Language: UR
حضرت مرزا طاہر احمد ، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے پر نشر ہونے والی اردو کلاس میں بچوں اور عام معمولی سمجھ رکھنے والے افراد کو پیش نظر رکھ کر نہایت آسان الفاظ اور دلچسپ انداز میں روزمرہ کی مثالیں دیکر نماز کے معانی و مطلب ارشاد فرمائے۔ کیونکہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبات، خطابات اور مجالس عرفان میں قیام نماز کی طرف متوجہ کرکے بڑی تفصیل کے ساتھ سمجھایا کرتے تھے کہ صرف رسمی نماز اور خالی عبادات کافی نہیں بلکہ نماز کی حقیقت کو سمجھ کر اس کے معانی میں ڈوب کر نماز ادا کرنی چاہئے۔ ایم ٹی اے پر نشر ہونے والی ان متعلقہ کلاسز کے مواد کو مکرم نصیر احمد شاہد صاحب مبلغ بیلجئم نے سن کر ٹرانسکرائب (Transcribe) کیا اور تدریس نماز کے تحت اقتباسات کی شکل میں مرتب کیا، جسے الفضل انٹرنیشنل نے 6 اقساط میں شائع کیاتھا۔ مجلس خدام الاحمدیہ بھارت نے اس مواد کو کتابی شکل میں شائع کیا ہے تا قارئین اس سے استفادہ کرکے اپنے حضور نماز میں ترقی کے سامان کرسکیں۔
عرض ناشر سید نا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰ نے بار ہا اپنے خطبات ، خطابات اور مجالس عرفان میں نماز کے قیام کی طرف توجہ دلائی ہے اور بڑی تفصیل کے ساتھ سمجھایا کہ صرف رسمی عبادت یا خالی نمازیں کافی نہیں بلکہ نماز کی حقیقت کو سمجھ کر اس کے الفاظ کے معانی میں ڈوب کر نماز پڑھنی چاہئے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اردو کلاس میں بچوں اور عام معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہایت آسان الفاظ اور دلچسپ انداز میں ، روزمرہ کی مثالیں دے کر نماز کے معانی و مطالب بیان فرمائے.جسے مکرم نصیر احمد صاحب شاہد مبلغ سلسلہ Belgium نے اُردو کلاس کی ان تمام کیسٹس کو سن کر انہیں Transcribe کر کے تدریس نماز سے متعلق ارشادات کو مرتب کیا جو کہ اخبار الفضل انٹر نیشنل میں چھ قسطوں میں شائع ہوئے.اللہ تعالیٰ کا بے حد فضل و احسان ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کو یہ توفیق اور سعادت مل رہی ہے کہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے نماز سے متعلق بیان فرمودہ ان بیش قیمتی معارف کو یکجائی صورت میں شائع کرے.اس کتا بچہ کو تیار کرنے میں جن خدام نے محنت کی ہے ان میں سر فہرست مکرم صمد احمد صاحب غوری ناظم اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ قادیان ہیں، نیز مکرم شاہد احمد صاحب ندیم نائب مہتمم مقامی قادیان نے بھی اس سلسلہ میں بہت محنت کی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول فرماتے ہوئے اجر عظیم عطا فرمائے.اسی طرح ان کے علاوہ بھی جن خدام نے اس سلسلہ میں معاونت کی ہے ان کا بھی خاکسار بے حدم فجزاهم الله خيرا ہمیں امید ہے کہ جملہ خدام و اطفال و دیگر احباب بھی اس سے بھر پور استفادہ کریں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو کچی اور حقیقی نمازیں نصیب فرمائے اور اپنے مخلص عبادت گزار بندوں میں شامل فرمائے.آمین والسلام خاكسار عطاء الہی احسن غوری مهتمم مقامی مجلس خدام الاحمد بہ قادیان ۱۵ ستمبر ۲۰۰۴ء مشکور ہے.
تدريس نماز اللهِ الرَّحمنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اردو کلاس میں تدریس نماز نيت وَجَّهُتُ وَجُهِيَ للَّذِي فَطَرَ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ میں نے اپنی ساری توجہ اس ذات کی طرف، اسی کا فرمانبردار ہو کر پھیر دی جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا.اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں.ثناء سُبحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ سُبحَانَ » پاک.جو چیز پاک ہو.ایک چیز گندی ہو جائے اس کو آپ دھو لیں ، اچھی طرح مل مل کے صاف کر کے تو وہ پاک ہو جاتی ہے.کپڑے پاک ہو جاتے ہیں.عورتیں کہتی ہیں ہم نے اپنے کپڑوں کو دھویا ، صاف کیا، بچوں کے کپڑے دھوئے ، ان کو پاک صاف کر دیا.پاک کیا چیز ہوتی ہے؟ جس پر کوئی داغ نہ رہا ہو، کوئی کمزوری نہ رہی ہو.لیکن صرف پاک ہی ہو تو کافی نہیں.اس کے اندر کچھ اور بھی ہونا چاہئے.جو کپڑا صاف ستھرا ہو جائے وہ پھر رنگ بھی قبول کر سکتا ہے.اس کپڑے کو جو چاہو رنگ دے دو.جیسے چاہو پھول بنا لو اس کے اوپر.گندے کپڑے پر نہیں بنتے.گندے کپڑے پر لگاؤ تو اس کے اندر کے داغ نکل کے رنگ کو گندا کر دیتے ہیں.مطلب یہ ہے کہ اے اللہ تو ہر عیب سے پاک ہے، مگر صرف پاک ہی نہیں بلکہ : وَبِحَمْدِكَ : ایسی خوبیوں سے بھرا پڑا ہے جو کامل ہیں.تو صرف عیبوں سے پاک ہونا کافی نہیں، خوبیاں رکھنا بھی ضروری ہے.تو یہ مکمل تعریف ہے.سُبحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ پاک ہے تو اے اللہ اور اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے.یعنی صرف پاک ہی نہیں بلکہ ہر حد تیرے اندر موجود ہے.وَتَبَارَكَ اسْمُكَ :
تدريس نماز پہلے کہ دیا ہر برائی سے تو پاک ہے پھر کہ دیا ہر خوبی تیرے اندر ہے.پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی.وَتَبَارَكَ اسْمُکَ.اس کا مقصد ، اس میں حکمت کیا ہے؟ جب سب کچھ کہہ دیا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ﴾ پھر وَ تَبَارَكَ اسْمُكَ....کیوں کہا؟ اللہ نام میں دو باتیں ہم نے بیان کر دیں.اللہ نام میں کوئی برائی نہیں، سب خوبی موجود ہے.یہ برکت کا مطلب ہے.جس نام میں کوئی برائی نہ ہو اور سب خوبیاں ہوں اس سے برکت پڑتی ہے.دنیا میں اس کے سواکسی اور سے برکت نہ ڈھونڈ و.وَتَبَارَكَ اسْمُكَ ﴾ یہ نام ہے برکت والا.اب اس نام کو جو بھی لے گا یہ سمجھ کر اور سوچ کر ، اس کو برکت ملے گی.وَتَعَالَى جَدُّکَ : اور یہ وہ ذات ہے جو ہر دوسری ذات سے بلند ہے.کوئی اور ذات اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی.وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ : جب ہم کہتے ہیں اے خدا تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو ساری باتیں جو بیان کی ہیں یہ ہمیں مجبور کرتی ہیں، ﴿ وَلَا اِلهَ غَيْرُكَ ﴾ اب تو ہی ہے، تیرے سوا کوئی نہیں.ایک ہی معبود ہے دنیا میں جس میں ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ہم نے بیان کر دی ہیں.پس ایسی نماز کی تیاری، عبادت کی، دنیا کے پردے پر کہیں نہیں ملے گی.جتنے عبادت کرنے والے ہیں ، ہندو ہوں، سکھ ہوں، عیسائی ہوں، چاہے وہ چھٹے بجائیں، چاہے جو مرضی کریں، یہ اتنی خوبصورت عبادت ہے، اتنی معنی خیز جو خدا تعالی کا پورا تعارف کرواتی ہے، آپ کو دنیا کی کسی کتاب میں نہیں ملے گی.صرف اپنی عبادت لوگوں کو سکھاؤ، بتاؤ یہ ہماری عبادت ہے، تم دکھاؤ اپنی عبادت.تو تم ہر کے ساتھ فخر سے اپنے سر کو اونچا کر سکتے ہو.ہمیں اللہ میاں نے کتنی اچھی عبادت سکھائی ہے تم نے اگر عبادت اس لئے کرنی ہے، یہی مذہب کا مقصد ہے تو شامل ہو جاؤ.اسلام کے حق میں صرف عبادت کا آغاز ہی دلیل بن جاتا ہے.لوگ مذہب کو کیوں مانتے ہیں؟ کیوں کہ اللہ سے ملاتا ہے.کوئی ہندو ہوجاتا ہے، کوئی عیسائی ہوئی یہودی، کوئی مسلمان مختلف مذاہب ہیں، ان کا کیا مقصد ہے؟ مذہب رستہ کو کہتے ہیں.جو رستہ اللہ کی طرف لے جائے وہ مذہب ہے.اس لئے مانتے ہیں.یہی مقصد ہے، باقی کہانیاں بنی ہوئی ہیں.تو اگر ہم اسلامی نماز غیروں کو بتائیں کہ تم مذہب کو کیوں لیتے ہو؟ اس لئے نا! تا اللہ کے قریب
تدريس نماز ہو جا ئیں اس سے بہتر رستہ بتاؤ تم اللہ کے قریب ہونے کا.اپنی عبادت بتاؤ اور دیکھو.تو جو اچھا رستہ ہے، جو جلدی پہنچاتا ہے ، جو زیادہ فائدہ دینے والا ہے اس کو پکڑ لو.اسلام کی تبلیغ نماز سے بھی ہو جاتی ہے.نماز کے شروع حصہ میں (انى وَجَّهْتُ سے ) شروع کرو.ساری بات اپنی سہیلیوں کو سمجھاؤ.تو دیکھو کتنا اچھا پیغام دینے کا طریق ہے.یہ طریقہ اختیار کرو، اس سے تمہیں اللہ مل جائے گا.تعوذ أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان سے جو راندہ ہوا ہے.یہ باتیں عورتیں اپنے حوالہ سے سمجھ سکتی ہیں اور مرد اپنے حوالہ سے.اگر آپ کے ساتھ کوئی بچہ جارہا ہو آپ کی انگلی پکڑ کر.وہ دوڑ کے آگے چلا جائے ، آگے کتا مل جائے اور وہ گتے سے ڈرتا ہو تو وہ تیزی سے واپس آ جائے گا، اور آکے آپ سے چمٹ جائے گا اور کہے گا کہ مجھے گودی میں اٹھالو، یہ کتا میرے پیچھے پڑ گیا ہے.تو پناہ مانگنے کا یہ مطلب ہے.اے اللہ ! میں تیری حفاظت میں آرہا ہوں.کس سے؟ شیطان سے.کتا چھٹا ہوا ہے ایک، وہ مجھ پر پڑتا ہے بار بار تو مجھے اپنی گود میں اٹھا لے.جیسے کتنے سے بچاؤ کے لئے والدین کام آتے ہیں.اگر شیطان سے پناہ مانگنی ہو تو اللہ کام آتا ہے، ماں باپ کام نہیں آتے.( تو) اللہ کی پناہ مانگتے ہیں.اللہ کی پناہ مانگتی مانگتا ہوں کہ اے اللہ ! جو تیری حفاظت میں آجائے اس کو شیطان کچھ نہیں کہہ سکتا.چونکہ شیطان اللہ سے ڈرتا ہے اور کسی سے نہیں ڈرتا، اللہ کے قریب بھی نہیں جاتا.اسی لئے دھتکارا ہوا بھی ساتھ کہہ دیا.اب کتے کو کوئی بھش کر کے بھگا دے تو اس گتے کو کہتے ہیں دھتکارا ہوا.تو اللہ نے جب شیطان کو دھتکار دیا کہ جاؤ ، دفع ہو جاؤ ، تو شیطان اب اس کے پاس نہیں جا سکتا.اس لئے پناہ کا مطلب ہے کہ ہم اس سے تیری پناہ میں آتے ہیں.اللہ میاں تو ہمیں سنبھال لے اور شیطان سے بچا جس کو تو نے دھتکار دیا ہے.پس اور جہاں بھی کہیں جائیں شیطان بھی (وہاں) ہو سکتا ہے.تیرے پاس نہیں ہو سکتا.یہ ہے معنی اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ کا.(اردو کلاس نمبر ۳۱۰، منعقد ا ا/اکتوبر ۱۹۹۷ء) ( بحوالہ اخبار افضل انٹرنیشنل ۲۸ فروری ۲۰۰۳ صفحه ۱۳)
تدريس نماز بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ کے نام کے ساتھ جو رحمن ہے ، رحیم ہے.یہاں صرف دو صفات بیان ہوئی ہیں.اس سے پہلے اللہ کا تعارف کروایا تھا کہ ساری خوبیوں کا مالک، ہر بدی سے پاک.اب رحمن اور رحیم، تیرا نام اللہ ساری خوبیاں لئے ہوئے ہے.اب بسم اللہ کے ساتھ دو نام دیتے ہیں.اس کا مطلب ہے کہ اللہ کا نام ایک ہے لیکن اس کے اندر صفات زیادہ ہیں.اور جو بنیادی صفات خدا کے اندر ہیں اور جو ساری خدائی صفات کو اپنے اندر لئے ہوئے ہیں وہ رحمن اور رحیم ہیں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ اللہ کے نام کے ساتھ جو بھی کرو، جو بھی دماغ میں ہو تو بسم اللہ کو اس کے لئے کافی ہے.اگر تم کھانے لگے ہو تو کہہ دو بسم اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیم.اگر سفر پر جا رہے ہو تو بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ.اگر کپڑے پہننے لگے ہو تو بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم.جو کام بھی کرو وہ اسی ایک چھوٹی سی آیت سے ہو جائے اور اللہ کا نام سب کے ساتھ لگ جائے گا.اللہ کی جب پناہ مانگی ہے شیطان سے تو اس پناہ کے بعد پھر اللہ سے کچھ حاصل بھی تو کرنا ہے.یہ تو نہیں کہ شیطان دوسری طرف چلا گیا تو فٹافٹ گودی سے اتر کر بھاگ گئے جیسے بچے کرتے ہیں.کتا آیا تو دوڑ کے اپنے ابا امی کے پاس چلے گئے، کتا گیا تو ٹانگیں مار کے اتر گئے فورا، کہ اب ہمیں جانے دو.بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ أَعُوذُ بِاللهِ ﴾ کے بعد اب اللہ کے ساتھ رہنا ہے.شیطان سے جب پناہ مانگی تو اب اللہ کے ساتھ ہی رہنا ہے.اور اللہ کے ساتھ رہنے کے کچھ فائدے ہیں.ایک فائدہ تو یہ ہے کہ ہر کام میں اللہ کام آئے گا.بسم اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ﴾ کہہ کے جو مرضی کرو، جو مرضی کھاؤ، جو مرضی پیو، جو مرضی پڑھو، جو مرضی چیزیں اختیار کرو، کپڑے لو، سامان لو، اگر بسم اللہ کی پڑھو گے تو تمہارا کام برکت والا ہو گا.اور اللہ کے ساتھ کوئی بُرا کام تو نہیں کر سکتے.بسم اللہ کہہ کے کوئی گندی چیز تو نہیں کھا سکتے.بسم اللہ کہہ کے سود پر قرض نہیں لے سکتے.بسم اللہ کہہ کے کوئی حرام کام نہیں کر سکتے.بسم اللہ نے
تدريس نماز اعُوذُ بِاللهِ ﴾ کے بعد تمہارا راستہ صاف کر دیا ہے.ایسا کر دیا ہے کہ اُس پر اچھے کام ہو سکتے ہیں ، بُرے نہیں ہو سکتے.کیوں کہ اللہ نے ساتھ لگے رہنا ہے.آگے دوصفات ہیں اللہ کی الرَّحْمنِ الرَّحِیم.رحمن کس کو کہتے ہیں.اس طرح آہستہ آہستہ صفات پھوٹ کے بہہ رہی ہیں.اللہ کے نام سے شروع ہوکر اللہ کی دو صفات ہمارے سامنے آرہی ہیں.معلوم ہوتا ہے یہ ساری دوسری صفات پر غالب ہیں.اور اگر غور کرو تو انہی دوصفات میں سے خدا کی ساری صفات مل سکتی ہیں.صفات کس کو کہتے ہیں؟ سنا، بولنا، دیکھنا، گرم محسوس کرنا ٹھنڈا محسوس کرنا ، یہ سب صفات ہیں.صفات ، صفت کی جمع ہے.اس کو Attribute/Quality کہتے ہیں.عربی میں صفت کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ میں جو جو خو بیاں پائی جاتی ہیں اُن کو صفات کہتے ہیں.اردو کلاس نمبر ۳۰۹، منعقده ۷۱۰ اکتوبر ۱۹۹۷ء) نماز مین جو سب سے مرکزی چیز ہے، جس سے نماز بنتی ہے، جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ قرآن کی ماں ہے.اس کا نام سورۃ فاتحہ ہے.ماں کیسے بن گئی ؟ چھوٹی سی سورت ، سات (7) اس میں آیتیں ہیں گل.مائیں بتا سکتی ہیں کہ یہ مسئلہ کیا ہے؟ کہ قرآن کریم بڑی کتاب، الف سے لیکرس ( وَالنَّاس کی س) تک ، اتنے مضامین سب کچھ اس میں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سورہ فاتحہ اس کی ماں ہے.ماں کا جو Ovum ہے کتنا چھوٹا ہوتا ہے.اس میں سب Blue Print موجود ہوتا ہے.اور اس سے اتنا بڑا بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ Blue Print سورہ فاتحہ ہے.خود چھوٹی ہے لیکن اس کے اندر ساری قرآن کریم کی باتیں اور جو مضامین ہیں وہ اس میں موجود ہیں.اور اس کے بہت ثبوت ہیں.وہ تفصیلی بحث یہاں نہیں ہوسکتی.ماں کے پیٹ میں جو چھوٹا سا بیضہ (انڈا) ہوتا ہے اس کے اندر تصویر درج ہوتی ہے سارے انسان کی جو بعد میں پیدا ہوتا ہے اور بڑا ہوتا ہے.وہ خود اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتا.تو اس طرح چھوٹی چیز بڑی چیز کی انتہاں بنتی ہے، اگر اس میں بڑی چیز کی ساری باتیں موجود ہوں.جب بچہ پیدا ہو جائے پھر اس انڈے کے اندر جو تصویر خدا نے بنائی ہے وہ کھولنی شروع کر دیتا ہے اور وہ بچہ آہستہ آہستہ جولوگوں کو دکھائی دیتا ہے.لیکن اس کے اندر جتنی باتیں ہیں
تدريس نماز آنکھیں ، ناک، کان ، خون، پیٹ، بازو، اندر کی چیزیں گردے، گلے کے اندر غدود ہیں، جگر، جتنی چیزیں ہیں ماں کے پیٹ میں، جو بیضہ ہے جس میں بچہ بننا شروع ہوتا ہے مرد کے ذرے کے ساتھ مل کر.یہ بیضہ ماں ہے انسان کی اور انسان کی تمام باتیں اس کے اندر موجود ہوتی ہیں.اس طرح سورہ فاتحہ پر جتنا بھی غور کریں، سورہ فاتحہ میں قرآن کریم کی باتیں دکھائی دیتی ہیں اور قرآن کریم سورہ فاتحہ کے مضون سے زیادہ سمجھ آتا ہے.اردو کلاس نمبر ۳۱۰، منعقده ۱۱ اکتوبر ۱۹۹۷ء) ایک اور کلاس میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : رَح من کے دو معنی ہیں: (۱) الرحمن اس ذات کو کہتے ہیں جس سے زیادہ رحم کرنے والا نہ ہو.اور (۲) بن مانگے دینے والا.کسی نے کچھ نہ مانگا ہو اور پھر بھی وہ دیدے، زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا اسی سے نکالتا ہے.الرحمن ایسی ذات جس سے کوئی مانگنے والا ہو ہی نہیں پھر بھی دے دے.مائیں بچہ پیدا کرتی ہیں، بچہ ابھی ہوتا ہی نہیں ، وہ مانگتا ہی نہیں کہ مجھے پیدا کرو.اس لئے ماؤں کے اُس حصہ کو جس میں بچہ بنتا ہے اس کو رخم کہتے ہیں.دونوں کا مادہ ایک ہی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ رحمن اور رحم کا مادہ ایک ہی ہے.انسانوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والی ماں ہے اور بن مانگے دینے والی بھی ماں.دودھ جب بچہ مانگ نہیں سکتا، کوئی اپنی ضرورت پوری نہیں کروا سکتا، کچھ کہ نہیں سکتا، وہ پھر بھی وہی کرتی ہے.پیدا بھی کرتی ہے، بناہی نہیں ابھی ، کوئی مانگنے والا ہے ہی نہیں.تو رحمن کا ایک مطلب ہے سب سے زیادہ رحم کرنے والا ، حد سے زیادہ ، جس کا تصور بھی نہیں کسی کو.اور پھر بن مانگے دینے والا.یہ رحمن ہے.اس لئے جب کہو الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کی اس خدا کے کتنے احسانات ہیں.رَبِّ الْعَلَمِينَ ) سارے جہانوں کو پالتا ہے.ڈائنا سور بھی اسی نے پالا ہے.ڈائنا سور کا دن مانگے دینے والے سے کیا تعلق ہے؟
تدريس نماز خدا تعالیٰ نے ملین ، پلین سال، بہت پہلے ڈائنا سور کو پیدا کیا.زمین بھر گئی اور سمجھ نہیں آتی تھی.اگر دیکھتے اور ساری دنیا پر ڈائناسور تھے بڑے بڑے جیسے G Park سارے کھا رہے ہیں.اور پھر کوئی ایسی ہوا بدلی سمندر پر اوپر سے بارش ہوئی ، اجرام فلکی کی ،Meteors کی.اتنا بڑاmeteor سمندر کے بیچ گرا، ایک لائین میں کہ شمال سے جنوب تک ایک طوفان اٹھا ہے سمندر میں اور اس نے لاکھ سال یا شاید اس سے بھی زیادہ ہو یا کم ہو، بہت لمبا عرصہ تک فضا میں دھند طاری کر دی.سورج (یعنی سورج کی روشنی ) اس سے ٹکرا کر واپس چلا جاتا، نیچے نہیں اتر سکتا تھا.نیچے کی گرمی وہاں قید ہو جاتی ہے اور اس طرح فضا بد لی ایسی کہ جن چیزوں پر ڈائناسور پلتا تھا وہ خشک ہو کر مر گئیں اور ساتھ ہی ڈائنا سور بھی مر گیا.سب جب مر گئے.یہ آج جو تیل ہم استعمال کرتے ہیں وہ اس ڈائنا سور سے ہے.تو وہ جانور جن سے آگے خدا نے زندگی چلانی تھی وہ پہلے جنگلوں میں چھپے ہوئے ، دبے ہوئے تھے کہ شکر ہے ڈائناسور گیا ہے یہاں سے.اور باہر نکل کر دنیا میں پھیلے، بڑھے.پھر بندر پیدا ہوئے، پھر انسان پیدا ہوا.ڈائناسور کی یہ کہانی بن مانگے دینے والے کے ساتھ اس تعلق میں ہے.سورہ فاتحہ کی تشریح اردو کلاس نمبر ۳۰۸، منعقده ۸/اکتوبر ۱۹۹۷ء) اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ میں جو سورہ فاتحہ شروع کرنے سے پہلے ہے، اس رحمن ورحیم کا مطلب زمین و آسمان کو پیدا کرنے اور قانون قدرت جاری کرنے سے ہے.اُس اللہ کے نام سے جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا اور ایسے قانون بنائے جو اس کا فضل بار بار آئے.رحیم کا مطلب ہے بار بار رحم کرنے والا.مثلاً بیجوں کے موسم ہوتے ہیں، بہار، خزاں، گرمی ، سردی، چکر لگاتے رہتے ہیں.یہ اس کی رحیمیت کا چکر ہے.زمین میں فضا میں ہر چیز انسانوں کو دی جوان کے کام آئے.سب قانون بنادئے ، بندہ تھا ہی نہیں مانگنے والا.رحمن بن مانگے دینے والا.جو بن مانگے دینے والا ہے وہ حد سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.گویا سب کچھ دے دیا.اگر کچھ بچا کے رکھتا تو رحمن نہ ہوتا.اس کا ئنات کو پیدا کرنے کے بعد ، پلین (Billion) سال کے بعد جن چیزوں کی ضرورت پڑنی تھی مثلاً کیمسٹری کا نظام، زمین و آسمان کے چکر موسم کے اثرات بجلی کا نظام، پہلے ہی پیدا کیں.اللہ سے مانگا تو نہیں خود ہی دے
تدريس نماز : دیا.بن مانگے دینے والا اور اتنا زیادہ دینے والا کہ اس سے زیادہ مانگا جا ہی نہیں سکتا، جو سنبھالا نہ جائے.اب ایک دفعہ دے دیا تو پھر چھٹی تو نہیں ہوگئی اور اس سے تعلق کے لئے کوئی چیز ایسی چاہئے جن میں کچھ انسانی محنت بھی ہو اور بار بار اس کا فضل ہو.رحیم رحیم خداوہ ہے جو رحیمیة کے فضل کو بار بارلاتا ہے.بار بار جولا تا ہے اس میں کچھ محنت آپ کو ڈالنی پڑتی ہے.کچھ محنت آپ ڈالیں، نتیجہ خدا تعالیٰ نکالے گا.یہ رحمانیت اور رحیمیت کے جُڑے ہوئے سر بنتے ہیں.اب سورۃ فاتحہ شروع ہوگئی.سورہ فاتحہ میں بھی ہمیں رب ملتا ہے، رحمان ملتا ہے، رحیم ملتا ہے.اس رحمن کو سورۃ فاتحہ میں پھر کیوں بیان کیا ؟ سوال ہے؟ (اس میں روحانی تحائف کا ذکر ہے، ربوبیت کا بھی ذکر ہے ).رحمن کی ایک تعریف کا ئنات کو پیدا کیا ، ضرورتیں پیدا کیں.لیکن قرآن مجید مجیب کتاب ہے، کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا، ہر چیز اس کے اندر موجود ہوگی.اسلئے اس کے متعلق بیان ہے مَالِهذَا الْكِتَبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَّلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْضَهَا ﴾ لوگ کہیں گے قیامت کے دن، عجیب کتاب ہے، چھوٹی اور بڑی چیز نہیں چھوڑی.اب رحمان کے متعلق قرآن کریم میں بیان ہے.دنیا کے کسی کتاب میں نہیں جو قرآن کریم میں ہے.الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ﴾ الرحمن میں صرف ماڈی کائنات پیدا نہیں کی.رحمان نے اس کائنات کو سمجھنے کے لئے انسان کو پیدا کر دیا.الرَّحْمَنُ.....خَلَقَ الْإِنْسَانَ دنیا کا تمام انسان اگر تخلیق کی بات کرتا ہے تو خالق کی کیا صفت بیان کرتا ہے.دنیا کی کسی کتاب میں رحمن کو خلق سے منسوب نہیں کیا ، صرف قرآن ہے جو بات رحمن کی کرتا ہے اور ساتھ انسان کی پیدائش کی بھی، اس میں کیا حکمت ہے؟ دنیا میں جتنی بھی مذہبی کتابیں ہیں کسی میں بھی نہیں ہے کہ رحمن نے پیدا کیا.وہ کہیں گے کہ خالق نے پیدا کیا ہے، یا اللہ نے پیدا کیا.ایک قرآن ہے جو سب سے ہٹ کر بات کرتا ہے جو کہتا ہے الرَّحْمَنُ.....خَلَقَ الْإِنْسَانَ ﴾ اس میں کیا حکمت ہے؟ پہلی بات یہ کہ رحمانیت کے نتیجہ میں جو کائنات پیدا کی اس کا اعلیٰ مقصد یہ تھا کہ انسان کو پیدا کیا جائے.رحمن خدا اگر انسان کو پیدا نہ کرتا تو کائنات کا کوئی بھی فائدہ نہ رہتا.انسانوں کو
تدريس نماز حیوانوں سے نکالنے کے لئے کائنات بنائی.ہوشیار سے ہوشیار جانور بھی کائنات کو سمجھ نہیں سکتا تھا.وہ یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ رحمانیت کن جگہوں پر جلوہ دکھا رہی ہے.انسان ہی ہے جس نے تمام جانوروں کے متعلق مضمون اکٹھے کر لئے ہیں.مثلاً کوئی بندر شیر کے متعلق کچھ کہہ سکتا تھا کہ یہ رحمانیت کا چکر ہے؟ کوئی کو اکسی کتے کے متعلق سوچ سکتا ہے کہ یہ رحمانیت کا چکر ہے.اپنی اپنی ذات کے متعلق پتہ ہے لیکن ساری کائنات کا نہیں پتہ.انسان کو نکال لو تو اللہ کی رحمانیت ہر جانور کے اندر اتنی اتنی رہ جائے گی کہ کسی کو پتہ نہیں ہوگا کہ خدا نے کیا دیا ہے.اس لئے اللہ نے انسان کو پیدا کرنا تھا.اس لئے کہ رحمانیت کا یہ جلوہ تھا کہ انسان کو لازماً پیدا کرے کیوں کہ جتنے خزانے ہیں تیل وغیرہ کے، ڈائنا سورس، لکڑی، کوئلہ، ہیرے بن گئے وغیرہ وغیرہ.کیا ان سے جانور فائدہ اٹھا سکتا تھا؟ چیزیں بنادیں اور کوئی فائدہ نہ اٹھائے.مثلاً کیا کسی کتے کے بچے کو ہوائی جہاز چلاتے دیکھا ہے؟ جب خدا کی رحمانیت سے کسی نے فائدہ نہیں اٹھانا تھا تو رحمانیت کس کام کی جتنی چیزیں ہیں سب انسان کے اوپر اکٹھی ہو جاتی ہیں اور وہ ساری کائنات سے فائدہ اٹھا رہا ہے.جس پر خدا فرماتا ہے الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ - کوئی کتاب اپنے وجود کو رحمن کی طرف منسوب نہیں کرتی کہ رحمن نے بائبل اور گیتا اُتاری، کہیں نہیں ملے گا.صرف قرآن کہتا ہے کہ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ابعَلَّمَ القران روحانی کا ئنات بن گئی.وہی رحمن جس نے کائنات کو پیدا کیا.وہ رحمن جس نے روحانی کائنات کو پیدا کیا.اب روحانی کائنات کو سمجھنے کے لئے انسان کو پیدا کرنا ضروری تھا.ور نہ کوئی جانور تو قرآن کو سمجھ نہیں سکتا تھا.اور پہلے انسان بھی نہیں سمجھ سکتے تھے اس لئے ان کی کتابوں میں کہیں دعویٰ نہیں کہ ان کو ہم نے گیتا دی.کیوں کہ پورا جلوہ نہیں تھا.اور قرآن کو سمجھ نہیں سکتے تھے.اور یہ بھی نہیں کہا کہ قرآن ان کو دیا.پہلے انسان عیسائی ، زرتشتی، یہودی، ان کو قرآن نہیں دیا، وہ سمجھ نہیں سکتے تھے.الإِنسَانُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، انسان کامل، اس نے بعد میں آنا تھا ، جس نے قرآن کو سمجھنا تھا، اس کو قرآن ملنا تھا.اب خَلَقَ الْإِنْسَانَ ﴾ کے دو معنی بن جاتے ہیں.الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ﴾ اس نے انسان کو پیدا کیا، پھر اس کو بیان کا طریقہ سکھایا.اب قرآن کے مضامین اس کی روشنی حاصل کرنا ، اس کے حوالہ سے دنیا
تدريس نماز 10.......میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ایک دوسرے سے تفریق کر رہے ہیں.یہ سب بیان کی باتیں ہیں.اور دوسرے بیان میں اپنے مقصد کو واضح کرنا ہے.دل کی بات کو کھل کر پیش کریں تو وہ بیان ہے.بیان کس کو کہتے ہیں؟ ایک چیز دوسری چیز سے الگ ہو جائے.ان کا مطلب ہے کھل کر بیان ہو گئی.فرق نمایاں ہے.فرق بین ہے.اس لئے الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ﴾.یہ بیان جو ہے اس کو بولنے چالنے کی تمیز سکھائی.اس کو اپنا مقصد بیان کرنا سکھایا.اس کو اچھے بُرے کی تمیز سکھائی.اس سب چیز کو بیان کہتے ہیں.جو چیز دل کی کھل کر بیان کریں اس کو کہتے ہیں قوت بیان یعنی بیان کرنے کی قوت.(اردو کلاس نمبر ۳۱۳، منعقده ۲۱ /اکتوبر۱۹۹۷ء) (بحواله الفضل انٹر نیشنل ۱۴ / مارچ ۲۰۰۳ صفحه ۱۲ تا۱۳) اب روحانی کائنات کی باتیں شروع ہوں گی.پہلے مادی کائنات کی باتیں تھیں.ربوبیت کی دو قسمیں ہیں.پہلی ربوبیت بچے کوکھانا کھلانے کی تھی.دوسری جب بڑا ہو تو اٹھنے بیٹھنے کے آداب سکھائے.جب ہم کہتے ہیں اَلحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾ تو ہم دوسری ربوبیت پر آتے ہیں.پہلی ربوبیت جانوروں، کیڑوں مکوڑوں کو کھانا کھلانے کی تھی.اب ربوبیت ترقی کر کے علوم کی ربوبیت ہے.اور یہ ربوبیت خدا نے سارے جہانوں کے لئے فرمائی ہے.وہی مذہب میں بھی ترقی کرتے تے اسلام تک پہنچی ہے.تہذیب و تمدن میں ترقی کرتے کرتے مختلف تہذیبوں سے گزری.انسان نے جو کچھ بھی سیکھا، جو علوم بھی سیکھے یہ رب العالمین کی تعریف کرنے والی بات ہے.اور جب ہم یہ کہتے ہیں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾ تو ہم دوسری ربوبیت پر آگئے.رب العلمین کا پر غور کریں تو سب سے اچھی تربیت قرآن نے کی.انسانوں کو انسان بنانے کے لئے جو کچھ چاہئے تھا وہ سب اس میں جمع ہو گیا.سب سے اچھی تربیت محمد نے کی اور سب سے زیادہ علوم سکھانے والا نبی محمد ہیں.حمد وہی ہے جو اللہ کی ہو.اور وہی حمد کے قابل ہے جس کی حمد اللہ نے کی ہو.اور اللہ کی حمد کہ اس نے سارے جہانوں کی تربیت کر کے ان کو چھوٹی چھوٹی حالتوں سے ترقی کر کے بڑی یونیورسٹی میں ڈال دیا اور سب سے بڑی یونیورسٹی، قرآن کی یونیورسٹی جاری کی اور اس یونیورسٹی میں سارے علوم داخل کر دئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک بھی کا ئنات کا علم ایسا
تدريس نماز 11 نہیں جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود نہیں.ہر چیز کا ذکر ہے، ہر چیز کی صفت بیان فرمائی ، اعلیٰ درجہ کا انسان بننے کے لئے جو کچھ چاہئے تھا قرآن میں جمع ہو گیا.تو دوبارہ مضمون شروع ہو گیا.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾ پھر الرَّحْمَنِ الرَّحِيم.جب دوبارہ غور کرو قر آن پر، تو رحمن کا ایک اور جلوہ نظر آتا ہے، حد سے زیادہ رحم انسان پر کیا کہ بن مانگے اس نے ان کو قرآن دے دیا.یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ نے قرآن نہیں مانگا تھا، آپ کو تو پتہ بھی نہیں تھا کہ شریعت کیا ہوتی ہے اور کیا بوجھ پڑتے ہیں.جب غار میں وحی نازل ہوئی تھی تو فرشتہ کہتا تھا کہ پڑھ اور آپ کہتے تھے کہ مجھے پڑھنا نہیں آتا.کوئی خواہش نہیں تھی.رحمن خدا نے دو احسان ہم پر کئے.ایک یہ کہ بن مانگے قرآن دے دیا اور دوسرے اس کو دے دیا جس سے اچھا کوئی انسان نہیں تھا....الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ ﴾ کے معنی.رحیم کے معنی یہ بھی ہیں کہ بعد میں مجدد آتے ہیں.رسول اللہ آ کے گزر گئے ، تو رحیم خدا پھر مجدد لے کر آیا.خدا نے خیال کیا کہ دوبارہ سچا دین مل جائے.جب لوگ زیادہ بگڑ گئے تو خدا نے مسیح موعود کو بھیجا.انہوں نے دوبارہ قرآن کی تعلیم شروع کر دی.یہ معنی الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ کے روحانی معنی بن گئے.ملک یوم الدین کس کو کہتے ہیں؟ دین کا مطلب ہے کسی کو کسی کے کام کی جزا دینا.مزدور جب مزدوری کرتا ہے تو اس کا یوم الدین کب آتا ہے؟ جب مالک سے اس کو تنخواہ ملتی ہے.اس کو دین کہتے ہیں.اس کا مطلب ہے کہ جو کچھ تم نے کیا اس کا پھل تمہیں ملے گا.ملک يَوْمِ الدِّينِ ) کا مطلب ہے کہ ہر چیز کی جزا جب تک خدا نہ چاہے نہیں مل سکتی.زمیندار بیج لگاتا ہے، سارا سال محنت کرتا ہے.جب آخر پر فصل کاٹنے کے لئے تیار ہے تو ایسا طوفان آتا ہے کہ فصل کو مٹی میں ملا دیتا ہے.ایک دانہ بھی اس کو نہیں ملتا.وہ سمجھتا تھا کہ میں مالک ہوں اس فصل کا اور ملک يَوْمِ الدِّينِ ) کا یہ نشان بھی دکھلاتا ہے.انسان غفلت میں سمجھتا ہے کہ سب کچھ اس کا ہے.اس پر ایک سچا واقعہ حضور رحم اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ میں اورخلیفہ امسح الثالث دونوں زمیندار تھے.شام کا وقت تھا ان کا ٹریکٹر جو فصل کاٹنے کے لئے تیار تھا جو یومِ الدِّینِ کے لئے ایک مشین تھی.اور میں نے بھی وہی منگوائی تھی.ہم دونوں کا خیال تھا کہ اس کے ذریعہ ہم فصل کاٹیں گے.
تدريس نماز 12......گندم اچھی ہوگی میں موٹر پر بیٹھ کر احد نگر (جہاں زمینیں تھیں) کے لئے روانہ ہوا.موسم بھی اچھا تھا.خیال تھا کہ مشین ڈالوں گا اور سب کچھ ہمارے ہاتھ آجائے گا.اتنے میں ایک طوفان اٹھا.ابھی تھوڑا آگے گیا کہ آندھی کی طرح خوفناک بگولے اٹھے اور پھر برف کے اتنے بڑے بڑے اولے پڑے کہ صرف اولے تھے، بارش تھی ہی نہیں.(حضور نے فرمایا) کہ برف کے اتنے موٹے ٹکڑے پہلے ساری زندگی نہیں دیکھے تھے.موٹر کی چھت پر گڑھے پڑ گئے.جب میں احمد نگر پہنچا ساری فصل تباہ ہوگئی.سارے علاقہ میں ایک دانہ ہاتھ نہ آیا.اس کو کہتے ہیں ملک يَوْمِ الدِّينِ.اور بتاتا ہے کہ آخر وقت تک میں ہی مالک ہوں.جب دینے کا وقت آئے گا تو میں دیتا رہتا ہوں تم بھول جاتے ہو.جب چاہے نہیں دوں گا.وہ رحیمیت لے کر آتا ہے بار بار فضل لاتا ہے.انسان بھلا دیتا ہے.یہ جزا سزا اس کے قبضہ میں ہے.بعض عورتیں 9 ماہ بچہ پالتی ہیں اور آخر میں وہ ختم ہو جاتا ہے.تو ملک يَوْمِ الدِّينِ ﴾ وہی ہے.قرآن کریم پر غور کر و.جب رحمن اور رحیم خدا کی یہ ساری نعمتیں اور رحمتیں انسان کے لئے ہیں تو جزا سزا عمل کی وہی دے گا ، کوئی اور نہیں دے سکتا.اس کو پتہ ہے کہ کیا جزا دینی ہے.یہ رحمن اور رحیم اللہ تک پہنچنے کا رستہ ہے.اور ربوبیت کرتا ہے.اس کے رستہ سے ہم ربوبیت میں داخل ہو گئے.پھر رحمانیت آگئی ، پھر رحیمیت آگئی.ہم رحمن اور رحیم خدا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.اس نے روحانی اصلاح کے لئے بڑے بڑے پاک بندوں کو بھیجا.اگر انسان ان سب سے فائدہ اٹھائے تو پھر بھی آخری نتیجہ خدا ہی دے گا، اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی.اور مالک کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس میں عجیب بات یہ ہے کہ خدا کے نیچے اگر کسی کو مالک بنایا گیا ہے تو وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.ربوبیت میں بھی انہوں نے سب سے زیادہ کمال حاصل کیا، رحمانیت اور رحیمیت میں بھی اور مالک آپ کو بنایا گیا کیوں کہ جو انسان کامیاب ہوتا ہے وہ رسول اللہ کے حوالہ سے ہوگا.اگر ان کے خلاف آتے ہیں تو کامیاب نہیں ہوگا.گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روحانی فیض کے لئے اس دنیا میں مالک بنادئے گئے ( اور بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معنی بیان کئے ہیں ).قرآن کریم نے ملک يَوْمِ الدِّینِ ﴾ کی تعریف بیان کی ہے.آیت ہے ﴿ لَا تَمُلِكُ
تدريس نماز 13.نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْآمُرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ ﴾ قیامت کے دن اللہ فرماتا ہے کہ ملِكِ يَوْمِ الدین کے معنی ہیں کہ وہ دن ایسا ہو گا کہ کوئی چیز بھی کسی چیز کی مالک نہیں ہوگی.اس وقت خدا کی حکومت کامل طور پر ہوگی.یہ ہے الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ - ارد و کلاس نمبر ۳۱۳، منعقده ۲۱ /اکتوبر ۱۹۹۷ء) وَمَا أَدْراكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ - ثُمَّ مَا اَدْراكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴾ (الانفطار: ۱۹،۱۸) یہ اللہ نے کیوں فرمایا کہ تمہیں کیا سمجھا ئیں کہ یوم الدین کیا ہے؟ کیا اللہ کو سمجھانا نہیں آتا.مثال دی کہ اندھے کو روشنی کا بتاؤ کہ ایسی ہوتی ہے.وہ نہ سمجھے تو تم کہو گے کہ تم نہیں سمجھ سکتے (جو چیز تمہیں عطا نہیں ہوئی وہ تم سمجھ نہیں سکتے ).تو یومُ الدِّينِ ﴾ کی تعریف جو ہے اس پر غور کرو تو تمہیں سمجھ آئے گا.اس پر غور کرو يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ للهِ ﴾ (الانفطار : ۲۰) يَوْمُ الدِّينِ وہ ہو گا جب کہ کوئی جان بھی کسی کی مالک نہیں ہوگی.یہ انسان سوچ نہیں سکتا جب تک خود اس پر نہ گزرا ہو.ہماری صفات جو ہم میں ہیں اسی سے تو ہم پہچانے جاتے ہیں.کوئی انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ میرا کچھ بھی باقی نہ رہے.کیوں کہ سب کچھ خدا کا دیا ہے.اگر وہ واپس لے لے تو پھر ہر چیز ، ہر جان اُس سے محروم ہو جائے گی جو اس کو زندگی دی گئی، رشتہ دار دئے ، یہ يَومُ الدِّینِ کی تعریف ہے.اس کے بعد فرماتا ہے ﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قدرہ انہوں نے اللہ کی شان نہیں پہچانی وَ الْاَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ﴾ (الزمر: ٦٨) جبکہ زمین کلیۂ اس کے قبضہ میں ہوگی قیامت کے دن.والسَّمواتُ مَطْوِيتٌ بِيَمِينِهِ ﴾ (الزمر: ٦٨) آسمان اس کے ہاتھوں میں لیٹے ہوں گے.﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمواتِ و مَنْ فِى الْأَرْضِ ﴾ (الزمر: ٦٩) صور پھونکا جائے گا اور ہر چیز جو زمین و آسمان میں ہے غش کھا کر جاپڑے گی.ایسا غش ہو گا کہ کچھ بھی سمجھ نہیں آئے گی سوائے اس کے کہ جسے اللہ چاہے گا اس کو بے ہوش نہیں کرے گا.پھر دوبارہ بگل بجایا جائے گا تو سارے اٹھ کھڑے ہوں گے.﴿إِلَّا مَن شَاءَ اللهُ ﴾ (الزمر : ٦٩) سوائے جسے اللہ چاہے گا ، میں کون مراد ہو سکتا ہے؟ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.(ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے ساتھ میں نے یہ بات ملائی تھی اور ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے اس دن ساری چیز میں واپس مانگے گا جو اس نے دی تھیں.رسول اللہ نے سارا کچھ زندگی میں خدا کو دے دیا.قرآن سے ثابت ہے کہ
تدريس نماز 14......ایک ذرہ بھی اپنے پاس نہیں رکھا.تو قیامت کے دن اللہ دوبارہ کیسے مانگے گا.یہ مطلب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مالک ہیں.کیوں کہ جب ہر چیز اللہ کے حوالہ کر دی، اپنا وجود تک، کچھ نہیں چھوڑا.قیامت کے دن خدا دوبارہ آپ سے نہیں مانگے گا.اسی لئے میں نے اختلاف کیا.کیوں کہ بہت سے مفسرین لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بے ہوش ہوں گے ، موسیٰ علیہ السلام بھی بے ہوش ہوں گے.یہ غلط ہے.یہ رسول اللہ پر الزام ہے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوں گے.کیوں کہ جو چیزیں ہوش و حواس میں زندگی میں دے بیٹھے ہوں اللہ دوبارہ کیسے لے سکتا ہے.إِلَّا مَنْ شَاءَ اللهُ ﴾ میں رسول اللہ ہیں جنہوں نے زندگی میں اپنی ملکیت خدا کے حوالہ کر دی.ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ نماز میں سب سے مشکل کام ہے.سب سے بڑ اوجود جس نے واقعہ چیزیں واپس کیس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن مجید میں آتا ہے: ﴿ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾ (الانعام ١٦٣) تو اعلان کر دے کہ میری نماز، میری قربانیاں، میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کا ہو گیا.یہ اعلان یہاں ہوا ہے.قیامت کے دن اللہ کیسے دوبارہ مانگے گا کہ مجھے واپس کر دے.یہ مطلب ہے ملک یوم الدین کا.اس نقطہ کو اگر کوئی سمجھا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھے ہیں.آپ فرماتے ہیں یہ وہ رسول ہے جو ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ زمین پر بنایا گیا ، ہر چیز اس کے سپر د کر دی.اب جو کچھ کرے گا وہ مالک کے نمائندے کے طور پر کرے گا.جو مالک چاہتا ہے وہی کرے گا.اس سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش نہیں ہوں گے.کیوں کہ ہوش انہی چیزوں کا نام ہے، جو ہماری طاقتیں ہیں ان کو ہوش کہتے ہیں.جب ہوش واپس گئی ، سب کچھ واپس چلا گیا.اس لئے فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمواتِ ﴾ سے مراد ہے کہ پہلا بنگل ایسا ہوگا کہ ہر چیز اپنی ہر طاقت سے محروم کر دی جائے گی کیوں کہ اصل مالک اللہ ہے جو پہلے واپس کر چکے ہوں گے ان سے نہیں مانگے گا.اردو کلاس نمبر ۳۱۴ - منعقد ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۷ء) ( بحواله افضل انٹر نیشنل ۲۸ / مارچ ۲۰۰۳ تا ۳ / اپریل ۲۰۰۳ء) سورۃ فاتحہ شروع ہوتی ہے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴾ سے.اس کے علاوہ پہلی آیت
تدريس نماز 15.ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾.الْحَمْدُ کا مطلب ہے ہر تعریف.الحمدُ کھ میں کئی معنی ہیں.آئی ( الف لام) عربی کا ایک لفظ ہے جس کو انگریزی میں The بھی کہتے ہیں.یہ Difinite Article ہے انگریزی کا.اس The میں کئی معنی پیدا ہو جاتے ہیں.﴿ الْحَمدُ کا مطلب ہے Perfect Praise چونکہ The بعض دفعہ Perfection کے لئے آتا ہے.اور الحمد کا مطلب ہوا All Praises الْحَمد ﷺ کا مطلب The کے حوالہ کے بغیر آپ کو سمجھا تا ہوں.الْحَمْدُ کا مطلب ہے کچی تعریف، ایسی تعریف جس کو تعریف کہا جا سکے.جیسے کہتے ہیں He is the man یعنی وہ شخص جس میں انسانی صفات موجود ہیں اور اسے The کہا جاسکے He is the man تو لفظ The میں بھی بہت معنی ہیں.الْحَمْدُ میں آل The سے ملتا جلتا ہے.الحَمدُ وہ تعریف ہے جو تعریف کہلا سکتی ہے.للہ صرف اللہ کے لئے.باقی سب تعریفیں جھوٹی ، ایک ہی تعریف ہے جو اللہ کی تعریف ہے.اور باقی تعریفیں اس ایک تعریف میں شامل ہیں.جو چیز بھی حمد کے لائق ہے، خوبی ہے جس میں، جو بھی آپ کو چیز اچھی نظر آئے آپ کہہ سکتے ہیں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾ ہر اچھی بات خدا سے نکلی ہے اور ہمیں دکھائی دینے لگی ہے، ہمیں فائدہ پہنچا رہی ہے.تو الحَمْدُ جو پہلا لفظ ہے اس پر آپ جتنا بھی غور کریں آپ کو مزہ آئے گا سوچ کر کہ سارے قرآن کا خلاصہ تو الحَمدُ میں ہی آجاتا ہے.گویا الْحَمْدُ ایک ایسا لفظ ہے جو بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴾ کے بعد آتا ہے اور الحَمدُ لفظ پر آپ غور کریں تو اس کے اندر سارا قرآن آجاتا ہے.ہر چیز جو دنیا میں تعریف کے قابل ہے اگر وہ خدا سے تعلق رکھتی ہے تو تعریف کے قابل ہے.خدا سے دور کسی چیز کی تعریف نہیں.الحمد کا ایک یہ مطلب ہے اور جتنی بھی تعریف آپ سوچ سکیں جو اچھی سے اچھی چیز آپ سوچ سکیں ، اللہ کی وجہ سے اچھی ہے کیوں کہ اس نے بنائی ہے، اس نے پیدا کی ہے.اور اگر کوئی انسان اچھا ہوا سے اچھا کیونکر کہیں ؟ اس لئے کہ اس میں اللہ کی باتیں ملنی چاہئیں.الحمد تبھی کہیں گے اگر اس میں
تدريس نماز 16......اللہ کی باتیں موجود ہوں تو پھر وہ اچھا لگے گا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے زیادہ اللہ کی خوبیاں تھیں.تو الحَمْدُ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی آگیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات بڑی خوبصورتی سے بیان فرمائی ہے.آپ نے فرمایا کہ الْحَمْدُ میں محمد بھی آتا ہے کیوں کہ ﴿ الحَمدُ کو پڑھنے کے دو طریقے ہیں:.(۱) ایک ہے الْحَمْدُ لِلہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے.(۲) دوسرا معنی ہے تعریف وہی ہے جو اللہ کرے.گویا پہلا معنی یہ ہے کہ ہم جو بھی بچی تعریف کریں گے وہ اللہ کی طرف جائے گی اور دوسرا معنی ہے کہ سچی تعریف اللہ ہی کرتا ہے.جس کی اللہ تعریف کرے وہ سچا ، دوسری تعریفیں جھوٹی.تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ اللہ کی تعریف کی اس لحاظ سے آپ کا نام احمد ہے.احمد کہتے ہیں وہ شخص جو کسی اور کی بہت ہی تعریف کرے اور زیادہ تعریف کے نتیجہ میں اللہ نے آپ کا نام احمد رکھا.تو اللہ کی وہ تعریف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی وہ مکمل تعریف ہے اور انسان کے لئے ضروری ہے.باقی سب نبیوں کی تعریفوں میں آپ کو کہیں کمزوری دکھائی دے گی.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام احمد کے علاوہ محمد بھی رکھ دیا.چونکہ خدا نے پھر آپ کی بہت تعریف کی.محمد کہتے ہیں جس کی بے حد تعریف کی گئی ہو.تو اللہ تعالیٰ چونکہ زیادہ جواب دیتا ہے اس لئے لفظ محمد میں زیادہ شدت آگئی ہے.کیوں کہ اللہ کسی کا شکریہ نہیں رکھتا.اللہ جو تعریف بیان کر دے وہ انسان کی تعریف کے جواب میں ہوتی ہے اور پھر وہ بہت زیادہ تعریف کرتا ہے.تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام احد بھی الحَمْدُ میں موجود ہے اور محد بھی.تو اسی لئے میں کہ رہا تھا کہ سارے قرآن کا خلاصہ تو لفظ ﴿ الْحَمْدُ بن گیا.سب تعریفیں.ہر چیز جو کائنات میں اچھی ہے وہ خدا کے لئے ہے.مکمل تعریف اسی کی ہے.اس کے سوا کوئی تعریف، تعریف نہیں ہے.سب سے بڑا تعریف کرنے والا احمد تھا.سب سے زیادہ تعریف کروانے والا اللہ سے محمد تھا.تو الْحَمْدُ میں یہ ساری باتیں آگئیں.اس کے بعد پھر انسان کہتے ہیں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہیں کیا، صرف آپ پہ بات ختم نہیں ہوئی، اس نے تو سارے جہانوں کی تربیت کی ہے.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت ایسی اچھی ہو سکتی ہے تو
تدريس نماز 17.سب لوگ پیچھے کیوں رہ گئے.رب تو وہی ہے.رسول اللہ میں کوئی ذاتی خوبی نہیں، اللہ کی وجہ سے پیدا ہوئی تو الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾ جب کہتے ہیں تو مطلب یہ ہے کہ سارے جہان، سب زمانے ، ہر چیز کی اس ذات نے ربوبیت کی ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی.اگر وہ اتنے بلند ہو سکتے ہیں تو باقی سب کیوں نہ ان کے پیچھے چلیں.وہ بھی اسی طرح ترقی کر سکتے ہیں.توفیق نہ ہو تو یہ الگ بات ہے مگر رستہ کھلا ہے.تو یہ معنی ہیں ﴿ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے.اب اس معنی کو سوچنے کے لئے آپ کو ایک زمانہ چاہئے.یہ ناممکن ہے کہ ہر نماز میں ہر دفعہ جب آپ الحمد کہیں تو ساری باتیں دماغ میں آجائیں.اس کا علاج یہ ہے کہ ہر دفعہ الْحَمدُ کہتے ہوئے کوئی اچھی بات ضرور سوچ لیتے ہیں.اس کا تعلق آپ کے حالات سے بھی ہو سکتا ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ ) میں ساری دنیا میں جتنی مخلوقات ہیں ان کی ربوبیت اللہ کی طرف چلی گئی اور روزانہ ہم جو بھی کام کرتے ہیں ہمیں اس کام میں رب العالمین دکھائی دینا چاہئے.صبح سیر پر جائیں رستہ میں پرندہ دانے چگ رہا ہوتا ہے تو آپ کے دل سے آواز نہیں نکلتی الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ ؟ کہ صرف ہمیں رزق نہیں دیتا، ان جانوروں کو بھی رزق دیتا ہے.اور جو کیڑ اوہ چک لیتا ہے اس کیڑے کا رزق بھی اللہ کے اوپر ہے.وہ جس چیز پر پلتا ہے اس کا رزق بھی اللہ کے اوپر ہے.سارے زمانہ کا رزق، اس کو زندہ رکھنا خدا کے سپرد ہے.اور جب عالمین دیکھیں تو تمام Universe کے لئے ایک طاقت چاہئے.اس طاقت کے بغیر عالمین قائم نہیں رہ سکتے.کوئی چیز ان ( عالم، دنیا، عالمین، ساری Universe) سب کو Sustain کر رہی ہے ، اسے طاقت بخش رہی ہے وہ اللہ کی ذات ہے.تو الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾ میں ایک سائنسدان بھی اپنے بارہ میں سوچ سکتا ہے.اس کو کائنات کا کوئی راز پتہ چلے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے اس ( کائنات) کو Maintan کیا ہے.اگر کسی نماز میں وہ یہ سوچ کے الْحَمْدُ لِلہ پڑھے گا، اُس کو اور مزا آئے گا.کوئی شخص اپنے متعلق سوچے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے کیسی تربیت دی، کیا کچھ کھانے کو دیا، کیسا اچھا بنایا.جتنا زیادہ اس کا علم اپنے متعلق بڑھے گا اتنا ہی الحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) کا معنی بڑھے گا.تو یہ پہلی
تدريس نماز 18......آیت جو ہے یہی سارے قرآن پر حاوی ہے.مگر صرف یہی نہیں اور بھی آیتیں ہیں جو اس طرح مضمون کو آگے لے جاتی ہیں.جب ہم الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) کہتے ہیں اس کے بعد کیا کہتے ہیں؟ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الرحمن کا کیا مطلب ہے؟ بن مانگے دینے والا.مگر اس سے پہلے بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيم ) میں الرَّحْمنِ آچکا ہے.اس میں بن مانگے دینے والا ، ساری کائنات کو بخشنے والا کے معنی ہیں.اگر وہ بن مانگے نہ دیتا تو رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾ کی بات نہ شروع ہوتی.رَبِّ الْعَلَمِینَ ﴾ بتا رہا ہے کہ عالمین پیدا ہو چکی تھیں.اور بسم اللهِ الرَّحْمَنِ رحیم میں جو رحمان ہے اس سے ساری کائنات پیدا ہوئی، بن مانگے.تو قرآن کریم میں الْحَمْدُ کے بعد پھر الرَّحْمنِ کا دوبارہ کیوں ذکر آیا؟ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ﴾ سورۃ فاتحہ سے پہلے اور باقی سورتوں سے پہلے پڑھتے ہیں.الرحمن خداوہ ہے.الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ - رحمان خدا نے ساری کائنات پیدا کی.قرآن بھی اسی نے سکھایا اور انسان بھی اسی نے پیدا کیا.الإنسان تو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ میں جو تخلیق تھی وہ بن گئی تو پھر رب العلمین کی بات شروع ہوئی.دوبارہ کیوں الر حمن کہہ دیا ؟ قرآن کریم میں رحمان کی طرف دو باتیں منسوب ہوئی ہیں.(۱) انسان کو پیدا کیا.(۲) اس نے قرآن سکھایا.تواب قرآن کی بات شروع ہو رہی ہے.سورہ فاتحہ نے الْحَمْدُ لِلَّهِ ﴾ جب کہہ دیا تو پھر الرحمن کہہ کر بتایا کہ جو روحانی تعلق ہے سارا روحانی عالم، یہ بھی اللہ ہی نے پیدا کیا ہے، اور الرحمن سے متعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بہت جگہ بہت ہی اعلیٰ عرفان کے ساتھ بیان کیا ہے.فرمایا: ”کون خدا سے قرآن مانگنے گیا تھا؟ کوئی بھی نہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خود قرآن مانگنے نہیں گئے.عَلَّمَ الْقُرْآنَ.یہ رحمان خدا نے قرآن عطا کیا ہے بن مانگے.دنیا میں کسی انسان نے خدا سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ہمیں قرآن دے.قرآن کا تو پتہ ہی کچھ نہیں تھا.تو
تدريس نماز 19.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمان خدا نے قرآن سکھایا، جو بن مانگے دینے والا ہے.پس دنیا کا عالم بھی رحمان خدا نے پیدا کیا اور روحانی عالم بھی اسی نے بنایا.یہ وجہ ہے کہ الر حمن کی تکرار ہوئی ہے.الرَّحِيم : رحمان وہ خدا ہے جس نے قرآن مجید کے تمام احکامات ، تمام اچھی چیز میں ہماری فائدے کے لئے بیان کر دیں.مگر بیان کرنے کے بعد وہ ہم سے غافل نہیں ہوا.رحیم اس بات کو بتا رہا ہے.الرحمن کہتے ہیں وہ ذات جو سب سے زیادہ فضل لیکر آئے.اتنا رحم کرنے والی ہو کہ بغیر مانگے دے.رحمان خدا نے کائنات پیدا کی ہے.ہر موسم اسی نے پیدا کیا ہے.آپ بیج بوتے ہیں، ایک موسم ہوتا ہے بیج کا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ہر چیز کا ایک موسم ہوتا ہے اگر کوئی چیز ہوئی جائے تو وہ اگتی ہے ،نشو نما پاتی ہے.اگر بیج پھینک دیں اور موسم نہ ہو تو پڑا رہے گا.مگر گزرا ہوا موسم اللہ دوبارہ لے آتا ہے اور وہ بیچ جو پچھلے سال مٹی میں گرایا تھا وہ محفوظ پڑا ہوتا ہے.نیا موسم آیا تو بیج پھوٹ پڑتا ہے تو موسم کو بار بار لانے والا الرَّحِیم ہے.اس ہستی کو الرحمن کہتے ہیں جس نے پہلی دفعہ استادید یا کہ جتنی ضرورت ہو سکتی تھی.سب کچھ دے دیا.رحیم اس کو کہتے ہیں کہ اگر آپ الر حمن سے فائدہ نہ اٹھا سکیں تو پھر بھی آپ کی مدد کرے گا.ایک سال غفلت کریں، دوسرے سال غفلت کریں، تیسرے سال غفلت کریں، ہمیشہ وہ ایسے مواقع پیدا کرے گا کہ آپ دوبارہ اس کے رحم کو دیکھ سکیں.اس کو رحیم کہتے ہیں.ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ : اردو کلاس نمبر ۳۱۰-۱۱/اکتوبر۱۹۹۷ء) الله يوم الدين کا مالک ہے.قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے ﴿وَمَا أَدْرَكَ مَا يَومُ الدین کہ تجھے کیا بات بتائے کہ یوم الدین کیا چیز ہے؟ سورۃ فاتحہ میں جو ملک يَومِ ین آتا ہے اس کی تشریح جب خدا تعالیٰ نے خود ہی کر دی تو اسی تشریح کو ہمیں پکڑنا چاہئے.بجائے اس کے کہ اپنے اندازے لگا ئیں کہ یومُ الدِّينِ کیا ہوگا ؟ کیا ہو سکتا ہے؟ ثُمَّ مَا أَدْرَكَ مَا يَوْمُ الدِّینِ کا پھر تمہیں کیا بتا ئیں ، کیسے سمجھائیں کہ یوم الدین کیا چیز ہے؟ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کیوں فرماتا ہے تم ما آذركَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴾ پہلے تو یہ مسئلہ حل
تدريس نماز 20 کرنا ہے کہ کیا اللہ کو سمجھانا نہیں آتا جو کہا کہ تجھے کیا چیز بتائے کہ یوم الدین کیا ہے؟ تجھے کیا چیز سمجھا سکتی ہے اور پھر دوبارہ ہم کہتے ہیں کہ ثُمَّ مَا أَدْرَكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ.اگر آپ ایک اندھے کو مخاطب ہوں جو دیکھ نہیں سکتا.آپ اسے سمجھائیں کہ روشنی ایسی ہوتی ہے، ویسی ہوتی ہے.پھر اس کو کہیں گے کہ تمہیں سمجھ نہیں آئی تم سمجھ سکتے ہی نہیں.یعنی وہ ہر چیز جو تمہیں عطا نہیں ہوئی اس کو ابھی تم نہیں سمجھ سکتے.تو جو تعریف یوم الدین کی آگے ہے اس پر غور کرو، پھر سمجھ آئے گی اس بات کی.يَوْمَ لَا تَمُلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْآمُرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ ﴾ (الانفطار : ۲۰،۱۹) یوم الدین وہ ہو گا جب کہ کوئی جان بھی اپنے لئے یا کسی دوسری جان کے لئے کسی چیز کی مالک نہیں ہوگی.کلیہ ملکیت Disposes ہو جائے گی.انسان اس وقت تک یہ سوچ نہیں سکتا جب تک اس کے ساتھ ایسا واقعہ گزر نہ جائے.اگر آپ کی آنکھیں، ناک وغیرہ سب کچھ آپ کے ساتھ نہ ہوں تو آپ بھی مٹ گئے.نہ کان، نہ دماغ، نہ عقل، نہ اور کچھ آپ کے قبضہ میں ہو، نہ آپ کے امی کی چیز آپ کے قبضہ میں ہو اور نہ آپ کسی چیز کے مالک رہیں تو یہ مسالک یوم الدین ہے.کیسے ممکن ہے یہ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہماری جو صفات ہمارے پاس ہیں انہی سے تو ہم پہچانے جاتے ہیں.کوئی انسان بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ میرا کچھ بھی باقی نہ رہے حالانکہ سب کچھ خدا کا دیا ہوا ہے.اگر وہ واپس لے لے تو پھر ہر چیز ، ہر جان ، ہر اس چیز سے محروم ہو جائے گی جو اس کو دی گئی ہے.اس کو زندگی دی گئی عقل دی گئی ، رشتہ دار دئے گئے ، اس کو صفات دی گئیں ، وہ سب سے خالی ہو جائے.ملِكِ يَوْمِ الدین کی یہ تعریف ہے جو اتنی خطر ناک تعریف ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِہ ان لوگوں نے اللہ کی شان نہیں پہچانی وَ الْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، جبکہ قیامت کے دن زمین کلیۂ اس کے قبضہ میں ہوگی.والسَّمواتُ مَطوِيتْ بِيَمِينِهِ آسمان اس کے ہاتھوں میں لیٹے ہوئے ہوں گے.گویا کہ انسان اور جو چیزیں ان میں ہیں وہ ساری ختم ہو جائیں گی اور کچھ بھی باقی نہ رہے گا.اصل آیت جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ ہے ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمواتِ و مَنْ فِي الْأَرْضِ ﴾ جب بگل بجایا جائے گا تو ہر چیز جوزمین و آسمان میں ہے خش کھا کر گر پڑے گی.ایسا غش ہو گا کہ کچھ مجھ نہیں آئے گا.﴿ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللهُ ﴾ سوائے اس کے
تدريس نماز 21 جسے اللہ چاہے اس کو بے ہوش نہیں کرے گا.ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخرى.پھر دوبارہ بگل بجایا جائے گا.تو سارے اٹھ کھڑے ہوں گے.(الزمر: ٦٩٠٦٨) إِلَّا مَنْ شَاءَ اللهُ ) میں کون مراد ہوسکتا ہے؟ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.میں نے ملک یوم الدین کے ساتھ یہ بات ملائی تھی.یعنی اس دن ساری چیزیں جو دی گئی ہیں وہ واپس مانگے گا.لیکن جو چیز بطور امانت کے رکھی ہو وہ اگر ایک دفعہ واپس دے دی جائے تو مالک دوبارہ مانگ نہیں سکتا.اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زندگی میں سب کچھ خدا کو دے دیا.قرآن سے ثابت ہے کہ ایک ذرہ بھی اپنے پاس نہیں رکھا تو قیامت کے دن اللہ دوبارہ کیسے مانگے گا.یہ مطلب ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جب آپ علیہ والسلام نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے نیچے مالک ہیں کیوں کہ جب آپ نے ہر ملکیت خدا کے حوالہ کر دی، اپنا وجود کچھ نہیں چھوڑا.قیامت کے دن خدا تعالیٰ آپ سے دوبارہ مانگ نہیں سکتا.چونکہ اسی دنیا میں پہلے ہی سب کچھ دے چکے ہیں.اسی لئے میں نے مفسرین سے اختلاف کیا تھا.بہت سے مفسرین لکھتے ہیں کہ قیامت کے دن جب بگل بجایا جائے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہو جائیں گے اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش نہیں ہوں گے.یہ بالکل غلط ہے.یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک قسم کا الزام ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہوں کیوں کہ جو چیزیں ہوش و حواس کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی میں دے بیٹھے ہیں وہ اللہ دوبارہ کیسے لے سکتا ہے.تو إِلَّا مَنْ شَاءَ اللهُ ﴾ سوائے اس کے جس سے اللہ دوبارہ نہ مانگے گا، سے مرا درسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور بھی ہو سکتے ہیں مگر اول طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے اس دنیا میں خدا کی ملکیت اس کے سپرد کر دی.اب نماز میں یہ جو کام ہے بڑا مشکل ہے.جب ملک يَوْمِ الدین کہتے ہیں تو بڑی مصیبت نظر آتی ہے.یعنی تو اس دن کا مالک ہے جس دن یہ کچھ ہونا ہے.ہم بالکل Disposes ہو چکے ہیں.ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ مان کر ملک يَوْمِ الدِّينِ ﴾ کو دنیا میں مانگی ہوئی چیزیں واپس نہ کریں تو ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کہہ کر دعا مانگنے میں خرابی ہے اور یہ وہ کام ہے جو نماز میں سب سے مشکل کام ہے.تو ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کو ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی سب چیزیں آخرت کے دن
تدريس نماز 22 سے پہلے پہلے واپس کر دینا کہ سب تیرے حوالے، یہ کوشش جو ہے اس کا نام مذہب ہے.سب سے بڑا وجود جس نے واقعہ واپس کیس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.مثلاً میں آپ کو کوئی چیز دوں پھر آپ سے واپس لے لوں.آپ نے مجھے واپس کر دی ہیں.مالک تھا تو واپس کیں.میں آپ سے کہتا ہوں آپ یہ لیں ، کھائیں پئیں، استعمال کریں لیکن جب میں مانگوں واپس کر دیں.اگر آپ میرے مانگنے سے پہلے ہی واپس کر دیں تو کیا میں دوبارہ مانگ سکتا ہوں؟ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں قرآن شریف میں آتا ہے: ﴿ قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾ (الانعام ١٦٣) یعنی تو اعلان کر دے کہ میری عبادتیں، میری قربانیاں، میرا جینا، میرا مرنا اللہ کا ہو گیا ہے.میرے بس کچھ نہیں رہا.یہ اعلان اس دنیا میں ہوا ہے.اب قیامت کے دن اللہ کیسے دوبارہ مانگے گا کہ مجھے واپس کر دے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ سکتے ہیں کہ تم نے ہی تو کہا تھا کہ اعلان کر.اگر تجھے یہ چیزیں وصول نہ ہوئی ہوتیں تو مجھے کیسے اجازت ہوتی اعلان کرنے کی.یہ مطلب ہے ملِكِ يَوْمِ الدين کا.اس نقطہ کو اگر کوئی سمجھا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھے ہیں.اور کوئی نہ سمجھ سکا.آپ نے فرمایا یہ وہ رسول ہے ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ زمین پر بنایا گیا.چونکہ مالک کے نیچے آگیا.ہر چیز اس کے سپر د کر دی گئی.اب جو کچھ وہ کرے گا، مالک کے نمائندہ کے طور پر کرے گا، اپنی مرضی تو نہیں ہوئی.جو مالک چاہتا ہے، جو مالک کہے گا وہی کرے گا.اللہ نے جو آپ کو آنکھیں دیں، کان دئے ، دانت دئے اور جیسی بھی عقل ہے ویسی دی.اور اب وہ ساری چیزیں اللہ کو واپس کر دیں کہ یہ اب تیرے سپرد ہیں، جیسے تو کہے گا ویسے استعمال ہوں گی ورنہ نہیں.اب تیری مرضی ہے.تو کیا خدا تم سے دوبارہ یہ ساری چیزیں مانگ سکتا ہے؟ نہیں تم کہہ سکتے ہو اللہ میاں سب کچھ دے تو دیا ہے.تو اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش نہیں ہوں گے.کیوں کہ ہوش انہی چیزوں کا نام ہے، جو ہماری طاقتیں ہیں.جب ہوش واپس گئی تو سب کچھ واپس چلا گیا.اس لئے فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ ﴾ سے مراد ہے کہ قیامت کے دن پہلا بگل ایسا ہو گا جس میں ہر چیز اپنی ہر طاقت سے محروم کر دی جائے گی کیوں کہ اس کا مالک اللہ ہے.لہذا اصل مالک کہے گا کہ مجھے میری چیز واپس کرو.جو پہلے واپس کر چکے
تدريس نماز : 23 ہوں گے ان سے نہیں مانگ سکے گا.ہم جب اپنی ملکیت میں سے کوئی چیز کسی کو دیتے ہیں تو پھر واپس مانگنے کا حق نہیں رہتا.مگر اللہ نے اس شرط کے ساتھ ہر چیز دی ہوئی ہے کہ میری مرضی سے استعمال کرو.اگر میں واپس مانگوں تو واپس دے دو.تو کھانا جو کھاتے ہیں اللہ وہ واپس نہیں مانگتا.اگر کھانا کھانے کی اجازت ہو پھر کھا ئیں تو یہ اس کی مرضی ہے، کھانے کی اجازت نہ ہو پھر کھائیں تو آپ نے اس کی مرضی تو ڑ دی.(اللہ تعالی کھایا ہوا کھانا واپس نہیں مانگتا.بلکہ اسلام میں یہ منع ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کسی کو کوئی چیز دو، پھر واپس مانگو تو یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی الٹی کر دے، قے کر دے).گو یا اللہ کو مونہہ سے ما لک کہا، دل سے مالک نہیں مانا.جب ہر چیز آپ کی اللہ کی مرضی کے مطابق ہو جائے تو پھر دل سے اللہ کو مالک مانا.ان معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو آیت میں نے پڑھی تھی، اللہ کہتا ہے کہ تو ان چیزوں کا مالک نہیں رہا.تو نے میری خاطر میرے سپرد کر دی ہیں.جب اللہ مان بھی گیا اس دنیا میں ہی کہ میں ہی مالک ہوں تو قیامت کے دن اللہ دوبارہ کیسے مانگے گا.يــوم الـديـن کـے سـلـسـلـه مـیـن حـضور رحمه الله تعالیٰ نے فرمایا: يَوْمُ الدین اس دن کو کہتے ہیں جب کسی کا اپنا کچھ بھی نہ رہے.سب کچھ اللہ میاں کو واپس کرد.يَوْمُ الدِّينِ کی کیا تعریف قرآن شریف میں آئی ہے؟ قرآن کریم میں يَوْمُ الدِّينِ کو بیان کیا گیا ہے اور ایک ایک آیت سے میں نے اس مضمون کو لیا تھا اور سمجھایا تھا.وَمَا أَدْرک مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴾ اے انسان تجھے کیسے سمجھائیں کہ يَوْمُ الدِّينِ کیا چیز ہے تمہیں دوبارہ پھر کیسے سمجھا ئیں.کوئی طریق بتاؤ کہ تمہیں سمجھ آ جائے.﴿ يَومَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلهِ.وہ دن جب کہ کوئی شخص کسی اور کے لئے کچھ بھی اپنے پاس نہیں رکھے گا.اور کوئی جان اپنے لئے بھی کوئی طاقت نہیں رکھے گی.ایسا دن چڑھے گا جب کہ آپ کسی کے کام آسکتے ہیں نہ کوئی آپ کی ملکیت میں ہوگا.نہ آپ کی اپنی جان، نہ اپنا دماغ ، نہ دل ، نہ آپ کی طاقتیں آپ کے قبضہ میں ہوں گی.﴿ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ ﴾ اس دن سب معاملات اللہ کی طرف واپس چلے جائیں گے.اردو کلاس نمبر ۷۷۰۰۳۱۹ اکتوبر ۱۹۹۷ء)
24 تدريس نماز : اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا.راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا.کونسا انعام ؟ انعام پانے والوں کا قرآن کریم نے الگ بیان کیا ہے.کن لوگوں پر انعام ہوا.نبی ،صدیق ،شہید اور صالح.ایک لفظ انعمت میں کتنی ساری زمانے کی کہانی بیان ہوئی ہے.جب سے نبی آنے شروع ہوئے ہیں نبیوں کے ساتھ یہ لوگ پیدا ہوتے آئے.صدیق ،شہید اور صالح.نماز میں ہر روز تم لوگ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ » کہہ کر صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ساتھ ساتھ انعامات مانگ لیتے ہو کہ اللہ ہمیں وہ راستہ دکھا جو نبیوں کا راستہ تھا جس پر چل کر صدیق پیدا ہوئے ، جس راستہ پر چل کر شہید پیدا ہوئے، جس راستہ پر چل کر صالح پیدا ہوئے.صالح اس کو کہتے ہیں جس کا سارا عمل اللہ تعالیٰ کی نظر میں صاف ستھرا ہو.عمل صالح وہ عمل جو اچھا ہو، بر اعمل نہ ہوا.جو سب سے کم درجہ ہے وہ بھی اتنا اونچا ہے کہ بہت بڑا لگتا ہے.اس لئے نماز میں جو مانگنا ہے طے کر لیا کرو جو مانگ رہے ہو.آپ کہتے ہیں ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام کیا.جن پر انعام ملتے ہیں.وہ نہیں جن پر غضب ہوتا ہے.انعام کس کو کہتے ہیں؟ نبی: نبیوں کو ماریں پڑتی ہیں.کتنی مصیبتیں پڑتی ہیں.یہ انعام مانگنا ہے.اگلا انعام: یہ جو چار رستے مانگتے ہو.تم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ اپنے لئے اتنی مصیبت کیوں لے لیتے ہیں.اور ہے انعام.وجہ یہ ہے کہ اللہ کی خاطر جو اتنے دکھ تکلیفیں اٹھاتے ہیں وہ اللہ کوسب سے پیارے ہوتے ہیں.اس لئے نبی بننا کوئی آسان کام نہیں.سب سے مشکل کام نبوت ہے اور اللہ فیصلہ کرتا ہے کون اس قابل ہے، کون نہیں.وہ تو عام لوگوں کو سمجھ بھی نہیں آسکتا کہ یہ کیا انعام ہے.جو نبی اٹھا اس کو مار دیا، جو نبی اٹھا اس کو گالیاں دی گئیں.رشتہ داروں نے بھی چھوڑ دیا، قوم نے چھوڑ دیا، یہ نبوت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یہی کچھ ہوا.تو پہلا انعام یہ ہے کہ ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام کیا.اور یہ مانگتے ہو.ڈر جایا کرو تھوڑا سا.چونکہ بات بہت بڑی مانگی ہے اور ہمت ہے کوئی نہیں.اسلئے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ
تدريس نماز 25 نَسْتَعِيْنَ ) اس سے پہلے ہے.(یعنی) تیری عبادت کرتے ہیں اور مددبھی تجھ سے ہی مانگتے ہیں.اگر تو مدد نہ کرے تو سورہ فاتحہ کی دعائیں ہمیں لگ ہی نہیں سکتیں.تو نبیوں کو تو چھوڑ وہ لیکن صدیق کیا ہوتے ہیں.صدیق سچائی کا آخری مبالغہ کا صیغہ ہے.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کی ہر بات کچی اور سچائی میں اوپر کے مقام تک پہنچی ہوتی ہے.اور ان کا ہر عمل سچا اور بات اور عمل میں کوئی فرق نہیں.ایسے بچے کہ ساری سوسائٹی گواہی دے کہ یہ سچا ہے، وہ صدیق ہوتا ہے.ہر نبی سے پہلے صدیق ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم بھی صدیق تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی صدیق تھے تبھی سارے کہتے ہیں کہ یہ سب سے سچا آدمی ہے.تو صدیق کی سچائی روشنی بن کر پھیل جاتی ہے.صدیق ایک لیمپ کی طرح جلتا ہے ارد گرداند ھیرے کو روشن کر دیتا ہے.اور لوگ کہتے ہیں یہ صدیق ہے، یہ صدیق ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ بعد میں نبی بنا تا ہے.لوگ اس لیمپ کو پھونکوں سے بجھانے لگ جاتے ہیں کہ ہم اس کو بالکل نہیں مانتے ، اس کو بجھا دو.اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے یہ چراغ نہیں بجھے گا.کبھی نہیں بجھنے دوں گا.یہ ہے صد یقیت.اس سے نیچے شھید: شہید کیا ہوتا ہے؟ کیوں کہ یہ بھی تو مانگا ہے کہ شہید بنادے.شہید کا مطلب ہے اللہ کی راہ میں قتل ہو جانا.جب قتل ہونے کا وقت آئے تو پتہ نہیں کتنے لوگ بھاگ جائیں ، مگر مانگتے یہی ہیں اللہ میاں سے.تو جو مانگتے ہوں اور وقت پر پیچھے ہٹ جائیں وہ صدیق تو ہو ہی نہیں سکتے نا.اور شہید بھی نہیں ہو سکتے.اس سے نیچے اتر آؤ صالح صالح بن سکتے ہو سارے.صالح کا مطلب ہے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، کبھی دھوکہ نہ دیا ہو، کسی سے پیسے نہ کھائے ہوں، نماز میں باقاعدگی سے پڑھی جائیں.اس کا عمل نیک، پاک، صاف ستھرا ہو.وہ بننے کے لئے بھی بڑی محنت چاہئے.اس لئے نماز ضروری ہے.پانچ وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا ضروری ہے.اگر یہ نہ کرو تو صالح بھی نہیں بن سکتے اور لوگوں کو صالح بنے کی بھی توفیق نہیں ملتی.ایک انعام اللہ میاں کا یہ بھی ہے کہ کھانا دیتا ہے سب کو رب العلمین ہے.یعنی سارے جہان کے لئے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے.سارے جہان کے لوگوں کو، جانوروں ، پرندوں، کیڑوں مکوڑوں کو اللہ میاں کچھ کھانے کو دیتا ہے تو زندہ ہیں.اردو کلاس نمبر ۳۰۸ -- منعقده ۸/اکتوبر ۱۹۹۷ء)
تدريس نماز 26 غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ مغضوب کا کیا مطلب ہے؟ جس پر غضب ہو اُسے مغضوب کہتے ہیں.لیکن کس کا غضب؟ اس کا ذکر نہیں.اس کے علاوہ سب جگہ پر فاعل کا ذکر ہے.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا لیکن غَيْرِ الْمَغْضُوبِ میں یہ ذکر ہی نہیں کہ کس نے غضب کیا.اس لئے ہمیشہ آپ کے ترجمہ میں یہ غلطی ہوتی ہے یہاں تک کہ قرآن کریم کے ہمارے ترجمہ میں بھی یہ غلطی موجود ہے.یہ ذکر ہی اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ کس کا غضب ہوا.بلکہ یہ فرمایا کہ ایک ایسی قوم کا رستہ نہ دکھا جس پر غضب نازل ہوا، غضب نازل کیا گیا ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں یہ نہیں فرمایا کہ صِراطَ الَّذِينَ غَضِبْتَ عَلَيْهِمْ یعنی ان کا راستہ نہ دکھا جن پر تو نے غضب نازل کیا.جبکہ انعمت فرمایا کہ تو نے انعام کیا.اور پھر الضالين » : وہ لوگ جو خود ہی گمراہ ہو گئے.اس میں فاعل موجود ہے لیکن مغضوب میں کوئی فاعل نہیں ہے.الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم ) سے مراد : ان لوگوں کا راستہ جن پر غضب نازل کیا گیا، جن پر غضب کیا گیا، جن کو سزادی گئی.لیکن کس نے سزادی، کس نے غضب کیا، اس کا کوئی ذکر نہیں.قرآن شریف سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بار باران پر اپنا غضب نازل کرے گی.اور بار باران کو انسانوں کے ہاتھوں سزائیں دی جائیں گی.یہ قرآن کریم نے خوب کھول دیا ہے.تو جب انسانوں کے ہاتھوں سزائیں دینا ان کا مقدر ہے تو اللہ تعالیٰ غضبت نہیں کہ سکتا تھا.چونکہ دونوں سزائیں قرآن کریم میں مذکور ہیں.(1) اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی سزا ملے گی.(۲) انسانوں کے ہاتھوں سے بھی سزا ملے گی.جس طرح جرمنی میں ہوا.کیسے ہوا تھا ؟ نائسی قوم یہودیوں پر عذاب بن کر اتری اور آجکل انگلستان میں ٹیلی ویژن پر یہ پروپا گینڈا خوب دکھایا جار ہا ہے کہ نانسی جرمنی نے یہودیوں پر بہت ظلم کئے.لیکن انگلستان کے ٹیلی ویژن دوسری بات نہیں بتاتے آپ کو.یہی انگلستان ہے جہاں نانسی فلموں سے پہلے انگریزوں نے ان (یہودیوں) پر ظلم کئے اور یہودیوں کو انتہائی ذلیل کیا جاتا
تدريس نماز 27 تھا.گلی گلی ان پر ظلم ہوتے تھے، ان کو مارا جاتا تھا، ان کی جائیدادیں لوٹی جاتی تھیں اور یہ نیکی کبھی جاتی تھی.اس سے پہلے ان پر پین میں بھی ظلم ہوا.خود عیسائی دنیا کے ہاتھوں مظالم ہوئے.اور آج کل جرمنی کو بدنام کرنے کے لئے وہاں ٹھہر جاتے ہیں.یہ نہیں بتاتے کہ یہود کی قسمت یہی ہے.جب سے انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی مخالفت کی ہے اس کے بعد سے آج تک مختلف دور آتے رہے.اور ہر دور میں یہودیوں پر ظلم ہوئے.اور انسانوں کے ہاتھوں جو غضب ہوا اس کا ذکر قرآن کریم میں ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں تم پر ظلم کئے جائیں گے.یعنی غضب نازل کیا جائے گا.اور یہ پیشگوئی اتنی شان سے پوری ہوئی کہ ساری تاریخ گواہ ہے کہ قرآن کا وعدہ سو فیصد سچا نکلا.اگر بندہ کی بنائی کتاب ہوتی تو یہ باریک فرق نہ پڑتے.اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ﴾ کے بعد غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کہہ کر اتنے اعلیٰ طریقہ سے مضمون بیان کر دیا تھا مگر ترجمہ کرنے والوں نے اس کو پھر بگاڑ دیا.تو دعایہ بنی کہ جو مغضوب بنائے گئے ، جن پر غضب کئے گئے ، ایسے لوگوں کا رستہ نہ دکھا.اب اس کا یہاں کیا موقع ہے؟ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ﴾ تو کہ دیا تھا ہم نے.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ﴾ کا مطلب ہے ہمیں ایسے لوگوں کا رستہ دکھا جن پر تو نے انعام نازل فرمایا.تو اس میں استثناء کیوں کیا گیا ہے.اللہ کو تو پتہ ہے نا! کہ کن پر انعام کیا.تو اُسے سمجھا کیا رہے ہو تم لوگ؟ کہ ان لوگوں کا راستہ نہ دکھا جن پر غضب نازل ہوا.اس کا کیا مطلب ہے.کیوں کہ یہود خود بھی انعمت کے اندر آتے ہیں.کیوں کہ اسلام سے پہلے یہودیوں پر انعام ہوا تھا اور قرآن کریم اس ذکر سے بھرا پڑا ہے.تو جب ہم انعام والوں کا راستہ مانگتے ہیں، اس میں یہود بھی آتے ہیں تو بات مبہم ہو جائے گی.انعام والا رستہ ان سب میں قدر مشترک ہے.سب نبیوں کی قوموں کا راستہ ان کا راستہ ہے جن پر انعام ہوا.تو یہ کہہ تو دیا کہ اے خدا ہمیں انعام والا رستہ دکھا لیکن جن پر انعام ہوا پھر جب وہ بگڑے تو ان کا رستہ نہ دکھا.بچوں کو سمجھانے کے لئے مثال دیتے هوئے حضور رحمه الله تعالیٰ نے فرمایا: تم کسی پر انعام کرو، اسے اچھا کھانا کھانے کے لئے دو ہم نے کیا کیا ؟ انعام کیا.وہ اچھا کھانا
تدريس نماز 28 طریقے سے کھاتے رہیں.کچھ بچے ہوتے ہیں جو کھانے میں گند ڈالدیتے ہیں.جو بچے ایسے ہوتے ہیں جو کھانے میں گند ڈال دیں اُن کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیتے ہیں.تو شروع میں دونوں پر انعام ہوا تھا.یہ ہمارا جیس ہے نا ، حضور رحمه الله کا کم عمر نواسه مراد هے عزیزم جلیس جو مکرم کریم احمد خان صاحب اور صاحبزادی مونا سلّمها اللہ تعالیٰ کا بیٹا ھے.مرتب) اس کو پلیٹ میں اچھا کھانا لگا دو، پانی دو، کچھ دیر کے بعد دیکھو تو پانی میں کھا نا ڈال دیتا ہے، تو ہم اسے کان سے پکڑ کر باہر نکال دیتے ہیں.اسی طرح جن لوگوں پر خدا نے انعام فرمایا جب انہوں نے اپنا گند بیچ میں ملا دیا تو ان کو خدا الگ کر دیا تا ہے.اللہ میاں کہتا ہے ان کا رستہ نہ مانگنا.انعام شروع میں برابر سب پر لیکن کوئی شرارت شروع کر دے اور انعام سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور اپنے انعام کو گندہ کر دے، اس کو پھر کان پکڑ کر ایک طرف کر دیا.تو مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ﴾ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے ” ہم نے جہانوں پر ان کو فضیلت بخشی.ایسے انعام کئے کہ ساری دنیا پر ان کو فضیلت بخشی.وہ فضیلت جو قرآن کریم میں آتی ہے ابھی تک یہود میں موجود ہے.ان کو بڑے بڑے دماغ دئے ، چوٹی کے سائنسدان ، چوٹی کے مفکر، بہترین دنیاوی علوم میں اور اموال پر قبضہ کرنے میں یہ بہترین دماغ رکھتے ہیں.امریکہ کتنا بڑا ملک ہے اس پر جا کے قبضہ جمالیا.عملاً امریکہ پر اسرائیل حکومت کر رہا ہے.کہنے کو امریکہ حکومت کر رہا ہے لیکن وہاں کے سیاستدانوں کی مجال نہیں کہ کوئی ایسا فیصلہ کریں جو اسرائیل نا پسند کرے.تو یہ ان لوگوں کا حال ہے جن کو قرآن کریم نے فرمایا تھا کہ ”ہم نے تم کو سب جہانوں پر عزت دی.وہ عزت ابھی تک دنیا کے لحاظ سے سب جہانوں پر ہے لیکن وہی عزت ہے جو آگے مَغضُوب ہونے کی وجہ بن جاتی ہے.جتنی بڑی ترقی ہوتی ہے اتنازیادہ ان کی حرص بڑھتی جاتی ہے، اتنا زیادہ لوگوں پر قبضہ زیادہ جماتے ہیں.تعداد تھوڑی ہے اور طاقت تعداد سے بہت بڑھ جاتی ہے.امریکہ کے آبادی کے مقابلہ پر تھوڑی سی تعداد ہے، معمولی ہے.مگر جب قبضہ وہ بختی سے جمالیں تو پھر رفتہ رفتہ دلوں میں نفرت پیدا ہونے لگتی ہے، ایک رد عمل شروع ہو جاتا ہے.اب یہ قرآن ایک کھلی کھلی کتاب ہے.یہ یہود پڑھتے ہیں لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اپنی اصلاح کرلیں.پھر وہی سختی کرتے ہیں جیسے فلسطینیوں پر ہوتی رہی ہے.انہوں نے ایک مارا،
تدريس نماز 29.انہوں نے سو مار دیا.گو یا جرم کو ختی سے دبانے کی کوشش کی ہے.لیکن قدرت کا قانون آزاد ہے.وہ اپنا کام کرتا ہے.قرآن کریم کی یہ بہت بڑی خوبی ہے اور تم لوگ سورہ فاتحہ میں روزانہ پڑھتے ہو اور آنکھیں بند کرتے ہو.اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں یہودی پہلے شامل تھے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تمہیں دنیا جہان کی فضیلت بخشی لیکن جب انہوں نے اپنے انعام کو گندہ کر دیا، گند ملا دیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اب تمہیں سزا ملے گی.اور ایسی سزا ملے گی جو خدا کے ہاتھوں بھی ملا کرے گی جو ضروری نہیں اس دنیا میں ملے ، آخرت میں بھی.لیکن کس دنیا کے ہاتھوں ملے گی ؟ جس پر تم نے قبضہ جمانے کی کوشش کی ، بار بار تمہیں خیال آئے کہ اب ہم یہاں پہنچ گئے ہیں.اب ہم قبضہ کر لیں.اور پھر بار بار ایسا رد عمل ہوگا کہ وہ قبضہ ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا.یہود کی ساری تاریخ کا یہ خلاصہ ہے.سارا یورپ آپ کھنگال کر دیکھ لیں.ہر ملک میں کہیں نہ کہیں یہود پر ظلم ہوئے ہیں.اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے قبضہ کو بڑھانے کی کوشش کی.شروع میں سب کو بہت اچھے لگے، قابل لوگ ہیں مختلف سائنسز (Sciences) لیکر آئے، مختلف علوم میں ترقی کی، جن ممالک میں گئے ان ممالک کو فائدہ پہنچایا.جرمنی جو ان کے پیچھے پڑا اس سے پہلے ان کے سائندانوں نے ، ان کے دانشوروں نے جرمنی کو بہت فائدہ پہنچایا.لیکن جب قبضہ شروع کر دیا تو پھر ان کو نکال کے باہر مارا.یہ معنی ہے مغضوب کا.یہ وجہ ہے، اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ تو نے غضب نازل کیا.بلکہ فرمایا یہ ایسے لوگ ہیں جن پر غضب نازل کیا جاتا رہا.اس لئے کہ قرآن نے فرمایا تھا کہ لوگوں کے ہاتھوں غضب نازل ہوگا.اس لئے غَضِبْتَ نہیں کہہ سکتے تھے.غَضِبتَ کا مطلب ہے ” تو نے غضب نازل کیا.“ سورہ فاتحہ کے بعد تلاوت قرآن (اردو کلاس نمبر (۳۱۲) سورۂ فاتحہ کے بعد پہلی دورکعتوں میں سورتیں پڑھی جاتی ہیں اور اصل میں قرآن شریف کا یہ حکم ہے کہ فَاقْرَءُ وُا مَاتَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآن کسی کو جو بھی قرآن میں سے میسر ہو وہ اس میں پڑھے.اس لئے اور اور سورتیں پڑھنی چاہئیں.﴿ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴾ کو ہی نہیں دہرانا چاہئے.جہاں تک ممکن ہو کوشش کرنی چاہئے کہ سورتیں یاد ہوں خواہ چھوٹی چھوٹی سورتیں ہوں.ہر نماز میں کچھ بدل بدل کر پڑھا کریں.بہت لمبی ضروری نہیں ہیں.اگر لمبی سورتیں یا دنہ ہوں تو کسی سورت
تدريس نماز 30.......کی کچھ آیتیں یاد کر لیا کریں.مثلاً آیت الکرسی ہے.ایک ہی آیت ہے.اور اتنی لمبی ہے کہ کسی نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد پڑھیں تو کافی ہے.پھر اس طرح کی بعض آیتیں جن کا ترجمہ آپ نے یاد کیا ہوا ہو، آپ کے دل کو وہ آیتیں اچھی لگیں ان کا اثر پڑے تو وہ یاد کر لیں.تو اپنی نمازوں کو مختلف قرآنی آیتوں سے سجائیں، پھر نماز کا مزہ آئے گا، ورنہ روٹین ہو جاتی ہے.آمین اور قل هُوَ اللهُ اَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ * وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوا أَحَدٌ » بچے فٹافٹ پڑھ کر تو چھٹی کرتے ہیں.اور دماغ میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ سوچ کے اس کے معانی نکالیں فوراً قُلْ هُوَ الله......اور اللہ اکبر.یوں نماز نہیں پڑھنی چاہئے.اكْبَرُ جیسا کہ قرآن کریم کا حکم ہے نمازوں میں کوشش کریں کہ سورتیں بدل بدل کر پڑھیں.اس لئے میں نے سارے ہفتہ کے نمازوں کی ایک ترتیب بنائی ہوئی ہے کہ صبح کی نماز میں یہ سورتیں بدل بدل کے ظہر و عصر کی نمازوں میں اپنے طور پر جو پڑھتا ہوں.مغرب وعشاء میں آپ سنتے ہیں کہ ہر روز کوئی نہ کوئی سورت بدلتا ہوں.تو اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس دن بھی بدل کے آپ ایک سورت پڑھتے ہیں تو اس سورت کے مضمون کا دوبارہ ایک مزہ آتا ہے، اور سمجھ آتی ہے.اس لئے ساری جماعت کو میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ کم سے کم جو سورتیں میں پڑھتا ہوں اس کا معنی تو سیکھ لیں.اگر ان کا ترجمہ سیکھ لیں تو پھر ان کا بھی دل چاہے گا کہ وہ ان کو یاد کر لیں.جو زیادہ لمبی ہیں ان کو بیشک نہ یاد کریں.کچھ آیتیں ضرور یاد کر لیں.اس سے آپ کی پانچ نمازوں میں الگ الگ سورتیں پڑھی جائیں گی.اگلے دن کی پانچ نمازوں میں الگ سورتیں پڑھی جائیں گی ، اس سے اگلے دن پانچ نمازوں میں الگ.تو ہفتہ کی بعد ہفتہ کی طرح آپ کی سورتوں کا بھی ایک چکر بن جائے گا.یہ بڑا ضروری حصہ ہے.کتابوں میں جب پڑھتے ہیں.قُلْ هُوَ اللهُ......لکھا ہوتا ہے.صرف یہ درست نہیں ہے.اس لئے نماز پڑھتے وقت آپ کو جو بھی سورۃ یا کسی سورۃ کی کچھ آیتیں یاد ہوں وہ پڑھا کریں.ان آیتوں کو آہستہ آہستہ یاد کریں، رفتہ رفتہ یاد کریں اور اپنا مضمون خود تیار کریں.آپ کے مضمون کا عنوان ہوگا کہ میں نے کونسی آیتیں سورہ فاتحہ کے بعد پڑھنی ہیں.ان آیتوں کو یاد کریں جن کا مزہ آئے اور دل پر بہت اثر ہو.ایک دفعہ قُلْ هُوَ الله......پڑھ لی دوسری دفعہ وہ پڑھ لی.پھر کچھ اور آیتیں چن لیں.تو ایک سال کے اندر ہمارے سارے اردو کلاس کے بچے اور جو بھی آپ کی وجہ سے باہر ( دنیا میں ) دین کی باتیں سیکھ
تدريس نماز 31.رہے ہیں، اپنی نمازوں میں مختلف سورتیں پڑھنے کے عادی بن جائیں گے.لیکن شرط ایک ہے کہ ترجمه آنا ضروری ہے.اسے اچھی طرح یاد کریں.آپ نے صبح کی نماز کے بعد قرآن پڑھنا ہے.نماز کے بعد اگر قرآن کریم ضرور پڑھیں تو اس سے قرآن کریم کے ساتھ ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اور سارا دن پھر اچھا گزرتا ہے.فیصلہ کریں کہ نماز کے بعد قرآن ضرور پڑھنا ہے.اور قرآن پڑھنے کے بعد پھر اس کے معانی بھی دیکھا کریں.اس کا طریقہ یہ ہے کہ ترجمہ والا قرآن پکڑیں، پہلے عربی میں تلاوت کی پھر اس کا ترجمہ دیکھ لیا.اس طرح آپ کو وہ آیتیں بھی مل جائیں گی.آپ کا دل چاہے گا کہ میں ہر روز پڑھا کروں.بعض آیتیں بعض دفعہ دلوں پر بہت اثر کرتی ہیں.قرآن کریم میں بھی لکھا ہے کہ بعض آیتیں ایسی ہیں کہ جن سے جسم میں جھر جھری آجاتی ہے، دل دھڑ کنے لگ جاتا ہے، جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.تو یہ ایسی آیات ہیں جو پڑھتے پڑھتے آپ کو ملیں گی.اور آپ کو سمجھ آجائے گی کہ واقعی یہاں پہنچ کر تو دل دہل گیا.پھر ان کو یاد کر کے اپنی سورتوں میں اضافہ کریں.اور اپنی نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد آپ اس طرح ان آیات کو پڑھیں کہ یہ بہت اچھا مشغلہ بن جائے گا.اور آئندہ پھر ہماری نسل جو ہے وہ اپنے بچوں کی تربیت اچھی کر سکے گی.بہت فائدہ ہوگا.پھاڑی علاقہ كى ايك سیر کے دوران پھاڑیوں پر چڑھنے کے ذکر کے بعد فرمایا: نماز میں بھی اس طرح جگہ جگہ پہاڑیاں آئیں گی.ان پر زور سے چڑھنا پڑے گا.اور میں نے جو باتیں آپ کو بتائی ہیں ، یہ پہاڑیاں ہیں.ہر پہاڑی پر جب آپ چڑھیں گے تو پھر اور ایک پہاڑی آئیگی.اس پر آپ چڑھیں گے تو پھر ایک اور پہاڑی.یہاں تک کہ آپ کی نمازیں بہت اونچی ہو جائیں گی.اتنا اونچی کہ لوگوں کی نماز میں آپ اوپر سے یوں نیچے دیکھیں گے کہ وہ وہیں بیٹھے ہیں، قُلْ هُوَ اللهُ......پ ہی صرف.اور آپ لوگ کتنا اونچا نکل جائیں گے.تو پرہی.نماز اسطرح یاد کریں کہ سب دنیا آپ کو دیکھ کر فائدہ اٹھائے.جن رستوں پر آپ چلیں وہ بھی آپ کے پیچھے چلیں.اور جو بچے آگے ہوں گے ان کے مزے ہوں گے.ان کی امیاں اتنی قابل ہوں گی وہ بچوں کو خوب پڑھائیں گی تو ہماری اگلی نسلیں کتنی اچھی ہو جائیں گی.اور پھر اس سے اگلی نسلیں، پھر اس سے اگلی نسلیں، اگلے سو سال تک پھر آپ لوگوں کے بچے آپ کا سیکھا ہوا کھائیں
تدريس نماز 32 گے.بہت اچھی تربیت ہوگی.رُكُوع سورہ فاتحہ اور دوسری آیات کے بعد اللہ اکبر کہہ کے جھکتے ہیں.”سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيم اول تو یہ کہ سُبحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیمِ کیوں پڑھتے ہیں؟ سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم اس سے پہلے کھڑے ہو کر پڑھتے ہو، اگر اس کا ترجمہ آتا ہو اس کا دل پر اثر ہو، پھر رکوع سچا ہوگا.پہلے سُبحَانَكَ اللهُمَّ....." کہتے ہیں.یعنی اے اللہ تو ہر کمزوری سے پاک ہے اور جب تم کہتے ہو سُبْحَانَ رَبِّي...تو اس کا مطلب ” جہانوں کا رب کمزوری سے پاک“ نہیں ہے میرا رب کمزوری سے پاک ہے.پہلے تو کہا تھا سب جہانوں کا.”سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِکَ و تَبَاركَ اسْمُكَ....یہ سب غائبانہ باتیں ہیں.مخاطب کر کے خدا کو کہتے ہیں ، مگر رب العلمین ، ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں آپ نے اس کو اپنایا ہے، ہم تیری عبادت کرتے ہیں،.رب تو کسی کا بھی ہو ظیم ہے لیکن یہاں سُبحَانَ رَہی اس لئے کہتے ہیں کہ جو باتیں ہم نے اپنے رب کی سورہ فاتحہ اور تلاوت میں دیکھی ہیں اس کے بناء پر ہم گواہی دے سکتے ہیں کہ میرا رب پاک ہے.اور جب آپ کہیں کہ ”میرا رب عظیم ہے تو اس کا کیا مطلب بنے گا ؟ جب میرا رب عظیم ہے تو مجھے بھی عظیم ہونا چاہئے.جس عظیم کا میں بندہ یا بندی ہوں تو مجھے بھی ویسا بننا چاہئے.عظیم کس کو کہتے ہیں؟ اعظم کس کو کہتے ہیں؟ کبھی غور کیا.اعظم کہتے ہیں ،سب سے بڑا.لیکن اللہ کے لئے اعظم کا لفظ نہیں آیا بلکہ عظیم کا لفظ آیا ہے.عظیم اسے کہتے ہیں کہ جس کے بعد، جس کے اوپر، جس سے بڑا ہو ہی نہ سکے.پہاڑوں کا ایک سلسلہ دیکھو، پہاڑوں کی چوٹیوں بنی ہوئی ہیں، ان پر غور کرو.بعض اوقات انسان کہتے ہیں، بڑا عظیم سلسلہ ہے، دنیا بڑی عظیم ہے.جب عظیم کہتے ہیں تو عظیم کے اوپر اعظم ہوتا ہی کوئی نہیں.وہ اپنی ذات میں ہر طرف پھیلا ہوا ہے، اس نے ساری کائنات کو بھرا ہوا ہے.یہ ساری سمتیں جو ہیں وہ ساری عظیم کے اندر آجاتی ہیں.انسان ہو ، حکومت ہو ، ملک ہو، کہتے ہیں بڑا عظیم ہے.اس کے
تدريس نماز 33.بعد یہ خیال نہیں آسکتا کہ اس کے بعد بڑا کون ہے؟ جس کو آپ نے عظیم کہا، وہی سب سے بڑا بن جاتا ہے.عظمت میں سارا پھیلاؤ زمانہ کا ہے.اور اگر بلند کہنا ہو تو اس کے لئے اعلیٰ کہیں گے.تو رکوع میں عظیم “ کہتے ہیں.خدا کی صفات ایسی ہیں جنہوں نے سب چیزوں کو ڈھانپا ہوا ہے.اس کی عظمت سے کوئی چیز خالی نہیں رہی.وہ بہت بڑا ہے اور اس کا پھیلاؤ بہت ہے.یعنی Space میں کوئی چیز بھی اس سے بڑھ کر نہیں.اور جب اس کی بلندی کا ذکر کریں گے کہ اونچا ہے تو کیا کہیں گے؟ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلى سجدے میں جا کے اعلیٰ ہوتا ہے.اب نماز کی یہ ترتیب دیکھیں کتنی پیاری ہے.رکوع میں آپ جھک کے چاروں طرف پھیل جاتے ہیں اور اس وقت سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيم" کہتے ہیں.اور جب سب سے نیچے گر جاتے ہیں، سر نیچے لگا دیا تو سُبْحَانَ رَبِّي الاغلی“ کہتے ہیں.تو عظیم اور اعلیٰ کیسے موقع پر اللہ نے استعمال فرمایا ہے.رکوع میں عظیم کہا کہ عظمتیں حاصل کرو.اور سجدے میں اعلیٰ کہا، بلندی حاصل کرو.پہلے ہر بات پوزیشن بدلنے کے لئے ، اللہ اکبر کہا کرتے تھے.ہر رکعت میں آپ اللهُ اكبر کہتے ہیں.اب جب کھڑے ہوتے ہیں رکوع سے تو امام کہتا ہے: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنُ حَمِدَہ اور مقتدی کہتے ہیں رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ.اب رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ پڑھا، پھر کھڑے ہو کر امام سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حمدہ کہتا ہے.اس کا مطلب ہے اللہ نے سُن لی اس کی جس نے اس کی حمد کی.اب رکوع میں تو سُبحَانَ کہا ہے، رکوع میں حمد کوئی نہیں کی.اصل میں عظیم اس کی حمد ہے.اور سُبحانَ یہ بتا تا ہے کہ جو عیبوں سے پاک ہے حمد بھی رکھتا ہے.تو کسی کی حمد کرنی ہوتو دو لفظوں میں اس کی ساری حمد ہو سکتی ہے.یا عظیم کہیں گے یا اعلیٰ کہیں گے.رکوع میں آپ نے عظیم والی حمد بیان کی ہے.اب حمد اور سورہ فاتحہ کا سارا مضمون دماغ میں رہا اور سُبحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيم“ کہا تو اس وقت امام آپ کو خوشخبری دیتا ہے، سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اللہ نے سُن لی اس کی بات جس نے اس کی حمد کی.اس پر آپ پھر اور حمد کرتے ہیں.کھڑے ہو کر کہتے ہیں رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْداً كَثِيراً طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ.کبھی یہ سوچا کہ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِیں رَبَّنَا کے بعد و، کیوں
تدريس نماز آتی ہے؟ 34 جب یہ آواز سنتے ہیں کہ سُن لی اللہ نے تو دل سے بے اختیار نکلتا ہے ربَّنَا ، کیسا پیارا رب ہے جس نے ہماری سن لی.اس کا جواب ہے: رَبَّنَا.اے ہمارے رب کیسی پیاری بات ہے، ادھر ہم نے حمد کی ادھر تو نے سُن لی.رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ“ اب ہم گواہی دیتے ہیں کہ تیرے لئے اور بھی حمد ہے.پھر ربنا میں ایسی حمد بیان ہوئی ہے جس میں شکریہ بھی پایا جاتا ہے.اور دل سے بے اختیار آواز نکلتی ہے.سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ “.کہ ابھی ہم نماز میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ کہہ رہے تھے تو کان میں آواز پڑی سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" اس نے سُن لی اُس کی جس نے اُس کی تعریف کی.فوری جز املی تو اس وقت بے اختیار دل کہتا تھا رَبَّنَا.اگر صرف رَبَّنَا کہے تو ساری باتیں اسی میں بیان ہو گئیں.لیکن ربنا کہہ کر بتایا کہ ہمارا رب دیکھو کتنا عظیم ہے.پھر رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمدُ کہا کہ واقعی تیرے لئے ہی حمد ہے اور کسی کے لئے نہیں.حَمْداً كَثِيراً طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيه - (اردو کلاس نمبر ۳۱۶ منعقده ۳۱ /اکتوبر ۱۹۹۷ء) (بحواله الفضل انٹر نیشنل لندن ۲ مئی تا ۸ مئی ۲۰۰۳ء) سجده ارکان نماز : ہر حرکت جو ہم کرتے ہیں وہ ایک رکن بن جاتا ہے.نماز کے سب رکن اس کے ارکان کہلاتے ہیں.تو میں آپ کو نماز کے ارکان سمجھار ہا تھا.ہر رکن میں جو دعائیں پڑھتے ہیں وہ اس رکن سے مطابقت رکھتی ہے، اس جیسی ہوتی ہے.میں نے بتایا تھا کہ سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّي الاغلی“ کہتے ہیں.اس کا کیا مطلب ہے؟ سُبْحَانَ رَبِّيَ الأعلى، میں آپ کو کیا پیغام ملتا ہے؟ اس سے پہلے سورہ فاتحہ نے آپ سے ربّ کا تعارف کروایا تھا کہ ربّ کیا ہے؟ تو اس وقت ” آپ کا ربّ“ تو نہیں کہ تھا.سورۃ فاتحہ نے رَبِّ الْعَالَمِينَ ) یعنی تمام جہانوں کا رب کہا تھا.جب آپ اس رب کو یاد کریں گے اس سے مدد مانگے گے تو وہ آپ کا ہو جائے گا.تو یہ پہلا پیغام ہے ربی الاعلیٰ میں کہ میرا رب بہت بلند ہے.بہت زبردست دعوئی ہے.سبحان اللہ! میرا رب دیکھو! میرا رب میں دوبارہ عہد بھی ہے کہ
تدريس نماز 35......جو بھی مجھے رزق عطا کرنے والا ہے، مجھے طاقتیں دینے والا ہے.وہ اب یہی ہے، رب اور کوئی نہیں ہے.سب رب مٹ گئے.میرا رب تو وہ ہے جو اعلیٰ ہے.سب سے اونچا ہے تو پھر اور کیا چاہئے؟ سُبْحَانَ رَبِّيَ الأعلى" میں سُبْحَانَ نے ایک اور پیغام بھی دیا ہے کہ وہ برائیوں سے پاک ہے.کوئی شخص مرتبہ میں اونچا بھی ہوسکتا ہے پھر بھی اس پر داغ لگ سکتے ہیں.لیکن یہ وہ رب ہے میرا جو ہر برائی سے پاک ہے.یہ میرا رب ہو گیا ہے“ اور ”سب سے اعلی کا کیا مطلب ہے؟ آپ کا رب کیسے ہو گیا، اگر آپ برائی سے پاک نہ ہوں.اگر آپ اپنے اخلاق میں، اپنے مزاج میں اعلیٰ نہ ہوں تو وہ آپ کا رب نہیں رہے گا.اس لئے ہر دفعہ جب ہم سُبحَانَ رَبِّيَ الأعْلی پڑھتے ہیں تو پیغام ملتا ہے کہ میں بھی ایسا ہی بنوں جیسا میرا رب ہے.میں بھی پاک بنوں جیسا میرا رب پاک ہے.میں بھی اعلیٰ بنوں کیوں کہ میرا رب اعلیٰ ہے.مگر خدا نے اعلیٰ بننے کا طریق کیا سکھایا ہے؟ سجدہ میں سب سے نچلی حالت میں آپ گر گئے.اس سے آگے کھود کر جگہ بنانی پڑتی ہے.سجدہ سے نیچے تو آپ کچھ نہیں کر سکتے ،سوائے اس کے کہ مٹی کھود کر اور نیچے چلے جائیں.مٹی کھودنے کی ضرورت نہیں ، زمین پر جہاں آپ کا ماتھا ٹک گیا اتناہی کافی ہے.یہ ہے پیغام سُبحَانَ رَبِّيَ الْاعْلی “ کا جسے تین دفعہ پڑھتے ہیں.لیکن بعض لوگ یہ باتیں سوچتے سوچتے اتنا لمباسجدہ کرتے ہیں کہ پچھلوں کی ہوش اُڑ جاتی ہے.مختلف باتیں سوچنا کہ وہ سُبحان ہے، کن کن معنوں میں پاک ہے ؟ میں کیوں اس کی طرف منسوب ہونے کے قابل نہیں.بعض بچے یہ کہتے ہیں : ہمارا باپ بہت بڑا ہے.مگر ہمیں اسکی طرف منسوب ہوتے شرم آتی ہے.کیوں کہ وہ اونچا ہے اور ہم چھوٹے.اب سُبْحَانَ رَبِّي کہہ دیا کہ میرا رب تو بہت پاک ہے.اس پر تو کوئی داغ نہیں.پھر آدمی سوچنے لگے مگر مجھ پر یہ بھی داغ ہے، وہ بھی داغ ہے.یہاں سے میں گندا ہوں، وہاں سے بھی گندا.تو کتنا لمبا مضمون چل پڑے گا.ابھی سُبحَانَ پر ہی کھڑے ہوں گے کہ آگے دل کی باتیں شروع ہو جائیں گی کہ میں کیوں سُبحان (پاک) نہیں ہوں؟ کن باتوں میں مجھے بہتر ہونا چاہیئے.پھر جب رہی کہیں گے تورکی دعا بن جائے گی.اسی سے میں نے مدد مانگی ہے، اسی کی طرف جھکنا ہے، وہ تربیت کے لحاظ سے رب ہے ، میری تربیت کرنے والا ہے.رہی جو کہا ہے تو امید
تدريس نماز 36 بن گئی.وہ صرف ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ایک مدد کرنے والی ہستی کی طرف ایک پکار بن گئی ہے.سُبْحَانَ رَبّی میرا رب تو ہر داغ سے، ہر برائی سے پاک ہے لیکن شکر ہے میرا رب ہے مجھے ٹھیک کرنے والا ہے.پھر رب کن معنوں میں ہے؟ کس طرح روحانی طور اللہ تعالیٰ نے آپ کو سوچنے کے موقعے دئے اور نماز نے آپ کو کیا سے کیا بنا دیا؟ یہ سب ربّی کی باتیں ہیں میرے رب نے مجھے بنایا.اور اس کے بعد آخر پر اعلیٰ کا مضمون ہے ، سب سے اونچا ہے.لیکن انسان سب سے اونچا کیسے ہوسکتا ہے.خود تو نہیں ہو سکتا.سب سے اونچا جو خدا ہے اگر اس کے سامنے اپنا سر زمین پر لگا دیں تو اللہ آپ کو اونچا بنائے گا.اور یہ کہہ کر کہ میرا رب وہ ہے جو سب سے اونچا ہے امید بندھائی کہ وہ مجھے بھی تو اونچا کرے گا.ایسی اور اسی طرح کی بہت سی اور باتیں سوچی جاسکتی ہیں.اگر آپ سوچیں تو سجدہ کتنا لمبا ہو سکتا ہے.ایک ہی دفعہ پڑھیں سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى، تو بعض لوگوں کو سجدہ میں نیند بھی آجاتی ہے.قادیان میں ایک بزرگ صحابی ہوتے تھے جن کا نام حضرت مولوی سرور شاہ صاحب تھا.بہت چوٹی کے عالم تھے، بہت بزرگ آدمی تھے.کبھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ، میرے والد مرحوم بیمار ہوتے تو کہہ دیتے کہ مولوی سرور شاہ صاحب نماز پڑھائیں گے.جب وہ نماز پڑھاتے تھے خصوصاً صبح، سجدہ میں اتنی دیر لگا دیتے تھے تو ہم بچپن میں کوئی اس طرف گرا ہوا ہے، کوئی اُس طرف گرا ہوا ہے، سوسو کے گرتے جاتے تھے اور سجدہ ختم ہی نہیں ہوتا تھا.کسی نے مولوی صاحب سے شکایت کی کہ مولوی صاحب کتنی دفعہ سُبْحَانَ رَبِّي الاغلى، پڑھتے ہیں؟ سنت تو یہ ہے کہ تین دفعہ سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلى، کہتے ہیں.آپ تین سو دفعہ پڑھتے ہیں کہ سجدہ ختم ہی نہیں ہوتا.وہ کہتے خدا کی قسم تین دفعہ سے زیادہ نہیں پڑھتا، صرف تین دفعہ پڑھتا ہوں.اس سے اندازہ کریں کہ حضرت مولوی صاحب کا مقام کیا تھا.سوچ سوچ کے پڑھتے تھے.فرق صرف یہ تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ جب کوئی امام ہو تو پچھلوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے.مولوی صاحب کو یہ بات بھول جاتی تھی کہ پیچھے بھی کوئی نماز پڑھنے والا ہے.قادیان میں ایک دوست ہوا کرتے تھے جو مذاق کرنے میں مشہور تھے.ان کی ایک بیماری تھی کہ وہ مسجد میں نماز پڑھنے نہیں جایا کرتے تھے لیکن اپنے مذاق کی وجہ سے دور دور تک بہت شہرت
تدريس نماز 37 رکھتے تھے.ان کا نام تھا مرزا ارشد بیگ.کسی نے ان کو کہا آپ اتنے اچھے آدمی ہیں، اتنے نیک ہیں اور اتنے لوگوں کی خدمت کرنے والے ہیں، غریبوں پر احسان کرنے والے مسجد میں نماز کے لئے کیوں نہیں جاتے؟ تو ان بیچاروں نے ارادہ کر لیا کہ اب تو میں جاؤں گا.صبح کی نماز پر گئے ، حضرت مولوی سرور شاہ صاحب نماز پڑھا رہے تھے.وہ سجدہ میں گئے اٹھنے کا نام ہی نہ لیا.انہوں نے کہا السلام علیکم، میں جاتا ہوں اور دوڑے دوڑے نیچے اترے.ان کی مذاق کی جو عادت تھی انہوں نے کہا کہ حکومت تبدیل ہو گئی ہے.رستہ چلتے چلتے کسی نے پوچھا کیا ؟ حکومت کیسے تبدیل ہو گئی ؟ انہوں نے جواباً کہا پہلے مغلوں ( حضرت مصلح موعودؓ ) کی حکومت تھی ، جہاں مغل حکومت کیا کرتے تھے وہاں سیدوں نے کوہلو لگایا ہوا ہے.(جو مشین پیس کر تیل نکالتی ہے کو ہلو کہلاتی ہے ) یعنی مولوی صاحب تو نماز پڑھنے والوں کا تیل نکال دیتے ہیں.تو ان باتوں کے ساتھ پرانے زمانوں کے لطیفے بھی مجھے یاد آجاتے ہیں.تو سجدہ میں تین دفعہ سُبْحَانَ رَبِّي الأعلى، پڑھتے ہیں.جب اکیلے نماز پڑھیں تو جتنے چاہیں لمبے سجدے کر لیں ، جب کسی کو پڑھائیں تو کو ہلو نہ لگائیں، یہ ضروری پیغام ہے آپ کے لئے.دو سجدوں کے درمیان کی دعا ارد و کلاس نمبر ۳۲۱، منعقده ۱۲/ نومبر ۱۹۹۷ء) اس میں وَارْفَعْنِی کو پہلے اور وَاجْبُرْنِي وَارْزُقْنِی کو آخر پر رکھا ہے حالانکہ بعد میں وَارْزُقْنِی کا اتنا تعلق نہیں جتنا و از معنی کا تعلق ہے.مگر ہماری کتابیں یہی دیتی ہیں.پہلے مجھے خیال آیا کہ یہ دعا کی ترتیب درست نہیں لگ رہی اس لئے تحقیق کرنی چاہئے.یہ بڑا دلچسپ خیال تھا.اس لئے کہ میرا خیال تھا کہ 'وَار فَعَنِی، آخر پر ہونا چاہئے تھا، اور پہلے نہیں ہونا چاہئے تھا.اس لئے میں نے تحقیق کروائی اور بوہ کو اس کام پر لگوایا کہ کن کن حدیثوں میں اس دعا کا ذکر ہے.عجیب بات یہ نکلی کہ ہماری کتابوں میں جو دعا ہے وہ کسی حدیث میں بھی نہیں.مختلف روایتوں کو جوڑ کر بنانے والوں نے ایک دعا بنالی لیکن حدیث کے الفاظ میں نہ یہ ترتیب ہے نہ یہ سارے الفاظ ہیں.اس لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں دعا کو درست کرنا چاہئے.صحاح ستہ میں تین کتابیں ہیں جن میں تین روایتیں ہیں.دو کتابوں میں وہی الفاظ ہیں.ایک کتاب میں ان سے الگ الفاظ ہیں اور وہ بھی صحیح دعا ہے.اب بتاتا ہوں کہ وہ کتابیں کیا کیا روایتیں بیان کرتی ہیں.
تدريس نماز 38......جامع ترندی: ایک صحیح کتاب ہے.اس میں اللهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِی.اس میں وَارْفَعْنِی ہے ہی نہیں.جس کی مجھے تلاش تھی.مجھے اس کی تلاش بھی تھی ارو یقین بھی تھا کہ یہ آخر میں ہوگا کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا ئی فصیح و بلیغ تھے.اگر آپ نے کوئی دعا سکھائی ہوتی تو سجدہ میں جانے سے پہلے وَارْفَعُنِی کا ذکر ہوگا.کیوں کہ سجدہ سے انسان کا رفع ہوتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر یہی فرمایا ہے کہ خدا کا بندہ جب خدا کے حضور عجز سے جھک جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ساتویں آسمان پر رفع فرماتا ہے.تو لفظ رفع سجدہ کے تعلق میں ہے.اس لئے مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میرا جواندازہ تھا وہ آخر ٹھیک نکلا.اس حدیث کے الفاظ ہیں: اللَّهُمَّ اغْفِرْلِی وَارْحَمْنِي وَاجْبُرْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي اس میں عَافِنِی نہیں ہے.دوسری ہے: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمُنِي وَعَافِنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي، اس میں وَاجْبُرْنِی نہیں ہے.تو ثابت ہوا کہ ان تینوں حدیثوں کے الفاظ کا جو فرق ہے وہ بیچ میں سننے والے راویوں کی یادداشت کا فرق ہے.شروع سے حدیث صحیح چلی ہے.لیکن کوئی ایسا رستہ ضرور ہوگا کہ میچ پہنچی ہو.تو ان دو کتابوں کے الفاظ تو آپس میں نہیں ملتے.ایک اور کتاب ہے ، اس کے الفاظ بھی نہیں ملتے مگر اس کا مضمون بہت اچھا ہے.وہ ہے سنن ابن ماجہ.یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے حوالے ہمارے لٹریچر میں بہت دئے جاتے ہیں.اس کے الفاظ یہ ہیں: رَبِّ اغْفِرْلِی وَارْحَمْنِي وَاجْبُرْنِی.اے میرے رب مجھے بخش ، مجھ پر رحم فرما، میری اصلاح فرما دے.وارزقنی مجھے رزق دے، جسمانی وروحانی.اور آخر پر وَارْفَعْنِی ہے، میرا ارفع فرما.اس کے بعد اللہ اکبر کہا اور سجدہ میں چلے گئے.رَبِّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِي وجُبُرْنِي وَارْزُقْنِى وَارْفَعُنِي ، يہ وہ حدیث ہے جو میرے دل کو لگتی تھی.اور مجھے یقین تھا کہ ملے گی ، اور پھر مل گئی.پس یہ تینوں روایات الگ الگ تھیں مگر میرے ذہن نے جو اندازہ لگایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ترتیب سے بات کی ہوگی اور وارفَعُنِی کا ذکر آخر پر فرمایا ہوگا.یہ بات ابن ماجہ سے نکل آئی.اس لئے ہماری کتب میں یہ درج ہونی چاہئے.ہماری کتب میں جو حدیث ہے وہ ان تینوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے.اور کسی اور حدیث میں
تدريس نماز : 39......بھی نہیں ہے.ہمارے علماء نے تحقیق نہیں کی کہ یہ پائی بھی جاتی ہے یا نہیں.اور وہ الفاظ لکھ دئے جو آپ نے یاد کر لئے.میرا خیال ہے کہ ان علماء میں بعض ایسے معتبر علماء بھی تھے.ان پر میں شک بھی نہیں کر سکتا کہ انہوں نے کہیں بھی نہ پڑھی ہو.ہو سکتا ہے کہ ہمارے علماء نے ابھی پوری تحقیق نہ کی ہو، یعنی صرف صحیح کتابوں کی تحقیق کی ہو جو چھ صحیح کتابیں ہیں.اور ہوسکتا ہے کہ وہ بعض دوسری کتابوں میں موجود ہو.میرے علم میں ہمارے علماء میں ایک بھی ایسا نہیں جو اپنی طرف سے ایسی کوئی بات گھڑے.لیکن جب ہماری کتابوں میں جگہ مل گئی تو اس سے ثابت ہوا کہ انہوں نے کوئی حدیث کہیں پڑھی ہے.اس میں الفاظ زیادہ تھے تو ان کو اچھا لگا تو انہوں نے سارے الفاظ بھر دئے.وَارْفَعْنِی کا مطلب جو غیر احمدی مولوی نکالتے ہیں وہ یہاں ہو نہیں سکتے.وہ کہتے ہیں : ” مجھے جسم سمیت اٹھائے جیسا کہ حضرت عیسی کے متعلق رَفَعَ کا لفظ آتا ہے بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ﴾ اس کا اپنی طرف رفع کر لیا اور رفع کا مطلب جسم کے ساتھ اٹھانا ہے.اب وَارْفَعُنِی کا مطلب جسم سمیت اٹھا لینے کا ہو ہی نہیں سکتا.ورنہ اگلا سجدہ ہوہی نہیں سکتا.مطلب یہ ہے کہ سجدہ میں انسان اٹھایا جاتا ہے.جتنا خدا کے سامنے جھکو اتنا ہی خدا اونچا کرتا ہے.اس کا مرتبہ بلند ہوتا ہے.لہذا وَارْفَعُنِی کا مطلب ہے ”میرا امر تبہ بلند فرمادے“.اور یہ کہہ کر کہ سجدہ میں جائیں تو بات کتنی مکمل اور خوبصورت بن جاتی ہے.اور یہ اس حدیث میں نکل آتی ہے.اس لئے اب اس حدیث کو یاد کر لو.اس کا مضمون ایسا ہے کہ فورا یاد ہونی چاہئے.ارد و کلاس نمبر ۳۲۲ ، منعقده ۱۴ نومبر ۱۹۹۷ء) اگلی کلاس میں حضور سور رحمہ اللہ نے اس مضمون کے تسلسل میں فرمایا:) اس کا ایک ہی راوی ہے.اس سے آگے دو تین وہی راوی رہتے ہیں.آگے جا کر آخر پر پہنچنے سے پہلے ایک ایک بدل جاتا ہے.اور یہی ایک حدیث ہے جو حدیثوں کی تین کتابوں میں ہے جو صحاح ستہ میں ہیں یعنی ابن ماجہ ، ابوداؤد اور سفن ترندی.اور اس کے اخر پر وار فَعْنِي آتا ہے جو مجھے پسند ہے.ہو سکتا ہے اس راوی نے وَارْفَعْنِی تو یا درکھا ہو اور بعض وہ الفاظ بھول گیا ہو جو دوسرے راویوں نے یادر کھے.اگر سب لفظ جو اس میں استعمال ہوئے ہیں سب کو اکٹھا کر دیں تو جائز ہوگا اور
تدريس نماز وَارْفَعُنِی والی بات آخر پر ہی رکھیں.اب آخر پر یہ دعا کیا بنے گی ؟ 40.دوسری روایت جو جامع ترمذی میں ہے اس میں وادنی ہے جو اس میں نہیں ہے.تو وَاهْدِنِی اس میں add کر دیں.اور ابوداؤد کی روایت میں وعَافِنِی ہے جو اس میں نہیں ہے.وَعَافِنِی ڈال لیں تو وَارْفَعُنِی تک یہ دعائیوں بن جاتی ہے.اور اس کی سند ہے اس لئے یہ دعا بتاتے ہیں.رَبِّ اغْفِرُ لِي وَارْحَمُنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي وَاجُبُرُنِي وَارْزُقْنِي وَارْفَعُنِي - ایک راوی نے جس نے وَارفَعُنِی کی روایت ہے اس نے ربّ کہا ہوا ہے.کیوں؟ سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الأعْلَى “ ہی چل رہا ہے.اس لئے ربّ والی دعا کو ہی یا درکھنا چاہئے.اللَّهُم، بھی کہہ دو ایک ہی بات ہے مگر جو بھی یاد ہو ، منہ پر چڑھ جائے وہ ٹھیک ہے.رَبِّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي وَاجْبُرْنِي وَارْزُقْنِي وَارْفَعْنِي ، ترجمہ: اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما.وَاهْدِنِی اور مجھے ہدایت دے.وَعَافِنِي اور مجھے صحت عطا فرما تا کہ میں ہدایت پر چل بھی سکوں.وَاجُبُرُنِی ، اور مجھے جسمانی وروحانی لحاظ سے ٹھیک کر دے.میری اصلاح فرمادے.کوئی چیز ٹیڑھی ہو جائے مثلاً ہڈی ٹوٹ جائے تو اس میں جبر کرتے ہیں.وَاجُبُرُنِی کا یہ مطلب ہے کہ میرے ٹیڑھے جوڑ ، ہڈیاں ، پسلیاں یعنی روحانی اور جسمانی غلط ہوگئی ہیں ان کو ٹھیک کر دے.پھر رزق عطا کر اور میر ارفع کر.یعنی اصلاح ہو جائے تو رزق دے تا رزق کا صحیح استعمال کروں اور اس کے بعد ان چیزوں کا استعمال ایسا اچھا کروں کہ وَار فَعُنِی، میر ا مر تبہ بلند کر دے.التَّحِيَّات اردو کلاس نمبر ۳۲۳- منعقده ۱۵/ نومبر ۱۹۹۶ء) سجدہ میں تین دفعہ سُبْحَانَ رَبِّي الاغلی پڑھ کر ( اٹھنے کے بعد ) ہم کیا کہتے ہیں؟ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ....تَحِيَّة کیا ہوتا ہے؟ تحفہ یعنی تمام اور ہر قسم کے تھے اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں.تجھے کس وجہ سے دیتے ہیں؟ آپ جو تھے پیش کرتے ہیں تو خاص بات ہوتی ہے.التَّحِيَّاتُ سے سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى پڑھا ہے.تو امید رکھی ہے کہ اللہ نے آپ پر بہت رحم
تدريس نماز 41 کئے ہیں.آپ کی بہت تعریف کی ہے.آپ کو بڑے بلند مقام دئے ہیں.تو جس طرح کوئی بادشاہ کے حضور حاضر ہوتا ہے کہ یہ میرا تحفہ ہے تو التحیات اللہ کا مطلب ہوا کہ اگر کسی نے تحفے دینے ہوں تو اللہ ہی کو دے.وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ : صلوات اور طیبات میں کیا فرق ہے؟ صلوات کہتے ہیں بدنی قربانی کو.یعنی آپ کا بدن تکلیف اٹھاتا ہے.اور نماز اٹھتے بیٹھتے پڑھتے ہیں.یہ صلوات ہیں تو تھے بھی سب اللہ کے اور صلوات بھی جو کی جاتی ہیں.یعنی ہر قسم کی بدنی قربانیاں جن میں نماز بھی شامل ہے اللہ کی خاطر لوگ دوڑے پھرتے ہیں اور اتنا کام کرتے ہیں.آپ لوگ بھی یہاں خدا کی خاطر آتے ہیں.یہ سب بدنی قربانیاں ہیں.آپ کا بدن قربانی کرتا ہے.تو یہ سب بدنی قربانیاں بھی اللہ کے لئے ہیں.وَالطَّيِّبَاتُ : طَيِّبَات کیا ہوتے ہیں؟ طبیب کس کو کہتے ہیں؟ جو پاکیزہ ہوا سے طیب کہتے ہیں.تو طیبات کا مطلب ہوا پاکیزہ چیزیں.اس کا تعلق تحفہ سے بھی ہے.خدا کے حضور جب ہم تحفہ پیش کرتے ہیں تو تحفہ ہمیشہ بہترین چیز کا دیا جاتا ہے.کیا تحفہ دیتے وقت آپ نے کبھی پرانی چیز نکال کر تحفہ کے طور پر دی ہے.تحفہ دیتے وقت سوچنا چاہئے کہ اچھی اور پیاری سی چیز ہو جو آپ کو اچھی لگے.اور اگر کسی سے بہت محبت ہو، بہت پیار ہو تو اتنا ہی پیارا تحفہ پیش کرتے ہیں.اور بہت ہی پیارا ہوتو آدمی کہتا ہے کہ جوسب سے اچھی ہے وہ میں دیتا ہوں.تو اللہ تعالیٰ کے حضور التَّحِيَّات کا یہ بھی مطلب بنا کہ نمازیں بھی بہترین سبھی ہوئی ہوں.بدنی قربانیاں بھی ایسی ہوں کہ آدمی ان میں کوئی نقص بھی نہ نکال سکے.اور طیبات سے مراد وہ چیزیں ہیں جن میں مال بھی شامل ہو.آپ کے کپڑے، آپ کی چیزیں.اچھی سے اچھی.وہ جو حرام کی کمائی کی نہ ہوں، جو جائز ہو.چونکہ جو حرام کی کمائی ہو وہ طیب نہیں کہلاتی.اور طیب کس کو کہتے ہیں؟ صرف حلال چیز ہی کو طیب نہیں کہتے بلکہ جو حلال میں سے بھی بہت اچھی ہو اسے طیب کہتے ہیں.مثلاً اگر میں آپ کو سمو سے پیش کروں اور وہ بد بودار گوشت کے ہوں ، اس میں ہلکی سی بو آئے تو یہ حلال تو ہے ، آپ چھوڑ دیں گے اس کو.مگر اس میں اگر گوشت کی خوشبو آئے تو اس کو طیب کہیں گے.تو اللہ تعالیٰ کے حضور صرف حلال ہی پیش نہیں کرنا بلکہ ایسا حلال پیش کرنا ہے جو خوشبوئیں دے.دیکھ کے بھی اس میں مزہ آئے ، وہ پیش کریں.
تدريس نماز 42......وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ کہہ کر پھر دل تھوڑا سا کتا ہے کہ لائے کیا ہیں ہم.پیش تو کر رہے ہیں مگر ہے کچھ بھی نہیں ، خالی برتن پیش کر رہے ہیں.اس کی مرضی ہے کہ وہ قبول کرے.وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ پر غور کر کے ایک اور مضمون اس سے نکل سکتا ہے کہ روزانہ کچھ نہ کچھ بدنی قربانیاں پیش کیا کریں.روزانہ خدا کے حضور کچھ نہ کچھ ، کچھ طیب پیش کیا کریں.اگر آپ یہ کر سکیں تو کم ازکم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ تھوڑا تو ہے مگر یہ کچھ ہے جو ہم نے تیرے لائق سمجھا ، وہ پیش کر دیا.تو نماز ہر جگہ قدم روکتی ہے، انسان کو سوچنے کا کہتی ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھو اور ایک نماز میں ساری باتیں ہو ہی نہیں سکتیں.اس لئے روزانہ پانچ وقت نماز.صبح نماز، شام نماز لیکن آپ بور نہیں ہوتے.کیوں کہ آپ کی سوچیں ہر نماز میں مختلف ہوتی ہیں.ساری باتیں ایک ہی نماز میں تو نہیں سوچ سکتے لیکن آپ کی سوچیں کبھی ایک بات کو لائیں گی کبھی دوسری بات لائیں گی.عمر گزر جائے گی مگر نماز ختم نہیں ہوگی.تو التَّحِيَّات کے بعد ہم اگلی باتیں کیا کرتے ہیں؟ یہ ساری پیاری پیاری باتیں ہمیں کس نے سکھائی؟ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کوتو تحفہ پیش کر دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہم کیا لائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ دعا ہے جو اللہ کی طرف سے ان کو عطا ہوئی ہے.اور ہماری طرف سے ایک تحفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوگا.اس لئے تحفہ پیش کرتے وقت خدا تعالیٰ کو پہلے غائب بتایا.التَّحِيَّاتِ لِلهِ ، پھر حاضر کی طرف مضمون چلا گیا.پھر اپنی طرف مضمون آ گیا.تین ہی طریق ہیں جو ہر زبان میں ملتے ہیں.(۱) کسی کو غائب میں ذکر کریں.(۲) یا مخاطب میں کریں.(۳) یا اپنے متعلق بات کریں.یہ تینوں باتیں التَّحِيَّاتُ میں موجود ہیں.پہلی بار التَّحِيَّاتِ لِلهِ ہے یعنی سب تھے اللہ ہی کے لئے ہیں.دوسری پھر یاد آنا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس اللہ سے ہمارا تعلق بڑھایا اس لئے یہاں رہی نہیں فرمایا.کیوں کہ یہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ ہے جس نے ہم سے تعارف کروایا.اس لئے ہم کہتے ہیں السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.اے نبی تجھ پر سلام ، تو نے کتنی بڑی چیز دی.اور یہ کہنے کے بعد آخر میں پھر اپنے پر بھی سلام بھیجا السَّلَامُ عَلَيْنَا.
تدريس نماز 43.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ، اپنے پر اور پھر سب نیک بندوں پر، وَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِين، کہا.تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اے رسول تجھ پر تو ہم نے سلام بھیجا.اسی سلام کے نتیجہ میں ہم پر بھی سلام ہو.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجو گے تو یاد رکھو تم پر بھی ضرور سلام ہوگا.یہ اسکا لازمی طبعی نتیجہ ہے.اس لئے آپ بڑے یقین سے کہتے ہیں السَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِین.یعنی ہم پر بھی سلام اور سب دنیا کے اللہ کے بندوں پر بھی سلام ہو.يه التحیات کی مختصری تشریح ہے.اس کو اب آپ لوگ یا درکھ لیں.جب بھی آپ نماز پڑھا کریں، بیٹھتے ہوئے جتنی بھی توفیق ہو ان باتوں میں سے گزریں، ان کو سوچا کریں اور آہستہ آہستہ پھر آگے بڑھا کریں.شروع میں جب التَّحِيَّات ادا کریں تو اس طرح ہوشیاری سے بیٹھا کریں کہ پتہ ہو کہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں.التحیات کے بارہ میں مزید فرمایا:) التحيات : یہ جو ترجمہ ہے کہ تمام زبانی عبادتیں میرے نزدیک تو درست نہیں ہے لیکن جو میں نے اپنا مضمو بیان کیا ہے وہ عین لفظوں کے مطابق ہے.التَّحَيَّاتُ درست نہیں ہے اصل تو التَّحِيَّاتُ ہے.التَّحِيَّات : تَحِيَّةٌ کا ایک مطلب ہے خوش آمدید کہنا، کسی کو Welcome کہنا.اگر ڈکشنری دیکھیں تو عربوں میں التَّحِيَّةُ کا یہی معنی ملے گا ،Greeting.تمام عربوں سے میں نے پتہ کیا ہے کہ وہ تمام النَّحِيَّةُ کا ترجمہ ہمیشہ تحفہ ہی کرتے ہیں اور اسی معنی میں وہ روز دوستوں کو تحفہ دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں.التَّحِيَّات :- تحیہ دینا، تحفہ دینا.اس کو ہدیہ کے معنوں میں لیتے ہیں.اور میرے نزدیک التَّحِيَّات کا دوسرا معنی بھی یہاں خوب لگتا ہے.التَّحِيَّات کا مطلب ہے کہ ساری Greetings.آ جاؤ ہمارے گھر شوق سے آؤ.التَّحِيَّاتِ لِلَّهِ - Welcome Welcome یہ ساری باتیں اللہ کے لئے ہیں.ارد و کلاس نمبر ۳۲۱، منعقده ۱۲/ نومبر ۱۹۹۷ء) التَّحِيَّات کے ترجمه زبانی عبادتوں کے بارہ میں فرمایا:) میں تو اس کا جواب پہلے ہی دے چکا ہوں.میں نے جب ترجمہ کیا کہ ” Greetings“ اور
تدريس نماز 44 Greetings تو ہوتی ہی زبانی ہیں.جب ہم کہتے ہیں آؤ، جی آیا نوں، ماشاء اللہ، آجاؤ، Welcome.تو greetings ہوتی ہی زبانی ہیں.اس بناء پر ترجمہ میں زبانی عبائیں“ آ گیا.لیکن پھر مجھے اس سے پورا اتفاق نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ ہر عبادت کی ہر طرز میں زبانی عبادت بھی داخل ہوتی ہے.تو زبانی عبادت کو اس سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور طیبات سے.طَيِّبٌ مِنَ الْقَوْلِ بھی قرآن کریم میں آتا ہے.{ وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ ( سورة الحج : ۲۵) ( الناشر ) ) تو میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ہر عبادت میں قول کا حصہ شامل ہے.تو اگر آپ ” زبانی عبادتیں معنی کر کے ان کو الگ کر دیں گے تو پھر ”اور“ کے معنی ختم ہو جائیں گے.اس لئے Greetings کی بجائے تحفہ کا مضمون زیادہ پسند کرتا ہوں.اور اس میں وہ سارا مضمون آجاتا ہے کہ تحفہ کو کیا ہونا چاہئے.فجر کی نماز ارد و کلاس نمبر ۳۲۲، منعقده ۱۴/ نومبر ۱۹۹۷ء) نماز کے متعلق چند مسائل صبح کی نماز میں دوستیں اور دو فرض ہیں.فرض کیا ہوتا ہے؟ فرض نماز کے اُس حصہ کو کہتے ہیں جس کے بغیر نماز ہو ہی نہیں سکتی.اور فرض اس نماز کو کہتے ہیں کہ جوا گر نہ پڑھی جائے تو پھر اللہ کی نافرمانی ہو جائے گی اور ہم سمجھیں گے کہ ہم نے جیسا فرض تھا، ادا نہ کیا.جیسے ہم کہتے ہیں کہ تمہارا فرض ہے کہ پڑھائی کرو.تمہارے فرض ہے کہ یہ کرو....وہ کرو.اگر تم نہ کرو گے تو فرض ادا نہیں ہوگا.تو صبح کی جو دورکعتیں ہیں نماز فجر کی ، وہ فرض ہیں ، ان کے بغیر تو گویا نماز ہی نہیں ہوگی.خانہ خالی رہ گیا.سارے دن کی نمازیں بھی ساتھ برباد.سنتیں کیا ہوتی ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز فرض سے پہلے اور فرض کے بعد جو رکعتیں ہمیشہ پڑھا کرتے تھے ان کو ہم سنتیں کہتے ہیں.لیکن سنتیں دوطرح کی ہوتی ہیں.ایک مؤکدہ اور ایک غیر مؤکدہ.یہ تشریح فقہ کی باتیں ہیں ، ان فقہ کی باتوں سے میں آپ کو تنگ نہیں کروں گا.جو باتیں یاد رکھنی لازمی ہیں وہ یہ ہیں کہ صبح کی سنتیں معاف نہیں ہوتیں.صبح کی دوستیں آپ سفر میں بھی پڑھیں گے.یہ سفر میں بھی نہیں گریں گی.حالانکہ ظہر کی پہلی سنتیں اور بعد کی سنتیں سفر میں ہوں تو غائب.فرض پڑھ لیں تو وہی کافی ہے.لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ آپ
تدريس نماز 45......صبح کی دو سنتیں کبھی بھی نہیں چھوڑتے تھے.اس لئے یہ فرض کے قریب قریب ہو جاتی ہیں.فرض تو نہیں لیکن جیسا کہ فرض.دور کعتیں سنت کی پہلے اور پھر فرض.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی سنتیں ہلکی پڑھا کرتے تھے.ایک ہی نماز ہے آپ کی جس کو ہمیشہ بہت ہی ہلکا کر لیا کرتے تھے.یعنی صبح کی نماز پہ جانے سے پہلے سنتیں تیز پڑھتے تھے.دیکھنے والے بعض اوقات حیران ہوتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا تیز یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے تیز.ہمارے لحاظ سے تیز نہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نمازیں پڑھتے تھے ان کے مقابل پر صبح کی سنتیں بہت ہلکی لگتی تھیں.چونکہ تہجد کے بعد نماز پہ جانے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تھے اور پھر جلدی کرتے تھے نماز پہ جانے کے لئے.بہتر یہ ہے کہ سنت گھر میں پڑھیں اور فرض مسجد میں جا کر پڑھیں.تهجد نماز تہجد نفل ہے.اصل نفل یہی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ﴿ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لكَ نَافِلة سے مراد نفل ہے.لیکن نفل تو انسان سارا دن پڑھ سکتا ہے.ہر نماز کے بعد پڑھ سکتا ہے.بعض لوگ مغرب کے بعد پڑھتے ہیں ، بعض عشاء کے بعد پڑھتے ہیں.تو یہ سب نوافل ہیں نفل کی جمع نوافل ہے.تہجد کے بعد آخر پر ایک رکعت پڑھ لیں تو یہی وتر ہو جاتے ہیں.تہجد کے وقت نماز پڑھیں، قرآن پڑھیں، گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ، کاموں کے لحاظ سے جتنی توفیق ملے ٹھیک ہے.قرآن شریف میں فرمایا مَا تَيَسَّرَ تَيَسَّر کا مطلب ہے توفیق.تو قرآن پڑھنے کی نماز میں جتنی بھی توفیق ملے ویسا ہی پڑھیں اور تہجد بھی اپنی توفیق کے مطابق پڑھے.نماز آرام سے پڑھنی ہوتی ہے.مرغی کی طرح ٹھونگے نہیں مارنے ، آرام سے نماز پڑھتے ہیں.اس لئے اس تہجد کی نماز میں وقت چاہئے.جلدی میں تو نہیں ہو سکتی.مگر وقت کے لحاظ سے آپ اپنے لئے چن لیا کریں.جتنی تہجد پڑھنی ہو شوق سے پڑھیں.اردو کلاس نمبر ۳۲۱ منعقد ۱۲۰ار نومبر ۱۹۹۷ء ) ( بحواله الفضل انٹر نیشنل ۹ رمئی ۲۰۰۳ء)