصہ مغفرت و رحم ہے.اور اپنی ذات میں وہ غفور و رحیم ہے اتنے اس کی مغفرت سرسری اور اتفاقی نہیں.بلکہ وہ اس کی ذات قدیم کی صفت قدیم ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے اور جو ہر قابل پر اس کا فیضان چاہتا ہے.اپنے جب کبھی کوئی بشر بر وقت صدور لغزش و گناه به ندامت و تو به خدا کی طرف رجوع کرے تو وہ خدا کے نزدیک اس قابل ہو جاتا ہے کہ رحمت اور مغفرت کے ساتھ خدا اس کی طرف رجوع کرے.اور یہ رجوع الہی بندہ نادم تائب کی طرف ایک یا دو مرتبہ میں محدود نہیں بلکہ یہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں خاصہ دائمی ہے اور جب تک کوئی گنہ گار تو بہ کی حالت میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے.وہ خاصہ اس کا ضرور اس پر ظاہر ہوتا رہتا ہے.پس خدا کا قانون قدرت یہ نہیں ہے کہ جو ٹھو کر کھانے والی طبیعتیں ہیں وہ ٹھوکر نہ کھاویں.یا جو لوگ قومی بہیمیہ یا غضبیہ کے مغلوب ہیں ان کی فطرت بدل جاوے.بلکہ اس کا قانون جو قدیم سے بندھا چلا آتا ہے یہی ہے کہ ناقص لوگ جو بمقتضائے اپنے ذاتی نقصان کے گناہ کریں وہ تو بہ اور استغفار کر کے بخشے جائیں.لیکن جو شخص بعض قوتوں میں فطرتا ضعیف ہیں وہ قوی نہیں ہوسکتا.اس میں تبدیل پیدائش لازم آتی ہے اور وہ بداہتا محال ہے اور خود مشہور و محسوس ہے.(براہین احمدیہ رخ جلد 1 صفحہ 187 186 حاشیہ)
888 دسویں فصل صحبت صالحین يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ.(التوبه: 119) شریعت کی کتابیں حقائق اور معارف کا ذخیرہ ہوتی ہیں لیکن حقائق اور معارف پر کبھی پوری اطلاع نہیں مل سکتی جب تک صادق کی صحبت اخلاص اور صدق سے اختیار نہ کی جاوے اسی لیے قرآن شریف فرماتا ہے یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِینَ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور ارتقاء کے مدارج کامل طور پر کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جب تک صادق کی معیت اور صحبت نہ ہو کیونکہ اس کی صحبت میں رہ کر وہ اس کے انفاس طیبہ عقد ہمت اور توجہ سے فائدہ اٹھاتا ہے.حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لیے تیسرا پہلو جو قرآن سے ثابت ہے وہ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 163 ) صحبت صادقین ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے گونُوا مَعَ الصَّدِقِینَ یعنی صادقوں کے ساتھ رہو.صادقوں کی صحبت میں ایک خاص اثر ہوتا ہے ان کا نور صدق و استقلال دوسروں پر اثر ڈالتا ہے اور ان کی کمزوریوں کو دور کرنے میں مدددیتا ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 208) صادقوں اور راست بازوں کے پاس رہنے والا بھی ان میں ہی شریک ہوتا ہے.اس لیے کس قدر ضرورت ہے اس امر کی کہ انسان کے گونُوا مَعَ الصَّدِقِین کے پاک ارشاد پر عمل کرے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کودنیامیں بھیجتا ہے.وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو اللہ تعالے ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک مجلس دیکھی ہے جس میں تیرا ذ کر کر رہے تھے مگر ایک شخص ان میں سے نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں وہ بھی ان میں ہی سے ہے کیونکہ اِنَّهُمُ قَوْمٌ لَّا يَشْقَى جَلِيْسُهُمُ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں کی صحبت سے کس قدر فائدے ہیں.سخت بدنصیب ہے وہ شخص جو صحبت سے دور ہے.غرض نفس مطمئنہ کی تاثیروں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اطمینان یافتہ لوگوں کی صحبت میں اطمینان پاتے ہیں.امارہ والے میں نفس امارہ کی تاثیریں ہوتی ہیں اور لوامہ والے میں تو امہ کی تاثیر یں ہوتی ہیں.اور جو شخص نفس مطمئنہ والے کی صحبت میں بیٹھتا ہے اس پر بھی اطمینان اور سکینت کے آثار ہونے لگتے ہیں اور اندر ہی اندر اسے تسلی ملنے لگتی ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 507)
889 اگر خدا سے ملنا چاہتے ہو تو دعا بھی کرو اور کوشش بھی کرو اور صادقوں کی صحبت میں بھی رہو.کیوں کہ اس راہ میں صحبت بھی شرط ہے.لیکچر لاہور.ر.خ.جلد 20 صفحہ 160-159) دل کی پاکیزگی کا حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ حاصل نہیں ہو سکتی جب تک منہاج نبوت پر آئے ہوئے پاک انسان کی صحبت میں نہ بیٹھے.اس کی صحبت کی توفیق نہیں مل سکتی.اولا انسان یہ یقین نہ کرے کہ وہ ایک مرنے والی ہستی ہے.یہی ایک بات ہے جو اس کو صادق کی صحبت کی توفیق عطا فرماوے.حدیث شریف میں آیا ہے.کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کے لیے نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک واعظ پیدا کر دیتا ہے.سب سے بڑھکر واعظ یہ ہے کہ وہ كُونُوا مَعَ الصَّدِقِین کی حقیقت کو سمجھ لے.صحابہ کرام کی حالت کو دیکھو کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا.جو کچھ انہوں نے کیا اسی طرح پر ہماری جماعت کو لازم ہے کہ وہی رنگ اپنے اندر پیدا کریں.بدوں اس کے کہ وہ اس اصلی مطلب کو جس کے لیے میں بھیجا گیا ہوں، پا نہیں سکتے کیا ہماری جماعت کو زیادہ حاجتیں اور ضرورتیں لگی ہوئی ہیں جو صحابہ کو نہ تھیں.کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے اور آپ کی ( ملفوظات جلد اول صفحه 405) باتیں سننے کے واسطے کیسے حریص تھے.مرد به بی خردی نزد ما بیاد نشیں کہ ظل اہل صفا موجب شفا باشد بے وقوفی سے چلا نہ جا بلکہ ہمارے پاس آکر بیٹھ کہ اہل اللہ کا سایہ شفا کا موجب ہوا کرتا ہے.مقیم حلقہ ابرار باش روزے چند مگر عنایت قادر گرہ کشا باشد کچھ دن نیکیوں کے حلقہ میں آکر بسر کر شاید اس قادر کی مہربانی تیری گرہ کو کھول دے.زہے مجتہ زمانے کہ سوئے ما آئی زہے نصیب تو گر شوق و التجا باشد وہ کیسا اچھا زمانہ ہو گا جب تو ہماری طرف آئے گا زہے قسمت اگر تجھے شوق اور آرزو پیدا ہو جائے.( در مشین فارسی صفحہ 278 ) ( تریاق القلوب.ر.خ.جلد 15 صفحہ 137)
890 مرید اور مرشد کا تعلق وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا.(طه: 115) مرشد اور مرید کے تعلقات استاد اور شاگرد کی مثال سے سمجھ لینے چاہیں جیسے شاگرد استاد سے فائدہ اٹھاتا ہے اسی طرح مرید اپنے مرشد سے لیکن شاگرداگر استاد سے تعلق تو رکھے مگر اپنی تعلیم میں قدم آگے نہ بڑھائے تو فائدہ نہیں اٹھا سکتا یہی حال مرید کا ہے.پس اس سلسلہ میں تعلق پیدا کر کے اپنی معرفت اور علم کو بڑھانا چاہیئے طالب حق کو ایک مقام پر پہنچ کر ہر گز ٹھہر نانہیں چاہئے ورنہ شیطان لعین اور طرف لگا دے گا اور جیسے بند پانی میں عفونت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح اگر مومن اپنی ترقیات کے لئے سعی نہ کرے تو وہ گر جاتا ہے.پس سعادت مند کا فرض ہے کہ وہ طلب دین میں لگا رہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان کامل دنیا میں نہیں گزرا لیکن آپ کو بھی رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه : 115) کی دعا کی تعلیم ہوئی تھی پھر اور کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کر کے ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے.جوں جوں انسان اپنے علم اور معرفت میں ترقی کرے گا اسے معلوم ہوتا جاوے گا کہ ابھی بہت سی باتیں حل طلب باقی ہیں.بعض امور کو وہ ابتدائی نگاہ میں اس بچے کی طرح جو اقلیدس کے اشکال کو محض بیہودہ سمجھتا ہے ) بالکل بیہودہ سمجھتے تھے لیکن آخروہی امور صداقت کی صورت میں ان کو نظر آئے اس لئے کس قدر ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کو بدلنے کے ساتھ علم کو بڑھانے کے لئے ہر بات کی تکمیل کی جاوے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 142-141) پس اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت میں اسے ذوق شوق پیدا ہو تو اس کو اللہ تعالیٰ کی نسبت صحیح علم حاصل کرنا چاہیئے اور یہ علم بھی حاصل نہیں ہوتا جب تک انسان صادق کی صحبت میں نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کی تازہ بتازہ تجلیات کا ظہور مشاہدہ نہ کرے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 311)
گیارہویں فصل 891 تقوى إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ.(النحل : 129) اللہ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت میں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں.تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پر ہیز کرنے کو.اور محسنون وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پر ہیز کریں بلکہ نیکی بھی کریں.اور پھر یہ بھی فرمایا لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى (يونس: 27) یعنی ان نیکیوں کو بھی سنوار سنوار کر کرتے ہیں.مجھے یہ وحی بار بار ہوئی إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمُ مُحْسِنُونَ اور اتنی مرتبہ ہوئی ہے کہ میں گن نہیں سکتا.خدا جانے دو ہزار مرتبہ ہوئی ہو اس سے غرض یہی ہے کہ تا جماعت کو معلوم ہو جاوے کہ صرف اس بات پر ہی فریفتہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں یا صرف خشک خیالی ایمان سے راضی ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب سچی تقوی ہو اور پھر نیکی ساتھ ہو.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 653-652) تقویٰ کیا ہے؟ ہر قسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابرار کے لئے پہلا انعام شربت کا فوری ہے.اس شربت کے پینے سے دل بُرے کاموں سے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اس کے بعد ان کے دلوں میں برائیوں اور بدیوں کے لئے تحریک اور جوش پیدا نہیں ہوتا.ایک شخص کے دل میں یہ خیال تو آ جاتا ہے کہ یہ کام اچھا نہیں یہانتک کہ چور کے دل میں بھی یہ خیال آ ہی جاتا ہے مگر جذبہ دل سے وہ چوری بھی کر ہی لیتا ہے لیکن جن لوگوں کو شربت کا فوری پلا دیا جاتا ہے ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ ان کے دل میں بدی کی تحریک ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ دل بُرے کاموں سے بیزار اور تنفر ہوجاتا ہے.گناہ کی تمام تحریکوں کے مواد دبا دیئے جاتے ہیں.یہ بات خدا کے فضل کے سوا میسر نہیں آتی.جب انسان دعا اور عقد ہمت سے خدا تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرتا ہے اور اپنے نفس کو جذبات پر غالب آنے کی سعی کرتا ہے تو پھر یہ سب باتیں فضل الہی کو کھینچ لیتی ہیں اور اسے کا فوری جام پلایا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائده: 28) بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں ہی کی عبادات کو قبول فرماتا ہے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ نماز روزہ بھی متقیوں ہی کا قبول ہوتا ہے پس پہلی منزل اور مشکل اس انسان کے لئے جو مومن بنا چاہتا ہے یہی ہے کہ بُرے کاموں سے پر ہیز کرے.اسی کا نام تقویٰ ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 656-655) حصول تقوی قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ.(المائده : 28) تقومی کے مدارج اور مراتب بہت ہیں.لیکن اگر طالب صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پالیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِين.(المائده : 28) گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے.یہ گویا اس کا وعدہ ہے.اور اس کے وعدوں میں تخلف نہیں ہوتا جیسے کہ فرمایا ہے إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (الرعد : 32) رپورٹ جلسہ سالانہ صفحہ 133 )
892 وَ مَنْ يَّتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلُ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 3-4) تقومی اس بات کا نام ہے کہ جب وہ دیکھے کہ میں گناہ میں پڑتا ہوں تو دعا اور تدبیر سے کام لیوے در نہ نادان ہوگا.خدا تعالیٰ فرماتا وَ مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِب (الطلاق:3-4) که جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ ہر ایک مشکل اور تنگی سے نجات کی راہ اس کے لئے پیدا کر دیتا ہے.متقی درحقیقت وہ ہے کہ جہاں تک اس کی قدرت اور طاقت ہے وہ تدبیر اور تجویز سے کام لیتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 486) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ ط سَيّاتِكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ * وَ اللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ.(الانفال: 30) اے ایمان لانے والا اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا.وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا.جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آ جائے گا.تمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ایک انکل کی بات میں بھی نور ہوگا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہوگا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہوگا اور جن را ہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قومی کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے.(آئینہ کمالات اسلام - رسخ جلد 5 صفحہ 178-177) وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعُ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي ط بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ.(حم السجده:35) تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں.عجب خود پسندی.مال حرام سے پر ہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ادْفَعُ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَن.اب خیال فرمائیے یہ ہدایت کیا تعلیم دیتی ہے اس ہدایت میں اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اگر مخالف گالی دے تو اس کو جواب گالی سے نہ دو بلکہ صبر کرو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تمہاری فضیلت کا قائل ہو کر خود ہی نادم اور شرمندہ ہو گا اور یہ سزا اس سزا سے کہیں بڑھ کر ہوگی جو انتظامی طور پر تم اس کو دے سکتے ہو یوں تو ایک ذرا سا آدمی اقدام قتل تک نوبت پہنچا سکتا ہے لیکن انسانیت کا تقاضا اور تقویٰ کا منشاء یہ نہیں.خوش اخلاقی ایک ایسا جو ہر ہے کہ موذی سے موذی انسان پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے.کیا اچھا کہا ہے کہ.لطف کن لطف که بیگانه شود حلقه بگوش ( ملفوظات جلد اول صفحه 51-50)
893 متقی کو سب نعمتیں مل جاتی ہیں وَ مَنْ يَّتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:3-4) ہم ایسے مہوسوں کو ایک کیمیا کا نسخہ بتلاتے ہیں بشرطیکہ وہ اس پر عمل کریں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَنُ يَّتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِب پس تقویٰ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے یہ حاصل ہو اسے گویا تمام جہاں کی نعمتیں حاصل ہو گئیں.یادر کو متقی کبھی کسی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ وہ اس مقام پر ہوتا ہے کہ جو چاہتا ہے خدا تعالیٰ اس کیسے لئے اس کے مانگنے سے پہلے مہیا کر دیتا ہے.میں نے ایک دفعہ کشف میں اللہ تعالیٰ کو تمثل کے طور پر دیکھا.میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر فرمایا.جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو یہ وہ نسخہ ہے جو تمام انبیاء واولیاء وصلحاء کا آزمایا ہوا ہے.ہمیں اس یار سے تقویٰ عطا ہے (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 201) ہم سے کہ احسانِ خدا ہے کرو کوشش اگر صدق و صفا ہے حاصل ہو جو شرط لقا ہے یہی آئینہ خالق نما ہے یہی اک جوہر سیف دعا ہے ہر اک نیکی کی جڑ اتقا اگر جڑ رہی سب نہ کچھ رہا ہے یہی اک فیر شان اولیاء ہے بجز تقومی زیادت ان میں کیا ہے ہے اگر سوچو یہی دار الجزاء ہے ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا مجھے تقویٰ سے اس نے جزا دی فسبحان الذى اخزى الاعادي وہ ہے جس کا کام تقویٰ عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک سنو ! ہے حاصل اسلام تقویٰ خدا کا عشق مے اور جام بناؤ تام تقویٰ کہاں ایماں مسلمانو کرا تقوی ہے خام تقویٰ یہ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی فسبحان الذى اخزى الاعادي ( در مشین اردو)
894 بارہویں فصل خدا کے لئے جینا اور مرنا کیفیات سالکین قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.(الانعام: 163) کہہ میری نماز میری قربانی اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لیے ہے اور جب انسان کی محبت خدا کے ساتھ اس درجہ تک پہنچ جائے کہ اس کا مرنا اور جینا اپنے لیے نہیں بلکہ خدا ہی کے لیے ہو جائے تب خدا جو ہمیشہ سے پیار کرنے والوں کے ساتھ پیار کرتا آیا ہے اپنی محبت کو اس پر اتارتا ہے اور ان دونوں محبتوں کے ملنے سے انسان کے اندر ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو دنیا نہیں پہچانتی اور نہ سمجھ سکتی ہے اور ہزاروں صدیقوں اور برگزیدوں کا اسی لیے خون ہوا کہ دنیا نے ان کو نہیں پہچانا.وہ اسی لیے مکار اور خود غرض کہلائے کہ دنیا ان کے نوارانی چہرہ کو دیکھ نہ سکی.اسلامی اصول کی فلاسفی - ر - خ - جلد 10 صفحہ 384 ) فَكِهِينَ بِمَا الهُمْ رَبُّهُمْ وَوَقهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ.(الطور:19) وَوَقَهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ.خدا ان کو جہنم کے آگ سے بچائے گا.اس میں بھید یہ ہے کہ مومن متقی کا مرنا چارپایوں اور مویشیوں کی طرح نہیں ہوتا بلکہ مومن خدا کے لئے ہی جیتے ہیں اور خدا کے لئے مرتے ہیں اسلئے جو چیزیں وہ خدا کے لئے کھوتے ہیں وہ ان کو واپس دی جاتی ہیں جیسا کہ امام المؤمنین سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں جلشانہ نے فرمایا.قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: 163) یعنی کہہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے.(ست بچن...خ.جلد 10 صفحہ 229) وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَيَشْفِينِ.(الشعرا : 81) اصل میں انسان جوں جوں اپنے ایمان کو کامل کرتا ہے اور یقین میں پکا ہوتا جاتا ہے توں توں اللہ تعالیٰ اس کے واسطے خود علاج کرتا ہے اس کو ضرورت نہیں رہتی کہ دوائیں تلاش کرتا پھرے وہ خدا کی دوائیں کھاتا ہے اور خدا خود اس کا علاج کرتا ہے.بھلا کوئی دعویٰ سے کہہ سکتا ہے کہ فلاں دوا سے فلاں مریض ضرور ہی شفا پا جاوے گا ہرگز نہیں بلکہ بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ دوا الٹا ہلاکت کا موجب ہو جاتی ہے.بعض وقت تشخیص میں غلطی میں غلطی ہوتی ہے بعض وقت دواؤں کے اجزاء میں غلطی ہو جاتی ہے.غرض حتمی علاج نہیں ہوسکتا.ہاں خدا تعالیٰ جو علاج
895 فرماتا ہے وہ حتمی ہوتا ہے اس سے نقصان نہیں ہوتا مگر یہ بات ذرا مشکل ہے کامل ایمان کو چاہتی ہے اور یقین کے پہاڑ سے پیدا ہوتی ہے.ایسے لوگوں کا اللہ تعالیٰ خود معالج ہوتا ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ دانت میں سخت دردتھا میں نے کسی سے دریافت کیا کہ اس کا کیا علاج ہے.اس نے کہا کہ موٹا علاج مشہور ہے علاج دنداں اخراج دنداں.اس کا یہ فقرہ میرے دل پر بہت گراں گزرا کیونکہ دانت بھی ایک نعمت الہی ہے اسے نکال دینا ایک نعمت سے محروم ہونا ہے.اسی فکر میں تھا کہ غنودگی آئی اور زبان پر جاری ہوا وَ إِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ اس کے ساتھ معاور دھہر گیا اور پھر نہیں ہوا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 539-540) فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَزُنًا.(الكهف: 106) مومن آدمی کا سب ہم وغم خدا کے واسطے ہوتا ہے دنیا کے لئے نہیں ہوتا اور وہ دنیاوی کاموں کو کچھ خوشی سے نہیں کرتا بلکہ اداس سا رہتا ہے اور یہی نجات حیات کا طریق ہے اور وہ جو دنیا کے پھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے ہم وشم سب دنیا کے ہی لئے ہوتے ہیں ان کی نسبت تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا نُقِيمُ لَهُمُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَزُنا ہم قیامت کو ان کا ذرہ بھر بھی قدر نہیں کریں گے.مومن میں آثار عبودیت ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 306) يْمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ.(الفتح: 30) جو لوگ خدائے تعالیٰ کے نزدیک فی الحقیقت مومن ہیں اور جن کو خدائے تعالیٰ نے خاص اپنے لئے چن لیا ہے اور اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہے اور اپنے برگزیدہ گروہ میں جگہ دے دی ہے اور جن کے حق میں فرمایا ہے سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمُ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ان میں آثار سجود اور عبودیت کے ضرور پائے جانے چاہئیں کیونکہ خدائے تعالیٰ کے وعدوں میں خلا اور تخلف نہیں.(آسمانی فیصلہ - ر- خ- جلد 4 صفحہ 322-321) مومن کلمۃ اللہ ہوتا ہے إِنَّمَا أَمْرُةٌ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ.(يس:83) روح کی لذت اس وقت ملتی ہے جب انسان گداز ہو کر پانی کی طرح بہنا شروع ہوتا ہے اور خوف وخشیت سے بہہ نکلتا ہے.اس مقام پر وہ کلمہ بنتا ہے اور اِنَّمَا امْرُةٌ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنُ فَيَكُونُ کا مفہوم اس میں کام کرنے لگتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 271-270)
896 مومن میں تکلف نہیں آتا قُلْ مَا اسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ.(ص:87) اولیاء اللہ کی بھی ایسی ہی حالت ہوتی ہے کہ ان میں تکلفات نہیں ہوتے.وہ بہت ہی سادہ اور صاف دل لوگ ہوتے ہیں.ان کے لباس اور دوسرے امور میں کسی قسم کی بناوٹ اور تصنع نہیں ہوتا مگر اس وقت اگر پیرزادوں اور مشائخوں کو دیکھا جاوے تو ان میں بڑے بڑے تکلفات پائے جاتے ہیں ان کا کوئی قول اور فعل ایسا نہ پاؤ گے جو تکلف سے خالی ہوگو یا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ امت محمدیہ ہی میں سے نہیں ہیں ان کی کوئی اور ہی شریعت ہے ان کی پوشاک دیکھو تو اس میں خاص قسم کا تکلف ہوگا یہاں تک کہ لوگوں سے ملنے جلنے اور کلام میں بھی ایک تکلف ہوتا ہے.ان کی خاموشی محض تکلف سے ہوتی ہے گویا ہر قسم کی تاثیرات کو وہ تکلف ہی سے وابستہ سمجھتے ہیں برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان ہے وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ اور ایسا ہی دوسرے تمام انبیاء ورسل جو وقتا فوقتا آئے وہ نہایت سادگی سے کلام کرتے اور اپنی زندگی بسر کرتے تھے.ان کے قول و فعل میں کوئی تکلف اور بناوٹ نہ ہوتی تھی مگر ان کے چلنے پھرنے اور بولنے میں تکلف ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اپنی شریعت جدا ہے جو اسلام سے الگ اور مخالف ہے.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 417) مقامات مقربین الہی وَ مَنْ يُطِعِ الله وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ الْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَ الصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (النساء: 70 ) ہم نماز میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اس سے یہی مطلب ہے کہ خدا سے ہم اپنے ترقی ایمان اور بنی نوع کی بھلائی کے لیے چار قسم کے نشان چار کمال کے رنگ میں چاہتے ہیں.نبیوں کا کمال صدیقوں کا کمال.شہیدوں کا کمال صلحاء کا کمال.سو نبی کا خاص کمال یہ ہے کہ خدا سے ایسا علم غیب پاوے جو بطور نشان کے ہو.اور صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے یعنی ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کو معلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کے صورت پر ہوں اور اس صدیق کے صدق پر گواہی دیں.اور شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں
897 ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے اور مرد صالح کا کمال یہ ہے کہ ایسا ہر ایک قسم کے فساد سے دور ہو جائے.اور مجسم صلاح بن جائے کہ وہ کامل صلاحیت اس کی خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان مانی جائے.سو یہ چاروں قسم کے کمال جو ہم پانچ وقت خدا تعالیٰ سے نماز میں مانگتے ہیں یہ دوسرے لفظوں میں ہم خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان طلب کرتے ہیں اور جس میں یہ طلب نہیں اس میں ایمان بھی نہیں.ہماری نماز کی حقیقت یہی طلب ہے جو ہم چار نگوں میں پنج وقت خدا تعالیٰ سے چار نشان مانگتے ہیں اور اس طرح پر زمین پر خدا تعالیٰ کی تقدیس چاہتے ہیں تا ہماری زندگی انکار اور شک اور غفلت کی زندگی ہوکر زمین کو پلید نہ کرے اور ہر ایک شخص خدا تعالیٰ کی تقدیس تبھی کر سکتا ہے کہ جب وہ یہ چاروں قسم کے نشان خدا تعالیٰ سے مانگتا رہے.حضرت مسیح نے بھی مختصر لفظوں میں یہی سکھایا تھا.دیکھو متی باب 8 آیت 9.پس تم اسی طرح دعا مانگو کہ اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 182-181) نبوت کیا ہے یہ ایک جوھر خدا داد ہے اگر کسب سے ہوتا تو سب لوگ نبی ہو جاتے ان کی فطرت ہی اس قسم کی نہیں ہوتی کہ وہ ان بے جا سلسلہ کلام میں مبتلا ہوں.وہ نفسی کلام کرتے ہی نہیں دوسرے لوگوں میں تو یہ حال ہوتا ہے کہ وہ ان سلسلوں میں کچھ ایسے مبتلا ہوتے ہیں کہ خدا کا خانہ ہی خالی رہتا ہے لیکن نبی ان دونوں سلسلوں سے الگ ہو کر خدا میں کچھ ایسے گم ہوتے ہیں اور اس کے مخاطبہ مکالمہ میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ ان سلسلوں کے لئے ان کے دل و دماغ میں سمائی اور گنجایش ہی نہیں ہوتی.بلکہ اُن کے دل و دماغ میں صرف خدا ہی کا سلسلہ کلام رہ جاتا ہے چونکہ وہی حصہ باقی ہوتا ہے اس لیے خدا ان سے کلام کرتا ہے اور وہ خدا کو مخاطب کرتے رہتے ہیں تنہائی اور بیکاری میں بھی جب ایسے خیالات کا سلسلہ ایک انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے اس وقت اگر نبی کو بھی ویسی ہی حالت میں دیکھو تو شاید غلطی اور نا واقعی سے سمجھ لو کہ اب اس کا سلسلہ تو خدا سے کلام کا نہ ہو گا ؟ مگر نہیں وہ ہر وقت خدا ہی سے باتیں کرتا ہے کہ اے خدا میں تجھ سے پیار کرتا ہوں اور تیری رضا کا طالب ہوں.مجھ پر ایسا فضل کر کہ میں اس نقطہ اور مقام تک پہنچے جاؤں جو تیری رضا کا مقام ہے.مجھے ایسے اعمال کی توفیق دے جو تیری نظر میں پسندیدہ ہوں دنیا کی آنکھ کھول کہ وہ تجھے پہچانے اور تیرے آستانے پر گرے.یہ اس کے خیالات ہوتے ہیں اور یہ اسکی آرزوئیں اس میں ایسا محو اور فنا ہوتا ہے کہ دوسرا اس کو شناخت نہیں کر سکتا.وہ اس سلسلہ کو ذوق کے ساتھ دراز کرتا ہے اور پھر اسی میں اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کا دل پگھل جاتا ہے اور اس کی روح یہ نکلتی ہے وہ پورے زور اور اطاعت کے ساتھ آستانہ الوہیت پر گرتی اور انتَ رَبِّي اَنتَ ربی کہہ کر پکارتی ہے تب اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم جوش میں آتا ہے اور وہ اس کو مخاطب کرتا اور اپنے کلام سے اس کو جواب دیتا ہے.یہ ایسا لذیذ سلسلہ ہے کہ ہر شخص اس کو سمجھ نہیں سکتا اور یہ لذت ایسی ہے کہ الفاظ اس کو ادا نہیں کر سکتے.پس وہ بار بار مستسقی کی طرح باب ربوبیت ہی کو کھنکھنا تارہتا ہے اور وہاں ہی اپنے لیے راحت و آرام پاتا ہے.وہ دنیا میں ہوتا ہے لیکن دنیا سے الگ ہوتا ہے.وہ دنیا کی کسی چیز کا آرزومند نہیں ہوتا لیکن دنیا اس کی خادم ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کے قدموں پر دنیا کولا ڈالتا ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 240-239)
898 من میزیم بوحی خدائے کہ با من است پیغام اوست چون نفس روح پرورم میں تو اس خدا کی وحی کے سہارے جیتا ہوں جو میرے ساتھ ہے اس کا الہام میرے لیے زندگی بخش سانس کی طرح ہے.من رخت بردام بعمارات یار خویش دیگر خبر مپرس ازین تیره کشورم میں نے تو اپنے دوست کے گھر میں ڈیرہ ڈال دیا ہے پس تو اس اندھیرے جہان کے متعلق مجھ سے کچھ نہ پوچھ.عشقش بتاروپود دل من درون شد است مهرش شداست در ره دیں مہر انورم اس کا عشق میرے دل کے رگ وریشہ میں داخل ہو گیا ہے اور اس کی محبت راہ دین میں میرے لیے چمکتا ہوا سورج بن گئی ہے.راز محبت من و او فاش گرشدے بسیار تن کہ جاں بفشاندے بریں درم اگر میری اور اس کی محبت کا راز ظاہر ہو جاتا.تو بہت سی خلقت میرے دروازہ پر اپنی جانیں قربان کر دیتی.(ازالہ اوہام.ر.خ.جلد 3 صفحہ 183-182 ) ( درشین فارسی متر جم صفحه 163) مقام صدق صدیق وہ ہوتا ہے جس کو سچائیوں کا کامل طور پر علم بھی ہو اور پھر کامل اور طبعی طور پر ان پر قائم بھی ہو.مثلاً اس کو ان معارف کی حقیقت معلوم ہو کہ وحدانیت باری تعالیٰ کیا شے ہے اور اس کی اطاعت کیا شے اور محبت باری عزاسمہ کیا شے اور شرک سے کس مرتبہ اخلاص پر مخلصی حاصل ہوسکتی ہے اور عبودیت کی کیا حقیقت ہے اور اخلاص کی حقیقت کیا اور توبہ کی حقیقت کیا اور صبر اور توکل اور رضا اور محویت اور فنا اور صدق اور وفا اور تواضع اور سخا اور ابتہال اور دعا اور عفو اور حیا اور دیانت اور امانت اور اتقا وغیرہ اخلاق فاضلہ کی کیا کیا حقیقتیں ہیں.پھر ماسوا اس کے ان صفات فاضلہ پر قائم بھی ہو.تریاق القلوب.ر.خ.جلد 15 صفحہ 420) صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے.یعنی جو بالکل راست بازی میں فنا شدہ ہو اور کمال درجہ کا پابند راست بازی اور عاشق صادق ہو.اس وقت وہ صدیق کہلاتا ہے.یہ ایک ایسا مقام ہے جب ایک شخص اس درجہ پر پہنچتا ہے تو وہ ہر قسم صداقتوں اور راست بازیوں کا مجموعہ اور ان کوشش کرنے والا ہو جاتا ہے جس طرح پر آتشی شیشہ سورج کی شعاعوں کو اپنے اوپر جمع کر لیتا ہے اسی طرح پر صدیق کمالات صداقت کا جذب کرنے والا ہوتا ہے.بقول شخصے.زرزر کشد در جہاں گنج گنج جب ایک شی بہت بڑا ذخیرہ پیدا کر لیتی ہے تو اس قسم کی اشیاء کو جذب کرنے کی قوت اس میں پیدا ہو جاتی ہے.ترجمہ: سونا سونےکواورخزانہ خزانے کو کھینچتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 242)
899 اسی طرح پر جب عام طور پر انسان راستی اور راست بازی سے محبت کرتا ہے اور صدق کو اپنا شعار بنالیتا ہے تو و ہی راستی اس عظیم الشان صدق کو کھینچ لاتی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھا دیتی ہے اور وہ صدق مجسم قرآن کریم ہے اور پیکر صدق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کے مامور و مرسل حق اور صدق ہوتے ہیں پس وہ اس صدق تک پہنچ جاتے ہیں تب ان کی آنکھ کھلتی ہے اور ایک خاص بصیرت ملتی ہے جس سے معارف قرآنی کھلنے لگتے ہیں.میں اس بات کے ماننے کے لئے کبھی طیار نہیں ہوں کہ وہ شخص جو صدق سے محبت نہیں رکھتا اور راست بازی کو اپنا شعار نہیں بنا تا وہ قرآن کریم کے معارف کو سمجھ بھی سکے اس واسطے کہ اس کے قلب کو مناسبت ہی نہیں یہ تو صدق کا چشمہ ہے اس سے وہی پی سکتا ہے جس کو صدق سے محبت ہو.(ملفوظات جلد اول 243) ( ملفوظات جلد اول صفحہ 276) صدق کامل اس وقت تک جذب نہیں ہوتا جب تک توبتہ النصوح کے ساتھ صدق کو نہ کھینچے قرآن کریم تمام صداقتوں کا مجموعہ اور صدق تام ہے جب تک خود صادق نہ بنے صدق کے کمال اور مراتب سے کیونکر واقف ہوسکتا ہے.صدیق کے مرتبہ پر قرآن کریم کی معرفت اور اس سے محبت اور اس کے نکات و حقائق پر اطلاع ملتی ہے کیونکہ کذب کذب کو کھینچتا ہے اس لیے کبھی بھی کا ذب قرآنی معارف اور حقائق سے آگاہ نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ فرمایا گیا ہے.(الواقعة : 80) من در حریم قدس چراغ صداقتم دستش محافظ است زہر بادِ صرصرم میں درگاہ قدس میں صداقت کا چراغ ہوں.اسی کا ہاتھ ہر تیز ہوا سے میری حفاظت کرنے والا ہے.ہر دم فلک شہادتِ صدقم ہے دہر زینم کدام غم کہ زمیں گشت منکرم آسمان ہر وقت میری سچائی کی گواہی دیتا ہے پھر مجھے اس بات کا کیا غم کہ اہل زمین مجھے نہیں مانتے.( در شین فارسی مترجم صفحه 167-166 ) (ازالہ اوہام - ر - خ - جلد 3 صفحہ 185) مقام صالحیت صالحین وہ ہوتے ہیں جن کے اندر سے ہر قسم کا فساد جاتا رہے جیسے تندرست آدمی جب ہوتا ہے تو اس کی زبان کا مزہ بھی درست ہوتا ہے پورے اعتدال کی حالت میں تندرست کہلاتا ہے کسی قسم کا فساد اندر نہیں رہتا.اسی طرح پر صالحین کے اندر کسی قسم کی روحانی مرض نہیں ہوتی اور کوئی مادہ فساد کا نہیں ہوتا اس کا کمال اپنے نفس میں نفی ( ملفوظات جلد اول صفحہ 342) کے وقت ہے اور شہید.صدیق.نبی کا کمال ثبوتی ہے.صلاح کی حالت میں انسان کو ضروری ہوتا ہے کہ ہر ایک قسم کے فساد سے خواہ وہ عقائد کے متعلق ہو یا اعمال کے متعلق پاک ہو جیسے انسان کا بدن صلاحیت کی حالت اس وقت رکھتا ہے جبکہ سب اخلاط اعتدال کی حالت پر ہوں اور کوئی کم زیادہ نہ ہولیکن اگر کوئی خلط بھی بڑھ جائے تو جسم بیمار ہو جاتا ہے اسی طرح پر روح کی صلاحیت کا مدار بھی اعتدال پر ہے اسی کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں صراط مستقیم ہے صلاح کی حالت میں انسان محض خدا کا ہو جاتا ہے جیسے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حالت تھی اور رفتہ رفتہ صالح انسان ترقی کرتا ہوا مطمئنہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور یہاں ہی اس کا انشراح صدر ہوتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 120-119)
900 مقام شہادت شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے تریاق القلوب.ر.خ.جلد 15 صفحہ 516) مرتبہ شہادت سے وہ مرتبہ مراد ہے جبکہ انسان اپنی قوت ایمان سے اس قدر اپنے خدا اور روز جزا پر یقین کر لیتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے تب اس یقین کی برکت سے اعمال صالحہ کی مرارت اور شیخی دور ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی ہر ایک قضاء وقدر بباعث موافقت کے شہد کی طرح دل میں نازل ہوتی اور تمام محن سینہ کو حلاوت سے بھر دیتی ہے اور ہر ایک ایلام انعام کے رنگ میں دکھائی دیتا ہے.سوشہید اس شخص کو کہا جاتا ہے وہ قوت ایمانی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہوا اور اس کے تلخ قضا و قدر سے شہد شیریں کی طرح لذت اٹھاتا ہے اور اسی معنے کے رو سے شہید کہلاتا ہے.اور یہ مرتبہ کامل مومن کے لیے بطور نشان کے ہے.تریاق القلوب.ر.خ.جلد 15 صفحہ 421-420) ہماں یہ کہ جان در ره او فشانم جہاں را چه نقصاں اگر من نمانم یہی بہتر ہے کہ میں اس کی راہ میں جان قربان کر دوں.اگر میں نہ رہوں تو دنیا کا کیا نقصان ہے.آسمانی فیصلہ.رخ.جلد 4 صفحہ 340) عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا.یا دریا میں ڈوب گیا.یا و با میں مرگیا وغیرہ مگر میں کہتا ہوں کہ اسی پر اکتفا کرنا اور اسی حد تک اس کو محدود رکھنا مومن کی شان سے بعید ہے.شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتا ہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کر سکتا وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سپر رہتا ہے یہاں تک کہ اگر محض خدا تعالیٰ کے لیے اس کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اس کو ملتا ہے اور وہ بدوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کیے اپنا سر رکھ دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ بار بار مجھے زندگی ملے اور بار بار اس کو اللہ کی راہ میں دوں ایک ایسی لذت اور سرور اُس کی روح میں ہوتا ہے کہ ہر تلوار جو اس کے بدن پر پڑتی ہے اور ہر ضرب جو ان کو پیس ڈالے ان کو پہنچتی ہے وہ ان کو ایک نئی زندگی نئی مسرت اور تازگی عطا کرتی ہے یہ ہیں شہید کے معنی.پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے عبادت شاقہ جو لوگ برداشت کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں ہر ایک تلخی اور کدورت کو جھیلتے ہیں اور جھیلنے کے لیے طیار ہو جاتے ہیں وہ شہد کی طرح ایک شیرینی اور حلاوت پاتے ہیں اور جیسے شهد فِيهِ شِفَاء لِلنَّاسِ (النحل : 70) کا مصداق ہے یہ لوگ بھی ایک تریاق ہوتے ہیں.ان کی صحبت میں آنے والے بہت سے امراض سے نجات پا جاتے ہیں.اور پھر شہید اس درجہ اور مقام کا نام بھی ہے جہاں انسان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا کم از کم خدا کو دیکھتا ہوا یقین کرتا ہے اس کا نام احسان بھی ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 276)
901 يارب مرا بہر قدمم استوار دار واں روز خود مبادکہ عہدِ اے رب مجھے ہر قدم پر مضبوط رکھ اور ایسا کوئی دن نہ آئے کہ میں تیرا عہد توڑوں.در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کسیکه لاف تعشق زند منم! تیرے کوچہ میں عاشقوں کے سرا تارے جائیں تو سب سے پہلے جو عشق کا دعویٰ کرے گا وہ میں ہوں گا.زمانے قتیل تازه بخواست غازه روئے او دم شهداست ہر وقت وہ ایک نیا قتیل چاہتا ہے اس کے چہرہ کا غازہ شہیدوں کا خون ہوتا ہے.ہر آئینہ کمالات اسلام.ر.خ.جلد 5 صفحہ 658) رفته رسید ایں سعادت چو بود قسمت رفته رفته سعادت چونکہ ہماری قسمت میں تھی رفتہ رفتہ ہماری نوبت بھی آ پہنچی.کربلا بست سیر ہر صد حسین است برگاہ ہے.کئی سوحسین میرے گریبان کے اندر ہیں.در نوبت گریبانم ( نزول مسیح - ر-خ- جلد 18 صفحہ 477) مقامات.مجموعی اعتبار سے منعم علیہم لوگ چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں نبی.صدیق.شہدا اور صالح.انبیاء علیہم السلام میں چاروں شانیں جمع ہوتی ہیں کیونکہ یہ اعلیٰ کمال ہے.ہر ایک انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کمالات کے حاصل کرنے کے لیے جہاں مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے اس طریق پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھایا ہے کوشش کرے...اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تا کہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے.( ملفوظات جلد اول صفحه 237-236) مقام ولایت أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(يونس: 63) ولی کیا ہوتے ہیں یہی صفات تو اولیا کے ہوتے ہیں.ان کی آنکھ.ہاتھ.پاؤں غرض کوئی عضو ہو منشاء الہی کے خلاف حرکت نہیں کرتے.خدا کی عظمت کا بوجھ ان پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا کی زیارت کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جاسکتے.پس تم بھی کوشش کرو.خدا بخیل نہیں.ہر کہ عارف تر است ترساں تر ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 105) ولی بننے کیلئے ابتلا ضروری ہیں.بہت سے لوگ یہاں آتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پھونک مار کر عرش پر پہنچ جائیں اور واصلین سے ہو جاویں.ایسے لوگ ٹھٹھا کرتے ہیں وہ انبیاء کے حالات کو دیکھیں یہ غلطی ہے جو کہا جاتا ہے کہ کسی ولی کے پاس جا کر صد ہاولی فی الفور بن گئے.اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے: أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَتُونَ (العنکبوت : 3 ) جیتک انسان آزمایا نہ جاوے فتن میں نہ ڈالا جاوے وہ کب ولی بن سکتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 16)
902 خبر دار ہو یعنی یقینا سمجھ کہ جو لوگ اللہ ( جل شانہ) کے دوست ہیں.یعنی جو لوگ خدائے تعالیٰ سے سچی محبت رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے تو ان کی یہ نشانیاں ہیں کہ نہ ان پر خوف مستولی ہوتا ہے کہ کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا فلاں بلا سے کیونکر نجات ہوگئی کیونکہ وہ تسلی دیئے جاتے ہیں اور نہ گذشتہ کے متعلق کوئی حزن واندوہ انہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ صبر دئیے جاتے ہیں.دوسری یہ نشانی ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں یعنی ایمان میں کامل ہوتے ہیں اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں یعنی خلاف ایمان وخلاف فرماں برداری جو باتیں ہیں ان سے بہت دور رہتے ہیں.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات صفحہ 46 حاشیہ طبع اول) خدا تعالیٰ نے ان کو اپنا ولی کہا ہے حالانکہ وہ بے نیاز ہے اس کو کسی کی حاجت نہیں اس لئے استثنا ایک شرط کے ساتھ ہے وَ لَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلّ (بنی اسرائیل : 112) یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ تھڑک کر کسی کو ولی نہیں بناتا بلکہ محض اپنے فضل اور عنایت سے اپنا مقرب بنا لیتا ہے اس کو کسی کی کوئی حاجت نہیں ہے اس ولایت اور قرب کا فائدہ بھی اسی کو پہنچتا ہے یادرکھو اللہ تعالیٰ کا احتبا اور اصطفا فطرتی جو ہر سے ہوتا ہے.ممکن ہے گزشتہ زندگی میں وہ کوئی صغائر یا کہا ئر رکھتا ہو لیکن جب اللہ تعالیٰ سے اس کا سچا تعلق ہو جاوے تو وہ کل خطائیں بخش دیتا ہے اور پھر اس کو کبھی شرمندہ نہیں کرتا نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں.یہ کس قدر احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ جب وہ ایک دفعہ در گذر کرتا اور عفوفرماتا ہے پھر اس کو کبھی ذکر ہی نہیں کرتا اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے.پھر باوجود ایسے احسانوں اور فضلوں کے بھی اگر وہ منافقانہ زندگی بسر کرے تو پھر سخت بد قسمتی اور شامت ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحه 596) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ ، لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ.(يونس : 64-65) تیسری ان ( اللہ اور رسول کے تابع لوگوں ) کی یہ نشانی ہے کہ انہیں (بذریعہ مکالمہ الہیہ و رویائے صالحہ ) بشارتیں ملتی رہتی ہیں اس جہاں میں بھی اور دوسرے جہاں میں بھی خدائے تعالیٰ کا ان کی نسبت یہ عہد ہے جوٹل نہیں سکتا اور یہی پیارا درجہ ہے جو انہیں ملا ہوا ہے یعنی مکالمہ الہیہ اور رویائے صالحہ سے خدائے تعالیٰ کے مخصوص بندوں کو جو اس کے ولی ہیں ضرور حصہ ملتا ہے اور ان کی ولایت کا بھاری نشان یہی ہے کہ مکالمات و مخاطبات الہیہ سے مشرف ہوں (یہی قانون قدرت اللہ جل شانہ کا ہے ) ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات صفحہ 46-47 حاشیہ ) چونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سفر کرنا ایک نہایت دقیق در دقیق راہ ہے اور اس کے ساتھ طرح طرح کے مصائب اور دکھ لگے ہوئے ہیں اور ممکن ہے انسان اس نادیدہ راہ میں بھول جاوے یا نا امیدی طاری ہو اور آگے قدم بڑھانا چھوڑ دے اس لئے خدا تعالیٰ کی رحمت نے چاہا کہ اپنی طرف سے اس سفر میں ساتھ ساتھ اس کو تسلی دیتی رہے اور اس کی دل دہی کرتی رہے اور اس کی کمر ہمت کو باندھتی رہے اور اس کے شوق کو زیادہ کرے سو اس کی سنت اس راہ کے مسافروں کے ساتھ اس طرح پر واقع ہے کہ وہ وقتا فوقتا اپنے کلام اور الہام سے ان کو تسلی دیتا اور ان پر ظاہر کرتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تب وہ قوت پا کر بڑے زور سے اس سفر کو طے کرتے ہیں چنانچہ اس بارے میں وہ فرماتا ہے لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ.اسلامی اصول کی فلاسفی - ر- خ - جلد 10 صفحہ 422)
903 جو لوگ قرآن شریف پر ایمان لائیں گے ان کو مبشر خوا ہیں اور الہام دیئے جائیں گے یعنی بکثرت دیئے جائیں گے ورنہ شاذ و نادر کے طور پر کسی دوسرے کو بھی کوئی سچی خواب آ سکتی ہے مگر ایک قطرہ کو ایک دریا کے ساتھ کچھ نسبت نہیں اور ایک پیسہ کو ایک خزانہ کے ساتھ کچھ مشابہت نہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم سے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوتا چلا آتا ہے اور اس زمانہ میں ہم خود اس کے شاہد رویت ہیں.(چشمہ معرفت...خ.جلد 23 صفحہ 410) روحانی مقام موہبت اور فضل الہی قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَ جَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا اذِلَّةً وَ كَذَلِكَ يَفْعَلُونَ.(النمل:35) پھر چوتھی حالت کے بعد پانچویں حالت ہے جس کے مفاسد سے نہایت سخت اور شدید محبت نفس امارہ کو ہے کیونکہ اس مرتبہ پر صرف ایک لڑائی باقی رہ جاتی ہے اور وہ وقت قریب آجاتا ہے کہ حضرت عزت جل شانہ کے فرشتے اس وجود کی تمام آبادی کو فتح کرلیں اور اس پر اپنا پورا تصرف اور دخل کر لیں اور تمام نفسانی سلسلہ کو درہم برہم کر دیں اور نفسانی قومی کے قریہ کو ویران کر دیں اور اس کے نمبرداروں کو ذلیل اور پست کر کے دکھلا دیں اور پہلی سلطنت پر ایک تباہی ڈال دیں اور انقلاب سلطنت پر ایسا ہی ہوا کرتا ہے قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَ جَعَلُوا اَعِذَّةَ اَهْلِهَا اَذِلَّةً وَ كَذلِكَ يَفْعَلُون اور یہ مومن کے لئے ایک آخری امتحان اور آخری جنگ ہے جس پر اس کے تمام مراتب سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور اس کا سلسلہ ترقیات جو کسب اور کوشس سے ہے انتہا تک پہنچ جاتا ہے اور انسانی کوششیں اپنے اخیر نقطہ تک منزل طے کر لیتی ہیں پھر بعد اس کے صرف موہبت اور فضل کا کام باقی رہ جاتا ہے جو خلق آخر کے متعلق ہے.براہین احمدیہ حصہ پنجم.رخ - جلد 21 صفحہ 238) الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَثِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ، إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ هُوَ اَعْلَمُ بِكُمُ إِذْ اَنْشَاكُمُ مِنَ الْأَرْضِ وَ إِذْ أَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهِتِكُمْ فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى.(النجم : 33) تزکیہ نفس ایک ایسی شئی ہے کہ خود بخود نہیں ہو سکتا اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى كرتم یہ خیال نہ کرو کہ ہم اپنے نفس یا عقل کے ذریعہ سے خود بخود مز کی بن جاویں گے.یہ بات غلط ہے.وہ خوب جانتا ہے کون متقی ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحه 429)
904 کوئی آدمی کسی کو متقی کیونکر یقین کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے لَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ اور فرماتا ہے هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى اور فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ہی عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (المائدہ:8) ہے.ہاں مامور من اللہ کے متقی ہونے اور نہ ہونے کے نشانات تین ہوتے ہیں نہ اوروں کے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 56) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عبد بھی ہے اور اس لئے خدا نے عبد نام رکھا کہ اصل عبود بیت کا خضوع اور دل ہے اور عبودیت کی حالت کا ملہ وہ ہے جس میں کسی قسم کا غلو اور بلندی اور عجب نہ رہے اور صاحب اس حالت کا اپنی عملی تحمیل محض خدا کی طرف سے دیکھے اور کوئی ہاتھ درمیان نہ دیکھے.عرب کا محاورہ ہے کہ وہ کہتے ہیں مورٌ مُعَبَّدٌ وَ طَرِيقٌ مُعَبَّدٌ جہاں راہ نہایت درست اور نرم اور سیدھا کیا جاتا ہے اس راہ کو طریق معبد کہتے ہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے عبد کہلاتے ہیں کہ خدا نے محض اپنے تصرف اور تعلیم سے ان میں عملی کمال پیدا کیا اور ان کے نفس کو راہ کی طرح اپنی تجلیات کے گزر کے لئے نرم اور سیدھا اور صاف کیا اور اپنے تصرف سے وہ استقامت جو عبودیت کی شرط ہے ان میں پیدا کی.پس وہ علمی حالت کے لحاظ سے مہدی ہیں اور عملی کیفیت کے لحاظ سے جو خدا کے عمل سے ان میں پیدا ہوئی عبد ہیں کیونکہ خدا نے ان کی روح پر اپنے ہاتھ سے وہ کام کیا ہے جو کوٹنے اور ہموار کرنے کے آلات سے اس سڑک پر کیا جاتا ہے جس کو صاف اور ہموار بنانا چاہتے ہیں اور چونکہ مہدی موعود کو بھی عبودیت کا مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے حاصل ہوا اس لئے مہدی موعود میں عبد کے لفظ کی کیفیت غلام کے لفظ سے ظاہر کی گئی یعنی اس کے نام کو غلام احمد کر کے پکارا گیا.یہ غلام کا لفظ اس عبودیت کو ظاہر کرتا ہے جو ظلی طور پر مہدی موعود میں بھی ہونی چاہیئے.فتدبر ایام اسح.رخ - جلد 14 صفحہ 395-394 حاشیہ ) الصل
905 تیر ہویں فصل اخلاق کا فلسفہ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ.(القيمة: 3) اخلاقی حالتوں کے سر چشمہ کا نام قرآن شریف میں نفس لوامہ ہے جیسا کہ قرآن شریف میں فرماتا ہے.وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ الدَّوَّامَةِ یعنی میں اس نفس کی قسم کھا تا ہوں جو بدی کے کام اور ہر ایک بے اعتدالی پر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے.یہ نفس لوامہ انسانی حالتوں کا دوسرا سر چشمہ ہے جس سے اخلاقی حالتیں پیدا ہوتی ہیں اور اس مرتبہ پر انسان دوسرے حیوانات کی مشابہت سے نجات پاتا ہے اور اس جگہ نفس لوامہ کی قسم کھا نا اس کو عزت دینے کے لئے ہے گویا وہ نفس امارہ سے نفس لوامہ بن کر بوجہ اس ترقی کے جناب الہی میں عزت پانے کے لائق ہو گیا اور اس کا نام لوامہ اس لئے رکھا کہ وہ انسان کو بدی پر ملامت کرتا ہے اور اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ انسان اپنے طبعی لوازم میں شتر بے مہار کی طرح چلے اور چار پایوں کی زندگی بسر کرے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ اس سے اچھی حالتیں اور اچھے اخلاق صادر ہوں اور انسانی زندگی کے تمام لوازم میں کوئی بے اعتدالی ظہور میں نہ آوے اور طبعی جذبات اور طبعی خواہشیں عقل کے مشورہ سے ظہور پذیر ہوں.پس چونکہ وہ بُری حرکت پر ملامت کرتا ہے اس لئے اس کا نام نفس لوامہ ہے یعنی بہت ملامت کرنے والا.اسلامی اصول کی فلاسفی...خ.جلد 10 صفحہ 318-317) کل صفات نیک ہیں مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ - اصل میں صفات کل نیک ہوتے ہیں جب ان کے بے موقع اور ناجائز طور پر استعمال کیا جاوے تو وہ بُرے ہو جاتے ہیں اور ان کو گندہ کر دیا جاتا ہے لیکن جب ان ہی صفات کو افراط تفریط سے بچا کر شکل اور موقع پر استعمال کیا جاوے ثواب کا موجب ہو جاتے ہیں.قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا ہے اور مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَد (الفلق : 6) اور دوسری جگہ.اَلسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ.اب سبقت لے جانا بھی تو ایک قسم کا حسد ہی ہے.سبقت لے جانے والا کب چاہتا ہے کہ اس سے اور کوئی آگے بڑھ جاوے.یہ صفت بچپن ہی سے انسان میں پائی جاتی ہے.اگر بچوں کو آگے بڑھنے کی خواہش نہ ہو تو وہ محنت نہیں کرتے اور کوشش کرنے والے کی استعداد بڑھ جاتی ہے.سابقون گویا حاسد ہی ہوتے ہیں لیکن اس جگہ حسد کا مادہ مصفی ہو کر سابق ہو جاتا ہے.اسی طرح حاسد ہی بہشت میں سبقت لے جاویں گے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 197)
906 اخلاق کی تعریف إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ.(القلم : 5) خلق بفتح خا سے مراد وہ صورت ظاہری ہے جو انسان کو حضرت واہب الصور کی طرف سے عطا ہوئی جس صورت کے ساتھ وہ دوسرے حیوانات کی صورتوں سے ممیز ہے.اور خلق بضم خا سے مراد وہ صورت باطنی یعنی خواص اندرونی ہیں جن کی رو سے حقیقت انسانیہ حقیقت حیوانیہ سے امتیاز کھلی رکھتی ہے.پس جس قدر انسان میں من حیث الانسانیت اندرونی خواص پائے جاتے ہیں اور شجرہ انسانیت کو نچوڑ کر نکل سکتے ہیں جو کہ انسان اور حیوان میں من حیث الباطن ما بہ الامتیاز ہیں ان سب کا نام خلق ہے.اور چونکہ شجرہ فطرت انسانی اصل میں تو سط اور اعتدال پر واقع ہے اور ہر ایک افراط و تفریط سے جو قوی حیوانیہ میں پایا جاتا ہے منزہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ.(التين:5) اس لئے خلق کے لفظ سے جو کسی مزمت کی قید کے بغیر بولا جائے ہمیشہ اخلاق فاضلہ مراد ہوتے ہیں اور وہ اخلاق فاضلہ جو حقیقت انسانیہ ہے.تمام وہ خواص اندرونی ہیں جو نفس ناطقہ انسان میں پائے جاتے ہیں جیسے عقل ذکا.سرعت فہم.صفائی ذہن.حسن تحفظ.حسن تذکر.عفت - حیا.صبر - قناعت.زہد..تو رع.جوانمردی.استقلال.عدل.امانت.صدق لہجہ.سخاوت فی محلہ - ایثار فی محلہ - کرم فی محلہ - مروت فی محلہ.شجاعت فی محلہ.علو ہمت فی محلہ.حلم في محلہ.تحمل فی محلہ.حمیت فی محلہ.تواضع في محلہ.ادب في محلہ - شفقت فی محلم - رافت فی محلہ.رحمت فی محلہ.خوف الہی محبت الہیہ.انس باللہ.انقطاع الی اللہ وغیرہ وغیرہ.(براہین احمدیہ.ر - خ - جلد 1 صفحہ 195-194 حاشیہ) اخلاق نیکیوں کی ماں ہے اخلاق کی درستی بہت ضروری چیز ہے کیونکہ نیکیوں کی ماں اخلاق ہی ہے.خیر کا پہلا درجہ جہاں سے انسان قوت پاتا ہے اخلاق ہے.دو لفظ ہیں ایک خلق اور دوسرا خلق.خلق ظاہری پیدائش کا نام ہے اور خُلق باطنی پیدائش کا جیسے ظاہر میں کوئی خوبصورت ہوتا ہے اور کوئی بہت ہی بدصورت.اسی طرح پر کوئی اندرونی پیدائش میں نہایت حسین اور دل رہا ہوتا ہے اور کوئی اندر سے مجذوم اور مبروص کی طرح مکروہ لیکن ظاہری صورت چونکہ نظر آتی ہے اس لئے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ بدصورت اور بد وضع ہومگر چونکہ اس کو دیکھتا ہے اس لئے اس کو پسند کرتا ہے اور خلق کو چونکہ دیکھا نہیں اس لئے اس کی خوبی سے نا آشنا ہو کر اس کو نہیں چاہتا.ایک اندھے کے لئے خوب صورتی اور بدصورتی دونوں ایک ہی ہیں.اسی طرح پر وہ انسان جس کی نظر اندرونہ تک نہیں پہنچتی اس اندھے کی ہی مانند ہے.خلق تو ایک بدیہی بات ہے مگر خلق ایک نظری مسئلہ ہے اگر اخلاقی بدیاں اور ان کی لعنت معلوم ہو تو حقیقت کھلے.
907 غرض اخلاقی خوبصورتی ایک ایسی خوبصورتی ہے جس کو حقیقی خوبصورتی کہنا چاہیئے بہت تھوڑے ہیں جو اس کو پہچانتے ہیں.اخلاق نیکیوں کی کلید ہے.جیسے باغ کے دروازے پر قفل ہو دور سے پھل پھول نظر آتے ہیں مگر اندر نہیں جاسکتے لیکن اگر قفل کھول دیا جاوے تو اندر جا کر پوری حقیقت معلوم ہوتی ہے اور دل و دماغ میں ایک سرور اور تازگی آتی ہے.اخلاق کا حاصل کرنا گویا اس قفل کو کھول کے اندر داخل ہوتا ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 355-354) برے اخلاق وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْاَلْقَابِ.(الحجرات : 12) ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے ہو سکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا ہے وہی اچھے ہوں بعض عورتیں بعض عورتوں سے ٹھٹھا نہ کریں ہوسکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا ہے وہی اچھی ہوں اور عیب مت لگاؤ.اپنے لوگوں کے برے برے نام مت رکھو.بدگمانی کی باتیں مت کرو اور نہ عیبوں کو کرید کرید کر پوچھو.ایک دوسرے کا گلہ مت کرو.اسلامی اصول کی فلاسفی...خ.جلد 10 صفحہ 350) تم ایک دوسرے کا چڑ کے نام نہ لویہ فعل فساق و فجار کا ہے.جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جیتک وہ خود اس طرح مبتلا ہوگا.اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو جب کل ایک ہی چشمہ سے پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 23) تم دیکھ کر بھی بد کو بچو بدگمان سے ڈرتے رہو عقاب خدائے جہان سے شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا شاید وہ بد نہ ہو جو تمہیں ہے وہ بدنما شاید تمہاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو! شاید وہ آزمائش رب غفور ہو در مشین اردو صفحه 104 ) ( براہین احمدیہ - رخ - جلد 21 صفحہ 19-18 ) قُلُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ انَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا.(الكهف: 111) وہ قرآن شریف میں اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں دیدار الہی میسر آ سکتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا إِلَهُكُمُ إِلَةٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَّ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّةٍ أَحَدًا.یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے پس چاہیئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جس میں کسی قسم کا فساد نہ ہو یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں نہ ان کی وجہ سے دل میں تکبر پیدا ہو کہ میں ایسا ہوں اور ایسا ہوں.اور نہ وہ عمل ناقص اور نا تمام ہوں اور نہ ان میں کوئی ایسی بد بو ہو جو محبت ذاتی کے برخلاف ہو بلکہ چاہیئے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہیئے کہ ہر ایک قسم کے
908 شرک سے پر ہیز ہو.لیکچر لاہور.ر.خ.جلد 20 صفحہ 154) فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوهَا.(الشمس: 9) یعنی بر یک انسان کو ایک قسم کا خدا نے الہام عطا کر رکھا ہے جس کو نور قلب کہتے ہیں اور وہ یہ کہ نیک اور بد کام میں فرق کر لینا.جیسے کوئی چور یا خونی چوری یا خون کرتا ہے تو خدا اس کے دل میں اسی وقت ڈال دیتا ہے کہ تو نے یہ کام برا کیا اچھا نہیں کیا لیکن وہ ایسے القاء کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا کیونکہ اس کا نور قلب نہایت ضعیف ہوتا ہے اور عقل بھی ضعیف اور قوت بہیمیہ غالب اور نفس طالب.( براہین احمدیہ.ر.خ.جلد 1 صفحہ 186 حاشیہ ) اخلاق فاضلہ کی تکمیل قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ..الاخر.(سورة الناس) اس میں اللہ تعالیٰ نے حقیقی مستحق حمد کے ساتھ عارضی مستحق حمد کا بھی اشارۃ ذکر فرمایا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ اخلاق فاضلہ کی تکمیل ہو چنانچہ اس سورت میں تین قسم کے حق بیان فرمائے ہیں.اول فرمایا کہ تم پناہ مانگو اللہ کے پاس جو جامع جمیع صفات کاملہ ہے اور جو رب ہے لوگوں کا.اور مالک بھی ہے اور معبود ومطلوب حقیقی بھی ہے.یہ سورت اس قسم کی ہے کہ اس میں اصل تو حید کو تو قائم رکھا ہے مگر معا یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ دوسرے لوگوں کے حقوق بھی ضائع نہ کریں جوان اسماء کے مظہر ظلی طور پر ہیں.رب کے لفظ میں اشارہ ہے کہ مو حقیقی طور پر خدا ہی پرورش کرنے والا اور تکمیل تک پہنچانے والا ہے لیکن عارضی اور ظلی طور پر دو اور بھی وجود ہیں جور بوبیت کے مظہر ہیں ایک جسمانی طور پر دوسرا روحانی طور پر.جسمانی طور پر والدین ہیں اور روحانی طور پر مرشد اور ہادی ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 315-314) حقیقی اخلاق إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ إِيْتَايُّ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَر وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.(النحل: 91) اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ ہے کہ باوجود رعایت عدل کے احسان کرو اور احسان سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم ایسے طور سے لوگوں سے مروت کرو کہ جیسے کہ گویا وہ تمہارے پیارے اور ذوالقربی ہیں.اب سوچنا چاہیئے کہ مراتب تین ہی ہیں.اول انسان عدل کرتا ہے یعنی حق کے مقابل حق کی درخواست کرتا ہے پھر اگر اس سے بڑھے تو مرتبہ احسان ہے اور اگر اس سے بڑھے تو احسان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور ایسی محبت سے لوگوں کی ہمدردی کرتا ہے جیسے ماں اپنے بچہ کی ہمدردی کرتی ہے یعنی ایک طبعی جوش سے نہ کہ احسان کے ارادہ سے.جنگ مقدس - ر- خ - جلد 6 صفحہ 127)
909 لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَ مَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ به عَلِيمٌ.(آل عمران: 93) بیکار اور لکھی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعوی نہیں کر سکتا.نیکی کا دروازہ تنگ ہے.پس یہ امر ذہن نشین کر لوکہ لکھی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہوسکتا.کیونکہ نص صریح ہے.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّون جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا.اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو کیونکر کامیاب اور بامراد ہو سکتے ہو؟ کیا صحابہ کرام مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاصل ہوا.دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لیے کس قدراخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو پھر کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی ملتا ہے.پھر خیال کرو کہ رضی اللہ عنہم کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولا کریم کی رضامندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟ بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں خدا ٹھگا نہیں جاتا.مبارک ہیں وہ لوگ ! جو رضائے الہی کے حصول کے لیے تکلیف کی پروانہ کریں.کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 47) صبر رضوان و قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دو ہی طریق ہیں.ایک تو تشریعی احکام سے ترقی ہوتی ہے اسی لئے تشریعی تکالیف فرمائیں مگر یہ وہ تکالیف ہیں جن سے انسان بچ سکتا ہے دوسرے وہ تکالیف ہیں جو خدا انسان کے سر پر ڈالتا ہے.کسی کے ہاتھ میں تازیانہ دے کر اسے کہا جاتا ہے کہ تو اپنے بدن پر آپ مار تو وہ حتی الامکان ایسا نہ کرے گا کیونکہ انسان اپنے تئیں دکھ نہیں دینا چاہتا پس جو تکالیف اختیار میں ہیں ان سے بیچ کر وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا مگر جو تکالیف خدا کی طرف سے ہوں وہ جب انسان پر پڑتی ہیں اور وہ ان پر صبر کرتا ہے تو اس کی ترقی کا موجب ہو جاتی ہیں.غرض تکالیف دو قسم کی ہیں.ایک وہ حصہ ہے جو احکام پر مشتمل ہے مگر اس میں بہانوں کی گنجائش ہے.صوم و زکوۃ وصلوۃ و حج جب تک پورا اخلاق نہ ہو.انسان ان سے پہلو تہی کر سکتا ہے پس اس کسر کو نکالنے کے لئے تکالیف سماویہ کا ورود ہوتا ہے تا کہ جو کچھ انسانی ہاتھ سے پورا نہیں ہوا وہ خدا کی مدد سے پورا ہو جائے.آریہ کہتے ہیں تکالیف کسی پچھلے کرم کی سزا میں ہیں ہم کہتے ہیں یہ آئندہ ترقیات کے لئے ہیں ورنہ جپ تپ کرنا بھی ایک سزا ہو گا.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 662-661)
910 وَفَدَيْنَهُ بِذِبْحٍ عَظِيم.(الصفت: 108) انبیاء اور رسل کو جو بڑے بڑے مقام ملتے ہیں وہ ایسی معمولی باتوں سے نہیں مل جاتے جو نرمی سے اور آسانی سے پوری ہو جائیں بلکہ ان پر بھاری ابتلاء اور امتحان وارد ہوئے جن میں وہ صبر اور استقلال کے ساتھ کامیاب ہوئے تب خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو بڑے بڑے درجات نصیب ہوئے.دیکھو حضرت ابراہیم پر کیسا را ابتلاء آ یا.اس نے اپنے ہاتھ میں چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے اور اس چھری کو اپنے بیٹے کی گردن پر اپنی طرف سے پھیر دیا مگر آگے بکر ا تھا.ابراہیم امتحان میں پاس ہوا اور خدا نے بیٹے کو بھی بچالیا.تب خدا تعالیٰ ابراہیم پر خوش ہوا کہ اس نے اپنی طرف سے کوئی فرق نہ رکھا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ بیٹا بچ گیاور نہ ابراہیم نے اس کو ذبح کر دیا تھا.اس واسطے اس کو صادق کا خطاب ملا.اور توریت میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم تو آسمان کے ستاروں کی طرف نظر کر کیا تو ان کو گن سکتا ہے.اسی طرح تیری اولا د بھی نہ گئی جائے گی.تھوڑے سے وقت کی تکلیف تھی وہ تو گزرگئی اسکے نتیجہ میں کس قدر انعام ملا.آج تمام سادات اور قریش اور یہود اور دیگر اقوام اپنے آپ کو ابراہیم کا فرزند کہتے ہیں.گھڑی دو گھڑی کی بات تھی وہ تو ختم ہوگئی اور اتنا بڑا انعام ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 417-416) وَمَا تَنْقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِأَيْتِ رَبَّنَا لَمَّا جَاءَ تُنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ.(الاعراف: 127) اے خدا اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آ جائے اور ایسا کر کہ ہماری موت اسلام پر ہو.جانا چاہیئے کہ دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالے اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نورا تارتا ہے جس سے وہ قوت پا کر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوت ایمانی سے ان زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں.جب با خدا آدمی پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور موت کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے رب کریم سے خواہ نخواہ کا جھگڑا شروع نہیں کرتا کہ مجھے ان بلاؤں سے بچا کیونکہ اس وقت عافیت کی دعا میں اصرار کرنا خدا تعالیٰ سے لڑائی اور موافقت تامہ کے مخالف ہے بلکہ سچا محبت بلا کے اترنے سے اور آگے قدم رکھتا ہے اور ایسے وقت میں جان کو نا چیز سمجھ کر اور جان کی صحت کو الوداع کہہ کر اپنے مولیٰ کی مرضی کا بکلی تابع ہو جاتا اور اس کی رضا چاہتا ہے اسی کے حق میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِكْ نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَ اللهُ رَءُ وَق بِالْعِبَادِ (البقرة: 208) یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا تعالیٰ کی مرضی خرید لیتا ہے وہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت خاص کے مورد ہیں.غرض وہ استقامت جس سے خدا ملتا ہے اس کی یہی روح ہے جو بیان کی گئی جس کو سمجھنا ہو سمجھ لے.(اسلامی اصول کی فلاسفی.ر.خ.جلد 10 صفحہ 421-420)
911 تا نہ قربان خدائے خود شویم! تا نہ مجو آشنائے خود شویم! جب تک ہم اپنے خدا پر قربان نہ ہو جائیں اور جب تک اپنے دوست کے اندر محونہ ہو جائیں.تا نه باشیم از وجود خود بروں تا نه گردد پر ز مهرش اندروں جب تک ہم اپنے وجود سے علیحدہ نہ ہو جائیں اور جب تک سینہ اس کی محبت سے بھر نہ جائے.تا نه بر ما مرگ آید صد ہزار کے حیاتی تازه بینیم از نگار جب تک ہم پر لاکھوں موتیں وارد نہ ہوں تب تک ہمیں اس محبوب کی طرف سے نئی زندگی کب مل سکتی ہے.(سراج منیر - ر- خ - جلد 12 صفحہ 100 ) ( در شین فارسی صفحه 237) مصیبتوں کو برا نہیں مانا چاہئے کیونکہ مصیبتوں کو برا سمجھنے والا مومن نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ لَنَبْلُوَنَّكَ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.(البقرة: 157-156).یہی تکالیف جب رسولوں پر آتی ہیں تو ان کو انعام کی خوشخبری دیتی ہیں اور جب یہی تکالیف بدوں پر آتی ہیں.ان کو تباہ کر دیتی ہیں غرض مصیبت کے وقت قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھنا چاہیئے کہ تکالیف کے وقت خدا تعالیٰ کی رضا طلب کرے.مومن کی زندگی کے دوحصہ جو نیک کام مومن کرتا ہے اس کے لیے اجر مقرر ہوتا ہے مگر صبر ایک ایسی چیز ہے جس کا ثواب بے حد و بے شمار ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہی لوگ صابر ہیں.یہی لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو سمجھ لیا.خدا تعالیٰ ان لوگوں کی زندگی کے دو حصہ کرتا ہے جو صبر کے معنے سمجھ لیتے ہیں.اول جب وہ دعا کرتا تو خدا تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے جیسا کہ فرمایا اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ.(المومن (61) أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.(البقرة:187) ( البدر جلد 2 نمبر 9 مورخہ 20 مارچ 1903 صفحہ 67 ) ( تفسیر سورۃ البقرۃ صفحہ 222-221) عاجزی انکساری پسند آتی ہے اس کو خاکساری تذلل ہے رہ درگاه باری وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ.(الدريت: 57) عاجزی اختیار کرنی چاہیئے.عاجزی کا سیکھنا مشکل نہیں ہے.اس کا سیکھنا ہی کیا ہے انسان تو خود ہی عاجز ہے اور وہ عاجزی کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون تكبر وغیرہ سب بناوٹی چیزیں ہیں اگر اس بناوٹ کو اتار دے تو پھر اس کی فطرت میں عاجزی ہی نظر آوے گی.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 232) خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہر گز نہیں ہے کہ جو اس کے حضور عاجزی سے گر پڑے وہ اسے خائب و خاسر کرے اور ذلت کی موت دیوے.جو اس کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسی نظیر ایک
912 بھی نہ ملے گی کہ فلاں شخص کا خدا سے سچا تعلق تھا اور پھر وہ نا مرا در ہا.خدا تعالیٰ بندے سے یہ چاہتا ہے کہ وہ بھی نفسانی خواہش اس کے حضور پیش نہ کرے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھک جاوے جو اس طرح جھلکتا ہے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور ہر ایک مشکل سے خود بخود اس کے واسطے راہ نکل آتی ہے جیسے کہ وہ خود وعدہ فرماتا ہے مَن يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:3-4) اس جگہ رزق سے مراد صرف روٹی وغیرہ نہیں بلکہ عزت علم وغیرہ سب باتیں جن کی انسان کو ضرورت ہے اس میں داخل ہیں.خدا تعالیٰ سے جو ذرہ بھر بھی تعلق رکھتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا مَنْ يُعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ (الزلزال:8) ہمارے ملک ہندستان میں نظام الدین صاحب اور قطب الدین صاحب اولیاء اللہ کی جو عزت کی جاتی ہے وہ اسی لئے ہے کہ خدا تعالیٰ سے ان کا سچا تعلق تھا اور اگر یہ نہ ہوتا تو تمام انسانوں کی طرح وہ بھی زمینوں میں ہل چلاتے.معمولی کام کرتے مگر خدا تعالیٰ کے بچے تعلق کی وجہ سے لوگ ان کی مٹی کی بھی عزت کرتے ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 220) ط جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما ذلِكَ وَ مَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَتِ اللهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِنْدَ رَبِّهِ ، وَ أُحِلَّتْ لَكُمُ الأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمُ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزور.(الحج: 31) مجھے اس وقت اس نصیحت کی حاجت نہیں کہ تم خون نہ کرو کیونکہ بجز نہایت شریر آدمی کے کون ناحق کے خون کی طرف قدم اٹھاتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ نا انصافی پر ضد کر کے سچائی کا خون نہ کرو.حق کو قبول کر لو اگر چہ ایک بچہ سے اور اگر مخالف کی طرف حق پاؤ تو پھر فی الفور اپنی خشک منطق کو چھوڑ دو.بیچ پر ٹھہر جاو اور سچی گواہی دوجیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ یعنی بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹ سے بھی کہ وہ بت سے کم نہیں.جو چیز قبلہ حق سے تمہارا منہ پھیرتی ہے وہی تمہاری راہ میں بت ہے.کچی گواہی دو اگر چہ تمہارے باپوں یا بھائیوں یا دوستوں پر ہو.چاہئے کہ کوئی عداوت بھی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.(ازالہ اوہام - رخ - جلد 3 صفحہ 550) تکبر ایسی بلا ہے کہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی.یاد رکھو تکبر شیطان سے آتا ہے اور تکبر کرنے والے کو شیطان بنادیتا ہے.جب تک انسان اس راہ سے قطعا دور نہ ہو.قبول حق و فیضان الوہیت ہرگز پا نہیں سکتا.کیونکہ یہ تکبر اس کی راہ میں روک ہو جاتا ہے.پس کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہیئے.علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے.کیونکہ زیادہ تر تکبر انہیں باتوں سے پیدا ہوتا ہے.جب تک انسان اپنے آپ کو ان گھمنڈوں سے پاک وصاف نہ کرے گا اس وقت تک وہ اللہ جل شانہ کے نزدیک پسندیده و برگزیدہ نہیں ہو سکتا.اور وہ معرفت الہی جو جذبات نفسانی کے موادر ڈیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ گھمنڈ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا.شیطان نے بھی یہی گھمنڈ کیا اور اپنے آپ کو آدم علیہ السلام سے بڑا سمجھا اور کہد یا اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِى مِنْ نَارٍ وَّ خَلَقْتَهُ مِنْ طِيْنِ (الاعراف:13) ( میں
913 اس سے اچھا ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اسکو مٹی سے ) نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ بارگاہ الہی سے مردود ہو گیا.اس لیے ہر ایک کو اس سے بچنا چاہیئے.جب تک انسان کو کامل معرفت الہی حاصل نہ ہو وہ لغزش کھاتا ہے اور اس سے متنبہ نہیں ہوتا مگر معرفت الہی جس کو حاصل ہو جائے اگر چہ اس سے کوئی لغزش ہو بھی جاوے تب بھی اللہ تعالئے اس کی محافظت کرتا ہے.چنانچہ آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش پر اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور سمجھ لیا کہ سوائے فضل الہی کے کچھ نہیں ہو سکتا.اس لیے دعا کر کے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا.رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ.(الاعراف:24) (اے رب ہمارے ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تیری حفاظت ہمیں نہ بچاوے اور تیرا رحم ہماری دستگیری نہ کرے تو ہم ضرور ٹوٹے والوں میں سے ہو جاویں) کوئی ( تقریر جلسہ سالانہ 29 دسمبر 1904 صفحہ 19-20) ( تفسیر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جلد چہارم صفحہ 149) نہیں ملتا ނ ملے جو خاک سے اسکو ملے یار دلدار وہ اس پاک سے جو دل لگا وے کرے پاک آپ کو تب اسکو پاوے کہ اپنے نفس کو چھوڑا ہے بے راہ اپنی بدی سے بے خبر ہے و گمراه ہے بدی پر عجب ناداں ہے وہ مغرور و غیر کی ہردم نظر (حقیقۃ الوحی.رخ- جلد 22 صفحہ 551) توکل مَنْ يَّتَّقِ اللهَ يَجْعَلُ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ.(الطلاق: 4-3) ہم ایسے مہوسوں کو ایک کیمیا کا نسخہ بتلاتے ہیں بشرطیکہ وہ اس پر عمل کریں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ.(الطلاق: 4-3) پس تقویٰ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے یہ حاصل ہوا سے گویا تمام جہاں کی نعمتیں حاصل ہو گئیں.یاد رکھو متقی کبھی کسی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ وہ اس مقام پر ہوتا ہے کہ جو چاہتا ہے خدا تعالیٰ اس کے لئے اس کے مانگنے سے پہلے مہیا کر دیتا ہے.میں نے ایک دفعہ کشف میں اللہ تعالیٰ کو تمثل کے طور پر دیکھا.میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر فرمایا.جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو پس یہ وہ نسخہ ہے جو تمام انبیاء واولیاء و صلحاء کا آزمایا ہوا ہے.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 201) تو کل کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے کبھی ضائع نہیں ہوتے.جو آدمی صرف اپنی کوششوں میں رہتا ہے اس کو سوائے ذلت کے اور کیا حاصل ہو سکتا ہے.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہمیشہ سے سنت اللہ یہی چلی آتی ہے کہ جو لوگ دنیا کو چھوڑتے ہیں وہ اس کو پاتے ہیں اور جو اس کے پیچھے دوڑتے ہیں وہ اس سے محروم رہتے ہیں.جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے وہ اگر چند روز مکر و فریب سے کچھ حاصل بھی کر لیں تو وہ لا حاصل ہے کیونکہ آخر ان کو سخت نا کامی دیکھنی پڑتی ہے.اسلام میں عمدہ لوگ وہی گذرے ہیں جنہوں نے دین کے مقابلہ میں دنیا کی کچھ پرواہ نہ کی.ہندوستان میں قطب الدین اور معین الدین خدا کے اولیاء گذرے ہیں ان لوگوں نے پوشیدہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی مگر خدا تعالیٰ نے ان کی عزت کو ظاہر کر دیا.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 249-248)
914 تو کل کی تعریف ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 146) تو کل یہی ہے کہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے کسی امر کے حاصل کرنے کے واسطے مقرر کیے ہوئے ہیں ان کو حتی المقدور جمع کرو اور پھر خود دعاوں میں لگ جاؤ کہ (اے ) خدا تو ہی اس کا انجام بخیر کر.صد ہا آفات ہیں اور ہزاروں مصائب ہیں جو ان اسباب کو بھی بر باد وتہ و بالا کر سکتے ہیں ان کی دست برد سے بچا کر ہمیں کچی کامیابی اور منزل مقصود پر پہنچا.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران:160) ایک شخص نے اپنی خانگی تکالیف کا ذکر کیا فرمایا پورے طور پر خدا پر تو کل یقین اور امید رکھو تو سب کچھ ہو جاوے گا اور ہمیں خطوط سے ہمیشہ یاد کراتے رہا کرو ہم دعا کریں گے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 550) انسان کو مشکلات کے وقت اگر چہ اضطراب ہوتا ہے مگر چاہیئے کہ تو کل کو کبھی بھی ہاتھ سے نہ دے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بدر کے موقع پر سخت اضطراب ہوا تھا چنانچہ عرض کرتے تھے کہ يَا رَبِّ إِنْ أَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ اَبَدًا.مگر آپ کا اضطراب فقط بشری تقاضا سے تھا کیونکہ دوسری طرف تو کل کو آپ نے ہرگز ہاتھ سے نہیں جانے دیا تھا.آسمان کی طرف نظر تھی اور یقین تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا.یاس کو قریب نہیں آنے دیا تھا.ایسے اضطرابوں کا آنا تو انسانی اخلاق اور مدارج کی تکمیل کے واسطے ضروری ہے مگر انسان کو چاہیئے کہ یاس کو پاس نہ آنے دے.کیونکہ یاس تو کفار کی صفت ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 133) امتني في المَحَبَّةِ والوداد و كُن في هذه لى و المعاد ولم يبقَ الهُمُوم لنا بأنَّا توكلنا على ربّ العباد ( ترجمہ از مرتب ) مجھے اپنی محبت میں مار.اور اس دنیا اور آخرت میں تو میرا ہو جا.اور ہمیں کوئی غم نہیں رہے.کیونکہ ہم نے رب العباد پر تو کل کی.( تذکرہ صفحہ 779) غصہ پر صبر وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا.(الفرقان: 73) یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان کسی کا مقابلہ کرتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے جیسے مقدمات میں ہوتا ہے.اس لئے آرام اسی میں ہے کہ تم ایسے لوگوں کا مقابلہ ہی نہ کرو.سید باب کا طریق رکھو اور کسی سے جھگڑا مت کرو.زبان بند رکھو.گالیاں دینے والے کے پاس سے چپکے گذر جاؤ گویا سناہی نہیں اور ان لوگوں کی راہ اختیار کرو جن کے لئے قرآن شریف نے فرمایا وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا.اگر یہ باتیں اختیار کر لو گے تو یقیناً یقینا اللہ تعالیٰ کے بچے مخلص بن جاؤ گے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 131)
915 غربت اور مسکینی کی زندگی رو اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ غربت اور مسکینی میں اپنی زندگی بسر کرے یہ ایک تقویٰ کی شاخ ہے.جس کے ذریعہ ہمیں غضب ناجائز کا مقابلہ کرنا ہے.بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے ہی بچنا ہے.معجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے.اور ایسا ہی کبھی خود غضب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے.کیونکہ غضب اس وقت ہوگا.جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 23-22) تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اُس یار کے لئے رہ عشرت کو چھوڑ دو لعنت کی ہے یہ راہ سو لعنت کو چھوڑ دو ورنہ خیال حضرت عزت کو چھوڑ دو تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول تا تم پہ ہو ملائکہ عرش کا نزول اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش پیئے مرضی خدا براہین احمدیہ جلد پنجم.ر.خ.جلد 21 صفحہ 18-17) رياء فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَآءُ وُنَ (الماعون :5 تا 7) معجب اور دریا بہت مہلک چیزیں ہیں ان سے انسان کو بچنا چاہیئے.انسان ایک عمل کر کے لوگوں کی مدح کا خواہاں ہوتا ہے.بظاہر وہ عمل عبادت وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے جس سے خدا تعالیٰ راضی ہو مگر نفس کے اندر ایک خواہش پنہاں ہوتی ہے کہ فلاں فلاں لوگ مجھے اچھا کہیں.اس کا نام رہا ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 567) خدا کا یہی منشاء ہے کہ لفظی اور زبانی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنایا جاوے.یہودی کیا تو ریت پر ایمان نہیں لاتے تھے ؟ قربانیاں نہ کرتے تھے؟ مگر خدا تعالیٰ نے ان پر لعنت بھیجی اور کہا کہ تم مومن نہیں ہو.بلکہ بعض نمازیوں کی نماز پر بھی لعنت بھیجی ہے.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمُ يُرَاءُ ونَ.یعنی لعنت ہے ایسے نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں.صلوۃ اصل میں آگ میں پڑنے اور محبت الہی اور خوف الہی کی آگ میں پڑ کر اپنے آپ سے جل جانے اور ماسوی اللہ کو جلا دینے کا نام ہے اور اس حالت کا نام ہے کہ صرف خدا ہی خدا اس کی نظر میں رہ جاوے اور انسان اس حالت تک ترقی کر جاوے کہ خدا کے بلانے سے بولے اور خدا کے چلانے سے چلے.اس کے کل حرکات اور سکنات اس کا فعل اور ترک فعل سب اللہ ہی کی مرضی کے مطابق ہو جاوے خودی دور ہو جاوے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 590)
916 لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ.كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللهِ اَنْ تَقُولُوا مَالَا تَفْعَلُونَ.(الصف: 3-4) اسلام کا دعویٰ کرنا اور میرے ہاتھ پر بیعت تو بہ کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ جب تک ایمان کے ساتھ عمل نہ ہو کچھ نہیں.منہ سے دعویٰ کرنا اور عمل سے اس کا ثبوت نہ دینا خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کا نا ہے اور اس آیت کا مصداق ہو جاتا ہے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَالَا تَفْعَلُونَ.یعنی اے ایمان والو م وہ بات کیوں کہتے ہو جوتم نہیں کرتے ہو.یہ امر کہ تم وہ باتیں کہو جن پر تم عمل نہیں کرتے خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑے غضب کا موجب ہے.پس وہ انسان جس کو اسلام کا دعوی ہے یا جو میرے ہاتھ پر توبہ کرتا ہے اگر وہ اپنے آپ کو اس دعوی کے موافق نہیں بنا تا اور اس کے اندر کھوٹ رہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے بڑے غضب کے نیچے آ جاتا ہے اس سے بچنا لازم ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 351) مقت خدا کے غضب کو کہتے ہیں.یعنی بڑا غضب ان پر ہوتا ہے جو اقرار کرتے ہیں اور پھر کرتے نہیں.ایسے آدمی پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے.اس لئے دعائیں کرتے رہو.کوئی ثابت قدم نہیں رہ سکتا جب تک خدا نہ رکھے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 174) اصل بات یہ ہے کہ انسان کو اپنی صفائی کرنی چاہیئے.صرف زبان سے کہہ دینا کہ میں نے بیعت کر لی ہے کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا جب تک عملی طور کچھ کر کے نہ دکھلایا جاوے.صرف زبان کچھ نہیں بنا سکتی.قرآن شریف میں آیا کہ لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ.كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ اَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ.(الصف : 3-4) یہ وقت ہے کہ سابقون میں داخل ہو جاؤ یعنی ہر نیکی کے کرنے میں سبقت لے جاؤ.اعمال ہی کام آتے ہیں زبانی لاف و گزاف کسی کام کی نہیں.دیکھو حضرت فاطمہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ فاطمہ اپنی جان کا خود فکر کرلے میں تیرے کسی کام نہیں آسکتا.بھلا خدا کا کسی سے رشتہ تو نہیں وہاں یہ نہیں پوچھا جاوے گا کہ تیرا باپ کون ہے بلکہ اعمال کی پرسش ہوگی.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 453)
917 متفرق اخلاق حسنہ نیک عمل کی مثال ایک پرند کی طرح ہے.اگر صدق اور اخلاص کے قفس میں اسے قید رکھو گے تو وہ رہے گا ور نہ پرواز کر جاوے گا اور یہ بجز خدا کے فضل کے حاصل نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (الكهف: 111) عمل صالح سے یہاں یہ مراد ہے کہ اس میں کسی قسم کی بدی کی آمیزش نہ ہو صلاحیت ہی صلاحیت ہو.نہ عجب ہو.نہ کبر ہو.نہ نخوت ہو.نہ تکبر ہو.نہ نفسانی اغراض کا حصہ ہو.نہ رو بخلق ہو.حتی کہ دوزخ اور بہشت کی خواہش بھی نہ ہو صرف خدا کی محبت سے وہ عمل صادر ہو.جب تک دوسری کسی قسم کی غرض کو دخل ہے تب تک ٹھوکر کھائے گا اور اس کا نام شرک ہے کیونکہ وہ دوستی اور محبت کس کام کی جس کی بنیاد صرف ایک پیالہ چائے یا دوسری خالی محبوبات تک ہی ہے.ایسا انسان جس دن اس میں فرق آتا دیکھے گا اسی دن قطع تعلق کر دے گا.جو لوگ خدا سے اس لئے تعلق باندھتے ہیں کہ ہمیں مال ملے یا اولاد حاصل ہو یا ہم فلاں فلاں امور میں کامیاب ہو جاویں ان کے تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور ایمان بھی خطرہ میں ہے جس دن ان کے اغراض کو کوئی صدمہ پہنچا اسی دن ایمان میں بھی فرق آ جاوے گا.اس لئے پکا مومن وہ ہے جو کسی سہارے پر خدا کی عبادت نہیں کرتا.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 102) وہ دور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دُور ہیں ہر دم اسیر نخوت و کبر و غرور ہیں تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اُس یار کے لئے رو عشرت کو چھوڑ رو لعنت کی ہے یہ راہ سو لعنت کو چھوڑ دو ورنہ خیال حضرت عزت کو چھوڑ دو تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول تا تم ملائکہ عرش کا نزول اسلام چیز کیا ہے ؟ خدا کے لئے فتا ترک رضائے خویش پے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات شوخی و کبر دیو لعیں کا شعار ہے آدم کی نسل و جو وہ خاکسار اے کرم خاک ! چھوڑ دے کبر و غرور کو زیبا ہے کبر حضرت رب غیور کو وہ ہے ہے بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں چھوڑ و غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے ہو جاؤ خاک مرضی مولیٰ اسی میں ہے (براہین احمدیہ جلد پنجم.رخ.جلد 21 صفحہ 18-17)
918 چودھویں فصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا اتباع اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرز عمل کو اپنار ہبر اور ہادی نہ بناوے چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا قُل اِنْ كُنْتُمُ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : 32) یعنی محبوب الہی بننے کے لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جاوے.سچی اتباع آپ کے اخلاق فاضلہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 62) سید نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت و پیروی و تصدیق رسالت اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور ان انعامات کا وارث جو اگلے برگزیدہ انبیاء پر ہوئے چنانچہ فرمایا يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا (الانفال : 30) یعنی وہ تمہیں ایک فرقان دیگا.پس دوسرے مذاہب اور اس میں ایک مابہ الامتیا ز اسی جہان میں ہونا ضروری ہے.اللہ جل شانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:5) ( ملفوظات جلد پنجم صفحه 633) یعنی تو ایک بزرگ محلق پر قائم ہے سو اس تشریح کے مطابق اس کے معنے ہیں یعنی یہ کہ تمام تمیں اخلاق کی سخاوت، شجاعت، عدل، رحم احسان صدق حوصلہ وغیرہ تجھ میں جمع ہیں غرض جس قدر انسان کے دل میں قو تیں پائی جاتی ہیں جیسا کہ ادب حیا دیانت، مروت، غیرت استقامت عفت، زیادت اعتدال، مواسات یعنی ہمدردی ایسا ہی شجاعت، سخاوت، عفو صبر احسان صدق وفا وغیرہ جب یہ تمام طبعی حالتیں عقل اور تدبر کے مشورہ سے اپنے اپنے محل اور موقع پر ظاہر کی جائیں گی تو سب کا نام اخلاق ہوگا اور یہ تمام اخلاق در حقیقت انسان کی طبعی حالتیں اور طبعی جذبات ہیں اور صرف اس وقت اخلاق کے نام سے موسوم ہوتے کہ جب محل اور موقع کے لحاظ سے بالا رادہ ان کو استعمال کیا جائے.چونکہ انسان کے طبعی خواص میں سے ایک یہ بھی خاصہ ہے کہ وہ ترقی پذیر جاندار ہے اس لئے وہ بچے مذہب کی پیروی اور نیک صحبتوں اور نیک تعلیموں سے ایسے طبعی جذبات کو اخلاق کے رنگ میں لے آتا ہے اور یہ امر کسی اور جاندار کے لئے نصیب نہیں.جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے مصطف پر اسلامی اصول کی فلاسفی -رخ- جلد 10 صفحہ 334-333) ترا بیحد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے ہم ہوئے خیر ام تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے (آئینہ کمالات اسلام-رخ- جلد 5 صفحہ 226-225 ) ( در شین اردو صفحہ 14-13)
919 خدا کی راہ میں خرچ کرنا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَ مَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ.(آل عمران: 93) دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے.اسی واسطے علم تعبیر الرویا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے.یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقا اور ایمان کے حصول کے لیے فرمایا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّون حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک کہ تم عزیز ترین چیز خرچ نہ کرو گے کیونکہ مخلوق الہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوق الہی کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے جس کے بدوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا.جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچاسکتا ہے دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لیے ایثا ر ضروری سے ہے اور اس آیت میں لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّون میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے.پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں لہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاث البيت لے کر حاضر ہو گئے.کیا تمہیں خبر نہیں کہ تمہیں تو یہ حکم دیا وَأَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنْهَرُ (الضحى: 11) اور سائل خواہ گھوڑے پر ہی سوار ہو کر آیا ہو پھر بھی واجب نہیں کہ اس کو رد کیا جاوے تیرے لئے یہ حکم ہے کہ تو اس کو جھڑک نہیں ہاں خدا تعالیٰ نے اس کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ سوال نہ کرے.وہ اپنی خلاف ورزیوں کی خود سزا پالے گا لیکن تمہیں یہ مناسب نہیں کہ تم خدا تعالیٰ کے ایک واجب العزت حکم کی نافرمانی کرو.غرض اس کو کچھ دے دینا چاہیئے اگر پاس ہو اور اگر پاس نہ ہو تو نرم الفاظ سے اس کو سمجھا دو.صدق اور وفا ( ملفوظات جلد اول صفحہ 368-367) ( ملفوظات جلد اول صفحہ 375-374) وَ إِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى.(النجم: 38) نامرد بزدل بیوفا جو خدا تعالیٰ سے اخلاص اور وفاداری کا تعلق نہیں رکھتا بلکہ دغا دینے والا ہے وہ کس کام کا ہے اس کی کچھ قدر و قیمت نہیں ہے ساری قیمت اور شرف وفا سے ہوتا ہے.ابراہیم علیہم الصلوۃ والسلام کو جو شرف اور درجہ ملاوہ کس بناء پر ملا؟ قرآن شریف نے فیصلہ کر دیا ہے وَ اِبْراهِيمَ الَّذِي وَفی ابراہیم وہ ہے جس نے ہمارے ساتھ وفاداری کی آگ میں ڈالے گئے مگر انہوں نے اس کو منظور نہ کیا کہ وہ ان کافروں کو کہہ دیتے کہ تمہارے ٹھا کروں کی پوجا کرتا ہوں.خدا تعالیٰ کے لئے ہر تکلیف اور مصیبت کو برداشت کرنے پر آمادہ ہو گئے.خدا تعالیٰ نے کہا کہ اپنی بیوی کو بے آب و دانہ جنگل میں چھوڑ آ.انہوں نے فی الفور اس کو قبول کر لیا.ہر ایک ابتلاء کو انہوں نے اس طرح پر قبول کر لیا کہ گویا عاشق اللہ تھا.درمیان میں کوئی نفسانی غرض بہی تھی.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 516)
920 صوفیوں نے لکھا ہے کہ اوائل سلوک میں جور و بیابا وحی ہو اس پر توجہ نہیں کرنی چاہیئے وہ اکثر اوقات اس راہ میں روک ہو جاتی ہے.انسان کی اپنی خوبی اس میں تو کوئی نہیں کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو وہ کسی کو کوئی اچھی خواب دکھاوے یا کوئی الہام کرے.اس نے کیا کیا؟ دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت وحی ہوا کرتی تھی لیکن اس کا کہیں ذکر بھی نہیں کیا گیا کہ اس کو یہ الہام ہوا یہ وحی ہوئی بلکہ ذکر کیا گیا ہے تو اس بات کا کہ وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِى وفی وہ ابراہیم جس نے وفاداری کا کامل نمونہ دکھایا.الہامی اشعار صادق آن باشد که ایام بلا ے ( ملفوظات جلد سوم صفحه 637) گذارد با محبت با وفا صادق وہ ہوتا ہے کہ ابتلاؤں کے دن محبت اور وفاداری سے گذارتا ہے.گر قضا را عاشقه گردد اسیر! بوسد آں زنجیر را کز آشنا! اگر قضائے الہی سے عاشق قید ہو جاتا ہے تو وہ اس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہو.مزید فرمایا (کتاب البرية -ر خ- جلد 13 ٹائٹیل پیچ ) ( درشین فارسی صفحه 220 ) يارب مرا بہر قدمم استوار دار داں روز خود مباد کہ عہد تو بشکنم اے رب مجھے ہر قدم پر مضبوط رکھ اور ایسا کوئی دن نہ آئے کہ میں تیرا عہد توڑوں.در کوئے تو اگر سرعشاق را زنند اول کسیکه لاف تعشق زند منم! اگر تیرے کوچہ میں عاشقوں کے سرا تارے جائیں تو سب سے پہلے جو عشق کا دعویٰ کرے گا وہ میں ہوں گا.آئینہ کمالات اسلام - ر-خ- جلد 5 صفحہ 658) ( درشین فارسی متر جم صفحه 195) غیبت اور سوءظن وَلَا يَغْتَب بَعْضُكُمْ بَعْضًا اَ يُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ (الحجرات:13) اپنے بھائی کا گلہ کر نامردہ کھانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے وَلَا يَغْتَبُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ (الحجرات: 13) یعنی ایک مسلمان کو چاہیئے کہ دوسرے مسلمان کا گلہ نہ کرے.کیا کوئی مسلمان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاوے.(ست بچن.ر.خ.جلد 10 صفحہ 260) فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنون فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے.اگر نیک ظن کرے تو پھر کچھ دینے کی توفیق بھی مل جاتی ہے.جب پہلی ہی منزل پر خطا کی تو پھر منزل مقصود پر پہنچنا مشکل ہے.بدظنی بہت بُری چیز ہے انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کر دیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدظنی شروع کر دیتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 375)
921 بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں.جو ان سے بُوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے مثلاً گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بُرا قرار دیا ہے چنانچہ فرمایا ہے ا يُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ (الحجرات : 13) خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کاروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے.ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو یہ سب بُرے کام ہیں.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 654-653) تم دیکھ کر بھی بد کو بچو بد گمان ڈرتے رہو عقاب خُدائے جہان سے شاید تمھاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا شاید وہ بد نہ ہو جو تمھیں ہے وہ بد نما شاید تمہارے فہم کا ہی کچھ قصور ہو ! شاید سلوک کامل وہ آزمائش رب غفور ہو (براہین احمدیہ جلد پنجم.ر.خ.جلد 21 صفحہ 19-18) وژه إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرَامِّنُ طِيْنِ.فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ.فَسَجَدَ الْمَلَئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ.إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ.(ص: 72 تا 75) ط سو یہ اس قدیم قانون کی طرف اشارہ ہے جو خدائے تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کے ساتھ ہمیشہ جاری رکھتا ہے.جب کوئی شخص کسی زمانہ میں اعتدال روحانی حاصل کر لیتا ہے اور خدائے تعالیٰ کی روح اس کے اندر آباد ہوتی ہے یعنی اپنے نفس سے فانی ہو کر بقاء باللہ کا درجہ حاصل کرتا ہے تو ایک خاص طور پر نزول ملائکہ کا اس پر شروع ہو جاتا ہے.اگر چہ سلوک کی ابتدائی حالت میں بھی ملائک اس کی نصرت اور خدمت میں لگے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ نزول ایسا اتم اور اکمل ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم رکھتا ہے اور سجدہ کے لفظ سے خدائے تعالیٰ نے یہ ظاہر کر دیا کہ ملائکہ انسان کامل سے افضل نہیں ہیں بلکہ وہ شاہی خادموں کی طرح سجدات تعظیم انسان کامل کے آگے بجالا رہے ہیں.( توضیح مرام -ر-خ- جلد 3 صفحہ 77-76) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ.(الحجر: 30) یعنی جب میں نے اس کا قالب بنالیا اور تجلیات کے تمام مظاہر درست کر کئے اور اپنی روح اس میں پھونک دی تو تم سب لوگ اس کے لئے زمین پر سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤ سو اس آیت میں بھی یہی اشارہ ہے کہ جب اعمال کا پورا قالب تیار ہو جاتا ہے تو اس قالب میں وہ روح چمک اٹھتی ہے جس کو خدائے تعالیٰ اپنی ذات کی طرف منسوب کرتا ہے کیونکہ دنیوی زندگی کے فنا کے بعد وہ قالب تیار ہوتا ہے اس لئے الہی روشنی جو پہلے دھیمی تھی ایک دفعہ بھڑک اٹھتی ہے اور واجب ہوتا ہے کہ خدا کی ایسی شان کو دیکھ کر ہر ایک سجدہ کرے اور اس کی طرف کھنچا جائے.سو ہر ایک اس نور کو دیکھ کر سجدہ کرتا ہے اور طبعا اس طرف آتا ہے بجز ابلیس کے جو تاریکی سے دوستی رکھتا ہے.( اسلامی اصول کی فلاسفی.ر.خ.جلد 10 صفحہ 322)
922 چوصوف صفا در دل آمیختند مداد از سوادِ عیون ریختند جب صفائی کا صوف دل میں ملاتے ہیں تو آنکھوں کی سیاہی سے روشنی ڈالتے ہیں.دو چیز است چوپان دنیا و دیں دل روشن و دیده دُور ہیں دو چیزیں دین و دنیا کی محافظ ہیں.ایک تو روشن دل دوسرے دوراندیش نظر.راست آں بندگانِ کرام که از بهر شان می کند صبح و شام خدا کے نیک بندے ایسے بھی ہیں جن کے لیے خا صبح وشام کو پیدا کرتا ہے.بدنبال چشمے چومے بنگر ند جہانے بدنبال خود می کشند جب وہ کن انکھیوں سے دیکھتے ہیں تو ایک جہان کو اپنے پیچھے پیچ لیتے ہیں.خدا اثر باست در گفتگو ہائے شاں چکد نور وحدت زرو ہائے شاں ان کے کلام میں اثر ہوتا ہے اور ان کے چہروں سے توحید کا نور ٹیکتا ہے.در او شاں بہ اظہار ہر خیر و شر نها دست حق خاصیت مستتر ان میں نیکی اور بدی کے اظہار کے لیے خدا تعالیٰ نے مخفی خاصیت رکھ دی ہے.نیستند ولی از خدا هم جدا نیستند باتن خدا اگر چے اگر چہ کہنے کو وہ خدا نہیں ہیں.لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہیں.کے را که او ظل یزداں بود قیاسش بخود جهل و طغیاں بود جو شخص خدا کا ظل ہو اس کو اپنے پر قیاس کرنا جہالت اور سرکشی ہے.در متین فارسی صفحہ 322-321) ( اخبار البدر صفحہ نمبر 27 مورخہ 29 اپریل1909) مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى.(النجم: 18) انتہائی درجہ ترقیات کا ملہ کا) وہ ہے جس کی نسبت لکھا ہے مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى - انسان زمانہ سیر سلوک میں اپنے واقعات کشفیہ میں بہت سے عجائبات دیکھتا ہے اور انواع و اقسام کی واردات اس پر وارد خط ہوتی ہیں مگر اعلیٰ مقام اس کا عبودیت ہے جن کا لازمہ محو اور ہوشیاری سے اور شکر اور شطح سے بکلی بیزاری ہے.(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 12 مکتوب نمبر 8) فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَل جَعَلَهُ دَكَّا وَّ خَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُحْنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ.(الاعراف: 144) جب طالب کمال وصال کا خدا کے لیے اپنے تمام وجود سے الگ ہو جاتا ہے اور کوئی حرکت اور سکون اس کا اپنے لیے نہیں رہتا بلکہ سب کچھ خدا کے لیے ہو جاتا ہے تو اس حالت میں اس کو ایک روحانی موت پیش آتی ہے جو بقا کو مستلزم ہے پس اس حالت میں گویا وہ بعد موت کے زندہ کیا جاتا ہے اورغیر اللہ کا وجود اس کی آنکھ میں باقی نہیں رہتا یہاں تک کہ غلبہ مشہور ہستی الہی سے وہ اپنے وجود کو بھی نابود ہی خیال کرتا ہے پس یہ مقام عبودیت و فناء اتم ہے جو غایت سیر اولیاء ہے اور اسی مقام میں غیب سے باذن اللہ ایک نو ر سالک کے قلب پر نازل ہوتا ہے جو تقریر اور تحریر سے باہر ہے.
923 غلبہ شہود کی ایک ایسی حالت ہے کہ جو علم الیقین اور عین الیقین کے مرتبہ سے برتر ہے.صاحب شہود نام کو ایک علم تو ہے مگر ایسا علم جو اپنے ہی نفس پر وارد ہو گیا ہے جیسے کوئی آگ میں جل رہا ہے.سوا گر چہ وہ بھی جلنے کا ایک علم رکھتا ہے مگر وہ علم الیقین اور عین الیقین سے برتر ہے.کبھی شہود تام بے خبری تک بھی نوبت پہنچا دیتا اور حالت سکر اور بیہوشی کی غلبہ کرتی ہے اس حالت سے یہ آیت مشابہ ہے فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكَّا وَّ خَرَّ مُوسَى صَعِقًا لیکن حالت تام وہ ہے جس کی طرف اشارہ ہے مَازَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغَى.(النجم : 18) یہ حالت اہل جنت کے نصیب ہوگی.معرفت انسان کامل ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 413-412) ہماں نے نوع بشر کامل از خدا باشد که با نشان نمایاں خدا نما باشد ان میں وہی خدا کی طرف سے کامل ہوتا ہے جو روشن نشانوں کے ساتھ خدا نما ہوتا ہے.بتابد از رخ أو نور عشق و صدق و وفا ز خلق أو كرم و غربت و حیا باشد اس کے چہرہ سے عشق اور صدق وصفا کا نور چمکتا ہے کرم.انکسار اور حیا اس کے اخلاق ہوتے ہیں.صفات او ہمہ ظل صفات حق باشند ہم استقامت او ہیچو انبیاء باشد ان کی ساری صفات خدا کی صفات کا پر تو ہوتی ہیں اور اس کا استقلال بھی انبیاء کے استقلال کی مانند ہوتا ہے.روان بچشمه او بحر سرمدی باشد عیاں در آئینه اش روئے کبریا باشد اسی سر چشمہ سے ابدی فیضان کا سمندر جاری ہوتا ہے اور اس کے چہرہ میں خدائے بزرگ کا چہرہ نظر آتا ہے.د أو همه سوئے فلک بود هردم وجود او همه رحمت چو مصطفه باشد اس کی پرواز ہر وقت آسمان کی طرف ہی ہوتی ہے.اور اس کا وجود مصطفے کی طرح سراسر رحمت ہوتا ہے.خبر دهد بقدومش خدا به مصحف پاک هم از رسول سلامے بصد شنا باشد خدا اس کی تشریف آوری کی خبر قرآن مجید میں دیتا ہے اور رسول کی طرف سے بھی سینکڑوں ثنا اور سلام بھیجے جاتے ہیں.نتا بد از ره جانان خود سر اخلاص اگر چه سیل مصیبت بزور ها باشد وہ اپنے معشوق کی راہ میں کبھی اخلاص میں کمی نہیں آنے دیتا.خواہ مصیبتوں کا طوفان کتنے ہی زوروں پر ہو.براہِ یار عزیز از بلا نه پرهیزد اگر چه در ره آن یار اژدها باشد صعود اس عزت والے دوست کی راہ میں وہ کسی بلا سے نہیں ڈرتا خواہ اس یار کے راستے میں اثر ر ہا بیٹھا ہو.کند حرام همه عیش و خواب را بر نفس چو جمله عارف و عامی در این بلا باشد وہ نیند اور عیش کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے جبکہ سب نیک و بد اس عیش و عشرت کی بلا میں گرفتار ہوئے.تریاق القلوب.رخ - جلد 15 صفحہ 129 ) ( در شین فارسی متر جم صفحه 262-261)
924 سالک کامل إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَ الْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا.(النصر : 2-3) سو در حقیقت ایک ہی کامل انسان دنیا میں آیا جس نے ایسے اتم اور اکمل طور پر یہ روحانی قیامت دکھلائی اور ایک زمانہ دراز کے مردوں اور ہزاروں برسوں کے عظیم رمیم کو زندہ کر دکھلایا اس کے آنے سے قبریں کھل گئیں اور بوسیدہ ہڈیوں میں جان پڑ گئی اور اس نے ثابت کر دکھلایا کہ وہی حاشر اور وہی روحانی قیامت ہے جس کے قدموں پر ایک عالم قبروں میں سے نکل آیا اور بشارت إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ.وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا.(النصر :2-3) تمام جزیرہ عرب پر اثر انداز ہوگئی اور پھر اس قیامت کا نمونہ صحابہ تک ہی محدود نہ رہا بلکہ اس خداوند قادر قدیر نے جس نے ہر قوم اور ہر زمانہ اور ہر ملک کے لئے اس بشیر و نذیر کو مبعوث کیا تھا ہمیشہ کے لئے جاودانی برکتیں اس کے بچے تابعداروں میں رکھ دیں اور وعدہ کیا کہ وہ نور اور وہ روح القدس جو اس کامل انسان کے صحابہ ” کو دیا گیا تھا آنے والے متبعین اور صادق الا خلاص لوگوں کو بھی ملے گا.( آئینہ کمالات اسلام - ر- خ - جلد 5 صفحہ 208-207 ) إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ.(الاحزاب: 73) وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا، نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ حل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سمادی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں اور امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قومی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے اور پھر انسان کامل بر طبق آیت إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّو الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا.(النساء: 59) اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کے راہ میں وقف کر دیتا ہے.آئینہ کمالات اسلام - خ - جلد 5 صفحہ 161-160) غور سے دیکھنا چاہیئے کہ جس حالت میں اللہ جل شانہ آنحضرت صلی علیہ وسلم کا نام اول المسلمین رکھتا ہے اور تمام مطیعوں اور فرمانبرداروں کا سردار ٹھہراتا ہے اور سب سے پہلے امانت کو واپس دینے والا آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیتا ہے تو پھر کیا بعد اس کے کسی قرآن کریم کے ماننے والے کو گنجائش ہے کہ آنحضرت صلی اللہ کی شان اعلیٰ میں کسی طرح کا جرح کر سکے.خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ بالا میں اسلام کے لئے کئی مراتب رکھ کر سب مدارج سے اعلیٰ درجہ وہی ٹھہرایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کو عنایت فرمایا.سُبحَانَ اللَّهِ مَا أَعْظَمَ شَأْنُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَ موسی و عیسی ہمہ خیل تواند جملہ دریں راہ طفیل تواند (ترجمہ: - موسیٰ اور عیسی تیرے پیرو ہیں.اس راہ میں سب تیرے طفیل سے ہیں.) ( آئینہ کمالات اسلام -ر خ- جلد 5 صفحہ 164-163)
925 ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى (النجم 10,9) اور جو تشبیہات قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخنی طور پر خدا وند قادر مطلق سے دی گئی ہیں ان میں سے ایک یہی آیت ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ ادنى (النجم 10,9) یعنی وہ (حضرت سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی ترقیات کا ملہ قرب کی وجہ سے دوقو سوں میں بطور وتر کے واقع ہے بلکہ اس سے نزدیک تر اب ظاہر ہے کہ وتر کی طرف اعلیٰ میں قوس الوہیت ہے سو جب کہ نفس پاک محمدی اپنے شدت قرب اور نہایت درجہ کی صفائی کی وجہ سے وتر کی حد سے آگے بڑھا اور دریائے الوہیت سے نزدیک تر ہوا تو اس نا پیدا کنار دریا میں جا پڑا اور الوہیت کے بحر اعظم میں ذرہ بشریت گم ہو گیا اور یہ بڑھنا نہ مستحدث اور جدید طور پر بلکہ وہ ازل سے بڑھا ہوا تھا.اور ظلی اور مستعار طور پر اس بات کے لائق تھا کہ آسمانی صحیفے اور الہامی تحریریں اس کو مظہر اتم الوہیت قرار دیں اور آئینہ حق نما اس کو ٹھہرا دیں.سرمه چشم آریہ.رخ.جلد 2 صفحہ 275-274 حاشیہ ) شفیع کا لفظ شفع سے نکلا ہے جس کے معنے جفت کے ہیں.اس لئے شفیع وہ ہو سکتا ہے جو دو مقامات کا مظہر اتم لاہوت اور ناسوت کا ہو.لا ہوتی مقام کا مظہر کامل ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس کا خدا کی طرف صعود ہو.وہ خدا سے حاصل کرے.اور ناسوتی مقام کے مظہر کا یہ مفہوم ہے کہ مخلوق کی طرف اس کا نزول ہو جو خدا سے حاصل کرے وہ مخلوق کو پہنچا دیا اور مظہر کامل ان مقامات کا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے دَنَا فَتَدَلَّى.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى (النجم 10,9) ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 170 ) و لا ريب ان نبینا سمی محمدا لما اراد الله ان يجعله محبوبا في اعينه و اعين الصلحين و كذلك سماه احمد لما اراد سبحانه ان يجعله محب ذاته ومحب المومنين.فهو محمد بشان و احمد بشان و اختص احد هذين الاسمين بزمان والاخر بزمان.و قد اشار اليه سبحانه في قوله دنا فتدلى.و في قاب قوسین او ادنی.(اعجاز مسیح-ر-خ- جلد 18 صفحہ 109) ترجمه از مرتب:.بلا شک ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد رکھا گیا تا کہ آپ کو ( اللہ تعالیٰ ) اپنی نظر میں اور لوگوں کی نظر میں محبوب ٹھہرائے.اور اسی طرح آپ کا نام احمد رکھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا کہ آپ کو اپنی ذات اور مسلمان لوگوں کا محب قرار دے.پس آپ کی دوسشا نہیں ہیں ایک شان کے لحاظ سے آپ محمد ہیں اور دوسری شان کے لحاظ سے آپ احمد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ایک نام کو ایک زمانہ سے اور دوسرے نام کو دوسرے زمانہ سے خاص کر دیا.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے قول ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنی میں اشارہ کیا ہے.
926 وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل انسان اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے رُوحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دُنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اُسکے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلين فخر النبين جناب محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اے پیارے خُدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دُنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.اگر یہ عظیم الشان نبی دُنیا میں نہ آتا تو پھر جسقدر چھوٹے چھوٹے نبی دُنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح ابن مریم اور ملا کی اور بیٹی اور ذکریا وغیرہ وغیرہ اُن کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگر چہ سب مقرب اور وجیہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے.یہ اُسی نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دُنیا میں سچے سمجھے گئے.اللھم صلی وسلّم و بارک علیه واله و اصحابه اجمعين واخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين ٥ اتمام الحجہ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 308) نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نورسارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبراک دوسرے سے بہتر لیک از خُدائے برتر خیر الوریٰ یہی پہلوں سے خُو بتر ہے خوبی میں اک قمر ہے اس پر ہراک نظر ہے بدرالدجی یہی ہے پہلے تو راہ میں ہارے پار اس نے ہیں اتارے میں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے پر دے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے دل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے وہ یار لامکانی وہ دلبر نہانی دیکھا ہے ہم نے اس سے بس رہنما یہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلین ہے وہ طیب و امیں ہے اس کی ثناء یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم.ر.خ.جلد 20 صفحہ 456)
927 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الفاتحه انڈیکس آیات قرآن کریم الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (2) [311] [125] [129] [146] [155] [295] [298] [421] وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ.....(5) [21] [233] [610][619] [739] [746] خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبهم......(8) [545] كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمُ.....( 21 )[654] [865] [772] [652] [623] [570] وَإِن كُنتُمْ فِي (24-25) [382] وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا.....(26)[859][691] الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ (3) [570][421] [409] [295][146] [132] [125] وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ.....( 31 ) [587] [196] [652][772][865] ملِكِ يَوْمِ الدِّينه (4) [125] [126][140] [146] [295] [409] [421] لا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا (33)[729] أَبي وَ اسْتَكْبَرَ (35)[657] [865] [846] [865] [772] [652] [622] [570] وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ (37) [481] (7-6) 0 [576] [622] فتلقى ادم من ربه كلمات (38)[876] إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين (5) [418] [295] [155] [154] [153] [149][147] وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَ.....(40) [543] یبنی اسراءیل اذكر......(41)[690] اهْدِنَا الصِّرَاطَ..[119] [118] [115] [111][106] [47] [46] وَامِنُوْا بِمَا أَنْزَلْت.....( 42 ) [317] [161] [160] [158] [157] [156] [143][121] وَأَقِيمُوا الصَّلوة....(44)[632] [168] [167] [166] [165] [164] [163] [162] وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبر....(46) [860] [453] [169] [170] [171] [172] [173] [174] [175] [191] [196] [205] [218][226] [252] [293] [309] (54 [183] [181] [180] [179] [178] [177] [176] وَإِذا تَيْنَا مُوسَى.[190] [189] [188] [187] [186] [185] [184] وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى.....(62)[204] [422] [409] [401] [347] [316] [296] [295] إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ الَّذِينَ....(63)[777] [772] [703][603][520] [462][461] [426][417] [423] هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّن..(86) [432 [325] [828][809] [791] [768] [761][748] [712] وَلَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ....( 88) [204] البقرة الم (2) [846][855] [856] [865] [870] [896] [309][325][358][385][413] [619] [739][746] ذلك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين (3) [463] [711] مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَ مَلئِكَتِه.[586] (99) وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيطين (103) [356] مَانَنْسَحْ مِنْ آيَةٍ أَوْنُنْسِهَا....(107) [359] لله و [385] [368] [358] [325] [315] [309] [16] بلى من اسلم وجهه [413] [595] [619] [739] [746] الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ (4) (113)....[777][841][842][855] قُلْ إِنْ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدَى.....(121) [16] [746] [739] [619] [358] [315] وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً......(126)
928 [861] [684] [203] اللهُ لَا إِلهَ إِلَّا هُوَ....( 256) [699][618][571] إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِم (132) [807] قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ.....(145)[662] فَاذْكُرُونِي أَذْكُرُكُمْ....(153) [819] وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَى (156-158) اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا....(258) [522] يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ.....(270) [310] [400] [434] [618] [672] [720] [735] [486] [487] [490] [498] [557] [559]......\ [850] [851] [852] [853] [867][872] [911] [581] (165) إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَواتِ.أَشَدُّ حُب الله (166)[805] [804] [433] إِنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (166)[880] [814] [808] إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَية (174)[560] [559]......لَيْسَ الْبَرَّ أَن تُوَلُّوا.....(178) [586] [569] لَا إِكْرَاهَ فِي الدين.....( 257) الَّذِينَ يَأكُلُونَ الرّبوا (280-276) امَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْل.....(286) [595][567] لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا - (287) [512] آل عمران يَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا.....( 184)862] [628] الم - الله لا إله.....( 2 تا4) [571] أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ.......(185) [630][350] هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ (8 )[774] [680][348]......شَهْرُ رَمَضَانَ.....(186)[631] [863][16] الصبرينَ وَالصَّدِقِينَ (آل عمران (18)[883] وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى...(187) [911] [584] إِنَّ الدِّينَ عِنْدِ اللهِ الْإِسْلَام.....(20)[780] فَإِنْ حَاجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمُت.....(21) [494] وقاتلوا في سبيل الله (191).[496] [500] [506] [552] (196).تُولِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَار و.وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمُ (196) [548] [247] [39] | قُل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ (32) ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ....(200)[885] [883] فَاذْكُرُوا الله.( (201) [819][805][672] رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا.....(202) [660].[462][695](28) [170] [440] [599] [795] [801] [804] [812] [813][814][816][817][818][821][876] [918] اِسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى.....(46)[786][781] وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُش...(208)[910] [856] أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمُ....( 50 ) [528] إِذْ قَالَ اللَّهُ يَعِيُسي..(56) فَاذْكُرُوا الله (210)[672] عَسَى أَن تَكْرَهُوا...(217 ) [876]......إن الله يُحِبُّ التَّوَّابِينَ (223) [880] [881] [886] إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ (219) [484] نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ...(224) [551] الطَّلَاقُ مَرَّتَن فَإِمْسَاك....(230) [555] [554] وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ.....(235) [556] يتوفون منكم.......( 241) [781] [650][475] تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا.....254 ) [843][687] [654] [61][177][223] [244] [416] [437] [474] [475][647] [789] إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ (60)[31] قُلْ يَأَهْلَ الْكِتَبِ تَعَالَوا...(65) [777] [327] وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِين....(82)[597] إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ....91)[879] لَن تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى....93)[909]-[919] فيه ا يت بينت مقام......98) [635][634] وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ.....( 104) [441] [16] [443]
929 كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَت (111) [173] [180] [395][460][461][603] أَضْعَافًا مُّضْعَفَةٌ - (131) [559] وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ....(135)[486] وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ.....(145) [476] [479][480] [481] [483] فَإِذَا عَزَمُتْ.....(160)[914] يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَته.....(165)[714] رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا....(192)[751] الَّذِينَ يَذْكُرُونَ الله..(192)[751] وتوفنا مع الابرار (194)[781] [650][475] النساء......يا يُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُم (2) [244] وَ إِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي.....(4)[552] [509] حَتَّى يَتَوَفَّهُنَّ الْمَوْتُ - (16) [473] وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوف (20) [553] إِنَّ الصَّلوةَ كَانَت.....(104)[626] [887](111)..ومن يعمل سوء وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن.....(114) [600] [434] وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحت (123) [827] يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا....(137) [594] إنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ (152-151)[775] وَمَا صَلَبُوهُ.....(158) [609] وَإِن مِنْ أَهْل الْكِتاب......(160) [318] يايها لناس قد جاء كم....(171) [597] يَأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ( 175 [729] [309] المائده تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوَى (3) [869] الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (4) [87] [372] [377] [387] [388] [389] [458] [463] [649] يُحْرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِه (14) [378] [377] مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ (25) [657] [551] قَدْ جَاءَ كُم مِّنَ اللهِ نُور.(16)[706][687][731] وَا تُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ......(26) [551] وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصري (19) [679] الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى (35) [554] [552] فَقَدْ جَاءَ كُم بَشِيرٌ (20) [705] وَ إِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا.....(36) [556] وجئنابك على هولا شهيدًا ( 42 ) [313] مِنَ الَّذِينَ هَادُوا.....(47) يَتَقَبَّلُ الله مِنَ الْمُتَّقِينَ - (28)868-891) مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْر (33) [486] وابتغوا اليه الوسيلة (36) [820] [790] [789] [788] [787 [419] [377] | وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ.....(65)[693] إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ.....(59)924] [811] [689] وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ....( 68) [548] [345] يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (60) [659] [510] وَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُول......(65)[196] وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ (70) [165] [226] [742] [768] [896] [350] [427] [771] أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ.....(83) توفهم الملائكة (98) [781] [650] [475] وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ......(102)[625] واحفظوا ايمانكم...(90) [361] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (106)[73] وَاذْ تَخْلُقُ مِنَ الطين (111)[673] وَإِذْ قَالَ اللهُ يَعِيسَى...(118-117) [61][108][473][661] [774] [778] [647] [649] قَالَ اللهُ هذَا يَوْمُ....(120)[661] [240] الانعام لِانْذِرَكُمْ بِهِ وَ مَنْ بَلَغَ (20) [373] [270] [86]
930 وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَراى......(2)[678] [236] لَا تُفْتَحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ.ولو ترى اذوقفوا على النار (28)[661] و لو تری از وقفوا......(31)[661] وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْض......(39) [718] [390] وَ عِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ.....(6) [27] [309] [331] [402] [717] هُوَ الَّذِي يَتَوَفَّيكُمْ.....(61)[677] [470] (41) ونادى اصحاب الجنة......(45)[661] وَلَقَدْ جِئْنَهُمْ بِكِتُب [14][68] (53)..إنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِى (55) [782] [672] [549]......وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ.....(59) وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا (127) [283] [692] [696] [783] [475] [778][781] [856] [910]......تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا ( 62)[781] [560] [475] [473] فينظر كيف تعملون (130)[347] قُلْ إِنْ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدَى - (72)[764] أُولَئِكَ الَّذِيْنَ هَدَى.....(91) [601] [91] وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا.....(144) [693] [922] [923] مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ (92)[864] [529] وَاكْتُبُ لَنَا فِي هذه.....(157) [543] لَا تُدْرَكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ.....( 104)[670] [573] الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُول (158) [740] قُلْ إِنَّمَا الْأَيْتُ عِندَ اللَّهِ (110) [535] قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّه.....(159) أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا....(115)[660] [89][243] [260] [270] [271] [326] [327] [373] [376] [380] [486] وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي.....(117)[777] [435] وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ....(173) [580] أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَهُ.....(123)[706] قل ان صلوتی و نسکی......(163) [805] [861] [894] [581] [802] أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (177) [12] [90][825] [830] وَبِذَالِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (164) [434] فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (186) [439] [16] لا تزر وازرة وزر اخری (165) [445] الاعراف اتَّبَعُوا مَا أُنزِلَ (4) [440] أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي.....(13)[912] يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (199)[805] وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَة.....( 204) [309] الانفال وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ....(18) [272] قَالَ انْظُرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (1615) [348] يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا سَتَجِيبُوا لِلَّهِ (25) [702] رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا (24)[913] قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ......(25) [479] قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفَيْهَا (26)......[477] [481][773] تأيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إن.....(30) [705] [892] [918] وَإِذْ يَمْكُرُبكَ الَّذِينَ كَفَرُوا.....(31) [496] مَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمُ.....(34)[884] يبَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا.....(27)[784] [701] وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ.....(40) [494] حَتَّى إِذَا جَاءَ تُهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُم.....(38) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ.....(46) [405] [781] [650] [475] [473] وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحُ (62).....[489][491] [500]
931 التوبة أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمُ وَ إِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ....(6) [499] يَحْزَنُونَ (63) [901] الَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا.....(13) [489][491] [495] قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ (24)[808] الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا.....( 64-65)[902] [829] أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ (100) [486] قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بالله....(29) [497] وَلكِنْ أَعْبُدُ الله الَّذِي يَتَوَفَّكُمْ - (105) [473][25] وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمْ (33)[13] انفِرُوا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا و...(41)[854] وَ مَا مَنَعَهُم أن.....(54) [596] فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا....(82) [826] وَ مِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ.....( 98 ) [535] [533] يَأَيُّهَا الَّذِينَ....وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ.(119) هود الركتب أحكمت (2) [332] [358] [368] [427] [746] الَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللهُ إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَزِيْرٌ وَّ بَشِيرٌ - (3) و أن اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا (4) [427-859] [326] [878] [879]......[889] [888] [749] [743] [748] [464] [65] | مَا مِن دَآبَّةٍ فِي الْأَرْضِ....( 7 ) [877] إنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ (120)[857][133] فَإِلَمْ يَسْتَجِيْبُوْالَكُمْ فَاعْلَمُوا (15) [383] لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ...(128) يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ...(106)[783] [607] [319] [135] فَاسْتَقِيمُ كَمَا أُمِرْت (113)[766] يونس الرتلك ايت الكتب الْحَكِيم - (2) [434] ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَلَّيْفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِتَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (15) [347] [205] إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاتِ (115)[621] وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَواتِ.....(124) [429] يوسف إِنَّكَ لَفِي ضَلالَك الْقَدِيمِ (11) [183] وَ لَقَدْ هَمَّتْ بهِ وَ هَمَّ بها....(25) [838] قُل لَّوْ شَاءَ اللهُ مَا تَلَوْتُهُ (17)[746] [225] وَ مَا أُبَرِّئُ نَفْسِي......(54) [840] فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى (18)[747] وَابْيَضَّتُ عَيْنَهُ (85) [534] لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى (27) [891] فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ - (33) [351] إِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي...(47) لَا يَايَعَسُ مِن روح الله (88) [748]......لا تثريب عليكم اليوم......(93) [364] إِنِّي لَا جِدُ رِيحَ يُوسُف.....(95) [534] [516] [475][781] [778][650] | قَالُوا تَاللَّهِ إِنَّكَ لَفِي (96).....وَيَسْتَنْبِئُوْنَكَ أَحَقُّ هُو....( 54 ) [361] [408] [699] [703] [770] يأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَائَتْكُم....(58) [398] [310] تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَّ الْحِقْنِي بِالصَّلِحِيْنَ.(102) [475][650] [778] [781] قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبَرَحْمَتِه...(59) [434] [43] حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ (112) [393]
932 الرعد قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ - (38) [242] اللهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَوَاتِ بِغَيْر....(3) [578] إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ (39) [242] الا عبادك منهم المخلصين (41) [446] إِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ (12)[848-849] مَادُعَاءُ الْكَفِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (15) [583] ان عبادى ليس لك عليهم سلطان (43) [446] ونزعنا ما في صدورهم من [850] [844] [712] [687] [685] [335 ] | وَلَقَدْ أَتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ......(18) الا بذكر اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (29) وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا...(32) [661](48).....(88) [116] [421] [426] [822] [820] [624] | فَا صُدَعُ بِمَا تُؤْمَرُ (95) [25] [54] [464] [868] [891] أكُلُهَادَآئِم.....(36) [859] يَمْحُوا الله مَا يَشَاءُ.....(40) [583] وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ....(41)[655] أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ (42)[655] كَفى بالله شَهِيدًا بَيْنِي (44) [526] الرَّكِتُبْ أَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ.قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَ فِي اللهِ.[326] [728](2)......[581] (11) وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى.....(100)[702] النحل الَّذِينَ تَتَوَفَّهُمُ الْمَلئِكَةُ...(29) [482] الَّذِينَ تَتَوَفَّهُمُ الْمَلَئِكَةُ طَيِّبَيْنَ (33) [482] فَسْئَلُوْا أَهْلَ الذِّكْر....(44) [394] يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ....(51) [587] [591][[623] وَ اللهُ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً..(66)[685] وَ أَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ.....(69) [521] فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ (70) [900] وَ اسْتَفْتَحُوا و خَابَ (16) [606] [238] ثم يتوفكم (71) [781] [650] [475] أَلَمْ تَرَكَيْفَ ضَرَبَ الله.(25 تا 28) [388] [649] [690] [691] رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَى.....(42)[660] فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الأمثال (75) [680] [577] 718] [(90) وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابِ.إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَان.....(91)[908] يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ....(49) [241] إِنَّ الله مَعَ الَّذِينَ.....(129)[891] الحجر بنی اسرائیل إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (١٠) سُبْحَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِه.....(2) [42][48] [57] [58][59][61][63] [64] [188] [206] [265] [269] [343] [364] [365] [366] [105] [227] [535] [537] [443] [419] [399][378] [371] [370] [367] وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ايَتَين....(13)[694] [791] [790] [17] [162] وَ كُلَّ إِنْسَانِ الْزَمُنْهُ طَيَّرَهُ...(14) [545] [54][237] [464] [546] وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا.....( 22 ) [12] [338] [735] من اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي.....(16) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَ نَفَخْت......( 30) [921] [354] قَالَ رَبِّ فَانْظُرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (37) [242] وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا.....( 24 تا25) [660]
933 إِنَّهُ كَانَ لِلَا وَّابِينَ غَفُورًا - (26) [881] إِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّح (45) [580] [587] [588] إِذْ يَقُولُ الظَّلِمُونَ......(48)[604 [442] حتى إِذَا بَلَغَ مَغرِبَ الشَّمس.(87)......[253][255][256][259][261][263] [335][676] [253] [255] [256] [259] [261] [263] [355] قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ (88).......وَإِن مِّنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا (59) [239] وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا.....(89) )......وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ......(61) [536] وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَم (71) [670] مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى......(73) [353] [430] [625][666] ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًاه (90) حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمس (91) [253] [255] [256] [259] [261] [263] [253] [256] [259] [261] [263] [253] [256] [259] [261] [263] [253] [256] [259] [261] [263] وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ....(82) [309] كَذلِكَ وَقَدْ أَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًاه (92) قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي (86) [549] قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنَّسُ (89) [444] [333] ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًاه (93) وَ بِالْحَقِّ أَنْزَلْته (106) [784] [323] قُلْ امِنُوا يَةٍ أَولَا تُؤْمِنُوا (108) [228] إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّين......(94) وَ يَخِرُّونَ لِلْاذْقَان يَبْكُونَ (110) [397] قَالُوا يَذَ الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَاجُو.....(95) وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلى (112)[902] الكهف قَالَ مَامَكَنِّي فِيْهِ رَبِّي....(96) [253] [256] [259] [261] [263] [253] [256] [259] [261] [263] [253] [256] [259] [261] [263] [253] [256] [259] [261] [263] [253] [256] [259] [261] [263] [253] [256] [259] [261] [263] [114][244] [253] [256] [259] [261] [263] [392][686][672] الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى......إِلَّا كَذِبًا (2 تا6) [252] اتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ...(97) أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَبُ الْكَيْف.....(10) [263] [261] [259] [256] [253] | فَمَا اسْطَاعُوا لَنْ يَظْهَرُوهُ (98) وَإِذا عُتَزَلْتُمُوهُمُ.....(17) [656] وَ إِذا عُتَزَلْتُمُوهُمُ (27) [656] كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ انتُ.....34 ) [656] [645] وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلِئِكَةِ اسْجُدُوا.....(51) [589] فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا.....( 66 ) قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِّنْ سَمْعًا- ( 99 -103) فَلَا تُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ وَزُنًا - (106)[895][826] [717] [263] [261] [259] [256] [253] [27] قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ....(110) [339] وَيَسْتَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْن قُلْ سَأَتْلُوْاعَلَيْكُمْ مَنْ كَانَ يَرْجُوا....(111)[917] [907] [811] مِّنْهُ ذِكراه (84) إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ.....(85) [253] [256] [259] [261] [263] [255] [355] [253] [254] [256] [259] [261] [263] [355] [253] [255] [256] [259] [261] [263] [355] فَأَتْبَعَ سَبَبًاه (86) مریم بيعى خُذِ الْكِتَبَ بِقُوَّةٍ...(13) [14] [203] [438] و سلام عليه يوم ولد......(16) [446] فَأَجَاءَ هَا الْمَخَاضُ إِلى.....( 24 ) [232]
934 وَلنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ (22) [161] لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَريًّا (28) [161] قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ طاتْنِي....(31) [699] وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًاه (89) [233] لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِذًا (90) [233] تكَادُ السَّمَوتُ يَتَفَطَّرُة (91) [183] [233] [299] [421] أَن دَعَوُا لِلرَّحْمَن وَلَدًاه (92) [233] طة وَهذَا ذِكْرٌ مُّبْرَك......(51) [435] [340] وَالَّتِي أَحَصَنَتْ فَرُجَهَا.(92).[113][208] [697] [246] [453] [528] [529] قُلْنَا يَنَارُ كُونِي......(70) وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ.....(88) [345] إنَّ هذة أُمَّتُكُمْ أمّةً وَاحِدَةً.....(9493) [113] حَرمٌ عَلَى قَرْيَةٍ (96) [479] [350] وَهُمْ مِّن كُلِّ حَدَبٍ يُنْسِلُونَ (97) [113] [211] [394] الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوى (6 ) [682] [575] وَاقْتَرَبَ الوَعْدُ الْحَقُّ (98) [113] إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلهَ إِلَّا انا...(15) [822] [862] إِنَّ فِى هذَا لَبَلغَاً لِقَوْمٍ عبدِينَ (107) [434] ان اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ (40)[667] قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرى (62) [234] قالو ان هذين السحران يريدان......(64)[659] إِنَّكَ أَنتَ الأعلى (طه: 69) [657] وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ - (108) [60][134][141][147] [221] [272] [376] [380] الحج وَ مِنْكُم مَّن يُتَوَفَّى(6) [781] [550] [475] وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفُ.....(70) [442] ذلِكَ وَ مَنْ يُعْظِمْ حُرُمَتِ (31)[912] مَنْ يَّاتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا - (75) [544] لَن يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا.....(38) [849] ا فَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ (90) [835] [583] أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ.....(40) قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَك.....(98)[663] [484] [485] [489] [490] [491] [493] [496] [497] [498] [507] [508] وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ.....(41) [489] [491] [497] [507] [509] [663] (115)..[321] [434] [605] [890] فَتَعلَى اللهُ الْمَلِكُ الْحَقِ.وَ لَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى ادَمَ....(116)[604] وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِى.الانبياء (125) وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَاب......(48) [288][198] [443] [441] [16] مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ.بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلام......(6 ) [245] لَوْ كَانَ فِيهِمَا الهَ.....(23) [585] أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَواتِ.كُلِّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُون (34) [845] بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاء.....( 45 ) [246] (31) [318][366][27] (53) وَ لَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا.....(56) [531] المؤمنون قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (3-2)[860] وَالَّذِيْنَ هُمْ عَن اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ.(4) [385] [684] [245] [33] ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْد......15,16) [645][335] [701] وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ....(19) [43][410] 665] [763] فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ....(28) [201]
935 ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَقُرًا (45) [711] [463] وَ اوَيُنَهُمَا إِلَى رَبُوَة.....(51)[782.656 وَ مَا كَانَ مَعَهُ مِنْ الهِ (92) [585] النور اربع شهدت بالله (87) [361] والطَّيِّبَتُ لِلطَّيِّينَ (27) [413] الله نُورُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ.....(36) [329] [342][403][676][731] النمل قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا....(35)[903] ا مَّنْ يُجيبُ الْمُضْطَر...(63) [584] وَ مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ......(65) [432] وَيَقُولُونَ مَتى هذا الوعد.....(72) [534] انك لا تسمع الموتى (81) [446] وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهم (83) [228] [240] [334] وَ مَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ......(91) [540] رجَالٌ لَّا تُلهيهِمْ تِجَارَةٌ.....(38) ] [823][618] قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا....(55)[603] وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا.(56)....القصص......وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أن...(8) [230] [219] [205] [204] [189] [185] [109][57] [54] | سِحْرٌ مُّفْتَرى وَمَا سَمِعُنَا....(37) [231] الفرقان [220] [364] [464] [532] تَيْرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ (2) [243]......وَلَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا و...(43) [582] [574] وَقَالَ الرَّسُولُ يرب...(31) [312] [34] وَهُوَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُو (71) [193] [151] العنكبوت......أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا (3)......[563] [567] [851] [901] وَالَّذِينَ آمَنُوا ( 10)[663] وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا.....( 33 ) [321] [320][605] وَتِلْكَ الأمْثَالُ نَضْرِبُها (44) [751] [330] أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ (46) تا48) [321] أتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ....(46) [824][623] وَقَالُوْا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ أيت (5451) وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ا [401] (49,50)..)......وَلَقَدْ صَرَّفْنَهُ بَيْنَهُمْ (51) [405] وَ هُوَ الَّذِي خَلَقَ (55) [341]......[382] [535] يائها الذي آمنوا صلوا عليه (57) [876] وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا....(70) مَا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرِ (58) [147] [141] وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ (73)[914] الشعراء [27] [46] [133] [520] [664][690] [712] [717] [832] [846] [847] الروم لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّ نَفْسَكَ......(4) [243] [607][599] الم - غُلِبَتِ الرُّومُ - فِي....(5-2) وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَيَشْفِين- ( 81)[894] [219] [344] [344] [673] وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ - (82)[825] يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (20)[462] [369] وأزلفت الْجَنَّة الغوين - (92-91) [543] فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا....(31) إِلَّا مَوْتَتَنَا الأولى.....(139) [472] [341] [803] [887] مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ (32) [446]
936 لقمن وَ اقْصِدْ فِي مَشيكَ...(لقمن (20) [764] السجده يُدبِّرُ الْأمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى (6) [199] قُلْ يَتَوَفَّكُمْ مَّلَكُ (12) [483] [482] وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَاب (22)[882] الاحزاب لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي....(22) [821] مِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَ (24)[854] مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ.....(41) [86][108] [212] [291] [326] [386] [457] [458] [459] [460] [461] [466] [467] [520] وَدَاعِيَّا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِ....( 47) [457] [687] [688] [706][731] إِن مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ( 25 ) [462] [374] إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ.....(29) [751] ثم اور ثنا الكتب.......(33)[877] [727] [645] اِسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ......(4)[869 [471] يس و القرآن الحكيم (3) [312] إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْى...(13) [401] قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ.....( 28-27) [542] يحَسْرَةٌ عَلَى الْعِبَاد.....(31) [224] فَلا يَسْتَطِيعُون......(51) [479] ونفخ في الصور.......(52)[661] إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا....(83)[895] الصفت إنَّ اللهَ وَ مَلئِكَتَهُ يُصَلُّونَ..(57)[821] [602] إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا....(36) [429] وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا - (63) [471] [531] [848][849] [689] [698][924] إِنَّا عَرَضْنَا الْامَانَةَ عَلَى......(73) سبا وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُدَ مِنا (11) [527]......اذلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا...(63)[692] [691] وَنَا دَيْنَهُ أَنْ.....(106-105)[848] [512] وَفَدَيْنَهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ (108) [910] وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مُّعْلُومٌ - 165)[591] ص مُفَتَّحَةٌ لَّهُمُ الْأبْوَابُ (51) [470] اعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكْرًا....(سبا:14)[843] إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ.....( 72 تا 75)[921] [200] (15).فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ وَ مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافة.....(29) [725] [221] قُل لَّكُمْ بِيُعَادُ يَوْم...(31)[786] وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ....(44)[396] قُلْ مَا أَسْتَلُكُم (ص 87)[896] الزمر وَأَنْزَلَ لَكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ [657] [785] (7).قُل جَاءَ الْحَقُّ (50) [387] اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيث (24) [398] [677] [768] وَقَالُوا آمَنَّا بِهِ وَأَنَّى لَهُمُ التَّنَاوُشُ....(53) [874] إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَّيِّتُونَ (31) [480] وَجِيْل بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ (55) [697] فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ ( 43 ) فاطر [350] [781] إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ....(11)[700] قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا....أن الله يغفر
937 الذنوب جميعا (54)][777] [ 813] [814] وَ كَذلِكَ أَوْ حَيْنَا إِلَيْكَ.....(53) [729][25] وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِق.....(69) [335] أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَق......(118) [16] المؤمن وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّن ال فِرْعَوْنَ (29) [530] [531] [532] [533] أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (37)[517] وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي (61) [164] [548] [620] [855] [864] [866] [867] الزخرف وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ بذَا الْقُرْآنُ (33-32) [322] وَمَنْ يُعْشُ عَنْ ذِكر الرحمن (37) [17] فَاسْتَمْسِكْ بالَّذِي.....(44) [443][16] وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ (45) [443] [16] [911] [877] [874] [872] [869] [868] وَتَبَرَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ....(86)[613] فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ الله (78)[787] وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن.....(79)[97] لَخَلْقُ السَّمواتِ......(85)[678] حم السجده ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا الله (31) [197] (13`12) [164][511][514][519][520][829][855] [856] نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ (32) [856] الدخان حم o وَالْكِتَاب الْمُبِين.....( 2 تا 7 ) [247] فَارُ تَقِبُ يَوْمَ تَأْتِي ( 1211) [248] رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا.....13 تا16) [238] الجاثيه فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ.....(7) [440] على كل شيء قدير (34)[579] وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ....(35) [892] [886] فصبر كما صبر اولوالعزم(36)[547] اعْمَلُوا مَاشِثْتُمْ (41) ] [806 إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالذِّكْر....(42) [385] الشورى فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ....(8)[611][610] فَاطِرَ السَّمواتِ....(12) [680] [579 [577] اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَبَ......(18) [381] أَمْ يَقُولُونَ افْتَرى عَلَى الله....(25) [519] محمد و الذين امنوا و عملو الصالحات (2-3)[598] فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرَبَ...(5) [229] [272] [500] مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ.....(16) [540] [683] فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله (20) [428] [574] [617][617] [884] وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ.....(26) [881] [547] اإِنَّمَا الْحَيوةُ الدُّنْيَا لَعِب......(37) [809] وَ هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ....(29)[692] وَ مَا أَصَابَكُمْ مِّن مُّصِيبَةٍ (31) [544] وَ مَا كَانَ لِبَشَر أَن يُكَلِّمُهُ الله.....(32) [516] وَمَا كَانَ لِبَشَر أَن يُكَلِمَهُ الله...(52) [24] [322] [379] [381] [384] [401] [465] الفتح إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا......( 2 تا 4 ) [409] [548] [770][852] يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح (11)[672] [671] [659] [514] [512] مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ط وَالَّذِينَ مَعَةَ.....(30)
938 الحجرات [895] [346] [217] [216] [215] [139] أكفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَئِكُمْ....44 تا46) [346] وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ (12)[907] وَلَا يَغْتَب بَعْضُكُمْ بَعْضًا (13) [561] [667][748][920] [921] يايها الناس انا....(14)[606] إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ (16) ق [568] [596] [618] فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ.....(56) [476] الرحمن الرَّحْمَنُ - عَلَّمَ الْقُرْآنَ - (32)[29][93] فَبَأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَن - (14) [404] كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا..27°28)[769][783] [283] يَسْئَلُهُ مَنْ فِي السَّموات.....(30) [579] [578] وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَان (47) [430] [541] [856] واحيينا به بلدة ميتا......) الجزو نمبر 26 ) [401] هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَان......(61)[858] الذريت الواقعه كَانُوا قَلِيْلًا مِّنَالَّيْل...(19-18)[548] باكواب وأباريق ( 20-19) [541] ثَلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ....( 41-40) وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ.....(57) [150] [169] [204] [216] [217] [234] [437] [427] [512] [642] [805][859] [862][911] الطور فكهين بما اتهم.....(19)[894] النجم فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِع...المُطَهَّرُونَ (76 تا 80) [32][61][95] [249][250] [310] [328] [329] [340] [310] [328] [332] [333] [340] [341] [343] [368] [369] [391] [415] [437] [707] [714] [715] [716] [720] [732] [733] [792] [736] [740] [742] [74] [753] [747] [754] [755] [761][762] [768] [792] [899] [27][517] [27] [26][742][747] والنجم إِذَا هَوى..فَاسْتَوى (2تا7) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى -...(10,9)[925] [136] مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى (18)[923] [922] إِنَّ هذا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِين - (961) [341] الحديد إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِن...(29) [667] [439] لَهُ مُلْكُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (3)[582] الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَثِير الإثم و...(33)[903] الْإِثْمِ وَ إِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى - (38)[919] [605] إِنَّ لَيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (40) [846] وَ أَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهى - (43) [583] القمر اقتربت الساعة....(2)[612] حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ - (6) [435] اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الَّا رُ.....(18) [63] [241][277] [283] [323] [335] [401] [463] [695] [696] [783] إِنَّ الْمُصَّدِقِينَ وَالْمُصَّدِّقَتِ.....(19)[666] وَيَجْعَلُ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ (29) [465] وَ أَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ - (26) [470] المجادله وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِكر ( القمر : 23)[404] كتب الله لا غُلِبَنَّ أَنَا.....(22) [222] [232] [463]
939 ا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بالله...(23) [702] الحشر و ما أتيكُمُ الرَّسُولَ.....(8) [444] لَوْاَنْزَلْنَا هذَا الْقُرآن (22)[752] [397] الممتحنه لَا يَنْهِيكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِين.....) [499] إِنَّمَا يَنْهكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ (10)[858] الصف لِم تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ.....(4-3)[916][73] وَإِذْ قَالَ مُوسَى....) [881] [545] وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُبَنِي....(7) [215] [219] [228] [479] يُريدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ الله....[90] هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ.....(10) [13] [44] [69][84][87] [89][106][107][113] [208] [228] [244] [336] [339] الطلاق وَمَنْ يَّتَّقِ اللَّهُ يَجْعَل لَّهُ (34) [503] [560] [892] [893] [912] [913] قَدْ أَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُما (1211)[657] التحريم يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا....(7)[593] يَأَيُّهَا الَّذِينَ مَنُوا تُوبُوا إِلَى اللهِ (9) [539] ا ضَرَبَ الله مَثَلاً لِلَّذِينَ 11تا13) [207] [689][704] [780] وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ.....(13) [109] الملک الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة.....(3)[703] القلم إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ - (5)[918] [906] وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ (49)[548] الحاقه هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمُ.....(11)[694] خُذُوهُ فَعُلُوْهُ.....فَاسْلُكُوهُ (31-33)[697] مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ [870] الجمعة هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّين...(3) [22][34][47][50][57][61][62][264] [266] [333] [714] [715] [735] وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأقاويل.حجزين (45-48) [469] [235] وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَة لِلْمُتَّقِينَ - (49) [343] نوح وآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا.....(4) قَالَ يَقُوْمُ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ - (3) [344] [66] [61] [58] [52][50][47][42][34] [22] [12] | مَالَكُمْ لَ....أَطْوَارًا-(15-14) [328] [127] [121] [108][94] [89][88][87] [86] [75] | مِمَّا خَطِيئَتِهِمُ (20) [542] [139] [149] [150] [175] [190] [195] [212] [267] [266] [265] [264] [215] [214] [213] | وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَ.....(27) [268] [269] [271] [272] [295][422] وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا....( 11 ) [404] المنافقون [238] [546][606] [600][465] | رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ -- (29)[660] يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُلهكُمُ.....(10)[854] الجن وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاء.....( 9 ) [588]
قُلْ إِنْ أَدْري أَقَريب.....(26) [681] [534] علمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهرُ (2728) [166] [236] [171] [457] [518] [695][755] 940 التزعت فَا الْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا (6) [586] [592] [593] [869] فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى (40-38) [539] المزمل إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ....(6) [515] وَأَمَّا مَنْ خَان......(42-41) [539] عبس وَاذْكُرَ اسْمَ رَبِّكَ....(9) [804] [430][231] وأزلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلمُقِينَ (3943) [543] إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا (16) [209] [106] [210] المدثر قُمُ فَانْذِرُ - فَاهْجُرُ - (3تا6)[700] و قال و ما يعلم......(32) [589][586] القيمة وَ لَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ النَّوَّامَةِ - (3) [905] إلى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (24) [670] الدهر إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ سَلْسِلًا....(5) [696] يفجرونها تفجيرا-(7) [353] التكوير إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ (2) [274] [273] وإذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ - (3) [274] [273] وَإِذا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ (4) [273] وَإِذَا الْعِشَارُ عُطَّلَتُ -(5) [347] [273] وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَت (6) [273] وَإِذَا الْبحَارُ سُجْرَتُ - (7) [273] وَإِذَا النُّفُوسُ رُوِّجَتْ - (8) [347] [273] وَإِذَا الصُّحُفُ نَشِرَتْ - (11) [274] [273] وَالَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ - (18) [275] وَالصُّبْحِ إِذَا تَنفْسَ - (19) [275] شو وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ (25) [400] يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ..9-10) [858] 857] [805] | وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطنٍ رَّحِيمٍ - (26) [400] وَيُسْقَوْنَ فِيْهَا كَأْسًا.....( 18-19)[810] المرسلات وَالْمُرْسَلَت عُدْرًا أَوْنُذرًا 20 تا 6) وَإِذَ الرُّسُلُ أُقِّتَتْ (المرسلت (12) [239] [224] [336] فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ (27) [400] إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَ....28°29) [397] [328] الانفطار إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ - ( 2) [681] [275] وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرت - (3) [698][681] [275] وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتُ - (4) [681] [275] أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ.....( 27-26) [536] [479] الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوْيكَ فَعَدَلَكَ (8) [657] انْطَلِقُوا إلى.....( 30تا32) [705] النبا يوم يقوم الروح.......((39) [661] إِنَّ عَلَيْكُمْ لَحفِظِينَ.....( 13-11) [593] الانشقاق إذَا السَّمَاءُ انشقت - (2) [683] [666] [276]
941 وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّت (4) [276] وَالْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّت (5) [276] الطارق وَإِن كُلُّ نَفْسٍ لما...(5) [785] [593] [587] وَالسَّمَاء.....الصَّدْع - (13-12 ) القدر إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (2) وَمَا أَدْراكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْر ، (3) [276] [278][279] [324] [337] [462] [276]][279] [324] [337] [462] لَيْلَةُ الْقَدْر ، خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ - (4) [362][363] [521] [524] [16] [352] [362] [63] [390] [524] إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ- (14) الاعلى تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ.....(5) [276] [288] [324] [337] [276] [279] [324] [337] هِيَ حَتَّى.....(6) [337] [324][276] ان هذالفي الصحف........(2019) [406] الغاشية البينه لَمْ يَكُن الَّذِينَ كَفَرُوا (2) [390] أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبل كَيْفَ خُلِقَتْ (18) [723] رَسُولٌ مِّنَ الله (4-3) الفجر [356] [390] [391] [699] [765] [769] إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا...(8) [513] وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا - (23) [591] رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ - (9)[601] يَايَّتُهَا النَّفْسُ....جَنَّتِي (28 - 31) [475][476] [541] [542] [860] [782] الزلزال إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَ الَهَا - (2) البلد ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْن....(18) [431] الشمس فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُومَ ا(9) [908] [512] قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا (الشمس (10)[850] [514] قَدْ خَابَ مَنْ دَشْهَا - (11) [514] [431] الضحى [281][283][681][696][765] [281] [283] [765] وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا - (3) وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَالَهَا.(4)[765] [281] يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا.(5) [281] بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْ حَى لَهَا - (6) [281] يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسِ (7) [281] أَلَمْ يَجِدْك......فَأَغْنى (79) [556] [106] فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًايَّرَهُ (8) [701] [769] فَأَمَّا الْيَتِيم....فَحَدِتْ- (12-10) [133] [281] [285] [544] [912] وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرَّ ايَّرَهُ (9) [133] [284] [544] [547] [881] التين [406] [657] [769] [770] [919] لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَان (5)[906] التكاثر كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ.....(6) تا8) [568]
942 العصر وَالْعَصْر (2) [286] إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرِه (3) [613] [286] إِلَّا الَّذِينَ آمَنُو وَعَمِلُو.....(4) [286] اللهب تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ.....(3-2) [190] [191] [293][422] [661] [662] الهمزه نار الله الموقدة.......8-7 ) [545] [540] [353] الفيل أَلَمْ تَرَ كَيْفَ......(2) [289] قریش لا يُلفِ قريش - (2) [290] الفِهِمْ رِحْلَةِ الشَّتَاءِ وَالصَّيْفِ- (3) [290] فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ- (4) [290] الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوع-(5) [290] وَامَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ -(6) [20] الماعون [421] [422] [572] الاخلاص قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ (2) [176][183][191][294][295][301][415] اللهُ الصَّمَد (3) [191] [294] [295] [301] [421] [422] [572] [121][190] [191][294] [295] [301] [421] [422] [572] [191] [294] [295] [301] [422] [572] لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَد (4) وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (5) الفلق قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَق.....( 2 تا اخر) [297] [301] [654][905] الناس فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ.....(5 تا 7)[915] قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (2) فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ -....(6-5)[627] الَّذِينَ هُمْ يُرَآءُ وُنَ.(7)[915] مَلِكِ النَّاسه (3) [183] [298] [300] [301] [908] [298] [300] [301][908] الكوثر الهِ النَّاس 0 (4) [908] [301] [300] [298] إِنَّا أَعطَيْنَكَ...2 تا4) [467] [459] [291] مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (5) الكافرون قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُون.....(32) [505] إِذَا جَاءَ نَصْرُ الله....[885][924] [547] - الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِه (6) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ 0 (7) [298] [300] [301][908] [298] [300] [301] [908] [298] [300] [301][908]
943 انڈیکس الہامات (عربی ،اردو، فارسی) إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قَرِيبًا مِّنَ الْقَادِيَانِ وَبِالْحَقِّ مَعَكَ حَيْثُ مَا كُنتَ وَإِنِّي نَاصِرُكَ وَ أَنْزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ - صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُوْلَهُ إِنِّي يُدكَ إِلَّا زِمُ وَ عَضُدُكَ الأقْوَى وَأَمَرَنِي وَكَانَ أَمْرَ اللَّهِ مَفْعُولًا - قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ أَنْ أَدْعُوَ الْخَلْقَ إِلَى الْفُرْقَانِ وَ دِيْنِ خَيْرِ الْوَرَى تَمْتَرُونَ - [7] [105] الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ - لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أُنْذِرَ أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ ادَمَ - يُحْيِ الدِّيْنَ آبَاؤُهُمْ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلَ الْمُجْرِمِيْنَ قُلْ إِنِّى وَيُقِيمَ الشَّرِيعَةَ.چودور خسروی آغاز کردند مسلمان را أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ - مسلمان باز کردند - إِنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا [303][82][19] | رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا - ان الله معك ان الله يقوم اينما قمت [83] [20] [82] الرحمن علم القرآن يا احمد فاضت الرحمة على شفتيك.إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهانَتَكَ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُوْنَ.[110] [29] [31] [83] ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب لك خِطَابُ الْعِزَّةِ.ایک بڑا نشان اسکے ساتھ ہوگا.” مجھے أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَم آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی امتیازی مرتبہ بخشنے کے لئے خدا نے میرا نام نبی رکھ دیا ہے اور مجھے یہ ایک عزت کا خطاب دیا گیا ہے.غلام ہے [39] [169] اور مجھے آگ سے مت ڈراؤ.کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ اِصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ غلاموں کی غلامی ہے [247] [96] | أَيْدِيهِم [201] أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ ادَمَ لِيُقِيمَ الشَّرِيعَةَ وَيُحْيِ الذِيْنَ كِتَابُ الْوَلِيِّ ذُو الْفَقَارِ عَلِيِّ - وَلَوْ اذا عزمت فتوكل على الله واصنع الفلك كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ أَبْنَاءِ باعيننا و وحـيـنـا ـ الذين يبايعونك انما الفَارِسِ يَكَادُ زَيْتُهُ يُضِيّ : وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ | يبايعون الله يد الله فوق ايديهم - جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْمُرْسَلِيْنِ [202] أنتَ أَشدُّ مُنَاسَبَةٌ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمُ وَاشْبَهَ إِنَّنِي فِي الْكِتَبِ مَسْطُورٌ [42] [105] النَّاسِ بِهِ خُلْقًا وَّ خَلْقاً وَّزَمَانًا [282]
944 أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بأَصْحَب الفيل - آلَمُ ج يَجْعَلُ كَيْدَهُمْ فِى تَضَلِيْلِ إِنَّكَ بِمَنْزِلَةِ جَرَى اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ رَحْى الْإِسْلَامِ اثَرْتُكَ وَ اخْتَرْتُكَ إِنِّي مَعَكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ امن است در مکان محبت سرائے ما [109] [110] [194] [221] [254] [289] جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو [292] E [517] [836] [893] [913] چو دورِ خسروی آغاز کردند مسلمان را مسلمان باز کردند مقام او مبين از راه تحقیر بد دورانش رسولان ناز کروند بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں برمنار بلند تر جَعَلْنَاكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ - محکم افتاد.پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار.خدا تیرے سب کام درست کر دیگا.اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.رب الافواج اس طرف توجہ کریگا.اس نشان کا مدعا یہ حم - تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَبِ الْمُبِيْنِ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں.جناب الہی کے احسانات کا دروازہ کھلا ہے اور اُس کی پاک رحمتیں اس طرف متوجہ ہیں.وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا.وہ خدا جو ذ والجلال اور زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ہے........بيت الله [36] [66][82] [207] [357] دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہیں کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا [10] [44] | دنی فتدلى فکان قاب قوسين اوادنى يحيى بُورَكتَ يا أَحْمَدُ برتر گمان دو ہم سے احمد کی شان ہے [109] الدين ويقيم الشريعته [76] جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے راز کھل گیا.[168] [357] تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَّ تَبَّـ مَا كَانَ لَهُ أَن سلام على ابـراهـيـم صــافـيـنـاه ونجيناه مـن يَدْخُلَ فِيْهَا إِلَّا خَائِفًا وَّ مَا أَصَابَكَ فَمِنَ اللهِ - الغم و اتخذوا من مقام ابراہیم مصلی.قل رب لا تذرني فردا وانت خير الوارثين [293] [156]
945 سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو.علی ک دِينِ وَاحِدٍ صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا صادق آن باشد که ایام بلا می گذارد با محبت با وفا كل بركة من محمد صلى الله عليه وسلم [292] | فتبارك من عَلَّمَ وَتَعَلَّم ط خدا کی فیلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا.انى معك ومع اهلك [188] [51] كُنتُ كَنرًا مَّخْفِيًّا فَا حُبَبْتُ أَنْ أَعْرَفَ - إِنَّ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا - وَ إن يَتَّخِذُوْنَكَ إِلَّا هُزُوًا - أَهَذَا الَّذِي بَعَثَ [8481920] اللَّهُ - قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ إِنَّمَا الهُكُمْ إِلَة وَاحِدَ - وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآن لَا فَأَجَاءَ هَا الْمَخَاضُ إِلى جذع النَّخْلَةِ قَالَتْ يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ - وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا يلَيْتَنِي مِتُ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ [232] [746] [67] کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ - جس کی مماثلث کو خدا نے بتا دیا حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب و بوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا قُلْ إِنَّمَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ [106] إِلَهُ وَاحِدٌ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ - لَا يَمَسُّهُ إِلَّا كَتَبَ اللهُ لا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِيْ - وَهُمْ مِّنْ بَعْدِ الْمُطَهَّرُوْنَ - قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى [7][67] [35] [764] غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [110] كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَا رَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّم قل جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل كان زهوقاً - كل بركة من محمد ﷺ فتبارك من علم وتعلم - قل ان افتريته فعلی اجرامی - هوالذی ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله لا مبدل لكلمات الله - ظلمواوان الله على نصرهم لقدير [36] [60] [268] ل گر قضارا عاشقے گرد داسیر بوسد آن زنجیر را کز آشنا [268] [848]920] قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ لِيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَلِيَعْلَمَنَّ [847] الْكَاذِبِينَ [468] [847] الله قَدِ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ
ي 946 مَا أَنَا إِلَّا كَالْقُرْآن وَسَيَظْهَرُ عَلَى يَدَيَّ مَا ظَهَرَ يَا يَحْى خُذِ الْكِتَبَ بِقُوَّةٍ (اور فرما يا ) وَالْخَيْرُ مِنَ الْفُرْقَانِ [28] كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ [7][14][203] [438] مُبَارَكٌ وَ مُبَارِكٌ وَكُلُّ أَمْرٍ مُّبَارَكِ يُجْعَلُ فِيهِ يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللَّهُ فِيْكَ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ [227] [106] وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى قَوْمًا مَا أَنْذِرَابَاءُ هُمْ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ - الْمُجْرِمِينَ - قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ [109] [11] [19] [60] [68] [70] يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللهُ فِيكَ الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ وَلَا تُخَاطِيْنِي فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُّغْرَقُونَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَابَاهُ هُمْ وَلِتَسْتَبْيْنَ سَبِيلُ [201] الْمُجْرِمِينَ - قُلْ إِنِّي أُمَرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُو وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ [247] مِنِينَ - هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بَالْهُدَى وَ دِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيَّا- صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ - کے پائے من می بوسید ومن میگفتم که حجر اسود نم وَكَانَ أَمْرًا مَّفْعُولاً وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ [467] [19] [44] يلقى الروح على من يشاء من عباده ط كل [45] بركة من محمد صلى الله عليه وسلم [156][197] [517] هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْخَيْتَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا ينقطع اباوك و يبدء منك وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ [70] [250] [315] ہراک نیکی کی جڑ یہ ا تقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے