Tahqiq Jadid Mutalaq Qabr Masih

Tahqiq Jadid Mutalaq Qabr Masih

تحقیق جدید مُتعلق قبر مسیح ؑ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات

حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے کسر صلیب کے آفاقی مشن میں خارق  عادت کامیابی حاصل کی، اورمسیح ناصری کی واقعہ صلیب کے بعد فلسطین سے کشمیر ہجرت اور یہاں تدفین ہونے کے متعلق  ثقہ دلائل سے آراستہ اور کثیر جہتی، گہری تحقیق سے مزین قیمتی لٹریچر تیار فرمایا۔ مریم علیھا السلام کے بیٹے کی خدائی کے غلط عقیدہ کو پاش پاش کرنے والی اس تحقیق کو آپ علیہ السلام کے بعد آپ کی جماعت نے بھی جاری رکھا، جیسا کہ اکتوبر 1936ء میں بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان سے شائع ہونے والی یہ قریباً پونے دو سو صفحات کی یہ کتاب ہے جس کی تیاری کے لئے مصنف نے 15 پرانے قبرستان دیکھے، 20 پرانے کھنڈرات اور قدیمی عمارات ملاحظہ کیں، ایک سو سے زائد کتب ملاحظہ کیں، جو عربی فارسی اور انگریزی زبانوں میں تھیں، کشمیری زبان سیکھی، کشمیری اور عبرانی زبانوں کے الفاظ کا باہمی مقابلہ اور مشابہت پر نگاہ کی، اہل کشمیر کے خدو خال کا مطالعہ کیا، ان کے رسم و رواج اور قدیم روایات پر غور کیا، مضافات وادی کا دورہ کیا، بہت سے مقامات کے فوٹو لئے۔ وغیرہ وغیرہ الغرض فاضل مصنف نے قبر مسیح کے متعلق جدید خطوط پر تحقیق کرکے نہایت قابل قدر مواد جمع کردیا ہے۔


Book Content

Page 1

برام ملک فراران ، بانی و لد نشر خالد ربانی و از سلام بشارت برام جامد احمد لنسرا و قرآن مجید) تحقيق جديد متعلق مؤلفه حضرت قبلہ مفتی محمد صادق حساب مصنف احمد سیح - ذکر حبیب - واقعات صحیح - کفارہ - آئینہ صداقت تحفہ بنارس بتحدیث بالنعمت.نہ املہ جیسے سید محمد باقر سکڑ یو تالیف داشاعت قادیان نے شائع کیا بار اول تعداد طبع ۱۵

Page 2

DEDICATION DEDİCATED TO SETH ABDULLAH ALLAHDİN OF SECUNDERABAD IN APPRECIATION OF HIS SINCERE EFFORTS TO- PUBLISH VAST LITERATURE ÎN SUPPORT OF THE AHMADÍA PRINCIPLES.M.M.SADIQ.

Page 3

فہرست تصاویر مندرجہ کتاب ہذا بیان تغلق فواو قبرسی میں سور اینچ کا مقام دکھا یا گیا تولیت تا مرد قبر مسیح خر عیسے کا مکھر فوٹو از قلمی کتاب تاریخ انبیاء قهر مریم بی بی - کوه هری پر- مارتند اکے کھنڈرات چاه بابل و ہاروت ماروت مرد کے بالمقابل جی باب اور فقرہ میں اس کا ذکر کتاب میں کیا گیا ہے ۵۷ باب ۵ نقره ۴۸ باب ۳ فقره ۱۸ لهم و i 11 باب ۳ فقره باب ۲ فقره 1 نقره ۲۶ مندر پانڈرین ستخصان ۲۴ باب ۳ نفره و قبر قریب بیج بہانہ ۲۴ باب ۳ فقره ۲ خلیفہ نوراله بین صاحب ومستری فیض احمد صاحب ۷۲ باب ۵ فقره ۱۲ الدين منشی مظفر احمد صاحب و منشی محمد احمد ساعت ظهر باب ۵ فقره ۱۳ شہر سر جنگہ میں ایک قبر پر عبرانی حرومت جماعت احمد کی کشمیر کے بعض افراد معاونین ( ۹۲ ب ، فقره م ۱۴ فوٹو مولف کتا ساندا ۱۵ فوٹو مسٹر یشیلے نوسلم 14.باب ، فقره باب ۱۲ فقره 1

Page 4

J فہر مضامین کتاب تحقیق جدید تعلن نفر سیخ ناصری مضمون نمون باب اول تمہید) احمد و صلوة 1 (11) مے تصور انتصر رد و گئی ، معاونین م مینگل شیرین ترین کا نیا کیسے پیدا کیا (۱۵) لارنس (دوبارہ) (4) شکری (۱۶) دگنی رسہ بارہ) باب دوم کشمیریوں کے یہودی ہونیکے ، بینگ ہسبینڈ متعلق بور مین سیاحوں کی شہادتیں (۱۸) امپیریل گن بیر ں، ڈاکٹر پر نبر اس ببرن میون ارسی لفٹنٹ کرنیل نارن رمی مسٹر آئر لینڈ دون سرد ا ایر لارین ریہ مصیبت زدہ موسلے اسے لیڈی است الله نامت (۱۹) جیمز ملنی (14) ۱۰ (۲۰) کپتان ان رسی کو یہ 4 (۲۱) متفرق سیاح ۱۱ (۳۲) لیٹرز فرام انڈیا (۲۳) کو نے ہیمبرٹ (۲۵) جاشوا ڈیوک ۱۲ (۲۶) متر یا دستی ره نشسته کرنل بارش ( و دیاره) (۲۷) لینڈ می میرک ۱۴ " تمر قم 19 (۲۹) کرنیل کاکی برن

Page 5

باب سوهم به آثار قدیمہ کی نہائیں مسلح (رہ) کتاب اصول کافی کی روایت را تخت سلیمان و تخت سلیمان کا گیت (۳) ایک پرانی تاریخی کتاب کی شہادت (۴۶) (۲) جیسے بار گاؤں ۲۲ (۴) جیسے مسیح اندلس میں اس، سرینگر میں ایک پرانی قبر پر عبرانی حروف ۲۲ در تاریخ باغ سلیمان (۴) بیج بہاڑہ کی ایک قبر (0) عصائے (ب) گھنڈ خلیل (4) جیسے کا درخت ورگ مرکو (4) جینے کا نام مسیح کیوں ہوا 森 ) کتاب تحالف الابرار کا بیان را ره) کتاب و جیز التواریخ کا بیان ۵۰ رو، قیر مو سے (۸) دید رکوٹ میں عبرانی حروف (1) ایک علمی کتاب کی شہادت روی مزار سلاطین میں عبرانی حرومتر (16) کتب سنسکرت میں مسیح موعود کا ذکر (۱۰) پانڈ رین ٹھسن (1) قیر مریم کوه مری پر (۳) علاقہ سرحد میں مقام یوزر است ۲۰ (۴) کتاب فتح بر صلیب 01 ۵۳ ۱۵۵ (۱۳) کتاب قدیم سند دوستان کی شہادت مجھے (۱۳) کتاب مسیح کی نا معلوم زندگی باب نجم متفرق تائیدی شہا دئیں (م) وادی گام میں مقام پینے با، قبر یوز آسف کا تولیت نامہ [04] (10) کوہ موسے ۳۲ (۳) نیسوسی ایک قبیلہ کا نام ہے.(۱۳) شرقا غرباً قبریں (۱۶) شالا مار باغ مین جبرانی حررت ۳۵ (۳) خانه ها با دی کار واج 16 موسائی قبریں (۱۸) شیر علینے کا نقش قدم ننگا نہانے کا رواج وارہ) تیل کا تڑکا لگانے کا رواج اب چہارم.دیگر کتابی شہادتیں (4) بھائی کی بیوہ سے شادی کو بیجار دارن ۲۰ پیسے اور سونے کے نام رقہ یہ شہروں اور ے انتی ظفر احمد صاحب کا بیان (۸) اقوام مشیر کے نام یہود کے ناموں سے ملتے ہیں 40 آدمیوں کے نام

Page 6

(9) سید زین العابدین نا کی شہادت ۶۵ (۱۱) ایک کشمیری مسافر کا بیان (۱۰) مہا راجہ رنبیر کے صاحب کا قول ۶ میلیون و والدین کی جوانی کے تین اور ایرانی باب ششم قیر جیسے کے متعلق چند متفرق بائیں باب ہفتم کثیری از بان کے الفاظ کی فہرست جو عبرانی الفاظ سے ملتے جلتے ہیں ۷۲ 1) فہرست الفاظ طیار کردہ مولوی فاضل پیر محمد یوسف شنا صاحب کشمیری تعداد الفاظ ۸۰ صفر بوا " احمدالله صاحبت محی الدین صاحب & ا تلاهم شالا هم احمد صاحب را 4.۹۲ ۹۵ خواجہ عبد الرحمن صاحب اخیر ۴۴ ر عربی اور کمبری رمحمد مکی صاحب دیر شام رسول شا ائمه بود ۹۴ 11 + 18A 109 真 میرگاه " ٹھو کر ایک احمد می دوست میزان " مرک * (P) + (0) کوگو " ( } y 4 (4) (9) باب ہم.تھو ما حواری سندوستان میں باب نہم.پٹھان بنی اسرائیل ہیں.باب دهم - گوجر قوم باب یاز داھم.مؤلف کے کچھ حالات پاس دوازدهم سر شیلے نومسلم باب سیر و همه فهرست کتب متعلق مضمون کتاب بده تین مزید حوالے - از ملک فضل حسین همینجر تک ڈیو.قادیان

Page 7

Page 8

بسم اللدار من الرحیم يا قديم باب اوّل تمهید سب محمد د شکر اس ذات پاک کے واسطے ہے.جس نے انسان کی ہدایت کے واسطے انبیاء و مرسلین کا سلسلہ قائم کیا.اور جب اور جہاں انسان کی روحانی ضروریات کا تقاضا ہوا.اس احکم الیالمین نے اپنے کسی برگزیدہ بندہ کو اس امر کے واسطے منتخب کیا.کہ وہ لوگوں کی راہنمائی کے واسطے مبعوث کیا جائے.اور اللہ تعالیٰ کی تازہ وحی کی قوت سے ان کا تزکیہ کر کے انہیں صداقت کی راہوں پر گامزن ہونے کی طاقت بجتے.اور ملیون در طیون صلوۃ و سلام اس مقدس ہستی پر ہوں.جو بنی نوع انسان کی ہمدردی اور خیر خواہی میں اور اللہ تعالیٰ کی محبت و تعظیم میں ایسے اعلی مقامات پر پہونچا.کہ بلیوں کا سردار اور سرور عالم کہلایا.اور اللہ تعالے کی بے انتہا رحمتیں اور برکتیں ہوں اس خاتم النبین کے مطیع اور امتی نبی پر جس نے اس تاریخی کے زمانہ میں دوبارہ اسلام اور اسلامیوں کو زندگی اور روشنی بخشی.اور سلام در برکات کے مخالفت ہوں اس خدا کے پیار پسیج جیسے بن مریم پر جس نے بنی اسرائیل کو حق کا پیغام پہونچانے کی شاطر مسعید

Page 9

تلخ پیالہ کو پیار اور پھر اپنی قوم کی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش میں ڈور دراز کے صعباک سفروں کو برداشت کرتا ہوا اس زمین میں پہونچا.جس کے متعلق اللہ تعالے نے فرمایا.کہ ہم نے مسیح اور اس کی مان کو ایک ایسے اُونچے مقام پر پناہ دی جہاں ٹھہرنے کی جنگ ہے.اور جینے جاری ہیں.میں خیال کرتا ہوں کہ مسیح ناصری کا ہندوستان میں آنا اس واسطے بھی ضروری ہوا.کہ اس کا مثیل بھی حکمت خداوندی سے اسی ملک میں آنے والا تھا.پس یہ ایک روحانی کشش تھی.جو اُسے ملک فلسطین سے ملک ہند کی طرف کھینچ لائی.اور شہر سرینگر کے محلہ خانیار میں اس کا دائمی آرامگاہ بنا.بارك الله له و نور مرقده.یہ ایسا ہی راز ہے.جیسا کہ آیت کہ آیت شریفہ سيحن الذي اسرى بعبده يلاً من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصی میں حضرت سرور عالم عالم النبيين محمد صلے اللہ علیہ وسلم کے کامل بروزہ کا مشرقی ملا د میں ظاہر ہوتا مضمر ہے - ناجہ راقم کی عادت سے یہ خواہش تھی کہ کشمیر جا کر قبر جیسے کے متعلق مزید تحقیقات کی کیا دے - ۱۹۲۹ ء میں بھی عاجز اسی غرض کے واسطے کشمیر گیا.اور وہاں تحقیقات کا کام شروع کیا.مگر مینوز و ست کھیں پورے نہ ہونے پائے تھے.کہ اپنی مرحومہ بی بی امام بی بی کے سخت - ا بیمار ہو جانے کی تار شہر پہونچنے پر واپس آنا پڑا.مرحومہ نے ایک لمبی با علالت کے بعد ۱۹۲۶ میں وفات پائی.اور مقبر بہشتی میں جگہ حاصل

Page 10

کی.اللهم اغفر لها وارحمها و ارفع درجاتها في جنت العلى اس کے بعد دیگر ضروری کاموں کے سبب اور نظارت کے فرائض کے سبب یہ کام شروع نہ ہو سکا.خدا تعالیٰ کا شکر ہے.کہ گذشتہ سال یہ توفیق حاصل ہوئی.اور عاجز نظارت کے کاموں سے پانچ ماہ کی خصت لیکر کشمیر گیا.مگر وہاں سخت بیمار ہو جانے کے سبب دو ماہ سے زائد عرصہ کا مرد کا رہا.اور رخصت ہیں توسیع کرانی پڑی.میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اپیتحقیقات مکمل ہو گئی.ہنوز اس کے لئے بہت سا میدان کھلا ہے.مگر بہت سی نئی باتیں حاصل ہوگئی ہیں.اس غرض کے واسطے عاجز نے قریباً ۱۵ پرانے قبرستان دیکھے.۲۰ پرانے کھنڈرات اور قدیمی عمارتیں ملاحظہ کیں.ایک سو سے زائد کتابیں ملاحظہ کیں جو عربی - فارسی اور انگریزی زبانوں میں ہیں دا ایک دن جب کہ میں اس غوش کے واسطے پر تاب لائبہ بری سرینگر میں کتنا ہیں دیکھ رہا تھا.تو ہمارے دوست چودھری احمد الدین صاحب وکیل گجرات پنجاب جہزادے عزیز بشیر احمد صادق بی.اے نے وہیں میرا فوٹو لیا.ملاحظہ ہو.فوٹو (۱۴) کشمیری زبان سیکھی.اور اس کے الفاظ کا عبرانی زبان کے الفاظ سے مقابلہ اور مشابہت معلوم کیا.اہل کشمیر کے خط و خال کا مطالعہ کیا.ان کے رسم ورواج اور قدیم روایات پر غور کیا.مضافات وادی میں دورہ کیا.بہت سے مقامات کے فوٹو لئے جن پر بہت خرچ ہوا.اور ان فوٹوؤں کے بلاک بنوانے اور چھیوں نے پر بھی بہت سا روپیہ خرچ ہوا.علاوہ اس کے سفر کے اخراجات سے ان تمام محنتوں اور اخراجات کے نتیجے میں یہ کتاب تیار ہوئی ہے، جو کے صاحبہ

Page 11

۴ ہدیہ ناظرین کی جاتی ہے.اس کی قیمت کو صرف کا غذا اور چھپائی کے لحاظ سے نہ دیکھا جائے.بلکہ سفر کشمیر کے تمام اخراجات اسی کے مسوہ کے طیار کرنے کی خاطر ہوئے.دعاء - اے رب رحمن رحیم - قدیم - غفار ستار تو میرے گنا ہوں کو بخش اور اس کتاب میں برکت نازل فرما پخش کہ بہتوں کو اس کے پڑھنے کی توفیق حاصل ہو.اور یہ کتاب میرے لئے اور میرے عزیزوں در میرستے دوستوں اور مددگاروں کے لئے اور خریدنے پڑھنے اور سننے والوں کے واسطے تیری پاک رضا مندیوں کے حصول کا موجب ہو.اور تیری رحمت و برکت کے حصول کا ذریعہ سینے.آمین : :: معاونین کشمیر میں جن احباب نے مجھے مختلف عمارتوں اور پرانے قبرستانوں کے دیکھنے میں اور دیگر حالات کے معلوم کرتے ہیں امداد کی.ان کے اسماء درج ذیل ہیں.ان میں سے بعض احباب فوٹو ع سے میں شامل ہیں.ا.مولوی فاضل عبد الواحد صاحب مبلغ کشمیر -۲- مولوی فاضل عبد الاحد صاحب مبلغ بھدر راه - ہاد مولوسی فاضل پیر محمد یوسف شاہ صاحب مبلغ سہندواڑہ.خواجہ صدر الدین صاحب - ۵- مسٹر غلام نبی صاحب گلکار.محمد یوسف خان صاحب بی.اے.ایل ایل بی.حضرت خلیفہ نورالدین صاحب

Page 12

- میاں غلام رسول صاحب المحرومت رسل خاں.۹ - مولوی میر غلام رسول صاحب ساکن کا مجھ پورہ.-9 راجہ غلام محمد خان صاحب رییس چک ایمرج ۱۱ - غلام محی الدین صاحب گل کار ۱ - حبیب اللہ خاں صاحب فریم می فوٹو س میں شامل ہونے والوں کے نام (دائیں سے باتیں ) فرش پر - احمد اللہ صاحب حفیظ اللہ صاحب محمد یوسف خانصا بی.اے ایل ایل بی (وکیل) عبداللہ خانصاحب - مولوی محمد انور صاحب ابر اور محمد سعید مظفر آبادی، احمد ریشی صاحب کرسیوں پر :- خواجہ حبیب اللہ صاحب.خواجہ صدر الدین صاب مولوی عبدالاحد صاحب مولوی فاضل - ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب میں ہیں سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب.غلام نبی صاحب گل کار- محمد جی فرزند سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مولوی غلام محی الدین صاب مولوی فاعل پچھلی لائن کھڑے ہوئے :- ملک محمد خضر- غلام محمد صاحب دڈو عبدالرحیم صاحب ڈالہ خواجہ محمد شاہ صاحب حافظ عبد الغنی صاحب پلوامه بند 1 کشمیر میں قبر مسیح کا سوال کیسے پر پیدا ٹوا بعض دوست سوال کرتے ہیں.کہ آیا وال کرتے ہیں.کہ آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 13

4 کو وحی کے ذریعہ اللہ تعالے کی طرف سے خبر دی گئی تھی.کہ حضرت مسیح شمیر میں ہے.اس کے متعلق کوئی وحی یا الہام تو مجھے ملا نہیں.جہاں تک مجھے معلوم ہے.ابتداء اس کی یوں ہوئی.کہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام مکس میں بیٹھے تھے.آپ نے فرمایا.کہ میں آیت کریمہ وادیھما الى ربوة ذات قرار معین پر غور کر رہا تھا.اور اس پر غور کرتے ہوئے مجھے ایسا معلوم ہوا کہ گویا وہ مقام ایسا ہے.جیسے کشمیر اس پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ میں نے دوران قیام کشمیر میں سُنا تھا کہ یہاں ایک قبر ہے.جیسے جیسے کی قبر کہتے ہیں.اور یہ بات مجھے خلیفہ نور الدین صاحب نے بتائی تھی.جو اپنی ڈیوٹی کے سلسلہ میں سارے شہر کا گشت کیا کرتے تھے.اور کہ بعض لوگ اُسے بہن کا ر چینہ اور بعض شہزادہ نبی کا روضہ کہتے ہیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام نے خلیفہ نورالدین صاحب رویکھو فوٹو عند کو جموں سے ہلایا.اور آپ کو حکم دیا.کہ سری نگر جا کر اس کے متعلقی مکمل تحقیقات کریں.چنانچہ خلیفہ صاحب وہاں گئے.اور کچھ ماہ دیاں ر ہے.اس عرصہ میں انہوں نے وہاں کے بڑے بڑے علماء سے دستخط کرالئے.کہ یہاں یہ خبر جیسے کی قبر مشہور ہے.اور بعض لوگوں نے اس کی تائید میں بعض قلمی کتابوں سے بھی شہاد میں پیشیں کیں.اس وقت کشمیری لوگ صاف کہہ دیتے تھے.کہ یہ کس کی قبر ہے.مگر بعد میں پنجاب کے مولویوں نے جا کر ان کو اس سے روکا.اور منع کیا.کہ ایسا مت کہا کرو چنانچہ اب اگر کوئی وہاں جا کر دریافت کرے.تو وہ عیسے کی قبر نہیں کہتے بلکہ نبی صاحب کی یا بوز آسف کی قبر کہتے ہیں.چنانچہ حضرت خلیفہ

Page 14

الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت خلیفہ المسیح اول کی تقلا کے ابتدائی ایام میں جب وہاں گئے.تو ایک نو سے سال کی بڑھیا وہاں بیٹھی تھی.آپ نے اس سے دریافت کیا.کہ یہ کس کی قبر ہے.تو اس نے کہا کہ انہیں سو سال گزر گئے.اب کون جانتا ہے کہ یہ کس کی قبر ہے.اور کس کی نہیں: شكريه 4.اس جگہ ان احباب کا شکر یہ بھی لازمی ہے.جن کے محبت بھرے پیغام اور ہمت کو قائم کرنے والے خطوط میرے لئے ! تحقیقات میں حوصلہ افزائی اور انشراح صدر کا موجب ہوئے جیسا سیٹھ عید اللہ بھائی - اخوند محمد افضل خان صاح ده به خانه میخان خان بها در چوہدری محمد الدین صاحب قاضی حبیب اللہ صاحب لاہو اب - مولینا اور صاحب حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صہ نواب محمد علی خان صاحب - منشی کریم بخش صاحب بابوا ڈاکٹر محمد عمر صاحب - حکیم ابو طاہر حضرت

Page 15

باب دوم کشمیریوں کے یہودی ہونے کے متعلق پور مین سیاحوں کی شہادت بعض لوگ خیال کرتے ہیں.کہ کشمیریوں کے یہودی النسل ہونے کا خیال صرف احمدیوں نے پیدا کیا.حالانکہ یہ بہت پرانا خیال ہے اکثر سیاح اور زمانہ دیڈ لوگ جب پہلی دفعہ کشمیر میں داخل ہوئے اور اہل کشمیر کو انہوں نے دیکھا.تو پہلا اثر ان پر یہی ہوا.کہ وہ یہودیوں کے ملک میں آگئے ہیں.اور قومی بہبود ان کے سامنے موجود ہے.چنانچہ اس بارہ میں چند سیاحوں کی شہادت درج ذیل کی جاتی ہے :- ڈاکٹر بر نیر ایک یورو میں سیاح اور نگ زیب کے زمانہ میں یہاں آیا تھا.اس نے بھی اس خیال کا اظہار کیا ہے.وہ لکھتا ہے.کر کشمیری شہروں کے نام وہی ہیں.جو ان کے پہلے شہروں میں تھے پھر ان کے اپنے نام بھی ویسے ہی ہیں.اور یہ ثبوت ہے.اس امر کا کہ یہ لوگ در اصل یہود میں سے ہیں.ڈاکٹر بر نیر کی رائے ڈاکٹر بر نیر جب ہندوستان کی سیاحت کر رہا تھا.تو ایک سے رومین

Page 16

محقق مسٹر تھیوی نٹ نے جو کتابوں کے مطالعہ سے بھی بڑے بڑے انکشافات کیا کرتا تھا.اسے ایک خط لکھا جس میں اس سے بعض سوالات دریافت کئے.ایک سوال یہ تھا.کہ آیا یہ سچ ہے کہ یہودی ایک بہت لمبے عرصہ سے کشمیر میں بود و باش رکھتے ہیں.اور آیا ان کے پاس کتاب مقدس موجود ہے یا نہیں.اس کے جواب میں ڈاکٹر بر نیر نے لکھا.کہ کشمیر میں یہودیت کی بہت سی علامتیں پائی جاتی ہیں.چنانچہ پیر پنجال سے گزر کر جب میں اس ملک میں داخل ہوا.تو دیہاتی کے باشندوں کی صورتیں یہودیوں کی سی دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ان کی صورتیں اور ان کے طور طریق اور وہ نا قابل بیان خصوصیتیں جن سے ایک سے تیاح مختلف اقوام کے لوگوں کو خود بخود شناخت اور تمیز کر سکتا ہے.سب یہودیوں کی پرانی قوم کی سی معلوم ہوتی تھیں میری بات کو آپ محض خیالی ہی تصور نہ فرمائیے گا.ان دیہاتیوں کے یہودی نما ہونے کی نسبت ہمارے پادری صاحب اور اور بہت سے فرنگستانیوں نے بھی میرے کشمیر جانے سے بہت عرصہ پہلے ایسازی لکھا ہے.کرنل جارح فاسٹر صاحب نے اپنی ایک چٹھی میں جو کشمیر سے ۱۷۸۳ء میں لکھی تھی.لکھا ہے.کہ جب پہلے پہل میں نے کشمیریوں کو دیکھا.ان کے لباس اور ان کے چہرے کی ساخت سے جو لمبا اور سنجیدہ طور کا تھا.اور ان کی ڈاڑھی کی وضع سے یہ خیال کیا.کہ گویا میں یہودیوں کے ملک میں آگیا ہوں.دوسری علامت یہ ہے.کہ اس شہر کے باشندے باوجود یکہ تمام مسلمان ہیں.مگر پھر بھی ان میں سے اکثر کا نام موسسے ہے میرے یہاں

Page 17

١٠ یہ عام روایت ہے کہ حضرت سلیمان اس ملک میں آئے تھے.اور بار کالا کے پہاڑ کو کاٹ کر انہوں نے ہی پانی کا رستہ کھول دیا تھا.چوتھے یہاں لوگوں کو گمان ہے کہ حضرت موسے نے شہر کشمیر ہی میں وفات پائی تھی.اور ان کا مزار شہر سے قریب تین میل کے ہے.پانچویں بات یہ دیکھی جاتی ہے.کہ یہاں عمو تا سب لوگوں کا یہ عقیدہ ہے.کہ ایک دینے پہاڑ پر جو ایک مختصر اور نہایت ہی پرانا مکان نظر آتا ہے.اس کو حصہ سلیمان نے تعمیر کرایا تھا.اور اسی سیب سے اس کو آج تک تخت سلیمان کہتے ہیں : مشفق من وجوه مذکور کے باعث سے آپ دیکھو گے کہ میں اس بات سے انکار کرتا نہیں چاہتا کہ یہودی لوگ کشمیر میں آکر یسے ہوں.میں خیال کرتا ہوں کہ پہلے تو ان کے مذہبی مسائل زمانہ پا کر بگرہ گئے ہوں گے.اور بعد ازاں مشکل اور بہت سے بہت پر سنتوں کے مذہب اسلام اختیار کرنے کی طرف مائل ہو گئے ہونگے.-۲- بیرن نیوز صاحب جنہوں نے آج سے قریباً ایک سو سال قبل کشمیر کی سیر کی تھی.اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہیں.کہ کئی ایک یہودی بوڑھے ایسے دکھائی دیتے ہیں.جیسا کہ بائبل کے میرا نے بزرگ.- لفٹنٹ کرنل ٹارن صاحب الامراء میں اپنے سفر نا کی شمیر میں لکھتے ہیں.ایک قصہ یوں بھی مشہور ہے کہ کشمیری یہودیوں کی اولاد ہیں.اس فرضی خیال کی تائید موجودہ کشمیریوں کی ذاتی شکل و شباہت اور ان کے لباس چہروں کی بنادسٹ اور داڑھی کی تو شکل ہوتی ہے.یہ بھی یہاں یقین کیا جاتا ہے.کہ موسلے بنی بھی سرینگر

Page 18

میں فوت ہوا.اور یہاں ہی دفن ہوا.معلوم ہوتا ہے.کہ کرنل قارن کو لفظی مغالطہ ہوا ہے.کی کشمیری نے عیسے نبی کی قبر کا ذکر کیا ہو گا.اس نے موسئے نبی خیال کیا؟ ام.مسٹر ہے.بی آئر لینڈ اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہیں.کشمیر یوں کے چہروں میں بہت کچھ موسے کا نمونہ دکھائی دیتا ہے.- سر والٹر لارنس اپنی کتاب مطبوعہ ششماء کے صفحہ ۳۱۸ ہیں کہ کشمیریوں کا غالب نمونہ نہایت صفائی کے ساتھ عبرانی مصیبت زدہ موسے قصيرة - کاغذ کا کام قلمدان وغیرہ فروخت کرنے والے ایک تاجر کی شکل اسرائیلی لوگوں سے ایسی ملتی جلتی تھی.کو کشمیر کی سیر کرنے والے یوروپین اصحاب کے درمیان اس کا نامہ مصیبت زدہ موسن پڑ گیا.کیونکہ وہ بیمار رہتا تھا.اور تکلیف ہ لوگوں کی صورت بنائے رکھتا تھا.اب اس کی اولاد اس جگہ دوکان کرتی ہے ڈنمارک کی سیاحہ مس مارین نے اپنے سفر نامہ کشمیر مطبوعہ شاہ کے صفحہ - ۲۵۸ میں اس کا ذکر کیا ہے.ے.کتاب ایڈونچرز آف اسے لیڈی جلد ۳ صفحہ ۴ ۵ میں بجوال بدیع الدین ایرانی مورخ لکھ ہے.کہ موسلے نبی نے اہل کشمیر کو تو جیب کو قائم کیا تھا.مگر اس کے بعد وہ ایک خدا کی پرستش چھوڑ کر بت پرستی کی طرف مائل ہو گئے.اس واسطے ایک خوفناک طوفان آب نے ان کو غرق کر دیا.مگر موسئے نبی کی قبر اب تک کشمیر

Page 19

۱۲ میں موجو د ہے : ر معلوم ہوتا ہے.کہ اس لیڈی کو کبھی غلط فہمی ہوئی.بجائے جیسے کے موسلئے سمجھ لیا ہے.کیونکہ انگریزی میں مسیح کو جی ایس کہتے ہیں.لفظ جیسے سے اہل یورپ کے ذہن مسیح کی طرف منتقل نہیں ہوتے.اور وہ مو سے خیال کرنے لگ جاتے ہیں ؟ اسی لیڈی نے اپنے سیاحت نامہ کشمیر میں یہ بھی کہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک روایت کے مطابق وادی کشمیر پہلے ایک جھیل پر از آب سنتی جس کو حضرت سلیمان کے ماتحت ایک جن نے خشک کر کے آبادی کے قابل بنا دیا.ای ایف نائر یا صاحب اپنی کتاب و سے ارتھری ایمپانی میٹ مطبوعہ شنگالہ کے صفحہ ہم پر لکھتے ہیں یا کشمیریوں کے چہرے یہودی ڈھانچہ کے ہیں.اور اکثر ان میں سے آئرش یہودی دکھائی دیتے ہیں.لفٹنٹ کرنل ٹانس صاحب اپنے سفرنامہ کشمیر مطبوعہ لنڈن سیشن کے صفحہ ۲۶۰ پر لکھتے ہیں.کہ ملک میں جو افسانے مشہور ہیں.ان کے مطابق کوہ سلیمان پر جو عمارت ہے.وہ سلیمان پیغمبر نے بنائی تھی.اور ایسی ہی روایات کے سبب یہ فرض کیا گیا.کشمیری لوگ یہودیوں کی اولاد ہیں.اور موجودہ کشمیریوں کے چہرے کی ساخت اور ان کی داڑھیاں.اور ان کا لباس اس خیال کی تائید کرتا ہے.اور موسیٰ کی قبر بھی سرینگر میں بلائی جاتی ہے : ۱۰- اسی - جے.ایپ سین صاحب اپنی کتاب اینشنٹ انڈیا

Page 20

د 413 44773 کے صفوی پر لکھتے ہیں.کہ قدیم ہند کا طرز تحریر سامی زبان سے لیا گیا ہے.جس سے ظاہر ہے.کہ قدیم ہند کا تعلق یہود اقوام سے خاص تھا.ا.قدیم بخفر شکل شہر جو مے تھورا لائن کے پی مل کہلاتا ہے.اور علاقہ بہار میں لا ہے.اس پر جو حروف ہیں.وہ قدیم عبرانی سریانی غیرہ سے بالکل ملتے جلتے ہیں.چنانچہ ان کی شکل درج ذیل کی جھاتی ہے.صفحه ۴۲ اکتاب قدیم شهدوستان Ey The Makwa Kion.

Page 21

۱۴ پلیٹ شب ۱۴- جی لی گئی صاحب نے اپنے سفر نامہ کشمیر مطبوعہ لنڈن - ۱۹۷۲ ء کی جلد ایک صفحہ ۱۲۸ پر لکھا ہے.لفظ عیسو کشمیر کے ناموں میں مسلمانوں کے زمانہ سے پہلے سے پایا جاتا ہے.اس لفظ پر آدمیوں اور شہر دن اور مندروں کے کئی نام ہیں : ۱۳ - جی ٹی دگنی صاحب اپنے سفر نامہ کشمیر مطبوعہ لنڈن سماء کی جبلہ اول صفحہ ۳۹۵ پر لکھتے ہیں.کہ جب میں نے کشمیر میں مارتند عمارت کو دیکھا.تو اس کی ساخت کو یہودیوں کی ہیکل کے ساتھ بابل مشابہ حیران رہ گیا.اور مجھے اس میں کچھ مشتبہ نہیں.کہ اس کے

Page 22

IA بنانے والے کا ریگر یہودی تھے.اور مجھے ولعت صاحب سے معلوم ہوا ہے.کہ قدیم اسی تھی اوچھا (جس کا نام ہی کشش ہے ، اس میں عیسائی گرجوں کی مشکل بالکل ایسی ہی ہے.جیسا کہ کشمیر کے پرانے سندرہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود جن ملکوں میں بھی گئے.انہوں نے سلیمان کی ہیکل کی نقل میں ہر جگہ اپنے مندر بنا دیئے.آگے چل کر یہی صاحب اپنی کتاب میں صاف لکھتے ہیں کہ خائبا یہود کی اس قومیں مشرق کی طرف سفر کرتی ہوئی کچھ عرصہ اس پہاڑ کے پاس ٹکیں.جس کا نام انہوں نے کوہ سلیمان رکھا.اور اس کے بعد داخل کشمیر ہوئیں : جد -۱۴ برن ہٹکل اپنے سفر نامہ کے صفحہ ۱۳۴ میں لکھتا ہے.کہ کشمیر کے پیچھے دیکھ کر شام کے چشموں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے.۱۵ لارنس صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۱۵۴ میں لکھتے ہیں.کہ کشمیر کے ہندو بھی مسلمانوں کی طرح جانور کو ذبح کئے بغیر نہیں کھاتے.ریہ رسم آثار یہودیت سے معلوم ہوتی ہے.یہودی امریکہ و یورپ میں صدیوں کے گزارنے کے بعد بغیر ذبح کرنے کے گوشت نہیں کھاتے.اور حلال گوشت کو عبرانی میں کو شر کہتے ہیں.یہودی ہوٹلوں پر لفظ کو شہر عبرانی حروف میں لکھا رہتا ہے ( 45 ) -۱۶ وگئی صاحب اپنے سفر نامہ کی جلد دوم میں صفحہ ۱۴۰ پر لکھتے ہیں.کہ بجا ہوگا.کہ کشمیری مسلمانوں کو ذلیل شدہ یہودی کہا جائے : ۱۷ سر فرانسس بینگ ہینڈ اپنی کتاب کشمیر کے صفحہ ۱۱ پیر

Page 23

14..کہ کشمیر کی پہاڑیوں کے گاؤں میں ایسے لوگوں کے چہرے دیکھے جاتے ہیں.جن کی ساخت اسرائیلی بزرگوں سے بہت ملتی ہے.ملیکہ بعض لوگ کہتے ہیں.گو اس پر کوئی بہت سند نہیں.کہ یہ لوگ اسرائیلیوں کے کھوئے ہوئے دس قبیلوں کی اولاد ہیں.-۱۸ امپیریل گنریٹر کی جلد کشمیر مطبوعہ کلکتہ شقاء کے صفحہ ۳۵ پر لکھا ہے کہ کشمیر کے ہانجی (لاح ، حضرت نوح کی اولاد میں سے ہونے کے مدعی ہیں.۱۹ - جیمز منی صاحب اپنے سفر نامہ کشمیر کے صفحہ ۱۴۵ پر لکھتے ہیں کہ کشمیریوں کے چہرے چوڑے ناک نوکدار اور بدن یہودی ہونے کے ہیں -۲۰ - کپتان سی.ایم.ان ری کو یز - اپنی کتاب سفرنام کش می روم لنڈن شلوار کے صفحہ ۷ و پر لکھتے ہیں.میں نے اپنے ایام قیام سیریا سرینگر میں مجیب روایات سنیں.جن میں سے ایک یہ ہے کہ مسیح کی قبر کشمیر میں ہے.شہر سرینگر بہت قدیم کھنڈرات اور قبروں سے بھرا پڑا ہے.جن کی صحیح تاریخ کا اب پینتا نہیں لگ سکتا : ۲۱- یوروپین اور امریکن سیاح جود کشمیر کی سیر کے واسطے جاتے ہیں.عمو ٹا قبر مسیح کو بہت دل چسپی سے دیکھتے ہیں.اور اس کا فوٹو لے جاتے ہیں.اور اپنے ملک سے اخباروں اور رسالوں میں شائع کرتے ہیں.چنانچہ ہمارے مکرم دوست با بو محمد علی خانصاب شاہجہانپوری جو ان ممالک کے سیاحوں کے ساتھ بطور گائڈ اور ترجمان کے پھرا کرتے ہیں.اپنے خط مورخہ ۲۹ ستمبر ۱۹۳۷ ء میں عاجز کو

Page 24

- - عمرة لکھتے ہیں.محدودم محترم سلمه الرحمن السلام عليكم ورحمة الله وبركاته و رزقكم من الطیبات میں نے اپنے سفر ہائے کشمیر کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا.مثال کے طور پر ایک واقعہ لکھتا ہوں :- ابتداء جوان املاء میں ایک امریکن سیاح کے ساتھ میں کشمیر اتا.ان کا نام کی سراسری را بسن تھا جو ۲۳۹ ساؤتھ برا ڈدے کلاس انھیاس کیا یہ ظہور نیا کے رہنے والے تھے.ایک دن میں نے ان سے ذکر کیا کہ یہاں سرینگر محله خانیار ایک مشہور جگہ ہے.جہاں اکثر سیاح سیر کے نہ جایا کرتے ہیں.وہاں حضرت مسیح علیہ سلام کی قبر ہے، کہ بہت خوش ہوا.اور دیکھنے کی خواہش کی.ایک دن میں ان کو محریم صاحبہ وہاں لے گیا.میں نے حضرت مسیح کی قبر یہ پہونچ کر فاتحہ پڑھی.مسٹر یامین نے روضہ کا فوٹو لیا.مسٹر رامین نے مجھ سے دریافت کیا.کہ اس کا کیا ثبوت ہے.کہ یہ سیح کی قبر ہے.میں نے کہا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح نے اپنی گم شدہ قوم کی تلاش میں مشرق کا سفر کیا.اور نصیبین الغازات اور ہندوستان ہوتے ہوئے کشمیر پہونچے.یہاں کی آب و ہوا آپ کو خوشگوار معلوم ہوئی.آپ نے بقیہ عمر یہاں گزاری اور ۱۳۰ برس کی عمر میں یہاں ہی وفات پائی.مسٹر را بیسن نے کہا.کہ میں اپنے سفرنامہ میں اس کا ذکر کر دیگا.مزار شریعت کے قریب چند کشمیری سمجھیے ہوئے تھے.میں نے ان سے دریافت کیا.کہ یہ کسی بزرگ سکا مزارہ ہے.انہوں نے کہا ہم لوگ اس کو شہزادہ نبی کی قبر کہتے ہیں.شہزادہ نبی کا لفظ حضرت کیلئے ابن مریمہ کے واسطے خاص ہے کیوں

Page 25

میں بھی آپ کا یہ نام آیا ہے.اور عیسائی تاریخ میں یہ ایک مسلمہ امر ہے.جیسا کہ وہ نبی اور آ وہ بھی اور آنحضرت کے الفاظ سوائے حضرت محمد لہ اللہ علیہ وسلم کے اور کسی بنی کے واسطے کبھی نہیں بولے گئے ! اور ایسا ہی شہزادہ نبی کے لفظ سوائے حضرت قیسے بن مریم کے کسی کے واسطے کبھی نہیں بولے گئے.۲۲- کتاب لیسٹرز فرامہ انڈیا مطبوعہ جارج بیل لنڈن شکیلہ کے صفحہ ۱۷۵ میں لکھا ہے.جب میں پیر پنچال سے گذر کہ کشمیر میں داخل ہوا.تو باشند با لکل یہودیوں کے مشابہ مجھے نظر آئے.ان کی شکلیں یہودی وضع کی ہیں.ان کے چہرے اور عادات اور خصوصیات بالکل یہود سے ملتے ہیں.پہلے بھی جس قدر یورپین اس ملک میں آئے.اور مجھے ملے یا ان کے سفر ناموں سے معلوم ہوتا ہے.سب پر یہی اثر ہوا کہ کشمیری لوگ بنی اسرائیل ہیں.جارج فارسٹر صاحب جو سہ ء میں کشمیر آئے تھے.انہوں نے بھی اپنے سفر نامہ میں ایسا ہی لکھا ہے؟ ۲۳.مسٹر کونے ہیمبرٹو اپنی کتاب سیاحت نام کشمیر دلداش مطبوعہ لنڈن شا ء میں سکھتے ہیں.ایسا کہنے میں کوئی غلطی نہیں ے یہودی وضع کے ہیں.ہے.کہ کشمیری چہرے یہ - ۲۴۰ آرنیل مستند سی جی - بروس اپنے سفرنا اپنے سفر نامہ کشمیر کے صفحہ ۳۲ پر کھتی ہیں کشمیر کے ناسخی کہا کرتے ہیں.کہ ہم حضرت نوح کی اولاد ہیں.اس میں شک نہیں کہ ان کی مسقف کشتیوں کی شکل و وضع ایسی ہی ہے.جیسا کہ نوح کی کشتی عموما یورپ میں بنا کر بچوں کو دیجاتی ہے.

Page 26

19 ۲۵ - جاشوا ڈیوک صاحب اپنی کتاب راہنما نے کشمیر کے صفری پر لکھتے ہیں کہ کشمیر قدیم زمانے سے ایک خاص شہرت رکھتا ہے بعض رخین نے لکھا کہ آدم بھی اس ملک میں آیا تھا.اور سلیمان نے یہاں تو جب قائم کی.مگر بعد میں لوگ بت پرست ہو گئے.اور صفحہ ۲۲۰ پر لکھا ہے.کہ کشمیریوں کے چہرے یہودی وضع کے ہیں.مسز نا ر دے اپنے سیاحت نام کشمیر مطبوعہ لنڈن ء کے جلد ۳ صفحہ ۱۵۴ پر لکھتی ہیں.کہ ایک فارسی تاریخ کے مطابق جس کا مصنف بدیع الدین ہے.حضرت موسے کشمیر میں ہی فوت ہوئے اور ان کی قبر اب تک موجود ہے.رضا اللہ اس لیڈی کو بھی مغالطہ ۲۶ ا لگا.اور اس نے عیسے کے بجائے موسے سمجھا.مصنف ) ۲۷.لیڈی ہنر یٹا سینڈس میرک اپنی کتاب ان دی ورلڈس اٹیک مطبوعہ لنڈن سرا سے وار کے صفحہ ۲۱۳ میں منظر یہ فرماتی ہیں.کہ علاقہ لیہ لداخ میں افسانہ مسیح جس کو اس ملک میں جیسے کہتے ہیں خامہ ہے اور کہا جاتا ہے.کہ ہمس کی خانقاہ میں پندرہ سو سال سے پورانی کرتا ہیں ر نہیں موجود ہیں جن میں علینے کے اس ملک میں آنے کا تذکرہ موجود ہے.ہر ایک گاؤں میں یہ روایت پائی جاتی ہے.گو الفاظ میں کچھ فرق ہو کہتے ہیں.کہ خدا نے اپنا بینا زمین پر بھیجا.اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ملک کے بدھ لوگوں کے مذہبی رسوم بالکل وہی ہیں.جو رومن کیتھولک چرچ کے مذہبی رسومات ہیں.دیسی ہی تسبیح اور گناہوں کی معافی کی تجاویزہ اور تشکیت اور چراغ اور بتیاں اور بت اور مقدس پانی اور روزے اور مجرد رہنا اور گناہوں کا اقرار

Page 27

اور روٹی اور شراب اور تصاویر اور گھنٹڈ اور تار کہ عورتیں اور ایک مذہبی امام اور اولیاء اور بدروحیں اور صلیب کا نشان غرضکہ ہرا یک بات جو رومن کیتھولک مذہب میں پائی جاتی ہے.بعینہ وہ سب لیہ لداخ کے مذہب میں پائی جاتی ہیں.ور ۲۸- ڈبلیو ویک فیلڈ صاحب اپنی کتاب ہیپی ویلی کے صفحہ لکھتے ہیں.کہ کشمیریوں اور افغانوں کے چہرے یہودی وضع کے ہیں: ۴۹- کہ نبیل کا کبران کی شہادت کر نبیل کا کبرن صاحب جو نواب آسمان جاہ کے سیکرٹری رہ چکے ہیں.عشاء میں مٹن کے پاس مشہور عمارت مازند کے متعلق وہاں کتاب معائنہ میں تحریر فرماتے ہیں.کہ مجھے یقین ہے.کہ یہ عمارت یہودیوں نے ہیکل سلیمان کے نمونہ پر بنائی تھی.بعد میں برہمن اثر کے نیچے اس میں ثبت بنائے گئے.لیکن عمارت کا نقشہ بالکل نیکی یہود کی معلوم ہوتا ہے.یہ ان یہودیوں نے بنائی جو بیت المقدس کی تباہی کے بعد بیچ کر مشرقی ممالک کو چلے آئے.موجودہ کشمیری یہودیوں کی گم شدہ اقوام کی اولاد ہیں.یہ کتاب معائنہ وہاں کے چوکیدار کے پاس ہے.جو ہاروت ماروت کے جاہ بابل کے قریب رہتا ہے.بار نند کے واسطے ملاحظہ ہو فوٹوت اور باروت و ماروت و چاه بابل کے واسطے ملاحظہ ہو فوٹو ک :: طرح ہے..سلام اليور والحادی

Page 28

PI باب سوم آثار قدیمہ کی شہادت میں ار تخت سلیمان تخت سلیمان ایک بہت پرانی عمارت ہے.جو ایک پہاڑی پر جھیل کے کنارے بنی ہوئی ہے.اس عمارت کے متعلق کشمیریوں میں یہ مشہور ہے.کہ اسے حضرت سلیمان نے بنایا تھا.مورخین کی رہے میں اس کا نیچے کا حصہ بہت پرانی عمارت ہے.اور اس پر کچھ غیر زبان میں لکھا ہوا تھا.جواب زیر زمین مدفون ہو گیا ہے.بہر حال یہ عمارت یہودیت کے آثارہ کا ایک نمونہ ہے.تخت سلیمان کا گیت کشمیری زبان میں ایک مشہور گیت سلیمان کے یہاں آنے اور بستی بسانے کے متعلق ہے.کے متعلق ہے.اس سے کم از کہ بت ہوتا ہے.کہ کشمیریوں کو یہودیوں کی قوم سے ایک گہرا تعلق ہے.کہ ان کی روایات کو کسی نہ کسی رنگ میں اب تک اپنے اندر محفوظ رکھتے چیلے آتے ہیں.وہ ترجمہ یہ ہے.سليمان آسمانی آؤ تابع تس اوس داؤ

Page 29

۲۲ سلیمان ٹینگ کر نہ ٹھیرا آبك اوسس ملاؤ سلیماں جیب بادشاہ بورادم سليمانن لاحي بستی خلق منبرن دستی رشته سنبرت من طرفن تھو نه شهرن ته گامن ترجمه: حضرت سلیمان بادشاہ آسمان کی راہ سے آئے.اُن کے ماتحت ہوا تھی.انہوں نے سلیماں ٹینگ پر ٹھہراڈ کیا.اس کے ساتھ پانی ملا ہوا تھا.میں نے سُنا ہے کہ سلیمان بادشاہ تھے سلیمان نے بستی کی بنیاد ڈالی.اور لوگوں کو بدست کر کے جمع کیا لوگوں کو شکش اطراف سے جمع کر کے لائے.ان کو شہروں اور گاؤں میں بسایا : ۲- جیسے بار سرینگر کے مضافات میں ڈال کے کنارے نشاط باغ کے قریب ایک گاؤں ہے.جس کو بیس بار کہتے ہیں.اور پرانی کتابوں ر ملاحظہ ہو کتاب راج ترنگنی متر جمہ سٹائن صاحب میں اس کا نام نیس بار نیسا بار - عیسو بار بھی لکھا ہے.یہ بہت ہی پرانا گاؤں ہے.اور کسی زمانہ میں نہایت مقدس مانا جاتا تھا.اور دور دور کے ممالک سے چل کر لوگ وہاں آتے تھے.اور اپنی زندگی کے آخرمی دہ وہاں گزارنے کو ایک بڑا ثواب شمار کرتے تھے.اب بھی وہاں

Page 30

دو چشمے ہیں.اور ہندو کے راج کے اثر کے ماتحت وہاں ایک مندر بنا دیا گیا ہے.چند پجاری وہاں رہتے ہیں.جن کو غالبا ریاست سے تنخواہ ملتی ہے.ان پجاریوں کا بیان ہے کہ یہ چشمہ اور شہر بہت پرانا ہے.اس کو گیت گنگا بھی کہتے ہیں.گیت کے معنے غائب اور مخفی راز کے ہیں.اور گنگا کے معنے ہیں پانی.چونکہ معلوم نہیں کہ یہ پانی کہاں سے آتا ہے.اس واسطے اس کا نامہ یہ ہو گیا.اس مقامہ کو نشہ پیر بھی کہتے ہیں.بقول بیچاریوں کے بعشہ بیعنے خدا اور برہ بھنے بانو ہے یعنے خدا کا باغ.قدیم زمانہ میں لوگ دُور دُور سے یہاں آتے تھے.اور اس جگہ آخری دم گزارتے اور مرنے کو جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ خیال کرتے تھے.اور وہاں قریب میں ایک غار ہوا کرتی تھی.جس میں پیل کر اندر ہی اندر انسان چار دن میں چین پہونچ سکتا تھا ایسی کئی ایک تاریں کشمیر کے پہاڑوں میں ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے.کہ کسی قدیم زمانہ میں یہ غاریں کشمیر کو دوسرے ممالک سے ساتھ ملا دینے کے واسطے بنائی گئی تھیں.ایک خار کی نسبت مشہور کشمیر کو جمہوں سے ملاتی ہے.شرمین جیسے کے نام پیر ایک ہے.نہایت قدیم متبرک شہر کا ہونا اپنے اندر بہت سے مطالب مخفی رکھنا ہے.کتاب راج ترنگنی ہیں اس مقام کے متبرک ہونے اور اس کے ارد گرد کسی زمانہ میں بہت سے معید ہونے اور ایک بڑا شہر آباد ہونے کا مفصل ذکر ہے.جس سے اس کی عظمت ظاہر ہے.اس گاؤں کے قرب وجوار میں اب بھی آثار قدیمہ کے بہت سے کھنڈرات پائے جاتے ہیں :

Page 31

سرینگر میں ایک پرانی قبر پر عبرانی حروف شہر سرینگر میں پرانے کھنڈرات کا ملاحظہ کرتے ہوئے ایک قبر یہ عبرانی حروف سے ملتے جلتے حروف ہے.جن کا فوٹو لیا گیا ملا حظہ ہو فوٹو اس میں تین قبریں ہیں.دو پر عربی فارسی حروف ہیں.تیسری پر کچھ پڑھا نہیں جاتا.مٹے ہوئے حروف ہیں مگر بعض حروف عبرانی سے ملتے جلتے ہیں.-۴- عبرائی سے ملتے جلتے حروف پیچ بہاڑہ میں ایک پرانا قبرستان ہے.جس میں ایک قبر یہ کچھ ایسے حروف ہیں.جو عبرانی سے بعض ملتے ہیں.قدامت زمانہ کے سبب پتھر بہت سارا گھر گیا ہے.اور کوئی حرف اصلی صورت میں نہیں رہا.ہمارے دوست حبیب اللہ خاں صاحب نے جو خاکہ اس کا اتارا ہے.وہ درج ذیل کیا جاتا ہے.نیز اس کا فوٹواس کتاب میں شامل کیا گیا ہے.ملاحظہ ہو فوٹو خا کہ حروف جو اس قبر پر ہیں ر شد مجة نوع حاد

Page 32

فوٹوک اندرونه منو در باند این تهان ستان بهار

Page 33

۲۵ ه عصائے عیسے خانقاہ شاہ ہمدان کے تبرکات میں ایک عصاء ہے.جو عموما عصاء نبی کے نام سے مشہور ہے.لیکن ایک انگریز سیاح بناء کستان سی.ایم.این ری کویز اپنی کتاب سفر نامہ کشمیر کے صفحہ 101 پر اسے عصائے جیسے کر کے لکھتا ہے.واللہ اعلم بالصواب..گنڈ خلیل خلیل - حضرت ابراہیم کا نام ہے.یہ بھی آثار یہودیت کی ایک علامت ہے.کہ دریائے وقتا کے بائیں کنارے پر میدان پر سیلور کے قریب جو جگہ تری گام کہلاتی ہے.وہاں ایک مکان گنڈ خلیل مشہور ہے.ملاحظہ ہو.جلد دوم کتاب را جاترنگنی صفحه ۳۲۹ : علیے کے درخت کشمیر میں ایک دوست نے ذکر کیا.کہ اسکردو میں دو پورانے درخت ہیں.جو حضرت علیے کے درخت کہلاتے ہیں.-۸- دید رکوٹ میں عبرانی حروف ایک دوست نے ذکر کیا.کہ دید رکوٹ میں جو یاڑی پورہ کی طرح ہے.بعض قبروں پر عبرانی حرومت کی طرح نشان ہیں هزار سلاطین میں عبرانی حروف ایک دوست نے ذکر کیا.کہ مزار سلاطین میں بعض قبروں پر عبرانی حروف لکھتے ہیں.زار پانڈرین نهان موجودہ شہر سرینگر کی ٹیچریوں سے قریبا تین میل کے فاصلہ پر

Page 34

۲۶ ایک بہت پرانے مندر بنام بانڈ رین نہان کے کھنڈرات ہیں.جو در اصل قدیم حکمرانان کشمیر کے دارالسلطنت کا مقام تھا.اس کے اندر در کچھ اس قسم کے نقش و نگار ہیں.جو قدیم عبرانی حروف سے ملتے جلتے ہیں.اس کے اندرا در باہر کا فوٹو ہمارے دوست عبداللہ خان صاحب نے لیا تھا.ملاحظہ ہو فوٹو : ا.قبر مریم قرآن شریف کی آیت وَ آدَيْنَهُمَا إِلَى رَبوَةٍ ذَاتِ قرار ومعین سے معلوم ہوتا ہے.کہ حضرت پیسے کی والدہ کو بھی ان کے ساتھ کسی چشموں والے پہاڑ پر جگہ دی گئی.اس کے متعلق تحقیقات کرنے سے معلوم ہوا.کہ کوہ مری پہاڑ پر ایک قبر حضرت مریم کی ہے.معلوم ہوتا ہے.کہ یہ پہاڑ اسی نام سے مشہور ہے.قیاس ہو سکتا ہے کہ حضرت مریم حضرت مسیح کے ساتھ ہی یا ان کے بعد کشمیر گئی ہوں.اور پھر یہاں قیام کیا ہو.یا اس راستہ سے گذرتے ہوئے یہاں وفات پائی ہو.حضرت مولوی شیر عسلی احب نے بھی اس قبر کو دیکھا ہے.اور اس کے متعلق حالات درسرایان کئے ہیں.عبرانی اور انگریزی ہیں مریم کو مری ہی کہتے ہیں.اصل لفظ مری ہے.عربی میں مریکہ ہو گیا.ملاحظہ ہو.تصویر فوٹو یہ قبر کو ہ مرسی کے شہر کے بالکل قریب واقعہ ہے.مولوی فاضل عبد الواحد صاحب کشمیری کا بیان ہے.کہ کشمیری لوگ اب تک مریم کو مری بولتے ہیں.جس لڑکی کا نام مریم ہو.اسے مری کر کے پجارا جاتا ہے.

Page 35

۲۷ اس قبر کے متعلق مولوی عبد الرحمن صاحب خاکی ٹیچر گورنمنٹ اسکول کوہ مری کا بیان درج ذیل کیا جاتا ہے.کوہ مری کے یورینٹ کی بلند چوٹی پر ایک استھان ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ مائی مری کا استھان ہے.کہتے ہیں.کہ یہ عورت قدیم زمانے میں گزری ہے.راجہ کرن کی ڈھیری " ماتی مری کے استھان سے قریباً پانچ میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے.مائی مری کے استھان پر سند د لوگ جاتے ہیں.اور مٹھائی اور دیگر چیزیں بطور چڑھاوے کے لے جاتے ہیں بعض سندوؤں نے ایک دو ماہ قبل میونسپل کمیٹی مری میں درخواست بھی دی تھی.کہ انہیں وہاں میلہ وغیرہ کرنے کی اجازت دی جائے کہتے ہیں.کہ کسی زمانہ میں مائی مری کے استھان کے قریب سمائی موضوع کا مندر بھی تھا.جس کے آثار اب وہاں نہیں پائے جاتے ہیں.مانی مربی کے استھان اس ایک ٹاور ہے.جو گورنمنٹ نے بنوا بنوایا ہے.عام لوگوں کا خیال ہے کہ مائی مری کوئی بہتہ و بصورت گذاری 수 د مگر یہ نام ہندوؤں کا نہیں ہوتا.مری.اور مریم ایک ہی لفظ ہے.عبرانی زبان میں مری ہی کہتے ہیں.انگریزی میں میری اور عربی میں مریم - مؤلفت ) اب تک صرف یہی حالات دریافت ہو سکے ہیں.مزید حالات اگر معلوم ہو سکے.تو انشاء اللہ پھر لکھونگا :

Page 36

۲۸ ۱۲- علاقہ سرحد میں مقامه یوز آسف ملک فلسطین سے سفر کر کے کشمیر تک پہونچنے میں حضرت جیسے علیہ السلام کو ایک لمبا عرصہ لگا ہوگا.کیونکہ اس زمانہ میں پیل اور موٹر جیسی سریع الرفتار سواریاں نہ تھیں.بلکہ ملکوں اور شہروں کے درمیان سڑکیں بھی عموما نہ تھیں.اور راستے دشوار گزار اور سفر صعبناک ہوتے تھے.اور راستہ میں کئی جگہ دنوں کیا بلکہ مہینو رہنا پڑتا ہوگا.اس واسطے کئی جگہ مسیح کے ٹھہرنے اور قیام کرنے کے نشان ملتے ہیں.چنانچہ ایک مقام کا پتہ ہمارے دوست ماسٹر محمد شاہ صاحب نے دیا ہے.ان کا خط درج ذیل کیا جاتا ہے: محمدہ و نصلی علی رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحیم پشاور مورخه ۲۶ ستمبر ۶۱۹۳۳ مگر می جناب مفتی صاحب ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ.! جناب محترم ارشاد نامه جناب کا ملا.قبر مسیح علیہ سلام کے متعلق افقی ایک بغیر مشتبہ مقام ہمارے سرحد میں موجود ہے جس کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی.اور اس کے قرائن اور روایات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ جناب مسیح علیہ السلام کی نشست گاہ اور خلوت گاہ ہے.میں نے ایک پشتو کتاب لکھنا شروع کی ہے جس میں افغان قوم کی تاریخ اور سلسلہ نسب بنی اسرائیل اور ان کی اس ملک کی طرف ہجرت کے متعلق بالتفصیل ذکر کیا ہے.اس میں اسد مقام کا بھی ذکر کیا گیا ہے.جہاں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے آثار اور قرائن پائے جاتے ہیں.اب میں ذیل میں اس مقام کے منظر کوائف

Page 37

۲۹ عرض کرتا ہوں.ہمارے سرد علاقہ یوسف زئی پتہ اور میں ایک بہت اونچا پیا ہے جس کو کھڑہ بار کہتے ہیں.اس کے آ کے ایک سب سے بلند چوٹی پر دیار - دیو دار چیڑ.اور دیگر پہاڑی درختوں کا ایک خوبصورت جنگل ہے.اور ان درختوں کے خوش نما منظر میں میں ایک قدیم زمانہ کی یادگار مزار کی شکل میں بنی ہوئی ہے.جو اسلام سے پہلے بدھ ازم کے آثار قدیمی میں خیال کی جاتی ہے.چنانچہ ان سالہ پہاڑوں میں اور بھی بدھ ازم کی یادگاریں موجود ہیں جن میں سے؟ سے ایک کشمیر سمن کے نام سے مشہور ہے.ہم پشتو زبان میں قار میں خار یا کھنڈ کو کہتے ہیں.یعنی وہ نمار اس قدر گہرا اور لیا ہے.کہ آج تک محکمہ آثاره قدیمیہ کے تحقیقات والے بھی اس کی انتہا اور ماہیت تک نہیں پہونچے ہیں.چنانچہ محکمہ والوں نے انتہائی کوشش کے باوجود شار کی اندرونی حد معلوم نہیں کی.کیونکہ اس میں ایک حد تک جا کر نہ روشنی کام کر سکتی ہے.اور نہ ہی سانس لینے کے لئے لطیف ہوا اندر موجود ہے.اس لئے ناکام واپس کوٹنا پڑتا ہے بیٹھا نوں میں اس کے متعلق یہ روایت مشہور ہے کہ یہ سمتش رغمار اکشمیر کو من جا نکلا ہے.اور سلسلہ کوہ کے اندر ہی اندر به زمین دوز راسته چلا گیا ہے.اور کسی زمانے میں ایک بادشاہ (جو بدھ ازم کے زمانہ میں یہاں کا حکمران قیاس کیا جا سکتا ہے ، نے یہ غار کشمیر اور افغانستان کو لانے کے لئے کلوایا تھا.بہر حال اب اس میں انسان کے جانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.اور اس کے اندر چٹانوں

Page 38

٣٠ اور درختوں پر بیٹھنے والے پرندوں کی ٹیوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں.شروع سے اس میں رسی یا سیڑھی کے ذریعہ اُتر کر آگے کچھ چلنے کا راستہ ملتا ہے.اور وہ بھی کسی حد تک انسان جا سکتا ہے.آگے نہیں.یہ تو کشمیر یمن کے متعلق ایک ضمنی صالات عرض کئے گئے.اصل بات حضرت مسیح علیہ السلام کے مقام یادگار کے بارے میں ملتی.وہ یہ کہ کھڑہ کار کے بلند ترین چوٹی پر جہاں سے ضلع پیشادی اور سورت نیز تک کے پر گئے اور علاقہ جات نظر آتے ہیں، اونچے درختوں کے خوشی منظر میں ایک مزار ہے.جسے بیکہ یوسف الکھتے ہیں.اس پہاڑ کی اس چوٹی تک شاذ و نادر کوئی جاتے ہیں.کیونکہ پیکانی سوائے کسی سیاح یا زیارت جانے کے لئے.جو بطور ادنيا.دعامانگنے کے جاتے ہیں.عام زمیندار پیشہ با چرو ا ہے.بہت کم جاتے ہیں.کیونکہ اس طرف بعض درندے جانوروں کا احتمال میں ہوتا ہے پٹھانوں کا عقیدہ ہے.کہ یہ ایک بزرگ کا مزار ہے.جس نے دودھ سے ان درختوں کی پرورش کی ہے دیہ کچھ مبالغہ معلوم ہوتا ہے ، اور وہ حکومت اور یا منت کے طور پر یہاں رہتا رہا.اور ان درختوں میں چلغوزے کے قسم اور بعض دیگر پہاڑ سی میوہ جات ہیں.نیز اس میں تقریبا صدیوں کے گرے ہوئے پرانے بڑے بڑے عظیم الشان درختوں کے تنے پڑے ہوئے ہیں.جو اعلیٰ درجہ کی تعمیر وغیرہ کے کام آسکتے ہیں.مگر بیٹھانوں میں ایک یہ بھی راسخ عقیدہ ہے کہ یہاں سے کوئی چیز از ختم میوہ یا لکڑی وغیرہ لیجانے کے لئے اس بزرگ کی اجازت نہیں.جو لے جا دیگا.اس کا خانہ خراب ہو گا.وغیرہ وغیرہ 4

Page 39

اس البتہ اس مقام پر جتنا کھا دے.کھا دے.استعمال کرے.اس پر کوئی گرفت نہیں.اور نیز یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہمارے قدیم آباؤ اجداد کی یاد بھی پیسے کا ہے.حتی کہ اسلام کی آمد سے بھی پہلے کی یادگار ہے اب ان لوگوں کے اولاد بنی اسرائیل ہونے میں تو کوئی شک کی گنجائش نہیں.کیونکہ اب بھی پٹھانوں کے بزرگوں کا متفقہ دعوی ہے.کہ ہم لوگ بنی اسرائیل ہیں.اور میں نے خود اپنی کتاب زیر استات میں اپنے چشم دید حالات اور علامات علاقہ شام اور فلسطین کے بنی اسرائیل اور یہاں کے پٹھانوں کے متعلق لکھے ہیں.جن میں نہ صرف جغرافیائی ملکی مشابہت اور دیہاتوں اور پہاڑوں کے نام بلکہ ان کے بعض قومی مراسم اب تک یکساں طور پر پچھلے آتے ہیں.خیر اس پر تو یہاں بحث نہیں.پس جب یہ ثابت شدہ امر ہے.کہ یہ لوگ بنی سرائیل ہیں.اور یہ کہ بر یادگار اسلام آنے سے پیشتر کی ہے.تو اسلام سے پہلے یہاں بدھ ازما اور یا بنی اسرائیل کی یہودیت T تھی.بدھ ازم سے تو اس نام کا کوئی تعلق نہیں.اب بچہ یو میں یو یوسف کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے.کیونکہ یو پشتو میں ایک کو ا در یک فارسی میں ایک کو کہتے ہیں.اور مغلوں کے زمانے میں فارسی اس قدر عالمگیر زبان تھی.کہ انگریزی بھی آجکل اتنی اس ملک میں مہنہ نہیں.اس شده بر ر لفظ کو اپنی فارسی میں ہی ادا کرتے رہے ہیں بالکل ممکن.ہے.کہ یہ لفظ یو یوسف" سے ہی بکہ یوسف" بن لیا ہو.جو در اصل یوز یوسف مسل یوز یوسف یا یو نہ آس ہی ہے.اور یہ تمام بلحاظ ماحول اور کیفیت اس قدر اچنیا ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے کسی

Page 40

۳۲ معمولی آدمی یا بزرگ کا ہرگز نہیں ہو سکتا.جس کا یوز یوسف یا یوں مام ہو.بلکہ یہ تمام اطراف کا ارفع ترین مقام ہے.جہاں سے لے یوسف زئی.بنیر اور دریائے سندھ سے پار ہزارہ کا غان اور مہابن تک اور دوسری طرف علاقہ مثبت نگر اور مہمند کا علاقہ نظر آتا ہے.اور جہاں سے معلوم ہو سکتا ہے.کہ اس ملک میں آبادی کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہے.پس بہت ممکن در قرین قیاس یہ امر ہے.کہ جب تمام نسلیں اس ملک میں بنی اسرائیل کی پھیلی ہوتی ہیں.اور حضرت مسیح علیہ اسلام ناصری اور رسوگا الی بنی اسرائیل کی تشریف آوری کا انگریان اس زمانہ میں خدا تعالے کے مامور کے ذریعہ نیز تاریخی شہادات اودر عقلی نفتی واقعات کی بناء پر بین طور پر ہوا.تو اس میں کیا شبہ ہو سکتا ہے.کہ آپ ان اقوام کی طرف بھی ضرور آئے ہوں گے اور بنی اسرائیل کے ان مقتند ر اقوام میں آپ کو اس سے زیادہ موزوں مقام کوئی نظر نہیں آیا.جہاں سے آپ تمام گرد و نواح میں بنی اسرائیل کی کھوئی بھیڑیں اور ان کی آبادی وغیرہ کا پتہ لگا سکیں پس یہاں سے آپ نے تمام علاقہ کا ریویو کیا.اور یہاں چند عرصہ ٹھہر کر پھر کشمیر کا رخ کیا.اور یہاں ان کے معتقدین نے ان کی یادگار میں یہ مقام بنا کر اس پر ان کا نام نہ کھا لیا.جو آجنگ.مشہور ہے.میں نے بھی اس بارہ نکما حقہ تحقیقات نہیں کیا.بلکہ یہاں کے سرسری حالات اور واقعات جو ان لوگوں میں مشہو یہ ہیں.ان کی بناء پر یہ حالات لکھتے ہیں.بہت ممکن ہے.کہ مزید تحقیقات

Page 41

٣٣ کے بعد کچھ مزید شہادات میسر ہو سکیں.جن کے لئے انشاء اللہ میں حسب موقعہ کوشش کروں گا.یہ مختصر حالات اس مقام کے متعلق ہیں.جوار سال خدمت ہیں.والسلام خاکسار محمد شاہ احمدی ماسٹر مشن ہائی سکول پشاور ۱۳ - شر یا سفر با قبریں کشمیر میں بعض قبریں ایسی بھی پائی جاتی ہیں.جو مالا منویا مسلمانوں کی قبروں کی طرح نہیں.بلکہ شرق شر یا بنائی گئی ہیں.جتنا کچھ ہمارے دوست راجہ محمد زمان خان صاحب گرد اور قانونگوئی ریاست لکھتے ہیں:.را قم موضع قوبل تحصیل پلوامہ میں گرداور ہے.موضوع مذکورین ایک پرانا قبرستان برآمد ہوا ہے.جس میں مردوں کی قبریں شرفت غربا ہیں.(تحریر ۱۶ ستمبر ۱۳۷ ) ( ۱۴ - دادسی گام میں مقام کیسے حضرت پیر سید محمد صادقی شاه صاحب الدروان علاق سے ماہ اکتوبر سے ہمیں تحریر فرماتے ہیں کہ والہ پورہ کے گاؤں میں ایک چشمہ ہے.میں بیٹی صاحب کا چشمہ مشہور ہے.مگر شاہ صاحب مناسب موصوف کی تحقیقات میں اس کا تذکرہ اس طرح سے ہے کہ مسیح ناصری علیہ سلام نے اس شہر پر خلائق کشمیر کو جمع کر کے اپنے وعظ سے مستفیضن فرمایا.یہ چیمہ وادی گام میں ہے.آج اس کام کو واٹ پورہ بولتے ہیں: اسنی کے متعلق عز برزیم مکرم سید ناصر احمد صاحب پسر حضرت

Page 42

۱۳ مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب لکھتے ہے بسم الله الرحمن الرحيم 10/19/20 مجاور حضرت نحمده ونصلى على رسوله الكريم مخدومی حضرت مفتی صاحب السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مرسله لفافہ موصول ہوا.افسوس ہے کہ وہ بات میرے ذہن سے اتر گئی.اور ایفائے وعدہ میں تاخیر ہوئی.حسب ارشاد تحریر ہے کہ وہ مقامہ جس کے متعلق اس جگہ کے مجادر سے روایت ہے کہ جیسے علیہ السلام نے اس جگہ آکر دخظ کیا.وہ علاقہ تم نگاهم (کشمیر) سے تقریبا سات میل جنوب مشریا کے جانب واقع ہے.مجھے وہاں جانے کا صرف ایک بار اتفاق ہوا ہے.اہے.تایا ہوا تھا.کہ اس جگہ کا صاحب کی زبانی یہ معلوم ضرت جیسے علیہ السلام کے آنے اور وعظ کرنے کا ذکر کیا کرتا ہے تہ ہنگامہ سے کم و بیش ڈیڑھ دو میل کے فاصلہ پر لدرہ دن ایک گاؤں ہے.وہاں میرے تایا سید محمد صادق شاہ صاحب رستہ ہیں.ان کے خدا وہ علاقہ بوین تحصیل سند و ایاہ میں تیرے تایا صاحب کے داماد مولوی محمد یکی صاحب رہتے ہیں.وہ اس علاقہ میں استہ اور آدمی ہیں.اسی گاؤں کے مشرق کی طرف دومیل کے فاصلہ پر وہ چشمہ واقع ہے علم الترتيب چھوٹے بڑے پہاڑ اسے دامن میں چھپائے ہوئے ہیں.دوسری طرف نہایت ہی گھنا جنگل واقع ہے.جو کہ ترا دینھما الى ربوة کی آیت پر دلالت کرتا ہے.اور اسی چشمہ پر وہ مجاور رہت قصبہ بانڈی پورہ کے پاس ایک قیر نیام قیر مر سے مشہور ہے

Page 43

۳۵ اور اس کے قریب مقام آسٹو و تو ایک پہاڑی بنام موسے صاحب مشہور ہے.اور ایک گاؤں بنام لاوی پور ہے.ظاہر ہے کہ لاہی ایک مشہور عبرانی نام اور قبیلہ ہے.شالمار میں عبرانی حرون سرینگر کے شالا مار باغ کی ایک سیڑھی پر کچھ حروف کند معلوم ہوتے ہیں.کچھ مٹ گئے ہیں.کچھ تھوڑے تھوڑے باقی ہیں جو باقی ہیں.ان میں سے دو حروٹ کا دردل بخط عبرانی پڑھے جاتے ہیں.۱۷- موسائی قبریں کشمیر میں قدیم سے یہ رسم چلی آتی ہے.کہ بعض بزرگوں اور بڑے آدمیوں کی قبریں ایک خاص طرز پر بنائی جاتی ہیں.جن کے ایک طرفت سوراخ رہتی ہے.اور حضرت موسے کے نام پر منسوب ہو کر وہ موسائی قبریں کہلاتی ہیں.آباد کے دوست غلام احمد صاحب احمدی کا نے پورہ نے جو اس کا نقشہ کھینچا ہے.اور اس کا بیان دیا ہے وہ درج ذیل کیا جاتا ہے..موسائی تیر کا نقشہ اینٹوں کی ان بنی ہوئی

Page 44

لمبائی و فٹ.اُوپر سے ڈاٹ ہوتی ہے.چوڑائی.فٹ.4 اینچ - اونچائی و فٹ.سراخ پر پتھر رکھتے تھے.یہاں کے لوگ، خصوصاً سجادہ نشین مولوی واعظ - پیر زادے مرنے کے وقت علی العموم وصیت کرتے ہیں.کہ ہمیں موسانی قبر بنانی چاہیئے.موسائی قبر سے مشہور ہے.حلفیہ بیان عبد الخالق مسگر مرحوم را میرے بیجین کے زمانے میں اس سراخ سے خوشبو آتی تھی.اندا بکری سیلاب کے وقت اس سوراخ سے پانی اندر گیا.میں خوشبو آنا بہتر ہو گئی.مشهزاده یوز آصف بنی علیہ سلام کے نام سے مشہور ہے.کیا عبد الخالق مسگر محله دزه بل مفصل زیارت یوز آصف نبی العرسان ن سال : اب وہ آٹھ سال سے دار فانی سے چلے گئے ہیں.طالب دعاء : غلام احمد احمدی کا نے پشورہ : يا - موسائی قبروں کا ایک نمونہ اور نقشہ اور اس کے متعلق تفصیلی شہادست ہمارے دوست عبدالکریم خان یوسف زئی نے گلگت سے بھیجا ہے.جو فائدہ عام کے واسطے درج ذیل کیا جاتا ہے.بیان شیر خان ولد بلال احمد دین قوم نو بگیر عمر تخمینا ، در سال سکنه شیر د غذر (گیس علاقہ گلگت میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر بیان کرتا ہوں.کہ میں نے نے بچشم خود

Page 45

۳۷ پرانے زمانہ کا ایک قبر بمقام شمنونٹ (موضع سندھی ، علاقه با سین شمیر دیکھا ہے.جس کا حلیہ ورنہ نقشہ حسب ذیل ہے لپس ت نقشه J H DX نمونه قبر اندر تورین ) (1) 8.3 C.D = زمین کے اندر مدفون کره مطابق رہائشی مکره اس کے اندر اترنے کے لئے ایک طرفتہ کافی سوراخ کچی سیڑھی جو کمرہ کے اندر اُترتی ہے.کفن لاش رکھنے کے لئے کھلی جگہ در گڑھا وغیرہ ندارد ) ایک زمین میں گہری کھو دی ہوئی پھر ایک سر سے دوسرے سرے تک تگردی کا چھت (*) X = کره ای کا یا تھکن جو دروازہ کے اوپر دیا جاتا ہے.پتھر جو نکردی کے اسکن کے اوپر رکھا جاتا ہے.یہ ایک بکرہ کے ساکن کا ایک ہ کے سائز کا ایک زمین میں گرمھا کھودا ہوا ہے K اس کے اوپر ایک طرف مسلح زمین کے ساتھ ہی درمیان میں ایک

Page 46

نظر مرسم سوراخ ہے جس میں سے آدمی کھلا اندر جا آسکتا ہے.اگر وہ کھلا رہے.تو اندر سے ہر چیز خوبی اس سے نظر آتی ہے.وہ کمرہ اوپر سے لکڑی سے بھتا ہوا ہے.اس دروازہ کے ساتھ ہی نیچے فرش تک کچھی پتھروں کی سیڑھی ہے.اس کمرہ کے ایک بانی کی طرف تھوڑی جیسی چوڑی اور بہت گہری ایک سرے دوسرے سرے تک چہ زمین میں کھو دی ہوئی ہے.باقی فرش پہ انداز اچار مردوں کی علیحدہ علیحدہ ہڈیاں پڑی ہوئی رآتی ہیں.دور سے یہی اندازہ لکھتا ہے.کہ آدمی کا کر تنگ پڑا ہوا ہے.لیکن مجھے ایک آدمی نے وہاں کہا تھا کہ اگر اس کو جھوا جائے.تو وہ مٹی اور بالکل خاک ہے.دریافت حالات پر مجھے وہاں کیا شندگان نے یہ کہا تھا.کہ یہ پرانے زمانوں کی قبر کا ایک نمونہ ہے.اور یہ کہ ایسی قبر خاص خاص مشہور اور خاص خاص بزرگ آدمی کے لئے مخصوص تھی.کیونکہ اس طرف کر اسی کی بہت کمی ہے.نام طور پر یہ رواج نا ممکن تھا.مزید انہوں نے کہا.کہ جب کوئی لاش دفن کر نی ہوتی تھی.تو پھر اُٹھا کر دروازہ کو ایک طرفت کہ دیا جاتا تھا.تاکہ یہ بو وغیرہ نکل جائے.اور تازہ ہوا اندر جائے.پھر لاش کو کفن دے کر دروازہ سے نیچے اتارتے تھے.اور مصنوعی روشنی کے ذریعہ اس لاش کو قبیلہ شما فرش پر جھولی طور پر رکھدیا جاتا تھا.جیسے انتانات 359999- اس کے بعد اگر کوئی آدمی مرجاتا.تو پہلے بوسیدہ ہڈیوں کو اپنی جگہ سے کھیٹ کر چھر H میں ڈال دیتے تھے.اور خالی کردہ جگہ پر کہ

Page 47

۳۹ ترازه مُردہ کو رکھ دیتے تھے.یہ قبر آج تک کھ دیتے تھے.یہ قبر آج تک موجود ہے.اگر کوئی صا دیکھنا چا ہے.تو اب بھی وہاں جا کر دیکھ سکتے ہیں.نیز اسی قسم کی ایک اور قبر مقام گھٹ لاس پور (چترال) میں بھی میں نے دیکھی ہے.وہ قبر بھی ابھی تک موجود ہے.نیز ایسی ہی ایک قبر بمقام چترال مت کھو دیتے ہوئے خلیوں کو ملی تھی.جبکہ ہزہائی نس آف چترال کی شاہی مسجد کا کام خاص چترال میں شروع تھا.اس قبر میں سے ایک گھڑ.کھوپڑی بھی ملی تھی.فقط 20 گواہ شد: علی محمد امائن بین محکمہ تار ڈاکخانہ گوپس، رنگت کشمیر العبد : شیر خان لائن میں محکمہ تار ٹیلیفون سوس شیر و رگلگت) گوار ت : محمد تینت خان پوسٹ مین ڈاکئی نہ گوپس (گلگت) شمير ١٨- خیر پیسے کا گھر مارتند کے پاس سڑک کے اوپر ایک پنتھر میں ایک نشان دکھایا جاتا ہے.جس کو بعض لوگ حضرت امیر کے گھوڑے کا نقش قدم سلاتے ہیں.اور بعض لوگ حضرت میلے کے گدھے کے گھڑ کا نشان کہتے ہیں.کرنسیل کاک برن نے بھی لکھا ہے.کہ مجھے یہ نقش قدم جیسے کے گدھے کا گھر کر کے تتبلا یا گیا : ملاحظہ ہو.فوٹو :

Page 48

۴۰ باب چهارم دیگر کتابی شہادتیں ا عیلے اور یسوع کے نام پر بہت سے پرانے نام پر ملک کشمیر کی قدیم تاریخ اور جغرافیہ پڑھنے سے ثابت ہوتا ہے کو کئی ایک نام شہروں اور دیوتاؤں اور بادشاہوں اور معرہ زمین کے ایسے تھے.جن میں الفاظ یوز - پیسے.آصف وغیرہ آتے تھے.چنانچہ سٹائن صاحب کی ترجمہ کردہ راجہ ترنگئی میں کئی ! ایسے نام ہیں.جلوہ صفحہ ۳۴۹ میں پرانے دارالخلافہ کا نام ہیں.حصہ علی وارہ لکھا ہے.اس میں ہر دو الفاظ بوز اور کیسے شامل ہیں.۲- جلد ۲ صفحه ۲۸۹ - عبادتگاہ کا نام بیر - ستا.رور لکھا ہے.جو لیں.تھصہ نیسلے کی پرستش کے واسطہ بنایا گیا تھا.اس میں 1-.بر دو الفاظ بیسوچ اور جیسے مخفف موجود ہیں.ہو.صفحہ : ہو.بادشاہ یا لنکا کی ملکہ کا نامہ جیسا نا دیوی تھا.یہ نام بھی لفظ جیسے پر رکھا گیا معلوم ہوتا ہے.- صفحہ اور حسین دیوتا کی پرستش کی جاتی منفی.اس کا نام نتیجہ تھر جیسے تھا.

Page 49

۵- ایک مندر کا نام بھٹ، جیسا تھا.D -4- بدر گاؤں کے جنوب شرقی کی طرف ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ایک پرانا مندر بنام کیسے لایا.مہاتمیا ہے.(ملاحظہ ہو کتاب نه اجبا نزنگنی انگریزی ترجمه صفحه (۴۹۱) ے.کشمیر میں ایک بوٹی کا نام جیسے ہے جس میں یہ خاصیت ہے.کہ جہاں اگتی ہے.اس کے قریب کوئی اور بوٹی سرسبز نہیں.ہوتے پانی.(ملاحظہ ہو کتاب را جا نزنگنی فہرست منابین صفحه (۵) یسوع کے لفظ پر اور کئی ایک نام شہروں اور آدمیوں کے قدیم آیام میں ہو چکے ہیں.مثال کے طور پر رو لیسا سکارا (ب) سودا را (ج) بیسو نگاه (د) پیوستی (3) سوراجا رو پسووریا (2) بیسو دتی.ایک ملکہ کا نام تھا.ریاحظہ ہو ، کتاب راج ترنگنی انگریزی صفحه (٥٥) (7) مقام سیمین یا سور کتاب راج ترنتی انگریزی صفحه ۵۴۰ -9 مسٹر بارنٹ کی کتاب اشکودیڈیٹر آف انڈیا ر آثار قدیمکه سندوستان کے صفحہ ۱۴۳ میں لکھا ہے.کہ قدیم سندیں ایک دیوتا کا نام عینہ نا تھا اور ہندوستانی لوگ اس کی پرستش کیا کرتے تھے

Page 50

۴۲ شد و لوگ ہر قوم کے بزرگوں کی عزت کرتے اور ان کو اپنا دیوتا بنا لیتے تھے کچھ تعجب نہیں کہ جیسے کو بھی اپنا دیوتا بنا لیا ہو.ا.اسی کتاب کے صفحہ ولہ میں لکھا ہے کہ کہ میں ایک بادشاہ جیسے دارا نام تھا.اور اس کے بیٹے کا نام عیسے تا دریا تھا ۱۱- اسی کتاب کے صفحہ ۲۰۳ میں لکھا ہے.کہ ایک مہینہ کا نام ا.عیشی تھا.۱۲.اسی کتاب کے صفحہ ۱۲۹ میں لکھا ہے کہ علم نجوم میں سب سے اُونچی جگہ عیشی پر گھبارہ کی ہے.جو چھتری کی طرح ہے.اور اس میں نجات یافتہ روحیں رہتی ہیں.۱۳.اسی کتاب کے صفحہ ۲۴۶ میں لکھا ہے کہ خیبر کے پاس ایک مندر ہے.اس کا نام عشق پولا ہے.۱۴- اسی کتاب کے صفحہ ۴ ۶ میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ لطیفہ خان نام کماؤں میں حکمران تھا.بہ اسی کتاب کے صفحہ 4 میں لکھا ہے کہ سرے سر میں دھوائی میں جو بادشاہ تھا.وہ یسوع کا کی اولاد میں سے تھا.۱۶- اسی کتاب کے صفحہ ۲۶ میں لکھا ہے کہ عیش ورد عینی در خدا تعالے کا نام رہے.۱۷.اسی کتاب کے صفحہ ۴۶ میں لکھا ہے.کہ شہ میں مغربی کشتریا کا بادشاہ کا نام بیسوع دم تھا.۱۸.اسی کتاب کے صفحہ ہم ہمیں لکھتا ہے.کہ دور تا د یو جو بادشاہ گزر رہا ہے.اس کے باپ کا نام بیسوع دید تھا : -

Page 51

19 اسی کتاب کے صفحہ ۵ے پر رکھا ہے کہ سہ میں وسط ہند.کے ایک بادشاہ کا نام یسوع دمصر من تھا.۲۰.اور نشہ نہیں ایک راجا کا نام لیسبوع بھٹیا تھا.۲۱- اسی کتاب کے صفحہ ۳۷۱ میں لکھا ہے.کہ دجیا گڑھے کے قریب ایک راجا کا نام یسوع در دیہاتا تھا.اور ایک در انبار کا نام سبوع رانا تھا.ا يا الله ۲۲ - ۱۹۶۵ء میں قنوج کے ایک راجا کا نام لیوی و دیارا تھا ۲۳- اسی کتاب کے صفحہ ۵۰ پر لکھا ہے.کہ شطه قبل عیسوی.میں بیسوع دھر من را جانے کشمیر پر قبضہ کیا.۲ - کتاب اصول کافی کی روایت حضرت خواجہ جلال الدین صاحب شمش کا شمیری رسابق مبلغ شام و مصر ب نے میری توجہ مشہور کتاب اصول کافی کی طرف منعطف کرائی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا نہ مانہ گزرا ہے کہ کشمیر کے ساکنین سب توریت و انجیل کے ماننے والے تھے، وہ عبارت منہ ترجمہ ذیل کی جاتی ہے.علی بن محمد وعن شير واحد من اصحابنا القيمين عن محمد بن المعامري عن إلى سعيد غانم الهندي قال كنت بمدينة الهند المعروفة بقثمير المداخلة واصحاب لى يقعدون على كراستي عن يمين الملك اربعون رجلاً كلهم يقرء الكتب الاربعة التوراة والانجيل والزبور و صحت ابراهیم نقضى بين الناس والفقههم في دينهم ونفيتهم

Page 52

۴۴ في حلا لهم وحرا مهم يفزع الناس الينا الملك فمن دونه فتحاربنا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقلنا هذ) النبي المذكور فى الكتب قد خفى علينا مره ويجب علينا الفحص عند وطلب اثره واتفق رأينا و توافقنا على ان اخرج فارتا دلهم نخرجت و معی مال جلیل فسرت اثنی عشر شهر حتى قربت من کا بل فعرض کی قوم من الترك فقطعو ا على وأخذ وا مالی و جرحت جراحات شديدة و دفعت إلى مدينة كابل فائضة في ملكها لما وقعت على خيرى الى مدينة بلخ وعليها اذ ذالك داؤد بن العباس بن إلى الاسرد فيلغة خبري والي خرجت می نا دا من الهند وتعلمت الفارسية و ناظرت الفقهاء واصحاب الكلام فأرسل الى داؤد بن العباس نا حضر في مجلسه وجسم على الفقهاء مناظروني ما علمتهمانی | خرجت من بلدى اطلب هذ النبي الذي وجدته في الكتب فقال لى من هو وما اسمه فقلت محمد فقال هو بينا الذي تطلب نسألتهم من شرا ئعك (اصول کافی ص۳۳۲ کتاب الحجة ، ترجمه: علی بن محمد اور اس کے علاوہ اور کئی قیمتی دوستوں نے محمد بن محمد عامر اور اس نے ابو سعید خانم بندی سے بیان کیا، کہ اس نے کہا.میں ہندوستان کے ایک شہر میں تھا.جو کشمیر داخلہ ریعنی اندرونی کشمیر کے نام سے مشہور ہے.اور میرے اور بائیں ساتھی تھے.جو بادشاہ کے دائیں جانب کرسیوں پر بیٹھتے تھے اور - سب کے سب کتب اربعہ تو رات انجیل زبور مصحف ابراہیم پڑھتے

Page 53

ہوتے تھے.اور ہم لوگوں کے جھگڑ وں کا فیصلہ کیا کرتے اور انہیں ان کے دین میں خفیہ بناتے اور انہیں حلال حرام کے متعلق فتوی دیا کرتے تھے.بادشاہ اور اس کے سوا سب لوگ ہماری طرف رجوع کرتے تھے.پس را یک دن، رسول اللہ صلعم کا ذکر چل پڑا.تو ہم نے کہا.اس بنی گا تو ہماری کتابوں میں ذکر موجود ہے.اور اس کا معاملہ اس وقت تک ہم پر مخفی رہا.اس لئے ہم پر واجب ہے.کہ ان کی لاش کریں.اور اس کا پتہ لگائیں.اور جب ہماری رائے اس امر متفق ہو گئی.اور ہم سب نے اس پر موافقت کا اظہار کیا.کہ ہمیں ان سے اس امر کی تلاش میں نکلوں تو میں بہت سا مال لے کر نکلا.بارہ ماہ چلتا رہا.یہاں تک کہ میں کابل کے قریب پہونچا.تو کچھے نہ کہ مجھے ملے.انہوں نے مجھے پر ڈاکہ ڈالا.اور میرا مال چھین لیا.اور مجھے سخت چوٹیں آئیں اور میں شہر کابل میں لے جایا گیا.اور اس کے بادشاہ نے میرے حالات پر اطلاع پانے کے بعد مجھے شہر لیجے میں پہنچا دیا کے اور اس وقت رنگیں ہلتے دائر دین العباس ابو اسود تھا.اور ا میری آمد کی خبر ہو پہنچ گئی.اور یہ کہ میں سندوستان سے تلاش ہیں ہوں.اور میں نے فارسی نہ بان بھی سیکھ لی.اور فقہاء اور مشکلمین سے مناظرات کئے.تو ایک روزہ دائر دین عباس نے مجھے اپنی مٹیکس میں ہلایا.اور بہت سے فقہار کو جمع کیا.تو انہوں نے مجھ سے مناظرہ کیا.تو میں نے ان سے کہا کہ میں اپنے شہر سے اس نبی کی تلاش میں نکلا ہوں جس کا ذکر ہماری کتب میں ہے.تو اس نے کہا.وہ کون ہے.اور اس کا کیا نام ہے.تو میں نے جواب دیا.اس کا نام محمد ہے.اس نے کہا.وہ

Page 54

تو ہمار ابنی ہے جس کی تو تلاش میں ہے.تو میں نے اس کی شرائع کے متعلق دریافت کیا.جو مجھے انہوں نے بتائیں.- ایک پیرانی تاریخ کا حوالہ کشمیر میں غلام نبی صاحب گلکار ایک پرانے کشمیری خاندان کے نمبر ہیں.ایک دفعہ میں ان کے مکان پر گیا.تو ان کے کتب خانہ میں ایک پرانی تخلمی کتاب بزبان فارسی دیکھی جس کی ورق گردانی کرتے ہوئے اس کے صفحہ ۲۲۲ پر یہ الفاظ سیکھے ہوئے ملے.در معالم تنزیل مسطور است که شصت و پنج سال از استیلائے اسکندر در زمین بابل گذشته بود که صبیح علیہ السلام توالد نموده وچوں بودکه سین شریفش میسی سالگی رسید مسعوت گشت و در سی و سه سالگی از بیت المقدس بجانب دادی ( قدس مرفوع شد بیت المقدس تو سب جانتے ہیں کہ فلسطین میں ہے.فلسطین سے حضرت پیسے وادی ان کی کو چلے گئے.وادیاں آسمان پر انہیں تو زمین ہر ہی ہوتی ہیں.اس میں سات انتشارہ وادی کشمیر کی طرف ہے : اس علمی کتاب سے ان الفاظ کا فوٹوعہ میں ملاحظہ ہو.اور یہ تاب اب غلام نبی صاحب گھتکار کا عطیہ قادیان کی مرکزی لائبریری میں موجود ہے.عیسی مسیح اندلس میں اسی قلمی کتاب کے صفحہ ۲۲۷ میں یہ بھی سکھیا ہے.کہ حضرت جیسے علیہ السلام اندلس بھی گئے تھے.چنانچہ اصل عبارت یہ ہے کہ در متون کتب تاریخی در اختیار مرقوم دا نظام بدائع آثار گذشته

Page 55

کہ تو نے گذر سیح علیہ السلام با جمع کثیر از اصحاب بدایت و ارباب عورات بر زمین اندلس افتاده پھر اسی کتاب کے صفحہ ۲۲۹ میں لکھا ہے.کہ و در بسیارے از کتب معتبر مسطور است که بعد از انقصنا ئے شمش روز ازین قضیه در شب سفته آفرینده افلاک و انجم عیسی علیہ السلام را بزمین فرستاد با سیخی بن زکریا - و مریم و بعضی از حواریون ملاقات فرموده نوبتے دیگر لوازم وصیت بجا آورده..مراجعت نمودن ' حلی و با نه جیسے علیہ السلام یعنی واقعہ صلیب کے بعد حضرت علیے علیہ السلام زمین پر پھرتے رہ ہے.اور پھر مراجعت کر گئے.کہ ھر گئے.یہ نہیں لکھا.کہ آسمان کی طرف گئے.ہم - منقول از تاریخ با یخ سلیمان مصنفہ میر سعد اللہ صاحب شاه آبادی - کشمیری ستید با صفا نصیر الدین هست از ان و اصلان بز مرافقین رونه او به خانیار سره نیست اندر مکان انزمرہ هم در ان روضه است نشان خبر پیغمبر بیست نور افشان بر که نز دیک آن عنان تا بد بوئے خوش در مقام خود دیا بد نقل کردند را دیاں کہ بکام بود شہزاد ها بفضل تمام ترک دنیا نمود و سالک شد در مقاهم سلوک مالک شد بندگی چون نمود با اخلاص شدی خمیری ایزدان خاص گشت مبعوث خفق و شد هادی عاقبت رفته است ازین دادی

Page 56

بہت آن مشکبوئے تربیت او که به یو آصف است شهرت او ۵- ایک پرانی قلمی کتاب جو تاریخ انبیاء معلوم ہوتی ہے.کشمیر میں ایک دوست کے مکان پر ملی.اس کے صفحہ ۲۲۰ پر لکھا ہے.بچوں جیسے سیاحت بسیار مے کر د ملقب به سیح شد.اگر مسیح نے بعد واقعہ صلیب مشرق کی طرف لیے سفر نہیں کئے.تو پھر سیاحت بسیار معنے ہو جاتی ہے: کتاب تاریخ کبیر کشمیر الموسوم تخالف الابرار في ذكرا وليا والافيا جلد اول مطبوعہ امرت سر انجری کے مسلمہ ہم سا میں لکھا ہے :- سید نصیر الدین خانیاری عالی درجه است و عمر خود را اکتمان حال گذرا بند - قریب خانیار زیارت ایشان در میان خاص و عام مشهور است و مقبره اُس را رو مته بل می نامند و بجوار قبر مبارک سید جانب جنوب بعزت پائے الینشان سنگ ترین واقع است گویند که در زیر آن پیغمبری مدفون است و بنا بر آن آن مقام را بنظام پیغمه شهرت دارد و خواجه اعظم سے نوید که در زمان سابق یکے از سلاطین زا دیا در پال سائی و تقوم بدرجہ قصوئی رسیده بر سالت آن خطه مبعوث شد و بدعوت مهنلا ان اشتغال نمود.نامش بوز آصف بود بعد رحلت در محله آثز مره قریب خانیار اسود و صاحب اسرار الاخیاره از وقائع تک کشمیر که تصنیف ملا احمد علاقه است نقل می کنند که سلطان زین العابدین عبد الله بینی را پاکستان کثیر و تخالف دلپذیر از جانب خود نزد والی معرکہ بادے مؤدت قلبی داشت روانہ کرو.پس مدینہ مصرسم از طرف خود یون آپ که از احقا و حضرت موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا

Page 57

شہر سرینگر میں ایک قبر

Page 58

Fra شیخ علیه السلام بود نزد و سلطان زین العابدین بطریق رسالت مامور ساخت چون سفیر ند کور وارد کشمیر شد با سلطان مراسم تعظیم و تکریم کا انتون بیا آورده بازپس رخصت یافت بعد چند گان بر است سید نصر الدین بیہقی که از جانب سلطان نزد شریعت لکه بطور رسالت وکالت رفته باره آمده و از جانب شریفت لکه بطور رسالت کا غذ گلو از بنده نصائح بود و در میان نامه سوره واقعه بخط کوفه مصومت بود که مطابق مضمون ہمیں سوره عمل باید کرد.پس یوز آپ ہوا نفت و مرافقت سید موصود تا نظر خود را درین دیار ببر برو فقط و از مرقد شریعت ا و ایجائے ننوشت کذا فی تاریخ حسن و اہل تشیع اعتقاد میدارند که یوز آصف از احفاد حضرت امام جعفر صادق است رضی الله عنه موجب آن در مقبره مذکوره آمد و رفت میدارند و در کتاب سوانح عمرسی که بزبان عربی است مرقوم است که یوز آصف مذکور راجه زاده بود ساکن مقام مسئولایت از وطن مالوف خود سیرکنان در کشمیر سپیده بعد توقفت در آنجا انتقال نمود و در محله آنز مره مدفون شده و شله آئزه مره از محله خانیار و از مقام روضه بل محله عبد اگا نہ جا نب غریب واقعه است فقط و نیز میگویند که در وقت را جه گو پاند که حاکمباین شهر بوده از جانب سوراخ دیوار مغربی زیارت گاہ موصوف ہوئے.نافہ مے آید ز نے ہوا کے زیارت آمده بچه شیر خوار همراه او بود.او بول کرد و در سوراخ رسید بوئے نافہ ازان وقت با زیبا مه زن مذکوره دیوانه شد فقط - باید دانست که سرگاہ کے از لہو کے قطع ویقین میگوند که در مقبره مذکور پیغمبری از پیغمبران با زمینه حضرت

Page 59

جیسے روح اللہ علی نبینا وعلیہ الصلاة و السلام مدفون است بیگمان ایں کہ ترجمہ کیسے بزبان سریانی یوز آصفت است محسن کذب و افتزار دبستان در میچ است لا يعتبر نولد ويقصبل وعواه عند علماء اهل السنة والجماعة مطلفا.و بعضی می گویند گرسنگ نزیت مذکوره علامت و نشانه قبر خلیفه ایشان است و الله اعلم بحقيقة المحال رفوٹ: اس کتاب میں مذکوره إن مضمون حضرت مسیح موعود عليه الصلاة و السلام کی تحریروں کے بعد لکھا گیا ہے.اس واسطے اس میں مخالفانہ طرز اختیار کیا گیا.جیسا کہ علماء اسلام پہلے جمعہ کے خطبوں میں پڑھا کرتے تھے.موسیٰ کی کیسے کیا.یعنی ہر دو قوت ہو گئے مگر اب انہوں نے خطبوں میں یہ پڑھنا چھوڑ دیا ہے.اور اناجیل کی جن آیات پر حضرت مسیح موعود نے اعتراض کئے تھے.عیسائیوں نئے نئے نسخوں میں سے وہ آیات ہی خارج کر دی ہیں.یا ان کے الفاظ بدل ڈالے ہیں.نات قلمی کتاب و میز اقتدار یخ کے صفحہ ۲۶ پر رکھتا ہے.تمیز ، ب مسید نصیر الدین مقبره بیر در حمله نا نیاره که بر و هنده بل مش بود است واقع شده گویند دره استخانه پور آصف پیغمبر است که یکی از سلاطین زاده در اینجا آوری پرده زهد و قنوات شناخته در سالته مردم کشمیر جوسته شده به خواه خلائق استدار شود مگر بند در این وقت راجه اشند فر ما خود است این شهر برده در سودا یخ و یواز مغربی زیازنگاه سوقت اسکے نا فہ ہے آید

Page 60

کشمیر میں قبر موسے کتاب و جیز التواریخ قلمی کے صفحہ ۲۶ پر لکھا ہے.سنگہ بی بی از عارفات معروفه بود در ریاضت گوئے از مردمان را بود نزدیک مقبره او مکا نے است مشہور ہغیر مو سے ربیبہ مقبرہ علاقہ باندی پور ہیں ہے.ایک قلمی تاریخ کی شہادت حضرت سید زین العابدین شاہ صاحی با حجب ۱۹۳۶ ء میں کشمیر ائے تھے.تو انہوں نے ایک شخص کے پاس ایک عربی تاریخی قلمی کتا ی تھی.جس میں پور آسفت کا ذکر ہے.اور لکھا ہے کہ وہ ایک - شیخ کبیر تھا.جس کا نام یونہ آسمت بنھا.جو باہر سے کشمیر میں آیا.اور اہل کشمیر کو وعظ و نصیحت کرنا.اور اس کی نصیحت سے لوگوں نے.سیسکی اختیار کی.اور وہ بیماریوں کہ اپنی دعا یہ صحت دیتا تھا شروع شر دیتے ہیں وہ بہت خشمگین ، سنتا تھا.لیکن قریبا ۶۵ سال اس ملک ہیں.اپنے اندر بہت اہل کشمیر کی اصلاح کے بعد اس کے ہموم نفس ہے دور ہو گئے.حضرت شاہ صاحب نے اس کتاب کے ان در صفحوں ون ہیں.باتیں لکھی ہیں فراڈے لیا تھا اور وہ فوٹو حضرت شاہ کے پاس محفوظ ہے.اس میں یہ بھی لکھا ہے.کہ وہ جب کہ کے ہاتھ اور پاؤں مقدرم رہتے تھے مگر بعد میں اچھے ہو گئے.نما لیا صابي سخوں کا اثر تھا.جو ابتداء میں پانی تھا.اس میں یہ تھا ہے کہ اس کے دس سواری تھے.دس مالی اسی واسطے کہ پطرس پیتے رہ کیا.اور یہودا اسکر یوطی نے خود کشی کر لی تھی.اس میں یہ بھی لکھا ہے

Page 61

کہ ان دس حوار لوگ کو نہلایا.یعنی پتسمہ دیا.اور کہ وہ پیاروں کو دُعا سے شفار دیا تھا.- كتب سنسکرت میں حضرت عیسے علیہ السّلام کے دوستان آنے کا ذکر ہمارے عزیز نوجوان با بو شیخ محمد شر ما فاصل سنسکرت کراچی سے اپنے اور جنوری حسن کے خط میں تحریر فرماتے ہیں:- حبت هم الله الرحمن الرحيم سمدة وتصلى على رسول الكريم قبلہ جناب حضرت مفتی محمد صادق صاحب دام طاكم السلام علیکم و رحمته الله و برکاته دا عارضی ہے کہ کسی کی آمد سند و سیستان کا مندرجہ ذیل ثبوت سند و عداد ایک بار شکر دیں کیا راجہ شنا ایسا سین سہالہ کی چوٹی پر گیا.تو طاقت کے راجہ نے ہوں دیش کے نیچے میں ایک پہاڑ پر بیٹھے ہوئے ایک گورے رنگ والے سفید کپڑے پہنے ہوئے انسان کو دیکھا.راجا نے اس سے پوچھا.آپ کون ہیں.وہ خوش ہو کر ہوں میں کنواری کے گر بھ سے پیدا ہوا خدا کا بیتا ہوں.ایشور کی صدارتی پردے میں پر اسپتا ہونے کے کارن میرا نیسے کسیح یہ نام مست ہور ہے ؟ در بیوشیہ پرانی ہوتی ہرگے کھنڈ ۳.اومد پائے ۲ شکوک (۲ تا ۳۱) (۱۰) ایکانند و تصنیف سے ہمارے خیال کی تائید ایک اور بات قابل ذکر یہ ملی کہ ایک رامائن کی کتاب کسی بنده نے لکھی ہے ، اس میں ایک جا وہ لکھتے ہیں کہ حضرت کیلئے مسیح جن

Page 62

سیستان کا ڈنکا آج بڑے زور سے بیچ رہا ہے.وہ بھی تحصیل علم کے لئے مہندا ایں میں ہی آئے تھے.اخبار نائن لیتھے سینچری اکتوبر عشاء کے مشاہ میں ایک مضمون شائع ہوا تھا.کہ ایک کہ وسی سیاح ایم تو او در کو ثبت کی خانقاہ مقام نہیں میں ایک کتاب علی ہے.جو یسوع مسیح کی سوانح عمری ہے.اس میں لکھا ہے.کہ وہ ہندوستان میں براہمنوں اور بد و بیچاریوں سے تعلیم پاتا رہا.اسی طرح سندھ کے قدیم مستان کھودنے سے پیڈنگٹن صاحب کو عبرانی زبان میں ایک بائیل علی معنی تھی جس میں لکھا تھا.کہ جیسے مسیح نے ہندوستان میں تعلیم پائی کا قدیم مشهد دستان منت، رامائن بطرته تا دل صد (۳) با اار مسیح کی نامعلوم زندگی مندر استان است تم ہوتے ہوتے نکولس ناٹو وچ ایک روسی سیاہ تھے.جو سال کے قریب نے کشمیر در حرکت سے گزار کر ادارن پہنچے اور وہاں بہار رہ کہ بدھ مذہب کی ایک خانقاہ میں کئی اور ہے جہاں بدھ مذہب کے علماء انہیں اپنے کتب خانہ میں سے پرانی کتا ہیں تو تمہ کر کے بتا یا کری کے تھے ان میں انہوں نے پینے کے حالات پڑھ کر سنائے.جو بالکل سیخ ناصر کی کے معانات تھے.اس کتاب کا ترجمہ کر کے وہ ساتھ لے گئے.اور فرانسیسی زبان میں ایک کتاب لکھی جس کا نہ کہہ انگریزی میں میں شائع ہوا.اس کتاب کا The unknown Life of Jesus Christ

Page 63

OF ہوں نسیج کی نا معلوم زندگی.اس کتاب.الباے ظاہر ہے کہ بیورع چھوٹی میں اس طرف آیا.اور جب میں سال جب عمر کیا ہوا نہ تو نہیں ا اور یہی سبب ہے کہ اناجیل اربعہ میں اس کی زندگی کے ابتدائی تین سالوں کا ذکر ہے.اور اس.اور اس کے بعد آخر میں تین بہاریں کا ذکر ہے.درمیان کے ستائیس سال کی بابت انا جبیل بالکل خاموش میں اس کتاب کا اب اردو زبان میں بھی ترجمہ ہو گیا ہے.ہیں.اس مضمون پرخان بها در شام محمد صاحب کے نام ان کے ایک بہت کا خط قابل اندراج ہے.اس کا بیٹے درج ذیل کیا جاتا ہے.محمدة يصلى على رسوله الى بسم الله الرحمن الرحيم وہ ال اره خانصاحب سلمہ اللہ تھانے ! در وعلیکم السلام : محمد کو آپ کا نوازشش تا مر در برفروری کا آج ۲ر ارچ شاہ کو ضلع خیرہ کہ چور سے ایک صحرائی مقام پر ملا ہے وانتی میں لے لیا شیر کے قیام ے قیام سے زمانہ میں داں کے پرانے کمالات دریافت کرنے میں بہت کچھ کو شش کی.اور بہت سا مواد جمع کیا.اور بودھی زبان کی بہت سی بیانی کتا چنانچه مسجله بان کا قده کے دور میں گرنے والی کتاب کی اصل کاپی ی ترمیمہ کو میں نے بھی تھا تھا.یہ اصل کیا میں سے بہت کچھ مخلونا حضرت علیه السلام باد ناصری کی : ندگی کے اکثر حالات اور اس علاقہ میں آتا اس کتا ہے ثابت ہوتا تھا.اور موجب تحریر اس کتاب کے میں نے اس درخت اور تالاب کا ہینڈ لگایا جو لداخ سے لامہ کو جاتے ہوئے بہت دُور جا کر راستہ میں آتا ہے.حاصل کلام نہیں ان سب معلومات کو ساتھ لے آیا

Page 64

کیونکہ مجھکو ان علاقوں کی زبانوں کا حال اپنی تاریخ پیڑ انس ہمالیہ کھنا تھا.بندہ آپ کی خدمت یا چند دفعہ گلگت اور بونجی میں حاضر ہیں تھا.اور وہاں بھی اپنے جنون کی تحقیقات میں رہتا تھا.مجھ کو حضرت جیسے علیہ السلام نالہ نہیں کچھ نئے حالات سے بہت دلچسپی سے ولیکن سب کچھ منا ایک کو بیٹھا.ویسے علاقہ تہت میں آنا پرانے بوڑھوں کے زبان زد بھی تھے.اور ایس ثانیہ اور ریاست کا میں نے پتہ دیا ہے.پہل اللہ کے مین کو حاجی صاحبان کے اکثر ممبر جیہا سنتے ہیں.زیادی رهایی شاه محمد ساب در خو هم این صادات مستند شرخ وی را تفت تھے.بلکہ اور میں اس دہشت اور تان بیا کا پتہ بہت مفصل ان ہی احب سے ملا تھا.جو میں نے تو کیا ہوا تھا.لکن ہے کہ حاجی صاحب ان حالات پر روشنی ڈال سکیں و خاکسار نظام الدين، كورد شیر شتر مقام تو تار صلح سالم ہے التجميل فتح بر صلیب کی عیسائی خانقاہوں میں سے ایک پرانی انجیل مکمل تھی.ہجو مصر سے اٹلی اور اٹلی سے جرمنی اور جرمنی سے امریکہ پہونچی.وہاں انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہوئی.اور اس کا نام ہے.The Crucifixion by an Eyewitness واقعہ صلیب مسیح کی چشم دید شہادت اس کتاب کو حضرت میاں معراج الدین صاحب دیکھیں لاہور نے اردور

Page 65

میں ترجمہ کر کے مارچ 191 ء میں شائع کیا.یہ کتاب فرقہ ایسی نیز کے ہرنے لکھی جو واقعہ صلیب کے وقت موجود تھا.اور اس میں صاف اقرار کیا گیا ہے.کہ مسیح صلیب پر مرا نہ تھا.بلکہ بے ہوشی کی حالت میں صلیب سے اتارا گیا.اور ایک کھلی غار نما قبر میں رکھا گیا ، در ستون کی توجہ اور کوشش سے آہستہ آہینہ آرش میں آگیا.گو آرش میں آگیا.گویا درباره زندگی پائی اور چند روز دوستوں کے پاس رہ کر کسی ملک کو چلا گہ متفرق تائیدی شہادتیں ۱- تولیت نامه قبر یو نه آسعت یہ تولیت نامہ ڈیڑھ سو سال سے قبل کا لکھا ہوا.آج کل ایک نصاب کے قبضہ میں ہے.جس کا نام عمله معنائی ہے.اور محلہ خانیار میں رہتا ہے.جہاں حضرت جیسے علیہ السلام کا مظہر ہے.اس توریت نہ اقو او ملاحظہ ہو.اس میں صاف لکھا گیا کہ یہ ایک بھی کی قبر ہے جو راجہ کو پانند کے زمانہ میں منہدوستان آیا تھا.راجہ گو با شنید کا زمانہ گھوٹا حضرت عیسلے سے بھی قبل بتلایا جاتا ہے.مگران تاریخوں کا تقرر

Page 66

{ قیاسی ہے.اور اس میں دو چار صدیوں کا فرق ایک معمولی سے بات ہے.اور دیگر روایات سے اس شہزادہ نبی کا زمانہ انیس سو سال کے قریب بتایا جاتا ہے.پس یہ بنی سوائے حضرت جیسے کے اور کوئی نہیں ہو سکتا.اس تو لیت نامہ کی اصل عبارت بزبان فارسی درج ذیل ہے:.خادم شرع محمدی مفنی ا فاصل درین و لا در محکمہ علمیہ عافیہ دار العدالت فضا یا حاضر آمده سمی رحمان خان دادا میر بار گر اور مال نہیں سند کہ بزیارت شریف یوز آصف پیغامبر علیہ السلام مرقد یکه مشتمل به صرف امراء و وزراء وسلاطین در دسا و خواهم و خواص براه نذر و نیا نه مرسته آن را كلينا وسعيد حقدار است.دیگر آن را از مداخلت امتناع بود بعد اخذ شهادت همچنین ثابت شد که در عهد منگوست راهبه گو باشند کہ باقی شرارت کو سلیمان و یک شانها بسیار است سمجھے مرتاضی یوز اصبحت ناهم پادشاه زاده سندوستان که تارک دنباسنشده منوری و مفرد است روز و شب از ریاضت و عبادت خدا وند تعالے نے آسود - اکثر در خلوت میگذارند تا آنکه بعد فروشدن آب طوفان نوج کشمیر آباد شده بود و مردمان همگی و ثبت پرستی اشتغال دروز دیدند - یوز آصفت پیغامبر بر رسالت مرد بان کشمیر مسعوشت بنده برراه توحید میخوانده تا سال اجلش در رسید و ممانت یافت که درین زمان باسم روضته بل شده بشور است سال نشر بجری سید نصیر الدین

Page 67

از او نادر امام موسی علی معنا است - بجوار یوز آصفت تدفین گزید چونکه زیارت گاه مرجع خواص و عوام است درحمان خان مذکور از قدیم نسلاً لاً بعد نسبیل خدا اسم زیارتگاه است ہمیں قدر که اعالی و اسافلی نقدر نیاز میر سده ده را حقدار است و دیگران را استحقانی درست ار جمادی الثانی شاجو نیست، لہذا شقیقه ها اسند باید المرقوم لر جمادی ا تیری تغیر یا با محمد اعظم ☑ عبد الشكور ية یا شہری محمد اکبر میری محمد اعظم 0 م ادم درگاہ میر ی محمد اکبر مهدی حافظ حسن الله میری رضا امیر کبیر ، نشان قائم شاه خضر محمد مہری عطا ہ بیسوی بیوی کشمیریوں کی ایک قوم کا نام ہے.شیخ قائم میسوری بابا محمد ولی نبوی اور کئی ایک ولی اس نام کے ہوتے ہیں جن کے ناسم درج کتب تواریخ بھی ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ سوئی سے بگڑ کہ یا اختصار ہو کر سیوی لفظ بن گیا ۳ خانه دامادی کا رواج خانہ دامادی کا رواج کشمیر میں عام ہے.بسا اوقات خانہ داماد کے ساتھ میعاد بھی مقرر کی جاتی ہے.کہ کتنا عرصہ خسر کے گھر ا ہیگا.یہ دستم بھی بنی اسرائیل سے کشمیر یوں ہیں آئی ہے.

Page 68

09 عن ابى هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال كانت بنو اسرائيل يتسلون عُراة ينظر بعضهم إلى بعض بخاری شریعیت کتاب العمل باب من اغتسل عريانا وحدة من الخلوة و من تستر والنترا المثل لام نظیر در مصر جلد اول - ترجمه حدیث بخار کی شریعت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا.کہ بنی اسرائیں ننگے نہاتے اور ایک دوسرے کو لیے جراب دیکھئے.کشمیر کے دوستوں سے معلوم ہوا کہ اور معلوم ہوا کہ ازل تعمیر کی بھی این عادت چلی.ی آتی که مردم سی ایک جنگ شد ایک جگہ کے نہاتے.بات سے کچھ شرم نہیں کرتے مولوی قاتل شهلا هبه اختيار السلامة اپنے خط خاری کی ایک حد بہت ہے.کہ بنی اسرائیل ننگے اور اکٹھے نہایا کرتے تھے.کشمیر میں یہ تم عام ما بیچ ہے.اور اس کو محبوب نہیں سمجھتے ننگے بناتے ہیں اور اکٹھے کیا ایک یہودی عالم کی بنائی ہوئی علامت میں متر حد قبل ایک یہودی عالم ہیں.جو ابیاتی جو میں میں رہتے ہیں.اے ایک یہودی درسگاہ کے ہیڈ ماسٹر اسرا تھے.اب پنشن لے چکے ہیں نے بی.اے کے امتحان میں جب حیرانی کی تھی.تو وہ تھی تھے.اس وقت سے ان سے تعلقات ہیں.میں نے انہیں خط لکھا کر کیا آپ اس مسئلہ پر کوئی روشنی ڈال سکتے ہیں.انہوں نے جواب دیا

Page 69

کا ** ایسی ہے.کہ جس سے اس امر کا فیصلہ بآسانی ہو سکتا یہود اپنے مذہبی حکمہ کے لحاظ سے کھانے میں گھی بیکھن یا چربی ہے.ڑکا نہیں لگاتے.صرفتہ تیل کا تڑکا لگا تے ہیں.اور اگر وہ دوسرے ملک میں چلے جائیں تب بھی یہ بات بطور عادت ان میں قائم رہتی ہے.آپ دریافت کریں کہ کشمیری کسی چیز کاتر کا گاتے ہیں.اور میں نے جب اس کی تحقیقات کی.تو معلوم ہوا.کہ وہ تیل.بل کے سوا کسی چیز کا ترم کا نہیں لگاتے.جو ان کے یہودی النسل ہونے کا زبردست ثبوت ہے.مولوی ہمدانی صاحب ایک کشمیری لیڈر ہیں.موجودہ یاسی تخریب میں انہیں حد ہو کشمیر سے نکل جائے کا حکم دیا دیا گیا تھا.اب پھر واپسی کی اجازت ملی تو میں ان سے ملنے گیا.اور دریافت کیا کہ کیا حال ہے.کہنے لگے ، کہ اس طرفتہ سب کھی کا نظام کا لگاتے ہیں.اس لئے میں ہمیار ہو گیا ہوں.تو تیل کا نڈ کا کشمیریوں کا قومی روازچ ہو گیا ہے.اور امیر و غریب باتیں ہی کارہ کا استعمال کرتے ہیں.اور اس طرح مسرح قبیل کی بنائی ہوئی علامت کشمیر نبوی میں موجو د ہے.،.بھائی کی بیدہ ستہ شادی کرنیکا رواج کشمیر میں یہ رواج عام ہے کہ ایک بھائی کے مرنے پہ دار مصر اس کی بیوہ سے شادی کر لیتا ہے.یہ رواج بھی بنی اسرائیل سے ان میں آیا ہے.کیونکہ تو ریت ہیں یہ حکم ہے.کہ تو اپنے بھائی کے لئے اس کی بیوی سے نسل چلا.اور بنی اسرائیل میں اس کا رواج عام تھا.

Page 70

ہیں.قبر جیسے کے متعلق شہادت منشی ظفر احمد صا مکرمی اخویم حضرت منشی ظفر احمد صاحب ساکن کپور تحصل المرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے خدام اولین ساتین ہیں.ان ایام سے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے والوں میں سے ہیں.جب کہ حضرت صاح ہیں.جب کہ حضرت صاحب کا کچھ دعواے بھی نہ تھا.اور براہین احمدیہ کے مسودات لکھے جاتے تھے.ابتدائی ایام میں وہ اکثر قادیان میں رہتے.اور لدھیانہ اور امرت سر اور لاہور کے سفروں میں اکثر حضرت صاحب کے ساتھ رہتے.آجکل ریاست کیوں نقطہ کی ملاقہ مت سے فیشن لے کر کپور فضلہ میں رہتے ہیں.اللہ تعالے ان کی نہ ندگی کی زیادتی سے اور صحت کی بحالی سے جماعت کو متمتع کرتا رہے آمین.ان کی تصویر ملاحظہ ہو.فوٹو علا قبر میے کے متعلق شہادت منشی ظفر احمد عشا تحدة وتصل :- سے بسم الله الرحمن الرحیم سال خانہ میں کمترین اور منشی محمد عظیم صاحب حال نیست ار اسسٹنٹ مینجر اودھ ہمرا ہی دیوان سربیشر صاحب حیف حج ہائیکورٹ حال ہوم منسٹر پھلور بارا وہ سیر کشمیر جنوں سے پانیچارہ منزل بسنتنول سری نگر پہونچے.راستہ میں ویری ناگ دو تین دن رہے قصبہ ویری ناگ میں ایک سید صاحب جاگیر دار ریاست رہتے ہیں.انہوں نے ہماری دعوت کی جن کے مکان پر ہم گئے.سید صاحب ذی علمہ خاندانی آدمی ہیں.اور ان کے یہاں کافی کفیخانہ ہے.ان سے میں نے دریافت کیا.کہ آیا سر می نگر میں کوئی مزار کسی نبی کا ہے.انہوں

Page 71

نے فرمایا کہ ایک پر انا ہزارہ محلہ خانیار میں ہے.جو پیسے صاح نام سے مشہور ہے.اور ایک پرانی فلمی تاریخ کشمیر میں ان کے حالت درج ہیں.اور وہ کتاب ہما رے کتب خانہ میں شاید ہو.مگر اب پیتے.اور چند روز کے مدت سے دیکھی نہیں.پھر ہم قیام کے بعد خاکسار اور منشی محمد موضوعت بشار بر زیارت به مزار حضرت پھیلے علیہ السلام محلہ مذکور کے راکو منہ میں چند آدمی بول دمیوں کہ کا سے دریافت کیا کہ حضرت جیسے علی سلام اسلامیہ کا مزا را شریعیت کہاں ہے.تو ہر ایک یہی کہتا رہا کہ یہاں کوئی قبر علیلہ علیہ سلام کی نہیں.پھر ایک شخص دوکاندار کو خورا سختی سے کہا.اور اس نے یہ معلوم کر سکے کہ یہ ریاست کپور لفظ کے اہلکار ہیں.ناچار دکان پر سے تھا اور ہمارے ساتھ نشان دینے کے لئے تھیلا.اس نے راستہ میں سہلایا.کہ در اصل یہ ایک نہی کی قبر ہے جس کو میلے کی قبر بناتے ہیں.مگر اب چند روز سے یہاں علماء نے آگر وعظ کئے.اور سختی.روسکا کہ کوئی شخص آئندہ اس قبر کو جیسے صاحب کی قبر نظاہر نہ کردے درشہ اس کا بائیکاٹ کیا جائے گا.اس وقت سے ہم تو گاو و نہ من کر اور میں اس قبر کا پتہ نہیں دیتے.پھر وہ یہ دونوں کو مزار شریف پر لے گیا.اس وقت وہاں پر ایک ضعیف العمر عورت مجادرہ تھی جس کی عمر سو برکس کے قریب ہوگی.اس نے از خود ہی سہلایا.کہ یرہ یسوع مسیح کی قبر ہے.یہ نبی اللہ کی قبر ہے جو دور دراز ملکوں سے کا بل ہوتے ہوئے یہاں آئے.اور یہاں پر پسند و انا کیا کرتے رہے.اس کو شہزادہ ہی بھی کہتے ہیں.جیسے صاحب بھی کہتے ہیں

Page 72

یسوع مسیح بھی کہتے ہیں.غرضکہ اس نے طول و طویل حالات بیان کئے.جواب یاد نہیں رہے.وہ حالات سن کر جب ہم مغیرہ کے اندر جانے لگے.یعنی فاتحہ خوانی کے لئے تو اس آدمی ہمرا ہی نے روکا.کہ بنی اللہ کی قبر ہے.اندر گنبد کے نہیں جانا چاہیئے.مگر تم نے اندر جا کر جاکر فاتحہ پڑھی.تعویذ او پر ہے.مگر اصلی قبر تہ خانہ میں ہے.لیکن اس میں اندر جانے کے لئے اب راستہ بند ہو گیا ہے.اس وقت ایک بڑا ر در زن ناقابل گذر انسان تھا.وہاں کے آدمی یہ ذکر کرتے ہیھا.کہ اس میں سے خوشبو آتی تھی.یہ حالات ہم خدا کو حاضر و ناظر حیان ۵۳۳ کر بجلف مختریہ کرتے ہیں : ۲۷ نومبر و یسنده محمد تنظیم نائب ناظم مفسر علاقہ اور دھند خاکسار ظفر احمد بیشتر رجسٹرار کا سیکورت کبد در عضله - کپور چونکہ سری نگر میں قریبا ایک ماہ یا زائد میں رہا.اس الجھے تنہا میں کئی دفعہ مزار شریف گیا.اور وہاں جا کر کچھ عرصہ بیٹھتا تھا.ایک اقعہ میں وہاں بیٹھا ہوا تھا.تو یکایک میں نے دیکھا.کہ بڑا دریا پور کا ہے.اور گویا یہ مزار لپ دریا ہے.میں نے خیال کیا کہ چونکہ نبی اللہ کا مزار شریعت ہے.اس لیئے ان کے فیضان روحانی کو دریا کی صورت میں مجھ پہ ظاہر کیا گیا ہے.کیونکہ اس وقت ایک خاص سرو را در لذت محبت کو محسوس ہوتی تھی.پھر وہاں سے واپسی کے وقت ایک دو منزلو مکان میں زیرین امکان جون شدت گاہ تنقید - سواری حمید اللہ صاحب سبیل ابو افسوس ہے کہ اب غیر مانتے ہیں ، درس قرآن مجید کا رہے تھے.اور سامعین کا اچھا مجمع تھا.مولوی صاحب ترجمہ اور تفسیر

Page 73

کشمیری زبان میں کرتے تھے انہوں نے مجھکو دیکھ لیا اور بڑی محبت سے اُکھشکر بغلگیر ہوئے.اور اسرار کے ساتھ مجھکو ٹھہرا لیا.میں پنڈت رام رتن صاحب جو پو نچھ کے وزیر رہ چکے ہیں.ان کی کونسٹی میں ٹھہرا ہوا تھا.بہر حال مولوی صاحب نے مجھکو رات بھی جاننے نہ دیا.اور بڑی تواضع سے پیش آئے.اور رات کو حضرت مسیح موعود علیہ سلام کے متعلق سلسلہ کلام رہا.اور میں نے دیکھا کہ باوجود عالم ہونے کے وہ خاموش ہو ہو جاتے تھے.اور ان کے پاس سوائے مولوی محمد علی گنا کے تاریخوں کے فلاسفی ایجاد بندہ کے اور کچھ نہ تھا.بال آخر میں نے ان سے کہا.کہ آپ ان الہامات کو مانتے ہیں جن میں نبی اور رسول کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.انہوں نے فرمایا.کہ میں ان کو خدا کی خالص دمی جانتا ہوں اور ان پر میرا ایمان ہے.میں نے کہا.کہ خدا کے کلام کو آپ فضول اور محبت بھی مانتے ہیں.انہوں نے فرمایا.نعوذ باللہ میں نے عرض کیا کہ ایک شخص نہ بنی ہے.نہ رسول ہے مگر خدا تعالے ان کو نہیں اور رسول کرکے مخاطب فرماتا ہے.اس کے متعلق جناب کی کیا رائے ہے.فرمانے لگے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی مانے بغیر چارہ نہیں.میں نے دوران گفت گو میں ان سے یہ بھی کہا تھا.کہ قرآن کریم میں جہاں ایھا الناس یا یا ایها الذین آمنوا ذکر کر کے مخاطب کیا گیا مستہ.آپ کے مسلک کے مطابق ان سے مراد آدمی یا مومن نہیں ہیں.غرضکہ ساری رات اس قسم کی گفتگو ہوتی رہی.مولوی صاحب میں بے شک یہ خوبی تھی.کہ وہ جلدی زنان جاتے تھے.ہاں میں یہ

Page 74

Page 75

Page 76

۶۵ بھول گیا مجھ کو مولوی عبد اللہ صاحب نے بتایا کہ پورانی تاریخ کشمیر میں لکھا ہے کہ اس جگہ دریا تھا.اور یہ مزار لب دریا واقعہ تھا.جیسا کہ مجھے وہاں رڈیا، ہوا.رظفر احمد ) منشی محمد عظیم صاحب جن کی شہادت اور پر درج ہے غیر احمدی ہیں.(صادق) - مولوی فاضل عباد لا احد منا کا خط اقوامی کشمیر کے نام اقوامی یہود کے ناموں کو ملتے ہیں.مولوی فاضل عبد الواحد صاحب مبلغ بھدرواہ اپنے خط لجنة مورخہ 19 ستمبر میں حاجز کو سکھتے ہیں.کشمیر کی اقوام میں بنی اسرائیل کی دو معروف تو میں ابھی د ہیں.ایک لاوی - آسنور کے متصل موضوع منت حمام میں اس قوم کے کئی گھرانے ہیں.اسی طرح باقی کشمیر میں بھی منتشر ہیں.ان میں سے شعبان لاوی احمد سی ہے.یہ لوگ لاو می بین بنی یعقوب علیہ السلام کی اولاد معلوم ہوتے ہیں.و - سیار زین العابدین صاحب کی شہادت اين العابدین صاحب پر وفیسرا یومیہ کالج واقع پر دستکم و پرستان بیاد کالج دمشق جو بہت عرصہ فلسطین اور شام میں رہ آئے ہیں.فرما یا کرتے ہیں.ہرجب میں سرینگے کے گلی کوچوں میں پھرتا ہوں ، تو بسا اوقات مجھے ایسا خیال ہو جاتا ؟ ہے کہ میں شام میں ہوئی.ہر دو ملکوں کے گلی کوچوں کا طرز بالکل ایک جیسا ہے

Page 77

۱۰- مہاراجہ رنبیر سنگھ کا قول حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفة المسیح رضی اللہ عنہ روایت کیا کرتے تھے.کہ جب ہم جموں میں مہاراجہ رنبیر سنگھ کے پاس کنا بھی طبیب تھے.تو کشمہ یوں کے حالات مظلومی پر کھا کر بعض : نعہ مہاراجہ کے پاس کیطور سفارکش کیا کرتے تھے کہ ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے.اور عربی کا برتاؤ کیا جائے.تو مہاراجہ کرنا کرتے تھے.مولوی صاحب ! آپ کو معلوم نہیں.یہ وہ قوم ہے.جس نے اپنے بادشاہ کی بغاوت کی تھی اور اس بادشاہ نے انہیں بطور سزا کے ان کے ملک سے نکال کر یہاں دیا.حبیبیا کہ انگریز بھاری مجرموں کو کالے پانی بھی جدیے ہیں چونکی ہیں اس وقت اہل کشمیر کی تاریخ سے چنداں دل چسپی نہ تھی.اس واسطے ہم نے مہاراجہ سے کبھی یہ نہ پوچھا.کہ وہ بادشاہ کون تھا.جس نے اس قوم کو کشمیر کی وادی میں مقید کیا.S رغالباً قبل مسیح جب یہودیوں کو بعض مشترک، بادشاہوں نے فلسطین سے خارج کر دیا.اس وقت بعض قومیں کشمیر کو بطور تمیزی بھیجی گئیں.(مؤلف) ۱۱ - ایک کشمیری مسافر کی شہادت ہمارے مکرم دوست چوہدری محمد حیات خان صاحب بیشتر انسپکٹر پولیس و میونسپل کمشنر حافظ آباد سکھتے ہیں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ.میں نے آپ کی تقریر جلسہ سالانہ میں سٹیج پر آپ کی خدمت میں ایک مختصر سا نوٹ لکھا تھا.شاہی

Page 78

46 آپ تک نہ پہونچا ہو.آج پھر ان کشمیریوں کو دیکھ کر خیال آیا.کہ آپکی خدمت میں عرض کروں کہ یہاں شہر حافظ آباد میں میاں غلام رسول ولد غلام محمد خالق محمد ولد نور محمد اقوام کشمیری سکنا ہے اسلام آباد متصل سری نگر ایام سریا سے کام محنت مزد درسی کرتے ہیں.میں نے بھی ان کو کچھ کام دیا.اور سرسری طور پر دریافت کیا.کہ کیا کبھی آپ سرنگ گئے ہیں.یہ بات میں نے چند غیر احمدی اور ہندو زرگر کے سامنے دریافت کی.جواب ملا کہ ہاں کئی دفعہ سری نگر گئے ہیں.دریافت کیا گیا.کہ شہر کے اندر جو قبر کیا ہیں.کسی کا کچھ پتہ ہے.تو بے تکلف انہوں نے جواب دیا.کہ قبرس تو بہت ہیں.مگر ایک نہر جو محملہ خانیار میں ہے.بہت مشہور ہے.اس کو پیسے بنی کی قبر کہتے ہیں.ان کی سادگی اور فور جو اس پا کر وہ غیر احمد سی حیران رہ گئے.اور کہنے لگے کہ واقعی احمدی صاحبان بل تحقیق کوئی بات نہیں کرتے.واقعی جیسے کی قبر ہو گی.مگر ہم کیا کر ملاں لوگ کچھ کرنے نہیں دیتے.چولہ یا دا نانک صاحب کی طرح یہ بھی کی بات معلوم ہوتی ہے.چونکہ آپ ایک حدیدہ کتاب جدید معلومات کے متعلق تو یہ فرار ہے ہیں.اگر ممکن ہو.تو اس نوٹ کو بھی درج فرمایا جائے.۱۳) حضرت خلیفہ نورالدین صاحب ساکن جموں ر ملاحظہ ہو فو ٹو ع ) حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جن کو ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبر مسیح کے متعلق تحقیقات کے واسطے کشمیر بھیجا تھا.انہوں نے اپنے حالات ہو نا جز کو لکھے ہیں.درج ذیل ہیں:.

Page 79

4A میری عمر اس وقت ۸۵ سال ہے.میں ابتدائے جوانی میں گجرات میں رہتا تھا.اور اس دقت فرقہ اہل حدیث کا ابتدائی چرچا تھا.اور پبلک میں اس کی سخت مخالفت تھی.ان کی باتیں معقول پا کر میں بھی اہل حدیث میں شامل ہو گیا.ایک دفعہ سیال شریف جاتے ہوئے راستہ میں بھیرہ مولوی سلطان احمد صاحب مرحوم سے ملاقات ہوئی.انہوں نے ذکر کیا.کہ میرا بھائی نورالدین نامہ نکہ میں حدیث پڑھ رہا ہے ایس طرح پہلی دفعہ میں نے حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ خلیفہ اسبح اول کا حال سنا.پھر جب میں نے سنا کہ مولوی صاحب مکہ سے واپس بھیرہ آگئے ہیں.تو میں انہیں ملنے کے واسطے گیا.اور ان کے عقائد اور تحقیقی مسائل سے متفق ہو کر ایک نرمان کے پاس رہا.اور پھر ان کے ساتھ ہی جموں آگیا.جب حضرت مرزا صاحب کی خبر ملی.ان کی ملاقات کے واسطے قادیان گیا.ایک عرصہ رہا.جب حضرت مرز اصاحب نے بیت لینی شروع کی.تو میں نے بھی بیعت کرنی چاہی.مگر حضرت مولوی نور الدین صاحب نے فرمایا.کہ ہمارا داماد عبد الواحد ر پسر مولوی عبید اللہ صاحب غزنوی شم امرت سری کو پہلے سمجھانا ضروری ہے.وہ بعیت کرنے والوں کی بات کو نہ سنے گا.تم ابھی بیعت نہ کرو.اور اسے سمجھاؤ.میں اسے کھاتا رہا.مگر اس نے نہ مانا.اور جب حضرت مسیح موجود دھلی سے واپس آئے.تو میں نے بیعت کرلی.اس وقت کتاب نشان آسمانی | لکھی گئی تھی.جب کشمیر میں ایک دفعہ سخت مہینہ ہوا.اس وقت میں سرینگر

Page 80

4A میں ملازم تھا.میری ڈیوٹی لگی.کہ شہر کے مختلف معتوں میں پھیر کر لوگوں کو صفائی اور علاج وغیرہ کی طرف متوجہ کروں.اس وقت سرینگر کے محمد بنا نہار میں مجھے معلوم ہوا.کہ یہاں ایک قبر ہے.جسے شہزادہ بنی پور است کی قبر کہتے ہیں.اور بعض اُسنے حضرت عیسے بنی کی قبر بھی کہتے ہیں.میں نے حضرت مولوی صاحب کے اس بات کی رپورٹ کی.مگر وہ سن کر چپ ہو ا ہے.اس کے بعد جب حضرت مولوی صاحب قادیان آسگئے.اور ایک دفعہ اتفاقاً اس امر کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہوا.تو حضرت صاحب نے مجھے بلوایا.اور اس امر کی تحقیقات کے واسطے کشمیر بھیجا.اور مبلغ بن سفر طرح کے واسطے دیا.جو ہیں نہ لیتا تھا.مگر حضرت صاحب کے اعرار پر بطور تبرک کے لیے لیا.چار ماہ کشمیر ، ۵۶ آدمیوں کے دستخط کر آئے.کہ یہ قبر حضرت جیسے نہیں کی ہے.جو یہاں انیس سو سال سے مدفون ہیں.دستخط کرنے والوں میں اس وقت کے علماء سنجار - پیشه در.امیر و غریب مسلم - مینود ہر قسم کے اصحاب تھے.رنوٹ :- حضرت خلیفہ نورالدین صاحب کے دو بیٹے ہیں عبدالرحیم و عبد الرحمن عزیز عبد الرحمن بیمار رہتا ہے.احباب اس کی صحت کے واسطے اور عبدالرحیم کے ترقی اقبال کے واسطے دعا کریں.صادق )

Page 81

باشم قبر میے کے متعلق چند متفرق نہیں A ا را از موادی غلام محی الدین صاحب نقشبندی مکتوب روایت د ارجون ۳ ماه خواجه حسن شاہ نقشبندی مرحوم فرمایا کرتے تھے.کہ یوز آسف کی زیارت کے ملحق ایک کتبہ تھا، جس پر کچھ عبرانی زبان میں تحریر تھا.اور وہ کتبہ لوگوں نے چھپا کر کہیں رکھا.اور زیارت کے غربی رویہ یک موری (سوراخ تھی.جس سے خوشبو آتی تھی.ر دستخط غلام محی الدین نقش بندی بنام خود ) محمد خانیا پہلے جمیل براری تیل پر تھا.اس قبر کا نام عام طور پر رومنہ اہل ہے.- روضہ اہل پہلے پانی کے کنارے پر تھا.اب وہ پانی خشک تاریخ اعظمی میں یہ بات لکھی ہے.کہ اس قبر سے انوار نبوت حاصل ہوتے ہیں.کشمیر میں لفظ روضہ صرف انبیاء کی قبر کے واسطے استعمال ہوتا

Page 82

ہے.اس واسطے یوز آسعت کی قبر کو روضہ ہل کہتے ہیں.بل کے معنے جگہ.یعنی غیرتی کا مظاہم انبیاء کے سوائے دوسرے بزرگوں کو شیری زبان میں آستان کہتے ہیں.وکھر 4 روضہ یوز آست میں دو قبریں ہیں.بڑی قبر خواجہ نصیر الدین کمی ہے.اور چھوٹی قبر نبی صاحب کی ہے.اگرچہ یہ قبر اسلامی طریق پر شریفی غربا ہے.مگر یہ قبر بعد کی بنی ہوئی ہے.کیونکہ یہ عمارت کئی د نور گرمی اور بنی اور یہ قبر میت کے اوپر بطور تعویز کے ہے اصل قبر اس کے نیچے نہ خانہ کے اندر ہے.جو چاروں طرف سے بند ہے اور اس واسطے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تہ خانہ میں جو اصلی قبر منھی.اس کا رخ تھی.عریف ہے.یوز آسف حضرت عیسے ہی کا دوسرا نام ہے.یوز فارسی میں یٹوریع کی بجائے ہے.جیسا کہ انگریزی میں کیسوع کا جی اس بن گیا.فارسی کتب میں بھی یہ نام آتا ہے.ع است نام تو بوثر و کریستو آسمٹ کے معنے عبرانی زبان میں جمع کرنے والے کے ہیں، کیونکہ میسورہ بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنے والا تھا.اور اس کا سفر کشمیر در اصل انہی گمشدہ قوموں کی تلاش میں تھا.اور وہ واقعہ صلیب سے قبل بھی بہت آچکا تھا.پس طبعا اسے اس طرف کے لوگوں سے ایک اُنس تھا.اور فلسطین کے یہودیوں سے نا امید کہ وہ پھر اس طرف چلا آیا.- ملاحظہ ہو تو ٹوع جس میں مقبرہ مینے نہیں دکھایا گیا ہے.اس

Page 83

۷۲ میں بائیں طرف نیچے کے کونے میں جو سیاہ داغ ہے.وہ اس سوراخ کا نشان ہے.جو نیچے کے تر خانہ اور اصلی قبر کی طرف جاتا ہے.دو است ہے.کہ پہلے اس میں سے خوشبو آتی تھی.اب بھی کشمیری لوگ جب اس قبر پر آکر فاتحہ پڑھتے اور دعا کرتے ہیں.تو اسی جگہ کھڑے ہو کہ دعا کرتے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ جبکہ میں اور ہمارے دوست عبد اللہ خان احمدی فریم میکر اس مقبرہ کے اندر بیٹھے تھے.ایک کشمیری نے باہر اسی سوراج کے پاس کھڑے ہو کر دعا کرنی شروع کی اور اپنی دعا کو یانبی اللہ کے لفظ سے شروع کرتا تھا اور بار شمیری زبان کے الفاظ جو عبرانی الفاظ سیکھتے جلتے ہیں.میرے خیال میں اصل کشمیر کے یہودی الاصل ہونے کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ اس میں اب تک بہت سے ایسے الفاظ موجود ہیں.جو عبرانی زبان سے بالکل ملتے اور انہیں سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.سب سے پہلے مجھے یہ خیال اس وقت آیا جب کہ لنبان کے ایک بازار میں مجھے ایک سیرین یہودی ملا جو عبرانی زبان

Page 84

Page 85

ماہر تھا.اور اس نے مجھے السین میائی لباس میں دیکھ دُور سے کہا.اتوه یهوداه ر کیا آپ یہودی ہیں ، اورخود کشمیر میں دوسرے کو بلانے کے واسطے لفظ مہتو یا اتو ایسا عام ہے.کہ پنجاب میں لفظ منو کشمیر یوں کا نام پڑ گیا ہے.جب کسی کو بلاتے ہیں.یہی لفظ بولتے ہیں.اور عبرانی میں بھی ایسا ہی ہے.اس کے بعد گذش: سفر کے دوران میں میں نے لغات عبرانی کے چند نسخے جن پر میں نے عربی حروف میں عبرانی الفاظ لکھ دیئے تھے.اپنے نوجوان فاضل کشمیری احمدیوں میں تقسیم کے بھی کچھ کشمیری زبان سیکھی.اور عبرانی زبان میں پہلے جانتا ہوں ان دوستوں کی امداد سے قریبا ساڑھے تین سو الفاظ کشمیری زبان کے ایسے ملتے ہیں.چنانچہ وہ فہرستیں درج ذیل کی جاتی ہیں.- فهرست عبرانی و کشمیری الفاظ نیا که کرده جناب مولوی فاضل پیر محمد یوسف شاہ صاحب اس فہرست میں انٹی سے زائد الفاظ کو ثابت کیا گیا ہے.کہ یہ عبرانی اور کشمیری زبانوں میں مشابہ ہیں.عبرانی اهون - یعنی ناچیز چائنا کشمیری زبان میں کتنے کو کہتے ہیں.کیونکہ کتے کو نا چیز جانا جاتا ہے.(عبرانی ) (دستی - اُوپر والا کپڑا جس سے تمام بدن ڈھکتا.کشمیری زبان میں اُر پر دانے کپڑے کو راور کہتے ہیں.3 کشمیری لوگ بیچ ادرس کے درمیان بولتے ہیں.(عبرانی، آب یعنی باپ کشمیری با تبہ اور تین کہتے ہیں.

Page 86

(عبرانی ، نشا یعنی بلند کرتا کشمیری مسکن کہتے ہیں اور ان علاقی د عبرانی ، آج بخور دوسرا کشمیری بیانے کہتے ہیں.یہاں بت اور کی یعنی زرا اکٹھے پڑھتے ہیں.جیسے اردو کا لفظ پیار - عرانی، نوک اپنی تھوکنا.کشمیری تھک ٹھوک کو کہتے ہیں.(خیرانی) فتح یعنی چیرنا.کشمیری فنون کہتے ہیں تو علامت ن (عبرانی) رشته یعنی حرامکاری کشمیری میں بھی یہی لفظ مروج ہے.(عبرانی) هو یعنی وہ کشمیر ہی تھے کہتے ہیں بدون واور اعیرانی تمل یعنی کملا جاتا.کشمیری فیلن کہتے ہیں.ن سیتی محمد رہے.- عیرانی) نوا یعنی النی آنا.کشمیری تھے کہتے ہیں.(عبرانی) عدس - میلا ہونا.کشمیری کدورت کہتے ہیں.(عبرانی قبب یعنی گنبد دار کو ٹھری.کشمیری قیہ کہتے ہیں.(عبرانی هستن چھنا.کشمیری حسن.یرانی مستمر سوکھ جاتا کشمیری زمن - نا علامت مصدر ہے ش اور چ کے درمیان پڑھتے ہیں.امبرانی ، صحن ہو جو کشمیری تھن اء الله (خیراتی) منت.توڑنا.کشمیری مستوج من مصدری ہے.(عبرانی عوقت اڑھانا پرندہ کا.کشمیری وقت کہتے ہیں.و حیرانی خبر عبور کرنا.کشمیری عبور - لے

Page 87

60 (عبرانی، شرر یعنی شریعہ کشمیری ایٹنا مشر یہ کہتے ہیں.(عبرانی سکت کشمیری سکون خیراتی نقب.کھوکھلا کر نا کشمیری بھی یہی لفظ اس جگہ بو لتے ہیں رهبرانی ) نفش - کشمیری نفس عبرانی، نفق - کشمیری نفقه - - رشیرانی ، نفس پھونکا جاتا.کشمیری پیٹ پھولنے کو کہتے ہیں.ر عبرانی نسیم - افتاده زمین کشمیری اس افتاده زمین کو جورشی کے چونے کو چھوڑ دی گئی ہو.نور کہتے ہیں.(عبرانی، جبیر.نظر.دونوں لفظ اسی طرح کشمیری میں استعمال ہیں.د عبرانی ) تقسیم کشمیری تمام عبرانی مشقد کشمیری گھات میں رہنے والے کو شعند رکہتے ہیں.در عبرانی شفل سفل کشمیری میں کمینہ کو سفلہ کہتے ہیں.عبرانی شقط تقصیر کشمیری شفه د عبرانی خطا.نذیر کشمیری خطا اور نذر بولتے ہیں.(عبرانی، صفار چمکتار کشمیری صفه عبرانی، عمان یعنی بنیا د کا ننگا ہو تا کشمیری اس جگہ آزاد کہتے ہیں (عبرانی ، فلس.بانٹ دیا.کشمیری خلق کہتے ہیں.ان علامت مصدر ہے (عبرانی) متن یعنی دبلا ہونا کام کرنے کے بعد جو ناشری بدن پیاری ہو جاتی ہے.اس کو کشمیری مسٹ کہتے ہیں.(عبرانی، فاة - فوہ.یعنی پھونکنا.کشمیری پھونک کو فقہ کہتے ہیں.

Page 88

عبرانی بوستم بلند مقام کشمیری یام کہتے ہیں مکان کے اوپر والے حصے کو بن د عبرانی ) بوس یعنی روندا جانا.جو چیز روندی جائے.وہ ٹوٹ ٹوٹ کر چھوٹی چھوٹی ہو جاتی ہے.اس کو کشمیری سبق کہتے ہیں.(عبرانی) بند تعمیر گھرانا کشمیر میں یہی لفظ استعمال ہے.(عبرانی، جنرل چھیلنا.کشمیری ذکی کہتے ہیں.اور مصدر میں ن زیادہ کرتے ہیں.عبرانی احرة - مقابلہ کشمیری منازعہ کو حر کہتے ہیں.اور حول الجيد منازع کو کہتے ہیں.اعیرانی خود جلنا کشمیری جلانے کی لکڑی کو حر کہتے ہیں.و عبرانی، تفس.پکڑنا.کشمیر بیچر کو تھصت کہتے ہیں.(عبرانی ، سفند - اپنے تین چھپانا - کشمیری سمیت.عبرانی ) کی.پھنسانا کشمیری کور مبداء کشمیری گوڑ (عبرانی) کو کسی طرح کشمیری کوہ..(عبرانی قبض ہاتھ سے پکڑنا.اور جو ہا تھ سے پکڑنے کی جگہ ہو.اسے کشمیری میں قبضہ کہتے ہیں.ہیں: اخبرانی اکتبش - قبضہ میں لانا.کشمیری قبضہ.(عبرانی، فور کو آں کبھی کشمیری.(عبرانی) نقر - تولنا کشمیری میزان یعنی ترازو کو تقرہ کہتے اعیرانی) تو ہ.پریشان ہوتا.شاید اسی لئے کشمیری بُھوسہ کو

Page 89

تو ہ کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی کرتے وقت الگ ہو کر پریشان ہو جاتا ہے (عبراتی) شقص- مکروہ نفرت کشمیری ذلت کو شخص اور ذلیل کو شغصن لہ کہتے ہیں.ر عبرانی، شفر بادشاہ کے تخت کا سائبان کشمیری عام سائبان کو چھپر کہتے ہیں.عبرانی شال - عالم ارواح - شاید اس لئے کہ وہ سب کو گویا مانگتا یعنی بلاتا ہے.کشمیری دعوت کو سال کہتے ہیں.شاید اس لئے کہ اس میں صاحب خانہ لوگوں کو بلاتا ہے.(عبرانی ، سوق لال رنگ کشمیری سرخ کہتے ہیں.رهبرانی، رفته رضامندی کشمیری رمنه (عبرانی، رفا - مرمت کرنا کشمیری رف - (عبرانی) بکار بکہ رونا کشمیری پاک (عبرانی فصل کشمیری قتل - (عبرانی ) تلک کاٹ ڈالنا.کشمیری گوشت کے چھوٹے شکر ہے کو نیک کہتے ہیں.اعیرانی، سکر بند کرنا.طبیب بیمار کو کئی چیزوں کا استعمال سند کرتا ہے.فارسی سے میں اسے پر سیزا در کشمیری مسگری کہتے ہیں (عبرانی) سلح کشمیری صلح یعنی ایک دوسرے کو معاف کرنا (عبرانی، ستور برگشتہ ہونا.بگڑنا.کشمیری بگڑی ہوئی چیز کو سورا مت کہتے ہیں.(عبرانی) همه - شور مچا تا کشمیری حسم هستم سٹور کو کہتے ہیں.

Page 90

عبرانی لفظ نزحمه اردو کشمیری لفظ ادل کجرو ہونا اوص جلدی کرنا هول کجرو ہوتا.وژه اذا اطر باندار زیور اون آگ سلگا نا دودہ جا نا چیز کا بیانی اصلی عمده مطبوط - إله ڈرانا اکر کھودنا بست وکھر موت - وھم کاور زیر و زبر کرنا الله موٹا ہوتا ایل ایل آمت موٹا ہو گیا ہوا.افن گھومنا اوشد بہانا وفن پرندے کا اڑنا.اوش ند اشر سیدھا ہونا شیرن سیدھا کرنا سنبھالنا ایت مفعول محصول کی معلا ایت اسی جگہ.اسی چیز سے Cr ابھر میں حاصل ہونا.اتو جگہ بهن بند کرنا زخم میں گند سے خون کا جمع ہوا ہوا حاصل ہوتا بوس روند نا بله گھبرانا م پتھر نیچے کی جگہ پر بون حاصل ہوتا.پید ا ہونا بوس روندی ہوئی چیز بیا دمت گھبرایا ہوا در بندر کی پڑھنا.اونچا درج ھو وہ ضمیر غائب اونچارج.مہنگا ہوتا ضمیر غائیب ده میمیر جمع غائب هم ضمیر جمع غائب و

Page 91

Page 92

تعبرانی لفظ ترجمہ اردو کشمیری لفظ همه گوشن هم پہاڑ حم هم گران اور ہانپتے ہوئے آیا.ادير.هرم بفند ہونا هيرم اوپر والا هنت ٹوٹ پڑتا وقت یوں حملہ آور ہونا ادہ چھپانا ما بنا رخانہ زدہ زمین میں کو ان سا کھودتے ہیں اور اس میں کوئی چیز دبا کر رکھتے ہیں جیل چکر کھا نا ہوتی کے ارنا تھا نہ مارت خوشی سے اچھلتا کودتا.جید ابنا.جوش کھانا جیره یون غضب سے جوش میں آتا.یله تر اون چھوڑ دینا.ننگا کرنا جله ننگا کرنا زمین میں دفن کرتا.بوتے دیر دبانا.بلاک کرنا دیواون ہوئے کھیت کے میلوں کو توڑ کر پیوند زمین کرنا.دون دین جگر جھگڑے کا بنا دینراون زجر و تواریخ درجے بدر کیچ چھنا اپنا یا در وجبر نرخ کا بڑھنا.هوم گھبرانا ، گھبرا دینا همیامت گھبرا یا ہوا.مار کر نرم کرنا.هو مرادن هون تا چیز جاننا هون كنا حقیر چیز بطور تمثيل فہرست عبرانی کشمیری الفاظ طیار کردہ جناب مولوی فاضل محی الدین صاحب.اس فہرست میں ۲۳.الفاظ کو واضح کیا گیا ہے !

Page 93

사 کہ وہ عبرانی اور کشمیری زبانوں میں مشابہ ہیں.کشمیری اور عبرانی اس بات کا ثبوت کہ کشمیری در اصل بنی اسرائیل ہیں کئی طرح سے ملتا ہے منجملہ دیگر کئی اہم امور کے کشمیری اور عبرانی راصل زبان بنی اسرائیل) زبان کا وہ باہمی ارتباط اور تعلق ہے.جو با وجود مرور زمانہ اور ہزار کا مہتم بالشان انقلابات کے غیر منفک چلا آرہا ہے.صاحب علم اصحاب سے یہ امر مخفی نہیں.کہ اہل زبان کے تمدنی اور ارتقائی تغیرات کے ساتھ زبان میں بھی تغیر و تبدل واقع ہونا ایک لابدی اور ناگزیہ امر ہے.جس کا ثبوت آئے دن اسنہ ہائے مختلفہ کے رد و بدل سے ملتا رہتا ہے.اس 12 ء سے پہلے کشمیری بیسیوں ایسے الفاظ کی آواز تک سے نا آشنا محض تھے.جو آج کل ان کے بچوں اور عورتوں تک کی زبان کا جز و لانیفک بن گئے ہیں.ایجی ٹیشن.ابھی میٹر ڈکٹیٹر پبلک لیکچر سٹیج.لیکچرار مسٹر اٹک کینگ، مارشل لاء - سٹرائک وغیرہ وغیرہ کے معنی و مفہوم کو آج کل ایک ان پڑھ اور جاہل معلق گنوار بھی جانتا ہے.کشمیری زبان جو ا یسے تغیرات کی قبولیت کے لئے ہر وقت مستند رہتی ہے.اگرچہ اس وجہ سے اپنی اصلی اور حقیقی صورت کو تقریبا مسیح اور تبدیل کر چکی ہے.لیکن اگر قدیمی اور اصلی کشمیری کو معہ اس کے لوازمان الب و لہجہ - طرز - ادا- وغیرہ ) ایک ماہر اسنہ کی نظر سے دیکھا جائے.تو بہت کچھ سامان ایسا مل سکتا ہے.جس سے متذکرہ بالا پیش کر حقیقیت

Page 94

Ap بالکل برہنہ ہو جاتی ہے.ایک زمانہ وہ تھا.کہ کشمیر کی میں سنسکرت زبان کے الفاظ کی وہ بھر مار تمنتی.کہ کشمیری زبان پر سنسکرت کا شبہ پڑتا تھا.پھر وہ زمانہ پر آیا.کہ فارسی اور مغربی کے الفاظ اس میں ایسے سما گئے کہ موجودہ کشمیری زبان کو اگر دوشیزہ عربی و فارسی " کہا جائے.تو بے جا نہ ہوگا غرض ان امور کو مد نظر رکھ کر ایک محقق کے لئے کشمیری زبان کا ماخذ و منبع معلوم کرنا اگرچہ بہت ہی مشکل ہے.تاہم یہ بات بالکل عیاں ہے.کہ کشمیری زبان میں عبرانی الفاظ کی وہ کثرت ہے.کہ حیرانی آتی ایسا معلوم ہوتا ہے.کہ قدیمی کشمیریوں کی زبان عبرانی ہوگی.اگر یہ نہیں.تو کم از کم کسی زمانے میں عبرانی زبان اور عبرانیوں کا کشمیر اور کشمیری زبان پر ایسا غلیہ رہا ہے.جس کا انتر آج تک چلا آتا ہے.یہ ایک ایسی حقیقت ہے.جس کا انکار کوئی صاحب عقل اہل زبان نہیں کر سکتا عربی فارسی اور دیگر زبانوں کے الفاظ جو کشمیر میں مستعمل ہیں.تقریبا اپنی اصلی صورت اور وضعی معنوں میں کشمیری معنوں میں بھی مستعمل ہیں.لیکن عبرانی کے الفاظ جو کشمیری میں مستعمل ہیں.وہ بہت حد تک اپنی اصلی صورت اور بسا اوقات وضعی معنوں سے متجاوز معلوم ہوتے ہیں.یعنی کبھی حقیقی معنوں کو چھوڑ کر مجازی معنوں اور کبھی وصنعی معنوں کو چھوڑ کر تلابی معنوں میں استعمال ہو سکتے ہیں.یہ نبوت ہے اس بات گا.کہ قدیم الایام سے کشمیر اور خبرانی کا کوئی گہرا اور غیر متفک تعلق میلا آرہا ہے.اور مشکل سے پتہ چل سکتا ہے.کہ یہ لفظ عبرانی ہے.اس تمہید کے بعد ایک مختصر سے عبرانی قاعدے سے بطور نمونہ

Page 95

Ap کچھ الفاظ پیش کئے جاتے ہیں.جو یا تو عبرانی زبان میں بولے جاتے ہیں.یا عرف کشمیری زبان ہیں.دوسری وکرسی زبان میں ان کا کچھ ان میں پایا جاتا.لیکن اس سے پہلے چند امور کا واضح کرنا ضروری معلومم ہوتا ہے..را ) اگرچہ عبرانی زبان عربی کے الفاظ سے بھری پڑی ہے.اور سے کم تیس فیصدی الفاظ عربی کے عبرانی میں بولے جاتے ہیں.اسی طراح کشمیری زبان بھی جیسا کہ ظاہر دیا ہر ہے.عربی الفاظ سے معمور ہے لیکن اس بحث میں خاص ان الفاظ کو لایا جائے گا.جن کا محل استعمال اور مطلب و معنی دونوں زبانوں میں مشترک اور یکسان ہے.اور عربی اور دیگر زبانوں کا ان کے ساتھ کوئی تعلق یا نسیت نہیں.(ب) کشمیریوں اور برائیوں کا طرز تکلم اور تلفظ الفاظ تقر یا سکیں ہے.ہمزے کوی سے پڑھنا یا تو کشوں کا کام ہے.یا عبرانیوں کا مبرانی اِقْتُلُوا کو ہمیشہ یقْتُلُوا پڑھے گا.اسی طرح کشمیری اکرام کو پیگرام اور ایمان کو پیمان پڑھے گا.(ج) ندا- انبساط اور تا ست کے الفاظ جو بغیر کسی تصنع اور بنا الان کے بیساختہ منہ سے نکل جاتے ہیں.دونوں زبانوں کے ملتے جلتے ہیں.جیسے لفظ یا تو دونوں زبانوں میں مشترک ہے.وقس على ذالك (ح) گلگت کی زبان (شنا) کے الفاظ کے ساتھ بھی بعض جگہ بوجہ مقامی زبان ہونے کے بعبرانی کے الفاظ کا مقابلہ کیا گیا ہے.

Page 96

نمبر شمار الفاظ عبرانی لفظ کشمیری ترجمہ اردو انشاه آشین جورو کٹونه آلس < A 11 14 1A ليقل وق میا طلا جامه زیر جامه نا آشنا - نامحرم آرام طلب بست ناتوان خوشہ چین - گالی دینے والا میٹھا ولذيذ لو دے رنگی وه خرید تا ا کہ نار صورت کسی رنگ میں تبدیل کرنا کھولنا.چھوڑ دیتا.یار پیار بہانا.رو زور اور رجوان بیا ) ناگن زندگی امر ے ا ٹھٹھا کرنا.نقل اتارنا گال گاز ا کچھ آنکھ یرا تھے گھن کرنا.گھن آتا.ڈانٹنا اکسیلا - صرت - ایک فران افراط را فراط اور فرا نقد کشمیری زبان میں بے سوچے اور سمجھے کہی ہوئی بات کو بھی کہتے ہیں.

Page 97

عیرانی اردو کشمیری اون رزل پیلا آدن پہلا ارنی - اهاه افسوس اتاه افسوس - ادل بیو قومن و دل بیوقوف کیفیت کشمیری الف کو واو اور تی سے بدل تے ہیں ا دن اندھا، بیوقوف اون اندھا بیوقوت ازن تو نه تول وزن تول اطر عیب گناه اور غیب گناه اییم دیو بھوت ڈرا دا یم دیو - بصوت موت انن آنے والی اینہ.اینہ آنے والی افر مفت ونه مفت چمکدار ہونیکی و ویه الیش چمک - آگالیش السی اته آتا ینہ آئیے.بار کھود نا دیوار وغیرہ پر دیوار میں سوراخ باش بار بود از ہونا با پاس بدبودار پور الگ کرنا انگ - دور بین امتیاز کرنا بن بن الگ الگ کرتا.ممتاز کرتا بینہ تعمیر کرنا.بنانا کنید بن جائے گا.تعمیر ہو گا.جیلہ اپنی زمین چھونا ژلہ میں اپنا علاقہ چھوڑ جگا.بڑی چبانا ارم پچھلے دانت میں سے بڑی چھائی جاتی سے نہی جرم ہے.اسکو الیش کہتے ہیں

Page 98

عبرانی کثیری اگر رعب و عبدار آواز دگر غمگین ہوتا رخب دار آواز غم وغصہ سے میل اٹھنا دوم خاموشی دوم لگن خاموش ہوتا دید کانا ہوتا دیر کالک - دھواں دخل کمزور ہونا دتن کمزور ہونا دهم خاموش ہوتا دمتم خاموشی امہ اقبال مندی دم اقبال مندی دفہ دھکا دینا دهکار مگاه دفر چوٹ درا نفرت کرنا دره دقر ہتھوڑا چوٹ لگا ئی کا آلہ نفرت کرنا شیو وہ شوه -02 ہون ناچیز جانتا ہوں کرتا.ناچیز دھیمی آواز نکالنا هم هم آہستہ آہستہ چلنا بولتا.نر و موسم خوان میں چپ چاپ مس مس چپ چاپ.گر اتنا ہون گرتا.پتوں کا.رج شفاف کرنا تو اتنا نا زج چٹی بھرتا.پوست انا رتا زحل ڈرنا زن جنس مثل زن زند حرامکاری زحل ڈر.مصیبت مشابه مثل رنہ حرامکارمی سمیٹنا حوص گھیر نا سمیٹنا خوص موص

Page 99

۹۲ عبرانی کشمیری روض دوڑنا روس باره سنگها - ابزاری کی وجه به نام دیا گیا) رزہ دہلا کرنا رز رسی - دبلا بین رفاه دمت کرنا درست کرنا شت ساتھ رکھنا بوهم آراستہ کرنا ہم آراسته مسطح کسی کی تعریف کرنا خوب خوبی.تعریف بر ابر ہونا یکساں ہوں بیمار ہوتا.یو ایم میکستان ساتھ سکا یہ ایک بیماری کا نام شنا بدل جانا ویران ہوتا.بدل جاتا.شتر جانا شتن تھم جاتا تولتا تراند ه - فهرست الفاظ عبرانی جو کسی نہ کسی پہلو سے کشمیر کی الفاظ سے ملتے جلتے ہیں.بنیاد کرده : خواجہ عبد الرحمن ابنجر صاحب.اس فہرست میں ہم الفاظ پیدا مبر شمار عبرانی کشمیری کیفیت با تشریح ہیں ابل عبرانی میں گھاس کے میدان کو کشمیری میں ایک قسم کے گھاس کو.ابل اجل اجل عمرانی سمٹنا.کشمیری موت کو کہتے ہیں

Page 100

۹۳ نمبر شمار عمرانی کشمشیری во A ادب اوه اول اولي 021 ول کیفیت یا تشریح ہرو پوپو.کشمیری احمق کو کہتے ہیں.آرزو کرتا.آرزو کرنا خوشی کے وقت یہ کشمیری ہیں اوہ ہوتے ہیں.عبرانی بیوقوف ہونا.کشمیر میں قول - اتو آزرده سوقت آن کشمیری آج کے معنے میں آتا ہے.شید ر دارند با دنیا ایزا ریا بسیار پاجامہ کو کشمیری میں بولتے ہیں احد احمر ۹ الیش بیک اگ آرش کشمیری میں اسی کو کہتے ہیں.کیونکہ وہ بھی ۱۰ بعد اصاف ہوگا بحصہ ابلہ W چیر جیر جمل ر نفرت کرنی جبل د کہ توڑ ڈالتا دکھ چمکتی ہے.بیٹھ جائے اور سوئے زور یا زور سے مگر یا قریب کرنا.کر لگانا.وما تمنا تھوڑی دیر ٹھہر کے دم لینا.رد و پیر کا وقت ۱۵ دفع دو میں دفع دور کرنا ہیم (ده) هیم اس نے 16 IA پرس دٹوٹ پڑتا پرس بہت باریک توڑ کر کرنا.ز مسیح رو بیع کرنا ) روح و یک ذبح کرنا جانور کا.۱۹ از حد د بنی اسرائیل کا دوسرا نمیشه وو

Page 101

۹۴ مبر شمار عبرانی شمیری تشریح ۲۰ ز دل بہانا نکالنا نزول چراغان کرنا.اسمیں بھی تیل گویا بہانا پر نان ذکر یاد کرنا.۲۱ زکر رناه زناه حرام کاری فسق کرنا.۲۳ حول رگھومنا پھر وڑا جانا گل ٹیڑھا.۲۴ حوص (دیوار) اُس ہاتھی شاید اس لئے کہ دربار سالمبا چوڑا ہوتا ۲۵ طرح دلپیٹنا، تو ہ غلہ کا اُوپر کا پھل کار use) ۲۶ طہر ز پاک کرتا ) طہارت فعل میں پاک وصاف کرنے کو.۲۷ طول رلمبا کرنا ، طول طوالت اسم کے معنوں میں آتا ہے.طنار ته خانه طنب نه خانه ۲۹یجہ رہٹنا، یجہ ٹوکری جس میں کچھ چیز ڈالکر ہٹائی جائے یکل رسہ سکتا، لیکل شہتیر Bean) (اسم) ۳۱ بلع ربے سوچے سمجھے بولن کیلے تک مارتی YA يهم السلام یڈ سیٹ جانا پینگ دینا پڑ راسم، کزب رجھوٹ کہنا، کذب الو بنا یا جھوٹ مہر پہر دعورت کا ، ۳۵ موص دریاؤ ؟ موض تھکاوٹ اره ۳ مژه روستا) مزه مزہ چکھنا ) ۳۷ نور دروشن ہوتا نور نور ۳۸ نعل رجوتی پہنانی تصل فعل لو ہے کے ) ۳۹ حمل مشقت کرنی عمل عمل یا عمل کرنا

Page 102

نمبر شمار عبرانی ۴۰ صحر (روشنی) ام سنت و آراستہ کرنا کشمیری صفت ۴۲ قبر ر دفن کرنا) قبر ۴۳ قدم پہلے ہونا قدم ۴۴ تنہ پھر د تشریح پو پھٹنے سے پہلا وقت تعریف کرنا قبر ابھی تک تک یا اب تک.خواجہ عبد الرحمن صاحب نے ایک فہرست عربی اور کشمیری الفاظ کی بھی تیار کی ہے.اگر چہ اس میں انہوں نے عبرانی نہیں لکھی.تاہم یہ فہرست بھی درج کی جاتی ہے.کیونکہ اس میں عربی الفاظ ایسے ہیں.جو عبرانی سے بالکل ملتے جلتے ہیں.اس فہرست میں ۱۲۷ الفاظ ہیں.قبل ازیں یہ بتانا جا چکا ہے.کہ اہالیان کشمیر سے بعض اقوام مینی اسرائیلی ہیں چنانچہ بلاد شام کے قرونِ اولیٰ کی بعض اقوام پیوند دوا اور حیوانوں کے اسماء سے موسوم تھیں جیسے نمل رچیونٹی ، آدمی کا نام ید بذر ایک پرند ، بعینہ اسی طرح اہالیان کشمیر کی بعض اقوام نے اپنی قوموں کی تقسیم چرند پرند کے ناموں سے گی ہوئی ہے.جیسے سینہ رشیری کرنسی (چیونٹی نایت (یہ بچھے ، ڈونٹ (اونٹ) وغیرہ اب دوسرا ثبوت اہالیان کشمیر کے بنی اسرائیل ہونے کا یہ ہے.کہ کشمیری زبان میں بہت سے اللہ خا عربی کے پائے جاتے ہیں.اور عربی اور عبرانی زبان بنی اسرائیل، چونکہ ملتی جلتی ہیں.اس لئے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے.کہ یہ الفاظ قرونِ اُولئے کے بنی اسرائیلیوں نے ہی کشمیر میں آکر

Page 103

کشمیری میں داخل کیئے اپنے بوجہ اس کے کہ ان کو اپنی مادری زبان سے زیادہ محبت و آس تھا.ذیل میں ان عربی الفاظ کی فہرست درج ہے و کم کیا ؟ جان ہیں ہولے جاتے ہیں.گویا زبان کشمیری کا جزو ہیں.اور جو کہ عربی اور عبرانی آپس میں بہت جلتی زبانیں ہیں.اس یہ الفاظ عبرانی سے یہاں آئے ہیں.یا عربی سے.اناری آگه واسطے -۲- قشر - نکا مکی کا.عربی میں قشر چھلکے کو کہتے ہیں.سری نگر والے قشر ہی بولتے ہیں.ہو کر اگردی کا چٹھو.جس میں شمالی کشمیری کوٹتے ہیں.عربی میں کنہ خہ اللہ کو کہتے ہیں.کو بولتے ہیں.شانی یا گندم کا چھان یا بھوسہ.عربی میں احکام ملانوں د تنازعہ متازعہ اتمی - اندھا - بیت الخلاء - شی - منور مر گیا.عربی مات سے نکلا ہے.- مورت - پاگل - مروہ کے برابر ہے.-10 ۱۰ دلیل - لیل.ثبوت نبوت - ۱۲ - حجت - حجت 4 کیونکہ پاگل گھر یا

Page 104

فقري یر کشمیر

Page 105

94 ۱۳ حاجت یا حاجتہ - حاجت.۱۴ مالک مالک - ۱۵- اصل - اصل ۱ بیان - بیان -15 - IA موت - قسمت قسمت 19 - أجر أجر - اجر -۲۱ قدم - تقدم ۲۲ - بھان خان - اگزر جانا - مرجانا ) -۲۳ بکری - مصبیت یا دکھ (عربی بلاء سے ہے، ۲- لذت یا لذته - لذت ۲۵ طاقت - طاقت اور قوت - توت ۲۶ ۲۷- کریسی - کرسی ۲۸ - عرش - عرش ۲۹ - فرش - فرش - ۳۰ اول بدل.تبادلہ آپس میں..٠٣١ بالینگ - بالخ.۳۱ - حکیم - حکیم ۳۳- باقی.باقی

Page 106

اس دنیا - دنیا - آخریت - آخرت -۳۶- گول گونگا - وهو سمك على موله ۳۷ منت - منت در تهران احسان بجستان - احسان ۳۹ - خون خوکچھ.خوف ۴۰.کم قلیل - تقلیل یا تھوڑا سا.اله طمع - طبع - ام ساخت یا ساخته - ساخت وقت ام صندوق - صندوق - م ہے.بند ولقی.ہندوق.-۴۵ ظاہر و باطن - ظاہر و باطن - قسیم - قلم ۴۷ - فادر فساد -۴۸- فتنه - فتنه ۴۹ توور - تنور - 0* ادقی - ادیئے.- مغرب - بھول جانا.عربی میں پانی پینے کی جگہ کو مشرب کہتے ہیں.یا عادت کو.۵۳ نصیب نصیب

Page 107

٩٩ ه - جرم - جرم نست با لعنت 24 - وكيل - وكيل - ٥- مختار - مختار -٥٨ - الغير خطاء ٥٩- السبیل - دُکھ تکلیف دینا.عربی میں سلسبیل ایک لفظ ہے.ممکن ہے.اس سے السبیل ہو.دولت یا دولتے.دولت.۶۱ - خبر - کھمبر - خبر وا وبال - مصیبت - دکھ.۶۳ - حق سکھ.حق.۶۴ باطل باطل - • ۶۵- کذاب - كذاب قاصہ - عصاء رسونیا) حسرتھ - حسرت غیب ۷- غیب کیست منجانب ۶۹ - غائب گائب.غائب - کشمیری میں غائب کو غیب ہی بولتے غیب گود ۷۰ صد قر- صدقہ - ا.خیرات - خبرات ۷۲ رز التھ یا رزالت - رزالت.

Page 108

۷۳ - مال - مال - ۷۴ طبق - طبق - ۷۵ - دلتھ - ذلت 4 - ذکر کیے.آپس میں ٹکرانا.عربی دسگا ہوتا ہے ہے.کوب یا کب کبڑا.عربی ثبت سے ہے.کہت وجوده -۷۸ مرمر - ہنا.یہ عربی منحصرا سے ہے.تیز ہوا.اضر 69 - خالی خالی.حساب حساب ام - عاجز - عاجز - ۸۳ - عمل - سکتا جمل.۸۴ - نفس نفس - - النسان رين سان انسان ۸۶ - تجارت تجارت ۸۷ - منزل - ہنرل.شر دیکھ.شریک - ۸۹ - - تمنا تمنا ۹۰ - عاقبت یا عاقبته - انجام ۹۱ - فوج (پھوج، فوج ۹۲ - رزق - رزق -۹۳ صالح - صالح - •

Page 109

۹۴ - عقل - عقل - ۹۵ - قسط - قطر - -9 A 1 لاد اولاده غلیظ بیط رگیدار قم ۹۹ - قبر اقبه دیکھ 101 - حریق - مریض ۱۰۲- مرض - مرض ۱۳ - حبہ.دوائی کی گولی.۱۴.عیب عیب بال - پہاڑ.عربی جبال سے ہے ( کشمیری میں حذف ہوا) نعمت تعمد نعمت ۱۰۷ - هود هود - بد شد (پرنده) A ۱۰۸- قیامت یا قیامت قیامت ۱۱۰ توکل - توکل.-11- 11- عذاب - جذاب قوه قوه ٤١٣ - 2 عده - ۱۱۴- احبل - موت -

Page 110

-۱۱۵- کنتز - چابی عربی میں کنتر خزانہ کو بولتے ہیں.114 - رسول نبی.رسول نبی ۱۱- ایکان - ایمان - ۱۱۸ تهدید بدید تحضره ۱۱۹ عدادت بنص عدادت بخض ۱۲۰ - کورت پایہ تھے.عزت ۱۲۱- ساذ - کار - حبیب کوئی شخص گاؤں کے لوگوں کو یا دیگر مسالوں کو اکٹھا کر کے کسی اپنے کام پر بلا اجرت لگائے تو کشمیری میں اسے کار کہتے ہیں.اور یہ عربی کیدار تر ہیں سے ہے.صرف کھانا کا د میں دیا جاتا ہے.۱۷۲ تا در بلاتا.عربی ناڈی سے ہے.- - ها - جزاء - اخیر یا بدله ۱۲۴ - کاب تھال سٹی کا یا دیگر.عربی اکواب سے ہے.عربی ہیں اکو اب آسنچوروں کو کہتے ہیں.ا باسيل - ابابیل پرنده - فہرست عبرانی وکشمیری الفاظ طیار کردہ ماسٹر محمد یھوی صاحب الفاظ میر غلام رسول صاحب ساکن کا ٹھ پورہ کشمیر.اس فہرست میں 4 الف ہیں.عمرانی اروق آب باست یا باپ

Page 111

عبراتی اردو الا سبزی راضی ہوتا.اجل سمٹ جانا شمیری الردو ابل ایک قسم کی سبزی اره ہاں اجل | موت امین سیال چیزوں کا برتن چین کھانے کا برتن ادب پر مردہ ہوتا.آون | مالک - خاوند اون پہلوٹا رب خاموش ہو جا.اور زور آدر 3 مضبوط نه نشده است اسب محبوب ہونا اماد افسوس تب محبت أنباء افسوس اصل خیمہ کھڑا کرنا.حل کمربند اده آرزومند ہوتا.اده رضامندی کا اظہار اقرار آو آیا اده بود و باش کرنی اول بیو توٹ ہوتا.ول بے وقومت اول بیو قومت ہوتا.آدل کمزور ادن این قدم میں ہوتا.اوض جلدی کرنا الدها وص یا ڈھاکہ جاری کر.آن اس دشت اڑ آن تولنا وژن تول اتر کمر باندهتنا ایل تخریب قریب بیزار پاجامه ول چند فیلد

Page 112

عبرانی ال موٹا ہونا امل غمگین ہونا اسر قید کرنا پھاڑنا الگ کرنا بوه بلند مقام بوش شرمندہ کرنا کشمیری تا الہ کرو ملال ریخ اسمر اردو نگ کرنا اری الگ کرنا چھت بینہ خاندان - اولاد ہیں " چه لمه کھلا میدان دب آہستہ چلنا د کر چلا جاتا دمہ خاموش ہونا دھکیلنا دروازه دراز خاموش ہو جا دهنگا خاموش ہو.دور کرنا دار چاروں طرف پھوٹ لکھنا درا او (8) سے دیکھو ہے حرف ندار است حبل باطل چیز تکبیر کل یونہی بے معنی صل ھل بڑھا.تکبر سے وہ (صیغہ جمع) تم وه رینه جمع )

Page 113

عبرانی زیج ذبح کرنا زکر یاد کرنا.کشمیری اردو زی ذبح کرنا ذکر یاد رعت | اداس ہوتا زشت | کمزوری حوج دائره گنبد حج ٹیڑھی حول مروڑ ا جیانا دیکھ حضر تلاش کرنا طرح طول پاک ٹھہرانا لمبا کرنا ٹیڑھا کار کا پیچھا کرنا.تلاش کرنا پچکا ہوا کھانا و صدق میں دیا ہے چاول کا چھن کا جو چاول کی تے لینا ہے تال چوبی بے سوچے سمجھے بولنا.بیلہ دون بے ٹھکائے باتیں کرنا.حمید نا انکار کرنا رگڑنا بیگار میں کام کراتا جولی د و شنی کورن حصدنا مجھ کو کھ کر مت کر.نعلين رگر هردار نزدیک چپلی جوتی سحری کا وقت

Page 114

جبرانی روس މވ “ اردو شمیری رفا بحال کر دینا سنا دشمنی رکھتی اردو ریعہ آہستہ آہستہ چلنا رف بحال کر دینا شنا یہ یادی شار تو نہا گاتا مسٹیر کا یا جاتا شیت آراستہ کرنا رکھ چھوڑنا شوت میان سفید در شور به پاکیزه شمر تخیل شیش چھٹا يل فهرست طیار کردہ ایک احمدی دوست ۳۲ الفاظ عیراق | کشمیری العلي بن المر اني انش KCS SESE ترجمة آہستہ چلتا.آہستہ بولنا واد پلا کر تا اصرار کرتا.غمگین آرتا.مصیبت میں پھنسنا آدمی - عیاره لمبا ہوتا لعنت کرتی.جھگڑا کرتا..جگہ اس جنگه فاره رخ ہونا

Page 115

عمرانی کشمیری جل تلث میلا کرنا 00 ترجمه بوج کر دروازہ کشمیری میں خاص دروازہ کو بڑ کہتے ہیں.پر واپ وشن خوش ہونا واب دہشت.ا کسی انا کے ہیں در نفرت کرنی.دور جا کشمیری میں - سیاه واه واه جم مون سون گہرا شکل ملا ہے خوشی کی آواز کرنی.وزر وژر بار پوچھے.زمن منفرد جگہ پر انتظار کرنا.من زمن املة مايمن باس نکالنا.گرم چینگد منہ اور ناک بند کر کے رہنا.الله بے شرم نہ کرنا.منہ کالا کرتا.شکستند کر سکے.سکاٹ کر دیوانہ ہوتا.بھوت زدہ ہوتا ناک میں رسی ڈالنا.سکونت کرتی نز دیک ہونا.عنا.کیانا

Page 116

$ 1 تیرانی کشمیری فل جُدا کرنا قرة تیز رو خبر قبرکین دفن کرنا -۹ فہرست طیار کردہ ایک احمدی دوست ۱۲۹ لفاظ عبرانی رالع ( کشمیری - مالک ادون - اواه - واویلا کرنا ادیل - احمق آدن - پلوٹا ده داه - آه و زاری دل - احمق آدل - کمزور اک.ایک اک - صرفت انشاه - خورت آتن - بیوی بوش - شرمندہ ہونا بوسش.الزام بل.نہیں بل - یونی ہیں.بیٹا پسنده - بہن دور - زمانه دام خون دور - کارنامے دام.گھونٹ

Page 117

عمرانی دامم - خاموش ہونا مصر.پہاڑ کشمری دھم.خاموش ہو.چھتر - اوپر ہے جیل - ناچنا ھل.ٹیڑھا.یام سمندر يم سمندر رك کا بیہ.بھاری ہونا کتب کپڑا.شا زبرا در پیش کے درمیان کی حرکت سے لبد - الگ لب - الگ لب - دیوار کناره موت - مرنا مدت - مرنا مالون.ٹکنے کا مقام مالون.سکے.مان باپ کا گھر نابال - نادان نوجان - بکوا دی نا بیا.نبی تا باند بی به یون ہے - ب - آسمان

Page 118

عبداني تانیا - ئے شجر فجر کا نجم اندھیرا شو میبر- حاکم شملاه - پوشاک شباطم.سلامت ہوتا شین - دانت شادی - بدی 95 کشمیری کیان - نے سحر.فجر کا نیم اندھیرا شمرد ظالم مسلہ - پیگرهای کا شملہ سالم.پورا.شین - برت شاعت - بد دعاء باب : تھو ما حواری کی سب توان میں آمد تھو ما حواری کے متعلق تو یہ ثابت ہے.کہ وہ پہلے شمالی ہند میں آئے.اور پھر جنوبی ہند کو چلے گئے.مدر اس میں ان کی قبر موجود ہے انجیل میں بھی اس کے متعلق اشارہ ہے کہ مسیح نے ایک دفعہ کہا.کہ میں چلا جاؤں گا.تھو ما خواری اس سے بہت افسردہ ہوئے.اور انہوں نے

Page 119

# کہا.کہ آپ کہاں جائیں گے.حضرت مسیح نے جواب دیا.کہ تو چائنا ہے میں کہاں جاؤں گا.جس سے معلوم ہوتا ہے.کہ مسیح نے اس سے اپنے هندوستان جانے کے ارادہ کا ذکر کیا ہوا تھا.عیسائی تاریخ مانتی ہے.کہ تھو را منهد دستان آیا.اور ایک برہمن کے ہاتھ سے شہید ہوا.تراس میں اس کی قبر موجود ہے.جس پر ایک بڑا گھر جا بنا ہوا ہے.میرے ولایت جانے سے قبل جب کہ عاجز شاء میں انگریزی ترجمہ قرآن شریف پارہ اول کے چھپوانے کے واسطے مدراس بھیجا گیا تھا.تو وہاں مجھے اس وقت معلوم ہوا.کہ علاقہ مدد اس میں کچھ پر ہے.نیسائی چلے آتے ہیں.جو پہلی صدی عیسوی میں ہندوستان آئے تھے.اور تھو ما حواری کی قبر بھی میلا پور میں ہے.میں نے اس کے متعلق اس وقت تحقیقات کی.اور اس رئیسہ بی درک کا نتیجہ بھی اس کتاب میں درج کیا جاتا ہے.کیونکہ اس زمانہ میں تھو ما خواری کا بھی سند دستان آنا در اصل مسیح کے ساتھ ساتھ یا اس کے پیچھے مجھے تھا.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عقد ما کو بعد میں کشمیر سے جنوبی منہد کی تبلیغ کے واسطے بھیجا گیا.حضر علیمی کے حواری تھوہا کی قبر ہندوستان میں نل از اخبار فاروق س تجمید و صلوۃ : - حمد و ثنا اس پاک ذات قدوس ببوح همین غفور - کریم - حلیم - قدیم - انزلی ابدی اللہ کے لئے ہے جو سب کا سب کا مالک ہے ، قادر مطلق ہے.ہر شے اس کے اختیار میں ہے لیے

Page 120

١١٢ گیا تمام علوم کا مالک وہی ہے.اور انسان پر اس کی ضرورت کے مطابق ہے کوئی خلیہ منکشف ہوتا رہتا ہے.پھر صلوٰۃ اور سلام ہزاروں ہزار احمد لاکھوں لاکھ ہوں نبیوں کے سردار میر محمد مصطفے پر محبوب خدا پر جن کے کاملی بر وزنے اس تاریک زمانے کو روشن کر دیا.اور زمین کے چھپے خوانوں کو مخلوق کی خیر خواہی کے واسطے ظاہر دیا ہر کر دیا.انہیں میں سے ایک قبر مسیح ناصری ہے.جس کے اظہا رنے دینے پر ثابت کر دیا کہ عبادت کے لائق وہی ایک اللہ ہے.حیو نہیں.اور انہیں میں سے مسیح کے حواری دوست اور ساتھی تھوکا کی قبر ہے.جو قبر مسیح کی طرح ہندوستان میں ہونے سے مسیح ناصری کے ہندوستان کے ساتھ خاص تعلق ہونے کا ثبوت دیتی ہے.اور ضرور تھا.کہ ایسا ہو.کیونکہ آخری زمانہ میں سیح کے مشیل اور بروز نے بند توان ہی میں پیدا ہوتا تھے.اور اس مناسبت کی وجہ سے بھی مسیح کے جم جان کی یہی خواہش ہو سکتی تھی.کہ اس کی دائمی خوابگاہ ملک بہت ہی ہو.تمہید: - گزشتہ اکتوبر (شاشاء) میں جب عاجز حضرت مخلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے کے حکم کی فرمانبرداری میں ترجمہ الفقر پارہ اول کے چھپوانے کے انتظام کے واسطے مدراس گیا.اور قریب تین ماہ وہاں رہا.تو اللہ تعالے کے فضل سے جن باتوں میں وہاں کامیام حاصل ہوئی.ان میں سے ایک سیج نامری کے ایک خاص حواری تھوما کی قبر کا دیکھنا اور اس کے متعلق ضروری شہادتوں کا بہم پہونچانا جس کے واسطے دہانے گئی ایک قدیم کتب خانے تلاش کرنے پڑتے بہت محنت کے بعد سب ضروری باتیں احد اتعالے کے فضل سے بہتا ہو میں ال

Page 121

نگر یعش ضروری کاموں کے سبب فرصت نہ ہوئی کہ ان معلومات کے متعلق مضمون ترتیب دیا جائے.یہاں تک کہ عاجز کو حضرت خلیفہ ابح الثانی نصرہ اللہ العزیز کے حکم سے گزشتہ ماہ فروری میں اور ٹی ٹی جانا پڑا.جہاں مجھی اخویم سید عابدین صاحب بی.اے احمدی تصیلدار نے اپنے فرزند ارجمند عزیز عشاء الرحمن سلمہ اللہ تعالے کی تقریی هاتینه و خفنه و بخش دیگر تقریبات میں شامل ہونے کے واسطے ہو گیا تھا.عاجر دیاں تار یک مقررہ پر پہونچا.لیکن بعض وجوہات سے تار ی کا شادی چند روز اور پیچھے کر دی گئی.اور سید صاحب کے مجاز اور مخلصانہ افراد کے سبب مجھے چند روز وہاں رہنا پڑا.اس فرصت سے فائدہ اٹھا کر میں نے اس مضمون کو ترتیب دینا شروع کیا اور آج خدا وا لے کے فضل سے پہلا نمبر درج اخبار ہوتا ہے.اور انشاء اللہ اسی طرح مسلسل ہی مضمون شائع ہوتا رہیگا جب تک کہ اس کے منتقدان تمام ضروری باتیں پوری ہو جائیں.میرے سفر مدراس کے حالا منشا اختبارا لغسل میں چھپتے رہے ہیں اور کئی نمبر اس میں عنوان نامه مدد اس شائع ہو چکے ہیں لیکن عاجه مدراس میں تھا.جبکہ فاروقی کا ہیں نمبر شائع ہوا.اور اسی وقت سے میں نے ارادہ کیا تھا.کہ فاروق کی خدمت کے واسطے تھو با حوار 15 کے متعلق تمام تحقیقات اسی میں شائع کرونگا.اور یہی سبب ہے.کہ نامہائے مدراس میں ان باتوں کا کچھ ذکر نہ کیا گیا : اختصارا یسے اول اختصارا میں یہ فرض کر دیتا ہوں.کہ حضرت مسیح ناصری

Page 122

11 کے بارہ حواری نے ہر ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے تھے اور آپ کے متعلق تمام حالات اور واقعات کے باہر تھے.اور آپ کے ساتھ خاص محبت، اور انس رکھتے تھے.ان میں سے ایک سے کا نام ھوا تھا.قومہ کرنا یہودی تھا.ملک شام کا دستبنے والا تھا، مگر اس کی قبر ہندوستان میں ہے اور ایک ایسی جگہ ہے.جو آج کی شہر مدراس کے بڑھنے اور پھیلنے سے اس کا ایک محلہ بن گئی ہے.تھوہا کے زمانہ کے عیسائی آج تک ندر امن میں موجود ہیں.جنہوں نے بین اینه تو را که تنها داستان میں آنے.مدر اکسس میں شہادت پانے اور روشن ہونے کی روا برات کو آج تک محفوظ رکھا ہوا ہے.ان کے گرجے قدیم ہر چلے آتے ہیں ال کے پہلو بہ پہلو وہ یہودی بھی ، اب تک موجود ہیں جن کا بیان ہے کہ وہ کھویا سے بھی قبل منہ میں آباد تھے.اور کو چین کے قریب ایک بستی میں آباد ہیں.میں کاتا جس کا نا ہم سب یہودیوں کی سب کو بہتر ان میں عیسائی ہو گئے ہوں گے.منگی گے.مگری است این باره هدایت ين الجيش منے آتے ہیں.اور خالی اندر کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلا کے مجھے مجھے ان کے بہی خواری بھی شہدوستان میں است انے سے مختلف علاقوں میں پہلے گئے.اس تحقیقات ہیں.میں معلوم کروا کر بعض روایات کے مطابنا نو سیح کے ایک اور خوار کرائیں مہندوستان میں آسکتے تھے خود حضرت مسیح بھی آتے تھے.اور کہا شیدا آن عیسائی توحید پر قائم تھے.یہ سب باتیں اس مضمون میں ترتیب والے مفصل بیان کی جائیں انشار اللہ تعا لئے.

Page 123

۱۱۵ لفظ حقو ما سب سے اول ہمہ لفظ ختوما کی تحقیقات کو درج کرتے ہیں.بھنورا در اصل عبرانی لفظ ہے.جو کہ عربی لفظ قوام سے نکلا ہوا معلوم ہوتا ہے.دو بچے جب اکٹھے پیدا ہوتے ہیں.تو ان کو عربی میں قوام کہتے ہیں.اسی کو بھراتی ہیں ھوں کہتے ہیں.اور بقول روایت مندرجہ کتاب نه بلوا کیش مامی صفحهم و منتو با حضرت عیسی علیہ السلام کے قوام بھائی ھے.زلاحظہ ہو کتاب کتنے ڈکشنری آفت دی بائیکل جیلد صفحا بعض روایات کے مطابق مقرب کا اصلی نام یہودا تھا.مگر بعض اور حواریوں کے نامہ انہیں بہبود اشتے.اس واسطے ان کا نامہ تھورا پکارا گیا.یونانی میں اس کو نا مس کہتے ہیں.یونانی والے اکثر ناموں کے آگے صرت س پیا تھا لیتے ہیں.جیسا کہ یسوع سے پیرس اور چیزی بن گیا.سلیمانی سود سے پولیس کہتے ہیں.کہ انند ما ایمان لانے میں شدت نا امیدی میں جلدی کرنے والا.اور پر جوش محبت والا شخص تھا.یہی سبب ہے.کہ جب حضرت پھیلے علیہ السلام صلیب کے بعد دکھائی دیئے.تو اس نے قبول نہ کیا.کہ آپ کسی ہیں.یہاں تک کہ زخموں میں انگلیاں ڈالیں) اور اس کی محبت کا یہ شمال تھا.کہ جب یسوع نے اشارہ کیا.کہ وہ ان کے اس سے پھیلا کیا ائے گا.اغانیا کشمیر جانے کی طرف اشارہ تھا تو تھو ما ھبرا گئے.اور شیدائی کا سرمہ ان کے مشاقی گذرا.اور بے اختیار ہو کر پوچھنا.کہ اسے خدا وند تم نہیں جانتے کہ تو کہاں جاتا ہے.پھر راہ کسی طرح جائیں ، مسوغ نے اس کا جواب معلوم ہوتا ہے کہ صاحت لفظوں میں دینا پسند نہ فرمایا.لیکن یہی محبت تھی جس نے منوا کی راہنمائی تدا

Page 124

119 ا اور وہ اپنے آن کو نا مشق کرتے ہوئے مہر داستان ہو یا نوا کی جہات پیدائش انطاکیہ بھی ہو نمبلم مروجہ اناجیل میں تھوما کا ذکر ** پہلے نمبر میں ہم اپنے مضمون کو ختمہارا بیان کہے کہ فیہ تقریبا پر الفقه بحث کر چکے ہیں، اب ہم یہ دکھاتے ہیں کہ منہ کا حملہ تین کا ذ کہ مروجہ انا جیل میں کہاں کہاں آیا ہے اور اس مارچ سے آیا ہے کہ ناظرین کے.یہ امر واضح ہے کہ مصر را کوئی معمولی ان نہ تھا.کامیاب ایون میں وہ ایک خاص مرتبہ اور مقام رکھتا تھا.امتی باب ۱۰ تومیت ، ۳ اول کسی نے جہاں اپنے فائر راہیں سے بارہ آدمیوں کو خاص کیا.اور وہیں خواری کہیں تے ہیں.اور عیسائیوں کی اصطلاح انہیں کے ہیں ہم ایپاسل اور رسول پکارا جاتا ہے.ان میں سے ایک اللہ یا رسول ہے.-۲ انجیل مرقش با سب تین آیت اٹھارہ میں بھی تھوما ان شاگروں میں شامل کیئے گیئر ہیں.د بازی جیل لوقا باب ۲.آیتہ دا کی فہرست میں تھورا - خاس : گزیدوں میں گنے جاتے ہیں.ہم یوحنا باب گیارہ آیت تو یہ میں تھوما کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہے.کہ جب یسوع نے اپنے دوست تصور کے مرنے کی خبر سنی.اور وہ ھمگین ہوا.تو تھو را پر اتنا اثر ہوا.کہ وہ مرنے کے واسطے تیار ہو گیا.

Page 125

116 ۵- یوحنا باب بوده آیست با پینے میں تھوما کی اس محبت کا خصوصیت کے ساتھ اظہار ہوتا ہے جو کہ وہ کسی سے رکھتا تھا.اور اس آئی ہے ظاہر ہوتا ہے کہ کہاں جاتے وہ راستہ دریافت کرتا ہے.اور با نا خر مسیح کو تلاشی کہ تھے کہتے شہر داستان ہوتا ہے.-4 یوتا اب میں آیت چو ہیں.بعد صلیب کسی کی زندگی پر اترانے ہی نہیں کیا جب کرا کر کے زخموں کو دیکھ نہیں لیا.کہ یہ میں نہیں ہے.جو کہ سلیب ، دیا گیا تھا.كرا ان کے ہر صرف ایک جگہ اقبال یا سہ ، ایک، آمیت تیرہ میں و کہ ہے.اس پہلے شوری کی مجلس میں پولیسوع کو پہاڑ کے انی صحت کرنے کے بعد ہوئی.اس کے بعد حواریوں کے ساتھ ذکر نہیں کر ستم ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فورا ری لیون کے پی بلا گیا ، اور شام کا سر کی شرحت دوسر سے جواریوں کی طرح ا گیا کیونکہ اس کی یہی خواہش تھی.ک روان ورع کے ساتھ رہتے اور اسی اداسی یسوع سے پوچھتا تھا.کہ تو کہاں جائے گا.اور وہ سر تو ہا.کے گیا.ایک راستہ کیا ہے.دیگر اناجیل میں موما کا ذکر ائیل کے تذکرہ ہیں یہ ! " سرور یاد رکھنی چاہیئے.کہ انیل در اصل کسی کتاب کا نام نہیں بلکہ انجیل کے معنے ہیں بشارت خوشخبری.اسی واسطے عبرانی زبان : انجیل کو بشور الات ٦٦ ) ہیں، کہتے ہیں.جو عربی لفظ بیشترینی سے نکلا ہے.چونکہ حضرت مسیح ناصری علیہ سلام کا بڑا کام نہیں تھا.کہ وہ حضرت خاتم النبیین کے آنے کی خوشخبری

Page 126

دنیا کو پہونچائیں.اس واسطے ان کے اس پیغام کا نام بشری انتشارت..سند کی ناصری نے خود نے خود لکھی مل ہوا.مگر آج دنیا بھر میں نہ عیسا دوسرے کے پاس ایسی کتاب ہے.جو ہو.یا کھائی ہو.یا آپ کے زمانہ میں لکھی گئی ہو.یا آپ کی طرحت نے منسوب کی جاتی ہے.جن کتابوں کو اب انیل کہا جاتا ہے.دکا حضرت مسیح کے بعد بطور تاریخی وا تھا.م واقوام کے ھی کرتی تھی.بجہ اس امر سے انکار نہیں کر سکتے کہ مسیح کے حوار یوں ہوا دی ہو.جیسا کہ حضرت کی موعود کے بہت سے فوام کو یہ نعمت عطا کی گئی ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو کچھ انہوں یا سنیے بولا یا لکھا.وہ سب الہامی تھا.جب تک کہ کم از کم وہ اس بات کو تا ہیں امید: نہ کریں.کہ یہ کلام الہی مسجد لیکن مروجہ انا حسین کے محسنین نے یہ دعو نہیں کیا.کہ وہ الہانہ انہی سے لکھ ر ہے ہیں.اور نہ ان بزرگوں نے اپنی کتابوں کا نام انہیں رکھا.بلکہ بعد میں آنے والے لوگوں نے اس ہوا میں ہے کہ ان میں ایک آسمانی بادشاہت کے آنے کا ذکرہ ہے.ان کا تحمیل کیا.اور ایسی اناجیل ا شیدائی زمانوں میں بہت ساری تمھیں.ان کی تعداد قریب ستر کے بھی جن میں سے بعض علما نے بتائیں کتابوں کا انتخاب کر کے انہیں ایک کتاب کی صورت میں مجمل کیا.باقی تینتالیس کتابیں بھی بطور روایات کے پادری صاحبان اپنے پاس رکھتے تھے.اور ان کی فراستہ کرتے رہے.ان کو ایسا کرنا سکہتے ہیں.اس مجموعہ ایسا کرنا میں ایک کتاب نیام اعمال ھو ما نیسی ہے جی میں تھوتا کے ہندوستان آنے اور شہید ہو کو نہیں دفن ہونے کا ذکر تامر

Page 127

(A صفائی کے ساتھ کیا گیا ہے.اس کتاب سے بھی معلوم ہوتا ہے.کہ بقو ما خواری سرور ندوستان میں آیا.نمبر س شہادتیں گذشتند نمبرمیں ہم یہ دکھا چکے ہیں کہ کتاب اعمالی بھنوما جو قدیم سے عیسائیوں کے درمیان چلی آتی ہے.اس میں تھو نا خواری کے سند دست انا آنے کا مفصل ذکر موجود وہ ہے.ایسا ہم اس کے متعلق بعض دیگر شہادتوں کا حوالہ دیتے ہیں.ب سے پہلی شہادت خود ان عیسائیوں کی ہے.جو کہ قدیمہ ولا یا مہ سے رکن میں ہیں.اور نسلاً بعد نسل اسپینے کو فقر با خواری کے عیسائی کہتے چلے آتے ہیں.یورپ کے کسی عیسائی نے سرزمین کند میں اپنا قدم نہ رکھا تھا.کہ اس سے قبل وہ ہندوستان میں موجود تختہ صدر با سال تک اور ملکوں کے پیدائیوں کے ساتھ ان کا کچھ تعمیق نہ تھا.آج تک وہ اپنی عبادات پر ہوا اورپاتی ہیں ادا کرتے ہیں.ہو کہ عبرانی زمان کی آخری شکل کوا ناصر ہے.ان کے گریجوں میں بچے نہیں ہوتے.وہ اپنی نظر کی رسوبات میں شراب کا استعمال نہ کرتے.گرجوں میں تصویریں نہ رکھتے تھے اٹیوں کے اس عقیدے سے وہ و ده وانت نہ تھے کہ عشاء ربانی میں روئی اور شراب بیچ کا گوشت اور خون ہو جاتا ہے.وہ کریم کی الوہیت کے قائل نہ سکتے.بتوں کی پوجا نہ کرتے تھے.

Page 128

دہ یہودیوں کی طرح دانا رات اپنے گرجے کی شمع روشن رکھتے.گرتے پر کوئی صلیب نہیں ہوتی.بڑا بے چینہ جو روایات ان میں میں آتی ہیں.وہ یہیں ستاتی ہیں.کہ تھو نا حواری ہندوستان میں آیا.اس کے ذریعہ سے وہ عیسائی ہوئے کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی.کہ خواہ مخواہ لوگوں نے ایک بھوت بنا لیا ہو.اور پھر اس جھوٹ پر پشت در پشت ما یکر آئے ہوں.ممکن ہے کہ مرویہ زمانہ سے ان روایات ہیں کچھ باتیں مل جل گئی ہوں، لیکن کم از کم اتنی اصلیت مشترک مصدته شر در ہے.کہ کانتونا حواری وہاں پیو نیچے.اور ان کے ذریعہ سے وہ لوگ مائی ہوتے.-۲- دوسری بڑی شہا دست خود قبر ہے.جو اب تک موجود ہے.اس یکہ ایک بڑا تجاری کر جانا ہوا ہے.جبہ میں بدر اکیس گیا.تو ایک ان اس قبر کو دیکھنے کے واسطے گیا.صبح کا وقت تھا.گرتے کے در سب طرف سے کھیلے تھے.اور عیسائی لوگ صبح کی عبادت کرنے کے واسطے اس کے اندر آجا رہے تھے.یہ اتوار کا دن نہ تھا.اس دائے با ما خستہ نماز نہ تھی بلکہ لوگ اپنے طور پر کچھ عبادت کر کے پہلے آتے تھے.میں نے گر جائے یا ہر ایک شخص سے دریافت کیا.کہ تھو ما در ارمی کی قبر کہاں ہے.میں اُسے دیکھنا چاہتا ہوں.وہ شخص میرے ساتھ سوا اور گرجے کے بڑے ہال میں مجھے لے گیا.جہاں اس نے مجھے زمین میں ایک گڑھا سا دکھایا.جو پادری صاحب کے کھڑا ہونے کے پلیٹ فارم کے آگے بال کے وسط میں تھا.اس گڑھے کے اردگرد ایکس خوبصورت کثیرا لگا ہوا ہے.اور ایک طرف سے نیچے اترنے کا مہینہ ہے.."

Page 129

۱۲۱ میں دینے سے اتر کر نیچے گیا.اور وہ شخص بھی میرے ساتھ نیچے اتراء دو پتھر جن کی لبان شما را بند کیا تھی.ایک غار کے منہ پر رکھے ہوئے تھے.اور دونوں کے درمیان کوئی ایک اپنے کی جگہ کھلی حتی.اس مشینیں نے مجھے بتایا کہ یہ عموما کی قبر ہے.اور اس نے ایک لکڑی سے قبر کے اندر سے تھوڑی سی مٹی نکال کر مجھے دی.معلوم ہوا کہ اس نازک تھوں کی قبری مٹی بیماروں کو شفا دینے کے واسطے لے جاتے ہیں سیال کشمیر میں سر یسین کی قبر کی مٹی اس مطلب کے واسطے لوگ، تیر نکالے دیاتے ہیں.قبر شمال جنو کا ہے.جیسا کہ مسلمانوں کی قبریں ہو تی ہیں.غائباً منہ بیت المقدس کی طرف کیا گیا ہوگا.یہ قبر سمندر کے قریب ہے.اور اس میلے کا نامہ طے کیا سے خود ایک گاؤں تھا.مگر راتیں شہر کے پھیلنے اور بڑھی نہ سے میلا نیچے.اور اسی کا محلہ بن گیا ہے.شہر کی تمہ ہم کنار کیا کا جنوبی انتقام سے پند گاڑ کہ وسیلہ پر ہے.اور ڈیڑھ آنہ یہاں تک کہ ا یہ کیا ہے تصریہ یہ اشد ا نرالے کی کسی راس مصلحت کے بانی کے ماتت ایکلین میشی امرمیں کہ اس وقت جانت ادرا نہر سے بند قدم کے فاسد امیل پور میں بی ای اد.دع الحجاب فالنا ناپیدائش کم دارد ی ہیں.مگر وہ اس آپ کے بیان اقف نہ تھے.شاید اس رابطے کہ اس کی تحقیقات کا ازابی ہیا جیتے ہیں لکھا ہو ا تھا.اس گرجے کے ایک کونے میں تھو پاسداری کی بعض یادگاری اشیا تبر کا ر کھی ہیں جن میں ایک دانت اور بر چین کا سرا بھی ہے جس سے $

Page 130

وہ شہید ہوئے.یہ تبرکات دسمبر کے اخیر پر کسی خاص میسنے کے دن دکھا نے نہاتے ہیں.خمو کا بند رہتے ہیں.یه گر جهانی زنانه رومن کمنخولک پادریوں کے قبضے میں ہے.اور پرتگیز لوگ اس میں زیادہ تر ہیں.کیونکہ موجودہ گر جہا بہت ہی ستاندار عمارت ہے.پڑانگیزوں کی بنائی ہوتی ہے.ہونا یا کسی پہلی مسیار شده یا ست پر بنائی گئی ہے.اگر اسے کوئی دوست اتفاقی مدراس میں جائیں.اور اس قبر کو دیکھنا یا ہیں.تو ہما رے نوجوان قرية مره معبد القادر احد سلم الله تعالے جو مسیلا پورمیں جنرل ڈاکٹر ہوس میں رہتے ہیں.انہیں بخوشی ارداد و تینگے.ہمار کہ ہمارے دوست حاجی محمد قمر الدین صاحب ڈانگوی زمین اس قہر کو دیکھا ہے.نمبر دیگر شہادتیں ہم یہ دکھا چکے ہیں.کہ نشو را خواری کے ہندوستان میں آنے کا ذکر خود کتاب اعمال قورا میں موجود ہے.اور اس کے بعد دیگر شہاد توکا میں سے پہلی شہادت دکن کے اوریہ عیب ایکوں کی.اور ور سری شہادت قبر موجود ہونے کی ہم بیان کر چکے ہیں.اس اور شہارتیں درج کی جاتی ہیں.-p کسی اس ت بر میانی را کی تاریخ کا باپ کہلاتا ہے.اپنی کتاب تاریخ.میں اس امر کا

Page 131

که تیری صدی کے ابتداء میں بعض لوگ ہندوستان سے آئے تھے جو دہاں کے قدیم عیسائی تھے.اور ان کے پاس منی کی اجنبیل عبرانی زبان میں تھی.اس نے بھی معلوم ہوتا ہے.کہ عیسائی مذہب سمند دستان میں بہت دیر سے تھا.ون ایک قدیم یونانی مورخ نے اس بات کا ذکر کیا ہے.کہ تصورا خواری تبلیغ عیسائیت کے واسطے بند دستان گیا تھا.اور وہیں شہید ہوا.اس مورخ سے نقل کرکے مسٹر کیور cute نے اپنی کتاب میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے.2 کلیسا نے شام میں جو قدیم کتب دعا ہیں.جن میں بزرگ اولیا سولوں کے حق میں دعائیں لکھی ہیں.ان تمام کتابوں میں تر با سواری کرام کے ساتھ اس کا ہندوستان میں چلا جانا اور مسیلا پور میں شہر سید اقری در یا پیلا آنا یہ کتا ہیں ایسی ہیں.جیسا کہ مسلمانوں ور بزرگوں کے ہم پر تو خوانیاں ہوتی ہیں.اور ان کو انگریزی میں Liturgical Books * Calentami of the Syrian Church.لیٹر چینی کیس اینڈ کیلنڈرز آف دی سیرین چرچ کہتے ہیں.سہلاک ی بزرگ کے واسطے ایک خاص دن مقرر ہوتا ہے.Martyiology of the Syrian Churching.- کتاب شہادت نامہ کلیہ ہائے سوریا.عیسائیوں میں قدیم سے مہم چلی آتی ہے.کہ جو بزرگ دینی خدمات کی راہ میں شہید ہو جاتے ہیں.ان کے اسمائے گرامی اور کچه تذکره کتاب شہادت نامہ میں لکھا رہتا ہے.سوسرین کا پیا

Page 132

کے شہادت ناموں میں تھےد را خواری کا نام شہر داستان اور میلا پور کے ساتھ تقدیم سے منسوب چلا آتا ہے..ایساری کلیسیاست پر ان کے شہادت اموں میں میں کیا اس کا نام سند دوستان اور سیطالیہ کے ساتھ قدیم ان یاسر سے مشروب جاتا ہے.ایسا سی کلی سیاستے روما میں میں شہارت ناموں کے درمیان منو دا خواری کا نام سند رستان اور رجب لاہور کے ساتھ قدیم اللہ اسم ہے ل 9 - ایسا ہی ایسیرین کلیسائے کے شہادت اسوں کے درمیان تھو یا کاری کا نام ہندستان اور میلا پیر کے ساتھ قدیم الایام سے انسان جینا آتا ہے.ا مذکورہ بالا تمام شہادت ناموں کے اکار سینہ مار گریگوری انسی آفت ٹورز نے اپنی کتاب ان کا دریا بار نارم by St, greger مر في دراسته بوده Ingbrix Morty ترانه Batooni میں انو با جوانی کے ذکر میں نہیں کا شہندوستان میں آنا اور اسی بنگر شہید ہونا قدیم روایات اور سادات کے والے پر لکھا ہے.یہ کتاب علامہ کی تسنیت 11 جوانشی ادی عیدی کے ابتداء میں مکہ میں بیان یان بشیوں کی ایک کونسل قائم ہوئی تھی.اور جو باتیں اس کو نسل میں طہ پائی تھیں.ان پر تمام پیشیوں کے دستخط لئے گئے.ان میں ایک ماشہ یو منا نام نے اپنے آپ کو مہندوستان کا بشپ کر کے لکھا ہے.وہ قصوری

Page 133

کا کا غذ اب تک موتیہ نہ ہے.اور اس سے ظاہر ہے کہ اس وقت مهارت تو ان میں ایسے عیسائی لوگ موجود تھے.جن کا کوئی بشپ بھی ستان -۱۲ - کاسمس نام ایک عیسائی نے چھٹی صدی کے ابتدا میں ہند ہوتی میں مہندوستان کی سیر کی.اور ایک سفر نامہ لکھا ہیں میں اس نے جنوری سند اور مالا بار میں قدیم عیسائیوں کے ہونے کا ذکر کیا ہے.قدیم جا نمان کی تاریے میں یہ باستہ سب مصنفوں نے درج کیا ہے.کہ بادشاہ الیمینٹر نے ایک نڈے کو پورا کرنے کے واسطے کچھ مخالفت کے ساتھ اپنے میز ھو یا نواری کی قبر یہ بھیجے تھے : جو میلا ہوں ندرہ ستارہ میں تھی.یہ واقعہ متعہ کا بیان کیا جاتا ہے.اور اگر انوا والا واقعہ درست نہ ہوتا.تو اسے اس قدر شہرت اور عارات کہیں حاصل نہ ہو سکتی.کہ انگلستان کا بادشاہ اس پر اپنا بڑھا را ے ملاحظہ ہو کتاب انکو یہ کسن کر انیکل صفحہ ، Anglo Suzo chronicle Bohne Edition R 357 -۱۴- مارکو پولو مشہور سیاح جس نے اپنی سیاحت میں ملکوں اور شہروں کے حالات نہایت تحقیقات سے لکھتے ہیں.اور آج تک بھی اس کے سفر نامے تاریخ میں نہایت وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.جیب جنوبی ہند میں پہونچا تو اس نے میرا پور مدراس کے گرجا اور قدیم عیسائیوں کا ذکر اور کفر ما حواری کے بند دستان میں آنے اور تبلیغ کرنے اور شہادت پانے کے تمام واقعات کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے

Page 134

INW اگر یہ سب واقعات اس کے زمانے میں مشہور نہ ہوتے.اور اعتبار کی نظر سے دیکھا جانے قابل نہ ہوتے تو وہ کبھی ان کا تذکرہ اپنی کتاب ہیں اس شوق سے نہ کرتا.12 پادری ابد یاس نے مسلہ میں عند ما کے ہندوستان میں ہونے کا ذکر کیا ہے.-14 - پادری دور وانی.اس نے شملہ میں یہ تمام واقعات براتے ہیں.16 سینٹ افریم نے سکتے ہو یو میں ان باتوں کا تذکرہ کیا ہے.ا سینٹ جیرومہ نے شو میں ان تصدیق کی ہے.۱۹ کلی بین ٹائین پیکاک نشس میں نہ میں ذکر ہوا.۲۰ - نصر و احوار کیا کے جانشین پیادری کے بعد دیگرے آجنگ دکن میں پہلے آتے ہیں.جیسا کہ پوپ کا سلسلہ میکہ اور دیگر سے چلا آتا ے اور موجودہ جانشین تھوما کے بعد چھپا ک میں نمبر پر ہے.رسل فضل ہو.کتاب سیر این جریج ان بالا با صفحه ۵ مطبوعہ تر دینا پلی 10 چالیس کتابوں کا حوالہ 519 1 گذشتہ غیروں میں ہم اندرونی اور بیرونی میں شہاز میں کرج ر چکے ہیں.جن سے مسائل یہ امر پایہ ثبوت کو ہی ہوتا ہے.کہ جنوبی ہند میں تریم انا یا ہم نے عیسائی پہلے آتے ہیں.اور آج کل عصر ما توار رہا کے عیسائی کہلا تے ہیں.انہیں میسانی باس نے دانے ابتدار حضرت پیسے

Page 135

علیہ سلام کے ایک جواری تھے.چین کا نام تھو رہا تھا.اور جنہیں یورپ کی زبانوں میں سینٹ ٹامس کہتے ہیں.اب ہم یہاں ان تمام شائع شدہ کتابوں کی فہرست درت کردیتے ہیں.جن میں تفصیلاً یا اختصارا تقو ما حواری کے منہار دستان میں آنے اور یا ہاں شہید ہونے کے حالات درج ہیں.چونکہ میں نے یہ تمام تکنیتا ہے اور اس میں کی ہے.اس واسطے میں نے اکثر مذکورہ کتب کو وہیں دیکھا ہے.بعض کتابیں تو مجھے مدراس کا سرکاری پالک لائیر یہ کیا میں مل گئیں.جو کہ وہاں کے عجائب گھر کے ند ر ایک بررسی شاندار در منزله عمارت میں رکھی ہوتی ہے.ہزارہا کریں فر سبورت الماریوں میں مختلف مضامین کے لحاظ سے ترتیب دے کر لکھی گئی ہیں.اور بہت سی مہریں اور کرسیاں الگ الگ بنا دی گئی جہاں بیکر شایقین کرنا ہی مطالعہ کر سکتے ہیں.کتابوں میں سے چھے نقل کرنے کا نوٹ کرنے کی عام اجازت ہے.لیکن صرحت پنسل کا ستعمال باز رکھا گیا ہے.تاکہ کتابوں پر سیاہی کے داغ نہ لگے جائیں.اس نام دناں کے ایک علم دوست سابق گور از سه رکینا بارا کے نامہ پر کیا ندارد تبریزی ہے.انگر یہ سی کے سوائے مفکرت اور پانی کتاب میں بہت نہیں.مگر کو ہوا.فارسی و ارود کی ایک کتا یہ بھی نہیں کرتا ہوں.کے جانے کی کسی کو نہیں اعانت نہیں.اس واسطے تمام کتابیں.وجود رہتی ہیں.پنجاب کی پرانگ نا ئبریریوں کی طرح نہیں کہ اگستر تابوں کے متعلق لائبریرین صاحب کہدیتے ہیں باہر گئی ہوئی ہے ہے ر اس طرح ایک محقق آدمی کو مایوسی کی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے بنے

Page 136

میں نے ہندوستان کے مختلف شہروں کے پبلک کتب خانے دیکھے ہیں.مگر ایک خوبی جو شکستہ کی امپیریل لائبریری میں ہے.وہ ہی میں نہیں دیکھیں.اور وہ یہ ہے کہ ریفرنس کی بڑی بڑی کتابیں مثلاً انسائیکلو پیڈیا اور ہر قسم کی ڈکٹ مریاں اور ڈائر کٹڑیاں سب ریڈنگ ہال میں کھلی الماریوں میں تمہاری گئی ہیں.اور ان کتابوں کے واسطان بریرین کو درخواست نہیں دیتی پڑتی.لیکر ماشین خود ہی ان کتابوں کو بیان کر دیکھ لیتے ہیں.اور پھر خود ہی وہاں واپس ردیتے ہیں.اس سے نہ صرف شایقین کو آسانی رہتی ہے.بلوی تبریری کے حسنات کا بھی وقت اور محنت کا بچاؤ ہو جاتا ہے.کتب خانہ پنجاب اور دیگر کتب مانوں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے.یہ تو جملہ معتر نہ ہی تھا.اصل بات کی طرف میں رجوع کرتا ہوں حضور اتداری کے متعلق بعض تصانیف اس کتب خانے میں ہیں لیکن بس پرانی کتا ہیں ایسی تھیں.جو کہ نہ تو پہلا کہ لا کر یہ کیا سے ملیں.اور نہ کسی عیسائی کے پاس منتہیں.مگر ان کا ذکر اپنی موجودہ کتب میں یکیں نے پڑھا تھا.ان کا تل شل کرنا بہت ہی مشکل تھا.کیونکہ وہ اب چھیتی نہیں.لیکن اللہ تعالے کا فضل اور کرم اور احسان اور غریب نواز ہی ہے.کہ مجھے وہ سب کتابیں تھوڑی محنت تلاش کے بعد ایک ایسے کتب سمانے میں مل گئیں.جو ایک گمنامی کے گوشے میں پڑا ہو اتھا.وہ کتب خانہ پادری کیلیت آنجہانی کا ہے.پادری کیلیٹ بہت عرصہ ہوا.مدر اس نہیں، ایک مشہور پادری تھے.انہیں کتابوں کے جمع کرنے کا بڑا شوق تھا.عمر بھر میں انہوں نے کتابوں کا ایک "

Page 137

١٢٩ بیش قیمت ذخیرہ جمع کیا.جو ان کے مرنے پر کلیسیا نے خرید لیا.اور اب وہاں انگریزی جرج کے نمبروں کے سوائے دوسرے کو جانے کی اجازت نہیں، مگر وہاں کے ڈیکن صاحب نے مہربانی سے مجھے خصوصیت سے اجازت دی.میں چند روز متواتر دیاں حیا تا رہا.اور مجھے تعجب ہوا.کہ اس قابل قدر کتب خانے کو دیکھنے کے واسطے کوئی وہاں نہ آتا تھا میں اکیلا دہاں پر کتابیں دیکھتا رہا.سو بعض کتا بیں مجھے کیٹیٹ لائبریری میں ملیں لیکن تاحال پخش کتابیں ایسی ہیں جن کا حوالہ میں نے کتب زیر مطالعہ میں پڑھا.مگر خود انہیں نہیں دیکھا.ان سب کتابوں کا نام ہیں یہاں لکھ دیتا ہوں.تاکہ اس مضمون پر آئندہ محققین کے واسطے آسانی ہو.اور انگریزی کتابوں کو ان دو حروقت میں درست طور پر نہیں پڑھا جا سکتا.لہذا صحت اعظمی کے واسطے انگریزی حروف میں بھی نام دیئے جاتے ہیں.ا.تاریخ کلیسا سے مالا بارہ مصنفہ میکائیل گیڈس مطبوعہ لندن و موجود در ایلیٹ لائبریری مدراس) ) of Malabar History of the Church by Michael geddes London.1699.اس کتاب میں بند را خواری کے ہندوستان میں آنے میں پور میں اس کی قبر کے ہونے کا مفصل ذکر ہے.اور یہ بھی لکھا ہے.کہ جنوبی سند میں قدیم سے یہود آباد تھے.رصفحہ ۷ ) اور تھوما کے عیسائی گرجوں میں تصویریں نہ رکھتے تھے.بت نہ بناتے تھے.شراب کا استعمال نہ کرتے تھے

Page 138

عشائے ربانی کو حقیقی نہ مانتے تھے.(صفحہ ۳۷۴) (۲) کتاب ظہیر الدین مخدوم.یہ ایک اسلامی بزرگ کی تصنیف ہے.جو مال بار میں بطور ایک ولی کے نانا جا تا ہے.مخدوم صاحب نے بھی اپنی کتاب میں تھورا اور اس کے عیسائیوں کا ذکر کیا ہے.جر سند دستان میں قدیم سے، پائے جاتے ہیں.چونکہ مخا وهم صاحب کا نام میں نے انگریزی حروف میں دیکھا ہے.اس لئے اس کی تلفظ صحیح معلوم نہیں ہو سکتا ہے چالیں کتابوں کا حوالہ مضمون نمیشہ میں ہم نے ان کتابوں کے نام لکھنے شروع کئے ہیں جن میں تھو ما حواری کے ہندوستان میں آنے.رہنے اور شہید اور مدفون ہونے کا تذکرہ ہے.دو کتابوں کے نام اور کچھ ذکر درج ہو چکا ہے باقی فہرست اسب در نیجا کیا جاتی ہے.مله را در دستان کو سچے دلی عیسائی بنانا غیر ممکن ہے کہ مصنف اے جے اے دو راستے مطبوع استران Inposibility of making real converts to charistiming in Inolia.by Abbe.J.A.Dubuis" London 1823.اس کتاب کے صفحہ ۲ میں کر کیا گیا ہے.کہ نہ توری فرقہ کے عیسائیوں کی کتاب دعا زبان سریانی میں اب تک مہندوستان میں موجود ہے.

Page 139

واضح ہو.کہ بعض لوگوں کی تحقیق کے مطابق الا بار اور مدراس کے پرانے عیسائیوں کو نستوری عیسائی بھی کہا جاتا ہے.(۲) سفرنامه سند مصنفه با یخنو لومیو مطبوعہ لنڈ ان نشلة A verjage to the east India by F.P.D.5.Berblomes London.1809 یہ ایک مشہور اور قابل اعتبار سیارے کا سفر نامہ ہے جس نے کیا میں ہندوستان کی ساحت کی تھی.اس کتاب کے صفحہ ۱۹۴ میں کہ کہ مہندوستان میں تھو نا حواری کے عیسائی اب تک سریانی زبان میں اپنی مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں.خدا کو الونا کہتے ہیں.ہو ئی شہوت کو روما صلیب کو پیدا نذر کو قربا نار صفحہ (140) واسکو ڈی گانا کے زمانہ تک یہ اور کسی کی الہیت کے منکر تھے.بتوں اور تصویروں کو برا سمجھتے تھے مگر شامل ہیں روز کمینے لگتا اور یوں کی امداد سے وہ ان کے ساتھ شامل ہو گئے.(۲۰۰) لوگ روزه رکھتے تھے.اور روزوں کے ماہ میں عورتوں سے الگ رہتے تھے.(۵) کلیسیا کا یہودیوں کے ساتھ صحیح ہو تا یا مصنفہ مسٹر نارڈ مطبوعہ لنڈن سناء "Right attitude & action of church "Towards the Jews" by Jems steury Hierd.London, 1883.Rev رصفحہ ۹۲) ابتدا میں عیسائی رسولوں کا یہی طریق رہا - Beris کے واسطے ایسے ملکوں کو جاتے تھے.جہاں پہلے سے یہ میسائی مبلغین

Page 140

مال بار کے یہودی اس بات کے قائل ہیں.کہ اُن کے آباد دس ہزار کی تعداد میں بیت المقدس سے جنوبی ہندوستان میں آئے تھے.اور اسی جگہ بود و باسین اختیار کی.سب سے پہلے جس جگہ آباد ہوئے.اس کا نام کہ جنکا تو رتھا.اور اب تک کو چین کے گرد و نواح میں ایک فقیہ ہے.جس کا تاہم مشن پرسی یا یہودیوں کا شہر ہے.مالا بار کے قد کہ عیسائی نماز کے اختتام پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک سب پر سلام کرتے ہیں.ایسا کہ مسلمانوں میں اسلام علیکم کہا جاتا ہے) اس کتاب کے بتاتی ہے ایک تو یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ بچونکہ قدیم سے جنوبی ہندوستان میں موجود لوگ موجود تھے.اور سواری لوگ ہر جگہ گئے ہیں.جہاں کہیں ہیرو تھے.اس واسطه عز درے کہ کوئی حواری جنوبی ہند کو گیا ہو.جیسا کہ خود حضرت مری جالب است وام بانک کشمیر کے یہود کے پاس تشریعیت نہ آئے.اس سے دکن میں تھوما کے آنے کی خبر کی تائید متی ہے.دوم و قدیم علیہ ائیوں کا نھا نہ س کے بعد استلام علیکم کہنا اس امر کی دلیل ہے کہ ابتدا و حضریت سے عالی ہے.انہوں نے ان لوگوں کو ایسا ہی طریق عبادت کا سکھلایا تھا.جسے وہ بعد میں بُھول گئے.اور حضرت خاتم النین.عصر انبار محمد مصطفا صلے اللہ علیہ اسلم نے ان گم گشتہ ہدایتوں پر دنیا اس کا انکہ یہ امر میں طور کہ دنے کے قابل یہ ہے کہ چونکہ شام کے یہودیوں بھی کتاب دعا زبان لیہ اسلام کی ہے کچھ دیا.اور گو یا قتل ہی کر ڈالا اس اسٹے

Page 141

عليم الكامل انہیں آج تک بھی توفیق نہ ہوئی.کہ سب کے سب دین اسلام قبول کرلیں یا عیسائی ہی ہو جا ئیں.لیکن کشمیر کے یہودیوں نے نجی اللہ کی خاطر کی اور امداد کی.اور کوئی مخالفت نہ کی.اس واسطے خدا تعالے نے انہیں توفیق دی.کہ ان میں سے کوئی یہودی نہ رہا.اور ان کو پورت دی گئی.کہ ایک بنی اللہ کی قبر ان کے درمیان انیس سو سال سے محفود خیلی آتی ہے.(4) ملک چین میں سمیت چند اصول مصنفہ ایم اہل اسے سید Christianity in China vol I.by M.L.Ar put.صفحه ٣٩) داستان کے داظ بصر باسم اری تھے.جب باقی نس Pankenus, دوسری صدی میں مدد مستان میں آیا.تو اسے معلوم ہوا کہ پیسا نیست و نان جاری ہوچکی تھی (۵) شهرستان میں سخت مس بارش مطبوع النقان Christianity in India by J.W.M.Marshall, Finder 1885.(صفحہ (( لین لوگوں کا خیال ہے کہ عضو ناخوازی نے نہ صرف بندی میں وسلفظ کیا.بلکہ وہ سنہا دوستان سے ایک پین کو بھی گئے تھے.امی مہندوستان میں عیسائیت کی تاریخ دهند یا دری بست History of christianity in Indix by Rev Jams Hough MA ر جلد اول صفحہ (۴۳) مرقس رسول نے سکندریہ سے عیسائی مبلغین

Page 142

مہند دستان کو بھیجے خیمے.اس سے یہ معلوم ہوتا ہے.کہ اکثر حواریوں کو منہدستان کی طرف آنے یا اپنا اینچی بھیجنے کی فکر لگی رہتی تھی.تھوما کا سہندوستان میں آنا تو اظہر من الشمس ہے.کیونکہ قبر تک موجود ہے.اور خود عیسائی لوگ اسے تسلیم کرتے چلے آتے ہیں.ایک روایت کے مطابق با تو میں حواری بھی سنہا.پاکستان میں آئے تھے.تھورا کا شمالی مہند کو چھانا بھی ثابت ہے.مرقس اپنے ایچی سند دستان میں بھیجتا ہے یہ سب کیوں.اس واسطے کہ حضرت عیسے قلیلہ نامہ سہندوستان میں موجود تھے.میں اپنے روحانی آقا کی تلاش میں اور اس کی محبت میں ان سب کا رخ مندوستان کی طرف ہو رہا تھا.لیکن اصل مطلب کا اظہار چونکہ مناسب نہ تھا.کیونکہ مسیح ناصری صلیب سے بیچنے کے سبب خفیہ طور پر کل آئے اور انہوں نے اور نیز فرشتوں نے عورتوں کو صرف اتنی اجازت دی کہ اس بچے کھلنے کی خبر یہ وع کے شاگردوں کو کریں.دوسروں کو خبر کرنے کی اجازت نہ دی گئی.دیکھومتی کا آخری باب ) بلکہ اتفاقاً کسی نے پہچان بھی لیا.تو میسوع تقلد وہاں سے غائب ہو گیا.(دیکھو لوقا باب چوبیں ) اس واسطے وہ اور تو مخفی رہ گیا.لیکن ان سب کا ہندوستان کی طرف رجوع کرنا کتابوں اور روایتوں میں شائع کودتا رہا.ایک روایت ے یہ بھی نا بہت ہو تا ہے.کہ تھوماتے ہی کی مریم کے سامنے اپنے تبلیغی حران است کو بیان کیا جس سے معلوم ہوتا ہے.کہ وہ بھی سند دستان میں ہی نہیں.اور کچھ عرصہ ہوا ہمارے ایک دوست مولوی غلام دستگیر صاحب، احمدی کو جو میں پور میں رہتے ہیں.ایک

Page 143

۱۵ لیڈی مسٹر فرد نام نے یہ بھی کہا کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے.کہ خود حضرت مسیج بھی ہندوستان آئے تھے.لیکہ مدراس آئے تھے اور ممکن ہے کہ منتوما کا کام دیکھنے گئے ہوں.مقد ما خود بھی کہتے ہیں بسیج نے مجھے یہاں بھیجا ہے.تعلام دست گیر صاحب کا خط در رج ذیل ہے.۲۲ را پدیل شد مند و می جناب مفتی محمد صادق صاحبها حمادی دام برکاته :- السلام علیکم و رحمه الله دیر کو کیا.گذشتہ ماہ ستمبر کا ذکر ہے کہ ایک روز یکشنبہ توسط صبح کے قریب جنابہ مستر فرد صاحبہ سے ملاقات ہوئی.ہجو گر جا سے آرہی تھیں.باتوں میں فر با یا.کہ حضرت کیلئے علیہ السلام اور ان د خان له دستگیر قاره وقتی از بارده اس کی ہاں سب یہیں- نمیشه چالیس کتابوں میں سے آٹھ کتابوں کے حوالے اور داخلے ہم پچھلے نمبر میں دے چکے ہیں.اب اور کتابوں کے نام لکھے جاتے ہیں.جن میں سمجھ قسم تذکرے درج ہیں.(9) چونتیس انجمنیں.مصنفہ مرہ فلپس مطبوعہ لندن مسئلہ میں لکھا ہے.وے نکاح کرتے تھے.درد من کنیدو یک پادریوں کی طرح مجرد نہ رہنے تھیم اس بات کے قائل نہ تھے.کہ مسیح سر جنگہ حاضر و ناظر ہے.کیونکہ : مسیح کی الوہیت کے منکر تھے ، ان کی عبادتوں میں گانا بجانا نہ ہوتا تھا.نہ کوئی مورتیں رکھی جاتی تھیں.وہ نہ اولیاء سے دعائیں مانگتے تھے نہ گرجوں میں کوئی مقدس پانی رکھا جاتا تھا.نہ وہ پوپ کو جانتے

Page 144

نئے.اور نہ ان کے درمیان را سب ہوتے تھے (صفحہ ۱۵) با وجود ان سب باتوں کے وہ عیسائی تھے.اور عیسائی کہلاتے تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے.کہ اصل عیسائی مذہب دہی تھا.جو ان لوگوں کے درمیان تھا.اور تمام بدعات سے پاک اور صادف تھا.Thirty four conferences by Mr.Phillips.London 1920.India Antiquary vol 2 1875.(۲) رساله قدیم مند داستان جلوی به مطبو له ش سفر س تھوں کے عیسائی جن کو میریا کے عیسائی بھی کہتے ہیں، ان کی تحریری تاریخ سیر پانی زبان میں ان کے پادریوں کے پاس اسی تک سوجھ وہی (1) رسالہ انڈین اینٹی کوری شیر اصوره ۲۲۲۰۱۹ (۱۳) رسالہ انڈین اینٹی نوری سیدہ صفحہ ۲۵۱۰ رسوں) رسالہ انڈین انسٹی کوری عدم صفی شام، عمر و سرنوشتم من رم) رسالہ انڈین پینٹی کو ری چیذری صفحاشاه ۱۵ ۱۹۱۰ واری (10) رسالہ انڈین اینٹی کو درسی جلدہ صفحہ ۲۵ (ب)) سیاحت نامہ فرائر میں تھورا اور تھوما کے پہاڑ اور اس پر صلیب Fryer's Travels کا ذکر ہے.(1) رسالہ الیشیاٹک، رئیسہ خیر جلد کے صفحہ ۳۲۴ () اس الہ ایشیا تک ریسر چه حیله ۱۰ صفحه ۲۳۷۲ (19) رسالہ ایشیا تک ریسر چند میلید ۱۳ صفحه ۱۱۵ بانک

Page 145

۱۳ (۲۰) مشرقی کتب کا مخزن - مطبوعہ ردم ء.اس کتاب میں دس بڑے صفوات ہیں.تھو نا خواری کے بہار دستان آنے شہید ہونے مینا پور میں دفن ہونے اور تب سے وہاں عیسائیت کے قیام کا ذکر ہے.Biblotheca orientalis.Room 1728.) شب پارٹس (the Peris نے جو میں آرا ہے.اختر باسواری کے منبر دستان آنے اور شہید ہونے کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے.(۳۲) کون کاروی تو کے پادری جان صاحب نے ہمیں تھورا کا نظام ذکر منبد دستان آتے.شہید ہونے اور دفن کئے بجھانے کا سکھا ہے Friar John of Monte Carvine 1292.Anglo Saxon chronicle Bohn's (10) کار تک اینگلو سیکسن جیں ہیں.تذکرہ مفصل ہے کہ کس طرح شاد الفرامل اپنا نذرانہ پڑ ھاو ا ھونا اور بار تھو لو میرا میچ کے دو حواریوں کی قبر پر سند دستان بھیجا.اس سے اور بعض دیگر روایتوں سے ایسا نا بہت ہوتا ہے.کہ نہ صرفت فقد ما یک بار تھو لو میور سواری بھی ہندوستان آیا تھا.چنانچہ (۱۴) کتاب دی سیاسٹولک اور بحن مصنفہ فلیپتوس مطبوعہ بوراس The Apostolic origin & early History of the Syrian chirch ة Malabar by A Philipose M.A.Madras 1904

Page 146

۱۳۸ کے صفحہ ۲۰ میں سکھا ہے.کہ یوسی بی اس کی روایت کے مطابق بار تھولو ہیں حواری ہندوستان آیا تھا.اور ہو سکتا ہے.کہ وہ تھوما کے پیچھے آیا ہو.ملاحظہ ہو.یوسی بی اس کلبسیا صفحہ ہم و مطبوعہ لندن مشکی Eusebius Ecalesiastical History 1.94 Translated by Mr Parker Third- Edition, London.1729.(۲۵) کتاب کہ سچن ٹاپو گر یعنی مصنفہ کاس باس کے صفحہ ۱۸ اپر لکھا ہے.کہ کاس ناس نے ۱۲۳ ء میں تھو ما حواری کے عیسائیوں سے مالا بار میں ملاقات کی "Christian Topography" by Cosmos in the Hallat society's Publication (۲۶) انجیل اعمال تھوما میں سارے واقعات ابتداء سے لکھے آتے ہیں.اور یہ کتاب سلسلہ قبل نائین میں لا پر چھپ چکی ہے "The Acts of Thomas in Ante-Nicene Christion Library vol.I.(۲۷) ڈاکٹر رائے نے ایک مفصل کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے سربانی کلیبیا سندوستان ہیں.اس میں بھی یہ واقعات درج ہیں.Dr.Rae's "Syrian churen in India (۲۸) ہنٹر صاحب نے اپنی تاریخ سند کے باب ۹ صفحہ ۲۸۴ میں ان واقعات کا ذکر کیا ہے.گو ان کے نزدیک یہ عیسائی تھوما کے کئے ہوئے نہیں.بلکہ کسی عیسائی ملک سے آکر یہاں آباد ہو گئے.لیکن اس

Page 147

۱۳۹ قدر روایات اور شہادتوں کو بے دلیل معقول کے جھٹلانا درست نہیں ہے Sir W.Hunter's Indian Empire.(۲۹) سفر نامہ مارکو پولو کی جبلہ ہو کتاب ۳ میں اس کا مفصل ذکر ہے.Col.yule's "Morco Polo' vol II.Book..xxiii (۳۰) رساله وی منتحر بابت اگست شاہ میں ایک مضمون مشرق میں عیسائیت پر ہے.اس میں بھی یہ ذکر ہے.The Month August 1912."Christianity in the East." (۳۱) رسالہ دی انڈین ریویو - بابت جولائی سلام میں مالا باری فذ کہ عیسائیوں پر ایک مضمون میں درج ہے.The Indian Review, July 1912."The Syrian church in Malabar.(۳۲) جرنل آف ایشیا تک سوسائٹی مبلد ا صفحہ اے ، مطبوعہ لنڈن ۱۹۳۵ء میں یہ ذکر مفصل ہے.کہ قدیم آبائے لیسو عین نے تھوما کے مہندمیں آنے اور شہید ہونے کی تصدیق کی ہے.(۳۳) کتاب مستور یا انڈی مطبوعہ دینیس ششماہ میں بحوالہ پا دریان پھر کس.میری.اور مے فیوس توما کے سند میں آنے کا مفصل - Historia Indiae Lib 2.P.31 rence, 1589.تذکرہ ہے.

Page 148

۱۴۰ (۳۴) سہندوستان کے امپیریل گزیٹر میں پرانی یادداشتوں اور کفیوں کے حوالے پر اس کی تصدیق کی گئی ہے.Imperial Gazetter of India vol II P.5.56.Oxford 1907.(۳۵) پادری ڈاکٹر میڈلی کاٹ نے حال میں ایک نہایت مفصل کتاب اس مضمون پڑھی ہے.یہ کتاب لندن میں 190 ء میں چھپی ہے.Dr Medly cott "India & the Apostle Thomas" London, 1905 (۳۶) ایسا ہی ایک نوجوان مسٹر پہنچی کارن ایم.اے نے ایک The Syrian کتاب بنا هم بیر بن چرچ لکھی ہے.ای church in Malabor by Church Jotaphe.Panji Karan M.A grichin opoly 1914, دیکہ میں مدر اس میں تھا.تو بدلہ اس کے اختیار میں میری تلاش میزنی سیرین چرچ کا ذکر دیکھکر لڑائی کو سینڈرم کے ایک عقد ما کے عیسائی بنام کے بلی نے اپنے خط کے ساتھ مجھے یہ کتاب تحفہ بھیجی تھی خدا اسے نیز است خیر ده * Turner's History of Anglo Saxomsew تاریخ ایکو سیکن مصنفہ تریر صاحب (۳) جرنل آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی اپریل شار (۳۹) کو سپین ریسر چين ان الشياء مصنفة بوكينن -

Page 149

۱۴۱ Christian Researches in Asia by cloudius Buchanan.(۴) تاریخ زوال سلطنت روم مصنفه گین Gibbons Decline and fall of the Roman Empire.(و) پر اشکالی تحقیقات درشن - مطبوعہ لندن سند - Purtugese Discoveries, Dependencies and Missions-London 1893.کتا ہیں تو اور بھی بہت ہیں.مگر میں سردست اکتالیس کی مکمل تعداد پر اکتفاء کرتا ہوں.یہ خیال رہے کہ میں نے بعض ایسی کتا میں بھی کھدی ہیں جن میں یہ تو تسلیم کیا ہے کہ فقیہ ما مہند میں آیا تھا.مگر جنوب میں نہیں.شمال میں آیا تھا.یا بالکل نہ آیا تھا.یہ بحث نئے قیا سات ہیں.آگے چل کر میں اسی پر بھی کچھ بحث کرونگا.نمیشه تحصد ما پہاڑ پر مسیح ثانی کا ایک سلام چکے تھوں خوار ہی کے بہندوستان آئے اور شہید ہوتے اور میلا ہوں میں دفن ہونے وغیرہ کے متعلق ہم اکتائیں کتابوں کے حوالے دے ہیں.نیز تقوما کی قبر دیکھنے کا مفصل بیان (میر س) میں ہو چکا ہے.اب ہم اس پہاڑ کے دیکھنے کا ذکر کرتے ہیں یہ جو آج تک تھوما کے نام سے مشہور

Page 150

۱۴۲ اپیر ہاڑی ہے.اسے سینٹ ٹائر مونٹ St Jhomass Mont کہتے ہیں.یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی شہر مدراس سے بچھے میل کے فاصلہ پر ہے.وہاں ریل جاتی ہے.میں ایک دن اس کے دیکھنے کے واسطے صبح کا وقت تھا.پہاڑی میں سے اوپر چڑھنے کے واسطے ایک لمبی سڑک پتھر کے زینوں کی بنائی گئی ہے.جس کا نمونہ دولت آباد قلعہ میں یا بنارس کے گھاٹ پر ایک حد تک دکھائی دیتا ہے.میں اس پر اکیلا ہیں چڑا تھا.کوئی اور میرے ساتھ نہ تھا.قلب میں دعا کی تحریک ہوئی.منجملہ اور دعاؤں کے میں نے جناب باری میں عرض کی کہ یا الہی حضرت مین ناصری کا حواری یہاں آیا.مخالفین نے اسے قتل کیا.وہ شہید بیڑا میں بھی تیرے مسیح کا ایک شکام ہوں.پر کون سی بسیج محمدی - تو اپنے فصل سے کامیاب اور فتیاب کرا یہ دُعا کرتا ہوا میں اوپر پہونچا.پہاڑ پر ایک گرجیا بنا ہوا ہے.جو بند تھا.اور کوئی شخص وہاں نہ تھا.اس کے گرد گھومتے ہوئے ایک مدراسی بصورت مجھے ملی.اس نے ستبلا یا.کہ تھوڑی دیں میں گر جا کھولا جائے گا.گر جا کھولنے کے انتظار میں میں وہاں بیٹھ گیا.اتنے میں پانچ نوجوان سئو شکل و صورت سے مسلمان معلوم ہوتے تھے.وہاں آگئے.میں نے ان کو اپنے پاس بٹھا لیا.دریافت کرنے پر معلوم ہوا.کہ ریب کے ایک گاؤں میں جو سمندر کے کنارے پر ہے.ماہی گیر ہیں.اور بطور تفریح کے یہاں آگئے ہیں.میں نے سمجھا.کہ خدا تعالیٰ نے ان کو میرے واسطے بھیجدیا ہے.تب میں نے ان کو تبلیغ شروع کی.وہ قادیان کے نام تک سے بھی نا واقف تھے.ان کو حضرت نبی اللہ مسیح موعود اور مہدی معہود کے تمام حالات مفصل سنائے گئے.اللہ تعالے نے ان کے دلوں کو

Page 151

قبول ایمان کے واسطے انشراح صدر عطا کیا.اور وہ عاجز کے ہاتھ پر بعیت تو بہ کر کے داخل سلسل احمد یہ ہوئے.اور اس طرح اللہ تعالے نے اپنے کرم سے وہاں مجھے پانچ نو مبایعین عطا فرمائے.بعد بعیت انہوں نے اپنی تامل زبان میں ایک کا غذ پر درختان بیت کھدی - جو حضرت خلیفة المسیح ایدہ اللہ کے حضور بھیجی گئی.وه درخواست به الفاظ اردو اس طرح سے ہے.اندرے دنم مولوی محمد صادق صاحب.بنگلے پاٹ کٹ میں نامہ کنڈوم انم مهدی صاحب - انم مسیح صاحب ناؤ اوڈی کے پہلے ستار نام ادی اپر کنڈ وہ مولوی صاحب کئی میل مصبت تو یہ کئے انھم تا نگل ینگ لک دعاسی انگل یہ حضرت محمود احمد صاحب خلیفة المسیح - محمد اسمعیل محول نظام الدین ام صاحب شیخ خواجہ محی الدین شیخ صابو صاحب شیخ امیر صاحب اور میر - اس کا مطلب یہ ہے.کہ مولوی محمد صادق صاحب سے ہم کو سب حال سیح موعود و مہدی کا معلوم ہوا.اور ہم مولوی صاحب کے ہاتھ پر بیت تو یہ کر کے احمدی ہوئے.اور حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں درخواست دعا کی.جب یہ کاغذ کھا جا چکا.تو اسی وقت ایک بوڑھی نن د تار کہ آئی اور اس نے گرجا کھولا.گویا کہ وہاں اتنی دیر ان لوگوں کو احمدی بنانے کے واسطے ہوئی منی.اور یہ ایک فتح عظیم تھی.جو اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے عطا فرمائی.بوڑھی نن صاحبہ نے گرجا دکھایا.اور وہ پتھر دکھایا

Page 152

۱۴۴ جس پر تھو ما حواری شہید ہوئے تھے.وہ پتھر گرجے کے سامنے کی دیوار اس پر صلیب بنائی گئی ہے.اور کچھ الفاظ لکھے ہیں میں نصب ہے.ہے.اور غالبا یہ سب کچھ بعد میں بنا یا گیا ہے.پتھر پہ جو الفاظ لکھے ہوئے ہیں وہ کسی بہت ہی پرانی طرز تخریہ میں ہیں.اس کا ترجمہ آگے جہل کر ہدیہ ناظرین کہوں گا.انشاء اللہ تعا لئے.گر جا سکے دیکھنے کے اتنا ر میں من صاحبہ کے ساتھ مذہبی گفتگو شرور ہوگئی.جو انگریزی زبان میں تھی.اس نے افسوس ظاہر کیا.کہ آپ کے کو قبول نہیں کرتے.نہیں نے اسی کے الفاظ کو دہرا کر اس پر افسوس کیا اظہار کیا.کہ آپ مسیح کو قبول نہیں کرتیں.وہ کہے میں تو قبول کرتی ہوں آپ نہیں کرتے.میں کہوں.میں تو کرتا ہوں.آپ نہیں کرتیں.آخر میں پوچھا.اچھائی کیسے نہیں کرتی تب میں سند است شنایا اور کھایا.کہ مسیح دوبارہ دنیا میں آگیا.جو اس کو نہیں مانتا.وہ پہلے مسیح کا بھی شکر کیونکہ اگر باتنے والوں ، ایمانداروں میں ہوتا.تو وہ اس سیح کو ضرور قبول کرتا.اللہ تعالے کے مامورین - مرسلین کا دُنیا میں نمودار ہونا اہل دنیا کے واسطے ایک امتحان ہوتا ہے.جو کہتے ہیں.کہ اگر پہلوں کے زمانے میں ہوئے.تو ان کو ضرور قبول کرتے.اور ان کی ایسی ایسی خدمتیں کہا نا تھے.نہیں خدا ان کے دسویوں اور خیالوں کی آزمائش کے واسطے ان میں اپنا ایک رسول بھیجنا.ہے.اور اس سکے ذریعہ سے لوگوں کو کم کرتا ہے.کہ اُسے تبدیل کرد جواڑ سے قبول کرتا ہے.وہ پاسس ہو کر سب کا قبول کرنے رانا سمجھا جاتا ہے.جو اس کا انکار کرتا.ہے.وہ سب کا منکر اور کافر قرار دیا جاتا ہے.اس پر نن صاحبہ نے مسیح کی آمد ثانی کے

Page 153

۱۴۵ طریق پر کچھ گفت گو چاہی.تب الیاس کی قوت و تاثیر میں یوحنا کا آنا پیش یا گیا.جس کا جو اب اس سے بن نہ پڑا.یہ دوسری نسخے تھی.جو اللہ تعالیٰ نے تجھے اس پہاڑی پر حضرت فضل عمر کی دعاؤں سے مرحمت فرمائی.نئے احمدی بھائی پہاڑی سے میرے ساتھ اتر کر گاڑی تک میری مشایعت کے لئے آئے.اللہ تعالے ان کو برکت دے.اور اپنی رحمت اور معرفت سے حظ وافر عطا فرمائے.آمین نمبشه بعض نئے پادریوں کا اختلاف مہندوستان میں تھو ما حواری کے آنے.وعظ کرنے شہید ہونے مسی پور مدیر اس میں دفن ہوئے.اور آج تک اس کی شہر کے موجو کے متعلق پہلی کتابوں سے اور صدر کی روایتوں سے اور تاریخ مذہب سیمی سے اور سیاحوں کے سفر ناموں سے.غرض ہر ایک پہلو سے ہم ثابت کر چکے ہیں.اب ہم ان نئے پادریوں کے اقوال اور قیاسات کا بھی ذکر کر دیتے ہیں.جنہوں نے یہ رائے قائم کی ہے.کہ عقو ما حواری دکن میں نہ گئے تھے.بلکہ شمالی ہند میں گئے تھے.یا یہ کہ منہندوستان کو آئے والے صاحب تھوما نہ تھے.بلکہ با رنو لومیو تھے یا مرقس رسول کے بھیجے ہوئے مبلغ تھے.ان پادریوں کے اسماء یہ ہیں.ہفت - رائے.مائیر لوگن.یہ صاحبان اٹھارھویں صدی عیسوی کے آخیر کے ہیں.اور وہ بات جو قدیم سے سب رومی اور شامی اور دیگر مقامات کے پادری بالا اتفاق ایک تاریخی واقعہ کے طور پر مانتے چلے آتے ہیں.اور اس کے سے

Page 154

۱۴۶ - - واسطے بیرونی شہادت بھی موجود ہے.اسے آج چند پادریوں کے کہنے پہ رو نہیں کیا جا سکتا.بہت بڑا نہ درجس بات پر یہ صاحب لوگ دیتے ہیں.وہ یہ ہے.کہ بادشاہ گونڈو فاریس ( nadothares جس کے دربار میں تھو سا جواری آیا تھا.وہ پنجاب میں تھا.دکن میں نہ تھا.لیکن میری رائے میں اس کا تسلیم کر لینا ہمارے اصل مقصد کو کی نقصان نہیں پہونچا سکتا.جب تھو ما حواری شام کے ملک سے چل کر تین چار ہزار میل کا سفر طے کر چکے تو پھر پنجاب سے مدر اس پہونچ جانا کچھ مشکل امر نہیں.بلکہ قرین قیاس بھی ہے.کہ تھو ما حواری حضرت جیئے علیہ السلام کے نقش قدم پر شام عراقی - ایران اور افغانستان سے ہوتے ہوئے پنجاب میں داخل ہوائے.اور پھر یہاں سے اُنھیں حضرت سیح نے بنی اسرائیل کی ان کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف بھیج دیا.جو دکن کے علاقوں میں رہتی تھیں.اور اگر ڈاکٹر رائے کے قول کے مطابق تھورا عرب سے سمندر کے راستے میل کر براہ کراچی دریائے سندھ پر داخل ہو کر اس راستہ سے پنجاب میں آئے تب بھی یہی ثابت ہوتا ہے.کہ وہ اپنے آقا و مرشد کی تلاش و ملاقات کے لئے اس طرف عازم ہوئے تھے.اس بوڑھی نن نے بھی جو تھوما کے پہاڑ پر مجھے ملی تھی جیس کا نہ کہ میں رنبیرہ ، میں کر چکا ہوں.مجھے بلایا تھا.کہ تھو ما توادی سندھ اور پنجاب کو بھی گئے تھے.انجیل اعمال تھوما میں لکھا ہے.کہ مسیح نے خود تقو ما کو اس طرف بھیجا.اور یہ بھیجنا بعد صلیب کے واقعہ کے ہے.اور پھر تھوما نے بعض بڑے آدمیوں کے عیسائی بنا نے کے بعد حضرت صدیقیہ کے سامنے اپنے کارناموں کو دہرایا.جس سے معلوم ہوتا ہے.مریم "

Page 155

جنت نظیر سے کیا.کہ مریکہ بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ کشمیر آگئی تھیں.جیسا کہ آیت کریمیه وادينا هما الى ربوة ذات قرار ومعین سے بھی ظاہر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ تم نے عیسے اور اس کی ماں ہر دو کو ایک ایسے اُونچے مقام پر پناہ دی جو آرام کی جگہ ہے.اور وہاں جینے بہت ہیں.یہ بھی ممکن ہے.کہ جیسا کہ آجکل کشمیر اور وسط ایشیاء کو زمین کی چھت کہتے ہیں ( Goof of the center) ایسا ہی پہلے دنوں میں کشمیر کو کسی ایسے لفظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہو.جس کے معنے آسمان کے ہوں.اور اسی سے حضرت عیسیٰ علیہ سلام کا آسمان کو جانا مشہور ہو گیا ہو.مثلاً خود انگریزی زبان میں سیون Hensoni ) کا لفظ آسمان اور جنت دونوں معنوں میں آتا ہے اور کشمیر کے واسطے جنت کا لفظ تو اب تک مشہور ہے.مدراس اور کشمیر میں مناسبت یہ امر بھی قابل توجہ ہے.کہ مدر اسیوں کی بعض باتیں کشمیر یوں سے بالکل ملتی جلتی ہیں.شاید یہ بات اس وجہ سے ہو.کہ دونوں جگہ پر انے یہود بکثرت جابسے تھے.مثلاً مدراسی لوگ کشمیریوں کی طرح ہمزہ نہیں بول سکتے.اچھے خاصے انگریز می خوان بھی رائے ) کو بے اور رانی کو ہم کہتے ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ ہر دو جگہ کی خوراک ہر دو وقت چادل ہے تیسری بات یہ ہے کہ مدراس کے مہنود کشمیری پنڈتوں کی طرح بائل چھوت نہیں کرتے.بیوتی پاست یہ ہے.کہ مدر اسی کشمیریوں کی طرح علوم و فنوں کے

Page 156

۱۴ " حاصل کرنے میں بہت ذہین اور ہوشیار ہیں.اور تعجب نہیں کہ حضرت مسیح خود بھی دوران سکونت کشمیر میں یا اس سے قبل کبھی مدراس بھی گئے ہوں.جیسا کہ ایک زبانی روایت سے ہم کو معلوم ہوا ہے.غرض یہ بات کہ تھو نا پہلے پنجاب میں آیا تھا.اور بھی زیادہ ہماری رائے کی تصدیق کرتی ہے.کہ حضرت مسیح علیہ السلام خود بھی پنجاب ہے ہو کہ کشمیر کو گئے تھے.حال میں بعد سکتے گونڈو فارس با دشاہ کے مضلع گورداسپور میں ملے ہیں.جن سے قیاس کیا گیا ہے.کہ وہ بادشاہ کہیں اس طرف ہی تھا.اور تھو ما یہاں ہی تھا.یہ بات بھی صحیح معلوم ہوتی ہے.اور گونڈ : فارس کا لفظ بھی لفظ گورداسپور سے بہت ملتا ہے.اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں.کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو یہ بات بذریعہ کشف معلوم ہوئی ہو.کہ ان کا آخری زمانہ میں بروز اور روحانی ہم نام اسی جگہ پیدا ہونے والا ہے.اس واسطے وہ اس جگہ خود تشریف لائے اور پھر اپنی جائے پیدائش کے مطابق آب و ہوا کا مقام اس کے قریب ہی کشمیر میں پا کر وہیں اپنا مرکز بنا لیا.دکن میں جہاں بڑی سیتی دیسی عیسائیوں نے اپنے لئے بنائی تھی.اس کا نام قائلان تھا رسفر نامہ مار کو پو لو.یول ایڈیشن جلد ۲ صفحه ۱۲ ۳) جو لفظ معلوم ہوتا ہے کہ قادیان سے بگڑ کر بنا ہے.کیونکہ آخر وہ مسلمان تھے.نیک بندے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان پہ نہ دل سمیح کا مقام قادیان ظاہر کیا ہو گا.اور اسی کی محبت پر انہوں نے اپنی بستی کا نام بھی قادیان نہ کھا.جو مرور زمانہ سے بگڑ کر قاتلان رہ گیا.بس تھوما کا پنجاب میں آنا ضرور تھا.اور یہ در اصلی حضرت مسیح

Page 157

۱۴۹ اور ان کی ماں کی ملاقات کے واسطے تھا.بعد میں جو علاقہ تبلیغ کے پہلے ان کے سپرد کیا گیا.: ہاں وہ تشریف لے گئے.کتاب اعمال تھورا سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی تھی.کیونکہ اس میں لکھا ہے.کہ تھو ما گونڈو ڈر سے مس ڈس چلا گیا.معلوم ہوتا ہے.کہ یہی لفظ مسٹر میں رفته رفته مدراس بن گیا ہے.یا مادر اس سے فسر اس بیتا ہے.ہر دور صور تقول میں یہ ظاہر ہے کہ تھورا خواری عاجز راقم کی طرح گورداسپور سے مدراس گئے.دوسر کی بات اختیارات کی یہ ہے.کہ سندوستان کو آنیوالے حواری بار تھو لومیا کھتے.ہم کہتے ہیں.کہ ہار تھولد مینا کا آنا.کھونا کے آنے کے بنانی نہیں ہو سکتا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود کے ایک خادم چوندی فتح محمد صاحب ولایت گئے تھے.تو اس سے یہ دلیل نہیں پکڑی جاسکتی کہ قاضی عبد اللہ صاحب ولایت نہیں کیا.بلکہ جیسا کہ بعض مورخین کی راستے ہے.تھورا اور اس کے بعد بار مقوله میو ہر دو صاحبان مهدوستان تشریف لائے اور مرقس نے بھی اپنے ایلچی بھیجے اور ممکن ہے کہ بعض دیگر حواری بھی آئے ہوں.یا انہوں نے اپنے آدمی اس طرف روانہ کئے ہوں.کیونکہ خود حضرت علیے یہاں موجود تھے.اور حضرت کے مشیل اور بروز سیبی اسی ملک میں آنے والے تھے.جس پر سلام پہونچانے کی رعیت حضرت خاتم النبیین صلے اللہ علیہ وسلم نے کی تھی کیسے

Page 158

10° نمبرتا تھوما نے غیر قوموں کو کیوں بلیغ کی تھو ما حواری کے سند دستان میں آنے اور اہل سند کو تبلیغ کرنے سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے.کہ حضرت مسیح علیہ السلامہ تو صرف یہودیوں کی اصلاح کے واسطے ایک رسول تھے.اور غیر قوموں کے واسطے وہ مہدویت نہ ہوئے تھے.پھر کیا درجہ ہے کہ تھومانے غیر قوموں کو تبلیغ کی سواس کے دو جواب ہیں..ایک تو جیسا کہ او پہر تا بہت کر آئے ہیں.جنوبی شہر دستان میں بہت پرانے یہودی موجو د تھے.اور ان کو تبلیغ کے واسطے اور ان کی اصلاح کے واسطے حضرت علی علیہ السلام نے تھوما کو دکن کی طرف روانہ کیا تھا.جبکہ وہ خود شمال کی طرف ملک کشمیر کے یہودیوں کو ہدایت کرتے کے واسطے چلے گئے.-۲- دوسری بات یہ ہے.کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے شام اور روم اور دوسرے ملکوں میں بھی یہود کے سوائے اور قوموں کو آسمانی بادشاہت کی منادی کی ہے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ در اصل حضرت جیسے علیہ السلام کے دو بڑے کام تھے.ایک یہ کہ یہود کو سمجھائیں.کہ ان کی سخت دلی اور نافرمانی کے سبب اب روحانی برکات کا سلسلہ بنی اسرائیل میں سے ختم ہوتا ہے.اور بنی اسمعیل کی طرف منتقل ہوتا ہے.اگر یہود کو اپنی خیر مطلوب ہے.تو وہ آنے والے بادشا ینی کو قبول کریں.اور برکت پادیں.اس نبی آخر الزمان کے عہد حکومت

Page 159

101 کا نام حضرت بیسلے نے آسمانی بادشاہت رکھا ہے.اور اپنے حواریوں کو آخر میں تاکید کی ہے.کہ آسمانی بادشاہت کے آنے کی منادی سب قوموں میں کریں.کیونکہ وہ بادشاہت سارے جہان کے واسطے تھی حضرت مسیح علیہ السلام بلحاظ اپنے دعوئے اور تبلیغ کے پسند نہ کرتے تھے.کہ یہود کے سوالئے کسی اور کے سامنے اس کا ذکر کیا جائے.بلکہ ایک دفعہ تو ایک شاگرد کو منع کیا.کہ کسی سے ذکر نہ کرد کہ میں مسیح ہوں.ہاں اخیر میں اجازت دی ہے.کہ سب قوموں میں منادی کرو لیکن قوموں سے مراد بنی اسرائیل کی بارہ قومیں ہیں.اور اگر غیر انتظام بھی مراد ہوں.تو وہ اس لئے ہے.کہ آسمانی بادشاہت (شریعت اسلام کے آنے کی خبر سب کو دی جائے.کیونکہ وہ سارے جہان کے واسطے ہے.اور ضرور ہے.کہ سارے جہان میں اس کی خبر پونچا دی جائے اسی واسطے فرمایا.کہ دیکھو میں زمانہ کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں رمتی بات - آیت ۲۰ ) یہاں ترجمہ کا طرفہ ٹھیک نہیں.در اصل یوں معلوم ہوتا ہے.کہ دیکھو میں آخرالزمان تک تمہارے ساتھ ہوں.یہاں نبی آخر الزمان حضر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف اشارہ ہے.کہ ان کی تشریف آوری تک میری پیروی تمہارے کام آدے گی.اس کے بعد نہیں.کیونکہ پھر آنحضرت مصلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ماننا اور قبول کرنا ضروری ہوگا.اس جگہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے.کہ عیسائی صاحبان کا تمام دنیا ہیں.توریت اور انجیل کا پہونچانا.اور انبیا کے کلام کی منادی کرنا اور تصویں

Page 160

Ior سیح کا ذکر کرنا ہمارے واسطے ایک راہ کا صاف کرنا ہے.جو کہ اللہ تعالے ہمارے مخالفوں کے ذریعہ سے کرا رہا ہے.کیونکہ مسیح کا نام اور اس کا بیان ایک حد تک وہ دنیا میں لوگوں کو سنا دیتے ہیں.جو لوگ مسیح کے نام سے ہی نا واقف ہوں.ان کو مسیح موعود کی تبلیغ کرنے ہیں شروع سے تمام واقعات دہرانے پڑینگے.لیکن جو شخص سیخ کو جانتا ہے.اسے موعود کی بابت سمجھانے کے واسطے یہ وقت نہیں اُٹھانی پڑے گی.کہ مسیح کیا ہے.کیونکہ مسیح کے لفظ سے اس کے کان آشنا ہیں.صرف اس کی غلط فہمیوں کو دور کرنا باقی ہوگا.اور میں سمجھتا ہوں.کہ اگر عیسائیوں کے کام میں اتنا بھی فائدہ نہ ہوتا.تو انہیں کبھی توفیق نہ ملتی.کہ اس قدر روپے اور محنت ایک غلط مذہب کے پھیلا نے میں صرف کریں.ان تمام بیانات کے نتائج اس امر کو با پر ثبوت ایک پہونچانے کے بعد کہ حضرت عیسے کے حواری تھو ما نام ہندوستام میں تشریعیت لائے.اور میلا پور میں ان کی قبر ہے.اور بعض دیگر مواری بھی ہندوستان میں تشریف فرما ہوئے اب تم چند ایک سروری اور مفید نتائج اخذ کرتے ہیں.ا.سب سے پہلا نتیجہ اس تحقیقات کا یہ ہے کہ حضرت جینے علیہ السلام صلیب پر مرے نہیں.بلکہ زندہ رہے.ورنہ وہ کس طرح حواریوں سے لئے.اوران کو مناسب ہدایات دے سکتے ، سب سے

Page 161

۱۵۳ بڑی دلیل جو یہاں حضرت مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کی ہے.وہ گر جا تھوما پہاڑی کے پنچھر کا کتبہ ہے جس کو دیکھنے کا ذکر (نمبرہ ، میں کیا ہے.اس کنبہ کے الفاظ کو رسالہ انڈین اینٹی کو درسی جلد ۳ صفحہ ۳۰۰ میں ڈاکٹر اسی ڈبلیو ویسٹ (E.W.West) نے اس طرح ترجمہ کیا ہے.کس نے بچایا سچے مسیح - بخنے والے.اُوپر اٹھانے والے مصائب کا ٹھ کی صلیب اور اس کے عذاب سے یہ الفاظ خداتعالے کے اس احسان اور فضل کی طرف اشارہ کرتے ہیں.جس سے حضرت جیسے نے صلیب کی موت سے نجات پائی.اور اسی شکریہ کی یادگار میں پتھر پر لکھے گئے معلوم ہوتے ہیں.ڈاکٹر ویسٹ نے استفہامہ کی علامت مصائبت کے آگے دی ہے.اور سے کا لفظ بھی مصائب کے آگے لگایا ہے.مگر ہماری رائے ہیں یہ درست نہیں.کیونکہ شامی زبانوں میں استفہامہ کے واسطے کوئی علامات نہیں ہوتی.اور اس واسطے سے کا لفظ اردو ترجمہ نہیں آخر میں آ انگریزی ترجمہ ڈاکٹر ویسٹ کا اس طرح ہے.what freed the true Messiah, the forgiving, upraising, from hardship the cruce fixion from the tree and the anguish of the.ر ڈاکٹر ویسٹ کی علامت استفہام کو ہم نے چھوڑ دیا ہے ، -۲- برد بسرا نتیجه جوان تمام واقعات اور جوابات در روایات

Page 162

10Y سے نکلتا ہے.یہ ہے کہ حضرت عیسے خود ضرور کہیں اسی طرف تھے.در نہ کیا وجہ ہے.کہ تھو نا بھی بھاگے بھاگے سند دستمان آتے ہیں.اور بار تو لو میں بھی ان کے نقش قدم پر تشریف فرما ہوتے ہیں.جناب مرقس کو بھی فکر پڑی ہے.کہ ہندوستان اپنے آدمی بھیجیں ر تو را خود مسیح کی ملاقات.اور اس طرفت بھیجنے کا ذکر کرتے ہیں گو اس روایت میں کسی کے عام خیال نے خواب کا لفظ بڑھا دیا ہو.تاہم یہ سب باتیں جب محلہ خانیار کی قبر جیسے اور کشمیر کی پرانی تاریخ اور انجیل فتح برصایب اور مرہم کیئے.اور نیت سے مکلی ہوئی انیل سے ملا کر دیکھی جاتی ہیں.تو حضرت جیسے کے ملک ہندوستان کو تشریف لانے کے بیان کی تائید میں ایسے نہایت زیر دست تائیدی گواه ہمارے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں.جو ایک منصف کو ضرور اس فیصلہ پر مجبور کرتے ہیں.کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یقیناً ہندوستان تشریف لائے.اور قبر سری نگر انہی کی ہے.ہاں اس میں شک نہیں.شک انہیں.کہ حضرت مسیح کے اس سفر کو کھونا پردہ اخطا میں رکھنے کی کوشش کی گئی ہے.تاکہ حکومت وقت کو یہ نہ معلوم ہو جائے.کہ جس شخص کے واسطے چھینہ جسٹس نے صلیب کا حکم دیا تھا.وہ صلیب سے بچکہ ملک سے بھاگ گیا.اور کسی کو خیر بھی نہ ہوئی.اگر یہ امر پبلک پر پورے طور پر کھول دیا جاتا.تو ا دل تو خود حضرت سیئے کو اپنی زندگی کا دوبارہ خطرہ ہو جاتا.دوم وہ ایماندار جو شام کے ملک 2 میں تھے.وہ سازشی مجرمانہ اور اعانت جرم کے جرائم میں ماخود ہو کر ہیں دُکھ پاتے.پس مصلحت یہی تھی کہ اس بات کا کسی سے ذکر نہ کیا جائے

Page 163

یسوع کا نام بھی چھوڑ کر یوز آسعت کا نام اختیار کیا گیا.غرض تھوما کی قبر میلا پور اور پرانے عیسائیوں کی ایک جماعت اور تھوما کا پنجاب کی طرف آنا.اور تھوما کو مسیح کے زبانی فرمان کے مطابق جنوبی سند کے یہود وغیرہ کے پاس جانا یہ سب باتیں بحیثیت مجموعی اس امر کی تائید کر تی ہیں.کہ حضرت جیسے علیہ السلام ہندوستان میں کہتی لائے تشریف تیسرا نتیجہ جوان بیانات اور واقعات سے نکلتا ہے.وہ یہ ہے کہ ابتدائی زمانہ کے عیسائی توحید پر قائم تھے.حضرت مسیح کو ایک انسان بنی اللہ مانتے تھے.خدا نہ سمجھتے تھے.بتوں اور تصویروں سے متنفر تھے کوئی کتاب انجیل دینخیرہ رکھنا ضروری نہ جانتے تھے.دعا صرف خدا سے مانگتے تھے.اور یہی اصلی اور صحیح مذہب حضرت جیسے اور اس کے حوالہ بیوں کا تھا.اس سے قرآن شریعت کی اس آیت کی تصدیق ہوتی ہے.وقال المسيح يبنى اسرائيل اعبدوالله ربي و فسکم سیح نے بنی اسرائیل کو کہا.کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے آجکل کے عیسائی پادری اسلام پر اعتراض کیا کرتے ہیں.کہ اسلام نے حضرت عیسی کی طرف توحید کی تعلیم دنیا منسوب کیا ہے.حالانکہ اس نے تثلیث سکھائی تھی.گو تثلیث کا مسلہ مروجہ انا بیل سے بھی ثابت نہیں ہوتا.مگر تھو نا حواری کے قدیم عیسائیوں کی تاریخ اس امر پر بہت ہی صاف روشنی ڈالتی ہے.کہ حضرت مسیح اور اس کے حواری اور ابتدائی زمانوں کے عیسائی سبب موحد اور خدا پرست تھے.وہ موجودہ انا جیل بھی اپنے پاس نہ رکھتے تھے.سفو طرہ ایک جزیرہ مغرب کے قریب ہے.وہاں

Page 164

104 بھی عیسائیت کی تبلیغ تھو ما حواری نے کی تھی.آج تک وہاں کے عیسائیوں کے پاس کوئی انجیل نہیں ہے.اور وہ توحید پر قائم ہیں.آج مل کے عیسائی مورخین اس بات پر پردہ ڈالنے کے لئے کہ اصل عیسائیت توحید ہی تھی.یہ کہا کرتے ہیں.کرنستوری اور یعقوبی لوگوں نے دکن کے پرانے عیسائیوں کو کافرا در مرتد بنا دیا تھا.مگر بعد میں رومن کیتھولک پادریوں نے ان کو اپنا ہم خیال بنالیا.لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا.کہ نستوری اور یعقوبی لوگوں کے زیر انتہ کب وہ ہوئے.اصل بات یہی ہے.جو ہم نے لکھی ہے.کہ ابتداء سے وہ سچے اصلی عیسائی پہلے آتے تھے.مگر رومن کیتھولک لوگوں نے سند میں آکر ان پر اثر ڈالا اور انہیں اپنا ہم خیال بنا لیا.و ہم.چوتھا نتیجہ ان واقعات سے یہ نکلتا ہے.کہ حضرت مسیح علیہ اسلام اور ان کے توا - ( عبرانی.سریانی - آرے اک زبانیں بولتے تھے، جن میں کوئی بڑا فرق نہیں.اور در اصل ایک ہی زبانیں ہیں.جیسا کہ لاہور کی نجابی اور ملتان کی پنجابی.اور پہاڑ کی پنجابی جو لاسوری.ملتانی اور پہاڑی زبانیں کہلاتی ہیں، لیکن مسیح " ، در حواری کبھی یونانی میں وفا نہ کرتے تھے.لہذا مروجہ اناجیل جن کے پرانے سے پرانے نسخے اس میں حرمین یونانی زبان میں ہیں.وہ اصل نسخے نہیں ہو سکتے.ممکن ہے کہ مصل کے تراجم ہوا.مگر ترجموں میں غلطیاں ہو سکتی ہیں.لہذا یہ امر محقق علیہ ہے کہ مروجہ اناجیل کے بھی اصل نسخے اس وقت دنیا سے مفقود ہیں.۵ پانچوار بیڑا ار را به نتیجہ جو ان سارے واقعات سے آج اس زمانہ یہ انکل سکتا ہے.وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں ان تمام تاریخی واقعات

Page 165

106 سے بے خبر ہونے کے با وجود ایک دور افتادہ گاؤں میں بیٹھے ہوئے شخص نے جو کچھ کہا.وہ فی الحقیقت اللہ تعالے کی پاک دھی کی تائید سے تھا.اور اسی واسطے دن بدن ایسی نئی باتیں پیدا ہوتی جاتی ہیں.جو اس کی سچائی کو زور آور حملوں سے دنیا پر ثابت کر رہی ہیں.کیا یہ بھی حضرت مرزا صاحب کے اختیار میں تھا.کہ آج سے صد ہا سال پہلے مسیح کی قبر میں میں اور تھوما کی قہر بدر اس میں بنا دیدیں.اور بہت سی کتابیں بھی سلما نوں اور عیسائیوں سے لکھوا دیں.جو ان قبروں کی تصدیق کریں.پھر کیا یہ راست کا کام ہے.کہ اس کے وعدے اور بیان سب بچے ہوتے چلے آئیں.اد اس کی تائید میں مصر کے کتب خانوں سے پرانی انجیل میں نکل آئیں پیپر ہے تمام واقعات - اقعات با و از بلند گواہی دیتے ہیں.کہ حضرت مرزا غلام احمد صالات خدا کے نیچے رسول اور مقدس نبی تھے.جو اس زمانہ میں تمام جہان کی ہدایت کے واسطے مبعوث ہوئے.میں خوش ہو گا.اگر ہمارے عیسائی ہم وطن اس مضمون پر غور کریں اور میں تیار ہوں.کہ اگر کوئی ان کا اعتراض ہے.تو اس پر توجہ کروں میں مند کرنا نہیں چاہتا.اگر کوئی بات غلط ہے.تو اس کے چھوڑنے ہیں.مار احرج نہیں.میں نے جو کچھ لکھا ہے.نیک نیتی سے لکھا ہے.اور اس غرض سے لکھا ہے.کہ ہمارے عیسائی بھائی صداقت کو قبول کریں کہ حضرت مسیح کی عزت کرتے ہیں.اور ادب کرتے ہیں.لیکن ان کی طرف غلط عقائد منسوب کئے گئے ہیں.ان کا ازالہ کر نا ہمارا فرض ہے.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين محمد صادق علی اللہ عنہ

Page 166

۱۵ دل از اخبار فاروق - قادیان دارالامان - جلد اول نمبر 20 مورخہ - ۲۰۱۳ اپریل ۱۹۱۶ نمبر - مورخہ ۲۷ر اپریل مرمئی ۶۱۹۱۶ ۲ - باب يم پٹھان بنی اسرائیل بھی انجام شیخ عبدالحکیم صاحب اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں.بنی اسرائیلی کے نام میں زمانہ طالب نمی میں میانوالی میں تعلیم پاتا رہا ہوں.اور ہاں پر چھ گاؤں جن میں میں جایا کر تا تھا.اور بہت سے لڑکے وہاں کے میرے ساتھ تعلیم پاتے تھے.ان کے نام مثلاً جیسے نبیل - موئے خیل داؤ جھیل عثمان خیلی میں سن کر حیران ہوتا کہ یہ کہاں سے رکھے گئے.وہاں پر پھیلے ہیں.جو اپنے نام بنی اسرائیل کے انبیاء کے ناموں پر رکھتے ہیں.حالانکہ دہ لوگ مسلمان ہیں.چاہئے تو تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر عمر عثمان کے نام پر رکھتے.لیکن باوجود مسلمان ہو جانے کے انہوں نے کorigin.جو بتاتے ہیں.کہ وہ ان کے گing in aی نام ہیں ره تاھم نہ سے بو ہے ہے

Page 167

104 یہی امر بتاتا ہے کہ ان کی origins بنی اسرائیل ہے.بہر حال خدا تعالے جناب کا حامی و ناصر ہو.اور اس مقدس کام میل کی توفیق خارق عادت طور پر پیشے - آمین این سعادت بزور بازو نیست میرے لئے دعا فر ماتے رہیں.ام لطفی سلام علیکم عرض کرتی ہیں.بھی سلام عرض کرتے ہیں.والسلام - تابعدار عبد الحکیم احمد عرض به کون بعض انگریز متفقین اور سیاحوں نے بھی اس ام مان بھی بنی اسرائیلی ہیں.با بوم کیا ہے کشمیر کے پہاڑوں میں کشمیریوں کے بعد سب سے زیادہ آبادی وں کی ہے.اور ہمارے دوست ڈاکٹر فضل کریم نے مجھے اس طرف توجہ دلائی ہے.کہ گوجر قیص بن سلمان فارس کی اولاد میں ہیں.چنانچہ ڈاکٹر صاحب کا خط درج ذیل کیا جاتا ہے.حضرت احمد علیہ سلام کے حواری صادق جناب حضرت مفتی شنا اللہ مجدد السلام علیکم و رحمة الله و برکاته ما - مزاج شریف آپ ان دنوں ایک ایسے مقام اور کام پر ہیں جو سلسلہ کے

Page 168

14.محققان نہ ہے.اور وہاں دو اقوام خاصکر ایسی آباد ہیں.جن کا کہ حضرت مرسل زمان علیہ السلام سے خاص تعلق ہے (۱) کشمیری یعنی بنی اسرائیل (۲) گوجه یعنی بنی عیص.بنی اسرائیل تو بنی اسمعیل کے بھائیوں میں ہیں.اور بنی عبیص خود خونی رشتہ کے سبب سندوستان و ممالک دیگر کی تمام اقوام کی نسبت حضرت اقدس سے یہ سبب فارسی النسل ہونے کے قریب تر ہیں ریعنی حضرت ابراہیم بن اسحق بن عیص - بن سلمان فارسی) گو جر نعیمی خاص آل عیص ہیں.اگر خو د الہام الہی میں حضر مسیح موعود کو آل فارس نہ کہا جاتا.تو آپ کا آپ عیص ہونا مشتبہ رہتا کیونکہ محل عام طور پر ترکوں کی طرح آب یافت مشہور ہیں.آل لعقوب یعنی بنی اسرائیل میں انبیاء بکثرت ہوئے.اور صرف چند ایک مخاطبین ہوئے.لیکن آل عیص میں سلاطین بکثرت ہوتے لیکن جیسا کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بینی اسمعیل میں سے ایک ہی ایسا گوہر نایاب ہوا یجو تمام بنی آدم کا فخر اور سید الانبیاء قرار پایا.ایسا ہی بنی عبیص میں سے بالآخر ایک ایسا شخص پیدا ہوا.جو کل ادیان کا موجود ہوا صلے اللہ وجر قوم کا زمانہ ماضی ایسا ہی شاندار ہے.جیسا کہ ان کا زمانہ حال پستی میں دکھائی دیتا ہے.اور بنی اسرائیل کا بھی ایسا ہی حال ہے.کہ ایک وقت وہ خدا کی خاص قوم تھی.اور اسے سب پر بریری فوقیت حاصل تھی.اور اب وہ در بدر خراب ہو رہی ہے.اور کوئی اسے قبول نہیں کرتا.لیکن آج نہ عبرانی رہی اور نہ گوجری جبرانی عربي غالب آئی.اور گوجری پر اردو.یہ دونوں اقوام موجودہ زمانہ میں ایم نابیستی اور پر عربی غالب کا وقت کا نمونہ نہیں رکھتیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 169

مسٹر شیعے تعلم

Page 170

کے فارسی الاصل ہونے کے خیال سے اور آپ کی بعثت سے میرا دل شادی مرگ کی سی کیفیت پیدا کرتا رہتا ہے.اور سردم ایک امید دل کو ڈھارس دیتی رہتی ہے.کہ یہ آپ ابر کرم اب ضرور صدیوں کے مردوں کو زندہ کر دے گا پر باب بازدهم سوانح مؤلف کتاب ہذا اکثر شایقین علوم جب کوئی کتاب مطالعہ کرتے ہیں.تو انہیں یہ بھی شوق پیدا ہوتا ہے.کہ اس کتاب کے لکھنے والے کے بھی کچھ حالات اور سوانح انہیں معلوم ہوں.لہذا اپنے بعض مخلص دوستوں کی خواہش کو پورا کرنے کے واسطے اپنے چند مختصر حالات لکھد بینا مناسب سمجھا ہے.عاجز کی پیدائش اور جنوری سنت اللہ عیسوی بروز جمعرات صبح کے وقت ہوئی.حضرت والد صاحب مرحوم کا اسم گرامی مفتی عنایت اللہ تھا.اور والدہ مرحومہ کا اسم گرامی مسماۃ فیض بی بی تھا.اللہ تعالے اپنے رحم سے ہر دو کو جنت نصیب کرے.حضرت والد مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی سے قبل وفات پاگئے تھے.والدہ مرحوم حضرت..مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بعیت میں داخل تھیں.

Page 171

میری پیدائش بمیره ضلع شاہ پور میں ہوئی.جہاں مفتیوں کے نام چار پانچ گھر ایک ہی محلہ میں اب تک ہیں.جو مفتیوں کا محلہ کہلاتا ہے.اور یہ سب گھر ایک ہی مورث اعلیٰ کی اولاد ہیں.جو شیخ بڈھا کے تھی سے مشہور ہے.اور جس کا مقبرہ شہر بھیرہ کے شرقی جانب ایک میل کے فاصلہ پر واقعہ ہے.حضرت والد مرحوم بھیرہ کے ہائی سکول میں لوئر پرائمری کے اول مدرس تھے.اور مجھے انہوں نے تین جماعتوں کی تعلیم اپنے طور پردی.جب میں تیسری جماعت پاس کر کے چونتی میں داخل ہوا.اس وقت بس اپنی جماعت میں سب سے چھوٹی عمر کا لڑکا تھا.ملیکہ انٹرنس پاس کرنے تک یہی حال رہا.ابتداء سے لیکر دسویں جماعت تک میں نے بھیرہ میں تعلیم حاصل کی.اس کے بعد حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کے سبب میں ملازمت کرنے پر مجبور ہوا.پہلے بھیرہ اسکول میں قریبا چھ ماہ مدرس رہا.اس کے بعد حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی وساطت سے جموں ہائی سکول میں انگلش ٹیچر مقرر ہوا.اور اسی جگہ پر ائیوں سے امتحان ایف اے پاس کیا.پانچ سال جموں رہنے کے بعد اسلامیہ مسکول لاہور میں چھے ماہ کے قریب ریاضی کا مدرس رہا جہاں سے اکومنٹ رہا جنرل پنجاب لاہور کے دفتر میں کلرک ہو کر سٹہ تک وہاں رہا.اور پرائیویٹ تعلیم سے امتحان بی.اے کی تیاری انگریزی عربی اور عبرانی مضامین میں کر تا رہا.اور وہاں سے مستعفی ہو کر قادیان ہائی اسکول میں پہلے سیکنڈ ماسٹرا اور پھر بینڈ ماسٹر مڈل.پھر سیڈ ما سٹریائی مقرر ہوا.شنلہ میں محمد افضل مرحوم ایڈیٹرا لبدر کی وفات پر اخبار البدر کا ایڈیٹر و مینجر مقرر ہوا جس کام پر سایر تک متعیین رہا.جبکہ بدریہ سیال پنی "

Page 172

طلب ستار ب ضمانت بند ہوا.اور حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تبصر الحرية کے حکم سے عاجز مبلغ ہو کر پہلے بنگال - ارلیسہ اور اس کے بعد سبد ستون کے دیگر مقامات مثلاً حیدر آباد وغیرہ بھیجا گیا.1912ء میں مجھے تبلیغ کے واسطے انگلینڈ بھیجا گیا.یہ میں انگلینڈ سے امریکہ جانے کا حکم ہوا.وہاں جا کر پہلا اسلامی مشن قائم کیا.انکا گو میں مسجدا وڈا ر التبليغ بنا یا.۱۹۲۳ء کے آخر میں امریکہ سے واپس سند دوستان آیا.اور صدر انجمنین کا سیکرٹری مقرر ہوا.مہ ء میں نظارتوں کے انتظام اورصد انجمن کے کاموں کے الحاق پر عاجز کو پہلے ناظر امور خارجہ اور بعد میں ناظر امور عامہ اور بعض دفعہ پر دو کاموں پر لگایا جاتا رہا.ہمارا خاندانی شجرہ نسب جو خاندان میں پشت در پشت محفوظ چلا آتا ہے.ہمارے بزرگ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں.عرب سے ایران آئے.اور ایران سے سلطان محمود غر، نوسی کے زمانہ میں پنجاب آئے پہلے پہلے ملتان اور پاک پٹن رہے.اور سونا حکومت وقت کی طرف سے قاضی مقرر ہوتے رہے.اور نگ زیب عالمگیر کے زمانہ میں ایک بزرگ بھیرہ کے مفتی مقرر ہوئے.اس کے بعد مفتی ایک خاندانی نام مشہور ہو گیا.باب دوازدهم مسٹر شیلے مرحوم (اسد الله تصویر ملاحظہ ہو فو ٹوٹا پر ) یہ بزرگ ان ایام کی یادگار تھے.

Page 173

جبکہ عاجز را قم (مصنف) بہمراہی قاضی عبد اللہ صاحب لنڈن میں تبلیغ اسلام کی خدمت پر مامور تھا.اور اگرچہ اس کتاب کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں.تاہم ہیں چاہتا ہوں.کہ میرے وقت کے ایک مخلص احمدی یوروپین کا ذکر محفوظ ہو جائے.اس واسطے اس کو یہاں درج کیا ؟ جاتا ہے.مرحوم مسٹر شیلے قاضی صاحب کو پہلے پارک میں سے تھے پھر ہمارے ماں مشن ہوس اسٹار سٹریٹ میں آتے رہے.اور شادی میں مشرق با سلام ہوئے.اور ان کا اسلامی نام اسد اللہ رکھا گیا تھا.رہے وراء میں قریباً نوے سال کی عمر میں وفات پائی.اللهم اغفره وارحمه و ارفع درجاته فى جنت العلی.یہ ایک نہایت ہی مخلص احمدی تو مسلم تھے.ان کے متعلق حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ مطبوعہ الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۳۳ ء میں فرمایا.سمجھدا را در دیانت دار نو مسلم تو اس بات کو کبھی برداشت ہی نہیں کر سکتے.کہ نبوت کا دروازہ بند ما تاحیائے جب میں ولایت گیا تو ایک نہایت ہی مخلص احمد سی نو مسلم مسٹر شیلے جو بہت بوڑھے تھے.اور اسب فوت ہو چکے ہیں.مجھ سے ملنے کے لئے آئے.وہ مزدوری کیا کرتے تھے.اور ان کی عادت تھی.کہ جب بھی مسجد میں آتے چونکہ جائے وغیرہ پلائی جاتی تھی.اس لئے کچھ آنے یا تو آنے کے قریب ہمیشہ چندہ دے جانی تا یہ نہ سمجھا جائے.کہ وہ مفت میں چائے پی رہے ہیں.نہایت مخلص اور اسلام سے محبت رکھنے والے تھے مجھ سے جب ملنے - کے لئے آئے.تو بائیں کرتے وقت محبت کے جذبہ سے سرشار ہو کر مجھ سے کہنے لگے.آپ مجھے بیز بتائیں.کیا مرزا صاحب نبی تھے ؟ میں نے کہا ہاں نبی تھے.اس پر ان کا چہرا

Page 174

۱۶۵ خوشی سے چمک اُٹھا.اور کہنے لگے مجھے بڑی خوشی ہوئی.پھر کہنے لگے.آپ مجھے بتائیں.کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے لئے نبوت کا دروازہ کھلا ہے؟ گو یہ علیحدہ بات ہے کہ اللہ تعالے کی نظر انتخاب کسی خاص شخص پر پڑے.اور دوسروں پر نہ پیٹھے.میں نے کہا.یقینا خدا تعالے نے امت محمدیہ کے لئے باب نبوت کو کھلا رکھا ہے.اس پر ان کا چہرہ پھر دمک اٹھا.اور کہنے لگے.مجھے بڑی خوشی ہوئی.پھر با وجود اس کے کہ انہیں معلوم تھا کہ میں جماعت احمدیہ کا خلیفہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا بیٹا ہوں.مجھے کہنے لگے.آپ نے حضرت مرزا صاحب کو دیکھا ہے.میں نے کہا ہاں دیکھا ہے.اس پر پھر ان کا چہرہ روشن ہو گیا.اور کہنے لگے مجھے بڑی خوشی ہوئی.اپنے ہاتھ پکروائیے.پھر انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا.اور کہتے ہوئے کہ آج میں نے ایک بنی کے دیکھنے والے سے مصافحہ کیا ہے.شرح سمجھدار اور بے شرم یور و بین نوسم به عقیدہ کبھی برداشت ہی نہیں کر سکتے.کہ کوئی ایسا نہی آئے.جو تمام ترقیات کے دروازے بنی نوع انسان کے لئے بند کر دے نے مسٹر شیلے اس امر میں بہت لذت محسوس کیا کرتے تھے.کہ وہ ایک نبی کے ملنے والے سے مل رہے ہیں.اور سر ایک ہندوستانی جو انہیں مسجد میں ملتا تھا.اس کے ساتھ اس قسم کی گفتگو کیا کرتے تھے.جیسی کہ انہوں نے خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالے بنصرہ العزیز سے کی.(صادق)

Page 175

باب سیزدهم BİBLİOGRAPHY, فہرست کتب جن کا مطالعہ کشمیر کی تاریخ جغرافیہ قدامت وغیرہ پر روشنی ڈالتا ہے.ان میں سے اکثر کتا ہیں میں نے مطالعہ کی ہیں.یا ان کی ورق گردانی کر کے مفید مطلب باتیں نکالی ہیں.اور ان کے حوالجات اس کتاب میں جگہ جگہ درج کئے گئے ہیں.یہ کتا ہیں مجھے زیادہ تر مفصلہ ذیل تین لائبریریوں سے مل سکیں.۱- سری پرتاب سنگھ لائبریری سری نگر پنجاب یونیورسٹی لائبریری ۳- پبلک لائبریری لاہور فہرست اسماء کتب درج ذیل ہے.انگریزی کتابوں کے نام صرف انگریزی میں لکھے گئے ہیں.اردو - فارسی - عربی کتب کے نامہ فارسی حروف ہیں.(نوٹ) انگریزی کتابوں میں پہلے مصنف کا نام لکھا گیا ہے.کا نام بھی پھر کتاب کا نام.پھر طبع ہونے کا سال 1- F.Bernier - Voyages - 1699.G.T.vigne - Travels 1842.N-G."- A.Cunningham- orn Essay on The Arian order of Architecture

Page 176

146 as exhibited in Temples of Kashmir 1848.ſ - J.Biddulph - Tribes of Hindu Kush, 1880.- Drew - Jammun & Kashmir.1875.4- E.F.Knight.Where three Empires meet.1893.L- W.R.Lawrence - The vally of 9- Kashmir.1895.- Kalhana's Rajatrangni Translated by M.A.Stein 2 vol 1900.Baron charles stugel.Travels in Kashmir & the Punjab.London.1845.1.- Forster's Letters - Journeys (10) from Bengal to St Petersburg 11- Rew.Jos.Wolff.Researches & Missionary Labour.12- Victor Jacquemont - Corresponde during his Travels in India.

Page 177

144 13- The Papers on.Kashmir in "Asiatic Researches.کوئی 14- The Papers on Kashmir in the Journal of Asiatic Society of Bengal.15- Majer Rennel's Geographical Memoirs.16- Ritter's Geography of Asic 17- Moorcrofts work.۱۸- تاریخ فرشته -14- تاریخ کشمیر - مصنفہ پنڈت نارائن کول ۲۰ تا ریخ کشمیر مصنفہ کہاں حسن قاری.۲۱ تا ریخ کشمیر مهند مضفر حیدر ملک شاہ وادیا.-۲۲ واقعات کشمیر مصنفہ محمد عظیم المهاجری نوادر الاكبر - مصنفہ نه مجتهد له فیع الدین for fast pactor -۲۴ نور نامیه - مصنفہ شیخ نور الدین ۲۵ - تاریخ کشمیر مصنفہ مولوی خیر الدین - ۲۶ مسیح ہندوستان ہیں.مصنفہ حضرت مسیح موعود عليه الصلواة و اسلام 27 Frederick Drew.Northen Barrier of India London.1877.28- John martin Harbinger-

Page 178

149 Thirty-five years in the East.London - 1852.29- Lientt: col: Torrens- Travels in Ladakh.Tartarry & Kashmir London.1863.30- J.C.Datt Kalhana - Kings of Kashmir 3 vols.31 - H.S.Boys- - 700 Miles in Kashmir.32.Girdlestone - Memo on Kashmir 33.M.C.Morrison Lonely Summer in Kashmir.London.1904.34.Neve - Picturesque Kashmir.35.Neve - Beyond Pir Punjab.36.Steim Memoirs Illustrating Ancient Georgraphy of Kashmir 37.Swinburne - A Holiday in the Happy Valley- 38.Mrs.C.g.Bruce - Travels.39.Ram chand kak.Kashmir Antiquities.

Page 179

14.(۴۰) تاریخ سید علی - (۴) تاریخ رشیدی مصنفه مرته اجبدر (۴۲) منتخبات التواریخ، مصنفہ مرزا احسن بیگیا.(۴۳) رشتی نامہ مصنفہ ملاں نصیر (س) درجات السعادت.مصنفہ خواجہ اسحق (۴۵) اسرار الابرار مصنفہ بابا داؤد (4) تحفة الفقراء (۴۷) نوادر الاخبار 48.Imperial Gazeteer of India.(Kashmir province, 49.The Punjab, N.W.F.P.& Kashmir Cambridge.1916.50.E.J.Rapoon - Ancient India.Cambridge 1916.51.Jalali ma.Handbook for visitors to Kashmir.1933.52.C.E.Tyndale Biscot-Kashmir in Sunlight & Shade London.1925 53.James milne - The Road to Kashmir.ی تاریخ انبیاء فارسی تعلمی، جو عام نبی گفتار صاحب کے مکان پر بھی.

Page 180

(41 55.Lionell D.Barnett.Antiquities of India – London.1913.56.John Collet.A guide for visitors 57.to Kashmir.2848 Ferguson History of India & Castern Architecture.58.Knowels Kashmir Proverbs & Kashmir's Folk.Tales.59.Knight Diary of Travellings 60.Bellow's Kashmir & yarkand 1875 61.Wakefield's.Happy valley.62.Wilson.The Abode of Snow.63.Ince.Kashmir Handbook.64.Sir Richard temple.Travels in Kashmir Hoyderabad & Sikkim.(۵) ر (4) گله ای کشمیر - مصنفہ دیوان کرپا رام (44) تواریخ کشمیر - مصنفه بیر بل کھرد.67.In the Land of Lula Rookh A.S.Wadia - London 1921.

Page 181

68 Ernest F.Neve.A crusader in Kashmir-1928.69.Marion Doughty.Afoot through Kashmir valley.London.1902.(۷۰) وجيز التواريخ (1) تاریخ کبیر کشمیر- الموسوم متحالف الابرار فی ذکر اولیاء الاخیار جلد اول مطبوعه امر الله بجری 72.James Arbuthnot- & Trip to Kashmir.Calcutta.1900.73.Ptolemy.Ancient India.74.R.C.Law Glimpses of Hidden India 75.R.G.Bhanderker.Peep in to the early History of India.76.Dowie - Punjab.N.W.F.& Kashmir.77.Pundit Gwasha tha Lal.A short History of Kashmir.78.Younghusland.Heart of Continent.79.Wyman - Kashmir & it's shawls.

Page 182

ا 80.A.E.Ward- Tourists & sportsman Guide to Kashmir & Ladakh.81.Thacher.Kashmir & the Hills: پرگنه بندی کشمیر - قلمی وقائع کشمیر (قلمی ، فارسی نظم (۸۳) دقائع رہم (ی) تواریخ زین الدین بزبان کشمیری 85.G.R.Elsmie- 35 years in the Punjab.86.R.C.Kak.A Handbook of Archaeology (۸۷) سفینۃ الاولیاء (4) اسرار الاولیاء ر٨٩) الفاصل الأكار ر۹۰ ) روضة الصفاء 91.John B.Ireland - From wall st, to Kashmir.1859.92.Anand Kaul- Geography of ·Jammu & Kashmir.1925.93.Anand Kau?- "Kashmiri Pundit" 94.A.Brinkman- Rifle in Kashmir.95.A.Crump.Ride to Leh 1918.1924.1862

Page 183

160 96.O.Echenstein – Karakoram Kashmir 1895.97.C.M.Enrignerzy - Realms of the Gods.1925 98.D.Frazer.Marches of Hindustion 1907.99.George Bell.Letters from India 100.Haney- Adventures 1874.of a lady.101.H.S.Merrick - In the world's Attic.1931.102.Sansar chand.Holiday trip in Kashmir 1926.103.Mr.Rodgers (of Amritsar, coins of Kashmir.204.Alexander David.Ned.My Journey to Lhasa.105.Joshua.Duke.A guide for visitors of Kashmir & gamm Jammun.Calcutta- 206.Count Hons von Koenigsmarck.1403.The markhor sport in Kashmir London 1910.107.Sansar chand Karl.Holiday trip in Kashmir.

Page 184

160 108.Mrs, Harvey - The Adventures of Lady - London.2854.a |109.S.Barrel - Rambles in Kashmir 110.George Bell- Letters from India 111.1874 Major.E.A.Burrows- Kashmir en Femille.Calcutta.1895.112.Cowley Limbert - A Trip to Kashmir & Ladakh London 1877.113.H.Z.Darrah - Sports in the Highlands of Kashmir.114.Brown - China's Eaves.115.Benvalot - Through the heart of Asia.(14) محمد باقر مجلسی عین الحياة لا يجرى على صاحبها التخينة والسلام 117.cob.Ancient Buildings in Kashmir.Allen – 1869.128.Cunningham - Ancient geography of India.119.J.M.Horniberger.35 years in the Cast.120.Elias & Roses.تاریخ رشیدی

Page 185

164 1895) (Simpson, Law 221.Forrier- Caravan Journey & Wanderings.Narrative of the (۲۳) خزینه ال 124.Sir Thomu's "Holdich.The gates of India 125.S.Hedin - Adventures in Tibat 126.M.Izzetullah - Travels in Central Asia.(۱۳۷) وقائع کشمیر - مصنفہ جوت پر شاد 128.Lambert - Trip to Kashmir.| 129.J.C.Mecdonnell - Hints on Hill travelling in Kashmir 130.O.Conner.charm of Kashmir.231.Neve.Tourists Guide- Mirty years in Kashmir cad of Bombay.

Page 186

زبان احمد یه دایر به 166 134.Fetrockino - Three weeks in.a house Bout.135.Parkany x g guccoli Emera set with Pearls.۱۳) گلشن کشمیر - مصنفہ میرسعد الله 137.Tavernier.Travels in Indi London, 1889.138.Pundit tarachand - History Kashmir (۱۳) باغ سلیمان - مصنفہ میرسعداللہ صاحب (۱۴) تاریخ اعظمی.(۱۴) قصته یوز آصف و حکیم بلوسر - مؤلفہ ڈاکٹر صفدر علی شاه، مرجوهم 142.Nicholas Notevitch - Unknow Life of Jesus christ.لم

Page 187

IEA تین مزید حوالے جو تک فضل حسین مضا میجر جگہ پو قادیان کی نوٹ بک سے نقل کئے گئے سلطان محمود سر قومی کے بعد میں علامہ ابوریحان البیہ کی مہندوستان میں آیا تھا جو اپنے پہلا حوالے یہاں کافی عرصہ قیام کیا.یہاں کے علوم وفنون سے واقفیت حاصل کی اسکے بعد ان علوم یہ ایک معرکۃ الآر اکتاب عربی زبان میں بھی جسکا نام کتاب الہند ہے.اس کتاب میں علامہ و موند نے کثیر کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ اہل کشمیر اپنے ملک کے دروازوں اور رانوں پر ہمیشہ سخت پہر رکھتے ہیں جس سے انکے لئے کسی قسم کی تجارت کر نا شکل ہے.قدیم وقتوں میں وہ ایک غیر ملکیوں اور خاصہ یہودیوں کو اپنے ملک میں افضل ہو نیکی اجازت دیدیتے تھے - دکتاب الہند کا مندی ترجمہ علیہ دوم اند معبود الآبا) شہادت ندا اسلم کا میں ثبوت ہے کہ یہودیوں کا خطرہ کشمیر سے آغاز اسلام سے بھی کہیں پہنچے سے قدیم اور گہرا تعلق رہا ہے.خواجہ حسن نظامی صاحب دیوی نے سفر کشمیر کے حالات لکھتے ہوئے ایک جگہ یہی تحریر فرمایا کہ دوسرا حوالہ ، عصر کے بعد روانگی ہوئی اور حرب سر پہلے پہاڑ کے نیچے آگئے.راستہ میں ڈانڈی اٹھانیو الے کشمیری مسلمانوں کی حمائل کا بہت اچھی طرح مطالعہ کیا.اور پورا یقین ہو گیا.کہ اس ملک میں ضرورتی اسرائیل آئے تھے اور یہ لوگ اسی نسل سے ہیں " (رساله در دویش دہلی جلد نمبر ۵ نمبر ومش ) مسٹری ، ایف سٹی کلینڈ ریٹائر ڈ آئی سی.ایس نے بھی اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ر حوالی کشمیری مسلمانوں میں بہت سے خاندان اپنے آپ کو اسرائیل کی اولاد خیال کرتے ہیں اور ان کی شکل و صورت بھی یہودیوں جیسی ہے..ان لوگوں میں یہ سبھی روایت ہے کہ جب سید کو زندہ صدی سے آنا لا گیا ته وه ان قوموں کی تلاش میں مشرق کی طرف چل پڑا.اور سرینگر میں راکھ فوت ہوا.یہاں یوسف عارف ویر تر استیم نام کی ایک قہر ہے.جیسے مسیح کی قبر بیان کیا جاتا ہے." هم د روزانه اختیار و پر بھارت لاہور ۳۰ مارچ سر صف ) اللہ کی بیسیم پلیس قادیان میں باہتمام چو ہورہی اللہ ہی پر نظر ھے

Page 187