Language: UR
ڈاکٹر غلام جیلانی برق کیمل پوری کی کتاب حرف محرمانہ کا یہ تحقیقی جواب محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری نے نومبر 1964ء میں تیار کیا تھا جسے نظارت اصلاح و ارشاد ربوہ کے صیغہ نشر واشاعت نے قریبا 700 صفحات پر طبع کروایا تھا۔ اس کتاب کی اضافی افادی حیثیت یوں بھی ہے کہ برق صاحب کی کتاب حرف محرمانہ میں درج اعتراضات احمدیت کے خلاف لکھے گئے تمام لٹریچر بالخصوص پروفیسر الیاس برنی کی کتاب ’’قادیانی مذہب‘‘ کا نچوڑ ہیں۔ یوں تحقیق عارفانہ کی صورت میں ان تمام مخالفین کے رد کا سامان ہوگیا ہے۔ اس کتاب میں محترم قاضی صاحب نے ختم نبوت پر جماعتی موقف کے بیان کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مختلف تحریرات، الہامات اور ذات والا صفات پرکئے جانے والے اعتراضات کا کافی و شافی مدلل جواب پیش کیا ہے لیکن ساتھ ہی ایک حسرت کا بھی اظہار کیا ہے کہ جس طرح ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے اپنی کتاب کے آغاز میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے حوالہ جات کے پیش کرنے میں دیانت داری سے کام لیں گے اور منشاء متکلم کو بگاڑنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ للأسف!! کتاب میں وہ اپنے ہی دعویٰ سے عہدہ برا نہ ہوسکے اورخدا جانے کیوں وہ عملاً ایسا علمی وتحقیقی اہتمام نہ کرسکے ۔یوں اپنی کوشش ’’حرف محرمانہ‘‘ کو ’’حرف مجرمانہ‘‘ اور بالآخر اپنے دوسرے بھائی بندوں کی طرح ’’تحریف مجرمانہ‘‘ بنا کر ہی دم لیا۔ محترم قاضی صاحب ایک نابغہ روزگارعلمی شخصیت تھے جو ساری عمر مباحثہ ومناظرہ میں مصروف رہے ، ان نے لکھاہے کہ ’’مجھے ہمیشہ یہ حسرت رہی ہے کہ کسی مخالف مولوی کی کوئی ایسی کتاب دیکھنے میں آئے جس میں حوالہ جات قطع وبرید کئے بغیر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحیح منشاء کو پیش کرکے آپ پر تنقید کی گئی ہو۔ مگر افسوس ہے کہ کوئی کتاب آج تک میری نظر سے نہیں گزری جس میں دیانت کے اس پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہو۔‘‘
هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالهُدَى وَدِينِ الحق ليظهره على الدين كله.(الصف : ١٠) تحقیق عارفانہ مجواب حرف محرمانه
صفحه i ۱۵ ۱۸ فهرست مضامین تحقیق عارفانه مضمون پيش لفظ تحقیق عارفانہ کی افادی حیثیت.ضروری گذارش حرف محرمانہ کی حیثیت.باب اول ختم نبوت کی حقیقت.تمام مسلمان علماء کا ایک نبی کی آمد پر اتفاق.مسلمان کا ایک گروہ مسیح کے بروزی نزول کا قائل چلا گیا ہے.برق صاحب کا ہمارے خط کے جواب میں نزولِ مسیح کے بارہ میں شک کا اظہار.وفات مسیح علیہ السلام اور برقی صاحب کا فرض.بزرگان اُمت کے اقوال میں امکانِ نبوت غیر تشریعی.برق صاحب کے ایک جدید نظریہ کہ کوئی نبی نئی شریعت نہیں لایا کا ابطال.۴
า نمبر مضمون برق صاحب کے ایک دوسرے نظریہ کہ ہم کسی نبی کو غیر تشریعی فرض کر ہی نہیں سکتے کا ابطال.نبوت اور نبی کے لغوی معنی کی قرآن سے تائید.۱۲ تشریع امر عارض ہے (یعنی ہر نبی کے لئے شریعت جدیدہ لانا ضروری نہیں) ۱۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے آیت خاتم النبین کی تفسیر کہ آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے پر برق صاحب کا اعتراض اور اس کا جواب.صفحه ۲۲ ۲۳ ۲۵ ۱۴ مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کی تغییر متعلق آیت خاتم النبین ۲۸ ۱۵ برق صاحب کی دوسری علمی لغزش.14 ختم نبوت کے لغوی معنی ۱۷ خاتم کے معنی از روئے حدیث نبوی.۱۸ قرآن کریم سے امکانِ نزول وحی و امکانِ نبوت کا ثبوت.خاتم النبیین کی تفسیر حدیث میں.۲۰ حدیث لو عاش ابراہیم لکان صدیقانبیا کی توثیق اور تشریح.۲۱ حضرت محی الدین ابن عربی کے نزدیک انقطاع نبوت والی احادیث کی تشریح.۲۲ حدیث لوكان بعدی نبی لكان عمر کے ضعف کا ثبوت اور بصورت تسلیم صحیح معنے.۳۰ ۳۶ ۳۸ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۱
شمار مضمون صفحه ۲۳ امکان نبوت کے بارہ میں تین اور حدیثیں.۵۳ ۲۴ انقطاع نبوت پر برق صاحب کی پیش کردہ حدیثوں کی صحیح تشریح.۵۷ ۲۵ خاتم النبیین کا الف لام.۲۶ اعتدال کی راہ.۲۷ خاتم کا استعمال حضرت مسیح موعود کی تحریرات میں اور برق صاحب کے اعتراض کا جواب.۲۸ ایک بروز محمدی سے متعلقہ عبارت اور برق صاحب کے اس اعتراض کا جواب کہ اس کی رُو سے امتِ محمدیہ میں ایک سے زیادہ نبی کسی صورت میں نہیں آسکتے.۲۹ برق صاحب کا خطبہ الہامیہ کی ایک ادھوری عبارت پیش کر کے ایک مغالطہ اور اس کا جواب.۳۰ برق صاحب کے اس اعتراض کا جواب کہ حضور علیہ السلام کی توجہ سے نبی پیدا ہو سکتے ہیں تو صحابہ کرام میں سے کوئی شخص منصب نبوت پر فائز کیوں نہ ہو سکا.۳۱ برق صاحب کے اس اعتراض کا جواب کہ خاتم السیمین سے مراد نبی تراش مہر لی جائے تو کم از کم تین نبی آنے چاہیں.۳۲ برق صاحب کی تحریروں میں تناقض.۷۲ ۷۳ ۷۴ Al ۸۷ ٨٨ ۸۹
صفحه ۱۰۴ ۱۰۸ 1+9 ۱۱۳ ۱۱۵ ۱۲۳ ۱۲۴ مضمون نمبر شمار ۳۳ ختم نبوت کی تشریح کے لحاظ سے انکارِ نبوت اور اقرارِ نبوت کے حوالہ جات کا حل اور اس امر کا ثبوت کہ تدریجی انکشاف قابل اعتراض نہیں.۳۴ برق صاحب کے اس اعتراض کا جواب کہ جو دیوار مسیح کی راہ میں حائل تھی وہ مسیح موعود کو بھی آنے سے روک سکتی تھی.۳۵ کشتی نوح صفحه ۱۳ کی عبارت سے متعلق مغالطہ کا جواب.ایک حوالہ میں برق صاحب کی تحریف اور حوالہ کا حل.۳۷ مسئلہ نبوت مسیح موعود کے بارہ میں حضرت اقدس کی عبارتوں کے متعلق رفع اختلاف کی تین صورتیں اور ان پر برق صاحب کے اعتراضات مع جوابات.۳۸ رفع اختلاف کی صورت اول پر برق صاحب کے سات سوالوں کے جوابات.۳۹ رفع اختلاف کی دوسری صورت پر برقی صاحب کی تین باتوں کا جواب.۴۰ نبوت کی تقسیم از روئے قرآن اور اس امر کا ثبوت کہ انجیل کوئی شریعت کی کتاب نہ تھی اور اس امر کارڈ کہ حضرت مرزا صاحب تشریعی نبوت کے مدعی تھے.
a ۴۱ مضمون حضرت خلیفة المسیح الثانی کا یہ عقیدہ ہے کہ کوئی شخص آنحضرت ﷺ سے نہیں بڑھے گا اور اس بارہ میں برقی صاحب کے مغالطہ کارڈ.۴۲ برق صاحب کے خلاف اجماع نظریہ کی تردید کہ آدم کے سواسب نبی امتی ہیں.صفحه ۱۲۹ ۱۳۲ ۳ حضرت مسیح موعود کا دعوی تشریعی نبی کا نہیں اس بارہ میں برق صاحب کے مغالطہ کی تردید اور اربعین کی ایک عبارت کی تشریح.۱۳۴ تم ۴ رفع اختلاف کی تیسری صورت پر برق صاحب کے اعتراضات کے جوابات.باب دوم ۴۵ حرف محرمانہ کے دوسرے باب متعلق مسیح موعود علیہ السلام کا جواب.۴۶ احادیث کے متعلق حضرت مسیح موعود کا مسلک اور برق صاحب کی مفتریات کارت.۴۷ مسیح موعود کا ذکر قرآن شریف میں.۴۸ برق صاحب کا حضرت اقدس پر مستقل رسول ہونے کا بہتان.برق صاحب کی ایک الجھن کا حل.۵۰ برق صاحب کے ایک غیر منطقی اعتراض کا جواب.۱۳۸ ۱۴۵ ۱۴۶ ۱۵۱ ۱۵۳ ۱۵۳ ۱۵۶
و مضمون باب سوم ۵۱ مسیح و مثیل مسیح صفحه ۱۵۹ ۵۲ حضرت اقدس پر حضرت عیسی علیہ السلام کی ہتک کے الزامات ۱۶۲ ۵۳ قرآن کا عیسی انجیل کے یسوع سے الگ ہستی نہ تھا تو الزامی جواب کیوں؟ ۵۴ تاریخ بعثت.باب چهارم ۵۵ تاریخ بعثت کے متعلق مغالطات کے جوابات.۵۶ دلائل نبوت.باب پنجم ۵۷ آيت من يطع الله والرسول فاولئك مع الذين انعم الله عليهم من النبين سے امکان نبوت کا ثبوت.۵۸ معیار صداقت آیت ولو تقول علينا بعض الاقاويل لاخذنا منه باليمين ثم لقطعنامنه الوتین کے متعلق برق صاحب کی غلط اختراع ۵۹ مفتری علی اللہ کے متعلق برق صاحب کی پیش کردہ آیات کی اصل حقیقت.۶۰ حضرت اقدس کی عیسی علیہ السلام سے مماثلت.۶۱ مماثلت پر برق صاحب کی تنقید کی جزو اول کا جواب.۱۶۹ ۱۸۰ ۱۸۰ ۱۹۰ 190 ۱۹۵ ۲۰۱ ۲۰۴ ۲۰۷
ز مضمون صفحه ۲۱۰ ۲۱۶ ۲۲۴ ۲۲۷ ۲۴۰ ۲۴۴ ۲۴۹ ۲۵۵ ۲۶۰ ۲۶۳ ۲۶۹ ۲۷۰ ۶۲ جزو دوم کا جواب.۶۳ جزو سوم کا جواب.۶۴ جز و چهارم کا جواب.۲۵ جزو پنجم کا جواب.باب ششم و هفتم الدجال و جہاد.۶۷ برق صاحب کی تلبیس انگریزی حکومت کو دجال اکبر قرار دینے کے متعلق.انگریزوں کی غلامی کے درس کے الزام کارڈ.۶۹ مولوی محمد حسین بٹالوی کی حکومت میں جھوٹی مخبری.۷۰ خود کاشتہ کی حقیقت.بعض علماء کی حکومت کے خلاف متشددانہ پالیسی کی دوبارہ ناکامی.انگریزوں کی سدا غلامی کے الزام کارڈ.۷۳ بعض حوالہ جات کی تشریح.۷۴ قانون ”دکھائی" کے بارہ میں حضرت اقدس پر ناپاک حملے کا ر ڈو متعہ کی حیثیت اسلام میں اور برقی صاحب کا حضرت اقدس پر ایک افتراء ۷۵ تحفہ قیصریہ دستارہ قیصریہ کے متعلق اعتراضات کی تردید.برق صاحب کی خطر ناک تحریف.
شمار ح مضمون ۷۷ دجال کی شوکت کم کرنے اور پادریوں کی شکست کے متعلق دو سوالوں کا جواب.۷۸ پنجاب میں عیسائیوں کی تعداد کی بناء پر حضرت اقدس سے استہزاء کا جواب.و مباحثات میں حکمت عملی.صفحه ۲۷۲ ۲۷۳ ۲۷۸ ۸۰ حکومت کابل کی وزارت کے اعلان میں برق صاحب کی تحریف ۲۷۹ ترکوں کی شکست پر اعتراض کا جواب.۲ مبلغ روس کے رویہ پر اعتراض کا جواب.جماعت احمدیہ کی طرف سے مسلم مفاد کی حفاظت.۴ باب ہفتم کے آخری اعتراض کارڈ.۸۵ صداقت کے معیار.۸۶ باب ہشتم حضرت اقدس کی دعاؤں کی عدم قبولیت کا اعتراض.۸۷ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے ساتھ آخری فیصلہ کی حقیقت.میر ناصر نواب صاحب کی روایت کی حقیقت.ڈاکٹر عبدالحکیم خان کی پیشگوئی کی حقیقت.۲۸۱ ۲۸۳ ۲۸۴ ۲۸۷ ۲۸۹ ۲۸۹ ۲۹۰ ۳۰۰ ٣٠١ حضرت اقدس کے فہم قرآن کے متعلق اعتراضات کے ۳۰۷ جوابات.۹۱ نشانات کی تعداد کے بیان میں تضاد کے اعتراض کا جواب.۳۳۵
صفحه ۳۳۸ ۳۴۲ ۳۵۵ ۳۵۵ ۳۹۹ ۴۲۷ ۴۴۹ ۴۶۹ ۴۷۹ ۴۸۰ ۴۸۸ ۴۹۱ ۴۹۲ ۴۹۳ ۴۹۶ ط ۹۲ پیشگوئیوں کے اصول.مضمون ۹۳ مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے متعلق ایک غیر جانبدار عالم کی رائے اور اس کے قلم سے سترہ پیشگوئیوں کا بیان.۹۴ برق صاحب کے دس الهامی پیشگوئیوں پر اعتراضات کے جوابات.۹۵ نمبرا پیشگوئی متعلق محمدی بیگم صاحبہ ۹۶ نمبر ۲ پیشگوئی متعلق ڈینٹی عبد اللہ آتھم ۹۷ نمبر ۳ - پسر موعود ( مصلح موعود) کے متعلق پیشگوئی.۹۸ نمبر ۴- طاعون کی پیشگوئی.۹۹ نمبر ۵ - الهام عمر.۵-الهام ۱۰۰ نمبر ۶ - امراض خبیثہ سے حفاظت کا وعدہ.1+1 نمبر۷ - الهام متعلق میج ۱۰۲ نمبر ۸- خیر الدولہ - عالم کباب ۱۰۳ نمبر ۹- کنواری اور بیوہ.۱۰۴ نمبر ۱۰.بعض بابرکت عور تیں.۱۰۵ برق صاحب کا بعض پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا اعتراف.باب نهم ١٠ الهامات پر اعتراضات کے جوابات.
ی شمار مضمون بعض الهامات پر مہمل ہونے کے اعتراض کا جواب.باب دہم صفحه ۵۲۳ ۱۰۸ حضرت اقدس کی " وسعت علم “ پر بارہ اعتراضات کے جوابات.۵۳۶ باب یازدہم ۱۰۹ حضرت اقدس کی اُردو دانی پر نکتہ چینی کے جوابات.۱۱۰ بعض الهامات پر ادبی اعتراضات کے جوابات.ا خطبہ الہامیہ کی بعض عربی عبارتوں پر ادبی اعتراضات کے جوابات.۵۵۷ ۶۰۸ ۶۲۵ ۶۴۸ ۱۱۲ عربی قصیدہ مشمولہ خطبہ الہامیہ کے اشعار پر نکتہ چینی کا جواب.۶۴۴ ۱۱۳ قصیده اعجاز یہ مندرجہ (اعجاز احمدی) کی معجزانہ حیثیت.۱۱۴ قصیدہ اعجاز یہ کے پانچ اشعار پر ادبی نکتہ چینیوں کا جواب.۱۱۵ اعجاز اسی پر پانچ اولی اعتراضات کے جوابات.۱۱ قرآن شریف کی آیات پر عیسائیوں کی نکتہ چینی کا نموند.باب دوازدہم ۶۵۴ ۲۷۳ ۱۱۷ برق صاحب کے آخری حملہ مخالفوں کے متعلق سخت کلامی کارڈ.۶۷۹ خاتمه ۱۱۸ کتاب کا مختصر تریں خلاصہ وخاتمہ ۶۹۴ Composed By: MICROMAN COMPUTER SERVICES.|☎: (04524)-211893
" پیش لفظ تحقیق عارفانہ “ کی افادی حیثیت
ضروری گذارش مجھے اکثر دوستوں کی طرف سے یہ تحریک ہوئی تھی کہ ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب برق کملپوری کی کتاب " حرف محرمانہ " کا جواب ہماری طرف سے دیا جانا چاہئے.کیونکہ کئی لوگ اس کے سوالات ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں.گو ایسی باتوں کے جوابات سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں متعدد بار دیئے گئے ہیں.مگر چونکہ برق صاحب نے ایسے اعتراضات کو اپنی کتاب میں اپنے الفاظ میں ڈھال کر جمع کر دیا ہے اس لئے یکجائی طور پر ان کا جواب ضروری ہے.میں نے دوستوں کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے اس کتاب کا جواب بنام " تحقیق عارفانہ لکھا ہے جو احباب کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے :- جناب برق صاحب نے اپنی کتاب میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے حوالہ جات کو پیش کرنے میں پوری دیانت داری سے کام لیا ہے اور منشاء متکلم کو بگاڑنے کی کوشش نہیں کی.احباب کرام ان کی کتاب کا جواب پڑھنے پر یہ محسوس کر لیں گے کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں کس قدر عمد و بر آہوئے ہیں.مجھے ہمیشہ یہ حسرت رہی ہے کہ کسی مخالف مولوی کی کوئی ایسی کتاب دیکھنے میں آئے جس میں حوالہ جات قطع و برید کئے بغیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحیح منشاء کو پیش کر کے آپ پر تنقید کی گئی ہو.مگر افسوس ہے کہ کوئی کتاب آج تک میری نظر سے نہیں گذری جس میں دیانت کے اس پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہو.برق صاحب کی کتاب کی تمہید پڑھ کر اور ان کا یہ دعوی دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ احمدیت پر تنقید کرنے والا ایک شریف مصنف تو ایسا ملا جو
- دیانت کے پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہائی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر تنقید کر رہا ہے.مگر میں دُکھ اور افسوس سے اس امر کا اظہار کرنے سے رُک نہیں سکتا کہ جوں جوں میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا برق صاحب کا دعویٰ غلط ہوتا نظر آیا.حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس کتاب کو حرف محرمانہ کی جائے " حرف مجرمانہ " بلکہ " تحریف مجرمانہ کا مصداق پایا ہے.
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيم.باب اوّل ختم ہوت کی حقیقت نبوت جناب ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب برق نے ایک کتاب ”حرف محرمانہ“ کے نام سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مهدی معهود علیہ السلام کے دعاوی کی تردید میں لکھی ہے.اس کتاب کا جواب دینا اس وقت ہمارے مد نظر ہے.برق صاحب نے سب سے پہلے ” خاتم النبیین “ کے معنے پر بحث کی ہے اور پھر حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ کی نبوت کو زیر بحث لائے ہیں.تمام مسلمان علماء کا اس بات پر اتفاق رہا ہے اور اتفاق موجود ہے کہ مسیح موعود کے آخری زمانے میں ظہور کے متعلق احادیث نبویہ میں جو پیشگوئیاں وارد ہیں ان میں آنحضرت ﷺ نے اس موعود کو ہی اللہ “ قرار دیا ہے.اور یہ علماء امت کہتے ہیں کہ یہ موعود شریعت محمدیہ کے تابع ہو گا اور اس کے مطابق حکم کرے گا.کسی اور شریعت کی طرف دعوت نہیں دے گا.اس طرح قریباً تمام امت محمدیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین عملے کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آسکتا.البتہ آخری زمانہ میں ایک نبی اللہ کا ظہور حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی کے رنگ میں ضرور ہو گا.اکثر علماء امت یہ مانتے چلے آئے ہیں کہ امت محمدیہ کے مسیح موعود
۶ حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام ہیں جنہیں زندہ ہی خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھا لیا گیا تھا ہی آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے اور قوموں کے درمیان حکم ہوں گے اور صلیبی مذہب (عیسائیت کا مقابلہ کریں گے.پس ایک نبی کی ضرورت کی قریباً تمام امت قائل چلی آتی ہے.جماعت احمدیہ از روئے قرآن مجید و احادیث نبویہ یہ یقین رکھتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جو اسرائیلی نبی تھے تمام دوسرے انبیاء کی طرح وفات پاچکے ہیں.اور جس موعود عیسی کے امتِ محمدیہ میں آنے کا احادیث نبویہ میں وعدہ دیا گیا ہے.اسے عیسی یا امن مریم کا نام مجاز و استعارہ کے طور پر حضرت عیسی علیہ السلام کا میل یا بروز ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے.کیونکہ احادیث نبویہ میں اس موعود ابن مریم کو امامُكُمْ مِنْكُمْ ( صحیح بخاری) اور فأَمَّكُمُ مِنكُمُ ( صحیح مسلم) تم میں سے تمہارا امام قرار دیا گیا ہے.ہاں بعض احادیث میں رسول کریم ﷺ نے اس موعود عیسی کو نبی اللہ بھی قرار دیا ہے.ان سب احادیث کو تطبیق دینے سے یہ ظاہر ہے کہ مسیح موعود امتِ محمدیہ کا ہی ایک فرد ہے اور آنحضرت ﷺ کا خلیفہ ہے جو ایک پہلو سے نہی ہے اور ایک پہلو سے امتی بھی.حضرت عیسی علیہ السلام چونکہ وفات پا چکے ہیں اور وفات یافتہ کا از روئے قرآن مجید اس دنیا میں واپس آنا محال ہے اسلئے یہی عقیدہ درست ماننا پڑتا ہے کہ امت محمدیہ کا مسیح موعود حضرت عیسی علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ اُن کا مثیل اور بروز ہی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ یہی ہے کہ آپکو ہی اپنے الہامات کے مطابق مسیح کے رنگ میں ہو کر آنے کی وجہ سے احادیث نبویہ میں لئن مریم کا نام بطور استعارہ دیا گیا تھا.پس خاتم النبیین عملے کے بعد تقریبا ساری کی ساری امت ایسے نبی کی آمد کی قائل چلی آئی ہے جو شریعت محمدیہ کے مطابق حکم ہو ہم میں اور اس زمانہ
L کے دوسرے علماء کے عقیدہ میں اگر اختلاف ہے تو صرف اتنا ہے کہ وہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے اصالتا دوبارہ آنے کے قائل ہیں اور ہم اسکے مثیل کے آنے کے قائل ہیں پس ختم نبوت کے عقیدہ میں ہم میں اور ان میں اس بات میں اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی جدید شریعت لانیوالا نہیں آسکتا اور مسیح موعود ایسانی صلى الله ہے جو تابع شریعت محمدیہ ہے گویا ایک نبی کے خاتم النبین ہے کے تابع آنے میں تو ہم سب کا اتفاق ہے البتہ اس کی شخصیت میں ہم میں اور ان میں یہ اختلاف ہے کہ یہ موعود خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں یا ان کا کوئی مثیل اور بروز ہے جو ایک پہلو سے امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی.مسلمان کے ایک گروہ کا احمدی عقیدہ سے اتفاق ایک گروہ مسلمانوں کا یہی عقیدہ رکھتا چلا آیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول سے مراد یہ ہے کہ امام مہدی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بروز ہو گا.نہ یہ کہ حضرت عیسے اعلیہ السلام اصالتاً دوبارہ نازل ہوں گے.چنانچہ اقتباس الانوار صفحہ ۵۲ میں لکھا ہے :- بعضی بر آنند که روح عیسی در مهدی بروز کند و نزول مبارت از ہمیں 6613 بروز است مطابق ایس حدیث کہ لَا مَهدى إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ - یعنی بعض کا یہ مذہب ہے کہ عیسی کی روح یعنی روحانیت مہدی میں بروز (ظہور ) کرے گی اور نزول عیسی سے مراد یہی بروز ہے ( یعنی بروزی ظہور ہے نہ کہ اصالتاً آنا ) مطابق اس حدیث کے جس میں لا مهدی الا عیسی ابن مریم کے الفاظ وارد ہیں کہ عیسی بن مریم کے سوالور کوئی مہدی نہیں.اسی طرح امام سراج الدین ابن الوردی تحریر کرتے ہیں :- قَالَتْ فِرقَةً مِنْ تَزُولِ عِيسَى حُرُوجُ رَجُلٍ يَشبَهُ عِيسَى فِي الفَضْلِ وَ
الشَّرَفِ كَمَا يُقَالُ لِلرَجُل الخير مَلَكُ لِلشَّرِيرِ شَيْطَانٌ تَشَبيهَا بِهِمَا وَ لَا يُرَادُ الاعيان" خريدة العجائب وفريدة الرغائب صفحه ۲۱۴ مطبوعہ مصر) یعنی ایک گروہ مسلمانوں کا نزول عیسیٰ سے ایک ایسے آدمی کے ظاہر ہونیکا قائل ہے جو فضل و شرف میں عیسی کے مشابہ ہو جیسا کہ نیک آدمی کو فرشتہ سے تشبیہ دے کر فرشتہ کہہ دیتے ہیں اور بُرے آدمی کو شیطان سے تشبیہ دے کر شیطان کہہ دیتے ہیں اور اس جگہ اصل فرشتہ با شیطان مراد نہیں ہوتا.ہمارے نزدیک یہی مذہب سچا ہے اور نزولِ مسیح سے متعلق احادیث نبویہ کی صحیح تعبیر ہے.ہمارے اس بیان سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص یہ ثابت کرنا چاہتا ہو کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مسیح موعود کا عومی درست نہیں تو اُسے حضرت عیسی کی قرآن مجید سے حیات ثابت کرنی چاہئیے اور جماعت احمدیہ کو دلائل سے حیاتِ مسیح کا عقید ہ منوانے کی کوشش کرنی چاہئیے.افسوس ہے کہ جناب برق صاحب کی کتاب ” حرف محرمانہ “ کو ہم اس بحث سے بالکل خالی پاتے ہیں پس ان کی یہ کتاب احمد یوں کو اپیل نہیں کر سکتی.اگر وہ حضرت عیسی کو زندہ رکھتے ہیں تو انہیں حیات مسیح کا ثبوت دینا چاہئے تھا.جس سے وہ بغیر کسی لمبی بحث کے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے اس دعوی کو رو کر سکتے تھے کہ آپ صحیح موعود ہیں.مگر جناب برق صاحب کو تو خود حیات مسیح پر یقین نہیں اور نہ وہ ان کے اصالتنا دوبارہ نازل ہونے پر یقین رکھتے ہیں اس لئے ان دونوں امور کے متعلق ان کی کتاب میں کوئی بحث موجود نہیں.وہ اس بارہ میں اپنے عقیدہ کو ظاہر نہیں کرتے.تا حیات مسیح کے قائلین میں احمدیت کے خلاف ان کی کتاب مقبول ہو سکے.ہم نے مؤرخہ ۲۲ ستمبر ۱۹۶۴ کو ان کی خدمت میں ایک رجسٹر ڈ خط لکھا
جس کا خلاصہ مضمون یہ ہے کہ :- اولین فرصت میں ان دو باتوں کا جواب دے کر ممنون فرمائیں.اول : کیا آپ وفات مسیح کے قائل ہیں ؟ دوم : کیا آپ نزول مسیح کی احادیث کو صحیح سمجھتے ہیں ؟ جناب برق صاحب نے اس کے جواب میں جو چٹھی بھیجی ہے اس میں تحریر فرماتے ہیں.محترم السلام علیکم ا یاد آوری کا شکریہ.احادیث پر میری مفصل رائے میری تصنیف ”دو اسلام “ میں ملاحظہ فرمائیے.-۲- حضرت مسیح بن مریم کی وفات و حیات کا مسئلہ مشتبہات میں سے ہے اگر مسیح نے آنا ہے تو صحیح ہی آئے گا.نہ کہ مثیل مسیح اگر نہیں آنا تو کام چل ہی رہا ہے اگر مثیل مسیح کے نزول کا دروازہ کھول دیں اور ساتھ ہی اسے نبی قرار دے دیں تو ہر شخص نبی ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے.اور یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہو گا.حیات مسیح کی بحث بہت فرسودہ ہو چکی ہے اور اس کا حاصل کچھ بھی نہیں.والسلام مخلص برق اس خط سے ظاہر ہے کہ جناب برق صاحب نہ حضرت عیسی کے زندہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ان کے وفات یافتہ ہونے پر بلکہ اس بارہ میں وہ شک میں مبتلا ہیں.حالانکہ حضرت عیسی کی وفات کا مسئلہ احمدیہ تحریک کے لئے ایک بنیادی حیثیت کا حامل ہے.مگر آپ نہایت سادگی سے یہ تحریر فرمارہے ہیں کہ حیات مسیح کی بحث فرسودہ ہو چکی ہے.اگر واقعی یہ بحث فرسودہ ہو چکی ہے تو پھر آپ کے پاس اس کے
بہت دلائل ہونے چاہیں.مگر آپ باوجود اس بحث کو فرسودہ کہنے کے ابھی تک خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکے کہ حضرت عیسی زندہ ہیں یا وفات یافتہ.کیا اسی برتے پر آپ نے احمدیوں کو سمجھانے کے لئے حرف محرمانہ “ تالیف فرمائی ہے.آپ کہتے ہیں اس کا حاصل کچھ بھی نہیں.یہ الفاظ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ حضرت عیسی کی حیات جسمانی اور صعودالی السماء کے ثبوت میں آپ کے پاس کوئی دلائل موجود نہیں ورنہ تحریک احمدیت کی تردید کے لئے تو یہ مسئلہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے کیونکہ اگر حیاتِ مسیح ثابت ہو جائے تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ باطل ہو جاتا ہے.آپ کے نزدیک کسی مثیل مسیح کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کے نزدیک کام چل ہی رہا ہے.خبر نہیں کام چلنے سے مراد آپ کی کیا ہے.کام تو عیسائیوں اور یہودیوں کا بھی چل رہا ہے.اور مسلمان حیات مسیح کے قائل ہونے کی وجہ سے عیسائیوں کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں اور اسی وجہ سے عیسائیوں میں تبلیغ کے لئے ان کا کوئی مشن موجود نہیں.پس عیسائیوں کے خلاف اگر کوئی مؤثر تحریک مسلمانوں کی چل رہی تو وہ احمد یہ تحریک ہی ہے جس کے مشن تقریباً معروف دُنیا میں قائم ہو چکے ہیں.پس کام تو بے شک چل رہا ہے اور تبلیغ اسلام بھی زور شور سے ہو رہی ہے مگر یہ کام ٹیل مسیح کے مدعی کی جماعت کے حصہ میں ہی آیا ہے.مسیح کے ٹیل کی آمد کا دروازہ بند کرنے والے آپ کون ہیں؟ آپ کو تو صرف یہی خطرہ ہے کہ دروازہ کھلنے سے ہر شخص شیل مسیح کا دعویٰ کر سکتا ہے.حالانکہ دعوی کر سکنا اور بات ہے اور دعوی کر کے کامیابی حاصل کرنا صرف تائید الہی سے ہی میسر آسکتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی تائید کسی جھوٹے مدعی کو حاصل نہیں ہو سکتی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ”قَد خَابَ مَنِ افْتَرى " ( طه : ۶۲) کہ جس نے افترا کیا وہ خائب و خاسر ہوا.پس اگر ہزار لوگ بھی مثیل مسیح یا نبی ہونے کا دعوی کریں تو اس بات سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ کامیاب صرف
11 صادق ہی ہو سکتا ہے.اپنی کتاب "دو اسلام " میں آپ قرآن مجید کا اسلام اور قرار دیتے ہیں اور حدیثوں کا اسلام اور کیا ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کریں کہ آپ نزول مسیح کی احادیث کے در حقیقت منکر ہیں.اس لئے آپ نے ہمارے جواب میں ٹال مٹول سے کام لے کر ایک گول مول جواب دے دیا ہے تا آپ کے اصل عقیدہ پر پردہ پڑا ر ہے.وفات مسیح علیہ السلام ہماری تحقیق میں حضرت عیسی علیہ السلام از روئے قرآن مجید وفات پاچکے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ کے آخری رکوع میں فرمایا ہے.کہ حضرت عیسی سے (قیامت کے دن ) یہ سوال ہو گا کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ تعالٰی کے سواد و معبود مانو.تو وہ جواب میں کہیں گے کہ اے خدا تو ہر عیب سے پاک ہے جس بات کا مجھے حق نہیں میں انہیں کیسے کہہ سکتا تھا اگر میں نے انہیں ایسا کہا ہے تو تو جانتا ہے جو کچھ میرے نفس میں ہے اور میں جو کچھ تیرے نفس میں ہے نہیں جانتا.تو غیوں کا جاننے والا ہے میں نے تو انہیں وہی کچھ کہا تھا جس کا تونے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے.وكنت عَلَيْهِم شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَيتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ (المائده : ۱۱۸) میں ان لوگوں کا اس وقت تک ہی نگران تھا جب تک ان میں موجود رہا پس جب (اے خدا) تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر اُن کا تو ہی مگر ان تھا.یعنی یہ لوگ جوے ہیں تو میری وفات کے بعد بگڑے ہیں اور میری وفات کے بعد اے خدا ان کا تُو ہی نگران تھا.یعنی مجھے تو دوبارہ ان کی نگرانی کا موقعہ ہی نہیں ملا کہ مجھ پر کوئی ذمہ داری ان کے غلط
۱۲ عقیدے اختیار کرنے پر عائد ہو سکے.اس آیت کی موجودگی میں اگر حضرت عیسی کا اصالتا دوبارہ آکر کسر صلیب کرنا تجویز کیا جائے تو پھر ان کا یہ بیان سراسر جھوٹ بن جاتا ہے کہ ترقی کے بعد مجھے قوم میں دوبارہ جانے کا موقعہ ہی نہیں ملا.یہ لوگ صرف خدا تعالیٰ کی نگرانی میں ہی رہے ہیں.پس یہ آیت اس بات پر نص صریح ہے کہ حضرت عیسیٰ کی قوم ان کی وفات کے بعد بگڑی ہے.نیز اس سے بطور اشارۃ القس ان کی دوبارہ آمد کی نفی بھی روزِ روشن کی طرح ثابت ہے.اگر اس جگہ توقی کے کچھ اور معنی لئے جائیں تو پھر حضرت عیسی کو قیامت کے دن تک زندہ ماننا پڑے گا.کیونکہ یہ سوال و جواب قیامت کے دن ہو گا.یہ امر كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ کے خلاف ہے.حضرت عیسی کی آمد یا عدم آمد کے بارہ میں جناب برق صاحب خود شک میں ہیں مگر تردید کرنے بیٹھے ہیں احمدیت کی.وہ ہمیں اپنے خط میں لکھتے ہیں :- اگر مسیح نے آتا ہے تو مسیح ہی آئے گا.اگر نہیں آنا تو کام چل ہی رہا ہے“.اس سے ظاہر ہے کہ وہ یہ اگر اگر کے الفاظ مصلح اظہارِ شک کیلئے استعمال کر رہے ہیں ورنہ دل سے نہ وہ حیات مسیح کے قائل ہیں اور نہ حضرت عیسی کا دوبارہ آنا مانتے ہیں.قرآنِ مجید کی مندرجہ بالا آیت سے تو روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ وہ وفات پاچکے ہوئے ہیں.اور اصالتا دوبارہ نہیں آئیں گے.پھر سورۃ نور کی آیت استخلاف میں جس خلافت کا وعدہ ہے اس کا تعلق محض مسلمانوں سے ہے نہ کسی پہلے خلیفہ کی آمد سے کیونکہ اس آیت میں اس امت کے خلفاء کو گذشتہ امت کے خلفاء کے مشابہ قرار دیا گیا ہے.پس کسی پہلے نبی کا اس امت میں آنحضرت ﷺ کا خلیفہ ہو کر آنا ممتنع ہے.کیوں کہ اس سے مشبہ اور مشبہ بہ کا عین ہو نا لازم آتا ہے.جو محال ہے.لہذا حضرت عیسین کامیل تو امت محمدیہ میں خلیفہ ہو سکتا ہے مگر خود حضرت عیسی کے آنحضرت ﷺ کی
۱۳ امت کے خلیفہ ہونے کو یہ آیت رڈ کرتی ہے.برق صاحب کا فرض نبوت اور ختم نبوت کے معافی کے متعلق جناب برق صاحب کے ذاتی خیالات کچھ بھی ہوں چونکہ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ انہوں نے حرف محرمانہ محققانہ انداز میں لکھی ہے.اس لئے ان کا فرض تھا کہ وہ اپنے ان خیالات کا بھی اس کتاب میں کھلے لفظوں میں اظہار فرماتے کہ آپ کے نزدیک حضرت عیسیٰ ان دلائل کے رو سے زندہ ہیں.مگر وہ تو اپنے خط کے رُو سے خود شک میں مبتلاء ہیں.ختم نبوت کے بارہ میں ان کا یہ بھی فرض تھا کہ وہ اس بات کا بھی اعتراف فرماتے کہ گو میرے خیالات نبوت اور ختم نبوت کے متعلق احمدیوں اور دوسرے علماء سے مختلف ہیں.لیکن احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان ختم نبوت کے معانی میں اس حد تک اتفاق ہے کہ آنحضرت عے کے بعد کوئی شارع اور مستقل نبی نہیں آئے گا.کیوں کہ جس طرح تمام علمائے امت خاتم النبیین کی آیت کی موجودگی میں امت محمد یہ میں از روئے احادیث نبویہ ایک نبی اللہ کی آمد کے بطور مسیح موعود قائل ہیں.اسی طرح جماعت احمد یہ بھی آنحضرت اللہ کے تابع ایک امتی نبی اللہ کی آمد کی ہی قائل ہے.اور جس طرح دوسرے علماء کے عقیدہ میں خاتم النہین کی آیت آنحضرت ملے کے بعد حضرت عیسی انہیں اللہ کی آمد میں روک نہیں اور وہ اپنے آپ کو اس عقیدہ کی وجہ سے ختم نبوت کا منکر نہیں سمجھتے اس طرح حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ کے امتی نبی ہونے کے دعوئی پر غیر احمدی علماء کوئی حق نہیں رکھتے کہ انہیں اور جماعت احمدیہ کو اس عقیدہ کی وجہ سے ختم نبوت کا منکر قرار دیں.کیونکہ احمدی اور غیر احمدی دونوں گرود آنحضرت نے کے بعد ایک تابع اور امتی نبی اللہ کی آمد میں اتفاق رکھتے ہیں ان میں عليسة
اختلاف صرف مسیح موعود کی شخصیت کے بارہ میں ہے.غیر احمدی کہتے ہیں مسیح موعود حضرت عیسی انہیں جو مستقل نبی تھے اور احمدی یہ کہتے ہیں کہ مسیح موعود آنحضرت علی کا امتی ہے.جسے حضرت عیسی کا ہم صفات و شیل ہونے کی وجہ سے احادیث میں پلور استعارہ عیسی یا ابن مریم کا نام دیا گیا ہے.اور نبی اللہ اور امتی قرار دیا گیا ہے.پھر محترم برق صاحب کا تحقیق کے میدان میں اترنے کے بعد یہ بھی فرض تھا کہ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے کہ گو ان کے ذاتی عقیدہ کے مطابق خاتم النبیین کے بعد کوئی نبی ظاہر نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی مسیح موعود آنے والا ہے تا ہم علماء سابقین کا ایک جم غفیر خاتم النبین ملانے کے بعد عیسی نبی اللہ کی اصالنا آمد کا قائل چلا آیا ہے اور یہ امر بھی ان علماء کو مسلم رہا ہے "مَنْ قَالَ بِسَلْبِ نُبُوَّتِهِ فَقَدْ كَفَرَ حَقًّا كَمَا صَرَّحَ بِهِ لسيوطي “ ( حجج الکرامۃ صفحہ ۱۳۱) کہ جو شخص اس بات کا قائل ہو کہ حضرت عیسی مسلوب النبوت ہو کر ( نبوت کے بغیر ) آئیں گے اس نے یقینا کفر کا ارتکاب کیا ہے جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی نے اس کی تصریح کی ہے.لہذا اگر احمدیوں کو ختم نبوت کا منکر قرار دیا جائے تو ان تمام علمائے اسلام کو بھی ختم نبوت کا منکر سمجھا جانا چاہیئے جو آنحضرت کے بعد حضرت عیسی بن مریم نبی اللہ کی آنحضرت ﷺ کے بعد دوبارہ 662 آمد کے قائل ہیں.پھر اگر جناب برق صاحب نے واقعی احمد یہ لٹریچر پڑھا ہے جیسا کہ انہیں دعویٰ ہے تو انہیں یہ معلوم ہو گا احمد یہ لٹریچر میں کئی پچھلے زمانہ کے بزرگان امت اولیائے کرام اور فقہائے عظام کے اقوال ہماری طرف سے اس بات کے ثبوت میں پیش کئے جاچکے ہیں کہ ان بزرگوں کے نزدیک آیت خاتم النبیین اور ان احادیث نبویہ کی چولا نبی بعدی یا اس کے ہم معنی الفاظ پر مشتمل ہیں تشریح یہ ہے کہ آنحضرت میا اے کے بعد ولی تشریعی نبی نہیں آسکتا.اس لئے نبوت کلی طور پر ہند نہیں ہوئی.ملاحظہ
۱۵ ہو امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمہ کی کتاب الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحہ ۳۹ اور سرتاج صوفیا شیخ اکبر محی الدین ابن العربی علیہ الرحمۃ کی کتاب فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ ۱۰۰ اور حضرت عبد الکریم جیلانی علیہ الرحمۃ کی کتاب الانسان الکامل جلد اصفحہ ۹۸ اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی علیہ الرحمۃ مجدد صدی دوازدھم کی کتاب تفہیمات الہیہ کی تقسیم صفحہ ۵۳ اور امام محمد طاہر علیہ الرحمہ کی کتاب تعملہ مجمع البحار صفحہ ۸۵ امام علی القاری کے معنی النبيين اسی طرح فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام ملا علی القاری علیہ الرحمۃ خاتم النب کے معنی یوں تحریر فرماتے ہیں :.المعنى أنه لأيا تي بَعْدَه، نَى يَنسَحُ مِلْته وَلَمْ يَكُنُ مِنْ أُمَّتِهِ" ( موضوعات کبیر صفحه ۵۹) یعنی خاتم النبین کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد ایسا کوئی نبی نہیں آئیگا جو آپ کے دین کو منسوخ کرے اور آپکی امت میں سے نہ ہو.اس سے ظاہر ہے کہ خاتم النبیین کی آیت امتی نبی کے آنے میں مانع نہیں.مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کا قول " مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی خاتم النبیین کے معنی ابو الانبیاء اور نبوت میں مؤثر وجود قرار دیتے ہوئے ان معنی کے پیش نظر لکھتے ہیں :- "بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی سے بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمد ی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.“ ( تحذیر الناس صفحہ ۲۷)
۱۶ حضرت مولوی عبدالحی صاحب حنفی لکھنوی کا قول ہیں :- " حضرت مولوی عبدالی صاحب لکھنوی اپنی کتاب دافع الوسواس میں لکھتے علماء اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدید نہیں ہو سکتا.اور نبوت آپ کی تمام مکفین کو شامل ہے.جو نبی آپ کے ہم عصر ہو گا.وہ قبع شریعت محمد یہ ہو گا." وافع الوسواس فی اثر ائن عباس صفحہ ۳) بعد آنحضرت عی بازمانہ میں (آنحضرت) کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں.بلکہ صاحب شرع جدید ہو نا البتہ ممتنع ہے." (دافع الوسواس فی اثر این عباس صفحه ۱۲) مولانا حکیم صوفی محمد حسین صاحب کا قول ہیں :- مولانا حکیم صوفی محمد حسین صاحب مصنف غائت البرہان تحریر فرماتے الغرض اصطلاح میں نبوت بخصوصیت الہیہ خبر دینے سے عبارت ہے.وہ دو قسم کی ہے.ایک نبوت تشریعی.جو ختم ہو گئی ہے.دوسری نبوت بمعنی خبر دادن ہے وہ غیر منقطع ہے پس اس کو مبشرات کہتے ہیں اپنے اقسام کے ساتھ اس میں سے رویا بھی ہے.“ (کواکب دریه صفحه ۱۴۸،۱۴۷) پس فقہاء امت و صوفیاء ملت اس بات کے قائل چلے آتے ہیں کہ خاتم الله النبین کی آیت آنحضرت ﷺ کے بعد صرف تشریعی نبی کے آنے میں مانع ہے.نبوت سمعنے اخبار غیبیہ کے ملنے میں مانع نہیں.
12 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مذہب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں.آنحضرت ﷺ کو یہ ایک خاص فخر دیا گیا ہے کہ وہ ان معنوں سے خاتم الانبیاء ہیں کہ ایک تو کمالات نبوت ان پر ختم ہیں اور دوسرے ان کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسول نہیں اور نہ کوئی ایسا نہی جو ان کی امت سے باہر ہو.(یہی مذہب امام علی القاری کا اوپر بیان ہوا ہے.ناقل ) (چشمہ معرفت صفحه و طبع اول) نیز تحریر فرماتے ہیں :- ما حصل اس آیت ( خاتم النبین ) کا یہ ہوا کہ نبوت گو بغیر شریعت ہو اس طرح پر تو منقطع ہے کہ کوئی شخص براہِ راست مقام نبوت حاصل کرے لیکن اس طرح پر ممتنع نہیں کہ وہ نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے منتسب اور مستفاض ہو یعنی ایسا صاحب کمال ایک جہت سے امتی ہو اور دوسری جہت سے بوجہ اکتساب انوار محمد یہ نبوت کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو." ( ریویویر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی صفحہ ۷ ) پھر تحریر فرماتے ہیں :- " میری مراد نبوت سے یہ نہیں کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں.صرف مراد میری نبوت سے کثرتِ مکالت و مخاطبت الہیہ ہے جو آنحضرت ﷺ کی اتباع سے حاصل ہے.سو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں.پس یہ صرف نزاع لفظی ہوئی.یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتے ہیں میں اسکی کثرت کا نام بموجب حکم الہی نبوت رکھتا ہوں.(تتمه حقيقة الوحی صفحه ۶۸ طبع اوّل) ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک بھی خاتم النسین مہینے کے بعد کوئی جدید شریعت لانے والا یا کوئی مستقل نبی نہیں آسکتا.ہاں صلى الله
۱۸ آپ کے امتی کو آپ کے فیض کے نبوت کا ایک ایسا درجہ مل سکتا ہے جس کے ساتھ اس کا امتی ہونا لازمی ہے اور اسی قسم کی نبوت کا آپ کو دعویٰ ہے اور یہ نبوت نبوت محمدیہ کا فیض ہونے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ظل ہے نہ کوئی نئی اور الگ ثبوت.کیونکہ یہ نبوت در حقیقت آنحضرت ﷺ کے انوار نبوت کی ہی بہ پیرایۂ جدید ایک تجلی ہے.برق صاحب کا جدید نظریہ علي جناب برق صاحب نے جب دیکھا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کا دعوی کسی جدید شریعت لانے کا نہیں بلکہ آپ ایک پہلو سے امتی اور ایک پہلو سے نبی ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو انہوں نے آپ کو جھٹلانے کے لئے تمام امت محمدیہ کے خلاف ایک نیا نظریہ اختیار کر لیا ہے ان کا یہ نیا نظریہ ہے کہ :- کوئی نبی نئی شریعت لے کر نہیں آیا تھا بلکہ تمام انبیاء ایک ہی پیغام کو مختلف زبانوں اور زمانوں میں دھراتے رہے.“ (حرف محرمانہ صفحہ ۱۷) اس امر کے ثبوت میں جناب برق صاحب نے ذیل کی تین آیات بھی پیش کی ہیں :- ا - إِنَّ هَدَالَفِي الصُحُفِ الْأُولى - (الاعلیٰ : 19) یہ قرآن پہلے صحیفوں میں بھی موجود ہے.٢- مَايُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ - ( حم السجدة : ۴۴) ہم تمہیں وہی پیغام دے رہے ہیں کہ جو تم سے پہلے تمام انبیاء کو دیا گیا.- فرعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَى بِهِ نُوحاً وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى - (الشورى : ۱۴) اے محمد ہم تمہیں وہی دین اور وہی شریعت دے رہے ہیں جو نوح.ابراہیم موسیٰ و
۱۹ عیسی کو دی گئی.“ برق صاحب کے نظریہ کا ابطال (حرف محرمانه صفحه ۱۹،۱۸) جناب برق صاحب کا یہ نظریہ کہ کوئی نبی نئی شریعت لے کر نہیں کیا تھا.سراسر باطل ہے کیونکہ تمام امت محمد یہ بلا استثنا قرآن شریف کو شریعت جدیدہ تسلیم کرتی چلی آئی ہے.پس برق صاحب کا یہ نظریہ اجماع امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی مردود ہے اور چونکہ یہ خود قرآن مجید کے بیان کردہ نظریہ کے بھی خلاف ہے " اس لئے بھی مردود ہے.دیکھئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے.66 مَا نَنْسَحُ مِنْ آيَةٍ أَو نُنَسِهَا نَأْتِ بِخَيْرِ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ، (البقرہ : ۱۰۷) یعنی ہم جو آیت بھی منسوخ کرتے ہیں یا اُسے (لوگوں کے ذہنوں سے) فراموش کر دیتے ہیں تو ہم منسوخ شدہ آیت سے) بہتر آیت لاتے ہیں.یا فراموش کردہ آیت کے ) مثل آیت لاتے ہیں.یہ آیت قرآن مجید کے ذریعہ پہلی شریعتوں کے بعض احکام کا منسوخ قرار دینا بھی بیان کرتی ہے اور بعض ابدی صداقتوں کا ہر انا بیان کرتی ہے.اس آیت کی روشنی میں جناب برق صاحب کا یہ نظریہ کہ کوئی نبی نئی شریعت لے کر نہیں آیا تھا.ایک منٹ کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا.اور قرآن شریف کو ہمیں ضرور ایک جدید شریعت ماننا پڑتا ہے.کیونکہ موسوی شریعت میں بعض چیزمیں حرام تھیں جو قرآن مجید میں حلال قرار دی گئی ہیں.جیسے مال غنیمت اور سو ختنی قربانی و غیرہ.برق صاحب کی پیش کردہ آیات کا حل پہلی آیت إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولی کی یہ تفسیر ہر گز درست نہیں کہ
۲۰ قرآن مجید میں کوئی جدید صداقت موجود نہیں بلکہ صرف پہلی صداقتیں ہی دہرادی گئی ہیں.قرآن مجید اپنی تفسیر آپ کرتا ہے.اس نے آیت ما ننسخ من آید الخ میں بتا دیا ہے کہ سابق شریعتوں کے احکام کو اس میں منسوخ کر کے ان سے بہتر احکام بھی دیئے گئے ہیں.اور بعض بدی صداقتوں کو جو فراموش ہو چکی تھیں دہرا بھی دیا گیا ہے.پھر قرآن شریف زبان عربی میں نازل ہونے کی وجہ سے بھی ایک الگ شریعت کا حکم رکھتا ہے.جسے قبول کئے بغیر اب کوئی شخص کسی دوسری شریعت پر عمل کر کے فلاح نہیں پا سکتا.بلکہ اس کے لئے قرآن مجید پر ایمان لانا بھی ضروری ہے.دوسری آیت جو برقی صاحب نے پیش کی ہے وہ مَا يُقَالُ لَكَ إِلا مَا قَدْ قِيلَ للرسل من قبلك ہے ( حم السجدہ : (۴۴) اس کا ترجمہ برقی صاحب نے یہ کیا ہے " ہم تمہیں وہی پیغام دے رہے ہیں جو تم سے پہلے تمام انبیاء کو دیا گیا“.حالانکہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ " تیرے لئے وہی کچھ کہا جاتا ہے جو تجھ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا.“ تجھ پر اسی قسم کے اعتراضات کئے جاتے ہیں جس قسم کے اعتراضات تجھ سے پہلے نبیوں پر ہوئے.چنانچہ سیاق کلام کا فقرہ اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُو ابا لِذِكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ( حم السجدہ : ۴۲) ہمارے معنوں کا ہی موید ہے.افسوس ہے کہ اس سیاق کو ترک کر کے جناب برق صاحب نے اس آیت کا مفہوم ہی بالکل بدل دیا ہے جو تحریف معنوی کی بد ترین مثال ہے.پس اس آیت کا ہر گز یہ منشاء نہیں کہ شریعت محمدیہ پہلی شریعتوں سے الگ کوئی جدید شریعت نہیں ہے.تیری آیت شَرَعَ لِكُمُ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحاً و الَّذِي أَوْحَيْنَا إليكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى (الشوری : ۱۴) پیش کی گئی ہے.اور اس کا ترجمہ ”حرف محرمانہ “ کے صفحہ ۱۹ پر یہ کیا گیا ہے.”اے محمد ہم تمہیں وہی دین اور وہی شریعت دے رہے ہیں جو نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسی کو دی گئی.“ اس ترجمہ
۲۱ میں محترم برق صاحب نے وَالَّذِى اَوْحَيْنَا إِلَيكَ كا ترجمہ ہی چھوڑ دیا ہے.پھر افسوس ہے کہ برق صاحب نے اس جگہ پوری آیت نقل نہیں کی اس کے بعد کا حصہ یوں ہے.اَنْ اَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ اس حصے کے بغیر اس آیت کا صحیح مفہوم ظاہر ہی نہیں ہو سکتا.(ملاحظہ ہو سورۃ الشوریٰ : ۱۴) پھر اس پوری آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ "اے محمد (اصولی طور پر) ہم نے تم کو وہی دین دیا ہے جس کی ہم نے نوح کو وصیت کی تھی اور جو ہم نے تیری طرف وحی کیا ہے اور جس کی ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسی کو تاکید کی تھی وہ دین یہ تھا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو دنیا میں قائم کرو اور اس کے بارہ میں کبھی تفرقہ نہ کیا کرو.“ پس اس آیت کا منشاء صرف یہ ہے کہ اصولی دین جو تمام نبیوں کا ایک ہی رہا ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت دنیا میں قائم کی جائے اور اس بات میں تفرقہ نہ کیا جائے اس آیت کا ہر گز یہ منشاء نہیں ہے کہ قرآن مجید پہلی شریعتوں سے کوئی الگ اور جدید شریعت نہیں ہے.کیونکہ قرآن مجید بعض احکام جدیدہ پر بھی مشتمل ہے لہذا آیت کے ایسے معنے لینا جو واقعات مشہودہ محسوسہ کے صریح خلاف ہوں جائز نہیں.قرآن شریف نے تو پچھلی شریعتوں کے احکام کو منسوخ بھی کیا ہے اور جدید احکام بھی دیئے ہیں.مثلاً یہودیوں کے سبت کو منسوخ کیا اور اس کی جگہ جمعہ کا دن مقرر فرمایا.حاشیہ کی آیت کا حل حرف محرمانہ کے صفحہ ۱۹ کے حاشیہ میں برق صاحب نے ایک اور آیت بھی درج فرمائی ہے جو یوں ہے.فَبَعَتَ اللهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الكتاب (البقرہ : ۲۱۴).کہ ہم نے تمام انبیاء کو مبشر اور منذر بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اتاری.مگر اس آیت میں یہ ہر گز نہیں کہا گیا کہ تمام نبی الگ الگ شریعت
۲۲ " کی کتابیں لائے ہیں.بلکہ اس جگہ صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ ہر نبی کو تبشیر وانذار کے علاوہ کتاب شریعت کا علم بھی دیا گیا.اگر ہر نبی کو الگ الگ شریعت ملنے کا بیان مقصود ہوتا تو پھر اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ کی جگہ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكُتُبَ کے الفاظ ہوتے.پس کتاب شریعت بعض اوقات ایک نبی پر نازل ہوتی تھی اور بعد کے انبیاء جو اسی شریعت پر ایمان رکھتے تھے.انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کتاب کے حقائق اور معارف کا علم دیا جاتا تھا.یہی مفہوم انزلَ مَعَهُمُ الكِتاب کا ہے.چنانچہ تورات کے متعلق جو شریعت موسوی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَةَ فِيهَا هُدًى ونُور يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرِّبا نيونَ وَالأَحْبَارُ بِمَا استحفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ (المائده : ۴۵) یعنی بیشک ہم نے تورات نازل کی تھی جس میں ہدایت اور نور تھا اس کے ذریعہ سے کئی نبی اور خدا پرست جو ہمارے فرمانبردار تھے یہودیوں کے لئے فیصلہ کیا کرتے تھے اس لئے کہ ان سے اس کتاب کی حفاظت طلب کی گئی تھی اور وہ اس کتاب پر گواہ مقرر کئے گئے تھے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد کئی ایسے نبی آئے جن کی شریعت موسی کی شریعت تو راہ ہی تھی وہ تورات سے کوئی الگ شریعت کی کتاب نہیں رکھتے تھے.البتہ وہ خدائی ہدایت کے ماتحت تورات کو قوم میں نافذ کرتے تھے اور ان پر مغز شریعت موسوی کھولا جاتا تھا.پس برق صاحب کا یہ نظریہ سراسر بے بنیاد ہے کہ کوئی نبی نئی شریعت لے کر نہیں آیا تھا.“ برق صاحب کے دوسرے نظریہ کا ابطال (حرف محرمانہ صفحہ ۱۷) اسی طرح جناب برق صاحب کا یہ دوسرا نظریہ بھی باطل ہے کہ ہم کسی نبی کو غیر شرعی فرض کر ہی نہیں سکتے.غیر شرعی نبی سے مراد برق صاحب کی غیر تشریعی
۲۳ نبی ہے ورنہ غیر شرعی تو کوئی مومن بھی نہیں ہو سکتا.چہ جائیکہ کوئی نبی غیر شرعی ہو.ہم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی آئے جن کی تورات سے الگ کوئی جدید شریعت نہ تھی.لہذاوہ غیر تشریعی نبی تھے.یعنی نہی تو تھے.مگر کوئی شریعت جدیدہ نہ لائے تھے.بلکہ ان کی شریعت موسی کی کتاب توراپ ہی تھی.پھر قرآن کریم سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ نبوت شریعت سے ایک الگ شے ہے جو بیٹک ملتی تو ایک نبی کو ہی ہے.لیکن ہر نبی کے ساتھ الگ شریعت کا آنا لازم اور ضروری نہیں.چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے.ماکان لبشر أن يؤتيه الله الكتب والحكم و النُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِى مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِن كُونُوا رَبَّانِينَ بِمَا كنتم تعلمون الكتب و بِمَا كُنتُم تَدْرُسُونَ (آل عمران : ۸۰) یعنی کسی انسان کے شایان شان نہیں کہ اللہ اس کو کتاب اور حکم اور نبوت دے تو وہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ بلکہ وہ تو یہی کہتا ہے کہ تم خدا ہی کے ہو جاؤ.کیونکہ تم کتاب الہی کی تعلیم دیتے ہو اور اس لئے کہ تم اس کی حفاظت کرتے ہو.اس آیت سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھر کو تین چیزیں دی جاتی ہیں الکتاب، الحكم النبوة ، پس النبوۃ، الکتاب اور الحکم تین الگ الگ اشیاء ہیں.اسی لئے النبوۃ کا عطف الحکم پر اور الحکم کا عطف الکتاب پر کیا گیا ہے کیونکہ عطف مغایرت کو چاہتا ہے پس الحوة ، الكتاب اور الحکم تینوں الگ الگ امور ہیں لہذا النبوۃ کے لئے کسی الگ کتاب کا ملنا ضروری نہ ہوا جیسا کہ آیت يَحْكُمُ بها النبيُّون سے ثابت کیا جا چکا ہے.ہاں نبی کے لئے کتاب کی تعلیم و تدریس ضروری ہے.خواہ وہ جدید کتاب لائے یا وہ کسی پہیلی شریعت پر قائم رکھا جائے.نبوت اور نبی کے لغوی معنی نبوت کے لغوی معنی ہیں "الاحْبَارُ عَنِ الْمُسْتَقْبِلِ بِالْهَامِ مِنَ اللَّهِ
۲۴ (المنجد) یعنی مستقبل کے متعلق الہام الہی سے غیب کی خبریں دینا نبوت ہے اور نبی کے معنی لغت میں المُخبِرُ عَنِ المُستقبل بالهام مِنَ اللہ لکھتے ہیں (ملاحظہ ہو المنجد) یعنی نبی وہ ہے جو الہام الہی سے آئندہ کے متعلق غیب کی خبریں دے.قرآن میں لکھا ہے.عَالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ (سورۃ الجن : ۲۸،۲۷) 66 یعنی خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو کثرت سے اطلاع نہیں دیتا بجز اس شخص کے جسے وہ برگزیدہ کرے یعنی رسول بنائے.پس نبی کے لئے قرآن مجید کی رو سے رسول یعنی مامور ہونا ضروری ہے پس جو شخص لغوی معنی میں نبی ہو قرآنی اصطلاح میں تب نبی ہو سکتا ہے جب کہ وہ رسول بھی ہو.یعنی خدا تعالیٰ اسے اپنے الہام میں نبی اور رسول قرار دے.نہیں.“ حضرت محی الدین ابن عربی تحریر فرماتے ہیں:.ليست النبوة يا مُرِ زائد عَلَى الاخبار الالهي فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۴۱۲ سوال نمبر ۱۸۸) یعنی نبوت اخبار الهی (اخبار غیبیہ پر اطلاع دیا جانے) سے کسی زائد امر کا نام یہی وہ نبوت ہے جسے اب ابن عربی نے بموجب حدیث نبوی لَمْ يَبْقَ مِنَ النبوة إلا المبشرات (بخاری) قیامت تک جاری قرار دیا ہے اور صرف ایسی نبوت کو منقطع قرار دیا ہے جو اپنے ساتھ شریعت جدید و ر کھتی ہو چنانچہ وہ فرماتے ہیں.فَالنُّبُوَّةُ فالنبوة سَارِيَة إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ فِي الخَلْقِ وَ إِنْ كَانَ التَّشْرِيعُ قَدِ " انقطع فا لتشريع جزء من أجزاء النبوة " ( فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ ۱۰۰ باب ۷۳) یعنی نبوت مخلوق میں قیامت تک جاری ہے گو شریعت جدیدہ کا لانا منقطع
۲۵ ہو گیا ہے.پس شریعت کا لانا نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے“.پھر انہوں نے شریعت کو نبوت پر ”امر عارض“ یعنی ایک زائد وصف قرار دیا ہے.نبوت کا ذاتی وصف قرار نہیں دیا.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں.فَلَمَّا كَانَتِ النُّبُوَّة أشرف مرتبةٍ وَاكْمَلَهَا يَنتَهِي إِلَيْهَا مَنِ اصْطَفَاهُ اللَّهُ 66 مِنْ عِبَادِهِ عَلِمْنَا أنَّ التشريع أمْرُ عَارِض " يكون عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ يَنزِلُ فِيْنَا حَكَمًا مِنْ غَيْرِ تَشْرِيع وَهُوَ نَبِيُّ بِمَا شَيْدٌ (فتوحات مکیہ جلد ا صفحه ۵۷۰) یعنی نبوت وہ اشرف اور اکمل مرتبہ ہے جس پر وہ شخص پہنچتا ہے جسے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ہو تو ہم نے جان لیا کہ شریعت کا لانا ایک امر عارض ہے ( یعنی نبوت مطلقہ کی حقیقت ذاتیہ پر ایک وصف زائد ہے) کیونکہ حضرت عیسی ہم میں بغیر شریعت جدیدہ حکم بن کر نازل ہوں گے اور وہ بلا شبہ نبی ہوں گے.“ اس سے ظاہر ہے کہ نبوت کو شریعت سے ایک الگ امر مانا گیا ہے جو نبوت پر ایک وصف زائد ہوتا ہے.ہاں چونکہ یہ وصف زائد یعنی شریعت نبی کو ہی ملتی ہے غیر نبی کو نہیں ملتی.اس لئے برق صاحب جیسے لوگ دھوکا کھا کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہر نبی کا شریعت لانا ضروری ہے.اگر وہ یہ کہتے کہ ہر نبی کے لئے ایک شریعت رکھنا ضروری ہے تو پھر ہمیں ان پر کوئی اعتراض نہ ہوتا.کیونکہ شریعت کے بغیر تو ایک مومن بھی.نہیں ہو تا چہ جائیکہ بغیر شریعت کے ایک نبی ہو.خاتم النبین کی تفسیر حضرت اقدس بائی سلسلہ احمدیہ نے خاتم النبیین کی تفسیر میں لکھا ہے :- اللہ جلشانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم منایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپکا نام خاتم النبیین شهر یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش
۲۶ ہے.،، پھر تحریر فرمایا ہے :- (حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ ۹۷ طبع اوّل) " بجز اس کے (خاتم النبیین) کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہو نالازمی ہے.“ برق صاحب کا اعتراض (حقیقۃ الوحی صفحه ۲۸ طبع اوّل) خاتم النعین کے ان معنوں پر جناب برق صاحب یوں معترض ہیں.اس آیت کا صرف ایک لفظ خاتم وجہ نزاع بنا ہوا ہے.احمدی بھائی اس کا ترجمہ مُہر کرتے ہیں محمد ﷺ نبیوں کی مہر ہیں یعنی امت محمدیہ کے انبیاء حضور علیہ السلام کے مہر شدہ فرمان سے آئیں گے اور حضور کی تصدیق کے بغیر آئندہ کوئی نبی نہیں آسکے گا ( ہمارے نزدیک برق صاحب کی یہ تشریح جو انہوں نے احمدیوں کی طرف منسوب کی ہے پورے طور پر صحیح نہیں جیسا کہ آپ آگے چل کر معلوم کریں گے ( مجیب) اور باقی مسلمان خاتم کے معنی آخری کرتے ہیں (احمدی بھی خاتم کے لازمی معنی اس جگہ آخری شارع نبی اور آخری مستقل نبی مانتے ہیں مجیب) دونوں تفسیروں میں انتہائی تضاد ہے ایک تفسیر سے سلسلہ انبیاء جاری رہتا ہے دوسرے سے اپید ہو جاتا ہے.سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جھگڑا فیصلے کے لئے کہاں لے جائیں.مجھے صرف تین ایسی عدالتیں نظر آتی ہیں جو اس نزاع پر فیصلہ دینے کے مجاز ہیں.اوّل علمائے لغت یعنی عربی زبان کے ماہرین، دوم قرآن، سوم حدیث.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۰) اس کے بعد محترم برق صاحب نے المنجد اور منتهی الارب دو کتابوں کے حوالے دے کر باقی لغت کی کئی کتابوں کے صرف نام لکھ کر یہ تحریر فرمایا ہے کہ ان میں خاتم و خاتم کے معانی تقریباً ایک جیسے دیئے ہوئے ہیں.اور خلاصہ خاتم کے معانی کا
یوں لکھا ہے :- ا.وہ نگینہ جس پر نام کندہ ہو.۲.انگوٹھی.- آخر ، انجام ۴.کسی چیز کو ختم کرنے والا.۵- کاغذ پر مہر کا نقش.آگے لکھتے ہیں :- ۲۷ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیت زیر حث میں کون سے معنی چسپاں ہوتے ہیں.آخری نبی کا مفہوم تو بالکل صاف ہے.لیکن نبیوں کی مہر یا انگوٹھی کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا پہلے ان فقروں کو پڑھئے.-1 ۱- یہ مُہر زید کی ہے.۲.یہ مُہر عدالت کی ہے.۳.یہ مہر مجسٹر یوں کی ہے.کیا آخری فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ اس مہر سے مجسٹریٹ لاتے ہیں.کیا دوسرے فقرہ کا یہ مطلب ہے کہ اس مہر سے عدالتیں تیار ہوتی ہیں اگر یہ مفہوم صریحاً غلط ہے تو پھر خاتم الانبیاء ( نبیوں کی مہر کی یہ تفسیر کیسے درست ہو سکتی ہے کہ ایسی مُہر جس سے نبی بنتے ہیں.الجواب برق صاحب کی علمی لغزش (حرف محرمانه صفحه ۲۱) جناب برق صاحب پر واضح ہو کہ اس اعتراض کے پیش کرنے میں آپ نے سخت علمی غلطی کا ارتکاب کیا ہے عدالت کی مہر یا مجسٹریٹ کی مہر سے تو واقعی نہ
۲۸ عدالتیں تیار ہوتی ہیں ، نہ مجسٹریٹ تیار ہوتے ہیں بلکہ ان مہروں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جس فرمان پر وہ لگیں یا جس مضمون پر لگیں.وہ مجسٹریٹ یا عدالت کا مصدقہ ہو کر مستند ہو جاتا ہے.مگر آنحضرت ملے تو انگمو نتھی اور نگینہ کی قسم کی کوئی شہر نہیں.بلکہ آپ ایک ایسے نبی اور رسول ہیں جنہیں خاتم قرار دے کر خاتم کو النبین کی طرف ، مضاف کر دیا گیا ہے.خَاتَمُ زَيْدٍ يَا خَاتَمُ الْحَكَمِ يَا خَاتَمُ الْعَدَالَةِ میں خاتم کی اضافت حذف لام یعنی عَالَم يزيد عالم للحاكم يا عالَم لِلعَدَ الةِ مراد ہے.ہیں زید کی مہر - مجسٹریٹ کی مہر اور عدالت کی مہر میں اضافت تملیکی پائی جاتی ہے یعنی زید کی شہر سے یہ مراد ہے کہ زید اس مہر کا مالک اور اس مہم پر متصرف ہے.یہی مفہوم مجسٹریٹ یا عدالت کی مہر کا ہوتا ہے.یعنی مجسٹریٹ یا عدالت اس پر متصرف ہے.مگر خاتم النبین میں اضافت تملیکی نہیں پائی جاتی.یعنی اس سے یہ مراد نہیں لی جاسکتی کہ انبیاء اس شہر کے مالک یا اس پر قابض اور متصرف ہیں پس خاتم النبیین کا خاتم زیدیا خاتم الحاکم یا خاتم العدالت پر قیاس درست نہ ہوا.کیونکہ یہ قیاس غیر تملیکی اضافت کا تملیکی اضافت پر ہونے کی وجہ سے قیاس مع الفارق ہے.خاتم النبیین کا ان مثالوں پر قیاس کرنا جو برقی صاحب نے پیش کی ہیں ان کی ایک علمی لغزش کا ثبوت ہے.ختم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت سے انبیاء کے لئے ایک مؤثر وجود ہیں.اور انبیاء آپ سے فیض یاب بھی ہیں.اور آپ ان کے مصدق بھی ہیں.چنانچہ مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی مدرسہ دیوبند خاتم النبیین کی تفسیر میں لکھتے ہیں : - "حاصل مطلب آیت کریمہ (ماکان محمد ابا احد من رجا لكم و لكن رسول الله و خاتم النبیین کا اس صورت میں یہ ہو گا کہ ابُوتِ معروفہ تو رسول اللہ علے کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابُوتِ معنوی اتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے.انبیاء کی نسبت تو فقط خاتم النعین شاہد ہے
۲۹ اوصاف معروض اور موصوف بالعرض (دو نو نا قل) موصوف بالذات کی فرع ہوتے ہیں اور موصوف بالذات اوصاف عرضیہ کا اصل ہو تا ہے اور وہ اس کی نسل.( تحذیر الناس صفحہ ۱۰) گویا علامہ موصوف سیاق آیت کے لحاظ سے اس کی تفسیر یہ کر رہے ہیں کہ جمله ولكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبين آنحضرت ﷺ کی ابُوتِ معنوی کے اثبات کے لئے ہے.کیونکہ یہ جملہ لکن حرف استدراک کے ساتھ جملہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ ابا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ کے بعد واقع ہے پہلے جملہ میں آنحضرت ﷺ کی جسمانی ابوت کی ہر مرد کے لئے نفی کی گئی ہے اور اس کے بعد لکن استدراک کے لئے لا کر بعد کے جملہ سے آپ کی ابوت معنوی کا اثبات مقصود ہے رسول اللہ کے الفاظ سے آپ کو اتیوں کا روحانی اور معنوی باپ ثابت کرنا مقصود ہے اور آگے خاتم النعیین کہہ کر آپ کو انبیاء کا روحانی اور معنوی باپ ثابت کرنا مقصود ہے.پس یہ ہے مقصود اس آیت میں خاتم کو النبین کی طرف مضاف کرنے کا.فتد ہو.پھر مولانا موصوف یہ بھی لکھتے ہیں :- ، " جیسے خاتم پیج تاء کا اثر اور فعل مختوم علیہ پر ہوتا ہے.ایسے ہی موصوف بفتح بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہو گا.“ ( تحذیر الناس صفحہ ۱۰) خائم کا اثر اور فعل مختوم علیہ پر کیسے ہوتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ جو نقوش خاتم میں ہوتے ہیں وہی نقوش مختوم علیہ میں پیدا ہو جاتے ہیں.اس طرح خاتم العین میں نے نبوت کے نقوش بالذات رکھتے ہیں اور مختوم علیہ نبی خاتم کے اثر و فیض سے وصف نبوت سے موصوف ہوتا ہے مقصود مولانا ئے موصوف کا یہ ہے کہ آنحضرت کا خاتم النبین ہو نا دوسرے نبیوں میں اپنے نقوش نبوت پیدا کرنے میں مؤثر ہے.لہذا آنحضرت ﷺ نبی بالذات ہیں اور دوسرے تمام انبیاء چونکہ آپ کی خانم
۳۰ کے فیض کے اثر سے اثر پذیر ہیں اس لئے ان میں وصف نبوت آپ کے مقابلہ میں بالعرض پایا گیا ہے.نہ بالذات اب دیکھ لیجئے زید کی مہر اور عدالت کی مہر اور مجسٹریٹ کی مہر کے یہ معنی نہیں ہو سکتے.اس لئے کہ زید اور عدالت اور مجسٹریٹ تو اس مہر پر قابض اور متصرف ہوتے ہیں اور اس طرح ان مثالوں میں اضافت تملیکی پائی جاتی ہے.اور دوسرے انبیاء آنحضرت ﷺ کے مالک اور آپ پر قابض نہیں لہذا اس جگہ اضافت تملیکی نہیں.لہذا ان مثالوں پر خاتم النبیین کی اضافت کا قیاس نہیں کیا جاسکتا.فتد بر و لاتكن من الغافلين.برق صاحب کی دوسری علمی لغزش جس طرح برق صاحب نے خاتم النبیین کی اضافت کا زید کی مہر عدالت کی میر اور مجسٹریٹ کی مہر پر قیاس کر کے جو محض تملیکی اضافت کی مثالیں ہیں سخت علمی غلطی کا ارتکاب کیا ہے.اسی طرح وہ خاتم النہین کی من مانی تغییر کرنے کے لئے ایک نیا قاعده ایجاد کر کے بھی سخت علمی لغزش کے مر تکب ہوئے ہیں.آپ نے ذیل کی تین مثالیں ا ارض الله (خدا کی زمین) ارض مضاف اللہ مضاف الیہ عبد الله (اللہ کا بندہ) عبد مضاف اللہ مضاف الیہ - خاتم زر (سونے کی انگوٹھی) خاتم مضاف اور زر مضاف الیہ - دے کر لکھا ہے کہ :.پہلی مثال میں ارض مخلوق اور اللہ اس کا خالق ہے.دوسری مثال میں عبد مخلوق اور اللہ اس کا خالق ہے.تیسری عالم زر سے مراد ہے زر سے بنی ہوئی انگو ٹھی.یہ مثالیں دے کر جناب برق صاحب لکھتے ہیں :- دنیا کی کسی بھی زبان میں ایک بھی ایسا مضاف موجود نہیں جو مضاف الیہ کا
۳۱ خالق اور موجد ہو اس لئے خاتم الانبیاء سے ایسی مُہر مراد لینا جو انبیاء تیار کرتی ہو نہ صرف عربی لغات کی رُو سے غلط بلکہ ہر زبان کے قواعد کے خلاف ہے.“ لیکن خاتم الانبیاء کی احمدی تفسیر سے ایک ایسا مرکب اضافی وجود میں آجاتا ہے جس کی کوئی نظیر دنیا کی کسی زبان مین نہیں مل سکتی.(حرف محرمانہ صفحہ ۲۳،۲۲) الجواب کتنا بداد عومی ہے جو جناب برق صاحب نے اس عبارت میں کیا ہے اور کتنا بڑا بول ہے جو انہوں نے بولا ہے.حالانکہ ان کا یہ قاعدہ کہ مضاف مضاف الیہ کا موجد نہیں ہو سکتا.پر کاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا.انہوں نے تین مثالوں سے جن میں دو حملیکی اضافت کی اور تیسری بیانی اضافت کی ہے.یہ قاعدہ ایجاد کر لیا ہے کہ مضاف الیہ تو مضاف کا موجد ہو سکتا ہے.مگر مضاف مضاف الیہ کا موجد نہیں ہو سکتا بھلا کبھی تین غیر متعلق مثالوں سے بھی کوئی قاعدہ ایجاد ہوا کرتا ہے.قاعدے کا استنباط کرنے کے لئے تو تمام امثلہ کو یا اکثر امثلہ کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے.چنانچہ پھر بھی اکثری قائد : کے خلاف مستثنیات نکل ہی آتی ہیں.کیا جناب برقی صاحب قواعد کے استنباط کے اس طریق سے واقف نہیں ؟ اگر یہی بات ہے تو ان کے طالب علم بھی قابل رحم ہیں جن کا استاد قواعد وضع کرنے میں اتنا جلد باز اور غیر محتاط ہے.جناب برق صاحب کو اپنے غلط قاعدہ کی ایجاد کے لئے قرآن مجید سے صرف دو مثالیں ارض اللہ اور عبد اللہ ملی ہیں.حالانکہ قرآن مجید میں مرکب اضافی کی اور بہت سی مثالیں بھی موجود ہیں.جناب برق صاحب کو چاہیئے تھا کہ اگر وہ کوئی عمومی قاعدہ وضع کرنا چاہتے تھے تو ان ساری مثالوں کو تو سامنے رکھ لیتے جو کم از کم قرآن مجید میں وارد ہیں.میر ایقین ہے کہ اگر وہ ایسا کرتے تو انہیں احمدی تفسیر کے رد کے لئے ایسا
۳۲ " قاعدہ وضع کرنے کی جرات نہ ہوتی.جس کو قرآن مجید کی سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت کا مرکب اضافی رب العالمین ہی رو کرنے کے لئے برہان قاطع کا حکم رکھتا ہے.دیکھئے رب العالمین“ مضاف الیہ کا موجد ہے.پس جناب برق صاحب کا یہ قاعدہ ان دہریوں اور اشتراکیوں کو تو فائدہ دے سکتا ہے.جو خدا تعالی کو دنیا کے خیالات کی تخلیق قرار دیتے ہیں.لیکن ایک مذہبی آدمی کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.جو رب کو خالق اور العالمین کو اس کی مخلوق سمجھتا ہے.کیا جناب برق صاحب بھی اندر سے کہیں دھر یہ تو نہیں جو مسلمانوں کے لباس میں ہم سے یہ قاعدہ منوانا چاہتے ہیں کہ کسی زبان میں بھی مضاف موجد نہیں ہو سکتا بلکہ مضاف الیہ ہی موجد ہو سکتا ہے.پھر جناب برق صاحب قرآن مجید میں ہی مزید غور کرتے تو انہیں بدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ کی مثال مل جاتی جس میں بدلع ( موجد ) کو مضاف اور السموات والارض کو جو مخلوق ہیں مضاف الیہ قرار دیا گیا ہے.پھر تیسری مثال اللهُ عَالِقُ كُلّ شیعی کی قرآن مجید میں موجود تھی.اس میں خالق ( موجد ) مضاف ہے اور کل شئی (ایجاد شدہ ہر چیز ) مضاف الیہ ہے.پس ہمیں دنیا کی کسی اور زبان سے مثالیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں.بلکہ عربی زبان سے بھی مثالیں تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.ہم نے ان کی دو قرآنی مثالوں کے بالمقابل تین قرآنی مثالیں ایسی پیش کر دی ہیں.جن سے جناب برق صاحب کے مصنوعی قاعدہ کی تغلیط و تردید ہو جاتی ہے.اگر در خانہ کس است ہمیں حرف بس است“.جب ہماری تین مثالوں سے ثابت ہو گیا کہ مضاف بھی مضاف الیہ کا موجد ہو سکتا ہے.تو جماعت احمدیہ اور مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کی تفسیه ت قرار پائی کہ خاتم النبین کی اضافت خاتم کو السنسین کام بہ در ان م دران
۳۳ کے لئے موثر ثابت کرنا مقصود ہے.کیونکہ سیاق آیت کریمہ میں خاتم النبیین بطور الله مرکب اضافی آنحضرت ﷺ کی انبیاء کے لئے بہت معنوی ثابت کرنے کے لئے لایا گیا ہے.انہی معنی سے آنحضرت ﷺ افضل الا نبیاء قرار پاتے ہیں محض آخری نبی یا مطلق آخری نبی بالذات کسی فضیلت پر دال نہیں.اور یہ معنی خود غیر احمدی علماء کو بھی مسلم نہیں.کیونکہ وہ آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت عیسی ابن مریم رسول اللہ کی دوباره بعثت کے قائل ہیں.لہذا آنحضرت نے ان کے نزدیک بھی مطلق آخری نبی نہیں بلکہ آخری شارع نبی ہیں.پس آیت میں لکن کا لفظ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ کے بعد اس لئے لایا گیا ہے کہ مردوں کے لئے آنحضرت ﷺ کی جسمانی ابوت کی نفی کے بعد روحانی ابوت کے لئے بعد والے جملہ سے استدراک کرے اور اب موجد ہوتا ہے.چنانچہ امام راغب مفردات میں جو قرآن مجید کی مستند ترین لغت ہے تحریر فرماتے.يُسمَّى كُلُّ مَنْ كَانَ سَبَاً فِي إِبْحَادِ شَى أَوْ إِصْلَا بِهِ أَوْ ظَهُورِهِ أَبَاً " 66 وَلِذَالِكَ سُمِّي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ ُابَا لِلْمُؤمِنِينَ “ یعنی ہر شخص جو کسی شی کی ایجاد ، اصلاح اور ظہور کا سبب ہو اس کا باپ کہلا تا ہے اور اسی لئے ہمارے نبی ﷺ کا نام آب لِلْمُؤْمِنِينَ رکھا گیا ہے.“ پس جب آنحضرت ابو المومنین ہوئے تو وہ مومنین کے موجد ہوئے.اب جناب برق صاحب بتا ئیں آنحضرت میے کو ابو المومنین کہنا اگر جائز ہے تو ابد المومنین بھی ترکیب اضافی ہے جس میں اب جو موجد ہے مضاف ہے اور مومنین جو اس آب کی ایجاد ہیں مضاف الیہ ہیں پس آپ کا قاعدہ تو اس مثال سے بھی بالکل ٹوٹ رہا ہے.برق صاحب کے لغت کے حوالے جناب برق صاحب نے آجا کر لغت کی کتابوں المنجد اور تھی الارب سے خاتم
۳۴ -.معنی لکھتے ہیں.جن میں آخری کے علاوہ شہر کے معنی بھی لکھے ہیں.پس وہ اپنی دو لغت کی کتابوں سے ہی ملزم ہو گئے ہیں.کیونکہ ہم نے سیاق آیت کریمہ سے مہر کے معنی اس جگہ ابوتِ معنوی کے ثابت کر دکھائے ہیں.اور ان معنوں سے مطلق آخری نبی یا محض آخری نبی کا کوئی جوڑ اور تعلق نہیں.اس لئے ان دو لغتوں کے بیان کردہ معنوں میں سے مُہر کے معنی ہی اختیار کرنا پڑتے ہیں.مگر یہ دونوں لغت کی کتابیں تو نہایت مختصر ہیں.آئیے ذرا آپ صاحبان کو لغت قرآن مجید کی مستند ترین کتاب مفردات راغب کا مطالعہ کرائیں نام راغب اپنی اس بیش قیمت کتاب لغت میں زیر لفظ ختم لکھتے ہیں :- الحَتُمُ والطَّبَعُ يُقَالُ عَلَى وَ جَهَيْنِ مَصْدَرُ حَتَمْتُ وَ طَبَعْتُ وَهُوَ تَاثِيرُ الشَيْ كَنَفَشِ الْحَاتَمِ وَالطَّابِعَ وَالثَّانِي الاثرُ الْحَاصِلُ عَنِ النَّقْشِ وَ يُتَجَوَّزُ بِذَالِكَ تَارَةٌ فِي الاسْتِيثَاقِ مِنَ الشَيْ وَ المَنِعِ مِنْهُ اِعْتِبَاراً بِمَا يَحْضُلُ مِنَ المَنعِ بِالْخَتُمِ عَلَى الكُتُبِ وَالأَبْوَابِ نَحْوُ (خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَ خَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَ قَلْبِهِ) وَ تَارَةً فِي تَحْصِيلُ أَثْرِ عَنْ شَيْءٍ اِعْتِبَاراً بالنَّقْشِ الحَاصِلِ ، وَ تَارَةً يُعْتَبَرُ مِنْهُ بَلُوغُ الْآخِرِوَ مِنْهُ قِيلَ خَتَمَتُ الْقُرْآنَ أَي انْتَهَيَّتُ إِلَى آخِرِهِ “ 66 ترجمہ : ” ختم اور طبع کی دو صورتیں ہیں پہلی صورت یہ ہے (جو حقیقی معنوی کی صورت ہے) کہ دو نو لفظوں کے معنی تاثیر الٹی ہیں (یعنی کسی دوسری شی میں اپنے اثرات پیدا کرنا) جیسا کہ خاتم (مبر ) کا نقش کرنا (یعنی دوسری شی میں اپنے نقش اور اثرات پیدا کرنا) اور دوسری صورت اس نقش کی تاثیر کا اثر حاصل ہے.(یعنی ختم سے مختوم علیہ کا حاصل کردہ اثر) اور یہ لفظ مجازا کبھی تو ختم علی الكتب والا ہو اب پر قیاس کے لحاظ سے شی کی بندش اور روک کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے ختم اللهُ عَلَى قلوبهم و حتم على سمعه و قلبه ( میں اس کا استعمال مجازی معنوں میں ہوا ہے ) اور
۳۵ کبھی اس کے مجازی معنی نقش حاصل کے لحاظ سے کسی شئی کا دوسری ٹی کے اثر سے تحصیل اثر ہوتے ہیں اور کبھی اس کے مجازی معنی آخر کو پہنچنا ہوتے ہیں انہی معنوں میں ختَمتُ القُرآن کہا جاتا ہے کہ میں تلاوت میں اس کے خاتمہ کو پہنچ گیا.امام راغب علیہ الرحمۃ کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ ختم اور طبع ہم معنی مصدر ہیں اور ان کے مصدری یعنی لغوی اور حقیقی معنی تاثیر الشی ہیں.اس لحاظ سے خاتم بفتح تا کے معنی تاثیر کا ذریعہ ہوں گے.اور خاتم بحر تا کے معنی مؤثر وجود یا صاحب تاثیر کے ہوں گے.کیونکہ عائم آلہ ہے اور خاتم اسم فاعل.پس بعالم یا خاتم کے حقیقی معنوں میں ایجاد کا مفہوم پایا جاتا ہے.ختم اور طبع مصدروں کے حقیقی لغوی معنی بیان کرنے کے بعد امام راغب علیہ الرحمۃ نے ختم کے تین مجازی معنی لکھے ہیں.اوّل بند ش.دوم کسی شے سے اثر حاصل کرنا.سوم آخر کو پہنچنا.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں آنحضرت علیہ کو حقیقی لغوی معنوں میں خاتم النبین کہا گیا ہے یا مجازی معنوں میں جو بندش اور آخری کے ہیں.صاف ظاہر ہے کسی لفظ کے معنی کرتے ہوئے لفظ کا پہلا حق یہ ہوتا ہے کہ دیکھا جائے کہ جس مقام پر یہ لفظ استعمال ہوا ہو اس جگہ اس کے حقیقی معنی چسپاں ہو سکتے ہیں یا مجازی معنی.اگر حقیقی معنی اس جگہ محال نہ ہوں تو حقیقی معنی ہی لینے ضروری ہوں گے.ہاں اگر حقیقی معنی میں اس لفظ کا استعمال اس جگہ محال ہو تو پھر اس کے مجازی معنی مراد ہوں گے.خاتم النبین کے الفاظ آیت کریمہ میں جس سیاق میں وارد ہیں اس میں اس مرکب اضافی سے آنحضرت ﷺ کی ابوتِ معنوی ثابت کرنا مقصود ہے.پس سیاق آیت خاتم کے حقیقی لغوی معنوں کا موید ہے نہ کہ ہندش یا آخری کے مجازی معنوں کا مويد محض بندش اور مطلق آخری کے معنوں کا ابوت معنوی کے مفہوم سے کوئی تعلق نہیں لہذا یہ مجازی معنی آیت کریمہ میں مراد نہیں ہو سکتے.ہاں انبیاء میں سے
۳۶ ہمیشہ کے لئے آنحضرت ﷺ کا ہی خاص طور پر خاتم النبیین ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ آپ کے ظہور کے بعد جو لوگ آپ کی پیروی اور آپ کی فرزندی اختیار کریں وہی آپکی خاتمیت سے بلند بر ظرف و استعداد متاثر ہو سکیں گے.اور جو لوگ آپ کو قبول نہ کریں جیسے ہندؤں ، عیسائیوں ، یہودیوں کا حال ہے تو وہ آپ کی نبوت کی اس تاثیر سے محروم ہوں گے.لہذا آنحضرت میلے کا ابو الا نبیاء ہونا ایسے لوگوں کے لئے نبوت کا دروازه بید قرار دیتا ہے.جو آپ کی فرزندی کو قبول نہ کریں.اس لحاظ سے غیروں میں نبوت کا امتناع اور بندش کا پایا جانا خاتم النبیین کے حقیقی معنوں کو لازم ہے.اسی طرح بعد ظهور خاتم النبیین کا ہمیشہ کے لئے نبوت میں موثر ہونا.اس بات کی دلیل بھی ہے کہ آپ کی کامل شریعت لانے والے نہی ہیں.اس لحاظ سے آخری شارع نبی اور آخری ہونا آپ کی خاتمیت کو لازم ہے پس خاتم النبین ملے اپنے فرزندوں کے لئے نبوت میں مؤثر وجود بھی ہیں اور غیروں کے لئے نبوت کا دروازہ ان کے فرزندی اختیار کئے بغیر بند قرار دینے والے بھی.لہذا آپ آخری شارع اور آخری مستقل نبی بھی ہیں.لیکن مطلق آخری نبی نہیں کیونکہ یہ مجازی معنی ہیں جن کا حقیقی معنوں کے ساتھ کوئی علاقہ نہیں.اس لئے یہ معنی اس جگہ مراد نہیں ہو سکتے.خاتم کے معنی مصدق ہاں خاتم کے ایک معنی ایجاد کے علاوہ مصدق کے بھی ہیں.چنانچہ احادیث نبویہ سے یہ معنی بھی بہت ہیں.کیونکہ تصدیق بھی خاتم کی ایک تاثیر ہے.چنانچہ احادیث میں آیا ہے :- عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مَنْ حُرِحَ حَرَاحَةً فِي سَبِيلِ الله يم له بخاتم الشُّهَدَاءِ لَهُ نُورُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَو نُهَا مِثْلَ لَوُنِ الزَعْفَرَانِ وَرِيحُهَا خُتِمَ لَهُ
۳۷ مِثْلَ رِيحِ المِسْكِ يَعْرِفُهُ الأَوَّلُونَ وَالْآخَرُونَ يَقُولُونَ فُلَانٌ عَلَيْهِ طَابِعُ الشُّهَدَاءِ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرَوَاهُ أَسْنَادِهِ تِقَاةَ “ " ترغیب ترهيب للمنذری بر حاشیہ مشکوۃ مطبع نظامی دتی صفحه ۲۱۹) بر یعنی حضرت ابو الدرداء صحابی سے روائت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو خدا کی راہ میں (جہاد) میں زخمی ہو جائے اس پر خاتم الشہداء کی مہر لگائی جاتی ہے (جس کے اثر سے ) اس کے لئے قیامت کے دن ایک نور ہو گاز خم کا رنگ زعفرانی رنگ کی طرح ( سرخ قانی) ہو گا.اور اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو جیسی ہو گی.اسے سب پہلے اور پچھلے لوگ ان علامتوں سے ) پہچان لیں گے کہیں گے فلاں پر تو طابع الشہداء (شہدا کی مصر) ہے.روائت کیا اسے احمد نے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں.اس حدیث میں خاتم الشہداء کے مجروح فی سبیل اللہ پر لگنے سے بجز اس کے کچھ مراد نہیں کہ خاتم الشہداء (شہداء کی مہر) کے اثر سے یہ مجروح فی سبیل اللہ شہداء میں شامل ہو گا.اور اس کے اثر سے قیامت کے دن اسے جو نور ملے گا اس سے تمام پہلے اور پچھلے لوگوں کو تصدیق ہو جائے گی کہ جس شخص پر طابع الشہداء (شہداء کی مر ) لگی ہوئی ہے اسے شہید قرار دیا گیا ہے.پس اس حدیث میں خاتم اور طابع دو نو لفظ مہر کے معنوں میں استعمال ہوئے ہیں اور خاتم الشہداء اور طالع الشہداء سے مطلق آخری شهید مراد نہیں.بلکہ شہید قرار دینے والی اور شہید ہونے کی مصدق مہر مراد ہے.لہذا ظاہر ہے کہ اس حدیث میں خاتم کا لفظ اپنے حقیقی لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور ایجاد و تاثیر کا مفہوم رکھتا ہے.اس جگہ آخری کے مجازی معنی ہر گز چسپاں نہیں ہو سکتے.
ایک اعتراض ۳۸ جناب برق صاحب حرف محرمانہ “ کے صفحہ ۲۵ پر لکھتے ہیں :.حضرت مسیح نیسیوں پیرایوں میں ایک بد جلال رسول کی آمد کا اعلان کر رہے ہیں.66 اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا (یوحنا باب ۱۴، آیت ۳۰) لیکن قرآن حکیم میں کسی آنے والے نبی کا اشارہ تک موجود نہیں.بلکہ حضور علیہ السلام کو خاتم الانبیاء قرار دینے کے بعد تقریباً ایک سو آیات میں اس حقیقت کو بار بار دہرایا ہے کہ اب قیامت تک کوئی اور وحی نازل نہیں ہو گی.“ صفحہ ۲۵ -۲- اگر حضور علیہ السلام کے بعد کسی نبی کی آمد مقدر ہوتی.کیا یہ ممکن تھا کہ وہ امت مسلمہ کو ایک نبی کی آمد سے غافل رکھتا.اور حضور علیہ السلام کے بعد صرف قیامت پر ہی ایمان لانے کا حکم دیتا.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۲۶) قرآن مجید نے آنحضرت مے کے بعد وحی مبشرات نازل ہونے کا بھی ذکر فرمایا ہے اور آئندہ رسولوں کی آمد کا بھی امکان قرار دیا ہے.آئندہ وحی کے نزول کے متعلق دو آئیں ملاحظہ ہوں.- اوّل : أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ البُشرى فى الحيوةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللَّهِ ذَالِكَ هُوَ (یونس : ۶۳ تا ۶۵) الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وو ،، یعنی سن لو جو اللہ کے پیارے ہیں انہیں کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے.یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں.ان کو دنیا اور
۳۹ آخرت میں بھار تیں ملیں گی یہی بڑی کامیابی ہے.“ اس آیت سے ظاہر ہے کہ اولیاء اللہ کو خدا تعالی کی طرف سے بذریعہ وحی بخار توں کا ملنا از روئے قرآن مجید ایک ضروری امر ہے.اور بشارتوں کا ملنا بطریق وحی ہی ہو سکتا ہے پس یہ آیت بالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ کی قرآنی تفسیر ہے اور آیت بالا خِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ اس بعد کی وحی پر یقین رکھنا بھی ضروری قرار دیتی ہے.دوم: ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ اَوْلِيَاءُ كُمْ فِي الْحَيَوةِ ( حم السجدہ ۳۲،۳۱) الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ “ ”بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے.اور پھر اس پر استقامت دکھائی ان پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ تم کوئی خوف نہ کرو اور نہ غم کھاؤ اس جنت کی بشارت پاؤ جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو.ہم تمہارے دنیا میں مددگار ہیں اور آخرت میں بھی.“ یہ آیت گویا اوپر کی آیت لَهُمُ البشری کی تفسیر ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ بخار میں آئندہ نازل ہونے والے ملائکہ کے ذریعہ امت محمدیہ کے خاص لوگوں کو ملتی رہیں گی اور ملائکہ کے ذریعہ بشارتوں کا ملنا ہی نزول وحی ہے.شیخ اکبر ابن عربی علیہ الرحمۃ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :- "هذا لتَنزَّلُ هُوَ النُّبوة العامة لا نُبُوَّة التشريع" فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ ۷ ۲۴ باب معرفته الاستقامت) دو یعنی ملائکہ کا اس طرح بشارت لانا نبوّتِ عامہ ہی ہے.نہ کہ نبوت تشریعی.“
۴۰ یہ سب آیات جو نزول وحی کے متعلق ہیں بالأسرة هُم يُوقِنُون کے ایک بطن کی تفسیر ہیں.پس بِالآخِرِةِ هُمْ يُوقِنُون میں آخرت کا لفظ وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے.اسی طرح قرآن کریم میں رسولوں کی بعثت کا امکان بھی آئندہ زمانہ میں ثابت ہے.چنانچہ سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.11" بنِي آدَمَ إِمَّا يَا تِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَ أَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.“ 66 (الاعراف : ۳۶) ” یعنی اے بنی آدم اگر آئندہ تمہارے پاس تم میں سے رسول بنا کر بھیجے جائیں اس طرح پر کہ وہ تمہارے سامنے میرے نشانات بیان کرتے ہوں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کریں اور اصلاح کریں ان کو ( آئندہ کے لئے ) کسی قسم کا خوف نہ ہو گا.اور نہ وہ (ماضی کی کسی بات پر غمگین ہوں گے.“ اس آیت میں صریح لفظوں میں بنی آدم کو خطاب کر کے ان میں سے آئندہ رسولوں کی بعثت کے امکان کی تصریح موجود ہے.اور اس آیت کے سیاق میں بینی آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: ۳۲) اور بعد کی دو آیتوں میں " قُل کا لفظ کہہ کر ایسے احکام بیان کئے گئے ہیں جو تمام بنی آدم کے لئے قیامت تک واجب الاطاعت ہیں اور اُن میں سے کسی حکم پر عمل ترک کرنے سے کوئی مسلمان سچا مومن نہیں ہو سکتا.انہی احکام کے بعد بنی آدم کو یہ ہدایت دی گئی.کہ آئندہ اگران میں سے رسول آئیں تو انہیں چاہئے کہ وہ تقویٰ اختیار کریں یعنی انہیں قبول کریں.اور اپنی اصلاح کریں.تو وہ نجات پائیں گے.پھر سورۃ نساء کی آیت ہے مَن يُطع الله والرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رفيقا (النساء : ٧٠)
۴۱ اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسول یعنی محمد مصطفی ملے کی اطاعت کریں.وہ (مدارج پانے میں) ان لوگوں کے ساتھ ہیں.جن پر اللہ تعالیٰ نے نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین میں سے انعام کیا ہے اور یہ اطاعت کرنے والے ان لوگوں کے اچھے ساتھی ہیں.اس آیت میں آئندہ نبیوں کی آمد کو بھی صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کی طرح آنحضرت ﷺ کی اطاعت سے مشروط کر دیا گیا ہے.یہ شرط انبیائے سابقین کے متعلق نہ تھی کیونکہ وہ خاتم الانبیاء ﷺ کے دنیا میں ظہور سے پہلے گزر چکے تھے.پس خاتم الانبیاء کی تفسیر اس آیت کی روشنی میں یہ ہوئی کہ آئندہ کوئی نبی غیر قوموں یعنی ہندوں ، یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ میں نہیں آسکتا.بلکہ مقام نبوت پانے کے لئے آئندہ کے لئے آنحضرت ﷺ کی اطاعت شرط ہے.پس یہ آیت امت محمدیہ کے لئے نبوت مل سکنے پر روشن دلیل ہے اور آیت خاتم النبیین کے مثبت پہلو یعنی حقیقی لغوی معنی کی بھی تفسیر ہے.اور خاتم النبیین کے لازمی منفی پہلو کی بھی تفسیر ہے.مثبت پہلو کی تفسیر یوں ہے کہ یہ آئت بتاتی ہے آئندہ آنے والا نبی آنحضرت ﷺ کا مطیع اور امتی ہونا چاہئے.اور منفی پہلو کی تفسیر یوں ہے کہ اب آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی مستقل نبی نہیں آسکتا.پس خاتم النبیین کے معنی یہ ہوئے کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی اور افاضۂ روحانیہ سے آپ کے کسی امتی کو تو مقامِ نبوت مل سکتا ہے.لیکن آپ کے دامنِ فیوض سے الگ رہنے والا کوئی فرد ہر گز مقامِ نبوت نہیں پا سکتا لہذا آنحضرت ﷺ ہی آئندہ کے لئے آخری مستقل نبی ہیں.جن کی شریعت قیامت تک واجب الاطاعت ہے.ہمارے یہ معنی اس لئے درست ہیں کہ اس آیت میں فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ جملہ اسمیہ ہے جو استمرار پر دلالت کرتا ہے.لہذا مع کے لفظ سے اس دنیا میں معیت کو چاہتا ہے اور پہلے گزرے ہوئے نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین سے آنحضرت ﷺ کی اطاعت کرنے
۴۲ والے افراد کی معیت زمانی بھی محال ہے اور معیت مکانی بھی محال ہے.اس لئے اس جگہ معیت معنوی یعنی معیت فی الدرجہ ہی مراد ہے.جیسا کہ آیت تَوَ فَنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (آل عمران : ۱۹۴) ( ہمیں نیکوں کے ساتھ یعنی نیک بنا کر وفات دے) کی دعا میں ابرار سے معیتِ فی الدرجہ ہی مراد ہے.یا جیسے آیت إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَ اَصْلَحُوا - وَاعْتَصِمُوا بِاللهِ وَ اَحْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ (النساء : ۱۴۷) میں معيت في الدرجہ مراد ہے.ہی آیت بتاتی ہے کہ توبہ کرنے والے اصلاح کرنے والے اعتصام باللہ کرنے والے اور اللہ تعالی کی خالص اطاعت کر نے والے اسی دنیا میں مومنوں کے ساتھ ہیں یعنی مومنوں میں سے ہیں اور ان کا درجہ پانے والے ہیں.پس جس طرح فَأُولئِكَ مَعَ المُؤمِنِينَ جملہ اسمیہ ہے جو استمرار پر دلالت کر رہا ہے اور قیامت تک کے لئے تو بہ کرنے والے اور اعتصام باللہ کرنے والے اور اطاعت کو خدا تعالیٰ کے لئے خالص کرنے والے کو مومنوں میں داخل قرار دیتا ہے.اسی طرح فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الصَّدِيقِينَ وَ الشُّهَدَاءِ والصَّالِحِينَ بھی جملہ اسمیہ ہے اور قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کی اطاعت کرنے والوں کے لئے نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے مدارج پانے کی امید دلاتا ہے.اگر یہ کہا جائے کہ اس جگہ صرف ظاہری معیت مراد ہے جو قیامت کو حاصل ہو گی.تو اول اس سے جملہ اسمیہ کا فائدہ جو استمرار ہے مفقود ہو جاتا ہے.دوم اس آیت کا یہ مفاد من جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کی اطاعت سے اب کوئی شخص صدیق شہید اور صالح بھی نہیں بن سکتا بلکہ ایسے لوگ صرف قیامت کے دن ان لوگوں کے ساتھ ظاہری طور پر ہوں گے.اس دنیا میں ان میں سے کوئی صدیق، شہید اور صالح بھی نہیں بن سکے گا.کیونکہ النبین الصِّدِ يُقِينَ الشُّهَدَاءِ الصَّالِحِينَ اس آیت میں واو عاطفہ سے ایک دوسرے سے وابستہ ہیں.پس اگر آیت کا یہ مفاد ہو کہ
۴۳ اطاعت کرنے والا نبی نہیں بن سکتا صرف ظاہری طور سے ہی نبیوں کے ساتھ ہو گا تو ساری آیت کا مفاد یہ بن جائے گا کہ کوئی اطاعت کرنے والا اب صدیق، شہید اور صالح بھی نہیں بن سکتا.صاف ظاہر ہے کہ آیت کے یہ معنی آنحضرت مے کی بلند شان کے صریح منافی ہیں.کیونکہ صدیق اور شہید تو پہلے لوگ اپنے اپنے رسولوں کی اطاعت سے بھی من سکتے تھے.جیسا کہ آیت وَالَّذِینَ آمَنُوا باللهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصديقُونَ وَالشُّهَدَاءُ (سورہ الحدید : ۲۰) سے ظاہر ہے.اب اگر آنحضرت ﷺ کی اطاعت سے آپ کے کسی امتی کو صدیق اور شہید سے بلند مقام حاصل نہیں ہو سکتا تو آنحضرت ﷺ کے افاضہ روحانیہ کا کمال بھی باقی انبیاء سے بڑھ کر نہیں ہو گا.اور آپ کو دوسرے انبیاء پر اپنی شانِ افاضہ میں کوئی امتیاز حاصل نہ ہو گا.حالانکہ نبی کا کمال اس کی شان افاضہ کے کمال سے ہی ظاہر ہوتا ہے پس خاتم النبیین کا افاضۂ روحانیہ مدارج روحانیہ کے حصول میں بڑھ کر ہونا چاہئے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ آنحضرت نے کی پیروی میں آپ کا امتی مقام نبوت بھی حاصل کر سکے.امام راغب جو لغت قرآن مجید کے بیان کرنے میں امام مانے گئے ہیں مفردات راغب میں چار قسم کی معیت قرار دیتے ہیں وہ لکھتے ہیں :- " مَعَ يَقْتَضِى الاِ جُتِمَاعَ إِمَّا فِى الْمَكَانِ نَحُو هُمَا مَعًا فِي الدَّارِ أَوْفِي الزَّمَانِ نَحْوُ وُلِدَا مَعًا اَوْ فِي الْمَعْنِي كَالْمُتَضَائِفِينَ نَحْوَ الْأَخِ وَالْآبِ فَإِنَّ أَحَدَهُمَا صَارَ أَحَا لِلآخَرِ فِي حَالٍ مَّا صَارَ الْآخَرُ أَحَاهُ ، وَإِمَّا فِي الشَّرَفِ وَالرُّتُبَةِ نَحُوهُمَا معاً في العلو - (مفردات زیر لفظ مع) یعنی لفظ مع اجتماع ( اکٹھا ہونے کا تقاضا کرتا ہے.یہ اجتماع چار صورتوں میں ہو سکتا ہے.اول دونوں ایک مکان میں اکٹھے ہوں جیسے هُما معاً فِي الدَّارِ ( کہ وہ دونو گھر میں اکٹھے ہیں ) دوم زمانہ میں اکٹھے ہوں.جیسے کہا جائے ولدا معاً ( وہ دونوں اکٹھے
۴۴ پیدا ہوئے) سوم معیت فی المعنی " المضائفین کی صورت میں ہو جیسے بھائی بھائی سے معیت رکھتا ہے (اور باپ بیٹے سے ) اور ایک صورت معیت کی یہ ہے کہ دونوں شرف اور رتبہ میں معیت رکھیں جیسے هُما معاً في العلو وو دونوں بلند مرتبہ میں اکٹھے ہیں.“ زیر تغییر آیت میں آخری قسم کی معیت مراد ہے جو شرف اور رتبہ میں معیت ہے کیونکہ فأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ کے جملہ اسمیہ ہونے کی وجہ سے معیت مکانی اور زمانی تو اس جگہ دنیا میں محال ہے اور متضائفین کی معیت کا اس جگہ تصور ہی نہیں ہو سکتا.امام راغب آیت فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِین کے معنوں میں لکھتے ہیں :- قولُهُ ) فَا كُتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ) أَى اجْعَلْنَا فِي زُمْرَتِهِمْ إِشَارَةٌ إِلَى قَوْلِهِ 66 فأولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ).“ مفردات راغب کتاب الکاف صفحه ۴۲۳) یعنی خدا تعالیٰ کے قول ما كتبنَا مَعَ الشاملوین میں مع کے معنی یہ ہیں کہ ہم کو زمرہ شاہدین میں داخل فرما.اس میں خدا تعالیٰ کے قول فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أنعم الله علیهم کی طرف اشارہ ہے (یعنی شاہدین کے زمرہ میں داخل کرنے کی دعا سے یہ مراد ہے کہ آیت فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمُ میں بیان کر وہ انعام یافتہ لوگوں کے زمرہ میں داخل کر ) پھر ان کی طرف سے فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ الْآتِهِ کی یہ تفسیر بیان کی گئی ہے.قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّنْ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمُ مِنَ الفِرَقِ الْاَرْبَعِ فِي الْمَنْزِلَةِ وَ 66 الثَّوَابِ النَّبِيَّ بِالنَّبِيِّ وَالصَّدِيقَ بِالصَّدِيقِ وَالشَّهِيدَ بِالشَّهِيدِ وَالصَّالِحَ بِالصَالِحِ.“ ( تفسیر بحر المحیط جلد ۳ صفحه ۲۸۷)
۴۵ یعنی راغب نے کہا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والے ) مر تبہ اور ثواب میں ان چار گروہوں کے ساتھ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے (اس امت کا نبی نبی کے ساتھ.صدیق صدیق کے ساتھ.شہید شہید کے ساتھ اور صالح صالح کے ساتھ.پس آیت زیر تفسیر اس بات پر روشن دلیل نص قطعی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کی پیروی میں مقام نبوت بھی مل سکتا ہے جس طرح مقام صدیقیت اور مقام شهیدیت اور مقام صالحیت مل سکتا ہے.اس طرح یہ آیت يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ کی خصص بھی ہے اور اس کی مفسر بھی یعنی یہ آیت بتاتی ہے کہ بنی آدم میں آئندہ جن رسولوں کی آمد کا امکان بیان ہوا ہے اس سے ایسے رسول مراد ہیں جو آنحضرت ﷺ کی اطاعت میں مقام رسالت حاصل کریں گے اور امتنی رسول ہوں گے نہ کہ مستقل رسول.پس یہ دونوں آئیں آیت خاتم النبین کی تفسیر ہیں.برق صاحب کی مزید پیش کردہ آیات کا حل جناب برق صاحب نے آیت عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بالمُؤمِنِينَ رَؤُفٌ رَّحِيمٌ (التوبه : ۱۲۸) کو بھی انتطارع نبوت کے ثبوت میں پیش کیا ہے.مگر یہ آیت ہر گز نبوت کے انقطاع پر دلیل نہیں.بلکہ آیت مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ الرَّسُول نا کی موید ہے.کیونکہ آنحضرت ﷺ کا مومنوں کی ترقی کے لئے حریص ہونا اور پھر آپ کا رؤف و رحیم ہونا تو آپ کے افاضہ روحانیہ کی دلیل ہے.اور اس کی وجہ سے تو امت محمدیہ میں باکمال انسان پیدا ہونے چاہئیں لہذا یہ آیت امتی نبوت میں مانع نہیں ہو سکتی.کیونکہ آیت مَن يُطع الله والرسول الخ امتی کے لئے نبی ہو سکنے پر روشن دلیل ہے ورنہ قرآن مجید میں تضاد لازم آتا ہے جو محال ہے.اسی طرح آیت
۴۶ أطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِى الأمر مِنكُمُ (النساء : ۲۰) بھی ہمارے معنوں کے خلاف نہیں.کیونکہ آیت يَا بَنِی آدَمَ إِمَّا يَا تِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ آئندہ رسولوں کی آمد کے امکان کو بیان کر کے اس کو ماننا ضرور قرار دے رہی ہے.پس آنحضرت علی کے فیض سے ہونے والے رسول کی اطاعت بھی آیت أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُول کے حکم کے ماتحت واجب ہو گی.اور آیت آمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَبِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَ الْكِتَبِ الَّذِى أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ (النساء : ۱۳۷) بھی ان معنوں کے خلاف نہیں اس آیت میں بعد کی وحی پر ایمان لانے کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا.کہ اس کا ذکر اعمال و الكِتَابِ الَّذِئ نَزَّلَ عَلَى رَسُولِه میں موجود ہے.کیونکہ اس کتاب میں دوسری جگہ رسولوں کے آنے کا ذکر موجود ہے.اور قرآن مجید کی آیت و الكتب الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ پر صحیح طور پر اسی شخص کا ایمان ہو سکتا ہے جو اس کی بیان کردہ ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتا ہو جو آئندہ رسولوں اور نبیوں کی آمد کے امکان اور وحی کے نزول سے تعلق رکھتی ہیں.اس آیت کے آخر میں وما ينزل من بعدك كے الفاظ لانے کی ضرورت نہ تھی.کیونکہ یہ الفاظ لانے سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی کہ آپ کے بعد بھی شریعت جدیدہ نازل ہو گی.حم سجدہ کی آیت إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَ لَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كنتُمْ تُوعَدُونَ.( حم السجده : ۳۱) آئندہ وحی کے نزول پر نص صریح ہے.پھر آیت يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أنزل من قبلك (البقره: ۵) کے بعد بھی وما ينزل من بعدك كے الفاظ لانے کی ضرورت نہ تھی.کیونکہ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ میں آئندہ مبعوث ہونے والے رسولوں کا ماننا جن کا ذکر سورۃ اعراف کی آیت (۳۶) يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَا بَيْنَكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ میں ہے ضروری قرار دے دیا گیا ہے.پس ما أُنزِلَ إِلَيْكَ پر اسی شخص کا ایمان صحیح ہو سکتا ہے جو سورۃ اعراف کی آیت کے حکم کو بھی
۴۷ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو.فاندفع الا وهام بجميع حذا غيره فالحمد لله على ذالك.خاتم النبیین کی تفسیر حدیث میں الله مندرجہ بالا عنوان کے ماتحت برق صاحب نے خاتم النبین کی تفسیر کے طور نے خاتم پر دس ایسی حدیثیں پیش کی ہیں جو ان کے خیال میں خاتم النبیین کی تفسیر میں نبوت کا دروازه کلیته بند قرار دیتی ہیں.ہم ان احادیث کا نمبر وار جواب دینے سے پہلے بطور قاعدہ کلیہ ایک اصولی جواب پہلے دے دینا چاہتے ہیں.جو یہ ہے کہ ان احادیث میں آنحضرت ﷺ کے وصف خاتم النبیین کا صرف منفی پہلو اور لازمی معنی بیان ہوئے ہیں هم قبل از میں آیت خاتم النبیین کی تفسیر میں بتا چکے ہیں کہ اس میں خاتم کے دو پہلو ہیں.ایک مثبت اور ایک منفی.اور منفی پہلو کا مفہوم یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد کوئی شریعت جدید و لانے والا نبی یا مستقل نبی ظاہر نہیں ہو سکتا اور مثبت پہلو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی اور آپ کے فیض روحانی سے آپ کا ایک امتی مقام نبوت پا سکتا ہے.جس کی کیفیت یہ ہوگی کہ خدا اس سے بھرت ہم کلام ہو گا اور اس پر بھرت امور غیبیہ ظاہر کرے گا تا لوگوں کو خدا تعالیٰ پر زندہ یقین اور ایمان حاصل ہو.اور اس کے ظہور سے آنحضرت ﷺ کے افاضہ روحانیہ کا کمال بھی ثابت ہو.اس کمال فیضان کے ثبوت میں ہم نے سورہ نساء کی آیت (۷۰) وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاء والصَّالِحین پیش کر چکے ہیں.جو ختم نبوت کے مثبت پہلو پر صراحتا اور منفی پہلو یہ اشارہ دال ہے.انقطاع نبوت والی حدیثوں کے بالمقابل جو محترم برق صاحب نے پیش کی ہیں بعض ایسی احادیث نبویہ بھی موجود ہیں جن سے امت محمدیہ میں نہ صرف نبی
۴۸ کے ظاہر ہو سکنے کا امکان ہوا ہے.بلکہ ان میں ایک نبی کے امت میں ظہور کی حتمی پیشگوئی بھی موجود ہے.جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے.محترم برق صاحب کے نزدیک صرف ایک حدیث لو عاش لَكَانَ صِدِّيقًا نبیا (اگر آنحضرت ﷺ کا فرزند ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہوتا ) ایسی ملتی ہے جس سے اجرائے نبوت کا امکان ملتا ہے مگر وہ اس روایت کو بد میں وجہ غلط قرار دیتے ہیں کہ ان کے زعم میں یہ قرآن کریم کی آیات اور دوسری احادیث کے خلاف ہے.حدیث کی صحت (حرف محرمانه صفحه ۳۲) مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے یہ روایت الشهاب على البيضاوی میں صحیح قرار دی گئی ہے.چنانچہ لکھا ہے.أَمَّا صِحَةُ الْحَدِيثِ فَلَا سُبُهَةً فِيهِ یعنی اس حدیث کی صحت میں کوئی شبہ نہیں.موضوعات کبیر میں امام علی القاری اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں لۂ طرق ثَلَاثُ يُقَوَىٰ بَعْضُهَا بِبَعْض کہ یہ حدیث تین طریقوں (سندوں) سے ثابت ہے جو ایک دوسری سے قوت پارہی ہیں.پھر لکھتے ہیں :- ويُقَوَى حَدِيث لَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا الْبَاعِي" - یعنی یہ حدیث اس حدیث کو بھی قوت دے رہی ہے جس میں آیا ہے کہ.اگر حضرت موسیٰ زندہ ہوتے ( یعنی آنحضرت ﷺ کا زمانہ پاتے ) تو باوجود نبی ہونے کے وہ آپ کے متبع ہوتے.“
۴۹ صل الله پس اگر خاتم النبیین کے بعد امتی نبی کا آنا محال ہو تا تو آنحضرت ﷺ یہ نہ فرماتے کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہو تا بلکہ یہ فرماتے کہ وہ زندہ بھی رہتا تو نبی نہ ہوتا کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں.کیونکہ صاحبزادہ ابراہیم کی وفات آیت خاتم السنسین کے نزول کے بعد ہوئی تھی پس معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے نزدیک خاتم النبیین کے یہ معنی ہر گز نہ تھے کہ آپ کے بعد نبوت کلیۂ منقطع ہے.امام علی القاری علیہ الرحمہ نے اس حدیث کو تین طریقوں سے قوی یعنی صحیح قرار دے کر اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں.عَلَيْهِ السَّلَامُ لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ وَصَارَ نَبِيًّا وَكَذَالَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِيًّا لَكَانَا مِنْ أَتْبَاعِهِ ( موضوعات کبیر صفحه ۵۸) کہ اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی ہو جاتے تو وہ دونوں آپ کے متبعین میں سے ہوتے ( یعنی تابع اور امتی نبی ہوتے نہ کہ آنحضرت مے کی طرح مستقل اور تشریعی نبی ) پھر وہ خود ہی ایک سوال کا جواب دیتے ہیں کہ ان کا نبی ہو جاتا آیت خاتم السنہین کے بدیں وجہ خلاف نہ ہوتا.،، "إِذَا لَمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي بَعْدَهُ نَبِي يَنسَحُ مِلْنَهُ وَلَمْ يَكُن مِنْ أُمِّيهِ " ( موضوعات کبیر صفحه ۵۹) یعنی خاتم النبین کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت مے کے بعد کوئی ایسا نبی النہ ﷺ.نہیں ہو گا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.“ اس بیان میں امام علی القاری نے خاتم النبین کے معنی کے منفی پہلو کی تعیین اور تحدید فرما دی ہے ان کے بیان سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی منفی پہلو کا مفہوم صرف یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے ( یعنی تشریعی نبی ہو) یا آپ کی امت میں سے نہ ہو (یعنی
مستقل نبی ہو) پس ان کے نزدیک امتی نبی کی آمد میں آیت خاتم النعیین روک نہیں لہذا حديث لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِيقًا نَبِيًّا کے متعلق برق صاحب کا یہ بیان غلط ہے کہ یہ روایت " محض غلط ہے.کیونکہ یہ حدیث نہ قرآن کریم کی آیات کے خلاف ہے اور نہ احادیث نبویہ کے خلاف ہے.آیات قرآنیہ سے تو ہم نبی کی آمد کا امکان ثابت کر چکے ہیں.لہذا احادیث نبویہ میں صرف ایسی نبوت کا انقطاع مراد ہے جو تشریعی یا مستقلہ نبوت ہو.نبوت مطلقہ کا انقطاع ہر گز مراد نہیں بلکہ نبوت مطلقہ ایک امتی کو مل سکنے کا امکان احادیث میں موجود ہے.برق صاحب نے کسی کا یہ قول بھی درج کیا ہے.ولو قضى بعد محمد نبى عاش ابنه ولكن لا نبي بعده مگر یہ قول ہر گز درست نہیں (کو اس میں لا نبی بعدہ سے مراد تشریعی نبوت کا ہی انقطاع ہے.کیونکہ اس قول سے یہ لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے صاحبزادہ ابراہیم کو اس لئے مار دیا کہ کہیں وہ نبی نہ بن جائے.پھلا اگر خدا تعالی کو یہ ڈر ہوتا تو وہ صا حبزادہ ابراہیم کو پیدا ہی کیوں کرتا ! حدیث لا نبی بعدی کی تشریح علماء کے نزدیک یہی ہے کہ آئندہ کوئی تشریعی نبی آنحضرت مے کے بعد نہیں آسکتا.چنانچہ اقتراب الساعۃ صفحہ ۱۶۲ میں امام علی القاری کے ایک قول مندرجہ الاشاعۃ فی اشراط الساعۃ کے مطابق لکھا ہے :- وَحَى بَعْدَ مَوتِی بے اصل ہے ہاں لا نبی بعدی آیا ہے اس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہیں لائے گا.“ پس فقہائے امت کے نزدیک حدیث لا نبی بعدی میں نئی شریعت لانے والے نبی کا اقتطاع مراد ہے.یہ ہر گز مراد نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد مطلق کوئی نہیں ہو گا.چنانچہ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ انقطاع نبوت کے
۵۱ مضمون بے مشتمل احادیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :- " إِنَّ النُّبُوَّةَ الَّتِي انْقَطَعَتْ بِوَجُودِ رَسُولِ اللهِ مَا إِنَّمَا هِيَ نبوة التشريع نُبُوَّةُ لَا مَقَامُهَا فَلَا شَرُعَ يَكُونُ نَاسِحًا لِشَرْعِهِ لا وَلَا يَزِيدُ فِي شَرْعِهِ حُكْمًا آخر وهذا معنى قَوْلِهِ ﷺ إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيٍّ - أى لا نَبِيَّ يَكُونُ عَلَى شَرع يُخَالِفُ شَرِعَى بَلْ أَذْكَانَ يَكُونُ تَحْتَ حَكَم (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۷۳ ) شریعتی ،، ترجمہ : وہ نبوت جو آنحضرت ﷺ کے وجود باجود پر منقطع ہوئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے نبوت کا مقام منقطع نہیں.اب آئندہ کوئی شریعت نہ ہو گی جو آنحضرت ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے یا آپ کی شریعت میں کسی حکم کا اضافہ کرے اور یہی معنی ہیں آنحضرت ﷺ کے اس قول کے إِنَّ الرَّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِئُ وَلَا نَبِيَّ مراد آپ کی یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو میری شریعت کے خلاف شریعت رکھتا ہو بلکہ آئندہ جب بھی کوئی نبی ہوگا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہو گا.“ امام بخاری خود اپنی صحیح میں دو حدیثیں لائے ہیں جن میں ابن مریم کے نزول کی خبر دی گئی ہے اور ان میں سے ایک حدیث میں امت محمدیہ میں سے اسے امت کا امام قرار دیا گیا ہے اور دوسری حدیث میں لیس بینی وینه نبی کے الفاظ میں اسے نبی قرار (دیکھو صحیح بخاری باب بدء الخلق) دیا گیا ہے.برق صاحب کی ضعیف حدیث ف حديث لَوْ كَانَ بَعْدِى نَبِي لَكَانَ عُمَر کو امام ترندی نے خود غریب قرار دیا ہے اس لئے یہ روایت صرف ایک ہی راوی مشرح من ہامان کے طریقہ سے مروی
۵۲ ہے اور مشرح بن ہامان کے متعلق لکھا ہے :- قَالَ ابْنُ حيّان فِى الضُّعَفَاءِ لَايُتَابَعُ عَلَيْهَا فَالصَّوَاب تَرُكُ مَا انْفَرَادَ به قَالَ ابْنُ دَاوُدَ إِنَّهُ كَانَ فِى جَيْشِ الْحَجَّاجِ الذِينَ حَاصَرَوُا ابْنَ الزُّبَيْرِ وَرَمُوا ،، الكعبة بالمنحنييق " (تهذيب التهذيب جلدا صفحه ۱۵۵ و میزان الاعتدال جلد ۲ صفحہ ۴۷۷ و جلد ۳ صفحه ۱۷۲) یعنی ابن حیان نے اسے ضعیف راویوں میں قرار دیا ہے اسکی روایات کا اعتبار نہیں کیا جاتا اور صحیح بات یہ کہ جس روایت میں یہ اکیلا ہی راوی ہو وہ روایت چھوڑ دینا ہی راہ صواب ہے ابن داود کہتے ہیں کہ یہ راوی حجاج کے اس لشکر میں شامل تھا جس نے حضرت عبد اللہ بن زبیر کا محاصرہ کیا اور منجنیق سے کعبہ پر پتھراؤ کیا.پس یہ روایت غریب بھی ہے اور ضعیف یعنی قابل ترک بھی.کیونکہ مشرح من باعان کی منفر د روایات قابل قبول نہیں ہو تیں.اسی طرح اس حدیث کا ایک راوی بکر بن عمر والمعافری بھی ہے اس کے متعلق تهذیب التہذیب جلد ا صفحہ ۴۸۶ اور میزان الاعدال حیدر آبادی جلد ۱ صفحه ۱۶۱ میں لکھا ہے يُنظرفی آمرہ یعنی اس کی روایت کو مشکوک سمجھا جاتا ہے.پس یہ روایت اس لحاظ سے بھی ضعیف اور نا قابل حجت ہے.اس حدیث کی دوسری روایت میں ہے لَو لَمْ أبْعَثُ لَبُعِثْت يَاعُمَرُ (مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد ۵ صفحه ۵۳۹ و حاشیه مشکوۃ مجتبائی باب مناقب) یہ حدیث صحیح ہے.دیکھئے تعقبات سیوطی صفحہ ۲۷۱.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عمر اگر میں مبعوث نہ کیا جاتا تو تو مبعوث کیا جاتا.ایک دوسری روایت اس کے بامعنی لو لم أبعث لبعث عُمَرُ فيكم كنوز الحقائق صفحہ ۱۰۳ جلد ۲ صفحہ ۱۵۱) بھی وارد ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ
۵۳ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں مبعوث نہ کیا جاتا تو البتہ تم میں عمر مبعوث کیا جاتا.پس چونکہ آنحضرت ﷺ مبعوث ہو گئے اس لئے حضرت عمر نجما نہ بنے.یی مفہوم لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِي لَكَانَ عُمَرُ کا لیا جا سکتا ہے کہ اب تو خدا نے مجھے نبی بنا دیا ہے اگر مجھے نبی نہ بناتا تو میرے بعد یعنی میرے سواعمر نبی ہو تا.اس جگہ بعد کا لفظ اوپر کی دو روائتوں کے لحاظ سے سوا کے معنوں میں ہی لیا جاسکتا ہے.قرآن شریف میں وارد ہے :- وَمَا يُمْسِكُ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ - (فاطر : ٣) یعنی جس خیر کو خداروک لے تو اسے اس کے سوا اور کوئی نہیں کھول سکتا.تفسیر جلالین جلد ۲ صفحہ ۲۹ مطبوعہ مصر میں آیت لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِئُ ( ص : ۳۵) کی تفسیر میں بعدی کے معنی سوائِی (میرے سوا) لکھے ہیں.اور آیت فَمَنْ يَّهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ (الجاثية : ۲۴) کے معنی بھی اللہ کے سوا ہیں.پس جب بعد کے معنی سوا کے بھی ہیں تو اس حدیث میں یہی معنی لئے جاسکتے ہیں.کیونکہ مسیح موعود کو تو خود آنحضرت علی نے اپنے اور اپنے بعد ظاہر ہونے والا نبی اللہ قرار دیا ہے.امکان نبوت کے بارہ میں تین اور حدیثیں اب امکانِ نبوت کے بارہ میں لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا کے علاوہ تین اور حدیثیں ملاحظہ ہوں.رسول اللہ علیہ فرماتے ہیں.أبُو بَكَر أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلا أَنْ يَكُونَ نَبِيُّ - كنوز الحقائق في حديث خیر الخلائق صفحه ۴) یعنی ابو بحر اس امت میں سے افضل ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی ہو.(یعنی امت میں پیدا ہو ) يكون کا مصدر "کون ہے جس کے معنی عدم سے وجود میں آتا ہیں.یعنی
۵۴ پیدا ہونا.پس اس حدیث میں امت کے اندر نبی کے پیدا ہونے کا امکان قرار دیا گیا ہے.اگر نبوت کا دروازہ کلیہ ہند ہوتا توال ان يكون نبی کے الفاظ سے نبی کا استثناء جائز شہ ہو تا.بلکہ یہ ایک لغو فعل ہوتا جو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا.دوسری حدیث میں وارد ہے.ہو.66 ابو بكر حَيْرُ النَّاسِ بَعْدِى الأَن يَكُونَ نَبِي - وو (کنز العمال جلد ۹ صفحه ۱۳۸) یعنی ابو بکر میرے بعد سب لوگوں سے بہتر ہیں بجز اس کے کہ کوئی نبی پیدا ایک تیسری حدیث ملاحظہ ہو جو امت محمدیہ میں نبی کے امکان پر روشن دلیل ہے.یہ حدیث امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب الخصائص الکبری جلد اول صفحہ ۱۲ پر لائے ہیں.اور اسی حدیث کو مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب نشر الطیب فی ذکر الطبیب کے صفحہ ۲۶۱،۶۲ پر حوالہ حلیہ ابو نعیم اور الرحمة المهداة نقل کیا ہے یہی حدیث ترجمان السنہ کے صفحہ ۴۲۴ پر مولوی بدر عالم صاحب میرٹھی نے نسیم الریاض کی شرح سے درج کی ہے.اور حاشیہ میں ایک قول نقل کیا ہے.رَوَاهُ أَبُو نَعِيمٍ فِى الْحِلْيَةِ وَوَرَدَ لِمَعْنَا هُ عَلَى طُرُقِ كَثِيرَةٍ كَمَافِي الخَصَائِصِ 66 یعنی اس روایت کو ابو نعیم نے حلیہ " میں روایت کیا ہے اور اس کے بالمعنی روایات کئی طریقوں پر مروی ہیں جیسا کہ الخصائص میں ہے.“ پس یہ روایت جو کئی طریق سے مروی ہے اسے ہم الخصائص الکبری کے حوالہ سے اس جگہ درج کرتے ہیں.
۵۵ وأَخْرَجَ أَبُو تَعِهُم فِي (الحِلْيَةِ عَنْ أَنَس قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَوْحَى اللهُ إِلَى مُوسَى نَبِيَّ بَنِي إِسْرَائِيلُ أَنَّهُ مِنْ لَقِينِي وَهُوَ جَاحِدٌ بِأَ حَمَدَ اَدُ حَلْتُهُ النَّارَ قَالَ يَا رَبِّ وَمَنْ أَحْمَدُ قَالَ مَا خَلَقْتُ خَلْقًا اَكْرَمَ عَلَى مِنْهُ كَتَبَتُ اِسْمُهُ مَعَ اِسْمِي فِي الْعَرْشِ قَبْلَ أَنْ أَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّ الْجَنَّةَ مُحَرَّمَةٌ عَلَى جَمِيعِ خَلْقِي حَتَّى يَدْخُلَهَا هُوَ وَامَّتُهُ قَالَ وَمَنْ أُمَّتُهُ قَالَ الْحَمَّادُونَ يَحْمَدُونَ صَعُود أو هبوطا وَ عَلَى كُلِّ حَالِ يَسُدُّونَ أَوْ سَا طَهُمْ وَيُطْهَرُونَ أَطْرَافَهُمْ صَالِمُونَ بالنَّهَارِ رَهْبَانَ مَا اللَّيْلِ أَقْبَلُ مِنْهُمُ اليَسير و أدخلهم الجنة بشهادة أن لا إله إلا الله قَالَ اجْعَلْنِي نَبِيَّ تِلْكَ الأُمَّتِهِ قَالَ نَبيُّهَا مِنْهَا قَالَ اجْعَلْنِى مِنْ أُمَّةِ ذَالِكَ النَّبى اسْتَقْدَمُت وَاسْتَأَخَرَ وَلَكِنْ سَاَجُمَعُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ فِي دَارِ الْحَلَالِ الخصائص الكبرى للسیوطی جلد اول صفحه (۱۲) قَالَ ابو نعیم نے حلیہ میں حضرت انس سے روائت کی ہے حضرت انس نے کہا که رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے نبی موسٹی کو وحی کی کہ جو شخص مجھے اس حال میں ملے گا کہ وہ احمد کا منکر ہو گا تو میں اسے آگ میں داخل کروں گا.موسیٰ نے کہا اے رب احمد (ﷺ) کون ہیں خدا تعالیٰ نے فرمایا میں نے کوئی مخلوق اپنے نزدیک اس سے زیادہ باعزت نہیں بنائی.میں نے اس کا نام عرش پر اپنے نام کے ساتھ آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے بھی پہلے لکھا ہے.پیٹک جنت میری تمام مخلوق پر اس وقت تک حرام ہے یہاں تک کہ وہ نبی اور اس کی امت جنت میں داخل ہو جائے.موسیٰ نے کہا اور آپ کی امت کونسی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرما یا وہ بہت حمد کرنے والے ہیں جو چڑھائی پر چڑھتے ہوئے بھی حمد کرتے ہیں اور اس سے اترتے ہوئے بھی حمد کرنے والے ہیں.اور ہر حال میں اپنی کمروں کو باندھتے ہیں اور اپنی اطراف (اعضا) کو پاک رکھتے ہیں.دن کو روزہ دار رہتے ہیں اور رات کو خدا تعالیٰ کی
۵۶ عبادت میں کھڑے رہتے ہیں میں ان سے تھوڑا عمل بھی قبول کروں گا.اور انہیں لاالہ إلا الله کی گواہی دینے پر جنت میں داخل کروں گا.موسیٰ نے کہا.مجھے اس امت کا نبی بنا دیجئے خدا تعالیٰ نے کہا اس امت کا نبی اس امت میں سے ہو گا.موسیٰ نے کہا مجھے اس نبی کی امت میں سے بنادیجئے.خدا تعالی نے جواب دیا تو پہلے ہو گیا ہے اور وہ نبی پیچھے ہو گا.لیکن میں تجھے اور اسے دار الجلال (جنت) میں اکٹھا کر دوں گا.“ 66 حدیث ہذا کا یہ فقرہ کہ موسیٰ نے کہا مجھے اس امت کا نبی بنادیجئے اور خدا تعالیٰ کا اس پر یہ جواب نبيُّهَا مِنْهَا کہ اس امت کا نبی اس امت میں سے ہو گا.اس بات پر روشن دلیل ہے کہ امت محمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبی ہونے کا بالضرور امکان تھا.تبھی تو اللہ تعالٰی نے موسیٰ کی درخواست منظور نہ کی کہ مجھے اس امت کا نبی بنا دیجئے بلکہ جواب میں یہ فرمایا نَبيُّهَا مِنْهَا کہ اس امت کا نبی اس امت میں سے ہو گا.پس یہ روایت اس امر پر نص صریح ہے کہ امت محمدیہ میں خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک نبی ضرور ہونے والا تھا.اور اس سے اشارہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی ابھی دورِ رسالت محمدیہ میں حضرت موسیٰ کی طرح ظاہر نہیں ہو سکتے کیونکہ جو وجہ خدا تعالیٰ نے امت محمدیہ میں حضرت موسیٰ کے نبی نہ ہو سکنے کی بیان فرمائی ہے وہی وجہ حضرت عیسی کے امت محمدیہ میں ظہور کے لئے بھی مانع ہو گی.پس اس تیسری حدیث کے مقابل بھی جب وہ ساری کی ساری احادیث رکھی جائیں جو انقطاع نبوت پر بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں تو ان میں انقطاع نبوت صرف انہی معنوں میں مانا جا سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی شارع اور مستقل نبی نہیں آسکتا.امتی نبی کی آمد میں یہ روایات کوئی روک نہیں ہو سکتیں.پس اس طرح یہ دونوں قسم کی حدیثیں جن میں سے بعض امکان نبوت اور بعض انقطاع نبوت پر دال ہیں.ایک دوسری سے بالکل مطابق ہو جاتی ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں
۵۷ رہتا.اس اصولی جواب کے بعد اب ہم برق صاحب کی پیش کردہ تمام حدیثوں کے معافی کا تفصیلی جائزہ بھی لینا چاہتے ہیں.حدیث اول مَثَلِى وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ كَمَثَلِ قَصْرٍ أُحْسِنَ بُنْيَانُهُ تُرِكَ مِنْهُ مَوْضِعُ لَبِنَةٍ فَطَافَ بِهِ النُظَارُ يَتَعَجَّبُونَ مِنْ حُسْنِ بُنْيَانِهِ إِلَّا مَوْضِعَ تِلْكَ اللَبِنَةِ فَكُنْتُ أَنَا مَوْضِعَ اللبنة يم بى البُنْيَانَ وَحْتِمَ بيَ الرُّسُلُ - خاری و مسلم ان عساکر، احمد، نسائی) یہ حدیث صحیح طاری میں ان الفاظ میں آئی ہے کہ مَثَلِی وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي خارج کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسے شخص کی طرح ہے جو ایک عمارت بنائے اور اس کو اچھا اور خوبصورت بنائے سوائے ایک اینٹ کی جگہ کے جو ایک کونے میں ہو.پس لوگ اس کا طواف کریں اور حیران ہوں اور کہیں کہ یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی.( فرمایا رسول اللہ اللہ نے ) وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں.66 اس حدیث میں عمارت سے مراد شریعت کی عمارت ہے جو آدم سے شروع ہوئی اور آنحضرت ﷺ پر مکمل ہوئی.لہذا آپ کے بعد کسی نئی شریعت کی ضرورت باقی نہیں.چنانچہ علامہ ان حجر اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں.المُرَادُ هِنَا النَظُرُ إِلَى الاكْمَلِ بالنِسْبَةِ إِلَى الشَّرِيعَتِ الْمُحَمَّدِيَّةِ مَعَ مَا 66 مَضَى مِنَ الشَّرائِعِ الْكَامِلَةِ " (فتح الباری جلد ۴ صفحه ۹۸۰) یعنی مراد اس تکمیل عمارت سے یہ ہے کہ شریعت محمد یہ پہلے گذری ہوئی کامل شریعتوں کے مقابلہ میں اکمل سمجھی جائے.“
حدیث دوم ۵۸ إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ تَسُوسُهُ أَنْبِيَاءُ هُمَ كُلَّمَا ذَهَبَ نَبِي خَلَفَهُ نَبِيٍّ - فَإِنَّهُ لَيْسَ كَاتِنَا فِيكُمُ نَبِى بَعْدِى قَالُوا فَمَا يَكُونَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ يَكُونُ خُلَفَاءُ (بخاری مسلم احمد ابن ماجہ ) یہ حدیث بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل میں صاحب سیاست انبیاء بھی ہوا کرتے تھے اور آنحضرت ﷺ کے معابعد کوئی صاحب سیاست نبی نہیں ہو گا بلکہ صاحب سیاست صرف خلفاء ہوں گے.چنانچہ بعض روایتوں میں يَكُونُ خُلَفَاءُ کی جگہ سيكون خلفاء بھی وارد ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ قریب زمانے میں خلفاء صاحب سیاست ہوں گے نہ کہ کوئی نہیں.اور یہ حدیث زیادہ سے زیادہ آنحضرت مے اور مسیح موعود کے درمیانی زمانہ کے لئے ہے.کیونکہ آنحضرت علہ نے مسیح موعود کے متعلق فرمایا ہے ليس بينى وبينه نبی کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی نبی نہ ہو گا.(مخاری کتاب بَدءُ الخَلْقِ ) پس یہ حدیث مسیح موعود کی نبوت کے خلاف پیش نہیں ہو سکتی.مسیح موعود کا نبی ہو نا حدیث نبوی سے ثابت ہے.حدیث سوم أرسلت إلى الخلق كافة وحيم بن النبيُّونَ ( مسلم ترندی) وَخُتِمَ اس حدیث کے حصے حُسم بی الیون کی تشریح میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی مجدد صدی دوازدہم رقمطراز ہیں.الناس" وو حْتِمَ بِهِ النَّبِيُّون أى لا يُوجَدُ مَنْ يَامُرُهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ بالتشريع عَلَى تفہیمات الہیہ جلد ۲ صفحہ ۷۲ مطبوعه بجنور) ” یعنی ختِمَ بِهِ النَّبِيُّونَ سے مراد ہے کہ آئندہ کوئی شخص نہیں ہو گا جسے خدا
۵۹ تعالی لوگوں پر نئی شریعت دے کر مامور کرے.“ پس ان معنوں کے پیش نظر اس حدیث میں النبتون کا الف لام عہد کے لئے ہوا استغراق کے لئے نہیں.کیونکہ امکانِ نبوت والی حدیثیں بھی اس کے عہدی ہونے پر دلالت کر رہی ہیں.حدیث چهارم سيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَرْعَمُ أَنَّهُ نَبِيُّ وَأَنَا عَاتَمُ النَّبِيِّينَ لا نَبِيَّ بَعْدِي ".یہ حدیث بخاری ، ترمذی اور ابو داؤد میں ہے.جہاں تک حدیث کے راویوں کا تعلق ہے یہ حدیث قابل استناد نہیں.اسے بخاری نے ابوالیمان سے بطریق شعیب وابو الزناد نقل کیا ہے.ابو الزناد کے متعلق ربیعہ کا قول ہے ليس بثقة ( میزان الاعتدال جلد ۲ صفحه ۳۳ مطبوعہ حیدر آباد دکن کہ وہ ثقہ راوی نہیں.ابوالیمان نے یہ روایت شعیب سے ہی لی ہے ابوالیمان کا شعیب سے سماع ہی ثابت نہیں.چنانچہ میزان الاعتدال جلد ا صفحہ ۲۷۲ پر لکھا ہے.لَم يَسْمَعُ أبو اليمان من شعیب کہ ابو الیمان نے شعیب سے کوئی حدیث بھی نہیں سنی.ترندی کے اسناد میں ابو قلابہ اور ثوبان دور اوی نا قابل استناد ہیں.ابو قلابہ کے متعلق لکھا ہے لیس ابو قلابَةِ مِنْ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ وَهُوَ.و عِندَ النَّاسِ مَعْدُودُ فِي البُلِهِ إِنَّهُ مُدَكِسٌ عَمَّنْ لَحِقَهُمْ وَمِمَّنْ لَمْ يَلْحِقُهُمْ (ميزان الاعتدال جلد ۲ صفحه ۳۹ نیز التهذیب التهذیب جلد ۵ صفحہ ۲۲۱) کہ ابو قلابہ فقہاء میں سے نہ تھا.بلکہ وہ لوگوں کے نزدیک ابلہ (بے سمجھ ) مشہور تھا اور جو اسے ملا اس کے بارہ میں اور جو اسے نہیں ملا اس کے بارے میں بھی تدلیس کرتا تھا.اس طرح ثوبان کے متعلق آزدی کا قول ہے يَتَكَلَّمُونَ فِيهِ ( میزان الاعتدال جلد اصفحہ ۱۷۳) ترندی کے
۶۰ دوسرے طریقہ میں عبد الرزاق بن ہمام ہے جو شیعہ تھا.قَالَ النَّسَا لِي فِيْهِ نَظَرُ قَالَ العباس العبري....إِنَّهُ لَكَذَّابٌ وَالوُا قَدِى أصدق مِنه یعنی نسائی کے نزدیک وہ قابل اعتبار نہیں عباس عنبری کہتے ہیں وہ کذاب ہے اور واقدی سے بھی زیادہ جھوٹا تھا.یہ روایت عبد الرزاق بن ہمام نے معمر سے لی ہے اور میزان میں لکھا ہے قال الدار قُطنِى يُخطِئُى عَلَى مَعْمَرَ فِي أَحَادِيثُ.....قَالَ ابْنَ عُيَيْنَةِ أَخَافُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا.کہ یہ ان روایات میں غلطی کرتا ہے جو معمر سے لینا بیان کرتا تھا ابن عینیہ کہتے ہیں کہ مجھے خوف ہے کہ یہ راوی قرآن مجید کی آیت ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الحَيَواة الدُّنْيَا ـ (الكهف : ۱۰۵) کا مصداق تھا.(وہ لوگ جن کی کوشش دنیاوی زندگی میں کھو گئی) معمر بن راشد کے متعلق یحیی ابن معین کہتے ہیں ضعیف تھا (میزان الاعتدال جلد ۳ صفحہ ۱۸۸) اور ائن سعد کہتے ہیں کہ شیعہ تھا.اور ابو حاتم کہتے ہیں بصرہ میں اس نے جو روایات بیان کی ہیں ان میں غلط روایات بھی ہیں.تهذیب التهذیب جلد ا صفحه ۲۴۴) ابو داود کی روایت میں تو مان اور ابو قلابہ بھی ہیں جن کا ضعیف ہونا پہلے بیان ہو چکا ہے.ان دونوں کے علاوہ سلیمان من حرب اور محمد بن عیسی بھی ضعیف ہیں.سلیمان بن حرب کے متعلق خود ابو داؤد کہتے ہیں یہ راوی ایک حدیث کو پہلے ایک طرح بیان کرتا تھا.لیکن جب کبھی دوسری دفعہ اس حدیث کو بیان کرتا تو پہلے سے مختلف ہوتی تھی.اور خطیب کہتے ہیں کہ یہ شخص روایات کے الفاظ میں تبدیلی کر دیا کر تا تھا.تهذیب التهذیب جلد ۴ صفحه ۱۸۰) محمد بن عیسی کے متعلق ابو داؤد کہتے ہیں كَانَ رَبُّمَا يُدلس (تذيب
۶۱ التہذیب جلد ۹ صفحه ۳۹۴) ابو داؤد کے دوسرے طریقہ میں عبد العزیز بن محمد اور العلاء بن عبدالرحمن ضعیف ہیں.عبد العزیز بن محمد کو امام احمد بن حنبل نے خطا کار اور ابو زرعہ نے سی الحفظ ( خراب حافظ والا) اور نسائی نے کہا ہے لیسَ بِالقَوِيِّ ( یہ قوی راوی نہیں ) ابن سعد کے نزدیک كَثِيرا لغلط ( بہت غلطیاں کرنے والا ) اور ساجی کے نزدیک وہمی تھا.اس کا دوسرا راوی العلاء بن عبد الرحمن بھی ضعیف ہے کیونکہ ابن معین ذیل کے چاروں راویوں کے ذکر میں کہتے ہیں.ا سهل بن ابی صالح - ۲- العلاء بن عبد الرحمن.۳- عاصم بن عبید اللہ.۴.عقیل.هؤلاءِ الْأَرْبَعَةُ لَيْسَ حَدِيثُهُمْ حُجَّةٌ- کہ ان چاروں راویوں کی حدیث حجت نہیں.تهذیب التهذیب جلد ۶ صفحه ۱۳ ، ۱۵) پس جہاں تک راویوں کا تعلق ہے یہ حدیث حجت نہیں.مگر اس کے باوجود یہ حدیث مسیح موعود کی نبوت کے خلاف بطور دلیل پیش نہیں ہو سکتی.کیونکہ مسیح موعود کو دوسری احادیث نبویہ نبی قرار دیتی ہیں.اور صحیح بخاری کی حدیث بتاتی ہے.ليس بينى وبينه نبی کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں.پس ان دونو حدیثوں کو ملحوظ رکھنے سے یہ ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے ظہور تک دعوی نبوت کرنے والوں کو ہی آنحضرت ﷺ نے دجال ، کذاب قرار دیا ہے.اور شرح مسلم میں لکھا ہے.فَإِنَّهُ لَوْ عُدُّ مَنْ تَنَبَّاءَ مِنْ زَمَنِهِ البَلَغَ هَذَا لَعَدَدَ - (شرح مسلم لابی مالکی السنوسی جلدے صفحہ ۲۵۸) یعنی اگر جھوٹی نبوت کے دعویداروں کو شمار کیا جائے تو تمہیں کی یہ تعداد پوری ہو چکی ہے.“ " نواب صدیق حسن خان " حجج الکرامہ “ میں لکھتے ہیں.
۶۲ شد.بالجمله آنچه آنحضرت عله اخبار بوجود د جالین کذابین در امت فرموده واقع (حجج الكرامة صفحه ٢٣٩) یعنی آنحضرت صلی اللہ نے جو امت میں کذاب ، دجالوں کے آنے کی خبر دی ہے وہ پوری ہو چکی ہے.پس اس حدیث میں خاتم النبیین لا نبی بعدی کے الفاظ کے معنی حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی" کے قول کے مطابق :- وول 66 لا نَبِيُّ يُخَالِفُ شَرْعِي بَلْ إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكُم شَرِيعَنِي " (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۷۳) ہی ہو سکتے ہیں.یعنی کہ آنحضرت ﷺ کی مراد یہ ہے کہ آئندہ کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو میری شریعت کے مخالف ہو.بلکہ جب کبھی آئندہ کوئی نبی ہوگا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہو گا.بعد کا لفظ عربی زبان میں مخالف کے معنوں میں بھی آتا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَ آيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ.(الجاثية : ) کہ وہ اللہ تعالی اور اس کی آیتوں کی خلاف اور کس بات کو مانتے ہیں.“ اس لحاظ سے اس حدیث میں خاتم النبیین کی شریعت کے مخالف مدعیان نبوت کو دجال و کذاب قرار دے کر خاتم النبیین لانبی بعدی کے الفاظ سے وضاحت کی گئی ہے کہ آنحضرت مال کے مخالف ہونے کی وجہ سے ان کا دعوئی خاتم النبیین لا نَبی بَعْدِی کے مخالف ہے.چونکہ برق صاحب لانبی بعدی کے قول کو اس حدیث میں غلط معنوں میں لے رہے ہیں.اس لئے میں انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ الصديقة معلمة نصف الدین کا قول یاد دلاتا ہوں.آپ فرماتی ہیں.
۶۳ قُولُوا إِنَّهُ حَاتِمُ الانْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا الَا نَبِيَّ بَعْدَةَ “ 66 تحمله مجمع البحار صفحه ۸۵ و تغییر در منشور زیر آیت خاتم النبین) کہ لوگو یہ تو کہا کرو کہ آنحضرت خاتم الانبیاء ہیں مگر یہ نہ کہا کرو کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں." گویا انہوں نے حدیث لا نَبِيَّ بَعْدِی کے مفہوم کو محدود معنی میں مراد لیا ہے اسے علی الاطلاق نبی کی آمد میں روک نہیں سمجھا.چونکہ برق صاحب کی طرح بعض لوگ اس حدیث کا غلط مفہوم لے سکتے تھے.کہ اس میں علی الاطلاق نبوت منقطع قرار دی گئی ہے.لہذا آپ نے ایسے لوگوں کو غلط فہمی سے جانے کے لئے لانبی بعدہ کہنے سے منع فرما دیا.امام محمد طاہر اس قول کی شرح میں فرماتے ہیں.وو 66 هذا نَاظِرُ إِلى نَزُول عِيسَى وَهَذَا أَيْضًا لَايُنَا فِي حَدِيثُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي لِأَنَّهُ أَرَادَ لَاتَى يَنسَحُ شَرَعَة " (تکملہ مجمع البحار صفحه ۸۵) کہ حضرت ام المومنین عائشة الصدیقہ کا یہ قول اس بنا پر ہے کہ حضرت صلى الله عیسی حثیت نبی اللہ ) جب نازل ہوں گے تو آنحضرت علی کے بعد نبی ہی ہوں گے.اور یہ بات حدیث لانبی بعدی کے منافی بھی نہیں کیونکہ آنحضرت علی کی مراد اس قول سے یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.پھر ثلاثون کذابوں کی پیشگوئی پر مشتمل ایک اور حدیث بھی ہے جو نبر اس صفحه ۴۴۵ پر ان الفاظ میں درج ہے."" سيَكُونُ بَعْدِئُ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَدْعِى أَنَّهُ نَبِيُّ، وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي 66 الا مَا شَاءَ اللَّهُ" کہ میرے بعد تمہیں آدمی ہوں گے ان میں تے.ایک نبوت کا دعوئی
۶۴ کرے گا.اور میرے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس نبی کے جسے اللہ تعالی چاہے اس حدیث کی تشریح میں نبر اس کے حاشیہ صفحہ ۴۴۵ پر لکھا ہے.66 "وَالْمَعْنَى لَا نَبِيَّ بِنُبُوَّةِ التشريع بَعْدِى إِلا مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ أَنْبِيَاءِ الْأَوْلِيَاءِ" یعنی حدیث کے فقرہ لانَبی بَعْدِی کے معنی یہ ہیں کہ میرے بعد نئی شریعت والی نبوت کے ساتھ کوئی نبی نہیں ہو گا.اور الا ماشاء اللہ (کے استثناء) سے مراد وہ انبیاء ہیں جو انبیاء اولیاء ہیں.یعنی وہ انبیاء مراد ہیں جو امت محمدیہ میں پہلے اولیاء کا مقام حاصل کرنے کے بعد مقام نبوت پانے والے ہیں.“ پس ایک قسم کی نبوت کا امکان علمائے امت نے آنحضرت ﷺ کے بعد امت محمدیہ میں تعلیم فرمایا ہے اور لانبی بعدی کی حدیث کی موجودگی میں ایسے امکان کو تسلیم کیا ہے.حدیث پنجم أنِّي آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ یہ حدیث بھی ضعیف ہے کیونکہ ابن ماجہ نے جن راویوں سے اسے نقل کیا ہے اس میں عبد الرحمن بن محمد المحار نبی اور اسماعیل بن رافع (ابو رافع ) ضعیف ہیں.عبد الرحمن بن محمد کے متعلق لکھا ہے.قَالَ ابنُ مُعِينِ يَرَوى المناكير عَنِ الْمَجْهُو لِينَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ مِنْ أَحْمَدَ بن حنبل عَنْ أَبِيهِ إِنَّ الْمُحَارِ فِى كَانَ يُدكِسُ...قَالَ ابنُ سَعْدٍ كَانَ كَثِيرُ بی 66 غَلَط “ (میزان الاعتدال جلد ۲ صفحه ۱۵ او تهذیب التهذیب جلد ۶ صفحه ۲۶۱) یعنی این معین کہتے ہیں کہ یہ راوی مجمول ( نامعلوم ) راویوں سے نا قابل قبول روایات بیان کرتا تھا.امام احمد بن حنبل کہتے ہیں محارفی تدلیس کیا کرتا تھا.ائن
سعد کہتے ہیں یہ راوی بہت غلط روایات کیا کرتا تھا.“ اس حدیث کا دوسر اراوی ابو رافع اسماعیل بن رافع بھی ضعیف ہے کیونکہ لکھا ہے.ضَعَفَهُ أَحْمَدُ وَيَحُ ـمَدُ وَيَحْى وَ جَمَاعَةٌ قَالَ الدَارِ قُطْنِيُّ مَتَرُوكُ الْحَدِيثِ قَالَ ابنُ عَدِي أَحَادِيثُهُ كُلُّهَا فِيهِ نَظَر “ ( میزان الاعتدال جلد اصفحه ۱۰۵) " یعنی امام احمد اور نیکی اور ایک جماعت محمد ثین نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے.دار قطنی اسے متروک الحدیث قرار دیتے ہیں اور ابن عدی کے نزدیک اس کی تمام روایات مشکوک ہیں.“ اسی طرح نسائی نے بھی اسے متروک الحدیث قرار دیا ہے یہ ان معین ترمذی اور ابن سعد کے نزدیک بھی ضعیف ہے.(تہذیب التہذیب جلد ا صفحہ ۲۹۴) پس یہ روایت سندا بالکل جعلی ہے.پھر یہ حدیث ہمارے مدعا کے بھی خلاف نہیں کیونکہ اس میں صرف ان انبیاء میں سے آنحضرت ﷺ کا آخری ہو نا بیان ہوا ہے جو آ کر نئی امت بناتے ہیں.پھر آخری کا لفظ افضل کے معنوں میں بھی زبان عربی میں استعمال ہوتا ہے.اس لحاظ سے حدیث کے یہ معنی ہوں گے کہ آنحضرت ﷺ تمام نبیوں سے افضل ہیں اور آپ کی امت تمام امتوں سے افضل ہے.چنانچہ ایک عربی شاعر آخر کا لفظ افضل کے معنوں میں استعمال کرتا ہے.اور کہتا ہے.شَرَى ودَّى وَشَكْرِئُ مِنْ بَعِيدٍ لاخِرِ غَالَبٍ أَبَداً رَبِيعَ (حماسه باب الادب) اس شعر کا ترجمہ مولوی ذوالفقار علی صاحب دیوبندی شارع حماسہ یوں کرتے ہیں کہ.ربیع بن زیاد نے میری دوستی اور شکر دور بیٹھے ایسے شخص کے لئے جو بنی
۶۶ غالب میں آخری یعنی ہمیشہ کے لئے عدیم المثال ہے خرید لیا ہے.انہی معنوں میں امام جلال الدین سیوطی نے امام ابن تیمیه کو آخر المجتهدين ن لکھا ہے.الاشباه والنظائر جلد ۳ صفحه ۳۱۰ مطبوعه حیدر آباد) حدیث قَالَ آدَمُ مَنْ مُحَمَّدٌ قَالَ آخِرَ وَلُدِكَ مِنَ الانبياء (ابن عساكر ) ابن عساکر کی اس روائت میں الانبیاء کا الف لام عہد کا ہے.مراد یہ ہے کہ مستقل انبیاء میں سے آنحضرت ﷺ آخری نبی ہیں.“ حدیث ہفتم برق صاحب نے ان الفاظ میں درج کی ہے.،، يَا اَبا ذَرِّ أَوَّلُ الاَ نُبِيَاءِ آدَمُ وَآخِرِهُم مُحَمَّدٌ.“ یہ دونوں حدیثیں چوتھے طبقہ کی ہیں جنہیں حجت قرار نہیں دیا جاتا.تا ہم یہ ہمارے مدعا کے خلاف نہیں.کیونکہ ان میں آنحضرت ﷺ کو مستقل انبیاء میں سے آخری نبی قرار دیا گیا ہے.کیونکہ آدم مستقل نبی تھے جن سے مستقل انبیاء کا سلسلہ شروع ہوا.پس اسی سلسلہ کے آنحضرت ﷺ آخری فرد ہیں.ورنہ امت محمدیہ کے اندر نبوت کا امکان تو دوسری حدیثوں سے ثابت کیا جاچکا ہے اور ایک حدیث کے الفاظ " نَبيُّهَا مِنْهَا " کہ اس امت کا نبی اس امت میں سے ہو گا.اس بات پر نص صریح ہیں چونکہ امت کے اندر ہونے والے نبی کی نبوت آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ظل ہے اس لئے ظلیت کے آئینہ میں وہ اصل سے اتحاد ر کھتا ہے.لہذا ظلی نبی کے ظہور سے کسی جدید نبوت کا پایا جانا لازم نہیں آتا کیونکہ یہ نبوت تو نبوت محمدیہ کا عکس ہوتی ہے.جس طرح ماتحت عدالتوں کا پایا جاتا سپریم کورٹ آخری عدالت ہونے کے خلاف نہیں ہوتا
76 کیونکہ ماتحت عدالتیں اس کی مؤید ہوتی ہیں.اسی طرح امتی نبی کی آمد آنحضرت مے کے آخری نبی ہونے کے خلاف نہیں.کیونکہ یہ نبوت آنحضرت ﷺ کی نبوت کی تائید کے لئے ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک اور حدیث میں جو برق صاحب نے پیش نہیں کی اپنے آپ کو اسی مفہوم میں آخر الانبیاء قرار دیا ہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں.إِنِّي آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَمَسْجِدِى آخِرُ المَسَاجِدِ 66 ( صحیح مسلم باب فضل الصلوة في مسجدى اللحه والمهديد) یعنی بے شک میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد سب مسجدوں میں آخری مسجد ہے.“ پس جن معنوں میں مدینہ منورہ کی مسجد نبوی آخری مسجد ہے انہی معنوں میں آنحضرت ﷺ آخری نبی ہیں.اگر مسجد نبوی کے بعد جو اس حدیث میں آخری مسجد قرار دی گئی تابع مسجدوں کا بنانا جائز ہے تو آنحضرت نے کے بعد تابع نبیوں کا آنا بھی جائز ہے.کیونکہ جس طرح تابع مساجد مسجد نبوی کا ظل ہو نگی اسی طرح تابع نبی آنحضرت ﷺ کا فل ہو گا.پھر اس حدیث میں آخر بمعنی افضل بھی مراد ہو سکتا ہے.یعنی میں افضل الا نبیاء ہوں اور میری یہ مسجد افضل المساجد ہے.حدیث ہشتم الصَّالِحَةُ ذَهَبَتِ النُّبُوَّةَ فَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِى إِلَّا المُبَشِرَاتُ قِيلَ مَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ الرُّؤْيَا اس حدیث میں ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ کے الفاظ سے مراد نبوت تشریعہ اور مستقلہ ہے نہ کہ مطلقہ.اس لئے بعد کے فقرہ فَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِى إِلَّا المُبَشِّرَات میں مبشرات والی نبوت کا استثناء کر کے اس کا امکان ثابت کر دیا گیا ہے.صحیح مطاری کی ایک حدیث میں یہ
الفاظ وارد ہیں.۶۸ لم يبق من النبوة إلا المبشرات" خاری باب البحرات جلد ۴ صفحه ۱۴۹) نبوت میں سے مبشرات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا." یہ الفاظ برق صاحب کی پیش کردہ حدیث کی تشریح کر رہے ہیں.اس حدیث میں الا سے استثناء اس جگہ استثناء متصل ہے کیونکہ مبشرات کو نبوت میں سے قرار دیا گیا ہے.اس سے ظاہر ہے موعود عیسی کو بھی احادیث نبویہ میں ان المبشرات" کی وجہ سے ہی نبی قرار دیا گیا ہے.نہ شریعت جدیدہ لانے کی وجہ سے کیونکہ شریعت جدیدہ والی نبوت اور مستقلہ نبوت تو لم يبق“ کے الفاظ سے منقطع قرار دے دی گئی ہے.رہی یہ بات کہ آنحضرت ﷺ نے رویائے صالحہ کو بھی مبشرات قرار دیا ہے سو یہ عام مومنوں کے لحاظ سے ہے ورنہ کشف اور الہام اور وحی کا دروازہ قرآن کریم کھلا قرار دیتا ہے.علامه سندی حاشیه این ماجہ پر اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں.یعنی مراد یہ ہے کہ علی العموم نبوت سے صرف اچھی خواہیں باقی رہ گئی ہیں ور نہ اولیاء کے لئے تو الہام اور کشف کا دروازہ بھی کھلا ہے.“ حدیث منہم بن النبوة" حاشیه این ماجه جلد ۲ صفحه ۲۳۲ مطبوعه مصر ) "يَاعَمُ اَقِمَ مَكَانَكَ الَّذِى اَنْتَ بِهِ فَإِنَّ اللهَ خَتَمَ بِكَ الهِجْرَة كَمَا خَتَمَ کہ اے میرے چچاو ہیں مکہ میں ہی رہو اللہ نے تم پر ہجرت کو یوں ختم کر دیا
۶۹ 66 ہے جس طرح مجھے پر نبوت کو.“ اب جناب برق صاحب ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا ہجرت علی الاطلاق مسلمانوں پر منقطع ہو گئی ہے.اور ہندوستان اور فلسطین سے مسلمانوں کی ہجرت ہجرت نہیں.کیا آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباس کی ہجرت کے بعد برق صاحب کے نزدیک وَمَنْ تُهَا حِرَ فِی سَبِیلِ اللہ کی آیت منسوخ کر دی گئی ہے ؟ ہر گز نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے آیت ہجرت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ حدیث نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے حضرت عباس کو آخری فرد قرار دیا ہے.اور اس طرح حضرت عباس پر مکہ سے مدینہ کی مخصوص ہجرت کو ختم قرار دیا گیا ہے.نہ کہ ہجرت مطلقہ منقطع قرار دی گئی ہے.اسی طرح آنحضرت عے پر مخصوص نبوت یعنی تشریعی یا مستقلہ نبوت جو آدم سے شروع ہوئی تھی ختم قرار دی گئی ہے.نہ که نبوت مطلقہ جس کا امکان از روئے حدیث و قرآن ثابت کیا جا چکا ہے.اور جس امکان پر حدیث کے الفاظ نبيها منها نص صریح ہیں.حدیث و ہم ،، أنَا العَاقِبُ وَالعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِي.“ میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو.“ یہ روایت حجت نہیں.اس کا راوی سفیان بن عیینہ ہے جس نے یہ روایت زھری سے لی ہے سفیان کے متعلق لکھا ہے."كَانَ يُدرِّسُ قَالَ أَحْمَدُ يُخْطِئُ فِى نَحْو مِنْ عِشْرِينَ حَدِيثٍ عَنِ ورد الزُّهْرِيِّ عَنْ يَحْيَ بْنُ سَعِيدٍ القُطَّانِ قَالَ اَشْهَدُ اَنَّ السُّفْيَانَ بَنْ عُيَيْنَةَ اخْتَلَطَ سَنَةَ وَ تِسْعِينَ مِائَةَ فَمَنْ سَمَعَ مِنْهُ فِيهَا فَصَاعِداً لا شئ سَبْعٍ 66 میزان لاعتدال جلد ۲ صفحه ۳۹۷)
یعنی یہ راوی تدلیس کرتا تھا امام احمد کہتے ہیں کہ زہری سے تقریبا ئیں روایتوں میں اس نے غلطی کی ہے بیٹی بن سعید کہتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ شھ میں سفیان بن عیینہ کی عقل ماری گئی تھی.پس جس نے اس کے بعد اس سے روایت لی ہے وہ بے حقیقت ہے.“ اس کے دوسرے راوی زہری کے متعلق بھی لکھا ہے کہ.66 كَانَ يَدلَّسُ فِي النَادِرِ.“ ( میزان الاعتدال جلد ۳ صفحه ۱۴۶) یعنی یہ راوی کبھی تدلیس بھی کر لیا کرتا تھا.“ پس یہ روایت اول تو سفیان بن عیینہ نے زہری سے لی ہے.اور زہری نے العاقب کے معنی بیان کرتے ہوئے تدلیس سے کام لیا ہے اس طرح کہ اس نے والعاقب الذي ليس بعدہ نبی کے الفاظ اپنی طرف سے حدیث میں اس طرح ملا دیئے ہیں کہ حدیث کے الفاظ معلوم ہوں.مگر محمد ثین نے اس تدلیس کو بھانپ لیا.چنانچہ شمائل ترندی مجتبائی مطبوعہ ۱۳۳۲ھ صفحہ ۲۶ میں بین السطور لکھا ہے هَذا قَولُ الزُّهْرِی کہ یہ قول زہری کا ہے.یعنی آنحضرت ﷺ کا نہیں.حضرت امام ملا علی قاری اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں."الظاهران هذا التَفْسِيرُ للصَّحَاتِي أَوْمَنْ بَعْدَهُ فِي شَرْحِ مُسْلِمٍ قَالَا بَنُ " لأَعْرَابِي العَاقِبُ الذِي يُخْلِفُ فِي الْخَيْرِ مَنْ كَانَ قَبْلَهُ “ (مرقاة شرح مشکوۃ جلد ۵ صفحه ۳۷۶ بر حاشیه مشکوہ تنہائی باب اسماء النبی ) یعنی اس سے ظاہر ہے العاقب الذي لَيسَ بَعْدَهُ نَبِی کے الفاظ امام ملا علی قاری کے قول کے مطابق کسی صحافی یا بعد کے شخص کے ہیں نبی کریم مے کے الفاظ نہیں اور ابن الاعرابی نے العاقب کے یہ معنی کئے ہیں کہ عاقب وہ ہوتا ہے جو اچھی بات میں اپنے سے پہلے کا قائمقام ہو."
اء پس العاقب کے معنی اس حدیث میں یہ ہوئے کہ آنحضرت ما تمام انبیاء کے کمالات میں قائمقام ہیں.گویا جامع جمیع کمالات انبیاء ہیں.جامع جمیع کمالات ہونے میں آنحضرت ﷺ بے شک آخری فرد ہیں.مگر العاقب کے معنی محض آخری نبی ہر گز درست نہیں.کیونکہ العاقب آنحضرت ﷺ کا صفاتی نام ہے.اور صفاتی نام فضیلت پر دال ہوتے ہیں.خاتم النبیین کا لقب بھی محل مدح میں استعمال ہوتا ہے.پس العاقب اور خاتم النبیین کے معنی محض آخری نبی مراد لینا بالذات آنحضرت ﷺ کی کسی فضیلت کو نہیں چاہتا.محض آخری کسی اچھائی پر بالذات دلالت نہیں کرتا پھر خود آنحضرت می ﷺ نے اپنے بعد مسیح موعود کو نبی اللہ قرار دیا ہے.پس محض آخری نبی کے معنی اس کے خلاف ہیں.ہاں آنحضرت ﷺ آخری شارع اور مستقل نبی ضرور ہیں.کیونکہ مسیح موعود کو حدیثوں میں امتی اور نبی قرار دیا گیا ہے.نہ کہ شارع یا مستقل نبی اور جامع جمیع کمالات انبیاء ہونے میں بھی آنحضرت مے آخری ہیں.کیونکہ آپ کے بعد ہونے والے مسیح موعود نبی اللہ کے لئے آپ کا امتی ہونا اور آپ کی شریعت کے تابع ہو نا ضروری ہے.ان دس حدیثوں کے ذکر کے بعد جناب برق صاحب لکھتے ہیں.وہ آخری گاڑی کیسی جس کے بعد بھی گاڑیاں آتی رہیں وہ جیب میں آخری پیسہ کیسا جس کے بعد بھی جیب میں دو سو روپیہ باقی رہے.(حرف محرمانہ صفحہ ۳۶) جناب برق صاحب نے یہ کیسی لغو مثالیں پیش کی ہیں.جب کہ ساری امت محمد یہ ایک معنی میں آخری نبی حضرت عیسی کو مانتی ہے پس برق صاحب غیر احمدیوں کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ میاں حضرت عیسی کو آخری گاڑی کے مشابہ مت قرار دو اور نہ انہیں جیب میں آخری پیسہ کے مشابہ قرار دو.ہم تو آپ کی یہ مثالیں پڑھ کر حیران ہیں کہ کس طرح علمی ذوق سے محروم ہیں حالانکہ امت محمدیہ میں خاتم الاولیاء ، خاتم
۷۲ الحفاظ ، خاتم المفسرین، خاتم المحدثین ، خاتم الائمہ، خاتم الشعراء اور خاتم المتکلمین کا محاورہ شائع وذائع ہے.لیکن کوئی عظمند اسے آخری کے معنوں میں نہیں لیتا.بلکہ یہ محاورات اکمل فرد کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں جو فضیلت ذاتیہ پر دلالت کرتے ہیں.چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے.فمعَ القَرِيضُ بِحَاتم الشعراء وَغَدِيرِ رَوْضَتِهَا حَبَيْبِ الظَّالِي کہ حبیب الطائی خاتم الشعراء کی وفات سے جو شعر کے باغ کا تالاب تھا شعر بہت دردمند ہوا ہے.اس شعر میں شاعر نے حبیب الطائی کو خاتم الشعراء قرار دیا ہے.حالانکہ وہ خود بھی شاعر ہے.اور شعر میں ہی یہ مضمون پیش کر رہا ہے.پس حبیب الطائی کو خاتم الشعراء ان معنوں میں قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں شاعروں کا استاد تھا.اور شعر میں کامل دسترس رکھتا تھا.اور اس کے فیض سے شاعر ہتے تھے.پس جس طرح خاتم الشعراء وہ ہے جس کے فیض واثر سے شاعر پیدا ہوں اسی طرح خاتم الاولیاء ، خاتم الحفاظ ، خاتم المفسرین ، خاتم المحدثین وہ ہوتے ہیں جن کے فیض سے ولی، حافظ ، مفسر یا محدث پیدا ہوں اسی قسم کا مفہوم خاتم الانبیاء کے مثبت پہلو کا ہے.یعنی خاتم النبیین وہ نبی ہے جس کے فیض واثر سے انبیاء وجود میں آسکیں.خاتم النبیین کا الف لام برق صاحب نے خاتم النبیین کا الف لام استغراقی قرار دیا ہے اور ہم بھی اسے استغراقی تسلیم کرتے ہیں.ہمیں ان سے صرف خاتم کے معنوں میں اختلاف ہے.وہ خاتم کے معنی مطلق آخری یا محض آخری لیتے ہیں جو کسی ذاتی فضیلت پر دال نہیں اور
۷۳ ہم خاتم کے معنی نبیوں کیلئے مؤثر وجود اور تمام نبیوں کا مصداق قرار دیتے ہیں.یعنی ایسا نبی جس کی مہر نبوت کے فیض سے نبی بن سکتے ہیں اور جو تمام انبیاء کا مصدق ہے اگر وہ خاتم کے معنی آخری لیں تو علمائے امت تو آخری نبی حضرت عیسی کو مانتے ہیں.چنانچہ امام شعرانی لکھتے ہیں.جمِيعُ الأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ الصَّلوةُ وَالسَّلامُ نُوَّابٌ لَهُ من لدن آدَمَ إِلَى آخِرِ الرُّسُلِ وَهُوَ عِيسَى ہیں..(الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحہ ۲۲) یعنی تمام انبیاء آدم سے آخری رسول عیسی تیک آنحضرت ﷺ کے نائب پس جناب برق صاحب پر لازم تھا وہ ان علمائے کی طرف توجہ فرماتے جو حضرت عیسی کے آنحضرت ﷺ کے بعد اصالتنا آنے کے قائل ہونے کی وجہ سے حضرت عیسی کو آخری نبی مانتے ہیں.اور انہیں سمجھاتے کہ اس طرح خاتم النعین میں النبیین کا الف لام استغراقی نہیں رہتا.مگر جناب برق صاحب نے ان کی طرف اس لئے توجہ نہیں فرمائی کہ انہیں ڈر تھا کہ یہ علماء ان پر بھی کفر کا فتوی لگادیں گے.اس لئے وہ احمدیت کے پردہ میں ان میں ہر دلعزیزی حاصل کر کے ان میں اپنے خیالات پھیلانا چاہتے ہیں.اعتدال کی راہ جناب برق صاحب نے حدیث لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ صِدِّيقاً نَبياً كو اس لئے غلط قرار دے دیا تھا کہ یہ امت کے اندر امکان نبوت کی واضح دلیل ہے.اور برق صاحب آئندہ کسی نبی کو قبول کرنا اپنی اس آزادی میں مانع سمجھتے ہیں جو قرآن مجید کی من مانی تفسیر کرنے اور احادیث نبویہ کا انکار کرنے میں انہوں نے اختیار کر رکھی ہے
۷۴ اور اس طرح تفریط کی راہ پر گامزن رہنا چاہتے ہیں.احمدی خدا تعالی کے فضل سے چونکہ خاتم النبیین کی تفسیر میں اعتدال کی راہ پر گامزن ہیں.اس لئے وہ حدیث (۱) کو عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَان صديقاً نَبِيَّاً (۲) اور حديث أبو بَكْرٍ أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا انْ يكُونَ نَبِي - (۳) اور حدیث أَبُو بَكْرِ خَيْرُ النَّاسِ بَعْدِي الْايَكُونَ نَبِيُّ - (۴) اور حديث نَبيُّهَا مِنْهَا.کو بھی درست مانتے ہیں.اور ان حدیثوں کو خاتم النبیین کے مثبت اور ایجائی پہلو کی تفسیر یقین کرتے ہیں.جس کا ماحصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے فیض واثر سے آپ کا ایک امتی مقام نبوت حاصل کر سکتا ہے.اور پھر احمد کی ان احادیث کو بھی مانتے ہیں جنہیں برق صاحب نے انقطاع نبوت کے ثبوت میں پیش کیا ہے.اور ایسی حدیثوں کو آیت خاتم النبیین کے منفی اور مسلبی پہلو کی تفسیر یقین کرتے ہیں.جس الله کا مفاد علمائے امت کی تشریح کے مطابق یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی تشریعی اور مستقل نبی نہیں آسکتا.پس یہ اعتدال کی راہ ہی صحیح راہ ہے.کیونکہ یہ افراط و تفریط سے پاک ہے اور خدا تعالی کی رضا اور منشاء کے مطابق ہے.فالحمد لله على ذالك خاتم کا استعمال حضرت مسیح موعود کی تحریرات میں برق صاحب نے بعض حوالہ جات حضرت مسیح موعود کے پیش کئے ہیں.جن میں حضرت عیسی کو موسیٰ کی قوم کا خاتم الانبیاء تحفہ گولڑویہ صفحہ ۳۶ طبع اوّل اور اپنے میں امت کا خاتم الاولیاء صفحہ ۳۹ اور خاتم خلفاء محمد یہ صفحہ ۹۲ قرار دیا ہے.اور انجام آتھم میں لکھا ہے.ہمارے نبی ﷺ خاتم الانبیاء ہیں.آپ کے بعد کوئی نبی نہ آئیگا.نہ نیا نہ پرانا.پھر حضرت عیسی کو خطبہ الہامیہ میں امت موسویہ کا خاتم الانبیاء قرار دیا ہے (خطبہ الہامیہ صفحہ ۴۰ طبع اول) اور اپنے متعلق لکھا ہے.آنَا عَاتَمُ الأولياء لا ولِي بَعْدِئُ ( خطبہ الہامیہ صفحہ ۳۵ طبع اوّل) پھر حقیقۃ الوحی میں مسیح موعود
۷۵ کو آخری خلیفہ اور خاتم الخلفاء کہا ہے.اور چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۴ میں آنحضرت عل ﷺ پر تمام نبو تیں ختم قرار دی ہیں.(حرف محرمانہ صفحہ ۳۹،۳۷) ان حوالہ جات کو پیش کر کے برق صاحب کہتے ہیں." کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جناب مرزا صاحب نے لفظ خاتم کو باقی ہر مقام پر آخری کے معنوں میں استعمال کیا ہے.لیکن جب خاتم النعیین کی تغییر کرنے لگے تو فرمایا.“ اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین شھر ا یعنی آپ کی پیرومی کمالات نبوت بخشتی ہے.اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے.“ (حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ ۹۷ طبع اوّل) اور اس سے عجیب تریہ کہ جب اپنے میں خاتم الخلفاء والانبیاء قرار دیتے.ہیں.( خاتم الانبیاء نہیں بلکہ خاتم الاولیاء ناقل) تو لفظ خاتم کو پھر آخری کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں.“ الجواب ان حوالہ جات کے متعلق عرض ہے کہ خاتم کا لفظ جمع کی طرف مضاف ہو کر زبان عربی میں حقیقی معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.اور مجازی معنوں میں بھی جیسا کہ ہم مفردات راغب کے حوالہ سے پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ختم کے مصدری معنی طبع کی طرح نائیر الشئ ہیں.اور بندش اور اثر حاصل اور آخری کے معنے مجازی ہیں.چونکہ عربی زبان میں خاتم کا لفظ جمع کی طرف مضاف ہو کر حقیقی اور مجازی دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے لہذا اس امر کو نہ جاننے کی وجہ سے جناب برقی صاحب پر دونوں قسم کی عبارتیں ملتبس ہو گئی ہیں.ان عبارتوں میں جہاں عیسی کو بنی اسرائیل یا
24 امت موسویہ کا خاتم الانبیاء قرار دیا گیا ہے.وہاں اسکے مجازی معنی بنی اسرائیل کے نبیوں کا آخری فرد مراد ہیں کیونکہ حقیقی معنے جو تاثیر اشی ہیں یہاں محال ہیں.کیونکہ حضرت عیسی کے اثر و فیض سے ان کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوا.پھر ان عبارتوں میں جہاں حضرت اقدس نے اپنے تئیں خاتم الاولیاء قرار دیا ہے اور خطبہ الہامیہ میں ساتھ یہ بھی فرمایا ہے لا ولی بعدی.وہاں خاتم الاولیاء کے حقیقی معنے مراد ہیں نہ کہ مجازی معنے.برق صاحب نے دانستہ خطبہ الہامیہ صفحہ ۳۵ کا ادھورا حوالہ پیش کیا ہے.پوری عبارت یوں ہے.آنَا عَالَمُ الأَوْلِيَاء لَا وَلَى بَعْدِي إِلَّا الَّذِي هُوَ مِنِّى وَ عَلَى عَهْدِی یعنی میں خاتم الاولیاء ہوں میرے بعد کوئی ولی نہیں سوائے اس کے جو مجھ سے ہو اور میرے عہد پر ہو.پس آپ کے خاتم الاولیاء ہونے کے یہ معنی ہوئے کہ آپ کے بعد ایسا شخص ولی نہیں ہو سکتا جو آپ سے فیض یافتہ نہ ہو اور آپ کا منکر ہو.پس اس جگہ خاتم الاولیاء کے حقیقی معنی مراد ہیں یعنی ایسے مرتبہ کا ولی جس کے فیض واثر سے ولی پیدا ہوں.اور اس کے منکر ولائت کا مقام پانے سے اس کا فیض نہ لینے کی وجہ سے محروم رہیں.گویا خاتم الاولیاء کے معنی ولی تراش ہوئے جو خاتم السلمین کے معنی نبی تراش کے مطابق ہیں.برق صاحب نے خاتم الاولیاء کے معنی خاتم الانبیاء سے مختلف دکھانے کے لئے دانستہ الا الَّذِي هُوَ مِنِّي وَعَلَى عَهْدِئُ کے الفاظ حذف کر دیئے ہیں.کیونکہ اگر ان الفاظ کا وہ ذکر کر دیتے تو پھر اس حوالہ کو وہ بنائے اعتراض کے طور پیش نہیں کر سکتے تھے.پس ان کا یہ طریق محققانہ نہیں بلکہ معاندانہ ہے اور اس وجہ سے ان کی کتاب حرف محرمانہ کی بجائے حرف مجرمانہ کہلانے کی مستحق ہے.مسیح موعود کو خاتَمُ الخلفاء بھی حقیقی معنوں میں قرار دیا گیا ہے.نہ کہ مجازی معنوں میں.اگر آپ مجازی معنوں میں خاتم الخلفاء ہوتے تو پھر آپ کے ماننے
LL والوں میں سلسلہ خلافت جاری نہ ہو سکتا.حضرت اقدس تو خود ایک حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں.ثُمَّ يُسَافِرِ الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ اَوْ خَلِيفَةٌ مِنْ خُلَفَائِهِ إِلَى أَرْضِ دِمَشْقَ - حمامة البشریٰ صفحہ ۳۷ طبع اوّل) یعنی پھر مسیح موعود خود یا اس کے خلیفوں میں سے کوئی خلیفہ دمشق کی طرف سفر کرے گا.دیکھئے آپ نے اپنے آپ کو خاتم الخلفاء قرار دینے کے باوجود اپنے بعد خلافت کو منقطع قرار نہیں دیا.پس خاتم الخلفاء سے بھی یہ مراد ہوئی کہ آئندہ خلفائے اسلام آپ کے فیض اور اثر سے ہوں گے اور وہ آپ پر ایمان رکھنے والے ہونگے.پھر جس طرح خاتم النبین با معنی نبی تراش کے لئے لازم ہے کہ وہ شریعت لانے والے انبیاء اور مستقل انبیاء کا آخری فرد ہو اسی طرح مسیح موعود خاتم الخلفاء کو آخری خلیفہ ہونا ان معنوں میں لازم ہے کہ مسیح موعودان خلفاء میں سے آخری خلیفہ ہونے والا تھا جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے واسطہ سے مقام خلافت پایا ہے.چونکہ مسیح موعود کا واسطہ شرط ہو گا.پس ان حقیقی معنوں میں خاتم الخلفاء کے معنی بھی خاتم النبیین کے معنی نبی تراش کے مطابق ہیں.خاتم النبیین کے معنی محض آخری نبی یا مطلق آخری نبی محض مجازی معنی ہیں.مطلق آخری ہونا کسی فضیلت ذاتیہ پر دال نہیں ہوتا چونکہ خاتم النبیین کا وصف آنحضرت ﷺ کی مدح میں ہے اس لئے اس کے حقیقی معنی نبی تراش ہی درست معنی ہیں.حضرت مسیح موعود نے جن عبارتوں میں خاتم النبیین کے بعد کسی نئے یا پرانے نبی آنے کی نفی کی ہے.وہ نفی مستقل اور تشریعی نبی کے دعوی سے تعلق رکھتی ہے.اور خاتم السلمین کے معنوں کا یہ منفی پہلو اس کے حقیقی معنی نبی تراش سے تضاد نہیں
LA رکھتا.کیونکہ نبی تراش کا مثبت پہلو جو خاتم النبیین کے حقیقی لغوی معنی ہیں یہ مفہوم رکھتا ہے کہ آئندہ جو نبی ہو گاوہ مستقل اور تشریعی نبی نہیں ہو گا.بلکہ امتی نبی ہوگا.چشمہ معرفت کی جس عبارت میں آنحضرت ﷺ پر تمام نبو تیں ختم ہونے اور آپ کی شریعت کے خاتم الشرائع ہونے کا ذکر ہے.افسوس کہ اس عبارت کو بھی جناب برق صاحب نے ادھورا پیش کیا ہے تا فشاء متکلم مخفی رہے اور وہ اسے اعتراض کی بنیاد بنا سکیں.حالانکہ پوری عبارت یوں ہے.میں اس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نبو تیں اس پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے.مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں کیونکہ وہ محمد کی نبوت ہے.یعنی اس کا ظل ہے اور اس کے ذریعہ سے ہے اور اسی کا مظہر ہے.“ چشمه معرفت صفحه ۳۲۴) اسی عبارت پر حاشیہ میں لکھتے ہیں.ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و الله مولی آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے اور اگر کوئی ایساد عویٰ کرے تو بلا شبہ وہ بے دین اور مردود ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ابتداء سے ارادہ کیا تھا کہ آنحضرت مے کے کمالات متعدیہ کے اظہار و اثبات کے لئے کسی شخص کو آنجناب کی پیروی اور متابعت کی وجہ سے وہ مرتبہ کثرتِ مکالمات اور مخاطبات الہیہ ھے جو کہ اس کے وجود میں عکسی طور پر نبوت کا رنگ پیدا کر دے سو اس طور سے خدا نے میرا نام نبی رکھا.یعنی نبوت محمد یہ میرے آئینہ نفس میں منعکس ہو گئی.اور ظلی طور پر نہ اصلی طور پر مجھے یہ نام دیا گیا تا میں آنحضرت ﷺ کے فیوض کا کامل نمونہ ٹھہروں.“ زیر بحث عبارت میں آنحضرت ﷺ پر تمام نبو تیں ختم ہونے سے مراد یہ
29 ہے کہ آنحضرت ﷺ تمام انبیاء کے کمالات کے جامع ہیں اور کوئی کمال نبوت ایسا باقی نہیں جو آنحضرت ﷺ کو نہ ملا ہو.پھر اس جگہ قرآن مجید کو خاتم الشرائع بھی خاتم کے حقیقی معنوں شریعت محمدیہ کے جامع کمالات ہونے کی وجہ سے ہی قرار دیا گیا ہے.پس جس طرح خاتم النبین کے اثر و فیض سے امت محمدیہ میں فلقی نبی آسکتا ہے.اسی طرح قرآن مجید کے خاتم الشرائع ہونے کی وجہ سے اس ظلی نبی پر قرآن مجید کے کچھ اوامر و نواہی الهام بطور تجدید دین و بیان شریعت قرآن مجید کی خلقیت میں نازل ہو سکتے ہیں.اور امور غیبیہ پر مشتمل وحی بھی قرآن مجید کی پیروی کی برکت سے نازل ہو سکتی ہے.نان جس طرح خاتم النبیین کے بعد کوئی مستقل اور شریعت جدیدہ لانے والا نبی نہیں آسکتا اسی طرح خاتم الشرائع کے بعد کوئی جدید شریعت بھی نازل نہیں ہو سکتی جو قرآن مجید کے اوامر و نواہی میں ترمیم و تنسیخ کرنے والی ہو.پس جس طرح خاتم النبیین کے حقیقی معنوں کو جو اپنے اندر ایجاد کا مفہوم رکھتے ہیں آخری تشریعی نبی ہونا لازم ہے اسی طرح خاتم الشرائع کے لئے آخری شریعت جدید ہونا لازم ہے.متد بر.ایک بروز محمدی کی تشریح جناب برق صاحب نے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ “ سے ایک اقتباس پیش کیا ہے جس میں ایک فقرہ یہ آیا ہے.ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا.سووہ ظاہر ہو گیا.“ اس پر برقی صاحب لکھتے ہیں.اس اقتباس میں ایک بروز محمدی کا جملہ زیرِ نظر رکھیے اور ان تمام اقتباسات کا ملخص عبارت ذیل میں ملاحظہ فرمائیے.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۰)
۸۰ اس کے بعد آپ نے رسالہ تعمیذ الاذہان کی ایک عبارت پیش کی ہے جو نہ تو حضرت مسیح موعود کی کوئی عبارت ہے اور نہ حضرت خلیفۃ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی.بلکہ یہ جماعت احمدیہ کے ایک عالم کی تحریر ہے.اس عبارت کا یہ فقرہ کہ امت محمدیہ میں سے ایک سے زیادہ نبی کسی صورت میں نہیں آسکتے.“ جماعت احمدیہ کے لئے حجت نہیں.کیونکہ ہمارے نزدیک کسی شخص کی کوئی تحریر جو حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریر کے خلاف ہو حجت نہیں ہو سکتی.کیونکہ حکم و عدل مسیح موعود ہیں نہ کوئی اور عالم.حضرت مسیح موعود تو برق صاحب کی پیش کردہ عبارت سے پہلے خود فرماتے ہیں.ہاں یہ ممکن کہ آنحضرت ﷺ نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں.اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں.اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہد تھا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ.“ ( الجمعة : ٤) فرماتے ہیں.(اشتہار.ایک غلطی کا ازالہ صفحہ اطبع اوّل) ایک غلطی کا ازالہ کی تحریر سے پہلے حضور اپنی کتاب ”ازالہ اوہام میں تحریر میرا یہ بھی دعوئی نہیں کہ صرف مثیل مسیح ہونا میرے پر ہی ختم ہو گیا ہے.بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے دس ہزار بھی مثیل مسیح آجائیں.ہاں اس زمانہ کے لیے میں فیل مسیح ہوں.اور دوسرے کی انتظار بے سود 66 ہے." پس رسالہ تشحید الا زمان کا یہ قول کہ.(ازالہ اوہام صفحه ۸۳ طبع اوّل) امت محمدیہ میں ایک سے زیادہ نبی کسی صورت میں بھی نہیں آسکتے.“
M مسیح موعود کی تحریر کے صریح خلاف ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں اسی طرح لا نَبِيَّ بَعْدِی کی یہ تشریح بھی مُسلم نہیں.جو اس کے بعد بیان کی گئی ہے لانبی بعدی فرما کر اوروں کی نفی کر دی.اور کھول کر بیان فرمایا کہ مسیح موعود کے سوا میرے بعد قطعا کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا.“ (رساله تشخیذ الاذہان قادیان مارچ ۱۹۱۳ء) کیونکہ رسول کریم میں ہے نے اگر ایک طرف یہ فرمایا ہے کہ لانبی بعدی تو دوسری حدیث میں مسیح موعود کے متعلق فرمایا ہے يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ پس لانَبِيُّ بَعْدِي کے یہ معنے درست ہو سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی شریعت جدید و لانے والا نبی نہیں آسکتا.جس طرح حدیث لاهِ خرة بعد الفتح (فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں فتح مکہ کے بعد مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف کی جانے والی ہجرت مخصوصہ کی نفی کی گئی ہے.نہ کہ مطلق ہجرت کی نفی.ورنہ آیت وَمَنْ يُهَاجِرُ فِي سَبِيلِ اللهِ كو على الاطلاق منسوخ ماننا پڑے گا.اور ہندوستان سے مسلمانوں کی ہجرت اور اسی طرح فلسطین سے مسلمانوں کی ہجرت بھی شرعی ہجرت نہ رہے گی.پس جناب برق صاحب نے حضرت اقدس کے مندرجہ بالا اقتباسات ملحوظ نہ رکھتے ہوئے محض مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت مرزا صاحب اپنے بعد کسی بروزی نبی کے آنے کے امکان کے قائل نہیں.برق صاحب نے اس سلسلہ میں محض مغالطہ دینے کے لئے خطبہ الہامیہ سے حضرت مسیح موعود کی ذیل کی ادھوری عبارت پیش کی ہے.فَارَادَ الله أن يُتِمَّ النَبَاءَ ويُكمل البناء بالبنة الاخيرة فَأَنَا تِلكَ اللُّبنة خطبه الهامیه صفحه ۱۱۲ طبع اول)
۸۲ اس کا ترجمہ برق صاحب نے یہ لکھا ہے.پھر اللہ نے چاہا کہ نبوت کی عمارت کو آخری اینٹ سے مکمل کرے اور وہ آخری اینٹ میں ہوں.) پھر اس پر یہ نوٹ دیا ہے.اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مرزا صاحب آخری نبی ہیں اور آئندہ کوئی نہیں نہیں آئے گا.“ الجواب واضح ہو کہ اس عبارت سے یہ نتیجہ نکالنے میں " کہ حضرت مرزا صاحب آخری نبی ہیں اور آئندہ کوئی نبی نہیں آئے گا."برق صاحب حق جانب نہیں.انہوں نے ایک ادھوری عبارت پیش کر کے اور پھر از خود اس کا غلط ترجمہ درج کر کے اور ادھر ترجمہ کو جو عربی عبارت کے نیچے خطبہ الہامیہ میں درج تھا.نقل نہ کر کے انصاف کا خون کیا ہے.اس جگہ پوری عبارت یوں ہے.رأيتُمُ المُتَنَصِرِينَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَ كَثرَ تَهُمْ ، وَرَأَيْتُمْ يَهُودَ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَ سِيرَ تَهُمْ فَكَانَ خَالِياً مَوْضِعُ لَبِنَةٍ أَعْنِي المُنْعَمِ عَليهِ مِنْ هَذِهِ العِمَارَةِ فَاَرَادَ اللَّهُ اَنْ يتم النباءَ وَيُكَمِلُ الْبِنَاءَ بَاللَبِنَةِ الأَخِيرَة فَأَنَا تِلْكَ اللَّبِنَةُ أَيُّهَا النَاظِرُونَ وَكَانَ عِيسَى عِلما لَبَنِي إِسْرَائِيلَ وَأَنَا عِلْمٌ لَّكُمْ أَيُّهَا المُفْرِطُونَ - فَسَارِعُوا إِلَى التَّوْبَةِ أَيُّهَا الْغَافِلُونَ - وَإِنِّى جُعِلْتُ فَرُدًا اَ كَمَلَ مِنَ الَّذِينَ أَنْعِمَ عَلَيْهِمْ فِي آخِرِ الزَّمَانِ وَلَا فخر وكارياءَ وَاللَّهُ فَعَلَ كَيْفَ أَرَادَوَ شَاءَ فَهَلْ أَنتُم تُحارِبُونَ اللهَ وَتُرَاجِمُونَ (خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۱۱، ۱۱۲ طبع اوّل) ردو و خطبہ الہامیہ میں ہی نیچے اس عربی عبارت کا ترجمہ یوں درج ہے." تم نے مسلمانوں میں سے عیسائی ہونے والوں کی کثرت کو دیکھا اور اس
۸۳ امت کے یہود اور ان کی سیرت کو بھی دیکھا.اور اس عمارت میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی.یعنی مُنْعَمُ عَلَيْهِمْ - پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرے.اور آخری اینٹ کے ساتھ اس بناء کو کمال تک پہنچا دے.پس میں وہی اینٹ ہوں.اور جیسا کہ میٹی بنی اسرائیل کیلئے نشان تھا.ایسا ہی میں تمہارے لئے اے تہ کارو ایک نشان ہوں.پس اے غافلو ! توبہ کی طرف جلدی کرو.اور میں مُنْعَمُ عَلَيْهِم گروه میں سے فردا اکمل کیا گیا ہوں.اور یہ فخر اور ریا نہیں.خدا نے جیسا چاہا کیا پس کیا تم خدا (خطبه الهامیه صفحه ۱۱۲ طبع اوّل) کے ساتھ لڑتے ہو.“ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ اس جگہ نبوت کی عمارت کا ذکر نہیں.نمر جناب برق صاحب نے اپنے ترجمہ میں اسے از خود نبوت کی عمارت قرار دے کر حضرت بائی سلسلہ احمدیہ کو آخری اینٹ یا معنی آخری نبی قرار دیا ہے.سراسر مغالطہ ہے کیونکہ اس عمارت سے سورہ فاتحہ میں بیان کردہ پیشگوئی کی عمارت مراد ہے.چنانچہ اوپر کی عبارت میں فَأَرَادَ اللَّهُ أَن يُتِمَّ التَّبَاءَ ) کہ خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ اس پیشگوئی کو پوری کرے) کے الفاظ میں وہ پیشگوئی مراد ہے.جو اس عبارت سے پہلے سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں بیان کی گئی ہے.جسے آپ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے." یہ دو گروہ مغضوب علیہم اور اہل صلیب میں سے ہیں کہ خدا نے فاتحہ میں ان کا ذکر کیا ہے اور اشارہ کیا ہے کہ آخر زمانہ میں بکثرت ہو جائیں گے اور فساد میں کمال کو پہنچ جائیں گے اس وقت آسمان کا پروردگار تیسرے گروہ کو قائم کرے گا.اس لئے کہ مشابہت پہلی امت سے پوری ہو جائے.اور اس لئے بھی کہ دونوں سلسلے ایک دوسرے سے مشابہ ہو جائیں (یعنی پہلا سلسلہ اور دوسر اسلسلہ ) پس وہ وقت یہی وقت ہے اور جو کچھ رحمان نے وعدہ کیا تھاوہی ظاہر ہوا.“ اس کے بعد وہ عربی عبارت ہے جس کا ذکر معہ ترجمہ ہم پہلے کر چکے ہیں.
۸۴ اب اوپر کے اقتباس کے ساتھ اس عبارت کو ملا کر پڑھیں تو صاف ظاہر ہے کہ اس عبارت میں عمارت سے مراد سورۃ فاتحہ میں بیان کردہ پیشگوئی کی عمارت ہے اور اس پیشگوئی میں ایسے تین گروہوں کا ذکر ہے جن کا ظہور آخری زمانہ میں امت محمدیہ میں ہونا ضروری تھا.یہ تین گروہ مغضوب علیہم کا گروہ والضالین کا گروہ اور منعم علیہم کا گروہ ہیں.حضرت مسیح موعود بتاتے ہیں کہ امت محمدیہ کے آخری دور میں بھی ان تینوں گروہوں کا امت میں سے ظہور ضروری تھا.جن میں سے آخری گروہ منعم علیہم کا تھا.جس کی تعمیل امت کے ایک کامل فرد امتی نبی کے ذریعہ ہونے والی تھی.جب قوم میں کثرت کے ساتھ نصاری اور یہود لحاظ اخلاق و سیرت پیدا ہو چکے تو اب سورہ فاتحہ کی اس عمارت میں سے صرف منعم عليهم گروه کا وجود مع فرد اکمل جو اس گروہ کے لئے ہمنزلہ آخری اینٹ کے تھا باقی تھا.لہذا مسیح موعود کے ظہور سے جو اس گروہ کا فرد اکمل ہے منعم علیہم کا تیسر اگر وہ وجود میں آگیا اور سورہ فاتحہ کی اس پیشگوئی کی عمارت تینوں گروہوں مغضوب عليهم، ضالین اور منعم علیہم سے تکمیل پاگئی.خطبہ الہامیہ کا فقرہ اِنِّی جُعِلْتُ فَرَداً أَكْمَلَ مِنَ الَّذِينَ أَنْعِمَ عَلَيْهِمْ آخری اینٹ کی تفسیر و تشریح ہے پس مسیح موعود اپنے زمانہ کے منعم علیہم گروہ کی آخری اینٹ با معنی فردا اکمل ہیں.کیونکہ انہیں کے ذریعہ سے تیسر اگر وہ وجود میں آکر عمارت کی تکمیل ہوئی ہے.جو سورۃ فاتحہ کی پیشگوئی میں مذکور تھی.پس اس عبارت سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ مسیح موعود امت محمدیہ کے آخری نبی ہیں.لہذا آپ کے بعد بھی نبی کا امکان ہے.برق صاحب نے از راہ مکلف یا غلط فہمی سے عمارت کے لفظ سے عمارت
۸۵ نبوت اور آخری اینٹ سے حضرت مرزا صاحب کا آخری نبی ہونا مراد لے لیا ہے.حالانکہ برق صاحب کے پیش کردہ مفہوم اور حضرت مسیح موعود کے مفہوم میں بعد المعرقین ہے.علاوہ ازیں یہ کیسے ممکن تھا کہ اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں تو حضرت اقدس یہ لکھیں.ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرت ﷺ نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں.اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں.“ اور پھر " خطبہ الہامیہ میں یہ لکھ دیں کہ خود آپ آخری نبی ہیں.پس جناب برق صاحب اس عبارت کا غلط مطلب نکالنے میں حق بجانب نہیں.اس خود ساختہ عمارت پر آگے برقی صاحب نے یہ غلط امر بھی تفریح کر لیا ہے کہ.اگر خاتم سے مراد نبی تراش مہر لی جائے تو خاتم النبیین کی تفسیر ہو گی کم از کم تین نبی بنانے والی مہر.لیکن مرزا صاحب اپنی آخری کتابوں میں اعلان کر چکے ہیں کہ اس امت کا پہلا اور آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی ولی یا خلیفہ نہیں آئے گا.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۳) سیہ بیان جناب برق صاحب کا صریحا غلط ہے.کیونکہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ حضرت اقدس نے کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ آپ کے بعد کسی نبی یا ولی یا خلیفہ کا امکان نہیں بلکہ ”لیکچر سیالکوٹ میں جو ”خطبہ الہامیہ“ کے بعد کا تحریری لیکچر ہے خود حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں.لہذا ضرور ہوا کہ تمہیں یقین اور محبت کے مرتبہ پر پہنچانے کے لئے خدا
۸۶ کے انبیاء وقت بعد وقت آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاؤ.“ (لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۳۲ طبع اوّل) یہ استدلال ہے سورہ فاتحہ کی دعا اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اور بتا رہے ہیں کہ اس آیت کی رو سے خدا تعالٰی کے انبیاء وقت بعد وقت آتے رہیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے تئیں آخری نبی قرار نہیں دیا.اور پھر آپ اسی لیکچر کے صفحہ ے پر تحریر فرماتے ہیں.چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پیدا ہو.اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی صحیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہے.66 اس سے ظاہر ہے کہ آپ کی ظلیت میں آئندہ بھی کوئی امام اور مسیح آسکتا ہے اور یہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ آپ کے بعد ولایت کا دروازہ بھی آپ کی اسی تحریر کی رو سے کھلا ہے جسے ہر دکھانے کے لئے برق صاحب نے ادھوری عبارت پیش کی ہے پس جب آئندہ نبوت کا امکان ہے تو خاتم النبیین کی مہر کے فیض سے حضرت مسیح موعود کی تحریروں کے مطابق امت محمدیہ میں ایک سے زیادہ انبیاء کا امکان ثابت ہو گیا.ماسوا اس کے جناب برق صاحب پر واضح ہو کہ جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود کے کلام کی روشنی میں تمام انبیائے کرام کو جو آدم سے لے کر اس وقت تک ہوئے آنحضرت معہ کے مقام خاتمیت کے عِلتِ غائیہ ہونے کی حیثیت میں اس مقام کا فیض ہی تسلیم کرتی ہے.چھانکہ اصل غرض نبیوں کے بھیجنے سے یہ تھی کہ خاتم المین کے ظہور سے پہلے یہ انبیاء قوموں کو اپنی شرائع کے ذریعہ اس بات کے لئے تیار کردیں کہ وہ خاتم النعین ان کے ظہور پر ان پر ایمان لانے کی اہلیت رکھتے ہوں.اسلئے خاتم النبیین ما قبل از ظهور بطور علت غائیہ ان تمام انبیاء کے نبوت پانے میں
: AL مؤثر تھے کیونکہ علت نائیہ بھی ہمنزلہ آباء کے ہے.یہ علت خالق کے علم میں موجود بوجود علمی تھی.اور ساری الہی سکیم میں جو انبیاء کے بھیجنے سے متعلق تھی مؤثر رہی ہے.پس تمام انبیاء خاتم السلمین ﷺ کی نبی تراش مہر سے ہی موجب حدیث نبوی كُنتُ مَكْتُو باً عِندَ اللهِ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنُحدِلُ فِي طِينِهِ (میں خدا کے حضور اس وقت بھی خاتم النمین تھا جب کہ آدم ابھی پانی اور کیچڑ میں تھا ) متاثر ہیں اور آپ کا وجو د اس سب کے لئے قبل از ظهور بطور علت غائیہ مؤثر رہا ہے.پس جب تمام انبیاء ایک طرح سے خاتم النبیین کا ہی فیض ہیں تو اگر بالفرض حضرت مرزا صاحب امت محمدیہ میں آخری امتی نبی ہوں تو پھر بھی النبیین (بصیغہ جمع) کے افراد تین سے زیادہ ہزار ہا انبیاء کی صورت میں نبی تراش مہر کے فیض سے وجود میں آچکے ہیں.آنحضرت ﷺ کے ظہور پر صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ اب آپ کے بعد نبی کے ظہور کے لئے شریعت کا ملہ محمد یہ آجانے کی وجہ سے اس کی پیروی شرط ہے.والا خاتم کے نبی تراش فیض پر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مرسلین شاہد ہیں.فصل کا آخری اعتراض اب جناب برق صاحب کی اس فصل کے صرف ایک اعتراض کا جواب باقی رہ گیا ہے.وہ اعتراض یہ ہے کہ."جب حضور کی توجہ سے نبی پیدا ہو سکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ کے صحابہ کرام میں سے کوئی شخص مثلاً ابو بحر ، عمر ، علی ، این عوف، ابنِ عباس،ابنِ مسعود رضی اللہ عنہم منصب نبوت پر فائز نہ ہو سکا." (حرف محرمانه صفحه ۴۱) الجواب اس کا جواب یہ ہے کہ نبوت جزئیہ سے حصہ تو ان صحابہ کرام کو ضرور ملا د مسند احمد حنبل بروایت امامه و کنز العمال جلد ۶ صفحه ۱۱۲ و مشکوۃ باب فضائل سید المر سلین.
ΑΛ ہے.مگر منصب نبوت پر فائز ہونا ضرورتِ زمانہ کے تقاضا پر موقوف تھا.اس لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آپ کے اور نازل ہونے والے مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں.نبی کے منصب پر کسی کو خدا تعالیٰ کبھی کھڑا کرتا ہے جب زمانہ کو ایک نبی کی ضرورت ہو.بلا ضرورت کسی کو نبی بنا کر بھیجنا ایک عبث کام ہے.جس کا خدا تعالیٰ مرتکب نہیں ہو سکتا.آنحضرت ﷺ کی نبی تراش خاتم تبھی صاحب منصب نبی کے ظہور کیلئے مؤثر ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ دنیا میں ایک نبی کے مبعوث کیا جانے کی ضرورت پاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود خاتم النعیین کے معنی نبی تراش بیان کرنے کے ساتھ ہی تحریر فرماتے ہیں.خداہر ایک بات پر قادر ہے جس پر اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اپنی روح ڈالتا ہے یعنی منصب نبوت خشتا ہے پس بہت برکتوں والا ہے جس نے اس اہندہ کو تعلیم دی اور بہت برکتوں والا ہے جس نے تعلیم پائی.خدا نے وقت کی ضرورت محسوس کی اور اس کے محسوس کرنے اور نبوت کی مہر نے جس میں بعدت قوت فیضان ہے بڑا کام کیا.یعنی تیرے مبعوث ہونے کے دوباعث ہیں.“ (حقیقۃ الوحی صفحه ۹۶٬۹۵ طبع اوّل) پس جب تک خدا تعالیٰ کو یہ احساس نہ ہو کہ اس زمانہ میں ایک نبی کی ضرورت ہے اس وقت تک خاتم انہین کی نبی تراش مہر اپنا کام نہیں کرتی.اسی احساس الی کے نتیجے میں حضرت مسیح موعود پر خاتم النبین کی نبی تراش مہر کا فیضان ہوا ہے پھر فرماتے ہیں." یہ وحی الہی کہ خدا کی میلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے اس زمانہ میں محسوس کیا کہ یہ ایسا فاسد زمانہ آ گیا ہے جس میں ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے اور خدا کی مہر نے یہ کیا کام کیا کہ آنحضرت ﷺ کی
۸۹ پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی.“ (حقیقۃ الوحی صفحه ۹۶ طبع اوّل) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نبی تراش مہر اس وقت اپنی پوری تاثیر ظاہر کرتی ہے جب ساتھ ہی خدا تعالیٰ کا یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ اس زمانہ کو ایک نبی کی ضرورت ہے.پس علت موجبہ تو نبی مبعوث کرنے کیلئے خدا تعالٰی کا یہ احساس ہوتا ہے.پھر اس احساس پر جب خدا تعالٰی نبی بھیجنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر نبی تراش عمر اس وقت ایک صاحب منصب نبی کے ظہور کے لئے اپنی تاثیر ظاہر کرتی ہے.نبوت کا ملنا خدا تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے صرف مشروط قرار دیا گیا ہے.ورنہ نبوت موجبت الہی ہے.اطاعت کا لازمی نتیجہ نہیں کہ ہر اطاعت کنندہ کو مل جائے.النبین کی تفسیر حضرت مسیح موعود کی تحریرات میں جناب برق صاحب نے حرف محرمانہ صفحہ ۴۴ سے صفحہ ۵۳ تک "خاتم النبیین کی تفسیر جناب مرزا صاحب کی تحریرات میں “ کے عنوان کے تحت خاتم النبین کی تفسیر میں حضرت اقدس کے بعض اقوال پیش کئے ہیں اور پھر صفحہ ۵۳ سے لے کر صفحہ ۶۹ تیک ختم نبوت کی نئی تشریح" کے عنوان کے تحت حضرت اقدس کی بعض عبارتیں پیش کر کے پہلی فصل اور دوسری فصل کی عبارتوں میں تناقض اور تضاد دکھانے کی کوشش کی ہے.برق صاحب کی تحریروں میں تناقض جناب برق صاحب حرف محرمانہ کے صفحہ ۴۴ پر تو لکھتے ہیں.ازالہ اوہام ستمبر ۱۸۹۱ء کی تصنیف ہے اور مرزا صاحب کا دعوی رسالت کم
۹۰ از کم بیس برس پہلے تھا.(تفصیل آگے آئے گی“ مگر حرف محرمانہ کے صفحہ ۴۵ پر لکھتے ہیں.وو عجیب بات ہے کہ جناب مرزا صاحب میں نہیں بلکہ تمہیں سال تک مسلسل لکھتے رہے کہ میں نبی نہیں.حضور پر سلسلہ نبوت ختم ہو چکا ہے.اب کوئی نیایا پر اتار سول نہیں آئے گا.".( حرف محرمانه صفحه ۴۵) برق صاحب کی ان دونوں عبارتوں کا تضاد ظاہر ہے.اپنی پہلی عبارت میں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کا دعویٰ رسالت ۱۸۹۱ء سے کم از کم بیس برس پہلے کا تھا لیکن اگلے ہی صفحہ پر وہ اس کے خلاف یہ لکھتے ہیں کہ جناب مرزا صاحب ہیں بلکہ تیں سال تک مسلسل لکھتے رہے کہ میں نبی نہیں.اب قارئین کرام غور فرمائیں کہ اگر جناب برق صاحب کی پہلی بات درست ہے تو دوسری بات غلط ہے.اور اگر دوسری بات درست سمجھی جائے تو ان کی پہلی بات غلط قرار پاتی ہے.مگر اصل حقیقت جسے برق صاحب نے چھپایا ہے اور اس کے متعلق ضروری حوالہ جات پیش نہیں کئے یہ ہے کہ اپنی نبوت سے انکار اور اپنی نبوت کے اقرار کے متعلق حضرت اقدس کے دونوں قسم کے حوالے جو برق صاحب نے دونوں فصلوں میں بیان کئے ہیں.وہ نبوت کی دو تعریفیں ملحوظ رکھ کر ہیں.اور دونوں قسم کے حوالوں کا حل خود حضرت اقدس نے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ " میں یوں پیش کیا ہے کہ." جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے.صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ ہی مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطے سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے نبی اور رسول ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی
۹۱ انکار نہیں کیا بلکہ ان معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.سواب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.“ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ نبوت کے اس دعوئی سے انکار آپ کو ان معنوں میں ہے کہ آپ کوئی نئی شریعت لانے والے یا مستقل نبی نہیں.لیکن ان معنوں میں کہ آپ آنحضرت میں لے کے روحانی افاضہ کے واسطہ سے علم غیب سے حصہ پایا ہے.آپ نے کبھی نبوت سے انکار نہیں کیا.بلکہ انہی معنوں میں آپ نبی ہیں.آپ کا انکار از دعویٰ نبوت صرف اس معروف اصطلاحی تعریف نبوت کے لحاظ سے تھا جو آپ نے مکتوب ۱۸۹۹ء میں درج فرمائی تھی.چنانچہ آپ اس مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں.چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں.یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں.یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفادہ کسی نبی کے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ہو شیار رہنا چاہیئے کہ اس جگہ یہ معنی نہ سمجھ لیں.“ (مکتوب مندرجہ الحکم ۷ ار اگست ۱۸۹۹ء) اس تعریف نبوت سے ظاہر ہے کہ نبی کے لئے یا کامل شریعت لانا ضروری ہے.یا احکام جدیدہ لانا.ایسے نبی تو تشریعی نبی ہوں گے اور یا پھر یہ ضروری ہے کہ وہ بلا استفادہ کسی سابق نبی کے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہوں اور کسی دوسرے نبی کے امتی نہ کہلاتے ہوں.گویا مستقل نبی ہوں.یہ تعریف نبوت آپ پر صادق نہیں آتی تھی اس لئے علماء کی اس اصطلاحی تعریف نبوت کے ماتحت چونکہ آپ کو نبوت کا دعویٰ نہیں تھا اس لئے آپ ایسے دعویٰ نبوت سے انکار کرتے رہے اور اپنے متعلق خدا کے الہام میں ”نبی " اور "رسول" کے الفاظ کو اس تعریف کے بالمقابل بطور استعارہ اور مجاز
۹۲ قرار دیتے رہے اور اسے نبوت جزئیہ سے تعبیر کر کے مامور و محدث کے معنوں میں خود کوئی قرار دیتے رہے اور فرماتے رہے کہ آپ من وجد نبی ہیں اور من وجه امتی.یعنی مستقل نبی نہیں اور اپنی نبوت کی کیفیت یہ بیان فرماتے رہے کہ آپ خدا کی ہمکلامی سے مشرف ہیں اور وہ آپ پر بکثرت امور طبیہ ظاہر فرماتا ہے.اور یہ بھی فرماتے رہے که لغت عرفی کے لحاظ سے یہ امر نبوت ہے.چونکہ علماء کے ذہنوں میں یہی راسخ تھا کہ نبی کے لئے نئی شریعت یا احکام جدیدہ لانا ضروری ہے اور یا کم از کم کسی دوسرے نبی کا امتی نہ ہو نا ضروری ہے.اس لئے اس اصطلاحی تعریف نبوت کے لحاظ سے خاتم النبیین کے یہی معنی قرار پاتے تھے کہ آنحضرت نے کے بعد کوئی تشریعی اور مستقل نبی نہیں آسکتا اور چونکہ اصطلاحانی سمجھا ہی اسے جاتا تھا جو تشریعی یا مستقل نبی ہو اس لئے آپ نے خاتم النبیین کے یہی معنے لکھے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نہ کوئی نیا نبی آسکتا ہے نہ پرانا.لیکن نبوت جزئیہ کو آپ نے اس حدیدی سے باہر رکھا تھا.اور اسے خاتم النبیین کا افاضۂ روحانیہ قرار دیا تھا.اور اس نبوت کو حدیث نبوى لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِرَات کی رو سے امت میں باقی قرار دیا تھا.اور اسے "نوع من انواع النبوت بھی لکھا تھا (ملاحظہ ہو توضیح مرام) لیکن با ینہمہ آپ اسے معروف اصطلاح میں نبوت نہیں سمجھتے جو تشریعی نبوت یا مستقلہ نبوت ہوتی ہے.بلکہ اس اصطلاح کے مقابلہ میں ایک قسم کی مجازی نبوت قرار دیتے تھے.سچ ہے.لو لا الاعتبارات لبطلت الحكمة.تدریجی انکشاف ہم بتا چکے ہیں کہ خاتم النبیین کی یہ تفسیر کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نہ کوئی نیا نبی آسکتا ہے نہ پرانا.نبوت کی اس معروف اصطلاحی تعریف کے لحاظ سے ہے کہ نبی نئی
۹۳ شریعت یا احکام جدیدہ لاتا ہے یابلا استفادہ کسی نہبی کے خدا تعالٰی سے تعلق رکھتا ہے اور کسی دوسرے نبی کا امتی نہیں کہلاتا.مگر یہ تعریف نبوت در اصل قیاسی تھی.یعنی یہ تعریف پچھلے تمام انبیاء کو سامنے رکھ کر قیاسا تجویز کردہ تھی.لیکن حضرت اقدس پر ۱۹۰۱ء میں یہ انکشاف ہو گیا کہ نبی کے لئے شریعت کا لانا یا مستقل اور بر اور است ہونا ضروری امر نہیں.بلکہ نبی کے لئے ضروری امر صرف یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہو اور خدا تعالیٰ اس پر بکثرت امور غیبیہ ظاہر کرے اور اس کا نام نبی اور رسول رکھے.اسی تعریف نبوت کے ماتحت انبیائے سابقین نبی کہلاتے رہے.اور آیت اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں وعدہ ہے کہ اس امت کے افراد نبوت کی اس نعمت کو ( یعنی امور غیبیہ کی کثرت کو ) پاسکتے ہیں جس کی وجہ سے پہلے انبیاء نبی کہلاتے رہے.نبوت کی حقیقت ذاتیہ امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع دیا جانا ہی ہے گویا یہی امر نبوت مطلقہ ہے شریعت کا لانا.نبوت کی حقیقت ذاتیہ نہیں بلکہ یہ نبوت کی حقیقت عرضیہ ہے جو ضرورت پر صرف نبی کو ملتی ہے.غیر نبی کو نہیں ملتی.اس لئے بعض انبیاء بغیر شریعت جدیدہ کے آئے اور بعض شریعت جدیدہ لائے.جب حضرت اقدس پر یہ انکشاف ہو گیا کہ آپ کو صریح طور نبی کا خطاب دیا گیا ہے تو اس سے آپ پر منکشف ہو گیا کہ نبوت کی معروف تعریف میں ایک خامی ہے اور اصطلاح اسلام، قرآنی اصطلاح اور انبیاء کی اصطلاح میں نبی دراصل صرف اسی کو کہتے ہیں جس کا نام خدا تعالی نبی رکھے.اور اس پر بکثرت امور غیبیہ ظاہر کرے.اس پر انکشاف پر آپ نے اپنے لئے جزئی نبی بمعنی محدث کا استعمال ترک فرما دیا.اور ہمیشہ اپنے تئیں ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی قرار دیا.اور نبی کی تعریف یہ بیان فرمائی.
۹۴ اسلامی اصطلاح میں نبوت ”خدا کی طرف سے ایک کلام پا کر جو غیب پر مشتمل ہو.زبر دست پیشگوئیاں ہوں.مخلوق کو پہنچانے والا اسلامی اصطلاح کے رو سے نبی کہلاتا ہے.“ نبیوں کی اصطلاح میں نبوت " ( تقریرحمہ اللہ صفحہ ۶ طبع اوّل) جب وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت و کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر وہ امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے.جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے.قرآنی اصطلاح میں نبوت ( الوصیت صفحہ ۱ اطبع اوّل) فَلَا يُظهِرُ عَلَى غَيْبَةٍ أَحَداً إِلامَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولِ ( الحن : ۲۷) یعنی خدا تعالیٰ اپنے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہیں ملتا جو کثرت اور صفائی سے حاصل ہو سکتا ہے بجز اس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹۰ طبع اوّل) لغوی معنی میں نبی سو میں اس وجہ سے نبی کہلاتا ہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنی ہیں کہ خدا سے الہام پا کر بھرت پیشگوئی کرنیوالا اور بغیر کثرت کے یہ معنی متحقق نہیں ہو سکتے جیسا کہ ایک پیسہ سے کوئی مالدار نہیں ہو سکتا.“ آخری مخط ۲۳ مئی ۱۹۰۸ء مندرجه اخبار عام ) اور پھر ان معنوں کے متعلق مزید لکھا ہے.
۹۵ دو یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.“ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۶ طبع اوّل) ان تمام حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنی نبوت کے متعلق صراحت ہو جانے پر آپ نے نبی کے لغوی معنوں، اسلامی اصطلاح، قرآنی اصطلاح اور انبیاء کی اصطلاح کو ہم معنی قرار دیا ہے.اور اس میں یہ شرط کسی جگہ بیان نہیں فرمائی.کہ نبی کے لئے غیر امتی ہونا ضروری ہے.بلکہ ان تعریفوں کے مطابق آپ نے اپنے تئیں نبی قرار دیا لیکن معروف قیاسی تعریف کی خامی آپ پر ظاہر ہو گئی.تا ہم چونکہ آپ کے مخالف علماء کے نزدیک نبی کی اصطلاحی تعریف وہی تھی جس میں نبی کے لئے کسی دوسرے نبی کا امتی نہ ہونا شرط ہے.اس لئے اس سابقہ تعریف کے پیش نظر آپ نے کبھی بھی نبی ہو نیکا دعویٰ نہیں کیا بلکہ مخالفین کے آپ کی طرف دعوی نبوت منسوب کرنے کو پہلے کی طرح ان کا افتراء قرار دیتے رہے اور ساتھ ہی یہ وضاحت فرما دیتے رہے کہ آپ ان معنوں میں نبی ہیں جن معنوں میں قرآن نبی کی آمد کو جائز رکھتا ہے.اور نبوت کی جو معروف حقیقی تعریف سمجھی جاتی ہے اس کے بالمقابل آپ کا نام مجازی طور پر رکھا گیا ہے.ہاں خدا تعالیٰ کی اصطلاح میں اور قرآن کریم کی اصطلاح میں اور نبیوں کی اصطلاح میں اور دوسری اسلامی اصطلاح میں جو اوپر بیان ہوئی ہے یا لغوی معنوں کے لحاظ سے آپ اپنے آپ کو نبی ہی قرار دیتے رہے.اب آپ اپنے سابقہ خیال میں یہ تبدیلی ضرور فرما چکے تھے کہ آپ کا مقام نبوت محدثیت سے بالا ہے.چنانچہ آپ اشتہار ” ایک غلطی کا ازالہ میں فرماتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبریں پانے والا نبی نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کہ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہیئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار امر غیب نہیں ہیں مگر نبوت
۹۶ دو کے معنی اظہار امر غیب ہیں.“ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵ طبع اول) پھر آپ اشتہار ” ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵ طبع اول“ کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں.یہ ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پاچکے ہیں.پس منجملہ ان انعامات کے وہ نبو تیں اور پیش گوئیاں ہیں.جن کی رو سے انبیاء نبی کہلاتے رہے.لیکن قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ پر کرتا ہے جیسا کہ آیت لايُظهر عَلَى غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولِ سے ظاہر ہے پس مصفے غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا اور آیت انعمت عليهم گواہی دیتی ہے کہ اس مصفے غیب سے یہ امت محروم نہیں اور مصفے غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اور وہ طریق پر اور است بند ہے اس لئے مانا پڑتا ہے کہ اس موجبت کے لئے محض بروز ظلیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے.“ مندرجہ بالا عبارت سے ظاہر ہے کہ اب آپ کے نزدیک پہلے انبیاء بھی صرف اظہار علی الغیب یعنی امور غیبیہ پانے کی وجہ حسب منطوق آیت لايُظهِرُ عَلى غيه أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ في کہلاتے رہے ہیں.نہ کہ شریعت جدید و لانے پایر اور است مقام نبوت پانے کی وجہ سے اظہار علی الغیب کا مر تبہ پانے کا امت محمدیہ کو آیت اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں وعدہ دیا گیا ہے.مگر فرماتے ہیں کہ یہ مرتبہ اب کسی کو بر اور است نہیں مل سکتا.بلکہ اس کے پانے کے لئے محض بروز ظلیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے.گویا جو نبوت پہلے براہ راست ملتی تھی اب اس کے پانے کے لئے آنحضرت ﷺ کی پیروی شرط ہے.اس انکشاف پر خاتم النبیین کی آیت کی تفسیر میں آپ نے یہ بھی وضاحت فرما دی کہ.آنحضرت ﷺ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے.اور آپ کی توجہ
۹۷ (حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ ۷ ۹ طبع اوّل) روحانی نبی تراش ہے.“ مگر ساتھ ہی آپ نے یہ بھی تعلیم فرمایا کہ آنحضرت شریعت جدیده لانے والے انبیاء اور مستقل انبیاء میں سے آخری فرد ہیں.اور ان معنوں میں آپ نے آنحضرت ﷺ کو سب سے آخر میں ظاہر ہونے والا قرار دیا.چنانچہ آپ نے حقیقہ الوحی میں آنحضرت ﷺ کو نبی تراش قرار دینے کے علاوہ یہ بھی لکھا.اللہ وہ ذات ہے جو رب العالمین اور رحمن اور رحیم ہے.جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں بنایا اور آدم کو پیدا کیا اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور صلى الله سب کے آخر حضرت محمد مصطفے ﷺ کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل ہے.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۱ طبع اوّل) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے نزدیک خاتم النبیین بمعنی نبی تراش بلحاظ ظہور تمام مستقل انبیاء سے آخر میں تشریف لائے اب آپ کے بعد کوئی شارع اور مستقل نبی نہیں آسکتا اسی لئے آپ نے تجلیات الہیہ میں لکھا.”اب بجز محمد ہی نبوت کے سب نبو تیں پید ہیں شریعت والا نبی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے.مگر وہی جو پہلے امتی ہو.بس اس بناء پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی.“ (تجلیات الهیه صفحه ۲۵ طبع اوّل) پس انکشاف جدید پر خاتم النبین کا ما حصل آپ نے یہ قرار دیا کہ.اس امت کے لئے مکالمہ مخاطبہ الہیہ کا دروازہ کبھی پید نہ ہو گا اور بجز اس کے کادروازہ کوئی نہیں صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی ثبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے.“ (حقیقۃ الوحی صفحه ۲۸ طبع اول) ہاں اس انکشاف پر بھی آپ کی نبوت کی کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی کیونکہ 1991ء سے پہلے کی تحریرات میں بھی آپ نے اپنے متعلق نبی اور رسول کا
۹۸ اطلاق اسی مفہوم میں کیا تھا کہ آپ خدا تعالی کی ہمکلامی سے مشرف ہیں اور وہ آپ پر بھرت امور غیبیہ ظاہر کرتا ہے.اور انکشاف جدید پر بھی آپ کی نبوت کی کیفیت یہی رہی.اس میں قطعا کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.تبدیلی صرف اس بات میں ہوئی ہے کہ پہلے آپ اس نبوت کو محدثیت تک محدود قرار دیتے تھے اور اس کا نام نبوت مجد سید رکھتے تھے.مگر یہ سمجھ لینے کے بعد کہ خدا تعالیٰ نے مجھے صریح طور پر نبی کا خطاب دیا ہے.آپ نے اپنے تئیں مجھ کی نبی یا محدث کہنا ترک فرما دیا.کیونکہ مجوئی نبی اور محدث کا اطلاق تا ویلا آپ اپنے اوپر نبی کی معروف اصطلاحی تعریف کے بالمقابل کرتے رہے تھے.لیکن جب آپ پر یہ انکشاف ہو گیا کہ آپ صریح طور سے نبی ہیں مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی تو آپ نے سمجھ لیا کہ نبی کے لئے امتی ہو نا ضروری شرط نہیں.بلکہ صرف امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع پانا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی کا نام دیا جانا ہی ضروری ہے.اس انکشاف پر گو آپ کے دعوی کی کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.بلکہ صرف نبی کے لفظ کے اطلاق میں ایک رنگ میں تبدیلی ہوئی ہے.مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اب آپ کا مقام اس انکشاف سے تمام محد ثین امت سے بالا قرار پاتا ہے.تدریجی انکشاف قابل اعتراض نہیں حضرت اقدس پر اپنی شان کے متعلق یہ تدریجی انکشاف ہر گز محل اعتراض نہیں.حضرت مجدد الف ثانی" تو انبیاء کے لئے ولائت کے مقام سے نبوت کے مقام پر ترقی پانے کے بھی قائل ہیں.چنانچہ آپ نبوت کے حصول کی دوسری راہ یوں بیان فرماتے ہیں.
٩٩ راه دیگر آنست که بتوسط حصول این کمالات ولایت حصول بحمالات نبوت میستو گردد.راه دوم شاهراه است و اقرب است به صول کہ ہمالات نبوت رسد.ایس راه رفته است از انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام واصحاب ایشان به تبعیت دور اشت.“ (مکتوبات مجددالف ثانی جلد اول صفحه ۴۳۲ مکتوب نمبر ۳۰۱) ترجمہ : ”دوسری راہ نبوت پانے کی یہ ہے کہ کمالات ولایت حاصل کرنے کے واسطہ سے کمالات نبوت کا پانا میسر ہوتا ہے.یہ دوسری راہ شاہراہ ہے اور کمالاتِ نبوت تک پہنچنے میں قریب ترین راہ ہے اور اسی راہ پر بہت سے انبیاء اور ان کے اصحاب ان کی پیروی اور وراثت میں چلے ہیں.“ پس جب ولی کا تدریجا نبوت پانا قابل اعتراض نہیں تو ایک امتی نبی پر اپنی شانِ نبوت کے متعلق تدریجی انکشاف کیوں کر محل اعتراض ہو سکتا ہے.✰✰✰ آنحضرت علی پر اپنی شان کے متعلق تدریجی انکشاف پس حضرت اقدس پر جدید الهامی انکشاف سے جو تھوڑا سا لفظی اختلاف آپ کی زیرِ بحث تحریرات میں ہوا ہے وہ ہر گز محل اعتراض نہیں ہو سکتا.صرف وہ اختلاف محل اعتراض ہو سکتا ہے اور پاگلوں کی بحواس کی طرح قرار دیا جاتا ہے.جو بیک وقت اور بیک حال پایا جائے اسے ہی تناقض و تضاد کا نام دیا جاسکتا ہے.مامور من اللہ پر اس کی شان کے متعلق جو تدریجی انکشاف ہوتا ہے اور اس سے اس کے پہلے اور پچھلے کلام میں جو اختلاف پیدا ہوتا ہے نہ تو وہ حقیقی تناقض و تضاد قرار دیا جاسکتا ہے اور ا نہ اسے پاگلوں کا بجو اس کہہ سکتے ہیں.
چنانچہ دیکھئے کہ آنحضرت عے پر اپنی شان کے متعلق انکشاف بھی تدریجاً ہی ہوا ہے.ایک وقت خود رسول کریم ﷺ یہ فرماتے ہیں مَنْ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونَس بن مَتى فَقَدْ كَذِبَ (مختاری) جلد ۳ صفحه ۸۱) نیز فرماتے ہیں لا تُحَبرُونِي عَلَى موسى ( صحیح بخاری جلد ۴ صفحہ ۲۰۹) یعنی جس نے کہا کہ میں یونس سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ بولا مجھے حضرت موسی پر ترجیح نہ دو بلکہ جب ایک دفعہ کسی شخص نے آپ کو تمام لوگوں سے بہتر قرار دیا تو آپ نے فرمایا ذاك إبراهيم (صحیح مسلم جلد ۲ فضائل ابراہیم ) کہ یہ شان تو حضرت ابراہیم کی ہے.لیکن ایک دوسر ا وقت آپ پر ایسا آیا کہ آپ نے فرما یا فضلَتُ عَلى الأَنْبِيَاءِ بست (صحیح مسلم باب الفضائل ) کہ چھ ہاتوں میں تمام نبیوں سے افضل ہوں.نیز فرمایا لَو كَانَ مُوسَى حَيًّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا الْبَاعِى مرقاة جلد ۵ صفحه ۳۹۳) یعنی اگر موسی زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا کے کوئی چارہ نہ ہوتا.نیز آپ نے فرمایا.آنَا سَيِّدُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ مِنَ النَّبِيِّنَ (فردوس ویلمی ) کہ میں تمام پہلے اور پچھلے نبیوں کا سردار ہوں.اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود پر بھی اپنی شان کے متعلق تدریجی انکشاف ہوا تو یہ قابل اعتراض نہیں ہو سکتا.اور اس انکشاف کی روشنی میں خاتم النعین کی تفسیر میں مزید وضاحت بھی محل اعتراض نہیں ہو سکتی.آنحضرت ملے پر اپنے خاتم النہین ہونے کا انکشاف بھی شہ ھ میں ہوا تھا.یعنی وفات سے چند سال ہی پہلے آپ کو اپنے اس مرتبہ کا علم ہوا تھا.ایک اعتراض کا جواب لمذاہبرق صاحب کا یہ اعتراض کہ.”جو جبریل دن میں کئی بار آپ (مرزا صاحب) کے ہاں آتا تھا اس نے ایک
مرتبہ بھی آپ سے نہ کہا کہ حضرت آپ غلطی کر رہے ہیں اللہ نے آپ کو نبی بنایا ہے نبوت کا دروازہ کھلا ہے اسے بند کر کے اپنے لئے دشواریاں پیدا نہ کیجئے.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۵) یہ اعتراض محض سطحی ہے ورنہ جناب برق صاحب بتائیں کہ جب جبریل روزانہ رسول کریم ﷺ کے پاس آتا تھا تو وہ کیوں نہیں کہہ دیتا تھا کہ حضور آپ تو خاتم النبیین ہیں.اور تمام نبیوں کے سردار اور ان سے افضل ہیں.آپ یہ کیوں کہا کرتے ہیں کہ مجھے دوسرے نبیوں پر فضیلت مت دو.آپ یہ نہ فرمایا کہ میں کہ حضرت ابراہیم سب لوگوں سے افضل ہیں بلکہ در حقیقت سب نبیوں سے افضل تو خود آپ میں پس اپنے لئے دشواریاں پیدا نہ کیجئے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں آپ پر یہ اعتراض کیا گیا لو لانزِّلَ عَلَيْهِ صلى القُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً (الفرقان : ۳۳) اس نبی پر قرآن اکٹھا کیوں نہیں اتارا گیا) خدا تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا كَذلِكَ لِنُسبت به فُؤَادَكَ (الفرقان : ۳۳) بات اسی طرح ہے اور ایسا ہم نے اس لئے کیا ہے کہ تیرا دل اس طرح قرآن مجید تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنے سے مضبوط کیا جائے.پس جس طرح قرآن مجید کے تدریجی نزول میں یہ حکمت مد نظر تھی اسی طرح مامورین پر ان کی شان کے متعلق تدریجی انکشاف میں خدا تعالیٰ کے مد نظر کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے.مثلاً ایک مصلحت تو یہ ہو سکتی ہے کہ لوگ مامور من اللہ کی اکمل شان کو شروع میں سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے.اسی بنا پر آنحضرت عے پر دعویٰ نبوت کے پہلے اٹھارہ سالوں میں یہ انکشاف نہ ہوا کہ آپ خاتم النبین ہیں.بلکہ آپ نے ایمان لانے والے لوگوں کو آپ کو نبیوں پر فضیلت دینے سے منع فرمایا.لیکن جب خدا تعالیٰ نے دیکھا کہ اب امت آپ کی اس شان کی متحمل ہو سکتی ہے کہ آپ تمام
۱۰۲ انبیاء سے افضل ہیں تو اس نے آپ پر آیت خاتم النبین نازل فرما دی.جو آپ کے افضل ہونے پر روشن دلیل ہے اور پھر آپ نے بھی خود کو تمام انبیاء سے افضل قرار دے دیا.اسی قسم کی مصلحت خدا تعالیٰ کے متو نظر حضرت مسیح موعود پر ان کی شان کے تدریجی انکشاف کے بارہ میں ہے.پس مامور من اللہ پر اپنی شان کے متعلق تدریجی انکشاف میں قوم کی تربیت مد نظر ہوتی ہے.جب قوم یقین و ایمان میں خوب ترقی کر جاتی ہے تو خدا تعالی مامور من اللہ پر اس کی اصل شان کا انکشاف کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ کے مامورین از خود کسی بلند مقام کا دعویٰ کرنے میں محتاط رہتے ہیں.برق صاحب کی پیش کردہ عبارتوں کا حل برق صاحب نے حضرت اقدس کی عبارات پیش کرنے میں آپ کے کلام کو ملتقبس کرنے کی کوشش کی ہے.چنانچہ آپ حضرت اقدس کی بعض سابقہ تحریروں سے یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے آنحضرت ﷺ کو اس زمانہ میں ان معنوں میں خاتم النبیین قرار دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ بھی آنحضرت ﷺ کے بعد نازل نہیں ہو سکتے.بلکہ خاتم النبیین کی مہر لگ چکی ہے.اگر ایک دفعہ بھی حضرت عیسی کے آنے پر ان پر نزول وحی فرض کیا جائے تو یہ بھی ختم نبوت کے منافی ہے کیونکہ جب معتمیت کی مر ٹوٹ گئی اور وحی رسالت پھر نازل ہوئی شروع ہو گئی تو پھر تھو ڑ لیا زیادہ ہو پہر اور ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ خاتم الانبیاء کی عظمت دکھانے کے لیے کوئی نہیں آتا تو پھر خاتم الانبیاء کی شان میں رخنہ پڑ جاتا.اور یہ بھی لکھا ہے کہ میں اس بات پر محکم ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے نبی ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد اس امت کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گا نیا ہو یا پرانا.واضح ہو کہ حضرت اقدس نے اس قسم کی عبارتیں ختم نبوت کے ان معنوں کے پیش نظر لکھی ہیں
۱۰۳ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی تشریعی یا مستقل نبی نہیں آسکتا.پس حضرت مسیح موعود کا یہ لکھنا کہ حضرت عیسی کے امت محمدیہ میں آنے سے ختم نبوت کی مہر ٹوٹتی ہے اور ان کا آنا ختم نبوت کے منافی ہے اس کی حقیقت یہی ہے کہ امت کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ چونکہ حضرت عیسی مستقل نبی تھے.اور خاتم النبیین کی مہران کی نبوت مستقلہ پر لگی ہوئی تھی اس لئے جب تک یہ مہر ٹوٹ نہ جائے وہ مستقل نبی سے امتی نبی نہیں بن سکتے.پھر آپ کا یہ لکھنا کہ ان پر وحی نبوت کا نزول ختم نبوت کے منافی ہے اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ وحی نبوت مستقلہ یا تشریعیہ چونکہ آنحضرت ﷺ کے بعد نازل نہیں ہو سکتی.اس لئے حضرت عیسی اگر دوبارہ آئیں اور ان پر وحی نازل ہو تو چونکہ وہ مستقل نبی ہیں لا محالہ ان کی وحی مستقلہ نبوت کی وحی ہو گی.اور ایسا ہو نا ختم نبوت کے منافی ہے.لہذا حضرت عیسی اصالتا نہیں آسکتے.امتی پر وحی کے نزول کو حضرت اقدس نے منافی ختم نبوت قرار نہیں دیا.صرف مستقلہ اور تشریعی نبوت کی وحی آپ کے نزدیک منقطع ہے اور قیامت تک منقطع ہے.ایسی وحی کا نزول جماعت احمد یہ اور حضرت اقدس واقعی ختم نبوت کے منافی سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے تادم واپسیں اپنے اوپر کبھی ایسی وحی کے نزول کو دعویٰ نہیں فرمایا.پھر یہ جو فرمایا کہ خاتم الانبیاء کی عظمت دکھانے کے لئے اگر کوئی نبی آتا تو پھر خاتم الانبیاء کی شان میں رخنہ پڑ جاتا.اس عبارت میں دراصل علماء کے اس خیال کا رد ہے کہ حضرت عیسی آنحضرت ﷺ کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے آپ کے بعد نازل ہوں گے.حضرت اقدس یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرت عیسی مستقل نبی تھے تو ان کا خاتم الانبیاء کے بعد آنا خاتم الانبیاء کی عظمت کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ آپ کی شان عظیم میں رخنہ پیدا کرتا ہے.کیونکہ خاتم النہین کے ظہور کے بعد کسی مستقل یا
۱۰۴ شارع نبی کا ظہور آپ کی ختم نبوت کے منافی ہے.پس اس سے بڑھ کر خاتم الانبیاء کی شان عظیم کی کیا بتک ہو سکتی ہے کہ مسیح کا اصالت انزول تسلیم کیا جائے جو مستقل نہیں تھے جبکہ ان کا امتی بننا محال ہے.ایک اعتراض اس موقعہ پر برق صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۴۶ پر لکھا ہے.جو دیوار مسیح کی راہ میں حائل تھی وہ مسیح موعود کو بھی آنے سے روک سکتی تھی.یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ ایک دیوار ایک پرانے رسول کو روک دے اور نئے رسول کے آنے پر اس میں شگاف پڑ جائے.“ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال در حقیقت قلت مدیر اور منشاء متکلم کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود تو یہ بتارہے ہیں کہ مستقل نبی کی آمد کے لئے خاتم النعمیین کی دیوار حائل ہے مگر امتی نبی کے لئے یہ دیوار حائل نہیں ہو سکتی.کیونکہ امتی جو کچھ پاتا ہے اپنے نبی متبوع کی پیروی سے پاتا ہے اور پیروی کا راستہ اور اس پیروی سے مدارج روحانیہ کا ملنا قرآن مجید ممتنع قرار نہیں دیتا.بلکہ اس کی امید دلاتا ہے جیسا کہ مَن يُطع الله وَالرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِنَ النبيِّينَ الآية (النساء : ۷۰) سے ظاہر ہے ہمارے عقیدہ کی رو سے آنحضرت ﷺ کے بعد مستقل نبی نہ نیا آسکتا ہے نہ پرانا.اور آنحضرت ﷺ کی ظلیت میں کمالات نبوت کے حاصل کرنے کا دروازہ آیت مذکور و بالا کھلا قرار دیتی ہے.خود حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں.وہ خاتم الانبیاء ہے مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا.بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اس کی مہر کے کوئی
۱۰۵ فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا اور اس کی امت کے لئے قیامت تک مکالمہ مخاطبہ کا دروازہ کبھی پید نہ ہو گا.اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہو نا لازمی ہے.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۸،۲۷ طبع اوّل) لہذا قیامت تک یہ بات قائم ہو گی کہ جو شخص بچی پیروی سے اپنا امتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محو نہ کرے ایسا انسان نہ قیامت تک کوئی کامل وحی پا سکتا ہے نہ کامل ملم ہو سکتا ہے.کیونکہ مستقل نبوت آنحضرت ﷺ پر ختم ہو گئی ہے.مگر ظلی نبوت جس کے معنی ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پان وہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ پید نہ ہو.دو (حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۸ طبع اوّل) 1901 ء کے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں آپ فرماتے ہیں.چونکہ میں ظلی طور پر محمد ﷺ ہوں پس اس طور سے خاتم النمین کی مبر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد ﷺ کی نبوت محمد ﷺ تک ہی محدود رہی.یعنی بہر حال محمد ع ہے ہی نبی رہے نہ کوئی اور.یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمد ی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کون سا الگ انسان ہو ا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعوی کیا." (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۸ طبع اوّل) اس اشتہار کے آخری الفاظ یہ ہیں.” اب اس تمام تحریر سے مطلب میرا یہ ہے کہ جاہل مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مجھے ایسا کوئی دعوئی نہیں.میں اس طور سے جو وہ خیال کرتے ہیں نہ ہی نبی ہوں نہ رسول ہاں اس طور سے
1.4 نبی اور رسول ہوں جس طور سے ابھی میں نے بیان کیا ہے پس جو شخص میرے پر شرارت سے یہ الزام لگاتا ہے جو دعویٰ نبوت اور رسالت کا کرتے ہیں.وہ جھوٹا اور ناپاک خیال ہے مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بناء پر خدا نے بار بار میر انام نبی اللہ اور رسول رکھا مگر بروزی صورت میں میر انفس در میان نہیں ہے.بلکہ محمد ے کا ہے.اس لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا.پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی.محمد کی چیز محمد ہی کے پاس رہی علیہ الصلوۃ والسلام.“ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۱۲ طبع اول) صلى الله نیز اسی اشتہار میں تحریر فرماتے ہیں.وو براہین احمدیہ میں اور کئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا گیا تو پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آسکتا ہے ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ بے شک اس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پرانا نہیں آسکتا.جس طرح سے آپ لوگ حضرت عیسی کو آخری زمانہ میں اتارتے ہیں.اور پھر اس حالت میں ان کو نبی مانتے ہیں.بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت ﷺ سے بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے.ہیٹک ایسا عقیدہ تو معصیت ہے اور آیت ولكن رسول الله و خاتم النبین اور حدیث لانبی بعدی اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے.لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے سخت مخالف ہیں اور ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا وَلَكِن رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ اور اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت ملے کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دئیے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا میسودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھٹر کی سیرت صدیقی کی کھلی
۱۰۷ ہے.یعنی فنافی الرسول کی پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے.اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدیہ کی چادر ہے اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے.اور نہ اپنے لئے بلکہ اس کے جلال کے لئے اسی لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی.گوبر وزی طور پر مگر نہ کسی اور کو.پس یہ آیت کہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبيِّن اس کے معنی یہ ہیں کہ لیس مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالَ الدُّنْيَا وَلَكِن واب" لرجال الآخِرَةِ لِأَنَّهُ خَاتَمُ النبيِّينَ وَلا سَبِيلَ إِلى فَيُرْضِ اللَّهِ مِنْ غَيْرِ ✓ تَوَسَطِهِ.غرض میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے اور نہ میرے نفس کے رو سے اور یہ نام بحیثیت فنافی الرسول مجھے ملا ہے لہذا خاتم النبیین کے مفہوم میں فرق نہیں آیا لیکن عیسی کے اترنے سے ضرور فرق آئے گا.“ نیز فرماتے ہیں.یادر ہے کہ بہت سے لوگ میرے دعویٰ میں نبی کا نام سن کر دھو کہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں بر اور است نبیوں کو ملی ہے.لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں.میرا ایاد عوئی نہیں ہے بلکہ خدا تعالٰی کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ﷺ کے افاضیہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ ھنا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے بخشا مقام تک پہنچایا.اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی.اور میری نبوت آنحضرت مے کی ظل ہے نہ اصلی نبوت اس وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیسا کہ میرا نام نبی رکھا گیا ایسا ہی میرا نام اُمتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت عے کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے الله
۱۰۸ ملا ہے." ،، (حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ ۱۵۰ طبع اول) پھر حضرت مسیح موعود کشتی نوح میں فرماتے ہیں.وو خدا ایک اور محمد عمل ہے اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے اور کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی سیخ سے جدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم محمد ے با قل) میں فنا ہو کر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت میں خلل انداز نہیں جیسا کہ جب تم آئینہ میں اپنی شکل دیکھو گو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو.اگر چہ بظاہر دو نظر آتے ہیں صرف ظل کو ر اصل کا فرق ہے.سو ایسا ہی خدا نے مسیح موعود میں چاہا.“ (کشتی نوح صفحه ۱۵ طبع اول) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود کے نزدیک آنحضرت ﷺ کے بعد بروزی نبوت کا دروازہ کھلا ہے اور بروزی نبی کے لئے آنحضرت کا ظل ہونا ضروری ہے.گویا ایک قسم کی نبوت جو خاتم الانبیاء کا فیضان ہے بتلى الله کشتی نوح میں آپ نے ختم نبوت کے منافی قرار نہیں دی اور ایسا نبی آنحضرت ملے کا ظل ہونے کی وجہ سے آپ کے ہی وجود میں داخل ہے نہ کوئی الگ نہیں.اسی مفہوم کو مد نظر رکھتے ہوئے کشتی نوح میں اس سے دو صفحہ پہلے حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے.نوع انسانی کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد ہے.(کشتی نوح صفحه ۱۳ طبع اول) اس کی تشریح میں آپ نے مذکورہ عبارت تحریر فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح آئینہ میں اپنی شکل دیکھنے سے دو وجود نہیں بن جاتے اسی طرح پیروزی نبوت
۱۰۹ آنحضرت ﷺ سے کوئی الگ نبوت نہیں بلکہ مور دیروز ایک آئینہ کی حثیت رکھتا ہے جس میں محمد کی انوار اور محمدی نبوت کی جھلی ہوتی ہے.دیانت کا خون افسوس محترم برق صاحب نے اس حقیقت کو جانتے بوجھتے کہ حضرت اقدس بروزی نبوت کے مدعی ہیں.اور اس کا بیان آگے کشتی نوح صفحہ ۱۵ طبع اول پر موجود ہے.صفحہ ۱۳ کی مندرجہ بالا عبارت کا یہ مفہوم گھڑ کر پیش کیا ہے.آنحضرت عمه خاتم الانبیاء ہیں آپ کے بعد کوئی نیا یا پرانا نبی نہیں آسکتا.اور کہ ہر مدعی نبوت (بعد از حضور ) کاذب و کافر ہے.“ (حرف محرمانہ صفحہ ۵۲) اب ناظرین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جناب برق صاحب نے کشتی نوح صفحہ ۱۳ طبع اول سے جو نتیجہ نکالا ہے وہ منشاء متکلم کے صریح خلاف ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود نے آگے چل کر کشتی نوح صفحہ ۱۵ طبع اول میں بروزی نبوت کا دروازہ آنحضرت میلے کی ظلیت میں کھلا قرار دیا ہے.مگر برق صاحب سے کشتی نوح کی عبارت صفحہ ۱۳ طبع اول سے ہی بند دکھانا چاہتے ہیں اور اس عبارت کا یہ مفہوم از خود گھڑ کر یہ پیش کر رہے ہیں کہ حضرت اقدس کے نزدیک ہر مدعی نبوت کاذب و کافر ہے.کیا یہ دیانت داری کا خون کرنا نہیں ؟ جناب برق صاحب نے بعض اور عبارتوں میں بھی اسی طرح دیانت داری کا خون کیا ہے.برق صاحب کی تحریف چنانچہ آپ نے الفضل ۲۹ جون ۱۹۱۵ء سے بھی ایک عبارت نقل فرمائی ہے جو نہ تو حضرت مسیح موعود کی تحریر ہے اور نہ آپ کے کسی خلیفہ کی.کہ جماعت کے لئے حجت ہو سکے.بلکہ یہ سلسلہ کے ایک عالم کی تحریر ہے.مگر وہ بھی انہوں نے اس
11.طرح ادھوری پیش کی ہے کہ تحریر کنندہ کا مطلب اس قطع و برید سے بالکل مخفی ہو گیا ہے وہ عبارت یہ ہے." نیز مسیح موعود کو احمد نبی اللہ تسلیم نہ کرنا اور آپ کو امتی قرار دینا یا امتی گروہ میں سمجھنا گویا آنحضرت ﷺ کا جو سید المرسلین اور خاتم النبیین ہیں امتی قرار دینا اور امتیوں میں داخل کرنا ہے جو کفر عظیم اور کفر بعد کفر ہے." (حرف محرمانه صفحه ۵۸،۵۷) اس عبارت سے برق صاحب یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اصل اور مظہر میں کوئی فرق نہیں ہوا کرتا.اگر جناب مرزا صاحب اسی مظہر ہونے کی بناء پر خاتم الانبیاء من سکتے ہیں تو انہیں لازمناشر کی حقیقی اور غیر امتی نبی ہونا چاہیے اس لئے الفضل کی ترجمانی (حرف محرمانه صفحه ۸۰) صحیح ہے.عجیب بات ہے کہ برق صاحب نے الفضل ۲۹ جون ۱۹۱۵ء کی مندرجہ بالا عبارت کو اپنے خود ساختہ مفہوم میں لے کر حضرت مسیح موعود کے ذیل کے ارشاد کی ترجمانی قرار دی ہے.” پس چونکہ میں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں.مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوئی اور نئے نام کے بلکہ اس نبی کریم خاتم الانبیاء کا ام پاک اور اسی میں ہو کر اور ( نزول اسیح صفحه ۲ طبع اول) اس کا مظہر بن کر آیا ہوں.“ ظلی طور سے نبی کا نام پانے اور آنحضرت ﷺ کا مظہر ہونے سے صاف ظاہر ہے.اس عبارت میں نئی شریعت لانے کی نفی کرتے ہوئے ظلیت کا دعویٰ کیا گیا ہے.افسوس ہے کہ بحث کے اس مقام پر جناب برق صاحب نے دونوں عبار توں میں قطع و برید فرمائی ہے.حالانکہ ان دونوں مقامات پر ظلی نبوت ہی زیر بحث ہے نہ کہ
اصلی نبوت مظہر اصل کا ظل ہوتا ہے.اور ظلی طور پر اصل سے اتحاد ر کھتا ہے نہ کہ اصلی طور پر اس لئے ظلی نبی لازماً غیر تشریعی نبی اور امتی ہو گا.برق صاحب نے ان حوالہ جات کے ادھورا پیش کرنے میں جو کمزوری دکھائی ہے.اب میں اسے بے نقاب کرنا چاہتا ہوں.دیکھئے ۲۹ جون کے الفضل میں اس مضمون میں آگے چل کر لکھا گیا ہے." پس مسیح موعود احمد نبی اللہ ہیں جنہوں نے بعث ثانی میں ایک امتی کے آئینہ وجود میں ظہور فرمایا ہے.اور جس طرح آئینہ دوسرے کا وجود دکھانے کے لئے ہستی اور فنا کے مقام کو اختیار کرنے والا ہوتا ہے اور دُوئی اور دورنگی سے بگلی پاک.اسی طرح امتی ہونے کی حیثیت بطور آئینہ کے ہے.“ (الفضل ۲۹ جون ۱۹۱۵ء) اس عبارت سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ تحریر کنندہ حضرت مسیح موعود کے امتی ہو نیکی حیثیت کو بہر حال تسلیم کرتا ہے اور مسیح موعود کو غیر امتی نہیں سمجھتا.بلکہ نبوت کے لئے امتی کی حیثیت کو بطور آئینہ ظلیت قرار دیتا ہے.پس مندرجہ بالا عبارت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس سے پہلی عبارت میں امتی ہونے کی نفی سے صرف یہ مراد ہوئی کہ مسیح موعود خالی امتی ہونے کے حیثیت نہیں رکھتا اور محض اتیوں کا فرد نہیں بلکہ مظہریت کے لحاظ سے نبی ہے اور آئینہ ہونے کے لحاظ سے امتی.گویا ایک پہلو سے نبی ہے اور دوسرے پہلو سے امتی اور اس کی نبوت آنحضرت ﷺ کی طبل ہے نہ کہ اصلی نبوت پس وہ لاز ما غیر تشریعی امتی نہیں ہو گا.کسی شریعت جدیدہ کا حامل نہیں ہو گا.شریعت جدیدہ کے حامل نبی کیلئے مستقل نہی ہونا ضروری ہے وہ امتی نبی ہوتا ہی نہیں کیونکہ شریعت جدیدہ کا حامل وہ نبی ہوتا ہے جو پہلی شریعت میں ترمیم یا تنسیخ کرے یا اس کے حکم کو باطل کرے.مگر امتی نبی کو یہ حق حاصل نہیں ہو تا.چنانچہ حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں.
۱۱۲ وو یہ خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت ﷺ کے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے.“ پھر فرماتے ہیں.(الوصیۃ صفحہ ۱۲ طبع اوّل) ”خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمد ی شریعت کے بر خلاف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے.“ چشمه معرفت صفحه ۳۲۴-۳۲۵ طبع اوّل) افسوس ہے " نزول مسیح کا جو حوالہ برق صاحب نے نقل کیا ہے وہ بھی ادھورا نقل کیا ہے.ان کی پیش کردہ عبارت کے آگے لکھا ہے.یعنی باعتبار خلقیت کاملہ کے وہ آئینہ ہوں جس میں محمد ی شکل اور محمدی وہ محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے.“ ( نزول المسیح صفحه ۳ طبع اول) پس مسیح موعود کی نبوت ظنی ہے اور آنحضرت ﷺ کی نبوت کا انعکاس ہے.کسی الگ شریعت کے دعویٰ کو یہ مستلزم نہیں.آپ کی شریعت قرآن مجید ہی ہے آپ کے نزدیک ایسی نبوت کا دعویٰ جو شریعت جدیدہ کی حامل ہو ختم نبوت کے منافی اور کفر ہے.نہ کہ ظلی نبوت کا دعویٰ.ظلی نبوت کا اس کی ذاتی حیثیت میں آپ صرف ایک ایسا آئینہ قرار دیتے ہیں.جس میں محمد ی نبوت منعکس ہو.اس سے ظاہر ہے خاتم النبین ﷺ کی نبوت ہی آپ میں متجلی ہوئی ہے.کوئی نیا نبی ظاہر نہیں ہوا.کیونکہ آئینہ میں اپنی شکل دیکھنے سے دو وجود نہیں بن جاتے.بلکہ آئینہ میں جو صورت دکھائی دیتی ہے وہ اصل کی صورت کا ظل ہوتی ہے.اور اس کا قیام اصل سے وابستہ ہو تا ہے.اس طرح اصل اور ظل دونوں میں ایسا اتحاد ہوتا ہے کہ مور د بروز نفی وجود کا حکم رکھتا
ہے اور ے مَن تُو شدم تُو مَن شدی مَن تَن شدم تو جان شدی تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری کا مصداق ہوتا ہے.رفع اختلاف کی تین صورتیں برق صاحب نے حضرت اقدس کی تحریروں میں مختم نبوت کے متعلق بظاہر اختلاف دکھانے کے بعد ہماری طرف سے رفع اختلاف کی تین صورتیں بیان کر کے ان پر تنقید کی ہے ہماری طرف سے رفع اختلاف کی صورت اول یہ بیان کرتے ہیں کہ " جناب مرزا صاحب حضور کابروز و مظہر تھے.آپ کی ہستی حضور سے جدا نہیں تھی.آپ کی صورت میں خود حضور دوبارہ تشریف لائے اور آپ کا دعویٰ ختم نبوت کے منافی نہیں تھا.“ (حرف محرمانه صفحه ۶۰) برق صاحب کا بروز ظلیت کے دعوئی پر ایک اعتراض جناب برق صاحب ہمارے اس جواب پر جو فی الحقیقت درست ہے تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؟ شب معراج کو حضور ﷺ کی ملاقات کئی انبیاء سے ہوئی تھی.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حضرات عالم برزخ میں بقید حیات ہیں.زندگی روح کا کرشمہ ہے.اگر انبیاء کرام کی روح خود ان کے برزخی اجسام میں موجود ہے تو پھر جناب مرزا صاحب میں حضور کی روح کہاں سے آگئی تھی.کیا ایک انسان میں کئی ارواح ہوتی ہیں کہ ایک اپنے پاس رکھ لی اور باقی بانٹ دیں.آریائی فلسفے کی رو سے تو بروز و او تار کا مسئلہ سمجھ میں آسکتا ہے.کہ یہ لوگ تاریخ کے قائل ہیں لیکن اسلام کی سیدھی سادھی تعلیم ان پیچیدگیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی." (حرف محرمانه صفحه ۶۲)
۱۱۴ الجوار حضرت اقدس نہ انبیاء کے برزخی اجسام میں ایک سے زائد ارواح کے موجود ہونے کے قائل ہیں اور نہ تاریخ و حلول کے قائل ہیں.اس لئے کہ یہ دونوں عقیدے خلاف اسلام ہیں.ہاں آپ بروز کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں.اگر بروز صحیح نہ ہوتا تو پھر آیت و آخَرِينَ مِنْهُمُ میں ایسے موعود کے رفیق آنحضرت ﷺ کے صحابہ کیوں ٹھرتے.اور نفی بروز سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے جسمانی خیال کے لوگوں نے کبھی اس موعود کو حسن کی اولاد بتایا کبھی حسین اور عباس کی.لیکن آنحضرت ﷺ کا صرف یہ مقصود تھا کہ وہ فرزندوں کی طرح اس کا وارث ہو گا.اس کے نام کا وارث.اس کے خلق کا وارث.اس کے علم کا وارث.اس کی روحانیت کا وارث اور ہر ایک پہلو سے اپنے اندر اس کی تصویر دکھلائیگا.اور وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ سب کچھ اس سے لے گا.اور اس میں فنا ہو کر اس کے چہرے کو دکھائے گا.پس جیسا کہ ظلمی طور اس کا نام لے گا.اس کا خلق لے گا.اُس کا علم لے گا.ایسا ہی اس کا نبی لقب بھی لے گا.کیونکہ بروزی تصویر پوری نہیں ہو سکتی.جب تک یہ تصویر ہر ایک پہلو سے اپنے اصل کے کمال اپنے اندر نہ رکھتی ہو.پس چونکہ نبوت بھی نبی میں ایک کمال ہے.اس لئے ضروری ہے کہ تصویر یروزی میں وہ کمال بھی نمودار ہو.تمام نبی اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۱۰۹ طبع اول) ہوتی ہے." دوسرا اعتراض چونکہ ظلی نبوت اصل سے ایک رنگ میں عینیت اور اتحاد رکھتی ہے اس لئے محترم برق صاحب نے اس پر یوں اعتراض کیا ہے کہ ”اگر عینیت سے مراد
۱۱۵ وحدت اوصاف و کمالات ہو تب بھی بات نہیں بنتی.اور یہ دکھانے کے لئے کہ بات نہیں ہنتی وہ سات باتیں لکھتے ہیں.ا حضور امی تھے اور مرزا صاحب چھ درجن کتابوں کے مصنف.۲- وہ عربی تھے اور یہ عجمی.۳-وہ قریشی تھے اور یہ فارسی النسل.۴- وہ دنیوی لحاظ سے بے برگ وبے نوا تھے اور یہ زمین و باغات کے مالک.۵- انہوں نے مدنی زندگی کے دس برس میں سارا جزیرہ عرب زیر نگیں کر لیا تھا.اور جناب مرزا صاحب جهاد و فتوحات کے قائل ہی نہ تھے.وہاں قیصر و کسرٹی کے استبداد کو ختم کرنے کا پروگرام اور یہاں انگریزوں کے جابرانہ تسلط کو قائم رکھنے کے منصوبے.ے.وہاں اسلام کو آزادی کا مترادف قرار دیا گیا تھا اور یہاں غلامی کا مترادف.الغرض نہ وحدت جسم و روح کا دعویٰ درست ہے نہ وحدت روحانی و کمالات کا.تو پھر ہم کیسے باور کر لیں کہ محمد کے عین غلام احمد تھے.“ (حرف محرمانه صفحه ۶۲، ۶۳) ان سوالوں کے جواب میں ہم یہ کہنے کے لئے مجبور ہیں کہ.سخن شناس نه ای دلبر اخطا اینجا است ظلیت کے متعلق حضرت مجددالف ثانی مکتوبات جلد اول مکتوب نمبر ۲۴۸ میں فرماتے ہیں.کمل تابعانِ انبیاء بجهت کمال متابعت و فرط محبت بلکہ محض عنایئت
و موهبت جمیع کمالات انبیاء متبوعه خود را جذب سے نمایند و بلیت رنگ ایشاں منصبغ می گردند حتی که فرق نمی ماند در میان متبوعان و تابعان الا با لاَ صَالِةِ وَ التَّبْعِيِّةِ والاولية والأخرية “ دیکھئے اس عبارت میں کامل تابعین انبیاء اور ان کے متبوع انبیاء میں یہاں تک اتحاد اور عینیت مانی گئی ہے کہ وہ کلی طور پر اپنے متبوع کے رنگ پر رنگین ہو جاتے ہیں مگر ان میں اصل اور طبل کور اول و آخر کا فرق بھی تسلیم کیا ہے.آگے وہ اصل اور کل کی مبادی تعنیات میں اختلاف بھی تسلیم کرتے ہیں.مبادی تعنیات سے مرادان کی وہ مقامات ہیں جو خلیت میں ملتے ہیں.ان مبادی تعدیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ لکھتے ہیں.كيف يتصورُ المَسَاوَاتُ بين الأصل والفِل کہ اس لحاظ سے اصل اور کل میں مساوات کیسے متصور ہو سکتی ہے.پس ظل من وجہ اصل کا عین اور اس سے متحد ہو تا ہے.اور من وجه اصل کا غیر بھی ہوتا ہے.پس برق صاحب چونکہ ظلیت کی حقیقت سے بے خبر ہیں.اس لئے انہوں نے یہ باتیں لکھ دی ہیں کہ حسب و نسب اور امی ہونے ، مال رکھنے یا نہ رکھنے میں بھی ظل اور اصل میں مساوات ہونی چاہئے.اور ظل کو اصل کی طرح جنگوں میں بھی حصہ لینا چاہئے اور نئی حکومت بنانی چاہئے چنانچہ انہوں نے ایسی ہی سات باتیں حضرت اقدس کے آنحضرت ﷺ کا ظل ہونے کی تردید میں لکھی ہیں.اب پیشتر اس کے کہ ہم برق صاحب کی باتوں کا نمبر وار جواب دیں.یہ بتانا ضروری ہے کہ مبادی تعنیات کے اختلاف کو ملحوظ رکھا جائے تو برق صاحب کے تمام اعتراضات لغو ثابت ہوتے ہیں.دیکھئے سرورِ کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالی کے مظہر اتم تعلیم کئے جاتے ہیں اور الہامی کتابوں میں ان کی آمد خدا کی آمد قرار دی گئی ہے اور قرآن شریف بھی ان کی شان میں فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِینَ
112 يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ الله (الفتح : 11) کہ جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے بیعت بیعت کرتے ہیں نیز فرماتا ہے وَمَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى الانتقال : (۱۸) کہ بدر میں جو مٹھی کنکروں کی (اے نبی) تم نے کافروں کی طرف پھینکی وہ تم نے نہیں اللہ تعالیٰ نے پھینکی ہے.ان آیات میں آنحضرت ﷺ سے عقد بیعت کو خدا تعالیٰ سے عقد بیعت اور آنحضرت ﷺ کے ایک فعل کو خدا تعالیٰ کا فعل قرار دے کر بتایا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کے مظہر اور طبل کامل تھے اسی طرح انبیاء کرام جو آپ سے پہلے گذرے وہ بھی بدرجات متفاوتہ اللہ تعالیٰ کے مظاہر واظلال تھے.لیکن اس کے باوجود ان سب کے مبادی تعنیات الگ الگ تھے.جس کی وجہ سے ان کے اللہ تعالیٰ سے ظلیت میں اتحاد کے باوجود کسی کے متعلق بھی یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ باری تعالیٰ کے تمام صفات کا حامل تھا کیونکہ یہ امر شرک ہے.خدا تعالی ازلی خالق اور مالک ہے مگر ان میں سے کوئی صفت انبیاء میں موجود نہ تھی ہاں وہ اللہ تعالیٰ کے ظل ضرور تھے.حدیث میں تو سلطان عادل کو بھی ظل اللہ قرار دیا گیا ہے.گویا اسے صفت عدل میں ظل قرار دیا گیا ہے نہ کہ ازلی اور خالق ہونے میں.پھر خدا تعالیٰ معبود ہے اور انبیاء سب عابد تھے.خدا تعالیٰ کا علم غیر محدود ہے اور ان کا علم محدود تھا.خدا تعالیٰ کی قدرت غیر محدود ہے اور ان کی قدرت محدود تھی.لیکن اس کے باوجود چونکہ ان کی ذات پر صفات الہیہ کا پر تو تھا اس لئے یہ سب انبیاء مختلف درجوں میں خدا تعالیٰ کے اظلال اور مظاہر تھے.اور ان سب میں سے خدا تعالیٰ کا کامل مظہر سرور کا ئنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کا وجود باجود ہے.دوسرے انبیاء کے مبادی تعنیات تو یہ ہیں کہ یہ سب خدا تعالیٰ کے خلیفہ تھے اور مستقل نبی اور رسول تھے جن میں بعض جدید شریعت لاتے رہے اور بعض پہلی شریعتوں کے تابع تھے اور کوئی جدید شریعت نہیں لاتے تھے.گویا شارع نبی اور رسول کا مبداً تعین (مقام) تشریعی نبوت تھی.اور
• HA غیر تشریعی نبی کا مبدا تعین مستقلہ نبوت تھی.مگر آنحضرت ﷺ کو خلافت الہیہ کا بلند ترین مقام حاصل تھا.اس لئے پہلے نبی تو صرف رسول اور نبی کہلائے اور آنحضرت ﷺ کو ان سب انبیاء کرام کے مقابلہ میں خاتم النہین کا امتیازی مقام عطا فرمایا گیا.یہی حال آنحضرت ﷺ کے اظلال کا ہے.یہ سب کے سب اظلال بدرجات مختلفہ آنحضرت لے کے رنگ میں رنگین ہیں.لیکن مسیح موعود اور مہدی معہود کو آنحضرت ﷺ کا مظہر اتم ہونے کی وجہ سے خلقی طور پر نبی اللہ قرار دیا گیا ہے پس اس کا مبدأ تعیین یہ ہے کہ وہ ایک پہلو سے نبی اور دوسرے پہلو سے امتی ہے اس اصولی جواب کے بعد اب ہم برق صاحب کے تمام اعتراضات کا نمبر دار تفصیلی جواب بھی دینا چاہتے ہیں.تاجو غلط فہمی وہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اس کا کما حقہ ازالہ ہو سکے.یہ بات کہ آنحضرت میے کا مظہر دنیا میں ظاہر ہونے والا تھا آیت آخرین مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ سے مستفاد ہے.اس آیت سے پہلے خدا تعالیٰ نے آنحضرت مے کے بحث اول کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُم الخ (سورہ الجمعہ : ۳) کہ خدا نے امتیوں میں ایک رسول بھیجا ہے انہی امتیوں میں سے اور اس کے بعد فرمایا آخرینَ مِنْهُم لما يلحقوا بهم یعنی اسی رسول کا بھیجنا مقدر کیا ہے آخرین میں انہی میں سے مِنهُم کا مرجع ایک تفسیری پہلو کے لحاظ سے آخرین ہیں.جو غیر امتی ہیں کیونکہ آخرین کے معنی ہیں امتیوں کے علاوہ اور امتیوں کے علاوہ غیر اتی ہوئے.چونکہ آخرِينَ مِنْهُم میں آنحضرت ﷺ کی بروزی بعثت مراد ہے نہ اصالتا.اس لئے اس بروزی بعثت کے مظہر کے لئے غیر اُمی اور غیر عربی ہونا ضروری ہوا.خود رسول کریم ﷺ نے آخرین منهم کی تفسیر میں سلمان فارسی پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا.لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ مُعَلَّقًا بالثريا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ هُوَ لَاءِ (بخاری جلد ۳ صفحه ۱۴۵ تفسیر سوره جمعه ) که اگر ایمان ثریا پر
119 بھی چلا جائے تو اسے ایک آدمی ان لوگوں (فارسیوں) میں سے اتار لائے گا.پس آنحضرت ﷺ کے اس مظہر کامل کا غیر امی اور غیر عربی ہو نا نص قرآنی سے بھی ثابت ہے اور حدیث نبوی بھی اس کے فارسی الاصل ہونے کی مؤید ہے.پس پہلے تینوں سوالوں کا جواب اس آیت میں موجود ہے کہ یہ مظہر کامل اُمتی نہیں ہوگا.عجمی ہوگا اور فارسی النسل ہو گا.اور ان تینوں امور میں آنحضرت ﷺ سے مسیح موعود مہدی معہود کا مختلف ہونا اس کی مظہریت کا ملہ میں مانع نہیں.کیونکہ حسب و نسب میں مظهریت مراد نہیں ہوتی.اور امیت اور غیر امیت کا اختلاف بھی مظہریت میں حارج نہیں.سوال نمبر ۴ کا جواب یہ ہے کہ جب دنیوی املاک کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ بھی باوجود خدا کا مظہر اتم ہونے کے شروع میں بے برگ و نوا تھے.جب کہ خدا تعالی زمین و آسمان اور ساری کائنات کا مالک تھا تو معلوم ہوا کہ دنیوی سازوسامان اور املاک میں مظہریت مراد نہیں ہوتی.بلکہ اس کا تعلق صرف امور روحانیه اخلاقیہ اور علمیہ سے ہوتا ہے.پس جس طرح بقول برق صاحب آنحضرت علی بے برگ و نوا تھے مگر یہ بات آپ کے خدا تعالیٰ کا مظہر اتم ہونے کے خلاف دلیل نہیں بن سکتی.اسی طرح حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آنحضرت ﷺ کے درمیان اگر باغات اور زمین کا مالک ہونے کی وجہ سے کوئی فرق بھی ہو تو یہ فرق حضرت مرزا صاحب کی مظہریت کے خلاف دلیل نہیں بن سکتا.تعجب یہ ہے کہ جناب برق صاحب پانچویں سوال میں خود تسلیم کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے دس برس میں سارا عرب زیر نگین کر لیا تھا.لیکن پھر بھی وہ آپ کو حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ میں بے برگ و نوا قرار دیتے ہیں.اصل
۱۲۰ حقیقت یہی ہے کہ مظہر یت روحانی امور میں ہوتی ہے نہ املاک میں.پانچویں سوال میں وہ لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے سارا جزیرہ عرب زیر نگین کر لیا تھا.اور جناب مرزا صاحب جہاد و فتوحات کے قائل ہی نہ تھے.واضح ہو کہ حضرت مرزا صاحب نے جہاد بالسیف اس لئے نہیں کیا کہ اس کی شرائط موجود نہ تھیں.اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے.الْمُعْتَدِينَ وقَاتِلُوا فِي سَبيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمُ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَايُحِبُّ (البقرہ : ۱۹۱) کہ انہی لوگوں سے اللہ کی راہ میں لڑائی کرو جو تم سے لڑائی کرتے ہیں.تمہاری طرف سے اس حد سے تجاوز نہیں ہونا چاہیئے ( یعنی جارحانہ اقدام منع ہے اور خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو حد سے تجاوز کر نیوالے ہوں دوست نہیں رکھتا) اس آیت سے ظاہر ہے کہ جہاد بالسیف صرف مخصوص حالت اور محدود صورت میں ہی جائز ہے.جب کہ اس کی شرائط پائی جائیں.لیکن اس سے بڑا جہاد قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے.جَاهِدُ هُمُ به جهاداً كبير (الفرقان : ۵۳) کہ قرآن کریم کے ذریعہ لوگوں سے بڑا جہاد کرو.گویا اشاعت قرآن کو اللہ تعالیٰ اس آیت میں جہاد کبیر قرار دے رہا ہے.اور ہمارے زمانہ میں حضرت بائی سلسلہ احمد یہ اس جہاد کو زندہ کرنے والے ہیں.اور اب آپ کی جماعت کے ذریعہ دنیا کے مختلف ممالک میں تبلیغ کے لحاظ سے علم اسلام بلند کیا جارہا ہے.اور قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم شائع ہو رہے ہیں.اگر موجودہ زمانہ میں دشمن اسلام کو تلوار سے مٹانا چاہتا تو پھر اعتراض ہو سکتا تھا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کیوں تلوار نہ اٹھائی.چونکہ انگریزوں کے عہد حکومت میں ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل تھی اس لئے آپ اپنی جماعت کو قرآن مجید کے منشاء کے خلاف انگریزوں سے لڑائی کی اجازت نہیں دے سکتے تھے.کیونکہ یہ
۱۲۱ لڑائی جہاد فی سبیل اللہ نہ ہوتی.بلکہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہونے کی وجہ سے معصیت ہوتی.اس زمانہ میں تمام سمجھ دار مسلمان لیڈرو علماء اسلام یہی فتوی دے رہے تھے کہ انگریزوں سے لڑائی ممنوع ہے.کیونکہ انگریز مذہب میں دخل اندازی نہیں کرتے.آپ سے پہلے سید احمد صاحب بریلوی نے جو اپنے زمانہ کے مجدد تھے.انگریزوں سے جہاد نہیں کیا.بلکہ ہندوستان سے دور و دراز کا سفر اختیار کر کے سرحد پر جاکر سکھوں سے لڑائی کی ہے جو اس وقت دین میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے تھے.اور مسلمانوں کو اذان تک دینے سے روکتے تھے.حضرت سید احمد سے پوچھا گیا کہ آپ انگریزوں سے کیوں لڑائی نہیں کرتے.اس کی وجہ آپ نے یہی بتائی کہ انگریز دین میں مداخلت نہیں کرتے اس لئے ان سے دینی لڑائی جائز نہیں.سوال ششم میں برق صاحب لکھتے ہیں کہ وہاں قیصر و کسری کے استبداد کو ختم کرنے کا پروگرام تھا.یہاں انگریز کے جابرانہ تسلط کو قائم رکھنے کے منصوبے.اس کے متعلق واضح ہو کہ یہاں بھی ساری دنیا کو اسلام کے لئے فتح کرنے اور حکومت اسلامیہ قائم کرنے کا پروگرام ہے.مگر از روئے تعلیم قرآن مجید جنگ سے نہیں بلکہ صلح اور امن کے ساتھ اشاعت اسلام کے ذریعے.رسول کریم ہے تو داعی امن و صلح ہی تھے.جنہوں نے الصلح خير (النساء : ۱۲۹) کی تعلیم دی وہ تبلیغ اسلام ہی کرتے تھے.آپ نے خود مکہ کی حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا.بلکہ اہل مکہ میں امن کے طریقوں سے ہی اسلام پھیلانے کی کوشش کی.مگر چونکہ اس صلح اور امن کے روحانی داعی کو اہل مکہ نے قتل کر دینے کا فیصلہ کیا تو اس وقت خدائی اذن کے ماتحت آپ نے مکہ سے ہجرت فرمائی.مگر جب مکہ والوں نے مدینہ منورہ میں بھی آپ کو امن سے نہ بیٹھنے دیا بلکہ تلوار لے کر چڑھ آئے تو آپ کو اس مظلومیت کی حالت میں خدائی اذان کے ماتحت جنگ کے لئے میدان میں نکلنا پڑا اور خدا تعالٰی نے اپنے وعدہ
۱۲۲ کے مطابق اس مقابلہ میں آپ کو فتح دی.ورنہ اگر یہ دشمنان اسلام تلوار سے حملہ آور نہ ہوتے تو آنحضرت نے ان کے خلاف کبھی تلوار نہ اٹھاتے.آپ کو تو تلوار اٹھانے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم دیا گیا تھا اِنُ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ (الانفال : (۶۲) کہ اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو اے نبی تو بھی صلح کی طرف مائل ہو جا اور اللہ پر بھروسہ رکھے.برق صاحب کا یہ فرمانا سر اسر کذب وافتراء ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے الله انگریزوں کے جابرانہ تسلط کو قائم رکھنے کا کوئی منصوبہ کیا تھا.خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی پیشگوئیوں میں مسیح موعود کو عیسی اور ابن مریم اسی لئے قرار دیا تھا کہ وہ حضرت عیسی کے رنگ میں صرف جمالی شان کے ساتھ آئے گا.جس طرح حضرت عیسی غیر حکومت یعنی رومی حکومت کے ماتحت تھے اسی طرح امت محمدیہ کا مسیح موعود بھی غیر حکومت یعنی انگریزی حکومت کے ماتحت ہو گا اسی لئے صحیح بخاری کی حدیث میں اس کی شان میں يَضَعُ الحَرب کے الفاظ وارد ہیں یعنی وہ لڑائی کو روک دے گا.اور مسند احمد من مقبل جلد ۲ صفحہ ۴۱۱ میں بروایت ابو ہریرہ تضع الحَرْبُ أَوْزَارَهَا کے الفاظ وارد ہیں که مسیح موعود کے زمانہ میں لڑائی اپنے اوزار رکھ دے گی.پس مسیح موعود کے متعلقہ پیشگوئیاں بتارہی ہیں کہ مسیح موعود تلوار نہیں اٹھائے گا.حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ پر جہاد بالسیف نہ کرنیکا الزام ان احادیث نبویہ کی موجودگی میں سراسر نا جائز ہے.سوال ہفتم میں برق صاحب لکھتے ہیں کہ وہاں اسلام کو آزادی کا مترادف قرار دیا گیا تھا.یہاں غلامی کا مترادف.یہ اعتراض بھی کذب صریح ہے.کسی غیر حکومت کے ماتحت رہنا اگر اسلام میں ممنوع ہوتا تو آنحضرت نے اپنے صحابہ کو حبشہ میں ہجرت کرنے کا حکم نہ دیتے.جہاں کا بادشاہ عیسائی تھا.حضرت بائی سلسلہ احمدیہ کے دعوئی سے پہلے مسلمانوں نے ان شرائط کے
۱۲۳ ساتھ کہ انگریزوں کی طرف سے مداخلت فی الدین نہیں ہوگی عیسائی تسلط منظور کر رکھا تھا.پس جب ایک حکومت دین میں مداخلت نہ کرتی ہو تو ایسی حکومت میں رہنا اسلامی تعلیم کے مطابق غلامی نہیں.بلکہ از روئے فقہ اسلام ایسے ملک کو دار الاسلام ہی سمجھنا چاہیے نہ دار الحرب.حبشہ میں مسلمان آزادی کی خاطر ہی گئے تھے کیونکہ مکہ میں انہیں آزادی حاصل نہ تھی.یہ نہیں تھا کہ ہجرت کا حکم دے کر آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو ایک غلامی سے نکال کر دوسری نامی میں داخل کرنے کا منصوبہ پایا تھا.پس جس طرح صحابہ کرام حبشہ کے بادشاہ کی ماتحتی میں غلام نہ تھے.کیونکہ وہ آزادی کی خاطر حبشہ گئے تھے.اسی طرح حضرت بانی مسلہ احمدیہ انگریزوں کے ماتحت رہ کر بھی آزاد تھے.اور آپ نے اس آزادی سے یہ کمال درجے کا فائدہ اٹھایا کہ اپنے زمانہ میں ملکہ معظمہ وکٹوریہ کو نہایت زور دار طریق سے دعوتِ اسلام دی.کیا اس قسم کا مرد مجاہد غلامی کی تعلیم دینے والا قرار دیا جاسکتا ہے.رفع اختلاف کی دوسری صورت پھر برق صاحب ہماری طرف سے حضرت اقدس کی عبارتوں میں رفع اختلاف کی دوسری توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبوت دو قسم کی ہے.تشریعی و غیر تشریعی جہاں مرزا صاحب نے نبوت کا انکار فرمایا ہے وہاں تشریعی نبوت مراد ہے.اور جہاں دعویٰ کیا ہے وہاں غیر تشریعی.(حرف محرمانه صفحه ۶۳) یہ توجیہہ ہمارے نزدیک درست ہے مگر برقی صاحب لکھتے ہیں.اگر بالفرض نبوت کی دو قسمیں تشریعی و غیر تشریعی مان بھی لی جائیں تب بھی یہ حقیقت سب کے ہاں مسلمہ ہے کہ حضرت عیسی صاحب کتاب و شریعت نبی
۱۲۴ تھے.اگر جناب مرزا صاحب کے الہامات انجیل کے ہم پایہ تھے تو پھر بھی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ایک چھوٹی سی کتاب یعنی انجیل کی بنا پر حضرت عیسی کو تو صاحب شریعت رسول تسلیم کیا جائے اور جناب مرزا صاحب کی وحی کو جو میں اجزاء پر مشتمل ہے نظر انداز کر دیا جائے بات یہ ہے کہ نبی وحی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا.اور یہی وحی اس کی شریعت ہوتی ہے.انبیاء کو شرعی اور غیر شرعی میں تقسیم کرنا درست نہیں.اس مسئلہ پر مرزا صاحب کا ارشاد ذیل کتنا فیصلہ کن ہے." (حرف محرمانہ صفحہ ۲۶،۶۵) برق صاحب کی اوپر کی عبارت میں تین باتیں حل طلب ہیں.اول یہ کہ انبیاء کو شرعی اور غیر شرعی میں تقسیم کرنا درست نہیں.بنیادی امر ہونے کی وجہ سے ہم نے اسے پہلے نمبر رکھا ہے.دوئم یہ کہ آیا انجیل کوئی شریعت کی کتاب تھی یا نہیں.سوئم یہ کہ کیا حضرت مرزا صاحب تشریعی نبوت کے مدعی تھے.اس بارہ میں اقتباس جناب برق صاحب نے حرف محرمانہ صفحہ ۶۶ و صفحه ۶۷ پر اربعین نمبر ۴ صفحہ ۷ ۸۰ لے نقل کیا ہے اس کی تشریح کیا ہے اور وہ کیا فیصلہ دیتا ہے ! اب ان امور کا جواب علی الترتیب دیا جاتا ہے.امر اول.نبوت کی تقسیم از روئے قرآن مجید قرآن مجید سے صاف ظاہر ہے کہ نبوت کی دو قسمیں ہیں.تشریعی اور غیر تشریعی.اور یہ تقسیم قرآن مجید میں صاف مذکور ہے ہم حیران ہیں کہ برق صاحب کو یہ تقسیم کیوں نظر نہیں آئی.دیکھئے اللہ تعالی قران مجید میں فرماتا ہے.ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَاماً عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلاً لِكُلِّ شَيْ (سورۃ الانعام : ۱۵۵) یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی.جو نیکی کرنے والے پر نعمت پوری کرنے
۱۲۵ والی تھی اور اس میں ہر چیز کی تفصیل موجود تھی.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت موسی کو الکتاب یعنی شریعت دی گئی جو بنی اسرائیل کے لئے جامع اور مفصل تعلیمات پر مشتمل تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ قَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُل - (سورة البقره : ۸۸) کہ موسی کے بعد ہم نے کئی رسولوں کو اس کے نشان قدم پر بھیجا.یعنی موسٹی کے تابع بنایا اور حضرت عیسی کے متعلق بھی جنہیں غلطی سے برق صاحب الشریعت نبی خیال کرتے ہیں.فرمایا.و وَقَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِعِيسَى بْنِ مَرْيَمَ.(المائدہ : ۴۷) کہ ہم نے ان انبیائے موسوی کے نشان قدم پر ہی حضرت عیسی کو بھیجا.پس حضرت عیسی شریعت میں موسی کی کتاب توراۃ کے تابع تھے.یہ سب انبیاء جو موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے.شریعت موسوی کے ہی پابند تھے اور انہیں کوئی جدید شریعت نہیں دی گئی تھی.البتہ توراۃ کا مغزان پر کھولا جاتا تھا.وہ کسی شریعت جدیدہ کے حامل نہیں ہوئے تھے.صرف تو راہ کی تشریح اس کی تجدید کرنا اور اس کے مطابق فیصلہ دینا ان کا کام تھا.چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے.إِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورُ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا.(المائده : ۴۵) کہ ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور اس کے ذریعہ وہ نبی جو خدا تعالیٰ کو ماننے والے تھے.یہودیوں کے لئے حکم شریعت تھے.یعنی یہودیوں کے لئے وہ انبیاء احکام تورات کی صحیح تشریح کرتے اور اسے نافذ کرتے تھے.وہ خود کوئی الگ مستقل شریعت تورات کے علاوہ نہیں رکھتے تھے.تعجب ہے کہ برق صاحب کو قرآن کریم میں یہ آیت نظر نہیں آئی.جو نبوت کو دو
قسموں تشریعی اور غیر تشریعی میں تقسیم کرتی ہے.أمرٍ دوم برق صاحب کی دوسری بات یہ ہے کہ.اگر جناب مرزا صاحب کے الہامات انجیل کے ہم پایہ تھے تو پھر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ایک چھوٹی سی کتاب یعنی انجیل کی بنا پر حضرت عیسی کو تو صاحب کتاب و شریعت رسول تسلیم کیا جائے اور جناب مرزا صاحب کی وحی کو جو بیس اجزاء پر مشتمل ہے نظر انداز کر دیا جائے.“ (حرف محرمانه صفحه ۶۵) اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید اس بات پر گواہ ہے کہ اس کے نزول سے پہلے بنی اسرائیل کے لئے شریعت کی کتاب صرف تورات تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ ہود میں فرماتا ہے.أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَ يَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَاماً وَّرَحْمَةً (سورۃ ہود : ۱۸) اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کو قرآن کریم کے بینہ سے پہلے "امام "اور "رحمت قرار دیا گیا ہے.انجیل اور زیور وغیرہ کو جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کے بعد نازل ہوئیں امام کی حیثیت نہیں دی گئی.پس موسیٰ علیہ السلام سے بعد آنے والے نبیوں کیلئے جن میں حضرت عیسی علیہ السلام بھی شامل ہیں.قرآن مجید نے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کو ہی امام یعنی شریعت قرار دیا ہے.اس کی تائید سورۃ احقاف کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے."وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُو بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَذَا افْكَ قَدِيمٌ * وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ
۱۲۷ مُوسَى إِمَاماً وَّ رَحْمَةً وَهَذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقُ لِسَاناً عَرَبِيًّا لِيُنْذِرَ الَّذِينَ ظَلَمُو بُشْرَى لِلْمُحْسِنِينَ " (سوره الاحقاف : ۱۲، ۱۳) یعنی چونکہ کفار پر اس قرآن کی صداقت نہیں کھلی وہ کہیں گے کہ یہ تو ایک پرانا جھوٹ ہے (جو پہلے لوگ بھی بولتے آئے ) حالانکہ اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب امام اور رحمت تھی.اور یہ کتاب (قرآن مجید ) ایک ایسی کتاب ہے جو پہلی کتاب کی مصدق ہے اور عربی زبان میں ہے تاکہ جنہوں نے ظلم کیا ہے ان کو ڈرائے اور جو لوگ خدائی حکم کے مطابق کام کرتے ہیں ان کو بشارت دے.“ پس آنحضرت ﷺ سے پہلے جس قدر انبیاء حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ظاہر ہوئے جن میں حضرت عیسی علیہ السلام بھی شامل ہیں.ان کی کتاب شریعت تورات ہی تھی.جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی.انجیل کو نئی شریعت کے معنی میں کوئی کتاب قرار نہیں دیا جا سکتاور نہ قرآن مجید سے پہلے اس کتاب کو بھی امام یعنی شریعت قرار دیا جاتا.ہاں انجیل کو صرف لغوی معنی میں کتاب کہا جاسکتا ہے وہ کسی شریعت جدیدہ پر مشتمل نہیں تھی.حضرت بائی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے نزدیک بھی تمام انبیاء بنی اسرائیل تورات ہی کے تابع تھے.آپ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے کوئی الگ شریعت قرار نہیں دی فرماتے ہیں."بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی صرف خدا کی طرف سے پیشگوئیاں کرتے تھے جن سے موسوی وین کی شوکت اور صداقت کا اظہار ہو پس وہ نبی کہلائے." انجیل کے متعلق فرماتے ہیں.( بدر مارچ ۱۹۰۸ء ) انجیل کیا تھی ؟ وہ صرف توریت کے چندا کام کا خلاصہ تھی جس سے پہلے
۱۲۸ یہود بے خبر نہیں تھے گو اس پر کاربند نہ تھے.“ ( تحفہ گولڑویہ ستمبر ۱۹۰۲ ۶) پس انجیل کے احکام صرف موسوی شریعت کی تجدید اور اس کے بیان کی حیثیت رکھتے تھے.حضرت اقدس کے نزدیک وہ تو رات سے کوئی الگ شریعت کی کتاب نہ تھی.پس حضرت عیسی علیہ السلام صاحب شریعت جدیدہ نبی تھے.اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحب شریعت جدیدہ نبی ہیں.چنانچہ آپ آنحضرت ﷺ کی شان میں لکھتے ہیں.”دو ان معنوں سے خاتم الانبیاء ہیں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت ان پر ختم ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسول نہیں.اور نہ کوئی (ضمیمه چشمہ معرفت صفحه ۹ طبع اوّل) ایسا نبی جو امت سے باہر ہو.پھر فرماتے ہیں." " ہم نبی ہیں ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اللہ کو منسوخ کرے اور نئی کتاب لائے ایسے دعویٰ کو تو ہم کفر سمجھتے ہیں.“ (بدر ۵ ، مارچ ۱۹۰۸ء) ان اقتباسات سے صاف ظاہر ہے کہ تشریعی نبوت کے دعویٰ سے آپ کو سراسر انکار ہے اور ایسے دعوی کو آپ کفر سمجھتے ہیں.قاضی محمد یوسف صاحب نے بھی ہر گز آپ کے مجموعہ الہامات کو شریعت جدیدہ کے معنی میں "الکتاب المبین " قرار نہیں دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایسی واضح تحریروں کی موجودگی میں جناب برق صاحب کا قاضی محمد یوسف صاحب کی کسی تحریر سے یہ نتیجہ نکالنا کہ حضرت مرزا صاحب کے الہامات شریعت جدیدہ تھے ہر گز جائز نہیں.قاضی صاحب موصوف کبھی ایسی بات نہیں لکھ سکتے تھے.جو احمدیت سے ارتداد کے مترادف ہو.بلکہ ان کے نزدیک نہ انجیل کوئی شریعت جدیدہ کی کتاب تھی اور نہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کو شریعت جدیدہ پر مشتمل
۱۲۹ سمجھتے تھے.حضرت خلیفہ اصبح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات جمع کرنے کا حکم دینا اس لئے نہیں تھا کہ آپ کے الہامات کتاب شریعت جدیدہ ہیں.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب لاہوری احمدی کا یہ لکھنا کہ ساتھ ہی مریدوں کو اس کی تلاوت کے لئے بھی ارشاد فرمایا.حضرت خلیفۃ السیح الثانی کے ایک مخالف کی تحریر ہے.جناب برق صاحب حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے کسی قول سے ایسا نہیں دکھا سکتے ہیں کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مجموعہ الہامات کو شریعت کی کتاب قرار دیا ہے وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْض طَهِیراً.( بنی اسرائیل : ۸۹) حضرت مسیح موعود کا چشمہ مسیحی صفحہ 4 اپر یہ فرمانا کہ میں عیسی مسیح کو ہر گزان امور میں اپنے پر کوئی زیادت نہیں دیکھتا.یعنی جیسے ان پر خدا کا کلام نازل ہوا ایسے ہی مجھ پر ہو ا صرف اسی مفہوم میں ہے کہ جس طرح ان کی وحی غیر تشریعی تھی.اسطرح میری وحی بھی غیر تشریعی ہے.کیونکہ آپ صاف لفظوں میں آنحضرت ﷺ کے بعد شریعت جدیدہ لانے کو کفر قرار دے چکے ہیں.اور حضرت عیسی علیہ السلام کو شریعت جدید و لانیوالا نبی نہیں سمجھتے ہیں.برق صاحب کا ایک مغالطہ جناب برق صاحب نے ایک عبارث حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفہ المسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف بھی منسوب کی ہے کہ." یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے حتی کہ محمد ﷺ سے بھی بڑھ سکتا ہے." (حوالہ اخبار الفضل ۷ ار جولائی ۱۹۲۲ء حرف محرمانه صفحه ۵۲۰)
۱۳۰ اس عبارت کو اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہوئے جناب برق صاحب نے حسب عادت تحریف سے کام لیا ہے.۷ ، جولائی ۱۹۲۲ء کے خطبہ مندرجہ الفضل میں حضرت امام جماعت احمدیہ کے الفاظ یہ ہیں.ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کسی کو رسول کریم مے سے پڑھنے سے نہیں.اگر کسی شخص میں ہمت ہے تو بڑھ جائے مگر وہ بڑھے گا نہیں کیونکہ محمد رسول صلى الله اللہ ﷺ نے جو قربانی دی ہے کوئی وہ قربانی دینے کا اہل نہیں.یہ صاف بات ہے کہ بڑھ سکتا اور چیز ہے اور بڑھنا اور چیز.بڑھ سکنے کے یہ معنی ہیں کہ ہر شخص کے لئے آگے بڑھنے کا موقعہ ہے اور یہ راستہ اس کے لئے پر نہیں بلکہ کھلا تھا.لیکن جب کوئی شخص آپ سے بڑھا نہیں تو معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ نے جو عشق کا نمونہ دکھایا ویسا نمونہ اور کوئی نہیں دکھا سکا.عام آدمی تو الگ رہے وه نمونه ایرانیم موسی اور عیسی بھی نہیں دکھا سکے.پھر یہی مضمون ۱۱ فروری ۱۹۲۲ء کے خطبہ میں یوں بیان فرمایا ہے.اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کیا محمد مے سے بھی کوئی شخص بڑا درجہ حاصل کر سکتا ہے ؟ تو میں کہا کرتا ہوں کہ خدا نے اس مقام کا دروازہ بھی پر نہیں کیا.مگر تم میرے سامنے وہ آدمی تو لاؤ جو محمد ﷺ سے مقامات قرب کے حصول میں زیادہ سرعت اور تیزی کے ساتھ اپنا قدم اٹھانے والا ہو.ہو سکتا اور چیز ہے اور ہونا اور چیز ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے عیسائیوں سے کہہ دے کہ اگر خدا کا بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہو تا.اب اس کا یہ تو مطلب نہیں کہ واقعہ میں خدا کا کوئی بیٹا ہے.اسی طرح ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جو محمد رسول اللہ اللہ سے اپنے درجہ میں آگے نکل گیا.ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر محمد رسول اللہ ﷺ سے کوئی شخص بڑھنا چاہے تو بڑھ سکتا ہے.
۱۳۱ خدا نے اس دروازے کو بند نہیں کیا.مگر عملی حالت یہی ہے کہ کسی ماں نے ایسا کوئی بچہ نہیں جنا اور نہ قیامت تک کوئی ایسا بچہ جن سکتی ہے.جو محمد رسول اللہ اللہ سے بڑھ سکے.66 دیکھئے اس جگہ امکان عقلی تو تسلیم کیا گیا ہے.لیکن قیامت تک آنحضرت سے کسی کے فی الواقع بڑھ سکنے کا انکار کیا گیا ہے.عقیدہ آنحضرت مے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے کہ آنحضرت خدا تعالی سے قرب کے میدان میں اس سرعت سے ترقی کر چکے ہیں کہ گو ترقی کا دروازہ دوسروں کے لئے بند نہیں.لیکن کوئی شخص قیامت تک عملاً نہیں بڑھ سکے گا.گویا آنحضرت نے اس دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ کر قیامت تک سب سے آگے بڑھ جانا آپ کی قابلیت پر دال ہے.یہ نہیں کی خدا تعالیٰ نے زبر دستی کر کے آنحضرت مے کو آگے کر دیا ہے اور دوسروں کو مجبور کر کے پیچھے کر دیا ہے.ایسے عقیدہ سے آنحضرت ﷺ کی عظمت صلى ظاہر نہیں ہوتی.چنانچہ حضرت امام جماعت احمدیہ کے جولائی ۱۹۲۲ء کے خطبہ میں ر ہی فرماتے ہیں :- اگر کہا جائے کہ رسول کریم میلے کو اللہ تعالی نے خود خود ایک خاص مقام دے دیا اور لوگوں کو اس مقام تک پہنچنے سے جبر اروک دیا تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ دنیا میں کئی لوگ ایسے تھے جو رسول اللہ میہ سے اس روحانی دوڑ میں بڑھ سکتے تھے مگر چونکہ خدا نے اس کو جبر اروک دیا اور وہ خود محمد علی ہے اور لوگوں کے درمیان حائل ہو گیا.اس لئے رسول کریم اے خدا تعالیٰ کا خاص قرب حاصل کر گئے.ورنہ اور لوگ بھی ایسے ہو سکتے تھے جن کو اگر موقعہ دیا جاتا تو اس مقام کو حاصل کر لیتے.میرے نزدیک اس سے بڑھ کر اور کوئی گالی نہیں ہو سکتی.“ صلى الله برقی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈیل کی عبارت پیش کی ہے.
۱۳۲ اور بالآخر یاد رہے کہ اگر ایک امتی کو جو محض پیروی آنحضرت ملنے سے درجہ وحی اور الہام اور نبوت کا پاتا ہے نبی کے نام کا اعزاز دیا جائے تو اس سے مر نہیں ٹوتی کیونکہ وہ امتی ہے.مگر کسی ایسے نبی کا دوبارہ آنا جو امتی نہیں ہے ختم نبوت کے منافی ہے.“ (چشمہ مسیحی صفحہ ۴۱ طبع اول ) ( حرف محرمانه صفحه ۵۳-۵۴) برق صاحب کا ایک خلاف اجماع نظریہ اس پر برق صاحب لکھتے ہیں :- " مجھے اس قول سے اختلاف ہے میں جب انبیاء کی طویل فہرست پر نظر ڈالتا ہوں تو اس میں سے مجھے ہر ایک ( آدم کے سوا) امتی نظر آتا ہے" (حرف محرمانه صفحه ۵۴) یہ برق صاحب کی اپنی خانہ ساز اصطلاح ہے کہ آدم کے سوا ہر نبی امتی ہے.ور نہ کسی نبی نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے سوا کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں امتی ور ہوں یا کم از کم یہ کہا ہو کہ میں نے دوسرے نبیوں کی اطاعت اور انکے افاضۂ روحانیہ سے مقام نبوت پایا ہے.امتی حضرت اقدس کے نزدیک وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے تمام کمالات نبئی متبوع کے فیض اور پیروی سے حاصل کرے.آنحضرت مے کو خدا تعالیٰ کی یہ ہدائت کہ :- "وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفاً " (النساء : ۱۳۶) نيز آيت "يُريدُ الله ليبينَ لَكُمُ ويَهْدِيكُم مِّنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم" (النساء : ۲۷) ہر گز آنحضرت ﷺ کو ابراہیم علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کا امتی قرار نہیں دیتی.کیونکہ آنحضرت ﷺ کو ملت ابراہیم اور پہلے انبیاء کے طریقوں کی اپنی بر اور است وحی کے ذریعہ اطلاع دی گئی ہے.کیونکہ آپ کے متعلق اللہ تعالٰی فرماتا ہے مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الكتب ولا الإيمان (الشوری: ۵۳) کہ نہ تو یہ جانتا تھا شریعت کیا ہوتی ہے اور نہ ایمان کی حقیقت ووم
۱۳۳ سے واقف تھا.پس جب ملت ابراہیم اور پہلے انبیاء کے طریقوں سے آنحضرت علی کو خدا تعالیٰ کی ہر اور است وحی سے اطلاع دی گئی تو اب یہ طریقے آپ اور آپ کی امت کے لئے نئی شریعت کا حکم رکھتے ہیں جو انبیاء موسی علیہ السلام کی شریعت کے تابع تھے ان میں کسی نبی نے امتی نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا.اس لئے تمام امت کا اجماع ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت علیہ تک تمام انبیاء بالا صالت یا مستقل انبیاء تھے.جن میں سے بعض تشریعی نبی تھے اور بعض غیر تشریعی.ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہونیکا دعویٰ صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہے.برق صاحب کسی نبی کی طرف سے یہ دعویٰ ثابت نہیں کر سکتے کہ میں ایک پہلو سے نبی ہوں اور ایک پہلو سے امتی.اگر برقی صاحب ایجاد عومی کسی نبی کا علامت نہیں کر سکتے.اور وہ ہر گز ثابت نہیں کر سکتے تو ہم ان کی خود ساختہ اصطلاح کو جس سے کسی مجتہ امت کو اتفاق نہیں.کیسے درست مان سکتے ہیں.برق صاحب کے نزدیک تو آنحضرت نے بھی امتی نبی ہیں.حالانکہ آپ قرآن مجید کی شریعت جدیدہ لانے والے نبی ہیں.یہ دعویٰ کہ آنحضرت سے امتی نہیں تھے اجماع امت کے صریح خلاف ہے.اور برقی صاحب کی خانہ ساز اصطلاح محض مغالطہ اور خود فریبی ہے.حضرت اقدس کے نزدیک ”امتی نبی محض آنحضرت ﷺ کا متبع ہوتا ہے وہ کوئی جدید شریعت نہیں لاتا پس جب حضرت اقدس کی امتی نبی کی اصطلاح برق صاحب کی اصطلاح سے معنوی طور پر مختلف ہے تو برق صاحب کو اپنی خانہ ساز اصطلاح میں آدم علیہ السلام کے سوا سب انبیاء کو حتی کہ آنحضرت ﷺ کو بھی امتی نبی کہتے ہیں.یہ اصطلاح ان کی حضرت اقدس کی اصطلاح سے ایک الگ اصطلاح ہوگی.برق صاحب کی اس اصطلاح میں تو تشریعی نبی بھی امتی نبی ہے.مگر حضرت اقدس تشریعی نبی کو امتی نبی نہیں سمجھتے.اور نہ ہی مستقل اور بالا صالتہ نبی کو امتی نبی
قرار دیتے ہیں.۱۳۴ حضرت مسیح موعود کادعویٰ تشریعی نبوت کا نہیں محترم برق صاحب نے ایک اور عبارت سے بھی جو حضرت عیسی علیہ السلام کے جسده العنصری نزول کے رد میں ہے مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے اس عبارت کے الفاظ یہ ہیں.”بلاشبہ جس کلام کے ذریعہ سے یہ تمام تفصیلات ان کو معلوم ہوں گی وہ بوجہ وحی رسالت ہونے کے کتاب اللہ کہلائے گی.“ ( حرف محرمانه صفحه ۶۴ حوالہ ازالہ اوہام جلد ۲ صفحہ ۵۷۹ طبع اول) اس عبارت کے ذریعہ حضرت عیسی علیہ السلام کا اصالتا دوبارہ آنا بد میں وجہ محال ثابت کیا گیا ہے.کہ اگر وہ اصالتا نازل ہوں تو شریعت محمدیہ کی تمام تفصیلات جب ان کو بذریعہ وحی معلوم ہونگی تو چونکہ وہ بزعم علماء صاحب شریعت رسول تھے.اس وجہ سے ان پر وحی رسالت ہونے سے وہ تفصیلات کتاب اللہ کہلائیں گی.اور چونکہ مسلمان قرآن شریف کے بعد کسی کتاب اللہ کے نزول کے تاقیامت قائل نہیں اس لئے ”اسلام“ آجانے کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت اصالتا محال ہوئی.اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہوئی.اس عبارت سے جناب برق صاحب کو یہ کہنے کا حق ہر گز نہیں پہنچتا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر امتی نبی کے دعوی کی صورت میں جو وحی نبوت خلفیہ نازل ہوتی تھی وہ انہی معنوں میں وحی رسالت قرار دی جاسکتی ہے.جن معنوں میں ایک تشریعی نبی کی وحی رسالت کتاب اللہ قرار دی جاسکتی ہے.کیونکہ حضرت مرزا صاحب نے صفائی سے اپنا عقیدہ یہ بیان کر دیا ہے کہ آپ ہر گز تشریعی نبوت کے مدعی نہیں اور
۱۳۵ ایسے دعویٰ نبوت کو آپ کفر سمجھتے ہیں.تشریعی نبی آپ کے نزدیک وہ ہوتا ہے جو شریعت جدیدہ کا حامل ہو یا مستقل نبی ہو نیکی صورت میں اس پر کوئی نیا حکم شریعت نازل ہو یادہ سابقہ شریعت میں کوئی ترمیم و تنسیخ کرے.برق صاحب کی دروغ بانی برق صاحب نے حرف محرمانہ صفحہ ۶۶،۶۵ پر حضرت اقدس کی کتاب اربعین نمبر ۴ صفحہ ۷، ۸ طبع اول سے بھی ایک عبارت پیش کی ہے جس سے آپ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ گویا حضرت بانی سلسلہ احمد یہ خوو تشریعی نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ عبارت یہ ہے."ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے ؟ جس نے اپنی وحی کے ذریعه ت چند امر اور نمی بیان کئے.اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا.وہی صاحب الشریعت ہو گیا.پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں.کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نبی بھی.مثلاً یہ الهام براہین احمدیہ میں درج ہے اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے.جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إن هذا لفي الصُّحُفِ الأُولَى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وموسی (الا علی : ۲۰۰۱۹) یعنی قرآنی تعلیم تورات میں بھی موجود ہے اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء (مکمل طور پر ) امر اور نبی کا ذکر ہو تو یہ بھی باطل ہے کیونکہ اگر تورات یا قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہو تا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی.غرض یہ سب خیالات فضول اور کو تاہ اندیشیاں ہیں.ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے.تا ہم خدا تعالیٰ
۱۳۶ نے اپنے نفس پر حرام نہیں کیا کہ تجدید کے طور پر کسی اور مامور کے ذریعہ سے یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو جھوٹی گواہی نہ دو.زنانہ کرو خون نہ کرو اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنا میان شریعت ہے جو مسیح موعود کا بھی کام ہے." اربعین کی عبادت کی تشریح اربعین نمبر ۴ صفحه ۸۴۷ طبع اول) محترم برق صاحب نے جو حوالہ پیش فرمایا ہے یہ ان کے اس مقصد کا کہ ہر نبی شریعت جدیدہ لاتا ہے.مؤید ہونے کی بجائے اس کے صریح خلاف ہے.اس کا ما حصل جیسا کہ اس حوالہ کے آخری فقرات سے ظاہر ہے یہ ہے کہ ایک مجدد دین پر بیان شریعت کے طور پر سابقہ شریعت کے ایسے احکام نازل ہو سکتے ہیں کہ جھوٹ نہ بولو، جھوٹی گواہی نہ دو، زنانہ کرو، خون نہ کرو وغیرہ اور ان کا نزول کوئی جدید شریعت نہیں کہلا سکتا.صرف بیان شریعت ہی ہو گا.اس لئے گو یہ احکام شریعت مطلقہ کی ذیل میں آتے ہیں.مگر شریعت جدیدہ نہیں کہلا سکتے کیونکہ اس عبارت میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے جب حضرت مرزا صاحب کے نزدیک قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے تو آپ کی وہ وحی جو قرآنی امرونسی پر مشتمل ہے صرف بیان شریعت ہوئی نہ کہ شریعت جدیدہ.شریعت جدیدہ کی وحی تو صرف تشریعی نبی پر نازل ہو سکتی ہے.دیکھئے آپ اپنی کتاب "الوصیت " میں جو " اربعین“ سے بعد کی تصنیف ہے اور جس کا نام اسکی اہمیت کو ظاہر کر رہا ہے فرماتے ہیں..وو یہ خوب یادر کھنا چاہیے کہ نبوت تشریعی کادرواز و بعد آنحضرت نے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اسکی پیروی معطل.بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے.“ (الوصیت صفحه ۱۲ طبع اول)
۱۳۷ اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے نزدیک تشریعی نبی کے لئے نئے احکام لانا یا سابقہ شریعت میں ترمیم و تنسیخ کرنا یا اس کے کسی حکم کو معطل کرنا ضروری ہے.پھر حضور ” تجلیات الہیہ “ میں فرماتے ہیں.نہی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمه و مخاطبہ المیہ حاصل کرے اور تجدید دین کیلئے مامور ہو یہ نہیں کہ کوئی دوسری شریعت لائے کیونکہ شریعت آنحضرت مال پر ختم ہے اور آنحضرت کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے.جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت نے کی پیروی سے حاصل کیا ہے.“ (تجلیات الهیه صفحه و طبع اول) پھر چشمہ معرفت میں جو آخری کتابوں سے ہے تحریر فرماتے ہیں.”ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولا آنحضرت عله خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ شریعت اگر کوئی ایساد عویٰ کرے تو بلا شبہ وہ بے دین اور مردود ہے.“ چشمه معرفت صفحه ۳۲۴ طبع اول) ” خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے.اور محمدی شریعت کے خلاف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے.“ چشمه معرفت صفحه ۳۲۴،۲۵ طبع اول) محترم برق صاحب کی خدمت میں یہ عبارتیں پیش کرتے ہوئے ہم اس تعجب کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اگر وہ احمدیت کے محرم راز تھے تو انہوں نے کیوں ان عبارتوں کے خلاف حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر تشریعی نبوت کے دعوی کا
۱۳۸ الزام لگایا ؟ کیا ایک محقق فرض شناس اور ذمہ دار مصنف کی شان سے یہ بعید نہیں کہ وہ کسی مصنف کی عبارت کے منشاء کے خلاف معنی لے کر اس مصنف کے خلاف کوئی الزام قائم کرے اور اس ناجائز طریق سے اس کے مقابل بحث کو جیتنا چاہے کہ ایسا طریق اختیار کرنے والے کی کتاب حرف محرمانہ کی بجائے حرف مجرمانہ بلکہ تحریف مجرمانہ کہلانے کی مستحق نہیں ؟ رفع اختلاف کی تیسری صورت اربعین نمبر ۴ صفحہ ۷ ۸۰ کے مذکورہ حوالہ کو جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بطور بیان شریعت امر و نہی قرآنی کے نزول کا ذکر فرمایا ہے اور اسے مجدد کا ایک کام بتایا ہے پیش کرنے کے بعد جناب برق صاحب ہماری طرف سے حضرت اقدس کی نبوت کے متعلق تحریروں سے رفع اختلاف کی تیسری صورت یوں بیان کرتے ہیں.اس الجھن کا حل جماعت احمدیہ کے امام جناب میاں محمود احمد صاحب نے پیش فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ 1901ء سے پہلے کے وہ حوالے جن میں آپ (مرزا صاحب) نے نبی ہونے سے انکار کیا ہے.اب منسوخ ہیں.اور ان سے حجت پکڑنی غلط ہے.66 (حقیقۃ النبوۃ صفحہ ۱۲۱) ( حرف محرمانه صفحه ۶۷) کو حضرت امام جماعت احمدیہ نے یہ فقرات اربعین کے اس حوالہ کے متعلق نہیں فرمائے جن کا حل ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے ہی پیش کر چکے ہیں.تاہم مسئلہ نبوت مسیح موعود کے اثبات کے سلسلہ میں آپ نے حضرت مسیح موعود کی سابقہ تحریرات کے متعلق جو انکار نبوت کے بیان پر مشتمل ہیں یہ بات ضرور لکھی ہے کہ ایسی تحریرات اب منسوخ ہیں.امام جماعت احمدیہ کے اس
۱۳۹ بیان کو جناب برق صاحب نے پانچ وجوہ کی بنا پر محل نظر قرار دیا ہے.سپلی وجہ برق صاحب نے یوں لکھی ہے کہ.علم سے زیادہ الہامات کی حقیقت کو دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور اس کی تحریروں کو منسوخ کرنا ایک امتی کا کام نہیں ہو سکتا ( حضرت امام جماعت احمد یہ اور جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امتی نہیں ناقل) ایک تحصیلدار کو یہ اختیار حاصل نہیں ہو تا کہ وہ گورنر کے احکام کو منسوخ کرتا پھرنے.“ الجواب ( حرف محرمانہ صفحہ ۶۷) اس جگہ بات یوں نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی بیان کو حضرت امام جماعت احمدیہ نے از خود منسوخ قرار دیا ہو بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پہلے بیان کو جو اس معروف تعریف نبوت کے ماتحت تھا جس میں نبی کے لئے امتی نہ ہونا ضروری قرار دیا تھا.خدا تعالیٰ کی طرف سے صریح طور پر نبی کا خطاب ملنے پر تبدیل فرمایا ہے.چنانچہ آپ حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں.اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا.مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے
1 ۱۴۰ امتی.“ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں :- (حقیقۃ الوحی صفحه ۱۵۰،۱۴۹ طبع اول) میں تو خدا تعالیٰ کی وحی کا پیروی کرنے والا ہوں.جب تک مجھے اس کی طرف سے علم نہ ہوا میں وہی کہتارہا جو اوائل میں میں نے کہا اور جب مجھ کو اس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اس کے مخالف کہا.میں انسان ہوں مجھے عالم الغیب ہونے کا دھوئی نہیں.بات یہی ہے جو شخص چاہے قبول کرے یا نہ کرے.“ (حقیقۃ الوحی صفحه ۵۰ ۱ طبع اول) اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام پر اپنی فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی اس وحی کی بنا پر کی ہے جو آپ پر اپنی نبوت کے بارہ میں بارش کی طرح نازل ہوئی.پس آپ نے اپنے پہلے الہامات کی جو آپ کو نبی اور رسول قرار دیتے تھے یہ تاویل کہ آپ محدث یا جزوی نبی ہیں.خدا تعالیٰ کی متواتر وحی کی روشنی میں ترک فرما دی ہے اور خود کو صریح طور پر نبی متواتر وحی کی بنا پر قرار دیا ہے مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی.لہذا اس جگہ تحصیلدار کے گورنر کے حکم کو منسوخ کرنے کی مثال صادق نہیں آتی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی نبوت کے متعلق پہلے عقیدہ کو خود ترک فرما کر اس میں تبدیلی کا ذکر فرما دیا ہے.جیسا کہ آپ کے اوپر کے بیان سے ظاہر ہے پس حضرت امام جماعت احمدیہ نے نسخ کے متعلق جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے بیان کی بنا پر تحریر فرمایا ہے.دوسری وجہ دوسری وجہ برق صاحب نے یہ لکھی ہے :-
۱۴۱ ایک رسول کے ثلث صدی کے الہامات کو بہ یک کشش قلم منسوخ کر دیا ایک ایسا اقدام ہے جس کے لئے سند کی ضرورت ہے.الخ.الجواب اس کے جواب میں واضح ہو کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کا زیر بحث بیان اپنے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سند رکھتا ہے.جس کا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے.تیسری وجہ تیسری وجہ برق صاحب نے بصورت اعتراض یہ لکھی ہے.اگر کوئی صاحب چونتیس برس کی وحی کو یہ کہہ کر مسترد کر دے کہ وہ آخری آٹھ برس کی وحی سے متصادم ہوتی ہے تو ایک غیر احمدی لازما اس نتیجہ پر پہنچے گا که یا تو پہلی وحی غیر خدائی تھی یا آخری اس لئے کہ خدا کی وحی میں تضاد و تصادم نہیں ہوتا.66 الجواب (حرف محرمانه صفحه ۶۸) اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ بے شک خدا کی وحی میں تضاد و تصادم نہیں ہو تا.مگر اس جگہ خدا تعالیٰ کی وحی میں تضاد و تصادم موجود نہیں بلکہ تضاد و تصادم صرف اجتہاد کا ہے.آپ کی وحی میں براہین احمدیہ کے زمانہ سے نبی اور رسول کے الفاظ موجود ہیں.جن کی معروف تعریف نبوت کے مقابل آپ تاویل کرتے رہے.اور بعد کی متواتر وحی کی بنا پر آپ نے وہ تحویل ترک فرما دی اور اجتہاد میں تبدیلی کوئی قابل اعتراض امر نہیں.اس اجتہاد میں تبدیلی کا باعث بعد کا الہام ہے.
۱۴۲ چوتھی وجہ برق صاحب نے چوتھی وجہ یہ لکھی ہے کہ :- " ہم صفحات گذشتہ میں دافع البلاء اور کشتی نوح کے چند اقتباسات درج کر چکے ہیں جن میں مرزا صاحب خاتمہ نبوت کے صریحاً قائل ہیں یہ دونوں کتا ہیں ۱۹۰۲ء میں لکھی گئی تھیں.اگر صرف نشاء کی تحریرات منسوخ ہیں تو پھر ان اقتباسات کا تطابق آخری تحریرات سے کیسے ہو گا.“ (حرف محرمانہ صفحہ ۶۸) الجواب 1901ء کی تحریرات کا منسوخ ہونا کوئی تسلیم نہیں کرتا.غالبا یہ برق صاحب سے سموا لکھا گیا ہے کیونکہ آگے وجہ پنجم میں خود انہیں مسلم ہے کہ احمدی انشاء سے پہلے کی ان تحریرات میں نسخ کے قائل ہیں جو نبوت کی تشریح کے متعلق ہیں.برق صاحب نے دافع البلاء سے حرف محرمانہ صفحہ ۶۰ پر جو حوالہ نقل فرمایا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں.تھا.66 " قادیان اسی لئے محفوظ ر کھی گئی کہ وہ خدا کے رسول اور فرستادہ قادیان میں ( دافع البلاء صفحه ۵ طبع اول) اور کشتی نوح سے حرف محرمانہ کے صفحہ ۵۲ پر جو حوالہ جناب برقی صاحب نے نقل فرمایا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں :- کیا ضروری نہیں کہ اس امت میں بھی کوئی نبیوں اور رسولوں کے رنگ میں نظر آوے جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں کا وارث اور ان کا ظل ہو.“ یہ دونوں عبارتیں آپ کے دعویٰ نبوت ورسالت کے ثبوت میں ہیں نہ کہ نفی میں.لہذا ۱۹۰۲ء سے بعد کی تحریرات سے ان کا کوئی اختیف موجود نہیں کیونکہ
۱۴۳ ان تحریرات میں ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہونے یا ظلی نبی ہونے کی تردید نہیں کی گئی.بلکہ ایسی نبوت کا دعویٰ تسلیم کیا گیا ہے.پانچوین وجہ برق صاحب نے پانچو میں وجہ یہ لکھی ہے کہ :- اگر 190 ء سے پہلے کی تحریرات منسوخ کر دی جائیں تو مرزا صاحب کی دو تہائی تحریرات سے ہاتھ دھونا پڑیگا.اگر ایک رسول کی دو تہائی تحریرات کو نا قابل اعتماد قرار دیا جائے تو باقی ماندہ ایک تہائی سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا.“ (حرف محرمانه صفحه ۶۹) اس کے جواب میں واضح ہو کہ سابقہ تحریرات میں نسخ صرف ایک تاویل کا ہوا ہے نہ کہ الہامات کا.اور تاویل اجتہاد پر مبنی ہوتی ہے.اگر بعد کے الہامات سے ثابت ہو جائے کہ وہ تاویل بدیں وجہ تبدیلی کے قابل ہے.تو بعد کے الہامات سے اعتماد نہیں اٹھ سکتا.کیونکہ پہلے کے تمام الہامات بھی سے تطابق رکھتے ہیں.اختلاف صرف اجتہادی تاویل کی وجہ سے پایا گیا ہے.جسے الہام الہی نے منسوخ کر دیا.دیکھئے رسول کریم ﷺ اپنی نبوت کے زمانہ میں ایک لمبے عرصہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے عبادت کرتے رہے.اور مدینہ منورہ میں ہجرت کے سولہ ماہ بعد جو وحی نازل ہوئی اس نے قبلہ بیت المقدس کی جائے کعبہ قرار دے دیا اب کیا بعد والی وحی کے متعلق جو کعبہ کو قبلہ قرار دیتی ہے کوئی مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ تیرہ سال بعد کی وحی ہونے کی وجہ سے نا قابل اعتماد ہے ہر گز نہیں.اسی طرح پہلے آنحضرت ﷺ اپنی شان کے متعلق انکسار طبع کی بنا پر یہ
۱۴ ۴ فرماتے رہے کہ مجھے یونس علیہ السلام پر فضلیت نہ دو.اور مجھے موسی علیہ السلام پر جی مت دو.لیکن نبوت کے آخری سالوں یعنی شدھ میں جب آیت خاتم النبیین نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ میں تمام انبیاء سے چھ باتوں میں افضل ہوں.نیز فرمایا اگر مایہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا چارہ نہ تھا.اب کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان یہ کہہ سکے کہ آنحضرت ﷺ کی بعد کی وحی جس میں آپ کو خاتم النبین قرار دے کر سب انبیاء سے اس خصوصیت میں ممتاز کر دیا گیا اور جس کے نتیجہ یں آپ نے تمام انبیاء سے افضل ہونے کا دعویٰ فرمایا وہ نا قابل اعتماد ہے ؟ اور آپ کا اپنی شان کے متعلق پہلا بیان ہی حجت ہے کہ آپ حضرت موسیٰ اور یونس سے افضل الله نہیں ہیں.ہر گز نہیں ہر گز نہیں اور ہر گز نہیں.کوئی مسلمان آنحضرت ﷺ کی بعد کی وحی کو نا قابل اعتماد قرار دینے کی جرات نہیں کر سکتا.کیونکہ یہ مسلم امر ہے کہ ية خذ من النبي الآخر فالا ھو کہ نبی سے آخری بات کی جاتی ہے.☆☆☆
۱۴۵ باب دوم عليه السلام حرف محرمانہ کے دوسرے باب، متعلق مسیح موعود کا جواب برق صاحب نے اپنی کتاب کے دوسرے باب میں مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی پر تنقید اور نکتہ چینی کی ہے جس کا خلاصہ ان کے الفاظ میں ہی یہ ہے کہ :- - کسی مجدد مسیح ابن مریم یا مسیح موعود کے آنے کا ذکر قرآن میں موجود نہیں.بعض احادیث میں صرف مسیح ابن مریم کے نزول کا ذکر ملتا ہے تو کیا ایسے مسیح پر اگر وہ ابھی جائے تو ایمان لانا ضروری ہے ؟ (حرف محرمانه صفحه ۷۲ ) علماء اسلام جو احادیث جناب مرزا صاحب کے سامنے پیش کرتے تھے ان تمام کا تعلق مسیح ابن مریم اور دجال وغیرہ سے تھا.اگر یہ تمام احادیث محرف اور موضوع میں تو پھر انسی کی بنا پر آپ کا دعویٰ مسیحیت اور نبوت کیونکر جائز ٹھہر !؟ (ایضاً صفحہ ۷۶) کس حدیث کی بنا پر جناب مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت کیا ہے اس میں مسیح موعود کے آنے کا ذکر نہیں بلکہ مسیح بن مریم کے نزول کا ذکر ہے اگر آپ کو یقین ہے کہ قرآن کی رو سے حضرت مسیح وفات پاچکے ہیں تو لازماً اس حدیث کو غلط قرار دینا ہو گا.اس حدیث کو لے کر پہلے بصد تکلف مثیل مسیح بنا اور پھر مسیح بن مریم ہونے کا اعلان کرنا اور اس کے بعد اپنے آپ کو مسیح موعود سمجھنا اور آخر میں ایک مستقل رسول ( یہ جناب برقی صاحب کا افترا ہے.حضرت مرزا صاحب نے مستقل رسول ہونے کا کبھی
۱۴۶ دعوی نہیں کیا.ناقل ) بن کر مسلمانوں کے سامنے آجانا کہاں تک جائز ہے ؟ مرزا صاحب درست فرماتے ہیں کہ ”تمام حدیثیں تحریف معنوی اور لفظی سے آلودہ یا (ایضاً صفحه ۷۵) سرے سے موضوع ہیں.“ احادیث کے متعلق مسیح موعود کا مسلک اور برق صاحب کی مفتریات برق صاحب نے اپنی ان عبارات میں حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ کے خلاف کئی غلط بیانیوں اور مفتریات سے کام لیا ہے.پر ہے.اول یہ کہ آپ کے دعویٰ مسیح موعود کی بنیاد نزول مسیح ابن مریم کی حدیث دوم یہ کہ آخر میں ایک مستقل رسول بن کر مسلمانوں کے سامنے آئے.سوم یہ کہ آپ تمام حدیثوں کو تحریف معنوی اور لفظی سے آلودہ یا سرے سے موضوع قرار دیتے ہیں.یہ تینوں باتیں درست نہیں.پہلی بات کا جواب پہلی بات کا جواب یہ کہ آپ کے دعوی کی بنیاد احادیث پر نہیں بلکہ آپ اپنے دعوئی کی بنیاد قرآن مجید اور اپنے الہام پر رکھتے ہیں.چنانچہ آپ اعجاز احمدی صفحہ ۳۰ ،۳۱ پر فرماتے ہیں.” میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں.“ دوسری بات کا جواب دوسری بات کا جواب کہ آپ کے نزدیک تمام حدیثیں تحریف معنوی اور
۱۴۷ لفظی سے آلود و یا سرے سے موضوع ہیں یہ ہے کہ اس قول میں برق صاحب سراسر افتراء سے کام لے رہے ہیں.کیونکہ حضرت اقدس نے کسی جگہ بھی تمام حدیثوں کے متعلق یہ الفاظ تحریر نہیں فرمائے.بلکہ صرف بعض احادیث کے متعلق ایسا خیال ظاہر کیا ہے چنانچہ ایک ایک عبارت جو خود برق صاحب نے بھی حضرت اقدسن کے کلام سے اپنی کتاب حرف محرمانہ صفحہ ۷۶ پر نقل کی ہے ان کی تردید کے لئے کافی ہے.اس عبارت میں حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں." یہ کمال درجہ کی بد نصیبی اور بھاری غلطی ہے کہ یک لخت تمام حدیثوں کو ساقط الاعتبار سمجھ لیں یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح بن مریم کے آنے کی پیشگوئی ایک اول درجہ کی پیشگوئی ہے جس کو سب نے بالا تفاق قبول کر لیا ہے.“ (ازالہ اوہام جلد ۲ صفحہ ۷ ۵۵ طبع اوّل ) پس مسیح موعود کی آمد کے متعلق پیشگوئی کو جو حدیثوں میں بیان ہوئی آپ سچا سمجھتے ہیں.اور یک دم تمام حدیثوں کو ساقط الاعتبار سمجھ لینا کمال درجہ کی بد نصیبی اور بھاری غلطی قرار دیتے ہیں.آپ نے صرف ان احادیث کو ساقط الاعتبار قرار دیا ہے.جو علماء آپ کے خلاف پیش کرتے تھے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں.خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں جو یہ پیش کرتے ہیں تحریف معنوی یا لفظی میں آلودہ ہیں یا سرے سے موضوع ہیں.“ (اربعین نمبر ۳ صفحه ۱۸ طبع اوّل) یہی الفاظ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۲ طبع اول پر لکھتے ہیں.پھر حضرت اقدس اعجاز احمدی صفحہ ۲۸ طبع اول پر تحریر فرماتے ہیں." ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام حدیثوں کو رڈی کی طرح پھینک دو بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ان میں سے وہ قبول کرو جو قرآن کے منافی و معارض نہ ہوں تا ہلاک نہ ہو جاؤ.کسی
۱۴۸ حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ عیسی کی عمر دو ہزار یا تین ہزار برس ہو گی.بلکہ ایک سو تیس برس کی عمر لکھی ہے اب بتلاؤ کیا ایک سو بیس برس اب تک ختم ہوئے یا نہیں ؟“ چھ صفحہ ۲۹ پر لکھتے ہیں." پھر وہ "حکم" کا لفظ جو " مسیح موعود کی نسبت " صحیح بخاری میں آیا ہے اس کے ذرا معنی تو کریں ہم تو اب تک یہی سمجھتے تھے کہ حکم اس کو کہتے ہیں کہ اختلاف رفع کرنے کے لئے اس کا حکم قبول کیا جائے اور اس کا فیصلہ گروہ ہزار حدیث کو بھی موضوع قرار دے ناطق سمجھا جائے جس شخص کو خدا نے کشف والہام عطا کیا.اور بڑے بڑے نشان اس کے ہاتھ پر ظاہر فرمائے اور قرآن کے مطابق ایک راہ اس کو دکھلادی تو پھر وہ بعض ظنی حدیثوں کے لئے اس روشن اور یقینی راہ کو کیوں چھوڑے گا.کیا اس پر واجب نہیں ہے کہ جو کچھ خدا نے اسے دیا ہے اس پر عمل کرے.اور اگر خدا کی پاک وحی سے حدیثوں کا کوئی مضمون مخالف پاوے اور اپنی وحی کو قرآن کے مطابق پادے اور بعض حدیثوں کو بھی اس کے مؤید دیکھے تو ایسی حدیثوں کو چھوڑ دے اور ان حدیثوں کو قبول کرے جو قرآن کے مطابق ہیں اور اس کی وحی کی مخالف نہیں.“ اعجاز احمدی صفحه ۳۰،۲۹ طبع اوّل) ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے متعلق کچھ ایسی حدیثیں بھی ہیں جو آپ کی تائید کرتی ہیں اور صحیح بخاری کی حدیث کو جس میں مسیح موعود کو حکم قرار دیا گیا ہے.آپ صحیح حدیث سمجھتے ہیں اور مخالفین پر اپنی تائید میں اسے بطور حجت پیش کرتے ہیں.پھر آپ محولہ بالا اقتباس سے آگے تحریر فرماتے ہیں :- ” پھر مولوی ثناء اللہ صاحب کہتے ہیں کہ آپ کو مسیح موعود کی پیشگوئی کا خیال کیوں دل میں آیا.آخر وہ حد بیثوں سے ہی لیا گیا.پھر حدیثوں کی اور علامات کیوں
۱۴۹ قبول نہیں کی جاتیں.یہ سادہ لوح یا تو افتراء سے ایسا کہتے ہیں یا محض حماقت سے.ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعویٰ کی حد یث بنیاد نہیں.بلکہ قرآن اور وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی.ہاں تائید ی طور پر ہم وہ حد یشیں بھی پیش کرتے ہیں.جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں.اگر حدیثوں کا دنیا میں وجود بھی نہ ہو تا تب بھی میرے اس دعویٰ کو کچھ حرج نہ پہنچتا تھا.ہاں خدا نے میری وحی میں جابجا قرآن کریم کو پیش کیا ہے چنانچہ تم براہین احمدیہ میں دیکھو گے اس دعویٰ کے متعلق کوئی حدیث بیان نہیں کی گئی.جابجا میری وحی میں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کو پیش کیا.“ اعجاز احمدی صفحه ۳۰-۳۱ طبع اول) پس برق صاحب کا یہ لکھنا کہ آپ کے نزدیک تمام حدیثیں تحریف لفظی اور معنوی سے آلودہ یا سرے سے موضوع ہیں.حضرت اقدس کی ان تحریرات کی روشنی میں سراسر باطل ہے.لہذا ان کا یہ خیال بھی باطل ہے کہ آپ نے مسیح موعود کا دعویٰ حدیثوں کی بنا پر کیا ہے.حدیثیں تو آپ صرف تائید دعویٰ میں پیش کرتے ہیں ورنہ اپنے دعوی کی بنیاد آپ قرآن مجید اور اپنے الہامات پر قرار دیتے ہیں.ایک اور عبارت کا حل پھر جناب برق صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک اور عبارت یوں پیش کرتے ہیں :- " مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جز و یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو.بلکہ صد با پیشگوئیوں میں سے یہ ایک پیشگوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں.“ (ازالہ اوہام جلد ا صفحه ۱۴۰ طبع اوّل)
۱۵۰ برق صاحب اس حوالہ کی رو سے مسیح موعود پر ایمان لانا ضروری قرار نہیں دیتے حالانکہ اس حوالہ کا مفاد صرف یہ ہے کہ نزول مسیح کا عقید و اسلام کے ارکان میں سے نہیں.بلکہ منجملہ پیشگوئیوں کے ایک پیشگوئی تھی.اسلام کے ارکان پانچ ہیں.کلمیه شهادت، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ اور نزول مسیح کا عقیدہ واقعی ان پانچ رکنوں میں سے نہیں بلکہ ان پیشگوئیوں میں سے ہے جن کا ظہور سے پہلے اجمالی طور پر ماننا ضروری ہوتا ہے.ہاں جب مسیح موعود کا ظہور ہو گیا اور آنحضرت ﷺ کا یہ نائب بطور حکم و عدل ظاہر ہو گیا تو اس کے فیصلوں کو قبول نہ کرنا اور اس سے عداوت رکھنا منشاء ایزدی کی مخالفت کرتا ہے.خود حضرت اقدس مسیح موعود پر بعد از ظهور مسیح موعود ایمان لانا ضروری قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :- الْكَافِرِينَ 66 66 فَانَا ذَالِكَ الْمَظْهرُ المَوْعُودُ وَالنُّورُ الْمَعُهُودُ فَآمَنْ وَلَا تَكُنُ مِنَ خطبہ الہامیہ صفحه ۷۸ اطبع اوّل) یعنی میں وہ مظہر موعود اور نور معہود ہوں پس (اے مخاطب) تو ایمان لا اور منکروں میں سے مت ہو.“ حدیث میں تو ولی کی مخالفت کے بارہ میں بھی وارد ہے.مَنْ عَادِی ولیالی فقد آذنته للحرب.پس جب ایک ولی سے عداوت بھی خدا سے لڑائی کے مترادف ہے تو جس کو خدا نے امت کے لئے حکم بنا کر بھیجا اس کی عداوت اور مخالفت کیوں کر اس سے زیادہ بُرا پھل نہیں لائے گی؟ اور کیوں وہ سلب ایمان کا موجب نہ ہو گی.کفر کا لفظ ہمارے نزدیک ایک اضافی اصطلاح ہے.اسی طرح دائرہ اسلام سے خروج کا لفظ کبھی کسی قبیح فعل کی شدت ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے یعنی اطاعت کے دائرہ سے نکل جانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے.
۱۵۱ دیکھئے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.سبَابُ المُسلِم فَسُوقُ وَقِتَالَهُ كُفَرُ اس حدیث میں گو کفر کا لفظ فسق کے مقابلہ میں رکھا گیا ہے تاہم یہ کفر کا لفظ اس جگہ اضافی حیثیت ہی رکھتا ہے.اور ایسا شخص جو ایک مسلمان کو قتل کر دے اگر پانچوں ارکان اسلام کے ماننے کا دعویدار ہو تو وہ اسلام کے ظاہری دائرہ سے خارج نہیں ہو جاتا.ہاں تخلیطاً ایسے شخص کے لئے کا فریا خارج از اسلام کے الفاظ کا استعمال بر محل ہوگا.کیونکہ اس کا یہ فعل کا فروں والا ہے مسلمانوں والا نہیں.اسی طرح رسول اللہ یہ بھی فرماتے ہیں."مَنْ مَشَى مَعَ ظَالِمٍ لِيُقَوِيَهُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ ظَالِمُ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ.“ ( مشکو تباب الظلم ) کہ جو شخص ایک ظالم کے ساتھ اس کی تائید کے لئے چلا یہ جانتے ہوئے کہ وہ ظالم ہے تو بے شک وہ اسلام سے نکل گیا.“ اس حدیث میں خرج من الاسلام کے الفاظ بھی اضافی کفر کو بیان کرنے کے لئے وارد ہیں.ایسے لوگ کفر کے باوجود اسلام کی ظاہری چار دیواری سے خارج نہیں سمجھے جاتے اور مسلمان ہی کہلاتے ہیں.سیح موعود کا ذکر قرآن مجید میں یہ درست ہے کہ قرآن مجید میں مسیح موعود کے نزول کی پیشگوئی کھلے کھلے اور صریح لفظوں میں موجود نہیں.انڈابرق صاحب نے مسیح موعود کی جو عبار تیں اس بارہ میں پیش کی ہیں ان کا مفاد بھی صرف یہی ہے کہ قرآن مجید میں مسیح موعود کی پیشگوئی کھلے لفظوں میں موجود نہیں.لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اشارۃ النفس کے طور پر ایک میل مسیح کی آمد کی خبر قرآن کریم میں دی گئی تھی.چنانچہ حضرت ہائی سلسلہ
۱۵۲ احمد یہ فرماتے ہیں." وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ الاية - “ (النُّور : ۵۶) " خلفاء کے تقرر کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا تھا اسی وعدہ میں وہ خاتم الخلفاء بھی شامل ہے اور نص قرآنی سے ثابت ہے کہ وہ موعود ہے جو مخلط ایک نقطہ سے شروع ہو گا وہ ختم بھی ایک نقطہ پر ہی ہو گا.پس جیسے وہاں موسوی سلسلہ میں خاتم صحیح ہے یہاں بھی وہ خاتم خلفاء ہے.اس لئے یہ اعتقاد اسی قسم کا ہے کہ اگر کوئی انکار کرے اس امت میں مسیح موعود نہ ہو گاوہ قرآن سے انکار کرتا ہے.اور اس کا ایمان جاتا رہے گا.یہ بالکل واضح بات ہے." (ملفوظات مسیح موعود جلد ۲ صفحه ۲۵۱،۲۵۲ طبع اول) پھر آپ شہادت القرآن میں فرماتے ہیں :- مماثلت تامہ کاملہ استخلاف محمدی کی استخلاف موسوی سے مسیح موعود کا آنا ضروری ٹھہراتی ہے.جیسا کہ آیت مندرجہ ذیل سے مفہوم ہوتا ہے.یعنی آیت وعد اللهُ اللَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمَ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الذِينَ مِن قبلهم کن - ( النور :۵۶) صاف بتارہی ہے کہ ایک مجدد حضرت مسیح کے نام پر چودھویں صدی میں آنا ضروری ہے.کیونکہ امر استخلاف محمدی امر استخلاف موسوی سے اسی حالت پر اتم اور اکمل مشابہت پیدا کر سکتا ہے.جب کہ اول زمانہ اور آخری زمانہ با ہم نہایت درجہ کی مشابہت رکھتے ہوں.اور آخری زمانوں کی مشابہت دو باتوں میں تھی.ایک امت کا حال ابتر ہونا اور دنیا کے اقبال میں ضعف آجانا اور دینی دیانت اور ہمدردی اور تقویٰ میں فرق آجانا.دوسرے ایسے زمانہ میں ایک مجدد کا آنا جو مسیح موعود کے نام پر آوے.اور ایمانی حالت کو پھر حال کرے.“ (شهادت القرآن صفحه ۶۸ طبع اوّل) پس برق صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ مسیح موعود یا ایک میل
۱۵۳ مسیح کی پیشگوئی قرآن مجید میں مذکور ہی نہیں.اس لئے کسی مسیح موعود کا ماننا ہمارے لئے ضروری نہیں.تیسری بات کا جواب اب رہ گئی تیسری بات جو برق صاحب نے کہی تھی کہ آخر میں ایک مستقل رسول بن کر مسلمانوں کے لئے آجانا کہاں تک جائز ہے ؟ (حرف محرمانہ صفحہ ۷۵) بُهتان عظیم یہ جناب برق صاحب کا بہتان عظیم ہے ان کا یہ کلام کوئی حرف محرمانہ نہیں بلکہ حرف مجرمانہ ہے.کیونکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کسی تحریر و تقریر میں مستقل رسول ہونے کا دعویٰ نہیں کیا.یہ جناب برق صاحب کا حضرت مسیح موعود پر صریح افتراء ہے وہ آپ کا کوئی قول یا تحریر اپنی اس بات کی تصدیق میں پیش نہیں کر سکتے.حضرت اقدس نہ تو نبوت کی تشریعی اور غیر تشریعی تقسیم کے لحاظ سے مستقل رسول ہونے کے مدعی ہیں اور نہ آپ نے نبوت کی اس تعریف کے لحاظ سے نبوت کا دعوی کیا ہے جو جناب برق صاحب کے ذہن میں ہے جس کی رو سے ان کے نزدیک ایک شخص کا شریعت جدیدہ کا حامل ہو نا ضروری قرار پاتا ہے.برق صاحب کی ایک الجھن کا حل جناب برق صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۷۸ تا ۸۳ میں یہ الجھن پیش کرتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے مسیح موعود ہونے کادعویٰ بھی کیا ہے اور ازالہ اوہام جلد اول کے صفحہ 190 طبع اوّل پر یہ بھی لکھا ہے." اس عاجز نے جوشیل موعود ہونے کادعویٰ کیا ہے.جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں یہ کوئی نیاد عویٰ نہیں دعویٰ مسیح موعود سے متعلقہ عبارتوں کے بالمقابل یہ عبارت پیش کرنے کے بعد برق صاحب لکھتے "
۱۵۴ ہیں ہم ان بیانات سے کیا نتیجہ اخذ کریں ؟ الجواب کاش برق صاحب تعصب سے الگ ہو کر حقیقت بین نگاہ سے حضرت اقدس کی اس عبارت کے اگلے حصہ پر غور کر لیتے جو خود انہوں نے اپنی کتاب کے صفحہ ۸۰ پر حضرت صاحب کے اقتباس کے طور پر یوں درج کی ہے.اس عاجز نے جوشیل موعود ہونے کا دعوی کیا ہے جس کو کم فہم لوگ صحیح موخود خیال کر بیٹھے ہیں یہ کوئی نیاد ھوئی نہیں میں نے یہ دعویٰ ہر گز نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں.جو شخص یہ الزام مجھ پر لگا دے وہ سراسر مفتری اور کذاب ہے.بلکہ میری طرف سے عرصہ ۸،۷ سال سے برابر یہی شائع ہو رہا ہے کہ میں مثیل مسیح ہوں یعنی حضرت عیسی کے بعض روحانی خواص طبع اور عادات و اخلاق وغیرہ کے خدا تعالیٰ نے میری طبع میں بھی رکھتے ہیں.“ (ازالہ اوہام جلد اصفحہ ۱۹۰ طبع اوّل) اس عبارت میں جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں سے مراد غیر احمدی علماء کا خیالی مسیح موعود ہے یعنی مسیح ابن مریم.آپ ان کے خیالی مسیح موعود ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں رکھتے.جس کی تشریح آپ نے یہ فرما دی ہے کہ میں نے یہ دعویٰ ہر گز نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں.پس اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ کم فہم لوگ آپ کے دعوئی سے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ حضرت مرزا صاحب ان خیالی مسیح موعود اور خیالی ابن مریم ہونے کا دعوی کرتے ہیں.آپ نے ان کی تردید فرمائی ہے کہ میں ایسا مسیح موعود نہیں.بلکہ ان کے ذہنی اور خیالی موعود کا میل ہوں اور آپ نے جن عبارتوں میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے ان سے مراد صرف یہ ہے کہ آپ مسیح بن مریم کے مثیل ہیں اور پیشگوئیوں میں دراصل مسیح بن مریم کا میل ہی مراد
۱۵۵ ہے.اصالتا ابن مریم کا لفظ اہطور استعارہ ہے اور آپ کو لائن مریم کا نام بھی پیشگوئیوں میں بطور استعارہ دیا گیا ہے.اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر آپ نے یہ لکھا ہے.سویقیناً سمجھو کہ نازل ہونے والا این مریم یہی ہے.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۶۵۹ طبع اوّل) اور اسی استعارہ کی تشریح میں آپ نے کشتی نوح میں لکھا ہے.اس (اللہ) نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا...مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفی کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینوں کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں مجھے مریم سے عیسی بنایا گیا.کشتی نوح صفحہ ۴۶ طبع اوّل) اسی حقیقت کو مولانا روم یوں بیان کرتے ہیں.ہنچو مریم جان از آسیب حبیب حامله شد از مسیح دلفریب (مثنوی) یعنی ایسے مومن کی جان پر جو مریم صفت ہو جب حبیب کا سایہ پڑا تو وہ دلفریب مسیح سے حاملہ ہو گئی.پس یہ مومن کی ولادت معنوی ہی ہے جس سے وہ پہلے بزرگوں کا مثیل بتا ہے.کاش آپ اس حقیقت کو سمجھتے.پس حضرت اقدس کا مسیح موعود ہونے سے انکار کم فہم لوگوں کے خیالی مسیح موعود ہونے سے انکار ہے اور آپ کا مسیح موعود کے دعوئی کا اقرار صرف ان معنی میں ہے کہ آپ مسیح بن مریم کے فیل ہیں اور پیشگوئیوں کا موعود مسیح در اصل میل مسیح تھا نہ کہ حقیقت ان مریم پس مسیح موعود ہونے سے انکار الگ جہت ہے اور اقرار دوسری الگ جہت سے ہے لہذا دونوں قسم کی عبارتوں میں کوئی تناقض اور تضاد موجود نہیں لولا
۱۵۶ الاعتبارات لبطلت الحكمة برق صاحب کا غیر منطقی اعتراض برقی صاحب نے ایک دلچسپ جواب کے عنوان کے ماتحت حضرت مسیح موعود کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کی ہے.مگر خدا نے میری نظر کو پھیر دیا میں براہین کی وحی کو نہ سمجھ سکا کہ وہ مجھے مسیح موعود بناتی ہے یہ میری سادگی تھی جو میری سچائی پر عظیم الشان دلیل تھی.ورنہ میرے مخالف مجھے بتلائیں کہ میں نے باوجودیکہ براہین احمدیہ میں مسیح موعود بنایا گیا بارہ برس تک یہ دعویٰ کیوں نہ کیا اور کیوں براہین میں خدا کی وحی کے مخالف لکھ دیا.“ (اعجاز احمدی صفحہ ۷ طبع اوّل) برق صاحب کو اس عبارت پر یہ اعتراض ہے کہ تضاد تو پیدا ہوا جناب مرزا صاحب کے کلام میں اور اس کا جواب دیں آپ کے مخالفین کی دلچسپ منطق ہے.اعتراض کا جواب (حرف محرمانه صفحه ۸۲) برق صاحب کے اعتراض کا یہ خزف ریزہ قابل تعجب ہے میں حیران ہوں کہ انہیں یہ منطق کیوں سمجھ میں نہیں آئی.مخالفین کا اعتراض تھا کہ آپ نے براہین کے زمانہ میں عیسی کے آنے کا اقرار کیوں کیا ؟ حضرت اقدس اس اقرار کو اپنی سادگی اور عدم تصنع پر محمول قرار دیتے ہیں اس طرح کہ براہین احمدیہ میں خدا تعالی کے الہام میں آپ کو عیسی قرار دیا گیا تھا.مگر پھر بھی سادگی سے آپ عیسی کی آمد کے منتظر رہے اور یہ نہ سمجھے کہ اس الہام میں مجھے مسیح موعود قرار دیا گیا ہے ظاہر ہے کہ اگر آپ کے دل میں بناوٹ ہوتی تو آپ اسی وقت وفات مسیح کا اعلان کر کے مسیح موعود ہونے کا
۱۵۷ دعوی کر دیتے.لیکن چونکہ آپ نفسانیت اور بناوٹ سے پاک تھے اس لئے آپ اپنے پہلے رسمی عقیدہ پر جمے رہے کہ حضرت مسیح زندہ ہیں اور وہ دوبارہ آئیں گے اور خدا تعالیٰ کی وحی کو آپ نے ظاہر پر حمل نہ کیا.بلکہ اس وحی کی یہ تاویل کی کہ میں حضرت صبح سے شدید مشابہت رکھتا ہوں اور جب تک خدا تعالیٰ نے آپ پر اصل حقیقت خود نہیں کھولی کہ مسیح بن مریم فوت ہو گئے ہیں اور پیشگوئیوں کے مطابق آپ ہی صحیح موعود ہیں تو آپ پہلے رسمی عقیدہ پر ہی جھے رہے.ان مخالفین میں سے اگر کوئی اس سارے معاملہ کو آپ کی سادگی اور عدم تصنع پر محمول قرار نہ دے تو اسے بجز اس کے اور کیا جواب دیا جا سکتا تھا کہ اگر تمہیں آپ کی سادگی اور عدم تصنع مُسلم نہیں تو پھر تم ہی بتاؤ اس کا موجب اور کیا امر ہے ؟ اسی صورت میں یہ مطالبہ آپ کا مخالفین سے کیونکر ناجائز قرار دیا جاسکتا ہے کیوں یہ صحیح منطق پر مشتمل نہیں ؟ جناب برق صاحب ! دو اور دو چار یا دو اور دو اٹھارہ کی مثال اس جگہ صادق نہیں آسکتی.بلکہ یہ مثال صادق آتی ہے کہ جب کوئی دو اور دو کو چار نہ مانے تو پھر اس سے سوال ہو گا کہ پھر تم خود ہی بتاؤ کہ دو اور دو چار نہیں ہوتے تو کتنے ہوتے ہیں ؟ یہ سوال اس موقع پر صحیح منطق ہو گا.کاش برق صاحب حقیقت بین نگاہ سے غور فرماتے.یمنی سوال کا جواب باقی رہا آپ کا یہ سوال کہ بارہ سال تک کیوں آپ کو وحی کا مطلب سمجھ نہ آسکا.ہر رسول کا فرض منصبی ہوتا ہے کہ وہ اپنی وحی کی تبلیغ کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ.آپ نے اس وحی کا جو مطلب سمجھا تھا کہ میں مسیح سے اشد مشابہت رکھتا
۱۵۸ ہوں.اور ان کا مثیل ہوں.یہ بھی تو ان الہامات کا ضروری مفہوم ہی تھا.چنانچہ اس کی آپ نے اشاعت بھی فرمائی.ہاں اس وقت آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ انکشاف نہیں ہوا تھا کہ مسیح بن مریم وفات پا چکے ہیں.اس لئے آپ میل مسیح کے دعوی کے ساتھ مسیح موعود کا دعویٰ نہیں کر سکتے تھے.یہ انکشاف آپ پر بعد میں ہوا کہ آپ ایسے مثیل مسیح ہیں جو مسیح موعود ہے.تدریجی انکشاف میں اللہ تعالیٰ کے کچھ مصالح ہوتے ہیں جن پر آنکھیں بند کر کے اعتراض کرنا درست نہیں.آخر رسول کریم علی پر اپنے خاتم النبین ہونے کا انکشاف بھی اپنی وفات سے چند سال پہلے ہوا تھا.یعنی پانچ ہجری میں اور اپنی نبوت کے متعلق انکشاف بھی آپ پر شروع کے الہامات میں ہی نہیں ہو گیا تھا بلکہ اس انکشاف میں بھی تدریج سے کام لیا گیا تھا.جب تک آنحضرت ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی مسئلہ کے بارہ میں انکشاف حقیقت نہیں ہو جاتا تھا آپ اہل کتاب کے طریق پر عمل فرمالیتے تھے.چنانچہ حدیث میں آیا ہے."كان" يُحِبُّ مُوا فَقَةً أهل الكِتابِ فِيمَا لَم يُو مريه ( مسلم باب مدل النبي شعرة) یعنی آپ ان امور میں اہل کتاب سے موافقت پسند کرتے تھے جن امور میں آپ پر وحی سے انکشاف نہ ہو جاتا تھا.“ اور اپنی شان کے متعلق تدریجی انکشاف بھی آنحضرت ﷺ کی زندگی کے واقعات سے ظاہر ہے جس پر قبل از میں روشنی ڈالی جا چکی ہے.
۱۵۹ باب سوم مسیح و هیل مسیح برق صاحب نے اپنی کتاب کے تیسرے باب میں مندرجہ بالا عنوان قائم کر کے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بعض عبارتوں سے جن میں سے اکثر الزامی جوابات کے رنگ میں ہیں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ آپ نے حضرت مسیح کے اخلاق و خواص کا یوں جائزہ لیا ہے.ا.حضرت مسیح کا علم مرزا صاحب سے کم تھا.۲- خدائی تائید مرزا صاحب کے ساتھ زیادہ تھی.-۳- حضرت مرزا صاحب اپنی تمام شان میں حضرت مسیح سے بہت بڑھ کر تھے.-۴- صبح شرابی تھے.۵ ومبد زبان تھے.۶ وه نهایت غیر مہذب الفاظ استعمال کرتے تھے.ے وہ مسمریزم جیسے مکروہ اور قابل نفرت عمل میں کمال رکھتے تھے.وہ روحانی تاثیروں میں ضعیف، نکتے اور قریب قریب ناکام تھے.۹ اس درماندہ انسان کی پیشگوئیاں بے معنی تھیں.ا.اس کی نبوت کے ابطال پر کئی دلائل قائم تھے.آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی عادت تھی.۱۲- ان کی معجزانہ پیدائش ایسی ہی تھی جیسے برسات میں کیڑے پیدا ہوں.۱۳ - وہ رجولیت سے محروم تھے اور ہیجڑہ ہونا کوئی صفت نہیں.
17+ ۱۴- گندی گالیوں کی وجہ سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کر لیا تھا.۱۵- آپ کی تین دادیاں اور نانیاں زناکارہ تھیں.-10 (حرف محرمانه صفحه ۹۲، ۹۳) پھر برق صاحب نے مقدمہ چشمہ مسیحی سے حاشیہ صفحہ ب طبع اوّل سے حضرت بانی سلسلہ کی یہ عبارت بھی نقل کی ہے.”ہمارے قلم سے حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت جو کچھ خلاف شان نکلا ہے وہ الزامی جواب کے رنگ میں ہے.اور وہ دراصل یہودیوں کے الفاظ ہم نے نقل کئے ہیں.“ پھر اسی جگه ای کتاب کا یہ حوالہ بھی درج کیا ہے." جس طرح یهود محض تعصب سے حضرت عیسی اور ان کی انجیل پر حملے کرتے ہیں اسی رنگ کے حملے عیسائی قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ پر کرتے ہیں.عیسائیوں کو مناسب نہ تھا کہ اس طریق بر میں یہودیوں کی پیروی کرتے.“ (چشمہ مسیحی صفحه ج طبع اوّل) ان ہر دو عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے یسوع مسیح کے متعلق جو سخت الفاظ لکھے ہیں وہ دراصل ” نقل کفر کفر نباشد“ یہودیوں کے اعتراضات نقل کئے ہیں ورنہ آپ حضرت عیسی کو جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے.قرآن مجید کے مطابق خدا کا نبی اور رسول اور برگزیدہ مانتے ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں.عد میں وہ کچی محبت اس (صبح) سے رکھتا ہوں جو تمہیں ہر گز نہیں اور جس نور کے ساتھ میں اسے شناخت کرتا ہوں تم ہر گزا سے شناخت نہیں کر سکتے.اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ خدا کا ایک پیارا اور برگزیدہ نبی تھا.“ دعوت حق صفحہ ۵ مشمولہ حقیقۃ الوحی طبع اول)
141 مگر چونکہ عیسائی قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ پر گندے اور ناپاک اعتراضات کر رہے تھے.اس لئے جب وہ اعتراضات میں حد سے بڑھ گئے تو پھر آپ نے مجبور ہو کر الزامی جواب کا طریق اختیار کیا.اور عیسائیوں کے سامنے ان کے مزعوم مسیح کی شخصیت کے متعلق از روئے انجیل بحث کی.یہ قرآن مجید کا واقعی احسان تھا کہ وہ حضرت مسیح کو راستباز اور خدا کا بر گزیدہ نبی پیش کرتا ہے.ورنہ اگر عیسائیوں کے معتقدات ملحوظ رکھے جائیں تو پھر واقعی ان کی نبوت ثابت نہیں ہو سکتی جب تک انجیل اپنی اصل روح میں نہ پڑھی جائیں.چونکہ عیسائیوں نے اپنے زعم میں انجیل کی روسے انہیں خدا مان رکھا تھا اور دوسری طرف آنحضرت ﷺ پر نا پاک حملے کر رہے تھے.اس لئے ان پر ان کے طریق اعتراضات کی قباحت واضح کرنے کے لئے ان کے سامنے یہودیوں کے اعتراضات پیش کئے گئے تا انہیں سمجھ آسکے کہ جس طرح یہودیوں کا مسیح پر اعتراضات کرنے کا طریق ایک بلاک طریق تھا.اسی طرح عیسائی آنحضرت ﷺ پر جو اعتراضات کر رہے ہیں ان میں انہوں نے بھی یہودیوں کی ناپاک روش اختیار کر رکھی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے یہودیوں کے اعتراضات کو عیسائیوں کے مقابل میں پیش کرنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ انہیں لینے کے دینے پڑ گئے.اور انہیں سمجھ آگئی کہ ان کا اسلام اور بانی اسلام پر ناپاک حملے کرنے کا طریق نامناسب تھا.اسی لئے انہیں وہ باتیں مسیح کے متعلق از روئے انجیل سنا پڑی ہیں.جن کا جواب ان کے لئے سخت مشکل ہے.حضرت اقدس نے ان اعتراضات میں اپنا کوئی عقیدہ بیان نہیں کیا تھا.بلکہ عیسائیوں کو صرف یہ سمجھانا مقصود تھا کہ جس قسم کے اعتراضات وہ اسلام اور بانی اسلام پر کر رہے ہیں ان سے بڑھ کر اعتراضات خود انجیل اور عیسائیوں کے معتقدات کی رو سے یہودیوں نے یسوع مسیح کے خلاف پیش کر رکھے ہیں.عیسائیوں کو اسلام اور بانی اسلام پر حملہ کرنے سے پہلے اپنے گھر کی خبر لینی
چاہیے.اس طرح التزامی جواب کا طریق اختیار کرنے سے خاطر خواہ نتیجہ نکلا.کیونکہ عیسائیوں نے اس کے بعد اپنی روش میں تبدیلی کر لی.حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ سے پہلے الزامی جوابات کا یہ طریق عیسائیوں کے مقابلہ میں خود مسلمان علماء بھی اختیار کرتے رہے ہیں.بلکہ برقی صاحب نے اپنی کتاب بھائی بھائی میں شیعوں کے بالتقابل خود بھی ایسے الزامی جوابات کا طریق اختیار کیا ہے.جو باتیں حضرت اقدس نے عیسائیوں کے یسوع کے متعلق یہودیوں کے اعتراضات عیسائیوں کے سامنے پیش کرنے کی صورت میں اسلام و آنحضرت ﷺ کی مدافعت میں لکھی ہیں ویسے ہی اعتراضات مولوی آل حسن صاحب نے اپنی کتاب استفسار میں عیسائیوں کے سامنے پیش کئے ہیں جنہیں ہم نقل کرنا نہیں چاہتے.جو صاحب یہ اعتراضات دیکھنا چاہیں استفسار کے صفحہ ۳۹۱،۳۹۰،۳۶۹،۳۵۲،۳۵۰،۳۳۷،۱۰۷۰۷۳.میں ملاحظہ کریں.”مباحثہ جھانگیری“ میں جو محمد جہانگیر خاں اور مسٹر مسیح داس کے مابین ۱۸۹۳۰ء میں آگرہ میں ہوا تھا اس میں حضرت اقدس کے الفاظ سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں اعتراضات کئے گئے ہیں.اسی طرح مولوی رحمت اللہ صاحب مہاجر مکی نے اپنی کتاب "اعجاز عیسوی" میں حضرت مسیح کے متعلق اسی قسم کے سخت اعتراضات تحریر کئے ہیں جیسے حضرت اقدس نے یہودیوں کے اعتراضات عیسائیوں کے سامنے پیش کئے ہیں تا وہ اسلام و آنحضرت ﷺ پر اپنے اعتراضات کی نا پسندیدہ اور مکروہ روش میں تبدیلی کریں.پس اسلام کی مدافعت میں حضرت اقدس نے جو طریق مجبورا اختیار کیا ، ق صاحب اس پر مكالله معترض ہوتے ہوئے لکھتے ہیں.اعتراض اگر عیسائیوں کے لئے یہود کے طریق ید کی پیروی نامناسب تھی تو جناب
۱۶۳ مرزا صاحب کے لئے اس پیروی کا جواز کہاں سے نکل آیا.“ الجواب (حرف محرمانه صفحه ۹۳) یہودیوں نے یہ اعتراضات حضرت مسیح علیہ السلام پر از راہ شرارت کئے تھے کیونکہ عیسائیوں نے ان کے مسلمہ انبیاء پر کوئی حملہ نہیں کیا تھا.پس یہودیوں کا طریق جارحانہ اور ظالمانہ تھا.حضرت اقدس کے زمانہ میں عیسائی یہودیوں کے طریق پر اسلام اور بانی اسلام ملے پر حملہ آور ہوئے تھے اس لئے آپ کو یہودیوں کے اسلام ع اعتراضات جارحانہ طور نہیں بلکہ مدافعانہ طور پیش کرنا پڑے آیت لا يُحِبُّ الله الجهر بالسُّوءِ مِنَ القَوْل إِلَّا مَن ظلِمَ (النساء : ۱۴۹) یعنی خدا تعالٰی اعلامیہ بُری بات کو پسند نہیں کرتا بجز اس صورت کے کہ کوئی شخص مظلوم ہو.(اور سخت الفاظ استعمال کرے) اس مدافعانہ طریق کو جائز قرار دیتی ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں." جس طرح یہود محض تعصب سے حضرت عیسی اور ان کی انجیل پر حملہ کرتے ہیں.اسی رنگ کے حملے عیسائی قرآن شریف اور آنحضرت مے پر کرتے ہیں.عیسائیوں کو مناسب نہ تھا کہ اس طریق بد میں یہودیوں کی پیروی کرتے.“ (چشمه مسیحی صفحه ج طبع اول) پس عیسائی چونکہ اسلام اور بانی اسلام پر ظالمانہ طریق سے ناپاک حملے کرتے تھے ان کے مقابلے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نقل کفر کفر نباشد کے مطابق یہودیوں کے اعتراضات نقل کر کے عیسائیوں کو توجہ دلائی ہے.تا اس طریق
۱۶۴ کا نامناسب ہو نا انہیں اچھی طرح محسوس ہو جائے.خودا انجیل میں لکھا ہے.عیب نہ لگاؤ تا تم پر عیب نہ لگایا جائے.“ (متی ۷/۱) یسوع مسیح کے اس قول کے مطابق جب عیسائیوں نے دوسروں کو الزام دینے کا طریق اختیار کیا تو پھر ضروری تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق ان کے لئے وہی یانہ استعمال کیا جاتا جو وہ استعمال کر رہے تھے.پس از روئے انجیل بھی مدافعت کے اس طریق کا استعمال ضروری تھا.چنانچہ اس کے بعد عیسائیوں نے اسلام اور بانی اسلام | علیہ السلام پر کھلے کھلے ناپاک حملوں کا طریق چھوڑ دیا اور ان کے اعتراضات کی روش بدل گئی اور انہوں نے اس میں خاصی اصلاح کرلی.ماسوا اس کے اگر مدافعت کا یہ طریق اختیار نہ کیا جاتا اور عیسائیوں کی روش میں تبدیلی نہ ہوتی تو ملک میں سخت فتنے کا دروازہ کھل جاتا اور مسلمانوں کو سخت مصیبت سے دوچار ہونا پڑتا.کیونکہ مسلمان اپنے نبی کریم کے خلاف گندے اعتراضات نہیں سن سکتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کے سامنے یہودیوں کے اعتراضات پیش کر کے مسلمانوں کے جوش کو ٹھنڈا کر دیا اور اس طرح مسلمان ایک سخت تباہی اور کشت و خون سے بیچ گئے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو مصیبتوں میں آسان مصیبت کو اختیار کیا ہے جس سے عیسائی بھی راور است پر آگئے اور مسلمان بھی فتنہ سے بچ گئے اور مدافعت کا یہ طریق آپ کا اضطرارا اختیار کرنا پڑا، اور نہ آپ دل سے یہ طریق اختیار کرنا نہیں چاہتے تھے.اسلام کا اصول یہ ہے کہ وہ باتیں جو عام حالات میں جائز نہ ہوں اضطرار میں جائز ہو سکتی ہیں جزاء مسبقة سبقةٌ مِثْلُهَا (الشوری : ۴۱) تو ایک عام قانون ہے کہ بدی کی جز ابدی سے دینا جائز ہے.پس اپنی قیت کو صحیح رکھتے ہوئے اس قسم کی تنقید جو الزامی رنگ میں دشمن کا
۱۶۵ منہ بند کرنے والی ہو اس اصل کے ماتحت جائز ہے.اس لئے علمائے اسلام عیسائیوں وغیرہ کے بالمقابل الزامی جواب دیتے رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس طریق کلام کو اختیار کرنے کی وجہ نور القرآن نمبر ۲ ناظرین کے لئے ضروری اطلاع“ کے عنوان کے ماتحت خود یوں رقم فرماتے ہیں.ا.”ہم اس بات کو افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کے مقابل پر یہ نمبر نور القرآن کا جاری ہوا جس نے جائے مہذبانہ کلام کے ہمارے سید و موٹی نبی ﷺ کی نسبت گالیوں سے کام لیا ہے اور اپنی خباثت سے اس امام الطیبین و سید المطہرین پر سراسر افتراء سے ایسی تہمتیں لگائی ہیں کہ ایک پاک دل انسان کا ان کے سننے سے بدن کانپ جاتا ہے.لہذا محض ایسے یادہ گولوگوں کے علاج کے لئے جواب ترکی بتر کی دینا پڑا ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام پر نہایت نیک ! عقیدہ ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا تعالی کے بچے نبی اور اس کے پیارے تھے اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ وہ جیسا کہ قرآن شریف ہمیں خبر دیتا ہے اپنی نجات کے لئے ہمارے سید و مولی محمد مصطفی ﷺ پر دل و جان سے ایمان لائے تھے.اور حضرت موسی کی شریعت کے صد با خادموں میں سے ایک مخلص خادم وہ بھی تھے.پس ہم انکی حیثیت کے موافق ہر طرح ان کا ادب ملحوظ رکھتے ہیں.لیکن عیسائیوں نے جو ایک ایسا یسوع پیش کیا ہے جو خدائی کا دعوی کرتا تھا اور بجز اپنے نفس کے تمام اولین اور آخرین کو لعنتی سمجھتا تھا.یعنی ان بد کاریوں کا مر تکب خیال کرتا تھا.جن کی سز ا لعنت ہے ایسے شخص کو ہم بھی رحمت الہی سے بے نصیب سمجھتے ہیں.قرآن نے ہمیں اس گستاخ اور بد زبان یسوع کی خبر نہیں دی.اس شخص کے چال چلن پر ہمیں نهایت حیرت ہے جس نے خدا پر مرنا جائزر کھا اور آپ خدائی کا دعوی کیا اور ایسے پا کوں کو جو ہزار درجہ اس سے بہتر تھے گالیاں دیں سو ہم نے اپنے کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا
۱۶۶ فرضی مسیح مراد لیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسی ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہر گز مراد نہیں یہ طریق ہم نے بر ابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے.“ نور القرآن نمبر ۲ ستمبر ۱۸۹۵ء تا اپریل ۱۸۹۶ء بعنوان ناظرین کیلئے ضروری اطلاع ۲۰دسمبر ۱۸۹۵ء) -۲- پھر نور القرآن میں ”رسالہ فتح مسیح“ کے عنوان کے ذیل میں لکھتے ہیں.چونکہ پادری فتح مسیح فتح گڑھ ضلع گورداسپور نے ہماری طرف ایک خط صلى الله نهایت گندہ بھیجا.اور اس میں ہمارے سید و مولی محمد مصطفی ﷺ پر زنا کی تہمت لگائی.اور سوائے اس کے اور بہت سے الفاظ بطریق سب و شتم استعمال کئے اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اس کے خط کا جواب شائع کر دیا جائے لہذا یہ رسالہ لکھا گیا.امید که پادری صاحبان اس کو غور سے پڑھیں اور اس کے الفاظ سے رنجیدہ خاطر نہ ہوں کیونکہ یہ تمام پیرایہ میاں افتح مسیح کے سخت الفاظ اور نہایت ناپاک گالیوں کا نتیجہ ہے.تا ہم ہمیں حضرت میں علیہ السلام کی شان مقدس کا بہر حال لحاظ ہے اور صرف فتح مسیح کے سخت الفاظ کے عوض ایک فرضی مسیح کا بالتقابل ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی سخت مجبوری سے.کیونکہ اس نادان نے بہت ہی شدت سے گالیاں آنحضرت ﷺ کو نکالی ہیں اور ہمار اول دکھایا ہے.“ (نور القرآن نمبر ۲ صفحه اطبع اول) - پھر آپ اعجاز احمدی صفحہ ۳ پر لکھتے ہیں.” یہود تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں اور ان کی پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قومی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی ان کا جواب دینے میں حیران ہیں بغیر اس کے کہ یہ کہہ دیں کہ ضرور عیسی نبی ہے کیونکہ قرآن نے ان کو نبی قرار دیا ہے اور کوئی دلیل ان کی نبوت پر قائم نہیں ہو سکتی.بلکہ ابطال نبوت پر کئی دلائل قائم ہیں یہ -
172 احسان قرآن کا اُن پر ہے کہ اُن کو بھی نبیوں کے دفتر میں لکھ دیا اسی وجہ سے ہم ان پر ایمان لائے کہ وہ بچے نبی ہیں اور بر گزیدہ ہیں اور ان تہمتوں سے معصوم ہیں.جو ان پر اور اُن کی ماں پر لگائی گئی ہیں.“ یہی بات ضمیمہ انجام آتھم میں یوں لکھی ہے.اعجاز احمدی صفحه ۱۳ طبع اول) بالآخر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی انہوں نے ناحق ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں.چنانچہ اسی پلید نالائق فتح مسیح نے اپنے خط میں جو میرے نام بھیجا ہے آنحضرت مﷺ کو زانی لکھا ہے اور اس کے علاوہ اور بہت گالیاں دی ہیں پس اسی طرح اس مُردار اور خبیث فرقہ نے جو مُردہ پرست ہے ہمیں اس بات کے لئے مجبور کر دیا ہے کہ ہم بھی ان کے یسوع کے کسی قدر حالات لکھیں.اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا لور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو نور شمار رکھا اور آنے والے مقدس نبی کے وجود سے انکار کیا اور کہا میرے بعد سب ٹھوٹے نبی آئیں گے پس ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راستبازوں کے دشمن کو ایک بھلا مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے.چہ جائیکہ کہ اس کو نبی قرار دیں.نادان پادریوں کو چاہیے کہ وہ گالیوں کا طریق چھوڑ دیں.ورنہ نہ معلوم خدا کی غیرت کیا کیا ان کو دکھلائے گی." پھر فرماتے ہیں :- (ضمیمه انجام آنتم حاشیه صفحه ۸، ۹ طبع اول) اور یاد رہے کہ یہ ہماری رائے اس یسوع کی نسبت ہے جس نے خدائی کا دعوی کیا اور پہلے نبیوں کو چور اور بٹمار کہا.اور خاتم الانبیاء علیہ کی نسبت بجز اس کے
۱۶۸ کچھ نہیں کہا کہ میرے بعد جھوٹے نبی آئیں گے.ایسے یسوع کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں.“ (انجام آنقم صفحه ۱۳ طبع اول) تریاق القلوب کے حاشیہ صفحہ ۷ ۷ طبع اول پر تحریر فرماتے ہیں." حضرت مسیح کے حق میں کوئی بے ادبی کا کلمہ میرے منہ سے نہیں نکلا یہ سب مخالفوں کا افتراء ہے.ہاں چونکہ در حقیقت کوئی ایسا یسوع مسیح نہیں گزرا جس نے خدائی کا دعوی کیا ہو اور آنے والے نبی خاتم الانبیاء کو جھوٹا قرار دیا ہو اور حضرت موسیٰ کو ڈاکو کہا ہو اس لئے میں نے فرض محال کے طور پر اس کی نسبت ضرور بیان کیا ہے کہ ایسا مسیح جس کے یہ کلمات ہوں.راستباز نہیں ٹھہر سکتا.لیکن ہمارا مسیح ابن مریم جو اپنے تئیں بندہ اور رسول کہلاتا ہے اور خاتم الانبیاء کا مصدق ہے.اس پر ہم ایمان لاتے ہیں اور آیت حَادِلَهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا یہ منشا نہیں ہے کہ ہم اس قدر نرمی کریں کہ مداہنہ کر کے خلاف واقعہ بات کی تصدیق کریں کیا ہم ایسے شخص کو جو خدائی کا دعویٰ کرے اور ہمارے رسول کو پیشگوئی کے طور پر کذاب قرار دے اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو ر کھے راستباز کہہ سکتے ہیں.کیا ایسا کرنا مجادلہ حسنہ ہے ؟ ہر گز نہیں بلکہ منافقانہ سیرت اور بے ایمانی کا ایک شعبہ ہے.“ - ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے جو درشت الفاظ لکھے ہیں ان کا مرجع حضرت عیسی علیہ السلام نہیں بلکہ ان کا مرجع عیسائیوں کا ایک فرضی یسوع ہے.اور آپ نے اس کے متعلق بھی بعض باتیں مجبورا الزامی رنگ میں فرض محال کے طور پر لکھی ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام پر آپ صدق دل سے ایمان رکھتے ہیں اور انہیں خدا کا بر گزیدہ اور راستباز نبی یقین کرتے ہیں اور مخالفین کو آپ پر حضرت عیسی علیہ السلام کی بے اولی کا الزام لگانے کو ان مخالفوں کا افتراء قرار دیتے ہیں.پھر فرماتے ہیں.
”ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی ما نہیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں سو ہماری کتاب میں کوئی ایسا لفظ موجود نہیں ہے جو ان کی شان بزرگ کے بر خلاف ہو اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے.“ ایام الصلح نائیل پیچ صفحه ۲ طبع اول و تبلیغ رسالت مجموعہ اشتہارات جلد ۷ صفحہ ۷۷ ) پھر تحریر فرماتے ہیں.موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہمنام ہوں اور مفسد اور مفتری ہے وہ 66 شخص جو کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا.“ پھر تحریر فرماتے ہیں.(کشتی نوح صفحه ۶ اطبع اول) جس حالت میں مجھے دعوی ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مجھے مشابہت ہے تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں نعوذ باللہ حضرت عیسی علیہ السلام کو بُرا کہتا تو اپنی مشابہت ان سے کیوں بتلاتا کیونکہ اس سے تو خود میرا بُرا ہونا لازم آتا ہے.“ (اشتہار ۷ ۲/ دسمبر ۱۸۹۸ء حاشیه و تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۷۰ حاشیہ) پس یہ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کے فرضی یسوع کے متعلق التزامی رنگ میں یہودیوں کے اعتراضات عیسائیوں کے سامنے پیش کئے ہیں.برق صاحب کا اعتراض اس پر برق صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ " قرآن کا عیسی انجیل کے یسوع سے
۱۷۰ کوئی الگ ہستی نہ تھا.“ الجواب اصل حقیقت تو یہی ہے کہ قرآن کا عیسی اور انجیل کا یسوع ایک ہی انسان تھا.مگر الزام خصم کے لئے انجیلی یسوع کو قرآن مجید کے حضرت عیسی سے الگ فرض کر نا از بس ضروری تھا.کیونکہ عیسائیوں کا متصور یسوع بقول ان کے خدائی کا دعویٰ دار تھا.اور قرآن مجید کا پیش کردہ مسیح علیہ السلام خدا کا بندہ اور نبی اور رسول تھا.الزامی استدلال کے لئے خود جناب برق صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام والا طریق اختیار کیا ہے.مگر خود اپنے طریق الزام کو نظر انداز کر کے اب محض اعتراض برائے اعتراض پر کمر بستہ ہیں.دیکھئے خود محترم برق صاحب نے بھی ”دو اسلام “ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے.حالانکہ اسلام تو ایک ہی ہے مگر انہوں نے روائتی اسلام اور اپنے مزعوم و متصور اسلام کے لحاظ سے دو اسلام قرار دیدیئے ہیں اور پھر روائتی اسلام کی خوب خدمت کی ہے.چنانچہ وہ اپنی کتاب بھائی بھائی کے صفحہ ۱۳، ۱۴ پر روائتی اسلام “ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں.روائتی اسلام ایک بڑا ہی دلچسپ اسلام ہے اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ آتش اختلاف کبھی بجھنے نہیں دیتا.دوسری یہ کہ انسان کو انسان کا ئیری بنائے رکھتا ہے اور تیسری یہ کہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یعنی عمل ( محنت ) جد و جہد و نگاہو سے بے نیاز کر دیتا ہے.اہل سنت کے ہاں ہزاروں ایسی احادیث موجود ہیں جس کی رو سے خالی کلمہ پڑھنا یا کسی دعا کا ورد کرنا فلاح دنیوی واخروی کے لئے کافی ہے عمل کی ضرورت ہی نہیں ( تفصیل میری کتاب دو اسلام میں ملاحظہ فرمائیے ) اور شیعوں کے
121 ہاں بھی ماتم حسین اور حب علی کو نجات کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے اور اس پر بے شمار روایات موجود ہیں.“ جس طرح جناب برق صاحب نے اسلام کے متعلق دو تصوروں کے لحاظ سے دو اسلام قرار دیئے ہیں.اور ان میں سے ایک اسلام آپ کے نزدیک اچھا نہیں.اس لئے اس پر آپ معترض ہیں کہ وہ بقول آپ کے جد و جہد سے بے نیاز کرتا ہے.اور دوسرا اسلام آپ کا مرغوب اور پسندیدہ ہے.حالانکہ اسلام حقیقت میں ایک ہی دین ہے دو نہیں لیکن دو الگ الگ تصوروں کے لحاظ سے آپ نے دو اسلام قرار دئیے ہیں.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام اور یسوع تو در حقیقت ایک ہی انسان ہے مگر عیسائیوں کا متصور یسوع اور قرآن مجید کا عیسائی تصور اور قرآنی تصور کے لحاظ سے حضرت اقدس نے الگ الگ قرار دے کر عیسائیوں کے فرضی یسوع پر الزامات قائم کئے ہیں.جس طرح برق صاحب نے اہل سنت کے دینِ اسلام کو روائتی اسلام قرار دے کر اسے ہدف ملامت بنایا ہے.حالانکہ برق صاحب کا موقف نہایت ہی کمزور ہے.کیونکہ آپ صرف احادیث کا انکار کرنے کی خاطر اہل سنت کے روائتی اسلام کو نشانہ اعتراض بنا رہے ہیں.اہل سنت کا اسلام ہر گز یہ نہیں کہتا کہ عمل اور جدو جہد سے کام نہ کیا جائے یا یہ کہ عمل کی ضرورت نہیں اور نجات کے لئے صرف کلمہ پڑھ لینا کافی ہے.اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے تو وہ مور د طعن ہے نہ کہ اہل السنت کا اسلام اور ان کی احادیث صحیحہ.تعجب ہے کہ اسلام کے دو تصویروں کے لحاظ سے آپ کا یہ لکھنا تو آپ کے نزدیک درست ہے کہ اسلام دو ہیں.لیکن عیسائیوں کے فرضی یسوع اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دو مسیح ہونا آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا.
۱۷۲ فضیلت بر مسیح علیہ السّلام یہ درست ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ ہے کہ آپ اپنی تمام شان میں حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہیں.آپ اس کی وجہ یہ بیان فرماتے ہیں :- میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مسیح ابن مریم آخری خلیفہ موسیٰ علیہ السلام کا ہے اور میں آخری خلیفہ اُس نبی کا ہوں جو خیرُ الرُّسُلُ ہے.اس لئے خدا نے چاہا کہ مجھے اس سے کم نہ رکھے.میں خوب جانتا ہوں کہ یہ الفاظ ان لوگوں کو گوارا نہ ہوں گے.جن کے دلوں میں حضرت مسیح کی محبت پرستش کی حد تک پہنچ گئی ہے مگر میں ان کی پرواہ نہیں کرتا.میں کیا کروں میں کس طرح خدا کے حکم کو چھوڑ سکتا ہوں اور کس طرح اس روشنی سے جو مجھے دی گئی تاریکی میں آسکتا ہوں.پھر آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں :- میں اس قدر جانتا ہوں کہ آسمان پر خدا تعالیٰ کی غیرت عیسائیوں کے مقابل پر بڑا جوش مار رہی ہے.انہوں نے آنحضرت ﷺ کی شان کے مخالف وہ تو ہین کے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ قریب ہے کہ ان سے آسمان پھٹ جائیں.پس خداد کھلاتا ہے کہ اُس رسول کے ادنی خادم اسرائیلی مسیح ابن مریم سے بڑھ کر ہیں.جس شخص کو اس فقرہ سے غیظ و غضب ہو اس کو اختیار ہے کہ وہ اپنے غلیظ سے مر جائے.مگر خدا نے جو چاہا ہے کیا.اور جو چاہتا ہے کرتا ہے.کیا انسان کا مقدور ہے کہ وہ اعتراض کرے کہ (حقیقۃ الوحی صفحه ۱۵۰ طبع اول) ایسا تو نے کیوں کیا ؟ مسیح کا شراب پینا کی ہے :- برق صاحب نے کشتی نوح کے حاشیہ صفحہ ۶۵ طبع اول کی عبارت یوں درج
۱۷۳ "یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسی شراب پیا کرتے تھے.شاید کسی ہماری کی وجہ سے یا میدانی عادت کی وجہ جناب برق صاحب نے یہ عبارت ادھوری پیش کی ہے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسلمانوں کو جو یورپ کی تقلید میں شراب پیتے ہیں ہدایت فرمارہے ہیں کہ یورپ کے لوگ تو شراب پینے کے لئے اپنے زعم میں ایک یہ وجہ جواز رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح شراب پیتے تھے لیکن اسلام میں تو اس کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں.پس تم کسی بنا پر شراب پیتے ہو.مسیح کے زمانہ میں تو شراب حلال تھی تم اور اسلام میں حرام ہے.جب حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں شراب حرام ہی نہ تھی بلکہ حلال تھی تو پھر ان کا شراب پینا معصیت نہ ہوا.اس لئے اس کا ذکر قابل اعتراض کس طرح ہوا عیسائیوں میں تو عشائے ربانی کی رسم میں شراب کا استعمال ایک مذہبی رسم ہے اور وہ اس رسم کو یسوع مسیح کے ذریعہ جاری کردہ خیال کرتے ہیں.عمل الحرب اس عمل القرب کے بارہ میں جس میں حضرت مسیح کمال رکھتے تھے اور آپ نے یہ عمل معجزانہ طور پر باؤن و حکم الی اختیار کیا تھا.جناب برق صاحب نے اپنی عادت کے مطابق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ادھوری اور نا مکمل تحریر میں آگے یا پیچھے اور درمیان سے کاٹ کر پیش کرتے ہوئے ایک غلط تاثر دینے کی کوشش کی ہے.اور دل میں چور ہونے کی وجہ سے اس غلط تاثر کو مضبوط کرنے کے لئے حرف محرمانہ کے حاشیہ صفحہ ۸۶ ۷ ۸ پر یہ نوٹ دیا ہے کہ :-
۱۷۴ اقتباس میں نقطوں کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے بعض حصے حذف کر کے عبارت کو حسب منشاء ڈھال لیا ہے.حاشاو کلا بد دیانتی کا کوئی ارادہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ بعض زائد الفاظ کو بغرض اختصار حذف کر دیا گیا ہے.“ ☆ ہم اس جگہ حضرت اقدس کی پوری عبارت نقل کر دیتے ہیں.جس سے پڑھنے والوں پر خود بخود جناب برق صاحب کے ارادہ اور دیانت کی قلعی کھل جائے گی.جناب برق صاحب نے ایک ہی مضمون سے دو عبارتیں درمیانی اور پہلا اور آخری حصہ چھوڑ کر نقل کی ہیں.ہم نے چھوڑے ہوئے حصہ پر خط کھینچ دیا ہے تا پڑھنے والوں کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو.یہ بات قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم باذن و حکم الهی الیسع نبی کی طرح اس عمل الجراب میں کمال رکھتے تھے.گو الیسع کے درجہ کاملہ سے کم رہے ہوئے تھے کیونکہ الیسع کی لاش نے بھی معجزہ دکھلایا کہ اس کی ہڈیوں کے لگنے سے ایک مردہ زندہ ہو گیا.مگر چوروں کی لاشیں مسیح کے جسم کے ساتھ لگنے سے ہر گز زندہ نہ ہو سکیں.بہر حال مسیح کی یہ تریبی کارروائیاں زمانہ کے مناسب حال بطور خاص مصلحت کے تھیں.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے امید قومی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا لیکن مجھے وہ روحانی طریق پسند ہے جس پر ہمارے نبی اللہ نے قدم مارا ہے اور حضرت مسیح نے بھی اس عمل جسمانی کو یہودیوں کے جسمانی اور پست خیالات کی وجہ سے جو ان کی فطرت میں مرکوز تھے باذن و حکم الہی عمل الحرب کے آگے برق صاحب نے بریکٹ میں اپنی طرف سے ”دو مسمریزم شعبد بازی“ کے لفظ لکھ دیئے تھے جو کاٹ دیئے گئے ہیں.
۱۷۵ اختیار کیا تھا ورنہ در اصل مسیح کو بھی یہ عمل پسند نہ تھا.“ (ازالہ اوہام صفحه ۳۰۹ ،۳۱۰ حاشیہ طبع اول) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ عمل نا پسند ہے ویسے ہی حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی نا پسند تھا.لیکن انہوں نے مجبورا یہودیوں کے پست خیالات کی وجہ سے باؤن و حکم الہی اس عمل کو اختیار کیا تھا.پس اس میں کون سی بات قابل اعتراض ہے حضرت اقدس نے بائیبل کی بنا پر یہ دکھایا ہے کہ الیسع نبی اس عمل میں حضرت مسیح علیہ السلام سے بڑھ کر تھا کہ اس کی ہڈیوں سے ایک مردہ کی لاش چھو جانے سے مردہ زندہ ہو گیا.واضح ہو کہ حضرت اقدس کا یہ عقیدہ نہیں کہ کبھی کوئی حقیقی مُردہ زندہ ہوا.یہ بات عیسائیوں کے مسلمات کی بنا پر لکھی گئی ہے وہ کہتے تھے کہ حضرت مسیح نے مُردے زندہ کئے لہذاوہ خدا تھے.آپ نے بتایا ان سے بڑھ کر الیسع کی ہڈیوں نے ایک مُردہ زندہ کر دیا.چونکہ حضرت اقدس کے نزدیک اس عمل کا روحانیت سے کوئی تعلق نہ تھا اس لئے آپ نے اسے اختیار نہ کیا.بلکہ آنحضرت ﷺ کی روحانی راہوں کی پیروی اختیار کی.برق صاحب کا بریکٹ میں اپنی طرف سے اسے شعبدہ بازی لکھنا درست نہیں.حضرت اقدس تو اس عمل کو حضرت عیسی علیہ السلام کا عقلی معجزہ قرار دیتے ہیں چنانچہ آپ ازالہ اوہام کے صفحہ ۳۰۲،۳۰۱ حاشیہ طبع اول پر تحریر فرماتے ہیں :- ”سو واضح ہو کہ انبیاء کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں.(۱).ایک وہ جو محض سماوی امور ہوتے ہیں جن میں انسان کی تدبیر اور عقل کو کچھ دخل نہیں ہو تا جیسے شق القمر جو ہمارے سید و مولی نہیں مﷺ کا معجزہ تھا اور خدا تعالی کی غیر محدود قدرت نے صلى الله ایک راستباز اور کامل نبی کی عظمت ظاہر کرنے کیلئے اس کو دکھایا تھا.(۲).دوسرے عقلی معجزات ہیں جو اس خارق عادت عقل کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو الہام
الہی سے ملتی ہے جیسے سلیمان کا وہ معجزہ جو صَرُحٌ مُّمَرَّدُ مِنْ قَوَارِيرَ (النمل: ۴۵) ہے جس کو دیکھ کر بھیس کو ایمان نصیب ہوا.اب جاننا چاہیے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کا معجزہ حضرت سلیمان کی طرح صرف عقلی تھا.“ پس یہ کس قدر ظلم ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی تریبی کارروائیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو ان کا معجزہ قرار دیتے ہیں جو خارق عادت عقل سے ظہور میں آتا تھا مگر جناب برق صاحب شعبدہ بازی کا لفظ حضرت اقدس کی عبارت کے در میان پریکٹ میں داخل کر کے اپنی دیانت کا ثبوت دے رہے ہیں.دوسری عبارت دوسری عبارت جو برق صاحب نے لکھی ہے.اس کے درمیانی حصوں کا چھوڑنا تو کوئی غلط تاثر پیدا نہیں کرتا البتہ اس کے بعد کے حصہ کو ترک کر دینا ضرور غلط تاثر پیدا کر سکتا ہے.بعد کا حصہ یوں ہے.لیکن ہمارے نبی ﷺ نے ان جسمانی امور کی طرف توجہ نہیں فرمائی اور تمام زور اپنی روح کا دلوں میں ہدایت پیدا ہونے کے لئے ڈالا اسی وجہ سے تحمیل نفوس میں سب سے بڑھ کر ر ہے.یہ تقابل بھی عیسائیوں کے مقابلہ میں حضرت مسیح علیہ السلام اور آنحضرت ﷺ کے درمیان دکھایا گیا ہے.چونکہ عیسائیوں نے حضرت مسیح کو خدا مان رکھا ہے اس لئے لکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام آنحضرت ﷺ کے بالتقابل کوئی خاص کارروائی توحید کو قوم کے دلوں میں اٹھانے کی نسبت نہیں رکھتے.
166 مسیح کی پیدائش عیسائی چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی بن باپ ولادت کو ان کے خدا کا بیٹا ہونے کی دلیل قرار دیتے ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود نے یہ عبارت لکھی." جس حالت میں برسات کے دنوں میں ہزار ہا کیڑے مکوڑے خود خود پیدا ہو جاتے ہیں.عیسی کی اس ( معجزانہ) پیدائش سے کوئی بزرگی انکی ثابت نہیں.“ (چشمه مسیحی صفحه ۱۸ طبع اول) یہ عبارت عیسائیوں کے جواب میں ہے اب جناب برق صاحب بتائیں.کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے من باپ پیدا ہونے سے ان کی دوسرے انبیاء اور آنحضرت سے پر کیا بزرگی ثابت ہوتی ہے ؟ خدا تعالیٰ تو قرآن مجید میں حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کو آدم کی مثل ہی قرار دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے..إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَل آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُراب (ال عمران : ٢٠) یعنی بیشک عیسی علیہ السلام کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے.آدم کو اس نے مٹی سے پیدا کیا تھا.پس جب حضرت مسیح اور آدم دونوں مٹی سے پیدا ہوئے تو اب حضرت مسیح کا من باپ پیدا ہو نا کیسے ان کے خدا کا بیٹا ہونے کی دلیل ہو سکتا ہے ؟ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے تجربہ بتایا ہے کہ برسات کے دنوں میں ہزار ہا کیڑے مکوڑے خود ( یعنی بلا ماں باپ ) پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر مسیح کا من باپ پیدا ہو نا ان کی الوہیت اور خدا کا بیٹا ہونے کی دلیل کس طرح ہو سکتی ہے.مردانہ صفت عیسائی آنحضرت ﷺ کے زیادہ نکاحوں پر ناپاک حملہ کرتے تھے اور مسیح کے نکاح نہ کرانے اور مُجرد رہنے کو ان کی آنحضرت علہ پر فضیلت قرار دیتے تھے
IZA اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسا ئیو ںکو الزامی جواب دیا ہے کہ.حضرت مسیح مردانہ صفت کی اعلی ترین صفت سے محروم ہونے کے باعث ازدواج سے کچی اور کامل حسن معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے سکے.“ (مکتوبات احمد جلد ۳ صفحه ۲۸ طبع اول) اب برق صاحب بتائیں کہ آنحضرت ﷺ کے حسن معاشرت کا اعلی نمونہ تو آپ کی ازدواجی زندگی میں ملتا ہے.مگر عیسائیوں کے لئے حضرت مسیح کی ازدواجی زندگی کا کون سا نمونہ موجود ہے ؟ حضرت مسیح کی دادیاں نانیاں عیسائیوں نے آنحضرت ﷺ کے خاندان پر ناپاک حملے کئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بطور الزامی جواب بائیبل سے دکھایا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے خاندان میں تین ایسی عور تیں جو آپ کی دادیاں یا نانیاں قرار پاتی ہیں زناکار اور کسی ایسی تھیں.اگر عیسائی آنحضرت ﷺ کے خاندان کے آباؤ اجداد کو ناپاک اور گندے قرار نہ دیتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے عیسائیوں کو یہ الزامی جواب دینے کی ضرورت نہ تھی.اس جواب نے تو عیسائیوں کے آنحضرت عے پر اس حملے کو پورے طور پر رو کر دیا ہے.بلکہ ہمیشہ کے لئے عیسائیوں کا منہ بند کر دیا ہے اور اب وہ آنحضرت ﷺ کے خاندان پر ناپاک حملہ کر کے آپ کی طرف ناپاکی کی نسبت کرنے کی جرات نہیں رکھتے.تمرا، راحاب اور منت سیع کو جو حضرت مسیح کی ایک لحاظ سے دادیاں اور ایک لحاظ سے نانیاں تھیں خود بائیبل بد کار اور کسی قرار دیتی ہے دیکھئے :-
129 راحاب کسی تھی یشوع ۱/۲.تمر حرامکار تھی پیدائش ۱۶/۳۸ تا ۳۰.انت سبیع بھی بد کار تھی اس نے داؤد سے زنا کیا تھا ۲ سموئل باب ۲/۱۱ تا ۴ اسی بنا پر پادری عمادالدین نے تفسیر متی میں لکھا ہے." یہاں سے ظاہر ہے کہ مسیح خداوند نے گنہ گاروں کے سلسلہ میں آنے سے نفرت نہیں کی.تغییر متنی مصنفہ پادری عماد الدین صفحه ۳.“
۱۸۰ باب چهارم تاریخ بعثت برق صاحب نے اپنی کتاب کے چوتھے باب کا عنوان تاریخ بعثت رکھا ہے لیکن آپ حضرت مرزا صاحب کی بعثت کی تاریخ معلوم کرنے کی بجائے وحی کی تاریخ معلوم کرنے کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور پھر حضرت اقدس کی کتابوں سے گیارہ اقوال پیش کر کے یہ نتیجہ پیش کیا کہ یہ گیار و اقوال باہم مختلف ہیں اور پھر سوال کیا ہے.احمدی بھائیو آپ ہی فرمائیں کہ ہم جناب مرزا صاحب کے کس قول کو مانیں یہ گیارہ اقوال ہیں.ان میں سے جس ایک پر ایمان لائیں.باقی دس کی تکذیب ہوتی ہے ؟" الجواب ( حرف محرمانه صفحه ۱۰۰) جناب برق صاحب نے نتیجہ کے نکالنے میں اپنی عادت کے مطابق مغالطے دہی سے کام لیا ہے ورنہ بادفی حامل انہیں معلوم ہو سکتا تھا کہ جو حوالہ جات حضرت لیا اقدس کی کتب سے انہوں نے پیش کئے ہیں ان میں صرف بعض حوالہ جات میں اس بات کا ذکر آیا ہے کہ آپ پر وحی کب نازل ہو نا شروع ہوئی.باقی حوالہ جات میں آپ نے اپنے زمانہ ماموریت کا ذکر فرمایا ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ ماموریت کا آغاز ہونے سے کافی عرصہ پہلے آپ مور دوتی ہو چکے تھے.پھر وحی کے نزول کے متعلق حضرت اقدین کے جو حوالے برق صاحب نے پیش کئے ہیں وہ بھی اندازے کے لحاظ سے ہیں ورنہ حضرت اقدس نے پہلی وحی کے نازل ہونے کے متعلق کوئی معین سال بیان
نہیں فرمایا اور اندازہ میں چند سالوں کی کمی بیشی ہو سکتی ہے.نشان آسمانی کی تحریرہ سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی عمر کے چالیسویں برس دعوتِ حق کے لئے بالسهام خاص مامور کئے گئے.اور آپ کو یہ بھارت دی گئی کہ آپ کی عمر انٹی برس یا اس کے قریب ہے اور آپ نے یہ لکھا کہ اس وقت تک دس کامل سال گذر بھی گئے ہیں.برق صاحب نے ۱۸۹۲ء زمانہ تصنیف نشان آسمانی سے دس سال کم کر کے ۱۸۸۲ء نکالا ہے.پس آپ کی ماموریت کا زمانہ ۱۸۸۲ء کے قریب قرار پایانہ کہ پہلا الہام نازل ہو نیکا زمانہ مگر جناب برق صاحب نے نہایت بھولے پن سے ماموریت کے زمانہ کو پہلا الہام نازل ہونے کا زمانہ قرار دے کر آپ کے اقوال میں اختلاف دکھانے کی کوشش کی ہے.یہ ان کے محرم ہونے کا ثبوت نہیں بلکہ مجرم ہونے کا ثبوت ہے.شہادت القرآن ۱۸۹۳ء کی تصنیف ہے اس میں لکھا ہے کہ مسیح موعود نے بھی چودھویں صدی کے سر پر ظہور کیا.برق صاحب نتیجہ نکالتے ہیں کہ اگر آغاز سے مر از ۱۳۰۰ھ لی جائے تو یہ ۱۸۸۳ء کے مساوی بنتی ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ چودھویں صدی کے سر سے معین طور پر ۳۰۰واہ مراد لینا درست نہیں.بلکہ ایک سال پہلے بھی آپ پر ماموریت کا انکشاف ہو چکا ہو تب بھی چودھویں صدی کے سر پر ظہور کے الفاظ صادق آتے ہیں.اور اس طرح یہ ۱۸۸۲ء ہی قرار پاتا ہے.آپ کی ماموربیت کا زیادہ زمانہ چودھویں صدی ہجری ہی میں گذرا ہے اس صورت میں نشان آسمانی اور شہادت القرآن کے حوالوں میں کوئی اختلاف نہیں رہتا.کیونکہ اگر ماموریت کا سال ۱۲۹۹ھ ہی قرار دیا جائے تو یہ ۱۸۸۲ء عیسوی کے مطابق ہی ہوا مگر یہ بھی اندازہ ہی ہے.تریاق القلوب کے حوالہ کو برق صاحب نے خود شہادت القرآن کے حوالہ کا مؤید مان لیا ہے جس میں لکھا ہے کہ تیرھویں صدی کے ختم ہونے پر یہ محدد آیا.۱۲۹۹ھ کے لئے بھی تیرھویں صدی کے ختم کا اطلاق درست ہے.
۱۸۲ ازالہ اوہام ۱۸۹۱ء کی تصنیف ہے جس میں آپ لکھتے ہیں." وہ آدم اور ابن مریم یہی عاجز ہے.کیونکہ اول تو ایساد عولی اس عاجز سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا.اور اس عاجز کا یہ دعویٰ دس برس سے شائع ہو رہا ہے.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۶۹۵ طبع اوّل) اس عبارت میں آدم اور ابن مریم کے الہامی دعویٰ کا ذکر ہے.اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۹۱ء سے دس برس پہلے ہی ۱۸۸۱ء میں آپ کو الہام میں آدم اور ان مریم قرار دیا گیا تھا.آپ اس جگہ ماموریت کے متعلق دعوی کو زیر بحث نہیں لارہے.اور دس برس بھی اند از ابیان کیا گیا ہے.پس ان الہامات کا زمانہ اور ماموریت کا زمانہ اگر قریب قریب ہو تو بھی نشان آسمانی اور شہادت القرآن کی عبارتوں سے اس کا کوئی تضاد پیدا نہیں ہو تا.جناب برقی صاحب نے براہین احمدیہ کا سال تصنیف ۱۸۸۰٬۸۴ء لکھا ہے پھر لکھتے ہیں کہ اس کتاب میں ایک مقام پر ۱۸۶۹ء کا الہام درج کرتے ہیں.جسے وہ خر تک اپنی دیگر تصانیف میں دہراتے چلے جاتے ہیں اور وہ یہ ہے :- ”وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ یہ الہام بے شک ۱۸۲۸ء یا ۱۸۶۹ء کا ہے.مگر اس وقت آپ پر اپنی ماموریت کے بارہ میں کوئی انکشاف نہیں ہوا تھا اور پھر حضرت اقدس نے اس الہام کو اپنا پہلا الہام بھی قرار نہیں دیا.کہ اس سے آپ پر وحی کے آغاز کی تاریخ معین ہوتی.پس بر امین احمدیہ میں مندرجہ الہام کا دوسری کتب کی عبارتوں سے کوئی تضاد نہیں.چھٹے نمبر پر برق صاحب نے جون ۱۹۰۰ ء کی تصنیف اربعین کا یہ حوالہ درج کیا ہے.
۱۸۳ ہے.66 وو یہ دعویٰ من جانب اللہ ہونے اور مکالمات الہیہ کا قریباً تیس برس سے اربعین نمبر ۳ صفحه ۶ طبع اول) برقی صاحب نے ۱۹۰۰ ء میں سے تمہیں برس گھٹا کر ۱۸۷۰ء نکالا ہے.اربعین میں لَو تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ اللَّهَ فَاوِيلِ والی آیت زیر بحث ہے.جس سے ظاہر ہے کہ جھوٹے العام گھڑنے والا آنحضرت ﷺ کے دعوئی الہام کی عمر نہیں پا سکتا جو تھیں سال ہے.حضرت اقدس اس جگہ ۱۹۰۰ ء میں یہ بتارہے ہیں کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے قریباً تیس برس پہلے مکالمات الہیہ سے مشرف فرما دیا تھا.اور اس کے بعد آپ پر ایسے البهامات نازل ہو چکے تھے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جارہے ہیں.قریباً تین برس کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ آپ اندازے سے فرمارہے ہیں.کوئی معین سن بیان نہیں فرمار ہے.جب کہ آپ مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہوئے.برق صاحب براہین کے حوالہ سے دکھا چکے ہیں کہ ۱۸۶۹ء میں آپ پر یہ الہام ہو چکا تھا وہ تجھے بہت برکت دے گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ پس اس برس کو بھی تقریباً تمیں برس کہا جاسکتا ہے.اور اگر ۱۸۷۹ء کو مکالمہ مخاطبہ الہیہ کا آغاز سمجھا جائے تو اربعین کی عبارت کا بھی دوسری عبارتوں سے کوئی تناد پیدا نہیں تھا.اسی طرح اربعین میں آپ کا یہ لکھنا میرے وحی اللہ پانے کے دن سید نا ہر مصطفے میلے کے دنوں سے برابر کئے سے مراد یہ تو لی جا سکتی ہے کہ اس وقت تک آپ پر وحی اور الہام کے نزول پر تئیس سال بہر حال گزر چکے ہیں جو آنحضرت لے پر الہامات کے نزول کا زمانہ ہے مگر اس عبارت سے یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات پر اس وقت تئیس سال سے زیادہ عرصہ نہیں -
۱۸۴ گزرا تھا.کیونکہ وہ صاف لفظوں میں اس کتاب کے صفحہ ے پر لکھ چکے تھے کہ مکالمات الہیہ کے زمانہ پر تمہیں برس گزر چکے ہیں.پس اس فقرہ کا صرف یہ مطلب ہے کہ آپ کی وحی پر بہر حال تئیس سال گزر چکے ہیں.جو آنحضرت ﷺ کی وحی کی عمر ہے.یعنی آپ کی وحی پر تئیس سال سے کم زمانہ اس وقت تک نہیں گزرا اس لئے آپ اپنے مخالفین پر آیت لو تقول کے معیار کی رو سے حجت قائم کرنے کا حق رکھتے ہیں.پس اربعین کے دونوں اقوال میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں.اربعین نمبر ۳ صفحہ ۳۲ طبع اوّل سے برق صاحب نے ایک اور عبارت درج کی ہے.66 " تیری عمر اسی برس کی ہوگی....اور یہ الہام قریباً ۳۵ برس سے ہو چکا (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۹ طبع اول) 66 اربعین 1900 ء کی تصنیف ہے اس لحاظ سے اس الہام کا نزول ۱۸۶۵ء قرار پاتا ہے اور اس سے اگر یہ متعین ہو جاتا ہے کہ یہی پہلا الہام ہے جو آپ پر ہوا تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے.کہ " میں تجھے برکت دوں گا.“ والا الہام اس سے بعد کا ہے.کیونکہ وہ ۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء کا الہام قرار دیا گیا ہے اور چونکہ یہ دونوں الہام الگ الگ ہیں اور الگ الگ اوقات میں نازل ہوئے پس اس عبارت کا کسی عبارت سے کوئی تضاد نہیں.نمبرے پر برق صاحب نے تحفہ گولڑویہ 190 ء کی یہ عبارتیں درج کی ہیں.” میرے دعوئی کے وقت رمضان کے مہینے میں اسی صدی یعنی چودھویں صدی لا۱۳ ھ میں خسوف کسوف ہؤا." (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۴ طبع اول) اس عبارت کو درج کر کے نہایت سادہ لوحی سے برق صاحب نے لاھ ہجری مطابق ۱۸۹۴ء کو آپ کی بعثت کا سن قرار دیا ہے.حالانکہ حضرت اقدس اس
۱۸۵ جگہ صرف یہ بیان فرمارہے ہیں.کہ ۱۳۱۱ھ میں جب کہ آپ کا دعویٰ موجود تھا.نشان کے طور پر رمضان میں کسوف خسوف ہوا جو از روئے حدیث دار قطنی امام مہدی کی علامت تھا.حضور یہ نہیں بیان فرمار ہے کہ میں نے لا۱۳ ھ میں دعویٰ کیا ہے بلکہ یہ فرما رہے ہیں کہ آپ کے دعوئی کے وقت یعنی دعویٰ کی موجودگی میں یہ نشان ظاہر ہوا.پس برق صاحب کا یہ استدلال محض بچوں کا ایک کھیل ہے جو وہ حضرت اقدس کی عبارتوں سے کھیلنا چاہتے ہیں.انہوں نے اس استدلال میں اپنے کسی علمی کمال کا اظہار نہیں کیا بلکہ ایک عامیانہ طرز کا اعتراض کر دیا ہے جس پر اگر وہ خود ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں تو انہیں اپنے اس اعتراض پر فنسی آئے گی کہ مجھ سے یہ کیا حرکت سرزد ہوئی ؟ دوسرا حوالہ اسی نمبر میں برق صاحب نے حاشیہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۷ طبع اوّل سے درج کیا ہے.جو یہ ہے :- دانیال نبی بتاتا ہے کہ اس نبی آخر الزمان کے ظہور سے جب بارہ سو نوے (۱۲۹۰) برس گذر جائیں گے تو وہ مسیح موعود ظاہر ہو گا اور تیرہ سو پینتیس ہجری تک اپنا کام چلائے گا.“ (حاشیہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۷ الطبع اوّل) اس عبارت کے آخر میں حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- دي اب دیکھو اس پیشگوئی میں کس قدر تصریح سے مسیح موعود کا زمانہ چودھویں صدی قرار دی گئی ہے.اب بتاؤ کیا اس سے انکار کرنا ایمانداری ہے ؟“ ظاہر ہے کہ دانیال نبی کی اس پیشگوئی سے حضرت اقدس مسیح موعود کے چودھویں صدی میں ظہور کے متعلق استدلال فرمارہے ہیں اور یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ دانیال نبی کی اس پیشگوئی سے ۱۲۹۰ ھ سے ۱۳۳۵ھ کا زمانہ مسیح موعود
JAY کے ظہور کا زمانہ قرار پاتا ہے.۱۲۹۰ھ اور ۱۳۳۵ھ دو حدیں ہیں جن کے اندر مسیح موعود کو ظاہر ہو کر کام کرنا تھا.پس اس حوالہ میں نبی آخر الزمان کے ظہور سے اجتہادا حضرت مسیح موعود نے آنحضرت ﷺ کا زمانہ ہجرت مراد لیا ہے چنانچہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۹ حاشیہ طبع اول میں آپ فرماتے ہیں :- دن سے مراد دانیال کی کتاب میں سال ہے اور اس جگہ وہ نبی ہجری سال کی طرف اشارہ کرتا ہے.“ کیونکہ سن ہجری کے لحاظ سے ۱۲۹۰ھ وہ زمانہ ہے جبکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر مکالمات الہیہ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا.پیشگوئی کے الفاظ ۱۲۹۰ دن سے آنحضرت ﷺ کی ہجرت سے ۱۲۹۰ سال مراد لئے گئے کیونکہ پیشگوئیوں میں دن سے مراد سال بھی ہوتا ہے.آپ نے مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ ۱۲۹۰ هجری اور ۱۳۳۵ ہجری کے درمیان کا زمانہ قرار دیا ہے جو چودھویں صدی قرار پاتا ہے.حضرت مسیح موعود کی عمر اپنی پیشگوئی ثَمَانِينَ حَول أو قريبًا مِنْ ذَالِكَ أَوْتَرِيدُ عَلَيهِ سَنِينَ کے مطابق ۸۰ سے چار پانچ سال کم یا چار پانچ سال زیادہ ہونی چاہیئے.آپ کی عمر کی اس پیشگوئی میں بعض مصالح کے ماتحت خدا تعالیٰ نے ایہام رکھا ہے.اور پیشنگوئیوں میں ایسا ایہام ہو نا قابل اعتراض نہیں سمجھا جاتا.کیونکہ اس قسم کا ایام آنحضرت ملنے کے متعلق ایک قرآنی پیشگوئی میں بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت.اِمَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي تَعِدُ هُمُ اوَنَتَوَ فَيُنَّكَ (یونس : ۴۷) سے ظاہر ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اے نبی یا تجھے ہم کافروں کا موعود عذاب میں مبتلا ہو نادکھا دیں گے یا تجھے وفات دیدیں گے.پس اگر حضرت اقدس کو پچاسی سال کی عمر ملتی تو دانیال کی پیشگوئی کی آخری مبینه حد ۱۳۳۵ھ کے مطابق ہوتی.لیکن آپ کی وفات چونکہ ۷۶ سال کی عمر میں
۱۸۷ ہوئی ہے اور یہ آپ کی اپنی پیشگوئی کے مطابق ہے.لہذا اگر دانیال کی پیشگوئی میں ۱۳۳۵ھ ہجری مراد لی جائے تو یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ دانیال کی پیشگوئی میں آپ کی زیادہ سے زیادہ ممکن عمر کی آخری حد بیان ہوئی ہے.جیسا کہ آپ کا الہام بتاتا ہے کہ آپ کی عمر ۸۰ سال کی ہو گی یا چار پانچ سال کم یا چار پانچ سال زیادہ.برق صاحب نے ولادت نبوی یا بعثت نبوی سے سالوں کا شمار کر کے پیشگوئی مشتبہ کرنے کی کوشش کی ہے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا شمار ہجرت نبوی سے درست قرار پاتا ہے.پس دانیال نبی کی پیشگوئی کا مفاد یہ ہے کہ اقوام عالم کو ۱۲۹۰ ہجری سے ۱۳۳۵ ہجری کے درمیان مسیح موعود کے ظہور کا انتظار کرنا چاہئے.۱۳۳۵ھ آپ کی وفات کا قطعی سنہ نہیں سمجھا جائے گا بلکہ یہ آپ کی ممکن الہامی عمر کی آخری حد سمجھا جائے گا.جیسا کہ قبل از میں بیان ہوا اور پیشگوئی کی صحیح تعبیر وہی ہوتی ہے جو واقعات سے درست ثابت ہو کیونکہ پیشگوئیوں میں اجمال اور ابہام ضرور رکھا جاتا ہے تاکہ اختفاء کا پردہ ایمان بالغیب کی قدر و قیمت کو ضائع ہونے سے بچائے اگر پردہ بالکل اٹھا دیا جائے تو ایمان کی قدر و قیمت آزمائش کے مفقود ہو جانے کی وجہ سے کچھ بھی باقی نہیں ر قیمت آزمائش رہتی.نمبر ۸ میں برق صاحب نے ضمیمہ تحفہ گولڑویہ کی دو تحریر میں پیش کی ہیں اور ان میں پانچ سال کا تضاد دکھایا ہے.حالانکہ یہ تحریر میں بھی دراصل اربعین کی ہی ہیں جن کی تصنیف کا زمانہ ۱۹۰۰ ء ہے اور ۱۹۰۳ء میں اربعین ہی تحفہ گولڑویہ میں بطور ضمیمہ کے بھی شامل کر دی گئی تھی.مگر برق صاحب اس حقیقت سے واقف نہیں وہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ کو اربعین سے کوئی الگ کتاب سمجھ کر حساب لگا رہے ہیں.پہلی عبارت میں مکالمات الہیہ کا زمانہ قریباً تیس سال اندازے سے لکھا گیا ہے اور دوسری عبارت ایک معین الہام کے متعلق ہے جو آپ کی عمر سے تعلق
I^^ رکھتا ہے.اس کا زمانہ آپ نے قریباً پینتیس سال پہلے کا بیان فرمایا ہے.اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ یہ وہ پہلا الہام ہے جو آپ پر ۱۸۷۵ء میں ہوا.اور پہلی عبارت کے مطابق قریبا ۱۸۷۰ء میں آپ پر مکالمات الہیہ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا.پس ان دونوں عبارتوں میں کوئی تضاد نہیں.مکالمات کا سلسلہ تو آپ پر ۷۰ ۸اء سے شروع ہوا.لیکن اسکا ڈی الہام آپ پر ۱۸۷۰ء سے پہلے بھی ہوا ہے.پس دونوں عبارتوں میں تمہیں برس اور پینتیس برس کے ذکر کی اغراض الگ الگ ہونے کی وجہ سے دونوں عبارتوں میں کوئی تضاد موجود نہیں.نمبر 1 میں برقی صاحب نے حقیقۃ الوحی کی مندرجہ ذیل عبارت درج کی ہے : چکا تھا.“ ٹھیک ۱۲۹۰ھ میں خدا تعالی کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاطبہ پا (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۹ طبع اوّل) مگر اس عبارت سے صرف اتنا ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ۱۲۹ھ میں مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو چکے تھے اسکا ہر گز یہ مفاد نہیں کہ ۱۲۹۰ھ کے آغاز میں آپ کو پہلا الہام ہو ا تھا.تضاد نہیں.پس آپ کا یہ بیان اپنی جگہ درست ہے اور اس کا دوسری عبارتوں سے کوئی نمبر ، اپر پیغام صلح صفحہ ۱۳ طبع اول کا حوالہ دیا ہے جو ۱۹۰۸ء کی کتاب ہے.اس میں حضرت اقدس لکھتے ہیں :- نکالا ہے.میں تخمیناً تین برس سے خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں.“ برق صاحب نے اس لحاظ سے ۱۹۰۵ء میں سے تمہیں کم کر کے ۱۸۷۸ء
١٨٩ پس اندازوں کے لحاظ سے آپ کے یہ سارے بیانات اپنی جگہ درست ہیں مگر ان سے پہلے الہام یا دعویٰ ماموریت کی معین تاریخ استنباط کرنا درست طریق نہیں.چونکہ دراصل دوسری تحریروں کی بناء پر ۱۹۰۵ء میں آپ کے مکالمات الہیہ سے مشرف ہونے کا زمانہ ۳۸ سال کا ہتا ہے.اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ سہو کنات سے اڑتیں کی جائے تمہیں لکھا گیا ہے.پہلے حوالوں کے حساب سے قریباً ی راہ کا زمانہ ایسا زمانہ ہے جب آپ پر مکالمات الہیہ کا سلسلہ جاری ہو چکا تھا.گو اسکا ڈکا الہام اس سے پہلے بھی ہوا.جیسا کہ اپنی عمر کے متعلق حضرت اقدس کو الہام ۱۸۶۵ء میں ہوا تھا.☆☆☆
۱۹۰ باب پنجم دلائل نبوت برق صاحب نے اپنی کتاب کا پانچواں باب "دلائل بر نبوت“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے اور اس باب میں چند آیات زیر بحث لائے ہیں جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوی کی صداقت کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں.پہلے آپ مندرجہ ذیل آیت زیر بحث لائے ہیں."وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولئِكَ رَفِيقًا “ (نساء :٧٠) اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ”جو لوگ اللہ اور الرسول (محمد ع ) کی پیروی کریں گے وہ (انعام پانے میں) ان لوگوں کے ساتھ ہیں جن پر خدا تعالیٰ نے نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین سے انعام کیا ہے اور یہ اطاعت کرنے والے لوگ ان انعام یافتہ لوگوں کی اچھی معیت رکھتے ہیں.“ اس سے جماعت احمدیہ کا استدلال یہ ہے کہ یہ آیت آنحضرت ﷺ کے افاضہ روحانیہ کو بیان کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کی اتباع کریں گے وہ انعام یافتہ چاروں گروہوں کا فرد بن سکتے ہیں.لہذا کوئی امتی ان چاروں میں سے پہلے گروہ النبین کا فرد بھی بن سکتا ہے.جس طرح آپ کے امتی، صدیق، شہید اور صالح کا مرتبہ پا سکتے ہیں گویا اس آیت نے بتایا ہے کہ نبوت، صدیقیت ، شهادت اور صالحیت کا مرتبہ اور کمال حاصل کرنے کے لئے اب خدا تعالیٰ
191 کی اطاعت کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی اطاعت بھی شرط ہے جس سے الگ ہو کر کوئی شخص ان چاروں مدارج قرب میں سے قرب الہی کا کوئی مرتبہ نہیں پاسکتا.یہ فخر صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت میں انہیں چاروں مدارج مل سکتے ہیں محترم برق صاحب کو ہمارے اس استدلال سے اختلاف ہے وہ لکھتے ہیں.آیت میں مع (ساتھ رفاقت ہمراہ ہونا ) کا لفظ ہے یعنی وہ لوگ انبیاء کی رفاقت میں ہوں گے.نہ کہ خود نبی بن جائیں گے.گورنر کے ساتھ ہونے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ساتھی بھی گورنر ہیں.“ (حرف محرمانه صفحه ۱۰۲) جناب برق صاحب ! اس آیت میں صرف انبیاء کی رفاقت ہی کا ذکر نہیں بلکہ صدیقوں، شہداء ، اور صالحین سے بھی رفاقت کا ذکر ہے اور پھر اس رفاقت کو آیت کے آخری حصے میں اچھی رفاقت قرار دیا گیا ہے.بے شک ضروری نہیں کہ گورنر کا رفیق گورنر ہو.لیکن یہ آیت چونکہ صرف نبیوں سے ہی رفاقت کا ذکر نہیں کرتی.بلکہ تین اور گروہوں سے رفاقت کا ذکر بھی کرتی ہے اور اسے رفاقت حسنہ ٹھہراتی ہے.اس لئے اگر اس رفاقت حسنہ سے یہ مراد ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت کرنے والے نبی نہیں بن سکتے.صرف ان کو نبیوں کی ظاہری رفاقت حاصل ہو سکتی ہے تو پھر الله باقی حصہ آیت کے معنی یہ بن جائیں گے کہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت کرنے والے صدیق، شہید اور صالح بھی نہیں بن سکتے.بلکہ صرف ظاہری طور پر ان کے ساتھ ہوں گے.کیونکہ چاروں مدارج واو عاطفہ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں.اس لئے اگر نبیوں کے ساتھ ہونے کا حکم یہ ہو کہ وہ نبی نہیں بن سکتے تو باقی تین مدارج کا حکم بھی یہی ہو گا کہ وہ صدیق، شہداء اور صالح بھی نہیں بن سکتے اور یہ معنی آنحضرت ﷺ کے مصدر فیوض ہونے کی شان کے صریح منافی ہیں.اس طرح تو نبوت کو ہر قرار دیتے دیتے آپ کی امت کو اس سے نچلے درجوں صدیقیت اور شہادت
۱۹۲ اور صالحیت سے بھی محروم قرار دینا پڑے گا.حالانکہ صدیق، شہید اور صالح تو پہلے انبیاء کی امتوں میں بھی ہوتے رہے.اور امت محمدیہ کو آیت كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخر حت للناس میں خیر امت قرار دیا گیا ہے.پس خیر امت کو پہلی امتوں سے بڑھ کر مدارج ملنے چاہیئیں.پس مع کے معنی ظاہری رفاقت قرار دینے کے نتیجہ میں امت محمد یہ خیر امت قرار نہیں پا سکتی.بلکہ اس کا کوئی فرد صالح بھی قرار نہیں پا سکتا.ظاہر ہے ایسے معنی سراسر منشاء قرآن مجید کے خلاف ہیں.اور ان معنی سے شانِ نبوی اور شانِ امت کو سخت دھبہ لگتا ہے.لہذا اس جگہ معیت سے مراد نہ معیت زمانی کی جاسکتی ہے نہ مکانی.بلکہ معیت فی الدرجہ مراد لینا ہی ضروری ہے.اور ایسی معیت کے لئے ہی اس آیت میں آنحضرت ﷺ کی اطاعت تمام قوموں کے لئے شرط قرار دی گئی ہے صدیق، شہید اور صالح تو دوسرے تمام انبیاء کی اطاعت سے بھی ان کے امتی ہتے رہے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.66 99% «< "وَالَّذِينَ آمَنُو بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصَّدِيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ “ (الحديد :٢٠) یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ صدیق اور شہید الہذا جب دوسرے رسولوں کی اطاعت پر ان کے امتیوں کو صدیقیت اور شہادت کا مرتبہ حاصل ہو سکتا تھا تو آنحضرت نے کا ان انبیاء سے بلند مقام جو خاتم النبیین کا مرتبہ ہے اپنے افاضہ میں بڑھ کر ہونا چاہیئے اور وہ افاضہ زیر بحث آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی سے نبوت کی نعمت بھی اننت محمد یہ کومل سکتی ہے.اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ مع کی وہ غلط تغییر بھی پیش کی جائے گی جو برق صاحب وغیرہ پیش کرتے ہیں اس لئے اُس نے آیت میں النبیین کے بعد واو عاطفہ کے
۱۹۳ ذریعہ الصديقين، الشهداء اور الصالحین کے مقامات بھی عطف کر دئیے اور آیت کے آخر میں حَسُنَ أولئك رفيقاً کہہ کر توجہ دلا دی کہ اس رفاقت کو ظاہری اور معمولی رفاقت نہ سمجھا جائے.بلکہ اچھی قسم کی رفاقت سمجھا جائے جو ایک گورنر کو گورنر سے یا ایک ڈپٹی کمشنر کو ڈپٹی کمشنر سے یا ایک تحصیلدار کو تحصیلدار سے ہوتی ہے.گویا اس جگہ رفاقت في الدرجہ مراد ہے نہ کہ رفاقت ظاہری جو زمانی اور مکانی ہوتی ہے.مکانی اور زمانی رفاقت اس جگہ محال ہے.کیونکہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت کرنے والے امتی سابق انبیاء صدیقین، شہداء اور صالحین کا زمانہ اور مکان تو اس دنیا میں پاہی نہیں سکتے.جب ظاہری معیت محال ہوئی تو یہ امر قرینہ ہوگا.اس بات کے لئے کہ آیت میں معنوی معیت ہی مراد ہے اور معنوی معیت سے مراد یہی ہوتی ہے کہ درجہ میں معیت ہو.پس آنحضرت ﷺ کی اطاعت کرنے والوں کو جس طرح صدیقوں ، شہداء اور صالحین کا درجہ مل سکتا ہے ویسے ہی نبیوں کا درجہ بھی مل سکتا ہے ان معنوں کے سوا آیت کے کوئی اور معنی لینا اس کلام کے حسن کو بگاڑ دینے کے مترادف ہے.اور ایسے معنی آنحضرت ﷺ کی با عظمت شان کے صریح منافی ہیں.مَع کا لفظ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم کے ساتھ آیا ہے.اس سے صرف ظاہری رفاقت مراد لینے کے یہ معنی ہونگے کہ امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا انعام نہیں ہو گا.پس ظاہری معیت معنی لینا اس جگہ نا مناسب ہیں.قرآن کریم نے مع کا لفظ کئی جگہ معنوی معیت کے لئے استعمال فرمایا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِى الدَّرَكِ الاَ سُفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَاَخَلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولئِكَ مَعَ
۱۹۴ الْمُؤْمِنِين 66 ( نساء : ۱۴۶ ، ۷ ۱۴) یعنی منافق آگ کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے.اور تو ان کا کوئی مددگار نہیں پائے گا.مگر جنہوں نے توبہ کر لی اور اپنی اصلاح کرلی.اور اللہ تعالی کا دامن مضبوطی سے پکڑ لیا اور فرمانبرداری کو خالص نیت سے اختیار کیا وہ مومنوں کے ساتھ ہیں.یعنی مومنوں میں سے ہیں اور ان کے مراتب و کمالات کے حامل ہیں.پس جس طرح اس آیت میں تو بہ کرنے والوں کی مومنین کے ساتھ ظاہری معیت مراد نہیں بلکہ معنوی معیت مراد ہے اسی طرح زیر بحث آیت میں بھی معنوی معیت ہی مراد ہے کیونکہ ظاہری معیت کے محال ہونے کا قرینہ خود نفس آیت میں موجود ہے جیسا کہ قبل از میں بیان ہوا یادر ہے کہ آیت زیر حث میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت کرنے والوں کو قیامت کے دن انبیاء کی ظاہری معیت حاصل ہوگی کیونکہ آیت میں فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم جملہ اسمیہ ہے.جو استمرار پر دلالت کرتا ہے نہ کہ حدوث پر.اگر آیت میں جملہ فعلیہ ہو تا تو پھر قیامت سے اس کی تحدید کی جا سکتی تھی.مگر خدا تعالیٰ نے اس جگہ جملہ اسمیہ اس لئے استعمال کیا ہے تا یہ ظاہر کرے کہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت سے اسی دنیا میں انسان نبی، صدیقہ، شہید اور صالح بن سکتا ہے.ہاں آخرت میں جو تکمیل ثواب کا مقام ہے.ثواب پانے میں کامل رفاقت بھی آنحضرت ﷺ کے متبعین کو حاصل ہو گی کیونکہ استمرار اپنے وسیع معنوں کے لحاظ سے قیامت کے زمانہ پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے.جس طرح زیر بحث آیت میں جملہ اسمیہ وارد ہے اسی طرح اولئك مع المؤمنین جملہ اسمیہ ہے.تا یہ ظاہر ہو کہ کچی تو بہ کرنے والا اسی دنیا میں مومنوں کے زمرہ میں داخل ہو جاتا ہے اور ان کے کمالات سے بہر دور ہو جاتا ہے.اور آخرت میں ثواب پانے میں ان کے ساتھ ہو گا.
۱۹۵ تادیل کے متعلق اس جگہ جو طفلانہ باتیں برق صاحب نے لکھی ہیں ان کا اس جگہ کوئی تعلق نہیں.مفتری علی اللہ اور صادق میں امتیاز کی دلیل دوسری آیت جو جناب برق صاحب زیر بحث لائے ہیں یہ ہے.إِنَّهُ لَقَولُ رَسُولٍ كَرِيمٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلاً مَّا تُؤْمِنُونَ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِن قَلِيلاً ما تَدْ كُرُونَ تَنزِيلٌ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِينَ وَلَوْ تَقُولَ عَلَيْنَا بَعض الأقاويل لاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (الحاقة : ۴۰ تا ۴۷) اس آیت کا ترجمہ برق صاحب نے یوں کیا ہے :.وو یہ قرآن رسول کریم کا قول ہے شاعر کا قول نہیں تم کیوں نہیں مانتے نہ کسی کا ہن کا قول ہے پھر کیوں درس ہدایت نہیں لیتے اس کے اتارنے کا سامان اللہ نے کیا ہے اگر یہ رسول کریم ہماری طرف غلط باتیں منسوب کرے تو ہم اسکا دلیاں ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ گردن کاٹ ڈالیں.“ (حرف محرمانه صفحه ۱۰۵) اس کے بعد برق صاحب نے اس گھت سے متعلق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا استند لال یوں درج کیا ہے :- ا.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افتراء کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں.اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا.لیکن اس عاجز کے دعوئی مجد دو میل مسیح ہونے اور دعویٰ ہم کلام الہی ہونے پر اب بفضلہ تعالی گیار ہواں برس جاتا ہے.کیا یہ نشان نہیں ہے کہ اگر خدا تعالی کی طرف سے یہ کاروبار نہ ہوتا تو کیونکر عشرہ کاملہ تک جو ایک حصہ عمر کا ہے ٹھر سکتا تھا.“ (نشان آسمانی صفحه ۴۳ طبع اول ) -۲- پھر تعجب پر تعجب یہ کہ خدا تعالیٰ نے ایسے ظالم مفتری کو اتنی لمبی مہلت بھی دے
دی جسے آج تک بارہ برس گزر چکے ہوں.اور مفتری ایسا اپنے افتراء میں بے باک ہو." شهادت القرآن صفحہ ۶ نے طبع اوّل) خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اس پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے." (ضمیمه اربعین نمبر ۳، نمبر ۴ طبع اوّل) -۴ خدا تعالیٰ مفتری علی اللہ کو ہر گز سلامت نہیں چھوڑتا اور اسی دنیا میں اس کو سزا دیتا ہے اور ہلاک کرتا ہے.“ اربعین نمبر ۴ صفحه ۴ طبع اول) ۵- "خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بار بار فرماتا ہے کہ مفتری اسی دنیا میں ہلاک ہو گا بلکہ خدا کے سچے نبیوں اور مامورین کے لئے سب سے بڑی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کر کے مرتے ہیں اور ان کو اشاعت دین کی مہلت دی جاتی ہے اور انسان کی اس مختصر زندگی میں بڑی سے بڑی مہلت ۲۳ برس ہے.“ (اربعین نمبر ۴ صفحه ۵ طبع اوّل) پھر تورات میں یہ عبارت ہے...اس آیت میں خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ افتراء کی سزا خدا کے نزدیک قتل ہے." (اربعین نمبر ۴ صفحه ۹ طبع اوّل) دلیل سے برق صاحب کی پریشانی برق صاحب حضرت بانی سلسلہ کے اس آیت سے اپنی صداقت کے متعلق استدلال سے بہت پریشان ہیں چنانچہ ان کی پریشانی کی قطعی دلیل یہ ہے کہ وہ اس آیت کے الفاظ "رسول کریم " سے آنحضرت نے کی بجائے وحی لانے والا فرشتہ مراد لے رہے ہیں.مگر اپنی پریشانی کو چھپانے کے لئے بڑے فخر سے لکھتے ہیں :- بات یہ ہے کہ آیت زیر بحث کا مفہوم ہمارے علماء سے آج تک مخفی رہا.قرآن مفسر قرآن ہے.اس آیت کی تفسیر ایک اور آیت میں موجود ہے یہاں قابل حل صرف یہ سوال ہے کہ رسول کریم کون ہیں ؟ اگر اس سے مراد حضور ﷺ ہوں تو
۱۹۷ جناب مرزا صاحب کا استدلاں درست ہے اگر کوئی اور ہوں تو درست نہیں.“ (حرف محرمانه صفحه ۱۱۲٬۱۱۱) چونکہ برق صاحب کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اگر رسول کریم سے اس آیت میں آنحضرت سے مراد لئے جائیں تو پھر بانی سلسلہ احمدیہ کا استدلال درست ہو جاتا ہے اور آپ کی صداقت ثابت ہو جاتی ہے.مگر ان کا دل آپ کو مانا نہیں چاہتا.بلکہ آپ آزادی پسند ہیں.اس لئے اس جگہ خلاف منشاء متکلم انکار کے لئے بیہمانہ تلاش کرتے ہوئے انہوں نے رسول کریم سے وحی لانے والا فرشتہ مراد لے لیا ہے.اور پھر یہ مضحکہ خیز بات لکھنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی کہ : رگ جان کاٹنے کی وعید اس فرشتے سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ حضور سے جب بنیاد ہی نہ رہی تو پھر وہ قصر استدلال کیسے قائم رہ سکتا ہے.جو مرزا صاحب نے صرف اسی بنیاد پر اٹھایا تھا.کہ رگ جان والی و عید کا تعلق حضور سے ہے.“ برق صاحب کی تفسیر کارڈ (حرف محرمانه صفحه ۱۱۴) گویا برق صاحب کے نزدیک آیت کا مفہوم یہ من گیا کہ خدا تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ اگر "رسول کریم یعنی وحی لانے والا فرشتہ ہماری طرف کوئی غلط بات منسوب کرے تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کی رگِ جان کاٹ ڈالیں.مگر برق صاحب کے معنی تب درست ہو سکتے ہیں جب کہ :- اول :- یہ بات کافروں کو تسلیم شدہ ہو کہ فرشتے بھی انسان کی طرح جھوٹ بول سکتے ہیں.دوم :.یہ بھی انہیں مسلم ہو کہ فرشتے بھی مادی وجود رکھتے ہیں اور انسان کی طرح گردن اور گردن میں شاہرگ بھی رکھتے ہیں.جس کے کاٹنے سے ان کی ہلاکت واقع
۱۹۸ ہوتی ہے لیکن کافروں کے ان دونوں باتوں کا یقین رکھنے کے متعلق کوئی ثبوت موجود نہیں.اور پھر قرآن کریم کے بیان سے ثابت ہے کہ فرشتے يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ کا مصداق ہوتے ہیں یعنی وہ یقینی طور پر معصوم ہوتے ہیں اور جھوٹ نہیں بول سکتے اور از روئے قرآن مجید ملائکہ مادی وجود بھی نہیں رکھتے کہ ان کے لئے رگ گردن تجویز کی جائے.سوم :- تیسری بات یہ بھی قابل غور ہے کہ مخالفین قرآن مجید کے اعتراضات یہ تھے.- یہ محمد (رسول اللہ علی ) کا افتراء ہے.- یا محمد (رسول اللہ ﷺ ) شاعر ہیں یا کا ہن اور انہوں نے قرآن کریم کی یہ باتیں از خود گھڑ لی ہیں.یہ باتیں خدا کا کلام نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ان کے ان اعتراضات کے رد میں یہی فرمانا مناسب ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں محمد (رسول اللہ ﷺ نے نہیں گھڑیں وہ تو رسول کریم ہیں.پس ان کا یہ کلام پیش کرنا اپنی طرف سے نہیں بلکہ ان کو رسول کے طور پر بھیجنے والے کی طرف سے ہی ہے.اور یہ شاعر کا کلام بھی نہیں اور کا اُن کا قول بھی نہیں.یعنی محمد مصلے ملے کوئی شاعر یا کا ہن بھی نہیں.بلکہ یہ کلام رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے.اگر یہ (رسول کریم) ہماری طرف بعض جھوٹے قول بھی منسوب کر تا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کی رگِ جان کاٹ دیتے جس کے کٹ جانے سے اس رگ سے خون بہ جانے پر دل کی حرکت ہی ہو کر موت واقع ہو جاتی ہے.وحی لانے والے فرشتے کو تو قرآن مجید میں روح قرار دیا گیا ہے.پس جبریل انسان کی طرح کوئی مادی وجود نہیں رکھتا کہ اس میں انسان کی طرح رگیں اور پٹھے ہوں.اور دوران خون پر اس کی زندگی کا مدار ہو.اور اس کیلئے رگ گردن تجویز کی جائے.کافرول اور مشرکوں کا اس موقعہ پر یہ صلى الله اعتراض تو تھا ہی نہیں کہ محمد (رسول اللہ ﷺ ) پر وحی لانے والے فرشتے نے اس کلام
١٩٩ کو جھوٹ موٹ خدا کی طرف منسوب کر دیا ہے.تا خدا کو یہ فرمانا پڑتا کہ اگر جبریل بھی کوئی قول جھوٹ بنا لیتا تو میں اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگِ گردن کاٹ دیتا.کیونکہ اس صورت میں یہ جواب اعتراض کے مطابق نہ ہو تا اور کافروں کو اس سے کوئی تسلی نہ مل سکتی جس سے وہ یقین کر سکتے یہ کلام خدا تعالٰی کا ہے.کیونکہ وہ کہہ سکتے تھے کہ وحی لانے والا فرشتہ تو ہمارے سامنے کبھی آیا ہی نہیں.وہ تو ایک مخفی وجود ہی ہو سکتا ہے جس کا گرفت میں آنا اور اس کی رگِ جان کا کاٹا جاتا ہم مشاہدہ ہی نہیں کر سکتے.پس کفار و مشرکین کو کسی وحی لانے والے فرشتے پر اعتراض نہ تھا.وہ تو محمد رسول اللہ ﷺ کو کاہن اور شاعر قرار دے کر اس کلام کو خود گھڑ لینے والا اور خدا تعالیٰ کی طرف اسے منسوب کرنے والا قرار دے رہے تھے.لہذا ان کے اعتراض کے جواب میں جس رسول کریم کا ذکر ہو سکتا تھا وہ آنحضرت ﷺ ہی ہو سکتے ہیں جنہیں معترضین ایک انسان یقین کرتے تھے اور یہ بھی سمجھ سکتے تھے کہ ان کی رگِ جان کٹنے سے ان کی ہلاکت واقع ہو سکتی ہے.لہذا خدا تعالیٰ نے ان کے اعتراضات کے پیش نظریہ فرمایا کہ یہ کلام رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے.اور محمد رسول اللہ علی اللہ کے منہ سے حیثیت رسول خدا ( پیغامبر اور ایچی) کے نکلا ہے.اور اگر یہ رسول خدا پر کچھ بھی افتراء کر لیتا تو ہم اس کا دایاں ہا تھ پکڑ کر اس کی رگ جان کاٹ دیتے.علاوہ ازیں آیت کے اندر ایک اور زبر دست قرینہ بھی موجود ہے.جو برق صاحب کی بات کی تردید کر رہا ہے.یہ قرینہ فمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ کے الفاظ ہیں.کہ جب خدا قطع و تین کا ارادہ کرے تو تم میں سے کوئی بھی اس کے اس فعل میں روک نہیں ہو سکتا.صاف ظاہر ہے کہ جہاں تک انسانی روک کا تعلق ہے وہ انسانوں کی طرف سے انسان کو بچانے کے لئے ہی ہو سکتی ہے نہ کہ کسی فرشتہ کو بچانے کے متعلق کسی فرشتہ کے متعلق تو خدا تعالی کا ان الفاظ میں چیلنج دینا معقول ہی نہیں
۲۰۰ ہو سکتا.پس چونکہ افتراء کر نیوالے انسان کو ہی قطع و تعین کی سزادی جاسکتی ہے.اس لئے علماء امت نے اس آیت میں رسول کریم سے مراد فرشتہ نہیں لیا.بلکہ آنحضرت ﷺ ہی مراد لئے ہیں.چونکہ آنحضرت ۲۳ سال کا لمبا عرصہ اپنے دعوئی پر قائم رہے اور دن د گئی اور رات چوگنی ترقی کرتے رہے اور آپ کی قطع و تین نہ ہوئی بلکہ آپ نے وحی کا دعوی کرنے کے بعد لمبی عمر پائی.اس لئے فقہاء امت نے اس سے یہ معیار اخذ کیا ہے :- وو فَإِنَّ الْعَقَلَ يَجْزِمُ بِاِمْتِنَاعِ اِجْتِمَاعِ هَذِهِ الْأُمُورِ فِي غَيْرِ الْأَنْبِيَاءِ فِي حَقِ 66".مَنْ يَعْلَمُ أَنَّهُ يَفْتَرِى عَلَيْهِ ثُمَّ يُمْهِلُهُ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ سَنَةٌ “ ( شرح عقائد نسفی صفحه ۱۰۰) یعنی " عقل اس بات کو نا ممکن قرار دیتی ہے کہ یہ باتیں ایک غیر نبی میں جمع ہو جائیں اس شخص کے حق میں جس کے متعلق خدا جانتا ہے کہ وہ خدا پر افتراء کرتا ہے.پھر اس کو ۲۳ سال کی مہلت دے.“ عمر پا سکے.گویا اس معیار کی رُوئے ممکن نہیں کہ کوئی جھوٹا مدعی نبوت ۲۳ سال کی لمبی ایک اور طرح سے فہمائش ہم اس موقعہ پر برقی صاحب کو ایک اور طرح سے بھی سمجھانا چاہتے ہیں.ان پر واضح ہو کہ اگر ہم علی سبیل التنزل ان کی یہ بات مان بھی لیں کہ رسول کریم سے مراد فرشتہ ہے اور فرشتہ اگر جھوٹا قول بناتا تو خدا فرماتا ہے میں اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ گردن کاٹ دیتا.تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ افتراء علی اللہ کی سزا ہی اللہ تعالی کے نزدیک اخذ بالسیمین کے بعد قطع و تین ہے.تبھی تو اس نے فرمایا کہ اگر فرشتہ
۲۰۱ بھی ایسا کر تا تو میں اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ جان کاٹ دیتا.پس اگر فرشتہ کے افتراء کرنے پر اس کی قطع و تین ہو سکتی ہے تو یہ سزا اس انسان کو بدرجہ اولی ملنی چاہئے جو افتراء سے کوئی قول خدا کی طرف سے منسوب کرے.فرشتے اور ان کی قطع و تین تو انسانوں کو نظر ہی نہیں آسکتی کہ دلیل افتراء بن سکے انسان کی قطع و تین یا اس کا قطع و تین سے بچ جانا ہی انسانوں کو نظر آسکتا ہے جس سے اس انسان کے مفتری یا منجانب اللہ ہونے کا فیصلہ ہو سکتا ہے.پس جب فرشتے کے لئے بقول برق صاحب افتراء کرنے پر قطع و تین کی سزادی جاسکتی ہے تو یہی سزابدرجہ اولیٰ انسان کو خدا پر افتراء کی صورت میں دی جانی چاہئے ورنہ ترجیح بلا مرجح لازم آئے گی.اور اس جگہ اسبات کے لئے کوئی مرچ موجود نہیں کہ فرشتہ افتراء علی اللہ کرے تو اس کی سزا تو قطع و تین ہی ہونی چاہیئے.لیکن انسان افتراء علی اللہ کرے تو اس کی سزا قطع و قین نہ ہو گی.ترجیح بلا مرجج چونکہ جائز نہیں.لہذا انسان کے مفتری علی اللہ ہونے پر بھی ایسی ہی سزاملنی چاہیئے کیونکہ مخلوق خدا کا مفاد تو اسی میں ہے کہ مدعی الہام انسان کے متعلق اسے تسلی ہو کہ وہ مفتری علی اللہ ہے یا منجانب اللہ.فرشتوں کے افترا علی اللہ کرنے کا تو اس کے ذہن میں کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا.پس پبلک کے مفاد کی خاطر مفتری علی اللہ انسان کو سزا ضرور ملنی چاہیئے تا صادق اور کاذب کے درمیان فرق ہو جائے.فرشتے تو عام انسانوں کے سامنے وحی لے کر آیا ہی نہیں کرتے لہذا معترضین انسان کو ہی مفتری علی اللہ قرار دے سکتے ہیں.نہ وحی لانے والے فرشتہ کو.ان کا تو اعتراض یہ ہوتا ہے کہ فرشتوں سے اس مدعی کا کوئی تعلق نہیں.مفتری علی اللہ کے متعلق برق صاحب کی پیش کردہ آئیتیں برق صاحب نے مفتری علی اللہ اور جھوٹے مدعیان الہام سے متعلق دو اور آئیتیں قرآن کریم سے پیش کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ایسے لوگوں کی سز ایا تو ناکامی ہے یا
٢٠٢ اگلی دنیا میں جنم یا صرف لعنت.وہ دو آئینیں یہ ہیں.ا قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى قتل.(طه: ۶۲) اس آیت سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مفتری علی اللہ نا کام ہوتا ہے نہ کہ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كَذِباً أَوقَالَ أُوحِيَ إِلَى وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْى وَمَنْ قَالَ سَأَنْزَلُ مِثْلَ مَا أَنْزَلَ اللهُ ، وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّلِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ ط ط وَالمَلْئِكَةُ بَاسِطُوا أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كنتُم تَقُولُونَ عَلَى اللهِ غَيْرَ الحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ (الانعام : ٩٤) یہ آیت آپ نے اس بات کے ثبوت میں پیش کی ہے کہ جھوٹا نبی اپنی موت تک مہلت پاتا ہے اور اس کی سزا کا سلسلہ بعد از موت شروع ہوتا ہے.اگر برق صاحب کی تفسیر مان لی جائے تو ان کی بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ اگر فرشتہ افتراء علی اللہ کرے تو اسے تو دنیا میں ہی قطع و تین کی سزا مل جاتی ہے.لیکن اگر کوئی انسان افتراء علی اللہ کرے تو اسے صرف ناکامی ہوتی ہے.گویا ان کے نزدیک یہ آئیتیں ایسے انسان کے متعلق ہیں جو مفتری علی اللہ ہو اور آیت لو تقول صرف ایسے فرشتہ سے تعلق رکھتی ہے جو افتراء کرے حالانکہ فرشتہ کے افتراء کرنے کا تو کسی کو وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کے لئے سزا کی ضرورت ہوتی کیونکہ نہ تو فرشتے انسانوں کے سامنے آ کر انہیں اپنی طرف دعوت دیتے ہیں اور نہ ہی ان کی طرف سے لوگوں کو گمراہ کرنے کا وہم و گمان ہو سکتا ہے.ایسا احتمال صرف انسان ہی کے متعلق پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے مفترمانہ دعویٰ کر رہا ہو.آیات کی اصل حقیقت اصل حقیقت ان آیات قرآنیہ کی یہ ہے کہ :
قَدْ خَابَ مَنِ افْتَری کے الفاظ میں مفتری علی اللہ کا انجام مختصر نا کامی بیان کیا گیا ہے جس کی تفصیل کچھ تو تقول والی آیت میں بیان ہوئی ہے اور کچھ ولو تَرى إِذِ الظلِمُونَ فِي غَمَرَاتِ المَوتِ (الانعام : ۹۴) والی لو پر بیان کردہ آیت میں اس دوسری آیت میں تو یہ بیان ہوا ہے کہ ان کو مرنے کے بعد بھی عذاب ہو گا.لَو تَقَوَّل والی آیت میں صرف ان کیلئے دنیا کی سزا بیان ہوئی ہے جو یہ ہے کہ ان کا دایاں ہاتھ پکڑ کر ان کی رگ جان کائی جائے گی.پس ان دونوں قسم کی آیات میں در حقیقت کوئی ایسا اختلاف نہیں جس کی وجہ سے لَو تَقولُ والی آیت میں ”رسول کریم“ کے الفائل سے وحی لانے والا فرشتہ مراد لیا جا سکے.تَقَوَّل کا لفظ تَقَوَّل باب تفعل سے فعل ماضی ہے.تفعل کا خاصہ تصنع اور بناوٹ بھی ہوتا ہے اس لئے لوتقول علینا بعض الاقاویل کے الفاظ میں کسی شخص کی طرف سے دانستہ جھوٹے قول کو خدا تعالی کی طرف منسوب کرنا مراد ہے نہ کہ نادانستہ.کیونکہ ایسے مدعیان الهام بھی پائے جا سکتے ہیں جو جنون وغیرہ قسم کے دماغی عوارض کے ماتحت اپنی احادیث النفس کو الہام خیال کر لیں اور اپنے تئیں اس طرح مدعی نبوت کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کرنے لگیں.ایسے لوگوں کی سزا قطع و تین نہیں ہوتی.بلکہ ایسے لوگوں کی شناخت صرف اس بات سے ہو جاتی ہے کہ ان کے کام اور کوشش کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا.نہ ان کی زندگی میں اور نہ ان کی زندگی کے بعد کیونکہ وہ کوئی روحانی انقلاب پیدا نہیں کر سکتے بلکہ ان کی تحریک ناکام رہتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- نَ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ مَا اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونِ وَإِنَّ لَكَ لاجرا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ فَسَتَبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ بِايْكُمُ الْمَفْتُونُ - (سورۃ القلم : ۲ تا ۷ ) جب بعض لوگوں نے رسول کریم کو مجنون قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی
۲۰۴ تردید میں فرمایا.کہ دوات اور قلم اور جو کچھ یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی طرف سے الهام الہی کے طور پر) لکھ رہے ہیں اس امر پر گواہ ہے کہ اے نبی تو خدا کی طرف سے نبوت کی نعمت پانے کے دعوئی مین مجنون نہیں ہے (جس کا ثبوت یہ ہے) کہ بے شک تیرے کام کا غیر منقطع اجر ہے اور تو خلق عظیم پر ہے پس عنقریب تو بھی دیکھے گا اور یہ معترضین بھی دیکھ لیں گے کہ دونوں میں سے خدا کی آزمائش میں کون مبتلا ہے".اس آیت سے ظاہر ہے کہ دیوانے کے کام کا کوئی اجر نہیں ہو تا.اور وہ دُنیا میں کوئی روحانی انقلاب پیدا نہیں کر سکتا.بلکہ اس کی ساری زندگی بے مقصد گذرتی ہے.پس ایسے مدعیان جو دماغی عوارض کے ماتحت الہام کا دعوی کریں.وہ لو تقول کے معیار پر پر لکھے نہیں جاسکتے کیونکہ ان کے دعوئی میں تصنع اور پٹاوٹ موجود نہیں ہوتی بلکہ وہ خود فریب خوردہ ہوتے ہیں.ان کے اپنے مقصد میں ناکامی ہی اس بات کا کافی ثبوت ہوتی ہے کہ ان کا دعوی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی حضرت عیسی علیہ السلام سے مماثلت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :- " وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأرْض كَمَا اسْتَخلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ " (سوره نور : ۵۶) یعنی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لا کر اعمال صالحہ بجالانیوالوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا.جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو تم سے پہلے گذر چکے.“(جو موسوی سلسلہ کے خلفاء تھے) اور اس طرح ان کے دین کو ضرور مضبوط کرے گا اور ضرور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا یہ خلفاء میرے عبادت گذار ہوں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد انکار کرینگے وہ فاسق ہوں گے.“
۲۰۵ ( یعنی ان خلفاء کا انکار اور ان کی عدم اطاعت خدا تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہو گی) اس آیت میں امت محمدیہ کے خلفاء کو ان سے پہلے گذرے ہوئے خلفاء سے لفظ کما کے ذریعے تشبیہ دی گئی ہے.چونکہ امت محمدیہ سے قریب ترین خلفاء حضرت موسیٰ کے بعد آنے والے موسوی شریعت کے تابع انبیاء ہی تھے.اور بنی اسرائیل میں آخری خلیفہ حضرت عیسی تھے اس لئے ضروری تھا کہ سلسلہ محمدیہ کا آخری خلیفہ حضرت عیسے کا میل ہو.قرآن میں اللہ تعالی نے آنحضرت ﷺ کی شان میں انا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِداً عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً - (المزمل : ١٦) فرما کر آپ کو حضرت موسیٰ کا میل قرار دیا ہے.لہذا ان دونوں آیتوں کا مفاد یہ ہوا کہ سلسلہ محمدیہ سلسلہ موسوی سے مشابہت رکھتا ہے.سلسلہ محمدیہ کے پہلے نبی آنحضرت ہے مثیل موسیٰ ہیں اور اس سلسلہ کا آخری خلیفہ سور نور کی آیت مذکورہ کی رو سے مثیل عیسی ہے.اس طرح اول اور آخر کی مشابہت سے دونوں سلسلوں میں مشابہت کا تحقق ضروری تھا.پس قرآن کریم کی اس نص میں امت محمدیہ کو ایک فیل مسیح کا وعدہ دیا گیا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس موعود خلیفہ کو حضرت مسیح کاشیل قرار دینے کے لئے فرمایا كيف أَنتُمْ إِذَانَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَمَا مُكُم مِنكُمُ یعنی تم کیسی حالت میں ہو گئے جب کہ تم میں ابن مریم نازل ہو گا.اور وہ تم میں سے تمہارا امام ہو گا.اس جگہ اس موعود خلیفہ کو ائن مریم کا نام حضرت عیسی سے مماثلت کی وجہ سے استعارہ کے طور پر دیا گیا ہے.مسلم شریف کی ایک حدیث میں واما مُكُم مِنكُمْ کی جائے فَامُكُم منكم کے الفاظ وارد ہیں اس طرح ان دو نو حد بیٹوں میں اس ان مریم کو امت محمدیہ کے افراد میں سے ایک فرد قرار دے کر امت کا لام قرار دیا گیا ہے.
۲۰۶ پس اِمَا مُكُمْ مِنْكُمُ اور فَامَّكُم مِنكُمْ کے الفاظ اس موعود کا نام بطور استعار و ائن مریم رکھا جانے کے لئے قومی قرینہ ہیں.ہمارے نزدیک قرآن مجید اور حدیث کی یہ پیشگوئی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے وجود میں پوری ہو چکی ہے اور آپ ہی اس امت کے مسیح موعود ہیں اور حضرت عیسے سے مشاہبت تامہ رکھتے ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس آیت سے یہی استنباط فرمالیا ہے چنانچہ خود برق صاحب نے آپ کی کتاب ”شہادت القرآن“ صفحہ ۲۶ تا ۲۸ سے اور پھر صفحہ ۶۹ سے اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے.اس کے بعد آپ کی کتب سے چند حوالہ جات حضرت عیسی سے بعض وجوہ مماثلت پر بھی پیش کئے ہیں لیکن افسوس ہے کہ اس بارہ میں انہوں نے آپ کی تحریرات سے ان تمام وجوہ مماثلت کو بیان نہیں کیا جن کا پایا جانا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے اور صحیح" کے وجود میں ثابت کیا ہے.بہر حال ان اقتباسات سے برق صاحب نے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کئے ہیں.اول : - آیت میں کما کا لفظ حضور کو حضرت موسیٰ" کا مثیل ثابت کرتا ہے.( یعنی آیت كما ارسلنا إلى فرعون رسولاً (المزمل : ۱۶ میں) دوم : - مماثلت سے مراد مماثلت تامہ ہے یعنی دونوں سلسلوں (موسوی و محمدی) کے خلفاء تعداد میں برابر تھے اور مسیح اور موسیٰ کے درمیان اتنا ہی زمانہ حائل تھا جتنا مسیح موعود اور حضور پر نور (آنحضرت ﷺ ) میں.نیز موسوی سلسلہ میں بارہ خلفاء تھے اور تیر ھواں مسیح تھا.سوم : - جناب مرزا صاحب ختم الخلفاء ( یعنی آخری خلیفے ) تھے.چهارم : - جس طرح حضرت مسیح اسرائیلی نہیں تھے اسی طرح مرزا صاحب بھی قریشی نہیں تھے.سلسلہ محمدیہ کا پہلا خلیفہ حضرت ابو بکر اور بار ہواں خلیفہ سید احمد بریلوی تھا.
مماثلت پر برق صاحب کی تنقید کی جزو اول ان پانچ نتائج کو لکھنے کے بعد برق صاحب نے ان پر جداگانہ نظر ڈالی ہے.چنانچہ اپنی تنقید کی جزواول میں وہ لکھتے ہیں :- "کما حرف تشبیہ ہے.اور تشبیہ کے لئے مکمل مشابہت مماثلت تامہ) ضروری نہیں." (صفحہ ۱۲۰) پھر لکھتے ہیں :." تشبیہ کے لئے صرف ایک پہلو میں مشابہت یعنی ایک وجہ شبہ کافی ہوتی ہے.زید کو شیر سے تشبیہ دینے کے لئے صرف شجاعت کافی ہے.ضرورتی نہیں کہ زید پہلے میں برس جنگل میں رہے.وہاں ہرنوں اور گیدڑوں کا گوشت کھانا سیکھے.دھاڑنے کی مشق کرے.کہیں سے چار ٹانگیں اور ایک پونچھ لائے اور پھر ہم اسے شیر کہیں.“ پھر لکھتے ہیں : -- ( حرف محرمانہ صفحہ ۱۲۲-۱۲۳) اگر تشبیہ ہر جگہ جزئی ہوتی ہے تو پھر قرآن کی آیت زیر بحث میں کما سے مکمل تشبیہ مراد لے کر اس پر سلسلہ خلافت و مسیحیت تعمیر کرنا ایک ایسا اقدام ہے جس کی تائید کہیں سے نہیں مل سکتی.آیت زیر بحث میں اللہ تعالٰی نے ایک سیدھی سی بات کی ہے کہ ہم نے اے اہل عرب تمہاری اصلاح کے لئے اسی طرح ایک رسول بھیجا ہے.جیسا کہ پہلے فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا.یہاں کئی وجوہات تشبیہ موجود ہیں.اول فرعون اور اہل عرب کا ہر دو کا بہ کار و ظالم ہونا موسیٰ اور حضور ہر دو کو آتشی شریعت ملنا دونوں کا صاحب السیف و الکتاب ہوتا.“ "موسیٰ کا فرعون کے ہاں پل کر فرعون کے خلاف اٹھنا اور حضور کا عربوں میں پل کر ان کے خداؤں کے خلاف ار او بناوت بلند کرنا وغیرہ وغیرہ.( حرف محرمانہ صفحہ ۱۲۲)
۲۰۸ برق صاحب کی اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ انہیں صرف حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے سلسلہ موسوی اور محمدی میں مشابہت تامہ " قرار دینے پر اعتراض ہے نہ کہ جزوی مشابہت پر اور اسی طرح ان کے نزدیک آنحضرت ﷺ کو موسی سے مشابہ قرار دینے میں کچھ جزوی مشابہتیں مراد ہیں نہ کہ تمام جزوی امور میں مشابہت.اعتراض کا جواب اب اس اعتراض کے جواب میں عرض ہے کہ محترم برق صاحب کی ساری حث صرف ایک نزاع لفظی پر مشتمل ہے انہیں یہ تو مسلم ہے کہ آنحضرت قرآن میں موسیٰ کی مانند نبی قرار دیئے گئے ہیں اور انہیں یہ بھی مسلم ہے کہ محمدی اور موسوی دونوں سلسلوں کے خلفاء میں جزوی مشابہت ہونی چاہیئے نہ کہ مشابہت نامہ.دلیل ان کی یہ ہے کہ ان آیات میں لفظ کما آیا ہے.جو حرف تشبیہ ہے اور جزوی مشابہت کو چاہتا ہے.اس دلیل کے جواب میں عرض ہے کہ بے شک گھا وہاں بھی استعمال کیا جاتا ہے.جہاں دو وجو دوں میں صرف ایک ہی امر میں جزوی مشابہت ہو جیسے ہم یہ کہیں کہ زید شیر کی مانند ہے تو وہاں صرف بہادری میں مشابہت ہو گی.لیکن حرف تشبیہ خفا اس بات کے لئے قطعی دلیل نہیں کہ جہاں استعمال کیا جائے وہاں ضروری طور پر صرف ایک ہی وجہ شبہ مد نظر ہو گی چنانچہ خود برق صاحب نے آنحضرت ﷺ کو موسیٰ سے دی گئی مشابہت میں چار وجوہ شبہ لکھ کر آگے وغیرہ وغیرہ دے کر اور وجو و شبہ کہ موجود ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے.حضرت اقدس کے نزدیک بھی مشابہت تامہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہ کے در میان مشابہت تامہ کی صورت میں تمام جزوی امور میں مشابہت کا پایا جانا ضروری ہے.بلکہ مشابہت تامہ کے لئے علم بلاغت کی رُو سے صرف ایک ہی وجہ شبہ میں بھی علی وجہ الا تم تشبیہ کا پایا جانا کافی ہوتا ہے.جیسا کہ استعارہ میں مشابہت تامہ کا ہی دعوئی
۲۰۹ ہوتا ہے.خواہ وجہ شبہ اس جگہ ایک ہی امر ہو.استعارہ بھی تشبیہ پر ہی مشتمل ہوتا ہے.اور اس میں اور عام تشبیہ میں یہ فرق ہوتا ہے کہ عام تشبیہ میں تو مشبہ اور مشہر بہ اور حرف تشبیہ مذکور ہوتے ہیں.لیکن استعارہ میں حرف تشبیہ اور مشبہ کا ذکر حذف کر دیا جاتا ہے اور صرف مشبہ بہ کا ذکر ہوتا ہے اور مراد اس سے مشبہ کا وجود ہوتا ہے.جیسے ہم کہیں آسدُ نَافِی الحَمام ہمارا شیر حمام میں ہے.اور شیر سے مراد مثلا زید ہو سو اس جگہ تشبیہ بھی موجود ہے اور وجہ شبہ بھی صرف ایک جزوی امر یعنی بہادری ہے لیکن حرف تشبیہ اڑا کر مشابہت نامہ کا دعویٰ کیا گیا ہے.پس استعارہ میں مشابہت تامہ ہی کا ادعا ہو تا ہے.خواہ اس جگہ مشبہ اور مشبہ یہ میں صرف ایک ہی وجہ شبہ پائی جائے اور گما کا حرف استعمال کرنے کی صورت میں مطلق تشبیہ مراد ہوتی ہے.لہذا اس صورت میں مشابہت تامہ اور ناقصہ دونوں کے پائے جانے کا احتمال ہوتا ہے.پس اگر مشبہ اور مشبہ بہ میں سے مشبہ ( تشبیہ دیا گیا) افضل وجود ہو تو خواہ اس جگہ چند جزوی امور میں ہی یا صرف ایک ہی امر میں مشابہت ہو.اس جگہ مشابہت نامہ ہی سمجھی جائے گی.آنحضرت نے قرآن کریم میں كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَونَ رَسُولاً کے الفاظ میں موسیٰ" کی مانند ہی قرار دئیے گئے ہیں اور کما کے ذریعے ہی آپ کو حضرت موسیٰ سے مشابہت دی گئی ہے.مگر آپ کو خاتم النبین کہہ کر تمام انبیاء کے کمالات کا جامع بھی ظاہر کیا گیا ہے اس لئے آپ حضرت موسیٰ سے افضل ہیں.اور جب افضل ہیں تو اہم وجوہ شبہ میں آپ کی حضرت موسیٰ سے مشابہت تامہ ہی قرار دی جائے گی.بہر حال امت محمدیہ کا مسیح موعود وہ ہے جو حضرت عیسی سے کئی اہم امور میں مشابہت رکھتا ہے اور حضرت عیسی سے افضل بھی ہے.اس لئے اس کی مسیح ناصری سے مشابہت تامہ ہی قرار دی جائے گی.اس طرح سلسلہ محمدی کے اول نبی اور
۲۱۰ آخری خلیفہ کے سلسلہ موسوی کے اول نبی اور آخری خلیفہ سے افضل ہونے کی وجہ سے سارا سلسلہ محمدی سلسلہ موسوی سے افضل ٹھہرے گا.اور سلسلہ محمدی کی سلسلہ موسوی سے مشابہت تامہ قرار دی جائے گی گو یہ مشابہت کئی جزوی امور میں ہی ہو گی.پس برق صاحب نے اس جگہ محض نزاع لفظی سے کام لیا ہے انہوں نے مشابهت تامہ کے ایک خود ساختہ معنی لئے ہیں جو غلط ہیں.اور پھر ان معنی پر اپنے اعتراضات کی عمارت کھڑی کر دی ہے.کاش وہ علم بلاغت سے صحیح واقفیت رکھتے.تا ایسی علمی ٹھوکر سے بچ جاتے جو اس اعتراض میں انہوں نے کھائی ہے.محترم برق صاحب !جب کسی انسان کو شیر کیا جائے اور تشبیہ دیتے ہوئے محہ کا ذکر نہ کیا جائے اور حرف تشبیہ کو بھی حذف کیا جائے تو علم بلاغت کی رو سے یہ استعارہ ہو گا جس میں مشابہت تامہ پائے جانے کا ادعاء ہو تا.ہے.اس موقعہ پر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس نے ہمیں سال جنگل میں رہ کر کچا گوشت کھایا ہے یا اس کی پو نچھ بھی ہے اور اس نے دھاڑنے کی مشق بھی کی ہے اور اس کی چار ٹانگیں بھی ہیں.آنحضرت علی نے امت محمدیہ کے مسیح موعود کی حضرت عیسی سے مشابہت نامہ ہی کبھی ہے.تبھی تو اس کو ان مریم کیا ہے.کتابنِ مرہم نہیں کہا کہ اس سے ناقص تشبیہ کا بھی احتمال ہو سکتا.بلکہ آپ نے استعارہ استعمال فرما کر مشابہت نامہ کا تخفق قرار دیا ہے.گویا مسیح محمدی کی آمد کو ہو بہو ابن مریم کی آمد قرار دیا ہے.گو اس جگہ استعارہ میں اہم جزوی امور میں ہی تشبیہ مراد ہے.تنقید کی جزو دوم اپنی تنقید کی جزو دوم میں برقی صاحب نے دو اعتراض کئے ہیں.
۲۱۱ پہلا اعتراض ان کا پہلا اعتراض یہ ہے.حضرت موسیٰ اور عیسی کے درمیانی زمانے میں ہزار ہا انبیاء مبعوث ہوئے تھے.سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہزار ہا انبیاء حضرت موسیٰ" کے ظاہری اور روحانی خلیلے تھے یا نہیں؟ اگر تھے اور ظاہر ہے کہ تھے تو پھر سلسلہ موسوی اور محمدی میں مماثلت نا مہ کیسے ہوئی.وہاں ہزار ہا طلیعے سارے انبیاء اور یہاں کل تیرہ خلیلے.جن میں سے صرف آخری نبی اور باقی سب امتی.(حرف محرمانہ صفحہ ۱۲۶.۱۲۷).الجواب 66 اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی اسرائیل میں صدہا نبی ہوئے بعض ان میں سے اولوالعزم انبیاء تھے جن کا نام لے کر قرآن کریم میں ذکر بھی آیا ہے.اور بائیبل کی رو سے بعض ایسے نبی بھی تھے جن کو صرف ملہم ہونے اور پیشگوئی کرنے کی وجہ سے لغت کے وسیع معنوں میں نبی کہہ دیا جاتا تھا اس قسم کے نبی امت محمدیہ میں بھی ہزارہا ہوئے ہیں چنانچہ رسول کریم فرماتے ہیں.عُلَمَاءُ أُمَّنِي كَانَبِيَاء بَنِي إِسْرَائِيلَ کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں.اس جگہ علماء سے مراد علماءِ ربانی ہیں.یعنی امت محمدیہ کے ملہم اور محدث جو ہزاروں ہوئے ہیں چونکہ امتی ایک معنی میں اپنے متبوع نبی کا خلیفہ ہی ہوتا ہے.لمذا خلیفہ کے ان وسیع معنوں میں وہ ہزار اولیاء آنحضرت ﷺ کے خلفاء ہی ہیں.گو اصطلاحی معنوں میں یہ سارے خلیفہ نہ تھے.حضرت مسیح موعود کے نزدیک مجددین کی حدیث إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمِّةِ وَ على رأسِ كُلِّ مَاةٍ سَنَةٍ مَنْ تُحَدِّدُ لَهَا دِينَهَا - (ابو داؤد) کے مطابق ہر صدی کے سر پر آنے والا مجدد آنحضرت نے کا ایک خاص نوع کا خلیفہ ہی ہے.جو اللہ تعالی کی
۲۱۲ طرف سے تجدید دین کے لئے مبعوث کیا جاتا تھا.چونکہ مسیح موعود کے زمانہ تک بارہ صدیاں گذر چکی تھیں اور اس حدیث کے مطابق آپ سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور مجددالف ثانی کے دعاوی ثابت تھے.اس لئے ہموجب حدیث ہذایہ تعلیم کیا جانا ضروری تھا کہ آپ سے پہلے کم از کم بارہ مجددین بہر حال گذر چکے ہیں.اور چونکہ آیت استخلاف میں سلسلۂ محمدی اور سلسلہ موسوی کے خلفاء میں مشابہت قرار دی گئی ہے.اس لئے موسوی سلسلہ کے بارہ انبیاء جو قرآن مجید میں مذکور ہیں مجددین است موسوی قرار پاتے ہیں تا دونوں سلسلوں میں قرآن کریم کے بیان کے مطابق مشابہت متحقق ہو جائے خود آنحضرت ﷺ نے ایک اور حدیث میں فرمایا ہے.لَا يَزَالُ الْإِسْلَامُ عَزِيزًا إلى اثْنَتَى عَشْرَةَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَیش.اس حدیث کو حضرت اقدس کی عبارت میں نے جناب برق صاحب نے اپنے مطلب کے بر عکس پا کر قصد ا حذف کر دیا ہے.کیونکہ اس حدیث میں بارہ خلیفوں کے قریش میں سے ہونے کی تعیین موجود ہے.اب خواہ شیعوں کی طرح بار و امام مان لئے جائیں یا اہل سنت کی طرح تبارہ مجددین تسلیم کئے جائیں جن کا قریش میں سے ہونا ضروری ہے.بہر حال گھیر ھو میں مجدد کو غیر قریشی ماننا پڑے گا.معلوم ہوتا ہے برق صاحب حدیثوں کے منکر ہیں اس لئے وہ احادیث کو.نظر انداز کر کے حضرت اقدس کے بیان کو قابل اعتراض بنانا چاہتے ہیں.چونکہ جو احادیث نبویہ قرآن مجید کے بیان کے مطابق ہوں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ان احادیث کو درست مانا ہے.پس ایک منکر حدیث تو حضرت اقدس کے ان بیانات پر اعتراض کر سکتا ہے.لیکن احادیث کے ماننے والے شخص کو حضرت اقدس کے بیان کی سچائی کا قائل ہو نا پڑے گا.ورنہ آیت استخلاف اور حدیثوں میں تناقض قرار دینا ہو گا حالانکہ اس جگہ قرآن وحدیث میں کوئی تناقض نہیں.
۲۱۳ منکرین حدیث کا جواب ہاں ایسے منکرین حدیث کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہر گز بیان نہیں کیا گیا کہ حضرت موسیٰ" کے بعد بنی اسرائیل میں ہزار ہا نبی ہوئے ہیں.قرآن مجید نے تو چند ایک نبیوں کا نام لیا ہے اور یہ جو فرمایا ہم نے کئی رسولوں کا ذکر نہیں کیا.اس سے مراد دوسری قوموں کے رسول ہو سکتے ہیں.جو مثلا ہندؤں، چینیوں اور فارسیوں اور دیگر اقوام عالم میں مبعوث ہوئے.پس قرآن کریم کے ماننے والے کو آیت استخلاف کے رو سے سلسلہ محمدی اور سلسلہ موسوی میں مشابہت بہر حال مانی پڑے گی.جزوی مشابہت کے تو برق صاحب بھی قائل ہیں.انہیں صرف مشابہت تامہ کے لفظ پر اعتراض ہے.حالانکہ یہ اعتراض بھی ان کا دراصل ان کے مشابہت تامہ کے اپنے مزعوم معلمی پر مبنی ہے.ور نہ علماء بلاغت کے نزدیک مشابہت تامہ کے وہ معنی نہیں جو برق صاحب سمجھتے ہیں.علماء بلاغت کے نزدیک تو کسی جگہ اگر صرف ایک امر میں ہی علی وجہ الا تم مشابہت پائی جائے تو اس جگہ مشابہت تامہ کا تحقق سمجھا جائے گا.جیسا کہ استعارہ میں مشابہت تامہ ہی مراد ہوتی ہے.خواہ وہ کسی جزوی امر میں ہی ہو.لہذا اگر سلسلہ موسوی میں پہلے نبی اور سلسلہ محمدی کے پہلے نبی اور سلسلہ موسوی کے آخری خلیفہ.اور سلسلہ محمدی کے آخری خلیفہ میں بعض اہم امور میں مشابہت ہو تو دونوں سلسلوں میں مشابہت تامہ متحقق سمجھی جائے گی.خواہ درمیانی زمانہ کے خلفاء میں مشابہت تامہ نہ بھی ہو.پس جناب برق صاحب کو اس بحث میں حضرت اقدس سے محض نزاع لفظی ہے.ورنہ از روئے قرآن مجید تو دونوں سلسلوں میں مشابہت ضرور موجود ہونی چاہیئے اور یہ تبھی ہو سکتی ہے کہ کم از کم دونوں سلسلوں کے اول و آخر میں ضرور باہم مشابہت
۲۱۴ تامہ متحقق ہو.پس ایک مسیح محمدی کا جو حضرت عیسی کا مثیل ہو از روئے قرآن مجید آتا ضروری قرار پایا.محترم برق صاحب جیلوں اور بہانوں سے منشاء قرآن کو چھپایا نہیں جا سکتا.آپ اپنے اقبال کے مطابق یہی کہہ لیں کہ سلسلہ موسوی اور سلسلہ محمدی میں جزوی مشابہت ہے.بہر حال اتنا تو آپ بھی مانتے ہیں کہ حضرت عیسے سلسلہ موسوی کے آخری نبی ہیں.پس لست محمدیہ میں ایک خلیفہ کے لئے ممکن ہوا کہ وہ حضرت عیسے کے رنگ میں رنگین ہو اور وہ خاتم الخلفاء قرار پائے اور یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ خلیفہ احادیث نبویہ کے مطابق ہمارے زمانہ چودہویں صدی میں ظاہر ہو گیا ہے.جس سے انکار کے لئے محترم برق صاحب نئی نئی راہیں ایجاد کر رہے ہیں.انا للہ وانا اليه راجعون.اعتراض دوم برق صاحب کو دوسرا اعتراض مماثلت پر یہ ہے کہ ان کے نزدیک موسیٰ اور مسیح کے درمیان جو زمانہ ہے وہ اس زمانہ سے مماثلمت تامہ نہیں رکھتا جو آنحضرت نے اور بانی سلسلہ احمدیہ کے درمیان پلیا جاتا ہے انہوں نے ایک حساب پیش کیا ہے.چونکہ ان کی طبیعت میں کجی تھی اس لئے انہوں حساب کو ایسے رنگ میں پیش کیا ہے جس سے ان کی مطلب بر آری ہو.حضرت موسیٰ اور حضرت حدیث میں نازل ہونے والے ابن مریم کو اِمَامُكُم مِنكُمْ کہہ کر امت محمدیہ کا ایک فرد قرار دیا گیا ہے اور دوسری حدیث میں اس کا کام يَكْسِرُ الصَّليب ( عیسائیت کا ابطال ) بتا کر چودہویں صدی کے زمانہ میں اسکے ظہور کے متعلق اشارہ کر دیا گیا ہے.کیونکہ تیرھویں صدی کے آخر میں صلیبی مذہب یعنی عیسائیت ساری دنیا پر غالب ہو چکی تھی.
۲۱۵ عیسی کا درمیانی زمانہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے چودہ سو سال بیان کیا ہے.اس کو تسلیم کر کے برق صاحب نے آنحضرت عے اور بانی سلسلہ احمدیہ کے درمیانی زمانہ کو کم دکھانے کے لئے یوں حساب لگایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے سال اور بانی سلسلہ احمدیہ کی پیدائش کے سال کے درمیانی زمانہ کا شمار کر کے اسے قمری حساب سے باره سو چوالیس سال دکھایا ہے.مگر اس میں سراسر ایک مغالطہ ہے آخر وہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے زمانہ سے کیوں شمار نہیں کرتے یا آنحضرت ﷺ کی بعثت کے زمانہ سے کیوں حساب نہیں لگاتے ؟ آنحضرت ﷺ کی عمر ۶۳ سال تھی.اگر زمانہ آپ کی پیدائش سے شمار ہو تو اس طرح بارہ سو چوالیس میں ۶۳ سال کا اضافہ ہو گا.تو ۱۲۲۴ + ۶۳ کل ۱۳۰۷ سال بن جائیں گے.چونکہ ۶۳ سال کسی قریباً ۶۵ سال قمری ہتے ہیں.اس لحاظ سے مسیح موعود اور آنحضرت ﷺ کا درمیانی زمانہ ۱۳۰۹ سال قمری قرار پاتا ہے.جو چودھویں صدی ہے.اور یہ وہ زمانہ ہے جب مسیح موعود کا دعوئی موجود تھا.اگر زمانہ کا شمار آنحضرت ﷺ کی بعثت سے کیا جائے تو چالیس سال تیرہ سونو میں سے کم کئے جائیں گے تو درمیانی زمانہ ۱۳۶۹ سال قمری قرار پائے گا.اور جناب برق صاحب کو یہ مسلم ہے کہ حضرت مرزا صاحب کو پہلی مرتبہ الہام (حرف محرمانه صفحه ۱۲۸) چونکہ حضرت مرزا صاحب کی وفات ۱۳۲۶ھ میں ہوئی ہے اس لئے چودہویں صدی میں سے آپ کو ۲۶ سال ملے ہیں اور اسی زمانہ میں آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا.پس جب چودہویں صدی میں آپ کا دعویٰ ثابت ہو گیا تو حضرت مسیح ناصری اور حضرت موسی کے درمیانی زمانہ اور آنحضرت ﷺ اور مسیح موعود کے درمیانی زمانہ میں اہم مشابہت ثابت ہو گئی اور اہم مشابہت کو ہی مشابہت تامہ کہتے ہیں.مشابہت تامہ کے لئے گھنٹوں اور منٹوں میں مشابہت ضروری نہیں ۱۸۶۵ء میں ہوا تھا.
۲۱۶ ہوتی.اس کے لئے صرف چودہویں صدی میں ظہور پذیر ہونے میں مشابہت کا پایا جاتا کافی ہے.ہم اس موقعہ پر یہ اظہار کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ چونکہ محترم برق صاحب کی نیت خیر نہ تھی اس لئے اس حسابی شمار میں انہوں نے دوسروں کو مغالطہ دینے کے لئے ایک محقق مصنف کا فرض ادا نہیں کیا.بلکہ یوں ظالمانہ اور بے انصافی کا طریق اختیار کیا ہے کہ درمیانی عرصہ کو کم دکھانے کے لئے ایک طرف آنحضرت مے کی وفات کا سال لیا ہے اور دوسری طرف مسیح موعود کی پیدائش کا سال لیا ہے.اگر برق صاحب کی نیت خیر ہوتی تو حساب لگاتے ہوئے دونوں کی پیدائش یا دونوں کی وفات کا سن لے کر درمیانی عرصہ شمار کرتے.جناب برق صاحب نے آنحضرت ﷺ کی وفات اور مسیح موعود کی پیدائش کے در میان ۱۲۴۴ قمری سالوں کا زمانہ تسلیم کیا ہے.مسیح موعود نے قمری حساب سے تقریباً ۷۶ سال کی عمر پائی ہے.۱۲۴۴ میں ۷۶ جمع کئے جائیں تو ۳۲۰ ۱ سال قمری بن جاتے ہیں.جو چودھویں صدی ہی ہوئی.اس شمار سے بھی دونوں سلسلوں موسوی اور محمدی کے اول نبی اور آخری خلیفہ کے چودہویں صدی میں ظہور کی اہم مشابہت کا تحقق ثابت ہو جاتا ہے.تنقید کی جزوسوم کی کتابوں سے پیش کی ہیں کہ :- جز و سوم کے ذیل میں برق صاحب نے حضرت اقدس کی چند عبارتیں آپ " ممکن ہے کہ میرے بعد کوئی اور مسیح ابن مریم بھی آوے.“ (ازالہ اوہام صفحه ۴۸۸ طبع اول) ”اس عاجز کی طرف سے یہ دعویٰ نہیں کہ مسیحیت کا میرے وجود پر خاتمہ ہے اور آئندہ کوئی مسیح نہیں آئیگا.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۲۹۶ طبع اول)
۲۱۷ " میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے دس ہزار میل (ازالہ اوہام صفحہ ۱۹۹ طبع اوّل) مسیح آجائیں.“ پھر لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۳۲ سے یہ عبارت پیش کی ہے.”ہذا ضروری ہؤا کہ تمہیں یقین اور محبت کے مرتبے پر پہنچانے کے لئے خدا کے انبیاء و ما بعد وقت آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاؤ.“ اسی ضمن میں الفضل ۲۵ / اکتوبر ۱۹۲۱ ء سے یہ عبارت بھی پیش کی ہے." در حقیقت امت محمدیہ کی شان بھی اسی میں ہے کہ اس میں جہاں صلحاء ، اولیاء، شہداء اور اصد قا پیدا ہوں.وہاں ایسے بھی انسان ہوں جو خدا سے شرف مکالمه و مخاطبہ حاصل کر کے نبی بن جائیں.“ یہ عبارات پیش کر کے ”دوسرا پہلو“ کے عنوان کے ماتحت برق صاحب نے ان عبارتوں سے تضاد دکھانے کے لئے بعض اور عبارتیں قطع و برید کر کے پیش کی ہیں.پہلی عبارت حضرت خلیفۃ السیح الثانی کی کتاب حقیقۃ النبوۃ کے صفحہ ۱۳۸ سے ان الفاظ میں پیش کی ہے.ہم اس امت میں صرف ایک ہی نبی کے قائل ہیں.“ دوسری عبارت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتاب حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹۱ طبع اوّل سے ان الفاظ میں پیش کی ہے.اس امت میں نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا.دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں.“ تیسری عبارت تحفہ گولڑویہ صفحہ ۹۲ طبع اول سے یوں پیش کی ہے.مسیح موعود ) خاتم خلفائے محمد ی ہے."
۲۱۸ برق صاحب کا سوال اس کے بعد برق صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ :- آیا جناب مرزا صاحب واقعی سلسله محمدی کے آخری خلیفہ تھے اگر جواب اثبات میں ہے تو اس ارشاد کا کیا مطلب؟“ اس عاجز کی طرف سے یہ دعویٰ نہیں کہ مسیحیت کا میرے وجود پر خاتمہ ہے.اور اگر نفی میں ہے تو پھر مسیح موعود خاتم خلفائے محمدی کیسے بن گیا.اور وہ ممانت نامہ کہاں گئی ؟ الجواب (حرف محرمانه صفحه ۱۳۱) پیشتر اس کے کہ ہم برق صاحب کے اس سوال کا جواب دیں پہلے ہم ان کی دو پیش کردہ عبارتوں سے پردہ اٹھانا چاہتے ہیں جو انہوں نے تضاد دکھانے کے لئے قطع و برید کے ساتھ پیش کی ہیں.اس کتاب کے شروع میں وہ کہتے تو یہی ہیں کہ :- ” یہاں یہ عرض کر دینا بے جانہ ہوگا کہ اس کتاب کے تمام حوالوں میں انتہائی دیانت سے کام لیا گیا ہے.اقتباسات کو نہ تو مسح کیا گیا ہے اور نہ قطع و برید سے حسب منشاء ہٹایا گیا ہے.بلکہ ہر حوالے میں صاحب کتاب کے منشاء کو مد نظر رکھا گیا ہے.تاکہ مسئلہ کے تمام پہلو سامنے آجائیں اور احمدی اور غیر احمدی حضرات کو صحیح نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے." (حرف محرمانه صفحه ۱۳) لیکن افسوس ہے کہ وہ حث جیتنے کی رو میں دیانت کے اس خود بیان کردہ معیار پر ثابت قدم نہیں رہ سکے.انہوں نے کئی جگہ حوالہ جات میں قطع و برید کر کے منشائے تکلم کے بر عکس معنی اخذ کرنے کی کوشش کی ہے.چنانچہ اس موقعہ پر اپنی کتاب حرف محرمانہ صفحہ ۱۲۰ پر انہوں نے دوسرا پہلو“ کے عنوان سے جو یہ حوالہ پیش کیا
٢١٩ ہے کہ :- ہم اس امت میں صرف ایک ہی نبی کے قائل ہیں (حقیقۃ النبوۃ صفحہ ۱۳۸) اس سے خلاف منشائے متکلم یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت خلیفہ المسح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے بعد کسی نبی کے امکان کے قائل نہیں.حالانکہ پوری عبارت اس جگہ یوں ہے :- ” پس جن لوگوں کے نزدیک تعریف نبوت یہ ہے نہ وہ جو ہم بیان کرتے ہیں.وہ حضرت مسیح موعود کو دیگر محدثین میں شامل کرتے ہیں کو کسی قدر بڑے درجہ کا محدث کہتے ہیں.ہم چونکہ اس کے خلاف تعریف کرتے ہیں اور وہ اس امت میں کسی اور انسان پر بجز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صادق نہیں آتی.اس لئے ہم اس امت میں صرف ایک ہی نبی کے قائل ہیں.آئندہ کا حال پر وہ غیب میں ہے.اس کی نسبت ہم کچھ کہہ نہیں سکتے.آئندہ کے متعلق ہر ایک خبر پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے.اس پر بحث کرنا انبیاء کا کام ہے نہ ہمارا.پس ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس وقت تک اس امت میں کوئی اور شخص نبی نہیں گذرا.کیونکہ اس وقت تک نبی کی تعریف کسی اور انسان پر صادق نہیں آتی.اس ساری عبارت کو پڑھنے کے بعد اور بالخصوص آخری سے پہلے فقرہ کو پڑھنے کے بعد ہر سلیم الفطرت اس نتیجہ پر آسانی سے پہنچ سکتا ہے کہ محترم برق صاحب نے اس جگہ حوالہ کو پیش کرتے ہوئے منشائے متکلم کے بالکل خلاف ”دوسرا پہلو کے عنوان کے تحت یہ نتیجہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت خلیفۃ اصح الثانی ساری امت محمدیہ میں ایک ہی نبی کے قائل ہیں.حالانکہ آپ کا منشاء برق صاحب کے پیش کردہ فقرہ سے صرف یہ ہے کہ اس وقت تک امت میں کوئی شخص نبی نہیں گذر اندہ کے متعلق آپ نے کوئی حکم نہیں لگایا نہ امکان کا نہ امتناع کا.بلکہ 65 (حقیقة النبوۃ صفحہ ۱۳۸)
۲۲۰ آئندہ کا حال پردۂ غیب میں بتایا ہے.چونکہ امتناع کا حکم نہیں لگایا.اس لئے یہ عبارت ان پہلی عبارتوں سے متضاد نہ ہوئی جن میں امکان تسلیم کیا گیا ہے اسی طرح حضرت بائی سلسلہ احمدیہ کی عبارت بھی برق صاحب نے ادھوری پیش کی ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود کی مراد بھی برق صاحب کے پیش کردہ فقرہ سے یہی ہے کہ اس وقت تک امت میں صرف آپ ہی نبی کا نام پانے کے لئے مخصوص ہیں.چنانچہ حضرت اقدس صاف لکھتے ہیں.جس قدر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں.تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے.“ پھر آگے لکھتے ہیں :- جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت سے گذر چکے ہیں.ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا.“ حقیقته الوحی صفحه ۳۹۱ طبع اوّل) اس سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس اس جگہ آئندہ کے متعلق کوئی بحث نہیں کر رہے بلکہ صرف یہ دکھا رہے ہیں کہ تیرہ سو سال کے اندر نبی کا نام پانے کے لئے آپ ہی مخصوص ہیں اور اس کی وجہ آگے چل کر یہ بتاتے ہیں.صلى الله اور ضرور تھا کہ ایسا ہو تا تا کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی صفائی سے پوری ہو جاتی کیونکہ اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گذر چکے ہیں وہ بھی اسی قدر مکالمہ و مخاطبہ اور امور غیبیہ سے حصہ پالیتے تو وہ نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے تو اس صورت میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی میں ایک رخنہ واقع ہو جاتا.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹۱) واضح رہے کہ یہ میشکہ کی جس کا اس جگہ ذکر ہو رہا ہے وہ پیشگوئی ہے جس میں
۲۲۱ آنحضرت ﷺ نے بتایا ہے کہ میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں ہو گا.پس یہ حوالہ بھی برق صاحب کے ازالہ اوہام کے ان پیش کردہ حوالوں سے کوئی تضاد نہیں رکھتا.جن میں کسی اور مثیل مسیح کا امکان مانا گیا ہے اور اس حوالہ میں آئندہ کے لئے امتناع کی کوئی خبر موجود نہیں.اصل سوال کا جواب ا برق صاحب کی دیانت کو بے نقاب کرنے کے بعد اب میں ان کے اصل سوال کے جواب کی طرف متوجہ ہو تا ہوں.یہ واضح ہو کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خاتم الخلفاء ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اب آپ کے بعد آپ کا کوئی جانشین اور خلیفہ نہیں ہو گا بلکہ جس طرح خاتم النہین کے فیض سے ہم لوگ امت میں نبوت کے باقی رہنے کے قائل ہیں اسی طرح خاتم الخلفاء کے فیض سے خلافت کو بھی باقی مانتے ہیں.اسی لئے جماعت احمدیہ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر حضرت مولانا نور الدین صاحب کو آپ کا خلیفہ اور جانشین تسلیم کیا.پس حضرت مسیح موعود آخری خلیفہ ان معنوں میں ہیں کہ اب خلافت آپ کے واسطہ سے چلے گی جس طرح آنحضرت ﷺ آخری نبی ان معنی میں ہیں کہ اب کوئی شخص آنحضرت عمال اللہ کے دامن فیوض سے الگ ہو کر مقام نبوت نہیں پا سکتا.پس حضرت اقدس کے کلام کا پہلی عبارتوں سے کوئی تضاد نہیں.اور یہ برق صاحب کی غلطی ہے کہ انہوں نے خاتم الخلفاء کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کی اپنی تشریح کو مد نظر نہیں رکھا.پس جس طرح آنحضرت عالم النبین کے ظہور کے بعد ان کے اطلال کی آمد ممتنع نہیں اسی طرح مسیح موعود کے ظہور کے بعد کسی اور مثیل مسیح کی آمد
۲۲۲ بھی جو مسیح موعود کے لئے ہمنزلہ ظل کے ہو ممتنع نہیں چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں.واضح ہو کہ وہ مسیح موعود جس کا آنا انجیل اور احادیث صحیحہ کی روسے ضروری قرار پاچکا تھا وہ تو اپنے وقت پر اپنے نشانوں کے ساتھ آ گیا.اور آج وہ وعدہ پورا ہو گیا جو خدا تعالیٰ کی مقدس پیشگوئیوں میں پہلے سے کیا گیا تھا.لیکن اگر کسی کے دل میں یہ خلجان پیدا ہو کہ بعض احادیث کی اس آنے والے مسیح کی حالت سے بظاہر مطابقت معلوم نہیں ہوتی جیسے مسلم کی دمشقی حدیث تو اول تو اس کا یہی جواب ہے کہ در حقیقت یہ سب استعارات ہیں اور مکاشفات ہیں استعارات غالب ہوتے ہیں.بیان کچھ کیا جاتا ہے اور مراد اس سے کچھ لیا جاتا ہے سو یہ ایک بہت بڑاد ھو کہ اور غلطی ہے جو ان کو ظاہری طور پر مطابق کرنے کے لئے کوشش کی جائے پھر بعد اس کے ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ظاہر پر ہی ان بعض مختلف حدیثوں کو جو ہنوز ہمار کی حالت موجودہ سے مطابقت نہیں رکھتیں محمول کیا جائے تب بھی کوئی حرج کی بات نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ان پیشگوئیوں کو اس عاجز کے ایسے کامل متبع کے ذریعہ سے کسی زمانہ میں پورا کر دیوے جو منجانب اللہ مثیل مسیح کا رتبہ رکھتا ہو.اور ہر ایک آدمی سمجھ سکتا ہے کہ متبعین کے ذریعہ سے بعض خدمات کا پورا ہونا در حقیقت ایسا ہی ہے کہ گویا ہم نے اپنے ہاتھ سے وہ خدمات پوری کیں.بالخصوص جب بعض متبعین فنافی الشیخ کی حالت اختیار کر کے ہمارا ہی روپ لے لیں اور خدا تعالیٰ کا فضل انہیں وہ مرتبہ ظلی طور پر خش دیوے جو ہمیں بخشا تو اس صورت میں بلا شبہ ان کا ساختہ پر داختہ ہمار ا ساختہ پر داخته ہے.کیونکہ جو ہماری راہ پر چلتا ہے وہ ہم سے جدا نہیں اور جو ہمارے مقاصد کو ہم میں ہو کر پورا کرتا ہے وہ در حقیقت ہمارے ہی وجود میں داخل ہے اس لئے وہ جز اور شاخ ہو نیکی وجہ سے مسیح موعود کی پیشگوئیوں میں بھی شریک ہے کیونکہ وہ کوئی جدا
۲۲۳ شخص نہیں.پس اگر خلقی طور پر وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مثیل مسیح کا نام پاوے اور موعود میں بھی داخل ہو تو کچھ حرج نہیں کیونکہ گو مسیح موعود ایک ہی ہے مگر اس ایک میں ہو کر سب موعود ہی ہیں کیونکہ وہ ایک ہی درخت کی شاخیں اور ایک ہی مقصد موعود کے روحانی بیگا تحمت کی راہ سے متمم اور مکمل ہیں اور ان کو ان کے پھلوں سے شناخت کرو اگر فرض کے طور پر بھی تسلیم کر لیں کہ بعض پیشگوئیوں کا اپنی ظاہری صورت پر بھی پورا ہونا ضروری ہے.تو ساتھ اس کے یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیئے کہ وہ پیشگوئیاں ضرور پوری ہونگی اور ایسے لوگوں کے ہاتھ سے ان کی تکمیل کروائی جائے گی کہ جو پورے طور پر پیروی کی راہوں میں فانی ہونے کی وجہ سے اور نیز آسمانی روح کے لینے کے باعث سے اس عاجز کے وجود کے ہی حکم میں ہوں گے.اور ایک پیشگوئی بھی جو براہین میں درج ہو چکی ہے اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور وہ الہام یہ ہے یا عیسی إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى وَ مُطِهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعْرُكَ فوق الذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ (آل عمران : ۵۲) اس مسیح کو بھی یاد رکھو جو اس عاجز کی ذریت میں سے ہے جس کا نام ابن مریم بھی رکھا گیا ہے کیونکہ اس عاجز کو براہین میں مریم کے نام سے بھی پکارا ہے.“ (ازالہ اوہام بجواب سوال نمبر ۷ جلد اول صفحہ ۴۱۳ تا ۴۱۸ طبع اوّل) افسوس ہے کہ برق صاحب نے ازالہ اوہام کے بعض ایسے حوالہ جات درج کئے ہیں جو بعض اور مثیل مسیح کی آمد کے امکان کے بارہ میں ہیں مگر انہوں نے مندرجہ بالا حوالہ کو جو او پر پیش کیا گیا ہے بالکل نظر انداز کر دیا ہے.ہمارا پیش کردہ حوالہ اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ ایسے مثیل مسیح اگر بالفرض آئیں تو وہ حضرت مسیح موعود کے متبعین میں سے ہوں گے اور آپ کے ظل ہوں گے.اور مسیح موعود کے وجود میں فانی ہونے کی وجہ سے آپ کے وجود میں اس طرح شامل ہوں گے جس طرح جز کل
۲۲۴ میں شامل ہوتی ہے.یا جس طرح شاخ بیج سے علاقہ رکھتی ہے.پھر اس حوالہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ آپ کی پیشگوئی کے مطابق ایک مثیل مسیح آپ کی ذریت میں سے بھی آتا چاہیئے جو آپ کا متبع ہو.پس آپ کا خاتم الخلفاء ہو نا کسی ایسے خلیفہ یا مثیل مسیح کے آنے میں مانع نہیں جو آپ کا ظل ہو اور آپ کی شاخ ہو.بلکہ ایک ایسے خلیفہ کے آپ کی ذریت میں سے ہو.ہونے کی پیشگوئی بھی موجود تھی جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے وجود باوجود کے ذریعہ پوری ہو چکی ہے.فالحمد لله على ذلك جز و چهارم اس جزو کے ذیل میں برق صاحب لکھتے ہیں.اس جز کا شخص یہ ہے کہ موسوی سلسلہ کا آخری خلیفہ حضرت مسیح اسرائیلی نہیں تھا اس طرح محمدی سلسلہ کا آخری خلیفہ ( مسیح موعود) بھی قریش سے نہیں اگر حضرت مسیح اسرائیلی نہیں تھے تو پھر اسرائیلی سلسلہ کے آخری خلیفہ کس بنا پر قرار پائے اگر مسیح کی ولادت معجزانہ تھی اور ان کے والد کوئی نہیں تھے تو کیا ان کی والدہ مر سمت کا بھی کوئی سلسلہ نسب نہیں تھا قرآن کریم نے حضرت مریم کو اخت ہارون یعنی ہارون کی بین کہا ہے اور حضرت ہارون اسرائیلی تھے...خود مرزا صاحب فرماتے ہیں حضرت مسیح پورے طور پر بنی اسرائیلی نہ تھے صرف ماں کی وجہ سے اسرائیلی تھے والد تو تھا نہیں اور ماں اسرائیلی تھی تو پھر وہ غیر اسرائیلی کیسے بن گئے....بہر حال اس حقیقت سے کوئی مؤرخ انسان انکار کر ہی نہیں سکتا کہ حضرت مسیح نسب کے لحاظ سے سو فیصدی اسرائیلی تھے اس لئے سلسلہ مماثلت کی یہ کڑی بھی ٹوٹ گئی.“ حرف محرمانه صفحه ۱۳۱ ۱۳۳۴)
۲۲۵ الجواب نسب کا متعارف طریق دنیا میں یہ چلا آیا ہے کہ اولاد باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسرائیلیوں میں سے مسیح کا کوئی باپ نہیں تھا.کیونکہ اس کی ولادت من باپ ہوئی تھی.اس لئے باپ کے لحاظ سے وہ اسرائیلی نہ تھے.اور صرف ماں کی وجہ سے اسرائیلی ہونا خود حضرت مرزا صاحب کو مسلم ہے.جیسا کہ لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۸۷ کی عبارت سے جو برق صاحب نے پیش کی ہے ظاہر ہے.سو فیصدی اسرائیلی وہ شخص ہو سکتا ہے جو ماں باپ دونوں کی طرف سے اسرائیلی ہو.لیکن حضرت مسیح کا اسرائیلی باپ موجود نہ تھا انکی صرف ماں اسرائیلی تھی.لہذاوہ سو فیصدی اسرائیلی کیسے ہوئے؟ یہودیوں کے حضرت مریم کو اخت بارون کہنے سے یہ کیسے لازم آگیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام سو فیصدی اسرائیلی تھے جب کہ وہ بلا باپ پیدا ہوئے تھے.پس حضرت عیسی علیہ السلام باپ کے لحاظ سے اسرائیلی نہیں.حضرت بہائی سلسلہ احمد یہ باپ کے لحاظ سے قریش میں سے نہیں.البتہ دلویوں کی طرف سے ان میں سادات کا خون موجود تھا.پس مماثلت کی کڑی دونوں میں قائم ہے.پیش کی ہے.جزو چہارم کے ذیل میں برق صاحب نے حضرت اقدس کی یہ عبارت بھی ان ( مسیح علیہ السلام) کے دوبارہ آنے میں کس قدر خرابیاں اور کس قدر مشکلات ہیں.منجملہ ان کے یہ بھی کہ وہ ہو جہ اس کے کہ وہ قوم کے قریٹی نہیں کسی حالت میں امیر نہیں ہو سکتے.“ یہ عبارت پیش کر کے برق صاحب لکھتے ہیں :- (ازالہ اوہام صفحہ ۷۱ ۵ طبع اوّل)
۲۲۶ من سکتے ہیں.“ تو پھر فارسی النسل مرزا صاحب ائمہ قریش کے سلسلہ کی آخری کڑی کیسے (حرف محرمانه صفحه ۳۴٬۳۳) اس کے جواب میں واضح ہو کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی یہ عبارت جو برق صاحب نے اس جگہ پیش کی ہے بطور الزام مخصم ہے.برق صاحب نے اعتراض بنانے کے لئے عبارت کو سیاق سے الگ کر کے پیش کیا ہے.حضرت اقدس اس جگہ نواب صدیق حسن خان کی کتاب حجج الکرامہ کے صفحہ ۴۲۷ سے انکا یہ مذہب درج کرتے ہیں کہ :- وہ (حضرت عیسی علیہ السلام) اس امت کے مجددوں میں شمار کئے جائیں گے لیکن وہ امیر المؤمنین نہیں ہوں گے کیونکہ خلیفہ تو قریش میں سے ہونا چاہئے.صحیح ان مریم کیوں کر ان کا حق لے سکتا ہے.اس لئے وہ خلافت کا کام بھی نہیں کرے گا.نہ جدال نہ قتال نہ سیاست بلکہ خلیفہ وقت کا تابع اور محکوموں کی طرح آئے گا.“.(ازالہ اوہام ایڈیشن خورد صفحه ۵۷۵ طبع اول) اسی بنا پر آگے چل کر ازالہ اوہام کے صفحہ ۵۷۹ طبع اول پر لکھتے ہیں :- ” پس ظاہر ہے کہ ان (حضرت عیسی علیہ السلام) کے دوبارہ آنے میں کس قدر خرابیاں اور کس قدر مشکلات ہیں.منجملہ ان کے یہ بھی کہ وہ قوم کے قریشی نہیں.کسی حالت میں امیر نہیں ہو سکتے.“ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس ہائی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام مخالفین علماء کے عقائد کو پیش کرتے ہوئے وہ مشکلات دکھا رہے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے اصالنا نزول اور ان کے غیر قریشی ہونے کی صورت میں مخالف علماء کے عقائد کے رو سے پیدا ہو رہی ہیں.پس اس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا کوئی عقید و ریان نہیں فرمار ہے کہ امت محمدیہ کے تمام ائمہ کو قریش میں سے ہونا چاہیئے.حضرت
اقدس کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ امت محمدیہ کے تمام ائمہ قریش میں سے ہونے چاہئیں.بلکہ بموجب حديث نبوى لَوكَانَ الْإِيمَانُ مُعَلَّقًا بِالتُرِيَّالَنَالَهُ رَجُلُ مِنْ هَؤُلَاءِ (صحيح فاری - جو آیت آخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوابهم ( سور و جمعہ ) کی تفسیر میں مروی ہے آپ مسیح موعود اور مہدی معہود کو ایک فارسی النسل شخص یقین کرتے ہیں.جزو پنجم برق صاحب جزو پنجم میں سلسلۂ محمد یہ کے دو خلفاء خلیفہ اول حضرت ابو بحر" اور خلیفہ دوازدہم حضرت سید احمد بریلوی علیہ الرحمۃ کا ذکر کر کے چار سوال کرتے ہیں.اول : وہ دونوں قریش تھے اور آپ مغل یہ کیا ؟ - دوم : وہ دونوں غیر نبی تھے اور یہ نبی یہ کیوں ؟ سوم :- وہ دونوں عمر بھر مصروف جہاد رہے.اور آپ عمر بھر جہاد کے خلاف لکھتے رہے یہ کس لئے ؟ چهارم : وہ دونوں اسلامی سلطنت کے قیام وبقا کے لئے کوشاں رہے.اور آپ سلطنت فرنگ کے قیام کے لئے یہ خلافت کیسی؟ (حرف محرمانه صفحه ۱۳۴) الجواب برق صاحب کے یہ تمام سوالات طفلانہ ہیں.حدیث لا يزال الاسلام عزيزاً إلى اثنتى عشرة خليفة كلهم من قريش کے مطابق اسلام کے بارہ خلیفے قریش میں ہونے چاہئیے نہ کہ ضرور تیرہویں خلیفہ کو بھی قریش میں سے ہونا چاہیئے.سورہ نور کی آیت استخلاف میں خلافت کے مومنوں کو دیے جانے کا وعدہ ہے نہ کہ محض قریش کو.قریش بھی ایمان کے بعد خلافت کے مستحق ہو سکتے تھے.
۲۲۸ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے امت محمدیہ کے مسیح موعود کو خود نبی اللہ قرار دیا ہے.تیرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح وہ دونو عمر بھر جہاد میں مصروف رہے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بھی ہمہ تن جہاد میں مصروف رہے ہیں.صرف جہاد کی نوعیت کا فرق ہے.جہاد بالسیف کو آنحضرت میں نے چھوٹا جہاد قرار دیا ہے.اور قرآن کے ذریعہ جہاد کو قرآن کریم نے جہاد کبیر قرار دیا ہے.حضرت مسیح موعود کا کام تبلیغ اسلام جہاد کبیر ہے.مسیح موعود کے متعلق خود آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا بضع الحزب کہ وہ تلوار کی لڑائی کو روک دے گا.مقصود آنحضرت ملنے کا یہ تھا کہ چونکہ مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد بالسیف کی شرائط موجود نہ ہوں گی اس لئے جہاد بالسیف مسیح موعود کے ذریعہ ملتوی کیا جائیگا.چوتھے سوال کے جواب میں عرض ہے کہ حضرت مسیح موعود نے تبلیغ اسلام کا جو بیڑا اٹھایا ہے اسکی غرض یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت لوگوں کے دلوں میں قائم ہو.اور ساری دنیا مسلمان ہو جائے.اور اس طرح خود خود ایک عظیم الشان اسلامی سلطنت وجود میں آجائے.انگریزی حکومت کے استحکام کے لئے اس لئے کوشش کی گئی کہ انگریزی حکومت کے ذریعہ ہی سے مسلمانوں کو سکھوں کے ظلم اور تعدی سے نجات ملی تھی.اور اس وقت کے مذہبی راہنماؤں اور سیاسی لیڈروں کا فیصلہ یہی تھا کہ انگریزوں کے خلاف تلوار اٹھانا جائز نہیں.اور صحیح طاری کی حدیث کے الفاظ يضع الحزب میں خدا تعالیٰ نے خود مسیح موعود کو تلوار اٹھانے سے روک دیا تھا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ حضرت عیسی کے مثیل تھے.جو رومن حکومت کے ماتحت زندگی بسر کرتے رہے.برق صاحب کو خود اعتراف ہے کہ.
۲۲۹ انگریزوں کے زمانہ میں ان کے خلاف اعلان جہاد خلاف مصلحت تھا.“ ( حرف محرمانه صفحه ۱۹۹) حضرت اقدس علی الاطلاق جہاد بالسیف کو حرام نہیں سمجھتے تھے.بلکہ اس ملک میں جہاد بالسیف کی وجوہ اپنے زمانہ میں نہ پائے جانے کی وجہ سے اُسے ملتوی سمجھتے تھے.چنانچہ آپ لکھتے ہیں :- إِنَّ وُجُوهَ الْجِهَادِ مَعْدُومَةٌ فِى هَذَا الزَّمَنِ وَ فِي هَذِهِ البلادِ (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۴۳ طبع اوّل) یعنی اس زمانہ اور ملک میں جہاد کی شرائط موجود نہیں.جس نظم میں آپ نے فرمایا :- اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال" اس نظم میں فرماتے ہیں :- فرما چکے ہیں سید کو نین مصطفیٰ عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التواء“ پس جہاد بالسیف کو آپ نے علی الاطلاق حرام نہیں کیا.بلکہ جہاد بالسیف کی شر اٹکا نہ پایا جانے کی وجہ سے صرف ملتوی قرار دیا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں :- اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے.اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے که اعلام کمپر اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں دمانِ اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں یہی جہاد ہے.جب تک کہ خدا تعالی کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کر دے.(مکتوب حضرت مسیح موعود نام ناصر نواب صاحب مندرج رساله درود شریف صفحہ ۱۱۳ نیا ایڈیشن مؤلفہ مولانا محمد اسماعیل صاحب فاضل)
۲۳۰ باب ششم و هفتم الدجال و جهاد جناب برق صاحب نے اپنی کتاب حرف محرمانہ کے چھٹے باب میں مسیح الدجال کے عنوان کے تحت صفحہ ۱۲۶ سے صفحہ ۱۵۴ تک ایک مبسوط مضمون قلمبند کیا ہے اس مضمون کے پہلے حصے میں وہ مختلف اسلامی ممالک میں انگریزوں کے مظالم کی داستانیں سنا کر اپنے اعتراضات کے لئے زمین تیار کرتے ہیں.اور پھر اعتراضات اٹھاتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے ایسے ظالم لوگوں کی کیوں تعریف کی ہے.اور کیوں ان سے تعاون کی تعلیم دی ہے.اور کیوں ان کے شکریہ کا اظہار کیا ہے.یہ اعتراضات جناب برق صاحب نے اس وقت اٹھائے ہیں جبکہ انگریز ہندوستان چھوڑ کر جاچکے ہیں.ورنہ انگریزوں کے زمانہ میں مسلمان علماء اور لیڈر انگریزوں کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور مسلمانوں کو انگریزوں سے تعاون اور خیر خواہی کی دعوت دے رہے تھے.پھر جناب برق صاحب نے دجالی فتنہ کو جو عیسائی پادریوں کی مسلمانوں میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں سے تعلق رکھتا ہے یہ رنگ دے کر کہ یہ فتنہ انگریزی حکومت ہند کا تھا.حضرت مسیح موعود کے متعلق اس زمانہ کے مسلمانوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی مستشرقین کی طرز پر حضرت اقدس کی تعریف بھی کی ہے تا اپنے غیر جانبدار ہونے کا تاثر پیدا کر سکیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں :- ” مجھے جناب مرزا صاحب کے دعویٰ سے اختلاف سہی لیکن ان کے بہت
۲۳۱ سے مسائل سے متفق ہوں مثلاً انکی اخلاقی تعلیم و تبلیغ از لاس مؤثر و پاکیزہ ہے.وہ تمام اقوام کے انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں.وہ ضعیف احادیث کے رطب و یابس سے دامن بچا کر چلتے ہیں.وہ ائمہ اربعہ کے بعد بھی اجتہاد کے قائل ہیں.وہ بظاہر کا ئنات میں غور و فکر کا درس دیتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ انگریز کے مکروفن سے پوری طرح آگاہ تھے.اور اس قوم کو چودھویں صدی کا سب سے بڑا فتنہ سمجھتے تھے.“ (حرف محرمانه صفحه ۱۶۵) دیکھئے آخری فقروں سے برق صاحب نے کس طرح دودھ میں زہر ملایا ہے حالانکہ حضرت اقدس نے انگریزی سلطنت ہند کو کسی جگہ بھی سب سے بڑا فتنہ قرار نہیں دیا..اپنے اس مضمون میں برق صاحب نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستانی مسلمانوں پر مظالم کی ایک طویل داستان بھی لکھی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ کمپنی نے ہندوستانی عوام سے عموماً اور مسلمانوں سے خصوصاً انتہائی اذیت ناک سلوک کیا اور ان سے اقتدار کو چھینٹے کے لئے ہر قسم کے مظالم روار کھے.لیکن جلد ہی جب انگلستان کے ایوانوں میں ان مظالم کی صدائے بازگشت پہنچی تو انگریز قوم کو یہ احساس پیدا ہوا کہ کمپنی کا رویہ ناروا ہے.کیونکہ یہ ہندوستانی عوام میں انگریز قوم کے خلاف نفرت کے جذبات ابھارنے والا ہے.یہی وجہ تھی کہ حکومت انگلستان نے ہندوستان کی حکومت براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لی.اور کمپنی کو جو خالصتا تجارتی ذہنیت رکھتی تھی ہندوستان کی حکومت سے بے دخل کر دیا.برق صاحب اس تاریخی پس منظر کو اس مقصد سے پیش کر رہے ہیں کہ انگریز کو ظالم ثابت کیا جائے.انگریز ظالم ہی سہی.لیکن پنجاب کے مسلمانوں کے لئے جہاں مرزا صاحب پیدا ہوئے انگریز ایک ظالم کے روپ میں ظاہر نہیں ہوا.بلکہ
۲۳۲ مسلمانوں کی جس نسل نے پنجاب کے سکھ دورِ حکومت میں آنکھ کھولی تھی.وہ جانتی تھی کہ انگریزوں کے مظالم کی سکھوں کے ظلم و ستم سے کوئی نسبت ہی نہیں تھی.سکھوں نے پنجاب سے مغلیہ سلطنت کو ختم کر کے مسلمانوں کو نہ صرف سیاسی غلام بنا رکھا تھا بلکہ ان کی ثقافت اور تمدن کو بھی تباہ کر دیا تھا.اور مسلمان جو صنعت و حرفت اور تجارت پر قابض ہونے کی وجہ سے خوشحال تھے انہیں اقتصادی طور پر برباد کر دیا اور مسلمان جاگیر داروں کی جاگیریں چھین لیں.جن میں خود حضرت مرزا صاحب کا خاندان بھی شامل تھا.اور اس پر مزید یہ کہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی بھی چھین لی.اس زمانہ میں کسی مسلمان کو اذان دینے کی بھی اجازت نہ تھی.مساجد سکھوں کے اصطبلوں میں تبدیلی کر دی گئی تھیں.اور مدر سے اوقاف ویران ہو گئے تھے.قومی عصمت بھی سکھوں کے رحم و کرم پر تھی.مسلمان قوم کی بیٹیوں کی زبر دستی آبروریزی کرنا سکھ معاشرے میں ایک قابل فخر کارنامہ سمجھا جاتا تھا.آج بھی شاہی مسجد کے پہلو میں رنجیت سنگھ کی مڑھی کا اضافہ سکھوں کی ذہنیت اور بر بریت کا ایک تاریخی ثبوت ہے.ان حالات میں جب انگریز نے ۱۸۵۳ء میں پنجاب میں سکھوں کو شکست دے دی تو انگریز نے مسلمانوں سے حکومت نہیں چھینی بلکہ مسلمانوں کی دشمن سکھ قوم سے حکومت چھینی تھی.اور مسلمانوں کو محمڈن پرسنل لاء دے کر مذ ہبی آزادی سے نوازاہ ملک میں طوائف الملو کی اور لاقانونیت کی جگہ ایک مضبوط عادلانہ حکومت قائم کر دی.مسلمانوں کے اوقاف اور مذہبی ادارے پھر سے زندہ ہونے لگے.مذہبی تعلیم پر سے ناروا پابندیاں اٹھالی گئیں.اور پنجاب کے مسلمان جو ایک عرصہ سے سکھوں کے ظلم و ستم کا تختہء مشق نے چلے آتے تھے اب انہوں نے انگریز کی سلطنت میں سکھ کا سانس لیا.اور انگریزی حکومت کو ایک نعمت سمجھا.ان حالات میں اگر حضرت مرزا صاحب انگریز کی مخالفت کرتے تو یہ سکھ مظالم
کی تائید کے مترادف ہو تا.یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین تاریخی واقعات کو دانستہ ان کے پس منظر سے دور کر کے دکھانے کے عادی ہیں وہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ چلیئے مرزا صاحب تو رہے ایک طرف پنجاب کے باقی مسلمانوں کا اس وقت انگریز کے ساتھ کیا رویہ تھا.کیا ایک بھی مسلمان سکھوں کی تائید میں تھا ؟ اگر کوئی ایسا تاریخی واقعہ ہو تو جناب برق صاحب اسے سامنے لانے کی جرات کیوں نہیں کرتے ؟ اب رہا مستقبل کا سوال کہ جب پنجاب میں امن قائم ہو گیا تو پھر حضرت بائی جماعت احمدیہ نے انگریز سے ملک چھوڑنے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا ؟ انیسویں صدی کے اواخر میں ہندوؤں نے ہندوستان کو انگریز کے اقتدار سے نکالنے کے لئے جو سیاسی تحریکیں شروع کی تھیں کوئی عقلمند اور دور اندیش مسلمان ان کی تائید نہیں کر سکتا تھا.حضرت بانی جماعت احمد یہ جانتے تھے کہ ہندو اکثریت آٹھ سو سال تک مسلمانوں کے ماتحت رہنے کے بعد اب بیدار ہو رہی ہے اور مسلمان زوال کے اس دور میں داخل ہے جس میں ہر فاتح قوم اقتدار چھن جانے پر مبتلا ہو جایا کرتی ہے.ان حالات میں جیسا کہ بعد میں واقعات نے شہادت بھی دی ہے.ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف ایک انتقام کی آگ سلگ رہی تھی.اگر اس وقت انگریز ہندوستان کو آزاد کر دیتا تو اس کے یہ معنی تھے کہ ملک میں ہندوؤں کی ایک منصب حکومت قائم ہو جاتی جو مسلمانوں کو ان سے آٹھ سو سالہ دور حکومت کا بدلہ لینے کے لئے اپنے انتقام کا نشانہ بناتی.اور وہ حکومت مسلمانوں کے لئے آج کے بھارت کی نام و نہاد سکولر حکومت سے کہیں زیادہ خطر ناک ثابت ہوتی.آج تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بھارت کی سرحد پر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم ہو چکی ہے.اور بھارت میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں بھارت کو کچھ کچھ اس کا احساس بھی ہے کہ پاکستان میں ہندوؤں کی بھی
۲۳۴ ایک قلیل اقلیت موجود ہے پھر آپس کے معاہدات بھی ہیں ان چیزوں کے باوجود گذشتہ پندرہ سال میں مسلمانوں سے بھارت میں جو سلوک ہوا ہے اور حال ہی میں جو فرقہ وارانہ فضاء موجود ہے.اگر آج سے ساٹھ سال قبل ہندوستان آزاد ہو تا تو وہاں کے مسلمان کی کیا حالت ہوتی ؟ انگریزوں کے ہندوستان چھوڑنے سے مسلمان کا صرف آقا تبدیل ہو جاتا انگریز جاتا اور ہندو اس سے بدترین صورت کا آقا بر سر اقتدار آجاتا.اس لئے اس وقت کے حالات میں ہر درد مند مسلمان اس بات سے خوفزدہ تھا کہ اگر ایسے حالات میں انگریز نے ہندوستان کو چھوڑا تو یہ مسلمانوں کے حق میں انتہائی خطر ناک ثابت ہو گا.ہندوؤں کی جس متعصبانہ ذہنیت نے جناب قائد اعظم کو کانگرس سے علیحدہ ہو جانے پر مجبور کیا تھا اسی ہندو ذہنیت کا واضح تصور حضرت اقدس مرزا صاحب اور ان کے زمانہ کے مسلمان مفکرین کو آزادی کے نعرے میں شرکت سے روکنے کا موجب تھا.پاکستان کا تصور تو بعد کی پیداوار ہے.آپ کس طرح توقع رکھتے ہیں کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ جن کی وفات ۱۹۰۸ء میں ہوئی وہ پاکستان کے قیام کی تائید میں کوئی بیان یا انگریز کو ہندوستان چھوڑنے کا مشورہ دیتے.تا ہم جب پاکستان کا واضح تصور پیش ہوا اس وقت جماعت احمدیہ نے ہر ممکن آئینی طریق سے مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائید کی.اور پاکستان کے قیام میں عملی جدوجہد کی.یہ ایک علیحد ہ باب ہے.اور پاکستان کا کوئی دیانتدار مؤرخ پاکستان کے قیام کے بارہ میں جماعت احمدیہ کی مجموعی اور جماعت کے افراد کی انفرادی خدمات کو نظر انداز نہیں کرے گا.انگریزوں سے جہاد کی حرمت کے متعلق علماء کے فتاوی محترم برق صاحب نے حضرت بانی جماعت احمدیہ پر تو یہ الزام لگا دیا کہ آپ نا جائز طور پر انگریزی حکومت کی خوشامد کر کے امت مسلمہ کو درس غلامی دے رہے
تھے.لیکن کاش انہوں نے اس نظر سے اپنے بزرگوں کا محاسبہ بھی فرما لیا ہوتا.ہم بد ظنی نہیں کرتے لیکن قرائن ایسے ہیں کہ ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ برق صاحب نے اپنے بزرگوں کے اسی قسم کے رویہ سے دانستہ اغماض برتا ہے.اور اگر آپ کو پہلے معلوم نہ تھا تو مندرجہ ذیل علماء اور سیاسی لیڈروں کے نظریات کا علم ہونے کے بعد اپنے طرز فکر پر نظر ثانی فرمائیے.کیا آپ اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ اہلحدیث کے ممتاز عالم مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھا تھا.سلطان روم ایک اسلامی بادشاہ ہے لیکن امن عام اور حسن انتظام کے لحاظ سے (مذہب سے قطع نظر ) برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا موجب نہیں ہے اور خاص کر گروہ اہل حدیث کے لئے تو یہ سلطنت ملحاظ امن و آزادی اس وقت کی تمام اسلامی سلطنتوں (روم، ایران، خراسان) سے بڑھ کر فخر کا محل ہے.“ اشاعۃ السنہ نمبر ۱۰ جلد ۶ صفحه ۲۹۲) ۲ : اس امن و آزادی عام و حسن انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہل حدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں.اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں.اور جہاں کہیں وہ رہیں اور جائیں (عرب میں خواہ روم میں خواہ اور کہیں کسی اور ریاست کا محکوم رعایا ہو نا نہیں چاہتے.“ (اشاعۃ السنہ نمبر ۱۰ جلد ۶ صفحه ۲۹۳) اور شیعانِ ہند کے مجہتد علامہ السید علی الحائری فرماتے ہیں :- ہم کو ایسی سلطنت کے زیر سایہ ہونے کا فخر حاصل ہے جس کی حکومت میں انصاف پسندی اور مذہبی آزادی قانون قرار پا چکی ہے جس کی نظیر اور مثال دنیا کی کسی اور سلطنت میں نہیں مل سکتی اس لئے نیابتہ تمام شیعوں کی طرف سے برنش سلطنت کا صمیم قلب سے میں شکریہ ادا کرتا ہوں اس ایثار کا جو وہ اہل اسلام کی تربیت
میں بے دریغ مرعی رکھتی ہے خاص کر ہمارا فرقہ جو تمام اسلامی سلطنتوں میں تیرہ سو برس سے نا قابل برداشت مظالم کے بعد آج اس انصاف پسند عامل سلطنت کے زیر حکومت اپنے تمام مذہبی فرائض اور مراسم تو لا و تبرا کو بہ پابندی قانون اپنے اپنے محل و قوع میں ادا کرتے ہیں.اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہر شیعہ کو اس احسان کے عوض میں (جو آزادی مذہب کی صورت میں انہیں حاصل ہے) صمیم قلب سے برٹش حکومت کا رہین احسان اور شکر گزار ہونا چاہیئے.اور اس کے لئے شروع بھی اس کو مانع نہیں ہے.کیونکہ پیغمبر اسلام ﷺ نے نوشیروان عادل کے عحمد سلطنت میں ہونے کا ذكر مدح و فخر کے رنگ میں بیان فرما دیا ہے.“ ( موسطہ تحریف قرآن اپریل ۱۹۲۳ء ص ۶۷، ۶۸ شائع کردہ ینگ مین سوسائٹی خواجگان نارووالی لاہور ) یہ دور ائیں جو بیان ہوئی ہیں ان میں پہلی تو پنجاب کے ایک مشہور اہلحدیث عالم کی ہے اور دوسری شیعوں کے مجند کی.اب دوسرے علمائے ہند کی آراء و فتاویٰ اس بارہ میں ملاحظہ ہوں.نواب مولوی صدیق حسن خان صاحب بھوپالوی اہل حدیث رقمطراز ہیں :- علمائے اسلام کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ ملک ہند میں جب سے حکام والا مقام فرنگ فرمانروا ہیں اس وقت سے یہ ملک دارالحرب ہے یا دار الاسلام.حفیہ جن سے یہ ملک بالکل بھرا ہوا ہے ان کے عالموں اور مجہتدوں کا تو یہی فتویٰ ہے کہ یہ ملک دارالاسلام ہے اور جب یہ ملک دارالاسلام ہوا تو پھر یہاں جہاد کرنا کیا معنی بلکہ عزم جہاد ایسی جگہ ایک گناہ ہے بڑے گناہوں سے.اور جن لوگوں کے نزدیک یہ دارالحرب ہے جیسے بعض علمائے دہلی وغیرہ ان کے نزدیک بھی اس ملک میں رہ کر اور یہاں کے حکام کی رعایا اور امن و امان میں داخل ہو کر کسی سے جہاد کرنا ہر گز روا نہیں.جب تک کہ یہاں سے ہجرت کر کے کسی
دوسرے ملک اسلام میں جا کر مقیم نہ ہو.غرض یہ کہ دارالحرب میں رہ کر جہاد کرنا اگلے پچھلے مسلمانوں میں سے کسی کے نزدیک ہر گز جائز نہیں.“ (ترجمان وہابیہ صفحه (۱۵) مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی اہل حدیث کے شیخ الکل انگریزوں سے جہاد ممنوع قرار دیتے ہیں.(دیکھئے فتاوی نذیر یہ جلد ۲ صفحہ ۷۳۴۷۲ ۲ مطبوعہ دی پر نٹنگ ورکس طبع اول ایضا دیکھیں صفحہ ۳۸٬۳۷ و فتوی صراط مستقیم مولانا اشرف صاحب تھانوی) سید احمد صاحب بریلوی مجدد صدی سیز دہم نے یہ سوال ہونے پر کہ آپ انگریزوں سے کیوں جہاد نہیں کرتے ؟ فرمایا.”ہمارا اصل کام اشاعت توحید الہی اور احیاء سنن سید المرسلین ہے سو ہم بلاروک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں پھر ہم سر کار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں." (سوانح احمدی صفحہ اے ا از مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری صوفی پر ملنگ کمیٹی بہاؤالدین) مولوی عبدالحی صاحب حنفی اور مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی حنفی ہندوستان کو اس زمانہ میں دارالاسلام قرار دیتے تھے.( مجموعہ فتاوی مولوی عبدالحی لکھنوی جلد ۲ صفحہ ۲۳۵ مطبوعہ ۱۳۱۱ ھ و نصرت الابرار صفحه ۲۹ مطبوعہ مطبع صحافی لاہورامین منجی مولانا شبلی نعمانی بھی انگریزوں سے جہاد جائز نہیں سمجھتے تھے.دیکھئے مقالات شبلی جلد اول صفحہ اے امطبوعہ مطبع معارف اعظم گڑھ.اور خواجہ حسن نظامی کا بھی یہی فتویٰ تھا کہ انگریز مذ ہبی امور میں دخل نہیں دیتے اس لئے لڑائی کرنا اپنے تئیں ہلاکت میں ڈالنا ہے.(شیخ سنوسی صفحہ ۱۷)
مولانا حسین احمد مدنی جیسے سیاسی لیڈر تحریر فرماتے ہیں :- اگر کسی ملک کا اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہر حال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے مذہبی اور دینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب ( حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث قدس سرد انا قل) کے نزدیک بلا شبہ دار الا سلام ہوگا.از روئے شرع مسلمانوں کا فرض ہو گا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لیے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں.“ نقش حیات جلد ۲ صفحه ۱۱) مولانا ابو الا علی صاحب مودودی رقمطراز ہیں.66 ”ہندوستان اس وقت بلا شبہ دارالحرب تھا جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی اس وقت مسلمانوں پر فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جانیں لڑاتے یا اس میں ناکام ہونے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے لیکن وہ مغلوب ہو گئے اور انگریزی حکومت قائم ہو چکی.اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل لا (مذہبی قوانین ناقل) پر عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کر لیا.تو اب یہ ملک دار الحرب نہیں.“ ( سود حصہ اول حاشیہ صفحہ ۷ ۷ ۷۸۰ شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی لاہور طبع اول) اس کے علاوہ مفتیانِ مکہ 1- جمال الدین بن عبد اللہ شیخ عمر حنفی مفتی مکہ معظمہ.- حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مکہ معظمہ.- احمد بن ذہنی شافعی مفتی مکہ معظمہ نے بھی ہندوستان کے دارالاسلام ہونے کا فتویٰ دیا تھا.(دیکھئے کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری مؤلفه شورش کا شمیری صفحہ ۱۳۱) نیک بندو ستان کے اہل حدیث اور ہر مکاتب فکر کے حنفی علماء کا فتوی یہی تھا
۲۳۹ کہ انگریزوں سے جہاد ممنوع ہے.کیونکہ ہندوستان انگریزوں کی عملداری میں دار الحرب نہیں بلکہ دار الاسلام ہے مفتیان مکہ بھی ہندوستان کے دار الاسلام ہو نی کا فتوی دے رہے تھے نہ کہ وارالحرب ہونے کا.پھر سر سید احمد خان مرحوم لکھتے ہیں :- وو جب کہ مسلمان ہماری گورنمنٹ کے متامن تھے.کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے.“ ( اسباب بغاوتِ ہند شائع کردہ اردو اکیڈمی سندھ صفحہ ۱۰۶،۱۰۵) اور شمس العلماء مولوی نذیر احمد صاحب مرحوم دہلوی متر جسم قرآن مجید نے فرمایا تھا.ہندوؤں کی عملداری میں مسلمانوں پر طرح طرح کی سختیاں رہیں اور مسلمانوں کی حکومت میں بعض ظالم بادشاہوں نے ہندؤں کو ستایا.الغرض یہ بات خدا کی طرف سے فیصل شدہ ہے کہ سارے ہندوستان کی عافیت اس میں ہے کہ کوئی اجنبی حاکم اس پر مسلط رہے جو نہ ہندو ہو نہ مسلمان ہی ہو.کوئی سلاطین یورپ میں سے ہو.مگر خدا کی بے انتہا مہربانی اس کی مقتضی ہوئی کہ انگریز بادشاہ ہوئے.(مولانا مولوی حافظ نذیر احمد صاحب مترجم قرآن دہلوی کے لیکچروں کا مجموعہ بار اول ۱۸۹۰ء ص ۴-۵) میں اپنی معلومات کے مطابق اس وقت کے ہندوستانی والیان ملک پر نظر ڈالتا تھا اور برما اور خیال اور افغانستان بلکہ فارس اور مصر اور عرب تک خیال دوڑاتا تھا.اس سرے سے اس سرے تک ایک متنفس سمجھ میں نہیں آتا تھا.جس کو میں ہندوستان کا بادشاہ بناؤں امیدواران سلطنت میں سے اور کوئی گروہ اس وقت موجود نہ تھا کہ میں اس کے استحقاق پر نظر کرتا میرا اس وقت کا فیصلہ یہ تھا کہ انگریز ہی سلطنت
۲۴۰ ہندوستان کے اہل ہیں سلطنت انہی کا حق ہے.اسی پر حال رہنی چاہیے." (ایضا ص ۲۶-۲۷) جناب ق صاحب ! آپ کے مجاہد اعظم مولانا ظفر علی خان صاحب لکھتے ہیں :- زمیندار اور اس کے ناظرین گورنمنٹ برطانیہ کو سایہ خدا سمجھتے ہیں اور اس کی عنایت شاہانہ و انصاف خسروانہ کو اپنی دلی ارادت و قلبی عقیدت کا کفیل سمجھتے ہوئے اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک قطرے کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کے لئے تیار ہیں اور یہی حالت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے.“ زمیندار ۹ نومبر ۱۹۱۱ء) پھر سر ۱۸۵ء کے زمانہ کے ایک بزرگ مولانا محبوب علی دہلوی کے حالات اخبارات میں شائع ہوئے ہیں جن میں حوالہ کتاب ارواح ثلاثہ لکھا گیا ہے." ندر کے انہی دنوں میں آپ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کے فتویٰ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا.انگریز سمجھے کہ کوئی ہمارا اپنا ہد ہ ہے انہوں نے اس صلہ میں آپ کو گیارہ گاؤں بطور انعام دینے کی خواہش کی آپ نے پروانہ چاک کر ڈالا اور کہا کہ میرے نزدیک مسئلہ یونہی تھا.“ امید ہے کہ جناب برق صاحب ان سب آراء اور فتاوی کو ملاحظہ کر کے اپنی ان سب آرا رائے پر نظر ثانی فرمائیں گے.جناب برق صاحب کی تلپیس جناب برق صاحب نے حضرت اقدس کی دجالی فتنہ کے متعلق بعض عبارات پیش کر کے محض اس وجہ سے کہ ان میں حضرت اقدس نے عیسائی قوم سے دجالی فتنہ کا خروج بیان فرمایا ہے.غلط طور پر یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت اقدس کے نزدیک ہندوستان کی انگریزی حکومت دجال اکبر تھی.حالانکہ
۲۴۱ حضرت اقدس نے کہیں بھی انگریزی حکومت ہند کو الدجال یاد جالِ اکبر قرار نہیں دیا.بلکہ ازالہ اوہام صفحہ ۷۳۱ میں صاف طور پر لکھتے ہیں.ان دسوں علامتوں میں سے بھاری علامت وجال معہود کی یہ لکھی ہے کہ اس کا فتنہ تمام ان فتنوں سے بڑھ کر ہو گا جو ربانی دین کے مٹانے کے لئے ابتداء سے لوگ کرتے آئے ہیں اور ہم اس رسالہ میں ملامت کر چکے ہیں کہ یہ علامت عیسائی مشنوں میں مولی ظاہر اور ہویدا ہے.ہمارے نبی ﷺ نے کھلے کھلے طور پر ریل گاڑی کی طرف اشارہ فرمایا ہے.چونکہ یہ عیسائی قوم کی ایجاد ہے جن کا امام و مقتداء میں د جالی گروہ ہے (پادریوں کا گروہ ناقل) اس لئے ان گاڑیوں کو دجال کا گدھا قرار دیا گیا.“ نیز شهادت القرآن صفحہ ۲۲ پر فرماتے ہیں :- اس قوم کے علماء اور حکماء نے دین کے متعلق وہ فتنے ظاہر کئے جن کی نظیر حضرت آدم سے تا ایں دم پائی نہیں جاتی." ان دونوں عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے نزدیک دجالی فتنہ وہ فتنہ ہے جو مذ ہب اسلام کے خلاف عیسائی قوم کے علماء اور حکماء نے پیدا کیا ہے.پس جن بعض عبارتوں میں عیسائی قوم سے اس فتنے کا پیدا ہو نامند کور ہے.ایسے حوالہ جات سے برقی صاحب کا از خود یہ نتیجہ نکال لینا درست نہیں کہ حضرت اقدس کے نزدیک دجال سے مراد ہندوستان کی انگریزی حکومت ہے.جناب برق صاحب حضرت اقدس کی کتابوں سے اقتباسات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :- ان اقتباسات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ دجال سے مراد عیسائی ہیں.گو بعض مقامات پر مرزا صاحب نے صرف پادریوں کو محض اس بات پر دجال قرار دیا ہے
۲۴۲ کہ وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں.لیکن اگر ان کی تمام تحریروں کو سامنے رکھا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ آپ تمام عیسائیوں کو دجال سمجھتے ہیں آپ گذشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں کہ انگریز ہندوستان کو عیسائی بنانے میں کتنے کوشاں تھے.“ (حرف محرمانه صفحه ۱۷۳) پھر تمہیں سے کام لیتے ہوئے تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۳۹ کی ایک عبارت پیش کر کے لکھتے ہیں :- ”مرزا صاحب نے دجال کے دعویٰ نبوت میں پادریوں کو اور دعوئی خدائی میں ان کے فرمانرواؤں کو شامل کر کے دجال کو مکمل کر دیا ہے.“ برق صاحب کی غلط بیانی یہ جناب برق صاحب کی صریح غلط بیانی ہے کہ حضرت اقدس نے دعویٰ خدائی میں انگریزی حکومت کو شامل کر کے دجال قرار دیا ہے.ذرا حرف محرمانہ سے تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۳۹ کا اقتباس ملاحظہ کریں.اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ خدائی کا دعویٰ کرنے والے وہ لوگ قرار دیئے گئے ہیں جو ایجاد اور صنعت اور خدا کے کاموں کی کنہ معلوم کرنے میں حریص ہیں اور یہ لوگ اقوام یورپ کے فلاسفر اور سائنسدان ہیں نہ کہ حکومت ہند کے فرمانروا انگریز.نبوت کا دعویٰ کرنے والے آپ نے ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو خدائی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں اور مسیح کو خدا ٹھراتے ہیں اور یہ صرف پادری ہی ہیں.انگریز حکمران خدا کی کتابوں میں تحریف نہیں کرتے تھے وہ تو عوام عیسائیوں کی طرح پادریوں کے دجل کا شکار تھے.انکو حضرت اقدس نے ہر گز د جال قرار نہیں دیا.اگر حضرت مسیح موعود کے نزدیک انگریزی حکومت دجال ہوتی تو پھر آپ کیوں انگریزوں اور ان کی سلطنت کی یوں تعریف فرماتے.
۲۴۳ انگریز ایک ایسی قوم ہے جن کو خدا تعالیٰ دن بدن اقبال اور دولت اور عقل و دانش کی طرف کھینچنا چاہتا ہے اور جو سچائی، راستبازی اور انصاف میں ترقی کرتے جاتے ہیں.“ اسلام کے دو حصے ہیں ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں اور دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو.سو وہ سلطنت سلطنت بر طانیہ ہے.“ شہادت القرآن مور نمنٹ کی توجہ کے لائق".”ہر ایک سعادت مند مسلمان کو دعا کرنی چاہیے کہ اس وقت (یعنی یا جوج ماجوج کی آخری جنگ کے وقت انگریزوں کی فتح ہو کیونکہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۵۰۹) - گور نمنٹ انگلشیہ خدائی نعمتوں سے ایک نعمت اور ایک عظیم الشان رحمت ہے یہ سلطنت مسلمانوں کے لئے آسمانی برکت کا حکم رکھتی ہے." شهادت القرآن گورنمنٹ کی توجہ کے لائق صفحہ ۱۲) مذکورہ بالا اقتباسات اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ حضرت اقدس نے انگریزی حکومت کو دجال اکبر قرار نہیں دیا.برق صاحب از راه و سیسه کاری حضرت اقدس پر یہ اعتراض کرتے ہیں." انبیاء کی تاریخ میں جناب مرزا صاحب وہ پہلے رسول ہیں جنہوں نے قوم کو غلامی کا درس دیا اور غلامی بھی دجال اکبر کی." ( حرف محرمانه صفحه ۱۸۲) حالانکہ خود ہی لکھتے ہیں." یہ درست ہے کہ انگریز کے زمانے میں ان کے خلاف اعلان جہاد خلاف مصلحت تھا.اس لئے کہ ہمارے پاس ٹوٹی ہوئی لاٹھی بھی نہیں تھی." (حرف محرمانه صفحه ۱۹۹) پیس ایسے وقت میں اگر حضرت مرزا صاحب نے قوم کو دوسرے علماء اور
۲۴۴ لیڈروں کی طرح انگریزوں کی اطاعت اور وفاداری کی تعلیم دی تو یہ بات منافی رسالت کیسے ہو سکتی ہے جب تک جہاد کی شرائط موجود نہ ہوں قوم کو جہاد بالسیف کا حکم دینا تو خدا تعالی کی نافرمانی اور معصیت ہے جس کا مرتکب آنحضرت ﷺ کا نائب رسول ہر گز نہیں ہو سکتا تھا.برق صاحب کے لئے لمحہ فکریہ غلامی کے درس کا جواب رسول کریم ﷺ نے مسلمانوں پر اہل مکہ کے مظالم دیکھ کر انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کا ارشاد فرمایا.جہاں کا بادشاہ ایک عیسائی تھا.جو کسی پر ظلم نہیں کرتا تھا.آپ کے ارشاد پر کئی جلیل القدر صحابہ اور صحابیات نے حبشہ کی طرف ہجرت کی.اب برق صاحب ذرا سوچیں کہ کیا ان صحابہ کو آنحضرت ﷺ نے ایک غلامی سے نکال کر دوسری غلامی اختیار کر لینے کی تلقین فرمائی تھی.اور خود اس وقت تک قریش کی حکومت کی غلامی میں رہنا اختیار کر رکھا تھا؟ ہر گز نہیں! ہر گز نہیں! ہر گز نہیں ! آنحضرت ﷺ نہ مکہ میں اپنے رہنے کو غلامی کے مترادف سمجھتے تھے.اور نہ صحابہ کے حبشہ کی عیسائی حکومت کے علاقہ میں ہجرت کر جانے کو غلامی کے مترادف مجھتے تھے.صحابہ کرام نے حبشہ میں عیسائی بادشاہ کی سلطنت میں ہجرت کی.اور پناہلی تو نجاشی شاہ حبشہ نے بھی ان سے نہایت شریفانہ سلوک کیا.اور عربوں کے اس مخالف وفد کو جو اُن مسلمانوں کی مخالفت کے لئے اس کے دربار میں پہنچا تھا خائب و خاسر کر کے واپس کر دیا.مسلمانوں نے شاہ حبشہ کے اس حسن سلوک کی ہمیشہ قدر دانی کی ہے.اور حبشہ کی سلطنت پر کبھی حملہ نہیں کیا.پس ان صحابہ کا حبشہ میں پناہ لیتا غلامانہ زندگی نہ تھی.بلکہ ان صحابہ نے جن
۲۴۵ پر اہل مکہ کی حکومت طرح طرح کے ظلم ڈھاتی تھی.حبشہ کے بادشاہ کے پاس پناہ لے کر مکہ والوں کے ظلم سے نجات پائی تھی.اسی طرح انگریزی حکومت پنجاب کے مسلمانوں کو سکھوں کی ظالمانہ حکومت سے نجات دلانے کا موجب ہوئی تھی.اور بدیں وجہ پنجاب کے مسلمانوں کے دلوں میں اس کی قدر تھی اور وہ اس حکومت میں سکھوں کی حکومت کے مقابلہ میں بہت خوش تھے.اور انگریزوں کی بر وقت آمد کو ایک نعمت سمجھتے تھے.ماسوا اس کے انگریزوں نے ہندوستان کی اقوام کو ان کے پرسنل لاء کے تحت مذ ہبی آزادی دے دی تھی.اس لئے مسلمان اسلامی تعلیم کے ماتحت علماء کے فتاوای کی رو سے انگریزی عملداری کو دار الحرب نہیں سمجھتے تھے.اور انگریزوں سے بغاوت کو شرعی طور پر حرام سمجھتے تھے.قبل ازیں ہم حفی اہل حدیث اور شیعہ علماء کے فتاوی اس بارہ میں نقل کر چکے ہیں.اور یہ امر تو برق صاحب کو خود بھی مسلم ہے.یہ درست ہے کہ انگریز کے زمانہ میں ان کے خلاف اعلان جہاد خلاف " مصلحت تھا.اس لئے کہ ہمارے پاس ٹوٹی ہوئی لاٹھی بھی نہیں تھی.“ (حرف محرمانه صفحه ۱۹۹) مگر اس موقعہ پر انگریزوں سے جہاد صرف خلاف مصلحت ہی نہ تھا.بلکہ شرعاً بھی جائز نہ تھا.اور مسلمانوں کا انگریزی تسلط کو قبول کر لینا شرعاً ان پر اس معاہدہ کی پابندی عائد کر رہا تھا.انگریزوں کے ماتحت رہنے کو غلامی کی زندگی قرار نہیں دیا جا سکتا.کیونکہ انگریزی حکومت نے مذہبی آزادی دے رکھی تھی.اور انگریزوں کے ماتحت مسلمان اپنے آپ کو ذہنی طور پر غلام نہیں سمجھتے تھے.بلکہ مذہبی فرائض و واجبات کے ادا کرنے میں اپنی ضمیر کو آزاد پاتے تھے.اسی لئے ان کی سلطنت میں ہندوستان کو علمائے اسلام دار الاسلام قرار دے رہے تھے.
۲۴۶ پس حضرت اقدس کا انگریزوں کے خلاف جہاد کو وقتی طور پر حرام قرار دینا اور مسلمانوں کو ان کی خیر خواہی اور تعاون کی تلقین کرنا از بس ضروری تھا.کیونکہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کی وجہ سے انگریز مسلمانوں سے بد ظن تھے.ماسوا اس کے حضرت اقدس کی عداوت میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے آپ کے مقابلہ میں دلائل سے عاجز آ کر آپ کے خلاف انگریزوں کے کان بھر نے شروع کئے کہ یہ شخص ان کی حکومت کے خلاف باغیانہ خیالات رکھتا ہے.اور مھدی سوڈانی سے بھی زیادہ خطر ناک ثابت ہو گا.چنانچہ انہوں نے گورنمنٹ کو آپ کے خلاف بھڑ کانے کے لئے لکھا.اس کے (حضرت مرزا صاحب) کے دھو کے پر یہ دلیل ہے کہ دل سے وہ گورنمنٹ غیر مذہب کی جان مارنے اور اس کا مال لوٹنے کو حلال و مباح جانتا ہے.لہذا اگور نمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پر حذر رہنا ضروری ہے.ورنہ اس مہدی قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا.ہماری اس تقریر کا جو اس نے ہمارے ریویو براہین احمدیہ سے نقل کی ہے اب وہ محل نہیں رہا.وہ اس وقت تک اس کا محل تھا جب تک مہدی نہیں بنا تھا.“ ر ساله اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۶ حاشیہ صفحہ ۱۶۸ بامت ۱۱-۱۳۱۰ھ مطابق ۱۸۹۳ء) مولوی محمد حسین صاحب نے اس قسم کی جھوٹی مخبری سے گورنمنٹ سے کئی مربعے زمین حاصل کی.اور حضرت اقدس کی راہ میں کانٹے بچھانے کی کوشش کی.اسی طرح ایک شخص منشی محمد عبد اللہ نے اپنی کتاب شہادت قرآنی مطبوعہ ۱۹۰۵ء میں لکھا.ایسے ہی دیگر آیات قرآنیہ اپنے چیلوں کو سنا سنا کر گورنمنٹ سے جنگ کرنے کے لئے مستعد کرنا چاہتا ہے.“
۲۴۷ حکومت کے کان کچے ہوتے ہیں اس لئے یہ ریشہ دوانیاں جو محض جھوٹ پر مبنی تھیں بہر حال اہلکار ان حکومت کے دل میں آپ کے خلاف سخت وساوس پیدا کر رہی تھیں.اور گورنمنٹ پہلے ہی آپ کو مہدویت کے دعویٰ کی وجہ سے مشتبہ نظروں سے دیکھ رہی تھی اور اس نے خفیہ پولیس مقرر کر رکھی تھی جو آپ کی ہر نقل و حرکت کی گورنمنٹ کو اطلاع دیتی رہتی تھی.اور جو مہمان آپ کے ہاں آتے تھے ان کے متعلق بھی بہت کچھ کچھ کی جاتی تھی.اور اگر معززین اور رؤسا میں سے کوئی احمدی ہو جاتا تھا تو انگریزی حکام اسے اشارہ کہ دیتے تھے کہ گورنمنٹ تو اس سلسلہ کو مشتبہ نظروں سے دیکھتی ہے.ادھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی وغیرہ کی آپ کے خلاف جھوٹی مخبری جلتی پر تیل کا کام کر رہی تھی.اس لئے اس کے رد عمل میں حضرت اقدس کے لئے از بس ضروری ہو گیا کہ آپ اس خطر ناک پراپیگنڈا کا قلع و قمع کریں.جس کے نتیجہ میں انگریزی حکومت آپ کو مشتبہ نظروں سے دیکھ رہی تھی.حالانکہ آپ بچے دل سے اس کے وفادار تھے.چنانچہ اس پروپیگنڈا کے برے اثر کو زائل کرنے کے لئے ہی آپ کو بار بار اپنی کتابوں میں یہ لکھنا پڑا کہ آپ اور آپ کی جماعت گورنمنٹ انگریزی کی کچی وفادار ہے.مقصود ان تحریروں سے یہ تھا کہ تبلیغ اسلام کے اس کام میں گورنمنٹ کی طرف سے کوئی روک پیدا نہ ہو.جس کا بیڑا آپ نے خدا تعالٰی کے حکم سے اٹھایا ہے اس کے باوجود گورنمنٹ انگریزی آپ کے خلاف کئے گئے پروپیگنڈا سے 1966ء تک متاثر رہی.حتی کہ سرائیٹس گورنر ہو کر آئے اور انہوں نے تمام حالات کا جائزہ لے کر اور حضور کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد گورنمنٹ کو یہ رپورٹ کی کہ اس جماعت کے ساتھ یہ سلوک ناروا ہے بلکہ بڑی ناشکر گزاری کی بات ہے کہ جس شخص نے امن قائم کیا اور جو امن پسند جماعت قائم کر رہا ہے اس پر پولیس چھوڑی گئی ہے یہ بڑی احسان نافراموشی ہے.میں اسے ہٹا کر
۲۴۸ چھوڑوں گا.الفضل ۱۱۸ فروری ۱۹۵۹ء صفحہ ۶ کالم اول خطبہ حضرت خلیفۃ السیح الثانی) اسی مخالفانہ اثر کو زائل کرنے کے لئے حضرت اقدس نے ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کو گورنر پنجاب کی خدمت میں ایک عرضی بھیجی تھی جس کا مضمون جناب برقی صاحب نے نہایت تحریف کے ساتھ اپنی کتاب حرف محرمانہ میں بایں الفاظ درج کیا ہے." غرض یہ ایک ایسی جماعت جو سر کار انگریزی کی نمک پروردہ ہے...صرف یہ التماس ہے کہ سر کار دولت مدار....اس خود کاشتہ پودا کی نہایت احترام اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ کرے کہ وہ بھی اس خاندان ( حضرت مرزا صاحب کا اپنا خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو خاص عنایت کی نظر سے دیکھیں.“ اصل عبارت یوں ہے :- (حرف محرمانه صفحه ۲۰۴) غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سر کار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مورد مراحم گورنمنٹ ہیں.اور یاوہ لوگ جو میرے اقارب یا خدام میں سے ہیں ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد علماء کی ہے جنہوں نے میری اتباع میں اپنے و عظوں سے ہزاروں دلوں میں گورنمنٹ کے احسانات جمادئیے ہیں.“ اس سے قریباً پورے ایک صفحہ بعد حاسدیں کی گورنمنٹ میں جھوٹی مخبریوں کے ذکر کے بعد تحریر فرماتے ہیں.”صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی
۲۴۹ نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سر کار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گذار ہیں.اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے.“ اشتهار ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء صفحه ۱۸۰ مندرجه تبلیغ رسالت جلد ہفتم) پس جماعت احمدیہ کے خلاف برق صاحب کا یہ تاثر پیدا کرنا کہ وہ انگریزوں کی خود کاشتہ ہے.ایک غلیظ غلط بیانی ہے انگریزی گورنمنٹ تو شروع دعوئے مهدویت سے آپ کو اور آپ کی جماعت کو مشتبہ نظروں سے دیکھ رہی تھی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی وغیرہ نے گورنمنٹ کے شبہ کو مزید تقویت دینے کی کوشش کی تھی.تو کون عظمند یہ خیال کر سکتا ہے کہ حضرت اقدس جماعت احمدیہ کو انگریزوں کا خود کاشتہ پودا قرار دے سکتے تھے.ہاں آپ کے خاندان نے سکھوں کے اثر کے زوال میں انگریزوں کو جو مدد دی تھی.آپ اس کا ذکر کر کے گورنمنٹ کو اس امر کی طرف توجہ دلا ر ہے ہیں کہ میرا خاندان جب تمہار او فادار رہا ہے تو پھر میں کس طرح تمہاری حکومت کے متعلق باغیانہ خیالات رکھ سکتا ہوں اور ایک ایسی جماعت بنا سکتا ہوں جس کو میں کسی وقت گورنمنٹ انگریزی کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں.جماعت کو نمک پروردہ ان معنوں میں قرار دیا ہے کہ وہ گور نمنٹ کی اس مذہبی آزادی کی ممنون ہے جو گورنمنٹ نے ہندوستان کی سب قوموں کو دے رکھی تھی.برق صاحب کی اس تحریف کے ذکر کے بعد ہم پھر برق صاحب کے اصل سوال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو یہ ہے کہ :- انبیاء کی تاریخ میں جناب مرزا صاحب وہ پہلے رسول ہیں جنہوں نے قوم کو غلامی کا درس دیا اور غلامی بھی دجال اکبر کی.“ (حرف محرمانه صفحه ۱۸۲) جناب برق صاحب کی یہ بات محض ان کا ظلم عظیم ہے کیونکہ اول تو
۲۵۰ حضرت اقدس کے نزدیک انگریزی حکومت ہر گز دجال اکبر نہ تھی.آپ نے اسے کسی جگہ دجال اکبر قرار نہیں دیا.دوم آپ ہی وہ پہلے رسول نہیں ہیں جنہوں نے قوم کو غیر حکومت کے ماتحت پر امن رہنے کی تعلیم دی.بلکہ آپ سے پہلے حضرت عیسی کا طرز عمل بھی یہی تھا.وہ رومن حکومت کے ماتحت جو مشرکوں اور مت پرستوں کی حکومت تھی.نہ کہ اسرائیلی حکومت زندگی بسر کرتے رہے.اور انہوں نے اس حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا تھا.اور نہ قوم کو اس کی مخالفت کی تعلیم دی تھی.بلکہ ان کے خلاف علماء یہود نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی طرح از راہ ظلم اور شرارت قیصر کی حکومت کا باغی ہونے کا الزام لگا کر انہیں حکومت سے قتل کی سزاد لانا چاہی تھی.الزام یہ تھا کہ یہ خود کو یہودیوں کا بادشاہ کہتا ہے.حضرت عیسی نے پیلاطوس رو می گورنر کی عدالت میں صاف کہہ دیا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں یعنی میرا دعوی روحانی باد شاہت کا ہے نہ سیاسی بادشاہت کا.اس پر پلا طوس یہ سمجھ گیا کہ ان پر بغاوت کا الزام محض جھوٹا ہے جو ازراہ مذہبی عداوت و کینه توزی لگایا گیا ہے.پھر مکہ مکرمہ میں ہمارے رسول مقبول ﷺ نے بھی قریش کی قبائلی صلى الله حکومت کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام نہیں کیا.بلکہ ان کا ظلم و ستم سہتے رہے اور جب قریش کی طرف سے نا امید ہو کر آپ طائف میں تبلیغ اسلام کے لئے تشریف لے گئے تو وہاں سے واپسی پر قریش کی ظالم حکومت نے آپ کے شہریت کے حقوق ہی غصب کر لئے اور مکہ مکرمہ میں آپ کو داخلہ کی اجازت نہ دی.اس پر آپ نے اپنے علاقائی قانون کو توڑا نہیں بلکہ ایک مشرک حاتم بن عدی کی پناہ میں آپ مکہ میں داخل ہوئے اور شہریت کے حقوق حاصل کئے.پھر جب قریش کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا اور انہوں نے آپ کے اعدام (قتل) کا منصوبہ کیا تو خدا تعالٰی سے اس کی اطلاع پاکر اس کے حکم کے
۲۵۱ ما تحت آپ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرما گئے.پس آپ کا یہ فعل اس بات کی دلیل ہے کہ کسی حکومت میں رہتے ہوئے پرامن طریق سے ہی زندگی بسر کرنی چاہیئے اور جب اس حکومت کا ظلم نا قابل برداشت حد تک پہنچ جائے تو اس ملک کو چھوڑ دینا چاہیئے.بغاوت کا طریق اختیار کرنا سنت انبیاء کے خلاف ہے.جناب برق صاحب کا دوسری راہ سے حملہ جناب برق صاحب دل سے ضرور سمجھتے ہوں گے کہ میں یہ کہنے میں غلطی پر ہوں کہ جناب مرزا صاحب نے انگریز فرمانرواؤں کو دجال اکبر قرار دیا ہے کیونکہ وہ اس بارہ میں حضرت اقدس کی کوئی واضح تحریر پیش نہیں کر سکے.بلکہ انہوں نے انگریزوں کو دجال ثابت کرنے کے لئے ایک دوسری راہ اختیار کی ہے یعنی یہ بتایا ہے کہ انگریزی حکومت کے کارکن بھی عیسائیت کے پھیلانے میں بھی پادریوں کے ہموا تھے.بلکہ شاہ انگلستان کو بھی تاج پوشی کے وقت اقرار کرنا پڑتا تھا.کہ میں محافظ دین مسیح ہوں.اس میں کچھ شک نہیں کہ انگریزی حکومت بوجہ مسیحی مذہب رکھنے کے پادریوں کی تبلیغ واشاعت میں ان سے ہر طرح کا تعاون کرتی تھی.لیکن اس کے باوجود ہم ان انگریزی حکام کو دجال قرار نہیں دے سکتے.بلکہ وہ تو خود پادریوں کے دجل کا شکار تھے.اصل بات یہی ہے کہ دجالی فتنہ ایک مذہبی فتنہ ہے اور یہ عیسائی پادریوں کا پیدا کردہ ہے جنہوں نے اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف کر کے مسیح" کو خدا قرار دے رکھا تھا.عام عیسائی اور حکومت کے کارندے تو ان کے دجل کا شکار تھے.دجال کی مذ ہبی معاونت کی وجہ سے ان پر صرف معاون دجال ہونے کا تو اطلاق ہو سکتا ہے.نہ دجال اکبر کا کیونکہ یہ لوگ تو خود پادریوں کے دجل کا شکار تھے اور حسن ظنی کی بنا پر پادریوں کے مفتریانہ عقائد کو درست سمجھ بیٹھے تھے.اس لئے حضرت
۲۵۲ اقدس نے اگر انگریزوں کی حکومت سے تعاون کی تعلیم دی ہے.اور ان کی حکومت کے خلاف باغیانہ خیالات رکھنے سے منع فرمایا ہے تو ساتھ ہی آپ نے ان کے مذہبی عقائد کے پر مجھے بھی اڑا دیئے ہیں اور ان کی دی ہوئی مذہبی آزادی سے پورا پورا فائدہ اٹھا کر عیسائیت کی خوب تردید کی ہے.آپ نے کہیں بھی یہ تعلیم نہیں دی کہ عیسائیوں کے مذہبی عقائد میں ان کی ہاں میں ہاں ملائی جائے یا ان کے مذہبی احکام کی فرمانبرداری کی جائے.بلکہ ان کے مذہبی فتنہ کے خلاف آپ نے ایسا زبر دست جہاد کیا ہے.کہ خود ملکہ وکٹوریہ انگلستان کو بھی ۱۸۹۳ء میں دعوت دی ہے کہ وہ صحیح کی خدائی چھوڑ کر دین اسلام کو قبول کرے.آپ نے ملکہ انگلستان کو مخاطب کر کے تحریر فرمایا."اے ملکہ توبہ کر اور اس ایک خدا کی اطاعت میں آجا جس کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ شریک اور اس کی تمجید کر.کیا تو اس کے سوا اور کوئی معبود پکڑتی ہے جو کچھ پیدا نہیں کر سکے بلکہ خود مخلوق ہیں اے زمین کی ملکہ ! اسلام کو قبول کرتا تو بچ جائے آمسلمان ( ترجمه آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۳۲) ہو جا.“ پس آپ نے انگریزوں سے تعاون کی ہدایت صرف ان کی پر امن حکومت کے لحاظ سے دی ہے.جس سے مسلمانوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور سکھوں کے مظالم سے نجات ملی تھی اور اس زمانہ میں خود علماء اسلام بھی مسلمانوں کو یہی تلقین کرتے رہتے تھے کہ.مسلمان رعایا کو اپنی گورنمنٹ سے (خواہ وہ کسی مذہب یہودی عیسائی وغیرہ پر ہو.اور اس کے امن و عہد میں آزادی کے ساتھ شعار نہ ہی ادا کرتی ہو ) لڑایا اس سے لڑنے والوں کی جان ومال سے اعانت کرنا جائز نہیں.وبناء علیہ اہل اسلام ہندوستان کے لئے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت و بغاوت حرام ہے.“
۲۵۳ یہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا فتوی تھا جو انہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد 4 صفحہ ۲۸۷ میں شائع کیا ہے.پس حضرت اقدس نے کیا جرم کیا.اگر آپ نے انہی شرعی فتاوی کی تائید کرتے ہوئے قوم کو انگریزی حکومت سے تعاون اور وفاداری کی تعلیم دی اور گور نمنٹ کے دل سے مسلمانوں کے خلاف شبہات دور کرنے کی کوشش فرمائی.حضرت عیسی جن کے حضرت بانی سلسلہ احمد یہ مشیل ہونے کے مدعی تھے.انہوں نے بھی اپنے زمانہ کی مشرک رو من حکومت کی اطاعت کی ہی تعلیم دی ہے.اور حضرت یوسف نے تو فرعون مصر کے ماتحت ایک معزز عہدہ پر ملازمت بھی کی ہے.اور آپ بادشاہ وقت کے قانون کی پابندی ضروری سمجھتے تھے.خدا تعالیٰ نے بھی ان کے اس فعل کی ان الفاظ میں تائید کی ہے.كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَا خُذَ أَحَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ (سورة يوسف : ۷۷) کہ وہ اپنے بھائی کو بادشاہی قانون کے ماتحت روک نہیں سکتے تھے.اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کے بھائی کے مصر میں رک جانے کے لئے خود ایک تدبیر کر دی.اور جب حضرت موسیٰ اور ہارون کو خدا تعالیٰ نے فرعون مصر کے پاس تبلیغ کے لئے بھیجا.اور یہ ہدایت فرمائی قُولا لَهُ قَولاً ليناً تو انہوں نے گو فرعون کے ظلم کے خلاف نرم الفاظ میں آواز اٹھائی.مگر قوم کو بغاوت کی تعلیم ہر گز نہ دی بلکہ فرعون کا ملک چھوڑ دینے کی ہدایت فرمائی.چونکہ انگریزوں نے پرسنل لاء کے ماتحت مسلمانوں کو مذہبی آزادی دے رکھی تھی.اور اس شرط سے مسلمان انگریزوں کا تسلط قبول کر چکے تھے.اس لئے اب انگریزوں کے خلاف مسلمانوں کو بلا وجہ ابھار کر شمر عا ہجرت کی تعلیم بھی نہیں دی جاسکتی تھی.ماسوا اس کے کوئی ایسی سلطنت بھی نظر نہ آتی تھی.جہاں
۲۵۴ ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کو بعد از ہجرت پناہ مل سکے.انگریزی دور کے آخری حصہ میں کانگرس کے ساتھ مل کر بعض علماء نے مسلمانوں کو ہجرت کر جانے کی تلقین کی اور کئی مسلمان ریاست کابل میں ہجرت کر کے چلے بھی گئے.لیکن اس ترک وطن کا ایسا عبر تناک انجام ہوا کہ وہ لوگ لوٹے کھوٹے گئے.اور پھر جو تیاں چمٹاتے واپس ہندوستان آئے.اور انہوں نے انگریزی سلطنت میں ہی امن پایا.متشد دانه یا لیسی کی دوبارہ ناکامی انگریزی حکومت کے آخری دور میں ۱۹۱۴ء میں بعض علماء نے تشدد اور جارحیت اختیار کرتے ہوئے انگریزی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے ایک انقلابی پروگرام تجویز کیا جس کا خمیازہ ہندوستان کے بعض مسلمانوں اور دوسرے ہندوستانی باشندوں کو نہایت عبرتناک رنگ میں بھگتنا پڑا.ہزاروں نفوس جیل میں ڈال دیئے گئے.سینکڑوں تختہ دار پر لٹکا دئیے گئے اور انگریزی تسلط پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گیا.۱۸۵۷ء کے بعد تشدد کے اس دوسرے تجربہ کی ناکامی نے مولوی محمود الحسن صاحب اور ان کے ہم خیال علماء کی آنکھیں کھول دیں اور بالآخر وہ ۱۹۲۰ ء میں یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوئے کہ ان کا متشد دانہ مسلک غلط ہے چنانچہ سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کو اعتراف ہے.وو ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں علماء شریک ہوئے اور ناکامی کے بعد مارے گئے کچھ قید ہوئے.ہزاروں انسان قتل ہوئے.شہزادے قتل ہوئے ان کا خون کیا گیا.ان مصیبتوں کے بعد ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اسلامی حکومت قائم کرنے کا خیال شکست کھا گیا.اس کے بعد پھر ۱۹۱۴ ء میں علماء کی ایک جماعت نے اسی خیال سے یعنی مسلم راج قائم کرنے کے خیال سے تحریک شروع کی.اور اس میں بھی شکست کھائی.اس کے بعد ۱۹۲۰ ء میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیو بند مالٹا سے رہا ہو کر تشریف لائے.دہلی
۲۵۵ میں ملک کے مختلف حصوں سے پانچ سو سے زائد علماء کا اجتماع ہوا.اور وہاں یہ طے پایا کہ تشدد کا یہ راستہ غلط ہے.موجودہ دور میں اسلامی حکومت کا قیام تقریب ناممکن ہے.لہذا کانگرس کے ساتھ شامل ہو کر ہندوستان کی تمام حکومتیں مل کر ملک کا انتظام کریں اور جمهوری حکومت بنائیں چنانچہ اس وقت تک ہم اسی عقیدے پر قائم ہیں اور ہم اسی راستہ کو صحیح سمجھتے ہیں." سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری مولفہ خان کاہلی صفحه ۱۳۰) سچ ہے :- آنچه دانا کند کند نادان لیک بعد از خرابی بسیار اعتراض دوم جناب برق صاحب لکھتے ہیں :- " جب میں جناب مرزا صاحب کی کتابوں میں انگریزوں کی تعریف اور قوم کو سدا غلام رہنے کی تلقین دیکھتا ہوں.تو حیرت میں کھو جاتا ہوں وانتم الاعلون والا رب یہ کیا کر رہا ہے یہ قرآن ہمیں سلطنت اور وراثت کا سبق دیتا رہا.اور پھر ایک رسول بیچ کر غلامی اور ذلت کا وعظ شروع کر دیا." (حرف محرمانه صفحه ۱۸۳) الجواب برق صاحب کا یہ اعتراض سراسر باطل ہے.کہ حضرت اقدس نے مسلمانوں کو سد اغلام رہنے کی تلقین کی ہے.مسلمان اپنی غفلت اور کمزوری کی وجہ سے حضرت اقدس کے دعوئی سے بہت پہلے اسلامی حکومت کے زوال پر انگریزوں کا تسلط قبول کر چکے ہوئے تھے.اور علماء اور لیڈر ان قوم مسلمانوں کو انگریزوں سے وفاداری کی تلقین کر رہے تھے.اور جس زمانہ میں آپ مامور ہوئے.پنجاب کی حکومت انگریزوں نے سکھوں سے حاصل کی تھی.نہ مسلمانوں سے.اور پنجاب کے لوگ
۲۵۶ انگریزی تسلط کو سکھوں کی ظالمانہ حکومت کے بالمقابل ایک نعمت سمجھ رہے تھے.اس لئے حضرت اقدس کا قومی فیصلہ کے مطابق جو کہ دراصل شرع کے مطابق بھی تھا انگریزوں کی وفاداری کی تعلیم دینا ہر گز یہ معنی نہیں رکھتا کہ آپ یہ تلقین فرمار ہے تھے کہ مسلمان سدا انگریزوں کے غلام رہیں.آپکو قرآن مجید اور احادیث کی پیشگوئیوں کی بناء پر یہ یقین تھا.کہ انگریز اور یورپ کی سب قو میں بالآخر مسلمان ہو جائیں گی.کیونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے."منتخب الله لينَّ أنَا وَرُسُلِي (المجادله : ۲۲) یعنی خدا نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے.نیز حدیث میں وارد تھا."يُهْلِكَ اللهُ فِي زَمَانِهِ المِللَ كُلَّهَا إلى الإسلام " کہ خدا تعالیٰ مسیح موعود کے زمانہ میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک ( مغلوب) کر دے گا.اس لئے آپ کو یہ خطرہ ہر گز نہ تھا کہ مسلمانوں کو سدا انگریزوں کے ماتحت رہنا پڑے گا.آپ موجب حدیث نبوی " فيكسر الصليب كسر صلیب کے لئے مامور تھے.جس کی آپ نے اپنے زمانہ میں بنیاد رکھ دی.اور عیسائیت کے ظلم کو پاش پاش کرنے میں پوری کوشش کی.حتی کہ ملکہ وکٹوریہ کو بھی زور دار الفاظ میں مسیح کو خدا ماننے کے عقیدہ اور صلیب پر مرنے کے عقیدہ کو چھوڑنے اور اسلام کو قبول کرنے کی دعوت دی.انگریزوں نے جو نہ ہی آزادی دے رکھی تھی اس کی وجہ سے آپ سے کوئی تعرض نہ کیا.بلکہ آپ نے اس آزادی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا.اور حضرت مسیح کی خدائی کے ستون کو پاش پاش کر دیا.اور انہیں خدا تعالی کا ایک بندہ اور رسول ثابت کیا.حضرت اقدس کی عیسائیت پر مذہبی تنقید کی وجہ سے پادریوں نے غصہ میں آ کر آپ کے خلاف اقدام قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ کھڑا کر دیا.اور ایک مسلمان لڑکے عبد الحمید کو دام میں لا کر بطور گواہ کے انگریزی عدالت میں پیش کیا.کہ مرزا صاحب
۲۵۷ نے اسے پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک کے قتل کے لئے بھیجا ہے.لیکن جب انگریز حاکم کیپٹن ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور پر تصرف الہی سے یہ حقیقت کھل گئی کہ یہ مقدمہ جھوٹا ہے اور پادریوں نے اس میں بناوٹ اور قریب سے کام لیا ہے تو اس نے آپ کو عزت کے ساتھ بری کر دیا.ایک دجال سے اس قسم کے انصاف کی توقع نہیں ہو سکتی تھی.اگر چہ پادری مارٹن کلارک نے اس انگریز حاکم کو اپنے دجل کا شکار کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا.اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھی آپ کے خلاف بطور گواہ پیش کیا.لیکن انگریز حاکم پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا.اور اس نے انصاف کا دامن نہ چھوڑا.ان وجوہ سے یہ حکومت قابل تعریف اور آپ کے شکریہ کی مستحق تھی نہ کہ دجال اکبر کہلانے کی مستحق.اگر حضرت مسیح موعود غلامانہ ذہنیت رکھتے تو یہ جانتے ہوئے کہ انگریز ہم پر مسلط ہیں جن کا مذہب عیسائیت ہے.کبھی عیسائیت کے خلاف ایسی کڑی تنقید نہ کرتے.جس سے مسیح کی خدائی کا ستون گر جائے.اور صلیب کے پر نچے اڑ جائیں.یہ آپ کی صحیح اسلامی روح کا نتیجہ تھا.کہ مذہبی تنقید کی جو آزادی انگریزی حکومت نے دے رکھی تھی.اس سے آپ نے خوب فائدہ اٹھایا.اور مسیح کی خدائی کو ساری دنیا میں باطل کرنے اور صلیب کو پاش پاش کرنے کے لئے ایک جماعت تیار کی.جس کے ذریعہ اب اکناف عالم میں اسلام کی تبلیغ ہو رہی ہے.اور عیسائیت کا طلسم دھواں بن کر اڑ رہا ہے.دنیا کے کئی متمدن اور غیر متمدن علاقوں میں اب احمدی مشنری خدا تعالی کے فضل سے باحسن وجود اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں.اور عیسائیوں کو یہ احساس ہوتا جارہا ہے کہ دنیا کا آئندہ مذہب اب اسلام ہو گا.نہ کہ عیسائیت چنانچہ جارج برناڈشا ایک برطانوی ادیب رقمطراز ہیں :- " مجھے یقین ہے کہ ساری بر طانوی سلطنت ایک قسم کا اصلاح شدہ اسلام اس
۲۵۸ صدی کے اختتام تک قبول کرلے گی.میں نے محمد (ﷺ) کے دین کو ہمیشہ ہی بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھا ہے.میرے نزدیک یہی مذہب بدلتے ہوئے زمانہ حیات کے مقابل پر ایسی اہمیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے یہ ہر زمانہ کے لوگوں کو اپیل کرتا ہے.دنیا کو میرے جیسے بڑے آدمیوں کی پیشگوئیوں کو یقین بڑی وقعت دینی چاہیئے.اور میں نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ محمد ( ﷺ ) کا دین جیسا کہ آج کل یورپ میں قبول کیا جارہا ہے.ویسا ہی کل بھی قبول کیا جائے گا.قرون وسطی کے پادریوں نے یا تو جہالت کی وجہ سے یا تعصب کی بناء پر محمد (ﷺ) کے دین کی نہایت تاریک تصویر کھینچی تھی.فی الحقیقت انہیں محمد ( ) اور اس کے مذہب سے نفرت کرنے کی ٹریننگ دی گئی تھی.ان کے نزدیک محمد کیسوع کا دشمن تھا.لیکن میں نے اس عظیم الشان شخصیت کا مطالعہ کیا ہے.میری رائے میں وہ نہ صرف یہ کہ دشمن مسیح نہ تھے بلکہ وہ انسانیت کے نبات دہندہ تھے.میرا ایمان ہے کہ اگر موجودہ زمانہ میں محمد جیسا انسان دنیا کا ڈکٹیٹر یا آمر من جاۓ تو وہ ہمارے زمانہ کی مشکلات کا ایسا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائے گا.جس کے نتیجہ میں حقیقی مسرت اور امن حاصل ہو جائے.اب یورپ محمد کے مذہب کے اصولوں کو سمجھنے لگا ہے.اور آئندہ صدی میں یورپ اس بات کو اور زیادہ تعلیم کرے گا کہ اسلام کے اصول اس کی الجھنوں کو حل کر سکتے ہیں میری پیشگوئی کو ان حقائق کے ماتحت سمجھنا چاہیئے.موجود و وقت میں بھی میری قوم کے اور یورپ کے کئی لوگ اسلام کو اختیار کر چکے ہیں.اور کہا جاسکتا ہے کہ یورپ کے اسلامی بنے کا آغاز ہو چکا ہے." ا حضرت بائی سلسلہ پورے یقین سے یہ اعلان فرماتے ہیں :- وہ وقت دور نہیں کہ جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اترتی اور ایشیاء اور یورپ اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھو گے." (فتح اسلام)
۲۵۹ -۲ وہ دن نزدیک آتے ہیں جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا.اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہو گا.جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی بچی توحید جس کو میل بانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفار و باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا.لیکن نہ کسی تلوار سے نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی.“ الاشتهار متیقنا لوحی اللہ القہار تذکرہ صفحہ ۲۹۹) پس وہ دل جو اس یقین سے لبریز تھا کہ اسلام کی فتح کا زمانہ قریب آرہا ہے اور کفر کی صف جلد لپیٹ دی جائے گی اور دجال کا فتنہ پاش پاش ہو جائے گا اور سب ملتیں بجز اسلام کے ہلاک ہو جائیں گی.اس نے اگر ایک عارضی وقت کے لئے ایک غیر ملکی مذ ہبی آزادی دینے والی حکومت سے تعاون کی ہدایت فرمائی.تو یہ کیسے خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ دائمی طور پر مسلمانوں کو عیسائیوں کا غلام بنانا چاہتا ہے.جب کہ اس کا دل یقین سے بھرا ہوا ہے کہ اسلام اب فتح پائے گا.اور انگریز اور سارا یورپ اسلام قبول کرے گا.اور یہ لوگ خود اسلام کے خادم بن جائیں گے.اور سرور کائنات عملے کی اطاعت کرنے پر فخر محسوس کریں گے.اور خدا کی بادشاہت ساری دنیا میں قائم ہو جائے گی.اور اسلام کا جھنڈا تمام دنیا پر لہرائیگا.اور سب جھنڈے اس کے آگے سر نگوں ہو جائیں گے.انبیاء کی سنت یہی ہے کہ غیر ملکی سلطنت میں رہتے ہوں تو اس کے خلاف
۲۶۰ باغیانہ خیالات نہ رکھے جائیں.ہاں اگر اس سلطنت کا ظلم نا قابل برداشت ہو جائے تو وہاں سے ہجرت کی جائے.حضرت یوسف نے مصر میں بت پرست بادشاہ کی ماتحتی میں ایک لمبے عرصہ یک زندگی بسر کی.بلکہ اس کے ماتحت کارکن رہے اور سب سے بڑھ کر سرور کا ئنات ﷺ کا طرز عمل بھی یہ بتاتا ہے کہ آپ نے مکہ کی حکومت کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کی.بلکہ جب اس کا ظلم انتہا تک پہنچ گیا تو آپ نے اور آپ کے ماننے والوں نے وہاں سے ہجرت اختیار کی.حضرت بائی سلسلہ احمدیہ کا فرض منصبی تبلیغ و اشاعت دین تھا.انگریزوں کی حکومت میں اس بارے میں آپ کو پوری آزادی حاصل تھی اور انگریزوں نے چونکہ آپ سے عدل کا سلوک کیا.اس لئے انگریز آپ کے شکریہ کے مستحق تھے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهَ.بالآخر یاد رہے کہ انبیاء راست باز اور پار سا طبع لوگ اگر کسی ایسی غیر ملکی حکومت کے ماتحت رہتے ہوں جو انہیں مذہبی آزادی دیتی ہو تو وہ اپنے آپ کو غلام نہیں سمجھتے کیونکہ مذہبی طور پر وہ آزاد ہیں.اور سیاسی لحاظ سے ان کی حرکات و سکنات حکومت کے لئے کسی تشویش کا موجب نہیں ہو تیں.پس وہ ذہنی طور پر بھی آزاد ہوتے ہیں اور اصل آزادی ذہنی آزادی ہی ہے.ورنہ دنیا میں تو انسان کو کسی نہ کسی کی ماتحتی ضرور اختیار کرنا ہی پڑتی ہے.بعض حوالہ جات کی تشریح جناب برق صاحب نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے متعلق حضرت اقدس کا یہ قول نقل کیا ہے.ہن لوگوں نے چوروں اور قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن
۲۶۱ گورنمنٹ پر حملہ کرنا شروع کیا.اور اس کا نام جہاد رکھا.“ ( حرف محرمانہ صفحہ ۱۷۷، بحوالہ حاشیہ ازالہ اوہام صفحه ۷۲۴) واضح ہو کہ اس زمانہ میں علماء یہی سمجھتے تھے کہ انگریزوں کے خلاف لڑائی جائز نہیں.ہم ان کے فتوے اور عبارتیں پہلے نقل کر چکے ہیں.سر سید احمد مرحوم بھی ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے متعلق لکھتے ہیں :- جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کر دیا.ایسے خراب اور بد رویہ اور بد اطوار آدمی تھے.کہ بغیر شراب خوری، اور تماش بینی اور ناچ اور رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا.بھلا کیونکر یہ پیشوا اور مقتدا جہاد کے گنے جاسکتے تھے..اپنی منفعت اور اپنے خیالات کو پورا کرنے اور جاہلوں کے بہکانے کو اور اپنے ساتھ جمعیت جمع کر لینے کو جہاد کا نام دے لینا یہ بات بھی مفسدوں کی حرامزدگیوں میں سے ایک حرامزدگی تھی نہ کہ جہاد.“ ( اسباب بغاوت ہند صفحہ ۱۰۶، شائع کردہ اردو اکیڈیمی سندھ ) نوب صدیق حسن خان صاحب بھو پالوی لکھتے ہیں :- غدر میں جو چند لوگ نادان عوام الناس فتنہ وفساد پر آمادہ ہو کر جہاد کا جھوٹ موٹ نام لینے لگے.اور عورتوں اور چوں کو ظلم اور تعدی سے مارنے لگے اور لوٹ مار پر ہا تھ دراز کیا.اور اموال رعایا بر لیا پر غصباً قابض و متصرف ہوئے.انہوں نے خطائے فاحش کی اور قصور ظاہر.اس لئے کہ قرآن وحدیث کے موافق کہیں شرطیں جہاد کی موجود نہ تھیں.صرف سودائے خام اور خیالی پلاؤ ، حکومت رانی اور ملک ستانی کے ان کے دلوں میں اور مغزوں میں سمائے ہوئے تھے.ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کسی جماعت اور لشکر میں خلوص نیت اور پاکی نیت اور انصاف واجبی اور طبیعت 66 مذہب اسلام ہو.“ (ترجمان وہابیہ صفحہ ۱۳) پس حضرت مسیح موعود نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے متعلق جو رائے دی
۲۶۲ ہے وہی رائے اس وقت علماء اور سیاسی لیڈروں کی تھی.برق صاحب لکھتے ہیں :- جائے اس کے مسیح موعود دجال کو قتل فرماتے.الٹا اس کی تلوار کو محافظ سمجھ رہے ہیں.اور فرمارہے ہیں کہ اگر دجال کی تلوار نہ ہوتی تو مولوی لوگ آپ کو قتل کر ڈالتے.“ الجواب حرف محرمانه صفحه ۱۸۹٬۱۸۰) یہ جھوٹ ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے انگریزی حکومت کو ہر گزر جال قرار نہیں دیا.بلکہ پادریوں اور یورپ کے فلاسفروں کو د جال قرار دیا ہے.برق صاحب نے حرف محرمانہ صفحہ ۱۸۰ پر تحفہ گولڑویہ سے یہ سیاق بریده عبارت پیش کی ہے :- ”ہمیشہ کی محکومی جیسی کوئی ذلت نہیں.دائمی ذلت کے ساتھ دائمی عذاب ،، لازم پڑا ہوا ہے.“ الجواب ان پر یہ عبارت یہود کے متعلق قرآنی پیشگوئی کے بیان پر مستعمل ہے ذلت اور مسکینی کی مار ماری گئی.محض محکومی جس میں مذہبی آزادی حاصل ہو.ذلت کا موجب نہیں.البتہ ہمیشہ کی محکومی ضرور ذلت کا موجب ہے.مگر حضرت اقدس تو پر امید تھے کہ اقوام یورپ بالآخر مسلمان ہو جائیں گی.حضرت اقدس نے لکھا تھا :- ہم پر اور ہماری ذریت پر فرض ہو گیا کہ ہم اس گورنمنٹ برطانیہ کے
۲۶۳ ہمیشہ شکر گزار رہیں.“ اس پر برق صاحب یوں معترض ہیں :- (حوالہ ازالہ اوہام طبع دوم صفحه ۵۶) اگر مسلمان ہمیشہ اس فرض کو پورا کرتے رہیں تو پھر وہ انگریز کے بوٹ کے 66 نیچے سے کیسے نکلیں گے.اور وہ غلامی کا عذاب کیسے ملے گا.“ الجواب کسی کے اچھے سلوک پر ہمیشہ شکر گزار رہنا تو مسلمانوں کا شیوہ ہے جو ان کی تعلیم کا اثر ہے.دیکھئے مسلمان اور ہندو انگریزی حکومت سے بالآخر آئینی طریق سے ہی آزاد ہوئے نہ ان کی حکومت کی بغاوت کر سکے.اور انگریزوں کے اچھے کاموں کی اب بھی لوگ تعریف کرتے ہیں.پس ہمیشہ کی شکر گزاری کی تلقین سے یہ مراد نہیں کہ مسلمان جائز طریقوں سے انگریزوں کے تسلط سے آزادی حاصل نہ کریں دیکھئے ! انگریز ہندوستان چھوڑ کر جاچکا ہے مگر تاریخ احمدیت اب بھی ان کے اچھے کاموں پر شکر گذاری کا اظہار ہی کرتی رہے گی.ہاں ان لوگوں میں سے جنہوں نے خرابیاں کی ہیں.وہ ہمارے نزدیک قابل مذمت ہیں.مگر اچھے سلوک پر شکر گزاری نہ کرنا بھی ایمانداری نہیں.برق صاحب کا ناپاک حملہ جناب برق صاحب لکھتے ہیں :- " جب حکومت نے ایکٹ نمبر ۱۳ مجریہ ۱۸۸۹ء کی رو سے بڑے بڑے شہروں اور چھاؤنیوں میں گورے سپاہیوں کی خاطر طوائف خانے قائم کئے تو جناب مرزا صاحب نے اس بد اخلاقی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے لکھا."" ا.آخر یہ قبول کیا گیا کہ گوروں کا بازاری عورتوں سے ناجائز تعلق ہو.کاش اس جگہ.
نهم ۲۶ مشعہ ہو تا.تو لاکھوں بندگان خدا زنا سے بچ جاتے.“ (آریہ دھرم صفحہ ۶۹) نیز مشورہ دیا :- -۲- کمانڈر انچیف افواج ہند کو یہ بھی انتظام کرنا چاہیئے کہ بجائے ہندوستانی عورتوں کے یور چین عورتیں ملازم رکھی جائیں مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ ہندوستان کی غریب عورتوں کو دلالہ عورتوں کے ذریعہ سے اس فحش ملازمت کی ترغیب دی جاتی ہے." (آریہ دھرم صفحہ اے ) یہ دونوں اقتباس دینے کے بعد جناب برقی صاحب لکھے ہیں :- اللہ کا ایک رسول ان اقدامات کو کیسے پسند کر سکتا تھا.“ الجواب (حرف محرمانه صفحه ۱۶۶) دوسرا اقتباس برق صاحب نے حضرت اقدس کی طرف منسوب کرنے میں صریح غلط بیانی سے کام لیا ہے تاوہ حضرت اقدس پر یہ اعتراض کر سکیں کہ :- ایک رسول سے ایسے مشورہ کی توقع نہیں ہو سکتی.حالانکہ یہ عبارت دراصل اخبار عام کے ایک مضمون کی ہے جو آر یہ دھرم صفحہ اے میں اخبار عام سے درج کیا گیا ہے.عبارت کو نقل کرنے سے پہلے حضرت اقدس لکھتے ہیں :- اسی پہلے قانون کے جاری کرنے کے لئے اب پھر سلسلہ جنبانی ہو رہی ہے.اور ہم مناسب دیکھتے ہیں کہ اس جگہ اخبار عام ۹ر نومبر ۱۸۹۵ء کا وہ مضمون جو اس بحث کے متعلق ہے بجسم لکھ دیں.اور وہ یہ ہے.“ اس کے بعد وہ مضمون آریہ دھرم میں قانون دکھائی کے عنوان کے تحت درج کیا ہے جس سے جناب برق صاحب نے یہ دوسرا اقتباس لیا ہے پس خدا کے
۲۶۵ رسول کی طرف سے یہ مشورہ نہیں.بلکہ یہ اخبار عام کے مضمون نگار کا مشورہ ہے.پہلا اقتباس بے شک حضرت اقدس کی اپنی تحریر ہے جس میں آپ پہلے آریوں کو مخاطب کرتے ہوئے متعہ کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں.کیونکہ آریہ نیوگ کے مقابلہ میں متعہ پیش کرتے تھے.اور فرماتے ہیں.ا اسلام میں متعہ کے احکام ہر گزند کور نہیں نہ قرآن میں نہ حدیث میں.-۲- اگر بعض حدیثوں پر اعتبار کیا جائے تو صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ جب بعض صحابہ اپنے وطنوں اور اپنی جو روس سے دور تھے تو ایک دفعہ ان کی سخت ضرورت کی وجہ سے تین دن تک متعہ ان کیلئے جائزر کھا گیا تھا.اور بعد اس کے ایسا ہی حرام ہو گیا.جیسا کہ اسلام میں خنزیر وشراب وغیرہ حرام ہیں.۳- اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے متعہ عرب میں نہ صرف جائز بلکہ عام رواج رکھتا تھا.اور شریعت اسلام نے آہستہ آہستہ عرب رسوم کی تبدیلی کی ہے.سو جس وقت بعض صحابہ متعہ کے لئے بے قرار ہوئے.سو اس وقت آنحضرت ﷺ نے انتظامی اور اجتہادی طور پر اس رسم کے موافق بعض صحابہ کو اجازت دے دی.کیونکہ قرآن میں اس بارہ میں کوئی مخالفت نہ آئی تھی.پھر ساتھ ہی چند روز کے بعد نکاح کی مفصل اور مبسوط ہدائتیں قرآن میں نازل ہوئیں جو متعہ کے مخالف اور متضاد تھیں اس لئے ان آیات سے متعہ کی قطعی طور پر حرمت سلامت ہو گئی.یہ بات یاد ر کھنے کے لائق ہے کہ گو متعہ صرف تین دن تک تھا.مگر وحی اور الہام نے اس کے جواز کا دروازہ نہیں کھولا.بلکہ پہلے سے ہی وہ عرب میں رائج تھا اور جب صحابہ کو بے وطنی کی حالت میں اس کی ضرورت پڑی تو آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ متعہ ایک نکاح موقت ہے.کوئی حرامکاری اس میں نہیں.کوئی ایسی بات نہیں کہ جیسی خاوند والی عورت دوسرے سے ہم بستر ہو جاوے.بلکہ در حقیقت بیوہ یا با کرہ سے ایک نکاح ہے جو ایک وقت تک مقرر
۲۶۶ کیا جاتا ہے.تو آپ نے اس خیال سے کہ نفس متعہ میں کوئی بات خلاف نکاح نہیں.اجتہادی طور پر پہلی رسم کے لحاظ سے اجازت دے دی.لیکن خدا تعالی کا یہ ارادہ تھا کہ جیسا کہ عرب کی صدہا اور بیہودہ رسمیں دور کر دی گئیں.ایسا ہی متعہ کی رسم کو بھی عرب میں سے اٹھا دیا جائے.سوخدا نے قیامت تک کے لئے متعہ کو حرام کر دیا.ماسوا اس کے یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ نیوگ کو متعہ سے کیا نسبت ہے.نیوگ پر تو ہمارا یہ اعتراض ہے کہ اس میں خاوند والی عورت باوجو د زندہ ہونے خاوند کے دوسرے سے ہم بستر کرائی جاتی ہے.لیکن متعہ والی عورت تو کسی دوسرے کے نکاح میں نہیں رہتی.بلکہ پا کر دیا ہیدہ ہوتی ہے.جس کا ایک مقررہ وقت تک ایک شخص سے نکاح پڑھا جاتا ہے.پس خود سوچ لو کہ متعہ کو ٹیوگ سے کیا نسبت ہے.اور نیوگ کو متعہ سے کیا (آریہ دھرم صفحه ده) مناسبت ہے.“ اس کے بعد برق صاحب کے پیش کردہ اقتباس کی عبارت آتی ہے جسے انہوں نے ادھورا پیش کیا ہے.یہ اقتباس صفحہ دیا صفحہ اے کا ہے اس کے پورے الفاظ یوں ہیں :- ” جب گوروں کو اس ملک میں نکاح کی ضرورت ہوئی.تو مذہبی روکوں کی وجہ سے نکاح کا انتظام نہ ہو سکا.اور نہ گورنمنٹ اس فطرتی قانون کو تبدیل کر سکی.جو جذبات شہوت کے متعلق ہے.آخر یہ قبول کیا گیا.کہ گوروں کا بازاری عورتوں سے نا جائز تعلق ہو.کاش اس جگہ پر متعہ بھی ہو تا تو لاکھوں بندگانِ خدا زنا سے تویچ جاتے.ایک مرتبہ گورنمنٹ نے گھبرا کر اس قانون کو منسوخ بھی کر دیا.مگر چونکہ فطرتی قانون تقاضا کرتا تھا کہ جائز طور پر یا نا جائز طور پر ان جذبات کا تدارک کیا جائے کہ جس سے جسمانی بیماریاں زور مارتی ہیں.لہذا اسی پہلے قانون کو جاری کرنے کے لئے اب پھر سلسلہ جنبانی ہو رہی ہے.“ (آرید دھرم صفحه ۷۱)
۲۶۷ ان اقتباسات سے ظاہر ہے.کہ حضرت مسیح موعود کے نزدیک متعہ جو ایک موقت نکاح تھا.اسلام میں قیامت تک کے لئے حرام کر دیا گیا.لیکن اسے زنا ہونے کی وجہ سے حرام قرار نہیں دیا گیا.بلکہ اسے بعض اور معاشرتی قباحتوں کی وجہ سے حرام قرار دیا ہے.اگر یہ زنا کے مترادف ہو تا تو آنحضرت ﷺ صحابہ کو اپنے اجتہاد سے بھی کسی وقت اس کی اجازت نہ دیتے.عربوں میں یہ رسم پہلے سے جاری تھی.اور اُسے نکاح کی ایک جائز صورت سمجھا جاتا تھا.اور آنحضرت ﷺ کا وحی نازل ہونے سے پہلے یہ طریق تھا.کہ جب تک خدا تعالیٰ کی وحی کسی کام سے روک نہ دے اس وقت تک آپ اس میں روک نہیں ہتے تھے.پس اس کا حرام ہونا تو حضرت اقدس کو مسلم ہے اور مسلمانوں کے لئے آپ اس فعل کو از روئے شرع اسلام جائز نہیں سمجھتے.لیکن انگریز حکومت تو مسلمان نہ تھی.اس لئے زنا سے اپنے فوجیوں کو چانے کیلئے وہ موقت نکاح کا طریق جاری کر دیتی تو اس کے سپاہی زنا سے تو بچ جاتے مگر وہ اسے اس لئے اختیار نہ کر سکی کہ عیسائیت از روئے انجیل دوسرے نکاح کو جائز نہیں سمجھتی.اگر وہ اسے جائز سمجھتی.تو پھر یقیناً حضرت اقدس کو یہ فقرہ نہ لکھنا پڑتا کہ :- "کاش اس جگہ متعہ بھی ہو تا.تو لاکھوں بندگانِ خدا زنا سے تو بچ جاتے.“ پس حضرت اقدس اس جگہ حکومت کو متعہ کا طریق جاری کرنے کا مشورہ نہیں دے رہے کیونکہ اس عبارت کے سیاق سے یہ ظاہر ہے ( جسے جناب برق صاحب نے ملحوظ نہیں رکھا) کہ یہ فقرہ حضرت اقدس نے عیسائی مذہب کی خرابی ظاہر کرنے اور اسلام کی اس پر برتری ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے چنانچہ اس اقتباس سے پہلے آپ نے تحریر فرمایا ہے :- اسلام میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی ایسے سفر میں جاتا جس میں کئی سال کی
۲۶۸ توقف ہوتی.تو وہ عورت کو ساتھ لے جاتا.یا اگر عورت ساتھ نہ جانا چاہتی تو وہ ایک دوسر انکاح اس ملک میں کر لیتا.لیکن عیسائی مذہب میں چونکہ اشد ضرورتوں کے وقت میں بھی دوسرا نکاح نا جائز ہے.اس لئے بڑے بڑے مدیر عیسائی قوم کے جب ان مشکلات میں آپڑتے ہیں تو نکاح کی طرف ان کو ہر گز توجہ نہیں ہوتی.اور بڑے شوق حرامکاری میں مبتلا ہو جاتے ہیں.جن لوگوں نے ایکٹ چھاؤنی ہائے نمبر ۱۳ ۱۸۸۹ء پڑھا ہو گا وہ اس بات کی شہادت دے سکتے ہیں کہ عیسائی مذہب کی پابندیوں کی وجہ سے ہماری مدیر گورنمنٹ کو یہی مشکلات پیش آگئیں." (آریہ دھرم صفحه ۷۱،۷۰ ) چونکہ موجودہ اناجیل کے لحاظ سے حضرت مسیح نے دوسرے نکاح کی اجازت نہ دی تھی.اس لئے انگریزی حکومت مجبور تھی کہ ایکٹ نمبر ۱۳ ۱۸۸۹ء جس کا ذکر حضرت اقدس نے اوپر کی عبارت میں کیا ہے.عیسائیت میں کسی دوسرے مؤقت یا غیر مؤقت نکاح کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے جاری کرتی.کیونکہ دوسر انکاح بھی عیسائی مذہب کے نزدیک حرامکاری کے ہی مترادف تھا.خواہ مؤقت ہو یا غیر مؤقت.لیکن فوج میں حرامکاری کے بد نتائج آتشک کی بیماری کو دیکھ کر گورنمنٹ گھبرا اٹھی.اور اس قانون کو منسوخ بھی کر دیا.لیکن چونکہ فطرتی قانون تقاضا کرتا تھا کہ جائز طور پر یانا جائز طور پر شہوانی جذبات کا تدارک کیا جائے لہذا پھر اسی پہلے قانون کو جاری کرنے کے لئے اس وقت سلسلہ جنبانی ہو رہی تھی.جس وقت حضرت اقدس نے آریہ دھرم کی یہ عبارتیں لکھیں.بیان مندرجہ بالا سے ظاہر ہے کہ برق صاحب کے پیش کردہ فقرہ میں حضرت اقدس نے حکومت کو یہ مشورہ نہیں دیا ہے کہ وہ متعہ کا طریق جاری کرے.بلکہ اس میں ان کی مشکلات کو بیان کیا ہے کہ وہ فوجیوں کو زنا سے چانے کے لئے متعہ کا
۲۶۹ طریق بھی خلاف انجیل ہونے کی وجہ سے جاری نہیں کر سکتی.تحفہ قیصریہ دستاره قیصریه حضرت اقدس نے رسالہ تحفہ قیصریہ میں ملکہ معظمہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام دی.چونکہ ملکہ معظمہ کی طرف سے اس تحفہ کے ملنے کا کوئی اعتراف نہ ہوا.اس لئے آپ نے خیال کیا کہ ممکن ہے متعلقہ افسروں نے تحفہ قیصریہ ملکہ معظمہ تک پہنچایا ہی نہ ہو لہذا اس پر آپ نے رسالہ ستارہ قیصر یہ لکھا جس کا اقتباس برق صاحب نے یوں درج کیا ہے :- تحفہ قیصریہ حضرت قیصرہ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں بطور درویشانہ تحفہ کے ارسال کیا تھا.اور مجھے یقین تھا کہ اس کے جواب سے مجھے عزت دی جائے گی.اور امید سے بڑھ کر میری سر فرازی کا موجب ہوگا.مگر مجھے نہایت تعجب ہے کہ ایک کلمہ شاہانہ سے بھی ممنون نہیں کیا گیا.لہذا حسن ظن نے جو میں حضور سے رکھتا ہوں.دوبارہ مجھے مجبور کیا کہ اس تحفہ قیصریہ کی طرف جنابہ ممدوحہ کی توجہ دلاؤں اور شاہانہ منظوری کے چند الفاظ سے خوشی حاصل کروں.“ (ستارہ قیصریہ صفحہ ۲) اعتراض اس پر برق صاحب یوں معترض ہیں.:- جس فقر نے شاہوں کی طرف نگاہ اٹھانا تو بین نگاہ سمجھا تھا آج اس فقر کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ آستان شاہی پر قسمے ونگا ہے کی بھیک مانگ رہا ہے.“ الجواب (حرف محرمانه صفحه ۱۸۵) حضرت اقدس اس عبارت کے ذریعہ ملکہ معظمہ سے مولوی محمد حسین
۲۷۰ صاحب بٹالوی کی طرح کسی جاگیر و جائداد کے متمنی نہ تھے چونکہ آپ نے ملکہ معظمہ کو تحفہ قیصریہ کے ذریعے دعوت اسلام دی تھی.اور جیسا کہ ہر مبلغ طبعا یہ چاہتا ہے کہ اپنی تبلیغ کے اثرات معلوم کرے اسی لئے آپ نے تحفہ قیصریہ کی ملکہ معظمہ کی طرف سے رسید نہ ملنے پر یہ عبارت لکھی تا ملکہ معظمہ کا تاثر معلوم ہو.معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ معظمہ اس دعوت سے متاثر ضرور تھی.مگر وہ سیاسی وجوہ سے اپنے تاثر کو ظاہر نہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو مجبور پارہی تھی.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ملکہ معظمہ کی قلبی کیفیت اور تاثر کو اپنے الہام قیصرہ ہند کی طرف سے شکریہ کے الفاظ سے بیان کیا کہ وہ آپ کی اس دعوت اسلام پر اپنے دل میں شکر گزار ہے.مگر جناب برق صاحب نے منکرین انبیاء کے طریق پر اس الہام کو بھی تمسخر و استہزاء کا ذریعہ بنالیا ہے اور لکھا ہے.جب مذکورہ بالا یاد دہانی کے باوجود سفید فام آقاؤں کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو جبرائیل آیا اور کہا.قیصرہ ہند کی طرف سے شکریہ.“ برق صاحب کی خطر ناک تحریف حرف محرمانہ کے صفحہ ۱۸۶ پر حوالہ تبلیغ رسالت جلد نمبر ۵ صفحه ااجناب برق صاحب نے خطر ناک تحریف کے ساتھ حضرت اقدس کی ایک عبارت یوں پیش کی ہے." قرین مصلحت ہے کہ سرکار انگریزی کی خیر خواہی کے لئے ایسے نافہم مسلمانوں کے نام بھی نقشہ جات میں درج کئے جائیں.جو در پر وہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب سمجھتے ہیں.ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ ان نقشوں کو ملکی راز کی طرح اپنے کسی دفتر میں محفوظ رکھے گی.ایسے لوگوں کے نام مع پتہ و نام یہ ہیں.“
۲۷۱ اس اقتباس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت اقدس نے ایسے کوئی نقشہ جات گورنمنٹ کو ان لوگوں کے نام اور پتے کے ساتھ بھیج دیے تھے جو در پر وہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب سمجھتے تھے.چنانچہ برقی صاحب نے یہی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس جگہ لکھا ہے.” جناب مرزا صاحب نے اپنی جماعت کی مدد سے ایسے علماء و عوام کی فہرست تیار کی جو ذہنا حکومت برطانیہ کو پسند نہیں کرتے تھے.پھر یہ فہرست بھیج کر حکومت کو لکھا.“ اس عبارت کے بعد مندرجہ بالا حوالہ درج کیا ہے.یہ تاثر کہ آپ نے کوئی ایسی فهرست حکومت کو بھیجی حوالہ میں برق صاحب کے خطر ناک تحریف کرنے سے پیدا ہوتا ہے.ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے کوئی ایسی فہرست حکوت کو نہیں بھیجی بلکہ صرف تجویز تھی کہ ایسا کیا جائے.چنانچہ "جو در پردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دار الحرب سمجھتے ہیں.“ کے آگے حضرت اقدس لکھتے ہیں :- ایسے نقشے ایک پولیٹیکل راز کی طرح اس وقت تک ہمارے پاس محفوظ رہیں گے جب تک گورنمنٹ ہم سے طلب کرے.“ اس کے بعد برق صاحب کی پیش کردہ عبارت ” ہم امید کرتے ہیں.“ شروع ہوتی ہے اور دفتر میں محفوظ رکھے گی تک چلتی ہے.اس کے بعد کی یہ عبارت برق صاحب نے حذف کر دی ہے.اور بالفعل یہ نقشے جن میں ایسے لوگوں کے نام مندرج ہیں گورنمنٹ میں نہیں سمجھے جائیں گے صرف اطلاع دہی کے طور پر ان میں سے ایک سادہ نقشہ چھپا ہوا جس پر کوئی نام درج نہیں.فقط یہی مضمون درج ہے ہمراہ درخواست بھیجا جاتا ہے.(اشتہار مندرجه تبلیغ رسالت جلد ۵ صفحه ۱۱ عنوان قابل توجہ گورنمنٹ از
: ۲۷۲ طرف مهتم کاروبار تجویز تعطیل جمعه ) پس برق صاحب نے آخری عبارت کو حذف کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ گویا ایسے نقشے از خود گورنمنٹ کے مطالبہ کے بغیر گورنمنٹ کو بھیج دیئے گئے تھے.اور یہ تاثر عبارت میں تحریف کر کے پیدا کرنا چاہا ہے.ایسی تحریف کرنے والے انسان کی طرف سے جو کتاب شائع ہو وہ تو " حرف مجرمانہ " کہلانے کی مستحق ہے.کیونکہ اس میں منشاء متکلم کو چھپا کر حقیقت مسخ کر دی گئی ہے.برق صاحب کے دواعتراض برق صاحب لکھتے ہیں مسیح موعود نے دجال کو کس طرح قتل کیا.ا کیا دجال کی دنیوی شان و شوکت کم کر دی جواب نفی میں ہے.۲- کیا دلائل سے پادریوں کو شکست دے کر لوگوں کو عیسائیت سے بد دل کر دیا.جواب زیر دست نفی میں ہے.اس لئے کہ عیسائیت سیلاب کے دھارے کی طرح اس سر زمین میں پھیلتی اور بڑھتی رہی.الجواب ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں نہیں بلکہ اثبات میں ہے.سوال اول کا جواب یہ ہے کہ اسلام کی تائید میں اور عیسائیت کی تردید میں دندان شکن مضامین لکھ کر حضرت مسیح موعود نے پادریوں کا رعب یکسر خاک میں ملا دیا.اور پادری ایسے مرعوب ہوئے کہ انہوں نے اندر ہی اندر اپنے منادوں اور پادریوں کو فہمائش کی کہ وہ احمدیوں سے مذ ہبی گفتگو نہ کریں.پس حضرت مسیح موعود کے دلائل کا یہ اثر ہے کہ اب کوئی پادری احمد یوں سے بحث ومباحثہ نہیں کرتا.اور جو سر پھر ابھی بحث پر آمادہ ہو جائے وہ ایسی منہ کی کھاتا
۲۷۳ ہے کہ بائد وشائد.سوال دوم کے جواب میں عرض ہے.کہ ایک وقت وہ تھا کہ بڑے بڑے لوگ جسے پادری عماد الدین سابق مولوی عماد الدین امام شاہی مسجد آگرہ.اور پادری صفدر علی اور میاں سراج الدین اور پادری سلطان محمد خان پال اور پادری حافظ احمد صحیح جیسے آدمی اور بڑے بڑے زمیندار عیسائیت کی آغوش میں جارہے تھے.لیکن جب حضرت مسیح موعود نے کسر صلیب کا بیڑا اٹھایا عیسائیوں کا طلسم پاش پاش ہو گیا.اور اب کوئی بڑا عالم اور معزز شخصیت عیسائیت کی آغوش میں جانے کے لئے تیار نہیں.بجز ان لوگوں کے جو یا تو بھو کے ہوں اور دنیوی لالچ میں آکر کادالفقران يكون كفراً کے ماتحت عیسائی بن جائیں یا وہ لوگ عیسائیت میں داخل ہو جاتے ہیں جو اسلام کی تعلیم اور احمدیت کے لٹریچر سے ناواقف ہوں.اور غیر احمدی مولویوں سے حضرت مسیح کی یہ صفات سن کر انہیں صحیح تسلیم کر رہے ہوں.کہ وہ دو ہزار سال سے زندہ آسمان پر موجود ہیں نہ کچھ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں.وہ حقیقی مردوں کو زندہ کرتے تھے.اور حقیقی پرندوں کے خالق تھے اور غیب دان تھے.ایسے لوگ جو پہلے ہی ان عقائد کی وجہ سے نیم عیسائی ہوتے ہیں عیسائیوں کے دام میں آجاتے ہیں اور حضرت مسیح کو عیسائیوں کی تبلیغ سے آنحضرت ﷺ سے افضل قرار دینے لگ جاتے ہیں.لیکن جو لوگ احمدیت کی تعلیم سے واقف ہیں وہ عیسائیوں کے دام میں نہیں آسکتے.پنجاب میں عیسائیوں کی تعداد جناب برق صاحب پنجاب میں عیسائیوں کی تعداد کے عنوان سے ۱۸۸۱ء سے ۱۹۱۱ ء تک عیسائیوں کی مردم شماری کا ذکر کر کے دکھاتے ہیں کہ تمہیں برس میں تقریباً پونے دو لاکھ کا اضافہ صرف پنجاب میں ہوا ہے.اور پورے ہندوستان کی مردم شماری پیش کر کے تیس سال میں تیس لاکھ چودہ ہزار کا اضافہ مردم شماری کے
۲۷۴ رجرات کے لحاظ سے قرار دیتے ہیں.لکھتے ہیں :- و لیکن مسیح موعود کی دلائل قاطعه و براہین ساطعہ کے زور سے ایک بھی عیسائی مسلمان نہ ہوا.قدر تا سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود نے دجال اکبر کو کہاں چوٹیں لگائیں اور آباد جال ان ضر بہائے عیسوی سے فوت ہو گیا تھا.یا بچ نکلا تھا.اگر سچ نکلا تھا تو وہ قتل دجال کا سلسلہ کہاں گیا.اگر فوت ہو گیا تھا تو پھر آج یہ ساری کائنات پر کن کی سلطنت ہے ؟ کیا یہ روس، یہ انگریز ، یہ امریکی، یہ فرانسیسی وغیرہ سب مر چکے تھے.اور یہ ستر کروڑ عیسائی ان فوت شدہ بزرگوں کے صرف بروز ہیں.“ الجواب (حرف محرمانه صفحه ۱۹۲) استہزاء کے ساتھ اعتراض کر لینا تو بیدی آسان بات ہے.لیکن حقیقت بین نگاہ سے حقائق کا مطالعہ کرنا یہ کسی کسی کا حصہ ہوتا ہے.برق صاحب کو یہ اعتراض کرتے ہوئے ذرا شرم کرنی چاہئے تھی.کیونکہ قرآن شریف میں یہ پیشگوئی موجود ہے.هُوَ الذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلى الدين كله ھو (اصف : ۱۰) کہ خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا اسے تمام ادیان پر غالب کر دے.مگر اس آیت کے نزول پر ساڑھے تیرہ سو سال گزر چکے ہیں.لیکن ابھی کا فروں اور مشرکوں کی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے.اور مردم شماری کے لحاظ سے ہر دس سال کے بعد کافر اور مشرک بھی لازمی طور پر ڑھتے چلے آرہے ہیں.تو کیا برق صاحب اس وجہ سے اسلام پر بھی حملہ آور ہوں گے کہ چودہ سو سال گزرنے پر بھی ابھی کافروں اور مشرکوں کی تعداد اسلام کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ ہے.حالانکہ مسلمانوں کو عیسائیوں سے لڑائیاں بھی کرنی پڑی ہیں.
۲۷۵ حضرت مسیح موعود کی تحریک کو تو ابھی قریباً چوہتر سال ہی ہوئے ہیں.اور یہ تحریک خالص تبلیغی تحریک ہے.پنجاب و ہند میں گو چوہڑے چمار عیسائی ہوتے رہے ہیں.لیکن جب سے عیسائیت کے خلاف حضرت مسیح موعود نے تبلیغی جہاد کا علم بلند کیا.مسلمانوں میں عیسائیوں کا فروغ پانے کی امید میں خاک میں مل گئی ہیں.اگر حضرت مسیح موعود نہ آئے ہوتے تو شائد برق صاحب جیسے لوگ عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے ہوتے.کیونکہ اسلام کو قریب ترک کر دینے اور دوبارہ مسلمان ہونے کا تو وہ خود اپنے متعلق ذکر فرما چکے ہیں.عیسائیوں کی تعداد کا بڑھنا جو مردم شماری کے رجرات سے دکھا رہے ہیں.اس کے موجبات یہی ہیں کہ پادریوں نے چوہڑوں چماروں اور اچھوت اقوام کو مالی اور دنیوی لالچ اور مدد سے عیسائی بہایا.اور ان کے بچوں کو تعلیم دلائی.چونکہ عیسائیوں کی حکومت تھی.اس لئے وہ قومیں سمجھیں کہ ہم عیسائی ہو کر دوسری قوموں کے مقابلہ میں حاکم قوم کا مذہب قبول کرنے سے سر باند ہو جائیں گے.پھر غربا کی نسلیں بھی بہت ترقی کرتی ہیں.پس مردم شماری میں اضافہ کے موجبات یہ امور ہیں.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ تحریک یورپ اور امریکہ ، افریقہ وغیرہ کے علاقوں میں اپنے قدم مضبوطی سے جما چکی ہے.اور ہزار ہا عیسائی اس تحریک کی برکت سے آغوش اسلام میں آرہے ہیں.اور تعلیم یافتہ عیسائیوں کے دل سے اسلام کے متعلق پرانے متعصبانہ خیالات دور ہو رہے ہیں.اور وہ اسلام کے متعلق نئی ریسرچ پر آمادہ ہو چکے ہیں.اس وقت جماعت احمدیہ کے کئی مشن عیسائی ممالک میں جاری ہیں.اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں.برق صاحب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ روس تو عیسائیت کو چھوڑ چکا ہے اور اس کے اکثر افراد اس وقت دہر یہ ہیں.اور اب خود عیسائی یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ساری
دنیا میں عیسائیوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے.چنانچہ دنیا میں عیسائیوں کی کمی کے اعداد و شمار دیکھ کر اخبار ڈیلی ٹیلیگراف اینڈمارننگ ۲۱، نومبر ۱۹۶۲ء کے شمارہ میں لکھتا ہے :- اس وقت Vatican میں جو دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے رومن کیتھولک پادریوں کی کونسل ہو رہی ہے اس کا محرک دراصل یہ امر ہے کہ ساری دنیا میں عیسائیوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے اور یہ امر تمام عیسائی چرچوں کے لئے سخت فکر کا باعث بنا ہوا ہے.“ آگے چل کر لکھتے ہیں :- افریقہ میں عیسائیت کو اسلام سے سخت خطرہ در پیش ہے کیونکہ عیسائیت کی نسبت اسلام لانے والوں کی تعداد دس گنا ہے.“ جناب برق صاحب! دیکھا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور پر خدا تعالٰی نے آپ کی تائید میں ایک ایسی ہوا چلا دی ہے اور آپ کی جماعت کو تبلیغی کو ششوں میں ایسی برکت دی ہے کہ اب دنیا میں عیسائیت کی تعداد کم ہو رہی ہے.اور اگر ایک عیسائی ہوتا ہے تو اس کے مقابل دس افراد اسلام قبول کرتے ہیں.یہ گواہی دشمن کی ہے.ایک مشہور مستشرق Van Zeuwen نے مشنری سکول کے طلبہ کی کا نفرنس کے موقعہ پر بیان کیا :- گذشتہ صدیوں میں عیسائیت صرف مغربی ممالک تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ مسلم ممالک میں بھی پھیلی.مگر اب تصویر کا دوسرا رخ نظر آرہا ہے.اور ایک عرصہ سے اسلام بھی احمد یہ تحریک کے ذریعہ عیسائی ممالک میں پھیل رہا ہے." مگر برق صاحب ہیں کہ وہ لکھتے ہیں :-
۲۷۷ مسیح موعود کی دلائل قاطعه و براہین ساطعہ کے زور سے ایک بھی عیسائی مسلمان نہ ہوا.“ یہ مسیح موعود کی دلائل قاطعه و بر این ساطعہ کا ہی زور ہے جس کی برکت سے اب اگر ایک عیسائی ہوتا ہے تو اس کے مقابلہ دس افراد اسلام قبول کر رہے ہیں.جناب برق صاحب ذرا چشم بصیرت سے کام لیں تو انہیں نظر آسکتا ہے کہ آئندہ اسلام کے حق میں مذہبی انقلاب کی جڑ ھیں دنیا میں گاڑی جاچکی ہیں.بلکہ ان سے درخت پیدا ہو کر اب مضبوط ہوتا جارہا ہے.اور وہ وقت قریب ہے کہ ایک دنیا اس درخت کے سایہ میں آرام پائے گی.انشاء اللہ تعالی.مشہور عالم مورخ پروفیسر ٹائن بی ( professor toyn bee)نے اپنی کتاب سولیز یشن اون ٹرائل (civilization on trial) میں لکھا ہے.(صفحه ۲۰۴) مغرب سے ٹکراؤ کے نتیجہ میں اب اسلام میں پھر جوش پیدا ہو رہا ہے.اس میں ایسی روحانی تحریکات جنم لے رہی ہیں جو ممکن ہے آئندہ جا کر عالمگیر مذہب اور تہذیب کی بنیاد بنیں مثلاً احمد یہ تحریک ہے.“ جناب برق صاحب! ممکن ہے کہ اس عالمگیر مذہب اور تہذیب کے فروغ کے وقت دنیا میں ہم دونو موجود نہ ہوں لیکن ہماری کتا ہیں تو موجود ہوں گی.نور مؤرخ اس وقت جو رائے آپ کے متعلق قائم کرے گا.آپ اس کی فکر کریں.کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی یہ کتاب اس وقت آپ کے نام پر دھبہ ثابت ہو.کیونکہ وہ زمانہ آرہا ہے جب وہ بات پوری ہو گی.جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود پر الہاما نازل فرمائی ہے.تا تبقى لكَ مِنَ الْمُحْرِيَاتِ ذِكْراً وَ لَا نُبقى مِنَ الْمُحْرِيَاتِ شَيْئًا.اس وقت آپ کی یہ کتاب ردی کی ٹوکری میں داخل کرنے کے قابل کبھی جائے گی.اور آپ کے متعلق لوگوں کی یہ رائے ہوگی کہ آپ خدا تعالیٰ کے مامور کے دشمن تھے کیونکہ تاریخ کسی کو
۲۷۸ معاف نہیں کیا کرتی.اور مؤرخ کسی ظالم پر رحم نہیں کرتا.مباحثات کی کتابیں حضرت مسیح موعود نے لکھا :-.پرچہ نور افشاں لدھیانہ کا عیسائی اخبار) میں نہایت گندی تحریریں شائع ہو ئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبی ﷺ کی نسبت ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈا کو تھا چور تھا زنا کار تھا ( معاذ اللہ) تو مجھے اندیشہ پیدا ہوا مبادا مسلمانوں کے دلوں پر کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو.تب میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اس عالم جوش کے دباؤ کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تاکہ سریع الغضب مسلمانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بد امنی پیدا نہ ہو...سو میری یہ پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی اور ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزار ہا مسلمان جو پادری عماد الدین کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آچکے تھے.ایک دفعہ ان کے اشتعال فرو ہو گئے سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا.اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں سے اول درجہ کا خیر خواہ گورنمنٹ (ضمیمه تریاق القلوب نمبر ۳ صفحه ج) جناب برق صاحب یہ اقتباس حرف محرمانہ کے صفحہ ۱۹۳ پر درج کرنے انگریزی کا ہوں.“ کے بعد لکھتے ہیں :- دیکھا آپ نے کہ پادریوں سے مباحثہ کرنے میں حکمت عملی کیا تھی یہی کہ وحشی مسلمانوں میں اشتعال پیدا نہ ہو.اور حکومت کسی پریشانی کا شکار نہ ہو.اب بتائیے کہ مسیح موعود نے دجال کو کہاں اور کس طرح قتل کیا.“ "
۲۷۹ الجواب حضرت اقدس نے تو بعض وحشی مسلمانوں کا لفظ لکھا تھا.لیکن برقی صاحب نے اعتراض کے موقعہ پر بعض کا لفظ اڑا کر وحشی مسلمانوں بنادیا ہے.صرف یہ تاثر پیدا کرنے کے لئے کہ حضرت اقدس سب مسلمانوں کو وحشی قرار دے رہے ہیں.اور یہ امر جناب برق صاحب کے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے.افسوس ہے کہ برق صاحب کو نظر نہیں آیا کہ حضرت مسیح موعود نے کس حکمت عملی سے دجال پادریوں کو ضرب لگائی ہے.کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے.یعنی پادریوں کی گندہ دہنی کا منہ توڑ اور دندان شکن جواب بھی اسلام کی طرف سے ہو جائے اور گورنمنٹ بھی آپ کے سر نہ ہو سکے.پس اس حکمت عملی کے میان میں یہی مصلحت تھی کاش آپ نظر بصیرت سے کام لیں.کیا آپ کو یہ پسند تھا کہ کشت خون ہو اور مسلمان مارے جائیں.اگر نہیں تو پھر گور نمنٹ کو یہ بتانا ضروری تھا کہ اس مدافعت میں آپ نے گورنمنٹ کا بھلا کیا ہے اور قوم سے بھی بھلائی کی ہے.پادری عماد الدین کی تحریریں تو ایسی اشتعال انگیز تھیں کہ پادری صفدر علی صاحب کو یہ لکھنا پڑا کہ ان تحریروں سے ممکن تھا.۱۸۵۷ء کی طرح بغاوت ہو جاتی.پس اس طرح حضرت اقدس نے سختی سے پادریوں کو جواب دے کر بعض جو شیلے مسلمانوں کے دلوں کو ٹھنڈا کر کے قوم کی عظیم الشان خدمت انجام دی ہے اور انہیں جن کے پاس مقابلہ کے لئے پھول جناب برق صاحب لاٹھی بھی نہ تھی سخت تباہی بربادی اور فتنہ سے بچالیا ہے.برق صاحب کی ایک اور تحریف برق صاحب لکھتے ہیں :-
۲۸۰ "جب حکومت کابل نے دو احمد یوں ملا عبد الرحیم چهار آسیائی اور ملا انور علی کو موت کی سزادی تو وہاں کی وزارت خارجہ نے اعلان ذیل جاری کیا.“ مملکت افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضہ سے پائے گئے جن سے پایا جاتا ہے یہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھ بک اخبار امان و افغان کابل ماخوذ از الفضل ۳ مارچ ۱۹۲۵ء) چکے." الجواب جناب برق صاحب نے اس عبارت کے پیش کرنے میں بھی حسب عادت دیانت سے کام نہیں لیا.اور یہ تاثر پیدا کرنا چاہا ہے کہ مملکت افغانیہ نے ان دو احمد یوں کو اس وجہ سے موت کی سزادی تھی کہ ان کے قبضہ میں غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط پائے گئے تھے.حالانکہ غیر ملکی خطوط کا ہونا کوئی جرم نہیں.اگر وہ سازشی نہ ہوں.برق صاحب نے اس حوالہ کا آخری فقرہ درج نہیں کیا.وہ یہ ہے.اس واقعہ کی تفصیل مزید تفتیش کے بعد شائع کی جائے گی.“ اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ حکومت افغانستان اپنے اس الزام پر پختہ نہیں تھی.اور وہ ابھی مزید تفتیش کرنے کا ارادہ رکھتی تھی.اور اس نے اسے بعد میں شائع کرنے کا وعدہ کیا تھا.الفضل نے اس کی تردید بھی کی تھی.مگر جناب برق صاحب حکومت افغانستان کے بیان کے اوپر کے حصہ کو بھی ترک کر رہے ہیں.اور الفضل کی تردید کا بھی ذکر نہیں کرتے.اور اس امر کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ عدالت نے ان لوگوں کو نہ ہی اختلاف کی بناء پر قتل کرنے کا حکم دیا تھا.نہ کہ کسی سیاسی سازش کی بناء پر.اگر کوئی سیاسی سازش تھی تو حکومت نے کیوں اسے عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا.پھر اگر کوئی خطوط پکڑے گئے تھے.اور حکومت نے اعلان کیا تھا.کہ :- کہ اس واقعہ کی تفصیل مزید تفتیش کے بعد شائع کی جائیگی.“
۲۸۱ تو وہ تفصیل کیوں شائع نہیں ہوئی.کیا حکومت کا فرض نہیں تھا کہ وہ اپنے اس بیان کے مطابق بعد میں تفتیش کے نتائج بھی شائع کرتی.مگر حکومت افغانستان نے کبھی ایسا نہیں کیا.پس برق صاحب کی یہ کتاب حرف محرمانہ نہیں.بلکہ حرف مجرمانہ کہلانے کی مستحق ہے.ترکوں کی شکست پر اعتراض جناب برق صاحب لکھتے ہیں ۲۷ نومبر ۱۹۱۸ء کو ترکوں کی مکمل شکست پر قادیان میں چراغاں کیا گیا جشن ہوئے.الجواب (حوالہ ۳ دسمبر ۱۹۱۸ء اخبار الفضل حرف محرمانه صفحه ۱۸۹) اصل حقیقت یہ ہے کہ خوشی کی یہ تقریب جس میں رات کو چراغاں کیا گیا.دراصل اتحادیوں کی فتح اور جرمنی کی مغلوبیت کے موقعہ پر منائی گئی.چنانچہ اخبار الفضل کے دسمبر ۱۹۱۸ء میں جماعت احمدیہ لدھیانہ کی رپورٹ شائع ہوئی تھی.ا: "وہ مغرور و متکبر سلطنت جرمنی جو آج سے چند سال پیشتر تمام دنیا کو اپنے ظلم واستبداد کی حکومت کے ماتحت لانے کی خواہیں پریشان دیکھ رہی تھی اس پر بر طانیہ عظمی اور اس کے اتحادی طاقتوں کے کامل غلبہ اور اقتدار حاصل کر لینے پر ۲۷ نومبر کی - تاریخ پنجاب میں اظہار تہنیت اور اظہار خوشی کے لئے مقرر کی گئی تھی." :- اور خوشی کی یہ تقریب نہ صرف احمدیوں نے بلکہ صوبہ بھر کی تمام اقوام نے منائی تھی.“ پس یہ کہنا کہ جماعت احمدیہ نے ترکوں کی شکست پر چراغاں کیا تھا.اصل حقیقت کو مسخ کر کے پیش کرنا ہے.ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ترکوں نے جرمنی کے
۲۸۲ ساتھ شامل ہو کر عربوں کو ناراض کر لیا تھا.اور عرب اتحادیوں سے مل گئے تھے جس کی وجہ سے عراق اور شام ترکوں کے تسلط سے آزاد ہو گئے تھے.اور عربوں کو امید تھی کہ ان کی متحدہ حکومت قائم کر دی جائے گی.اس لئے سب عرب خوشیاں منار ہے تھے.اگر اس موقعہ پر احمدیوں نے بھی چراغاں کیا.تو کیا جائے اعتراض ہے.یہ امر ضرور قابل افسوس ہے کہ لڑکی نے جرمنی کے ساتھ متحد ہو کر اعلان جنگ کیا تھا.اور جرمنی کی شکست کے ساتھ اسے بھی شکست ہوئی.واضح رہے کہ عراق کے فتح کرنے میں ہندوستانی فوجوں کا بھی بہت کچھ دخل تھا.اور اس میں بڑی تعداد ہندوستانی فوجیوں کی تھی.جن میں ہزاروں حنفی، شیعہ یا اہل حدیث شامل تھے.اس وقت اہل حدیث کے لیڈر سلطان ابن سعود انگریزوں کی پشت پر تھے.جنہوں نے لڑکی پر حملہ کر کے اسے اپنے قبضہ میں کرناشروع کر دیا تھا.ادھر ترکی کے رویہ کو نا پسند کرتے ہوئے عرب میں شریف حسین اور فلسطین، شام اور لبنان کے مسلمانوں نے فورا ہی لڑکی سے بغاوت کا اعلان کر دیا.برق صاحب نے حرف محرمانہ کے صفحہ ۲۰۵ پر الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۵ء کے حوالہ سے خلیفہ مسیح کی یہ عبارت پیش کی ہے.” حضرت عراق کو فتح کرنے میں احمدیوں نے خون بہایا اور میری تحریک پر سینکڑوں آدمی بھرتی ہو کر چلے گئے.“ برق صاحب نے اس پر یہ نوٹ دیا ہے :- کس لئے ؟ جہاد کے لئے ؟ جہاد تو حرام تھا ؟ خوشنود کی انگریز کے لئے خواہ اللہ ناراض ہی رہے ظاہر ہے کہ جب آپ اللہ کی وحی یعنی ممانعت جہاد کی خلاف ورزی کریں گے تو خدا کا غضب پھڑ کے گا.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۰۵)
۲۸۳ الجواب واضح ہو کہ جہاد بالسیف اس لڑائی کا نام ہوتا ہے جو نہ ہی مدافعت کے لئے اس وقت لڑی جائے جب کہ کوئی قوم مذہب کے بارہ میں جبر کر رہی ہو.ترکوں کی لڑائی یا ترکوں سے لڑائی اسلامی جہاد ہر گز نہیں تھا.بلکہ یہ ایک ملکی لڑائی تھی اور اعلان جنگ کرنے میں لڑکی نے ابتداء کی تھی.اسلامی جہاد اس وقت فرض ہوتا ہے جب کفار کی طرف سے مذہب کے بارے میں جبر سے کام لیا جائے.اور مسلمانوں پر حملے میں ان کی طرف سے ابتداء ہو.پس اس لڑائی کو اسلامی جہاد کا نام نہیں دیا جا سکتا.جس سے خدا ناراض ہوتا.پھر احمدی تو غیر احمدی مسلمانوں کے مقابلہ میں فوج میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھے.بلکہ ہندوستان کے ہزار ہا مسلمانوں نے لڑکی کے خلاف اس لڑائی میں حصہ لیا تھا.اور عراق کو فتح کرنے میں اتحادیوں کی مدد کی تھی.اسی طرح سارے عرب اس موقعہ پر اتحادیوں کی پشت پناہ تھے.اس لئے اگر کچھ احمدی بھی اس جنگ میں شامل ہو گئے.تو انہوں نے کیا جرم کیا.جب کہ لاکھوں مسلمان اور خصوصاً عرب اس وقت اتحادیوں کے حامی تھے.کیا یہ عرب بھی انگریز کی خوشنودی کے لئے جنگ میں شامل ہو گئے تھے.نہیں اور ہر گز نہیں.بلکہ لڑکی کے جرمن کے ساتھ مل جانے کے بعد اعلان جنگ کے غلط رویہ نے انہیں اتحادیوں کی حمایت کے لئے مجبور کیا.کیونکہ اس زمانہ میں ٹرکی کا جرمنی کے ساتھ گٹھ جوڑ تھا.اور جرمنی حکومت تمام دنیا میں اپنا اثر اور نفوذ پیدا کرنا چاہتی تھی.مبلغ روس کے رویة پر اعتراض جناب برق صاحب نے لکھا ہے :- " جب خلیفہ اسح نے مولوی محمد امین کو روس میں مبلغ بنا کر بھیجا تو وہ وہاں
گرفتار ہو گیا کیوں ؟“ خود مبلغ کی زبانی سنئے :- ۲۸۴ "چونکہ سلسلہ احمدیہ اور برٹش گورنمنٹ کے باہمی مفاد ایک دوسرے سے واستہ ہیں.اس لئے جہاں میں اپنے سلسلہ کی تبلیغ کرتا تھا وہاں لازما مجھے انگریزی گورنمنٹ کی خدمت گزاری کرنی پڑتی تھی.الجواب (حرف) محرمانه صفحه ۱۸۹ حواله الفضل ۱۲۰ سمبر ۱۹۲۳ء) مولوی محمد امین صاحب کو حضرت خلیفۃ السیح نے کوئی ایسی ہدایت نہیں دے رکھی تھی کہ وہ روس میں جا کر گورنمنٹ انگریزی کی خدمت گزاری کرے.برق صاحب نے مولوی محمد امین صاحب کے جس خط کا حوالہ دیا ہے کہ وہ روس اور برطانیہ کے باہمی تعلقات کے متعلق ہے.(مولوی محمد امین) اس میں لکھتے ہیں.کہ روس اور انگریزوں کے تعلقات کے لحاظ سے میں انگریزی فوائد کو روسی فوائد پر ترجیح دیتا تھا.اب اس میں کون سے اعتراض کی بات ہے.اور اس سے مسلمانوں کو کیا نقصان پہنچ سکتا تھا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مسلم مفاد کی حفاظت جماعت احمدیہ نے کبھی اس بات کو پسند نہیں کیا کہ وہ انگریزوں کی ناجائز حمایت کرے.بلکہ جماعت نے ہمیشہ مسلمانوں کے مفاد کی حفاظت کی ہے.چنانچہ جب انگریزوں نے شریف حسین والی مکہ کے ساتھ معاہدہ کر کے اسے توڑ دیا.اور عرب کے متحد کرنے میں اسکی مدد نہ کی تو اس کے خلاف حضرت امام جماعت احمدیہ نے آواز بلند کی اور جب مسلمانوں میں یہ شور ہوا کہ انگریز حکومت مسلمان والیان
۲۸۵ ریاست کو زیر اثر لانے کے لئے انہیں مدد دے رہی ہے.تو امام جماعت احمدیہ نے اس کے خلاف بھی احتجاج کیا اور خود لارڈ چمیفورڈ کو لکھا کہ مسلمان عرب پر انگریزی حکومت کا تسلط کسی صورت میں بھی پسند نہیں کر سکتے.(ملاحظہ ہو الفضل مؤرخہ ۳ ستمبر ۱۹۳۵ء) والی حجاز شریف حسین کی حمایت جب حضرت امام جماعت احمدیہ کو یہ معلوم ہوا کہ انگریزوں نے والی حجاز شریف حسین سے عرب کو متحد کر دینے کا جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کر رہے تو آپ نے اس کے خلاف بھی آواز اٹھائی.چنانچہ ۲۱ جون کو شملہ میں لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند کو جماعت احمدیہ کی طرف سے جو ایڈریس دیا گیا اس میں حجاز کی آزادی کا مسئلہ خاص طور پر پیش کیا گیا.اس ایڈریس کے بعض فقرات یہ ہیں.”ہمارے نزدیک اس سے بھی زیادہ یہ سوال اہم ہے کہ حجاز کی آزادی میں کسی قسم کا خلل نہیں آنا چاہیئے.جب حجاز کی آزادی کا سوال پیدا ہوا ہے تو اس وقت یہی سوال ہر ایک شخص کے دل میں کھٹک رہا تھا.کہ کیا ترکوں سے اس ملک کو آزاد کرنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ بوجہ بنجر علاقہ ہونے کے وہاں کی آمد کم ہو گئی.اور حکومت کے چلانے کے لئے ان کو غیر اقوام سے مدد لینی پڑے گی.اور اس طرح کوئی یورپین حکومت اس کو مدد دے کر اس کو اپنے حلقہ اثر میں لے آئے گی.“ نئی خبریں اس شبہ کو بہت تقویت دینے لگی ہیں.رپورٹر نے پچھلے دنوں مسٹر چرچل جو وزیر نو آبادی ہیں ان کی ایک سکیم کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حجاز گور نمنٹ اپنے بیرونی تعلقات کو برٹش گورنمنٹ کی نگرانی میں دے دے اور اندرون ملک امن کا ذمہ لے تو گورنمنٹ برطانیہ اس کو سالانہ مالی امداد دیا کرے گی.
۲۸۶ اس سے تین شہبے پیدا ہوتے ہیں جن کے ازالہ کی طرف جناب کو فورا ہوم گورنمنٹ کو توجہ دلانی چاہیئے.اول :- یہ سکیم وزیر نو آبادی ہائے نے تیار کی ہے جس کا آزاد ممالک سے کوئی تعلق نہیں.دوم : - فارن تعلقات کا کسی حکومت کے سپرد کر دیا آزادی کے صریح منافی ہے.سوم : اندرون ملک میں امن کے قیام کی شرط آزادی کے مفہوم کو اور بھی باطل کر دیتی ہے.یہ تو گور نمنٹ کے اصلی کاموں میں سے ہے.اس شرط کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ اگر کسی وقت ملک میں فساد ہوگا تو بر طانیہ کی حکومت کا حق ہو گا کہ وہاں کی حکومت کو بدل دے یا وہاں کے انتظام میں دخل دے یا فوجی دخل اندازی کرے.اور یقینا اس قسم کی آزادی کوئی آزادی نہیں یہ پوری ماتحتی ہے.اور فرق صرف یہ ہے کہ حکومت بر طانیہ حجاز پر براہ راست حکومت نہ کرے گی.بلکہ ایک مسلمان سردار کی معرفت حکومت کرے گی.اگر حجاز کی حکومت اپنی حفاظت خود نہیں کر سکتی تو اس کو ترکوں کو انہی شرائط پر واپس کر دینا چاہیئے.جن شرائط پر مسٹر چرچل اسے انگریزی حکومت کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں.ہم امید کرتے ہیں کہ جناب اس غلط قدم کے اٹھا دینے کے خطرناک نتائج پر ہوم گورنمنٹ کو فورا توجہ دلائیں گے اور اس کے نتائج کو جلد شائع فرمائیں گے.ترکی کی حمایت الفضل جلد نمبر امور محمد ن۴ جولائی (۱۹۲ء) حضرت امام جماعت احمد یہ ۱۹۲۱ء میں اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں :- ہم نے باوجود بے تعلق اور علیحدہ ہونے کے پھر بھی معاہدہ ترکی کے بارہ میں اتحادیوں سے جو غلطیاں ہوئی تھیں.ان کے متعلق گور نمنٹ کو مشورہ دیا کہ ان
۲۸۷ کی اصلاح ہونی چاہئے.چنانچہ ان مشوروں کے مطابق ایک حد تک تھر میں اور سمرنا کے معاملہ میں پچھلے معاہدہ میں اصلاح بھی کی گئی ہے.ہم نے عربوں کے معاملہ میں لکھا کہ وہ غیر قوم اور غیر زبان رکھتے ہیں.وہ آزادانہ رہنا چاہتے ہیں.نہ ان کو ترکوں کے ماتحت رکھا جائے نہ اتحادی ان کو اپنے ماتحت رکھیں.پس ہم سے جس قدر ہو سکتا تھا.ہم نے کیا.رسالے ہم نے لکھ کر شائع کئے.چٹھیاں میں نے گورنمنٹ کو لکھیں اور جو غلطیاں میں نے گورنمنٹ کو بتائیں.گورنمنٹ نے فراخ حو صلگی سے ان میں سے بعض کو تسلیم کیا.اور ان کی اصلاح کے متعلق کوشش کرنے کا وعدہ کیا.ہم نے ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب کو میموریل بھیجا.ہم نے گورنر جنرل کو بھی لکھا.ولائت میں اپنے مبلغین کو ترکوں سے ہمدردی اور انصاف کرنے کے متعلق تحریک کرنے کے لئے ہدایت کی.امریکہ میں اپنا مبلغ بھیجا کہ علاوہ تبلیغ اسلام کے ترکوں کے متعلق جو غلط فہمیاں ان لوگوں میں مشہور ہیں ان کو دور کرے چنانچہ وہ وہاں علاوہ تبلیغ اسلام کے یہ کام بھی کر رہا ہے.اور کئی اخبارات میں ترکوں کی تائید میں آرٹیکل لکھے گئے ہیں.غرض ہماری طرف سے باوجود ترکوں سے بے تعلق ہونے کے محض اسلام کے نام میں شرکت رکھنے کے باعث ان کے لئے اس قدر جدو جہد کی گئی ہے.مگر ترکوں نے ہمارے لئے کیا کیا ؟ جب ہمارے بعض آدمی ان کے علاقہ میں گئے تو ان کو گرفتار کر لیا گیا.“ ( الفضل جلد ۸ نمبر ۷۶ ۷۷ مؤرخہ ۱۱، ۱۴، اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۵) برق صاحب کا آخری اعتراض برق صاحب حرف محرمانہ کے باب ہفتم کے آخر میں یوں معترض ہیں :- جب ۱۹۲۹ء میں لاہور کے ایک آریہ راجپال نے حضور کے خلاف ایک وو کتاب رنگیلار سول“ کے نام سے لکھی اور لاہور کے ایک نوجوان علم الدین نے اس کا کام تمام کر دیا تو حضرت خلیفہ اسکے نے فرمایا :- 66
۲۸۸ وہ لوگ جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں مجرم ہیں اور اپنی قوم کے دشمن ہیں اور جو ان کی پیٹھ ٹھونکتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے.“ (حرف محرمانہ صفحہ ۲۰۶،۲۰۵) برق صاحب اس مشورہ کو پسند کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- " بہت عمدہ مشورہ ہے.( حرف محرمانہ صفحہ ۲۰۶) لیکن لکھتے ہیں :- ۱۲۳ اپریل ۱۹۳۰ء کو ایک نوجوان احمدی محمد علی نے مولوی عبد الکریم اور اس کے ساتھی محمد حسین پر قاتلانہ حملہ کر دیا.عبد الکریم گھائل ہوئے اور محمد حسین ہلاک ہوئے.ملزم ۱۶ مئی کو سپردِدار ہوا.اس کے جنازہ کو خلیفہ اسیح نے کندھا دیا.اور وہ نوجوان نہایت احترام سے بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوا.“ الجواب محمد علی ایک نیا پٹھان احمدی تھا.جسے احمدیت کے مسلک سے پورے طور پر واقفیت نہ تھی.وہ عبد الکریم مباہلہ والے کی شرارتوں سے جوش میں اگر ان پر حملہ آور ہوا.اور مجمد حسین اس حملہ میں اس کی غلطی سے ہلاک ہو گیا.اور وہ گرفتار ہو کر جب جیل میں گیا تو اسے فہمائش کی گئی کہ تم نے یہ فعل احمدیت کی تعلیم کے خلاف کیا ہے.نے سے سزا وجہ سے جس پر اس نے توبہ کی باقی جرم کی اس نے حکومت سے سزاپالی اس کی توبہ کی وجہ سے ہی حضرت خلیفہ الیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کے جنازہ کو کندھا دیا.اور توبہ کر لینے کی وجہ سے ہی وہ مطابق وصیت بہشتی مقبرہ میں دفن ہوا.☆
۲۸۹ باب ہشتم صداقت کے معیار آٹھویں باب میں جناب برق صاحب نے صداقت کے چار معیار کے عنوان کے تحت حضرت پائی سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں کامل مومن کی شناخت کے لئے چار علامتوں کا ذکر کیا ہے.اول : یہ کہ مومن کامل کو خدا تعالیٰ سے اکثر بخارات ملتی ہیں.دوم : یہ کہ مومن کامل پر ایسے امور غیبیہ کھلتے ہیں جو نہ صرف اس کی ذات اور اس کے واسطہ داروں سے متعلق ہوں.بلکہ جو کچھ دنیا میں قضا و قدر نازل ہونے والی ہے.یا بعض دنیا کے افراد مشہورہ پر جو کچھ تغیرات آنے والے ہیں.ان سے برگزیدہ مومن کو اکثر اوقات خبر دی جاتی ہے.سوم :- یہ کہ مومن کامل کی اکثر دعائیں قبول کی جاتی ہیں...چهارم: یہ کہ مومن کامل پر قرآن کریم کے دقائق و معارف جدیدہ ولطائف و خواص عجیبہ سب سے زیادہ کھولے جاتے ہیں.(آسمانی فیصلہ صفحہ ۱۳) یہ چار معیار بیان کرنے کے بعد برق صاحب لکھتے ہیں.امر اول اور دوم پیشگوئیوں“ کے ضمن میں آتے ہیں.اس لئے ان کے متعلق ” پیشگوئیوں کے باب میں بحث کی جائے گی.یہاں صرف امر سوم اور چہارم کے متعلق عرض کیا جائے گا.( حرف محرمانه صفحه ۲۱۱) برق صاحب اس کے بعد ” قبولیت دعا“ کے عنوان کے تحت حضرت مسیح
۲۹۰ موعود کی صد ہا دعاؤں میں سے جو صفائی سے قبول ہو کر نشان نہیں صرف دو دعاؤں کا ذکر کرتے ہیں.مولوی ثناء اللہ کے بغلی عنوان کے تحت لکھتے ہیں :- " جناب مرزا صاحب نے بھارات قسم قرآن و قبولیت دعا کے سلسلہ میں علماء کو چیلنج دیا تھا کہ وہ آئیں اور مقابلہ کریں.اس چیلنج کو وہ بار بار دہراتے رہے یہاں تک ١٩٠٢ء میں مولوی ثناء اللہ مقابلہ کے لئے اتر گیا.اس کی تفصیل خود جناب مرزا صاحب سے سنئے :.“ میں نے سنا ہے بلکہ مولوی ثناء اللہ کی دستخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ درخواست کرتا ہے کہ میں ( ثناء اللہ) اس طور کے فیصلہ کے لئے بدل خواہشمند ہوں کہ فریقین (یعنی میں اور وہ) یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم میں سے جھوٹا ہے وہ بچے کی زندگی میں ہی مر جائے...پس ہمیں کوئی انکار نہیں کہ وہ ایسا چیلنج دیں کیونکہ ان کا یہی چیلنج ہی فیصلہ کے لئے کافی ہے مگر شرط یہ ہوگی کہ کوئی موت قتل کی رو سے واقعہ نہ ہو.بلکہ بعض بیماری کے ذریعہ سے ہو.مثلاً طاعون سے یا ہیضہ سے یا کسی اور ہماری ہے.تا ایسی کارروائی حکام کے لئے تشویش کا موجب نہ ٹھرے اور ہم یہ بھی دعا کرتے رہیں گے کہ ایسی موتوں سے فریقین محفوظ رہیں صرف وہ موت کا ذب کو آئے جو بیماری کی موت ہوتی ہے.“ (اعجاز احمدی صفحه ۱۵، ۱۴) برق صاحب آگے لکھتے ہیں :- نیز شرط عائد کر دی کہ چیلنج ایک پوسٹر کی صورت میں ہونا چاہئے.جس کے نیچے پچاس آدمیوں کے دستخط ہوں.آیا ایسا کوئی پوسٹر مولوی شیاء اللہ صاحب کی طرف سے شائع ہوا تھا یا نہیں.ہمیں کوئی علم نہیں صرف اتنا معلوم ہے کہ جناب مرزا صاحب نے مولوی صاحب کے اس ارادے کو ہی کافی سمجھا اور فرمایا مجھے کچھ ضرورت
۲۹۱ نہیں کہ میں انہیں مباہلہ کے لئے چیلنج کروں یا ان کے بالمقابل مباہلہ کروں.ان کا اپنا مباہلہ جس کے لئے انہوں نے مستعدی ظاہر کی ہے میری صداقت کے لئے کافی ہے.(حرف محرمانه صفحه ۲۱۳) پھر اس کے بعد اعجاز احمدی صفحہ ۶،۱۷ ا کا حوالہ درج کیا ہے.یا الہی تو ہمارے کاروبار کو دیکھ رہا ہے اور تیری عمیق نگاہوں سے ہمارے اسرار پوشیدہ نہیں.تو ہم میں اور مخالفوں میں فیصلہ کر دے اور وہ جو تیری نظر میں صادق ہیں ان کو ضائع مت کر کہ صادق کے ضائع ہونے سے ایک جہان ضائع ہو گا.اے میرے قادر خدا تو نزدیک آجا اور اپنی عدالت کی کرسی پر بیٹھ.اور یہ روز کے پہ جھگڑے قطع کر کیونکر میر اول قبول کرے کہ تو صادق کو ذلت کے ساتھ قبر میں اتارے گا.اور اوباشانہ زندگی والے کیونکر فتح یا ئیں گے تیری ذات کی مجھے قسم ہے کہ تو ایسا ہر گز نہیں کرے گا.“ برق صاحب لکھتے ہیں :- (اعجاز احمدی صفحہ ۱۶،۱۷) پوسٹر نکلا علم نہیں مسیح موعود کی دعا کا تیر نکل چکا تھا ۱۹۰۲ء اور ۱۹۰۷ء کے درمیانی عرصہ میں مولوی صاحب اور جناب مرزا صاحب نے اس مقابلہ کے سلسلہ میں کیا کچھ کیا اور لکھا حجاب خفا میں ہے.البتہ اس موضوع پر ہمیں 1906ء میں جناب مرزا صاحب کا ایک فیصلہ کن اشتہار ملتا ہے یہ اشتہار مولوی صاحب کی طرف ایک کھلا خط ہے.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۱۵) اس کے بعد برق صاحب نے حضرت اقدس کے اس خط کا جو مضمون درج کیا ہے اور ۱۵ اپریل کے اس مضمون کو ۵ اپریل کا قرار دیا ہے.اور لکھا ہے کہ اس تاریخ کی ڈائری میں یہ فقرہ بھی تھا.ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا.وہ دراصل ہمار کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہی اس کی بنیاد رکھی گئی.(حرف محرمانہ صفحہ ۲۱۷)
۲۹۲ برق صاحب کی مغالطہ وہی حالانکہ یہ ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء کی ڈائری ہے جو بدر ۱۲۵ اپریل ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی مگر جناب برقی صاحب اسے خط کے مضمون کی طرح ۵ اپریل کی ڈائری قرار دے رہے ہیں.تا یہ مغالطہ دے سکیں کہ اس خط میں جو دعا شائع کی گئی ہے کہ صادق کی زندگی میں جھوٹے کی موت ہو.یہ دراصل ایک پیشگوئی تھی جس کی بنیاد خدا تعالٰی کی طرف سے رکھی گئی تھی.حالانکہ اس خط میں صاف یہ امر لکھا ہوا موجود تھا کہ یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں پھر یہ خط ۱۵ر اپریل ۱۹۰ء کا لکھا ہوا ہے اور ڈائری ۱۴، اپریل عشاء کی ہے جس میں شاء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے" کے الفاظ جو کچھ “ سے ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء سے پہلے کی تحریر میں مراد ہیں.کسی بعد کی تحریر کی طرف ان کا اشارہ ہو ہی نہیں سکتا.برق صاحب کی حق پوشی ہے.اس سارے مضمون میں برق صاحب نے کئی طرح حق پوشی سے کام لیا اول : - یہ کہ اعجاز احمدی میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق جو مضمون لکھا گیا تھا اس کے ایک ضروری فقرہ کو چھپایا ہے.جو ایک شرط کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس فقرہ کے اظہار سے جناب برق صاحب کا سارا تانابانا ٹوٹ جاتا تھاوہ فقرہ یہ ہے کہ :- اگر اس چیلنج پر وہ ( مولوی ثناء اللہ صاحب ) مستعد ہوئے کہ کاذب صادق سے پہلے مر جائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے.“ (اعجاز احمدی صفحہ ۳۷) مگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے نہ تو یہ شرط قبول کی اور نہ کسی پوسٹر کے ذریعہ اپنی مستعدی کا اظہار کیا.اس جگہ برق صاحب اس حقیقت کو چھپا کر یہ کہہ کر
۲۹۳ اعتراض کرنے کے لئے آگے بڑھ گئے ہیں کہ ایسا کوئی پوسٹر مولوی ثناء اللہ صاحب کی طرف سے شائع ہوا تھا یا نہیں علم نہیں.حالانکہ اگر آپ کو علم نہیں تھا تو آپ " حرف محرمانہ لکھنے کیوں بیٹھے تھے.حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی پوسٹر مولوی ثناء اللہ صاحب کی طرف سے شائع نہیں ہوا بلکہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس فیصلہ کے متعلق ٹال مٹول سے کام لیا.حضرت اقدس کی دعا جو صفحہ ۱۴، ۱۵ اعجاز احمدی میں بیان کی گئی ہے.وہ اس صورت میں نتیجہ خیز ہو سکتی تھی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اس فیصلہ پر مستعد ہو جاتے کہ کاذب صادق سے پہلے مرے.حضرت اقدس نے اس وقت تک کوئی دعا کی ہی نہیں تھی.بلکہ ایک دعا تجویز کی تھی اور لکھا تھا کہ ثناء اللہ صاحب اس فیصلہ پر مستعد ہوئے تو ہم یہ دعا کرتے رہیں گے کہ صرف وہ موت کاذب کو آئے جو بیماری کی موت ہوتی ہے.چونکہ مولوی شاء اللہ صاحب اس فیصلہ پر مستعد نہ ہوئے اس لئے حضور نے ان کے متعلق خصوصیت سے کوئی دعا نہیں کی تھی ہاں عام دعا آپ نے کی تھی جو اعجاز احمدی صفحہ ۱۶،۱۷ میں درج ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ تو ہم میں اور مخالفوں میں فیصلہ کر دے اور انہیں جو تیری نظر میں صادق ہیں ضائع مت کر الخ یہ مخصوص طور پر مولوی ثناء اللہ صاحب کے لئے دعا نہ تھی بلکہ سب مخالفوں کے مد نظر دعا تھی اس لئے اس کا ذکر اس جگہ برق صاحب کے لئے کوئی فائدہ خش نہیں.پھر برق صاحب لکھتے ہیں :- ۱۹۰۲ء اور 1906ء کے درمیانی عرصہ میں مولوی صاحب اور مرزا صاحب نے اس مقابلہ کے سلسلہ میں کیا کچھ کہا اور لکھا حجاب خفا میں ہے.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۱۵)
۲۹۴ وو حالانکہ جب باقی لٹریچر برق صاحب کو مل گیا تھا تو ۱۹۰۲ء اور ۱۹۰۷ء کا در میانی لٹریچر بھی شائع شدہ موجود تھا.اس لئے اس زمانہ کی تحریروں کو حجاب خفا میں قرار دینا اعتراض مضبوط کرنے کی خاطر اصل حقیقت کو چھپانا ہے ورنہ درمیانی زمانہ کی کوئی بات پر وہ میں نہیں تھی.سب باتیں تحریر میں آچکی ہوئی تھیں.اس درمیانی زمانہ میں مولوی شاء اللہ صاحب مباہلہ کے لئے اپنی اس آمادگی سے پھر گئے تھے.جس کا ذکر اعجاز احمدی میں کیا گیا تھا.چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب الہامات مرزا“ میں لکھ دیا.چونکہ یہ خاکسار نہ واقع میں اور نہ آپ کی طرح نبی یار سول یا این اللہ یا الهامی ہے.اس لئے ایسے مقابلہ کی جرات نہیں کر سکتا.“ ( الهامات مرز بار دوم صفحه ۸۵) حالانکہ مباہلہ کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ دو ایسے شخصوں میں ہی ہو جو مدعی نبوت ہوں.اگر ایسا ہوتا تو آنحضرت ﷺ کی معرفت بجز ان کے عیسائیوں کو دعوت مباہلہ صلى نہ دی جاتی.پس مولوی ثناء اللہ صاحب اس کچے عذر سے اپنے چیلینج سے خود ہی پھر گئے جسے حضرت اقدس نے اعجاز احمدی میں قبول کر لیا تھا.مگر اس کے بعد پھر ترنگ میں اگر ۲۹ مارچ ۱۹۰۷ء کے پرچہ میں انہوں نے بڑے طمطراق سے میلہ کا چیلنج دے دیا.چنانچہ اخبار مذکور میں لکھا :- "مرزائیو! بچے ہو تو آؤ اور اپنے گرو کو ساتھ لاؤ میدان عید گاہ تیار ہے.جہاں تم ایک زمانے میں صوفی عبد الحق غزنوی سے مباہلہ کر کے آسمانی ذلت اٹھا چکے ہو.اور امر تسر میں نہیں تو بٹالہ میں آؤ.سب کے سامنے کارروائی ہو گی.مگر اس کے نتیجہ کی تفصیل کرشن قادیانی سے پہلے کرا دو.اور انہیں ہمارے سامنے لاؤ جس نے ہمیں رسالہ انجام آتھم میں دعوت مباہلہ دی ہوئی ہے.“ (اہلحدیث ۲۹ مارچ ۱۹۰۷ء )
۲۹۵ مولوی ثناء اللہ صاحب کے اس چیلنج کے جواب میں حضرت اقدس مسیح موعود کے حکم سے بدر کے ایڈیٹر صاحب نے اخبار بدر ۴، اپریل میں ” مولوی ثناء اللہ کا چیلنج منظور کر لیا گیا“ کے عنوان کے ماتحت لکھا.”میں مولوی ثناء اللہ صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے ان کے اس چیلنج کو منظور کر لیا ہے وہ بے شک قسم کھا کر بیان کریں کہ یہ شخص اپنے دعوئی میں جھوتا ہے اور بے شک یہ کہیں اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو لعنت اللہ علی الکاذبین اور اس کے علاوہ ان کو اختیار ہے کہ اپنے جھوٹے ہونے کی صورت میں ہلاکت وغیرہ کے لئے جو عذاب اپنے لئے چاہیں مانگیں.اگر آپ اس بات پر راضی ہیں کہ بالمقابل کھڑے ہو کر زبانی مباہلہ ہو تو پھر آپ قادیان آسکتے ہیں.اور اپنے ساتھ دس تک آدمی لا سکتے ہیں.اور ہم آپ کا زاد راہ آپ کے یہاں آنے اور مباہلہ کرنے کے بعد پچاس روپیہ تک دے سکتے ہیں.لیکن یہ امر ہر حالت میں ضروری ہوگا.کہ مباہلہ کرنے سے پہلے فریقین میں شرائط تحریر ہو جائیں گے.اور الفاظ مباہلہ تحریر ہو کر اس تحریر پر فریقین اور اس کے ساتھ گواہوں کے دستخط ہو جائیں گے." (بدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء ) اس کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے ۱۲ ،۱۹، اپریل ۱۹۰۷ء کے پرچہ میں جو اکٹھا ۱۲ اپریل ۱۹۰۷ء کو شائع ہوا لکھا :- ” میں نے آپ کو مباہلہ کے لئے نہیں بلایا میں نے تو قسم کھانے پر آمادگی کی ہے مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہیں.حالانکہ مباہلہ اس کو کہتے ہیں کہ فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں.میں نے حلف اٹھانا کہا ہے مباہلہ نہیں کہا.قسم اور ہے اور مباہلہ اور ہے.،، مولوی شاء اللہ صاحب کے اس چیلنج سے ظاہر ہے کہ اس میں دو دفعہ انہوں
۲۹۶ نے مباہلہ کا لفظ استعمال کیا تھا اور کہا تھا کہ ” نہیں ہمارے سامنے لاؤ جس نے ہمیں رسالہ انجام آتھم میں دعوت مباہلہ دی ہوئی ہے.مگر جب حضرت اقدس کی طرف سے مبلہ کا چیلنج منظور کیا گیا تو وہ یہ طرح دے گئے کہ میں نے قسم کھانے پر آمادگی کی ہے نہ مباہلہ پر.مباہلہ میں تو فریقین قسم کھاتے ہیں.حضور نے اس سے یہ تاثر لیا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نہ تو کھل کر مباہلہ کرنے سے انکار کرتے ہیں اور نہ اس کے لئے آمادہ نظر آتے ہیں.اس لئے آپ نے مولوی ثناء اللہ صاحب کی اس پوزیشن کو واشگاف کرنے کے لئے ۱۵ ، اپریل 1906ء کو ایک کھلی چٹھی ، نام مولوی ثناء اللہ صاحب امر تسری بعنوان ” مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ لکھی.اور اس میں اپنی طرف سے سنت اللہ کے مطابق ایک دعائے مباہلہ شائع کر دی.جس کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں طاعون ہیضہ و غیر ہ امراض سے ہلاک ہو.جناب برق صاحب نے درمیانی زمانے کی ان تحریروں کو حجاب خفا میں قرار دے کر انہیں پیش کرنے سے اس لئے گریز کیا ہے.تا وہ درمیانی کڑیوں کو جو مباہلہ سے تعلق رکھتی ہیں حذف کر کے حضرت اقدس کی ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ ء والے مکتوب کی تحریر کو یکطرفہ دعا قرار دے سکیں اور اس پر اپنے اعتراض کی عمارت کھڑی کر سکیں ور نه در میانی زمانہ کی یہ باتیں پر وہ خفا میں نہ تھیں.ہاں برق صاحب کے دل میں چور تھا که اگر در میانی زمانہ کی تحریریں میں نے پیش کر دیں اور اس طرح یہ درمیانی کڑیاں میں نے خود واضح کر دیں تو ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ ء والے خط کی دعا یک طرفہ قرار نہیں دی جا سکتی.اور ان کے اعتراض کی عمارت از خود گر جائے گی.پھر اس سے بڑھ کر قابل افسوس امر یہ ہے کہ برق صاحب نے حضرت اقدس کا مولوی شاء اللہ کی طرف کی 19ء کا مکتوب تو نقل کر دیا ہے مگر مولوی شاء اللہ صاحب نے اس کا جو جواب دیا تھا وہ دانستہ چھپایا ہے یہ ان کی ایک غیر منصفانہ بلکہ
۲۹۷ مجرمانہ حرکت ہے.کہ وہ حضرت اقدس کی تحریر تو پیش کرتے ہیں.لیکن مولوی ثناء اللہ صاحب کا جواب نقل نہیں کرتے تا یہ مغالطہ دے سکیں کہ حضرت مرزا صاحب اپنی اس دعا کے مطابق مولوی شاء اللہ صاحب کی زندگی میں فوت ہو کر اپنا جھوٹا ہوتا ثابت کر گئے ہیں.میں یہ کیسے باور کروں کہ برق صاحب کو اس بات کا علم نہ تھا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت اقدس کے اس خط کو اپنے پر چہ اہلحدیث میں شائع کر کے کچھ عذرات پیش کئے تھے انہیں یقیناً ان عذرات کا پتہ ہو گا.اور اگر انہوں نے ان کا پتہ نہیں لگایا تو ان کی کتاب ”حرف محرمانہ کی بجائے حرف مجرمانہ کہلانے کی مستحق ہے.دیکھئے مولوی ثناء اللہ صاحب حضرت اقدس کے مخط کو اپنے پرچہ اہل حدیث میں شائع کر کے نیچے اس کی منظوری سے یوں انکار کرتے ہیں." یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے.“ اخبار اہلحدیث ۲۶ / اپریل ۱۹۰۷ء ) مولوی ثناء اللہ صاحب کا انکار اس بات کا آئینہ دار ہے کہ ان کے نزدیک حضرت اقدس کی یہ دعا جو بعنوان ” مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ صورت مسودہ شائع کی گئی تھی.یہ ان کی منظوری کے بغیر فیصلہ کن نہیں تھی.تبھی انہوں نے اس کی منظوری دینے سے انکار کر دیا.اگر وہ اسے مسودہ مباہلہ نہ سمجھتے تو اس کی منظوری سے انکار کے کوئی معنی نہیں بنتے.پس مولوی ثناء اللہ صاحب کی اس طریق فیصلہ کی منظوری نہ دینے سے ظاہر ہے کہ فریقین کے درمیان آخری فیصلہ پر اتفاق نہیں ہوا تھا.اور مولوی ثناء اللہ صاحب اس فیصلہ پر مستعد نہیں ہوئے تھے کہ کاذب صادق سے پہلے مرے اندریں صورت اگر وہ پہلے فوت ہو جاتے تو ان کا حضرت مرزا صاحب سے پہلے مرنا ان کے ہوا خواہوں اور ہم عقیدہ لوگوں کے لئے کوئی حجت نہیں ہو سکتا تھا.کیونکہ خود مولوی
۲۹۸ صاحب نے اسے حجت ماننے سے انکار کیا تھا.جب مدعی علیہ مولوی ثناء اللہ صاحب حضرت اقدس کی زندگی کے ایام میں اس کو فیصلہ کن نہیں سمجھتے تھے تو اب برق صاحب کا اس کو فیصلہ کن قرار دینا کہاں کا انصاف ہے ؟ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب اس فیصلہ پر مستعد ہو جاتے کہ کاذب صادق سے پہلے مرے اور عذرات سے اس طریق فیصلہ کو ٹالنے کی کوشش نہ کرتے اور حضرت اقدس کی وفات ان سے پہلے ہو جاتی تو برق صاحب اس دعا کو فیصلہ کن قرار دینے میں حق بجانب ہوتے.مگر اب تو وہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے عذرات کو چھپا کر سچائی کا خون کر رہے ہیں اور معاندانہ طریق سے دوسروں کو فریب دینا چاہتے ہیں.محققانہ انداز میں کسی تحقیق کا پیش کرنا ان کے مد نظر نہیں.حرف آخر ۱۵ر اپریل ۹۷اء والا محط محض دعائے مباہلہ کے مسودہ پر مشتمل تھا.مباہلہ میں فریقین ایک دوسرے پر بد دعا کرتے ہیں.مولوی ثناء اللہ صاحب اس بد دعا کے لئے مستعد نہ ہوئے کہ کاذب صادق سے پہلے مرے بلکہ عذرات نامناسب سے اس طریق فیصلہ ٹالنے کی کوشش کی اور اس طریق کو فیصلہ کن اور حجت ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ تحریر مجھے منظور نہیں.اس لئے مباہلہ وقوع میں نہ آیا.پس برق صاحب کا اس خط کو یکطرفہ دعا کی صورت میں فیصلہ کن قرار دینا اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے اس کے متعلق انکار کو اپنی کتاب کے پڑھنے والوں سے چھپانا صاف ان کی خراطی نیت کی غمازی کر رہا ہے.حضرت مسیح موعود کی یہ دعا یکطرفہ دعا کی حیثیت نہیں رکھتی تھی.بلکہ اس خط میں آپ نے لکھا تھا.آپ سنت اللہ کے مطابق خدا سے فیصلہ چاہتے ہیں.اور سنت اللہ یہ ہے کہ دو مباہلہ کرنے والوں میں سے
۲۹۹ کاذب صادق کی زندگی میں ہلاک ہوتا ہے.چنانچہ حضرت مرزا صاحب خود تحریر فرماتے ہیں.” یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں مر جاتا ہے ہم نے تو یہ لکھا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ بچے کی زندگی میں مر جاتا ہے.کیا آنحضرت کے سب اعداء ان کی زندگی میں ہلاک ہو گئے تھے.ہزاروں اعداء آپ کی وفات کے بعد زندہ رہے ہاں جھوٹا مباہلہ کرنے والا بچے کی زندگی میں ہلاک ہوا کرتا ہے.ایسے ہی ہمارے مخالف بھی ہمارے مرنے کے بعد زندہ رہیں گے.ہم تو ایسی باتیں سن کر حیران ہو جاتے ہیں.دیکھو ہماری باتوں کو کیسے الٹ پلٹ کر کے پیش کیا جاتا ہے اور تحریف کرنے میں وہ کمال کیا ہے کہ یہودیوں کے بھی کان کاٹ دیئے ہیں کیا کسی نبی ، ولی، قطب، غوث کے زمانہ میں ایسا ہوا کہ سب اعداء مر گئے ہوں.بلکہ کا فر منافق باقی رہ گئے تھے ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ بچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں وہ بچے کی زندگی میں ہلاک ہوتے ہیں.ایسے اعتراضات کرنے والے سے پوچھنا چاہیئے کہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ بغیر مباہلہ کرنے کے ہی جھوٹے بچے کی زندگی میں تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں.وہ جگہ تو نکالو جہاں یہ لکھا ہے.“ (الحکم ۱۰ر اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحه ۹) یہ عبارت مولوی ثناء اللہ صاحب کے نام ۱۵ار اپریل ۱۹۰۷ء کے خط والی تحریر سے بعد کی ہے.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس صرف مباہلہ واقع ہونے کی صورت میں کاذب کا صادق سے پہلے مرنا ضروری قرار دیتے ہیں ورنہ یہ حقیقت آپ کو مسلم ہے کہ صادق کے وفات پانے کے بعد اس کے اکثر منکر باقی رہتے ہیں.چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے انکار و فرار اور عدم منظوری کی وجہ سے مباہلہ وقوع میں نہیں آیا.اس لئے حضرت اقدس کا ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء والا خط محض مباہلہ کے لئے
۳۰۰ ایک مسودہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں مذکورہ دعا صرف ایسی صورت میں فیصلہ کن اور نتیجہ خیز قرار دی جاسکتی تھی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اس طریق فیصلہ کو منظور کر لیتے چونکہ انہوں نے منظور نہیں کیا.اس لئے برق صاحب کا اس دعا کو فیصلہ کن قرار دینا سراسر سچائی سے دشمنی اور عناد کا ثبوت ہے.غلام دستگیر قصوری نے یکطرفہ دعائے ہلاکت کی تھی.چنانچہ وہ حضرت اقدس کی زندگی میں ہلاک ہو کر آپ کی صداقت کو ثابت کر گیا.مولوی ثناء اللہ صاحب کے بالمقابل حضرت اقدس نے کوئی یکطرفہ دعا نہیں کی.ہاں ایک دعا تجویز کی تھی چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس تجویز کو نہ مانا اس لئے مباہلہ وقوع میں نہ آیا.میر ناصر نواب صاحب کی روائت اس موقعہ پر حضرت اقدس کی وفات کے ذکر میں برق صاحب نے میر ناصر نواب صاحب کی ایک روایت بھی نقل کی ہے.کہ جب میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا اور آپ کا حال دیکھا تو آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے.“ ہمیں یہ روائت مسلم نہیں کیونکہ یہ واقعات کے صریح خلاف ہے.حضرت اقدس نے ہر گز وبائی ہیضہ سے وفات نہیں پائی.بلکہ آپ نے اسمال کی پرانی بیماری ہی کے حملہ پر وفات پائی ہے.نہ کہ ہیضہ سے.چنانچہ آپ کی وفات پر آپ کے معالج ڈاکٹر سدر لینڈ پرنسپل کالج لاہور نے سر ٹیفکیٹ میں لکھا تھا کہ آپ کی وفات اعتصامی اسمال کی ہماری سے ہوئی ہے.برق صاحب لکھتے ہیں :- ہیضہ تھا یا نہیں اس کا فیصلہ اطباء پر چھوڑتا ہوں.“ سو وہ اطباء جو آپ کے معالج تھے وہ تو سب ڈاکٹر سدر لینڈ صاحب کی رائے
سے متفق تھے.اب برق صاحب اور کن اطباء پر فیصلہ چھوڑتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ میر ناصر نواب صاحب نے وبائی ہیضہ کے متعلق حضرت اقدس کے استفہامیہ فقرہ کو جملہ خبر یہ سمجھ لیا تھا.اگر بالفرض آپ نے یہ فقرہ بطور جملہ خبر یہ ہی فرمایا ہو تو.یہ معالج ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق نہیں لہذا بیماری کی صحیح تشخیص وہی ہے جو ڈاکٹروں نے کی.اور وہ پرانی اعصابی تکلیف کا دورہ تھا.جس کے نتیجہ میں اسہال سے آپ کی وفات ہوئی.انا لله و انا اليه راجعون.ڈاکٹر عبدالحکیم مشتمل جس طرح برق صاحب نے مولوی ثناء اللہ صاحب کی عذرات پر تحریر کو چھپا کر انصاف کا خون کیا ہے.اسی طرح اسکے بعد ڈاکٹر عبدالحکیم کے ذکر میں برق صاحب نے ڈاکٹر عبدا تحکیم کی آخری پیشگوئی کو چھپا کر جو اس کی پہلی پیشگوئیوں کی ناسخ تھی اخفائے حق سے کام لیتے ہوئے ایک مجرمانہ حرکت کی ہے.ڈاکٹر عبدا حکیم سے متعلقہ پیشگوئی پر مضمون آپ نے حرف محرمانہ صفحہ ۲۲۱ تا صفحہ ۲۲۸ تک لکھا ہے.برق صاحب نے شروع میں ڈاکٹر عبدالحکیم کی اس پیشگوئی کا ذکر کیا ہے.جس میں ڈاکٹر ند کور نے حضرت اقدس کے تین سال کے اندر ہلاک ہونے کی خبر دی.اور اس کے بالمقابل حضرت اقدس نے اپنی پیشگوئی شائع فرمائی.جس میں آپ کی یہ دعا " مذکور ہے.رَبِّ فَرِّقَ بَيْنَ صَادِق وَ كَاذِب اے میرے خدا صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلا.اشتهار ۶ ار اگست ۱۹۰۶ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحه ۱۱۳) برق صاحب لکھتے ہیں :- یہ الہام پڑھ کر ڈاکٹر نے اپنے پہلے الہام میں یوں ترمیم کی :-
اللہ نے مرزا کی شوخیوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے سہ سالہ میعاد میں سے جو ، جولائی 1909 ء کو پوری ہوتی ہے.دس مہینے اور گیارہ دن اور گھٹا دئیے اور مجھے یکم جولائی ۱۹۰۷ء کو الہا نا فرمایا کہ مرزا آج سے چودو ماہ تک یہ سزائے موت ہادیہ میں گرایا جائے گا.“ برق صاحب لکھتے ہیں اس کے جواب میں جناب مرزا صاحب نے ۵/ نومبر عشاء کو ایک اشتہار بعنوان تبصرہ شائع کیا.جس میں یہ الہام بھی درج تھا.اپنے دشمن سے کہہ دے خدا تجھ سے مؤاخذہ کرے گا اور تیری عمر کو بڑھاؤں گا.یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ جولائی 1906ء سے صرف چودہ مہینے تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں.یا ایسا ہی دوسرے دشمن جو پیشگوئی کرتے ہیں ان سب کو میں جھوج (حرف محرمانه صفحه ۲۲۵) کروں گا.“ اس کے بعد برق صاحب حضرت اقدس کی عبدالحکیم خان کی پیشگوئی کے متعلق چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۱، ۳۲۲ کی عبارت لکھتے ہیں.جس میں اس کی پیشگوئی کے بالمقابل لکھا ہے.” اس پیشگوئی کے مقابل پر مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ وہ خود عذاب میں مبتلا ہو گا.اور خدا اس کو ہلاک کرے گا.اور میں اس کے شر سے محفوظ رہوں گا.“ اس پر برق صاحب بطور نتیجہ لکھتے ہیں :- وو مقابلہ کی صورت بالکل صاف ہو گئی کہ ڈاکٹر نے کہا جناب مرزا صاحب کی وفات ۴ / اگست ۱۹۰۸ء سے پہلے ہو گی.مرزا صاحب نے فرمایا اللہ نے مجھے لمبی عمر کی بشارت دی ہے نیز کہا میں ان سب کو جھوٹا کروں گا...خدا صادق کی مدد کریگا.لیکن ہوا کیا یہی کہ چند روز بعد جناب مرزا صاحب کا انتقال ہو گیا.اور ڈاکٹر برسوں بعد زندہ رہا.قدر تا سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کا وہ وعدہ کیا ہوا."اپنے دشمن سے کہہ دے
٣٠٣ خدا تجھ سے مؤاخذہ کرے گا.اور تیری عمر کو بڑھاؤں گا....ان سب کو جھوٹا کروں گا.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۲۷) اس موقعہ پر بھی برق صاحب سے ایک مجرمانہ فرو گذاشت ہوئی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر عبدالحکیم خان کے آخری الہام کو چھپایا ہے جس نے اس کے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا تھا.خدا تعالیٰ کے الہامات جو اس بارہ میں حضرت مسیح موعود کو ہوئے ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ حق وباطل میں فرق ہو گا.اور خدا تعالیٰ آپ کے دشمن کو جھوٹا کریگا.اور آپ کو اس کے شر سے محفوظ رکھے گا.بے شک اس میں عبدا تحکیم خان کے چودہ ماہ والی درمیانی زمانہ کی پیشگوئی کے بالمقابل خدا تعالی نے آپ کی عمر بڑھا دینے کا ایک الہام میں ذکر کیا تھا.مگر جب حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدا حکیم خان اپنے اس الہام پر قائم ہی نہیں رہا تھا.اور اس نے اپنا جدید الہام پیسہ اخبار ۱۵/ مئی ۱۹۰۸ء میں جو اس کے پہلے الہامات کا ناسخ تھا شائع کرادیا تھا.تو اس کے بعد اس مشروط اور متقابل الہام سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالحکیم خان کی پیشگوئی پوری ہوئی.دیکھئے ڈاکٹر عبدالحکیم خان ایڈیٹر پیسہ اخبار کو لکھتا ہے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مکرم شده میرے الہامات جدیدہ جو مرزا غلام احمد کے متعلق ہیں اپنے اخبار میں شائع فرماکر ممنون فرما دیں.۱- مرزا ۲۱ ساون سمت ۱۹۶۵ ( بحر می سال کو فرض ملک میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جائے گا.۲- مرزا کے کنبہ میں سے ایک بڑی معرکۃ الآراء عورت مر جائے گی.والسلام خاکسار عبدالحکیم خان ایم کی پٹیالہ ۱۸ مئی ۱۹۰۸ء
۳۰۴ پس ڈاکٹر عبدالحکیم خان نے اپنے اس جدید الہام سے اپنے چودہ ماہ میعاد والے الہام اور ، اگست ۱۹۰۸ء تک کی میعاد والے الہام کو منسوخ کر دیا کیونکہ اب اس نے حضرت اقدس کی وفات کی ایک معین تاریخ مقرر کر دی تھی.اس لئے خدا تعالی کے لیے اب ضروری نہ رہا کہ وہ عبدالحکیم کے پہلے چودہ ماہ الہام کے بالمقابل حضرت اقدس کی عمر بڑھانے والے الہام پر عمل کرے.کیونکہ یہ عمر بڑھانے والا الہام ۴ اماہہ میعاد کے مقابلہ میں تھا.جب وہ میعاد قائم نہ رہی تو اذافات الشرط فات المشروط کے مطابق ڈاکٹر عبدا حکیم خاں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے حضرت اقدس کی عمر بڑھانے کی ضرورت بھی نہ رہی.اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے سابقہ الہامات کے مطابق جو آپ اپنے رسالہ الوصیت وغیرہ میں شائع فرما چکے تھے.۲۶ / مئی ۱۹۰۸ء کو وفات دے دی اور ڈاکٹر عبدا حکیم خاں کی پیشگوئی کا جھوٹا ہونا ظاہر کر دیا.عمر بڑھانے کی پیشگوئی میں بھی اصل مقصود شمن کو جھوٹا کر نا بتا یا گیا تھا.جب دشمن نے اپنی پہلی پیشگوئیوں کو آپ منسوخ کر دیا.تو اب دشمن کے جھوٹا کرنے کے لئے یہ امر کافی تھا کہ حضرت اقدس اس کی بیان کردہ معین تاریخ ۲۱ ساؤن سمت ۱۹۶۵ مطابق ۴ ر اگست ۱۹۰ کو وفات نہ پائیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.عبدا حلیم خان خود مانتا ہے کہ اس نے ۱۴ اگست تک والے الہام کو بھی منسوخ کر دیا تھا.چنانچہ اس کا رسالہ اعلان الحق و اتمام الحجہ پڑھیں تو وہ اس کے صفحہ ۱،۱۰ اپر لکھتا ہے.ایک موقعہ پر بے اختیار میری زبان سے یہ بددعا نکلی کہ خدایا اس ظالم کو جلد غارت کر اس لئے ۴ اگست ۱۹۰۸ء مطابق ۲۱ ساون سمت ۱۹۶۵ کی میعاد بھی منسوخ ہو گئی." پس ڈاکٹر عبدا تحکیم خاں کو اوپر کے اعلان میں ۱۴ اگست تک والی پیشگوئی کو منسوخ کرنے کا خود اعتراف ہے.یہ ایسا واضح اعتراف ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب
۳۰۵ معاند احمدیت کو بھی یہ لکھنا پڑا کہ : " ہم خدا لگتی کہنے سے رک نہیں سکتے کہ ڈاکٹر صاحب اگر اسی پر بس کرتے یعنی چوده ما بہ پیشگوئی کر کے مرزا کی موت کی تاریخ مقرر نہ کر دیتے جیسا کہ انہوں نے کیا.چنانچہ ۱۵ مئی کے اہل حدیث میں ان کے الہامات درج ہیں.۲۱ ساون یعنی ۴ اگست کو مر زا مرے گا.تو آج وہ اعتراض نہ ہو تا جو معزز پیسہ اخبار نے ۲۷ کے روزانہ پیسہ اخبار میں ڈاکٹر صاحب کے اس الہام پر چہتا ہوا کیا ہے کہ ۲۱ ساون کو کی جائے ۲۱ ساون تک ہو تا تو خوب ہوتا.غرض سابقہ پیشگوئی سه سالہ اور چودہ ماہہ کو اسی اجمال پر چھوڑے رہتے اور ان کے بعد میعاد کے اندر تاریخ کا تقرر نہ کر دیتے تو آج یہ اعتراض پیدانہ ہوتا.“ اخبار اہل حدیث ۱۲؍ جون ۱۹۰۹ ء صفحہ ۷ ) پس حضرت اقدس کی وفات کا ۲۶ / مئی ۱۹۰۸ء کو اپنی پیشگوئیوں کے مطابق واقع ہو نا ڈاکٹر عبدالحلیم خان کی پیشگوئی کو جھوٹا ثابت کر رہا ہے.حضرت اقدس کو اپنی وفات کے متعلق مندرجہ ذیل الہامات ڈاکٹر عبدالحلیم کی پیشگوئی سے پہلے ہو چکے تھے.مَا تُوعَدُونَ قَرُبَ أَجَلُكَ الْمُقَدَّرُ.قَلَ مِيُعَادُ رَبِّكَ...جَاءَ وَقُتُكَ وَقَرُبَ " " ” تیری اجل مقدر قریب آگئی ہے.تیری نسبت خدا کی میعاد مقررہ تھوڑی رہ گئی اور جو وہ وعدہ کیا گیا وہ قریب ہے.آگے چل کر فرماتے ہیں ” پھر بعد اسکے خدا تعالٰی نے میری وفات کی نسبت اردو زبان میں مندرجہ ذیل کلام کے ساتھ مجھے مخاطب کر کے فرمایا.بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.“ (الوصیت صفحه ۳) -۲ اکتوبر ۱۹۰۵ء میں رویا دیکھا جو انہی دنوں شائع ہو گیا.اس سے ظاہر تھا کہ حضور
کے ایام حیات میں سے دو تین سال باقی رہ گئے ہیں.چنانچہ وہ رویا یہ ہے.ایک کو ری ٹنڈ میں کچھ پانی مجھے دیا گیا ہے.پانی دو تین گھونٹ باقی اس میں رہ گیا ہے.لیکن بہت مصفی اور مقطر بانی ہے.اور اس کے ساتھ الہام ہوا آپ زندگی.(ریویو آف ریلیز دسمبر ۱۹۰۵ء) چنانچہ اس رویاء کے اڑھائی سال بعد آپ کا انتقال ہو گیا.ر یہ رویا اور الہامات بتارہے تھے ۱۹۰۵ء سے حضرت مسیح موعود کی زندگی کے صرف اڑھائی سال باقی رہ گئے ہیں.اور حضور کا جلد وصال ہونے والا ہے.چنانچہ ان الہامات کے مطابق حضور کی وفات لاہور میں ۱۹۰۸ء کو ہوئی.یہ پیشگوئیاں ڈاکٹر عبدالحکیم کی حضرت اقدس کی وفات کے متعلق پیشگوئیوں سے پہلے کی ہیں.معلوم ہوتا ہے انہیں کو دیکھ کر ڈاکٹر عبدالحکیم نے اندازہ کر کے پیشگوئیاں کر دیں تھیں.مگر خدا تعالیٰ نے انہیں جھوٹا کیا.اب کون انصاف پسند ہے جو حضرت اقدس کے ان الہامات اور ہمارے سارے بیان کو پڑھنے کے بعد آپ کی وفات کو ڈاکٹر عبدا تحکیم خاں کی کسی نام نہاد پیشگوئی کا نتیجہ قرار دے سکے.جبکہ ڈاکٹر عبدا حلیم خود اپنی پیشگوئیوں کو یکے بعد دیگرے منسوخ کر چکا تھا.اور اس کی آخری پیشگوئی کہ آپ کی وفات ۴ اگست ۱۹۰۸ کو ہو گی صاف جھوٹی نکلی ہے.پس حضرت اقدس کی الہامی دعارَبَ فَرِّقُ بَيْنَ صَادِقٍ و كاذب پوری ہو گئی اور خدا تعالیٰ نے ڈاکٹر عبدا حکیم خان کی جھوٹی پیشگوئیوں کا پول کھول دیا اور اسے مغلوب کر دیا.اور بعد میں سل کی بیماری میں مبتلا کر کے اسے ہلاک کر دیا فاعتبروایا اولی الابصار.
فهم قرآن خدا تعصب اور عناد کا برا کرے.جب یہ کسی دل میں پیدا ہو جاتا ہے تو اسے مخالف کی خوبیاں نظر نہیں آتیں بلکہ خوبیاں بھی عیب ہی دکھائی دیتی ہیں.اس تعصب اور عناد کے جذبہ سے سر شار ہو کر برقی صاحب لکھتے ہیں :- " جناب مر از صاحب کی بہتر تصانیف میں ان تین چار آیات نبوت کے بغیر قرآن کا کوئی نظریہ یا کوئی اور آیت زیر بحث نہیں آئی جس سے ہم اندازہ لگا سکتے کہ قرآن کے متعلق آپ کا علم کیا اور کتنا ہے ہاں ضمنا دو چار آیات ضرور آئیں.لیکن وہ کسی فیصلہ تک پہنچانے کے لئے ناکافی تھیں.(حرف محرمانہ صفحہ ۲۳۴٬۲۳۳) افسوس ہے کہ برق صاحب نے وہ دوچار آیات بھی پیش کرنے کی تکلیف گوارا نہیں فرمائی.برقی صاحب کا یہ بیان سراسر دروغ بے فروغ ہے کہ حضرت اقدس کی کتب میں صرف دو چار آیات زیر بحث آئی ہیں اور ان سے بھی آپ کے مبلغ علم کا اندازہ نہیں ہو سکتا.ان کا ایسا کرنا تعصب کی انتہا ہے ورنہ حضرت اقدس نے سینکڑوں آیات قرآنیہ کی تفسیر کر کے دشمنان اسلام کو منہ توڑ جواب دیا ہے.کتاب آئینہ کمالات اسلام و اسلامی اصول کی فلاسفی اور بر امین احمدیہ حصہ پنجم اور چشمہ معرفت وغیرہ کا مطالعہ ہی اس بات کے لئے کافی سے بڑھ کر گواہ ہے.آپ نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں پانچ مشکل سوالوں کے جواب میں جو تقریر تحریر فرمائی تھی اس کے سننے والے اور اس پر تبصرہ کرنے والے اس کی تعریف میں از حدر طب اللسان رہے ہیں مگر افسوس ہے کہ برق صاحب کی آنکھیں حضرت اقدس کے تفسیری کمالات کو سمجھنے کی طرف سے بند ہیں.وہ براہین احمدیہ کے ذکر میں اپنی کتاب کے صفحہ ۲۳۴ پر لکھتے ہیں :-
۳۰۸ اس کے بعد علمی حصہ آتا ہے.جس کی زبان اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ بار بار پڑھنے سے بھی کچھ پلے نہیں پڑتا.تصوف و منطق کی اصطلاحات کا استعمال کچھ اس طریق سے ہوا ہے کہ ان اصطلاحات کا عالم بھی گھبراجائے.“ اس کے بعد انہوں نے براہین احمدیہ سے تین اقتباسات اپنے اس خیال باطل کے ثبوت میں پیش کئے ہیں.پیشتر اس کے کہ میں وہ اقتباسات اپنے ناظرین کتاب کے سامنے رکھوں یہ بتانا ضروری ہے کہ براہین احمدیہ ایک علمی رنگ کی کتاب ہے.اور یہ ان علماء مذاہب کی خاطر لکھی گئی ہے جنہیں قرآن کریم کی حقیقت اور حقانیت پر اعتراض تھا.غالباً اس زمانہ کے لٹریچر میں سے مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے آریوں کے مقابلہ میں بیانات اور مسلمان علماء سے مباحثات برق صاحب کی نظر سے نہیں گزرے.اگر وہ ان کی نظر سے گزرتے تو پھر وہ حضرت مسیح موعود کی ان عبارات کو کبھی بصورت اعتراض پیش نہ کرتے.ان عبارات کے متعلق برق صاحب کا یہ بیان کہ ان کی زبان اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ بار بار پڑھنے سے بھی کچھ پلے نہیں پڑتا سر اسر تعصب کا کر شمہ ہے.ان کا پیش کردہ اقتباس اول یہ ہے :- اور یہ اصول عام جو ہر یک صادر من اللہ سے متعلق ہے دو طور سے علامت ہوتا ہے اول قیاس سے ! کیونکہ از روئے قیاس صحیح و مستحکم کے خدا کا اپنی ذات اور صفات اور افعال میں واحد لاشریک ہو نا ضروری ہے اور اس کی کسی صنعت یا قول یا فعل میں شراکت مخلوق کی جائز نہیں.(براہین احمدیہ حصہ دوم صفحه ۱۴۶ طبع اول) اس عبارت میں جس اصول عام کا ذکر موجود ہے اس کی تفصیل اس عبارت " سے پہلے صفحہ ۱۴۶۱۴۵ پر یوں درج ہے :- جو چیز محض قدرت کا ملہ خدا تعالیٰ سے ظہور پذیر ہو.خواہ وہ چیز اس کی
مخلوقات میں سے کوئی مخلوق ہو.اور خواہ وہ اس کی پاک کتابوں میں سے کوئی کتاب ہو جو لفظ اور معنا اس کی طرف سے صادر ہو اس کا اس صفت سے متصف ہونا ضروری ہے کہ کوئی مخلوق اس کی مثل بنانے پر قادر نہ ہو." اس کے بعد برق صاحب کی پیش کردہ عبارت ہے.پہلی عبارت میں یہ بیان ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ سے صدور پانے والی شئی کے مثل لانے پر کوئی شخص مخلوق میں سے قادر نہیں ہو سکتا.اس کے بعد اگلی عبارت میں جو برق صاحب نے پیش کی ہے فرماتے ہیں کہ یہ اصول عام ( یعنی خدا سے صادر شدہ چیز کے بنانے پر مخلوق میں سے کسی کا قادر نہ ہونا ایک عام اصول ہے) جو خدا کی ہر مخلوق شنی پر منطبق ہوتا ہے.پھر فرماتے ہیں اس عام اصول کا ثبوت دو طور سے ملتا ہے.اور پھر پہلا طریق اس کا قیاس بتاتے ہیں اور تحریر فرماتے ہیں کہ صحیح اور مستحکم قیاس کی رو سے خدا کا اپنی ذات میں بھی لا شریک ہونا ضروری ہے.اور صفات و افعال میں بھی اور اس کی کسی صفت یا قول یا فعل میں کوئی مخلوق شریک نہیں ہو سکتی.یہ مضمون ایسا صاف اور واضح ہے کہ بجز کو دن اور غیبی کے ہر چھا اردو دان اس عبارت سے اس مفہوم کو اخذ کر سکتا ہے.پس اس مفہوم کو سمجھانے کے لحاظ سے عبارت زیر بحث میں کوئی الجھاؤ موجود نہیں صرف قیاس کا لفظ ایک منطقی اصطلاح ہے.کیونکہ یہ تقریر آریوں وغیرہ کے بالمقابل لکھی گئی اور ان کی نعشیں بھی چونکہ منطقیانہ اور فلسفیانہ ہوتی تھیں.اس لئے یہ منطقی اصطلاح استعمال کی گئی.اس کے بعد اس قیاس پر دلیل قائم کی گئی ہے جس کا برق صاحب نے ذکر نہیں فرمایا.چنانچہ حضرت اقدس فرماتے ہیں :- دلیل اس پر یہ ہے کہ اس کی کسی صنعت یا قول یا فعل میں شراکت مخلوق کی جائز ہو تو البتہ پھر سب افعال اور صفات میں جائز ہو اور اگر سب صفات را فعال میں
جائز ہو تو پھر کوئی دوسرا خدا پیدا ہونا بھی جائز ہو کیونکہ جس چیز میں تمام صفات خدا کی پائی جائیں اس کا نام خدا ہے.اور اگر کسی چیز میں بعض صفات باری تعالٰی کی پائی جائیں تب بھی وہ بعض میں شریک باری تعالیٰ کے ہوئے.اور شریک الباری بہ ہدایت عقل ممتنع ہے.پس اس دلیل سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ کا اپنی تمام صفات اور اقوال اور افعال میں واحد لاشریک نہو نا ضروری ہے.“ اس کے بعد کی عبارت وہ دوسرا اقتباس ہے جو برق صاحب نے درمیان سے عبارت چھوڑ کر پیش کیا ہے تا عبارت الجھ جائے اصل عبارت یہ ہے :- اور ذات اس کی تمام نالائق امور سے متنزہ ہے جو شریک الہاری پیدا ہونے کی طرف منجر ہوں.دوسرا ثبوت اس دعویٰ کا استقراء تام سے ہوتا ہے.جوان سب چیزوں پر جو صادر من اللہ ہیں نظر تقدیر کر کے بیا بہ صحت پہنچ گیا ہے." اس کے بعد کی عبارت یہ ہے جو برق صاحب نے پیش نہیں کی.کیونکہ تمام جزئیات عالم جو خدا کی قدرت کاملہ سے ظہور پذیر ہیں جب ہم ہر ایک کو ان میں عمیق نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اعلیٰ سے ادنی تک بعد یکہ حقیر سے حقیر چیزوں کو جیسے مکھی اور مچھر اور عنکبوت وغیرہ ہیں خیال میں لاتے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی ایسی چیز ہم کو معلوم نہیں ہوتی جن کے بنانے پر انسان بھی قدرت رکھتا ہو.“ یہ عبارت بھی اپنے مفہوم میں واضح ہے.اس میں کوئی الجھاؤ موجود نہیں اس میں ثبوت کے دوسرے طریق کا نام استقرائے نام بتایا گیا ہے.یہ بے شک منطقی اصطلاح ہے.مگر حضور نے اس کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اس عبارت سے استقرائے تام کی حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے.عبارت سے ظاہر ہے کہ استقرائے تام کی صورت اس جگہ یوں بتائی ہے کہ دنیا کی تمام چیزوں پر اعلیٰ سے ادنی تک نظر کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایسی چیز ہم کو معلوم نہیں ہوتی جس کے
٣١١ بنانے پر انسان قدرت رکھتا ہو.اب یہ عبارت بھی اپنے مفہوم میں صاف ہے کہ منطق کی دلیل استقرائے نام سے یہ ثابت ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ سے صادر ہو اس کے بنانے پر کوئی بھر قادر نہیں ہو سکتا.کیونکہ دنیا کی تمام جزئیات پر نظر کر کے ہم اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں.ہاں اوپر کی عبارت میں متنزہ اور منجر کے الفاظ عربی ہیں مگر وہ عبارت میں اس طرح ترتیب دیئے گئے ہیں کہ بادنی تامل ان کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے.چنانچہ یہ فقرہ کہ ذات اس کی ان تمام نالائق امور سے متنزہ ہے سے صافہ، ظاہر ہے کہ اس جگہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ خدا کی ذات نالائق باتوں سے پاک ہے اور آگے نالائق امور یہ بیان کئے گئے ہیں جو شریک باری پیدا کرنے کی طرف منجر " ہوں.یعنی جن کو مان کر خدا کا کوئی شریک ماننا پڑے.66 " تیسرا اقتباس براہین احمدیہ حصہ دوم حاشیہ نمبر 11 صفحہ ۷۱ اطبع اول سے برق صاحب یوں پیش کرتے ہیں.“ عیسائیوں کا قول ہے کہ صرف مسیح کو خدا ماننے سے انسان کی فطرت متقلب ہو جاتی ہے اور گو کیسا ہی کوئی من حيث الخلقت قوائے سبعیہ یا قوائے شہویہ کا مغلوب ہو یا قوت عقلیہ میں ضعیف ہو وہ فقط حضرت عیسی کو خدا کا اکلوتا بیٹا کہنے سے اپنی جیلی حالت چھوڑ بیٹھتا ہے.“ یہ عبارت بھی اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ میسیج کو خدا ماننے سے انسان کی فطرت بدل جاتی ہے.یہ مضمون اس عبارت سے نہایت آسانی سے تھوڑا سا علم رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے اس موقع پر حضرت مسیح موعود نے اسلام کے اس نظریہ کو کہ فطرت تبدیل نہیں ہو سکتی قرآن کریم کی آیت فِطرَتَ اللهِ الَّتِي فطرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ (الروم : ۳۱) سے پیش کیا ہے اور ذیل کی آیات
۳۱۲ قرآنیہ کی رو سے اس پر مبسوط بحث کی ہے وہ آیات یہ ہیں.دود ا فَمِنْهُمْ ظَالِمُ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سَابِقُ بِالْخَيرَتِ (فاطر :۳۳) ٢- فَا لَهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوهَا.(الشمس : ٩) ٣ - وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءٍ أَوْ يَظْلِمُ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا - (النساء : ااا) مگر برق صاحب کو حضرت صاحب کی بہتر (۷۲) کتابوں میں صرف دو تین آئی نظر آئی ہیں وہ بھی بقول انکے مبلغ علم کا اندازہ لگانے کے لئے ناکافی ہیں.اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھتے تو صفحہ اے کے ذیل میں ہی جو حاشیہ ہے اس میں اوپر کی تین آئیں زیر بحث لا کر ان سے انسانی فطرت کی حقیقت پر قرآن شریف کی رو سے روشنی ڈالی گئی ہے.پھر اس کے بعد سورہ نور کی آیت الله نُورِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ کی لطیف تغییر پیش کی گئی ہے اور مثل نُورہ گمشکوۃ کی حقیقت کو آنحضرت ملے کے وجود کے ذریعہ ثابت کیا ہے یہ مضمون بھی طالبان بصیرت کے لئے پر از معرفت ہے.اسی طرح خود براہین احمدیہ میں بیسوں آیات کی تفسیر موجود ہے صفحہ ۴۲۷ پر توحید کے بارہ میں وید کی شرتیوں کے مقابلہ میں جن میں شرک کی تعلیم دی گئی ہے آیات قرآنیہ سے توحید الہی کا مضمون بیان کیا گیا ہے.پس برق صاحب کی یہ کس قدر تنگ دلی ہے کہ بجائے اس کے کہ ان کا دل شکریہ کے جذبات سے بند ہو تا کہ ایک مرد مجاہد نے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے وجود میں اسلام کی بے نظیر مدافعت کر کے ایک عظیم الشان خدمت سر انجام دی.اور اسلام کی لاج رکھ لی ہے.وہ الٹا آپ کو کوس رہے ہیں کہ آپ کی کتابوں میں کوئی علم قرآن موجود نہیں.اور اپنی کتاب کا نام حرف محرمانہ رکھتے ہیں جو دراصل حرف مجرمانہ کہلانے کی مستحق ہے.
٣١٣ ترجمہ و تفسیر پر اعتراضات کے جوابات اول : برق صاحب لکھتے ہیں کہ قرآن میں بار بار ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کسی ایک جہت میں مقید نہیں بلکہ أَيْنَمَا تُوَلُّوا فَقَمْ وَجْهُ اللهِ.(البقرہ : ۱۱۶) ( تم جدہر بھی منہ پھیر و گے اللہ کو سامنے پاؤ گے).لیکن جناب مرزا صاحب اسی آیت کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں." جدھر تیرا منہ خدا کا اسی طرف منہ ہے." ( تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۴۹) برق صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ اس ترجمہ سے خدا تعالیٰ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے کہ تو جدھر منہ پھیرے خدا بھی ادھر منہ پھیر لیتا ہے.اور دوسرا اعتراض الجواب تو لواجمع کا صیغہ ہے اور مرزا صاحب اسے واحد بنا کر معنی کرتے ہیں.(حرف محرمانه صفحه ۲۳۷) بے شک " أَيْنَمَا تُوَلُّوا فَتَم وَجهُ اللهِ" قرآن شریف کی ایک آیت ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اس سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی جہت میں مقید نہیں.مگر اس سے بڑھ کر بھی کئی اور امور اس وحی الہی سے مستنبط ہوتے ہیں.اگر اس آیت کا یہ لفظی ترجمہ کیا جائے کہ تم لوگ ( مومنین) جدھر منہ پھیرو پس اسی طرف اللہ کا منہ ہے.تو برق صاحب کو اس لفظی ترجمہ پر کوئی اعتراض کا حق نہیں ہو سکتا.برق صاحب کے ترجمہ میں اللہ کو سامنے پاؤ گے “ کے الفاظ میں فَثَمَّ وَجُهُ اللهِ کی صرف ایک تفسیر بیان ہوئی ہے.مگر یہ ترجمہ نہیں ہے لفظی ترجمہ ملاحظہ ہو آئینما.جدھر - تولوا.تم منہ پھیرو ف.پی.ہم اسی جگہ یا اسی طرف.وجہ.چہرہ یامنہ اللہ اللہ تعالی.پس لفظی ترجمہ یہ ہوا کہ تم مومنین جدھر منہ پھیرو گے اسی طرف خدا کا
۳۱۴ منہ ہے اور جو کسی کے سامنے ہو کیا اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس کا منہ اس کی طرف ہے غلط ہو گا ؟ برق صاحب نے جس امر پر اعتراض کیا ہے وہ دراصل آیت قرآنیہ نہیں بلکہ تبلیغ رسالت کی متحولہ عبارت کو پڑھنے سے ہر شخص اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ یہ عبارت حضرت اقدس پر ایک خاص سیاق میں بطور الہام نازل ہوئی ہے.اور اس کے سیاق میں یہ الہام ہے " مَا كَانَ اللهُ لِيُعَدِ بَهُمُ وَأَنتَ فيهم " اور اس سے ملحق یہ الہام ہوا ہے."أَيْنَمَا تَوَ أَوَافَقَمْ وَجَهُ اللهِ "اور اس الہام کے پہلے حصہ میں آپ نے سلطنت بر طانیہ کے متعلق ایک پیشگوئی بتائی ہے.کہ میری موجودگی میں اس پر عذاب نہیں آئے گا.اور آيْنَمَا تُوَلُّوا فَتَمَّ وَحَهُ الله کی یہ تفسیر بیان فرمائی ہے کہ گورنمنٹ کے اقبال اور شوکت میں تیرے وجود اور تیری دعا کا اثر ہے.اور اس کی فتوحات تیرے سبب سے ہیں.کیونکہ جدھر تیرا منہ ادھر خدا کا منہ ہے.صاف ہے کہ حضرت اقدس نے اپنے الہام کو اپنے اوپر چسپاں کرتے ہوئے اس جگہ اس کی تشریح بیان فرمائی ہے.الہام میں بیشک تولوا جمع کا صیغہ ہے اور اس میں ذکر جماعت احمدیہ اور اس کے بانی کا ہے.چونکہ اس موقع پر حضرت اقدس کو صرف اپنا تعلق گورنمنٹ سے بتانا تھا.کہ آپ باغی نہیں بلکہ اس پر امن سلطنت کے ظل حمایت میں خوش ہیں اور اس کے لئے اپنے الہام کے مطابق دعا میں مشغول ہیں لہذا ” جدھر تیرا منہ ادھر خدا کا منہ ہے.“ سے مراد یہ ہوئی کہ آپ کی دعائیں خصوصیت سے سنی جاتی ہیں.اور قرآن کی آیت کا بھی صرف یہی مفہوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کسی جہت میں مقید نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مومن جدھر بھی متوجہ ہوں گے خدا انہیں کامیابی دے گا.خدا کا منہ ادھر ہونے سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنے گا.اور انہیں فتوحات دے گا.اور ان کی تائید و نصرت فرمائے گا.
۳۱۵ برق صاحب نے اس کا صرف ایک پہلو ہی سمجھا ہے کہ خدا کسی ایک جہت میں مقید نہیں.اس کا نام تغییر دانی نہیں پھر جدھر تمہارا منہ خدا کا منہ اسی طرف ہے میں خدا تعالیٰ کی توہین کا کوئی پہلو نہیں نکلتا.اگر اس میں توہین کا کوئی پہلو ہوتا تو پھر خدا تعالى قم وَحُهُ الله کے الفاظ استعمال ہی نہ کرتا.جن کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اسی طرف خدا کا منہ ہے.اس میں تو مومنوں کو امید دلائی گئی ہے کہ جدھر وہ متوجہ ہوں گے ادھر خدا متوجہ ہو کر انہیں فتوحات دے گا.اس میں خدا تعالی کی تحقیر کا کوئی پہلو نہیں نکلتا بلکہ اس کی عظمت کا پہلو نمایاں ہے کہ مومن اس کی مدد کو پائیں گے.اور اس کی مدد سے ان کے سب کام بن جائیں گے.بشر طیکہ وہ خدا کی طرف متوجہ ہوں اور دعاؤں میں لگے رہیں اور کامیابیوں کی راہوں پر گامزن رہیں.جمع کے صیغہ سے واحد کے لئے استنباط یا واحد کے خطاب کو جمع کے لئے سمجھنا کس فقہ کی رو سے ناجائز ہے.جب ایک آیت ایک جماعت کے حق میں ہو تو وہ اس جماعت کے بانی کے حق میں تو بدرجہ اولی ہو گی اس لئے بائی سلسلہ یا جماعت اگر کسی وقت اس الہام کو اپنی ذات پر چسپاں کر کے دکھائے تو یہ امر جائز ہو گا.اور ہر گز قابل اعتراض نہیں ہو گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کو جماعت کے شامل حال قرار دیا گیا ہو.تو وہ تائید و نصرت بانی سلسلہ کے لئے بدرجہ اولی ہو گی.کیا انتم الاعلونَ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران :۱۳۰) الله سے یہ استنباط جائز نہیں کہ خدا تعالی یہ پیشگوئی فرمارہا ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے دشمنوں پر غالب آئیں گے.حالانکہ آیت میں سب جمع کے صیغے استعمال ہوئے ہیں.اعتراض دوم برق صاحب لکھتے ہیں :- " قرآن کریم میں حضور علیہ السلام کے کئی غزوات کا ذکر موجود ہے.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۳۶)
۳۱۶ اس کے بعد آپ نے جنگ بدر سے متعلقہ آیت پیش کی ہے.اور پھر یہ آیت پیش کی ہے کہ خدا نے بہت سے میدانوں میں تمہاری مدد کی ہے اور اس سلسلہ میں جنگ حنین کا ذکر کیا ہے اس کے بعد جنگ احزاب سے تعلق رکھنے والی آیت درج کی ہے اور پھر لکھا ہے.اسی طرح باقی جنگوں کی تفصال بھی قرآن میں درج ہے.لیکن ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہتی جب جناب مرزاصہ تب کا یہ قول پڑھتے ہیں.“ آحضرت عہ کا بعد بعثت دس سال تک مکہ میں رہنا اور پھر وہ تمام لڑائیاں ہونا جن کا قرآن کریم میں نام و نشان نہیں." ( بحواله شهادت القرآن صفحه ۴ حرف محرمانه صفحه ۲۳۸) اس اعتراض میں برق صاحب نے سراسر کج ضمی سے کام لیا ہے.ان کو یہ اعتراض اس لئے سوجھا ہے کہ ان کے خیال میں اسی طرح باقی جنگوں کی تفصیل بھی قرآن میں درج ہے.اس غلط خیال کو صحیح سمجھتے ہوئے وہ حیران ہیں کہ قرآن مجید میں باقی غزوات کا ذکر موجود ہونے کے باوجود حضرت مرزا صاحب نے یہ فقرہ کیوں لکھ دیا.پھر وہ تمام لڑائیاں ہوا جن کا قرآن کریم میں نام و نشان نہیں.“برق صاحب کار ھوئی یہ ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں کوئی عبارت قطع وبرید کر کے یا اس کا مفہوم گاڑ کر پیش نہیں کی.لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے متعدد مقامات پر دیانت کا خون کیا ہے.چنانچہ یہ عبارت بھی انہوں نے سیاق سے قطع کر کے پیش کی ہے اس عبارت میں تمام لڑائیوں سے مراد دو لڑائیاں ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں موجود نہیں بلکہ ان کا ذکر صرف حدیثوں میں ملتا ہے جس جگہ سے یہ عبارت برق صاحب نے لی ہے اس جگہ حضرت اقدس حدیثوں کی اہمیت بیان فرمارہے ہیں.میں آگے اور پیچھے کی
۳۱۷ عبارت مع محولہ عبارت اس جگہ درج کر دیتا ہوں تا کہ ناظرین کرام برق صاحب کی دیانت کا اندازہ لگا سکیں.حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- علاوہ اس کے اسلامی تاریخ کا مید او اور منبع یہی احادیث ہی ہیں اگر احادیث کے بیان پر بھروسہ نہ کیا جائے تو پھر ہمیں اس بات کو بھی یقینی طور پر نہیں مانا چاہیئے کہ در حقیقت حضرت ابو بکر ، اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان اور حضرت علیؓ آنحضرت صلى الله کے صحابہ تھے جن کو بعد وفات آنحضرت علیہ اسی ترتیب سے خلافت ملی.اور اسی ترتیب سے ان کی موت بھی ہوئی کیونکہ اگر احادیث کے بیان پر اعتبار نہ کیا جاوے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان بزرگوں کے وجود کو یقینی کہہ سکیں اور اس صورت میں ممکن ہو گا کہ تمام نام فرضی ہوں.اور دراصل نہ کوئی ابو بحر گذرا ہو نہ عمر نہ عثمان نہ علی کیونکہ بقول میاں عطا محمد معترض یہ سب احادیث احاد ہیں اور قرآن میں ان ناموں کا کہیں ذکر نہیں پھر ہمو جب اس اصول کے کیونکر تسلیم کی جائیں.ایسا ہی آنحضرت ﷺ کے والد کا نام عبد اللہ اور والدہ کا نام آمنہ اور دادا کا نام عبد المطلب ہونا اور پھر آنحضرت ﷺ کی بیویوں میں سے ایک کا نام خدیجہ ایک کا نام عائشہ اور ایک کا نام حصہ ہونا اور دایہ کا نام حلیمہ ہونا اور غار حراء میں جاکر آنحضرت ﷺ کا عبادت کرنا اور بعض صحابہ کا حبشہ کی طرف ہجرت کرنا اور آنحضرت مے کا بعد بعثت دس سال تک مکہ میں رہنا اور پھر وہ تمام لڑائیاں ہونا جن کا قرآن کریم میں نام و نشان نہیں اور صرف حدیث سے یہ تمام امور ثابت ہوتے ہیں تو کیا ان تمام واقعات سے اس بناء پر انکار کر دیا جائے کہ احادیث کچھ چیز نہیں.الخ (شهادة القرآن صفحه ۴،۳) اس سیاق سے ظاہر ہے کہ اس جگہ صرف ان لڑائیوں اور واقعات کا ذکر ہے جن کی تفصیل قرآن مجید میں موجود نہیں اور ان کی تفصیل کا علم بلکہ ان کے ناموں رض
۳۱۸ کا ذکر بھی احادیث سے معلوم ہوتا ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ احادیث کچھ کم اہمیت رکھنے والی بشی نہیں کیونکہ احادیث کا انکار کرنے سے اسلام کی بہت سی عظیم الشان تاریخ بہا تجھ سے جاتی رہے گی.چونکہ برق صاحب دراصل منکر حدیث ہیں اس لئے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ جو جنگیں آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہو ئیں.ان سب کی تفصیل قرآن کریم میں درج ہے.یعنی اتنی ہی جنگیں ہوئی ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں ہوا.گویا ان کے نزد یک آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں صرف وہی تین چار جنگیں ہوئیں ہیں جن کا ذکریا ان کی کچھ تفصیل قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے.اب ہر اہل علم اس سے برقی صاحب کے اعتراض کی رکاکت آسانی سے سمجھ سکتا ہے.ہمیں ان کے جواب کے لئے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.اب جناب برق صاحب فرمائیں کہ انہوں نے جو یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ منشائے محکم کو نظر انداز کر کے کوئی عبارت پیش نہیں کر رہے وہ خود ہی اس موقعہ پر دیکھ لیں کہ وہ اپنے اس دعوئی میں کہاں تک بچے ہیں.ہم خودان سے ہی داد خواہ ہیں.ایک اور اعتراض ایک اور اعتراض بلا نمبر کیا گیا ہے برق صاحب آیت قرآنیہ "إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِع - فَإِذَا النُّحُومُ طَمِسَتْ وَإِذَا السَّمَاءُ فُرحَتْ وَإِذَا الجِبَالُ نُسِقَت وَإِذَا الرُّسُلُ أَقْنَتَ لِأَي يَوْمٍ أُجَلَت لِيَوم الفصل - (المرسلت: ۸ تا ۱۳) پیش کر کے لکھتے ہیں یہ آیات قیامت کے ذکر سے شروع ہو کر قیامت پر ہی ختم ہوتی ہیں.درمیان میں علامات قیامت کا ذکر ہے جن میں ایک یہ ہے کہ اس روز انبیاء ایک خاص وقت پہ میدان محشر میں حاضر ہوں گے اور ان کے مقدمات پر غور ہو گا.لیکن جناب مرزا صاحب وَ إِذَا الرمل أقنت کا ترجمہ یہ فرماتے ہیں اور جب رسول وقت
٣١٩ مقررہ پر لائے جائیں گے.اور یہ اشارہ در اصل مسیح موعود کے آنے کی طرف ہے.اس پر برق صاحب لکھتے ہیں :- (شهادة القرآن صفحه ۲۴) مسیح موعود کی طرف اشارہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ الرسل جمع ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ یہ ہے کہ امت محمدیہ میں صرف ایک رسول پیدا ہوا.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۴۰) اس آیت کی تفسیر میں برق صاحب کو اتنا تو مسلم ہے کہ اِذَا الرُّسُلُ أَقتَتُ قیامت کی علامات میں سے ہے.مگر ایسا کہنے کے بعد پھر اس کو حشر کے دن پر لگا دیتے ہیں.ان کی یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی.کیونکہ علامات قیامت ان امور کو قرار دیا جاتا ہے جو قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی ہوں نہ کہ قیامت کے دن.پس فرق صرف اتنا رہ گیا کہ حضرت مسیح موعود اس آیت کو واقعی قیامت کی علامت سمجھتے ہیں.اور برق صاحب اسے قیامت کی علامات قرار دینے کے باوجود بلاوجہ حشر پر چسپاں کر رہے ہیں.لہذا اگر ان پر واحد کیلئے جمع کے استعمال کا مسئلہ حل ہو جائے.تو پھر انہیں اس آیت کے مسیح موعود سے متعلق ہونے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے.سو واضح ہو کہ واحد و جمع کا مسئلہ اس جگہ شہادۃ القرآن میں خود حضرت مسیح موعود نے حل فرما دیا ہے.چنانچہ برق صاحب کی پیش کردہ عبارت سے آگے حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- یادر ہے کہ کلام اللہ میں رسل کا لفظ واحد پر بھی اطلاق پاتا ہے اور غیر رسول
۳۲۰ پر بھی اطلاق پاتا ہے.اور یہ میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ اکثر قرآن کریم کی آیات کئی وجوہ کی جامع ہیں جیسا کہ یہ احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے لئے ظاہر بھی ہے اور بکن بھی.پس اگر رسول قیامت کے میدان میں بھی شہادت کے لئے جمع ہوں توامنا و صدقنا لیکن اس مقام میں جو آخری زمانہ کی اکثر علامات بیان فرما کر پھر آخیر پر یہ بھی فرما دیا کہ اس وقت رسول وقت مقرر پر لائے جائیں گے تو قرائن ہینہ صاف طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس ظلمت کے کمال کے بعد خدا تعالیٰ کسی اپنے مرسل کو بھیجے گا.تا مختلف قوموں کا فیصلہ ہو چونکہ قرآن شریف سے ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ظلمت عیسائیوں کی طرف سے ہو گی.تو ایسا مامور من اللہ بلا شبہ انہی کی دعوت کے ،، لئے اور انہی کے فیصلہ کے لئے آئیگا پس اسی مناسبت سے اس کا نام عیسی رکھا گیا.“ (شهادة القرآن صفحه ۲۴) برق صاحب نے جب یہ مضمون پڑھا ہے تو پھر انہیں اگر رسل کے معلمی پر اعتراض تھا تو انہیں ہم سے صرف یہ سوال کرنا چاہیئے تھا کہ کلام اللہ میں رسل کا لفظ واحد کے لئے کہاں استعمال ہوا ہے ؟ یہ سوال کرنے میں وہ حق جانب قرار دئے جاسکتے تھے.سو واضح ہو کہ برق صاحب سورۃ الشعراء کا مطالعہ کر کے دیکھیں جس میں مندرجہ ذیل آیات موجود ہیں :- - ا: - كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ إِذْ قَالَ لَهُمُ أَعُوهُمْ نُوح الا تقون إلى لكُم تَتَّقُونَ إِنِّي رَسُولُ أَمِينٌ (۱۰۶ تا ۱۰۸) ۲ - كَذَّبَتْ عَادُ الْمُرْسَلِينَ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودُ اَلَا تَتَّقُونَ إِنِّي لَكُمْ رَسُولُ آمِينَ (۱۲۴ تا ۱۲۶) : كَذَبَتْ ثَمُودُ المُرْسَلِينَ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَالِحٌ أَلَا تَتَّقُونَ إِنِّي لَكُمْ رَسُولُ امين - (۱۴۲ تا ۱۴۴)
٣٢١ : كَذَّبَت قَوْمُ لُوطٍ المُرْسَلِينَ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَعُوهُمْ لَوْطٌ أَلا تَتَّقُونَ إِلى لَكُمْ رَسُولُ آمِينٌ (۱۶۱ تا ۱۶۳) : - كَذَّبَتْ أَصْحَابُ التِّيكَةِ الْمُرْسَلِينَ إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ إِنِّي لَكُمْ رَسُولُ آمِينُ.(۱۷۷ تا ۱۷۹) ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت نوح ، حضرت خود، حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام کے منکرین کو صرف ایک ایک رسول کے انکار پر المرسلین کا انکار کرنے والے قرار دیا گیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے زمانہ میں ان میں سے ہر ایک رسول اپنے سے پہلے رسولوں کا قائمقام تھا اس لئے اس کے انکار کو صرف ایک رسول کا انکار قرار نہیں دیا گیا.بلکہ تمام رسولوں کا انکار قرار دیا ہے.اسی طرح آیت زیر بحث اذا الرسل أققت میں مسیح موعود کو آنحضرت ﷺ کے بروز کامل الرُّسُلُ ہونے کی وجہ سے الرسل کا قا ئمقام قرار دیا گیا ہے.کیونکہ رسول کریم نے تمام انبیاء کے کمالات کے جامع تھے اس لئے آپ کو خاتم النبیین قرار دیا گیا.جس کے مفہوم کا ایک پہلو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ میں انبیاء کے تمام کمالات موجود تھے اور اس ایک نبی کی آمد تمام نبیوں کی آمد کے مترادف تھی.چونکہ مسیح موعود آنحضرت ﷺ کا خلیفہ ہے اور امتی رسول بھی اس لئے اس کو اذا الرُّسُلُ أَقتَتُ میں تمام رسولوں کا قا ئمقام قرار دیا گیا ہے.کیونکہ جس عظیم الشان نبی کے ماتحت وہ امتی رسول ہے وہ تمام انبیاء کے کمالات کے جامع اور ان کے قائمقام اور سردار ہیں.اور یہ ان کا مظہر ہے.( اللهم صلي على محمد و علی آل محمد فتدبر ولا تكن من المكابرين) اعتراض سوم برق صاحب لکھتے ہیں کہ :-
۳۲۲ علامات قیامت میں سے ایک علامت نفخ صور ہے ونُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ الأَمَاشَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامُ يَنْظُرُونَ 66 (الزمر : ٢٩) اس کا ترجمہ برق صاحب یہ لکھتے ہیں کہ :- ” جب وہ قرنا پھونکی جائے گی تو ساکنان ارض و سماء کی چیخیں نکل جائیں گی الاماشاء اللہ اور جب دوسری مرتبہ پھونکی جائے گی تو لوگ قبروں سے نکل کر ادھر ادھر دیکھنے لگیں گے.“ پھر لکھتے ہیں کہ اس آیت کے متعلق مرزا صاحب کا ارشاد یہ ہے کہ :- " قرنا سے مراد مسیح موعود ہے." (شهادة القرآن صفحه ۲۵) آگے لکھتے ہیں :- بہت اچھا مسیح موعود سی پہلی پھونک پر اہل زمین و آسمان کے شیخ اٹھنے اور دوسرے پر مردوں کے جی اٹھنے سے کیا مر دا ہے ؟“ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ( یعنی حضرت مرزا صاحب) کہ :- آخری دنوں میں سود زمانے آئیں گے ایک ضلالت کا زمانہ اور اس میں ہر ایک زمینی اور آسمانی یعنی شقی اور سعید پر غفلت سی طاری ہو جائے گی.پھر دوسر ازمانہ ہدایت کا آئے گا.پس نا کہ لوگ کھڑے ہو جائیں گے.(شمادة القرآن صفحہ ۲۶) اس اقتباس کے درمیان برق صاحب خطوط وحدانیہ کے درمیان یہ نوٹ دیتے ہیں :- لیکن قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ پہلی پھونک پر اہل زمین و آسمان کی فریاد میں نکل جائیں گی.اور آپ فرماتے ہیں کہ غفلت سی طاری ہو گی یہ غفلت اور تین کا آپس میں کیا تعلق ؟ غفلت میں تو نیند آتی ہے نہ کہ چینیں نکلتی ہیں.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۴۱)
۳۲۳ برق صاحب کا اعتراض ان آخری الفاظ سے واضح ہے کہ آپ کو صرف لفظ صعق کے معنوں پر اعتراض ہے.برقی صاحب کے نزدیک اس کے معنی ہیں ان کی چیخیں نکل جائیں گی.یا فریاد میں نکل جائیں گی.اور حضرت مسیح موعود نے اس کے معنی کئے ہیں کہ ان پر غفلت طاری ہو جائے گی اس میں شک نہیں کہ صعق کے معنی اشتدَّ صُوتُه بھی ہیں جیسے صَعِقَ الرعد یعنی بجلی کڑکی مگر اس کے معنی غشی کے بھی ہیں چنانچہ صعق کے معنی المغشى علیه لغت میں کئے گئے ہیں.اور قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر حَرَّ مُوسى صَعِقاً (اعراف : ۱۴۴) میں پیہوشی کے معنوں میں ہی یہ لفظ استعمال ہوا ہے کہ موسی بے ہوش ہو کر گر گئے.اور غفلت بے ہوشی کو لازم ہے.پس صعق کا لفظ اس آیت میں غفلت کے معنوں میں لینا جائز ہوا.اور اگر غور سے دیکھا جائے تو برق صاحب کے یہ معنی کہ زمین و آسمان کی فریاد میں نکل جائیں گی منافی غفلت نہیں بلکہ بد حواسی پر دال ہیں.جو غفلت کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے.پس معنوں میں ایک چھوٹے سے اختلاف پر غور کئے بغیر برق صاحب کا معترض ہو جانا ان کے عدم تفکر اور جلد بازی کی دلیل ہے.دراصل تو ان کو اس آیت کی اس تفسیر پر اعتراض کرنے کا کوئی حق ہی نہ تھا.کیونکہ حضرت مسیح موعود نے اس جگہ صاف لکھا ہے :- وو یہ آئیں زوالوجوہ ہیں قیامت سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور اس عالم سے بھی جیسا کہ آیت اِعْلَمُوا ان اللهَ يُحَى الأَرضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحدید : ۱۸) اور جیسا کہ آیت فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرهَا.“ (الرعد : ١٨) (شهادة القرآن صفحه ۲۵) بات دراصل یہ ہے کہ وہ آیات جو قیامت کبری سے تعلق رکھتی ہیں ان میں سے کئی آیات ذوالوجوہ ہیں.اور ان کا تعلق قیامت صغریٰ سے بھی ہے ایک مامور من
i ۳۲۴ اللہ کا ظہور بھی ایک قسم کی قیامت ہوتا ہے.جس میں روحانی مردوں اور مد ہوشوں کو نئی زندگی ملتی ہے.پس حضرت مسیح موعود کی اس تفسیر کے ذکر میں بیان کردہ معارف کی قدر وہی شخص کر سکتا ہے.جو قرآن کے ظاہر کے علاوہ اس کے بطن کا بھی قائل ہوں.برق صاحب غالباً قرآن کریم کو صرف ظاہر میں منجھر سمجھتے ہیں.سو یہ قرآن مجید کے متعلق ان کی اپنی کو تاہ ضمی ہے.حضرت اقدس کا فہم قرآن برق صاحب کی ایسی نکتہ چینی سے اپنی شان میں بہت بلند ہے " اعتراض چهارم چو بشنوی سخن اہل لی مگو که خطا است سخن شناس نه دلبر اخطا اینجا است آيت "مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ عُتُلٍ بَعْدَ ذَالِكَ زَنِيمٌ (القلم : ۱۴۱۳) کاترجمہ ازالہ اوہام جلد اول صفحہ ۱۶ اطبع اوّل سے برق صاحب یوں نقل کرتے ہیں :- نیکی کی راہوں سے روکنے والا زناکار اور بائیں ہمہ نہایت درجہ کابد خلق اور وو سب مینوں کے بعد ولد الز ہ بھی ہے.“ پھر برق صاحب اس کے متعلق لکھتے ہیں :- آپ نے اثیم کے معنی زناکار اور زنیم کے معنی ولد الزنا کئے ہیں سوال پیدا ہوتا ہے کیا قرآن کا مصنف یعنی اللہ اس طرح کی بشستہ زبان استعمال کیا کرتا تھا.اور کیا کوئی مہذب انسان اس انداز گفتگو کی برداشت کر سکتا ہے.إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْم یہ قرآن کی آیت ہے کیا آپ اس کی تفسیر یہ کریں گے کہ بعض ظن زنا ہیں اور پھر الزنیم کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے معنی لعین اور الدگی (متبنى ( اللاحق بقوم ليس (حرف محرمانه صفحه ۲۴۳) مِنْهُمْ وَلَا هُمْ يَحْتَاجُونَ إِلَيْهِ ہیں.
۳۲۵ پھر برق صاحب نے آخر میں لکھا ہے کہ :- کہ یہ ہیں زنیم واثیم کے معانی لغایت عرب میں نہ جانے یہ زناکار اور ولد الترنا کے مفاہیم آپ نے کہاں سے لئے ؟ الجواب (حرف محرمانه صفحه ۲۴۳) اس عبارت میں دو اعتراض ہیں ایک زبان کی شکلی کے متعلق اور دوسرا اعتراض معتد اثیم اور زنیم کے معنی کے متعلق.زنا، زانی اور زانیہ کے الفاظ جب قرآن کریم میں موجود ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لاتقربوا الزنا.نیز فرمایا الزاني لا يَنكِحُ الأَزَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً.پھر مومنوں کی شان میں فرمایا ہے کہ ولا يَزْنُونَ کہ وہ زنا کار نہیں ہوتے.حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ کا قرآن کریم میں استعمال اور دشنام نہیں ہوا بلکہ حقیقت کے اظہار کے لئے ہے.اس لئے انہیں شنگی بیان کے خلاف قرار نہیں دیا جا سکتا.لہذا اگر حقیقت کے اظہار کے لئے قرآن مجید کے ترجمہ میں زناکار اور ولد الترنا کے الفاظ بیان ہوں تو ان کا استعمال بھی شستگی کے خلاف نہیں ہو گا.دوسرے اعتراض کے متعلق ہمارا جواب یہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے زیر بحث آیت کا لفظی ترجمہ نہیں کیا بلکہ تفسیری ترجمہ تحریر فرمایا ہے.برق صاحب کو یہ غلطی لگی ہے کہ حضرت اقدس نے لفظ اشیم کے معنی زناکار کئے ہیں.وہ ذرا آنکھیں کھول کر ترجمہ ملاحظہ کریں تو انہیں معلوم ہو گا اس جگہ معتد اٹیم کے دونوں لفظوں کا اکٹھا تفسیری ترجمہ زناکار کیا گیا ہے نہ کہ خالی اثیم کے لفظ کا ترجمہ.وہ دیکھ سکتے ہیں کہ اس ترجمہ میں لفظ معتد کے کوئی الگ معنی نہیں کئے گئے.چنانچہ اس جگہ مناعِ لِلْخَيْرِ کے معنی کئے گئے ہیں.نیکی کی راہوں سے روکنے والا اور معتد اٹیم کا ترجمہ کیا گیا ہے زناکار اور اگلے لفظ عقل کا ترجمہ کیا گیا ہے.نہایت درجہ بد خلق اور
۳۲۶ آخری الفاظ بعد ذالك زنیم کا ترجمہ کیا گیا ہے.اور سب عیبوں کے بعد ولد الزنا بھی.ترجمہ کی اس ترتیب سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس میں معتد اٹیم کا ترجمہ زناکار کیا گیا ہے اٹیم کے معنی گناہ گار اور معتد کے معنی حد سے بڑھنے والا.اور حد سے بڑھنے والے گناہ گار کے تفسیری معنی آپ نے زناکار بیان فرمائے ہیں.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنی تعلیم کے مطابق زنا کا فعل گناہ کے ارتکاب میں حد سے بڑھنا ہی ہے.برق لصاحب نے زنیم کے ترجمہ پر اس کے لغوی معنوں کے لحاظ سے اعتراض کیا ہے.اور اس کے معنی از روئے لغت الدعى اللاحِقُ بِقَوْمٍ لَيْسَ مِنْهُمْ لَکھ کر اس جگہ یہ دعوی کیا ہے کہ زنیم کا ترجمہ ولد الزنا درست نہیں.غالبا برق صاحب نے اپنی تحقیق میں عربی زبان کی المنجد " جیسی چھوٹی سی لغت کی کتاب ہی سامنے رکھی ہے.کاش وہ حضرت اقدس کے ترجمہ پر اعتراض کرنے سے پہلے عربی لغت کی بڑی کتابوں سے بھی اس لفظ کے متعلق تحقیق کر لیتے.تا انہیں وہ شرمندگی نہ اٹھانی پڑتی.جواب ہماری تحقیقات کو سننے کے بعد اٹھانی پڑے گی.محترم برق صاحب! واضح ہو کہ عربی لغت کی کتاب لسان العرب میں جو کئی ضخیم جلدوں میں مصر میں شائع ہوئی ہے.زنیم کے لفظ کے ماتحت یہ بھی لکھا ہے." والزَّنْيمُ وَلَدًا لعَيْهَرَة " کہ زنیم کے معنی ہیں زانیہ عورت کا لڑکا.اسی کتاب میں لفظ عمر کے تحت لکھا ہے.عهر اليَهَا....أَنَا هَا لَيْلاً لِلْفُجُورِ ثُمَّ غَلَبَ عَلَى الزِّنَاءِ مُطلَقاً وَقِيلَ هِيَ ŵ الفُجُورُ أَيَّ وقت كانَ فى الحُرِّةِ وَ الْاَمَةِ يُقَالُ لِلمرء والفَاجِرَةِ عَاهِرَةُ مُعَاصِرَةٌ وَ مُسَافِحَه..وَ قَالَ أَحْمَدُ وَ قَالَ أَحْمَدُ بنُ يَحْى والمُبرِّد هِيَ العَيْهَرَةُ لِلفَاجَرَة قَالَا وَالْيَاءُ فِيهَا زَائِدَةٌ وَالأَصل عَهْرُ -
۳۲۷ ترجمہ : -عھر الیھا کے معنی ہیں وہ کسی عورت کے پاس رات کو بد کاری کے لیے گیا.پھر اس لفظ ( عمر ) کا استعمال مطلق زنا کے لئے عام ہو گیا ( یعنی وقت کی قید نہ رہی کہ رات کو بد کاری کرے اور یہ بھی کہا گیا اس کے معنی ہی بدکاری ہیں.خواہ کسی وقت ہو.آزاد عورت یا لونڈی سے فاجرہ عورت کو عامرہ معاصرہ اور مسافحہ کہتے ہیں.اور احمد من یکی اور المبرد نے کہا کہ بد کار عورت کے لئے ٹھر کا لفظ ہے اور دونوں نے کہا کہ یاء کا حرف اس میں زائد ہے.اور مادہ اس کا گھر ہے.لغت کے ان دونوں حوالوں سے ظاہر ہو گیا کہ زنیم کے معنی جو ولد العبهرة کئے گئے ہیں اس کا مفہوم زانیہ عورت کا لڑکا یعنی ولد الزنا ہے.اگر برق صاحب کی اس سے تسلی نہ ہو اور زنیم کے معنوں میں ولد الزنا کا لفظ ہی دیکھنا چا ہیں تو تفسیر روح المعانی جلد 9 صفحہ ۱۴۰ میں آیت زیر بحث کی تفسیر ملاحظہ فرمالیں.وہاں وہ یہ لکھا یا ئیں گے.زَنِيمُ دَعَى مُلحَقِّ بِقَوْمٍ لَيْسَ مِنْهُمْ كَمَا قَالَ ابنُ عَبَّاسِ وَالْمُرَادُ بِهِ وَلَد یعنی زنیم ایسے شخص کو کہتے ہیں جو کسی قوم سے ملحق ہو اور (دراصل ان میں سے نہ ہو.جیسا کہ حضرت ابن عباس نے کہا ہے.اور مراد اس سے ولد الزنا ہے گویاز نیم سے دعی کی ایک خاص قسم مراد ہوتی ہے یعنی مراد اس سے ولدالزنا ہو تا ہے خود المنجد کا حوالہ جو برق صاحب نے پیش کیا ہے.اس میں بھی دراصل اسی نوع کا دعی.ہی مراد ہے نہ کہ متبنی یہ لفظ تو برق صاحب نے بریکٹ میں اپنی طرف سے بڑھا کر مغالطہ دیا ہے.کیونکہ اس جگہ دعی کے بعد لکھا ہے.النَّاحِقُ بِقَوْمٍ لَيْسَ مِنْهُمْ وَلَا هُمُ يحتاجون اللہ کہ زنیم سے وہ دعی مراد ہے جو کسی قوم میں اپنے آپ کو شامل کر لے اور ان میں سے نہ ہو.اور ان لوگوں کو اس کی کوئی ضرورت نہ ہو.صاف ظاہر ہے کہ اس
۳۲۸ جگہ متبنیٰ مراد نہیں کیونکہ متبنی کی تو خاص ضرورت ہوتی ہے.پس اس آیت کے لفظ زنیم کے جب کئی مفسرین کے نزدیک بھی ولد الزنا کے معنی ہی مراد ہیں تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بھی اگر اس آیت کے ترجمہ میں اس لفظ کے معنی ولد الزنا لکھے ہیں.تو ان پر برق صاحب کو زبان عربی کے لحاظ سے اعتراض کا کوئی حق نہیں پہنچتا.ہیں.الدر المنثور مطبوعہ مصر میں زیر بحث آیت کے ذیل میں یہ الفاظ لکھے گئے واخرج ابن الانبارِئُ في الوَقْفِ وَالْابْتَدَاءِ عَنْ عِكْرَمَةَ أَنَّهُ سُئِلَ عَن الزَّنِيمِ قَالَ هُوَ وَلدَ الزَّنَا وَتَمَثَل بِقَوْلِ الشَاعِرِ زَنِيمٌ لَيْسَ يُعْرِفُ مَنْ أَبُوهُ بِغَى الام ذُو حَسَبِ لِقِيمٍ ترجمہ : - ابن الانباری نے (اپنی کتاب) الوَقْفُ وَالْاِبْتَدَاء“ میں اس روایت کی عکرمہ سے تخریج کی ہے کہ حضرت عکرمہ سے زنیم کے معنی پوچھے گئے تو انہوں نے کہا وہ ولد الزنا ہے اور شاعر کے ایک قول کو (اپنے معنی کی شہادت) پر بطور مثال کے یوں پیش کیا.وہ زنیم ہے معلوم نہیں ہو سکتا کہ اس کا باپ کون ہے بد کار ماں کا بیٹا کمینے حسب والا ہے.امید ہے کہ ان حوالہ جات سے برق صاحب کی تسلی ہو جائے گی.کہ عربی زبان میں زنیم کا لفظ ضرور ولد الزنا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اور حضرت بائی سلسلہ احمدیہ کے علاوہ دوسرے مفسرین نے بھی اس آیت کی تفسیر میں اس کے معنی ولد الزنا کئے ہیں.اور متبادر معنی اس لفظ کے ولد الزنا ہی ہیں.اگر کسی غیر ولد الزنا کے
۳۲۹ لئے یہ لفظ استعمال ہو تو بطور دشنام ہو گا یا مجازا استعمال ہو گا.اعتراض پنجم آيت كنتم خير أمة أخرجت للناس کی تفسیر میں حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ نے یہ لکھا ہے :- کہ الناس کے لفظ سے دجال ہی مراد ہے.“ (ازالہ اوہام جلد اول صفحه ۳۴) جناب برق صاحب کو اس تفسیر پر یہ اعتراض ہے کہ آخر للناس کا لام برائے انتفاع ہے پھر الناس جمع اور دجال مفرد جمع سے مفرد کیسے مراد ہوا ؟ الجواب (حرف مجرمانه صفحه ۲۴۴) للناس کا لام بے شک انتفاع کے لئے ہے اور الناس جمع ہے.مگر دجال بھی اسم جمع (Collective Noun) ہے یعنی یہ لفظ ایک فرد کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ ایک گروہ کو ظاہر کرتا ہے.اس لئے دجال کے گروہ کیلئے الناس کا اطلاق جائز ہے.یہ معنی اختیار کرنے میں کوئی ادبی سقم نہیں.لغت عربی میں دجال کے معنی لکھے ہیں."الرفقه العظيمة تُغَطِئُ الأَرْضِ بِكَثْرَةِ أَهْلِهَا.بڑے گروہ کو کہتے ہیں جو اپنی کثرت سے زمین ڈھانپ دے.اعتراض ششم (المنجد) خطبہ الہامیہ میں اپنے زمانہ کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آیت صراط الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيْهِمْ سے ایک یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے
۳۳۰ مراد وہ اولی او ابدال میں جو مسیح موعود پر ایمان لائے اور مغضوب وضالین سے مراد آپ کے منکرین ہیں.اس تفسیر کے متعلق جناب برق صاحب صرف اتنا لکھتے ہیں :- یہ تفسیر محتاج تبصرہ نہیں." (حرف محرمانه صفحه ۲۴۵) واضح ہو حضرت مرزا صاحب نے اس آیت کی تفسیر کا انہی معنوں پر حصر نہیں کیا.بلکہ کئی مقامات پر آپ نے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے مراد گذشته انعام یافتہ نبی، صدیق، شہید ، اور صالح بھی لئے ہیں.اور مغضوب علیھم سے مراد یہود اور ضالین سے مراد نصار کی لئے ہیں.چونکہ آیت قرآنیہ میں جو دعائیں سکھائی گئی ہیں ان میں بعض نیکیوں کو اختیار کرنے اور بعض بدیوں سے چنے کی دعائیں سکھائی گئیں.یہ اپنے اندر ایک پیشگوئی کا رنگ بھی رکھتی ہیں.اس لئے اھدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالین کی دعا میں بھی ایک پیشگوئی کا رنگ بھی پایا جاتا ہے.یہ دعا اسی لئے سکھائی گئی کہ آئیندہ انعام یافتہ لوگ بھی پیدا ہونے والے تھے اور قوم میں تفریط و افراط کی راہ اختیار کر کے کچھ لوگ یہود کی طرح مغضوب عليهم اور عیسائیوں کی طرح ضالین بلنے والے بھی تھے.اس لئے آئندہ پیدا ہونے والے منعم علیھم کے لحاظ سے اس دعا میں بطور پیشگوئی مسیح موعود پر ایمان لانے والے اولیاء وابدال بھی مراد ہیں.اور مغضوب علیہم اور ضالین سے آپ کے منکرین بھی مراد ہے.
اعتراض ہفتم جناب برق صاحب نے لکھا ہے کہ :- ”مرزا صاحب نے اپنے الہام يَا آدَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ کے ایک جگہ معنی کرتے ہوئے زوج سے مراد تابع اور رفیق لئے ہیں.،، (براہین حاشیه در حاشیه جلد ۳ صفحه ۴۹۶) اور دوسری جگہ تیرے دوست اور تیری بیوی مراد لئے ہیں.(اربعین نمبر اصفحہ ۱۶) اس پر برق صاحب نے لکھا ہے :- پہلی تفسیر میں صرف دوست جنت میں گیا.اس میں (دوسری تفسیر میں ناقل) ہیوی شامل ہو گئی ہے.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۲۴۶) یہ بالکل بودا اعتراض ہے پہلی تفسیر میں جب تابع اور رفیق کا لفظ موجود ہے.اور بیوی آپ کی یقیناً تابع ہے لہذا دونو تفسیروں میں بیوی بہر حال داخل ہے تو اعتراض کیسا؟ اسی ضمن میں جناب برق صاحب نے يَا مَرْيَمُ اسْكُنُ أَنتَ وَزَوْجُكَ الجنة کے الہام کے ترجمہ پر بھی اعتراض کیا ہے کہ ایک جگہ زوج کے معنی دوستوں کئے گئے ہیں.اور دوسری جگہ ترجمہ میں دوست کے ساتھ اور تیری بیوی کے الفاظ بھی موجود ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ الہام کا پہلا حصہ ترجمہ محمل ہے لہذا اس میں دوستوں میں بیوی بھی شامل ہے اور دوسرے ترجمہ میں تفصیل ہے.اس لئے دوست کے ساتھ یوی کا ذکر الگ کیا گیا ہے.
برق صاحب کی طنز ۳۳۲ الجواب اس جگہ جناب برق صاحب نے دوسرے ترجمہ پر یہ طنز بھی کی ہے.لیکن عجیب قسم کی مریم ہے جس کی بیوی بھی ہے.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۴۶) میں حیران ہوں کہ برق صاحب ڈاکٹر بھی ہیں پروفیسر بھی ہیں.لیکن اعتراض ایسے کر رہے ہیں جو ان کی شان کے صریح منافی ہیں.جناب برق صاحب !جب آپ حرف محرمانہ لکھ رہے ہیں تو کیا آپ کو یہ معلوم نہیں حضرت اقدس نے اپنے تئیں اس الہام الہی میں استعارہ کے طور پر مریم ( یعنی پاک دامنی میں مریم سے مشابہ ) قرار دیا جانے کا ذکر فرمایا ہے.پھر سورہ تحریم میں مومنوں کو آئت ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَءَ تَ ن وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ التِي أَحْصَنَتْ فَرُ جَهَا فَنَفَحْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا.(التحریم : ۱۲ ۱۳) میں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو عورتوں سے تشبیہ دی ہے جن میں سے ایک فرعون کی بیوی ہے جو موسی پر ایمان رکھتی تھی اور دوسری مریم صدیقہ والدہ حضرت عیسی سے تشبیہ دی ہے.لہذا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو استعارہ کے طور پر ان کی پاک دامنی کی تعریف کے لئے خدا تعالیٰ نے مریم قرار دیا تو آپ کو اس سے تعجب کیوں ہوا ہے ؟ دیکھ لیجئے آپ میں اور احمدیت کے ان مخالف مصنفوں میں جن کا خود آپ کو شکوہ ہے کیا فرق رہ گیا ؟ وہ بھی استہزا سے کام لیتے ہیں.آپ بھی استہزا سے کام لے رہے ہیں.اور نادانی اس میں خود آپ کی ہے کہ آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت مد نظر
٣٣٣ نہیں رکھی.جس میں پاکدامن مومنوں کو مریم سے تشبیہ دی گئی ہے.ایک ضمنی اعتراض برق صاحب کو یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنے الهام يا آدم اسكن انت وزوجك الجنة میں اس بات کے لئے لطیف اشارہ قرار دیا ہے کہ وہ لڑکی جو میرے ساتھ ( توام ناقل) پیدا ہوئی اس کا نام جنت تھا.حالانکہ یہ ذوقی معنی ہیں.اور ایسے ذوقی معانی اہل اللہ کے کلام میں بہت جگہ پائے جاتے ہیں.برق صاحب دیکھئے ! حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے حضرت یوسف کی دعا انت ولي في الدنيا والاخرہ ایک ان قرآنی کے لحاظ اپنے متعلق بھی قرار دیا ہے.( الخير الكثير صفحه ۹۶) برق صاحب نے ایک ضمنی اعتراض اس بات پر کیا ہے کہ الہام يَا آدَمُ اسْكُنُ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ يَا مَرْيَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ يَا أَحْمَدُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ میں تیسرے الہام سے آپ نے یہ اجتہاد کیا تھا.لیکن تیسری زوجہ جس کی انتظار ہے اس کے ساتھ احمد کا لفظ شامل کیا اس پر برق صاحب کو اعتراض ہے کہ :- الجواب (ضمیمہ انجام آتھم صفحه ۵۴) تیسری زوجہ کا انتظار آخر تک انتظار ہی رہا.“ (حرف محرمانہ صفحہ ۲۴۸) اس کے متعلق عرض ہے کہ کبھی مامور ایک بات کسی الہام سے بطور اجتہاد کے اخذ کرتا ہے مگر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہمیشہ اس کا اجتہاد درست ہی ہو کلام الہی چونکہ اکثر ذو المعانی ہوتا ہے اس لئے مامور کبھی ایک اجتہاد کرتا ہے اور اس میں خطا واقع ہو جاتی ہے.اس سے اس کی نبوت پر حرف نہیں آتا.اگر اجتہادی خطا پر کسی نبی کو رد کیا جاسکتا ہے تو پھر جناب برق صاحب کو ان انبیاء کو رد کرنا پڑے گا.جن کے اجتہاد
میں خطا واقع ہونے کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے.حدیث نبوی میں ہے :- مَا حَدَّ تُتْكُمْ مَنِ اللهِ سُبْحَانَهُ فَهُوَ حَقٌّ وَمَا قُلْتُ فِيْهِ مِنْ قِبَلِ نَفْسِي فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرُ أَخُطى وَ أَصِيبُ ) نبراس شرح الشرح عقائد نسفی صفحه ۳۹۲) ترجمہ : جو بات میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتاؤں وہ سچ ہے.اور جو کچھ اس کلام کے بارہ میں اپنی طرف سے کہوں تو میں ایک اثر ہوں غلطی بھی کرتا ہوں اور درست بھی کہتا ہوں.حضرت نوح نے خدا تعالیٰ کی وحی صحیح طور پر نہ سمجھی.چنانچہ جب ان کا بیٹا ڈوبنے لگا تو انہوں نے خدا تعالیٰ کو ان الفاظ میں اس کا وعدہ یاد دلایا کہ :- إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ کہ بے شک میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور بے شک تیر اوعدہ سچا ہے.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : - إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ : إِنَّهُ عَمَلُ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْتَلْنِ مَالَيسَ لَكَ بِهِ (سورہ ھود : ۴۷) عِلْمٌ إِنِّى أَعِظُكَ اَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ کہ بے شک وہ تیرے اہل میں سے نہیں بے شک اس کے اعمال صالح نہیں پس مجھ سے ایسی بات کے متعلق مطالبہ نہ کر جس کا تجھے (صحیح) علم نہیں.میں تجھے نصیحت کرتا ہوں تا تو نا واقفوں میں سے نہ ہو جائے.حضرت اقدس نے الہام یا احمد اسکن انت وزوجك الجنة سے جو تیسری زوجہ کے متعلق اجتہاد کیا تھا.اس میں جو خطاء تھی اس کا اللہ تعالی نے ایک دوسرے الہام سے خود ازالہ فرما دیا تھا.چنانچہ وہ الہام آپ کو 1901ء میں ہوا.اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا.
۳۳۵ تَكْفِيكَ هَذِهِ الأمرئة - کہ تیرے لئے یہ زوجہ کافی ہے.(تذکره صفحه ۳۸۰) اس الہام نے ظاہر کر دیا آپ کو کسی اور زوجہ کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے.پس جس طرح نوع کی اجتہادی خطاء ان کی نبوت کے خلاف بطور دلیل پیش نہیں ہو سکتی.اسی طرح حضرت بانی سلسلہ احمد میر کی کوئی اجتہادی خطاء ان کے دعوی کی صداقت کے خلاف بطور اعتراض پیش نہیں ہو سکتی.☆☆☆ نشانات جناب برق صاحب نے نشانات کے عنوان کے تحت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نشانات کے متعلق بیانات سے ان کی تعداد کے شمار میں تناقض دکھانے کی کوشش کی ہے.جناب برق صاحب کا ایسا اعتراض لفظ نشان کے معنوں کے متعلق ایک غلط فہمی پر مبنی ہے.عربی لفظ آیت کا ترجمہ نشان کیا جاتا ہے.اور مامورین کے نشانات کئی نوعیت کے ہوتے ہیں.کچھ نشانات پیشگوئیوں کے رنگ میں ہوتے ہیں.کچھ دعاؤں کی قبولیت کی صورت میں.کچھ خوارق کی صورت میں اور کچھ عام نشانات ہوتے ہیں جو کسی ایک ہی پیشگوئی کے لاکھوں دفعہ پورا ہونے سے تعلق رکھتے ہیں.قرآن کریم میں آیت کا لفظ چنانچہ قرآن کریم میں آیت کا لفظ مامور کی مخالفت پر عذاب ہونے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے.جس کے ہزار با افر کو نشانہ بن کر ان میں سے ہر ایک فرد مامور کی صداقت کا نشان بنتا ہے.اور اس طرت مذاب کی پیشگوئی اور اس کا وقوع ایک
۳۳۶ لحاظ سے تو ایک نشان ہوتا ہے اور ایک لحاظ سے لاکھوں نشانات پر مشتمل ہوتا ہے.کافر آنحضرت ماہ سے نشان مانگتے تھے.یعنی عذاب کا نشان یہ نشان جب پورا ہوا تو ہزار ہا نشانوں پر مشتمل تھا.(۲).حضرت ابراہیم علیہ السلام کو الہا مأ یہ بتایا گیا.عَلى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ.یعنی لوگ لوٹوں پر سوار ہو کر دور دراز مقامات سے حج کے لئے آئیں گے حتی کہ راستوں میں گڑھے پڑ جائیں گے.اب ایک لحاظ سے یہ الہام ایک بھارت پر مشتمل ہے اور دوسرے لحاظ سے حج کو جانے والا ہر فرد خدا تعالیٰ کا ایک نشان بنتا ہے.اور حج میں جانے والی ہر اونٹنی اور ہر قربانی کا جانور بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے.قرآن کریم نے تو ہر قربانی کے جانور کے گلے میں پڑے ہوئے قلاوہ کو بھی ایک نشان قرار دیا ہے.علاوہ از میں قرآن کریم نے زبانوں کے اختلاف ، رنگوں کے اختلاف اور سونے اور جاگنے کو بھی آیات اللہ میں سے قرار دیا ہے.اگر جناب برق صاحب محض اعتراض تلاش کرنے کی عادت ترک کر دیں اور منصفانہ رنگ میں سوچیں تو کبھی ان کو اعداد و شمار میں یہ اختلاف قابل اعتراض محسوس نہ ہو گا.اربعین“ کے جس حوالہ میں دو سو سے زیادہ نشانوں کا ذکر ہے اس جگہ دوسو پیشگوئیاں مراد ہیں.اور انہی پیشگوئیوں کا ذکر حوالہ نمبر ۵ میں جو سو سے زیادہ نشان سے کیا گیا ہے وہ دو سو نشانوں کے خلاف نہیں.سو سے زیادہ دو سو بھی ہو سکتے ہیں.پھر وہ نشانات جن کا ذکر ہزاروں اور لاکھوں میں ہے وہ دوسری قسم کے نشانات ہیں.مثلا یہ نشان که باتِيكَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقَ وَيَا تُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيق يا
۳۳۷ الهام ويَنْصُرُكَ رِجَالُ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِنَ السَّمَاءِ.کہ دور دراز سے تمہارے پاس تحائف آئیں گے.جن کے لانیوالوں سے راستہ میں گڑھے پڑ جائیں گے اور دور دور سے لوگ تمہارے پاس آئینگے جن سے راستہ میں گڑھے پڑ جائیں گے.اور وہ آدمی تیری مدد کریں گے جنہیں ہم آسمان سے وحی کرینگے.یہ لاکھوں بار پورے ہوئے.ہر شخص جو آپ کے پاس آیا ہے.اور ہر تحفہ جو وہ لایا ہے اور ہر وہ شخص جو الہام سے آپ کی مدد پر آمادہ ہوا ہے وہ ایک نشان ہے.اور اس طرح یہ نشانات لاکھوں کی تعداد میں پورے ہو گئے ہیں.قبولیت دعا کے نشانات اس کے علاوہ ہیں.عذاب اور ہلاکت کی پیشگوئیاں بھی لاکھوں افراد کی ہلاکت پر مشتمل ہیں.ہزار بایا ایک لاکھ سے زیادہ نشانات یا تین لاکھ نشانات ذکر کرنے میں مذکورہ حقیقت کو مد نظر رکھ کر کوئی تناقض نہیں.کیونکہ مقصود صرف بڑی کثرت تعداد میں نشانات کے ظاہر ہونے کا اظہار ہے.پوری معین تعداد بتلانا مقصود نہیں.چنانچہ ہر زبان کے محاورات میں اس قسم کا استعمال عام ہے.اور مقصد کثرت بتلانا ہوتی ہے.مثلاً ہم روز مرہ کی گفتگو میں کہتے ہیں کہ میں نے اسے سو دفعہ منع کیا ہے یا مجھ پر ہزاروں مصیبتیں آئیں.تو اس سے مراد تعداد کی کثرت ہوتی ہے.معین تعداد مراد نہیں ہوتی.
پیشگوئیوں کے اصول اس کے بعد برق صاحب نے حضرت اقدس کی بعض پیشگوئیوں پر پیشگوئیوں کے اصول کو نظر انداز کر کے نکتہ چینی کی ہے.ذیل میں اختصار کے ساتھ بعض اصول درج کر دئے جاتے ہیں جن کو پیشگوئیوں پر غور کرتے ہوئے مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے.اسلامی اصول فقہ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے :- ا إِنَّ جَمِيعَ الوَعِيدَاتِ مَشْرُوطَةُ بِعَدَمِ الْعَفْوِ فَلَا يَلْزَمُ مِنْ تَرْكِهِ دُخُولُ الْكَذِبِ فِي كَلَامِ اللَّهِ.( تفسیر کبیر امام رازی جلد ۲ صفحه ۴۰۹ مصری) ترجمہ : بیشک وعیدی پیشگویاں معاف نہ کیا جانے کی شرط سے مشروط ہوتی ہیں.پس اگر ان کا پورا کرنا (معاف کر دینے کی وجہ سے ) ترک کر دیا جائے تو اس سے خدا تعالیٰ کے کلام کا جھوٹا ہونا لازم نہیں آتا.حضرت انس سے ایک حدیث مروی ہے.اِنَّ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ وَعَدَهُ الله عَلَى عَمَلِهِ ثُوَا بَا فَهُوَ مُنْجِرُ لَهُ وَ مَنْ اَوْ عَدَهُ عَلَى عَمَلِهِ عِقَابِاً فَهُوَ بِالْخِيَارِ - ( تفسیر روح المعانی جلد ۲ صفحه ۵۵ مصری) ترجمه : بیشک نبی ﷺ نے فرمایا اگر خدا تعالی انسان کے کسی عمل پر کسی ثواب (انعام) کا وعدہ کرے تو اسے پورا کرتا ہے اور جس شخص سے اس کے کسی عمل پر عذاب کی وعید کرے تو اسے اختیار ہے.(یعنی چاہے تو پورا کرے چاہے تو معاف کردے)
۳۳۹ ۲- دعا سے نقد میر رد ہو جانے کے متعلق حدیث نبوی میں وارد ہے.اَكْثِرُ مِنَ الدُّعَاءِ فَإِنَّ الدُّعَاءَ يَرُدُّ القَضَاءَ المُبْرَمَ - (کنز العمال جلد اول صفحہ ۶۷ او جامع الصغیر مصری جلد ا صفحه ۵۴) ترجمہ :- کثرت سے دعا کرو کیونکہ دعا تقدیر مبرم کو بھی ٹال دیتی ہے.إِنَّ النبي ﷺ قَالَ إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتَدْفَعُ الْبَنَاءَ المُبْرَمَ النَّازِلَ مِنَ السَّمَاءِ روض الریاضین بر حاشیه قصص الانبیاء صفحه ۳۶۴) ترجمہ : بے شک نبی ﷺ نے فرمایا بے شک صدقہ آسمان سے نازل ہو نیوالی میبرم (ابظاہر ائل) کو بھی رد کر دیتا ہے.صلى الله.کبھی نبی سے کلام الہی کے سمجھنے میں اجتہادی خطاواقع ہو جاتی ہے.رسول اللہ علی فرماتے ہیں :- رأيتُ فِى الْمَنَامِ اِنّى أَهَا جِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَىٰ أَرْضِ ذَاتِ نَخْلٍ فَذَهَبَ وَهْلِى أَنَّهَا الْيَمَا مَةُ وَالحِجُرُ فَإِذَا هِيَ مَدِينَةُ يَشُربَ - ترجمہ :.میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایک کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں.اس پر میرا خیال (اجتہاد ) یمامہ یا حجر کی طرف گیالیکن اچانک وہ زمین مدینہ میٹرب نکلی.-۴- رویا تعبیر طلب ہوتی ہے چنانچہ تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحہ ۱۲۱ میں لکھا ہے :- اسماعیلی نے کہا کہ اہل تعبیر نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں اسید من الی العیص کو مسلمان ہونے کی حالت میں مکہ کا والی دیکھا.وہ تو کفر پر مر گیا.اور رویاء اس کے بیٹے عتاب کے حق میں پوری ہوئی.“ ۵- لوح محفوظ کی قضائے مبرم بھی مل سکتی ہے.چنانچہ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی تحریر فرماتے ہیں :-
۳۴۰ وو قضائے معلق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ قضاء ہے جس کا معلق ہونا لوح محفوظ میں ظاہر کر دیا گیا ہوتا ہے.اور فرشتوں کو اس ( تعلیق ) پر اطلاع دے دی جاتی ہے.اور ایک قضائے معلق وہ ہے جس کا معلق ہو نا صرف خدا تعالیٰ جل شاید ہی جانتا ہے.اور لوح محفوظ میں وہ قضائے مہرم کی صورت میں ہوتی ہے.یہ آخری قسم قضات معلق (جو صورة مبرم ہوتی ہے) پہلی قسم کی قضا کی طرح تبدیلی کا احتمال رکھتی 66 ہے.“ (ترجمه از فارسی مکتوبات مجددالف ثانی جلد اول صفحه ۲۲۴)
۳۴۱ پیشگوئیاں جناب برق صاحب نے حضرت اقدس کی صدہا پیشگوئیوں میں سے صرف دس پیشگوئیوں پر اپنی کتاب میں تنقید کی ہے.یہ پیشگوئیاں ان کے نزدیک پوری نہیں ہوئیں.دراصل پیشگوئیوں کے متعلق چند اصول ہیں جن کو ملحوظ نہ رکھنے سے بعض لوگ حضرت اقدس کی چند پیشگوئیوں پر اعتراض کرتے رہے ہیں.ایسے اعتراضات دراصل معترضین کی جواقفی اور پیشنگوئیوں کے اصول کو مد نظر نہ رکھنے کا نتیجہ ہوتے ہیں برق صاحب کو اگر حضرت اقدس کی پیشگوئیوں میں سے دس پیشگوئیوں پر اعتراضات ہیں تو باقی پیشگوئیاں جو لفظاً لفظاً نہایت صفائی سے وقوع میں آچکی ہیں ان کے متعلق بھی آپ کو اظہار رائے کر دینا چاہئے تھا.یہ تو کوئی تحقیق کی راہ نہیں کہ جن پیشگوئیوں پر انہیں اعتراضات تھے انہیں تو انہوں نے اپنی کتاب میں درج کر دیا مگر دوسری سینکڑوں پیشگوئیوں کو انہوں نے اپنی کتاب کے پڑھنے والوں سے مخفی رکھنے کی کوشش کی ہے اور ان میں سے صرف دو پیشگوئیوں کے پورے ہونے کا اعتراف کیا ہے.جو پنڈت لیکھرام اور مرزا احمد بیگ کی معین زمانہ کے اندر ہلاکت سے تعلق رکھتی ہیں.مگر آپ کی روش کو دیکھتے ہوئے ایں ہمہ غنیمت است “.واضح رہے پیشگوئیوں کے بارہ میں یہ کوئی معیار نہیں کہ تمام پیشگوئیاں لفظاً لفظاً پوری ہو جانی چاہئیں.بلکہ اصول کی کتابوں میں قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ تعلیم کیا گیا ہے کہ وعید کی پیشگوئیاں یعنی ایسی پیشگوئیاں جن میں کسی پر عذاب نازل
۳۴۲ ہونے کی خبر ہو عدم تو بہ یا عدم عضو کی شرط سے مشروط ہوتی ہیں.اور مل بھی جاتی ہیں اور تاخیر میں بھی پڑ جاتی ہیں.جو پیشگوئیاں وعدہ کے رنگ میں ہوتی ہیں ان میں سے بھی بعض وعدے ایسے ہو سکتے ہیں جو عند اللہ تو مشروط بشر ایک ہوں لیکن ان شرائط سے ملہم کو اطلاع نہ دی گئی ہو.جیسا کہ پیشگویوں کے اصول میں بیان ہوا.مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے متعلق ایک غیر جانبدار کی رائے برق صاحب کی پیش کردہ دس پیشگوئیوں پر ان کی تنقید کا جواب دینے سے پہلے ہم حضرت اقدس کی سترہ پیشگوئیاں وہ پیش کر دینا چاہتے ہیں جنہیں ایک غیر از جماعت محقق مولوی سمیع اللہ صاحب فاروقی جالندھری نے پاکستان بنے سے پہلے اپنے رسالہ اظہار حق میں جو نذیر پر جنگ پر لیس امرتسر میں باہتمام سید مسلم حسن زیدی پر نظر طبع کر لیا تھا.اور اپنی غیر جانبدارانہ تحقیق علمائے اسلام کے سامنے بصورت استفسار پیش کی تھی.وہ اپنے اس رسالہ کے صفحہ ۷ ۸ پر حضرت اقدس کی پیشنگوئیوں کو آٹھ قسم کی قرار دے کر آٹھویں قسم کی پیشگوئیوں کے متعلق لکھتے ہیں :- بعض پیشگوئیاں ایسی بھی ہیں جو حیرت انگیز طریق پر پوری ہوئی ہیں اور ان کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص کئی سال پہلے ایسی محیر العقول باتیں کہدے جن کی نسبت بظاہر کوئی قرائن موجود نہ ہوں.“ پھر وہ اپنے رسالہ کے صفحہ ۱۳ ایران کے درج کرنے سے پہلے لکھتے ہیں :- ان میں سے بعض پیشگوئیاں واقعی محیر العقول ہیں جنہیں ہم درج کرتے ہوئے علمائے اسلام سے دریافت کرتے ہیں کہ ایک معمولی انسان جس کا خدا تعالی سے کوئی تعلق نہ ہو کیونکر بعض آنے والے واقعات کی خبر کئی کئی سال پیشتر دے سکتا ہے.ہم علمائے اسلام کی خدمت میں مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ جذبات سے قطع نظر فرماتے ہوئے دلائل سے ثابت کریں کہ اس قسم کی پیشگوئیوں کا ظہور کسی ایسے
انسان سے کیونکر ہو سکتا ہے جو اپنے دعوئی میں سچانہ ہو.“ (اظہار حق صفحہ ۱۳) ان پیشگوئیوں کو درج کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں :- ان واقعات کے متعلق اس امر کا اقرار ناگزیر ہے کہ مرزا صاحب کو ضرور اللہ تعالیٰ کی ہم کلامی کا شرف حاصل تھا.“ (اظهار حق صفحه ۲۶) ہم ان پیشگوئیوں کو اس جگہ اس غیر از جماعت کے قلم سے اس لئے درج کر رہے ہیں تا برق صاحب کے پیشگوئیوں پر اعتراضات کے بالمقابل قارئین کرام ایک غیر جانبدار محقق کے قلم سے تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمالیں.جس کے پیش کرنے میں جناب برق صاحب نے حال سے کام لیا ہے.مولوی سمیع اللہ صاحب لکھتے ہیں :- مرزا صاحب کی پیشگوئیاں ۱ ۱۸۹۳ء میں مرزا صاحب کو معلوم ہوا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی مرنے سے پہلے میرا مومن ہونا تسلیم کر لیں گے.اس پیشگوئی کے پورے بیس برس بعد ۱۹۱۴ء میں جبکہ مرزا صاحب کو فوت ہوئے چھ برس گزر چکے تھے.مولوی محمد حسین صاحب نے گوجرانوالہ کی ایک عدالت میں بیان دیتے ہوئے تسلیم کر لیا کہ فرقہ احمد یہ قرآن وحدیث کو مانتا ہے.اور ہمارا فرقہ کسی ایسے فرقہ کو جو قرآن وحدیث کو مانے کا فرنیں کہتا.(دیکھو مقدمہ نمبر ۳۰۰ بعد الت لالہ دیو کی نند مجسٹریٹ درجہ اول) واضح رہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مرزا صاحب کے سخت مخالف تھے.حتی کہ آپ نے مرزا صاحب پر کفر کے فتوے لگائے.عین اس زمانہ میں مرزا صاحب نے پیشگوئی کی کہ مولانا موصوف وفات سے قبل میر امومن ہونا تسلیم
م ۳۴ کر لیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور مولوی صاحب کو عدالت میں یہ بیان دینا پڑا کہ ان کا فرقہ جماعت مرزائیہ کو قطعا کافر نہیں کہتا.یہ ایک ایسا بدیہی نشان ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا.-۲- پنڈت لیکھرام کی وفات کی مرزا صاحب نے پیشگوئی کی اور کہا عید اس نشان کے دن سے بہت قریب ہو گی.یعنی لیکھرام کی وفات اور عید کا دن متصل ہوں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.لیکھرام عید کے دوسرے دن مقتول ہوئے.یقیناً یہ بات انسان کے بس کی نہیں کہ ایک شخص پہلے کہدے کہ فلاں شخص فلاں موقعہ پر قتل ہو گا.اور پھر ایسا ہی ہو.یقیناً اس قسم کے واقعات انسانی عقل سے بہت بالا ہیں.(برق صاحب کو بھی اس پیشگوئی کا پورا ہو نا مسلم ہے) ۲۶-۳ ۲۷ ۲۸ / دسمبر ۱۸۹۶ء کو لاہور میں جلسہ مذاہب ہونے والا تھا جس میں دوسرے نمائندوں کے علاوہ مرزا صاحب نے بھی تقریر کرنی تھی.عجیب بات یہ ہے که ۲۱ / دسمبر ۱۸۹۶ء کو مرزا صاحب کو بقول ان کے اللہ تعالیٰ سے اطلاع ملی کہ ان کا مضمون سب سے بلند رہے گا.چنانچہ اسی روز اشتہار کے ذریعہ اعلان بھی کر دیا کہ ہمارا ہی مضمون غالب رہے گا.نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا صاحب کا مضمون سب پر غالب رہا اور سول ملٹری گزٹ“.” پنجاب اوبز رور “.اور دوسری اخباروں نے صاف صاف لکھ دیا کہ مرزا صاحب کا مضمون بہت بلند تھا.خود صدر جلسہ نے جلسہ کی کارروائی کی جو رپورٹ مرتب کی اس میں بھی اس مضمون کی خوبیوں کا اعتراف کیا." یہ ایسی باتیں نہیں جنہیں اتفاقی کہا جائے ایک شخص کئی روز پہلے یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کا مضمون سب پر بازی لے جائے گا.حالانکہ دوسرے مقرر بھی کچھ کم پایہ کے لوگ نہ تھے.بالضرور اس میں تصرف الہی کے کرشمے نمودار ہیں.۴ - ۲۳ / مئی ۱۹۰۵ء کو آپ نے رویا دیکھا.آہ نادر شاہ کہاں گیا یہ اس وقت کی بات
۳۴۵ ہے جب کہ نادر خاں ابھی چہ تھا.اس وقت دنیا کے تمام بادشاہوں میں کوئی نادر شاہ بادشاہ نہ تھا.لیکن حیرانی ہے کہ بعد میں ایک شخص غیر متوقع طور پر نادر خاں سے نادر شاہ بنا اور وہ طبعی موت بھی نہ مرا بلکہ ایسے طریق سے قتل ہوا کہ اس وقت ہر زبان پر یہی الفاظ جاری تھے.کہ آہ نادر شاہ کہاں گیا.“ یہ اس قسم کی باتیں ہیں جنہیں کوئی انسان قرائن سے نہیں سمجھ سکتا.اور بغیر تصرف الہی ۱۹۳۰ء میں ہونے والے ایک واقعہ کی خبر ۱۹۰۵ء میں دینا نا ممکن ہے.پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس اطلاع میں خدا تعالیٰ کا تصرف کام کر رہا تھا.۵ مرزا صاحب کو الہام ہوتا ہے الم غلبت الروم في أدنى الارض الخ اور یہ پیشگوئی حرف حرف پوری ہوئی ہے.اگر تصرف الہی کام نہیں کرتا تو کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک شخص عرصہ سے پہلے ایسی بات کہہ دے جس کے حصول میں اسے مطلق کوئی دسترس نہ حاصل ہو اور پھر وہ بات بعینہ پوری بھی ہو جائے.روم کے معاملہ میں مرزا صاحب یا آپ کی جماعت کو ذرہ بھر بھی دخل حاصل نہ تھاروم کے مغلوب ہونے میں میرزائیوں کا کچھ بھی ہاتھ نہ ہو سکتا تھا.اور پھر مغلوب ہونے کے بعد دوبارہ غلبہ حاصل کرنے میں بھی میرزائیوں کی کوئی طاقت بروئے کار نہ آسکتی تھی.لیکن اس کامل بے بسی کے عالم میں محولہ بالا پیشگوئی کی گئی جس نے تھوڑا ہی عرصہ بعد پوری ہو کر لوگوں کو محو حیرت کر دیا.- دسمبر ۱۹۰۵ء میں آپ کو اطلاع ملتی ہے کہ ”میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا.اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی کو قبول کر میں گے.“ اس پیشگوئی کو پڑھو اور باربار پڑھو پھر ایمان سے کہو کہ کیا یہ پیشگوئی پوری
نہیں ہوئی.جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی اس وقت موجودہ خلیفہ ابھی بچہ ہی تھے.اور مرزا صاحب کی جانب سے انہیں خلیفہ مقرر کرانے کے لئے کسی قسم کی وصیت بھی نہیں کی گئی تھی بلکہ خلافت کا انتخاب رائے عامہ پر چھوڑ دیا گیا تھا.چنانچہ اس وقت اکثریت نے حکیم نورالدین صاحب کو خلیفہ تسلیم کر لیا.جس پر مخالفوں نے محولہ پیشگوئی کا مذاق بھی اڑایا.لیکن حکیم صاحب کی وفات کے بعد مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ مقرر ہوئے اور یہ حقیقت ہے کہ آپ کے زمانہ میں احمدیت نے جس قدر ترقی کی وہ حیرت انگیز ہے.خود مرزا صاحب کے وقت میں احمدیوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی.خلیفہ نورالدین صاحب کے وقت میں بھی خاص ترقی نہ ہوئی تھی لیکن موجودہ خلیفہ کے وقت میں میرزائیت قریب دنیا کے ہر خطہ تک پہنچ گئی ہے.اور حالات یہ بتاتے ہیں کہ آئنده مردم شماری میں مرزائیوں کی تعداد ۱۹۳۱ء کی نسبت دگنی سے بھی زیادہ ہو گی.حالیہ اس عہد میں مخالفین کی جانب سے مرزائیت کے استیصال کے لئے جس قدر منظم کوششیں ہوئی ہیں پہلے کبھی نہ ہوئی تھیں.الغرض آپ کی ذریت میں سے ایک شخص پیشگوئی کے مطابق جماعت کے انتظام کے لئے قائم کیا گیا اور اس کے ذریعہ سے جماعت کو حیرت انگیز ترقی ہوئی جس سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی بھی من و عن پوری ہوئی.اپریل ۱۹۰۶ء میں آپ کو اطلاع ملی کہ " تزلزل در ایوان کسری افتاد اس پیشگوئی کی اشاعت سے تھوڑا ہی عرصہ بعد شاہ ایران تخت سے معزول کئے گئے اور یہ پیشگوئی پوری ہو گئی.-٨-١٩٠٥ ء میں لارڈ کرزن واکسرئے ہند نے بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کے وائسرائے بہادر کے اس اقدام سے بنگالی مشتعل ہو گئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ
۳۴۷ بنگال کو دوبارہ متحد کر دیا جائے.وائسرائے نے انکار کیا.گالیوں نے انار کی شروع کردی چنانچہ صوبہ بنگال میں تشدد کا دور دورہ شروع ہو گیا.انارکسٹ پارٹی نے ہم سازی اور بمباری شروع کر دی.کئی انگریزوں کی جانیں ضائع ہوئیں.پولیٹیکل ڈاکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا.الغرض بنگال کی حالت بے حد خطر ناک ہو گئی لیکن وائسرائے بہادر نے صاف طور پر اعلان کر دیا کہ وہ تقسیم بنگال ہر گز منسوخ نہ کریں گے اس حالت میں کون شخص سمجھ سکتا تھا کہ وائسرائے کا یہ حکم منسوخ ہو جائے گا.اور بنگالیوں کی دلجوئی ہو گی.مگر قارئین متعجب ہوں گے ۱۹۰۶ء میں مرزا صاحب کو اطلاع ملی ” پہلے جنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہو گی.“ اس کے بعد بھی حکومت کی طرف سے یہی کہا جاتا تھا کہ اس حکم میں کوئی ترمیم نہ ہو گی.لیکن لا19ء میں شاہ جارج پنجم ہندوستان میں تشریف لائے اور آپ نے تقسیم بنگال منسوخ کر کے بنگالیوں کی دلجوئی کر دی.گویا پانچ سال بعد خود بادشاہ کے ہاتھوں مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری ہو گئی.یقیناً اس پیشگوئی کے پورا ہونے میں صاحب نظر لوگوں کے لئے ایک سبق ہے اور اصحاب دانش کے لئے غور و فکر کا موقعہ ہے.۲۹-۹ ، جولائی ۱۸۹۷ء کو آپ نے دیکھا کہ حکام کی طرف سے ڈرانے کی کچھ کار روائی ہو گی.پھر آپ نے دیکھا کہ مومنوں پر ایک ابتلا آیا.پھر تیسری مرتبہ ایک اور اطلاع صادق آن باشد که ایام بلا می گذارد با محبت باوفا ان تمام اطلاعات کا نتیجہ یہ ہوا کہ عبدالحمید نامی ایک شخص نے عدالت
۳۴۸ فوجداری میں امرتسر میں یہ بیان دیا کہ مجھے مرزا صاحب نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کو قتل کرنے پر متعین کیا ہے.اس بیان پر مجسٹریٹ امر تسر نے مرزا صاحب کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دئیے.لیکن بعد میں مجسٹریٹ کو معلوم ہوا کہ وہ وارنٹ کے اجراء کا مجاز نہ تھا.چنانچہ اس نے وارنٹ واپس منگوا لئے اور مسل گورداسپور بھیج دی.جسپر صاحب ضلع نے مرزا جی کو ایک معمولی سمن کے ذریعے طلب کیا.یہاں خدا کا کرنا یہ ہوا کہ خود عبد الحمید نے عدالت میں اقرار کر لیا کہ عیسائیوں نے مجھ سے یہ جھوٹا بیان دلوایا تھا.ورنہ مجھے مرزا صاحب نے قتل کے لئے کوئی ترغیب نہیں دی.مجسٹریٹ نے یہ بیان سن کر مرزا صاحب کو بری کر دیا اور اس طرح سے مذکورہ بالا اطلاعات پوری ہو ئیں.ا ۱۰- امریکہ کا ایک عیسائی ڈوئی نامی جو اسلام کا سخت دشمن تھا.اس نے نبوت کا دعویٰ کیا.مرزا صاحب نے اس کو بہت سمجھایا کہ وہ اپنے دعویٰ سے باز آئے مگر وہ باز نہ آیا بلکہ مرزا صاحب اور ڈوئی کے درمیان مباہلہ ہوا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو نقد سات کروڑ روپیہ کا نقصان پہنچا.اسکی بیوی اور بیٹا اس کے دشمن ہو گئے.اس پر فالج کا حملہ ہوا اور بالآخر وہ پاگل ہو کر مارچ ۱۹۰۷ ء میں فوت ہو گیا.اس سے پہلے اگست ۱۹۰۳ء میں مرزا صاحب کو یہ اطلاع ملی تھی.کہ اس کے میچون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے.چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آباد کردہ شہر صحون سے نہایت ذلت کے ساتھ نکالا گیا.“ اس مباہلہ اور اطلاع سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ دونوں باتیں من و عن پوری ہوئیں.لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا ہو نا محض ایک اتفاقی بات تھی.یا اس کے ساتھ خدائی امداد شامل تھی.حالات اس امر کا بد یہی ثبوت ہیں کہ یہ باتیں اتفاقی نہ تھیں.بلکہ بتلانے والے کا تصرف اس کے ساتھ شامل تھا.اب قدرتی طور پر یہ سوال
۳۴۹ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تصرفات الہی سے کسی خائن اور کاذب کی بھی امداد ہوا کرتی ہے.یقین یہ بات فطرة اللہ کے قطعاً خلاف ہے.پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی پیشنگوئیوں کا صحیح نکلنا انکی صداقت پر اٹل دلیل کی حیثیت رکھتا ہے.11 مولوی کرم الدین صاحب نے مرزا صاحب کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا ایک دعوی گورداسپور کی عدالت میں دائر کیا.بنائے دعوئی مرزا صاحب کے یہ الفاظ تھے جو انہوں نے مولوی کرم الدین کے خلاف استعمال کئے تھے.یعنی لیم اور کذاب.عدالت ابتدائی نے مرزا صاحب کو ملزم قرار دیتے ہوئے سزا دے دی.لیکن مبرزا صاحب کو اطلاع ملی.”ہم نے تمہارے لئے لوہے کو نرم کر دیا.ہم کسی اور معنی کو پسند نہیں کرتے ان کی کوئی شہادت قبول نہیں کی جائے گی.“ اس کے بعد مرزا صاحب نے اپیل دائر کی جس پر صاحب ڈویڑنل جج نے لکھا کہ کذاب اور لیئم کے الفاظ کرم الدین کے حسب حال ہیں.چنانچہ مرزا صاحب کو بری کر دیا.-۱۲- محولہ بالا مقدمہ کے مجسٹریٹ سماعت کنندہ مسٹر اتمارام کے متعلق مرزا صاحب کو اطلاع ملی کہ آتمار ام اپنی اولاد کے ماتم میں مبتلا ہو گا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیس پچپیس دن کے عرصہ میں یکے بعد دیگرے اس کے دو بیٹے وفات پاگئے.-۱۳ اپریل ۱۹۰۵ء میں آپ کو اطلاع ملی.،، زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار “ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب کہ زار اپنی قوت اور طاقت کیسا تھ روس کے کروڑ ہا بندگان خدا پر خود مختارانہ حکومت کر رہا تھا لیکن چند سال بعد انقلاب روس کے موقعہ پر بالشویکوں کے ہاتھ سے زار روس کی جو گت بنی وہ نہایت ہی عبرت انگیز دنیا کا سب سے بڑا لباد شاہ پابجولاں ہے اس کے خاندان کے تمام ارکان پابند
۳۵۰ سلاسل ہیں اور باغی اپنی سنگینوں اور بندوقوں سے خاندان شاہی کے ایک ایک رکن کو ہلاک کرتے ہیں.جب زار کے تمام بچوں اور بیوی کو باغی تڑپا تڑپا کر مار چکتے ہیں تو زار کو نہایت بے رحمانہ طریق پر قتل کر دیتے ہیں.۱۴ - ۱۸۷۷ء کی بات ہے کہ مرزا صاحب نے عالم رویا میں دیکھا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لیے مجھے بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح قتل کر واپس کر دیا ہے.اس رویاء کے بعد مرزا صاحب نے رالیا رام وکیل کے اخبار میں چھپنے کے لیے ایک مضمون بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھدیا ( مرزا صاحب کو یہ علم نہ تھا کہ پیکٹ میں خط رکھنا قانون ڈاکخانہ کی رو سے جرم ہے ) رلیا رام وکیل جانتا تھا کہ مرزا صاحب کا یہ فعل قانونی طور پر جرم ہے اور اس کی سزا پانچ صد رو پہیہ جرمانہ اور چھ ماہ قید ہے.رلیا رام نے اس خط کی مخبری کر دی.جس پر افسران ڈاک نے مرزا صاحب پر مقدمہ چلا دیا.عدالت گورداسپور سے طلبی ہوئی.مرزا صاحب نے وکیلوں سے مشورہ کیا تو ان سب نے یہی کہا کہ سوائے جھوٹ بولنے کے کوئی چارہ نہیں ہے لیکن مرزا صاحب نے جھوٹ بولنے سے انکار کر دیا.بلکہ عدالت میں اقبال کیا کہ یہ میراخط ہے اور پیکٹ بھی میرا ہے.میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا.افسر ڈاکخانہ نے جو مدعی تھا مر زا صاحب کو پھنسانے کی بہتیری کوشش کی لیکن اس کے دلائل کا عدالت پر کچھ اثر نہ ہوا.چنانچہ عدالت نے مرزا صاحب کو بری کر دیا.اب دیکھنا یہ ہے کہ عرصہ پہلے رلیا رام کا سانپ کا بھیجنا اور مرزا صاحب کا تھی ہوئی مچھلی لوٹانا اور پھر اس مقدمہ کا ر لیا رام کے ہاتھ سے شروع ہو نالور مرزا صاحب کا باعزت طریق پر بری ہونا اپنے اندر کئی سبق رکھتا ہے.ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص انکل بچو طریق پر ایسی پیشگوئی کر دے جو حرف بحرف پوری ہو کر رہے.
۳۵۱ چشم بصیرت رکھنے والے لوگوں کے لئے ان پیشگوئیوں کی صداقت میں شبہ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی.پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ بعض لوگ کیوں مرزا صاحب کی دشمنی میں اپنے آپ کو مبتلا کر رہے ہیں.اور ایسے شواہد کی جانب سے چشم پوشی کر رہے ہیں جن کی تکذیب محال ہے.علمائے اسلام سے مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ پتلا ئیں کہ کئی کئی سال پہلے پتہ کی باتیں کہد بنا سوائے تائید خداوندی کے کسی اور صورت میں بھی ممکن ہے.اگر نہیں تو ایک ایسے آدمی کی تکفیر کرنا از روئے اسلام کہاں تک جائز ہے.-۱۸۸۳-۱۵ء میں مرزا صاحب کو یہ خبر تواتر کے ساتھ دی گئی کہ "میں تمہاری مدد کروں گا.اب دیکھنے والے یہ دیکھتے ہیں اور جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ عیسائیوں نے بلکہ خود مسلمانوں نے آپ کے خلاف کئی مقدمے کھڑے کئے اور ہر مقدمہ میں بالآخر مرزا صاحب کو ہی فتح اور کامرانی حاصل ہوئی.سلسلہ احمدیہ کے مٹانے اور درہم پر ہم کرنے کے لئے چاروں طرف سے حملے کئے گئے.مگر یہ امر واقعہ ہے کہ احمدیت بڑے زور سے ترقی کرتی رہی اور کر رہی ہے.جن دنوں میں محولہ بالا پیشگوئی کی گئی ان دنوں میں مرزا صاحب کے پیروؤں کی تعداد شاید انگلیوں پر گئی جاسکتی تھی.لیکن آج یہ حالت ہے کہ ہندوستان کا شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو گا جس میں مرزائیت روز افزوں ترقی نہ کر رہی ہو اور احرار کی شدید ترین مخالفت کے باوجود مرزائیت پھیلتی جارہی ہے.۱۸۹۱-۱۶ء میں آپ کو اطلاع ملی.میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور تیر اذکر بلند کروں گا.“ اس وقت بظاہر اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے کوئی اسباب موجود نہ تھے.
۳۵۲ لیکن ہم حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اسی بے بسی کے عالم میں کی ہوئی پیشگوئی آج حرف بحرف پوری ہو رہی ہے اور مرزائیت دنیا کے دور دراز ممالک میں پھیلتی چلی جارہی ہے.یورپ کے قریباً تمام ممالک میں مرزائی مبلغ پہنچ چکے ہیں اور بڑے بڑے لوگ مرزائیت کے حلقہ بجوش بن رہے ہیں.اگر چہ یہ باتیں بادی النظر میں معمولی معلوم ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بے کسی اور بے بسی کے عالم میں ایک شخص کا انتن بیداد عوئی کر دینا کوئی معمولی بات نہیں.اس وقت کون جانتا تھا کہ چند سال بعد ہی مرزائیوں میں اتنی قوت و طاقت پیدا ہو جائے گی کہ وہ لاکھوں روپے سالانہ خرچ سے اپنے مبلغین بلاد یورپ میں بھجوا دیں گے.اور پھر کون سمجھ سکتا تھا کہ بڑے بڑے لارڈ مرزائیت کو قبول کر لیں گے.یہ تمام باتیں دور از فہم تھیں جو آج بڑی حد تک پوری ہو چکی ہیں اور آثار و قرائن بتلاتے ہیں کہ بہت جلد یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہو کر رہے گی.ان حالات کے مطالعہ سے فطری طور پر سوال پیدا ہو تا ہے کہ آخر وہ کون کی طاقت ہے جو کئی کئی سال پہلے ایک بات منہ سے نکلوادیتی ہے جو آخر کار پوری ہو کر رہتی ہے.کاش اہل خرد سوچیں اور علمائے اسلام دلائل عقلی سے ثابت کریں کہ کیونکر ایک کاذب ایسی ٹھکانے کی بات کہہ سکتا ہے.اور پوری کمزوری کے عالم میں کس طرح ایک مفتری کو یہ جرات ہو سکتی ہے.کہ وہ نہایت بلند آہنگی سے اعلان کر دے کہ اسے عزت اور غلبہ حاصل ہو گا.ہم مان لیتے ہیں کہ ایک خدا کا خوف نہ رکھنے والا انسان اتنا بڑا طوفان باندھ سکتا ہے.لیکن کیا خدائے تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ وہ مفتریوں اور خائنوں کی تائید اور حمایت کرے.کیا خدا تعالیٰ کذب اور ڈور کی سر پرستی کیا کرتا ہے.ہر گز نہیں.پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کے دعاوی اور پیشگوئیاں وضعی اور جعلی نہ تھیں بلکہ وہ خدا
۳۵۳ کی طرف سے تھیں.۱۷ نواب محمد علی خان آف مالیر کوٹلہ کی بیوی ابھی تندرست تھیں.کہ مرزا صاحب کو ان کی وفات کی اطلاع ملی اور اس کے ساتھ ہی دکھلایا گیا کہ.” درد ناک دکھ اور درد ناک واقعہ“ اس کی اطلاع نواب صاحب کو دی گئی خدا کی قدرت کوئی چھ ماہ بعد بیگم صاحبہ کو سل کا عارضہ لاحق ہو گیا.اور آپ کچھ عرصہ بعد وفات پاگئیں.ظاہر ہے کہ سل کا مرض نهایت تکلیف دہ ہوتا ہے اور اس مرض کا مریض درد ناک دکھ میں مبتلا ہو کر ا راہی عدم ہوتا ہے.گم صاحبہ کی صحت کی حالت میں اس قسم کی اطلاع کی اشاعت یقین کامل کے بغیر نا ممکن ہے.اور یقین کامل خدا پر مضبوط ایمان اور اس کی جانب سے حتمی اطلاع کے بغیر محال ہے.ان تمام واقعات سے یہ امر سورج کی طرح روشن ہو جاتا ہے.کہ مرزا صاحب کو شرح صدر حاصل تھا اور آپ کو مکالمہ و مکاشفہ کا شرف حاصل تھا.کون بد سخت کہہ سکتا ہے کہ خدا پر جھوٹ باندھنے والا بھی دنیا میں کامیاب وہا مراد ہو سکتا ہے اور اس کا سلسلہ روز افزوں ترقی کر سکتا ہے.سلسلہ احمدیہ کی مسلسل ترقیاں اور اس جماعت کی پیم کامیابی اس امر کی روشن دلیل ہیں کہ نصرت الہی ان کے ساتھ ہے.خود مرزا صاحب نے فرمایا کہ " کبھی نصرت نہیں ملتی در مولی سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتاوہ اپنے نیک بندوں کو محولہ بالا شعر ہی بتلاتا ہے کہ مرزا صاحب کو خدا تعالیٰ پر کامل تو کل اور پورا
۳۵۴ بھر وسہ تھا.ورنہ جس کی طبیعت کے اندر گندگی پلیدی ہوا سے کیونکر جرات ہو سکتی ہے کہ وہ اعلان کرے.کہ نصرت الہی گندوں کے لئے نہیں.بلکہ پاک بازوں کے لئے ہے.الغرض اس قسم کی بیسیوں پیشگوئیاں ہیں جو پوری ہو ئیں اور جن کے اندر عظیم الشان نشانات موجود ہیں.ان واقعات کے متعلق اس امر کا اقرار ناگزیر ہے کہ مرزا صاحب کو ضرور خدا تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل تھا.
۱- پیشگوئی متعلق محمدی بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود کی اس پیشگوئی کے ذریعہ جس کی ہم وضاحت کریں گے خدا تعالی آپ کے ان رشتہ داروں کو جو دہر یہ اور دین اسلام سے تمسخر کرنے وال تھے ایک نشان دکھانا چاہتا تھا تا جو لوگ ان میں سے اس نشان کو رد کر دیں وہ سزا پائیں اور دوسرے اس سے تنبیہ حاصل کریں.یہی اس پیشگوئی کی اصل غرض تھی اور کین حکمت الہی اور مصلحت اس میں مضمر تھی.چنانچہ حضرت مسیح موعود خود تحریر فرماتے ہیں :- "ہمیں اس رشتہ (محمدی بیگم صاحبہ کے رشتہ ) کی درخواست کی کچھ ضرورت نہ تھی.سب ضرورتوں کو خدا نے پورا کر دیا تھا.اولاد بھی عطاء کی اور ان میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ ہو گا اور ایک لڑکا قریب مدت میں ہونے کا وعدہ دیا جس کا نام محمود احمد ہو گا.وہ اپنے کاموں میں اولو العزم نکلے گا.پس یہ رشتہ جس کی درخواست محض اطور نشان ہے تاخد اتعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو مجھ پر قدرت دکھائے اگر وہ قبول کریں تو برکت اور رحمت کے نشان ان پر نازل کرے اور ان بلاؤں کو دفع کرے جو نزدیک ہیں.لیکن اگر وہ رڈ کر دیں تو ان پر قهری نشان نازل کر کے اُن کو متنبہ کرے." (اشتہار ۱۵؍ جولائی ۱۸۸۸ء) ان رشتہ داروں کی حالت حضرت مسیح موعود اپنی کتاب ”آئینہ کمالات اسلام میں یوں بیان کرتے ہیں :- ” خدا تعالیٰ نے میرے چچیرے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں (احمد بیگ وغیرہ) کو ملحدانہ خیالات اور اعمال میں مبتلا اور رسوم قبیحہ اور عقائد باطلہ اور بدعات میں مستغرق پایا اور ان کو دیکھا کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے تابع ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر اور فسادی ہیں.“ (آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۶۶)
۳۵۶ پھر فرماتے ہیں :- ایک رات ایسا اتفاق ہوا.کہ ایک شخص میرے پاس روتا ہوا آیا میں اس کے رونے کو دیکھ کر خائف ہوا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کسی کے مرنے کی اطلاع ملی ہے؟ اُس نے کہا نہیں.بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت بات ہے.میں اُن لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو دین خداوندی سے مرتد ہو چکے ہیں.پس اُن میں سے ایک نے آنحضرت میانے کو نهایت گندی گالی دی.ایسی گالی کہ میں نے اس سے پہلے کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی تھی اور میں نے انہیں دیکھا کہ وہ قرآن مجید کو اپنے پاؤں تلے روندتے اور ایسے کلمات بولتے ہیں جن کے نقل کرنے سے زبان کا نیتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی خدا نہیں.خدا کا وجود محض ایک مفتریوں کا جھوٹ ہے.میں نے اس شخص سے کہا کہ کیا میں نے تمہیں اُن کے پاس بیٹھنے سے منع نہیں کیا تھا ؟“ رشتہ داروں کا نشان طلب کرنا پھر حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۶۷) ان لوگوں نے خط لکھا جس میں رسول کریم ہے اور قرآن مجید کو گالیاں دیں اور وجو دباری عزاسمہ کا انکار کیا اور اس کے ساتھ ہی مجھ سے میری سچائی اور وجود باری تعالیٰ کے نشانات طلب کئے اور اس خط کو انہوں نے دنیا میں شائع کر دیا اور ہندوستان کے غیر مسلموں کی بہت مدد کی اور انتہائی سرکشی دکھائی." (آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۶۸) نوٹ : ( یہ خط عیسائی اخبار چشمہ نور اگست ۱۸۸۷ء میں شائع ہوا تھا)
۳۵۷ نشان طلب کرنے پر حضرت اقدس کی دُعا نشان کے طلب کرنے پر حضرت مسیح موعود نے دُعا کی جو آپ نے اپنی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام “ کے صفحہ ۵۵۹ پر بد میں الفاظ درج فرمائی ہے :- قُلْتُ يَارَبِّ انْصُرُ عَبْدَكَ وَاخْذُلُ اَعْدَائك الخ ،، ترجمہ : میں نے کہا اے میرے خدا! اپنے بندے کی مدد کر اور اپنے دشمنوں کو ذلیل کر.الخ خدا تعالی کا جواب اس دُعا کے جواب میں خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا.کہ :- ا میں نے اُن کی بد کرداری اور سرکشی دیکھی ہے.پس میں عنقریب اُن کو مختلف قسم کے آفات سے ماروں گا.اور آسمان کے نیچے انہیں ہلاک کرونگا.اور عقریب تو دیکھے گا کہ میں اُن سے کیا سلوک کرتا ہوں.اور ہم ہر چیز پر قادر ہیں.میں ان کی عورتوں کو بیوائیں اُن کے بچوں کو یتیم اور گھروں کو ویران کر دونگا تا کہ وہ اپنے کئے کی سزا یا ئیں.لیکن میں انہیں یکدم ہلاک نہیں کرونگا بلکہ آہستہ آہستہ تاکہ وہ رجوع کریں اور تو بہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں.اور میری لعنت ان پر اور ان کے گھر کی چار دیواری پر اُن کے بڑوں اور اُن کے چھوٹوں پر اور ان کی عورتوں اور ان کے مردوں پر اور اُن کے مہمانوں پر جو ان کے گھروں میں اتریں گے نازل ہونے والی ہے اور وہ سب کے سب ملعون ہونے والے ہیں.سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں اور ان سے قطع تعلق کریں اور اُن کی مجلسوں سے دُور ہوں دو رحمت الہی کے تحت ہوں گے." ( ترجمه عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام)
۳۵۸ خاص پیشگوئی کے بارہ میں الہامات یہ الہام جو اوپر مذکور ہوا محمد می دیم صاحبہ کی پیشگوئی کے سلسلہ میں ایک ایسا الہام تھا جو رشتہ داروں کے متعلق عمومی رنگ رکھتا تھا.حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- انہی ایام میں مرزا احمد بیگ والد محمدی بیگم صاحبہ نے ارادہ کیا کہ اپنی ہمشیرہ کی زمین کو جس کا خاوند کئی سال سے مفقود الخبر تھا اپنے بیٹے کے نام ہبہ کرائے.لیکن بغیر ہماری مرضی کے وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا.اس لئے کہ وہ ہمارے چچا زاد بھائی کی دیدہ تھی.اس لئے احمد بیگ نے ہماری جانب بجز و انکسار رجوع کیا اور قریب تھا کہ ہم اس ہبہ نامه پر دستخط کر دیتے لیکن حسب عادت استخارہ کیا تو اس پر وحی الہی ہوئی جس کا ترجمہ ہوں ہے.اس شخص کی بڑی لڑکی کے رشتہ کے لئے تحریک کر اور اس سے کہہ ! کہ وہ تجھ سے پہلے دامادی کا تعلق قائم کرے اور اس کے بعد تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے نیز اس سے کہو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ زمین جو تو نے مانگی ہے دیدوں گا.اور اس کے علاوہ کچھ اور زمین بھی نیز تم پر کئی اور رنگ میں احسان کروں گاشر طیکہ تم اپنی بڑی لڑکی کا مجھ سے رشتہ کر دو اور یہ تمہارے اور میرے در میان عہد و پیمان ہے.جسے تم اگر قبول کرو گے تو مجھے بہترین طور پر قبول کرنے والا پاؤ گے اور اگر تم نے قبول نہ کیا تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس لڑکی کا کسی اور شخص سے نکاح نہ اس لڑکی کے حق میں مبارک ہو گا اور نہ تمہارے حق میں اور اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آئے تو تم پر مصائب نازل ہوں گے اور آخری مصیبت تمہاری موت ہو گی اور تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مر جاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے جو تم پر غفلت کی حالت میں وارد ہو گی اور ایسا ہی اس لڑکی کا شوہر بھی اڑھائی سال کے اندر مر جائے گا اور یہ قضاء
۳۵۹ الٹی ہے.پس تم جو کچھ کرنا چاہو کرو میں نے تمہیں نصیحت کر دی ہے.“ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۷۳ - ۵۷۲) خدا تعالیٰ کے حضور توجہ کرنے پر اس بارہ میں آپ کو یہ الہام بھی ہوا :- كد بُوابِايْتِنَا وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِءُ وَنَ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَيَرُدُّهَا إِلَيْكَ لاتبديل لِكَلِمَتِ اللهِ " ( تتمہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء) ترجمہ : ان لوگوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا ہے اور ان کے ساتھ ٹھٹھا کرتے رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ ان کے مقابلہ میں ترے لئے کافی ہو گا (یعنی انہیں عذاب دیگا ) اور اس عورت کو تیری طرف لوٹائے گا.خدا کے کلمات بدل نہیں سکتے.اس اشتہار میں ایک اور الہام بھی تحریر فرماتے ہیں جو محمدی بیگم صاحبہ کی واپسی کو مشروط کر رہا ہے اس الہام کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں.کہ آپ نے کشف میں محمدی بیگم صاحبہ کی نانی کو دیکھا کہ اس کے چہرہ پر رونے کی علامات ہیں تو آپ نے اسے کہا :- أيَّتُهَا الْمَرَعَةُ تُو بِى تُوُبِى فَإِنَّ البَلاءَ عَلَى عَقِبِكِ وَالْمَصِيبَةُ نَازِلَةٌ عَلَيْكِ يَمُوتُ وَيَبْقَى مِنْهُ كِتَابٍ مُتَعَدِّدَة.“ ( تتمہ اشتہار ۱۰ر جولائی ۱۸۸۸ء) ترجمہ : اے عورت تو بہ کر توبہ کر کیونکہ بلاء تیری اولاد اور اولاد در اولاد پر پڑنے والی ہے اور تجھ پر مصیبت نازل ہونے والی ہے ایک شخص مرے گا اور اس سے بہت سے ایسے معترض باقی رہ جائیں گے.جو زبان درازی سے کام لیں گے.“ یہ الہام بتاتا ہے کہ محمدی بیگم صاحبہ کی نانی کی لڑکی اور لڑکی کی لڑکی یعنی محمدی بیگم صاحبہ پر بلاء نازل ہونے والی تھی جس سے محمدی بیگم صاحبہ کی ثانی مصیبت میں مبتلا ہو نے والی تھی اور یہ بلاء اور مصیبت تو بہ سے مل سکتی تھی.یہ الہام ایک شخص کا مرنا اور ایسے معترضین کا پیدا ہونا بھی بتاتا ہے جو نا واجب طریق سے اعتراض کے لئے
زبان کھولنے والے تھے.پس اس امر کو بنیادی طور پر یاد رکھنا چاہیے کہ الہامِ يَرُدُّهَا إِلَيْكَ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ توبہ نہ کرنے کی شرط سے مشروط ہے اور توبہ کے وقوع میں آنے پر پیشگوئی کا یہ حصہ جو محمدی ریم صاحبہ کی واپسی سے تعلق رکھتا ہے مل سکتا تھا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب محمدی نظم کے باپ نے اُن کا نکاح دوسری جگہ کر دیا تو پیشگوئی کے مطابق محمدی بیگم صاحبہ کا والد مرزا احمد بیگ نکاح کرنے کے بعد چھ ماہ کے عرصہ میں پیشگوئی کے معیاد کے اندر ہلاک ہو گیا اور اس کی ہلاکت کا کنبہ پر شدید اثر پڑا اور محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند نے بھی تو بہ اور رجوع الی اللہ سے کام لیا اور اس وجہ سے محمد ی دیجم صاحبہ کے خاوند کی موت تو بہ اور رجوع الی اللہ کی وجہ سے مل گئی.چونکہ محمدی دیم صاحبہ کی حضرت اقدس کی طرف واپسی کی پیشگوئی عدم توبہ کی شرط سے مشروط تھی اور اس کے خاوند کے مرنے اور محمدی بیگم صاحبہ کے پیدہ ہونے کے بعد ہی یہ واپسی ممکن تھی اس لئے نکاح کی پیشگوئی غیر مشروط نہ تھی.چونکہ خاوند نے شریط توبہ سے فائدہ اٹھایا اور اس طرح وہ پیشگوئی کی معیاد کے اندر مرنے سے بچ گیا.اس لئے نکاح جو اُس کی موت سے معلق تھا ضروری الوقوع نہ رہا.یہ ہے خلاصہ اس پیشگوئی کا جس پر معترضین اعتراض کرتے ہیں کہ محمدی ریم کے نکاح کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.حالانکہ یہ پیشگوئی سلطان محمد صاحب خاوند محمدی بیگم صاحبہ کے توبہ کر لینے پر ان کی موت واقع نہ ہونے کی وجہ سے مل چکی تھی.لہذا کسی معترض کو یہ اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں کہ محمدی بیگم صاحبہ بیدہ ہو کر کیوں حضرت اقدس کے نکاح میں نہیں آئیں ؟ معترضین زیادہ سے زیادہ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ سلطان محمد کی موت کیوں واقع نہیں ہوئی ؟ اور ہماری طرف سے اس کا جواب یہ ہے کہ وعید کی پیشگوئی چونکہ عدم توبہ کی شرط سے مشروط ہوتی ہے خواہ
شرط نہ بھی بیان کی گئی ہو اس لئے وہ تو بہ اور رجوع پر ٹل جاتی ہے اور یہاں تو الہام نے صاف طور پر تو بہ کی شرط بیان بھی کر دی تھی.اس لئے محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند کی تو بہ اور رجوع الی اللہ سے نکاح کی پیشگوئی مل گئی ہے.پس خدا تعالیٰ کے الہامات پر کسی شخص کو یہ اعتراض کرنی کا کوئی حق نہیں کہ نکاح کیوں وقوع میں نہ آیا.سلطان محمد کی توبہ کا قطعی ثبوت جب بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ سلطان محمد کی موت پیشگوئی کے مطابق واقع نہیں ہوئی.اس لئے پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو اس کے جواب میں حضرت اقدس نے انجام آتھم کے حاشیہ صفحہ ۳۲ پر تحریر فرمایا کہ :.(الف) فیصلہ تو آسان ہے احمد بیگ کے داماد سلطان محمد سے کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو معیاد خدا تعالیٰ مقرر کرے.اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں.“ (ب) اور ضرور ہے کہ یہ عید کی موت اس سے تھی رہے.جب تک وہ گھڑی نہ آجائے کہ اس کو بے باک کر دے ، سواگر جلدی کرنا ہے تو اٹھو اس کو بے باک اور مکذب بناؤ اور اس سے اشتہار دلاؤاور خدا کی قدرت کا تماشادیکھو.“ (انجام آتھم صفحہ ۳۲) ان دونوں حوالوں سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے اس چیلنج کے بعد اگر مرزا سلطان محمد خاوند محمدی بیگم صاحبہ کسی وقت شوخی اور بے باکی دکھاتے یا مخالفین اُن سے تکذیب کا اشتہار دلانے میں کامیاب ہو جاتے تو پھر اس کے بعد مرزا سلطان محمد صاحب کی موت کے لئے جو معیاد مقرر کی جاتی وہ قطعی تقدیر مبرم ہوتی اور اس کے مطابق مرزا سلطان محمد صاحب کی موت ضرور وقوع میں آتی اور اسکے بعد محمدی دیم صاحبہ کا نکاح حضرت اقدس سے ضروری اور اٹل ہو جاتا.
پس کوئی معترض یہ جرات نہیں رکھتا کہ یہ کہہ سکے کہ اس پیشگوئی کے بارہ میں حضرت اقدس کا کوئی الہام جھوٹا نکلا.سلطان محمد صاحب کی توبہ کا ثبوت اس بات کا ثبوت کہ سلطان محمد تو بہ کر چکے تھے اور پیشگوئی کے مصدق تھے اور اس کی تصدیق پر حضرت مسیح موعود کی زندگی تک قائم رہے یہ ہے کہ حضرت اقدس کے انجام آتھم میں مذکورہ بالا چیلنج شائع کرنے پر آریوں اور عیسائیوں میں سے بعض لوگ مرزا سلطان محمد صاحب کے پاس پہنچے اور انہیں لاکھ لاکھ روپیہ دینے کا وعدہ کیا تاوہ حضرت اقدس پر نالش کر دیں.لیکن جیسا کہ ان کے انٹرویو سے ظاہر ہے.چونکہ وہ توبہ کر چکے تھے اور پیشگوئی کی صداقت کے قائل تھے اس لئے وہ اس گراں بہا لالچ دیئے جانے پر بھی کسی قسم کی بے باکی اور شوخی کیلئے تیار نہ ہوئے.مرزا سلطان محمد صاحب کا انٹرویو محترم حافظ جمال احمد صاحب فاضل مبلغ سلسلہ احمدیہ نے ایک دفعہ مرزا سلطان محمد صاحب خاوند محمدی بیگم صاحبہ کا انٹرویو لیا جو اخبار الفضل ۱۳/ ۹ جون ۱۹۳۱ میں مرزا سلطان محمد کے زمانہ حیات میں ہی ” مر زا سلطان محمد کا ایک انٹرویو “ کے عنوان سے شائع ہوا ہے.حافظ جمال احمد صاحب لکھتے ہیں :.میں نے مرزا سلطان محمد سے کہا اگر آپ برا نہ مانیں تو میں حضرت مرزا صاحب کی نکاح والی پیشگوئی کے متعلق کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں.جس کے جواب میں انہوں نے کہا آپ خوشی بڑی آزادی سے دریافت کریں.“ اس انٹرویو میں مرزا سلطان محمد صاحب نے کہا :.میرے خسر مرزا احمد بیگ صاحب واقعہ میں مین پیشگوئی کے مطابق فوت
۳۶۳ ہوئے ہیں.مگر خدا تعالیٰ غفور ورحیم بھی ہے اور اپنے دوسرے بندوں کی بھی سنتا اور رحم کرتا ہے.“ اس آخری فقرہ میں مرزا سلطان محمد صاحب نے اپنی توبہ واستغفار کا اظہار کیا ہے اور پہلے فقرہ میں پیشگوئی کی تصدیق کی ہے اس کے باوجود مزید وضاحت کیلئے حافظ جمال احمد صاحب نے اُن سے سوال کیا.” آپ کو مرزا صاحب کی پیشگوئی پر کوئی اعتراض ہے ؟ یا یہ پیشگوئی آپ کیلئے کسی شک و شبہ کا باعث ہوئی“؟ اس کے جواب میں مرزا سلطان محمد صاحب نے کہا :." یہ پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے بھی شک وشبہ کا باعث نہیں ہوئی.“ اور یہ بھی کہا :- ”میں قسمیہ کہتا ہوں کہ جو ایمان و اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں اتنا نہیں ہو گا.“ اس پر حافظ جمال احمد صاحب نے سوال کیا کہ آپ بیعت کیوں نہیں کرتے ؟ مرزا سلطان محمد نے جواباً کہا :- اس کی وجوہات کچھ اور ہیں جن کا اس وقت بیان کرنا میں مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں.“ اور اس سلسلہ میں یہ بھی کہا کہ :..i ” میرے دل کی حالت کا آپ اس سے بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے وقت آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا تا کہ میں مرزا صاحب پر مالش کروں اگر وہ روپیہ میں لے لیتا تو امیر
۳۰۶۴۰ کبیر بن سکتا تھا.مگر وہی ایمان و اعتقاد تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا.“ صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کی شہادت اس بارہ میں صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی شہادت یہ ہے :- ” مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرزا سلطان محمد صاحب ایک دفعہ قادیان آئے اُن کے ساتھ اُن کا ایک لڑکا بھی تھاوہ شہر کی طرف سے ہائی سکول کی طرف جارہے تھے تو مجھ سے ان کے لڑکے نے تعارف کرایا.دوران گفتگو میں حضرت مسیح موعود کا ذکر بھی آگیا اس پر مرزا سلطان محمد صاحب نے کم و بیش وہی بیان دیا جو حافظ جمال احمد صاحب نے ۱۳/ ۹ جون ۱۹۲۱ء کے الفضل میں انٹرویو کے طور پر شائع کروایا ہے.اور انہوں نے دوران گفتگو میں اس بات کی بڑے زور سے تائید کی کہ انہیں کبھی بھی حضرت مرزا صاحب کی صداقت کے متعلق شبہ نہیں ہوا.ان کے منہ پر داڑھی تھی اور ایک ٹانگ سے لڑائی میں زخمی ہونے کی وجہ سے لنگڑاتے تھے“.(دستخط حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد) (ماخوذ از پیشگوئی درباره مرزا احمد بیگ اور اس کے متعلقات کی وضاحت صفحہ ۵۸-۵۹) اسی طرح خود سلطان محمد صاحب محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند نے اپنے ایک خط میں حضرت اقدس کی تصدیق کی تھی جس کا عکس ملاحظہ ہو.
۳۶۵ عکس خط مرزا سلطان محمد صاحب آف پٹی انبالہ چھائے 2013/13 اللا علیکم.نوازش نامہ اپ کا پونچا یا داوری کا شمون یو میں جناب مرزا تھی اسب مرحوم کو صاحب نیک - بزرگ اسلام کا خدمتگار را این نیر کا ہو خدا یار پہلے یہی اور اب بھی خیال کر رہا ہوں.بھی ان کے مریدوں سے کئے قسم کا مخالفت نہیں تھے بلکہ افسوس کرتا ہوں تیر حمد یا ایک او رات کو نہ کر ان کی زندگی میں اون شرف حاصل کیکر 2 نیاز مند سلطان رساله د ۹۰ سلاما محمد از این که اه
اس خط سے ظاہر ہے کہ مرزا سلطان محمد صاحب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو خادم اسلام سمجھتے رہے ہیں.۱۸۸۸ میں پیشگوئی کئے جانے کے وقت حضرت اقدس کو صرف اسلام کا خدمت گذار ہونے کا دعوئی تھا.مسیح موعود کا دعوئی آپ نے ۱۸۹۰ء کے آخر میں کیا ہے.پس اس وقت سلطان محمد صاحب کے عذاب سے بچنے کے لئے اتنی تصدیق کافی تھی.جس کا ذکر اس محط میں موجود ہے.مرزا اسحاق بیگ صاحب پسر مرزا سلطان محمد صاحب کی شہادت علاوہ ازیں مرزا اسحاق بیگ صاحب پسر مرزا سلطان محمد صاحب و محمدی بیگم صاحبہ خدا کے فضل سے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں.وہ اپنے خط میں جو اخبار الفضل میں شائع ہوا.لکھتے ہیں :- اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجہ ہو گیا.جس کا نا قابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیت قبول کر لی تو اللہ تعالی نے اپنی صفت غفور و رحیم کے ماتحت قهر کور تم میں بدل دیا." (اخبار الفضل ۲۶ فروری ۱۹۲۳ء صفحه ۹) مولوی ظهور حسین صاحب مجاہد مخارا کی حلفیہ شہادت مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد مخارا سے جب خاکسار قاضی محمد نذیر نے اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کیا تو انہوں نے ذیل کی شہادت بیان کی اور پھر میری درخواست پر یہ شہادت حلفا لکھ کر دے دی.شہادت کا مضمون یہ ہے :-
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَتُصَلِى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَعَلَى عبدهِ المِيحِ الْمَوْعُود حلفیه شهادت پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے کافی عرصہ پہلے غالباً ۳۳ - ۳۴ء میں مجھ کو پٹی میں تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں جانی کا اتفاق ہوا.وہاں مرزا سلطان محمد صاحب داماد مرزا احمد بیگ صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا.انہوں نے دوران گفتگو میں حضرت مسیح موعود سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی شاء اللہ صاحب امرتسری میرے پاس پٹی آئے.میں نے آتے ہی ان کے لئے پانی وغیرہ پلانے کا انتظام کرنا شروع کیا.جس پر انہوں نے کہا کہ میں سب سے پہلے اپنا ایک مقصد آپ سے پورا کرانا چاہتا ہوں.اس کے بعد میں پانی وغیرہ پیوں گا.اور وہ یہ کہ آپ مرزا غلام احمد صاحب کے خلاف ایک تحریر مجھ کو دید میں اور یہ کہ ان کی پیشگوئی دربارہ محمدی بیگم خلاط ثابت ہوئی ہے.مرزا سلطان محمد صاحب کہنے لگے کہ میں نے ان کو کہا کہ آپ ابھی تو آئے ہیں، یہ مہمان نوازی کے آداب میں ہے کہ آنے والے کو پہلے اچھی طرح بٹھا کر اور پانی وغیرہ پلا کر پھر کسی اور طرف متوجہ ہوں.مگر مولوی ثناء اللہ صاحب یہی رٹ لگاتے رہے.جس پر میں نے ایسی تحریر دینے سے صاف طور پر انکار کر دیا.اور وہ بے نیل مرام واپس چلے گئے.یہ واقعہ سنا کر انہوں نے کہا کہ یہ حضرت مرزا صاحب کے متعلق میری عقیدت ہی تھی جس کی وجہ سے میں نے ان کی ایک نہ مانی.نیز انہوں نے یہ بھی کہا کہ عیسائی اور آریہ قوم کے بڑے بڑے لیڈروں نے بھی مجھ سے اس قسم کی تحریر لینے کی خواہش کی مگر میں نے کسی کی نہ مانی اور صاف ایسی تحریر دینے سے ان کو انکار کرتا رہا.بلکہ جہاں تک مجھ کو یاد پڑتا ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو عقیدت مجھ کو ان سے ہے وہ
آپ میں سے کئی احمدیوں کو بھی نہیں ہے.“ گواه شد سید عبدالتی بقلم خود خاکسار گواه شد محمود احمد مختار (شاہد ) ظہور حسین سابق مبلغ روس- ریدہ ۲۰ / اپریل ۱۹۵۹ء " ۲۰ اپریل ۱۹۵۹ء (ماخوذ از پیشگوئی دربارہ مرزا احمد بیگ اور اس کے متعلقات کی وضاحت صفحه ۷ ۱۸ تا ۱۸۹) حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں :- ”جب احمد بیگ فوت ہو گیا تو اس کی بیوہ عورت اور دیگر پسماندگان کی کمر ٹوٹ گئی تو وہ دعا اور تضرع کی طرف بدل متوجہ ہو گئے.“ (حجة الله صفحه ۱۱ مطبوعہ ۱۸۹۶ء) پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ کی وفات ہو جانے پر اس خاندان کے بعض افراد نے حضرت مسیح موعود کو خط بھی لکھے اور دعا کی درخواست کی ان خطوط کا ذکر 66 حضرت مسیح موعود نے اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ “ و حقیقۃ الوحی صفحہ ۷ ۱۸ پر کیا پیشگوئی کے پانچ حصے اس پیشگوئی کے پانچ حصے ہیں جن میں سے پہلے تین حصے لفظ پورے ہو چکے ہیں اور پچھلے دو حصے مرزا سلطان محمد صاحب کی توبہ اور رجوع الی اللہ کی وجہ سے وعیدی پیشگوئیوں کی سنت کے مطابق جن کا پورا ہو نا عدم تو بہ کی شرط سے مشروط ہوتا ہے ٹل گئے ہیں.اس لئے پیشگوئیوں کے اصول اور ان کے بارہ میں اللہ تعالی کی جو سنت ہے اُس کے رُو سے نفس پیشگوئی پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا.پیشگوئی کے یہ پانچ حصے جو حضرت اقدس کی کتاب " آئینہ کمالات اسلام و
شهادة القرآن صفحہ ۸۱ سے ماخوذ ہیں.درج ذیل ہیں :- حصہ اول :.اگر مرزا احمد بیگ صاحب اپنی بڑی لڑکی کا نکاح حضرت اقدس سے نہیں کریں گے تو پھر وہ اس وقت تک زندور ہیں گے کہ اپنی اس لڑکی کا نکاح کسی دوسری جگہ کریں.حصہ دوم : - نکاح تک وہ لڑکی بھی زندہ رہے گی.حصہ سوم : - دوسری جگہ نکاح کرنے کے بعد مرزا احمد بیگ صاحب تین سال کے اندر بلکہ بہت جلد ہلاک ہو جائیں گے.حصہ چہارم : - دوسری جگہ نکاح کے بعد اس لڑکی کا خاوند اڑ ہائی سال کے عرصہ میں ہلاک ہو جائے گا (اشر طیکہ تو بہ وقوع میں نہ آئے.کیونکہ وعیدی پیشگوئی مشروط بعدم تو بہ ہوتی ہے).حصہ پنجم : خاوند کی ہلاکت کے بعد وہ لڑکی بیوہ ہو گی.حصہ ششم: پھر حضرت اقدس کے نکاح میں آئے گی.گویا یہ آخری حصہ پیشگوئی کا اس لڑکی کے خاوند کی موت سے مشروط تھا.نشان اول :- پیشگوئی کا پہلا حصہ بطور نشان اول پورا ہو گیا.اگر محمدی بیگم صاحبہ کا باپ محمدی بیگم صاحبہ کا نکاح کرنے سے پہلے وفات پا جاتا تو پیشگوئی کا حصہ اوّل پورا نہ ہوتا.مگر یہ صفائی سے پورا ہوا.نشان دوئم -: - پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے مطابق لڑکی نکاح تک زندہ رہ کر نشان بنی اگر یہ لڑکی نکاح سے پہلے مر جاتی تو پیشنگوئی کا دوسراحصہ بھی پورا نہ ہوتا مگر یہ حصہ بھی نہایت صفائی سے پورا ہو کر نشان بنا.نشان سوم : - دوسری جگہ نکاح کے بعد لڑکی کا باپ چھ ماہ کے عرصہ میں ہلاک ہو گیا اگر اس کی موت تین سال سے تجاوز کر جاتی تو پیشنگوئی کا یہ حصہ بھی پورا نہ ہو تا مگر یہ
حصہ بھی نہایت صفائی سے پورا ہو گیا.اس طرح یہ تینوں حصے پورے ہو کر عظیم الشان نشان بن گئے.پچھلے دو حصوں کے ظہور کا طریق پچھلے دو حصے اس طرح ظہور پذیر ہوئے کہ محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند پر اپنے خسر کی موت سے سخت ہیبت طاری ہوئی اور اُس نے توبہ اور استغفار کی طرف رجوع کیا اور وعیدی پیشگوئی کی شرط تو بہ کے مطابق تو بہ سے فائد ہ اٹھا کر موت سے بچ گیا اور پیشگوئی کا یہ حصہ شرط تو جہ سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے مل گیا.جیسا کہ حضرت یونس کی قوم کے توبہ کرنے پر وہ عذاب مل گیا تھا جس کے چالیس دن میں پورے ہونے کی پیشگوئی حضرت یونس نے فرمائی تھی.چونکہ مرزا سلطان محمد صاحب کی توبہ اور رجوع سے ان کی موت کی پیشگوئی مل گئی اور حضرت اقدس سے نکاح محمدی بیگم صاحبہ کے پیدہ ہونے سے مشروط تھا اس لئے اب اس کا وقوع میں آنا ضروری نہ رہا اور پیشگوئی کے یہ آخری دو حصے شرط تو جہ سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے دوسر ارنگ پکڑ گئے.اب نکاح کا وقوع صرف اس بات سے معلق ہو کر رہ گیا کہ سلطان محمد صاحب از خود حضرت اقدس کی زندگی میں کسی وقت بیا کی اور شوخی دکھائیں اور پیشگوئی کی تکذیب کریں.اس تکذیب کا صرف امکان ہی تھا یہ ضروری الو قوع نہ تھی اور نکاح کے اس طرح معلق ہونے کی حد حضرت اقدس کی زندگی تک تھی مگر محمدی یگم کا خاوند اس کے بعد حضرت اقدس کی زندگی میں توبہ پر قائم رہا اور خاندان کے دوسرے افراد نے بھی اصلاح کر لی تو اس وعیدی پیشگوئی کی اصل غرض جو اس خاندان کی اصلاح تھی پوری ہو گئی.کیونکہ اس خاندان کے افراد نے الحاد اور دہریت کے خیالات کو ترک کر دیا اور اسلام کی عظمت کے قائل ہو گئے اور ان میں سے اکثر نے
احمدیت قبول کر لی.وعیدی پیشگوئی کا اصل غرض چونکہ توبہ اور استغفار کی طرف رجوع دلانا اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا سکہ دلوں پر بٹھانا ہوتی ہے اس لئے جب یہ شرط پوری ہو جائے تو پھر سنت اللہ کے مطابق عذاب بالکل مل جایا کرتا ہے بشر طیکہ متعلقین پیشگوئی اپنی توبہ پر قائم رہیں اور اگر انہوں نے تو بہ پر قائم نہ رہنا ہو تو پھر سنت اللہ یوں ہے کہ عذاب میں اس وقت تک تاخیر ہو جاتی ہے کہ وعیدی پیشگوئی کے متعلقین پھر بے باکی دکھائیں اور اپنی تو بہ توڑ دیں.یونس علیہ السلام کی پیشگوئی کا ملنا تھی کہ :- تفاسیر میں قوم یونس کے متعلق لکھا ہے کہ حضرت یونس نے یہ پیشگوئی کی إِنَّ أَجَلَكُمْ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً - لیکن قوم نے توبہ کرلی اور عذاب مل گیا.چنانچہ لکھا ہے :- فَتَضرعوا الى اللهِ وَرَحمَهُمُ و كَشَفَ عَنْهُمُ ( تفسیر کبیر از امام رازی جلد ۵ صفحه ۴۲ و تفسیر فتح البیان جلد ۸ صفحه ۸۹) یعنی وہ لوگ خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑائے تو اُس نے ان پر رحم کیا اور اُن سے عذاب دُور کر دیا.چونکہ یہ لوگ تو بہ پر قائم رہے اس لئے عذاب بھی ان سے ٹلا رہا اور خدا تعالیٰ نے اس قوم سے اپنی پہلی سنت کے مطابق معاملہ کیا.لیکن آل فرعون جب عذاب آنے پر حضرت موسیٰ سے دُعا کی دو خواست کرتی تھی اور ایمان لانے کا وعدہ کرتی تھی تو خدا تعالیٰ ان سے عذاب ٹال دیتا تھا.مگر چونکہ وہ اپنے وعدہ پر قائم نہیں رہتی تھی اس لئے پھر عذاب میں پکڑی جاتی تھی.بالآخر آل فرعون مع فرعون تو بہ پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کا تعاقب کرنے پر سمندر میں
۳۷۲ غرق ہو گئی.اس قوم سے خدا تعالیٰ نے اپنی دوسری سنت تأخیر عذاب کے مطابق سلوک کیا.پیشگوئی زیر بحث میں خدا کی سنت کا ظہور اس پیشگوئی میں مرزا احمد بیگ صاحب حضرت اقدس سے اپنی لڑکی کا نکاح نہ کرنے کی وجہ سے پیشگوئی کے میعاد میں پکڑے گئے اور ہلاک ہوئے.اس سے کنبہ پر ہیبت طاری ہو گئی اور سلطان محمد صاحب خاوند محمدی بیگم صاحبہ کی تو بہ اور استغفار پر اُن کی وعیدی موت ٹل گئی.کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :- مَا كَانَ اللهُ مُعَدِّ بَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (انفال آیت ۳۴) یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دینے والا نہیں ہے اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں.سلطان محمد صاحب کی موت کی پیشگوئی توبہ کی وجہ سے ٹل جانے پر اب حضرت اقدس سے نکاح ضروری نہ رہا.اب سلطان محمد صاحب پر عذاب صرف اسی صورت میں نازل ہو سکتا تھا کہ وہ تو بہ کو توڑ دیتے اور پیشگوئی کی تکذیب کر دیتے اور پھر ان کی موت کے لئے نئی میعاد خدا کی طرف سے مقرر ہوتی.اس لئے انجام آتھم کے صفحہ ۳۲ پر حضرت اقدس نے نکاح کی پیشگوئی کو سلطان محمد صاحب کے آئندہ اس پیشگوئی کی تکذیب کرنے اور بے باکی اور شوخی دکھانے سے اور اس کے لئے نئی میعاد مقرر ہونے سے معلق قرار دے دیا اور ایسا ہی ہونا ضروری تھا.کیونکہ امکان تھا کہ مرزا سلطان محمد کسی وقت تکذیب کر دیتے تو پیشگوئی میں لوگوں کے لئے اشتباہ پیدا ہو جاتا.
۳۷۳ پیشگوئی میں اجتہادی خطا پیشگوئیوں میں بعض دفعہ اجتہادی خطا بھی شرط کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مذکور نہ ہونے کی وجہ سے یا شرط کی طرف سے ذہول ہو جانے کی وجہ سے واقع ہو سکتی ہے.اور یہ امر قابل اعتراض نہیں.حضرت نوح سے وحی الہی کے سمجھنے میں اجتہادی غلطی ہو گئی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.حَتَّى إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّور قُلْنَا احْمِلُ فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ط (سوره هود آیت ۴۱) یعنی یہاں تک کہ جب ہمارا اعذاب کا حکم آجائے اور چشمے پھوٹ کر یہ پڑیں تو ہم کہیں گے کہ ہر ایک قسم کے جانوروں میں سے ایک جوڑا ( یعنی دو ہم جنس فردوں کو ) اور اپنے اہل و عیال کو بھی سوائے اس فرد کے جس کی ہلاکت کے متعلق اس عذاب کے آنے سے پہلے ہی ہمارا فرمان جاری ہو چکا ہے اور نیز ان کو سوار کرلے جو تجھ پر ایمان لائے ہیں.اس سے قبل نوع کو یہ حکم دیا جا چکا تھا : - وَلَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ.( ہود آیت (۳۸) کہ مجھے ظالموں کے بارے میں خطاب نہ کرنا بے شک وہ غرق ہونے والے حضرت نوح کا بیٹا جب غرق ہونے لگا تو انہوں نے خدا تعالیٰ کو اُس کا وعدہ یاد دلایا اور کہا :- رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ - ( بود آیت ۴۶) اے میرے رب بیشک میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور بے شک تیرا وعدہ سچا ہے.(یعنی اسے وعدہ کے مطابق چنا چاہیئے) یہ وعدہ یاد دلانے میں حضرت نوح کو پیشگوئی کی اس شرط سے ذہول ہو گیا جو :-
۳۷۴ الأَمَنُ سَبَقَ عَلَيْهِ القَوْلُ اورولَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ.(سوره هود آیت ۴۱، ۳۸) کے الفاظ میں بیان ہوئی تھی اور وہ غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ خدائی وعدہ کے مطابق میرا یہ بیٹا بھی غرق ہونے سے چنا چاہئے.لیکن اُن کا یہ اجتہاد درست نہ تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے اُن کے وعدہ یاد دلانے پر انہیں یہ جواب دیا.کہ إنه ليسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلُ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْفَلَن مَالَيسَ لَكَ بِهِ عِلم إِنِّي أَعِظُكَ اَنْ تَكُونَ مِنَ الْجِهِلِينَ (ہود آیت ۴۷) کہ یہ بیٹا تیرے اہل سے نہیں ہے یہ تو مجسم بد کردار ہے اس لئے مجھ سے ایسی درخواست مت کرو جو تم لا علمی سے کر رہے ہو.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ نادانوں کی طرح کوئی کام نہ کیجیو.پس شرط کی طرف سے ذہول ہو جاتا اس بات کی دلیل نہیں کہ پیشگوئی کرنے والا اپنے دعاوی میں منجانب اللہ نہیں.حضرت اقدس نے اس پیشگوئی کی مرزا سلطان محمد صاحب کے متعلق اڑہائی سالہ میعاد گزر جانے کے بعد پیشگوئی کی شرط تو بہ والے الہام :- أيَّتُهَا الْمَرْأَة تُوُبِى تُوبِى فَإِنَّ الْبَلاءَ عَلَى عَقِبِكِ يَمُوتُ وَيَبْقَى مِنْهُ كِلاب متعَدِّدَه کی طرف سے ذہول ہو جانے کی وجہ سے اصل پیشگوئی کے الہامی الفاظ لَا مُبْدِلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ - کے پیش نظر اجتماد کیا کہ پیشگوئی میں تاخیر ڈالی گئی ہے یہ عملی نہیں.اس لئے آپ نے اس قسم کی عبارتیں یقین اور وثوق پر مشتمل تحریر فرمائیں کہ محمدی بیگم کا خاوند ضرور مرے گا اور وہ 20 ہ ہو کر میرے نکاح میں آئے گی.
۳۷۵ برق صاحب کی پیش کردہ عبارتیں کسی جدید الہام کا نتیجہ نہ تھیں کیونکہ پیشگوئی کی اڑھائی سالہ میعاد گزر جانے کے بعد ۱۹۰۶ء تک آپ کو اس بارہ میں کوئی جدید الہام نہیں ہوا.اور الہام لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ جس اشتہار میں درج تھا اسی اشتہار میں پیشگوئی کی الہامی شرط تو بہ بھی أَيَّتُهَا الْمَرْأةُ تُوبِي تُونِي والے الہام میں درج تھی.مگر اس شرط کی طرف سے ذہول کی وجہ سے حضرت اقدس نے یہی اجتہاد کیا کہ سلطان محمد صاحب کسی وقت ضرور تو بہ توڑ دیں گے اور پھر اس کے بعد وہ ہلاک ہوں گے اور اس کے بعد محمدی بیگم صاحبہ ضرور نکاح میں آئیں گی.یہ اجتہاد کرنے کا آپ کو بہر حال حق تھا کہ اگر سلطان محمد نے کسی وقت تو بہ توڑ دی تو وہ ہلاک ہوں گے اور اس کے بعد محمدی بیگم کا نکاح میں آنا ضروری ہو گا.مگر حضرت اقدس نے اس سے بڑھ کر یہ اجتہاد فرمایا کہ توبہ کا توڑنا ضروری ہے اور سلطان محمد کی موت میں صرف تاخیر ہو گئی ہے.یہ پیشگوئی علی نہیں.مگر خدا تعالیٰ نے اپنی سنت مستمرہ کے مطابق آپ کو اس غلطی پر قائم نہ رہنے دیا اور ۶ار فروری ۱۹۰۱ء کو آپ پر ان الفاظ میں الہام نازل فرمایا :- تَكْفِيكَ هَذِهِ الْاِمْرَأَةُ - (تذکره صفحه ۸۳) کہ تمہارے لئے یہ عورت ( جو تمہارے نکاح میں ہے ) کافی ہے.تو اس الہام کے نازل ہونے پر آپ نے اپنے پہلے اجتہاد میں اصلاح فرمالی اور ضمیمہ حقیقتہ الوحی صفحہ ۳۲ میں لکھدیا کہ :- جب ان لوگوں نے شرط ( تو بہ ناقل) کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا.
اس جدید اجتہاد سے جو الہام جدید کی روشنی میں کیا گیا اب حضرت اقدس کا در میانی زمانہ کا اجتہاد جس میں آپ محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند کے تو بہ توڑنے کو اور اس کے بعد نکاح کو ضروری قرار دیتے تھے.قابل تخت نہ رہا.پس یہ پیشگوئی اپنی الہامی شرط کے مطابق ظہور پذیر ہو چکی ہے اور اس پیشگوئی کے الہامات پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا.اسی طرح حضرت اقدس کا آخری اجتہاد بھی سنت اللہ کے مطابق درست تھا.اس پر بھی کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا.اس جدید الہام کی وجہ سے درمیانی زمانہ کی عبارتیں جو سلطان محمد صاحب کی موت کو ضروری اور اس کے بعد نکاح کو مبرم قرار دیتی تھیں.اس شرط سے مشروط کبھی جائیں گی کہ اگر سلطان محمد از خود تو بہ توڑ دیں تو ان کی ہلاکت اور اس کے بعد حضرت اقدس سے نکاح کا وقوع ضرور ہو گا ورنہ نہیں.پس جدید اجتہاد کی بنا پر اب برق صاحب کی پیش کردہ عبارتیں اوپر کی شرط سے مشروط ہو گئی ہیں.عبارتیں یوں پڑھی جائیں لہذا اب یہ عبارتیں یوں پڑھی جانی چاہئیں :- -1 (اگر مرزا سلطان محمد کسی وقت تو بہ توڑ کو پیشگوئی کی تکذیب کرے) تو اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آجانا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح مل نہیں سکتی.کیونکہ اس کے لئے الہام الہی میں یہ کلمہ موجود ہے لا تبديل لِكَلِمَاتِ الله الله کی بات تبدیل نہیں ہو سکتی) یعنی میری یہ بات ہر گز نہیں ملے گی.پس اگر مل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے.اعلان ۶/ ستمبر ۱۸۹۶ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه (۱۱۵) ایک حصہ پیشگوئی کا یعنی احمد بیگ کا میعاد کے اندر فوت ہو جانا حسب منشاء پیشگوئی صفائی سے پورا ہو گیا اور دوسرے کی انتظار ہے (بشر طیکہ مرزا سلطان محمد
تو بہ توڑ دے.اور پیشگوئی کی تکذیب کرے.“ (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۶۴) ۳- اگر کسی وقت سلطان محمد تو بہ توڑ کر میری زندگی میں پیشگوئی کی تکذیب کرے تو ) یاد رکھو کہ اس کی دوسری جزو پوری نہ ہوئی تو میں ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروں گا.اے احمقوا یہ انسان کا افتراء نہیں.یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں.یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے وہی خدا جس کی باتیں نہیں ملتیں." (ضمیمه انجام آتھم صفحه ۵۴) -۴- اگر کسی وقت میری زندگی میں سلطان محمد نے تو بہ توڑ دی تو ) جس وقت یہ سب باتیں پوری ہو جائیں گی.اس دن نہایت صفائی سے ( مخالفین کی ) ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سؤروں کی طرح کر دیں گے.“ (ضمیمه انجام آتھم صفحه ۵۳) وحی الہی میں یہ نہیں تھا کہ دوسری جگہ بیاہی نہیں جائے گی.یہ تھا کہ - وو ضرور ہے اوّل دوسری جگہ بیاہی جائے خدا اس کو تیری طرف لے آئے گا اشر طیکہ اس کا خاوند توبہ نہ کرے یا تو بہ کر کے توڑ دے).“ (الحکم ۱۳۰ جون ۱۹۰۵ء صفحه ۲) برق صاحب کی تحریف ذیل کی عبارت درج کی ہے :- جناب برق صاحب نے حرف محرمانہ کے صفحہ ۲۶۳ پر حضرت اقدس کی "اے خدائے قادر و علیم اگر آتھم کا عذاب مسلک میں گرفتار ہو نا لور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا.یہ پیشگوئیاں تیری طرف سے نہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر.“ (اشتہار ۲۷ اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۱۸۶)
۳۷۸ افسوس ہے کہ برق صاحب نے اپنے اعتراض کو مضبوط بنانے کے لئے اس عبارت کو قطع و برید کے ساتھ پیش کیا ہے.چنانچہ انہوں نے اس دُعا کے درمیان سے ”نکاح میں آنا“ کے بعد کے یہ الفاظ حذف کر دیئے ہیں کہ :- " یہ پیشگوئیاں تیری طرف سے ہیں تو ان کو ایسے طور سے ظاہر فرما جو خلق اللہ پر یحت ہو اور کو رباطن حاسدوں کا منہ بند ہو جائے.“ جناب برق صاحب نے ان الفاظ کی جگہ اپنی پیش کردہ عبارت کے درمیان نقطے ڈال دیئے ہیں تا پڑھنے والا یہ سمجھے کہ برق صاحب نے دراصل اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے درمیانی عبارت درج نہیں کی.حالانکہ جناب برق صاحب ان در میانی الفاظ کو حذف کر کے دراصل پیشگوئی کے متعلق ایک غلط تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں.اس طریق کا نام تحقیق نہیں کیونکہ یہ حذف کردہ الفاظ تو دراصل برق صاحب کے اس اعتراض کا جواب تھے جو وہ اس جگہ پیدا کرنا چاہتے تھے.اسی لئے انہوں نے انہیں حذف کیا ہے کہ اعتراض مضبوط دکھائی دے.دعا کی قبولیت جناب برق صاحب کے اس دعا کے درمیان سے حذف کردہ الفاظ شامل کئے جائیں تو عبارت کا مفہوم یہ ہو گا.کہ عبد اللہ آتھم کا ہلاک ہونا اور مرزا احمد بیگ کی دختر کلاں کا آپ کے نکاح میں آنا اگر خدائی پیشگوئیاں ہیں تو خدا تعالیٰ انہیں ایسے رنگ میں ظاہر فرمائے جو خلق اللہ پر حجت ہو اور اس سے کو رباطن حاسدوں کا منہ بند ہو جائے.سوخدا تعالیٰ نے آپ کی اس دعا کو یوں قبول فرمالیا کہ عبداللہ آتھم آپ کی آخری پیشگوئی کے مطابق کے ماہ کے عرصہ کے اندر ہلاک ہو گیا اور محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند نے توبہ کی الہامی شرط سے فائدہ اٹھالیا.اور پھر حضرت اقدس کی زندگی میں کبھی اس پیشگوئی کی تکذیب نہیں کی
بلکہ اس کے مصدق رہے.اس لئے وعیدی موت سے بچے رہے اور ان کی توبہ اور پیشگوئی کی تصدیق کی وجہ سے یہ پیشگوئی وعیدی پیشگوئیوں کے اصول کے مطابق دوسرے رنگ میں ظاہر ہو گئی اور محمدی بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت اقدس سے مرزا سلطان محمد صاحب کی توبہ کے پائیدار ہونے کی وجہ سے الہامی شرط کے مطابق ضروری نہ رہا.حضرت اقدس نے معترضین کو چیلنج کیا تھا.کہ ہوں." 66 فیصلہ تو آسان ہے.سلطان محمد کو کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے.اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں چھوٹا (انجام آنقم صفحه ۳۲) مگر معترضین میں سے کوئی بھی اس بات پر قادر نہ ہو سکا کہ وہ اس چیلنج کے مطابق مرزا سلطان محمد صاحب سے پیشگوئی کی تکذیب کا اشتہار دلائے پس اللہ تعالیٰ نے اس چیلنج کے بالتقابل معترضین پیشگوئی کو ناکام رکھ کر اس پیشگوئی کو وعیدی پیشگوئیوں کے اصول کے مطابق ایسے رنگ میں ظاہر فرما دیا ہے.جو خلق اللہ پر حجت ہے اور چیلنج سے عمد و بر آنہ ہو سکنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے کو رباطن حاسدوں کا منہ بھی در حقیقت بند کر دیا ہے.کیونکہ وہ اس پیشگوئی پر کوئی حقیقی اعتراض نہیں کر سکتے.ہاں ژاثر خائی الگ امر ہے.پیشگوئی پر برق صاحب کے اہم اعتراضات اعتراض اوّل برق صاحب لکھتے ہیں :- " جب ۱۸۸۸ء کی پیشگوئی تقریباً ۲۰ برس تک پوری نہ ہوئی اور جناب مرزا صاحب پوری طرح مایوس ہو گئے تو آپ نے سے ۱۹۰ء میں کہا :-
۳۸۰ خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اسی وقت کی گئی اور وہ یہ تھی کہ ایتھا المرأة تُونِى تُونِي فَإِنَّ البَلاءَ عَلَى عَقِيكِ (اے عورت تو بہ کر کہ مصائب تیرا پیچھا کر رہے ہیں ) پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گی یا تاخیر میں پڑ گیا.“ الجواب وو تتمه حقیقۃ الوحی صفحه ۱۳۲) پیشگوئی کو دوبارہ غور سے پڑھیئے یہ نئی شرط وہاں نہیں ملے گی.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۶۶) اس کے جواب میں عرض ہے کہ برق صاحب کہتے ہیں یہ شرط پیشگوئی میں نہیں ملے گی.مگر یہ الہامی شرط جو توبہ سے تعلق رکھتی ہے.تتمہ اشتہار دہم جولائی میں نکاح والے الہام کے ساتھ ہی درج ہے کیونکہ اس اشتہار میں اَيَّتُهَا الْمَرْأَةُ تُوبُى تُونِي فَإِنَّ البَلاءَ عَلَى عَقِبكِ کا الہام بھی درج ہے.جناب برق صاحب یہ نئی شرط وہاں نہیں ملے گی، کہہ کر یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ یہ شرط گویا نئی ایجاد کی گئی ہے تا کہ مخالفین کے اعتراضات سے بچا جائے حالانکہ یہ شرط در حقیقت پرانی ہے اور تمہ اشتہار وہم جولائی ۱۸۸۸ء میں نکاح والے الہام کے ساتھ ہی بصورت الہام مذکور ربی ہے.پس اس توبہ کی شرط والے پرانے الہام نے ثابت کر دیا ہے کہ جناب برق صاحب کا یہ اعتراض کہ شرط پہلے موجود نہ تھی بابکہ یہ مایوس ہو کر ایجاد کی گئی ہے.هباء منثورا ہو گیا.جناب برق صاحب ! سنئیے اگر بالفرض یہ شرط پہلے مذکور نہ بھی ہوتی تو بھی آپ کو پیشگوئی پر اعتراض کا کوئی حق نہ تھا.کیونکہ مرزا سلطان محمد صاحب کی مورت کی نمبرا : - یہ ترجمہ جناب برق صاحب کا ہے جو بالکل غلط ہے.
۳۸۱ پیشنگوئی و عیدی تھی.وعیدی پیشگوئیوں کا وقوع اصولاً تو بہ نہ وقوع میں آنے کی شرط سے مشروط ہوتا ہے.اور اگر توبہ وقوع میں آجائے تو شخص مذکور کے تو بہ پر قائم رہنے کی صورت میں وعیدی پیشگوئی مل جاتی ہے.ورنہ تاخیر میں پڑ جاتی ہے.یعنی جب وہ تو بہ کو توڑتا ہے تو پھر پکڑا جاتا ہے.دوسرا اعتراض جناب برق صاحب نے دوسرا اعتراض شرط موجود فرض کر کے یوں کیا ہے نتیجہ نکاح فسخ یا مؤخر ہو گیا تھا تو پھر ۱۸۹۱ء سے ۱۹۰۵ء تک پورے چودہ ހ برس مسلسل یہ کیوں کہتے رہے کہ خدا پھر اُس کو تیری طرف لائیگا.کیا فسخ نکاح کی اطلاع اللہ نے آپ کو نہیں دی تھی." ( حرف محرمانہ صفحہ ۲۶۶) الجوار اس کے جواب میں عرض ہے.کہ نکاح کے فتح یا تاخیر کا اجتہاد تو آخری اجتہاد ہے.اس سے پہلے تو حضرت اقدس مرزا سلطان محمد کی موت کو اور پھر نکاح کو مبرم قرار دیتے رہے ہیں.یہ اجتہاد کہ نکاح فسخ ہو گیا.1906ء کی کتاب حقیقۃ الوحی میں شائع ہوا ہے.اور یہ اجتہاد آپ نے اس الہام کے بعد کیا ہے جو ۱۸؍ فروری ۱۹۰۶ء میں آپ پر "تكفيك هذه الاَمرَأَةُ“ کے الفاظ میں نازل ہوا تھا.(تذکره صفحه ۸۳۰) اس الہام کے نازل ہونے پر آپ کو یہ احساس ہوا کہ نکاح یا فسخ ہو گیا ہے یا تاخیر میں پڑ گیا ہے.مگر اس وقت غالب احساس آپ کو یہی تھا کہ نکاح فسخ ہو گیا ہے.یعنی مرزا سلطان محمد صاحب کی توبہ کے پائدار ہونے کی وجہ سے منسوخ ہو چکا ہے.
۳۸۲ لیکن چونکہ مرزا سلطان محمد کے کسی وقت تو بہ توڑنے کا احتمال بھی ہو سکتا تھا اس لئے آپ نے کیا تاخیر میں پڑ گیا" کے الفاظ بھی احتمال تحریر فرما دیئے تا اگر کسی وقت آپ کی زندگی میں مرزا سلطان محمد صاحب کی طرف سے بالفرض تکذیب وقوع میں آبھی جائے تو پھر پیشگوئی کے مطابق اس کی موت کے لئے نئی میعاد مقرر ہو جائے گی.جس کے بعد اس کی موت یقینی ہو گی اور اس کے بعد نکاح ائل امر ہو جائیگا.ہاں غالب گمان آپ کا جدید الہام کی رو سے یہی تھا.کہ نکاح والا حصہ منسوخ ہو چکا ہے.چنانچہ آپ نے حقیقۃ الوحی کی اس تحریر کے بعد ۱۹۰۸ء میں لکھا کہ :- یونس کی قوم کا واقعہ سب کو معلوم ہے.کہ کوئی شرط نہ تھی مگر پھر بھی تو بہ و استغفار سے وہ عذاب ٹالا گیا.اور یہاں تو صاف تُونِي تُونِي فَإِنَّ الْبَلَاءَ عَلَى عَقِبِكِ آگیا ہے.جس سے صاف ظاہر ہے کہ توبہ سے یہ سب باتیں مل جائیں گی اور احمد بیگ کی موت سے جو خوف ان پر چھا گیا اس نے پیشگوئی کے ایک حصہ کو ٹال دیا.اعتراض سوم تیسرا اعتراض برق صاحب یوں لکھتے ہیں :- (اخبار بد ( ۱۹۰۸ء صفحه ۴) " پھر یہ بات بھی میری ناقص سمجھ سے بالا تر ہے کہ عورت کے توبہ کرنے سے نکاح کا رشتہ کیسے ٹوٹ گیا.اگر کوئی بیوی کسی گناہ سے توبہ کرے تو کیا اس کا کھولئے نکاح فسخ ہو جاتا ہے.کھو لئے فقہ کی کوئی کتاب اور پڑھئے باب النکاح.کیا وہاں جاتا کوئی ایسی دفعہ موجود ہے کہ اگر بیوی گنا ہوں سے تائب ہو جائے تو شوہر پر حرام ہو جاتی ہے.“ حرف محرمانه صفحه ۲۶۶ ۲۶۷)
٣٨٣ الجواب اس کے جواب میں عرض ہے کہ جناب برق صاحب کا یہ سارا اعتراض ایک غلط فہمی پر مبنی ہے.وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ الہام أَيَّتُهَا الْمَرْأَةُ تُونِي تُولی کہ اے عورت تو بہ کر توبہ کر میں عورت" سے مراد محمدی بیگم صاحبہ ہیں.اس لئے وہ اعتراضاً لکھ رہے ہیں کہ فقہ کی کتابوں میں کوئی ایسی دفعہ موجود نہیں کہ بیوی گنا ہوں سے تائب ہو جائے تو وہ شوہر پر حرام ہو جاتی ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ اس الہام مين أيتها المرء : سے جو عورت مراد ہے وہ محمدی بیگم صاحبہ نہیں بلکہ ان کی بانی صاحبہ مراد ہیں.اپنی کتاب کا نام تو جناب برقی صاحب نے " حرف محرمانہ " رکھا ہے.مگر وہ اس بات سے بالکل نا محرم ہیں کہ اس الہام میں عورت سے مراد محمدی بیگم صاحبہ نہیں.پس انہوں نے از خود عورت سے محمدی بیگم صاحبہ مراد لے کر اپنے اعتراض کی عمارت کھڑی کی ہے.لہذا ان کی کتاب حرف محرمانہ نہیں بلکہ اصل حقیقت کو جاننے سے محروم ہونے کی وجہ سے حرف محرمانہ یا حرف محرومانہ کہلانے کی مستحق ہے.افسوس ہے کہ انہوں نے بلا تحقیق اس الہام کے الفاظ ابنها المراة میں المرأة (عورت) سے محمدی بیگم صاحبہ مراد لے لی ہے.جناب برق صاحب! آپ ذرا تتمہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء نکال کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ وہاں اس الہام کو محمدی بیگم صاحبہ کی نانی صاحبہ سے متعلق قرار دیا گیا ہے.اشتہار ہذا میں حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں.کہ آپ نے کشف میں محمدی بیگم صاحبہ کی نانی کو دیکھا کہ اس کے چہرے پر رونے کے آثار
۳۸۴ ہیں تو آپ نے اسے مخاطب کر کے کہا :- ايتها الْمَرْأَةُ تُوبِى تُوبِى فَإِنَّ البَلاءَ عَلَى عَقِبِكِ وَالْمُصِيبَةُ نَازِلَةً عَلَيْكِ يَمُوتُ وَيَبْقَى مِنْهُ كِتَابٌ مُتعدّدة (تتمہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء) کہ اے عورت تو بہ کر توبہ کر کیونکہ بلا تیری اولاد اور اولاد کی اولاد پر پڑنے والی ہے.اور تجھ پر مصیبت نازل ہونے والی ہے.ایک شخص مرے گا اور اس سے کئی ایسے معترض باقی رہ جائیں گے جو زبان درازی کرتے رہیں گے.برق صاحب نے فَإِنَّ الْبَلاءَ عَلَى عَقِبِكِ کا از خود یہ ترجمہ کیا ہے.کہ : مصائب تیرا پیچھا کر رہے ہیں.( حرف محرمانہ صفحہ ۲۶۶) مگر مخاطب چونکہ محمدی بیگم صاحبہ کی نانی صاحبہ ہیں اس لئے عقبك سے مراد نانی کی اولاد یعنی محمدی ریگم صاحبہ اور آگے ان کی اولاد یعنی محمدی بیگم صاحبہ ہیں.ان دونوں پر مصیبت نازل ہونے کا ذکر یوں ہے کہ ایک شخص مریگا یعنی محمدی دیم صاحبہ کا والد جس سے محمدی بیگم کی والدہ بیوہ ہو جائے گی.اور یہ موت محمدی بیگم صاحبہ اور ان کی والدہ کے لئے بھی مصیبت ہو گی.اور محمدی بیگم صاحبہ کی نانی صاحبہ کے لئے بھی مصیبت ہو گی.پس جناب برق صاحب کے اس اعتراض کی جب بنا ہی غلط ہے ، تو اعتراض بنائے فاسد علی الفاسد کا مصداق ثابت ہوا.اعتراض چهارم جناب برق صاحب کا چوتھا اعتراض یہ ہے کہ وہ لکھتے ہیں :- " پھر یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ نکاح پڑھا اللہ نے زبر دستی کی اس کے اقربا نے کہ سلطان احمد ( سلطان محمد صاحب ناقل) کے حوالے کر دی اور توبہ..کرے محمد می دیم.“ 66
۳۸۵ الجواب اس کے جواب میں عرض ہے کہ میں بتا چکا ہوں الہام أَيَّتُهَا الْمَرْآةُ تُونِي تُو ہی میں محمدی بیگم صاحبہ کی توبہ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.بلکہ ان کی نانی کی تو بہ کا سوال تھا جس کا مفاد یہ ہو سکتا تھا.وہ اپنے داماد مرزا احمد بیگ کو محمدی بیگم صاحبہ کے دوسری جگہ نکاح سے باز رکھتی.مگر اس نے توبہ نہ کی اس لئے اس کا داماد مرزا احمد بیگ پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا اور اس طرح اس خاندان پر مصیبت پڑی.اگر خسر کے پیشگوئی کا نشانہ بن جانے پر مرزا سلطان محمد صاحب بھی تو بہ کی طرف مائل ہو کر و عیدی پیشگوئی کی زد سے حیا نہ جاتے تو وہ بھی ہلاک ہو جاتے.پانچواں اعتراض برق صاحب کا پانچواں اعتراض یہ ہے کہ :- شرط کا تعلق عورت سے تھا لیکن اسے پورا کیا ان لوگوں نے کن لوگوں نے ؟ عورت کے اقرباء نے ؟ کیا انہوں نے سلطان احمد ( سلطان محمد چاہئے ) کو مجبور کیا تھا کہ وہ محمدی بیگم کو طلاق دے دے.کیا وہ حلقہ بیعت میں شامل ہو گئے تھے.اگر ان میں سے کوئی بات واقعہ نہیں ہوئی تو پھر ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کیسے کیا ؟ حرف محرمانه صفحه ۲۶۸،۲۶۷) الجواب اس کے جواب میں عرض ہے کہ اس شرط کو پورا کیا ہے.مرزا سلطان محمد صاحب محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند نے.اور توبہ کی شرط سے فائدہ اٹھانے کیلئے محمد ی دیگم صاحبہ کو ان کے خاوند سے طلاق دلانے کی ضرورت اس لئے نہ تھی کہ الہام بتا تا تھا که محمدی بیگم صاحبہ کو پیشگوئی کے الفاظ يَمُوتُ بَعْلُهَا کے مطابق وہ ہو کر حضرت
اقدس کے نکاح میں آنا چاہیے تھا نہ کہ مطلقہ ہو کر.اب ہم برق صاحب سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ وہ بتائیں کسی الہام کی روسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ محمد ی دیگم صاحبہ مطلقہ ہو کر حضرت اقدس کے نکاح میں آئیں گی؟ ہمارا دعوی ہے کہ وہ ایسا کوئی الہام بلکہ حضرت اقدس کا ایسا اجتماد بھی پیش نہیں کر سکتے جو محمدی بیگم صاحبہ کے مطلقہ ہو کر حضرت اقدس کے نکاح میں آنے کو ضروری قرار دیتا ہو.بلکہ الہام الہی صاف بتاتا ہے کہ وہ اپنے خاوند کی موت کے بعد حضرت اقدس کے نکاح میں آئیں گی.مگر ان کے خاوند کی موت ان کی توبہ اور پیشگوئی کی تصدیق کی وجہ سے مل گئی اور پھر یہ تو بہ پائیدار رہی اور باوجود حضرت اقدس کے مخالفین اور معترضین کو یہ چیلنج دینے کے کہ سلطان محمد سے تکذیب کا اشتہار دلاؤ.جو معیاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کر جائے تو میں جھوٹا ہوں.(انجام آتھم صفحہ ۳۲) کوئی مخالف بھی تکذیب کا اشتہار دلانے پر قادر نہ ہو سکا.الہذا حضرت اقدس سے نکاح جو محمدی بیگم صاحبہ کے وہ ہو کر واپس آنے سے مشروط ہونے کی وجہ سے (نہ کہ مطلقہ ہو کر واپس آنے سے) مرزا سلطان محمد صاحب کی موت سے معلق تھا اور مرزا سلطان محمد صاحب کے تو بہ کے ذریعے وعیدی موت سے بچ جانے کے بعد اب نکاح ضروری نہیں رہا تھا.کیونکہ پیشگوئی کا یہ حصہ شرط توبہ کے مطابق دوسر ارنگ اختیار کر گیا تھا.رہا ان لوگوں کے حلقہ بیعت میں شامل ہونے کا سوال سو اس کے متعلق عرض ہے کہ بے شک اس خاندان کے اکثر افراد حلقہ بیعت میں بھی شامل ہو گئے ہیں اور خود محمدی بیگم صاحبہ کے پسر مرزا اسحاق ایک صاحب بھی خدا کے فضل سے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو چکے ہیں اور اس کے علاوہ خود محمدی بیگم صاحبہ کی والدہ اور ان کی دو لڑکیاں بھی حلقہ بیعت میں داخل ہو چکی ہیں.پس جس خاندان سے اس پیشگوئی کا براہ
۳۸۷ راست تعلق تھا اس کے کئی افراد بالخصوص محمدی بیگم صاحبہ کی والدہ صاحبہ اور نانی صاحبہ کا بیعت کر لینا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ یہ لوگ اس بات کے شاہد ناطق ہیں کہ مرزا سلطان محمد صاحب تو بہ کرنے کی وجہ سے ہی وعیدی موت سے بچے تھے.اگر انہیں اس بات کی تصدیق نہ ہوتی تو یہ لوگ کبھی بھی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو کر اس پیشگوئی کے مصدق نہ ہوتے.مرزا سلطان محمد صاحب کی توبہ کیلئے بیعت ضروری نہ تھی کیونکہ یہ پیشگوئی ۱۸۸۸ء میں کی گئی تھی جب کہ ابھی بیعت کا سلسلہ ہی شروع نہیں ہوا تھا.اور نہ ابھی حضرت اقدس نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا.بابچہ اس وقت آپ کا دعویٰ صرف ملہم من اللہ ہونے کا تھا.پس مرزا سلطان محمد صاحب کی وعیدی موت سے بچنے کے لئے صرف اتنا ا رجوع کافی تھا کہ وہ اس پیشگوئی کی تصدیق کرتے.ان کا جو انٹرویو حافظ جمال احمد صاحب نے لیا تھا جو الفضل میں شائع ہو چکا ہے.اور جس کا اقتباس پیچھے دیا جا چکا ہے.بتاتا ہے کہ مرزا سلطان محمد صاحب حضرت اقدس پر ایمان رکھتے تھے.اور اس پیشگوئی کے مصدق تھے.گو وہ حضرت موسیٰ کے زمانہ کے رجل مومن کی طرح تھے جو اپنے ایمان کو چھپاتا تھا اور صرف ضرورت کے موقعہ پر اس نے اپنا ایمان ظاہر کیا تھا.ممکن ہے وہ کسی حجاب کی وجہ سے ظاہری بیعت سے رکے رہے ہوں.بہر حال ان کے بیعت نہ کرنے کی حقیقی وجوہ تو صرف وہ خود ہی جانتے تھے.انٹرویو کے وقت اس کی وجہ دریافت کرنے پر انہوں نے کہا تھا کہ بیعت نہ کرنے کی وجوہ وہ مصلحت کی وجہ سے بیان نہیں کر سکتے ورنہ انہیں حضرت اقدس پر ایمان اس سے بھی بڑھ کر ہے جو کسی احمدی کو ہو سکتا ہے جس نے بیعت کی ہوئی ہو.اور یہ بات وہ سبھی کہہ سکتے تھے جب کہ وہ اپنے میکں ایمان لانے والوں میں سے سمجھتے ہوں.چونکہ مرزا سلطان محمد صاحب پیشگوئی کی وعیدی موت سے بچ جانے کے بعد صرف پیشگوئی کی
۳۸۸ تکذیب کے نئے جرم سے ہی اب و عیدی موت کا شکار ہو سکتے تھے.جس کی میعاد ان کی طرف سے تکذیب کرنے پر ہی خدا تعالی کی طرف سے مقرر ہو سکتی تھی اس لئے کہ حضرت اقدس انجام آتھم صفحہ ۳۲ کے طریق فیصلہ کے مطابق ان کی وعیدی موت کا شکار ہونے کے لئے صرف تکذیب کی شرط کو ہی ضروری سمجھتے تھے نہ ان کے بیعت کر لینے کو.اسی لئے آپ نے مخالفین کو مرزا سلطان محمد صاحب سے تکذیب کا اشتہار دلانے کا چیلنج کیا.چونکہ حضرت اقدس کی زندگی میں ان کی طرف سے تکذیب پیشگوئی کا ارتکاب نہیں ہوا.اس لئے وہ و عیدی موت سے بچے رہے اور نکاح کی پیشگوئی جو ان کی موت سے معلق تھی ٹل گئی.اعتراض خشم جناب برق صاحب کا چھٹا اعتراض یہ ہے کہ : ”نکاح آسمان پر پڑھا جا چکا تھا تو تاخیر میں کیسے پڑ گیا.اگر فتح ہو گیا تھا تو اللہ کا فرض تھا کہ اپنے رسول کو مطلع کرتا.ورنہ وہ متر ددانہ انداز میں یہ نہ کہتے.صبح ہو گیا " ہے یا تاخیر میں پڑ گیا ہے صرف ایک صورت کا ذکر کرتے.(حرف محرمانه صفحه ۲۶۸) حضرت اقدس کے الفاظ نکاح آسمان پر پڑھا گیا.دراصل الهام زوجن کھا کا یہ مفہوم ظاہر کرنے کے لئے کئے گئے تھے کہ آسمان پر یہ نکاح اس وعیدی پیشگوئی کا ایک حصہ قرار پا چکا ہے.چنانچہ انجام آتھم صفحہ ۶۰ پر اس الہام کا ترجمہ حضرت اقدس نے یہ کیا ہے کہ :- کہ بعد واپسی کے ہم نے اس سے تیر انکاح کر دیا گویا یہ الہام نکاح کو اس وعیدی پیشگوئی میں مشروط طور پر ایک مقدر امر قرار دیتا تھا.یہ تقدیر واپسی کی شرط سے مشروط تھی.اور یہ واپسی بیوہ ہونے یعنی مرزا
۳۸۹ سلطان محمد صاحب کی وعیدی موت سے مشروط تھی.مرزا سلطان محمد صاحب کے شرط توبہ سے فائدہ اٹھا لینے کے بعد اب نکاح کا ضروری ہونا صرف اس بات سے مشروط ہو کر رہ گیا تھا کہ سلطان محمد صاحب کسی وقت حضرت اقدس کی زندگی میں ہی تو بہ کو توڑ دیں اور پیشگوئی کی تکذیب کریں.مگر مرزا سلطان محمد صاحب نے پیشگوئی کے مطابق اپنے خسر کی موت واقع ہو جانے سے یہ سبق لے لیا کہ وہ تو بہ کریں اور پھر اس پر قائم رہیں.اس لئے آسمان پر مشروط صورت میں مقدر نکاح کا زمین پر وقوع میں آنا ضروری نہ رہا.الهام تكفيك هذه الامراة سے (کہ یہ عورت جو آپ کے نکاح میں ہے آپ کے لئے کافی ہے) آپ کو یہ احساس پیدا ہوا کہ اب محمدی بیگم سے نکاح ضروری نہیں رہا.البتہ چونکہ مرزا سلطان محمد صاحب کی طرف سے تکذیب پیشگوئی کا عقلی امکان اب بھی باقی تھا.مگر وہ ایک کمزور احتمال تھا اس لئے آپ نے ”ضح ہو گیا کے ساتھ یا تاخیر میں پڑ گیا " کا فقرہ اس کمزور احتمال کے پیش نظر ہی لکھا ہے.ورنہ اب غالب گمان آپ کا یہی تھا کہ نکاح ضروری نہیں رہا.اور پیشگوئی کا یہ حصہ عند اللہ منسوخ ہو چکا ہے.چنانچہ ۱۹۰۸ء کے بدر میں آپ نے صرف پیشگوئی کے مل جانے کے پہلو کا ہی ذکر فرمایا ہے.وہاں دوسرے احتمال کا ذکر نہیں فرمایا جو آپ کے نزدیک پیشگوئی کے مل جانے کے پر غالب گمان کی قطعی دلیل ہے.ہر آسمانی نکاح کازمین پر وقوع ضروری نہیں یہ واضح رہے کہ ہر آسمانی نکاح کے لئے یہ ضروری نہیں وہ زمین پر بھی ضرور وقوع پذیر ہو بلکہ آسمانی نکاح بعض اوقات تعبیر طلب بھی ہوتا ہے.چنانچہ طبرانی اور ابن عساکر نے ابن ابی امامہ کے مرفوعا روائت کی ہے :-
۳۹۰ اَنَّ رَسُولَ اللهِ قَالَ لَخَدِيجَةَ أَمَا شَعُرتِ انَّ اللَّهَ زَوَّجَنِي مريمَ ابنتَ عمران وَكُلْثُومَ أَختَ مُوسَى وَامْرَأَةَ فِرعَونَ قالت هنيًا لَكَ يَارَسُولَ اللَّهِ - ( تفسیر فتح البیان جلد کے صفحہ ۱۰۰ مطبوعہ مصر ) یعنی ابو امامہ سے مرفوعاً روائت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ سے فرمایا کیا تجھے معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ نے میرا نکاح حضرت عیسیٰ کی والدہ مریم بنت عمران اور موسیٰ کی بہن کلثوم اور فرعون کی بیوی کے ساتھ کر دیا ہے.حضرت خدیجہ نے اس پر کہا یار سول اللہ آپ کو مبارک ہو.آسمانی نکاح کی تعبیر اس حدیث نبوی میں زوجنی کا لفظ ہے اور حضرت مرزا صاحب کے الہام میں زَوَّجنا کا لفظ ہے.یہ دونوں لفظ بصیفہ ماضی ہیں.یہ دونوں نکاح باوجود آسمانی ہونے کے زمین پر و قوع میں نہیں آئے.آنحضرت ﷺ کے یہ نکاح زمین پر اس لئے وقوع میں نہیں آسکتے تھے کہ یہ خواتین جن سے آپ کے نکاح ہوئے قبل ان نکاحوں کے وفات پاچکی تھیں اور حضرت مرزا صاحب کا یہ نکاح ظاہری طور پر زمین میں اس لئے وقوع میں نہ آیا کہ محمدی بیگم صاحبہ کا خاوند پائیدار توبہ کی وجہ سے وعیدی موت سے بچنے کی الہامی شرط سے فائدہ اٹھا کر موت سے چ چکا تھا.البتہ آنحضرت ﷺ کے ان نکاحوں کی تعبیر یہ تھی کہ جن خواتین سے آپ کے نکاح ہوئے ان کے خاندان اور قو میں آپ پر ایمان لے آئیں گی چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود کے اس آسانی نکاح کی تعبیریوں نکلی کہ محمدی بیگم صاحبہ کا خاندان بالخصوص انکی والدہ اور ہمشیرگان اور ان کے فرزند مرزا اسحاق بیگ صاحب وغیرہ حضرت مسیح موعود پر ایمان لے آئے.یہ بھی خدا تعالٰی کا ایک طریق ہے کہ اگر کوئی پیشگوئی ظاہری الفاظ میں وقوع میں نہ آسکتی ہو تو خدا تعالیٰ تعبیری رنگ میں ضرور پوری کر دیتا ہے.جیسا کہ اطولکن
۳۹۱ يداً والی پیشگوئی ظاہری لفظوں میں تو وقوع میں نہیں آئی.حالانکہ یہی اجتہاد کیا گیا کہ ظاہری لفظوں میں پوری ہو گی.چنانچہ آنحضرت اللہ کے سامنے ازواج نے ہاتھ نا پے تو حضرت سودہ کے ہاتھ سب سے لمبے پائے گئے.مگر ان کی وفات چونکہ پہلے نہ ہوئی اس لئے تعبیری رنگ میں یہ پیشگوئی یوں پوری ہو گئی کہ ام المومنین حضرت زینب سب سے پہلے وفات پا گئیں جو صدقہ بہت دیا کرتی تھیں.اس طرح لیے ہاتھوں کی تعبیر بہت صدقہ دینا قرار پائی.نکاح کے تعبیری معنی تعطیر الانام جلد ۲ صفحہ ۲۷۹ میں یوں لکھے ہیں :- النكاح في المنام يدل على المنصب الخليل یعنی خواب میں نکاح کسی بڑے منصب کے ملنے پر دلالت کرتا ہے.پس خواب میں نکاح کی اس تعبیر کے مطابق زیرحث آسمانی نکاح کی تعبیر یہ وو نکلی کہ اس پیشگوئی کے بعد خدا تعالٰی نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو صحیح موجود کا منصب عطا فر مایا.اور اس کی تعبیر اس رنگ میں بھی پوری ہو گئی کہ محمدی پیشم صاحبہ کا خاندان آپ پر ایمان لے آیا.فالحمد لله على ذالك بعض ضمنی اعتراضات جناب برق صاحب نے اس پیشگوئی پر بعض ضمنی اعتراضات بھی کئے ہیں.اعتراض اوّل یہ ہے کہ :- یہ پیشگوئی الہامی تھی یہ اللہ کا فرض تھا کہ اس نکاح کا انتظام کرتا اور مسیح موعود خاموش بیٹھے رہتے.لیکن خدائی وعدہ کے باوجود جناب مرزا صاحب نے بھی ہر ممکن کوشش فرمائی." (حرف محرمانه صفحه ۲۵۸)
۳۹۲ جناب برق صاحب کا یہ اعتراض اُن کی سنت انبیاء سے ناواقفی کا ثبوت ہے.پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے کوشش کرنا نہ شرعا ممنوع ہے نہ اخلاقاً.بلکہ شرعا تو ان کو پورا کرنے کی کوشش از بس ضروری ہے اور صرف خدا پر چھوڑ دینا کہ وہ پیشگوئی کو آپ پورا کرے گا تو کل نہیں بلکہ تعطل ہے.جو سراسر نا جائز ہے اور شان مومنانہ کے خلاف اگر پیشگوئی کو پورا کرنے کی کوشش کو جناب برق صاحب قابل اعتراض سمجھتے ہیں تو شاید وہ حضرت موسیٰ کی قوم کے اس جواب کو قابل تعریف قرار دیں گے جو انہوں نے حضرت موسیٰ کو اس وقت دیا تھا.جب انہوں نے قوم سے کہا :- يا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضِ المُقَدَّسَةَ التِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ (سوره مائده : ۲۲) کہ اے قوم ارض مقدسہ (کھان) میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالی نے تمہارے لئے لکھدی ہے.“ : اس آیت سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کے لئے ارض مقدسہ ملنے کی پیشگوئی کی گئی تھی جو کتب الله لحم کے الفاظ سے ظاہر ہے اس پر حضرت موسیٰ نے قوم کو کوشش کی دعوت دی مگر قوم نے جواب میں کہا کہ :- فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّاهُهُنَا قَاعِدُونَ (سوره مائده : ۲۵) اے موسیٰ تو اور تیرا خدا دو نو جا کر لڑو یقینا ہم یہاں بیٹھنے والے ہیں (یعنی فتح کر لو گے تو ہم بھی داخل ہو جائیں گے).کیا جناب برق صاحب یہودیوں کے اس جواب کو قابل تعریف سمجھتے ہیں اور حضرت موسیٰ کی لڑائی کے لئے قوم کو تحریک کرنے کی کوشش کو قابل اعتراض ؟ اگر یہودیوں کا جواب نا جائز ہے اور پیشگوئی کو پورا کرنے کیلئے حضرت موسیٰ کی کوشش کرنے کی تحریک جائز بلکہ ضروری ہے تو پھر وہ کیوں حضرت بائی سلسلہ احمدیہ پر پیشگوئی
۳۹۳ کے پورا کرنے کے لئے کوشش پر معترض ہیں ؟ کیا انہیں علم نہیں کہ اسلام کے متعلق پیشگوئیوں میں غلبہ کا جو وعدہ تھا اسے پورا کرنے کیلئے مسلمانوں کو تن، من، دھن کی بازی لگانی پڑی تھی.لکھتے ہیں :- مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی یہودیوں کے جواب والی آیت کی تفسیر پر نوٹ گویا اس کا مطلب یہ تھا کہ مقابلہ کی ہمت ہم میں نہیں.ہاں بد وں ہا تھ ہلائے پکی پکائی کھالیں گے.آپ معجزہ کے زور سے انہیں نکال دیں.( قرآن کریم مترجم مولانا محمود الحسن صاحب دیو بدی صفحہ ۷ کے حاشیہ نمبر ۱۰) اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں :- اسباب مشروعہ کا ترک کرنا تو کل نہیں.تو کل تو یہ ہے کہ کسی نیک مقصد کے لئے انتہائی کوشش اور جہاد کرے پھر اس کے مثمر اور منتج ہونے کے لئے خدا پر بھروسہ رکھے اور اپنی کوشش پر نازاں اور مغرور نہ ہو.باقی اسباب مشروعہ کو چھوڑ کر خالی امیدیں باندھتے رہنا تو کل نہیں بلکہ تعطل ہے (حوالہ ایضاً صفحہ ۷۷ زیر عنوان فوائد ہذا قا ئدہ نمبر ۲) پس اگر حضرت مرزا صاحب نے کسی کو انعام و احسان کا و عده دیا یا کسی کو اس معاملہ میں مدد کے لئے کیا اور مخالفت کی صورت میں قطع تعلق کا ڈر اوا دیا تو اس میں کو نسا فعل شرعا یا اخلاق نا جائز ہے ؟ اگر خدا کا ڈر لو اور دھمکی دینا جائز ہے تو مامور جو اس کا مظہر ہوتا ہے.اس کے لئے کیوں ڈراوا دینا جائز نہیں.تمام وعیدات جو خدا کی طرف سے ہوتی ہیں ڈراوے اور دھمکی کا ہی رنگ رکھتی ہیں کہ اگر باز آجاؤ گے تو فبہاور نہ تمہیں سزادی جاوے گی.پس دھمکی جب سنت اللہ کے خلاف نہیں تو مامور کی دھمکی اور اس پر عمل کیونکر قابل اعتراض قرار دیئے جاسکتے ہیں.
۳۹۴ دوسرا اعتراض برق صاحب کہتے ہیں :- ”نکاح کی بشارت اللہ نے دی تشہیر مسیح موعود نے کی.اڑ بیٹھے لڑکی کے والدین اور پٹ گیا غریب فضل احمد جسے بیوی کو چھوڑنے اور محروم الارث ہونے کا نوٹس مل گیا.کوئی پوچھے اس کا کیا قصور ؟ (حرف محرمانہ صفحہ ۲۶۰) برق صاحب کے اعتراض کا اگلا حصہ سراسر خدا تعالیٰ کی شان میں گستاخی ہے وہ لکھتے ہیں :- اگر قصور تھا تو صرف خدا تعالیٰ کا جس نے اپنی جلیوں، دباؤس اور تازیانوں سے کام نہ لیا بات کہہ ڈالی اور اُس کے منوانے کا کوئی انتظام نہ کیا.“ (اعاذنا اللہ منہا ناقل) (حرف محرمانه صفحه ۲۶۰) الجواب بے شک نکاح کی بشارت اللہ نے دی اور یہ بھارت مشروط بو عید تھی.کیونکہ پیشگوئی میں یہ تھا کہ اگر باپ نہیں مانے گا تو وہ تین سال بلکہ قریب مدت میں ہلاک ہو گا اور اس کے بعد وہ لڑکی بیوہ ہو کر آپ کے نکاح میں آئے گی.پس باپ کا اڑ بیٹھنا از روئے الہام ممکن تھا.چنانچہ وہ اڑ بیٹھا اور پیشگوئی کی میعاد کے اندر ہلاک ہو گیا.الہام آخِرُ الْمَصَائِبِ مَوتُك جو محمدی بیگم کے والد کو لکھدیا گیا نمبر 1 : جناب برق صاحب کا یہ کہنا غلط ہے.کیونکہ پیشگوئی کی تشہیر حضرت اقدس نے نہیں کی بلکہ خود مخالف رشتہ داروں نے کی.اور پیشگوئی کو عیسائیوں کے اخبار چشمہ نور اگست ۱۸۸۷ء ایک خط کے ذریعہ شائع کرایا تھا.ملاحظہ ہو ”آئینہ کمالات اسلام“ صفحه ۵۶۸.حضرت کی طرف سے اس کی تشہیر کے آغاز کا کوئی ثبوت جناب برق صاحب نہیں دے سکتے.
۳۹۵ تھا.یہ اشارو رکھتا ہے کہ احمد بیگ کی موت آخری مصیبت ہو گی.اور محمدی بیگم کا خاوند تو بہ اور رجوع سے فائدہ اٹھا کر بچ جائے گا اور صرف پیشگوئی کی تکذیب کرنے کی صورت میں اس کی موت کی دوبارہ میعاد مقرر کرنے کی ضرورت ہو گی.ورنہ اس کے شرط تو بہ سے فائدہ اٹھا لینے کے بعد توبہ پر قائم رہنے کی صورت میں نکاح کا وقوع ضروری نہیں ہو گا.چنانچہ مرزا سلطان محمد تو بہ پر قائم رہے.اس لئے نکاح کا وقوع میں نہ آنا قابل اعتراض نہیں.کیونکہ وعیدی پیشگوئیاں الہی سنت کے مطابق تو بہ سے فائدہ اُٹھا لینے پر مل جاتی ہیں اور اس جگہ نکاح کی بشارت بیوگی کی شرط سے مشروط اور معلق تھی جو خاوند کی پائیدار تو بہ کی وجہ سے ٹل گئی.فضل احمد کو بیوی کو چھوڑنے اور محروم الارث ہونے کا نوٹس بلاوجہ نہیں دیا گیا تھا.چونکہ مرزا فضل احمد صاحب کی بیوی کا تعلق مخالفین کے کنبہ سے تھا اور وہ خود بھی مخالفین میں سے تھی اور الہام الہی بتاتا تھا کہ جو لوگ ایسے مخالفین سے علیحدہ نہ ہوں اور ان سے تعلقات قائم رکھیں ان پر عذاب الہی نازل ہو گا.اس لئے مرزا فضل احمد کی میدی کے مخالفین میں شامل ہونے کی وجہ سے اس سے قطع تعلق مموجب الهام بذا ضروری ہو جاتا تھا.حضرت اقدس کی اپنے بیٹے کیلئے شفقت آپ کو مجبور کرتی تھی کہ وہ اپنی بیوی سے قطع تعلق کرلے تاکہ وہ بھی اس تعلق کی وجہ سے عذاب کا مورد نہ ہو جائے.احادیث نبویہ سے ثابت ہے کہ اگر باپ بہو کو نا پسند کرتا ہو تو بیٹے کو باپ کے کہنے پر بیوی کو طلاق دے دینی چاہیئے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے :- عَنِ ابْنِ عَمَرَ قَالَ كَانَتْ تَحْتِى اِمْرَأَةٌ أُحِبُّهَا وَكَانَ أَبِى يَكْرَهُهُمَا فَأَمَرَنِي أَنْ أُطلِقَهَا فَذَكَرْتُ ذَالِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ ابْنَ عُمَرَ طَلِقُ امْرَاءَ تَكَ ترندی کتاب الطلاق و مشکوۃ مجتبائی صفحہ ۴۲۱ باب الشعة)
یعنی حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روائت ہے کہ میری ایک بیوی تھی جس سے مجھے بہت محبت تھی لیکن میرے باپ (حضرت عمرؓ) اس سے بہت نفرت رکھتے تھے.انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں.میں نے اس بات کا آنحضرت ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اے عبداللہ بن عمر اپنی بیوی کو طلاق دے دے.66 اسی طرح صحیح خاری کی حدیث میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب حضرت اسمعیل کو وادی مکہ میں چھوڑ آئے.اور ان کے وہاں جوان ہونے پر پھر مکہ گئے تو اس وقت حضرت اسمعیل علیہ السلام گھر میں نہ تھے انکی بیوی گھر میں تھی.آپ اس سے باتیں کرتے رہے اور جاتے ہوئے اُسے کہہ گئے کہ جب اسمعیل علیہ السلام گھر آئیں تو انہیں میر اسلام کبد دینا اور یہ کہنا غیر عتبة بابك کہ اپنے دروازے کی و لیزر بدل دو.جب حضرت اسمعیل گھر آئے تو ان کی بیوی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیغام دیا.اس پر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا :- أخرى ذاك أبي وَقَدْ أَمَرَنِي أَنْ أَفَارِقَكِ الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَطَلَّقَهَا وَتَزَوَّجَ مِنْهُمُ ( صحیح بخاری جلد ۲ کتاب بدء الخلق) یعنی وہ میرے والد ابراہیم علیہ السلام تھے اور وہ مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تجھے طلاق دیدوں.پس تو اپنے والدین کے پاس چلی جا! آپ نے اسے طلاق دیدی اور ہو جرہم کی ایک اور عورت سے شادی کر لی." پس مرزا فضل احمد کی بیوی کے مخالفین پیشگوئی سے روابط کی وجہ سے دینی غیرت کا بھی یہی تقاضا تھا کہ اسے طلاق دلوائی جائے.اور اگر فضل احمد طلاق نہ دے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام قطع تعلق کر لیں.اور دینی مخالفت کی بناء پر انہیں محروم الارث کر دیں.
تیسرا اعتراض ۳۹۷ جناب برق صاحب کا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ دوسرے بیٹے سلطان احمد کے متعلق ایک اشتہار نکالا جس میں درج تھا.کہ وہ محروم الارث ہوں گے اور ان کی والدہ کو طلاق ہو گی.الجواب حضرت اقدس کا اپنی پہلی بیوی کو پیش گوئی کی مخالفت کرنے پر طلاق دیدینا اور باوجود متنبہ کر دینے کے اس بیوی کا مخالفین سے قطع تعلق نہ کرنا اس بات کا متقاضی تھا کہ حضرت اقدس انہیں طلاق دید ہیں.آپ نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے میں کسی جلد بازی سے کام نہیں لیا.بلکہ پہلے اپنی بیوی پر اتمام حجت کی کہ وہ مخالفین پیشگوئی سے الگ ہو جائے کیونکہ آپ کا الہام بتاتا تھا کہ جو لوگ ان مخالفوں سے قطع تعلق نہیں کریں گے اور ان کی مجلسوں میں شریک ہوں گے وہ عند اللہ ملعون ہوں گے نہ قابل رحم.اس لئے آپ کا حکم نہ مانا جانے پر بجز اس کے کوئی چارہ نہ تھا.پہلے سے خبر دار کر دینے کے بعد کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں طلاق دیدی جائے گی.حضرت اقدس کا طلاق دے دینا الہام کے لحاظ سے ضروری تھا اور طلاق نہ دینا معصیت تھی.مرزا سلطان احمد صاحب سے قطع تعلق اور ان کا عاق کیا جانا بھی اسی بناء پر تھا کہ ان کا تعلق مخالفین پیشگوئی سے تھا اور وہ حضرت اقدس کے بار بار مخط لکھنے پر بھی ان مخالفین سے قطع تعلق کرنے اور اپنی والدہ کو ان سے علیحدہ کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوئے تھے.اندریں صورت حضرت اقدس کا اپنی بیوی کو طلاق دے دینا اور اپنے بیٹے سلطان احمد صاحب کو عاق کر دینا دینی غیرت اور آپکے الہامات کے منشاء کے عین مطابق تھا کیونکہ الہام الہی بتاتا تھا کہ جو لوگ مخالفین کی مجلسوں سے دور رہیں گے انہیں پر رحم کیا جائے گا.
۳۹۸ حضرت اقدس نے یہ اعلان بڑے دُکھ بھرے دل سے کیا ہے آپ لکھتے ہیں :.اس کام ( یعنی محمدی بیگم صاحبہ کے دوسری جگہ نکاح) کے مدارالمہام وہ ہو گئے جن پر اس عاجز کی اطاعت فرض تھی اور ہر چند سلطان احمد کو سمجھایا اور بہت تاکیدی محل لکھے کہ تو اور تیری والدہ اس کام سے الگ ہو جائیں ورنہ میں تم سے جدا ہو جاؤں گا اور تمہارا کوئی حق نہیں رہے گا.مگر انہوں نے میرے خط کا جواب تک نہ دیا اور لکھی مجھ سے بیزاری ظاہر کی اگر ان کی طرف سے مجھے تیز تلوار کا بھی زخم پہنچتا تو خدا میں اس پر صبر کرتا.لیکن انہوں نے دینی مخالفت کر کے اور دینی مقابلہ سے آزار دے کر مجھے بہت ستایا اور اس حد تک میرے دل کو توڑ دیا کہ میں بیان نہیں کر سکتا اور عمد ا چاہا کہ میں ذلیل کیا جاؤں اس لئے میں نہیں چاہتا کہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھا جائے.اور ڈرتا ہوں کہ ایسے دینی دشمنوں سے پیوند ر کھنے میں معصیت نہ ہو.“ (اشتہار مورخه ۲۰/ مئی ۱۸۹۱ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحه (۹) بالآخر واضح ہو کہ برق صاحب کے اس پیشگوئی پر تمام اعتراضات کے جوابات سے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے فارغ ہو چکے ہیں.اس پیشگوئی پر کچھ لوگوں " نے بعض اور اعتراضات بھی کئے ہیں جن کا مفصل جواب میری تصنیف ” پیشگوئی درباره مرزا احمد بیگ اور اس کے متعلقات کی وضاحت اور میری ایک دوسری تصنیف ”احمدیہ تحریک پر تبصرہ “ میں دیا جا چکا ہے.جو دوست اس پیشگوئی پر تفصیلی بحث پڑھنا چاہیں ، وہ ہماری ان دو کتابوں کو بھی ملاحظہ فرمائیں.میں خدا تعالی کے فضل اور اس کی توفیق سے اس امر کو وضاحت سے دکھا چکا ہوں کہ اس پیشگوئی پر معترضین کے تمام اعتراضات ایسے ہیں جن سے اس پیشگوئی سے متعلقہ الہامات پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا.یہ پیشگوئی اپنی تمام شقوں میں پیشگوئیوں کے اصول کے مطابق ظہور پذیر ہو
۳۹۹ چکی ہے.اس کا ایک حصہ جو مرزا احمد بیگ کی موت کے متعلق پیشگوئی سے تعلق رکھتا تھا لفظ لفظ پورا ہو گیا ہے.اور دوسراحصہ جو نکاح سے تعلق رکھتا تھا وہ محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند کے رجوع اور توبہ کرنے اور اس پر قائم رہنے کی وجہ سے سنت اللہ کے مطابق مل گیا ہے.جیسا کہ قوم یونس پر چالیس دن کے اندر عذاب نازل ہونے کی پیشگوئی قوم کے رجوع اور توبہ سے ٹل گئی.پس جس طرح کوئی مسلمان حضرت یونس علیہ السلام کی پیشگوئی کو جھٹلانے کا کوئی حق نہیں رکھتا.اسی طرح سنت اللہ کے مطابق وہ حضرت اقدس کی اس پیشگوئی کو بھی جھٹلانے کا حق نہیں رکھتا.۲- پیشگوئی متعلقہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم جناب برق صاحب اپنی کتاب حرف محرمانہ کے صفحہ ۲۶۹ سے صفحہ ۲۸۴ تک ڈپٹی عبد اللہ آتھم کے متعلق حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی پیشگوئی پر حث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- جن ۱۳ ء کا واقعہ ہے کہ امر تسر کے مقام پر ایک زبر دست مباحثہ ہوا عیسائیوں کی طرف سے عبداللہ آتھم تھے اور دوسری طرف جناب مرزا صاحب.پندرہ دن تک یہ مباحثہ جاری رہا.مباحثہ کا موضوع تثلیث تھا آخری دن جناب مرزا صاحب نے ایک اہم اعلان فرمایا جس کے الفاظ یہ تھے." آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جب میں نے بہت تفرع اور اہتمال سے جناب الہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اُس نے مجھے یہ نشان بھارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں جو فریق عمدا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں
۴۰۰ مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہادیہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور بچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب یہ پیشگوئی ظہور میں آئیگی بعض اندھے سو جاکے کئے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے تو اور بعض بہرے سننے لگیں گے.“ پیشگوئی ۵/ جون ۱۸۹۳ء مندرجہ جنگ مقدس صفحه ۱۸۸) یہ پیشگوئی درج کرنے کے بعد جناب برق صاحب بتاتے ہیں.پیشگوئی کا خلاصہ یہ نکلا کہ :- جو فریق عاجز انسان (صحیح) کو خدا بنا رہا ہے وہ پندرہ ماہ (یعنی ۴٫۵ ستمبر ۱۸۹۴ء) تک ہادیہ میں گرایا جائے گا بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.“ پیشگوئی کا یہ خلاصہ درست ہے مگر جناب برق صاحب لکھتے ہیں.کہ اس پیشگوئی میں دو لفظ تشریح طلب ہیں.ہادیہ اور حق.ہادیہ کی تشریح خود مرزا صاحب یوں فرماتے ہیں :- البحث 66 بشرني رَبِّي بَعْدَ دَعْوَتَى بِمَوتِهِ إِلى خَمْسَةِ عَشَرَ شَهْرِ مِنْ يَوْمٍ حَائِمَةِ (کرامات الصادقین سرورق) ترجمه :- میری دُعا کے بعد اللہ نے مجھے بتایا کہ آئھم خاتمہ حث کے بعد پندرہ ماہ کے اندر مر جائے گا.اس پر برق صاحب لکھتے ہیں :- یا درکھئے ہادیہ کی تشریح خدائی ہے بشر نی رہی جو اللہ نے بتائی ہے“ (حرف محرمانه صفحه ۲۷۱) جناب برق صاحب ! آپ کا یہ قول درست نہیں.ہاویہ کی یہ تشریح الہامی
۴۰۱ نہیں.بلکہ اجتہادی ہے.برق صاحب اصل الہام جنگ مقدس سے خود حرف محرمانہ کے صفحہ ۲۶۹ پر درج کر آئے ہیں جہاں حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ نے لکھا ہے :- اس نے (خدا نے مجھے یہ نشان بھارت کے طور پر دیا ہے کہ :- اس بحث میں جو فریق عمدا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے.اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی.بحر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.“ (جنگ مقدس صفحه ۱۸۸) اس الہامی اقتباس سے ظاہر ہے کہ اس میں موت کا لفظ موجود نہیں اور الهامی عبارت اس بارہ میں یہی ہے نہ کوئی اور البتہ حضرت اقدس نے ہادیہ میں گرایا جاوے گا“ کے الفاظ سے موت کا استنباط کیا ہے.پس موت کا استنباط اجتہادی ہے نہ کہ الہامی.لہذا اجتہاد ہی کی بناء پر آپ نے کرامات الصادقین میں اس پہلے الہام کے لفظ ہلو یہ سے اس کی موت کا استنباط فرمالیا ہے.اس جگہ بشر نی رتی کے الفاظ میں کسی جدید الہام کا ذکر نہیں ہے بلکہ پہلے الہام ہی کا جو مفہوم حضرت اقدس سمجھے تھے دو بیان فرما رہے ہیں.آگے برق صاحب لکھتے ہیں :- باقی رہا لفظ "حق" تو پیشگوئی کے یہ الفاظ پھر پڑھئے." جو فریق محمد ا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو خداہنا رہا ہے یعنی جھوٹ سے مراد عاجز انسان کو خدا مٹانا ہے اور بیچ کیا ہے ؟ ایک خدا کو ماننا.اس پیشگوئی کی رُو سے رجوع الی الحق کا مفہوم ایک ہی ہو سکتا ہے یعنی تثلیث سے تائب ہو کر توحید قبول کرنا.(حرف محرمانه صفحه ۲۷۱) ہمیں جناب برق صاحب کے اس نتیجہ سے اتفاق ہے ورنہ بعض معترضین تو اس کا مفہوم مسلمان ہونا قرار دیتے ہیں.اس جگہ جناب برق صاحب نے انصاف کا
۴۰۲ دامن نہیں چھوڑا.مگر ایک بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ رجوع الی الحق کا تعلق قلب سے ہوتا ہے نہ ضروری طور پر اعلان حق سے.لہذا اگر ڈپٹی عبداللہ آتھم دل سے تثلیث کے قائل نہ رہیں اور خدا کا ایک ہو نا مان لیں تو عذاب ان سے مل سکتا تھا.رجوع الی الحق کا لفظ اس سے عام ہے کہ رجوع قلبی ہو یا اس کا اعلانیہ اظہار بھی ہو.پس اعلانیہ اظہار رجوع و عیدی موت سے چنے کے لئے ضروری نہیں.سنت اللہ یوں واقع ہوئی ہے کہ عذاب الہی اونی رجوع سے بھی مل جاتا ہے.چنانچہ آل فرعون پر جب عذاب کا سلسلہ شروع ہوا تو فرعون اور اس کے سرداروں نے کہا :- يأَيُّهَا السَّحِرادُعُ لَنَارَبَّكَ بِمَاعَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ فَلَمَّا كَشَفْنَا (زخرف : ۵۱,۵۰) عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِذَاهُمْ يَنكُتُونَ یعنی انہوں نے کہا اے جادو گر ! اپنے رب کے سامنے ہمارے حق میں ان تمام وعدوں کا واسطہ دے کر دُعا کر جو (وعدے) اس نے مجھ سے کئے نہیں (اگر عذاب مل گیا) تو ہم ضرور ہدایت پا جائیں گے.پھر جب ہم نے ان سے عذاب ٹال دیا تو وہ فورا عہد شکنی کرنے لگے.“ دیکھئے اس آیت سے ظاہر ہے کہ فرعون اور اس کے سرداروں کے موسی کو باوجود جادو گر کہنے کے صرف اتنا ہی رجوع کر لینے پر بھی کہ دعا کریں کہ عذاب ٹل جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے.خدا تعالیٰ یہ جاننے کے باوجود کہ یہ بد عمدی کریں گے.اُن سے اس اونی رجوع پر بھی عذاب ٹال دیتا رہا.اس سے ظاہر ہے کہ عذاب ادنیٰ رجوع سے بھی مل جاتا ہے.لہذا اگر واقعات یا قرائن سے یہ ثابت ہو جائے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے در حقیقت تثلیث کا عقیدہ چھوڑ دیا تھا.اور اس کے چھوڑ دینے کے متعلق اس کا کوئی اعلان نہ بھی ہو تو بھی وعیدی موت کا عذاب اس سے مل سکتا تھا جس
۴۰۳ کا پیشگوئی کے الفاظ ہادیہ میں گر لیا جائے گا“ کے رو سے پند روماہ کے اندر واقع ہونا سمجھا جاتا تھا.پھر طیکہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے کیونکہ عذاب پیشگوئی کے مطابق عدم رجوع پر ہی واقع ہو سکتا تھا چونکہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے یہ پیشگوئی سننے کے بعد فوراً رجوع کے آثار ظاہر کئے اور پھر وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں اس پیشگوئی سے خائف تھے اور ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل ہوتے رہے اور انتہائی گھبراہٹ کا اظہار کرتے رہے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر روتے رہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس ہم تو غم پر اطلاع پا کر جو مسٹر عبد اللہ آتھم کے رجوع الی اللہ کا ثبوت تھاو عیدی موت کا عذاب ان سے ٹالد یا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے الہام سے اطلاع دے دی کہ عبد اللہ آتھم کو مہلت دے دی گئی ہے.چنانچہ آپ نے یہ الہام انوار الاسلام کے صفحہ ۳ پر یوں درج فرمایا ہے :- اطَّلَعَ اللَّهُ عَلَى هَمِّهِ وَغَمِهِ.اور اس کا یہ ترجمہ لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے ہم تو غم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی.(حاشیہ انجام آتھم صفحہ ۲۲) پس الہام الہی نے مسٹر عبد اللہ آتھم کے اندرونہ کی خود اطلاع دے دی ہے کہ اس نے اس حد تک رجوع کر لیا تھا کہ وہ و عیدی موت سے بچ جاتا اور اسے مہلت دی جاتی.الہام ہذا سے استدلال پر ایک اعتراض جناب برق صاحب اس الہام سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا استدلال پر اعتراض کرتے ہیں.کہ :- انور الاسلام ۲۷ اکتوبر ۱۸۹۴ء کی تصنیف ہے اور پیشگوئی کی میعاد ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء تک تھی.ایک ماہ ۲۲ دن گذر جانے کے بعد مہلت دینے کا مطلب؟ مزه تو تب تھا کہ میعاد سے پہلے الہام مہلت نازل ہوتا.تاکہ ہر ستمبر والے
طوفان بد تمیزی سے تو نجات ملتی.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۷۹) اگر جناب برق صاحب نے تمام احمد یہ لٹریچر کا مطالعہ کیا ہوتا تو غالبا وہ یہ اعتراض نہ کرتے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس الہام کے بارے میں خود سارا لٹریچر نہیں پڑھا یا کہ مخالفانہ لٹریچر پڑھ کر ہی وہ یہ غلط نتیجہ نکال رہے ہیں.ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ الہام اس پیشگوئی کی میعاد کے اندر نازل ہو چکا تھا.چنانچه تذکره صفحه ۲۶۴ پر یه الهام درج کرنے کے بعد مرتب صاحب حاشیہ میں یہ نوٹ درج کرتے ہیں :- ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان.منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی سے روایت کرتے ہیں کہ جب آنھم کی میعاد کا آخری دن تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد مبارک کی چھت پر تشریف لائے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو بلایا اور فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے.اطلَعَ اللهُ عَلَى هَمِّهِ ویہ اور اس کی تقسیم یہ ہوتی ہے کہ جو کی ضمیر آعظم کی طرف جاتی ہے.اس لئے معلوم ہوا کہ وہ اس میعاد کے اندر نہیں مرے گا.“ (اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ ۹۷) طوفان بد تمیزی کا انجام جناب برق صاحب! اگر یہ الہام بہت پہلے نازل ہو کر شائع بھی ہو جاتا تو مخالفین کی طرف سے طوفان بد تمیزی تو پھر بھی بیا کیا جا سکتا تھا.کیونکہ دنیا میں کوئی رسول نہیں آیا جس سے جنسی ٹھٹھا کر کے اسے ذلیل کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ حسرت سے فرماتا ہے :-
۴۰۵ يحسرةً عَلَى العِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وَنَ کہ لوگوں پر افسوس ہے کوئی بھی رسول ان کے پاس نہیں آتا مگر وہ اس سے استہزاء کرتے ہیں اور استہزاء کا مقصد تذلیل ہی ہو تا ہے.پس مامورین کے خلاف طوفان بد تمیزی تو ان کی سیدھی باتوں کو الٹا بنا کر بھی بر پا کر دیا جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس طوفان بد تمیزی کا جو انجام ہوا اس کا جناب برق صاحب نے ذکر نہیں فرمایا.اور غالبا اس وجہ سے ذکر نہیں کیا.کہ اگر وہ اس بارہ میں بعد کے واقعات بھی بیان کر دیتے تو پھر اُن کا اعتراض بے جان ہو کر رہ جاتا اور وہ اپنے اعتراض کو خود کمترور کرنا نہیں چاہتے تھے.انجام پیشگوئی اس انجام کی اصل حقیقت یہ ہے کہ جب میعاد پیشگوئی گزر گئی اور ڈیٹی عبد اللہ آتھم رجوع الی الحق کر لینے کی وجہ سے وعیدی موت سے بچ گئے تو جو طوفان بد تمیزی اس موقعہ پر برپا کیا گیا وہ خدا تعالی کی طرف سے ایک ابتلاء کا رنگ رکھتا تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے اس ابتلاء کا پر وہ یوں چاک کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الهام کیا کہ آپ عبداللہ آظم کو دعوت مباہلہ دیں.یہ دعوتِ مباہلہ آپ نے اپنے اشتہار انعامی ایک ہزار روپیہ میں شائع فرمائی اور یہ لکھا کہ :- اگر عیسائی صاحبان اب بھی جھگڑمیں اور اپنی مکارانہ کارروائیوں کو کوئی چیز سمجھیں یا کوئی اور شخص اس میں شک کرے تو اس بات کے تصفیہ کے لئے کہ فتح کس کو ہوئی آیا اہل اسلام کو جیسا کہ در حقیقت ہے یا عیسائیوں کو جیسا کہ وہ ظلم کی راہ سے خیال کرتے ہیں تو میں اُن کی پردہ دری کے لئے مباہلہ کے لئے تیار ہوں.اگر دروغ گوئی اور چالاکی سے باز نہ آئیں تو مباہلہ اس طور پر ہو گا کہ ایک تاریخ مقرر ہو کر فریقین ایک میدان میں حاضر ہوں اور مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کھڑے ہو کر تین مرتبہ ان الفاظ
۴۰۶ کا اقرار کریں کہ اس پیشگوئی کے عرصہ میں اسلامی رُعب ایک طرفۃ العین کے لئے بھی نہیں آیا.اور میں اسلام اور نبی اسلام کو ناحق پر سمجھتا رہا ہوں اور سمجھتا ہوں اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا اور حضرت عیسی کی ابجیت اور الوہیت پر یقین رکھتارہا ہوں اور رکھتا ہوں اور ایسا ہی یقین جو فرقہ پر اسسٹنٹ کے عیسائی رکھتے ہیں اور اگر میں نے خلاف واقعہ کہا ہے اور حقیقت کو چھپایا ہے تو اے قادر خدا تو مجھ پر ایک برس میں عذاب موت نازل کر اور اس دُعا پر ہم آمین کہیں گے.اور اگر دُعا کا ایک سال تک اثر نہ ہوا اور وہ عذاب نازل نہ ہوا جو جھوٹوں پر نازل ہوتا ہے تو ہم ہزار روپیہ مسٹر عبداللہ آتھم کو بطور تاوان دیں گے.چاہیں تو پہلے کسی جگہ جمع کرالیں اور اگر وہ ایسی درخواست نہ کریں تو یقینا سمجھو کہ وہ کا ذب میں اور کھلو کے وقت اپنی سزلا ئیں گے.ہمیں صاف طور پر الہاما معلوم ہو گیا ہے کہ اس وقت تک عذاب موت کے ٹلنے کا یہی باعث ہے.کہ عبد اللہ آتھم نے حق کی عظمت کو اپنی خوفناک حالت کی وجہ اسے قبول کر کے ان لوگوں سے کسی درجہ مشابہت پیدا کر لی ہے جو حق کی طرف رجوع کرتے ہیں.اس لئے ضروری تھا کہ انہیں کسی قدر اس شرط کا فائدہ ملتا.(انوار الاسلام صفحہ (۶) اوپر کی عبارت میں مذکور تاوان کے حصول کے بارہ میں درخواست کے متعلق حضرت اقدس نے لکھا : - درخواست اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد ایک ہفتہ تک ہمارے پاس آنی چاہیئے تا جو جھوٹا ہو وہ ہلاک ہو.خدا ہم سچ کہتے ہیں کہ مسٹر عبد اللہ آتھم عظمت اسلامی کو قبول کر کے اور حق کی طرف رجوع کر کے چا ہے.اب سارا جہاں دیکھ رہا ہے اگر مسٹر عبداللہ آتھم کے نزدیک ہمارا یہ میان صحیح نہیں ہے تو وہ اس دوسری جنگ کو قبول کریں گے.جبکہ سانچ کو آنچ نہیں تو ان کو مقابلہ سے کیا اندیشہ ہے ؟ (انوار الاسلام صفحہ ۶)
۴۰۷ اس دعوت مباہلہ کے بعد مسٹر عبد اللہ آتھم مباہلہ کے لئے آمادہ نہ ہوئے تو اس کے بعد حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے مزید اتمام حجت کے لئے انہیں مؤکد بعذاب قسم کھانے کے لئے دو ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار دیا اور قسم کے الفاظ لکھنے کے بعد آتھم صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا :- ”حضرت یہ تو دو خداؤں کی لڑائی ہے.اب وہی غالب ہو گا جو سچا خدا ہے.جبکہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے خدا کی یہ ضرور قدرت ظاہر ہوگی کہ اس قسم والے برس میں ہم نہیں مریں گے لیکن اگر آتھم صاحب نے جھوٹی قسم کھالی تو ضرور فوت ہو جائیں گے تو جائے انصاف ہے کہ آتھم صاحب کے خدا پر کیا حادثہ نازل ہو گا کہ وہ ان کو چا نہیں سکے گا.اور نجی ہونے سے استعفادید یگا.غرض اب گریز کی کوئی وجہ نہیں یا تو مسیح کو قادر کہنا چھوڑ میں یا قسم کھالیں.ہاں اگر عام مجلس میں اقرار کر دیں کہ ان کے مسیح ان اللہ کو ایک برس تک زندہ رکھنے کی قدرت نہیں مگر برس کے تیسرے حصے یا تین دن تک البتہ قدرت ہے اور اس مدت تک اپنے پرستار کو زندہ رکھ سکتا ہے تو ہم اس اقرار کے بعد چار مہینہ یا تین ہی دن تسلیم کر لیں گے.“(اشتہار انعامی دو ہزار روپیه ۲۰/ ستمبر ۱۸۹۴ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۱۳۵-۱۳۶) اس متحدیانہ عبارت سے ظاہر ہے کہ دوسرے اشتہار کے وقت اس روحانی مقابلہ میں عبداللہ آتھم کا حضرت اقدس کی زندگی میں ایک سال کے اندر مرنااور حضرت اقدس کا ان کی زندگی میں وفات نہ پانا عبد اللہ آتھم کے قسم اٹھانے پر فیصلہ کی صورت ہو گی.گویا مسٹر عبد اللہ آتھم کو حضرت اقدس کی زندگی میں مباہلہ کے بعد ایک سال کے اندر مرنے کے روحانی مقابلہ کی دعوت دی گئی تھی.مسٹر عبد اللہ آتھم انعامی رقم ڈبل کیا جانے پر بھی قسم کے لئے آمادہ نہ ہوئے.تو بعد ازاں آپ نے تین ہزار روپے کا انعامی اشتہار دیا اور اس میں لکھا کہ :-
۴۰۸ قسم کھانے کے بعد خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ فیصلہ قطعی کرے اور قسم کے بعد ایسے مکار کا پوشیدہ رجوع ہر گز قبول نہیں ہو گا.کیونکہ اس میں ایک دنیا کی تباہی (اشتہار انعامی تین ہزار روپیه صفحه ۹) ہے.66 مسٹر عبد اللہ آتھم اس اشتہار پر بھی آمادہ نہ ہوئے تو آپ نے آخری اشتہار چار ہزار روپے کے انعام کے ساتھ پیش کیا اور اس میں اپنا آخری الہام بھی شائع فرمایا کہ خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ :- میں بس نہیں کروں گا جب تک اپنے قومی ہاتھ کو نہ دکھلاؤں اور شکست خوردہ گروہ کی سب پر ذلت ظاہر نہ کروں.“ اور اس الہام کا مفاد یہ بتایا.کہ :- "اگر آتھم صاحب قسم نہ کھائیں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفاء کر کے دُنیا کو دھوکہ دینا چاہا.وہ دن نزدیک ہیں دُور نہیں.“ مسٹر عبد اللہ آتھم اس چار ہزار روپیہ والے انعامی اشتہار پر بھی ٹس سے مس نہ ہوئے اور مؤکد بعذاب قسم کھانے کے لئے آمادہ نہ ہوئے اور اس طرح حضرت اقدس کے العام اطلع الله على فمه وغم کی تصدیق اپنے عمل سے کر دی کہ وہ رجوع کر کے موت سے بچے ہیں.لیکن چونکہ وہ باوجود چار ہزار روپیہ انعام مقرر کئے جانے کے رجوع کے اعتراف یار جوع کے مؤکد بعذاب قسم کے ساتھ انکار کے لئے تیار نہ ہوئے.اس لئے اب وہ اخفائے حق کے جرم میں حضرت اقدس کی آخری پیشگوئی کی تقسیم کے مطابق وہ دن نزدیک ہیں دُور نہیں اس آخری اشتہار کے بعد سات ماہ کے عرصہ میں ہلاک ہو کر پیشگوئی کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر گئے.
۴۰۹ کاش! جناب برق صاحب اپنی کتاب پڑھنے والوں کے سامنے پہلی میعاد پیشگوئی کے گزر جانے کے بعد اس مقابلہ روحانیہ کی دعوت کا ذکر کر کے تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کر دیتے.مگر انہوں نے مخالفین کے طوفان بد تمیزی کے متعلق باوجود (کوفت اٹھانے کا اظہار کرنے کے) ان کی نظم و نثر میں گالیوں کا درج کرنا تو ضروری سمجھ لیا مگر بعد کے روحانی مقابلہ میں مسٹر عبداللہ آتھم اور عیسائیوں کے عجز و شکست کا ذکر نہیں کیا.اس سے ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی پر اعتراض میں ان کی کارروائی محرمانہ نہیں بلکہ مجرمانہ ہے.اور ان کی کتاب حرف محرمانہ کی بجائے حرف مجرمانہ کہلانے کی مستحق ہے کیونکہ وہ ایک محقق کے طور پر اس بحث میں حصہ نہیں لے رہے بلکہ معاندین کا شیوہ ہی اختیار کئے ہوئے ہیں.حضرت اقدس مسٹر عبد اللہ اعظم کو اپنے ایک مخط میں لکھتے ہیں :- آپ نے میعاد پیشگوئی کے اندر اسلامی عظمت اور صداقت کا سخت اثر اپنے دل پر ڈالا اور اسی بنا پر پیشگوئی کے وقوع کا ہم و غم کمال درجہ پر آپ کے دل میں غالب ہؤا میں اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بالکل صحیح ہے.اور خدا تعالیٰ کے مکالمہ سے مجھ کو یہ اطلاع ملی ہے اور اس پاک ذات نے مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ جو انسان کے دل کے تصورات کو جانتا ہے اور اس کے پوشیدہ خیالات کو دیکھتا ہے.اگر میں اس بیان میں حق پر نہیں تو خدا مجھ کو آپ سے پہلے موت دے.پس اسی وجہ سے میں نے چاہا کہ آپ مجلس عام میں قسم موت کھاد ہیں.اور ایسے طریق پر جو میں بیان کر چکا ہوں تا میرا اور آپ کا فیصلہ ہو جائے.(دوسراحصہ اشتہار تین ہزار روپیه صفحه ۱۸۱۷) پیشگوئی پر اہم ترین اعتراض جناب برق صاحب کا اس پیشگوئی پر اہم ترین اعتراض یہ ہے کہ آپ اپنی
۴۱۰ 66 کتاب حرف محرمانہ میں مخالفین کے طوفانِ بد تمیزی کے متعلق ان کی نظم و نثر کے بعض حوالہ جات درج کرنے کے بعد اپنی کتاب کے صفحہ ۷ ۲۷ پر لکھتے ہیں :- ان اشتہارات سے صرف یہ دکھانا مقصود تھا کہ آئھم اور اس کے فریق نے پیشگوئی کی شرط رجوع الی الحق کو پورا نہیں کیا تھا بلکہ وہ اپنے طغیان و تمرد پر ڈٹے ہوئے تھے.اور انہوں نے ۶/ ستمبر ۱۸۹۴ء کو جناب مرزا صاحب اور خدا اور جبریل کی انتہائی تو ہین کی نہ صرف ار ستمبر کو بلکہ عبد اللہ آتھم اسلام اور مرزا صاحب کے خلاف مسلسل لکھتارہا.اس کی ایک نہایت زہریلی کتاب ” خلاصہ مباحثہ جس میں تثلیث پر پر زور دلائل ہیں.توحید کا مضحکہ اڑایا گیا ہے اور جناب مرزا صاحب پر بے پناہ پھبتیاں کئی گئی ہیں.اسی زمانے (پندرہ ماہ) کی تصنیف ہے.ان واقعات کی روشنی میں کون کہہ سکتا کہ آتھم نے رجوع الی الحق کر لیا تھا.اور عاجز انسان کو خدا بنانے سے باز آگیا تھا.“ الجواب ہم نے جناب برق صاحب کا اعتراض من و عن ان کے الفاظ میں نقل کر دیا ہے.اب اس کے جواب میں واضح ہو کہ بیشک عیسائیوں نے طغیان و تمرد کا اظہار کیا.مگر پیشگوئی کا فریق خاص جس کی ہلاکت کی پیشگوئی کی گئی تھی.دراصل صرف عبد اللہ آتھم ہی تھا.جناب برق صاحب نے اس کے تمر دو طغیان کو ثابت کرنے کے لئے اس کے متعلق لکھا ہے :- نہ صرف ۶/ ستمبر کو بلکہ عبد اللہ آتھم اسلام اور مرزا صاحب کے خلاف مسلسل لکھتارہا.“ مگر جناب برق صاحب کے پاس اس بات کا کوئی قطعی ثبوت موجود نہیں کہ عبد الله آنقم پیشگوئی کے کیے جانے کے بعد اسلام اور حضرت مرزا صاحب کے خلاف
۴۱۱ مسلسل لکھتے رہے.تسلسل ثابت کرنا تو کجا جناب برق صاحب تو اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکے کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم نے خود پیشگوئی کی میعاد پند روماہ کے اندر " خلاصه مباحثہ کے نام سے کوئی کتاب لکھی جسے جناب برق صاحب نے ایک زہریلی کتاب اور تثلیث کے متعلق پر زور دلائل اور توحید کا مضحکہ اڑانے اور جناب مرزا صاحب پر بے پناہ پھبتیاں کسے جانے پر مشتمل قرار دیا ہے.تاکہ رجوع الی الحق کو رو کریں.ہم نے جناب برق صاحب کا یہ اعتراض پڑھنے کے بعد انکی خدمت میں ایک مخط لکھا کہ وہ اس بات کا ثبوت فراہم کریں کہ ایسی کوئی کتاب خود عبد اللہ آتھم نے پیشگوئی کی میعاد پندرہ ماہ کے اندر لکھی ہے.مگر جب جناب برق صاحب نے ہماری اس چٹھی کا کوئی جواب نہ دیا تو پھر ہم نے انہیں ایک رجسٹری مخط لکھا جس کی آسنا یمنٹ رسید جناب برق صاحب کے دستخطوں سے ہمارے پاس موجود ہے.اس رجسٹری خط میں اس کتاب کے بارہ میں ہم نے برقی صاحب سے گیارہ سوالات کئے.لیکن افسوس ہے کہ جناب برق صاحب نے ہماری اس رجسٹر ڈ چٹھی کا بھی کوئی جواب نہ دیا.ہم وہ چٹھی اپنی کتاب کے پڑھنے والوں کی خاطر ذیل میں درج کر دیتے ہیں :- نقل چٹھی مرسلہ بنام ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب برق مکرم ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب برق سلام مسنون کے بعد عرض ہے کہ آپ نے اپنی کتاب حرف محرمانہ کے صفحہ ۷ ۲۷ پر لکھا ہے :- بلکہ عبد اللہ آتھم اسلام اور مرزا صاحب کے خلاف لکھتارہا.اس کی ایک نهایت زہریلی کتاب " خلاصہ مباحثہ " جس میں تثلیث پر پر زور دلائل ہیں.توحید کا
۴۱۲ مضحکہ اڑ لیا گیا ہے اور جناب مرزا صاحب پر بے پناہ پھبتیاں کئی گئی ہیں اس زمانہ ( پندرہ ماہ کی تصنیف ہے.ان واقعات کی روشنی میں کون کہہ سکتا ہے کہ آتھم نے رجوع الی الحق کر لیا تھا اور عاجز انسان کو خدا بنانے سے باز آ گیا تھا.“ کچھ عرصہ ہوا آپ کی اس عبارت کے متعلق ہمارے دفتر کی طرف سے چند سوالات آپ کی خدمت میں پیش کئے گئے تھے.لیکن آپ نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا.حالانکہ یہ کتاب لکھ کر آپ نے یہ امر اپنے ذمہ لے لیا تھا کہ اس میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے اس کے بارے میں اگر کسی استفسار ضرورت ہو تو آپ جواب سے پہلو تہی نہیں کریں گے.مگر افسوس کہ آپ نے اس ذمہ داری کو ادا نہیں کیا.لہذا اب دوبارہ آپ کی خدمت میں یہ چٹھی رجسٹری بھیجی جاتی ہے.آپ مہربانی فرما کر اولین فرصت میں ہمارے سوالات کا جواب دیگر ممنون فرمائیں ورنہ سمجھا جائے گا کہ بے پر کی اڑانے میں آپ بھی دوسرے معائد من احمدیت سے پیچھے نہیں.آپ کے مندرجہ بالا نوٹ کے متعلق ہمارے سوالات حسب ذیل ہیں.ان تمام سوالات کے جوابات نمبر وار دیگر ممنون فرمائیں.-1- کیا ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی کتاب ” خلاصہ مباحثہ “ آپ کے پاس موجود ہے ؟ ۲- اگر موجود نہیں تو آپ نے اسے کہاں دیکھا ہے اگر کسی لائبریری میں دیکھا ہے تو اس سے مطلع فرمائیں ؟ - اس بات کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ کتاب ” خلاصہ مباحثہ کو خود ڈپٹی آتھم نے پیشگوئی کی میعاد ۵ اماہ کے اندر تصنیف کیا تھا ؟ ۴.اس کا طابع اور ناشر کون ہے ؟ ۵- یہ کسی پریس میں چھپی تھی ؟ ۶- یہ کتنے صفحات پر مشتمل ہے ؟
۴۱۳ ے.کیا اس پر تاریخ تصنیف درج ہے ؟ اگر ہے تو کون سی؟ کیا اس پر تاریخ اشاعت درج ہے ؟ اگر ہے تو کون سی؟ ۹- کیا اس پر بطور مصنف ڈپٹی عبد اللہ آتھم کا نام درج کیا گیا ہے ؟ ۱۰- اگر آپ کے پاس یہ کتاب موجود ہو تو ہم اسے کس طرح دیکھ سکتے ہیں ؟ - اگر آپ نے خود یہ کتاب نہیں دیکھی باستہ کسی اور جگہ سے اس کا یہ خلاصہ نقل کیا ہے تو جس کتاب سے آپ نے یہ خلاصہ لیا ہے اسکا حوالہ دیا جائے ؟ فقط والسلام ۲۹ نومبر ۶۴ (دستخط ) محمد نذیر ( مصر ) مهتم نشر واشاعت اصلاح وارشاد یہ رجسٹری مخط ریوہ سے ۲۹ نومبر ۶۱ کو پوسٹ کیا گیا.اس کی اکنا ئٹمنٹ رسید جو جناب برق صاحب کے چھوٹے دستخطوں سے ڈاکخانہ ربوہ کے ذریعہ ہمیں واپس موصول ہوئی ہمار - - فتر کے ریکارڈ میں موجود ہے.افسوس ہے کہ اس نہایت ضروری خط کا بھی انہوں نے کوئی جواب آج مورخہ ۲۴ / اپریل ۶۳ تک نہیں دیا.لہذا آج میں نے کیمبل پور کی جماعت احمدیہ کے امیر ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب کی خدمت میں ایک چٹھی لکھی ہے.کہ وہ جناب برقی صاحب سے مل کر زیر حث کتاب کے متعلق اپنی تحقیقات سے مطلع فرمائیں.ڈاکٹر عبد الرؤف صاحب میرے اس خط کے پہنچنے پر محترم جناب برق صاحب سے ملے تو جناب برق صاحب نے ابو ہر ادہر کی باتوں کے بعد کہا کہ شاید میں نے اس کتاب خلاصه مباحثہ کا ذکر الہامات مرزا مصنفہ مولوی ثناء اللہ صاحب امر تسری میں پڑھا ہے.جناب برق صاحب کے اس جواب سے ظاہر ہو گیا کہ اپنی کتاب "حرف
۴۱۴ محرمانہ“ میں انہوں نے اپنی کوئی ذاتی تحقیق پیش نہیں کی بلکہ دوسرے معاندین احمدیت کی نقل ہی کی ہے.اور مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ معاندین احمدیت کے اعتراضات فقط اپنے لفظوں میں ڈھال کر پیش کر دیئے ہیں.لہذا جو جھوٹ دوسروں نے احمدیت کے خلاف بولا تھا اس کے دہرانے کے آپ بھی مجرم بن رہے ہیں.اور آپ کی یہ کتاب "حرف محرمانہ کی جائے " حرف مجرمانہ " کہلانے کی مستحق ہے.اپنی کتاب کے آخر میں برق صاحب نے جن کتابوں کے مطالعہ کرنے کا ذکر کیا ہے ان میں الهامات مرزا کا ذکر موجود نہیں اور جن کتابوں کے انہوں نے نام دیئے ہیں ان میں خلاصہ مباحثہ " کا کوئی ذکر نہیں.مسٹر عبد اللہ آتھم تو پیشگوئی کی میعاد کے اندر سر گردان اور سراسیمہ ہو نیکی حالت میں تھے اور دن رات روتے رہتے تھے.ان کی حالت نیم دیوانوں کے مشابہ تھی.ان کی متخیلہ میں انہیں ایسے حملہ آور دکھائی دیتے تھے جن کا ذکر کرنے پر عیسائیوں نے انہیں عدالت میں حضرت مرزا صاحب کے خلاف نالش کرنے کے لئے کہا اور یہاں تک پیشکش کی کہ تم صرف کاغذ پر دستخط ہی کر دو.مقدمہ ہم دائر کریں گے.مگر وہ آمادہ نہ ہوئے.بھلا اس سراسیمگی کی حالت میں مسٹر عبد اللہ آتھم کوئی ایسار سالہ بنام "خلاصۂ مباحث " کیسے لکھ سکتے تھے.پس اگر ایسا کوئی رسالہ ان دنوں میں کسی عیسائی نے ان کے نام پر شائع کر دیا ہے (گو ایسا کوئی رسالہ ہماری نظر سے نہیں گزرا) تو یہ اس کی رو بہ بازی ہے.ورنہ اگر مسٹر عبداللہ آتھم نے خود کوئی ایسا رسالہ تثلیث کے عقیدہ کے متعلق دلائل پر مشتمل لکھا ہوتا تو جب حضرت اقدس نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی اور اس بات پر قسم کھانے کو کہا کہ میں نے الوہیت مسیح اور ان کے ابن اللہ ہونے کے متعلق عقیدہ سے رکوع نہیں کیا بلکہ پراٹسٹنٹ عیسائیوں کی طرح ہی الوہیت اور ابنیت کے عقیدہ پر
۴۱۵ قائم رہا ہوں اور اب بھی یہی عقیدہ رکھتا ہوں.تو انہوں نے یہ جواب کیوں نہ دیا کہ مجھے قسم کھانے کی کوئی ضرورت نہیں.کیونکہ میرا خود نوشت رساله خلاصه مباحثه ا موجود ہے جو اس بات پر میری طرف سے تحریری شہادت ہے کہ میں نے اپنے عقیدہ 66 سے رجوع نہیں کیا.بلکہ میں دوسرے عیسائیوں کی طرح عقیدہ اجیت اور الوہیت مسیح کا قائل رہا ہوں.اگر مسٹر عبد اللہ آتھم اس رسالہ کو وجہ شہادت کے طور پر پیش کرتے تو یہ ان کی طرف سے دعوت مباہلہ اور قسم کھانے کی دعوت مقابلہ میں نہ آنے کے لئے ایک کافی جواب ہوتا.مگر انہوں نے تو یہ امر بطور شہادت پیش نہ کیا.بلکہ یہ عذر کیا کہ قسم کھانا ہمارے مذہب میں جائز نہیں.جس کی حضرت اقدس نے پر زور تردید کی اور ثابت کیا کہ شہادت کے وقت عیسائی مذہب میں قسم کھانا جائز ہے کیونکہ خود مسیح علیہ السلام نے بھی انجیل متی ۶۳ / ۲۷ کے مطابق قسم کھائی تھی.رجوع کا اعتراف مسٹر عبد اللہ آتھم نے عیسائی اخبار ”نورافشاں“ ۲۱ ستمبر ۱۸۹۴ء میں حضرت اقدس کے ذکر میں لکھا ہے :- میں عام عیسائیوں کے عقید ہ ابیت والوہیت کے ساتھ متفق نہیں اور نہ ،، میں ان عیسائیوں سے متفق ہوں جنہوں نے آپ کے ساتھ یہودگی کی.“ یہ الفاظ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کی طرف سے دبی زبان میں اس بات کا اقرار ہیں کہ وہ پر انسٹنٹ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کے قائل نہیں رہے تھے اور نہ ان کی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو ابن اللہ اور اللہ مجسم مانتے تھے.پس ان الفاظ میں تو انہوں نے ایک طرح سے عقیدہ تثلیث سے رجوع اور
۴۱۶ توحید کو اختیار کرنے کا اقرار کیا ہے.بھلا ایسا شخص پیشگوئی کی ۱۵ ماہ والی میعاد کے اندر تثلیث پر پر زور رسالہ نام " خلاصہ مباحث " کیسے لکھ سکتا تھا.جس میں حضرت اقدس پر پھبتیاں اڑائی گئی ہوں.وہ تو آپ سے یہود گی کو نا پسند کرتے ہیں.پس ایسار سالہ کسی عیسائی کی چالاکی پر مشتمل ہو سکتا ہے.اس نے مباحثہ جنگ مقدس " کی روئداد کا خلاصہ نام " خلاصہ مباحثہ “ شائع کر دیا ہو گا اور اس پر عبد اللہ آتھم کے اس مباحثہ میں مناظر ہونے کی وجہ سے ان کا نام لکھدیا ہو گا.بہر حال کوئی ایسار سالہ ہمیں نہیں ملا.اور ہمارے لئے اس بات پر یقین کی کوئی وجہ موجود نہیں.اگر ایسا ہوا ہوتا تو مسٹر عبد اللہ آتھم حضرت اقدس کی طرف سے دعوت مباہلہ دیے جانے اور قسم کا چیلنج دیا جانے پر اسے اپنے رجوع نہ کرنے کے ثبوت میں خود بطور شہادت پیش کرتے اور مباہلہ اور قسم سے چنے کے لئے کچے عذر سے کام نہ لیتے.جسے حضرت اقدس نے عذر لنگ ثابت کر وو بعض ضمنی اعتراضات اہم سوال کا جواب دینے کے بعد اب ہم جناب برقی صاحب کے اس پیشگوئی پر ضمنی اعتراضات کے جوابات بھی دیدیتے ہیں.(باللہ التوفیق) حضرت بائی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اپنی کتاب اعجاز احمدی میں لکھا ہے :- سبب اس پیشگوئی کرنے کا یہی تھا کہ اس (آتھم) نے اپنی کتاب اندرونہ بائیبل میں آنحضرت ﷺ کا نام دجال رکھا تھا.سو اس کو پیشگوئی کرنے کے وقت قریباً ستر آدمیوں کے روبر وسناد یا تھا.کہ تم نے ہمارے نبی ﷺ کو جال کہا تھا.سو تم اگر اس لفظ سے رجوع نہیں کرو گے تو پندرہ ماہ میں ہلاک کئے جاؤ گے.سو آتھم نے اسی مجلس
۴۱۷ میں رجوع کیا اور کہا کہ معاذ اللہ میں نے آنجناب کی شان میں ایسا لفظ کوئی نہیں کہا اور دونوں ہاتھ اٹھائے اور زبان منہ سے نکالی اور لرزتی ہوئی زبان سے انکار کیا.جس کے نہ صرف مسلمان گواہ بلکہ چالیس سے زیادہ عیسائی بھی گواہ ہوں گے.پس کیا یہ رجوع نہ " (اعجاز احمدی صفحه ۳،۲) اس پر جناب برق صاحب لکھتے ہیں.یہ جواب بوجوہ محل نظر ہے.اعتراض اوّل اگر آتھم نے واقعی اس جلسہ ہی میں (جہاں پیشگوئی سنائی گئی تھی ) رجوع کر لیا تھا تو پھر آپ پندرہ ماہ تک اضطراب میں کیوں رہے تھے ؟ جب رجوع ہو گیا تو پیشگوئی و ہیں ختم ہو گئی." الجواب (حرف محرمانه صفحه ۲۸۰) واقعات سے کیسی ثابت ہے.اور پیشگوئی کا ٹل جانا بھی اس بات پر گولہ ہے کہ آتھم صاحب نے در حقیقت رجوع کر لیا تھا.لیکن اس وقت قطعی طور پر یہ خیال نہیں کیا جاسکتا تھا کہ دل سے وہ عقیدہ تثلیث سے بھی رجوع کر رہے ہیں.اس لئے حضرت اقدس کا پیشگوئی کی پندرہ ماہ کی میعاد تک پیشگوئی کے انجام کا انتظار اور اس میں دلچسپی لینا ضروری امر تھا.گوبناء پیشگوئی مسٹر عبد اللہ آتھم کا آنحضرت ﷺ کو نعوذ باللہ و جال قرار دینا تھی.لیکن چونکہ پیشگوئی میں خدا تعالیٰ کے الفاظ یہ تھے :- کہ اس بحث میں جو فریق عمد ا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا نا رہا ہے.وہ پندرہ ماہ تک ہادیہ میں گر لیا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی.پھر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.“ (جنگ مقدس صفحه ۱۸۸) اور پیشگوئی کا ما حصل خود جناب برق صاحب نے بھی یہی لکھا ہے کہ :-
۴۱۸ "رجوع الی الحق کا مفہوم ایک ہی ہو سکتا ہے.یعنی تثلیث سے تائب ہو کر (حرف محرمانه صفحه ۲۷۱) توحید قبول کرنا.“ اس لئے مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کا آنحضرت ﷺ کو دجال کہنے سے انکار ان کے رجوع کی ایک علامت تو ہو سکتا تھا.مگر اس وقت اسے ایسار جوع قرار نہیں دیا جاسکتا جس سے آتھم صاحب کا وعیدی موت سے بچ جانا قطعی طور پر یقینی ہو جائے.اس لئے پندرہ ماہ کی میعاد پیشگوئی تک اس کے انجام کا انتظار ضروری تھا اور چونکہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے اعلانیہ اس بات کا پندرہ ماہ کے عرصہ میں اظہار نہیں کیا تھا کہ وہ توحید کے قائل ہو چکے ہیں اس لئے لوگوں کے ابتلا میں پڑنے کا احتمال بھی موجود تھا.لنڈا حضرت اقدس کے لئے لوگوں کے کسی ابتداء میں پڑنے کے خیال سے پریشانی ایک طبیعی امر تھا.چنانچہ منشی رستم علی خاں صاحب کو حضرت اقدس نے جو خط لکھا اس میں لوگوں کے کسی امتحان میں پڑنے کے خطرہ کا ہی اظہار کیا گیا ہے.چنانچہ آپ لکھتے ہیں :- ”اب تو صرف چند روز پیشگوئی میں رہ گئے ہیں.دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اہدوں کو امتحان سے بچاوے." (خط مندرجہ حرف محرمانه صفحه ۲۷۳) اس سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس اپنے اجتہاد کے رو سے عبداللہ آتھم کے آنحضرت علے کو دجال کہنے سے رجوع کر لینے کے باوجود اس رجوع کو اس بات کے لئے قطعی نہیں سمجھتے تھے کہ اس رجوع سے وہ یقینی طور پر وعیدی موت سے بیچ سکتا ہے کیونکہ پیشگوئی میں رجوع الی کے الفاظ سے رجوع الی التوحید سمجھا جاتا تھا.اعتراض دوم دوسرا اعتراض جناب برق صاحب کا یہ ہے کہ :- اگر رجوع سے مراد صرف لفظ دجال سے رجوع تھا تو پیشگوئی میں بھی اس
۴۱۹ کی وضاحت فرمائی ہوتی.حق کا لفظ اس قدر وسیع ہے کہ کائنات کی کروڑوں سچائیاں اس کے دامن میں سمائی ہوئی ہیں.اتنے وسیع لفظ سے صرف ایک سچائی مراد لینا ایک ایسا تکلف ہے جسکا جو از ایک زبر دست قرینہ کے بغیر نکل ہی نہیں سکتا.پیشگوئی میں جو فریق عمدا عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے.ہادیہ میں گرایا جائیگا.“ کے الفاظ صریحاً تثلیث و توحید کا مفہوم دے رہے ہیں.“ (حرف محرمانہ صفحہ ۲۸۱) ہے " 66 جب بقول برق صاحب پیشگوئی میں جو فریق عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہاویہ میں گرایا جائے گا“ کے الفاظ صریحاً تثلیث و توحید کا مفہوم دے رہے تو حق کا لفظ اس جگہ کروڑوں کروڑ سچائیوں کے ذکر پر مشتمل نہ ہوا.ہلاکہ سیاق کلام کے قرینہ سے جناب برق صاحب نے خود ہی اس کے یہ معنی متعین کر دئیے ہیں کہ :- باقی رہا لفظ حق تو پیشگوئی کے الفاظ پھر پڑھئے " جو فریق عمدا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے.یعنی جھوٹ سے مراد عاجز انسان کو خدا بنا نا لور سچ کیا ہے ؟ جو شخص سچ پر ہے اور بچے خدا کو مانتا ہے.ایک خدا کو ماننا.اس پیشگوئی کے رو سے رجوع الی الحق کا مفہوم ایک ہی ہو سکتا ہے.یعنی تثلیث سے تائب ہو کر توحید قبول کرنا.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۷۱) دیکھئے جب برق صاحب نے خود بلا تکلف عبارت الہام کے زیر دست قرینہ سے حق کے لفظ سے ایک ہی سچائی مراد لے لی ہے.تو پھر اعتراض کیسا؟ ہاں بے شک وجال کا نہ تو یہاں ذکر ہے اور نہ کسی لفظ سے اشارہ سمجھا جاتا ہے.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بنائے پیشگوئی جیسا کہ حضرت اقدس نے بیان کیا ہے :-
۴۲۰ مسٹر عبد اللہ آتھم کا نبی علی والے کو جال کہنا ہی تھا.“ مگر آتھم صاحب کے وعیدی موت سے چنے کے لئے چونکہ الہام الہی کی رُو سے تثلیث کو چھوڑ کر توحید کو مانا ضروری تھا.اس لئے محض دجال کہنے سے رجوع پر اس وقت پیشگوئی کے انجام کے متعلق قطعی اجتہاد نہیں ہو سکتا تھا.ہاں اس کا دجال کہنے سے رجوع کر لیا احد کے ان واقعات کے ساتھ مل کر جو اسے ہم و خم کی صورت میں پیش آئے اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی وہ دل میں تثلیث کے عقیدہ کو چھوڑ کر توحید کو اختیار کر چکا تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس کو اطلَعَ اللهُ عَلَى هَمه ومہ کے الہام کے ذریعہ آتھم صاحب کو مہلت دی جانے سے متعلق اشارہ فرما دیا.اور پھر الہام کے ماتحت جو انعامی دعوت مباہلہ آتھم صاحب کو دی گئی اس سے آٹھم صاحب کے رویہ نے قطعی طور پر ثابت کر دیا کہ پندرہ ماہ کے اندر رجوع الی الحق کی وجہ سے ہی وہ وعید کی موت سے چے تھے.ورنہ اگر مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے دل سے رجوع نہ کیا ہوتا تو وہ فورا مؤکد بعذاب حلف اٹھا کر حضرت اقدس کے بیان کو بھی جھٹلا سکتے تھے.اور چار ہزار روپیہ انعام بھی حاصل کر سکتے تھے.مگر چونکہ وہ قسم کھانے کے لئے باوجود انعامی وعدوں کے آمادہ نہ ہوئے.اور عذر کیا کہ میرے مذہب میں قسم کھانا منع ہے.حالانکہ حضرت اقدس نے بعد میں دلائل سے ثابت کر دیا کہ ضرورت کے وقت عیسائیوں میں قسم کھانا جائز ہے.اس لئے اخفائے حق کے جرم سے کام لینے کی وجہ سے وہ نئے الہام کے بعد سات ماہ کے عرصہ میں ہلاک ہو کر اپنی ذلت و شکست پر مہر تصدیق ثبت کر گئے.فاعتبر وایا اولی الابصار.ایک اور اعتراض ایک اور ضمنی اعتراض جناب برق صاحب کا یہ ہے.کہ حضرت اقدس نے لکھا تھا :-
۴۲۱ " میں نے ڈپٹی آئھم کے مباحثہ میں قریباً ساٹھ آدمی کے روبرو یہ کہا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا.سو آ نظم بھی اپنی موت سے میری سچائی کی (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۷) گواہی دے گیا.“ جناب برقی صاحب اس عبارت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ پیشگوئی میں پندرہ ماہ کی میعاد تھی ہی نہیں.اور پھر خود ہی لکھتے ہیں :- " " پیشگوئی میں پہلے اور پیچھے کا کوئی ذکر نہیں.وہاں صرف اتخاذ کر ہے کہ جھوٹا پندرہ ماہ تک ہادیہ میں گر لیا جائے گا.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۸۲) الجواب جناب برق صاحب پیشگوئی کے انہیں الفاظ کہ ”جھوٹا پندرہ ماہ کے اندر ہاویہ میں گرایا جائے گا کا منطوق یہ ہے کہ سچا پندرہ ماہ کے عرصہ میں ہادیہ میں نہیں گرایا جائے گا.چونکہ ہلو یہ میں گرایا جانے کے الفاظ سے اشارۃ و عیدی موت کبھی گئی تھی اس لئے الہام کا صاف غشاء یہ ہوا کہ بچے کو پند روماہ کے اندر نہیں مرنا چاہیئے.اور نتیجہ اس کا یہی ہوا کہ جھوٹا مریگا.سچائی جائے گا.الہام کے ان الفاظ کے بعد کہ جھوٹا پندرہ ماہ کے اند ر ہادیہ میں گر لیا جائے گا.وہ الفاظ بھی ہیں جو جناب برق صاحب حرف محرمانہ صفحہ ۲۷۰ پر خود نقل کر چکے ہیں اور اس کو ( جھوٹے کو ناقل) ذلت پہنچے گی بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور بچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہو گی.“ پس جھوٹے کے ہادیہ میں گرائے جانے کی تعبیر و عیدی موت لینے کے بعد ان اگلے الفاظ کا مطلب یہی لیا جاسکتا ہے کہ جو شخص دونوں فریق، عبد اللہ آتھم اور
۴۲۲ حضرت مرزا صاحب میں سے سچے خدا کو ماننے والا ہے اور اس وعیدی موت سے نہیں مریگا.پس جھوٹے کا بچے کے سامنے وعیدی موت سے مرنا بھی اس پیشگوئی کا مفاد ہوا.ہاں اس وقت جھوٹے کا پہلے مرنا اس شرط سے مشروط تھا کہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.چونکہ مسٹر عبد اللہ آتھم رجوع الی الحق کی وجہ سے وعیدی موت سے بیچ گئے.اور پندرہ ماہ میعاد ختم ہو گئی.لہذا اب اگر مسٹر عبد اللہ آتھم اخفائے حق سے کام لیں تو پندرہ ماہ کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد اب اصل پیشگوئی آتھم صاحب کے اخفائے حق کی وجہ سے تاخیر میں پڑ کر اس کا مفاد یہی رہ جاتا تھا کہ جھوٹے کو بچے کے سامنے مرنا چاہئے.چنانچہ آخری پیشگوئی میں خدا تعالیٰ نے فرمایا :- میں بس نہیں کروں گا جب تک قومی ہاتھ نہ دکھلاؤں اور شکست خوردہ گروہ کی سب پر ذلت ظاہر نہ کروں.“ اور اس الہام کا مفاد حضرت اقدس نے یہ بتایا تھا کہ :- اگر آتھم صاحب قسم نہ کھائیں تو بھی خدا ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کر کے دنیا کو دھوکہ دینا چاہا....وہ دن نزدیک اشتهار انعامی چار ہزار روپیه ) ہیں دُور نہیں.“ اب پہلی پیشگوئی کی بنا پر ہی اخفائے حق کے جرم کی وجہ سے عبداللہ آتھم کا حضرت اقدس سے پہلے مرنا ضروری ہو گیا تھا.تا آتھم صاحب کے گروہ کی شکست اور ذلت سب پر ظاہر ہو جائے.چنانچہ وہ اس پیشگوئی کے کے ماہ بعد ہلاک ہو گئے اور حضرت اقدس زندہ رہے.پس پہلی پیشگوئی کا یہ مفاد ضرور تھا.کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں مریگا البتہ اس میں پندرہ ماہ کی میعاد تھی.جو آتھم صاحب کے رجوع الی الحق سے مل گئی تھی اور اس پیشگوئی میں سنت اللہ کے موافق تاخیر ڈال دی گئی تھی.کیونکہ جب رجوع الی الحق
۴۲۳ کی شرط سے فائدہ اٹھا لینے پر وعیدی پیشگوئی کی یہ مقید صورت ختم ہو گئی تو آٹھم صاحب کے اخفائے حق کی وجہ سے اب یہ وعیدی پیشگوئیوں کے اصول کے مطابق تاخیر میں پڑ کر اپنی اس مطلق صورت میں کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں مریکا قائم ہو گئی.کیونکہ مقید صورت کی نفی ہے وعیدی پیشگوئیوں میں معلق صورت کی بہر حال نفی نہیں ہو جاتی بلکہ بیبا کی دکھانے پر عذاب کا نازل ہو نا ضروری ہو جاتا ہے.پس عبد اللہ آتھم کے اخفائے حق کی وجہ سے پیشگوئی مطلق صورت میں ان کے سریر قلم رہی اور بعد کے واقعات اور حقائق کی تفصیل اس مفاد کو قطعی طور پر ثابت کر دیتی ہے اور اس امر پر شبہ کا کوئی غبار باقی نہیں چھوڑتی کہ اس پیشگوئی کی میعاد گزر جانے کے بعد بھی مسٹر عبد اللہ آتھم کے حضرت اقدس کی زندگی میں مرنے کا روحانی مقابلہ ختم نہیں ہوا تھا.چنانچہ حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- وو ہاں جس وقت عبد اللہ آتھم اس شرط ( رجوع الی الحق ناقل) کے نیچے سے اپنے تیں باہر کرے اور اپنے لئے شوخی اور بے باکی سے ہلاکت کے سامان پیدا کرے تو و دو دن نزدیک آجائیں گے اور سزائے ہادیہ کامل طور پر نمودار ہو گی اور پیشگوئی عجیب طور پر اپنا اثر دکھائے گی.“ (انوار الاسلام صفحه ۵) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ پندرہ ماہ گزر جانے کے بعد بھی حضرت اقدس کے نزدیک پیشگوئی معلق صورت میں آتھم صاحب کے سر پر قائم تھی اور پیشگوئی کی اس معلق صورت کا مفاد یہی تھا کہ اخفائے حق کا جرم ظاہر ہو جانے پر جھوٹا بچے کی زندگی میں ہلاک ہو گا.پس ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۰ کی عبارت پیشگوئی کی میعاد گزر جانے کے بعد کی ہے اس لئے اس میں پیشگوئی کی صرف مطلق صورت کا ذکر کیا گیا ہے." کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا.“
۴۲۴ آخری ضمنی اعتراض برق صاحب نے آخری ضمنی اعتراض اس عبارت کے پیش نظر کیا ہے جس میں انوار الاسلام" صفحہ ۵ پر حضرت اقدس نے مسٹر عبد اللہ آتھم کی مسلسل گھبراہٹ کے سلسلہ اور ہول اور خوف کو اصل ہاویہ قرار دیا ہے.چنانچہ برق صاحب لکھتے ہیں کہ :- " تو گویا آعظم اصل ہادیہ میں گرا دیا گیا تھا اس لئے کہ اُس نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا تھا.لیکن آپ اعجاز احمدی صفحہ ۲ میں فرماتے ہیں.کہ ” تھم نے اسی مجلس میں رجوع کیا.“ اگر وہ حق کی طرف رجوع کر چکا تھا تو پھر اُسے اصل ہاویہ میں کیوں گرادیا گیا.اور اگر نہیں کیا تھا تو زندہ کیوں رہا ؟“ (حرف محرمانه صفحه ۲۸۳) الجواب اس اعتراض میں جناب برق صاحب دراصل لفظوں سے کھیل رہے ہیں ور نہ اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اصل پیشگوئی میں موت کا لفظ نہ تھا بلکہ ہادیہ میں گرائے جانے کا ذکر تھا اور کامل ہادیہ چونکہ مجرم انسان کو مارنے کے بعد ملتا ہے اس لئے ہادیہ میں گرائے جانے کی تعبیر میں حضرت اقدس نے وعیدی معت ضروری قرار دی.چونکہ مسٹر عبد اللہ آتم دل سے رجوع الی الحق کر چکے تھے اس لئے وہ موت کے ہادیہ سے اس طرح بچائے گئے کہ پندرہ ماہ کی میعاد پیشگوئی کے اندر ان کی موت واقعہ نہ ہوئی.لیکن اس میعاد کے اندر چونکہ ان پر گھبر بہٹ اور خوف طاری ہؤا جو رجوع الی الحق کی علامت تھا.اس لئے حضرت اقدس نے ہادیہ کے وسیع معنوں کے لحاظ سے دنیوی ہو یہ کے معنوں میں اسے اصل ہادیہ سے تعبیر کیا ہے یہ ہادیہ جس میں وہ پڑے رہے رجوع کی علامت تھا.اگر وہ اعلانیہ بھی اپنے قلبی رجوع کا اظہار کر دیتے تو
۴۲۵ وہ اس دنیوی ہاویہ سے بھی بچ جاتے.لیکن چونکہ آتھم صاحب نے اعلانیہ رجوع کا اظہار نہیں کیا تھا اس لئے ان پر باوجو د رجوع الی الحق کے مسلسل گھبراہٹ اور ہول دل پر طاری رہا.پس اس رنگ میں عبد اللہ آتھم صاحب اس اصل ہاویہ میں گر چکے تھے جو دنیا میں انسان کو مل سکتا ہے البتہ آخرت کے کامل ہادیہ میں وہ رجوع الی الحق کی وجہ سے پندرہ ماہ کے اندر نہ گرائے گئے.چنانچہ حضرت اقدس برق صاحب کی پیش کردہ عبارت کے بعد انوار لا سلام کے صفحہ ے پر تحریر فرماتے ہیں :- اگر تم ایک طرف ہماری پیشگوئی کے الہامی الفاظ پڑھو اور ایک طرف اُس کے مصائب کو جانچو جو اس پر وارد ہوئے تو تمہیں کچھ بھی اسبات میں شک نہیں رہے گا کہ وہ بیشک ہادیہ میں گرا.ضرور گرا اور اس کے دل میں رنج اور بد حواسی وارد ہوئی جس کو ہم آگ کے عذاب سے کچھ کم نہیں کہہ سکتے ہاں اعلیٰ نتیجہ ہاویہ کا جو ہم نے سمجھا اور جو ہماری تشریحی عبارت میں درج ہے یعنی موت وہ ابھی تک حقیقی طور پر وارد نہیں ہوا.کیونکہ اس نے عظمت اسلام کی ہیبت کو اپنے دل میں دھنسا کر الہی قانون کے موافق الهامی شرط سے فائدہ اٹھالیا اور موت کے قریب قریب اس کی حالت پہنچ گئی.اور وہ درد اور دُکھ کے ہادیہ میں ضرور گرا اور ہادیہ میں گرنے کا لفظ اس پر صادق آیا.پس یقیناً سمجھو کہ اسلام کو فتح حاصل ہوئی اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ بالا ہوا اور کلمہ اسلام اونچا ہوا اور عیسائیت نیچے گری.الحمد للہ علی ذالک.“ (انوار الاسلام صفحہ ۷ ) نیز اس سے پہلے صفحہ ۵ ۶ پر تحریر فرماتے ہیں :- توجہ سے یاد رکھنا چاہئے کہ ہادیہ میں گرائے جانا جو اصل الفاظ الہام ہیں وہ عبد اللہ آتھم نے اپنے ہاتھ سے پورے کئے اور جن مصائب میں اس نے اپنے تئیں ڈال لیا اور جس طرز سے مسلسل گھبراہٹوں کا سلسلہ اس کے دامن گیر ہو گیا اور ہول
۴۲۶ اور خوف نے اس کے دل کو پکڑ لیا یہی اصل ہاو یہ تھا اور سزائے موت اس کے کمال کے لئے ہے جس کا ذکر الہامی عبارت میں موجود ہی نہیں.بیشک یہ ایک ہاویہ تھا جس کو عبد اللہ آتھم نے اپنی حالت کے موافق ہو مت لیا.لیکن وہ بڑا ہادیہ جو موت سے تعبیر کیا گیا ہے اس میں کسی قدر مہلت دی گئی ہے.“ اگر جناب برق صاحب ان عبارتوں پر غور فرما لیتے تو اس لفظی کھیل کھیلنے سے بچ جاتے جو انہوں نے اپنے اعتراض میں کھیلی ہے.ان عبارتوں سے صاف طاہر ہے کہ ہادیہ کا اعلیٰ نتیجہ موت تھا جو رجوع الی الحق کی شرط سے مل سکتا تھا.اور ہاویہ کے اس نتیجہ سے جو دنیوی مصائب سے تعلق رکھتا تھا.اس میں عبد اللہ آتھم کے گرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے اس لئے جناب برق صاحب کا اعتراض بے معنی اور بے وزن ہے.جس ہادیہ میں عبداللہ آتھم گرا اُسے دنیوی ہادیہ کے لحاظ سے اصل ہاویہ قرار دیا گیا ہے اور موت والے ہادیہ کا ذکر آپ نے اعلیٰ نتیجہ ہادیہ کے الفاظ میں کہا ہے اور اس سے وعیدی موت مراد لی ہے اور یہی ہادیہ بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے کی شرط سے مشروط تھا.پس برق صاحب کا یہ اعتراض کوئی وزن نہیں رکھتا کہ اگر وہ حق کی طرف رجوع کر چکا تھا تو پھر اسے اصل ہادیہ میں کیوں گرایا گیا.☆☆☆
۴۲۷ ۳- پیشگوئی متعلق پسر موعود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنی کتاب نزول المسیح کے صفحہ ۱۹۶ پر پیشگوئی نمبر ۵۸ کے تحت لکھتے ہیں :- وو ۱۸۸۳ء میں مجھ کو الہام ہوا کہ تین کو چار کرنے والا مبارک.“ اور وہ الهام قبل از وقت بذریعہ اشتہار شائع کیا گیا تھا اور اس کی نسبت تنیم یہ تھی کہ اللہ تعالٰی اس بیوی سے چار لڑ کے مجھے دے گا اور چوتھے کا نام مبارک ہو گا.“ ( نزول المسیح صفحه ۱۹۶) انسی چار لڑکوں میں سے خدا تعالیٰ نے ایک لڑکے کو مرد خدا مسیح صفت بیان کیا.چنانچہ حضرت اقدس تریاق القلوب صفحہ ۱۴ پر لکھتے ہیں :- یاد رہے کہ لڑکی پیدا ہو نا یا ایک لڑکا پیدا ہو کر مر جانا اس سے الہام کو کچھ تعلق نہ تھا.الہام یہ بتلاتا تھا کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور ایک کو ان میں سے ایک مرد خدا صحیح صفت الہام نے بیان کیا.سو خدا تعالیٰ کے فضل سے چار لڑکے پیدا ہو گئے.“ واقعات کی شہادت یہ ہے کہ یہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہو گئی اللہ تعالی نے آپ کو دوسری بیوی سے چار لڑ کے عطا فرمائے اور ان میں سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ مصر و العزیز کو لمبی عمر دے کر حضرت مسیح موعود کا جانشین بنایا اور آپ کے ذریعہ اس اولو العزم پسر موعود کے متعلق پیشگوئی جسے الہام نے مردِ خدا مسیح صفت بیان کیا تھا پوری ہو گئی.اس مسیح صفت موعود کے متعلق پیشگوئی ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں کی گئی تھی.جس کا اقتباس جناب برق صاحب نے اپنی کتاب حرف محرمانہ کے صفحہ ۸۵ - ۲۸۴ پر درمیان سے کئی جگہ
۴۲۸ عبارت چھوڑ کر اس طرح دیا ہے.”خدائے رحیم و کریم نے مجھے کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا تجھے بھارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا اس کا نام عنمو ایل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے.وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.اپنے مسیحی نفس سے بہتوں کی بیماریوں کو صاف کرے علوم ظاہری وباطنی سے پر کیا جائے گا.وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا.دو شنبہ مبارک دوشنبه فرزند دلبند گرامی ارجمند - مظهر الاول والآخر مظهر الحق والعلا كأنَّ الله نزل مِنَ السَّمَاءِ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت حاصل کریں گی." ( تبلیغ رسالت جلد اول صفحه (۵۸) گا.پیشگوئی سے اقتباس کے یہ بعض حصے درمیان میں نقطے دیکر درج کرنے کے بعد جناب برق صاحب اشتہار ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء کی یہ عبارت درج کرتے ہیں :- ایسا لڑکا موجب وعدہ اپنی نو برس کے عرصہ تک (یعنی ۲۰ فروری ۱۸۹۵ء تک ضرور پیدا ہو گا.“ تبلیغ رسالت جلد اصفحه ۷۲) اس عبارت میں بریکٹ کانوٹ برق صاحب نے خود درج کیا ہے اور یہ درست ہے.یہ اقتباس دینے کے بعد جناب برق صاحب لکھتے ہیں :- وو تاریخ اور ضرور کا لفظ نوٹ فرما لیجئے." واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق نو سال کے اندر پیشگوئی پوری کر دی.چنانچہ جنوری ۱۸۸۹ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد پیدا ہوئے جو آجکل حضرت مسیح موعود کے جانشین اور خلیفہ ثانی ہیں.اور خدا تعالی کے فضل سے آپ میعاد پیشگوئی کے اندر پیدا ہوئے اور پیشگوئی کے مطابق خدا تعالیٰ
۴۲۹ نے آپ کو زمین کے کناروں تک شہرت دی.قوموں نے آپ سے برکت حاصل کی اور کر رہی ہیں.جناب برق صاحب نے اس پیشگوئی پر بھی اپنی عادت کے موافق ایسے بے سر و پا اعتراضات کئے ہیں جو معقولیت سے بالکل خالی ہیں.اور بعض ایسے حیلے بھی اختیار کئے ہیں تاکہ جن لوگوں کو اس پیشگوئی کا صحیح علم نہیں ان جیلوں سے وہ انہیں مغالطہ دے بات یہ ہے کہ اس پیشگوئی کے بعد حضرت مسیح موعود کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو ا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا اور یہ سولہ مہینے زندہ رہ کر وفات پا گیا.چونکہ الہام بتاتا تھا کہ پھر موعود 9 سال کے اندر موجب وعدہ الٹی پیدا ہو گا.اس لئے اس لڑکے کی پیدائش پر یہ گمان کیا جا سکتا تھا کہ ممکن ہے کہ یہی وہ موعود لڑکا ہو جس کی نسبت ۲۰ فروی ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں پیشگوئی کی گئی ہے.لیکن حضرت اقدس نے اس کے متعلق اپنا کوئی اجتہاد شائع نہ فرمایا.چنانچہ اس لڑکے کی پیدائش کے متعلق آپ نے ۸ / اپریل ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں پیشگوئی بیان فرماتے ہوئے لکھا ہے :- " جناب الہی میں توجہ کی گئی تو آج ۸ر اپریل ۱۸۸۶ء میں اللہ جل شاعہ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے قریب حمل میں.لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جواب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یادہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا.اور پھر اس کے بعد یہ بھی الہام ہوا کہ انہوں نے کہا کہ آنیوالا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تھیں.چونکہ یہ عاجز ایک ہند و ضعیف مولی جل شانہ کا ہے.اس لئے اسی قدر ظاہر کرتا ہے جو منجانب اللہ ظاہر کیا گیا.آئندہ جو اس سے زیادہ منکشف ہو گا وہ بھی شائع کیا جائے گا
والسلام على من اتبع الهدى اشتهار صداقت آثار مورخه ۱۸ اپریل ۱۸۸۶ء) جناب برق صاحب نے بھی یہ اقتباس درج کیا ہے ملاحظہ ہو حرف محرمانہ فحہ ۲۸۵ مگر دانستہ درمیان سے وہ عبارت جس پر ہم نے مخط کھینچ دیا ہے.حذف کر کے اس کی جگہ نقطے دیدیئے ہیں اور یہ کارروائی انہوں نے اس لئے کی ہے کہ اس عبارت کو حذف کئے بغیر جناب برق صاحب وہ اعتراض نہیں کر سکتے تھے جو انہوں نے اس مقام پر کیا ہے.پہلا اعتراض برق صاحب نے اس موقعہ پر یہ اعتراض کیا ہے کہ جب ۷ اگست ۱۸۸۷ء کو ایک لڑکا پیدا ہوا تو آپ نے اسے پسر موعود سمجھ کر اس کا نام بشیر رکھا.اور اعلان کیا :- اے ناظرین! میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولد کے لئے میں نے اشتہار ۸/ اپریل ۱۸۸۶ء میں پیشگوئی کی تھی اور خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنے کھلے کھلے بیان میں لکھا تھا کہ اگر وہ حمل موجودہ میں پیدا نہ ہوا تو دوسرے حمل میں جو اس کے قریب ہے ضرور پیدا ہو جائے گا.آج ۱۶؍ ذیقعد ۱۳۰۴ هجری مطابق اگست ۱۸۸۷ء میں ۱۲ بجے رات کے بعد ڈیڑھ بجے کے قریب وہ موعود مسعود پیدا ہو گیا.فالحمد للہ علی ذالک.اس لڑکے کا نام بشیر احمد ر کھا گیا." خوشخبری اشتمار۷ / اگست ۱۸۸۷ء و تبلیغ رسالت جلد ا صفحه ۸۹) جناب برق صاحب اس پر لکھتے ہیں :- اس اشتہار کی خط کشیدہ سطور کو دیکھئے اور پھر ۸ / اپریل کے اشتہار کو پڑھئے
۴۳۱ " وہاں دوسرے حمل میں جو اس کے قریب ہے کا اشارہ تک نہیں ملے گا.“ الجواب (حرف محرمانه صفحه ۲۸۷) (1) اس عبارت میں ہر گز یہ مذکور نہیں کہ بشیر احمد کو ۲۰ فروری ۱۸۸۶ کی پیشگوئی کا " پسر موعود " سمجھ کر اس کا نام اخیر احمد رکھا گیا ہے.(۲) ہم جناب برق صاحب کے متعلق کیا خیال کریں جبکہ دوسرے حمل میں جو اس کے قریب ہے“ کا اشارہ چھوڑ اشتہار ۸ / اپریل میں ان الفاظ میں صراحت موجود ہے.اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے (اشتہار ۸ / اپریل ۱۸۸۶ء) قریب حمل میں“ اور یہی وہ عبارت ہے جو جناب برق صاحب نے اپنے پیش کردہ اقتباس میں سے حذف کر کے اس کی جگہ نقطے دے دیئے ہیں.قارئین کرام ! غور فرمالیں کہ یہ عبارت تو ۸ / اپریل ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں موجود تھی جس میں قریب کے حمل کا صریح ذکر موجود تھا مگر جناب برق صاحب نے اسے دانستہ اور ارادہ درمیان سے خود حذف کر دیا ہے.تاوہ اپنی کتاب کے پڑھنے والوں کو یہ مغالطہ دے سکیں کہ حضرت مرزا صاحب نے اشتہار ۸ / اپریل ۱۸۸۶ء میں دوسرے حمل میں ”جو پہلے حمل کے قریب ہے کا ذکر چھوڑ اس کا اشارہ تک نہیں کیا.جناب برق صاحب ! آپ کیسے محقق ہیں ؟ کہ عبارت تو درمیان سے خود حذف کر رہے ہیں اور الزام اس کی بناء پر حضرت بائی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کو دینے بیٹھ گئے ہیں.کہ اشتہار ۱۸ اپریل ۱۸۸۶ء “ میں ”دوسرے حمل میں جو اس کے قریب ہے " کے الفاظ کا اشارہ تک نہیں.گویا حضرت اقدس نے اشتہار خوشخبری
۴۳۲ ۱۸۸۷ء میں جھوٹ موٹ لکھدیا ہے.کہ ایسے الفاظ اشتہار ۸ ر اپریل میں موجود ہیں.دیکھئے ! ہم نے اشارہ چھوڑ صراحت دکھا دی ہے.اب بتائیے.آپ کی یہ کتاب ”حرف محرمانہ “ کہلانے کی مستحق ہے یا تحریف مجرمانہ.ذرا انصاف کو کام میں لائیں.دوسرا اعتراض دوسرا اعتراض اس موقعہ پر جناب برق صاحب نے یہ کیا ہے :- اس اشتہار میں ایک مدت حمل 9 ماہ کے اندر ) تک ایک لڑکا خواہ وہ پسر موعود ہو یا کوئی اور کے پیدا ہونے کی بشارت درج تھی.لیکن مئی ۱۸۸۶ء میں ایک لڑکی پیدا ہو گئی.“ نواب ( حرف محرمانه صفحه ۲۸۶) اس کے جواب میں واضح ہو کہ ۸/ اپریل ۱۸۸۶ء کو خدا تعالی کی طرف توجہ کرنے پر آپ کو ایک لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی جس کا ذکر آپ نے ان الفاظ میں کیا ہے.ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے قریب حمل میں.لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جواب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یاوہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا." (اشتہار صداقت آثار ۸ / اپریل ۱۸۸۶ء) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس پر جناب الہی میں توجہ کرنے پر صرف یہ انکشاف ہوا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے.جو مدت حمل سے
۴۳۳ تجاوز نہیں کر سکتا اور اس کی تشریح آپ نے یہ فرمائی کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یابالضرور اس کے قریب حمل میں.اس عبارت میں ہر گز قطعی طور پر یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ وہ لڑکا موجودہ حمل میں ہی ہو گا.جس سے ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی.بلکہ اس بات کا امکان ظاہر فرمایا تھا کہ یہ لڑکا اگر موجودہ حمل میں نہ ہوا تو اس کے قریب کے دوسرے حمل میں ہو گا.پس لڑکی پیدا ہونے پر اعتراض کرنا جناب برق صاحب کی عجیب و غریب ذہنیت پر دال ہے.موجودہ حمل سے لڑکی پیدا ہو جانے پر اس عبارت کی موجودگی میں اعتراض کی کوئی گنجائش نہ تھی.کیونکہ حضرت اقدس نے حتمی طور پر یہ نہیں فرمایا تھا کہ وہ لڑکا موجودہ حمل سے ہو گا.بلکہ دوسرے حمل سے اس کا امکان ظاہر فرمایا تھا.چنانچہ دوسرے حمل میں خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ لڑکا پیدا ہو گیا اور یہ پیشگوئی سے اگست ۱۸۸۷ء کو پوری ہو گئی.فالحمد للہ علی ذالک.لہذا برق صاحب کا یہ اعتراض سراسر بے بنیاد ہے.تیسرا اعتراض جناب برق صاحب نے اس پیشگوئی پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ”کہ یہ لڑکا ۱۴ نومبر ۱۸۸۸ء کو فوت ہو گیا.“ الجواب اس لڑکے کا کم عمری میں فوت ہو جانا کوئی قابل اعتراض امر نہیں کیونکہ اپریل ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں اس کے متعلق پیشگوئی فرماتے ہوئے حضرت اقدس نے صاف لفظوں میں لکھ دیا تھا کہ : ولیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جواب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یاوہ کسی اور وقت
۴۳۴ میں نوبرس کے عرصہ میں پیدا ہو گا.“ اشتهار ۸/ اپریل ۱۸۸۶ء) اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء مندرجہ ضمیمه اخبار ریاض ہند یکم مارچ ۱۸۸۶ میں صاف طور پر یہ پیشگوئی بھی درج کی گئی تھی.” میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی." ضمیمه اخبار ریاض ہند امر تسر مطبوعہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء) پس ۸ر اپریل ۱۸۸۶ء کے مصداق لڑکے کا کم عمری میں فوت ہو جانا آپ کی ایک پیشگوئی کو پورا کرتا ہے.نہ کہ قابل اعتراض ہے.ہاں اگر آپ نے اس لڑ کے بشیر احمد کو الہام الہی سے مصلح موعود قرار دیا ہو تا تو پھر البتہ اس کی وفات قابل اعتراض ہوتی.مگر حضرت اقدس نے تو اس کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے ہی صفائی سے بتا دیا تھا کہ :- >> یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جواب پیدا ہو گا یہ وہی ( مصلح موعود.ناقل ) لڑکا ہے یادہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا.“ باقی رہا مخالفین کا لڑکی پیدا ہونے پر اعتراض یا بشیر احمد کی وفات پر اعتراض یا لوگوں کا شبہات میں مبتلا ہونا.سو یہ پیشگوئی کی اصل حقیقت سے ناواقفیت کا ہی نتیجہ ہو سکتا ہے.نہ علم و بصیرت کا نتیجہ.برق صاحب کا چوتھا اعتراض جناب برق صاحب کہتے ہیں :- پیشگوئی سے پورے سوا تیر و برس کے بعد ۱۴؍ اگست ۱۸۹۹ء کو آپ کے "
۴۳۵ ہاں ایک اور فرزند کی ولادت ہوئی.جس پر بے حد مسرتیں منائی گئیں اور آپ نے پورے وثوق سے اعلان فرمایا.“ ” میرا اچو تھا لڑکا جس کا نام مبارک احمد ہے اس کی نسبت پیشگوئی ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں کی گئی تھی سو خدا نے میری تصدیق اور تمام مخالفین کی تکذیب سوخدا کے لئے اسی پسر چہارم کی پیشگوئی کو ۱۴ جون ۱۸۹۹ء میں جو مطابق ۴ صفر ۱۳۱۷ھ تھی بروز چہار شنبہ پورا کر دیا.“ تریاق القلوب صفحه ۴۳) پیشگوئی میں ( دوشنبہ ) کا دن درج تھا اس کی تشریح یوں فرمائی : ہو " چوتھے لڑکے (مبارک احمد ) کا عقیقہ پیر کے دن ہوا.تاوہ پیشگوئی پوری 66 کہ دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ.تریاق القلوب صفحه ۱۸) جناب برق صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں :- (حرف محرمانه صفحه ۲۹۰) اگست ۱۹۰۷ء میں مبارک احمد تپ میں گرفتار ہو گئے.ہماری بڑھ گئی تو نو دان کے بعد جناب مرزا صاحب پر وحی نازل ہوئی ” قبول ہو گئی“.”نو دن کا حخار ٹوٹ (اخبار بد (۲۹ / اگست ۶۱۹۰۷ ) گیا.“ لیکن حکیم نورالدین صاحب نے نبض پر ہاتھ رکھا تو چھوٹ چکی تھی انہوں نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا.حضور کستوری لائیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام چالی لے کر قفل کھول ہی رہے تھے کہ مبارک احمد فوت ہو گیا." ( خطبہ میاں محمود احمد صاحب الفضل ۱۹۳۳ء) (حرف محرمانه صفحه ۲۹۱-۲۹۲)
الجواب ۴۳۶ اس اعتراض میں جناب برق صاحب نے انتہائی تلبیس سے کام لیا ہے کیونکہ انہوں نے دو عبارتوں کو ”لیکن“ سے جوڑ کر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ ادہر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ وحی نازل ہوئی.قبول ہو گئی نو دن کا بخار ٹوٹ گیا“ اور ادھر وہ لڑکا جس کے متعلق یہ وحی نازل ہوئی تھی.فورا وفات پا گیا اور یہ الہام الہی پورا نہ ہوا.لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ الہام خدا تعالٰی کے فضل سے پورا ہوا اور نودن کے بعد صاحبزادہ مبارک احمد کا مخار ٹوٹ گیا.اور وہ باغ میں سیر کے لئے بھی چلے گئے.چنانچه بدر ۵ / ستمبری 19ء میں یہ خبر یوں درج کی گئی ہے :- کیا ہی مبارک ہے اس مبارک ( حضرت صاحبزادہ مبارک احمد فرزند مسیح موعود علیہ السلام کا وجود ) جو بہت سے نشانات سماوی کا مظہر ہو کر خود آیت اللہ ہے.اس کے متعلق تازہ نشان کی تفصیل یہ ہے کہ صاحبزادہ پ شدید سے سخت بیمار ہو گیا تھا.یہاں تک کہ بار ہا فشی تک نوبت پہنچ گئی.اکثر تپ ایک سو چار (۱۰۴) سے بھی زیادہ ایک سو پانچ درجہ تک پہنچ جاتا اور سر مارنے کی حالت ایسی تھی جو سر سام کا خوف دلاتی تھی.رات کے وقت اس نومیدی کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دُعا کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا.66 قبول ہو گئی.“ ” نو دن کا بخار ٹوٹ گیا.“ یعنی دُعا قبول ہو گئی اور تپ جو لازم حال ہو رہا ہے وہ نو دن پورے کر کے دسویں دن ٹوٹ جائے گا.یہ الہامات اخبار بد ر مور محہ ۲۹؍ اگست ۱۹۰۷ء میں شائع ہو گئے تھے).چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا.اور خداتعالی نے دسویں دن مطار توڑ دیا.
۴۳۷ یہاں تک کہ لڑکا تندرست ہو کر باغ سیر کرنے کے لئے چلا گیا.یہ خدا کا بڑا نشان تھا جو ظہور میں آیا.کیونکہ اس میں ایک دُعا کے قبول ہونے کی بشارت ہے اور دوسرے تاریخ صحت مقرر کر دی گئی ہے.جس کی تمام جماعت گواہ ہے.“ ۵/ والحکم ۱۳/ (بدر ۵ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۲ دا حکم ۱۳ اگست ۱۹۰۷ء ) پس 1906ء کے الہام کے ساتھ ۱۹۳۳ء کے خطبے کا جوڑ محض تلیس نہیں تو اور کیا ہے ؟ صاحبزادہ مبارک احمد کے متعلق جو الہام تھاوہ صفائی سے پورا ہو گیا تھا کیونکہ ۹دن کے بعد اُن کا بخار ٹوٹ گیا تھا.لیکن از لی تقدیر میں چونکہ ان کی جلد وفات مقدر تھی اس لئے اس کے بعد ان پر دوسری بیماری کا حملہ ہوا جس سے وہ ۱۴ار ستمبر کو وفات پاگئے.اُن کے وفات پانے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور الہام پورا ہو جو آپ پر اُن کی پیدائش سے بھی پہلے نازل ہوا تھا.چنانچہ حضرت اقدس اپنی کتاب " تریاق القلوب“ میں ہی جس میں اس لڑکے کے پیدا ہونے کی خبر دے رہے ہیں.تحریر فرماتے ہیں کہ :- " مجھے خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے اور لڑکا دوں گا.یہ وہی چو تھا لڑکا ہے جو اب پیدا ہوا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا.اور اس کے پیدا ہونے کی خبر قریبا دو برس پہلے دی گئی اور پھر اس وقت دی گئی جب کہ اس کے پیدا ہونے میں دو مہینے باقی رہتے تھے اور پھر جب یہ پیدا ہونے کو تھا تو یہ الہام ہوا.إِنِّي أَسْقُطُ مِنَ اللَّهِ أُصِيبُهُ یعنی میں خُدا کے ہاتھ سے زمین پر گرتا ہوں.اور خدا ہی کی طرف جاؤں گا.میں نے اپنے اجتہاد سے اس کی یہ تاویل کی کہ یہ لڑکا نیک ہو گا اور رومخدا ہو گا.اور خدا کی طرف اس کی حرکت ہو گی.اور یا یہ کہ جلد فوت ہو جائے گا.اس بات کا علم خدا تعالیٰ
۴۳۸ کو ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کونسی بات اس کے ارادہ کے موافق ہے.تریاق القلوب صفحه ۴۰) اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ صاحبزادہ مبارک احمد کی وفات سے دو پیشگوئیاں پوری ہوئیں.ایک ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی کہ : اور دوسری پیشگوئی ،، بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے.“ 66 "إِنِّي أَسْقُطُ مِنَ اللَّهِ أُصيبه " اور کم عمری میں اس کی وفات نے ظاہر کر دیا ہے کہ اس الہام کے متعلق آپ کا دوسرا اجتہاد ہی جو ان کے جلد فوت ہو جانے کے متعلق تھا خدا کے ارادہ کے موافق تھا.پس جب صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کے لمبی عمر پانے کا الہامات میں کوئی ذکر ہی موجود نہیں تھا.بلکہ اس بارہ میں الہام الہی سے آپ نے یہ اجتہاد بھی فرمایا تھا کہ وہ جلد فوت ہو جائے گا تو آپ اُسے مصلح موعود قرار نہیں دے سکتے تھے.کیونکہ مصلح موعود کے لئے لمبی عمر پانا ضروری ہے.اور صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کے جلد وفات پا جانے کا احتمال تھا.اس لئے آپ نے تریاق القلوب میں جہاں اس کے حق میں چوتھے لڑکے کی پیشگوئی کے پورے ہونے کا ذکر کیا ہے جس کا نام ۱۸۸۳ء کے الہام میں ہی مبارک بتایا گیا تھا وہاں اسے ہر گز مصلح موعود قرار نہیں دیا.جناب برق صاحب حضرت اقدس کی کوئی عبارت پیش نہیں کر سکتے.جس میں آپ نے اسے خاص پر موعود لمبی عمر پانیوالا قرار دیا ہو.ہاں یہ درست ہے کہ اشتہار ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء.وو کے بعض ذو الوجوہ فقرات کو آپ نے اُس پر بھی چسپاں کیا ہے.مثلا یہ فقرہ کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا " یا " دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ “
۴۳۹ مصلح موعود کی پیدائش کی آخری حد ۱۹ر فروری ۱۸۹۵ء تھی.کیونکہ اس کے لئے الہامی حد ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء سے ۹ برس مقرر کی گئی تھی اور صاحبزادہ مبارک احمد کی پیدائش اس میعاد کے بعد ۱۴؍ جون ۱۸۹۹ء کو ہوئی.لهذا از روئے الہام الہی بھی اُسے مصلح موعود قرار نہیں دیا جا سکتا تھا.آپ کے چاروں لڑکوں میں سے وہی مصلح موعود ہو سکتا تھا جو نو برس کے اندر پیدا ہو تا اور لیبی عمر بھی پاتا.اور آپ کا جانشین بھی ہوتا.چنانچہ تین لڑکے جو اس 9 سالہ مدت کے اندر پیدا ہوئے.انہیں میں سے کوئی ایک مصلح موعود ہو سکتا تھا.لیکن ”سبز اشتہار“ اس بات پر روشنی ڈال رہا ہے کہ مصلح موعود کا ایک نام بشیر ثانی یاد و سر اشیر بھی ہے.چنانچہ آپ اس اشتہار میں تحریر فرماتے ہیں :- الہام نے پیش از وقوع دو لڑکوں کا پیدا ہونا ظاہر کیا.اور بیان کیا کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے.دیکھو اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء د اشتهار ار جولائی ۱۸۸۸ء.سو مطابق پہلی پیشگوئی کے ایک لڑکا ( شیر احمد اول ناقل ) پیدا ہو گیااور فوت بھی ہو گیا اور دوسر الڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا تھا کہ دوسر الخیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے.وہ اگر چہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہے پیدا نہیں ہوا.مگر خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا.زمین و آسمان مل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں.نادان اس کے الہامات پر ہنستا ہے اور احمق اس کی پاک بخار توں پر ٹھٹھالگاتا ہے.کیونکہ آخری دن اس کی نظر سے پوشیدہ ہے اور انجام کار اس کی آنکھوں سے چھپا ہوا ہے.“ (حاشیه اشتهار حقانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر المعروف سبز اشتهار) اسی اشتہار میں آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں :-
۴۴۰ الشان دو خدا تعالیٰ کے انزال رحمت اور روحانی برکت ختنے کے لئے عظیم الشان طریقے ہیں.(1) اوّل یہ کہ کوئی مصیبت اور غم واندوہ نازل کر کے صبر کرنے والوں پر مخشش اور رحمت کے دروازے کھولے.(۲) دوسرا طریق انزال رحمت کا ارسال مرسلین و نبین وائمہ واولیاء و خلفاء ہے تاان کی اقتداء و ہدایت سے لوگ راہ راست پر آجائیں.اور ان کے نمونہ پر اپنے تئیں بنا کر نجات پا جائیں سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونو شق ظہور میں آجائیں.پس اول اس نے قسم اول کے انزال رحمت کے لئے بشیر کو بھیجا تا بشیر الصابرین کا سامان مومنوں کے لئے تیار کر کے اپنی بشریت کا مفہوم پورا کرے سودہ ہزاروں مومنوں کے لئے جو اس کے موت کے غم میں محض اللہ شریک ہوئے بطور فرط کے ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کا شفیع ٹھہر گیا.اور دوسری قسم رحمت کی جو ابھی ہم نے بیان کی ہے.اس کی تکمیل کے لئے خدا تعالی دوسر الخیر بھیجے گا.جیسا کہ بخیر اول کی موت سے پہلے ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں اس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی اور خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسر الشیر تمہیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے وہ اپنے کاموں میں لولو العزم ہو گا.يخلق الله مایشاء اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کی پیشگوئی پر مشتمل تھی اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے پہلے بغیر کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو روحانی طور پر نزول رحمت کا موجب ہوا اور اس کے بعد کی عبارت دوسرے بغیر کی نسبت ہے.“ پھر آگے چل کر حاشیہ میں فرماتے ہیں :-
۴۴۱ بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں پسر متوفی کے حق میں ہیں (ایک خوبصورت پاک لڑکا تمہار ا مہمان آتا ہے وغیرہ) اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے.کہ اس کے ساتھ فضل ہے کہ جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.“ پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا نیز دوسرا نام اُس کا محمود اور تیسر انام اُس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اُس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے بغیر اول جو فوت ہو گیا ہے بغیر ثانی کے لئے بطور ارہا تھا اس لئے ایک ہی پیشگوئی میں دونوں کا ذکر کیا گیا.(حاشیہ سبز اشتہار) چونکہ مصلح موعود کے لئے بشیر ثانی ہو نا ضروری تھا اور حضرت مسیح موعود کی مبشر اولاد میں سے بھارت کے ماتحت ہونے والے دوسرے بیٹے صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہی ہیں.اس کے یہ الہامی نام آپ کے فرزندوں میں سے مصلح موعود کا تعین کر رہا ہے اور یہ بتارہا ہے کہ صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کو ہی از روئے العام مصلح موعود ہونا چاہئے.چنانچہ واقعات نے بھی آپ کو لمبی عمر دیگر اور حضرت مسیح موعود کا جانشین اور خلیفہ ثانی ہوجہ فضل عمر السامی نام کے بنا کر آپ کے ہاتھ سے تمام دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرائی ہے یہ واقعاتی شہادت بھی روشن دلیل ہے کہ پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق حضرت مسیح موعود کے چاروں بیٹوں میں سے صرف حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالی ہی ہیں اور آپ ہی کے حق میں تریاق القلوب صفحہ ۱۴ کی یہ بات پوری ہوئی ہے.الہام یہ بتلاتا تھا کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور ایک کو ان میں سے ایک مردِ خدا مسیح صفت الہام نے بیان کیا.“
۴۴۲ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی میں ”تین کو چار کرنے والا فقرہ ایک زوالوجوه فقرہ تھا کیونکہ جب یہ الہام ہوا تو آپ نے اس فقرہ کے متعلق الہام درج کرتے ہوئے بریکٹ میں لکھا کہ اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے لیکن بظاہر اس سے یہ معلوم ہو تا تھا کہ آپ کے ہاں چار لڑکے ہوں گے اس لئے آپ نے چوتھے لڑکے مبارک احمد کو ایک پہلو سے تین کو چار کرنے والا ہونے کی وجہ سے اس ذوالوجوہ فقرہ کا مصداق قرار دیا اور اسی طرح دو شنبہ ہے مبارک دوشنبہ “ کے زوالوجوہ فقرہ کو مبارک احمد کے دو شنبہ کے دن عقیقہ ہونے پر چسپاں کیا گیا.دو واقعاتی شہادت نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی کو ایک دوسرے پہلو سے ان دونو ذو الوجوہ فقرات کا مصداق ثابت کر دیا ہے.تمین کو چار آپ نے اس طرح کیا کہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود کے فرزند اکبر تھے.آپ کی خلافت میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.اس طرح آپ نے مسیح موعود کے تین جسمانی.روحانی فرزندوں کے بعد جو زندہ موجود تھے مرزا سلطان احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی فرزندی میں داخل کر کے چار روحانی فرزند بنا دئیے.اور اس طرح " تین کو چار کرے گا " کا الہام آپ کے حق میں پورا ہو گیا.پس آپ بغیر ثانی بھی ہیں اور تین کو چار کرنے والے بھی.وو دوشنبہ ہے مبارک دو شنبہ کا الہام آپ کے حق میں ولایت کی مذہبی کا نفر نس سے واپسی پر قادیان میں دو شنبہ کے دن ورود مسعود سے پورا ہوا.فالحمد للہ علی ذالک.مبارک احمد کے ذریعے ایک اور پیشگوئی پوری ہوئی مبارک احمد کو مصلح موعود نہ تھا.کیونکہ مصلح موعود کیلئے بشیر ثانی ہونا
۴۴۳ ضروری تھا اور وہ بشیر رابع (چوتھا بشیر ) تھا.مگر وہ بھی خدا کا عظیم الشان نشان تھا.کیونکہ اس کی پیدائش کی پیشگوئی کرتے ہوئے الہامی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے اس شرط سے مشروط کر دیا تھا کہ وہ مولوی عبدالحق صاحب غزنوی کی زندگی ہی میں پیدا ہو گا.چنانچہ حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- اور میرا چو تھا لڑکا جس کا نام مبارک احمد ہے اس کی نسبت پیشگوئی اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں کی گئی اور پھر انجام آتھم کے صفحہ ۱۸۳ میں بتاریخ ۱۴ اگست ۱۸۹۶ء یہ پیشگوئی کی گئی اور رساله انجام آنتم هماہ ستمبر ۱۸۹۶ء طوطی ملک میں شائع ہو گیا اور پھر یہ پیشگوئی ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۵۸ میں اس شرط کے ساتھ کی گئی کہ عبد الحق غزنوی جو امر تسر میں مولوی عبد الجبار غزنوی کی جماعت میں رہتا ہے نہیں مریگا جب تک یہ چو تھا بیٹا پیدا نہ ہو جائے اور اس کے صفحہ ۵۸ میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اگر عبدالحق غزنوی ہماری مخالفت میں حق پر ہے اور جناب الہی میں قبولیت رکھتا ہے تو اس پیشگوئی کو دعا کر کے ٹال دے اور پھر یہ پیشگوئی ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۱۵ میں کی گئی تو خدا تعالٰی نے میری تصدیق کے لئے اور تمام مخالفوں کی تکذیب کے لئے اور عبد الحق غزنوی کو متنبہ کرنے کے لئے اس پر چہارم کی پیشگوئی کو ۴ ارجون ۱۸۹۹ء میں جو مطابق ۱۴ صفر ۱۳۱۷ ہجری تھی بروز چہار شنبہ پورا کر دیا یعنی وہ مولود مسعود چو تھا لڑ کا تاریخ ند کور میں پیدا ہو گیا.چنانچہ اصل غرض اس رسالہ تریاق القلوب ناقل) کی تالیف سے یہی ہے تاوہ عظیم الشان پیشگوئی جس کا وعدہ چار مرتبہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو چکا تھا اس کی ملک میں اشاعت کی جائے.کیونکہ یہ انسان کو جرات نہیں ہو سکتی کہ یہ منصوبہ سوچے کہ اول تو مشترک طور پر چار لڑکوں کے پیدا ہونے کی پیشگوئی کرے.جیسا کہ ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء میں کی گئی.اور پھر ہر ایک لڑکے کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے پیدا ہونے کی پیشگوئی کرتا جائے اور اس
۴۴۴ کے مطابق لڑکے پیدا ہوتے جائیں یہاں تک کہ چار کا عدد جو پہلی پیشگوئیوں میں قرار دیا تھاوہ پورا ہو جائے.حالانکہ یہ پیشنگوئی اسی کی طرف سے ہو جو کہ محض افتر ا سے اپنے تیں خدا تعالیٰ کا مامور قرار دیتا ہے.کیا ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ مفتری کی ایسی مسلسل طور پر مدد کرتا جائے کہ ۱۸۸۶ء سے لغائت ۱۸۹۹ء چودہ سال تک برابر وہ مدد جاری رہے.کیا کبھی مفتری کی تائید ایسی کی یا صلحہ دنیا پر اس کی کوئی نظیر بھی ہے.( تریاق القلوب صفحه ۴۳) پس اس چوتھے لڑکے کی پیدائش کا مولوی عبدالحق غزنوی کی زندگی سے واستہ کر دینا عقلمند اور سلیم الطبع لوگوں کیلئے اس پیشگوئی کی عظمت کو بڑھا دیتا ہے.پھر اس کی عظمت کو زیادہ بڑھانے والا ایک اور پہلو بھی ہے.چنانچہ حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۱۵ میں یہ عبارت لکھی گئی تھی.ایک اور الہام ہے جو ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں شائع ہوا تھا اور وہ یہ ہے کہ خدا تین کو چار کریگا اس وقت ان تین لڑکوں کا جواب موجود ہیں نام و نشان نہ تھا اور اس الہام کے معنی یہ تھے کہ تین لڑکے ہوں گے اور پھر ایک اور ہوگا جو تین کو چار کردے گا.سو ایک بڑا حصہ اس کا پورا ہو گیا.یعنی خدا نے تین لڑکے مجھ کو اس نکاح سے عطاء کئے جو تینوں موجود ہیں.صرف ایک کی انتظار ہے جو تین کو چار کرنے والا ہوگا.اب دیکھو یہ کس قدر بزرگ نشان ہے کیا انسان کے اختیار میں ہے کہ اول افتراء کے طور پر تین یا چار لڑکوں کی خبر دے اور پھر وہ پیدا بھی ہو جائیں ؟ فقط یہ عبارت جس پر ہم نے خط کھینچ دیا ہے ضمیمہ انجام آتھم کی ہے.اگر تم اس نیمہ کو کھول کر پڑھو گے تو اس کے صفحہ ۱۵ میں یہی عبارت پاؤ گے.اب خدا تعالی کی قدرت کا نشان دیکھو کہ وہ پسر چهارم جس کے پیدا ہونے کی نسبت اس صفحہ ا
۴۴۵ یاز د ہم ضمیمہ انجام آتھم میں انتظار دلائی گئی اور ناظرین کو امید دلائی گئی ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا کہ جیسا کہ یہ تین لڑکے پیدا ہو گئے ہیں.وہ چوتھا لڑکا بھی پیدا ہو جائے گا.سو صاحیبو وہ دن آگیا اور وہ چوتھا لڑکا جس کا ان کتا ہوں میں وعدہ دیا گیا تھا صفر ۱۳۱۷ھ کی چوتھی تاریخ میں بروز چار شنبہ پیدا ہو گیا.عجب بات ہے کہ اس لڑ کے کے ساتھ چار کے عدد کو ہر ایک پہلو سے تعلق ہے.اس کی نسبت چار پیشگوئیاں ہو ئیں یہ چار صفر ۱۳۱۶ھ کو پیدا ہوا.اس کی پیدائش کا دن ہفتہ کا چوتھا یعنی بدھ.یہ دو پر کے بعد چوتھے گھنٹے میں پیدا ہوا.یہ خود چو تھا تھا.تریاق القلوب صفحه ۴۴،۴۳) پس پیشگوئی کا یہ پہلو بھی پسر چہارم کی پیشگوئی کی عظمت کو بڑھا دیتا ہے کہ وہ تین زندہ لڑکوں کی موجودگی میں پیدا ہو اور اس طرح اس نے ایک پہلو سے تین کو چار کرنے والی پیشگوئی کو پورا کیا.اور خدا تعالی نے کم عمری میں اسے وفات دے کر قیمت کر دیا کہ وہ مصلح موعود نہ تھا بلکہ مصلح موعود چاروں لڑکوں میں سے کوئی اور ہے.پس مبارک احمد کی پیدائش بھی عظیم الشان نشان ہے.اور پیشگوئی کے مطابق اس کا جلد فوت ہو جانا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہے.ضرورت اسبات کی ہے کہ انسان خدا ترس دل لے کر حضرت اقدس کی ان پیشگوئیوں کا مطالعہ کرے تا اسے محسوس ہو سکے کہ خدا مفتری علی اللہ کا اس طرح مؤید نہیں ہو سکتا.آخری اعتراض " برق صاحب اشتهار ۵/ نومبر ۱۹۰۷ء کی یہ عبارت نقل کرتے ہیں :- جب مبارک احمد فوت ہوا ساتھ ہی خدا تعالٰی نے یہ الہام کیا :- انا 66 نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ يَنزِلُ مَنْزِلَ المُبَارَكِ.“ یعنی ایک حلیم لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جو ہمنزلہ مبارک احمد کے ہو گا اور
۴۴۶ اس کا قائمقام اور اس کا شبیہ ہو گا.پس خدا نے نہ چاہا دشمن خوش ہو اس لئے اس نے بمجر دوفات مبارک احمد کے ایک دوسرے لڑکے کی بشارت دی تا یہ سمجھا جائے.کہ مبارک احمد فوت نہیں ہوا بلکہ زندہ ہے.اشتهار ۵ نومبری ۱۹۰ء تبلیغ رسالت ج ۱ صفحه ۱۳۲) اس اقتباس پر جناب برق صاحب کا اعتراض یہ ہے.لیکن ساڑھے پانچ ماہ بعد جناب مرزا صاحب کا انتقال ہو گیا اور ۱۹۰۴ء (ولادت دختر) کے بعد آپکی کوئی اولاد نہ ہوئی.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۹۲) الجواب الہام الہی میں جو مبارک احمد کی وفات پر ہوا یہ ہر گز مذکور نہیں کہ وہ لڑکا جس کا اس الہام میں ذکر ہے وہ آپ کا صلبی فرزند ہے.غلام کا لفظ عربی زبان میں وسعت رکھتا ہے اور اس کا اطلاق ہوتے اور ذریت پر بھی ہوتا ہے.ہماری تحقیق میں حضرت اقدس کے سابق کشوف اور الہامات سے خدا تعالیٰ کا آپ سے وعدہ صرف چار لڑکوں کے متعلق چلا آتا تھا اور اب وہ وعدہ جو انَّا نَبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ يَنْزِلُ مَنْزِلَ المبارک میں کیا گیا اس کا تعلق کسی نافلہ لڑکے یعنی پوتے ہی سے تھا.جو مبارک احمد مرحوم کی فطری استعدادات کا حامل ہو کہ تنزل منزل المبارك کا مصداق بنے والا تھا.ہ حضرت اقدس کے ایک الہام میں ہونے کے لئے بھی غلام کا لفظ استعمال ہوا ہے.چنانچہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۵ پر ایک الهام یوں درج ہے "انا نبشرك بغلام ناقلة لك لمس کا ترجمہ اس جگہ یہ درج کیا گیا ہے.ہم ایک لڑکے کی تجھے بھارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہو گا.اس الہام میں پوتے کو بھی غلام (لڑکے ) کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے.منہ
ایک ضمنی اعتراض ۴۴۷ جناب ق صاحب حضرت اقدس کی ذیل کی عبارت لکھتے ہیں.اور اس لڑکے نے پیدائش سے پہلے یکم جنوری ۱۸۹۷ء میں بطور الهام یہ 66 کلام مجھ سے کیا مجھ میں اور تم میں ایک دن کی میعاد ہے.یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح نے تو صرف مہر ہی میں باتیں کیں لیکن اس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں اور پھر بعد اس کے ۱۴ جون ۱۸۹۹ء کو وہ پیدا ہوا.اعتراض ( تریاق القلوب صفحه ۴۱) اس عبارت کے متعلق جناب برق صاحب نے لکھا ہے.۲۹ ” یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جب ولادت سے ساڑھے انتیس ماہ پہلے وہ لڑکا پیٹ میں تھا ہی نہیں تو اس نے پیٹ سے کیسے باتیں کیں ؟“ اگر جناب برق صاحب حضرت اقدس کی تحریرات کے محرم ہوتے تو ان کی سمجھ میں ضرور آجاتا کہ پیٹ کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے.بات دراصل یہ ہے کہ پیٹ کا لفظ اس جگہ اختصار اصلب اور بہن دونوں کو ملحوظ رکھ کر استعمال کیا گیا ہے چنانچہ یکم جنوری ۱۸۹۷ء کا الہام جو اس چوتھے لڑکے کی پیدائش سے انتیس ماہ پہلے ہوا اس کے ذکر میں حضرت اقدس نے انجام آتھم صفحہ ۸۲ ۱و صفحہ ۱۸۳ پر لکھا ہے.وبشر نى ربِّي برابع رحمةً و قَال إِنَّهُ يَجْعَلُ الثلاثةَ أَربَعَةً ثم كَرْ رَ عَلَى صُورَةٌ هَذِهِ الْوَاقِعَةِ فَبَيْنَمَا أَنَا كُنتُ بين النوم واليقظةِ فَتَحرك في صلبي رُوحُ الرابع بِعَالَمِ الْمُكَاشِفَة فَنَادَى اخْوَانَهُ وَ قَالَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِيُعَادُيَومٍ مِنَ
۴۴۸ الْحَضْرَةِ فَاظُنُّ إِنَّهُ أَشَارَ إِلَى السَنَةِ الْكَامِلَةِ أَوْ أَمَدٍ آخَرَ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ ترجمہ :- میرے رب نے مجھے چوتھے لڑکے کی اپنی رحمت سے بشارت دی اور کہا بے شک وہ تین کو چار کر دے گا پھر دوبارہ اس واقعہ کا نقشہ مجھے دکھایا گیا.پس اس اثناء میں کہ میں نیند اور بیداری کی حالت کے درمیان تھا کہ عالم مکاشفہ میں میری صلب میں چوتھے کی روح نے حرکت کی اور اپنے بھائیوں کو پکار کر کہا " میرے اور تمہارے در میان ایک دن کی میعاد مقرر ہے.پس میں گمان کرتا ہوں کہ اس نے یا تو پورے سال کا اشارہ کیا ہے یا رب العالمین کی طرف سے کسی اور مدت کی طرف اشارہ ہے.اس عبارت میں کیم جنوری ۱۸۹۷ء کو عالم مکاشفہ میں آپ کی صلب میں اس فرزند چہارم کی حرکت اور اس کے کلام کرنے کا ذکر ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ اولاد کے لیے پہلا بطن باپ کی صلب ہوتا ہے اور دوسرا بطن ماں کا رحم.پس یہ کوئی الهامی غلطی نہیں اور نہ کوئی اجتہادی غلطی ہے بلکہ ایک ادیبانہ استعمال ہے جس کی مثالیں ان اصحاب کو بحثرت مل سکتی ہیں جن میں روح انصاف ہو.دوسری مرتبہ اس لڑکے نے ماں کے پیٹ سے پیدائش سے ایک دن پہلے یہ بات کی کہ.إِنِّي أَسْقُطُ مِنَ اللهِ وأصيبة یعنی میں خدا کی طرف سے آیا ہوں اور اسی کی طرف لوٹ جاؤں گا یعنی جلد وفات پا جاؤں گا.پس یہ پاک آنے والا اور پاک جانے والا بھی خدا کا ایک عظیم الشان نشان تھا جس کی پیدائش کے ساتھ خدا تعالیٰ کی دو اور پیشگوئیاں وابستہ تھیں.یعنی عبد الحق غزنوی کی زندگی میں پیدا ہونا.اس کے پیدا ہونے کے وقت پہلے تین بھائیوں کا زندہ موجود ہونا.اور اس کی کم عمری میں وفات بھی خدا کا ایک نشان تھا.جس کی اس کی پیدائش سے پہلے خبر دی جاچکی تھی.
۴۴۹ بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر کلام مسیح موعود متعلق وفات مبارک احمد ) ۴- طاعون کی پیشگوئی قرآن مجید میں یہ پیشگوئی موجود ہے : - وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةٌ مِّنَ الأَرْضِ تُكَلِّمُهُمُ انَّ النَّاسَ كَانُوا بِايْتِنَا لَا يُوقِنُونَ (سوره نمل : ۸۳) کہ جب ان پر خدا کی بات ( عذاب کے متعلق) پوری ہو گی تو ہم ان کے لئے زمین میں سے ایک کیڑا ( جرثومہ) نکالینگے جو انہیں زخمی کرے گا.کیونکہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے.اس آیت میں آخری زمانہ میں ایک زمینی کیڑا کے ذریعہ عذاب دیا جانے کی پیشگوئی تھی.طاعون کے جراثیم سے پہلے چوہے مرتے ہیں جو زمین کے بلوں میں رہتے ہیں پھر ان کے جراثیم کے ذریعہ طاعون پھیلتی ہے.ہاں اس آیت میں قوموں پر فرد جرم لگ جانے پر اس وقت ان میں طاعون کی وباء پھیلنے کی پیشگوئی بیان ہوئی ہے.حدیثوں میں امام مہدی کے زمانہ کی ایک علامت طاعون پڑنا بھی بیان ہوئی ہے.چنانچہ روایت ہے.مَوْتَتَان مَوْتْ أَبْيَضُ وَ مَوْتِ أَحْمَرُ کهہ امام مہدی کے زمانہ میں دو موتیں ہونگی.ایک سفید موت اور دوسری سرخ موت.سفید موت کی تشریح علماء نے طاعون کی ہے اور سرخ موت کی جنگ ہے.انا جیل میں بھی مسیح کی آمد کی علامات کے طور پر لڑائیاں قحط زلازل اور وباء کا پڑنا بیان ہوا ہے.چنانچہ لکھا ہے :- قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی اور جگہ جگہ کال اور وباء اور زلزلے آئیں گے.یہ سب کچھ تکالیف کی شروع ہی ہے.(متی ۲۴/۸)
۴۵۰ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی ایک رؤیا یوں بیان فرمائی ہے :- خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں.اور وہ درخت نہایت بد شکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں.میں نے بعض لگا نیوالوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے.میرے پر یہ امر مشتبہ رہا کہ اس نے یہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض بہت پھیلے گا یا یہ کہا کہ اس کے بعد کے جاڑے میں پھیلے گا.لیکن نہایت خوفناک نمونہ تھا جو میں نے دیکھا.اشتهار طاعون مور محه ۲۶ فروری ۱۸۹۱ء مشموله ایام الصلح صفحه (۱۲) یہ پیشگوئی آپ نے مذکورہ اشتہار کے ذریعہ شائع فرمائی.اس کے چار سال بعد آپ اپنی کتاب " وافع البلاء " میں تحریر فرماتے ہیں :- چار سال ہوئے کہ میں نے ایک پیشگوئی شائع کی تھی کہ پنجاب میں سخت طاعون آنے والی ہے اور میں نے اس ملک میں طاعون کے سیاہ درخت دیکھے ہیں جو ہر ایک شہر اور گاؤں میں لگائے گئے ہیں.اگر لوگ تو بہ کریں تو یہ مرض دو جاڑہ سے بڑھ نہیں سکتی.خدا اسکو دفع کر دیگا مگر جائے تو بہ کے مجھ کو گالیاں دی گئیں اور سخت بد زبانی کے اشتہار شائع کئے گئے جس کا نتیجہ طاعون کی یہ حالت ہے جواب دیکھ رہے ہو.خدا کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوئی اس کی عبارت یہ ہے : - إِنَّ اللَّهَ لَا يُغيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حتى يُغيِّرُوا مَا يَا نُفُسِهِمْ إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةِ یعنی خدا نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس بلائے طاعون کو ہر گز دور نہیں کرے گا.جینک لوگ ان خیالات کو دور نہ کرلیں جو ان کے دلوں میں ہیں.یعنی جب تک وہ خدا کے مامور اور رسول کو مان نہ لیں تب تک طاعون دور نہیں ہو گی.اور وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا.تا تم سمجھو کہ قادیان اس لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کار سول اور فرستادہ قادیان میں تھا.اب
۴۵۱ دیکھو تین برس سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہ دونوں پہلو پورے ہو گئے.یعنی ایک طرف تمام پنجاب میں طاعون پھیل گئی اور دوسری طرف باوجود اس کے کہ قادیان کے چاروں طرف دو دو میل کے فاصلہ پر طاعون کا زور ہو رہا ہے.قادیان طاعون سے پاک ہے.بلکہ آج تک جو شخص طاعون زدہ قادیان میں آیاوہ بھی اچھا ہو گیا.کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور ثبوت ہو گا کہ جو باتیں آج سے چار برس پہلے کی گئی تھیں وہ پوری ہو گئیں.بلکہ طاعون کی خبر آج سے بائیس برس پہلے براہین احمدیہ میں بھی دی گئی ہے اور یہ علم غیب بجز خدا کے کسی اور کی طاقت میں نہیں.پس اس بیماری کے دفع کے لئے وہ پیغام جو خدا نے مجھے دیا ہے وہ یہی ہے کہ لوگ مجھے سچے دل سے مسیح موعود مان لیں.( دافع البلاء صفحہ ۵) پھر الهام إِنَّهُ اوَى القَرْيَةَ کے متعلق حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں.”ہم دعوی سے لکھتے ہیں کہ قادیان میں کبھی طاعون جارف نہیں پڑے گی.جو گاؤں کو ویران کرنے والی اور کھا جانے والی ہوتی ہے.مگر اس کے مقابل پر دوسرے شہروں اور دیہات میں جو ظالم اور مفسد ہیں ضرور ہولناک صورتیں پیدا ہوں گی.تمام دنیا میں ایک قادیان ہے جس کے لئے یہ وعدہ ہوا " فالحمد لله على ذالك ( دافع البلاء حاشیہ صفحہ ۵) اس سے ظاہر ہے کہ اولیٰ کا لفظ الہام میں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قادیان میں بھی طاعون کی وارداتیں ہو سکتی ہیں.البتہ قادیان کے جارف قسم کی طاعون سے جو نہایت بربادی بخش ہوتی ہے محفوظ رہنے کی پیشگوئی کی گئی چنانچہ قادیان میں بربادی بخش طاعون سے دوسرے شہروں اور دیہات کے بالمقابل امن رہا.بے شک حضرت اقدس نے اس بلاء کے دفع ہونے کی ایک صورت آپ پر ایمان لانا بیان فرمائی ہے مگر اس کے علاوہ اس کے دفع ہونے کی ایک اور صورت بھی بیان فرماتے ہیں.
۴۵۲ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں.” دوسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ طاعون اس حالت میں فرد ہو گی جب کہ لوگ خدا ئے فرستادہ کو قبول کر لیں گے اور کم سے کم یہ کہ شرارت اور ایذاء اور بد زبانی سے باز آجائیں گے.کیونکہ براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں آخری دنوں میں طاعون بھیجوں گا تا کہ میں ان خبیثوں اور شریروں کا منہ بند کر دوں جو میرے رسول کو گالیاں دیتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ محض انکار اس بات کا موجب نہیں ہوتا کہ ایک رسول کے انکار کی وجہ سے دنیا میں کوئی تباہی بھیجی جائے بلکہ لوگ شرافت اور تہذیب سے خدا کے رسول کا انکار کریں اور دست درازی اور بد زبانی نہ کریں تو ان کی سزا قیامت میں مقرر ہے اور جس قدر دنیا میں رسولوں کی حمایت میں مری بھیجی گئی ہے وہ محض انکار سے نہیں بلکہ شرارتوں کی سزا ہے.اسی طرح اب بھی جب لوگ بد زبانی اور ظلم اور تعدی اور اپنی خباثتوں سے باز آجائیں گے اور شریفانہ برتاؤ ان میں پیدا ہو جائے گا.تب یہ تنبیہ اٹھادی جائے گی.مگر اس تقریب پر سعادتمند خدا کے رسول کو قبول کر لیں گے اور آسمانی برکتوں سے حصہ لیں گے اور زمین سعادتمندوں سے بھر جائے گی.“ ( وافع البلاء صفحہ ۹، ۱۰) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ ملک سے طاعون کے دفع ہونے کے لئے حضرت اقدس نے صرف یہی شرط بیان نہیں فرمائی کہ سب لوگ آپ پر ایمان لائیں بلکہ شرافت کا طریق اختیار کرنا اور بد زبانی اور ایذاء دہی سے چنا بھی اسکا ایک علاج تحریر فرمایا.گو اعلیٰ علاج ایمان لانا ہی بیان فرمایا ہے.برق صاحب کا اعتراض مگر جناب برق صاحب حضرت اقدس کی اس عبارت کو اپنی کتاب پڑھنے والوں سے مخفی رکھ کر اور بعض نا مکمل عبار تیں پیش کر کے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ
۴۵۳ حضرت مرزا صاحب نے طاعون کے دفع ہونے کا علاج صرف میں بتایا تھا کہ لوگ آپ پر ایمان لے آئیں.چنانچہ ادھورے حوالے پیش کرنے کے بعد وہ آخر میں احمدیوں کی تعداد کو بھی زیر بحث لائے ہیں اور کتاب مردم شماری برائے سال ۱۹۱۰ ء ، صفحہ ۱۶۹ کو پیش کر کے بتایا ہے.کہ طاعون کے بعد 1911 ء میں احمدیوں کی تعداد صرف اٹھارہ ہزار چھ سو پچانوے تھی.اور کل پنجاب کی آبادی ایک کروڑ پچانوے لاکھ اناسی ہزار چالیس اور پھر لکھا ہے.طاعون کے بعد پھر صرف پنجاب میں مسیح موعود کے منکر ایک کروڑ پچانوے لاکھ ساٹھ ہزار باقی تھے اور طاعون ختم ہو گیا حالانکہ خدا نے صریحاً فرمایا تھا." یہ طاعون اس حالت میں فرو ہو گی جب کہ لوگ خدا کے فرستادہ کو قبول کر لیں گے.“ ( دافع البلاء صفحہ ۹) اب قارئین کرام غور فرمائیں کہ جناب برق صاحب نے اس اعتراض میں کیسا نامناسب طریق اختیار کیا ہے کہ حضرت صاحب کے کلام کو آپ کی کتاب ”دافع البلاء “ سے ادھورے طور پر پیش کرنے کے بعد مردم شماری سے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ الہام کے مطابق لوگوں کو احمدی ہو جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا.لہذا الہام جھوٹا نکلا.وہ عبارت جسے آپ الہام قرار دیتے ہیں یہ ہے." یہ طاعون اس حالت میں فرو ہو گی جب کہ لوگ خدا کے فرستادہ کو قبول کر لیں گے.(حوالہ دافع البلاء صفحہ ۵) (حرف محرمانه صفحه ۳۰۷) ہم اوپر وافع البلاء کی صفحہ ۹ ، اور صفحہ ۱۰، کی عبارت درج کر چکے ہیں جو جناب برق صاحب کے پیش کردہ فقرہ سے آگے یوں چلتی ہے.اور کم سے کم یہ کہ ( دافع البلاء صفحہ ۹) شرارت اور ایذاء اور بد زبانی سے باز آجائیں گے.“ اپنے اعتراض کو قومی کرنے کے لئے اور اپنے تئیں اعتراض میں سچا ثابت کرنے کے لئے جناب برق صاحب نے عبارت کا پہلا حصہ تو پیش کیا ہے جو ان کے
۴۵۴ مفید مطلب بن سکتا تھا لیکن اگلا حصہ ترک کر دیا ہے جو ان کے اعتراض کو بیخ و بن سے اکھاڑتا تھا.پس ان کا یہ اعتراض محض معاندانہ ہے نہ کہ محققانہ.ایک اور اعتراض جناب برق صاحب کا ایک اور اعتراض یہ ہے کہ قادیان طاعون سے محفوظ نہیں رہا.اس سلسلہ میں انہوں نے چار حوالے پیش کئے ہیں.اول اخبار البدر قادیان ۱۹ دسمبر ۱۹۰۲ء کا یہ حوالہ.ہے لیکن آجکل ہر جگہ مرض طاعون زور پر ہے.اس لئے اگر چہ قادیان میں نسبتا آرام (حرف محرمانه صفحه ۲۹۶) اس کے بعد ”لیکن“ سے آگے کی عبارت چھوڑ کر اس کی جگہ نقطے ڈال کر برق صاحب لکھتے ہیں." نسبتا سے معلوم ہوتا ہے کہ قادیان محفوظ نہیں تھا.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۹۶) پھر دوسر ا حواله البدر ۲۴/ اپریل ۱۹۰۲ء اور البدر ۱۶/ مئی ۱۹۰۳ء سے درج کیا ہے حالانکہ ۲۴ / اپریل ۱۹۰۲ء تک ابھی البدر جاری بھی نہیں ہوا تھا اور ۱۶ مئی ۱۹۰۳ء کو البدر کا کوئی پرچہ شائع نہیں ہوا.اب ان ہر دو حوالوں کے متعلق ان کے نہ ملنے کی ذمہ داری برق صاحب پر عائد ہوتی ہے مگر ان عبارتوں میں بھی ایک عبادت میں تو قادیان میں طاعون کی چند وارداتیں ہونے کا ذکر ہے اور دوسری عبارت میں یہ ذکر ہے کہ قادیان میں طاعون حضرت مسیح موعود کے الہام کے مطابق اپنا کام کر رہی تھی.گویا یہ بیان کیا گیا ہے کہ قادیان کے دشمنوں کو بھی کچھ چاشنی چکھائی گئی ہے.اور یہ عبارت در اصل اگر کسی اور جگہ موجود ہو تو بھی مشاء الہام کے خلاف نہیں.کیونکہ اوپر العام إِنَّهُ آوَى القرية کی تشریح میں ہم بتا آئے ہیں کہ قادیان میں
۴۵۵ اس الہام کی رو سے جارف قسم کی طاعون نہیں آسکتی تھی.نہ یہ کہ قادیان میں طاعون کی کوئی واردات ہی نہیں ہو سکتی تھی.دوسرے شہروں اور دیہات کے مقابلہ میں جن میں سرکش اور شریر دشمن رہتے تھے قادیان کے نسبتاً محفوظ رہنے کی پیشگوئی تھی.جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں.اس سلسلہ میں آخری حوالہ جناب برق صاحب نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۸۴ نیز صفحہ ۲۵۳ کا یہ پیش کیا ہے.ہو گیا.“ ” طاعون کے دنوں میں جب کہ قادیان میں طاعون کا زور تھا میر الڑکا بیمار یہ حوالہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۸۴ میں موجود ہے اور صفحہ ۲۵۳ میں یہ الفاظ موجود نہیں اور برق صاحب نے صفحہ ۸۴ کا حوالہ بھی ادھورا پیش کیا ہے تا یہ سمجھا جائے کہ حضرت اقدس کا لڑکا طاعون سے بیمار ہو گیا حالانکہ وہاں یہ لکھا ہے.” پھر طاعون کے دنوں میں جب کہ قادیان میں طاعون زور پر تھا میرا لڑکا شریف احمد ہمار ہوا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا جس سے لڑ کا بالکل بے ہوش ہو گیا اور بے ہوشی سے دونوں ہاتھ مارتا تھا.مجھے خیال آیا کہ اگر چہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑکا ان دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہو گیا تو تمام و شمن اس آپ کو طاعون شھر ا ئینگے اور خدا تعالیٰ کی اس پاک وحی کی تکذیب کریں گے جو اس نے فرمایا ہے اِنِّی أَحَافِظ كُلَّ مَنْ فِي الدار یعنی میں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہے طاعون سے چاؤں گا.اس خیال سے میرے دل میں وہ صدمہ وارد ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتا قریباً رات کے بارہ بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے کی حالت ابتر ہو گئی اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں یہ اور ہی بلا ہے.تب میں کیا بیان کروں کہ میرے دل کی کیا حالت تھی کہ خدانخواستہ اگر لڑکا فوت ہو گیا تو ظالم طبع لوگوں کو حق پوشی کے لئے بہت کچھ سامان ہاتھ آئے گا اس حالت میں میں نے
۴۵۶ وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اور معا کھڑا ہونے کے ساتھ ہی مجھے وہ حالت میسر آگئی جو استجابت دعا کیلئے کھلی کھلی نشانی ہے اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابھی میں شائد تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے.تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چارپائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے.اور میں چار رکعت پوری کر چکا تھا.فی الفور اس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ آپ کا نام و نشان نہیں اور ہذیان اور بے تالی اور بے ہوشی بالکل دور ہو چکی تھی اور لڑکے کی حالت بالکل تندرستی کی تھی مجھے اس خدا کی قدرت کے نظارہ نے الہی طاقتوں اور دعا قبول ہونے پر ایک تازہ نشان بخشا.“ (حقیقۃ الوحی صفحه ۸۵،۸۴) اس عبارت میں جو یہ لفظ ہیں ”جب قادیان میں طاعون زور پر تھا“ کے یہ معنی ہیں کہ نسبتی طور پر پہلے سے زور تھا.ورنہ یہ نہیں کہ قادیان میں جارف قسم کی طاعون پھیل گئی تھی جس سے خدا نے قادیان کے لئے حفاظت کا وعدہ فرمایا تھا.پس قادیان میں طاعون کی وارداتوں کا ہونا ہر گز منشاء پیشگوئی کے خلاف نہیں.جناب برق صاحب نے قادیان کی آبادی کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ۲۸ سو نفوس پر مشتمل تھی اور صرف مارچ اور اپریل ۱۹۰۴ء میں تین سو تیرہ اموات درج ہو ئیں جو قادیان میں طاعون سے واقع ہو گئی تھیں.یہ بات آپ نے اخبار اہلحدیث امر تسر مؤرخہ ۲۷ مئی ۱۹۰۴ء کے حوالہ سے لکھی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ لوگ گھبراکر گاؤں چھوڑ گئے تھے اور تمام قصبہ سنسان ہو گیا تھا.اخبار اہلحدیث امر تسر احمدیت کا ایک معاند اخبار تھا اس لئے ہم اس کی رپورٹ کو صحیح تصور نہیں کر سکتے.اگر بالفرض صحیح بھی ہو تو پھر خدا کی ۸۰ قدرت کا یہ نشان دیکھیں کہ اس بستی میں دار مسیح کے اندر اس زمانہ میں آئی کے قریب نفوس رہتے تھے اور خدا تعالیٰ نے الہام إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ کے
۴۵۷ ذریعہ یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ مسیح موعود کے گھر کی چار دیواری میں رہنے والوں میں سے کوئی متنفس بھی طاعون سے ہلاک نہیں ہو گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.دیکھئے یہ کتنا بڑا نشان ہے حضرت اقدس نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۵۳ میں لکھا ہے.ایک دفعہ طاعون کے زور کے دنوں میں جب قادیان میں بھی طاعون تھی مولوی محمد علی ایم.اے کو سخت خطار ہو گیا.اور ان کو ظن غالب ہو گیا کہ یہ طاعون ہے اور انہوں نے مرنے والوں کی طرح وصیت کر دی اور مفتی محمد صادق صاحب کو سب کچھ سمجھا دیا اور وہ میرے گھر کے ایک حصہ میں رہتے تھے جس گھر کی نسبت خدا تعالی کا یہ الہام ہے اِنِّی أَحافِظ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ.تب میں ان کی عیادت کے لئے گیا اور ان کو پریشان اور گھبراہٹ میں پا کر ان کو کہا کہ اگر آپ کو طاعون ہو گئی ہے تو پھر میں جھوٹا ہوں اور میر ادعویٰ الہام غلط ہے.یہ کہہ کر میں نے ان کی نبض پر ہاتھ لگایا.یہ عجیب نمونه قدرت الہی دیکھا کہ ہاتھ لگانے کے ساتھ ہی ایسا بدن سر د پایا کہ آپ کا نام و نشان (حقیقۃ الوحی صفحه ۲۵۳) نہ تھا.“ پس قارئین کرام کے لئے العام ابن احافظ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ ايك عظيم الشان نشان ہے کہ اس قادیان کے اندر جس میں طاعون سے اموات ہو رہی تھیں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے گھر کو نوح کی کشتی کی طرح نشان بنادیا حالانکہ طاعون کے زمانہ میں گھر میں رہنے کی نسبت کھلی ہوا میں رہنا حفاظت کا زیادہ ذریعہ سمجھا جاتا تھا.واضح ہو کہ برق صاحب نے جو حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۵۳ کا حوالہ دیا ہے وہ تو غلط معلوم ہوتا ہے ان کی مراد صفحہ ۲۵۲،۲۵۱ کی یہ عبارت ہے.شخص ” جب ملک میں طاعون پھیلی تو کئی لوگوں نے دعویٰ کر کے کہا کہ یہ طاعون سے ہلاک کیا جائے گا مگر عجیب قدرت حق ہے کہ وہ سب لوگ آپ ہی طاعون سے ہلاک ہو گئے اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تیری حفاظت کروں گا اور !
۴۵۸ طاعون تیرے نزدیک نہیں آئے گی.بلکہ یہ بھی مجھے فرمایا کہ میں لوگوں کو یہ کہوں کہ آگ سے ( یعنی طاعون سے) ہمیں مت ڈراؤ.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.اور نیز مجھے فرمایا کہ میں اس تیرے گھر کی حفاظت کروں گا اور ہر ایک جو اس چار دیوار کے اندر ہے طاعون سے بچا رہے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اس نواح میں سب کو معلوم ہے کہ طاعون کے حملہ سے گاؤں کے گاؤں ہلاک ہو گئے اور ہمارے ارد گرد قیامت کا نمونہ رہا مگر خدا نے ہمیں محفوظ رکھا.“ 66 معلوم ہوتا ہے کہ برق صاحب کے مد نظر آخری فقرہ تھا جس کی طرف وہ توجہ دلانا چاہتے تھے کہ قادیان میں طاعون کا شدید ترین زور تھا جو نمونہ قیامت تھا مگر ”ہمارے ارد گرد کے الفاظ سے مراد جیسا کہ سیاق کلام سے ظاہر ہے اردگرد کے گاؤں تھے نہ کہ خود قادیان کو قادیان میں بھی ایک دفعہ طاعون نے کچھ شدت اختیار کی جو منشاء الہام کے خلاف نہ تھی اگر منشاء الهام قادیان میں طاعون نہ پرنے کا ہوتا تو پھر انبی أحافظ كُلَّ مَنْ فِی الدَّار سے خصوصیت کے ساتھ دار صحیح کے محفوظ رہنے کے وعدہ کی کوئی ضرورت نہ ہوتی.پس دار مسیح کے متعلق حفاظت کا وعدہ اور قادیان کے متعلق إِنَّهُ أوَى القربة کا وعدہ خود ایک امتیازی فرق کی طرف اشارہ کر رہا ہے چنانچہ العام إنَّهُ أوَى القربة کی تشریح میں حضور نے فرما دیا ہے کہ قادیان میں صرف جارف قسم کی طاعون نہیں آئے گی نہ یہ کہ بالکل طاعون نہیں آئے گی.دار مسیح کے متعلق حفاظت کی پیشگوئی کو جھٹلانے کی کوشش جناب برق صاحب نے اِنِّى أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ کے الہام کو بھی جھٹلانے کی ناپاک کوشش کی ہے.واضح رہے کہ اس الہام کا منشاء یہ تھا کہ دار مسیح کے اندر کوئی موت طاعون سے نہیں ہو گی.نہ یہ کہ باہر سے کوئی شخص اثر لے کر طاعون
۴۵۹ میں مبتلا بھی نہیں ہو گا.ہاں اگر دار مسیح میں اس مرض میں مبتلا ہو کر بچ جائے تو یہ امر نشان کی عظمت کو بڑھانے والا ہے نہ کہ گھٹانے والا.لوگ آخر چار دیواری سے باہر آتے جاتے تھے اور طاعون کا متعدی اثر قبول کر سکتے تھے اور ان کو گلٹیاں وغیرہ بھی نکل سکتی تھیں جو دراصل طاعون کا طبعی اثر ہے.لیکن ہموجب پیشگوئی دار مسیح کے اندر کوئی شخص طاعون سے مر نہیں سکتا تھا.چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ دار مسیح کے اندر طاعون سے ایک متنفس بھی ہلاک نہیں ہوا حالانکہ قادیان میں طاعون وارد ہوئی اور دار مسیح سے دیوار بد یوار بعض لوگ طاعون سے ہلاک ہوئے.پس یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے مگر برق صاحب نے اس پر یوں خاک ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کہہ کر کہ کیا آپ کے گھر کی چار دیواری محفوظ رہی ؟ آگے یہ حوالہ دیا ہے کہ.بڑی خوشاں (شاید ملازمہ کو تپ ہو گیا تھا.اس کو گھر سے نکال دیا ہے لیکن میری دانست میں اس کو طاعون نہیں ہے.ماسٹر محمد دین کو تپ ہو گیا اس کو بھی باہر نکال دیا ہے.میں تو دن رات دعا کر رہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعائیں کی گئیں کہ بعض اوقات میں ایسا بیمار ہو گیا کہ شائد دو تین منٹ جان باقی ہے اور خطر ناک آثار ظاہر ہو گئے.(مکتوبات مرزا صاحب بنام نواب محمد علی خان محرره ۱۰ اپریل ۱۹۰۴ء مندرجہ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم صفحه ۱۱۵ حرف محرمانه صفحه ۲۹۸) بڑی غوثاں کے متعلق حضرت اقدس نے خود بتا دیا کہ اس کو طاعون نہیں تھا.اصل میں اسے منتظمین نے احتیاطا نکال دیا تھا.ماسٹر محمد دین صاحب دار ا صبح میں نہیں رہتے تھے بلکہ وہ دار انچ سے باہر سکول کے بورڈنگ میں بطور اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سکونت رکھتے تھے انہیں آپ بھی ہوا اور گلٹی بھی نکلی اور وہ بورڈنگ سے باہر نکالکر خیمہ میں رکھے گئے.چنانچہ میں نے جناب مولوی محمد دین صاحب کے سامنے جو ان دنوں ماسٹر محمد دین کہلاتے تھے اور آج کل مرکز سلسلہ میں ناظر تعلیم کے عہدہ پر
ممتاز ہیں جناب برق صاحب کا یہ اقتباس پیش کر کے حقیقت معلوم کرنا چاہی.انہوں نے حلفاً جو تحریری جواب دیا ہے وہ درج ذیل ہے.مگر می مخدومی قاضی صاحب سلمکم اللہ تعالٰی" السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ." حرف محرمانہ کا وہ حصہ میری نظر سے گذرا جسمیں حضرت مسیح موعود کی تحریر کا وہ ٹکڑا دیا گیا ہے جس میں حضور نے حضرت نواب محمد علی خان مرحوم کو اطلاع دی که ماسٹر محمد دین کو گلٹیاں نکل آئی ہیں اور ساتھ ہی خار بھی ہے اس لئے بطور احتیاط کے اس کو نکال دیا ہے.یہ واقعہ یہاں تک اور اسقدر صحیح ہے کہ خاکسار کو اپنی رہائش گاہ سے نکال کر باہر کھلی ہوا میں چھولداریاں لگا کر ان میں رکھا گیا اور چار احباب کو میری تیمارداری اور خبر گیری کے لیے ساتھ کے خیمہ جات میں متمکن کر دیا گیا تھا کہ حضور کو وقتا فوقتا میری حالت کے متعلق اطلاع دیتے رہیں.حضور نے کمال مہربانی سے میرے لئے خود ہی دوائی بھی تجویز فرمائی اور خود ہی اپنے دست مبارک سے دوائی ہوا کر بھجواتے رہے اور ہر نماز میں میرے متعلق پتہ لیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنے فضل سے اور حضور کی دعاؤں اور دواؤں سے کامل شفا شی.مگر مصنف صاحب حرف محرمانہ کا یہ خیال کہ خاکسار " الدار میں مقیم تھا اس لئے حضور کی پیشگوئی اتنی احافظ كل من في الدار غلط نكل بالكل واقعات کے خلاف ہے.خاکسار اسٹنٹ پر نٹنڈنٹ پور ڈنگ ہاؤس میں تھا اور بورڈنگ ہاؤس میں ہی رہتا تھا.یہ یور ڈنگ ہاؤس حضور کے ”الدار “ سے بہت دور ڈھاب کے کنارے پر واقع تھا.وہیں خاکسار بیمار ہوا اور وہیں سے بورڈروں سے الگ کیا گیا.تاکہ متعدی مرض کسی صورت میں چھوٹے چوں پر اثر انداز نہ ہو.آپ خود برق صاحب کے دیئے ہوئے الفاظ سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس میں حضور نے کہیں نہیں لکھا کہ خاکسار الدار “یا الدار کے کسی حصہ
۴۶۱ ئیں یا اس کے قرب میں مقیم تھا.بورڈنگ ہاؤس خاصے فاصلہ پر واقع تھا.ویسے بھی حضور نے خود تحریر فرمایا ہے کہ قادیان میں اکے دئے کیس ہو رہے تھے.سوال الدار “ اور اس کے مکینوں کے متعلق تھا اور یہ شرف اگر خاکسار کو حاصل ہو تا تو ز ہے قسمت مگر امر واقعہ یہ نہ تھا جس طرح سینکڑوں اور احمدی خدام اپنی اپنی جگہوں میں رہتے تھے.خاکسار بھی ہوسٹل میں رہتا تھا اور بس.خاکسار محمد دین ربوہ.۶۳-۵-۸ نوٹ :- میری تیمار داری اور نگرانی کے لئے حضور نے بھائی عبدالرحیم صاحب مرحوم سپر نٹنڈنٹ ہوسٹل.ڈاکٹر شیخ عبد اللہ صاحب مرحوم معالج ہوسٹل.چوہدری فتح محمد صاحب مرحوم اور صوفی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس جو اسوقت پورڈر تھے اور ڈاکٹر گوہر دین صاحب جو اس وقت بقید حیات موجود ہیں وہ بھی اور ڈر تھے.نیز جناب کی اطلاع کے لئے عرض کرتا ہوں کہ خاکسار اسوقت اپنی عمر کے بیاسیویں (۸۲) سال میں گذر رہا ہے.اور یہ میرابیان اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر عرض ہے کہ بلا کم و کاست صحیح ہے.“محمد دین جناب مولوی محمد دین صاحب کے اس بیان سے جناب برق صاحب کی یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ ماسٹر محمد دین صاحب دارا صیح میں رہتے تھے اور وہاں وہ طاعون میں مبتلا ہوئے اور وہاں سے باہر نکال دیئے گئے.الحمد لله ثم الحمد لله.جناب مولوی محمد دین صاحب کو خدا تعالیٰ نے ۱۹۰۴ء کے اس واقعہ کے بعد اس وقت ۸۲ ۵۹ سال تک بقید حیات رکھا اور اسوقت آپ اپنی عمر کے بیاسی میں سال میں ہیں اور حضرت اقدس کی دعاؤں سے نہ صرف انہیں شفا ہوئی بلکہ اس وقت سے خدا تعالیٰ نے آپ کو خدمت سلسلہ کی توفیق دے رکھی ہے.۳ سال تک آپ امریکہ میں مبلغ اسلام بھی رہ چکے ہیں اور اب مرکز سلسلہ رہوہ میں ناظر تعلیم کے عمدہ : ممتاز ہیں.پس ہم دیکھیں گے کہ جناب برق صاحب ان کے جواب کے بعد کس حد تک اس جھوٹ کا
۴۶۲ ازالہ کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب " حرف محرمانہ “ میں یہ لکھ کر پھیلانے کی کو شش کی ہے کہ طاعون سے چار دیواری بھی محفوظ نہ رہی“.جناب برق صاحب لکھتے ہیں.(حرف محرمانه صفحه ۲۹۸) میرا اپنا وطیرہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ جہاں کوئی معقول بات سنی فورا قبول کر لی." (حرف محرمانہ صفحہ (۱۲) اگر وہ اس بات میں بچے ہیں تو اب انہیں اعلان کر دیتا چاہیے کہ میرا یہ بیان غلط تھا کہ چار دیواری بھی محفوظ نہ رہی.میں تسلیم کرتا ہوں کہ چاردیواری میں رہنے والا کوئی شخص طاعون سے ہلاک نہیں ہوا.اور ماسٹر محمد دین صاحب دارا صیح میں نہیں رہتے تھے.وعدہ حفاظت کی نوعیت یہ بھی واضح رہے کہ "الدار کی حفاظت کا جو وعدہ تھا.وہ صرف طاعون کی موت سے بچنے کی حفاظت کا وعدہ تھا.اس بات کا وعدہ نہیں تھا کہ کوئی شخص طاعون میں مبتلا بھی نہ ہو گا.چنانچہ آپ حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۲۹ پر تحریر فرماتے ہیں.میر صاحب کے بیٹے اسحاق کو تیز تپ چڑھ گیا اور سخت گھبراہٹ شروع ہو گئی اور دونوں طرف کُن ران میں گلٹیاں نکل آئیں اور یقین ہو گیا کہ طاعون ہے.کیونکہ اس ضلع کے بعض مواضع میں طاعون پھوٹ پڑی ہے.تب معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا خوابوں کی تعبیر یہی تھی.اول دل میں سخت غم پیدا ہوا.اور میں نے میر صاحب کے گھر کے لوگوں کو کہہ دیا کہ میں تو دعا کرتا ہوں آپ تو بہ اور استغفار بہت کریں.کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ نے دشمن کو اپنے گھر میں بلایا ہے اور یہ کسی لغزش
۴۶۳ کی طرف اشارہ ہے اور اگر چہ میں جانتا تھا کہ موت فوت قدیم سے ایک قانون قدرت ہے.لیکن یہ خیال آیا کہ اگر خدانخواستہ ہمارے گھر میں کوئی طاعون سے مر گیا تو ہماری تکذیب میں ایک شور قیامت برپا ہو جائے گا.اور پھر گو میں ہزار نشان بھی پیش کروں تب بھی اس اعتراض کے مقابل پر کچھ بھی ان کا اثر نہیں ہوگا.کیونکہ میں صدہا مرتبہ لکھ چکا ہوں اور شائع کر چکا ہوں اور ہزار ہا لوگوں میں بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے گھر کے تمام لوگ طاعون کی موت سے بچے رہیں گے غرض اس وقت جو کچھ میرے دل کی حالت تھی میں بیان نہیں کر سکتا.میں فی الفور دعا میں مشغول ہو گیا.اور بعد دعا کے عجیب نظارہ قدرت دیکھا کہ دو تین گھنٹہ میں خارق عادت کے طور پر اسحاق کاپ اتر گیا اور گلٹیوں کا نام و نشان نہ رہا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا.اور نہ صرف اسقدر بلکہ پھر نا ، چلنا، کھیلنا دوڑنا شروع کر دیا گویا کبھی کوئی بیماری نہیں ہوئی تھی.یہی ہے احیائے موتی.میں حلفاً کہتا ہوں کہ حضرت عیسی کے احیائے موتی میں اس سے ایک ذرہ کچھ زیادہ نہ تھا.اب لوگ جو چاہیں ان کے معجزات پر حاشیے چڑھائیں مگر حقیقت یہی تھی.جو شخص حقیقی طور پر مر جاتا ہے اور اس دنیا سے گذر جاتا ہے اور ملک الموت اس کی روح کو قبض کر لیتا ہے وہ ہر گز واپس نہیں آتا.دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتِ “ (حقیقۃ الوحی صفحه ۳۲۹) ایک اور اعتراض آپ لکھتے ہیں.جناب برق صاحب کا آخری قابل جواب اعتراض اس سلسلہ میں یہ ہے کہ کیا آپ کے پیرو محفوظ رہے ؟ نہیں! ا.ماسٹر محمد دین (گھر میں جور رہتا تھا تو پیر وہی ہو گا) کو گلٹی نکلی.(حرف محرمانه صفحه ۳۰۱)
۴۶۴ - آپ خود تسلیم فرماتے ہیں کہ آپ کے پیرو بھی طاعون کا شکار ہوئے.(صفحہ ۳۰۲) ہماری جماعت میں سے بعض لوگوں کا طاعون سے فوت ہو جانا بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ آنحضرت ا کے بعض صحابہ لڑائی میں شہید ہوئے.(تتمہ حقیقة الوحی صفحه ۱۳۱) تتمه حقیقة الوحی صفحه ۱۳۱) اگر ایک آدمی ہماری جماعت میں مرتا ہے تو جائے اس کے سویا زیادہ آدمی ہماری جماعت میں داخل ہوتا ہے.“ میں نے جناب برق صاحب کا اعتراض من و عن نقل کر دیا ہے مگر اصل سوال اس جگہ یہ ہے کہ حضرت اقدس نے کیا یہ لکھا تھا کہ میری جماعت کا کوئی فرد بھی لماعون سے ہلاک نہیں ہو گا ؟ اگر کوئی ایسی عبارت ہوتی تو اسے جناب برق صاحب پہلے پیش فرماتے اور پھر اعتراض کرتے تو ایک بات تھی.اب تو یہ اعتراض بالکل بے ہنگم ہے.ہم دعوی سے کہتے ہیں کہ حضرت اقدس نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ میری یہ پیشگوئی ہے کہ میری جماعت میں سے کوئی فرد طاعون سے ہلاک نہیں ہو گا.ماسٹر محمد دین صاحب کے متعلق یہ لکھنا کہ وہ حضرت اقدس کے گھر میں رہتے تھے درست نہیں میں بتا آیا ہوں کہ وہ اور ڈنگ ہاؤس میں رہتے تھے.انہیں بے شک گلٹی نکلی مگر حضرت اقدس کی دعا اور توجہ سے وہ خدا کے فضل سے بچ گئے.اور اللہ تعالیٰ نے انہیں خدمت سلسلہ کی توفیق دے رکھی ہے آج کل وہ صدرانجمن احمدیہ میں ناظر تعلیم کے عہدہ پر مامور ہیں.اصل بات یہ ہے کہ حضرت اقدس نے کوئی ایسی پیشگوئی کی ہی نہیں تھی.کہ میری جماعت کا ہر فرد طاعون سے محفوظ رہے گا.البتہ مخالفوں نے ایسا مشہور ضرور کر دیا تھا کہ آپ نے ایسی پیشگوئی کی ہے.اس افواہ سے بعض احمدی بھی متاثر تھے.چنانچہ حضرت اقدس طاعون کے متعلق الہامات کے سلسلہ میں ایک الہام یوں درج فرماتے
۴۶۵ غَضِبَتْ غَضَباً شَدِيداً الاِمْرَاضَ تُشَاعُ وَ النُّفُوسُ تُضَاعُ إِلَّا الَّذِينَ 66 امَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بظلم أُولئِكَ لَهُمُ الأَمنُ وَ هُمْ مُهْتَدُونَ " وافع البلاء صفحہ ۶) ترجمہ :- میر اغضب بھڑک رہا ہے.ماریاں پھیلیں گی اور جانیں ضائع ہوں گی مگر وہ لوگ جو ایمان لائیں گے اور ان کے ایمان میں کچھ نقص نہیں ہو گا وہ امن میں رہیں گے اور ان کو مخلصی کی راہ ملے گی.( دافع البلاء صفحہ ۷ ، ۸) اس سے ظاہر ہے کہ جن کے ایمان میں کچھ نقص ہو الہام الہی میں ان کی حفاظت کا وعدہ نہ تھا.پھر حضور فرماتے ہیں.بعض لوگ ہماری جماعت میں سے بھی غلطی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی نہ مریگا.یہ ان کو مغالطہ لگا ہے.ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.اگر چہ ایک حد تک خدا نے وعدے کئے ہوئے ہیں مگر ان کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ جماعت سے مطلقاً کوئی بھی نشانہ ء طاعون نہ ہو.یہ بات ہماری جماعت کو خوب یادر کھنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہر گز نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی نہ مرے گا.ہاں خدا تعالی فرماتا ہے.و آما مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمُكُتُ فِي الْأَرْضِ - پس جو شخص اپنے وجود کو نافع الناس، بنادینگے ان کی عمر میں خدا زیادہ کرے گا.خدا تعالیٰ کی مخلوق پر شفقت بہت کرو اور حقوق العباد کی جا آوری پورے طور پر بجالانی چاہیئے.“ البدر ۲۲ مئی ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸ از سر ملفوظات ۹ / مئی) پس جماعت کے تمام افراد کے طاعون سے محفوظ رہنے کی کوئی پیشگوئی نہ تھی بلکہ ایسا وعدہ جماعت کے افراد میں سے الہامی الفاظ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ لَهُمُ الاَمُنُ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ کے مطابق صرف ان افراد
۴۶۶ جماعت کے لئے تھا جن کے ایمان میں کوئی ظلم کی ملونی نہ ہو.پس جماعت کی حفاظت کا وعدہ محض نسبتی تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین نے پیشگوئی کو غلط رنگ میں پھیلایا.حتی کہ اس پیشگوئی سے بعض نا واقف احمدی بھی یہ کہنے لگ گئے کہ ہم میں سے کوئی طاعون سے نہیں مرے گا.چنانچہ جناب برق صاحب نے گورنمنٹ کی رپورٹ سے جو اقتباس درج کیا ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رپورٹ لکھنے والا بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ جماعت کے ہر فرد کی طاعون سے حفاظت کا وعدہ دیا گیا ہے چنانچہ اس رپورٹ کے ایک اقتباس کو درج کرنے کے بعد جناب برق صاحب اس کے ترجمہ کا ایک حصہ بگاڑتے ہوئے لکھتے ہیں.قبول احمدیت کی بڑی وجہ بانی احمدیت کا یہ دعوی تھا کہ اس کے پیرو طاعون سے محفوظ رہیں گے (حالانکہ جیسا میں حضرت اقدس کے الہام و کلام سے بتا چکا ہوں ایسا کوئی دعوئی نہ تھا.ناقل ) لیکن حفاظت کے ایک عارضی وقفہ کے بعد احمدی بھی باقی آبادی کی طرح طاعون کا شکار ہونے لگے اور لوگوں کا اعتقاد رسول قادیان کے اعلان کے متعلق متزلزل ہو گیا.“ رپورٹ کے آخری فقرہ کا ترجمہ برق صاحب نے غلط کیا ہے.رپورٹ کے انگریزی الفاظ یہ ہیں :- And the faith in the afficacy of the prophets declaration was some what shaken.صحیح ترجمہ اس کا یہ ہے کہ.”نبی کے اعلان کے متعلق اعتقاد میں کچھ تزلزل پیدا ہو گیا.“ پس رپورٹ نویس تو کچھ تزلزل پیدا ہونے کا ذکر کرتا ہے مگر جناب برق صاحب اس کی عبارت کو یہ معنی دے رہے ہیں کہ.
۴۶۷ لوگوں کا اعتقاد رسول قادیان کے اعلان کے متعلق متزلزل ہو گیا.“ بہر حال لوگوں نے اس پیشگوئی کو چونکہ غلط رنگ میں شہرت دی تھی اور حضرت اقدسن کا کوئی ایسا اعلان نہ تھا کہ تمام احمد می افراد طاعون سے بالکل محفوظ رہیں گے اس لئے بعض احمدیوں کے طاعون سے وفات پا جانے پر کسی کو اصل الہام کے الفاظ اور اس کی اس تشریح پر اعتراض کا حق نہیں جو خود حضرت اقدس نے کی تھی.آخری اعتراض اب برق صاحب کا صرف ایک اعتراض باقی ہے گو اس کا نفس پیشگوئی سے تو کوئی تعلق نہیں تا ہم اس کا جواب بھی ہم اس مضمون کے آخر میں دے دینا چاہتے ہیں.برق صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ آپ نے طاعون کے لئے بد دعا کیوں کی حالانکہ آپ نے اربعین میں لکھا تھا.میں تمام مسلمانوں، عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں.میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.“(اربعین نمبر اصفحہ ۲) اس پر برق صاحب رقمطراز ہیں.کرتی ہے ؟" الجواب کیا مہربان والدہ اپنے بچوں کو طاعون میں پھنسانے کے لئے بد دعائیں کیا یہ اعتراض شائد ایک دہریہ کو تو زیب دے مگر انبیاء کے ماننے والوں کو ایسا اعتراض زیب نہیں دیتا، کیونکہ لوگوں کے اپنے تمر داور شرارتوں میں بڑھ جانے پر انبیاء کی طرف سے بھی جو در حقیقت مہربان والدہ سے بھی بڑھ کر مہربان ہوتے ہیں
۴۶۸ شریر مخالفوں کے لئے بد دعا کرنا ثابت ہے.چنانچہ حضرت نوع کی یہ دعا قرآن مجید میں مذکور ہے جو انہوں نے قوم کے تمر دوسرکشی میں کمال پر پہنچ جانے کے بعد ان الفاظ میں کی تھی.رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الارْضِ مِنَ الكَافِرِينَ دَيَّارًا ( سورۃ نوح : ۲۷) جس کا مفهوم مفسرین یہ بیان کرتے ہیں کہ نوٹ نے بد دعا کی کہ تمام کا فر روئے زمین پر ہلاک ہو جائیں اور پھر خدا بھی جو ارحم الراحمین ہے گویا ماں باپ سے بھی بڑھ کر رحم کر نیوالا ہے غضب میں آگیا اور اُس نے تمام کا فروں کو غرق کر دیا.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور قوم فرعون کے معاملہ میں یہ بد دعا کی رَبَّنَا اطْمِسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا العَذَابَ الْأَلِيمِ (یونس : ۸۹) اے خدا! ان کے مالوں کو مٹادے اور ان کے دلوں پر سختی کر کہ یہ درد ناک عذاب دیکھے بغیر ایمان نہ لائیں.پھر سید الانبیاء فخر المرسلمین رحمۃ للعالمین ہے کے متعلق صحیح احادیث میں مروی ہے کہ آپ ایک عرصہ تک اپنے متمرد دشمنوں اور قبائل کا نام لے لے کر نماز میں اُن کے لئے بد دعا کرتے رہے چنانچہ وہ سب آپکی بد دعا سے تباہ ہوئے.خدا تعالیٰ کے سوار حمتہ للعالمین ﷺ سے بڑھ کر اور کون رؤف در حیم تھا.مگر ایک موقعہ پر آپ کو بھی بد دعا کرنی ہی پڑی.سچ پوچھو تو جو لوگ ایمان لانیوالے نہ ہوں ان کی ہلاکت بھی اُن کے لئے اپنے اندر ایک رحم کا پہلو ہی رکھتی ہے جس سے اُن کے متمردانہ اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے.اور آئندہ ہو سکنے والے جرموں کی سزا سے وہ بچ جاتے ہیں.آخر والدہ بھی تو بچے کی شرارت پر اسے چپت رسید کرہی دیتی ہے.حدیث شریف میں آیا ہے.ایک عورت نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کیا خدا ارحم الراحمین نہیں ؟ آپ نے فرمایا.ہاں وہ ارحم الرحمین ہے.تو اس عورت نے کہا.کیا خداوالدہ سے بڑھ کر رحم کرنے والا نہیں ؟ آپ نے فرمایا.ہاں وہ والدہ سے بڑھ
۴۶۹ کر رحم کرنے والا ہے.تو اس پر اُس عورت نے کہا کہ کوئی ماں تو اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی.یعنی پھر خدا تعالیٰ لوگوں کو جہنم میں کیسے ڈال سکتا ہے ؟ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا.خدا صرف متمرد ( سرکش اور باغی ) کو ہی عذاب دیگا.یہی جواب ہم برق صاحب کو دیتے ہیں کہ حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ نے بھی صرف معمر دین کے پیش نظر بد دعا کی تھی.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں :- فَلَمَّا طَغَا الفِسْقُ المُبيدُ بِسَيْلِهِ تَمَنَّيْتُ لَوْكَانَ الْوَبَاءُ الْمُتَبِّرُ کہ جب ملک فسق کا سیلاب چڑھ آیا یعنی لوگوں کی سرکشی اور شرار تھیں اور ایذارسانی اور دشنام وہی انتہا کو پہنچ گئی تو اس وقت میں نے یہ تمنا کی کہ کاش تباہ کر دینے والی وباء آجائے.پس جب خدا تعالیٰ جو ارحم الراحمین ہے وہ بھی کسی وقت مخلوق کی سرکشی اور تمرید کے بڑھ جانے پر غضب میں آکر دنیا میں وبائیں اور زلازل و غیرہ تباہیاں برپا کر دیتا ہے تو اس کا مامور اگر ایسے ہی وقت غضب میں آ کر بد دعا کر دے تو کیا جائے تعجب ! آخر نبی کی خواہش کا توافق اسوقت خدا کے ارادہ سے ہی ہو گا.اصل بات یہ ہے کہ نبی کی بد دعا بھی ایک قسم کا القا ہی ہوتا ہے.جب خدا کا غضب دنیا پر بھڑ کنے والا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے کسی زور آور حملہ سے دنیا کو اپنی طاقت منواکر لوگوں کو ضلالت سے حق کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے تو اسوقت اسکے ارادہ کے ساتھ نبی کا ارادہ بھی مل جاتا ہے جو اس کی طرف سے بد دعا کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے.۵ - الهام عمر جناب ، ق صاحب العام عمر کے زیر عنوان لکھتے ہیں.جناب مرزا صاحب نے الہام عمر کو اپنی تصانیف میں سو مرتبہ سے زیادہ
۴۷۰ دہرایا ہے.ثَمَانِينَ حَوْلًا أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَالِكَ اَوْ نَزِيدَ عَلَيْهِ.اور اس کا ترجمہ یوں فرمایا 66 ہے.تیری عمر اسی برس کی ہو گی یاد و چار کم یا چند سال زیادہ.“ (حرف محرمانه صفحه ۲۰۵) لفظی ترجمہ اس الہام کا یہ ہے کہ آپ کی عمر اسی سال یا اس کے قریب ہو گی یا ہم اس پر کچھ بڑھاویں گے.برق صاحب کا پہلا اعتراض جناب برق صاحب کا اس الہام پر پہلا اور اہم اعتراض یہ ہے کہ.اول تو یہ الہام ہی عجیب ہے.اتنی بُرس دو چار کم یا چند سال زیادہ کیا اللہ مستقبل کے واقعات سے بے خبر ہے ؟ کیا الہام نازل کرتے وقت اسے معلوم نہ تھا کہ آپ کی وفات ۶ ، مئی ۱۹۰۸ء کو ہو گی ؟ کیا اللہ کو آپ کی تاریخ ولادت بھول گئی تھی ؟ اگر یاد تھی اور تاریخ ولادت بھی معلوم تھی تو پھر الہام میں یہ اظہار تجاہل کیوں دو چار سال کم یا چند سال زیادہ کیوں ؟ جس شخص کو اپنے مرحوم بیٹے کی تاریخ ولادت و وفات ہر دو معلوم ہوں اور جمع و تفریق کا قاعدہ بھی جانتا ہو وہ کبھی نہیں کہے گا کہ میرے بیٹے کی عمر میں برس یا دو چار سال کم یا چند سال زیادہ تھی.یہ اشتباہ و تجاہل اسی شخص کے بیان میں ہو سکتا ہے جو تاریخ ولادت و وفات ہر دو سے ناواقف ہو یا اسقدر ان پڑھ ہو کہ سال وفات میں سے سنین حیات تفریق کر کے حاصل نہ بتا سکتا ہو." الجواب ( حرف محرمانه صفحه ۳۰۹،۳۰۸) ہمیں یہ اعتراض پڑھ کر جناب برق صاحب کے متعلق یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ وہ قرآن مجید کی الہامی زبان سے بھی واقف نہیں ورنہ وہ اس الہام پر کبھی یہ اعتراض
۴۷۱ نہ کرتے کہ الہام میں یہ تجاہل کیوں ؟ اگر وہ قرآن مجید کی الہامی زبان کا علم رکھتے تو کبھی ان پڑھ کی مثال دے کر جمع تفریق سے اس کی نا واقفی کو پیش کر کے الہام کو نسیان.اشتباہ اور تجاہل کے بیان پر مشتمل قرار نہ دیتے.دیکھئے قرآن مجید میں اللہ تعالی صلى الله آنحضرت مے کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.ا ما نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفيَنَّكَ (یونس : ۴۷ مومن : ۷۸) یعنی اے نبی !یا ہم تجھے (کافروں سے) موعود عذاب کا کچھ حصہ دکھا دیں گے یا تجھے وفات دے دیں گے.جناب برق صاحب کو تو یہاں بھی یہ سوال پیدا ہونا چاہیئے کہ کیا اس وحی کے نازل کرنے والا خدا ان دونوں باتوں میں سے جو اس نے اس وحی میں بیان کی ہیں.ایک معین امر کو جس کے متعلق اس کا حتمی ارادہ تھا جانتا تھایا نہیں ؟ اگر جانتا تھا تو پھر اس نے معین طور پر ایک ہی بات کیوں نہ کمی جو وہ کرنا چاہتا تھا.اس نے یہ کیوں کھایا ایسا کروں گا یا دیا.صاف ظاہر ہے کہ جناب برق صاحب کو جب یہ مسلم ہے کہ قرآن مجید کی یہ وتی علام الغیوب خدا کی طرف سے ہے تو پھر انہیں معلوم ہو کہ اس میں بایا کا استعمال اس غرض کے لئے کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ باوجود اس بات کو جاننے کے جو وہ دراصل کرنے والا تھا ابھی ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا.اور اس بات کے مخفی رکھنے میں اس کے نزدیک کوئی مصلحت کار فرما تھی.بہر حال خدا کی طرف سے ایسا الہام ہو سکتا ہے که یا یہ بات کروں گا یا اس کے خلاف دوسری بات کروں گا اور اس سے خدا تعالی کے عالم الغیب ہونے پر کوئی زو نہیں پڑتی.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَرسَلْنَاهُ إِلَى مِائَةِ الفِر أَو يَزِيدُونَ - ( الصفت : ۱۴۸)
۴۷۲ یعنی ہم نے یونس نبی کو ایک لاکھ کی طرف بھیجا یا وہ ایک لاکھ سے زیادہ تھے.اب کیا جناب برق صاحب یہاں بھی خدا سے یہ استہزاء کریں گے کہ قرآن مجید کے خدا کو گنتی آتی تھی یا نہیں.اگر آتی تھی تو پھر اس نے ان لوگوں کی صحیح اور معین تعداد کیوں نہ بتائی.کیوں ایسی عبارت استعمال کی جو معین تعداد کے متعلق ابہام پیدا کر دیتی ہے.پس اگر قرآن مجید کا خدا اس جگہ کسی وجہ سے ان لوگوں کی معین تعداد کے بیان کو اخفاء میں رکھنے کے باوجود عالم الغیب رہتا ہے تو حضرت اقدس کو الہام ثَمَانِينَ حَوْ لا أَوْ قَرِيباً مِنْ ذَالِكَ اَوْ نَزِيدُ عَلَيْهِ میں بھی وہ آپ کی ہونے والی عمر کو قریب قریب بیان کے لئے اسی قسم کی زبان اختیار کر سکتا ہے.کیونکہ وہ معین طور پر یہ ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا کہ آپ کی عمر در حقیقت کتنی ہوگی.پھر قرآن مجید میں وارد ہے.واحرُونَ مُرُ حَونَ يَا مَرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَدِ بُهُمْ وَ إِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِم وَ اللهُ عَلِيمٌ حَكِيمُ (توبه : ۱۰۲) یعنی کچھ اور لوگ بھی ہیں (یعنی تین صحابه کعب بن مالک ، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع جو جنگ تبوک میں جانے سے پیچھے رہ گئے تھے ) جو خدا تعالی کے حکم کے انتظار میں ہیں جن کا معاملہ آخر میں ڈالا گیا تھا.اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دے گا یا معاف فرما دے گا.اللہ تعالیٰ جانے والا اور حکمت والا ہے.پس یا "کا الہام میں استعمال خدا کے علیم و حکیم ہونے کے خلاف نہیں."یا" کے استعمال میں یقیناً حکیم خدا کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے.اور اس سے اس کے علیم ہونے کی نفی نہیں ہوتی.اس لئے اس وحی میں یا کے استعمال کے بعد وَ اللهُ عَلِيمٌ حَكِيمُ فرمایا گیا.پیشگوئی کی روح جناب برق صاحب اعتراض کی طرف تو لیکے ہیں لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ یہ پیشگوئی اپنی اصل روح کے لحاظ سے کیسی عظیم
۴۷۳ الشان ہے.انسان کو اپنی عمر کا کوئی اعتبار نہیں ہو تا لیکن غور کریں کہ ایک شخص جو آئندہ چل کر مامور من اللہ بنے والا اور مخلوق کو خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والا ہے.خدا تعالی ۱۸۶۵ء میں اس کی وفات سے ۴۳ سال پہلے اسے یہ اطلاع دیتا ہے کہ وہ لمبی عمر پائے گا.اور یہ بات اسی طرح وقوع میں آجاتی ہے اس الہام کا اگلا حصہ جناب برق صاحب نے چھوڑ دیا ہے جو تری نَسُلًا بَعِيدًا ہے یعنی تو دور کی نسل دیکھے گا.الہام کا یہ حصہ پیشگوئی کی عظمت کو اور بڑھا رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ آخر عمر تک آپ کے ہاں اولاد ہو گی اور پھر اولاد کی اولاد کو بھی آپ دیکھ لیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.فالحمد لله على ذالك.اس الہام میں آپ کی عمر کے متعلق پوری تعیین کو مبہم رکھنے میں بھی ضرور اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت تھی.لیکن جب آپ کی وفات کا وقت قریب آنے کو تھا تو اس وقت خدا تعالیٰ نے آپ پر واضح کر دیا قرب احلك المقدر کہ تمہاری مقررہ اجل قریب آگئی ہے.یہ الہام آپ نے رسالہ الوصیۃ میں درج فرمایا.اس میں تحریر فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے.جَاءَ وَ قُتُكَ قَرُبَ أَجَلُكَ الْمُقَدَّرُ یعنی تیر اوفات کا وقت قریب آگیا ہے.اور تیری عمر کی میعاد جو مقرر کی گئی تھی اس کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے.الوصیۃ ۱۹۰۵ء میں لکھی گئی.پھر حضور فرماتے ہیں :- " ر دیا میں ایک کوری ٹنڈ میں مجھے کچھ پانی دیا گیا.پانی صرف دو تین گھونٹ اس میں باقی رہ گیا ہے لیکن نہایت صاف اور مقطر پانی ہے اس کے ساتھ ہی الہام ہوا.نهایت صافہ آپ زندگی.66 ریویود سمبر ۱۹۰۵ء) اس الہام اور رؤیا سے ظاہر ہے کہ جب حضرت اقدس کی عمر میں خدا تعالیٰ کے نزدیک تھوڑا عرصہ باقی رہ گیا.تو اس وقت آپ کو وفات کا زمانہ قریب آجانے کی
۴۷۴ اطلاع دے دی گئی.چنانچہ اس الہام اور رؤیا کے مطابق آپ کی وفات ۲۶/ مئی ۱۹۰۸ء کو ہوئی پس الہام نے آپ کی وفات کا ذکر کر کے خود گواہی دیدی ہے کہ خدا تعالی کے ازلی علم میں جو آپ کی عمر مقدر تھی جلدی ختم ہونے والی ہے.پس آپ کا الہام الہی کے مطابق لمبی عمر پانا بھی خدا کے نشانوں میں سے ایک عظیم الشان نشان ہے.اور آپ کی وفات کا زمانہ قریب آجانے پر آپ کو خدا کی طرف سے اطلاع دیا جانا بھی ایک نشان ہے.عمر کے متعلق اندازے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتابوں میں اپنی عمر اندازے سے لکھتے رہے ہیں.کیونکہ آپ کی تاریخ پیدائش محفوظ نہ تھی.چنانچہ کتاب البریۃ میں آپ نے لکھا کہ :- ” میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی اور ۱۸۵۷ء میں سولہ برس یا سترھویں برس میں تھا.“ (کتاب البریہ صفحہ ۱۳۴) برق صاحب کا اعتراض اس پر جناب برق صاحب سوال کرتے ہیں کہ :- یا کوئی حساب دان یہ بتا سکتا ہے کہ آپ ۱۸۵۷ء میں کس حساب سے سولہ برس کے تھے ؟ خیر اسے چھوڑیئے.صرف سال ولادت یاد رکھئے اور سال وفات ۱۸۳۹ ۶۹ ۱۹۰۸ء سے منہا کر دیجئے.١٩٠٨ ۱۸۴۰
۴۷۵ باقی بچے ۷ ۶ یا ۶۹.اب دیکھئے اس الہام کو ” تیری عمر اسی سال کی ہو گی یادو چار کم یا چند سال زیادہ لیکن یہاں تو پورے ۱۲/ ۱۱ برس کم ہیں.“ 66 (حرف محرمانه صفحه ۳۰۹.۳۱۰) اور آخر میں جناب برق صاحب نے اربعین کی یہ عبارت درج کی ہے :- " پھر اگر ثابت ہو کہ میری پیشگوئی میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی تو میں اقرار کروں گا کہ میں کاذب ہوں.الجواب 66 ( حاشیه اربعین نمبر ۴ صفحه ۳۰) سوال اول کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کی پیدائش ۱۸۴۰ء میں فرض کی جائے تو آپ ۱۸۵۷ء میں یقیناً سولہ برس کے ہو چکے تھے.حساب کر کے دیکھ لیں اور اگر ۱۸۳۹ء میں فرض کی جائے تو ۱۸۵۷ء میں بہر حال سترہ برس کے ہو جاتے ہیں.۱۸۴۰-۱۸۵۷ = ۷ اسال.سولہ سال پورے کر کے سترھویں میں قدم رکھا ۷ ۱۸۳۹-۱۸۵ = ۱۸ گویا سترہ سال پورے کر کے اٹھارویں میں قدم رکھا.حضرت اقدس نے اپنی پیدائش ۱۸۳۹ء و ۱۸۴۰ء میں محض اندازے سے لکھی ہے جناب برق صاحب نے اس حساب سے آپ کی عمر ۷ ۶ یا ۶۹ سال قرار دے کر پیشگوئی کو جھوٹا ٹھر آیا ہے تاکہ آپ کو دعویٰ میں کاذب قرار دیں مگر یہ بھی لکھا ہے :- ” جناب مرزا صاحب نے اپنی تصانیف میں تاریخ ولادت کہیں ذکر نہیں فرمائی صرف اتنا بار بار فرماتے رہے ہیں کہ میں ۱۸۳۹ ء یا ۱۸۴۰ء کو پیدا ہوا تھا اور نہ آپ کے سوانح نگاروں نے یہ تکلیف کی کہ سول سرجن گورداسپور کے دفتر سے آپ کی تاریخ ولادت معلوم کر لیتے.اتنے بڑے روحانی رہنما کے مریدوں کا یہ تساہل قابل افسوس ہے.“ (حرف محرمانه صفحه ۳۰۹) جناب برق صاحب نے کس بھولے پن سے فرمایا ہے کہ آپ کے سواح نگار
سول سر جن گورداسپور کے دفتر سے آپ کی تاریخ ولادت معلوم کر لیتے.گویا جناب برق صاحب یہ خیال کر رہے ہیں کہ حضرت بانی سلسلہ احمد یہ اسوقت پیدا ہوئے تھے جب کہ پنجاب میں انگریزی راج تھا اس لئے سول سر جن گورداسپور کے دفتر میں آپ کی تاریخ ولادت محفوظ تھی.حالانکہ اصل حقیقت یہ کہ حضرت اقدس سکھوں کے عمد حکومت میں پیدا ہوئے تھے جبکہ اس قسم کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا.پس سوانح نگاروں پر تساہل کا الزام بھی درست نہیں.خصوصاً آپ کے سوانح نگار حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب سیرۃ المھدی میں حضرت اقدس کی عمر کے متعلق پوری تحقیقات درج فرما دی ہے اور آپ کی تحقیق کا نتیجہ یہ ہے :- ”اب بعض حوالے اور بعض روایات ایسی ملی ہیں جن سے معین تاریخ کا پتہ لگ گیا ہے.جو بروز جمعہ ۱۴ شوال ۱۲۵۰ ہجری مطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء عیسوی مطابق یکم پھاگن (۱۸۹ برمی ہے" (سیرۃ المہدی جلد سوم صفحہ ۷۴) اس تاریخ پیدائش کی تعیین کی وجوہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ : - 1- حضرت مسیح موعود نے تعیین اور تصریح کے ساتھ لکھا ہے جسمیں کسی غلط فہمی کی گنجائش نہیں کہ میری پیدائش جمعہ کے دن چاند کی چودھویں تاریخ کو ہوئی تھی.(دیکھو تحفہ گولڑو یه بار اول صفحه ۱۱۰ حاشیه ) - ایک زبانی روایت کے ذریعہ جو مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کے واسطہ سے پہنچی ہے اور جو مفتی صاحب موصوف نے اپنے پاس لکھ کر محفوظ کی ہوئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے ایک دفعہ بیان فرمایا تھا کہ ہندی مہینوں کے لحاظ سے میری پیدائش پھاگن کے مہینہ میں ہوئی تھی.مندرجہ بالا تاریخ حضرت مسیح موعود کے دوسرے متعد د بیانات سے بھی قریب
ترین مطابقت رکھتی ہے.مثلاً آپ کا یہ فرمانا کہ آپ ٹھیک ۱۲۹۰ھ میں شرف مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہوئے تھے (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۹) اور یہ کہ اس وقت آپ کی عمر ۴۰ سال کی تھی (تریاق القلوب صفحہ (۶۸) وغیر وغیرہ (اس حساب سے آپکی عمر ۶ ۷ سال بنتی ہے جس سے الہامی عمر پوری ہو جاتی ہے جو برق صاحب کے پیش کردہ حضرت مسیح موعود کے الہام کے لحاظ سے اتنی سے چار سال کم چاہئے.ناقل ) (سیرة المهدی صفحه ۷۵) آگے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں :- ”میں نے گذشتہ جنتریوں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور دوسروں سے بھی کر لیا ہے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ پھاگن کے مہینہ میں جمعہ کا دن اور چاند کی چودھویں تاریخ کس کس سنہ میں اکٹھے ہوتے ہیں.اس تحقیق سے یہی ثابت ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی تاریخ پید کش ۱۴ شوال ۱۳۵۰ هجری مطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ عیسوی ہے جیسے کہ نقشہ ذیل سے ظاہر ہو گا :- تاریخ معه سن عیسوی تاریخ چاند معه سن ہجری دن تاریخ ہندی مهینه معه جمعه سن بحر می ۴ فروری ۱۸۳۱ء ۲۰ شعبان ۱۲۴۶ھ ے پھاگن ۷ ۸ ۱۸ بحرم افروری ۱۸۳۲ء ۱۴رمضان ۵۱۲۴۶ جمعہ کی پھاگن ۱۸۸۸ ۸ فروری ۱۸۳۳ء ۷ ارمضان ۱۲۴۸ه ۲۸ فروری ۱۸۳۴ء ۱۸ شوال ۱۲۴۹ه بھاگن ۱۸۸۹ بحر.دکھا بھاگن.۱۸۹۰ بحرم ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء ۱۴ شوال ۱۲۵۰ه جمعہ یکم پھاگن ۱۸۹۱ بحرم ۵ فروری ۱۸۳۶ء ۱۷ شوال ۵۱۲۵۷ جمعه بھاگن ۱۸۹۲ بحر.
۴۷۸ ۲۴ فروری ۱۸۳۷ء ۱۸ ذیقعده ۱۲۵۲ه جمعہ من ۱۸۹۳ ١٨٩٣ بكرم ۱۸ جمعه بھاگن ۱۸۹۴ بحر.و فروری ۶۱۸۳۸ ۲۰ ذیقعده ساده تیم فروری ۱۸۳۹ء ۱۵ ذیقعده ۱۲۵۴ه جمعه ۳ پھاگن ۱۸۹۵ بحرم ۱۱ فروری ۱۸۴۰ء ۶ ذی الحجه ۱۲۵۵ه جمعه ۴ پھاگن ۱۸۹۶ بحر.(اس کے لئے دیکھو تو قیفات الهامیہ مصری و تقویم عمری ہندی) اس نقشہ سے ظاہر ہے کہ پھاگن کے مہینہ میں جمعہ کو چاند کی چودھویں تاریخ صرف دو سالوں میں آئی ہے اول ۷ افروری ۱۸۳۲ء میں اور دوم ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء میں حضرت صاحبزادہ صاحب آگے لکھتے ہیں :- اس نقشہ کے رو سے ۱۸۳۲ء کی تاریخ بھی درست سمجھی جاسکتی ہے مگر دوسرے قرائن سے جن میں سے بعض اوپر بیان ہو چکے ہیں اور بعض آگے بیان کئے جائیں گے صحیح یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود کی پیدائش ۱۸۳۵ء میں ہوئی تھی.پس ۱۳ فروری ۱۸۳۵ عیسوی مطابق ۱۴ شوال ۱۲۵۰ ہجری بروز جمعہ والی تاریخ صحیح قرار پاتی ہے اس حساب کی رو سے وفات کے وقت جو ۲۴ ربیع الثانی ۱۳۳۶ ہجری ( اخبار الحکم ضمیمہ مؤرخہ ۲۸ مئی ۱۹۰۸ء) میں ہوئی.آپ کی عمر پورے ۷۵ سال ۶ ماہ اور ادن (سیرت المهدی صفحه ۷۶ ) بنتی ہے.،، حضرت مسیح موعود کو اپنی عمر کے بارہ میں اردو زبان میں بھی الہام ہوا جو در حقیقت عربی الہام کا الہامی ترجمہ ہے.اس الہام کے الفاظ یہ ہیں :- اطال الله بقاء ك.اسی یا اس پر پانچ چار سال زیادہ یا پانچ چار کم." (حقیقۃ الوحی صفحه ۹۶) 66 اس اردو الہام کو ملحوظ رکھا جائے جو عربی کے الہام کا الہامی ترجمہ ہے تو آپ کی عمر پچہتر چھتر یا استی یا چوراسی پچاسی سال کی ہونی چاہیئے.
۴۷۹ پس آپ کی عمر پچہتر سال چھ ماہ دس دن بنتی ہے جو العام ثمانين حولاً ز او قريباً من ذالك کے صدق پر شاہد ناطق ہے.ہے :- -۶ امراض خبیثہ سے حفاظت کا وعدہ اس عنوان کے تحت برق صاحب نے حضرت اقدس کا یہ اقتباس درج کیا اس (خدا) نے مجھے براہین میں بشارت دی کہ ہر ایک خبیث عارضہ سے تجھے محفوظ رکھوں گا.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ حاشیہ صفحہ ۳) اس کے بعد برق صاحب نے دورانِ سر یاد وار مراقی اور ذیا بیطس کی مرض کو امراض خبیثہ میں سے قرار دے کر اس پیشگوئی پر اعتراض کیا ہے کہ یہ بھارت پوری نہیں ہوئی.حالانکہ امراض خبیثہ سے مراد وہ امراض ہوتی ہیں جو لوگوں کے لئے نفرت کا موجب ہوں.جیسے جنون.مالٹو لیا مراقی اور جذام وغیرہ اور خدا تعالیٰ نے آپ کو ان عوارض خبیثہ سے محفوظ رکھا ہے.آپ کی ڈائری میں جس مراق کے مرض کا ذکر ہے اس سے مراد وار مراقی ہے نہ کہ مالیخولیا مراقی.طب اکبر میں مراق کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں.(۱) صداع مراقی (۲) دوار مراقی (۳) مالیخولیا مراقی.اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مایو لیا مراقی سے جو جنون کی طرح ایک خبیث عارضہ ہے محفوظ رکھا ہے البتہ کثرت تصنیف سے پردہ مراق کے ماؤف ہو جانے کی وجہ سے دوار کا عارضہ آپ کو ضرور تھا جسے سیرۃ المہدی میں حضرت ام المومنین کی روایت سے دوران سر اور میٹر یا قرار دیا گیا ہے.ذیا ٹیکس اور دوران سر خدا تعالی کی طرف سے دو یماریاں آپ کے اس وقت بھی شامل حال تھیں جبکہ آپ کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ وہ ہر ایک خبیث عارضہ سے آپ کو محفوظ کے گا.یہ دونوں عارضے آپ کو ہموجب حدیث نبوی تمام عمر لا حق حال رہے ہیں.اور آپ نے (نواس بن سمعان والی حدیث
۴۸۰ میں جو مسیح کے دو زرد چادروں میں نزول کے متعلق ہے) ان دو زرد چادروں کی تعبیر میں دو بیماریاں بیان فرمائی ہے.اور انہیں مسیح موعود کی علامت قرار دیا ہے اسی سلسلہ میں برقی صاحب نے ”حیات احمد " جلد دوم نمبر اول صفحہ ۶۹ سے ایک حوالہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے :- ”حضرت اقدس نے اپنی بیماری دق کا بھی ذکر کیا ہے.یہ بیماری آپ کو حضرت مرزا غلام مر تضی صاحب مرحوم کی زندگی میں ہو گئی تھی...اس یماری میں آپ کی حالت بہت نازک ہو گئی تھی." یہ اقتباس محل اعتراض نہیں ہو سکتا.کیونکہ یہ ہماری اس وعدہ الہی سے بہت پہلے کی تھی جب کہ آپ کے والد صاحب زندہ تھے پھر آپ اس مرض سے لیکی شفاپا چکے تھے.اور آپ کے اس مرض سے صحت یاب ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو مامور فرمایا تھا اور یہ بشارت دی تھی کہ وہ آپ کو ہر ایک خبیث عارضہ سے محفوظ رکھے گا.فاندفع الاعتراض شلج الهام متعلق نیج ے.پھر بہار آئی تو آئے صبح کے آنے کے دن ۵ مئی ۱۹۰۶ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا :- پھر بہار آئی تو آئے صبح کے آنے کے دن" اور اگلے سال ۱۹۰۷ء میں ماہ فروری کے آخر میں کشمیر اور یورپ کے ملکوں میں شدید برفباری ہوئی جس سے سردی بڑھ گئی اور ایسی بارشیں ہوئیں کہ آپ کے ایک دوسرے الہام کے مطابق جو ۱۲؍ فروری ۱۹۰۷ء کا ہے.گویا آسمان ٹوٹ پڑا" ملاحظه : تذکره صفحه ۶۹۰)
۴۸۱ حضرت اقدس نے تمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹ میں اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر فرمایا ہے.اور برف باری شدید بارشوں اور شدید سردی پڑنے سے متعلق اخبارات کے اقتباسات بھی درج کئے ہیں اور کشمیر سے آمدہ ایک خط بھی درج فرمایا.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں.دو یہ پیشگوئی جو مع تشریح رسالہ ریویو آف ریلیجز اور پرچہ بدر اور الحکم میں اس کے ظہور سے نو ماہ پہلے لکھی گئی تھی اور ظہور کے لئے بہار کا موسم معین کیا گیا تھا صفائی سے پوری ہو گئی.یعنی جب مین بہار کا موسم آیا اور باغ پھولوں اور شگوفوں سے بھر گئے تب خدا تعالٰی نے اپنا وعدہ اس طرح پر پورا کیا کہ کشمیر اور یورپ اور امریکہ کے ملکوں میں برف باری حد سے زیادہ ہوئی جس کی تفصیل ابھی ہم انشاء اللہ چند اخباروں کے حوالہ سے لکھیں گے.لیکن اس ملک میں ہمو جب منشاء پیشگوئی کے خاص اس حصہ ملک میں وہ شدید سردی اور کثرت بارش ہوئی کہ ملک فریاد کر اٹھا.اور ساتھ ہی بعض حصہ میں اس ملک کے اس قدر برف پڑی کہ لوگ حیران ہو گئے کہ کیا ہونے والا ہے.چنانچہ آج ہی ۲۵ فروری ۱۹۰۷ء کو ایک خط ، نام حاجی عمر ڈار صاحب ( جو باشند و کشمیر ہیں عبدالرحمن ان کے بیٹے کی طرف سے) کشمیر سے آیا ہے کہ ان دنوں میں اس قدر برف پڑی ہے کہ تین گزیک زمین پر چڑھ گئی.اور ہر روز بر محیط عالم ہے.یہ وہ امر ہے کہ کشمیر کے رہنے والے اس سے حیران ہیں کہ بہار کے موسم میں اس قدر برف کا گرنا خارق عادت ہے.“ جب یہ الہام نازل ہوا تو اس وقت آپ نے اس کی دو توجیہات کیں جو بدر دار مئی ۱۹۰۱ء اور الحکم ۱۰ مئی ۱۹۰۹ء میں درج ہیں.اور یہ العام اخبار الحکم در مئی ۱۹۰۶ ء میں درج ہو چکا تھا.تشریح یہ درج ہے کہ.
۴۸۲ ۵ الهام در مئی ۱۹۰۱ء " پھر بہار آئی تو آئے صبح کے آنے کے دن.“ صحیح کا لفظ عربی ہے اس کے ایک تو یہ معنے ہیں کہ وہ برف جو آسمان سے پڑتی ہے اور شدید سردی کا موجب ہو جاتی ہے.اور بارش کے لوازم سے ہوتی ہے اس کو عربی میں نیج کہتے ہیں.ان معنوں کی بنا پر اس پیشگوئی کے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ بہار کے دنوں میں آسمان سے ہمارے ملک میں خدا تعالی غیر معمولی طور پر یہ آفتیں نازل کرے گا.اور برف اور اسکے لوازم سے شدت سردی اور کثرت بارش ظہور میں آئے گی اور دوسرے معنے اس کے عربی میں اطمینان قلب حاصل کرنا یعنی انسان کو کسی امر پر ایسے دلائل اور شواہد میسر آجائیں جس سے اس کا دل مطمئن ہو جائے غرض یہ پیشگوئی ان پہلوؤں پر مشتمل ہے...اس الہام پر زیادہ غور کرنے سے یہ بھی قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ بہار کے دنوں تک نہ صرف ایک نشان بلکہ کئی نشان ظاہر ہو جائیں گے.اور جب بہار کا موسم آئے گا تو اس قدر تواتر نشانوں کی وجہ سے دلوں پر اثر ہو گا کہ مخالفین کے منہ بند ہو جائیں گے اور حق کے طالبوں کے دل پوری تسلی پائیں گے اور یہ بیان اس بنا پر ہے کہ جب مجج کے معنے تسلی پانا اور شکوک اور شبہات سے رہائی ہو جانا سمجھے جائیں.لیکن اگر برف اور بارش کے معنی ہوئے تو خدا تعالی کوئی اور سماوی آفات نازل کرے گا.“ بدر ۱۰ مئی ۱۹۰۶ء صفحه ۲د تخمه حقیقت الوحی صفحه ۳۹،۳۸) جب یہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہو گئی تو حضرت اقدس نے فرمایا.”دیکھو ” نلج کے آنے کے دن“ والی پیشگوئی کس طرح پوری ہو گئی اور میں نے اس کے دو پہلو لئے تھے.ایک تو یہ کہ خدا کچھ ایسے نشان دکھائے جن کی وجہ سے لوگوں پر حجت قائم ہو جائے اور دل تسکین پکڑ جائے.دوسرا یہ کہ سخت بارش اور سر دی اور ژالہ باری ہو جو زمانہ دراز سے کبھی نہ ہوئی ہو.تو خدا تعالیٰ نے یہ دونوں پہلو
۴۸۳ پورے کر دیئے.یہ نشان اس طرح متواتر ظہور میں آئے کہ نہ صرف پنجاب بلکہ یورپ اور امریکہ پر بھی حجت قائم ہو گئی.یعنی ڈوئی کی موت سے....پس یہ ایک نشان تھا جس نے تمام یورپ اور امریکہ پر اور سعد اللہ کی موت نے ہندوستان پر حجت قائم کر دی ہے.پس ان دونوں نشانوں اور دوسرے کئی نشانوں نے دنیا پر صلح کی پیشگوئی کا پورا ہونا ثابت کر دیا ہے اور پھر یہی نہیں اصل الفاظ میں بھی یہ پیشگوئی کھلے طور پر پوری ہو گئی.یعنی اس بیمار کے موسم میں جیسا کہ لکھا گیا تھا کہ بہار کے موسم میں ایسا ہو گا.ایسی سخت سردی اور بارش اور ژالہ باری ہوئی کہ دنیا چیخ اٹھی." (بدر ۲۵ / اپریل ۱۹۰۷ء صفحه (۶) جناب برق صاحب اس نشان سے فائدہ اٹھانے کی جائے کشمیر والے خط کی بنا پر یہ لکھتے ہیں.(حرف محرمانه صفحه ۳۱۴) یہ خط کشمیر سے چار پانچ روز پہلے یعنی ۲۰ فروری کو چلا ہو گا کیا ۲۰؎ فروری کو ا عین بہار کا موسم ہو تا ہے اور باغ پھولوں اور شگوفوں سے پھر جاتے ہیں ؟“ الجواب یہ نتیجہ ہے خوبیوں کی طرف سے آنکھیں پید کرنے اور معاندانہ نکتہ چینی کا کہ پیشگوئی کے پورا ہونے سے تو آپ نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا.اور یہ اعتراض کر دیا ہے کہ گویا میں فروری کو بیمار کا موسم نہیں ہوتا اور باغ پھولوں اور شگوفوں سے نہیں بھر جاتے.حالانکہ فروری کے آخر میں فی الواقعہ بہار کا موسم شروع ہو جاتا ہے.اور اگر جنوری میں سردی کم پڑی ہو تو فروری کے آخر میں کئی درختوں پر پھول اور شگوفے نکل آتے ہیں.آج جب کہ ہم یہ مضمون لکھ رہے ہیں ۲۳ فروری ۱۹۶۴ء ہے اور باغوں میں کئی درختوں پر پھول کھلے ہوئے ہیں.
۴۸۴ برق صاحب کی بناوٹ اس پیشگوئی کے متعلق جناب برق صاحب نے ایک پہلوٹ سے بھی کام لیا ہے.چنانچہ پہلے وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کون سا موسم بیمار ؟ اور اس کے نیچے لکھتے ہیں."حقیقۃ الوحی کا تختہ جس سے یہ اقتہاس لیا گیا ہے 1906ء کے اوائل میں لکھا جا رہا تھا.بظاہر موسم بہار سے عشاء ہی کا موسم ہو سکتا ہے.لیکن نہیں آپ اس کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں.( یہ برق صاحب کی صریح غلط بیانی ہے کہ الظاہر حناء کا موسم بہار تھا جیسے کہ آگے ظاہر ہو گا.مجیب) ”بہار دوبارہ (یعنی ۱۹۰۸ء میں ) آئے گی تو ایک اور زلزلہ آئے گا.(۱۹۰۸ء لکھنا برق صاحب کی بناوٹ ہے.مجیب اور چند سطور کے بعد فرماتے ہیں.بھر بہار جب بار سوم ( یعنی ۱۹۰۹ ء میں ) آئے گی تو اس وقت اطمینان کے دن آجائیں گے.اور اس وقت تک خدا کئی نشان ظاہر کرے گا." (1909ء لکھنا بھی برق صاحب کی جعلسازی ہے) یہ غلط سنہ لکھ کر آخر میں برقی صاحب نے یہ سوال اٹھایا ہے.اور وہ معمہ تو بدستور حل طلب رہا کہ جس الہام کا تعلق تیسری بیمار (1909ء میں) سے تھاوہ پہلی بیمار میں کیسے پورا ہو گیا ؟“ (حرف محرمانہ صفحہ ۳۱۵) الجواب جناب برقی صاحب! ایسا کوئی حل طلب معمہ پیدا نہیں ہوتا.بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان اقتباسات کے پیش کرنے میں آپ نے سراسر منشائے متکلم او تاریخی حقیقت کے بر خلاف حوالہ جات کے پیش کرنے میں خود پیلوٹ سے کام ! ہے.
۴۸۵ پہلی بناوٹ برق صاحب کی پہلی بناوٹ یہ ہے کہ حوالہ اول اور دوم کے درمیان بریکٹوں میں ۱۹۰۸ء اور ۱۹۰۹ء کے الفاظ انہوں نے اپنی طرف سے بڑھا دئیے ہیں.حالانکہ یہ حوالے تاریخی لحاظ سے ۱۹۰۸ء اور ۱۹۰۹ء سے متعلق نہیں.دوسری بناوٹ برق صاحب کی دوسری پیلوٹ یہ ہے کہ وہ تمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹ کا حوالہ پیش کرنے کے بعد دونوں حوالوں کے متعلق لکھتے ہیں.آپ ( حضرت مسیح موعود ناقل ) اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں.“ حالانکہ دونوں اقتباس تتمہ حقیقۃ الوحی کے نہیں کہ آگے چل کر لکھنا صحیح ہو.مگر برق صاحب نے پڑھنے والوں کو دھوکا دینے کے لئے دونوں عبارتوں میں سے پہلی عبارت کے بعد تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۹ اور دوسری عبارت کے بعد تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۰۰ کا حوالہ دے دیا ہے.تتمہ حقیقۃ الوحی چونکہ عشاء میں لکھا جا رہا تھا اس لئے ان دونوں اقتباسوں کو تمہ حقیقۃ الوحی کے اقتباس سمجھنے کے بعد پڑھنے والا برق صاحب کے کہنے کے مطابق پہلی عبارت میں بیمار جب دوبارہ آئے گی.کا تعلق ۱۹۰۸ء سے اور دوسرے اقتباس میں "بیمار جب بار سوم آئے گی اسکا تعلق 1909ء سے سمجھے گا.حالانکہ یہ سراسر مغالطہ ہے.کیونکہ یہ ہر دو اقتباس تخمہ حقیقۃ الوحی میں موجود نہیں.بلکہ یہ اصل کتاب حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۹ اور صفحہ ۱۰۰ کے ہیں.گویا تمہ حقیقۃ الوحی کے لکھا جانے سے بہت پہلے کے ہیں.اس مقام پر حضرت مسیح موعود نے اپنے الہامات کی ایک فہرست دی ہے جو حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۷۰ سے شروع ہو کر صفحہ ۱۹۰۸ پر ختم ہوتی ہے.اس فہرست میں مختلف اوقات کے الہامات کو اکٹھا درج کر دیا گیا ہے.اس
۴۸۶ کے صفحہ ۹۹ پر یہ الہام درج ہے " پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی اور نیچے ترجمہ میں درج ہے "بیمار جب دوبارہ آئے گی تو پھر ایک اور زلزلہ آئے گا.یہ الہام دراصل 66 ور مئی ۱۹۰۵ء کا ہے.جو "الوصیہ" میں جو مئی ۱۹۰۵ء کی کتاب ہے درج ہے.(ملاحظہ ہو تذکرہ صفحہ ۵۴۳ الهام نمبر ۸۶۳) الفاظ وحی کے یہ ہیں.پھر بیمار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.چونکہ پہلا زلزلہ بھی بہار کے ایام میں آیا تھا اس لئے خدا نے خبر دی کہ وہ دوسر از لزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا.اور چونکہ آخر جنوری میں بعض درختوں کا پتہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے اس لئے اس مہینہ سے خوف کے دن شروع ہونگے اور غالبا مئی کے آخیر تک وہ دن رہیں (الوصیۃ صفحہ ۱۵) گے.“ اس سے ظاہر ہے کہ اس الہام کا تعلق ۱۹۰۸ء سے قرار دینا برق صاحب کی سراسر بناوٹ ہے.جیسا کہ الوصیۃ ۱۹۰۵ء کے حوالہ سے ثابت کیا جا چکا ہے یہ الہام مئی ۱۹۰۵ء کو ہوا تھا اب اگلی بہار سے مراد ۱۹۰۶ء کی بہار تھی جس میں یہ زلزلہ مطابق پیشگوئی کے متوقع تھا.چنانچہ قدرت الہی کا کرشمہ دیکھئے کہ ۱۹۰۵ء کے کا نمرہ کے زلزلہ کے بعد عام طور پر خیال تھا کہ ہندستان میں اب یہ آفت نہیں آئیگی.کیونکہ جاپان کا ایک پروفیسر اموری “ جو زلازل کا محقق اور مبصر تھا زلازل کی تحقیقات کے لئے ہندستان آیا تھا اور تحقیقات کے بعد اُس نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ یہاں اب دو سال تک اور کوئی زلزلہ نہیں آئیگا ( الحکم ۱۰ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ اکالم (1) لیکن ہوا یہ کہ اگلے سال ہی ۲۷ فروری ۱۹۰۶ء کا دن گذر نے کے بعد رات کو ڈیڑھ بجے کے قریب ایسا زبر دست زلزلہ آیا کہ بہت سے گھر مسمار اور بہت سی جانیں تلف ہو گئیں (دیکھو اخبار بدر ۱۳ مئی ۱۹۰۶ء صفحه ۱۲ کالم ۲، ۳) اور یہ پیشگوئی اپنے الفاظ کے مطابق اگلی بہار میں پوری ہو گئی اس زلزلہ کے متعلق مولوی عبد اللہ العمادی نے اپنے رسالہ
۴۸۷ البیان جلد ۵ صفحه نمبر ۳ ، ۱۵/ صفر ۱۳۲۴ھ میں لکھا :- قادیان کے مذہبی اخبار بد ر نے ہمارے پاس ایک اشتہار شائع کرنے کو بھیجا ہے جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے.اس زلزلہ کی پیشگوئی جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بہت پیشتر کر چکے تھا اور اس زمانہ میں اخباروں اور رسالوں میں وہ شائع ہو چکی تھی.مرزا صاحب کی فراست ایمانی کے ہم بھی قائل ہیں.اور انکی پیشگوئیاں صحیح بھی ہوتی ہیں.لیکن افسوس کہ ایک طویل اشتہار شائع کرنے کی "البیان" میں گنجائش نہیں.“ پھر بیمار آئی تو آئے صحیح کے آنے کے دن یہ الہام حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۱۰۰ پر درج ہے اور دراصل یہ ۵/ مئی ۱۹۰۵ء کا الہام ہے جو اسی وقت اخبار الحکم اور بدر میں شائع ہو گیا تھا.اس کے ترجمہ میں حقیقۃ الوحی میں لکھا ہے :- پھر بہار جب بار سوم آئے گی تو اس وقت اطمینان کے دن آجائیں گے اور اس وقت تک خدا کئی نشان ظاہر کرے گا.“ پس اس الہام کو 1909ء سے متعلق قرار دیتا برق صاحب کی صریح مناوٹ ہے اس کا تعلق صرف 1906ء سے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ پہلی بیمار ۱۹۰۵ء کی بیمار ہے جس میں یہ الہام ہو ا تھا.پھر دوسری بسیار ۱۹۰۶ء کی ہوئی اس کے بعد ۱۹۰۷ء کی بہار میں جو تیسری بہار تھی شدید برف باری اور شدید بارشوں اور اولوں کے پڑنے سے یہ نشان پورا ہو گیا.پس اس کال ۱۹۰۹ ء سے تعلق ظاہر کر کے برق صاحب کا یہ لکھنا :- ”وہ معمہ تو بد ستور حل طلب رہا کہ جس الهام کا تعلق تیسری بهار ۱۹۰۹ء سے تھاوہ پہلی بار کیسے پورا ہو گیا.“ (حرف محرمانه صفحه ۳۱۵) درست اعتراض نہیں.کیونکہ ہمارے اوپر کے بیان سے ظاہر ہے کہ اس قسم کا کوئی معمہ در حقیقت پیدا ہی نہیں ہوتا.یہ معمہ تو محض برق صاحب نے تاریخی
۴۸۸ غلطیاں کرتے ہوئے گھڑا ہے.لہذا ان کی کتاب "حرف محرمانہ “ کہلانے کی مستحق نہیں بلکہ اس کا نام دراصل حرف مجرمانہ ہونا چاہیئے.-۸- بشیر الدوله - عالم کباب جناب برق صاحب نے " میاں منظور محمد کے گھر لڑکا“ کے عنوان کے ما تحت "البشر کئی مرتبہ منظور الهی جلد دوم صفحہ ۱۶ اسے پہلے یہ عبارت نقل کی ہے.بذریعہ الہام معلوم ہوا کہ میاں منظور محمد کے گھر میں محمدی بیگم (زوجہ منظور محمد ) کا ایک لڑکا پیدا ہو گا جس کے یہ نام ہوں گے بشیر الدولہ عالم کہاب شادی خاں.کلمۃ اللہ." پھر برق صاحب لکھتے ہیں.لیکن ہوا یہ کہ لڑکے کی جگہ سے ار جولائی 1901ء کو ایک لڑکی پیدا ہو گئی.اس پر جناب مرزا صاحب نے لکھا.”وحی الہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جو نمونہ قیامت ہو گا جلد آنے والا ہے.اس کے لئے یہ نشان دیا گیا تھا کہ پیر منظور محمد لدھیانوی کی دوی محمدی بیگم کو لڑکا پیدا ہوگا.مگر بعد اس کے میں نے دعا کی کہ اس زلزلہ نمونہ قیامت میں کچھ تاخیر ڈال دی جائے.خدا نے دعا قبول کر کے زلزلہ کسی اور وقت پر ڈال دیا ہے.اس لئے ضرور تھا کہ لڑکا پیدا ہونے میں بھی تاخیر ہوتی.چنانچہ پیر منظور محمد کے گھر میں ۷ ار جولائی ۱۹۰۷ء کو لڑکی پیدا ہوئی.“ (حقیقۃ الوحی صفحه ۱۰۱،۱۰۰) یہ عبارت جسے برق صاحب نے قطع و برید کر کے لکھا ہے پیش کرنے کے بعد جناب برق صاحب لکھتے ہیں.ہوئی.“ یاد رکھیئے کہ لڑکا پیدا ہونے میں تاخیر ہوئی تھی پیدائش منسوخ نہیں (حرف محرمانه صفحه ۳۱۶) حضرت اقدس " ۷ ار جولائی ۱۹۰۶ء بروز سه شنبہ لڑکی پیدا ہوئی“ کے فقرہ کے آگے
۴۸۹ یہ تحریر فرماتے ہیں.اور یہ دعا کی قبولیت کا ایک نشان ہے.اور نیز وحی الہی کی سچائی کا ایک نشان ہے جو لڑکی پیدا ہونے سے قریباً چار ماہ پہلے شائع ہو چکی تھی.مگر یہ ضرور ہو گا کہ کم درجہ کے زلزلے آتے رہیں گے.اور ضرور ہے کہ زمین نمونہ قیامت زلزلہ سے رکی رہے.جب تک وہ موعود لڑکا پیدا ہو.یادر ہے یہ خدا تعالیٰ کی بڑی رحمت کی نشانی ہے کہ لڑکی پیدا کر کے آئند و بلا یعنی زلزلہ نمونہ قیامت کی نسبت تسلی دیدی کہ اس میں موجب وعده أخَّرَهُ اللهُ إلى وقت مُسَمًّى - ابھی تاخیر ہے.اور اگر ابھی لڑکا پیدا ہو جاتا تو ہر ایک زلزلہ اور ہر ایک آفت کے وقت سخت غم اور اندیشہ دامنگیر ہوتا.کہ شاید وہ وقت آگیا.اور تاخیر کا کچھ اعتبار نہ ہوتا.اب تو تاخیر ایک شرط کے ساتھ مشروط ہو کر معین ہو گئی.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۰۱،۱۰۰ حاشیہ) ۲۸ / اپریل ۱۹۰۱ء کے العام أخرَهُ اللهُ إلى وقت مُسَمًّی نے آپ کو زلزلہ کی تاخیر کی خبر دی تھی اس کے متعلق بدر ۵ / اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۲ اور الحکم 66 ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ء صفحہ میں فرماتے ہیں.چھوٹے زلزلے تو آتے ہی رہتے ہیں لیکن سخت زلزلہ جو آنے والا ہے.اس کے وقت میں تا خیر ڈالی گئی ہے.مگر نہیں کہہ سکتے کہ تاخیر کتنی ہے.“ ۱۹ر فروری ۱۹۰۶ء کو بشیر الدولہ کے متعلق جو الہام ہوا اس سے متعلق فرماتے ہیں.دیکھا کہ منظور محمد کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے.اور دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے.تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی اور یہ معلوم ہوا "بشیر الدولہ.فرمایا.کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے.معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے.ممکن ہے بشیر الدولہ کے لفظ سے یہ مراد ہو کہ ایسا لڑکا میاں منظور محمد کے پیدا ہو گا.جس کا پیدا ہونا موجب خوشحالی اور
۴۹۰ دولتمندی ہو جائے.یہ بھی قرین قیاس ہے کہ وہ لڑکا خود اقبال مند اور صاحب دولت ہو لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ کب اور کس وقت یہ لڑکا پیدا ہو گا.خدا نے کوئی وقت ظاہر نہیں فرمایا.ممکن ہے کہ جلد ہو یا خدا اس میں کئی برس کی تاخیر ڈال دے.“ ( بدر ۲۳ / فروری ۱۹۰۶ء صفحه ۱، الحکم ۲۴ فروری ۱۹۰۶ء صفحه ۱) اس سے ظاہر ہے کہ میاں منظور محمد کے گھر میں لڑکا پیدا ہو نالور ان کی زوجہ محمدی بیگم کے بطن سے اس کا پیدا ہونا محض ایک اجتہادی امر تھا.الہامی الفاظ میں حضرت مسیح موعود کو یہ نہیں بتایا گیا کہ منظور محمد کون سا ہے.پس میاں منظور محمد صاحب کے متعلق یہ پیشگوئی محض حضرت اقدس کا ایک قیاس تھا.چونکہ خدا تعالیٰ نے ایسے لڑکے کے ظہور کو زلزلہ نمونہ قیامت کے وقت تک متاثر کر دیا ہے اور اصل وقت معین نہیں کیا گیا.اس لئے اگر اس زلزلہ نمونہ قیامت سے خدا تعالیٰ کے نزدیک پہلی اور دوسری عالمگیر جنگ ہے تو پھر یہ موعود لڑکا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ہیں.اور منظور محمد سے مراد خود حضرت مسیح موعود ہیں اور پیدا ہونے کی تعبیر ظہور ہے یعنی آپ کا مسند خلافت پر متمکن ہوتا ہے.لیکن اگر اس پیشگوئی کا ظہور پانچویں زلزلہ پر موقوف ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.پھر پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہو گا کہ لوگوں کو سودائی اور دیوانہ کر دے گا.یہاں تک کہ وہ تمنا کریں گے کہ وہ اس دن سے پہلے مر جاتے.“ (حقیقة الوحی حاشیه صفحه ۹۳) تو اس صورت میں بشیر الدولہ اور عالم کباب سے مراد آئندہ زلزلہ نمونہ قیامت کے وقت کسی ایسے شخص کا پیدا ہونا ہے جو جماعت احمدیہ کی شوکت اور اقبال کی علامت ہو گا.واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب حضرت اقدس کی پیشگوئیاں بے شک آپ کا صدق و کذب جانچنے کا معیار
۴۹۱ ہیں مگر جب الہام الہی نے اس پیشگوئی کے ظہور کو زلزلہ نمونہ قیامت سے وابستہ کر دیا ہے اور تاخیر کے زمانہ کی کوئی تعیین نہیں کی اور صرف اتنا بتایا ہے کہ یہ زلزلہ آپ کی زندگی میں نہیں آئے گا.تو اس الہامی وضاحت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کی زندگی میں اس کے عدم ظہور کو آپ کے خلاف بصورت اعتراض پیش نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ سب پیشگوئیوں کا مامور کی زندگی میں ہی پورا ہونا ضروری نہیں ہو تا.اور اس زلزلہ کے متعلق تو حضرت مسیح موعود کی دُعا تھی کہ مجھے نہ دکھایا جائے اور خدا تعالیٰ نے اس میں تاخیر ڈال دی تھی.۹ - کنواری اور بیدہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر یہ الہام نازل ہوا تھا "بكر و آب “ آپ نے اجتهادا اس کا یہ مفہوم قرار دیا : - ”خدا کا ارادہ ہے کہ دو عور تیں میرے نکاح میں لائے گا ایک بکر (کنواری) ہو گی دوسری بیوہ.چنانچہ یہ الہام جو بکر کے متعلق تھا پورا ہو گیا.اور اس وقت بفضلہ چار پسر اس بیوی سے ہیں.اور بیوہ کے الہام کا انتظار ہے.“ (تریاق القلوب صفحہ ۳۴) مر ۱۶؍ فروری ۱۹۰۱ء کو آپ پر الہام نازل ہوا "تكفيكَ هذه الامراة - کہ تیرے لئے یہی عورت (جو تیرے نکاح میں ہے ) کافی ہے.اس الہام نے بتا دیا کہ اب اور کوئی عورت آپ کے نکاح میں نہیں آئے گی.(ملاحظہ ہو تذکرہ صفحہ ۸۳) اس الہام کی روشنی میں الہام "بكر" وتی " کی خدا تعالی کے نزدیک وہی تشریح مراد ہو سکتی ہے جسے باہو منظور الہی کی کتاب مجموعہ الہامات صفحہ ۳۸ سے برق صاحب نے ذیل کے الفاظ میں درج کیا ہے کہ : دو یہ الہام اپنے دونوں پہلوؤں سے حضرت ام المومنین (نصرت جهان بینم صاحبہ ) کی ذات میں پورا ہوا جو بکر آئیں اور شیب (بیوہ رہ گئیں.66
۴۹۲ اب اس تشریح کے متعلق برق صاحب کا یہ اعتراض درست نہیں کہ ملم سے زیادہ کوئی الہام کے معنے نہیں سمجھ سکتا اور نہ کسی کا حق ہے جو اس کے مخالف کے.کیونکہ ملم پر خود الہامی طور پر واضح کر دیا گیا تھا کہ اب کوئی اور عورت آپ کے نکاح میں نہیں آئے گی.فندتر ۱۰.بعض بابرکت عورتیں اس عنوان کے تحت جناب برق صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عبارت پیش کی ہے :- اس عاجز نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے ایک اشتہار میں یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بیان کی تھی کہ اس نے مجھے بشارت دی ہے کہ بعض بابرکت عورتیں اس اشتہار کے بعد تیرے نکاح میں آئیں گی.اور اُن سے اولاد پیدا ہو گی.“ تبلیغ رسالت جلد ا صفحه (۸۹) اس پر برق صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ نصرت جہان دیگم صاحبہ کے بعد کسی اور عورت سے آپ کا نکاح نہیں ہوا.الجواب تبلیغ رسالت جلد ا صفحہ ۸۹ کے الفاظ پیشگوئی کے متعلق اجتہادی ہیں نہ کہ الهامی الهامی الفاظ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی اس پیشگوئی کے یوں ہیں :- اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہو گی.“ ان الہامی الفاظ میں یہ ہر گز نہیں بتایا گیا کہ بعض خواتین مبار کہ آپ کے نکاح میں آئیں گی.نکاح کے متعلق اجتہاد کو اللہ تعالٰی نے الهام تكفيكَ هَذِهِ الإِمراة
سے رو فرما دیا ہے.پس یہ خواتین مبارکہ از روئے واقعات اور اس تازہ الہام کی روشنی میں وہ خواتین ہیں جو آپ کی اولاد کے نکاح میں آئیں.اور آپ کی زندگی میں آپ کے گھر میں آئیں.جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی نسل کو بڑھایا.فالحمد الله على ذالك برق صاحب کا بعض پیشگویوں کے پورا ہونے کا اعتراف پیشگویوں پر بحث ختم کرتے ہوئے برقی صاحب لکھتے ہیں :- " آپ کی بعض پیشگوئیاں پوری بھی ہوئیں.جن میں سے اہم لیکھر ام اور احمد بیگ کی وفات میعاد معینہ میں ہے.بعض مناظرین نے انہیں بھی جھٹلانے کی کوشش کی لیکن ان کے دلائل اطمینان بخش نہیں.اور ہمیں ان سے اتفاق نہیں.“ (حرف محرمانه صفحه ۳۲۰) جناب برق صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے دو پیشگوئیوں کی تصدیق کی ہے.مگر جن پیشگویوں پر خود انہوں نے اعتراض کیا ہے ہمیں ان کے پیش کر دو دلائل سے اتفاق نہیں جیسا کہ قبل از میں ہم انکے دلائل کی کمزوری اور انکے متعلق حوالہ جات کے پیش کرنے میں بے جا تصرف اور بناوٹ واضح کر چکے ہیں.افسوس ہے جناب برق صاحب نے لیکھرام اور احمد بیگ کی پیشگویوں کی تصدیق کرنے کے باوجود ان سے کوئی حقیقی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکہ انکی تصدیق کے بعد یہ لکھ دیا ہے کہ :- صرف پیشگوئی دلیل نبوت نہیں بن سکتی.جناب مرزا صاحب نے نعمت اللہ کی پیشگوئی کا بار بار ذکر فرمایا ہے.نیز عبدالحکیم کی پیشگوئی آپ کی وفات کے متعاق
۴۹۴ پوری ہوئی ہے اور یورپ کے مشہور منجم شیرو کی تو تمام پیشگوئیاں پوری نکلیں ( ملاخطہ ہو اس کی مشہور کتاب ”بخارات عالم “ لیکن ان میں سے کوئی بھی نبی نہیں تھا.برق صاحب! یہ بات درست نہیں کہ پیشگوئی دلیل نبوت نہیں بن سکتی کیونکہ قرآن مجید میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- عَالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظهرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولِ (انجمن : ۲۷) یعنی خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے.اور وہ اپنے خاص عیب پر کسی شخص کو کثرت سے اطلاع نہیں دیتا بجز اس شخص کے جو اس کا بر گزیدہ یعنی رسول ہو.پس قرآن مجید تو ایسی پیشگوئیوں کو رسول کی صداقت کی دلیل قرار دیتا ہے.مگر برق صاحب منجموں کی پیشگویوں سے خدا تعالیٰ کی اس بات کو ر ڈ کرنا چاہتے ہیں.کیا اسی قرآن دانی پر انہیں فخر ہے؟ جناب برق صاحب! منجموں کی پیشگوئیوں اور خدا تعالی کی پیشگوئیوں میں اگر کوئی امتیاز نہیں تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت مے کی پیشگوئیوں کو قرآن مجید میں بار بار کیوں دلیل صداقت قرار دیا ہے.کیا آپ رسول کریم ﷺ کی پیشگوئیوں کو بھی جو قرآن مجید میں مذکور ہیں آپ کی نبوت کی دلیل نہیں سمجھتے ؟ مثلا یہ پیشگوئی لين اجتمعت الانس والحِنُّ عَلى أنْ يَّاتُوا بمثل هذا القرآن لا يَا تُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً.(بنی اسرائیل : ۸۹) یعنی اگر جن وانس تمام جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کی مثل لائیں.تو وہ اس کی مثل لَئِن نہیں لا سکیں گے.خواہ بعض ان کے بعض کے مددگار ہوں.بتائیے ! یہ متحد یا نہ پیشگوئی اور اس کے مقابل مخالفین اسلام کا عجز آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل ہے یا نہیں ؟ کیا اس سے ظاہر نہیں کہ جن صلى الله
۴۹۵ پیشگوئیوں کے ساتھ تھدی ہو اور وہ مدعی الہام کی طرف سے پیش کی جائیں وہ اس ملم من اللہ کے خدا کا مقرب ہونے کی دلیل ہوتی ہیں ؟ مامورین کی پیشگوئیاں نجومیوں کی طرح نہیں ہوتیں.نجومیوں کی پیشگوئیوں میں نہ تحدی ہوتی ہے اور نہ وہ انہیں اپنے مقرب الی اللہ ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں.اور نہ وہ انہیں الہامی طور پر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر تے ہیں.لیکن مامورین خدا کے الہامی الفاظ کے ماتحت پیشگوئیاں کرتے ہیں.اور ان میں سے بعض متحدیانہ بھی ہوتی ہیں اور متقول علی اللہ یعنی جھوٹے الہام گھڑنے والے کے متعلق خدا تعالٰی نے اخذ بالیمین اور قطع و تین کی سزائیں مقرر کر رکھی ہیں.پس مفتری علی اللہ کی خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید و نصرت نہیں کی جاتی.بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے.آپ کی وفات سے متعلق ڈاکٹر عبدالحکیم کی پیشگوئی پر ہم مفصل بحث قبل از میں کر چکے ہیں.خدا تعالیٰ نے ڈاکٹر عبدا حکیم کو اس پیشگوئی میں جھوٹا کیا ہے اور حضرت مسیح موعود کی وفات اس کی آخری پیشگوئی کے مطابق نہیں ہوئی.اور اس سے پہلی پیشگوئیاں وہ خود منسوخ کر چکا تھا.حضرت مسیح موعود کی وفات آپ کی اپنی پیشگوئیوں مندرجہ "الوصية" کے مطابق ہوئی.اور ڈاکٹر عبدالحلیم آپ کی پیشگوئی کے مطابق مرض مهلک یعنی سل سے ہلاک ہوا ہے.ان في ذالك لعبرة لاولى الابصار (ال عمران : (۱۴) ☆☆☆
۴۹۶ باب نہم الهامات پر اعتراضات کے جوابات برق صاحب نے اپنی کتاب کے نویں باب میں الہامات کے عنوان کے تحت آریہ دھرم صفحه ۸ سے اول یہ عبارت نقل کی ہے :- یسی (عربی) ایک پاک زبان ہے جو پاک اور کامل علوم عالیہ کا ذخیر ہ اپنے مفردات میں رکھتی ہے.اور دوسری زبانیں ایک کثافت اور تاریکی کے گڑھے میں پڑی ہوئی ہیں.اس لئے وہ اس قابل ہر گز نہیں ہو سکتیں کہ خدا تعالیٰ کا کامل اور محیط کلام ان میں نازل ہو.“ اس کی بناء پر برق صاحب نے سوال کیا ہے :- سوال اول پھر یہ کیا بات ہے کہ اسی خدا نے دیگر تاریک وکثیف زبانوں میں بھی سینکڑوں الہامات آپ پر نازل کئے سمجھ میں نہ آیا کہ اللہ تعالیٰ کو کونسی مجبوری پیش آئی تھی کہ اس نے کامل اور پاک زبان چھوڑ کر تاریک وکثیف زبانوں میں بھی بولنا شروع کر دیا.اگر حقیقی باقی تمام زبانیں تاریک و کثیف تھیں تو پھر آپ نے پوری بہتر کتابیں کثیف اردو میں کیوں لکھیں.ہزار ہا اشعار کثیف فارسی میں کیوں تصنیف فرمائے اور زندگی بھر پنجابی جیسی تاریک زبان کیوں بولتے رہے.“ ( حرف محرمانه صفحه ۳۲۲ و صفحه ۳۲۳) آریہ دھرم کی عبارت کا مطلب صرف اتنا تھا کہ خدا تعالیٰ کا کامل اور محیط
۴۹۷ کلام یعنی قرآن شریف عربی زبان میں ہی نازل ہونا چاہیے تھا.کیونکہ یہ زبان دوسری زبانوں کی نسبت سے اپنے مفردات میں پاک اور کامل علوم عالیہ کا ذخیرہ رکھتی ہے.اس عبارت کا ہر گز یہ منشاء نہیں کہ خدا دوسری زبانوں میں کلام نہیں کرتا.یہ بات تو ایک معمولی پڑھا لکھا مسلمان بھی جانتا ہے کہ انجیل ، توراۃ ، زیور اور دیگر صحف انبیاء عربی میں نازل نہیں ہوتے تھے.خدا جس طرح پہلے زمانوں میں عربی کے علاوہ انبیاء سے دوسری زبانوں میں کلام کرتا رہا ہے اور اب بھی دوسری زبانوں میں کلام کرتا ہے.اس کے متعلق کسی مجبوری کا لفظ تو کسی مسلمان کی زبان پر نہیں آنا چاہیئے.البتہ مصلحت کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے آخر عربی زبان کے علاوہ کسی مصلحت کے ماتحت خدا تعالیٰ نے دوسری زبانوں میں حضرت مرزا صاحب پر الہامات نازل کئے ہیں.نیک نیتی سے غور کرنے پر اس کی مصلحت آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے.واضح ہو کہ ہمارے زمانہ میں بعض ایسی قومیں موجود ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ الہام لفظ نازل نہیں ہو تا بلکہ خدا کی طرف سے علم کے دل میں ایک خیال ڈالا جاتا ہے.جسے وہ اپنی زبان میں بیان کر دیتا ہے.عیسائی اور پر ہمو سماجی اسی قسم کے الہام کے قائل ہیں.اور مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ پیدا ہو رہے تھے.چنانچہ سرسید مرحوم کا بھی ایسا ہی خیال تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب پر بعض ایسی زبانوں میں بھی الہامات نازل کئے جنہیں آپ خود بھی نہیں جانتے تھے.تا ثابت ہو کہ خدا تعالیٰ کا الہام الفاظ میں بھی نازل ہو تا رہا ہے.اور قرآن شریف کا الہام اسی نوعیت کا ہے.ایسا نہیں کہ خدا تعالیٰ کا مطلب آنحضرت ﷺ نے اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہو.پھر مختلف زبانوں میں الہام اس لئے بھی ہوا کہ خدا تعالی یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ ہر قوم اس سے تعلق پیدا کر کے اپنی زبان میں اس کے لذیذ کلام کو سن سکتی ہے.یہ تو ٹھیک ہے کہ عربی زبان دوسری زبانوں کی نسبت زیادہ لطیف ہے اور دوسری زبانیں اسکی نسبت زیادہ کثیف ہیں.لیکن ہر شخص اپنی
۴۹۸ زبان میں جس طرح دوسرے کے خیالات کو سمجھ سکتا ہے.غیر زبان میں جس میں وہ کامل مہارت نہ رکھتا ہو دوسرے کے خیالات کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا.چونکہ ہمارے ملک کی علمی زبان اردو تھی اس لئے حضرت مسیح موعود نے اکثر کتابیں اردو میں لکھیں.چونکہ فارسی زبان بھی ہمارے ملک میں پڑھی جاتی تھی اور اسلامی لٹریچر فارسی میں بھی بہت سا موجود تھا اور ہمارے ملک والوں کو اس سے دلچسپی بھی تھی اس لئے آپ نے فارسی منظوم کلام بھی کہا اور اپنی بعض عربی کتابوں کا ترجمہ فارسی میں بھی کر لیا.تا کہ جو عربی دان نہیں وہ فارسی زبان میں اس کا مفہوم سمجھ سکیں.اور نیز وہ کتابیں ایران وغیرہ میں بھی کام دے سکیں.جہاں فارسی بولی اور کبھی جاتی ہے.پنجابی زبان کو کوئی علمی زبان نہیں تاہم یہ حضرت مسیح موعود کی مادری زبان تھی.اسلئے اہل پنجاب کے لئے مادری زبان میں بھی آپ پر بعض الہامات ہوئے.اردو زبان چونکہ ہماری ملکی اور مشترک زبان تھی اس لئے آپ نے اکثر کتا ہیں اسی زبان میں تالیف فرمائیں.زبانوں کا اختلاف بھی خدا کا ایک نشان ہے اور کوئی زبان اپنی ذات میں بری نہیں.زبانیں باہمی تقابل میں ایک دوسرے پر فوقیت رکھتی ہیں.پس برق صاحب کے یہ اعتراضات بالکل بے حقیقت ہیں.سوال دوم الف : قرآنی آیات دوبارہ کیوں اتاریں.کیا یہ قرآن شریف سے غائب ہو چکی تھیں.یا اللہ کے پاس عربی الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو چکا تھا ؟ (حرف محرمانه صفحه ۳۲۳) الجواب : یہ اعتراض بھی لغو ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود کی آنحضرت مے سے روحانی مناسبت ثابت کرنے کے لئے آپ پر بعض قرآنی آیات کا دوبارہ نزول ہوا ہے.حضرت مرزا صاحب سے پہلے بھی بعض اولیاء اللہ پر آیات قرآنیہ نازل ہوتی رہی ہیں.
۴۹۹ اور حضرت محی الدین ابن عربی اس کی وجہ یہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں قرآن کا ذوق دینا چاہتا تھا.فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۲۸۷) سوال سوم: الف : هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالهُدى وَدِينِ الْحَقِّ وَتَهذيب - الاخلاق.نقل کر کے لکھتے ہیں :- یہ تہذیب الاخلاق کا جوڑ کس قدر غیر قرآنی و اجنبی ہے ؟ (حرف محرمانه صفحه ۳۲۳) الجواب : برق صاحب ! تہذیب الاخلاق کا لفظ اجنبی اور غیر قرآنی آپ کو صرف اس لئے نظر آرہا ہے کہ قرآنی آیت میں یہ لفظ موجود نہیں ورنہ یہ لفظ عربی سے اور اس میں کوئی امر خلاف فصاحت نہیں اور نہ ہی اس فقرہ میں کوئی بات قواعد عربیہ اور فصاحت کے خلاف ہے- ب : - العام أنت منی بمنزلة ولدی کے متعلق برق صاحب لکھتے ہیں :- ا : - یہ منزلہ کا استعمال خالص پنجابی قسم کا ہے.ب :- اللہ کی کوئی اولاد نہیں جب مشبہ بہ ہی مفقود ہے تو پھر یہ تشبیہ کیسے صحیح ہوئی.“ الجواب : ” منزل کا استعمال اس الہام میں خالص عربی ہے.اور برق صاحب کا اس کے استعمال کو پنجابی قسم کا قرار دینا خود عربی محاورات سے ناواقفی کا ثبوت ہے یہ لفظ عربی زبان میں محل نزول یعنی گھر کے علاوہ رتبہ کے معنوں میں بھی آتا ہے.چنانچہ کہتے ہیں : - "له عند الامیر منزلہ کہ اسے امیر کے پاس مرتبہ حاصل ہے یا کہتے ہیں هُوَ رَفِيعُ المَنزِلَةِ کہ وہ اونچے مرتبے والا ہے.“ ( ملاخطہ ہوالمنجد) پھر مشہور حدیث نبوی میں ہے : - آلا ترضى يَا عَلَى أَنتَ مِنِّي بِمَنزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسی یعنی اے علی کیا تو اس بات میں راضی نہیں کہ تو مجھ سے ایسے
مرتبہ پر ہے جو ہارون کا موسیٰ سے تھا.“ (دیلمی باب الیاء صفحه ۲۱۴) وو ایک دوسری حدیث میں ہے : - " یا عَلى أَنتَ بِمَنْزِلَةِ الْكَعْبَةِ “ ” یعنی اے علی تو بمنزلہ کعبہ کے ہے.“ (دیلمی باب الیاء صفحه ۲۱۴) حضرت جنید حضرت ابو یزید کی شان میں فرماتے ہیں : - ابُو يَزِيدٍ مِنَّا بِمَنْزِلَةِ جِبْرِيلَ مِنَ الملائكة.“ یعنی ابو یزید ہم صوفیا میں اس مرتبہ پر ہیں جو جبرائیل کو ملائحۃ کی نسبت ” : سے ہے“ دیکھئے منزِلَة کا استعمال خالص عربی ثابت ہوا ب : - الهام زیر بحث کا ترجمہ یہ ہے کہ : ” تو میری طرف سے میرے بیٹے کے مرتبہ پر ہے.اور مراد یہ ہے کہ تو حضرت عیسی کے مرتبہ پر ہے اور ان کا مثیل ہے جنہیں.عیسائی میر اپنا قرار دیتے ہیں.دو الهام أنت منی بمنزلة ولدی میں والد کی اضافت ہائے متکلم کی طرف یا تو اضافت بادنی ملا ہمت سے یا اضافت مجاز ہے.قرآن کریم میں ایسی اضافت بادنی ملامت کی مثال " اين شرکایی" میں شرکاء کی پائے متکلم کی طرف اضافت ہے.اس جگہ شرکاء سے مراد مشرکین کے وہ معبود ہیں جنہیں وہ اپنے زعم میں بعض خدائی صفات میں شریک سمجھتے تھے.پس اس جگہ شرکاء کی اضافت یائے متکلم کی طرف مشرکین کے زعم باطل کے لحاظ سے کی گئی ہے.حالانکہ خدا کا حقیقت میں کوئی شریک نہیں اسی طرح العام أنتَ مِنّى بمنزلة ولدئ میں والد کی یائے متکلم کی طرف اضافت عیسائیوں کے مزعوم ولد اللہ کے لحاظ سے ہو گی جو حضرت عیسی ہیں.حالانکہ حقیقت میں خدا کی کوئی اولاد نہیں.اس صورت میں مراد اس الہام سے یہ ہوگی کہ خدا تعالٰی فرماتا ہے کہ تو میری طرف سے حضرت عیسی کے مرتبہ پر ہے جنہیں عیسائی ولد اللہ خیال کرتے ہیں ( کو حقیقت میں خدا کا کوئی بیٹا نہیں ) اگر اس جگہ اضافت مجاز قرار دی
۵۰۱ جائے تو اس کی مثال مولانا روم کا اولیاء اللہ کو استعارہ کے طور پر اطفال الله " قرار - دیتا ہے.وہ فرماتے ہیں :.اولیاء اطفال حق انداے پسر “ (مثنوی مولانا روم) یعنی اے فرزند اولیاء خدا کے بیٹے ہیں ( مستعار طور پر نہ کہ حقیقی طور پر ) حضرت اقدس کے ایک دوسرے الهام أنتَ مِنّى بِمَنْزِلَةِ أَوْلادِ ی میں اولادی کا لفظ مجازی معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے.واضح ہو کہ مجاز میں اس جگہ تشبیہ کا علاقہ سے اور اس جگہ خدا کا کوئی حقیقی بیٹا موجود نہیں جو مشبہ بہ ہو.حالانکہ اطفال اللہ کا مشبہ بہ ضرور کوئی ہے.یہ مشبہ بہ انسان کے اطفال ہیں.جن کے ساتھ اولیاء اللہ کو اطفال حق کہہ کر تشبیہ دی گئی ہے.اور مراد اس تشبیہ سے یہ ہے کہ جس طرح باپ اپنے اطفال سے محبت رکھتا ہے اور ان کی تربیت اور حفاظت کرتا ہے.اسی طرح خدا اولیاء اللہ سے محبت رکھتا ہے اور ان کی خاص تربیت اور نگرانی کرتا ہے پس اگر الہام أَنْتَ مِنَى بِمَنْزِلَةِ وَلَدِی میں اضافت مجاز قرار دی جائے تو ولدی سے مراد مجازی ولد ہو گا.یعنی حضرت عیسی علیہ السلام جنہیں مجازی طور پر یہ محاور وبائبل انجیل میں خدا کا فرزند قرار دیا گیا ہے.(برق صاحب انا جیل میں اپنی کتاب "دو اسلام " کے مطابق کسی تحریف کے قائل نہیں) اور الہام کے معنی یہ ہوں گے کہ تو میری طرف سے میرے مجازی فرزند حضرت عیسی علیہ السلام کے مرتبہ پر ہے.یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کا مثیل ہو کر امت محمدیہ کا مسیح موعود ہے.یاد رہے کہ دونوں صورتوں کی اضافت میں مشبہ بہ کے لئے خدا کا حقیقی فرزند ہونا ضروری نہیں جس سے ولدی کا استعارہ کیا گیا ہو بلکہ مشبہ بہ دونوں صورتوں میں انسان کا حقیقی ہینا ہے.یہی حال اس حدیث کا ہے جس میں الخلق عيالُ اللہ کے الفاظ وارد ہیں.(مشكوة باب الشفقة والرحمة على الخلق) اس حدیث میں مخلوق کو استعارہ کے طور پر عیال اللہ کہا گیا ہے.اور چونکہ خدا کی کوئی حقیقی
۵۰۲ عیال موجود نہیں جو مشبہ یہ ہو سکے اس لئے انسان کی عیال مشبہ یہ ہے اور مراد اس جگہ عیال اللہ میں تشبیہ سے یہ ہے کہ جس طرح باپ اپنے عیال کا نگران اور مرغی ہوتا ہے اور ان سے شفقت کا سلوک کرتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ اپنی مخلوق کا مربی اور عمران ہے اور ان کے لئے باپ کی طرح شفیق.پس محد يم العام أنتَ مِنِّي بمنزلة ولدى كا مفقود نہیں.فتدبر.نہیں.فتدبّر.سوال سوم 66, ج: - برق صاحب اس کے بعد الهام با مریم اسكن پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مریم مونث ہے اس کے لئے اُسکنی چاہیئے تھا.“ (حرف محرمانہ صفحہ ۳۲۵) الجواب الہام میں مریم کا لفظ مذکر کے لئے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے اس لئے اسکن مذکر کا استعمال ہی ضروری تھا سورہ تحریم میں اعلیٰ درجہ کے مومنوں کو حضرت مریم صدیقہ سے ہی تشبیہ دی گئی ہے.جیسا کہ فرمایا "وَضَرَبَ اللهُ مثلاً لِلَّذِينَ آمَنُوا.ومريم بنت عمران - کہ خدا نے مومنوں کی مثال عمران کی بیٹی مریم سے دی ہے.اس الہام میں اُسکن مذکر کے استعمال کے متعلق خود حضرت سیح موعود تحریر فرماتے ہیں :- " عبارت کا سیاق دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ مریم سے ام عیسی مراد نہیں اور نہ آدم سے آدم اب البشر یہی عاجز مراد ہے.اب اس جگہ مریم کے لفظ سے کوئی مونث مراد نہیں.بلکہ مذکر مراد ہے.تو قاعدہ یہی ہے کہ اس کے لئے صیغہ مذکر ہی لایا جائے یعنی یا مریم اسکن کہا جائے نہ کہ یا مریم اسکنی.ہاں اگر مریم کے لفظ سے کوئی مونث مراد ہوتی تو پھر اس جگہ اسکنی آتا.لیکن اس جگہ تو صریح مریم
۵۰۳ مذکر کا نام رکھا گیا ہے اس لئے بر عائت مذکر مذکر کا صیغہ آیا.اور یہی قاعدہ ہے جو نحویوں اور صرفیوں میں مسلم ہے.کسی کو اس میں اختلاف نہیں.“ (مکتوبات احمد یہ جلد اصفحہ ۸۳ ۸۲ محط منام میر عباس علی صاحب) پس برق صاحب نے ان الفاظ پر تمسخر کا جو طریق اپنی کتاب میں اختیار کیا ہے جسے ہم نے نقل نہیں کیا وہ ان کی شان کے مناسب نہیں تھا.سوال چهارم میں برق صاحب تحریر فرماتے ہیں :- ” سارے قرآن کو الحمد سے والناس تک پڑھ جائیے حضور نے کہیں بھی اپنی رسالت کے ثبوت میں کوئی معجزہ نہیں دکھایا.اور نہ ہی کوئی تحدی کی.اگر کہا تو صرف اتنا ہی کہ میں ولادت سے تمہارے درمیان رہا ہوں میری زندگی پر نظر ڈالو یا یہ که اگر اس قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں کوئی شک ہے تو ایک ہی سور قنا لاؤ." ( حرف محرمانه صفحه ۳۲۵ و صفحه ۳۲۶) الجواب معلوم ہوتا ہے کہ جناب برق صاحب صحیح احادیث نبویہ میں آنحضرت کے مذکورہ معجزات کے قائل نہیں (کیونکہ وہ حدیثوں کے منکر ہیں اور صرف اپنے مطلب کی حدیثیں مانتے ہیں ) نیز معلوم ہوتا ہے کہ وہ قرآن شریف کو اعجازی کلام نہیں سمجھتے تبھی تو انہوں نے لکھا ہے کہ حضور نے کہیں بھی اپنی رسالت کے ثبوت میں کوئی معجزہ نہیں دکھایا.حالانکہ خدا تعالیٰ قرآن شریف کے معجزہ ہونے کو بڑی تحدی کے ساتھ مخالفین اسلام کے سامنے پیش کرتا ہے.اور اس کی مثل لانے کا چیلنج دے رہا ہے.اس سے بڑھ کر کیا تحدی اور معجزہ ہو سکتا ہے.کہ اللہ تعالیٰ
۵۰۴ فرماتا ہے قُلْ لَئِنِ اجْتَعَمَتِ الاِنُسُ وَالْجِنُّ عَلَى اَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا القُرْآن لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً (بنی اسرائیل : ۸۹) یعنی کہہ دو کہ اگر تمام انس و جن جمع ہو کر اس قرآن کی مثل لانا چاہیں تو وہ اس کی مثل نہیں لا سکیں گے.خواہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہوں.اور پھر یہ بھی فرماتا ہے : - فَإِن لَّمْ يَسْتَحِبُو الكُمْ فَاعْلَمُو إِنَّمَا أُنزِلَ بِعِلم الله ( ہود : ۱۴۴) یعنی اگر وہ اس چیلنج کا جواب نہ لائیں تو تم جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوا ہے.مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ اگر اس چیلنج کے مقابلہ میں مخالفین اسلام قرآن کی مثل لانے سے عاجز آجائیں تو یہ امر اس بات کی دلیل ہو گا کہ یہ اللہ کے علم سے اتارا گیا ہے اور محمد رسول اللہ علے بچے نبی ہیں.معجزہ نبی سے ایسے امر کے صدور کو ہی کہتے ہیں جس کے صادر کرنے پر مخالفین نبی کے مقابلہ میں قادر نہ ہو سکیں.پس خود قرآن کریم بھی آنحضرت ﷺ کا ایک معجزہ ہے اور متحدیانہ معجزہ ہے.اور قیامت تک کے لئے معجزہ ہے.لہذا برق صاحب کا یہ بیان غلط ثابت ہوا کہ حضور نے کہیں بھی اپنی رسالت کے ثبوت میں کوئی معجزہ نہیں دکھایا اور نہ ہی کوئی تحدی کی.“ وَكَا مِّن مِّنْ آيَةٍ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ.،، (یوسف : ۱۰۶) سوال پنجم جناب برق صاحب لکھتے ہیں :- "مرزا صاحب کے الہامات میں جو ہیں اجزاء پر مشتمل ہیں حیات انسانی کا کوئی لائحہ عمل نہیں ملتا.ان میں نہ صوم صلوۃ کا ذکر ہے نہ حج وزکوۃ کا نہ مسائل نکاح و طلاق کا نه وراثت ارضی نہ تمکن فی الارض کا نہ جہاد وصدقات کا نہ حلال و حرام کا
الا ما شاء اللہ ان میں ہے کیا ستر فیصدی مسیح موعود کی تعریف کہ تو میرا لیتا ہے.تیری نسل تجھ سے شروع ہو گی اور باقی بھارات وغیرہ.تاریخ انسانی کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ اللہ نے رسول بھیج کر الہام کی ساری مشینری اس کے لوصاف تراشنے پر لگادی اور مخلوق کو وہ بالکل بھول گیا.“ الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۲۷ و صفحه ۳۲۸) جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ دعوئی ہی نہیں کہ آپ تشریعی نبی ہیں تو صوم الصلوۃ، حج و ز کا ہی بیات، طلاق اور حلال و حرام کے متعلق کوئی نئی شریعت آپ پر کس طرح نازل ہو سکتی تھی.بے شک آپ کے الہامات میں آپ کی تعریف بھی ہے مگر ان میں بہت سی بشارات ہیں وہ سب مخلوق کے فائدہ کے لئے ہیں بشر طیکہ کوئی ان کی طرف سے آنکھیں پر نہ کرلے.بشارتیں کوئی معمولی چیز نہیں ہو تیں کیونکہ وہ پوری ہونے پر خدا کی ہستی پر زنده یقین پیدا کرتی ہیں اور اسبات کا بھی یقین دلاتی ہیں کہ اب اسلام کے دوبارہ غالب آنے کا وقت آگیا ہے.اس لئے مسلمانوں کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے.اور تبلیغ اسلام کے ذریعہ دنیا کو مسلمان بنا لینا چاہیئے.اصل بات یہ ہے کہ جناب برق صاحب کے نزدیک نبوت غیر تشریعی ہوتی صلى الله ہی نہیں حالانکہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں :- لم يبق من النبوة إلا المبشرات يَبْقَ مِنَ کہ اب نبوت میں سے مبشرات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا نمبر :- " تو میرا بیٹا ہے“.ہر گز حضرت مسیح موعود کا الہام نہیں.بلکہ برق صاحب کا حضرت مرزا صاحب پر افتراء ہے.
۵۰۶ د عولی مبشرات والی نبوت پانے کا ہی ہے نہ کہ اس نبوت کا جو باقی نہیں رہی.سوال ششم نمبرا : برق صاحب ایک الهام نقل کرتے ہیں :- آسمان سے بہت سا دود اترا ہے محفوظ رکھ.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۰۲) اور نیچے لکھتے ہیں :- دود = دھواں اردو کے سادہ سے جملے میں فارسی کا یہ بھاری بھر کم لفظ گویا صحن چمن میں بھینسا باندھ دیا گیا ہے.اور زیادہ عجیب یہ کہ دھواں ہمیشہ آسمان کی طرف جاتا ہے اور یہاں آنے کی خبر دی گئی ہے.اسے محفوظ رکھ.کیا مطلب؟" الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۲۹) برق صاحب کی صحن چمن میں بھینسا باندھنے کی محاورہ آفرینی و محاورہ بندی کا اصل الہام کے الفاظ سے دُور کا بھی واسطہ نہیں.کیونکہ اصل الہام یوں ہے :- آسمان سے بہت سا دودھ اترا ہے محفوظ رکھو.“ اور نیچے اس کا مفہوم یہ لکھا ہے :- آسمان سے بہت سا دودھ اترا ہے یعنی معارف و حقائق کا دورہ.“ پس الہام اور اس کی تشریح دونوں میں دودھ کا لفظ لکھا ہوا موجود ہے جس کے معنے فارسی میں شیر ہیں.نہ کہ دود“ کا لفظ جس کے معنی اردو میں دھواں ہوتے ہیں جب الہام میں دود ( فارسی لفظ بمعنی دھواں) موجود ہی نہیں بلکہ اردو کا لفظ دودھ ہے.تو ”دودھ “ کے لفظ کو ”دود“ بنا کر صحن چمن میں بھینسا تو خود برق صاحب کے باندی ہے.
۵۰۷ اور الزام حضرت اقدس پر ایسا کرنے کا لگاتے ہیں.اس الہام میں آسمانی علوم کو تشبیہ دے کر دودھ سے استعارہ کیا گیا ہے.اور حقائق و معارف کے لئے ”دودھ " سے بڑھ کر کوئی اچھا مشبہ بہ نہیں ہے.معراج میں آنحضرت مے کو دودھ اور پانی پیش کیا گیا.اور آپ نے دودھ اختیار کیا.جس پر فرشتہ نے کہا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے.اگر پانی کو اختیار کرتے تو آپ کی ساری امت تباہ ہو جاتی.پس دودھ سے مراد وہ معرفت و علم ہے جس سے فطرت انسانی کی تربیت ہوتی ہے.جناب برق صاحب نے اپنی کتاب کے خاتمہ میں صفحہ ۳۳۲ پر لکھا ہے :- ” ہمارا آغاز سے ارادہ تھا کہ ہم اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ نگاہ ڈالیں.کہیں تحریف نہ کریں کسی عبارت کو مصنف کی منشاء کے خلاف مسخ نہ کریں.اور کوئی دل آزار لفظ ساری کتاب میں داخل نہ ہونے دیں.الحمد للہ کہ ہم ان ارادوں میں کامیاب رہے ہیں.“ ہم ان کی خود سرائی کے متعلق کیا کہمیں :- قیاس کن زگلستان من بیمار مرا " " 66 برق صاحب کیا دودھ کو دود" بنادینا حضرت اقدس کے واضح منشاء کے خلاف نہیں.حضرت اقدس نے تو اسے حقائق و معارف کا دودھ “ قرار دیا ہے.اب بتائیے دودھ کو دود" لکھ کر دھواں قرار دینا منشائے متکلم کو مسخ کرنا ہے یا نہیں ؟ " " انصاف.انصاف.انصاف.جناب برق صاحب آپ الحمد اللہ کس بات پر کہتے ہیں استغفر اللہ کیسے تا خدا آپ کا یہ گناہ معاف کرے.نمبر ۲ : - "بہت سے سلام میرے تیرے پر ہوں.اس پر اعتراض کیا ہے.
۵۰۸ فقرے کی موجودہ بناوٹ کافی مضحکہ خیز ہے.”بہت سے “ یہاں” سے کا کو نسا موقعہ ہے."میرے سلام " کی جگہ " سلام میرے کیوں ؟ تقدیم مضاف الیہ کی کوئی وجہ ہونی چاہئے." تجھ پہ " کی جگہ " تیرے پر " معمل ہے." تیرا ضمیر اضافت ہے.اس کے ساتھ مضاف الیہ کا ہونا ضروری ہے.“ الجواب یہ الہام خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے پسندیدہ اسلوب میں نازل فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود اہل پنجاب کے اسلوب کے مطابق ”تجھ پر “ کی بجائے تیرے پر “اور ” مجھ پر “ کی بجائے ” میرے پر “ کے الفاظ استعمال فرماتے تھے.اور ان کا استعمال حذف مضاف کرتے تھے.یعنی " تیرے وجود پر “ اور ” میرے وجود پر “ چونکہ آپ کو اردو زبان میں ان الفاظ کا استعمال پسند تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے آپ سے " محبت کے اظہار کے لئے آپ کے اس پسندیدہ اسلوب پر زیر حث الهام نازل فرمایا.چونکہ اردو زبان کئی زبانوں کے الفاظ سے وجود میں آئی ہے اور اس میں پنجابی کے الفاظ سب سے زیادہ استعمال ہوئے ہیں اس لئے اس میں پنجابی اسلوب کلام کے استعمال کو نا جائز قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں.خصوصاً اہل پنجاب کے لئے.”بہت “ کے لفظ کے ساتھ ” سے “ کا استعمال اس جگہ فصیح ہے کیونکہ اس جگہ ”سلام کی کیفیت معنوی کے ساتھ اس کی کمیت پر کثرت بھی مراد ہے اسی لئے اس کے نیچے اس کے ترجمہ میں بکثرت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے پھر لفظ ”سلام “اس جگہ مضاف نہیں بلکہ ” میرے “ مضاف الیہ کا مضاف اس جگہ محذوف ہے جو لفظ سلام ہے اور اس سے پہلے ”بہت سے سلام“ کے الفاظ اس کے لئے قرینہ ہیں پس مضاف کو مضاف الیہ سے پہلے لانے کا اعتراض ہی پیدا نہیں ہو سکتا.وو تیرے پر " میں تیرے کے بعد اس کا مضاف لفظ "وجود " محذوف ہے یعنی
۵۰۹ مراد ہے " تیرے وجود پر ".لہذا " تجھ پر " کی جگہ " تیرے پر " معمل یعنی بے معنی نہ ہوا.رہا ر ق صاحب کا اس الہامی فقرہ کو مضحکہ خیز قرار دینا سو یہ امران کی طرف سے کوئی عجیب بات نہیں.کیونکہ خدا تعالی اور اس کے انبیاء کے کلام پر جنسی اڑانا ہمیشہ سے منکرین کا شیوہ رہا ہے.تبھی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَا حَسَرَةٌ عَلَى العِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وَنَ - ☆☆☆ انگریزی زبان کے الہامات (يس: ۳۱) برق صاحب الہامات غلط زبان میں “ کے عنوان کے تحت حضرت مسیح موعود کے چھ الهامات درج کئے ہیں.جو انگریزی زبان میں ہوئے.اور یہ نہیں بتایا کہ ان کے نزدیک ان الہامات میں کیا غلطی ہے.البتہ ان الہامات کے آخر میں آپ نے اپنی کتاب حرف محرمانه صفحه ۳۳۲ پر چشمه معرفت صفحہ ۲۵۹ سے یہ عبارت درج کی ہے.یہ بالکل لغو اور یہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی اور ہو.اور الہام " 66 اس کو کسی اور زبان میں ہو.“ جناب برق صاحب چشمہ معرفت کی اس عبارت کی رو سے گویا حضرت مسیح موعود کے الفاظ سے ہی آپ پر نکتہ چینی کر رہے ہیں.کہ چونکہ آپ کی اصل زبان انگریزی نہ تھی اس لئے بقول آپ کے آپ پر انگریزی الہامات کا نازل ہو نا ایک لغو اور یہودہ امر ہے.جناب برق صاحب نے چشمہ معرفت کی یہ عبارت پیش کر کے کہیں کی
۵۱۰ اینٹ کہیں کا روڑا جوڑ کر اپنا مطلب سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے.حالانکہ چشمہ معرفت کی یہ عبارت آریوں کے اس خیال کے رد میں ہے کہ خدا تعالیٰ انسانی زبان میں کلام نہیں کرتا بلکہ اپنے رشیوں پر خود اپنی زبان سنسکرت میں کلام کرتا رہا ہے.آریوں کے اس خیال کے رد میں ہی اوپر کی عبارت لکھی گئی ہے.حضرت اقدس کو جو الہامات ہوئے ہیں وہ تو سب انسانی زبان میں ہوئے ہیں.ایسا نہیں ہوا کہ خدا تعالٰی نے ایسی زبان میں کلام کیا ہو جسے کوئی نہ جانتا ہو.پس برق صاحب نے چشمہ معرفت کی اس عبارت کو اس جگہ خلاف منشائے متکلم جوڑا ہے.چونکہ انہوں نے انگریزی الہامات کے متعلق زبان کی کسی غلطی کی طرف اشارہ نہیں کیا اس لئے ان کے بارہ میں یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ یہ تمام الہامات زبان کے لحاظ سے درست ہیں اور عظیم الشان حقائق پر مشتمل ہیں.چنانچه الهام اول ”we can what we will do“ بتاتا ہے کہ خدا ہر شے پر قادر ہے.اس میں لفظ "کین قدرت مطلقہ کے لئے ہے نہ کسی خاص فعل کے اظہار کے لئے.اور الہام دوم 66 " Though all men should be angry, God is with you.He shall help you.Words of God not can exchange." بتاتا ہے کہ اور تمام دنیا بھی تم سے ناراض ہو تو خدا پھر بھی تمہاری تائید کرے گا.اور تمہاری مدد کرے گا یہ خدا کے الفاظ ہیں جو تبدیل نہیں ہو سکتے.آخری فقرہ کا ترجمہ یہ ہر گز نہیں کیا گیا خدا کے کام بدل نہیں سکتے.بلکہ یہ کہا گیا ہے ”خدا کی باتیں بدل نہیں سکتیں.مراد یہ ہے کہ مدد کا وعدہ ضرور پورا ہو گا.(براہین صفحہ ۵۵۴) انگریزی کا نقره ناٹ کمین اینچ در اصل کین ٹاٹ ایکسچینج ہے.اسے برق
۵۱۱ صاحب نے خود غلط درج کر دیا ہے.انگریزی زبان میں ایکھینچ کا لفظ چینج کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے.دیکھئے آکسفورڈ ڈکشنری اور ڈکشنری Marreys.علاوہ ازیں ایکسچینج کا لفظ انٹر چینج کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.اگر اس لحاظ سے الہام کے الفاظ کو دیکھا جائے تو الہام کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالی کے الہامی الفاظ آپس میں تبدیل نہیں ہو سکتے اور مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس قدر افصح اور اہلغ ہوتا ہے کہ اس کا ہر لفظ اپنی جگہ پر نہایت موزون ہو تا ہے.اگر کسی لفظ کو اپنی جگہ سے ہٹا کر اس کی جگہ دوسر الفظ ر کھا جائے تو عبارت کا مفہوم بگڑ جائے گا.وو الهام : - ".You have to go Amritsar میں امر تسر سے پہلے ٹو کا لفظ سو کتابت سے رہ گیا ہے.چنانچہ اس الہام سے قبل اس الہام سے بالکل مشابہ الہام ان الفاظ میں ہو چکا تھا.”دین ول یو گوٹو امر تسر.اس جگہ گو“ کے ساتھ ”ٹو کا استعمال موجود ہے.(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۷۰ ،۴۶۹، بر حاشیہ نمبر ۳ و تذکره صفحه ۵۴) الهام.He haults in Peshawer پورا الہام درج نہیں کیا گیا.پورا الهام یوں ہے.ہی بائٹس ان دی ضلع پشاور.آکسفورڈ ڈکشنری Zilla کے معنی Kdminstratiue dirtrich لکھے ہیں.اس طرح پس ضلع کا لفظ انگریزی زبان میں اپنایا جا چکا تھا.الهام ".God is coming by his army“ گاڈ از کمنگ بائی ہر آرمی.“ اس الہام کا مفہوم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی افواج کے ذریعہ آرہا ہے یعنی خدا کا آنا بذریعہ افواج ( ملائکہ ) ہو گا.علاوہ ازیں بائی (By) کا لفظ ودھ (With) کے معنوں میں بھی
۵۱۲ استعمال ہوتا ہے.چنانچہ انگلش ڈائلیسٹ ڈکشنری میں لکھا ہے.I will go if you go by me.میں جاؤں گا اگر تم میرے ساتھ جاؤ گے.دوسرا فقرہ یوں ہے..Come along by me میرے ساتھ آؤ.الهام :- I shall give you a large party of Islam.(ترجمہ) میں تمہیں اسلام کی ایک بڑی جماعت دوں گا.اس الہام کے مطابق حضرت مسیح موعود کو مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت دی گئی ہے.الهام :- ”.I am quarreler“ آئی ایم کو رلر.یہ الهام براہین احمدیہ صفحہ ۴۷۹ پر موجود نہیں بلکہ صفحہ ۴۷۲ پر درج ہے.اور اس کے بارے میں حضرت اقدس فرماتے ہیں." مولوی ابو عبد اللہ غلام علی صاحب قصوری جن کا ذکر اخیر حاشیه در حاشیه نمبر ۲ میں درج ہے.الہام اولیاء اللہ کی شان میں کچھ شک رکھتے تھے.اور یہ شک ان کی بالمواجه تقریر سے نہیں بلکہ ان کے رسالے کی بعض عبارتوں سے مترشح ہو تا تھا.سو کچھ عرصہ ہوا ان کے شاگردوں میں سے ایک صاحب نور احمد نامی جو حافظ اور حاجی بھی ہیں، بلکہ شاید کچھ عربی دان بھی ہیں اور واعظ قرآن ہیں.اور خاص امر تسر میں رہتے ہیں.اتفاقاً اپنی درویشانہ حالت میں سیر کرتے ہوئے یہاں بھی آگئے.ان کا خیال الہام کے انکار میں مولوی صاحب کے انکار سے کچھ بڑھ کر معلوم ہو تا تھا.اور بر ہمو سماج والوں کی طرح صرف انسانی خیالات کا نام الہام رکھتے تھے.چونکہ وہ ہمارے ہی یہاں
۵۱۳ ٹھہرے.اور اس عاجز پر انہوں نے خود آپ ہی یہ غلط رائے جو الہام کے بارے میں تھی مدعیانہ طور پر ظاہر کر دی.اس لئے بہت رنج گذرا.ہر چند معمولی طور پر سمجھایا گیا.کچھ اثر مترتب نہ ہوا.آخر توجہ الی اللہ تک نوبت پہنچی.اور ان کو قبل از ظهور پیشگوئی بتلایا گیا کہ خداوند کی حضرت میں دعا کی جائے گی.کچھ تعجب نہیں کہ وہ دعا بیائے اجابت پہنچ کر کوئی ایسی پیشگوئی خداوند ظاہر فرمائے جس کو تم چشم خود دیکھ جاؤ.سو اس رات اس مطلب کے لئے قادر مطلق کی جناب میں دعا کی گئی علی الصباح بنظر کشفی ایک خط دکھایا گیا.جو ایک شخص نے ڈاک خانہ میں بھیجا ہے.اس مخط پر انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے آئی ایم کو ر لر اور عربی میں لکھا ہے ھذا شاهد نزاغ.اور یہی الہام حکایت عن الكاتب القاء کیا گیا.اور پھر وہ حالت جاتی رہی.چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا.اس جہت سے پہلے علی الصباح میاں نور احمد صاحب کو اس کشف اور الہام کی اطلاع دے کر اور اس آنے والے خط سے مطلع کر کے اور پھر اسی وقت ایک انگریزی خوان سے اس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے.تو معلوم ہوا کہ اس کے یہ معنی ہیں.کہ میں جھگڑنے والا ہوں.سو اس مختصر سے فقرہ سے یہ معلوم ہو گیا کہ کسی جھگڑے کے متعلق کوئی محط آنے والا ہے.اور ھذا شاهد نزاغ.اور جو کاتب کی طرف سے دوسرا فقرہ لکھا ہوا دیکھا تھا.اس کے یہ معنے کھلے کہ کاتب مخط نے کسی مقدمے کی شہادت کے بارہ میں وہ خط لکھا ہے اس دن حافظ نور احمد صاحب باعث بارش باران امر تسر جانے سے روکے گئے.اور در حقیقت ایک سادی سبب سے ان کا روکا جانا بھی قبولیت دعا کی ایک خبر تھی.تاوہ جب کہ ان کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کی درخواست کی گئی تھی پیشگوئی کے ظہور کو بچشم خود دیکھ لیں.غرض اس تمام پیشگوئی کا مفہوم سنادیا گیا.شام کو ان کے روبرو پادری رجب علی صاحب مهستم و مالک مطبع سفیر ہند کا ایک خط بذریعہ رجسٹری امر تسر سے آیا.جس سے معلوم ہوا کہ پادری صاحب
۵۱۴ نے اپنے کتاب کے کاتب پر جو اسی کتاب کا کا تب ہے.عدالت خفیفہ میں نالش کی ہے.اور اس عاجز کو ایک واقعہ کا گواہ ٹھہر لیا ہے.اور ساتھ اس کے ایک سرکاری سمن بھی آیا.اس خط کے آنے کے بعد وہ فقرہ الہامی یعنی هذا شاهد نزاغ.جس کے یہ معنے ہیں کہ یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے.ان معنوں پر محمول ہوا.کہ مہتم مطبع سفیر ہند کے دل میں یہ یقین کامل یہ مرکوز تھا کہ اس عاجز کی شہادت جو ٹھیک ٹھیک اور مطابق واقعہ ہو گی.باعث وثاقت اور صداقت اور نیز با اعتبار اور قابل قدر ہونے کی وجہ سے فریق ثانی پر تباہی ڈالے گی.اور اسی نیت سے مہتم مذکور نے اس عاجز کو ادائے شہادت کے لئے تکلیف بھی دی اور سمن جاری کرایا.اور اتفاق ایسا ہوا کہ جس دن یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور امر تسر جانے کا سفر پیش آیا وہی دن پہلی پیشگوئی کے پورا ہونے کا دن تھا.سو وہ پہلی پیشگوئی میاں نور احمد کے ذریعہ پوری ہو گئی.یعنی اسی دن جو اس دن کے بعد کا دن تھا.روپیہ آگیا اور امر تسر بھی جانا پڑا.“ نوٹ : یعنی ”اسی دن“ کے الفاظ سے جس پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے وہ اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيب في شائیل مقیاس دن ول یو گوٹو امر تسر ہے.جس کا ذکر آگے تفصیل سے آئے گا.کہ مراد اس سے یہ تھی.کہ اس دن کے بعد روپیہ آئے گا.اور تب تم امر تسر جاؤ گے.الهام I am by Isa.He is with you to kill enemy.آئی ایم بائی عیسی.ہی از ودھ یوٹو کل انیمی.یہ دو الگ الگ الہام ہیں جن کو برق صاحب نے ایک بنا کر دکھایا ہے.حالانکہ دوسرے الہام کا تعلق God is coming by his army گاڈ از
۵۱۵ کمنگ بائی ہر آرمی.“ سے ہے.اس کے بعد فقرہ الہام ہوا تھا :- He is with you to kill enemy.ہی از دودھ یوٹوکل اٹیمی" یعنی خدا تعالی اپنی فوج کے ذریعہ آ رہا ہے.وہ دشمن کو ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے." آئی ایم بائی عیسی کے الہام.”.I am by Isa“ کے متعلق حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- ایک دفعہ صبح کے وقت بنظر کشفی چند ورق مجھے ہوئے دکھائے گئے جو کہ ڈاکخانہ سے آئے ہیں اور آخر پر ان کے لکھا تھا.am by Isa ایعنی میں میسی کے ساتھ ہوں.چنانچہ وہ مضمون کسی انگریزی خواں سے دریافت کر کے دو ہندو آریہ کو بتایا گیا.جس سے یہ سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص عیسائی یا عیسائیوں کی طرز پر دین اسلام کی نسبت کچھ اعتراض چھپوا کر بھیجے گا.چنانچہ اس روز ایک آریہ کو ڈاک آنے کے وقت ڈاکخانہ میں بھیجا گیا تو وہ چند چھپے ہوئے ورق لایا.جس میں عیسائیوں کی طرز پر ایک صاحب خام خیال نے اعتراضات لکھے تھے.“ عجیب قرار داده الهامات ملاحظه بر امین احمد یه بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) اس کے بعد برق صاحب نے " عجیب الہامات “ کے عنوان کے تحت حرف محرمانه صفحه ۲۴، ۳۲۳ پر بعض الهامی فقرات درج کئے ہیں.اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا.وہ الہامات مع مفہوم درج ذیل ہیں.ا.میں نماز پڑھوں گا اور روزور کھوں گا.“
۵۱۶ اصل الهام عربی زبان میں اصلی و اصوم ہے.اس جگہ صلوۃ کے معنی آت قرآنية هو الذى يصلى عليكم احزاب (۴۲،۶) خدا تم پر خاص رحمت بھیجتا ہے.“ کے مطابق خاص رحمت کے ہیں.پس اس الہام کا مفہوم یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تم پر خاص رحمتیں نازل کروں گا.اور عام لوگوں سے اپنے عذاب کو روک لوں گا.خدا کی صلوۃ اس کے خاص رحمت بھیجنے کے معنی رکھتی ہیں.اور صلوۃ کے معنی لغت عربی میں آگیا مُسَاكُ عَنِ الفِعْل بھی ہیں.یعنی کام سے رکنا اور یہی اس جگہ مراد ہیں اور صلوٰۃ کی مناسبت سے اس جگہ صوم کے معنی عذاب سے رکنا ہیں.۲." تو ہمارے پانی سے ہے اور وہ یہ دلی سے ہیں." (انجام آتھم صفحہ ۵۵) یہ الہام عربی زبان میں ان الفاظ میں ہوا تھا انتَ مِنْ مَاءٍ نَا وَهُم مِن فَشل اور اس کی تشریح اسی جگہ یہ درج ہے.،، اس جگہ پانی سے مراد ایمان کا پانی، استقامت کا پانی، تقویٰ کا پانی ، وفا کا پانی، صدق کا پانی، حب اللہ کا پانی ہے جو خدا سے ملتا ہے.اور فشل بز دلی کو کہتے ہیں جو شیطان (انجام آتھم حاشیه صفحه ۵۶) سے آتی ہے.“ ۳."بابو الہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے." ( تتمہ حقیقت الوحی صفحہ ۴۳) اصل الهام عربی زبان میں یوں ہے.يُرِيدُونَ أَن يَر وَ اطْمَتَكَ وَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُرِيكَ إِنْعَا مَة أَلَّا نُعَامَاتَ الْمُتَوا يَرَةَ “ یر اس کی تشریح میں حضرت اقدس فرماتے ہیں.یعنی بابو الہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اور ناپاکی پر اطلاع پائے مگر خدا تعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے.“ جناب برق صاحب نے اس عبارت کا اگلا فقرہ یا کسی پلید ی اور ناپاکی پر اطلاع پائے." حسب عادت دانستہ حذف کر دیا ہے.اس میں طمت کے مرادی معنی
۵۱۷ بیان کر دئیے گئے تھے.جھوٹ کو جو ایک ناپاکی ہے حدیث نبوی میں بھی حیض قرار دیا گیا ہے.یہ حدیث بروائت سلمان یوں وارد ہے.الكذبُ حَيْضُ الرَجُل وَ الاستغفارُ طهارته (دیلمی صفحہ ۱۶ اسطر ۱۷) یعنی جھوٹ مرد کا حیض ہے اور استغفار اس کی طہارت ہے.تفسیر روح البیان جلد ا صفحہ ۳۳۶ میں لکھا ہے.كما إِنَّ لِلنِّساءِ مَحْيُضًا فِى الظَّاهِرِ وَ هُوَ مُوجِبُ نَقُصَانِ إِيمَانِهِنَّ لِمَنْعِهِنَّ عَنِ الصلوة والصَّوْمِ فَكَذَالِكَ للرِّجَالِ مَحْيِضُ فِي البَا طَنِ وَ هُوَ مُوجِبُ نُقْصَانِ اِيْمَا نِهِمْ لَمَنْعِهِمْ عَنْ حَقِيقَةِ الصَّلوةِ یعنی جیسے عورتوں کے لئے ظاہر میں حیض ہے جو انہیں نماز اور روزہ سے روک دینے کی وجہ سے ان میں ایمان کے نقصان کا موجب ہے.ایسے ہی مردوں کے لئے باطن میں حیض ہے.جو انہیں نماز کی حقیقت سے روکنے کی وجہ سے ان کے ایمان میں نقصان کا موجب ہے.اس سے ظاہر ہے کہ عیوب کو مردوں کا حیض قرار دیا جاتا ہے اور لہام الہی نے بتایا تھا کہ باید الی شش اور بیچو قسم لوگ آپ کے عیوب کے متلاشی ہیں.اور آپ میں کوئی ناپاکی اور پلیدی نہیں بلکہ خدا آپ کو اپنے انعامات سے نوازے گا.جو متواتر ہوں گے.-۴.قاضی یار محمد کے ٹریکٹ اسلامی قربانی کے متعلق جو کشف برق صاحب نے خدا کے قوت رجولیت کے اظہار کے متعلق بیان کیا ہے اس کی تصدیق حضرت اقدس کی کسی عبارت سے نہیں ہوتی.یہ شخص متحتل الدماغ تھا.اس کی یہ روائت ہمارے نزدیک مردود ہے.اگر حضرت اقدس نے اپنے کسی ایسے کشف کا ذکر فرمایا ہو تا تو کوئی ڈائری نولیس اس کا اخبار میں ذکر کرتا کیونکہ حضرت اقدس کے ملفوظات بطور ڈائری اخبارات سلسلہ میں چھپتے رہتے تھے.اور کشوف ور و یا آپ شائع کر دیتے تھے.اور یہ سب
۵۱۸ تذکرہ میں جمع کر دئیے گئے ہیں.اگر اس کشف کی صحت کا کوئی ثبوت ہو تا تو یہ بھی تذکرہ میں درج کیا جاتا.“I love You”_0 "آئی لویو" یعنی خدا کہتا ہے کہ میں تم سے محبت رکھتا ہوں.نہ معلوم اس الہام میں برق صاحب کو کیا عجیب بات نظر آئی ہے.کیا خدا تعالیٰ کا کسی انسان سے محبت کرنا قابل تعجب ہے.خدا تعالٰی قرآن مجید میں فرماتا ہے :- إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (توبه : ۴) وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران : ۱۴۹) یعنی اللہ تعالیٰ پر ہیز گاروں سے محبت رکھتا ہے.اور اللہ تعالی نیکی کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے..ڈگری ہو گئی ہے مسلمان ہے ؟ ( براہین احمدیہ حاشیه در حاشیه صفحه ۵۲۲) یه الهام براہین احمدیہ حصہ چہارم کے صفحہ ۵۲۲ پر نہیں بلکہ صفحہ ۵۵۳ پر درج ہے اس الہام میں مسلمان ہے “ کا فقرہ استفہامیہ ہے.اس الہام کی تشریح اور تفصیل اسی جگہ یوں درج ہے :- ایک مقدمے میں کہ اس عاجز کے والد مرحوم کی طرف سے اپنے زمینداری حقوق کے متعلق کسی رعیت پر دائر تھا.اس خاکسار پر خواب میں یہ ظاہر کیا گیا کہ اس مقدمہ میں ڈگری ہو جائے گی چنانچہ اس عاجز نے وہ خواب ایک آریہ کو جو کہ قادیان میں موجود ہے، بتلادی.“ (دیکھو تریاق القلوب صفحہ ۳۷) وو پھر بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ اخیر تاریخ پر صرف مد عاعلیہ مع اپنے چند گواہوں کے عدالت میں حاضر ہوا.اور اس طرف سے کوئی مختار وغیرہ حاضر نہ ہو اشام نمبرا : لالہ شرمیت
۵۱۹ کو مدعا علیہ اور سب گواہوں نے واپس آکر بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہو گیا.“ اس خبر کو سنتے ہی وہ آریہ تکذیب اور استہزاء پر اتر آیا اس وقت جس قدر قلق اور کرب گذرا بیان میں نہیں آسکتا.کیونکہ قریب قیاس معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ایک گروہ کثیر کا بیان جن میں بے تعلق آدمی بھی تھے خلاف واقعہ ہو.اس سخت حزن و غم کی حالت میں نہایت شدت سے الہام ہوا کہ جو آپنی میچ کی طرح دل کے اندر داخل ہو گیا اور وہ یہ تھا ڈگری ہو گئی ہے مسلمان ہے.یعنی کیا تو باور نہیں کرتا اور باوجود مسلمان ہونے کے شک کو دخل دیتا ہے.آخر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت ڈگری ہی ہوئی تھی اور فریق ثانی نے حکم کے سنے میں دھوکا کھایا تھا.(بر ہین احمدیہ چهارم مطبوعه ۱۸۸۴ صفحه ۵۵۱ تا ۵۵۳ حاشیه در حاشیہ نمبر ۴) ے.”اے ازلی ابدی خدا بیریوں کو پکڑ کے آ.“ " زندگی کے فیشن سے دور جاپڑے ہیں.“ یہ دونوں الہام قریب اکٹھے ہیں پوری عبارت یوں ہے :- (حقیقۃ الوحی صفحه ۱۰۴) اے ازلی ابدی خدا میں یوں کو پکڑ کے آ.ضاقت الا رُضُ بِمَا رَحُبَتْ رَبِّ إلى مغلوب فالنصيرُ فَسَحِقهُم تَسحيقاً.زندگی کے فیشن سے دور جاپڑے ہیں.ان کا ترجمہ یہ درج ہے :- اے ازلی ابدی خدا میری مدد کے لئے آ.زمین باوجود فراخی کے مجھ پر تنگ ہو گئی.اے میرے خدا میں مغلوب ہوں.میرا انتقام دشمنوں سے لے.پس ان کو پیس ڈال کہ وہ زندگی کی وضع سے دور جا پڑے.“ یہ الہامات اپنے اس مضمون میں صاف ہیں کہ مشکلات میں خدا تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا اور آپ کے دشمن گرفتار ہوں گے انہیں بیڑیاں پڑیں گی اور وہ پیس دیئے
۵۲۰ جائیں گے کیونکہ وہ زندگی کی حقیقی وضع کو چھوڑ چکے ہیں.یعنی چاہیے تو یہ تھا کہ وہ آپ پر ایمان لاتے.مگر وہ تکذیب اور شرارت پر کمر بستہ ہیں.اس لئے ان کا انجام برا ہو گا.۹.اس نمبر پر برق صاحب نے ادھوری عبارت درج کی ہے.پوری عبارت یوں ہے :- خدا نے اپنے الہامات میں میرا نام بیت اللہ بھی رکھا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس قدر بیت اللہ کو مخالف گرانا چاہیں گے اس میں سے معارف اور آسمانی نشانوں کے خزانے نکلیں گے چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ ہر ایک ایذاء کے وقت 66 ضرور ایک خزانہ نکلتا ہے.اور اس بارے میں الہام یہ ہے.یکے پائے من مے بوسید و من میگفتم که حجر اسود منم " (اربعین نمبر ۴ صفحه ۱۶ حاشیه ) خط کشید و الفاظ برق صاحب نے درج نہیں کئے اور آخری حصہ کا ترجمہ درج کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود استثناء عربی صفحہ ۴۱ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں :- قال المعبرون أن المراد من الحجر الاسود في علم الرُّويَا المَرءُ العالم الفقيه الحكيم یعنی خوابوں کی تعبیر کرنے والوں نے کہا ہے کہ علم الرؤیا میں حجر اسود سے مراد ایک عالم فقیہ اور حکیم انسان ہوتا ہے.حدیث میں آنحضرت علیہ حضرت علی کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :- يا على أنت بمنزلة الكعبة - اے علی تو کعبہ کے مرتبہ پر ہے تذکرۃ الاولیاء میں حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں :- ( دیلمی باب الیاء صفحه ۲۱۴) میں مدت تک کعبہ کا طواف کرتا رہا لیکن جب خدا تک پہنچ گیا تو خانہ کعبہ
۵۲۱ میر اطواف کرنے لگا.“ (تذکرۃ الاولیاء باب ۱۴ صفحه ۱۲۲) ۱۰ - برق صاحب لکھتے ہیں :- بتایا.66 الجواب پانچ مارچ ۱۹۰۵ء کو خواب میں ایک فرشتہ دیکھا جس نے اپنا نام پیٹی ٹیچی (حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۳۲ بجائے صفحہ ۲۳۲) برق صاحب کی درج کردہ عبارت محرف مبدل ہے اصل عبارت یوں ہے :- ایک دفعہ مارچ ۱۹۰۵ء کے مہینے میں بوقت قلت آمدنی لنگر خانہ کے مصارف میں بہت دقت ہوئی کیونکہ کثرت سے مہمانوں کی آمد تھی اور اس کے مقابلہ پر آمدنی کم.اس لئے دعا کی گئی.پانچ مارچ ۱۹۰۵ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا میرے سامنے آیا اور اس نے بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا.میں نے اس کا نام پوچھا.اس نے کہا کہ نام کچھ نہیں.میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہو گا.اس نے کہا میر انام ہے بیٹھی.“ اس کے بعد حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- بیٹی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں یعنی مین ضرورت کے وقت پر آنے والا.تب میری آنکھیں کھل گئی.بعد اس کے خدا تعالی کی طرف سے کیا ڈاک کے ذریعہ سے اور کیا براہ راست لوگوں کے ہاتھوں سے اس قدر مالی فتوحات ہو ئیں جن کا خیال و گمان نہ تھا اور کئی ہزار روپیہ آگیا.چنانچہ جو شخص اس کی تصدیق کے لئے صرف ڈاک خانہ کے رجسٹر ہی پانچ مارچ ۱۹۰۵ء سے اخیر سال تک دیکھے اس کو معلوم ہو گا کہ کس قدر روپیہ آیا تھا.“ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ خواب میں نظر آنے والے شخص نے جو فرشتہ معلوم ہو تا تھا اپنا نام ٹیچی نیچی نہیں بتایا تھا بلکہ اپنا اصل نام پو چھا جانے کے جواب میں (حقیقۃ الوحی صفحه ۳۳۲)
۵۲۲ کہا نام کچھ نہیں اور ٹیچی اس نے اپنا صفاتی نام بتایا یعنی وقت مقررہ پر آنے والا.پس نیچی نیچی کا تمرار محض تحریف سے جو تمسخر کے لئے کیا گیا ہے.نمبر ۱۰ کے ہی ذیل میں حیات النبی جلد اول صفحہ ۹۵ کے حوالہ سے برق صاحب نے لکھا ہے.اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے ایک کا نام خیراتی تھا.“ معلوم نہیں اسے عجیب الہامات کے ماتحت برق صاحب نے کیوں نقل کیا ہے.کیا خیراتی نام ان کے نزدیک قابل تعجب ہے.حالانکہ خیراتی عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں نیکیوں والا.خیرات ( عربی لفظ) کے ساتھ یائے نسبت استعمال کر کے اسے ایک فرشتہ کا صفاتی نام بنایا گیا ہے.اسی ذیل میں برق صاحب نے یہ عبارت بھی درج کی ہے.۲۴ فروری ۱۹۰۵ء کو حالت کشفی میں جب کہ حضور کی طبیعت ناساز تھی ایک شیشی دکھائی گئی جس پر لکھا تھا خاکسار پیپر منٹ.“ یہ حضرت اقدس کا ایک کشف ہے.آپ کو ایک شیشی دکھائی گئی جس کے لیبل پر لکھا تھا " خاکسار پیپر منٹ اس کی تعبیر یہ تھی کہ اس بیماری کا جس میں آپ اس وقبت مبتلا تھے علاج پیپر منٹ ہے.جو بطور خاکسار یعنی خادم کے خدمت کرے گا.یعنی اس کے استعمال سے آپ کو صحت ہو جائے گی.پس اس کشف میں بھی کوئی قابل تعجب بات نہیں.ال.دس دن کے بعد موج دکھاتا ہوں.“ (براہین حاشیه در حاشیه صفحه ۴۶۹) پورا الہام یوں ہے.” دس دن کے بعد موج دکھاتا ہوں.آلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ فِي شَايئل مقياس دن دل یو گوٹو امر تسر" اس کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں.
۵۲۳ یعنی دس دن کے بعد روپیہ آئے گا خدا کی مدد نزدیک ہے.جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دم اٹھاتی ہے تب اس کا چہ جنت نزدیک ہوتا ہے ایسا ہی مد دالی بھی قریب ہے اور پھر انگریزی فقرے میں یہ فرمایا کہ جب دس دن کے بعد روپیہ آئے گا تب تم امر تسر بھی جاؤ گے.تو جیسا اس پیشگوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورہ بالا کے روبر ووقوع میں آیا.یعنی حسب منشاء پیشگوئی دس دن تک ایک خرمرہ نہ آیا اور دس دن کے بعد یعنی گیارھویں روز محمد افضل صاحب سپرٹینڈنٹ بید وبست راولپنڈی نے ایک سو دس روپے بھیجے اور نہیں روپے ایک اور جگہ سے آئے اور پھر بر ابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہو گیا جس کی امید نہ تھی اور اسی روز کہ جب دس دن کے گذرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب و غیره کارو پیه آیا امر تسر بھی جانا پڑا کیونکہ عدالت خفیفہ امر تسر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے اس عاجز کے نام اسی روز سمن آ گیا.سودہ یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی مفصل حقیقت پر اس جگہ کے چند آریوں کو مومی اطلاع ہے.اور وہ خوبی جانتے ہیں کہ اس پیشگوئی سے پہلے سخت ضرورت پیش آنے کی وجہ سے دعا کی گئی اور پھر اس دعا کا قبول ہو نا اور دس دن کے بعد ہی روپیہ آنے کی بھارت دیا جانا اور ساتھ ہی روپیہ آنے کے بعد امر تسر جانے کی اطلاع دیئے جانا یہ سب واقعات حقہ اور صحیحہ ہیں.“ (براہین حاشیه در حاشیه صفحه ۴۶۹،۷۰) بعض الہامات پر مہمل ہونے کے اعتراضات کے جوابات جناب برق صاحب نے " معمل العامات " کے عنوان کے تحت حرف محرمانہ کے صفحہ ۲۳۶،۳۵ پر آٹھ الہامات درج کئے ہیں اور آخر میں حضرت مسیح موعود کا ایک ارشاد نقل کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام لغو باتوں سے منزہ ہونا چاہیئے.(ازالہ اوہام ج اول صفحه ۱۵۵)
۵۲۴ گویا برق صاحب موصوف یہ عبارت پیش کر کے ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ الہامات لغو باتوں سے پاک نہیں.یہ لغو بات ان کے نزدیک ان الہامات کا مہمل ہوتا ہے.وہ الہامات یہ ہیں.ا.”خدا کی فیلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۶) معمل کے معنی ہیں بے معنی مگر یہ الہام ہر گز بے معنی نہیں چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود خود اس الہام کے ترجمہ میں فرماتے ہیں.خدا نے وقت کی ضرورت محسوس کی اور اس کے محسوس کرنے اور نبوت کی مر نے جس میں بعدت قوت کا فیضان ہے بڑا کام کیا یعنی تیرے مبعوث ہونے کے دو باعث ہیں.خدا کا ضرورت کو محسوس کرنا اور آنحضرت ﷺ کی مہر نبوت کا فیضان << پھر اس الہام پر حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں.وحی الہی کہ خدا کی فیلنگ اور مہر نے کتنا بڑا کام کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا الله نے اس زمانہ میں محسوس کیا کہ یہ ایسا فاسد زمانہ آ گیا ہے جس میں ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے اور خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی کیونکہ اللہ جلشانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم، بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا.یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی." اس تشریح سے ظاہر ہے کہ یہ الہام معمل نہیں بلکہ ایک عظیم الہ (حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ ۹۶،۹۷) صلى الله حقیقت پر مشتمل ہے جس سے آنحضرت مے کی تمام انبیاء میں امتیازی شان ظاہر
۵۲۵ ہو رہی ہے.العام ۲ : - "بڑے تھوڑے دن رہ گئے ہیں اس دن خدا کی طرف سے سب پر اداسی چھا جائے گی.یہ ہو گا.یہ ہو گا.یہ ہو گا.پھر تیر اواقعہ ہو گا تمام عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا.“ (حقیقۃ الوحی صفحه ۱۰۷،۸) یہ السلام بھی معمل یعنی بے معنی نہیں بلکہ خود حضرت اقدس اس کا مفہوم یہ درج فرماتے ہیں.”زندگی کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں.اس دن سب جماعت دل بر داشتہ اور اداس ہو جائے گی.کئی واقعات کے ظہور کے بعد پھر تیر اواقعہ ظہور میں آئے گا.قدرت الہی کے کئی عجائب کام پہلے کھائے جائیں گے.پھر تمہاری موت کا واقعہ ظہور میں آئے گا.“ (حقیقة الوحی صفحه ۱۰۷،۸) ظاہر ہے کہ یہ الہام آپ کی وفات سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں ” یہ ہوگا.یہ ہو گا.یہ ہو گا.پھر تیر اواقعہ ہو گا کے مجمل الفاظ جنہیں برق صاحب مہمل سمجھتے ہیں کی جامع تشریح خود آگے الہام میں ہی یوں کر دی گئی ہے.کہ تمام عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ یعنی موت کا واقعہ ظہور میں آئے گا.“ یہ ہو گا.یہ ہو گا.یہ ہو گا.کے ہی تین دفعہ تکرار میں اس بات کی طرف بھی اشارہ تھا کہ آپ کی عمر اب تین سال باقی رہ گئی ہے جس میں عجائبات قدرت کے بہت سے واقعات دکھلانے کے بعد تمہاری وفات ہو گی.یہ السلام مئی ۱۹۰۵ء کو ہو اور اس کے بعد ۱۹۰۶ء ۱۹۰۷ء ۱۹۰۸ء ۲۲ مئی تک پورے تین سال آپ زندہ ر ہے.اور اس میں پچاس کے قریب عظیم الشان نشان ظاہر ہوئے جن پر سلسلہ کا لٹریچر گواہ ہے اس کے بعد آپ کی وفات کا حادثہ پیش آیا.
۵۲۶ انالله وانا اليه راجعون.وو الهام ۳ : في شايئل مقياس.“ ،، (حقیقۃ الوحی صفحه ۲۸۰) اس العام سے پہلے یہ الفاظ بھی ہیں.الہام کو معمل دکھانے کے لئے برق صاحب نے یہ الفاظ دانستہ حذف کر دیے ہیں.أَلَا إِنَّ نَصُرَ اللَّهِ قَرِيبٌ اسی جگہ پورے الہام کا ترجمہ بھی یوں درج ہے."خدا کی مدد نزدیک ہے اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دم اٹھاتی ہے تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے.ایسا ہی مدد الہی بھی قریب ہے.“ پس یہ الہام بھی مسمل نہیں بلکہ بامعنی ہے.66 (حقیقۃ الوحی صفحه ۲۸۰) الهام ۴ : ایلی ایلی لما سبقتنی ایلی اوس (براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۳) اس سے پہلے ذیل کا الہام عربی زبان میں ہوا تھا.جسے برق صاحب نے دانستہ حذف کر دیا ہے." " ربِّ اغْفِرْ وَارْحَمُ مِنَ السَّمَاءِ رَبِّ إِنِّي مَغَلُوبُ فَانْتَصِرُ “ اس کے بعد عبرانی میں الہام ہوا تھا ایلی ایلی لما سبقتنی ایلی اوس.اور اس عربی اور عبرانی الہام کے ایک حصہ کا ترجمہ اسی جگہ یوں درج کیا گیا ہے.”اے میرے خدا آسمان سے رحم اور مغفرت کر میں مغلوب ہوں میری طرف سے مقابلہ کراے میرے خدااے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.“ آخرین فقرہ کے متعلق لکھتے ہیں.آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی اوس مباعث سرعت ورود مشتبه ریانه که اس کے کچھ معنے کھلے والله اعلم بالصواب."
۵۲۷ بے شک حضرت اقدس پر اس وقت ایلی اوس کے معنی نہیں کھلے ان معنوں کا اس وقت نہ کھلنا اس حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے الہام خدا کے الفاظ میں بھی نازل ہوتا ہے.نہ یہ کہ جیسا بعض لوگوں کا خیال ہے صرف علم کے دل میں ایک خیال پیدا کیا جاتا ہے.جسے وہ اپنے الفاظ میں بیان کر دیتا ہے الہام ایلی اوس“ بھی عبرانی زبان کا الہام ہے.عبرانی میں "ایلی" کے معنی ہیں میر اخد الور اوس“ کے معنی ہیں باہمی مقابلہ سے مسلسل.اور آہستہ آواز پیدا کرنے والا.اس سے متصل الہام ”ایلی ایلی لما سبقتانی“ بتاتا تھا کہ بظاہر معلوم ہو گا کہ خدا آپ کی مدد پر نہیں مگر الہام کا اگلا فقرہ ایلی اوس بتاتا ہے کہ خدا آپ کا لوگوں سے باہمی مقابلہ کر اگر آپ کی آواز کو مسلسل اور باوقار طریق سے دنیا میں پھیلانے والا ہے." مکمل عبرانی انگریزی ڈکشنری مرتبہ پی آر آرنلڈ لیک -complete he {.brew English Dictionary مطبوعہ منورھا.وی آنا میں اوس کا ترجمہ دیا ہے To Rustle.جس کے معنی آکسفورڈ پاپولر پر میکنیکل ڈکشنری میں اشیاء کی باہمی رگڑ سے صریح اور مسلسل آواز پیدا کرنے کے لکھے ہیں.اوس اسم فاعل کے معنی ہوئے ایسی آواز پیدا کرنے والا پس یہ الہام ربنا عاج" سے معنوی طور پر مشابہ ہے.الهام ۵ : - ربنا حاج “ہمار ا رب حاجی ہے.(حوالہ براہین احمدیہ صفحہ ۵۲۳) حضرت اقدس پر ایسا الہام کوئی نہیں ہوا.اور نہ صفحہ ۵۲۳ براہین احمدیہ میں ایسا کوئی الہام درج ہے ہاں آپ پر ایک الہام ربنا عاج“ ہوا ہے جو براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۵ پر درج ہے حضرت اقدس نے اس کے ترجمہ میں لکھا ہے.”ہمار ارب عاجی ہے.“ لفظ عاجی عجی يَعْجَو سے اسم فاعل ہے عربی میں عَجَت الآمُ الوَلَدَ کے
۵۲۸ معنے ہیں ای سقتُهُ اللَّبَنَ.یعنی ماں نے بچہ کو دودھ پلایا.اور العجوة کے معنے قاموس میں یہ لکھتے ہیں :- لين يُعالج به الصى أَي يُعَدَّى لَبَنُ بِهِ یعنی وہ دودھ جس سے یتیم بچے کی پرورش کی جاتی ہے.اس لغوی تحقیق کے پیش نظر الہام کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تعالٰی قیمی اور بے کسی کی حالت میں روحانی دودھ یا روحانی غذا پہنچانے والا ہے.چنانچہ اس سے پہلا العام رَبِّ اغْفِرُ وَ أَرْحَمُ مِنَ السَّماءِ ان معنوں کی تائید کرتا ہے.پس یہ الہام بھی بے معنی نہیں.66 الهام ۶ : - أَشْكُرُ نِعْمَتِی رَأيتَ حَدِيُحَتی.میرا شکر کر تو نے میری خدیجہ کو پایا.(براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۷) یہ الہام صفحہ ۷ ۵۵ کی بجائے صفحہ ۵۵۸ میں درج ہے حضرت اقدس اس کی تشریح میں نزول اسی صفحہ ۴۶،۴۷ پر تحریر فرماتے ہیں.المسیح." یہ ایک بھارت کئی سال پہلے اس رشتہ کی طرف تھی جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا اور خدیجہ اس لئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے اور جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھا اور نیز یہ اس طرف اشارہ تھا کہ وہ بیوی سادات کی قوم میں سے ہو گی.“ پس یہ الہام بھی مکمل یعنی بے معنی نہیں.- الهام : هو شعنا نعسا.66 (براہین صفحه ۵۵۶) یہ الہام عبرانی زبان میں ہوا ہے جب یہ نازل ہوا تو اس وقت آپ پر اس کے معنے نہ کھلے.بعد میں جو معنے آپ پر کھلے وہ آپ نے براہین حصہ پنجم صفحہ ۸۰ پر یوں درج فرمائے ہیں.اے خدا میں دعا کرتا ہوں کہ مجھے نجات عطش اور مشکلات سے رہائی فرما.
۵۲۹ ہم نے نجات دے دی یہ دونوں فقرے (ھو شعنا.نعسا) عبرانی زبان میں ہیں اور یہ ایک پیشگوئی ہے جو دعا کی صورت میں کی گئی اور پھر دعا کا قبول ہونا ظاہر کیا گیا اور اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جو موجودہ مشکلات ہیں یعنی تنہائی بے کسی ناداری کسی آئندہ زمانہ میں وہ دور کر دی جائیں گی چنانچہ پچیس برس کے بعد یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور اس زمانہ میں ان مشکلات کا نام و نشان نہ رہا.“ پس یہ الہام بھی با معنی ہے نہ کہ معمل.وو الهام ۸ : " پریشن - عمر - پراطوس یعنی پڑا طوس یعنی پلا طوس یہ ۳ ا ر د سمبر ۱۸۸۳ء کا الہام ہے جو دراصل یوں درج ہے.وو " پریشن.عمر سیر اطوس یا پلا طوس“ - اسکے متعلق حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں.یعنی پر اطوس لفظ ہے یا پلا طوس.بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور عمر عربی لفظ ہے اس جگہ پریشن اور بر اطوس کے معنے دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں (براہین احمدیہ ) اور کس زبان کے لفظ ہیں.“ یہ الهام از قبیل اسرار و رموز ہے.یہ ضروری نہیں کہ اسرار و رموز پر مشتمل الہامات کی حقیقت ملہم پر جلد ہی ظاہر ہو جائے بلکہ ایسے الہامات کی حقیقت واقعہ کے وقوع میں آنے پر ہی کھلتی ہے.قرآن کریم میں سورتوں کے شروع میں جو مقطعات ہیں اور اس کے علاوہ جو آیات متشابیات ہیں وہ بھی بعض اسرار و رموز پر مشتمل ہیں.جن کی اصل حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے.اور مفسرین صرف اجتہادی طور پر ہی اپنے علم کے مطابق ان کی کچھ نہ کچھ حقیقت بیان کرتے ہیں اور اصل حقیقت کو حوالہ مذاکرتے ہیں.السراج الوہاج شرح مسلم جلد ۲ صفحہ ۷۴ ۷ میں لکھا ہے.
۵۳۰ لا بُعْدَ فِي تَكلم اللهِ تَعَالَى بِكَلامِ مُقِيدٍ فِي نَفْسِهِ لَا سَبِيلَ لِأَحَدٍ إِلَى معرفيهِ اليَمَتِ فَوَائِحُ السُّورِ مِنْ هَذا القَبيلِ وَهَلْ يَجُوزُ لاحَدٍ أَنْ يَقُولَ إِنه كَلام غَيْرُ مُفيد وَهَلْ لِأَحَدٍ سَبِيلُ إِلَى دَرُ كِهِ - ترجمہ :.یعنی یہ امر کوئی بعید نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا کلام نازل ہو.جو اپنی ذات میں مفید ہو مگر کسی کو اس کی معرفت حاصل نہ ہو کیا قران مجید کے حروف مقطعات اس طرح کے نہیں.کیا کسی کے لئے یہ کہنا جائز ہے کہ ان کا کوئی فائدہ نہیں پھر کیا کوئی ان کے حقیقی علم کا ادراک کر سکتا ہے ؟ امام غزالی اپنی کتاب "الاقتصاد فی الاعتقاد " میں لکھتے ہیں کہ." قرآن مجید کے سب معانی سمجھنے کی ہمیں تکلیف نہیں دی گئی...مقطعات قرآن ایسے حروف یا الفاظ ہیں جو اہل عرب کی اصطلاح میں کسی معنی کے لئے موضوع علم الکلام اردو تر جمه الاقتصاد فی الاعتقاد صفحه ۶۶) نہیں.“ تھیر جلالین میں مقطعات کے ذکر میں لکھا ہے واللہ اعلم بمرادہ یعنی اس مقطعہ کے مرادی معنے سے اللہ ہی واقف ہے.ہم نے ابھی کہا ہے کہ بعض الہامات کی حقیقت واقعہ کے وقوع پر ہی کھلتی ہے.اس کے ثبوت میں ہم جناب برق صاحب کی توجہ ان کے اپنے ایک قول کی طرف مبذول کرتے ہیں.وہ اپنی کتاب ”بھائی بھائی" میں قرآن مجید کی آیات متشابہات کے متعلق لکھتے ہیں.نزول قرآن کے وقت متشابہ آیات کی تعداد بہت زیادہ تھی بعد میں کچھ ایسے ارباب علم آئے جنہوں نے بعض آیات کو واضح کر کے محکم بنا دیا.گذشتہ سوبرس سے علم میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے جس کے بعد مزید آیات حل ہو گئیں.مثلاً.“ جب فرعون غرق ہو ا تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا.
۵۳۱ فَاليَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً یونس : ۹۳) آج ہم تمہاری لاش کو چا کر رکھیں گے.تا تو آنے والی نسلوں کے لئے ایک سبق بن جائے.“ یہ آیت صدیوں متشابہ رہی.یہاں تک کہ اس صدی کے ربع اول میں اسی فرعوان کی لاش کہیں سے نکل آئی.جو قاہرہ کے عجائب خانہ میں موجود ہے.پھر اسی کتاب کے صفحہ ۹۰ پر لکھتے ہیں.دد (بھائی بھائی صفحہ ۸۹، ۸۸) علم میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے.کائنات کے اسرارو رموز کھل رہے ہیں.اور ساتھ ہی قرآن کی آیات بھی حل ہوتی جارہی ہیں.چونکہ اللہ تعالی نے تشریح قرآن کا وعدہ کر رکھا ہے اس لئے مجھے یقین ہے کہ چند صدیوں کے بعد تمام متشابہات محکمات میں تبدیل ہو جائیں گے.“ جناب برق صاحب کی اپنی کتاب کے ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیات کی اصل حقیقت نزول کے وقت کسی پر نہیں کھلی بلکہ صدیوں بعد آکر کھلی ہے.اور بعض اسرار و رموز کھلنے کے لئے ابھی اور صدیاں درکار ہیں.اس ضروری تمہید کے بعد اب ہم ان کے پیش کردہ الہام کی حقیقت دکھانے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.جناب برق صاحب نے اپنی عادت کے موافق الہام کا اقتباس درج کرنے میں بھی تحریف سے کام لیا ہے کیونکہ انہوں نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی اس تحریر میں لفظ یا کو یعنی سے بدل دیا ہے.تا اس الہام کے معمل ہونے کا تاثر پیدا کریں.پھر بر اطوس یعنی پڑا طوس یعنی پل طوس لکھ کر نیچے مخط کھینچ دیا ہے.تا اس ساری عبارت کو الہام دکھا کر اس کا معمل ہونا یقینی بنائیں.ایسی بات کی توقع کسی محقق کی طرف سے نہیں ہو سکتی.کسی معاند کی طرف سے ہی ہو سکتی ہے.جسے دیانت کا
۵۳۲ خون کرنے میں کوئی تامل نہ ہو.حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام الفاظ الہامی نہیں کیونکہ اس الہام کے متعلق حضرت اقدس فرماتے ہیں.ہوا.“ دو پڑا طوس لفظ ہے یا پلا طوس لفظ ہے باعث سرعت الہام دریافت نہیں گویا دونوں لفظ الہامی نہیں.ان میں سے الہامی ایک ہے جو بوجہ سرعت الہام آپ کے حافظہ میں محفوظ نہیں ہوا.چنانچہ آپ اس الہام کے متعلق یہ بھی تحریر فرماتے ہیں.چونکہ یہ غیر زبان میں الہام ہے اور الہام الہی میں سرعت ہوتی ہے اس لئے " ممکن ہے کہ بعض الفاظ کے ادا کرنے میں کسی قدر فرق ہو.“ دیکھئے حضرت اقدس نے اس بات کو چھپایا نہیں کہ اس الہام کے معنے آپ پر نہیں کھلے.بلکہ آپ نے میر عباس علی صاحب کو خط لکھا کہ اس الہام کے الفاظ کے معنوں کے متعلق تحقیق کر کے اطلاع دیں.الہام کے الفاظ کی اصل حقیقت واقعات کی شہادت سے الہام کے الفاظ یہ معلوم ہوتے ہیں.اوپریشن - عمر - پلاطوس یہ الہام تین رموز پر مشتمل ہے جن میں باہمی علاقہ بھی ہے.اوپر یشن (Oppression) انگریزی لفظ کے معنے ظلم وجور اور دباؤ ہیں.پریشن انگریزی زبان کا کوئی لفظ نہیں.حضرت اقدس کو اس کا تلفظ بوجہ سرعت الہام سمجھ نہیں آیا.کیونکہ آپ انگریزی زبان نہیں جانتے تھے.عمر کا لفظ عرفی ہے اور پلا طوس اس حاکم کا نام ہے جس کی عدالت میں حضرت مسیح ناصری کا مقدمہ پیش ہوا تھا.جو یہودیوں نے آپ کے خلاف قائم کیا تھا تا
۵۳۳ آپ کو صلیب دی جائے اس مقدمہ میں پلا طوس پر یقینی طور پر یہ انکشاف ہو گیا تھا کہ حضرت عیسی بے گناہ ہیں.اور یہودیوں نے ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر جب کہ ابھی یہ انکشاف بھی نہ ہوا تھا کہ آپ ہی مسیح موعود کی آمد کی اس پیشگوئی کے مصداق ہیں جس کا ذکر احادیث نبویہ میں آیا ہے کہ آپ پر زیر بحث الہام نازل ہوا جو یہ بتا رہا ہے کہ اب وہ زمانہ آرہا ہے کہ آپ پر دباؤ ڈالا جائے گا.اور آپ ظلم وجور کا نشانہ بنائے جائیں گے.اور آپ کے دشمن آپ کو ہلاک کرانے کے منصوبے کریں گے.مگر اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت ڈالے گا اور وہ آپ کو ہلاک کرنے یا ہلاک کروانے پر قادر نہیں ہو سکیں گے.اس الہام میں اشارہ تھا کہ آپ جب دعوی کریں گے کہ میں مسیح موعود ہوں تو آپ پر آپ کے دشمنوں کی طرف سے مقدمہ بنایا جائے گا جو ایک غیر ملکی حاکم کی عدالت میں پیش ہو گا جس طرح پلا طوس رومی حاکم کی عدالت میں حضرت عیسی کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا تھا پھر جس طرح پلا طوس پر تصرف الہی سے یہ امر کھل گیا تھا کہ یہ مقدمہ جھوٹا ہے اسی طرح اس پلا طوس ثانی انگریزی حاکم پر بھی خدا تعالی کی طرف سے یہ امر کھول دیا جائے گا کہ یہ مقدمہ بھی جھوٹا ہے.چنانچہ آپ کے دعویٰ مسیحیت کے زمانہ میں پادری مارٹن کلارک نے آپ کے خلاف ایک مقدمہ انگریزی عدالت میں کرا دیا.کہ مرزا صاحب نے اپنے ایک مرید عبدالحمید کو میرے قتل کے لئے بھیجا ہے.اور عبدالحمید سے یہی گواہی عدالت میں دلائی.آریہ اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی اس مقدمہ میں پادری مارٹن کلارک کے مددگار تھے.اور یہ لوگ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ مرزا صاحب دوسروں کی موت کی پیشگوئی کر کے انہیں قتل کرادیتے تھے.تا بعد میں حضرت اقدس کو لیکھرام کے قتل کی سازش میں شریک قرار دے کر حکومت سے موت کی سزا دلائیں.لیکن ان کی آرزوئیں پوری نہ ہو ئیں
۵۳۴ کیونکہ خدا تعالیٰ نے کیپٹن ڈکس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کو اپنے خاص تصرف سے یہ احساس و یقین دلا دیا کہ یہ مقدمہ سراسر جھوٹا ہے.اور حضرت مرزا صاحب بے گناہ ہیں.جس طرح پیلا طوس رومی حاکم کو خدا تعالیٰ نے یہ یقین دلا دیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بے گناہ ہیں.اور یہودیوں نے ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ کھڑا کیا ہے.پس اس بات میں کیپٹن ڈگلس کو الہام الہی میں اسی مشابہت کی بنا پر پلا طوس قرار دیا گیا ہے.کیونکہ مسیح محمدی کا مقدمہ اس کی عدالت میں اسی طرح پیش ہوا جس طرح پہلے مسیح کا مقدمہ پیلاطوس کی عدالت میں پیش ہوا تھا.اور جس طرح پیلا طوس پر سبیح کا بے گناہ ہونا ثابت ہو گیا اسی طرح کیپٹن ڈگلس پر مسیح موعود کا بے گناہ ہونا ثابت ہو گیا.گو یہ مقدمہ نہائت ہو شیاری سے چلایا گیا تھا مگر خدا تعالی نے اس حاکم پر کھول دیا کہ عبد الحمید گواہ اپنے بیان میں جھوٹا ہے.اور مولوی محمد حسین بٹالوی بھی دشمنی سے گواہی دینے کے لئے آیا ہے.اور پادریوں نے مرزا صاحب کی دشمنی میں یہ مقدمہ کھڑا کیا ہے.چنانچہ اس نے یہ تدبیر کی کہ عبد الحمید گواہ کو پادریوں کے قبضہ سے نکلوا کر پولیس کے حوالے کر دیا.جس پر عبدالحمید نے پادریوں کے دباؤ سے نکل آنے پر عدالت میں یہ بیان دے دیا.کہ عیسائیوں نے اس سے محض جھوٹا بیان دلوایا ہے.اس پر حاکم نے حضرت مسیح موعود کو نہائت عزت سے بری کر دیا.فالحمد للہ علی ذالک.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں :- پر مسیحائن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہو تا نام احمد جس پہ میر اسب مدار“ دیکھئے یہ تین رموز پر مشتمل الهام جو دعویٰ مسیح موعود سے بھی کئی سال پہلے نازل ہوا.کس طرح صفائی سے پورا ہوا ہے.اور واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے.کہ
۵۳۵ الہام میں لفظ پڑ طوس وغیرہ نہ تھا.بلکہ پلا طوس ہی تھا.جس کا تلفظ سرعت الہام کی وجہ سے آپ پر پڑ طوس یا بر اطوس سے مشتبہ ہوا.لیکن ساتھ ہی پلاطوس کے لفظ کا الہام میں نازل ہونے کا بھی آپ کو احساس رہا.اور یہی احساس واقعات کے لحاظ سے درست ثابت ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشتی نوح صفحہ ۵۲ ۵۱ پر خود بھی کیپٹن ڈگلس کو اسی مقدمہ کی وجہ سے پلا طوس قرار دیا ہے.پس واقعات نے الہام کے الفاظ میں اوپر لیشن اور پلا طوس کے الفاظ نازل ہونے پر قطعی شہادت دے دی ہے.اور یہ الہام مومنین کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث ہے.یہ امر حضرت مرزا صاحب کی صاف باطنی اور خدا تعالیٰ کی باتوں پر پختہ یقین رکھنے پر بھی گواہ ہے.کہ باوجود یکہ بعض الہامات کے معنی آپ سمجھ نہیں سکے یا بعض الهامی الفاظ کا تلفظ بوجہ سرعت الهام آپ پر مشتبہ بھی ہو گیا مگر آپ نے اس الہام کو یا نہیں.بلکہ جو تلفظ مشتبہ تھا.اس کو بھی درج کر دیا.آپ کا یہ فعل اس امر پر قطعی دلیل ہے.کہ آپ اپنے منجانب اللہ ہونے کے دعوئی میں نہائت سنجیدہ اور پر یقین تھے.اس لئے جس بات کو آپ لوگوں کے اس طعن سے چنے کے لئے یہ الہام معمل ہے.چھپا سکتے تھے.اسے بھی آپ نے ظاہر کر دیا.اور انجام کیلئے صرف خدا تعالی پر چھپایا تو کل رکھا.
۵۳۶ باب دہم وسعتِ علم برق صاحب نے اپنی کتاب کے دسویں باب کے شروع میں حضرت اقدس علیہ السلام کی بعض عبارتیں درج کی ہیں جن کا یہ مفہوم ہے کہ خدا نے آپ کو اپنے پاس سے علم دیا ہے اور معارف سکھائے ہیں اور وہ کچھ سکھایا ہے جو کسی اور انسان کو اس زمانہ میں معلوم نہ تھا.اس کے بعد آپ کی وسعت معلومات پر حملہ کرنے کے لئے برق صاحب چند اعتراض کرتے ہیں.پہلا اعتراض برق صاحب لکھتے ہیں :- صلى الله ”سیرت مقدسہ کا ہر طالب علم اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ حضور علی کے والد محترم آپ کی ولادت سے چند ماہ پہلے ایک تجارتی سفر میں فوت ہو گئے تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال پورے چھ برس بعد ہوا تھا لیکن جناب مرزا صاحب اپنی آخری تحریر میں فرماتے ہیں :.“ " تاریخ کو دیکھو آنحضرت ملے وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہو گیا اور ماں صرف چند ماہ کا چہ چھوڑ کر مر گئی.“ (پیغام صلح صفحہ ۱۹ ۲۰ طبع اول) برق صاحب آخر میں اپنی حیرت کا یوں اظہار کرتے ہیں :- " جناب مرزا صاحب تاریخ نبوی کے اس مشہور ترین واقعہ سے بھی بے خبر
۵۳۷ نکلے.“ الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۳۹) اس عبارت میں ”ماں صرف چند ماہ کا چہ چھوڑ کر مرگئی میں چند ماہ یا تو سمو کرامت ہے یا آپ نے چھ سال کے لئے مجازاً تھوڑے زمانہ کے مفہوم میں چند ماہ کے الفاظ لکھے ہیں کیونکہ اس جگہ یہی بتانا مقصود تھا کہ آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدوان کی چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گئیں اور آپ اپنی ماں کی تربیت سے بھی فائدہ نہ اٹھا سکے.باقی رہایہ امر کہ آنحضرت ﷺ کی ولادت کے وقت آپ کے والد ماجد وفات پاگئے تھے یا زندہ تھے یہ ایک مختلف فیہ امر ہے.چنانچہ سیرت حلبیہ جز اول صفحہ ۷۳ پر لکھا ہے :.قِيلَ إِنَّ مَوْتَ وَالِدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ بَعُدَ أَنْ تَمَّ لَهَا مِنْ حَمْلِهَا شَهْرَان وَقِيلَ قَبْلَ وَلَادَتِهِ بِشَهْرَيْنِ وَقِيلَ كَانَ فِي الْمَهْدِ حِينَ تُوُفِّيَ ابُوهُ للہ مرق ابنُ شَهْرَيْن.ترجمہ کہا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے والد نے اس وقت وفات پائی جب کہ آپ کی والدہ ماجدہ کو حمل ہونے پر دو ماہ گزرے تھے اور یہ بھی کہا گیا کہ آپ کی پیدائش سے دو ماہ پہلے وہ وفات پا گئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ اس وقت گہوارہ میں دوماہ کے بچے تھے جب کے آپ کے والد نے وفات پائی.یہ آخری روایت السهیکی کی ہے اور اس کے متعلق اسی جگہ لکھا ہے :- عليه أكثر العلماء که اکثر علماء اس روایت کو درست مانتے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ برقی صاحب کا حضرت اقدس کی تاریخ دانی پر اعتراض درست نہیں.
دوسرا اعتراض ۵۳۸ برق صاحب لین پول کے حوالہ سے خوارزم شاہی خاندان کے متعلق لکھتے خوارزم شاہی خاندان جس کا پایہ لخت خیوا یا خوارزم (روسی ترکستان) تھا ه حکماء ) میں برسر اقتدار آیا اور ۶۸۲ (۱۲۳۱ء) تک زندہ رہا.یہ کل آٹھے بادشاہ تھے پہلا انو مشکین اور آخری جلال الدین منکوبر تی.اس کے بعد تاریخ الحكماء القفطى باب الکنی کے حوالہ سے لکھا ہے :.“ اسلام کا مشہور حکیم بو علی سینا ۳۷۰ھ (۹۸۰ء) میں پیدا ہوا اور ۲۲ (۰۳۷اء ) خوارزم شاہیوں کے ظہور سے ۴۲ برس(قمری) پہلے فوت ہو گیا تھا.“ ہیں کہ :- اس کے بعد حضرت مسیح موعود کی ایک ادھوری عبارت یوں نقل کرتے اور پھر دیکھا کہ خوارزم بادشاہ جو بو علی سینا کے وقت میں تھا.“ ( مجموعه الهامات منظور الهی صفحه ۴۲۹) پھر خلیفتہ اصبح الثانی ایدہ اللہ تعالے کی یہ عبارت نقل کرتے ہیں :- ” حضرت مرزا صاحب کی کتب بھی جبریلی تائید سے لکھی گئیں.“ اور اعتراض کی تان اپنے ان الفاظ پر توڑتے ہیں کہ :- یعنی جبرئیل علیہ السلام بھی تاریخ کے معمولی معمولی واقعات سے بے خبر تھے.“ (حرف محرمانه صفحه ۳۴۰)
۵۳۹ رسالہ ہمدرد صحت و علی بات مگی وجون ۱۹۳۲ء میں " تاریخ الاطباء " کے عنوان کے ماتحت بو علی سینا کے متعلق حکیم عبد الواحد صاحب کا ایک قیمتی مقالہ شائع ہوا تھا.رسالہ ہذا کے صفحہ ۹ پر حکیم صاحب موصوف ”خارا سے ہجرت“ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :- " سلطنت کی تباہی کے بعد خارا میں شیخ ( بو علی سینا.ناقل ) کا قیام محال تھا.اس کو بادل نخواستہ مخارا سے ہجرت کا ارادہ کرنا پڑا اور ایسی جگہ تلاش کرنے کی فکر دامن گیر ہوئی جہاں وہ اپنے علم وفن کے جوہر بھی دکھائے اور اپنی علمی خدمات کا مناسب صلہ بھی پائے.اسی تلاش میں وہ جابجامار اماراپھر الیکن کہیں گوہر مقصود نظر نہ آیا آخر کار اس کی نظر مجنس " خوارزم شاہ والی گرگانج" (ایران) پر پڑی.خوارزم شاہ ایک علم دوست امیر تھا.علماء وفضلا کی قدر دانی اس کا شعار تھا.جب خود سلطان شیخ کی علمی قابلیت سے و علمیت سے واقف ہوا تو اس کو اپنے تمام درباری علماء کا افسر اعلیٰ بنا دیا." اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تاریخ کے مطابق درست لکھا ہے.کہ بو علی سینا خوارزم شاہ کے زمانہ میں تھا.یہ خوارزم شاہ علی من مامون بن محمد تھا.چنانچہ ” تمہ صوان الحکمت “ مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی کے صفحہ ۴۴ پر لکھا ہے :- ثُمَّ مَاتَ وَالِدُ أَبِى عَلِى فِي سَنَةِ اثْنَتَى وَعِشْرِينَ مِنْ عُمُرِهِ تَصَرَّفَتْ بِهِ الْاَحْوَالُ وَتَقَلَّدَ عَمَلاً مِنْ أَعْمَالَ السُّلْطَان وَلَمَّا اضْطَرَبَتْ أُمُورُ السَّامَانِيَّةِ دَعَتُهُ الضَّرُورَةُ إِلَى الْخُرُوجِ مِنْ بُخَارِى وَالْاِنْتِقَالِ إِلَى كركانج وَ الْاِخْتِلَافِ الى
۵۴۰ خوارزم شاه علی بن مامون بن محمد ترجمہ :.پھر ابو علی (اہلی سینا ) کا والد اس کی عمر کے بائیسویں سال وفات پا گیا.اور ابو علی کے حالات بدل گئے اور اسے سلطان کے کاموں میں سے کوئی کام سپرد ہو گیا اور جب سامانی حکومت کے امور میں اضطراب پیدا ہوا تو ضرورت نے اسے خارا سے خروج کرنے پر گر گانج میں خوارزم شاہ علی بن مامون بن محمد کے پاس جانے پر مجبور کیا.پس اس بیان سے ظاہر ہے کہ شیخ ابو علی ابن سینا نہ صرف خوارزم شاہ کے زمانہ میں موجود تھا بلکہ وہ خود خوارزم شاہ علی بن مامون بن محمد کے پاس دربار میں پہنچا تھا.ورۃ الاخبار ولمعتہ الانوار“ کے صفحہ ۳۸ پر جو ”تمہ صوان الحکمت“ کا فارسی ترجمہ ہے یہی مضمون ان الفاظ میں موجود ہے :- وو در سین بیست و دو سالگی پدرش نماند واد متقلد اعمال دیوانی و اشتغال سلطانی گشت و چون امور دولت سامانی مضطرب شد ابو علی را از آنجا انو عاج حاصل آمد بگر گانجه و خوارزم انتقال افتاد و خدمت خوارزم شاه علی بن مامون بن محمود که علامه شابان روزگار بود دیگانه ملوک نامدار پیوست اب یہ جناب برق صاحب کا کام ہے کہ ان حوالہ جات کو لین پول اور ابن القفطی کی اپنی پیش کردہ عبارتوں سے تطبیق دیں.ہمارے پیش کردہ بیانات سے تو ظاہر ہے کہ شیخ ابو علی سینا نے خوارزم شاہ علی بن مامون بن محمد کا زمانہ پایا ہے.تلمیحات اقبال میں سید عابد علی صاحب کی تحقیقات بھی یہی ہے وہ لکھتے ہیں :- بو علی سینا ایران کا مشہور مفکر، دانشور، طبیب، مدیر ، فلسفی اور بقول بعضے شاعر بھی تھا.کچھ رباعیات اس سے منسوب ہیں.اس کی ولادت کے ۳ھ کے لگ
۵۴۱ بھنگ ظارا کی حدود میں ہوئی.وہیں علم و فنون میں دسترس حاصل کی.وہاں سے مامون خوارزم شاہ کے دربار میں پہنچا.“ تیسرا اعتراض ہیں :- تلمیحات اقبال صفحه ۵۵) جناب برق صاحب حضرت مسیح موعود کی ذیل کی عبارت پیش کرتے آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت حفاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کی نسبت آواز آئے گی کہ هذا خليفة الله المهدی اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے.“ شهادة القرآن صفحه ۴۱ طبع اول) یہ عبارت درج کر کے لکھتے ہیں :- گی.“ الجواب اٹھائے بخاری از اول تا آخر ہر سطر پڑھ جائے یہ حدیث کہیں نہیں ملے (حرف محرمانه صفحه ۳۴۱) اس عبارت میں بخاری کا ذکر سہو ا ہوا ہے دراصل یہ حدیث مستدرک للحاکم کی ہے جو حفاری اور مسلم دونوں کی شرطوں کے مطابق صحیح حدیث ہے.چنانچہ ان ماجہ کے حاشیہ پر علامہ سندھی تحریر فرماتے ہیں :- " صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشيخين“ یہ بخاری اور مسلم کے پایہ کی حدیث ہے.ملاحظہ ہو ابن ماجہ جلد ۲ صفحه ۲۹۹ حاشیه مطبوعه مصر ) انبیاء سے سہو کا ارتکاب ممکن ہے.خود رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.
۵۴۲ جاتے ہو.إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَنْسى كَمَا تَنْسَوْنَ ( بخاری کتاب الصلوۃ باب ۳۱) کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں.میں بھی بھول جاتا ہوں جس طرح تم بھول حالانکہ آپ پر وَمَا يَنطِقُ عَنِ الهَوى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (سورة النجم) کی آیت (۵۰۴) نازل ہو چکی تھی.اور شیخ عبد الحق صاحب دہلوی کتاب مدارج النبوة کے صفحہ ۴۲ پر لکھتے ہیں کہ :- ،، ملائک وحی آنحضرت لے کے دائمی رفیق اور قرین ہیں.“ برق صاحب کی سہو برق صاحب نے اپنی کتاب ”بھائی بھائی" کے صفحہ ۱۸۴ پر تغییر قمی سورہ احزاب طبع ایران صفحہ ۳۰۵ کے حوالہ سے ایک روایت عربی زبان میں نقل کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے :- علی المرتضی کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت رسول کا انتقال مغرب و عشاء کے درمیان ہوا تھا.جنازہ میں شامل ہونے کے لئے ابو بکر ، عثمان، زبیر اور عبد الرحمن من عوف بھی آئے.جب نماز جنازہ کا وقت آیا تو علی نے کہا ابو بکر آگے آؤ.ابو بکر نے کہا کہ علی تم گو اور بہنا.کہا میں گو اور ہوں گا.آگے بڑھئے خدا کی قسم آپ کے سوا کسی اور کو نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت نہیں دوں گا چنانچہ ابو بکر نے نماز جنازہ پڑھائی.چار تکبیریں کہیں.رات کے وقت آپ کو دفن کر دیا گیا.یہ روایت تغییر قمی سورہ احزاب میں ہر گز موجود نہیں.میں نے جناب برق صاحب کو خط کے ذریعہ اس امر سے آگاہ کر دیا تھا.اور ان سے اصل حوالہ طلب کیا تھا جس کے جواب میں وہ بالکل خاموش رہے کیونکہ تغییر نمی میں یہ روایت موجود نہ تھی اور اصلی حوالہ انہیں یاد نہیں تھا.ہم جانتے ہیں کہ یہ روایت تو موجود ہے البتہ برق
۵۴۳ صاحب سے کتاب کا حوالہ دینے میں سہو ہوئی ہے پس حوالہ میں سہو ایک بھری تقاضا ہے.انبیاء بھی بھی سہو کر جاتے ہیں.چنانچہ نماز عصر میں سموا آنحضرت ﷺ کا چار رکعت کی بجائے دور کعت پڑھا دینا اور پھر ایک صحالی کے بتانے پر نماز پوری کرنا ایک مشہور واقعہ ہے جو حدیث کی کتابوں میں موجود ہے.چونکہ برقی صاحب نے حضرت اقدس کی وسعت علم پر حملہ کرنے کے لئے یہ اعتراض کرنا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے الهام إِنِّي مُهيِّنٌ مَنْ أَرَادَ اهَانَتَكَ کے مطابق گرفت کا یہ سامان کرادیا کہ خود برق صاحب کے ہاتھ سے حرف محرمانہ میں ہی حوالہ دینے میں ایسی غلطیاں واقع ہو گئیں.چنانچہ برق صاحب حرف محرمانه صفحه ۶۱ پر یہ عبارت لکھتے ہیں :- میں ابھی احمدیت میں بطور چہ ہی کے تھا جو میرے کانوں میں یہ آواز پڑی مسیح موعود محمد است و عین است.“ (خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۷۱) یہ عبارت خطبہ الہامیہ میں موجود نہیں اور نہ یہ مسیح موعود کی عبارت ہو سکتی ہے اٹھائیے خطبہ الہامیہ اور از اول تا آخر ہر سطر پڑھ جائے یہ عبارت آپ کو ہر گز نہیں ملے گی.اسی طرح برق صاحب حرف محرمانہ کے صفحہ ۱۸۵ پر الہامی عبارت یوں درج کرتے ہیں :- قیصرہ ہند کی طرف سے شکریہ.گورنر جنرل کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا ( حمامة البشر کی جلد ۲ صفحہ ۵۷) حمامة البشری بے شک حضرت اقدس کی کتاب ہے مگر اس میں یہ الہامات مندرج نہیں.بلکہ کتاب کا حوالہ دینے میں جناب برق صاحب سے سو ہوا ہے.“ اب برق صاحب غور کر لیں کہ ان اعتراض کی کیا حیثیت رہ گئی.جبکہ وہ یہ
۵۴۴ بھی اعلان کر چکے ہیں کہ انہوں نے خود کتب کا مطالعہ کر کے حوالہ جات دیئے ہیں.چوتھا اعتراض برق صاحب نے استثناء باب ۱۸ آیت ۲۰ کا حوالہ یوں نقل کیا ہے :- لیکن وہ نہی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کسے وہ نبی قتل کیا جائے.“ (استثناء ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس حوالہ کو جانتے تھے چنانچہ آپ نے کتاب استثناء کی اس آیت کو ” تو وہ نبی قتل کیا جاوے“ کے الفاظ میں ہی درج بھی فرمایا ہے.ملاخطہ ہوار بعین صفحہ ۸ طبع اول لیکن ”اربعین“ کے خاتمہ پر جب اس آیت کے متعلق آپ نے مزید تحقیق کی تو آپ کو معلوم ہوا کہ اس عبرانی پیشگوئی کا صحیح ترجمہ یوں ہے.لیکن وہ نبی جو ایسی شرارت کرے کہ کوئی کلام میرے نام سے کہے جو کہ میں نے اسے حکم نہیں دیا کہ لوگوں کو سناتا اور وہ جو کلام کرے دوسرے معبودوں کے نام پر وہ نبی مر جائے گا.“ یہ ترجمہ مع اصل متن عبرانی کے آپ نے تتمہ اربعین نمبر ۴ کے صفحہ ۸ اور پر درج فرمایا ہے اور یہ ایک عبرانی پیشنگوئی کا لفظی ترجمہ ہے.اسے برق صاحب نے حرف محرمانہ کے صفحہ ۳۴۲ پر نقل کر کے یہ اعتراض اٹھایا ہے :- کجا یہ حکم کہ قتل کیا جائے کجا یہ خبر کہ مر جائے گابائبل کے تمام تراجم جو آج تک دنیا میں ہو چکے ہیں (گویا کہ برق صاحب کو سب ترجموں پر عبور ہے.) اور اس عبور کے بعد وہ یہ اعتراض اٹھا رہے ہیں کہ :- ملاحظہ فرمائیے یہ ترجمہ کہیں نہیں ملے گا.جناب مرزا صاحب عبرانی زبان
۵۴۵ سے نا آشنا تھے اور بائبل کے تراجم افراد نے نہیں بلکہ عبرانی علماء کی پوری جماعتوں نے برسوں میں کئے تھے ان لوگوں نے ہر ہر لفظ کی پوری چھان بین کی تھی ان کے ترجمہ کو مسترد کرنے کے لئے زبر دست لغوی دلائل کی ضرورت ہے جو مرزا صاحب نے پیش نہیں فرمائے.اور بغیر از سند نیات همہ پیش کر دیا ظاہر ہے کہ ایسا تر جمہ قابل قبول نہیں ہو سکتا الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۴۲) حضرت اقدس نے زیرحث ترجمہ کی صحت کے لئے اسی جگہ زیر دست لغوی شواہد بھی پیش فرمائے ہیں جن کی طرف سے جناب برق صاحب نے اپنی آنکھیں مند کر رکھی ہیں.زیر بحث لفظ "ومیت " ہے.جو اصل میں صیغہ ماضی ہے اور اس کے معنے ہیں مر گیا یا مرا ہوا.حضرت اقدس نے اس جگہ کئی شواہد بائبل سے پیش کئے ہیں جن میں لفظ میت موت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے نہ کہ قتل کے معنوں میں چنانچہ پیدائش باب ۵۰ آیت ۱۵ میں حضرت یوسف کے والد کے متعلق "میت ابيهم" کے الفاظ ہیں.اور ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب قتل نہیں ہوئے تھے پھر استثناء باب ۱۰ آیت ۶ کا حوالہ دیا ہے جس میں میت ھارون" کے الفاظ آئے ہیں کہ ہارون نے وفات پائی.ہارون علیہ السلام بھی قتل نہیں ہوئے تھے پھر ا سلاطین باب ۳ آیت ۲۱ کا حوالہ دیا ہے جس میں ایک بچے کے متعلق آیا ہے اس کی ماں کہتی ہے :- ” جب میں صبح کو اٹھی کہ بچے کو دودھ دول و هین میت اور دیکھو وہ مرا پڑا " پھر ا.تواریخ باب ۱۰ آیت ۵ کا حوالہ دیا ہے میت شادول کہ شادول مر گیا ہے.اسی طرح ۲.سلاطین ہ میں میت اتاہ کا ترجمہ ” مر جائے گا کیا گیا ۲.۱۵ ۱۴ ہے.اور یہ آیت حزقیاہ کے متعلق ہے اور اسی طرح خروج ا سلاطین.اور
۵۴۶ یرمیاہ میں میت کے الفاظ مرنے کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں.پس جب بائیل سے ہی حضرت اقدس نے شواہد پیش کر دئیے ہیں جن میں ”میت“ کے ترجمے میں قتل نہیں بلکہ موت بیان کی گئی ہے.تو استثناء کی زیر حث آیت میں بھی ان شواہد کی بناء پر لوجہ پیشنگوئی مر جائے گاترجمہ ہی صحیح ہو گا.ماضی کا لفظ پیشگوئیوں میں مستقبل کے معنوں میں استعمال ہو تا رہا ہے.پانچواں اعتراض برق صاحب حضرت مسیح موعود کی عبارت یوں پیش کرتے ہیں :- حال ہی میں جو ایک شخص عبد الغفور نامی مرتد ہو کر آریہ سماج میں داخل ہوا (حقیقته الوحی صفحہ ۱۰۹ طبع اول) اور دھر مپال نام رکھا.اس پر برق صاحب کو یہ اعتراض ہے کہ دھرم پال کا نام عبد الغفور نہیں تھا بلکہ محمود تھا جو بعد میں مشرف باسلام ہو گیا تھا.(حرف محرمانہ صفحہ ۳۴۳) الجواب برق صاحب کا یہ اعتراض خود تا واقعی پر مبنی ہے.دھر میال کا پہلا نام عبد الغفور ہی تھا.یہ مسلمانوں سے مرتد ہو گیا تھا لیکن پھر دوبارہ مشرف باسلام ہو گیا تو اس نے اپنا نام محمود رکھا اور غازی محمود کہلاتا تھا.مناظرات میں حصہ لینے والے اس بات سے خوب واقف ہیں کہ مرتد ہونے کے بعد عبد الغفور نے ”ترک اسلام“ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی جس کے جواب میں حضرت مولانانور الدین نے ایک کتاب "نور الدین“ کے نام سے لکھی اور مولوی شاء اللہ صاحب نے بھی ترک اسلام کا جواب ترک اسلام کے نام سے دیا اور سوہدرہ کے ایک دوست نے اس کے جواب میں ایک کتاب "برق اسلام" کے نام سے لکھی تھی.
چھٹا اعتراض ۵۴۷ برق صاحب حضرت مسیح موعود کی ایک عبارت یوں پیش کرتے ہیں :- ” جب اسلام کا آفتاب نصف النہار پر تھا اور اس کی اندرونی حالت گویا حُسن میں رشک یوسف تھی.اور اس کی بیرونی حالت گویا اسکندریہ رومی کو شرمندہ کرتی (شهادت القرآن صفحه ۱۳ طبع اول) تھی.“ برق صاحب کو اس پر یہ اعتراض ہے کہ یونان کے مشہور فاتح کا نام اسکندر تھا اسکندریہ نہیں تھا.اسکندریہ مصر کا مشہور شہر ہے.میر ہ روم کے ساحل پر جس کی مناء سکندراعظم نے ڈالی تھی.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۴۳) جناب برق صاحب ! اس عبارت میں اسکندر رومی مُراد نہیں بلکہ اسکندریہ مصر کا مشہور شہر ہی مراد ہے.جو حیرہ روم کے ساحل پر واقع ہے.اور جس کی بناء سکندر اعظم نے ڈالی تھی.آپ حضرت مسیح موعود کا کلام نہیں سمجھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس عبارت میں اسلام کے عروج کے زمانہ میں اس کا ظاہری اور باطنی حسن تمثیلا بیان کر رہے ہیں.اس کے باطنی حسن کے لحاظ سے اسے رشک یوسف قرار دیا ہے اور اس کی بیرونی حالت کو اسکندریہ کے خوبصورت شہر کو شر مندہ کرنے والی قرار دیا ہے.ساتواں اعتراض برق صاحب آسمانی فیصلہ صفحہ ۱۵ اور شہادۃ القرآن صفحہ ۶۵ کے دو حوالے پیش کرتے ہیں.پہلی عبارت کا مفاد یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی خارق عادت زندگی اور دوبارہ آنے کا ذکر قرآن میں نہیں اور دوسری عبارت میں بتایا گیا ہے کہ قرآن
۵۴۸ مجید میں آنے والے مجدد کا بلفظ مسیح موعود کہیں ذکر نہیں.حضرت مسیح موعود کی یہ دونوں باتیں درست ہیں ان کے پیش کرنے کے بعد برق صاحب نے اربعین نمبر ۳ صفحہ ۲۱ کی یہ عبارت پیش کی ہے.لیکن ضرور تھا کہ قرآن مجید اور حدیث کی وہ پیشگوئیاں پوری ہو تیں جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہو گا تو اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا اور اس کے قتل کے فتوے دیئے جائیں گے.اسی پر برق صاحب معترض ہیں کہ قرآن شریف میں ایسی پیشگوئی کہاں ہے دوسو سے زیادہ مرتبہ پڑھ چکا ہوں اور ایک لفظ تک بھی مسیح و علماء کے تصادم کے متعلق میری نظر سے نہیں گذرا.کیا کوئی احمدی عالم کوئی ایسی پیشگوئی دکھا کر میری جہالت کو رفع فرما ئیں گے.( حرف محرمانه صفحه ۳۴۴ و صفحه ۳۴۵) الجواب آسمانی فیصلہ کی عبارت کا مقصد صرف یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جو بنی اسرائیل کے نبی ہیں ان کی خارق عادت جسمانی زندگی اور انہیں کے دوبارہ آنے کا ذکر قرآن مجید میں موجود نہیں.اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مسیح محمدی کے لئے بھی کوئی پیشگوئی قرآن مجید میں مذکور نہیں.ہاں شہادت القرآن صفحہ ۶۵ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اس موعود مجدد کے متعلق پیشگوئی بلفظ مسیح موعود قرآن مجید میں مذکور نہیں.ہم قبل از میں سورہ نور کی آیت استخلاف سے ثابت کر چکے ہیں کہ اس آیت میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ اس امت کے خلفاء پہلے خلفاء سے مشابہ ہوں گے.اور چونکہ قریب ترین خلفاء موسوی سلسلہ کے انبیائے بنی اسرائیل ہیں.اور ان میں آخری خلیفه بصورت نبی حضرت عیسی علیہ السلام ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ امتِ محمدیہ بھی میں سلسلہ محمدی کا آخری خلیفہ حضرت مسیح بن مریم کے رنگ میں رنگین ہو گا.
۵۴۹ چنانچہ امت محمدیہ کے مسیح موعود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو کئی امور میں حضرت مسیح من مریم علیہ السلام سے مشابہت ہے.ان میں سے ایک امر یہ بھی ہے کہ جس طرح یہودی علماء نے اپنے صحیح وقت کا انکار کیا تھا اور اس کی تکفیر بھی کی تھی اسی طرح مسیح محمدی کے زمانہ کے علماء بھی اس کی اسی طرح تکفیر کرنے والے تھے.واقعات نے یعنی علماء کے فتووں نے مماثلت کے اس پہلو کو واضح کر دیا ہے.کہ قرآن مجید کی اس آیت میں مسیح محمدی کی تکفیر کیا جانے کی مماثلت بھی ملحوظ ہے احادیث نبویہ بھی یہ بتاتی ہیں کہ امت محمدیہ یہود و نصاری سے مشابہت اختیار کرلے گی.چنانچہ ایک حدیث میں وارد ہے :- لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبُرا بِشِبُرٍ وَذِرَا عَا بِذِ رَاعٍ - ( صحیح بخاری جلد ۴ صفحه ۱۸۹) یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ ضرور پہلی قوموں کی اس طرح پیروی کرو گے جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کے برابر ہوتی ہے.یا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے برابر ہوتا ہے.اس پر صحابہ کرام نے پوچھا " اليهود و النصاری کیا پہلے لوگوں سے مراد آپ کی یہود و نصارٹی میں تو رسول اللہ اللہ نے فرمایا "فمن اور کون ؟ پس یہود نے جس طرح اپنے مسیح موعود کا انکار اور تکفیر کی تھی اسی طرح ضروری تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق امت محمدیہ کے مسیح موعود کی بھی علماء کی طرف سے تکفیر کی جاتی.سورۃ فاتحہ کی دعاغَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ امت محمدیہ کے کچھ افراد یہود کی طرح مغضوب عليهم بننے والے تھے کیونکہ آیت "وَبَاؤُ و ابغَضَبِ على غضب" میں یہود کے مَغضُوبِ عَلَيْهِمْ ہونے کی بڑی وجہ حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کی تکفیر بھی تھی.پس قرآن مجید اور احادیث نبویہ دونوں میں اس بات کے
لئے اشارات ملتے ہیں کہ امت محمدیہ کے علماء بھی علمائے یہود کی طرح اپنے مسیح وقت سے متصادم ہوں گے.اٹھواں اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آریہ دھرم صفحہ ۲۱ پر لکھا ہے :- حمل والی عورتوں کی طلاق کی عدت یہ ہے کہ وہ وضع (حمل) تک بعد طلاق کے دوسر انکاج کرنے سے دستکش رہیں.اس میں یہی حکمت ہے کہ اگر حمل میں نکاح ہو جائے تو ممکن ہے کہ دوسرے کا بھی نطفہ ٹھہر جائے.اس صورت میں نسب ضائع ہو گی اور یہ پتہ نہیں لگے گا کہ وہ دونوں لڑکے کس کس باپ کے ہیں.برق صاحب نے اس حکمت کی یوں ہنسی اڑائی ہے :- اگر بالفرض حمل کی حالت میں بھی نطفہ ٹھہر جائے اور پہلے حمل پر چار ماہ گذر چکے ہوں دوماہ کے بعد تیسر ا حمل ٹھہر جائے اور پھر ایک ماہ کے بعد چو تھا اور ہر چہ نو ماہ کے بعد پیدا ہو تو غریب ہیوی سارا سال ہے جنتی رہے." الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۴۶) اگر چہ عام معمول تولید یہی ہے کہ اگر ایک دفعہ حمل قرار پا چکا ہو تو بالعموم دوسر احمل قرار نہیں پاتا.لیکن بعض عورتوں میں اسبات کا امکان ہوتا ہے کہ پہلے حمل کے بعد دوسر احمل بھی قرار پا جائے.گو یہ تمسفر والی صورت کبھی پیدا نہیں ہوتی جس کا ذکر جناب برق صاحب نے کیا ہے.افسوس ہے کہ برق صاحب نے آریہ دھرم کا حوالہ تو درج کر دیا اور اس کی جنسی بھی اڑائی لیکن انہوں نے آریہ دھرم کی ذیل کی عبارت جو ایسے امکان کی دلیل تھی اپنی کتاب کے پڑھنے والوں سے چھپائی ہے.اس
۵۵۱ سے ان کی نیت ظاہر ہے جو تحقیق کی بجائے عناد پر دلالت کرتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آریہ دھرم صفحہ ۱۸۱۷ میں تحریر فرماتے ہیں :- دو حال کی تحقیقات جدیدہ کی رو سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی ہے اور ڈاکٹروں نے اس میں مشاہدات پیش کئے ہیں چنانچہ ایک ڈاکٹر صاحب یعنی مصنف رسالہ معدن الحکمت اپنی کتاب کے صفحہ ۶۳ میں لکھتے ہیں ایک حمل پہلے حمل کے بعد کچھ دنوں کے فاصلہ سے ٹھر سکتا ہے.اور اس کے ثبوت میں سے ایک یہ ہے کہ بیک صاحب اپنا مشاہدہ لکھتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ۱۷۱۴ء میں ایک گوری عورت کے دو لڑ کے ایک کالا اور دوسرا گورا تھوڑی دیر کے بعد فاصلہ سے پیدا ہوئے اور تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس کے خاوند کے بعد ایک حبشی نے مجامعت کی تھی.اسی طرح ڈاکٹر میٹن صاحب نے بیان کیا ہے کہ ایک حمل پر تین مہینے کے وقفہ سے حمل ٹھہر گیا اور دو لڑکے پیدا ہوئے اور انہوں نے عمر پائی اور کوئی ان میں سے نہ مرا.“ " اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حاملہ عورت کے لئے وضع حمل کی عدت کی جو وجہ بیان فرمائی ہے میڈیکل سائنس کی رو سے بعض عورتوں میں اس وجہ کے پایا جانے کا امکان ہوتا ہے.کیونکہ اس کے شواہد ڈاکٹروں نے مشاہدہ کئے ہیں.قرآن کریم نے بھی اقل مدت وضع حمل کی چھ ماہ قرار دی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- حَمْلُهُ وَفِصَلُهُ ثَلْثُونَ شَهْراً (الاحقاف : ١٦) کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تمہیں مہینے ہے.اور دوسری جگہ فرماتا والوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلین.(البقره: ۲۳۴) گویا اس آیت میں بچے کو دودھ پلانے کی مدت کامل دو سال بتائی ہے.
۵۵۲ کامل دو سال یعنی چوبیس مہینوں کو تیں مہینوں سے منفی کیا جائے تو وضع حمل کی اقل مدت چھ ماہ ہی قرار پاتی ہے.اور چونکہ اسبات کا امکان ہوتا ہے جیسا کہ مین صاحب کے بیان سے ظاہر ہے کہ تین ماہ کے وقفہ سے حمل ٹھہر سکتا ہے اس لئے حاملہ عورت کی عدت اسی لئے وضع حمل قرار دی گئی تا اختلاط نسل کا اندیشہ نہ رہے.نواں اعتراض حضرت اقدس چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۷ میں تحریر فرماتے ہیں :- ”اور موتی کا کیڑا بھی ایک عجیب قسم کا ہوتا ہے.اور بہت نرم ہوتا ہے اور لوگ اس کو کھاتے بھی ہیں.“ ور جناب برق صاحب نے اس بات کی یوں ہنسی اڑائی ہے :- ہے کوئی گوہر شناس جو اس نکتہ کی تائید کرے.“ سمندر کے کناروں پر رہنے والے لوگ ہر قسم کے سمندری جانوروں کو کھاتے ہیں.اگر سمندر سے دور رہ کر جناب برق صاحب کو اس کا علم نہیں تو اپنی نا واقعی کو وہ حقائق کے رد میں دلیل قرار نہیں دے سکتے.دسواں اعتراض سیرت المہدی میں ایک روایت ان الفاظ میں درج ہے کہ :- بٹیر کے گوشت میں طاعون پیدا کرنے کی خاصیت ہے.“ اس پر برقی صاحب کا اعتراض ہے کہ :- کیا کوئی پہر طلب اس پر روشنی ڈالیں گے ؟" أ
۵۵۳ برق صاحب اجب آپ خود اس حقیقت سے ناواقف ہیں تو آپ نے اس امر کو وسعت علم“ کے عنوان کے ماتحت ان باتوں کے ذیل میں کیوں درج کیا جو آپ کے نزدیک علم کے مخالف ہیں.حضرت اقدس تو طب یونانی میں ماہر تھے.انہوں نے یہ بات اپنے علم کی بناء پر ہی بیان فرمائی ہے.تا طاعون کے ایام میں بٹیر کے گوشت سے احتراز کیا جائے.گیارہواں اعتراض (۱) جناب برق صاحب تریاق صفحہ ۴۱ کی ایک عبارت درج کر کے معترض ہیں کہ اس میں صفر کو جو دوسرا مہینہ ہے چوتھا مہینہ قرار دے دیا ہے.(حرف محرمانه صفحه ۳۴۷) تریاق القلوب صفحہ ۴۱ پر سہو کتابت سے کاتب نے عبارت آگے پیچھے کر کے ماہ صفر کو چوتھا مہینہ لکھ دیا ہے.جس پر برق صاحب معترض ہیں.حضرت اقدس اس جگہ مبارک احمد کی ولادت پر اس کی مختلف پہلوؤں سے چار کے عدد سے نسبت بیان کر رہے ہیں.کاتب نے عبارت ادل بدل کر یوں لکھ دی ہے :.اور جیسا کہ وہ چوتھا لڑکا تھا اس حساب سے اس نے اسلامی مہینوں میں سے چو تھا یعنی صفر اور ہفتہ کے دنوں میں سے چوتھا دن یعنی چار شنبہ اور دن کے گھنٹوں میں سے بعد از دو پھر چوتھا گھنٹہ لیا.“ یہ عبارت در اصل یوں ہونی چاہیئے :- ”اس نے اسلامی مہینوں میں سے چوتھا دن صفر کا اور ہفتہ کے دنوں میں سے
۵۵۴ چوتھا دن یعنی چہار شنبہ اور دن کے گھنٹوں میں سے بعد از دو پسر چو تھا گھنٹہ لیا.“ چنانچہ تریاق القلوب ہی کے صفحہ ۴۳ سے اس کی تصحیح ہو جاتی ہے کیونکہ اس جگہ بھی آپ نے اسی مضمون کو دہرایا ہے.آپ اس جگہ تحریر فرماتے ہیں :- "سوصاحبو ! وہ دن آگیا اور وہ چوتھا لڑکا جس کا ان کتابوں میں چار مرتبہ وعدہ دیا گیا تھا صفر ۱۷ ساھ کی چوتھی تاریخ میں بروز چار شنبہ پیدا ہو گیا.عجیب بات ہے کہ اس لڑکے کے ساتھ چار کے عدد کو ہر ایک پہلو سے تعلق ہے اس کی نسبت چار پیشگوئیاں ہوئیں یہ چار صفر ۱۳۱۷ھ کو پیدا ہوا اس کی پیدائش کا دن ہفتہ کا چوتھا دن تھا.یعنی بدھ یہ دو پہر کے بعد چوتھے گھنٹے میں پیدا ہوا.یہ خود چو تھا تھا.“ تریاق القلوب صفحه ۴۴-۴۳) اس موعود لڑکے کے متعلق پیشگوئی میں ایک اور عظیم الشان بات یہ پائی جاتی ہے کہ پیشگوئی میں اس کی پیدائش کو اسبات سے مشروط کر دیا گیا تھا کہ :- عبدالحق غزنوی جو امر تسر میں مولوی عبد الجبار غزنوی کی جماعت میں رہتا ہے نہیں مریگا جب تک یہ چوتھا بیٹا پیدا نہ ہوئے." ( ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۵۸) اور اس کے بعد یہ بھی لکھا ہے :- اگر عبدالحق غزنوی ہماری مخالفت میں حق پر ہے اور جناب الہی میں قبولیت رکھتا ہے تو اس پیشگوئی کو دعا کر کے جال دے الحمد للہ کہ یہ پیشگوئی چار ماہ صفر ۱۳۱۷ھ مطابق ۱۴ جون ۱۸۹۹ ء بروز چار شنبہ پوری ہو گئی." اب جناب برق صاحب اس متحد یا نہ پیشگوئی سے تو کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے اور صرف یہ نکتہ چینی کر رہے ہیں کہ ماہ صفر کو چو تھا مہینہ قرار دے دیا گیا ہے.حالانکہ اس میں سمو کتابت وقوع میں آئی ہے.اور اگلے صفحہ کی عبارت اس کی تصحیح کر رہی تھی.(ب) برق صاحب کو اس عبارت پر یہ بھی اعتراض ہے کہ چار شنبہ یعنی بدھ کو
۵۵۵ چوتھا دن کیوں کہا گیا.ان کے نزدیک چار شنبہ پانچواں دن ہے.(حرف محرمانه صفحه ۳۴۷) اس کے جواب میں واضح ہو کہ :- اس جگہ عربی طریق کے مطابق ہفتہ کا پہلا دن اتوار کو قرار دیا گیا ہے اور سبت پر ہفتہ کو ختم سمجھا گیا ہے.اس لئے چہار شنبہ یا یوم الاربعاء اس مناسبت سے چوتھا دن ہی ہے.بارھواں اعتراض وو برق صاحب لکھتے ہیں کہ ایک طبی نکتہ سنئیے :- روزہ رکھو کہ وہ خصی کر دیتا ہے.“ (آریہ دھرم صفحہ ۲۳) اور یہ بھی لکھا ہے کہ :- 66 میں بغیر بلائے بول نہیں سکتا اور بغیر اس کے دکھائے دیکھ نہیں سکتا." (حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۷۸) واضح ہو کہ دوسری عبارت کا پہلی عبارت سے کوئی جوڑ نہیں.کیونکہ یہ دوسری عبارت الہامی امور سے متعلق ہے مگر برق صاحب اسے پہلی عبارت سے جوڑ کر گویا اس شبہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ باوجود اس دعویٰ کے کہ آپ خدا کے بلانے سے بولتے ہیں.آپ نے عبارت "روزہ رکھو کہ وہ خصی کر دیتا ہے“ لکھ دی ہے جو برق صاحب کے زعم میں وسعت علم کے خلاف ہے.الجواب اس کے جواب میں یہ واضح ہو کہ عبارت آریہ دھرم کے صفحہ ۲۳ پر نہیں.
۵۵۶ بلکہ صفحہ 19 طبع اول پر درج ہے اور یہ عبارت دراصل ایک حدیث نبوی کا ترجمہ ہے.اسی جگہ اس عبارت سے پہلے وہ حدیث ان الفاظ میں درج ہے.يا معشراً لشبان من اسْتَطَاعَ مِنكُمُ البَاءَ فَلْيَتَزَوَّجُ فَا نَّهُ أغض للبصر وأَحْسَنُ للفرج وَمَنْ لَمْ يَستَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وحَاءُ آگے اس کا ترجمہ لکھا ہے : ( صحیح مسلم و مخاری ) ”اے جوانوں کے گروہ جو کوئی تم میں سے نکاح کی قدرت رکھتا ہو تو چاہئیے کہ وہ نکاح کرے.کیونکہ نکاح آنکھوں کو خوب نیچا کر دیتا ہے اور شرم کے اعضاء کو زنا وغیرہ سے بچاتا ہے.ورنہ روزہ رکھو کہ وہ خصی کر دیتا ہے.“ پس برق صاحب کا اعتراض حضرت مرزا صاحب پر نہیں بلکہ آنحضرت عے پر ہوا.جنہوں نے خود طبی نکتہ بیان فرمایا ہے کہ روزہ رکھنے سے انسان کے شہوانی خیالات ختم ہو جاتے ہیں وجاء کے معنی لسان العرب میں یہ لکھے ہیں :- الوِجَاء أَنْ تُرَض أنتِهَا الفَحْل رَضَا شَدِيد أَيُذْهِبْ شَهَوَةَ الحِمَاعِ یعنی وجاہ کے معنی یہ ہیں کہ نر کے دونوں خصیے سخت چل دئیے جائیں کہ اس کی شہوت جماع جاتی رہے.پس وجاء کے معنی خصی کرنا ہیں اور حدیث نبوی میں یہ لفظ مجاز شہوانی خیالات کو مٹادینے کے لئے استعمال ہوا ہے.نہ یہ کہ روزہ حقیقی طور پر خصی کر دیتا ہے.پس برق صاحب کا یہ اعتراض بھی محققانہ نہیں محض معاندانہ ہے.☆☆☆
۵۵۷ باب یازد هم حضرت اقدس کی اردو دانی پر اعتراضات کے جوابات اس کے بعد برق صاحب نے حضرت اقدس کی اردو تحریروں پر زبان دانی کے لحاظ سے کچھ نکتہ چینی کی ہے اور اسے فصاحت و بلاغت کے معیار سے گرا ہوا قرار دیا ہے اور مولانا آزاد اور علامہ نیاز کی تحریروں کی اس کے بالمقابل تعریف کی ہے.مولانا ابو الکلام آزاد حضرت اقدس مسیح موعود کی وفات پر لکھتے ہیں :- ”مرزا صاحب کی رحلت نے ان کے بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو.ہاں روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا بھی جو اس کی ذات سے واستہ تھی خاتمہ ہو گیا..مرزا صاحب کے لٹریچر کی قدر و عظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر نیچے اڑادیئے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا.اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں بھی مرزا صاحب نے اسلام کی خاص خدمت سر انجام دی ہے...آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے نا ممکن ہے کہ
۵۵۸ رزا صاحب کی یہ تحریریں نظر انداز کی جاسکیں.“ (وکیل امر تسر جون ۱۹۰۸ء) یہ وہ خراج تحسین ہے جو پنجاب کے اس بادیہ نشین حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی وفات پر ادا کیا گیا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کوئی ادیب نہ تھے اور نہ ان کا کوئی ایساد عویٰ تھا کہ میں اردو زبان میں فصاحت و بلاغت کے جو ہر دکھانے کے لئے یہ مضامین لکھ رہا ہوں.بلکہ آپ کا مقصد صرف خدمت اسلام تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلم کو عظیم الشان قوت عطاء فرمائی تھی.اردو زبان ابھی ترقی کے منازل طے کر رہی تھی اور اس کی فصاحت وبلاغت کا کوئی خاص معیار اس زمانہ میں مقرر نہ تھا.انگریزوں نے اپنی اغراض کے لئے صرف صرف و نحو کی کتاب لکھائی تھی چونکہ آج کی زبان میں کافی تبدیلی ہو چکی ہے.اس سے برق صاحب یہ ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ وہ حضرت اقدس کی اردو زبان کا موجودہ زمانہ کی اردو زبان سے تقابل پیش کر کے حضرت اقدس کی زبان کو فصاحت و بلاغت کے معیار سے گرا ہو اپنا سکیں اور وہ یہ اعتراض کر سکیں کہ نبی تو فصیح البیان ہوتا ہے مگر آپ کی زبان فصاحت و بلاغت سے گری ہوئی ہے.اس میں تراکیب بھی درست نہیں.ثقیل الفاظ بھی موجود ہیں.سمرار الفاظ بھی پایا جاتا ہے توائی اضافات کا عیب بھی موجود ہے.خشو و زوائد بھی پائے جاتے ہیں اور محاورہ کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے.تذکیر و تائیٹ کا استعمال بھی صحیح نہیں.مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ جن باتوں کو انہوں نے عیب قرار دیا ہے یہ امور اس زمانہ کے بڑے بڑے ادیبوں کے کلام میں جنہیں اردو کے عناصر سمجھا جاتا ہے ، موجود ہیں.ہاں چونکہ آپ پنجاب کے رہنے والے تھے اس لئے طبعاً آپ کی اردو زبان میں پنجابی زبان کا اثر بھی موجود ہے اور اردو زبان کے لحاظ سے یہ کوئی عیب نہیں.کیونکہ اردو ایک مخلوط زبان ہے.یہ پنجابی فارسی اور برج بھاشا کے متزاج سے معرض وجود میں آئی ہے.کچھ جس طرح مسلمانوں کی اردو میں عربی الفاظ
۵۵۹ کی کثرت ہے اسی طرح ہندوؤں کی زبان میں سنسکرت اور بھاشا کی کثرت ہے.لکھنوی زبان دہلوی زبان سے مختلف ہے اور دکنی اردو کچھ اور ہی رنگ رکھتی ہے.اگر مقابلہ کر کے دیکھا جائے تو اردو زبان میں پنجابی زبان کا عنصر دوسری زبانوں کی نسبت بہت ہی زیادہ پایا جاتا ہے.میرزا حیرت مدیر اخبار کر زن گزٹ دہلی حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر یکم جون ۱۹۰۸ء کے پرچہ میں لکھتے ہیں :- اگر چہ مرحوم پنجائی تھا.مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں.اس کا پر زور لٹریچر اپنی شان میں نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبار تیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں ، مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا." پس حضرت اقدس کی اردو زبان پر برق صاحب کی نکتہ چینی جو انہوں نے موجودہ زمانہ کی اردو زبان کو مد نظر رکھ کر کی ہے ژاژ خائی سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتی دیکھنا تو یہ ہے کہ مضمون نگار کی زبان نے کیا اثر پیدا کیا ہے.اگر اس کی زبان اہل علم طبقہ پر ایک عمدہ اور گہرا اثر چھوڑتی ہے.تو پھر اس کی فصاحت اور بلاغت کے بارہ میں نکتہ چینی بے حقیقت ہو جاتی ہے اردو زبان کے لئے فصاحت و بلاغت کے بارہ میں کوئی کتاب موجود نہیں تھی.کہ ادیب ان قواعد کی پابندی کرتے اب بھی کچھ لوگوں نے عربی زبان کی فصاحت اور بلاغت کا تبع کر کے بعض کتابیں فارسی اور اردو زبان کے متعلق لکھی ہیں.برق صاحب اگر زبان پر نکتہ چینی کرنا چاہتے تھے تو انہیں بانی سلسلہ کے زمانہ کے ادیبوں کی طرز نگارش کو سامنے رکھنا چاہیے تھا.اگر وہ اس زمانہ کے ادبیوں کے کلام سے آپ کے کلام کا مقابلہ کریں تو جن امور کو جناب برق صاحب نے حضرت
۵۶۰ اقدس کی زبان کی خامی قرار دیا ہے وہی امور ان مسلم ادیبوں کے کلام میں بھی موجود ہیں پس برق صاحب کی تنقید محض معاندانہ ہے نہ کہ محققانہ.برق صاحب کا سب سے پہلا اعتراض برق صاحب حضرت اقدس کی ذیل کی عبارت پیش کرتے ہیں :- اور ایک جماعت محققین کی بھی یہی معنی آیت موصوفہ بالا کے لیتی ہے.“ (ازالہ اوہام صفحه ۴۲۶ طبع اول) اس پر برق صاحب معترض ہیں کہ اردو میں مضاف الیہ ہمیشہ پہلے آتا ہے لیکن یہاں مضاف " ایک جماعت " پہلے ہے.دوسرا اعتراض اس پر یہ کیا ہے کہ موصوفہ میں بالا کا مفہوم موجود ہے.اس لئے بالا زائد ہے.(حرف محرمانه صفحه ۷ ۶۵) عام قاعدہ تو بے شک یہی ہے کہ اردو میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے.لیکن جب ، مضاف کو اہمیت دینا مقصود ہو.تو از روئے علم معانی مقتضائے حال کے مطابق کلام وہی ہو گا جس میں مضاف کو مقدم کیا جائے.اس کلام میں محققین پر زور دینا مقصود نہیں بلکہ ان کی ایک جماعت " پر زور دینا مقصود ہے.اس لئے جماعت کو محققین سے مقدم رکھا گیا ہے.اور "بالا کو زائد قرار دینا برق صاحب کی زیادتی ہے.موصوفہ کا لفظ مذکورہ کے معنوں میں ہے اور بالا کا لفظ مذکورہ کی وضاحت کے لئے ہے پس یہ لفظ زائد نہیں.
دوسر افقره ۵۶۱ برق صاحب نے یہ پیش کیا ہے :- خدا تعالیٰ کو ان لوگوں کے ساتھ نہائت وفاداری کا تعلق ہوتا ہے" (ازالہ اوہام صفحہ ۴۴۶ طبع اول) (حرف محرمانه صفحه ۳۵۸) 66 برق صاحب کو اس عبارت پر یہ اعتراض ہے کہ کو علامت مفعول ہے نہ وو که نشان اضافت اس لئے یہاں کا چاہیے کے ساتھ کی جگہ سے کافی ہے.(حرف محرمانه صفحه ۳۵۸) الجواب 66 66 یہ فقرہ بطور جملہ اسمیہ کے ہے تا استمرار پر دلالت کرے.وفاداری کا تعلق "بترکیب اضافی اس جملہ میں ” ہوتا ہے فعل ناقص کی خبر ہے اور ” خدا تعالیٰ کو جار مجرور اس جملہ میں ہمنزلہ اسم کے ہے.پس کو اس جگہ علامت مفعول نہیں کیونکہ جملہ اسمیہ میں مفعول نہیں ہوا کرتا اس جملہ کی بناوٹ حدیث نبوی کے فقرہ لئی مع الله وقت کی طرح ہے.پس برق صاحب اس فقرہ کی ترکیب کو نہ سمجھنے کی وجہ سے معترض ہیں.کیا میرا یہ فقرہ کہ "برق صاحب کو اس عبارت پر یہ اعتراض ہے.بھی غلط دکھائی دیتا ہے ؟ دیکھئے میرا یہ فقرہ بھی جملہ اسمیہ ہے اس میں "برق صاحب کو " ہمنزلہ اسم ہے اور اعتراض " خبر ہے اور ہے کلمہ ربط ہے اور اس پر " جار مجرور ہو کر متعلق خبر ہے.پھر " کے ساتھ جائے " سے “ اس زمانہ کے ادباء کی زبان ہے.جوان الله مع الذين اتقوا میں جو مع کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے ہے.
۵۶۲ تیسر افقره برق صاحب نے یوں لکھا ہے :- اصل بات یہ ہے کہ شیعہ کی روایات کے بعض سادات کرام کے کشف لطیف پر بنیاد معلوم ہوتی ہے“ (ازالہ اوہام صفحہ ۷ ۴۵ طبع اول ) اس پر برق صاحب معترض ہیں کہ :- 9966 3366 اصل بات کے ساتھ معلوم ہوتی ہے“ بے معنی ہے کیونکہ وہ مظہر وو الیقین ہے اور یہ مخبر اشتہاہ باقی فقرہ بے معنی ہے.”بنیاد مضاف ہے اور روایات“ مضاف الیہ دونوں میں سات الفاظ حائل ہیں یہ انفصال علمائے فصاحت کے ہاں ناروا ہے جملے میں کے لئے ” کی تکرار ذوق خراش ہے.“ الجواب اس جملے میں ” کے لئے “ تو موجود ہی نہیں.پس برق صاحب کے ذوق کی نزاکت ملاخط ہو کہ بغیر " کے لئے " کی موجودگی کے ہی ان کا ذوق خراش پا رہا ہے.روایات کے بعد " کے " کی جائے کی پڑھئے چونکہ روایات کے بعد سادات کرام کی اہمیت کے پیش نظر "جیاد " کا لفظ پیچھے لایا گیا ہے لہذا یہ اقتصال بلا وجہ نہیں برق صاحب ایہ بلاوجہ نے علمائے فصاحت کا ایسے انفصال کے غیر فصیح ہونے کے لئے کوئی قاعدہ بیان نہیں کیا پھر یہ فقرہ معمل کیسے ہوا جب کہ اس کا کوئی لفظ بے معنی نہیں اور اس عبارت کے یہ معنی ظاہر ہیں کہ زیر بحث مسئلہ میں اصل بات یہ سمجھ میں آتی ہے شیعہ روایات سادات کرام کے کشف لطیف پر مبنی ہیں.معلوم ہوتی " مخبرا اشتباہ نہیں کیونکہ روایات کی بنیاد کشف لطیف پر سمجھنا غورو فکر چاہتا ہے.اور معلوم ہو نا اس غور و فکر کا نتیجہ ہے پس معلوم ہوتی“ ہے مخبر
۵۶۳ علم استند لالی و فکری ہے نہ کہ مخبر اشتباہ.چوتھا فقرہ برق صاحب نے یوں لکھا ہے :- ” میری اس تجویز کے موافق جو میں نے دینے چندہ کے لئے رسالہ مذکور میں لکھی ہے.66 (ازالہ اوہام صفحہ ۴۷۴) الجواب دو یہ عبارت ازالہ اوہام کے صفحہ ۴۷۴ کی بجائے صفحہ ۷۴ ۷ طبع اول پر بہت تلاش کے بعد ملی ہے.اصل عبارت میں دینے چندہ " کی بجائے دینی چندہ " لکھا ہے اور مراد اس سے مذہبی امور کے لئے چندہ ہے جیسا کہ سیاق کلام سے بھی ظاہر ہے.نمبر ۲.اس نمبر میں برق صاحب نے حضرت اقدس کی ذیل کی عبارتوں کو ثقیل الفاظ پر مشتمل قرار دیا ہے.نمبر1: ”جب ہم اپنے نفس سے لکھی فنا ہو کر درد مند دل کے ساتھ لایڈرک وجود میں ایک گہرا غوطہ مارتے ہیں تو ہماری بشریت الوہیت کے دربار میں پڑنے سے عند العود کچھ آثار و انوار اس عالم کے ساتھ لے آتی ہے." (ازالہ اوہام صفحہ ۴۳۱ طبع اول) نمبر ۲:- ان کی اخلاقی حالت ایک ایسے اعلیٰ درجہ کی کی جاتی ہے جو تکبر اور نخوت اور کمینگی اور خود پسندی اور ریاکاری اور حسد اور محل اور تنگ دلی سب دور کی جاتی ہے.اور انشراح صدر اور بعاشت عطاء کی جاتی ہے.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۴۴۵ طبع اول)
نمبر ۳:- ۵۶۴ نیز باعث ہمیشہ کے سوچ بچار اور مشق اور مغززنی اور استعمال قوائد مقررہ صناعت منطق کے بہت سے حقائق علمیہ اور دلائل یقینیہ اس کو مستحضر ہو گئے ہیں.“ (بحوالہ براہین احمدیہ حصہ اول صفحہ ۱۴۱ طبع اول) مولانا ابو الکلام آزاد ، علامہ نیاز فتح پوری وغیرہ کی جناب برق صاحب نے خاص تعریف کی ہے.اور دنیائے ادب و علم میں انہیں بلند مقام حاصل کرنے والا قرار دیا ہے.اب ذرا مولانا ابو الکلام صاحب کا کلام ملاخطہ ہو :- نمبرا : ان اقوال سے معلوم ہوا کہ اس زمانہ میں حیلہ تراشیوں کی بنیاد پڑ چکی تھی.یہ کتاب و سنت سے بعد وہ ہجر اور ترک بر امین و یقینیات شرعیه و تشبث به ظن و تخمین حت وتخرص و تلعب به ظلمات اوہام و ابو او قیاس غیر صالح وغیر موید بالوحی کے شجرہ الز قوم کے ابتدائی برگ دبار تھا.“ ( تذکره مولانا ابو الکلام آزاد صفحه ۸۵ مرتبه فضل الدین احمد شائع کردہ کتاب محل لاہور) کیوں برق صاحب ابو الکلام کی اس عبارت کے خط کشیدہ الفاظ سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے.یہ وہی مولانا ابو الکلام آزاد ہیں جنہیں آپ سند کے طور پر پیش کرتے ہیں.مولانا حالی اردو کے عناصر خمسہ میں شمار کئے گئے ہیں برق صاحب ان کی تحریر بھی ملاخطہ فرمائیں.وہ پادری عماد الدین کو تریاق مسموم میں لکھتے ہیں :- شاید آپ نے اکل معاش مستلزم اكل معاد جان کر ارباب اکل معاش "
۵۶۵ کے دین کو راہ ثواب سمجھا ہو.اور کچھ عجب نہیں کہ ایسا ہی ہوا ہو کیونکہ اکثر سادہ لوح بے مغز ایسی جگہ دھوکا کھا جاتے ہیں اگر ایسا سمجھو.تو کچھ نہیں سمجھے.اوّل تو اس تقدیر پر لازم تھا کہ اہل یورپ اور امریکہ کا اتباع پوری طرح کرتے." جناب برق صاحب ! اس عبارت میں بھی آپ کو کوئی نقل دکھائی دیتا ہے یا نہیں ؟ کیا ان دونوں اقتباسات سے ظاہر نہیں ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ کے ادیب اور اہل علم حضرات کی زبان میں کثرت سے عربی الفاظ اور تراکیب موجود تھیں.جو عوام الناس کے فہم سے بالا تھیں ؟ حضرت اقدسن کی جو عبارتیں برق صاحب نے پیش کی ہیں وہ تو ان کے مقابلہ میں ثقل سے خالی ہیں.تكرار الفاظ کے عنوان کے تحت برق صاحب نے حضرت اقدس کی چند عبارتیں پیش کی ہیں :- نمبرا :.بوڑھے ہو کر پیرانہ سالی کے وقت میں.“ الجواب (دیباچہ براہین احمدیہ حصہ دوم طبع اول صفحه ۲) ( حرف محرمانه صفحه ۳۶۳) بظاہر بڑھایا اور پیرانہ سالی مترادف معلوم ہوتے ہیں لیکن اس جگہ پیرانہ سالی سے مراد محض بڑھاپا نہیں بلکہ بڑھاپے کی انتہائی صورت مراد ہے پس اس جگہ تکرار لفظ بے فائدہ نہیں.بلکہ یہ تکرار ملیح ہے جس میں ایک زائد فائدہ ملحوظ ہے.نمبر ۲: - ائمہ اربعہ کی شہادت گواہی دے رہی ہے." (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۹) اعتراض یہ ہے کہ شہادت کے معنے بھی گواہی کے ہیں.(حرف محرمانه صفحه ۳۶۳)
الجواب ۵۶۶ شہادت یا گواہی سے مقصود کسی امر کا ثابت کرنا ہوتا ہے.اس عبارت میں شہادت کے بعد گواہی کا لفظ مجازاً ثبوت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے پس یہ تکرار بیح ہے قبیح نہیں.نمبر ۳:- برق صاحب نے تریاق القلوب کا ایک شعر پیش کیا ہے اور مذاق اڑانے کے لئے اسے غلط بھی لکھا ہے.لکھتے ہیں :- چنیں زمانہ چنیں و در میں چنیں برکات تو بے نصیب روی وہ چہ ایس شقلباشد ( تریاق صفحہ ۷ ) اعتراض کیا ہے کہ چینیں کی گردان ملاحظہ ہو.(حرف محرمانہ صفحہ ۳۶۳) الجواب اصل شعر یوں ہے.چنیں زمانہ چنیں دور این چنیں برکات تو بے نصیب روی وہ چہ اس شق باشد تریاق القلوب صفحه ۴ طبع اول) چنیں کی تکرار پہلے مصرع میں نہایت خوش آئند اور موزون ہے جو کلام کو زور دار بنا رہی ہے اور ترنم میں بھی محمد ہے.مگر افسوس ہے کہ جناب برق صاحب تعصب اور عناد کی وجہ سے اس کا لطف نہیں اٹھا سکے.پس دیکھئے حضرت اقدس کا یہ مصرع که :- تو بے نصیب روی وه چه این شقا باشد کیسا ان کے حسب حال ہے.حالانکہ وہ خود کئی مرتبہ فارسی کے اس مشہور شعر کا لطف اٹھا چکے ہوں گے.اگر فردوس بروئے زمین ست ہمیں ست و ہمیں ست و ہمیں ست
۵۶۷ کیا اس شعر میں ”ہمیں کی تکرار برق صاحب کی طبع نازک پر گراں نہیں گزرتی سوداء کہتے :- اشک آتش و خون آتش و ہر لخت دل آتش آتش پر برستی ہے بڑی فصل آتش برق صاحب ! سنی آپ نے آتش کی گردان سوداء کے کلام میں شیفتہ فرماتے ہیں :- کس تجاہل سے یہ کہتا ہے کہ کہاں رہتے ہو اشک کہتے ہیں :- تیرے کوچے میں ستم گار تیرے کوچے میں میخانہ ہو گیا ہے پری خانہ ان دنوں اے رشک آفتاب دی تو یدی شراب پھر جناب برق صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۲۶۳ پر غالب کے مصرع :- اور اقبال کے مصرع :- خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں سبزہ جہاں جہاں ہیں نالہ چمن چمن نگر اور اپنے پرانے اشعار میں مسلکی مسکی اور نیکی نیکی اور دہکار ہرکا اور بھیگی بھیگی اور زرہ زرہ کی تکرار د کھاتے ہوئے اس تکرار کو تو ترنم اور زور دینے کے لئے قرار دے چکے ہیں.مگر حضرت اقدس سے شعر میں انہیں چین کی تکرار نہ ترنم کا فائدہ دینے والی دکھائی دیتی ہے اور نہ کلام میں زور پیدا کرنے والی معلوم ہوتی ہے.دراصل یہ برق صاحب کی سیاہ عینک کا قصور ہے.جو انہوں نے حضرت اقدس کا یہ شعر پڑھتے ہوئے لگائی ہے.نمبر ۴:.میں برق صاحب حضرت اقدس کا یہ فقرہ نا مکمل پیش کرتے ہیں کہ :- ” در حقیقت تمام ارواح کلمتہ اللہ ہی ہیں جو ایک لا یدرک بھید کے طور پر
۵۶۸ جس کی تہ تک انسانی عقل نہیں پہنچ سکتی." (ازالہ اوہام صفحه ۴۴۰ طبع اول) اس پر برق صاحب کو یہ اعتراض ہے کہ :- لایدرک بھید کے معنی ہی ہیں.وہ راز جس کی تہ تک عقل انسانی نہ پہنچ سکے.تو پھر جس کی تہ تک انسان کی عقل کی ضرورت ؟" الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۶۴) چونکہ " لا یدرک“ کے لفظ کا استعمال سکھانا مطلوب تھا اس لئے اس کے بعد فقرہ میں " جس کی = تک انسانی عقل نہیں پہنچ سکتی“ کے تو ضیحی الفاظ استعمال کئے تاکہ لا یدرک کا استعمال عوام الناس کے علم میں اضافہ کا موجب ہو.پس یہ تکرار با معنی اپنے محل پر بالکل درست ہے.مترادفات کا استعمال تو اس زمانہ میں پسندیدہ سمجھا جاتا نمبر : : - میں برق صاحب حضرت اقدس کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں :- اور نیز باعث ہمیشہ کے سوچ اور چار اور مشق اور مغزدانی اور استعمال قواعد مقررہ صناعت منطق کے بہت سے حقائق علمیہ اور دلائل نقلیہ اس کو متحضر ہو گئے (براہین احمدیہ حصہ اول صفحه ۱۴۱ طبع اول) 66 اس فقرہ میں برق صاحب کو یہ اعتراض ہے کہ اس میں اور کا تکرار ہے.الجواب تعالیٰ فرماتا ہے :- ( حرف محرمانه صفحه ۳۶۴) حرف عطف واؤ معنی اور تکرار تو قرآن مجید میں بھی پایا جاتا ہے.چنانچہ اللہ
۵۶۹ حُرمَت عَلَيْكُمْ أُمَّهَتُكُمْ وَبَنتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمْتُكُمْ وَخَلتُكُمْ وَبَنتُ الاخ وبنت الأخت وأمهتكُمُ التَى أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَّا لِبُكُمُ الَّتِي فِي حُجُورٍ كُم مِّن نِّسَا تِكُمُ الَّتى دَعَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمُ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ ، وَحَلَائِلُ ابْنَا ئِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَ بِكُمُ وأن تَجْمَعُوا بَيْنَ الأَعْتَيْنِ إِلا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًاه (سورة النساء ۲۴) دیکھئے اس آیت قرآنیہ میں بارہ دفعہ واؤ بمعنی اور کا تکرار ہوا ہے اب کیا کوئی سلیم الفطرت مسلمان کہ سکتا ہے کہ واو عاطفہ کا یہ تکرار محل فصاحت ہے ؟ اس ایک آیت میں "بارہ دفعہ “ واو بمعنی اور کا تکرار ہوا ہے اور حضرت اقدین کے قول میں صرف چھ دفعہ " اور کا تکرار دکھایا گیا ہے.پھر اردو کے عناصر خمسہ میں سے سر سید کا کلام ملاخطہ ہو :- وہ لکھتے ہیں :- سویلیزیشن سے مراد ہے انسان کے تمام افعال اور اخلاق اور معاملات اور طریقہ ء تمدن اور صرف اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون اعلیٰ درجہ کی عمدگی تک (مقالات سرسید ) پہنچانا.“ دیکھا برق صاحب آپ نے کہ حضرت اقدس کے زمانہ میں اور کا سمرار دوسرے ادیبوں کے کلام میں بھی موجود تھا.اور اسے فصاحت کے خلاف نہیں سمجھا جاتا تھا ؟ دیکھئے اس عبارت میں بھی ”اور “ کا چھ دفعہ تکرار موجود ہے.توالی اضافات برق صاحب کو حضرت اقدس کی مندرجہ ذیل تراکیب میں
۵۷۰ الجواب نمبرا : ذریعہ کاملہ وصول حق - نمبر ۲ : - بوجہ احاطہ جمیع ضروریات تحقیق و تدقیق نمبر ۳:- مورد احسانات حضرت عزت ایک سے زیادہ پے در پے اضافت پایا جانے پر اعتراض ہے.حضرت اقدس کے زمانہ کے اہل علم کا اسلوب ایسا ہی تھا.قرآن کریم میں بھی اس کی مثال ذِكَرُ رَحْمَةِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا (مریم :۲) میں موجود ہے.جس میں تین پے در پے اضافات پائی جارہی ہیں.ہے.غالب کا ایک شعر ملاخطہ ہو جس کی زبان دانی جناب برق صاحب کو مسلم رنگ شکستہ عرض سپاس بلائے تُست پنہاں سپردۂ غم و پیدا نوشته ایم پہلے مصرع میں رنگ شکستہ کے آگے ”ما“ مضاف الیہ محذوف ہے اور عرض سپاس بلائے شست میں تین اضافیق پے در پے موجود ہیں.مومن :- حاتی :- یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا میں الزام اُس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا یارانِ تیز گام نے محمل کو جالیا ہم محو جرس نالہ کارواں رہے
۵۷۱ اقبال :- بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی ان اشعار میں پے در پے تین اضافتیں موجود ہیں.پس جب اساتذہ کے کلام میں تمین تک پے در پے اضافیں موجود ہیں جب تین تک اضافتیں مسلم زبان دانوں کے نزدیک جائز ہیں تو برقی صاحب کا اعتراض حضرت اقدس پر لغو ہے.برقی صاحب کی پیش کردہ مثالوں میں تو صرف دود و اضافتیں موجود ہیں.اور دو دو اضافیں تو شعراء کے کلام میں کثرت سے موجود ہیں :- غالب: حسن ماہ گرچہ یہ ہنگام کمال اچھا ہے اس سے میرا مہ خورشید جمال اچھا ہے مومن :- منتِ حضرتِ عیسی نہ اٹھائیں گے کبھی زندگی کے لئے شرمندہ احساں ہونگے ظفر: حالی :- خاکساری کے لئے گرچہ ہٹایا تھا مجھے کاش خاک در جانانہ بنایا ہوتا اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش عشق رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں
۵۷۲ ،، امیر مینائی :- درو :- امیر جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے ہو گیا مہماں سرائے کثرتِ موہوم آہ وہ دل خالی کہ تیرا خاص دولت خانہ تھا ہے اپنی یہ صلاح کہ سب زاہدان شهر اے درد آکے بیعت دستِ سبو کریں یہ تمام اشعار غالب کے فارسی شعر کے سوا ایف اے کے نصاب " چمن زار غزل کے سرسری مطالعہ سے اخذ کئے ہیں.حشو و زوائد اس عنوان کے تحت برق صاحب نے دو عبارتیں پیش کی ہیں :- نمبرا : - "سوبعد اس کے کہ قرآن قیامت کے آنے پر اپنے اعجازی بیانات اور تاثیرات احیاء موتی سے دلیل محکم قائم کر رہا ہے." (ازالہ اوہام صفحہ ۴۲۷ طبع اول) اس پر برق صاحب کے اعتراضات یہ ہیں :- "سوبعد اس کے کہ " کی جائے ایک لفظ " جب کافی تھا.اپنے اعجازی بیانات میں ” اپنے بے کار ہے.اعجازی بیانات اور تاثیرات احیاء موتی" معمل اور بے ربط ہونے کے علاوہ توائی اضافات سے بھی داغدار ہے.(حرف محرمانه صفحه ۳۶۷)
الجواب ۵۷۳ ایک بات کو ادا کرنے کے زبان میں کئی اسلوب ہوتے ہیں لہذا اس کلام میں جو زور ”سو بعد اس کے کہ “ کے الفاظ سے پیدا کرنا مقصود ہے وہ ”جب“ کے لفظ سے پیدا نہیں ہو سکتا تھا.اپنے اعجازی بیانات “ میں ” اپنے " کا لفظ بے کار نہیں بلکہ تاکید کا فائدہ دے رہا ہے.جناب برق صاحب کی بات مانی جائے تو تاکید کا باب ہی لغو قرار دینا پڑے گا.اور تاکید کالا نا لغو نہیں ہو تالہذا اعتراض لغو ہے.اعجازی بیانات اور تاثیرات احیاء موتی کا مرکب ہر گز مہمل اور بے ربط نہیں.تاثیرات احیاء موتی میں تو صرف دو اضافیں موجود ہیں اور یہ کوئی عیب نہیں.ہم تین پے در پے اضافتوں کے نمونے قرآن مجید اور اساتذہ زبان کے کلام سے پیش کر چکے ہیں.اس جگہ تو صرف دو اضافیں موجود ہیں.جناب برق صاحب اوہ پے در پے اضافیں مخل فصاحت ہوتی ہیں جو طبیعت پر گراں گذریں اور دو اضافتوں کا استعمال تو مخل فصاحت سمجھا ہی نہیں جاتا.اوپر اساتذہ کے کلام سے اس کی کئی مثالیں دی جاچکی ہیں.نمبر ۲: "اجماع ان امور پر ہوتا ہے جن کی حقیقت طوملی سمجھی گئی اور دیکھی گئی اور دریافت کی گئی.اور شارع علیہ السلام نے ان کے تمام جزئیات سمجھا دیے دکھا دئیے (ازالہ اوہام صفحہ ۴۲۷ طبع اوّل) برق صاحب کا اس پر یہ اعتراض ہے کہ دیکھی گئی " اور " دریافت کی گئی" اور سکھلا دئیے.“ بے کار جملے ہیں.جزئیات مونث ہے اس لئے کی چاہیے.یہ جزئیات دکھانا اور سکھانا مہمل ہے.(حرف محرمانه صفحه ۳۶۸)
۵۷۴ الجواب جناب برق صاحب! دیکھی گئی اور دریافت کی گئی جملوں کو بے کار کہنا اور جزئیات دکھا دیئے اور سکھا دیے کو مہمل قرار دینا بالکل ہی بیکار اور مہمل بات ہے.کیونکہ ان فقروں کا اجماع کی حقیقت بیان کرنے کے لئے اس محل پر ذکر کیا جانا از بس ضروری تھا.افسوس ہے کہ برق صاحب نے ان جملوں کو میکار اور معمل ثابت کرنے کے لئے دانستہ اخفائے حق سے کام لیا ہے.کیونکہ انہوں نے اعتراض پختہ کرنے کی خاطر اس عبارت کے بعد کا فقرہ درج نہیں کیا جس سے ان فقرات کا مفید ہونا جنہیں وہ میکار اور معمل قرار دے رہے ہیں ظاہر وباہر تھاوہ فقرہ یہ ہے :- " جیسے صلوۃ و صوم و حج و عقائد توحید و ثواب و عقاب.“ اس عبارت کو پہلی عبارت کے ساتھ ملانے سے ظاہر ہے کہ ان امور شرعیہ پر اجماع امت اس وقت ہوا جب کہ پہلے آنحضرت ﷺ نے یہ مسائل قولی طور پر سمجھا دیئے اور پھر عملی مسائل پر خود عمل کر کے امت کو دکھا دیا اور اس طرح اپنا نمونہ امت کے سامنے پیش فرما دیا.بعد ازاں علمائے امت نے ان کی حقیقت قرآن مجید اور احادیث نبویہ اور امت کے تعامل سے ٹھیک ٹھیک ”دریافت کر کے ان مسائل پر اتفاق کیا.اور ایسے ہی مسائل اجتماعی قرار پائے.پس برق صاحب کا حذف کردہ فقر و اس بات کے لئے قومی قرینہ ہے کہ حقیقت قومی سمجھادی گئی کے بعد دکھا دی گئی اور دریافت کی گئی کے دونوں جملے بیکار نہیں بلکہ اجماع کی حقیقت سمجھانے کے لئے ان کا بیان کرنا نہائت ضروری تھا.اسی طرح وہ تمام جزئیات سمجھا دیئے کے بعد دکھا دئیے اور سکھلا دئیے بھی مہمل جملے نہیں بلکہ مراد ان سے یہ ہے کہ جن جزئیات پر امت کا اجماع ہوا ہے یہ وہ جزئیات ہیں جو خود شارع علیہ السلام نے قولاً امت کو سمجھا دیئے اور پھر ان پر عمل کر کے امت کو دکھا دئیے اور پھر بواسطہ تعامل امت کو سکھا
دیئے.۵۷۵ بالآخر عرض ہے کہ جزئیات کا لفظ اردو میں مذکر استعمال ہوتا ہے نہ کہ مونث.ملاخطہ ہو جامع اللغات جلد ۲ صفحہ ۳۵۱ یہاں لکھا ہے :- جزئیات جزئی کی جمع ( مذکر) پس جزئیات کے اس عبارت میں مذکر استعمال کئے جانے پر بھی برق صاحب کا اعتراض لغو ہے.نمبر ۳ : " پھر جب ہم اس آیت پر نظر ڈالیں کہ جو اللہ جلعان، قرآن شریف میں فرماتا ہے.“ - (ازالہ اوہام صفحہ ۴۳۲) اس پر برق صاحب معترض ہیں کہ کیا کوئی آیت بھی ہے جو قرآن میں نہ ہو تو پھر "جو اللہ جلعانه قرآن شریف میں فرماتا ہے " کی ضرورت ؟ یہ ابتداء میں "پھر" کی کیا حاجت اور یہ کہ جو کا گل جوڑ بھی خوب ہے.اسم موصول (جو آدمی، جس کتاب ) وغیرہ سے پہلے کہ " کا استعمال معیوب ہو تا ہے." ڈالیں " کی جگہ " ڈالتے ہیں " چاہیے.(حرف محرمانه صفحه ۳۶۸) الجواب برق صاحب کے یہ تمام اعتراضات لغو ہیں.پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہاں صاحب ایسی آیتیں بھی موجود ہیں.جو قرآن مجید میں نہیں ہیں.انجیل اور تورات اور صحت انبیاء کی آیات اسی قبیل سے ہیں جن کو برق صاحب عیسائیوں کی طرح غیر مبدل سمجھتے ہیں.ملاحظہ ہو ان کی کتاب ”دو اسلام“.اور لفظ پھر ابتداء میں نہیں آیا بلکہ اپنے سے بعد والے مضمون کو پہلے مضمون پر متفرع کرنے کے لئے آیا ہے.اسم موصول " جو " سے پہلے " کہ " کا استعمال پرانے مستند ادیب بھی کرتے
۵۷۶ رہے ہیں.چنانچہ میر تقی میر جو دنیائے ادب میں خدائے سخن قرار دیئے جاتے ہیں فرماتے ہیں :- مقامر خالہ آفاق وہ ہے کہ جو آیا ہے یاں کچھ کھو گیا ہے جناب برق صاحب ! آپ نے خواجہ میر درد دہلوی علیہ الرحمتہ کا یہ مشہور شعر تو پڑھا ہو گا :- تر دامنی پر شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں اور اس سے لطف بھی لیا ہو گا.ان کی اسی غزل کے مطلع میں آپ ذرا کہ جوم کا استعمال دیکھیں.فرماتے ہیں :- ہم تجھ سے ہوس کی فلک جستجو کریں دل ہی نہیں رہا کہ جو کچھ آرزو کریں جناب برق صاحب پر واضح ہو کہ اس قسم کے الفاظ کے لئے صرف یہ دیکھ لینے کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس زمانہ میں یہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اس زمانے کے مستند شعراء اور مسلم اساتذہ نے بھی انہیں استعمال کیا ہے یا نہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ جناب میر تقی کے زمانے سے لے کر غالب خواجہ وزیر اور اکبر الہ آبادی کے عہد تک سب نے الفاظ جو کہ استعمال کئے ہیں مزید مثالیں ذیل میں ملاحظہ ہوں :- میر تقی میر فرماتے ہیں :- افسوس وہ شہید کہ جو قتل گاہ میں لگتے ہی اس کے ہاتھ کی تلوار مر گئے مقامر خانہ آفاق وہ ہے کہ جو آیا ہے یاں کچھ کھو گیا ہے
غالب :- ۵۷۷ جو کہ بخشے گا تجھ کو فر- فروغ کیا نہ دے گا مجھے مئے گل فام غالب اس جگہ ”وہ جو بھی کہہ سکتے تھے مگر انہوں نے ”جو کہ “ کو ترجیح دی ہے.آتش :- جرات :- حضوری نگاہوں کو دیدار سے تھی اٹھا تھا وہ پردہ کہ جو درمیان تھا کیوں کر اب اس سے ملاقات ہو اک آن کہیں.دل دیا اس کو کہ آیا تھا جو مہمان کہیں حیرت ہے کہ کل اس نے کسی کان میں اپنے وہ بات کہ مطلق نہ تھی جو دھیان میں اپنے ز کی مراد آبادی :- خواجہ وزیر :- جو کہ رکھتے تھے فقیرانہ لباس کا مزہ ان کے دل کو ہوس اطلس و کمخواب کہاں صد چاک ہو وہ دل کہ جو درد آشنانہ ہو پھوٹے وہ آنکھ جس سے کہ آنسو گرا نہ ہو آباد لکھنوی :- آرزوئے قتل ہے خنجر گلے پر پھیر دے کون وہ رگ ہے کہ جو مشتاق گردن میں نہیں
۵۷۸ مجروح دہلوی شاگر د غالب :- جو کہ غیروں کو آشنا جانے رضا علی وحشت :- وہ بھلا قدر میری کیا جانے کیوں بھول کر بھی وحشت نہ کیا خیال فردا میں رہا اسی سے غافل کہ جو کام تھا ضروری شاد علیم آبادی :- جلوہ تیرا دیکھا کہ جو روپوش ہوئی دھوپ موسیٰ کی طرح گرتے ہی خاموش ہوئی دھوپ اکبر الہ آبادی : نظر وہ ہے جو دل پہ نقش حسن مدعا کھینچے نفس وہ ہے کہ جو سینے میں آہ دل کشا کھینچے بے خود دہلوی :- نہ تھاوہ دوست تو دشمن بھی زمانہار نہ تھا کہ وہ اس نے کہ جو دل کو ناگوار نہ تھا ہائے وہ شخص کہ جو مورخ یار رہا حیف اس دل پہ کہ جو طالب دیدار رہا نادر لکھنوی :- غیر کیا کور نمک ہیں کہ جو زخمی ہو کر ذائقہ بھول گئے ہیں نقش افشانی کا
۵۷۹ حفیظ جونپوری :- جو الگ رہتے ہیں تجھ سے وہ ہی اچھے ہیں غریب شامت ان کی ہے کہ جو تیرے قریب رہتے ہیں لفظ "ڈالیں " فعل مضارع ہے جو حال اور استقبال دونوں زمانوں پر دلالت کرتا ہے.اس لئے نظر ڈالیں" کے الفاظ سے مقصود ہے کہ اب نظر ڈالیں یا آئندہ نظر ڈالیں.ڈالتے ہیں کا لفظ تو مفہوم کو صرف زمانہ حال کے لئے محدود کر دیتا ہے.لہذا اس جگہ اس کا استعمال درست نہیں.نمبر ۴ : - "اگر کشتی دین کی ان کی نظر کے سامنے ساری کی ساری ڈوب جائے“ (براہین احمدیہ حصہ اول دیباچہ ب طبع اول) اس پر برق صاحب کا اعتراض یہ ہے :- کشتی دین کی " بجائے "دین کی کشتی چاہیے." کی نظر زائد ہے "ساری “ کی ساری بے کار.ڈوبنے کا مفہوم ہی یہی ہے کہ کوئی چیز پانی میں چھپ جائے.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۶۸) کشتی دین کی“ پرانے اسلوب (Style) کے لحاظ سے درست ہے.”ان کی نظر کے سامنے “ میں ” کی نظر “زائد نہیں.مراد اس سے ان کے دیکھتے دیکھتے ہے.” نظر “ کے استعمال سے لوگوں کی غفلت کے مضمون میں زور پیدا کرنا مقصود ہے.اور ”ساری کی ساری“ کے الفاظ تاکید کے لئے ہیں.اور جو الفاظ تاکید کا فائدہ دیں انہیں بے کار کہنا بد ذوقی ہے.ورنہ برق صاحب کی بات مانی جائے تو ہر جگہ تاکید ہے فائدہ قرار پائے گی.اور خلاف فصاحت ہو گی حالانکہ اپنے محل پر تاکید کالا نا کلام کو بلیغ بناتا ہے.مخل فصاحت و بلاغت نہیں ہوتا.پس برق صاحب کے یہ اعتراضات محض
۵۸۰ بھرتی کے ہیں.اور معاندانہ روح کے مظہر.محاورہ پر اعتراضات برق صاحب کا محاورہ پر اعتراض یہ ہے کہ جناب مرزا صاحب محاورہ کے بھی پابند نہیں.مثلاً نمبرا : " ایسے لوگوں کی اندرونی حالت ہاتھ پھیلا پھیلا کر مفلسی ظاہر کرتی رہتی (ازالہ اوہام صفحه ۲۳۲ طبع اول) ہے.66 برق صاحب لکھتے ہیں.محاورہ ہے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا یعنی سوال کرنا.ہاتھ پھیلا پھیلا کر مفلسی ظاہر کرنا بے معنی ہے.(حرف محرمانہ صفحہ ۳۷۰) الجواب جب ہاتھ پھیلا نا سوال کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.تو سوال کرنا مفلسی کو ہی ظاہر کرتا ہے.اور جب بار بار ہا تھ پھیلایا جائے تو افلاس پر قطعی اور روشن دلیل ہوتا ہے.اس لئے ہاتھ پھیلا پھیلا کر لکھنا بالکل بر محل اور فصیح ہے.اگر ہاتھ پھیلا کر مفلسی ظاہر کرنا لکھنا جائز ہے تو ہاتھ پھیلا پھیلا کر مفلسی ظاہر کرنا لکھنا کیوں جائز نہیں ؟ تکرار تو وہ معیوب ہوتی ہے.جو کوئی فائدہ نہ رکھتی ہو.اس جگہ پھیلانے کی تکرار سے جو لطف پیدا ہوتا ہے وہ اہل ذوق پر مخفی نہیں.برق صاحب کے ذوقِ لطیف کو کیا کیا جائے.نمبر ۲:.حضرت اقدس نے لکھا ہے :- " - یہ دروغ بے فروغ اس حد تک، ہٹایا گیا تھا." (ازالہ اوہام صفحہ ۵۲۶ طبع اول) برق صاحب کا اعتراض یہ ہے :- دروغ بنتا کوئی محاورہ نہیں.دروغ بافتن فارسی کا ایک محاورہ ہے اردو کا محاور و
۵۸۱ ہے جھوٹ گھڑنا، جھوٹ بنانا یا جھوٹ کے پل باندھنا.(حرف محرمانہ صفحہ ۳۷۰) الجواب اگر حضرت اقدس جھوٹ کا لفظ استعمال کرتے.تو پھر گھڑ نا و غیر وہی استعمال فرماتے.مگر جب آپ نے دروغ بے فروغ کا لفظ فقرہ میں استعمال فرمایا.تو چونکہ فارسی محاورہ دروغ بافتن تھا.اس لئے اس موقعہ پر مٹا گیا تھا“ کے الفاظ ہی زیادہ موزون ہیں.کیونکہ دروغ کے لئے فارسی میں بافتن (بتا) ہی استعمال ہوتا ہے.کیا برق صاحب اس جواب سے کچھ فائدہ اٹھائیں گے.نمبر ۳ : - برق صاحب نے حضرت اقدس کا ایک فقرہ درج کیا ہے جس کا حوالہ نہیں دیا.وہ فقرہ یوں ہے :- قرآن کریم نے حضرت مسیح کے وفات کے منکروں کو ایسی زک دی ہے کہ اب وہ ذرہ نہیں ٹھہر سکتے.“ برق صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ وفات مذکر ہے یا مونث اسے جانے دیجئے.صرف یہ دیکھئے کہ آخری جملے میں ذرہ " کا مفہوم کیا ہے اور اس کا یہ استعمال کہاں تک صحیح ہے.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۷۱) اگر نقل عبارت درست ہے تو سنئے.وفات مونث ہے اور یائے معروف کو مجمول سے لکھنا یا یائے مجہول کو پائے معروف سے لکھنا بھی کا تہوں کا پر لنا دستور رہا ہے." برق صاحب نے حسب عادت " کی " کو " کے " پڑھ لیا ہے.ذرہ " کا استعمال ہی اس جگہ موزون ہے کیونکہ مراد اس سے ذرہ بھر “ ہے اور یہی لفظ ” ٹھر سکتے" کے ساتھ استعمال ہو سکتا ہے.نہ کہ "ذرا" کا لفظ.
۵۸۲ نمبر ۴ : " میری رحمت تجھ کو لگ جائے گی.اللہ رحم کرے گا." برق صاحب استہز اء لکھتے ہیں :- (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۷۰ اطبع اول) کیا ر حمت کوئی بیماری ہے.جس سے محفوظ رہنے کی بشارت دی جارہی ہے یاد ھمکایا جا رہا ہے کہ اے میرے نبی تو اس وقت میری رحمت سے بچ نہیں سکتا.البتہ آخر میں تم پر رحم کیا جائے گا.“ الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۷۲) برق صاحب کی طرف سے یہ طنز و استہزاء قابل تعجب نہیں کیونکہ بات کو غلط معنے دیگر استہزاء کرنا ان کی عادت میں داخل ہے ورنہ بات بالکل سیدھی ہے.اور خدا تعالیٰ کا یہ الہام قرآن مجید کے استعمال وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ (اگر تمہیں بھلائی لگ جائے.سورہ انعام آیت (۱۸) کے مطابق نازل ہوا ہے.ماسوا اس کے اردو لغت میں لگ جانا شروع ہونے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.(ملا خطہ ہو فیروز اللغات اردو) اس لحاظ سے "رحمت لگ جائے گی" سے مر اور حمت کا شروع ہونا ہے.اور اس کے بعد کے فقرہ میں اللہ رحم کریگا میں تکمیل رحمت کا وعدہ ہے.لہذا برق صاحب کا یہ اعتراض محض استہزاء ہے.اور اسہتر اء ہمیشہ منکرینِ انبیاء کا شیوہ رہا ہے.”رحمت لگنا“ خدا تعالے کی طرف سے اردو محاورہ میں ایک ایجاد بھی کبھی جائے تو کیا خدا تعالیٰ کو محاورہ آفرینی کا حق نہیں ؟ ضرور ہے اسی لئے اس نے قرآن مجید میں فَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ کا جدید محاورہ استعمال کیا ہے.جس سے عرب نا آشنا تھے.ہاں اس کے محل استعمال سے اس کے معنی خود سمجھ میں آرہے ہیں.
۵۸۳ پھر بہار آئی تو آئے شیخ کے آنے کے دن“ یہ بھی الہامی زبان ہے.اور برق صاحب کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے کہ صحیح کا لفظ اردو زبان میں استعمال نہیں ہوتا.حالانکہ تمام عربی اسمائے نکرہ اردو میں استعمال ہو سکتے ہیں.اس پر کوئی پریدی نہیں اور پھر خدا تعالے کے لئے پاندی تو عجیب بات ہے اور برق صاحب کا یہ کہنا کہ برف باری سردیوں میں ہوتی ہے نہ کہ بہار میں.ایک عام قاعدہ تو ضرور ہے.مگر اس الہام میں موسم بیمار کے ایام میں ایک غیر معمولی نشان کے طور پر برف باری کی پیشگوئی کی گئی تھی.یعنی یہ بتایا گیا تھا کہ آئندہ موسم بہار میں برفباری کے دن آجائیں گے.چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا.اس موقعہ پر برق صاحب کا اپنی ساری اس تنقید کے بعد خود یہ لکھ دیا کہ :- " ممکن ہے کہ کسی وجہ سے فضائیں سرد ہو جائیں اور بہار میں بھی ایک آدھ دن برف برسنے لگے.“ یہ لکھنا کہ :- (حرف محرمانه صفحه ۳۷۲) اعتراض کر کے خود اُس کو واپس لینے کے مترادف ہے.ہاں برق صاحب کا "برف آتی نہیں بلکہ برستی ہے.“ ایک فضول اعتراض ہے.کیوں کہ اس جگہ برف آنے کا ذکر نہیں برف کے دن آنے کا ذکر ہے.اور دن آیا ہی کرتے ہیں.ہر سا نہیں کرتے.پس ان کا یہ فقرہ کہ اس الہام کی زبان خلاف محاورہ اور مضمون خلاف حقیقت ہے.( حرف محرمانہ صفحہ ۳۷۲) محض ژاژخائی ہے.پھر برق صاحب ذیل کی الہامی عبارت جو دراصل نثر ہے شعر کی صورت میں یوں نقل کرتے ہیں :-
۵۸۴ تو در منزل ما چو بار بار آئی خدا ابر رحمت بیارید یا نے (حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۷۷ طبع اول) اس طرح اسے شعر قرار دے کر اس پر معترض ہیں کہ پہلا مصرع بے وزن ہے.وزن قائم رکھنے کے لئے بار بار کو بر بار پڑھنا ہو گا جو صریحاً غلط ہے.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۷۲) یہ الہامی عبارت در اصل شعر نہیں بلکہ نثر کے دو فقرے ہیں.لہذا یہاں وزن اور تقطیع کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ حضرت اقدس نے نہ اسے شعر قرار دیا ہے اور نہ ہی شعر کی صورت میں لکھا ہے.بلکہ مسلسل عبارت کی صورت میں لکھا ہے.افسوس ہے کہ برق صاحب نے اسے شعر ظاہر کرنے کے لئے از خود اس کو درج کرتے ہوئے اس کے شروع میں یوں شعر کی علامت ڈال دی ہے ماشاء اللہ کیا دیانت ہے.فارسی زبان کے الفاظ سے اردو الفاظ کی تراکیب حضرت اقدس کے زمانہ میں اردو زبان ابھی منت پذیر شانہ اور ادیب نئی سے نئی تراکیب وضع کر رہے تھے.کبھی عربی لفظ کو اردو لفظ سے مرکب کرتے تھے اور کبھی " 66 فارسی سے مرکب کر دیتے تھے.لہذا قابل ہنسی“ اور مہینہ رمضان “اور ” بے باپ “ کی تراکیب مرکب اضافی نہیں.ایسی تراکیب ہرگز قابل اعتراض نہیں.اسی طرح گور نمنٹ محسنہ انگریزی کی ترکیب بھی اردو زبان کے محاورہ کے ہر گز خلاف نہیں.اردو زبان تو ہے ہی لشکری زبان.جس میں ہر زبان کے الفاظ فروغ پارہے تھے." قلت بارشوں اور کثرت بارشوں میں بھی ترکیب اضافی نہیں.اس قسم کی ترکیب کا
۵۸۵ استعمال جبکہ بارش کا متعدد مرتبہ ہو نا مراد ہو.درست ہے ہر گز محل اعتراض نہیں.اس زمانہ میں مفرد کی جائے جمع کا استعمال ایسے محل پر زیادہ موزوں سمجھا جاتا تھا.سر سید مر حوم لکھتے ہیں :- " میجک لیٹن اس وقت یہاں کوئی نہیں جانتا خواہ اس کا یہی نام لیں خواہ فانوس جادو کہیں.خواہ اجنبی کا تماشہ کہیں ہر گز کوئی نہیں سمجھے گا.لیکن اگر وہ مشاہدہ میں عام ہو جائے اور استعمالوں میں جاری ہو جائے تو الٹے سے الٹا اس کا نام رکھ دیں.وہی چہ چہ کی زبان پر مشہور ہو جائے گا.اور وہی ہم سمجھیں گے.“ ( مقالات سرسید ) اس عبارت میں استعمال کی تکرار ظاہر کرنے کے لئے استعمالوں بصورت جمع استعمال کیا گیا ہے.گو آج کل اس کا استعمال کم ہوتا ہے.تذکیر و تانیث اردو کے الفاظ کی تذکیر و تانیث کے بارہ میں ادباء میں بہت اختلاف رہا ہے.بعض ادیب اسے اپنے ذوق کے مطابق ایک لفظ کو مذکر استعمال کرتے تھے تو دوسرے اسی لفظ کو مونث.اور ابھی تک تمام الفاظ کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہوا پھر یہ بھی واضح رہے کہ کا، کے ، کی، کے الفاظ جس سے اسماء کی تذکیر و تانیث ظاہر ہوتی ہے کے متعلق پر انارسم الخط (شکستہ ) کا تبوں پر ملتبس بھی ہو جاتا تھا اور پرانے طریق کتابت میں پائے معروف و مجہول کے لکھنے میں بھی کوئی فرق نہیں کرتے تھے.البتہ پڑھنے والا خود اسے صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھ لیتا تھا.چونکہ برق صاحب کو یائے مجہول کے پرانے طریق کتابت کو پڑھنے کا سلیقہ نہیں ہے اس لئے وہ صحیح پڑھنے سے تو خود عاجز ہیں اور مذکر کو مونث یا مونث کو مذکر کر دینے کا الزام دوسروں پر لگاتے ہیں.
۵۸۶ تیسرا سبیل سبیل چونکہ عربی زبان میں مذکر ہے اس لئے قرآنی اتباع میں حضرت اقدس نے اسے مذکر استعمال فرمایا ہے.کلام کے بینات“ اور ”کلام کے دلالات“ میں ” کے “ کی جگہ "کی" 166 9966 پڑھیں.اور مسیح کی ظہور میں بجائے ” کی ” کے پڑھیئے.” جیسے موسوی شریعت“ میں ” جیسے “ پڑھیئے.بے شک حضرت اقدس نے ابتداء “ کے لفظ کو شروع کے معنوں میں مذکر 66 استعمال فرمایا ہے.ابتداء مصدر ہے.مصدر کو مذکر اور مونث دونوں طرح استعمال کیا جا سکتا ہے.آیات صغری کو مونث ہی استعمال کیا گیا ہے.جس کے لئے شروع ہو گئی تھیں“ سے پہلے ” ظاہر ہونے کی بجائے ” ظاہر ہونی " پڑھیئے.اوپر ہم نے سر سید احمد خان کی تحریر کا جو نمونہ دیا ہے اس میں اچھے " کی جگہ اچنبی لکھا گیا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یائے معروف و مجہول کے لکھنے میں فرق نہیں کیا جاتا تھا.دراصل لفظ اس جگہ اچھے ہے نہ کہ اچنبی." قیمت پیشگی کتابوں کا بھیجنا منظور نہیں “ لفظ ”کا“ ”قمیت“ مونث کی مناسبت سے نہیں لکھا گیا.بلکہ اس کا استعمال بھیجنا مذکر کی مناسبت سے کیا گیا ہے اور یہ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے کا اسلوب بیان تھا." مرض اہل پنجاب مرض کو عموم ہماری کے معنوں میں مونث ہی استعمال کرتے ہیں.اس لئے حضرت اقدس نے اسے مونث استعمال فرمایا.9966 زبان خدا کے ہاتھ میں ایک آلہ ہوتا ہے " ہوتا ہے " فعل مذکر آلہ کی مناسبت سے استعمال کیا گیا ہے نہ زبان کی مناسبت سے.پس زبان مونث ہی ہے اور مونٹ ہی استعمال کی گئی ہے.
۵۸۷ " الفاظ اور کے ساتھ اور ایک جلدی نکلتے ہیں اس کے متعلق برق صاحب لکھتے ہیں کہ خط کشید و الفاظ کا مفہوم میری سمجھ سے بالا ہے.(حرف محرمانه صفحه ۳۷۸) اس کے جواب میں واضح ہو کہ اس فقرہ کی موجودہ صورت کا مفہوم تو ہماری سمجھ سے بھی بالا ہے.کیونکہ برق صاحب نے خود فقرے ہی کو غلط بنا دیا ہے.حالانکہ براہین احمدیہ کے اصل الفاظ یہ ہیں :- الفاظ زور کے ساتھ اور ایک جلدی سے نکلتے آتے ہیں“ بر امین احمدیہ جلد چهارم حاشیه در حاشیہ نمبر ۳ صفحه ۴۷۹ طبع اول) جناب برق صاحب ! معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایک محقق کا دعویٰ کرنے کے باوجو د بھی خود اصل کتاب کھولنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں فرمائی.بلکہ کسی مخالف احمدیت کی کتاب سے یہ غلط اقتباس نقل کر کے اس پر اعتراض کر دیا ہے.کیا اسی کو غیر جانبدارانہ تحقیق کہتے ہیں ؟ میں خدا کا چراگاہ ہوں.گاہ سے مرکب الفاظ کی تانیث و تذکیر مختلف فیہ ہے.مولانا حالی نے تخت گاہ کو مذکر ہی لکھا ہے.پس چراگاہ کو مذکر لکھنا کوئی قابل اعتراض امر نہیں." 66 درد درد کے لفظ کو اہل پنجاب اردو میں مونث ہی استعمال کرتے ہیں.جیسے وہ فکر اور ناک کو مذکر استعمال کرتے ہیں.قرار داد کا لفظ چشمہ معرفت میں ” قرار دینا مصدر کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.اس لئے وہ مذکر استعمال کیا گیا ہے.یہ لفظ اس جگہ حاصل مصدر کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا جو مونث ہے.اصل عبارت ملاخطہ ہو جو یہ ہے :-
۵۸۸ کسی چیز کو خدا کی ملکیت ان معنوں کی رُو سے قرار دینا جن معنوں سے انسانی ملکیت قرار دی جاتی ہے یہ ایک ایسا قرار داد ( قرار دینانا قل) ہے.جس کی رو سے خدا تعالے انسان کے برابر ٹھہر جاتا ہے." ( چشمه معرفت صفحه ۸، ۹ طبع اول) روح کا لفظ جان کے معنوں میں مونث ہے.لیکن انسانی کمال کے منبع وو کے معنوں میں حضرت اقدس نے اسے چشمہ معرفت کی عبارت سے کئی سال پہلے ازالہ اوہام میں مونث بھی استعمال فرمایا ہے.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں :- ”ہمارے نبی ﷺ نے چونکہ ان جسمانی امور کی طرف توجہ نہیں فرمائی اور تمام زور اپنی روح کا دلوں میں ہدایت پیدا کرنے کے لئے ڈالا اسی وجہ سے تکمیل نفوس میں سب سے بڑھ کر رہے.“ چشمہ معرفت کی عبارت میں انسانی روح کا حیوانی روح سے تقابل منظور تھا.اس لئے آپ نے انسانی روح کو منع کمال کے معنوں میں حیوانی روح کے بالمقابل مذکر استعمال کیا ہے.اور حیوانی روح کو اس کے بالمقابل مونث استعمال کیا ہے.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں :- جس قدر انسانی روح اپنے کمالات ظاہر کر سکتا ہے یا یوں کہو جس قدر کمالات کی طرف ترقی کر سکتا ہے وہ کمالات ایک ہاتھی کی روح کو باوجود منحنیم اور جسیم ہونے کے حاصل نہیں ہو سکتے.“ (چشمہ معرفت صفحه ۱۰ طبع اول) تقابل کے وقت حیوانی روح کے بالمقابل انسانی روح کو مذکر استعمال کرنا تو ایک صنعت ہے.جو کلام میں حسن پیدا کرتی ہے مگر برق صاحب نگاہ بد اندیشی اس کے مذکر استعمال کو قابل اعتراض قرار دیتے ہیں.ہیں :- "بہشت کا لفظ بتاویل مقام مذکر استعمال کیا گیا ہے.دیکھئے ناسخ لکھتے
۵۸۹ جمع و مفرد پس از فتا بھی کسی طور سے قرار نہیں ملا بہشت تو کہتا ہوں کوئے یار نہیں (رساله تذکیر و تانیث اردو) جناب برق صاحب لکھتے ہیں اگر فاعل جمع ہو تو فعل کا جمع ہونا ضروری ہے.اور مرزا صاحب اس پابندی کے بھی قائل نہیں اس کے بعد برق صاحب نے اس اعتراض کی چند مثالیں دی ہیں :- اب جس قدر میں نے پیشگوئیاں بیان کی ہیں...صدق یا کذب کے آزمانے کے لئے یہی کافی ہے.“ الجوب اس عبارت کے درمیان سے جناب برق صاحب نے بعض الفاظ حذف کر دیئے ہیں.جو یقیناً طوالت سے چنے کے لئے نہیں کیونکہ حذف صرف بطور نمونہ کے " تمین الفاظ کئے ہیں.برق صاحب نے اعتراض کو صحیح بنانے کے لئے انہیں دانستہ حذف کیا ہے.اصل عبارت یوں ہے :- اب جس قدر میں نے بطور نمونہ کے پیشگوئیاں بیان کی ہیں در حقیقت میرے صدق یا کذب کے لئے یہی کافی ہے.“ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ ”یہی کافی ہے“ کے الفاظ کا بصورت مفرد استعمال لفظ " نمونہ " کی مناسبت سے کیا گیا ہے.نہ کہ پیشگوئیوں کی مناسبت سے.مراد یہ ہے کہ یہ نمونہ پیشگوئیوں کا میرے صدق یا کذب آزمانے کیلئے کافی ہے.کیا اس طرح کلام میں دانستہ تحریف سے برق صاحب کی کتاب حرف محرمانہ کی بجائے ༣
۵۹۰ حرف مجرمانہ قرار دی جانے کی مستحق ہے یا نہیں ؟ : - "ایک مکھی کے خواص و عجائبات کی قیامت تک تفتیش...کرتے جائیں تو وہ کبھی ئبات کی قیامہ ختم نہیں ہو سکتی.“ اس عبارت میں بھی برقی صاحب نے جس جگہ نقطے دیئے ہیں وہاں سے دانستہ تفتیش کے آگے تحقیقات کا لفظ حذف کر دیا ہے.اور بھی " کی جگہ ”وہ لکھ دیا ہے.تا اپنے اعتراض کو صحیح قرار دے سکیں.پوری عبارت ملاحظہ ہو جو یوں ہے :- ”ایک مکھی کے خواص و عجائبات کی قیامت تک تفتیش و تحقیقات کرتے جائیں تو بھی کبھی ختم نہیں ہو سکتی.“ اس عبارت میں ختم نہیں ہو سکتی“ کے الفاظ تفتیش و تحقیقات سے متعلق ہیں نہ کہ ”خواص و عجائبات“ کے متعلق مراد یہ ہے کہ تفتیش و تحقیقات کبھی ختم نہیں ہو سکتی.: "خدا کے مامورین کے آنے کے بھی ایک موسم ہوتے ہیں.“ اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ موسم مفرد ہے اور ہوتے ہیں جمع ہے.الجواب یہاں موسم بطور اسم جنس کے استعمال ہوا ہے جو جمع کا فائدہ دے رہا ہے.اور ایک" کا لفظ خاص کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.مراد یہ ہے کہ خاص موسم ہوتے ہیں.بعض الفاظ کے استعمال پر اعتراضات الفاظ کا غلط استعمال“ کے عنوان کے تحت برق صاحب نے بعض الفاظ درج کئے ہیں جن میں بعض غلطیاں سہو کتابت سے متعلق ہیں برق صاحب نے ازالہ اوہام
۵۹۱ صفحہ ۴۳۱ کے حوالہ سے ”بھیڑی اور لونبڑی“ کے الفاظ درج کئے ہیں.دراصل یہ لفظ ”بھیڑی “اور ”لومبرڑی“ ہیں.غلطی رسم الحظ کی ہے.۲ - پھر ”جو کا لفظ با معنی کہ “ استعمال ہوا.اس جگہ ”جو “ موصولہ نہیں بلکہ بیانیہ ہے.اور یہ پر انا اسلوب بیان ہے.: ایک خاص طور پر ان کے ساتھ ہوتا ہے.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۴۲۷) برق صاحب ایک خاص طور پر “ کے الفاظ پر معترض ہیں.مگر مراد اس فقرہ سے یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے خدا تعالے ایک رنگ کا خصوصی تعلق رکھتا ہے.۴:- برق صاحب ایک عبارت پیش کرتے ہیں :- "جو شخص مامور ہو کر آسمان سے آتا ہے....در حقیقت وہ ایک روحانی آفتاب تا ہے.جس کی کم و بیش دور دور روشنی پہنچتی ہے." (ازالہ اوہام صفحہ ۴۴۹) برق صاحب اس پر معترض ہیں کہ.خط کشیدہ حصص بے معنی ہیں.الجواب برق صاحب نے حسب عادت پوری عبارت نہیں لکھی.پوری عبارت سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ حصص بے معنی نہیں.بلکہ برق صاحب نے درمیان سے کچھ عبارت حذف کر کے خود اسے بے معنی بنایا ہے.اصل عبارت یوں ہے :- "جو شخص مامور ہو کر آسمان سے آتا ہے.اس کے وجود سے علی حسب مراتب سب کو بلکہ تمام دنیا کو فائدہ ہوتا ہے.اور در حقیقت وہ ایک روحانی آفتاب نکلتا ہے.جس کی کم و بیش دور دور تک روشنی پہنچتی ہے.“ ہر شخص اس عبارت کے مفہوم کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ مامورین من اللہ کو اس عبارت میں آفتاب سے تشبیہ دی گئی ہے.جس سے دور دور تک روشنی پہنچتی ہے.کہیں کم اور کہیں زیادہ.اس تشبیہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مامور من اللہ روحانیت میں آفتاب ہوتا ہے.جس سے حسب
۵۹۲ مراتب تمام دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے.کسی کو کم اور کسی کو زیادہ.:- ازالہ اوہام صفحہ ۴۹۷ پر :- کتابت ہے.۶ افریقہ کے جنگلیوں آدمیوں کی جائے " جنگلی آدمی " پڑھے.اس میں سمو : - برق صاحب ایک عبارت پیش کرتے ہیں :- الجواب یوں ہے :- تو پھر روح ایک جسم میں آگئی جو بطور بے کار چھوڑا گیا تھا.“ برق صاحب نے یہ عبارت بھی پوری درج نہیں کی.پوری عبارت ”سونا اور پھر جاگ اٹھنا ایک معمولی بات ہے.جب تک انسان سویا رہا.روح اس کی خدا تعالیٰ کے قبضہ میں رہی.اور جب جاگ اٹھا تو پھر روح اس جسم میں آگئی.جو بطور بے کار چھوڑا گیا تھا.“ اس عبارت کے معنے ظاہر ہیں کہ سونے کی حالت میں جسم بالکل بے کار نہین ہوتا ہے کار کی طرح ہوتا ہے.کیونکہ اس حالت میں صرف بعض حواس معطل ہو جاتے ہیں.اور جسم کی حرکات ارادی نہیں ہوتیں بلکہ غیر ارادی ہو جاتی ہیں.اس لئے بے کار سے پہلے بطور کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.تا یہ ظاہر ہو کہ سونے کی حالت میں جسم پورا بے کار نہیں ہو تا بلکہ بطور بے کار معطل ہوتا ہے.:- پھر برقی صاحب نے یہ عبارت پیش کی ہے.” میں اپنے چند موہومی بزرگوں کی لکیر کو کسی حالت میں چھوڑ نا نہیں چاہتا.(ازالہ اوہام صفحه ۵۴۳) اس پر برق صاحب لکھتے ہیں کہ خدا جانے یہ موہومی کیا چیز ہے.اور یہ
۵۹۳ موہومی بزرگ کون ہوتے ہیں ؟ الجواب اس جگہ پوری عبارت یوں ہے :- (حرف محرمانه صفحه ۳۸۲) قرآن کریم نے نہ ایک بار نہ دوبار بلکہ پچیس بار فرما دیا کہ توفی کے لفظ سے صرف قبض روح مراد ہے.جسم سے کچھ غرض نہیں.پھر اگر اب بھی کوئی نہ مانے.تو پھر اسے قرآن کریم سے کیا غرض اس کو تو صاف یہ کہنا چاہیے.کہ میں اپنے موہومی بزرگوں کی لکیر کو چھوڑنا نہیں چاہتا.“ سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ ” موہومی بزرگوں“ جن کے خیال کو وہ لوگ قرآن کے فیصلہ پر بھی ترجیح دیتے ہیں.اور انہیں لوگوں کی لکیر کے فقیر رہنا چاہتے ہیں.جو یہ کہتے ہیں کہ توفی سے جسم اور روح دونوں کا لینا مراد ہے.حالانکہ قرآن مجید توفی کے مشتقات صرف قبض روح کے معنوں میں استعمال کرتا ہے.نہ قبض روح مع الجسم کے معنوں میں.” موہوم “و ہم سے اسم مفعول ہے.اور اس کے ساتھ ”ی“ نسبتی لگا کر یہ لفظ خیالی کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے مراد یہ ہے کہ جو لوگ قائلین حیات مسیح" کے وہم و خیال میں بزرگ ہیں.وہ ان خیالی بزرگوں کی لکیر ہی پیٹنا چاہتے ہیں.: - برق صاحب ایک عبارت درج کرتے ہیں :- اور درندگی کے جوشوں کی وجہ سے لعنتوں پر ید از دور دیا جاتا ہے.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۵۹۵) آپ کو اعتراض یہ ہے کہ ”جو شوں کی جگہ "جوش " چاہیے.(حرف محرمانه صفحه ۳۸۲)
۵۹۴ الجواب آج کل کے اسلوب میں گو جوشوں کی جگہ جوش استعمال ہوتا ہے.مگر پرانا اسلوب اپنی جگہ درست تھا.اور فصیح سمجھا جاتا تھا ہم اس سے پہلے سر سید احمد خان کے قول سے لفظ ”استعمالوں کی مثال دے چکے ہیں.آج کل صرف لفظ استعمال" مستعمل ہے.لیکن پرانے اسلوب میں استعمالوں غیر فصیح نہیں سمجھا جاتا تھا.تبھی تو سر سید احمد خان نے جوار دو کے عناصر خمسہ میں سے تھے استعمالوں“ کا لفظ استعمال کیا.: -برق صاحب نے ایک اقتباس دیا ہے :- اب جو یہودیت کی صفتوں کا عام وبا پھیل گیا ہے اور....نصاری کو اپنے مشرکانہ خیالات میں بہت سی کامیابی ہوئی ہے.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۶۵۰) اس پر برق صاحب معترض ہیں.اردو میں صفت عموما مدح خیر اور خوبی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اس لئے یہاں قبائح چاہیے نیز وباو کا میابی “ مونث ہیں.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۸۲) صفت کا لفظ در حقیقت حالت “ کے معنوں میں آتا ہے.برق صاحب کا یہ کہنا کہ عموماً مدح میں استعمال ہوتا ہے.یہ بتاتا ہے کہ عمومی استعمال اس کا مدح میں ہوتا ہے.لیکن کسی خاص محل پر جب کہ سیاق کلام وضاحت کر رہا ہو.قبائح میں بھی استعمال کیا جاتا ہے.جیسا کہ اس جگہ استعمال ہوا ہے.کیونکہ اس جگہ یہودیت کی صفتوں کو عام وہا سے تعبیر کیا گیا ہے عام وبا کا لفظ اس جگہ صفتوں کے قبائح ہونے کے لئے قطعی قرینہ ہے.گو یہ عرف عام کے مقابلہ میں مجازی استعمال ہوا ہے کیونکہ لغت میں صفت کا لفظ حالت کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے خواہ حالت اچھی ہو.یا بر کی.لفظ "بیت
۵۹۵ " سے “ کو ” بہت سی “ پڑھیے اس جگہ کامیابی ہوئی ہے“ میں ”ہوئی ہے “ کا لفظ بھی اس بات کے لئے قرینہ ہے کہ "ہی ہی پڑھا جانا چاہیے.اور یہ اسبات کے لئے بھی قرینہ ہے کہ "کامیابی کا لفظ مونث ہی استعمال ہوا ہے.رہا لفظ وباء " تو وہ اہل علم میں مختلف فیہ ہے جیسا کہ.قلم ، راہ ، ہوش ، فکر مختلف فیہ ہیں.لکھتے ہیں.برق صاحب اسنئے :.فکر ہوتا ہے فکر ہوتی ہے.یوں بھی لکھتے ہیں یوں بھی وو (نوح ناروی) ۱۰ : برق صاحب حضرت اقدس کے ایک فقرہ کو ادھورا نقل کرتے ہیں :- کا مفصل حال معلوم کرنا طول بلا طائل.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۵۷۶) برق صاحب کا اس پر اعتراض یہ ہے.کہ عربی مرکب بلا طائل“ ہے.لا طائل کو بغیر طائل یا سوائے طائل میں بدل نہیں سکتے.(حرف محرمانہ صفحہ ۳۸۳) 666-9 الجواب عربی مرکب دراصل ”لا طَائِلَ تَحْتَ “ ہے.”طول لا طائل“ عربی مرکب نہیں ہے.لہذ اطول بلا طائل فارسی یا اردو ترکیب ہے اور یہ استعمال جائز ہے.ہر گز محل اعتراض نہیں.حضرت اقدس نے طول بلا طائل استعمال کیا ہے طول بغیر طائل یا طول سوائے طائل استعمال نہیں کیا.اور صرف طول لا طائل کہنا درست نہ ہو تا.جب تک اسکے ساتھ نَحنہ کا استعمال نہ ہو.تا اس جگہ "بلا" کی "ب" سے "تحنہ " کا مضمون بیان کیا گیا ہے.اور عرفی کے محاورہ کو اردو کا رنگ دے دیا گیا ہے.پس جو امر خوفی اور کمال پر دال ہے.اس میں بھی برق صاحب کیڑے نکال رہے ہیں.و كم من عائب قولاً صحيحا - وآفته من الفهم السقيم 11 :.اس نمبر کے فقرہ میں تحقیقاتوں" کے لفظ کے استعمال پر یوں معترض ہیں کہ :
۵۹۶ " تحقیق کی جمع تحقیقات ہے.جمع الجمع بنانے کی ضرورت ؟“ (حرف محرمانه صفحه ۳۸۳) اردو کے پرانے اسلوب میں عربی اسم کی جمع الجمع بنا کر علی العموم استعمال کی جاتی تھی بلکہ اب تک کئی الفاظ بطور جمع الجمع کے استعمال ہوتے ہیں.مثلا رسوم کی جمع الجمع رسومات اور اصول کی جمع الجمع اصولوں.وجوہ کی جمع الجمع وجوہات.کفار کی جمع الجمع کفاروں.اور علماء کی جمع الجمع علماؤں.۱۲ : - برق صاحب ایک فقرہ یوں درج کرتے ہیں :- " مسیح نے اپنے حواریوں کو یوں نصیحت کی تھی کہ تم نے آخر کا منتظر رہنا.“ (ازالہ اوہام صفحه ۶۸۴) اس پر برقی صاحب لکھتے ہیں.کیا سمجھے ؟ (حرف محرمانه صفحه ۳۸۳) الجواب برق صاحب نے ادھوری عبارت پیش کر کے مضمون کو مسم بنا دیا ہے.اگر پہلا فقرہ ساتھ ہی درج کر دیتے تو آخر " کا مفہوم واضح ہو جاتا.پوری عبارت یوں ہے :- عیسائیوں نے مختلف زمانوں میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا.اور کچھ تھوڑا عرصہ ہوا ہے.کہ ایک عیسائی نے امریکہ میں بھی مسیح ابن مریم ہونے کا دم مارا تھا.لیکن ان مشرک عیسائیوں کے دعویٰ کو کسی نے قبول نہیں کیا.ہاں ضرور تھا کہ وہ ایساد عویٰ کرتے.تا انجیل کی وہ پیشگوئی پوری ہو جاتی کہ بہترے میرے نام پر آئیں گے.اور کہیں گے.کہ میں مسیح ہوں پر سچا مسیح ان سب کے آخر میں آئے گا.اور صحیح
۵۹۷ نے اپنے حواریوں کو نصیحت کی تھی کہ تم نے آخر کا منتظر رہنا.“ اس عبارت کے سیاق سے ظاہر ہے.کہ آخر کا منتظر رہنا“ سے.”سب سے آخر میں آنے والے“ کا منتظر رہنا مراد ہے.پس اس عبارت میں کوئی ابہام نہیں.صرف جناب برق صاحب نے اعتراض کی خاطر اسے مہم بنانے کے لئے ادھوری عبارت پیش کی ہے.تاکہہ سکیں سمجھے ؟ ۱۳ - برق صاحب ایک عبارت یوں درج کرتے ہیں :- " جب دجال کے زمانہ میں دن لمبے ہو جائیں گے تو تم نے نمازوں کا (ازالہ صفحہ ۷ ۶۸) اندازہ کر لیا کرتا.“ برقی صاحب نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا صرف تو تم نے نمازوں کا اندازہ کر لیا کرنا کے نیچے لائن کھینچ دی.گویا یہ عبارت آپ کے نزدیک قابل اعتراض ہے.(حرف مجرمانه صفحه ۳۸۳) پوری عبارت یوں ہے :- د بعض یہ شبہ پیش کرتے ہیں.کہ ایک سوال کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا.کہ جب دجال کے زمانہ میں دن لمبے ہو جائیں گے.یعنی برس کی مانند یا اس سے کم تو تم نے نمازوں کا اندازہ کر لیا کرنا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو انسی ظاہری معنوں پر یقین تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صرف فرضی طور پر ایک سوال کا جواب حسب منشا سائل دیا گیا تھا.اور اصلی واقعہ کا بیان مه کر نامد عانہ تھا.بلکہ آپ نے صاف صاف فرما دیا تھا کہ سائر آیا میہ کا یا مکم" اگر برق صاحب کو عبارت میں " تم نے اندازہ کر لیا کرنا " میں " نے " کے " استعمال پر اعتراض ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پنجاب میں آجتک نے کا
۵۹۸ استعمال موجود ہے.۱۴ - برق صاحب ایک عبارت یوں نقل کرتے ہیں :- اگر چہ یہ بات قابل تسلیم ہے.جو ہر سال میں ہماری قوم کے ہاتھ سے بے شمار روپیہ منام نہاد خیرات و صدقات کے نکل جاتا ہے.“ (دیباچہ براہین صفحه ب) اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ ”جو " اور " میں " کا استعمال غلط ہے اور بنام پریہ (حرف محرمانه صفحه ۳۸۴) نہاد مہمل ہے.الجواب حضرت اقدس کا پرانا اسلوب بیان یہ تھا کہ کہ " کی جگہ اس کے ہم معنے " لفظ ”جو “ استعمال فرمایا کرتے تھے.اور وقت کے ساتھ ” میں “ کا استعمال بھی پرانا اسلوب ہے بنام نہاد میں ”ب“ زائد تزئین کلام کے لئے ہے.اور پرانے لوگوں کا یہ اسلوب تھا.کہ عبارت میں ” کے لانے کے ساتھ ”ب“ بھی استعمال کرتے تھے.اس قسم کی تراکیب سر سید احمد خان مرحوم کے کلام میں بھی موجود ہیں.مثلاً وہ لکھتے ہیں :- الف : - بذریعہ ایک ڈیوٹیشن کے.(جائے ایک ڈیوٹیشن کے ذریعے) ب :- بہ نسبت سابق کے.(بجائے بہ نسبت سابق) (بجائے نمونہ کے طور پر ) ج :- بطور نمونہ کے.و :- میرے پاس بذریعہ ڈاک کے.(جائے ڈاک کے ذریعے) (مکتوبات سر سید احمد خان) پس نام نہاد پرانی اردو زبان کے لحاظ سے قابل اعتراض نہیں.۱۵ - پھر برق صاحب یہ عبارت پیش کرتے ہیں.”دوسرے تو ایسا دل و دماغ ہی نہیں رکھتے جو اسکی فلاسفری تقریر کو سمجھ
۵۹۹ سکیں.(براہین صفحه ۱۹۵) اس عبارت میں فلاسفر پر یائے نسبت لگا کر فلاسفر کے لفظ کو صفت نسبتی بنایا گیا ہے.اور یہ لفظ فلسفیانہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.اور یہ امر بالکل جائز ہے.کہ کسی اسم پر یائے نسبتی لگا کر اسے صفت بنا دیا جائے سر سید مرحوم نے بھی بعض الفاظ ایجاد کئے ہیں.جیسے " تم بڑے بڑے عمامہ والے.شمعل " شملوں والے.پھر برق صاحب یہ شعر پیش کرتے ہیں :- اب سال سترہ بھی صدی سے گذر گئے تم میں سے ہائے سوچنے والے کدھر گئے (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۴۱) اس پر یہ اعتراض کیا ہے.سترہ (۱۷) تشدید کے بغیر ہے.الجواب جناب برق صاحب اپنے آپ کو خواہ مخوالو اردو دان سمجھ بیٹھے ہیں.اہل زبان تو سترہ کو معد وہی بولتے اور پڑھتے ہیں.۱۷ : - پھر برق صاحب نے ایک مصرع درج کیا ہے :- " چھوڑتے ہو دیں کو اور دنیا کو کرتے ہو پیار.“ اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ دیں میں اعلان نون ضروری ہے.پیار کی یا غیر ملفوظہ ہوتی ہے.اور تقطیع کے وقت پیار صرف پار رہ جاتا ہے.مگر یہاں ملفوظہ ہے.الجواب جن اساتذہ نے اپنے پر یہ پابندی عائد کرنی ہے کہ عطف واضافت کے بغیر اخفائے نون نہیں کریں گے.وہی اس قاعدہ کے پابند ہیں.ورنہ میر اور سوداء سے لیکر
۶۰۰ تا این دم شعراء اخفائے نون سے بھی لفظ باندھتے چلے آئے ہیں.اور اعلان نون سے بھی اخفائے نون کی مثالیں ملاخطہ ہوں.منیر شکوہ آبادی : - منیر افسردہ ہوں پابندی عطف واضافت ورنہ لطف دکھلاتا مضامین گریباں کا اس جگہ اضافت کی وجہ سے منیر نے گریبان کو اخفائے نون سے باندھا ہے.منير :- سوداء :- قائم :- بے خود : ٹھرے ہیں ہم تو مجرم تم کو پیار کر کے تم سے بھی کوئی پوچھے تم کیوں ہوئے پیارے مارو گے کس کو جی سے کس پر کمر کسی ہے پھرتے ہو کیوں پیارے تلوار ڈھال باندھے بہار عمر ہے قائم کوئی دن اسے جوں گل پیارے کاٹ ہنس کر یہ سمجھ کر گالیاں دیتے ہیں وہ بھولی صورت پر پیار آجائے گا پس اخفائے نون اور تقطیع میں پیار کی پائے کا ملفوظہ ہو تا محل اعتراض نہیں ہو سکتا.کیونکہ اس زمانے کے اساتذہ اپنے کلام میں اعلان نون اور تقطیع میں پیار کی پائے کو ملفوظہ استعمال کرتے رہے ہیں.کیوں برقی صاحب تسلی ہوئی ؟
۶۰۱ ہوں :- اب سوداء کے کلام میں خود لفظ ”دین“ میں اخفائے نون کی مثالیں واضح (1) فرض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں (۲) نے فکر ہے دنیا کی نے دیں کا متلاشی اس ہستی موحوم میں کسی کام کا ہوں میں (۳) کار فرما جو ہمیں پوچھے تو کیا دیں گے جواب وہ کیا کام نہ دنیا ہوئی نے دیں جس میں سنائیے برقی صاحب ! اب بھی تسلی ہوئی یا نہیں ؟ کہ حضرت اقدس کا دین کو اخفائے نون سے استعمال کرنا درست ہے.اور آپ کا اعتراض لغو.:۱۸ پھر برق صاحب یہ فقر و درج کرتے ہیں :- وو چونکہ نور افشاں کے صاحب راقم نے “ اس پر یہ اعتراض کیا ہے.یہ صاحب رقم کیا چیز ہے؟ (حرف محرمانہ صفحہ ۳۸۵) الجواب یہ صاحب رقم نور افشاں کے ایڈیٹر صاحب ہیں.راقم کے ساتھ صاحب کا لفظ اکر اما استعمال کیا گیا ہے.یہ ہر گز محل اعتراض نہیں.یہ بیان ختم ہوا اس کے بعد برق صاحب " معمل" کے عنوان کے تحت اٹھ عبارتیں پیش کرتے ہیں.اور لکھتے ہیں.جناب مرزا صاحب کے ہاں مہمل جملوں کی بھی کمی نہیں.اقتباسات میں خط کشیدہ الفاظ ملاحظہ فرمائیے.ا مگر یہ دنیوی پیشگوئیاں تو ابھی مخفی امور ہیں.جن کی شارع علیہ السلام نے اگر
۶۰۲ کچھ شرح بھی بیان کی.تو ایسی کہ جو استعارہ کی طرف توجہ دلاتی ہے.“ الجواب (ازالہ اوہام صفحہ ۴۲۷) خط کشیدہ الفاظ سے صاف ظاہر ہے.کہ پیشگوئیوں کی جو تشریح آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی ہے.اس سے ظاہر ہوتا ہے.کہ ان پیشگوئیوں میں استعارہ کا استعمال ہوا ہے.چنانچہ اس کے بعد کی عبارت یوں ہے :- " مثلاً کیا ان احادیث پر اجماع ہو سکتا ہے.کہ مسیح اگر جنگلوں میں خنزیروں کا شکار کھیلتا پھرے گا.اور دجال خانہ کعبہ کا طواف کرے گا.اور ائن مریم بیماروں کی طرح دو آدمیوں کے کاندھے پر ہاتھ دھر کے فرض طواف کعبہ جا لائیگا کیا معلوم نہیں ؟ کہ جو لوگ ان حدیثوں کی شرح کرنے والے گزرے ہیں.وہ کیسے بے ٹھکانہ اپنی اپنی تکمیں ہانک رہے ہیں اگر کوئی بات اجماع کے طور پر تصفیہ یافتہ ہوتی تو کیوں وہ لوگ مختلف خیالات کو ظاہر کرتے.کیا کفر کا خوف نہیں تھا.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۴۱۸) ۲ : - "اور ان ( کامل لوگوں) کی روح کو خدا تعالیٰ کی روح کے ساتھ وفاداری کا ایک راز ہوتا ہے.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۴۴۶) پوری عبارت یوں ہے :- ” خدا تعالیٰ کے ساتھ ان لوگوں کو نہایت کامل وفاداری کا تعلق ہوتا ہے.اور ایک عجیب مستی جانفشانی کی ان کے اندر ہوتی ہے.اور ان کی روح کو خدا تعالیٰ کی روح کے ساتھ وفاداری کا ایک راز ہوتا ہے جس کو کوئی بیان نہیں کر سکتا.اس لئے حضرت احدیت میں ان کا ایک مرتبہ ہوتا ہے.جس کو خلقت نہیں پہچانتی اور وہ چیز جو خاص طور پر ان میں زیادہ ہے.اور جو سر چشمہ تمام برکات کا ہے.اور جس کی وجہ سے یہ ڈوتے ہوئے پھر نکل آتے ہیں.اور موت تک پہنچ کر پھر زندہ ہو جاتے ہیں اور : لتیں
۶۰۳ اٹھا کر پھر تاج عزت رکھا دیتے ہیں.اور مجور اور اکیلے ہو کر پھر ناگہاں ایک جماعت کے ساتھ نظر آتے ہیں.وہ یہی راز وفاداری ہے.جس کے رشتہ محکم کو نہ تلواریں قطع کر سکتی ہیں اور نہ دنیا کا کوئی بلوہ اور خوف مفسدو اس کو ڈھیلا کر سکتا ہے.السلام عليهم من الله و ملئكته ومن الصلحاء اجمعین ہر پڑھنے والا خود سمجھ سکتا ہے کہ اس عبارت میں ”راز وفاداری“ سے کیا مراد ہے.پس یہ فقرہ قابل اعتراض نہیں کیونکہ آگے اس کی نہایت لطیف تفسیر اور وضاحت موجود ہے.“ جائے گا." : - " تیری ذریت کو بڑھائے گا اور من بعد تیرے خاندان کا تجھ سے ہی ابتداء قرار دیا (ازالہ اوہام صفحه ۶۳۴) اس عبارت میں اللہ تعالیٰ کی دو الہامی پیشگوئیوں کا ذکر ہے.اور اس عبارت سے پہلے اور بھی کئی پیشگوئیاں مذکور ہیں.یہ عبارت اپنے اس مضمون میں صاف ہے.کہ خدا تعالٰی نے وعدہ کیا ہے.کہ وہ آپ کی ذریت کو بڑھائے گا.چنانچہ اللہ تعالی نے یہ و عده نهایت شاندار طریق سے پورا فرمایا ہے اور آپ کی ذریت جسمانی و روحانی ترقی پر ترقی کر رہی ہے.دوسری پیشگوئی یہ کی گئی ہے کہ اس کے بعد تیرے خاندان کا تجھ سے ہی ابتداء قرار دیا جائے گا.یہ عبارت عربی الهام ينقطع من اباء ك ويبدء منك كا اردو مفہوم ہے.کہ آپ کے خاندان کی باقی شاخیں خشک ہو جائیں گی اور باقی لوگ لاولد رہ جائیں گے.اور آئندہ سے آپ کے خاندان میں سے صرف آپ کی شاخ پھلے پھولے گی.اور خاندان آپ کی طرف سے منسوب ہو گا.اللہ اللہ یہ کیسی عظیم الشان پیشگوئی ہے.جس کے عمل میں آنے کے لئے کسی انسانی تدبیر کا کچھ دخل نہیں ہو سکتا.حضرت اقدس کے خاندان کی باقی سب شاخیں ان لوگوں کے لاولد رہ جانے کی وجہ سے خشک ہو گئیں.اور صرف آپ کی ذریت جاری ہے.جناب برق صاحب اس معجزانہ نشان سے از راہ تقوی خدا تعالی کی ہستی پر
۶۰۴ ایمان تازہ کرنے کی بجائے اسے اعتراض کا نشانہ بار ہے ہیں.صد حیف.۴ : اکثر لوگ عقل کی بد استعمالی سے ملالت کی راہیں پھیلا رہے ہیں.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۷۶۷ ) پوری عبارت یوں ہے :- اسلام کے ضعف اور غربت اور تنہائی کے وقت میں خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.تا میں ایسے وقت میں جو اکثر لوگ عقل کی بد استعمالی سے ضلالت کی راہیں پھیلا رہے ہیں.اور روحانی امور سے رشتہ مناسبت بالکل کھو بیٹھے ہیں اسلامی تعلیم کی روشنی ظاہر کروں.میں یقیناً جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ اسلام اپنا اصلی رنگ نکال لائے گا.اور اپنا د کمال ظاہر کرے گا جس کی طرف آیت نیظهره علی الدین کلہ میں اشارہ ہے.“ عبارت کا مفہوم واضح ہے.اس میں کوئی ابہام نہیں.جناب برق صاحب نے نہیں بتایا کہ ضلالت کی راہیں پھیلانا کیوں قابلِ اعتراض ہے.اگر ضلالت پھیلانا کے الفاظ قابل اعتراض نہیں تو ضلالت جس کی کئی را ہیں یعنی مذاہب ہیں.ان کے پھیلانے کا ذکر کیوں خلاف فصاحت ہے.مذاہب کے لئے تو پھیلانے ہی کا استعمال موزوں اور فصیح ہے.:- " اس قدر عرض کرنا اپنے بھائیوں کے دین اور دنیا کی بہبودی کا موجب سمجھتا ہوں.کہ اگرچہ گورنمنٹ کی رحمانہ نظر مسلمانوں کی شکستہ حالت بہر حال قابل رحم ٹھہرے گی.“ الجواب اس عبارت میں سمو کتابت سے لفظ " نظر " کے بعد میں " کا لفظ رہ گیا ہے اس قسم کی کتابت اور طباعت کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان پر سنجیدہ بن کر
اہتمام سے اعتراض کرنا عالی ظرفی کی علامت نہیں.اسی سال بہت سے اور لوگوں نے بھی امتحان دیا مجھ کو خواب آئی کہ ان سب میں سے صرف اس شخص مقدم الذکر کا پاس ہو گا.اور دوسرے سب امید وار فیل ہو جائیں گے.“ اصل عبارت یوں ہے :- ایک مرتبہ خدا نے ہم کو خواب میں ایک راجہ کے مرجانے کی خبر دی وہ خبر ہم نے ایک ہندو صاحب کو کہ جو اب پلیڈری کا کام کرتے ہیں بتلائی.جب وہ خبر اسی دن پوری ہوئی تو وہ ہندو صاحب بہت ہی متعجب ہوئے کہ ایسا صاف اور کھلا ہوا علم غیب کا کیونکر معلوم ہوا.پھر ایک مرتبہ جب انہیں وکیل صاحب نے اپنی وکالت کے لئے امتحان دیا تو اسی ضلع میں سے اُن کے ساتھ اسی سال میں بہت سے اور لوگوں نے بھی امتحان دیا.اس وقت بھی مجھ کو ایک خواب آئی.اور میں نے اس وکیل صاحب کو اور شاید تمیں آیا چالیس اور ہندوؤں کو جن میں سے کوئی تحصیلدار کوئی سر رشتہ دار کوئی محر ر ہے بتلایا.کہ ان سب میں سے صرف اس شخص مقدم الذکر کا پاس ہو گا اور دوسرے سب امیدوار فیل ہو جائیں گے.چنانچہ بالآخر ایسا ہی ہوا.اور ۱۸۶۸ء میں اس وکیل صاحب کے خط سے اس جگہ قادیان میں یہ خبر ہم کو مل گئی.والحمد لله على ذالك" (براہین احمدیہ حاشیه در حاشیه صفحه ۲۵۶ طبع اول) برق صاحب نے اس نشان سے تو کوئی فائدہ اٹھایا نہیں بلکہ عبارت کو غیر موثر بنانے کے لئے شروع اور درمیان کی عبارتیں حسب عادت حذف کر گئے ہیں.البتہ انہیں اس نشان کے بیان کی عبارت کے ایک حصے پر اعتراض پیدا ہوا ہے.خط کشیدہ عبارت میں "پاس" کا لفظ ایک خاص صنعت میں استعمال ہوا ہے.جو بظاہر
۶۰۶ انگریزی لفظ ” فیل“ کے مقابل انگریزی لفظ pass کے مشابہ ہے.حقیقت میں یہاں یہ لفظ فارسی لفظ پاس ہے.جو اردو میں با معنی لحاظ خاطر استعمال ہوتا ہے.مراد یہ ہے.کہ خواب کا مضمون آپ نے یہ بتایا تھا.کہ اس امتحان میں مقدم الذکر شخص کا پاس خاطر ہو گا یعنی وہ کامیاب ہو گا.اور دوسرے سب امیدوار فیل ہو جائیں گے.: " یعنی جو کچھ آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں اسرار اور عجائبات پر ہیں دجال معمود کی طبائع کی بناوٹ اس کے برابر نہیں.“ " نہ معلوم برق صاحب نے یہ عبارت کیوں درج کر دی اور اس میں انہیں کیا اہمال اور امام نظر آیا ہے.جس لطیف اور واضح عبارت سے سیاق و سباق کو دانستہ کاٹ کر یہ فقرہ لکھا گیا ہے.وہ پوری عبارت یوں ہے :- واضح رہے کہ قرآن شریف میں الناس کا لفظ بمعنی رجال معمود بھی آتا ہے.اور جس جگہ ان معنوں کو قرینہ قویہ متعین کرے تو پھر اور معنے کرنا معصیت ہے.چنانچہ قرآن شریف کے ایک اور مقام میں الناس کے معنے دجال ہی لکھا ہے اور وہ یہ ہے.لخلق السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ أَكبَرُ مِن خلق الناس - (المومن : ۵۸) یعنی جو کچھ آسمانوں اور زمین کی ملاوٹ میں اسرار اور عجائبات پر ہیں.دجال معہود کی طبائع کی مناوٹ انس کے برابر نہیں.( یہ آیت کا ترجمہ ہے آگے تشریح میں فرماتے ہیں نا قل).یعنی گودہ لوگ اسرار زمین و آسمان کے معلوم کرنے میں کتنی ہی جانکا ہی کریں اور کیسی ہی طبع و قا ولاو ہیں.پھر بھی ان کی طبعیں ان اسرار کے انتا تک پہنچ نہیں سکتیں.“ (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۱ طبع اول) اور پھر اس کی تشریح میں فرماتے ہیں :- خلاصہ مطلب آیت یہ ہے کہ زمین آسمان میں جس قدر اسرار رکھے گئے ہیں جن کو دجال بذریعہ علم طبیعی اپنی قدرت میں کرنا چاہتا ہے وہ اسرار اس کے اندازہ
۶۰۷ جودت طبع اور مبلغ علم سے بڑھ کر ہیں." (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۱ طبع اوّل) اب قارئین کرام ملاخطہ فرمالیں کہ اس عبارت میں کو نسا فقرہ مہمل ہے.جب کہ اس کو مذکورہ سیاق و سباق میں پڑھا جائے.:: برق صاحب لکھتے ہیں.مرزا صاحب کے دو شعر ملاحظہ ہوں :- کیوں غضب بھڑ کا خدا کا مجھ سے پوچھو غافلو! ہو گئے ہیں اس کا موجب میرے جھٹلانے کے دن جب سے میرے ہوش غم سے دیں کے ہیں جاتے رہے طور دنیا کے بھی بدلے ایسے دیوانے کے دن تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ آخر طبع اول ۱۹۰۷ء) ”میرے جھٹلانے کے دن“ میں حضرت اقدس نے ” میرے“ کو بطور ضمیر اضافت " استعمال نہیں فرمایا.بلکہ اپنے اسلوب کے مطابق بطور " ضمیر ا مفعول با معنی " مجھے “ استعمال فرمایا ہے.پس شعر کے معنی صاف ہیں کہ اے غافلو : مجھ سے پوچھو کہ خدا کا غضب کیوں بھڑکا ہے ؟ تمہارا مجھے جھٹلانا اس غضب کا موجب ہوا ہے.دوسرے شعر کا مصرع ثانی پہلے مصرع کے ساتھ مل کر یہ معنی رکھتا ہے کہ جب سے میں دین (اسلام) کے غم میں دیوانہ ہوا ہوں.لوگوں کے اطوار بھی بدل گئے ہیں.اور میری تکفیر اور تکذیب پر کمر بستہ ہو گئے ہیں.برق صاحب نے آخر میں نوٹ دیا ہے :- یہ تھیں چند مثالیں اس کلام کی جس کے متعلق مرزا صاحب نے فرمایا تھا.كَلَامُ أَفْصِحَتْ مِن لَّدُنْ رَبِّ رَحِيمٍ
۶۰۸ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ عربی زبان کے امتیازی کلام کے متعلق ہے.پس برق صاحب کا اس جگہ اس عربی عبارت کو پیش کرنا غیر متعلق ہونے کی وجہ سے بے محل ہے.بعض الهامات پر ادمی نکتہ چینی کا جواب برق صاحب نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے بعض الہامات پر کچھ ادبی نکتہ چینی بھی کی ہے.اس نکتہ چینی میں انہوں نے محض اپنے فہم سقیم اور عربی ادب میں اپنی انتہائی کم مائیگی کا ثبوت دیا ہے.کسی نے سچ کہا ہے.وَكَمْ مِن عَائِبٍ قَوْلاً صَحِيحاً وآفَتُهُ مِنَ الْفَهْمِ السَّقِيمِ ا - السماء والارض معك كما هو معى اس الہام پر دواعتراض کئے ہیں :- 66 اول :- عربی میں ارض و سماء مونث ہیں ان کے لئے ضمیر ھونڈ کر استعمال کی گئی.دوم :- دو اشیاء کی طرف مفرد کی ضمیر راجع کر دی حسب قواعد ھنا چاہیے.حرف محرمانه صفحه ۳۹۰،۳۸۹) الجواب یہ دونوں اعتراض عربی زبان کے اسالیب سے نا واقعی کا ثبوت ہیں.ان دونوں سوالوں کا جواب یہ ہے کہ اس الہام میں ”السماء والارض“ کو تاویلا مخلوق پر
۶۰۹ محمول کر کے ھو کی ضمیر کا مرجع قرار دیا گیا ہے.مخلوق چونکہ مذکر اور مفرد ہے اس لئے ھو کی ضمیر مفرد مذکر استعمال کی گئی.حضرت اقدس اس الہام کے متعلق خود تحریر فرماتے ہیں :- " هوکا ضمیر واحد باعتبار واحد في الذهن یعنی مخلوق ہے.اور ایسا محاورہ قرآن (انجام آتھم حاشیہ صفحہ ۵۲) شریف میں بہت ہے.سراج منیر صفحہ ۸۱ حاشیہ پر تحریر فرماتے ہیں.ضمیر ھو اس تاویل سے (واحد ) ہے.کہ اس کا مرجع مخلوق ہے.“ اگر یہ سوال ہو کہ کیا ایسی تاویل جائز ہے ؟ تو مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ پر غور فرمائیے.:1 - الله ورسولُهُ أَحَقُّ ان يُرضوه اس آیت میں اللہ اور رسول کی طرف مفرد کی ضمیر دونوں کا ایک مقصد ہونے کی وجہ سے راجع کی گئی ہے.: - وَ الَّذِينَ يَكْبَرُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَثِيرُهُم بِعَذَابٍ أَلِيم (التوبه : ۳۴) اس آیت میں ذهب (سونا) اور فضة (چاندی) دو چیزیں مذکور ہیں.جن میں سے ایک مذکر ہے اور دوسری مونث لیکن ان دونوں کی طرف تثنیہ کی ضمیر هما کی بجائے واحد مونث کی ضمیر کا راجع کی گئی ہے.اس کی توجہ یہ ہے کہ ذھب اور فضه کو ثروت قرار دے کر ان دونوں کی طرف واحد مونث کی ضمیر ھا راجع کی گئی ہے.کیا برق صاحب ان آئیوں کے الہامی کلام ہونے سے انکار کر دیں گے.یا ان میں ہماری تاویل سے ہی کام لیں گے.۲ : - "أنا آتيناك الدنيا"
۶۱۰ اس الہام پر بھی دو اعتراض کئے گئے ہیں.اول :- ” یہاں ایک خدائی نعمت و عطاء کا ذکر ہے.اس لئے اعطينك زیادہ مناسب تھا گو قواعد کے لحاظ سے آتینک بھی صحیح ہے.“ (حرف محرمانه صفحه ۳۹۰) گویا اعتراض یہ ہوا کہ زیادہ مناسب لفظ اعطينك کے مقابلہ میں کم مناسبت رکھنے والا لفظ آتينك استعمال کر دیا گیا ہے.الجواب قرآن کریم نے خدائی نعمت کے دیا جانے کا ذکر کرتے ہوئے صرف ایک جگہ اعطيتك کے لفظ سے نعمت دینے کا ذکر کیا ہے.جیسے فرمایا :- إِنَّا أَعْطَيْنكَ الكوثر (الكوثر : ۲) مگر قریب ترین دفعہ نعمت دینے کے لئے اس کی بجائے ا تینا کا لفظ ہی استعمال فرمایا ہے.اگر اعطینا کا لفظ آئینا کے مقابلہ میں نعمت دینے کے لئے زیادہ مناسب تھا تو برق صاحب بتائیں کہ قرآن کریم میں نعمت دینے کے لئے آئینا کو اعطینا کے مقابلہ میں کیوں بہت اکثریت سے استعمال کیا گیا ہے ؟ اس جگہ آئینا کی چند مثالیں درج ہیں :- ا آتَيْنَا مُوسَى الكِتبَ تَمَاماً عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ (الانعام : ۱۵۵) : - آتِينَا ألَ إِبْرَاهِيمَ الكِتبَ وَالْحِكْمَةَ - : - آتَيْنَا دَاوُدَ و سُلَيْمَنَ عِلماً - : - آتَيْنَا لُقُمْنَ الحِكْمَةَ - ۵ : - آتَيْنَا مُوسَى سُلْطَاناً مُبِينًا.: - آتينهُ مِنَ الكنوز - (النساء : ۵۵) (النمل : ١٦) (لقمن : ۱۳) (النساء : ۱۵۴) (القصص: ۷۷)
۶۱۱ :- لُوطاً آتَيْنَهُ حُكماً وَّ عِلماً - : - أَتَيْنَهُمْ مُلكاً عَظِيماً - (الانبیاء : ۷۵) (النساء : ۵۵) ٩ : - وَلَقَدْ أَتَيْنَكَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرآنَ الْعَظِيمَ - ( الحجر : ۸۸) اس آیت میں سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کے دیا جانے کیلئے اتینگ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.اور سورۃ فاتحہ وحی الہی کے لحاظ سے سب سے بڑی نعمت ہے جو دنیا کو دی گئی.پس برق صاحب کے اعتراض کی رگالت اور مخافت ان آیات سے ظاہر ہے.کیونکہ ان کا یہ اعتراض تو پھر قرآن شریف کی وحی پر بھی پڑتا ہے.دوم : - " یہ العام البنك الدنيا (ہم نے تمہیں دنیا دے دی ) مادی لحاظ سے غلط ہے.اور روحانی لحاظ سے ابھی پورا نہیں ہوا اور نہ آئندہ اس کی تکمیل کا کوئی امکان نظر آتا ہے.“ (حرف محرمانه صفحه ۳۹۴) روحانی لحاظ سے یہ ایک حد تک پورا ہو چکا ہے.چنانچہ اس وقت لاکھوں آدمی ساری دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیادت روحانیہ کو مان رہے ہیں.اور انشاء اللہ وہ وقت بھی آئے گا کہ دنیا کی غالب اکثریت آپ کی روحانی سیادت کی قائل ہو جائے گی.گو برق صاحب کو اس کی تکمیل کا کوئی امکان نظر نہیں آتا مگر بعض نا ممکنات کا وجود میں آجاتا ہی تو خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی اور معجزہ ہوتا ہے.اور پیشگوئیوں کا پورا ہونا ایک وقت چاہتا ہے.اس لئے انتظار کیجئے.اس کے آثار تو ظاہر ہو چکے ہیں کیونکہ حضرت اقدس کو تبلیغ اسلام کے لئے مخلصین کی ایسی جماعت دی گئی ہے.جو دین کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں کر کے اس پیشگوئی کے کامل طور سے پورا ہونے کے زمانہ کو خدا کے فضل سے قریب لارہی ہے.
۶۱۲ 66 : " لولا الا كُرَامُ لَهَلَكَ المُقَامُ.“ اس الہام پر تین اعتراض کئے ہیں :- اول : - الاکرام کا استعمال غلط اور بے معنی ہے.دوم : - مقام کا استعمال ہندی ہے.سوم : ملاکت کی نسبت مقام کی طرف عربی محاورہ کے خلاف ہے.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۹۶) برق صاحب کی یہ تینوں باتیں غلط ہیں.پہلی اس طرح غلط ہے کہ الاکرام کا استعمال الہام میں غلط اور بے معنی نہیں بلکہ الاکرام کا الف مخصوص اکرام کو ظاہر کرتا ہے.جس سے ملہم کا اکرام مراد ہے.پس الا کرام کے معنی اکرامت ہوئے.مگر برق صاحب نے اس کی توجیہہ لولا اكرامك قرار دے کر لکھا ہے :- " جس کے معنی ہوں گے ”اگر تیرا عزت کرنا نہ ہوتا“ ظاہر ہے کہ اس فقرے میں کوئی بھی مفہوم موجود نہیں.“ (حرف محرمانه صفحه ۳۹۵) ان کا یہ ضمنی اعتراض بھی ان کے علمی افلاس کا ثبوت ہے.دراصل برق صاحب کو یہ علم نہیں کہ عربی زبان میں مصدر معروف اور مصدر مجمول کے لئے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے.اردو اور فارسی کی طرح مصدر معروف اور مصدر مجمول کے لئے الگ الگ الفاظ استعمال نہیں ہوتے.پس الاکرام کے معنی جہاں دوسرے شخص کی عزت کرنا ہیں وہاں اس کے معنی عزت کیا جاتا بھی ہیں اگر مصدر کی اضافت فاعل کی طرف ہو مصدر معروف سمجھا جائے گا اور معنی عزت کرنا ہوں گے.اور اگر مصدر کی اضافت مفعول کی طرف ہو تو اسے مصدر مجمول سمجھا جائے گا.اور معنی عزت کیا جاتا
۶۱۳ ہوں گے.مصدر مجمول کی اپنے مفعول کی طرف اضافت کے لحاظ سے اکرام کے معنے ہوں گے.تیرا عزت کیا جاتا اور یہی معنے یہاں مراد ہیں.اس جگہ تیر ا عزت کرنا یعنی دوسرے کی عزت کرنا مراد نہیں اسی لئے حضرت اقدس کے الہام کا ترجمہ مصدر مجہول کے معنوں میں یوں کیا ہے :- "اگر تیری عزت منظور نہ ہوتی تو یہ مقام ( قادیان) تباہ ہو جاتا.“ (تذکرہ صفحہ ااے چوتھا ایڈیشن) چونکہ برق صاحب عربی ادب میں مفلس ہیں اس لئے انہیں آئندہ یاد رکھنا چاہیے کہ ضَرب زیادہ کے دو معنی ہوتے ہیں.اول زید کا مار نا( یعنی زید کا کسی دوسرے کو مارنا) دوم زید کا مارا جانا ( یعنی زید کا کسی دوسرے کے ہاتھ سے پٹنا ) دوسرے اعتراض کا جواب مقام کے لفظ کو برق صاحب کا ہندی قرار دینا بھی علمی افلاس کا ثبوت ہے.برق صاحب نے اعتراض کیلئے مقام کے لفظ پر جو نوٹ دیا ہے وہ یہ ہے کہ :- مقام کے لفظی معنی ہیں وہ جگہ جو دو پاؤں کے نیچے ہو.یا وہ جگہ جہاں آپ دوران سفر میں قیام کریں مستقل جائے قیام کو بیت یا دار کہتے ہیں لغت کے لحاظ سے ہر جگہ مقام کہلاتی ہے.لیکن اصطلاحا عرب کسی بستی کو مقام نہیں کہتے اس کے لئے قریہ کا لفظ ہے.“ الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۹۵) جناب برق صاحب اس بات سے چواقف معلوم ہوتے ہیں کہ عربی زبان میں دو لفظ مقام میم کی زہر سے مقام میم کی پیش سے استعمال ہوتے ہیں.مقام میم کی پیش سے مستقل رہائش گاہ کے لئے قرآن مجید کی وحی میں بھی استعمال ہوا ہے.مگر کبھی
۶۱۴ میم کی زبر سے بھی مستقل رہائش گاہ کے لئے آجاتا ہے.دیکھئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.سے نکالا.فاخر حتهم من حلب وعيون وكنُورٍ ومَقَامٍ كَرِيم (الشعراء ٥٩) ہم نے فرعون کو اس کے لشکر کے ساتھ باغوں چشموں اور باعزت رہائش گاہ گویا ایک شہر اور بستی کو مقام قرار دیا ہے.جو مستقل رہائش گاہ ہوتی ہے.پس اس آیت میں مقام مفتوح الہیم کو بھی مستقل رہائش گاہ کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے.لیکن دوزخ کے متعلق سورۃ الفرقان کے آخری رکورم میں آیا ہے.إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرٌاً ومُقَامَاً - (الفرقان : ۶۷) کہ وہ بری قرار گاہ اور مقام ہے اور جنت کے متعلق اسی جگہ آیا ہے.حَسُنَتْ مُسْتَقَرًا وَّمُقَامَاً وہ اچھی قرار گاہ اور مقام ہے.(الفرقان : ۷۷ ) ان دونوں آیتوں میں مقام مضموم الیہم کا لفظ مستقل، ہائش گاہ کے معنے دے رہا ہے.دو پاؤں کی درمیانی جگہ یا سفر میں عارضی رہائش گاہ کے معنے نہیں دے رہا.پس زیرِ بحث الهام الہی میں المقام میم کی پیش سے پڑھیں یا المقام میم کی زبر ہے.یہ لفظ قادیان کی بستی کے لئے مستقل رہائش گاہ کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے برق صاحب کا یہ لکھنا کہ.موجود ہے." اصطلاحاً عرب کسی بستی کو مقام نہیں کہتے اس کے لئے قریہ کا لفظ (حرف محرمانه صفحه ۳۹۵) یہ بات بھی برق صاحب کے عربی علم ادب میں افلاس کا ہی ثبوت ہے دیکھئے عرب کا ایک مشہور اور مسلم شاعر کہتا ہے :-
۶۱۵ عَفَتِ الدِّيَارُ مَحِلُّهَا وَمُقَامُهَا.یعنی دیار مٹ گئے ان کی عارضی رہائش گا ہیں بھی مٹ گئیں اور مستقل رہائش گا ہیں یعنی بستیاں مٹ گئیں.اس شعر میں شاعر نے عارضی رہائش گاہ کے لئے محل کا لفظ استعمال کیا ہے اور مستقل رہائش گاہ کے لئے مقام کا لفظ استعمال کیا ہے.اگر برق صاحب عربی لغت کی کتاب ”المنجد “ ہی اٹھا کر دیکھ لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ اس میں اقام کے معنی جس سے مقام کا لفظ اسم مفعول ہے یہ لکھتے ہیں :- اقام بالمكان دام فِيهِ و اِتَّخَذَهُ وَطَناً (المنجد : ق) یعنی اقام بالمکان کے معنی ہیں.اس مکان میں ہمیشہ رہا اور اے اپنا وطن بنا اس لحاظ سے مقام کے معنی ایسی جگہ کے ہوئے جو مستقل رہائش گاہ ہو چنانچہ اسی لغت میں المقام کے معنی الإقامة و موضعها وزمانُها لکھے ہیں.یعنی مقام کے معنی بطور مصدر میمی الا قامہ بھی ہیں.جس کے معنی مستقل قیام کرنا کے ہوتے ہیں.اور ایسی رہائش کی جگہ کے بھی ہیں اور ایسی رہائش کے زمانہ کے بھی ہیں.پس مقام کے معنی ہوئے دائمی اور مستقل رہائش گاہ.تیسرے اعتراض کا جواب برق صاحب نے لکھا ہے کہ :- مقام کے لئے ہلاکت کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا.کیونکہ انسان جانور اور پرندے ہلاک ہوتے ہیں.نہ کہ پھر دریا صحر اور درخت یہ کہتے ہیں کہ بستی ہلاک ہو گئی تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس گاؤں کی اینٹیں اور مکان فوت ہو گئے بلکہ یہ
717 کہ بسنے والے تباہ ہو گئے.“ (حرف محرمانه صفحه ۳۹۵) برق صاحب نے اس جگہ دراصل خود ہی اپنے اعتراض کا جواب مہیا کر دیا ہے.ان کے نزدیک بستی کی ہلاکت سے مراد اہل بستی کی ہلاکت ہوتی ہے نہ کہ اینٹوں اور مکان کا فوت ہونا.جب یہ امر برق صاحب کو مسلم ہے تو یہ انہیں کس بے وقوف نے بتایا ہے کہ حضرت مرزا صاحب یا احمدی هلك المقام سے اینٹ پتھروں کا فوت ہو جانا مراد لیتے ہیں.خدا کے بندے ! اس الہام میں بھی تو مقام سے مراد اہل مقام ہی ہیں.پس جس طرح قرآن مجید کی آنت میں وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً (بنی اسرائیل : ۱۷) میں قریہ کی ہلاکت سے مراد اینٹ پتھروں کا فوت ہو جاتا نہیں بلکہ اہل قریہ کا تباہ ہو جانا ہے.اسی طرح اس الہام میں مقام کی ہلاکت سے مراد اہل مقام کی ہلاکت ہے.ظرف بول کر مظروف مراد لینا ہر زبان کا محاورہ ہے.اور لفظ کا ایسا استعمال مجاز مرسل کہلاتا ہے جو کلام میں حسن پیدا کرتا ہے.خلاصہ کلام خلاصہ کلام کے اس الہام کا مطلب یہ ہے.اے مسیح موعود اگر تیری عزت منظور نہ ہوتی تو ہم قادیان کے رہنے والوں کو تباہ کر دیتے.کیونکہ قادیان میں بڑے بڑے خبیث النفس موجود تھے جو سچائی کے دشمن اور تاریکی سے پیار رکھنے والے تھے.ایسے لوگوں پر ان میں مامور الہی کی موجودگی کی برکت سے عمومی تباہی نہیں آتی کیونکہ صلى الله خدا کے مامورین رحمت ہوتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے متعلق فرماتا ہے :- وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَدِ بَهُمْ وَأَنت فيهم (الانفال آیت : ۳۴)
712 دے گا.اے نبی ! خدا تعالے مکہ والوں کو تیری موجودگی میں (موعود ) عذاب نہیں 66 : "هذا هُوَ الْترابُ الذِي لَا يَعْلَمُونَ.“ (ازالہ اوہام صفحه ۳۱۲ طبع اول) برق صاحب کا اس الہام پر اعتراض یہ ہے :- الجواب " ترجمہ میں نوب کو عمل الترب بنادینا لغوی دراز دستی کی انتا ہے.“ (حرف محرمانه صفحه ۳۹۷) القرب کو عمل الترب قرار دینا لغت میں دراز دستی نہیں بلکہ جناب برق صاحب کا الحرب کا الترب پڑھنا علمی بے مانگی کا ثبوت ہے الشرب کے معنی ہم عمر ہیں.مسمریزم ایک نفسیاتی علم ہے.جو انسان کے ہم عمر چلا گیا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا نام الترب رکھا.اس الہام میں التزب کا الف لام عہد کا ہے.یعنی اس الہام سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر واضح کر دیا گیا تھا کہ مسمریز می طریق کا نام ہمارے نزدیک الترب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی نسبت خود تحریر فرماتے ہیں :- " یہ جو میں نے مسمریز می طریق کا عمل الترب نام رکھا.یہ الہامی نام ہے.اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ عمل الترب ہے.اور اس عمل کے عجائبات کی نسبت یہ بھی الهام هو اهذا هو الترب الذي لا يعلمون یعنی یہ وہ عمل الترب ہے جس کی اصل حقیقت کو زمانہ حال کے لوگوں کو کچھ خبر نہیں.“ (ازالہ اوہام صفحه ۳۱۲ حاشیہ طبع اول) اس سے ظاہر ہے کہ اس القرب کا عمل القرب ہونا حضرت مسیح موعود پر العام هذا هو الشرب سے پہلے ظاہر ہو چکا تھا.پس لغوی دراز دستی کا الزام دینے کے
۶۱۸ لئے برق صاحب نے اس الہام کے سیاق کی مندرجہ بالا عبارت کو دانستہ چھپایا ہے.یہ طریق اعتراض محققانہ نہیں بلکہ محض معاندانہ ہے.۵ : - أنتَ مِنْ مَاءِ ناوَهُمْ مِنْ فَشَلُ.“ تم ہمارے پانی سے ہو اور باقی لوگ بہ دلی ہیں.اس پر برقی صاحب کو اعتراض ہے :- الجواب کیا سمجھے ؟" (حرف محرمانه صفحه ۳۹۷) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے سمجھانے سے ہم یہ سمجھے ہیں کہ اس جگہ پانی سے مراد ایمان کا پانی، استقامت کا پانی، تقویٰ کا پانی ، وفا کا پانی، صدق کا پانی، حسب اللہ کا پانی ہے جو خدا سے ملتا ہے اور فشل بر ولی کو کہتے ہیں جو شیطان سے آتی ہے.“ انجام آنقم حاشیه صفحه ۵۶ طبع اول) اس الہام میں ایمان، استقامت، تقویٰ اور حب اللہ کا مفہوم پانی کے لفظ سے مستعار ہے.اور یہ ایک لطیف استعارہ ہے اس امر کے لئے کہ مسیح موعود علیہ السلام ،ایمان، تقویٰ، استقامت کے حامل اور حب اللہ سے سر شار ہیں.اور آپ کے دشمن بزدل ہیں.اس لئے ان سے مت گھبرانا.پس جب ملہم نے اپنے الہام کی تشریح خود کر دی ہے تو برقی صاحب کا سوال کیا سمجھے ؟ ایک فضول اور لغو سوال ہے.: - وهذا تذكرة - " اس پر برق صاحب لکھتے ہیں :- انجام آتھم صفحه ۶۲ طبع اول) " تذکر و مونث ہے اس لئے ہذا کی جگہ ھذہ چاہیے.“ ( حرف محرمانه صفحه ۳۹۷)
۶۱۹ الجواب برق صاحب ! قدم قدم پہ آپ اپنے علمی افلاس کا ثبوت دے رہے ہیں.سے اتذکرہ مصدر ہے اور عربی زبان میں مصدر مذکر اور مونث دونوں طرح استعمال ہو سکتا ہے.اس عبارت میں مذا تذکرہ کے لئے اسم اشارہ نہیں بلکہ "هذا تذکرہ جملہ اسمیہ ہے.جس میں ھذا مبتداء واقع ہوا ہے اور تذکرہ اس کی خبر ہے.اگر ھذ الطور اسم اشارہ استعمال ہوتا تو عبارت حذا متذ کرہ ہوتی اور اس کے بعد اس کی کوئی خبر لائی جاتی.الہام میں ھذا کا مشار الیہ اس سے پہلا نہ کور کلام ہے.اس مذکور کلام کو باسم اشارہ مذکر یه الهام اللی تذکرہ ( نصیحت ) قرار دے رہا ہے.ہے :- برق صاحب ! آپ کو قرآن مجید کا بھی صحیح علم نہیں.دیکھئے اللہ تعالیٰ فرماتا كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَهُ فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ (العبس : ۱۲، ۱۳) ذرا آنکھیں کھول کر دیکھئے ذکر میں ، کی ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع اس جگہ تذکرہ ہی ہے.پس اس جگہ خدا تذکرہ کو مذکر ہی استعمال کر رہا ہے.اور انھا کی ضمیر کا مرجع آیات القرآن میں جو اس سے پہلے مذکور ہیں.فافهم وتدبرو لاتكن من الغافلين برق صاحب! معلوم ہوتا ہے مصدر کے استعمال کا قاعدہ نہ جاننے کی وجہ سے غالباً آپ کو سورۃ مزمل کی آیت (۲۰) إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ" سے کوئی غلط فہمی پیدا ہوئی ہے.جس کی وجہ سے آپ نے حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے اس الہام پر زبان طعن دراز کی ہے.مسلئیے ! قرآن مجید کی آیت میں اس جگہ ھذہ کا مشار الیہ بھی آیات قرآنیہ ہیں.نہ کہ تذکرۃ.تذکرہ تو ھذہ مقتبدا کی خبر واقع ہوا ہے.پس قرآن کریم میں تذکرہ ¦
۶۲۰ مونث بھی استعمال ہوا ہے اور مذکر بھی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے زیر بحث الهام میں پہلی آیت کی طرح مذکر استعمال ہوا ہے.:- " أخطئى وأصيب “- اس الهام پر برق صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ :- (حقیقۃ الوحی صفحه ۱۰۳ طبع اول) عجب بے بس خدا ہے جس کے ارادے کبھی پورے نہیں بھی ہوتے.قرآن میں تو فرمایافَعالُ لِمَايُرِيدُ اور یہاں یہ ضعف و بیچارگی.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۳۹۸) یہ الہام از قبیل متشابہات ہے.حقیقۃ الوحی میں جہاں سے برق صاحب نے یہ الہام لیا ہے وہاں ہی حاشیے میں اس کی تشریح یوں درج ہے :- اس وحی الہی کے ظاہری الفاظ یہ معنے رکھتے ہیں کہ میں خطا بھی کروں گا اور صواب بھی یعنی جو میں چاہوں گا کبھی کروں گا کبھی نہیں.اور کبھی میرا ارادہ پورا ہو گا اور بھی نہیں.ایسے الفاظ خدا تعالے کے کلام میں آجاتے ہیں.جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ میں مومن کی قبض روح کے وقت تردد میں پڑتا ہوں.حالانکہ خداتر قد سے پاک ہے.اسی طرح یہ وحی الہی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطا جاتا ہے اور کبھی پورا ہو جاتا ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ کبھی میں اپنی تقدیر اور ارادہ کو منسوخ کر دیتا ہوں اور کبھی وہ ارادہ جیسا کہ چاہا ہوتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی حاشیه صفحه ۱۰۳ طبع اول) واضح ہو کہ الہام ہذا کا یہ مفہوم کہ کبھی میں اپنی تقدیر اور ارادہ کو منسوخ کر دیتا ہوں آیت قرآنيه يَمُحُوا اللهُ مَايَشَاءُ وَيُثبتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الكِتب (الرعد:۴۰) کے عین مطابق ہے.اس آیت کا مفاد یہ ہے کہ ام الکتب کی بعض مقدر
۶۲۱ باتیں خدا مٹا بھی دیتا ہے اور بعض قائم رکھتا ہے.یہی مجازی زبان میں ارادے کی خطاو صواب ہے.پس اس الہام کی مجازی اور متشابہ زبان میں تقدیر کے محوواثبات کو ہی أختي وأصیب کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے تاکہ برقی صاحب جیسے لوگوں کا امتحان لیا جائے کہ وہ کبھی اختیار کرتے ہیں یار اسخون فی العلم کی طرح اس کے معنی سمجھے لیتے ہیں.: - تَرى فَخِذَا أَلِيماً.“ (حقیقۃ الوحی صفحه ۲۳۳ طبع اول) تو ایک درد ناک ران دیکھے گا.برق صاحب کا اس پر اعتراض یہ ہے کہ الالِیم کے معنی موجع ہیں تو الیم کے معنی ہوں گے در در ساں.دوسرے کو دکھ دینے والی.اس تحقیق کی رو سے اس کے معنے ہوں گے.تو ایک در در سان ران دیکھے گا.“ یعنی ایسی ران دیکھے گا جو کسی اور کو تکلیف دے رہی ہو گی.(حرف محرمانہ صفحہ ۳۹۹) الجواب برق صاحب آپ کو الیم کے مُتعدی ہونے کی وجہ سے دوسرے آدمی کی تلاش کی ضرورت نہیں تھی.خود صاحب ران ہی وہ شخصیت تھا جس کی ران کی تکلیف اس کے سارے وجود کو درد مند کر رہی تھی اور اس کے لئے در در ساں تھی.شیخ سعدی نے سچ فرمایا ہے :- جو عُضو بدرد آورد روزگار دِگر عضوها را نَمَانَدْ قَرَار انسان کے ایک عضو میں درد ہو تو اس کا اثر سارے جسم کو پہنچتا ہے.اور سارا
۶۲۲ جسم بے چین و بے قرار ہو جاتا ہے.جناب برق صاحب ! اگر آپ کو درد رسانی کے لئے دوسرے آدمی کی ہی تلاش ہے تو حقیقۃ الوحی میں ایک دوسرا آدمی بھی اس جگہ مذ کو رہے جس کو اس کے بھائی کی ران کا درد درد مند کر رہا تھا.چنانچہ اس لئے وہ اپنے اس بھائی کو جلدی میں بلا زین گھوڑے پر سوار کرا کے علاج کے لئے لایا.اس کے بھائی کی ران میں درد اتنی شدید تھی کہ اسے جلدی میں گھوڑے پر زین کنے کے لئے وقت صرف کرنا بھی دوبھر تھا.مامورین الہی کے مکذبین بھی کتنے تنگ نظر ہوتے ہیں.وہ کلام کے حسن کو نہیں دیکھتے عیب ہی تلاش کرتے ہیں.حالانکہ یہ الہام تو خدا کا ایک نشان ہے کہ ادھر یہ الہام ہوا ادھر پورا ہو گیا.مگر برق صاحب اس نشان سے فائدہ اُٹھانے کی جائے اس میں ادبی غلطیاں تلاش کر رہے ہیں.حالانکہ یہ اعتراض خود ان کی ادمی بد ذوقی کا ثبوت ہے."المنجد ہی پڑھ کر دیکھ لیتے اس میں لکھا ہے :- وَجَعَ فُلاناً رَأْسُه - اس کے سر نے فلاں کو درد مند کیا.(المنجد : باب ۹) مراد یہ ہے کہ اس کے سر میں شدید درد ہے.جس کی وجہ سے وہ بے چین ہے.پس فيذاً أليما کے معنے فَخِذَا مُوَجعاً ٹھیک ہیں.مگر تعدیہ درد کا صاحب الفخذ کے لئے ہے.یعنی ران کی تکلیف صاحب ران کو سخت درد مند کر رہی تھی.پس جب ران درد ناک تھی اور صاحب ران اس کی وجہ سے درد مند تھا تو ر ان اس کے لئے الیم یعنی در در سان ہوتی.فافهم و تدبّر.: " وَ إِنْ كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُو بِشِفَاءٍ مِنْ مِثْلِهِ.“ - 66 (حقیقۃ الوحی صفحه ۲۳۵ طبع اول) یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس وقت ہوا جب آپ شدید قولنج
۶۲۳ زحیری میں مبتلا تھے.اور حالت قریب المرگ تھی.جیسا کہ حقیقۃ الوحی میں صفحه ۲۳۴، ۲۳۵ طبع اول میں اس کی تفصیل درج ہے.اس وقت الہامی طور پر آپ کو اس کا علاج بتایا گیا جس کے کرنے سے آپ کو بہت جلد شفاء ہو گئی.اس شفاء کی نسبت الہام ہوا کہ اگر لوگوں کو میرے کلام کے متعلق شک ہے جو میں نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو اس جیسی شفاء پیش کریں.کیسی شفاء ؟ ایسی شفاء که مریض قریب المرگ ہو.گھر والے مایوس ہو چکے ہوں.مرض مسلک اور خطر ناک ہو.مریض کو الہا ما اس کا علاج بتایا جائے.جس کے استعمال سے وہ جلد تندرست ہو جائے.یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ یہ الہام خدا کا کلام تھا.پس اگر کوئی اس کے کلام الہی ہونے میں شک کرتا ہے تو اسے چیلنج دیا گیا ہے کہ وہ اس رنگ کی شفاء پیش کرے.جس میں ایسے ہی مرض میں مبتلا مریض کو الہام میں اس کا علاج بتایا گیا ہو.اور پھر اس سے شفاء بھی پا گیا ہو.قرآن مجید میں ہے :- قَالَمْ يَسْتَجِيبُو الكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلم اللَّهِ (خود : ۱۵) کہ اگر مخالفین قرآن کے مثل لانے کے چیلنج کے مقابلہ میں عہد بر آنہ ہو “ سکیں تو یہ اس امر کا ثبوت ہو گا کہ یہ کلام خدا کے علم سے اتارا گیا ہے.پس برق صاحب یا تو اس شفاء کی نظیر لائیں یا اس الہام کو کلام الہی سمجھیں.اس الہام کے متعلق یہ لکھنے کا آپ کو کوئی حق نہیں کہ :- وو ہر روز قولنج کے سینکڑوں مریض شفاء یاب ہو جاتے ہیں.یہ عجیب چیلنج ہے جس کی دھجیاں دن میں ہیں مر تبہ اڑائی جاتی ہیں." حرف محرمانه صفحه ۴۰۱،۴۰۰) سینکڑوں مریض قولنج زحیری سے شفاء یاب ہوتے ہوں گے.چیلنج تو ایسے شفاء یاب ہونے والے کے متعلق ہے جسے الہام میں اس کے شدید حملہ پر اس کا علاج
۶۲۴ سمجھایا گیا ہو اور وہ اس سے شفاء یاب ہو گیا ہو.پس برق صاحب کی مندرجہ بالا نکتہ چینی چیلینج کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی.یہ چیلنج اپنی جگہ پر قائم ہے.66 ۱۰ : - أَرَدْتُ زَمَانَ الزَّلْزَلَةِ “ تتمہ حقیقۃ الوحی صفحه ۱۵۸ طبع اول) اس الہام پر برق صاحب لکھتے ہیں :- کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ آپ زلزلوں کے زمانہ میں جانا چاہتے ہیں یا اُس زلزلہ کے زمانہ کو لمبا کرنا چاہتے ہیں یا اس کو سزادینا چاہتے ہیں.آخر جو کچھ کرنا تھا اس کا ذکر تو اس الہام میں آجانا چاہیے تھا تا کہ ایہام نہ پیدا ہوتا.“ (حرف محرمانہ صفحہ ۴۰۲) الجواب الہام کا مضمون واضح ہے.اس میں کوئی ابہام نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے زلزلوں کے زمانے کا ارادہ کیا ہے.یعنی اب زلزلوں کا زمانہ آرہا ہے.پس اردت زَمَانَ الزَّلْزَلَةِ سے مراد اَرَدتُ آتيَانَ زَمَانَ الزَّلْزَلَةِ يا مَجَيَ زَمَانَ الزَّلْزَلَةِ ہے.پس زمان کا لفظ بحذف مضاف استعمال ہوا ہے.جیسے کہ آئت قرآنیہ 66 " إن تنصروا الله يَنصُرُكُمْ " (محمد : ۸) میں اللہ کا لفظ محذف مضاف استعمال ہوا.اور مضاف اس کا لفظ دین ہے.ای اِن تَنصُرُوا دِینَ اللہ.یعنی اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو.کیونکہ اللہ تو کسی کی مدد کا محتاج نہیں اور دین کو البتہ مدد کی احتیاج ہوتی ہے.پھر قرآن شریف میں وارد ہے.إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْا اَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ - (يس : ٨٣) اس آیت میں اَرَادَ فعل کے بعد شیا سے پہلے ان مختلق محذوف ہے.اور معنی یہ ہیں کہ خدا کا کام یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے کہ کسی شمی کو پیدا کرے تو اسے محسن کہتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے.
۶۲۵ برق صاحب آخر میں لکھتے ہیں :- اس طرح بیسیوں الہامات اور ہیں جن میں سے بعض کی زبان غلط ہے اور بعض مفہوم کے لحاظ سے معمل ہیں.ہم خوف طوالت انہیں نظر انداز کرتے ہیں." الجواب (حرف محرمانه صفحه ۴۰۲) ہم ثابت کر چکے ہیں کہ برق صاحب کے اعتراضات اوپر کے دس المانات کے متعلق بالکل مہمل اور لغو ہیں.اور ان کے اعتراضات سے ان کا علمی افلاس ظاہر ہے.اسی قسم کی غلط فہمی اور نادانی میں ہی وہ دوسرے الہامات کے متعلق بھی مبتلا ہوں گے.خطبہ الہامیہ پر ادمی اعتراضات کے جوابات خطبہ الہامیہ وہ کتاب ہے جس کا ایک حصہ یعنی پہلا باب الہامی ہے.اور باقی حصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے ٹائیٹل پیچ پر تحریر فرماتے ہیں :- هذا هُوَ الكِتَابُ الَّذِى الهِمَتْ حِصَّةُ مِنْهُ مِنْ رَبِّ العَبَادِ فِي يَوْمَ عِيدٍ مِنَ الأَعْبَادِ.فَقَرَأَتُهُ عَلَى الْحَاضِرِينَ بِالْطَاقِ الرُّوحِ الأَمِينِ مِنْ غَيْرِ مَدَدِ الترقيم F
۶۲۶ وَالتَدْوِينِ فَلا شَكَ أَنَّهُ آيَةً مِنَ الآيَاتِ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يَنْطِقَ كَمِثْلِي مُرْتَجِلاً مُسْتَحْضِرًا فِي مِثل هذه العبادات ترجمہ : یعنی یہ وہ کتاب ہے جس کا ایک حصہ عیدوں میں سے ایک عید میں مجھے مخلوق کے رب کی طرف سے الہام ہوا ہے اور میں نے اسے حاضرین کے سامنے روح الامین کے بلانے سے پڑھا ہے.اسے نہ پہلے لکھا گیا ہے اور نہ مدون کیا گیا ہے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے.اور کسی انسان کو یہ طاقت نہیں کہ میری طرح علی البدیہ اس قسم کی عبارت میں خطبہ دے سکے.جناب برق صاحب نے خطبہ الہامیہ پر بھی کچھ ادبی اعتراض کئے ہیں جن کا تعلق زیادہ تر دوسرے ابواب سے ہے.پہلے باب پر صرف ایک ہی اعتراض کیا گیا ہے.عربی علم ادب کا ذوق رکھنے والا جناب برق صاحب کے اعتراضات پڑھ کر فورا معلوم کر سکتا ہے کہ ان کے یہ اعتراض محض بھرتی کے ہیں.جن کا اولی غلطیوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں.ان اعتراضات سے جناب برق صاحب کا عرفی علم ادب سے تھی دست ہونا ظاہر ہے.ذیل میں اس کے اعتراضات مع جوابات درج ہیں :- - ا : "الَّذِينَ آكَلُو أَعْمَارَ هُمْ فِي ابْتَغِاءِ الدُّنْيَا.“ 66 (خطبہ الہامیہ صفحہ ۷ ۳ طبع اول) ترجمہ : " ( جو تلاش دنیا میں اپنی عمر کو کھا گئے ) عمر کھانا پنجابی محاورہ ہے.عربی میں استعمال نہیں ہو تا.“ الجواب اس عبارت کا جو لفظی ترجمہ برق صاحب نے پیش کیا ہے وہ خطبہ الہامیہ میں
۶۲۷ دیئے گئے مرادی ترجمہ کے خلاف ہے.خطبہ الہامیہ میں اس عبارت کا ترجمہ یوں دیا گیا ہے :- ،، انہوں نے دنیا کی طلب میں اپنی عمر میں کھوئیں.“ ا کلو (انہوں نے کھایا) کا استعمال چونکہ مجازی ہے اس لئے مجاز کا لفظی ترجمہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا مفہوم مراد ہوتا ہے.پس آ كَلُوا أَعْمَارَ هُمُ کا مجازی مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی عمر میں کھوئیں.برق صاحب کہتے ہیں کہ "أَكَلُو أَعْمَار هم پنجابی محاورہ ہے کئی محاورات مختلف زبانوں میں مشترک ہوتے ہیں کیونکہ فطرت انسانیہ ایک ہی ہے.یہ محاورہ اگر پنجابی میں بھی استعمال ہوتا ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ عربی اور فارسی میں استعمال نہیں ہو تا.فارسی میں " سالخوردن " کا محاور ہانسی معنی میں استعمال ہوتا ہے.برق صاحب کو یہ کیسے زعم ہو گیا ہے کہ انہیں عربی زبان پر عبور حاصل ہے.کیا برقی صاحب اپنے تئیں طرفہ اور نابغہ کا میل سمجھتے ہیں.سنئے برق صاحب ! اكلوا اعمار ھم کا جملہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے ٹھیک عربی محاورہ کے مطابق استعمال کیا ہے.دیکھئے !السان العرب میں جو عربی لغت کی جامع اور مستند کتاب ہے لکھا ہے :- 56 " يقال اكلته العقرب واكل فلان عمره اذا أفناه “ (لسان العرب جلد ۱۳ صفحه ۲۰) ترجمہ : " کہتے ہیں کہ فلاں کو چھو کھا گیا.یا فلاں نے اپنی عمر کھائی جب وہ اسے فتا کر دے.66 پس اس نے اپنی عمر کھائی“ کے معنے ہیں اس نے اپنی عمر کھو دی.اگر برق صاحب المنجد کو ہی دیکھ لیتے تو انہیں اکل فلان عمرہ کا محاورہ مل جاتا.
۶۲۸ حارث بن کعب زمانہ جاہلیت کا ایک شاعر کہتا ہے :- ا كَلْتُ شَبَا بِي فَأَفْنَيْتُهُ ثَلَاثَةَ أَهْلِينَ صَاحِبَتُهُم وَأَفْنَيَتْ بَعُدَ شهورٍ شُهُورًا فَبَانُوا وَاصْبَحْتُ شَيْخاً كَبِيرًا الشعر والشعراء لابن قتيبة) ترجمہ :.میں نے اپنی جوانی کھائی پس میں نے اسے فنا کر دیا اور میں نے مہینوں کے بعد کئی مہینے فنا کر دیئے.میں تین گھر والوں کے ساتھ رہا پس وہ تو جدا ہو گئے اور میں بہت بوڑھا ہو گیا.کیا برق صاحب اب اَكَلُوا أَعْمَارَ هُمُ کا عربی محاورہ کے مطابق استعمال دیکھ کر کچھ محسوس کریں گے + دیده باید.-- هل هوا الأخروجُ مِّنَ القُرآن ( خطبه الهامیه صفحه ۵۸ طبع اول) کے فقرہ پر برق صاحب لکھتے ہیں :- خروج جب بغاوت کے معنوں میں استعمال ہو تو اس کے بعد ہمیشہ علی آتا ہے.اس لئے من القرآن صحیح نہیں.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۰۶) الجواب اس فقرہ میں خروج بغاوت کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ قرآن کو مانتے ہوئے اس کی تعلیم کو نظر انداز کر دینے اور اس سے غفلت برتنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے.چنانچہ سیاق کلام بھی اسی مفہوم کے ادا کرنے پر روشن دلیل ہے.يا حسرةً عَلَيْكُمْ إِنَّكُمْ نَسيتُم قَولَ اللهِ وَقَوْلَ رَسُولِهِ أَعْنِي مِنكُمْ وَظَنَنتُم أَنَّ المَسيحَ يَاتِي مِنَ السَّمَوَتِ العُلى وكَيْفَ تَتَرَكُونَ الْقُرآنَ وَأَيُّ شَهَادَةٍ اكْبَرُ لِمَن هتَدَى
۶۲۹ وو یعنی تم پر افسوس ہے کہ تم نے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے قول منكم " کو فراموش کر دیا.اور فضول گمان رکھتے ہو کہ صحیح آسمان سے آئے گا.تم قرآن کو کیوں ترک کرتے ہو ہدایت پانے والوں کے لئے قرآن سے بڑھ کر کون سی گواہی ہے.“ اس سیاق سے ظاہر ہے خروج من القرآن کے الفاظ حضرت اقدس نے اس جگہ قرآن مجید کو نظر انداز کرنے اور اس سے غفلت برتنے کے معنوں میں استعمال کئے ہیں.برق صاحب! المنجد کو ہی دیکھ لیتے تو یہ اعتراض نہ اٹھاتے.”المنجد میں ”مرق“ کے لفظ کے تحت لکھا ہے :- مَرَقَ السُهُمُ مِنَ الرَميَةِ نَفَدَ فِيهَا وَخَرَجَ مِنْهَا.خرج منه بضلالةٍ أو بَد عَةٍ (المنجد باب م) مِنَ الدِّين یعنی مَرقَ السُّهُمُ مِنَ الرَمُيَّةِ کے یہ معنے ہیں کہ تیر نشانے میں نفوذ کر کے اس سے نکل گیا اور مرق من الدین کے معنے خَرَجَ مِنْهُ بِضَلالَةٍ أَو بِدُعَہ کے ہیں وہ دین سے گمراہی یا بدعت کی وجہ سے نکل گیا.دیکھ لیجئے خود لغت کی کتاب میں ایسے موقعہ کے لئے خَرَجَ مِنْهُ بضلالةٍ او بدعہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں نہ کہ خرج على الدین کے.حدیث میں بھی آیا ہے.من مشى مع ظالم ليقوية وَهُوَ يَعْلَمُ اله ظالم" ( مشکوہ باب الظلم) کہ جو شخص ظالم کے ساتھ چل پڑا کہ اس کو قوت دے اور وہ جانتا ہو کہ وہ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ - ظالم ہے تو وہ اسلام سے نکل گیا.اس حدیث میں آنحضرت علیہ کے خَرَجَ عَلَى الْإِسْلَامِ کے الفاظ استعمال عليه نہیں فرماتے بلکہ خرج من الاسلام کے الفاظ ہی استعمال فرمائے ہیں.اور مراد اس
۶۳۰ سے یہی ہے اس کا فعل ضلالت ہے اور روح اسلام کے خلاف ہے.پس برق صاحب کا یہ اعتراض بھی لغو اور ان کے عربی علم ادب میں پس ماندگی کا ثبوت ہے.: فَفِرِيقٌ عُلِمُوا مَكَائِدَ الْأَرْضِ وَفَرِيقٌ أَعْطُوا مَا أُعْطِيَ الرُّسُلُ مِنَ الهُدى اس عبارت پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ : (خطبہ الہامیہ صفحہ ۶ ۷ طبع اول) مکر و سازش انسان کا کام ہے یا شیطان کا.زمین پہاڑ یا تارے کوئی شرارت نہیں کر سکتے.لیکن آپ زمین کو بھی مکار سمجھتے ہیں.“ (حرف محرمانہ صفحہ ۴۰۶) الجواب اس عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ ایک گروہ نے زمینی فریبوں سے تعلیم پائی.اور دوسرے گروہ کو وہ چیزیں دی گئیں جو ہدایت میں سے انبیاء اور رسولوں کو دی گئیں.“ اس عبارت میں مَكَائِدُ الْاَرْضِ سے مراد مَكَائِدُ أَهْلِ الْأَرْضِ ہیں مكائد الارض میں محاورہ کے مطابق اهل کا لفظ محذوف ہے.گویا ارض سے اور مجاز مرسل کے اَهْلِ الْأَرضِ مراد ہیں.ظرف بول کر مظروف مراد لینے کا طریق ہر زبان میں رائج ہے.خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- فلولا كَانَتْ قَريةٌ آمَنَتْ (یونس : ٩٩) ہ کیوں کوئی بستی ایمان نہیں لائی.“ یہاں قریہ جو ظرف ہے اسے استعمال کر کے مظروف یعنی اہل قریہ مراد ہیں.پس جس طرح قریہ کا استعمال اس آیت میں بطور مجاز مرسل کے ہے اور مراد اس سے اہلِ
۶۳۱ قریہ ہیں اسی طرح مکائِدُ الأَرضِ میں ارض کا استعمال بھی مجاز مرسل کے طور پر ہے اور مر او مکائِدُ الأَرْضِ سے اہل ارض کے قریب ہیں.پھر قرآن شریف میں آیا ہے.(الدَّخان :۳۰) فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ - کہ ان پر آسمان وزمین نہ روئے.مراد اس سے یہ ہے کہ انہیں عذاب دیا جانے پر نہ ان پر اہل سماء روئے نہ اہل ارض.بلکہ وہ یہ سمجھے چلو خس کم جہاں پاک دیکھئے اس آیت میں آسمان وزمین کے رونے سے مراد اہل سماء واہل ارض کا رونا ہے.اور اس آیت میں سماء وارض استعمال کر کے مجاز موسل کے طور پر ان سے آسمان و زمین کے رہنے والے مراد ہیں.قند ہر.: - وَتَنزِلَ السَّكِينَةُ فِي قُلوبهم - (خطبه الهامیه صفحه ۸۳ طبع اول) اس پر اعتراض کیا ہے.تنزل کے بعد علی چاہیے.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۰۷) برق صاحب نے تنزل کا لفظ غلط لکھا ہے یہ دراصل تنزل ہے.برق صاحب کا اعتراض بالکل لغو ہے کیونکہ "سكينة" (اطمینان و تسلی) کے جب کسی شخص پر نازل ہونے کا ذکر ہو تو اس صورت میں تو بے شک تنزل کے بعد علی آنا چاہیے.جیسے قرآن شریف میں ہے.فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَةَ عَلَيْهِ ( التويم :۴۰).اس پر سکینت اتاری لیکن جب دل میں سکینت اترنے کا ذکر ہو تو تنزل کے بعد فی کا آنا ہی ضروری ہے اور اس جگہ علیٰ کا استعمال غلط ہو گا.کاش برق صاحب قرآن مجید ہی دیکھ لیتے جس میں صاف یہ آیت موجود ہے.
۶۳۲ إِيمَا نِهم هُوَ الَّذِى اَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ المُومِنِينَ لِيَزْدَادُ وَا إِيمَاناً مَعُ (الفتح : ) ترجمہ : یعنی خدا ہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت اتاری تاکہ جو ایمان انہیں پہلے نصیب تھا اس کے ساتھ اور ایمان بھی انہیں نصیب ہو جائے.دیکھ لیجئے اس آیت میں دلوں پر سکینت نازل ہونے کے لئے فی کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے.نہ کہ "علی" گا.پھر اسی سورۃ کی آیت ۲۷ میں جہاں اشخاص پر سکینت نازل کرنے کا ذکر ہے فرمایا ہے.فَا نَزَلُ اللهُ سَكِينَةُ عَلَى رَسُولِهِ و عَلَى المُو مِنِينَ 66 پس سکینہ کے ساتھ حضرت اقدس کے زیر بحث فقرہ میں ”فی“ کے استعمال پر برق صاحب کا اعتراض نہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عربی علم ادب میں کم مایہ ہیں.بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ وہ قرآن شریف سے بھی ناواقف ہیں.: - فَخَرَجَ النَّصَارَى مِنْ دَيْرِهِمْ - (خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۰۰طبع اول) اعتراض نصاری اپنے گر جاؤں سے نکلے.گر جاؤں کا ترجمہ دیر نہیں بلکہ دیار ، اوپر ، اور دیورت ہے.(حرف محرمانه صفحه ۴۰۷) دیر کا لفظ اس جگہ بطور اسم جنس کے استعمال ہوا ہے.یہ استعمال اسی طرح ہے جس طرح قرآن مجید میں ثُمَّ يُخرِ حُكْم طفل (المومن : ۶۸) ( پھر تمہیں چہ
۶۳۳ پیدا کرتا ہے ) میں طفل کا لفظ اور اسم جنس اطفال کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جب کہ يُخر حکم میں ضمیر خم جمع مخاطب کی ہے.اسی طرح زیر بحث فقرہ میں دیر " بطور اسم جنس استعمال ہوا ہے.حضرت موسی اور ہارون کے متعلق قرآن مجید میں وارد ہے کہ انہیں فرعون کے پاس بھیجتے ہوئے خدا تعالی نے یہ ہدایت دی.فَقُولَا إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ.کہ دونوں جا کر کہو کہ ہم رب العالمین کے رسول ہیں.(الشعراء: ۱۷) اس آیت میں رسول مفرد بطور اسم جنس دور سولوں کے لئے استعمال ہوا ہے.فند بر.٦ : - وَارْتَدُوا مِنَ الْإِسْلَامِ - ( خطبه الهامیه صفحه ۱۰۸ طبع اول) اعتراض عن چاہیے من غلط ہے.( حرف محرمانه صفحه ۴۰۷) الجواب اس جگہ کاتب نے عن اور من کی ملتی جلتی شکل کیوجہ سے بے توجہی سے عن کو من بنا دیا ہے.علاوہ ازیں عن کی جگہ من کا استعمال بھی نحوی لحاظ سے صحیح ہے.کیونکہ نحو کی کتابوں میں لکھا ہے کہ من بمعنی عن بھی استعمال ہو جاتا ہے.پھر ملاحظہ ہو.قرآن شریف کی آیت قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا (الانبياء : ۹۸) حالانکہ دوسری آیات قرآنیہ میں عن ہی استعمال ہوا ہے.مثلاً فرمایا أَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ“ پس زیر حث فقرہ میں مین کا استعمال بھی غلط نہیں.(یوسف : ۱۴) : - يُريدُ ونَ أَنْ يَدُسُوا الحَقَّ فِى تُرَاب وُ يَمَزِّ قُوا أَذْ يَا لَهُ كَكِتَابٍ.( خطبه الهامیه صفحه ۱۰۹ طبع اول)
۶۳۴ اعتراض التراب اور الکلاب چاہیے.(حرف محرمانه صفحه ۲۰۷) الجواب یہ اعتراض بھی برق صاحب کی بد ذوقی کا ثبوت ہے.تراب اور کلاب کو بصورت نکرہ ان لوگوں کی زیادت تحقیر کے لئے استعمال کیا گیا ہے.اور مراد یہ ہے کہ جہاں اور جس جگہ ان کو موقعہ ملے وہ حق کو چھپاتے ہیں.اور عام مختوں کی طرح سچائی کے دامن کو پارہ پارہ کرتے ہیں.: - وَلَا يَفكَّرُونَ فِي لَيْلِهِمْ وَ لَا نِهَارِهِمْ إِنَّهُمْ يُسْتُلُونَ.(صفحه ۱۰۹ خطبه الهامیه طبع اول) برق صاحب نے اس کا ترجمہ اپنی طرف سے یوں کیا ہے.وہ لوگ قیامت کی باز پرس سے نہیں ڈرتے.“ اور پھر اپنے ہی اس ترجمہ کی بناء پر یہ اعتراض کر دیا ہے کہ." فکر کا استعمال خالص پنجابی ہے ڈر کے لئے خوف و خشیت کی مصادر موجود ہیں.(اس جگہ کی “ استعمال غلط ہے ہم اسے سہو کتابت ہی سمجھتے ہیں.ناقل ) اس لئے لا يخشون کہئیے.قرآن میں ہر جگہ فکر غور وخوض اور تدبر کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.لقوم يتفكرون (یونس :۲۵)، يتفكرون في خلق السموات (آل عمران : ۱۹۲) وغیرہ.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۴۰۸) برق صاحب از یر حث عبارت میں بھی غور و فکر کا لفظ قرآن کریم کے استعمال کی طرح سوچ بچار کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے.چنانچہ خطبہ الہامیہ میں
۶۳۵ اس کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے.اور اپنے رات اور دن میں فکر نہیں کہ آخر پو چھے جائیں گے.“ مطلب یہ ہے کہ وہ قیامت کے محاسبہ سے غفلت برتتے ہیں.اور دن اور رات میں کسی وقت نہیں سوچتے کہ ہمارا محاسبہ بھی ہونے والا ہے.بے شک سوچ بچار میں یہ غفلت خوف محاسبہ کے نہ ہونے پر دال ہے.جو لوگ محاسبہ کے متعلق سوچ چار سے کام نہ لیں لازما وہ محاسبہ سے ڈرتے بھی نہیں کیونکہ انہیں محاسبہ کا خیال ہی نہیں آتا توڈرمیں کیسے.پس اس جگہ لا يُفَكَّرُونَ کو نہ ڈرنے کا مفہوم لازم ہے.لیکن مقصود اس عبارت میں چونکہ محاسبہ سے نہ ڈرنے کی علت بیان کرنا ہے جو عدم فکر (سوچ و بچار کا نہ ہونا) ہے.اس لئے لا يَخَافُونَ کی جگہ لا يُفكَّرُونَ کے الفاظ استعمال کئے گئے.پس اس جگہ برق صاحب نے کسی نکتہ چینی سے کام نہیں لیا.بلکہ صحیح انداز فکر سے محرومی کا ہی ثبوت دیا ہے.اور انہوں نے "حرف محرمانہ نہیں لکھی بلکہ حرف محرومانہ لکھی ہے." 66 ۹ : - وَلَا يُبْعِدُ مِنِّي طَرْفَةَ عَيْنٍ رَّحْمَتُه (خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۱۰ طبع اول) اعتراض طرفه العین کسی کام کی رفتار اور مسرعت ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے.مثلا راکٹ آنکھ جھپکنے کی دیر میں سو میل نکل گیا.قرآن میں درج ہے کہ ایک جن ملکہ سبا کا تخت چشم زدن میں لے آیا.اس لئے یہاں اس کا استعمال غلط ہے.“ الجواب (حرف محرمانه صفحه ۴۰۸) طرفة عین کا استعمال اس جگہ غلط نہیں.بلکہ غلطی برق صاحب کی سمجھ کی
۶۳۶ ہے.طرفہ عین کا لفظ فقظ قلیل ترین وقت کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے.خواہ اس وقت کا گذر نا کسی ہی کام کے لئے ہو.صرف سرعت رفتار ظاہر کرنے کے لئے ہی یہ لفظ استعمال نہیں ہو تا.مثلاً کہہ سکتے ہیں لَمْ يُبْعَدَ مِنى الطرفَة العَيْن.وہ مجھے سے ایک لخطے کے لئے بھی دور نہیں ہوا.خطبہ الہامیہ کی عبارت ولا يَبعُدُ مِنِّي طرفَةً عين رَحْمَتُهُ کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے :- اور اس کی رحمت ایک لمحہ بھی مجھ کو نہیں چھوڑتی.“ پس یہ اعتراض بھی عرفی علم ادب سے واقفی کا ثبوت ہے.لغت عربی میں طرفہ کے معنے لمحہ ہی کئے گئے ہیں.ملاحظہ ہو "المنجد “.پس یہ لفظ ثمانیہ (سیکنڈ) کی طرح وقت کے اقل ترین حصہ کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے.سرعت رفتار سے اس کا کوئی تعلق نہیں..١٠ : - إِنَّ اِنْكَارِی حَسَرَاتٌ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُو ابِي وَ إِنَّ إِقْرَارِى بَرَكَاتُ لِلَّذِينَ يتركُونَ الحَسَدَ وَيُؤْمِنُونَ اس عبارت پر ہی اعتراض کیا گیا ہے کہ :-.خطبه الهامیه صفحه ۱۱۳ طبع اول) "میرا انکار اور میر اقرار پنجابی عربی ہے.میرے ”اقرار و انکار کا مفہوم یہ ہے کہ جناب مرزا صاحب کسی چیز کا انکار اور کسی کا اقرار کر بیٹھے ہیں.اور اب فرمار ہے ہیں کہ میرا اقرار و انکار علاوہ ازیں انکار مفرد ہے اور حسرات جمع اسی طرح اقرار مفرد ہے.اور برکات جمع اسم و خبر میں تطابق ضروری ہے.اس لئے حسرة اور برکۃ صحیح ہے.اور حسرات برکات غلط.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۰۹) الجواب انکاری و اقراری کے الفاظ ہر گز پنجابی عربی نہیں بلکہ یہ دونوں ٹھیٹھ عربی
کے لفظ ہیں.جب عربی زبان میں مصدر کو مضاف کیا جائے ایسی اضافت لفظی کہلاتی ہے.جو کبھی تو اپنے فاعل کی طرف ہوتی ہے.اور کبھی مفعول کی طرف.اس جگہ انکاری اور اقراری میں انکار و اقرار کی اضافت فاعل کی طرف نہیں بلکہ مفعول کی طرف مراد ہے.لہذا اس فقرہ میں حضرت مرزا صاحب کا کسی چیز کا اقرار اور کسی چیز کا انکار مراد نہیں.بلکہ آپ کا انکار کیا جاتا اور مانا جانا مراد ہے.برق صاحب اس قاعدہ سے نا آشنا ہیں کہ مصدر کی اضافت مفعول کی طرف بھی ہوتی ہے اور اس صورت میں مصدر کے معنے مصدر مجہول کے ہو جاتے ہیں.پس اس کے معنے ہیں میرا انکار کیا جانا اور میرا اقرار کیا جانا.”انکار " مصدر کے ضمیر کی طرف مضاف ہو کر استعمال کی مثال بھی ملاحظہ ہو.تفسیر کشاف میں زیر آیت فما يُكذبُكَ بَعْدُ بِالدِّينُ (التين : ۸) لکھا ہے.أَى فَمَا يَجْعَلُكَ كَاذَ بِالسَبَبِ الدِّينِ وَإِنْكَارِهِ بَعْدَ هَذَا الدَلِيلِ.اور تفسیر روح المعانی میں زیر آیت ہذا لکھا ہے :- أَى فَمَا يَجْعَلُكَ كَأَذَباً بِسَبَبِ الْجَزَاءِ وَإِنْكَارِهِ بَعْدَ هَذَا الدَلِيلِ - رہا برق صاحب کا یہ اعتراض کہ انکار اور اقرار مفرد ہیں اور ان دونوں کی خبر جمع لائی گئی ہے.سو یہ اعتراض بھی لغو ہے.برق صاحب نے اپنے تئیں عربی ادب کے بھر کا شناور سمجھ رکھا ہے.حالانکہ ان پر اس کنویں کے مینڈک کی مثل صادق آتی ہے جس نے کنویں کے ایک طرف سے دوسری طرف چھلانگ لگائی اور سمجھنے لگا کہ سمندر اس سے بڑا کہاں ہو گا ؟ اگر وہ قرآنی زبان سے ہی ذرا مس رکھتے تو کبھی تو ایسا لا یعنی اعتراض زبانِ قلم پر نہ لاتے.انکار و اقرار دونوں مصدر ہیں جو مبتدا واقع ہوئے ہیں.اور حسرات اور بركات ان کی خبر جمع اس لئے لائی گئی ہے کہ منشاء متکلم یہ تھا کہ میرا انکار منکرین کے لئے حسرہ بعد حسرہ کا موجب ہو گا.اور ایسا شخص کئی پہلوؤں سے اپنے لئے حسرتوں
۶۳۸ کا سامان جمع کرے گا.اور اسی طرح میرا اقرار بركة بعد بَرَكَةٍ کا موجب ہو گا.اور ہر قسم کی برکات سادی وارضی سے متمتع کرے گا.یہ مضمون خبر کے مفرد لانے سے تفصیل کے ساتھ ادا نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے اس جگہ خبر کا جمع لانا نا گزیر اور افصح ہے.ای مفہوم میں قرآن شریف میں برکات اور حسرات کا لفظ استعمال ہوا ہے.چنانچہ البقره آیت ۱۶۸ میں كَذَالِكَ يُرِيهُمُ اللهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ اور الاعراف : ۹۷ میں ہے آتا ہے :- وَلَوْ أَنّ أَهْلَ الْقُرى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَتٍ مِّنَ السَّمَاءِ والأرض - گو یہ دونوں مثالیں برکات و حسرات کے بطور خبر کے استعمال کی نہیں.لیکن ہم نے یہ مثالیں اس لئے دی ہیں کہ ان میں حسرة بعد حسرة اوربركة بعد بركة کا مفہوم ہے.جو خالی حسرہ اور برکة کے لفظ سے ادا نہیں ہو تا.کیونکہ خالی حسرة اور بركة کے بطور خبر استعمال ہونے کی صورت میں ایک ہی حسرۃ اور ایک ہی برکة کی طرف ذہن جا سکتا ہے.اور تعد وحسرة و برکة کی طرف سے غفلت واقع ہو سکتی ہے.برق صاحب نے کسی نحو کی کتاب میں پڑھا ہو گا کہ مبتداء اور خبر میں وحدت و جمع میں مطابقت ضروری ہے.ان بیچاروں کو کیا معلوم کہ مصدر کا معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے.اور اُس کی خبر حسب ضرورت مفرد بھی لائی جاسکتی ہے اور جمع بھی.دیکھئے قرآن کریم میں خود اللہ تعالیٰ نے مصدر کے مبتداء ہونے کی صورت میں اس کی خبر جمع استعمال فرمائی ہے.جیسا کہ فرمایا : - "الحَج أَشْهُرُ مَّعْلُومت“ (البقره: ۱۹۸) اس جگہ الحج مصدر مبتداء واقع ہوا ہے اور اشهر معلومت خبر ہے.ذرا سوچئے! شهر واحد ہے یا جمع ؟ سنئے ! اشهر جمع ہے شہر کی جس کے معنے مہینہ ہوتے ہیں :-
۶۳۹ چوبشوی سخن اهل دل مگو که خطاست سخن شناس نہ دلبر اخطا ایں جاست ۱۱ : - "زُكِّيَ مِنْ أَيْدِى اللَّهِ “ (خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۶ اطبع اول) اعتراض مین کا استعمال خالص پنجابی ہے باید اللہ چاہئیے." ( حرف محرمانہ صفحہ ۴۰۹) اس جگہ من کا باء کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہ خالص عربی استعمال ہے."المنجد " ( لغت عربی کی کتاب) میں من کے متعلق لکھا ہے :- وَيَأْتِي مُرَادِ فَا الباءَ ، نَحْو يَنظُرُونَ مِنْ طَرْفِ حَفِي" یعنی میں.باء کے ہم معنی بھی استعمال ہوتا ہے.جیسے کہ ينظرون من طرف خفی (الآیه ) میں من.باء کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.:۱۴ - إن كُنتُم فِي شَرٌ مِّنْ أَمْرِى فَا مَتَحِنُونِي اعتراض اگر میری نسبت تمہیں کچھ شک ہے تو مجھے جس طرح چاہو آزمالو.(خطبه الهامیه صفحه ۱۲۸ طبع اول) ” یہ امتحان کا استعمال خالص پنجابی اور غیر قرآنی ہے.قرآن اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے ابتلاء سے کام لیتا رہا.“ (حرف محرمانہ صفحہ ۴۰۹) الجواب بڑے بول کا سر نیچا." آپ کی قرآن دانی کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے کیونکہ قرآن کی دو آیتوں میں آزمائش کے معنوں کو ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے امتحان کا
۶۴۰ لفظ ہی استعمال فرمایا ہے.نمبر ا.اُولئكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى (الحجرات : ۴) وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالی نے تقویٰ کے لئے آزمایا ہے.-۲: يَأيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَ كُمُ المُؤمِنتُ مُهَا جرت ما متَجِدُوهُنَّ فَا (الممتحنة : اا) "اے لوگو جب مومن عورتیں تمہارے پاس مہاجرہ ہو کر آئیں تو انہیں آزمالو.یعنی ان کا جائزہ لے لو کہ دین کی خاطر آرہی ہیں یا دنیا کی خاطر.“ جناب برق صاحب اب بھی تسلی ہوئی ہے یا نہیں.کہ خطبہ الہامیہ میں امتحان کے لفظ کا استعمال خالص پنجابی یا غیر قرآنی نہیں ؟ ۱۳ : - فَارُ حَمُوا مَسِيحاً آخَرَ وَاقِبُلُوهُ مِنْ هَذِهِ الْعِزَّةِ - - (خطبه الهامیه صفحه ۱۴۰ طبع اول) برق صاحب نے اس عبارت کا ترجمہ یہ کیا ہے.تم مسیح پر رحم کرو اور اسے نزول کی عزت سے معافی دو.“ پھر اس عبارت پر اعتراض کیا ہے کہ.الجواب " " خالص ہندی محاورہ کو عربی میں منتقل کر دیا گیا ہے.“ ( حرف محرمانه صفحه ۴۰۹) اس کا صحیح ترجمہ خطبہ الہامیہ میں یہ درج ہے.دوسرے مسیح پر رحم کرو اس عزت اور احترام سے اسے معاف رکھو.“ (خطبه الهامیه صفحه ۱۴۰ طبع اول)
۶۴۱ اس جگہ عزت و احترام سے باالفاظ طنز یہ گالیاں دینا اور تکفیر و تکذیب ہے.جیسا کہ سیاق کلام سے ظاہر ہے.یہ کہ نزول کی عزت.ارحموا اور اقیلوا دونوں لفظ ٹھیٹھ عربی زبان کے ہیں.اور سارا کلام طنزیہ ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے.دق : إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الكَريم یعنی اس عذاب کو چکھ تو بڑا معزز اور باعزت ہے.“ ایک ضمنی اعتراض برق صاحب لکھتے ہیں.(الدخان : ۵۰) اللہ کا ذخیرہ الفاظ ختم ہو گیا کہیں قرآن کی آیات دوبارہ نازل کر کے کام چلا یہ کہیں مقامات حریری سے مدد لی.(دیکھو سورہ فاتحہ کی الہامی تفسیر جس میں مقامات حریری و بدیعی کے بیسوں جملے بالفاظها موجود ہیں.) کہیں شعرائے جاہلیت کے مصرعے اڑالئے.(عفت الديار محلّها و مقامها آپ کا ایک الہام ہے یہ سبع معلقات کے ایک قصیدہ کا پہلا مصرع ہے ) اور کہیں ادھر ادھر سے انسانی اقوال لے ہے) لئے مثلاً شكر الله سعيه ( آپ کا المام ) منتهی الارب میں شکر " کے تحت درج ہے.66 الجواب دری (حرف محرمانه صفحه ۴۰۳) اسی قسم کے اعتراضات نادان عیسائیوں نے قرآن شریف کی الہامی زبان پر " کئے ہیں.چنانچہ ینابیع الاسلام میں ایسے ہی عتراض کے گئے ہیں.اس میں بسم الله الرحمن الرحیم کو زرتشت نبی کے کلام سے سرقہ قرار دیا گیا ہے.آیت قرآنیہ عَلَى اللهِ قَصْدُ اسْبِيْلِ وَمِنْهَا خائر - كو امرء القیس کے کلام کی نقل قرار دیا گیا ہے.
امرءالقیس نے کہا تھا :.۶۴۲ وَمِنَ الطَّرِيقَةِ حَائِرُ وَهُدَى قَصْدُ السَّهْلِ وَمِنْهُ ذُو دَ حَل شعرائي النصرانيه جلد اصفحہ ۵۷) قرآن مجید میں ہے : - وَمَايُبدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ (سایز ۵۰) ابن الابر ص کہتا ہے :- أَفْقَرُ مِنْ أَهْلِهِ عَبَيد فَالْيَوْمَ لَا يُبْدِى وَلَا يُعِيدُ پھر قرآن مجید میں ہے : - إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامَاً.(الفرقان : ۶۶) ابی حازم کہتا ہے :- يَوْمَ النِّسَاءِ وَيَوْمُ الْفَحَارِ كَانَ عَذَاباً وَكَانَ غَرَاماً قرآن مجید میں آیا ہے : - مخلق الانسان من صلصال كالفَعارِ (الرحمن : ۱۵) امیہ ابن ابی الصلت کہتا ہے :- كيف الْجَحُودُ وإِنَّما خُلِقَ الفَتى من طينِ صَلْصَالِ لَهُ فَعارُ قرآن مجید میں ہے : - مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ.(ليس: ۷۹) زهیر بن ابی سلمی کہتا ہے : - سَيُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ قرآن شریف میں ہے : - قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ نس بن ساعدہ کہتا ہے :- كَلَّا بَلْ هُوَ اللهُ أَحَدُ لَيْسَ بِمَو لُودٍ وَلَا وَالِدُ (الاخلاص : ۲ تا ۴) کیا برق صاحب کا قرآن مجید میں پرانے شعراء کے کلام سے توار داور مشابہت پا کر بھی یہ گستاخانہ کلام کرنے کے لئے تیار ہوں گے کہ کیا اللہ تعالیٰ کا ذخیرہ ختم ہو گیا تھا کہ اس نے شعرائے جاہلیت کے محاورات اور فقرات اڑا لئے اور ادھر ادھر
۶۴۳ سے انسانی اقوال لے لئے ہیں.(نعوذ با الله ) واضح رہے کہ خدا اور اعلیٰ درجہ کے مصنفین کے کلام میں بھی کئی جگہ پہلے باکمال لوگوں کے کلام سے توارد یا مشابہت پائی جاتی ہے.جسے سرقہ قرار دینا نادانی ہے.میرے سامنے اس وقت شعرائے عرب کے کلام کی يحصد مثالیں ایسی موجود ہیں جن میں تضمین پائی جاتی ہے اور اسے کوئی سرقہ قرار نہیں دیتا.۱۴ : فَا لَيَصْبِرُوا حَتَّى يَرُ مَعُو إِلَى رَبِّهِمْ وَيَطَّلِعُوَ اعَلَىٰ صُوَرِهِمْ (خطبه الهامیه صفحه ۱۵۶ طبع اول نه که صفحه ۱۶۳) برق صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں :- لیں گے.“ وہ انتظار کریں جب خدا کے ہاں جائیں گے تو وہاں شیشے میں اپنا منہ دیکھ یہ غلط ترجمہ کر کے برق صاحب معترض ہیں :- ہوتا“ الجواب شیشہ میں منہ دیکھنا اردو کا محاورہ ہے.عربوں کے ہاں اس کا استعمال نہیں (حرف محرمانه صفحه ۴۱۰) برق صاحب نے صحیح ترجمہ نہیں کیا.خطبہ الہامیہ میں ہی اس عبارت کے نیچے اردو تر جمہ یہ کیا گیا ہے :- ” پس چاہئیے کہ صبر کریں یہاں تک کہ اپنے پروردگار کے پاس جائیں اور اپنی صورتوں سے واقف ہوں.“ پس اس جگہ شیشہ میں منہ دیکھنے کا محاورہ نہ عربی عبارت میں استعمال ہوا ہے نہ اردو عبارت میں.لہذا اعتراض کی بنیاد ہی غلط ہے.اس عبارت سے یہ بتانا مقصود ہے
۶۴۴ کہ ان لوگوں پر قیامت کے دن اپنی اصل صور تیں یعنی صفات ظاہر ہو جائیں گی.صورت کے معنی المنجد میں انصفت بھی لکھے ہیں اور یہی یہاں مراد ہیں.- خطبہ الہامیہ کے عربی قصیدہ پر ادبی اعتراضات کے جوابات ۱۵ کے ذیل میں برق صاحب خطبہ الہامیہ کے آخر میں درج شدہ قصیدہ کے بعض شعروں پر انہیں الہامی قرار دیتے ہوئے اولی نکتہ چینی کرتے ہیں.حضرت اقدس نے اس قصیدہ کو الہامی قرار نہیں دیا.بہر حال ان کی نکتہ چینی معہ جوابات درج ذیل ہے.نمبرا : - أَرَى سَيْلَ آفَاتٍ قَضَا هَا الْمُقَدِرَ وَفِي الْخَلْقِ سَيَّات قُدَاعُ وَتُنشر (خطبه الهامیه صفحه ۲۰۳ طبع اول) اعتراض " لفظ سئات (یا) مكسورش محد و ما بعد الف محدودہ) لیکن اس شعر میں ہے سيات (الف محدودہ غائب اور یا کو مفتوح) باندھا گیا جو غلط ہے.“ ( حرف محرمانه صفحه ۴۱۵) اس شعر میں بر عائت و زن میان باندھا گیا ہے.امام ثعالبی جو امام لغت ہیں لکھتے ہیں :- العَرَبُ تَزيدُ وَ تَحْذِفُ حِفْظاً لِلتَّوازُن وَاِيُثَاراً لَهُ “ 66 خفّة اللغة وسر العربيه صفحه ۲۱۷)
۶۴۵ یعنی عرب شعر میں توازن کی حفاظت اور توازن کو ترجیح دیتے ہوئے لفظ میں کمی بیشی کر دیتے ہیں.الشعر و الشعراء لابن قتیبہ میں لکھا ہے :- (۱) قَدْيَضْطَرُّ الشَّاعِرُ فَيَقْصُرُ الْمَمْدُودَ وَلَيْسَ لَهُ اَنْ يَمَتَدَّ الْمَقْصُورَ - (٢) وَأَمَّا تَركُ الْهُمُ مِنَ الْمَهُمُوزِ فَكَثِيرُ، وَاسِعُ، لَا عَيْبَ فِيهِ عَلَى الشَّاعِرِ (1) کبھی شاعر مضطر ہوتا ہے تو وہ محدود کو مقصور کردیتا ہے ( یہ تو جائز ہے) مگر اسے اس بات کی اجازت نہیں کہ مقصور کو محدود کرے.(۲) ہمزہ کو ترک کر دینے میں تو کثرت اور وسعت پائی جاتی ہے اس کا ترک کر نا شاعر کے لئے معیوب نہیں.پس سیات" کو حفاظت وزن کے لئے سیات باندھنا جائز ہے.برق صاحب محض اپنے محدود علم کے پیمانے سے امام الزمان کے کلام کو ناپنا چاہتے ہیں.حالانکہ مشہور مقولہ ہے.یجوز في الشعر ما لا يجوز في النثر.یعنی کئی باتیں شعر میں تو جائز ہیں مگر نثر میں جائز نہیں.نمبر ۲ : - و للدِّين أَطْلَالُ أَرَاهَا كَلْاهَفٍ اعتراض ودمعى بذكر قُصُورهِ يَتحدر خطبه العامیه صفحه ۲۰۳ طبع اول) برق صاحب لکھتے ہیں کہ دوسرا مصرع خارج از وزن ہے.دوسرے مصرع کا وزن بالکل صحیح ہے.کیونکہ اس کا تیسرا اور آخری رکن ر حاف قبض مقبوض ہے.یعنی فعول مفاعلن کے وزن پر ہے.زحاف قبض شعر میں
۶۴۶ جائز ہے.دوسرے رکن بذکر قصو میں ق متحرک کو حفاظت وزن کے لئے ساکن کر دیا گیا ہے جیسے استاذ الشعراء امراء انھیں نے اپنے شعر.اليَوْمَ أَشْرِبَ غَيْرَ مُسْتَحيب لماً مِنَ اللهِ ولا واخيل میں آشربُ کی بائے متحرک کو برعایت وزن ساکن کر کے اشرب باندھا گیا ہے.(دیکھو کتاب الشعر والشعراء لابن قتیبه مطبوعہ جرمنی صفحہ ۳۲۳) زیر بحث مصرع کی تقطیع یوں ہو گی.وَدَمْعِي بذكر قصو تَحَدِدِرُ فَعُولُن مَنَا عِيلُن فَعُولُ مَفَاعِلُن نمبر ٣ : - آلا إِنَّمَا الأَيَّامُ رَجَعَتْ إِلَى الهُدَى اعتراض الجواب هنِيئًا لَكُم بَعْنِي فَبَثُوا وَ أَبْشِرُوا صحیح لفظ رجعت الفتح سیم ہے ) نہ کہ رجعت (سکون جیم) (حرف محرمانه صفحه ۴۱۱) ضرورت شعریہ کے لئے رحمت کی جیم متحرک کو اسی طرح ساکن کیا گیا ہے جس طرح امرء القیس نے اوپر کے جواب میں دیئے گئے شعر میں اشرب کی ہائے متحرک کو رعایت وزن کے لئے ساکن استعمال کیا ہے.دو مثالیں اور ملاحظہ ہوں.حضرت لبیڈ کا ایک شعر ہے.تراك أَمْكِنَةٍ إِذَا لَمْ أَرْضِهَا أَوْ يَعْتَلِقُ بَعْضَ النَّفُوسِ حَمَامُهَا
۶۴۷ دوسرے مصرع میں تعلق کے قاف مفتوح کو بر عائلت وزن ساکن کیا گیا ہے.کعب من زحیر کہتے ہیں.ارجو وَامِلُ اَنْ تَدْنُوا مُؤدَّتُهَا وَمَا أَخَالُ لَدَيْنَا مِنْكِ تَنْويل پہلے مصرع میں ان تدنُو کی واؤ مفتوح کو بر رعایت وزن ساکن کر دیا گیا ہے.آخری شعر : سبرق صاحب نے ایک شعر کا دوسرا مصرع درج کیا ہے.قمتُ أَيّهَا النَّارِى بِنَارِ تُسَعَرُ (خطبہ الہامیہ صفحہ ۲۰۴ طبع اول)اور اعتراض کیا ہے ناری غلط ہے ناری بہ تشدید ی ہونا چاہیے.(حرف محرمانه صفحه ۴۱۱) برق صاحب اس جگہ اصل لفظ النارى الف لام کے ساتھ ہے نہ کہ نَارِی الف لام کے بغیر الناری کی یائے مرفوع مشدد کو بر عایت وزن مخفف الناری پڑھا جائے.مولوی ہادی علی صاحب حاشیہ اجرومیہ میں جوازات شعر یہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں.سوم مشدد را مخلف خواندن یعنی مشدد کو مخفف پڑھنا جائز ہے.پھر اس پر نوٹ دیتے ہیں.وو و معنی ضرورت در میں جا جو از مطلق است نه این که شاعر از بدل آوردنش عاجز آمده اختیار کند ،، یعنی ضرورت شعریہ کے معنے اس جگہ مطلق جواز کے ہیں نہ یہ کہ شاعر اس لفظ کا بدل لانے سے عاجز آکر اسے اختیار کرتا ہے.پس اس اجازت کے تحت زیر بحث مصرع میں اَلنَّارِئُ مُشدّد کو النَّارِي مخفف استعمال کیا گیا ہے.فتدبر ولا تكن من الغافلين.
۶۴۸ قصیدہ اعجاز یہ کی معجزانہ حیثیت اور اس پر اعتراضات کے جوابات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے قصیدہ اعجاز یہ مندرجہ "اعجاز احمدی " پر جس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار بھی تھا کہ جو شخص ایسا قصیدہ جو ساڑھے پانچسو اشعار کا ہے معہ اردو عبارت کی تردید پندرہ دن کے اندر پیش کر دے اسے یہ انعام دیا جائے گا.اور بالخصوص اس میں مولوی ثناء اللہ صاحب مخاطب تھے اور انہیں اجازت دی گئی تھی کہ قاضی ظفر الدین و مولوی اصغر علی و علی حائری و پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو بھی اپنی مدد کیلئے اپنے ساتھ ملا لیس جن کے دماغ میں عربی دانی کا کیڑا ہے.سولہ نومبر کو رسالہ اعجاز احمدی ان لوگوں کو بھیجا گیا.تین دن ڈاک کے رکھے گئے اور دس نومبر سے دس دسمبر تک مہلت دی گئی.آپ فرماتے ہیں :- ار دسمبر ۱۹۰۲ء تک اس میعاد کا خاتمہ ہو جائیگا.پھر اگر بیس دن میں جو دسمبر ۱۹۰۲ء کی دسویں کے دن کی شام تک ختم ہو جائے گی انہوں نے اس قصیدہ اور اردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تو یوں سمجھو کہ میں نیست و ناو د ہو گیا اور میرا سلسلہ باطل ہو گیا.اس صورت میں میری تمام جماعت کو چاہیے کہ مجھے چھوڑ دین اور قطع تعلق کریں.لیکن اگر اب بھی مخالفوں نے محمد ا کنارہ کشی کی تو نہ صرف دس ہزار روپے کے انعام سے محروم رہیں گے بلکہ دس لعنتیں ان کا ازلی حصہ ہو گا.اور اس انعام میں سے شاء اللہ کو پانچ ہزار روپیہ ملے گا اور باقی پانچ کو اگر فتحیاب ہو گئے ایک ایک ( اعجاز احمدی صفحه ۹۰ طبع اول) کس قدر غیرت دلانے والا یہ چیلنج ہے جس میں دس لعنتیں ڈالکر مقابلہ کے ہزار ملے گا.“ لئے غیرت دلائی گئی ہے مگر افسوس کہ کسی شخص کو مدت معینہ کے اندر اس کا جواب
۶۴۹ دینے کی جرات نہ ہوئی.آپ نے تحدی کو زور دار بناتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا :- ”دیکھو! میں آسمان اور زمین کو گو اور کھکر کہتا ہوں کہ آج کی تاریخ سے اس نشان پر حصر رکھتا ہوں.اگر میں صادق ہوں اور خدا تعالی جانتا ہے کہ میں صادق ہوں تو کبھی ممکن نہیں ہو گا کہ مولوی ثناء اللہ اور ان کے تمام مولوی پانچ دن میں ایسا قصیدہ بنا سکیں اور اردو مضمون کا رد لکھ سکیں.کیونکہ خدا تعالیٰ ان کی قلموں کو توڑ دیگا اور ان اعجاز احمدی صفحہ ۳۷ طبع اول) اس پر زور تحذی کے باوجود کوئی شخص مقابلے میں نہ آیا.جناب برق کے دلوں کو غمی کر دیگا.“ صاحب لکھتے ہیں :- وو چونکہ ان شرائط کو پورا کرنا انسانی قدرت سے باہر تھا اس لئے کوئی شخص.مقابلے میں نہ اترا.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۱۱) جناب برق صاحب اس امر کو تو اعجاز کہتے ہیں جو انسانی قدرت سے باہر ہو.دیکھئے اس قصیدہ کو حضرت اقدس نے پانچ دن میں لکھ لیا اور اس کے ساتھ ایک اردو مضمون لکھ کر پندرہ دن میں شائع کر کے مخالفوں کے پاس بھجوادیا.اور پر زور تحدى کے ساتھ غیرت دلایا جانے پر بھی مخالف علماء سارے ملکر بھی پندرہ دن کی مدت میں اس قصیدے کا جواب لکھ کر شائع نہ کر سکے تو اس کا معجزہ ہونا تو ثابت ہو گیا.اور یہ امر برق صاحب خود بھی مان چکے ہیں کہ ان شرائط کا پورا کرنا انسانی قدرت سے باہر تھا.اس مدت کے گذر جانے کے لمبے عرصے بعد اگر کوئی شخص جواب میں کوئی قصیدہ شائع بھی کر دے تو حضرت اقدس کے قصیدہ کے معجزہ ہونے میں اس سے کوئی کمی واقع نہیں ہو سکتی؟ معجزہ تو اپنے وقت پر کام کر گیا اور مد مقابل وقت کے اندر جواب شائع کرنے میں ناکام ہو گئے.برق صاحب نے اس قصیدہ کے متعلق لکھا ہے :-
" قصیدہ اعجازیہ کے قریباًتین در جن اشعار عروضی و نحوی اغلاط سے آلودہ ہیں بطور نمونہ ہم چند اشعار پیش کرتے ہیں.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۱۲) برق صاحب کے یہ اعتراضات ایسے ہی ہیں جیسے عیسائی قرآن کی مثل تو نہیں لا سکے مگر اس کی اولی غلطیاں نکالتے رہتے ہیں.یہ نوٹ لکھنے کے بعد برق صاحب نے پانچ شعر پیش کر کے ان پر اعتراض کئے ہیں کہ ان میں اولی غلطیاں ہیں.مگر ان اشعار پر اعتراض کر کے برق صاحب نے اپنے علمی افلاس کا ہی ثبوت دیا ہے.فاين بهذا الوقتِ مَن شَانَ جَوَلر ( اعجاز احمدی صفحه ۴۹ طبع اول) -:1 66 اس مصرع پر آپ کو یہ اعتراض ہے کہ ”جولر " شان کا مفعول یہ ہے اس لئے منصوب ”جولرا“ چاہیئے الجواب (حرف محرمانه صفحه ۴۱۲) جوارہ گولڑہ کا معرب ہے اور اس کی ، کو ترغیم کی خاطر گرادیا گیا ہے جو در اصل محل نصب میں تھی.پس جو لہ منصوب مرخم ہے.اور اس میں غیر منادی کی ترخیم کی متینوں شرطیں موجود ہیں.اول شعر میں واقع ہونا.دوستم حرف ندا کے د خون کی صلاحیت رکھنا.سوم بالتاء واقع ہونا (واضح ہو ، دراصل ناء ہوتی ہے ) پس اعتراض باطل ہے.: - وَكَان سَنا بَرْقِى مِنَ الشَّمُس أظهر اعجاز احمدی صفحه ۶۴ طبع اول) اس مصرع پر یہ اعتراض کیا گیا ہے :- اظهر غلط ہے اس لئے کہ کان کی خبر ہے.اظهر ا چاہیئے.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۱۲)
۶۵۱ من الشمس اظهر سے پہلے هُوَ ضمیر شان محذوف ہے.اس جگہ كَانَ شان یہ استعمال ہوا ہے.جس کی خبر سے پہلے ضمیر شان حذف کر دی جاتی ہے.اس لئے اظهر هو كى خبر مرفوع ہے کیونکہ پورا فقرہ یوں نا وكان سنا برقي هو من الشمس اظهر.اس طرح هو من الشمس اظهر جملہ ہو کر کان شانیہ کی خبر واقع ہؤا ہے.ہم کان شانیہ کے استعمال کی دو مثالیں پرانے شعراء کے کلام سے پیش کرتے ہیں.إِذَا مِتْ كَانَ النَّاسُ صِنْفَانِ شَامِتُ واخر متنِ بِالَّذِى كُنتُ أَصْنَعُ دیکھئے پہلے مصرع میں کان شانیہ استعمال ہوا ہے الناس اس کا اسم ہے اور صنفان جو مرفوع ہے کان کی خبر نہیں بلکہ هُوَ ضمیر شان محذوف کی خبر ہے اور هُوَ صنفان جملہ ہو کر گان کی خبر ہے.اور یہ جملہ محلا منصوب ہے.(دیکھئے شرح ملا جامی بحث افعال ناقصہ ) حسام بن ثابت الانصاری صحابی کا شعر ہے.كانه صبيةٌ مِن بَيْتِ رأس يَكُونُ مِزاجُهَا عَسَلُ وَمَاء اس شعر کے دوسرے مصرع میں يكون ثانیہ ہے مزا جھا اس کا اسم ہے اور غسل اور ماء سے پہلے ھو ضمیر شان محذوف ہے اس لئے غسل اور ماء کو مرفوع استعمال کیا گیا ہے اور هُوَ عَسل وماہ جملہ ہو کر یکون کی خبر ہونے کی وجہ سے محلا منصوبے کچھ سمجھے ؟
۶۵۲ برق صاحب الیجیئے آپ کو شعر میں منصوب کو مرفوع استعمال کرنے کی بھی مثال بتا دیتے ہیں.سینیئے ! حضرت علیؓ کا ایک شعر ہے.وَكَمْ سَاعِي لِيَشْرِئَ لَمْ يَنَلْهُ وَآخَرُ مَا سَعَى لَحِقَ الشَّراءِ الشراء دراصل لحق کا مفعول یہ ہے جسے قاعدہ نحویہ کے مطابق الشراء منصوب ہونا چاہیئے تھا مگر حضرت علی نے اسے ضرورت شعر کے لئے مرفوع استعمال فرمایا ہے.-: (دیوان حضرت علی (مترجم) ا كَانَ شَفِيعُ الانبياء موتر (اعجاز احمدی صفحه ۶۸ طبع اول) برق صاحب کا اعتراض اس مصرع پر یہ ہے کہ موثر شفیع پر معطوف ہے اس لئے موثر ا چاہیئے.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۴۱۲) جناب برق صاحب ! یہاں بھی کان شانیہ ہے اور شفیع سے پہلے مو ضمیر شان محذوف ہے.شفیع الانبیاء ھو کی خبر مرفوع ہے اور اس پر موٹر کا عطف ہے.اس لئے موثر مر فوع استعمال ہوا ہے.ھو شفیع الانبیاء و موثر جملہ معطوفہ ہو کر کان کی خبر ہے اور محلا منصوب ہے.برق صاحب !کان کی خبر کے مرفوع استعمال ہونے کی ایک اور مثال بھی ملاخطہ ہو.وَمَنْ يَسْتَعْتبَ الحَدَثان يوما يكن ذاك الحِتَابُ له عناء دیکھئے ضرورت شعری کیلئے عناء کو مرفوع استعمال کیا گیا ہے حالانکہ وہ کان کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب چاہیئے.(دیواں بدیع الزمان صفحه (۶) : فَيَأتِي مِن الله العليم مُعلِم فَيَهْدِي إِلَى أَسْرَارِهَا وَيُفَسِرُ
۶۵۳ اس شعر پر برق صاحب نے یہ اعتراض کیا ہے کہ :- الجواب اسرارها کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے.اللہ مذکر اور ضمیر مؤنث ہے.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۱۲) اس اعتراض میں آپ بد دیانتی سے کام لے رہے ہیں.یا یہ اعتراض آپ کی کم فہمی پر مبنی ہے.ہا کا مرجع اللہ نہیں بلکہ اس شعر سے پہلے شعر کے مصرع اول میں لفظ " حقائق اس کا مرجع ہے.پہلا شعر یوں ہے وكم من حقائق لا يُرى كَيْفَ شَبُحُهَا گنجم بعيد نورها ینی يتستر حقائق حقیقۃ کی جمع مکسر ہے اس لئے اس کی طرف ھا کی ضمیر راجع کی گئی جو جمع مؤنث کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے.پس اللہ اس کا مرجمع نہیں ہے.-: 6 فقلتُ لَكَ الويلاتِ يا ارض جَولَرَ لُعِنُتِ بِمَلْعُون فانتِ تُدَمَّر برق صاحب کا اعتراض اسپر یہ ہے کہ : ارض مؤنث ہے اور تدمر واحد مذکر مخاطب گویا مذ کر کے لئے مؤنث کا صیغہ استعمال کر دیا جو صریحاً غلط ہے.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۱۲) الجواب اس جگہ تدمرين مؤنث کا کی ن ضرورتِ شعری کے لئے حذف کیا گیا ہے.اور لعنتِ صیغہ مؤنث اس لفظ تُدمرین کے مؤنث ہونے پر دال ہے.اور ضرورت شعری کے لئے ایسا حذف جائز ہے.دیکھئے آیت قرآنیہ والول إِذا يَسر
۶۵۴ (الفجر : ۵) میں لفظ بستر کے آخر سے کی برعائت جمیع حذف کر دی گئی ہے اصل میں یہ لفظ يَسْرِی ہے.اصل بات یہ ہے کہ اہل عرب وزن یا جمع کیلئے زیادتی اور حذف کو جائز رکھتے ہیں.چنانچہ امام ثعالبی جو امام لغت ہیں اپنی کتاب خفة اللغة وسر العربية مطبوعہ مطبع معجومیہ ) کے صفحہ ۲۱۷ پر وزن کی خاطر حذف یا زیادہ کی قرآن مجید سے مثالیں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- فصل في حفظ التّوازن..العربُ تَزيد و تَحْذِفُ حفظاً للتوازن وايثارا له - اما الزيادةُ فَقَالَ كَمَا قَالَ الله تعالى تَظُنُّونَ باللهِ الظنوناً (الاحزاب : ١١) وكما قال فاضلونَا السَبيلا (الاحزاب : ٦٨) واما الحذف فكما قال جل اسمه واليل اذا يَسْرِ (الفجر : ۵).وقال الكبير المتعال ويوم التناد ويوم التلاق 66 اس جگہ تَظُنُّونَ باللهِ الظنونا اور فاضلونا السبیلا زیادہ کرنے کی مثالیں دی ہیں اور واليل اذایسر اور الكبير المتعال اور یوم التناد حذف کی مثالیں دی ہیں.کی فافهم وتدبر ولاتكن من الغافلين اعجاز المسیح پر اعتراضات کے جوابات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تائید الہی سے سورۃ فاتحہ کی تفسیر عربی زبان میں تحریر فرما کر اعجاز مسیح کے نام سے شائع فرمائی اور اس بارے میں آپ کو الہام ہوا :- " " مَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَتَنْمَّرَ فَسَوْفَ يَرَى أَنَّهُ تَنَدَّمَ وَتَدَمَّرَ 66 یعنی جو شخص اس کا جواب دینے کے لئے اٹھے گا اور حملہ آور ہو گا وہ کچھ
عرصے کے بعد نادم اور شر مندہ ہو گا.“ اس کتاب کے جواب کے لئے بالخصوص سید مہر علی شاہ گولڑوی مخاطب تھے یہ کتاب الهامی نہیں بلکہ حضرت اقدس نے اسے صرف تائید الہی سے لکھنے کا دعویٰ فرمایا ہے.سید مهر علی شاہ گولڑوی نے اس کے جواب میں جائے عربی میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھنے کے ایک کتاب " سیف چشتیائی" کے نام سے شائع کی جس میں " اعجاز الصبح پر نکتہ چینی کی.جو بعد میں مولوی محمد حسن آف بھی کے مضمون کا سرقہ ثابت ہوئی اور سید مہر علی شاہ صاحب کو حضرت اقدس کے الہام کے مطابق شر مندہ ہونا پڑا.اب جناب برق صاحب بھی اس شرمندگی سے حصہ لینا چاہتے ہیں.چنانچہ انہوں نے بھی اس کتاب پر پندرہ اولی اعتراضات کئے ہیں جن کے جوابات درج ذیل ہیں.اعتراض نمبر ا ہیں.ٹائیٹل پیج کی عبارت فِی سَبْعِينَ يَوْماً مِنْ شَهْرِ الصيام درج کر کے لکھتے سبعین : ستر ”ماہ رمضان کے ستر دنوں میں“ یہ کیسار مضان ہے جس کے ستر دن ہوتے ہیں.(حرف محرمانہ صفحہ ۴۱۳) الجواب یہ سوال محض طفلانہ ہے.برق صاحب نے ادھورا فقرہ درج کر کے اعتراض کر دیا ہے.پورا فقرہ یوں ہے."وَإِنِّي سَمينة " اعجاز اح" وَقَدْ طبعَ فِي مَطَبَعَ ضِيَاءِ الْإِسْلَامِ فِي سَبْعِينَ يَوْماً مِنْ شَهر الصيامِ وَكَانَ مِنَ الهِجْرَة ١٣١٨ -
ترجمہ : میں نے اس کتاب کا نام "اعجاز اسح" رکھا ہے اور یہ مطبع ضیاء الاسلام میں رمضان کے مہینہ سے ستر دن میں طبع ہوئی ہے اور ہجری کا سن ۱۳۱۸ تھا.اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب رمضان کے مہینہ کے شروع سے ستر دن میں مطبع ضیاء الاسلام میں طبع ہوئی ہے.من شهر الصیام کے الفاظ میں من ابتدائیہ استعمال ہوا ہے.پس ”رمضان کے ستر دن“ ان الفاظ کا ترجمہ درست نہیں.بلکہ رمضان کے مہینہ سے شروع ہو کر سترون میں اس کے طبع ہونے کا ذکر ہے.اعتراض نمبر ۲ چاہیئے.الجواب مَا قَبَلُونِى مِنَ الْبُخْلِ صفحہ ۸خل کا استعمال خالص پنجائی ہے.حسد (حرف محرمانه صفحه ۴۱۳) پوری عبارت یوں ہے.وورد.بَيْدَ أَنَّ بَعْضَ علماء هذه الديارِ مَا قَبلُو نِى مِنَ الْبُخْلِ وَ الِاسْتِكَبَارِ 66 فما ظَلَمُونَا وَ لكِن ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ حَسَداً وَاسْتِعْلَاء.“ ترجمہ :.مگر اس ملک کے بعض علماء نے مجھے بخل اور تکبر کی وجہ سے قبول نہیں کیا.پس انہوں نے ہم پر کوئی ظلم نہیں کیا اور انہوں نے اپنی جان پر ہی حسد اور تکبر سے ظلم کیا.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ عقل کا استعمال پنجابی کیوں ہے.جبکہ انکار کی وجہ محض مخل ہی قرار نہیں دی گئی بلکہ اس کے ساتھ حسد اور استکبار کا ذکر بھی موجود ہے.اور مخل اور استکبار اور حسد تینوں کو وجہ انکار قرار دیا گیا ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.
۶۵۷ أَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنى وَكَذَّبَ بالحُسْنَى فَسَنُيَسِرُهُ لِلْعُسُراى - (سورۃ والیل) ترجمہ : جس شخص نے حل کیا اور لا پرواہی کی اور سچائی کی تکذیب کر دی تو اسے ہم تکلیف کا سامان بہم پہنچائیں گے.دیکھئے ! اس آیت میں حل کے ساتھ استغناء ملا کر سچائی کی تکذیب پر منتج قرار دیا ہے.اور حق سے استغناء تکبر کی ہی علامت ہے حضرت مسیح موعود نے اسی قرآنی استعمال کے مطابق مثل کے ساتھ استکبار کو استعمال فرمایا ہے کہ علماء اپنے حفل اور تکبر کی وجہ سے مجھے قبول نہیں کرتے پس مخل کا استعمال پنجابی نہیں بلکہ خالص قرآنی ثابت ہوا.اس خالص قرآنی استعمال نے برق صاحب کی قرآن دانی کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا.سچ فرمایا تھا اللہ تعالیٰ نے اعجاز انسح کے متعلق اپنے الہام میں کہ جو اس کے جواب کے لئے کھڑا ہو کر حملہ آور ہو گا وہ ندامت اٹھائیگا.فاعتبر وایا اولی الابصار اعتراض نمبر ۳ الد الحفا فيش وقرا( صحيح وكرا ) لحناتهم لحنانھم پرل غلط ہے.اس لئے کہ اتخذ دو مفعول چاہتا ہے جنان پہلا مفعول ہے.مفعول پر لام لانا درست نہیں.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۴۱۳) یہ لفظ آجنَا نَهُمُ ہے.کاتب نے شکتہ محط کی وجہ سے الف کو لام سمجھ کرج سے ملا دیا ہے.اجنان جنان کی جمع ہے.اور اس فقرے کے یہ معنے ہیں کہ." چمگادڑوں نے ان کے دلوں کو گھونسلہ بنالیا.“ لجنا نہم سے تو فقرہ کے کچھ معنے ہی نہیں ہے.کیونکہ پھر ترجمہ یہ بن جاتا ہے.
۶۵۸ وو چمگادڑوں نے گھونسلے کو ان کے دلوں کے لئے بنالیا.“ ظاہر ہے کہ کوئی معمولی علم رکھنے والا بھی ایسی بے معنی بات نہیں کہہ سکتا.پس حقیقت یہی ہے کہ احناتهم اصل لفظ ہے جو اتخذ کا مفعول ہے.اور باوجود احتیاط کے کتابت کی غلطیاں کتاب میں رہ ہی جاتی ہیں.مثلا دیکھئے برق صاحب نے حضرت مسیح موعود کے اس فقرہ کو نقل کرتے ہوئے اس میں وکر گھونسلہ ) کو اپنی کتاب میں و قرا لکھ دیا ہے جس کے معنے بوجھ کے ہوتے ہیں.ہے ہم نے فقرہ میں صحیح کر کے وکر لکھا ہے.کیونکہ اس جگہ گھونسلہ مراد ہے.پس ہم اس غلطی کو برق صاحب کی لغزش قلم پر ہی محمول کر سکتے ہیں.پس بعض اوقات کا پی نویس ایسی غلطیاں نقل عبارت کرتے ہوئے کر جاتے ہیں اور پروف پڑھا جانے کے باوجود بھی وہ نظر انداز ہو جاتی ہیں.اعتراض نمبر ۴ يُرِيدُونَ أَنْ يَسْفِكُوا قَائِلَهُ صفحه ۱۳ سفك كے معنے ہیں بہانا، گرانا.(وہ چاہتے ہیں کہ قائل کا بہائیں) کیا ؟ خون : تو پھر قَائِلہ سے پہلے دم (خون) کا اضافہ فرمائیے.الجواب پورا فقرہ یوں ہے.(حرف محرمانه صفحه ۴۱۴) وَلَا يَسْمَعُونَ قَوْلَ الْحَقِّ بَلْ يُرِيدُونَ أَنْ يَسْفِكُوا قَائِلَهُ وَيَغْتَالُونَ.کہ یہ لوگ کچی بات نہیں سنتے بلکہ چاہتے ہیں کہ وہ بات کہنے والے کا خون بہا دیں اور چھپ کر ہلاک کر دیتے ہیں.اس جگہ بغنا لون کا لفظ انتہال سے ماخوذ ہے جس کے معنے چھپ کر ہلاک کر
۶۵۹ دینے کے ہیں.پس يُغتالون (چھپ کر ہلاک کر دیتے ہیں ) کا لفظ اس عبارت میں سفك دم کے لئے قرینہ ہے.اس لئے یسفکوا کے بعد دم (خون) کا لفظ جو مضاف تھا.فائلہ سے پہلے حذف کر دیا ہے.اور قائلہ کو مضاف کا اعراب میں قائم مقام بنا دیا گیا ہے.جیسے آیت ان تنصرو الله ينصر کم میں اللہ سے پہلے دین کا لفظ جو مضاف تھا حذف کر دیا گیا ہے اور اللہ کو اعراب میں اس کا قائم مقام بنا دیا گیا ہے.اس پر قرینہ یہ ہے کہ خدا تعالی کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں البتہ اس کے دین کو مدد کی ضرورت ہے.اس طرح مضاف کا حذف کرنا کلام میں حسن پیدا کرتا ہے.لہذا فقرہ میں لفظادم کے اضافہ کی ضرورت نہیں.دیکھئیے.قرآن مجید میں آیا ہے."اِعْدِ لُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقوى.“ ( عدل کر ووہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.) اس آیت میں ہو کا مرجع کلام العدل چاہیئے جو لفظ مذکور نہیں ہاں فعل هو اِعْدِلُوا کے قرینہ سے العدل کو معنا مراد لے کر اس کی طرف ھو کی ضمیر راجع کی گئی هو ہے.پس اگر قرینہ موجود ہو تو حذف لفظ مستحسن ہو تا ہے نہ کہ ناجائز.اعتراض نمبر ۵ جعل قلمي و كلمى منبع العارف ضبع الماط ہے منابع چاہیے.(حرف محرمانه صفحه ۴۱۴) قلمی اور گلمی کو واحد کے حکم میں قرار دے کر معارف کا منبع سر چشمہ ) قرار دیا گیا ہے.کیونکہ قلم کلمات کے بغیر معارف کا منبع نہیں بن سکتی.
۶۶۰ دونوں مل کر اعجاز المسیح کے معارف کا منبع ہیں.قرآن شریف میں آیا ہے.كِلْنَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا - دیکھئے ! اس میں دونوں باغوں کا مل کر چونکہ ایک کام تھا یعنی پھل دینا اس لئے حنتين مثنیہ کے لئے آبت مفرد فعل لایا گیا.کیونکہ دونوں باغوں کو بحکم واحد قرار دیا گیا ہے.اور اس قسم کے محاورات عربی زبان میں شائع اور ذائع ہیں.اعتراض نمبر ۶ واى مُعْجَزَةٍ صفحه ۴۵ وَآيَّةٌ چاہیے.(حرف محرمانه صفحه ۴۱۴) الجواب ہمیں برق صاحب یہ بتارہے ہیں کہ معجزہ مؤنث ہے اور ای مذکر لہذا معجزہ سے پہلے بوجہ اس کے مؤنث ہونے کے آیۂ چاہئیے.مگر یہ بات ان کی قواعد عربی سے ناواقفی کا کھلا کھلا ثبوت ہے ای کا مؤنث کے لئے استعمال تو خود قرآن مجید میں ہوا ہے چند مثالیں ملاحظہ ہوں.(1) بِأَيِّ أَرْضِ تَمُوتُ دیکھئے ارض مؤنث ہے اور اس کے لئے ای استعمال کیا گیا ہے.(۲) فَأَيَّ آيَاتِ اللَّهِ تُنْكِرُونَ.(لقمان آیت ۳۴) (مومن آیت (۸۴) اس میں آیات کا لفظ مؤنث بھی ہے اور جمع بھی مگر اس کے لئے اتنی ہی استعمال ہوا ہے.(۳) فِي أَى صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكبَكَ اس جگہ صورۃ مؤٹ ہے مگر اس کے لئے آئی ہی استعمال ہوا ہے.پس برق
i ۶۶۱ صاحب کا یہ اعتراض ائی کے قرآنی استعمال سے بھی نا واقعی کا ثبوت ہے.پھر حدیث میں آیا ہے :- أيُّمَا امرأَة نَكَحَتْ بغَيْر إِذن وَلِيْهَا فَنِكَا حُهَا بَاطِلُ.کہ جو عورت بھی اپنے ولی کے اذن کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے.اس حدیث میں امراہ مونث حقیقی کے لئے بھی آئی کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے.چونکہ جناب برق صاحب عربی گرامر میں مفلس ہیں اس لئے جب انہوں نے یہ دیکھا کہ یہ لفظ مناوی معرف بالام کے صلہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو مذکر کے لئے آئی اور مؤنث کے لئے آيَّةُ استعمال ہوتا ہے.جیسے أَيُّهَا الرَّجُلُ اور ايتها المرأة تو انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ عربی زبان میں ہر صورت میں مذکر کے لئے آئی استعمال ہوتا ہے اور مؤنث کے لئے آیہ.حالانکہ یہ بات درست نہیں.آئی جب استفہامیہ یا شرطیہ ہو تو ان دونوں صورتوں میں مذکر اور مؤنث دونوں کے لئے ای استعمال ہوتا ہے.قرآن مجید سے جو مثالیں اوپر دی گئی ہیں وہ ائی استفہامیہ کی ہیں اور یہ سب مثالیں مؤنث کے لئے ای کے استعمال کی ہیں.حدیث کی مثال أَيُّمَا المراة اى کے شرطیہ کی صورت میں استعمال کی ہے.اعتراض نمبر۷ وَمِنْ نَوادِرِ مَا أُعْطِيَ لِي (صفحه ۴۸ اعجاز البح) ماعطیت صحیح ہے.(حرف محرمانه صفحه ۴۱۴) الجواب برق صاحب نے مَا اُعْطِيَ لِی کو غلط قرار دینے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی.بے شک اس فقرہ میں مَا اُعْطِيتُ بھی استعمال ہو سکتا ہے مگر جو مفہوم مَا أُعْطِيَ
۶۶۲ لی سے مراد تھاوہ ما اعطیت کے الفاظ پورے طور پر ادا نہیں کر سکتے تھے.لہذا اس جگہ مَا أعْطِی لِی کا استعمال ہی انسب ہے.مِنْ نَوادِرِ مَا أُعْطِيتُ کے معنے ہونگے.وہ نو اور جو میں دیا گیا.اور مِن نَوادِرِ ما أعطى للی کے یہ معنے ہیں.وہ نوادر جو مجھے میرے لئے بطور اختصاص و استحقاق دیئے گئے ہیں.پس ما اعطیت سے وہ مضمون ادا نہیں ہو سکتا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ بیان کرنا چاہتے تھے.لام اس جگہ لام اختصاص یا لام استحقاق ہے.جیسے قرآن مجید کی آیت لا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة اعین میں لھم کا لام اختصاص ہے.المنجد " میں لام استحقاق کی مثال العزة للہ دی گئی ہے اور لام اختصاص کی مثال الجنة للمؤمن دی گئی ہے.دیکھو المنجد ( زیر لفظ لام) نوادر سے مراد اس جگہ نو اور کلام ہیں جو آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بصورت نشان آپ کے مخصوص منصب کے لحاظ سے دیئے گئے.اعتراض نمبر ۸ مَثَلُهَا كَمَثَلِ نَاقَة تُوُصِلُ إِلى دِيَارِ الْحِبِّ مَنْ رَكِبَ عَلَيْهِ - (اعجاز مسیح صفحہ ۷۷ ) ناقہ مؤنث ہے اور علیہ کی ضمیر نذکر.علیها چاہئے.(حرف محرمانہ صفحہ ۴۱۴) الجوب تو صل ( فعل مؤنث ) کا لفظ بتاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جانتے ہیں کہ ناقہ مونث ہے.چنانچہ آپ نے اس فقرے کے بعد وقَدْ حُمِلَ عَليها من كل نوع الأَزْوَادِ والنفقات والشاب والكسوات کے فقرہ میں ناقہ کی طرف
۶۶۳ مؤنث کی ضمیر علیها ہی راجع کی ہے.لہذا من ركب علیہ کی عبارت میں تاویلا اہل عرب کے ایک اسلوب کے مطابق ناقہ کو بقرینہ فعل رکب "مرکب " پر محمول کر کے اس کی طرف مذکر کی ضمیر راجع کی گئی ہے چنانچہ خود قرآن کریم میں بعض جگہ یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ مؤنث کی طرف مذکر کی ضمیر راجع کر دی ہے اور مذکر کی طرف مؤنث کی.دیکھئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(1) إِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَام لَعِيرَةُ نُسَقِيكُم مِمَّا فِي بُطُونِهِ (سورة محل آیت ۶۷) میں انعام جمع مکسر ہونے کی وجہ سے مؤنث ہے مگر بطورہ میں واحد مذکر کی ضمیر اس کی طرف راجع کی گئی ہے (۲) لَا تَعْلَمُ نَفْسٍ مَّا أَخْفِيَ لَهُمُ مِنْ قُرَّةٍ أَعْيُنٍ.(سجدہ) میں نفس مؤنث ہے اس کی طرف لهم مذکر کی ضمیر بتادیل اشخاص راجع کی گئی ہے.(۳) پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.واعْتَدُ نَالِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيرًا.اس میں سعیداً مذکر ہے.مگر اس کے بعد فرماتا ہے :- إذَا رَتَتَهُمْ مِنْ مَّكَان بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغيُّظًا وزفيرا ( فرقان آیت ۱۳) اس میں فعل رات میں مؤنث کی ضمیر اور لها مؤنث کی ضمیر دونوں کا مرجع سعیر مذکر کو تار مؤنٹ پر محمول کر کے بنایا ہے.اسی طرح مؤنث حقیقی کے لئے قرآن مجید میں فعل مذکر استعمال کیا گیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے :- قَالَ نِسْوَة فِي المَدِينَةِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَا هَا عَنْ نَفْسِهِ - اسی طرح مشہور شاعر اعشي کہتا ہے يقوم وكانواهم المنفدين شرابهم قبل تنفادها شراب مذکر ہے مگر عرب کے مشہور شاعر اعشي نے اس کی طرف تاویل.L
۶۶۴ عمرها مؤنث کی ضمیر راجع کی ہے.مؤنث کی طرف مذکر کی ضمیر راجع کرنے کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو.ہے.كَى يَطلُبُوا فوق الارض لم يجدوا مثل الذى غيبوا في بطنه رَجُلاً دیکھئے ارض مؤنث ہے مگر بطنہ کی واحد مذکر ضمیر اس کی طرف راجع کی گئی (حماسه مجتبائی صفحہ ۵۱۷) کیوں برق صاحب ! اب بھی تسلی ہوئی ہے یا نہیں.کہ آپ کا یہ لغو اعتراض عربی علم ادب میں بالغ النظر ہونے کا ثبوت نہیں.اعتراض نمبر ۹ الزم الله كافة أهل المِلَّةِ.عربی میں کافة مضاف نہیں ہو سکتا.اس لئے یہ فقرہ غلط ہے.الجواب (حرف محرمانه صفحه ۴۱۵) اس عبارت میں کافة مضاف نہیں بلکہ حال مقدم ہے اور اھل الملة اس کا ذوالحال متاخر جو الزم کا اپنے حال مقدم کے ساتھ مل کر مفعول بہ ہے.پس اس عبارت کو یوں پڑھا جائے گا.اَلزَمَ اللهُ كَافَّةٌ اَهْلَ المِلَّةِ.اس جگہ حال کو بر عایت جمع مقدم کیا گیا ہے.چنانچہ اس عبارت کا اگلا فقرہ ہے.اِن يَقْرَءُ وَالفُظَ الرَّحِيمِ قَبلَ قِراءَ ة الفَاتِحَةِ وقَبْلَ الْبَسْمَلَةِ اس جگہ یہ مضمون بیان ہو رہا ہے کہ سورۃ فاتحہ سے اور بسم اللہ سے پہلے اَعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِیمِ پڑھنا کیوں لازم کیا گیا ہے.حال کا اصل محل تو فقرہ کے آخر میں ہوتا ہے.مگر جب فقرہ میں عامل فعل
ہو تو حال کا ذوالحال سے مقدم لانا جائز ہے.چنانچہ شرح المفصل میں حال کی بحث میں لکھا ہے :- إِذَا كَانَ الْعَامِلُ فِيهَا فِعلاً جَازَ تَقَدِيمُ الحَال عَلَيْهِ.“ یعنی جب عامل فعل ہو تو حال کا مقد م لانا جائز ہے.66 آگے اس کی مثالیں دی ہیں.جاءَ قَائِماً زيد اور قَائِمًا جَاءَ زَيْدُ (دیکھئے شرح المفصل للشيخ العلامه لان على بن يعيش الخوی متوفی ۱۳۳ ہجری جزو اول صفحه ۵۷ مطبوعه مصر) ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ حال کا نہ صرف ذوالحال سے پہلے لانا جائز ہے بلکہ فعل سے بھی پہلے لانا جائز ہے.اسی طرح الفیہ بن مالک اور اوضح المسالک میں بھی جو نحو کی مشہور کتابیں ہیں یہی قاعد وبیان کیا گیا ہے.ملاحظہ ہو الفیہ اور اوضح المسالک میں بحث حال این مالک الفیہ میں تو جار مجرور کے ذوالحال ہونے کی صورت میں حال کا مقدم لانا جائز قرار دیتے ہیں.گو نویوں کو اس سے انکار ہے ملاحظہ ہو الفیہ کا شعر وَسَبْقُ حال مَا بِحَرْفٍ جُوقَدُ ابوا وَلَا أَمْنَعُهُ فَقَدْ وَرَدَ یعنی حال کے مجرور سے مقدم لانے سے نحویوں نے انکار کیا ہے لیکن میں نا جائز نہیں کہتا کیونکہ (قرآن مجید میں وارد ہوا ہے.اس جگہ بین السطور آیت وما ارسلناك إلا كافة للناس بطور نظیر پیش کی گئی ہے گویا كافة للناس کا حال مقدم قرار دیا ہے.اوضح المسالک میں جو نحو کی مشہور اور مستند کتاب ہے حال کے باب میں لکھا ہے کہ آیت وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا كافة للناس من الفارسی.ابن جنی اور قیسان کے
۶۶۶ نزدیک کافةٌ حال مقدم ہے اور للناس اس کا ذوالحال متاثر ہے.گو دوسرے نحوی اس آیت میں کافة کو اَرْسَلْنَاكَ کی ضمیر کاف کا حال قرار دیتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ معنوی لحاظ سے اس جگہ قرآن مجید میں كافة کو للناس کا حال قرار دینا ہی مناسب ہے کیونکہ مراد یہ ہے کہ آنحضرت یہ سب کے سب لوگوں کے لئے رسول ہیں.خیر یہ بحث تو حال کے جار مجرور سے مقدم لانے یا نہ لانے سے متعلق ہے.مگر جس جملے میں عامل فعل یا شبہ فعل ہو وہاں تو حال کا متقدم لانا علی الاتفاق جائز ہے.پس حضرت اقدس کا زیر بحث فقرہ میں کافۃ کا لفظ اهل الملۃ کا مضاف نہیں بلکہ اس کا حال مقدم ہے اور آلزم فعل اس کا عامل ہے.پس برق صاحب کا اسے خلاف قاعدہ مضاف قرار دینا غلطی ہے اور انکا اعتراض محض مغالطہ ہے.اعتراض نمبر ۱۰ وَتِلْكَ الْجُنُودُ يَتَحَارَبَان يتحاربان غلط ہے تتحاربان چاہیے.(حرف محرمانه صفحه ۴۱۵) الجواب یہ استعمال بالکل درست بلکہ زیادہ فصیح ہے.برق صاحب نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ الجنود جمع مکسر ہے جو مؤنث ہوتی ہے.اس کے لئے فعل يتحاربان مذکر استعمال کیا گیا ہے.مگر انہوں نے اس جگہ پوری عبارت نہ پیش کر کے مغالطہ دہی سے کام لیا ہے.پوری عبارت یوں ہے :- ولَمْ يَزَلُ هذه الجُنُودُ وَتِلْكَ الجنودُ يَتَحَارِبان یہ لشکر اور وہ لشکر دونوں لڑتے رہے.) سیاق کے لحاظ سے اس جگہ هذه الجنود (ان لشکروں) اور تِلكَ الجنود
۶۶۷ ان لشکروں) سے مراد شیطان کے لشکر اور امام الزمان کے لشکر ہیں.مختلف افراد کے جمع ہو جانے کے لحاظ سے انہیں اور اُنہیں هذه الجنود وتلك الجنود قرار ديا گيا ہے جب ان هذه الجنود وتلك الجنود میں لڑائی ہوتی ہے.تو یہ دونوں متحارب فریق من جاتے ہیں.اس لئے ان کے دو فریق یا گروہ بن جانے کی وجہ سے ان کے لئے فعل بتحاربان (دونوں فریق لڑ رہے ہیں) کا استعمال ہی زیادہ فصیح ہے.اگر صرف اتناہی فقرہ ہوتا وتلك الجنود يتحاربان اور اس سے پہلے و هذه الجنود کا ذکر نہ ہوتا تو پھر افراد کے لحاظ سے اس جگہ یتحاربون (وہ سب لڑرہے ہیں) استعمال ہو تا.اور اس صورت میں تلك الجنود کو ہی دو فریق قرار دے کر ان کے لئے بتحاربان بھی جائز ہوتا.مگر اب تو یہ صورت ہی موجود نہیں بلکہ پوری عبارت هذه الجنود اور تلك الجنود دونوں کو باہم دو متحارب فریق قرار دے رہی ہے لہذا اس صورت میں بتحاربان کا استعمال ہی انسب اور انصح ہے.اعتراض نمبر 11 الَّتِي النفس التي سعى سعيها - پر اعتراض کیا گیا ہے "سعی غلط ہے اس لئے کہ نفس مؤنث ہے.سعت چاہیئے.“ (حرف محرمانہ صفحہ ۴۱۵) الجواب مسعی کا استعمال بھی صحیح ہے.کیونکہ نفس کو شخص اور انسان مراد لے کر مذکر بھی استعمال کیا جاتا ہے.قرآن مجید میں ہے لا تعلم نفس ما أخفى لهم من قرة اعين اس جگہ پہلے لا تعلم فعل واحد مؤنث استعمال کر کے نفس کو مؤنث قرار دیا گیا ہے.اور اس کے بعد اس کی طرف ضمیر لهم جمع مذکر کی نفس کو اشخاص پر محمول کر کے راجع کر دی گئی
۶۶۸ ہے.یہی حال زیر بحث فقرہ کا ہے کہ پہلے اسے مؤنث قرار دے کر اس کی طرف فعل سعی کی ضمیر واحد غائب راجع کی گئی.چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے.ماعندنا الاثلثة انفس مثل النجوم تلعلعت في الحندس اس جگہ انفس کی تانیث کی وجہ سے باقاعدہ تمیز اعداد ثلث کا استعمال چاہیئے تھا.لیکن شاعر نے انفس کو بتا ویل اشخاص مذکر قرار دیدیا ہے.اور مذکر کے مناسب قاعدہ کے مطابق عدد ثلاثۃ کا استعمال کیا ہے.پھر دوسرے مصرعہ میں یہی شاعر انفس کو مؤنث قرار دے کر اس کے لئے تلعلعت فعل واحد مؤنث کا استعمال کر رہا ہے.گویا ایک ہی شعر میں انفس کو نذ کر بھی استعمال کیا گیا ہے اور مؤنث بھی.اعتراض نمبر ۱۲ إلا قليل : الَّذِي هُوَ كَا لَمَعْدُوم - صفحہ ۱۵۹) اس پر یہ اعتراض کیا گیا ن ”یہاں موصوف نکرہ ہے اور صفت معرفہ جو صحیح نہیں.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۱۵) افسوس ہے کہ جناب برق صاحب نے اس جگہ اعتراض وضع کرنے کے لئے ادھوری عبارت پیش کر دی ہے تا منشاء متکلم کو چھپا کر اپنے اعتراض کو صحیح دکھا سکیں.یہ فعل مجرمانہ ہے نہ کہ محرمانہ.پوری عبارت یہ ہے.كان الناس كلهم ماتوا ولم يبق فيهم رُوحُ الْمَعْرِفَةِ إِلَّا قَلِيلُ : الَّذِي ن
۶۶۹ هُوَ كَا لَمَعُدُومِ مِنَ النُّدْرَة ترجمہ : - گویا کہ تمام لوگ مر چکے ہیں اور ان میں بجز تھوڑے سے لوگوں کے روح معرفت باقی نہیں رہی جو اپنی ندرت کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہے.اس فقرہ میں رُوحُ الْمَعْرِفَةٍ جو اضافت کی وجہ سے معرفہ ہے ترکیب میں موصوف ہے اور الَّذِي هُوَ كَا لَمَعْدُوم اس کی صفت معرفہ لائی گئی ہے.یہ صفت معرفہ قلیل نکرہ کی صفت نہیں.القَلِیل میں قلیل نکرہ تو مستقلی ہے جو اپنے مستقلی منہ روح المَعْرِفَةِ کے ساتھ مل کر فعل لم تین کا فاعل ہے.پس برق صاحب نے یہ اعتراض کر کے بھی صرف منہ چڑانے کی کوشش کی ہے.كان هذا القدر مبلغ علمه من فَلْيَسْتَتِرُ بالصمت والكتمان اعتراض نمبر ۱۳ الجواب ہے :- لا تؤذى اخيك“ برق صاحب نے اس پر اعتراض کیا ہے :- اخيك غلط ہے.مفعول ہونے کی وجہ سے اخاک چاہیئے یہ اعتراض عبارت صحیح نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے کیا گیا ہے.پورا فقرہ یوں أنْ لَا تُو ذِى أُحَبَّكَ بِكَيْرِ مِنكَ" چونکہ عبارت پر اعراب درج نہیں تھے اس لئے یہ فقرہ جناب بر من صاحب کیلئے امتحانی بن گیا.اور وہ اسے صحیح طور پر پڑھ نہیں سکے.یہ لفظ اس جگہ ان کے نہیں
بلكم أحبك ہے.یعنی ان کے مصفر امی کو کاف ضمیر خطاب کی طرف مضاف کیا گیا ہے.اسم تصغیر پیار کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور تحقیر کے لئے بھی.اس فقرہ میں بكبر منك كے الفاظ اس بات کے لئے قرینہ ہیں کہ یہ لفظ متکبر کے نقطہ نگاہ کے لحاظ سے جو اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے بطور مصغر مضاف أحبك استعمال کیا گیا ہے.چنانچہ اس کے بعد کی عبارت میں اس بھائی کو جسے وہ اپنے کبر کی وجہ سے حقیر سمجھتا ہے یہ ہدایت کی گئی ہے کہ :- ”اسے اپنے کلمات سے مجروح نہ کر بلکہ تجھ پر واجب ہے کہ تیر اوہ بھائی جو تجھے غصہ دلا رہا ہے اس سے تواضع سے پیش آاور گفتگو میں اس کی تحقیر نہ کر.اور مرنے سے پہلے مر جا.اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر (یعنی نفس کی فربہی اور کبر چھوڑ دے) جو شخص بھی تیرے پاس آئے خواہ وہ پھٹے پرانے لباس میں آئے اس کی تعظیم کر." پس سیاق و سباق اس جگہ قرینہ ہے کہ زیر بحث لفظ أحبك نہیں بلکہ احبك ہے.برق صاحب! آپ احبك پریوں (الجيك) اعرابی الف دیگر امتحان بھی پڑھ سکتے تھے مگر آپکو تو اعتراض کرنا تھا؟ چوبشنوی سخن اهل دل مگو که خطا است کن شناس نه دلبر اخطا اینجاست اعتراض نمبر ۱۴ تَمَرَاتِ الْجَنَّةِ فَويُلُ لِلَّذِي تَرَكَهُمُ (صفحه ۱۷۰) برق صاحب کو اس پر اعتراض ہے :- ترکھم غلط ہے.ثمرات جمع مکسر ہونے کی وجہ سے مؤنث ہے اس لئے تر کھا صحیح ہے.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۱۵)
۶۷۱ الجواب اس عبارت کے پیش کرنے میں بھی جناب برق صاحب نے یوں جرم کا ارتکاب کیا ہے کہ عبارت ادھوری پیش کر دی ہے تاکہ ان کے مضمون کو پڑھنے والا مغالطہ کھا جائے.اور ان کے اعتراض کو صحیح سمجھ لے.حالانکہ پورا فقرہ یوں ہے :- "وَإِنَّهُم ثَمَرَاتُ الجَنَّةِ فَوَيْلٌ لِلَّذِي تَرَكَهُمْ" ترجمہ : وہ انبیاء اور رسل جنت کے پھل ہیں.پس ہلاکت ہے اس پر جس نے انبیاء اور رسل کو چھوڑا یعنی ان کا انکار کیا اور ان کے دامن سے وابستہ نہ ہوا.واضح ہو کہ اس فقرہ سے پہلے مرسلین اور انبیاء کا ذکر چلا آرہا تھا اور اسی سلسلہ عبارت میں حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جنت کے پھل ہیں.پس اس کے لئے ہلاکت ہے جس نے ان بزرگوں کو چھوڑ دیا اور دنیا کے قوت لایموت کی طرف مائل ہوا.اس سے ظاہر ہے کہ ترکھم کی ضمیر کا مرجع ثمرات الجنة نہیں بلکہ انھم میں جو انبیاء اور رسل مراد ہیں وہ ترکھم کی ضمیر ھم کا مرجمع ہیں.پس مرجع بھی جمع مذکر ہے اور اس کیلئے ضمیر بھی جمع نہ کر لائی گئی.فاندفع الاعتراض.اعتراض نمبر ۱۵ الجواب أَتَظُنُّ أَنْ يَكُونَ الغَيْر غیر پر الف لام نہیں آسکتا.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۱۵) یہ عبارت بھی اوپر کے جواب میں دیئے گئے فقرہ سے چند فقرات کے بعد لائی گئی ہے عبارت کا سلسلہ یوں ہے :- " وَإِنَّهُم نورُ اللهِ يُعطى بهم نُورُ القُلُوبِ وَتَرياق لِسَمَ الذُّنُوبِ وَسَكِينة
۶۷۲ عند الاحْتِصَارِ والغَرْغَرَةِ وثبات عند الرحْلَةِ وَتَرْكِ الدُّنْيَا الدَنِيَّةِ - أَتَظُنُّ أَنْ يَكُونَ الغَيرُ كَمِثْل هَذِهِ الضِئَةِ الكَرِيمَةِ ترجمہ : یعنی وہ انبیاء ورسل اللہ کا نور ہیں ان کے وسیلہ سے دلوں کو نور ملتا ہے اور گناہوں کے زہروں کے لئے تریاق ملتا ہے اور موت اور نزع کی حالت میں تسلی ملتی ہے اور حقیر دنیا کو چھوڑنے اور کوچ کے وقت ثابت قدمی حاصل ہوتی ہے اس کے بعد فرماتے ہیں : - کیا تو گمان کرتا ہے کہ الغیر (انبیاء کا غیر ) اس بزرگ گروہ کی طرح ہو سکتا ہے.اور اس کے بعد فرماتے ہیں : - كلا والذى اخرجَ العَدْقَ مِنَ الجريمة اس خدا کی قسم جس نے تنے سے شاخدار شنی نکالی ہے ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا.جناب برق صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ غیر پر الف لام نہیں آسکتا مگر ہم انہیں الغبر کے استعمال کی ایک مثال دیتے ہیں جس سے ان پر اپنی علمی حیثیت خوب روشن ہو جائے گی.سینئے ”المنجد میں الغیر کا اسی طرح استعمال موجود ہے جس طرح زیر بحث فقرہ میں حضرت اقدس نے الغیر کا لفظ استعمال فرمایا ہے.المنجد میں غار يغار کے تحت لکھا ہے غار الرجُل على امرته مِنْ فُلان وهى عليه من جُلا نَةٍ اور آگے اس کے معنے لکھے ہیں :- أنف من الحمية وكرة شركة الغير في حقه بها وهي كذالك المنجد ایڈیشن ۷ ۱ صفحه ۵۶۳ کالم ۳) یعنی مرد نے حمیت کی وجہ سے نفرت کی اور اپنے حق میں اپنی دیوی میں الغیر (غیر مرد) کی شرکت کو نا پسند کیا.اور اسی طرح عورت نے حمیت کی وجہ سے نفرت کی اور اپنے حق میں اپنے خاوند میں الغبر (کسی غیر عورت) کی شرکت کو نا پسند کیا.کیوں برق صاحب! تسلی ہوئی یا نہیں کہ عربی میں الغیر بھی استعمال ہو تا
ہے.۶۷۳ برق صاحب نے اعجاز السبح کی تحریر پر صرف پندرہ اعتراضات کئے تھے جن کے جوابات سے ہم خدا کے فضل سے فارغ ہو چکے ہیں.اس مضمون کو ختم کرتے ہوئے برق صاحب نے یہ نوٹ دیا ہے :- اس تفسیر میں اس قسم کی کم و بیش ایک سواغلاط موجود ہیں.حقیقتہ تاریخ رسالت کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ اللہ نے مسیح موعود پر چار زبانوں پر الہامات اتارے اور ہر زبان میں درجنوں غلطیاں کیں.یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ دشمن اسکی غلطیوں پر ہنس رہے ہیں.وہ آخر تک اپنی ہٹ پر قائم رہا اور و قتافو قناغلط الہامات نازل کرتارہا.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۱۵) قارئین کرام ابرق صاحب کی پیش کردہ پندرہ مزعومہ غلطیوں اور ان کے متعلق ہمارا جواب ملاخطہ فرما چکے ہیں.ہمارے جوابات سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ ان کی نکتہ چینی سراسر باطل ہے اور انکی بد ذوقی کم فہمی اور عربی علم ادب میں مفلس ہونے کا ثبوت ہے.برق صاحب کی وہ سو غلطیاں جن کا وہ اس نوٹ میں ذکر فرمارہے ہیں یہی حال ہو گا یعنی وہ کم ضمی سے انہیں اغلاط سمجھ رہے ہونگے.یہ کہنا ان کا دروغ بے فروغ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے چار زبانوں میں الہامات کے اندر خدا تعالیٰ نے درجنوں غلطیاں کی ہیں.خدا کا کلام تو غلطیوں سے پاک ہی ہوتا ہے.اور اس کے الہامات پر دشمنوں کی ہنسی در حقیقت اپنی ہی نادانی اور جہالت کا ثبوت ہوتا ہے.قرآن شریف کی آیات پر عیسائیوں کی نکتہ چینی کا نمونہ جس قسم کی مزعومہ اولی غلطیاں جناب برق صاحب نے ذکر کی ہیں اسی قسم کی غلطیاں نادان عیسائیوں نے قرآن مجید کے الہامات کے متعلق بھی بیان کی ہیں جو
۶۷۴ عربی زبان کی وسعت کے پیش نظر محض انکی جہالت کا مظاہرہ ہیں.مثلاً - قرآن شریف میں آیا ہے.حضتُم كَالَّذِی خاضوا.اور اس پر یہ اعتراض کیا ہے که الذي موصول کا استعمال غلط ہے.خاضوا جمع کے صیغہ کے لحاظ سے اسم موصول الذین چاہیے کیونکہ الذی مفرد ہے اور خاضوا جمع ہے.بتائے برق صاحب ! آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے ؟ آخر آپ کو اس جگہ تبدیل ہی کرنا پڑے گی.- سورۃ محل کی آیت ۶۷ میں آیا ہے.وان لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسَقِيكُمُ مِمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرَتْ وَّ دَم لبناً خَالِصًا سَائِغاً لِلشَّارِينَ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ الانعام جمع مکسر ہے اس کی طرف مؤنث کی ضمیر کی جائے فی بطو نہ" میں مذکر کی ضمیر راجع کی گئی ہے.حالانکہ سورۃ مومنوں کی آيت وَإِنَّ لَكُمْ فِى الأَنْعَامِ لَعِبُرَةً نُسَقِيكُمُ مِمَّا فِي بُطُونِهَا میں خود قرآن کریم میں ہی انعام کی طرف ھا مؤنث کی ضمیر بھی راجع کی گئی ہے.اس تضاد کا برق صاحب کے پاس کیا جواب ہے ؟ ۳- سورۃ یوسف میں آیا ہے :- قَالَ نِسْوَةً فِي الْمَدِينَةِ “ حالانکہ نسوة مؤنث حقیقی ہے جس کے لئے قال مذکر کا فعل استعمال کیا گیا ہے.فرمائیے اس کا کیا جواب ہے ؟ - پھر سورۃ حج آیت ۲۰ میں وارد ہے :- " هذان خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِى ربِّهم.خصمان تثنیہ ہے.اس کے لئے فعل جمع کا استعمال کیا گیا ہے بظاہر اختصما چاہیے.- وَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرِضُوهُ (سورۃ توبه آیت ۶۲)
۶۷۵ اس میں اللہ اور رسول تثنیہ کیلئے برضوہ میں مفرد کی ضمیر راجع کی گئی ہے.اسکا آپ کے پاس کیا جواب ہے ؟ - سورۃ نساء آیت ۱۶۳ میں آیا ہے :- لكن الرّاسِحُونَ فِى العِلْمِ مِنهُم وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلوةَ وَالْمُؤتُونَ الزَّكَوةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الأخير اس آیت میں والمُقِيمُونَ الصَّلوة کو منصوب استعمال کیا گیا ہے اور اس سے پہلے المومنون کو مرفوع اور اس کے بعد والمؤتُونَ الزَّكَوةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّه کو بھی مرفوع استعمال کیا گیا ہے اور یہ سب عطف کے سلسلہ سے وابستہ ہیں.عام قاعدے کے لحاظ سے والمقيمون الصلوة چاہیے.بتائے آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے ؟ - فِي الْفُلْكِ الْمَسْحُون (یونس (۴۲) میں فلک کو مذکر قرار دیا گیا ہے مگر والفلك التي تجرى فى البحر ( حج ۶۶) میں فلک کو مؤنث استعمال کیا گیا ہے.آخر کچھ تو وجہ ہے.- وَإِنْ كنتم جُنَّبًا فَاطَّهَّرُوا.(المائدہ آیت ۷ ) مخاطب سب افراد ہیں اور جنباً مفرد استعمال کیا گیا ہے.اور اسی طرح فَإِنَّهُمُ عَدُولِى الارب العالمین (شعراء آیت ۷۸ ) میں بھی.- فَلَا يُحْرِ جَنَكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى - (طه آیت ۱۱۸) كما تثنیہ کی ضمیر ہے اور اس کے بعد فعل تشفی واحد مذکر لایا گیا ہے.بظاہر منشقیا آنا چاہئے.١٠- لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ابظاہر لا معصوم چاہیئے.(هود : ۴۴)
724 ١- عيشة راضية.ہوتی ہے.(القارعة : ٨) بظاہر مرضیة چاہیئے کیونکہ عیش راضی نہیں ہوتی بلکہ مرضیة یعنی پسندیدہ ۱۲ - إِنَّهُ كَانَ وَعُدُهُ ماتيا- مانیا تو اسم مفعول ہے.بظاہر اتیا چاہیے.(مریم آیت ۶۲) اسی طرح قرآن میں وارد ہے حجاباً مستورا.حجاب کو مستور قرار دیا گیا ہے حالانکہ وہ خود ساتر ہوتا ہے بظاہر مستور اسم مفعول کی جگہ ساتر اسم فاعل کا استعمال چاہئے.١٣ وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيْطين - (بقره: ۱۰۳) میں شیاطین کے پڑھنے کا پرانا قصہ بیان ہوا ہے اس لئے ابظاہر تتلوا مضارع کی جائے تلت ماضی چاہئے.آیت لِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللهِ مِنْ قَبْلُ (بقره : ٩٢) بقرنيه مِنْ قَبْلُ بظاہر لِمَ (النساء : ۵) نفساً تاکید ہے.طبن جمع مؤنث کے لئے قاعدہ کے مطابق تاکید انفسهن قتلتُم آنا چاہیئے تھا.- -۱۵ إِن طِبْنَ لَكُم عَنْ شَيْ ءٍ منه نفساً - ء آنی چاہیئے تھی.-١٢ ثُمَّ يُخر حُكُمُ طِفلاً - م جمع کی ضمیر کی مناسبت سے بظاہر اطفالاً آنا چاہیئے.ا يايها النبي إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ النبی مفرد ہے اس کی مناسبت سے بظاہر طلقت آنا چاہیئے.١٨- وَالْمَلَئِكَةُ بَعْدَ ذَالِكَ ظَهير - (مومن : ۶۸) (الطلاق : ۲) ( تحریم : ۵) ملائکہ جمع مکسر ہے اور اس کے لئے ظہیرہ کی بجائے وصف ظہیر واحد مذکر
766 استعمال کیا گیا ہے.١٩ - وَأَسَرُّ والنَّحْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا.(الانبياء : ۴) اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ خلاف قاعدہ فعل کو جمع لایا گیا ہے حالانکہ فاعل سے پہلے فعل مفرد استعمال ہوتا ہے.-۲۰ - ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِنْهُمْ - (المائدة : ۷۲) اس آیت میں بھی اوپر کے قاعدہ کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے کثیر فاعل سے پہلے عموا وصموا دو فعل جمع لائے گئے ہیں.-٢١ إن تتوباً إلى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا - چاہیئے.(التحريم : ۵) آنحضرت ﷺ کی دو بیویوں کا ذکر ہے اس لحاظ سے بظاہر قلبا كما أنا ۲۲ - إِذَارَأَوْا تِجَارَةً أَوْلَهُوَا إِنْفَضُّوا إِلَيْهَا.( الجمعة : ١٢) تجارة اور لھو دو چیزیں ہیں ان دونوں کی مناسبت سے الیھا کی بجائے الیھما چاہیئے.٢٣ - وَالَّذِينَ يَكْبَرُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ - (التوبة : ٣٤) ذهب اور فضہ دو چیزیں ہیں ان کی مناسبت سے بظاہر يُنفِقُونَهُمَا چاہیئے تھا.۲۴- فَاحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا.(ir:3) بلدة مؤنث ہے مگر اس کی صفت میتآمد کر لائی گئی ہے.عام قاعدہ کے لحاظ سے مینہ چاہیے.۲۵ - السَّمَاءُ مُنْفَطِرُ به - (المزمل : ١٩) السماء مؤنث ہے اس کی خبر منفطر مذکر لائی گئی ہے عام قاعدہ کے لحاظ سے منفطرہ چاہیے.
مندرجہ بالا پچپیش آیات میں خدا تعالیٰ کے عام اسلوب زبان کو ترک کرنے میں ضرور خاص حکمتیں ہیں جنہیں راکون فی العلم ہی سمجھ سکتے ہیں.اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کی بعض حکمتوں سے واقف ہیں اور قرآن مجید پر عیسائیوں کے اس قسم کے اعتراضات کو لغو سمجھتے ہیں.برق صاحب کے حضرت مسیح موعود کی عبارتوں پر اعتراض بھی بالعموم اسی نوعیت کے ہیں جس طرح عیسائی لوگ قرآن مجید پر اس قسم کے اعتراضات معاندانہ روح لے کر کرتے ہیں اصل حقیقت کے سمجھنے سے انہیں کوئی واسطہ نہیں ہوتا.اسی قسم کی معاندانہ روح کا اپنے اعتراضات میں جناب برق صاحب نے مظاہرہ فرمایا ہے.برق صاحب کا یہ کہنا کہ دشمن آپ کی غلطیوں پر ہنس رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں.انبیاء اور مامورین کی باتوں پر دشمنوں کی جنسی ان کی اپنی جہالت اور حماقت کی وجہ سے ہوتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یا حسرةً على العباد مايا تيهم من رسول الا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وُنَ.بتائیے کو نسار سول منکروں کی استہزاء سے چاہے.فَا عَتَبِرُوايَا اولی الابصار -
۶۷۹ باب دوازد هم برق صاحب کے آخری حملہ کارڈ برق صاحب نے اپنی کتاب کے آخری بارھویں باب میں اپنا آخری حملہ یہ کیا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے مخالفین کے متعلق تلخ نوائی اور بد زبانی سے کام لیا ہے جو ایک رسول کی شان کے منافی ہے.گویا حضرت مسیح موعود کے دعوئی کے خلاف ان کا یہ آخری تیر ہے جو انہوں نے اپنے ترکش سے نکالا ہے.جناب برق صاحب نے پہلے تو قرآن کریم کی یہ ہدایت بیان فرمائی ہے کہ مدافعت احسن طریق سے ہونی چاہیئے.پھر طائف میں آنحضرت ﷺ سے بد سلوکی پر آپکی مخالفین کے حق میں دعا اللهمَّ اهْدِ قَوْمِي إِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ کا ذکر کیا ہے پھر فتح مکہ کے موقعہ پر اہل مکہ کو آنحضرت ﷺ کا لا تقریب عَلَيْكُمْ کہہ کر عام معافی دینے کا ذکر کیا ہے.اور اس کے بعد جب انہیں یہ احساس ہوا کہ قرآن وحدیث میں بھی تو مخالفوں کے متعلق سخت الفاظ آئے ہیں اس لئے انہوں نے اطور پیش بیدی لکھا ہے :- " قرآن و حدیث میں اول تا آخر کہیں بد کلامی یا گالی موجود نہیں.حضور نے زندگی بھر کسی فرد کی توہین و تحقیر نہیں کی کسی کا مضحکہ نہیں اڑایا.کسی کو دجال یا سور نہیں کہا.اس میں کلام نہیں کہ قرآن عظیم نے بدکاروں کو فاسق اور کا فر قرار دیا تھا لیکن یہ گالی نہیں تھی بلکہ خالص حقیقت بیانی تھی.فاسق کے معنے ہیں بد چلن.اور کافر کے معنے ہیں قانون شکن.اگر ایک شرالی.زانی.مفسد.چور.خائن اور منافق کو
۶۸۰ کا فرنہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے.گدھے کو گدھا کہنے سے اس کی توہین نہیں ہوتی.“ ( حرف محرمانه صفحه ۴۱۸) اس عبارت کے جس حصہ پر ہم نے خط کھینچ دیا ہے یہ برق صاحب کی پیش کردہ ان تمام عبارتوں کا جواب ہے جو انہوں نے حضرت مسیح موعود کی تلخ کلامی درشت زبانی کے متعلق پیش کی ہیں.ان عبارتوں میں بھی قطعا کوئی گالی نہیں دی گئی بلکہ یہ حقیقت بیانی پر مشتمل ہیں اور اس وقت لکھی گئی ہیں جبکہ آپ کے مخالفوں نے آپ کے خلاف تکفیر و تفسیق اور دشنام وہی کا غلیظ گندا چھالا.ایسے لوگوں کے گند کو ہم نقل نہیں کر سکتے.افسوس ہے کہ جناب برق صاحب نے اس حملے میں بھی محققانہ انداز اختیار نہیں کیا.اگر مخالفوں کی سخت کلامی اور تلخ الفاظ بھی وہ بالمقابل نقل کر دیتے جن کے جواب میں حضور نے یہ عبارتیں جزاء سيئة سيئة مثلھا کے قرآنی ارشاد کے مطابق لکھی تھیں.تو پھر ان کا مزعومہ حملہ ناکارہ ہو کر رہ جاتا.برق صاحب کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث نے حقیقت بیانی سے کام لیا ہے نہ گالی گلوچ سے.ہمیں ان سے پورا اتفاق ہے اور ان کے جواب میں ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے ہر گز گالی گلوچ سے کام نہیں لیا.وہ کہتے ہیں آنحضرت ﷺ نے کسی کو دجال یا سور نہیں کہا.لیکن کیا وہ اس حقیقت کو چھپا سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے خود و جال اکبر کی پیشگوئی فرمائی.حضرت مسیح موعود نے تو صرف اس پیشگوئی کا عیسائی پادریوں پر اطلاق فرمایا.یا ان کے ہموا بعض علماء کے متعلق یہ لفظ استعمال فرمایا ہے.خود بھی جناب برق صاحب نے تمام انگریز قوم اور ان کے فرماں رواؤں کو دجال کی پیشگوئی کا مصداق قرار دے دیا ہے تو اعتراض کیسا؟ پھر قرآن کریم نے قوم یہود کے متعلق عام الفاظ میں کہا ہے.
۶۸۱ جَعَلَ مِنْهُمُ القِرَدَةَ وَالخَنَازِيُرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ (مائده : ۶۱) اس آیت میں یہود میں سے کئی لوگوں کو بند راور سؤر اور شیطان کے پرستار قرار دیا ہے.ماسوا اس کے قرآن کریم کی یہ آیات بھی ملحوظ خاطر ر ہیں.ا- اولئك كالا نُعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ - (اعراف : ۱۸۰) یہ لوگ چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ.(انفال : (۲۳) بدترین چار پائے اللہ کے حضور وہ لوگ ہیں جو ( قرآنی تعلیم کے مقابلہ میں) - إن شر الدواب عند الله الصم البكم بہرے اور گونگے ہیں.اور ٣- اولئكَ هُمُ وُقُودُ النَّارِ.یہ لوگ نار جہنم کا ایندھن ہیں.(آل عمران : ۱۱).اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أو ليك هم شر البرية ( البينة :) جن لوگوں نے مشرکوں اور یہود و نصاریٰ میں سے اسلامی تعلیم کا انکار کیا ہے.وہ جہنم کی آگ میں پڑ کر لمبا زمانہ رہیں گے.یہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں.(القلم : 11) ۵- لَا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مَّهِينِ - کسی بہت قسمیں کھانے والے ذلیل کی پیروی نہ کر.-٢ مَثَلُ الَّذِينَ حُمِلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَاراً (جمعه : ۶) ان لوگوں کی مثال جو تورات کے حاملین ہیں (یہود و نصاری) اور اس پر عمل نہیں کرتے گدھے کی سی ہے جس پر کتابوں کا بوجھ لادا گیا ہو.ے.ایک معین شخصیت کے متعلق فرمایا :-
۶۸۲ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلُ عَلَيْهِ يَلْهَتْ اَوْ تَتْرُ كُهُ يَلْهَتْ - (اعراف : ۱۷۷) کہ اس کی مثال کتے کی سی ہے.اگر تو اسپر حملہ کرے تب بھی زبان نکالتا ہے اور اگر تو اسے چھوڑ دے تب بھی نکالتا ہے..اور بتوں اور ان کے پرستاروں کے متعلق فرمایا :- إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُون اللهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ وَأَنتُمْ لَهَا وَاردُونَ ) (انبیاء : ٩٩) تم اور تمہارے معبود سب آگ کا ایندھن ہیں اور تم سب اس میں داخل ہونے والے ہو.بتوں کی مذمت میں اس قسم کی آیات سن کر مشرکین میں جوش پیدا ہوا.اور وہ سخت اشتعال کی حالت میں بصورت وفد آنحضرت ﷺ کے کفیل اور چچا ابو طالب کے پاس آئے اور کہا کہ تمہارا بھتیجا ہمارے قابل احترام معبودوں کی تحقیر کرتا ہے اور انہیں گالیاں دیتا ہے اور اس کا یہ رویہ ہمارے لئے نا قابل برداشت ہے.چنانچہ تاریخ طبری میں آتا ہے کہ عقبہ اور شیبہ.ولید اور ابو جهل و غیره اشراف قریش کا وفد ابو طالب کے پاس آیا اور کہا :- "قَدْ شَتَمَ الهَتَنَا وَعَابَ دِينَنَا وَ سَفِهَ أَحْلَامَنَا وَصَلَلَّ آبَاءَ نَا.“ کہ تمہارے بھیجے نے ہمارے معبودوں کو گالیاں دی ہیں.ہمارے دین کو عیب لگایا ہے.اور ہمیں اور ہمارے آباؤ اجداد کو دیو قوف اور گمراہ کہا ہے.انہوں نے یہ بھی کہا کہ یا تو اپنے بھتیجے کو سخت کلامی سے باز رکھو یا اس سے علیحدہ ہو جاؤ ہم اس سے نپٹ لیں گے.ورنہ قوم سے مقابلہ کے لئے تیار ہو جاؤ.اسی طرح یہود اور عیسائی بھی اپنے متعلق بندر اور سور اور بد ترین مخلوق.گدھے کے شیل کے
۲۸۳ الفاظ سنکر خوش نہ تھے بلکہ مشتعل ہوتے تھے.لیکن خدا تعالیٰ نے ان کے ان اندرونی گندوں کو ظاہر کرنے کے لئے اس قسم کے الفاظ استعمال کر نے سے احتراز نہیں فرمایا بلکہ ”الكناية ابلغ من التقريح“ کے مطابق ایسے استعارات کو جنہیں مخالفین اسلام گالیاں سمجھتے تھے اظہار حقیقت کے لئے زیادہ بلیغ طریق سمجھا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بھی اپنے زمانہ کے بعض گندہ دہن مخالفین کے لئے جو گالیوں میں انتہا تک پہنچ جاتے تھے کسی قدر سختی سے جواب دیا ہے تا مخالفین کو یہ احساس پیدا ہو کہ سخت الفاظ کس قدر دکھ دیتے ہیں.اور وہ سخت کلامی سے باز آجائیں.جوائی طور پر جو سخت الفاظ آپ نے استعمال کئے ہیں.وہ مخالفین کے مقابلہ میں خلاف واقعہ نہیں تھے بلکہ اس سے ان کی بد زبانیوں اور بد کرداریوں کی حقیقت کا ہی اظہار ہوتا تھا.مگر اس قسم کے الفاظ بعض مخصوص لوگوں کے لئے ہوتے تھے جنہیں اس زمانہ کے لوگ خوب جانتے تھے.حضرت اقدس " لیام الصلح کے ٹائیٹل پیج کے صفحہ ۲ پر تحریر فرماتے ہیں :- ”ہماری اس کتاب اور دوسری کتابوں میں کوئی لفظ یا کوئی اشارہ ایسے معزز لوگوں کی طرف نہیں ہے جو بد زبانی اور کمینگی کے طریق کو اختیار نہیں کرتے.“ اور اپنی کتاب ”حجۃ النور “ میں فرماتے ہیں :- ہم صالح علماء اور مہذب شرفاء کی بنک سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں خواہ وہ مسلمانوں میں سے ہوں یا عیسائیوں میں سے یا آریوں میں سے.ہمارے نزدیک وہ سب قابل عزت ہیں بلکہ ہمیں تو ان کے بیوقوفوں سے بھی واسطہ نہیں.ہمارے مخاطب تو.صرف وہی لوگ ہیں جو اپنی بد زبانی اور گندہ دہانی کی وجہ سے مشہور ہو چکے ہیں.ورنہ جو لوگ نیک ہیں اور بد زبان نہیں ہیں ان کا ذکر ہم ہمیشہ بھلائی کے ساتھ کرتے ہیں.اور
۲۸۴ ان کی عزت کرتے ہیں.بلکہ بھائیوں کی طرح ان سے محبت کرتے ہیں.لجه النور ترجمه از عربی) جناب برق صاحب نے "شہادۃ القرآن صفحہ ااسے حضرت اقدس کی سخت کلامی کا نمونہ پیش کرنے کے لئے ایک عبارت یوں نقل کی ہے :- پھر فرمایا کہ اس امت پر ایک آخری زمانہ آنگا کہ علماء اس امت کے یہود کے مشابہ ہو جائیگئے یہاں تک کہ اگر کسی یہود نے اپنی ماں کے ساتھ زنا کیا ہے تو وہ بھی کرے گا.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۲۲) یہ الفاظ دراصل حضرت مرزا صاحب کے نہیں ہیں بلکہ یہ ایک حدیث نبوی کا ترجمہ ہیں.اس عبارت میں ”پھر فرمایا“ کے الفاظ اس پر شاہد تھے کہ اس جگہ رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث بیان ہو رہی ہے.معلوم ہوتا ہے جناب برق صاحب نے حضرت اقدس کی کتابوں کا خود مطالعہ کر کے تنقید نہیں فرمائی بلکہ مخالفوں کی کتابوں سے حوالہ جات اچک لئے ہیں.غالباً اسی وجہ سے انہوں نے اس عبارت کو حضرت مرزا صاحب کا کلام قرار دیدیا ہے.حالانکہ یہ کلام حضرت سرور کائنات فخر موجودات سید ولد آدم حضرت محمد مصطفے ﷺ کا ہے اس میں کوئی گالی نہیں دی گئی بلکہ آخری زمانہ کے مسلمانوں کی حالت کا صحیح نقشہ کھینچا ہے اور انہیں یہود سے مشابہ قرار دیا ہے.درمیانی عبارت برق صاحب نے چھوڑ دی ہے جس میں یہود کا ذکر ہے.انہیں کی حالت مَنْ أَتَى عَلَى أُمِّہ کے الفاظ میں ماں سے زنا کرنے کے متعلق بیان ہوئی ہے.اسی طرح آخری زمانہ کے بعض علماء کی حالت آنحضرت ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے."عُلَمَاءُ هُمُ شَرُّ مَنْ تَحْت أَدِيمِ السَّمَاءِ کہ اس زمانہ کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہونگے.اسی کے پیش نظر حضرت اقدس نے آپکو گالیاں
۶۸۵ دینے والے اور کتمان حق سے کام لینے والے علماء کو بد ذات فرقہ.اے ظالم مولویو.کے الفاظ سے ذکر کیا ہے.یا بعض خبیث طبع مولوی جو یہودیت کا ضمیر اپنے اندر رکھتے ہیں.یادل کے مجذوم اور اسلام کے دشمن یا خنزیر سے زیادہ پلید.مردار خوار گندی رو ھیں.اندھیرے کے کیڑے قرار دیا ہے.یا انہیں جھوٹا اور کتوں کی طرح مردار کھانے والا لکھا ہے.اگر برق صاحب ان مخالف مولویوں کا کلام بد زیر نظر رکھتے تو خود بھی انہیں ایسا ہی سمجھتے اور یہ یقین کرتے کہ ان علماء نے اپنے وجود سے حدیث نبوی عَلَمَاءُ هُمُ شَرٌّ مَنْ تَحْت أدِيمِ السَّمَاء کی فی الواقعہ تصدیق کر دی ہے.خود جناب برق صاحب بھی اپنے زمانہ کے خاص قسم کے مولویوں سے بیزار ہیں اور ان کی شان میں ملا کی مکاری" کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں :- قرآن کریم کا ہر حکم فرض ہے.ملا کی مکاری ہے کہ وہ پانچ آسان احکام کی محض ظاہری صورت کو تو وہ فرض سمجھتا ہے اور باقی تمام قرآن کے احکام پر عمل کرنے کو یا تو مستحب قرار دیتا ہے یا چھپا جاتا ہے." ( دو قرآن صفحه ۳۵ مصنفه برق صاحب) پھر تحریر فرماتے ہیں :- ”ہمارا مذہبی راہنما یعنی ملا اعمال خدا سے اسقدر جاہل اس قدر کورا اور مطالعہ کا ئنات سے اسقدر بیگانہ ہے کہ اسے اتنا بھی معلوم نہیں....الغرض ملائے اسلام اعمال الہی سے یکسر غافل معجزات تخلیق سے قطعاً نا آشنا.فطرت کے ایمان افروز کارناموں سے بالکل یگانہ ہے اور پھر بھی علم کا مدعی ہے.“ ( دو قرآن صفحه ۱۲) پھر نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے والے مسلمانوں کی شان میں لکھتے ہیں :- لیکن درود خوان مسلمانوں نے اس طرف توجہ نہ دی.اور ذلت اور رسوائی کے جہنم میں دھکیل دیئے گئے.“ ( دو قرآن صفحه ۲۹)
۲۸۶ پھر علماء کو اور مسلمانوں کو حیوانات سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھا ہے :- " جو حیوانات ماحول کے مطابق نہیں چل سکتے انہیں اسی طرح میٹ دیا جاتا ہے جس طرح مسلمان سائینس کی دنیا میں رہ کر اوراد و ظائف اور ریش و قبا پر زور صرف کر رہا ہے.“ پھر مسلمانوں کی شان میں لکھتے ہیں :- ( دو قرآن صفحه ۵۱) لیکن آج ایسے مسلمان موجود نہیں خالی کلمہ گوؤں کا ہجوم ہے.پیر پرستوں کی بھیڑ ہے.درود خوانوں کا اثر د ہام ہے.نشہ شفاعت میں چور اور خمار تو کل سے مخمور قوم کا ایک میلہ سا جما ہوا ہے جس میں ہمارے ملا صاحب و ضعی احادیث سنا سنا کر مسلم کو اور زیادہ سلا رہے ہیں.“ آگے لکھتے ہیں :- " ( دو قرآن صفحه ۶۱ - ۶۲) ” یہ حقائق صاف صاف اعلان ہیں اس امر کا کہ دنیا میں حق بقا صرف طاقتور کو حاصل ہے.اور کمزور کاہل بد اخلاق رسوم و عادات کو ہی اسلام سمجھنے والے.رشتہ تسبیح کو طارم عرش کی کمند خیال کرنے والے.منافق.جھوٹے.حلال و حرام کی تمیز نہ کرنے والے.بد عمد.بد قول.محض دعاؤں سے سیاسی و معاشرتی انقلاب چاہنے والے مکار و عیار وغیرہ کو یقیناً میٹ دیا جائیگا.“ یہ وہ پھول ہیں جو جناب برق صاحب نے مسلمانوں اور ان کے علماء پر بر سائے ہیں.ان کے نزدیک ان عبارتوں میں نہ کوئی تلخ نوائی ہے نہ گالی نہ پچھیتی نہ تضحیک بلکہ آپ نے بزعم خود حق گوئی سے اظہار حقیقت فرمایا ہے.اگر حضرت اقدس قاء اور صالحین علماء کا استثناء کرنے کے بعد بعض خبیث طبع لوگوں کی خباثت کا اظہار کر میں اور ان کے لئے اس قسم کے سخت الفاظ استعمال کریں یا کم و بیش جو برق صاحب نے استعمال کئے ہیں تو برق صاحب کے نزدیک گالیاں بن جاتی ہیں.حالانکہ حضرت
۲۸۷ اقدس نے جن علماء کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے ہیں انہوں نے آپ کے خلاف سخت گندا چھالا تھا اور آپ کو معاذاللہ مفتری.خائن.حرامخوار و جال.ضال اور متال سے بھی بڑھ کر الفاظ کا نشانہ بنایا تھا جس کی تفصیل میں ہم جانا نہیں چاہتے.ایسے لوگوں کے مقابلہ میں حضرت اقدس نے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں وہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَة مِثْلُهَا ( شوری (۴۱) کے مطابق ہیں.اور آیت لايُحِبُّ اللَّهُ الْجَهَرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْل إِلَّا مَنْ ظلِمَ- (النساء :۵۰) ( یعنی خدا اعلامیہ سخت کلامی کو پسند نہیں کرتا بجز اس کے کہ کوئی مظلوم ہو اور وہ سخت کلامی کرے) کے مطابق جائز ہیں.پھر آپ کے لئے انتہائی مظلوم ہوتے ہوئے آیت لَاتُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ الَّابِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمُ ( عنکبوت : ۴۷) کے مطابق بھی سخت الفاظ کا استعمال جائز تھا اس آیت کا ترجمہ یہ ہے.تو اہل کتاب سے ان لوگوں کے سوا جنہوں نے ظلم کیا ہے احسن طریق سے بحث کر.یعنی ظالموں کو حث میں جزاء سبقة سينه منلها کے مطابق جواب دیا ميئة سيئة جاسکتا ہے.پس ظالموں کے خلاف تلخ نوائی از روئے تعلیم قرآن جائز ہے بلکہ بعض حالات میں ضروری ہے.چنانچہ اسی لئے قرآن کریم نے قوم یہود کو بند ر اور سور قرار دیا ہے بلکہ شر البرية یعنی کتوں اور سؤروں سے بھی بدتر ٹھہرایا ہے.مگر برق صاحب کو ان علماء اور مسلمانوں نے تو کوئی گالی نہ دی تھی.بلکہ جناب برق صاحب ان علماء پر از خود ابتدائی طور پر بر سے ہیں اور بیچارے درود خوان مسلمانوں کی ایسی مٹی پلید کی ہے کہ حیرت آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نیک اعمال جالانے والوں اور درود پڑھنے والوں کو انہیں درود خوان کہہ کر کبھی بھلا کر انہیں کہا.جناب برق صاحب کو اپنی آنکھ کا
۲۸۸ شمیر نظر نہیں آتا اور دوسرے کا تنکا بھی نظر آجاتا ہے.یہ صاحب مچھر کو تو چھانتے ہیں اور ہا تھی نگل جاتے ہیں.برقی صاحب کو اس پر اعتراض ہے کہ عیسائیوں کی فتح کا نقارہ بجانے والے کسی شخص کو حضرت اقدس نے ولد الحرام ملنے کا شوق رکھنے والا کہا یا حلال زادہ نہیں سمجھا.قرآن کریم نے ایک معین شخص کو جس شخص کا مفسرین نے نام بھی لیا ہے زنیم یعنی ولد الحرام قرار دیا ہے مگر برق صاحب کو اسپر اعتراض نہیں بلکہ اسے حقیقت کا اظہار سمجھتے ہیں.مگر حضرت اقدس کسی نادان دشمن اسلام شخص کو جو عیسائیوں کی فتح کا نقارہ بجانے والا ہو ولد الحرام بننے کا شوق رکھنے والا قرار د میں تو یہ امر قابل اعتراض ہے.حالانکہ یہ الفاظ بطور استعارہ استعمال ہوئے ہیں کہ ایسے لوگ فرزند اسلام کہلانے کے مستحق نہیں.حضرت امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں.جو شخص حضرت عائشہ پر تہمت لگاتا ہے وہ ولد الزنا ہے یہ الفاظ بھی بطور استعارہ ہیں کہ ایسا شخص جو مسلمان ہو کر اپنی اس ماں پر تہمت لگاتا ہے وہ فرزند اسلام نہیں.: قلوبهم 66 اسی طرح برقی صاحب نے حضرت اقدس کی ایک عبارت یوں پیش کی يُقبلُنِى وَيُصَدِّقُ دَعْوَتِى إِلَّا ذُرِّيَّةُ البَغَايَا الَّذِينَ خَتَمَ اللَّهُ عَلَى (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۴۷) قطع نظر اس کے کہ یقبلنی کی ی پر پیش ڈالنا اور ذریۃ کا اعراب پیش سے دینا برق صاحب کی عربی دانی کی قلعی کھول رہا ہے ہم اس جگہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ برق صاحب نے اس کا ترجمہ یوں درج کیا ہے :- کنجروں کے چوں کے بغیر جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگادی ہے باقی سب میری نبوت پر ایمان لا چکے ہیں.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۲۸)
۶۸۹ یہ ترجمہ بالکل غلط ہے.اور اس جگہ برق صاحب نے عبارت بھی ادھوری پیش کی ہے.اس فقرے کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے :- كُلِّ مُسْلِمٍ يَقْبَلُنِي وَ يُصَدِّقُ دَعْوَتِي 66 ان الفاظ میں ایک پیشگوئی ہے.بقبلنی اور يُصدق مضارع کے صیغے ہیں جو مستقبل پر دلالت کرتے ہیں.مراد آپ کی یہ ہے کہ ایک وقت آرہا ہے کہ ہر ایک مسلمان آپ کو قبول کرے گا.اور آپ کی تصدیق کرنے لگے گا.اور اس وقت منکرین میں سے صرف ذرية البغایا سر کش لوگ رہ جائیں گے.جن کے دلوں پر مہر لگی ہو گی.پس اس عبارت میں حضرت اقدس نے آئندہ زمانہ کی ایک پیشگوئی کا ذکر فرمایا ہے.اسی طرح برقی صاحب نے " مجم البدئی صفحہ 10 کی عبارت لکھی ہے :- "دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے ان کی عورتیں کتوں سے بڑھ گئیں." (حرف محرمانه صفحه ۴۲۸) یہ ایک شعر کا ترجمہ ہے جو ان عیسائی عورتوں اور مردوں کے متعلق ہے جو نبی کریم عملے کے متعلق گند اچھالتے تھے.اور آپ کو گالیاں دیتے ہیں.ایسے لوگوں کو جو کسی نبی کے خلاف زبان طعن دراز کریں قرآن کریم نے بھی کئے اور سؤر قرار دیا ہے.لیکن برق صاحب سیاق کلام کو چھپاتے ہیں.اور خاص لوگوں سے تعلق رکھنے والی عبارت کو عام مفہوم میں دکھا کر حضرت اقدس کے خلاف مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنا چاہتے ہیں.حالانکہ اس سے اگلا شعر مجسم الہدی کا یوں ہے :- سبُوا وَمَا أَدْرِئُ لِأَيِّ جَرِيمَةٍ سبُّوا انعصى الحِبِّ أَوْ نَتَجَنَّبْ ترجمہ : انہوں نے (آنحضرت مے کو ) گالیاں دی ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ کس جرم کی وجہ سے دی ہیں.تو کیا ہم اپنے محبوب ( محمد مصطفے میں ) کی نا فرمانی کرنے لگ
۶۹۰ جائیں گے یا آپ سے کنارہ کش ہو جائینگے ؟ (یعنی انکی گالیوں اور ان کے گندے اعتراضوں کو سنکر ہم آنحضرت ﷺ کا دامن جو ہمارے محبوب ہیں چھوڑ نہیں سکتے) پس ان اشعار کا کوئی تعلق مسلمانوں سے نہیں بلکہ ان کا تعلق ان عیسائی پادریوں اور ان کی مبلغہ عورتوں سے ہے جو آنحضرت ﷺ کے خلاف گند بکتے تھے.سچ بات یہی ہے کہ جن خاص شخصوں کے متعلق حضرت اقدس نے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں وہ وہی تھے جو آپ کو یا آنحضرت ﷺ کو گالیاں دینے والے تھے اور گالیاں دینے سے باز نہیں آتے تھے.ایسے لوگوں کے متعلق حضرت اقدس کے استعمال کردہ الفاظ بالکل بر محل اور ضروری تھے تا انہیں محسوس ہو کہ گندہ دہنی سے انہیں اجتناب کرنا چاہیئے.ورنہ سخت الفاظ کے جواب میں انہیں بھی سخت الفاظ سننے پڑیں گے.حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے بعض مخالفین کی گالیوں کو کئی دفعہ نظر انداز بھی کیا.اور آپ کی مجلس میں تو لوگ آپ کے منہ پر بھی سخت سے سخت گالیاں دے جاتے تھے اور خطوط میں بھی گندی گالیاں لکھتے رہتے تھے مگر آپ خاموشی سے انہیں برداشت کر لیتے تھے اور کچھ جواب نہیں دیتے تھے.برق صاحب نے حرف محرمانہ کے صفحہ ۴۲۳ پر " الہامات مرزا کے حاشیہ صفحه ۱۲۲ کے حوالہ سے حاملین رقعہ کی جو روایت نقل کی ہے یہ روایت چونکہ دشمنان احمدیت کی ہے اس لئے ہم اسے دروغ بے فروغ سمجھتے ہیں.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم کتنی نرم تھی اور آپ کا اپنے دشمنوں سے بر تاؤ کیسا شریفانہ تھا.مگر بد گو دشمنوں کے لئے انہیں حرام کار ، زناکار اور سانپ کے بچ کے الفاظ بھی استعمال کرنے پڑے ہیں.حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے :- " تَكُونُ فِى أُمَّتِي فَزَعَةُ فَيُصِيرُ النَّاسُ إِلَى عُلَمَاءِ هِم فَإِذَاهُمْ قِرَدَةً وخنازير ،، (کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۹۰)
۶۹۱ یعنی میری امت میں ایک عظیم الشان گھبراہٹ پیدا ہوگی.یعنی ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے جن کو دیکھ کر لوگ گھبرا اٹھیں گے.تب وہ لوگ اپنے علماء ا کی طرف رجوع کریں گے تو ناگاہ انہیں ہند راور سور پائیں گے.اس حدیث میں ان بعض علماء کی حالت بیان کی گئی ہے جو آخری زمانہ میں پیدا ہونے والے تھے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اُن میں سے صلى الله بعض آنحضرت نے کی پیشگوئی کے الفاظ کے مستحق تھے.ذرا انصاف کی نظر سے دیکھئے کہ ان لوگوں کی گالیوں اور سخت کلامی کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آخر ۵/ مارچ 190 ء کو "الصلح خیر " کے نام سے ایک اشتہار شائع فرمایا.اور اس میں لکھا :- ١٩٠١ " آج پھر میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک مرتبہ پھر آپ صاحبوں کی خدمت میں مصالحت کے لئے درخواست کروں.مصالحت سے میری مراد یہ نہیں کہ میں آپ صاحبوں کو اپنا ہم عقید و بنانے کے لئے مجبور کروں یا اپنے عقیدہ کی نسبت اس بصیرت کے مخالف کوئی کمی بیشی کروں جو خدا نے مجھے عطا فرمائی ہے بلکہ اس جگہ مصالحت سے صرف یہ مراد ہے کہ فریقین ایک پختہ عہد کریں کہ وہ اور تمام لوگ جوان کے زیر اثر ہیں ہر ایک قسم کی سخت زبانی سے باز رہیں.سخت زبانی میں یہ بات داخل ہوگی کہ ہر ایک فریق دوسرے فریق کو ان الفاظ سے یاد کرے کہ وہ دجال ہے بے ایمان ہے یا فاسق ہے.مگر یہ کہنا کہ اُس کے بیان میں غلطی ہے یا خاطی یا مخفی ہے سخت زبانی میں داخل نہ ہو گا اور کسی تحریر یا اشارہ کنایہ سے فریق مخالف کی عزت پر حملہ ہے نہ کرے.اگر دونوں فریق میں سے کوئی صاحب اپنے فریق مخالف کی مجلس میں جائے تو جیسا کہ شرط تہذیب اور شائستگی ہے فریق ثانی سے مدارات سے پیش آئے.“ اور پھر آگے لکھتے ہیں :
۶۹۲ اور میں نے یہ انتظام کر لیا ہے کہ ہماری جماعت میں سے کوئی شخص تحر یریا تقریر کے ذریعہ سے کوئی ایسا مضمون شائع نہیں کرے گا.جس میں آپ صاحبوں میں سے کسی صاحب کی تحقیر اور تو ہین کا ارادہ کیا گیا ہو.اور اس انتظام پر اس وقت سے پورا عملدرآمد ہو گا جب کہ آپ صاحبوں کی طرف سے اسی مضمون کا ایک اشتہار نکلے گا کہ آئندہ آپ پورے عہد کے ساتھ ذمہ وار ہو جائیں گے.کہ آپ صاحبان یعنی ایسے لوگ جو آپ کے زیر اثر ہیں یا زیر اثر سمجھے جاسکتے ہیں ہر ایک قسم کی بد زبانی اور ہجو اور ب و شتم سے مجتنب رہیں گے.اور اس نئے معاہدہ سے آئندہ اس بات کا تجربہ ہو جائے گا کہ کس فریق کی طرف سے زیادتی ہے.اس سے آپ صاحبوں کو ممانعت نہیں کہ تہذیب سے رڈ لکھیں.اور نہ ہم اس طریق سے دست کش ہو سکتے ہیں.لیکن دونوں فریقوں پر واجب ہو گا کہ ہر ایک قسم کی بد زبانی اور بد گوئی سے منہ بند کر لیں.مجھے بہت خوشی ہو گی جب آپ کی طرف سے یہ اشتہار پہنچے گا.اور اسی تاریخ سے ان تمام امور پر عملدرآمد شروع ہو گا.بالفعل اس اندرونی تفرقہ کو مٹانے کے لئے اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں.علماء کی طرف سے اس مصالحانہ پیشکش کا جواب تبلیغ رسالت جلد اصفحه (۸) اس مصالحانہ پیشکش کا جواب مولوی عبدالواحد صاحب خانپوری نے ذیل کے لیے اور گندے عنوان " اظہار مخادعہ مسلمہ قادیانی جواب اشتہار یولس ثانی الملقب بكشف الغطاء عن ابصار اهل العمی“ کے تحت 1901 ء میں یوں دیا :- " مر زا صاحب نے ان (احمدیوں) کو کہا کہ صبر کرو.میں لوگوں سے صلح کرتا ہوں.اگر صلح ہو گئی تو مسجد بنا نیکی (امر تسر میں.ناقل ) کچھ حاجت نہیں اور نیز بہت قسم کی ذلتیں اٹھائیں.معاملہ وبر تاؤ مسلمانوں سے ہند ہو گیا.عورتیں منکوحہ مخطوبہ
۶۹۳ یوجہ مرزائیت کے چھینی گئیں.مردے ان کے تجہیز و تکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے وغیرہ وغیرہ تو کذاب قادیانی نے یہ اشتہار مصالحت کا دیا.“ اب برق صاحب سوچ لیں کہ ایسے لوگوں پر پھول بر سانے چاہئیں یا یہ کسی اور بات کے مستحق ہیں.لکھا ہے :- جناب برق صاحب کو یہ بھی اعتراض ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے خود 66 لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں مومن تعان نہیں ہو تا.“ (ازاله صفحه ۶۶۰) لیکن اس کے باوجود حضرت مرزا صاحب نے عبدالحق غزنوی پر ہزار ہزار لعنت ڈالی ہے.حضرت اقدس کا یہ قول اپنی جگہ درست ہے کہ لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں.اور مومن لعان نہیں ہوتا.مراد اس سے یہ ہے کہ مومن لعنت میں ابتداء نہیں کرتا.ورنہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ظالموں کے خلاف خود رسول پاک ﷺ نے الله ایک عرصہ تک فجر کی نماز میں نام لے لے کر لعنت ڈالی ہے.چنانچہ صحیح بخاری جلد ۳ صفحہ ۸۳ میں حدیث ہے :- كَانَ يَقُولُ فِي بَعْض صَلَاتِهِ فِي صَلوةِ الْفَجْرِ اللَّهُمَّ العَن فُلا ناوَفُلَانًا 66 لِاِحْيَاءٍ مِنَ العَرب “ یعنی رسول اللہ ﷺ اپنی فجر کی بعض نمازوں میں کہتے تھے.اے اللہ ! فلاں پر لعنت بھیج قلال پر لعنت بھیج مراد آپ کی عربوں کے زندہ لوگ تھے.کسی کے ظلم و ستم کرنے پر اس پر لعنت کرنا از روئے قرآن و حدیث منع نہیں.جب تک خدا نہ روک دے.بلکہ خدا تعالی نے تو جھوٹوں پر خود بھی لعنت ڈالی
ہے.اور یہ بھی فرمایا ہے.۶۹۴ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِين کہ ان لوگوں پر اللہ کی بھی لعنت ہے اور فرشتوں کی بھی لعنت ہے اور تمام لوگوں کی بھی لعنت ہے.پس لعنت ڈالنا بہر صورت مومن کے لئے ناجائز نہیں.ہاں یہ بات مومن کی شان کے خلاف ہے کہ وہ لعنت بازی میں ابتداء کرے.مستحق لعنت پر لعنت تو ایک ضروری امر ہے.کیونکہ لعنت در اصل اس سے بیزاری کا اظہار ہے اور اپنی مظلومیت کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے مترادف ہے.خاتمه اپنی کتاب کے خاتمہ میں جناب برقی صاحب نے لکھا ہے :- ”ہمارا آغاز سے ارادہ تھا کہ ہم اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ نگاہ ڈالیں.کہیں تحریف نہ کریں کسی عبارت کو مصنف کے منشاء کے خلاف مسخ نہ کریں.اور کوئی دل آزار لفظ ساری کتاب میں داخل نہ ہونے دیں الحمد للہ ہم ان ارادوں میں کامیاب رہے.“ ( حرف محرمانہ صفحہ ۴۳۲) ممکن ہے آغاز کتاب سے برق صاحب کا ارادہ ایسا ہی ہو لیکن ان واقعات کو چھپایا نہیں جاسکتا کہ جناب برق صاحب نے اپنے اعتراضات میں حوالہ جات کے پیش کرنے میں تحریف سے بھی کام لیا ہے اور مصنف کے منشاء کے خلاف عبارت کو مسخ بھی کیا ہے اور اپنے اس ارادہ سے بھی عمدہ بر آنہیں ہو سکتے کہ وہ کوئی دل آزار لفظ تک
۶۹۵ اس میں داخل نہیں ہونے دینگے.یہ تو درست ہے کہ برق صاحب نے کھل کر گالی نہیں دی لیکن ناروا طریق سے طنز و استہزاء گالیوں سے کسی طرح کم نہیں.اُن کی کتاب پڑھنے والا خود ان امور کو محسوس کر سکتا ہے.پس ان کے لئے الحمد للہ کہنے کی بجائے استغفر اللہ کہنا زیادہ موزوں ہے.تاخد اتعالیٰ ان کے گناہ معاف کرے اور ان کو انصاف کے ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام کے معاملہ میں غور کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین اللهم آمین.خاتمہ میں برقی صاحب نے اپنی کتاب کا خلاصہ مختصر الفاظ میں نو نمبروں کے ما تحت پیش کیا ہے.ہم بھی اپنی کتاب کا خلاصہ نو نمبروں کے ماتحت پیش کرتے ہیں :- (1) ہم نے قرآن و حدیث.اقوال بزرگان دین اور حضرت بانی جماعت احمدیہ کی تحریرات سے ثابت کر دیا ہے کہ آیت خاتم النبین آنحضرت مے کی پیروی میں اور آپ کے افاضۂ روحانیہ میں ایک امتی کے لئے مقام نبوت میں روک نہیں.بے شک خاتم النبیین ماہ شارع اور مستقبل انبیاء کا آخری فرد ہیں اور امتی کا آپ کے فیض سے مقامِ نبوت پانا آپ کی اس شان بلند کو ظاہر کرتا ہے جو صرف آپ کو تمام انبیاء میں امتیازی طور پر حاصل ہے.(٢) قرآن مجید میں بے شک مسیح کا نام لے کر پیشگوئی مذکور نہیں لیکن ہم نے ثابت کر دیا ہے آیت استخلاف میں ایک مسیح کی آمد کے لئے اشارۃ القص ضرور موجود ہے.اور آیات قرآنیہ رسول کریم ﷺ کی پیروی میں نبی کا آنا بھی ممتنع قرار نہیں دیتیں.
۶۹۶ برق صاحب کا یہ قول بالکل غلط ہے کہ احادیث بقول مرزا ظنی کور ساقط عن الاعتبار ہیں.حضرت اقدس علیہ السلام نے حدیثوں کے متعلق کبھی ایسا کلمہ نہیں کہا.چنانچہ مسیح موعود کی آمد سے متعلقہ احادیث کو بھی جو بخاری میں بیان ہوئی ہیں آپ درست سمجھتے ہیں اور دعویٰ کی تائید میں پیش کرتے ہیں.(۳) ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے جس جس جگہ بھی نبوت سے انکار کیا ہے صرف مستقل اور تشریعی نبوت سے انکار کیا ہے.آنحضرت ﷺ کی اطاعت میں نبی اور رسول کا نام پانے سے آپ نے کبھی انکار نہیں فرمایا.اور مراد اس نبوت اور رسالت سے خدا تعالیٰ کی طرف سے امور غیبیہ کثیرہ پر اطلاع پانا قرار دیا ہے.خود برقی صاحب یہ اقرار کر چکے ہیں :- ازالہ اوہام ستمبر ۱۸۹۱ء کی تصنیف ہے اور مرزا صاحب کا دعوئی رسالت کم از کم بیس برس پہلے کا تھا.“ (حرف محرمانه صفحه ۴۴) اگر برق صاحب کی یہ بات درست ہے تو صاف ظاہر ہے کہ ۱۹۰۲ء سے پہلے بھی آپ اپنے تئیں رسول قرار دیتے رہے ہیں اور بقول برق صاحب آپ کا یہ دعوی اس ۸اء سے ہے.حساب شماری میں برق صاحب کو کچھ غلطی ہوئی ہے.کیونکہ پبلک میں آپ کا دعوی براہین احمدیہ کے زمانہ سے آیا ہے تا ہم براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت خدا تعالی کی طرف سے آپ کو نبی اور رسول قرار دے دیا گیا تھا.لہذا آپ نے جس قسم کے دعویٰ نبوت کو خروج از اسلام قرار دیاوہ تشریعی اور مستقلہ نبوت ہے نہ کہ نبوت جزئیہ کا دعویٰ.ہاں انشاء سے آپ پر اپنی نبوت کے بارے میں جو جدید انکشاف ہوا اس کی وضاحت ہم متعلقہ باب میں کر چکے ہیں.
۲۹۷ (۴) یہ غلط ہے کہ حضرت اقدس نے انگریز فرمانرواؤں کو دجال قرار دے کر اپنی جماعت کو ان کی اطاعت کی تعلیم دی.دجالیت عیسائی پادریوں کے مذہبی فتنوں کا نام ہے.یا مذہب کے خلاف اُن کے سائنس دانوں کے میدانہ فلسفہ کا نام.انگریز تو خود پادریوں کے دجل کا شکار ہیں.(۵) برق صاحب نے جن دعاؤں کی عدم قبولیت پر بحث کی ہے ہم اس کی پوری پوری تردید کر چکے ہیں.(Y) برق صاحب نے جن پیشگوئیوں پر اعتراضات کئے ہیں اُن میں پیشگوئیوں کے اصولوں کو مد نظر نہیں رکھا.ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی کوئی پیشگوئی اصولی لحاظ سے قابل اعتراض نہیں.ہم پیشگوئیوں پر برق صاحب کے تمام اعتراضات کی پوری پوری تردید کر چکے ہیں.(<) حضرت اقدس علیہ السلام کے الہامات بیشک بشارات تک محدود ہیں.کیونکہ آپ تشریعی نبی نہ تھے بلکہ صرف مبشرات والی نبوت ہی کے حامل تھے.(۸) حضرت اقدس علیہ السلام کا اردو کلام اپنے زمانہ کے لحاظ سے نہایت فصیح و بلیغ اور پر اثر ہے.جس سے ایک فعال جماعت وجود میں آئی.ادیبوں نے آپ کی زبان کو سراہا ہے.زبان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے لہذا آج کل کی زبان سے اُس زمانہ کی زبان کا
۶۹۸ مقابلہ کرنا محققانہ اور غیر جانبدارانہ امر نہیں.آپ کی اردو زبان میں برق صاحب نے جن خامیوں کو تلاش کیا ہے ان کے نظائر ہم اس زمانہ کے اردو ادب کے مسلم اساتذہ کے کلام سے پیش کر چکے ہیں.اردو زبان نئی زبان تھی.اس لئے آج سے پون صدی قبل اس کے لئے کوئی معیار نہ تھا.پھر عربی زبان کی جو غلطیاں آپ نے ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ غلطیاں نہیں بلکہ اعتراضات سراسر علمی کم مائیگی کا ثبوت ہیں.(۹) مخالفوں کے خلاف حضرت اقدس علیہ السلام کے سخت الفاظ لندائی حیثیت قطعاً نہیں رکھتے بلکہ جو امی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ بھی انتہائی مظلومانہ حالت میں اور یہ امر شان نبوت کے کسی طرح خلاف نہیں.جناب برق صاحب کہہ چکے ہیں کہ ۱۸۹۱ء سے کم از کم بیس سال قبل بھی مرزا صاحب کا دعوئی رسالت موجود تھا تو پھر ان کا یہ لکھنا کس طرح درست تھا کہ ۱۹۰۲ء تک آپ یہی فرماتے رہے کہ میں نبی نہیں.صاف ظاہر ہے کہ ایک قسم کی نبوت کا دعوئی آپ کال ۱۸۹ء سے پہلے موجود تھا.اور ہم بتا چکے ہیں کہ اس نبوت کو آپ نبوت جزئیہ قرار دیتے تھے اور اس کی محدث کے دعوئی سے تعبیر فرماتے تھے.اور اپنے تئیں من وجہ امتی اور من وجہ نبی بہ نبوت جزئیہ قرار دیتے تھے اور 190 ء سے مزید انکشاف ہونے پر آپ پر یہ حقیقت کھلی کہ آپ کا مقام محمد تثبیت سے بالا ہے اور نفس نبوت میں آپ نبی ہیں مگر ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی.اور کیفیت اس دعویٰ کی وہی بیان فرمائی جو ل۱۹۰ ء سے پہلے بیان فرماتے رہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی ہم کلامی سے مشرف ہیں.اور خدا تعالیٰ آپ پر بھرت امور غیبیہ ظاہر کرتا ہے اور اس
۶۹۹ دعوی کی کیفیت میں کوئی تبدیلی وقوع میں نہیں آئی.پس شروع دعوی ہی سے آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے امتی.اور لفظی تبدیلی کوئی ایسی پیدا نہیں ہوئی جس سے مخالفین علماء اپنی مسلمہ تعریف نبوت کی بنا پر آپ پر ختم نبوت کے منکر ہونے کا الزام دے سکیں.برق صاحب احمدی اور غیر احمدی کا امتیاز مٹانا چاہتے ہیں اگر ایسا ہو جائے تو زندگی کی وہ رُوح ختم ہو جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک عظیم جماعت کے دلوں میں اشاعت اسلام کے لئے پیدا کی ہے.احمدیوں کے لاہوری فریق نے اس امتیاز کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ وہ اشاعت اسلام کے کام میں ناکام رہے ہیں.اس لئے برق صاحب کا مداہنت کرنے کا مشورہ قبول نہیں کیا جاسکتا.امتیاز کے قائم رکھنے میں ہی اسلام کا فائدہ ہے.آخر میں ہم اپنی کتاب کے قارئین کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ احمدیہ تحریک کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کریں اور مخالفین کی کتابوں کے مطالعہ پر ہی اکتفاء نہ کریں بلکہ بر اور است احمد یہ لٹریچر خود پڑھ کر کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کریں تا خدا کے حضور آخری زمانہ کی اس عظیم الشان تحریک سے بے اعتنائی برتنے کے مر تکب نہ ٹھر میں جس کی پیشگوئیاں سرور کائنات فخر موجودات عﷺ کی احادیث میں موجود ہیں.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين (۳/ مئی (۶۴)