Tafseer Khatam Un Nabiyeen

Tafseer Khatam Un Nabiyeen

تفسیر خاتم النبیین اور بزرگان سلف

Author: Other Authors

Language: UR

UR
فیضان ختم نبوت

فروری 1978ء میں قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے تحریر کردہ دیباچہ سے یہ کتاب شائع کی گئی جو دراصل مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی دسمبر 1977ء میں جلسہ سالانہ کی تقریر تھی جسے ضروری ترمیم اور اضافوں کے ساتھ کتابی شکل دی گئی۔ اس میں پیش کئے گئے بزرگان سلف کے حوالہ جات سے کسی کو جزئی طور پر تو اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ یہ تمام بزرگان امت اورسلف صالحین بحیثیت مجموعی ہی جماعت احمدیہ کے مؤقف بابت تفسیر خاتم النبیین سے سراسر مخالف اور متضاد و متصادم رائے رکھتے تھے۔


Book Content

Page 1

اور بزرگان سلف ان مولانا دوست محمد صاحب شاید مورخ احمدیت الناشر نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمدیه کبود

Page 2

Page 3

بسم الله الجمير الراحمين پیش لفظ حضرت مولانا قاضی محمد نذ یر صاحب فاضل کے قلم سے) تغیر خاتم النبیین اور بزرگان سلف " کے موضوع پر دسمبری کلمہ کے جلسہ سالانہ پر مولوی دوست محمد صاحب فاضل سلسلہ احمدیہ نے تقریر کی ، جسے ہم بصورت مقاله کتابی صورت میں ترمیم وفانہ کے ساتھ پیش کر رہے ہیں تا بہ قارئین کرام کے لیے زیادہ سے زیادہ علم ومعرفت کا وسیلہ بنے.اس تقریر میں جو حوالہ جات بزرگان سلف رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درج کئے گئے ہیں وہ ان کے اپنے ذوق اور علم کے مطابق میں.ہو سکتا ہے کسی قاری کرانے کی حوالہ سے جزوی اختلاف ہو اور ہم بھی ان سارے حوالہ جات کے متعلق یہ ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں کہ ہم بزرگان سلف کے بیان کردہ مضامین سے من وعن اتفاق رکھتے ہیں.بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ یہ سب حوالہ جات بحیثیت مجموعی احمدیت کے موید ہیں اُسکے مخالف نہیں.پس کسی جزئی امرمیں ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن بحیثیت مجموعی ہمیں اُن سے اتفاق ہے.اللہ تعالیٰ اس مقالہ کو قبولیت بخشے اور اس کے پڑھنے والوں کو جو نیک نیتی کے ساتھ اس کا مطالعہ کریں اپنی لازوال برکات سے نوازے، اور مقالہ نوی کی سعی کو دنیا و آخرت میں قبول فرمائے، الہم آمین ہے قاضی محمد نذیر ناصر اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمدیہر ربوہ تبلیغ ۱۳۰۷ مش مطابق ۱۴۳ فروری شده (

Page 4

Page 5

عنوان حیرت انگیز کلام غیر محدو د معارف قرآنی پر معارف تفسیر خاتم النبیین کا دائمی معجزه شان نزول فهرست صفحه میرسید ** ۱۲ عنوان یویوں کو بند اور تے 4.پہلے فیض کو بند اور سنئے کمالات کو م جاری کرنیوالا ے کمالات نبوت کا جامع کمالات خداوندی کا قالب صفحه ۱۳ ۹- کمالات علمی وعملی کا اصل می کنم آنحضرت روحانی باپ کی حیثیت سے ۱۰.سب نبیوں سے افضل معراج میں امت کا روح پرور نظارہ ۱۴ ۱۱- شفاعت کرنے والا نبی خاتم النبیین میں دریائے حقائق ۱۲.دعویٰ محبت الہی کی تصدیق کرنے بزرگان سلف اور خاتم النبیین کے تعین والی مور معاني.تمہیں معافی کا خلاصہ ا.قیامت میں مقام عبودیت پر فائز واحد نبی ۱۳ حقیقی نبی ۱۴- نبیوں کا شہنشاہ اور بادشاہ مہفت اقلیم 10.فیض رسانی میں بے مثال - عالم ارواح میں نبیوں پر مہرلگانے والا 14- مراتب کمالات نبوت کا انتہائی مقام نبی نبیوں کا سر چشمہ.نبیوں کو نور نبوت عطا کر نیوالا مشکوة خاتمیت رتبی اور زمانی ۵.نبیوں کے نبی " ۲۳ ۲۹ I ۱۷- آخر می روحانی عهده H ۳۵ I " { FA ۳۹ ۱۸- شاہی خفتہ انہ کی مهر ۱۹- کامل راه نما.نبیوں کی زہنیت ۲۱ محافظ شریعیت ام 를 سوم

Page 6

Σ عنوان ۲۲- پہلی شریعتوں کا ناسخ ۲۰ - واحد شارع حقیقی ۲۴ - ہر نئے دور کا بانی ۲۵- آخری مستقل نبی -۲۰ آخری شارع نبی حضرت خاتم الانبیاء کا فیصلہ قاری قرآن اور نبوت ایک سوال ۷- انسان کامل و اکمل YA ٢٨ - نبیوں کے باپ صفحه ۴۴۳ "...عنوان صفر ۳۰- فیضان خاتمیت محمدی کا مکمل ترین ۴۴ ظہور مہدی کی صورت میں ۵۳ ۵۴ عالمگیر غلبہ اسلام مهدی سے وابستہ ہے.آخرین میں ایک نبی تعجب خیز انکشافات پیشگوئی کا شاندار ظهور شان خاتمیت محمدیہ کی علی وجہ البصیرت منادی ۶۴ ЧА 49 ۷۳ 4.9 ۸۵ ۲۹ نقوش نبوت پیدا کرنے والا نبی ۵۵ خلاصه کلام j

Page 7

بسم الله الرحمن الرحيم ما وصلى على رسوله الكريم إِنَّ اللهَ وَمَلَيكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسلياً O (الاحزاب : ٥٢) حیرت انگیز کلام ہمارے ہادی ، ہمارے مولا، سيد الانبياء ، افضل الرمل، فخر المرسلين ، خاتم النبیین حضرت محمدمصطفی احمد حبیب صلی اللہ علیہ سلم کی عالمگیر نبوت کا دامن مجتبیٰ قیامت تک پھیلا ہوا ہے.اسی لیے خدا وند علیم و حکیم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وستم کو قرآن کریم جیسا حیرت انگیز کام عطا فرمایا جو غیر محدو د حقائق اور معارف اپنے اندر رکھتا ہے.غیر محدود معارف قرآنی یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف حضرت امیرالمومنین سیدنا علی الرمعنی شهادت ۲ رمضان ۴۰ ۵) نے امت مسلمہ کو خاص طور پر متوجہ کیا اور کوفہ کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : اگر میں چاہوں تو سورت فاتحہ کی ایسی تفسیر لکھ سکتا ہوں جو ستر اونٹوں پر بھی بھاری ہونے سے حضرت عبداللہ بن عباس (متوفی ) کو ایک دفعہ حضرت علی کے یہاں رات گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ ساری رات بسم اللہ کی ب کی شرح بیان فرماتے رہے، سیمانتک کہ دن چڑھ گیا.تے ے جواہر الاطلاع ص ۱۶۸ دشیخ مصطفیٰ یوسف سلام شازلی " طبع مصر ۱۳۵۰ھ زبدة الحقائق راز عین القضاة ہمدانی" بحوالہ ختم المدى شبل السوی ، ص ۲۷ مولفہ حضرت میاں سید شاه محمد مهدوی مطبع فردوسی بنگلور ١٢٩١هـ

Page 8

i ۱۹ حضرت شیخ عبد الکریم خیلی بینی نے انہیں جلدوں میں بسم اللہ کے ہر حرف کی تفسیر لکھی ہے قطب الاقطاب غوث اعظم شیخ الاسلام محی الدین حضرت سید عبدالقادر جیلانی دمنوشی (2) کی مجلس میں کسی قاری نے ایک آیت پڑھی.آپ نے اس آیت کی چالیس تفسیر میں بیان فرمائیں.ابی ملیس آپ کے اس کمال علمی پر دنگ رہ گئے.تھے حضرت قاضی ابوبکر محمدب العربي الاشبیلی متولی 2004 قانون التاویل میں فرماتے ہیں کہ قرآن میں نشتر ہزارہ علوم موجود ہیں.گئے " حضرت الشیخ الکامل ابو محمد - وزجهان شیرازی (متوفی ۶۰۶ھ) نے تفسیر عرائس البیان کے دنیا چھ میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کے اس ازلی کلام کے ظاہر و باطن کی کوئی حدو نہایت نہیں اور نہ اس کے کمال اور انتہا تک کوئی پہنچ سکا ہے.وجہ یہ کہ اُس کے ہر حرف کے نیچے اسرارہ کا سمندر موجزن ہے اور انوار کی نہر جاری ہے." کسی نے خوب کہا ہے سے جمِيعُ العلم في القرآن العينُ تَقَاصَرَ عَنْهُ أَنْهَامُ الرِّجَالِ یعنی سب علوم قرآن مجید میں موجود ہیں ، لیکن لوگوں کی سمجھد ان سے قاصر ہے.ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ پرانے بزرگوں کے نزدیک بھی قرآن مجید کی آیات ذو المعارف میں اور کئی وجوہ سے اُن کی تفسیر ہو سکتی ہے.صرف ایک ہی تفسیر پر انحصار نہیں ہو سکتا بنا کسی کا عرفان ہو گا اس کے مطابق اس پر قرآن کریم کے معانی گھلتے جائیں گے.چنانچہ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد مبارک ہے کہ مکتوبات حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (ارد) ص ۲۵۱ ناشر مدینہ پبلشنگ کمپنی بندر روڈ کراچی نه اخبار الاخيار اردو ص ۳۵ ( حضرت شیخ عبد الحق محدث ولوی ناشر دین پبلشنگ کمپنی بندر روڈ کراچی ے اتقان نوع د سیوطی " ج ۲ ص ۱۴۹ مطبوعہ مصر ۱۲۷۸ د هـ ص ۳ مطبع نولکشور

Page 9

" لا تنقضى عمابيه " شد لو قرآن کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے.پھر فرمایا : 1) لا يكون فل وُجُوهَا كَثِيرَةً وان یعنی کوئی شخص تفقہ فی الدین میں کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی نظر قرآن کے کثیر پہلوؤں تک نہ پہنچے.حضرت بانی جماعت احمدیہ قرآن عظیم کی اعجازی شان کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: "اے بندگان خدا !! یقیناً یاد رکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہر ایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے اور ہر یک زمانہ اپنی حالت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کرتا ہے یا جس قسم کے اعلیٰ معارف کا دعوی کرتا ہے اس کی پوری مدافعت اور پورا الزام اور پورا پورا مقابلہ قرآن شریف میں موجود ہے...قرآن شریف کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور تین طرح صحیفہ فطرت کے عجائب وغرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو سکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہو ہیں.یہی حال ان صحت مطہرہ کا ہے تا خدائے تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو سکے کنز العمال ج ص ۹۵ - اتقان ج ۲ ص ۱۷۷ نوع ۷۲ مطبوعه مصر ۱۲۷۸ه (مطبوعه حیدر آباد دکن) البريان في علوم القرآن ج ۱ ص ۱۰۳ (الا مام بدر الدین محمد بن عبدالله الزرکشی ، مطبوعہ مصر ا + (- 1906) ے ازالہ اوہام جلد ا ص ۳۱۰ ،۳۱۱

Page 10

خود اللہ جل شانہ قرآنی معانی و مطالب کے اس دی اور نا پیدا کنار سمند ر کی نسبت فرماتا ہے : مِنْ وَلَو اَنَّ مَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أقلام والتخريمده من بَعْدِ لا سَبْعَةُ اَبُحْرٍ مَّا نَفِدَاتُ كَلِمَاتُ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِيز فك (لقمان: ۲۸) یعنی اگر زمین کے تمام درختوں کو قلموں میں اور سمندروں کو سیاہی میں بدل دیا جائے اور پھر سات اور سمندروں کا پانی بھی سیاہی بنا دیا جائے اور اس سے کام الہ کی تفسیر لکھی جائے تو قلم ٹوٹ جائیں گے اور سمندروں کی سیاہی بھی خشک ہو جائیگی مگر قرآن کا سمندر پھر بھی برا ہی رہے گا اور اس کے معارف ختم ہونے میں تمہیں آئیں گے کیونکہ اللہ تعالی یقینا ناب اور بڑی حکمتوں والا ہے.پر معارف تفسیر } حضرت بانی سلسله احمدیه مسیح موعود مهدی مسعود علیہ السلام نے اس آیت کی درج ذیل الفاظ میں پر معارف تفسیر فرمائی ہے :- " خدا تعالیٰ کی پاک اور سچی کلام کو شناخت کرنے کی یہ ایک ضروری نشانی ہے کہ وہ اپنی جمیع صفات میں بے مثل ہو، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیز خدا تعالیٰ سے صادر ہوئی ہے اگر مثلاً ایک جو کا دانہ ہے وہ بھی بے نظیر ہے اور انسانی طاقتیں اس کا مقالہ نہیں کرسکتی اور بے شل ہونا غیر محدود ہونے کو مستلزم ہے یعنی ہر ایک چیز اسی حالت میں بے نظیر بھہر سکتی ہے جبکہ اس کی عجائبات اور خواص کی کوئی حد اور کنارہ نظر نہ آوے اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں یہی خاصیت خدا تعالے کی ہر یک مخلوق میں پائی جاتی ہے مثلاً اگر ایک درخت کے پتے کی

Page 11

11 عجائبات کی ہزار برس تک بھی تحقیقات کی جائے تو وہ ہزار برس ختم ہو جائیگا مگر اُس پتے کے عجائبات ختم نہیں ہوں گے اور اس میں ستر یہ ہے کہ جو چیز غیر محدود قدرت سے وجود پذیر ہوئی ہے اس میں غیر محدود عجائبات اور خواص کا پیدا ہونا ایک لازمی اور ضروری امر ہے اور یہ آیت کہ قلی تَوكَانَ الْبَحْرُ مِدَ اذاتِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ البَحْرَ قَبلَ أَن تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَلَو جِتُنَا بِمِثْلِهِ مَدَداہ اپنے ایک معنی کی رُو سے اسی امرکی مؤید ہے کیونکہ مخلوقات اپنے مجازی معنوں کی گرد سے تمام کلمات اللہ ہی ہیں اور اسی کی بناء پر یہ آیت ہے کہ كَلِمَتُهُ القَهَا إِلَى مَرد لے کیونکہ ابن مریم میں مَرْيَمَ دوسری مخلوقات میں سے کوئی امر زیادہ نہیں.اگر وہ کلمتہ اللہ ہے تو آدم بھی کلمہ اللہ ہے اور اس کی اولاد بھی کیونکہ ہر یک چیز كُن فَيَكُون کے کلمہ سے پیدا ہوتی ہے اسی طرح مخلوقات کی صفات اور خواص بھی کلمات رہتی ہیں یعنی مجازی معنوں کی رو سے کیونکہ وہ تمام کار کن فیکون سے نکلے ہیں سو ان معنوں کے رو سے اس آیت کا كُنْ فَيَكُون مطلب ہوا کہ خواص مخلوقات بجد اور بے نہایت ہیں اور جبکہ ہر ایک چیز اور ہر یک مخلوق کے نتواص بے حد اور بے نہایت ہیں اور ہر یک چیز غیر محدود عجائبات پرمشتمل ہے تو پھر کیونکہ قرآن کریم جو خدا تعالیٰ کا پاک کلام ہے صرف ان چند معانی میں محدود ہوگا کہ جو چالیس پچاس یا مثلا ہزار جز کی کسی تفسیر میں لکھے ہوں یا جس قدر ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک زمانہ محدود میں بیان کئے ہوں نہیں بلکہ الیسا پر لانا میرے نزدیک قریب قریب کفر کے ہے ، اگر عمدا اس پر اصرار کیا جائے تو اندیشہ کفر ہے یہ یہ ہے کہ جو کچھ نبی صلی الہ علیہ سلم له فسا - آیت ۱۷۲

Page 12

: ۱۲ نے قرآن کریم کے معنے بیان فرماتے ہیں وہی صحیح اور حق نہیں گر یہ ہرگز پسے نہیں کہ جو کچھ قران کریم کے معارف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ان سے زیادہ قرآن کریم میں کچھ بھی نہیں یہ اقوال ہمارے مخالفوں کے صاف دلالت کر یہ ہے ہیں کہ وہ قرآن کریم کے غیر محدود وہ عظمتوں اور خوبیوں پر ایمان نہیں لاتے اور ان کا یہ کہنا کہ قرآن کریم ایسوں کے لیے اترا ہے جو اتنی تھے اور بھی اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ وہ قرآن شناسی کی بصیرت سے بکتی ہے بہرہ ہیں وہ نہیں سمجھتے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محض امیتوں کے لیے نہیں بھیجے گئے بلکہ ہر ایک رتبہ اور طبقہ کے انسان ان کی امت میں داخل ہیں.اللہ جل شانہ فرماتا ہے.قُل يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِلى رَسُولُ الله الله جمیعا میں اس آیت سے ثابت ہے کہ قرآن کریم ہر ایک استعداد کی تکمیل کے لیے میں نازل ہوا اور در حقیقت آیت ولكن رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبيين من بھی اسی کی طرف اشارہ ہے یہ سکے w ان کا دائمی معجزه برادران اسلام ! اس مقالہ میں قرآن عظیم کے غیر محدود حقائق میں سے ایک ایسے زندہ اور وائی معجزہ کو پیش کرنا مقصود ہے جو قرآن کی اس عظیم الشان سچائی پر قیامت تک کے لیے برہان ناطق کی حیثیت رکھتا ہے.یہ معجزہ ہے خاتم النبیین کا عدیم المثال منصوب جس کا دنیا میں پہلی بار اعلان شعر میں سور : دنیا احزاب میں کیا گیا.یہ مقدس اعلان حین مبارک اور پُر تاثیر الفاظ و کلمات میں تھا وہ یہ ہیں :- مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّن رِّجَا لكحد وَالكِن رَّسُولَ اللهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَى عَلِيمًا (احزاب : ۲۱) فرمایا محمد صلی الہ علیہ وسلم) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول الله اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر ایک شے کا خوب علم رکھتا ہے.له اعران آیت ۱۵۹ ے الصادقین کرامات الصادر قاین ص ۱۸ - ۲۰ ه احزاب آیت ۴۱

Page 13

۱۳ شان نزول تفاسیر، احادیث اور تواریخ سے متفقہ طور پر ثابت ہے کہ یہ معرکۃ الآرا آیت ان ایام کی یادگار ہے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ (شهید شد) نے آنحضور کی انتہائی مصالحانہ کوششوں کے باوجود آپ کی پھوپھی زاد بہن زینب بنت جحش کو طلاق دے دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا.حضرت امام مبینا وشی (متونی شھ) فرماتے ہیں :- یہ ایک ابتلائے عظیم تھا بلے آنحضرت معانی باپ کی حیثیت سے ۱۳۵ حضرت علی ابن احمد المهائی نے رمتونی شاة لكن رسول اللہ کی تفسیر من الكن رَّسُولَ کے حرف کو خاص طور پر بہت اہمیت دی ہے اور یہ بصیرت افروز استدلال فرمایا ہے کہ جہاں شروع آیت میں آپ کے جسمانی باپ ہونے کی نفی کی گئی تھی وہاں اس حصہ میں بتایا گیا ہے کہ آپ امت کے روحانی باپ ہیں چنانچہ فرماتے ہیں : الکن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ابوت کے معنیٰ ہیں.پس آنحضور اللہ کے رسول میں تو آپ اپنی امت پر ویسے ہی شفیق اور ناصح ہیں جیسا کہ باپ اپنے بیٹے کا خیر خواہ ہوتا ہے.سے اس سے ملتی جلتی تفسیر ندوة العلماء ناصر الشریعہ حضرت علی ابن محمد بخدا دیگی متوانی کا علی بغداد دسته نے تفسیر خازن میں، اور امام جلیل حضرت علامہ ابوالبرکات عبداللہ نسفی متونى من المدارک التنزیل میں فرمائی ہے.ایک عارف کا قول ہے کہ بلاکیں ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است تفسیر مصر شد زرقانی ج ۳ ص ۲۲۵ مطبوعہ مطبع از پریہ مصریہ تبصر الرحمن وعبير المنان جزه ثمانی ها مطبوع ۱۲۹۵

Page 14

۱۴ معراج میں امر کا روح پرور نظارہ دشمنان اسلام نے اگر چہ : سارا فتنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات کو بدنام کرنے کے لیے اٹھایا تھا مگر اس کے نتیجہ میں خالق کون و مکان کی طرف سے دنیا کو بتایا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رسول بھی ہیں اور خاتم النبیین بھی ! انہیں سے ان کفار مکہ پر زیر دست ضرب کاری لگی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسم ! کا نام نعوذ باللہ ابتر رکھتے تھے، کیونکہ اس میں خبر دی گئی تھی کہ اگر چہ جسمانی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ یستم کی بالغ ، نرینہ اولاد نہیں گرا اپنی امت کے روحانی باپ کی حیثیت سے آپ کی روحانی اولاد بکثرت ہوگی جیسا کہ آپ کو معراج میں بتایا گیا، چنانچہ حضرت ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ جب آنحضرت کو معراج کرائی گئی تو بعض ایسے انبیاء پر آپ کا گزر ہوا جن کے ساتھ ایک ہجوم تھا.بعض ایسے تھے جن کے پاس صرف چند لوگ جمع تھے اور بعض کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا ر غالباً حنظلہ نبی بھی انہیں میں سے ہونگے جن کی نسبت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ہر ہر قوم نے انہیں نہایت بیدردی سے ذبح کرکے ان کا گوشت پکایا اور پھر مزے سے لیکر اسے کھایا اور اس کا شوربہ استعمال کیا ہے ) سیر معراج میں حضور علی السلام کا گزر ایک بہت بڑے مجمع پر ہوا.پوچھا کون ہیں یا جبر تمل نے عرض کیا ہوتی اور ان کی قوم میں، لیکن یا رسول اللہ اپناسر ذرا اوپر اٹھایئے، فرماتے ہیں دیکھتا کیا ہوں کہ اتنا عظیم الشان اجتماع ہے کہ سب آفاق کو گھیر رکھا ہے اور کہا گیا کہ یہ آپ کی اُمت ہے.عرش کا به روح پرور نظارہ دراصل " ولكن رَسُولُ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينُ ہی کی عملی تفسیر ہے.خاتم النبیین میں دریائے حقائق اس پس منظر میں جب ہم بزرگان سلف کے افکار وخیالات کی روستے خاتم النبیین کے ارفع ترین اوراکل ترین اور اعلی ترین مقام محمدیت پر غور کرتے ہیں تو ان دو لفظوں میں ہمیں پہنچ چ حقائق ومعارف کے کنز العمال ج ، ض 140 کله نترمذی جلد۲ ص ۶۷ مطبع علمی دہلی 46

Page 15

دا کا ایک بہتا ہوا دریا نظر آتا ہے.آپ حیران ہونگے کہ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی شش ) نے البَهْجَةُ السَّوِيَّةُ في الأَسمَاءِ النَّبَوِيَّةِ " میں اور حضرت امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی دمتونی ) نے سُبل الهدى والرشاد میں پانچستو اور حضرت شمس الدین محمد این تیمره انتونی نشته اور بعض دوسرے اکابر صوفیانہ نے ایک ہزار نام حضور علیہ الصلوة والسلام بتاتے ہیں نے کے بایں ہمہ یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ گذشتہ تیرہ سو سال میں جو مشاہیر است گزرے ہیں انھوں نے سب سے بڑھ کر حسن پیارے نام کی تفسیر بیان کی ہے وہ خاتم النبیین" ہی ہے.ری ام قرآن مجید اور انور صلی اللہ علیہ سلم کی حقانیت کی محکم دلیل ہے کیونکہ اللہ قبل شائد اور یہ فرماتا ہے : وَإِن مِنْ شَىءٍ إِلا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُ إِلَّا بِقَدِيرِ ( الحجر : ۲۲) معلومه ہمارے پاس ہرشے کے خزانے موجود ہیں لیکن ہم اسے ایک معین اندازے سے ہی نازل کرتے ہیں.اس آیت کریمہ سے صاف طور پر ثابت ہے کہ ہر شئی خصوصاً قرآنی خزائن ضرورت زمانہ اور ہرشتی و مقتضائے مصلحت و حکمت کے مطابق ہمیشہ ہی اتر تے چلے جائیں گے علاوہ ازیں خاص طور پر آیت خاتم انبین کے اندر پہلے سے ہی یہ پیشگوئی موجود ہے کہ كَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا یعنی اللہ تعالیٰ ہر شی کو پوری طرح جانتا ہے.اُسے علم ہے کہ خاتم النبیین کے اندر کیا گیا اسرار ، معارف اور حقائق چھپے ہوتے ہیں اور کس زمانہ میں کن بندگان الہی عشاق قرآن اور خدام خاتم الانبیاء کے ذریعہ اُن کا ظہور مقدر ہے.؟؟؟ مرقاة شرح مشكوة جلد ۵ ص ۳۷۵ (امام علی القاری) ه ۵۰۰ سبل الهدی والرشاد في سیرت خیر العباد" جلد نمبر ا ص ٥٠٠ مطبوعه قاهره ٥١٣٩٧ س مواہب اللدنیہ جلد نمبر ص ۱۸۷ ( للقسطلانی" مصر ۱۳۲۶ ا ١٨٢

Page 16

" بزرگان سلف آریان ام النبین همین معانی بن جلیل القدر بزرگوں نے مقام خاتم النبیین پر روشنی ڈالی ہے ان میں دیدہ علم کے باپ یعنی حضرت علی ابن ابی طالب جیسے خلیفہ راشد الشهید رمضان نشده ) حضرت علامہ راغب اصفهانی (منونی شده) ۲۷ جیسے اہم لنفت ، قطب الاقطاب حضرت سید عبدالقادر جیلانی رمتونی شش، جیسے آفتاب طریقت ، حضرت ابوالحسن شریف رفتی رمتونی شد حضرت شیخ فرید الدین عطار مهمدانی دمتونی - حضرت ۶۲ محی الدین ابن عربی (متوفی ، حضرت مولانا جلال الدین رومی (متونی سکته ) حضرت عوفی عبدالرزاق کاشانی رستوانی نشته ، حضرت سید عبدالکریم جیلانی ولادت شانه احضرت شاہ بدیع الدین مدار متوفی نشته ، حضرت شاہ عالم استونی نشده حضرت عبدالرحمن مبانی متونی نشته ، حضرت ) ۹۱ ؟ <4 حسین بن علی واعظ کاشفی (متولی نامه حضرت امام عبدالوہاب شعرانی رمتونی شاه ، حضرت علامه فت الله کاشانی متونی ہ) حضرت مجددالف ثانی (متونی ) اور حضرت سید مظفر علی شما دستوئی شام جیسے صوفیا - عظام ، حضرت امام فخرالدین رازی (متوانی ست ) اور حضرت علامہ الشیخ ، امام اسمعیل حقی البر دسوی زمانه بارھویں صدی ہجری جیسے مفتر، حضرت علامہ عبدالرحمن ابن خلدون استونی نشسته اور حضرت امام زرقانی (متونی ) جیسے مورخ حضرت امام محمد بن یوسف صالحی الشامی تونی شده جیسے سیرت نگار حضرت امام تقی الدین سبکی دستوئی نشہ جیسے علمام ربانی حضر امام محمدطاہر گجراتی (متوفی 04 411, ہ جیسے محدث ، حضرت علامہ جلال الدین سیوطی (متونی لاشہ ) اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث ) دہلوی (متوئی شاہ جیسے مجدد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (ستونی شاه ) اور حضرت مولانا عبد الحی امام اہلسنت رستوئی ، جیسے متکلم اسلام شامل ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآنی علوم کے حصول کے لیے صاحب عرفان ہونا ایک بنیادی شرط قرار دی ہے.جیسا کہ فرمایا : إِنَّهُ لَقُران كريم ة في كِتَابٍ مَّكُنُونِ لاَ يَمَسُّةً ག ་ ) (AL-CA: إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ، تَنْزِيلٌ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِينَ (الواقعه (۸۱۰۸) یقینا یہ قرآن کریم ایک چھٹی ہوئی کتاب میں ہے.یعنی اس میں دقیق اشارات عجائب اسرار اور مخفی در مخفی نکات پاتے جاتے ہیں جو انہی پر کھلتے ہیں جو اس کے حضور

Page 17

16 پاک اور ظہر قرار پاتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن مجید رب العالمین خدا کی طرف سے ہے.چنانچہ یہ سب اختیار و ابرار جن کے اسمارہ گرامی میں نے ابھی بتاتے ہیں اسی پاک اور مطهر گروہ میں شامل تھے.جن پر حسب استعداد و مراتب انوارہ قرآنی کا نزول ہوا اور انہیں کشف و الہام میں بھی قرآنی علوم سکھائے گئے جیسا کہ ان کی تحریرات و فرمودات سے بھی پتہ چلتا ہے اے حضرت شیخ الشیوخ سلطان العارفین فرید الدین گنج شکر کا فرمان ہے کہ : عالم وہ ہے جسے نبوی علم حاصل ہو.اور نبوی علم آسمانی ہے جو آنحضرت کو وحی سے سیکھایا گیا ہے قدوۃ السالکین حضرت شیخ عثمان فرماتے ہیں : آنکه از حق یا بک الهاماً جواب ہرچہ فرماید بود عین صواب ہے بوشخص حتی تعالی سے بذریعہ الہام جواب پاتا ہے جو وہ کے پیچ وہی ہے.3.حدیث نبوی میں ہے.إِذَا اَرَادَ الله بعبد خيراً طهَّرة قبل موته قَالُوا وَمَا طَهُورُ العَبْدِ ؟ قال عمل صالح يلهمه ايا لا حتى يقبضه عليه " جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کے لیے خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے اپنی موت سے پہلے مظہر بنا دیتا ہے عرض کیا گیا بندہ کا پاک و مطہر ہوتا کیا ہے ارشاد فرمایا عمل صالح جس کا خدا اسے الہام کرتا ہے بیا نتک کہ اسی عمل کے دوران وہ اسے اپنے پاس بلا لیتا ہے.ایک اور حدیث ہے.H شم إِذَا اَرَادَ اللهُ بِعَبْد خَيْرًا فَقَمَهُ فِي الدِّينِ وَالهَمَهُ رُشَدَة جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین میں تفقہ بخشتا ہے اور اپنی ہدایت سے اسے بذریعہ الہام مطلع فرماتا ہے.فتوحات کمی جلدا رو با چه تنبیہ المغترین ص ۱۸۲ ) قطب ربانی حضرت عبدالوہاب شعرانی ” طبع مصر ) مه راحت القلوب اردو ص ۲ تصنیف سلطان العارفین حمد نظام الدین بدایونی انا للہ ولے کی قومی دکان اور طبع نجم سه چهل کتوب اردوی ۱۳ حضرت شیخ عثمان جالندھری) مطبوعه بازار کشمیری لاہور سے معجم الصغیر السیوطی ج 1 ص 4 المکتب الاسلامیہ لائل پور (فیصل آباد ) پاکستان کے ایضاً ۱

Page 18

"A ان بزرگوں کو قرآن و حدیث پر تدبر اور کشوف والہامات کی تجلیات سے جو آسمانی فیض حاصل ہوا اس کی بدولت انہوں نے خاتم النبیین کے پر معارف حروف کے نیچے پوشیدہ خزانے میں سے ایسے ایسے بیش قیمت اور چمکتے ہوئے لعل، یاقوت، زمرد ، الماس اور جواہرات پیش کئے ہیں کہ عقل انسانی زنگ رہ جاتی ہے.یہ بہت وسیع مضمون ہے جس کی تفصیلات وجیہ نیات کو یکجا اور مرتب کرنے کے لیے ایک ادارہ چاہیئے جو دنیا کی جدید لائبریریوں سے استفادہ کے علاوہ بغداد ، قاہرہ، شیراز، طرابلس، بخارا، حلب، رافضہ اور اندلس کے قدیم اسلاق مرانہ کی پرانی کتابوں کا کھوج نکال کر اس پر مزید ریسرچ کرے.جہاں تک مجھ نا چیز اور حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے اوئی پکا کر اور کفش بردار کا تعلق ہے.یہ عاجز ایک ابتدائی اور سرسری تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ امت محمدیہ کے مسلمہ بزرگوں نے تیرہ صدیوں میں مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے خاتم النبیین " کتے میں معنی بیان کئے ہیں.یہ تمام معانی جن سے آنحضرت کے عالی مقام اور آپ کے فیوض و برکات اور انوار و تاثیرات کا کسی حد تک اندازہ ہوتا ہے ، قرآن و حدیث ہی سے ماخوذ اور انہی کی لطیف تفسیر ہیں.قرآن کامل و مکمل کتاب ہے جو اپنی تفسیر آپ کرتی ہے اور آنحضرت نے کوئی زائد تعلیم ہرگز نہیں دی سب احادیث مجملات و اشارات قرآن کی تفصیل اور کسی نہ کسی آیت کی شرح ہیں اور قرآن سے باہر ہرگز نہیں، اگر یہ ایک مستقل مضمون ہے جس کی طرف اس جگہ صرف اشارہ ہی کیا جا سکتا ہے.تنیس معنوں کا خلاصہ اب میں ان تمہیں معانی کا خلاصہ عرض کرتا ہوں جو بزرگان اقمت رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خاتم النبیین کے بیان فرماتے ہیں:.- قیامت میں مقام عبودیت پر فائز ہونے والا واحد نبی - -٢ ۴ عالم ارواح میں نبیوں پر مہر لگانے والا نبی.نیوں کا سر چشمہ.نبیوں کو نور نبوت عطا کرنے والا مشکواۃ نبیوں کے نبی.پلے فیض کو بند اور نئے کمالات کو جاری کرنیوالا نبی.

Page 19

۱۹ کمالات نبوت کا سب مع کمالات خداوندی کا قالب - کمالات علمی و عملی کا اصل -IM سب نبیوں سے افضل شفاعت کرنے والا نبی دعویٰ محبت الہی کی تصدیق کر نیوالی مهر -۱۳ حقیقی نبی -۱۴- نبیوں کا شہنشاہ اور بادشاہ ہفت اقلیم -۱۵ - فیض رسانی میں بے مثال -10 راتب کمالات نبوت کا انتہائی متد -۱۷ آخری مرد حانی غده -IA شاہی خزانہ کی مہر -1 نافظ نبوت 19 ۲۰ نبیوں کی زینت ۲۱ کامل راه نما -** پہلی شریعتوں کا ناسخ -۲۳ واحد شارع حقیقی -۲۲ ہر نئے دور کا بانی -۲۵ آخر میمند آخر می مستقل نبی.۲۶ آخری شارع نبی -۲۷ انسان کامل -۲۸ نبیوں کے باپ - VA -۲۹- نقوش نبوت پیدا کر نیو الانبی فیضان خاتمیت کا اکمل ترین ظہور مہدی کی صورت میں ہوگا.اب ان معنوں کی تشریح بزرگانِ اُمت کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں.

Page 20

i - قیامت میں مقام عبودیت پر فائز واحد نبی تیری صدی ہجری کے نامورعالم ربانی اورانی کا ارت یا الان محمد بن علی حکیم الترمذی ބ کامل یخ عبدا مستونی شده کتاب ختم الاولیا ر ص ۳۳۰ پر فرماتے ہیں : حُبّةُ اللهِ عَلى خَلْقِهِ بحقيقة قوله تعالى وَلبَشِّرِ الذِينَ آمَنُوا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمُ فَشهد اللهُ لَهُ بِصِدْقِ العبودية فاذا بَرزَ الديَّانُ في جلالِهِ وَعَظمِتِه في ذالك الموقف وقال يا عبيدى انما خلقتكُمُ العُبودة نها تُوا العُبودة ! فلم يبقَ لأحدٍ حِسٌ ولا حركةٌ مِن هَولِ ! ذالك المقامِ إِلَّا محمداً صلى الله عليه وسلم فيذ الك القدم - (الصدق الذى له يتقدم على جميع صُفُونِ الانبياء والمرسلين لإنَّه قَداَتى بِصِدقِ العُبُودِية لِلهِ تعالى فيقبله اللهُ منهُ وَ يبعثه إلى المقام المحمود عند الكرسي فيكشِفُ الغِطَاء عن ذالك الختم يحيطه النُّور وشعاع ذالك الختم يبين عليه وينبع من قلبه على لسانه من الثناء ما لم يسمع به احد من خلقه حتَّى يعلم الانبياءُ كُلُّهم ان مُحمداً صلى الله عليه وسلم كان علمهم بالله عزّ وجلَّ فهو اول خطيب واوّل شفيع فيُعطَى يواء الحمدِ ومفاتح الكرم فلواء الحمد العامة المؤمنين، ومفاتح الكرم للانبياء ولَخَاتَمِ النبوة بلا عوشان عَميقُ اعمق من ان تحتمله ترجمہ :- خاتم النبوت مخلوق پر خدا کی محبت ہے اس فرمان ربانی کے مطابق کہ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا اَنَّ لَهُم قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمُ کتاب "ختم الاولیاء ص ۳۳۸ تالیف الشیخ عبدالله حمد بن على الحسن الحكيم الترمذى المطبعة الكاثوليكيه بيروت 1940

Page 21

۲۱ اللہ تعالیٰ نے آپ کے صدق عبود میت کی گواہی دی اور اس وقت جبکہ خدا تعالیٰ اپنی عظمت و جلال کیساتھ ظہور کر لگا د فرمائے گا اے میرے بندو میں نے تمہیں صرف عبودیت کے لیے پیدا کیا تھا سوتم عبودیت پیش کرو.اس وقت محمد صلی الہ علیہ وسلم کے سوا اس مقام کے خوف سے سب بے حس و حرکت ہو جائینگے (ان پر سکتہ طاری ہوگا) گر آنحضرت قدم صدق کے باعث جملہ انبیاء و مرسلین کی صفوں کے آگے تشریف فرما ہونگے اور اللہ تعالٰی صدق عبودیت کی بدولت آپ کی عبودیت کو شرف قبول بخشے گا.اورا اور اپنی کرسی کے پاس آپ کو مقام محمود پر سر فراز فرمائیگا.پھر اس ختم (مهر) سے پردہ اُٹھایا جائیگا تو نور آپ کا احاطہ کر لیگا اور اس ختم دمر ) کی شعاعیں آپ پر ضور فشاں ہوں گی.تب ایک ایسی شنار کا چشمہ آپ کے قلب مبارک سے پھوٹ کر آپ کی زبان مبارک پر رواں ہوگا کہ دیسی شنار مخلوق خدا میں سے کسی نے کبھی نہ شنی ہوگی.یہاں تک کہ جمیلہ انبیا ءہ اس حقیقت سے مطلع ہو جائیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عز و جل کے عزوجل بارہ میں اُن سب سے زیادہ عرفان رکھتے ہیں.لہذا خطیب اول اور شفیع اول کا منصب آپ ہی کو عطا ہوگا اور حمد کا جھنڈا اور سخاوت کی چابیاں آپ کو دی جائیں گی.یو اے حمد عام مومنوں کے لیے ہو گا اور سخاوت کی چابیاں انبیا.کے لیے.خاتم النبوۃ کی اتنی بلند وارفع شان ہے کہ تم اس کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے، تاہم امید ہے اس کی جبیں قدر بھی شان بیان کی گئی ہے تمہارے لیے اتنی ہی کافی ہے.يا صاحب الجمال ويا ستيد البشر من و تیک المفسر لف نهر القمر وجهك لیکن اللنار لک کان حقہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر الك

Page 22

٢٢ عالم ارواح میں نبیوں پر مہر لگانے والا نبی مسلم سپین کے متاز مفتر و پیشوائے طریقت حضرت ابن عربی استونی " شجرة الكون" کے صفحہ ، پر اس میثاق کا ذکر کر کے جو ازل میں انبیاء سے لیا گیا تھا زیاتے ہیں : } ا خَذَ المِيثَاقَ على تصديقه والتمسك بحبل تحقيقه جلا عروس شريعته على اتباعه وشيعته تمختم بِنُبُوَّته الانبياء وبكتابه الكتب وبرسالته الرُّسُل ضمن احتمى بحمى d" شريعته سَلِمَ ومن استمسك بحيل ملته عُصِمَ : له ترجمہ : (خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور آپ کی تحقیقات کے رسے کو مضبوطی سے پکڑنے کا عہد لیا، اس نے آپ کی شریعیت کے حسن کو آپ کے متبعین پر ظاہر کیا.پھر آپ کی نبوت سے تمام نبیوں کی نبوت پر آپ کی کتاب سے تمام کتابوں پر اور آپ کی رسالت سے تمام نبیوں پر مہر تصدیق لگائی، پس جس نے آپ کی شریعیت میں پناہ لی وہ بچالیا گیا اور جو آپ کی ملت کا دامن تھامے رہا وہ محفوظ ہو گیا.نبیوں کا سرچشمہ اسلامی ہند کے قطب الارشاد حضرت سید مظفر علی شاه رستوئی سا جواہر غیبی ص ۷۳ میں فرماتے ہیں : " از نور او انبیاء پیدا شدند ته ترجمہ : آپ کے نور سے ہی تمام نبی پیدا ہوئے." حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رستوئی راہ) فرماتے ہیں کہ :- " خلَقَ مِنْ عَرَقٍ ظَهْرِهِ الْأَنْبِيَاءَ وَ الْمُرْسَلِينَ " سب انبیاء و مرسلین آنحضرت کی پشت مبارک کے پسینہ سے پیداہوتی ہے ے شجرة الكون" س> (حضرت محی الدین ابن عربی ) طبع استانبول شاه را ه "جواہر غیبی ص ۷۳ از حضرت قطب الارشاد سید مظفر علی شاہ مطبع نولکشور لکھنو الدرر الحسان سیوطی ص ۲ مطبوعہ مصر ۱۲۲ پیدا

Page 23

٢٣ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دارالعلوم دیو بند ستونی شاہ فرماتے ہیں کہ:- جیسے خاتم بفتح النار کا اثر اور نقش مختوم علیہ میں ہوتا ہے، ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوتا ہے حاصل مطلب آیہ کریمیہ اس صورت میں یہ ہوگا کہ ابوت معروفہ تو رسول اللہ صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پرایوت معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے انبیاء کی نسبت تو فقط خاتم النبیین شاہ سوجب ذات بابرکات صلعم موصوف بالذات بالنبوۃ ہوتی اور انبیاء باقی موصوف بالعرض تو یہ بات اب ثابت ہو گئی کہ آپ والد معنوی ہیں اور انبیاء باقی آپ کے حق میں بمنزلہ اولاد معنوی اسے پھر لکھتے ہیں :- d محمداً اگر خاتمیت بمعنی اتصاف ذاتی بوصف نبوت کیجئے تو پھر سوا رسول الله صلعم اور کسی کو افراد مقصود بالحلق میں سے مماثل نبوی صلعم نہیں کہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیاء کی افرادہ خارجی ہی پر آپ کی فضیلت ثابت نہ ہوگی افراد مقدہ جن کا آنا تجویز ہو پر بھی آپ کی فضیلت ثابت ہوگی بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گایا تے م نبیوں کو نور نبوت عطا کر نیوالا مشكورة : PA واقعت اسرار قرآنی حضرت محی الدین ابن عربی (متونی شہ) فرماتے ہیں :- وَمَا يَرَاهُ اَحَدٌ من الانبياء والرسل الا مِنْ مُشكوة الرَّسُولِ الخاتم ترجمہ : ( خدا تعالیٰ کو سارے انبیا - اور رسول خاتم رسل صلی اللہ علیہ وسلم کے مشکوۃ (نبوت) سے ہی دیکھتے ہیں.تحذیر الناس ص ۱۰ ۱۱ مطبوعہ خیر خواه سرکار پریس سہارنپور که ایضاً ص ۲۸ ✓ شرح فصوص الحکم ص ۳۲ را شیخ الکامل، شیخ عبدالرزاق القا شانی مطبعہ میمنیہ مصر ۱۳۲۷

Page 24

۲۴ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (متونی ) لکھتے ہیں - ۱۳۹۷ : تمام کمالات انبیاء کا نشو و نما حضرت خاتم کی ذات سے واجب التسلیم ہے.لے دوسرے نبیوں کی نبوت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے فیضیاب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت دنیا میں دوسروں کی نبوت سے فیضیاب نہیں ہے کالے اور قطب الارشاد حضرت سید منظر علی شاه دستونی ) جوار نیسی ص ۹۳ میں تحریر فرماتے ہیں : P P- 1444 مہر نبی که بود از آدم تا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم جمله نور نبوت از مشکوة خاتم النبیین گرفته ۱۳ ٤ ترجمہ : حضرت آدم سے لیکر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر نبی نے مشکوۃ خاتم النبیین ہی سے نور حاصل کیا.نیر فرماتے ہیں :- كنت نبيا وآدم بين السماءِ وَالطين: ما اکنون از بین عالم سفر فرمودند و در عالم تحقیق پیوستند هم نمی باشند محکم لا نبی بعدی چرا که نبوت حضرت الیشان جو ہر سیت و نبوت دیگر عرضی بو کی قائم " سے ترجمہ : (حدیث ہے ، میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدم ابھی پانی اور مٹی کے درمیان تھے اور اگر چہ اب وہ (نبی) اس دنیا سے سفر کر کے عالم تحقیق میں چلے گئے پھر بھی لانبی بعدی کے حکم کے ماتحت وہ نبی ہیں کیونکہ آنحضرت کی نبوت جو ہر ہے اور دوسروں کی نبوت معرضی اور آپ کے طفیل قائم ہے.حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی کے فرزند حضرت ابوالعباس محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ متونی قبیلہ نما ص ۶۳ مولفہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی مطبع مجتبائی دہلی شاده " کے انوار النجوم" ص ۵۶ ترجمه مکتوبات حضرت مولانا قاسم نانوتوی ناشران قرآن اردو بازار لاہور د د " که جواہر غیبی ص ۹۳ از حضرت سید مظفر علی شاہ مطبع نولکشور لکھنو کے جواہر نیسی راز حضرت سید مظفر علی شاہ ص ۲۴۴ طبع اول عششة

Page 25

۲۵ بھی فرماتے ہیں کہ و" دیگران چه انبیاء و چه غیر شان همه طفیلی دے اند ؟ لے ۱۰۵۲ دوسرے سب خواہ وہ نبی ہوں یا غیر نبی اُن کی حیثیت حضور کے طفیلی کی ہے؟ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (متوفی شاہ کا مشہور شعر ہے.مقصود ذات ادست دگر با همه طفیل منظور نور اوست دیگه جملگی غلام " آپ کی ذات اقدس ہی مقصود حقیقی ہے باقی سرب طفیلی میں آپ کا نور ہی اصل ہے اور سب تاریکی ہے.آخری مغلیہ تاجدار بہادر شاہ ظفر دمتونی شاہ نے ختم نبوت کے اسی سہو پران اشعار میں روشنی ڈالی ہے.P اے سرور دو کون ، شہنشاہ ذُو الكرم سرخیل مرسلین و شفاعت گر امم تو تھا سریہ اوج رسالت پر جلوہ گر آدم جہاں ہنوز پس پرده عدم i اس تفسیر کا اصل ماخذ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ مشہور حدیث ہے جو حضرت امام احمد ، حاکم اور بہیقی نے حضرت عرباض منہ سے روایت کی ہے کہ " انى عبد الله فِي أَمِ الكِتَابِ لَا تُمُ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لمتجدِلٌ فِي طِينَ : ترجمہ : میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس وقت سے ام الکتاب (لوح محفوظ) میں خاتم النبیین ہوں جبکہ آدم ابھی مٹی میں تھے.حضرت علامہ جلال الدین سیوطی استونی اشتہ) نے خصائص کبری جلد مبرا میں حدیث (گنت 911 نبيا وآدم بين الروح والجسد) درج کر کے فرمایا ہے کہ نوز منه المعارف مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی صدر شعبہ اگر دو سندھ یونیورسٹی حیدر آباد ساده ناشر عبد الغفار مین کراچی نمبر ۱۲ سے ایضاً ص ۲۲ سے مسند احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۱۲۸ مطبوعہ مصر

Page 26

اس کا یہ معصوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ آپ آئندہ نبی ہوں گے کیونکہ اس سے تو رسول اللہ کی کوئی خصوصیت ثابت نہیں ہوتی وجہ یہ کہ علم خداوندی تو ہرشی پر محیط ہے.یہیں اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کی نبوت تکمیل و تخلیق آدم سے بھی پہلے تھی یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے آنکھ کھولتے ہی عرش الٹی پر حضور کا اہم مبارک محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھائے ۱۲۹٤ حضرت مولانامحمد قاسم صاحب نانوتوی دستوئی شاہ نے تحذیر الناس میں خاتم انبیین کا مذکور مفهوم ایک حدیث نبوی سے اخذ کیا جو یہ ہے :- حديث كُنتُ نَبِيا وَآدَهُ بَيْنَ المَاءِ وَالطِین بھی اسی جانب مشیر ہے کیونکه فرق قدم نبوت اور حدوث نبوت با وجود اتحاد نوعی خوب جب ہی چسپاں ہو سکتا ہے کہ ایک جاہ وصف ذاتی ہو اور دوسری جا عرضی ، اور فرق قدم وحدوث اور دوام و عروض فہم ہو یعنی سمجھ میں آجائے تو اس حدیث سے ظاہر ہے، ہر کوئی سمجھتا ہے کہ اگر نبوت کا آپ ہی کے ساتھ مخصوص سا قدیم ہونا نہ ہوتا تو آپ مقام اختصاص میں یوں نہ فرماتے (جیسا کہ حدیث بالا میں فرمایا ہے، علاوہ بریں حضرات صوفیہ کرام کی یہ تحقیق کہ مرتی روح محمدی صلی اللہ علیہ و سلم تعیین اول یعنی صفت علم ہے اور بھی اس حدیث کے موتیہ ظاہر ہے کہ شاعر کی ترتیب سے شعر آوے گا اور طبیب کی تربیت سے فین طلب اور محمدت کی تربیت دربارہ حدیث مفید ہوگی، فقیہ کی دربارہ فقہ - سوجس کی مربی صفت العلم ہو.جو علم مطلق ہے مثل البصار و اسماع علم خاص و قسم خاص نہیں ، تو لا جرم فرد تربیت یافتہ اپنی ذات پاک محمدی صلی اللہ علیہ وسلم بھی علم مطلق میں صاحب کمال ہو گی ہے صلی اللہ علیہ وسلم عہد حاضر کے ایک مشہور عالم جناب مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی (متوفی شاہ کے الفاظ میں اکب نقطہ نگاہ کا خلاصہ یہ ہے کہ : 있어요 له خصائص الكبرى ج ا م م مجلس دائرة المعارف النظامیه حیدر آباد دکن سالاره تو تحذیر الناس ص 4 ۶

Page 27

۲۷ بعض محقیقین کے نزدیک تو انبیائے سابقین اپنے اپنے عہد میں بھی خاتم الانبیاء صلعم کی روحانیت عظمیٰ ہی سے مستفید ہوتے تھے جیسے رات کو چاند اور ستارے سورج کے نور سے مستفید ہوتے ہیں حالانکہ سورج اس وقت دکھائی نہیں دیتا اور جی طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں اسی طرح نبوت ورسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمدی مسلم پر ختم ہوتا ہے بدین لحاظ کہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے آپ ہی کی مہر لگ d کر لی ہے یا اے خاتمیت رتبی اور زمانی واضح ہو کہ خاتمیت رتبی خاتم النبیین کے اصل معنی ہیں اور خاتمیت زمانی ان معنوں کو آپ کے جسمانی ظہور میں لاحقی ہوتی ہے اس لیے ان دونوں میں لزوم تو قرار دیا جا سکتا ہے.تناقص قرار نہیں دیا جا سکتا.یعنی خاتمیت زمانی کے ایسے معنی نہیں لیے جاسکتے جو خاتمیت رتبی کے معنوں کو آئندہ کے لیے منفی کر دیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دائمی خاتم النبیین ہیں.میں خاتمیت زمانی مصرف صلی الله جدید ت والا نبی نہیں آئے حضرت امام علی القاری (متوئی سلام ) نے حدیث لانبی بعدی کی شرح میں لکھا ہے : ور د لاني بَعْدِي معناها عند العُلَمَاءِ لَا تَحدَثُ بَعْدَهُ نبيَّ بِشَرْعِ يَنكُمْ شَرَعَه : لَه اراچنا یعنی حدیث میں لا نبی بعدی کے الفاظ آئے ہیں رجس سے خاتمیت زمانی سمجھی جاتی ہے ناتل ، اس حدیث کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی پیدا نہیں ہو گا جو آپ کی شریعیت کو منسوخ کردے.پس خاتمیت زمانی ایک وقتی اور محمد ود مفہوم رکھتی ہے نہ کہ خاتمیت رتبی کی طرح وسیع مفہوم قرآن کریم مترجم مولانا محمود الحسن صاحب د مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی حاشیہ ص ۵۵۰ ناشر نور کارخانه تجارت کتب آرام باغ کراچی ل الاشاعة في اشراط الساعة ص ۲۲۶ بحواله الشرب الوردی فى مذهب المهدی مسلک و حمانی مهدی مولف مولوی حافظ عبدالرحمن صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور

Page 28

مراد خاتمیت زمانی سے یہ ہے کہ کوئی جدید شریعیت لانے والا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.قرآنی آیت جس میں خاتم النبیین آیا ہے دونوں قسم کی خاتمیت یعنی رتبی و زمانی پر حاوی ہے رتبی بدلات مطابقی اور زمانی بدلالت التزامی جو اس کو بعد میں لازم ہوئی.اس کا منفی معلوم کہ نفرت ملی کا النحضرت اللہ علیہ وسلم خاتم زمان بھی ہیں حضرت امام علی القاری (متوفی ) کے نزدیک موضوعات کبیر میں یوں بیان ہوا ہے کہ : جوا المعنى أنه لا ياتي نبي بعده ينسخ مِلَتَهُ وَلَمْ يَكُن مِنْ المَتِهِ ، ! خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا ہی نہیں آئیگا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.میں خاتمیت زمانی کے معصوم کو خاتمیت رتبی کی طرح وسیع قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ بعد میں لاحق پس اد 11 ہوتی ہے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمانی ظہور ہوا.حضرت بانی جماعت احمدیہ نے سر ی خشیم آن میں گوروح محمدی کا ذکر نہیں کیا، لیکن آیت قاب GNANT NOT OWNED (النجمہ کی تفسیر کرتے ہوئے آپ کو قاب قوسین سے پیدا ہونے والے دائرے کا مرکز یعنی نقطہ وسطی قرار دیا ہے میں سے دائرے کے تمام خطر پیدا ہوتے ہیں اور اس طرح نہ صرف انبیا.اور اولیاء کے لیے بلکہ ساری کائنات کے لیے آپ کے وجود باجود کو علت فاتی قرار دیا ہے اور حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی (متوفی شاه ) نے اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوتے بطور علت فاعلی کے پیش کیا ہے.مگر اصل حقیقت حضرت بانی جماعت احمدیہ نے کھولی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نات کی علت فاعلی نہیں ، علقت خالی ہیں.فاملی ملت تو خدا تعالیٰ ہے اور فایت فاعل کے فعل کے لیے محرک ہوتی ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے چونکہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ علیہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معنوی باپ قرار دیا ہے (جیسا کہ قبل ازیں بیان ہوا ، اور باپ ایک گونہ علت فاعلی بھی ہوتا ہے گو اصل علت فاعلی خدا تعالیٰ ہی ہے اس لیے انہوں نے علت فاعلی کے وسیع منے لیکر انھضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علت فاعلی قرار دیا ہے حالانکہ ملت فائی بھی بمنزلہ باپ کے ہوتی ہے کیونکہ فاعل فعل نہیں کرتا جب تک کوئی غایت نہ ہو.حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ (متونی اشتہ) کے قول میں جو آنحضرت کی نبوت -م الموضوعات الكبير ص 49 مطبع مجتبائی دہلی ۱ له حاشیه ص ۲۶۴ - ۲۷۴ ) روحانی ختنه است جلد ۲ ص ۲۱۶-۲۲۶)

Page 29

۲۹ کے ازل سے موجود ہونے کا ذکر ہے دو علمی بود بھی مراد ہوسکتا ہے کیونکہ آنحضرت اپنی شان میں دوسرے تمام نبیوں سے بالکل مختلف اور منفرد تھے آپ کی نبوت خاتم النبیین کے بلند مقام کی حال تھی اور باقی انبیا ہ کی نبوتیں آپ کے عدت غائیہ ہونے کے فیض سے فیضیاب جو غنی - ۵.نبیوں کے نبی حضرت امام تقی الدین سبکی دمتونی شکستہ فرماتے ہیں سبكل ی » يَكُون نبوتُه وَرِسَالَتُه عامة لجَمِيعِ الخَلَقَ مِنْ زَمَنِ آدَمَ احمه إلى يوم القيامة ويكون الأنبياء و ا م م ه م م م مِن أمناء وأ فالنبي صلعم نبي الانبياء الله " ترجمه انضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت ساری مخلوقات کے لیے ہے اور : آدم کے زمانہ سے دیگر قیامت تک ہے اور سب نبی اور ان کی اُمتیں امانت کی امت میں داخل ہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وکم نبیوں کے بھی نبی ہیں.حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی (متوئی 21 ) تحریر فرماتے ہیں کہ :- اوروں کی نبوت آپ کا فیض ہے پر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں.آپ پر سلسلہ نبوت مختم ہو جاتا ہے.غرض جیسے آپ نبی الا قمت ہیں ویسے ہی نبی الانبیا ر ہیں " سے ۱۲۹۷ آپ کا یہ جامع شعر اسی حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے.جو انبیاء ہیں وہ آگے تیری نبوت کے کریں ہیں، اُمتی ہونے کا یا نبی اقرار سے بزرگان سلف نے تمام انبیاء کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بایں معنی اقرار دیا ہے کہ ان سب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی نصرت کرنے کا پختہ عہد لیا گیا تھا.( آل عمران : ۸۲ ) " الاعلام حکم عیسی علیہ اسلام مسیوطی" بحوالہ تحذیر الناس ما از مولانا محمد قاسم نانوتوی مطبع مجتبائی دهلی شاه ت تحذير الناس من به مطبع مجتبائی دہلی شاه ايضاً اليواقيت والجواهر ج ۲ ص۴۲۰ مطبوعہ مصر ۱۳۵۷ ه قصائد قاسمی صدرت مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۹۴

Page 30

حضرت بانی جماعت احمدیہ نے بھی ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۳۳ میں اسی جہت سے جملہ انبیاء علیہم السلام کو آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کا امتی ہی قرار دیا ہے، لیکن آپ ان نبیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کال اکتی نہیں جانتے.کامل امتی کی تعریف آپ کے نزدیک یہ ہے کہ وہ شخص شرعیت محمدیہ کاملہ کی پیروی کی شرط کے ساتھ امتی بنے.انبیاء سابقین ان معنی میں امتی نہیں اس لیے آپ نے ان انبیاء کو منتقل یا براہ راست نبی لکھا ہے.پہلے فیض کو بند اور نئے کمالات کو جاری کر نیوالا نہیں یہ لطیف معنی حضرت سید نا علی المرتضیٰ اسد الله الغالب (شہادت ۲۰ رمضان نشتہ کے ہیں جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مخاطب کر کے فرمایا : ـه انا خاتم الأنبياءِ وَانتَ يا عَلَى خَاتَمُ الأولياء " ترجمہ : میں تما تم الانبیاء ہوں اور اسے علی تم نما تم الاولیا نہ ہوا رافسوس تفسیر صافی کے نئے ایڈیشن میں خاتم الاوصیاء" لکھ دیا گیا ہے) ہر کیف خاتم اللہ لیا." حضرت علی المرتضیٰ فرماتے ہیں : الحاقية يمَا سَبَقَ والفاتح لِمَا أَنغَلَقَ : له ترجمه: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ماسبق کے خاتم اور جو کمالات پیٹے نہیں مل سکے تھے اُن کے کھولنے والے ہیں.مثنوی حضرت مولانا روحم دفتر ششم میں ہے.ختم ہائے کا بیا بگذاشتند آن بدین احمدی برداشتند جوهری گذشتہ انبیاء علیہم السلام نے لگی ہوئی چھوڑ دی تھیں وہ دین احمدی کی بدولت اٹھا دی گئیں.تفلماتے ناگشاده مانده بود از کفت انا فتحنا برگشوده اسرار و رموز کے بہت سے قفل بے کھلے رہ گئے تھے جو صاحب انا فتحنا کے دست مبارک سے کھل گئے.شیخ البلاغه درق ۱۹ مرتبہ حضرت الشريف المرتضیٰ متولی ٣ شتوی دفتر ششم ( مفتاح العلوم ) جلد ۱۵ ص ۵۲ ۵۵ شرح مثنوی مولانا روم نار شیخ غلامعلی اینڈ سنز لاہور

Page 31

I حضرت یوسف الصالحي الشافی رمتونی تم نے سبل الهدی والرشاد" میں لکھا ہے." ويصح أن يكون صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُمِّي فَاتِها لِأَنَّه فتح الرسل بمعنى أنَّه اوتُهُمْ فِي الْخَلْقِ اونا تيح الشفعاءِ بِقَرِينَةِ اقترانه باسمه الخاتم : ✓ " ترجمہ : یہ بھی صحیح ہے کہ آنحضرت صلیاللہ علیہ وسلم کو اس وجہ سے فاتح کے نام سے موسوم کیا گیا ہے کہ آپ نے ہی رسولوں کا دروازہ کھولا ہے مطلب یہ کہ آپ ہی پیدائش میں سب سے اول تھے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اسم خاتم کے قرینہ سے آئندہ آنیوالے شفیعوں کے لیے دروازہ کھولنے والے ہیں.کمالات نبوت کا جامع امام السند حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (متوئی شاہ فرماتے ہیں : تَبَحْرَ فِي الكَمَا لَاتِ وَحْكم العبوة : " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کمالات کا سمندر ہونے کی بناء پر نبوت کے خاتم ہیں.دوسری جگہ فرماتے ہیں : فتم به النبيون أنى لا يُوجَدُ مَنْ يَا مُرُه الله سُبْحَانَه بالتشريع عَلَى النَّاسِ : سے یعنی آپ شریعیت لانے میں آخری نبی میں کوئی نئی شریعیت لانے والا نبی آپ کے بعد نہیں پا یا جائے گا.مزید فرماتے ہیں : " لان النبوة تتجرى وَجُزْءٌ مِنْهَا بِاقٍ بَعْدَ خَاتَمِ الأَنْبِيَاءِ " " " نبوت کے حصے ہیں اور ایک حصہ نبوت کا حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بانی ہے دیہ حصہ غیر تشریعی نبوت کا ہی ہو سکتا ہے جو صرف آنحضرت کے امتی کو ہی ل سبل الهدى والرشاد ص ۶۱۱ (محمد بن یوسف الصالحي الشامی جز اول مطبوعہ قاہرہ ۱۳۹۲ الخیر الکثیر مترجم ص ۲۳۸ ناشر قرآن محل کراچی سے تفہیمات الہیہ جلد ۲ ص ۷۲ - ۷۳ المستوى شرح الموطا جلد ۲ ص ۴۲۶ مطبعہ السلفیه مگه ۳۵۳

Page 32

۳۲ حاصل ہو سکتا ہے ، ناقل ) حسن یوسف دوم عیسی ید بیعنا داری آنچه خوبان همه دارند تو تنها داری (حضرت امیر خسرو متوفی ۷۲۵) حضرت امام کامل علامه على المهاتمی رمتونی شسته) آیت خاتم النبیین کی تفسیر میں لکھتے ہیں : كان في هذا المنى اتم مِنْ سَائِرِ الرَسِلِ لِكَونِهِ خاتم النبيين " 1 ترجمہ : آنحضرت اس معنی میں بوجہ خاتم النبیین تمام رسولوں سے اکمل ہیں.064.آٹھویں صدی کے عارف ربانی حضرت سید عبد الکریم جیلانی ، فرماتے ہیں : دریا " كان محمد صلى الله عليه وسلم خاتم النبيين لأنه جاء بالكمال دلم يجى أحد بذالك نه ترجمہ حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم خاتم انبیین ہیں کیونکہ آپ کمال کو : لائے ہیں گھر کوئی اور اسے نہیں لایا.علامہ ابن خلدون (متونی ششش ) فرماتے ہیں : فيفسرون خاتم النبيين باللبنة حَتَّى اَعْمَلتِ ابنيان تَخَاتَم ومعناه النبي الذي حصلت له النبوية الكاملة ٣ ترجمہ : صوفیا - خاتم النبیین کی تفسیر مو جب ایک حدیث نبوی اینٹ سے بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ اس اینٹ نے عمارت مکمل کر دی اور اس سے مراد وہ نبی ہے جس کو نبوت کا ملہ حاصل ہوئی.نیز فرماتے ہیں: 1 تبصیر الرحمن ج ۲ ص ۱۶۰ كل الانسان الکامل باب ۳۶ جلد ا ص ۶۹ رحضرت عبدالکریم جیلانی ) مطبعہ از مریه مصر شاه سه تاریخ ابن خلدون الغربي ص ۲۷۱ - ۲۷۲ مطبوعہ مصر

Page 33

٣٣ "يمثلون الولائية فِي تَفَاوُتِ مراتبها بالنبوة ويجبلو صَاحِبَ الكَمَالِ فِيْهَا خَاتَم الاولياء اى حائز اللون - الَّتِي هِيَ خَاتِمَةُ الوِلَايَةِ كَمَا كَانَ خَاتَمُ الْأَنْبِياءِ حائز ا ة الَّتِي التي هِيَ خَاتمة النبوة : ترجمہ : علما بر ربانی ولایت کی مثال اس کے مختلف مراتب کی وجہ سے نبوت سے دیتے ہیں اور ولایت میں جامع کمالات کو خاتم الاولیاء کہتے ہیں یعنی ولایت کے اس مرتبہ کو پالینے والا جو خاتمہ ولایت ہے.ولایت کے انتہائی مرتبہ کو جس طرح حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے انتہائی مرتبہ کا احاطہ کر نیوالے ہیں.مقام ارفع و اعلیٰ پہ اکثر انبیا پہنچے نہ پہنچا کوئی اس حد پر جہاں خرا اورٹی پہنچے سرسینا بعد مشکل پہنچکر تھک گئے موسیٰ :سروش سر عرش ملا لیکن محمد مصطفے پہنچے کمالات خداوندی کا قالب حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی دستونی ) فرماتے ہیں :- تنی بڑی عطا ہو گی اتنا ہی بڑا ظرف چاہیئے.اس لیے یہ ضرور ہے کہ جس میں ظهور کامل مو جملہ کمالات خداوندی کے لیے بمنزلہ قالب ہو ہم اسی کو عبد کامل اور سید الکونین اور خاتم النبیین کہتے ہیں" نے اور ۹ - کمالات علمی و عملی کا اصل ۱۲۹۷ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی استونی ) نے رسالہ قبیلہ نما ( ص ۶۴) میں تحریر فرمایا ہے کہ : عالم امکان کمالات علمی ہوں یا کمالات عملی ، دونوں میں خاتم الانبی.ه تاریخ ابن خلدون الغزلی ص ۲۷۱، ۲۷۲ ه انتصار الاسلام" ص ۴۵ از حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی - مطبع مجتبائی دہلی شاسواره

Page 34

۳۴ d اصل اور مصدر ہے اور سوا اس کے جو کوئی کچھ کمال رکھتا ہے وہ دریوزہ گر خاتم الانبیار ہے.لے سب نبیوں سے افضل حضرت فخر الدین رازی (متوفی ست ، فرماتے ہیں کہ : ۵۴۴ الا ترى أن رسولَنَا صَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم لَمَّا كَانَ خَاتَم النَّبِيِّينَ كَانَ اَفْضَلَ الأَنْبِيَاءِ : ـ ترجمہ : دیکھیو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہوتے تو سب نبیوں سے افضل قرار پائے.۱۱- شفاعت کرنے والا نبی حضرت مولانا جلال الدین رومی (متوفی ) فرماتے ہیں : او شفیع است این جهان و آن جہاں ایں جہاں در دین و آنجا در جنان له نحضور صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جہانوں میں شفیع ہیں اس جہان میں دین کے اور اگلے جہان میں جنت کے.دنیا میں آپ کی شفاعت کا یہ اثر بھی ہے جو ان کے اس شعر سے ظاہر ہے : مرکن در راه نیکو خدستے تا نبوت یا بی اندر اتنے کے نیکی کی راہ میں ایسی خدمت بجالا کر تجھے امت کے اندر ہوتے ہوتے نبوت مل جائے.- دعوی محبت الہی کی تصدیق کرنیوالی مهر حضرت علامہ حسین علی کا مشقی الواعظ (متوفی نہ تفسیر حسینی " میں اور عارف یزدانی حضرت علام فتح اللہ کا شانی دستونی ) منهج الصادقین میں بحوالہ میں الاجوبہ لکھتے ہیں کہ :- ۱۳۱۰ ل قبلہ تماص ۶۳ ر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی مطبع مجتبائی دہلی شاره که تغییر کبیر رازی جلد ۲ ص ۳۱ ۶ که مثنوی مولانا روم رمفتاح العلوم جلد ها ص ۵۵ که شنوی دفتر پنجم له 1

Page 35

۳۵ " نوشتے کی صحت مہر کے سبب سے ہے اور حق تعالیٰ نے یغمبر کو رکھا تا کہ لوگ جان لیں کہ محبت الہی کے دعوی کی تصحیح آپ کی متابعت ہی سے کر سکتے ہیں ان كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فاتبعونی اور ہر کتاب کا شرف اور بزرگی مہر کے سبب سے ہے تو سب پیغمبروں کو شرف حضرت کی ذات سے ہے اور ہر کتبہ کی گواہ اس کی مہر ہوتی ہے تو محکمہ شه قیامت میں گواہ آپ ہونگے یا لے لے حضرت شاہ رفیع الدین رحمت اله علیه استونی سام) نے غالباً اسی لطیف حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے خاتم النتین" کے معنی نبیوں پر مڑ کے لکھے تھے جو قدیم نسخوں میں موجود ہیں مگر حاجی ملک دین محمد اینڈ سنز لاہور کے شائع کردہ ترجمہ میں اس کو بھی بدل دیا گیا ہے اور اس کی بجائے ختم کر نیوالا ہے تمام نبیوں کا کے الفاظ داخل کر دیئے گئے ہیں.۱۳ حقیقی نبی ۲۹۷ ٠١٢٩ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (متوفی ) فرماتے ہیں : جیسے آئینہ افتاب اُس دھوپ میں واسطہ ہوتا ہے جو اس کے وسیلہ سے ان مواضع میں پیدا ہوتی ہے جو خود مقابل آفتاب نہیں ہوتی پر آئینہ مقابل آفتاب کے مقابل ہوتی ہیں.ایسے ہی انبیاء باقی بھی مثل آئینہ بیچ میں واسطہ فیض ہیں فرض اور انبیاء میں جو کچھ ہے وہ نفل اور عکس محمدی ہے کوئی کمال ذاتی نہیں " سے تغییر تا دری اُردو ترجمہ تفسیر حسینی ج ۲ ص ۲۶۵ ۲۶۵ مطبع نولکشور ۱۳۲۸ھ سے منج الصادتين جلد ، ص ۳۳۴ ناشر کتاب فروش اسلامیه تهران طبع سوم ۱۳۳۶ کے تحذیر الناس" ص ۳۳ مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۹

Page 36

L ۳۹ نبیوں کا شہنشاہ اور بادشاہ ہفت اقلیم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (متولی ع ) فرماتے ہیں کہ " ہر زمین کی حکومت نبوت اُس زمین کے خاتم پر ختم ہو جاتی ہے پر جیسے ہر اقلیم کا بادشاہ باوجودیکہ بادشاہ ہے پر بادشاہ ہفت اقلیم کا محکوم ہے.ایسے ہی ہر زمین کا خاتم اگر چہ خاتم ہے پر ہمارے خاتم النبیین کا تابع ہے حضرت علامہ تقی الدین سیکی دستوئی نشہ کا ارشاد ہے: نهو كا سلطانِ الأَعْظَم وَجَمِيعُ الأَنْبِيَاءِ كَا مراء العَسَاكِرِي انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہنشاہ کی طرح ہیں اور باقی سب نہیں آپ کے جرنیل کی حیثیت رکھتے ہیں.۱۵- فیض رسانی میں بے مثال 0467 حضرت مولا ناردم (متونی شستہ ) کا مشہور شعر ہے : بر ایں خاتم شد است او که يَجودُ مِثلِ اُونے بود و نے خواهند بود در صنعت برد استاد دست نے تو گوئی ختم صنعت کر تو است سے ترجمہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان معنی میں خاتم النبیین ہیں کہ فیض پہنچانے میں نہ آپ جیسا کوئی ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا.جب کوئی کاریگر اپنی صنعت میں انتہائی کمال پر پہنچے تو کیا تم نہیں تحذیر الناس ص ۳۵ مطبع مجتبائی دہلی.الیواقیت والجواہر ج ۲ ص ۲۰ مطبوعہ مصر ۱۳۵۱ که الهام منظوم ترجمه کرد و مثنوی مولانا روم هـ دفتر ششم ص ۱۹ از سید عاشق حسین سیماب اکبر آبادی ناشر ملک دین محمد اینڈ سنز لاہور

Page 37

کتنے کہ تجھ پر کار گیری ختم ہوگئی ہے.پھر فرماتے ہیں : در گشاد ختم تو خاتمی در جهان روح بخشاں کا تھی ہست اشارات محمد - المراد کل کشاد اندر گشاد - اندر گشاد له یا رسول اللہ آپ ہر قسم کے ختموں کو کھولنے کی وجہ سے خاتم ہیں اور روح بخشنے والوں میں آپ حاتم ہیں.الغرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ روحانی ترقیات کے سب دروازے کھلے ہی کھلے ہیں کوئی بھی بند نہیں.۱ مراتب کمالات نبوت کا انتہائی مقام -14 قطب الابرار حضرت شاہ بدیع الدین مقدار (متوفی شعہ) فرماتے ہیں : بعد زمانہ اصحاب المرسلین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درجہ دراء الوراء میں ان تین اولیا ء کے سوا اور کوئی اس مرتبہ ملیا پرنہیں پہنچا اولی خواجہ اویس قرنی.دوسرے بہلول دانا اور جناب قطب الاقطاب فرداً لا حباب بھی الدین اس زنبہ میں لاثانی اور سب سے افضل قرار پاتے اور یہ مرتبہ ذات معدن صفات ہیں آپ کی اس طرح نختم ہوا کہ میں طرح جناب رسالتماب لی اللہ علیہ وسلم پر نیوت اور اصحاب کرام پر خلافت اور علی المرتضیٰ پر ولایت اور حسنین علیهما السلام پر شہادت تمام ہوئی یا سے اور حضرت شیخ فرید الدین عطار" تنظر العجائب" میں لکھتے ہیں : : له الهام منظوم ترجمہ اردو مثنوی مولانا روم دفتر ششم ص ۱۹ از سید عاشق حسین سیماب اکبرآبادی ناشر ملک دین محمد اینڈ سنٹر لاہور.محفوظ بجواله قرة العينين في محامد غوث التقلين می ۱۸ د محمد ذاکر حسین علوی ، مطبع دید به احمدی لکھنو ناشر محمد عبداستار خان تا بر کتب چوک لکھنو

Page 38

٣٨ مصطفی اختم رسل شد در جهان مرتضی ختم ولایت در عیان له " حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہان میں ختم رسل بنے اور حضرت علی المرتضی ختم ولایت بنکر ظاہر ہوئے.حضرت شیخ عبدالق محمدی ہوئی رستوئی نہ فرماتے ہیں.هر مرتبه که بود در امکان او بروست ہر نعمتی که داشت خدا شد برد تمام که ہوریہ ہند بھی لیکن ہے آنحضرت اُس پر فائز ہیں اور اشد تعالی کی ہر نعمت مرتبہ بلند آپ پر تمام ہو گئی ہے.۱۷- آخری روحانی عهده حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی (متوفی شاہ ) نے اس معنی کو ایک لطیف مشال سے واضح کیا ہے.آپ فرماتے ہیں : بنیا.بوجہ احکام رسانی شل گورنر وغیرہ نواب خداوندی ہوتے ہیں اس لیے اُن کا حاکم ہونا ضروری ہے چنانچہ.....جیسے عہدہ ہائے ماتحت میں سب سے اوپر عہدہ گورنری یا وزارت ہے اور سوا اس کے اور سب عہدے اُس کے ماتحت ہوتے ہیں.اوروں کے احکام کو اور توڑ سکتا ہے اس کے احکام کو کوئی نہیں توڑ سکتا اور وجہ اس کی یہی ہوتی ہے کہ اس پر مراتب عمدہ جات ختم ہو جاتے ہیں.ایسے ہی خاتم مراتب نبوت کے اوپر اور کوئی حمد و یا مرتبہ ہوتا ہی نہیں جو ہوتا ہے اس کے تحت ہوتا ہے " سے له تذکرۃ الاولیا.اردو مقدمه ص ۲۸ ناشر اللہ والے کی قومی دکان لاہور اپریل ۱۹۷۵ له اخبار الاخیار اردو ص ۲۲ 1490 سے مباحثہ شاہجہانپور ص ۲۴ ۲۵ مطبع مجتبائی ۱۳۹۵

Page 39

۱۸ - شاہی خزانہ کی مهر 16 حضرت علامہ الشیخ حقی البروسوی استونی ۱۱۳۷ھ) اپنے وقت کے "خاتمة المفسرين" فقدة ارباب الحقیقت والیقین اور قطب زمان " سمجھے جاتے تھے.آپ اپنی یاد گار تفسیر روح البیان میں تحریر فرماتے ہیں :- " الختم اذا كان على الكتاب لا يقدر احد على فله كذالك لا يقدرا حدَّ ان يُحِيطُ بحقيقةِ عُلوم القرآن دون الخاتم وما دام خاتم الملكِ على الخزانة لا يَجْسُرُاَ حَدٌ عَلَى فَتحها ولا شكَ اَنَّ الْقُرْآن خَزانةُ جَمِيعِ الكتب الالهية المنزلَةِ من عِندِ الله و مجمع جواهر العلوم الالهية الحقائق اللدنية فلذلك خُصَّ به خاتم النبيين محمد عليه السلام وبهذا الشركان خاتم النبوة على ظهره بين كتفيه لان خزانة الملكِ تُختم مِن خارج البابِ ر لعصمة الباطن وما في داخل الخزانة ؛ له ترجمہ : مر جب خط پر ہو تو کسی کو اس کے توڑنے کی طاقت نہیں.اس طرح کسی شخص کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خاتم النبیین کے سوا علوم قرآن کی حقیقت کا احاطہ کر سکے اور جب تک بادشاہ کی مہر خزانہ پر موجود ہو کوئی شخص از خود اس کے کھولنے کی جرات نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ خود بادشاہ اس خزانے میں سے کسی کو عطا کرے کیونکہ با وجود مر کے بادشاہ کے لیے اس خزانہ کی طرف راہ پانا منوع نہیں اور نہ اُسے فیض پہنچا نا ممنوع ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی تمام کتب الیہ کا خزانہ اور علوم الہیہ اور حقائق مدنیہ کے جواہرات کا مجموعہ ہے اس لیے اس کے علوم آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کے بغیر جو آپ کے خاتم ہونے کا فیض ہے کسی پر نہیں کھل سکتے کیونکہ فاتح بھی آپ ہیں) میں اس وجہ سے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ ه تفسیر روح البیان جلد ، جزو ۲۲ ص ۱۸۹ از علامه شیخ اسماعیل حقی بروسوی مطبوعه ۱۳۳ مه

Page 40

۴۰ وسلم کو مخصوص طور پر قرآن یعنی تمام علوم قرانیہ) کا خزانہ دیا گیا اور یہی بھید ہے جو مہر نبوت آپ کی پشت پر آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان تھی کیونکہ شاہی خزانہ کو دروازہ کے باہر سے سر بمہر کیا جاتا ہے تاکہ جو کچھ اس کے اندر موجود ہے اس کی حفاظت ہو سکے داور کوئی چور سے نہ چڑا سکے بلکہ وہ جس پر چاہے خود افاضہ کرنے ابوجہد فاتح ہونے کے) وہ خود تحریر فرماتے ہیں : دنی اے دفى الخبر القدسى كُنتُ كُنزا تخفياً ، فَلَا بُدَّ لِلكتزِ مِنَ المفتاح والخاتم نَسمى عليه السلام بالخاتم لأنه خاتمه على خزانة كنز الوجود وسمى بالفاتح لأنه مفتاح الكنز الازلي به فتح و به ختم وَلَا يُعْرَفُ مَا فى الكنز الا بالخاتم الذى هو المفتاح قال تعالى رنَا حَبَبْتُ اَنْ أُعْرَتَ) فحصل العرفان بالفيض الحقي على لسان الحبيب وكذالك سمى الخاتم حبيب الله لان اثر الختم على كنز الملك صورَةُ الحَبّ لِمَا فى انگر ان نزر گفته اند معنی خاتم النبیین آنست که رب العزت نبوت ہمہ انبیاء جمع کرد و دیل مصطفی علیه السلام را معدن آن کرد و مهر نبوت بر آن نهاد تا پیچ دشمن بموضع نبوت راه نیافت نہ ہوائی نفس به وسوسته شیطان و نه خطرات مذمومه و دیگر پیغمبران را این مهر نبوت نبود ) اه ترجمہ : اور حدیث قدسی میں ہے "كُنتُ كُنْزَاً مخيفيًّا " یعنی خدا فرماتا ہے میں ایک مخفی خزانہ تھا، میں خزانہ کے لیے مفتاح (یعنی چابی ) اور خاتم (یعنی مهر) کا ہونا ضروری ہے.پس حضور علیہ السلام کو تعدا کی جہر کا نام دیا گیا آپ وجود باری کے خزانہ پر مصر ہیں اور آپ کو (فاتح ) کھولنے والا کا نام دیا گیا کیونکہ آپ ازلی خزانہ کی مفتاح (چابی) ہیں.کیونکہ آپ کے ذریعہ ہی سے له تغییر روح البیان جلد ۷ جزء ۲۲ ص ۱۸۹-۱۹۰ از علامه شیخ اسماعیل حقی بر سوی مطبوعه ۱۳۳ به

Page 41

P- انات کھولا گیا اور آپ ہی کے ذریعہ اسے سر میر کیا گیا اور خزانہ میں جو کچھ ہے اس کا علم و عرفان صرف خاتم کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتا ہے کیونکہ وہ مفتاح بھی ہے بے پھر اللہ تعالیٰ نے (اس حدیث قدسی میں فرمایا ہے کہ فاحببت ان اعر کہ پھر میں نے پسند کیا کہ میں پہچانا جاؤں) میں اُس کے حبیب کی زبان پر ترغیب دینے والے فیض کے ذریعہ عرفان حاصل ہوا اور اسی وجہ سے حضرت خاتم النبیین کو حبیب اللہ کے نام سے موسوم کیا گیا.کیونکہ خاتم امر کا اثر شاہی خزانہ پر اس محبت کی صورت میں ہوتا ہے جو اُس چیز سے ہوتی ہے جو خزانہ میں پائی جاتی ہے یہ بھی کہاگیا ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ رب العزت نے تمام انبیا تر کی نبوت جمع کی اور حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کے دل کو اس کا معدن بنایا اور مُہر نبوت اُس پر لگائی.بیا تک کہ کسی دشمن نے مقام نبوت تک راہ نہیں پائی.نہ ہوائے نفس نہ وسوستہ شیطان اور نہ مذموم خیالات اور دوسرے پیغمبروں کو یہ مہر نبوت حاصل نہ تھی) ۱۹ کامل راه نما :.عارف ربانی حضرت عبدالکریم جیلانی متونی شعہ ) ارشاد فرماتے ہیں کہ :- ربانی " " فَكَانَ خَاتم النبيين لانه لم يَدَعْ حِكْمَةَ وَلا هُدى وَلَا علما ولا سِراً الا وقدنبه عليه واشار اليه على قدرِ پس خاتم النبیین کے یہ معنی بھی قرار پائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے سب نبیوں سے بڑھکر محبت عطا کی ہے گویا آپ خاتم المبین بھی ہے.

Page 42

ہیں کہ :- ما يليق بالتَّبِينَ لِذَاكَ السّر لله ترجمہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے خاتم النبیین تھے کہ آپ نے حکمت، ہدایت ، علم یا رانہ کی ہر بات سے آگاہی بخشی اور اس بھید کی طرف واضح اشارہ کر کے اس کی وضاحت کا حق ادا فرما دیا.٢٠ نبیوں کی زینت حضرت امام محمد بن عبد الباتی زرقانی رمتونی ، اور ابن عساکر دونوں کا قول " فمعناه احسن الانبياء خَلْقاً وخُلْقًا لانه صلى الله عليه وسلم جمال الانبياء كالخاتم الذي يتحمل به " له ته دخاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ظاہری اور روحانی بناوٹ اور اخلاق میں سب سے زیادہ حسین ہیں کیونکہ آپ نبیوں کا حسن و جمال ہیں اس انگشتری کی مانند جس سے زینت و تحمیل حاصل کیا جاتا ہے.حضرت القاضی الحافظ المحدث محمد بن علی شوکانی الیمانی الصنعانی " (متوفی شاہ لکھتے أَنَّهُ صَارَ كَالْخَاتَم لَهُمُ الَّذِي يَتَخَتَّمُونَ بِه ويَتَزَتَنُونَ بِكونه منهم - که : ترجمہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے لیے انگوٹھی کے مانند ہیں جیسے وہ پہنتے اور اس سے زمینیت حاصل کرتے ہیں کیونکہ آنحضور اُن میں سے ہیں.علاوہ انہیں حضرت علامہ محمد مشہدی نے بھی مجمع البحرين (جلد نمبر ۲ ص ۴۷۰) مطبوعه ایران میں خاتم کے معنی زینت کے لیے ہیں.انسان کامل جلد نمیرا باب ۳۶ ص ۶۹ دسید عبدالکریم جیلانی ، مطبع از هر یه عصر شاه سے زرقانی شرح مواہب اللدنیہ جلد ۳ ص ۱۶۳ مصری له سبل الهدی والرشاد ص ۵۵۸: الامام محمدبن يوسف الصالحي الشامي المتون ) فتح القدير ج م ص ٢٢٠ مطبوعہ مصر شراء : ۲۷۶

Page 43

۴۳ -۲۱ - محافظ شریعت حضرت ابو الحسن شریف رضی (متوفی ہے، جو امام موسی کاظم کی اولاد میں ایک عالی پا یہ عالم تھے خاتم النبیین کے یہ معنی بیان فرماتے ہیں کہ : له هذه استعارة والمراد بها أنّ الله تعالى جَعَلَهُ صلى الله عليه وسلَّم و آله حافظاً لشرائع الرُّسُل عليهم السلام وكُتُبِهم وجامعاً لمعالم دينهم وآيَاتِهِم كَانَخَاتَم الذي يُطبَعُ به عَلَى الصَّحائف وغيرها ليحفظ ما فيها و " يكون علامة عليها لك ترجمہ: یہ استعارہ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام رسولوں کی شریعیت اور کتابوں کا محافظ بنایا ہے اور انکے دین کی اہم تعلیمات اور ان کے نشانات کا بھی اس مہر کی طرح جو خطوں پران کو محفوظ رکھنے اور اُن کی علامت کے طور پر ثبت کی جاتی ہے.۲۲.پہلی شریعتوں کا تاریخ حضرت ابن سبع (متوفی ، آیت خاتم انیشتین سے استدلال فرماتے ہیں کہ: "إِنَّ شَرعَهُ نَاسِخُ لِكُلِّ شَرِعٍ قَبْلَه له ترجمہ : آنحضرت کی شریعت نے پہلی تمام شریعیتوں کو منسوخ کر دیا ہے راور اُن کی کوئی مستقل حیثیت باقی نہیں رہی لیکن اُن کی شریعت کے بنیادی احکام واصول کی شریعت محمدیہ جامع ہے اس لیے آپ محافظ شریعیت بھی ہیں.۲۳ واحد شارع محقیقی - بحر العلوم مولا نا عبدالعلی مکھنوی متونی ۱۳۳۵) اپنے رسالہ فتح الرحمن میں لکھتے ہیں و تلخیص البيان في مجازات القرآن ص ۱۹۱ تالیف الشریف الرضی مطبعه المعارف بغداد ١٣ ه الخصائص الكبرى للسيوطي ج ۲ ص ۱۸۷ -1920

Page 44

۴۴ F.L.پول در اخذ شرع مستند از خاتم دراسات اندرو چونکه شرح او عام باشد پس دیگر صاحب تشرع نباشد ترجمہ : تمام رسول شرع کے حاصل کرنے میں خاتم الرسالت سے مدد کے طالب ہیں.دینی ان کی شریعتیں آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی شریعیت کا ظل ہیں ، اس لحاظ سے چونکہ شریعت آپ کی عام ہے دیعنی سب نبیوں کی شریعت آپ ہی کی شریعیت کا نعقل ہے ، لہذا شریعیت عام رکھنے میں آپ کے سوا کوئی اور نبی صاحب شرع نہیں.۲۴.ہر نئے دور کا بانی ۱۲۴۶ حضرت شاہ اسمعیل شہید بالاکوٹ ) صراط مستقیم میں فرماتے ہیں کہ : : جب ایک دور ہ ختم ہو جاتا ہے دوسرے دورے کی ابتداء شروع ہو جاتی ہے.ایسے شخص کے وجود سے پہلے دورے کی ہدا نیت کو کمال کی نہایت یک پہنچاتا ہے اور اس کو تر جمان مقرر کر کے اس کی نزاکت والی زبان سے اللہ تعالیٰ کی تازہ مہربانیوں کی طرف آدمیوں کو دعوت کی جاتی ہے اور اس دورہ کی امامت اس کو بخشی جاتی ہے جو اس زمانے میں آدمیوں میں سے زیادہ باکمال اور اللہ تعالیٰ کے فیض کے زیادہ لائق ہوتا ہے اور یہ مقام مستقل طور پر تو حضرت خاتم النبوت اور فاتح الولایت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے اور آپ کی پیروی کی برکت سے اس مقام کا نمونہ بعض بزرگوں کو بھی عل کیا جاتا ہے اور اصطلاح میں ان کو نعا تمین اور فاتحین کا لقب دیا جاتا ہے.رات سے مجموع فتاوی مولوی عبدالحی ج نمبر ا ص ۱۴۴ صراط مستقیم اردوص ۱۰۱ تا شر شیخ محمد اشرف تا حرکتاب کشمیری بازار لاہور ايضا تفهیمات البيه جلد نمبر ص ۱۰۱ ناشر اکار میر شاه دل اللہ حیدر آباد سنده نداره

Page 45

۲۵ - آخری مستقل نبی 1141 حضرت شاہ ولی اللہ (متونی ا ) فرماتے ہیں: امتنع أن يكون بعدها نبى مستقل بالتلقى : ـ ترجمہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو سکتا ہو مستقل بلا واسطہ آنحضرت کے ) خدا سے تعلیم حاصل کرنے والا ہو.۲۶- آنتری شارع نبی یہ وہ معنیٰ ہیں جو امت مسلمہ کے اہل اللہ اور شریعت، طریقت اور حقیقت کے باریک اسرار سے واقف بزرگوں نے نہایت کثرت سے کئے ہیں.بطور نمونہ پچند اقتباسات پیش کرتا ہوں : اوّل: ام المومنین حضرت عائشہ (وفات شستہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : " قولُوا إِنَّهُ خَاتم النبيين وَلَا تَقُولُوا لا نبي بعده ترجمہ : آنحضرت کو خاتم النبیین تو کہو مگر یہ ہرگز نہ ہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.0146 دوم : حضرت ابن قتیبه دمتونی ) سیدہ عائشہ روفات شته) رضی اللہ عنہا کا یہ قول نقل کر کے فرماتے ہیں کہ : ليس هذا من قولها نايضاً لقول النبي صلى الله عليه وسلم لا نبي بعدى لانه اراد لا نبى بعدى ينسخ ما جئتُ به گه ترجمہ : حضرت سیدہ عالین روفات شدہ کا یہ قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان : لانبی بعدی کے مخالف نہیں کیونکہ حضور کا مقصد اس فرمان سے یہ ہے کہ میرے الخير الكثير از حضرت شاہ ولی اللہ ه ص ۱۱۱ د ناشر مکتبہ رحیمیہ اکوڑہ خشک پشاور ) ، ا راگست 14 ح 111 ۱۰ که تفسیر در منثور جلد نمبره ص ۲۰۴ مرتبه حضرت علامہ سیوطی تحمله مجمع البحار عید غیر ص ۸۵ ر از حضرت امام نمبر طاہر گجراتی "تا دیل مختلف الاحادیث امام ابن تیتبر ) ص ۲۳۶ مطبع کردستان العلمین مصر شاه سے " تاویل مختلف الاحادیث" (امام ابن تیتبه ( ص ۲۳۶

Page 46

بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کو منسوخ کر دینے والا ہو.سوم : اسی طرح محدث امت حضرت امام محمدطاہر گھبراتی ، دھونی نشہ تحریر فرماتے ہیں کہ * هَذا ايضا لا ينا فى حديث لا نبي بعدى لانه اراد لا نبى ينسَخُ شَرْعَة حضرت عائشہ (وفات نشتہ کا یہ قول حدیث لا نبی بعدی کے منافی نہیں انی ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علہ سلم کی مراد یہ ہے کہ الیسانی نہیں ہوگا جو آپ شریعت کو منسوخ کر دے.چهارم : سپین کے شہرہ آفاق صوفی مفسر اور تکلم حضرت محی الدین ابن عربی رمتونی شسته) فرماتے ہیں کہ : ان النبوة التى انْقَطَعَتْ بُوجود رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم إنما هِىَ نُبولةُ التشريع لا مَقَامُها فَلا شرع يكون ناسخاً لِشَرعِهِ صلى الله عليه وسلم ولا يَزيد فى شرعِهِ حلما أخر.وهذا معنى قوله صلى الله عليه وسلم إِنَّ الرسالة والنبوة قد انقطعت فَلا رسول بعدِى وَلا نبى اى تد ای لا نبى بعدى يكون على شرع يُخالِفُ شَرعي بل اذا كان يمون تحت حكم شريعتي : ل ز به جو نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے آنے سے منقطع : ہوئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت - پی اب کوئی شرع نہ ہوگی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرع کی ناسخ ہو اور نہ آپ کی شرع میں کوئی نیا حکم بڑھانے والی شروع ہوگی اور سینی معنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے ہیں کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی ہے.پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا نہ کوئی نبی.مراد آنحضرت کے اس قول سے یہ ہے کہ ه حمله مجمع البحار" ص ۸۵ فتوحات مکیہ جلد نمبر ۲ ص نمبر ۲ دار الكتب العربيه الكبرى مصر

Page 47

{ اب ایسانی نہیں ہوگا جو میری شریعت کے مخالف شریعت پر ہو بلکہ جب کبھی کوئی نبی ہوگا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہو گا.کتاب فصوص الحکم" میں آپ کا واضح ارشاد ہے کہ : ان الله لطيف بعباده فابقى لهم النبوة العامة التي لا تشريع فيها.ترجمہ: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے اسی لیے اُس نے اُن کی خاطر غیر تشریعی نبوت عامہ باقی رکھی ہے.: خليفة الصوفيا شيخ العصر حضرت الشيخ بالی آفندی استونی محی الدین ابن عربی کی تائید میں فرماتے ہیں کہ : ۹۶۰ بھی ی حضرت " خَاتَمِ الرُّسُلِ هُوَ الَّذِى لا يُوجد بَعْدَهُ نبى مُشرع له خاتم الرسل وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی صاحب شریعت جدید و پیدا نہیں ہوگا.ششم : حضرت امام عبدالوہاب شعرانی ترتیوتی ) ہمیشہ یہ ملک بیان فرماتے رہے کہ : شده فَانَّ مُطلَقَ النبوة لَم يَرْتَفِعُ انما ارتَفَعَ نُبُوةُ التشريع فقط كما يويده حديث من حفظ القرآن فقد ا د رِجَتِ النُّبوة بين جنبيه فقد قامت بهذه النبوة بلا شك وقوله صلى الله عليه وسلم فلا نبى بعدى ولا رسول المراد به لا مشرع تہ.3:3 بعدی سے ترجمہ : مطلق نبوت نہیں اٹھائی گئی محض تشریعی نبوت ختم ہوئی ہے جس کی تائید شرح فصوص الحکم ص ۱۷۸ حضرت شیخ عبد الرزق تاشانی مطبعہ مصر الحكم" شرح N 1 24 الشيخ بالی مطبوعه بنومره الیواقیت والجواہر جلد ۲ ص ۲۴ فهامی مصر شاه 10+9 ۱۳۲۱

Page 48

3 ۴۸ حدیث من حفظ القرآن الو سے بھی ہوتی ہے جس کے معنی یہ ہیں حسین نے قرآن حفظ کر لیا اس کے دونوں پہلوؤں سے بلاشبہ نبوت داخل ہوگئی اور آنحضرت کے قول مبارک لانبی بعدی دلا رسول سے مراد صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو نئی شریعیت لے کر آئے " نیز فرماتے ہیں : ہے | علَمُ أَنَّ النبوة لم ترتفع مُطلَقاً بعد محمد صلى الله عليه وسلم وانما ارتفع نُبُوةُ التشريع فقط فقوله صلى الله عليه وسلم لا نبى بعدى ولا رسول بعدى أى ماثم من يشرع بعدى شريعة خاصة نهو مثل قوله صلى الله عليه وسلم اذا اهلك کسری فلا كسرى بعدها وإذا هلك قيصر فلا قيصر بعدها له ترجمہ : یاد رکھو کہ آنحضرت کے بعد مطلق نبوت نہیں اٹھی صرف تشریعی نبوت اٹھی ہے پس آنحضرت صلعم کے فرمان لا نبی بعدی ولا رسول کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی شریعیت خاصہ لیکر نہیں آئے گا یہ حدیث حضور کے اس قول کی مانند ہے کہ جب کسری ہلاک ہو جائے گا تو اور کوئی کسری نہیں ہوگا اور جب قیصر مرجائے گا تو اور کوئی قیصر نہیں ہوگا.هفتم : عالم ربانی حضرت سید عبدالکریم جیلانی (متونی ) فرماتے ہیں کہ :- ہ انقَطَعَ حُكمُ نُبُوةِ التَّشْرِيع بعده ترجمہ: آنحضرت کے بعد تشریعی نبوت کا حکم منقطع ہوگیا ہے.1164 ہشتم : حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی استونی ) اپنا عقیده و مسلک بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں :- ه ( فَعَلِمْنَا بِقَولِهِ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَام لانى بَعْدِى وَلَا رَسُولَ اَن الو قد انقَطَعتُ والرّسَالَةَ إِنَّمَا يُرِيدُ بِهَا التَّشْرِيعَ : ٣ ۱۳۵۱ الیواقیت والجواہر جلد ۲ ص ۳۹ مطبوعہ مصر راه انسان کامل ج نمبر اص ۱۶۹ عارف ربانی حضرت عبدالکریم جیلانی مطبوعہ قاہرہ لاء " قرة العينين في تفضيل التخين من ٣١٩ مطبع مجتبائی دہلی ملا ص

Page 49

۴۹ ترجمہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول لا نبی بعدی ولا رسول سے تمھیں معلوم ہو گیا کہ جو نبوت در رسالت منقطع ہو گئی ہے وہ آنحضرت کے نزدیک نئی شریعیت والی نبوت ہے.پھر فرماتے ہیں کہ : " ختم به النبيون الى لا يُوجَدُ مَنْ يَا مُرُه اللهُ سُبْحَانَه لايو بالتشريع عَلَى النَّاسِ : له ترجمہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبیان معنوں میں ختم کئے گئے ہیں کہ ایسا شخص نہیں پایا جائیگا جسے اللہ تعالیٰ لوگوں پر نئی شریعیت دیگر مامور کرے.نهم : ملتان کے ولی کامل حضرت حافظ عبدالعزیز فرماندی (متونی ) نے شروع عقائد کی شرح "نبراس" میں یہ حدیث درج کی ہے کہ : " سيكون بعدی ثلاثون كُلُهُمْ يَدعى انه نبى وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ " میرے بعد تمیں ہوں گے جو سب دعوی کریں گے کہ وہ نبی ہیں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ چاہے طریقہ نوشاہیہ قادریہ کے امام و پیشوا حضرت شیخ نوشاه گنج بخش تقدیس سیره استونی استادم 4 کے فرزند عالیجاہ اور خلیفہ آگاہ حضرت حافظ برخوردار (متوفی سناء ) اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ : " والمعنى لا نبي بنبوت التَّشْرِيرِ بَعْدِى إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ مِن انبياء الأولياء من اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو نئی شریعت لیکر آئے ہاں جو اللہ چاہے انبیا الاولیاء میں سے.سے تقسیمات البليه جلد نمبر ۲ ص ۸۵ از حضرت شاہ ولی اللہ محدث را کا دمیہ شاہ ولی اللہ دعوی حیدر آباد سندھ ۱۳۸ ) شه " نبراس " ص ۴۴۵ حاشیہ مطبع ہاشمی میرٹھ شاه

Page 50

ہم : محمدیت زمان امام اہل ن حضرت امام مولا نا علی بن محمد سلطان القاری (متوفی سه نے آیت خاتم النبیین کی تفسیر درج ذیل الفاظ میں فرماتی ہے کہ : مگاور فلا ينا قبض توله تعالى خاتم النبيين إذا معنى أَنَّهُ لَا يَأْتِي نبي بعده يَنْسَخُ مِلتَةَ وَلَمْ يَكُن مِّنْ اُمَّتِه له ترجمہ : حدیث کو عاش ابراهيم لكان صديقا نبيا ، اللہ تعالیٰ کے قول خاتم النبیین کے ہرگز مخالف نہیں کیونکہ خاتم النبیین کے تو یعنی ہیں کہ آنحضرت کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کے دین کو منسوخ کرے اور آپ کا امتی نہ ہو.باز دہم : تحریک پاکستان کے صف اول کے راہنما نواب بہادر یار جنگ مرحوم قائد قلت متونی ۱۳۹۳ - ۱۹۴۴-) فرقہ مہدویہ کے ایک سرگرم رکن تھے.اس فرقہ کے تمتاز بزرگ حضرت سید شاہ محمد نے پونے دو سو سال قبل لکھا کہ :- ہمارے محمد بفتح تا خاتم نبوت تشریعی میں فقط کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ما كان مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ الآية اور معنی اس کا مہر کرنا ہے یعنی جناب ختمیت انتساب کے وجود پر جود سے دروازہ نبوت تشریعی کا ایسا بند ہوا کہ پھر کوئی نبی صاحب نبوت سابقہ مانند عیسی کے بھی یہ طاقت نہیں رکھتا ہے کہ ایجاد شروع تازہ کا دعوی کرے چہ جائیکہ دوسرا نبی صاحب شرع تازہ پیدا ہو.نہ یہ کہ فیض نبوت ایسا منقطع اور مرفوع ہو گیا کہ اس صفت سے کوئی موصوف نہ ہوسکے = سه دوازدهم : حضرت مولانا ابوالحسنات عبدالحی فرنگی محل ستونی ) کا مشہورا ارشاد ہے کہ ١٣٠٣ بعد آنحضرت کے یا زمانے میں آنحضرت کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہونا البتہ ممتنع ہے ، کے موضوعات کبیر" ص ۶۹ از حضرت مولانا علی القاری طبع شاه (مطابق نسخه مصری شاه ) ختم الهدی سیل السوی من ۲۴ مطبع فردوسی بنگلور مه ۱۲۱۹ سے دوافع الوسواس في اثر ابن عباس" ص ۱ مطبع یوسفی فرنگی محل طبع سوم

Page 51

01 سیزدهم : بیبی مسلک گزشتہ صدی تک بالاتفاق تمام علمائے اہل سنت کا تھا چنانچہ مولانا عبدالحی فرماتے ہیں : گلمار اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت کے عصر میں کوئی نبی صاحب شروع جدید نہیں ہو سکتا اور نبوت آپ کی عام ہے اور جو نبی آپ کے ہم عصر ہو گا وہ تبع شریعت محمدیہ کا ہو گائے نے ان سوالوں سے روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر مشروط آخری نبی ہونے کا ہو تخیل انیسویں صدی کے بعد پیدا ہوا اس کا گزشتہ تیرہ صدیوں کی اسلامی تاریخ میں قطعاً کوئی نام ونشان نہیں ملتا، بلکہ حق یہ ہے کہ قدیم مسلمان بزرگوں ، ولیوں قطبوں اور مجد دوی اور غوثوں میں سے کسی نے یہ اصطلاح کبھی استعمال ہی نہیں فرمائی ، یہی نہیں خیر القرون کے نامور صوفی حضرت ابو عبدالله حمد بن علی حسین الحکیم الترندی (متوفی نشسته) نے نو ہزار برس پہلے یہاں تک فرما دیا تھا کہ يظنُّ أنَّ خاتم النبيين تَأْوِيلُه انه آخِرُهُم مَبْعثًا نَاتٌ منقبة فى هذا ؟ دائى علم فى هذا ؛ هَذا تَأْوِيل البُلْهِ الجَهْلةِ ترجمہ: خاتم النبیین کی یہ تاویل کہ آپ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی میں بھلا اس میں آپ کی کیا فضلیت دشان ہے ؟ اور اس میں کون سی علمی بات ہے ، یہ تو محض احمقوں اور جاہلوں کی تاویل ہے.اسی نقطہ نگاہ کی بازگشت ہمیں تیرھویں صدی ہجری میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی دستونی شاہ) کے افکار و خیالات میں سنائی دیتی ہے جنہوں نے عوام کا ذکر کر کے فرما یا کہ : 46 له " مجموعه فتادی مولوی عبدالحی " جلد اول ص ۱۴۴ مطبع یوسفی لکھنو ١٣٣ کتاب ختم الاولياء " از حضرت شیخ ابی عبد الله محمد بن علی حسین الحکیم الترندی ص ۳۴۱

Page 52

Ar عوام کے خیال کے میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل قسم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانے میں کچھ فضلیت نہیں.پھر مقام مدح میں دالکن رسول ! الله وخاتم النبيين فرمانا اس صورت میں کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے راہے در جهان هر چه کنند عوام نزد خاصان رسوم و عادات است ( ابن یمین) جہاں چہ زلی که پیروی خلق گمراہی آرد می رویم برائے که کاروان رفته است سرا تم مشدی) خود آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی احادیث سے اس معاملہ میں واضح راہنمائی ملتی ہے کہ خاتم انبیین کے معنی غیر مشروط آخری نبی کے ہر گز نہیں.چنانچہ علامہ شہاب الدین احمد ابن حجر الهشيمي " خاتمة الفقهاء والمحدثين استوئی سکہ) نے انفتادی الحدیثیہ میں خلیفة الرسول حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنه (شہادت نشتہ) کی یہ روایت دی ہے کہ :- حضرت ابراہیم دمتونی ) فرزند رسول انتقال کر گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی والدہ ماریہ قبطیہ) کو بلا بھیجا.وہ آئیں، انہیں غسل دیا اور کفن پہنا یا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یکہ باہر تشریف لاتے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے.حضور نے انہیں دفن کیا.پھر اپنا ہاتھ ان کی قبر میں داخل کیا اور فرمایا : - " أما واللهِ إِنَّهُ لَنَبِيُّ ابن نبي : ٣ ترجمہ : خدا کی قسم یقینا یہ نبی اور نبی کا بیٹا ہے.حضرت ابراہیم کا انتقال شستہ ہیں اور واقدمی کی روایت کے مطابق سنہ میں ہوا جبکہ آیت خاتم النبیین کے نزول پر چار پانچ سال ہو چکے تھے.مامك پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اما م حد منگ" کے مصداق اس امت کے مسیح ابن مریم کو اپنی زبان مبارک سے چار مرتبہ نبی اللہ کے نام سے یاد فرمایا ہے جیسا کہ حضرت امام مسلم است وقتی ملے ے " تحذیر الناس ص ۳ نه شعر العجم جلد ۵ ص ۲۱۹ اعلام شبلی نعمانی مطبع معارف اعظم گڑھ سے الفتاوى الحديثة" ص ۱۲۵ را شیخ احمد شهاب الدین ابن حجر الشیمی ) مطبوعہ مصر

Page 53

۵۳ نے یہ حدیث اپنی صحیح میں درج کی ہے کہ :- حْصَرَ نَي الله عيسى.فَيَرْغَبُ نَى اللهِ عِيسَى ثُمَّ يَهْبِطُ نبى الله عِيسَى فَيَرُغَبُ نَبِيُّ اللهِ عِيسى : له نبی اللہ علیلی محصور ہو جائیں گے.نبی اللہ عیسی خدا کے حضور رجوع کریں گے نبی اللہ علی ایک خاص مقام پر اتریں گے نبی اللہ عینی جناب الہی کی طرف متوجہ ہوں گے.اسی طرح حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قَالَى آخِرُ الأَنْبِياءِ وَإِنَّ مَسجدى آخر المَسَاجِدِ " میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد نبوی) آخری مسجد ہے.ہیں جس طرح آپکی مسجد غیر مشروط آخری مسجد نہیں اسی طرح آپ کا دعوی بھی غیر مشرو طا آخری نبی پور کا نہیں.اس موضوع پر یہ ایک نہایت واضح حدیث تھی مگر میں درد بھرے دل اور حد در تیر غم و اندوہ کیساتھ یہ افسوس ناک اور الم انگیز اطلاع دے رہا ہوں کہ یہ حدیث مبارک بھی شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور کی شائع کردہ مسلم شریف مترجم کے نئے ایڈیشن سے خارج کردی گئی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.۲۷- انسان کامل واکمل 041 قدوة حضرت سید عبدالقادر جیلانی رمتونی اشتہ) کے مرشد طریقت اور پر فرقہ قد‎ سایکاں برہان الاصفیاء سلطان اولیا.حضرت شیخ ابوسعید مبارک ابن علی مخزومی (متوفی ۱۳ م ) فرماتے ہیں.والاخيرة منها اعني الانسان إذا عَرَج ظهر فيه جميع مراتب المذكورة مع انبساطها ويُقالَ لَهُ الانسان الكامل - والعروج والانبساط على الوجه الاحْمِلَ كان في نبينا صلى الله عليه نے صحیح مسلم باب ذکر الدجال (القسم الثاني من الجزء الثاني مصر ١٣٣ سے صحیح مسلم مشکول جلد ۳ ص ۱۲۵ مطبوعہ مصر

Page 54

۵۴ وسلم ولهذا كان صلى الله عليه واله وسلم خاتم النبيين" له ترجمہ : (کائنات میں آخری مرتبہ انسان کا ہے.جب وہ عروج پاتا ہے تو اس میں تمام مراتب مذکورہ اپنی تمام دوستوں کیساتھ ظاہر ہو جاتے ہیں اور اس کو انسان کامل کیا جاتا ہے اور عروج کمالات اور سب مراتب کا پھیلاو کامل طور پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے اور اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں.A ٢٨- نبیوں کے باپ • 1444 ( حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دارالعلوم دیو بند ).آیت خاتم النبیین کی تفسیر میں فرماتے ہیں : TAPP.JAA.حاصل مطلب اس صورت میں یہ ہوگا کہ ابوت معروفہ تو رسول اللہ صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں.پر ابو‎ معنوی امنیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے.انبیاء کی نسبت تو فقط خاتم النبیین شاہد ہے - اسی لیے فرماتے ہیں کہ : P- تے اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا تے اسی خیال کی تائید دیو بند کے موجودہ مہتمم مولانا قاری محمد طیب صاحب بھی فرماتے ہیں : " حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں نکلتی بلکہ نبوت بخشی بھی سکتی ہے کہ جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آگیا نہی ہو گیا ہے مرسلہ شریف ( مترجم ) ص اله مولانا شیخ ابوسعید قدس سره العزيز منزل نقشبند به لاہور طبع دوم کے تحذیر الناس ص ١٠ مطبع مجتبائی دہلی شاره که تحذیر الناس ص ۲۸ گه آفتاب نبوت ( کامل ) ص ۱۰۱ ناشر اداره عثمانیہ نمبر ۳۱ پرانی انار کلی لاہور طبع دوم شماره ١٠١

Page 55

۵۵ 19 نقوش نبوت پیدا کرنے والا نبی العلامة ، المحقق ، امام لغت والادب حضرت ابو القاسم حسین بن محمد المعروف الراغب الاصفہانی (متوشی ششم) فرماتے ہیں : دھو تا ثیر الشئ كنقش الخاتم والطابع : له ترجمہ بخت اور طبع کے حقیقی معنے دوسری شتی میں اپنے اثرات پیدا کرنے کے ہیں جیسا کہ خاتم یعنی ہر کا نقش دوسری شئی میں اپنا نقش اور اثرات پیدا کر دیا ہے." لغت کے ان معنوں کی رُو سے خاتم النبیین کے معنی یہ ہوتے کہ نبیوں کی وہ مہر جو دوسروں میں بھی اپنے نقوش پیدا کر دیتی ہے اور ان کی نبوتوں کو مستند کرتی ہے.امت محمدیہ میں کمالات نبوت کے کوثر کا تو یہ عالم ہے کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن دوسری تمام اقوام و اهم جب امت محمدیہ کو دیکھیں گی تو روحانی مراتب اور تقویٰ کے لحاظ سے اُسے ایسے مالی مقام پر پائیں گی کہ گویا ہر ایک اس قابل ہے کہ فیض نبوت پا سکتا ہے، تب وہ اپنے مقابل امت محمدیہ پر ہونے والے فیضان کو دیکھ کر سخت حیرت زدہ ہونگی اور اُن کے منہ سے یہ کلمہ تحسین نکلے گا.کارت هذِهِ الأُمَّةٌ أَن تَكُونَ أَنْبِيَاءَ كُلَّهَا ،ت كادَتْ قریب تھا کہ اس امت کے سب افراد نبی ہو جاتے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے."ابوبكر افضل هذه الامة الا ان يكون نبي " یہ حدیث مبارک تاج العارفین حضرت علامہ عبدالرووت منادی نے دفتوتی اساہ کنز الحقائق میں درج فرمائی ہے علاوہ ازیں حضرت علامہ سیوطی ا بنے تاریخ الخلفار میں کسی حدیث خفیف سے لفظی فرق کے ساتھ نقل کی ہے.حضرت علامہ عبدالعزیز فر ماردی (متوفی شاہ نے کو ترالنبی میں بھی اسے لکھا ہے.حضرت علامہ ضیاء الدین احمد اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: مفردات راغب زیر لفظ ختم ص ۱۱۲ مكتبه البورز جمهرى المصطفونى طهران ١٣ له الخصائص الكبرى ج ۲ ص ۲۲۰

Page 56

04 " إِلَّا أَن يُوجد نبي في النبى أفضَلُ " له اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ ابو بکر میرے بعد سب لوگوں سے بہتر ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو.اس صورت میں وہ نبی افضل ہوگا.ان احادیث کی روشنی میں اگر اسلامی لٹریچر پر ایک سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو یقیت بالکل نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ ہر مکتبہ فکر کے آمنہ مہدی علماء ربانی اور دیگر اہل علم و فهم بزرگ کثرت تکرار اور نہایت شدت سے یہ حقیقت مسلمانان عالم کے سامنے پیش کرتے رہے کہ ختم نبوت کی برکت سے فیضان نبوت جاری وساری ہے.اس ضمن میں پہلی صدی ہجری سے لیکر تیرھویں صدی تک کے اکا بر امت کی تحریرات میں اس کا بکثرت تذکرہ ملتا ہے.اس سلسلہ متعدد اقتباسات پہلے آپ کے ہیں.مزید اب عرض کرتا ہوں- پھلی صدی : سید نا حضرت علی المرتضی و شهادت نشتہ) نے وصال نبوی کے بعد ایک بار خادم الرسول حضرت انس بن مالک (متوفی شته ) سے ارشاد فرمایا کہ : » انى لم ار زما نأ خير العامِل مِنْ زَمَانَكُم هَذا الا ان يكون زماناً مع نبي : له ترجمہ : میںنے کوئی زمانہ کسی حال خیر کے لیے ایسا نہیں دیکھا جو تمہارے زمانے سے اچھا ہو سوائے اس کے کہ کوئی ایسا زمانہ آجاتے جس کے ساتھے نبی ہو.دوسری صدی کے وسط اول میں امامیہ مسلک کے فرقوں میں سے منصور یہ کو خاص شہرت ہوئی.اس فرقہ کے بانی ابو منصور العجلی تھے.اس فرقہ کے اکابر کا واضح عقیدہ تھا کہ " الرُّسُلُ لا تنقطعُ أبداً " P- رسولوں کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا.شرح کتاب غرائب الاحادیث المسمى بلطائف الحكم" ص ۱۴ مجھے مسند احمد بن حنبل جلد ۳ ص ۲۷۰ التعریفات ص ۲۱۰ (حضرت السيد الشريف علی بن محمد البو الحسم ۱۹۳۰

Page 57

۵۷ تیسری صدی ہجری کے مهبط الوجی اور مذہب امامیہ کے قدیم ترین مفتر الشیخ الشقه حضرت علامہ ابوالحسن علی بن ابراہیم باشم العتی دمتونی شاہ) فرماتے ہیں کہ : اغْتَرَنَ رَبُّنا عَزْ و جَلَّ غُرنَةٌ بِيَمِينِهِ من الماء فقال منك.اخلق النبيين والمرسلين وعبادي الصالحين والائمه المهتدين والدعاة إلى الجنة واتباعهم إلى يوم القيامة ولا أبالى - له ترجمہ: ہمارے رب عز وجل نے اپنے ہا تھ میں پانی کا ایک چکو لیا اور اس سے فرمایا میں تجھ سے نبی ، رسول ، نیک بندے، ہدایت یافته امام ، داعیان جنت اور ان کے اتباع قیامت تک پیدا کرتا رہوں گا اور کسی کی پروا نہیں کروں گا.چوتھی صدی ہجری کے مشہور مفتر و مجتهد حضرت الشیخ ابو جعفر بن ابو العتی (ستونی ) فرماتے ہیں : ۹۴۲ " فالهداةاً من الانبياء والأوصياء لا يجوز انقطا ا لا يجوز انقطاعهم ما دام التكليف من اللهِ عَزَّ وَجَلَ لازما للعبادة ترجمہ : جب تک بندے اللہ تعالیٰ کے احکام کے مکلف میں تب تک ہدایت کی طرف راہنمائی کرنے والے انبیاء اور اوصیا ت کا انقطاع جائز نہیں.پانچویں صدی ھجری کے امام لغت حضرت امام راغب اصفهانی دستوقی کا قول ہے کہ : " ممن انعم عليهم من الفرق الأربع فى المنزِلَةِ والثوابِ النبى بالنبى والصديق بالصديق والشهيد بالشهيد ت والصالح بالصالح.ترجمہ: اللہ تعالیٰ اُمت کے ان چار گروہوں کو درجہ اور ثواب میں منعمین میں شامل کر دیگا، یعنی نبی کو نبی کیسا تھے ، صدیق کو صدیق کیساتھ ، شہید کو شہید کیساتھ اور صالح کو صالح کیسا تھے.تفسیر قمی ص ۳۳ مطبوعه ایران نه اکمال الدین ص ۳۷۵ البحر المحیط " حضرت محمد بن يوسف الحيان الغرناطي الاندلسی جلد ۳ ص ۲۸۷ مطبوعہ طبع سعادت مصر ۵۵۰۲ r

Page 58

۵۸ آپ کے ہمعصر، صوفی کامل اور سلسلہ قادریہ کے بانی حضرت سید عبدالقادر جیلانی " (ولادت بین شیہ وفات پہ آنحضرت کی ایک حدیث کا ذکر کر کے لکھتے ہیں :- 041 1144 " هذا قول اميرنا....مقدّم النبيين والمرسلين والصديقين من زمان آدم عليه السلام إلى يوم القيامة : ترجمہ : یہ ہے فرمان ہمارے امیر نبیوں اور رسولوں اور صدیقوں کے پیشوا کا جو آدم علیہ السلام کے زمانہ سے قیامت تک ہوں گے.نیز فرماتے ہیں کہ : وتي الأنبياء اسم النبوة وأُوتِينَا اللقب أى حُجرَ عَلينا اسم النبي معان الحق تعالى يخبرنا في سرايرنا بمعاني كلامه وكلام رسوله صلى الله عليه وسلم ويسمى صاحب هذا المقام من انبياء الاولياء " له ترجمہ : انبیا کونبی کا نام دیا گیا ہے اور ہم امتنی نصب کنبوت پاتے ہیں ہم سے النبی کا نام روکا گیا ہے باوجود یکہ خدا تعالیٰ ہمیں خلوت میں اپنے کلام اور اپنے رسول کے کلام کے معانی سے خبر دیتا ہے اور یہ مقام رکھنے والا انبیائے الاولیاء میں سے ہوتا ہے.چھٹی صدی ہجری کے تمازہ ہسپانوی منتر اور پیشوائے طریقت حضرت محی الدین ابن عربی دمتونی ھ ) لکھتے ہیں : ۷۳۰ به نه " نَقَطَعْنَا انَّ في هذه الأُمَّةِ مَنْ لَعَقَتْ دَرَجَتُهُ دَرَجَةُ الانبياء في النبوة عِنْدَ اللَّهِ لَا فِي التَّشْرِيع ترجمہ: ہم نے درود شریف سے قطعی طور پر جان لیا ہے کہ اس امت میں ایک ایسا شخص بھی ہے جس کا درجہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبوت میں انبیار سے مل گیا ہے ، مگر وہ شریعیت لانے والا نہیں ہے.الفتح الرباني والفیض الرحمانی (مرتبه شیخ این مبارک قادری ص ۲۲ مطبع میمینه مصر "الیواقیت والجوامر" جلد ۲ ص ۳۹ طبع مصر ۵۱۳۵۱ سه "فتوحات مكتبة جلد اول ص ۵۴۵ طبع دار الكتب العربيه الكبرى مصر " ٥٠

Page 59

04 نیز فرماتے ہیں : " فَالنَّبوة سارية الى يوم القيامة في الْخَلْقِ وَإِن كَانَ التَّشْرِيعُ قد انقطع فالتشريع جزء من أجزاء النُّبوة " له ترجمہ : یہ نبوت مخلوق میں قیامت تک جاری رہے گی.اگر چہ شریعت کالا نا منقطع ہو گیا.شریعت کا لانا تو نبوت کا ایک جزء ہے.ساتویں صدی ھجری کے متکلم اسلام اور مفتر قرآن حضرت امام فخر الدین رازی (04.4-DONN) لکھتے ہیں : " وَلمَّا كانَ الخَلق محتاجين الى البعثة والرحيم الكريم قادراً عَلى البعثَةِ وَجَبَ فِي عَرَمهِ وَرَحْمَتِه إِن تَبْعَثُ الرُّسُلَ إِليهم كله ترجمہ : اور جب کہ مخلوق بعثت انبیاء کی محتاج ہے اور رحیم وکریم خدا بعثت پر قادر بھی ہے تو اس کے کرم اور رحمت کی رو سے واجب ہوا کہ رحسب ضرورت) وہ ان کی طرف رسول بھیجے اور آٹھویں صدی ھجری میں سلطان مجاہد ابوالفتح محمد شاه تعلق بہت فیاض ا شعائر اسلامی کے پابند اسلامی بادشاہ تھے جنہیں زبان عربی و فارسی میں بہت دستگاہ تھی.تحریر و تقریر میں صاحب کمال ، شعر و سخن میں یگانہ روزگار اور منطق و الہیات اور طبعیات کے بہت بڑے عالم تھے یہ سلطان نے بھی ایک بار علی الاعلان اس تعیال کا اظہار کیا کہ : جب اللہ تعالی کا فیض و کرم ختم ہو نیوالا نہیں تو نبوت کا فیض کس طرح ختم ہو سکتا ہے.اس وقت بھی اگر کوئی نبوت کا دعوئی کرے اور خوارق عادات و معجزات دکھائے تو اس کو نبی تسلیم کرنے سے کونسا t- امر مانع ہے باشه فتوحات مکیہ جلد نمبر ۲ ص ۹۰ (مطبوعہ دارالكتب العربية الكبرى مصرى) ه تفسیر کبیر جلد ۱ ص ۱۹۵ المطبعة البهيته مصری شاه سے تاریخ ہندوستان جلد دوم ص ۱۰۸ - ۱۰۹ الشمس العلماء مولوی محمد د کا.اللہ صاحب دہلوی) مطبع انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ شات سے اخبار الاخیار اُردوص ۴۲۸ (مصنف حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی) 1414 سنده تالیف 1999 ناشر مدینہ پیشنگ کمپنی بندر روڈ کراچی ٩٩٩ھ

Page 60

་་ غرناطہ کے مشہور مفسر امام حضرت ابو عبدالله محمد بن یوسف اندلسی رونات - فرماتے ہیں : " وقوله مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلِيهِم تفسير لقولهِ صِرَاطَ الَّذِينَ أنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ وَهُم مَن ذكر في هذه الآية والظاهر ان قوله من النبيين تفسير للذين انعم الله عليهم نكانَّهُ قِيل يطع الله ورسوله منكما لحقه الله بالذين تقدّمهم !!! العم عليهم الله قيل من ૐ ممن ترجمہ : اور قول ربانی مَعَ الَّذِينَ تفسیر ہے صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے ظاہر ہے کہ من النبیین در اصل انعم الله علیهم کی تفسیر ہے، گویا یہ کہا گیا ہے کہ جو شخص تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اللہ تعالیٰ انہیں دانکی استعداد اور ضرورت کے مطابق ) ان لوگوں کے ساتھ ملا دیگا جن پر ان سے پہلے انعامات ہوتے.کیوں کوثر نبوی میں ہوا بند تموج جب تشنہ لبوں کی ہی نہیں تشنہ لبی بند مغضوب کی، ضاتین کی آمد ہے مسلسل انعمت علیہم کی ہوئی کب سے لڑی بند ؟ (حسن رمتا سی) آٹھویں صدی کے عارف ربانی حضرت سید عبدالکریم جیلانی ولادت ،، فرماتے ہیں : در وا شوقاه الى اخواني الذين يأتون من بعدى الحديث نهر انبياء الاولياء يُريد بذالك نبوة القُرب والاعلام والحكم الالهى لا نبوة التشريع لان نيوة التشريع القطعت بمحمد صلى الله عليه وسلم فهولاء منبئون بعلوم الانبياء من غير واسطة - له نه تفسیر ابن حیان جلد ۳ ص ۲۸۷ مطبع سعادت مصر ٣٣اه لله " انسان کامل " ص ٨٥ العارف الرباني ستیدی عبد الکریم جیلانی 3 مطبوع قاہرہ شاہ

Page 61

41 ترجمہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، مجھے اپنے ان بھائیوں سے ملنے کا کتنا شوق ہے جو میرے بعد آئیں گے (حدیث نبوی ) اس حدیث میں انبیا.الاولیاء مراد ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ مبارک اس سے قرب علم عطا کرنے اور حکم الہی کی نبوت ہے.نہ تشریعی نبوت کیونکہ تشریعی نبوت ت محمد مصطفے صلی الہ علیہ وسلم کے ساتھ ختم ہو چکی ہیں ان لوگوں کو انبیا کے علوم بلا واسطہ بخشے جائیں گے.حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی نویں صدی کے ایک بزرگ حضرت سید حمد جوخوری (متوفی ) کی نسبت لکھتے ہیں کہ : در اعتقا دستید محمد جونپوری ہر کما لیکہ محمد رسول اللہ صلعم داشت درسید سید محمد را نیز بود.فرق ہمیں است که آنجا با صاله بود و اینجا به تبعیته و تبعته رسول بجائے رسیدہ کہ ہمچو او شد یا لے ترجمہ : (حضرت سید محمد جونپوری کے اعتقاد میں ہر وہ کمال جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا اُن کو بھی ملا.اس فرق کے ساتھ کہ آنحضرت کا وہ کمال ذاتی تھا اور آپ کا کمال متابعت رسول کے نتیجہ میں حیشی کہ آپ کا وجود آنحضرت ہی کا وجود بن گیا.دسویں صدی ھجری کے شہرہ آفاق صوفی حضرت امام عبدالوہاب شعرانی (متوتی کا ارشاد ہے : فما زالَ المُرْسَلُونَ وَلَا يَزَالُونَ فى هَذا الدار الكن من باطنية شَرع مُحَمَّدٍت اس دنیا میں مرسل ہمیشہ آتے رہے ہیں اور ہمیشہ آتے رہیں گے لیکن ہوں گے شریعت محمدیہ کے باطن سے.داس جگہ مرسلین.مراد صوفیاء کے نز دیک نائبین خاتم الانبیاسہ ہیں ) ے تذکرہ (مولانا ابوالکلام آزاد ) ص ۴۸ - ۴۹ کتابی دنیا لاہور ه - "الیواقیت والجواہر " جلد ۲ ص ٨١ مصر طبع اوّل ۱۳۵۱

Page 62

۶۲ اس ضمن میں شیخین رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمرفاروق کی نسبت تحریر فرماتے ہیں: این مرد و بزرگوار از بزرگی و کلانی در انبیاء معدود داند که یہ دونوں بزرگوار اپنی بزرگی اور عظمت کے باعث نبیوں میں شمار ہوتے ہیں.١٠٣١ دیہ قول اُن کا علماء امتی کا بیا.بنی اسرائیل کی روشنی میں ہے ) گیارھویں صدی کے مجدد حضرت مجدد الف ثانی " (متوفی ) فرماتے ہیں : حصول کمالات نبوة مرتا بعان را بطريق تبعیت و وراثت بعد از بعثت خاتم الرسل عليه وعلى جميع الانبياء والرُّسُلِ الصَّلَوتُ والتحيات منا في خاتميت او نیست ن خاتم الرسل کی بعثت کے بعد کامل تا بعد اروں کو اتباع اور وراثت کے طریق سے کمالات نبوت کا حاصل ہونا تھا تمیت محمدیہ کے منافی نہیں.بارھویں صدی ھجری کے امام الہند حضرت سید ولی الله شاه محدث دہلوی روفات ) درود شریف سے فیضان نبوت کے جاری رہنے کا استدلال کرتے ہوئے ( فرماتے ہیں:.وقد قضيت ان لا شرع بعدی فصلِ عَلَى وَعَلَى آلِى بِأَنْ تَجْعَلَ لَهُم مَرَتَبَةَ النَّبوة عِنْدَكَ وان لم يشرعوا فكانَ مِن كمال رسول الله صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم أَن الحَقِّ الهُ بِالأَنْبِيَاءِ فِي المَرتَبَةِ " " ترجمہ : اے خدا تو نے فیصلہ کیا ہے کہ میرے بعد کوئی نئی شریعت نہیں ہوگی ہیں مجھ پر اور میری آل پر اس طرح رحم فرما کہ تو اپنی جناب میں ان کے لیے مرتبہ نبوت مقرر کر دے اگر چہ وہ شارع نہ ہوں یہ رسول اللہ علیہ وسلم کا کمال ہے کہ حضور نے اپنا آل کو مرتبہ میں انبیاء کے ساتھ ملحق کر دیا ہے.لے ایواقیت والجواهر جلد ۲ ص ۲۷۱ کمکتوبات امام ربانی جلد اول ص ۴۳۲ کنتوب نمبر ۳۰ مطبع نولکشور "قرة العينين في تفضيل الشيخين ص ۳۲۰ مطبع مجتبائی ۵۱۳۱۰

Page 63

۶۳ تیرھویں صدی میں حضرت منظر جانجاناں کے سب سے نامور مر ید حضرت شاہ غلام علی شاہ 1104 " دہلوی (ولادت علام وفات ۱۳۳۰ ) جن کو مولف " موج کوثر نے خاتم الا دلیا " کہا ہے.آپ آيت ثلةٌ مِّنَ الاَوَّلِينَ وَقَلِيلٌ مِنَ الآخِرِین کی تشریح میں فرماتے ہیں.ثلة من الاولين يعني من انبياء وقليل من الآخرين يعنى من امة محمد وهم الصحابة وكثير من المتابعين وجماعة من اتباع التابعين وجماعة فى آخر اللهُورِ بعد تجديد الدين بعد الف سنة من الهجرتِ در کمالات نبوت تحیلی ذاتی دائمی است.بے پردۀ اسماء و صفات و کمالات ك رسالت و کمالات اولوالعزم موجی است انه دریا تے کمالات نبوت " اے و ترجمہ : ثلة من الأولين یعنی نبیوں میں سے قليل من الآخرین یعنی امت محمدیہ میں سے اور اس سے مراد صحابہ اور بکثرت تابعین اور تبع تابعین کی جماعت اور ایک اور ایسی جماعت ہے جو ہجرت کے ہزار سال کے بعد تجدید دین کے لیے قائم ہوگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات نبوت کی ذاتی تجلی دائی ہے.بے پردہ اسکار اور صفات اور کمالاتِ رسالت اور کمالات اولو العزم آنحضرت کے دریائے کمالات نبوت کی ایک موج ہیں.شہید بالاکوٹ حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہادت ۱۲۲۶ ه ) نے تقویۃ الایمان د (ص ۴۲) میں بیاں تک لکھا ہے کہ : اس شہنشاہ کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکیم کن سے چاہے تو کروڑوں نبی اور دلی اور جن و فرشتے جبرائیل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پیدا کر ڈالے الے امراد یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو گن سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ل کلمات طیبات ص ۱۰۹ مطبع مجتبائی ١٠٩ تقویۃ الایمان" ص ۴۲ ناشر محمد سعید انیڈ سنٹر قرآن محل کراچی

Page 64

برابر کا انسان بھی پیدا کر سکتا ہے جس طرح اور چیزیں پیدا کر سکتا ہے.گو مشیت الہی ہمارے نزدیک یہ واقع ہوتی ہے کہ آنحضرت کے اخلال ہی پیدا ہو سکتے ہیں ) ۳۰ - فیضان خاتمیت کا اکمل ترین ظہور مہدی کی صورت میں بزرگان سلف کی تحریرات میں خاتم النبیین کی تفسیر کا سب سے اہم اور آخری پہلو ہیں یہ ملتا ہے کہ فیضان ختم نبوت کا امت محمدیہ میں اکمل واتم اور اعلی وارفع ظهور مهدی موجود کی شکل میں ہو گا جس کا باطن حضرت تھا تم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن اور آپ کی حسنات کا عظیم الشان شاہکار ہے اور جو ہر فیض آپ سے حاصل کر لگا.اسی کے زمانہ میں آیت هُوَ الَّذِی ارسل رمتون کے مطابق مجلہ اقوام عالم آنحضرت کو خاتم انہیں تسلیم کر کے آپ کے قدموں میں جمع ہونگی اور ثابت ہو جائیگا کہ وہ حضور علیہ السلام فی الواقع تمام نبیوں کے امام اور سید ولد آدم ہیں اور اسرار و معارف جو خاتم النبیین کے بے نظیر مقام میں مخفی ہیں.علمی و عملی ہر اعتبار سے پوری دنیا پر آشکارا ہو جائیں گے.چنانچہ سپین کے مشہور صوفی حضرت ابن عربی رمتوقی شام) فرماتے ہیں : نخاتم الرسل من حيث ولايته نسبته مع الخاتم للولاية نسبة الانبياء والرسل معه فانه الولى والرسول النبي وخاتم الاولياء الولى الوارث الأخذ عن الاصــــل المشاهد للمراتب وهو حسنة من حسنات خاتم الرسل صلى الله عليه وسلم مقدم الجماعة وسيّدِ وُلدِ آدم شه ترجمہ : خاتم ریئل کو باعتبار ولایت کے خاتم ولایت سے وہی نسبت ہے : جو اور انبیاء اور رسل کو آپ کے ساتھ ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ولی اور رسول اور نبی سب تھے اور خاتم الاولیاء، ولی وارث ہیں جو اصل سے له " شرح فصوص الحکم ص ۳۶ فص حکمتة نفشیه فی کلم پیشیشیه ( الشيخ عبد الرزاق الفاشانی " مطبوعہ مصر ٣٦

Page 65

لینے والے ہیں اور اس کے مراتب کے مشاہدہ کرنے والے ہیں اور خاتم الولانیہ ا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی برکات و انعامات میں ایک عظیم الشان نعمت و برکت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (انبیاء اور اولیاء کی جماعت میں سے مقدم اور سید ولد آدم ہیں " حضرت شیخ عبد الرزاق قاشانی اس کی تشریح میں فرماتے ہیں : 2.."المهدى الذى يجئى فى أخر الزمان فانه يكون في الأحكام الشرعيه تابعاً لمحمد صلى الله عليه وسلم وفى المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الانبياء والأولياء تابعينَ لَهُ عَلَهُم ولا يناقض ما ذكرناها لأَنَّ بَاطِتَهُ يَا طِنُ مُحَمَّدٍ عَلَيهِ السَّلام ولهذا قيل انه حسنةٌ من حَسَنَاتِ سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ " ترجمه : مهدی آخر الزمان احکام شریعت میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوگا ، لیکن معارف علوم اور حقیقت میں تمام انبیاء اور اولیا.اُس کے تابع ہونگے کیونکہ اس کا باطن خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہو گا اور اسی لیے اسے سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ سلم کی عظیم الشان نعمت و ش برکت قرار دیا گیا ہے.اس ضمن میں قطب الارشاد حضرت سید مظفر علی شاہ رمتونی شام) نے بھی تحریر فرمایا ہے کہ : جناب حق تعالی یکی را انه اولیاء بمرتبه مخصوص می کند که جمع انبیاء و اولیاء از وی فیض اخذ میکنند و مستفیض می شوند او را خاتم الولایة میگویند دوایل مقام حضرت امام محمد مهدی است رضی الله عنه با نتیجه معلی ترجمہ : حق تعالیٰ اولیاء میں سے ایک کو ایسے مرتبہ کیساتھ مخصوص کرتا ہے ۱۳۲۱ له شرح القاشاني على فصوص الحكم الاستاذ الاكبر شيخ محي الدين بن العربي ص ٣٥ طبع مصر الاماره جواہر غیبی ص ۴۴۹ راز حضرت سید مظفر علی شاه ( ۱۳۰۴

Page 66

کہ تمام نبی اور ولی اس سے فیض حاصل کرتے اور مستفیذ ہوتے ہیں، اسی کو خاتم الولایہ کہتے ہیںاور یہی مقام حضرت امام محمد مہدی کا ہے.اس جگہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے آقا محمد مصطفی احمد مجتبی صلی الہ علی وسلم خاتم الولایت بھی تھے اور خاتم النبوت بھی اور سب نبیوں نے حضور علیہ السلام ہی سے فیض حاصل کیا ہے، امام مہدی بھی خاتم الولایت ہیں اور وہ بعد میں آنے والوں کے لیے حضرت نبی کریم صلی اللہ ، علیہ و آلہ وسلم کا فیض پہنچانے میں واسطہ ہیں.ویسے امام مہدی کے علوم و معارف چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہیں اس لیے دوسرے تمام نبیوں کا علم آپ کے مقابلہ میں ایک متبع کے و علم کی حیثیت رکھتا ہے.اس نکتہ کو ذہن نشین کر لینے کے بعد حضرت شیخ عبدالرزاق قاشانی رحمۃ اللہ علیہ کا درج ذیل اقتباس با کسانی سمجھ میں آسکتا ہے کہ : ” لانه علیه السلام ما دام ظاهراً بالشريعة في مقام الرسالة لم تظهر ولايته بالاحدية الذاتيه الجامعة للاسماء کلھا لیونی اسم الهاوي حقه فبقيت هذه الحسنة اعنى ولايته باطنة حتى يظهر فى مظهر الخاتم للولاية الوارث منه ظاهر النبوة وباطن الولاية تتحقق من هذا ان محمداً عليه السلام مقدم جماعة الانبياء والاولياء حقيقة روسيد ولد آدم به ترجمہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب تک بحیثیت رسول ، شریعیت کے ساتھ ظاہر میں رونق افروز عالم رہے آپ کی وہ ولایت جو احدیت ذاتیہ کے ساتھ تمام اسم ہادی کو اس کا پورا حق کاس کی جامع ہے ظاہر نہ ہوتی کہ دے سو یہ حسنہ یعنی ولایت باطن میں رہی ، یہاں تک کر دہ خاتم ولایت کے اس مظہر میں نمودار ہوگی جو آپ کی ظاہری نبوت اور باطنی ولایت دونوں کا وارث ہو گا، اس سے ثابت ہو گیا کہ محمد رسول اللہ شرح فصوص الحکم ص نمبر ۳۶ دحضرت شیخ عبدالرزاق قاشانی مطبوع مصر ( T

Page 67

46 صلی اللہ علیہ وسلم ہی تمام نبیوں اور ولیوں سے مقدم اور ان کے سردار ہیں.اسلامی ہند کے بلند پایہ شاعر بجناب امام بخش ناسخ (متونی ماه ) نے اس مقام مهدی کو اپنے منظوم کلام میں خوب واضح کیا ہے آپ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے مناقب میں فرماتے ہیں: دیکھ کر اُس کو کریں گے لوگ رجعت کا گماں یوں کہیں گے معجزے سے مصطفیٰ پیدا ہوا کیا سلیماں اور کیا مہر سلیماں مومنو خاتم ختم نبوت کا نگیں پیدا ہوائے حضرت اسد اللہ الغالب علی المرتضی رض فرماتے ہیں : سمّى نبي الله نفسي فداده فَلا تُتخذ لونا يا بني ومجلوان مہدی اللہ کے نبی کاہم نام ہوگا.میرا نفس اُس پر قربان ہو اے میرے بیٹو اسے تنہا نہ چھوڑ دینا اور جلدی سے اس کے ساتھ ہو جانا.حدیث نبوی ہے : " ياتي بذخيرة الانبياء" سے مہدی موعود انبیاء کا ذخیرہ ساتھ لائیں گے.مجتهد عصر حضرت علامہ محمد باقر مجلسی رحمتہ اللہ علیہ (متونی ملالہ) نے بحار الانوار مطبوع ایران جلد ۱۳ ص ۲۰۲ میں بتایا ہے کہ " d مہدی تمام نبیوں کا بروز ہو گا اور دعویٰ کرے گا کہ جو حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل حضرت موسی ، حضرت علی بلکہ محمد صلی اللہ لیہ وسلم کو دیکھنا چا ہے وہ مجھے دیکھنے.پیشگوئی تاریخ انتخاب میں بھی ہے جو علامہ سید علی الماری رسمونی اتری دستون ، نے -14pm دیوان ناسخ ج ۲ ص ۵۲-۵۵ مطبع نولکشور لکھنو ۱۹۳۳ شرح دیوان علی جلد ۲ ص ۹۷ مجیدی پریس کانپور ۱۳۲۰ " بحار الانوار جلد ۱۳ ص ۱۷ (مطبوعہ ایران)

Page 68

غایۃ المقصود " جلد نمبر ص 44 پر درج کی ہے.نیز لکھا ہے کہ ایسی متفق اور متواتر احادیث ۶۶ بے شمار ہیں جن میں حضرت مہدی موعود علیہ السلام کو انبیا ئے سلف کا میل بتایا گیا ہے جس سے یہ بھی ثابت ہے کہ آنحضرت اور حضرت مہدی علیہ السلام میں کوئی فرق نہیں.مالنگی یا اسلام مہدی سے وابستہ ہے حضرت محمد بن مروان اسدی الصغير ( تونی نامه ) آیت هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوله کی تفسیر میں فرماتے ہیں :- " ذالك عند خروج المهدى عليه السلام لا يبقى احد الادخل في الاسلام" " عالمگیر غلبہ اسلام حضرت مهدی علیہ اسلام کے زمانہ میں ہوگا جبکہ سب لوگ مسلمان ہو جائینگے.حضرت محمد بن مروان کے علاوہ امت کے اور بھی بہت سے بزرگوں نے تسلیم کیا ہے کہ ادیان باطلہ پر اسلام کا مکمل غلبہ مہدی موعود ہی کے ذریعہ ہوگا.سے اسی طرح حضرت محی الدین ابن عربی نے اپنی تفسیر میں مقام محمود کی تفسیر کرتے ہوئے یہ پیشگوئی اخذ فرماتی ہے کہ یہ ایسا مقام ہے جس میں کل انسانوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی حمد واجب ہوگی اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خستم الولایت کا مقام ہے جو ظہور مہدی علیہ السلام سے وابستہ ہے.دهُو مَقَامَ خَتُم الوِلَايَةِ بِظُهُورِ الْمَهْدِي له له مطبع شمس الند لاہور ۱۳۱ تغییر غرائب القرآن از حضرت علامہ نظام الدین نیشاپوری بر حاشیه این جریر جلد نمبرزا ص 9 مطبوعه مینی سے بحار الانوار جلد ۳ ص ۱۴ تفسیر قمی ص ۲۶۴ - ۲۶۵ نجم الثاقب " باب یاز دہم ص ۵۶۱ " و منتخب الأثر في الامام الثانی عشر" می ۱۶۱ از لطف الله صافی مرکز نشر کتاب طهران ص 141 گئے تفسیر ابن عربی جلد اس پ۳۸۲

Page 69

49 آخرین میں ایک نبی پہلے بزرگوں نے یہ بھی خبر دی کہ قدیم نوشتوں میں اُمت محمدیہ کے ایک ایسے وجود کا ذکر پایا جاتا ہے جسے منصب و عہدہ نبوت بھی حاصل ہو گا، چنانچہ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے خصائص الکبری" میں سرچ پرمو کی یہ روایت درج کی ہے کہ اجد في الكتاب أن في هذه الامة اثنى عشر ريسا نبيهم احد همت ترجمہ : میں کتاب آسمانی میں لکھا پاتا ہوں کہ اس اُمت میں بارہ رتیں ہونگے ایک ان میں سے اُن کا نبی ہوگا.اسی طرح حضرت ابن عباس (متوفی شہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا حضرت عیلی ) بن مریم علیہ اسلام نے پہلی بار جب اس مقام پر نظر ڈالی جو قائم آل محمد مهدی موعود کو عطا ہونیوالا تھا تو عرض کی اے الہی مجھے قائم آل محمد قرار دے جواب ملا قائم " ( کا وجود ) احمد صل اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے (مقدر) ہے یکے د مراد اس سے تیرھویں صدی کے آخر میں ظاہر ہونے والا مجدد ہی ہو سکتا ہے جو تیرھویں صدی کے آخر میں آئے اور ہزار ہفتم کا مجدد ہو چنانچہ یہ پیشگوئی حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ اسلام کے وجود میں پوری ہو چکی ہے آپ سے پہلے بارہ صدیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو الگ کر کے جو مجددین ہوئے ان میں سے مسیح موعود ہونے کی وجہ سے آپ کو حدیوں میں نبی اللہ کا نام دیا گیا ، ایک دوسری روایت میں رجو عقد الدرر میں حضرت امام باقر علی اسلام کی زبان مبارک سے ه خصائص الكبرى " ج ا ص ۳۳ مطبوعہ دائرۃ المعارف النظامیہ حیدر آباد دکن ١٣هـ سی ترجمه از کتاب المهدی ۱۱۲ مطبوعه تهران تا مولفه السيد صدر الدین صدر ( ر

Page 70

نقل ہے ، حضرت عیسی کی بجائے حضرت موسیٰ بن عمران لکھا ہے لیے حضرت علامہ سیوطی رحمہ اللہ علیہ خصائص میں بروایت حضرت انس بن مالک (ستونی ششہ لکھتے ہیں: " قال اجعلنى نبى تلك الامة قال نبيها منها قال اجعلنى من امة ذالك النّبي قال إسْتَقَدَمْتَ وَاسْتَاخَرَ ولكن سَاجْمَعُ بينك وبينه فى دار المجلال : ـ ترجمہ : حضرت موسیٰ نے عرض کیا.اے رب مجھکو اس اُمت کا نبی بنا دیجئے.ارشاد ہوا اس اُمت کا نبی اسی میں سے ہوگا، عرض کیا کہ مجھکوان (محمد) کی امت میں سے بنا دیجئے ، ارشاد ہوا کہ تم پہلے ہو گئے وہ پیچھے ہونگے، البتہ تم کوادر ان کو دارالجلال (حبت) میں جمع کر دونگا.ایک بزرگ حضرت الشیخ ابو علی واقعہ اسراء کا ذکر کر کے لکھتے ہیں : " الآيات التى اراها الله تعالی محمد حسين أسرِى به إلى البيتِ المقدس آن حَشَر اللَّهُ عَزَّ ذِكْرُهُ الاولين والآخرين النبيين وَالمُرْسَلِينَ ، سه من ترجمہ : ان نشانات میں سے جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دکھائے جبکہ حضور کو بیت المقدس کی طرف اسرار ہوا یہ نشان بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اولین و آخرین کے سب نبی د مرسل جمع کر دیئے.آخرین میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ کو نسا فرزند جلیل ہے جسے فیض ختم نبوت سے عہد نبوت اور منصب نبوت بخشا جائیگا اور جس کا ذکر لیلتہ الاسراء کے اس واقعہ میں ہے ؟ ؟ اس حقیقت تک پہنچنے کے لیے قدیم بزرگان امت کی چند تحریرات کافی ہونگی.ا حضرت امام ابو عبد الله محمد باقر علیہ السلام (متوفی ) کی روایت ہے کہ امام مہدی ترجمه از کتاب المهدی ص ۱۱۲ مطبوعه تهران ۹۶ (مولف سید صدر الدین صدر ) س الخصائص الکبری جلد اس ۱۲ السيوطي ( عليه الى نعيم - قضاجد الرحمة المهداة مواہب اللدينية جاص ۴۲۵ دخاتمه المحققین حضرت احمد بن محمد الخطيب القسطلانی مطبوع مصر راه ندا ۱۳ سے مجمع الاجر من ص ۸ علامہ حضرت سید السند الجليل سيد مرتضیٰ مطبوعه ايران بها ترجمه نشر الطيب" د مرتبه مولانا اشرف علی صاحب تھانوی سے ماخوذ ہے ،

Page 71

"1 آيت نَوهَب لى رَتي حكمًا وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُرْسَلِينَ پڑھینگے اور اسے اپنے اوپر چسپاں کرینگے لے آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ مہدی علیہ اسلام کہیں گے کہ : نے فرمایا : انا اهل بيت الرحمة ومعدن الرسالة والخلافة نمن ذُرِّيَّةً مُحمدٍ وَسُلَالَةُ النَّبيِّين i ترجمہ : ہم بیت الرحمۃ کے اہل اور رسالت و خلافت کی کان ہیں.ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت اور نبیوں کی نسل ہیں : یرالقرون کے عالم ربانی اور مجتهد طریقت حضرت شیخ محمالی الحکیم الترندی استان شد " مجذوب را منازل است چند انکه بعضی از ایشان را ثلث نبوت نهند و بعض را نصفی و بعض را زیادت از نصفی تا بجامی برسد که مجد و بی افتد که حفظ اور از نبوت بیش از همه مجذ وبال بود و خاتم الاولیاء بود و مهمتر جمله اولیاء بود چنانکہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا بود و منتر ہمہ اور بود، افتیم نبوت بد د بود.این مجذوب تو اند که مهدی بود " سے ترجمہ : مجذوب کے بہت درجے ہیں.ان میں سے بعض کو نبوت کا تہائی حصہ ملتا ہے اور بعض کو نصف سے زیادہ ، یہاں تک کہ ایک مجذوب ایسا ہو گا جس کا حصہ تمام مجذوبوں سے زیادہ ہوگا وہ خاتم الاولیا.اور تمام ادلیا.کا سردار ہو گا جیسا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم انبیاء اور تمام نبیوں کے سردار تھے اور نبوت آپ پر ختم ہوئی اور یہ مجذوب ممکن ہے کہ امام مہدی ہوں.رافسوس صد افسوس !! تذکرۃ الاولیاء کے ایک نئے ترتیبہ میں سے یہ عبارت بھی خارج کر دی گئی ہے اکمال الدین ص ۱۸۹ ه بحارالانوار جلد ۱۳ ص ۱۸۰ راز حضرت علامه مجلسی مطبوعه وراه " سے تذکرۃ الاولیا - (فارسی) ص ۲۷۲-۲۷۳ مطبع محمدی لاہور ۸۳

Page 72

۷۲ یہ حرکت ترجمہ علامہ عبدالرحمن صاحب شوق کے قلم سے ہوا ہے ) مشہور تابعی اور معتبر اسلام حضرت محمد ابن سیرین (متوئی نامہ) نے فرمایا :- يكون في هذه الأُمَّةِ خَلِيفَةً خَيْرٌ مِنْ إِلَى نَبِرٍ وعُمَرَ تِيْلَ خَيرُ مِنْهُمَا ، قَالَ قَد كَادَ يَفْضُلُ عَلَى بَعْضِ الأَنْبِيَاءِ " له اس امت میں ایک خلیفہ ہو گا جو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہا سے بھی بڑا ہوگا.عرض کیا گیا کیا ان دونوں سے بھی بڑا ہوگا ؟ ؟ فرمایا ممکن ہے کہ وہ بعض نبیوں سے بھی افضل ہو.ایک اور نامور تابعی حضرت کعب احبار رمتونی شہ) نے حضرت امام قائم ہو کے متعلق فرمایا : اشبه الناس بعيسى ابنِ مَرْيَمَ خَلْقاً وخُلْقًا وَ مَسيما دهنية يُعطيه الله جل وعزّ ما اعطى الانبياء ويزيدها ويفضله " ترجمہ : امام قائم (مهدی علیه السلام) اپنی پیدائش، سیرت ، جمال اور شکل کے اعتبار سے سب لوگوں سے بڑھکہ حضرت عیسی بن مریم سے مشابہ ہیں.انہیں اللہ تعہ عزة وقبل نہ صرف وہ سب کچھ دے گا جو اس نے انبیاء کو دیا ہے بلکہ زیادہ دیگا اور فضلیت بھی بخشے گا.حضرت خاتم النبی صلی الہ علیہ وسلم نے اسی موعود بر حق کی نسبت ہر مسلمان کو یہ تاکیدی ہدایت فرمائی تھی کہ جب وہ ظاہر ہو تو گھروں میں نہ بیٹھے رہنا بلکہ خواہ تمہیں برف کے تودوں پر سے گھٹنوں کے بل بھی گزرنا پڑے تو اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فوراً پہنچنا اس کی بعیت کرنا اور اس کو میری طرف سے سلام کہتا.بزرگان ملف ن في الكرامه ص ۲۸۶ نواب صدیق حسن خان صاحب قنوجی، مطبع شا بیان بھوپال شاه تے بحار الانوار جلد نمبر ۱۳ ص ۱۶۱ مطبوعه ایران مسندا حمد بن خلیل جلد ۶ ص ۳۰ جلد ۲ ص ۳۹۸ مطبوعه مصر

Page 73

!.٣ P تیرہ صدیوں تک آنحضرت کی اس ہدایت کو نسلاً بعد نسل پہنچاتے رہے اور تمنا کرتے رہے کہ اے کاش انہیں اس فرمان نبوی کی تعمیل کی سعادت نصیب ہو جائے.چنانچہ حضرت سید بریلوی کے درباری شاعر حضرت مومن دہلوی ستونی شاہ نے فرمایا زمانه مهدی موعود کا پایا اگر مومن تو سب سے پہلے تو کہیو سلام پاک حضرت کا 119.اور فخر ہند جناب مرزا رفیع سودا د متوفی شاہ نے یہ آرزو کی کہ سودا کو آرزو ہے کہ جب تو کرے ظہور اُس کی یہ مشتِ خاک ہو تیری صفِ نعال بعض تعجب خیز انکشافات جناب الہی نے فیضان ختم نبوت کے اس اکمل و تم ظہور سے متعلق رہے بعض اولیا.امت نے باطن خاتم الانبیا ہ سے بھی موسوم فرمایا تھا) بزرگان اسلام پر بہت سے انکشافات بھی فرماتے جن میں سے چند بیان کرتا ہوں- پہلا انکشاف : پہلا انکشاف یہ کیا گیا کہ وہ دورِ احمدیت کا امام اور اولو العزم رسول ہوگا ، چنانچہ سید الشعراء ، امام البلغار، الامام العارف ، الولي الكامل الشيخ ابو حفص شرف الدین عمر بن الفارض رحمتہ اللہ علیہ (متوفی ۳ ) فرماتے ہیں : -: وَجَاءَ بأسرار الجميع معيضُهَا عَلَيْنَا لَهُمْ خُتُمَا عَلَى حِينَ فَتَرَة وَمَا مِنْهُم إِلا وقد كان داعياً به قومَهُ لِلْحَقِّ عَنْ تبعية إلَى الْحَقِّ مِنَا قَامَ بِالرُّسُلِيةِ -٣- تَعَالِمُنَا مِنْهُم نَى وَمَن دَعَا -☑ بی 1 کلیات سودا ص ۲۶۴ مطبع منشی نو کشور لکھنو ۱۹۳۲

Page 74

-☑ ا.وعارفنا في وقتنا الاحمدى مِن أُولِي الْعَزْمِ مِنْهُم أخذ بالعربية أي فرمایا : سب نبیوں کے اسرار لیکر، اُن کا ہم پیرا نامہ کرنے والا نبی یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آگیا وہ زمانہ نترت پر ان سب نہیوں کے لیے مہر کی حیثیت رکھتا ہے.اور وہ سارے نبی اپنی قوم کو حق کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ ولم ہی کی بالتبع دعوت دیتے تھے.- ہمارا عالم اپنی جیسا ایک نبی ہے اور ہم میں سے ہو حتی کی طرف دعوت دیتا ہے وہ رسالت کے مقام پر کھڑا ہے.اور ہمارا عارف جو ہمارے احمدی زمانہ میں ہوگا وہ اولوالعزم نبیوں میں سے ہوگا اور عزیمیت رکھنے والا ہو گا.دوسرا انگشان : یہ کیا گیا کہ مہدی موعود کے مقاصد کی تکمیل کے لیے چونکہ امن کی ضرورت ہے اور اس کا زمانہ قریب ہے.اس لیے غیر ملکی حکومت کو ہندوستان میں مسلط کر دیا گیا ہے اب جب تک مہدی کا ظہور نہ ہوگا ہندوستان پر دوبارہ مسلمان حکمران نہ ہوں گے یہ تعجب خیز پیشگوئی حضرت مخدوم شاہ محمد حسن صاحب صابری چشتی حنفی قدوسی کی کتاب " حقیقت گلزار صابری" ص ۱۳م تا ۴۲۲ میں ہے جو پہلی بار جماعت احمدیہ کے قیام سے دو سال قبل (سناء میں شائع ہوئی اور جس کا پانچواں ایڈیشن حال ہی میں بستی چراغ شاہ قصور سے چھپا ہے.تقسیرا انکشاف : یہ کیا گیا کہ حضرت امام مهدی علیه السلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور سچائی کے ایسے برا مین لائیں گے جن کو بالآخر سب خلقت پورے طور پر تسلیم کرلے گی جیسا کہ مشرق وسطی میں پانچویں له المدد الفائض عن شرح دیوان سيدى عمر بن الفارض ص ۳۸ ناشر مکتبه شیخ احمد على المنجي قريبا من الازهر ١٣١٩هـ

Page 75

30 صدی ہجری کے بزرگ حضرت امام یحی بن عقب کا الہامی شعر ہے.وَيَاتِي بِالْبَرَاهِينِ اللواتي فَتِلكُ دَلَائِلُ الْمَهْدِى حَقًا تُسَلِّمُها البَرِيَّةُ بِالكَمَالِ سَيمْلِكُ لِلبِلادِ بِلا مُعَالِ -1 -+ پوتھا انکشاف یہ کیا گیا کہ مہدی موعود اپنے وقت کا سیح بھی ہو گا.چنانچہ نجم الثاقب میں الحاج مرزا حسن شیرازی نے ص ۱۹ پر اس کا نام مسیح الزماں بھی لکھا ہے.چھٹی صدی ہجری کے نامور ولی حضرت نعمت اللہ ولی کے مشہور قصیدہ میں ہے : نه ١- ا - ح - م - و دال می خوانم نام آن نامدار ہے بینم مهدی وقت و میسی دوراں ہر دورا شہسوار سے بینم کے حضرت می الدین ابن عربی اپنی تفسیر (جلد ا ص ۱۹۵) میں فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں میسج ناصری کا نزول ایک دوسرے بدن میں ہوگا یہ حضرت امام سراج الدین مادر دتی نے بھی خریدة العجائب (ص ۶۱۴) میں اس نظریہ کا ذکر کیا ہے کہ نزول عیسی سے مراد ایک ایسے شخص کا ظہور ہے جو فضل وشرف میں حضرت عیسی کا مثیل ہو گا.حضرت شیخ محمد اکرم صابری نے اقتباس الانوار (ص ۵۲) میں لکھا ہے کہ بعض بزرگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی روحانیت مہدی میں بروز کرے گی اور یہی معنی نزول کے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے " لا المهدئی الا عيسى ابن مریم (ابن ماجه) پانچواں انکشاف : یہ کیا گیا کہ امام مہدی الهام ربانی سے کھڑا ہوگا اور اس کی زبان خاتم النبیین کی زبان ہوگی ، بچنا نچہ امام عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں يخرج المهدى عليه السلام فيبطل في عصره التقيد بالعمل ۱۳۴۵ شمس المعارف الكبرى جلدا ص ۳۴۰ مولفه الشيخ البوني (متوفی ) ١٣٣٥ " الاربعين في أحول المهديين " تالیف حضرت شاہ اسمعیل ۲۵ محرم الحرام ولاه مصری گنج کلکته

Page 76

بقول من قبله من المذاهب كما صرح به اهل الكشف و يلهو الحكم بشريعة محمد صلى الله عليه وسلم محكم المطابقة بحيث لو كان رسول الله صلى الله وسلم موجوداً لاقره على جميع احكامه كما اشار اليه في حديث ذكر المهدى بقوله يقفوا اثرى لا يخطى له ترجمہ : حضرت مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا نہیں کے بعد اُن سے پہلے مذاہب کے اقوال کی پابندی باطل ہو جائیگی جیسا کہ اہل کشف نے اس کی تصریح کی ہے حضرت امام مهدی موعود کو پورے طور پر شریعت محمدی کے مطابق فیصلہ کرنیکا الہام کیا جائیگا یہاں تک کہ اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہوتے تو ان کے جاری کردہ احکام کو قائم رکھتے.چنانچہ اس حدیث میں جس میں آپ نے مہدی کا ذکر فرمایا ہے آپ نے اشارہ میں فرمایا ہے کہ مہدی میرے قدم بہ قدم چلیں گے اور ذرا بھی خطا نہیں کرینگے.شا انکشاف : یہ کیاگیا کہ امام مہدی علیہ السلام پر پورے قرآن مجید کے اسرار در موز اور حقائق و معارف اس شان کے ساتھ کھولے جائیں گے کہ اُن کے دور میں قرآنی علوم کے حقیقی چشمے اپنی سے جاری ہونگے اور امت میں اس پاک اور خدا تما کلام کی تعلیموں ، اس کے علوم حکمیہ، معارف قیقہ اور بلاغت کاملہ اور روحانی برکات سے اپنی کو سب سے بڑھکر آگاہی بخشی جائے گی.چنانچہ حضرت ابو جعفر امام باقر علیه السلام (متوفی سنہ) کا واضح ارشاد ہے کہ : ان العلم بكتابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَسَنَةٍ بِنَيْهِ لِنَسُبُتُ فِي تَلْبِ مهدينا كما ينبتُ الزَّرْعَ عَلَى اَحْسَنِ نَبَاتِه فَمَن بَقِيَ مِنكَـ حَتَّى يَراهُ فَليَقُلْ حِيْنَ يَرَاهُ السّلامُ عَلَيْكُم يَا أَهلَ بيتِ الرحمة والنبوة وَمَعْدَنُ العِلْمِ وَمَوضَعَ الرِّسَالَةِ : کتاب المیزان جلد ا م م العارف الصمداني والقطب الربانی سید عبدالوہاب شعرانی 2 گئے بحار الانوار جلد ۱۳ ص ۱۸۳ مطبوعه ایران

Page 77

،، ترجمہ : خدائے عزوجل کی کتاب اور سنت نبوئی کا علم مہدی موعود کے دل میں اُسی طرح پیدا ہو گا جس طرح بہترین نباتات پیدا ہوتی ہے.یہیں تم میں سے جو زندہ رہے اور اس کی زیارت بھی اسے نصیب ہو جائے تو وہ اسے دیکھتے ہی یہ کے کہ اہل بیت رحمت و نبوت ، اسے علم کا سرچشمہ اور مقام رسالت تجھ پر سلام !! پین کے متاز مفسر وصوف حضرت محی الدین ابن عربی استونی شام آیت ذالك الكتاب لا ريب فيه (البقرہ :۲) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:." ذالك الكتاب الموعود..إنّهُ يَكُونُ مَعَ المَهْدِى فِي آخِرِ d الزَّمَانِ لا يَقْرُوهُ كَما هُوَ بِالْحَقِيقَةِ إِلا هُو : حضرت محی الدین نے اس مقام پر تعظیم الشان نکتہ بیان فرمایا ہے کہ ذالک اسم اشارہ بعید کا ہے جو یہاں یہ واضح کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ قرآن مجید اس اعتبار سے موجود کتاب ہے کہ جو آخری زمانہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے پاس ہوگی اور اسے آپ کے سوا کوئی اور شخص حقیقی طور پر پڑھ نہیں سکے گا.شیراز کے عارف ربانی اور مفتر حضرت الشیخ ابو نصر بن روزبهان (متوفی شتہ نے اپنی تغییر کے دیباچہ میں حضرت جعفر بن محمد کا حسب ذیل قول نقل فرمایا ہے جس سے حضرت ابن عربی کے مندرجہ بالا نکتہ کی بالواسطہ تائید ہوتی ہے ، لکھا ہے.كتاب الله على اربعة اشياء- العِبَارَةُ وَالإشارة واللطائف والحقائق فالعبارة للعوام والاشارة للخواص واللطائف الاولياء والحقالق للانبياء " له ترجمه کتاب اللہ چار چیزوں پرشتمل ہے، عبارت ، انشارت التخالف اور حقائق.عبارت عوام کے لیے ، اشارات خواص کے لیے ، لطائف اولیاء کے لیے اور حقائق نبیوں کے لیے ہیں.تفسير ابن عربي ص ١٠ تفسير الرائس البيان من هم مطبع نو کشور لطیف با تیں.ہ

Page 78

ساتواں انکشاف : ۱۱۴ هـ شا حضرت امام محمد باقر علی اسلام موتی لالہ نے عظیم الشان پیشگوئی فرمائی.إِنَّ المُؤْمِنَ فِي زَمَانِ القَائِمِ وَهُوَ بِالْمَشْرِقِ يرى أَخَاهُ الَّذِي في المَغْرِبِ وَكَذَا الَّذِي فِي الْمَغْرِبِ يَرَى أَخَالُهُ فِي المَشْرِق له مہدی موعود کے زمانہ میں جو مومن مشرقی ممالک کے رہنے والے ہوں گے وہ بلاد غربیہ کے بھائیوں کو اور جو مغرب کے ہوں گے وہ مشرق میں بنے والے بھائیوں کو دیکھ سکیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ مہدی معہود کے ذریعہ مغرب اور مشرق کو ملا دیا جائے گا اور سب دنیا میں رفته رفته عقیدہ توحید الہی کے قبول کرنے میں وحدت ہو جائے گی.آٹھواں انکشاف : اولیاء امت پر آٹھواں انکشاف یہ ہوا کہ مہدی موعود کا زمانہ ایک ہزار چالیس سال ہوگا اور اس کی (روحانی سلطنت کے بعد قیامت تک کسی اور کی حکومت نہ ہوگی چنانچہ لکھا ہے :- " " عمر شریفش ہزار و چپل سال ۳ لَيْسَ بَعْدَ دَولة القَاسِمِ احَدٍ دَولَةٌ پیشگوئی کا شاندار ظهور میرے بزرگو اور بھائیو ! ! بزرگان سلف کی باطنی اور روحانی بصیرت اور فیضانِ ختم نبوت کا یہ کتنا زبر دست معجزہ اور بھاری نشان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اپنے ازلی نوشتوں اور پیشگوئیوں کے عین مطابق شام یعنی شتہ میں نازل ہونے والی آیت خاتم النبیین کے ٹھیک ۱۳۰۰ سال بعد یه شه بحار الانوار جلد ۱۳ ص ۲۰۰ النجم الثاقب ص ۳۴۷ (الحاج میرزا حسین طبرسی مطبوعه ۱۳۳ ) بحارالانوار جلد ۱۳ ص ۲۳۶

Page 79

69 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو کھڑا کر دیا - ہم پر کرم کیا ہے خدائے غیور نے پورے ہوئے جو وعدے کئے تھے حضور نے حضرت مهدی موعود علیہ السلام نے ستارہ میں ہی جماعت احمدی کی نیا درکھ اور فرمایا: تمام آدم زادوں کے لیے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں گر محمدمصطفی صلی الہ علیہ وسلم سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے جو یقین رکھتا ہے جو خدا پیچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لیے خدا نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لیے زندہ ہے.لے وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد ولبر مراسمی ہے اُس نور پر فدا ہوں اسکا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں میں فیصلہ یہی ہے شان خاتمیت محمدیہ کی علی وجہ البصیرت منادی A — سید نا حضرت مهدی موعود علیہ السلام نے کامل غلامی اور مکمل فنائیت کے ذریعہ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال بحضور کی برکات و تاثیرات اور فیوض و احسانات کو بخشم خود دیکھا اور نہ صرف بزرگان سلف کے بیان فرمودہ معانی ختم نبوت پر عارفانہ انداز میں روشنی ڈالی بلکہ اپنی قوت یقین ، معرفت اور بصیرت کے ساتھ خاتمیت محمدیہ کے اور بہت سے مخفی پہلو بھی اجاگر اور بے نقاب کئے اور شان خاتمیت محمدیہ کی علی وجہ البصیرت منادی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : کشتی نوح ص ۱۳ i

Page 80

اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا مینی آپ کو افاضہ کمال کے لیے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبین مٹہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی تو خیر روحانی نبی ترانش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی یا لے نیز حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی اور باطنی حسن و جمال سے متاثر ہو کر فرمایا : فدا شد در ریش هر ذره من که دیدم حسن پنهان محمد دگر استاد را نامی ندانم که خواندم در دبستان محمد دریس ره گهر کشندم در سوزند نتائم و از ایوان محمد ترجمہ : میرا ہر ذرہ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں قربان ہے کیونکہ میں نے آنحضرت کے پوشیدہ حسن کو دیکھ لیا ہے، میں کسی اور استاد کا نام نہیں جانتا کیونکہ میں تو صرف محمد مصطفی کے مدرسہ میں پڑھا ہوں ، اس راہ میں خواہ مجھے قتل کیا جائے ، یا کلا دیا جائے میں محمد کی بارگاہ سے ہرگزنہ منہ نہیں پھیروں گا.لا دینی فلسفوں اور ملحدانہ تحریکوں سے گھری ہوئی موجودہ دنیا کو یہ یقین دلانا مکن نہیں تھا کہ تمام پہلے انبیا.بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت سے مستفیض ہوتے ہیں دوستر نبیوں کے فیوض ختم ہو چکے ہیں اور اب ارض و سما میں آپ ہی کا فیض جاندی ہے اور یہ کہ آنحضرت کا یہ ارشاد مبارک واقعی اپنے اندر صداقت رکھتا ہے کہ لو کان موسیٰ و عیسی حَيَّين ما وسعهما الا اتباعي ؟ " یعنی اس زمانہ میں رحضرت موسیٰ و علی علیهما السلام بھی اگر زندہ ہوتے تو میری پیروی حقیقة الوحی (حاشیہ) ص ۹۷ کے آئینہ کمالات اسلام طبع اول (تتمہ ) ابن کثیر بر حاشیه فتح البیان جلد ۲ ص ۲۴۶ طبع اول شده شرح فقہ اکبر از امام حضرت علی القاری ص ۱۱۲ مطبوعہ مصر الیواقیت والجواهر جلد ۲ ص ۲۲ صبحت ۳۲

Page 81

کے سوا انہیں کوئی چارہ نہ ہو تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے طفیل مهدی موعود نے متعد د آسمانی نشانوں اور آسمانی برکتوں سے اس دعوی کو ایک سائنسی صداقت کے طور پر ثابت کر دکھلایا اور حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ابدی اور زندہ روحانی افاضہ کے ثبوت میں اپنے وجود کو پیش کرکے دنیا بھرمیں یہ پر شوکت منادی کی کہ : " میں اُسی خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور جیسا ہیم پھر اسختی سے اور آمیل سے اور یعقوب سے اور یوسف سے اور موسی سے اور مسیح ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہم کلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ اور روشن اور پاک وحی نازل کی.ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا، مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا.اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے براہمہ میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں بھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا پہلے پھر فرمایا : دہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اسکے کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضلیت کی کنجی اسکو دی گئی ہے اور مہرایک معرفت اخزانہ اسکو عطا کیا گیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے بیٹے بلا شبہ حضرت مهدی موعود نے پیشگوئیوں کے مطابق بعض گزشتہ نبیوں کے بروز ہونیکا دعویٰ کرتے ہوئے کہا : میں کبھی آدم کبھی موسی بھی لعقوب ہوں نیز ابراہیم میں نسلیں میں میری بیشمار مگر یہ وضاحت بھی فرمائی کہ ایک آئینه ام زرت غنی ار پے صورت میں مدنی لیکن میں رب غنی کی طرف سے مدینہ کے اس چاند کی صورت کو دکھانے کے لیے ایک آئینہ ہوں نیز بتایا.P- کی کو تجليات البيه ص ۱ - ۲۰ که حقیقة الوحی ص ۱۱۶ لة ۱۹

Page 82

این بخشیمه روال که تخلق خدا دهم یک قطره زجر کمال محمد است اس چشمہ روال کو ذرا غور سے دیکھو یہ تو کمالات محمدی کے غیر محدود سمندر کا محض ایک قطرہ ہے اللهم صل على محمد و على آل محمد وبارِك وَسَلِم سُبْحَانَ اللهِ مَا اَعْظَم شان رسول الله - پھر مستقبل میں یہ خیال بھی ذہنوں کے اندر خلجان پیدا کر سکتا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ہزاروں لاکھوں بزرگوں کو بڑے بڑے مدارج اور مراتب حاصل ہوئے تو حدیث نبوی میں صرف مسیح موعود کو نبی کیوں کہا گیا ؟ حضرت مهدی موعود علیہ السلام نے اس کا یہ نہایت لطیف جواب دیا کہ : جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تھا.اس لیے اگر تمام خلفاء کو نبی کے نام سے پکارا جاتا تو امر ختیم نبوت مشتبہ ہو جاتا اور اگر کسی ایک فرد کو بھی نبی کے نام سے نہ پکارا جاتا تو عدم مشابہت کا اعتراض باقی رہ جاتا کیونکہ موسی کے خلفاء نبی ہیں، اس لیے حکمت الی نے یہ تقاضا کیا کہ پہلے بہت سے خلفاء کو برعایت ختم نبوت بھیجا جائے اور اُن کا نام نبی نہ رکھا جائے اور یہ مرتبہ ان کو نہ دیا جائے تا ختم نبوت پر یہ نشان ہو پھر آخری خلیفہ یعنی مسیح موعود کو نبی کے نام سے پکارا جائے تا خلافت کے امرمی دونوں سلسلوں کی مشابہت ثابت ہو جاتے لے نیز فرمایا : احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہو گا ہے پہلے بزرگوں نے خاتم النبیین کے ایک معنی بادشاہ مفت تعلیم کے بھی کہتے ہیں جو آیت " مذكرة الشهادتین صفحه ۳ ۴ طبع اول اکتوبر سامه ۴۳ نے حقیقہ الوحی طبع اول ص ۳۹۱

Page 83

، قرآنی هو الذی ارسل رسوله الا کے عین مطابق ہے، لیکن اس کا عملی ظهور نقشہ - عالم پر کسی طرح مقدر ہے ؟ یہ عظیم الشان راز بھی حضرت مهدی موعود علیہ السلام نے آکر کھولا اور نرمایا: اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ چلے گا اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہو گا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باتی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حریہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ گند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید ی کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے فائل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا، لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد رو توی کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے.تب یہ بائیں جو میں کتنا ہوں سمجھ میں آئیں گی رے اک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا یقین سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن دیں کی نصرت کیلیئے اگ آسماں پر شور ہے اب گیا وقتِ نعتزاں آئے ہیں پھیلی لانے کے دن حضرت مهدی موعود علیہ السلام نے اس فلسفہ پر بھی روشنی ڈالی کہ اسلام کا یہ عالمگیر غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (فداط ابی واقی) کے زمانہ میں کیوں ظہور میں نہیں آیا ہے چنانچہ آپ نے فرمایا ہے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور ل الاشتهار مستيقناً بوحى الله القهار ۱۴ جنوری شده مجموعه اشتهارات ح ص ۲۰۵۰۳۴ ناشر اشرکت اسلامی ریون

Page 84

آپ خاتم الانبیاء میں اس لیے خدا نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے کیونکہ یہ صورت آپ کے زمانہ کے خاتمہ پر دلالت کرتی تھی یعنی شبہ گذرتا تھا کہ آپ کا زمانہ وہیں تک ختم یا کیونکہ جو آخری کام آپ کا تھا وہ اُسی زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا، اس لیے خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں زمانہ محمدی کے آخری حصہ میں ڈالدی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے اور اس تکمیل کے لیے اسی امت میں سے ایک نائب مقرر کیا جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اسی کا نام خاتم الخلفار ہے.پس زمانہ محمدی کے سر پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم ہیں اور اُس کے آخر میں مسیح موعود ہے اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہوئے کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اُسی نائب النبوت کے عہد سے وابستہ کی گتی ہے اور اُسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے ھو اسلامی هُوَ الَّذِى أرْسَلَ رَسُولَهُ بِالهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ له ، یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور نیچے دین کے ساتھ بھیجا تا اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کر دے یعنی ایک عالمگیر غلبہ اُس کو عطا کرے کالے ه چشمه معرفت رطبع اول منی خشته من ۸۳-۸۷

Page 85

۰۵ خلاصہ کلام برادران اسلام !! تفسیر خاتم النبیین کے سلسلہ میں بزرگانِ سلف کے تیس معانی خاکسار نے آپ کی خدمت میں عرض کر دیتے ہیں، میں ان سب بزرگوں کی خاک پا ہوں اور میرا دل اس یقین سے لبریز ہے کہ ان سب معنوں پر غور کرنے کے بعد حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سچے عاشق کی زبان خواہ خاموش رہے مگر اس کی روح یہ ضرور پکار اُٹھے گی کہ اگر یہ تمام علماء زبانی، صلحائے امت اور ائمہ مجتہدین رضوان اللہ علیہم اجمعین بالفرض دوبارہ دنیا میں تشریف لے آئیں تو ہمارے محبوب ملک پاکستان اور بالخصوص ربوہ میں ضرور آئیں گے کیونکہ العام وکشوف پر ایمان کے اعتبار سے آج روئے زمین پر ان مشاہیرا سلام اور عشاق خیرالا نام کے ہم مسلک اور ہم مذہب صرف احمدی ہیں.انہیں میں بزرگان سلف کے الہامی افکار و خیالات اور کشفی نظریات زندہ ہیں اور وہی ہیں جو آج منصوب ختم نبوت کے تمام پہلووں پر علی وجہ البصیرت ایمان رکھتے ہیں جیسا کہ ہمارے موجود امام اور حضرت مہدی موعود کے خلیفہ ثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے : "خاتم الانبیاء زندہ باد بحیثیت ایک عارفانہ نعرہ کے ہمارا نعرہ ہے اور علم و عرفان نہ رکھنے والوں کے منہ سے نکلے تو مجو بانہ نعرہ ہے البتہ یہ محبوبانہ نعرہ شنکر بھی ہمارے دل خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے محبوب کے نور کی ایک جھلک کو تو انہوں نے دیکھ لیا خواہ ماضی کے ھندلکوں ہی میں کیوں نہ دیکھا ہو.پس اگر کہیں یہ نعرہ بلند ہو تو آپ زیادہ شوق

Page 86

A4 سے زیادہ پیارے ، اس کے اندر شامل ہوا کریں، دوسروں کی آواز اگر پہلے آسمان تک پہنچتی ہو تو آپ کی آواز ساتویں آسمان سے بھی بلند ہو کہ خدائے عز و جل کے عرش تک پہنچے آتا ہمارے آقا ، ہمارے محبوب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں کو میرے کامل متبعین میرے عشق میں مستانہ وار یہ نعرہ لگا رہے ہیں.خاتم الانبیامہ زندہ باد کے بہ مصطفی پر تیرا ہے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور کیا بار خدایا ہم نے وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.عظیم روحانی تجلیات ص ۱۲۰: ناشر نظارت اصلاح و ارشاد ربوہ اپریل منته)

Page 86