Language: UR
ملی میدان میں تیلی - ایمان افروز واقعات محترم مولانا عطاء المجيب صاحب را شند امام مسجد فضل لندن
تبلیغی میدان میں تائید الی ایمان افروز واقعات از قلم محترم مولانا عطاء المجيب صاحب راشد امام مسجد فضل لندن شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت صد را انجمن احمد یہ قادیان 16 1435 ضلع گورداسپور (پنجاب)
نام کتاب مولفه تبلیغی میدان میں تائید الہی کے ایمان افروز واقعات محترم مولانا عطاء المجیب صاحب را شد امام مسجد فضل لندن سن اشاعت جنوری 2000ء تعداد 2000 شائع کرده نظارت نشر و اشاعت صد را نجمن احمد به قادیان مطبوع ضلع گورداسپور (پنجاب) فضل عمر پر تفنگ پرلیس قادیان
القرآن ال وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ.ولا تنتَدِى الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كانه وي حيم كَانَهُ وَلي وما يُلقها إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلقيها الا ذُو حَظَّ عَظِيمٍ (حم السجدة ) اور اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوگی جو کہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے ار اپنے ایمان کے طابق عمل کرتا ہے اور کہتا ہے ہمیں تو فرمانبرداروں میں ہوں.اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتی.اور تو برائی کا جواب نہایت نیک سلوک سے دے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ شخص کہ اس کے اور تیرے زبان عداوت پائی جاتی ہے ، وہ تیرے ہی سلوک کو دیکھ کر ایک گرم جوش دوست بن جائے گا.اور باوجود فلموں کے سہنے کے اس قسم کے سلوک کی توفیق صرف اپنی کو ملتی ہے جو بڑے صبر کرنیوالے ہیں اور یا پھر ان کو لتی ہے جن کو خدا کی طرف سے نیکی کا ایک بہت بڑا استقعہ ملا ہو.
الحديث عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ انَّ اللَّى صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : فَوَاللَّهِ لان يَهْدِيَ اللهُ بِكَ رَجُلاً وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ ر مسلم کتاب الفضائل باب فضائل على بن ابي طالب و بخارى كتاب الجهادم حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا خدا کی قسم ! تیرے ذریعہ ایک آدمی کا ہدایت یا جانا اعلیٰ درجے کے سُرخ اونٹوں کے مل جانے سے زیادہ بہتر ہے.٣٣٦- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ من الآخرِ مِثْلُ اُجُوْرِ مَنْ تَبِعَهُ لا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا.وَمَنْ دَعَا إِلى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ الامْ من تبعه لا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَثَامِهِمْ شَيْئًا.0 مسلم کتاب العلم باب من من حسنة السيئة) حضرت ایو بیر پر کیا بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جو شخص کسی نیک کام اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے اس کو اتنا ہی ثواب ہے جتنا ثواب اس بات پر عمل کرنیوالے کو ملتا ہے اور ان کے ثواب میں کچھ بھی کم نہیں ہوتا.اور جو شخص کسی گمراہی اور برائی کی طرف بلاتا ہے اس کو بھی اسی قدر گناہ ہوتا ہے جس قدر کہ اس برائی کے کر نیوالے کو ہوتا ہے اور اس کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں آتی.
ج ارشاد امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ا چاہئے کہ ایسے آدمی منتخب ہوں جو تلخ زندگی کو گوارا کرنے کیلئے تیار ہوں اور ان کو باہر متفرق جگہوں میں بھیجا جائے بشر طیکہ اُن کی اخلاقی حالت اچھی ہو اور تقویٰ اور طہارت میں نمونہ بننے کے لائق ہوں.مستقل، راست قدم اور بُردبار ہوں اور ساتھ ہی قانع بھی ہوں.اور ہماری باتوں کو فصاحت سے بیان کر سکتے ہوں.مسائل سے واقف اور متقی ہوں کیونکہ متقی میں ایک قوت جذب ہوتی ہے وہ آپ جاذب ہوتا ہے وہ اکیلا رہتا ہی نہیں.( ملفوظات جلد 9 صفحہ 415-416).” ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ علمی طور سے کچھ کر کے دکھانے والے ہوں تبلیغ سلسلہ کے واسطے ایسے آدمیوں کے دوروں کی ضرورت ہے.مگر ایسے لائق آدمی مل جادیں کہ وہ اپنی زندگی اس راہ میں وقف کر دیں.آنحضرت ﷺ کے صحابہ بھی اشاعت اسلام کے واسطے دور دراز ممالک میں جایا کرتے تھے یہ جو چین کے ملک میں کئی کروڑ مسلمان ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی صحابہ میں سے کوئی شخص پہنچا ہو گا.اگر اسی طرح ہیں یا تمہیں آدمی متفرق مقامات میں چلے جاویں تو بہت جلدی تبلیغ ہو سکتی ہے.مگر جب تک ایسے آدمی ہمارے منشا کے مطابق اور قناعت شعار نہ ہوں تب تک ہم اُن کو پورے پورے اختیارات بھی نہیں دے سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایسے قانع اور جفاکش تھے کہ بعض اوقات صرف درختوں کے چوں پر ہی گزر کر لیتے تھے.اگر کچھ ایسے لائق اور قابل آدمی سلسلہ کی خدمات کے واسطے نکل جاویں جو فقط لوگوں کو اس سلسلہ کی خبر ہی پہنچا دیں تو بھی بہت بڑے فائدہ کی توقع کی جاسکتی ہے".لمقومات بار 10 صفحہ 241-242
حضرت خلیفۃ ا مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی ارشاد جس کو عمل کے سانچے میں ڈھالنا ہر احمدی کا فرض خوشی اور مسرت اور عزم اور یقین کے ساتھ آگے بڑھو.تبلیغ کی جو جوت میرے مولا نے میرے دل میں جگائی ہے اور آج ہزار ہا سینوں میں یہ لو جل رہی ہے اس کو بجھنے نہیں دیتا! اس کو بجھنے نہیں دینا! تمہیں خدائے واحد و یگانہ کی قسم! اس کو بجھنے نہیں دیتا.اس مقدس امانت کی حفاظت کرو.میں خدائے ذوالجلال والاکرام کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر تم اس شمع کے امین بنے رہو گے تو خدا اسے کبھی بجھنے نہیں دے گا.یہ لو بلند تر ہوگی اور پھیلے گی اور سینہ بہ سینہ روشن ہوتی چلی جائے گی اور تمام روئے زمین کو گھیر لے گی اور تمام تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دے گی.خطبه جمعه فرموده ۱۲ اگست ۱۹۸۳ء )
جمل الله الرحمن الرحيمي بخشمك ونصلى على رسول الكريم وعلى جبل المسيلة الموكول پیش لفظ تبلیغ یعنی دعوت الی اللہ کا فریضہ نہایت مقدس فریضہ ہے.ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الرابع اید و اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب سے مسند خلافت پر متمکن ہوئے ہیں، دن رات احباب جماعت کو داعی الی اللہ بننے کی تلقین فرمارہے ہیں.ایک موقعہ پر آپنے یہ بھی فرمایا: یہ بات بھی میں احباب کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ دُعاؤں کے خط لکھتے نہیں وہ اگر اپنے خطوں میں اس بات کا ذکر بھی کر دیا کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے داعی الی اللہ بن چکے ہیں اور انہوں نے دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیا ہے تو ان کے اس خط کے ساتھ میرے لئے یہ بہترین نذرانہ ہو گا.پس جہاں تک میرے دل کا تعلق ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس سے زیادہ پیارا اور اس سے زیادہ عزیز نذرانہ میرے لئے اور کوئی نہیں ہو گا کہ احمد کی خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا مجھے دُعا کے ساتھ یہ لکھے کہ میں خدا کے فضل کے ساتھ ان لوگوں میں داخل ہو گیا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں.جن کا عمل صالح ہے.“ (خطبہ جمعہ فرموده 28 جنوری 1983ء) پس کون احمدی ہے جو اپنے پیارے محبوب امام کی مقبول دُعاؤں کا طلبگار نہیں ہے یقینا ہر ایک محتاج دعا ہے اور اسکی یہ خواہش اسی وقت احسن رنگ میں پوری ہو سکتی ہے جب وہ اپنے پیارے امام کے ارشاد پر داعی الی اللہ بن جائے.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضور انور ایدہ اللہ تعالٰی کی دُعاؤں اور با برکت راہنمائی کے نتیجہ میں ہندوستان میں بھی فوج در فوج لوگ اسلام احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں.ان تو مبائعین کو داعی الی اللہ بنانا اور ان کو ساتھ لے کر نئی ذرخیز زمینوں میں فصلیں تیار کرنے کی
العالي ضرورت ہے.نیز ان نو مبائعین کی تربیت کے لئے بکثرت واقفین عارضی کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ احباب جماعہائے احمد یہ ہندوستان کو اس بابرکت تاریخی دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے.اس میں شک نہیں کہ دعوت الی اللہ کا سفر کچھ آسان سفر نہیں ہے لیکن اس راہ میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت جس معجزانہ رنگ میں شامل حال رہتی ہے اسکی دلچسپ داستان چودہ سو برس کے عرصہ پر محیط ہے اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے.محترم مولانا عطاء المجیب صاحب را شد امام مسجد لندن کو جنہوں نے اپنی ایک تقریر میں اس دریا کو کوزہ میں بند کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور مختلف انبیاء کرام کے زمانہ سے گزرتے ہوئے حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے تابناک دور کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے آخرین کے عہد میں ظاہر ہونے والے ایمان افروز واقعات کی اس رنگ میں سیر کرائی ہے کہ ہر واقعہ پر دل اللہ کی حمد سے پر ہو جاتا ہے اور دعوت الی اللہ کے سفر پر کمر ہمت باندھ لینے پر آمادہ کرتا ہے.نجز اواللہ خیر.محترم موصوف نے جلسہ سالانہ برطانیہ 1991ء پر کی ہوئی اس تقریر کو بعد نظر ثانی کتابچہ کی صورت دی جس کو 1993ء میں مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی نے شائع کیا تھا اور ابھی حال ہی میں مجلس انصار اللہ کینڈا نے بھی اس کو شائع کیا ہے اسمیں مزید خوبی یہ پیدا کر دی گئی کہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر مولانا صاحب موصوف نے تمام واقعات کے حوالہ جات کی فہرست تیار کر کے کتابچہ کے آخر پر شامل کر دی ہے.اب محترم امام صاحب کی اجازت سے یہ حسین مرقع نظارت نشر و اشاعت قادیان کو شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.اللہ تعالٰی اس کے با برکت نتائج ظاہر فرمائے آمین.15 جنوری 2000ء ناظر نشر و اشاعت قادیان
بلیغی میدان میں تائید الہی کے ایمان افروز واقعات تبلیغ وہ مقدس ترین فریضہ ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اس کے محبوب ترین بندوں یعنی انبیاء کرام کے سپرد کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت جہاں فریضہ تبلیغ کی اہمیت و عظمت کو ثابت کرتی ہے، وہاں اس بات کو بھی واضح کرتی ہے کہ انبیاء کرام ہی اس عظیم ذمہ داری کے حقیقی علمبردار اور اس امانت کے بچے امین ہوتے ہیں.ان کی مقدس زندگیوں کا ایک ایک لمحہ اس فریضہ کی بجا آوری اور اس راہ میں جانثاری میں گزرتا ہے.وہ اپنی جان کو بے دریغ ہلاکتوں کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں اور اس راہ میں ہر مشکل اور مصیبت کو کمال خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں.سنت مستمرہ کے مطابق انبیاء کرام کو مظالم اور آزمائشوں کی خار زار وادیوں سے گزرنا پڑتا لیکن جو چیز ان کی زندگیوں کا نمایاں ترین عنوان بن کر ابھرتی ہے وہ قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہے.
مخالفت کی شدید آندھیوں میں جو چیز ان کے دلوں کو ایمان ویقین عطا کرتی اور ان کو ثبات قد.ان کو ثبات قدم اور جرات رندانہ بخشتی ہے وہ خدائے قادر و توانا کا یہ ازلی وعدہ ہے كتب اللهُ لَا غَلِبَنَ اَنَا وَرُسُلي خدا تعالی کی یہ حتمی تقدیر ہے کہ انجام کار اللہ تعالیٰ اور اس کے فرستادہ رسول ہی غلبہ حاصل کریں گے ظاہر ہے کہ یہ غلبہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بغیر ممکن نہیں.تاریخ انبیاء اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ تائید و نصرت الہی کا ابر رحمت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں پر سایہ فگن رہتا ہے.ان کی زندگی اول و آخر تائید الہی سے عبارت ہوتی ہے.اور اسی تائید کے سایہ میں وہ اپنے مقصد بعثت کو تمام و کمال حاصل کرتے ہیں.چونکہ انبیاء کرام کا وجود مجسم تبلیغ اور مجسم تائید الہی کا مظہر ہوتا ہے اس لئے میں انبیاء کرام ہی کی چند مثالوں سے اس مضمون کا آغاز کرتا ہوں.اگرچہ یہ موضوع ایک بحر بے کراں ہے اور پھر واقعات کی عظمت اور گہرائی اتنی ہے کہ ایک مستقل بیان کی متقاضی ہے تاہم میرے لئے ناممکن ہے کہ اس مقدس گلستان سے چند پھول چنے بغیر آگے گزر سکوں.حضرت نوح علیہ السلام کے دشمن طوفان نوح کا شکار ہوئے اور ان کے بچے متبعین کو خدا تعالیٰ نے ایک عظیم کشتی کے ذریعے محفوظ و مامون رکھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف نمرود نے زور آزمائی کی.دلائل کے میدان میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے اسے ایسا لا جواب و ساکت کیا کہ متکبر نمرود کلیتہ مبہوت ہو کر رہ گیا.اپنی طاقت کے نشہ میں اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں زندہ جلا کر حق کی
آواز کو دبانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت کا کچھ ایسا کر شمہ دکھایا کہ آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے ہلاکت کی بجائے ٹھنڈک اور سلامتی کا پیغام بن گئے.حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے موت کے کنویں سے نجات بخشی اور زنان مصر کے ناپاک حملوں سے محفوظ رکھتے ہوئے عزت کے ساتھ صاحب اقتدار بنا دیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ فرعون سے ہوا.اس نے آپ کو ایک جادوگر سمجھتے ہوئے اپنے ماہر جادوگروں سے مقابلہ کروا دیا.اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کی ایک ضرب نے جادو گروں کے سب طلسمات کو ریزہ ریزہ کر دیا.خدا کے پیارے بندے موسیٰ کے مقابل پر نہ قارون کے خزانے کچھ کام آئے اور نہ ہامان کے لاؤ لشکر.جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہلاک کرنے کی نیت سے آپ کا تعاقب کیا تو خدا تعالیٰ نے اپنی طاقت و قوت اور تائید و نصرت کا یہ نشان دکھایا کہ جس فرعون نے بلند و بالا عمارتوں پر چڑھ کر انکار باری تعالیٰ کا نعرہ بلند کیا تھا.خدا تعالیٰ نے اسے سمندر میں غرق کر کے پانی کی گہرائیوں میں اپنی ہستی کا ثبوت دے دیا.حضرت یونس علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اپنی تائید و نصرت کا یہ معجزہ عطا فرمایا کہ مچھلی کہ پیٹ سے زندہ و سلامت باہر نکل آئے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت کا معجزہ اس رنگ میں دکھایا کہ جب مخالفین نے آپ کو صلیب پر مارنا چاہا تو اللہ تعالی نے مجرمانہ طور پر آپ کو اس صلیبی موت سے محفوظ رکھا اور دشمنوں کی سب کوششوں کو ناکام بنا کر رکھ دیا.ہمارے آقا و مولا، خاتم الانبیاء، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت دور آیا تو خدا تعالی کی تائید و نصرت موسلا دھار بارش کی طرح برسنے لگی.تبلیغی میدان میں جو مشکلات اور مصائب آپ کو پیش آئے وہ انتہائی شدید اور زہرہ گداز تھے.لیکن زندگی
کے ہر مرحلہ پر اور ہر نازک موڑ پر اللہ تعالیٰ نے جس طرح آپ کو اپنی تائید و نصرت اور حفاظت سے نوازا دہ بھی عدیم المثال ہے.مکہ کے در یتیم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خدائی لون سے توحید کا علم اٹھایا تو رو سائے مکہ نے اس سے عمومی طور پر روگردانی اختیار کی اور مخالفت پر تل گئے.خدا تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے کو ایک لمحہ بھی یکہ و تنہا نہیں رہنے دیا.فورآ ہی جاننر صحابہ کی ایک مٹھی بھر جماعت عطا فرما دی جنہوں نے ثبات قدم اور فدائیت کی ایک بے مثال تاریخ اپنے نیک نمونہ سے رقم کی.شعب ابی طالب میں تین سال تک آپ کا محاصرہ جاری رہا.اس انتہائی صبر آزما امتحان میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی برداشت اور صبر عطا فرما کر اپنی تائید کا ثبوت دیا کہ ابتلاؤں سے استقامت کے ساتھ گزرنا بھی سنت انبیاء ہے.حضرت ابو طالب کی کفالت ختم ہونے کے بعد حالات نے اور بھی شدت اختیار کرلی.طائف کا واقعہ بھی تائید الہی کا عجیب منظر پیش کرتا ہے.اہل طائف کی بد سلوکی سے دل برداشتہ ہو کر جب آپ ایک باغ میں آکر بیٹھے تو سنگ باری سے آنے والے زخموں سے ابھی تک خون رس رہا تھا.ایسی حالت میں مبلغ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور دلداری کے لئے آسمان سے فرشتوں کا نزول ہوا.تاریکی کے فرزندوں نے اپنی جہالت سے اس نور مجسم کو رد کیا لیکن خدا تعالیٰ کے لطف و کرم کا سایہ ہمیشہ آپ کے سر پر رہا.ہجرت مدینہ کا موقعہ آیا تو کس طرح خدا تعالیٰ نے پھر اپنی تائید و نصرت کے جلوے دکھائے.دشمن کی آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے بحفاظت گھر سے روانہ ہوئے.دشمن تعاقب کرتے ہوئے غار کے دروازہ پر پہنچ گئے پھر بھی پکڑنے پر قادر نہ ہو سکے.انعام کے لالچ میں سراقہ بن مالک نے تعاقب کیا اور بار بار ناکام ہوا اور بالاخر مطبع ہو کر قدموں میں گر پڑا.مدینہ پہنچ کر اللہ تعالیٰ نے جو عزت اور عظمت عطا فرمائی وہ بھی بے مثال ہے.جس کو مکہ والوں نے نکلنے پر مجبور کیا مدینہ کے سب قبائل نے
عملاً اسی کو اپنا سردار تسلیم کر لیا.انصار مدینہ کی فدائیت اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا زندہ ثبوت بن کر ابھری.میدان بدر کے ایک خیمہ میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی متفرعانہ دعاؤں نے میدان جنگ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا.مٹھی بھر کنکروں نے آندھی کی صورت اختیار کر لی اور ۳۱۳ صحابہ نے ایک ہزار کے مسلح لشکر کو ایسی عبرتناک شکست دی کہ دنیا آج تک محو حیرت ہے.احد کے میدان کی بات ہو یا غزوہ احزاب کی، اجتماعی مقابلہ کی صورت ہو یا انفرادی مقابلہ کی، ہر موقع پر خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت آپ کے ساتھ قدم بہ قدم چلتی دکھائی دیتی ہے.ایک موقع پر آپ کو اکیلا پا کر ایک دشمن آپ پر حملہ آور ہوالیکن آپ کی پر شوکت آواز سن کر تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ تھر تھر کانپتا ہوا آپ کے قدموں میں گر پڑا.ایک مظلوم کا حق دلانے کی خاطر جب ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ابو جہل کے مکان پر گئے تو شدید ترین معاند اسلام نے، جو اپنی مجالس میں اپنی جرات اور بے باکی پر اترایا کرتا تھا، فور اس مظلوم کا حق ادا کر دیا.خدا تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت کا کرشمہ دکھایا کہ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو لونٹ دکھائی دئے جو اس پر حملہ کرنے کو تیار تھے.ایک یہودی عورت نے آپ کے کھانے میں زہر ملایا تو علیم و خبیر خدا نے آپ کو اس کی اطلاع کر دی اور اس کے شر سے محفوظ رکھا.اس مقدس وجود کو جو نہایت کسمپرسی کی حالت میں مکہ سے نکلا تھا، زمین و آسمان کے مالک، قادر و توانا خدا نے ایک فاتح کی حیثیت میں دوبارہ مکہ میں واپس لا کر اپنی تائید و نصرت کا ایک عظیم جلوہ دکھایا.حجتہ الوداع کے موقع پر لاکھوں صحابہ کا اجتماع کس قدر ایمان افروز تھا.وہ جو ابتدا میں اکیلا تھا خدائی تائید و نصرت نے اسے لاکھوں جلنگروں کا محبوب ترین آقا بنا دیا.کس کس بات کا ذکر کیا جائے.حق یہ ہے کہ ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور غیر معمولی اعانت کے سایہ میں گزرا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ آپ کی حیات طیبہ میں تائید
و نصرت کے ایمان افروز جلووں نے اپنی معراج کو پالیا.اس ایمان افروز وادی سے جلدی جلدی گزرنے کے بعد اب میں چند ایسے واقعات کا ذکر کرتا ہوں جو انبیاء کرام کے مقدس اسوہ پر چلنے والے داعیان الی اللہ کی زندگیوں میں پیش آئے.ان واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو شخص بھی میدان تبلیغ میں اترتا ہے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا سایہ ہمیشہ اس کے سر پر ہوتا ہے اور اس کے شیریں ثمرات سے اس کا دامن ہمیشہ بھرا رہتا ہے.واقعات کے بیان سے پہلے ایک دو اصولی باتوں کا ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے.إنا لننصر رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الله نيا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ (المومن (۵۲) یقیناً ہم اپنے فرستادہ رسولوں اور ان کی دعوت پر ایمان لانے والے مومنوں کی اس دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں اور یہ نعمت انہیں آخرت میں بھی نصیب رہے گی.اس آیت کریمہ میں یہ مضمون واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اللہ تعالٰی نہ صرف اپنے رسولوں کی مدد اور نصرت فرماتا ہے کہ وہ اس کے نمائندے اور اس کے پیغام کے علمبردار ہوتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا یہ وعدہ ان سب لوگوں سے بھی وابستہ ہے جو نبی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایمان کے سب تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور انبیائے کرام کے مبارک اسوہ پر چلتے ہوئے دعوت الی اللہ کا مقدس فریضہ سر انجام دیتے ہیں.ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی راہوں کی پیروی کرتے ہوئے اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقف کر دیتا ہے وہ بھی یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کے پیار بھرے سلوک کا مورد بن جاتا ہے.
تبلیغی میدان میں تائید و نصرت الہی کا مضمون اپنے اندر بے انتها تنوع، وسعت اور گہرائی رکھتا ہے.اس اجمال کی کسی قدر تفصیل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند اردو اشعار میں ملتی ہے.آپ فرماتے ہیں: خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے ہر خس راہ کو اڑاتی ہے وه کبھی ہو جاتی آگ ہے اور ہر مخالف کو جلاتی ہے وہ خاک ہو کر دشمنوں کے سر پڑتی ہے کبھی ہو کر وہ یانی ان اک طوفان لاتی ہے غرض رکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے بھلا خالق کے آگے خلق کی کچھ پیش جاتی ہے حقیقت یہ ہے کہ تائید الہی اور نصرت باری تعالیٰ کے جلووں کی کوئی انتہا نہیں اللہ تعالی اپنی شان کریمی كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن:۳۰) کے مطابق دعوت الی اللہ کرنے والوں کو ہر روز اپنی تائید و نصرت کا ایک نیا جلوہ دکھاتا ہے.یہ خدائی نصرت ہر روز ایک نیا رنگ اختیار کرتی ہے.نئے سے نئے انداز میں ابھرتی اور جلوہ گر ہوتی ہے.کبھی داعی الی اللہ کی دعاؤں کی غیر معمولی قبولیت کا جلوہ نظر آتا ہے تو کبھی دشمنوں سے معجزانہ بچاؤ کا نظارہ.کبھی میدان تبلیغ میں غیر معمولی علمی تائید و تاثیر کی تجلی نظر آتی ہے اور کبھی اشد ترین مخالفین کے دلوں میں یکایک پاک تبدیلی کا ظہور.کبھی پیار کا یہ جلوہ نظر آتا ہے کہ خدا خود معلم بن کر موثر جوابات سکھانا اور غیر معمولی کامیابیوں سے نوازتا ہے اور کبھی قہر الہی کا یہ نظارہ سامنے آتا ہے کہ حق کے متکبر مخالفین بر ایسی خدائی گرفت آتی ہے کہ دوسروں کے لئے نشان عبرت
بن جاتی ہے.قدم قدم پر داعی الی اللہ کی تائید میں غیر معمولی نشانات اور معجزات کا ظہور اس حقیقت کو ثابت کرتا چلا جاتا ہے کو یہ وہ وجود ہے جو خدا تعالی کو پیارا ہے اور زمین و آسمان کا خدا خود اس کا معین و مدد گار ہے.اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا یہ فیضان زمان و مکان کی قید سے بالا ہے.ہر زمانہ میں اور ہر جگہ یہ مضمون جاری و ساری نظر آتا ہے.یورپ کے مرغزار ہوں یا افریقہ کے جنگلات، عظیم الشان وسیع ممالک ہوں یا وسیع سمندر میں نقطوں کی مانند نظر آنے والے چھوٹے چھوٹے جزائر ، ہر جگہ خدا تعالی کی تائید و نصرت کے ایمان افروز نظارے اس کے حی و قیوم اور قادر و توانا ہونے کا زندہ ثبوت پیش کرتے ہیں.رب العالمین کے اس فیضان عام سے ہر قوم فیضیاب ہوتی ہے اور کوئی زمانہ ان برکات سے محروم نہیں.ہمارے اس دور آخرین میں جو دراصل ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا بابرکت زمانہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ عامیہ کی بنیاد رکھ کر ان نظاروں کو پھر سے زندہ کر دیا ہے جن کی جھلک ہمیں انبیاء کرام کی زندگیوں میں نظر آتی ہے.رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند جلیل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام، آپ کے خلفائے عظام ، صحابہ کرام اور مخلص داعیان الی اللہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ایک بار پھر اس فیضان کو جاری کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اسلام پرانے قصوں پر مبنی فرسودہ مذہب نہیں بلکہ ایسا سدا بہار شجرہ طیبہ ہے جس کے شیریں اور تازہ بتازہ ثمرات ہر زمانہ میں عطا کئے جاتے ہیں اور ہر قوم اس سے برکت پاتی ہے.آئیے اب ذرا واقعات کی دنیا میں اتر کر میدان تبلیغ میں تائید الہی کے ایمان افروز جلووں کا مشاہدہ کریں
تبلیغ در اصل لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف بلانے کا نام ہے.اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ دراصل خود خدا کا کام ہے اور کچی بات تو یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالی کی تائید و نصرت اور اس کی راہنمائی شامل حال نہ ہو اس میدان میں ہر گز کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوتی.کامیابی نصیب ہوتی ہے تو اس کی اصل اور بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی خود لوگوں کے دلوں میں سچائی کا نقش قائم فرما دیتا ہے.تائید الہی کا یہ پہلو جو رویا و کشوف اور خوابوں کے ذریعہ راہ حق دکھانے سے متعلق ہے متلاشیان حق کی دستگیری کا ایک قطعی اور یقینی ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ کی اس تائید کے مظاہر تاریخ احمدیت میں اس کثرت سے ملتے ہیں کہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اس برکت سے محروم رہا ہو.محترم مولانا عبد الرحمن صاحب مبشر مرحوم کی کتب بشارات رحمانیہ حصہ اول و دوم اور کئی اور کتب سلسلہ اس قسم کے ایمان افروز واقعات سے بھری پڑی ہیں.واقعات کے اس سمندر سے میں صرف ایک قطرہ بطور نمونہ پیش کرتا ہوں.مغربی افریقہ کے سب سے پہلے مبلغ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب تیر رضی اللہ عنہ ایک روز نائیجیریا کے دارالحکومت لیگوس میں غیر احمدیوں کی مرکزی مسجد میں تشریف لے گئے.یہ ۱۹۲۱ء کی بات ہے.حاضرین مجلس میں سے ایک نے کہا کہ مسجد کے ایک سابق امام "الفا ایا نمو " نے اپنی وفات سے قبل اپنا یہ خواب ہمیں سنایا تھا کہ انہوں نے ایک بار خواب میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی زیارت کی اور انہوں نے اسے بتایا کہ وہ خود تو اس ملک میں نہ آسکیں گے مگر ان کا ایک مزید یہاں پہنچ کر مسلمانوں کی ہدایت کا موجب بنے گا.مسجد میں موجود سب حاضرین نے یک زبان ہو کر اس بات کی تصدیق کی.حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر رضی اللہ عنہ جنہیں حضرت مسیح پاک علیہ
السلام کے صحابہ میں شمولیت کا شرف حاصل ہے.فرماتے ہیں کہ یہ بات سن کر اور اپنی.خوش بختی کا تصور کر کے میری آنکھوں میں آنسو آگئے.اس واقعہ سے اگلے روز مسجد کے دو نمائندے آپ کے پاس آئے اور یہ پیغام لائے کہ ان کی ساری جماعت احمدیت میں داخل ہونا چاہتی ہے.آپ نے اس فرقہ کے چیف امام اور چالیس نمائندگان کو بلوا بھیجا کہ وہ سب کی طرف سے بطور نمائندہ بیعت کریں.چنانچہ اس طرح اس فرقہ کے سارے افراد نے جن کی تعداد دس ہزار تھی بیک وقت بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی.میدان تبلیغ میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا ایک جلوہ غیر معمولی حالات میں معجزانہ شفایابی سے تعلق رکھتا ہے.خود داعی الی اللہ بھی اس برکت سے حصہ پاتا ہے اور جب اسلام اور احمدیت کی صداقت کو درمیان میں لاتے ہوئے اس حوالہ سے غیروں کی طرف سے شفا یابی کا مطالبہ یا مومنوں کی طرف سے شفا یابی کی التجا ہو تو اللہ تعالیٰ جو شافی مطلق ہے اظہارِ حق کے لئے شفایابی کا جلوہ دکھاتا ہے اس تعلق میں بے شمار واقعات ہیں جو ایک سے ایک بڑھ کر ہیں.بطور نمونہ تین واقعات پیش کرتا ہوں.حضرت ماسٹر عبدالرحمان صاحب مہر سنگھ رضی اللہ عنہ ایک سکھ گھرانے کے چشم و چراغ تھے.اللہ تعالی نے آپ کے سینہ کو نور اسلام سے منور فرمایا اور مسیح محمدی کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت سے نوازا.دن رات اٹھتے بیٹھتے تبلیغ اسلام کرنا آپ کا شعر تھا.ایک دفعہ آپ اتنے شدید بیمار ہو گئے کہ زندہ بچنے کی کوئی امید نہ رہی.جب سب حیلے جاتے رہے تو آپ کے دل میں ایک عجیب خیال آیا.آپ نے اپنے بیوی بچوں کی طرف نظر کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ اے اللہ ! تو ہر چیز پر قادر ہے مجھے
11 جیسے مردہ انسان کو از سر نو زندہ کرنا تیری قدرت میں ہے.میرے اہل و عیال کو ابھی میری ضرورت ہے.ان کی پرورش میرے ذمہ ہے تو اپنے فضل سے مجھے صحت عطا فرما.میں عہد کرتا ہوں کہ میں تبلیغ میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا.آپ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اس انداز میں دعا کی اور تبلیغ کرنے کا وعدہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ دعا قبول فرمائی اور آپ کی زندگی میں برکت عطا فرما دی.۲ بنگلہ دیش کے ایک دوست نے بیان کیا کہ ایک غیر از جماعت دوست کو جماعت کا لٹریچر پڑھ کر آہستہ آہستہ جماعت سے وابستگی ہونے لگی اور وہ شوق سے ہمار الٹریچر پڑھنے لگے.اس دوران ان کو آنکھوں کی ایسی بیماری لاحق ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اب تمہاری آنکھوں کا نور جاتا رہے گا.یہ بات جب اس کے دوسرے غیر از جماعت دوستوں کو معلوم ہوئی تو انہوں نے طعن و تشنیع شروع کر دی اور کہنے لگے کہ اور پڑھو احمدیت کی کتابیں.یہ احمدیت کی کتابیں ہی ہیں جن کو پڑھ کر تمہاری آنکھوں میں جنم داخل ہو رہی ہے جس نے تمہارے نور کو خاکستر کر دیا ہے.یہ ان کتابوں کو پڑھنے کی سزا ہے جو تمہیں مل رہی ہے.اس صورت حال سے وہ غیر احمدی دوست بہت پریشان ہو گئے اور انہوں نے اپنی اس بیماری کا ذکر بڑی بے قراری سے اپنے احمدی دوست سے کیا.احمدی دوست نے کہا کہ تم بالکل مطمئن رہو.تم بھی دعائیں کرو میں بھی دعا کرتا ہوں اور امام جماعت احمدیہ کو بھی دعا کے لئے لکھتا ہوں اور پھر دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کس طرح تم پر فضل فرماتا ہے.چنانچہ وہ احمدی دوست بیان کرتے ہیں کہ اس واقعہ کے چند دن کے اندر اندر ان کے دوست کی آنکھوں کی کایا پلٹنی شروع ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سب نور
واپس آگیا.جب دوسری مرتبہ ڈاکٹر کو دکھانے گئے تو اس نے کہا کہ اس خطرناک بیماری کا اب کوئی بھی نشان باقی نہیں رہا ! اس ضمن میں تیسرا واقعہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ایک اور بزرگ صحابی حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ عنہ کا بیان کرتا ہوں.آپ کی زندگی کے ایمان افروز حالات حیات قدسی " کی پانچ جلدوں میں محفوظ ہیں.آپ کی ساری زندگی تبلیغ میں اور اس کی برکتوں کے سایہ میں گزری.اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبولیت دعا کا خاص اعجاز عطا فرمایا تھا.ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا: فیضان ایزدی نے....تبلیغ احمدیت کی برکت سے میرے اندر ایک روحانی کیفیت پیدا کر دی تھی کہ بعض اوقات جو کلمہ بھی میں منہ سے نکالتا تھا اور مریضوں اور حاجت مندوں کے لئے دعا کرتا تھا.مولی کریم اسی وقت میری معروضات کو شرف قبولیت بخش کر لوگوں کی مشکل کشائی فرما دیتا تھا ".آپ نے بیان فرمایا کہ ایک بار ایک گاؤں لکھنا نوالی میں ایک تبلیغی جلسہ میں آپ نے خطاب فرمایا اور صداقت احمدیت کی دلیل کے طور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مجربات اور نشانات کا خاص ذکر کیا.آپ فرماتے ہیں کہ اس کامیاب جلسہ کے بعد جب ہم نماز ادا کرنے کے لئے مسجد میں آئے تو ہمارے پیچھے پیچھے گاؤں کے دو اچھی بھی آگئے اور پکار پکار کر کہنے لگے کہ مہندی اور مسیح کے آنے کا دعوئی تو کیا جاتا ہے مگر نور اور ایمان اتنا بھی نہیں کہ کوئی کرامت دکھا سکیں.ان میں سے ایک نے کہا کہ میرا بھائی ڈیڑھ سال سے بچکی کے مرض میں مبتلا ہے.طبیبوں اور ڈاکٹروں کے علاج
۱۳ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا.اگر احمدیت کچی ہے تو اس کا کچھ اثر دکھائیں تا دنیا چشم خود دیکھ لے کہ احمدی اور غیر احمدی لوگوں میں کیا فرق ہے.آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر خاص کیفیت عطا فرمائی اور میں نے کہا کہ اچھا یہ بات ہے تو لاؤ کہاں ہے تمہارا مریض.چنانچہ اس شخص نے اپنے بھائی کو جو پاس ہی بیٹھا کراہ رہا تھا میرے سامنے کھڑا کر دیا.اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ حضرت مولانا راجیکی صاحب رضی اللہ عنہ کے اپنے الفاظ میں سنئے، فرمایا: اس مریض کا میرے سامنے آنا تھا کہ میں نے ایک غیبی طاقت اور روحانی اقتدار اپنے اندر محسوس کیا اور مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میں اس مرض کے ازالہ کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اعجاز نما قدرت رکھتا ہوں.چنانچہ اسی وقت میں نے اس مریض کو کہا کہ تم میرے سامنے ایک پہلو پر لیٹ جاؤ اور تین چار منٹ تک جلد جلد سانس لینا شروع کر دو.یہ بات میں نے ایک الہامی تحریک سے اسے کہی تھی.چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اس کے بعد میں نے اسے اٹھنے کے لئے کہا.جب وہ اٹھا تو اس کی ہچکی بالکل نہ تھی.اس کرامت کو جب تمام حاضرین نے دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے.اور وہ دونوں بھائی بلند آواز سے کہنے لگے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا صاحب واقعی بچے ہیں اور ان کی برکت کے نشان واقعی نرالے ہیں.علم میدان تبلیغ میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے جلووں کی کوئی انتہا نہیں.نئے سے نئے انداز میں خدائی نصرت دستگیری کرتی اور اس راہ کی ہر مشکل کو آسان بناتی چلی
۱۴ جاتی ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ایک اور صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں انگلستان جارہا تھا تو فرانس سے گزرنے کے لئے جس قدر رقم کی ضرورت تھی اس میں دو پونڈ کی کمی تھی.میں نے سوچا کسی سے قرض لے لوں لیکن جہاز میں کوئی میرا شناسا نہ تھا.جب بالکل مایوس ہو گیا تو میں نے اس رنگ میں دعا کی کہ اے زمین و آسمان کے مالک، اے خشکی و تری کے خالق ، تو ہر چیز پر قادر ہے اور تجھے ہر طاقت اور قدرت حاصل ہے.میں تبلیغ کی راہ میں نکلا ہوں اور تو جانتا ہے کہ اس وقت مجھے دو پونڈ کی شدید ضرورت ہے پس تو یہ دو پونڈ دے دے، خواہ آسمان سے گرایا سمندر سے نکال لیکن دے ضرور.آپ فرماتے ہیں کہ دعا کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ یہ ضرورت اب ضرور پوری ہو گی.لیکن سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بالکل اجنبی جگہ اور اجنبی آدمیوں میں یہ دو پونڈ کیسے ملیں گے.خدا تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ جہاز چلتے چلتے اچانک ایک ایسی جگہ رک گیا جہاں رکنے کا ہر گز کوئی پروگرام نہ تھا.میں نے جہاز سے اتر کر خشکی پر جانے کا ارادہ کیا کہ شاید کسی احمدی سے ملاقات ہو جائے لیکن اجازت نہ مل سکی.تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کشتی جہاز کی طرف آرہی ہے.اس کشتی پر ایک احمدی دوست حاجی عبد الکریم صاحب تھے.انہیں کسی طرح سے میرے انگلستان جانے کا علم ہو گیا تھا.ملاقات کے بعد واپس جانے لگے تو دو پاؤنڈ میری جیب میں ڈالتے ہوئے کہنے لگے." مجھے آپ کے لئے مٹھائی لانی چاہئے تھی مگر مجھے تو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ جہاز یہاں ٹھہرے گا.اس لئے یہ دو پاؤنڈ مٹھائی کے لئے رکھ لیں" اس واقعہ میں سوال دو پاؤنڈ کا نہیں.دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایک مجلد فی سبیل اللہ کی جو ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح مجرمانہ رنگ میں پوری کی اور غیب سے اس کے سلمان مہیا فرما دیے.۵
۱۵ تبلیغ کے راستہ کی روکوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح دور فرماتا ہے ؟ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک عجیب نظارہ ابھی حال ہی میں گوئٹے مالا.وسطی امریکہ میں دیکھنے میں آیا جہاں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدیہ مسجد کے قریب تعمیر ہونے والے پہلے احمد یہ کلینک کا افتتاح فرمایا.وہاں سے آنے والے ایک دوست نے یہ دلچسپ واقعہ سنایا کہ تبلیغ اور خدمت خلق کی غرض سے تعمیر ہونے والے اس کلینک کی راہ میں یہ روک تھی کہ اس قطعہ زمین کا مالک وہ زمین احمدیہ جماعت کے ہاتھ بیچنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا.اس کا کہنا تھا کہ میں اس زمین پر ایک ڈسکو بناتا چاہتا ہوں جب کہ مسجد کے قریب ہونے کی وجہ سے جماعت اس زمین کو ہر قیمت پر لینا چاہتی تھی.اتفاق ایسا ہوا کہ مالک زمین کو بخار ہو گیا.جماعت نے رابطہ کیا لیکن وہ انکار پر مصر رہا.اس پر اس کا بخار اور تیز ہو گیا.جماعت نے قیمت بڑہا کر پیشکش کی لیکن وہ پھر بھی راضی نہ ہوا.ہر بار اس کے انکار پر اس کا بخار زیادہ ہو جاتا رہا، حتی کہ جب اس کو موت سامنے دکھائی دینے لگی تو بالاخر مجبور ہو کر وہ زمین فروخت کرنے پر راضی ہو گیا.جماعت نے زمین خرید کر اس پر کلینک ہر کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کو بھی بخار سے شفاء مل گئی! 9 مکرم ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب مرحوم تبلیغ کا بے پناہ جذبہ رکھتے تھے.دن رات تبلیغ کرتے اور اس دوران باقی ہر چیز کو کثیر بھول جاتے.اس محویت کے ضمن میں ان کا ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ میں حاجیوں کے ایک جہاز پر بطور ڈاکٹر ملازم تھا.واپسی سفر پر جب جهاز عدن پہنچا تو میں تبلیغ کے شوق میں ادھر ادھر نکل گیا اور تبلیغ میں ایسا محو ہو گیا
14 کہ جہاز کی روانگی کے وقت کا خیال تک نہ رہا.تبلیغ سے فارغ ہو کر واپس بندر گاہ پر آیا تو دیکھا کہ جہاز تو روانہ ہو چکا ہے.یہ دیکھ کر میں سخت گھبرا گیا.حالت یہ تھی کہ ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا.دل میں سوچتا کہ جہاز والے کیا کہیں گے.اور اگر کوئی مسافر مر گیا تو مجھے پر قانونی گرفت بھی ہو سکتی ہے.اس پریشانی میں ساری رات دعاؤں میں گزری کہ خدایا! میں تیرا کام کر رہا تھا.عربوں کو پیغام حق پہنچا رہا تھا.یہ میرا ذاتی کام نہ تھا.اب جہاز نکل گیا ہے.میرے مولیٰ ! مجھے کچھ علم نہیں.اب تو میرا جہاز مجھے واپس لا کر دے.میں یہ دعا کرتے کرتے سو گیا.رات خواب میں دیکھا کہ جہاز واپس آگیا ہے.میں جن لوگوں کو شام تک تبلیغ کرتا رہا تھا وہ مجھے پر پہلے ہی ہنس رہے تھے کہ اس کا جہاز نکل گیا اور مصیبت میں پڑ گیا ہے.صبح جب میں نے یہ اعلان کیا کہ میرے خدا نے مجھے بتایا ہے کہ میرا جہاز واپس آگیا ہے اس پر تو وہ اور بھی ہے کہ یہ کیسا مجنون آدمی ہے.کیا کبھی بحری جہاز بھی یوں واپس آیا ہے؟.خدا تعالیٰ کی قدرتوں کی کوئی حد بست نہیں اور اس کے کام نیارے ہوتے ہیں.صبح ہوئی تو لوگوں نے ایک عجیب اور ناقابل یقین نظارہ دیکھا.ایک شخص بھاگا بھاگا آیا اور بتایا کہ واقعی جہاز بندر گاہ پر واپس آگیا ہے.میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور جہاز پر واپس پہنچ گیا.جہاز کی واپسی کا اصل سبب تو اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی تصرف تھا.ظاہری وجہ یہ بن گئی کہ جنگ کی وجہ سے آبدوزوں کے حملہ کا خطرہ تھا اور اس جہاز پر امن کا جھنڈا موجود نہیں تھا.یہ جھنڈا لینے کے لئے جہاز واپس پورٹ پر آن لگا تھا.عام مشاہدہ تو یہ ہے کہ سفر میں گاڑی یا بس چھوٹ جائے تو کبھی واپس نہیں آتی اور یہاں اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت کا یہ کرشمہ دکھایا کہ ایک پر جوش داعی الی اللہ کی خاطر عظیم سمندری جہاز واپس آگیا! ے
میدان تبلیغ میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اس رنگ میں بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ خود معلم بن کر ایسا جواب اور طرز استدلال سمجھا دیتا ہے کہ مخالف دم بخود رہ جاتا ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اسکی ایک شاندار مثال ۱۸۹۳ء میں ظاہر ہوئی جبکہ امرتسر میں آپ کا عیسائی پادری عبد اللہ آتھم سے کئی روز مناظرہ ہوتا رہا.آخری روز اس نے اپنی طرف سے ایک عجیب چل چلی.ایک اندھے، ایک لنگڑے اور ایک گونگے شخص کو سامنے پیش کر کے اچانک حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ آپ مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتے ہیں.بیجئے یہ بیمار موجود ہیں.مسیح کی طرح ان کو ہاتھ لگا کر اچھا کر دکھائیں! حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سب حیران تھے کہ دیکھئے اب حضرت صاحب اس کا کیا جواب دیتے ہیں.حضرت صاحب نے جواباً فرمایا کہ میں تو اس بات کو نہیں مانتا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس طرح ہاتھ لگا کر اندھوں لنگڑوں اور بہروں کو اچھا کر دیا کرتے تھے اس لئے مجھ سے تمہارا یہ مطالبہ کرنا کچھ حجت نہیں رکھتا.ہاں البتہ آپ لوگ مسیح کے معجزے اس رنگ میں تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی بائیبل ہمیں ایمان داروں کی یہ علامت بھی لکھی ہے کہ وہ مریضوں پر ہاتھ رکھیں گے تو وہ صحت یاب ہو جائیں گے علاوہ ازیں آپ کا یہ بھی ایمان ہے کہ جس شخص میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ اگر پہاڑ کو کہے کہ یہاں سے چلا جا تو وہ چلا جائے گا.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے بڑے جلال سے فرمایا کہ میں اس وقت پہاڑ کی نقل مکانی کا تو آپ سے مطالبہ نہیں کرتا البتہ آپ کا بڑا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے ان بیماروں کی تلاش سے بچالیا.اب آپ ہی کے لائے ہوئے یہ بیمار آپ کے سامنے پیش نہیں.اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے تو مسیح کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اور اپنے ایمان کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو اچھا کر دکھا ئیں.حضرت میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ
حضرت صاحب نے جب یہ فرمایا تو پادریوں کی ہوائیاں اڑ گئیں اور انہوں نے مریضوں کو فوراً وہاں سے چلتا کیا.۸ کہتے ہیں کہ تیر وہ ہے جو نشانہ پر بیٹھے.حقیقت بھی یہی ہے کہ دلیل اور حربہ وہی ہوتا ہے جو موقع پر کام آئے.جو لوگ تبلیغ کے میدان میں اترنے والے ہیں ان کا بہت وسیع تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تبلیغی گفتگو کے مواقع پر خود راہنمائی فرماتا ہے.علماء کو بھی وہی سکھاتا ہے اور معمولی پڑھے لکھے ہوئے لوگوں کی بھی وہی راہنمائی کرتا ہے.مخالفین کے مقابل پر پیش کی جانے والی بات اور دلیل بعض اوقات بہت معمولی اور سادہ پر سی دکھائی دیتی ہے لیکن بہت ہی کارگر اور مسکت ثابت ہوتی ہے.تاریخ احمدیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغی میدان میں داعیان الی اللہ کے برجستہ اور موثر جوابات کی مثالوں سے بھری پڑی ہے.میرے والد محترم، خلد احمدیت حضرت مولانا ابوالعظاء صاحب جالندھری مرحوم و مغفور اکثر یہ دلچسپ تبلیغی واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ فلسطین میں ایک موقع پر پیلس کے چند استاد تبلیغی گفتگو کے لئے آئے.احمد یہ دار التبلیغ میں اس وقت آپ کے علاوہ چند احمدی بزرگ بھی موجود تھے.وفات مسیح کا ذکر ہو رہا تھا.غیر احمدی عالم نے کہا کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام واقعی فوت ہو چکے ہیں تو پھر ان کی قبر کہاں ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ ان کی قبر سری نگر، کشمیر میں واقع ہے.کشمیر کا نام سن کر بے اختیار ان میں سے ایک کی زبان سے نکلا کہ اتنی دور ! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ابھی میں نے انہیں کوئی جواب نہ دیا تھا کہ ہمارے مرحوم بھائی علی القرق جو معمولی تعلیم یافتہ تھے انہوں نے جھٹ فرمایا کہ کیا کشمیر آسمان سے
بھی دور ہے ؟ یہ برجستہ جواب سن کر وہ غیر احمدی عالم اور باقی سب اساتذہ بالکل لاجواب رہ گئے ؟ وفات مسیح ہی کے ضمن میں ربوہ کا ایک اور واقعہ بہت دلچسپ ہے.چند غیر احمدی علماء ربوہ آئے.احمدی علماء کرام سے وفات مسیح علیہ السلام کے موضوع پر بہت تفصیلی بات چیت ہوئی.متعدد قرآنی آیات سننے پر بھی ان کی تسلی نہ ہوئی.اور وہ بار بار یہ مطالبہ کرتے رہے کہ وفات مسیح پر کوئی واضح آیت بیان کی جائے.بالاخر ان کے احمدی ساتھی ان کو محترم مولانا احمد خان صاحب نیم کے پاس ملاقات کے لئے لائے.غیر احمدی عالم نے یہاں بھی وہی بات دہرائی کہ وفات مسیح کے بارہ میں کوئی آیت وغیرہ سنائیں.مولانا صاحب نے بڑا پر حکمت انداز اختیار کیا اور بجائے آیات پیش کرنے کے اس سے بڑا سادہ سا سوال کیا کہ کیا تم نے باقی سارے انبیاء کو آیات قرآنیہ کی وجہ سے فوت شدہ سمجھا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے خاص طور پر آیت کا مطالبہ کر رہے ہو ؟.یہ جواب ایسا تسلی بخش ثابت ہوا کہ وہ غیر احمدی عالم کہنے لگا کہ بس بس اب مجھے کسی آیت کی ضرورت نہیں.یہ مسئلہ مجھ پر خوب کھل گیا ہے.۱۰ اسی طرح ایک اور جگہ رفع اور نزول عیسیٰ علیہ السلام پر بحث ہو رہی تھی.غیر احمدی عالم نے اپنی طرف سے یہ دلیل دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسی علیہ السلام کو بطور مثال علی الترتیب پانچ اور ایک سیروزن کا بات سمجھ کر ترازو کے
ایک ایک پلڑے میں رکھا جائے تو لازماً حضرت عیسی علیہ السلام والا پلڑا آسمان کی طرف اٹھ جائے گا لہذا ان کا آسمان پر جانا ثابت ہوا.احمدی دوست کی اللہ تعالیٰ نے راہنمائی فرمائی.اس نے فوراً کہا کہ اول تو یہ دلیل ہی غلط ہے کیونکہ پانچ سیر کے باٹ کے ترازو میں پڑنے یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل حضرت عیسی علیہ السلام اوپر کیسے جاسکتے ہیں.اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہی تمہاری دلیل ہے تو پھر یہ بھی جان لو کہ جب تک ترازو کے ایک پلڑے میں پانچ سیر کا باٹ پڑا رہے گا ایک سیر والا دوسرا پلڑا کبھی نیچے نہیں ہو سکتا.جب تک حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا مزار مقدس مدینہ منورہ میں موجود ہے حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اسکے رہیں گے اور ان کے نیچے اترنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.11 خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ ۱۹۲۶ء میں دمشق میں انکی ایک انگریز پادری ایلفرڈ نیلسن کے شامی وکیل سے لمبی مذہبی گفتگو ہوئی.اس نے بڑے طمطراق سے یہ دعوی کیا کہ قرآن مجید کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ثابت ہوتے ہیں.جب دلیل کا مطالبہ کیا تو کہنے لگا کہ قرآن مجید میں حضرت مسیح علیہ السلام کے بارہ میں آیا ہے علما ذكيا (مریم: (۲۰) - لفظ زكينا کسی اور نبی کے حق میں استعمال نہیں ہوا جو اس امر کی دلیل ہے کہ کوئی اور نبی اس صفت میں ان کا شریک نہ تھا لہذا وہ سب نبیوں سے بشمول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل قرار پائے.حضرت مولانا کو خدا تعالیٰ نے خوب جواب سمجھایا.آپ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ذکیا تو قرآن میں نہیں لیکن یورکی کا لفظ متعدد بار
آیا ہے (البقرہ: ۱۵۲، آل عمران: ۱۶۵، الجمعہ ۳.) جو نہ صرف آپ کی پاکیزگی کی دلیل ہے اور زکی کے مفہوم پر خوب حاوی ہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر آپ کا یہ مقام بتاتا ہے کہ آپ دوسرے لوگوں کو بھی پاکیزگی عطا فرمانے والے ہیں.اس لحاظ ہے دیکھا جائے تو حضرت مسیح علیہ السلام ایک شاگر د ثابت ہوتے ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے استاد.شامی وکیل یہ جواب سن کر دم بخود رہ گیا ! ۱۲ محترم ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم مرحوم بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار ان کا ایک پنڈت جی سے مناظرہ ہونے والا تھا.اس نے یہ چلا کی کی کہ انگریزی زبان میں ایک تحریر لکھ کر میری طرف بھیج دی کہ پہلے اس کا جواب دو.مقصد یہ تھا کہ یہ مولوی انگریزی نہیں پڑھ سکے گا اور شرمندہ ہو گا اور میں لوگوں سے یہ کہہ سکوں گا کہ دیکھو تمہارا مولوی تو میرا لکھا ہوا پڑھ بھی نہیں سکتا.یہ مجھ سے بات کیا کرے گا.اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص تصرف سے مجھے اس کی چلا کی کا توڑ سمجھا دیا.میں نے ایک کانفذ لیا اور اس پر عربی زبان میں دو سطریں لکھ کر پنڈت جی کو بھجوا دیں کہ لیجئے یہ آپ کے رقعہ کا جواب ہے.پنڈت جی چونکہ عربی نہیں جانتے تھے دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور بولے کہ یہ کیا لکھا ہے ؟.میں نے فورا لوگوں سے کہا ” بھائیو! یہ تو میرا لکھا ہوا پڑھ بھی نہیں سکتا.یہ بات کیا کرے گا؟ ".پنڈت جی کی چال اللہ تعالیٰ کی تائید سے اسی پر الٹا دی گئی.۱۳ مخالف کی دلیل کو مختلف ہی پر الٹا دینا یہ سب تائید الہی سے ہوتا ہے.اس سلسلہ میں
۲۲ حضرت قاضی محمد نذیر صاحب فاضل مرحوم ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں.ایک دفعہ ضلع سیالکوٹ میں ان کا پیر نادر شاہ صاحب سے ایک مناظرہ ختم نبوت کے موضوع پر ہو رہا تھا.پیر صاحب جب بحث میں عاجز آگئے تو انہوں نے ایک مولوی کو کھڑا کر دیا اور اسے کہا کہ تم یہ اعلان کر دو کہ میں اسی طرح خدا کا نبی ہوں جس طرح مرزا صاحب نبی ہیں.اور پیر صاحب حضرت قاضی صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ اب اسے جھوٹا ثابت کرو.اس پر قاضی صاحب اٹھے اور مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ دوستو! خدا کا شکر ہے کہ جو مسئلہ ان کے اور پیر صاحب کے درمیان زیر بحث تھا وہ حل ہو گیا ہے.بحث یہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی امت میں نبی آسکتا ہے یا نہیں.پیر صاحب نے عملاً تسلیم کر لیا ہے کہ آسکتا ہے.یہ دیکھئے پیر صاحب کا نبی آپ کے سامنے کھڑا ہے! اب وہ چاہتے ہیں کہ میں اسے جھوٹا ثابت کروں تو مجھے اس کو جھوٹا ثابت کرنے کی ہر گز کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اسے خدا تعالیٰ نے نہیں بھیجا بلکہ ابھی ابھی پیر صاحب نے آپ سب کے سامنے اس سے نبوت کا دعویٰ کروایا ہے.ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں.یہ جواب سن کر پیر صاحب مبہوت رہ گئے اور جس غیر از جماعت دوست کو انہوں نے اپنی طرف سے مناظرہ میں ثالث بنایا ہوا تھا اس نے اسی وقت اپنے احمدی ہونے کا اعلان کر دیا ! ) قرآن مجید میں اللہ تعالی یہ اصول بیان فرماتا ہے " وَ اللهُ يَهْدِى من يشاء " (البقره: ۲۱۴) کہ ہدایت وہی پاتا ہے جس کے متعلق خدا چاہتا ہے.نیز فرمایا " إِنَّ عَلَيْنَا لِّلْهُدَى (الیل: ۱۳) کہ بندوں کو ہدایت
۲۳ دینا ہمارے ہاتھ میں ہے اللہ تعالیٰ کے اس فیضان کے ایمان افروز کرشمے میدان تبلیغ میں بکثرت نظر آتے ہیں.کبھی تائید الہی اس رنگ میں سامنے آتی ہے کہ وہ شخص بھی ہدایت پا جاتا ہے جو براہ راست اصل مخاطب نہیں ہوتا.کبھی وہ شخص ہدایت سے سرفراز کیا جاتا ہے جو یہ کہا کرتا تھا کہ میرے لئے اپنا مذہب تبدیل کرنا ہر گز ممکن نہیں اور کبھی یہ جلوہ اس رنگ میں دکھائی دیتا ہے کہ لوگوں کو احمدیت سے روکنے والا خود 1 احمدیت کی آغوش میں آجاتا ہے.چند سال پہلے کی بات ہے انگلستان کے شہر شیفیلڈ میں چند عربوں کے ساتھ تبلیغی گفتگو ہو رہی تھی.چند احمدی دوست بھی میرے ساتھ شامل تھے.عربوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراضات کے انبار لگا دیئے جن کے جوابات دینے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی لیکن یہ لوگ شائد اپنی عربی دانی کے زعم میں اتنے سخت خیلات کے مالک تھے کہ جوابات سن کر بھی ان کی تسلی نہ ہوئی اور ان کے موقف میں ذرہ برابر تبدیلی نہ ہوئی.سات گھنٹے کی اس تبلیغی مجلس کا بظاہر کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہ آیا لیکن جونہی یہ مجلس ختم ہوئی اور عرب علماء رخصت ہوئے تو اسی مجلس میں بیٹھی ہوئی مراکش کی ایک تعلیم یافتہ مسلمان خاتون ملکہ نے برملا کہا کہ میں نے ایک خاموش مبصر کے طور پر ساری کاروائی کو سنا ہے اور میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ احمدیوں کا پلہ بھاری رہا ہے.چنانچہ انہوں نے احمدیت میں دلچسپی لینی شروع کر دی اور مزید مطالعہ کرنے کے بعد تین ہفتوں کے اندر اندر بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئیں! فالحمد للہ على ذلك ه1 اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ سال بھی ہوا.خاکسار کو راچسٹر جیل میں ایک مسلمان غانین قیدی ابراہیم سے تبلیغی ملاقات کا موقعہ ملا.زبانی بات چیت کے علاوہ کچھ
۲۳ لٹریچر بھی مطالعہ کے لئے دیا.اس سے پہلے بھی کچھ لڑیچر بذریعہ ڈاک بھیجوایا جاچکا تھا.یہ افریتین دوست تو ابھی تک احمدی نہیں ہوئے لیکن اس عرصہ میں یہ خوشکن خبر ملی ہے کہ اسی جیل میں ایک انگریز عیسائی دوست مسٹر جونز نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کرلی ہے.اس نواحمدی انگریز نے بتایا کہ انہوں نے اسی افریقن دوست سے جماعت کا لٹریچر لے کر مطالعہ کیا تھا جس سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں دلچسپی پیدا ہوئی اور مختلف احمدی دوستوں سے رابطہ، مزید مطالعہ اور دعا کے بعد اللہ تعالی نے اپنے فضل سے انہیں انشراح صدر عطا فرما دیا.فالحمد للہ علی احسنہ ۱۶ اس جگہ مجھے اپنے والد محترم حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کا بیان کر وہ ایک ایمان افروز واقعہ یاد آیا.آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا یہ واقعہ ہمیشہ میرے دل کو تقویت دیتا ہے.ہوایوں کہ موضع راجو وال متصل قادیان میں غیر احمدیوں سے ایک مناظرہ طے پایا.یہ عملاً آپ کی زندگی کا پہلا باقاعدہ مناظرہ تھا.تین گھنٹے تک مناظرہ جاری رہا اور اللہ تعالی کے فضل سے احمد یہ علم کلام کے زور دار دلائل بہت مؤثر رنگ میں پیش کرنے کی توفیق ملی جس کا بہت اچھا اثر سامعین پر نمایاں طور پر دکھائی دے رہا تھا.شرائط کے مطابق آخری تقریر آپ کی تھی.آپ تقریر کے لئے کھڑے ہوئے ہی تھے کہ مخالفین نے تالیاں بجا کر شور مچا دیا.اس شور و غوغا میں سارا جلسہ درہم برہم کر دیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ گویا احمدی ہار گئے اور غیر احمدی جیت گئے.زندگی کا پہلا مناظرہ تھا اور باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے پلہ بھاری ہونے کے آپ اپنی فتح کو شکست میں تبدیل ہوتا دیکھ کر بہت دل برداشتہ ہوئے.ایک قریبی نہر کے کنارے نماز عصر ادا کی اور بہت ہی رقت سے لوگوں کی ہدایت کے لئے دعا کی.اللہ
۲۵ تعالیٰ نے اپنی تائید خاص کا یہ کرشمہ دکھایا کہ جو نہی نماز ختم ہوئی اور آپ نے سلام پھیرا تو کیا دیکھا کہ ایک نوجوان آگے بڑھا اور نہایت محبت سے مصافحہ کیا اور کہا کہ میں آج کا نہ پر مناظرہ سن کر احمدیت قبول کرتا ہوں میری بیعت لی جائے! میرے والد محترم بیان فرمایا کرتے تھے کہ نوجوان کی یہ بات سن کر وفور جذبات سے میں آبدیدہ ہو گیا.اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کو دیکھ کر میرا سر اس کے آستانہ ! جھک گیا.اس نوجوان نے جو قریبی گاؤں میں مدرس تھا اپنے فیصلہ کی وجہ یہ بتائی کہ وہ غیر احمدیوں کے اسٹیج پر بیٹھا دوران مناظرہ غیر احمدی علماء کی سب باتیں سن رہا تھا.وہ بر ملا اعتراف کر رہے تھے کہ احمدی مناظر کی باتیں اتنی پختہ اور وزنی ہیں کہ ہمارے پاس ان کا کوئی ٹھوس جواب نہیں.مناظرہ جیتنے کی اب ایک ہی صورت ہے کہ احمدی مناظر کو آخری تقریر نہ کرنے دی جائے اور تالیاں بجا کر مناظرہ ختم کر دیا جائے.اس نوجوان نے کہا کہ ” میں نے جو کچھ دیکھا اور جو کچھ سنا وہ مجھے احمدی بنانے کے لئے کافی ہے " چنانچہ وہ اسی وقت حلقہ بگوش احمدیت ہو گیا ! سے ! چند سال پہلے کی بات ہے کہ برطانیہ میں نارتھ ویلز کے علاقہ میں ایک نوجوان طاہر سلیم صاحب کو بیعت کرنے کی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے یہ توفیق بھی دی کہ انہوں نے دیگر افراد خاندان کو بھر پور تبلیغ کی جس کے نتیجہ میں ان کے خاندان کے دس ، گیارہ افراد نے بھی تھوڑے عرصہ کے اندر اندر بیعت کرلی.اس پر علاقہ کے غیر احمدی حلقوں میں ایک مخالفانہ جوش پیدا ہوا اور سعید نامی ایک شخص کو جو ختم نبوت کمیٹی کا سیکرٹری تھا اس کام پر مامور کیا گیا کہ وہ ہمارے احمدی نوجوان طاہر سلیم کو دوبارہ غیر احمدی بنالے.چنانچہ ان دونوں میں باہم تبلیغی بات چیت کا سلسلہ چل نکلا.ایک لمبے عرصہ کی گفت و شنید کا نتیجہ یہ نکلا کہ سعید صاحب جو احمدی دوست کو
۲۶ دوبارہ غیر احمدی بنانے پہ مقرر ہوئے تھے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خود احمدیت کے نور سے منور ہو گئے ! ۱۸ یہ واقعہ زندہ ثبوت ہے اس بات کا کہ الحق يعلو ولا يعلى عليه» یعنی حق ہی ہمیشہ غالب آتا ہے اور کبھی مغلوب نہیں ہوتا.انسانی قلوب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں.وہ جب چاہے انہیں ہدایت عطا فرما دیتا ہے.اس ضمن میں سیرالیون کا ایک واقعہ بہت ہی ایمان افروز ہے.اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا کرے محترم مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری مرحوم کو.انہوں نے ایک لمبا عرصہ مختلف ممالک میں بھر پور خدمت کی توفیق پائی اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی روح پرور یادیں اسی نام کی ایک کتاب میں محفوظ کر دیں.یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے.آپ بیان کرتے ہیں کہ ریاست وانڈو کا ایک سیکشن چیف قاسم کما نڈا نہایت متعصب اور مخالف شخص تھا.اپنے عیسائی عقائد میں اتنا پختہ اور احمدیت کا اتنا شدید مخالف تھا کہ ایک بار جب انہوں نے اسے تبلیغ کی تو اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ دیکھو.یہ دریا جو میرے گاؤں کے سامنے اوپر سے نیچے کی طرف بہہ رہا ہے اگر یہ دریا یکدم اپنا رخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف الٹا بہنا شروع کر دے تو یہ تو شاید ممکن ہو لیکن میرا احمدی ہونا ہر گز ممکن نہیں.ایک طرف چیف کمانڈا کی یہ ترنگ اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی بے پایاں قدرت اور رحمت کا کرشمہ دیکھئے کہ چند دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک معمولی پڑھا ہوا لوکل افریقن معلم پاسوری باہ اس سے ملا.چند دن اسے تبلیغ کی.اس کے بعد اس چیف نے مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری کو لکھا کہ بے شک
پہلے میں نے ہی کہا تھا کہ گاؤں کا دریا الٹا بہہ سکتا ہے لیکن میں احمد ہی نہیں ہو سکتا.مگر اب میں آپ کو یہ خوشخبری سناتا ہوں کہ بے شک احمدیت کچی ہے اور آپ خود آکر دیکھ لیں.اس دریا نے الٹا بہنا شروع کر دیا ہے اور اللہ تعالی کے فضل سے اب میں احمدی ہو گیا ہوں ! 19 حضرت مولوی محمد الیاس صاحب مرحوم صوبہ سرحد کے ایک خدارسیدہ بزرگ اور نڈر مبلغ احمدیت تھے.ان کی داستان حیات جو حال ہی میں ”حیات الیاس " کے نام سے شائع ہوئی ہے، تبلیغی میدان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجرمانہ حفاظت اور اس کی تائید و نصرت کے واقعات سے بھری پڑی ہے.آپ بیان فرماتے ہیں کہ جب آر نے احمدیت قبول کی اور دن رات احمدیت کی تبلیغ شروع کر دی تو سارے چار سدہ میں طوفان مخالفت اٹھ کھڑا ہوا.ہر روز مخالفین کی طرف سے یہ اعلان ہو تا کہ ان کے مکان کو مکینوں سمیت آگ لگادی جائے گی.سوشل بائیکاٹ بھی شروع کر دیا گیا.ان حالات میں خدا تعالی نے خود ان کے ایک شاگرد کے دل میں رحم ڈالا.وہ رات کے وقت چھپ کر سودا سلف دے جاتا.آپ کی المیہ نے بیان کیا کہ ایک رات جب مکان جلا دینے کی دھمکی کا پر زور اعادہ ہوا تو آدھی رات کو ایک ڈی.ایس.پی ہمارے گھر آیا اور دستک دی.حضرت مولوی صاحب باہر نکلے تو ڈی.ایس.پی نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ بالکل فکر نہ کریں.آرام سے سوئیں ہماری موجودگی میں کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.اللہ تعالی کے متوکل بندے حضرت مولوی محمد الیاس صاحب کا جواب سننے سے تعلق رکھتا ہے.آپ نے فرمایا کہ تمہاری بہادری تو اس بات سے ظاہر ہے کہ تم لوگوں سے چھپ کر آدھی رات کے وقت مجھ سے ملنے آئے ہو.دن کے وقت آنے کی تمہیں جرات نہیں ہو سکی.جہاں تک تمہاری ہمدردانہ
پیشکش کا تعلق ہے تو سنو کہ مجھے تمہاری حفاظت کی ضرورت نہیں.خدا تعالیٰ کے فرشتے میری اور میرے گھر کی حفاظت کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.مختلف اتنے مرعوب ہوئے کہ کسی کو حملہ کرنے کی جرات نہ ہو سکی.۲۰ حضرت مولوی محمد الیاس صاحب مرحوم نے بیان فرمایا کہ چار سدہ میں تین اشخاص نے احمدیت کی وجہ سے ان کی شدید مخالفت کی.اللہ تعالیٰ کی عجیب شان کہ یہ تینوں خدا تعالیٰ کے قبر کے نیچے آکر رسوا ہوئے.ان واقعات کی تفصیل بہت دردناک مگر ایک پہلو سے بہت ایمان افروز ہے.آپ کا ایک دشمن ملا محمود تھا جو اپنے تعویذوں کے ذریعہ یہ کوشش کیا کرتا تھا کہ آپ کی بیوی آپ سے متنفر ہو جائے اور چھوڑ کر چلی جائے.اس کا اپنا انجام یہ ہوا کہ وہ اپنی ایک رشتہ دار عورت کے ساتھ بدنام ہوا اور گھر سے ایسا بھا گا کہ پھر کبھی اپنے گھر کا رخ نہ کیا.دوسرا دشمن اکبر شاہ تھا جو زبر دست تیراک تھا اور کہا کرتا تھا کہ محمد الیاس جب دریا پر نہانے آئے گا تو میں اسے دریا میں غرق کر دوں گا.اللہ تعالیٰ کی شان کہ وہ خود دریا میں نہاتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہو گیا.تیسرے معاند کی داستان عبرت اس طرح ہے کہ مکرم خان چار سدہ کا ایک بااثر زمیندار اور نمبردار تھا اس نے سوشل بائیکاٹ کے ذریعہ ظلم کی انتہا کر دی.اس پر خدا تعالیٰ کی گرفت اس رنگ میں آئی کہ پہلے اس کی بیوی تپ دق سے فوت ہوئی، پھر تین بیٹے یکے بعد دیگرے اس بیماری سے اس کی نظروں کے سامنے رخصت ہوئے.جائیداد جوئے میں کٹ گئی.نمبرداری بھی جاتی رہی اور اتنا تنگ دست ہوا کہ بلآخر تانگہ چلا کر گزر اوقات کرنے لگا.ایک روز عجیب واقعہ ہوا کہ حضرت مولوی صاحب ایک تانگے میں سوار ہوئے اور تانگے والے سے چار سدہ کے لوگوں کا حال ایک ایک کر کے پوچھنے لگے.مکرم خان کا حال دریافت کیا تو تانگے والے نے جو نیچے پائیدان پر بیٹھا ہوا تھا نظر
۲۹ اٹھا کر اوپر دیکھا اور ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ کہنے لگا کہ میں ہی وہ بد بخت ہوں جس نے حق کی مخالفت کر کے دین و دنیا دونوں کو اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا.۲۱ اللہ تعالی کی گرفت اور اس کی قبری تجلی کا یہ سلوک انہی لوگوں سے ہوتا ہے جو اپنی بداعمالیوں کے سبب اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا لیتے ہیں.خاص طور پر وہ لوگ جو اپنی بد بختی میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ حق کے مقابل پر تکبر اور خدا کے پیاروں کی اہانت کی راہ اختیار کر لیتے ہیں.ایسے بدنصیبوں پر خدائی پکڑ بڑی شدت اور سرعت سے نازل ہوتی ہے اور ان کا وجود دوسروں کے لئے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے حضرت مولانا نذیر احمد صاحب علی مرحوم و مغفور نے مغربی افریقہ میں اسلام اور احمدیت کی جو گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں وہ تاریخ احمدیت کا ایک زریں باب ہیں.آپ بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۳۸ء میں سیرالیون مسلم کانگرس نے ایک جلسہ عام میں ان کا خطاب کروایا جس کی صدارت ملک کی ایک معروف شخصیت شیخ حیدر الدین نے کی.انہیں جے پی اور ایم.بی.اسی کے اعزازات مل چکے تھے اور ملک کا ہر طبقہ ان کا لوہا مانتا تھا.مولانا موصوف کے نہایت موثر خطاب کے بعد شیخ حیدر الدین نے اپنے صدارتی ریمارکس میں بڑے تکبر سے کہا.سامعین! میں آپ سب سے زیادہ عالم ہوں اور دینی علوم میں ید طولی رکھتا ہوں.میرے نزدیک اس انڈین حاجی کی باتیں اور دلائل محض متمع سازی اور جھوٹ کا پلندہ ہیں تکبیر کی انتہا کرتے ہوئے اس شخص نے اس حد تک کہہ دیا میں تو اس کے جھوٹے مسیح کو ماننے کی نسبت یہ پسند کروں گا کہ میرا دماغ کام کرنا چھوڑ دے تاکہ اس انڈین مشنری کی باتوں پر غور ہی نہ کر
i سکوں اور اس فتنہ سے بچار ہوں.خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے.اس کے جلال اور جبروت کے آگے بڑے سے بڑے انسان کا تکبر اور غرور پاش پاش ہو جاتا ہے.یہی انجام اس متکبر مخالف حق کا ہوا.جس انجام کی اس نے تمنا کی تھی بالکل وہی اس کا نصیب بن گیا.چند مہینوں کے اندر اندر اس شخص نے منہ مانگی سزا پالی.اس کا دماغی توازن بگڑ گیا اور اس کی حالت اتنی غیر ہوئی کہ دیکھی نہ جاتی تھی.قریباً اڑ ہائی سال تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلاء رہنے کے بعد انتہائی عبرتناک حالت میں اس جہان سے چل بسا.۲۴ دوست اللہ تعالی کی تائید و نصرت اور اس کی قمری تجلی کا اس سے بھی زیادہ دلدوز واقعہ سنگاپور میں ہوا.وہاں کے ایک مخلص احمدی دوست مکرم محمد علی صاحب بیان کرتے ں کہ وہ اور حضرت مولانا غلام حسین صاحب ایاز مرحوم ضلع ہزارہ کے ایک پٹھان ہیں کے چھوٹے سے ہوٹل پر کھانا کھایا کرتے تھے.ایک روز جب اسے ہمارے احمدی ہونے کا پتہ لگا تو یہ شخص آپے سے باہر ہو گیا اور سخت بد زبانی کرتے ہوئے ہمیں اپنی دوکان سے نکال دیا.اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو اس نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف نہایت گھٹیا زبان استعمال کی، کاذب و دجال کہا اور کہا کہ ان کی وفات نعوذ باللہ بیت الخلاء میں ہوئی تھی.سید نا حضرت مسیح موعود" سے اللہ تعالی کا وعدہ تھا کہ «إني مهين من أراد إهانتك» یعنی جو بھی تیری بے عزتی کے درپے ہو گا وہ خود ذلیل ورسوا کیا جائے گا.اس بد زبان س کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کو کیسے پورا کیا؟.اس کی تفصیل یہ ہے کہ چند سال کے اندر اندر یہ شخص اللہ تعالی کی شدید گرفت میں آگیا.اور جس قسم کی
گندی موت وہ نعوذ باللہ حضور علیہ السلام کی طرف منسوب کیا کرتا تھا بالآخر ایک دن خود اسی گندی موت کا شکار ہو گیا.ہوا یوں کہ پہلے اسے شوگر کی معمولی بیماری ہوئی جو بڑھتے بڑھتے اس حد تک جاپہنچی کہ اس کی ایک ٹانگ پر پھوڑا نکل آیا جس کی وجہ سے وہ ٹانگ کاٹ دی گئی.پھر دوسری ٹانگ پر پھوڑا نکل آیا اور وہ بھی کاٹنی پڑی.اس پر وہ اتنا محتاج ہو گیا کہ اس کے لواحقین اسے ہاتھوں پر اٹھا کر بول و براز کراتے.حتی کہ ایک پرا وقت ایسا آیا کہ اس کے اپنے لڑکوں نے اس کی بیماری سے تنگ آکر اپنی دوکان کے پیچھے ایک کونے میں اسے ڈال دیا جہاں وہ دو چار فٹ رینگ کر اپنے قریب ہی بول و براز سے فارغ ہو لیتا.آخر کار جب وہ از خود چلنے کے بھی قابل نہ رہا تو ایک روز اپنے ہی کئے ہوئے گند کے اوپر مرا ہوا پایا گیا.۲۳ یہ ایسا دلدوز واقعہ ہے کہ اسے بیان کرتے ہوئے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی غالب تقدیر کے تصور سے دلوں پر ہیبت چھا جاتی ہے.کیا کوئی ہے جو ان واقعات سے نصیحت حاصل کرے ؟.بارش کو بارانِ رحمت کہا جاتا ہے اور اس میں کسے شک ہو سکتا ہے کہ بارش واقعی خدا تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک عظیم الشان انعام ہے.اللہ تعالی کی عجیب قدرت ہے کہ یہ باران رحمت تبلیغی میدان میں خدائی رحمت کا پیغام لے کر اترتی اور متعدد مواقع پر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا نشان بن کر سعید فطرت لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن جاتی ہے.موضع کر یام ضلع جالندھر کا واقعہ ہے کہ ایک مجلس میں حضرت حاجی غلام احمد صاحب رضی اللہ عنہ اور بنگہ کے حضرت شیر محمد صاحب رضی اللہ عنہ تانگے والے موجود تھے.اس وقت شدت کی گرمی پڑرہی تھی.ایک غیر احمدی دوست چھیجو خان
۳۲ نامی سے تبلیغی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا.دوران گفتگو اس نے کہا کہ اگر آج بارش ہو جائے تو میں احمدی ہو جاؤں گا.حضرت حاجی صاحب نے اس وقت احمدی احباب کی معیت میں دعا کے لئے ہاتھ بلند کر دیئے مسبب الاسباب خدا کی قدرت نے عجیب کرشمہ دکھایا.ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ آسمان پر بادل چھا گئے اور زور سے بارش برسنے لگی.یہ خدائی نشان دیکھ کر چھیجو خان صاحب نے اسی وقت بیعت کر لی ! ۲۲ اسی طرح کا ایک ایمان افروز واقعہ دو سال قبل صد سالہ جوبلی کے جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر پیش آیا.ملائیشیا سے ایک غیر از جماعت خاتون اس جلسہ میں شرکت کے لئے تشریف لائیں.احمدیت کا لمبے عرصہ سے مطالعہ کر رہی تھیں اور بہت حد تک مطمئن تھیں.لیکن بیعت کرنے کے لئے پورا انشراح نہیں ہو رہا تھا.جلسہ سالانہ کے دوسرے روز رات کے وقت انہیں بیت الدعا میں دعا کرنے کا موقعہ ملا.اس موقعہ پر انہوں نے اپنی ہدایت کے لئے کچھ اس رنگ میں دعا کی کہ خدایا! اگر واقعی احمدیت کچی ہے تو مجھے اس کا یہ نشان عطا فرما کہ کل سارا دن بارش ہوتی ہے.نہ معلوم اس پاک دل خاتون نے کس درد سے یہ دُعا کی کہ دربار الہی میں فوراً مقبول ہو گئی اور جلسہ سالانہ کے تیسرے دن صبح سے شام تک قادیان میں بارش ہوتی رہی، جس کی وجہ سے منتظمین کو کافی دقت بھی ہوئی اور جلسہ کا انتظام مسجد اقصی اور مسجد مبارک میں کرنا پڑا.شام کو اس خاتون نے بیعت کرلی اور ساتھ ہی کہنے لگیں کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میری اس دعا کی قبولیت سے لوگوں کو اس قدر وقت ہوگی تو میں خدا سے کسی اور نشان کی درخواست کرلیتی.۲۵
حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ عنہ بارش سے تعلق رکھنے والا تائید الہی کا ایک بہت دلچسپ واقعہ بیان فرماتے ہیں.ایک موقعہ پر بھاگل پور میں ایک تبلیغی جلسہ وسیع پیمانے پر منعقد ہونے والا تھا.سب تیاریاں عروج پر تھیں.حاضرین بھی بکثرت موجود تھے کہ اچانک ایک کالی گھٹا نمودار ہوئی اور بارش کے موٹے موٹے قطرے گرنے لگے.یوں لگتا تھا کہ بس دیکھتے ہی دیکھتے جل تھل ہو جائے گا اور تبلیغی جلسہ منعقد نہ ہو سکے گا.آپ فرماتے ہیں کہ اس تبلیغی نقصان کو دیکھ کر میں نے نہایت تفرع سے یوں دعا کی کہ اے خدا! یہ ابر سیاہ تیرے سلسلہ حقہ کی تبلیغ میں روک بننے والا ہے، تو اپنے کرم سے اس انڈے ہوئے بادل کو برسنے سے روک دے.اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا عجیب کرشمہ دکھایا.انڈا ہوا بادل فوراً پیچھے ہٹ گیا اور ہمارا تبلیغی جلسہ نہایت کامیابی سے منعقد ہوا.۲۶ اس جگہ مجھے ایک اور مجاہد اسلام حضرت مولانا رحمت علی صاحب مرحوم ، مبلغ انڈونیشیا کا ایک واقعہ یاد آگیا.آپ پاڈانگ شہر کے محلہ یاسر مسکین میں رہتے تھے.علاقہ کے اکثر مکانات لکڑی کے اور بالکل ساتھ ساتھ بنے ہوئے تھے.ایک مرتبہ اتفاقاً اس محلہ میں آگ لگ گئی جو ارد گرد کے مکانات کو راکھ بناتی ہوئی آپ کی رہائش گاہ کے قریب پہنچ گئی حتی کہ اس کے شعلے آپ کے مکان کے چھتے کو چھونے لگے.یہ نازک صورت حال دیکھ کر احباب نے پر زور اصرار کیا کہ آپ مکان کو فوری طور پر خالی کر دیں.لیکن آپ نے پورے یقین اور وثوق سے فرمایا یہ آگ انشاء اللہ ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی.یہ مکان اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک غلام اور مجاہد فی سبیل اللہ کی رہائش گاہ ہے اور حضور سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ
۳۴ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے " راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولانا رحمت علی صاحب ابھی یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اچانک بادل امڈ آئے اور موسلا دھار بارش شروع ہو گئی جس نے آنا فان اس آگ کو بالکل ٹھنڈا کر کے رکھ دیا.اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت نے آگ کو واقعی مسیح محمدی" کے غلام کا غلام بنا دیا ! ۲۷ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کی کوئی انتہاء نہیں.ہر چیز اس کے اشارہ پر حرکت کرتی ہے.اس واقعہ میں موسلا دھار بارش نے اچانک برس کر تائید الہی کا نمونہ دکھایا.اب ایک اور واقعہ سنئے جس میں اس کے بر عکس ظہور میں آیا اور بہت ہی غیر معمولی حالات میں بارش اچانک رک کر میدان تبلیغ میں خدائی تائید و نصرت کا نشان بن گئی.حضرت مولانا رحمت علی صاحب مرحوم ایک بار اسی شہر پاڈانگ میں ہالینڈ کے ایک عیسائی پادری سے اسلام اور عیسائیت کے بارہ میں تبلیغی گفتگو کر رہے تھے جسے سننے کے لئے لوگ بکثرت وہاں جمع تھے.اسی اثناء میں اچانک موسلادھار بارش شروع ہو گئی.اس علاقہ میں یہ معمول ہے کہ جب بارش شروع ہو جائے تو کئی کئی گھنٹے مسلسل برستی رہتی ہے اور رکنے کا نام نہیں لیتی.تبلیغی گفتگو میں جب وہ پادری دلائل کے میدان میں عاجز آ گیا تو اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لئے اچانک یہ عجیب و غریب مطالبہ کر ڈالا کہ اگر واقعی عیسائیت کے مقابل پر تمہارا مذ ہب اسلام سچا ہے تو ذرا اپنے اسلام کے خدا سے کہئے کہ وہ اپنی قدرت کا کرشمہ دکھائے اور اس موسلا دھار بارش کو اسی وقت بند کر دے.بظاہر اس پادری نے اپنے زعم میں ایک ناممکن بات کا مطالبہ کیا اور بارش کے معمول پر قیاس کرتے ہوئے اسے کامل یقین ہو گا کہ ایسا ہر گز نہ ہو سکے گا.لیکن دنیا نے اس موقع پر خدائی
۳۵ غیرت اور تبلیغی میدان میں تائید الہی کا ایک حسین کرشمہ دیکھا.پادری کے مطالبہ کرتے ہی حضرت مولانا موصوف نے اپنے زندہ خدا پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے بڑی پر اعتماد اور جلالی آواز میں بارش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”اے بارش ! تو اس وقت خدا کے حکم سے تھم جا اور اسلام کے زندہ اور بچے خدا کا ثبوت دے ! " اسلام کے قادر و توانا اور زندہ خدا پر قربان جائیے کہ ابھی چند منٹ بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ موسلادھار بارش خلاف معمول تھم گئی اور وہ پادری اور سب حاضرین اللہ تعالیٰ کے اس عظیم نشان پر انگشت بدنداں رہ گئے ! ۲۸ ر حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمان کی ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور جب بھی اس کی قدرت اور مشقت تقاضا کرتی ہے یہ سب اشیاء خواہ وہ آسمان میں ہوں یا زمین پر، اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشان کے طور پر ظاہر ہو کر ازدیاد ایمان کا موجب بنتی ہیں.اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے ان سب مظاہر کو میدان تبلیغ میں صدق دل سے اترنے والوں کے لئے اس رنگ میں مسخر کر دیتا ہے کہ وہ قدم قدم پر اس کی تائید و نصرت میں جلوہ نمائی کرتے ہیں.بارش کا برسنا بھی نشان بن جاتا ہے اور اس کار کتنا بھی.اسی طرح آگ کا لگنا بھی اور اس کا بجھنا بھی.اس ضمن میں جزائر فجی کے ابتدائی مبلغ مکرم شیخ عبد الواحد صاحب مرحوم کا بیان کردہ ایک واقعہ قابل ذکر ہے.آپ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کے ایک شہر " با " میں احمدیہ مشن کی شاخ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تو وہاں بہت شدید مخالفت شروع ہو گئی.مخالفین کے ایک سرغنہ ابو بکر کو یا نے اعلان کر دیا کہ اگر احمدیوں نے اس جگہ پر اپنا مشن بنایا تو ہم اسے جلا کر راکھ بنا دیں گے.باوجود حفاظتی انتظامات کے ایک رات واقعی اس
ا نے احمدیہ مشن کے ایک حصہ پر تیل چھڑک کر آگ لگادی.لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہمیں پتہ لگنے سے پہلے ہی وہ آگ بغیر کوئی خاص نقصان پہنچانے کے خود بخود بجھ گئی.اشاعت اسلام کے مرکز کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص تصرف سے نقصان سے بچا لیا لیکن دوسری طرف اس کی گرفت نے یہ کرشمہ دکھایا کہ اس واقعہ کے چند دن بعد تو یہ مشن کو آگ لگانے والے ابو بکر کو یا کے مکان کو اچانک آگ لگ گئی اور آگ بٹھانے کی ہزار کوشش کے باوجود اس کا رہائشی مکان سارے کا سارا اسکی آنکھوں کے سامنے جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا! ۲۱ تبلیغی میدان میں رونما ہونے والے تائید و نصرت الہی کے ان واقعات میں سے گزرتے ہوئے بار بار یہ حقیقت روشن تر ہوتی چلی جاتی ہے کہ تبلیغ حق کرنے والے خدا تعالیٰ کو اس قدر عزیز اور محبوب ہو جاتے ہیں کہ خالق کائنات اپنے ان فدا کاروں کے لئے مجرمانہ قدرتیں دکھاتا ہے اور نشان نمائی کے ذریعہ قدم قدم پر ان کی دستگیری کرتا اور دین حق کی صداقت کو ثابت کرتا چلا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے خاص لطف و کرم سے کس طرح تبلیغ کرنے والوں کو نوازتا ہے اور معجزانہ رنگ میں ان کی مدد کرتا ہے اس کی متعدد مثالیں مکرم حاجی عبد الکریم صاحب مرحوم آف کراچی کے ایمان افروز تبلیغی حالات میں ملتی ہیں.آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نڈر اور پرجوش داعی الی اللہ تھے.فوجی ملازمت کے دوران مصر میں کافی عرصہ قیام کیا.ان کی تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے مقامی پادری نے ان کے افسر کے پاس شکایت کر دی.افسر نے انتقامی غرض سے ان پر حکم عدولی کا مقدمہ بنا دیا.فوجی قوانین میں ایسی صورت میں کم از کم چھ ماہ قید کی سزا تو یقینی ہوتی ہے.بات غیر احمدی مخالفین تک پہنچی تو انہوں نے طنزاً کہنا شروع کر دیا کہ دیکھنا اب انہیں " تمغہ حسن
کار کردگی " ملے گا.بالآخر معاملہ عدالت میں پیش ہوا.معمولی سی سماعت کے بعد جج نے کہا کہ میں تم کو مجرم قرار دیتا ہوں اور..ابھی فقرہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ عین اسی وقت کمرہ عدالت میں حج کے افسر اعلیٰ کا فون آگیا کہ اس مقدمہ میں فیصلہ مت سناؤ اور کاغذات میرے پاس لاؤ.افسر اعلیٰ نے سارا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فریقین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں.اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا کرشمہ دیکھئے کہ حضرت حاجی عبدالکریم صاحب احمدی کو افسر اعلیٰ نے فوری طور پر نہ صرف مقدمہ سے بری کر دیا بلکہ ترقی دے کر مراعات اور تنخواہ میں اضافہ کی ہدایت کی.دوسری طرف ان کے افسر پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے اس کا الاؤنس بند کر دیا اور عہدہ میں کمی کر کے میدان جنگ میں بھیج دیا.حضرت حاجی عبدالکریم صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب وہ اپنی ترقی کا اور ان کا افسر اپنی تنزلی کا آرڈر لے کر بیک وقت کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو ہر ایک فیصلہ سننے کا مشتاق تھا.عدالت کا فیصلہ سن کر کسی کو یقین نہ آتا تھا.اپنی توقعات کے بالکل بر خلاف جب غیر احمدیوں نے عبد الکریم صاحب کی زبانی ان کی ترقی کی بات سنی تو سمجھے کہ حقیقت میں تو انہیں سزا ہوئی ہے لیکن شاید دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا.الغرض حاسدوں اور بد خواہوں کی سب تمنائیں خاکستر ہو گئیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص داعی الی اللہ کو اپنی تائید و نصرت کا مزید کرشمہ یہ دکھایا که غیر معمولی حالات میں واقعی ان کو حکومت کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا.حاجی عبدالکریم صاحب نے بیان کیا کہ جس تمغہ کا میرے غیر احمدی مخالفین طنزاً ذکر کیا کرتے تھے جب وہ تمغہ مجھے ملا تو میں تحدیث نعمت کے طور پر اسے اپنے سینے پر سجا کر، چند روز کی رخصت لے کر اپنے پرانے دفتر گیا اور انہیں تمغہ دکھلا کر کہا کہ دیکھو یہ ہے وہ تمغہ جو میرے قادر خدا نے مجھے عطا فرمایا ہے! ۳۰ اور اہم اموت کے موقعہ کا رحمت میں شرکت
اسی تسلسل میں ممتاز مبلغ اسلام حضرت مولانا نذیر احمد صاحب مبشر فاضل کا ایک واقعہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے.جن دنوں آپ غانا میں تبلیغ اسلام کر رہے تھے ایک نوجوان نے مکہ مکرمہ سے واپس آکر یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ احمدی لوگ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں.امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ابھی نہیں ہوا.اس نوجوان سے ملنے کے لئے آپ صراحہ نامی گاؤں پہنچے جہاں اس کا قیام تھا لیکن وہ براہ راست بات چیت پر راضی نہ ہوا.مولانا موصوف نے اس گاؤں میں ایک شاندار جلسہ کیا اور علامات ظہور مہدی پر جامع تقریر کی.آپ تو جلسہ کر کے واپس آگئے لیکن مخالفین نے قریہ بہ قریہ جلوس نکالنے شروع کر دیئے اور اپنی فتح کے روایتی نشان کے طور پر سفید کپڑے سروں پر باندھ کر اور سفید جھنڈے ہاتھوں میں لے کر ان الفاظ میں گانا شروع کر دیا کہ ہماری فتح ہوئی ہے.مہدی ابھی نہیں آئے کیونکہ زلزلہ نہیں آیا.مہدی ظاہر ہو گیا ہوتا تو زلزلہ ضرور آتا.مخالفین کا یہ مطالبہ ایسا تھا جسے کوئی انسان پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.ہاں زمین و آسمان کا خالق و مالک خدا ہر چیز پر قادر ہے.اسی قادر و توانا خدا نے اپنے بچے امام مہدی علیہ السلام کی تائید و نصرت کے لئے یہ معجزہ دکھایا کہ چند دنوں کے اندر اندر سارے غانا میں شدید زلزلہ آیا اور وہی لوگ جو پہلے یہ کہتے تھے کہ مہدی ابھی نہیں آئے کیونکہ زلزلہ نہیں آیا.اب بر ملا دو تارے بجا بجا کر اعلان کرنے لگے کہ مسلمانوں کا مہدی آگیا ہے کیونکہ زلزلہ آگیا ہے.الله ! اللہ ! کیا شان دلربائی ہے کہ اپنے فرستادہ کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے سرزمین غانا کو ہلا کر رکھ دیا اور اس طرح اپنی قدرت اور جبروت کا زندہ نشان عطا فرمایا جو بہتوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوا.۳۱
۳۹ تبلیغ کا راستہ بہت ہی صبر آزما اور پر خطر راستہ ہے جس میں قریبی دوست بھی بسا اوقات دشمن بن جاتے ہیں.لیکن جو داعی الی اللہ اس راستہ پر اخلاص کے ساتھ گامزن ہو جاتے ہیں وہ گویا خدا تعالیٰ کی گود میں آ جاتے ہیں.زمین و آسمان کا مالک، قادر و توانا خدا، خود ان کا محافظ بن جاتا ہے اور ایک ڈھال بن کر دشمن کے حملوں سے انہیں محفوظ رکھتا ہے.غیر معمولی حالات میں خدا تعالیٰ کا دست قدرت اپنی تائید و نصرت کے کرشمے دکھاتا چلا جاتا ہے.حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب مرحوم آف سکندر آباد نے اشاعت لٹریچر کے ذریعے تبلیغ کی غیر معمولی سعادت پائی.آپ کی اہلیہ محترمہ نے حضرت سیٹھ صاحب کی معجزانہ حفاظت کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے.آپ بیان کرتی ہیں کہ ایک بار حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کو بمبئی کے علاقہ میں ایک تبلیغی مہم پر بھجوایا.خوب سرگرمی سے تبلیغی کام ہونے کے باعث آپ کی شدید مخالفت شروع ہو گئی اور آپ کے ہم قوم لوگوں نے آپ کو قتل کرنے کی سازش کی.آپ کو کھانے کی ایک دعوت پر مدعو کیا گیا اور مخالفین کا ارادہ یہ تھا کہ کھانے میں زہر ملا کر آپ کو ہلاک کر دیا جائے.ادھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی بیگم کے دل میں ڈالا کہ اس دعوت میں شمولیت ٹھیک نہیں.براہ راست اطلاع دینے کی کوئی صورت ممکن نہ تھی اس لئے انہوں نے دعا کی کہ خدا تعالیٰ ان کے شوہر کے دل کو اس دعوت میں شمولیت کرنے سے پھیر دے.آپ کی دردمندانہ دعاؤں کے روحانی تار کا یہ اثر ہوا کہ مقلب القلوب خدا نے حضرت سیٹھ صاحب کے دل میں ڈالا کہ وہ اس دعوت میں شامل نہ ہوں.چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور دعوت میں شمولیت کئے بغیر شام کو خیریت سے گھر پہنچ گئے.اس واقعہ کے تین سال بعد سازش کرنے والوں نے خود اعتراف کیا کہ اس روز ہم دعوت کے موقعہ پر ان کو جان سے مار دینا چاہتے تھے لیکن وہ دعوت میں شریک
ہی نہ ہوئے اور اس طرح ایک پر جوش داعی الی اللہ کے خلاف دشمنوں کا سارا دھرے کا دھرا رہ گیا ! ۳۲ حضرت مولانا عبد المالک خان صاحب مرحوم کو پاک و ہند کے علاوہ غانا میں بھی خدمت اسلام کی توفیق ملی.غانا میں ایک بار آپ ایک تبلیغی سفر کے بعد کماسی واپس آرہے تھے کہ کار کا ٹائر پھٹ گیا.ٹائر بدل کر دوبارہ سفر پر روانہ ہوئے.بیس پچتیں میں چلے ہوں گے کہ دوسرا ٹائر بھی پھٹ گیا.جس کا مطلب یہ تھا کہ اب آگے جانے کی کوئی صورت نہ تھی.آپ بیان فرماتے ہیں کہ اچانک جنگل میں سے دو آدمی نکل کر ہماری طرف بڑھنے لگے.ان کے ہاتھوں میں خنجر تھے.اور ان کا تعلق خونخوار قبائل سے معلوم ہوتا تھا.ان کے چہروں سے وحشت ٹپکتی تھی اور ان کے خنجر چاندنی رات میں خوب چمک رہے تھے.اس خوفناک حالت میں اللہ تعالیٰ نے حوش و حواس قائم رکھنے کی توفیق دی.اپنے ساتھی عبد الواحد صاحب ریٹائر ڈ پولیس آفیسر کے ذریعہ میں نے ان کو حالات بتا کر پوچھا کہ کیا آپ ہماری کچھ مدد کر سکتے ہیں؟ تبلیغی میدان میں اللہ تعالیٰ کی تائید کا کرشمہ دیکھئے کہ جو دشمن خنجر اٹھائے ہمارا خون بہانے اور ہمیں لوٹنے کے ارادہ سے آئے تھے اللہ تعالیٰ نے انہی کے دلوں کو موم کر کے ، ان کے دلوں میں ہمارے لئے محبت اور ہمدردی پیدا کر دی.وہ دونوں باپ بیٹا تھے.باپ نے ہماری بات سن کر اپنے بیٹے کو کہا کہ ابھی دونوں ٹائر کندھے پر اٹھاؤ اور قریبی گاؤں سے مرمت کروا کے لاؤ.اور جب تک بیٹا واپس نہیں آیا اس کا باپ جو ہمارے خون کا پیاسا بن کر آیا تھا اسی جنگل میں ہماری مہمان نوازی کرتا رہا.اس نے اپنی جھولی سے انناس نکلا اور اسی خنجر سے جس سے ہمیں ملزنے کی نیت رکھتا تھا انناس
کاٹ کر خود بھی کھایا اور ہمیں بھی کھلایا.جس محبت سے اس نے مہمان نوازی کی وہ ناقابل فراموش ہے.آخر رات کے ساڑھے تین بجے اس کا بیٹا دونوں ٹائر مرمت کروا کر لایا اور ہم اپنی منزل کے لئے روانہ ہو گئے.اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت نے قتل کے ارادہ سے آنے والے کو ہمارا مہمان نواز اور خادم بنا دیا.۳۳ حضرت مولانا غلام حسین صاحب ایاز مرحوم نے لمبا عرصہ سنگاپور میں " اسلام کی سعادت پائی.جاپانیوں کے تسلط کے زمانہ میں کسی شخص کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہوتی تھی مگر آپ بے دھڑک ہر جگہ تبلیغی کاموں میں مصروف رہتے اور دنیا حیران ہوتی تھی کہ آپ ان جاپانیوں کے ہاتھ سے کس طرح بچ جاتے ہیں.در حقیقت یہ سب اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا کرشمہ تھا جو ایک داعی الی اللہ کو قدم قدم پر نصیب ہوتی ہے.تو میں ایک بار سنگاپور کی ایک مسجد میں تقریر کرتے ہوئے ایک غیر احمدی مولوی نے یہ الزام لگایا کہ احمدی لوگ جس قرآن پر یقین رکھتے ہیں وہ مسلمانوں کے قرآن سے مختلف ہے.آپ نے اسی وقت بڑی جرات کے ساتھ مجمع میں کھڑے ہو کر اس الزام کی پر زور تردید کی.ملاؤں نے عوام الناس کو پہلے سے مشتعل کیا ہوا تھا.آپ کی بات سن کر بعض لوگوں نے وہیں پر آپ کو مارنا شروع کر دیا.اور ادھ موا کر کے گھسیٹتے ہوئے مسجد کی سیڑھیوں تک لے گئے اور وہاں سے نیچے دھکیل دیا.آپ سر کے بل نیچے گرے جس سے آپ کے سر اور کمر پر شدید چوٹیں آئیں اور نیچے گرتے ہی آپ بیہوش ہو گئے.آپ اسی طرح بیہوشی کے عالم میں سڑک کے کنارے پڑے رہے.نہ کسی نے پولیس کو اطلاع کی نہ خود اٹھا کر ہسپتال پہنچایا.اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت کا یہ
کرشمہ دکھایا کہ حسن اتفاق سے ایک احمدی فوجی افسر کرنل تقی الدین احمد صاحب کا.وہاں سے گزر ہوا.انسانی ہمدردی کے جذبہ سے سڑک کے کنارے ایک شخص کو مردے کی طرح پڑا دیکھ کر آپ نے اپنی جیپ روکی اور دیکھتے ہی پہچان لیا.فوری طور پر ہسپتال پہنچایا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر آپ کی جان بچائی ورنہ غیر احمدی دشمنوں نے تو اپنی طرف سے مار کر یہ یقین کر لیا تھا کہ ان کا کام تمام ہو چکا ہے.۳ حضرت مولانا محمد صادق صاحب سماٹری مرحوم اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت اور معجزانہ حفاظت کا ایک اور ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہیں.یہ بھی اسی زمانہ کی بات ہے جب جنگ عظیم ثانی کے دوران جاپان نے اپنا تسلط انڈو نیشیا تک وسیع کر لیا تھا.ان کے کامل اقتدار کا یہ عالم تھا کہ اپنی من مانی کاروائیاں کرتے.کسی کے متعلق ذراسی بھی شکایت پہنچتی تو فوراً اس کی موت کا بہانہ بن جاتی.نہ کوئی تحقیق ہوتی نہ کوئی تفتیش.بس فیصلہ سنا دیا جاتا بلکہ عموماً فیصلہ سنانا بھی ضروری نہ سمجھا جاتا.فورا ہی سزائے موت نافذ کر دی جاتی.آپ بیان فرماتے ہیں کہ دو شکایات کی بناء پر میرے متعلق جاپانی حکومت نے قتل کا فیصلہ کیا.اور مذکورہ بالا پس منظر میں نہ اپیل کی گنجائش تھی اور نہ بچنے کی کوئی امید.ایک مومن اور مجاہد کا واحد سہارا اس کا خدا ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی گئی تو اس نے بذریعہ خواب یہ اطلاع دی کہ جاپانی حکومت اپنے برے انجام کو پہنچنے والی ہے.یہ خواب اپریل ۱۹۴۵ ء کی ہے.چند ماہ کے اندر اندر ۱۴ اگست کو جاپانی حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے..اس فیصلہ کا اعلان انڈو نیشیا میں ۲۲ اگست کو ہوا.جاپانی حکومت کی شکست کے بعد حکومت جاپان کے کاغذات سے معلوم ہوا کہ ۱۲۳ اور ۲۴ اگست کی درمیانی رات ۶۵ آدمیوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ان
میں مولانا محمد صادق صاحب سماٹری کا نام سر فہرست تھا.اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا کرشمہ دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکومت کو اپنا فیصلہ نافذ کرنے کی مہلت تک نہ دی اور اللہ تعالیٰ کے طاقتور دستِ قدرت نے ایک مجاہد فی سبیل اللہ کو کس طرح موت کے منہ سے بچا لیا جب کہ موت کے سائے اس کے سر پر منڈلا رہے تھے اور فیصلہ کے نفاذ میں صرف چند گھنٹے باقی تھے ! ۳۵ اس تسلسل میں مجھے ایک اور ایمان افروز واقعہ یاد آیا.میرے والد محترم حضرت مولانا ابو ا ( ) صاحب جالندھری مرحوم بیان فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک بار ایک احمد نی دوست کے ساتھ ایک تبلیغی پروگرام سے رات کے وقت واپس کہا بیر آرہا تھا کہ جنگل میں سے گزرتے ہوئے یہ محسوس ہوا کہ جیسے جھاڑیوں میں کچھ حرکت ہے لیکن یہ سمجھ کر کہ شاید کوئی جانور ہو، زیادہ توجہ نہ دی.آگے گزر گئے تو تھوڑی دیر بعد دو دھماکوں کی آواز میں سنائی دیں لیکن اسے بھی اتفاقی واقعہ سمجھ کر کچھ توجہ نہ دی گئی.بظاہر بہت معمولی سا واقعہ تھا جو یاد بھی نہ رہا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو گویا موت کا سفر تھا جو اللہ تعالیٰ کی تائید کے سایہ میں حفاظت سے طے ہو گیا.کافی عرصہ بعد اس واقعہ کی اصل حقیقت معلوم ہوئی کہ کچھ معاندین احمدیت عرصہ سے مجھے قتل کرنے کی کوشش میں تھے.اس رات ان میں سے دو نوجوان بندوقوں سے مسلح ہو کر اور پوری تیاری کے ساتھ میری ناک میں جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے.میں اور میرا ساتھی باتیں کرتے ہوئے جب ان کے پاس سے گزرے تو پہلے ان میں سے ایک نے مجھ پر بندوق چلائی لیکن نہیں چلی.پھر دوسرے نوجوان نے بندوق چلانے کی کوشش کی لیکن اسکی بندوق بھی نہ چل سکی.ہم دونوں ان قاتلانہ کوششوں سے کلیہ بے خبر، اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور حفاظت کے سلیہ
میں آگے بڑھ گئے.ہمارے گزر جانے کے بعد جب ان دونوں نوجوانوں نے اپنی بندوقوں کو چلایا تو انہوں نے بالکل ٹھیک کام کیا.ان میں قطعاً کوئی خرابی نہ تھی.صرف یہ بات تھی کہ جب ان کا رخ دو مجاہدین اسلام کی طرف تھا تو اللہ تعالیٰ کی غالب تقدیر نے انہیں چلنے سے روک دیا! ۳۶ تبلیغی میدان میں تائید الہی کے یہ چند واقعات جو بطور نمونہ اس جگہ بیان کئے گئے ہیں ہر داعی الی اللہ کو یہ محکم یقین عطا فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی دعوت الی اللہ کا علم تھامے اس مبارک راستہ پر گامزن ہو جاتا ہے زمین و آسمان کا خدا، قدم قدم پر اسے اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے نوازتا ہے.یاد رہے کہ یہ واقعات ماضی کے قصے نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت کے طور پر آج بھی اکتاف عالم میں پھیلے ہوئے مخلص داعیان الی اللہ کی زندگیوں میں جاری و ساری دکھائی دیتے ہیں.اسلام کا خدا ایک زندہ خدا ہے.اس کے وعدے کبھی ماضی کا قصہ نہیں بنتے.پس آج یہ واقعات ہر احمدی کے لئے ایک دعوت عام کا رنگ رکھتے ہیں کہ وہ بھی تبلیغ کے مقدس میدان میں اترے اور تائیدات الہی کے ایسے ایمان افروز جلووں سے اپنی زندگی کو منور کرے.جن واقعات کو پڑھ کر یا سن کر آج ہمارے خون کو ایک نئی حرارت اور ایمان کو جلا نصیب ہوتی ہے خدا کرے کہ اس قسم کے روحانی تجربات ہماری زندگیوں کا مستقل حصہ بن جائیں.اس سعادت کو پانے کار از ہمارے پیارے آقا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہمیں بتا دیا ہے.اس ارشاد پر دل و جان سے عمل کرنا ہمارا فرض
ہے.آپ فرماتے ہیں: ہ اسے محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! اور اے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالو ! اب اس خیال کو چھوڑ دو کہ تم کیا کرتے ہو اور تمہارے ذمہ کیا کام لگائے گئے ہیں.تم میں سے ہر ایک مبلغ ہے اور ہر ایک خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہو گا.تمہارا کوئی بھی پیشہ ہو.کوئی بھی تمہارا کام ہو.دنیا کے کسی خطہ میں تم بس رہے ہو.کسی قوم سے تمہارا تعلق ہو.تمہارا اولین فرض یہ ہے کہ دنیا کو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف بلاؤ اور ان کے اندھیروں کو نور میں بدل دو اور ان کی موت کو زندگی بخش دو.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.۲۵ فروری ۱۹۸۳ء ) و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین ee خطبہ جمعہ الحامولية
W14 قارئین کرام سے ایک درخواست کہتے ہیں بات سے بات یاد آتی ہے.امید کامل ہے کہ تبلیغی میدان میں تائید الہی کے یہ ایمان افروز واقعات پڑھتے ہوئے قارئین کرام کو اور بھی بہت سے ایسے واقعات یاد آئے ہوں گے جن کا تعلق صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، بزرگان سلسلہ عالیہ احمدیہ، متفرق داعیان الی اللہ یا خود ان کی اپنی ذات سے ہے.ایسے جملہ احباب سے میری درخواست ہے کہ از راہ کرم ایسے سب واقعات معین تفاصیل اور حوالہ جات کے ساتھ قلمبند فرما کر خاکسار کو بھجوا دیں.کوشش کی جائے گی کہ ان واقعات کو بھی کسی موقع پر افادہ عام کے لئے کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے.و باللہ التوفیق.خاکسار عطاء المجيب راشد امام مسجد فضل لندن نوٹ: اس تقریر کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا: ۱.قرآن کریم.۲- جنگ مقدس ۳- در ثمین، ۴ روح پرور یادیں، ۵.حیات قدسی -۲- بشارات رحمانیہ حیات الیاس - رسلہ الفرقان ۹- خطبات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ: ۱۰.بعض زبانی روایات و مشاہدات
(1 (r (۳ (۴ (۵ (4 (2 (A و) فہرست حوالہ جات صفحه نمبر ۲ - آیت كتب الله لا غلين انا ورسلى.....سورة المجادلة آيت ٢٢ (1+ (1 (ir الله حوالہ رسالہ تحریک جدید ربوه جولائی ۱۹۷۳ اصحاب احمد جلد ہشتم حوالہ تقریر ص۱۵۸ حضرت خلیفتہ المسیح الربع ایدہ اللہ تعالی ضمیمہ ماہانہ ” خالد “ربوہ جولائی ۱۹۸۷ ص ۱۱۳۸ حیات قدی از حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی حصہ دوم ص ۵۸- اشاعت یکم ستمبر ۱۹۵۱ء ماہنامہ مصباح ریده اپریل ۱۹۷۶ ص ۲۰۱۹ بر اور است ذاتی شنید تحریری میان مکرم ڈاکٹر سردار حمید احمد صاحب آف لندن امن سیرت المہدی حصہ اول ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب ص- ۱۹۱ تا ۱۹۲ روایت نمبر ۷۶ امیان حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب بر اور است ذاتی شنید ماہنامہ الفرقان ربوہ میں بھی یہ واقعہ شائع شدہ ہے ذاتی شنید ذاتی شنید نیز ملاحظہ ہو ماہنامہ الفرقان ریدہ مئی ۱۹۶۹ء برہان ہدایت حصہ دوم ص ۱۴۷ از مولوی عبد الرحمن صاحب میشر برہان ہدایت جلد اول مؤلفه عبد الرحمن مبشر صاحب ص- ۳۶۱ (۱۴ (10 (17 (12 (۱۸ برہان ہدایت حصہ دوم ذاتی مشاہدہ ذاتی مشاہدہ و تجربه ص -۶۵ ماہنامہ الفرقان ریده اکتوبر ۱۹۶۸ ص - ۴۳ تا ۴۵ ذاتی مشاہدہ و تجربه
۴۸ از مولوی محمد صدیق امرتسری صاحب ص۵۲۶۲۵۲۴،۴۲۰ حوالہ تاریخ احمدیت جلد ۷ ص ۴۱۰۲۴۰۹ روح پرور یاد میں حیات الیاس از مکرم عبد السلام خان صاحب ص ۳۱۲۲۹ حیات الیاس از حرم عبد السلام خان صاحب روح پرور یاد میں از مولوی محمد صدیق امر تسری صاحب ص - ۲۲۳ تا ۲۲۵ روح پرور یادیں از مولوی محمد صدیق امر تسری صاحب ص - ۵۴۱۲۵۳۹ براه راست شنید بروایت چوہدری احمد دین صاحب لکن حضرت حاجی غلام احمد صاحب آف کریام نیز اصحاب احمد ذاتی شنید و مشاہدہ جلد دہم مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ص - ۱۰۶ جلد سوم ص ۲۶،۲۵ مطبوعه ۱۹۵۴ء تاج پریس حیدر آباد حیات قدی روح پرور یاد میں از مولوی محمد صدیق امر تسری صاحب 10.45-5 حواله الفضل ۹ دسمبر ۱۹۳۸ روح پرور یادیں از مولوی محمد صدیق امرتسری صاحب روح پرور یادیں از مولوی محمد صدیق امرتسری صاحب ص - ۹۵ ، ۹۶ ص ۶۴،۶۳ ماهنامه الفرقان ریدہ جولائی ۱۹۶۳ ص- ۳۸۲۳۵ روح پرور یادیں از مولوی محمد صدیق امرتسری صاحب ص ۷۷ تا ۷۹ مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے یاتین اصحاب احمد جلد ۲ ص ۲۵۲ ۲۵۳ روح پرور یادیں از مولوی محمد صدیق امر تسری صاحب ص ۷۴۰۷۳ یر ہان ہدایت جلد ۲ ص۲۸۰۲۲۷۸ از عبد الله اسعد عوده ص ۱۴۱ بر اور است ذاتی شنید نیز عرفی کتاب "بير..بلدی" (14 (٢٠ (۲۱ (FF (۲۴) (۲۵) (٢٦ (۲۸ (۲۹ (۳۰ (۳۱ (۳۲ (۳۳ (۳۴ (۳۵)
تیرا کوئی ما دعوت الی اللہ کے دس اہم طریق ارشاد فرموده سید نا حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالٰی محل کے
سید نا حضرت خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.أدعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ میں محض اللہ تعالیٰ کی طرف بلا نا مراد نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ پر جس شان سے خدا تعالیٰ ظاہر ہو ا تھا اس تمام شان کی طرف بنی نوع انسان کو بلانا مقصود ہے اور وہ خدا ایسا ہے جو رب العالمین ہے.اس سلسلہ میں دس اہم امور حسب ذیل ہیں:.ا.پیغام تمام مومنوں کیلئے ہے:.یہاں مخاطب صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا گیا ہے.اگر چہ پیغام تمام قبول کرنے والوں کیلئے ہے.یہ تو نہیں فرمایا کہ اے محمد تو اکیلا نکل جا اور تبلیغ شروع کر دے اور تیرا کوئی ساتھی تیرے ساتھ نہ چلے آنحضرت کو مخاطب کیا گیا لیکن پیغام تمام مومنوں کیلئے ہے.بالحكمته والموعظته الحسنه حكمت کے معنی حکمت کے تقاضے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے ہمیں تاریخ پر نظر ڈالنی چاہئے اور تاریخی واقعات کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اس دشمن کا علاج اتنی بڑھی ہوئی محبت اور حد سے زیادہ تلطف سے ہم دیں گے تب ہماری بات مانی جائے گی ورنہ نہیں مانی جائے گی.۲.موقعہ اور محل کے مطابق:.حکمت کا دوسر ا تقاضا جسے عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ ہے موقعہ اور محل کے مطابق بات کرنا ہر بات اپنے موقعہ پر اچھی لگتی ہے ایک آدمی کو اپنے کام میں جلدی ہے یا خیالات میں افرا تفری ہے.اور آپ اس کو پیغام دینا شروع کر دیں تو یہ بات موقعہ اور محل کے مطابق نہیں ہے.جب نفرت ہو تو اچھی چیز بھی پیش کی جائے تو انسان اس کو پسند نہیں کرتا.تو جب تک پیش کرنے کا طریقہ اتنا اچھا نہ ہو کہ وہ اس نفرت پر غالب آجائے اس وقت تک تبلیغ کارگر
نہیں ہوتی.iv پس آپ کا جو کام ہے وہ انتہائی نازک ہے جہاں ایک طرف آپ کو اسوہ نبوی میں دوسروں کیلئے بے انتہار حمت بننا پڑے گا.وہاں طرز کلام بھی نہایت حکیمانہ اختیار کرنا پڑے گا اور یہ سوچ کر بات کرنی ہو گی کہ عام باتوں سے وہ دوست بہر حال بدلیں گے ان سے ملائمت کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے.۳.انسانی مزاج کو سمجھ کر :.حکمتوں کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ ہے کہ انسانی مزاج کو سمجھ کر بات کی جائے اور اس طریق کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے.اس کے مزاج کو پوری طرح پڑھ سکیں اور یہ جان سکیں کہ اس کے رجحانات کیا ہیں کن باتوں سے کتراتا ہے پھر اس کے مطابق اس سے معاملہ کریں.۴.اپنی استعدادوں کے مطابق:.پھر حکمت کا ایک اور تقاضایہ بھی ہے کہ اپنے مزاج اور اپنے رجحان کا بھی جائزہ لیں ہر انسان ہر قسم کی تبلیغ نہیں کر سکتا اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو اپنے اپنے رنگ میں استعداد میں عطا فرمائی ہیں ایک بزرگ چولے پر آگے پیچھے قرآنی آیات لکھوا کر پھرا کرتے تھے قریشی محمد حنیف صاحب سائیکل پر تبلیغ کرتے تھے ) یہ کہنا ہے کسی شخص میں دعوت الی اللہ کی استطاعت نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ پر الزام ہے اور یہ کہنا بھی درست ہے کہ ہر شخص کی استطاعت چونکہ مختلف ہے اس لئے مقابل کے انسان سے مقابلہ بھی الگ الگ کرنا پڑے گا.ر شخص کی ایک انفرادیت ہے اس کے مطابق اس سے بات کرنی ہو گی اور آپ کے بھی مزاج الگ الگ ہیں.خدا نے آپ کے استعداد میں الگ الگ بنائی ہیں.ان کو مد نظر رکھ کر اپنے لئے ایک صحیح رستہ تجویز کرنا ہو گا کہ میں کیا ہوں اور میں کس طرح اس فریضہ کو ہر
بہترین رنگ میں ادا کر سکتا ہوں.بعض لوگوں کو بولنا نہیں آتا بعض لوگوں کو لکھنا نہیں آتا.بعض لوگ پبلک میں لوگوں سے شرماتے ہیں.لیکن علیحدہ علیحدہ چھوٹی مجالس میں بہت اچھا کلام کرتے ہیں بعض لوگ عوامی مجلسوں میں بڑا کھلا خطاب کر لیتے ہیں پس خدا نے جو مزاج بنایا ہے اگر کوئی اس مزاج سے ہٹ کر بات کرے گا تو اس سے جگ ہنسائی ہوگی.۵- حالات حاضرہ کے مطابق:- پھر وقت الگ الگ ہوتے ہیں اور زمانے الگ الگ ہوتے ہیں وقت کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں..حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ ان اوقات سے بھی استفادہ کیا جائے اس لئے مختلف وقتوں میں مختلف قسم کی باتیں زیب دیتی ہیں اور وہ اثر کرتی ہیں مثلاً جب غم کی کیفیت ہو تو اس وقت اور قسم کی بات کی جاتی ہے.اور جب خوشی کی کیفیت ہو تو اور طرح کی بات کی جاتی ہے اسی طرح خوف و ہر اس کا زمانہ ہو تو اور طرح سے بات کرنی پڑے گی.۶.مناسب انتخاب :- حکمت کا ایک تقاضا یہ ہے کہ مناسب زمین کا انتخاب کیا جائے دنیا میں بے شمار مخلوق ہے جس کو خدا تعالیٰ کی طرف بلانا ہے انسان نظری فیصلے سے یہ معلوم کر سکتا ہے کہ کن لوگوں پر نسبتا کم محنت کرنی پڑے گی.بعض اوقات بعض احمدی بعض ایسے لوگوں کے ساتھ سر مارتے پھرتے ہیں جن کے متعلق ان کی فطرت گواہی دیتی ہے کہ یہ ضدی اور متعصب ہیں اور ان کے اندر تقویٰ نہیں ہے اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے تو ہدایت کا وعدہ ان لوگوں سے کیا ہے.جو تقویٰ رکھتے ہیں جن کے اندر سچائی کو سچائی کہنے کی ہمت اور حوصلہ ہے (مسیح نے بھی کہا میں سوروں کے سامنے کس طرح موتی ڈالوں) سعید فطرت لوگوں کو چنیں ان میں سے بھی پہلے جرات مندوں کو چنیں جو مردانہ صفات رکھتے ہیں جو خود مبلغ بن جائیں.
vi ہ مسلسل رابطہ رکھیں:.پھر فصل کی نگہداشت کرنا بھی حکمت کا تقاضا ہے.جب دعوت الی اللہ کرتے ہو یا کرو گے تو بہت لطف اٹھاؤ گے پھر دوبارہ اس شخص کو تلاش نہیں کرو گے اور اس سے دوبارہ نہیں ملو گے اور سہ بارہ اس سے نہیں ملو گے اور پھر چوتھی دفعہ اس سے نہیں ملو گے اور پھر پانچویں دفعہ نہیں ملو گے تو تم اپنے پھل سے محروم کر دئیے جاؤ گے.کیونکہ وہ نیک اثر ا بھی دائگی نہیں ہوا.اس لئے جب تک وہ تمہارا نہیں ہو جاتا تمہیں مسلسل اس کی طرف توجہ کرنی پڑے گی.اگر توجہ نہیں کرو گے تو تمہاری مختیں ضائع ہوتی چلی جائیں گی..دعاؤں سے آبیاری:.جب تک کسی کھیتی کی آبیاری نہ کی جائے اس وقت تک وہ پھل نہیں دے سکتی اور پانی دینے کے دو طریق ہیں ایک دنیا میں علم کا پانی جو آپ دیتے ہیں لیکن اصل پھل اس فضل کو لگتا ہے جسے آسمان کا پانی میسر آجائے اور وہ آپ کے آنسوؤں کا پانی ہے جو آسمان میں تبدیل ہوتا ہے.اگر محض علم کا پانی دے کر آپ کھیتی کو سینچیں گے تو ہر گز توقع نہ رکھیں کہ اسے بابر کٹ پھل لگے گا اور لازما دعا ئیں کرنی پڑیں گے.لازماً خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرنی ہو گی.اس سے مدد چاہتی ہوگی اور اس کے نتیجہ میں در حقیقت یہ مومن کے آنسو ہی ہوتے ہیں جو باران رحمت بنا کرتے ہیں.موغطہ حسنہ حکمت کو پہلے رکھا پھر فرمایا وغطہ حسنہ سے کام لو.موعظمہ حسنہ دلیل کے علاوہ ایک صاف اور کچی اور پاکیزہ نصیحت ہوتی ہے جو اپنے اندر ایک دلکشی رکھتی ہے اور اس کا کسی فرقہ وارانہ اختلاف سے کوئی کام نہیں ہوتا یہ براه راست دل سے نکلتی ہے اور دل پر اثر کر جاتی ہے پس دلیلوں کا نمبر بعد میں آئے گا.ہمیشہ بات موعظہ حسنہ سے شروع کرو.تم لوگوں کو یہ بتایا کرو کہ بھائی مجھے تم سے ہمدردی ہے تم لوگ ضائع ہو رہے ہو.یہ معاشرہ تباہ ہو رہا ہے.کیونکہ تباہ ہو رہا ہے اس پر غور کر د.
My vii دیکھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے آتے ہیں اور بلا کر چلے جاتے ہیں.میں تمہیں پیغام دیتا ہوں، آنے والا آگیا ہے تم اس کو قبول کرو.اس لئے قرآن کریم کہتا ہے کہ بحث میں جلدی نہ کرو.حکمت کے ساتھ موغطہ حسنہ شروع کرو تاکہ لوگ جان لیں کہ تم ان کے ہمدرد اور بچے ہو.لوگ سمجھ لیں کہ تمہیں صرف اپنی ذات سے دلچسپی نہیں ان کی ذات میں بھی دلچسپی ہے.۹- مجادلہ: باوجود مواغطہ حسنہ کے لوگ آپ سے لڑنے کیلئے تیار ہوں گے فرمایا اس وقت بھی ہم تمہیں ہدایت کرتے ہیں کہ مقابلہ کرو اور پیٹھ نہ دکھاؤ.اب تم تیار ہو جاؤ تمہارا پورا حق ہے کہ تم اپنی پوری قوت اور پوری شدت کے ساتھ ان لڑنے والوں کا مقابلہ کرو لیکن مقابلہ جبرے نہیں کرنا فرمایا.جَادِلْهُم بِالتِى هِی اَحْسَنُ اب بھی بدی کے ساتھ مقابلہ حسن کا ہی ہو گا وہ بدی لیکر آئیں گے تم نے اس کی جگہ حسن پیش کرنا ہے وہ تمہاری برائی چاہیں گے تم ان کی اچھائی چاہو گے وہ کمزور دلیلیں دیں گے تم ان سے زیادہ قوی اور طاقت وار اور دلکش دلیلیں نکالا کرنا اور ہر مقابلہ کی شکل میں تم حسن کے نمائندہ بن جاتا اور وہ نفرت اور بدیوں کے نمائندہ بن جائیں گے.۱۰.صبر : ولنن صبر تم فَهُوَ خَيْرُ للصَّبِرِين کہ یاد رکھو اگر تم صبر سے کام لو تو اللہ تعالیٰ تمہیں بتاتا ہے ، صبر کرنے والے زیادہ کامیاب ہوا کرتے ہیں اور صبر کرنے والوں کا اپنے لئے یہی اچھا ہوتا ہے کہ وہ بدلہ نہ لیا کریں خصوصاً دینی مقابلوں میں اور ہر معاملے میں صرف نظر سے کام لیتے چلے جائیں اور اپنی برداشت اور حوصلے کے پیمانے بڑھاتے چلے جائیں.اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ جو واحد سے شروع ہوا بھا اس نے اجتماعیت اختیار کرلی
vili اس لئے میں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ تبلیغ کا یہ کام صرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک محدود نہیں بلکہ آپ کے ماننے والوں پر بھی فرض ہے.ラウ واصْبِرُو مَا صَبَرُكَ إِلَّا بِاللهِ فرمایا اے محمد تجھے ہم یہ نہیں کہتے کہ اگر تو چاہے تو بدلہ لے لے اور چاہے تو صبر کرلے تیرے لئے یہ ارشاد ہے کہ واصبر تو نے صبر ہی کرنا ہے.فرماتا ہے.اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صبر ہی کرتا چلا جا.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تو پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کر رہا ہے بس اس راستے سے کبھی ہمنا نہیں کیونکہ یہی بہترین راستہ ہے صبر دو قسم کے ہوا کرتے ہیں ایک غصہ کا صبر اور ایک غم کا صبر.فرماتا ہے ولا تحزن عليهم وہ غصہ والا صبر نہیں وہ تو غم والا صبر ہے.غصہ تو حضرت محمدؐ کے قریب بھی نہیں کھاتا.پس ہم نے اس کی پیروی کرنی ہے.جس کے صبر میں غصہ کا نام و نشان بھی نہیں تھا وہ تو سگی ماں والا صبر کرنے والا انسان ہے بلکہ ان سے بھی بڑھ کر صبر کرنے والا وہ ان لوگوں کے غم میں اپنی جان ہلکان کر رہا ہو تا ہے.جو اس کی بات کو نہ مان کر اپنا نقصان کر رہے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَحْزَنَ عَلَيْهِمْ..
INSPIRING EXAMPLES OF DIVINE ASSISTANCE IN THE FIELD OF TABLIGH (PREACHING THE MESSAGE OF ISLAM) This booklet is based on a lecture delivered by Maulana Ataul Mujeeb Rashed, Imam of the London Mosque on the occasion of Jalsa Salana (Annual Gathering) of Jamaat Ahmadiyya, United Kingdom held in 1991.It describes scores of inspiring examples of Divine assistance in the field of Tabligh.Published by Nazarat Nashro Ishaat Sadr Anjuman Ahmadiyya Qadian-143516