Tabligh-eHadayat

Tabligh-eHadayat

تبلیغِ ہدایت

Author: Hazrat Mirza Bashir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کی اس تصنیف لطیف میں احمدی احباب کے لئے نہایت مفید تبلیغی مواد قرآن کریم، احادیث نبویہ اور اقوال آئمہ کی روشنی میں نہایت کی خوش اسلوبی اور عمدہ ترتیب کے ساتھ جمع ہے جس کی مدد سے ہر احمدی ، جماعت احمدیہ یعنی حقیقی اسلام کے عقائد کو دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ سے اپنے زیر رابطہ احباب تک پہنچا کر باآسانی ثابت کرسکتا ہے۔ الغرض حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ مسیح و مہدی کی بعثت کے لئے مقرر زمانہ، تب ظاہر ہونے والی علامات اور اس کے مشن کی تفصیلات کے لئےموجود  مستند حوالہ جات کی مدد  سے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت کے ثبوت کے لئے یہ کتاب ایک کارگر تبلیغی انسائیکلو پیڈیا ہے۔ اس کتاب کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہوکر مصنف کے لئے موجب زیادت ثواب بن چکے ہیں ۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن نظارت نشر و اشاعت قادیان کا شائع کردہ ہے۔


Book Content

Page 1

تبلیغ ہدایت ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ (الصف 10) ترجمہ: وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اُسے دین ( کے ہر شعبہ ) پر کلی غالب کر دے خواہ مشرک بُرا منا ئیں.تبلیغ ہدایت مصدّقه حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے الناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 3

نام کتاب تبلیغ ہدایت مصنف سابقہ ایڈیشنز حالیہ طباعت تعداد مطبع ناشر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے 2013, 1997, 1987, 1960 : نومبر 2014ء 1000 : فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان ضلع گورداسپور ، پنجاب، انڈیا.143516 ISBN: 978-81-7912-288-4 Tablig-e-Hidayat By Hadhrat Mirza Bashir Ahmad M.A (ra) مزید معلومات کے لئے رابطہ کریں شعبه نور الاسلام (احمدیہ مسلم جماعت).Toll Free: 1800-3010-2131 www.ahmadiyyamuslimjamaat.in

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پاک اور مبشر اولاد میں سے ہیں.آپ کی پیدائش سے تقریبا پانچ ماہ قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا کہ يَأْتِي قَمَرُ الْأَنْبِيَاءِ وَامْرُكَ يَتَاتُى یعنی نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام ظاہر ہو جائے گا.الہام الہی کے عین مطابق آپ نے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کے سلسلہ میں عظیم الشان خدمات سرانجام دی ہیں اور کئی اعلیٰ درجہ کی مفید کتب تصنیف فرمائی ہیں.کتاب تبلیغ ہدایت “ آپ کی تصنیف لطیف ہے اور جیسا کہ اس کے " عنوان سے ظاہر ہے اس کتاب میں احمدی احباب کے لئے تبلیغی مواد قرآن مجید، احادیث نبویہ اور اقوال آئمہ کی روشنی میں نہایت ہی خوش اسلوبی اور عمدہ ترتیب کے ساتھ جمع کئے گئے ہیں اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے عقائد کو دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ سے ثابت کیا گیا ہے.حضرت نبی اکرم صلی ستم کی مسیح و مہدی کی بعثت کے متعلق بیان فرمودہ زمانہ ، علامات اور مشن کے بارہ میں مستند حوالہ جات کی رو سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب

Page 5

قادیانی مسیح موعود کی صداقت کو ثابت کیا گیا ہے.یہ کتاب اپنی ذات میں جماعت احمدیہ کا ایک تبلیغی انسائیکلو پیڈیا ہے اور تبلیغی میدان میں نہایت ہی کارگر ثابت ہے.ہر احمدی کے لئے اس کتاب کا مطالعہ از بس ضروری ہے تا کہ وہ تبلیغی میدان میں ہمیں کامیابی حاصل کر سکے.سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے نظارت نشر و اشاعت قادیان کتاب ہذا کو من وعن پہلی دفعہ کمپوز کر کے افادہ عام کے لئے شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کتاب کی اشاعت کو ہر لحاظ سے با برکت کرے اور اس کتاب کے مطالعہ کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف مائل کرے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر واشاعت قادیان

Page 6

نمبر شمار 1 تمہید فہرست مضامین عنوان صفحہ سلسله رسالت سلسلہ رسالت کا معراج قرآنی تعلیم کی لفظی و معنوی حفاظت کی گئی جو اسلام کی زندگی کا ثبوت ہے ظاہری علم زندگی کا ثبوت نہیں اور نہ وہ زندگی بخش ہے اسلام میں مجددین کا سلسلہ با وجود تعلیم مکمل ہونے کے مصلحوں کی ضرورت ہے آخری زمانہ کے متعلق ایک خطر ناک فتنہ کی پیشگوئی اسلام اور اہلِ اسلام کی موجودہ حالت آخری زمانہ کے فتنہ کا علاج حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ تحقیق کا طریق تحقیق کی تقسیم منقولی تحقیق کا طریق معقولی تحقیق کا طریق روحانی طریق 1 2 2 LO 5 6 7 9 10 12 13 14 15 16 19 21

Page 7

نمبر شمار 2 نزول مسیح اور ظہور مہدی عنوان قرآن وحدیث میں مسیح و مہدی کی پیشگوئی حضرت مسیح ناصری آسمان پر نہیں اٹھائے گئے وفات مسیح ناصری حیات مسیح کے عقیدہ پر کبھی اجماع نہیں ہوا حیات مسیح کا عقیدہ اسلام میں کہاں سے آیا عدم رجوع موٹی موعود مسیح نے اسی امت میں سے ہونا تھا نزول مسیح کی حقیقت ابن مریم کے نام میں حکمت مسیح موعود اور مہدی ایک ہی ہیں مہدی جہاد بالسیف نہیں کرے گا مسیح و مہدی کی علامات علامات ماثورہ کے متعلق ایک غلطی فہمی کا ازالہ مسیح و مہدی کی دس موٹی علامات پہلی علامت دوسری علامت صفح 23 27 30 42 لله په ل نه م ن ه ای این 44 45 46 50 51 56 65 73 74 الله لا لا لا 76 77

Page 8

صفح 78 84 86 90 92 94 96 98 99 105 112 115 131 153 156 158 162 تیسری علامت چوتھی علامت پانچویں علامت چھٹی علامت عنوان ساتویں علامت آٹھویں علامت نمبر شمار نویں علامت نزول مسیح کے متعلق ایک زبر دست پیشگوئی 4 مسیح موعود کا کام دسویں علامت مسیح موعود کا پہلا کام مسیح موعود کا دوسرا کام حضرت مرزا صاحب کا مسیحیت سے مقابلہ حضرت مرزا صاحب کا آریوں سے مقابلہ حضرت مرزا صاحب کا سکھوں سے مقابلہ بر ہمو سماج سے مقابلہ دیو سماج سے مقابلہ دیگر متفرق مذاہب سے مقابلہ

Page 9

نمبر شمار عنوان مذہبی تحقیق کے متعلق دو زریں اصول حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ تمام مذاہب پر اسلام کا غلبہ اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جد و جہد حضرت مرزا صاحب کے متعلق مخالفین کی رائے مسیح موعود کا تیسرا کام ایمان کی حقیقت ایمان کی علامتیں ایمان کی پہلی علامت ایمان کی دوسری علامت ایمان کی تیسری علامت ایمان کی چوتھی علامت ایمان کی پانچویں علامت سچے ایمان پر خدائی مہر مسیح موعود کے کام کی تخم ریزی مکمل ہو چکی ہے جماعت احمدیہ کی ہمہ گیر ترقی کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی مسیح و مہدی کی علامات پر ایک اصولی نظر علامات ماثورہ کے متعلق ایک شبہ کا ازالہ صفح 163 169 177 186 192 192 199 201 203 204 205 206 209 210 212 213

Page 10

صفح 224 230 234 238 240 241 243 243 251 252 254 258 262 264 264 نمبر شمار 6 عنوان علامات کے متعلق ایک جامع بیان حضرت مرزا صاحب کا نبوت کا دعویٰ ختم نبوت کے متعلق ہمارا عقیدہ آیت خاتم النبیین کی تشریح حدیث لا نبی بعدی کی تشریح حديث لو كان بعدی نبيا لكان عمر کی تشریح حديث لم يبق من النبوۃ الا المبشرات کی تشریح مسئلہ نبوت کے متعلق اجماع کا دعویٰ غلط ہے ہر نبی کے لئے نئی شریعت لانا ضروری نہیں ہر نبی ایک معنی میں کتاب لاتا ہے ہر نبی یقینا مطاع ہوتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی دوسرے نبی کا مطیع نہیں ہوتا ہے قرآن شریف سے سلسلہ نبوت کا جاری ہونا ثابت ہے حدیث سے سلسلہ نبوت کا جاری ہونا ثابت ہے نبوت کے متعلق بحث کا خلاصہ نبوت کے متعلق حضرت مرزا صاحب کے دو فیصلہ کن حوالے کتاب کا خاتمہ اور خاکسار مصنف کی طرف سے دعا

Page 11

بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ سلسلۂ رسالت تمهید مذاہب عالم کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتہ لگتا ہے کہ ابتداء سے ہی اللہ تعالیٰ کی یہ سنت چلی آئی ہے کہ وہ ہر ظلمت اور بے دینی کے زمانہ میں اپنی طرف سے کسی پاک شخص کو دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث فرماتا ہے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کی اصلاح کرتا اور تازہ نشانات سے اپنا چہرہ دنیا پر ظاہر کر کے دہریت کی ظلمت سے لوگوں کو باہر نکالتا ہے.یہ سلسلہ جو سلسلۂ رسالت کہلاتا ہے ابتداء سے لیکر اب تک برابر چلا آیا ہے شروع شروع میں جبکہ دنیا میں مختلف ملکوں اور مختلف قوموں کے اندر باہم میل جول کے سامان موجود نہ تھے یا بہت کم تھے اور ہر ملک دوسرے ملک سے منقطع تھا اور ہر قوم دوسری اقوام سے بے خبر تھی اور گویا ہر ملک اور ہر قوم کا الگ الگ ایک عالم تھا اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی مختلف ممالک اور مختلف اقوام میں الگ الگ رسول آتے تھے.چنانچہ اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے:.وَاِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ.(سورة فاطرع٣) یعنی " کوئی ایسی قوم نہیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بیدار کرنے والا نہ آیا ہو.چنانچہ جس طرح شام، مصر، عراق وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے رسول آئے اسی طرح ہندوستان، چین، فارس وغیرہ میں بھی اس کے رسول آئے اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی

Page 12

آئے.اسی لئے ہم تمام ممالک اور تمام اقوام کے رسولوں کی تصدیق کرتے اور ان کو سچا جانتے ہیں چنانچہ جہاں ہم حضرت نوح، حضرت ابراہیم ، حضرت موسی اور حضرت عیسی علیہم السلام پر ایمان لاتے ہیں.وہاں پارسیوں کے زرتشت، بُدھ مذہب والوں کے گوتم بدھ، چین والوں کے کنفیوشس اور ہندوؤں کے کرشن علیہم السلام کی رسالت کا بھی اقرار کرتے ہیں اور ان کو اسی عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں جو ایک نبی کی شایانِ شان ہے.سلسلۂ رسالت کا معراج مگر یہ سب انبیاء علیہم السلام اور انہی کے زمانہ کے دوسرے انبیاء اس زمانہ کے لئے تھے جب دنیا کی مختلف اقوام ایک دوسرے سے قریباً بے خبر تھیں.اور ہر ملک دوسرے ممالک سے منقطع تھا اور نسلِ انسانی کی دماغی ترقی بھی اپنی ابتدائی حالت میں تھی لیکن جب وہ وقت قریب آیا کہ تمام دنیا ایک ملک کے حکم میں آنے لگی اور مختلف اقوام میں ایک دوسرے کی طرف حرکت پیدا ہوئی اور نسلِ انسانی ترقی کرتے کرتے اپنی نو جوانی کی عمر کو پہنچنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے الگ الگ اقوام اور الگ الگ ممالک کی طرف الگ الگ رسول مبعوث فرمانے کی بجائے ساری دنیا کے واسطے ایک ہی رسول مبعوث فرمایا اور بجائے علیحدہ علیحدہ ایسی تعلیمات نازل فرمانے کے جوصرف وقتی اور قومی ضروریات پوری کرنے والی ہوں تمام زمانوں کے واسطے اور تمام اقوامِ عالم کے لئے ایک ہی کامل و مکمل کتاب نازل فرمائی یہ رسول محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو ساتویں صدی عیسوی کے شروع میں ملک عرب میں مبعوث ہوئے اور یہ کتاب قرآن مجید ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی.قرآنی تعلیم کی لفظی و معنوی حفاظت کی گئی جو اسلام کی زندگی کا ثبوت ہے اس پاک رسول اور اس پاک کتاب کے اندر سلسلۂ رسل اور سلسلہ کتب اپنے انتہائی کمال کو پہنچ گئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- 2

Page 13

وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينُ (احزاب ع ۵) نیز فرماتا ہے:- اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا.(سورہ مائدہ غ) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے ایسے رسول ہیں جن پر تمام کمالات رسالت ختم ہیں اور اسی لئے ہم نے آج تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا ہے.اور چونکہ قرآن کریم کے ذریعہ خدا کی تعلیم مکمل ہو چکی اور اس کے بعد کوئی اور شریعت نہیں تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسکے متعلق فرمایا : - إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَانَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (سورة الحجرعُ) یعنی ”بیشک ہمیں نے قرآن اُتارا ہے اور یقینا ہمیں اس کی حفاظت کرینگے.یہ حفاظت کا وعدہ کسی اور خدائی کتاب کے ساتھ نہیں ہوا جس کی وجہ یہ نہیں کہ اور کتا بیں نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ تھیں بلکہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے قرآن شریف سے پہلے جس قدر کتا بیں نازل ہوئیں وہ چونکہ قیو دزمانی و مکانی کیساتھ مقید تھیں یعنی صرف خاص اقوام اور خاص زمانوں کی ضروریات پوری کرنے والی تھیں اور ساری دنیا اور سارے زمانوں کے واسطے نہ تھیں اور بالآخر اُن کا دور ختم ہو جانے والا تھا اس لئے اُن کے ساتھ ایسے وعدہ کی ضرورت نہیں تھی لیکن قرآن شریف کی حفاظت ضروری تھی.کیونکہ وہ تمام اقوامِ عالم اور تمام زمانوں کی ضرورت پوری کرنے والا تھا اور اس کے اندر ایسے خزانے مخفی تھے جو مختلف زمانوں میں ظاہر ہونے والے تھے اس لئے ضروری تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اصلی صورت میں محفوظ رکھا جاتا.یہ حفاظت دو طرح سے ہوئی.اول لفظی حفاظت.دوسرے معنوی حفاظت اور یہی حفاظت کے دو پہلو ہیں.یعنی ایک تو حفاظت کا یہ پہلو ہے کہ قرآن شریف کے الفاظ کی حفاظت ہو.یعنی جس صورت میں کہ اُن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول ہوا ہے اسی صورت میں وہ 3

Page 14

پورے کے پورے بغیر کسی تبدیلی کے محفوظ رہیں.اور دوسرا حفاظت کا پہلو یہ ہے کہ قرآن شریف کے صحیح معانی دنیا میں موجود ہیں اور قرآنی تعلیمات کی روح مفقود نہ ہونے پائے.قرآن شریف کو ان دونوں قسموں کی حفاظت حاصل ہوئی ہے، لیکن باقی تمام مذاہب اس حفاظت سے محروم رہے ہیں یعنی نہ تو کتب سابقہ کے الفاظ ہی محفوظ رہے اور نہ ان کے صحیح معانی کو قائم اور ان کی تعلیمات کی روح کو زندہ رکھنے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مستقل انتظام ہوا.کیونکہ وہ اپنا کام پورا کر چکے تھے اور اب ان کی ضرورت نہ تھی.پس وہ مر گئے اور سوائے نام کے یا ایک بدلے ہوئے ڈھانچے کے انکا کچھ باقی نہ رہا اور اس باغ کی طرح ان کا حال ہو گیا جس کے مالک نے اس کے درختوں کی عمر ختم ہو جانے کی وجہ سے اس کی خبر گیری چھوڑ دی ہو اور ایک نیا باغ لگا لیا ہو.مگر اسلام کا یہ حال نہیں وہ ایک زندہ مذہب ہے اور ہمیشہ زندہ رہنے کے واسطے قائم کیا گیا ہے پس اس کی لفظی حفاظت بھی کی گئی اور معنوی حفاظت بھی.لفظی حفاظت تو اس طرح ہوئی کہ نزول کے وقت وہ ساتھ ساتھ تحریر میں لایا گیا اور بہت سے لوگوں کو حرف بحرف زبانی یاد کرا دیا گیا اور اس کے کئی نسخے لکھ کر محفوظ کر لئے گئے اور اسلامی حکومت کی طرف سے اس کی خاص حفاظت کی گئی اور پھر جلد ہی لاکھوں نسخوں میں نقل ہو کر وہ تمام دنیا میں پھیل گیا اور شائع ہو گیا اور آج بھی دنیا میں لاکھوں انسان ایسے ہو نگے جو قرآن کے حافظ ہیں.غرض اس کی ایسی حفاظت ہوئی کہ خود مخالفین اسلام بھی قبول کرتے ہیں کہ واقعی موجودہ قرآن بغیر کسی قسم کی تبدیلی کے وہی قرآن ہے جو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلےمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور تمام دنیا اس کی لفظی حفاظت کی قائل ہے.( مثلاً دیکھود دیباچہ لائف آف محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) مصنفہ سرولیم میور).باقی رہی معنوی حفاظت.سو اس کے واسطے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انتظام ہوا کہ ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو قر آنی تعلیمات کی روح کو زندہ اور قائم رکھتے رہے ہیں اور جن کے ذریعہ سے اسلام ہمیشہ اس بات سے محفوظ رہا ہے کہ اس کی روح بالکل مردہ ہو جائے اور صرف صورت ہی صورت رہ جائے.یعنی مغز تو ضائع ہو جائے اور صرف قشر باقی رہ 4

Page 15

جاۓ.پس جب کبھی بھی مسلمان بے دینی اور بد اعمالی کی طرف مائل ہوئے ہیں اور ان میں اسلامی تعلیمات کی روح کمزور ہونی شروع ہوئی ہے.اور غلط عقائد اور فاسد خیالات اسلام کے اندر شامل ہونے لگے ہیں اور مسلمانوں کا ایمان کمزوری کی طرف مائل ہوا ہے اور دہریت اپنا رنگ ظاہر کرنے لگی ہے اور حالات بگڑنے شروع ہوئے ہیں.غرض جب کبھی لا مذ ہبی نے زور پکڑا ہے تو اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ اس نے مسلمانوں کی ہدایت کے لئے اپنے حکم کے ساتھ کسی مسجد دکو کھڑا کر دیا ہے تا وہ خدا کے تازہ نشانات کے ساتھ لوگوں کے ایمان کو زندہ کرے اور اپنے پاک نمونہ کی مدد سے ان کو پھر مذہب کی مستحکم چٹان پر قائم کر کے اسلام کی صحیح صحیح تعلیم سکھائے اور ان کے غلط عقائد اور فاسد خیالات کی اصلاح کرے.ایسے لوگ ہمیشہ اسلام کے اندر پیدا ہوتے رہے ہیں اور یہی اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے.کیونکہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام ایک چھوڑے ہوئے باغ کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کا مالی ہر وقت اس کی حفاظت اور اصلاح کی فکر میں ہے اور نیز یہ کہ اس کے درخت اپنی عمر ختم نہیں کر چکے بلکہ اب بھی پھل دے رہے ہیں مگر دوسرے مذاہب کا یہ حال نہیں.یعنی ان میں ایسے لوگوں کا وجود مفقود ہے جو خدا کے حکم کے ساتھ دنیا میں اصلاح کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور جنہیں خدا اپنے کلام اور قرب سے مشرف کرتا ہے.ظاہری علم زندگی کا ثبوت نہیں اور نہ وہ زندگی بخش ہے بے شک ظاہری علوم کے لحاظ سے ہر مذہب اپنے عالم رکھتا ہے مگر یہ علم زندگی کا ثبوت نہیں کیونکہ ایسے لوگ ان خشک لکڑیوں سے بڑھ کر نہیں جو ایک اُجڑے ہوئے باغ میں ملتی ہیں بلکہ زندگی اس کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر اور اس کے زندہ کلام سے زندگی حاصل کر کے کوئی شخص اصلاح کے واسطے کھڑا ہو.مگر خوب دیکھ لو کہ یہ لوگ سوائے اسلام کے اور کہیں نظر نہیں آئیں گے.دنیا کے اندر اصلاح کرنا ہر ایک کا کام نہیں اور دہریت کے گڑھے سے نکال کر توحید اور ایمان باللہ کی مستحکم چٹان پر قائم کر دینا محض ظاہری علوم کی مدد سے نہیں ہوسکتا.ظاہری علم کے زور سے اگر کوئی شخص خدا کی ہستی منوا سکتا ہے تو صرف اس حد تک کہ کوئی خدا ہونا چاہئے“.اس 5

Page 16

سے بڑھ کر کچھ نہیں مگر کیا یہ ایمان نجات کے واسطے کافی ہے؟ اور کیا اس درجہ تک کی معرفت انسانی زندگی کے اندر کوئی حقیقی انقلاب پیدا کرسکتی ہے؟ ہر گز نہیں.بلکہ نجات کے واسطے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ہمارا ایمان اس حد تک ہو کہ گویا ہم نے خدا کو دیکھ لیا اور اس کی ہستی کے وجود کو محسوس کر لیا اور ہمارا ایمان ہونا چاہئے تک نہ رہے بلکہ ” ہے“ کے یقینی مرتبہ تک پہنچ جائے.یہ وہ ایمان ہے جو اصلاح کر سکتا ہے اور دل کے اندر یقین پیدا کرتا ہے اور نفس کی گری ہوئی خواہشات کو جلا کر خاک کر دیتا ہے اور انسان کو ایک نئی زندگی بخشا اور اس کے اندر ایک نئی روح پیدا کر دیتا ہے.اور خالق ہستی کے ساتھ اُس کا ذاتی تعلق قائم کر دیتا ہے.حتی کہ خدا خود بندے سے کلام کرتا اور اس کی دُعاؤں کو سنتا اور اس کے سوالات کا جواب دیتا ہے مگر یہ باتیں ظاہری علم سے حاصل نہیں ہوسکتیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ ظاہری علوم کا عالم انہیں جانتا ہو.اسلام میں مجد دین کا سلسلہ غرض اسلام کی یہ ایک خصوصیت ہے کہ اس کے اندر ہمیشہ ضرورت کے وقت ایسے شخصوں کا وجود قائم رہا ہے جو شرف مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف تھے اور خدا سے اصلاح پا کر دنیا کی اصلاح کرتے تھے اور اسلامی تعلیمات کی رُوح ان کے ذریعہ زندہ رہتی تھی.ایسے شخص یوں تو وقتاً فوقتاً ہمیشہ اسلام میں پیدا ہوتے رہے ہیں.مگر ہر صدی کے سر پر خصوصاً اُن کا ظہور ہوتا رہا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ :- اِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا.(ابوداؤ دجلد ۲ باب الملاحم) یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے اندر ہر صدی کے سر پر کسی ایسے شخص کو مبعوث کیا کرے گا جو اُن کی ان غلطیوں کی اصلاح کیا کرے گا جو درمیانی عرصہ میں پیدا ہو چکی ہونگی اور مسلمانوں کو نئی زندگی بخشا کریگا.“ 6

Page 17

چنانچہ مشاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ وعدہ کے موافق تمام صدیوں کے سر پر خصوصاً اور باقی اوقات میں عموماً ایسے لوگ ظاہر ہوتے رہے ہیں جن کے ذریعہ سے قرآن شریف کی اصل تعلیم اور اسلام کی حقیقی روح کا حسب ضرورت زمانہ انکشاف ہوتا رہا ہے اور جو خدا کے زندہ کلام کی مدد سے لوگوں کے اندر علمی اور روحانی اصلاح کرتے رہے ہیں.چنانچہ حضرت شیخ عبدالقادر صاحب جیلانی ، حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی.حضرت سید احمد صاحب بریلوی و غیر ہم رحمتہ اللہ علیہم اجمعین اسی مقدس جماعت میں سے ہیں.ان لوگوں نے اپنے اپنے وقت میں خدا سے ہدایت حاصل کر کے دنیا کی اصلاح کی اور اپنے اپنے زمانہ کی وہ غلطیاں صاف کیں جن کی اصلاح کا وقت آچکا تھا اور جن کے متعلق خدا کا منشا تھا کہ وہ صاف کر دی جاویں.باو جود تعلیم مکمل ہونے کے مصلحوں کی ضرورت ہے اگر اس جگہ کسی کو یہ وہم گذرے کہ جب قرآن شریف کی تعلیم ہر طرح کامل و مکمل ہے تو پھر اس کے ہوتے ہوئے کسی مصلح کی کیا ضرورت ہے ہر شخص جو اس کی تعلیم پر کار بند ہو وہ اپنی اصلاح ہونے کے مسلمان..خود کرسکتا ہے تو یہ ایک سراسر غلط خیال ہوگا کیونکہ :- اوّل تو ہمارا مشاہدہ اس کو باطل قرار دیتا ہے.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود مکمل تعلیم موجود.....روز بروز گرتے ہی چلے جاتے ہیں اور باوجود اس احساس کے کہ ہم گر رہے ہیں وہ اُٹھ نہیں سکتے اور گذشتہ زمانوں پر بھی جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہی پاتے ہیں کہ جب سے دنیا کی تاریخ محفوظ ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی قوم مذہبا گر کر پھر خود بخود پورے طور پر اُٹھی ہو یا اُٹھ سکی ہو.دوسرے خدا کی قدیم سنت اس خیال کو غلط ثابت کر رہی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم سے خدا کی یہی سنت رہی ہے کہ ہر ظلمت کے زمانہ میں وہ کوئی مصلح مبعوث فرما یا کرتا ہے.دیکھ لو حضرت موسیٰ کی امت کے واسطے تو رات کی تعلیم کامل تھی لیکن باوجود اس کے اور پھر باوجود اس 7

Page 18

کے کہ وہ تعلیم اُن کے اندر موجود بھی تھی اللہ تعالیٰ نے ہر ظلمت کے زمانہ میں اپنی طرف سے کوئی مصلح مبعوث فرما کر اس کے ذریعہ سے امت موسویہ کی اصلاح کا کام لیا.حتی کہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ وَقَفَيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ.(سوره بقره ع۱۱) یعنی ”ہم نے موسی کے بعد اس کی اتباع میں پے در پے رسول بھیجے.تیرے تعلیم کے مکمل ہونے کے تو یہی معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام روحانی ترقیات کی را ہیں اس میں بتادی ہیں اور تمام ضروریات پوری فرما دی ہیں لیکن اگر لوگوں کی حاشیہ آرائی سے اس تعلیم کی صورت ہی بگڑ جاوے اور اس کی اصل روح مفقود ہو جاوے تو پھر وہ اس وقت تک کس طرح اصلاح کا کام دے سکتی ہے جب تک کہ تمام پر دوں کو اس کے اوپر سے اُتار کر اس کے اندر پھر اصل روح نہ داخل کی جاوے مکمل تعلیم بیشک ایک تلوار جو ہر دار کے طور پر ہے مگر اس کو چلانے والا بھی تو کوئی چاہیئے.چوتھے.ہر اک تعلیم خواہ وہ کیسی ہی کامل ہو زندہ نمونہ کے بغیر ناقص رہتی ہے پس روحانی مصلحوں کے ذریعہ جو سلوک کے تمام مراتب سے واقف ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ دنیا کے اندر اسلامی تعلیم کے نمونے قائم کرتا ہے.پانچویں.ایمان باللہ ایک ایسا درخت ہے کہ اُسے جب تک تازہ نشانات کا پانی نہ ملتا رہے وہ خشک ہو جاتا ہے اور ” ہے“ کی مستحکم چٹان سے اتر کر ہونا چاہئے“ کی پر خطر وادی میں آجا تا ہے جہاں شکوک و شبہات کی زہر آلود ہوائیں اُسے فوراً خشک کر دیتی ہیں.مگر جو ایمان انبیاء اور اولیاء کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے وہ ایک زندہ حقیقت ہے جس سے باری تعالیٰ کی ہستی محسوس و مشہو ر ہو جاتی ہے اور انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور اسے ایک نئی زندگی حاصل ہوتی ہے.پس با وجود تعلیم مکمل ہونے کے ایسے وجودوں کی ضرورت باقی رہتی ہے جو خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوں اور جن کے ذریعہ سے تازہ نشانات کی نہر دنیا میں جاری رہے علاوہ ازیں یہ روحانی مصلح جو اللہ تعالیٰ کے زندہ کلام کے ساتھ دنیا میں قائم کئے جاتے ہیں اپنے اندر ایک خاص جذب اور کشش رکھتے ہیں جس کے ذریعہ سے وہ سعید روحوں کو اپنی 8

Page 19

طرف کھینچنے کے قابل ہوتے ہیں اور درحقیقت یہی جذب وہ چیز ہے کہ جو سوتے ہووؤں کو جگاتی ہے.چھٹے.جب تک اصلاح واقعی اور یقینی طور پر صحیح اصلاح نہ ہو وہ مفید نہیں ہوسکتی بلکہ مضر ثابت ہوتی ہے.مگر روحانی امور میں جو خدا سے تعلق رکھتے ہیں.یقینی طور پر صحیح اصلاح سوائے اس کے ناممکن ہے کہ کسی ایسے مرد کامل کے ذریعہ سے ہو جو خدا کی طرف سے علم پانے والا ہو اور اس کے تازہ اور زندہ کلام سے زندگی یافتہ ہو ایک ظاہری عالم اپنے ظاہری علم کے ساتھ جو اصلاح کرے گا وہ اگر چار باتوں میں درست ہوگی تو بالکل ممکن ہے کہ دس باتوں میں غلط ہو.پس آج اسلامی دنیا میں جو اختلافات کی کثرت ہے وہ کس طرح دُور ہوسکتی ہے جب تک کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم و عدل ہو کر اُس کا فیصلہ نہ کرے.ساتویں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اسلام میں روحانی مصلح مبعوث ہوتے رہیں گے خود اس بات کی دلیل ہے کہ باوجود شریعت کے مکمل ہو جانے کے مصلحوں کی ضرورت ہے.آٹھویں.اسلام کے اندر ایسے لوگوں کا وجود بھی عملاً ان کی ضرورت کو ثابت کرتا ہے.غرض ہر ظلمت کے وقت خدا کی طرف سے کسی روحانی مصلح کا مبعوث ہونا ضروری ہے اور عملاً بھی آج تک اسلام کے اندر اللہ تعالیٰ کی یہی سنت چلی آئی ہے کہ وہ اپنے الہام کے ساتھ اپنے پاک بندوں کو اسلام کی نصرت اور مسلمانوں کی اصلاح کے واسطے کھڑا کرتارہا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی بھی یہی بتاتی ہے کہ ہر ظلمت کے وقت عموماً اور صدیوں کے سر پر خصوصاً مجد دمبعوث کئے جاویں گے.آخری زمانہ کے متعلق ایک خطر ناک فتنہ کی پیشگوئی لیکن جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام محمد دین کی بعثت کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی وہاں آپ نے مسلمانوں کو اس بات کی بھی خبر دی تھی کہ آخری زمانہ میں غیر معمولی طور پر سخت 9

Page 20

فتنوں کا ظہور ہو گا.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ:- صحیح علم مفقود ہو جائے گا اور قرآن شریف کی اصل تعلیم لوگوں کے دلوں سے محو ہو جائے گی ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا اور دہریت اپنا ز ور دکھائے گی لوگوں کے اعمال خراب ہو جائیں گے اور مسلمان اپنی بداعمالیوں میں یہودیوں کے قدم بقدم چلیں گے اور اُن میں آپس میں بہت اختلاف ہوگا اور مسلمانوں کے بہت سے فرقے ہو جا ئیں گے اور علماء کی حالت بھی خاص طور پر خراب ہو جائے گی حتی کہ آسمان کے نیچے علماء بدترین مخلوق ہونگے اور اسلام چاروں طرف سے مصائب کے اندر گھر جائے گا اور سارے مذاہب اسلام کے خلاف یورش کریں گے مگر عیسائی مذہب خصوصاً بہت زور پر ہوگا اور دجال اپنی فوجوں کے ساتھ اسلام پر حملے کرے گا.غرض کیا اندرونی طور پر اور کیا بیرونی طور پر وہ زمانہ اسلام کے واسطے ایک نہایت مصیبت کا زمانہ ہوگا ایسا کہ نہ کبھی پہلے ایسا زمانہ آیا اور نہ آئندہ آئے گا.(ملاحظہ ہو کتب احادیث ابواب الفتن وغیرہ) اسلام اور اہل اسلام کی موجودہ حالت اب دیکھ لو کہ وہ زمانہ آگیا ہے یا نہیں ؟ کیا واقعی مسلمانوں کی مذہبی حالت اوپر کے نقشہ کے مطابق نہیں؟ کتنے ہیں جو سچے دل سے خدا پر ایمان رکھتے ہیں؟ مگر زبان کا رسمی ایمان نہیں بلکہ وہ ایمان جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے.کتنے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر دل سے یقین رکھتے ہیں؟ کتنے ہیں جو نزول وحی ، ملائکہ، بعث بعد الموت، تقدیر خیر وشر، جز اسز اوغیرہ پر دل سے ایمان لاتے ہیں؟ کتنے ہیں جو اسلامی تعلیم سے واقف ہیں؟ کتنے ہیں جو اسلام کی حقیقت کو سمجھتے ہیں؟ کتنے ہیں جو نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ پر کار بند ہیں؟ کتنے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں؟ کیا اسلامی دنیا کے اندر شراب خوری، زنا، قمار بازی، سود، ڈاکہ قتل، دھوکا، فریب، جھوٹ اکل بالباطل وغیرہ وغیرہ کا میدان گرم نہیں؟ پھر کیا مولویوں کی زندگی اسلامی زندگی کا سچا 10

Page 21

نمونہ ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اکثر مولوی پرلے درجہ کے بے دین، بداخلاق اور بداعمال ہیں؟ اور کیا واقعی انہوں نے دین کی صورت بگاڑ نہیں دی ؟ کیا اندرونی اختلافات کی کوئی حد رہی ہے؟ پھر کیا اسلام کی ظاہری شان و شوکت کا جنازہ نہیں اُٹھ رہا؟ یہ اسلام کے اندرونہ کا حال ہے.دوسری طرف اسلام کا وجود بیرونی حملوں کا اس قدر شکار ہو رہا ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ بس یہ آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں ہر قوم اسلام کے خلاف میدان میں اُتر آئی ہے اور چاروں طرف سے حملے ہورہے ہیں.نبیوں کے سردار محمد مصطفیٰ پر گندے سے گندے اعتراض کئے جاتے ہیں اور آپ کا وجود باجود ذلیل ترین الزامات کا نشانہ بنایا گیا ہے.اسلامی تعلیم نہایت ہی بد نما شکل میں پیش کی جاتی ہے اور اس پر مذاق اُڑایا جاتا ہے.عیسائی مذہب اپنے پورے زور پر ہے اور سلطنت کے آغوش میں دوسرے مذاہب کے خون پر پرورش پاتا اور ترقی کر رہا ہے ہندو مذہب نے بھی آریہ قوم کے جھنڈے کے نیچے ہو کر سر اٹھایا ہے اور اسلام کے خلاف حملہ آور ہے دہریت اپنے آپ کو ایک خوبصورت شکل میں پیش کر رہی ہے اور اپنا جال دنیا میں چاروں طرف پھیلا رہی ہے.غرض اسلام کی کشتی ایک ایسے خطر ناک طوفان کے اندر گھری ہوئی ہے کہ اگر خدا کا ہاتھ اس کے بچانے کے لئے آگے نہ بڑھے تو اس کا کنارے تک پہنچنا ناممکنات میں سے ہے اور یہ تمام حالت پکار پکار کر بتا رہی ہے کہ یہی وہ زمانہ ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو ڈرایا تھا اور در حقیقت اگر غور سے دیکھا جاوے تو صرف بانی اسلام نے ہی نہیں بلکہ ہر نبی نے اس وقت کی پیشگوئی کی تھی اور اپنی امت کو اس خطر ناک طوفان سے ڈرایا تھا اور دراصل یہ زمانہ صرف اسلام ہی کے واسطے خطرناک نہیں بلکہ تمام مذاہب کے واسطے ایک عام فتنہ ہے اور اگر عیسائیت کا زور ہے تو وہ بھی دراصل عیسائیت کا زور نہیں بلکہ عیسائیت کے ان باطل خیالات کا زور ہے جو بانی عیسائیت کے بعد اس کی تعلیم کے اندر شامل کر لئے گئے اور دراصل ان کا بھی نہیں بلکہ عیسائی قوم کا زور ہے جس کے ساتھ دنیا میں مادیت اور دہریت پھیلی ہے.غرض یہ ایک عام فتنہ کا زمانہ ہے جس کے متعلق سب نبیوں نے پیشگوئی کی ہے اور اپنی اپنی امت کو ڈرایا اور ہوشیار کیا ہے.11

Page 22

آخری زمانہ کے فتنہ کا علاج مگر نبی کا کام صرف ہوشیار کرنا اور ڈرانا ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ ساتھ ہی علاج بھی بتا تا ہے تا جو شخص علاج کرے وہ بچ جاوے.چنانچہ ان فتنوں کا ذکر کر کے تمام انبیاء نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت ایک روحانی مصلح کو مبعوث کرے گا جیسا کہ اس کا قدیم سے دستور ہے اور اس کے ذریعہ سے دنیا میں اصلاح کرے گا اور ظلمت کو دُور فرمائے گا اور انہوں نے وہ علامات بھی بتائی ہیں جس سے وہ شناخت کیا جائے گا.چنانچہ آج کل تمام قومیں اپنے اپنے مصلح کا انتظار کر رہی ہیں اور سب کا یہ متفقہ خیال ہے کہ یہی وہ زمانہ ہے جس کے متعلق خبر دی گئی ہے.مسلمان مسیح و مہدی کی انتظار میں ہیں.عیسائی مذہب کے پیرو اپنے مسیح کی آمد ثانی کی امید میں ہیں.ہندو اپنے اوتار کی راہ دیکھ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ.لیکن اسلام کے سوا سب کو یہ غلطی لگی ہے کہ بدقسمتی سے ہر ایک نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہمارا مذ ہب زندہ ہے حالانکہ اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب مر چکے ہیں اور اپنی زندگی کا وقت گزار چکے ہیں چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بانی اسلام کے بعد اسلام کے سوا کسی اور مذہب میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا جو مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہوا ہو اور خدا نے اس کو اپنے الہام کے ساتھ دنیا کی اصلاح کے واسطے کھڑا کیا ہو اور اس نے خدا کے تازہ نشانات دنیا کو دکھائے ہوں اور دلائل کے ساتھ اپنا منجانب اللہ ہونا ثابت کر دیا ہو.اور جب یہ نہیں تو مذہب کی زندگی کیسی ؟ غرض اب کوئی روحانی مصلح اسلام کے سوا کسی امت میں ظاہر نہیں ہوسکتا اس لئے یہ مقد ر تھا کہ آخری زمانہ میں تمام انبیاء کے بروز ایک ہی وجود میں اسلام کے اندر مبعوث کئے جاویں اور وہی وجود تمام امتوں کی اصلاح کرے پس آنے والا اگر مسلمانوں کے واسطے مہدی ہے تو عیسائیوں کے واسطے وہ مسیح ہے اور ہندوؤں کے واسطے کرشن ہے وغیرہ وغیرہ اور ہم دنیا کو بشارت دیتے ہیں کہ آنے والا آ گیا ہے اور وہ حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے وجود باجود میں ظاہر ہوا ہے جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سنے.خدا نے اپنا وعدہ پورا فرما دیا اور نبیوں کی پیشگوئی پوری ہوگئی اب مانا نہ مانالوگوں کا کام ہے.مبارک ہے وہ جو وقت کو پہچانتا 12

Page 23

ہے اور اس مصلح کو قبول کر کے خدا کے انعامات کا وارث بنتا ہے.جو اس نے ازل سے انبیاء کی فرمانبردار جماعتوں کے واسطے مقدر کر رکھے ہیں.اور افسوس پھر افسوس اُس پر جو مصلح کے انتظار میں تھا اور دن رات اس کی راہ دیکھتا تھا مگر جب وہ آیا تو اس نے انکار کر دیا اور خدا کے غضب کو اپنے سر لے لیا.اگر دلائل چاہو تو ان کی بھی کمی نہیں مگر آنکھ دیکھنے والی چاہئے.کیونکہ سب سے زیادہ دلائل لانے والا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تھا.مگر نہ دیکھنے والی آنکھ آپ کو بھی نہ دیکھ سکی.وہ ٹور کا ماہتاب تھا اور ہدایت کا آفتاب مگر کتنے ہیں جنہوں نے اس کو شناخت کیا ؟ کیا مکہ کے حکیم لے نے اس کو پہچانا؟ کیا یونان کا فلسفی اُسے سمجھا؟ کیا اب یورپ کے دقیقہ بین کی آنکھ اُسے دیکھ سکی؟ قرآن نے سچ فرمایا ہے کہ:- وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ ۖ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَسِقِينَ وَالَّذِينَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.یعنی ”جس شخص کو خدا گمراہ قرار دے اُسے کون ہدایت دے سکتا ہے اور خدا صرف دل کے اندھوں کو ہی گمراہ قرار دیتا ہے ورنہ جولوگ ہمارے راستہ میں سچی نیت سے کوشش کرتے ہیں انہیں ہم ضرور سیدھا راستہ دکھا دیتے ہیں“.حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ جیسا کہ ہم اوپر بتا چکے ہیں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے خدا سے الہام پا کر یہ دعویٰ کیا کہ میں مسلمانوں کے واسطے مہدی ہوں.عیسائیوں کے لئے مسیح ہوں اور ہندوؤں کے لئے کرشن ہوں اور دوسری قوموں کیلئے ان کا موعود ہوں اور خدا نے مجھے اس زمانہ میں دنیا کی روحانی اصلاح کے واسطے مبعوث کیا ہے مگر خدا کی قدیم سنت کے مطابق ابھی تک تھوڑے ہیں.جنہوں نے آپ کو قبول کیا ہے اور بہت ہیں جنہوں نے آپ کو رڈ کر رکھا ہے.اسی لئے خدا نے اے ابو جہل جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اشد ترین معاند تھا.وہ مکہ والوں میں اپنی دانائی کی وجہ سے ابوالحکم کے نام سے مشہور تھا.یعنی حکمت و دانائی کا باپ.مگر باوجود اس کے وہ ہدایت سے محروم رہا.13

Page 24

آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ:- دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کریگا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دیگا.(تذکرہ صفحہ ۱۰۵) یہ خدا کا کلام ہے جو پورا ہو کر رہے گا.مگر مبارک ہیں وہ جو سزا سے نہیں بلکہ پیار سے مانتے ہیں اور پکارنے والے کی آواز کو ڈر نہیں بلکہ محبت سے سنتے ہیں.انہی لوگوں کے واسطے ہم اس رسالہ میں مختصر طور پر اس روحانی مصلح کی صداقت کے دلائل لکھنا چاہتے ہیں تا وہ جو پیاسے ہیں.پانی سے سیراب ہوں اور وہ جو بھو کے ہیں کھانے سے اپنا پیٹ بھریں اور وہ جو شک و شبہات کی سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں اس روحانی سورج کی دھوپ میں گرمی حاصل کریں.مگر ہم اس رسالہ میں صرف اسلامی نقطۂ خیال سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دعاوی پر نظر ڈالیں گے اور قرآن شریف اور احادیث صحیحہ اور عقلِ خدا داد کی روشنی میں آپ کے صدق کو پرکھیں گے کیونکہ باقی مذاہب کی پیشگوئیوں اور علامات موعودہ کے مطابق آپ کو ناپنے کی نہ تو اس مختصر رسالہ میں گنجائش ہے اور نہ اس وقت یہ سوال ہمارے زیر نظر ہے.وماتوفیقنا الا باللہ العظیم.تحقیق کا طریق سب سے پہلے ہم تحقیق کے طریق کے سوال کو لیتے ہیں.ظاہر ہے کہ تحقیقات ہمیشہ کسی اصول کے ماتحت ہونی چاہئے ورنہ نتیجہ بھی درست نہیں نکل سکتا.بلکہ ویسا ہی نکلے گا جو ایک کہاوت کی رو سے چار اندھوں کا نکلا تھا.کہتے ہیں چار اندھے تھے ان کو ہاتھی دیکھنے کا شوق ہوا.جس پر انہوں نے اپنے کسی ساتھی سے کہا کہ جب کبھی یہاں کوئی ہاتھی آئے تو ہمیں بتانا ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے چنانچہ جب کوئی ہاتھی آیا تو اس نے ان کو خبر دی اور وہ باہر نکل آئے اور ٹولتے ہوئے ہاتھی کے پاس پہنچے ان میں سے ایک کا ہاتھ ہاتھی کے پیٹ پر پڑا.دوسرے کا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگ پر پڑا.تیسرے کا سونڈ پر اور چوتھے کا کان پر اور انہی کو وہ اپنے ہاتھ سے ٹٹولتے رہے.جب وہ دیکھ بھال چکے تو کسی نے ان سے پوچھا کہ حافظ جی! آپ نے ہاتھی دیکھ لیا.اب 14

Page 25

بھلا ذرا بتائیے تو کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے؟ پہلا نا بینا بولا کہ بس ایک موٹا، چوڑا چکلا جسم ہی جسم ہوتا ہے دوسرا کہنے لگا.نہیں.یہ جھوٹ کہتا ہے بلکہ ہاتھی تو ایک موٹے اور اونچے.ستون کی طرح ہوتا ہے تیسر ابولا.یہ دونوں جھوٹے ہیں.ہاتھی ایک نرم نرم گا ؤ دم گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے.چوتھے نے چلا کر کہا.معلوم ہوتا ہے ان سب کو غلطی لگی ہے بلکہ ہاتھی تو ایک پتلے اور چوڑے پنکھے کی طرح ہوتا ہے اور یہ تو شاید ایک لطیفہ ہی ہے.مگر اس سے ایک سبق ضرور حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب تک چشم بصیرت کے ساتھ کسی باقاعدہ اصول کے ماتحت کسی چیز کے متعلق تحقیق نہ کی جاوے نتیجہ ہمیشہ غلط نکلتا ہے.پس یہ ضروری ہے کہ ہم حضرت مرزا صاحب کے دعاوی کے متعلق کسی درست اصول کے ماتحت تحقیقات کریں اور وہ درست اصول ہم کو قرآن شریف اور احادیث صحیحہ اور گذشتہ انبیاء کے حالات اور خداداد عقل سے ملتے ہیں.تحقیق کی تقسیم مگر تحقیق کے اصول قائم کرنے سے پہلے تحقیق کی تقسیم ضروری ہے.سو جاننا چاہئے کہ تحقیق کے دو طریق ہیں.اول منقولی طریق اور دوسرے معقولی طریق.یعنی پہلا طریق یہ ہے کہ یہ دیکھا جاوے کہ منقولی دلائل کی رو سے یعنی ایسے دلائل کی رُو سے جو سابقہ روایات یا اقوال یا تحریرات پر مبنی ہیں مدعی کے دعوئی پر کیا روشنی پڑتی ہے؟ اور دوسرے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ قطع نظر منقولی دلائل کے معقولی طور پر اس کا دعوی کہاں تک قابل قبول ہے.مثلاً اگر کسی گذشتہ صحیفہ میں یہ بتایا گیا ہو کہ موعود مصلح میانہ قد اور گندمی رنگ کا ہوگا تو یہ اُس کی تائید میں ایک منقولی دلیل ہوگی کیونکہ عقلاً یہ ہرگز ضروری نہیں کہ وہ مصلح ضرور میانہ قد اور گندم رنگ کا ہو لیکن مثلاً یہ دلیل کہ مدعی کے دعویٰ کے وقت یہ دیکھا جاوے کہ آیا اس زمانہ میں کسی مصلح کی ضرورت بھی ہے یا نہیں.کیونکہ اللہ کا کوئی فعل بلا ضرورت نہیں ہوتا تو یہ ایک عقلی دلیل ہو گی غرض تحقیقات کے یہی دو طریق ہیں.ایک نقل اور دوسرے عقل.15

Page 26

منقولی تحقیق کا طریق پہلے ہم منقولی تحقیق کو لیکر اس کے اصول قائم کرتے ہیں.سواس تعلق میں جاننا چاہئے کہ منقولی بحث کے لئے اسلام میں اول درجہ پر قرآن مجید ہے کیونکہ وہ علیم وحکیم خدا کا کلام ہے اور اس محفوظ صورت میں اب تک قائم ہے جس میں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اس کی کسی آیت کسی لفظ کسی حرکت کے متعلق شبہ نہیں کیا جاسکتا اور وہ ہر حال میں ایک قطعی اور یقینی معیار ہے.اس لئے اگر اس کے مقابل میں کوئی روایت آئے گی تو وہ ہرگز قابل قبول نہ ہوگی اور ہمارا فرض ہوگا کہ یا تو اُس کو قرآن کے ماتحت لائیں اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو اس کو رڈی کی طرح پھینک دیں کیونکہ وہ مردود ہے.قرآن خود کہتا ہے.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَأَيْتِهِ يُؤْمِنُوْنَ.(سورۃ جاشیہ ع۱) یعنی قرآن کی آیات کو جو خدا کا کلام ہے چھوڑ کر لوگ کس بات کو مانیں گے.“ دوسرے درجہ پر سنت ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کا وہ تعامل مراد ہے جو مسلمانوں کے مسلسل عملی نمونہ کے ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے.بعض لوگ حدیث اور سنت میں فرق نہیں کرتے مگر یہ ایک صریح غلطی ہے کیونکہ حدیث سے تو نبی کریم اور صحابہ کرام (اصطلاحی طور پر صحابہ کے اقوال کو اثر کہتے ہیں) کے وہ اقوال مراد ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ڈیڑھ سو سال بعد جمع ہو کر تحریر میں آئے لیکن سنت کا وجود قرآن کے ساتھ ساتھ شروع سے برابر چلا آیا ہے کیونکہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کا وہ تعامل مراد ہے جو ہم کو حدیث کے ذریعہ سے نہیں پہنچا بلکہ مسلمانوں کی جماعت کے تعامل کے ذریعہ سے برابر مسلسل چلتا ہوا ہم تک پہنچا ہے.یہ بھی قرآن شریف کے بعد یقینی اور قابل اعتبار ہے.تیسرا درجہ حدیث کا ہے اور جیسا کہ ہم اوپر بتا آئے ہیں حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے وہ اقوال اور وہ افعال مراد ہیں جو ہم تک روایات کے ذریعہ سے پہنچے ہیں اور یہ وہ روایات ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک کے کچھ عرصہ بعد لوگوں کے سینوں سے 16

Page 27

جمع ہوکر تحریر میں آئیں.ہر چند کہ محدثین نے بڑی محنت اُٹھا کر یہ مفید ذخیرہ جمع کیا ہے اور موضوعات کو صیح احادیث سے الگ کر کے دکھایا ہے، لیکن پھر بھی ہر نظمند سوچ سکتا ہے کہ احادیث میں ضرور ایک حد تک ظن کا پہلو موجود ہے.کیونکہ وہ اقوال جو سو ڈیڑھ سوسال بعد لوگوں کے سینوں سے جمع کئے گئے ہوں اور جن کی لفظی اور معنوی حفاظت کا بھی کوئی یقینی اور قطعی انتظام نہ ہوا ہوان کے متعلق ہرگز عقل یہ قبول نہیں کرتی کہ وہ ہر صورت میں یقینی اور قطعی ہونگے یہ صرف ہمارا ہی خیال نہیں بلکہ علماء سلف نے بھی اسی اصول کو قبول کیا ہے.چنانچہ اصول کی سب کتابوں میں لکھا ہے کہ جب کوئی حدیث قرآن شریف کے مخالف ہو تو حدیث کو چھوڑ دینا چاہئے اور قرآن شریف کو اختیار کرنا چاہئے.اور مصطلحات الحدیث کی کتب میں بھی صاف مذکور ہے کہ احادیث سے صرف علم ظنی پیدا ہوتا ہے.غرض حدیث کا مرتبہ تیسرے درجہ پر ہے.کیونکہ حدیث علم ظنی ہے اور سنت اور قرآن کا مقابلہ نہیں کرسکتی جن کی صحت تواتر سے ثابت ہے لیکن یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ بعض قرائن سے کبھی حدیث بھی یقین کے مرتبہ کو پہنچ جاتی ہے مثلاً اگر ایک ایسی حدیث ہوجس میں کوئی آئندہ کی خبر بتائی گئی ہوا اور پھر وہ خبر اپنے وقت پر سچی نکلی ہو تو خواہ محدثین نے اپنی رائے کے مطابق اسے کمزور ہی کہا ہو، وہ درست اور یقینی سمجھی جائے گی.کیونکہ اس کے صدق پر اللہ تعالیٰ نے شہادت دے دی ہے اور واقعات نے اس کی سچائی پر مہر کردی ہے یا مثلاً ایک کمز ورحدیث ہے مگر وہ قرآن شریف کے مطابق ہے تو وہ اُن نام نہاد سیج احادیث سے بھی افضل سمجھی جائے گی جو قرآن کے مخالف ہیں.پھر احادیث کے بھی کئی درجے ہیں اور ان کی کئی قسمیں ہیں جو کتب مصطلحات الحدیث مفصل مذکور ہیں ان مدارج کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے مثلاً اگر کوئی کمزور حدیث ہے جسے محدثین نے ضعیف لکھا ہے اور وہ ایک ایسی حدیث کے مقابلہ میں آگئی ہے جو محدثین کی اصطلاح کے مطابق صحیح ہے تو صحیح کو اختیار کیا جائے گا اور کمزور کو ترک کر دیا جائے گا.اسی تقسیم کے لحاظ سے کتب احادیث میں بھی مدارج کا سلسلہ ہے مثلاً بخاری سب کتب احادیث سے افضل اور صحیح تر سمجھی گئی ہے اس کے بعد صحیح مسلم ہے پھر باقی صحاح ستہ ہیں اور پھر عام احادیث کی کتب ہیں.پس تحقیقات کرتے ہوئے احادیث کے مدارج کو بھی زیر نظر رکھنا نہایت ضروری ہے احادیث میں 17

Page 28

کے اندر مگر اس سے اتر کر معتبر کتب سیرت و تاریخ بھی داخل ہیں.چوتھے.درجہ پر دیگر کتب سماوی اور گذشتہ انبیاء کے تاریخی حالات ہیں.ان میں بھی بشر طیکہ وہ قرآن شریف کے مخالف نہ ہوں.بعض اوقات نہایت مفید معلومات کا ذخیرہ ملتا ہے.خصوصاً گذشتہ نبیوں کے حالات سے بہت روشنی حاصل کی جاسکتی ہے.کیونکہ اصولی طور پر اللہ تعالیٰ کے رسول ایک ہی رنگ میں رنگین ہوتے اور ایک ہی معیار پر پر کھے جاتے ہیں.پس ایک نبی کے حالات سمجھنے کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ دوسرے انبیاء کے حالات کا مطالعہ کیا جاوے.پانچویں درجہ پر علماء سلف یعنی اسلام کے گذشتہ علماء خصوصاً ابتدائی زمانہ کے علماء کے اقوال اور تحریرات ہیں.ان کی کتب میں بھی نہایت مفید معلومات کا ذخیرہ موجود ہے کیونکہ ان لوگوں نے بھی بڑی محنت اور اخلاص کے ساتھ قرآن وحدیث پر غور کر کے نتائج اخذ کئے ہیں.بے شک انہوں نے لوازمات بشری کے ماتحت غلطیاں بھی کی ہیں ،لیکن اس سے ان کی خدمات کا مرتبہ کم نہیں ہو جاتا.یہ وہ پانچ طریق ہیں جو عام طور پر مسلمانوں میں کسی منقولی بحث کے لئے اختیار کئے جا سکتے ہیں لیکن جہاں ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ان پانچ طریقوں کے مطابق کسی مدعی کے دعوے کو پر کھیں اور ان سے باہر نہ جائیں وہاں اس سے بھی بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ ہم ان کے مدارج کو بھی مد نظر رکھیں.یعنی یہ یاد رکھیں کہ سب سے افضل قرآن شریف ہے جس کے مقابلہ میں باقی سب چیزیں قربان کر دینے کے قابل ہیں.یہ وہ انتہائی کسوٹی ہے جس پر سب کھوٹا کھرا پر کھا جا سکتا ہے اور کوئی حقیقت مخفی نہیں رہتی.کیونکہ یہ بالکل ممکن ہے کہ سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں ایک چیز کی ماہیت مخفی رہے یا انہوں نے کسی غلط بات کو درست سمجھ لیا ہو یا درست کو غلط قرار دے دیا ہو اور یہ بھی مکن ہے کہ گذشتہ کتب سماوی اور حالات انبیاء ہم تک صحیح طور پر نہ پہنچے ہوں اور ہم ان کی بناء پر ٹھوکر کھا جائیں اور غلط نتائج اخذ کر لیں پھر یہ بھی ممکن ہے کہ احادیث کی روایت میں کوئی غلطی ہو اور کسی وجہ سے کوئی لفظ یا مفہوم بدل گیا ہو یا کوئی غلط اور موضوع روایت داخل 18

Page 29

ہو گئی ہو یا کوئی کمزور روایت محدثین نے صحیح سمجھ لی ہو اور کوئی صحیح روایت کمزور قرار دے دی ہو اور ان کی بناء پر ہم بھی ٹھوکر کھا جائیں.یہ سب کچھ ممکن ہے.مگر یہ ناممکن ہے کہ قرآن غلطی کرے اور قرآن کی سچی اتباع کر کے کوئی شخص ضلالت میں مبتلا ہو جائے.یہ وہ نور ہے جس کے سامنے کوئی ظلمت نہیں ٹھہر سکتی.یہ وہ روشنی ہے جس سے اندھیرا کوسوں دور بھاگتا ہے.یہ وہ ہدایت ہے جس کے پاس تک ضلالت نہیں پھٹک سکتی.سچ ہے کہ :- لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ - تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَميد (سورة حم السجده ع ۵) یعنی ” نہ تو قرآن کے سامنے سے باطل آسکتا ہے نہ اس کے پیچھے سے کیونکہ یہ حکیم اور حمید خدا کی طرف سے اُترا ہے.“ معقولی تحقیق کا طریق دوسرا طریق تحقیق کا معقولی ہے.یعنی کسی سوال کے متعلق عقلی طور پر غور کرنا اور اس کے حسن و فتح پر معقول پیرا یہ میں نظر ڈالنا.اس طریق میں نقل سے کوئی بحث نہیں ہوتی.بلکہ خود مدعی کی ذات اور اس کے حالات اور اس کے زمانہ کے حالات پر عقلی طور پر نظر ڈالنا ہوتا ہے اور اس بات سے سروکار نہیں ہوتا کہ اس کے متعلق پہلے صحیفوں میں کیا کہا گیا ہے اور کیا نہیں کہا گیا.مگر یہ یا درکھنا چاہئے کہ معقولی طریق منقولی طریق کی نسبت زیادہ نازک ہے اور محقق پر زیادہ ذمہ داری ڈالتا ہے کیونکہ اول تو اس میں اختلاف کی بہت گنجائش ہوتی ہے.کیونکہ بعض اوقات ایک ہی چیز کو ایک شخص کی عقل اچھا قرار دیتی ہے تو دوسرے کی عقل اسے نفرت اور کراہت کی نظر سے دیکھتی ہے اور طرفہ یہ کہ دونوں شخصوں کو اپنی رائے کی صحت پر اصرار ہوتا ہے اور گو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک شخص نے ٹھیک طور پر غور نہیں کیا یا بعض ضرر رساں عناصر کو اپنے دل و دماغ پر مؤثر ہونے دیا جس سے اس کی بصارت میں فرق آگیا اور وہ غلط نتائج پر پہنچ گیا مگر بہر حال یہ امر واقع ہے کہ جن امور پر صرف عقلی طور پر نظر ڈالی جاوے ان میں بنسبتاً اختلاف زیادہ ہوتا ہے.19

Page 30

دوسرے عام حالات میں مجرد عقل ہر حال میں کوئی یقینی اور قطعی معیار بھی نہیں ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ عقل ایک بے فائدہ چیز ہے کیونکہ لاریب عقل بھی خدا نے انسان کو بطور چراغ کے عطا کی ہے جس کی روشنی اس کو حق اور راستی کی طرف کھینچتی ہے اور کئی طرح کے شکوک اور شبہات سے بچاتی ہے اور انواع و اقسام کے بے بنیا د خیالوں اور بے جا وساوس کو دور کرتی ہے.نہایت مفید ہے.بہت ضروری ہے.بڑی نعمت ہے مگر پھر بھی باوجود ان سب باتوں اور ان تمام صفتوں کے اس میں یہ نقص کا پہلو موجود ہے کہ صرف وہی اکیلی حقائق اشیاء کی معرفت میں یقین کامل کے مرتبہ تک نہیں پہنچا سکتی.یہ مرتبہ عقل کو تب حاصل ہوتا ہے کہ جب عقل کے ساتھ کوئی دوسرا ایسا رفیق مل جاتا ہے کہ جو اس کی قیاسی وجوہات کو تصدیق کر کے واقعات مشہودہ کا لباس پہناتا ہے اور وہ رفیق عقل جو اس کے یارو مددگار ہیں ہر مقام اور ہر موقع میں الگ الگ ہیں لیکن از روئے حصر عقلی تین سے زیادہ نہیں اور ان تینوں کی تفصیل اس طرح پر ہے کہ اگر حکم عقل کا دنیا کے محسوسات اور مشہودات سے متعلق ہو تو اس وقت رفیق اس کا جو اس کے حکم کو یقین کامل تک پہنچا سکتا ہے.مشاہدہ صحیحہ ہے کہ جس کا نام تجربہ ہے اور اگر حکم عقل کا ان حوادث اور واقعات سے متعلق ہو جو مختلف از منہ اور امکنہ میں صدور پاتے رہے ہیں یا صدور پاتے ہیں تو اس وقت اس کا ایک اور رفیق بنتا ہے کہ جس کا نام تواریخ ہے کہ وہ بھی تجربہ کی طرح عقل کی دود آمیز روشنی کو ایسا مصفا کر دیتا ہے کہ پھر اس میں شک کرنا ایک حمق اور جنون اور سودا ہوتا ہے اور اگر حکم عقل کا اُن واقعات سے متعلق ہو جو ماوراء المحسوسات ہیں جن کو نہ ہمارے حواس ظاہری معلوم کر سکتے اور نہ ہم ان کو اس دنیا کی تواریخ سے دریافت کر سکتے ہیں تو اس کا ایک تیسرا رفیق بنتا ہے.جس کا نام الہام اور وحی ہے.(ماخوذ از براہین احمدیہ مصنفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) غرض تحقیق کے یہی دو طریق ہیں.یعنی ایک معقولی طریق اور دوسرا منقولی طریق لیکن ان دونوں کے متعلق یہ یا درکھنا نہایت ضروری ہے کہ ان طریقوں کو استعمال کر کے انسان تب ہی کامیاب ہو سکتا ہے کہ غور کرنے سے پہلے انسان بالکل مخفی بالطبع ہو جائے اور مدعی کی تصدیق و تکذیب کے خیالات کو کلیہ اپنے دل سے نکال دے اور ایسے خیالات و جذبات و عناصر کو اپنے 20

Page 31

انہ آنے دے جو اس کی بصارت کو کمزور کرنے والے ہوں اور پھر دلی جوش وخروش کے ساتھ تقویٰ اللہ کو مدنظر رکھ کر مدعی کے دعاوی پر ان کے مختلف پہلوؤں کو خیال میں رکھتے ہوئے نظر ڈالے.اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں اور عقل اور نقل دونوں بے کار ہیں.روحانی طریق یہ دو تو جسمانی طریق ہیں.مگر ایک اور طریق بھی ہے جو روحانی ہے اور وہ دُعا ہے مگر افسوس ہے کہ دُنیا نے اس نعمت کو شناخت نہیں کیا اور نہ ہی اس کی حقیقت کو سمجھا ہے ورنہ اگر دیکھتے تو دُعا ایک ایسا دروازہ ہے جس سے گذر کر انسان خدا کے دربار میں پہنچتا ہے پس چاہئے کہ ہر ضرورت کے وقت انسان اسی دروازے کو کھٹکھٹائے اور ہر مشکل میں اسی کی طرف رُخ کرے.جو کھٹکھٹائے گا اس کے لئے کھولا جائے گا اور جو مانگے گا اس کو ملے گا.خدا کے گھر کا سوالی خالی ہاتھ نہیں جاتا.خصوصاً اس معاملہ میں جبکہ اللہ تعالیٰ کا یہ عین منشا ہے کہ دنیا ضلالت کے گڑھے سے نکل کر ہدایت ونور کی بلند چٹان پر قائم ہو جاوے.وہ بندہ کی ضرور سنے گا اور محبت وشفقت کے ساتھ اس کی دستگیری کے لئے ہاتھ بڑھائے گا.پس جو شخص چاہتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے معاملہ میں تحقیقات کرے اُسے چاہئے کہ علاوہ ان دو منقولی اور معقولی طریقوں کو اختیار کرنے کے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اپنے آپ کو کلیۃ اللہ کے حضور ڈال دے اور اس سے دُعا کرے کہ اے رحیم و کریم خدا میری نظر کمزور ہے تو مجھے بینائی بخش تا اس معاملہ میں جو بات حق ہے میں اسے دیکھ لوں.اے عالم الغیب خدا اگر اس مدعی کا دعوی سچا ہے تو تو مجھے توفیق دے کہ میں اس پر ایمان لاؤں اور تیرے ان فضلوں کا وارث بنوں جو تیرے مرسلوں کی جماعتوں پر نازل ہوتے ہیں اور مجھے اس کے انکار کی شقاوت سے محفوظ رکھ.اور اے میرے مولی اگر یہ گمراہی کی طرف بلاتا ہے تو تو اپنے فضل سے مجھے اس کے شر سے محفوظ رکھ.اے میرے مالک و آقا میں تیرے حکم کے ماتحت اس معاملہ میں تحقیقات شروع کرتا ہوں مگر میں کمزور ہوں ممکن ہے.میں ٹھوکر کھاؤں.پس تو اپنے فضل سے میری 21

Page 32

دستگیری فرما اور مجھ پر حق کھول دے.آمین.دُعا کے متعلق یہ اصول بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دُعا کے لئے یہ ضروری ہے کہ بندہ صبرو استقلال سے کام لے اور کبھی بھی نا امید نہ ہو بلکہ یقین اور امید رکھے کہ ضرور اللہ تعالیٰ اس کی دستگیری فرمائے گا نیز ایسا نہ ہو کہ دل میں پہلے ایک خیال جمالیا جاوے اور پھر دُعا کے واسطے ہاتھ اُٹھائے جاویں یا صرف رسم کے طور پر چند کلمات منہ سے نکال دیئے جاویں.بلکہ چاہئے کہ جس طرح بچہ تکلیف کے وقت تمام دنیا کی طرف سے آنکھیں بند کر کے اپنی ماں کی چھاتی پر اپنا سر ڈال دیتا ہے اسی طرح حقیقی درد اور سچی تڑپ کے ساتھ بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی جبین نیاز رگڑے اور اسی طرح خدا کے آستانہ پر گرار ہے حتی کہ الہبی شمع اس کے راستہ کو منور کر دے.اس کے بعد ہم اصل مضمون کی طرف آتے ہیں.22 22

Page 33

نزول مسیح اور ظہور مہدی قرآن وحدیث میں مسیح و مہدی کی پیشگوئی سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح اور مہدی کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی ہے سو جاننا چاہئے کہ یہ بات ان بینات میں سے ہے جن کا انکار نہیں ہو سکتا اور در حقیقت اس سوال پر امت محمدیہ کا اجماع ہوا ہے کہ آخری زمانہ میں مسلمانوں کے اندر مسیح اور مہدی ظاہر ہونگے اور ان کے ذریعہ اسلام اپنی رگری ہوئی حالت سے اُٹھ کر دنیا میں پھر غالب ہوگا اور اس کا یہ غلبہ قیامت تک قائم رہے گا.یہ پیشگوئی قرآن شریف میں بھی موجود ہے اور پھر احادیث صحیحہ میں بھی صراحت کے ساتھ پائی جاتی ہے.مثلاً مسیح کے نزول کی پیشگوئی قرآن شریف میں سورہ نور کی آیت استخلاف میں بیان کی گئی ہے.جہاں خدا فرماتا ہے :- وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ.(سورۃ نورع ۷ ) یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ نیک اور اعمال صالحہ بجالانے والے مسلمانوں میں سے اُسی طرح خلفاء قائم کرے گا جس طرح اس نے ان سے پہلے (موسی کی امت میں ) قائم کئے.“ حضرت موسی کی امت کا مفہوم اس آیت سے نکلتا ہے جو سورہ مزمل میں واقع ہوئی ہے جہاں فرمایا :- إِنَّا أَرْ سَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلاً شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْ سَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُوْلاً.23 23 ( سورۃ مزمل ع۱)

Page 34

یعنی ”اے لوگو ہم نے اسی طریق پر اور اسی رنگ میں تمہاری طرف رسول بھیجا ہے جس طرح کہ موسیٰ کو فرعون کی طرف بھیجا تھا.“ گو یا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ کا مثیل قرار دیا ہے.پس معلوم ہوا کہ سورہ نور کی آیت استخلاف مِنْ قَبْلِكُمْ سے مراد حضرت موسی کی امت ہے.اب ہم امتِ موسویہ کے خلفاء کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس میں حضرت موسیٰ“ کے بعد کثرت کے ساتھ خلفاء قائم کئے گئے جو تورات کی خدمت کے لئے آتے تھے اور بالآخر حضرت موسی سے تیرہ چودہ سو سال بعد حضرت مسیح ناصری کی بعثت ہوئی جو حضرت موسی کے خلفاء میں سب سے افضل تھے اور گویا امت موسویہ کے خاتم الخلفاء تھے.پس جبکہ سلسلہ خلفاء میں امت محمدیہ کی مشابہت امتِ موسویہ کے خلفاء کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور اسی طریق پر اس امت میں سلسلہ خلفاء کا وعدہ دیا گیا ہے تو ضروری ہے کہ اس امت میں بھی آخری خلیفہ مسیح ناصری کے قدم پر ظاہر ہو جو اس اُمت کا خاتم الخلفاء ہو.لہذا ثابت ہوا کہ آیت استخلاف میں جہاں مسلمانوں میں عام خلفاء کا وعدہ ہے وہاں خاص طور پر ایک عظیم الشان خلیفہ کا بھی وعدہ ہے جو حضرت مسیح ناصری کا مثیل ہوگا اور مسیح محمدی کہلائے گا اور اسی زمانہ کے قریب قریب ظاہر ہوگا.جس طرح کہ حضرت موسیٰ کے بعد موسوی مسیح ظاہر ہوا.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: - وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيَوْشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيْكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْحَرْبَ ( صحیح بخاری مطبع مجتبائی کتاب بدء الخلق باب نزول عیسی بن مریم) یعنی ” مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ضرور ضرور مسیح ابن مریم نازل ہوگا جو گم و عدل بن کر تمہارے اختلافات کا فیصلہ کریگا اور وہ صلیب کو تو ڑ کر رکھ دے گا اور خنزیر کو قتل کر دیگا اور جنگ کو موقوف کر دیگا.24 24

Page 35

اسی طرح اور بہت سی احادیث میں بھی نزول مسیح کا ذکر موجود ہے.دوسرا مسئلہ.ظہور مہدی کا ہے.سو اس کے متعلق قرآن شریف میں آتا ہے:- هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُقِبِينَ رَسُوْلاً مِنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ أَيَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ ( وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ.(سوره جمعه (ع) یعنی اللہ ہی ہے جس نے اپنا رسول عربوں میں مبعوث کیا ہے جو ان پر خدا کی آیات پڑھتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے بعد اس کے کہ وہ مختلف قسم کی گمراہیوں میں مبتلا تھے اور اسی طرح یہ اللہ کا رسول ایک بعد میں آنے والی جماعت کی بھی تربیت کرے گا جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئی“.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے استعارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دوسرے بعث کی پیشگوئی فرمائی ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ کسی بعد میں آنے والی امت کی تربیت آپ اسی رنگ میں فرما سکتے ہیں کہ آپ کا کوئی خلق اور بروز مبعوث کیا جائے.جس کا آنا گویا آپ کا آنا ہو اور جو آپ سے فیض پاکر آپ کے قدم پر آپ کی امت کی اصلاح کا کام کرے اور یہی مہدی ہے چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت اتری تو صحابہ نے آپ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ آخرین کون ہیں؟ اس پر آپ نے اپنے ایک صحابی سلمان فارسی پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی چلا گیا یعنی دنیا سے گو یا بالکل مفقود ہو گیا تو پھر بھی ان اہل فارس میں سے ایک شخص اس کو وہاں سے اُتار لائے گا اور اُسے دنیا میں پھر قائم کر دے گا.( بخاری تفسیر سورۃ جمعہ ) غرض قرآن شریف کی اس آیت یعنی سورۃ جمعہ میں ایک بروز محمدی کی پیشگوئی کی گئی ہے اور وہی مہدی ہے.اسی طرح احادیث میں بھی کثرت کے ساتھ مہدی کی پیشگوئی موجود ہے مثلاً ابوداؤد میں ایک حدیث آتی ہے کہ :- لولم يبقى من الدنيا الايوم لطوّل الله ذلك اليوم حتى يبعث فيه رجلاً متى او من اهل بيتي يواطئ اسمه اسمى واسم ابيه اسم ابى يملأ 25

Page 36

الارض قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وجورا.(ابوداؤد جلد ۲ کتاب المهدی) یعنی اگر دنیا کی عمر میں سے ایک دن بھی ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس دن کولمبا کر دے گا حتی کہ وہ مبعوث کرے گا اس میں ایک شخص مجھ میں سے یا میرے اہل بیت میں سے جس کا نام میرے نام کے مطابق ہوگا اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے مطابق ہوگا.وہ دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح کہ وہ اس سے پہلے ظلم وجور سے بھری ہوئی ہوگی.اس حدیث میں بھی یہی اشارہ ہے کہ آنے والا مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظلت اور بروز ہوگا.گویا کہ روحانی رنگ میں اس کا آنا آپ ہی کا آنا ہوگا.غرض یہ بات مسلّم ہے اور مسلمانوں کا بچہ بچہ اسے جانتا ہے کہ اسلام میں مسیح اور مہدی کے ظہور کی خبر دی گئی ہے چنانچہ آج کل تمام اسلامی دنیا میں بڑے شدومد کے ساتھ مسیح و مہدی کا انتظار کیا جا رہا ہے اور اپنی ترقی کی تمام امیدوں کو ان کی آمد کے ساتھ وابستہ سمجھا گیا ہے مگر جہاں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح و مہدی کی پیشگوئی فرمائی تھی وہاں ان کے متعلق بعض علامات بھی بیان فرمائی تھیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم دیکھیں کہ آیا وہ علامات سنت اللہ کے مطابق حضرت مرزا صاحب کی بعثت میں پوری ہوگئی ہیں یا نہیں، لیکن اس سے قبل دو بڑی غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے جو مسیح و مہدی کے متعلق عام طور پر مسلمانوں کے اندر پائی جاتی ہیں.کیونکہ جب تک وہ دُور نہ ہوں حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ ہر مسلمان کے نزدیک بادی النظر میں ہی نا قابل التفات قرار پاتا ہے وہ دو غلط فہمیاں یہ ہیں:.اوّل مسئلہ حیات و ممات مسیح ناصری اور دوسرے یہ سوال کہ آیا مسیح موعود اور مہدی ایک ہی شخص ہیں یا کہ دو مختلف اشخاص.آج کل عام طور پر مسلمانوں میں یہ غلط نہی پھیلی ہوئی ہے کہ حضرت مسیح ناصری آسمان پر زندہ جسم عنصری موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں نازل ہو نگے.دوسرے یہ کہ مسیح اور مہدی دو الگ الگ وجود ہیں اور ان غلط فہمیوں کی وجہ سے عام مسلمان حضرت مرزا صاحب کے دعوی کی طرف توجہ نہیں دیتے.سو پہلے ہم انہی سوالات کو لیتے ہیں.وباللہ التوفیق.26

Page 37

حضرت مسیح ناصری آسمان پر نہیں اُٹھائے گئے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا حضرت مسیح آسمان پر زندہ بجسم عصری موجود ہیں؟ اس کے جواب میں اچھی طرح یا د رکھنا چاہئے کہ قرآن اور احادیث صحیحہ سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح ناصری زنده بجسم عنصری آسمان پر اٹھائے گئے یا یہ کہ وہ اب تک زندہ موجود ہیں.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:- فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوْتُوْنَ.(سورہ اعراف ۲۶) یعنی ”اے بنی نوع انسان تم زمین پر ہی زندگی کے دن گزارو گے اور زمین پر ہی تمہاری موت ہوگی.“ ظاہر ہے کہ دنیا میں انسان پر دو ہی زمانے آتے ہیں.ایک زندگی کا زمانہ ہوتا ہے اور دوسرے زندگی کے بعد وفات کا زمانہ.ان دونوں زمانوں کو خدا تعالیٰ نے زمین کے ساتھ مخصوص کر دیا ہے.یعنی یہ مقرر کر رکھا ہے کہ یہ دونوں زمانے انسان زمین پر ہی گزارے گا.اب سوال ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری با وجود انسان ہونے کے کس طرح آسمان پر اپنی زندگی کے دن گزار نے لگ گئے؟ کیا انہیں آسمان پر لے جاتے ہوئے خدا تعالیٰ اپنے اس فیصلہ کو بھول گیا کہ انسان اپنی زندگی کے دن صرف زمین پر ہی گزارے گا.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح ناصری آسمان پر ہر گز نہیں اُٹھائے گئے بلکہ انہوں نے دوسرے انسانوں کی طرح زمین پر ہی اپنی زندگی کے دن گزارے.پھر قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے :- قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًارَسُوْلًا.(سورۃ بنی اسرائیل ع۱۰) یعنی ”اے رسول! کفار جو تجھ سے یہ معجزہ طلب کرتے ہیں کہ تو ان کو آسمان پر چڑھ کر دکھا دے تو تو اُس کے جواب میں ان سے کہہ دے کہ پاک ہے میرا رب اس سے کہ وہ اپنی سنت کے خلاف کرے میں تو صرف ایک انسان رسول ہوں“.27

Page 38

اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاف اور غیر تاویل طلب الفاظ میں فرماتے ہیں کہ میں بوجہ بشر ہونے کے آسمان پر جسم عنصری کے ساتھ نہیں جاسکتا تو پھر مسیح ناصری با وجود بشر ہونے کے کس طرح آسمان پر تشریف لے گئے ؟ کیا اُن کا آسمان پر زندہ چلے جانا ان کو انسان سے کوئی بالا ہستی ثابت نہیں کرتا ؟ پس اس آیت کے ہوتے ہوئے کون مسلمان یہ بات کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ حضرت مسیح آسمان پر زندہ اُٹھائے گئے؟ ظاہر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو افضل الرسل ہیں وہ آسمان پر زندہ جسم عصری جانے کے رستے میں صرف اپنی بشریت کو ہی بطور روک کے بیان فرماتے ہیں لے تو مسیح جو یقینا آپ سے درجہ میں چھوٹا تھا وہ کس طرح آسمان پر جا پہنچا؟ افسوس! مسلمان مسیح کو آسمان پر بٹھا کر نہ صرف اپنے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کر رہے ہیں.بلکہ ایک سراسر باطل عقیدہ میں عیسائیوں کے بھی مددگار بن رہے ہیں.کسی نے سچ کہا ہے من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم کہ بامن هرچه کرد آں آشنا کرد لے اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آسمان پر زندہ جسم عصری جانے کو بوجہ آپ کی بشریت کے ممتنع قرار دیتا ہے تو پھر معراج کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح آسمان پر تشریف لے گئے؟ اس کے جواب میں اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ یہ درست نہیں ہے کہ آپ معراج میں جسم عصری کے ساتھ آسمان پر گئے تھے.بلکہ حق یہ ہے کہ معراج ایک نہایت لطیف قسم کا کشف تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی آئندہ ترقیات کے متعلق دکھایا گیا جو اپنے وقت پر ظہور پزیر ہوئیں اور ہو رہی ہیں خود سلف صالحین کا ایک بڑا گروہ اس طرف گیا ہے کہ معراج جسم عصری کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ وہ ایک نہایت لطیف کشف تھا جس میں آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی.چنانچہ حدیث میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلعم کا جسم مبارک معراج کی رات زمین سے جدا نہیں ہوا.اسی طرح بہت سے اکابر علماء نے بھی لکھا ہے کہ معراج جسم عصری کے ساتھ نہیں ہوا.جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ معراج ایک لطیف قسم کا کشف تھا جس میں آنحضرت صلعم کو آسمان پر لے جا کر آپ کی آئندہ بے نظیر ترقیات کا نظارہ دکھایا گیا اور حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ ثم استیقظ یعنی معراج کے نظارہ کے بعد آنحضرت صلم جاگ اُٹھے ( بخاری کتاب التوحید ) جو اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ معراج جسم عنصری کے ساتھ نہیں ہوا تھا.منہ 28

Page 39

تعجب ہے کہ باوجود ان گھلی گھلی آیات کے آج کل مسلمان ایسے غلط عقیدہ پر جھے ہوئے ہیں.قرآن شریف میں کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسی زندہ بجسم عصری آسمان کی طرف اُٹھائے گئے.اگر کوئی شخص ہمیں یہ دکھا دے تو ہم خدا کے فضل سے سب سے پہلے ماننے کو تیار ہیں مگر.سارے قرآن شریف میں ایک آیت بھی ایسی نہیں پاؤ گے جس سے حضرت مسیح کا زندہ جسم عنصری آسمان پر جانا ثابت ہو.قرآن شریف میں مسیح کے متعلق رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ ( یعنی اللہ نے مسیح کو اپنی طرف اُٹھا لیا) کے الفاظ کا استعمال ہونا ہرگز اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ زندہ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے کیونکہ رفع سے مراد روحانی رفع ہے نہ کہ جسمانی رفع.جیسا کہ بلعم باعور کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ الَى الْأَرْضِ (سورہ اعراف ۲۲۶) یعنی اگر ہم چاہتے تو اپنے نشانات کے ذریعہ اسے رفع عطا کرتے لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا.“ اب اس جگہ سب مانتے ہیں کہ یہاں رفع سے رفع روحانی مراد ہے نہ کہ رفع جسمانی حالانکہ یہاں تو زمین کا مخالف قرینہ بھی موجود ہے تو پھر کیوں خواہ مخواہ حضرت عیسی کے متعلق اس لفظ کو رفع جسمانی کے معنوں میں لیا جاوے؟ آخر مسیح کے اندر وہ کونسی بات ہے کہ جب کسی اور کے متعلق رفع کا لفظ استعمال ہو تو اس سے رفع روحانی مراد لیا جائے اور جب مسیح کے متعلق یہی لفظ آئے تو فوراً اس کے معنی رفع جسمانی کے ہو جائیں.علاوہ ازیں حضرت مسیح کے متعلق قرآن شریف کی ایک دوسری آیت میں یہ صراحت بھی آتی ہے کہ اُن کا رفع ایسا تھا جو وفات کے بعد ہوا.دیکھو سورہ ال عمران (۶) اور ظاہر ہے کہ موت کے بعد کا رفع روحانی ہوا کرتا ہے نہ کہ جسمانی.پھر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ مسیح کو آسمان کی طرف اُٹھایا گیا بلکہ صرف یہ فرمایا ہے کہ اللہ نے اُسے اپنی طرف اُٹھا لیا.اب ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے صرف آسمان کے اندر محدود نہیں پس اس کی طرف اُٹھائے جانے کے معنے آسمان کی طرف اُٹھائے جانے کے کس طرح ہو سکتے ہیں؟ 29

Page 40

اُس کی طرف اُٹھائے جانے کے معنے تو لا محالہ رفع روحانی ہی کے ہوں گے.کیونکہ جب خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے تو کسی صورت میں اس کی طرف رفع جسمانی منسوب نہیں کیا جاسکتا اور اگر مسیح کا رفع الی اللہ جسمانی صورت میں مانا جاوے تو یہ ایک کلمہ مہمل ہو گا جس کے یہ معنے ہوں گے کہ حضرت مسیح جہاں تھے انہیں وہیں رہنے دیا گیا کیونکہ خدا ہر جگہ موجود ہے.پس ثابت ہوا کہ یہاں رفع جسمانی مراد نہیں بلکہ رفع روحانی مراد ہے.پھر ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :- اذا تواضع العبد رفعه الله الى السماء السابعة.(کنز العمال جلد ۲ صفحہ ۲۵) یعنی ” جب کوئی شخص اللہ کی خاطر تواضع اختیار کرتا اور نیچا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ساتویں آسمان کی طرف اُٹھا لیتا ہے.“ اب کیا اس جگہ بھی بجسم عنصری آسمان کی طرف اُٹھانے کے معنے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو نعوذ باللہ خدا کا یہ وعدہ غلط نکلا.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد کے مسلمانوں میں سے ہزاروں لاکھوں نیک لوگ خدا کے لئے تواضع اختیار کرتے رہے ہیں مگر ان میں سے کوئی فرد واحد بھی آسمان کی طرف زندہ بجسم عنصری نہیں اُٹھایا گیا.پس ثابت ہوا کہ اس جگہ یہ مراد نہیں کہ تواضع اختیار کرنے والے زندہ بجسم عصری آسمان کی طرف اٹھائے جائیں گے بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے درجے بلند کرے گا اور ان کو رفع روحانی نصیب ہوگا اور یہی وہ معنی ہیں جو اس جگہ ہمارے مخالف علماء بھی قبول کرتے ہیں.حالانکہ یہاں تو آسمان کا لفظ بھی ساتھ لگا ہوا ہے تو پھر کیوں حضرت مسیح کے متعلق رفع الی اللہ سے یہ مراد لیا جائے کہ وہ زندہ بجسم عنصری آسمان پر اُٹھالئے گئے.وفات مسیح ناصری ہم نے خدا کے فضل سے قرآن اور احادیث سے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح علیہ السلام ہرگز 30

Page 41

ہرگز زندہ بجسم عصری آسمان کی طرف نہیں اٹھائے گئے بلکہ انہوں نے خدائی فیصلہ کے مطابق زمین پر ہی اپنی زندگی گزاری اور زمین پر ہی رہے.اب میں بفضلہ تعالیٰ یہ ثابت کرتا ہوں کہ نہ صرف یہ کہ حضرت مسیح آسمان کی طرف نہیں اُٹھائے گئے بلکہ وہ فوت بھی ہو چکے ہیں.ہر چند کہ ہمارا یہ فرض نہیں کہ مسیح کو فوت شدہ ثابت کریں کیونکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ دنیا دار فانی ہے جو شخص پیدا ہوتا ہے وہ فوت بھی ہو گا جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے:.كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (عنکبوت ع۶) یعنی ہر انسان کے لئے موت مقدر ہے.“ لیکن چونکہ عوام میں یہ عقیدہ پھیلا ہوا ہے کہ حضرت مسیح ناصری اب تک بقید حیات ہیں اس لئے اس غلطی کا ازالہ بھی ضروری ہے.سو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ ( آل عمران ۱۵۶) یعنی ” نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم مگر اللہ کے ایک رسول اور ان سے پہلے جتنے رسول گذرے ہیں وہ سب فوت ہو چکے تو کیا اگرمحمد صلعم بھی ان کی طرح فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم اسلام کو چھوڑ کر اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وفات مسیح کے عقیدہ کا قطعی فیصلہ کر دیا ہے کیونکہ صاف فرما دیا ہے کہ جتنے رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گذرے ہیں وہ سب وفات پاچکے ہیں.مگر کہا جاتا ہے کہ خلا کا لفظ جو اس آیت میں واقع ہوا ہے اس کے معنے مرنے کے ہی نہیں ہوتے بلکہ جگہ چھوڑ جانے اور گذر جانے کے بھی ہوتے ہیں اور چونکہ جو شخص آسمان پر چلا جاوے وہ بھی جگہ چھوڑ جاتا اور گذر جاتا ہے اس لئے ضروری نہیں کہ یہاں فوت ہو جانے کے معنے لئے جائیں ہم کہتے ہیں بہت اچھا! جب لغت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خلا کے معنے فوت ہو جانے کے بھی ہیں اور جگہ چھوڑ جانے کے بھی اور گذر جانے کے بھی تو ان ہر دو معنوں میں سے کسی ایک کی تعیین کے لئے ہمیں چاہئے کہ آیت پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ آیت کے قرائن کن معنوں کی تعیین 31

Page 42

کر رہے ہیں.کیا مطلق جگہ چھوڑ جانے کی یا وفات کے ذریعہ اس جہانِ فانی سے گذر جانے کی؟ کیونکہ خلا کے دو معنی ہی ہیں جو لغت ہمیں بتاتی ہے یعنی جگہ چھوڑ جانا اور فوت ہو جانا.مخالفین کے معنوں پر تو ہمیں سند لانے کی ضرورت نہیں مگر اس بات کے ثبوت میں کہ خلا کے معنے فوت ہو جانے کے بھی ہیں ملاحظہ ہو لغت کی مشہور کتاب تاج العروس جہاں لکھا ہے خلافلان اذامات.یعنی ” جب خلافلان کہا جاوے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ فلاں شخص وفات پا گیا.اب ہم آیت زیر بحث پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سیاق وسباق صاف ہمارے معنوں کی تائید کرتا ہے خدا فرماتا ہے قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ.یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے رسول بھی ہوئے ہیں وہ فوت ہو چکے ہیں تو کیا اگر محمد رسول اللہ بھی وفات پا جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے؟ اس آیت میں یہ الفاظ کہ أَفَإِنْ مَاتَ اَوْ قُتِل صاف بتا رہے ہیں کہ گذشتہ نبی یا تو طبعی موت کے ذریعہ فوت ہوتے رہے ہیں یا قتل کے ذریعہ اس جہان کو چھوڑتے رہے ہیں.یعنی ان کا اس دنیا کو چھوڑ نا صرف ان ہی دوطریقوں پر ہوتا رہا ہے.اب اگر گذشتہ نبیوں میں سے کوئی ایک نبی بھی آسمان کی طرف اُٹھایا گیا ہوتا یا مذکورہ طریقوں کے سوا کسی اور طریق پر کسی نبی کا گذر جانا وقوع میں آیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس جگہ اس صورت کا ذکر فر ما تا یا کم از کم مسیح کی استثنائی صورت ہی بیان کر دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ خدا نے صرف طبعی موت اور قتل والی ہی دو صورتیں بیان فرمائی ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس آیت میں خلا کے معنے یا تو طبعی موت سے مرنے کے لئے جاویں گے اور یا قتل کے ذریعہ اس جہان فانی کو چھوڑ جانے کے لیکن چونکہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح کے متعلق قتل کی نفی فرمائی ہے.(سورۂ نساء ع ۲۲) اس لئے ثابت ہوا کہ مسیح نے اپنی طبعی موت سے وفات پائی.مفسرین نے بھی اس جگہ خلا کے معنے وفات پا جانے کے کئے ہیں.چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں ويخلو کما خلوا بالموت او القتل.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسی طرح اس دار فانی کو چھوڑ جائیں گے جس طرح کہ دوسرے انبیا طبعی موت کے ذریعہ یاقتل کے ذریعہ دنیا کو چھوڑ گئے.مثلاً دیکھو تفسیر قوی علی البیضاوی جلد ۳و تفسیر خازن جلد۱) 32

Page 43

اس آیت کے معنے اور بھی زیادہ واضح ہو جاتے ہیں جب ہم اسے ایک مشہور تاریخی واقعہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو حضرت عمرؓ اور بعض دوسرے صحابہ بزعم خود یہ خیال کرتے ہوئے کہ ابھی بعض کام ہونے والے باقی رہتے ہیں آپ کو ابھی تک زندہ ہی سمجھتے تھے، بلکہ حضرت عمرؓ تو اپنے اس خیال پر اس قدر جمے ہوئے تھے کہ انہوں نے نیام سے تلوار کھینچ لی اور کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ فوت ہو گئے ہیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا.اس وقت حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو پکار کر کہا علی رسلک اتها الحالف یعنی ” اے قسم کھانے والے ذرا صبر کر.پھر آپ نے سب صحابہ کو مخاطب کر کے تقریر شروع فرمائی اور یہی آیت پڑھی کہ مَا مُحمد إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ الخ یعنی "محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف خدا کے ایک رسول ہیں ان سے پہلے جتنے رسول گزرے ہیں وہ سب فوت ہو چکے ہیں تو کیا اگر آپ بھی وفات پا جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گئے.روایت آتی ہے کہ اس آیت کے سننے سے حضرت عمرؓ اس قدر متاثر ہوئے کہ لڑکھڑا کر زمین پر گر گئے.کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ ان کا پیارا آقا بھی چونکہ صرف اللہ کا ایک رسول تھا پس جس طرح اس سے پہلے تمام رسول فوت ہو گئے اسی طرح ضرور تھا کہ وہ بھی اس اہل دروازہ سے گذرتا.اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی گذشتہ نبی اس وقت تک زندہ ہوتا تو حضرت ابوبکر کے اس استدلال پر کہ چونکہ تمام گزشتہ نبی وفات پاچکے ہیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی فوت ہونا تھا صحابہ کرام ضرور اعتراض کرتے خاص کر حضرت عمر اور ان کے ہم خیال تو ضرور بول اُٹھتے کہ یہ استدلال درست نہیں.مگر سب صحابہ نے حضرت ابو بکر کے ساتھ اتفاق کر کے اس استدلال پر مہر لگادی.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس مسئلہ پر سب سے پہلا اجماع صحابہ کرام کا ہوا وہ یہی تھا کہ تمام گذشتہ انبیاء جن میں حضرت مسیح ناصری بھی شامل ہیں وفات پاچکے ہیں.خوب غور کرو کہ اگر گذشتہ انبیاء میں سے ایک نبی بھی زندہ تصور کیا جاوے تو حضرت ابوبکر کا یہ استدلال جس پر صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلا اجماع کیا باطل ٹھہرتا ہے.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح جو خدا کے نبیوں میں سے ایک نبی تھے وفات پاچکے ہیں.33

Page 44

پھر ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- يُعِيْسَى إِنِّي مُتَوَفِّيَكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهَّرَكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ ( سوره آل عمران ع۶) یعنی ”اے عیسی میں ہی تجھے وفات دونگا اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور کفار کے اعتراضات سے تجھے پاک کرونگا.اور تیرے متبعین کو تیرے منکرین پر قیامت تک غلبہ بخشوں گا“.آب دیکھ لو اس آیت میں صاف مذکور ہے کہ مسیح کی وفات مسیح کے رفع سے پہلے ہوگی.کیونکہ مُتَوَفِنگ کو رَافِعَگ سے پہلے بیان کیا گیا ہے.یعنی پہلے وفات ہوگی اور پھر رفع ہوگا اور ظاہر ہے کہ وفات کے بعد کا رفع روحانی ہوا کرتا ہے نہ کہ جسمانی اور اگر کہو کہ اس جگہ تقدیم تاخیر ہے یعنی آیت کے الفاظ آگے پیچھے ہو گئے ہیں تو اول تو کلام الہی میں بلاوجہ تقدیم تاخیر کا فتویٰ جاری کر دینا یہودیوں کی سی تحریف سے کم نہیں.تقدیم تاخیر کے لئے کوئی بین دلیل ہونی چاہئے.دوسرے اس آیت کا سیاق وسباق ایسا ہے کہ وہ کسی تقدیم تاخیر کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا.یعنی مُتَوَفِنگ کا لفظ اس جگہ سے اُٹھایا جائے تو پھر اس آیت میں اُسے کسی اور جگہ رکھ کر معنے درست نہیں ہوتے.پس لامحالہ قرآن شریف کی اصلی ترتیب کو قبول کر کے وفات کو رفع سے قبل ماننا پڑے گا.وہوالمراد.پھر ایک اور جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:- إِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونَى وَأَمَّى الهَيْنِ مِنْ دُونِ اللهِ ط قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَالَيْسَ لِي بحق ط إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ طَ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ط إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِيْ بِهِ آنِ 34

Page 45

اعْبُدُوا اللهَ رَبِّي وَرَبِّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ جَ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ طَ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْ ءٍ شَهِيدٌ (سوره مائده ع ۱۶) یعنی جب خدا نے کہا اے عیسی بن مریم کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو دو خدامان لو تو عیسی نے جواب دیا کہ اے خدا پاک ہے تیری ذات مجھے زیبا نہیں کہ وہ بات کہوں جس کا مجھے حق نہیں.اگر میں نے کوئی ایسی بات کہی ہے تو تو اُسے جانتا ہے کیونکہ تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے.تو بیشک سب غیبوں کا جاننے والا ہے.میں نے انہیں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا اور وہ یہ کہ عبادت کرو اس کی جو میرا اور تمہارا دونوں کا رب ہے اور میں ان کی حالت کو دیکھتا رہا جب تک کہ میں ان کے درمیان رہا لیکن جب اے خدا تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی اُن کا نگران تھا اور تُو ہر ایک چیز کو دیکھنے والا ہے.“ یہ آیت صاف الفاظ میں حضرت مسیح کی وفات کا پتہ دے رہی ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمان انہیں پھر بھی آسمان پر زندہ بٹھائے ہوئے ہیں اس آیت میں مسیح کی وفات کے متعلق جو وضاحت ہے اس سے بڑھ کر وضاحت تصور میں نہیں آسکتی.مگر افسوس! کہ اس میں بھی ہمارے مولوی شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.مثلاً کہتے ہیں مسیح کے ساتھ خدا کا یہ سوال وجواب قیامت کے دن ہوگا اور چونکہ قیامت سے پہلے بہر حال حضرت مسیح “ وفات پاچکے ہوں گے اس لئے یہ آیت اس بات پر دلیل نہیں ہو سکتی کہ حضرت مسیح واقعی آج سے پہلے وفات پاچکے ہیں.اس شبہ کے جواب میں یا درکھنا چاہئے کہ خواہ یہ سوال وجواب قیامت ہی کے دن سے متعلق سمجھا جائے پھر بھی یہ آیت صاف طور پر سی پر فاتحہ خوانی کر رہی ہے.کیونکہ مسیح کے الفاظ یہ ہیں.گنٹ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ یعنی ” میں ان لوگوں کو دیکھتا رہا جب تک کہ میں اُن میں رہا لیکن جب اے خدا تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر 35

Page 46

تو ہی اُن کو دیکھنے والا تھا.ان الفاظ میں حضرت مسیح صرف دو زمانوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں سے وہ یکے بعد دیگرے گذرے.پہلا زمانہ وہ ہے جب وہ اپنے متبعین کے اندر موجود تھے جیسا کہ مَا دُمْتُ فِيهِمْ کے الفاظ سے ظاہر ہے اور دوسرا زمانہ وفات کے بعد کا ہے جو الفاظ فَلَمَّا تَوَفَّيَتَنِئ میں بیان کیا گیا ہے.اب اگر پہلے زمانہ یعنی متبعین کے اندر رہنے والے زمانہ کے بعد مسیح پر بجائے وفات کے آسمان پر اٹھائے جانے کا زمانہ آیا ہوتا تو موجودہ جواب کی جگہ مسیح" کو یوں کہنا چاہئے تھا کہ مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا رَفَعْتَنِى إِلَى السَّمَاءِ حَيًّا یعنی ” میں اپنے متبعین کو دیکھتا رہا جب تک کہ میں ان میں رہا لیکن جب اے خدا تو نے مجھے زندہ آسمان کی طرف اُٹھالیا تو پھر تو ہی انہیں دیکھنے والا تھا مگر مسیح کا جواب یہ نہیں اس لئے ثابت ہوا کہ متبعین کے اندر رہنے والے زمانے کے بعد جو زمانہ مسیح پر آیا وہ وفات ہی کا زمانہ تھانہ کہ کوئی اور زمانہ.غور کرو کہ جو جواب مسیح نے دیا ہے وہ صاف بتا رہا ہے کہ وہ چیز جو مسیح کے پہلے زمانہ یعنی تبعین کے درمیان زندگی گزار نے والے زمانہ کے معا بعد آنے والی یا بالفاظ دیگر اس زمانے کو قطع کر نیوالی اور نیا دور شروع کرنے والی چیز آسمان پر جانا ہو تو مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِی والا جواب صریح غلط ٹھہرتا ہے.پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوال کے جواب میں حضرت مسیح اس بات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے متبعین اُن کو اور ان کی ماں کو بطور خدا کے پوجنے لگ گئے جیسا کہ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ مَاقُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا اَمَرْتَنِيْ بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيَتَنِي كُنتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ط - یعنی ”اے خدا میں تو اپنے متبعین کو وہی کہتا رہا جو تو نے مجھے حکم دیا تھا اور وہ یہ کہ عبادت کرو اس خدا کی جو میرا اور تمہارا دونوں کا رب ہے اور میں انہیں دیکھتار ہا جب تک میں ان میں رہا لیکن جب اے خدا تو نے مجھے وفات دیدی تو پھر اس کے بعد تو ہی ان کو دیکھنے والا تھا.حضرت مسیح کے اس جواب سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے متبعین کے بگڑ جانے کے متعلق اپنی لاعلمی ظاہر کر کے اپنی بریت کا اظہار کر رہے ہیں.جس کے بالفاظ دیگر یہ معنی ہیں کہ مسیحی لوگ حضرت مسیح کی وفات کے بعد گمراہ ہوئے.پس اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ آیا عیسائی لوگ گمراہ ہو چکے ہیں یا نہیں ، اگر وہ گمراہ 36

Page 47

نہیں ہوئے تو خیر حضرت مسیح زندہ ہونگے لیکن اگر وہ گمراہ ہو چکے ہیں اور ضرور ہو چکے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیح بھی وفات پاچکے ہیں.کیونکہ قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ مسیح کی وفات عیسائیوں کے گمراہ ہونے سے پہلے واقع ہوئی.اب دیکھو یہ آیت کس صفائی کے ساتھ مسیح کو وفات شدہ ثابت کر رہی ہے.یہ سوال و جواب قیامت سے پہلے ہو یا قیامت کے بعد ہمیں اس سے غرض نہیں مگر مسیح کی وفات بہر حال مسیحیوں کے گمراہ ہونے سے پہلے واقع ہوئی اور چونکہ مسیحی لوگ یقیناً مسیح کی اصل تعلیم کو چھوڑ چکے ہیں اور مسیح“ کو خدا ماننے لگ گئے ہیں.بلکہ وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک سے بھی پہلے کے اس باطل عقیدہ پر قائم ہیں جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے : - لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةِ - (سورۃ مائده ع ۱۰) یعنی ” وہ لوگ یقینا کا فر ہیں جنہوں نے کہا کہ خدا تین میں سے ایک ہے.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح کم از کم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک سے پہلے وفات پاچکے تھے.وہوالمراد.اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مثیل مسیح، یعنی مسیح موعود جس کی آمد آخری دنوں میں مقدر ہے وہ حضرت عیسی نہیں ہیں.کیونکہ اگر یہ مانا جائے کہ حضرت مسیح ناصری ہی قیامت سے پہلے نازل ہونگے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ قیامت سے پہلے اپنی امت کے فساد سے بھی واقف ہو جائیں گے اور انہیں علم ہو جائے گا کہ میری امت مجھے خدا بنارہی ہے تو اس صورت میں وہ قیامت کے دن کس طرح لاعلمی کا اظہار کر سکتے ہیں؟ کیونکہ مسیح کی طرف سے یہ نعوذ باللہ ایک جھوٹ ہوگا.اگر وہ با وجود علم رکھنے کے پھر خدا کے سامنے اپنی لاعلمی کا اظہار کریں.پس ثابت ہوا کہ وہ قیامت سے پہلے دوبارہ ہرگز نازل نہیں ہونگے.اب اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ حضرت مسیح " آسمان پر تشریف لے گئے ہیں تو پھر بھی یہ آیت مسیح ناصری کے دوبارہ نزول کے راستہ میں ایک ایسا گراں پتھر ہے جو اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جاسکتا.کیونکہ بہر حال یہ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح قیامت کے دن خدا کے سامنے اپنی امت کے گمراہ ہو جانے کے متعلق لاعلمی ظاہر کریں گے.لہذا یہ ثابت 37

Page 48

ہوا کہ قیامت کے دن سے پہلے وہ اپنی امت کو فساد اور گمراہی کی حالت میں کبھی نہیں دیکھیں گے، لیکن ہم بتا آئے ہیں کہ اگر وہ دوبارہ نازل ہوں تو قیامت سے پہلے ہی اُن کو اپنی امت کے بگڑ جانے کا علم ہو جائے گا.خصوصاً جبکہ مسیح موعود کا بڑا کام ہی کسر صلیب ہے تو اس صورت میں لاعلمی کا اظہار کیسا؟ لہذا ثابت ہوا کہ اگر بفرض محال حضرت مسیح آسمان پر تشریف لے بھی گئے ہیں تو پھر بھی آنے والا مسیح یقینا اور ہے اور مسیح ناصری وہیں آسمان پر ہی فوت ہو گئے ہو نگے کیونکہ بہر حال ایک بشر کا آسمان پر ہونا اُسے موت سے تو نہیں بچا سکتا جو قر آنی تعلیم کے مطابق ہر انسان کے لئے مقدر ہے.اب رہی لفظ توئی کی بحث جو اس آیت میں واقع ہوا ہے اور جس کے معنے ہمارے مخالف پورا اُٹھا لینے کے کرتے ہیں سو اس کے متعلق اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ عربی زبان کی رُو سے جب خدا فاعل ہو اور کوئی انسان مفعول بہ ہو تو توئی کے معنے سوائے رُوح قبض کر لینے کے اور کوئی نہیں ہوتے یہ ہمارا دعوی ہے جسے ہم ہر طرح ثابت کرنے کو تیار ہیں.حضرت مرزا صاحب نے بہت بھاری انعام مقرر کیا اور مخالف مولویوں کو بار بار پہینچ دیا کہ وہ کسی جگہ یہ دکھا دیں کہ جب خدا فاعل ہو اور انسان مفعول بہ ہو تو تو فی کے معنے سوائے قبض روح کے کوئی اور بھی ہو سکتے ہیں مگر کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی گئی.آج ہم اس چیلنج کو دہراتے ہیں دیکھئے کوئی جواب ملتا ہے یا نہیں؟ تاج العروس جوعربی لغت کی سب سے بڑی کتاب ہے اس میں لکھا ہے.توفاه الله عز وجل اذا قبض نفسه یعنی جب ہم یہ کہیں کہ تو فاہ اللہ تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ نے اُس کی رُوح قبض کر لی.پھر یہ بھی لکھا ہے کہ توفی فلان اذا مات یعنی جب کوئی مرجائے تو کہتے ہیں ٹوٹی فلان.پس یہ یقینی بات ہے کہ توئی کی معنے (جب خدا فاعل ہو اور انسان مفعول به ) صرف قبض روح کے ہوتے ہیں.ہاں یہ ضرور ہے کہ چونکہ نیند میں بھی ایک حد تک قبض روح ہوتا ہے اس لئے توفی کا لفظ بعض اوقات نیند کے تعلق میں بھی استعمال کر لیا جاتا ہے لیکن چونکہ نیند کے وقت کا قبض روح عارضی اور ناقص ہوتا ہے اس لئے اصل اور مستقل معنے توئی کے وفات دینے ہی کے ہیں.اسی لئے عربی میں یہ قاعدہ ہے کہ جب لفظ تو ٹی کو نیند کے تعلق میں استعمال کرنا ہو تو اس کے ساتھ 38

Page 49

کوئی ایسا قرینہ لاتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہاں کامل قبض روح مراد نہیں جو وفات کے وقت ہوتا ہے بلکہ نیند کے وقت کا قبض روح مراد ہے جیسا کہ قرآن شریف میں خدا فرماتا ہے :- هُوَ الَّذِى يَتَوَفَكُمْ بِاليل.(سورہ انعام ع ) یعنی ” خدا ہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روحوں کو قبض کرتا ہے یہاں تو ٹی کا لفظ نیند والے قبض روح کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.کیونکہ رات کا قرینہ ساتھ لگا ہوا ہے لیکن وفات والے قبض رُوح کے لئے لفظ توفی کے ساتھ کسی قرینہ کی ضرورت نہیں ہوتی.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے إِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّک.(سورہ مومن ع۸) یعنی اے نبی ! ہم جو کفار کو عذاب کے وعید دے رہے ہیں ان میں سے بعض وعید تیری زندگی میں ہی تجھے دکھا دیں گے اور یا تجھے وفات دے دیں گے اور تیرے بعد ان وعیدوں کو پورا کریں گے.پھر فرما یارَ بَّنَا افْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ.(سورة اعراف ع ۱۴) یعنی ” اے ہمارے رب! ہمیں صبر کی کامل توفیق عطا کر اور ہمیں اس حالت میں وفات دے کہ ہم تیرے فرمانبردار بندے ہوں“ ان ہر دو آیتوں میں تو کمی کا لفظ وفات دینے کے معنوں میں آیا ہے اسی لئے کوئی قرینہ ساتھ نہیں ہے.امام ابن حزم نے بھی تو قی کے لفظ کی تشریح میں یہی لکھا ہے کہ اس سے یا تو نیند مراد ہوتی ہے یا موت اور ساتھ ہی تشریح کی ہے کہ چونکہ حضرت عیسی کے معاملہ میں نیند مراد نہیں ہو سکتی اس لئے لاز مأموت کے معنے لینے ہونگے.( دیکھو المحلى جلدا صفحه ۲۳) اس کے علاوہ خود آیت زیر بحث پر غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ یہاں توئی کا لفظ وفات دینے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے کیونکہ حضرت عیسی فرماتے ہیں كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً مَّادُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِی یعنی میں اُن کو دیکھتا رہا جب تک میں اُن کے درمیان رہا مگر جب اے خدا تو نے میری روح قبض کرلی......الخ “ اب اس جگہ مَا دُمْتُ فِيهِمْ کا قرینہ اس بات پر صاف شاہد ہے کہ یہاں وفات والا قبض روح مراد ہے جس کے نتیجہ میں حضرت عیسی اپنے متبعین کے درمیان سے اُٹھ گئے اور ان کے اندر موجود نہ رہے کیونکہ الفاظ مَا دُمْتُ فِيْهِمْ اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی ایک دوسرے کے مقابلہ میں واقعہ ہوئے ہیں.پس یہاں نیند والا قبض روح مراد نہیں ہو 39

Page 50

سکتا.کیونکہ ظاہر ہے کہ نیند والا قبض روح مَا دُمْتُ فِيهِمْ کے مقابل پر نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے زمانہ کے اندر شامل ہوتا ہے مگر یہاں لفظ تو فیتی کو الفاظ مادمت کے مقابل پر رکھا گیا ہے لہذا ثابت ہوا کہ یہاں تو ٹی کے معنے صرف وفات دینے کے ہیں.جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح اپنے متبعین کو ہمیشہ کے لئے داغ جدائی دے گئے غرض توئی کے لفظ پر اڑ نا پرلے درجہ کی ہٹ دھرمی ہے اور پھر تعجب یہ ہے کہ جب یہی لفظ توئی کا کسی اور شخص کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے وفات دینے کے کئے جاتے ہیں لیکن جو نہی یہ لفظ حضرت مسیح ناصری کے متعلق استعمال ہو تو فوراً اس کے معنے آسمان پر اُٹھا لینے کے ہو جاتے ہیں.جس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسی کے معاملہ میں عیسائیوں کے عقیدہ سے متاثر ہو کر محض اندھی تقلید سے کام لیا جا رہا ہے.پھر دیکھو یہی الفاظ یعنی كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيَتَنِي جوی نے استعمال کئے ہیں یا قیامت کے روز استعمال کرینگے یہی ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی استعمال فرمائیں گے چنانچہ صحیح بخاری جلد ۳ کتاب التفسیر میں لکھا ہے کہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب میں حوض کوثر پر کھڑا ہونگا تو اچانک چند لوگ میرے سامنے آئیں گے جنہیں فرشتے دھکیلے لئے جارہے ہوں گے انہیں دیکھ کر میں پکار اُٹھونگا کہ اصیحابی اصیحابی یعنی یہ تو میرے صحابہ ہیں اس پر مجھے جواب ملے گا کہ انک لا تدرى ما احدثوا بعدك انهم لم يزالوا مرتدين علی اعقابهم یعنی ” آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا رنگ بدلا.یہ تو آپ کے بعد اپنی ایڑیوں کے بل پھر گئے اور مرتد گئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اقول كما قال العبد الصالح عیسیٰ ابن مريم كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيد أَمَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِی.....الخ.یعنی اس وقت میں وہی کہوں گا جو خدا کے صالح بندے عیسی بن مریم نے کہا کہ میں انہیں دیکھتار ہا جب تک کہ میں ان کے درمیان رہا لیکن جب اے خدا تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر اس کے بعد تو ہی انہیں دیکھنے والا تھا.اس حدیث سے دو استدلال ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ جس رنگ اور جن معنوں میں اپنی امت کے بگڑ جانے کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لاعلمی کا اظہار کریں گے اسی طرح ہو 40

Page 51

حضرت مسیح بھی کریں گے دوسرے یہ کہ توفی کے معنے آسمان کی طرف اُٹھا لینے یا سلا دینے کے نہیں ہیں بلکہ وفات دینے کے ہیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے متعلق توئی کا لفظ استعمال کر کے اس لفظ کے معنوں کی تعیین فرما دی ہے.اسی لئے امام بخاری اس حدیث کو بخاری کی کتاب التفسیر میں لائے ہیں.اب جبکہ قرآن شریف سے یہ مسئلہ صاف ہو گیا کہ حضرت مسیح وفات پاچکے ہیں تو اب ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث اس مسئلہ کے متعلق کیا کہتی ہے.سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : - ان عیسی ابن مريم عاش عشرين ومائة سنة (طبرانی و کنز العمال جلد 4 عن حضرت فاطمہ ).یعنی عیسی بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے دیکھو یہ حدیث کس صفائی کے ساتھ حضرت مسیح کی وفات کی خبر دے رہی ہے.پھر ایک اور موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- لو كان موسیٰ وعيسى حيين لما وسعهما الا اتباعی.(ابن کثیر جلد ۲ صفحہ ۲۴۶) یعنی اگر موسی اور عیسی اس وقت زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اطاعت کے بغیر چارہ نہ ہوتا.سبحان اللہ! اس سے بڑھ کر مسیح کی وفات کے متعلق کیا صراحت ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں فرما دیا کہ اگر حضرت مسیح اس وقت زندہ ہوتے تو میری پیروی کے بغیر انہیں بھی چارہ نہیں تھا اور دوسری حدیث میں ان کی عمر بھی بتا دی جسے پورا ہوئے صدیاں گذر چکی ہیں.ایک واضح دلیل حضرت عیسی کی وفات کی یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلعم نے انہیں معراج کی رات وفات شدہ انبیاء کے ساتھ دیکھا.منہ) ان تمام دلائل سے جو اس جگہ قرآن شریف اور احادیث سے دیئے گئے ہیں یہ امر روز روشن کی طرح ظاہر ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیح“ دوسرے انسانوں کی طرح وفات پاچکے ہیں.اب اگر بفرض محال کوئی ایسی حدیث یا قرآنی آیت ہو بھی جس میں ہمارے مخالفوں کے نزدیک اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہو کہ حضرت مسیح ابھی تک زندہ ہیں تو قرآن شریف کے بتائے ہوئے گر کے مطابق ہمیں چاہئے کہ ایسی آیت یا حدیث کے وہ معنے نہ کریں جو آیات محکمات اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہوں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ تمام متشابہات کو محکمات کے ماتحت لا دیں.ورنہ نعوذ باللہ یہ ماننا ہوگا کہ خدا کے کلام میں تناقض ہے خوب غور کرو کہ جب قرآن شریف کی آیات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث 41

Page 52

صاف اور غیر تاویل طلب الفاظ میں بتارہی ہیں کہ حضرت مسیح فوت ہو چکے ہیں تو اس مضمون پر اور جس قدر بھی آیات اور احادیث ہوں اُن تمام کو ان کے ماتحت لانا چاہئے.مگر انشاء اللہ ہمیں اس بات کی ضرورت ہی نہ ہوگی.کیونکہ کوئی قرآنی آیت ایسی نہیں ہے جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ حضرت مسیح اب تک زندہ موجود ہیں.اگر کوئی ہے تو اُسے پیش کیا جائے.مگر سارا قرآن شریف دیکھ جاؤ ایک آیت بھی ایسی نہیں پاؤ گے جس میں حیات مسیح کا ذکر ہو لیے اسی طرح کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ہے جس میں مسیح کی حیات کا ذکر ہو.ہاں اس کے خلاف ایسی کئی احادیث ہیں جن میں صاف طور پر مسیح کی وفات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.حیات مسیح“ کے عقیدہ پر کبھی اجماع نہیں ہوا اب سوال ہوتا ہے کہ جب قرآن شریف اور احادیث صاف طور پر مسیح کی وفات کی شہادت دے رہی ہیں تو ان کی حیات کے غلط عقیدہ پر کس طرح تمام امت کا اجماع ہو گیا ؟ اس کے جواب میں یادرکھنا چاہئے کہ یہ بالکل غلط ہے کہ اس باطل عقیدہ پر کبھی تمام امت کا اجماع ہوا ا ہمارے مخالفین آیت وَانْ مَنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيَؤْ مِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ( سوره نساء ع ۲۲) اور إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ ( سورہ زخرف ع۶) سے مسیح ناصری کی حیات ثابت کرنے کی بیسود کوشش کیا کرتے ہیں لیکن جو شخص خص ان آیات پران کے سیاق و سباق کو مد نظر رکھ کر تدبر کرے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ ان آیات کو مسیح کی حیات سے کوئی دور کا تعلق بھی نہیں ہے کیونکہ مقدم الذکر آیت میں تو صرف یہ بتایا گیا ہے کہ تمام اہل کتاب اپنی موت سے پہلے یہی یقین رکھیں گے کہ مسیح کو قتل کر دیا گیا تھا.کیونکہ اس آیت سے پہلے ان کے اسی خیال کا ذکر کیا گیا ہے (جیسا کہ فرمایا وَ قَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ ) ہاں موت کے بعد بے شک ان پر حقیقت حال منکشف ہو جائے گی اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ قَبلَ مَوْتِہ کی دوسری قرأت جمع کے صیغہ کی صورت میں قبلَ مَوْتِھم بیان کی گئی ہے.(دیکھو ابن جریر جلد ۶ ) جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس جگہ موت سے مسیح کی موت مراد نہیں بلکہ اہل کتاب کی اپنی موت مراد ہے اور مؤخر الذکر آیت کو بھی حیاتِ مسیح کے عقیدہ سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس میں یا تو بروزی صورت میں مسیح کی آمد ثانی کی طرف اشارہ ہے جو قرب قیامت کی مسلمہ علامت ہے اور یا حضرت مسیح ناصری کے وجود کو بوجہ ان کے بے باپ پیدا ہونے کے قیامت کی دلیل میں پیش کیا گیا ہے جیسا کہ اگلے فقرہ فَلَا تَمْتَونَ بِهَا میں اشارہ پایا جاتا ہے.پس ان دونوں آیتوں میں سے کوئی بھی حضرت مسیح ناصری کی حیات ثابت نہیں کرتی.وھو المراد.42

Page 53

ہے.سلف صالحین میں کئی بزرگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے صاف طور پر وفات مسیح“ کا اقر رکیا ہے اور صحابہ کرام بھی اسی عقیدہ پر قائم تھے چنانچہ حضرت ابن عباس جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چازاد بھائی تھے اور جن کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی تھی کہ ان کو قرآن شریف کا خاص فہم عطا ہو انہوں نے مُتَوَفیگ کے معنے ممیٹگ بیان کر کے اپنے عقیدہ کا صاف اظہار کر دیا ہے کہ مسیح فوت ہو چکے ہیں.( بخاری کتاب التفسیر ) پھر امام بخاریؒ جو محدثین کے مسلمہ امام ہیں انہوں نے اپنی صحیح میں اس روایت کو درج کر کے اپنی طرف سے بھی اس پر مہر لگا دی ہے اور اپنے عقیدہ کی طرف اشارہ کر دیا ہے.صحابہ کے بعد تابعین کی جماعت ہے وہ بھی وفات مسیح کی قائل تھی.چنانچہ مجمع الجار ( مجمع البجار جلد ۱ صفحہ ۲۸۶) میں لکھا ہے کہ والاکثر ان عیسی علیه السلام لم يمت و قال مالک مات.یعنی موجودہ زمانہ کے اکثر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسی قوت نہیں ہوئے لیکن امام مالک فر ما یا کرتے تھے کہ وہ فوت ہو چکے ہیں.اس حوالہ میں ایک اور بات بھی قابل غور ہے روہ یہ کہ صاحب مجمع البحار یہ نہیں کہتے کہ ساری اُمت کا یہ مذہب ہے کہ حضرت عیسی فوت نہیں ہوئے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ اکثر لوگوں کا یہ مذہب ہے.گویا اُن کے زمانہ تک بھی یہ عقیدہ ایسا عام نہیں ہوا تھا کہ ساری امت کا مذہب کہلا سکتا.پھر امام ابن حزم کی نسبت لکھا ہے کہ و تمسک ابن حزم بطاهر الاية وقال بموته (دیکھو کمالین حاشیہ جلالین مطبع مجتبا ئی صفحہ ۱۰۹) یعنی ”امام ابن حزم نے آیت کے ظاہری معنوں سے استدلال کرتے ہوئے حضرت مسیح کی وفات بیان کی ہے.چنانچہ امام ابن حزم نے اپنی مشہور کتاب ” محلی ، میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں.( محلی جلد اصفحہ ۲۳) اور ابن حزم کوئی معمولی آدمی نہیں تھے بلکہ بہت بڑے پایہ کے امام تھے.اسی طرح فرقہ معتزلہ کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح “ فوت ہو چکے ہیں.مجمع البیان جلد ازیر آیت فلما تو فیتنی) یہ چند نام ہم نے صرف مثال کے طور پر لکھے ہیں ورنہ اور بہت سے بزرگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کی وفات کو مانا ہے اور اکثر علماء سلف ایسے گذرے ہیں.جن سے اس مسئلہ میں کوئی رائے مروی نہیں.پس ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کس 43

Page 54

عقیدہ پر قائم تھے بلکہ ہم ان پر حسن ظن رکھتے ہیں کہ وہ بھی قرآنی تعلیم کے ماتحت وفات مسیح کے قائل ہو نگے.پھر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ سب سے پہلا اجماع جو صحابہ کرام کا ہوا وہ اسی بات پر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے بھی نبی گزرے ہیں وہ سب فوت ہو چکے ہیں اور صحابہ کے زمانہ کے بعد تو امت محمدیہ اس کثرت کے ساتھ دُور دراز ملکوں میں پھیل گئی کہ صحابہ کے بعد کے زمانہ میں کسی مسئلہ کے متعلق اجماع کا دعویٰ کرنا ہی محال ہے اسی لئے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی مسئلہ میں اجماع کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے.(دیکھو مسلم الثبوت وغیرہ کتب اصول) پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ اس باطل عقیدہ پر امت محمدیہ کا کبھی اجماع رہا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اگر کبھی کسی عقیدہ پر امت کا اجماع ہوا ہے تو وہ وفات مسیح ہی کا عقیدہ ہے کما مر.ہاں یہ درست ہے کہ کئی صدیوں سے مسیح ناصری کی حیات کا مسئلہ عام طور پر مسلمانوں کے اندر رائج ہے مگر یہ بات ہمارے خلاف ہرگز کوئی حجت نہیں کیونکہ بسا اوقات غلط عقائد پھیل جایا کرتے ہیں.دیکھو آج مسلمانوں کے بہتر فرقے ہو رہے ہیں.جن میں آپس میں کافی اختلاف ہے اب ظاہر ہے کہ وہ سب کے سب تو سچے ہو نہیں سکتے کیونکہ اگر بچے ہوں تو اہم امور میں اختلاف نہیں ہو سکتا.اختلاف سے ظاہر ہے کہ بعض غلط عقائد مسلمانوں کے اندر آگئے ہیں.یہ غلط عقائد کہاں سے آگئے؟ قرآن شریف اور حدیث نے تو یقینا صحیح عقائد ہی بیان کئے ہیں.پھر ان کے ہوتے ہوئے غلط عقائد کیسے آگئے ؟ جو جواب اس سوال کا ہمارے مخالف دیں گے وہی ہماری طرف سے بھی سمجھ لیں لیکن اب حقیقی جواب بھی سُن لیجئے.حیات مسیح کا عقیدہ اسلام میں کہاں سے آیا ہر شخص جانتا ہے کہ جب اسلام کی ترقی کا زمانہ تھا اس وقت عیسائی لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اور یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ انسان اپنے خیالات کو آہستہ آہستہ چھوڑتا ہے.مثل مشہور ہے کہ رام رام نکلتے نکلتے ہی نکلے گا اور اللہ کا نام داخل ہوتے ہوتے ہی ہوگا.اسی پر قیاس کر 44

Page 55

لو کہ یہ لوگ جو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اسلام میں داخل ہوتے تھے.وہ گو اصولی طور پر اسلام کی صداقت کو مان کر ہی مسلمان بنتے تھے، لیکن چونکہ خیالات میں یک لخت پورا انقلاب نہیں ہو جاتا اس سے تفصیلی امور میں یہ لوگ بعض عیسائی خیالات اپنے ساتھ لاتے تھے جن کا ایک دن میں دل سے نکل جانا ممکن نہ تھا.ان لوگوں کے دلوں سے مسیح ناصری کی بے جا محبت شرک کے مقام سے تو بے شک نیچے گرگئی تھی لیکن ابھی گلی طور پر دل سے نہیں نکلی تھی.اس لئے قرآن شریف اور احادیث میں جہاں کہیں مسیح کا ذکر آیا وہاں ان لوگوں نے طبعاً حاشئے چڑھائے اور بعض مسلمان بھی آہستہ آہستہ ان خیالات سے متاثر ہوتے گئے.یہی وجہ ہے کہ ہمارے بعض گذشتہ مفسرین قرآن شریف کی تفسیر کرتے ہوئے خواہ مخواہ اسرائیلی قصے کہانیاں بیان کرنے لگ جاتے ہیں.عدم رجوع موتی مثلاً قرآن شریف میں حضرت مسیح کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے مردے زندہ کئے.اس کے صاف یہ معنے تھے کہ جو لوگ روحانی طور پر مردہ تھے ان کے اندر مسیح نے زندگی کی رُوح پھونکی اور یہی وہ کام ہے جس کے لئے انبیاء مبعوث ہوتے ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق قرآن شریف میں لکھا ہے :- يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَسُوْلِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِنِكُمْ.(سورہ انفال ) یعنی ” اے مومنو! تم اللہ کی آواز پر لبیک کہا کرو اور رسول کی آواز پر بھی لبیک کہو جبکہ وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے بلائے“.اب دیکھو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کس طرح صریح طور پر زندہ کرنے کا لفظ آیا ہے مگر یہاں مسلمہ طور پر روحانی زندگی مراد لی جاتی ہے، لیکن جب مسیح کے متعلق یہی لفظ آتا ہے تو وہاں حقیقی مردوں کو زندہ کرنا سمجھ لیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ مسیحی خیالات کےلوگوں کے اثر کا نتیجہ ہے حالانکہ قرآن شریف کی صریح تعلیم کی رُو سے حقیقی مردہ کا اسی دنیا میں زندہ ہو جانا ناممکن ہے جیسا کہ فرمایا: - وَمِن وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.(سوره مومنون ۶) یعنی ” جو لوگ مر جاتے ہیں اُن کے اور اس دنیا کے درمیان قیامت تک کے لئے ایک روک حائل 45

Page 56

کر دی جاتی ہے.اسی طرح اگر کسی جگہ حضرت مسیح کے متعلق خلق یعنی پیدا کرنے کا لفظ آ گیا تو اسے ہمارے بعض مفسرین نے حقیقی معنوں پر محمول کر لیا.حالانکہ ایسے الفاظ استعارہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں.یہی حال نزول مسیح کے مسئلہ میں ہوا.عیسائی مذہب میں پہلے سے حضرت عیسی کی آمد ثانی کی خبر موجود تھی جسے عیسائی لوگ خود مسیح کا آنا سمجھتے تھے جب یہ لوگ اسلام میں آئے تو انہوں نے اسلام میں بھی ایک مسیح کی آمد کی خبر پائی جس سے انہوں نے فورا خیال کر لیا کہ ہو نہ ہو یہ وہی خبر ہے جو پہلے سے عیسائیت میں موجود ہے خیر سے آگے لفظ نزول بھی مل گیا بس پھر کیا تھا اس خیال پر پختہ طور پر جم گئے کہ خود اسرائیلی مسیح ہی آخری دنوں میں نازل ہوگا.بعد میں جو مقلد لوگ آئے ان کو اتنی جرات کہاں کہ آبا ؤ اجداد کے خلاف کوئی کلمہ منہ پر لائیں.قرآن کھول کر دیکھو.شروع سے عوام کو یہی آواز رہی ہے کہ بَلْ نَتَّبِعْ مَا الْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا (سوره بقره ع۲۱) یعنی ہم تو اسی راستہ پر چلیں گے جس پر ہمارے باپ دادا چلتے آئے ہیں خواہ وہ غلط اور باطل ہی ہو.موعود مسیح نے اسی اُمت میں سے ہونا تھا یہاں تک ہم نے بفضلِ خدا یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن شریف اور حدیث کی رُو سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ حضرت مسیح ناصری آسمان پر زندہ نہیں اُٹھائے گئے بلکہ فوت ہو چکے ہیں اور یہ کہ حیات مسیح کا مسئلہ بعد میں مسلمانوں کے اندر داخل ہوا ہے ورنہ صحابہ کرام نے تو اپنے سب سے پہلے اجماع میں فیصلہ فرما دیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جتنے نبی گذرے ہیں وہ سب فوت ہو چکے ہیں.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جس مسیح کا وعدہ دیا گیا ہے وہ اسی اُمت میں سے ہوگا.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصُّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيْمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ (سوره نورع) 46

Page 57

یعنی اللہ تعالٰی وعدہ کرتا ہے اُن لوگوں سے جو تم میں سے پختہ ایمان لائے اور صلاحیت والے اعمال بجالائے کہ ضرور ضرور انہیں دنیا میں خلیفہ بنائے گا جس طرح کہ اُس نے ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو اُن سے پہلے گزر چکے اور وہ ان کے اس دین کو جو خدا نے اُن کے لئے پسند کیا ہے دنیا پر قائم کر دیگا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ وہ اُن میں اُسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء بنائے گا جس طرح اس نے بنی اسرائیل میں سے حضرت موسی کے خلفاء بنائے اور ان کے ذریعہ سے دین کو تقویت پہنچائے گا.اب یہ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں بہت سے خلفاء بھیجے جو تورات کی خدمت کرتے تھے.یہ سلسلہ موسوی خلفاء کا حضرت مسیح ناصری کے وجود میں اپنے کمال اور انتہا کو پہنچ گیا.مسلمانوں کو بھی اسی قسم کے خلفاء کا وعدہ دیا گیا تھا اور ٹھیک جس طرح موسوی سلسلہ کا آخری خلیفہ اسرائیلی مسیح ہوا اسی طرح یہ مقدر تھا کہ آخری ایام میں مسلمانوں میں بھی ایک مسیح بھیجا جائے گا جو اسلامی سلسلہ خلفاء کے دائرہ کو پورا کرنے والا اور کمال تک پہنچانے والا ہو گا.گویا اس طرح ان دونوں سلسلوں میں اللہ تعالیٰ نے مشابہت بیان کی ہے جیسا کہ لفظ گیا سے ظاہر ہے.اب اہلِ علم جانتے ہیں کہ مشابہت مغایرت کو بھی چاہتی ہے پس ثابت ہوا کہ محمدی تسلسلہ کا مسیح یعنی آخری خلیفہ موسوی سلسلہ کے مسیح سے جدا وجود رکھے گا اور گو وہ اس کا مثیل ہو گا مگر وہ اس کا عین نہیں ہوگا بلکہ اس سے جدا ہوگا.علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مِنكُم ( تم میں سے ) کا لفظ رکھ کر سارے جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے اور صاف بتا دیا ہے کہ مسلمانوں میں جو خلفاء ہو نگے وہ مسلمانوں میں سے ہی ہونگے اور کوئی شخص باہر سے نہیں آئے گا تو اب پھر یہ کس قدر ظلم ہے کہ اپنی ضد پوری کرنے کے لئے محمدی مسلسلہ کا آخری اور سب سے عظیم الشان خلیفہ بنی اسرائیل میں سے مبعوث کیا جانا خیال کیا جاوے اور اس طرح خدا کے وعدے کو جو اس نے منگم کے لفظ میں کیا ہے ردی کی طرح پھینک دیا جائے.47

Page 58

پھر یہی نہیں بلکہ حدیث بھی صاف طور پر بتا رہی ہے کہ مسیح موعود امت محمدیہ میں سے ہی ہوگا اور اسی اُمت کا ایک فرد ہوگا اور باہر سے نہیں آئے گا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:- كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ (بخاری ومسلم بحوالہ مشکوۃ باب نزول عیسی بن مریم ) یعنی ” کیا ہی اچھا حال ہو گا تمہارا اے مسلمانو! جب تم میں ابن مریم نازل ہوگا اور وہ تمہارا امام ہوگا تمہی میں سے“.یہ حدیث غیر تاویل طلب الفاظ میں بتا رہی ہے کہ مسیح موعود مسلمانوں میں سے ہی ایک فرد ہو گا جیسا کہ منگم کے لفظ سے ظاہر ہے بے شک آنے والے کو ابن مریم کے نام سے یاد کیا گیا ہے مگر منگم کا لفظ پکار پکار کر کہ رہا ہے کہ یہ ابن مریم وہ نہیں جو پہلے ہو گذرا.بلکہ اے مسلمانو! یہ تمہیں میں سے ایک شخص ہوگا.یہ آگے چل کر بتایا جائے گا کہ ابن مریم کے الفاظ استعمال کرنے میں کونسا بھید تھا مگر فی الحال ناظرین اتنا دیکھیں کہ کیا منگم کے لفظ نے مسیح ناصری کی آمد ثانی کے عقیدہ کو جڑ سے کاٹ کر نہیں رکھ دیا؟ ہائے افسوس! حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاف لفظوں میں خبر دے رہے ہیں کہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا مگر مسلمان مسیح ناصری کی محبت میں اس شرک کے مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ خواہ مخواہ اپنی اصلاح کے لئے بنی اسرائیل کے قدموں پر گر رہے ہیں.خدا اس قوم پر رحم کرے کہ یہ خیر الامت ہو کر کہاں آ کر گری.غرض مسیح موعود کے متعلق امامکم منکم کے الفاظ فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارے جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ہے اور شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی مگر آپ کی شفقت کو دیکھو کہ با وجود صاف لفظوں میں فرما دینے کے آنے والا مسیح میری امت میں سے ہی ایک فرد ہو گا.آپ اس مسئلہ پر خاموش نہیں ہوئے بلکہ مزید تشریح فرمائی.چنانچہ فرماتے ہیں:- رأيتُ عيسى و موسى فاما عيسى فَأَحْمَرُ جَعَد عريض الصدر واما موسى فَادمُ جَسِيمٌ سَبْطُ الشَّعْرِ كَأَنَّهُ مِن رَّجالِ القُظ.(بخاری جلد ۲ کتاب بده افلق ) 48

Page 59

یعنی ”میں نے کشف میں عیسی اور موسیٰ علیہما السلام دونوں کو دیکھا.عیسی تو سرخ رنگ کے تھے اور ان کے بال گھنگر الے تھے اور سینہ چوڑا تھا اور موسیٰ گندم گوں رنگ کے تھے اور بھاری جسم والے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی شخص زُط قبیلہ میں سے ہے.اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عیسی بن مریم کا یہ حلیہ بیان کیا ہے کہ وہ سرخ رنگ کے تھے اور ان کے بال گھنگر الے تھے اس بات کا ثبوت کہ یہاں عیسیٰ سے گذشتہ عیسی مراد ہیں.خود اسی حدیث میں موجود ہے اور وہ یہ کہ ان کو ایک گذشتہ نبی یعنی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بیان کیا گیا ہے.ناظرین حضرت مسیح ناصری کے اس حالیہ کو اچھی طرح یا درکھیں.پھر ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:- بينما انا نائم اطوف بالكعبة فاذا رجل ادمُ سَبط الشعر ينطف او يهراق رأسه ماء فقلت من هذا قالوا ابن مریم....الخ.( بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال) یعنی ”میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کعبہ کا طواف کر رہا ہوں اس وقت اچانک ایک شخص میرے سامنے آیا جو گندم گوں رنگ کا تھا اور اس کے بال سیدھے اور لمبے تھے.میں نے پوچھا یہ کون ہے تو مجھے بتایا گیا کہ یہ سیح ابن مریم ہے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے مسیح کا یہ حلیہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ رنگ کا گندم گوں ہوگا اور اس کے بال سیدھے اور لمبے ہونگے.اس بات کا ثبوت کہ اس حدیث میں ابن مریم سے آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا سیخ مراد ہے.یہ ہے کہ اسی حدیث میں آگے چل کر دجال کا بھی ذکر ہے.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اسی موقعہ پر دجال کو بھی دیکھا.لہذا ثابت ہوا کہ یہ سیح “ وہ ہے جو دجال کے مقابلہ میں ظاہر ہوگا اب معاملہ بالکل صاف ہے.حضرت مسیح ناصری جو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے اُن کا حلیہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ سُرخ رنگ کے تھے اور ان کے بال گھنگر الے تھے لیکن آنے والا مسیح جو دجال کے مقابل پر ظاہر ہوگا اس کا حلیہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کا رنگ گندم گوں ہوگا اور بال سید ھے اور لمبے ہونگے.دونوں خلیوں میں فرق ظاہر ہے کسی تشریح کی ضرورت نہیں.کہاں سُرخ 49

Page 60

رنگ اور کہاں گندم گوں.پھر کہاں گھنگر الے بال اور کہاں سید ھے اور لمہے.اس سے زیادہ وضاحت کیا ہوگی.دونوں مسیحوں کی تصویریں ناظرین کے سامنے رکھ دی گئی ہیں اور یہ تصویریں بھی حضرت افضل الرسل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کی کھینچی ہوئی ہیں.ناظرین خود فیصلہ کرلیں کہ کیا ان دونوں تصویروں میں ایک آدمی کی شکل نظر آتی ہے؟ جسے خدا نے آنکھیں دی ہوں وہ تو ہر گز دونوں کو ایک نہیں کہہ سکتا.حضرت مرزا صاحب کیا خوب فرماتے ہیں کہ موعودم و بجلیه ماثور آمدم حیف است گربدیده نه بینند منظرم رنگم چول گندم است و بموفرق بین است زانسان که آمد است در اخبار سرورم ایں متقدمم نہ جائے شکوک است والتباس سید جدا کندز مسیحائے احمرم یعنی میں ہی مسیح موعود ہوں اور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے حلیہ کے مطابق آیا ہوں تو اب افسوس ہے اس آنکھ پر جو مجھے نہیں پہچانتی.میرا رنگ گندم گوں ہے اور بالوں میں بھی مجھے اس شخص سے کھلا کھلا امتیاز حاصل ہے جس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں آتا ہے.سواب میرے معاملہ میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی کیونکہ ہمارے آقا وسردار نے خود مجھے سرخ رنگ والے مسیح سے جدا کر دیا ہے؟“ نزول کی حقیقت مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہو جاتی ہے کہ آنے والا مسیح گذشته مسیح ناصری سے بالکل الگ شخصیت رکھتا ہے.دیکھو قرآن گواہی دے رہا ہے کہ اسلام کے تمام خلفاء مسلمانوں میں سے ہونگے.حدیث بیان کر رہی ہے کہ مسیح موعود اسی امت میں سے ایک فرد ہے اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر دو مسیحوں کے الگ الگ فوٹو ہمارے سامنے رکھ کر کسی مزید تشریح کی ضرورت باقی نہیں چھوڑتے تو اب شبہ کی کیا گنجائش رہی ؟ مگر ایک شبہ ضرور باقی رہتا ہے کہ جب مسیح موعود نے اسی امت میں سے ہونا تھا تو پھر اس کے متعلق نزول اور ابن 50

Page 61

مریم کے الفاظ کیوں استعمال کئے گئے ؟ نزول کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ مسیح موعود آسمان سے نازل ہوگا اور ابن مریم کا لفظ بتاتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری خود نفس نفیس تشریف لائیں گے.سواس کے لئے اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ اول تو کسی مرفوع متصل صحیح حدیث میں نزول کے ساتھ سماء کا لفظ استعمال نہیں ہوا کہ تا آسمان سے اترنے کے معنے لئے جائیں.علاوہ ازیں نزول کے معنوں پر غور نہیں کیا گیا عربی میں نزول کے معنے ظاہر ہونے اور آنے کے بھی ہیں.مثلاً قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : - قَدْ اَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَسُوْلَا يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ أَيَتِ اللَّهِ (سورہ طلاق ع ۲) یعنی اللہ نے تمہاری طرف ایک یاد کرانے والا رسول اتارا ہے جو تم پر اللہ کی آیات پڑھتا ہے.اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.حالانکہ سب جانتے ہیں کہ آپ آسمان سے نہیں اترے تھے.بلکہ اسی زمین میں پیدا ہوئے تھے.پھر قرآن شریف فرماتا ہے : - وَانْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيْهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ للناس ( سورہ الحدید ع (۳).یعنی ”ہم نے لوہا اتارا ہے جس میں لڑائی کا بڑا سامان ہے اور اس میں لوگوں کے لئے اور بھی بہت سے فوائد ہیں.لیجئے لوہا بھی آسمان سے اتر رہا ہے! ان آیات سے ظاہر ہے کہ لفظ نزول کے معنے ہمیشہ لفظی طور پر اوپر سے اترنے کے نہیں ہوتے بلکہ اکثر دفعہ نزول کا لفظ اس چیز کے متعلق استعمال کیا جاتا ہے جو خدا کی طرف سے بنی نوع انسان کو بطور ایک نعمت اور رحمت کے دی جاتی ہے.پس لفظ نزول سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مسیح آسمان سے نازل ہوگا ایک سخت غلطی ہے.پھر کیا ناظرین نے یہ نہیں سنا کہ عربی میں مسافر کو نزیل کہتے ہیں اور جس جگہ قیام کیا جاوے وہ منزل کہلاتی ہے علاوہ ازیں بعض احادیث میں مسیح کے متعلق بعث اور خروج کے الفاظ بھی آئے ہیں.پس اس صورت میں جو مفہوم بعث اور خروج اور نزول کے درمیان مشترک ہے وہی مقصود سمجھا جائے گا.ابن مریم کے نام میں حکمت اب رہا ابن مریم کے نام کا سوال، سو اس کے متعلق اچھی طرح سمجھ لو کہ آئندہ مبعوث 51

Page 62

ہونے والے ماموروں کے نام جو کسی نبی کے ذریعہ بتائے جاتے ہیں.وہ عام طور پر کسی باطنی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والے ہوتے ہیں.اس لئے انہیں ہمیشہ ظاہر پر محمول کرنا درست نہیں ہوتا بلکہ عام طور پر ان کے استعمال میں غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ آنے والے موعود اور اس کے نام کے درمیان کسی گہرے اور بار یک تعلق کو ظاہر کریں.مثلاً بنی اسرائیل کو یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ مسیح کے ظہور سے پہلے حضرت الیاس کا ظہور ہو گا جو حضرت مسیح ناصری سے قریباً ساڑھے آٹھ سو سال پہلے گزر چکے تھے.جن کی نسبت یہودیوں میں یہ عقیدہ تھا کہ وہ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ہیں.(۲- سلاطین باب ۲ آیت ۱۱) اس پر یہود نے الیاس کے نزول سے یہ سمجھا کہ وہ الیاس نبی جو گذر چکا وہی بذات خود دوبارہ نازل ہوگا اور اس کے بعد مسیح آئے گا.اس لئے جب حضرت عیسی نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تو یہود نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ ہماری کتابوں میں تو لکھا ہے کہ مسیح سے پہلے الیاس نازل ہوگا، لیکن چونکہ ابھی تک الیاس نہیں آیا اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دعویٰ درست نہیں ہو سکتا.اس کا جواب حضرت عیسی علیہ السلام نے دیا کہ الیاس کے آنے کی جو خبر دی گئی تھی اُس سے خود الیاس کا آنا مراد نہ تھا.بلکہ وہ ایک ایسے نبی کی خبر تھی کہ جو الیاس کی خُو بُو پر اس کا مثیل بن کر آنا تھا اور وہ آپکا اور وہی بیٹی ہے جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.( متی باب ۱۱.آیت (۱۴) لیکن ظاہر پرست یہود اسی بات پر جمے رہے کہ خود الیاس کو نازل ہونا چاہئے اور اس طرح وہ نجات سے محروم ہو گئے.( متی باب ۱۷) اس مثال سے یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ پیشنگوئیوں میں جو نام آنے والے مصلحوں کے بتائے جاتے ہیں وہ ہمیشہ ظاہر میں پائے جانے ضروری نہیں ہوتے بلکہ وہ بالعموم کسی باطنی مشابہت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں.مثلاً کجا الیاس نبی کا آسمان سے نازل ہونا اور کجا بیچی نبی کا زمین سے پیدا ہونا! مگر حضرت مسیح بیٹی کو ہی الیاس قرار دے رہے ہیں کیونکہ وہ الیاس کی خُوبو پر آیا تھا.یہ مثال اس بات کو بھی واضح کر رہی ہے کہ خدا کے کلام میں جب کسی گذشتہ نبی کے آسمان سے نازل ہونے کی پیشگوئی ہو تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتا کہ وہی گذشتہ نبی آسمان کے پردوں کو پھاڑتا ہوا زمین پر اُترے گا بلکہ اس سے اس کے کسی مثیل کا آنا 52

Page 63

مراد ہوتا ہے.پس معلوم ہوا کہ مسیح کے متعلق جو یہ کہا گیا ہے کہ وہ نازل ہوگا تو اس سے خود مسیح کا آسمان سے نازل ہونا مراد نہیں بلکہ کسی مثیل مسیح کا مبعوث ہونا مراد ہے.جیسا کہ الیاس نبی کے آسمان سے نازل ہونے سے ایک مثیل الیاس یعنی بیٹی کا پیدا ہونا مراد تھا.غرض عیسی ابن مریم کے ظاہری نام پر اڑنا اور صرف اس نام کی وجہ سے آنے والے مسیح کا انکار کر دینا سخت ہلاکت کی راہ ہے جس سے پر ہیز لازم ہے کیونکہ نام ہمیشہ ظاہر میں پائے جانے ضروری نہیں ہوتے بلکہ ان کے اندر معنوی حقیقت مخفی ہوا کرتی ہے.ایک اور مثال جو معاملہ زیر بحث کو اور بھی واضح کر دیتی ہے یہ ہے کہ قرآن شریف کی سورہ صف میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے ایک ایسے رسول کی خبر دی تھی جو ان کے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا.( سورہ صف ع۱) اب ہمارے مخالف مسلمان سب مانتے ہیں کہ یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پوری ہو چکی ہے لیکن ہر ایک جانتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل نام محمد تھانہ کہ احمد.یہ درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے دعوے کے بعد یہ فرمایا کہ میں احمد بھی ہوں، لیکن دعویٰ کے بعد اس نام کو اپنی طرف منسوب کرنا مخالف پر کسی طرح حجت نہیں ہو سکتا.مخالف پر تو جنت تب ہو جب یہ ثابت کیا جاوے کہ واقعی آپ کے بزرگوں کی طرف سے یہ نام آپ کا رکھا گیا تھا یا یہ کہ دعوے سے پہلے آپ اس نام سے پکارے جاتے تھے، لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ آپ دعویٰ سے پہلے کبھی اس نام سے پکارے گئے ہوں یا کسی بزرگ نے بچپن میں آپ کا یہ نام رکھا ہو.اس لئے اس شبہ کا سوائے اس کے اور کیا جواب ہوسکتا ہے کہ یہ کہا جاوے کہ آپ کے اندر صفت احمدیت پائی جاتی تھی اور یہ کہ آسمان پر آپ کا نام احمد " بھی تھا جیسا کہ آسمان پر بیٹی کا نام الیاس بھی تھا؟ ان دو مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ پیشگوئیوں میں جو نام بتائے جاتے ہیں وہ لازماً ظاہر میں پائے جانے ضروری نہیں ہوتے بلکہ عموماً وہ صفاتی نام ہوتے ہیں اور کسی باطنی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں.اس میں بھید یہ ہے کہ خدا کو حقیقت اشیاء سے تعلق ہے ان کے ظاہری ناموں سے تعلق نہیں.لوگ بیشک عرف کی خاطر ظاہری ناموں کا لحاظ رکھتے ہیں مگر خدا کی نظر میں اصل نام صفاتی 53

Page 64

نام ہی ہوتا ہے نہ کہ ظاہری نام.اب سوال ہوتا ہے کہ پھر وہ کونسی حکمت ہے جس کی وجہ سے خدا نے آنے والے مسیح" کو ابن مریم کے نام سے موسوم کیا ؟ اس کے جواب میں کئی باتیں پیش کی جاسکتی ہیں مگر اس مختصر سے رسالے میں سب کا لکھنا موجب طوالت ہوگا.اس لئے چند موٹی موٹی حکمتوں کے بیان کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں.اول یہ کہ آنے والا مسیح" حضرت عیسی کی خُو بو پر آنا تھا جس طرح حضرت الیاس کی خُو بو پر حضرت بیٹی آئے.پس جس طرح حضرت بیٹی کے آنے سے حضرت الیاس کی آمد کا وعدہ پورا ہوا.اسی طرح کسی مثیل مسیح کی آمد سے حضرت مسیح کی آمد کا وعدہ پورا ہونا تھا.لہذا اس مشابہت کی وجہ سے موعود مسیح کا نام ابن مریم رکھا گیا.دوسری حکمت یہ ہے کہ جس طرح مسیح ناصری موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء تھے اسی طرح محمدی مسیح نے محمدی سلسلہ کا خاتم الخلفاء ہونا تھا.تیسری اور بڑی حکمت یہ ہے کہ قرآن شریف اور احادیث سے ظاہر ہے کہ آخری زمانہ کے لئے یہ مقدر تھا کہ اس میں عیسائیت زور پکڑلے گی اور صلیبی مذہب بڑے غلبہ کی حالت میں ہوگا.اسی لئے مسیح موعود کا بڑا کام یہ رکھا گیا کہ یکسر الصلیب یعنی مسیح موعود صلیبی مذہب کا زور توڑ دے گا.اس میں حکمت یہ ہے کہ جب کسی نبی کی امت میں فساد برپا ہوتا ہے تو پھرا خلاقی طور پر اسی نبی کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس فساد کو دور کرے جیسا کہ اگر کسی حکومت میں فساد برپا ہو جاوے تو باہر کی حکومتوں کا فرض نہیں ہوتا کہ وہ اس فساد کو دور کریں بلکہ خود اس حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اسے دُور کرے.پس چونکہ آخری زمانہ کے موعود کا ایک بڑا کام یہ تھا کہ وہ صلیبی مذہب کے فساد کو دُور کرے گا اس لئے حضرت عیسیٰ کی مماثلت میں آنے والے کا نام عیسی بن مریم اور مسیح رکھا گیا.بلکہ آخری زمانہ کے لئے تو یہ بھی مقد رتھا کہ وہ فساد عظیم کا زمانہ ہوگا اور تمام امتوں میں فساد بر پا ہو جائے گا.ایسے وقت کے لئے ضرورت تھی کہ تمام امتوں کے بانیوں کے بروز ظاہر ہوتے جن کا آنا خود ان بانیوں کا آنا سمجھا جاتا اور جو اپنی اپنی امتوں کی اصلاح کرتے لیکن چونکہ بہت 54

Page 65

سے مصلحوں کا ایک ہی وقت میں دنیا میں مبعوث ہونا فساد کو دور کرنے کی بجائے فساد کی آگ کو اور بھی بھڑکا دیتا.پھر علاوہ اس کے چونکہ اب اسلام کی آمد نے تمام روحانی پانی اپنے اندر کھینچ لیا ہے اور اب کوئی روحانی مصلح اسلام کے سوا کسی امت میں ظاہر نہیں ہوسکتا اس لئے یہ مقدر ہوا کہ تمام نبیوں کے بروزوں کو ایک ہی وجود میں اسلام کے اندر مبعوث کیا جاوے اس آنے والے مصلح کا کام یہ رکھا گیا کہ وہ تمام امتوں کی اصلاح کرے گویا اس موعود مصلح کا کام دو بڑے حصوں میں تقسیم ہو گیا.ایک اُمت محمدیہ کی اصلاح اور دوسرے باقی تمام امتوں کی اصلاح لیکن چونکہ باقی امتوں کی اصلاح کے کام میں سب سے بڑا کام حضرت مسیح ناصری کی امت کی اصلاح اور اس کے عقائد باطلہ کا رڈ تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ یکسر الصلیب سے ظاہر ہے جو آپ نے اس موعود مصلح کے متعلق فرمائے.اس لئے اس پہلو کے لحاظ سے آنیوالے کو خصوصیت کے ساتھ عیسی بن مریم کا خطاب دیا گیا.چنانچہ حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں.چوں مرا نورے پئے قوم مسیحی داده اند مصلحت را ابن مریم نام من بنهاده اند یعنی " چونکہ مجھے مسیحی قوم کی اصلاح کے لئے خاص نور عطا کیا گیا ہے اس لئے اس مصلحت سے میرا نام بھی ابن مریم رکھا گیا ہے“.اس کے مقابل پر دوسری امتوں کی اصلاح کے لحاظ سے صرف وَإِذَا الرُّسُلُ اقتت.(سوره مرسلات (۱) کے الفاظ استعمال کئے گئے یعنی ”آخری زمانہ میں رسول بروزی رنگ میں ایک ہی وجود کے اندر ) جمع کئے جائیں گئے.مگر دوسری طرف امت محمدیہ کی اصلاح کا کام بھی ایک نہایت اہم کام تھا اس لئے اس پہلو کے لحاظ سے آنے والے کا نام محمد اور احمد بھی رکھا گیا.کیونکہ اُمت محمدیہ کی اصلاح کے کام میں اس موعود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظل اور بروز ہونا تھا.(وفات مسیح وغیرہ کے مسئلہ پر کسی قدر مفصل بحث دیکھنی ہو تو خاکسار کی تصنیف ”الحجة البالغة“ ملاحظہ کریں) 55

Page 66

مسیح موعود اور مہدی ایک ہی ہیں حضرت مسیح ناصری کی وفات اور اس سے تعلق رکھنے والے سوالات کی مختصر بحث کے بعد اب ہم دوسرے سوال کو لیتے ہیں.یعنی کیا مسیح موعود اور مہدی ایک ہی ہیں یا کہ علیحدہ علیحدہ ہیں؟ سو جاننا چاہئے کہ گو آج کل مسلمانوں میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مسیح اور مہدی دو الگ الگ وجود ہیں، لیکن اگر غور سے کام لیا جاوے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ بات غلط ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے خلاف ہے مگر اس بحث میں پڑنے سے پہلے مختصر طور پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ مہدی کے متعلق مسلمانوں کی طرف سے کیا کیا خیالات ظاہر کئے گئے ہیں.سو واضح ہو کہ مہدی کے متعلق روایات میں اس قدر اختلاف اور تضاد ہے کہ پڑھنے والے کی عقل چکر میں آجاتی ہے اور پھر اختلاف بھی صرف ایک بات میں نہیں بلکہ قریباً ہر ایک بات میں اختلاف ہے.مثلاً مہدی کی نسل کے معاملہ میں اس قدر اختلاف ہے کہ خدا کی پناہ.ایک گروہ کہتا ہے کہ مہدی حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے ہوگا.مگر اس گروہ کی بھی آگے تین شاخیں ہو جاتی ہیں.بعض کہتے ہیں کہ وہ امام حسن کی اولاد سے پیدا ہوگا اور بعض کہتے ہیں کہ امام حسین کی اولاد سے ہوگا اور تیسری شاخ کا دعوی ہے کہ مہدی امام حسن اور حسین دونوں کی اولاد سے ہوگا.یعنی اگر ماں حسنی ہوگی تو باپ حسینی ہوگا یا اگر باپ حسنی ہوگا تو ماں حسینی ہوگی.پھر ایک اور گروہ ہے جو کہتا ہے کہ مہدی حضرت فاطمہ کی اولاد سے نہیں ہوگا بلکہ حضرت عباس کی اولاد سے ہوگا اور بعض کہتے ہیں کہ مہدی حضرت عمرؓ کی اولاد میں سے ہوگا.پھر بعض احادیث ہمیں بتاتی ہیں کہ مہدی کے لئے کسی خاص قوم کی شرط نہیں بلکہ اس کے لئے صرف یہ شرط ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے ہوگا.اس کے علاوہ مہدی اور اس کے باپ کے نام کے متعلق بھی اختلاف ہے.بعض احادیث اس کا نام محمد بتاتی ہیں اور بعض احمد اور بعض عیسی.باپ کا نام سنیوں کے نزدیک عبداللہ ہوگا مگر شیعہ کہتے ہیں کہ حسن ہو گا.اسی طرح مہدی کے ظاہر ہونے کی جگہ کے متعلق بھی اختلاف ہے پھر اسی طرح اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ مہدی کتنے سال دنیا میں 56

Page 67

کام کرے گا.غرض مہدی کے متعلق قریباً ہر ایک بات میں اختلاف ہے اور پھر لطف یہ کہ مختلف گروہ اپنے دعوے کی تائید میں احادیث ہی پیش کرتے ہیں ( دیکھو مج الکرامہ مصنفہ نواب صدیق حسن خان ).پس ایسی حالت میں مہدی کے متعلق جو احادیث وارد ہوئی ہیں.ان تمام کو صحیح نہیں مانا جا سکتا.یہی وجہ ہے کہ امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی تصحیحین میں مہدی کے متعلق کوئی باب نہیں باندھا.کیونکہ انہوں نے ان احادیث میں سے کسی کو بھی قابل اعتبار نہیں سمجھا.اسی طرح بعض بعد میں آنے والے علماء نے بھی مہدی کے متعلق جملہ احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ مہدی کے متعلق جتنی روایات ہیں اُن میں سے کوئی روایت بھی جرح قدح سے خالی نہیں.(دیکھو نجم الکرامہ ) آب طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اختلاف کی وجہ کیا ہے؟ سو جہاں تک ہم نے سوچا ہے اس کی کچھ وجہ تو یہ ہے کہ گو ایک مہدی خاص طور پر موعود ہے مگر دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی رنگ میں کئی مہدیوں کی خبر دی تھی جنہوں نے مختلف وقتوں میں مختلف حالات کے ماتحت ظاہر ہونا تھا اس لئے ان روایات میں اختلاف کا ہونا ضروری تھا صرف غلطی یہ ہوئی کہ عوام الناس ان روایات کو ایک ہی شخص کے متعلق سمجھنے لگ گئے.حالانکہ وہ مختلف لوگوں کے متعلق تھیں.علاوہ ازیں یہ بھی بالکل سچ ہے اور ہمارا مشاہدہ اس پر گواہ ہے کہ ہر ایک قوم اور فرقہ کو یہ خیال ہوتا ہے کہ تمام خیر اپنی ہی طرف منسوب کر لے.پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی بیان فرمائی کہ میری امت میں سے ایک مہدی پیدا ہوگا تو بعد میں سب قبیلوں اور فرقوں کو یہ خواہش پیدا ہوئی کہ موعود مہدی ہم میں سے ہی پیدا ہو اور چونکہ سب لوگ متقی اور خدا ترس نہیں ہوا کرتے بعض نے ایسی حدیثیں گھڑ لیں جن سے یہ ظاہر ہو کہ مہدی انہی کی قوم سے ہوگا.یہی وجہ ہے کہ مہدی کے متعلق احادیث میں اس قدر گڑ بڑ واقع ہوئی ہے، لیکن وہ احادیث جو مہدی کو کسی خاص قوم سے نہیں بتاتیں بلکہ صرف یہ بتاتی ہیں کہ وہ امت محمدیہ میں سے ایک فرد ہے وہ ضرور اس قابل ہیں کہ انہیں قبول کیا جاوے کیونکہ انہیں وضعی قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں.کیونکہ مہدی کے متعلق کسی کو کیا ضرورت تھی کہ وہ یہ حدیث بتاتا کہ مہدی امت محمدیہ سے ایک فرد ہو گا.ہاں بے 57

Page 68

شک جو احادیث مہدی کو کسی خاص قوم کے ساتھ مخصوص کرتی ہیں اُن کے متعلق یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ وہ بعد میں وضع کر لی گئی ہیں.پس اس اختلاف کے پیش نظر ہمارا یہ فرض ہونا چاہئے کہ ہم مہدی کو کسی خاص قوم سے نہ قرار دیں بلکہ مجملا صرف اس بات پر ایمان رکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے مہدی کی پیشگوئی فرمائی ہے جو آپ کی امت میں سے آخری زمانہ میں ہوگا.اسی میں ہماری خیر ہے اور یہی احتیاط کا رستہ ہے کیونکہ اگر ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ مہدی حضرت فاطمہ کی اولاد سے ظاہر ہوگا اور آخر کار وہ بنی عباس سے ظاہر ہو جائے تو ہمارا یہ اعتقاد ہمارے راستہ میں بڑی روک ہو جائے گا اور ہم مہدی پر ایمان لانے سے محروم ہو جائیں گے.اسی طرح اگر ہم یہ ایمان رکھیں کہ مہدی بنی عباس سے ہوگا لیکن وہ حضرت فاطمہ کی اولاد سے پیدا ہو جائے یا حضرت عمر کی نسل سے ظاہر ہو جاوے تو ہم اس پر ایمان لانے سے محروم ہو جائیں گے.پس اور نہیں تو کم از کم اپنا ایمان بچانے کے لئے ہی ہمیں چاہئے کہ مہدی کو کسی خاص قوم میں سے نہ ٹھہرائیں بلکہ صرف یہ ایمان رکھیں کہ مہدی امت محمدیہ میں سے ظاہر ہوگا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام اور متبعین میں سے ہوگا اور بس.ایسا ایمان رکھتے ہوئے ہم بالکل امن میں ہونگے اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی مہدی کو کسی خاص قوم ہی سے قرار دیا ہے تو پھر بھی کوئی حرج لازم نہیں آئے گا.کیونکہ جزو بہر حال گل کے اندر شامل ہوتا ہے.ایک اور بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ گومہدی کے نام اور اس کے باپ کے نام کے متعلق اختلاف ہے لیکن پھر بھی زیادہ غالب مذہب یہی رہا ہے کہ مہدی کا نام محمد ہوگا اور مہدی کے باپ کا نام عبداللہ ہوگا اور دراصل اس کی تائید میں جو روایات ہیں وہ بھی گوجرح قدح سے پاک نہیں لیکن دوسری روایات سے پھر بھی اصول روایت کے لحاظ سے زیادہ وزن دار ہیں.پس اگر ہم اس قول کو ترجیح دیں تو بعید از انصاف نہیں، لیکن اس صورت میں بھی حضرت مرزا صاحب کے دعوئی پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا.کیونکہ سورہ جمعہ کی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری زمانہ میں ایک اور قوم کی بھی روحانی تربیت 58

Page 69

فرمائیں گے.جس کا یہ مطلب ہے کہ آخری زمانہ میں آپ کا ایک بروز مبعوث ہوگا جو آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر ایک جماعت کی تربیت کریگا.پس ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی موعود کا نام محمد اور اس کے باپ کا نام عبد اللہ اس لئے بیان فرمایا کہ تا اس مفہوم کی طرف اشارہ ہو کہ مہدی کوئی مستقل وجود نہیں رکھتا بلکہ وہ آپ کا وہی بروز ہے جس کی سورۃ جمعہ میں پیشگوئی فرمائی گئی ہے.گویا مہدی کے نام کے متعلق محمد بن عبد اللہ کے الفاظ استعمال کرنے سے یہ بتانا مقصود نہ تھا کہ اس کا نام و پتہ بتایا جاوے بلکہ یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ مہدی کی بعثت گویا میری ہی بعثت ہے اور مہدی کا وجود گویا میرا ہی وجود ہے اور آپ کے الفاظ بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کیونکہ حدیث میں یہ نہیں آیا کہ مہدی کا نام محمد بن عبد اللہ ہوگا بلکہ آپ کے الفاظ یہ ہیں.يواطئی اسمه اسمی و اسم ابیه اسم ابی (مشکوۃ باب اشراط الساعتہ ( یعنی ”مہدی کا نام میرا نام ہوگا اور مہدی کے باپ کا نام میرے باپ کا نام ہوگا.پس یہ طرز کلام ہی آپ کے منشاء کو ظاہر کر رہا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ مہدی کے نسب کے متعلق زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ وہ اہلِ بیت میں سے ہوگا اور باقی اقوال اس کے مقابل پر کم درجہ کے ہیں.مگر اسے بھی درست ماننے میں کوئی حرج لازم نہیں آتا.کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب آخَرِينَ مِنْهم والی آیت اتری تو صحابہؓ کے سوال کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ لو کان الايمان عند الثريا لناله رجل من هؤلاء ( بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ جمعہ ).یعنی اگر ایمان دنیا سے اٹھ کر ثریا ستارے پر بھی چلا گیا تو پھر بھی ان فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک شخص اسے وہاں سے اُتار لائے گا.گویا کہ آپ نے مہدی کو سلمان کی قوم سے قرار دیا جو فارسی الاصل تھے.اب دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ غزوہ احزاب کے موقعہ پر آپ نے اسی سلمان کے متعلق فرمایا کہ سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ (طبرانی کبیر ومستدرک حاکم).یعنی "سلمان" ہم اہل بیت میں سے ہے.پس مہدی کے متعلق اہل بیت کا لفظ بھی حضرت مرزا صاحب کے دعوی کے مخالف نہیں بلکہ موید ہے اور یہ ایک لطیف نکتہ ہے جو بھولنا نہیں چاہئے گویا مهدی موعود فارسی الاصل بھی رہا جیسا کہ 59

Page 70

حدیث صحیح سے ثابت ہے اور اہل بیت سے بھی ہو گیا.جیسا کہ عام روایات بتاتی ہیں.اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح و مہدی کے متعلق فرمایا ہے کہ يُدْفَنُ مَعِيَ فِى قَبْرِى ( مشکوۃ کتاب الفتن باب نزول عیسی بن مریم ).یعنی ”وہ میرے ساتھ میری قبر میں دفن ہوگا“.اس سے بھی اسی اتحاد روحانی کی طرف اشارہ مقصود تھا.ورنہ نعوذ باللہ یہ گمان کرنا کہ کسی دن آپ کی قبر اکھاڑی جائیگی اور اُس میں مسیح و مہدی کو دفن کیا جائے گا ایک بے وقوفی اور بے غیرتی کا خیال ہے جسے کوئی سچا اور باغیرت مسلمان ایک سیکنڈ کے لئے بھی قبول نہیں کر سکتا.پس حق یہی ہے کہ ان تمام اقوال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف وو اشارہ فرمایا ہے کہ مہدی آپ کا بروز ہوگا اور اس کی بعثت گویا آپ ہی کی بعثت ہوگی.اس تمہیدی نوٹ کے بعد ہم بفضل خدا یہ ثابت کرتے ہیں کہ مہدی اور مسیح الگ الگ وجود نہیں رکھتے بلکہ ایک ہی شخص کے دو نام ہیں جو دو مختلف حیثیتوں کی وجہ سے اُسے دیئے گئے ہیں.پہلی بات جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہیں وہ لفظ مہدی کا مفہوم ہے اور نیز یہ کہ آنحضرت صلی اللہ وآلہ وسلم نے مہدی کے لفظ کو اسم معرفہ کے طور پر نہیں استعمال کیا بلکہ ایک صفتی نام کے طور پر استعمال فرمایا ہے.مہدی کے معنے ہیں.ہدایت یافتہ اور بعض احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کو بعض ان لوگوں کے متعلق بھی استعمال فرمایا ہے جو مہدی موعود نہیں ہیں.مثلاً اپنے خلفاء کی نسبت آپ نے فرمایا کہ الخلفاء الراشدين المهديين.(ابوداؤ دو ترمذی) یعنی ” میرے خلفاء مہدی ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام خلفاء ہی مہدی ہیں.لہذا مسیح موعود چونکہ مسلمہ طور پر خلفاء رسول میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے اس لئے وہ سب سے بڑا مہدی ہوا.اور وہی جوسب سے بڑا مہدی ہے وہی مہدی موعود ہے کیونکہ جب بموجب قول نبوی آپ کے سب خلفاء مہدی ہیں تو لازماً مہدی موعود وہی ہوگا.جو ان میں سے خاص طور پر موعود ہے.پس ثابت ہوا کہ گواور لوگ بھی مہدی ہوں مگر ان میں سے جو خاص طور پر موعود ہے وہی مسیح ہے.پھر حدیث میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما یا کرتے تھے کہ :- 60

Page 71

گیف تھلک أمة انا اولها و عیسی ابن مریم آخرھا.(کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۲۰۳) یعنی کس طرح ہلاک ہوگی وہ امت جس کے شروع میں میں ہوں اور آخر میں عیسی بن مریم ہے.پھر فرمایا خیر هذه الامة اولها و أخرها اولها فيهم رسول الله وأخرها فيهم عیسی بن مریم و بین ذلک فیج اعوج ليسوا منی و لست منهم ( کنز العمال جلدے صفحہ (۲۰۲) یعنی اس امت میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اس کے اول اور آخر میں ہیں.اول والوں میں خود رسول خدا ہے اور آخر والوں میں عیسی بن مریم ہے اور دونوں کے درمیان کج رولوگ ہیں جو مجھے سے نہیں اور نہ میں اُن سے ہوں“.اب اگر وہ مہدی جس کی آمد کا آخری ایام میں وعدہ دیا گیا ہے.مسیح سے الگ شخصیت رکھتا ہے تو چاہئے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسیح اور مہدی دونوں کے متعلق ذکر فرماتے کہ وہ دونوں آخری ایام میں ظاہر ہو کر میری امت کی نگرانی کرینگے مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ صرف مسیح کا نام لیا گیا جس سے ظاہر ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی ہیں اسی لئے صرف مسیح کا لفظ بول دینے پر اکتفاء کی گئی.غور کرنا چاہئے کہ اگر جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے مہدی نے امام ہونا تھا اور مسیح نے مقتدی تو کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کہ امت کی حفاظت کا ذکر فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی ا ذکر تو کر دیا مگر امام کو بالکل ہی چھوڑ دیا.پھر دیکھو دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو گروہوں کو ہدایت یافتہ اور اچھے لوگ قرار دیتے ہیں.ایک وہ جنہوں نے خود آپ سے تعلیم حاصل کی اور دوسرے مسیح موعود کے متبعین لیکن مہدی کے متبعین کی طرف اشارہ تک نہیں کرتے بلکہ صاف بتاتے ہیں کہ ان ہر دو قوموں کے درمیان فیج اعوج ہے یعنی گمراہ لوگ ہیں.پس لے انہی دو گروہوں کی طرف قرآن شریف سورۃ جمعہ میں اشارہ کرتا ہے جہاں خدا فرماتا ہے هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُوْلاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلْلٍ مُّبِينٍ وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ.یعنی ” خدا ہی ہے جس نے عربوں میں ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا جو خدا کی آیات اُن پر پڑھتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگر چہ وہ اس سے پہلے کھلی کھلی ضلالت میں پڑے تھے اور ایک اور بعد میں آنے والی قوم بھی ہے جس کی یہ رسول (اپنے ایک بروز کے ذریعہ ) روحانی تربیت کرے گا.منہ 61

Page 72

ثابت ہوا کہ مہدی مسیح سے الگ شخصیت نہیں رکھتا بلکہ وہی ہے جسے صرف دو حیثیتوں کی وجہ سے دو نام دیدیئے گئے ہیں.پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ احادیث میں جو کام مسیح موعود کا بتایا گیا ہے قریباً وہی کام مہدی کا بتایا گیا ہے یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی ہیں.علاوہ ازیں مسیح اور مہدی کے حلیے بھی احادیث میں ایک بتائے گئے ہیں ( مسند احمد بن حنبل ).پس وہ دو کس طرح ہو سکتے ہیں؟ پھر حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ اگر ایک خلیفہ برحق موجود ہو اور اس وقت کوئی دوسرا شخص خلافت کا دعویٰ کرے تو اُسے قتل کر دو.یعنی جنگ کی صورت ہو تو مقابلہ کر کے اُسے مار دو ورنہ اُسے مردوں کی طرح سمجھ کر اس سے بالکل قطع تعلق کر لو.اب با وجود اس تعلیم کے دو خلیفوں کا وجود ایک وقت میں کس طرح مان لیا جاوے؟ اسلامی تعلیم کی رو سے ایک وقت میں ایک ہی امام ہوتا ہے اور باقی اس کے تابع ہوتے ہیں.پس یہ بھی دلیل ہے.اس بات کی کہ مسیح اور مہدی دو الگ الگ وجود نہیں ہونگے.بلکہ یہ دو نام ایک ہی شخص کے ہیں جو آخری ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ ہوگا.یہاں تک تو ہم نے استدلالات سے کام لیا ہے، لیکن اب ہم ایک ایسی حدیث پیش کرتے ہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صاف طور پر فر ما دیا ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی شخص ہیں.آپ فرماتے ہیں.لامھدی الاعیسی (ابن ماجہ باب شده الزمان ) یعنی حضرت عیسی کے سوا اور کوئی مہدی موعود نہیں ہے.دیکھو کیسے صاف اور روشن الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جھگڑے کا فیصلہ فرما دیا ہے کہ مسیح اور مہدی الگ الگ نہیں ہیں بلکہ مسیح موعود کے سوا اور کوئی مہدی موعود ہے ہی نہیں.جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتا ہے وہ تو ان الفاظ کے سامنے سر جھکا دے گا، لیکن جس کے دل میں کچھی ہے وہ ہزاروں حجتیں نکالے گا.مگر ہمیں اس سے کام نہیں.ہمارے مخاطب صرف وہ لوگ ہیں جو روحانی مکتب میں یہ سبق سیکھ چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنا سر رکھ دینا عین سعادت ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک اور حدیث بھی ہے جو صاف الفاظ میں مسیح 62

Page 73

موعود ہی کو امام مہدی بتاتی ہے آپ فرماتے ہیں.يُوْشِكُ مَنْ عَاشَ فِيْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ اِمَامًا مَهْدِيًّا وَحَكَمًا عَدْلاً فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ.....الخ.( مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۱۱) یعنی جو تم میں سے اُس وقت زندہ ہوا وہ عیسی بن مریم کو پائے گا جو امام مہدی ہونگے اور حکم عدل ہونگے اور صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے.دیکھو اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ حضرت عیسی ہی امام مہدی ہونگے مگر تعجب ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر ایمان لانے کی وجہ سے آج ہمیں کا فر اور مرتد کہا جاتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کورڈی کی طرح پھینک دیا جاتا ہے.افسوس ! صد افسوس !! مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی ہیں مگر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں فرما دیا کہ مہدی معہود مسیح موعود سے الگ وجود نہیں ہے تو پھر مسلمان یہ کس طرح ماننے لگ گئے کہ مسیح اور مہدی الگ الگ ہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح ناصری آسمان پر زندہ اُٹھالئے گئے تھے اور آخری ایام میں پھر زمین پر نازل ہو نگے.اس کے مقابل میں مہدی کے متعلق یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ وہ امت محمدیہ میں سے ہی پیدا ہوگا.لہذا جب تک مسلمان اس غلط عقیدہ پر قائم ہیں کہ مسیح ناصری ہی آسمان سے نازل ہو نگے اس وقت تک یہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ مسیح اور مہدی کو ایک وجود ما نہیں.ہاں اگر وہ مسیح کے متعلق صحیح عقیدہ پر قائم ہو جائیں اور گذشتہ مسیح ناصری کو وفات شدہ مان لیں تب اُن کے لئے مسیح موعود اور مہدی کو ایک مان لینا نہایت آسان ہو جائے گا، لیکن زمین سے پیدا ہونے والے اور آسمان سے اترنے والے کو وہ ایک نہیں مان سکتے.یہ بات کہ ایک شخص کو دو مختلف نام دینے میں کیا حکمت تھی.یہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں اعادہ کی ضرورت نہیں مختصر یہ ہے کہ آنے والے نے مختلف مقاصد کے ماتحت آنا تھا جن میں کسر 63

Page 74

صلیب اور اصلاح امت محمدیہ دو بڑے مقاصد مد نظر تھے.پس کاسر صلیب ہونے کے لحاظ سے وہ عیسی مسیح کہلایا اور امت محمدیہ کا مصلح ہونے کی حیثیت میں اس نے محمد مہدی کا نام پایا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیثوں میں جو یہ آیا ہے کہ مسیح کے نزول سے پہلے مہدی دنیا میں موجود ہوگا اور یہ کہ مہدی امامت کرائے گا اور مسیح اس کی اقتداء کرے گا وغیرہ وغیرہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہدی مسیح سے الگ وجود رکھتا ہے مگر یہ استدلال بھی درست نہیں.کیونکہ جب دلائل قویہ سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ مسیح کے زمانہ میں کوئی اور مہدی نہیں ہوسکتا تو یہ باتیں اپنے ظاہری معنوں میں قابل قبول نہ رہیں.پس ضرور ان کے کوئی ایسے معنے کرنے پڑیں گے.جو دوسری صریح احادیث کے مخالف نہ ہوں.چنانچہ اس خیال کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو کوئی اشکال نہیں رہتا اور وہ اس طرح کہ چونکہ مقام مہدویت کے لحاظ سے آنے والا موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل اور بروز ہے اور مقام مسیحیت کے لحاظ سے وہ مسیح ابن مریم کا مثیل اور بروز ہے اس لئے اس بات میں کیا شک ہے کہ اس کی صفتِ مہدویت صفت مسیحیت پر غالب ہے پس اس مفہوم کو بطور مجاز اس رنگ میں ادا کیا گیا ہے کہ گویا مہدی امام ہوگا اور مسیح مقتدی ہوگا.یعنی آنے والے موعود کا مقام مہدویت اس کے مقام مسیحیت کے آگے آگے ہوگا اور اس کی صفت مسیحیت اس کی صفت مہدویت کی اقتداء کرے گی اور مہدی کے پہلے سے موجود ہونے سے یہ مراد ہے.کہ یہ موعود مصلح اپنے مقام مہدویت میں پہلے ظاہر ہوگا اور مسیحیت کا دعوی بعد میں کرے گا.چنانچہ خدائی تصرف نے حضرت مرزا صاحب سے پہلے صرف چودھویں صدی کے مجد داعظم ہونے کا دعویٰ کروایا جو مقام مہدویت ہے اور پھر اس کے کئی سال بعد مسیح موعود ہونے کا دعوئی ہوا.جس کی آنکھیں ہوں مذکورہ بالا بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اوّل مہدی کے متعلق روایات کا نا قابل تطبیق اختلاف ظاہر کر رہا ہے کہ یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف مہدیوں کی پیشگوئیاں کی تھیں جو بد قسمتی سے ایک شخص کے متعلق سمجھ لی گئیں اور یا اس بارہ میں بعض احادیث غلط اور موضوع ہیں اور در حقیقت یہ دونوں باتیں ہی اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں.دوسرے یہ بات ثابت 64

Page 75

ہو گئی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں کوئی الگ مہدی نہیں ہو گا بلکہ مسیح اور مہدی کا وعدہ ایک ہی وجود میں پورا ہوگا.اس کے بعد مہدی کے متعلق صرف ایک بات قابل حل رہ جاتی ہے جسے گوسوال زیر بحث سے تعلق نہیں لیکن چونکہ مہدی موعود کی شناخت کے رستہ میں وہ ایک بڑی روک ہے اور اس کے دُور ہو جانے کے بعد جہاں تک مہدی کا تعلق ہے کوئی اور اشکال باقی نہیں رہتا.اس لئے مہدی کی مختصر بحث کو اسی جگہ مکمل کرنے کے لئے اس شبہ کا جواب بھی یہیں درج کر دیا جاتا ہے.یہ سوال خونی مہدی سے تعلق رکھتا ہے.یعنی آیا مہدی موعود تلوار کے ساتھ ظاہر ہوگا اور کافروں کو تہ تیغ کرے گا یا یہ کہ وہ امن کے طریق پر ظاہر ہو گا.اور سیف فولادی سے نہیں بلکہ سیف براہین سے اسلام کو غلبہ دے گا.ہمارے زمانہ میں مسلمان کہلانے والوں میں عام خیال یہ ہے کہ مہدی کافروں کے ساتھ جہاد بالسیف کرے گا.حتی کہ جزیہ بھی قبول نہیں کرے گا اور یا تو سب کافروں کو مسلمان ہونا پڑے گا اور یا وہ تلوار کے گھاٹ اتار دیے جائیں گے مگر ہمارے خیال میں یہ ایک نہایت باطل اور اسلام کو بدنام کرنے والا خیال ہے.مہدی جہاد بالسیف نہیں کرے گا اس بحث کے لئے سب سے ضروری اور اصولی بات یہ ہے کہ ہم قرآن شریف کی تعلیم پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ آیا وہ مذہبی معاملات میں تلوار اُٹھانے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ یعنی کیا اسلامی تعلیم کی رُو سے یہ جائز ہے کہ لوگوں کو بزور مسلمان کیا جاوے.اگر اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے کہ لوگوں کو جبراً اسلام کے اندر داخل کرو تو بے شک اس مسئلہ پر غور کرنا ہمارا فرض ہوگا کہ آیا مہدی اسلام کے لئے تلوار اٹھائے گا یا کہ صرف صلح سے کام لے گا لیکن اگر اسلامی تعلیم ہمیں صاف طور پر یہ بتائے کہ دین کے معاملہ میں جبر درست نہیں اور تلوار کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کے اندر داخل کرنا نا جائز ہے تو اس کے ساتھ ہی خونی مہدی کے مسئلہ کا بھی خود بخو دصفایا ہو جائے گا.کیونکہ جب جبر جائز ہی نہیں تو ایسا مصلح کس طرح آسکتا ہے جو لوگوں کو جبراً اسلام کے اندر داخل کرے.اب جب ہم قرآن شریف پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں صاف لکھا ہوا پاتے ہیں کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ 65

Page 76

قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيّ ( سورة بقرة ۳۴۶) یعنی دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہدایت ضلالت سے ممتاز ہو چکی ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ دین کے معاملہ میں جبر کرنا جائز نہیں اور چونکہ قرآن شریف ہر ایک دعوی کے ساتھ دلیل بھی لاتا ہے اس لئے اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ جبر اس لئے جائز نہیں کہ ہدایت اور ضلالت کھلی کھلی چیزیں ہیں اور ہر ایک شخص جو ٹھنڈے دل سے غور کرے وہ ہدایت کو دیکھ سکتا ہے ظاہر ہے کہ جبر کی ضرورت اسی جگہ پیش آتی ہے کہ جہاں کوئی تعلیم ناقص ہو اور اپنی خوبی کے زور سے لوگوں کے دلوں کے اندر گھر نہ کر سکے لیکن قرآن شریف کی تعلیم تو سبحان اللہ ایسی صاف اور روشن ہے کہ ذرا سے تدبر سے انسان حق کو پاسکتا ہے.اس لئے اس کے منوانے کے لئے جبر کا طریق کسی طرح بھی درست نہیں سمجھا جا سکتا.علاوہ ازیں غور کرو کہ تلوار کے زور سے لوگوں کو اسلام کے اندر داخل کرنے کے یہ معنے ہیں کہ ہم صاف لفظوں میں اقرار کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ اسلام جھوٹا ہے یا کم از کم یہ کہ اسلام اس خوبی کا مذہب نہیں کہ خود بخو دلوگوں کو اپنی سچائی کا قائل کر سکے تبھی تو جبر کی ضرورت پیش آسکتی ہے.پھر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جبر کی حکومت صرف انسان کے جسم تک محدود ہوتی ہے اس کے ذریعہ انسان کی روح اور خیالات پر قابو نہیں پایا جا سکتا مگر مذہب دل کے خیالات سے تعلق رکھتا ہے اور گو اعمال بھی اسکے اندر شامل ہیں مگر اعمال کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ دل کی تحریک سے پیدا ہوں.ورنہ اگر وہ کسی بیرونی اثر کے ماتحت ظہور میں آئیں اور دل ان کے ساتھ متفق نہ ہو تو ایسے اعمال ہر گز مذہب کا حصہ نہیں سمجھے جا سکتے بلکہ انہیں مذہب کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں مثلاً خدا کے حضور سجدہ کرنا نیک اعمال میں سے ہے، لیکن اگر کوئی شخص بازار میں چلتا ہوا ٹھوکر کھا کر منہ کے بل جا گرے تو گو ظاہری صورت اس کی سجدہ کر نیوالے کی سی ہوگی لیکن مذہب کی اصطلاح میں وہ خدا کے حضور سجدہ کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ اس سجدہ کے ساتھ دل کی تحریک اور نیت شامل نہیں ہے بلکہ یہ صورت صرف کسی بیرونی اثر کے ماتحت پیدا ہوگئی ہے.پس ظاہری حرکات وہی مذہب کے اندر شامل سمجھی جاسکتی ہیں جو دل کی نیت کے ساتھ ہوں.یہی وجہ ہے کہ سرور 66

Page 77

کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : - إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِيَّاتِ ( بخاری ) یعنی ” سچے اعمال وہی ہیں جن کے ساتھ دل کی نیت شامل ہو.ورنہ اگر نیت نہیں تو عمل بھی کوئی عمل نہیں.پس ثابت ہوا کہ یہ قطعاً ناممکن ہے کہ جبر کے ذریعہ کسی کو اسلام کے اندر یا کسی اور مذہب کے اندر داخل کیا جائے.کیونکہ مذہب تو کہتے ہی اس طرز اور رویہ کو جس کے ساتھ اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب ہو.اور یہ بات یکجا جبر کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہو سکتی.پس معلوم ہوا کہ جبر کے ذریعہ کسی شخص کو کسی مذہب کے اندر داخل کر لینا محالات عقلی میں سے ہے اسی واسطے خدا وند کریم نے فرمایا ہے کہ انما عَلَى رَسُوْلِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ( سورۃ المائدہ (۱۲) یعنی ”ہمارے رسول کا تو صرف یہ کام ہے کہ لوگوں تک ہمارا پیغام کھول کر پہنچا د یوئے“.آگے مانا یا نہ ماننا لوگوں کا کام ہے اس سے رسول کو غرض نہیں.رسول کا کام صرف احسن طریقہ پر اپنی رسالت کو پہنچا دینا ہے اور بس.ایک اور دلیل سے بھی جبر کا عقیدہ غلط ثابت ہوتا ہے وہ یہ کہ اسلام نے نفاق کو سخت قابل نفرت فعل قرار دیا ہے اور منافق کی سزا کو کافر سے بھی زیادہ سخت رکھا ہے جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے.اِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ.(سورۃ نساء ع ۲۱) یعنی ” منافق لوگ دوزخ کے سخت ترین حصہ میں ڈالے جائیں گے.مگر ظاہر ہے کہ جبر کے نتیجہ میں منافق پیدا ہوتا ہے نہ کہ سچا مومن.پھر اسلام جبر کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے؟ اب یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب قرآن شریف گھلے الفاظ میں تلوار کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کے اندر داخل کرنے سے منع فرماتا ہے اور مذہبی معاملات میں جبر کی اجازت نہیں دیتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں تلوار اٹھائی ؟ یہ ایک سوال ہے جو اس موقع پر ضرور دل میں پیدا ہوتا ہے.اس کا حقیقی جواب پانے کے لئے ہمیں چاہئے کہ قرآن شریف کی اس آیت پر نظر ڈالیں جس میں سب سے پہلے مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کی اجازت دی گئی تھی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے:- أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ O الَّذِيْنَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ ۖ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ 67

Page 78

النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوتُ وَمَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا (سورة الحج: ع ) یعنی اجازت دی جاتی ہے لڑنے کی ان لوگوں کو جن کے خلاف کافروں کی طرف سے تلوار اُٹھائی گئی ہے.کیونکہ اُن پر ظلم کیا گیا ہے اور بیشک اللہ اُن کی مدد پر قادر ہے.ہاں وہی مظلوم جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر کسی جائز وجہ کے صرف اس بناء پر کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو دفاعی جنگ کی اجازت دیکر ایک دوسرے کے ہاتھ سے نہ روکے تو پھر خانقاہیں اور گرجے اور معبد اور مسجدیں جن میں خدا کا نام کثرت سے یاد کیا جاتا ہے وہ سب ایک دوسرے کے ہاتھوں مسمار کر دیئے جائیں.یہ وہ آیت کریمہ ہے جس نے سب سے پہلے مسلمانوں کو کفار کے مقابل پر لڑنے کی اجازت دی.اب دیکھ لو کہ اس آیت میں کس صراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے لڑائی کی وجہ بیان فرمائی ہے جو یہ ہے کہ فتنہ دور ہو کر مذہبی آزادی پیدا ہو.اور یہ بھی صاف طور پر فرما دیا ہے کہ مسلمانوں نے پہل نہیں کی بلکہ جب کفار نے ان کے خلاف تلوار اُٹھائی اور ان پر طرح طرح کے کئے اور انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا تب دفع شر کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اجازت فرمائی کہ تم بھی ان ظالم کفار کے خلاف تلوار اُٹھاؤ.تیرہ سال تک مسلمانوں نے صبر سے کام لیا اور نہایت استقلال کے ساتھ ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کیا.آخر کار مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی تاکسی طرح کفار مکہ کی شرارتوں سے امن میں آجائیں مگر یہ لوگ پھر بھی مسلمانوں کو تکلیف دینے سے باز نہ آئے بلکہ مدینہ پر جا چڑھائی کی تب ہر طرح مجبور ہوکر مسلمانوں کو بھی تلوار اُٹھانی پڑی.پس یہ ایک سیاہ جھوٹ ہے کہ مسلمانوں نے لوگوں کو جبراً مسلمان بنانے کے لئے تلوار اٹھائی بلکہ حق یہ ہے کہ انہوں نے تو مصائب کے برداشت کرنے کا وہ نمونہ دکھایا کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے.پس اس سے بڑھ کر کیا ظلم ہوگا کہ اسلام کی طرف جبر اور تشدد منسوب کیا جائے.68 80

Page 79

مسلمانوں نے تو شروع اسلام میں جو کچھ کیا دفع شر کے لئے کیا اور اس بات کے لئے کیا کہ مذہبی آزادی قائم ہو جائے اور لوگ جس مذہب کو دل سے درست سمجھیں اُسے کھلم کھلا قبول کریں.ہاں بیشک بعد میں جب ابتدائی لڑائیوں کے نتیجہ میں ایک اسلامی سلطنت قائم ہوگئی تو بعض اوقات مسلمانوں کو سیاسی اغراض کے ماتحت بھی جنگ کرنی پڑی یا بعض وقت ان کو اس لئے تلوار اُٹھانی پڑی تا وہ ایسے ممالک میں تبلیغ اسلام کا راستہ کھولیں جن میں مذہبی آزادی کے نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ کا دروازہ بند تھا اور لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے جبراً روکا جاتا تھا، لیکن صحابہ نے کبھی بھی کوئی شخص جبراً مسلمان نہیں کیا.پس کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ مہدی کی بعثت کی علت غائی ہی یہ سمجھی جاتی ہے کہ وہ تمام دنیا کو جبراً مسلمان کرتا پھرے گا.کیا ایسے مہدی کا آنا اسلام کے لئے باعث فخر ہو سکتا ہے؟ نہیں اور ہر گز نہیں بلکہ جائے فخر تو یہ ہے کہ اسلام کو دلائل کی قوت اور روحانی جذب کے ذریعہ تمام مذاہب پر غالب ثابت کیا جاوے.اسلام کی خوبیاں لوگوں کے سامنے رکھی جائیں اور یہ بتایا جائے کہ اسلام ہی وہ زندہ مذہب ہے جو اپنی صداقت کے اس قدر دلائل رکھتا ہے کہ اگر خدا کا خوف دل میں رکھ کر اس پر غور کیا جائے توممکن ہی نہیں کہ انسان پر اس کی سچائی مخفی رہے.مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے ہرگز کوئی ایسا مہدی نہیں آئے گا جو آتے ہی لڑنا شروع کر دے اور لوگوں کو جبراً مسلمان کرتا پھرے.غور کا مقام ہے کہ کیا مہدی اسلامی تعلیم کا پابند نہیں ہوگا؟ کیا اُس کے زمانہ میں شریعتِ اسلام منسوخ ہو جائے گی ؟ جب یہ نہیں اور مہدی نے بطور خادم اسلام کے ہی ظاہر ہونا ہے تو پھر با وجود اسلام کی اس واضح تعلیم کے کہ مذہب کے معاملہ میں جبر جائز نہیں وہ کفار کے خلاف کس طرح تلوار اُٹھائے گا؟ اگر وہ ایسا کرے گا تو یقیناً وہ مصلح نہیں ہوگا.بلکہ اسلام کی تعلیم کو بگاڑنے والا ٹھہرے گا اور فساد کوڈ ور کرنے کی بجائے خود فساد کا موجب بن جائے گا.پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جب یہ ثابت ہو چکا کہ مسیح اور مہدی ایک ہی شخص کے دو نام ہیں تو مہدی کس طرح تلوار اُٹھا سکتا ہے جبکہ مسیح کے متعلق صاف الفاظ میں آتا ہے کہ وہ جنگ کو 69

Page 80

موقوف کرنے والا ہو گا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :- وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيَوْشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلاً فَيَكْسِرُ الصَّلِيْب وَيَقْتَلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْحَرْبُ.(بخاری مجتبائی مولوی احمد علی صاحب والی جلد ۲ باب نزول عیسی بن مریم و نیز فتح الباری جلد ۶ ) یعنی "قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ وہ وقت آتا ہے کہ جب تم میں ابن مریم حکم اور عدل کے طور پر نازل ہوگا.وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کر یگا اور جنگ کو موقوف کر دے گا“.دیکھو اس حدیث نے کس وضاحت کے ساتھ بتا دیا کہ لوگوں کو جبر مسلمان بنانا تو درکنار مہدی تو جنگوں کے سلسلہ کو بند کرنے والا ہوگا.مگر ہمارے مسلمان بھائی پھر بھی قرآن شریف کی تعلیم کے خلاف غازی مہدی کی راہ دیکھ رہے ہیں.ان تمام دلائل سے ظاہر ہے کہ کوئی غازی مہدی نہیں آئے گا بلکہ اگر کوئی آئے گا تو امن اور صلح سے کام کرنے والا آئے گا.لیکن یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب اسلام مذہب کے معاملہ میں جبر کی تعلیم نہیں دیتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی خونی مہدی کی خبر نہیں دی تو مسلمانوں میں یہ عقیدہ کس طرح آگیا؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بدقسمتی سے عوام الناس کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ پیشگوئیوں کے ظاہری الفاظ پر جم جاتے ہیں اور ان کے باطنی اور حقیقی پہلوکو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں مثلاً ناظرین سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ بنی اسرائیل سے یہ وعدہ تھا کہ جب اُن میں مسیح ظاہر ہوگا تو وہ ایک عظیم الشان یہودی سلطنت کی بنیاد ڈالے گا.(ذکریا) لیکن جب مسیح ناصری نے مسیحیت کا دعویٰ کیا تو یہود نے دیکھا کہ وہ ایک کمزور بے یار و مددگار آدمی ہے جس نے کسی سلطنت کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ امن کے ساتھ رومی سلطنت کے ماتحت اپنی رسالت کی تبلیغ کرنے لگ گیا، ذرا یہود کی مایوسی کا اندازہ لگاؤ.وہ ایک ایسے شخص کا انتظار کر رہے تھے جس نے انہیں بادشاہت کے تخت پر بٹھانا تھا اور ایک بڑی یہودی سلطنت کا بانی ہونا تھا، لیکن جب مسیح" آیا تو اس نے کیا 70

Page 81

کیا ؟ خود اُسی کے الفاظ سنیئے :- لومڑیوں کے لئے ماندیں اور ہوا کے پرندوں کے واسطے بسیرے ہیں پر ابن آدم کے لئے جگہ نہیں جہاں اپنا سر دھرے.(متی باب ۸ آیت۲۰) ٹھیک اسی طرح مسلمان ایک غازی مہدی کے منتظر ہیں جو کافروں کو قتل کرے گا اور ایک عظیم الشان اسلامی سلطنت کی بنیادر کھے گا لیکن جس طرح بنی اسرائیل کی سب امیدوں پر پانی پھر گیا اسی طرح ان کے ساتھ معاملہ ہوگا کیونکہ خدا اور رسول کے وعدہ کے خلاف امید رکھ کر کوئی شخص مراد کو نہیں پہنچ سکتا.اصل میں بات یہ ہے کہ آئندہ آنے والے مصلح کے روحانی عروج کو ظاہر کرنے کے لئے اور اس کی ترقیات اور لوگوں کی مخالفت کا پورا نقشہ لوگوں کے دلوں پر جمانے کے لئے بعض اوقات جنگی اصطلاحات کو بطور استعارہ کے استعمال کیا جاتا ہے لیکن لوگ لاعلمی کی وجہ سے ایسے کلمات کے ظاہری معنوں پر جم جاتے ہیں اور پھر ان کے مطابق مدعی کو ناپتے ہیں وہ اور بھی اندھے ہو جاتے ہیں جبکہ وہ ایک دنیاوی بادشاہ کے ظہور میں اپنا نفع دیکھتے ہیں.ایک امن سے کام کرنے الا مصلح کیا بنا سکتا ہے؟ وہ نہ تو ان کی مالی حالت درست کر سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی طور پر اُن کی حالت سنوار سکتا ہے، لیکن ایک جنگجو نبی بڑی آسانی کے ساتھ اُن کے خالی کیسوں کو بھر سکتا ہے اور ان کو ملک میں حاکم بنا سکتا ہے اس لئے ان کو کیا ضرورت پڑی کہ ان سبز باغوں سے نکل کر جھاڑ دار راستوں میں قدم رکھیں.لیکن وہ اتنا نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے مصالحوں کا اصل کام روحانی اصلاح ہے.پس اگر وہ آتے ہی تلوار اٹھا لیں تو اُن کی بعثت کا مطلب ہی فوت ہو جاتا ہے.لہذا مہدی معہود کے متعلق بعض احادیث میں جنگی اصطلاحات کا استعمال کیا جانا اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ مہدی ایک دنیاوی جرنیل کے طور پر ظاہر ہوگا بلکہ ان سے صرف یہ مراد ہے کہ مہدی کی بعثت فوق العادت نشانوں کے ساتھ ہوگی اور وہ اسلام کی صداقت میں ایسے براہینِ قاطعہ لائے گا جن سے مخالفین پر گویا موت وارد ہو جائے گی.اس کے سوا ان کا اور کوئی مطلب 71

Page 82

نہیں.چاہو تو قبول کر ویلے آب ہم ان دو غلط فہمیوں کو دور کر چکے ہیں جو حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کے رستے میں عوام الناس کے لئے ایک خطر ناک ٹھو کر بن رہی ہیں.یعنی ہم بفضلہ تعالیٰ یہ ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت مسیح ناصری زندہ جسم عنصری آسمان پر نہیں گئے بلکہ زمین پر ہی رہے اور زمین پر ہی فوت ہو گئے اور یہ کہ وہ مسیح جس کی آمد کا وعدہ دیا گیا تھا وہ اسی امت مرحومہ میں سے ہے.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادموں میں سے ایک خادم ہے اور کوئی بیرونی فرد نہیں ہے دوسرے ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں کوئی الگ مہدی موعود نہیں ہوگا بلکہ مسیح اور مہدی ایک ہی ہیں.صرف دو مختلف حیثیتوں سے دو مختلف نام دیدیئے گئے ہیں.علاوہ ازیں یہ بات بھی ہم نے بخوبی ثابت کر دی ہے کہ یہ ایک باطل خیال ہے کہ مہدی موعود کافروں سے تلوار کی جنگ کرے گا اور دنیا میں بلاوجہ خون کی نہریں بہائے گا.بلکہ حق یہ ہے کہ اُس کی تلوار براہین کی تلوار ہوگی اور اس کا حربہ روحانی حربہ ہوگا اور وہ امن کے ساتھ کام کرے گا اور دلائل کے زور سے اسلام کو غلبہ دے گا.ان امور کے طے کرنے کے بعد اب ہم اصل بحث کو لیتے ہیں اور وہ یہ کہ حضرت مرزا صاحب کا جو یہ دعوی ہے کہ میں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں یہ دعوی کہاں تک صحیح اور درست ثابت ہوتا ہے.(وما توفیقی الا باللہ العظیم) ✰✰✰ لے مہدی کے متعلق مفصل بحث کے لئے دیکھو سلسلہ مضامین مصنفہ حضرت مولوی شیر علی صاحب مندرجد ر یو یوآف ریلیجنز قادیان جلدے سے اس جگہ یہ یادر ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے تاریخی لحاظ سے بھی ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح ناصری صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ صلیب کے واقعہ سے بچ کر ہندوستان کی طرف ہجرت کر کے آگئے تھے اور بالآخر کشمیر میں وفات پائی جہاں سری نگر محلہ خانیار میں اب تک ان کی قبر محفوظ ہے اور خاکسار مؤلف رسالہ ہذا نے بھی اسے دیکھا ہے (دیکھو حضرت مرزا صاحب کی تصانیف " مسیح ہندوستان میں اور راز حقیقت نیز حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ لنڈن و امریکہ کی تصنیف ”قبر مسیح 72

Page 83

مسیح و مہدی کی علامات پہلے ہم علامات کی بحث کو لیتے ہیں.یعنی قرآن وحدیث سے مسیح موعود و مہدی معہود کے متعلق جن علامات کا پتہ چلتا ہے ان کے مطابق حضرت مرزا صاحب کے دعوی کو پر کھتے ہیں.علامات ماثورہ کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ سو جاننا چاہئے کہ مسیح موعود کی علامات کے متعلق بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں لیکن اس معاملہ میں بعض لوگوں نے ایک خطرناک غلطی کھائی ہے جس نے اس بحث میں طوفان بے تمیزی بر پا کر دیا ہے اور وہ غلطی یہ ہے کہ جو علامات احادیث نبوی میں قرب قیامت کے متعلق بیان ہوئی ہیں ان سب کو مسیح موعود کی علامات سمجھ لیا گیا ہے جو ایک صریح غلطی ہے.کیونکہ اول تو یہ قطعاً ضروری نہیں کہ جو علامات قیامت یا ساعت کی بیان کی گئی ہیں وہی مسیح موعود کی بھی علامات ہوں بے شک خود مسیح موعود کو ساعت یعنی قیامت کی علامت کہا گیا ہے لیکن یہ ہرگز ضروری نہیں کہ قیامت کی سب علامتیں مسیح موعود کے زمانہ میں ہی ظاہر ہوں بلکہ ممکن ہے کہ بعض علامات مسیح موعود کے ظہور سے قبل اور بعض بوقت ظہور اور بعض بعد میں ظاہر ہوں اور بعض ممکن ہے کہ بالکل قیامت کے متصل ظہور پذیر ہوں.پس گو بے شک خود مسیح موعود قیامت کی علامت ہے، لیکن قیامت کی تمام علامات کو مسیح موعود کے وقت میں تلاش کرنا سخت غلطی ہے کیونکہ وہ اس کی علامات نہیں بلکہ محض قرب قیامت کی علامات ہیں جن میں سے بعض ممکن ہے کہ قیامت کے بالکل قریب ظاہر ہوں.دوسرے یہ کہ بعض لوگ ہر جگہ جہاں احادیث نبوی میں ساعت یا قیامت کا لفظ وارد ہوا ہے اس سے قیامت گبری سمجھنے لگ جاتے ہیں.مگر یہ بھی ایک خطرناک غلطی ہے.بات یہ ہے کہ ساعت اور قیامت کا لفظ عربی زبان میں قیامت کبری کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ لفظ ہر بڑے انقلاب 73

Page 84

کے متعلق بھی استعمال کیا جاتا ہے.اس لحاظ سے خلافتِ راشدہ کے زمانہ کے فتنے بھی ساعت تھے حضرت امام حسین کی شہادت بھی ایک ساعت تھی.بنوامیہ کی تباہی بھی ایک ساعت تھی.بغداد اور بنوعباس کی تباہی بھی ایک بڑی قیامت اور ساعت تھی.سپین سے مسلمانوں کا اخراج بھی ایک ساعت تھی.اور اسی طرح اسلامی تاریخ کے سب بڑے بڑے تغیرات اور انقلابات ساعات ہیں اور احادیث نبوی میں جو ساعت کی علامات بتائی گئی ہیں وہ سب قیامت گبری کے متعلق نہیں ہیں بلکہ بعض ان درمیانی ساعتوں کے متعلق بھی ہیں.یعنی کوئی حدیث کسی ساعت کے متعلق ہے تو کوئی کسی اور کے متعلق.اور بعض علامات ساعت گبری کے متعلق بھی ہیں.یہ ایک ایسی بین حقیقت ہے کہ جو شخص ذرا بھی تدبر سے کام لے اور تاریخ اسلامی کو زیر نظر رکھے وہ اس کا انکار نہیں کرسکتا.کیونکہ بعض علامات نے درمیانی ساعتوں پر ظاہر ہو کر اس حقیقت پر عملاً مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اندریں حالات ہمارا سب سے پہلا فرض یہ ہونا چاہیئے کہ ہم غور و تدبر کر کے اُن علامات کو تلاش کریں جو مسیح و مہدی کے زمانہ یا وجود کی مخصوص علامات ہیں.مسیح و مہدی کی دسن موٹی علامات سو جاننا چاہئے کہ قرآن شریف اور احادیث سے جوموٹی موٹی علامات مسیح موعود و مہدی معہود کی ثابت ہوتی ہیں اور جن سے غالباً ہر مسلمان کم و بیش واقف ہے یہ ہیں: - (۱) مسیح موعود کا زمانہ ایسا ہو گا جس میں آمد و رفت کے وسائل بہت ترقی کر جائیں گے اور گویا ساری دنیا ایک ملک کا رنگ اختیار کر لے گی.اور نئی نئی قسم کی سواریاں نکل آئیں گی اور اونٹ کی سواری معطل ہو جائے گی.اور کتب اور رسالہ جات اور اخبارات وغیرہ کی اشاعت نہایت کثرت کے ساتھ ہوگی.مادی علوم کی ترقی ہوگی اور کئی نئے اور مخفی علوم ظاہر ہو جائیں گے.اور دریاؤں اور سمندروں کو پھاڑ پھاڑ کر نہریں بنائی جائیں گی اور وسائل آمد ورفت میں غیر معمولی ترقی ہوگی وغیرہ وغیرہ.(۲) وہ زمانہ ایسا ہو گا کہ صلیبی مذہب اس میں بڑے زوروں پر ہوگا.74

Page 85

(۳) اس زمانہ میں دجال کا خروج ہو گا.جس کا فتنہ دنیا کے سارے اگلے اور پچھلے فتنوں سے بڑا ہو گا.(۴) اس زمانہ میں یا جوج ماجوج ( یعنی انگریز وامریکہ اور روس ) اپنے پورے زور میں ظاہر ہونگے اور دنیا کے عمدہ عمدہ حصوں پر قابو پالیں گے اور قو میں ایک دوسرے کے خلاف اٹھیں گی.(۵) دین کے لئے وہ زمانہ ایک فساد عظیم کا زمانہ ہوگا.اور ہر طرف مادیت اور دہریت کا بھاری انتشار ہوگا اور اس زمانہ میں اسلام سخت کمزور حالت میں ہوگا اور علمائے اسلام کی حالت نا گفتہ بہ ہوگی.اور اسلام میں بہت سے اختلاف پیدا ہو جائیں گے اور عقائد بگڑ جائیں گے اور لوگوں کے اعمال خراب ہو جائینگے اور ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا اور بیرونی طور پر بھی اسلام چاروں طرف سے دشمنوں کے نرغے میں گھر اہو گا.(1) مسیح موعود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں مقررہ تاریخوں میں چاند اور سورج دونوں کو گرہن لگے گا.ہونگے.(۷) اس کے زمانہ میں دابۃ الارض کا خروج ہوگا.(۸) مسیح موعود دمشق کے مشرقی جانب ایک سفید منارہ پر نازل ہوگا.(۹) اس کا حلیہ یہ ہوگا کہ وہ گندم گوں رنگ کا ہوگا اور اس کے بال سیدھے اور.(۱۰) مسیح موعود صلیب کو توڑیگا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور دقبال کو مار دے گا اور اسلام کو غلبہ بخشے گا.اور اس کے زمانہ میں آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع کرے گا اور مسیح موعود تمام اندرونی اور بیرونی اختلافات میں حکم و عدل بن کر سچا سچا فیصلہ کرے گا.اور کھویا ہوا ایمان دنیا میں پھر قائم کر دے گا اور لوگوں کو کثرت کے ساتھ (روحانی) مال دے گا مگر دُنیا اس کے مال کو قبول نہیں کرے گی.(دیکھو قرآن مجید و کتب حدیث و تفسیر ) سی وہ دس ' موٹی موٹی علامات ہیں جو مسیح موعود و مہدی معہود اور اس کے زمانہ کے متعلق 75

Page 86

قرآن شریف اور احادیث نبوی سے ثابت ہوتی ہیں.سو ہم ان دس علامات کو الگ الگ سامنے رکھ کر حضرت مرزا صاحب کی صداقت کو پر کھتے ہیں تا حق و باطل میں امتیاز ہو کر طالب حق کو فیصلہ کی راہ ملے.وما توفیقی الا الله - پہلی علامت پہلی علامت قرآن شریف کی ان آیات سے پریت لگتی ہے جہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَإِذَا لُعِشَارُ عُقِّلَتْ وَإِذَا الْبِحَارُ سَجَرَتْ O وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ (سورة تكوير ع ١) یعنی " قرب قیامت اور نزول مسیح موعود کی یہ علامت ہے کہ اس زمانہ میں اونٹنیوں کی سورای معطل ہو جائے گی.یعنی بوجہ نئی نئی اور بہتر سواریاں نکل آنے کے اونٹوں کی سواری چھوڑ دی جائے گی.اور دریا اور سمندر پھاڑے جائیں گے یعنی ان کو پھاڑ پھاڑ کر نہریں بنائی جائیں گی اور کتب اور اخبار و رسالے کثرت کے ساتھ شائع ہونگے.یعنی مطبع ایجاد ہو کر اخباروں رسالوں اور کتابوں کی اشاعت کا کام بے حد وسیع ہو جائے گا اور مختلف ممالک کے لوگ آپس میں مل جل جائیں گے.یعنی وسائل کی اتنی کثرت ہو گی کہ گذشتہ زمانوں کی طرح ایسا نہیں رہے گا کہ تو میں الگ الگ رہیں بلکہ میل جول کی کثرت سے تمام دنیا گویا ایک ہی ملک ہو جائے گی“.اور پھر اس کی تائید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بھی ہے.فرماتے ہیں:- ليتركن القلاص فلا يسعى عليها.( صحیح مسلم جلد ۲) یعنی اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی اور اُن پر نہ سوار کیا جائے گا“.اور قرآن شریف میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :- اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا - ( سورة الزلزال ع ١ ) 76

Page 87

یعنی ”آخری زمانہ میں زمین اپنے تمام مخفی بوجھ نکال کر باہر پھینک دے گی اور مادی علوم کی کثرت ہوگی“.وغیرہ وغیرہ اب دیکھ لو کہ اس زمانہ میں یہ علامت کس صراحت کے ساتھ پوری ہوئی ہے.نئی نئی سواریاں مثلاً ریل، موثر، جہاز، ہوائی جہاز.پھر محکمہ ڈاک تار، بے تار کی برقی اور ٹیلیفون اور ٹیلی ویژن اور ریڈیو.اور پھر نہریں اور پھر کثرت اشاعتِ کتب و رسالہ جات واخبارات.پھر ایجادات مطبع و ٹائپ و شارٹ ہینڈ وغیرہ وغیرہ نے کس طرح ساری دنیا کو ایک کر رکھا ہے اور اشاعت دین کے کام کو کیسا آسان کر دیا ہے؟ اور ریل اور موٹر وغیرہ نے اونٹنیوں وغیرہ کو عملاً بیکا ر کر رکھا ہے اور خود عرب کے ملک میں بھی ریل پہنچ چکی ہے اور قریب ہے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بھی ریل جاری ہو کر اونٹنیوں کو جہاں تک لمبے سفروں کا تعلق ہے بالکل ہی بے کار کر دے جیسا کہ اور اکثر جگہ اس نے کر دیا ہے در حقیقت یہ علامت اس زمانہ میں اس صفائی کے ساتھ پوری ہوئی ہے کہ کسی عقلمند کے نزدیک کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی.فالحمد للہ علی ذلک.اسی طرح اس زمانہ میں دُنیوی علوم کی بھی جو کثرت ہے اس کی مثال کسی پہلے زمانہ میں نہیں ملتی.اور یا درکھنا چاہئے کہ ضرور تھا کہ مسیح موعود کی بعثت کے لئے کوئی ایسا ہی زمانہ منتخب کیا جاتا کیونکہ مسیح موعود کا زمانہ اشاعت دین کا زمانہ ہے.پس اس کے زمانہ میں اشاعت کے سامانوں کا مہیا ہونا از بس ضروری تھا تا وہ اور اس کی جماعت آسانی کے ساتھ فرض تبلیغ ادا کر سکے.دوسری علامت دوسری علامت مسیح موعود کے زمانہ کی یہ بتائی گئی تھی کہ اس زمانہ میں صلیبی مذہب کا بڑاز ور ہوگا.یعنی نصاری بڑے زوروں پر ہونگے.چنانچہ علاوہ قرآنی اشارات کے حدیث شریف میں مسیح موعود کے کام کے متعلق صراحۃ آتا ہے کہ یکسر الصليب ( دیکھو بخاری و دیگر کتب حدیث) یعنی مسیح موعود صلیب کو توڑ دے گا.جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایسے زمانہ میں آئے گا کہ اُس وقت صلیبی مذہب بڑے زور میں ہوگا تبھی تو وہ اس کے مقابلہ میں اُٹھ کر اس کو توڑے گا.77

Page 88

ورنہ ویسے عیسائیت کا وجود تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھا مگر آپ کے متعلق کسیر صلیب کا لفظ نہیں آیا.پس ثابت ہوا کہ کسر صلیب سے مراد یہ ہے کہ پہلے صلیبی مذہب زوروں پر ہو اور پھر کوئی شخص اس کا زور توڑ کر اُسے اسلام کے مقابل پر مغلوب کر دے.اب دیکھ لو کہ اس زمانہ میں صلیبی مذہب کا کتنا زور ہے.حتی کہ چاروں طرف اسی مذہب کے پیر ونظر آتے ہیں اور انہوں نے ساری دنیا میں اپنے مذہب کی تبلیغ کا ایک عظیم الشان جال پھیلا رکھا ہے.پس ثابت ہوا کہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں مسیح موعود کو نازل ہونا چاہیئے.خود کسر صلیب کی تشریح اور تفصیل کے متعلق ہم آگے چل کر بحث کریں گے.اس جگہ صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ کی یہ ایک علامت بیان کی گئی تھی کہ اس وقت یسوعی مذہب کا زور ہوگا.چنانچہ یہ زمانہ اس علامت کو پوری طرح ظاہر کر چکا ہے.وہو المراد.تیسری علامت تیسری علامت مسیح موعود کی یہ بیان کی گئی تھی کہ اس زمانہ میں دجال کا خروج ہوگا.چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ:- ما من نبي الاقد انذر أمته الأغور الكذاب أَلَا إِنَّه اغوروان ربِّكم ليس باغور.مکتوب بین عینیه ک ف.رووفی روایة وانه يجى معه بمثل الجنة والنار فالتي يقول أنّها الجنّة هي النار.وَفِي رواية انّ الدجال يخرج وان معه ماءً ونارا فاما الذي يراه الناسُ ماء فنار تحرق واما الذى يراه النّاس نارا فماء بارد وعذب وان الدجال ممسوح العين عليها ظفرة غليظة مكتوب بين عينيه كافر يقرأُهُ كُلُّ مؤمن كاتب وغير كاتب وفى رواية ان الدّجال اعور العين اليمني فمن ادركه منكم فليقرأ عليه فواتح سورة الكهف فانها جواركم من فتنته وفى رواية ويائرُ السّماءَ فَتَمْطُرُ وَيَأْمر الارض فَتُنْبِت ويمر 78

Page 89

بالخربة فيقول لها اخرجی کنوزک فتتبعه كنوزها.وفي رواية يقول الدجال ارأيتم ان قتلتُ هذا ثم احييته هل تشكون في الامر فيقولون لا فيقتله ثم يحييه وفى رواية ان معه جبل خبز ونهرماء- وفي رواية يخرج الدجال على حمار اقمَرَ ما بين أُذنيه سبعون باعاً (مشکوۃ کتاب الفتن وغيره ) یعنی کوئی نبی نہیں گذرا جس نے اپنی امت کو یک چشم کذاب سے نہ ڈرایا ہو.خبر دار ہوشیار ہو کرشن لو کہ وہ یک چشم ہے مگر تمہارا رب یک چشم نہیں.اس یک چشم دجال کی آنکھوں کے درمیان کف رلکھا ہوگا اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے ساتھ جنت اور نار کی امثال لائے گا.مگر جس چیز کو وہ جنت کہے گا وہ دراصل نار ہوگی اور ایک روایت میں ہے کہ دجال خروج کرے گا اور اس کے ساتھ پانی اور آگ ہونگے.مگر وہ چیز جو لوگوں کو پانی نظر آئے گی وہ دراصل جلانے والی آگ ہوگی اور وہ جسے لوگ آگ سمجھیں گے وہ ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہوگا اور دجال کی ایک آنکھ بیٹھی ہوئی ہوگی اور اس پر ایک بڑا ناخنہ سا ہوگا اور اس کی آنکھوں کے درمیان کا فرلکھا ہوا ہوگا جسے ہر مومن پڑھ سکے گا.خواہ وہ لکھا پڑھا ہو یا نہ ہو اور ایک روایت میں ہے کہ دجال دائیں آنکھ سے کانا ہوگا.پس جب تم میں سے کوئی اُسے پائے تو اس پر سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے کیونکہ سورہ کہف کی ابتدائی آیات اس کے فتنے سے تم کو بچانے والی ہونگی اور ایک روایت میں ہے کہ دجال آسمان ( یعنی بادل) کو حکم دے گا کہ پانی برسا تو وہ برسائے گا اور زمین کو حکم دے گا کہ اُگا تو وہ اُگائیگی اور ویرانے پر گذرے گا اور اسے حکم کرے گا کہ اپنے خزانے باہر نکال تو اس کے خزانے باہر نکل کر اس کے پیچھے ہولیں گے اور ایک روایت میں ہے کہ دجال لوگوں سے کہے گا کہ دیکھو اگر میں اس شخص کو قتل کر دوں اور پھر زندہ کر دوں تو کیا تم میرے امر میں شک کرو گے؟ لوگ کہیں گے.نہیں.پھر وہ اسے مارے گا اور پھر دوبارہ زندہ کر دیگا.اور ایک روایت میں ہے 79

Page 90

کہ اس کے ساتھ ایک پہاڑ روٹیوں کا ہوگا اور ایک نہر پانی کی ہوگی اور ایک روایت میں ہے کہ دجال ایک چمکدار گدھے پر ظاہر ہوگا اور وہ گدھا ایسا ہوگا کہ اس کے دوکانوں کے درمیان ستر ہاتھ کا فاصلہ ہوگا.“ یہ دجال کی کیفیت ہے جو میں نے مشکوۃ کی مختلف روایتوں سے بطور اختصار کے جمع کر کے اس جگہ درج کی ہے.اب ہم کو دیکھنا یہ ہے کہ یہ دجال کون ہے؟ اور آیا وہ ظاہر ہو گیا ہے یا نہیں.سب سے پہلے ہمیں دجال کے لفظ پر غور کرنا چاہئے تا معلوم ہو کہ عربی زبان میں اس لفظ کے کیا معنے ہیں.سوجاننا چاہئے کہ عربی زبان میں دجال کا لفظ چھ معنوں پر مشتمل ہے:.اوّل.دجال کے معنے کذاب یعنی سخت جھوٹے کے ہیں.دوسرے.دجال کے معنے ڈھانپ لینے والی چیز کے ہیں.کیونکہ عربی میں کہتے ہیں دجل البعير یعنی اس نے اونٹ کے جسم پر بناء کو اس طرح ملا کہ کوئی جگہ خالی نہ رہی.چنانچہ تاج العروس میں لکھا ہے کہ دجال اسی روٹ سے نکلا ہے لانه يعم الارض كما ان الهناء يعمّ الجسد کیونکہ وہ زمین کو اسی طرح ڈھانپ لے گا جس طرح بناء سارے بدن کو ڈھانپ لیتی ہے.تیسرے.دجال کے معنے زمین میں سیر و سیاحت کرنے والے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں دجل الرجل اذا قطع نواحي الارض سيراً.یعنی دجل الرجل کے الفاظ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کسی نے تمام روئے زمین کو اپنی سیر وسیاحت سے قطع کر لیا ہو.چوتھے.دجال کے معنے بڑے مالدار اور خزانوں والے کے ہیں کیونکہ دجال سونے کو بھی کہتے ہیں.پانچویں.دجال ایک بڑے گروہ کو بھی کہتے ہیں التي تغطى الارض بكثرة اهلها.جو اپنے افراد کی کثرت سے روئے زمین کو ڈھانک لے.چھٹے.دجال اس گروہ کو کہتے ہیں التي تحمل المتاع التجارۃ جو تجارت کے اموال اُٹھائے پھرے.(دیکھو تاج العروس وغیرہ) 80

Page 91

یہ تمام معنے لغت کی نہایت مستند اور مشہور کتاب تاج العروس میں درج ہیں.پس ان معنوں کے لحاظ سے یہ دجال کے معنے ہوئے :- ایک کثیر التعداد جماعت جو تاجر پیشہ ہو اور اپنا تجارتی سامان دنیا میں اٹھائے پھرے اور جونہایت مالدار اور خزانوں والی ہو اور جو تمام دنیا کو اپنی سیر و سیاحت سے قطع کر رہی ہو اور ہر جگہ پہنچی ہوئی ہو اور گویا کوئی جگہ اس سے خالی نہ رہی ہو اور مذہباً وہ ایک نہایت جھوٹے عقیدہ پر قائم ہو“.اب اس کیفیت کیساتھ اس کیفیت کو ملاؤ جو حدیث نبوی میں بیان ہوئی ہے اور جس کا خلاصہ او پر درج کیا گیا ہے تو فوراً بلا تامل طبیعت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ دجال سے مغربی ممالک کی مسیحی اقوام مراد ہیں جو اس زمانہ میں تمام روئے زمین پر چھا رہی ہیں اور جن میں تمام مذکورہ بالا حالات واضح طور پر پائے جاتے ہیں.ان کا یک چشم ہونا ان کی مادیت ہے جس نے ان کے دین کی آنکھ کو بند کر رکھا ہے.ہاں دنیا کی آنکھ خوب کھلی اور روشن ہے.ان کی آنکھوں کے درمیان کافر کا لفظ لکھا ہونے سے ان کا بدیہی البطلان الوہیت مسیح کا عقیدہ مراد ہے جسے ہر سچا مومن خواہ وہ خواندہ ہو یا نا خواندہ پڑھ سکتا ہے اور ان کا زمین و آسمان میں تصرفات کرنا اور خزانے نکالنا اور زندہ کرنا اور مارنا وغیرہ سے ان کے علومِ جدیدہ اور سائنس وغیرہ کی طاقتوں اور سیاسی غلبہ کی طرف مجازی طور پر اشارہ ہے ورنہ از روئے حقیقت تو یہ امور سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور ان کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا کفر ہے اور دقبال کے ساتھ جنت و دوزخ کا ہونا یہ ہے کہ جو شخص ان کے ساتھ ہو جاتا ہے اور ان کی بات مانتا ہے اور اُن کے مذہب کو اختیار کرتا ہے وہ ظاہراً ایک جنت میں داخل ہو جاتا ہے گو دراصل وہ دوزخ ہوتا ہے اور جو شخص اُن کے بدخیالات سے الگ رہتا ہے اس کو ظاہر ایک دوزخ برداشت کرنا پڑتا ہے گو در اصل وہ جنت ہوتی اور ان کے ساتھ روٹیوں کے پہاڑ اور پانی کی نہر کا ہونا تو ایک بین چیز ہے جس کی تشریح کی ضرورت نہیں اور دجال کے گدھے سے جس کے دو کانوں کے درمیان کا فاصلہ ستر گز ہے ظاہری گدھا مراد نہیں بلکہ اس سے ریل مراد ہے جو پرانے زمانے کے سواری والے گدھوں کی قائم مقام ہے اور گدھے کے کانوں سے مراد ڈرائیور 81

Page 92

اور گارڈ ہیں جو ریل کے انتہائی کناروں پر متعین ہوتے ہیں.اور کانوں کے درمیانی فاصلہ سے گویا ریل کا طول مراد ہے.جو اوسطاً ستر ہاتھ کا ہوا کرتا ہے اب دیکھو کہ کس طرح یہ تمام باتیں مغربی اقوام میں پائی جاتی ہیں اور یہ جو کہا گیا کہ دجال آخری زمانہ میں خروج کرے گا تو اس سے یہ مراد ہے کہ گو وہ پہلے سے موجود ہوگا جیسا کہ بعض احادیث میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے مگر پہلے وہ اپنے وطن میں گویا محصور ہوگا، لیکن قیامت کے قریب وہ زور کے ساتھ باہر نکلے گا اور روئے زمین پر چھا جائے گا.سو بعینہ اسی طرح ہوا کہ مغربی قومیں پہلے اپنے وطن میں سوئی پڑی تھیں مگر اب بیدار ہو کر تمام روئے زمین پر چھا گئی ہیں.یہ کہنا کہ دجال کو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک فرد واحد کی شکل میں دیکھا تھا پس وہ ایک جماعت کی صورت میں کس طرح مانا جا سکتا ہے ایک باطل شبہ ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نظارے بصورت کشف اور خواب دیکھے تھے جیسا کہ مثلاً حدیث بخاری کے الفاظ بينما انا نائم اطوف بالكعبة - ( بخاری جلد دوم طبع مصری صفحہ ۱۷۱) یعنی ”میں نے سوتے ہوئے خواب میں کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا“ سے ظاہر ہے اور ظاہر ہے کہ خواب عموماً تاویل طلب ہوتی ہے اور اس میں کئی دفعہ ایک فرد دکھایا جاتا ہے مگر مراد ایک جماعت ہوتی ہے.مثلاً سورۃ یوسف میں مذکور ہے کہ عزیز مصر نے سات سالہ قحط کے متعلق سات ڈبلی گائیں دیکھیں جس کی تعبیر جیسا کہ حضرت یوسف نے خود بیان کیا ہے یہ تھی کہ ایک گائے ایک سال کے تمام مویشیوں بلکہ تمام جانداروں کی قائم مقام تھی اور اس کا دبلا ہونا قحط کوظاہر کرتا تھا اور سات دُبلی گایوں کا ہونا سات سالہ قحط کو ظاہر کرتا تھا.گویا ایک گائے تمام مویشیوں کے قائم مقام کے طور پر دکھائی گئی.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کا نظارہ ایک آدمی کی شکل میں دکھایا گیا جو خوابوں کی تصویری زبان کے عین مطابق ہے.بہر حال ہمارے اس دعوی کے دلائل کہ دجال سے ایک فرد مراد نہیں بلکہ ایک کثیر التعداد گر وہ مراد ہے جو اس زمانہ میں مسیحی اقوام کی صورت میں ظاہر ہوا ہے یہ ہیں :- (۱) لغت میں دجال ایک بڑی جماعت کو کہتے ہیں.پس وہ ایک فرد نہیں ہوسکتا.(۲) جو فتنے دجال کی طرف منسوب کئے گئے ہیں اور جو طاقتیں اس کے اندر بیان کی گئی 82

Page 93

ہیں ان کا ایک فردِ واحد میں پایا جانا محالات عقلی میں سے ہے.(۳) دجال کی کیفیت جن الفاظ میں بیان کی گئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی میں مجاز اور استعارہ کا دخل ہے ورنہ نعوذ باللہ دجال میں بعض خدائی طاقتیں ماننی پڑتی ہیں.(۴) دجال کی تمام کیفیات عملاً عیسائی اقوام میں پائی جاتی ہیں.(۵) دجال کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ بتایا گیا ہے اور ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحی اقوام کے مادیت اور فلسفہ نے جو فتنہ آج کل بر پا کر رکھا ہے ایسا فتنہ دین و ایمان کے لئے نہ پہلے ہوا اور نہ آئندہ خیال میں آسکتا ہے اور سورہ فاتحہ کے مطالعہ سے بھی سب سے بڑا فتنہ عیسائیت کا فتنہ ہی ثابت ہوتا ہے.(۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن صیاد کے متعلق جو مدینہ کا ایک یہودی لڑکا تھا اور بعد میں مسلمان ہو گیا دجال ہونے کا شبہ کیا تھا بلکہ حضرت عمرؓ نے آپ کے سامنے اس بات پر قسم کھائی تھی کہ یہی الله جال ہے اور آپ نے اس کی تردید نہیں فرمائی.(ملاحظہ ہو مشکوۃ باب قصہ ابن صیاد ) حالانکہ ابن صیاد میں دجال کی علامات ماثورہ میں سے اکثر بالکل مفقود تھیں.جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام بھی اس پیشگوئی کو مجازی رنگ میں سمجھتے تھے اور تمام علامات کا ظاہری اور جسمانی طور پر پایا جانا ہر گز ضروری نہ سمجھتے تھے.(۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دجال کے فتنے سے بچنے کے لئے سورہ کہف کی ابتدائی آیات مطالعہ کرنی چاہئیں.(دیکھو مشکوۃ ) اب ہم سورہ مذکورہ کی ابتدائی آیات پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں سوائے عیسائیت کے باطل خیالات کے رڈ کے اور کوئی مضمون نہیں پاتے.چنانچہ سورۃ کہف کی ابتدائی آیات یہ ہیں :- الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَبَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا فَمَا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَّدُنْهُ وَيُبَيِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا مَّاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا وَيُنْذِرَ الَّذِينَ 83

Page 94

قَالُوا اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِأَبَاعِهِمْ ط كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ط اِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَ الْحَدِيثِ أَسَفًا هِ إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا (سورة كهف ع١) یعنی ” خدا نے اپنے رسول پر ایک کتاب نازل فرمائی ہے.......یہ کتاب ان لوگوں کو ڈرانے اور ہوشیار کرنے کے لئے اُتری ہے جو خدا کا ایک بیٹا مانتے ہیں یہ بہت بڑے فتنہ کی بات اور سراسر جھوٹ ہے.وغیرہ وغیرہ 66 اب اس سے بڑھ کر اس بات کا کیا ثبوت ہوگا کہ دجال سے مراد یہی مسیحی اقوام ہیں جنہوں نے اس زمانہ میں غیر معمولی طور پر زور پکڑا ہے اور ساری دنیا پر چھا گئی ہیں اور اس دجال کا دجل ان کی مادیت اور فلسفہ اور باطل عقائد ہیں.جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.حضرت مرزا صاحب نے اپنے مخالف مولویوں کو مخاطب کر کے ایک جگہ خوب لکھا ہے کہ نادانو ! تم دجال کو ایک عجیب الخلقت فرد سمجھ کر اس کا انتظار کر رہے ہو.مگر یہاں تمہاری آنکھوں کے سامنے وہ مہیب فتنے اور فسادات ظاہر ہورہے ہیں کہ تمہارے فرضی دجال کے باپ کو بھی یاد نہ ہو نگے.فافہم وتدبر.(۸) مسلم کی ایک حدیث میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تمیم داری نے دجال کو گر جے میں بندھا ہوا دیکھا تھا ( یعنی بحالت کشف یا رویا ) اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خبر بیان کی تھی اور پھر آپ نے یہ خبر لوگوں کو سنوائی تھی.(مسلم جلد ۲ باب خروج الدجال) پس اب دیکھ لو کہ گر جے سے نکلنے والی کونسی قوم ہے.چوتھی علامت چوتھی علامت یہ ہے کہ یا جوج ماجوج اپنے پورے زور میں ظاہر ہونگے اور دنیا کے بیشتر اور عمدہ عمدہ حصوں پر قابو پالیں گے اور قو میں ایک دوسرے کے خلاف اٹھیں گی.چنانچہ قرآن 84

Page 95

شریف میں آتا ہے:- حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَاجُوجُ وَمَاجُوجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُوْنَ اور دوسری جگہ آتا ہے :- (سورة انبياء ع) وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوْجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ (سورۃ کہف ع ۱۱) فَجَمَعْنَهُمْ جَمْعًاه یعنی ” جب یا جوج ماجوج کھولے جائیں گے اور وہ ہر بلند مقام سے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور قومیں ایک دوسرے کے خلاف اُٹھیں گی اور اُس وقت ایک صور پھونکا جائے گا جو ان سب کو جمع کر لے گا“.اسی طرح حدیث میں آتا ہے :- يبعث الله یاجوج و ماجوج وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ.(مشکوۃ) یعنی ”آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ یا جوج ماجوج کو اُٹھائے گا.اس حال میں کہ وہ ہر بلند جگہ سے دوڑتے پھریں گے.اب جاننا چاہئے کہ یاجوج و ماجوج سے انگریز اور روس مراد ہیں جیسا کہ بائیبل میں بھی صراحت کے ساتھ ان کا ذکر پایا جاتا ہے.( کتاب حز قیل و مکاشفہ ) اور علامات ماثورہ بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہیں.اور انگریزوں کے ساتھ شمالی امریکہ کے لوگ بھی شامل ہیں کیونکہ وہ دراصل انہی کا حصہ ہیں.پہلے یہ تو میں کمزور حالت میں تھیں لیکن پھر خدا نے ان کو ترقی دی اور انہوں نے دنیا کے بیشتر حصے کوگھیر لیا اور بہت طاقت پکڑ گئے اور ان کی یہ ساری ترقی موجودہ زمانہ میں ہوئی ہے پہلے یہ حالت نہ تھی اور ان کا اور دوسری قوموں کا ایک دوسرے کے خلاف اٹھنا تو ایک بدیہی بات ہے جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں اور نفخ فی الصور سے مسیح موعود کی بعثت مراد ہے کیونکہ خدا کے مرسلین بھی ایک طور یعنی انگل کی طرح ہوتے ہیں جن کے ذریعہ خدا دنیا میں اپنی آواز کو بلند کرتا ہے اور پھر ان کے ذریعہ لوگوں کو ایک نقطہ پر جمع کر دیتا ہے.سو اب بھی انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا بلکہ ہورہا ہے مگر جس طرح پہلی رات کا چاند اکثر لوگوں کو نظر نہیں آتا اسی طرح ہر تغیر شروع میں مخفی ہوتا ہے، لیکن آہستہ 85

Page 96

آہستہ بڑھتے ہوئے چاند کی طرح روشن ہوتا چلا جاتا ہے.فتدبر وا یا نچھ میں علامت پانچویں علامت یہ بتائی گئی تھی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اسلام کی حالت سخت نازک ہوگی اور بے دینی کا زور ہو گا.مسلمان یہودیوں کی طرح ہو جائیں گے اور ان کے علماء کی حالت بھی ابتر ہو جائے گی اور مسلمانوں میں بہت سے اختلافات پیدا ہو جائیں گے اور ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا وغیرہ وغیرہ.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :- لَتَتَّبِعَنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا مُخْرَضَبٍ لَتَبِعْتُمُوْهُمْ قِيْلَ يَارَسُوْلَ اللهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارِي قَالَ فَمَنْ وَفِي رِوَايَةٍ يَذْهَبُ الصَّلِحُونَ وَيَبْقَى حُفَالَةً كَحُفَالَةِ الشَّعِيرِ أو التَّمْرِ لَا يُبَالِيهُمُ اللهُ بَالَةٌ.وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلُعَمَ يُوْشِكُ الأمم أنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَاتَدَاعَى الْأَكِلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا.قَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ قَالَ بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ عُقاءُ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلْيَأْزِ عَنَ الله مِنْ صُدُورِ عُدُةٍ كُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلْيَقْذِ فَنَ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهُ.قَالَ قَائِلُ يَارَسُوْلَ اللهِ وَمَا الْوَهْنُ.قَالَ حبُّ الدُّنْيَا وَكَرًا هِيَةُ الْمَوْتِ وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ يَكُونُ بَعْدِى لَمَّةٌ لَّا يتَدُونَ بِهدَايَ وَلَا يَسْتَتُونَ بِسُنَّتِي وَسَيَقُومٍ فِيْهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيْطِيْنِ فِي جُثْمَانِ إِنسِ وَفِي رِوَايَةٍ عُلَمَاءُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ ادِيمِ السَّمَاءِ.وَفِي رِوَايَةٍ وَيَرْفَعُ الْعِلْمُ وَيَكْثُرُ الْجَهْلُ وَيَكْثُرُ الزِّنَا وَيَكْثُرُ شُرْبُ الْخَمْرِ وَفِي رَوَايَةٍ تَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِيْن فِرْقَةٍ كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً وَهِيَ الْجَمَاعَةُ.وَفِي رِوَايَةٍ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ القُرَيَا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ فَارِس مشكوة كتاب الفتن والشراط الساعة وغير “ 86

Page 97

یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو! تم ضرور بالضرور اپنے سے پہلے گذری ہوئی اُمتوں کے قدم بقدم چلو گے بالشت بہ بالشت اور دست بدست.حتی کہ اگر کوئی سابقہ قوم گوہ یعنی سوسمار کے سوارخ میں بھی داخل ہوئی ہوگی تو تم بھی ایسا ہی کرو گے عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! کیا پہلی اُمتوں سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا.وہ نہیں تو اور کون ؟ اور ایک روایت میں آتا ہے کہ صلحاء گذر جائیں گے اور صرف بھوسہ رہ جائے گا.جس طرح جو یا کھجور کا بھوسہ ہوتا ہے اور اللہ ایسے لوگوں کی بالکل پرواہ نہ کرے گا اور ایک روایت یوں آتی ہے کہ قریب ہے کہ تمہارے خلاف دوسری اُمتیں ایک دوسرے کو مدد کے لئے بلائیں جس طرح کھانے والا اپنے برتن کی طرف دوسروں کو دعوت دیتا ہے یعنی تم دوسروں کی خوراک بن جاؤ گے اور وہ ایک دوسرے کو تم پر دعوت دیں گے.ایک شخص نے عرض کیا.یا رسول اللہ! کیا ہم اس دن تھوڑے ہوں گے؟ اور اس قلت کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگا ؟ فرمایا.نہیں بلکہ تم اس دن کثیر ہو گے لیکن تم اس جھاگ کی طرح ہو گے جو کہ سیلاب کے بعد ایک برساتی نالے کے کنارے پر پائی جاتی ہے.یعنی نہایت درجہ رڈی اور غیر مفید حالت میں ہو گے اور اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رُعب مٹا دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری ڈال دے گا.عرض کیا گیا کہ کمزوری سے کیا مراد ہے؟ فرمایا.دنیا کی محبت اور موت کا ڈر.یعنی بُزدلی کی وجہ سے نیک کاموں سے رُک جانا.اور ایک روایت میں یہ ہے کہ میرے بعد ایک زمانہ میں ایسے علماء پیدا ہوں گے جو میری ہدایت سے ہدایت نہ پائیں گے اور میری سنت پر کار بند نہ ہوں گے اور میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے دل شیطانوں کے دل ہوں گے گوجسم انسانوں کے سے ہوں گے اور ایک روایت اس طرح پر آئی ہے کہ میری امت کے علماء کی یہ حالت ہوگی کہ وہ آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ علم اُٹھ جائے گا اور جہالت کی کثرت ہوگی اور زنا اور شراب خوری کی بھی کثرت ہوگی اور ایک 87

Page 98

روایت میں یہ ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں مسلمانوں کی حالت ایسی ہوگی کہ تعداد میں تو کثرت ہوگی مگر دل ٹیڑھے ہوں گے.یعنی نہ ایمان درست ہوگا اور نہ اعمال.اور ایک روایت اس طرح پر آئی ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں منقسم ہو جائے گی جو سب آگ کے رستہ پر ہوں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت والا فرقہ ہوگا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا، لیکن اگر وہ ثریا پر بھی چلا گیا یعنی دنیا سے بالکل ہی مفقود ہو گیا تو پھر بھی ایک فارسی الاصل شخص اُسے واپس اُتار لائے گا“.یہ وہ نقشہ ہے جو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے اس آخری گروہ کا کھینچا ہے جس میں مسیح موعود کی بعثت مقدر ہے اب ناظرین خود دیکھ لیں کہ آیا اس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت اس نقشہ کے مطابق ہے یا نہیں؟ ہم دعوی کے ساتھ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی ایسا زمانہ نہیں آیا کہ جب مسلمانوں کی حالت دینی لحاظ سے ایسی پست اور خراب ہوئی ہو جو اس زمانہ میں ہے اور یہ ایسی بات ہے جس پر کسی دلیل کے لانے کی ضرورت نہیں.اعمال میں سست ہونے کے علاوہ اعتقادات میں بھی وہ اندھیر ہے کہ مسلمانوں کے بہتر فرقے ہورہے ہیں جو ایک دوسرے سے عقائد میں سخت مخالف ہیں اور تو اور خود ذاتِ باری تعالیٰ کی صفات کے متعلق بھی بھاری اختلاف ہو رہا ہے.پھر ایمان کا یہ حال ہے کہ ننانوے فیصدی مسلمان ایسے ہوں گے کہ جن کے دلوں سے ایمان کی طور پر پرواز کر چکا ہے.وہ منہ سے تو اقرار کرتے ہیں کہ خدا ہے مگر دراصل دل میں خدا کے منکر ہیں اور در پردہ دہریت کا شکار ہو چکے ہیں.صرف اعتقادی اور زبانی طور پر کہتے ہیں کہ خدا ہے لیکن ذرا گرید کر پوچھو تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کی ذات کے متعلق سینکڑوں شبہات میں مبتلا ہیں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کے متعلق بھی اُن کا ایمان کسی مستحکم براہینی چٹان پر قائم نہیں بلکہ محض جذباتی رنگ کا ہے اور بعث بعد الموت ، جزاء سزا اور فرشتوں کا وجود تو بالکل ہی وہمی قرار دیا گیا ہے.پھر عبادت کی وہ راہیں جن پر قدم مارنے سے پہلوں نے خدا کے دربار تک رسائی حاصل 88

Page 99

کی تھی حقارت اور استخفاف کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں.شرک جس کے خلاف سارا قرآن شریف بھرا پڑا ہے مسلمانوں کی حرکات وسکنات سے کھلے طور پر ظاہر ہورہا ہے.روپے سے محبت کی جاتی ہے اور اس پر وہ بھروسہ کیا جاتا ہے جو خود ذات باری تعالیٰ کے شایانِ شان ہے.قبروں پر جا کر سجدے کئے جاتے ہیں.شراب خوری، زنا کاری ، قمار بازی اور حرام خوری کا میدان گرم ہے.سود جس کے متعلق کہا گیا کہ اسے لینے اور دینے والا خدا تعالیٰ سے جنگ کرنے کو تیار ہو جائے شیر مادر کی طرح سمجھا گیا ہے مسلمانوں کی تمام سلطنتیں کمزور ہو کر کھوکھلی ہو چکی ہیں اور مسیحی حکومتیں ان کو اپنا شکار سمجھتی ہیں.دوسری طرف اسلام کا وجود خود بیرونی حملوں کا اس قدر شکار ہورہا ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ بس یہ آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں.نبیوں کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گندے سے گندے اعتراض کئے جاتے ہیں.آپ کی ازواج مطہرات کو مختلف قسم کے الزامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسلامی تعلیم کو ایک نہایت بد نما شکل میں پیش کر کے اس پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے.صلیبی مذہب پورے زور پر ہے اور دہریت اپنے آپ کو ایک خوبصورت شکل میں پیش کر رہی ہے غرض اسلام کی کشتی ایک ایسے طوفان بے تمیزی کے اندر گھری ہوئی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ اس کے بچانے کے لئے نہ بڑھے اس کا کنارے پر پہنچنا ناممکنات میں سے ہے.علماء جن کا فرض تھا کہ ایسے وقت میں اسلام کی مدد کے لئے کھڑے ہوتے خواب غفلت میں پڑے سوتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ خود ہزاروں بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کے ایمانوں کی حالت ایسی ابتر ہو چکی ہے کہ الامان ! چند پیسوں پر ایمان فروشی کو تیار ہو جاتے ہیں.یہ تمام حالات پکار پکار کر بتا رہے ہیں کہ یہی وہ زمانہ ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ڈرایا تھا اور یہی وہ وقت ہے جس میں اسلام کے عظیم الشان مجد دسیح اور مہدی کی آمد مقدر ہے کیونکہ اگر ایسی اشد ضرورت کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مصلح ظاہر نہ ہو تو پھر نعوذ باللہ خدا کا وہ وعدہ غلط ٹھہرتا ہے کہ میں قرآن اور اسلام کی حفاظت کروں گا اور دین کی خدمت کے لئے خلفاء اور مجد ڈین کھڑے کرتا رہوں گا.89

Page 100

چھٹی علامت چھٹی علامت مسیح و مہدی کی یہ بیان کی گئی تھی کہ اس کے زمانہ میں معینہ تواریخ میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.چنانچہ امام محمد باقر سے روایت آتی ہے کہ :.ان لمهدينا أيتين لم تكونا منذ خلق السموت والارض ينكسف القمر لاول ليلة من رمضان وتنكسف الشمس في النصف منه (دار قطنی جلد اول صفحه (۱۸۸) یعنی ” ہمارے مہدی کے لئے دو نشان مقرر ہیں اور جب سے کہ زمین اور آسمان پیدا ہوئے ہیں یہ نشان کسی اور مامور کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینے میں چاند کو اس کی پہلی رات میں گرہن لگے گا ( یعنی تیرھویں تاریخ میں کیونکہ چاند کے گرہن کے لئے خدائی قانونِ قدرت میں تیرھویں اور چودھویں اور پندرھویں تو اریخ مقرر ہیں جیسا کہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں) اور سورج کو اس کے درمیانی دن میں گرہن لگے گا ( یعنی اسی رمضان کے مہینہ میں اٹھائیں تاریخ کو کیونکہ سورج گرہن کے لئے قانونِ قدرت میں ستائیس، اُٹھائیس اور انتیس تواریخ مقرر ہیں ) اب تمام دنیا جانتی ہے کہ السلاھ مطابق ۱۸۹۴ء میں یہ نشانی نہایت صفائی کے ساتھ پوری ہو چکی ہے.یعنی اس ا ھ کے رمضان میں چاند کو اس کی راتوں میں سے پہلی رات میں یعنی تیرھویں تاریخ کو گرہن لگا اور اسی مہینہ میں سورج کو اس کے دنوں میں سے درمیانی دن یعنی اٹھائیس تاریخ کو گرہن لگا اور یہ نشان دو مرتبہ ظاہر ہوا.اوّل اس نصف گرہ زمین میں اور پھر امریکہ میں اور دونوں مرتبہ انہی تاریخوں میں ہوا جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے.اور یہ نشانی صرف حدیث ہی نے نہیں بتائی بلکہ قرآن شریف نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے.جیسا کہ فرمایا:- 90

Page 101

وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ.(سورة القيامة ع۱) یعنی چاند کو گرہن لگے گا اور اس گرہن میں سورج بھی چاند کے ساتھ شامل ہوگا.یعنی اُسے بھی اسی مہینہ میں گرہن لگے گا.اب دیکھو کس صفائی کے ساتھ یہ علامت پوری ہو کر ہمیں بتا رہی ہے کہ یہی وہ وقت ہے جس میں مہدی کا ظہور ہونا چاہئے کیونکہ جو اس کے ظہور کی علامت تھی وہ پوری ہو چکی ہے.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ حضرت امام محمد باقر تک پہنچ کر رُک جاتی ہے.دوسرے یہ کہ اس میں چاند گرہن رمضان کی اوّل رات میں اور سورج گرہن رمضان کے وسط میں بیان کیا گیا ہے.حالانکہ عملاً چاند کا گرہن تیرھویں میں اور سورج کا گرہن اٹھائیسویں میں ہوا تھا ؟ ان اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ بے شک یہ حدیث ظاہر اموقوف ہے لیکن محدثین کے اصول کے مطابق یہ روایت حکماً مرفوع ہی ہے.پھر یہ بھی تو دیکھو کہ راوی کون ہے؟ کیا وہ اہل بیت نبوی کا درخشندہ گوہر نہیں؟ اور یہ بات بھی سب لوگ جانتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت کا یہ طریق تھا کہ بوجہ اپنی ذاتی وجاہت کے وہ سلسلۂ حدیث کو نام بنام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانا ضروری نہیں سمجھتے تھے.یہ عادت اُن کی شائع اور متعارف ہے اور بہر حال یہ حدیث ہم نے نہیں بنائی بلکہ آج سے تیرہ سو سال پہلے کی ہے.دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ چاند کو مہینے کی پہلی تاریخ میں اور سورج کو وسط میں گرہن لگنا سنّت اللہ اور قانونِ قدرت کے خلاف ہے.قانونِ قدرت نے جو خدا کا بنایا ہوا قانون ہے چاند کے گرہن کو قمری مہینے کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں میں اور سورج کے گرہن کو ستائیسویں، اٹھائیسویں اور انتیسویں میں محدود کر دیا ہے.پس پہلی تاریخ سے ان تاریخوں میں سے پہلی اور درمیانی تاریخ سے ان تاریخوں میں سے درمیانی مراد ہے نہ کہ مطلقا مہینہ کی پہلی اور درمیانی تاریخ.اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ مہینے کی ابتدائی راتوں کا چاند عربی زبان میں ہلال کہلاتا ہے مگر حدیث میں قمر کا لفظ رکھا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں ابتدائی رات مراد نہیں.علاوہ ازیں ہمیشہ سے مسلمان علماء ان تاریخوں کے متعلق یہی تشریح کرتے رہے ہیں جو ہم نے اس 91

Page 102

جگہ کی ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی مولوی محمد صاحب لکھو کے والے نے اس نشان کے ظاہر ہونے سے پہلے لکھا تھا کہ تیرھویں چند ستیہو میں سورج گرہن ہوسی اس سالے اندر ماہ رمضانے لکھیا ایہہ ایک روایت والے اس شعر میں مولوی صاحب نے غلطی سے اٹھائیسویں تاریخ کی جگہ ستائیسویں تاریخ لکھ دی ہے مگر بہر حال اصول وہی تسلیم کیا ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ واقعات نے بھی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ پہلی تاریخ سے تیرھویں تاریخ اور درمیانی تاریخ سے اٹھائیسویں تاریخ مراد ہے.الغرض یہ نشان ایسا واضح طور پر پورا ہوا ہے کہ کسی حیلہ و جنت کی گنجائش باقی نہیں رہی.چنانچہ معتبر ذرائع سے سنا گیا ہے کہ جب یہ نشان پورا ہوا تو بعض مولوی صاحبان اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے تھے اور کہتے تھے کہ اب خلقت گمراہ ہوگی.اب خلقت گمراہ ہوگی“.یہ بھی عَلَمَاءُهُمُ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ ( یعنی مسیح موعود کے وقت میں علماء دنیا کی بدترین مخلوق ہونگے ) کی ایک واضح مثال ہے کہ ادھر خدا کا نشان ظاہر ہورہا ہے اور ادھر مولوی صاحبان کو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ یہ نشان کیوں ظاہر ہوا کیونکہ لوگ اس سے ہمارے پھندے سے نکل کر مرزا صاحب کو ماننے لگ جاویں گے.افسوس! صد افسوس!! اے بد بخت فرقۂ مولویان ! تم نے کثیر التعداد سادہ لوح مخلوق خدا کو گمراہ کر دیا.تمہارے بہکانے میں آ کر لوگوں نے دیکھتے ہوئے نہ دیکھا اور سنتے ہوئے نہ سنا اور سمجھتے ہوئے نہ سمجھا.خدا سے ڈرو کہ ایک دن اس کے سامنے کھڑے کئے جاؤ گے.ساتویں علامت ساتویں علامت یہ بتائی گئی تھی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں دابۃ الارض کا خروج ہو گا جو لوگوں کو کاٹے گا اور مومن و کافر میں امتیاز کر دے گا اور ملک میں چکر لگائے گا.چنانچہ قرآن شریف میں بھی اس کا ذکر موجود ہے جہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.92

Page 103

وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةٌ مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِأَيْتِنَا لَا يُوْقِنُونَ (سورۃ نمل ع۶) یعنی ” جب ( مسیح موعود کے بھیجنے سے ) خدا کی حجنت اُن پر پوری ہو جائے گی تو ہم زمین میں سے ایک جانور نکالیں گے جولوگوں کو کاٹے گا اور انہیں زخمی کرے گا.یہ اس لئے ہوگا کہ لوگ خدا کے نشانوں پر ایمان نہیں لائیں گئے.پھر احادیث میں بھی کثرت کے ساتھ قرب قیامت کی علامات میں دابتہ الارض کا ذکر پایا جاتا ہے.(دیکھو بخاری و مسلم ) اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک کیٹر اخروج کرے گا جو ملک میں چکر لگائے گا اور مومنوں اور کافروں میں امتیاز کرتا جاوے گا.اب دیکھ لو کہ طاعون نے حضرت مرزا صاحب کے زمانے میں ظاہر ہو کر اس علامت کو کس وضاحت کے ساتھ پورا کر دیا ہے.یہ بات مسلم ہے کہ طاعون کی بیماری ایک کیڑے سے پیدا ہوتی ہے اور دابۃ الارض کے معنے بھی ایک زمینی کیڑے کے ہیں چنانچہ قرآن شریف میں دوسری جگہ آتا ہے دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأكُلُ مِنْسَاتَهُ ( سورۃ سباع (۲) یعنی ایک زمینی کیٹر ا حضرت سلیمان کے عصا کو کھا تا تھا.اس جگہ سب مفسرین دابۃ کے معنے کیڑے کے کرتے ہیں پس کوئی وجہ نہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونے والے دابۃ الارض سے کیڑے کے سوا کوئی اور معنے لئے جاویں اور دوسری روایات میں جو اس دابۃ کی علامات وارد ہوئی ہیں وہ مجاز اور استعارہ کے طور پر ہیں اور حق یہی ہے کہ طاعون ہی دابۃ الارض ہے جس نے مسیح موعود کے وقت میں ظاہر ہو کر حق و باطل میں امتیاز کر دیا ہے واقعی اس نے منکروں کے ماتھے پر بھی ایک نشان لگایا اور مومنوں کے ماتھے پر بھی ایک نشان لگایا اور اسطرح دونوں جماعتوں کو ممتاز کر دیا یہ ایک بین حقیقت ہے کہ جو ترقی احمد یہ جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں طاعون کے ذریعہ سے ہوئی ہے وہ اور کسی ذریعہ سے نہیں ہوئی.اس بیماری نے حضرت مرزا صاحب کے مخالفوں کو چن چن کر لیا ہے اور دوسری طرف حضرت مرزا صاحب اور آپ کے حواری اس کے اثر سے گویا بالکل محفوظ رہے.پس یہی وہ سفید وسیاہ نشان ہیں جو دابتہ الارض نے لگائے ہیں جن ایام میں ملک میں طاعون کا زور تھا - 93

Page 104

ان دنوں میں بعض اوقات ایک ایک دن میں کئی کئی سو آدمیوں کی بیعت کی درخواست حضرت مرزا صاحب کے پاس پہنچتی تھی اور لوگ بدحواسوں کی طرح آپ کی طرف دوڑے آتے تھے.یہ ایک عجیب منظر ہے کہ ابتدائی چند سالوں میں احمدیوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہوئی لیکن طاعون یعنی دابة الارض کے خروج یعنی ۱۹۰۰ ء کے بعد سے دیکھتے ہی دیکھتے احمد یہ جماعت کا شمار ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تک پہنچ گیا.فالحمد لله على ذالك.یہ کہنا کہ طاعون میں بعض احمدی بھی فوت ہو گئے ایک جہالت کا اعتراض ہے کیونکہ اول تو مقابلہ نظر ڈالنی چاہئے کہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں طاعون کی وارداتوں میں کیا نسبت رہی ہے؟ دوسرے کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں مسلمان شہید نہ ہوتے تھے؟ حالانکہ یہ غزاوت کافروں کے لئے ایک عذاب الہی تھے.پس دیکھنا یہ چاہئے کہ طاعون کے ذریعہ سے کس جماعت نے ترقی کی اور کس کو نقصان پہنچا ہے اور جو شاذ و نادر واردا تیں احمدیوں میں ہوئی ہیں وہ شہادتیں ہیں جو خدا نے ہمارے بعض بھائیوں کو نصیب کی ہیں مگر پھر بھی جماعت کے سر کردہ لوگ اور خاص مقربین طاعون کے اثر سے بالکل محفوظ رہے، لیکن مخالفوں میں سے کئی لوگ جو مخالفت میں اول نمبر پر تھے اس بیماری کا شکار ہو گئے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس بیماری نے احمد یہ جماعت کو ایک فوق العادت ترقی دی اور دشمنوں کی تعداد کم ہوئی اور ہماری تعداد بڑھی.غرض دابۃ الارض ظاہر ہو کر اپنا کام کر گیا.اب خواہ خدا کے حضور رؤو اور چلا ؤ اور دُعاؤں میں اپنی ناکیں گھو کوئی اور دابۃ الارض تمہاری مرضی کے مطابق ظاہر نہیں ہوگا.کیونکہ جو ظاہر ہونا تھا وہ ہو چکا.ہاں تمہارے دماغوں میں جہالت اور خود پسندی کا ایک دابہ ضرور مخفی ہے جو تمہیں کھا رہا ہے خدا کرے کہ وہ بھی خروج کرے تا تمہیں کچھ چین آوے.آٹھویں علامت آٹھویں علامت یہ ہے کہ مسیح موعود دمشق کے شرقی طرف ایک سفید منارے کے پاس نازل ہوگا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :- 94

Page 105

يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَ دِمَشْقِ ( کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۲۲) یعنی " مسیح موعود دمشق کے شرقی جانب سفید منارہ کے پاس نازل ہوگا“.اس علامت کے متعلق پہلے یہ یادرکھنا چاہئے کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مسیح موعود آسمان سے نازل نہیں ہوگا بلکہ وہ اس امت کا ایک فرد ہے پس منارہ پر نازل ہونے کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ مسیح موعود واقعی آسمان کی طرف سے کسی منارہ پر نازل ہوگا اور پھر منارہ سے نیچے اترے گا.دوسرے یہ کہ اس حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ منارہ کے اُوپر سے اُترے گا بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ منارہ کے پاس اُترے گا.یعنی وہ ایسی حالت میں اترے گا کہ سفید منارہ اس کے پاس ہوگا اور ان دونوں میں بھاری فرق ہے اس کے بعد جاننا چاہئے کہ قادیان صوبہ پنجاب ملک ہند جو حضرت مرزا صاحب کا وطن ہے ٹھیک دمشق کے مشرقی میں واقع ہے.یعنی وہ دمشق کے عین مشرق کی طرف اسی عرض بلد میں واقع ہے جس میں کہ دمشق ہے.پس دمشق کے مشرق والی بات میں تو کوئی اشکال نہ ہوا.اب رہا منارہ کا لفظ سو اس سے مراد یہ ہے کہ مسیح موعود کا نزول ایسے زمانہ میں ہوگا کہ اس وقت وسائل رسل و رسائل اور میل جول کی کثرت یعنی انتظام ریل و جہاز وڈاک و تار و مطبع وغیرہ کی وجہ سے تبلیغ و اشاعت کا کام ایسا آسان ہوگا کہ گویا یہ شخص ایک منارہ پر کھڑا ہوگا اور یہ کہ اس کی آواز دُور دُور تک پہنچے گی اور اس کی روشنی جلد جلد دنیا میں پھیل جائے گی.جیسا کہ منارہ کی خاصیت ہے.گویا کہ مراد یہ نہیں ہے کہ مسیح موعود کا نزول منارہ کے اوپر سے ہوگا بلکہ مراد یہ ہے کہ مسیح موعود اس حالت میں مبعوث ہو گا کہ سفید منارہ اس کے پاس ہوگا.یعنی اشاعت دین کے بہترین ذرائع اُسے میتر ہوں گے اور ان معنوں میں مشرق کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ مسیح موعود کا سورج اپنے افق مشرق سے بہترین حالات کے ماتحت طلوع کرے گا اور اس کی کرنیں جلد جلد اکناف عالم میں پھیل جائیں گی.نیز منارے کے لفظ سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ جس طرح ایک چیز جو بلندی پر ہو وہ سب کو نظر آجاتی ہے اور دُور دُور کے رہنے والے بھی اسے دیکھ لیتے ہیں اسی طرح مسیح موعود کا قدم بھی ایک منارہ پر ہوگا اور وہ ایسے روشن اور بقین دلائل کے ساتھ ظاہر ہوگا کہ 95

Page 106

اگر لوگ خود اپنی آنکھیں نہ بند کر لیں اور اس کی روشنی کو دیکھنے سے منہ نہ پھیر لیں تو وہ ضرور تمام دیکھنے والوں کو نظر آجائے گا کیونکہ وہ ایک بلند مقام پر ہوگا.پس یہ پیشگوئی استعارہ کے رنگ میں ایک نہایت لطیف کلام پر مشتمل ہے جس کی حقیقت کو سمجھا نہیں گیا.منارہ کے ساتھ سفید کا لفظ بڑھانے میں بھی ایک حکمت ہے اور وہ یہ کہ گوہر منارہ دُور سے نظر آتا ہے، لیکن اگر وہ سفید ہو تو پھر تو خصوصیت کے ساتھ وہ زیادہ چمکتا اور دیکھنے والوں کی نظر کو اپنی طرف زیادہ کھینچتا ہے یا سفید کا لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسیح موعود کی بلندی بے عیب ہوگی یعنی یہ نہیں ہوگا کہ وہ کسی دنیاوی وجاہت وغیرہ سے ایک بلند مقام پر ہوگا بلکہ اُس کی بلندی خالص طور پر روحانی ہوگی اور اسی مقدس صورت میں وہ لوگوں کو نظر آئے گا بشر طیکہ لوگ تعصب اور ظلمت پسندی کی وجہ سے اپنی آنکھیں خود نہ بند کر لیں.اس کی ظاہر مثال یوں ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کوٹھڑی کی کھڑکیاں بند کر کے اندر بیٹھ جائے تو باوجود اس کے کہ سورج چڑھا ہوا ہو.اس کے کمرہ کے اندراند ھیرا ہی رہے گا.مگر اس میں سورج کا کوئی قصور نہیں.اسی طرح اگر کوئی شخص ا.دل کی کھڑکیاں بند کر لے تو رُوحانی سورج اُسے کس طرح روشنی پہنچا سکتا ہے؟ حضرت مرزا صاحب اس علامت کے پورا ہونے کا اپنے ایک شعر میں یوں ذکر فرماتے ہیں از کلمه مناره شرقی عجب مدار چوں خود ز مشرق است تحلی نیزم یعنی روایات میں جو شرقی منارہ کا ذکر آتا ہے اس کی وجہ سے حیرانی میں نہ پڑو.کیونکہ میرے سورج کا طلوع بھی مشرق ہی سے ہوا ہے“.نویس علامت اپنے نویں علامت یہ ہے کہ حدیث میں مسیح موعود کا معین حلیہ بتایا گیا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:.بينما انا نائم اطوف بالكعبة فاذا رجل ادم سبط 96

Page 107

الشعر ينطف او يهراق رأسه ماءً قلت من هذا قالوا بن مريم ثم ذهبتُ التفت فاذا رجل جسیم احمر جعد الرأس اعور العين كان عينه عنبةٌ طافية فقلت من هذا قالوا هذا الدجال.نیز فرماتے ہیں:- ( صحیح بخاری جلد دوم کتاب بدء اتحلق ) ينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق بين مهذودتين واضعًا كفيه على اجنحة ملكين اذا طأطأ رأسه قطر واذا رفعة تحدّ رمنه مثل جمانٍ كاللؤلوء فلا يحل لكافر يجد من ريح نفسه الأمات.( صحیح مسلم جلد ثانی) یعنی ”میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کعبہ کا طواف کر رہا ہوں کہ ناگاہ ایک آدمی میرے سامنے آیا.اس کا رنگ گندم گوں تھا اور بال سیدھے اور لمبے تھے اور اس کے سر سے پانی کے قطرے ٹپکتے تھے.میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ یہ ابن مریم ہے پھر اس کے بعد میں نے ایک جسیم آدمی دیکھا جو سرخ رنگ کا تھا اور اس کے بال گھنگر الے تھے اور وہ ایک آنکھ سے کانا تھا.گویا کہ اس کی ایک آنکھ آنگور کے دانے کی طرح پھولی ہوئی تھی مجھے بتایا گیا کہ یہ دجال ہے.اور ایک حدیث میں یوں آیا ہے کہ مسیح موعود دمشق سے مشرق کی طرف سفید منارے کے پاس نازل ہوگا اس حال میں کہ وہ دو زرد چادروں میں لپٹا ہوا ہوگا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے ہوں گے.جب وہ اپنا سر جھکائے گا تو اس سے پانی کے قطرے گریں گے اور جب سر کو اُٹھائے گا تو اس سے موتی جھڑیں گے اور ہر کا فرجس تک اس کا سانس پہنچے گا.مرجائے گا“.میہ وہ حلیہ ہے جو احادیث میں مسیح موعود کا بیان ہوا ہے اب دیکھ لو کہ کس صفائی کے ساتھ یہ حلیہ حضرت مرزا صاحب میں پایا جاتا ہے.دنیا جانتی ہے کہ آپ کا رنگ گندم گوں تھا.آپ کے 97

Page 108

بال پشم کی طرح نرم اور سیدھے اور لمبے تھے اور سیدھے بھی ایسے کہ ایک ایک بال ریشم کی تارکی طرح الگ الگ نظر آتا تھا.پھر آپ دوز رد چادروں میں لیٹے ہوئے مبعوث ہوئے تھے.یعنی دو بیماریاں آپ کو لاحق تھیں اور دعوئی مسیحیت سے لیکر یومِ وصال تک لاحق رہیں.چنانچہ حضرت مرز اصاحب فرماتے ہیں :- دو مرض میرے لاحق حال ہیں.ایک بدن کے اوپر کے حصہ میں اور دوسری بدن کے نیچے کے حصہ میں اوپر کے حصہ میں دورانِ سر ہے اور نیچے کے حصہ میں کثرتِ پیشاب ہے اور یہ دونوں مرضیں اُسی زمانہ سے ہیں جس زمانہ سے میں نے اپنا دعویٰ مامور من اللہ ہونے کا شائع کیا ہے.میں نے ان کے لئے دُعائیں بھی کیں.مگر منع میں جواب پایا.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۰۷) یہ بات کہ زرد کپڑے سے عالم رویا میں بیماری مراد ہوتی ہے ایک ایسا بین امر ہے کہ کسی تشریح کی ضرورت نہیں.( مثلاً دیکھو تعطیر الا نام جلد ۲ صفحہ ۴۱) حدیث کے باقی ماندہ امور که مسیح موعود کے دم سے کافر مریں گے اور سر سے قطرے اور موتی جھڑیں گے.وغیرہ اس کے متعلق ہم علامات کی بحث کے اختتام پر ایک نوٹ درج کریں گے کیونکہ یہ باتیں حلیہ کا حصہ نہیں بلکہ عام علامات کا حصہ ہیں.نزول مسیح کے متعلق ایک زبر دست پیشگوئی اب جبکہ حضرت مسیح ناصری کی وفات اور مسیح و مہدی کے نزول کی علامات کی بحث مکمل ہو چکی ہے اس لئے اگلی بحث ( یعنی دسویں علامت کا بیان ) شروع کرنے سے قبل حضرت مرزا صاحب کا ایک حوالہ درج کرنا ضروری ہے جس میں حضرت مرزا صاحب نے مسیح ناصری کی وفات اور نزول کے عقیدہ کے متعلق ایک زبر دست پیشگوئی فرمائی ہے آپ فرماتے ہیں :- ”اے تمام لو گوئن رکھو کہ یہ اُس خدا کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے 98

Page 109

یا درکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولا د مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گذر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا ابھی تک آسمان سے نہ اُترا.تب سب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سب نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دینگے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا.اب وہ بڑھے گا اور چھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(تذکرۃ الشہادتین صفحه ۶۵،۶۴) دسویں علامت مسیح موعود کا کام مسیح موعود کی دسویں علامت یہ بتائی گئی تھی کہ وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو مارے گا اور دجال کو قتل کرے گا اور اسلام کو دوسرے مذاہب پر غلبہ بخشے گا.حتی کہ آفتاب مغرب سے طلوع کرے گا اور مسیح موعود تمام اختلافات میں سچا سچا فیصلہ کرے گا اور کھویا ہوا ایمان پھر دنیا میں قائم کرے گا اور کثرت کے ساتھ اموال تقسیم کرے گا مگر لوگ اس کے مال کو قبول نہیں کریں گے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:- والله لينز لن ابن مريم حكمًا عادلاً فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير وليضعن الجزية وليتركن القلاص فلايسعى عليها 99

Page 110

ولتذهبن الشحناء والتباغض والتحاسد وليدعون الى المال فلا يقبله احد (مسلم) وفى رواية يفيض المال حتى لا يقبله احد (بخاری) اور قتل دجال کے متعلق روایت ہے جس کا فارسی ترجمہ یہ ہے کہ :- دجال چوں نظر بعیسی کند بگداز د- چنانچه نمک در آب بگد از دو بگریزڈ.حج الکرامہ مصنفہ نواب صدیق حسن خان آف بھوپال سرگردہ فرقہ اہل حدیث ) فيطلبه حتی پدر که بباب لد فيقتله.(مسلم) وفي روايةٍ وتطلع الشمس من مغربها - (مشكوة) وفى رواية لو كان الايمان عند الثريا لناله رجل من هؤلاء اى ابناء (فارس) (بخاری) وقال الله تعالى هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ.(سورۃ تو به ع ۵) یعنی ” خدا کی قسم تم میں ابن مریم ضرور ضرور نازل ہوگا.اور وہ تمہارے اختلافات میں سچا سچا فیصلہ کرے گا (یعنی روایات یا عقائد یا اعمال وغیرہ میں جو اختلافات پیدا ہو چکے ہونگے اُن میں مسیح موعود سچا سچا فیصلہ کر یگا ) اور وہ ضرور صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور جزیہ کو موقوف کر دیگا ( اور اس کی تشریح میں بخاری کی ایک روایت ہے کہ وہ جنگ کو موقوف کر دیگا) اور اس کے زمانہ میں سواری کی اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی یعنی ان پر سفری سواری نہیں ہوگی (اور اس کے ماننے والوں میں ) کینہ اور بغض اور حسد جاتا رہے گا اور مسیح موعو دلوگوں کو مال کی طرف بلائے گا مگر کوئی اس کے مال کو قبول نہیں کرے گا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ وہ کثرت کے ساتھ مال بہائے گا مگر کوئی نہیں لے گا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب دجال اسے دیکھے گا تو اس طرح پگھلنا شروع ہو جائے گا.جس طرح کہ پانی میں نمک پچھلاتا ہے اور دجال اس سے بھاگے گا لیکن مسیح موعود اس کا پیچھا کر کے باب لد کے پاس اسے آدبائے گا 100

Page 111

اور اسے قتل کر دے گا اور اس کے زمانہ میں آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع کرے گا اور ایمان اگر دنیا سے ایسا مفقود بھی ہو چکا ہوگا کہ گویا ثریا ستارہ پر چلا گیا ہے تو پھر بھی ایک مرد کامل جو فارسی الاصل ہو گا اُسے دوبارہ دنیا میں اُتار لائے گا (یعنی یہی مسیح موعود کھوئے ہوئے ایمان کو دنیا میں پھر دوبارہ قائم کرے گا ) اور قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ ہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ وہ اسے تمام دوسرے دینوں پر غالب کر دکھائے ( اس آیت کو مفسرین نے مسیح موعود کے زمانہ پر لگایا ہے اور صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ یہ وعدہ مسیح موعود کے زمانہ میں پورا ہوگا“.مسیح موعود کی علامتوں میں سے یہ دسویں علامت ہے اور درحقیقت یہی تمام علامتوں کی جان ہے کیونکہ اس میں مسیح موعود کا کام بتایا گیا ہے اور ایک روحانی مصلح کی سب سے بڑی شناخت اس کے کام کے ذریعہ سے ہی ہوا کرتی ہے اسی لئے ہم نے اس علامت کی بحث کو ایک الگ اور مستقل باب میں بیان کرنا مناسب سمجھا ہے در حقیقت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت مرزا صاحب نے وہ کام کر دکھایا ہے اور سنتِ رسل کے مطابق اس کی تخم ریزی کر دی ہے جو مسیح موعود کے ہاتھ پر سر انجام پانا مقدر تھاتو پھر کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہے گی اور اس کے بعد کسی اور فرضی مسیح و مہدی کا انتظار بے سود ہوگا.کیونکہ اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جاوے کہ حضرت مرزا صاحب موعود مسیح و مہدی نہیں ہیں تو پھر بھی اگر آپ کے ذریعہ مسیح موعود اور مہدی معہود کا مقررہ کام واقعی پورا ہو گیا ہے تو اس اصلی ( گو ہمارے نزدیک فرضی) مسیح ومہدی کا مبعوث کیا جانا ایک محض لغو فعل ہو گا جو خدا جیسی حکیم ذات سے ہرگز متوقع نہیں ہوسکتا.مگر اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے بعض تمہیدی باتوں کا بیان کر دینا ضروری ہے جو درج ذیل کی جاتی ہیں.سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کسر صلیب سے کیا مراد ہے؟ سو ہر عقلمند سوچ سکتا ہے کہ کسیر صلیب سے یہ تو ہرگز مراد نہیں ہو سکتی کہ مسیح موعود ظاہری صلیب کی لکڑی کو توڑتا پھرے گا اور گویا اس کی بعثت ہی اس غرض سے ہوگی کہ ساری عمر صلیب کی لکڑی کو توڑتا پھرے کیونکہ اول تو یہ بات ایک مرسل یزدانی کی شان سے بعید ہے کہ وہ محض ایک لکڑی کو توڑنے کے لئے مبعوث کیا جائے 101

Page 112

دوسرے ایسا فعل کوئی حقیقی فائدہ بھی نہیں دے سکتا.کیا صلیب کی لکڑی کے توڑے جانے سے مسیح پرستی مٹ سکتی ہے؟ یا اس سے ساری دنیا کی لکڑی ختم ہو جائے گی اور سیح لوگ آئندہ صلیب نہیں بنا سکیں گے؟ خوب یا درکھو کہ جب تک مسیحیت کے باطل خیالات کا زور موجود ہے صلیب قائم ہے اور محض اس کی لکڑی کو توڑ کر خوش ہونا ایک طفلانہ فعل ہے جو سوائے اس کے کہ شماتت اعداء کا موجب ہو کوئی فائدہ نہیں بخش سکتا.صلیب صرف اسی صورت میں ٹوٹ سکتی ہے کہ مسیحی لوگوں کے دلوں کو فتح کر کے صلیبی مذہب کا زور توڑ دیا جاوے اور براہین قویہ سے اس کا بطلان ثابت کر دیا جائے اس صورت میں بیشک صلیب کی ظاہری لکڑی بھی ٹوٹ جاوے گی کیونکہ جب دنیا صلیبی عقائد سے بیزار ہوگی تو لازماً صلیب خود بخود توڑ کر پھینک دی جائے گی.اور یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ یہ خیال کرنا کہ کسی زمانہ میں عیسائی مذہب دنیا سے بالکل مٹ جائے گا ایک غلط خیال ہے کیونکہ قرآن شریف کی نص صریح وَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - (سورۃ مائده ع۳) یعنی ” ہم نے عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان قیامت تک دشمنی بھڑ کا رکھی ہے ) سے ثابت ہے کہ عیسائی مذہب قیامت تک رہے گا.پس کسر صلیب کے یہ معنے بھی نہیں ہو سکتے کہ صلیبی مذہب بالکل ہی مٹ جائے گا بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ اس کا زور ٹوٹ جاوے گا اور اس کا غلبہ جاتا رہے گا اور بجائے اس کے کہ وہ دنیا کے غالب مذہبوں میں شمار ہو وہ کمزور اور مغلوب مذہبوں میں شمار ہونے لگے گا.دوسراسوال یہ ہے کہ قتل دجال سے کیا مراد ہے؟ سواس کے متعلق بھی جب کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ دجال کسی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ مسیحی اقوام اور اس گروہ کے پادریوں کا نام ہے.یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ قتل دجال سے ان لوگوں کی مجموعی ہلاکت مراد ہے بلکہ قتل دجال سے یقیناً یہی مراد ہے کہ مسیح اقوام اور ان کے باطل مذہبی خیالات اور ان کی مادیت اور ان کے جھوٹے فلسفہ کا غلبہ خاک میں ملا دیا جاوے گا.اور اس جگہ ایک خاص نکتہ یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ دجال سے محض مسیحیت مراد نہیں کیونکہ یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی موجود تھی اور آپ کے ساتھ اس کا مقابلہ بھی ہوا اور اُسے شکست بھی ہوئی.پس اگر مسیحیت کے باطل خیالات اور اس 102

Page 113

کے حامی دجال ہیں تو یہ دجال تو آپ کے سامنے آیا اور آپ نے اُسے شکست دی.حالانکہ آپ فرماتے ہیں کہ دجال کو صرف مسیح موعود قتل کرے گا اور نیز یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر دجال میرے زمانہ میں نکلا تو میں اس کا مقابلہ کروں گا.جس سے ظاہر ہے کہ وہ آپ کے زمانہ میں نہیں نکلا.پس دجال سے بہر حال وہ چیز مراد لینی ہوگی جو آپ کے زمانہ میں نہیں نکلی.وہ کیا ہے؟ وہ یہی مسیحیت کے باطل خیالات کا عالمگیر غلبہ اور انتشار فی الارض ہے اور مسیحی اقوام کی ترقی کے ساتھ جو مادیت کے فتنے پیدا ہو کر تمام روئے زمین پر ایک سیل عظیم کی طرح چھا گئے ہیں وہ بھی دجال ہیں.نیز وہ باطل خیالات بھی دجال ہیں جو فیج اعوج کے زمانہ میں مسلمانوں کے اندر رائج ہو کر مسیحی عقائد کی تقویت کا موجب ہوئے ہیں.مثلاً عقیدہ حیات مسیح اور مسیح کا آسمان کی طرف زندہ اٹھایا جانا اور امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر خدا کا مسیح کو محفوظ رکھنا اور تمام نبیوں میں صرف مسیح" ہی کا میں شیطان سے پاک ہونا اور اس کا پرندوں کو پیدا کرنا مردوں کو زندہ کرنا وغیرہ وغیرہ سب دجالی طلسم کا حصہ ہیں.یہ وہ چیزیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھیں.یعنی نہ تو مسیحیت کے باطل خیالات کا غلبہ تھا جو ساری دنیا پر چھا گیا ہو اور نہ اس کے علوم جدیدہ کے نتیجہ میں اس کی خطرناک مادیت اور دین کی راہ کے مہیب فتنے پیدا ہوئے تھے اور نہ خود مسلمانوں کے خیالات بگڑ کر مسیحیت کے مددگار بنے تھے.پس یہی باتیں اور ان باتوں کے حامی اصل دقبال ہیں جنہوں نے اس زمانہ میں اپنے پورے زور کے ساتھ خروج کیا ہے.لہذا قتل دجال سے بھی اسی دجال کا قتل مراد ہے یعنی قتل دجال سے مسیحیت کے اس خطرناک غلبہ اور اس کے مؤید ات کا کامل کھنڈن مراد ہے جو اس زمانہ میں ظاہر ہوئے ہیں اور الحمد للہ کہ حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ اس قتل کے آثار رونما ہور ہے ہیں اور دجال کو وہ ضر میں لگ چکی اور لگ رہی ہیں جو اُ سے ہرگز جانبر نہ ہونے دیں گی اور یقینا سمجھو کہ اس کی نزع کی حالت ہے بلکہ اہل بصیرت کے نزدیک تو وہ مردوں میں شامل ہو چکا.جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.تیسرا سوال یہ ہے کہ دجال کے پگھلنے سے کیا مراد ہے؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ دجال کے پگھلنے سے یہ مراد ہے کہ خدا تعالیٰ مسیح موعود کو ایسا رعب اور ایسی روحانی طاقت عطا کرے گا کہ 103

Page 114

اس کے مقابل پر دقبال گویا خود بخود تحلیل ہونا شروع ہو جائے گا اور اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ جائیں گے اور مسیح موعود کے سامنے میدان میں نکلنے سے ڈرے گا اور خدا تعالیٰ مسیح موعود کے زمانہ میں ایسی مخفی طاقتوں کو حرکت میں لائے گا کہ جو دقبال کا اندر ہی اندر خاتمہ کر دیں گی.چنانچہ جیسا کہ آگے چل کر بیان کیا جائے گا اس کے بھی آثار ظاہر ہورہے ہیں.چوتھا سوال یہ ہے کہ باب لد سے کیا مراد ہے؟ سو جاننا چاہئے کہ بعض محدثین جو یہ کہتے ہیں کہ لڈ ایک جگہ کا نام ہے جو دمشق کے پاس ہے یہ محض ان کا خیال ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قول کی کوئی تاویل مروی نہیں ہوئی.اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باب کر کی تعیین نہیں فرمائی تو ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم معقول طور پر اس کی کوئی تاویل کریں.سو ہم کہتے ہیں کہ لت ایک عربی لفظ ہے جو الد کی جمع ہے جس کے معنے ہیں ” جھگڑا اور مجادلہ کرنے والا.جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے وَهُوَ الَدُ الخِصَامِ ( یعنی وہ سب جھگڑنے والوں سے زیادہ جھگڑالو ہے) نیز فرما یاقو مالنا ( یعنی جھگڑ الوقوم ) پس لفظی طور پر باب لن کے یہ معنے ہوئے کہ ” جھگڑا اور مجادلہ کرنے والوں کا دروازہ “.اور اس لحاظ سے حدیث نبوی کے یہ معنے بنتے ہیں کہ مسیح موعود دقبال کو مجادلہ اور جھگڑا کرنے والوں کے دروازہ پر قتل کرے گا یعنی دجال مسیح موعود سے بھاگے گا، لیکن آخر مجادلہ کرنے والوں کے دروازہ کے پاس مسیح موعودا سے آدبائے گا اور اُسے قتل کر دے گا.اب اس تشریح کے ماتحت کوئی اشکال باقی نہیں رہتا.کیونکہ اس کلام کے صاف طور پر یہ معنے ہیں کہ دجال مسیح موعود کے سامنے آنے سے بھاگے گا، لیکن مسیح موعود اس کا تعاقب کرے گا.اور آخر مجادلہ و مناظرہ کے میدان میں اُسے آدبائے گا اور اسے مار ڈالے گا یعنی اس کا قتل تلوار کا قتل نہ ہوگا بلکہ دلائل اور براہین کا قتل ہوگا.وہو المراد.پانچواں سوال حل طلب یہ ہے کہ مال کی طرف بلانے کے کیا معنے ہیں؟ سواس کا جواب سہل ہے کہ مال سے روحانی مال مراد ہے جو مسیح موعود نے دنیا کے سامنے کثرت کے ساتھ پیش کیا، لیکن دنیا نے اُسے قبول نہ کیا.دوسرے یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مسیح موعود اپنے مخالفوں کے لئے بڑے بڑے انعام مقرر کرے گا تا وہ اس کے سامنے آویں اور اس کا مقابلہ کر کے انعام 104

Page 115

حاصل کریں مگر کوئی مخالف اس کے سامنے نکل کر انعام کا حقدار نہ بنے گا.گویا مراد یہ ہے کہ مسیح موعود اپنے مخالفوں کے سامنے مال پیش کرے گا مگر کوئی اُسے نہ لے گا.ورنہ محض دنیا داروں کی طرح مال دینا تو روحانی لوگوں کے لئے کوئی خوبی کی بات نہیں.مذکورہ بالا بیان کے مطابق مسیح موعود و مہدی معہود کا کام خلاصہ مندرجہ ذیل شاخوں میں تقسیم شدہ نظر آتا ہے:- ا اختلافات اندرونی میں حکم و عدل ہو کر فیصلہ کرنا.۲- اسلام پر جو بیرونی حملے ہوتے ہیں اس کا دفعیہ کرنا.خصوصا مسیحیت اور مادیت کے زور کو توڑنا اور اسلام کو تمام دوسرے مذاہب پر غالب کر دکھانا اور اس کی تبلیغ کو اکناف عالم تک پہنچانا.خصوصاً مغربی ممالک یعنی یورپ اور امریکہ وغیرہ کو اپنی تبلیغ کے ذریعہ فتح کرنا.۳.کھوئے ہوئے ایمان کو پھر دُنیا میں قائم کرنا.سیر وہ تین عظیم الشان کام ہیں جو مسیح موعود کے لئے مقرر ہیں اور خدا کے فضل سے حضرت مرزا صاحب نے ان کاموں کو اس خیر و خوبی سے انجام دیا ہے اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء (جو حکماً آپ کے اندر شامل ہیں) انجام دے رہے ہیں کہ غیر متعصب دشمن کو بھی اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں.مسیح موعود کا پہلا کام مسیح موعود کا پہلا کام اختلافات اندرونی کے متعلق حکم ہو کر فیصلہ کرنا تھا سو اس کے متعلق جاننا چاہئے کہ اس زمانہ میں امت محمدیہ کے اندرونی اختلافات چند قسموں پر مشتمل ہیں:- اول: صفات باری تعالیٰ کے متعلق اختلافات.دوم : ملائکہ کے متعلق اختلافات.سوم: سلسلہ رسالت کے متعلق اختلافات چہارم : بعث بعد الموت اور جزاء سزا اور جنت و دوزخ کے متعلق اختلافات.105

Page 116

پنجم : مسئلہ تقدیر خیر وشر کے متعلق اختلافات.ششم: خلافت راشدہ کے متعلق اختلافات.هفتم قرآن وحدیث کے مرتبہ کے متعلق اختلافات.ہشتم: اہل حدیث واہل فقہ کے متعلق اختلافات.نہم : مسائل علمی کے متعلق اختلافات.وہم : مسائل فقہی کے متعلق اختلافات.ی وہ دن اقسم کے اختلافات ہیں جنہوں نے اس زمانہ میں اسلامی دنیا میں ایک اندھیر مچا رکھا تھا اور علاوہ آپس کی تو تو میں میں کے ان کی وجہ سے مسلمانوں میں ایسی ایسی باتیں پیدا ہوگئی تھیں جنہوں نے اسلام کو دنیا میں بدنام کر دیا تھا اور دشمن کو اسلام پر حملہ کرنے کا ایک بہت بڑا موقعہ ہاتھ آ گیا تھا اور فہمیدہ مسلمان اس بات سے تنگ آکر اور کوئی مخلصی کی راہ نہ دیکھ کر اسلام کی حالت پرخون کے آنسو بہاتے تھے اور بعض کمزور ایمان تو اسلام کو خیر باد کہہ رہے تھے.ایسے طوفانِ عظیم کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت مرزا صاحب کو حکم و عدل بنا کر مبعوث فرمایا.جنہوں نے آتے ہی اپنا سفید جھنڈا بلند کر دیا اور پکار کر کہا.ادھر آؤ کہ خدا نے مجھے تمہارے اختلافات میں حکم بنا کر بھیجا ہے.آؤ کہ میں تمہارے اختلافات میں سچا سچا فیصلہ کروں گا.اس کے بعد آپ اس روحانی عدالت کی کرسی پر جلوہ افروز ہو گئے اور قضاء کا کام شروع ہوا.سب سے پہلا اختلاف یہ تھا کہ عام طور پر مسلمانوں میں یہ عقیدہ رائج ہو چکا تھا کہ خدا قدیم زمانہ میں تو بے شک اپنے بندوں کے ساتھ کلام کرتا تھا، لیکن اب نہیں کرتا.گویا وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں.آپ نے فیصلہ فرمایا اور دلائل عقلیہ و نقلیہ سے قطعی طور پر ثابت کر دیا کہ خدا کے متعلق ایسا گمان کرنا سخت الحاد ہے کہ اس کی قوت گویائی اب باطل ہوگئی ہے آپ نے بتایا کہ اگر خدا بولتا نہیں تو اسلام بھی ایک مُردہ مذہب ہے اور اس کا دارومدار بھی دوسرے مذاہب کی طرح محض قصوں پر رہ جاتا ہے جو ایک عاشق زار اور حق کے متلاشی کی پیاس کو ہرگز بجھا نہیں سکتے اور 106

Page 117

آپ نے ثابت کیا کہ اسلام اور قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیرین پھل ہمیشہ جاری ہے اور جیسا کہ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ لَهُمُ الْبُشْرَى فِی الْحَيَوةِ الدُّنْيَاوہ پھل یہی ہے کہ سچی اتباع کرنے والے کو خدا اپنے ذاتی تعلق سے نوازتا ہے اور اُسے حسب استعدادا اپنے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کرتا ہے اور آپ نے اپنے ذاتی مشاہدہ سے اس مسئلہ کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا.دیکھو آپ کی کتب براہین احمدیہ ونصرت الحق و نزول اسیح و حقیقة الوحی وغیرہ) دوسرا اختلاف خدا کے متعلق یہ تھا کہ جب تک خدا نے کسی کے متعلق عذاب کا فیصلہ نہ کیا ہو اُس وقت تک تو وہ بے شک رحمت نازل کر سکتا ہے مگر عذاب کے فیصلہ کے بعد وہ تو بہ واستغفار پر بھی عذاب کے فیصلہ کو بدل کر رحمت نازل نہیں کر سکتا بلکہ وہ نعوذ باللہ مجبور ہے کہ اپنے پہلے فیصلہ کے مطابق عمل کرے.آپ نے اس مسئلہ کو بھی عقل اور نقل ہر دولحاظ سے صاف کیا اور ثابت کر دیا کہ یہ جھوٹا عقیدہ خدا کی قدرت کاملہ اور اس کی وسیع رحمت ہر دو کے منافی ہے.(دیکھو حضرت مرزا صاحب کی تصانیف انوار الاسلام - انجام آتھم.نزول امسیح.حقیقۃ الوحی وغیرہ ) اسی لئے خدا فرماتا ہے کہ:.وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ پھر خدا کے متعلق یہ اختلاف تھا کہ گویا اس نے بنی اسرائیل اور بنی اسمعیل کے سوا کسی اور اُمت میں رسول نہیں بھیجا اور اپنی رحمت کے لئے بس انہی دو گروہوں کو مخصوص کر لیا.مگر آپ نے بدلائل اس خیال کا باطل ہونا ظاہر کیا اور عقل اور نقل سے یہ بات ثابت کر دی کہ ہر امت نے خدا کے مکالمہ و مخاطبہ سے حصہ لیا ہے اور ہر امت میں اس کے رسول آتے رہے ہیں جیسا کہ قرآن فرماتا ہے کہ اِنْ مِنْ أُمَّةِ الَا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ چنانچہ آپ نے ہندوؤں کے کرشن.بدھ مذہب کے گوتم بدھ.اہل چین کے کنفیوشس اور پارسیوں کے زرتشت کی رسالت کا بھی اقرار کیا اور بین الاقوام تعلقات میں ایک انقلابی صورت پیدا کر دی.(دیکھو حضرت مرزا صاحب کا لیکچر وچھو والی لاہور وچشمہ معرفت در سالہ پیغام صلح ) پھر خدا کے الہام کے متعلق یہ اختلاف تھا کہ الہام الہی الفاظ میں نہیں ہوتا بلکہ صرف ایک 107

Page 118

مفہوم دل میں ڈالا جاتا ہے گویا وہ نیک یا عمدہ خیالات جو دل میں پیدا ہوتے ہیں وہی الہام ہیں.آپ نے اس خیال کو غلط ثابت کیا اور قرآنی تعلیم اور عقلی دلائل اور مشاہدہ کی بنا پر ثابت کیا کہ گووی خفی بھی کلام الہی کی ایک قسم ہے مگر زیادہ اعلیٰ اور زیادہ محفوظ کلام الفاظ کے ذریعہ نازل ہوتا ہے اور قرآنی وحی بھی اسی قسم میں داخل تھی.(براہین احمدیہ ونزول المسیح وغیرہ) پھر خدا کی صفتِ قبولیت دعا کے متعلق یہ اختلاف تھا کہ بعض مسلمان یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ دُعا صرف ایک عبادت ہے ورنہ یہ نہیں ہوتا کہ کسی کی دُعا کی وجہ سے خدا اپنے فیصلہ یا ارادہ کو تبدیل کرے.آپ نے اس خیال کو بدلائل غلط ثابت کیا اور قرآنی تعلیم اور واقعات اور مشاہدہ کی یقینی دلیل سے اس کا بطلان ظاہر کیا.(دیکھو حضرت مرزا صاحب کی تصانیف آئینہ کمالات اسلام و بركات الدعا وغیرہ) پھر خدا کے متعلق یہ اختلاف تھا کہ گویا وہ اپنے بعض بندوں کو اپنے اختیارات دے دیتا ہے اور پھر اس کے یہ بندے بھی مستقل طور پر خدا کی طرح خدائی قدرتیں دکھانے لگتے ہیں.اس خیال نے اسلام میں اکاذیب اور جھوٹے قصوں کا ایک طور مار کھڑا کر دیا تھا.آپ نے اس کو بدلائل غلط ثابت کیا.(دیکھو آپ کی ڈائریاں وغیرہ وغیرہ ) پھر خدا سے اُتر کر ملائکہ کے متعلق بہت سے اختلافات تھے.مثلاً یہ کہ ان کی ماہیت کیا ہے اور ان کے کیا کیا کام ہیں اور وہ کس طرح اپنا کام کرتے ہیں اور ان کی ضرورت کیا ہے وغیرہ وغیرہ.آپ نے بڑی مدلل بحثوں کے ساتھ ان نازک مسائل پر روشنی ڈالی اور اس مسئلہ میں ایک سچا سچا رستہ قائم کر دیا.(دیکھو حضرت مرزا صاحب کی کتب توضیح مرام اور آئینہ کمالات اسلام اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تصنیف ملائکتہ اللہ وغیرہ) پھر سلسلۂ رسالت کے متعلق اختلاف تھا کہ ہر قسم کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے اور اب کوئی شخص خواہ وہ آپ سے ہی فیض پانے والا اور آپ کی ہی شریعت کا خادم ہو نبی نہیں ہوسکتا.آپ نے بدلائل ثابت کیا کہ خاتم النبیین کے وہ معنے نہیں ہیں جو سمجھے گئے ہیں اور سلسلۂ رسالت کے بند ہونے سے یہ مراد نہیں کہ اب کسی قسم کا بھی نبی نہیں آسکتا.کیونکہ آنحضرت 108

Page 119

صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف شریعت والی نبوت کا دروازہ بند ہوا ہے مگر غیر تشریعی اور ظلی نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا اگر نبوت کے تمام شعبے بند اور منقطع سمجھے جاویں تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود امت محمدیہ سے ایک عظیم الشان رحمت اور انعام الہی کے چھینے جانے کا باعث ہوا ہے.غرض آپ نے نقل و عقل سے اس مسئلہ کا بطلان ثابت کیا.( دیکھو حضرت مرزا صاحب کی تصانیف ”ایک غلطی کا ازالہ تحفہ گولڑو یہ ونزول مسیح و حقیقۃ الوحی وغیرہ) پھر انبیاء اور رسل کے متعلق یہ خطر ناک اختلاف تھا کہ گویا نعوذ باللہ سب نبی گنہگار ہیں اور سوائے مسیح ناصری کے کوئی نبی معصوم اور مسن شیطان سے پاک نہیں.آپ نے براہین قویہ سے اس خیال کو غلط ثابت کیا اور بڑے زور دار مضامین سے اس معاملہ میں حقیقت امر کو واضح کیا.(دیکھو حضرت مرزا صاحب کا مضمون عصمت انبیاء مندرجہ ریویو آف ریلیجنز ونور القرآن وغیرہ) پھر نبوت کے مفہوم کے متعلق یعنی اس امر کے متعلق کہ نبی کیا ہوتا ہے اور مقام نبوت سے کیا مراد ہے نہایت باطل خیالات رائج ہو گئے تھے.آپ نے ان کو بدلائل صاف کیا.( دیکھو حقیقۃ الوحی وغیرہ) پھر بعث بعد الموت اور جزاء وسزا اور جنت و دوزخ کی حقیقت کے متعلق عجیب عجیب خیالات پیدا ہو گئے تھے جن کی وجہ سے غیروں کو اسلام پر حملہ کرنے کا بہت موقعہ مل گیا تھا.جنت و دوزخ کی حقیقت کے متعلق تو ایسے ایسے خیالات کا اظہار کیا گیا تھا کہ بس خدا کی پناہ! آپ نے اس کے متعلق نہایت لطیف اور مدلل مضامین لکھے اور قرآن وحدیث سے اصل حقیقت واضح فرمائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن بھی جو پہلے معترض تھا ان مضامین پر عش عش کر اٹھا.( دیکھو اسلامی اصول کی فلاسفی وغیرہ) پھر مسئلہ تقدیر ہمیشہ سے بحث کا جولانگاہ رہا ہے اور اس میں اختلافات کی کوئی حد نہیں رہی آپ نے اسے ایسا صاف کیا کہ اب ایک بچہ بھی اسے سمجھ سکتا ہے.( یہ مسئلہ آپ کی مختلف کتب میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بیان ہوا ہے مثلاً دیکھو چشمہ معرفت و جنگ مقدس اور یکجائی بحث کے لئے 109

Page 120

دیکھو’ تقدیر الہی مصنفہ حضرت خلیفۃ السیح الثانی) پھر خلافت راشدہ کے متعلق سنیوں شیعوں کے اختلافات شائع و متعارف ہیں ان میں آپ نے سچا فیصلہ فرمایا.(دیکھو آپ کی کتاب ستر الخلافہ و حجتہ اللہ وغیرہ اور آپ کے حواری حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی تصنیف خلافتِ راشدہ).پھر قرآن وحدیث کے مرتبہ کے متعلق یعنی ان دونوں میں سے کون دوسرے پر قاضی ہے ایسے خیالات کا اظہار ہوا ہے کہ انہیں سن کر ایک مسلمان کا بدن کانپ اٹھتا ہے.مسلمانوں کے ایک فرقہ نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا اور حدیث کے آگے ایک بت کی طرح گر گئے تھے.آپ نے ان مسائل پر بڑی بڑی لطیف بخشیں کیں.اور ایک طرف تو سنت کو حدیث سے الگ ثابت کیا اور دوسری طرف قرآن و سنت و حدیث کا الگ الگ مرتبہ دلائل اور براہین کے ساتھ متعین کیا.( دیکھوالحق لدھیانہ.ریویو بر مباحثہ چکڑالوی کشتی نوح وغیرہ) پھر اہل فقہ اور اہل حدیث کے اختلافات اور باہمی کشمکش مشہور ہیں.آپ نے دلائل دیدے کر طرفین کو ان کی غلطی پر متنبہ کیا اور پھر دونوں کی جو جو خو بیاں تھیں وہ بھی ظاہر فرما ئیں اور افراط اور تفریط کے درمیان میانہ روی کا راستہ قائم کیا.(دیکھوفتاوی احمد یہ وغیرہ) پھر معجزات کی حقیقت اور منجزات اور کرامات کے فلسفہ کے متعلق نیچریوں اور اہل حدیث اور حنفیوں میں اختلاف کی کوئی حد نہ تھی.آپ نے اس مسئلہ پر وہ سیر کن بخشیں کیں کہ کسی اختلاف کی گنجائش نہ چھوڑی.(دیکھو سرمہ چشم آرید، براہین احمدیہ.چشمہ معرفت.حقیقۃ الوحی وغیرہ) پھر مسئلہ جہاد ایک نہایت خطرناک صورت اختیار کر گیا تھا جس سے اسلام پر ایک بدنما دھبہ لگتا تھا کہ گویا اسلام مذہب میں جبر کی تعلیم دیتا ہے.آپ نے روشن دلائل کے ساتھ اسے صاف کیا اور لا اکراہ فی الدین کے اصول کے ماتحت سچی سچی راہ ظاہر فرمائی.(دیکھور سالہ جہاد، حقیقة المهدی، چشمه معرفت، جنگ مقدس و غیره) پھر انبیاء کا مزعومہ علم غیب اور اس کا فلسفہ با وجود مباحث کا جولانگاہ ہونے کے سخت تاریکی میں پڑا ہوا مسئلہ تھا.آپ نے تحریر و تقریر سے اس پر گویا ایک سورج چڑھا دیا.(دیکھو انجام 110

Page 121

آتھم،انوارالاسلام، حقیقۃ الوحی وغیرہ) پھر مسائل فقہی میں تو اختلاف کی کوئی حد ہی نہ تھی آپ نے بعض فروعی اختلافات کو قائم رکھا اور اس کو امت کے لئے ایک رحمت قرار دیا اور بعض میں بدلائل صحیح صحیح راہ بتادی.( دیکھو آپ کی ڈائریاں اور فتاوی احمد یہ وغیرہ) یہ بعض ان اختلافات کی مختصر فہرست ہے جو مسلمانوں میں رونما ہو چکے تھے اور جن کے متعلق حضرت مرزا صاحب نے حکم ہو کر فیصلہ کیا.اگر اختلافات امت اور اُن پر حضرت مرزا صاحب کا محاکمہ پورے طور پر بیان کیا جاوے تو ایک ضخیم کتاب ہو جاوے اس لئے اس جگہ صرف چند موٹے موٹے اختلافات مثال کے طور پر مختصر بیان کئے گئے ہیں.اس جگہ اگر کوئی شخص یہ شبہ کرے کہ اختلافات کے متعلق تو تمام علماء اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہی آئے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے اس معاملہ میں کیا زیادت کی؟ تو یہ ایک باطل شبہ ہو گا.کیونکہ رائے کا اظہار کرنا اور بات ہے اور حکم ہو کر کسی بات کا فیصلہ کر دینا بالکل اور بات ہے رائے کا اظہار تو ایک بچہ بھی کر سکتا ہے، مگر حضرت مرزا صاحب نے جس رنگ میں اختلافات امت کا فیصلہ کیا ہے وہ اپنے اندر بعض امتیازی خصوصیات رکھتا ہے جن سے آپ کے حکم ہونے پر زبر دست روشنی پڑتی ہے اور وہ خصوصیات یہ ہیں :- (۱) آپ نے کسی مسئلہ میں کسی پارٹی کا جانب دار ہو کر رائے نہیں دی بلکہ ہمیشہ ایک ثالث یعنی حکم کے طور پر رائے دی ہے.اس لئے آپ کے فیصلہ جات عصبیت کے زہریلے اثر سے بالکل پاک ہیں اور یہ ایک بڑی بھاری خصوصیت ہے جو شخص آپ کے فیصلہ جات کو دیکھے گا وہ یہ بات محسوس کرنے پر مجبور ہوگا کہ آپ کا ہر فیصلہ ایک منصفانہ اور غیر جانب دارانہ رنگ رکھتا ہے.(۲) آپ نے صرف رائے کا اظہار نہیں کیا بلکہ عقلی اور نقلی دونوں پہلوؤں سے دلائل کا ایک سورج چڑھا دیا ہے اور متلاشیان حق کے لئے کسی اختلاف کی گنجائش نہیں چھوڑی.جس بات پر بھی آپ نے قلم اُٹھایا ہے اس کا ہمیشہ کے لئے ایک ایسا فیصلہ کر دیا ہے جو ایک پہاڑ کی طرح اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جاسکتا اور کوئی غیر متعصب شخص اس کی قطعیت کا لوہا مانے بغیر نہیں رہ سکتا اور ہر 111

Page 122

فیصلہ کے لئے ایسے اصول قائم کئے ہیں کہ منکر کیلئے کوئی جائے فرار نہیں چھوڑی.(۳) آپ نے فوق العادت طاقتوں اور خدائی نشانوں کے زور سے اپنی ہر بات قائم کی ہے.یعنی صرف نقل و عقل ہی سے اپنی بات ثابت نہیں کی بلکہ منکر کی مخالفت پر تائید الہی کے نشان دکھا دکھا کر اپنے فیصلوں پر خدائی مہر ثبت کر دی ہے.پس گجا یہ فیصلے اور کجا مولویوں کی بخشیں !!! چہ نسبت خاک را با عالم پاک.مسیح موعود کا دوسرا کام دوسرا کام مسیح موعود کا بیرونی حملوں کو رڈ کرنا اور دوسرے مذاہب کے مقابل پر اسلام کو غالب کر دکھانا تھا اور اسلام کی تبلیغ کو وسیع کر کے اسلام کے نام پر ساری دنیا کو اور خصوصاً ممالک مغربی کو فتح کرنا تھا.یہ کام بھی جس خیر و خوبی سے انجام پایا اور پارہاہے وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے.سب سے پہلے ہم ان باتوں کو لیتے ہیں جو مسلمانوں کی اپنی غلطی سے اسلام میں پیدا ہوئیں اور جنہوں نے دوسرے مذاہب کو اسلام پر حملہ کرنے کا بڑا موقعہ دے دیا.یہ وہ اختلافات اندرونی تھے جن کی وجہ سے اسلام کے منور چہرہ پر گرد چھا گئی تھی.سو اس کے متعلق مختصراً بیان کیا جا چکا ہے کہ کس طرح حضرت مرزا صاحب نے وہ گرد دھودی ہے اب صرف وہ باتیں بیان کرنا باقی ہیں جو خاص طور پر مسیح ناصری کے متعلق مسلمانوں میں پیدا ہوگئی تھیں اور جن کی وجہ سے دجال کو اس قدر تقویت مل گئی کہ وہ اسلامی کیمپ میں سے کئی لاکھ آدمی نکال کر لے گیا.ان باتوں کی تفصیل یہ ہے:.(۱) مسیح ناصری کے متعلق مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ خلاف سنت اللہ اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے اور موت سے محفوظ رہے در آنحالیکہ نبیوں کے سرتاج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیر خاک مدفون ہیں.(۲) یہ عقیدہ کہ مسیح ناصری خلق کیا کرتے تھے.چنانچہ کئی پرندے انہیں کے پیدا کردہ ہیں درآنحالیکہ اور کسی بشر میں یہ طاقت نہیں پائی گئی.(۳) یہ عقیدہ کہ مسیح ناصری حقیقی مردے زندہ کیا کرتے تھے.اور وہ اس طرح کہ وہ 112

Page 123

مردے کو کہتے تھے اٹھ اور وہ قبر سے اٹھ کر ان کے ساتھ ہو لیتا تھا.چنانچہ اس طرح انہوں نے ہزاروں مردے زندہ کئے مگر کسی اور نبی کو یہ طاقت نہیں دی گئی.(۴) یہ عقیدہ کہ مسیح ناصری کا وہ بلند پایہ ہے کہ جب دجال کا فتنہ پیدا ہوگا جو بقول مخبر صادق سارے فتنوں سے بڑا فتنہ ہے تو ان کے سوا اور کسی شخص میں اس فتنے کے مٹانے کی طاقت نہ ہوگی.نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اور نہ کسی اور نبی میں.چنانچہ اسی لئے صرف مسیح ناصری ہی اس کام کے لیے موت سے محفوظ رکھے گئے کیونکہ شاید خدا کو بھی ان جیسا کوئی اور مصلح بنانے کی طاقت نہ تھی.(۵) یہ عقیدہ کہ مسیح ناصری کے سوا کوئی نبی مسنِ شیطان سے پاک نہیں.نہ (نعوذ باللہ ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ کوئی اور.سب کسی نہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں.مگر نہیں ہوا تو صرف یہی مریم صدیقہ کا عجیب و غریب فرزند.یہ وہ پانچ خطرناک خیالات ہیں جو مسلمانوں میں مسیح ناصری کے متعلق پیدا ہو گئے تھے اور جنہوں نے مسیحیت کو نہایت درجہ تقویت دے دی تھی.ظاہر ہے کہ ان خیالات کے ہوتے ہوئے مسلمان مسیحیوں کے ہاتھ میں ایک نہایت آسان شکار تھے.چنانچہ عیسائیوں نے کئی لاکھ مسلمان اسی داؤ پیچ سے عیسائی بنالئے اور مسلمان بیچارے اُن کے آگے گویا بالکل بے دست و پاتھے.چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک بڑے مرتبہ کا مسیحی پادری لاہور میں وعظ کہہ رہا تھا اور یہی باتیں مسلمانوں کے خلاف پیش کر رہا تھا.اس کے سامعین جن میں بعض مولوی بھی تھے خوف کے مارے سہمے جارہے تھے اور وہ مسیحیت کا بہادر سپوت ان دلائل کو بیان کر کے رعد کی طرح گرج رہا تھا.اتفاق سے ہمارے معزز دوست مفتی محمد صادق صاحب جو آج سے چند سال پیشتر امریکہ میں ہمارے مبلغ رہ چکے ہیں وہاں جا پہنچے اور پادری صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ پادری صاحب! آپ یہ کیا باتیں کہتے ہیں؟ ہم تو ان باتوں کو قبول نہیں کرتے اور نہ یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہیں بلکہ ہم تو مسیح کو صرف اللہ کا ایک نبی مانتے ہیں جو اپنی عمر گذار کر فوت ہو گیا اور اس میں کوئی ایسی خاص بات نہ تھی جو دوسرے نبیوں میں نہ ہو بلکہ کئی اور نبی اُس سے بڑھے 113

Page 124

ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ.پادری نے مفتی صاحب کی یہ تقریر سنی تو کہنے لگا.معلوم ہوتا ہے تم قادیانی ہو.ہم تم سے بات نہیں کرتا اور یہ کہہ کر اس نے اپنی تقریر بند کر دی.اب دیکھو یہ عقائد کس قدر خطر ناک ہیں مگر حضرت مرزا صاحب نے ان سب کو باطل اور غلط ثابت کر دیا اور قرآن وحدیث سے ثابت کیا کہ یہ سب خیالات بعد کی ملاوٹ ہیں جس کی قرآن اور صحیح احادیث میں کوئی بھی اصل نہیں اور اس طرح آپ نے ایک ہی وار میں دجال کی ایک ٹانگ توڑ دی کیونکہ دجال کی دو ٹانگیں تھیں.ایک ٹانگ تو مسلمانوں کے بگڑے ہوئے خیالات تھے جن کی وجہ سے اُسے سہاراہل گیا تھا اور اسلام کے خلاف کام کرنا بہت آسان ہو گیا تھا اور دوسری ٹانگ خود دجال کے اپنے باطل خیالات تھے جن کے زور کی وجہ سے وہ ایک سیلاب کی طرح اُمڈا چلا آتا تھا.الغرض اسلام کے خلاف جو غیر مذاہب کے حملے ہورہے تھے ان کا ایک بڑا حصہ خود مسلمانوں کے اپنے بگڑے ہوئے خیالات پر مبنی تھا.چنانچہ ان فاسد خیالات کی مدلل طور پر اصلاح ہو جانے سے بیرونی حملوں کا یہ حصہ بالکل باطل ہو گیا.یہ ایک بہت بھاری خدمت تھی جو حضرت مرزا صاحب نے انجام دی اور یہ ایک عظیم الشان احسان ہے جو آپ نے مسلمانوں پر فرمایا.اور آپ کے اس فعل سے امت محمدیہ کو دو بڑے فائدے پہنچے.اول یہ کہ ان باطل اور فاسد خیالات سے خود مسلمانوں کی حالت نہایت ابتر ہورہی تھی اور ان عقائد نے اُن کے ایمان کے شہتیر کو گھن لگا رکھا تھا.پس ان عقائد کی اصلاح سے مسلمانوں کی حالت سنور گئی اور اُن کا ایمان تباہ ہونے سے بچ گیا.دوسرے یہ کہ ان عقائد کی وجہ سے اسلام غیر مذاہب کے خطرناک حملوں کا نشانہ بنا ہوا تھا یعنی مسلمانوں کے ان باطل خیالات کی وجہ سے خواہ وہ عام تھے یا خاص مسیح ناصری کے متعلق کفار کو اسلام پر حملہ کرنے کا ایک بہت بڑا موقعہ ہاتھ آ گیا تھا اور چونکہ مسلمان ان فاسد خیالات کو اپنے دین و مذہب کا حصہ خیال کرتے تھے اور بزعم خود قرآن و حدیث سے ہی اُن کا استنباط کرتے تھے اس لئے حالت اور بھی خطرناک صورت اختیار کر گئی تھی.کیونکہ اس صورت میں ز ذ صرف مسلمانوں پر ہی نہ پڑتی تھی بلکہ اسلام پر بھی ایک کاری ضرب لگتی تھی.مگر ان خیالات کے باطل ثابت ہونے سے اسلام اس قسم کے تمام 114

Page 125

حملوں سے بالکل محفوظ ہو گیا.فالحمد لله على ذلك.مسیح موعود کے اس کام کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ خود دوسرے مذاہب پر حملہ آور ہو کر انہیں مغلوب کیا جاوے.سو یہ کام بھی نہایت خیر و خوبی سے انجام پایا اور پارہا ہے.ہندوستان (اس جگہ تقسیم سے پہلے کا ہندوستان مراد ہے ) مذاہب کا جولانگاہ رہا ہے دنیا میں اور کوئی ایسا ملک نہیں جس میں اتنے مذاہب اس زور میں پائے جاتے ہوں جیسا کہ یہاں پائے جاتے ہیں اور پھر ہندوستان میں بھی خصوصاً پنجاب کا صوبہ مذاہب کا مرکز ہے عیسائیوں کا یہاں زور ہے آریوں کا یہاں زور ہے سکھوں کا یہاں زور ہے.برہمو سماج کا یہاں زور ہے.دیو سماج کا یہاں زور ہے.غرض کوئی ایسا مذ ہب نہیں جو زندگی کے کچھ آثار اپنے اندر رکھتا ہو اور پھر پنجاب اُس سے خالی ہو.پس پنجاب ہی اس بات کے مناسب حال تھا کہ مسیح موعود اس میں مبعوث کیا جاوے تا سارے مذاہب اس کے ساتھ اپنا زور آزما کر دیکھ سکیں اور تا وہ سارے مذاہب کا مقابلہ کر کے اُن کو مغلوب کر سکے.اب جاننا چاہئے کہ حضرت مرزا صاحب نے ان سب مذاہب پر دونوں رنگ میں حجت پوری کی.یعنی اول عقل اور نقل کے طریق سے ان کا بطلان ثابت کیا دوسرے خدائی نشانوں اور روحانی طاقتوں کے ساتھ انہیں مغلوب اور اسلام کو غالب کر دکھایا.حضرت مرزا صاحب کا مسیحیت سے مقابلہ پہلے ہم مسیحیت کو لیتے ہیں کیونکہ کئی لحاظ سے اس کا حق مقدم ہے سو جاننا چاہئے کہ مسیحیت کی بنیاد تین اصول پر ہے:.اول تثلیث :- یعنی یہ عقیدہ کہ خدا کے تین اقنوم ہیں (۱) باپ جو عرف میں خدا کہلاتا ہے.(۲) بیٹا یعنی مسیح ناصری جو جامہ انسانیت میں دنیا پر اُترا اور (۳) رُوح القدس جو گویا بیٹے اور باپ کے درمیان واسطہ ہے.عیسائیوں کے نزدیک یہ تین خدا الگ الگ اور مستقل خدا ہیں.مگر پھر بھی بزعم مسیحی صاحبان خدا تین نہیں ہیں بلکہ ایک ہی خدا ہے.دوسرا اصل مسیحیت کا الوہیت مسیح ہے یعنی یہ عقیدہ کہ مسیح ناصری جو دنیا میں نازل ہواوہ گو 115

Page 126

انسان کے لباس میں اترا تھا مگر دراصل وہ خدا یعنی خدا کا بیٹا تھا اور خدا نے اُسے اسلئے بھیجا تھا کہ وہ اپنی قربانی سے بنی نوع انسان کو گناہ سے نجات دے.تیسرا اصولی عقیدہ اس مذہب کا کفارہ ہے.یعنی یہ کہ مسیح ناصری نے صلیبی موت جو موسوی شریعت کے مطابق ایک لعنتی موت تھی بنی نوع انسان کے لئے برداشت کی اور اس طرح تمام ان لوگوں کے گناہ جو اس کی صلیبی موت پر ایمان لائے اُس نے اپنے سر پر اٹھالئے اور وہ اس لعنت کے بوجھ کے نیچے تین دن تک دبا رہا.اس کے بعد وہ زندہ ہو کر پھر پہلے کی طرح اپنے باپ خدا کے دائیں ہاتھ آسمان پر جا بیٹھا.ان اصولی عقائد کے ضمن میں مسیحیوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ رحم بلا مبادلہ یعنی تو بہ واستغفار سے گناہ معاف کر دینا خدا کی صفت عدل کے خلاف ہے اور یہ کہ انسان کو گناہ کا مادہ آدم و حوا سے ورثہ میں ملا ہے پس کوئی بشر کلیۂ گناہ سے پاک نہیں ہوسکتا اور چونکہ دوسری طرف گناہ معاف نہیں ہوتا لہذا ضروری ہوا کہ نجات کے لئے کسی اور بیرونی چیز کی حاجت پیش آئے اور یہ وہی کفارہ یعنی مسیح کی صلیبی موت ہے.پھر ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ شریعت ایک لعنت ہے جس سے ہمیں مسیح نے آزاد کر دیا ہے وغیرہ وغیرہ.اس تمہیدی نوٹ کے بعد اس عظیم الشان اور مقدس جنگ کا ذکر کیا جاتا ہے جو حضرت مرزا صاحب اور مسیحی دنیا کے درمیان واقع ہوئی اور جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق صلیب ٹوٹ گئی اور قتل دجال کے آثار ظاہر ہو گئے.یوں تو حضرت مرزا صاحب اوائل عمر سے ہی مسیحیوں کے ساتھ اس روحانی جنگ کا کچھ نہ کچھ سلسلہ جاری رکھتے تھے چنانچہ اس امر کی معتبر شہادت موجود ہے کہ جب آپ بالکل نوجوان تھے اور سیالکوٹ میں ملازم تھے.پادری بٹلر وغیرہ کے ساتھ آپ کی مذہبی گفتگو ہوتی رہتی تھی اور پھر براہین احمدیہ کا اشتہار بھی گویا سب عیسائیوں کے لئے چیلنج تھا مگر خاص طور پر ۱۸۸۴ء کے قریب جبکہ براہین احمدیہ کا چوتھا حصہ طبع ہوا آپ نے انگریزی اور اردو میں ایک اشتہار میں ہزار کی تعداد میں چھپوا کر شائع کیا اور اس اشتہار کی اشاعت کے سلسلہ کو ایسا وسیع کیا کہ یورپ کے مختلف ممالک اور امریکہ اور دوسرے ممالک میں بھی 116

Page 127

کثرت کے ساتھ تقسیم کیا اور تمام بڑے بڑے آدمیوں کو جن میں شہنشاہ ، بادشاہ، جمہوری سلطنتوں کے پریذیڈنٹ اور پھر مد تیر ان ملکی اور سیاسی لیڈر اور فلاسفر اور مذہبی پیشوا بھی شامل تھے بذریعہ رجسٹر ڈ خطوط بھجوایا اور گو اس اشتہار میں سب مذاہب کے لوگ مخاطب تھے لیکن مسیحی مذہب کے متبعین میں خصوصیت کے ساتھ تقسیم کیا گیا.اس اشتہار میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے مسیح ناصری کے قدم پر اس صدی کا مجد د بنا کر بھیجا ہے اور میں سب دنیا کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ خدا تک پہنچانے والا مذہب صرف اسلام ہی ہے جو شخص میرے اس دعوئی کی تصدیق چاہے وہ مجھ سے ہر طرح تسلی کر سکتا ہے اور حق کے طالبوں کو خدائی نشانات بھی دکھائے جاویں گے.وغیرہ وغیرہ ( دیکھو تبلیغ رسالت یعنی مجموعہ اشتہارات حضرت مرزا صاحب جلد اول) اس اشتہار کے قریب کے زمانہ میں ہی آپ نے ایک مطبوعہ خط بھی مشہور پادری صاحبان و آریه صاحبان و بر همو صاحبان و نیچر کی صاحبان و مخالف مولوی صاحبان کے نام ارسال کیا اور اس میں لکھا کہ جو شخص اسلام کی صداقت میں کوئی شبہ رکھتا ہو یا جسے میرے دعویٰ الہام ومجددیت کے متعلق شک ہو یا جو مطلقاً خوارق وغیرہ کا منکر ہو تو میں خدا سے وعدہ پا کر اُسے دعوت دیتا ہوں کہ اگر وہ طالب حق بن کر ایک سال تک میرے پاس قادیان میں آکر قیام کرے گا تو ضرور کوئی نہ کوئی خدائی نشان دیکھ لے گا اور اگر اس عرصہ میں کوئی خارق عادت نشان ظاہر نہ ہو تو میں بطریق حرجانہ یا جرمانہ دوسوروپیہ ماہوار کے حساب سے مبلغ چوبیس سو روپیہ نقد ایسے صاحب کے حوالے کر دوں گا.وہ جس طرح چاہیں اپنی تسلی کرالیں.(دیکھو تبلیغ رسالت ) آب دیکھو یہ طریق فیصلہ کیسا راستی پر مبنی تھا.پادری صاحبان اپنے میں سے کسی کو منتخب کر کے ایک سال کے لئے قادیان بھجوا دیتے اور نہیں تو انہیں اپنے مشن کی امداد کے لئے ڈھائی ہزار رو پید ہی مل جاتا اور اسلام کی شکست اور اُن کی فتح الگ ہوتی اور کم از کم حضرت مرزا صاحب اور ان کے معتقدین کے منہ تو ضرور بند ہو جاتے.مگر خوب یا درکھو کہ باطل حق کے سامنے آنے سے ہمیشہ گھبراتا ہے سوائے اس کے کہ اس کی اجل اسے کھینچ کر ادھر لے آئے اور یہاں تو مخبر صادق نے پہلے یہ خبر دے رکھی تھی کہ درقبال مسیح موعود کے سامنے آنے سے نمک در آب کی طرح پچھلے گا اور اُس 117

Page 128

سے بھاگے گا.پس وہ کس طرح سامنے آتا؟ حضرت مرزا صاحب نے صرف عام تحریک پر ہی بس نہیں کی بلکہ پرائیویٹ طریق پر بھی بعض پادریوں کو غیرت دلائی اور پر زور تحریکیں کیں مگر کوئی پادری سامنے نہ آیا.بٹالہ میں جو قادیان سے صرف گیارہ بارہ میل پر ہے اُس زمانہ میں پادری وائٹ برینٹ صاحب موجود تھے اُن کو بھی بہت جگایا مگر انہوں نے بھی کروٹ نہ بدلی.اب دیکھو کہ یہ کیسی بین تجبت ملزمہ ہے جو اس قوم پر پوری کی گئی.آخر ۱۸۹۳ء میں یہ ہوا کہ امرتسر کے پادریوں نے اس شرط کے مطابق تو فیصلہ منظور نہ کیا، لیکن علمی طور پر مناظرہ کرنا منظور کر لیا.چنانچہ مسیحیوں کی طرف سے مسٹر عبد اللہ آتھم ای.اے.سی مناظر اور پادری ٹامس باول اور پادری ٹھا کر داس و غیرہ ان کے معاون مقرر ہوئے اور اسلام کی طرف سے حضرت مرزا صاحب مناظر قرار پائے اور بمقام امرتسر یہ مباحثہ شروع ہوا.عیسائیوں کی طرف سے مسٹر مارٹن کلارک صدر جلسہ تھے اور مسلمانوں کی طرف سے شیخ غلام قادر صاحب فصیح صدر تھے پندرہ دن تک یہ مباحثہ جاری رہا.اس مباحثہ میں غلبہ کس کو رہا ؟ اس سوال کے جواب میں ہمیں اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں روئیداد جلسہ مفصل طور پر ”جنگ مقدس“ کے نام سے چھپ چکی ہے اس کے مطالعہ سے کسی عقلمند پرمخفی نہیں رہ سکتا کہ غالب کون رہا اور مغلوب کون؟ مگر دو باتیں اس مباحثہ میں خاص طور پر نوٹ کے قابل ہیں جو شخص انہیں مدنظر رکھ کر اس کتاب کا مطالعہ کرے گاوہ ایک عجیب حظ اٹھائے گا.اول یہ کہ ہر مذہب کے دعوے اور دلیل کے متعلق حضرت مرزا صاحب نے ایک نہایت محکم اصول پیش کیا ہے جو سارے جھگڑے کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے.مگر مسیحی صاحبان نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور نہ در اصل وہ توجہ کر سکتے تھے.کیونکہ ایسا کرنے سے وہ بالکل بے دست و پارہ جاتے اس اصول کے متعلق ہم مفضل آگے چل کر لکھیں گے.دوسری بات یہ ہے جسے ایک ذہین شخص محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضرت مرزا صاحب کی زبر دست جرح سے تنگ آکر کئی جگہ آتھم صاحب نے سوائے اس کے اپنے لئے کوئی مخلصی کی راہ نہیں دیکھی کہ معروف مسیحی عقیدہ کو چھوڑ کر اپنے کسی ذاتی خیال کی آڑ میں پناہ لے لیں چنانچہ کئی 118

Page 129

جگہ اُن کے دعوے اور دلیلیں معرفت مسیحی عقیدوں کے خلاف نظر آتی ہیں اور کئی جگہ انہوں نے اپنا پہلو بھی بدلا ہے.پس یہ بھی حضرت مرزا صاحب کے غلبہ کی ایک بین دلیل ہے ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ خصم خواہ کیسا بھی لاجواب ہو جاوے چپ نہیں ہوا کرتا.غرض یہ مباحثہ اسلام کے لئے ایک نہایت درجہ کامیاب مباحثہ ثابت ہوا اور مسیحیوں کو شکست فاش نصیب ہوئی.(دیکھو جنگ مقدس) اس کے بعد پادری فتح مسیح نے حضرت مرزا صاحب کے مقابل پر میدان میں آنا چاہا مگر ایسی منہ کی کھائی کہ پھر سر نہ اٹھایا.ہاں اپنی بد باطنی کا ایک ریکارڈ چھوڑ گیا.حضرت مرزا صاحب نے اُس کے اعتراضات کی دھجیاں اُڑادیں.(دیکھونو ر القرآن ) اسکے بعد پھر کسی پادری کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ آپ کے سامنے آتا مگر آپ نے اپنا کام جاری رکھا اور نور الحق.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب اور کتاب البریہ جیسی نہایت زبر دست کتابیں تصنیف فرما ئیں اور بالآخم 190 ء میں پنجاب کے لارڈ بشپ ریورنڈ جارج لیفر ائے لا ہور کو چیلنج دیکر عیسائیوں پر حجت پوری کی.اس چیلنج میں آپ کی تحریک سے احمدیوں کی ایک جماعت نے بشپ صاحب کو ایک تحریری درخواست دی جس میں لکھا کہ چونکہ آپ اس ملک میں تمام مسیحیوں کے سردار ہیں اور آپ کا فرض منصبی بھی ہے کہ طالبانِ حق کی تسلی کرائیں اور آپ ایک طرح سے مسلمانوں کو مباحثہ کا چیلنج بھی دے چکے ہیں لہذا ہم آپ کو آپ کے یسوع مسیح کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ اس موقعہ پر پیچھے نہ ہٹیں اور حق و باطل کا فیصلہ ہونے دیں اور اسلام اور مسیحیت کی صداقت کے متعلق حضرت مرزا صاحب کے ساتھ بمقام لاہور ایک با قاعدہ مباحثہ کر کے مخلوق خدا پر احسان فرما ئیں.غرض بڑے جوش دلانے والے الفاظ میں بشپ صاحب کو مباحثہ کی طرف بلایا گیا مگر بشپ صاحب کو ہمت نہ ہوئی اور انہوں نے حیلے بہانے کر کے بات ٹال دی.( دیکھو ریویو آف ریلیجنز قادیان) اس کے بعد ۱۹۰۲ء میں حضرت مرزا صاحب نے یورپ اور امریکہ میں تکمیل تبلیغ اسلام کے لئے ایک انگریزی رسالہ ریویو آف ریلیچر“ جاری کروایا اور اس میں صداقتِ 119

Page 130

اسلام اور رد عقائد مسیحیت کے متعلق ایسے ایسے زبر دست اور لا جواب مضامین لکھے کہ مسیحیوں کے دانت کھٹے کر دیئے.کئی غیر متعصب عیسائیوں نے ان مضامین کے بے نظیر ہونے کا اعتراف کیا آپ نے عقل اور نقل سے یہ ثابت کر دیا کہ تثلیث کا عقیدہ خود بائیبل کے مخالف ہونے کے علاوہ اور پھر علاوہ اس بات کے کہ فطرت انسانی اسے دُور سے ہی دھکے دیتی ہے عقل کے بھی صریح مخالف ہے.تین خداؤں کا ہونا دو حالتوں سے خالی نہیں.یا تو وہ تینوں اپنی اپنی جگہ کامل ہیں یعنی تمام خدائی صفات کو کامل طور پر اپنے اندر رکھتے ہیں اور یا وہ کامل نہیں بلکہ تینوں مل کر کامل بنتے ہیں.صورت اوّل میں تین خداؤں کا ہونا ایک عبث فعل ہے.کیونکہ جب ان تینوں میں سے ہر ایک کامل ہے تو پھر ہر اک الگ الگ اس کا رخانہ کو چلا سکتا ہے پس کوئی وجہ نہیں کہ جہاں ایک خدا کام دے سکے وہاں تین خدا کام کریں.اور اگر وہ الگ الگ کامل نہیں اور فرداً فرداً اس کا رخانہ کو چلانے کے قابل نہیں تو اس صورت میں وہ سب ناقص ہیں اور خدا نہیں ہو سکتے.اس قسم کے دلائل کے ساتھ آپ نے عقلاً تثلیث کے عقیدہ کا بطلان ثابت کیا اور یہ بھی ثابت کیا کہ انجیل جس پر مسیحیوں کا سارا دارو مدار ہے ہرگز تثلیث کے عقیدہ کی تائید نہیں کرتی بلکہ اس کی اصل تعلیم تو حید پر قائم تھی.اسی طرح الوہیت مسیح کے عقیدہ پر آپ نے وہ ضر میں لگائیں کہ خدا ثابت کر نا تو درکنار عیسائیوں کو مسیح ناصری کا ایک کامل بشر ثابت کرنا بھی مشکل ہو گیا.پھر کفارہ پر وہ مضامین لکھے کہ خود بعض مسیحیوں کو اقرار کرنا پڑا کہ وہ زبر دست مضامین لا جواب ہیں.( مثلاً ملاحظہ ہو روس کے مشہور ومعروف کونٹ ٹالسٹائے کا ریویو اسلامی اصول کی فلاسفی پر جس کا ذکر آگے آتا ہے.) آپ نے ثابت کیا کہ کفارہ کا مسئلہ فطرت کے خلاف ہے.زید کے خون سے بکر کے گناہوں کی معافی ایک ایسا خیال ہے جسے عقل دُور سے ہی دھکے دیتی ہے.آپ نے ثابت کیا کہ گناہ صرف ایمان اور یقین سے دُور ہو سکتا ہے اُسے کسی خونی قربانی کی ضرورت نہیں اور نقلی طریق سے بھی آپ نے اس خیال کا بطلان ثابت کیا.اسی طرح رحم بلا مبادلہ کے فرضی عقیدہ کی بھی دھجیاں اُڑا دیں.غرض آپ نے مسیحیت کے متعلق عقل اور نقل دونوں کی رو سے نہایت مدلل اور سیر کن بخشیں کی ہیں اور 120

Page 131

اس پر ایسی کاری ضربیں لگائی ہیں کہ اس کا جانبر ہونا مشکل ہے.( دیکھو حضرت مرزا صاحب کی کتب براہین احمدیہ.جنگ مقدس - انجام آتھم.نور القرآن.سراجدین کے چار سوالوں کا جواب.کتاب البریہ.اسلامی اصول کی فلاسفی.نور الحق.چشمہ مسیحی تبلیغ رسالت.مضامین مندرجہ ریویو وغیرہ.) اس نقلی اور عقلی بحث کے علاوہ ایک اور نہایت عظیم الشان کام تھا جو آپ نے انجام دیا اور گویا مسیحیت کی عمارت کو بنیادوں سے اٹھا کر دے مارا یہ آپ کی وہ عظیم الشان تاریخی تحقیق ہے جو آپ نے واقعہ صلیب اور مسیح ناصری کی قبر کے متعلق فرمائی ہے آپ نے انجیل اور تاریخ سے روزِ روشن کی طرح ثابت کر دیا ہے کہ :- اول مسیح ناصری جس کی صلیبی موت پر کفارے کی عمارت کھڑی کی گئی ہے صلیب پر چڑھائے تو بیشک گئے مگر وہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ غشی کی حالت میں زندہ ہی صلیب سے اُتار لئے گئے اور آپ نے یہ بات ایسے روشن دلائل کے ساتھ ثابت کر دی کہ شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہی.دوسرے آپ نے بین دلائل کے ساتھ ثابت کر دیا کہ مسیح ناصری جنہیں خدا بنایا گیا ہے فوت ہو چکے ہیں.تیسرے آپ نے زبر دست تاریخی دلائل سے یہ بات ثابت کر دی کہ واقعہ صلیب کے بعد مسیح اپنے ملک سے ہجرت کر کے کشمیر کی طرف آگئے تھے اور پھر آپ نے براہین قاطعہ سے سری نگر محلہ خانیار میں مسیح کی قبر بھی ثابت کر دی.اب دیکھو کہ یہ تین زبر دست تحقیقیں جو آپ نے فرمائی ہیں.مسیحی مذہب کے متعلق کیسا عظیم الشان اثر رکھتی ہیں اور کیا ان کے بعد الوہیت مسیح اور کفارہ کا کچھ باقی رہ جاتا ہے؟ حضرت مسیح اگر صلیب پر نہیں مرے اور صلیب سے زندہ اُتر آئے تو گو یا کفارہ خاک میں مل گیا پھر اگر مسیح اپنی زندگی کے دن گزار کر دوسرے انسانوں کی طرح وفات پاگئے اور زیر خاک مدفون ہوئے اور ان کی قبر بھی مل گئی تو صرف انہیں پر نہیں بلکہ ان کی خدائی پر بھی موت آگئی اور گو یا وہ خود دفن نہیں 121

Page 132

ہوئے بلکہ اُن کی خدائی بھی دفن ہو گئی اور مسیحیت کا سارا طلسم ڈھوآں ہو کر اڑنے لگا.(دیکھو مسیح ہندوستان میں “ اور ” راز حقیقت اور قبر مسیح وغیرہ.) پھر حضرت مرزا صاحب نے روحانی مقابلہ کے لئے بھی عیسائیوں کو اپنے سامنے بلایا اور بار بار چیلنج دیا کہ تم ان لوگوں میں سے ہونے کا دعوی کرتے ہو جو ایک رائی کے دانہ کے برابر ایمان رکھنے پر بھی وہ کچھ دکھا سکتے ہیں.جو تمہارے خیال میں مسیح نے دکھایا تھا تو اب میرے مقابل پر نکلو اور اپنے ایمان کا ثبوت دو.میں مسیح کی خدائی کا منکر ہوں.ہاں بیشک وہ خدا کے نبیوں میں سے ایک نبی تھا.مگر مجھے خدا نے اُس سے برتر مرتبہ عطا کیا ہے اور میں کفارے کے خونی عقیدہ کو جھوٹا سمجھتا ہوں.اب اگر تم میں سے کسی کو ہمت ہے کہ روحانی کمالات میں میرا مقابلہ کر سکے تو وہ سامنے آئے اور دُعا اور افاضۂ روحانی میں میرے ساتھ مقابلہ کر لے اور پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے آپ نے لکھا کہ قرعہ اندازی کے ساتھ کچھ خطرناک مریض مجھے دید و اور کچھ تم لے لو.میں اپنے مریضوں کے لئے دُعا کروں گا.اور اپنے خدا سے اُن کی شفایابی چاہوں گا اور تم اپنے مریضوں کے لئے اپنے مسیح سے شفا کے طالب ہونا اور اپنے علوم ظاہری کی مدد سے ان کا علاج بھی کرنا اور پھر ہم دیکھیں گے کہ کس کا خدا غالب ہے اور کون فتح پاتا ہے اور کون ذلیل ہوتا ہے آپ نے اس چیلنج کو بار بار دہرایا.اور اس کے متعلق کثرت کے ساتھ اشتہارات دیئے اور پادریوں کو غیرت دلا دلا کر ابھارا اور ان کے بڑے بڑے بشپوں کو بھی دعوتی مراسلے بھیجے مگر کسی کو سامنے آنے کی جرات نہ ہوئی.(دیکھو تبلیغ رسالت ور یویو آف ریلیجنز وحقیقۃ الوحی وغیرہ) کیا اس سے بڑھ کر کوئی روحانی موت ہو سکتی ہے جو اس فرقہ کو نصیب ہوئی ؟ پھر آپ نے اس عظیم الشان مباحثہ کے بعد جو ۱۸۹۳ء میں امرتسر میں عیسائیوں کے ساتھ ہوا تھا اور جو جنگ مقدس کے نام سے چھپ چکا ہے عیسائیوں کے مناظر ڈپٹی عبد اللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی کہ چونکہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کہا ہے اور مجھ پر اور اسلام پر جنسی اڑائی ہے اور وہ ایک سراسر باطل عقیدہ کا حامی ہے اس لئے اگر اُس نے حق کی طرف رجوع نہ کیا تو وہ پندرہ ماہ میں بسزائے موت ہاویہ کے اندر گرایا جاوے گا.(دیکھو جنگ مقدس کا 122

Page 133

آخری مضمون ) اس پیشگوئی کا ایسا خوف آتھم کے دل پر طاری ہوا کہ وہیں اُسی مجلس میں اُس نے اپنی زبان منہ سے باہر نکال کر اور کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا کہ میں نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال نہیں کہا.حالانکہ وہ اپنی کتاب اندرونہ بائیبل میں دجال کہہ چکا تھا پھر اس کے بعد مجوں لجوں میعاد گذرتی گئی اس کا خوف اور کرب بڑھتا گیا اور وہ ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف بھا گتا تھا اور اُسے اپنے خوف زدہ تخیل میں کبھی تو نگی تلواروں والے نظر آتے تھے اور کبھی سانپ دکھائی دیتے تھے.(دیکھو بیان مارٹن کلارک مشمولہ کتاب البریہ ) اور اُس نے اپنی قلم اور زبان کو اسلام کے خلاف بالکل روک لیا اور معلوم ہوا ہے کہ ان ایام میں وہ الگ بیٹھ کر قرآن شریف بھی پڑھا کرتا تھا اور اگر چہ عیسائیوں نے اس کا خوف کم کرنے کے لئے اس کے لئے پولیس کے خاص پہرہ کا انتظام بھی کر دیا تھا، لیکن پھر بھی اس کا خوف بڑھتا جا تا تھا آخر اس کی حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اُن کو اُسے شراب پلا پلا کر مد ہوش رکھنا پڑا.غرض ہر طرح اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور اسلامی صداقت سے مرعوب ہونے کا اظہار کیا.پس خدا نے پیشگوئی کی شرط کے مطابق اُسے میعاد کے اندر ہاویہ میں گرنے سے بچالیا.لیکن جیسا کہ جھوٹوں کا قاعدہ ہوتا ہے میعاد گذرنے پر عیسائیوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پیشگوئی غلط نکلی.اس پر حضرت مرزا صاحب نے اُن کو مدتل طور پر سمجھایا کہ آتھم کا بچنا پیشگوئی کے مطابق ہوا ہے کیونکہ یہ پیشگوئی مرکب نوعیت کی تھی یعنی اس کا مفہوم یہ تھا کہ اگر آتھم رجوع نہ کرے گا تو پندرہ ماہ میں ہادیہ میں گرایا جائے گا اور اگر رجوع کرے گا تو اس صورت میں محفوظ رہے گا گویا ایک پہلو سے اس کے ہلاک ہونے اور ایک پہلو سے اُس کے زندہ رہنے کی پیشگوئی تھی.پس جب اس کا خوف اور رجوع ثابت ہے تو اس کا زندہ رہنا پیشگوئی کے مطابق ہوا نہ کہ مخالف مگر عیسائیوں نے یہ نہ مانا یا یوں کہو کہ ماننا نہ چاہا.اس پر حضرت مرزا صاحب کی اسلامی غیرت جوش زن ہوئی اور آپ نے بذریعہ اشتہار یہ اعلان کیا کہ اگر آتھم اس بات پر حلف اٹھا جائے کہ اس پر پیشگوئی کا خوف غالب نہیں ہوا اور اُس نے اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور اس حلف کے بعد وہ ایک سال کے اندر اندر ہلاک نہ ہو جائے تو میں اُسے ایک ہزار روپیہ نقد انعام 123

Page 134

دونگا اور نیز اس صورت میں میں جھوٹا ہونگا اور تم سچے ثابت ہوگے اور یہ روپیہ ابھی سے جس ثالث کے پاس چاہو کھالو اور اپنی تسلی کرلو.مگر آتھم صاحب اس طرف نہ آئے.اس پر آپ نے دوسرا اشتہار دیا کہ ہم دو ہزار روپیہ دیں گے اگر آتھم قسم کھالے کہ میں نے رجوع نہیں کیا مگر ادھر سے پھر بھی خاموشی رہی.اس پر آپ نے ایک تیسرا اشتہار دیا کہ اگر آتھم قسم کھالے تو میں تین ہزار دو پہیہ انعام دونگا مگر پھر بھی صدائے برنخو است.بالآخر آپ نے چوتھا اشتہار دیا کہ میں چار ہزار روپیہ نقد انعام دیتا ہوں اگر آتھم یہ قسم کھالے کہ پیشگوئی کا خوف اس کے دل پر غالب نہیں ہوا اور اُس نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور آپ نے لکھا کہ اگر تم نے قسم کھالی تو ایک سال میں تمہارا خاتمہ ہے اور اس کے ساتھ کوئی شرط نہیں ، لیکن اگر تم نے قسم نہ کھائی تو ہر عقلمند کے نزدیک ثابت ہو جائے گا کہ تم نے اپنی خاموشی سے حق پر پردہ ڈالنا چاہا ہے.اس صورت میں گو میں ایک سال کی قید تو نہیں لگاتا لیکن یہ کہتا ہوں کہ جلد تمہارا خاتمہ ہے اور کوئی مصنوعی خدا تمہیں اس ہلاکت سے بچا نہ سکے گا.پھر اس کے بعد آپ نے ۳۰ر دسمبر ۱۸۹۵ ی کو ایک اور اشتہار دے کر اس مضمون کو دُہرایا اور لکھا کہ :- مجھے اُسی خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آتھم اب بھی قسم کھانا چاہے اور انہیں الفاظ کے ساتھ جو میں پیش کرتا ہوں (یعنی یہ کہ پندرہ ما ہی میعاد میں اس کے دل پر پیشگوئی کا خوف غالب نہیں ہوا اور اسلام کی صداقت کا رعب اس کے دل پر نہیں پڑا اور اس نے کوئی رجوع نہیں کیا ) ایک مجمع میں میرے رو برو تین مرتبہ قسم کھا دے اور ہم آمین کہیں تو میں اسی وقت چار ہزار رو پید اس کو دیدوں گا.اگر تاریخ قسم سے ایک سال تک وہ زندہ سالم رہا تو وہ اس کا روپیہ ہو گا اور پھر اس کے بعد یہ تمام قو میں مجھ کو جو سزا چاہیں دیں.اگر مجھ کو تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کریں تو میں عذر نہیں کروں گا اور اگر دنیا کی سزاؤں میں سے مجھ کو وہ سزا د میں جو سخت تر سزا ہے تو میں انکار نہیں کروں گا اور خود میرے لئے اس سے زیادہ کوئی رسوائی نہیں ہوگی کہ میں اس کی قسم کے بعد جس کی میرے ہی الہام پر بنا ہے جھوٹا نکلوں.(دیکھو تبلیغ رسالت جلد چہارم) 124

Page 135

ناظرین قدرت الہی کا تماشہ دیکھیں کہ اس آخری اشتہار پر ابھی سات ماہ نہیں گذرے تھے کہ آتھم کی صف ۲۷ جولائی ۱۸۹۶ء کو صفحۂ دنیا سے ہمیشہ کے لئے لپیٹ دی گئی.آتھم کے مرنے کے بعد بھی حضرت مرزا صاحب نے مخالفین پر اتمام حجت کرنے کے لئے مسیحیوں بلکہ تمام مخالفین کو مخاطب کیا اور لکھا کہ :- اگر اب تک کسی عیسائی کو آتھم کے اس افتراء پر کوئی شک ہو تو آسمانی شہادت سے رفع شک کرالیوے.آتھم تو پیشگوئی کے مطابق فوت ہو گیا اب وہ اپنے تئیں اس کا قائم مقام ٹھہرا آتھم کے مقدمہ میں قسم کھا لیوے یعنی اس مضمون کی قسم کھالے کہ آتھم پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرا بلکہ اس پر یہ جو حملے ہوئے تھے ( یعنی اس کا ڈر اس لئے تھا کہ گویا حضرت مرزا صاحب کی طرف سے اُس کے قتل کے لئے کبھی تلواروں والے آدمی بھیجے گئے اور کبھی سانپ چھوڑے گئے.کبھی کتے سکھا کر بھیجے گئے.وغیرہ وغیرہ.نعوذ باللہ من ذالک) اگر یہ قسم کھانے والا بھی ایک سال تک بچ گیا تو دیکھو میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے ہاتھ سے شائع کر دوں گا کہ میری پیشگوئی غلط نکلی.اس قسم کے ساتھ کوئی شرط نہ ہوگی.یہ نہایت صاف فیصلہ ہو جائے گا اور جو شخص خدا کے نزد یک باطل پر ہے اس کا بطلان کھل جاوے گا.(دیکھو انجام آتھم صفحہ ۱۵) مگر اس پر بھی مسیحیت کا کوئی بہادر سپوت مرد میدان بن کر سامنے نہ آیا اللہ اکبر! یہ کتنی بڑی ذلت اور شکست تھی جو اسلام کے مقابلہ میں مسیحیت کو پہنچی.مگر جس کی آنکھ نہ ہو وہ کیسے دیکھے.مکمل بحث کے لئے دیکھو جنگ مقدس.انوار الاسلام - آنجام آتھم وغیرہ) آتھم کی اس ذلت کی موت نے عیسائی کیمپ میں عداوت اور حسد کی شدید آگ مشتعل کر دی.چنانچہ ابھی اس کی موت پر زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا کہ ڈاکٹر مارٹن کلارک نے جو امرتسر کا ایک نہایت مشہور عیسائی مشنری تھا اور امرتسر کے مباحثہ میں بھی آتھم کا معین و مددگار رہا تھا.حضرت مرزا صاحب پر اقدام قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ قائم کر دیا اور دعویٰ کیا کہ مرزا صاحب نے ایک شخص 125

Page 136

عبد الحمید جبلی کو میرے قتل کے لئے امرتسر بھیجا ہے اور پادری صاحب موصوف نے لالچ اور خوف دلا کر عبدالحمید مذکور سے اپنے مفید مطلب بیان بھی دلواد یا لیکن پیشتر اس کے کہ یہ مقدمہ پیش ہوتا اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو الہام کے ذریعہ خبر دی کہ آپ کے خلاف ایک مقدمہ ہونے والا ہے مگر اس کا انجام بریت ہے.چنانچہ آپ نے اس الہام کی اشاعت فرما دی.اس کے بعد اس مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی اور آریوں اور بعض مسلمانوں نے عیسائیوں کی امداد کی اور معلم گھلا اُن کا ساتھ دیا.آریہ وکیلوں نے مارٹن کلارک کی طرف سے مفت مقدمہ کی پیروی کی اور بعض مسلمان مولویوں نے بڑھ بڑھ کر حضرت مرزا صاحب کے خلاف شہادتیں دیں مگر اللہ تعالیٰ نے کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور پر حق کھول دیا اور بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ عبدالحمید نے کپتان ڈگلس کے پاؤں پر گر کر اس بات کا اقرار کیا کہ یہ مقدمہ بناوٹی ہے اور مجھے پادریوں نے سکھایا تھا کہ اس اس قسم کا بیان دو.پس آپ اللہ تعالی کی بشارت کے مطابق عزت کے ساتھ بری کئے گئے اور عیسائی پادریوں کے ماتھے پر ذلت اور شکست کے علاوہ جھوٹ اور سازش اور ارادہ قتل کا سیاہ داغ لگ گیا اور اسلام کو ایک نمایاں فتح نصیب ہوئی.دیکھو حضرت مرزا صاحب کی تصنیف کتاب البریۃ ) جب حضرت مرزا صاحب نے دیکھا کہ عیسائیوں میں سے کوئی شخص دُعا اور افاضۂ روحانی کے مقابلہ کے لئے آگے نہیں آتا تو آپ نے اُن کو مباہلہ کے لئے بلایا.یعنی عیسائیوں کو دعوت دی کہ اگر تمہیں اپنے مذہب کے سچا ہونے کا یقین ہے تو میرے ساتھ مباہلہ کرلو.یعنی میرے مقابل پر آکر یہ دعا کرو کہ اے ہمارے خدا ہم مسیحیت کو سچا سمجھتے ہیں اور اسلام کو ایک جھوٹ مذ ہب جانتے ہیں اور ہما را مد مقابل مرزا غلام احمد قادیانی اسلام کو سچا سمجھتا اور مسیحیت کے عقائد کو باطل قرار دیتا ہے اب اے خدا تو جو حقیقت امر سے آگاہ ہے تو ہم دونوں میں سچ سچا فیصلہ فرما اور ہم میں سے جو فریق اپنے دعوی میں جھوٹا ہے اس کو بچے فریق کی زندگی میں ایک سال کے اندر اندر عذاب میں مبتلا کر.اور حضرت مرزا صاحب نے لکھا کہ اسی طرح میں بھی دُعا کروں گا اور پھر ہم دیکھیں گے کہ خدا کس کو عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور کس کی عزت ظاہر ہوتی ہے مگر افسوس عیسائیوں میں سے اس 126

Page 137

مقابلہ کے لئے بھی کوئی نہ نکلا.(دیکھو تبلیغ رسالت) مسٹر والٹر آنجہانی جو ایک امریکن پادری تھا اور جس نے سلسلہ احمدیہ کی ایک مختصر سی تاریخ انگریزی زبان میں لکھی ہے اس چیلنج کا ذکر کر کے لکھتا ہے کہ دراصل مسیحی لوگ کسی کے متعلق بددُعا کرنے اور اس کی ہلاکت کے خواہشمند ہونے کے مقام سے بالاتر ہیں کیونکہ وہ مذہباً کسی کی بھی تباہی اور ذلت نہیں چاہتے.اس لئے کوئی مسیحی مرزا صاحب کے مقابلہ پر نہیں آیا.خوب! بہت خوب !! مگر حل طلب امر یہ رہ جاتا ہے کہ آتھم کی میعاد پر شہروں میں جلوس نکلوانے اور سوانگ بھر نے اور پھر اس کی موت پر غضب میں آکر اقدام قتل کے سراسر جھوٹے اور بناوٹی مقد مے کھڑے کرنے اور حضرت مرزا صاحب کو ماخوذ کرا کے پھانسی دلوانے یا عمر بھر کے لئے کالے پانی بھجوانے وغیرہ کے لئے تو اے مسیحیت کے حلیم بڑو ! تم تیار ہو اور تمہارا مذہب تمہارے ہاتھ کو نہیں روکتا.مگر اسلام اور مسیحیت میں سچا سچا فیصلہ کرانے کے لئے خدا کے حضور دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے تمہیں اپنا مذ ہب یاد آجاتا ہے !!! تم نے اسلام اور مقدس بانی اسلام کے خلاف تقریر وتحریر میں زہر اُگلنے اور گالیوں سے اپنی کتابوں کے ورق کے ورق سیاہ کر دینے کو تو جائز کر رکھا ہے اور کوئی موقعہ اسلام کو نقصان پہنچانے کا ہاتھ سے نہیں جانے دیتے مگر جہاں دینی تنازعات کا مقدمہ خدا کی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے وہاں تمہیں ایک گال پر طمانچہ کھا کر مارنے والے کی طرف دوسرا گال پھیر دینے کے مسئلہ پر عمل کرنے کی سوجھتی ہے انہی باتوں کی وجہ سے تو حدیث میں تمہارا وہ نام رکھا گیا جو رکھا گیا.پھر یہ تو بتاؤ کہ بھلا مباہلہ میں تو مسیحیت کی محبت کی تعلیم مانع ہوئی لیکن سامنے آ کر نشان دیکھنے اور دکھانے اور مریضوں کی شفایابی کے لئے بالمقابل دُعا کرنے میں کونسا امر مانع تھا؟ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا.مطلب یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مسیحیوں کو ہر طرح مباہلہ کے لئے بلایا، لیکن کسی کو سامنے آنے کی جرات نہ ہوئی مگر خدا کو اس رنگ میں بھی اسلام کا غلبہ اور مسیحیت کی شکست دکھانی منظور تھی.چنانچہ انہی دنوں امریکہ میں ایک شخص ڈوئی کھڑا ہوا جو اصل میں سکاٹ لینڈ کا باشندہ تھا اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی جماعت اپنے گرد جمع کر لی 127

Page 138

اور مسیحیت کی حمایت میں اپنے دجل کا جھنڈا بلند کیا اور کہا کہ میں مسیح ناصری کا رسول ہوں اور مسیح کے عنقریب آنے کی بشارت لے کر آیا ہوں اور کہا کہ میرا یہ بھی کام ہے کہ میں اسلام کو نیست و نابود کروں.یہ شخص پرلے درجہ کا دشمن اسلام تھا اور عیسائیت کی محبت میں گو یا محو تھا اور اس کی تائید میں ایک اخبار بھی نکالا کرتا تھا جس کا نام لیوز آف ہیلنگ تھا ( leaves of healing).اس نے اپنے اس اخبار میں شائع کیا کہ اگر میں سچا نبی نہیں ہوں تو پھر روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں جو خدا کا نبی ہو.نیز لکھا کہ ”میں خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جاوے.اے خدا تو ایسا ہی کر.اے خدا تو اسلام کو ہلاک کر دئے“.اور یہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سخت گالیاں دیا کرتا تھا.غرض تمام مسیحی دنیا میں یہ شخص اسلام کی عداوت اور اس کے متعلق بدزبانی میں اول نمبر والوں میں سے تھا.حضرت مرزا صاحب کو اس کے فتنے کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ایک اشتہار کے ذریعہ اس کو مباہلہ کے لئے بلایا اور یہ اشتہار امریکہ و یورپ کے بہت سے اخباروں میں چھپوا دیا.چنانچہ ان اخبارات کی فہرست حقیقۃ الوحی اور ریویو آف ریلیجز میں شائع ہو چکی ہے.ڈوئی اس قدر مغرور تھا کہ اس نے حضرت مرزا صاحب کی اس دعوت مباہلہ کا جواب تک نہ دیا بلکہ صرف اپنے اخبار میں یہ چند سطریں شائع کر دیں کہ : - ہندوستان میں ایک بیوقوف محمد می صحیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس بات کا جواب کیوں نہیں دیتا اور نیز یہ کہ تو اس شخص کا جواب کیوں نہیں دیتا ( یعنی اس کی دعوتِ مبالہ کا ) مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دونگا.اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو ان کو کچل کر مار ڈالوں.پھر دوسرے پرچہ میں لکھتا ہے.”میرا کام یہ ہے کہ میں مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے لوگوں کو جمع کروں اور مسیحیوں کو اس (اس سے ڈوئی کا آباد کیا ہوا شہر میحون مراد ہے ) شہر اور دوسرے شہروں میں آباد کروں یہاں تک کہ وہ دن آجائے کہ محمدی مذہب دنیا سے مٹادیا جائے.اے خدا ہمیں وہ وقت دکھلا.اس پر حضرت مرزا صاحب نے دوبارہ ایک اشتہار کے ذریعہ سے ڈوئی کو مخاطب کیا اور لکھا کہ تم نے میری دعوت 128

Page 139

مباہلہ کا جواب نہیں دیا.اب میں تمہیں پھر چیلنج دیتا ہوں کہ میرے مقابلہ میں نکل آؤ.اور میں تم کو سات ماہ کی مہلت دیتا ہوں.اگر تم نے اس عرصہ میں بھی جواب نہ دیا تو تمہارا فرار سمجھا جائے گا اور تمہارے شہر میحون پر جس کو تم نے مسیح ناصری کے نزول کے لئے تیار کیا ہے آفت آئے گی اور خدا میرے ذریعہ سے اسلام کا غلبہ ظاہر کرے گا.وغیرہ وغیرہ.یہ اشتہار بھی امریکہ کے کئی اخباروں میں شائع ہو گیا اور نیز ہمارے رسالہ ریویو آف ریلیجنز بابت ۱۹۰۲٫۳ ء میں بھی اس کا ذکر موجود ہے اور ۲۰ فروری ۱۹۰۷ ء کے ایک اشتہار میں حضرت مرزا صاحب نے اعلان کیا کہ ”خدا فرماتا ہے کہ میں ایک تازہ نشان ظاہر کرونگا جس میں فتح عظیم ہوگی اور وہ تمام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا.( دیکھو حضرت مرزا صاحب کی تصنیف ” قادیان کے آریہ اور ہم) اب دیکھو کہ خدا کیا دکھاتا ہے وہ ڈوئی جو حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ کے وقت ایک بڑی طاقت کا مالک اور ایک بڑی جماعت کا مقتداء تھا اور شہزادوں کی طرح رہتا تھا اور اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہبوں میں بڑا معزز و مکرم سمجھا جاتا تھا اور شہرت عامہ رکھتا تھا اپنی بدزبانیوں اور حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کے بعد اس کی کیا حالت ہوتی ہے.سنو اور غور کرو :- ا.ڈوئی کے متعلق یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ شراب پیتا ہے حالانکہ وہ شراب کے خلاف وعظ کیا کرتا تھا.۲- یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ ولد الزنا ہے..اس کے مرید اس سے بدظن ہو کر اس کے خلاف ہو جاتے ہیں اور اُس کے کئی کروڑ روپے پر قبضہ کر کے اس کو اس کے شہر میحون سے نکال دیتے ہیں.۴- پچاس برس کی عمر میں جبکہ اس کی صحت بڑی اچھی تھی اُس پر فالج گرتا ہے جو اُسے ایک تختے کی طرح صاحب فراش کر دیتا ہے.۵- اور بالآخر حضرت مرزا صاحب کے آخری اشتہار مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۰۷ء کے صرف چند ہی دن بعد یعنی اار مارچ ۱۹۰۷ ء کو اخباروں میں یہ تار چھپتا ہے کہ مفلوج اور نامراد ڈوئی 129

Page 140

اس جہان سے گذر گیا.( ڈوئی والی پیشگوئی کے متعلق مفصل بحث اور متعلقہ تواریخ کے لئے دیکھو کتاب ” ڈوئی کا عبرت ناک انجام مصنفہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ واشنگٹن امریکہ.) دیکھو یہ کس قدر عظیم الشان نشان ہے جو حضرت مرزا صاحب کے ہاتھ پر اسلام کی صداقت اور مسیحیت کے بطلان میں ظاہر ہوا اور یہ نشان ظاہر بھی ایسے طریق پر ہوا کہ حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی کے مطابق ساری دنیا اس کی گواہ بن گئی.کیونکہ یورپ اور امریکہ کے بیسیوں انگریزی اخباروں میں حضرت مرزا صاحب اور ڈوئی کے مقابلہ کی خبریں شائع ہو کر زبان زد خلائق ہو چکی تھیں اس سے بڑھ کر کسر صلیب اور قتل دجال کیا ہوگا ؟ جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.دیا:- (ملاحظہ ہو کتاب حقیقۃ الوحی اور ریویو آف ریجنز جلد (۶) خلاصہ کلام یہ کہ آپ نے چار مختلف مرحلوں سے کسر صلیب اور قتل درقبال کا کام انجام اول.وہ اختلافات اندرونی جنہوں نے اسلام کو بدنام کر رکھا تھا اور عیسائیوں کو اسلام کے خلاف بڑاد لیر کر دیا تھا اُن کو آپ نے دلائل نیزہ سے صاف کر دیا.دوسرے آپ نے عقل و نقل سے مسیحیت کے اصولی عقائد کا بطلان ثابت کیا اور اس بحث میں دلائل کا ایک سورج چڑھادیا اور مسیحیوں کو ایک بڑے مباحثہ میں مغلوب کیا.تیسرے آپ نے واقعہ صلیب اور وفات مسیح اور قبر مسیح ناصری کے متعلق تاریخی تحقیقات کر کے مسیحی مذہب پر وہ کاری ضرب لگائی جس نے اس کو جڑ سے کاٹ کر رکھ دیا.چوتھے دُعا اور روحانی مقابلوں اور زبردست الہی نشانوں کے ذریعہ آپ نے مسیحیت کے مقابل میں اسلام کو غالب کر دکھایا.ان شموس اربعہ کی روشنی میں سوائے اس شخص کے جو بطن مادر سے ہی بومی صفات لیکر پیدا ہوا ہو کوئی شخص ایک لمحہ کے لئے بھی اسلام کی فتح اور مسیحیت کی شکست میں شک نہیں کر سکتا.اور یہ سب حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ وقوع میں آیا.اللهم صلّ عليه وعلى مطاعه محمد صلوٰةً وسلاماً دائما بارک وسلم.130

Page 141

حضرت مرزا صاحب کا آریوں سے مقابلہ دوسرا مذہب آریوں کا مذہب ہے ان لوگوں نے پنڈت دیانند صاحب سرسوتی کی لیڈری میں مذہبی جوش و خروش سے از خود رفتہ ہو کر اسلام پر اعتراضات کے بارہ میں پادریوں کا پس خوردہ کھایا.مگر بدزبانی میں اُن سے بھی آگے نکل گئے.ان لوگوں کی تحریر وتقریر اسلام کی عداوت اور مقدس بانی اسلام کی دشمنی سے لبریز ہوتی ہے اور انہوں نے گالیاں دینے میں وہ ید طولی حاصل کیا ہے کہ اور سب قوموں کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں.روحانیات سے انہیں بالکل مسن نہیں اور اپنے جاہلانہ خیالات کی محدود چار دیواری میں ایسے گھرے ہوئے ہیں کہ باہر کی روشنی ان کی آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے.حضرت مرزا صاحب نے اُن کے متعلق خوب لکھا ہے کہ :- کیڑا جو دب رہا ہے گوبر کی تہ کے نیچے اُس کے گماں میں اس کا ارض و سما یہی ہے اُن کے اپنے مذہب کا حال دیکھو تو وہ سرے سے مذہب کہلانے کا حق دار ہی نہیں بلکہ ایک فلسفہ ہے جو ان کے اپنے دماغوں نے گھڑ رکھا ہے ہاں ایک خوبی اُن میں بے شک ہے کہ انہوں نے اسلام کی تعلیم اور اردگرد کے حالات سے متاثر ہوکر بت پرستی کے خلاف ہندوؤں میں اچھی کوشش کی ہے جس میں ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں مگر افسوس کہ بت پرستی سے نکال کر انہوں نے اپنے آپ کو ایک ایسی پر خطر وادی میں لا ڈالا ہے جو اپنے خطرناک نتائج کی وجہ سے بت پرستی سے کم نہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے بزرگوں کو برا بھلا کہنا انہوں نے اپنا وطیرہ بنالیا ہے ان لوگوں کا مذہب دوستونوں پر قائم ہے:.اوّل یہ کہ خدا روح اور مادہ کا خالق نہیں بلکہ صرف ان کو جوڑ توڑ کر اپنا کام چلا رہا ہے ورنہ یہ چیزیں ایسی ہی قدیم ہیں جیسا کہ خود خدا کی ذات ہے یعنی رُوح و مادہ خدا کی طرح ازل سے ہیں اور ابد تک خدا کے ساتھ ساتھ چلے جائیں گے خدا تعالیٰ نہ تو ان کے بنانے پر قادر ہے اور نہ ان کے مٹانے پر.صرف شکل وصورت کے ہیر پھیر سے اپنی حکومت چلا رہا ہے.131

Page 142

دوسر استون اس مذہب کا آواگون یعنی مسئلہ تناسخ ہے یعنی یہ کہ رُوحیں اپنے اعمال کے نتیجے میں مختلف جنم بھوگتی رہتی ہیں اور اس جنم کے چکر سے کبھی پورے طور پر آزاد نہیں ہوتیں اگر کوئی شخص اچھے عمل کرتا ہے اسے اچھا جنم دیا جاتا ہے اور بد اعمال شخص بُرے جنم میں ڈالا جاتا ہے مگر پوری طرح کوئی روح نجات نہیں پاتی اور جب سے کہ کائنات ہے یہی دور جاری چلا آیا ہے اور اسی طرح جاری چلا جائے گا اور اگر کسی کو مکتی یعنی نجات ملتی بھی ہے تو محض عارضی طور پر ملتی ہے اور اس کے بعد وہ رُوح پھر آواگون یعنی تناسخ کے چکر میں ڈال دی جاتی ہے کیونکہ آریہ صاحبان کے خیال میں محدود عمل کی جزا غیر محدود نہیں ہو سکتی.علاوہ اس کے آریوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ خدا کا الہام صرف آریہ ورت تک محدود رہا ہے اور کوئی اور قوم اس نعمت سے مشرف نہیں ہوئی اور ان کا عقیدہ ہے کہ صرف و ید ہی وہ کتاب ہے جو ابتداء سے دنیا کو دی گئی اور پھر اُسے ابد تک کے لئے چشمہ ہدایت قرار دے دیا گیا اور اس کے بعد الہام کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا اور ان کا دعویٰ ہے کہ الہامی کتاب وہی ہوسکتی ہے جو ابتداء میں دی گئی ہو.پھر اُن کا یہ خیال ہے کہ خدا گناہ کو معاف نہیں کرتا بلکہ ضرور ہے کہ با وجود تو بہ کے بھی انسان ہر بدعمل کی سزا بھگتے پھر دنیا کی عملی زندگی کے متعلق ان کا یہ خیال ہے کہ جب کسی مرد کے اولاد نرینہ نہ ہو تو اسے چاہئے کہ اولاد نرینہ کی خاطر اپنی عورت کو کسی غیر مرد کے ساتھ ہم بستر کرائے اور یہ فرض اُس وقت تک انجام دیتا ر ہے جب تک کہ اُس کے لڑکوں کی تعداد گیارہ کے عدد تک نہ پہنچ جائے اس مسئلہ کو یہ لوگ نیوگ کہتے ہیں.یہ ہے خلاصہ ہندومت کے اس فرقہ کے معتقدات کا جو آج کل آریہ کہلاتا ہے اور جس کا یہ دعوی ہے کہ ہندوؤں میں سے صرف ہم ہی دید کی اصل تعلیم پر قائم ہیں اور باقی تمام فرقے جادہ صواب سے منحرف ہو چکے ہیں.اور یہ فرقہ پنڈت دیا نند صاحب سرسوتی کو جنہوں نے ۱۸۸۳ء میں وفات پائی تھی اپنا مقتداء اور لیڈر سمجھا ہے.اس تمہیدی نوٹ کے بعد ہم اس شاندار دفیعہ کا ذکر کرتے ہیں جو حضرت مرزا صاحب کی طرف سے اس گروہ کے مقابل میں کیا گیا پہلے ہم نقل اور عقل کی بحث کو لیتے ہیں اور پھر روحانی 132

Page 143

مقابلہ کا ذکر کریں گے آریوں کے ساتھ حضرت مرزا صاحب کے پبلک مقابلہ کی ابتداء پنڈت دیانند سرسوتی کے اس اعلان سے ہوئی جو ۱۸۷۷ء میں اخبارات کے ذریعہ کیا گیا تھا اور اس اعلان کا مفہوم یہ تھا کہ ارواح موجودہ بے انت ہیں اور اس کثرت سے ہیں کہ پر میشور کو بھی اُن کی تعداد معلوم نہیں اس واسطے وہ ہمیشہ مکتی پاتی رہیں گی مگر کبھی ختم نہیں ہوں گی اس سراسر باطل عقیدہ کے اعلان پر پہلی روح جو حرکت میں آئی وہ حضرت مرزا صاحب کی مقدس روح تھی.آپ نے اس عقیدہ کے خلاف بڑے زبر دست اور مسکت مضامین اخباروں میں شائع کئے.اور جواب دینے والے کے لئے پانچ سو رو پید انعام رکھا ان مضامین سے آریہ کیمپ میں کھلبلی پڑگئی.اس سے پہلے ان کی یہ حالت تھی کہ بے دھڑک اپنی جارحانہ کارروائیوں میں بڑھتے چلے آتے تھے مگر یہ پہلا گولہ تھا جو ان کے کیمپ میں گرا اور اس نے اُن کو بالکل سراسیمہ کر دیا.اس سے پہلے حضرت مرزا صاحب کا کام بھی ایک گوشئہ گمنامی میں پڑا تھا اور کوئی آپ کو نہ جانتا تھا مگر اِن مضامین سے لوگوں کی نظریں آپ کی طرف حیرت کے ساتھ اٹھنی شروع ہوئیں اور خود آریوں پر بھی یہ اثر ہوا کہ بعض بڑے بڑے ذی رتبہ آریہ یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوئے کہ ارواح کے بے انت ہونے کا خیال پنڈت دیا نند صاحب کا ذاتی خیال ہوگا ہمارا یہ خیال نہیں ہے.چنانچہ لالہ جیون داس صاحب نے جو اُن دنوں لاہور کی آریہ سماج سکریٹری تھے اور آریوں میں ایک نہایت ممتاز شخص تھے بذریعہ اخبار شائع کیا کہ یہ مسئلہ سماج کے اصولوں میں داخل نہیں.اگر کوئی ممبر سماج کا اس کا دعویدار ہو تو اس سے سوال کرنا چاہئے اور اُس کو اس کا جواب دینا لا زم ہے.( دیکھو حیات النبی ) اور یہ بھی لکھا کہ ” آریہ سوامی دیانند کو واجب الاطاعت لیڈر نہیں سمجھتے اس لئے ضروری نہیں کہ اُن کے سب عقائد کو تمام آریہ لوگ تسلیم کریں“.سبحان اللہ ! یہ کیسی عظیم الشان فتح تھی جو حضرت مرزا صاحب کو آریوں کے مقابل پر حاصل ہوئی کہ ایک ہی حملہ کے نتیجہ میں وہ اپنا میدان چھوڑ گئے.مگر اور لیجئے.آپ نے اپنے پے در پے مضامین سے پنڈت دیانن کو چیلنج دیا کہ میرے مقابلہ میں ارواح کے بے انت ہونے کے دعویٰ کو ثابت کرو اور مجھ سے انعام لو.اس پر پنڈت جی 133

Page 144

کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والی حالت ہوگئی.ناچار حضرت مرزا صاحب کو یہ پیغام بھیجا کہ اگر چہ ارواح حقیقت میں بے انت نہیں ہیں مگر تناسخ پھر بھی صحیح ہے.ناظرین غور کریں کہ وید سے استنباط کر کے پنڈت جی ایک عقیدہ پیش کرتے ہیں اور عقیدہ بھی ایسا جو اصول مذہب کی پوزیشن رکھتا ہے مگر حضرت مرزا صاحب کی گولہ باری سے اپنے اس عقیدہ سے پیچھے ہٹ جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اس سے زیادہ نمایاں فتح کیا ہوگی کہ آریہ سماج کا نامی گرامی لیڈر بلکہ بانی اس طرح کھلے میدان میں پیٹھ دکھاتا ہے.یہ فتح ایسی بین فتح تھی کہ پنڈت شونرائن اگنی ہوتری ایڈیٹر ” برادر ہنڈ نے جو گوسوامی جی کے معتقد نہ تھے لیکن پھر بھی ایک ہندو تھے اور مخالفین اسلام میں سے تھے ”مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان اور آریہ سماج“ کے عنوان سے اپنے اخبار میں لکھا کہ ”جب مرزا صاحب نے مسئلہ مذکور اپنی بحث میں باطل ثابت کر دیا تو لاچار سوامی جی نے مرزا صاحب کو یہ پیغام بھیجا کہ حقیقت میں ارواح بے انت نہیں ہیں مگر تناسخ پھر بھی صحیح ہے.دیکھو مکتوبات احمد یہ اور برادر ہند بابت جولائی ۱۸۷۸ء) اس کے بعد آریوں نے ارواح کے بے انت ہونے اور خدا کو اُن کی تعداد کاعلم نہ ہونے کا عقیدہ ترک کر دیا اور اس کی جگہ یہ عقیدہ قائم کیا کہ اگر چہ ارواح تعداد میں محدود ہیں لیکن چونکہ کوئی رُوح کامل مکتی دوامی طور پر حاصل نہیں کر سکتی اس لئے تناسخ کا چکر پھر بھی قائم رہتا ہے.پنڈت دیانند صاحب کے خاموش ہو جانے کے بعد آریہ کیمپ کا ایک اور نامور جرنیل مقابلہ کے لئے آگے بڑھا.یہ صاحب باو انرائن سنگھ سیکریٹری آریہ سماج امرتسر تھے.شروع شروع میں انہوں نے بڑا جوش و خروش دکھایا اور جس میدان میں اُن کے مقتداء سوامی جی بھی ٹھہر نہ سکے تھے وہاں بھی قدم رکھنا چاہا، لیکن حضرت مرزا صاحب کی ایک دوضر بوں نے ہی اُن کو ٹھنڈا کر دیا اور وہ ایسے خاموش ہوئے کہ گویا کبھی بولے ہی نہ تھے مگر ان کی خاموشی سے بھی بڑھ کر ایک اور بات ہوئی.وہ کیا تھی؟ وہ یہ تھی کہ یہی باوا صاحب جو اس وقت آریہ سماج کے ایک ممتاز اور نہایت سرگرم ممبر تھے آریہ سماج کے پلیٹ فارم سے الگ ہو کر اپنی اصل کمیونیٹی میں واپس آملے سُبحان اللہ! کیا عظیم الشان فتح ہے جو حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ اسلام کو نصیب ہوئی! 134

Page 145

اب آگے چلئیے.اس جنگ وجدال کے بعد آریہ کیمپ میں ایک عرصہ تک خاموشی رہی مگر کچھ عرصہ کے بعد دو نہایت نامور شخص میدان مقابلہ میں آئے یعنی منشی اندر من مراد آبادی اور پنڈت لیکھرام پشاوری ثم لاہوری.مؤخر الذکر شخص آریہ سماج میں وہ ممتاز درجہ رکھتا تھا کہ سوامی دیانند کے بعد گویا ساری قوم میں یہی شخص بزرگ سمجھا جاتا تھا بلکہ بعض لحاظ سے سوامی جی پر بھی اُسے فوقیت دی جاتی تھی.یہ دونوں شخص اسلام سے سخت عداوت رکھتے تھے اور تیز کلامی و بدزبانی میں بھی اپنی نظیر آپ ہی تھے.حضرت مسیح موعود کے ساتھ ان کے وار ہوتے رہے اور پھر جس رنگ میں اس مقابلہ کا خاتمہ ہوا وہ بھی اسلامی تاریخ اور پھر خصوصاً سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ایک خاص شان رکھتا ہے.مگر چونکہ وہ روحانی مقابلہ سے متعلق ہے اس لئے اس کا بیان بھی اُسی ذیل میں درج ہوگا.اس کے بعد ۱۸۸۶ء میں ہوشیار پور کے مقام پر حضرت مرزا صاحب کا ایک جوشیلے آریہ ماسٹر مرلی دھر کے ساتھ مباحثہ ہوا جس میں اسے خطر ناک شکست ہوئی.(دیکھوئرمہ چشم آریہ) اس مباحثہ کی کیفیت کے لئے آپ نے ایک کتاب تحریر فرمائی جس کا نام سرمہ چشم آریہ رکھا.یہ اس پایہ کی کتاب ہے کہ دشمن سوائے اس کے کہ اپنے ہاتھ کاٹے ہرگز اس کے جواب کی طاقت نہیں رکھتا.اس کے بعد آپ نے ایک اور زبردست کتاب شحنه حق تصنیف فرما کر اتمام حجت کیا اور آریوں کے مذہبی اصولوں کی دھجیاں اڑا دیں.سرمہ چشم آریہ میں قدامت رُوح و مادہ اور تناسخ وغیرہ کے مسائل پر وہ مدلل اور مسکت بخشیں کی گئی ہیں کہ لا جواب ہونے میں اپنی نظیر نہیں رکھتیں.آپ نے ثابت کیا کہ قدامت روح و مادہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو خدائی صفات پر ایک خطرناک دھبہ لگاتا ہے بلکہ اس کو مان کر خدا کی بعض ان صفات کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے جن کو مجملا خود آریہ صاحبان بھی تسلیم کرتے ہیں.مثلاً صفت خالقیت اور صفت مالکیت وغیرہ اور آپ نے ثابت کیا کہ قدامت رُوح و مادہ اور تناسخ کا مسئلہ جھوٹے مشاہدہ اور قیاس مع الفارق کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے یعنی خدا کو بھی اُسی قانون سے ناپا گیا ہے جو مخلوق پر چلتا ہے اور نیز یہ کہ قانون نیچر اور قانون شریعت میں تمیز نہیں کی گئی اور دونوں کو ایک سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ یہ دونوں الگ الگ قانون ہیں جو 135

Page 146

الگ الگ حلقوں میں کام کرتے ہیں.(اس مسئلہ کی مفصل بحث کے لئے خاکسار کی تصنیف ”ہمارا خدا ملاحظہ کریں) اور الہام الہبی کے صرف وید کے زمانہ تک محدود ہونے اور پھر وید کے بعد ہمیشہ کے لئے منقطع ہو جانے کے متعلق آپ نے لکھا کہ یہ ایک ایسا خطرناک عقیدہ ہے جو ایمان کے پودے کو جلا کر خاک کر دیتا ہے.ایمان کا درخت ایسا ہے کہ جب تک اُسے خدائی نشانات اور خدائی الہام کے ذریعہ تازہ بتازہ پانی نہ ملتا رہے وہ خشک ہوجاتا ہے اور محض قصے اس کو ہرگز شاداب نہیں رکھ سکتے.جس مذہب نے الہام کا دروازہ بند کیا وہ مر گیا.کیونکہ اس کے ہاتھ میں سوائے خشک قصوں کے اور کچھ نہیں.پھر آپ نے لکھا کہ صرف وید کو الہامی ماننا گویا خدا کی صفت رب العالمین کا انکار کرنا ہے.خدا صرف آریہ ورت کا خدا نہیں بلکہ ساری دنیا کا خدا ہے اور ساری اُمتوں میں اپنا الہام کرتا اور اپنے رسول بھیجتا رہا ہے اور بالآخر جب تکمیل ہدایت کا زمانہ آیا تو اُسنے اپنی کامل شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی اور قرآن کو ساری اُمتوں اور سارے زمانوں کے لئے قرار دیا.کیونکہ آب دنیا ایسی حالت اور ایسے زمانہ میں پہنچ گئی تھی کہ ایک مکمل شریعت جو سب امتوں کے لئے اور سب زمانوں کے لئے مناسب ہو نازل کی جاسکتی تھی.مگر اس کے بعد بھی خدا نے الہام کا دروازہ بند نہیں کیا بلکہ وہ اب بھی کھلا ہے اور ہمیشہ کھلا رہے گا اور محدودکرم کے غیر محدود پھل نہ ملنے کے متعلق آپ نے فرمایا کہ بیشک انسان کے کرم یعنی اعمال محدود ہیں مگر وفادار پرستار کی نیت تو محدود نہیں ہے پس کوئی وجہ نہیں کہ اس کا اجر محدود ہو اور نیز کرم کا محدود ہونا انسان کی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ خدا کا فعل ہے.کیونکہ اگر موت واقع نہ ہو جو خدا کا فعل ہے تو ہر نیک انسان یہی عزم رکھتا ہے کہ ہمیشہ نیک اعمال بجالاتا چلا جائے گا اور سچی توبہ پر بھی خدا کا گناہ معاف نہ کرنا ایک ایسا فتیح فعل ہے کہ فطرت انسانی اسے دُور سے ہی دھکے دیتی ہے جو بات انسان میں بھی قابل تعریف سمجھی جاتی ہے وہ آریہ لوگ خدا کو دینا پسند نہیں کرتے.اور نیوگ ایسا گندہ اور بے حیائی کا فعل ہے کہ ہرگز کوئی غیرتمند انسان اسے برداشت نہیں کر سکتا.غرض آپ نے آریوں کے سب معتقدات پر نہایت سیر کن بخشیں کیں اور نقل و عقل سے ان کا کامل کھنڈن کیا اور نیز آپ نے روزِ 136

Page 147

روشن کی طرح ثابت کر دیا کہ موجودہ وید کی تعلیم سراسر ناقص اور مشرکانہ ہے اور ہرگز اس قابل نہیں کہ انسان کے اندر حقیقی ایمان اور سچی اصلاح پیدا کر سکے.آپ کے اِن مضامین نے آریوں کے دانت کھٹے کر دیئے حتی کہ بعض نے انہی دنوں میں حضرت مرزا صاحب کو قتل کی دھمکیاں دیں اور اس مضمون کے گمنام خطوط آپ کو بھیجے.(دیکھو شحنہ حق ) مگر آپ نے بڑے اطمینان سے اپنا کام جاری رکھا بلکہ آر یہ دھرم نسیم دعوت.سناتن دھرم.قادیان کے آریہ اور ہم وغیرہ نہایت زبر دست کتب تصنیف فرما کر آریوں کے گرتے ہوئے قلعہ پر مزید گولہ باری کی اور بالآخر جب سے 190 ء میں آریوں نے لاہور میں بمقام وچھو والی ایک جلسہ مذاہب منعقد کیا اور آپ کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی تو آپ نے ایک نہایت زبر دست مضمون لکھ کر بھیجا.مگر آریوں نے خلاف وعدہ اور خلاف قوانین مہمان نوازی اور خلاف قانون تہذیب اپنے لیکچر میں پرلے درجہ کی بد زبانی اور طعنہ زنی اور دل آزاری سے کام لیا اور اسلام اور مقدس بانئی اسلام کو بُری طرح کو سا.جب اس جلسہ کی خبر حضرت مرزا صاحب کو پہنچی تو آپ کی اسلامی غیرت جوش میں آئی.اس پر آپ نے وہ نہایت زبر دست اور بے نظیر تصنیف فرمائی جس کا نام چشمہ معرفت ہے.گو یا واقعی آپ نے اپنے قلم کی جنبش سے معرفت کے چشمہ کا منہ کھول دیا.یہ وہ آخری گولہ تھا جو آپ کی طرف سے مناظرہ کے میدان میں آریہ کیمپ پر چلایا گیا.اور جو شخص اس کتاب کا مطالعہ کرے وہی سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے ان ہاتھوں میں کیا طاقت رکھی تھی جنہوں نے اس گولے کو تیار کیا.دشمن جس نے عداوت کی ٹھانی ہو چپ نہیں ہوا کرتا مگر اس کی مذ بوجی حرکات عظمند آدمی کو بتادیتی ہیں کہ زخم کاری لگا ہے جو جانبر نہ ہونے دیگا.یقیناً وہ شخص جو خدمت اسلام کی نیت سے سرمہ چشم آریہ اور چشمہ معرفت وغیرہ کو اپنے ہاتھ میں لیکر نکلے گا وہ آریہ ورت میں جہاں بھی جائے گا فتح وظفر کا جھنڈا اس کے سر پر لہرائے گا اور کامیابی اس کے پاؤں چومے گی.اب ہم روحانی مقابلہ کا ذکر کرتے ہیں.سب سے اول یہ کہ ابھی آریہ سماج کے مقتداء سوامی دیانند بقید حیات تھے کہ حضرت مرزا صاحب نے خدا سے خبر پاکر پیشگوئی فرمائی کہ اب سوامی جی کی زندگی کا خاتمہ ہے اور عنقریب وہ اس دنیا سے گذر جائیں گے اور آپ نے بہت سے 137

Page 148

آریوں کو یہ خبر سنادی.چنانچہ اس کے بعد بہت جلد سوامی جی اپنے متبعین کو داغ جدائی دے گئے.( دیکھو حقیقۃ الوحی وغیرہ) اس کے بعد جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے منشی اندر من مراد آبادی مقابلہ میں آیا یہ شخص بہت تیز مزاج اور بد زبان تھا اس کے کلام کا نمونہ ملاحظہ کرنا ہو تو دیکھو کتاب البریہ جس میں حضرت مرزا صاحب نے غیر مسلموں کی خوش کلامی کے چند نمونے درج کئے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے اتمام حجت کی غرض سے ۱۸۸۵ء میں یہ اعلان شائع کیا تھا کہ کوئی غیر مذہب کا پیر و جو اپنے مذہب میں ممتاز حیثیت رکھتا ہو ایک سال تک میرے پاس آکر قادیان میں رہے اگر اس عرصہ میں وہ کوئی نشان صداقتِ اسلام کی تائید میں نہ دیکھے تو میں اُسے دو سو روپیہ ماہوار کے حساب سے چوبیس سو روپیہ نقد ادا کروں گا اور اگر وہ کوئی خدائی نشان ملاحظہ ادا کرلے تو پھر اس کا فرض ہوگا کہ یہیں قادیان میں مسلمان ہو کر اپنے اسلام کا اعلان کر دے اور روپیہ کے متعلق وہ جس طرح چاہے تسلی کرالے.اس اعلان پر یہی شخص اندر من بڑے جوش و خروش کے ساتھ اُٹھا اور مقابلہ میں آنے پر آمادگی ظاہر کی اور لکھا کہ روپیہ مجھے پہلے دکھا دو اور پھر میرے سامنے کسی معتبر جگہ بطور امانت کے رکھواد و تو پھر میں اس کے لئے تیار ہوں اور اسی غرض کے لئے وہ نابھہ سے ہوتا ہوا لاہور پہنچا.حضرت مرزا صاحب نے فوراً اپنے ایک مخلص مرید میاں عبد اللہ صاحب سنوری کو قادیان سے روانہ کیا اور اُن کو لاہور کے بعض دوستوں کے نام خط دیگر تاکید کی کہ لا ہور سے روپیہ لیکر اندر من صاحب کے پاس چلے جاویں.چنانچہ وہ گئے اور لاہور کے بعض دوستوں کے ساتھ مل کر اندر من کو رات کے وقت ہی تحریری پیغام پہنچا دیا کہ ہم روپیہ لیکر صبح آئیں گے آپ اپنے مکان پر رہیں.چنانچہ رات کو انہوں نے روپیہ کا انتظام کر لیا اور صبح منشی اندرمن کے مکان پر پہنچے.مگر دیکھتے کیا ہیں کہ منشی اندر من صاحب ندارد ہیں.پتہ لیا تومعلوم ہوا کہ وہ تو رات کو ہی ریل پر سوار ہو کر کہیں چل دیئے.بس اندر من صاحب کے روحانی مقابلہ کا تو اسی پر خاتمہ ہو گیا.گھر پر جا کر انہوں نے اپنے فرار پر پردہ ڈالنا چاہا مگر سورج پر خاک ڈالنے سے کیا بنتا ہے.(دیکھو حضرت مرزا صاحب کے اشتہارات کا مجموعہ تبلیغ رسالت) 138

Page 149

اس کے بعد پنڈت لیکھرام کا دور دورہ شروع ہوا.یہ پنڈت صاحب بہت تیز زبان اور نہایت شوخ طبیعت آدمی تھے اور ان کی زبان اور قلم دونوں چھری کی طرح چلتے تھے یہ صاحب حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ کے لئے قادیان بھی آئے مگر صرف چند دن مخالفوں کے پاس ٹھہر کر واپس چلے گئے اور مقامی آریوں کی اشتعال انگیزی سے آگے سے بھی زیادہ تیز ہو گئے اور حضرت مرزا صاحب سے نشان کے طالب ہوئے.آپ نے اس کے متعلق دُعا کی تو جواب میں جو الہام ہوا اُس پر آپ نے ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو ایک اشتہار شائع کیا جو یہ تھا: - واضح ہو کہ اس عاجز نے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں جو اس کتاب کے ساتھ شامل کیا گیا تھا اندر من مراد آبادی اور لیکھر ام پیشاوری کو اس بات کی دعوت دی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو اُن کی قضاء و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں سواس اشتہار کے بعد اندرمن نے تو اعراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت ہو گیا، لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کر دو میری طرف سے اجازت ہے.سو اس کی نسبت جب تو جہ کی گئی تو اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ الہام ہوا.عِجُلٌ جَسَدٌ لَهُ خُوَارٌ لَهُ نَصَبٌ وَعَذَاب.یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کومل رہے گا اور اس کے بعد آج جو ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء روز دوشنبہ ہے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھے ماہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو ۲۰ فروری ۱۸۹۳ ء ہے.چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں کی ہیں.عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا....سواب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی 139

Page 150

ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی رُوح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیشگوئی میں کا ذب نکلا تو ہر ایک سزا کے بھگتنے کے لئے میں تیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رستہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جاوے“.اسی اشتہار مورخہ ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کے ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیکھرام کے متعلق یہ فارسی اشعار بھی لکھے الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ بران محمد ره مولی که گم کردند مردم بیجو در آل واعوان محمد الا اے منکر از شان محمد هم از نور نمایان محمد کرامت گرچه بے نام و نشان است بیا بنگر ز غلمان محمدم یعنی ”خبر داراے اسلام کے نادان اور گمراہ دشمن ! ( تو اپنی زبان کی خنجر کو ذرا سنبھال کر رکھ اور ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کاٹنے والی تلوار سے ڈراور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا رستہ جسے لوگ کھو بیٹھے ہیں اور اُسے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزندوں اور آپ کے لائے ہوئے دین کے مددگاروں میں تلاش کر.ہاں اے وہ شخص جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور آپ کے کھلے کھلے نور کا منکر ہے اگر چہ اس زمانہ میں کرامت کا وجود عنقا ہورہا ہے مگر آ اور ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے سامنے آکر اُس کا مشاہدہ کر.پھر ۱/۲ پریل ۱۸۹۳ ء کو آپ نے اشتہار کے ذریعہ اعلان کیا کہ:- آج جو ۲ را پریل ۱۸۹۳ ء مطابق ۱۴ / ماه رمضان ۱۰ ساھ ہے صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں.اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل ، مہیب شکل گویا اس کے چہرہ پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا ہے.میں نے نظر اٹھا کر 140

Page 151

دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شداد و غلاظ میں سے ہے اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا ہی تھا کہ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے.تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھر ام اور اس دوسرے شخص کی سزا دہی کے لئے مامور کیا گیا ہے مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے“.(دیکھو تبلیغ رسالت) پھر آپ نے ۱۸۹۳ء میں اپنی کتاب برکات اللہ عا میں سرسید احمد خاں صاحب کو مخاطب کر کے لکھا کہ ایکہ گوئی گر دُعا ہارا اثر بودے کجا است سوئے من بشتاب بنمائم تر اچوں آفتاب ہاں مکن انکار زین اسرار قدرتہائے حق قصہ کوتاہ کن ہیں از ما دُعائے مستجاب ( یعنی دعائے موت لیکھرام ) یعنی ”اے وہ شخص جو کہتا ہے کہ اگر دعا میں کچھ اثر ہوتا ہے تو وہ کہاں ہے میری طرف آکہ میں تجھے دُعا کا اثر سورج کی طرح دکھاؤں گا تو خدا کی بار یک دربار یک قدرتوں سے انکار نہ کر اور اگر دُعا کا اثر دیکھنا چاہتا ہے تو آ اور میری اس دُعا کا نتیجہ دیکھ لے جس کے متعلق خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ قبول ہوگئی ہے یعنی لیکھرام کے متعلق میری دُعا.یہ یا درکھنا چاہئے کہ الفاظ دُعائے مستجاب پر جو دعائے موت لیکھرام“ کا حاشیہ درج ہے یہ بھی اسی وقت کا ہے.(دیکھو برکات الدعا) پھر آپ نے اپنی کتاب کرامات الصادقین میں ۱۸۹۳ء میں لکھا وبشرني ربى وقال مبشرا ستعرف يوم العيد والعيد اقرب یعنی " مجھے لیکھرام کی موت کی نسبت خدا نے بشارت دی اور کہا کہ عنقریب تو اُس عید 141

Page 152

کے دن کو پہچان لے گا اور اصل عید کا دن بھی اس عید کے قریب ہوگا“.چنانچہ یہ بات کہ پنڈت لیکھرام کی موت عید کے دن کے قریب ہوگی بعض آریہ سماج کے اخباروں میں بھی شائع ہو گئی تھی.( مثلاً دیکھو اخبارسا چار وغیرہ) حضرت مرزا صاحب کی طرف سے تو یہ پیشگوئی ہوئی اب دیکھو کہ پنڈت لیکھرام کی طرف سے کیا وقوع میں آیا.پنڈت صاحب نے اپنی ایک کتاب میں حضرت مرزا صاحب کے مقابل پر لکھا: - کسی دانا کے اس مقوله پر که در ونگو را تا بدروازہ باید رسانید عمل کر کے مرزا صاحب کی اس آخری التماس کو بھی منظور کرتا ہوں اور مباہلہ کو یہاں پر طبع کرا کر مشہور.میں نیاز التیام لیکھر ام ولد پنڈت تارا سنگھ صاحب شرما مصنف تکذیب براہین احمدیہ و رسالہ ہذا اقرار صحیح بدرستی ہوش و حواس کر کے کہتا ہوں کہ میں نے اوّل سے آخر تک سرمہ چشم آریہ کو پڑھ لیا اور ایک بار نہیں بلکہ کئی بار.اور اس کے دلائل کو بخوبی سمجھ لیا بلکہ اُن کے بطلان کو بروئے ست دھرم رسالہ ہذا میں شائع کیا.میرے دل میں مرزا جی کی دلیلوں نے کچھ بھی اثر نہیں کیا اور نہ وہ راستی سے متعلق ہیں.میں اپنے جگت پتا پر میشور کو ساکھی جان کر اقرار کرتا ہوں کہ جیسا کہ ہر چہاروید مقدس ارشاد ہدایت بنیاد ہے اس پر میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ میری رُوح اور تمام ارواح کو کبھی نیستی یعنی قطعی ناش نہیں ہے اور نہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا.میری روح کو کسی نے نیست سے ہست نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سے پر ماتما کی انادی قدرت میں رہا اور رہے گا.ایسا ہی میرا جسمی مادہ یعنی پر کرتی یا پر مانو بھی قدیمی یا انادی پر ماتما کے قبضہ قدرت میں موجود ہیں.کبھی مفقود نہیں ہونگے اور تمام جگت کا سر جنہار ایک ہی کرتا رہے دوسرا کوئی نہیں.میں پر میشور کی طرح تمام دنیا کا مالک یا صانع نہیں ہوں اور نہ سرب بیا پک ہوں اور نہ انتر یامی بلکہ اس مہمان شکتی مان کا ایک ادنی سیوک ہوں.مگر اس کے گیان اور شکتی میں ہمیشہ سے ہوں معدوم 142

Page 153

کبھی نہیں ہوا اور نہ کوئی عدم خانہ کہیں ہے بلکہ کسی چیز کو عدم نہیں.ایسا ہی وید کی اس انصافانہ تعلیم کو بھی میں تسلیم کرتا ہوں کہ مکتی یعنی نجات کرموں کے مطابق مہا کلپ تک ملتی ہے بعد اس کے پر ماتما کی نیا کے مطابق پھر جسم انسانی لینا پڑتا ہے محدود کرموں کا بے حد پھل نہیں ہے......اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ پر میشور گناہوں کو بالکل نہیں بخشتا ہے.....اور میں وید کی رُوح سے اس بات پر کامل و صحیح یقین رکھتا ہوں کہ چاروں وید ضرور ایشور کا گیان ہے ان میں ذرا بھی غلطی یا جھوٹ یا کوئی قصہ کہانی نہیں ہے ان کو ہمیشہ ہرنئی دنیا میں پر ماتما جگت کی ہدایت عام کے لئے پر کاش کیا کرتا ہے.اس سرشٹی کے آغاز میں جب انسانی خلقت شروع ہوئی پرماتما نے ویدوں کو......چار رشیوں کے آتماؤں میں الہام دیا....جس طرح میں اور راستی کے برخلاف باتوں کو غلط سمجھتا ہوں ایسا ہی میں قرآن اور اس کے اُصولوں اور تعلیموں کو جو وید کے مخالف ہیں....اُن کو غلط اور جھوٹا جانتا ہوں ، لیکن میرا دوسرا فریق میرزا غلام احمد ہے وہ قرآن کو خدا کا کلام جانتا ہے اور اس کی سب تعلیموں کو درست اور صحیح سمجھتا ہے....جس طرح میں قرآن وغیرہ کو پڑھ کر غلط سمجھتا ہوں ویسے ہی وہ اُمّی محض سنسکرت سے اور ناگری سے محروم مطلق....بغیر پڑھنے یا دیکھنے ویدوں کے ویدوں کو غلط سمجھتا ہے....اے پر میشور ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر.....کیونکہ کاذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور میں عزبات نہیں پاسکتا.(دیکھو خبط احمد یہ صفحہ ۳۴۴) علاوہ ازیں پنڈت لیکھرام نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ شخص ( یعنی حضرت مرزا صاحب) تین سال کے اندر ہیضہ سے مرجائے گا کیونکہ (نعوذ باللہ ) کذاب ہے.نیز لکھا کہ تین سال کے اندر اس کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس کی ذریت میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا.( دیکھو پنڈت صاحب کی کتاب ” تکذیب براہین احمدیہ صفحه ۲۱۱ و کتاب کلیات آریہ مسافر صفحه ۵۰۱) گویا حضرت مرزا صاحب کے مقابل پر پنڈت لیکھرام نے بھی اپنے پر میشور کی طرف سے ایک خبر پا کر دنیا کو 143

Page 154

اطلاع دے دی.اب دیکھو کہ خدائے ذوالجلال کیا فیصلہ کرتا ہے.حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی سے پانچویں سال یعنی ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کو عید الاضحی کے دوسرے دن حضرت مرزا صاحب کی دن دگنی رات چوگنی ترقی دیکھتا ہوا کسی نا معلوم ہاتھ سے قتل ہو کر اسلام کی صداقت پر اپنے خون سے مہر ثبت کرتا ہوا اور اپنے ارمانوں کو دل میں لئے ہوئے پنڈت لیکھرام اس جہان سے رخصت ہوا اور با وجود پوری کوشش کے قاتل کا کوئی سراغ نہیں چلا.نہ معلوم کہ وہ کوئی آدمی تھا کہ جو خفی ہو گیا یا کوئی فرشتہ تھا کہ جو آسمان پر چڑھ گیا.کیونکہ کہتے ہیں کہ جس وقت پنڈت لیکھرام قتل ہوا اُس وقت اُس کے مکان کی ڈیوڑھی میں کوئی ملاقاتی باہر سے ملنے کے لئے آیا ہوا تھا اور اس ملاقاتی نے کسی شخص کو باہر جاتے نہیں دیکھا.بلکہ جیساکہ لیکھرام کی بیوی وغیرہ کا بیان سنا گیا ہے لیکھرام کوقتل کر کے قاتل سیڑھیوں کے رستے چھت پر چڑھ گیا تھا اور پھر اس کے بعد اس کا کوئی نشان نہیں ملا.غرض عین پیشگوئی کے مطابق لیکھرام قتل ہو کر پیشگوئی کی صداقت پر مہر لگا گیا.مگر افسوس کہ اس واقعہ سے عبرت پکڑنے اور خدا کے اس چمکتے ہوئے نشان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے آریوں کی آتشِ غیظ و غضب اور بھی بھڑک اُٹھی اور انہوں نے مشہور کرنا شروع کر دیا کہ گویا حضرت مرزا صاحب نے لیکھرام کو قتل کروا دیا ہے.چنانچہ ان دنوں میں کئی خط آپ کے پاس پہنچے جن میں لیکھرام کے قتل کے بدلے میں آپ کو قتل کی دھمکی دی گئی تھی.اس پر آپ نے بذریعہ اشتہار خدا کی قسم کھا کر اپنی بریت کا اظہار کیا اور لکھا کہ :- اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دُور نہیں ہوسکتا اور وہ مجھے اس قتل کی سازش میں شریک سمجھتا ہے جیسا کہ ہندو اخباروں نے ظاہر کیا ہے تو میں ایک نیک صلاح دیتا ہوں کہ جس سے یہ سارا قصہ فیصلہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے قسم کھاوے جس کے الفاظ یہ ہوں کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص ( یعنی حضرت مرزا صاحب) سازش قتل میں شریک ہے یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے.پس اگر یہ صحیح نہیں ہے تو اے قادر خدا ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبت ناک 144

Page 155

عذاب ہو مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے.پس اگر یہ شخص (یعنی ایسی قسم کھانے والا ) ایک برس تک میری بددعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں اور اس سزا کے لائق کہ ایک قاتل کے لئے ہونی چاہئے.اب اگر کوئی بہادر کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑا دے تو اس طریق کو اختیار کرے.( دیکھو اشتہار مورخہ ۱۵ / مارچ ۱۸۹۷ء) ناظرین دیکھیں کہ یہ کیسا صحیح طریق فیصلہ تھا جو آریوں کے سامنے پیش کیا گیا اور دوسرے اشتہار میں حضرت مرزا صاحب نے ایسے شخص کے لئے اگر وہ ایک برس کے عرصہ میں مذکورہ طریق پر قسم کھا کر ہلاک نہ ہو دس ہزار روپے کا انعام بھی مقرر کیا اور یہ بھی منظور کیا کہ اس صورت میں بے شک آپ کو مجرموں کی طرح پھانسی دی جاوے اور پھر آپ کی لاش شخص مذکور کے حوالے کر دی جاوے وغیرہ وغیرہ.(دیکھو اشتہار مورخہ ۱/۵ پریل ۱۸۹۷ء) مگر کوئی آریہ میدانِ مقابلہ میں نہ آیا اور صرف دُور کی گیدڑ بھبکیوں سے اپنا جی خوش کرتے رہے.سبحان اللہ ! یہ کیس عظیم الشان نشان تھا جو صداقت اسلام اور بطلان مذہب آریہ میں ظاہر ہوا گو یا ہدایت کے آفتاب نے طلوع کیا مگر افسوس ہے کہ اندھی دنیا اس سورج کی کرنوں کو نہ دیکھ سکی.اور قتل کا شبہ کرنا کیسی جہالت کیسی حماقت ہے! نادانو! فرض کرلو کہ پنڈت لیکھر ام حضرت مرزا صاحب ہی کی سازش سے قتل ہوئے.پھر کیا ہوا؟ کیا اس سے پیشگوئی کی صداقت میں کوئی فرق آجاتا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ دونوں نے خدا سے فیصلہ چاہا تھا اور دونوں نے دُعا کی تھی کہ جھوٹا تباہ ہو اور نیچے کی عزبات ظاہر ہو اور دونوں نے ایک دوسرے کی ہلاکت کی پیشگوئی کی تھی اور دونوں نے اپنے مذہب کی سچائی اس مباہلہ کے نتیجے پر مبنی قرار دی تھی ؟ تو اگر با وجود ان ساری باتوں کے مرزا صاحب کا انسانی حربہ پنڈت لیکھرام پر چل گیا تو کیا یہ ثابت نہ ہوا کہ حضرت مرزا صاحب کا خدا تو ایک دُور کی بات ہے ) خود مرزا صاحب بھی آریوں کے خدا سے زیادہ طاقتور ہیں کہ باوجود اس علم کے کہ میرے خاص بندے لیکھرام نے مجھ سے فیصلہ چاہا ہے اور میرے دین کی سچائی اس فیصلہ پر منحصر ہے کہ لیکھرام محفوظ رہے اور مرزا صاحب ہلاک ہو جائیں اور ایک دنیا اس فیصلے کی 145

Page 156

منتظر ہے آریوں کا خدا مرزا صاحب کو ہلاک کرنا تو در کنار اپنے مخلص بندے لیکھرام کو مرزا صاحب کی سازش سے بھی محفوظ نہ رکھ سکا اور اس کے مقابلہ میں اسلام کے خدا نے نہ صرف حضرت مرزا صاحب کو تمام آسمانی اور زمینی آفتوں سے محفوظ رکھا بلکہ آپ کے دشمن کو آپ کی پیشگوئی کے عین مطابق ہلاک کر کے اسلام کی صداقت اور آریہ مذہب کے کذب کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ کر دیا.پھر ہم کہتے ہیں کہ اے آریہ صاحبان ! تم حضرت مرزا صاحب پر تو قتل کی سازش کا شبہ کرتے ہومگر یہ تو بتاؤ کہ باوجود تعداد اور طاقت اور مال میں زیادہ ہونے کے تم نے کیوں حضرت مرزا صاحب کو قتل نہ کروا دیا ؟ حالانکہ تمہاری قتل کی دھمکیاں بتا رہی ہیں کہ تم ان معاملات میں خوب مشاق ہو.کیا یہ درست نہیں کہ تمہارے وکیل کے خاک میں مل جانے کے بعد حضرت مرزا صاحب گیارہ سال تک تمہارے سروں پر رعد کی طرح گر جائے ؟ اور تم نے اُن کو قتل کی دھمکیاں بھی دیں.بلکہ ان دنوں میں مسلمانوں کے بعض بے گناہ بچے پنجاب کے بعض شہروں میں ضائع بھی کئے گئے.مگر ذرا حضرت مرزا صاحب کا بھی تو بال بریکا کر کے دکھایا ہوتا.اے بدقسمت قوم ! خدا تیری آنکھیں کھولے.تو نے نشان مانگا اور وہ تجھے دیا گیا مگر ٹو نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا بلکہ اپنے کفر میں اور بھی ترقی کر گئی.خدا سے ڈر کہ ایک دن اُس کے سامنے کھڑی کی جائے گی.پھر ہم ناظرین کرام کو مخاطب کر کے نہایت محبت اور ادب سے عرض کرتے ہیں کہ قتل کا شبہ کرنا علاوہ اس کے کہ وہ پیشگوئی کی صداقت پر کسی قسم کا شک پیدا نہیں کر سکتا بلکہ.....قطعی طور پر بے بنیاد اور سراسر افتراء ہے.ظاہر ہے کہ مُجرم دو طرح ہی ثابت ہو سکتا تھا ایک یہ کہ گورنمنٹ کی تحقیقات میں جرم ثابت ہو جاتا.دوسرے یہ کہ خدائی فیصلہ سے حضرت مرزا صاحب مجرم قرار پا جاتے.سو گورنمنٹ کی تحقیقات تو آریہ صاحبان نے دل کھول کر کر والی.یعنی رپورٹیں کیں.تلاشیاں کروائیں، خفیہ پولیس کے خاص آدمی پیشل ڈیوٹیوں پر لگوائے اور خود بھی ناخنوں تک زور لگایا.مگر نتیجہ کیا ہوا؟ کیا کوئی ایک خفیف کی گنجائش بھی شبہ کی ثابت ہوئی ؟ پھر دوسرا طریق خدائی عدالت کا تھا.سو وہ بھی آریہ صاحبان کے سامنے پیش کر دیا گیا تھا.مگر اس کی طرف آریہ صاحبان نے رخ تک نہ کیا حالانکہ اس کے لئے یہ شرط کی گئی تھی کہ ہلاکت آسمانی حربہ سے ہوگی 146

Page 157

جس میں انسانی منصوبوں کا احتمال بھی متصور نہ ہو سکے اور دس ہزار روپے کا نقد انعام بھی ساتھ تھا اور پھر اُن کے خیال کے مطابق پنڈت لیکھرام کے قاتل کی لاش بھی اُن کے ہاتھ آتی تھی.پھر کیا وجہ ہے کہ آریہ صاحبان نے اسے قبول نہ کیا اور بے ہودہ حیلہ و حجت میں موقعہ ٹال دیا ؟ یہ باتیں پورا یقین دلاتی ہیں کہ دراصل آریوں کو یہ ڈر تھا کہ لیکھرام صاحب تو خیر جاچکے کہیں کوئی اور بزرگ بھی نہ چلتا ہو کیونکہ اُن کے دل محسوس کرتے تھے کہ حضرت مرزا صاحب کی نصرت میں خدا کا ہاتھ ہے.پنڈت لیکھرام کے قتل کے بعد آریوں کو دو موقعے ایسے ہاتھ آئے جن میں وہ حضرت مرزا صاحب کے خلاف کوئی عملی کا رروائی کر سکتے تھے اور دونوں سے انہوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا.پہلا موقعہ تو اقدام قتل کے اس مقدمہ کا تھا جو مسیحیوں نے حضرت مرزا صاحب کے خلاف دائر کیا اور جس میں بعض آریہ وکیلوں نے مسیحیوں کی طرف سے مفت مقدمہ کی پیروی کی اور ویسے بھی آریہ لوگ ہر طرح اُن کے ظہیر و مددگار ہوئے.دوسرا موقعہ وہ تھا کہ مولوی کرم دین جہلمی کی طرف سے ایک فوجداری مقدمه نه ۶-۱۹۰۳ ء میں حضرت مرزا صاحب کے خلاف دائر کیا گیا تھا جس کی یکے بعد دیگرے دو ہندو مجسٹریٹوں کی عدالت میں سماعت ہوئی تھی.اس میں آریوں نے اپنے مجسٹریٹوں کے خوب کان بھرے.چنانچہ علاوہ اور قرائن کے اُن کے بدلے ہوئے تیور بھی ساری کہانی کہے دیتے تھے.پھر مختصر یہ کہ پہلا مجسٹریٹ ای.اے سی سے منصفی کی طرف تنزل پا کر گورداسپور سے تبدیل ہو گیا اور دوسرے نے جو اس کا قائم مقام ہو کر آیا تھا اپنے دو جوان بیٹوں کا داغ جدائی دیکھا مگر جب اس نے باوجود اپنی بیوی کی مندرخواب کے جو اُس نے انہی دنوں دیکھی تھی حضرت مرزا صاحب پر پانچسور و پیہ جرمانہ کر دیا تو اپیل کرنے پر عدالت عالیہ نے اس فیصلہ پر سخت اظہار ناراضگی کیا اور جرمانہ منسوخ کر کے روپیہ واپس دلایا اور حضرت مرزا صاحب اس خدائی بشارت کے مطابق جو پہلے سے بذریعہ اخبارات شائع کر دی گئی تھی عزت کے ساتھ بری کر دیئے گئے اور آریہ صاحبان دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے.( دیکھو الحکم و بدر وحقیقة الوحی) اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے قادیان کے آریوں کا تھوڑا سا ذکر کر دینا مناسب معلوم 147

Page 158

ہوتا ہے کیونکہ ان کے اندر بھی خدائی قدرت نمائی کی بعض خاص تجلیاں ظاہر ہوئی ہیں.سو جاننا چاہئے کہ قادیان کی آریہ سماج ایک پرانی سماج ہے.اس سماج کے دو ممبر لالہ شرمیت اور لالہ ملا وامل ابتدائے زمانہ سے حضرت مرزا صاحب کے پاس آتے جاتے تھے اور مذہبی تبادلہ خیالات ہوتا رہتا تھا.ان دونوں نے حضرت مرزا صاحب کے بیسیوں نشانات پورے ہوتے دیکھے.مگر شقاوت ازلی نے ہدایت نصیب نہ ہونے دی.(دیکھو تبلیغ رسالت قادیان کے آریہ اور ہم وغیرہ) جب آپ نے ۱۵ - ۱۸۸۴ء میں یہ اشتہار دیا کہ جو شخص کوئی نشان دیکھنا چاہے وہ ایک سال تک میرے پاس آکر رہے تو قادیان کے بعض آریہ اور سناتن دھرمیوں نے بھی اس اشتہار پر آپ سے نشان دیکھنے کی تحریری خواہش ظاہر کی.چنانچہ اس امر پر طرفین کے درمیان ایک با قاعدہ تحریر لکھی گئی اور جانبین سے گواہ بھی مقرر ہو گئے.اُن دنوں میں حضرت مرزا صاحب نے اپنے بعض قریبی رشتہ داروں مرز انظام الدین صاحب و مرز ا امام الدین صاحب کی خواہش پر ایک پیشگوئی کی تھی کہ اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ اکتیس ماہ کے اندر اندر ان کے گھر میں سے کوئی شخص مر جائے گا جس کی موت کی وجہ سے انہیں سخت صدمہ پہنچے گا اور اس پیشگوئی کا سبب یہ تھا کہ مرزا امام الدین و مرز انظام الدین صاحبان وغیرہ جو حضرت مرزا صاحب کے چا زاد بھائی تھے پرلے درجہ کے بے دین تھے اور الہام اور کلام الہی پر تمسخر اڑاتے تھے اور اپنے لئے کسی قہری نشان کے طالب رہتے تھے.خیر خلاصہ یہ ہے کہ چند مقامی ہندوؤں نے ایسی تحریر لکھ کر حضرت مرزا صاحب کو دیدی کہ ہمیں بھی حسب اشتہار دعوت ایک سال کے اندر کوئی نشان دکھایا جائے.(دیکھو تبلیغ رسالت جلد اوّل) آب قدرت حق کا تماشا دیکھو کہ ابھی یہ سال بھی نہ گذرا تھا اور اس ماہ والی پیشگوئی کی میعاد میں بھی ابھی چند دن باقی تھے کہ مخالفوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ بس انتیس ماہ گویا گذر گئے ہیں صرف چند دن باقی ہیں مگر کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا.اور سب لوگ زندہ سلامت موجود ہیں.جب یہ لوگ ہنسی ٹھٹھا کر چکے تو اچانک خدائی تجلی کا ظہور ہوا اور وہ اس طرح پر کہ جب ۳۱ ماہی میعاد 148

Page 159

میں صرف پندرہ دن باقی تھے تو مرزا نظام الدین کی لڑکی جو کہ امام الدین کی بردارزادی تھی 25 سال کی عمر میں پندرہ ماہ کا لڑکا چھوڑ کر اس جہانِ فانی سے گذر گئی.اور اس موت سے اس خاندان کو سخت صدمہ پہنچا.گویا یہی ایک واقعہ ایک طرف مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین صاحبان کے لئے اور دوسری طرف قادیان کے ان ہندوؤں کے لئے نشان قرار پا گیا مگر جب آنکھیں بند ہوں تو سورج کی کرنیں کون دیکھے؟ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ( سورة قمر ع (۱) یعنی کفار جب کوئی نشان پورا ہوتا دیکھتے ہیں تو مانتے نہیں بلکہ منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو کوئی فریب اور مکر معلوم ہوتا ہے.قادیان والوں نے بھی یہ نشان دیکھا مگر مگر اور فریب کہہ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا.بلکہ جوں جوں وقت گذرتا گیا ابو جہل اور اس کے رفقاء کی طرح مخالفت میں ترقی کرتے گئے.جب لیکھرام قتل ہو گیا تو دوسرے آریوں کی طرح قادیان کے آریوں کا پارہ حرارت بھی بہت چڑھ گیا.چنانچہ حضرت مرزا صاحب کی زندگی کے آخری چند سالوں میں انہوں نے قادیان سے ایک اخبار نکالنا شروع کیا اور اُس کا نام ”شجھ چتک“ رکھا.یہ اخبار آریوں کی تہذیب کا پورا پورانمونہ تھا کیونکہ جھوٹ، افتراء بدزبانی اور سخت کلامی اس کا اولین اصول تھا.اس اخبار کے ایڈیٹر اور منتظم تین آدمی تھے یعنی سو مراج، اچھر چند اور بھگت رام اور یہ تینوں نہایت درجہ موذی اور ظالم تھے.ان کی شوخی اور بد زبانی کا کچھ نمونہ چاہو تو درج ذیل ہے.ملاحظہ ہو :- ی شخص ( یعنی حضرت مرزا صاحب ) خود پرست ہے.نفس پرست ہے.فاسق ہے.فاجر ہے.اس واسطے گندی اور نا پاک خوا ہیں اس کو آتی ہیں.شجھ چک مورخہ ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۶ء) قادیانی مسیح کے الہاموں اور اس کی پیشگوئیوں کی اصلیت طشت از بام کرنے کا ذمہ اٹھانے کا ایک ہی پر چہ شجھ چتک ہے.مرزا قادیانی بداخلاق ، شہرت کا خواہاں، شکم پرور ہے“.( شبھ چنک ۱۵ رمئی ۱۹۰۶ء) کمبخت کمانے سے عاررکھنے والا.مکر اور فریب اور جھوٹ میں مشاق“.( شبھ چنتک 149

Page 160

۲۲ / دسمبر ۱۹۰۶) ”ہم ان کی چالاکیوں کو طشت از بام کریں گے اور ہمیں اُمید بھی ہے کہ ہم اپنے ارادہ میں ضرور کامیاب ہوں گے.مرزامکار جھوٹ بولنے والا ہے اور مرزا کی جماعت کے لوگ بدچلن اور بدمعاش ہیں.(شجھ چنتک ۲۲ دسمبر ۱۹۰۶ء) ہم نے پندرہ سال تک متواتر پہلو بہ پہلو ایک ہی قصبہ میں ان کے ساتھ رہ کر ان کے حال پر غور کی، تو اتنی غور کے بعد ہمیں یہی معلوم ہوا کہ یہ شخص در حقیقت مکار ، خود غرض عشرت پسند اور بد زبان وغیرہ وغیرہ ہے.نشان تو ہم نے اس مدت تک کوئی نہیں دیکھا.البتہ یہ دیکھا ہے کہ یہ شخص ہر روز جھوٹے الہام بنا تا ہے اور ایک لاثانی بیوقوف ہے.( شبھ چشک یکم مارچ ۱۹۰۷ ء ) غرض ہر ایک پر چہ ان کا گالیوں سے بھرا ہوا نکلتا تھا.حضرت مرزا صاحب آریہ ورت کے ان مہذب سپوتوں کی گالیاں تو سننے کے عادی تھے ہی یہ بھی سنتے رہتے اور خدا خود کوئی فیصلہ فرما تا بلکہ آپ کو زیادہ قلق اس بات کا ہوا کہ یہ لوگ قادیان میں رہتے ہیں اور ہمسائیگت کا دعوی رکھتے ہیں جو بظاہر ہے بھی درست تو اب اگر ان کی طرف سے کوئی بات باہر والوں کے پاس جائے گی تو کمزور طبع کے لوگ ضرور شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں گے اور خواہ نخواہ نا واقف لوگوں کے لیے قبول حق کے رستہ میں ایک ٹھو کر پیدا ہوگی.اس پر آپ نے شروع ۱۹۰۷ ء میں قادیان کے آریہ اور ہم کے نام سے ایک رسالہ تصنیف فرمایا اور اس میں ان لوگوں کو خدا کا خوف دلایا اور لکھا کہ لیکھرام کا نشان تمہارے لئے گذر چکا ہے اب بھی اگر تم ان افتراؤں سے باز نہ آئے تو خدا تمہارے اندر کوئی اور نشان ظاہر کرے گا.چنانچہ آپ نے قادیان کے آریوں کے متعلق لکھا سوت لیکھو بڑی کرامت ہے پر سمجھتے نہیں یہ شامت ہے میرے مالک تو ان کو خود سمجھا آسماں سے پھر اک نشاں دکھلا ( قادیان کے آریہ اور ہم ٹائٹل پہنچ صفحہ اندرونی ) پھر اسی کتاب کے صفحہ ۶۱ پر لکھا 150

Page 161

دین خدا کے آگے کچھ بن نہ آئی آخر سب گالیوں پر اترے دل میں اُٹھا یہی ہے شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں ان کی ہرگز وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب انتہا یہی ہے ہم نے ہے جس کو مانا قادر ہے وہ تو انا اس نے ہے کچھ دکھانا اس سے رجا یہی ہے اے آریو یہ کیا ہے کیوں دل بگڑ گیا ہے ان شوخیوں کو چھوڑ و راہِ حیا یہی ہے مجھ کو ہو کیوں ستاتے سو افتراء بناتے بہتر تھا باز آتے دُور از بلا یہی ہے جس کی دُعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹکر ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دُکھانا گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے پھر انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک دفعہ ہمارے مکرم دوست شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم قادیان کے لوکل پوسٹ آفس میں بیٹھے تھے اور ان کے پاس ان تین آریوں میں سے اچھر چند بھی بیٹھا تھا اور ڈاک خانہ کے سب پوسٹ ماسٹر بابو اللہ دیتا صاحب بھی وہیں موجود تھے اس وقت باتوں باتوں میں شیخ صاحب موصوف نے اچھر چند سے کہا کہ حضرت مرزا صاحب کو خدا نے الہام کیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب بلکہ جو لوگ بھی آپ کے مکان میں رہیں گے.طاعون سے قطعی محفوظ رہیں گے اور یہ ایک خدا کا نشان ہے جو تم لوگوں پر حجت ہے.اس پر بد بخت اچھر چند بولا.یہ بھی کوئی نشان ہے؟ میں کہتا ہوں کہ میں بھی طاعون سے نہیں مرونگا“.اس پر شیخ صاحب نے ایمانی غیرت سے جوش میں آکر اُس سے کہا کہ اب تم ضرور طاعون سے ہی ہلاک ہو گے.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۴ تمہ.نیز با بو اللہ دتا صاحب اب بھی زندہ موجود ہیں اور ہمارے مخالفین میں سے ہیں ان سے حلفیہ دریافت کرد ) اب دیکھو خدا کی قدرت نمائی کیا جلوہ دکھاتی ہے.رسالہ قادیان کے آریہ اور ہم کی اشاعت کے چند دن بعد قادیان میں طاعون آیا اور خدا کے قہری طمانچہ نے چند دن کے اندر اندر ان تینوں کا کام تمام کر دیا اور ان کی بلا اُن کے اہل و عیال پر بھی پڑی اور بعض کا تو سارا گھر کا گھر صاف ہو گیا.اور مسٹر ا چھر چند جو حضرت مرزا صاحب کی طرح طاعون سے محفوظ رہنے کا دعویٰ کرتے تھے اپنے اس دعوئی کے چند دن بعد ہی طاعون کا 151

Page 162

شکار ہو گئے اور ساتھ ہی اخبار شجھ چنتک بھی ہمیشہ کے لئے خاک میں مل گیا.فاعتبروا یا اولی الابصار - - یہ نشان بھی لیکھرام کے نشان سے کم نہیں بلکہ اس سے اُس اعتراض کا بھی صفایا ہو گیا کہ لیکھرام کونعوذ باللہ حضرت مرزا صاحب نے قتل کروا دیا تھا.نادانو الیکھرام کو تو تمہارے زعم میں حضرت مرزا صاحب کی چھری مار گئی اور تم نے یہ شبہ کر کے اپنے آنسو پونچھ لئے مگر اچھر چند اور سومراج اور بھگت رام کو کس چھری نے مارا؟ اگر آنکھیں ہیں تو اب بھی دیکھو.کان ہیں تو اب بھی ئن لو.دل ہے تو اب بھی سوچو کہ دونوں موقعوں پر وہی ایک چیز تھی یعنی غضب الہی جو ایک کے پیٹ میں فولادی چھری بن کر گھس گئی اور دوسروں کو طاعون کا کیڑا بن کر کھا گئی اور ضمناً اس نشان سے اس اعتراض کا جواب بھی ہو گیا کہ قادیان میں طاعون کیوں آیا.کیونکہ اول تو حضرت مرزا صاحب کا ایسا کوئی الہام نہیں تھا کہ قادیان میں طاعون بالکل ہی نہیں آئے گا بلکہ الہام صرف یہ تھا کہ یہاں طاعون جارف نہیں آئے گا.یعنی ایسا طاعون نہیں آئے گا جو گاؤں کو ویران و تباہ کر دینے والا ہو اور لوگ سراسیمہ ہو کر ادھر اُدھر بھاگ جاویں.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرما یا لولا الاکرام لهلک المقام یعنی ”اگر ہمیں اس بات کا پاس نہ ہوتا کہ قادیان ہمارے ایک برگزیدہ رسول کا تخت گاہ ہے تو یہ گاؤں ضرور اس بات کا حقدار تھا کہ اسے بالکل ہی ہلاک و بر باد کر دیا جاتا“ مگر انہ أوى القرية يعني ” اب اسے کامل ویرانی و تباہی سے بچایا جاوے گا“.دوسرے یہ کہ اگر قادیان میں طاعون بالکل ہی نہ آتا تو یہ نشان کس طرح ظاہر ہوتا کہ ایک ہی جگہ گویا دیوار بدیوار حضرت مرزا صاحب اور اچھر چند اور سومراج اور بھگت رام وغیرہ رہتے ہیں اور دونوں فریق اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ ہم طاعون سے محفوظ رہیں گے مگر طاعون آتا ہے اور اچھر چند اور سومراج اور بھگت رام کا صفایا کر جاتا ہے لیکن حضرت مرزا صاحب کے گھر میں ایک چوہا تک نہیں مرتا.الغرض حضرت مرزا صاحب نے آریوں کے ساتھ نقل و عقل کے طریق پر اور روحانی مقابلہ کے رنگ میں یعنی دونوں طرح جنگ کی اور کامل فتح پائی.فالحمد لله على ذالك 152

Page 163

حضرت مرزا صاحب کا سکھوں سے مقابلہ تیسرا مذہب سکھوں کا ہے اس مذہب کے پیروگو تعداد میں ایسے زیادہ نہیں اور پنجاب سے باہر اس مذہب کا بہت کم اثر ہے مگر اس میں شک نہیں کہ خود پنجاب کے اندر سکھوں کی قوم کافی وجاہت اور اثر رکھتی ہے اور اپنے مذہب کے لئے بھی یہ لوگ کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں.اس مذہب میں اب تک یہ خوبی رہی ہے گو حال میں اس کے خلاف بعض نمونے قائم ہونے شروع ہو گئے ہیں جو ایک نہایت قابل افسوس امر ہے ) کہ یہ دوسرے مذاہب کے بزرگوں کے متعلق عموماً ایسی بد زبانی استعمال نہیں کرتے جو آریہ یا عیسائی لوگ کرتے ہیں.اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ یہ لوگ اسلام کے دشمن نہیں ہیں.دراصل ان کا عام طبقہ اپنی وحشت اور تعصب میں ضرب المثل کے مرتبہ تک پہنچا ہوا ہے اور اسلام سے سخت عناد رکھتا ہے مگر جو سکھ تعلیم یافتہ ہیں.اُن میں عموماً دوسروں کی نسبت زیادہ شرافت پائی جاتی ہے.(یہ لکی تقسیم سے پہلے کا نوٹ ہے ) بہر حال سکھوں کے ساتھ حضرت مرزا صاحب کا کوئی روحانی مقابلہ نہیں ہوا.بے شک ان عام چیلنجوں میں جو حضرت مرزا صاحب کی طرف سے غیر مذاہب والوں کے نام نکلتے تھے.یہ لوگ بھی مخاطب ہوتے تھے لیکن ان میں سے کوئی شخص با قاعدہ اڈہ جما کر حضرت مرزا صاحب کے سامنے نہیں آیا.ہاں سکھوں کے متعلق حضرت مرزا صاحب نے خود کافی توجہ فرمائی ہے.جس کا بیان اس طرح پر ہے کہ جس زمانے میں آپ نے ابھی تک کوئی دعوئی وغیرہ شائع نہیں کیا تھا آپ نے سکھوں کے بانی حضرت بابا گورو نانک صاحب کو خواب میں دیکھا تھا اور خواب میں ہی بابا صاحب موصوف نے آپ کے سامنے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ میں مسلمان ہوں چنانچہ آپ اس بات کے منتظر رہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی موقعہ پیدا کرے کہ بابا صاحب کا اسلام ثابت ہوجاوے.بالآخر آپ نے اس طرف توجہ فرمائی اور تحقیق کا سلسلہ شروع کیا تو نہایت زبردست تاریخی شہادتوں سے ثابت ہو گیا کہ در حقیقت بابا صاحب ایک بزرگ مرتبہ ولی تھے جو ہندوؤں کے گھر پیدا ہوئے اور بعد میں مسلمان ہو کر درویشی طریق پر ایک سلسلہ کے بانی ہوئے.حضرت مرزا 153

Page 164

صاحب نے بابا صاحب کا مسلمان ہونا مندرجہ ذیل دلائل سے ثابت کیا: - ا - بابا صاحب مسلمان درویشوں سے ملاقات رکھتے تھے اور اُن کی صحبت میں رہتے تھے.۲- بابا صاحب اسلامی طریق پر نماز اور روزہ کے پابند تھے.- بابا صاحب نے ملکہ کا دُور دراز سفر اختیار کر کے اسلامی طریق پر حج کیا تھا.۴- بابا صاحب اسلامی طریق پر توحید باری تعالیٰ اور رسالت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر ایمان لاتے تھے.۵- بابا صاحب نے جابجا اپنے اسلامی عقائد کی اپنے متبعین کو بھی تعلیم دی ہے.- بابا صاحب کا سب سے بڑا تبرک جو نسلاً بعد نسل سکھ قوم میں محفوظ چلا آیا ہے بابا صاحب کا ایک چولہ ہے جو ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور میں محفوظ ہے اور جس کے متعلق سکھوں کی مذہبی روایات بتاتی ہیں کہ یہ چولہ بابا صاحب کے لئے غیب سے ظاہر ہوا تھا اور اسی لئے یہ چولہ سکھوں میں بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے مگر جب یہ چولہ حضرت مرزا صاحب نے اپنے بعض دوستوں کے ساتھ کھلوا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس پر جابجا قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں اور اسلامی كلم لَا إِلَهُ إِلَّا اللهُ مُحمد رسُولُ اللہ بھی نمایاں طور پر لکھا ہے.۷- فیروز پور کے ایک گوردوارہ میں بابا صاحب کا ایک تبرک ہے اُسے دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ قرآن شریف کا ایک نسخہ ہے.۸ - بابا صاحب نے اپنے عمل اور اپنی تعلیم میں جابجا ہندو مذہب اور اس کے اصولوں اور اس کی کتاب یعنی وید کی تردید کی ہے اور اس کے خلاف تعلیم دی ہے اس لئے وہ یقینا ہند و عقائد کے متبع نہیں تھے.۹ - سکھ مذہب کی کوئی شریعت نہیں ہے جس سے ظاہر ہے کہ وہ کوئی الگ مذہب نہیں ہے.۱۰.سکھوں کا عام تہذیب و تمدن بھی ظاہر کرتا ہے کہ اُن کا حقیقی تعلق اسلام کے ساتھ ہے اور سوائے ایسی باتوں کے جن میں وہ بعد میں ہندو مذہب کے اثر کے نیچے آگئے وہ اصولی طور پر 154

Page 165

اسلامی رنگ میں رنگین نظر آتے ہیں.سیر وہ دلائل ہیں جن سے آپ نے بابا صاحب کا اسلام ثابت کیا اور ہر عقلمند سوچ سکتا ہے کہ اگر یہ باتیں سچی ثابت ہو جائیں تو پھر واقعی بابا صاحب کے اسلام میں قطعاً کوئی شک نہیں رہتا اور جب بابا صاحب کا اسلام ثابت ہو گیا.یعنی یہ ثابت ہو گیا کہ وہ ایک سچے مسلمان ولی تھے تو پھر سکھ مذہب کا جو حال ہوتا ہے وہ ظاہر ہے.گویا اسی ایک دلیل سے سکھ مذہب کا قلعہ فتح ہو جاتا ہے اور آپ نے یہ ساری باتیں سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب اور جنم ساکھی اور پھر اس مذہب کی تاریخ اور پھر واقعات سے ثابت کیں اور نہایت مدلل طور پر ایک اور ایک دو کی طرح بابا صاحب کا مسلمان ہونا ثابت کر دیا.(دیکھوست بچن اور چشمہ معرفت و غیره نیز دیکھو آپ کے مرید شیخ محمد یوسف ایڈیٹر نور کی تصنیفات بابا نانک کی سوانح عمری اور بابا صاحب کا مذہب وغیرہ ) یہ ایک عجیب بات ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے غیر مذاہب پر جتنی بھی ضر میں لگائی ہیں وہ قریباً سب کی سب اصولی ہیں جن کے ثابت ہونے کے بعد ان مذاہب کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.مثلاً عیسائیوں کے متعلق تاریخی طور پر ثابت کر دیا کہ مسیح" صلیب پر نہیں مرے بلکہ بعد میں دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہو گئے اور اُن کی قبر کشمیر میں موجود ہے.آریوں کے متعلق یہ ثابت کر دیا کہ ان کے جتنے اصولی عقائد ہیں وہ سب ایسے ہیں جن سے خدا کی ذات بابرکات پر خطرناک حملہ ہوتا ہے اور انسان کا وہ فطری تعلق جو اُسے اپنے خالق کے ساتھ ہے کمزور ہوکر مردہ ہو جاتا ہے اور آریوں کے خود دوسرے معتقدات اُن کے ان عقائد کو باطل ثابت کر رہے ہیں.سکھوں کے متعلق یہ ثابت کر دیا کہ اُن کے سلسلہ کا بانی ایک مسلمان ولی تھا.بعد میں جو اس جماعت کی حالت بدل گئی یہ کچھ تو انقلابات زمانہ کی وجہ سے ہے اور کچھ خود مسلمانوں کی غفلت کی وجہ سے ہے.دراصل آپ کا یہ اصول تھا اور یہ بات بہت یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کوئی مذہبی سلسلہ مستقل طور پر دنیا میں فروغ نہیں پاتا ایسا کہ وہ پختہ طور پر دنیا میں جڑ پکڑ جاوے یعنی لاکھوں لوگ اس پر ایمان لے آویں اور وہ قبولیت عامہ اور رجوع عام کا جاذب ہو جائے اور لوگ نسلاً بعد نسل 155

Page 166

اسے مانتے چلے جائیں گویا وہ مستقل طور پر دنیا میں قائم ہو جائے جب تک کہ اس کا ابتداء حق و راستی پر مبنی نہ ہو.مگر حباب کی طرح اٹھ کر بیٹھ جانا یا ایک دو تین نسل تک چل کر مفقود یا کالمفقود ہو جانا راستی کی علامت نہیں ہے.اسی لئے ہم احمدی لوگ ہندوؤں کے مہاراج کرشن علیہ السلام اور رامچندر جی مہاراج اور بدھ مذہب والوں کے گوتم بدھ اور پارسیوں کے زرتشت اور اہل چین کے کنفیوشس وغیرہ علیہم الرحمہ کے صدق اور راستی کے مُقر ہیں اور ان کو کمال عزت اور ادب کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسی طرح بابا نانک صاحب علیہ الرحمہ کو ایک با کمال ولی اللہ سمجھتے ہیں اور حضرت مرز اصاحب نے ان سب کی عزت ہمارے دلوں میں قائم کر دی ہے.بلکہ حضرت مرزا صاحب نے جہاں اور دعوے کئے وہاں آپ کا یہ بھی ایک دعوی تھا کہ میں مثیل کرشن علیہ السلام بھی ہوں.(دیکھو لیکچر سیالکوٹ) اور آپ کو ایک دفعہ یہ الہام بھی ہوا تھا کہ : ”اے رو دھر گئو پال تیری مہما گیتا میں بھی لکھی ہے“.یعنی ”اے بدی کے مٹانے والے اور نیکی کو قائم کرنے والے تیری تعریف اور تیری آمد کا وعدہ گیتا میں بھی لکھا ہے“.جو ہندوؤں کی ایک مذہبی کتاب ہے.بر ہمو سماج سے مقابلہ چوتھا مذہب جس کے ساتھ حضرت مرزا صاحب کا مقابلہ ہوا وہ بر ہمو سماج کا مذہب ہے یہ لوگ گورسماً ہندوؤں کے اندر شامل ہیں مگر ان کے معتقدات باقی ہندو فرقوں سے بالکل مختلف ہیں اور یہ لوگ بعض خیالات اور معتقدات میں مسلمانوں کے جدید فرقہ نیچریہ سے مشابہ ہیں.یعنی جس طرح نیچری لوگ الہام اور قبولیت دعا اور خوارق کے منکر ہیں.یعنی انکی ایسی تاویل کرتے ہیں کہ اصل مسئلہ کا ہی صفایا ہو جاتا ہے اسی طرح یہ لوگ بھی سلسلہ رسل اور الہام اور دُعا وغیرہ کے منکر ہیں اور اپنے مذہب کی بنیاد صرف عقل پر رکھتے ہیں یہ لوگ خدا کے تو ضرور قائل ہیں، لیکن الہام اور سلسلۂ رسالت کے سخت منکر ہیں ہاں دوسرے مذاہب کے بزرگوں کو عمو ما برا نہیں کہتے بلکہ علمی طور 156

Page 167

پر عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہ مذہب چنداں تبلیغی مذہب نہیں.یعنی یہ لوگ آریوں اور عیسائیوں کی طرح بحث مباحثہ کی طرف زیادہ توجہ نہیں کرتے صرف علمی رنگ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور مذہبی جوش و خروش بھی ان میں نہیں پایا جاتا اسی لئے ان کا حضرت مرزا صاحب کے ساتھ کوئی باقاعدہ روحانی مقابلہ نہیں ہوا.ہاں بیشک یہ لوگ بھی اس عام چینج میں مخاطب تھے جو حضرت مرزا صاحب نے غیر مذاہب والوں کو دیا تھا مگر ان کی طرف سے کوئی شخص با قاعدہ سامنے نہیں آیا.نقل اور عقل کے طریق پر بھی ان کے ساتھ حضرت مرزا صاحب کا کوئی باقاعدہ مناظرہ نہیں ہوا مگر خود حضرت مرزا صاحب نے ان کی طرف کافی توجہ فرمائی ہے اور اپنی متعدد کتب میں ان کے عقائد کا رڈ کیا ہے.خصوصاً براہین احمدیہ حصہ سوم و چهارم زیادہ تر برہمو سماج ہی کے معتقدات کے رد میں ہیں.ان کے علاوہ ” آئینہ کمالات اسلام“ اور ” برکات الدعا“ اور براہین احمدیہ حصہ پنجم اور مکتوبات میں بھی ان کا کافی رڈ موجود ہے.حضرت مرزا صاحب نے بار بارلکھا کہ خدا پر ایمان کا دعویٰ اور پھر الہام اور دُعا اور سلسلۂ رسالت کا انکار دو متضاد خیال ہیں.مجرہ و عقل انسان کو خدا کے متعلق اس مرتبہ سے آگے ہرگز نہیں لے جاسکتی کہ کوئی خدا ہونا چاہئے.یعنی عقل کا کام زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ علمی طور پر یہ ثابت ہو جائے کہ کوئی خدا ہونا چاہئے لیکن ” ہونا چاہئے“ کا مقام ہرگز قابل اطمینان نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ خدا کے متعلق اس حد تک کا ایمان کوئی ایمان ہی نہیں اور نہ یہ نام نہاد ایمان ایک عاشق صادق اور جو یائے حق کی فطری پیاس کو بجھا سکتا ہے بلکہ بعض اوقات تو وہ خشک فلسفیوں کی طرح دہریت تک پہنچا دیتا ہے اصل ایمان یہ ہے کہ انسان خدا کے متعلق ” ہونا چاہئے“ کے شکی اور پر خطر مقام سے نکل کر ” ہے کے یقینی اور محفوظ مقام تک پہنچ جاوے اور یہ مجتز د عقل کا کام نہیں ہے کیونکہ خدا کی ہستی وراء الوراء ہے مجر د عقل اس تک ہرگز نہیں پہنچا سکتی.وہ صرف دُور سے اس کی طرف اشارہ کر سکتی ہے.پس ضرور ہے کہ کوئی ایسا طریق ہو جو انسان کو خدا تک پہنچا دے اور وہ یہی ہے کہ خدا خود اپنے الہام سے اور ارسال رسل کے ذریعہ اپنے بندوں کی طرف آئے اور اپنی ہستی کو محسوس و مشہود کرائے تا ایمان صرف اس حد تک نہ 157

Page 168

رہے کہ کوئی خدا ہونا چاہئے بلکہ اس حد تک پہنچ جائے کہ خدا ہے اور انسان اس کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کر سکے.”ہونا چاہئے“ کا مقام تو صرف ایک خیالی صنم کو پیش کرتا ہے مگر حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں بن دیکھے کس طرح کسی مہ رُخ پہ آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل اور نیز آپ نے اپنے الہاموں اور ان خدائی قدرت نمائیوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور اس زمانہ میں خود آپ کے ذریعہ خدا نے دکھا ئیں بطور ایک قطعی دلیل کے پیش کیا اور منکروں کو امتحان اور مشاہدہ کے لئے بلایا.مگر کوئی شخص سامنے نہ آیا اور اسلام کا جھنڈا بلند لہراتا رہا.دیو سماج سے مقابلہ پانچواں مذہب دہریت اور دیو سماج کا مذہب تھا.یہ مذہب بھی آج کل اندر ہی اندراکثر دلوں کو کھا گیا تھا.مگر بعض نے جرأت کر کے اس کا اظہار کر دیا اور ایک الگ پارٹی قائم کر لی لیکن اکثر نے اپنے شبہات دل میں چھپائے رکھے.مگر غور سے دیکھا جائے تو اکثر لوگوں کے ایمان کے شہتیر کو یہ کیڑا پوری طرح کھا چکا ہے ہندوؤں میں ، عیسائیوں میں بلکہ خود مسلمانوں میں اور دوسری اقوام میں کثرت انہیں لوگوں کی ہے جن کے ایمان کو یہ گھن لگ چکا ہے اور اس زمانہ کی زہریلی ہوائیں اور علوم جدیدہ کی مہلک تاثیرات اور مادیت کی ظلمتیں ان کے مذہب و دین کا خاتمہ کر چکی ہیں.یہ لوگ صرف رسمی اور قومی طور پر اپنے مذہب کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور اگر ان کو اپنے مذہب کی کوئی غیرت ہے تو وہ بھی محض قومی طور پر ہے مذہبا نہیں.ان مخفی دہریوں کے علاوہ ظاہراً بھی ایک گروہ ایسا موجود ہے جو خدا کا انکار کرتا ہے.یہ گروہ ہندوؤں میں نمایاں طور پر موجود ہے اور دیو سماج کے نام سے مشہور ہے اس گروہ کا حضرت مرزا صاحب کے ساتھ کوئی باقاعدہ مقابلہ نہیں ہوا.مگر ویسے دیکھو تو گویا آپ کی ساری عمر اسی گروہ کے مقابلہ میں گذری اور آپ کی ہر 158

Page 169

تصنیف اسی گروہ کے رد میں ہے.کیونکہ غور کرو تو جن دلائل سے آپ نے دوسرے مذاہب والوں کو زیر کیا وہ سب دلائل اس مذہب کی بھی خاک اڑا رہے ہیں خصوصاً روحانی میدان کے براہین تو اس مذہب کے خلاف گویا ایک سورج چڑھا دیتے ہیں.مثلاً آتھم کی موت.مارٹن کلارک کی ناکامی.ڈوئی کی ہلاکت اور پھر اندر من کا فرار لیکھرام کا قتل.اچھر چند وغیرہ کی بربادی وغیرہ جہاں مسیحیت اور آریہ مذہب کی جڑ کاٹ رہے ہیں وہاں دہریت اور دیو سماج کی گردن پر بھی ایک تیز تبر کا کام دیتے ہیں.دراصل جب آپ نے نشان دیکھنے کے لئے مختلف مذاہب والوں کو دعوت دی تھی تو اُس وقت دیو سماج کو بھی خاص طور پر بلایا تھا مگر یہ بڑی پکی بات ہے کہ دہریہ کا دل کمزور ہوتا ہے.چنانچہ اُن میں سے کوئی شخص سامنے نہیں آیا.دراصل جو شخص خدا کو مانتا ہے.خواہ وہ غلط طور پر ہی مانے لیکن پھر بھی اس کے دل کو ایک گونہ سہارا ہوتا ہے لیکن دہر یہ کا دل ہمیشہ کا نپتا رہتا ہے اور اسے کبھی بھی اطمینان اور شلج قلب حاصل نہیں ہوتا اس لئے وہ عموماً مقابلہ میں بز دل نکلتا ہے.چنانچہ کبھی کسی دہر یہ دیو سماجی کو جرات نہیں ہوئی کہ حضرت مرزا صاحب کے سامنے آتا.آپ نے ان لوگوں کا دو طرح مقابلہ کیا ایک تو یہ ثابت کیا کہ عقل صحیحہ کا صحیح استعمال ہر غور کرنے والے کو ایک صانع کی ہستی کا پتہ بتا رہا ہے کیونکہ یہ عالم مادی مع اپنی بار یک در بار یک حکمتوں اور لاثانی نظام کے ایک کامل خالق پر دال ہے اور اس بے نظیر کارخانہ کو بغیر صانع کے ماننا صریحاً عقل کے خلاف ہے.پس ہم مجبور ہیں کہ اس بات کو قبول کریں کہ اس عالم کا کوئی خالق و مالک ہونا چاہئے.اور جب ایک حق کا متلاشی ” ہونا چاہیئے“ کے مقام تک پہنچتا ہے تو پھر اس کے لئے الہام اور قدرت نمائی کے نشانات سے فائدہ اٹھانے کا دروازہ کھولا جاتا ہے جو اسے ” ہے" کے مقام کی طرف اٹھا کر لے جاتے ہیں.یعنی ہونا چاہنے تک پہنچنا تو خدا کے فضل کے ماتحت انسان کا کام ہے اور ” ہے“ تک پہنچانا خدا کا فعل ہے جو وہ اپنی خاص قدرت نمائیوں اور الہام سے سرانجام دیتا ہے حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں 159

Page 170

قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے خدا جیسی لطیف اور وراء الوراء ہستی کے متعلق یہ سمجھنا کہ وہ ظاہری حواس سے محسوس کی جا سکتی ہے ایک اہلہانہ بات ہے.قرآن شریف فرماتا ہے.لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكَ الْأَبْصَارَ وَهُوَاللَّطِيفُ الْخَبِيرُ - ( سورة انعام ع ) یعنی خدا چونکہ لطیف ہے اس لئے حواس ظاہری اس تک نہیں پہنچ سکتے.مگر وہ خبیر بھی ہے اور جانتا ہے کہ اس تک پہنچے بغیر بندہ روحانی طور پر زندہ نہیں رہ سکتا اور اس کا ایمان مکمل ہونا تو در کنار قائم بھی نہیں ہوسکتا.اس لئے وہ خود حواس انسانی کی طرف نزول کر کے اپنے آپ کو محسوس کرواتا ہے، یعنی وہ ارسال رسل اور الہام اور قدرت نمائیوں سے اپنا چہرہ دکھاتا ہے تا انسانی ایمان ہونا چاہئے کے شکی مقام سے نکل کر ہے کے یقینی مرتبہ تک پہنچ جائے.(ہستی باری تعالیٰ کے متعلق مفصل بحث کے لئے خاکسار مصنف کی تصنیف ہمارا خدا ملاحظہ کی جائے.) " " چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے دنیا کو مخاطب کر کے کہا کہ آؤ میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ علیم ہے کیونکہ میں ایک بشر ہونے کی وجہ سے علم کامل نہیں رکھتا لیکن خدا مجھے کہتا ہے کہ یہ چیز یوں ہوگی اور پھر باوجود ہزاروں پردوں کے پیچھے غائب ہونے کے بالآخر وہ چیز اسی طرح ظاہر ہوتی ہے جس طرح خدا نے کہا تھا آؤ اور اس کا امتحان کر لو.میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ قدیر ہے.کیونکہ میں بوجہ انسان ہونے کے قدرت کا ملہ نہیں رکھتا لیکن خدا مجھے کہتا ہے کہ میں فلاں کلام اس اس طرح پر کروں گا اور وہ کام ایسا ہوتا ہے کہ انسانی طاقت سے اس طرح پر نہیں ہوسکتا مگر وہ اسی طرح ہو جاتا ہے.آؤ اور اس کا امتحان کر لو.میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ دُعاؤں کو سنتا ہے.کیونکہ میں خدا سے ایسے کاموں کے متعلق دُعا مانگتا ہوں کہ وہ ظاہر میں انہونے ہوتے ہیں مگر خدا میری دُعا سے اُن کاموں کو پورا کر دیتا ہے آؤ اور اس کا امتحان کرلو.160

Page 171

میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ اسلام کے دشمنوں پر جو بدزبانی میں حد سے بڑھتے ہیں اتمامِ حجت کے بعد اپنا غضب نازل کرتا ہے.آؤ اور اس کا امتحان کر لو.میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ خالق ہے.کیونکہ میں بوجہ بشر ہونے کے خلق نہیں کر سکتا مگر وہ میرے ذریعہ اپنی خالقیت کے جلوے دکھاتا ہے جیسا کہ اُس نے بغیر کسی مادہ کے میرے گرتے پر اپنی روشنائی کے چھینٹے ڈالے پس آؤ اور اس کا امتحان کر لو.میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ تو بہ کو قبول کرتا ہے اور بندہ کی طرف سے رجوع ہونے پر خود بھی رجوع برحمت ہوتا ہے اور حالات کے بدل جانے پر اپنے عذاب کے فیصلہ کو بدل دیتا ہے کیونکہ وہ رحیم ہے ظالم نہیں.آؤ اور اس کا امتحان کر لو.میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ اپنے خاص بندوں سے محبت کا کلام کرتا ہے جیسا کہ اُس نے مجھ سے کیا آؤ اور اس کا امتحان کر لو میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ رب العالمین ہے اور کوئی چیز اس کی ربوبیت سے باہر نہیں کیونکہ جب وہ کہتا ہے کہ میں فلاں چیز کی ربوبیت کو چھوڑتا ہوں تو پھر وہ چیز خواہ کیسی ہی ہو قائم نہیں رہ سکتی.آؤ اور اس کا امتحان کرلو.اور پھر میں تمہیں دکھا تا ہوں کہ خدا ہے اور وہ مالک ہے.کیونکہ مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کی حکم عدولی نہیں کر سکتی اور وہ جس چیز پر تصرف کرنا چاہے کر سکتا ہے.پس آؤ کہ میں تمہیں آسمان پر اُس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں زمین پر اُس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں ہوا میں اُس کے تصرفات دکھاؤں.اور آؤ کہ میں تمہیں پانیوں پر اس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں پہاڑوں پر اس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں قوموں پر اُس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں حکومتوں پر اُس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں دلوں پر اُس کے تصرفات دکھاؤں پس آؤ اور اس کا امتحان کرلو.یہ ایک بہت بڑا دعوی ہے، لیکن سوچو کہ اگر یہ ثابت ہو جائے تو کیا دہریت قائم رہ سکتی ہے؟ مگر مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے سنت اللہ کے مطابق یہ سب باتیں کر کے دکھا دیں اور اگر یہ کہو کہ پھر لوگوں نے حضرت مرزا صاحب کو کیوں نہیں مانا تو یہ جہالت کا اعتراض ہو گا کون رسول آیا کہ اسے سب لوگوں نے 161

Page 172

مان لیا ؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون ہوگا کہ حضرت مرزا صاحب اُن کی غلامی کو اپنے لئے جائے فخر سمجھتے ہیں اور جس نے کہا اور سچ کہا کہ اگر عیسی اور موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری غلامی کا جوا اپنی گردن پر رکھنا پڑتا.مگر بایں ہمہ وہ آیا اور خدا کی عجیب در عجیب قدرت نمائیاں دکھا کر گذر گیا مگر کور باطنوں نے اسے نہ مانا.بلکہ اب تک بھی کہ ساڑھے تیرہ سو سال گذر چکے ہیں اس کے منکروں کی تعداد اس کے ماننے والوں سے بہت زیادہ ہے پس جہالت کے اعتراض مت کرو اور قرآن کھول کر دیکھو کہ خدا فرماتا ہے يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (سورۃ یسین (۲۴) یعنی (افسوس ) لوگوں پر کہ کوئی بھی تو رسول دنیا میں ایسا نہیں آیا کہ لوگوں نے اس کا انکار کر کے اس پر ہنسی نہ اڑائی ہو“.سو ہم خوش ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے مخالفوں نے بھی مخالفین انبیاء کی یہ سنت اپنے ہاتھوں سے پوری کر دی.پس سو چو تو یہ مخالفت بھی حضرت مرزا صاحب کی صداقت کی ایک دلیل ہے.دیگر متفرق مذاہب سے مقابلہ مذکورہ بالا پانچ مذاہب کو جس رنگ میں حضرت مرزا صاحب نے مقابلہ کر کے زیر کیا اور اُن کے مقابل پر اسلام کو غالب کر دکھایا اس کی مختصر سی کیفیت ہم نے اوپر بیان کر دی ہے اور تفصیلی مطالعہ کے لئے کتب کے حوالے دے دیئے ہیں ان مذاہب کے علاوہ دنیا میں ایک بدھ مذہب بھی پایا جاتا ہے.ہر چند کہ اب یہ مذہب عملاً ایک نیم مردہ مذہب ہے یعنی اس کے متبعین میں جو شائد تعداد میں تو سارے مذاہب والوں سے بڑھے ہوئے ہیں زندگی کی کوئی خاص حرکت نہیں پائی جاتی اور اس مذہب میں تبلیغ کا سلسلہ بھی عملاً بند ہے مگر پھر بھی اسے نظر انداز نہیں کیا گیا.دیکھو رسائل ریویو آف ریلیجنز ) پھر یہودیت ہے اس کی مذہبی حالت بھی جو ہے وہ ظاہر ہے مگر اس کا بھی ضمناً متعدد جگہ حضرت مرزا صاحب کی تصنیفات میں ذکر آ گیا ہے پھر پارسی مذہب ہے جس کا اب صرف اتنا ہی کام ہے کہ وہ ایک قومی مذہب کے طور پر چند افراد میں قائم ہے اس کی بھی تھوڑی بہت خدمت رساله ریویو آف ریلیجنز میں ہو چکی ہے پھر بت پرستی ہے اس کا بھی متفرق طور پر حضرت 162

Page 173

مرزا صاحب کی کتب میں ذکر پایا جاتا ہے پھر تھیا صوفی ہے جو گو کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک فلسفہ ہے لیکن یہ بھی نظر انداز نہیں کیا گیا.(دیکھور یو یو آف ریلیجنز ) پھر بہائی مذہب ہے جس میں زندگی کی کچھ حرکت پائی جاتی ہے کیونکہ یہ ایک بالکل نیا سلسلہ ہے لیکن اب وہ بھی گر رہا ہے نیز غور کرو تو پتہ لگتا ہے کہ یہ کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی اخلاقی سوسائٹی ہے.اس کے بانی نے جس کا دعویٰ خدائی بروز ہونے کا تھانہ کہ رسول ہونے کا.مختلف مذاہب کی اچھی نظر آنے والی تعلیمات کو لیکر جو سننے میں کانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہیں ایک سلسلہ جاری کر دیا تھا اور اس وجہ سے کہ اس میں کوئی ایسے اصولی مذہبی عقائد نہیں پائے جاتے جن پر عمل ضروری ہو اور وہ دوسرے مذاہب سے ٹکرائیں بلکہ تمام مذاہب کو فی الجملہ اچھا کہا جاتا ہے اور ایک متحدہ اخلاقی تعلیم دی جاتی ہے اس زمانہ کے بعض آزاد طبع لوگوں کو اس کی طرف توجہ ہو جاتی ہے مگر اسی سے ظاہر ہے کہ دراصل یہ مذہب آزاد خیالی کی ایک شاخ ہے جس میں قرآنی شریعت کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے اس کے متعلق بھی ریویو آف ریلیجز قادیان میں بحث ہو چکی ہے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے بعض کتابیں بھی شائع کی گئی ہیں.( مثلا دیکھو بہائی تحریک مصنفہ مولوی ابوالعطاء صاحب) مذہبی تحقیق کے متعلق دوز زین اصول اب تفصیلی طور پر تو مذاہب کے مقابلہ کا ر یو یو ہو چکا لیکن اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے اس مسئلہ پر ہم بحیثیت مجموعی ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں اور مختصر طور پر ان باتوں کا ذکر کرتے ہیں جو عام طور پر حضرت مرزا صاحب نے خدمت اسلام کے لئے کیں.پہلی بات یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مذہبی بحث و مناظرہ کے لئے ایک ایساز رین اصول قائم کیا ہے کہ جو بحث بین المذاہب کو بہت مختصر کر دیتا ہے اور جس سے ایک طالب حق کو حق و باطل میں تمیز کرنے کا بہت اچھا موقعہ ہاتھ آتا ہے اسی اصول کی طرف ہم نے آتھم کے مباحثہ کا ذکر کرتے ہوئے اشارہ کیا تھا اور وہ اصول یہ ہے اور حضرت مرزا صاحب نے اس پر بہت زور دیا 163

Page 174

ہے کہ جو شخص اپنے مذہب کے متعلق کوئی دعوی کرے تو اس کا فرض ہے کہ پہلے اس دعوے کو اپنی مذہبی کتاب سے ثابت کر لے اور پھر اس پر اپنی ہی کتاب سے دلیل لائے.مثلاً ایک عیسائی کہتا ہے کہ خدا تین ہیں مگر اس کا یہ دعوی ہرگز قابل التفات نہ ہو گا جب تک کہ وہ اِس دعوے کو انجیل سے ثابت نہ کر دکھائے.یعنی اس کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انجیل میں فی الواقعہ یہ دعویٰ موجود ہے کہ خدا تین ہیں اور پھر اس کے بعد اس کو انجیل سے ہی اس دعویٰ کی دلیل لانی ہوگی.اگر وہ انجیل سے یہ دعوی ثابت نہ کر سکے گا تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ عقیدہ انجیل کا عقیدہ نہیں ہے اس صورت میں وہ مسیحیت کی طرف سے پیش نہیں کیا جاسکے گا بلکہ وہ زید یا بکر یا خالد کا ذاتی عقیدہ سمجھا جائے گا جو اس نے انجیل کی طرف منسوب کر کے پیش کر دیا ہے لیکن چونکہ اصل انجیل میں تثلیث کا کوئی ثبوت موجود نہیں اس لئے بس اسی ایک نکتہ سے بحث کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ بحث مسیحیت سے تھی نہ کہ زید یا بکر کے معتقدات سے.ظاہر ہے کہ وہ کتاب کسی توجہ کی مستحق نہیں سمجھی جاسکتی جو اپنے مذہب کے اصولی عقائد کے متعلق خالی دعوی پیش کرنے سے بھی محروم ہو اور جس کی مجر" د دعوے کے لئے بھی زید بکر وغیرہ کے منہ کی طرف دیکھنا پڑے اور اگر وہ دعوی تو پیش کر دے لیکن دلیل پیش نہ کر سکے یعنی دعوئی تو اس میں موجود ہومگر دلیل نہ ہو بلکہ دلیل کے لئے اسے پھر زید بکر کا احسان مند ہونا پڑے تو یہ بھی اس کتاب اور اس مذہب کے بطلان کی ایک یقینی دلیل ہوگی.کیونکہ وہ مذہب جو دلائل کے لئے دوسروں کا محتاج ہو اور صرف دعویٰ کر دینا ہی جانتا ہو اور دلیل کے وقت خاموش رہ جاتا ہو وہ خدا کی طرف سے نہیں سمجھا جا سکتا.غرض دونوں طرح اس مذہب کی موت ہے.ہم مانتے ہیں کہ بعض تائیدی دلیلیں بیرونی بھی ہو سکتی ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ بعض دلیلیں بیرونی ہوں لیکن کسی کتاب کا دلائل سے قطعی طور پر خالی ہونا ایک خطرناک کمزوری ہے جس کی موجودگی میں کوئی ایسا مذہب قابل التفات نہیں سمجھا جاسکتا.اب دیکھو کہ یہ اصول کیسا پختہ اور کیسا پکا ہے مگر اسے مان کر اسلام کے سوا دوسرے مذاہب کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.مثلاً عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا تین ہیں اور یہ کہ مسیح خدا ہے اور یہ کہ کفارہ کا عقیدہ حق ہے اب تلاش کرو تو انجیل میں اس عقیدہ کی دلیل ملنے کا تو کیا ذکر مطلق 164

Page 175

دعوی بھی نہیں مل سکتا عیسائی اپنے منہ سے جو چاہیں کہیں مگر ہیں تو انجیل کی تعلیم سے کام ہے جس کو وہ اپنی کتاب سمجھتے ہیں اور انجیل ان مسائل کے متعلق ایک بت کی طرح خاموش ہے.انجیل سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہی کہ خدا ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور مسیح اس کا ایک برگزیدہ بندہ تھا اور بس.چلو چھٹی ہوئی اور ساری بحث کا خاتمہ ہو گیا.خوب غور کرو کہ مذہبی اصول کو جن پر سارے معاملہ کا دارومدار ہے.سیاق و سباق اور حالات کے خلاف رکیک استنباطوں سے نکالنا ایک مضحکہ خیز بات ہے.اصول کے متعلق تو مذہب کو ایک صاف اور بین دعوئی پیش کرنا چاہیئے جو ص صریح کی طرح ثابت ہو.اگر اصول مذہب میں بھی رکیک استنباطوں سے کام لیا جاوے تو مذہبی معتقدات میں امان اٹھ جاتا ہے.دیکھو قرآن شریف نے اسلام کے اصول کے متعلق اپنے دعاوی کیسے کھلے اور بین اور غیر تاویل طلب الفاظ میں بیان کئے ہیں اور پھر اُن کو بار بارڈ ہرا کر و یا ایک سورج چڑھا دیا ہے مگر انجیل میں یہ بات قطعاً مفقود ہے.دوسرا مرتبہ دلیل کا ہے سو اس میں بھی انجیل بالکل گنگ ہے اور دعاوی میں تو خیر مسیحی لوگ دُور کی کھینچ تان اور رکیک استنباطوں کے ساتھ کچھ تانا بانا کھڑا کر بھی دیتے ہیں.مگر دلائل کہاں سے لائیں سونا چار کچھ زید کے دماغ سے لیکر کچھ بکر سے مانگ اور کچھ خالد سے پوچھ پاچھ کر انجیل کے کاسہ گدائی کو بھرنا پڑتا ہے.اب یہ عجیب مذہب ہے جو نہ تو اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے اور نہ اس پر کوئی دلیل لاتا ہے بلکہ ایک موم کی ناک ہے کہ پجاریوں نے جدھر چاہا موڑ دی.مسیحی لوگ بتائیں کہ انجیل نے ان پر کیا احسان کیا؟ یہ تو انجیل پر مسیحیوں کا احسان ہوا کہ خواہ بھیک مانگ کر ہی سہی مگر بہر حال انہوں نے انجیل کو ذلت سے بچایا اور اس کے کاسہ میں اپنی طرف سے دعوئی اور دلائل ڈال کر خانہ پری کر دی.لاحول ولاقوۃ الا باللہ.آریوں کا بھی یہی حال ہے.مثلاً اُن کا سب سے بڑا مسئلہ قدامت روح و مادہ کا مسئلہ ہے مگر وید سے دعوئی مانگا جاوے تو ندارد.چاروں ویدوں کے ورق چاٹ کر آخر صرف ایک منتر پیش کرتے ہیں جس میں اُن کے زعم میں مجاز اور استعارہ کے طور پر قدامت روح و مادہ کا دعوی بیان 165

Page 176

ہوا ہے اب دیکھو یہ کیسا مذہب ہے کہ بھاری بھاری چار کتابیں موجود ہیں جو غالباً ایک کمزور آریہ اٹھا بھی نہ سکے مگر دلیل تو الگ رہی مذہب کے اصل الاصل کا دعویٰ تک ندارد ہے اور اگر کچھ ہے تو چاروں ویدوں میں صرف ایک منتر ہے جس کے متعلق خود آریہ صاحبان بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس سے صرف مجاز کے طور پر اس عقیدہ کا استنباط ہوتا ہے.کسی نے خوب کہا ہے بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا ایسے ضروری اور اہم اصول کے متعلق تو وید کا فرض تھا کہ کھلے کھلے اور واضح اور غیر تاویل طلب الفاظ میں اپنا عقیدہ بیان کرتا اور پھر جابجا اُسے دہراتا تا شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی.مگر ایسا نہیں کیا گیا.اس لئے یہ قومی شبہ پیدا ہوتا ہے کہ قدامت روح و مادہ کا عقیدہ وید کا عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ آج کل کے آریہ صاحبان کا من گھڑت عقیدہ ہے جو وید کی طرف ناحق منسوب کر دیا گیا ہے.کیونکہ مدعی شست و گواہ چست والا معاملہ ہے.پھر دلائل کو لیں تو اُن کا بھی یہی حال ہے کہ وید صاحب تو بت کی طرح خاموش ہیں مگر چیلوں نے آسمان سر پر اُٹھا رکھا ہے اب ظاہر ہے کہ جس کتاب کا اپنے مذہب کے اصل الاصول کے متعلق بھی یہ حال ہے کہ نہ دعوی یقینی طور پر بیان ہوا ہے اور نہ دلیل کا کہیں پتہ چلتا ہے بلکہ دونوں کے لئے اسے دوسرے دور کی گدائی کرنی پڑتی ہے وہ ہمیں کیا راہ دکھا سکتی ہے؟ وہ تو آپ اندھوں کی طرح اس بات کی محتاج ہے کہ کوئی دوسرا شخص اسے راہ دکھائے.حضرت مرزا صاحب خوب فرماتے ہیں مردہ سے کب اُمید کہ وہ زندہ کر سکے اُس سے تو خود محال کہ رہ بھی گزر سکے در اصل بات یہ ہے اور غور کرو تو یہ ایک نہایت پختہ بات ہے کہ چونکہ ان سب مذاہب کی ابتداء حق اور راستی پر تھی اور موجودہ غلط اور فاسد خیالات جو سراسر مشر کا نہ ہیں بعد کی ملاوٹیں ہیں اور پر اور آہستہ آہستہ باہر سے داخل ہو کر دین و مذہب کا حصہ بن گئی ہیں.اس لئے مذہب کی اصل کتب 166

Page 177

با وجود انسانی دست برد کے اب تک بھی کافی حد تک ان فاسد عقائد سے پاک ہیں جو ان کے متبعین میں عملاً پائے جاتے ہیں اور اصل تعلیم اور سچائی کا عصر ان سے بالکل ضائع نہیں ہوا.یہی وجہ ہے کہ ان کتب میں ان باطل خیالات کے دلائل ملنا تو الگ رہا مجز دعوی ہی ثابت کرنا مشکل ہے.غرض یہ ایک نہایت زبر دست اصول ہے جو حضرت مرزا صاحب نے بحث بین المذاہب کے متعلق قائم کیا ہے اور اگر اس کو مد نظر رکھ کر مخالفین اسلام کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو انہیں ایک قدم چلنا بھی محال ہو جاتا ہے اور ان کی مذبوحی حرکات طالب حق کو فیصلہ کرنے کیلئے بہت عمدہ موقعہ میسر کرتی ہیں.ناظرین غور کریں کہ حضرت مرزا صاحب کی اس ایک ہی ضرب نے کس طرح سارے مذاہب کا فیصلہ کر دیا ہے !جب موجودہ مسیحی عقائد اور آریہ عقائد کے متعلق انجیل اور وید خاموش ہیں تو یقیناً اسلام کے مقابلہ میں مسیحیت اور آر یہ مذہب تو شکست فاش کھا گئے.ہاں زید بکر، خالد کے خیالات رہ گئے.سو ان کا بھی جو حال حضرت مرزا صاحب نے کیا ہے وہ اوپر بیان ہو چکا ہے.اسی طرح دوسرے مذاہب کا حال ہے.دوسرا عظیم الشان اصول جو حضرت مرزا صاحب نے مختلف مذاہب کے باہمی مقابلہ کے متعلق پیش فرما یاوہ یہ تھا کہ کسی مذہب کی صداقت پر کھنے کے لئے صرف اُس کے ماضی اور مستقبل کو د یکھنا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے حال کو بھی دیکھنا چاہئے.اگر کوئی مذہب اپنے ماضی کے متعلق تو بڑے زور دار قصے سناتا ہے اور مستقبل کے متعلق بھی بڑے بڑے وعدے دیتا ہے مگر حال کے زمانہ میں اپنے متبعین کے واسطے کوئی امید پیش نہیں کرتا تو ایسا مذہب ہرگز توجہ کے قابل نہیں بلکہ اس کی ساری تعلیم محض دھوکا ہے جس سے ہر عقلمند کو بچنا چاہئیے.ظاہر ہے کہ ہمیں اس بات سے کیا غرض ہے کہ گذشتہ لوگوں نے کسی مذہب پر چل کر کیا پایا.یا آئندہ کے لئے کوئی مذہب کیا وعدہ پیش کرتا ہے.یہ دونوں زمانے تو ایک پردے کے پیچھے پوشیدہ ہیں.جن کی اصل حقیقت کا علم صرف خدا کو حاصل ہے ہمیں تو جس چیز سے غرض ہے وہ خود ہمارا حال ہے اگر ہمارا حال“ درست نہیں ہوتا تو گذشتہ زمانوں کی تاریخ ہمارے لئے ایک قصے اور مستقبل کے وعدے ایک سراب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے.البتہ اگر ایک مذہب حال کے زمانہ میں ہمیں وہ پھل دے 167

Page 178

دیتا ہے جو ایک بچے مذہب سے متوقع ہے تو بے شک ہم گذشتہ قصوں کو بھی سچا خیال کر سکتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں بھی مذہب کے وعدوں پر یقین رکھ سکتے ہیں مگر محض ماضی اور مستقبل کا حوالہ ہمیں قطعا کوئی تسلی نہیں دے سکتا.پس حضرت مرزا صاحب نے دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ بچے مذہب کا معیار یہ ہے کہ وہ اپنے شیرین اور تازہ پھل دست بدست پیش کرے اور صرف گذشتہ قصوں یا آئندہ کے وعدوں پر نہ ٹالے.مثلاً اگر کسی مذہب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ انسان کو خدا تک پہنچاتا ہے تو انسانی فطرت کی تسلی کے لئے یہ بات ہرگز کافی نہیں سمجھی جا سکتی کہ ہمیں کسی کتاب میں یہ لکھا ہوا دکھا دیا جائے کہ گذشتہ زمانوں میں اس مذہب کے پیرو خدا تک پہنچتے رہے ہیں یا یہ کہ یہ مذہب دعویٰ کرتا ہے کہ مرنے کے بعد اسکے متبعین خدا کو پالیں گے یہ دونوں تسلیاں طفل تسلیوں سے بڑھ کر نہیں اور کوئی عقلمند انسان محض اس قسم کی تسلی پر مطمئن نہیں ہو سکتا بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا مذہب ہمیں اسی زندگی میں خدا تک پہنچا دے اور ہم خدا کے یقینی جلوے کو اسی دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور اس کے قرب کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر محسوس کر لیں اور اگر ہم اسے لطیف اور غیر محدود اور وراء الوراء ہونے کی وجہ سے دیکھ نہیں سکتے.تو کم از کم اس کے زندگی بخش کلام کو اپنے کانوں سے سن لیں اور اس کے نشانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تا کہ خدا کا وجود ہمارے لئے ایک محض عقلی استدلال کا نتیجہ نہ رہے بلکہ ایک زندہ اور محسوس و مشہور ہستی کا رنگ اختیار کر لے.ایسی حالت میں بے شک گذشتہ قصے بھی ہمارے لئے ایک زندہ سبق ہو جائیں گے اور آئندہ کے وعدے بھی ایک خیالی چیز نہیں رہیں گے.مگر غور کرو کہ دنیا کے کتنے مذہب ہیں جو ہمارے لئے اس قسم کی زندگی کا سامان مہیا کرتے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے دعویٰ کیا کہ یہ روحانی زندگی جو حال کے تازہ بتازہ پھلوں سے حاصل ہوتی ہے صرف اسلام میں ملتی ہے اور دوسرا کوئی مذہب اس زندگی کے آثار نہیں دکھا سکتا کیونکہ باقی سب کا دارو مدار محض ماضی کے قصوں یا مستقبل کے وعدوں پر ہے مثلاً مسیحیوں میں کوئی شخص ایسا نہیں ملے گا جو زمانہ حال میں شرف مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف اور خدا کے تازہ 168

Page 179

بتازہ کلام سے زندگی یافتہ ہو اور خدا کی نصرت کا ہاتھ ہر قدم پر اس کے ساتھ نظر آتا ہو اسی طرح آریہ مذہب کا کوئی پیر وایسا نظر نہیں آئے گا جو زمانہ حال میں خدا کی نصرت کا جلوہ دکھا سکتا ہو اور جس پر خدا کا تازہ بتازہ اور زندہ کلام نازل ہوتا ہو اور یہی حال دوسرے مذاہب کا ہے کہ ان کے اندرسوائے ماضی کے قصوں یا مستقبل کے خوش آئند وعدوں کے اور کچھ نہیں مگر حضرت مرزا صاحب نے ثابت کیا کہ اسلام خدا کا ایک زندہ مذہب ہے کیونکہ اس کا درخت آج بھی اسی طرح پھل دے رہا ہے جس طرح وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں دیتا تھا اور وہ آج بھی اسی طرح اپنے متبعین کو خدا کے ساتھ ملا رہا ہے جس طرح وہ گذشتہ زمانے میں ملاتا تھا اور آج بھی اس پر عمل کرنے والے اُسی طرح خدا کے تازہ بتازہ کلام کو سنتے ہیں جس طرح پہلے لوگ سنتے تھے اور آج بھی وہ اُسی طرح خدا کے زندہ نشانوں کو دیکھتے ہیں جس طرح گذشتہ زمانوں میں دیکھتے تھے پس زندہ مذہب صرف اسلام ہی ہے اور باقی سارے مذاہب اپنی عمر کے دور ختم کر چکے ہیں آپ نے اپنے مخالفین کو بار بار چیلنج دیا کہ اس جہت سے کوئی شخص میرے سامنے آکر مقابلہ کر لے اور اپنے مذہب کی صداقت ثابت کرے.مگر کسی نے آپ کے سامنے آنے کی جرات نہیں کی اور لیکھرام اور ڈوئی وغیرہ کی طرح جس شخص نے بھی یہ جرات کی وہ اسلام کی صداقت پر اپنی ہلاکت کی مہر لگا تا ہوا ہمیشہ کی نیند سو گیا.اب دیکھو یہ کس قدر عظیم الشان فتح ہے جو اسلام کو حاصل ہوئی اور یہ کس قدر سچا اور پختہ اصول ہے.جس نے اسلام کی صداقت روز روشن کی طرح ثابت کر دی.(دیکھو حقیقۃ الوحی اور براہین احمدیہ حصہ پنجم وغیرہ) حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ تمام مذاہب پر اسلام کا غلبہ اب ہم حضرت مرزا صاحب کے ایک اور عظیم الشان کام کا ذکر کرتے ہیں جس سے اسلام کو غالب کر دکھانے کا وعدہ نہایت عمدگی اور غیر معمولی وسعت کے ساتھ پورا ہوا.۱۸۹۶ء میں لاہور کے بعض ہندو معرب زین نے مشورہ کر کے یہ تجویز کی کہ ایک عظیم الشان 169

Page 180

منعقد کیا جائے اور تمام مذاہب کے وکلاء کو شرکت کے لئے دعوت دی جائے اور چند ایسے سوالات مقرر کئے جائیں جو ہر مذہب کی جان ہوں اور تمام مذاہب کے نمائندے اِن سوالات کے جواب میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق مضامین پڑھیں.مگر ان مضامین میں کسی دوسرے مذہب پر حملہ نہ ہو بلکہ صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کی جائیں تا کہ طالبانِ حق کو ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرنے کا موقعہ ملے اس تحریک کے بانی مبانی بعض برہمو سماج سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے چنانچہ یہ تجویز پختہ ہوگئی اور اس کے لئے منتظمین کی ایک سب کمیٹی مقرر کی گئی اور تقریروں کے لئے جو سوالات تجویز کئے گئے وہ یہ تھے:- ا.انسان کی جسمانی ، اخلاقی اور روحانی حالتیں.۲- انسان کی دنیوی زندگی کے بعد کی حالت.۳- دنیا میں انسان کی ہستی کی غرض کیا ہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے.۴- کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے.۵- علم یعنی گیان اور معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں.اس کے بعد ہر مذہب وملت کے سر بر آوردہ بزرگوں کو دعوت دی گئی کہ وہ ان سوالات کے جواب میں مضامین لکھیں یا جلسہ کے وقت زبانی تقریر فرمائیں اور ہر مذہب کی طرف سے دو دو تین تین آدمی منتخب کئے گئے.چنانچہ اسلام کی طرف سے یہ تین اصحاب وکیل یعنی نمائندے قرار پائے.۱ - حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود ۲ - مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی.۳- مولوی ابوالوفاء ثناء اللہ صاحب امرتسری.اسی طرح عیسائیوں، آریوں، سناتن دھرمیوں، برہمو سماج والوں سکھوں، تھیا صوفیکل سوسائٹی والوں ، فری تھنکروں وغیرہ کی طرف سے بھی بعض نمائندے مقرر ہوئے اور سب کو یہ ہدایت دی گئی کہ ان سوالات کے جواب میں صرف مذہب کی تعلیم بیان کریں اور دوسرے مذاہب 170

Page 181

کے متعلق کوئی حملہ نہ ہو.جلسہ کی تاریخیں ۲۶-۲۷-۲۸ / دسمبر ۱۸۹۶ء مقرر ہوئیں اور جلسہ کے انعقاد کے لئے انجمن حمایت اسلام لاہور کا بال عاریت لیا گیا اور اشتہاروں اور اخباروں کے ذریعہ سے اس جلسہ کی شہرت عام کر دی گئی اور شرکت کی عام دعوت دی گئی.حضرت مرزا صاحب نے ان سوالات کے جواب میں ایک مضمون لکھا اور اپنے ایک مخلص حواری حضرت عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کو دیگر لاہور روانہ کیا اور ساتھ ہی مورخہ ۲۱؍ دسمبر ۱۹۶ ء کو یعنی جلسہ سے پانچ چھ روز قبل ایک اشتہار بھی شائع کیا جس میں لکھا کہ میں نے خدا کی خاص نصرت و تائید سے یہ مضمون لکھا ہے اور مجھے خدا نے اطلاع دی ہے کہ میرا یہ مضمون باقی تمام مضامین پر غالب رہے گا اور وہ اشتہار یہ ہے:.جلسه اعظم مذاہب جو لا ہور ٹاؤن ہال ( بعد میں یہ جلسہ عملاً اسلامیہ کالج لاہور کے ہال میں منعقد ہوا تھا.خاکسار مصنف ) میں ۲۶-۲۷-۲۸ / دسمبر ۱۸۹۶ء کو ہوگا اُس میں اِس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارے میں پڑھا جائے گا.یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ در حقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے اور جو شخص اس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب سنے گا میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اُس میں پیدا ہوگا اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اُس کے ہاتھ آجائے گی.یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزہ ہے.مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآن شریف کے حسن و جمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور نور سے نفرت رکھتے ہیں.مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اوّل سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی اور ہرگز 171

Page 182

قادر نہیں ہونگی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھا سکیں خواہ وہ عیسائی ہوں، خواہ آریہ، خواہ سناتن دھرم والے.یا کوئی اور.کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اُس روز اس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو.میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور ساطع نکلا.جو اردگرد پھیل گیا.اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی پڑی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا.اللہ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَیبر.اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے اور وہ قرآنی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذاہب ہیں جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کی صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا ہے سو مجھے جتلایا گیا ہے کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کر لے.پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا.انَّ اللَّهَ مَعَكَ إِنَّ اللَّهَ يَقُوْمُ أَيْنَمَا قُمْتَ.یعنی خدا تیرے ساتھ ہے اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہوتا ہے یہ حمایت الہی کے لئے ایک استعارہ ہے.اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا.ہر ایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا حرج کر کے بھی ان معارف کو سننے کے لئے ضرور بمقام لا ہور تاریخ جلسہ پر آویں کہ اُن کی عقل اور ایمان کو اس سے وہ فائدے حاصل ہونگے کہ وہ گمان نہیں کر سکتے ہو نگے.( دیکھو تبلیغ رسالت) یہ اشتہار لاہور اور ملک کے دوسرے مقامات میں جلسہ سے کئی دن پہلے شائع کر دیا گیا.پھر جب جلسہ کی تاریخ آئی اور جلسہ شروع ہوا تو تمام مذاہب کے نمائندے حاضر تھے اور سب نے سجا سجا کر تقریریں کیں.اور جب حضرت مرزا صاحب کی تقریر کی باری آئی تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کھڑے ہوئے اور حضرت مرزا صاحب کی لکھی ہوئی تقریر پڑھنی شروع کی.اس تقریر کو سننے کے لئے خاص طور پر کثرت کے ساتھ لوگ آئے تھے حتی کہ ہال میں جگہ نہ رہی تھی اور لوگوں پر اس تقریر کا ایسا اثر ہوا کہ گویا محویت اور وجد کا عالم طاری ہو گیا.جب دو گھنٹے جو اس 172

Page 183

تقریر کے لئے مقرر تھے گذر گئے اور مضمون ابھی بہت باقی تھا تو لوگوں نے متفقہ آواز سے کہا کہ اس مضمون کے لئے جلسہ کا ایک دن اور بڑھایا جائے چنانچہ ۲۹؍ دسمبر کا دن زیادہ کیا گیا مگر پھر بھی جب تقریر کا معینہ وقت گذر گیا اور تقریر ختم نہ ہوئی تو سامعین نے با اتفاق درخواست کی کہ اسے اور وقت دیا جائے کیونکہ ہم اسے آخر تک سننا چاہتے ہیں.چنانچہ پروگرام کی حدود کو توڑ کر اسے اور وقت دیا گیا اور اس طرح لوگوں کی تحسین و آفرین کے نعروں میں یہ تقریر ختم ہوئی اور ایک معزز ہندو کی زبان سے جو اس جلسہ کے صدر تھے بے اختیار نکلا کہ یہ مضمون تمام مضمونوں سے بالا رہا.“ اور لاہور کے مشہور انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے بھی جس کے مالک اور ایڈیٹر اس زمانہ میں سب عیسائی انگریز ہوتے تھے یہی رائے ظاہر کی کہ مرزا صاحب قادیانی کا مضمون سب سے بالا رہا اور شائد ہیں کے قریب ایسے اردو اخبار بھی ہونگے جنہوں نے اس مضمون کے کامیاب اور غالب رہنے کی شہادت دی اور اس مجمع میں بجزر سخت متعصب لوگوں کے تمام لوگوں کی زبان پر یہی تھا کہ یہی مضمون فتح یاب ہوا اور آج تک اس تقریر کے سننے والے یہی شہادت دیتے ہیں کہ اس دن یہ مضمون سب پر غالب رہا تھا.چنانچہ مثال کے طور پر سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کی رائے کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے:- جلسہ اعظم مذاہب لا ہور جو ۲۶ - ۲۷-۲۸ / دسمبر ۱۸۹۶ء کو اسلامیہ کالج لاہور کے ہال میں منعقد ہوا اس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے مندرجہ ذیل پانچ سوالوں کا جواب دیا: - ( آگے پانچوں سوال نقل کئے گئے ہیں ) لیکن سب مضمونوں سے زیادہ توجہ اور زیادہ دلچسپی سے مرزا غلام احمد قادیانی کا مضمون سنا گیا جو اسلام کے بڑے بھارے موئید اور عالم ہیں.اس لیکچر کو سننے کے لئے دُور ونزدیک سے ہر مذہب وملت کے لوگ بڑی کثرت کے ساتھ جمع تھے چونکہ مرزا صاحب خود جلسہ میں شامل نہیں ہو سکے اس لئے مضمون اُن کے ایک قابل اور فصیح شاگردمولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھا.۲۷ / تاریخ والا مضمون قریباً ساڑھے تین گھنٹے تک پڑھا گیا اور گویا ابھی پہلا سوال ہی ختم ہوا تھا لوگوں نے اس مضمون کو ایک وجد اور محویت کے عالم میں سنا اور 173

Page 184

پھر کمیٹی نے اس کے لئے جلسہ کی تاریخوں میں ۲۹ دسمبر کی زیادتی کر دی.یہ بات ملاحظہ ہو کہ سول اخبار نے حضرت مرزا صاحب کی تقریر کے سوا اور کسی تقریر کا ذکر تک نہیں کیا اور اس جلسہ کی اُس رپورٹ میں جو ہندوؤں کی طرف سے مرتب ہوئی حضرت مرزا صاحب کی تقریر کے متعلق یہ الفاظ درج کئے گئے :- پنڈت گوردھن داس کی تقریر کے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا، لیکن چونکہ بعد از وقفہ ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے تقریر کا پیش ہونا تھا اس لئے اکثر شائقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا.ڈیڑھ بجنے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع مکان جلد جلد بھر نے لگا اور چند ہی منٹوں میں تمام مکان پر ہو گیا.اس وقت کوئی سات ہزار کے قریب مجمع تھا مختلف مذاہب وملل اور مختلف سوسائیٹیوں کے معتد بہ اور ذی علم آدمی موجود تھے اگر چہ گر سیاں اور میزیں اور فرش نہایت ہی وسعت کے ساتھ مہیا کیا گیا لیکن صد با آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑا اور ان کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے رؤساء، عمائد پنجاب، علماء، فضلاء، بیرسٹر وکیل، پروفیسر، اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر، ڈاکٹر غرضیکہ اعلیٰ اعلیٰ طبقہ کی مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے.انہیں نہایت صبر و قتل کے ساتھ جوش سے برابر چار پانچ گھنٹے اُس وقت گویا ایک ٹانگ پر کھڑارہنا پڑا.اس مضمون کے لئے اگر چہ کمیٹی کی طرف سے صرف دو گھنٹے ہی مقرر تھے لیکن حاضرین جلسہ کو اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہوگئی کہ ماڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون ختم نہ ہو تب تک کا رروائی جلسہ کو ختم نہ کیا جاوے ان کا ایسا فرمانا عین اہلِ جلسہ اور حاضرین جلسہ کی منشاء کے مطابق تھا.کیونکہ جب وقت کے گذرنے پر مولوی مبارک علی صاحب نے اپنا وقت بھی اس مضمون کے ختم ہونے کے لئے دید یا تو حاضرین اور ماڈریٹر صاحبان نے ایک نعرہ خوشی سے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا.یہ مضمون شروع سے آخر تک یکساں دلچسپی و مقبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا“.( دیکھور پورٹ جلسہ اعظم مذاہب لاہور ) پھر اُسی جلسہ میں سکھوں کے لیکچر ارسردار جواہر سنگھ صاحب نے اپنی تقریر کے دوران 174

Page 185

میں حضرت مرزا صاحب کا ذکر کر کے کہا کہ ان کی کل کی عالمانہ تحریر سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو خوش نہ ہوا، اور اُس نے اُسے پسند نہ کیا ہو“.(دیکھور پورٹ مذکور ) اب ناظرین غور کریں کہ یہ کس قدر عظیم الشان فتح ہے جو اسلام کو نصیب ہوئی.ایک جلسہ ہوتا ہے پہلے سے سوالات مقرر ہو کر مشہور کر دیئے جاتے ہیں.سارے مذاہب کے نمائندے تیار ہوکر اس میں اپنے اپنے مذاہب کی تعلیم پیش کرتے ہیں.آریہ بھی پلیٹ فارم پر آتے ہیں ، عیسائی بھی آتے ہیں.برہمو بھی آتے ہیں ، سکھ بھی آتے ہیں، غیر احمدی مسلمان بھی آتے ہیں اور حضرت مرزا صاحب بھی اسلام کی طرف سے ایک مضمون لکھ کر پیش کرتے ہیں اور پہلے سے بذریعہ اشتہار سنا دیتے ہیں کہ میرا یہ مضمون سب پر غالب رہے گا اور پھر دوست و دشمن اپنے بیگانے مسلم و غیر مسلم اپنے قول سے اپنے فعل سے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ واقعی یہ مضمون سب مضامین پر غالب رہا.کیا اس سے بڑھ کر فتح بھی کوئی ہو سکتی ہے؟ یہ مضمون اب انگریزی میں بھی ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے.(دیکھو ٹیچنگز آف اسلام ) اور اس کے ذریعہ ہمیں بلادِ مغربی میں اسلامی تبلیغ میں بہت بڑی مدد ملی ہے.یورپ و امریکہ کے علم دوست لوگ جب یہ کتاب پڑھتے ہیں تو عش عش کر اٹھتے ہیں اور ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو جاتی ہے.بعض اہل الرائے لوگوں نے جو خیالات اس مضمون کے متعلق ظاہر کئے ہیں اُن کا اقتباس درج ذیل کیا جاتا ہے.دی سکاٹسمین لکھتا ہے :.مذاہب مختلفہ کا مقابلہ مطالعہ کرنے والے طبقہ میں یقینا اس کتاب کا بہت خیر مقدم ہوگا.پی ای کد او د جزیر کلمپنی سے لکھتا ہے :.یہ کتاب عرفان الہی کا ایک سرچشمہ ہے.“ برسٹل ٹائمز اینڈ مررلکھتا ہے:- ”یقینا وہ شخص جو اس رنگ میں یورپ و امریکہ کو مخاطب کرتا ہے کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا.175

Page 186

سپر بجوال جرنل بوسٹن لکھتا ہے :- یہ کتاب بنی نوع انسان کے لئے ایک خالص بشارت ہے.“ تھیا صوفیکل تک نوٹس میں یہ الفاظ درج ہیں :- یہ کتاب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذہب کی بہترین اور سب سے زیادہ دلکش تصویر ہے." انڈین ریویو لکھتا ہے:.یہ کتاب بہت دلچسپ اور مسرت بخش ہے.اس کے خیالات روشن، جامع اور پراز حکمت ہیں.پڑھنے والے کے منہ سے بے اختیار اس کی تعریف نکلتی ہے.یہ کتاب یقینا اس قابل ہے کہ ہر اس شخص کے ہاتھ میں ہو جومحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذہب کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے“.مسلم ریویو لکھتا ہے :- ’ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا اس میں بہت سے بچے.عمیق اصلی اور رُوح افزاء خیالات پائے گا جو مسلم و غیر مسلم دونوں کی دلچسپی کا موجب ہوں گے.ہم بڑے زور کے ساتھ اس کتاب کی سفارش کرتے ہیں.“ ( یہ آراء انگریزی سے ترجمہ شدہ ہیں اور صرف نمونہ کے طور پر درج کی گئی ہیں.ورنہ اس قسم کی آراء کی اصل تعداد بہت زیادہ ہے.تفصیل کے لئے دیکھور یو یو آف ریلیجنز جولائی ۱۹۱۲ء) خاکسار راقم الحروف نے بھی جب اپنے ایک یورپین مہربان مسٹر جی اے واد نزایم.اے کو جو گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے سینئیر پروفیسر تھے اور میرے ٹیوٹر بھی تھے یہ کتاب بھجوائی تو انہوں نے مجھے جواب میں لکھا کہ میں نے نہایت شوق اور دلچسپی کے ساتھ اس کتاب کو پڑھا ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ اس کتاب کے مطالعہ سے عیسائی دنیا میں جو اعتراضات اسلام کے متعلق پھیلے ہوئے ہیں وہ بہت حد تک دُور ہو جائیں گے.176

Page 187

اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جدو جہد اب میں ان اجتماعی تبلیغی کوششوں کا کچھ مختصر ساذ کر کرتا ہوں جو حضرت مرزا صاحب اور آپ کے خلفاء کی طرف سے اشاعتِ اسلام کے بارے میں کی گئیں اور کی جارہی ہیں مگر پہلے یہ بتادینا ضروری ہے کہ اگر چہ ہماری جماعت کی تعداد اس وقت کئی لاکھ سمجھی جاتی ہے لیکن دراصل با قاعدہ اعانت کرنے والوں اور چندہ دینے والے منظم حصہ کی تعداد غالباً ستر اسی ہزار سے زیادہ نہیں اور پھر ہماری جماعت میں عموماً غریب لوگ زیادہ ہیں.متمول لوگ ان سے کم اور امیر بہت ہی کم ہیں اور یہ غربت اور کمزوری بھی اس جماعت کے برحق ہونے کی علامت ہے.کیونکہ خدائی سلسلوں میں شروع شروع میں عموما غریب اور کمزور لوگ ہی داخل ہوا کرتے ہیں چنانچہ دیکھ لو حضرت نوع کے متبعین کے متعلق مخالفین یہی کہتے رہے کہ آرَاذِ لُنَا بَادِئَ الرأى ( سورۃ ھود ) یعنی یہ لوگ جو نوع کے متبع ہوئے ہیں بالکل غریب اور کمزور لوگ ہیں.ایسا ہی ہرقل عظیم روم کے سوال کرنے پر کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمزور اور غریب لوگ مانتے ہیں یا بڑے اور امیر لوگ؟ ابوسفیان نے یہی جواب دیا کہ بَلْ ضُعَفَائهُمْ ( بخاری ) یعنی اُسے غریب اور کمزور لوگ ہی مانتے ہیں.غرض عنت اللہ یہی ہے کہ ابتداء الہی سلسلوں میں کمزور لوگ ہی زیادہ داخل ہوتے ہیں اور بڑے لوگوں کی باری بعد میں آتی ہے.حضرت مسیح ناصری بھی انجیل میں فرماتے ہیں کہ امیر لوگ غریبوں سے بہت بعد میں جنت میں داخل ہو نگے.اس میں حکمت یہ ہے کہ اول تو ایمان اور اعمال صالح کئی قسم کی قربانیاں چاہتے ہیں جن کے لئے امراء بوجہ اپنے گردو پیش کے حالات کے جلدی تیار نہیں ہوتے.اور اُن کا تکبر ، عیش پسندی ، آرام طلبی اور دین کی طرف سے بے توجہی الہی سلسلہ میں ان کے داخل ہونے کے راستہ میں بڑی روک ہو جاتی ہیں.دوسرے خدا تعالی شروع شروع میں سلسلہ حقہ میں ضعفاء کے داخل ہونے سے دنیا کو یہ نظارہ بھی دکھانا چاہتا ہے کہ یہ سارا کاروبار میرا ہے اور میں ہی اسے چلا رہا ہوں ورنہ اس جماعت کی جو طاقت ہے وہ تو یہ ہے کہ صرف معدودے چند غریب اور کمزور لوگ اس میں داخل ہیں مگر جب یہی قلیل اور کمزورسی 177

Page 188

جماعت دنیا میں وہ کام کر گذرتی ہے جو بڑی بڑی طاقتور اور امیر جماعتیں نہیں کر سکتی تھیں تو پھر دنیا کے لئے یہ ایک خاص نشان ہوتا ہے غرض ہماری قوم یعنی جماعت احمد یہ عموماً غریب لوگوں کی ایک چھوٹی سی جماعت ہے.اس تمہیدی نوٹ کے بعد میں نہایت مختصر طور پر ان تبلیغی کوششوں کا ذکر کرتا ہوں جو حضرت مرزا صاحب اور آپ کے خلفاء کی طرف سے اشاعت اسلام کے لئے کی گئیں اور کی جارہی ہیں.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا کہ آپ مامور کئے گئے ہیں تو آپ نے ایک اشتہار اردو اور انگریزی میں بیس ہزار کی تعداد میں چھپوا کر ہندوستان اور یورپ اور امریکہ وغیرہ میں کثرت کے ساتھ تقسیم کیا اور اس میں بیان فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے خدمتِ اسلام کے لئے مامور کیا ہے.پس جس کسی کو اسلام کے متعلق کوئی شبہ ہو یا وہ کوئی اعتراض رکھتا ہو تو میرے سامنے پیش کرے میں اُس کی تسلی کراؤں گا اور غیبی نشانات بھی دکھائے جاویں گے اس کے بعد آپ نے اپنا کام شروع فرما یا اور پھر جس طرح مختلف قوموں کے ساتھ آپ کے مقابلے ہوئے اس کا ایک نہایت مختصر سا خا کہ اوپر گذر چکا ہے آپ کی ساری عمر جہاد کی صف اول میں ہی گزرگئی اور مخالف بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ایسا کوئی وقت نہیں آیا کہ آپ نے ایک ماندہ سپاہی کی طرح ہتھیار اتار کر کچھ عرصہ آرام کیا ہو.بسا اوقات فرماتے تھے کہ یہ جو کھانے پینے اور پیشاب پاخانے وغیرہ میں وقت صرف ہوتا ہے اس کا بھی ہمیں افسوس ہی ہوتا ہے کہ عمر محدود ہے یہ وقت بھی دین کی خدمت میں صرف ہو جاتا تو بہتر تھا.جس وقت آپ کی وفات ہوئی اس وقت بھی آپ ایک عظیم الشان تبلیغی رسالہ تصنیف فرمارہے تھے آپ جسے مکمل نہیں کر سکے یعنی لکھتے لکھتے ہی پیغام الہی آگیا اور آپ اپنے محبوب حقیقی سے جاملے اس رسالہ کے غیر مکمل رہنے میں بھی یہ خدائی مصلحت معلوم ہوتی ہے کہ تا دنیا پر یہ ظاہر ہو کہ آپ کی وفات عین حالتِ جنگ میں واقع ہوئی ہے.اگر آپ اسے مکمل کرنے کے بعد اور کوئی دوسری تصنیف شروع کرنے سے پہلے فوت ہوتے تو پھر بھی حالت جنگ میں ہی سمجھے جاتے لیکن موجودہ صورت زیادہ واضح ہونے کی وجہ سے 178

Page 189

زیادہ عظمت اور زیادہ شان رکھتی ہے.آپ نے اتنی سے زیادہ کتابیں تصنیف فرما ئیں جن میں سے بعض بڑی بڑی ضخیم کتابیں ہیں.اور سینکڑوں اشتہارات ہزاروں کی تعداد میں شائع کئے.آپ کی تصنیفات اکثر زبان اردو میں ہیں لیکن ایک کافی تعداد عربی میں بھی ہے جو بلادِ عرب و مصر و شام و فلسطین وغیرہ میں پھیلائی جا چکی ہیں.بعض کتابیں آپ کی فارسی میں بھی ہیں.آپ کی تصنیفات میں مذہبی لٹریچر کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو نظر انداز کیا گیا ہو.جس طرح دوسرے موجودہ مذاہب کا بطلان ثابت کیا گیا ہے اسی طرح اسلام کی صداقت اور اس کے محاسن بیان کر کے اس کی ارفع شان ظاہر کی گئی ہے.مسلمانوں کے غلط عقائد اور غلط خیالات کی اصلاح اور اپنی جماعت کی اخلاقی اور روحانی اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ دی گئی ہے آپ کی زندگی میں ہی تین اُردو اخبار، تین اردو ماہوار رسالے اور ایک انگریزی رسالہ با قاعدہ قادیان سے شائع ہوتے تھے ان میں سے انگریزی رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے کام کے متعلق ایک یورپین پادری کی رائے مثال کے طور پر درج ذیل کرتا ہوں.یہ رسالہ اسم بامسمی ہے کیونکہ اس رسالے نے مذاہب کے ایک نہایت وسیع حلقے کو اپنے کام میں شامل کیا ہے اور مذہبی مضامین کے ایک بڑے وسیع دائرہ پر نظر ڈالی ہے.مثلاً سناتن دھرم - آریہ سماج.برہمو سماج تھیا سونی.سکھ ازم.بدھ ازم.جین ازم.زرتشتی مذہب.بہائی ازم.مسیحیت اور علوم مسیحی وغیرہ سب پر اس رسالہ نے بخشیں کی ہیں.پھر اسی طرح اسلام کی قدیم اور جدید شاخیں مثلاً شیعہ اہل حدیث.خارجی.صوفی اور موجودہ زمانہ کے دلدادگان سرسید احمد خان وسید امیر علی وغیرہ کو اپنی بحث میں شامل کیا ہے.(دیکھو احمدیہ موومنٹ مصنفہ ایچ اے والٹر ایم اے صفحہ ۱۷) پھر اسی رسالہ کے متعلق اے اروب امریکہ سے لکھتا ہے :.اس رسالہ کے مضامین روحانی صداقتوں کی نہایت پر حکمت اور روشن تفسیر ہیں.کونٹ ٹالسٹائے روس کا نہایت نامور مصنف لکھتا ہے :- اس رسالے کے خیالات بڑے وزنی اور بڑے سچے ہیں.179

Page 190

پروفیسر ہاؤٹسما ایڈیٹر ان چیف انسائیکلو پیڈیا آف اسلام لکھتا ہے :- یہ رسالہ بے حد دلچسپ ہے“.ریویو آف ریویوز لنڈن لکھتا ہے :- یورپ و امریکہ کے وہ لوگ جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ یہ رسالہ ضروری منگا ئیں.مس ہلٹ امریکہ سے لکھتی ہے :.اس رسالہ کا ہر نمبر نہایت دلکش ہوتا ہے اور اُن غلط خیالات کا بطلان ثابت کرتا ہے جو اسلام کے متعلق اس زمانہ میں دنیا کی اُن اقوام کی طرف سے پھیلائے جاتے ہیں جو مہذب کہلاتی ہیں.“ ( یہ سب آراء انگریزی سے ترجمہ کی گئی ہیں.تفصیل کے لئے دیکھو رسالہ ریویو آف ریلیجر ) اسی طرح احمد یہ جماعت کے دوسرے رسالے اور اخبارات بھی اپنے اپنے حلقہ میں اسلام کی خدمت کا کام انجام دیتے رہے ہیں اور حضرت مرزا صاحب کی وفات کے بعد جوں جوں جماعت نے ترقی کی ہے ہمارے مذہبی اخبارات و رسائل کی تعداد بڑھتی گئی ہے چنانچہ اس (اب یہ تعداد اور بھی زیادہ ہوچکی ہے ) وقت پانچ اردو اخبار ہیں (ایک روزانہ تین ہفتہ وار اور ایک پندرہ روزہ ) اور دو ماہوار رسالے ہیں.ایک سہ ماہی انگریزی رسالہ ہے اور ایک انگریزی ہفتہ وار اخبار ہے ان کے علاوہ ہینڈبل پمفلٹ رسالے اور کتابیں تو نہایت کثرت کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں اور قادیان جو حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں صرف ایک گاؤں کی حیثیت رکھتا تھا اب ایک ترقی پذیر عالمگیر شہرت کا شہر بن چکا ہے جس میں ڈاک ، ریل، تار، ٹیلی فون وغیرہ کی سب سہولتیں موجود ہیں اور کئی دفاتر اور کئی مدارس اور ایک ڈگری کالج کے علاوہ ایک عظیم الشان دینی مدرسہ بھی قائم ہے جس میں دینیات اور علوم عربیہ اور علومِ جدیدہ کی تعلیم دی جاتی ہے اور تبلیغ اسلام کے لئے مبلغ تیار ہوتے ہیں.ملکی تقسیم کے بعد جماعت کے ثانوی مرکز ربوہ میں خدا کے فضل سے اس سے بھی وسیع تر انتظامات قائم ہو چکے ہیں ) 180

Page 191

جہاں تک عملی تبلیغ کا سوال ہے خدا کے فضل سے دنیا کے اکثر ممالک اور خصوصاً عیسائی اور مشرک ممالک میں تبلیغ کا ایک وسیع اور مبارک جال پھیلایا جا چکا ہے اور دین کی خدمت کے لئے وقف شدہ مبلغوں کا ایک بھاری عملہ دن رات خدمت میں مصروف ہے.چنانچہ ایشیا اور افریقہ اور یورپ اور امریکہ کے اکثر ممالک میں اعلاء کلمتہ اللہ کا سلسلہ بڑے زورشور سے جاری ہے جس کی وجہ سے ان ممالک میں ایک عظیم الشان تغییر پیدا ہورہا ہے اور جو عیسائی ممالک پہلے اسلام کی ہر بات کو اعتراض کی نظر سے دیکھتے تھے اور نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ناپاک حملوں کا نشانہ بنانے میں گویا لذت محسوس کرتے تھے اب اُن کا رویہ اعتراض اور تنقید کے مقام سے بدل کر قدرشناسی اور تعریف کی طرف منتقل ہورہا ہے جو خدا کے فضل سے اسلام کے حق میں ایک عظیم الشان تغییر کا پیش خیمہ ہے.حضرت مرزا صاحب نے آج سے پچپن سال قبل اپنی روحانی آنکھ سے اس تغیر کو دیکھ کر فرمایا تھا اور کیا خوب فرمایا تھا کہ کیوں عجب کرتے ہوگر میں آگیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار آسمان پر دعوت حق کے لئے اک جوش ہے ہورہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمہ تو حید پر از جاں نثار باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے بادصبا گلزار سے مستانہ وار آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم ) جماعت احمدیہ کی عدیم المثال تبلیغی مساعی کا خاکہ ذیل کے نقشہ میں ملاحظہ فرمائیں :- 181

Page 192

نام ملک تعداد تبلیغی تعداد تعداد مراكز مساجد دینی ۱۹ نائجیر یا (مغربی افریقہ) تین انیس مدارس کیفیت ۱۰ یہاں سے ایک انگریزی اخبار دس شائع ہوتا ہے اور مقامی زبان یوروبا میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی ہو رہا ہے غانا (مغربی افریقہ ) ۱۲ ۱۵۱ ۱۴ یہاں جماعت کی ایک سیکنڈری درسگاہ بھی ہے اور اپنا پریس بھی ہے اور مقامی زبان فینٹی میں سیرالیون (مغربی افریقہ) لائبیریا ( مغربی افریقہ ) ۲۴ قرآن کا ترجمہ بھی ہورہا ہے.یہاں سے جماعت کا ایک اخبار نکلتا ہے اور اپنا پر یس بھی ہے.یہ مشن حال ہی میں یعنی ۱۹۵۹ ء میں کھلا ہے.نیروبی ۱۲ یہاں سے جماعت کے دو اخبار ٹانگانیکا سات باره ایک شائع ہوتے ہیں اور سواحلی و یوگنڈا ( مشرقی افریقہ) زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے اس کے علاوہ جزائر غرب الہند نز دامریکہ دو 182 یہاں کی لوگنڈا زبان میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ ہو چکا ہے یہاں ایک انگریز نو مسلم مبلغ ہے.

Page 193

نام ملک تعداد تبلیغی تعداد تعداد کیفیت مغربی جرمنی ہالینڈ مراكز مساجد دینی ایک ایک - رتا - 4 مدارس جرمن زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.یہاں کی مسجد خالصہ احمدی مستورات کے چندہ سے تعمیر ہوئی ہے اور یہاں کی ڈچ زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے اس کے علاوہ یہاں سے جماعت احمدیہ کا قرآن مجید کا مشہور انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوا ہے.( قادیان سے شائع ہونے والی مفصل تفسیر انگریزی اس کے علاوہ ہے) سوئیٹزرلینڈ یہاں سے ایک ماہوار تبلیغی رسالہ شائع ہوتا ہے.ایک یہ مشن حال ہی میں ۱۹۵۶ء میں سویڈن ناروے کھلا ہے.ایک لنڈن انگلستان 4 183

Page 194

نام ملک تعداد تبلیغی تعداد تعداد کیفیت سین مراكز مساجد دینی تین مدارس یہ وہ ملک ہے جہاں ابتدائی دور میں آٹھ سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی ہے.یہاں اسلام کی تبلیغ میں دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور ہسپانیہ کی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی ہو رہا ہے.یہاں کی حبشی آبادی میں کثرت سے اسلام پھیل رہا ہے اور جماعت کی طرف سے انگریزی میں ایک رسالہ بھی شائع ہوتا ہے.ی شن حال میں ہی ۱۹۵۶ء میں ریاستہائے متحدہ امریکہ چھ ڈچ گی آنا (جنوبی امریکہ) سیلون برما کھلا ہے.ایک ایک - ایک زیر تعمیر مسجد ہے ماریشس - - ایک ایک یہاں سے دو تبلیغی کتابیں شائع کی گئی ہیں.184

Page 195

مراكز مساجد دینی نام ملک تعداد تبلیغی | تعداد تعداد کیفیت مدارس انڈونیشیا (جاوا.سماٹرا سیلی 1 ۳۴ یہاں سے ایک ماہوار رسالہ بینز وغیره) سات چونتیس ایک ونتیس ایک شائع ہوتا ہے اور مقامی زبان میں کثیر تعداد میں تبلیغی کتب شائع کی گئی ہیں اور قرآن مجید کا ترجمہ بھی ہو رہا ہے.یہاں سے ایک ماہوار رسالہ نکلتا بورنیو ( جزائر شرق الہند) تمین تین ہے.شام ایک ایک لبنان - ایک اسرائیل - - ایک ایک سنگاپور ملایا ایک رو یہاں سے ایک عربی رسالہ نکالتا ہے.یہاں کی ملائی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے.مسقط ایک تعداد ممالک تعداد تبلیغی احمدیہ ۲۴ تعداد تراجم قرآن مجید - تعداد مراکز مساجد مدارس بیرونی اخبارات ۱۲ عدد.اور ۲۵۵ ۲۸ ۶۴ رسالہ جات دس ۱۰ عدد نوٹ: یہ اعداد و شمار وکالت تبشیر تحریک جدید ربوہ نے ۱۹۶۰ء میں مہیا کئے تھے.اب الحمد لله سن ۲۰۱۳ء میں ۲۰۲ ممالک میں جماعت احمدیہ قائم ہے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن مجید کے تراجم اے زبانوں میں ہو چکے ہیں.(ناشر) 185

Page 196

ان با قاعد تبلیغی مراکز کے علاوہ بہت سے دوسرے ممالک میں بھی جماعت احمدیہ کے مخلص افراد پرائیویٹ رنگ میں تبلیغ میں مصروف ہیں اور خدا کے فضل سے اس کے بھی اچھے نتا ئج نکل رہے ہیں اور گوروس میں ہمارا کوئی مشن نہیں مگر روسی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے اسی طرح گواس وقت فرانس میں کوئی تبلیغی مرکز نہیں مگر فرانسیسی زبان میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ ہورہا ہے.بہر حال یہ حضرت مرزا صاحب اور آپ کی مٹھی بھر جماعت کی تبلیغی مساعی کا ایک نہایت مختصر سا خاکہ ہے.مگر دیکھ تو یہ کتنا عظیم الشان کام ہے جو کیا گیا ہے اور کیا جارہا ہے اور یہ کام خدا کے فضل سے دن بدن وسیع ہورہا ہے اب ایک طرف اس کام کو دیکھو جو یقینا ابھی اپنی ابتدائی حالت میں ہے اور دوسری طرف احمد یہ جماعت کو دیکھو اور تیسری طرف عام مسلمانوں کو دیکھو اور پھر بتاؤ کہ کیا یہ درست نہیں کہ دوسرے مسلمان اس وقت چالیس کروڑ ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور پھر اُن میں وہ بھی ہیں جو بادشاہ ہیں.وہ بھی ہیں جو بڑی حکومتوں کے صدر ہیں.وہ بھی ہیں جو وسیع ریاستوں کے نواب ہیں.وہ بھی ہیں جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں وہ بھی ہیں جو بڑے بڑے جاگیر دار اور زمیندار ہیں.وہ بھی ہیں جو کروڑ پتی اور لاکھ پتی تاجر اور صناع ہیں وہ بھی ہیں جو امراء کبراء ہیں.وہ بھی ہیں جو دین کے عالم کہلاتے ہیں.وہ بھی ہیں جو دنیا کے علوم وفنون میں خصوصی ماہر ہیں اور پھر جماعت بھی اتنی ہے کہ ماشاء اللہ اٹھے توسیل عظیم کی طرح ساری دنیا پر چھا جائے اور دوسری طرف ہماری جماعت ہے کہ جس کی اس وقت تعداد اتنی ہے کہ ہم بتاتے تو لوگ ہنس دیتے ہیں.مالی حالت یہ ہے که ۷۵ فیصدی وہ لوگ ہیں جو سارا دن محنت کر کے اپنے بچوں کے لئے صرف اتنا گذارہ کما سکتے ہیں کہ چند دن کے لئے بھی اگر خدانخواستہ بیمار ہو جائیں اور کام پر نہ جاسکیں تو گھر میں فاقہ ہو جائے اِن حالات میں اس نھی سی جان کا یہ کام اور اُس دیو مہیب کی یہ حالت کہ خدمت اسلام کا نام تک یاد نہیں ! ناظرین غور کریں.مگر انصاف شرط ہے والله يحب المقسطين.حضرت مرزا صاحب کے متعلق مخالفین کی رائے اب میں چند غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب کی رائے پر جو انہوں نے حضرت مرزا صاحب 186

Page 197

کے متعلق ظاہر کی ہے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.پہلی رائے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی ہے جو انہوں نے حضرت مرزا صاحب کی ابتدائی تصنیف براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے ظاہر کی جس وقت کہ وہ ابھی حضرت مرزا صاحب کے مخالف نہ ہوئے تھے.مولوی صاحب لکھتے ہیں :- ”ہماری رائے میں یہ کتاب (یعنی براہین احمدیہ مصنفہ حضرت مرزا صاحب ) اس زمانہ میں موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں لعل الله يُحدث بعد ذلک امراً اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم از کم ایک ایسی کتاب بتادے.جس میں جملہ فرقہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و برہمو سماج سے اس زورشور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی.قلمی ولسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھالیا ہو اور مخالفین اسلام و منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجو دالہام میں شک ہو وہ ہمارے پاس آکر اس کا تجربہ و مشاہدہ کرلے.اور اس تجر بہ ومشاہدہ کا اقوامِ غیر کو مزہ بھی چکھا دیا ہو.....مؤلف صاحب ہمارے ہموطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے ( جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے ) ہمارے ہم مکتب ہیں.اس زمانہ سے آج تک ہم میں اُن کی خط و کتابت و ملاقات ومراسلت برابر جاری رہی ہے اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دیئے جانے کے لائق ہے......مؤلف براہین احمدیہ نے مسلمانوں کی عزت رکھ دکھائی ہے اور مخالفین اسلام سے شرطیں لگا لگا کر تحدی کی ہے اور یہ منادی اکثر روئے زمین پر کر دی ہے کہ جس شخص کو اسلام کی حقانیت میں شک ہو وہ ہمارے پاس آئے.....187

Page 198

اے خدا اپنے طالبوں کے رہنما.ان پر اپنی ذات سے ان کے ماں باپ سے تمام جہان کے مشفقوں سے زیادہ رحم فرما تو اس کتاب کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے اور اس کے برکات سے ان کو مالا مال کر دے اور کسی اپنے صالح بندے کے طفیل اس خاکسار شرمسار گنہگار کو اپنے فیوض اور انعامات اور اس کتاب کے اخص برکات سے فیضیاب کر.آمین.وللارض من كأس الكرام نصيب".دیکھو اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبرے جلدے نمبر ۱۱) غالباً اس بات کے بتانے کی اس جگہ ضرورت نہیں کہ جب حضرت مرزا صاحب کی طرف سے دعوی مسیحیت شائع ہوا تو یہی مولوی محمد حسین صاحب سب سے پہلے فتوای تکفیر لے کر ملک میں ادھر اُدھر دوڑے اور حضرت مرزا صاحب کو دجال کا فر ملحد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ع بیں تفاوت ره از کجا است تا به کجا دوسری رائے جو میں اس جگہ درج کرنا چاہتا ہوں وہ امرتسر کے مشہور و معروف غیر احمدی اخبار وکیل کی رائے ہے جس کا اُس نے حضرت مرزا صاحب کی وفات پر اظہار کیا اور وہ یہ ہے:.وہ شخص.بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جود ما فی عجائبات کا مجسمہ تھا جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی.جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تارا لجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا جو شور قیامت ہو کے خفتگانِ خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا.خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ گیا.( خالی ہاتھ مت کہو وہ ہدایت کا تحفہ لیکر آیا اور عقیدت کے پھول لیکر گیا.مصنف رسالہ هذا) ( یعنی دنیا نے اُس کی قدر نہیں کی ) مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.....مرزا صاحب کی اس رحلت نے ان کے بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا 188

Page 199

ہے کہ اُن کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا بھی جو اُس کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا.ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے.مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑا دیئے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اُس کی جان تھا بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھو آں ہو کر اڑنے لگا.غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کوگر انبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں کھڑے ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑ ا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ اُن کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا.اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں بھی مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت انجام دی ہے ان کے آریہ سماج کے مقابل کی تحریروں سے اس دعوی پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ یہ تحریریں نظر انداز کی جاسکیں.فطری ذہانت.مشق و مہارت اور مسلسل بحث و مباحثہ کی عادت نے مرزا صاحب میں ایک خاص شان پیدا کر دی تھی.اپنے مذہب کے علاوہ مذاہب غیر پر ان کی نظر نہایت وسیع تھی اور وہ اپنے ان معلومات کو نہایت سلیقہ سے استعمال کر سکتے تھے تبلیغ و تلقین سے یہ ملکہ ان میں پیدا ہو گیا تھا کہ مخاطب کسی قابلیت یا کسی مشرب و ملت کا ہو 189

Page 200

اُن کے برجستہ جواب سے ایک دفعہ ضرور گہرے فکر میں پڑ جاتا تھا.ہندوستان آج مذاہب کا عجائب خانہ ہے اور جس کثرت سے چھوٹے بڑے مذاہب یہاں موجود ہیں اور باہمی کشمکش سے اپنی موجودگی کا اعلان کرتے رہتے ہیں اس کی نظیر غالباً دنیا کی کسی جگہ نہیں مل سکتی.مرزا صاحب کا دعوی تھا کہ میں ان سب کے لئے حکم و عدل ہوں لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلہ پر اسلام کو نمایاں کر دینے کی ان میں بہت مخصوص قابلیت تھی اور یہ نتیجہ تھی ان کی فطری استعداد کا.ذوق مطالعہ اور کثرتِ مشق کا.آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلیٰ خواہشیں اس طرح مذہب کے مطالعہ میں صرف کر دے.(اخبار وکیل امرتسر جون (+19+A تیسری رائے جو میں اس جگہ درج کرنا چاہتا ہوں وہ دہلی کے اخبار کرزن گزٹ کی ہے.اس اخبار کے ایڈیٹر مرزا حیرت صاحب دہلوی نے حضرت مرزا صاحب کی وفات پر لکھا:- ” مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی انجام دی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا....اگر چہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں......اس کا پر زور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے......اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا.( کرزن گزٹ دہلی کیم جون ۱۹۰۸) 190

Page 201

میں اس جگہ ہندوستان کے ایک مشہور انگریزی اخبار پائنیر الہ آباد کی رائے کا ترجمہ بھی درج کئے دیتا ہوں جو اس نے حضرت مرزا صاحب کی وفات پر ظاہر کی :- اگر گذشتہ زمانہ کے اسرائیلی نبیوں میں سے کوئی نبی عالم بالا سے واپس آکر اس زمانہ میں دنیا میں تبلیغ کرے تو وہ بیسویں صدی کے حالات میں اس سے زیادہ غیر موزوں معلوم نہ ہوگا جیسا کہ مرزا غلام احمد قادیانی تھے......ہم یہ قابلیت نہیں رکھتے کہ ان کی عالمانہ حیثیت پر کوئی رائے لگا سکیں مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ مرزا غلام احمد صاحب کو اپنے متعلق یا اپنے دعوی کے متعلق کبھی کوئی شک نہیں ہوا.اور وہ کامل صداقت اور کامل خلوص سے اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ اُن پر الہام الہی نازل ہوتا ہے اور یہ کہ ان کو ایک خارق عادت طاقت بخشی گئی ہے....وہ لوگ جنہوں نے مذہبی میدان میں دنیا کے اندر ایک حرکت پیدا کر دی ہے وہ اپنی طبیعت میں مرزا غلام احمد صاحب سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں.بہ نسبت مثلاً ایسے شخص کے جیسا کہ اس زمانہ میں انگلستان کا لارڈ بشپ ہوتا ہے اگر ارنسٹ رینن (فرانس کا ایک مشہور مؤرخ ہے ) گذشتہ ہیں سال میں ہندوستان میں ہوتا تو وہ یقیناً مرزا صاحب کے پاس جاتا اور ان کے حالات کا مطالعہ کرتا جس کا یہ نتیجہ ہوتا کہ انبیاء بنی اسرائیل کے عجیب وغریب حالات پر ایک نئی روشنی پڑتی.بہر حال قادیان کا نبی ان لوگوں میں سے تھا جو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.ایک اور مصنف مسٹر ایچ.اے والٹر جو تمام ہندوستان کی ینگ مین کرسچن ایسوسی ایشن کا سیکرٹری تھا اپنی کتاب ”احمد یہ موومنٹ میں لکھتا ہے :- یہ بات ہر طرح سے ثابت ہے کہ مرزا صاحب اپنی عادات میں سادہ اور فیاضانہ جذبات رکھنے والے انسان تھے.ان کی اخلاقی جرات جو انہوں نے اپنے مخالفوں کی طرف سے شدید مخالفت اور ایذاء رسانی کے مقابلہ میں دکھائی یقینا قابل تحسین ہے صرف ایک مقناطیسی جذب اور دلکش اخلاق رکھنے والا شخص ہی ایسے لوگوں کی دوستی اور وفاداری حاصل کر سکتا ہے جن میں سے کم از کم دو نے افغانستان میں اپنے عقائد کے لئے جان دے دی.مگر مرزا صاحب کا دامن نہ چھوڑا....میں نے ۱۹۱۶ ء میں 191

Page 202

قادیان جا کر حالانکہ اس وقت مرزا صاحب کو فوت ہوئے آٹھ سال گزر چکے تھے ایک ایسی جماعت دیکھی جس میں مذہب کے لئے وہ سچا اور زبردست جوش موجود تھا جو ہندوستان کے دوسرے مسلمانوں میں آج کل مفقود ہے.قادیان جا کر انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایک مسلمان کو محبت اور ایمان کی وہ روح جسے وہ دوسرے مسلمانوں میں بے سود تلاش کرتا ہے.احمد کی جماعت میں بافراط ملے گی.مسیح موعود کا تیسرا کام ( ترجمه از احمدیہ موومنٹ مصنفہ مسٹر والٹرایم.اے) تیسرا کام مسیح موعود کا یہ بتایا گیا تھا کہ وہ کھوئے ہوئے ایمان کو پھر دُنیا میں قائم کرے گا یعنی اس کے زمانہ میں حقیقی ایمان دنیا سے مفقود ہو چکا ہوگا، لیکن وہ پھر دوبارہ ایمان کو دنیا میں واپس لائے گا سو اس بات کے متعلق کہ واقعی ایمان دنیا سے کھویا جا چکا تھا ہم کافی لکھ آئے ہیں اعادہ کی ضرورت نہیں.اس جگہ صرف چند زائد امور لکھے جاتے ہیں یہ ایک بین اور بہت صاف بات ہے کہ ایمان کا دعویٰ اور ہے اور ایمان پر واقعی قائم ہونا اور.یوں تو چالیس کروڑ مسلمان کہلانے والے سب کے سب ہی دعوی کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں لیکن حالات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دعویٰ کہاں تک درست ہے.ایمان کی حقیقت حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایمان کا ابتدائی مرتبہ یہ ہے کہ مومن آگ میں زندہ ڈالے جانے کو پسند کرتا ہے مگر یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ ایمان لانے کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹ جائے ( مشکوۃ کتاب الایمان ) اور قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.قُلُوْبِكُمْ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوْ وَلَكِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي (سورة حجرات ع٢) 192

Page 203

یعنی بدوی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے.مگر اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان سے کہہ دے کہ ایمان کا دعویٰ مت کرو.ہاں یہ بے شک کہو کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے مگر ایمان کے مدعی نہ بنو کیونکہ ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل بھی نہیں ہوا.تو اب یہ سوال ہوتا ہے کہ ایمان کس چیز کا نام ہے؟ سو جاننا چاہئے کہ ایمان اس حالت قلبی کا نام ہے کہ جب تک انسان صفات باری تعالیٰ اور نشان ہائے قدرت الہی کا مشاہدہ کر کے خدا کے متعلق اس مرتبہ پر قائم ہو جاتا ہے کہ جو انسان کو اس کے مادی محسوسات کے متعلق ان کے مشاہدہ سے حاصل ہوتا ہے.مثلاً انسان اپنے باپ کو دیکھتا ہے اور پہچان لیتا ہے کہ یہ میرا باپ ہے.بیٹے کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے.سورج کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ یہ سورج ہے اسی طرح وہ خدا پر بھی ایمان لے آئے.یعنی خدا کی ہستی کے متعلق اسے اتنا یقین پیدا ہو جائے جتنا کہ اُسے اپنے باپ اور بیٹے اور سورج وغیرہ کے متعلق حاصل ہے اور اگر خدا کے متعلق اس کا ایمان اس مرتبہ سے گرا ہوا ہے تو دراصل یہ ایمان نہیں بلکہ ایک شک کا مقام ہے جسے وہ محض رسمی طور پر ایمان سمجھ رہا ہوتا ہے.اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ لایزنی الزاني حين يزني وهو مومن ولا يسرق حين يسرق وهو مومن ( بخاری کتاب الحدود ) یعنی کوئی زانی اس حالت میں زنا نہیں کرتا کہ وہ مومن ہو اور کوئی چور اس حالت میں چوری نہیں کرتا کہ وہ مومن ہو.“ اس سے ظاہر ہے کہ حقیقی ایمان اس حالت کا نام ہے کہ جس میں انسان گناہ سے محفوظ ہوجاتا ہے یعنی ایمان کی حالت میں گناہ کا ارتکاب ناممکن ہے سیاسی لئے حضرت مرزا صاحب نے گناہ کے فلسفہ میں اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ گناہ عدم یقین سے پیدا ہوتا لے اس جگہ یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حقیقی ایمان کے لئے گناہ سے محفوظ ہونا ضروری ہے تو انبیاء کے بغیر کوئی شخص بھی مومن نہیں رہتا کیونکہ گناہ سے حقیقی طور پر محفوظ صرف نبیوں کی جماعت ہے اور دوسری طرف حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ ان زنى وإن سرق یعنی ایک مؤمن خدا کی بخشش حاصل کر سکتا ہے باوجود اس کے کہ وہ بھی کبھی لغزش کھا کر زنا یا چوری وغیرہ کے گناہ کا مرتکب بھی ہو جائے.ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مومن بھی گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے اور یہ دونوں باتیں متضاد ہیں.سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ ایک سچا مومن بھی کبھی لغزش کھا کر گناہ میں مبتلاء ہوسکتا ہے مگر پھر بھی وہ 193

Page 204

ہے اور یقین سے دُور ہوتا ہے اور آپ نے بار بار لکھا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان کو سچا اور کامل یقین حاصل ہو اور پھر اس حالت میں وہ گناہ کا مرتکب بھی ہو.آپ نے لکھا کہ کیا انسان اس بل میں ہاتھ ڈال سکتا ہے جس کے متعلق اسے یقین ہو کہ اس میں ایک زہریلا سانپ ہے؟ یا اس جھاڑی میں قدم رکھ سکتا ہے کہ جس کے متعلق اُسے پتہ ہو کہ اس کے اندر ایک شیر ہے؟ یا اُس چھت کے نیچے ٹھہر سکتا ہے کہ جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ وہ گرنے والی ہے؟ یا اُس گلاس کو منہ لگا سکتا ہے کہ جس کے متعلق اُسے علم ہو کہ اس میں ایک مہلک زہر ہے؟ ہرگز نہیں.ہرگز نہیں تو پھر خدا پر ایمان اور اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ اس سے دُوری اور اس کا غضب ایک آگ ہے جو میری حاشیہ صفحہ سابقہ:.دعویٰ جو ہم نے متن میں بیان کیا ہے درست رہے گا.یعنی یہ اصول پھر بھی قائم رہے گا کہ حقیقی ایمان انسان کو گناہ سے بچاتا ہے اور حقیقی ایمان رکھتے ہوئے کوئی شخص گناہ کا مرتکب نہیں ہوسکتا.دراصل بات یہ ہے کہ انسان کے اندرفطری طور پر بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے وہ بعض اوقات لغزش کھا جاتا ہے مگر ایک کامل مومن یعنی نبی اور دوسرے عام مومنوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ نبی ہر وقت حقیقی اور بچے ایمان پر قائم رہتا ہے اور کوئی ظلمت کا پردہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس کے ایمان کو مغلوب نہیں کر سکتا لیکن اس کے مقابل پر ایک عام مومن بعض اوقات سچا ایمان رکھتے ہوئے بھی عارضی طور پر کسی ظلمت کے پردہ کے نیچے آکر لغزش کھا جاتا ہے مگر اس کی یہ لغزش محض وقتی اور عارضی ہوتی ہے جس کے بعد وہ فورا سنبھل کر پھر خدا کے سامنے استوار کھڑا ہو جاتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک عمدہ گھوڑا بھی بعض اوقات ناخن لے کر ٹھوکر کھا جاتا ہے مگر وہ گرتا نہیں بلکہ ناخن لیتے ہی پھر سنبھل جاتا ہے اور سوار کو نقصان نہیں پہنچاتا.مگر ایک دوسرا گھوڑا اس سے بھی اعلیٰ ہوتا ہے جو ناخن لیتا ہی نہیں یا اس کی مثال یوں سمجھنی چاہئے کہ جیسے ایک اچھے پہر ادار کو بھی کسی وقت اونگھ آکر نیند آجاتی ہے مگر اس کے بعد وہ فورا سنبھل جاتا ہے اور عام طور پر وہ بہت ہوشیار اور چوکس رہتا ہے مگر اس کے مقابل پر انبیاء کی جماعت ایک ایسے پہر اداروں کی جماعت ہے جو اپنی ڈیوٹی پر کبھی بھی نہیں سوتی اور ہر وقت بیدار اور ہوشیار رہتی ہے لیکن ایک تیسر ا گر وہ ایسا ہوتا ہے جو ہر وقت یا اکثر وقت سوتا ہی رہتا ہے یہ وہ گروہ ہے جو غیر مومنوں کا گروہ ہے یا گھوڑے کی مثال لیکر کہہ سکتے ہیں کہ غیر مومنوں کا گروہ اس گھوڑے کی مانند ہے جو راستہ پر چلتے ہوئے اکثر ناخن لیتا ہے اور ناخن بھی ایسا سخت لیتا ہے کہ زمین پر گر جاتا ہے اور اپنے سوار کو بھی زخمی کرتا ہے ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ سچے مومن کی اصل حالت تو گناہ سے محفوظ رہنے کی حالت ے مگر کبھی کبھی وہ اونگھ کر س بھی جاتاہے اور یہ حالت وہ ہے جب اس کے ایمان پر کسی عارضی ظلمت کا پردہ آجاتا ہے پس دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست رہیں.یعنی یہ بات بھی درست ہے کہ سچا اور حقیقی ایمان ہی وہ چیز ہے جو گناہ سے محفوظ رکھتا ہے اور یہ کہ ایک سچے مومن کی علامت ہے کہ 194

Page 205

روح کو جلا کر بھسم کر ڈالے گی وہ کس طرح گناہ کی طرف قدم اُٹھا سکتا ہے؟ پس آپ نے لکھا کہ اگر گناہ سے بچنا چاہو تو اس کا یہی علاج ہے کہ ایمان اور یقین پیدا کرو.کیونکہ اس کے بغیر گناہ سے رہائی نہیں ہو سکتی.اب ناظرین سمجھ گئے ہونگے کہ حقیقی ایمان جو خدا کے نزدیک سچا ایمان ہے اُس میں اور رسمی ایمان میں کتنا فرق ہے.ایک شخص مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوتا ہے اور بچپن سے اللہ کا نام اس کے کانوں میں پڑنا شروع ہوتا ہے.پس اس کا یہ لازمی نتیجہ ہوگا کہ وہ اس نام کو سیکھ لے گا اور اُس کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے گا اور بعض اوقات اس کے لئے غیرت بھی دکھائے گا اور اس کے دل پر اس نام کا رُعب بھی ہوگا جو ممکن ہے کبھی اُسے گناہ سے خوف بھی دلائے یا کبھی اُس کے دل میں نیکی کی رغبت بھی پیدا کر دے.مگر خوب سوچ لو کہ یہ ایمان حقیقی ایمان نہیں ہے بلکہ محض رسمی ایمان ہے کیونکہ یہ وابستگی اور یہ غیرت اور یہ رعب اور یہ خوف اور یہ رغبت اس کے دل میں ایک مستقل جذبہ کے طور پر قائم نہیں ہوتی جو علی وجہ البصیرت پیدا ہوا ہو بلکہ صرف گرد و پیش کے حالات کے ماتحت محض رسمی طور پر یہ کیفیات کبھی کبھی ایک مدھم روشنی کی طرح اپنی تجلی ظاہر کر جاتی ہیں.اس سے زیادہ کچھ نہیں.اس حالت سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا دل ابھی مردہ نہیں ہوا.مگر اس کو زندہ بھی نہیں کہہ سکتے.لہذا وہ حقیقی معنوں میں ایماندار کہلانے کا حقدار نہیں.ہاں ایسا شخص ایمان کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے اور اُس میں وہ مادہ ضرور موجود ہے جس سے ایمان حاشیہ صفحہ سابقہ:.وہ عام حالات میں گناہ سے محفوظ ہوتا ہے.اور دوسری طرف یہ بات بھی درست ہے کہ کبھی شاذ کے طور پر ایک سچا مومن بھی لغزش کھا سکتا ہے مگر یہ لغزش عارضی ہوتی ہے جس کے بعد وہ فورا سنبھل جاتا ہے اس تشریح کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دو اقوال میں کوئی تضاد نہیں رہتا کہ ایک طرف تو آپ نے یہ فرمایا کہ لایزنی الزانى و هو مومن ولا يسرق و هو مومن یعنی ” کوئی زانی اس حالت میں زنا نہیں کرتا کہ وہ مومن ہو اور کوئی چوراس حالت میں چوری نہیں کرتا کہ وہ مومن ہو.اور دوسری طرف آپ فرماتے ہیں کہ ان زنى وإن سرق یعنی ” ایک مومن خدا کی مغفرت حاصل کر سکتا ہے باوجود اس کے کہ وہ کبھی زنا یا چوری کی لغزش میں بھی مبتلا ہو جائے“.کیونکہ پہلی حالت میں تو اصل اور مستقل حالت کی طرف اشارہ ہے اور دوسری حالت میں وہ عارضی لغزش بتائی گئی ہے جو کبھی کسی وقتی ظلمت کے نیچے ایک مومن پر بھی آسکتی ہے مگر اس کے بعد ایک سچا مومن ہوشیار ہوکر فورا استنجل جاتا ہے.فافهم وتدبّر.195

Page 206

کی عمارت تیار ہو سکتی ہے مگر مومن وہ صرف اُسی وقت کہلائے گا کہ جب رسمی تا شیرات کے علاوہ وہ خود علی وجہ البصیرت خدا کی ہستی کو محسوس و مشہور کر کے اس کے متعلق ایک ذاتی اور زندہ یقین قائم کر لے گا ایسا یقین جیسا کہ وہ اس مادی دنیا کی چیزوں کے متعلق رکھتا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ عموماً دنیا میں جس ایمان کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ اوّل تو محض دکھاوے کا دعویٰ ہوتا ہے ورنہ عموماً ایسا مدعی خود بھی محسوس کرتا ہے کہ میرا دل شکوک وشبہات سے لبریز ہے دوسرے اگر وہ خود اس بات کو محسوس نہ بھی کرتا ہو اور یہی سمجھتا ہو کہ میں واقعی ایمان پر قائم ہوں تو پھر بھی وہ محض رسمی ایمان کے ماتحت ایسا سمجھتا ہے اور دراصل اس کا دل حقیقی ایمان پر قائم نہیں ہوتا.یعنی وہ فریب خوردہ ہوتا ہے اور اگر وہ اپنی حالت پر غور کرے تو بسا اوقات خود بھی سمجھ سکتا ہے کہ میرا ایمان محض ایک رسمی ایمان ہے.تیسری حالت وہ ہے کہ ایک انسان رسمی ایمان کی حد سے تو ترقی کر لیتا ہے یعنی خود اپنے غور وخوض سے خدا کے متعلق ایک رنگ کے ایمان پر قائم ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں دلائل قویہ سے اس بات پر قائم ہو چکا ہوں کہ خدا ہے لیکن پھر بھی درحقیقت وہ مومن نہیں ہوتا کیونکہ جس چیز کو وہ ایمان سمجھتا ہے وہ خدا پر ایمان نہیں ہوتا بلکہ محض اس خیال پر ایمان ہوتا ہے کہ کوئی خدا ہونا چاہئے.یعنی وہ عقلی دلائل سے اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کارخانہ کا کوئی خالق ہونا چاہئے اور صرف اتنے ہی احساس سے وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں نے خدا کو پالیا اور میں اُس پر ایمان لے آیا.حالانکہ دراصل اس نے خدا کو نہیں پایا بلکہ صرف اس خیال کو پایا ہے کہ کوئی خدا ہونا چاہئے مگر اپنی نادانی یا سادگی سے وہ اسی کو خدا کا پانا اور خدا کا ایمان لانا قرار دیتا ہے حالانکہ خدا پر ایمان لانا اور اس کو پالینا تو تب سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ واقعی خدا تک پہنچ گیا ہو اور اسے پتہ لگ گیا ہو کہ خدا ہے یعنی ” ہونا چاہئے“ کے مقام سے ترقی کر کے وہ " ہے" کے مقام تک پہنچ گیا ہو اور اس نے خدا کو عملاً پا لیا ہو جس کے یہ معنے ہیں کہ اُس نے خدا کی ہستی عملاً محسوس و مشہور کر لی ہے اور اپنی روحانی آنکھوں سے اُسے اسی طرح دیکھ لیا ہے جس طرح مثلاً وہ جسمانی آنکھ سے اپنے باپ کو دیکھتا ہے یا بیٹے کو دیکھتا ہے یا سورج کو دیکھتا ہے یا اور مادی چیزوں کو دیکھتا ہے.یہ وہ حالت ہے جسے ایمان کی چوتھی حالت کہنا چاہئے اور 196

Page 207

یہی وہ ایمان ہے جو خدا کے نزدیک اور اس کے نبیوں کے نزدیک سچا ایمان کہلاتا ہے اور جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ انسان آگ میں جانا قبول کرتا ہے مگر ایمان کو نہیں چھوڑتا.پس ایمان کی حالتیں چار ہوئیں.اوّل دکھاوے کا ایمان.دوسرے رسمی ایمان.تیسرے ” ہونا چاہیئے والے مرتبے کا ایمان.چوتھے ” ہے“ کے مرتبے والا ایمان.اور یہی آخری ایمان اصل ایمان ہے.گویا یوں سمجھنا چاہئے کہ پہلی حالت حالت نفاق ہے دوسری حالت حالت جہالت ہے.تیسری حالت حالت فلسفہ ہے.چوتھی حالت حالت ایمان ہے.یا یوں سمجھنا چاہئے کہ پہلی حالت حالت اعراض ہے.دوسری حالت حالت غفلت ہے.تیسری حالت حالت تلاش ہے.چوتھی حالت حالت وصل ہے.اب دیکھو کہ مسلمانوں میں کتنے ہیں کہ جو اصل ایمان کی حالت پر قائم ہیں.ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان کہلانے والوں میں بہت بڑا حصہ پہلی دو حالتوں میں ہی اسیر ہے اور بہت ہی کم لوگ ہیں جو ان دو حالتوں سے باہر پائے جاتے ہیں اور جو تھوڑے بہت لوگ ان دو حالتوں سے باہر ہیں وہ تیسری حالت میں بھٹک رہے ہیں اس سے آگے نہیں.والشاذ کالمعدوم.عوام کے متعلق تو کیا کہنا ہے علماء جو دین کی گڈی کے وارث بنتے ہیں اور جن کا کام لوگوں میں ایمان پیدا کرنا ہے خود ان کا اپنا یہ حال ہے کہ پہلی اور دوسری حالت کی تاریکیوں میں گھرے ہوئے ہیں.آزاد طبع طبقہ میں جونئی روشنی کے دلدادہ کہلاتے ہیں.بعض ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جن کی حالت تیسری حالت کے مشابہ ہے مگر علماء میں الا ماشاء اللہ تیسری حالت پر بھی کوئی شخص قائم نظر نہیں آتا.جسے شک ہو وہ علماء کی حالت کا بطور خود مطالعہ کر کے دیکھ لے.بیشک حضرت مرزا صاحب کے دعوے سے پہلے مسلمان علماء میں بعض نیک طبع اور صالح لوگ موجود تھے مگر وہ یا تو آپ کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہوگئے یا آپ کے دعوے سے پہلے ہی گذر گئے.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں.تقویٰ کے جامے جتنے تھے وہ چاک ہو گئے جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہو گئے 197

Page 208

کچھ کچھ جو نیک مرد تھے وہ خاک ہو گئے باقی جو تھے وہ ظالم و سفاک ہو گئے پس عزیز و اور دوستو ! بت پرستی صرف یہی نہیں کہ پتھر یا لکڑی یا لوہے کا بت بنا کر اُسے سجدہ کیا جائے بلکہ ہر ایک چیز جو خدا کے رستہ میں روک ہو جاتی ہے وہ ایک بت ہے.یعنی ہر وہ چیز جس سے انسان ایسی محبت کرتا ہے جو خدا سے کرنی چاہئے.یا اس سے ایسا ڈرتا ہے جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے.یا اُس پر ایسا بھروسہ کرتا ہے جیسا کہ خدا پر کرنا چاہئے وہ ایک بت ہے جس کے سامنے وہ ہر دم سر بسجود ہے.حضرت مرزا صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ہر کہ غیر خدا بخاطر تست آں بُت تست اے بایماں سست پر حد زباش زیں بتان نہاں دامن دل زدست شاں بُرہاں چیست قدرے کسے کہ شیر کش کار چول زن زانیہ ہزارش یار یعنی ” تمہارے دل میں جو خیال بھی خدا کے سوا یعنی اس سے جُدا ہو کر اور اُس کے مقابل پر جاگزین ہے وہ ایک بت ہے جسے تم پوجتے ہو.پس تمہیں چاہئے کہ ان مخفی بتوں سے بیچ کر رہو کیونکہ اس شخص کی کوئی قدر و قیمت نہیں جس کا دل شرک کے خیالات میں پھنسا ہوا ہے اس کا حال ایسا ہی ہے جیسے کہ اُس بد کار عورت کا جو ایک پاکباز خاوند کو چھوڑ کر ہزاروں یاروں کے ساتھ تعلق قائم کرتی پھرتی ہے.“ اب غور کرو کہ کتنے لوگ ہیں جو بچے موحد ہیں اور کسی قسم کی بت پرستی کا شائبہ اپنے اندر نہیں رکھتے یوں کہنے کو تو ہر مسلمان موحد ہے مگر کیا یہ درست نہیں کہ وہ دل میں سینکڑوں، ہزاروں بت لئے ہوئے ہے جن کے سامنے وہ ہر آن سجدہ کر رہا ہے.یہ خدا کے متعلق ایمان کا حال ہے پھر ملائکہ اور بعث بعد الموت اور جنت و دوزخ اور تقدیر خیر و شر یعنی یہ کہ خدا ہی اس کا رخانہ کو چلا رہا ہے اور یہ کہ خواص الاشیاء سب اُسی کی طرف سے ہیں.وغیرہ وغیرہ.یہ سب باتیں جو اصول مذہب میں داخل ہیں مسلمانوں کی زبان پر تو بے شک ہیں اور ان میں بعض یہ بھی سمجھتے ہونگے کہ یہ باتیں ہمارے دل میں بھی ہیں، لیکن اگر اس اصول کے مطابق آزمایا جائے جو ہم نے ایمان باللہ 198

Page 209

کے متعلق لکھا ہے تو صاف ظاہر ہو جائے گا کہ جو کچھ ہے وہ صرف زبان ہی پر ہے دل میں کچھ بھی نہیں.چونکہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گئے ہیں اس لئے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسی وجہ سے بعض اوقات مذہبی غیرت بھی دکھاتے ہیں.مگر یہ غیرت صرف قومی رنگ میں ہوتی ہے نہ کہ مذہبی رنگ میں.اس زمانہ میں قوم کے لفظ نے بھی مذہب کو سخت نقصان پہنچایا ہے.اب گو یا اسلام کسی مذہب کا نام نہیں بلکہ اس حالت اجتماعی کا نام ہے جو مسلمان کہلانے والوں میں پائی جاتی ہے اور یہ ایک خطر ناک نظریہ ہے جو مسلمانوں کو ہر لحظہ نیچے گرا تا جارہا ہے.اسی لئے ہم احمد سہی لوگ اپنے افراد میں اور خصوصاً اپنے بچوں میں قوم کا لفظ عموماً نہیں آنے دیتے.یعنی قومی خدمت.قومی قربانی.قومی کام وغیرہ الفاظ کے استعمال کرنے سے حتی الوسع روکتے ہیں اور ان کی جگہ دینی خدمت یا جماعت کی خدمت یا اسلام کی خدمت یا جماعت کا کام یا دینی کام یا دین کے لئے قربانی وغیر ہ الفاظ استعمال کرتے اور استعمال کئے جانے کی تاکید کرتے ہیں تا ہمارے خیالات کا مرکزی نقطہ قوم نہ ہو جسے صرف نام سے تعلق ہوتا ہے بلکہ دین و مذہب ہو جسے حقیقت سے تعلق ہے جو شخص اس حقیقت سے منحرف ہوگا خواہ وہ نام ہمارے ساتھ ہو اور قومی رنگ میں ہمارا ایک فرد ہو.مگر وہ ہم سے نہ رہے گا کیونکہ جو رشتہ اُسے اور ہمیں باہم باندھ رہا تھا وہ منقطع ہو گیا اور صرف نام رہ گیا.مسلمان جب سے اس نکتہ کو بھولے ہیں اُن کا قدم ہر لحظہ تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے مگر افسوس ہے کہ پھر بھی وہ آنکھیں نہیں کھولتے.ایمان کی علامتیں اب میں یہ بتاتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے اس کھوئے ہوئے ایمان کو واقعی دنیا میں قائم کیا ہے.ظاہر ہے کہ ایمان اُن چیزوں میں سے نہیں ہے جو مادی ہیں اور ظاہری حواس سے محسوس ہوسکتی ہیں.بلکہ ایمان ایک قلبی کیفیت کا نام ہے جس کا علم اس کے آثار کے مشاہدہ سے ہوتا ہے.مثلاً محبت کا جذبہ ہے اب کوئی شخص اس جذبہ کو محسوس نہیں کر سکتا، لیکن جب اس جذبہ کے آثار ظاہر ہوتے ہیں تو پھر محبت پہچانی جاتی ہے.مثلاً زید کو خالد سے محبت ہے اب جب بکر کوزید کی 199

Page 210

اس محبت کا علم ہوگا تو اس طرح نہیں ہوگا کہ زید کی محبت مجسم ہو کر اُس کے سامنے آجائے گی.بلکہ اس طرح ہوگا کہ جب زید کے قول و فعل میں وہ ایسی باتیں دیکھے گا جن کے ذریعہ دنیا میں محبت کا اظہار ہوا کرتا ہے تو وہ اُس سے زید کی محبت کو پہچان لے گا.اسی طرح مثلاً غضب کا جذبہ ہے جو خود تو نظر نہیں آتا لیکن جب ہم ایک شخص کو ایک ہیئت میں دیکھتے ہیں اور ہم اپنے گذشتہ علم سے یہ جانتے ہیں کہ یہ ہیئت غضب کے وقت میں ہوا کرتی ہے تو ہمیں یہ علم حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ شخص اس وقت حالت غضب میں ہے الغرض غیر مادی اشیاء ظاہر میں محسوس نہیں ہوتیں مگر اُن کے آثار سے اُن کے وجود کا پتہ چلتا ہے اور یہ علم ایسا ہی یقینی ہوتا ہے جیسا کہ مادی اشیاء کے مشاہدات سے حاصل ہونے والا علم.پس ایمان بھی چونکہ ایک غیر مادی شے ہے.اس لئے اس کا علم بھی ہمیں اسی طریق سے ہوسکتا ہے کہ ہم اس کے آثار کا مشاہدہ کریں اب چونکہ بغیر آثار کے مشاہدہ کے ایمان کا علم ناممکن ہے لہذا ایمان کا پتہ لگانے کے لئے اس کے آثار کا علم ضروری ہوگیا اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ وہ آثار یہ ہیں :- اول.مومن کے اعمال شریعت کے مطابق ہونگے.یعنی مومن وہی باتیں کرے گا جن کا شریعت نے حکم دیا ہے اور اُن باتوں سے بچے گا جن سے شریعت نے روکا ہے اور یہ مطابقت عبادات اور اخلاق اور معاملات وغیرہ سب پہلوؤں میں ظاہر ہوگی.دوم.مومن اسلام کے لئے پوری غیرت رکھے گا یعنی جب کوئی شخص اس کے سامنے اسلام پر قولاً یا فعلاً حملہ کرے گا تو وہ اسے کبھی گوارا نہیں کرے گا اور غیرت سے بھر جائے گا اور وہ دینی لحاظ سے بری صحبت کو کبھی پسند نہیں کرے گا اور کسی ایسی مجلس میں ہر گز نہیں بیٹھے گا جس میں اسلام کی باتوں پر جنسی اُڑائی جاتی ہو یا وہ خفت کی نظر سے دیکھی جاتی ہوں.سوم.مومن ہمیشہ تبلیغ اسلام کے کام میں اپنی طاقت کے مطابق مصروف رہے گا اور اُس کو یہ شوق ہوگا کہ جتنا وقت بھی نکال سکے اسلام کی تبلیغ میں خرچ کرے اور اسلام پر جو حملے ہوں ان کارڈ کرے اور باطل کا مقابلہ اور حق کی تائید کرتار ہے.چہارم.مومن اپنی تقریر و تحریر میں کثرت کے ساتھ خدا اور اُس کے رسول اور اس کی 200

Page 211

کتاب اور اُس کے اولیاء کا ذکر کرے گا اور اس کی ہر بات سے خدا اور اُس کے رسول اور اُس کے دین کی محبت ٹپکے گی اور وہ صلحاء کی صحبت کو پسند کرے گا.پنجم.مومن خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کو تیار ہوگا.اپنے خیالات کی.اپنے دوستوں کی.اپنے ملک کی.اپنے عزیز واقارب کی.اپنے مال و دولت کی.اپنے آرام و راحت کی.اپنی تمام محبوب و مرغوب چیزوں کی.اپنی اولاد کی.حتی کہ اپنی جان کی.اور اپنی عزت و آبرو کی بھی.اور کوئی چیز خدا اور رسول اور دین حق کے رستے میں اسکے لئے روک نہیں ہوگی اور موقعہ آنے پر وہ کسی چیز کے قربان کر دینے سے دریغ نہیں کرے گا.یہ وہ پانچ موٹی موٹی باتیں ہیں کہ جب وہ کسی میں پائی جائیں تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ اُس کے دل میں ایمان داخل ہو چکا ہے اور وہ حلاوتِ ایمان جس کا احادیث میں ذکر آیا ہے اُسے حاصل ہو چکی ہے.بشرطیکہ یہ باتیں اُس کے اندر اس عارضی کیفیت کے طور پر نہ پائی جائیں جو کسی وقتی تحریک یا عارضی جوش سے پیدا ہو جاتی ہیں بلکہ مستقل اور محکم طریق پر اس کے اندر موجود ہوں اور ہر حالت میں اس کے دم کے ساتھ رہیں.اب ہم ان علامات کو الگ الگ لیکر جماعت احمدیہ کی ایمانی حالت کا امتحان کرتے ہیں.اگر جماعت احمدیہ میں یہ علامتیں دوسروں کے مقابلہ پر ممتاز طور پر پائی جائیں تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ حضرت مرزا صاحب نے واقعی کھوئے ہوئے ایمان کو دنیا میں قائم کر دیا ہے کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ علامات اس زمانے میں مسلمانوں کے تمام فرقوں میں مفقود ہو چکی ہیں.ایمان کی پہلی علامت پہلی علامت ایمان کی یہ ہے کہ اعمال شریعت کے مطابق ہوں.سو الحمد للہ کہ احمدیہ جماعت نے مجموعی حیثیت میں یہ علامت ایسے نمایاں طور پر ظاہر کی ہے کہ غیر متعصب دشمن بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا.صد با لوگ ایسے ہوں گے جو احمدی ہونے سے پہلے زنا.شراب.اکل بالباطل.رشوت ستانی - قمار بازی.ظلم تعدی وغیرہ منہیات شرعیہ میں مبتلا تھے.اور بیسیوں 201

Page 212

ایسے تھے جو چوری اور ڈا کے جیسے خطر ناک جرائم میں مشاق و طاق تھے لیکن احمدی ہونے کے ساتھ ہی وہ گو یا بالکل نئے انسان بن گئے.جو لوگ کبھی فرض نماز کے بھی قریب نہ گئے تھے وہ ایسے نمازی ہو گئے کہ اگر ان سے کبھی تہجد کی نماز بھی رہ جائے تو انہیں گھنٹوں افسوس رہتا ہے.جو لوگ رمضان کے مبارک مہینے میں بھی کوئی روزہ نہ رکھتے تھے اب وہ رمضان کے علاوہ سال میں کئی نفلی روزے بھی رکھنے لگے.اسی طرح دوسری عبادات کا حال ہے.معاملات میں بھی ایک بہت بڑا تغیر نظر آتا ہے بیشک ہم میں بعض کمزور بھی ہیں.لیکن بعض کا کمزور ہونا جماعت کی مجموعی حالت پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتا.جب ایک جماعت تیار ہوتی ہے تو سب ایک جیسے نہیں ہوا کرتے.بلکہ بعض اچھے ہوتے ہیں.بعض متوسط ہوتے ہیں اور بعض کمزور بھی ہوتے ہیں اور پھر بعض منافق بھی ہوتے ہیں.صحابہ کی مقدس جماعت کا بھی یہی حال تھا اگر چہ ان کا طہارت و پاکیزگی میں بے نظیر ہونا مسلم ہے لیکن پھر بھی اُن میں سب ابو بکر و عمر وعثمان وعلی رضی اللہ عنہم جیسے نہیں تھے بلکہ بعض متوسط تھے اور بعض کمزور اور پھر بعض ایسے بھی تھے جو جیسا کہ قرآن وحدیث میں مذکور ہے منافقانہ طور پر اُن میں ملے جلے رہتے تھے.ایک مدرسہ کی اچھی سے اچھی جماعت کو لے لو.اُس میں بھی سب ایک جیسے نہیں ہونگے.پس دیکھنا یہ چاہئے کہ بحیثیت مجموعی کسی جماعت کا کیا حال ہے یا اس طرح مقابلہ ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ہم میں سے اعلیٰ پایہ کے ہیں اُن کا دوسری مسلمان کہلانے والی جماعتوں کے اچھے آدمیوں سے مقابلہ کیا جائے اور جو متوسط درجہ کے ہیں.اُن کا متوسط طبقہ سے مقابلہ کیا جائے اور جو لوگ ہم میں سے کمزور ہیں ان کا دوسرے فرقوں کے کمزور آدمیوں سے مقابلہ کیا جائے پھر پتہ لگے گا کہ کونسی جماعت اصلاح یافتہ ہے اور کونسی نہیں.ہم دعوی سے کہتے ہیں.ولا فخر.اور کوئی منصف مزاج شخص اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضرت مرزا صاحب کے ساتھ تعلق قائم کر کے احمدیوں نے نہایت نمایاں تغیر پیدا کیا ہے اور یہ ایک بین حقیقت ہے کہ شریعت اسلامی پر کار بند ہونے اور اپنی طرز و روش کو قرآن و حدیث کے مطابق رکھنے میں احمد یہ جماعت تمام دوسرے فرقہائے اسلام سے نہ صرف ممتاز ہے بلکہ نہایت نمایاں طور پر ممتاز ہے اور عبادت الہی اور تقویٰ وطہارت اور دیانت داری میں بحیثیت 202

Page 213

مجموعی نہایت اعلیٰ نمونہ رکھتی ہے.پھر ایک اور بات بھی ہے جو یا درکھنی چاہئے اور جو ایک صاحب دل کو بڑا لطف دے سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ہم احمدیہ جماعت کے افراد پر نظر ڈالیں اور غور سے ان کا مطالعہ کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ جماعت احمدیہ میں سے وہ لوگ جن کو حضرت مرزا صاحب کی صحبت کا زیادہ موقعہ ملا ہے.وہ دوسروں کی نسبت جن کو اُن سے کم موقعہ میسر آیا ہے یقینا بحیثیت مجموعی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں ان لوگوں کی پیشانی پر وہی نور ایمان اور وہی نور اخلاق چمکتا نظر آتا ہے جو صحابہ کرام میں پایا جاتا تھا.اُن کی ہر حرکت و سکون سے ایمان و عرفان کی کرنیں پھوٹتی ہیں یہ لوگ اگر دن کے وقت میدانِ خدمت دین کی صف اول میں نظر آئیں گے تو رات کو خدائی دربار میں کمر بستہ کھڑے دکھائی دیں گے جیسا کہ خود خدا نے بھی فرمایا ہے کہ ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَ ثُلَّةٌ مِنَ الْآخَرِينَ (سورۃ واقعہ ع ۲ ) یعنی ” جس طرح نیک لوگوں کی ایک بڑی جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہے اسی طرح ایک بڑی جماعت آخرین میں بھی پائی جائیگی.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِيْنَ_امين_ ایمان کی دوسری علامت دوسری علامت ایمان کی یہ ہے کہ مؤمن غیرت ایمانی دکھاتا ہے اور ایمان کے خلاف کوئی بات سُن کر آرام سے نہیں بیٹھ سکتا.اور بے دینوں سے جو دین پر تمسخر اڑاتے ہیں کنارہ کشی کرتا ہے اب دیکھو اس علامت سے بھی صرف احمد یہ جماعت ہی ایمان پر قائم ثابت ہوگی آج کل عموماً مسلمانوں میں اور خصوصاً انگریزی خوانوں میں جو گندی ہو ا مادیت اور دین سے بے رغبتی کی چلی ہوئی ہے یہ کوئی منفی بات نہیں مگر احمدی جماعت کے اس طبقہ میں بھی ایمانی غیرت اور بدصحبت سے عموماً نفرت پائی جائے گی.کوئی سچا احمدی دین کے خلاف بات سن کر یا دیکھ کر خاموش نہیں رہے گا بلکہ تم دیکھو گے کہ وہ اپنے قول سے یا اپنے فعل سے اپنی نفرت کا اظہار کرنے سے نہیں رکے گا اور اس صحبت سے پر ہیز کرے گا جس میں دین کی خفت ہوتی ہو یا اُس پر ہنسی اڑائی جاتی ہو.یہ بات 203

Page 214

دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے زیادہ کیا لکھا جائے جود یکھتے ہیں وہ جانتے ہیں.ایمان کی تیسری علامت تیسری علامت یہ بیان ہوئی تھی کہ مومن تبلیغ حق میں مصروف رہتا ہے اور اُسے گویا ہر وقت یہ دھن لگی رہتی ہے کہ اسلام کی خوبیاں لوگوں تک پہنچائے اور دنیا سے باطل کو مٹانے اور حق کو قائم کرنے اور تبلیغ حق کے لئے اپنے وقت اور اپنے مال کو قربان کرنے سے دریغ نہ کرے اور جب اسلام پر کوئی حملہ ہو تو فوراً اس کے رڈ کے لئے کمر بستہ ہو جائے اب دیکھو اس علامت سے بھی احمد یہ جماعت کا ایمان اظہر من الشمس ہے ہر احمدی ایک سرگرم مبلغ نظر آئے گا اگر کوئی شخص کسی آزاد پیشہ میں ہے تو وہیں اس کا تبلیغی کام جاری ہوگا.تاجر ہے تو اپنے ملنے والوں کو حق پہنچا تا ہوگا.زمیندار ہے تو اپنے حلقہ میں ہی جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف ہوگا.غرض احمد یوں میں ہر شخص اپنی اپنی جگہ اسلام کی خدمت میں لگا ہوا ملے گا.طالب علم ہے تو وہ مبلغ ہے.استاد ہے تو وہ مبلغ ہے خادم ہے تو وہ مبلغ ہے.آقا ہے تو وہ مبلغ ہے.ناخواندہ ہے تو وہ مبلغ ہے.عالم ہے تو وہ مبلغ ہے.بچہ ہے تو وہ مبلغ ہے.بوڑھا ہے تو وہ مبلغ ہے.مرد ہے تو وہ مبلغ ہے.عورت ہے تو وہ مبالغ ہے.غرض جو بھی سچا احمدی ہے خواہ وہ کچھ بھی ہو مگر مبلغ ضرور ہے گذشتہ دنوں ہی کی بات ہے کہ جب ہنر رائل ہائی نس پرنس آف ویلز ہندوستان تشریف لائے تو عدم تعاون والوں کو یہ فکر تھا کہ کوئی ان کو دیکھنے تک نہ جائے جو لوگ تعاون کا دم بھرتے تھے اُن کی یہ آرزو تھی کہ شہزادہ والا تبار کو دیکھیں اور ہو سکے تو اُن سے ملاقات بھی کریں.کوئی خوش آمدید کا ایڈریس پیش کریں اور کوئی جشن اور میلے قائم کریں کوئی تماشے اور نمائشیں دکھائیں یا کوئی اور عجیب عجیب منظر پیش کریں.ہر چند کہ یہ جذ بہ بھی چونکہ اظہار محبت و احترام کے لئے تھا اس لئے قابل قدر تھا.مگر ذرا دیکھو کہ احمدیہ جماعت کو اس موقعہ پر کیا سوجھتی ہے.جب وہ سنتے ہیں کہ شہزادہ عالی جاہ ہمارے وطن میں تشریف لاتے ہیں تو سب سے پہلا خیال جو اُن کو آتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک بہت عمدہ موقعہ ہے آؤ ہم اس موقعہ پر شہزادہ کو حق کی طرف دعوت دیں چنانچہ با وجود تنگی وقت کے قریبا بتیس ہزار احمدی 204

Page 215

زن ومرد.خورد و کلاں.امیر وغریب فوراً ایک ایک آنہ چندہ دیکر اور ایک عظیم الشان تبلیغی تحفہ چھپوا کر شہزادہ کے حضور پیش کر دیتے ہیں اور اُن کو اسلام کی طرف بلاتے اور اسلام کی خوبیاں اُن تک پہنچاتے ہیں.یہ تحفہ جماعت احمدیہ کے امام حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے تیار کیا اور جماعت کی طرف سے پیش کیا گیا.غرض یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر تبلیغی ولولہ اور خدمتِ دین کا جوش احمد یہ جماعت میں نظر آتا ہے اس کا عشر عشیر بھی دوسری جگہ نہیں پایا جاتا.ایمان کی چوتھی علامت چوتھی علامت یہ ہے کہ مومن کی زبان پر کثرت کے ساتھ خدا اور اس کے رسول کا ذکر پایا جائے گا اور اس کے ہر قول و فعل سے خدا اور اس کے رسول اور اس کے اولیاء اور صلحاء کی محبت ٹیکے گی.سو اس علامت کے مطابق بھی دیکھ لو کہ صرف احمدیہ جماعت کا ایمان ہی سچا ایمان ثابت ہو گا.آج کل تمام اسلامی دنیا خدا اور اس کے رسول کے نام کو بھولی ہوئی ہے اور اگر کبھی کوئی یا دبھی کرتا ہے تو نہ اس طور پر کہ خدا اور اس کا رسول حقیقی مقصود ومحبوب ہیں بلکہ محض ایک وقتی جوش اور ظاہری غیرت کے رنگ میں.مگر احمد یہ جماعت کے اکثر افراد ایسے ملیں گے جن کے کلام کا بیشتر حصہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے مقربین اور اس کے دین کے ذکر پر مشتمل ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ دوسرے لوگ تنگ آکر کہہ دیتے ہیں کہ احمدیوں کو تو ان باتوں کا جنون ہے اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ریل کے سفر میں جب کہ دوسرے لوگوں کو باہم تفریح کی باتوں کا خیال ہوتا ہے ایک احمدی کو وہاں بھی خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین کا ہی ذکر سوجھتا ہے.غرض جس طرح ایک عاشق صادق ہر وقت اپنے معشوق کے ذکر میں اپنی غذا پاتا ہے اسی طرح احمد یہ جماعت کے اکثر افراد خدا اور اس کے رسول اور اُس کے دین کے ذکر میں اپنی خوراک پاتے ہیں اور جہاں دوسرے لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ دین کے ذکر سے بالکل غافل ہیں اور اگر خدا اور اس کے رسول کا ذکر کرتے بھی ہیں تو محض خشک مولو یا نہ رنگ میں جس میں محبت کی ذرا بھی بو نہیں ہوتی.یا پھر سطحی قومی غیرت کے رنگ میں جو قلبی حقیقت سے خالی ہوتی ہے وہاں بفضلہ تعالیٰ 205

Page 216

احمدیوں کی بات بات سے خدا اور اُس کے رسول اور اس کے دین سے عشق و محبت کی معطر لپٹیں پھوٹ پھوٹ کر نکلتی ہیں.محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو بچھپا نہیں رہ سکتا.عاشق کی ہر بات اور ہر حرکت اور ہر سکون اس کے عشق کی کہانی کہے دیتے ہیں.اس کی زبان اُس کا راز افشاء کر دیتی ہے.اسکا چہرہ اس کا بھید کھولتا ہے اس کی آنکھیں اس کی ترجمانی کرتی ہیں اور الحمد للہ کہ جماعت احمدیہ میں یہ علامت بھی نمایاں طور پر پائی جاتی ہے.مگر جس کے کان نہیں وہ کیا سنے.جس کی آنکھیں نہیں وہ کیا دیکھے جس کا دل نہیں وہ کیا سمجھے.ایمان کی پانچویں علامت پانچویں علامت ایمان کی یہ ہے کہ مومن ایمان کی خاطر اپنی ہر چیز قربان کر دینے کو تیار ہوتا ہے.اپنا مال.اپنے عزیز.اپنی جان اور اپنی آبرو.یعنی جب کبھی حالات ایسے پیدا ہوتے ہیں کہ اُسے اپنے ایمان اور اپنی کسی دوسری چیز میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑتا ہے اور یہ ناممکن ہو جا تا ہے کہ وہ دونوں کو بچا سکے تو وہ ایمان کو اختیار کرتا ہے اور دوسری چیز کو چھوڑ دیتا ہے اب دیکھو کہ الحمد للہ اس علامت کی رُو سے بھی صرف احمد یہ جماعت ہی وہ جماعت ثابت ہوتی ہے جو بچے معنوں میں ایماندار کہلا سکے کیونکہ یہ ایک بین حقیقت ہے کہ احمد یہ جماعت میں سے بیشتر حصے نے ایمان کو بڑی بڑی گرانقدر قیمتیں دے دے کر خریدا ہے.ایمان کی خاطر مالی قربانی کا ذکر او پر گذر چکا ہے کہ کس طرح باوجود پرلے درجہ کی غربت کے یہ جماعت لاکھوں روپیہ تبلیغ اسلام کی خاطر خرچ کر رہی ہے قریباً سب ایسے ہیں جو اپنی اپنی آمد کا سولھواں حصہ با قاعدہ خدمت دین کے لئے دیتے ہیں.کثیر التعداد ایسے ہیں جو دسواں حصہ دیتے ہیں.بہت ہیں جو پانچواں حصہ دیتے ہیں.کئی ہیں جو تیسرا حصہ دیتے ہیں اور بعض نے تو قوت لایموت سے زیادہ اپنے مصرف میں لانا اپنے او پر حرام کر رکھا ہے.مگر یہ اس حالت میں ہے کہ اس سے زیادہ اُن سے مانگا نہیں جاتا.ورنہ جماعت کی کانفرنسوں میں متعد دمرتبہ یہ بات تجربہ میں آچکی ہے کہ احمدیوں نے نہایت جوش اور مسرت سے یہ کہا ہے کہ اگر دین کے لئے ضرورت پیش آئے تو ہمارا سب کچھ حاضر ہے گذشتہ دنوں 206

Page 217

میں جماعت کے بڑھتے ہوئے اخراجات نے ہمارے بیت المال پر غیر معمولی بار ڈالا تو بہت سے لوگوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی یعنی جماعت کے امام کو لکھا کہ ہم اپنی تمام جائیداد میں اور اموال حضور کے گلی اختیار میں دیتے ہیں جس طرح چاہیں تصرف میں لائیں.رشتہ داروں کی قربانی کے موقعے بھی احمدیوں میں سے ہزاروں کو پیش آئے اور الحمد للہ کہ اکثر ( والشاذ كالمعدوم ) اس امتحان میں کامیاب نکلے ہیں.بعضوں کو اپنے ایمان کی خاطر اپنے والدین کو چھوڑنا پڑا.( یعنی قرآنی تعلیم کے ماتحت اُن کی مرضی اور خواہش قربان کر دینی پڑی ) اور انہوں نے ایمان کو اختیار کیا اور خدا کی خاطر والدین کو چھوڑ دیا.بعضوں نے اپنی اولاد کو چھوڑا بعضوں نے اپنی بیویوں کو چھوڑا مگر ایمان کو نہ چھوڑا.انہوں نے دین کے رشتہ کو اختیار کیا اور دنیوی رشتوں کو قربان کر دیا.ایسی مثالیں بیسیوں نہیں سینکڑوں نہیں ہزاروں ہیں.جان کی قربانی اس رنگ میں تو اکثر نے کر دکھائی ہے کہ اپنی تمام طاقتیں دین کے لئے وقف کر رکھی ہیں.مگر جان کی حقیقی قربانی کا موقعہ احمدیوں کو ہندوستان میں پیش نہیں آیا جس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ایک پر امن و مستحکم حکومت قائم تھی جس نے مذہبی آزادی دے رکھی تھی اور قتل و غارت اور خون خرابے کا میدان گرم نہیں ہونے دیتی تھی اس لئے خدا نے ہندوستان میں احمدیوں کو خونی امتحان سے محفوظ رکھا ہے گو بدنی تکالیف اور ایڈا کے متعد دمواقع یہاں بھی پیش آئے ہیں اور احمدیوں نے اس امتحان کو بطیب خاطر برداشت کر کے اس بات کا ثبوت دے دیا ہے کہ وہ ہر قسم کی بدنی قربانی کے لئے تیار ہیں.یہ لکی تقسیم سے پہلے کا نوٹ ہے.بعد کے حالات کو خدا جانتا ہے.مولف ) مگر ہاں ہندوستان سے باہر احمدیوں کو جان کی قربانی کے مواقع بھی پیش آئے ہیں اور غالباً ناظرین جانتے ہوں گے کہ حضرت مرزا صاحب کے حلقہ بگوشوں نے کس صبر بلکہ کس خوشی سے اس امتحان کو قبول کیا ہے.افغانستان میں امیر عبدالرحمن خان اور پھر امیر حبیب اللہ خاں کے عہد میں دو مقدس انسان جن میں سے ایک یعنی صاحبزادہ مولوی سید عبداللطیف صاحب علمی لحاظ سے نہایت جلیل القدر اور عظیم المرتبت بزرگ ہونے کے علاوہ دنیوی وجاہت کے لحاظ سے بھی ایک بڑے معزز رئیس اور ہزار ہا آدمیوں کے مقتداء تھے وہ محض احمدی ہونے کی 207

Page 218

وجہ سے نہایت ظالمانہ طور پر قتل کئے گئے انہوں نے موت قبول کر لی لیکن ایمان کو چھوڑ نا گوارا نہ کیا.مولوی سید عبداللطیف صاحب شہید کا وہ پایہ تھا کہ امیر حبیب اللہ خان کی تاجپوشی کی رسم انہوں نے ادا کی تھی اور دربارشاہی میں ان کو بڑا رسوخ حاصل تھا.مگر جب خدا نے ان کو حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ وہ ایمان عطافرما دیا جو دنیا سے گم ہو چکا تھا تو انہوں نے اس ایمان کی خاطر تمام دنیوی وجاہتوں پر لات مار دی تھی.حتی کہ اپنی جان کی بھی کچھ پرواہ نہ کی.امیر حبیب اللہ خان نے اُن کو بار بار سمجھایا کہ اگر تم احمدیت سے باز آ جاؤ گے تو میں تمہیں پھر پہلے کی طرح معزز کر دوں گا اور تمہاری عزت بڑھا دوں گا.ورنہ تمہاری سزا موت ہے اگر تمہیں اپنی حالت پر رحم نہیں آتا تو اپنے بیوی بچوں پر ہی رحم کرو اور اپنے ان خیالات سے تو بہ کر لو.مگر انہوں نے ہر دفعہ یہی جواب دیا کہ میں ایمان پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دے سکتا.فاقض ما انت قاض انّما تقضى هذه الحيوة الدنيا ( یعنی آپ کے جی میں جو آئے کر گزریں.بہر حال آپ کا فیصلہ صرف اسی دنیا تک محدود ہے ) آخر جب امیر نے دیکھا کہ کابل کے مولویوں نے اُن پر کفر کا فتویٰ لگادیا ہے اور لالچ اور خوف ان کو ایمان سے نہیں پھیر سکتے تو اُس نے حکم دیا کہ ان کو کمر تک زمین میں گاڑ کر اوپر سے پتھر برسائے جائیں چنانچہ اُن کو اسی طرح زمین میں زندہ گاڑ دیا گیا اور اس کے بعد امیر پھر آگے بڑھ کر اُن کے پاس گیا اور کہا کہ اب بھی وقت ہے اپنے خیالات سے باز آجاؤ مگر ان کی طرف سے پھر وہی جواب تھا کہ میں ایمان فروشی نہیں کر سکتا.اس پر امیر نے حکم دیا کہ پتھراؤ کیا جائے.بس پھر کیا تھا چاروں طرف سے پتھر برسنے شروع ہو گئے مگر دیکھنے والے کہتے ہیں کہ شہید مرحوم نے اُف تک نہیں کی حتی کہ اس بے گناہ و مظلوم عاشق باری کی رُوح اس عالم سفلی سے عالم علوی کی طرف پرواز کر گئی.اسی طرح اس سے قبل مولوی سید عبداللطیف صاحب مرحوم کے شاگردمولوی عبدالرحمن خان صاحب امیر عبدالرحمن خاں کے حکم سے قتل کر دیئے گئے تھے انہوں نے بھی قتل کئے جانے کو قبول کیا تھا مگر ایمان کو نہ چھوڑا تھا پھر امیر امان اللہ خان کے عہد میں بھی ایک مخلص نوجوان مولوی نعمت اللہ خان صاحب احمدیت کی وجہ سے سنگسار کئے گئے انہوں نے بھی صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کی طرح جاں نثاری کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا اور اپنے ایمان 208

Page 219

پر ایک نہایت مضبوط چٹان کی طرح قائم رہے اسی طرح دو اور مخلص احمدی مولوی عبد العلیم صاحب اور مولوی نور علی صاحب اسی امیر امان اللہ خان کے زمانے میں شہید کئے گئے اور سب نے صبر و ثبات کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا.(مولوی عبد اللطیف صاحب کے قتل کے واقعہ کے لئے دیکھو انڈر دی ایب سولیوٹ امیر مصنفہ مسٹر مارٹن لیٹ انجینئر ان چیف کا بل.نیز دیکھو حضرت مرزا صاحب کی تصنیف ”تذکرۃ الشہادتین) اسی طرح بعض اور ملکوں میں بھی بے گناہ احمدیوں کو محض احمدیت کی وجہ سے قتل کیا گیا مگر انہوں نے احمدیت کا دامن نہ چھوڑا.الغرض احمد یہ جماعت نے ہر قسم کی قربانی کر کے اس بات پر مہر لگا دی ہے کہ اُن کی سب سے پیاری چیز ایمان ہے جس پر وہ ہر دنیوی چیز قربان کر دینے کو تیار ہیں.پس ثابت ہو گیا کہ ان میں وہ ایمان موجود ہے جس کے متعلق مخیر صادق نے خبر دی تھی کہ وہ دنیا سے اٹھ جائے گا مگر مسیح موعود اسے پھر دنیا میں لا کر قائم کرے گا.پس الحمد للہ کہ اس جہت سے بھی مسیح موعود کی علامت حضرت مرزا صاحب میں نمایاں طور پر پوری ہوئی.سچے ایمان پر خدائی مہر مگر اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ گو بندے کی طرف سے ایمان کی یہ پانچ موٹی علامتیں ہیں اور جس شخص میں یہ پائی جائیں اس کا مومن ہونا ثابت ہو جاتا ہے لیکن ان علامتوں کے علاوہ ایک علامت اور بھی ہے جو ان علامتوں کے لئے گویا مہر تصدیق کا کام دیتی ہے اور اس کے بعد کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی وہ یہ ہے کہ جب بندہ بچے ایمان کو اختیار کرتا ہے تو پھر خدا اس کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو اس نے سچے مومنوں کے ساتھ کرنے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے.مثلاً خدا تعالیٰ فرماتا ہے:- إِنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا.(سورۃ مومن ع ٦) اور لَهُمْ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا.(سورۃ یونس ع ) یعنی ”ہم اپنی نصرت دنیا میں بھی اپنے رسولوں اور سچے مومنوں کے ضرور شامل حال رکھیں 209

Page 220

گے.نیز فرمایا.رسولوں اور مومنوں کو اس دنیا میں ہی ہماری طرف سے رؤیا والہام کے ذریعہ بشارتیں ملاکریں گی.“ یہ وہ سرٹیفکیٹ ہے جو اس دنیا میں مومن کو خدا کی طرف سے ملتا ہے اور جس کے بعد اُس کے ایمان میں شک کرنا پرلے درجہ کی جہالت ہوتی ہے.گویا پہلی پانچ علامتیں بندہ کی طرف سے پوری کی جاتی ہیں اور یہ علامت خدا کی طرف سے ظاہر ہوتی ہے اور اس آخری علامت کا پایا جانا بھی ضروری ہوتا ہے تا حق و باطل میں التباس نہ ہو سکے.کیونکہ گو عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے.لیکن پھر بھی عوام کو دھوکا دینے کے لئے یا بعض صورتوں میں خود اپنے نفس کو ہی دھوکا دینے کے لئے انسان بعض اوقات غلط طور پر ایسا خیال کر لیتا ہے کہ مجھ میں ایمان کی علامتیں پائی جاتی ہیں.حالانکہ دراصل وہ نہیں پائی جاتیں.یا کسی دوسرے کے متعلق خیال کرتا ہے کہ اُس میں یہ علامتیں نہیں پائی جاتیں.حالانکہ دراصل وہ پائی جاتی ہیں تو ان صورتوں میں یہ آخری علامت جو خدا کی طرف سے ظاہر ہوتی ہے ایک فیصلہ کن معیار بن جاتی ہے اب دیکھ لو کہ اس علامت کی رُو سے بھی یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ احمدیہ جماعت ہی اس ایمان پر قائم ہے جس کو خدا نے ایمان قرار دیا ہے.حضرت مرزا صاحب کو کس طرح اپنے مخالفین کے مقابلہ میں نصرت الہی نے کامیاب کیا اس کی مختصر کیفیت او پر بیان ہو چکی ہے.اسی طرح اگر احمدیوں کے حالات پر بھی نظر ڈالی جائے تو صاف طور پر نصرت الہی اور بشارتوں کے وعدے اُن کے ساتھ کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور خدا کے فضل سے لاکھوں احمدیوں نے اپنی زندگی میں کسی نہ کسی رنگ میں خدائی نصرت کا مشاہدہ کیا ہے اور ہزاروں احمدی ایسے ہیں جن کو خدا نے رویائے صالحہ اور کشوف والہامات سے مشرف فرمایا ہے.وذلک فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم مسیح موعود کے کام کی تخمریزی مکمل ہو چکی ہے الحمدللہ کہ اب میں مسیح موعود کی دسوا میں علامت کے مطابق یہ بات ثابت کر چکا ہوں کہ 210

Page 221

حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ وہ کام بخیر و خوبی پورا ہو چکا ہے جو قرآن وحدیث میں بتایا گیا تھا.پس کوئی وجہ نہیں کہ آپ کے بعد کسی اور مسیح اور مہدی کا انتظار کیا جائے.خدا کا کوئی کام عبث نہیں ہوا کرتا.جب خدا نے وہ کام جو اس نے مسیح موعود اور مہدی معہود کے لئے مقرر کیا تھا حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ انجام دلوادیا تو پھر یہ خیال کرنا کہ اب کوئی اور شخص آکر اس کئے ہوئے کام کا پھر اعادہ کرے گا ایک لغو اور بے ہودہ خیال ہے.درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.پس اگر حضرت مرزا صاحب کے درخت نے مسیحی اور مہدوی پھل پیدا کیا ہے تو پھر انہیں مسیح اور مہدی نہ ماننے والا اور اُن کا انکار کرنے والا اپنا انجام خود سوچ لے.اور یہ کہنا کہ ابھی کامل طور پر اس کام کے آثار ظاہر نہیں ہوئے اور نتائج کے لحاظ سے ابھی اس کا دائرہ بہت محدود ہے ایک نادانی کا خیال ہے انبیاء اور مرسلین کا کام صرف بیج بونا ہوتا ہے جو بعد میں اُگتا اور بڑھتا اور پھولتا اور پھلتا ہے.اس لئے انبیاء کے واسطے جو کام مقرر ہوتے ہیں وہ کبھی ان کی زندگی میں مکمل نہیں ہوا کرتے بلکہ ان کے ہاتھ سے صرف ان کی تخمریزی کی جاتی ہے یہ ایک ایسی سنت ہے جو ہر نبی کے زمانہ میں پائی جاتی ہے.دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض قرآن شریف یہ بیان فرماتا ہے کہ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِيْنَ نَذِيرًا ( سورۃ فرقان ۱۶) نیز فرماتا ہے لِیظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه.(سورۃ تو بہ ) یعنی ” ہم نے اس رسول کو اس غرض سے بھیجا ہے تا وہ تمام دنیا کے لئے نذیر ہو اور ساری اقوام تک اپنا پیغام پہنچائے اور اسلام کو سب ادیان پر غالب کر دکھائے.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اسود و اخمر کے نام اسلام کا پیغام لیکر آیا ہوں مگر کیا حضور سرور کائنات کی زندگی میں تمام دنیا تک آپ کا پیغام پہنچ گیا تھا؟ کیا ساری اقوام کو آپ نے ڈرایا ؟ اور کیا سب مذاہب کے ساتھ آپ کا مقابلہ ہوا ؟ ہر گز نہیں.بلکہ آپ کی تبلیغ آپ کی حیات مبارکہ میں صرف عرب کے ملک یا عرب کے متصل بعض ممالک تک محدود رہی اور دنیا کے بیشتر حصہ اور کئی مذاہب تک تو آپ کا اسم مبارک تک بھی نہیں پہنچ سکا تھا تو کیا نعوذ باللہ آپ کامیاب نہیں ہوئے اور آپ کے ذریعہ وہ کام پورا نہیں ہوا جس کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے؟ ہر گز نہیں آپ " تو ایسے کامیاب ہوئے ہیں 211

Page 222

جس کی نظیر نہیں مل سکتی.پس ظاہر ہے کہ کسی مامور ومرسل کا جو کام بتایا جاتا ہے وہ کامل طور پر اس کی زندگی میں پورا نہیں ہو جایا کرتا بلکہ اس کے ذریعہ صرف اس کام کی تخمریزی ہوا کرتی ہے پھر بعد میں خدا تعالیٰ اس کے خلفاء اور اس کی جماعت کے ذریعہ آہستہ آہستہ اس کام کو انجام تک پہنچاتا ہے.ہاں اگر کسی مرسل کی زندگی میں اس کے کام کی تخمریزی کے آثار بھی ظاہر نہ ہوں تو یہ بات بیشک معاملہ کو مشتبہ کر دینے والی ہوگی لیکن یہ یقینی طور پر ثابت کیا جا چکا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ اس عظیم الشان کام کی کامل طور پر تخمریزی ہو چکی ہے جو مسیح موعود مہدی معہود کے لئے مقرر تھا.اب یہ تخم سنت اللہ کے مطابق بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گا اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے.ہمارے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( فداہ نفسی) نے اپنے کام کی تخمریزی کی اور جس نے حضور کے کام کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور منکر ہو گیاوہ خدا کی رحمت سے محروم ہی نہ رہا بلکہ اس کے غضب کے نیچے بھی آ گیا اور اب موجودہ زمانے میں آپ کے خادم اور ظل روحانی حضرت مرزا صاحب نے اپنے کام کی تخمریزی کی ہے اب جو اس مامور من اللہ کو نہیں پہچانے گا اور بیہودہ حیلہ وحجت سے انکار کر دے گا وہ بھی شن رکھے کہ وہ خدا کی رحمت سے محروم رہے گا اور اُس کے غضب کو اپنے سر پر لے گا.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں سے یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آپکا یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا اب سال سترہ بھی صدی سے گذر گئے تم میں سے ہائے سوچنے والے کدھر گئے تھوڑے نہیں نشان جو دکھائے گئے تمہیں کیا پاک راز تھے جو بتائے گئے تمہیں پر تم نے اُن سے کچھ بھی اٹھایا نہ فائدہ منہ پھیر کر ہٹا دیا تم نے یہ مائدہ جماعت احمدیہ کی ہمہ گیر ترقی کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی وہ عظیم الشان پیشگوئی درج کر دی جائے جو جماعت احمدیہ کی ہمہ گیر ترقی کے متعلق آپ نے خدا سے علم پا کر آج سے پچاس سال 212

Page 223

قبل فرمائی.آپ فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین پر پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے ٹور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا منہ بند کر دینگے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جائے گا.بہت سی روکیں پیدا ہونگی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا.اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دونگا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.( تجلیات الہیہ صفحہ ۲۱ مطبوعہ ۱۹۰۷ء) مسیح و مہدی کی علامات پر ایک اُصولی نظر علامات ماثورہ کے متعلق ایک شبہ کا ازالہ اب ہم علامات ماثورہ کی بحث مختصر طور پر ختم کر چکے ہیں لیکن ایک شبہ کا ازالہ باقی ہے.کہا جاتا ہے کہ گو عام طور پر مسیح موعود و مہدی معہود کی علامات تو حضرت مرزا صاحب میں پوری ہو چکی ہیں لیکن علامات ماثورہ کی بعض تفاصیل وقوع میں نہیں آئیں.اسی طرح بعض وہ باتیں جو علمائے امت نے احادیث اور اقوال صحابہ سے مستنبط کر کے یا اپنے قیاسات سے لکھی ہیں ان میں سے بعض ابھی تک پوری نہیں ہوئیں.سو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ علماء کے ذاتی خیالات کے تو 213

Page 224

ہم ذمہ وار نہیں، لیکن حقیقی علامات ماثورہ کے متعلق جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ جو شخص خدا کا خوف رکھ کر ان دو باتوں پر غور کرے گا ، وہ ضرور حق کو پالے گا.پہلی بات یہ ہے کہ ہر مامور کے متعلق جو علامات بیان کی جاتی ہیں، ان کا ایک مفہوم کی ہوا کرتا ہے جو علامات پر یکجائی نظر ڈالنے سے حاصل ہوتا ہے پس سب سے پہلے ہمیں علامات ماثورہ پر غور کر کے اُن کا ایک مفہوم کلی قائم کرنا چاہئے یعنی یہ معلوم کرنا چاہئے کہ علامات ماثورہ میں سے بحیثیت مجموعی وہ کون سی ہیئت کلی مستنبط ہوتی ہے جس کے مطابق مسیح موعود اور مہدی معہود کی بعثت مقدر ہے، یعنی تمام علامات اور ان کی تفاصیل کے اوپر یکجائی نظر ڈال کر پھر عقل خدا داد کی مدد سے اس بات کا پتہ لگانا چاہئے کہ اس یکجائی مطالعہ سے وہ کونسی مجموعی ہیئت ثابت ہوتی ہے جس کو تمام علامات ماثورہ کا اصل مقصود و مدعا اور اُن کی اصل روح اور ان کا لب لباب اور ان کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے.اور جب ہم تمام علامات اور اُن کی تفاصیل پر یکجائی نظر ڈال کر اُن سے ایک مفہوم کلی کا پتہ لگا لیں تو پھر ہمیں مدعی کو اس مفہوم کلی کے مقابل رکھ کر اس کی صداقت کا فیصلہ کرنا چاہئے.اگر مدعی کے حالات اس مفہوم کلی کے مطابق ثابت ہوں اور جہاں تک اس مجموعی مفہوم کا تعلق ہے اس کے دعوے کی صحت میں کسی معقول شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے اور دوسری طرف اگر عقلی دلائل خصوصاً ایسے دلائل جن کی صداقت قرآن سے ثابت ہو اس کے دعوے کی تصدیق کر رہے ہوں تو ہمیں تفاصیل کے بعض اختلافات کو خدا کے حوالے کرنا چاہئے اور اس مدعی کو صادق و مصدوق مان لینا چاہئے.یہی امن کی راہ ہے جو ہمیشہ سے صلحاء کا طریق رہا ہے.ظاہر ہے کہ جب علامات ماثورہ اپنے مفہوم کلی کے لحاظ سے ایک مدعی کی پوری پوری تصدیق کر رہی ہوں تو صرف اس وجہ سے اس کا انکار کر دینا کہ ہمارے خیال میں بعض تفاصیل ابھی تک وقوع میں نہیں آئیں ایک ہلاکت کی راہ ہے جس سے ہر مومن کو پر ہیز لازم ہے.علامات کی اصل روح رواں تو ان کا مفہوم کلی ہی ہوتا ہے.پس جب یہ مفہوم کلی مدعی کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دے تو یہ سراسر نادانی ہوگی کہ ہم بعض دور افتادہ تفاصیل پر اڑ جائیں اور اس وجہ سے مدعی 214

Page 225

کے متعلق جس کی صداقت پر تمام علامات نے بحیثیت مجموعی شہادت دی ہے شک و شبہ کو جائز رکھیں.ظاہر ہے کہ علامات ماثورہ کے مفہوم کلی کے مطابق اپنے آپ کو بنا لینا بندے کے اختیار میں نہیں ہے ہاں بے شک انفرادی طور پر تفاصیل کے متعلق بعض صورتوں میں یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ بندہ خودان کے مطابق اپنے حالات کو بنا سکتا ہے.پس ہم کہتے ہیں اور الحمد للہ پورے انشراح اور اطمینان کے ساتھ کہتے ہیں کہ ایک طرف مسیح موعود اور مہدی معہود کے متعلق جتنی بھی علامات قرآن شریف اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں اُن کا مفہوم کلی یقینی اور قطعی طور پر حضرت مرزا صاحب میں پایا جاتا ہے اور اس بارہ میں دلائل قاطعہ اور براہین نیرہ کے ساتھ آپ کی صداقت ثابت کی جاسکتی ہے اور سوائے اس کے کہ انسان تعصب سے اندھا ہو چکا ہو یا خطر ناک تو ہم پرستی کا شکار ہو کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی.اور دوسری طرف علامات کی تفاصیل میں سے بھی بہت بڑا حصہ یعنی قرآنی علامات کا تو سارا حصہ اور حدیث کی بیان کردہ علامات کا اکثر حصہ صاف اور واضح طور پر پورا ہو چکا ہے اور جو حصہ باقی رہتا ہے وہ بھی معقول تاویل کے ساتھ مطابق کیا جا سکتا ہے، تو اس صورت میں یہ کس قدر بدنصیبی ہوگی کہ کسی جزوی تفصیل کو لے کر اُس پر ضد کی جائے اور وہ بینات جنہوں نے حضرت مرزا صاحب کے دعاوی پر ایک سورج چڑھا رکھا ہے رڈی کی طرح پھینک دی جائیں.ایسے شخص کے متعلق یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ اُس کی نیت بخیر ہے.اور نہ ایسا شخص دل سے سچائی کا طالب سمجھا جا سکتا ہے.بلکہ تم یقینا ایسے شخص کو تکبر اور خود پسندی اور خود بینی اور تعصب کا شکار پاؤ گے.کیونکہ جہاں تو اس کے نفس کے مطابق کوئی بات اُسے ملتی ہے وہ ایک ذرہ کو بھی نہیں چھوڑتا، مگر جہاں اس کی مرضی کے خلاف بات ہو تو وہ دلائل کے ایک پہاڑ کو بھی رڈی کی طرح پھینک دیتا ہے بہیں تفاوت ره از کجاست تا به کجا.دوسری بات جو یا درکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ ایک سنتِ مستمرہ ہے کہ خدا کے انبیاء اور مرسلین اور مامورین کا ضرور انکار کیا جاتا ہے.قرآن کھول کر دیکھو، کوئی رسول ایسا نہیں گذرا جسے اس کی قوم نے پہلی آواز پر ہی مان لیا ہو.بلکہ سب کا انکار ہوا ہے اور سب پر ہنسی اُڑائی گئی ہے اور 215

Page 226

سب کو جھوٹا کہا گیا ہے اور سب کا مقابلہ کیا گیا ہے.اور پھر لطف یہ کہ سب کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ان میں وہ علامتیں نہیں پائی جاتیں جو صحف گذشتہ میں بیان کی گئی تھیں.قرآن شریف فرماتا ہے:.يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُوْلٍ إِلَّا كَانُوْا بِهِ يَسْتَهْزِءُوْنَ نیز فرماتا ہے:- (سورۃ یسین ع۲) اَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولُ بِمَا لَاتَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ (سورة بقره ١١٤) یعنی ” ہائے افسوس لوگوں پر کہ کوئی رسول بھی اُن کے پاس نہیں آتا مگر یہ اس کا انکار کرتے اور اس پر تمسخر اڑاتے ہیں.“ ”اے لوگو! کیا یہ درست نہیں کہ جب کبھی بھی تمہارے پاس ہمارا کوئی رسول وہ بات لے کر آتا ہے جو تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تو تم تکبر کرتے ہو اور ان میں سے بعض کو جھوٹا کہتے اور بعض کے قتل کے درپے ہو جاتے ہو.“ غرض یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جس پر قرآن ناطق ہے اور تاریخ شاہد کہ ہر روحانی مصلح اور ہر مامور من اللہ لوگوں کی تکذیب اور طعن و تشنیع اور ہنسی مذاق کا نشانہ بنتا ہے.کیونکہ اُسے وہ اپنی مرضی اور اپنی خواہشوں کے مطابق نہیں پاتے.یعنی انہوں نے اس کے متعلق کچھ اور نقشہ اپنے ذہنوں میں جما رکھا ہوتا ہے اور وہ نکلتا ہے کچھ اور.اس کی مثالوں سے قرآن اور کتب سماوی بھری ہیں مگر اس جگہ صرف دو مثالوں پر اکتفاء کرتا ہوں.حضرت عیسی علیہ السلام نے جب مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تو یہود نے اُن کا سختی سے انکار کیا اور ان کے دعاوی پر بہت ہنسی اڑائی اور کہا کہ ہماری کتابوں میں تو آنے والے کی یہ یہ علامتیں لکھی ہیں مگر تو اُن کے مطابق ظاہر نہیں ہوا.مثلاً انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں لکھا ہے کہ مسیح کے آنے سے پہلے الیاس نبی آسمان سے نازل ہوگا اور پھر اس کے بعد مسیح آئے گا.(ملا کی ) مگر الیاس 216

Page 227

ابھی تک آسمان سے نہیں اُترا.(متی ہے اسی طرح ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسیح ایک بادشاہ رسول ہوگا اور ہمیں اس کے ذریعہ بڑی سلطنت ملے گی اور ہماری کھوئی ہوئی عزت پھر لوٹ آئے گی.اور وہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ جنگ کر کے ان کو تہ تیغ کرے گا.اور یہ باتیں ظہور پذیر نہیں ہوئیں.(دیکھوانا جیل اربعہ ) حضرت مسیح نے انہیں جواب دیا کہ ایلیا یعنی الیاس کے آسمان سے اترنے سے اُس کے مثیل کا آنا مراد ہے اور وہ بیٹی نبی ہے جو آپکا.(متی ) اور بادشاہت کے متعلق یہ تاویل پیش کی کہ اس سے روحانی بادشاہت مراد ہے نہ کہ ظاہری بادشاہت.مگر یہود نے ان تاویلات کو نہ مانا اور ظاہر پراڑے رہے.اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا کہ میں وہی نبی ہوں جس کا موسیٰ نے وعدہ دیا تھا تو اُنہوں نے کہا کہ اس کی تو یہ یہ علامتیں ہیں جو آپ میں پائی نہیں جاتیں.مثلاً ہم سے کہا گیا تھا کہ وہ نبی اسرائیل میں سے ہوگا مگر آپ اسمعیل کی اولاد ہیں وغیرہ وغیرہ.اس ساری تقریر سے ظاہر ہے کہ علامات کا جھگڑا اس زمانہ کا نیا نہیں بلکہ پرانا جھگڑا ہے جو کم از کم دو ہزار سال سے تو ضرور جاری نظر آتا ہے.پس ایسی صورت میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے.انکار کی طرف قدم اُٹھانا اچھا نہیں ہوتا.تم کیا جانتے ہو کہ کوئی علامت خدا کی طرف سے تمہارے لئے ایک امتحان کے طور پر ہو.پس سنبھل جاؤ اور ہوشیار ہو جاؤ.ایسا نہ ہو کہ غفلت کی حالت میں تم اس امتحان میں پڑ جاؤ اور ناکام رہو.یہود نے ان باتوں پر ٹھوکر کھا کر انکار کیا.اور خدا کے غضب کے نیچے آگئے.مگر میں کہتا ہوں کہ اگر تم انکار کرو گے تو تم یہود سے بھی زیادہ قابل سزا ہو گے کیونکہ اُن کے لئے پہلے کوئی نمونہ موجود نہ تھا لیکن تمہارے لئے یہود کا بین نمونہ موجود ہے.اور جو شخص نمونہ موجود ہونے پر بھی ٹھوکر کھاتا ہے وہ زیادہ قابل سزا ہوتا ہے.پھر ہم کہتے ہیں کہ ناظرین اس بات پر بھی خوب غور کریں اور یہ بات بہت یادرکھنے کے قابل ہے کہ اگر کوئی شخص بالکل ان علامات کے مطابق ظاہر ہو جولوگوں نے کسی موعود کے متعلق سمجھ 217

Page 228

رکھی ہوں اور ایک ذرہ کے برابر بھی فرق نہ ہو تو عقل اس بات کو ہرگز تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایسے شخص کا بھی انکار ہو سکتا ہے.بلکہ ضرور ایسے شخص کو سب لوگ دیکھتے ہی پہچان لیں گے کہ یہی موعود شخص ہے اور کسی کو انکار کی گنجائش نہیں ہوگی.مگر ہم دیکھتے ہیں اور قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ ہر مامورمن اللہ کا انکار ہوتا ہے اور تاریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے.بلکہ مسیح موعود کے متعلق تو بعض روایتوں میں خاص طور پر ذکر آتا ہے کہ اس کا بڑی سختی سے انکار ہوگا.حتی کہ لوگ اُسے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ٹھہرائیں گے.(دیکھو حج الکرامہ ) ان حالات میں یہ ماننا پڑتا ہے کہ سنت قدیمہ کے مطابق ضروری ہے کہ مسیح موعود بھی ایسے رنگ اور ایسے طریق پر ظاہر ہو کہ لوگوں نے اس کی آمد کا جو نقشہ اپنے ذہنوں میں جما رکھا ہو وہ نقشہ اس کے حالات سے کلی طور پر مطابقت نہ پائے اور لوگ سمجھیں کہ اس میں فلاں فلاں علامت پوری نہیں ہوئی.ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ آنے والا تو ان سب علامتوں کے ساتھ آئے جولوگوں نے سمجھ رکھی ہوں اور کوئی ایک علامت بھی ایسی نہ ہو جو اس میں نہ پائی جاتی ہو اور لوگ پھر بھی اُس پر ہنسی اُڑائیں اور اس کا انکار کریں.کیا لوگوں کا سر پھرا ہوا ہوگا کہ وہ تمام علامتیں جو انہوں نے سمجھ رکھی ہونگی سب کی سب واضح طور پر دیکھ لینے کے بعد بھی ایک مدعی کا انکار کریں گے.خلاصہ کلام یہ کہ ایک طرف تو اصولاً قرآن شریف کی رُو سے ہر مامور من اللہ کا انکار کیا جانا قطعی طور پر ثابت ہے اور مسیح موعود کا انکار کیا جانا تو خاص طور پر بعض روایتوں میں مذکور ہے.اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ انکار عقلاً صرف اُسی حالت میں ہوسکتا ہے کہ جب ایک مدعی کسی ایسی صورت میں ظاہر ہو جو لوگوں کے خیال اور توقع کے مطابق نہ ہو.اور اُن کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ اس میں فلاں فلاں باتیں نہیں پائی جاتیں.اور فلاں فلاں علامتیں ظاہر نہیں ہوئیں.پس ثابت ہوا کہ مسیح موعود کے لئے ضروری تھا کہ وہ کسی ایسے طریق پر ظاہر ہو جو لوگوں کی بعض تو قعات کے خلاف ہو.یا دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ جہاں مسیح موعود کی اور علامات بتائی گئی تھیں وہاں گویا ایک علامت یہ بھی بتائی گئی تھی کہ اس کے متعلق بعض علامات جو لوگوں نے سمجھ رکھی ہونگی وہ ان کی خواہش اور خیال کے مطابق ظہور میں نہیں آئیں گی.218

Page 229

اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ احادیث میں مسیح موعود کا نام مگم وعدل رکھا گیا ہے.(دیکھو بخاری ) حکم کے معنے ہیں اختلافات میں فیصلہ کرنے والا اور عدل کے معنے ہیں ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے والا گویا جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے مسیح موعود کے بڑے کاموں میں سے ایک کام حکم بنا یعنی اختلافات میں فیصلہ کرنا بھی تھا.اور اُس کو عدل قرار دے کر یہ بھی ظاہر کر دیا گیا تھا کہ وہ صحیح صحیح فیصلہ کرنے والا ہو گا جس کے یہ معنے تھے کہ اس زمانے میں امت محمدیہ میں بہت سے اختلافات پیدا ہو چکے ہونگے اور مسیح موعود اُن سب اختلافات کا سچا سچا فیصلہ کرے گا.پس جبکہ مسیح موعود کی علامات کے بارے میں بھی اختلاف تھا تو ضرور تھا کہ وہ بحیثیت حكم و عدل کے ان مختلف روایات کا بھی فیصلہ کرے جو اُس کے لئے علامات کے طور پر سمجھی گئی تھیں.اور ان میں سے بعض کو صحیح قرار دے اور بعض کو غلط.افسوس کہ تم مسیح موعود کو حکم و عدل مانتے ہوئے پھر اُسے اتنا مرتبہ بھی نہیں دیتے کہ وہ عام محدثین کی طرح بعض روایات کو کمزور قرار دے اور بعض کو قوی ؟ تم محدثین کے متعلق مانتے ہو کہ اُن کو یہ حق تھا کہ وہ اپنے علم سے بعض روایات کو ضعیف یا غیر صحیح قرار دیں اور بعض کو قوی اور صحیح.اور تم آج تک عملاً ان کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے رہے ہو.لیکن وہ شخص جو خدا کی طرف سے مامور ہوکر آنے والا ہے اور جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ حکم و عدل ہوگا اُس کا تم یہ حق تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ وہ قوی وضعیف اور درست و نا درست روایتوں میں فیصلہ کرے اور اس کے فیصلہ کو قبول کرنا تمہیں منظور نہیں ! اے ہمارے نادان دوستو ! اگر مسیح موعود تمہارے سب رطب و یابس کے ذخیرہ کو قبول کر کے ایک مقلد محض کی طرح تمہارے مولویوں کے سامنے دوزانو ہوکر بیٹھار ہے اور کوئی ایک کلمہ بھی ایسا زبان پر نہ لائے جو کسی مولوی یا کسی عالم حدیث کی رائے اور تحقیق کے خلاف ہو تو پھر وہ جگم و عدل کیسا ہوا ؟ اور اُس کے آنے کا فائدہ ہی کیا ہوا؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ مسیح موعود اس لئے آئے گا کہ کبھی ایک مولوی کے پاؤں پر گرے اور کبھی دوسرے کے سامنے دوزانو ہو اور کبھی تیسرے کے آگے ہاتھ باندھے اور اس کو ایک ذرہ اختیار نہ ہوگا کہ وہ کوئی کلمہ ان حضرات مولویان کے خلاف منہ پر لائے.اے افسوس ! دل مر گئے اور آنکھوں کی بینائی جاتی رہی.219

Page 230

عزیز وا پیارو! سوچو اور سمجھو! کہ وہ جو مسیح موعود ہوکر اور خدا سے تربیت پا کر اور مُخبر صادق سے علم و عدل کا لقب حاصل کر کے دنیا کی اصلاح کے لئے آتا ہے تم اس کو اتنا مرتبہ بھی نہیں دیتے جتنا ایک معمولی محمدت کے لئے تسلیم کرتے ہو.اور پھر تم میں سے بہت ہیں، جن کا یہ عقیدہ ہے کہ اہل باطن اور اصحاب کشف ورڈ یا بعض اوقات اپنے رویا و کشف اور الہام کے ذریعہ کسی حدیث کے ضعف وقوت کا پتہ لگا لیتے ہیں مگر تم مسیح موعود کے لئے یہ مرتبہ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں اے بد قسمت قوم ! خدا تیری آنکھیں کھو لے کیا یہ امن کا راستہ نہ تھا کہ جب قرآن شریف اور حدیث صحیح اور عقل خدا داد نے حضرت مرزا صاحب کے دعوے پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی تو پھر بعض وہ تفصیلات جن کے متعلق یہ خیال ہوتا تھا کہ وہ جسطرح سمجھی گئی تھیں اس طرح وقوع میں نہیں آئیں خدا کے حوالے کر دی جاتیں اور انکار کی طرف قدم نہ اٹھایا جاتا.مگر اے بدنصیب گروہ ! تجھے کس سے تشبیہ دی جائے؟ تیری مثال تو اُس شخص کی ہے جس نے ایک دُولھے کے آنے کی خوشی میں بڑی دھوم دھام سے تیاری کی اور اپنی برادری اور پڑوس کے لوگوں کو بھی اُس کی آمد کا مژدہ سنا کر جشن میں شرکت کی دعوت دی.لیکن جب دولہا آیا اور عین وقت پر آیا اور علامات مقررہ کے مطابق آیا اور ایک دلائل کا سورج بھی اپنے ساتھ لایا تو اُس نادان نے یہ سب کچھ دیکھ بھال کر صرف اس لئے دو لہے کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اسپر اپنا دروازہ بند کر لیا کہ دولہے کی آمد کی جو تفصیلات اُس نے سمجھ رکھی تھیں اُن میں سے اُسے بزعم خود بعض نظر نہیں آئیں.تب اسے غیب سے ایک رُعب دار آواز آئی کہ بس اب برات اور اُس کے جشن کی دھوم دھام کا خیال جانے دے اور اپنی بدنصیبی ومحرومی پر آنسو بہا کہ دولہا جو آنے والا تھا وہ آیا اور تیرے دروازہ کو بند پا کر تیرے بھائیوں کے گھر میں داخل ہو گیا.کیونکہ انہوں نے اُس کے لئے خوشی سے اپنے دروازے کھولے اور اُسے قبول کیا اور خدا کا شکر بجالائے.حضرت مرزا صاحب اپنے منکروں اور ماننے والوں کے متعلق یکجائی ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي وہ آیا منتظر تھے جس کے دن رات معمہ کھل گیا روشن ہوئی بات 220

Page 231

دکھائیں آسماں نے ساری آیات زمیں نے وقت کی دیدیں شہادات پھر اس کے بعد کون آئیگا ہیہات خدا سے کچھ ڈرو چھوڑو معادات اپنے منکروں کے متعلق حضرت مرزا صاحب نے بھی خوب فرمایا ہے کہ نادانو ! میں تمہارے طمانچے کھانے کے لئے نہیں آیا.جب میری سچائی پر خدا نے گواہی دے دی اور زمین و آسمان نے الوقت پکارا اور قرآن شریف کی سب اور احادیث کی اکثر علامات پوری ہو گئیں تو پھر تمہیں چاہئے تھا کہ مجھے قبول کرتے اور بجائے اس کے کہ مجھے ان حدیثوں کے ساتھ ناپتے حق یہ تھا کہ ان حدیثوں کو میرے ساتھ ناپتے.اور جو احادیث میرے مطابق نہ اُتریں ان کی تاویل کرتے یا ضعیف قراردیکر چھوڑ دیتے.کیونکہ میں خدا کی وحی کے ساتھ بولتا ہوں اور حکم و عدل ہوکر آیا ہوں.مبارک وہ جو اس نکتہ کو پہچانتا اور ہلاک ہونے سے بچ جاتا ہے.اب ہم نہایت مختصر طور پر وہ وجوہ بتائے دیتے ہیں جن کی بناء پر سمجھا جاتا ہے کہ بعض علامتیں پوری نہیں ہو ئیں.سوسب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ جن علامتوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پوری نہیں ہو ئیں اُن کا علم ہمیں صرف احاد یعنی نسبتا کم معروف احادیث کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے مگر ایسی احادیث کے متعلق امت نے اجماع کیا ہے کہ ان سے صرف علم ظنی پیدا ہوتا ہے یقینی اور قطعی علم پیدا نہیں ہوتا.یقینی اور قطعی علم صرف حدیث متواتر سے پیدا ہوتا ہے.مگر اس بات پر بھی اجماع ہے کہ تواتر کا مرتبہ صرف قرآن شریف کو حاصل ہے.باقی اکثر حدیثیں احاد ہیں جن کے متعلق فقہاء اور محدثین کا اتفاق ہے کہ ان سے صرف علم ظنی پیدا ہوتا ہے.بیشک بعض محمد ثین نے بعض احادیث مثلاً حديث إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّات اور حدیث من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار کے متواتر ہونے کا خیال ظاہر کیا ہے لیکن جس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے وہ یہی ہے کہ تواتر کا مرتبہ صرف قرآن کریم ہی کو حاصل ہے باقی سب روایات احاد کے حکم میں ہیں.اور جو روایات قرب قیامت اور نزول مسیح موعود اور اس کی علامات وغیرہ کے متعلق وارد ہوئی ہیں اُن کے لئے تو ساری اُمت کا یہ متفقہ فتویٰ ہے کہ وہ احاد ہیں متواتر ہرگز نہیں ہیں.گویا اجماع اُمت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس بارے میں جتنی روایات ہیں وہ صرف علم ظنی کے لئے مفید 221

Page 232

ہیں یقین اور قطعیت کے مرتبہ کو نہیں پہنچتیں اور عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ جو اقوال لوگوں کے سینوں سے ڈیڑھ دو سو سال بعد جمع کئے گئے ہوں اور جن کی حفاظت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء اربعہ اور حکومت اسلامی کی طرف سے کوئی خاص انتظام بھی نہ کیا گیا ہو ان کو ہرگز یہ مرتبہ حاصل نہیں ہو سکتا کہ خدائی شہادت اور قرآنی بینات اور قطعی اور یقینی براہین کے مقابلہ میں اُن کی کچھ حقیقت سمجھی جائے.اور خود محدثین نے بھی اقرار کیا ہے کہ احادیث کے الفاظ کی صحت کا دعوئی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اکثر لوگ روایت بالمعنی کرنے کے عادی ہوتے ہیں.اور پھر راویوں کے حافظہ کی غلطیاں اور ان کی سمجھ کی غلطیاں اور بعض صورتوں میں ان کی دوسری کمزوریاں وغیرہ کئی قسم کی باتیں ہیں جو اثر ڈالتی ہیں.ان حالات میں بعض تفاصیل کے الفاظ پر اڑنا اور بینات کو نظر انداز کر دینا کسی طرح سلامتی کی راہ نہیں.پس یہ ایک نہایت قوی اور پختہ بات ہے کہ چونکہ احادیث میں احتمال کا پہلو موجود ہے اس لئے صرف انہیں پر اپنی تحقیقات کی مستقل بنیا د رکھنا اور وہ بھی ایسے حالات میں کہ قرآن کریم ان کے خلاف کہتا ہو اور عقلِ خدا داد بھی اُن کے خلاف ہو اور خدائی شہادت بھی ان کے خلاف ہو اور خود دوسری صحیح حدیثیں بھی ان کو رڈ کر رہی ہوں ہرگز جائز نہیں ہوسکتا.اس ضمن میں یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ کتب احادیث کے بھی کئی مراتب ہیں.مثلاً اہل سنت و الجماعت نے قریباً متفقہ طور پر قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری کا مرتبہ تسلیم کیا ہے.یا بعض لوگ مؤطا امام مالک کو ایسا سمجھتے ہیں.اب ہم ان دونوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی بیان کردہ احادیث میں ایک علامت بھی ایسی نہیں ملتی جو حضرت مرزا صاحب میں نہ پائی جاتی ہو بلکہ سب علامات آپ میں معقول طور پر پائی جاتی ہیں.ہاں صحیح مسلم سے ایسی روایتوں کا وجود شروع ہوتا ہے جو کسی قدر اشکال پیش کرتی ہیں.اور پھر جوں جوں ہم کتب احادیث میں صحت کے مقام سے نیچے اترتے جاتے ہیں روایات کی مشکلات بڑھتی جاتی ہیں.اب یہ ایک نظمند کے لئے نہایت سنجیدگی سے غور کرنے کا مقام ہے کہ جن روایات میں اشکال نظر آتا ہے وہ نہ تو قرآن شریف میں پائی جاتی ہیں اور نہ صیح بخاری میں اور نہ موطا امام مالک میں ان کا کچھ پتہ چلتا ہے اور اگر کچھ پتہ چلتا 222

Page 233

ہے تو صرف اُن کتابوں میں چلتا ہے جو ان کتب سے صحت کے مقام میں فروتر سمجھی گئی ہیں.یہ ایک بہت لطیف نکتہ ہے جو ایک صاحب ذوق کو بہت فائدہ دے سکتا ہے.دوسری وجہ یہ ہے کہ ساری علامات خود مدعی کی ذات میں پوری ہونی ضروری بھی نہیں ہوتیں بلکہ بعض اس کے بعد اُس کے خلفاء اور متبعین میں پوری ہوتی ہیں کیونکہ اس کے خلفاء اور متبعین اس سے الگ نہیں ہوتے.دراصل علامات بیان کرتے ہوئے صرف سلسلہ کے بانی کا نام لے دیا جاتا ہے مگر عملاً بعض باتیں خود اُس میں ظاہر ہوتی ہیں اور بعض اُس کے خلفاء اور متبعین میں ظاہر ہوتی ہیں اور وہ سب اسی کی علامات کہلاتی ہیں.کیونکہ وہ اس سلسلہ کا بانی ہوتا ہے اور باقی اس کے پیرو.یعنی وہ اصل ہوتا ہے اور باقی فرع.مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رویا میں دیکھا کہ قیصر و کسری کے خزانوں کی چابیاں آپ ﷺ کے ہاتھ میں دی گئی ہیں.( دیکھو بخاری ) مگر آپ وفات پاگئے اور آپ کے بعد وہ چابیاں آپ کے خلفاء کے ہاتھ میں آئیں.اسی طرح آپ نے دیکھا کہ ملکہ فتح ہوا ہے اور اسید کو مکہ کا حاکم مقرر کیا گیا ہے.مگر اسید فتح مکہ سے پہلے ہی فوت ہو گیا اور پھر فتح مکہ ہونے پر آپ کا م نے اسید کے بیٹے عتاب کو مکہ کا حاکم بنایا.(دیکھو زرقانی جلد (۳) اسی طرح علم الرؤیا کی کتابیں ملاحظہ کرو ان میں صاف طور پر لکھا ہے کہ عالم رؤیا میں بعض اوقات جس آدمی کے متعلق کوئی نظارہ دیکھا جاتا ہے اُس سے اس کا کوئی بیٹا یا کوئی قریبی رشتہ دار یا متبع مراد ہوتا ہے.چنانچہ بعض معتبرین نے اس کی بعض مثالیں بھی حدیث سے دی ہیں.( دیکھو مقدمہ کتاب تعطیر الانام ) پس اس میں ہرگز کوئی اعتراض کی بات نہیں کہ بعض علامات ماثورہ جو حضرت مرزا صاحب میں بظاہر پوری نہیں ہوئیں وہ اپنی ظاہری صورت میں کبھی آپ کے خلفاء یا آل اولا د یا جماعت کے ہاتھ پر پوری ہوں.نادان دشمن اس پر ہنسے گا.مگر ہم کسی کی ہنسی کی وجہ سے ان حقائق کو کس طرح چھوڑ سکتے ہیں جو قرآن کریم اور صحیح حدیث اور تاریخ سے ثابت ہیں.تیسری وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات بعض علامات دو یا دو سے زیادہ مختلف زمانوں اور مختلف آدمیوں کے متعلق بیان شدہ ہوتی ہیں مگر وہ غلطی سے ایک ہی آدمی کے متعلق سمجھ لی جاتی ہیں.جیسا 223

Page 234

کہ ہم نے مہدی کے باب میں بیان کیا ہے.چوتھی وجہ یہ ہے کہ مسیح موعود کی علامات میں بعض وہ علامتیں بھی داخل سمجھ لی گئی ہیں جو قرب قیامت کے متعلق بیان ہوئی ہیں.حالانکہ جیسا کہ ہم علامات کی بحث کے مقدمہ میں لکھ چکے ہیں وہ قرب قیامت کی علامتیں ہیں نہ کہ مسیح موعود کی.پانچویں وجہ یہ ہے کہ علامات ماثورہ پر علماء نے جو حاشیے چڑھائے اور قیاسات دوڑائے ہیں اُن پر بھی خبر صحیح کے طور پر اعتماد کر لیا گیا ہے مگر ظاہر ہے کہ اُن پر ایسا اعتماد کرنا کسی طرح درست نہیں.ان جملہ وجوہ سے ظاہر ہے کہ علامات کے معاملہ میں کئی قسم کی ٹھوکریں لگ سکتی ہیں اور علامات کی اندھا دھند تقلید کرنا ہلاکت کی راہ ہے ہاں معقول طور پر دیکھا جائے تو تمام صحیح علامتیں حضرت مرزا صاحب میں پوری ہو چکی ہیں اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ ایک ثابت شدہ علامت بھی ایسی نہیں جو سنت اللہ کے مطابق ظاہر نہ ہو چکی ہو.علامات کے متعلق ایک جامع بیان اب ہم حضرت مرزا صاحب کی ایک تحریر پر علامات کی بحث کو ختم کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں:.یادر ہے کہ مسیح موعود کی خاص علامتوں میں سے یہ کھا ہے کہ:- ا - وہ دوز رد چادروں کے ساتھ اُترے گا.۲ - اور نیز یہ کہ وہ دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اُترے گا.اور نیز یہ کہ کافر اس کے دم سے مریں گے.۴- اور نیز یہ کہ وہ ایسی حالت میں دکھائی دے گا کہ گویا غسل کر کے حمام میں سے نکلا ہے اور پانی کے قطرے اس کے سر پر سے موتیوں کے دانوں کی طرح ٹپکتے نظر آئیں گے.۵- اور نیز یہ کہ وہ دجال کے مقابل پر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا.224

Page 235

۶- اور نیز یہ کہ وہ صلیب کو توڑے گا.ے - اور نیز یہ کہ وہ خنزیر کو قتل کرے گا.اور نیز یہ کہ وہ بیوی کرے گا اور اس کی اولا د ہوگی.۹ - اور نیز یہ کہ وہی ہے جو دجال کا قاتل ہوگا.۱۰- اور نیز یہ کہ مسیح موعود قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ فوت ہوگا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں داخل کیا جائے گا وتلك عشرة كاملة.پس دو زرد چادروں کی نسبت ہم بیان کر چکے ہیں کہ وہ دو بیماریاں ہیں جو بطور علامت کے مسیح موعود کے جسم کو ان کا روز ازل سے لاحق ہونا مقدر کیا گیا تھا تا کہ اس کی غیر معمولی صحت بھی ایک نشان ہو.اور دو فرشتوں سے مراد اس کے لئے دو قسم کے غیبی سہارے ہیں جن پر اس کی اتمامِ حجت موقوف ہے.(۱) ایک وہی علم کے متعلق عقل اور نقل کے ساتھ اتمام حجت جو بغیر کسب اور اکتساب کے اس کو عطا کیا جائیگا.(۲) دوسرے اتمام حجنت نشانوں کے ساتھ جو بغیر انسانی دخل کے خدا کی طرف سے نازل ہونگے.“ اور دوفرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس کا اُترنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی ترقی کے لئے غیب سے سامان میسر ہونگے اور اُن کے سہارے سے کام چلے گا اور میں اس سے پہلے ایک خواب بیان کر چکا ہوں کہ میں نے دیکھا کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں دی گئی ہے جس کا قبضہ تو میرے ہاتھ میں ہے اور نوک اس کی آسمان میں ہے اور میں دونوں طرف اس کو چلاتا ہوں اور ہر ایک طرف چلانے سے صد با انسان قتل ہوتے جاتے ہیں.جس کی تعبیر خواب ہی میں ایک بندہ ( حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب غزنوی امرتسری مرحوم مراد ہیں ) صالح نے یہ بیان کی کہ یہ اتمام حجت کی تلوار ہے اور داہنی طرف سے وہ اتمام حجت ہے جو بذریعہ نشانوں سے ہوگا اور بائیں طرف سے وہ اتمام حجت مراد ہے جو بذریعہ عقل اور نقل کے ہو گا اور یہ دونوں طور کا اتمام حجت بغیر انسانی کسب اور کوشش کے ظہور میں آئے گا.اور کافروں کو اپنے دم سے مارنا اس کا یہ مطلب ہے کہ مسیح موعود کے نفس سے یعنی اس کی توجہ سے کافر ہلاک ہونگے.225

Page 236

اور مسیح موعود کا ایسا دکھائی دینا کہ گویا وہ حمام سے غسل کر کے نکلا ہے اور موتیوں کے دانوں کی طرح آپ غسل کے قطرے اس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں.اس کشف کے معنے یہ ہیں کہ مسیح موعودا اپنی بار بار کی تو بہ اور تضرع سے اپنے اس تعلق کو جو اُس کو خدا کے ساتھ ہے تازہ کرتارہے گا گویا وہ ہر وقت غسل کرتا ہے اور اس پاک غسل کے قطرے موتیوں کی طرح اس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں.یہ نہیں کہ انسانی سرشت کے برخلاف اُس میں کوئی خارق عادت امر ہے.ہر گز نہیں.ہرگز نہیں.کیالوگوں نے اس سے پہلے خارق عادت امر کا عیسی بن مریم میں نتیجہ نہیں دیکھ لیا ؟ جس نے کر وڑ ہا انسانوں کو جہنم کی آگ کا ایندھن بنادیا تو کیا اب بھی یہ شوق باقی ہے کہ انسانی عادت کے برخلاف عیسی آسمان سے اُترے فرشتے بھی ساتھ ہوں اور وہ اپنے منہ کی پھونک سے لوگوں کو ہلاک کرے اور موتیوں کی طرح قطرے اس کے بدن سے ٹپکتے ہوں غرض مسیح موعود کے بدن سے موتیوں کی طرح قطرے ٹپکنے کے معنے جو میں نے لکھے ہیں وہی صحیح ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے کڑے دیکھے تھے تو کیا اُس سے کڑے ہی مراد تھے؟ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گائیاں ذبح ہوتے دیکھیں تو کیا اس سے گائیاں ہی مراد تھیں؟ ہرگز نہیں.بلکہ اُن کے اور معانی تھے.پس اسی طرح مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس رنگ میں دیکھنا کہ گویا وہ غسل کر کے آتا ہے اور غسل کے قطرے موتیوں کی طرح اس کے سر سے ٹپکتے ہیں اس کے یہی معنے ہیں کہ وہ بہت تو بہ کرنے والا اور رجوع کرنے والا ہوگا اور ہمیشہ اس کا تعلق خدا تعالیٰ سے تازہ بتازہ رہے گا گویا وہ ہر وقت غسل کرتا ہے اور پاک رجوع کے پاک قطرے موتیوں کے دانوں کی طرح اس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں.ایک دوسری حدیث میں بھی خدا کی طرف رجوع کرنے کو غسل سے مشابہت دی گئی ہے.جیسا کہ نماز کی خوبیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کسی کے گھر کے دروازے کے آگے نہر ہو اور وہ پانچ وقت اس نہر میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر میل رہ سکتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں.تب آپ نے فرمایا کہ اسی طرح جو شخص پانچ وقت نماز پڑھتا ہے( جو جامع توبہ واستغفار اور دُعا اور تفرع اور نیاز اور تحمید اور تسبیح ہے ) اس کے نفس پر بھی گناہوں کی میل نہیں رہ سکتی.گویا وہ پانچ 226

Page 237

وقت غسل کرتا ہے اس حدیث سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے غنسل کے بھی یہی معنے ہیں.ورنہ جسمانی غسل میں کونسی کوئی خاص خوبی ہے اس طرح تو ہندو بھی ہر روز صبح کونسل کرتے ہیں اور غسل کے قطرے بھی اُن سے ٹپکتے ہیں افسوس کہ جسمانی خیال کے آدمی ہر ایک روحانی امر کو جسمانی امور کی طرف ہی کھینچ کر لے جاتے ہیں اور یہود کی طرح اسرار اور حقائق سے نا آشنا ہیں.اور یہ امر کہ مسیح موعود دجال کے مقابل پر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا یعنی دقبال بھی خانہ کعبہ کا طواف کرے گا اور مسیح موعود بھی اس کے معنے خود ظاہر ہیں کہ اس طواف سے ظاہری طواف مراد نہیں.ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ دجال خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے گا یا یہ کہ مسلمان ہو جائے گا.یہ دونوں باتیں خلاف نصوص حدیثیہ ہیں پس بہر حال یہ حدیث قابل تاویل ہے اور اس کی وہ تاویل جو خدا نے میرے پر ظاہر فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہوگا جس کا نام دجال ہے وہ اسلام کا سخت دشمن ہوگا اور وہ اسلام کو نابود کرنے کے لئے جس کا مرکز خانہ کعبہ ہے پور کی طرح اس کے گرد طواف کرے گا تا اسلام کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دے اور اس کے مقابل پر مسیح موعود بھی مرکز اسلام کا طواف کرے گا جسکی تمثیلی صورت خانہ کعبہ ہے اور اس طواف سے مسیح موعود کی غرض یہ ہوگی کہ اُس چور کو پکڑے جس کا نام دقبال ہے اور اس کی دست درازیوں سے مرکز اسلام کو محفوظ رکھے یہ بات ظاہر ہے کہ رات کے وقت چور بھی گھروں کا طواف کرتا ہے اور چوکیدار بھی.چور کی غرض طواف سے یہ ہوتی ہے کہ نقب لگا وے اور گھر والوں کو تباہ کرے اور چوکیدار کی غرض طواف سے یہ ہوتی ہے کہ چور کو پکڑے اور اس کو سخت عقوبت کے زندان میں داخل کراوے تا اُس کی بدی سے لوگ امن میں آجاویں.پس اس حدیث میں اسی مقابلہ کی طرف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں وہ چور جس کو دجال کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.ناخنوں تک زور لگائے گا کہ اسلام کی عمارت کو منہدم کر دے اور مسیح موعود بھی اسلام کی ہمدردی میں اپنے نعرے آسمان تک پہنچائے گا اور تمام فرشتے اس کے ساتھ ہو جائیں گے تا اس آخری جنگ میں اس کی فتح ہو.وہ نہ تھکے گا اور نہ درماندہ ہوگا اور نہ سُست ہوگا اور ناخنوں تک زور لگائے گا کہ تا اس چور کو پکڑے اور جب اُس کی تضرعات انتہاء تک پہنچ جائیں گی.تب خدا اس کے دل کو دیکھے گا کہ کہاں 227

Page 238

تک وہ اسلام کے لئے پگھل گیا.تب وہ کام جو زمین نہیں کر سکتی آسمان کرے گا.اور وہ فتح جو انسانی ہاتھوں سے نہیں ہو سکتی وہ فرشتوں کے ہاتھوں سے میسر آجائے گی.اس مسیح کے آخری دنوں میں سخت بلائیں نازل ہونگی اور سخت زلزلے آئیں گے اور تمام دنیا سے امن جاتا رہے گا یہ بلائیں صرف اس مسیح کی دُعا سے نازل ہونگی.تب ان نشانوں کے بعد اُس کی فتح ہوگی.یہ وہی فرشتے ہیں جو استعارہ کے لباس میں لکھا گیا ہے کہ مسیح موعود اُن کے کاندھوں پر نزول کرے گا.آج کون خیال کر سکتا ہے کہ یہ دجالی فتنہ جس سے مراد آخری زمانہ کے ضلالت پیشہ پادریوں کے منصوبے ہیں انسانی کوششوں سے فرو ہوسکتا ہے.ہرگز نہیں.بلکہ آسمان کا خدا خود اس فتنہ کو فرو کرے گا.وہ بجلی کی طرح گریگا اور طوفان کی طرح آئے گا اور ایک سخت آندھی کی طرح دنیا کو ہلا دے گا کیونکہ اُس کے غضب کا وقت آگیا مگر وہ بے نیاز ہے.قدرت کی پتھر کی آگ انسانی تفرعات کے ضرب کی محتاج ہے آہ! کیا مشکل کام ہے! آہ کیا مشکل کام ہے!! ہم نے ایک قربانی دینا ہے جب تک ہم وہ قربانی ادا نہ کریں.کسر صلیب نہیں ہوگا.ایسی قربانی کو جب تک کسی نبی نے ادا نہیں کیا اُس کی فتح نہیں ہوئی اور اسی قربانی کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے واستفتحوا وخاب کل جبار عنید یعنی نبیوں نے اپنے تئیں مجاہدہ کی آگ میں ڈال کر فتح چاہی پھر کیا تھا ہر ایک ظالم سرکش تباہ ہو گیا اور اسی کی طرف اس شعر میں اشارہ ہے.تا دل مردِ خدا نامد بدرد بیچ قومی را خدا رُسوا نکرد اور صلیب کے توڑنے سے یہ سمجھنا کہ صلیب کی لکڑی یا سونے چاندی کی صلیبیں توڑ دی جائیں گی یہ سخت غلطی ہے اس قسم کی صلیبیں تو ہمیشہ اسلامی جنگوں میں ٹوٹتی رہی ہیں بلکہ اس سے مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود صلیبی عقیدہ کو توڑ دیگا اور بعد اس کے دنیا میں صلیبی عقیدہ کا نشو و نما نہیں ہوگا ایسا ٹوٹے گا کہ پھر قیامت تک اس کا پیوند نہیں ہوگا.انسانی ہاتھ اس کو نہیں توڑیں گے بلکہ وہ خدا جو تمام قدرتوں کا مالک ہے.جس طرح اُس نے اس فتنہ کو پیدا کیا تھا اسی طرح اس کو 228

Page 239

نابود کر ریگا.اُس کی آنکھ ہر ایک کو دیکھتی ہے اور ہر ایک صادق اور کاذب اُس کی نظر کے سامنے ہے وہ غیر کو یہ عزت نہیں دے گا مگر اُس کے ہاتھ کا بنایا ہوا مسیح یہ شرف پائے گا.جس کو خدا عزت دے کوئی نہیں جو اس کو ذلیل کر سکے وہ مسیح ایک بڑے کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے سو وہ کام اس کے ہاتھ پر فتح ہو گا اُس کا اقبال صلیب کے زوال کا موجب ہوگا اور صلیبی عقیدہ کی عمر اسکے ظہور سے پوری ہو جائے گی اور خود بخو دلوگوں کے خیالات صلیبی عقیدہ سے بیزار ہوتے چلے جائیں گے جیسا کہ آج کل یورپ میں ہو رہا ہے اور جیسا کہ ظاہر ہے ان دنوں میں عیسائیت کا کام صرف تنخواہ دار پادری چلا رہے ہیں اور اہلِ علم اس عقیدہ کو چھوڑتے جاتے ہیں.پس یہ ایک ہوا ہے جو صلیبی عقیدہ کے برخلاف یورپ میں چل پڑی ہے اور ہر روز تند اور تیز ہوتی چلی جاتی ہے یہی مسیح موعود کے ظہور کے آثار ہیں.کیونکہ وہی دو فرشتے جو مسیح موعود کے ساتھ نازل ہونے والے تھے صلیبی عقیدہ کے برخلاف کام کر رہے ہیں اور دنیا ظلمت سے روشنی کی طرف آتی جاتی ہے اور وہ وقت قریب ہے کہ وجائی طلسم کھلے کھلے طور پر ٹوٹ جائے کیونکہ اس کی عمر پوری ہوگئی ہے.اور یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود خنزیر کو قتل کر یگا یہ ایک نجس اور بد زبان دشمن کو مغلوب کرنے کی طرف اشارہ ہے اور اس کی طرف اشارہ ہے کہ ایساد من مسیح موعود کی دُعا سے ہلاک کیا جائے گا.اور یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود کے اولاد ہوگی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اُس کی نسل سے ایک ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو اس کا جانشین ہوگا اور دین اسلام کی حمایت کرے گا جیسا کہ میری بعض پیشگوئیوں میں یہ خبر آچکی ہے.اور یہ پیشگوئی کہ وہ دجال کو قتل کریگا اس کے یہ معنی ہیں کہ اُس کے ظہور سے دجالی فتنہ رو بزوال ہو جائے گا اور خود بخود کم ہوتا جائے گا اور دانشمندوں کے دل تو حید کی طرف پلٹا کھا جائیں گے واضح ہو کہ دجال کے لفظ کی دو تعبیر میں کی گئی ہیں ایک یہ کہ دجال اس گروہ کو کہتے ہیں کہ جو جھوٹ کا حامی ہو اور مکر اور فریب سے کام چلا دے.دوسری یہ کہ دجال شیطان کا نام ہے جو ہر ایک جھوٹ اور فساد کا باپ ہے پس قتل کرنے کے یہ معنے ہیں کہ اُس شیطانی فتنہ کا ایسا استیصال ہوگا کہ پھر قیامت تک کبھی اُس کا نشو و نما نہیں ہوگا گویا اس آخری لڑائی میں شیطان قتل کیا جائے گا.229

Page 240

اور یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود بعد وفات کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں داخل ہوگا اس کے یہ معنے کرنا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھودی جائے گی یہ جسمانی خیال کے لوگوں کی غلطیاں ہیں جو گستاخی اور بے ادبی سے بھری ہوئی ہیں.بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ مسیح موعود مقام قرب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر قریب ہوگا کہ موت کے بعد وہ اس رتبہ کو پائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کا رتبہ اُس کو ملے گا اور اس کی روح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رُوح سے جاملے گی گویا کہ ایک ہی قبر میں ہیں.اصل معنے یہی ہیں جس کا جی چاہے دوسرے معنے کرے.اس بات کو رُوحانی لوگ جانتے ہیں کہ موت کے بعد جسمانی قرب کچھ حقیقت نہیں رکھتا ہے بلکہ ہر ایک جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رُوحانی قرب رکھتا ہے اُس کی رُوح آپ کی رُوح سے نزدیک کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَادْخُلِي فِي عِبَادِی وَادْخُلِي جَنَّتِي اور یہ پیشگوئی کہ وہ قتل نہیں کیا جاوے گا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خاتم الخلفاء کا قتل ہونا موجب ہتک اسلام ہے.اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی قتل سے بچائے گئے.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۰۷ تا ۳۱۳) حضرت مرزا صاحب کا نبوت کا دعویٰ ختم نبوت کے متعلق ہمارا عقیدہ چونکہ حضرت مرزا صاحب بانی سلسلہ احمدیہ کے دعاوی کی بحث میں ختم نبوت کا مسئلہ بھی شامل ہے کیونکہ حضرت مرزا صاحب نے مسیحیت اور مہدویت کے ساتھ ساتھ ظلی نبوت کا بھی دعوی کیا تھا جو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اور آپ کے بروز ہونے کی حیثیت سے حاصل کی تھی اس لئے اس رسالہ میں اس کے متعلق بھی مختصر طور پر لکھا جانا ضروری ہے تا حق کے متلاشیوں کے لئے موجب ہدایت ہو.سو جاننا چاہئے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ جیسا قرآن 230

Page 241

شریف میں بیان ہوا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعی خاتم النبین ہیں اور ختم نبوت پر ہم صدق دل سے ایمان لاتے ہیں اور اس کے انکار کو کفر خیال کرتے ہیں.ہاں بے شک ہم خاتم النبین کے وہ معنے نہیں کرتے جو آج کل کے اکثر غیر احمدی مولوی کرتے ہیں.یعنی ہمارے نزد یک خاتم النبیین کے یہ معنے نہیں ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ کلّی طور پر بند ہو چکا ہے اور اب کوئی شخص کسی معنی میں بھی نبی نہیں ہوسکتا.بلکہ ہمارے نزد یک خاتم النبیین کے یہ معنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب نبیوں سے افضل اور نبیوں کی مہر ہیں.یعنی چونکہ آپ کے اندر تمام کمالات نبوت کامل طور پر اور بصورت اتم جمع ہیں.لہذا آئندہ کوئی شخص نبوت کے انعام سے حصہ نہیں لے سکتا جب تک کہ وہ آپ کے لگائے ہوئے باغ کا پھل نہ کھائے.اور آپ کے چشمہ فیض سے سیراب نہ ہو اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کا پابند نہ ہو.گویا اب روحانی کمالات کے حصول کے لئے آپ کی تصدیقی عہر ضروری ہوگئی ہے.اور آپ کے بعد ایسا کوئی نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے یا براہ راست مستقل حیثیت میں نبوت کا انعام پائے.ہاں ظلی نبوت کا دروازہ بند نہیں ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ حضرت مرزا صاحب بھی ظلی نبی تھے اور ظلی نبوت کے ہمارے نزدیک یہ معنے ہیں کہ جب کوئی کامل فرد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور محبت میں اپنے نفس کو ایسا صاف کرلے کہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کے صیقل شدہ آئینہ کی طرح مصفحے ہو جائے اور کوئی کدورت اس میں باقی نہ رہے اور پھر وہ فطری استعداد بھی کامل رکھتا ہو تی کہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ کی محبت میں محو کر کے اپنے نفس کے آئینے کو پورے طور پر آپ کے وجود باجود کے سامنے لے آئے تو اس صورت میں آپ کے اوصاف اور آپ کے کمالات اُس کے آئینہ نفس پر اسی طرح اُتر آئیں گے جس طرح کہ ایک مصفحے آئینہ میں دیکھنے والے شخص کے خد و خال اتر آتے ہیں گویا وہ اس صورت میں آپ کا ظلت یعنی عکس ہو جائے گا اور اگر ایسا شخص کمالات نبوت کی بھی استعداد رکھتا ہو اور اُسکے فطری قوی اس پیمانہ پر واقع ہوئے ہوں کہ کمالات نبوت کا عکس قبول کر سکیں تو آپ کی نبوت بھی ظلی طور پر اس میں ظاہر ہو جائے گی اور وہ آپ کی اتباع سے بروزی صورت میں نبوت کا 231

Page 242

درجہ پالے گا.ایسی نبوت ہمارے نزدیک ختم نبوت کے منافی نہیں اور نہ ایسے نبی کے ظاہر ہونے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے میں کسی قسم کا رخنہ واقع ہوتا ہے بلکہ ایسی نبوت کا جاری ہونا آپ کے روحانی کمال کی ایک شاندار دلیل ہے.پس لا ریب آپ خاتم النبیین ہیں جیسا کہ قرآن شریف بیان کرتا ہے اور لاریب آپ آخری نبی ہیں جیسا کہ حدیث بیان کرتی ہے مگر نہ ان معنوں میں جو آج کل اکثر غیر احمدی مولوی بیان کرتے ہیں بلکہ ان معنوں میں جو ہم نے ابھی بیان کئے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ ہم قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سچے دل سے خاتم النبیین یقین کرتے ہیں جس کے یہ معنے ہیں کہ آپ تنبیوں کے سرتاج اور نبیوں کی مہر ہیں.یعنی آپ تمام کمالات نبوت کے جامع ہیں اور اب کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی اطاعت کے جوئے سے آزاد ہوکر نبوت کا انعام پائے اور آپ مد ﷺ کی لائی ہوئی شریعت میں کسی قسم کا تغیر وتبدل کرے بلکہ جو بھی آئے گا وہ آپ کے ماتحت ہو کر آئے گا اور آپ ﷺ کا خادم اور آپ سے تربیت یافتہ ہوگا.اسی طرح ہم حدیث کے بیان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں جس کے یہ معنے ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کے سلسلہ نبوت کو منقطع کر کے ایک نیا دور شروع کر دے.کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ آپ کی نبوت کا دامن قیامت تک پھیلا ہوا ہے اور آپ کے بعد جو نبی بھی آئے گا وہ چونکہ آپ کا شاگرد اور آپ سے فیض یافتہ اور آپ کا خادم ہو کر آئے گا اس لئے اُس کی نبوت کا دامن لازماً آپ کی نبوت کے دامن کے اندر ہوگا نہ کہ اس سے باہر.لہذا ایسے شخص کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی نبوت آپ کی نبوت کے بعد ہے.کیونکہ بعد کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کی نبوت کا دور ختم ہو جائے اور اس کے بعد کوئی دوسری نبوت ظاہر ہو مگر جو صورت ہم نے بیان کی ہے اُس میں آپ کی نبوت ختم نہیں ہوتی بلکہ قیامت تک اُسی کا دور جاری رہتا ہے.پس اس میں کیا شک ہے کہ ان معنوں کی رُو سے آپ واقعی آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں آسکتا.لہذا ہم دلی یقین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین اور خدا کا آخری نبی ماننے کے باوجود حضرت مرزا صاحب کو علی وجہ البصیرت اور بکمال شرح 232

Page 243

صدر خدا کا نبی اور رسول تسلیم کرتے ہیں.کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ظلت اور اس کی تابع اور اس کی شاخ ہے نہ کہ کوئی آزاد اور مستقل نبوت اور ایسی نبوت آنحضور کے لئے موجب ہتک نہیں بلکہ آپ کے افاضہ روحانی کا کمال ثابت کرتی ہے اور دنیا پر یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ تصرف نبی ہی نہیں بلکہ نبی گر بھی ہیں اور آپ ایسا عالی مرتبہ رکھتے ہیں کہ آپ کے خادم بھی آپ کے فیض سے نبوت کا درجہ پاسکتے ہیں.یہ ہے ہمارا عقیدہ جو میں نے صاف صاف بیان کر دیا ہے تا اس معاملہ میں کسی قسم کی غلط فہمی کا امکان ندر ہے.اب میں اپنے اس عقیدہ کی تائید میں مختصر چند دلائل بھی پیش کرنا چاہتا ہوں.مگر اس سے پہلے اُن دلائل کا رڈ ضروری ہے جو اس مسئلہ میں ہمارے مخالفین کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں اور جن سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ کلی طور پر بند ہے اس کے بعد انشاء اللہ وہ دلائل بیان کئے جائیں گے جو ہمارے عقیدہ کی تائید میں ہیں.وما توفیقی الا باللہ العظیم - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کی نبوت کے دروازہ کو کلی طور پر بند سمجھنے والے لوگ اپنے زعم میں چار قسم کے دلائل رکھتے ہیں.۱- قرآن شریف کی آیت خاتم النبیین سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بالکل بند ہو چکا ہے اور اب کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا.۲- بعض احادیث میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق آخر الانبیاء یعنی میں آخری نبی ہوں.“ یا لا نبی بعدی یعنی ”میرے بعد کوئی نبی نہیں“.وغیرہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں.ان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا.۳- کہا جاتا ہے کہ امت محمدیہ نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.233

Page 244

۴.بیان کیا جاتا ہے ہر نبی چونکہ اپنے ساتھ نئی شریعت اور نئی کتاب لاتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بات مسلمہ فریقین ہے کہ آپ وہ شریعت لائے ہیں جو نسل انسانی کے لئے آخری شریعت ہے اور اس کے بعد قیامت تک کوئی اور شریعت نہیں آئے گی.اس لئے آپ کے بعد کوئی نبی بھی نہیں آسکتا.یہ وہ چار قسم کے دلائل ہیں جو ہمارے مخالف اپنے خیال کی تائید میں عموما پیش کیا کرتے ہیں.آیت قائم المتین کی تشریح ان دلائل کے جواب میں سب سے پہلے ہم قرآنی آیت خاتم النبیین کو لیتے ہیں جو اس بحث میں گویا اصل الاصول ہے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ التبين (سورۃ احزاب ع ۵ ) یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں.لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبین ہیں.“ اس آیت کے متعلق ہمارے مخالف یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں جو خاتم النبین “ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اُن سے مراد یہ ہے کہ آپ کے آنے سے نبوت کا سلسلہ من کل الوجوہ ختم ہو گیا ہے اور آپ ہر رنگ میں آخری نبی ہیں مگر ہمارے نزدیک یہ معنے درست نہیں ہیں.دراصل اس آیت کے متعلق سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ خاتم کا لفظ جو حرف ت کی زبر سے ہے ایک عام عربی لفظ ہے جس کے معنے شہر کے ہیں اور انہین کا لفظ نبی کی جمع ہے.پس عربی قاعدہ کے مطابق خاتم النبین کے معنے یہ ہوئے کہ ”نبیوں کی مہر“ اور اس صورت میں آیت زیر بحث کے یہ معنے ہونگے کہ محمد رسول اللہ کا کوئی بیٹا نہیں لیکن آپ اللہ کے رسول اور نبیوں کی مہر ہیں.“ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس جگہ نبیوں کی مہر سے کیا مراد ہے؟ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ خاتم 234

Page 245

النبیین کے معنے تو بے شک نبیوں کی عمر کے ہیں لیکن اس سے مراد یہ ہے کہ آپ آخری نبی ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک مہر کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ کسی چیز کو بند کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے چنانچہ جب کسی خط وغیرہ کو بند کرنا ہو تو اس پر مہر لگاتے ہیں.اس کے جواب میں اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ مہر کا اصل کام بند کرنا نہیں ہوتا بلکہ تصدیق کرنا ہوتا ہے.یعنی جب کسی تحریر وغیرہ کو مصدقہ بنانا اور مستند ثابت کرنا ہو تو اس پر مہر لگاتے ہیں اس لئے بسا اوقات مہر تحریر کے اوپر یعنی شروع میں لگائی جاتی ہے اور کبھی نیچے بھی لگا دی جاتی ہے کیونکہ اس کا کام ایک تحریر کی تصدیق کرنا اور اُسے مستند بنانا ہوتا ہے بلکہ اردوزبان میں تو یہ ایک عام محاورہ بن گیا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں تحریر پر مہر ثبت کی.جس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اُس نے اُس پر اپنی مہر لگا کر اس کی تصدیق کر دی اسی لئے مہر لگاتے ہوئے اوپر نیچے یا ابتداء اور خاتمہ کا خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ کبھی مہر او پر لگا دیتے ہیں اور کبھی نیچے لگا دیتے ہیں کیونکہ اوپر نیچے کا سوال مہر کی اصل غرض کے لحاظ سے ایک غیر متعلق سوال ہے.اصل غرض یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ چیز جعلی نہیں ہے.بلکہ فلاں شخص یا فلاں دفتر یا فلاں محکمہ یا فلاں حکومت کی مصدقہ ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد بیرونی ممالک کے بادشاہوں اور رئیسوں کے نام تبلیغی خطوط ارسال کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ کی خدمت میں یہ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! جب تک کہ خط کے اوپر خط لکھنے والے کی مہر ثبت نہ ہو یہ لوگ خط کی طرف تو جہ نہیں کرتے.تو اس پر آپ نے فوراً ایک مہر تیار کروائی جو بعد میں ہمیشہ اسلامی مراسلات میں مہر تصدیق کا کام دیتی رہی.(دیکھو بخاری ومسلم وغیرہ) غرض یہ ایک بین حقیقت ہے کہ مہر کا کام تصدیق کرنا ہوتا ہے تو اس صورت میں آیت خَاتَمَ النَّبین کے یہ معنے ہوئے کہ محمد رسول اللہ کی جسمانی نرینہ اولا د تو بیشک نہیں ہے لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں اور چونکہ خدا کے رسول اپنی امت کے روحانی باپ ہوتے ہیں اس لئے اس جہت سے آپ ہر گز بے اولاد نہیں بلکہ کثیر روحانی اولاد کے باپ ہیں اور پھر آپ معمولی رسول بھی نہیں بلکہ خاتم النبین بھی ہیں.یعنی آپ صرف عام مومنوں کے ہی باپ نہیں بلکہ روحانی طور پر 235

Page 246

نبیوں اور رسولوں کے بھی باپ ہیں اور آپ کو وہ بلند مقام حاصل ہے کہ اب کوئی رسول یا نبی نہیں آسکتا جب تک کہ آپ کے دربار کی تصدیقی مہر اُس کے ساتھ نہ ہو.گویا آپ عام مومنوں کے ہی روحانی باپ نہیں ہیں بلکہ نبیوں اور رسولوں کے بھی روحانی باپ ہیں.اس تشریح کے ماتحت آیت کا یہ مطلب ہوا کہ اگر آپ کی جسمانی نرینہ اولاد نہیں ہے تو اس سے آپ کی شان میں فرق نہیں آتا اور آپ منعوذ باللہ ابتر نہیں ٹھہر تے بلکہ حق یہ ہے کہ آپ کثیر التعداد اور عالی مرتبہ اولاد کے باپ ہیں.اب دیکھو اس آیت سے آپ کے بعد نبوت کے دروازے کے بند ہونے کا مفہوم کہاں نکلا؟ اور لطف یہ ہے کہ اگر خاتم النبیین کے معنے آخری نبی کے کئے جائیں تو آیت کے کچھ معنے ہی نہیں بنتے اور نعوذ باللہ یہ آیت ایک مہمل کلام کا رنگ اختیار کر لیتی ہے کیونکہ اس صورت میں آیت کا ترجمہ یہ بنتا ہے کہ محمد رسول اللہ کا کوئی بیٹا تو بیشک نہیں ہے، لیکن آپ آخری نبی ہیں“.جو ایک مہمل کلام ہے.ظاہر ہے کہ لکن کا لفظ جو آیت میں وارد ہوا ہے وہ عربی زبان میں اُس موقعہ پر استعمال ہوتا ہے کہ جب گذشتہ فقرہ میں جو مفہوم بیان ہوا ہو اس کے بعد اس کے مقابل کا مفہوم بیان کرنا مقصود ہوں.جیسے مثلاً یہ کہیں کہ زید بہادر تو ہے، لیکن بدن کا کمزور ہے.یا یہ کہیں کہ خالد نا خواندہ تو ہے لیکن عظمند ہے.یعنی اگر پہلے فقرہ میں کوئی خوبی بیان کی گئی ہو تو ں کین کے بعد اُس کے مقابل کا کوئی نقص بیان کرتے ہیں یا اگر پہلے فقرہ میں کسی نقص کا بیان ہو تو بعد کے فقرہ میں مقابل کی خوبی بیان کرتے ہیں.یا پھر یکین کا لفظ اس موقعہ پر استعمال کرتے ہیں کہ جب گذشتہ کلام سے کوئی شبہ پیدا ہوتا ہو اور اگلے فقرہ میں اس کا ازالہ کرنا مقصود ہو.مثلاً کہتے ہیں کہ سب لوگ اٹھ کر چلے گئے لیکن عمر نہیں گیا.اب اس جگہ سب کے اٹھ کر چلے جانے کے الفاظ سے یہ شبہ ہوتا تھا کہ شاید کوئی شخص بھی بیٹھا نہ رہا ہو.اس لئے لیکن کے استعمال کے بعد اس شبہ کا ازالہ کر دیا گیا اس مفہوم کو عربی میں استدراك کہتے ہیں چنانچہ عربی لغت کی کتابوں میں صراحةً لکھا ہے کہ لکن کا لفظ استدراک کے لئے آتا ہے.اس تشریح کے بعد آیت زیر بحث پر نظر ڈالی جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کیونکہ 236

Page 247

آیت زیر غور میں بھی لکین کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی آیت اس طرح پر ہے.محمد رسول اللہ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے لیکن آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں.اب اس جگہ ضروری ہے کہ لیکن کے بعد والے فقرہ کے کوئی ایسے معنے کئے جائیں جو لیکن سے پہلے فقرے کے مفہوم پر ہوں.یا یہ کہ پہلے فقرے سے جو خیال اور شبہ پیدا ہوتا ہو اس کا وہ کسی دوسرے طریق پر ازالہ کرتے ہوں اب اس تشریح کے ماتحت غور کر کے دیکھ لو کہ اگر ہمارے مخالفوں والے معنے قبول کئے جائیں تو آیت خاتم النبین کے کوئی معقول معنے بن ہی نہیں سکتے.کیونکہ آیت میں لیکن سے پہلے فقرے کا یہ مفہوم ہے کہ آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں.اب اگر خاتم النبین کے یہ معنے ہوں کہ آپ کے آنے سے نبیوں کی آمد بند ہوگئی ہے اور اب کوئی نبی نہیں آ سکتا ہے تو بالفاظ دیگر آیت کا یہ ترجمہ ہوگا.محمد رسول اللہ کی کوئی جسمانی نرینہ اولاد نہیں ہے، لیکن آپ کے آنے سے سلسلہ نبوت بھی بند ہو گیا ہے.جو ایک بالکل مہمل اور بے معنی کلام ہے.ہاں جو معنے ہم کرتے ہیں وہ بے شک لفظ لکن کے مفہوم کے عین مطابق ہیں کیونکہ ہم یہ معنے کرتے ہیں کہ گو محمد رسول اللہ کی جسمانی اولاد تو نہیں ہے لیکن آپ کی روحانی اولاد بہت ہے حتی کہ آپ کی روحانی اولاد میں نبی اور رسول بھی ہو سکتے ہیں.گویا ہمارے مخالفین کے معنوں کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی کہے کہ فلاں آدمی کے پاس گود نیاوی مال نہیں ہے، لیکن روحانی مال بھی تھوڑا ہی ہے اور ہمارے معنوں کی یہ مثال ہے کہ فلاں شخص کے پاس گو دنیاوی مال نہیں ہے لیکن روحانی مال بہت ہے حتی کہ روحانی مال میں وہ بادشاہ ہے بلکہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے اب ناظرین خودسوچ لیں کہ ان دونوں معنوں میں سے کون سے معنے درست اور صحیح ہیں.خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے کہ آیت کے وہی معنے درست ہیں جو ہم کرتے ہیں اور ہمارے مخالفین کے معنے بالکل مہمل بلکہ مضحکہ خیز ہیں.پس ثابت ہوا کہ آیت خاتم النبین کی تشریح صرف یہی نہیں کہ وہ نبوت کے دروازہ کو بند نہیں کرتی بلکہ وہ ظلی اور بروزی نبوت کے دروازہ کو کھولتی بھی ہے.وہو المراد.237

Page 248

حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی کی تشریح دوسری قسم کے دلائل ہمارے مخالفین کے وہ ہیں جو حدیث پر مبنی ہیں.اس ضمن میں عموماً وہ حدیثیں پیش کی جاتی ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لا نبی بعدی یا یہ که أَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاء وغیرہ.یعنی ” میرے بعد کوئی نبی نہیں یا یہ کہ میں آخری نبی ہوں“ اور ان الفاظ سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ کلی طور پر بند ہے.مگر ان دونوں فقروں کا مطلب ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اور بتا چکے ہیں کہ ان فقروں سے یہ مراد نہیں کہ آپ کے بعد کسی قسم کا بھی نبی نہیں آسکتا بلکہ یہ مراد ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کے دور نبوت کو ختم کرنے والا یا آپ سے آزاد ہو کر نبوت کا انعام پانے والا ہو.نیز ایک اور بات بھی یادر رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ بعض اوقات ایک عام بات بیان کی جاتی ہے لیکن دراصل وہ خاص ہوتی ہے.یعنی ایک لفظ مطلق صورت میں استعمال کیا جاتا ہے مگر دراصل وہ مقید اور محدود ہوتا ہے اور صرف قرائن سے ہی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ آیا اس جگہ لفظ مطلق مراد ہے یا کہ مقید.مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ اذاهلك كسرى فلا كسرى بعده واذاهلك قيصر فلا قيصر بعده.( بخاری کتاب الایمان ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”جب یہ موجودہ کسری یعنی شہنشاہ ایران مرجائے گا تو اس کے بعد کوئی اور کسری نہ ہوگا اور جب یہ موجودہ قیصر یعنی شہنشاہ روم مر جائے گا تو اس کے بعد کوئی اور قیصر نہ ہوگا.‘ اب یہاں اگر قیصر اور کسریٰ کے الفاظ مطلق صورت میں لئے جائیں اور ان میں کسی قسم کی استثناء نہ سمجھی جائے تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی غلط ٹھہرتی ہے.کیونکہ جس قیصر کے وقت میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا.اس کے بعد کئی قیصر تخت نشین ہوئے اور سینکڑوں سال تک یہ سلسلہ جاری رہا.پس لامحالہ اس جگہ قیصر و کسریٰ کے الفاظ کو مقید اور محدود ماننا پڑے گا.یعنی یہ معنی لینے ہونگے کہ موجود قیصر و کسریٰ کے بعد اس شان کے قیصر و کسری نہیں ہونگے.مگر بظاہر یہ لفظ بالکل عام اور مطلق استعمال ہوئے ہیں.ایسی مثالیں تمام زبانوں میں 238

Page 249

کثرت کے ساتھ ملتی ہیں کہ ایک عام بات کہی جاتی ہے اور بظاہر اس میں کوئی شرط یا استثنا نہیں پایا جاتا لیکن دراصل وہ مشروط ہوتی ہے اور کہنے والے نے کسی خاص جہت یا خاص پہلو کو مدنظر رکھ کر کہی ہوتی ہے.پس یہاں بھی ضروری نہیں کہ لا نبی بعدی اورانا آخر الانبیاء وغیرہ کے الفاظ مطلق اور عام مانے جائیں.بلکہ حق یہ ہے کہ جیسا دوسرے دلائل سے ظاہر ہوتا ہے یہ الفاظ مقید اور محدود ہیں اور ان سے مراد یہ ہے کہ میرے بعد کوئی میری طرح کا صاحب شریعت نبی نہیں ہوگا اور یہ کہ صاحب شریعت نبیوں میں سے میں آخری نبی ہوں اور میری شریعت آخری شریعت ہے.چنانچہ ایک دوسری حدیث ہمارے ان معنوں کی تائید کرتی ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں:.قولوا انه خاتم الانبياء ولاتقولو الا نبی بعدہ.(در منثور جلد ۵ و تکمله مجمع الجار صفحه ۸۵) یعنی ” اے مسلمانو! تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ تو بے شک کہا کرو کہ آپ خاتم النبیین ہیںمگر یہ نہ کہا کرو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.“ اس حدیث سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ لا نبی بعدی کے یہ معنے نہیں ہیں کہ آپ کے بعد مطلقا کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا.بلکہ اس سے صرف خاص قسم کے نبی کا آنا مراد ہے.یعنی یہ کہ آپ کے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہیں آئے گا.یہ روایت خوب غور کرنے کے قابل ہے.کیونکہ اس سے لا نبی بعدی والی حدیث کی پوری حقیقت منکشف ہو جاتی ہے ظاہر ہے کہ فقرہ لا نبی بعدی یعنی ” میرے بعد کوئی نبی نہیں‘ کے امکانا دو ہی معنے ہو سکتے ہیں یا تو اس کے یہ معنے ہیں کہ آپ کے بعد مطلقا کسی قسم کا نبی بھی نہیں آسکتا اور یا اس کے یہ معنے ہیں کہ آپ کے بعد کسی خاص قسم کا نبی بھی نہیں آسکتا.یعنی صاحب شریعت نبی نہیں آسکتا لیکن چونکہ الفاظ لا نبی بعدی کے متبادر معنے جو فوراً ذہن میں آتے ہیں یہی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے اور اب آپ کے بعد کسی قسم کا نبی بھی نہیں ہو سکتا اور دوسرے معنے سوچنے سے اور قرائن پر نظر ڈالنے سے ذہن میں آتے ہیں.اس لئے حضرت عائشہ نے مسلمانوں کو ایک غلط عقیدہ سے بچانے کی غرض سے یہ فرما دیا کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو 239

Page 250

خاتم النبین تو ضرور کہا کرو لیکن لا نبی بعدہ نہ کہا کرو.گویا باالفاظ دیگر یہ فرما یا کہ حدیث لا نبٹی بعدی کے وہ معنے سمجھا کر و جو آیت خاتم النبیین کے مطابق ہیں اور وہ یہی معنے ہیں کہ آپ کے بعد صاحب شریعت نبی نہیں آسکتا بلکہ جو نبی بھی ہو گا وہ آپ کا شاگر داور خادم اور ظلی اور امتی نبی ہوگا.مگر جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں ہم تو اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ آپ کی نبوت کا دامن قیامت تک پھیلا ہوا ہے.پس اگر کوئی ایسا نبی مبعوث ہو جو اپنی نبوت کو آپ کی نبوت کاظل قرار دے اور اپنے آپ کو آپ کے شاگردوں اور خادموں میں شمار کرے تو یقیناً اُس کی نبوت آپ کی نبوت سے باہر نہیں سمجھی جاسکتی اور نہ اس کی نبوت صحیح معنی میں آپ کی نبوت کے بعد کہلاسکتی ہے کیونکہ آپ کی نبوت کا دامن اس نبوت کے دامن سے منقطع نہیں ہوتا بلکہ آپ کی نبوت اس کے آنے کے بعد بھی اُسی طرح جاری رہتی ہے پس ایسے نبی کے آنے کے باوجود آپ واقعی اور در حقیقت آخری نبی ہیں.حديث لَوْ كَانَ بَعْدِى نَبِيَّا لَكَانَ عُمَرُ کی تشریح پھر ایک اور حدیث پیش کی جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيًّا لَكَانَ عُمَرُ.(مشکوۃ) یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوسکتا تو عمر ضرور نبی ہوتا.اس حدیث سے یہ مطلب نکالا جاتا ہے کہ آپ کے بعد مطلقاً کوئی نبی نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر نبی ہوسکتا تو بقول آپ کے حضرت عمر ضرور نبی ہو جاتے.مگر یہ ایک دھوکا ہے جو اسلامی تاریخ کی ناواقفی سے پیدا ہوا ہے جو شخص حضرت عمر کی سوانح کا مطالعہ کرے گا وہ فورا سمجھ لے گا کہ اس حدیث سے کیا مراد ہے دراصل بات یہ ہے کہ حضرت عمر ایک بہت بڑے مقنن انسان تھے اور قانون بنانے اور اس کی اونچ نیچ کو سوچنے اور حسن و قبح کو پر کھنے کا اُن میں خاص مادہ تھا اور یہ ایک ایسا مادہ ہے جو صرف خاص خاص لوگوں میں ہوتا ہے.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ویسے تو بڑے عقلمند لائق فائق اور ذی علم ہوتے ہیں، لیکن وضع قانون کے مادہ سے محروم اور کورے ہوتے ہیں.اسی لئے جب 240

Page 251

اُن پر کوئی ایسا فرض عائد ہوتا ہے جہاں ایک واضع قانون کی سی طبیعت درکار ہوتی ہے تو وہ نا کام رہتے ہیں.مگر حضرت عمررؓ میں یہ وصف بہت نمایاں طور پر پایا جاتا تھا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ کئی دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بات میں دوسرے صحابہؓ نے ایک رنگ میں مشورہ دیا اور حضرت عمر نے دوسرے رنگ میں مشورہ دیا.پھر جس طرح حضرت عمرؓ نے رائے دی تھی اُسی کے مطابق کلام الہی نازل ہوا.گویا ان معاملات میں حضرت عمر کی طبع رسا ہمیشہ ٹھیک نقطہ پر پہنچتی تھی.( دیکھو بخاری و مسلم وزرقانی وغیرہ) پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوسکتا تو عمر ضرور نبی ہوتا اس سے صرف یہ مراد ہے کہ اگر میرے بعد کوئی صاحب شریعت نبی ہو سکتا تو عمر میں ضرور یہ مادہ موجود تھا کہ وہ صاحب شریعت بن جاتا.ان معنوں کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ اہلسنت والجماعت کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام میں حضرت ابو بکر سب سے افضل تھے.پس اگر اس حدیث میں نبی سے عام نبی مراد ہوتا تو یقیناً حضرت ابوبکر اس بات کے زیادہ حقدار تھے کہ اُن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے الفاظ استعمال فرماتے لیکن ان کو چھوڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمرؓ کے متعلق یہ الفاظ استعمال فرمانا صاف بتا تا ہے کہ اس جگہ حضرت عمر کی کسی ایسی صفت کی طرف اشارہ مقصود ہے جس میں وہ ایک جزوی فضیلت کے رنگ میں حضرت ابوبکر سے بھی بڑھے ہوئے تھے اور وہ یہی قانون سازی کی صفت تھی.ان حالات میں حدیث زیر بحث کے صرف یہ معنے ہونگے کہ اگر میرے بعد کوئی صاحب شریعت نبی ہو سکتا تو عمر میں ضرور ایسا مادہ موجود تھا.وہوالمراد.حديث لَمْ يَبقَ مِنَ التَّبَوَةِ إِلَّا الْمُبَشِرَاتِ کی تشریح پھر ایک اور حدیث ہے جو اس بارہ میں ہمارے مخالفوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتِ ( بخاری جلد ۴ ابواب التعبیر ) یعنی نبوت میں سے اب صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں.“ 241

Page 252

کہا جاتا ہے کہ اس حدیث میں صاف مذکور ہے کہ نبوت میں سے اب صرف مبشرات و منذرات ( منذرات اس لئے کہ وہ مبشرات کے ساتھ لازم وملزوم ہیں اور گویا انہی کے اندر شامل ہیں باقی رہ گئی ہیں اور باقی تمام شعبے نبوت کے منقطع ہو گئے ہیں.یعنی اب صرف یہ باقی رہ گیا ہے کہ ایک مومن کوئی خوشخبری کی خواب دیکھ لے یا اُسے کوئی بشارت کا الہام ہو جائے یا کوئی مندر خواب آجائے بس اس سے زیادہ کچھ نہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ یہی حدیث جس سے نبوت کا بند ہونا ثابت کیا جاتا ہے اُسے کھلا ثابت کر رہی ہے.کیونکہ جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں نبی دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک صاحب شریعت نبی اور دوسرے ایسے نبی جو کوئی نئی شریعت نہیں لاتے بلکہ اُن کے الہام میں صرف مبشرات و منذرات ہوتے ہیں.پس اس حدیث کا یہ منشاء ہے کہ اب کوئی صاحب شریعت نبی نہیں آسکتا مگر مبشرات ومنذرات والا نبی آسکتا ہے.یہ ایک سخت دھوکا ہوگا کہ مبشرات ومنذرات کو کوئی معمولی چیز سمجھا جائے بلکہ بات یہ ہے کہ یہی مبشرات و منذرات جب اپنی کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے کثرت اور کمال کے ساتھ کسی شخص کو عطا کئے جاتے ہیں تو وہی شخص نبی ہوتا ہے.ہاں معمولی پیمانہ پر اُن کا وجو دسب مومنوں میں کم و بیش پایا جاتا ہے لیکن جس طرح ایک روپیہ کا مالک مالدار نہیں کہلا سکتا.اسی طرح معمولی پیمانہ پر مبشرات ومنذرات کا حامل نبی نہیں کہلا سکتا.ہاں جب اُن کا سلسلہ کثرت کے ساتھ جاری ہو جائے اور وہ اپنی صفائی میں بھی کمال کو پہنچ جائیں تو خدا کے نزدیک ایسا شخص نبی کہلاتا ہے.چنانچہ دیکھ لو کہ گذشتہ انبیاء میں جو نبی ایسے گذرے ہیں کہ وہ کوئی نئی شریعت نہیں لائے اُن میں سوائے اِس کے اور کیا زیادت تھی کہ اللہ تعالیٰ کا تعلق اُن سے اس حد تک ترقی کر گیا تھا کہ انہیں مبشرات ومنذرات بڑی کثرت سے عطا کئے جاتے تھے یعنی انہیں اپنے اور اپنے متبعین کے لئے تو بشارتوں کی خبریں ملتی تھیں جو پوری ہوتی تھیں اور اُن کے مخالف منذرات سے حصہ پاتے تھے اور یہ سلسلہ اُن کے ساتھ خارق عادت طور پر کثرت کے ساتھ جاری تھا.خلاصہ کلام یہ کہ گومبشرات و منذرات على قدر مراتب سب مومنوں کو دیئے جاتے ہیں.مگر انہی کی کثرت نبوت کہلاتی ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ اب میرے 242

Page 253

بعد نبوت میں سے صرف مبشرات ومنذرات کا حصہ باقی رہ گیا ہے تو اس سے صرف یہ مراد ہے کہ آب شریعت والی نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے ہاں مبشرات ومنذرات والی نبوت جاری ہے جس سے حصہ تو حسب استعداد بھی پاتے ہیں مگر حصہ وافر پانے والا نبی ہوتا ہے.جس طرح ایک روپیہ کا مالک گولغوی طور پر مال رکھتا ہے مگر اصطلاحی طور پر مال دار نہیں کہلاسکتا لیکن لاکھ روپیہ کا مالک مالدار کہلاتا ہے.علاوہ ازیں اس حدیث کے الفاظ بھی اس مفہوم کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ایک قسم کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جاری ہے کیونکہ آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ لم یبق من النبوة الا المبشرات یعنی نبوت کی باقی اقسام تو آب بند ہیں مگر مبشرات ومنذرات والی نبوت اب بھی جاری ہے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک مجلس کے متعلق کہا جائے کہ سب آدمی جاچکے ہیں مگر ایک آدمی باقی ہے.اب اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہوگا کہ جو آدمی باقی ہے وہ آدمی ہی نہیں ہے بلکہ کوئی اور چیز ہے.بعینہ اسی طرح حدیث کا منشاء ہے کہ نبوت کی سب قسمیں بند ہو چکی ہیں مگر ایک قسم کی نبوت باقی ہے جو مبشرات ومنذرات سے تعلق رکھتی ہے.وہوالمراد.مسئلہ نبوت کے متعلق اجماع کا دعویٰ غلط ہے تیسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ امت محمدیہ نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور کہا جاتا ہے کہ چونکہ امت کا اجماع حجت ہے پس ثابت ہوا کہ اب نبوت کا دروازہ بند ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ امت محمدیہ نے اس مسئلہ پر اجماع کیا ہے.چنانچہ حضرت عائشہ کا عقیدہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ آپ صرف شریعت والی نبوت کا دروازہ بجھتی تھیں اور غیر تشریعی نبی کا آنا آیت خاتم المنتہین اور حدیث لا نبی بعدی کے خلاف نہیں سمجھتی تھیں.اسی طرح بعض اور صحابہ مثلاً حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی روایت آتی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد غیر تشریعی نبی کے آنے کو جائز سمجھتے تھے.( در منشور و ابن الانباری وابن ابی شیبہ ) اور باقی کسی اور صحابی کا 243

Page 254

کوئی قول اس کے خلاف مروی نہیں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوسرے صحابہ کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ صرف تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہے اور صحابہ کے زمانہ کے بعد تو جیسا کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ اجماع کا دعوی ہی غلط ہے.(مسلم الثبوت جلد ۲ صفحہ (۶۸) کیونکہ صحابہ کے بعد اُمت محمدیہ اس کثرت کے ساتھ مختلف بلاد میں پھیل گئی کہ اجماع کا پتہ لگانا ہی غیر ممکن ہو گیا.پس یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ کسی مسئلہ میں اُمت کا اجماع ہوا ہے مگر تا ہم اتمام حجت کے لئے اس فرضی اجماع کے خلاف نمونہ کے طور پر چند بزرگان سلف کی آراء ذیل میں پیش کی جاتی ہیں اور یہ آراء حضرت عائشہ صدیقہ کے اس واضح ارشاد کے علاوہ ہیں جس کا ذکر او پر گذر چکا ہے.حضرت محی الدین ابن عربی ( وفات ۳۸ بہ ہجری) جو ایک بہت بڑے عالم اور تصوف کے امام گذرے ہیں فرماتے ہیں :- النبوة التى انقطعت بوجود رسول الله صلى الله عليه وسلم انّما هي نبوّة التشريع.....وَهذا معنى قوله صلى الله عليه وسلّم انّ الرسالة النبوة قد انقطعت فلا رسول بعدى ولا نبي اى لا نبي بعدى يكون على شرع يخالف شرعى بل اذا كان يكون تحت حكم شریعتی.(فتوحات مکیه جلد ثانی صفحه ۳) یعنی وہ نبوت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے منقطع ہوگئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے.یعنی اب صاحب شریعت نبی نہیں آسکتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے کہ اب رسالت و نبوت منقطع ہو گئی ہے.یہی مراد ہے کہ میرے بعد ایسا کوئی نبی اور رسول نہیں آسکتا جو ایسی شریعت پر ہو جو میری شریعت کے مخالف ہے بلکہ جب کبھی بھی کوئی نبی ہوگا تو وہ میری شریعت کے ماتحت ہی ہوگا.“ حضرت امام عبد الوہاب شعرانی ( وفات 1 2 ہجری ) فرماتے ہیں :- فان مطلق النبوة لم ترتفع وانّما ارتفعت نبوّة التشريع (الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحہ ۲۴) 244

Page 255

یعنی مطلق نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ صرف شریعت والی نبوت بند ہوئی ہے.“ حضرت امام محمد طاہر صاحب (وفات ۹۸۶ ہجری) مصنف مجمع الجار جو اپنے زمانہ کے امام تھے فرماتے ہیں :.هذا ناظر الى نزول عيسى وهذا ايضا لا ينافي حديث لا نبي بعدی لانه اراد لا نبی ینسخ شرعه تکملہ مجمع البحار صفحه ۸۵) یعنی ” حضرت عائشہ نے یہ جو فرمایا ہے کہ اے مسلمانو! تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خاتم النبیین کے الفاظ استعمال کیا کرو اور لا نبي بعدہ نہ کہا کرو تو یہ حضرت عائشہ نے مسیح موعود کے نزول کو مد نظر رکھ کر کہا ہے اور حضرت عائشہ کا یہ قول حدیث لا نبی بعدی کے خلاف نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی مراد تھی کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو میری شریعت کو منسوخ کرے.“ فرقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام حضرت ملاعلی قاریؒ (وفات ۱۰۱۴ ہجری) فرماتے ہیں:- لوعاش ابراهيم وصار نبيًّا وكذالك لوصار عمر نبيا لكان من اتباعه عليه السلام....فلا يناقض قوله خاتم النبيّن اذا المعنى انه لا يأتي نبي بعده ينسخ ملته ولم يكن من أمته ( موضوعات کبیر صفحه ۵۹،۵۸) یعنی اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے یا اگر عمر نبی ہو جاتے تو وہ دونوں آپ کے متبعین میں سے ہوتے.پس اُن کا نبی ہونا خدا کے قول خاتم النبین کے مخالف نہ ہوتا.کیونکہ خاتم النبین کے یہی معنے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.“ حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجد دالف ثانی (وفات ۱۰۳۴ھ ) جو ایک عظیم الشان مجد دمانے گئے ہیں فرماتے ہیں :- حصول کمالات نبوت مرتا بعاں را بطریق تبعیت و وراثت بعد از 245

Page 256

بعثت خاتم الرسل منافی خاتمیت او نیست فلا تكن من الممترين.مکتوبات احمد یہ جلد اول مکتوب صفحه ۱-۲) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے متبعین کے لئے اتباع اور ورثہ کے طور پر کمالات نبوت کا حصول آپ کے خاتم الرسل ہونے کے منافی نہیں ہے.پس تم شک کرنے والوں میں سے نہ بنو.“ پھر حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ( وفات کے ! ہجری) جو ایک بہت بڑے عالم ہونے کے علاوہ بارہویں صدی کے مجد د بھی تھے فرماتے ہیں:.ختم به النبيون اى لا يوجد بعده من يامره الله سبحانه بالتشريع على الناس ( تفہیمات الہیہ تفهیم صفحه ۵۳) یعنی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہو جانے کے یہ معنے ہیں کہ اب کوئی ایسا شخص نہ ہو گا جسے خدا تعالیٰ کوئی نئی شریعت دیگر مامور کرے.“ بالآخر ہمارے اپنے زمانہ میں حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی (وفات ۱۸۸۹ عیسوی ) بانی مدرسہ دیوبند فرماتے ہیں :- عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خائم ہونا بایں معنے ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے اور آپ کسب میں آخری نبی ہیں.مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کوئی فضیلت نہیں.......( تحذیر الناس صفحہ ۳) (پس) اگر بالفرض بعد زمانہ نبی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمد سی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.‘ ( تحذیر الناس صفحہ ۲۸) دیکھو یہ کیسے صاف اور واضح حوالے ہیں جو قطعی طور پر ثابت کرتے ہیں کہ بزرگان سلف میں سے بہت بڑی تعداد اس بات کی قائل رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف شریعت والی نبوت کا دروازہ بند ہے.مگر بلا شریعت نبوت کا دروازہ ہرگز بند نہیں.( ان حوالہ جات کی مفصل بحث کے لئے دیکھو خاکسار مؤلف کی کتاب ختم نبوت کی حقیقت) اور پھر یہ حوالے 246

Page 257

اسلامی تاریخ کے سارے زمانوں پر پھیلے ہوئے ہیں اور یہ جو حضرت مولوی محمد قاسم صاحب کے حوالے میں اگر اور بالفرض کے الفاظ آتے ہیں ان سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ یہ صرف امکانی رنگ میں لکھا گیا ہے.ورنہ حضرت مولوی صاحب کے نزدیک اب نبوت کا دروازہ بند ہے کیونکہ یہاں صرف اصولی رنگ میں امکان کی بحث ہے واقعہ کی بحث نہیں.واقعہ کی بحث آگے آتی ہے.پھر لطف یہ ہے کہ جو لوگ سلسلہ نبوت کے بند ہونے کے متعلق فرضی اجماع کے دعویدار ہیں اُن کا خود عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہونے والے ہیں اور یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی اللہ کے نبی اور رسول تھے اور پھر ساتھ ہی اُن کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جب حضرت عیسی نازل ہونگے تو اُن کی نبوت اور رسالت اُن سے چھینی نہیں جائے گی بلکہ نازل ہونے کے بعد بھی وہ بدستور نبی اور رسول رہیں گے.ہاں شریعت محمدیہ کے بیشک پابند ہو نگے.اور قال اللہ اور قال الرسول کے مطابق چلیں گے.پس اب یہ لوگ ہمیں خدا را بتائیں کہ اُن کا فرضی اجماع کہاں گیا ؟ افسوس دعویٰ تو اجماع کا اور خود اپنا عقیدہ اس کے خلاف ! بندگانِ خداذ را تعقب کی پٹی آنکھوں سے اتار کر دیکھو کہ جس مسیح کی آمد کی تم دن رات راہ تکتے ہو وہ کون ہے؟ کیا وہ اللہ کا نبی اور رسول نہیں؟ پس اگر حضرت عیسی کی تشریف آوری سے ختم نبوت نہیں ٹوٹتی اور لا نبي بعدی اور انا أخر الانبیاءکامفہوم برقرار رہتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں حضرت مرزا صاحب کے ظلی طور پر نبی کہلانے سے ختم نبوت کیوں ٹوٹتی اور لا نبي بعدی اور انا أخر الانبیاء کا مفہوم کیوں برہم ہونے لگتا ہے؟ اور یہ کہنا کہ حضرت عیسی چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل نبوت حاصل کر چکے تھے اس لئے اُن کے آنے سے ختم نبوت میں رخنہ نہیں پڑتا.لیکن اب امت محمدیہ میں سے کسی فرد کے نبی بن جانے سے ختم نبوت ٹوٹ جاتی ہے ایک باطل خیال ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل یا آپ کے بعد نبوت کے حاصل ہونے کا سوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آسکتا ہے یا نہیں؟ اب تم یہ مانتے ہو کہ حضرت عیسی نازل ہو نگے اور وہ نبی 247

Page 258

ہوں گے اور ہم یہ مانتے ہیں کہ آنے والا آ گیا ہے اور وہ نبی ہے پس ہم دونوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نبی کا وجود مانا.فلافرق.ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ ہم نے ایک ایسے شخص کی نبوت کا اقرار کیا ہے جو کہتا ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شاگرد اور آپ کا خادم ہوں اور میں نے جو کچھ پایا ہے آپ کی طفیل اور آپ کے فیض سے پایا ہے مگر تم نے اُس شخص کو آپ کے بعد نبی مانا ہے جس کی نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ساتھ کوئی تلمیذی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ ایک مستقل نبوت ہے جس کے حصول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیض اور کسی احسان کا دخل نہیں.پس اگر سو چو تو تمہارا مسیح نازل ہو کر ضرور ختم نبوت کو توڑ دے گا اور انا أخر الانبياء اور لا نبي بعدی کے سب قول نعوذ باللہ باطل ہو جائیں گے.مگر حضرت مرزا صاحب کی نبوت نے کوئی چیز باطل نہیں کی بلکہ آپ کی نبوت سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع نبوت کی شان دنیا پر ظاہر ہوئی ہے کہ کیا ہی عالی مرتبہ ہے اس بزرگ نبی سکا جس کے خادم بھی نبوت کا درجہ پاتے ہیں.اللهم صل علیه و بارک وسلم ہر نبی کے لئے نئی شریعت لانا ضروری نہیں چوتھی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نبی وہی ہوتا ہے جو کوئی نئی شریعت لائے اور چونکہ شریعت کا سلسلہ اب مسلمہ طور پر ختم ہو چکا ہے اس لئے اب کوئی نبی نہیں آسکتا.مگر یہ دلیل بھی نہایت بودی اور کچی ہے کیونکہ یہ ایک بین حقیقت ہے کہ ہر نبوت کے ساتھ نئی شریعت کا نزول ہرگز ضروری نہیں ہوتا.چنانچہ تاریخ عالم پر نظر ڈالنے سے پتہ لگتا ہے کہ بہت سے نبی ایسے گذرے ہیں جن کو کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی.در اصل بات یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک شریعت کا نزول ہوتا ہے تو پھر اس شریعت میں تغیر و تبدل یا نسخ اُسی وقت کیا جاتا ہے کہ جب خدا کی نظر میں بنی نوع انسان کی حالت اس شریعت میں کسی تغیر یا نسخ کی مقتضی ہوتی ہے.جس طرح مثلاً ایک لائق طبیب اپنے بیمار کے متعلق اس وقت تک اپنا نسخہ نہیں بدلتا جب تک کہ بیمار کی حالت کسی تبدیلی کا نقاضا نہ کرے لیکن باوجود نسخہ نہ بدلے جانے کے اس بات کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے کہ ڈاکٹر 248

Page 259

اُس بیمار کی نگرانی کے لئے اس کا ملاحظہ کرتا رہے اور اس کی نرسنگ اور دیگر حوائج اور ضروری احتیاطوں اور پر ہیزوں کا خیال رکھے اور جہاں نسخہ کے سمجھنے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو اُسے درست کر دے.اسی طرح روحانی عالم کا حال ہے.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک شریعت بطور نسخہ کے نازل ہوتی ہے تو گو نسخہ کی مدت بہت لمبی ہو جائے یعنی شریعت کی منسوخی کا وقت نہ آئے لیکن خداوند عالمیان بنی نوع انسان کی روحانی نگرانی کے لئے عموماً چھوٹے چھوٹے ڈاکٹر ( یعنی مجد د.روحانی علماء اور صوفیاء) اور کبھی کبھی حسب ضرورت کوئی بڑا ڈاکٹر ( یعنی نبی اور رسول ) ارسال کرتا رہتا ہے مثلاً دیکھو خدا تعالیٰ نے حضرت موسی کے ذریعہ ایک شریعت یعنی تورات نازل فرمائی اور پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کوئی شریعت نازل نہ ہوئی لیکن اس دوران میں بنی اسرائیل میں بیسیوں نبی آئے.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی انہیں نبیوں میں سے ایک نبی تھے.جن کو کوئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ وہ صرف حضرت موسیٰ کی شریعت کی خدمت کے لئے مبعوث کئے جاتے رہے.اس جگہ کسی کو یہ خیال نہ آئے کہ حضرت عیسی گوتو انجیل د گئی تھی.کیونکہ انجیل کوئی شریعت کی کتاب نہیں بلکہ صرف غیر تشریعی کلام پر مشتمل ہے.چنانچہ انجیل میں خود حضرت مسیح “ اپنے شاگردوں سے فرماتے ہیں کہ :- و فقیہی اور فریسی موسیٰ کی گڈی پر بیٹھے ہیں.پس جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو لیکن اُن کے سے کام نہ کرو.کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں.(متی بات ۲۳) پھر فرماتے ہیں :- یہ نہ سمجھو کہ میں تو راہ یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں.منسوخ کرنے نہیں آیا بلکہ پورا کرنے آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین نہ مل جائیں ( یعنی جب تک کوئی نیاز مین و آسمان نہ ہو جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پیدا ہو گیا) ایک نقطہ یا ایک شوشہ تورات کا ہرگز نہ ملے گا جب تک سب کچھ نہ پورا ہو جائے.( یہ بھی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی طرف اشارہ 249

Page 260

ہے ) پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا وہ آسمان کی بادشاہت میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جوان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہت میں بڑا کہلائے گا“.(متی باب ۵ آیت ۱۷ تا ۱۹) ان حوالوں سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ناصری بلکہ حضرت موسیٰ کے بعد آنے والے تمام اسرائیلی نبی کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے صرف تو رات کی خدمت اور بنی اسرائیل کی روحانی اصلاح کے لئے مبعوث کئے گئے تھے.پھر خود قرآن شریف سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ ہر نبی کے ساتھ نئی شریعت کا نزول ضروری نہیں ہوتا بلکہ کئی نبی بغیر نئی شریعت کے بھیجے جاتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَقَفَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ.(سورۃ بقرہ ع۱۱) اور انَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَةَ فِيهَا هُدًى وَنُوْرٌ يَحْكُمْ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِينَ أَسْلَمُوْ لِلَّذِينَ هَادُوْا.(سورۃ مائدہ (ع) یعنی ” موسی کے بعد ہم نے پے در پے کئی نبی بھیجے جن کے ساتھ کوئی جدید شریعت نہ تھی بلکہ وہ اپنے تمام فیصلے تو رات کے مطابق کرتے تھے جن میں اُن کے لئے ہدایت اور نور کا سامان تھا.“ اس آیت کریمہ میں کیسے بین اور صاف الفاظ میں اس مسئلہ کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ بہت سے نبی ایسے گذرے ہیں جنہیں کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی.مگر جو شخص آنکھیں بند کر لے ہم اُسے کس طرح دکھا ئیں.غرض عقل خدا داد اور تاریخ اور قرآن شریف تینوں شہادت دے رہے ہیں کہ ہر نبی کے لئے نئی شریعت کا لانا ضروری نہیں ہوتا تو اب یہ کہنا کہ چونکہ قرآن شریف کے ساتھ نئی شریعت کا نزول اختتام کو پہنچ چکا ہے اس لئے اب کوئی نبی نہیں آسکتا ایک سراسر باطل دعوی ہے جس کی کچھ بھی حقیقت نہیں.250

Page 261

ہر نبی ایک معنی میں کتاب لاتا ہے بعض لوگ یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ قرآن شریف نے بعض ان نبیوں کے متعلق جن کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ کوئی نئی شریعت نہیں لائے یہ بیان کیا ہے کہ اُن کو کتاب دی گئی تھی.( مثلاً دیکھوسورۃ انعام ع۱۰) جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شریعت لائے تھے اس کے جواب میں جاننا چاہئے کہ کتاب کے لفظ سے یہ سمجھنا کہ اس سے نئی شریعت مراد ہے سخت دھوکے کی راہ ہے بلکہ حق یہ ہے کہ کتاب سے عموماً وہ کلام الہی مراد ہوتا ہے جو ایک نبی پر نازل ہوتا ہے خواہ وہ شریعت کا حامل ہو یا نہ ہو.گویا شریعت لانے والے نبی کی کتاب اُس تشریعی الہام کو کہتے ہیں جو اُ سے خدا کی طرف سے ملتا ہے اور غیر تشریعی نبی کی کتاب اس کلام الہی کو کہتے ہیں جو مبشرات ومنذرات کے رنگ میں اسے عطا کیا جاتا ہے.اسی واسطے قرآن شریف نے انجیل کو باوجود اس کے کہ وہ شریعت کی کتاب نہیں کتاب کہا ہے پس ثابت ہوا کہ کتاب سے ہمیشہ شریعت مراد نہیں ہوتی.دوسرے اس شبہ کا جواب یہ بھی ہے کہ گو بعض نبی نئی شریعت تو نہیں لاتے اور گذشتہ شریعت کی پیروی میں ہی مبعوث کئے جاتے ہیں، لیکن ایک جہت سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ بھی شریعت لائے ہیں کیونکہ ایک غیر تشریعی نبی بھی اُسی وقت مبعوث کیا جاتا ہے جب سابقہ شریعت کا علم لوگوں کے دلوں سے اُٹھ جاتا ہے.اس طرح وہ گویا پھر دوبارہ سابقہ شریعت کو دنیا میں قائم کرتا ہے پس با وجود اس کے کہ وہ کوئی نئی شریعت نہیں لاتا ایک لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ شریعت اور کتاب لایا ہے مثلاً حضرت عیسی کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے مگر اس میں کیا شک ہے کہ اُن کی بعثت ایسے زمانہ میں ہوئی جب تو راۃ معنوی طور پر بنی اسرائیل سے اُٹھ گئی تھی اور حضرت عیسی نے اُسے دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی.گویا اس معنی میں تو راۃ دوبارہ اُن پر نازل ہوئی.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا (یعنی مسیح موعود کی بعثت سے قبل کا زمانہ ) کہ جب قرآن دنیا سے اُٹھ جائے گا اس سے بھی یہی مراد ہے کہ قرآن دنیا میں ہوتے ہوئے دنیا سے مفقود ہو جائے گا.یعنی اس کے الفاظ تو موجود ہونگے مگر اس کی رُوح اُٹھ جائے گی اور پھر مسیح موعود دوبارہ 251

Page 262

اُسے دنیا میں قائم کرے گا.گویا مسیح موعود پر قرآن شریف کا دوبارہ نزول ہوگا پس ان معنوں کے لحاظ سے گویا حضرت مرزا صاحب علیہ السلام بھی شریعت لائے ہیں اور صاحب کتاب ہیں جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.ہر نبی یقیناً مطاع ہوتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی دوسرے نبی کا مطیع نہیں ہوتا.کہا جاتا ہے کہ قرآن شریف فرماتا ہے:.وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلِ الَّا لِيُطَاعَ بِاذْنِ اللَّهِ (سورة نساء ع ٩) یعنی ”ہم کوئی رسول نہیں بھیجتے مگر اس لئے کہ وہ مطاع ہو.یعنی لوگوں کا واجب الاطاعت امام بنے." اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر رسول کے لئے مطاع ہونا ضروری ہے پس ایسا شخص رسول نہیں ہو سکتا جو کسی دوسرے رسول کا مطیع ہو.مگر یہ ایک نہایت بودا خیال ہے جو محض قلت تدبّر سے پیدا ہوا ہے کیونکہ اس آیت میں تو صرف یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اس لئے بھیجا جاتا ہے کہ جن کی طرف وہ بھیجا گیا ہے وہ اس کی اطاعت کریں اور وہ جو کچھ کہے اُس کے مطابق چلیں.چنانچہ اس آیت کے ساتھ ہی دوسری آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.فَلَاوَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِي مَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِنْ مَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا.(سورة نساء ع۹) یعنی ” خدا کی قسم یہ لوگ ہرگز اپنے دعوی ایمان میں صادق نہیں ہو سکتے جب تک یہ اپنے تمام جھگڑے تیرے پاس فیصلہ کے لئے نہ لائیں.اور پھر تو جو فیصلہ کرے اس کے آگے اُن کے سر تسلیم شرح صدر کے ساتھ خم نہ ہو جائیں.“ 252

Page 263

اب یہ سارا مضمون بتا رہا ہے کہ اس جگہ اُن لوگوں کا ذکر ہے جن کی طرف رسول مبعوث ہوتا ہے یعنی اس جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ رسول ان تمام لوگوں کا مطاع ہوتا ہے جن کی طرف وہ مبعوث کیا جاتا ہے.پس اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ وہ کسی دوسرے رسول کا مطیع نہیں ہو سکتا ؟ قرآن شریف کھول کر دیکھو.کیا حضرت موسی اپنے بھائی ہارون سے یہ نہیں فرماتے کہ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِى ( سورۃ ط ع ۵) یعنی اے ہارون! کیا تو نے میرے حکم کی نافرمانی کی؟“ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے ماتحت تھے حالانکہ ہارون بھی اللہ تعالیٰ کے نبی تھے مگر چونکہ وہ حضرت موسی کے ماتحت تھے اس لئے حضرت موسی نے اُن پر غصہ کا اظہار کیا اور حکم عدولی پر سختی سے جواب طلب فرمایا.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ لو كان موسى حيا لما وسعه الا اتباعی ( بخاری ) یعنی اگر موسیٰ میرے وقت میں زندہ ہوتے تو میری اطاعت کے بغیر اُن کو بھی چارہ نہ ہوتا.ان سب مثالوں سے ظاہر ہے کہ ایک نبی دوسرے نبی کے ماتحت ہو سکتا ہے.ہاں جن لوگوں کی طرف وہ مبعوث کیا جاتا ہے اُن کا وہ ضرور مطاع ہوتا ہے.اب میں بفضلہ تعالیٰ ان تمام دلائل و شبہات کو مختصر ارڈ کر چکا ہوں.جو مسئلہ ختم نبوت کی بحث میں مخالفین کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں.لہذا اب میں نہایت مختصر طور پر بعض اُن براہین کا ذکر بھی کر دینا چاہتا ہوں جو ہم احمدی لوگ اپنے عقیدہ کی تائید میں رکھتے ہیں.وما توفیقی الا بالله _ سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ جو دلائل ہم نے مخالفین کے دلائل کے رد میں درج کئے ہیں وہ جہاں مخالفین کے عقیدہ کو باطل ثابت کر رہے ہیں وہاں وہ ساتھ ہی ہمارے عقیدہ کا صدق بھی عیاں کر رہے ہیں.گویا وہ ایک دو دھاری تلوار کی طرح ہیں جو ایک طرف تو مخالفین کے قول کو کالتی ہے اور دوسری طرف ہمارے قول کو قائم کر رہی ہے پس جو بحث او پر گذر چکی ہے وہی اس بات کے ثابت کرنے کے لئے بھی کافی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ کلی 253

Page 264

طور پر مسدود نہیں ہوا بلکہ صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے اور یہی ہمارا عقیدہ ہے.دراصل اس مسئلہ میں یہ قطعاً ضروری نہیں کہ ہم اپنے عقیدہ کی تائید میں بھی کچھ دلائل بیان کریں کیونکہ اس مسئلہ میں ہم مدعی نہیں بلکہ مجیب ہیں اور مدعی کی حیثیت ہمارے مخالفین کی ہے.ہمارے عقیدہ کے ثبوت کے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ جب سے دنیا کا سلسلہ شروع ہوا ہے سلسلہ نبوت جاری چلا آیا ہے پس جو شخص اس بات کا مدعی ہوتا ہے کہ اب یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ہے اس کا فرض ہے کہ اپنے اس دعوی کی تائید میں دلائل پیش کرے اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے یا جو دلائل وہ پیش کرے وہ جرح سے باطل ثابت ہو جائیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ سلسلہ نبوت بدستور جاری ہے اور یہ قطعا ضروری نہیں ہوگا کہ ہم اس کے جاری ہونے کے متعلق کوئی مزید دلائل بیان کریں.الہذا مخالفین کے عقیدہ کے رڈ میں جو کچھ اوپر بیان ہوا ہے وہی اس بات کے ثابت کرنے کے لئے بھی کافی ہے کہ سلسلہ نبوت اب بھی جاری ہے لیکن ایک متلاشی حق کی مزید تسلی کے لئے نہایت مختصر طور پر بعض زائد باتیں بھی اس جگہ بیان کی جاتی ہیں.قرآن شریف سے سلسلہ نبوت کا جاری ہونا ثابت ہے سب سے پہلے ہم قرآن شریف کو لیتے ہیں اس ضمن میں آیت خاتم النبین کی بحث اوپر گذر چکی ہے اور یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ نبوت کا دروازہ بند کرنا تو در کنار یہ آیت نہایت واضح طور پرطنی اور تابع نبوت کا دروازہ کھول رہی ہے.اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھاتا ہے کہ: - اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی ”اے ہمارے رب تو ہمیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے.یعنی ان لوگوں کے طریق پر چلا جن پر تو نے اپنے انعام کئے.“ اس جگہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ ہدایت فرماتا ہے کہ تم مجھ سے یہ دُعا کیا کرو کہ اے خدا ہمیں بھی اس مبارک گروہ میں شامل فرما جو منعم علیہم کی جماعت ہے اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ منعم علیہم 254

Page 265

کی جماعت سے کون لوگ مراد ہیں.اور وہ کون سے انعامات ہیں جو ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئے گئے تھے اس کے لئے ہمیں عقلی گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں منعم علیہ گروہ کی تفصیل بیان فرما دی ہے چنانچہ فرماتا ہے:.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِينَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا.(سورۃ النساء ع ٩) یعنی ” جو لوگ اللہ اور اُس کے اس رسول علﷺ کی اتباع اختیار کرتے ہیں وہ ان لوگوں میں شامل کئے جائیں گے جن پر اللہ نے انعام کئے ہیں اور وہ منعم علیہ کون ہیں؟ وہ نبی ہیں اور صدیق ہیں اور شہید ہیں اور صالح ہیں.“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تعین فرما دی ہے کہ منعم علیہ جماعت سے مراد نبی اور صدیق اور شہید اور صالح ہیں.گویا روحانی انعامات کے چار درجے ہوئے.اوّل نبوت یعنی خدا کی طرف سے کثرت مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہو کر اور نبی کا لقب پا کر لوگوں کی اصلاح کے لئے مبعوث ہونا.دوسرے صد یقیت یعنی خدا اور رسول کے احکام کی فرمانبرداری کا ایسا کامل نمونہ دکھانا کہ انسان گویا اپنے قول و فعل سے مجسم تصدیق ہو جائے اور فنافی اللہ اور فنافی الرسول کا درجہ پالے.تیسرے شہادت یعنی دین کے رستہ میں اس طرح اپنی جان لگا دینا کہ انسان کا وجود گو یا مذہب کی صداقت کے لئے ایک مجسم شہادت یعنی گواہی بن جائے اور چوتھے صالحیت یعنی اپنے آپ کو مذہب کا رنگ اختیار کرنے کے مناسب حال بنانا.اور اپنے اعمال کو دین کے مطابق بنانے کے لئے کوشاں رہنا گویا سب سے چھوٹا درجہ روحانی انعام اور قرب الہی کا یہ ہے کہ انسان صالح ہو جائے.اس سے اوپر کا درجہ شہید کا ہے اور اس سے اوپر کا درجہ صدیق کا ہے اور پھر اس سے بھی اوپر کا درجہ جو گو یا آخری روحانی درجہ ہے نبی کا ہے اور پھر ان چاروں درجوں کے اندر بھی مختلف درجے ہیں یعنی سب صالح ایک جیسے نہیں اور سب شہید ایک جیسے نہیں اور سب صدیق ایک جیسے نہیں اور سب نبی بھی ایک جیسے نہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ 255

Page 266

عَلَى بَغض.(سورۃ بقرہ ع۳۳) یعنی ” سب نبی اور رسول ایک درجے کے نہیں ہوتے بلکہ ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے.مگر بہر حال موٹی تقسیم کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے یہ چار روحانی در جے مقرر فرمائے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے.اب جاننا چاہئے کہ ایک طرف تو سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھائی ہے کہ مجھ سے تم وہ انعامات مانگو جو گذشتہ لوگوں پر میری طرف سے ہوتے رہے ہیں اور دوسری طرف خود انعامات کی تشریح فرما دی ہے کہ ان انعامات سے مراد نیقت اور صدیقیت اور شہادت اور صالحیت کے انعامات ہیں.گو یا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرماتا ہے کہ ہم اُس سے نبوت، صدیقیت ، شہادت اور صالحیت کے حصول کے لئے دُعا کیا کریں اور اپنی روحانی ترقیات کے منتہی کو پست نہ ہونے دیں.اب اس سے صاف ظاہر ہے کہ امت محمدیہ میں نبوت کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ اگر نبوت کا انعام اس اُمت پر بند ہوتا تو خدا تعالیٰ ہمیں ہرگز یہ دُعا نہ سکھاتا کہ مجھ سے نبوت کا انعام مانگو.اللہ تعالیٰ کا یہ دعا سکھانا صاف ظاہر کرتا ہے کہ اُس کا یہ منشاء ہے کہ اگر لوگ اس سے یہ انعامات مانگیں اور اپنے آپ کو ان کا جاذب بنا ئیں تو پھر وہ انہیں علی قدر مراتب اور حسب ضرورت زمانہ یہ انعامات عطا کرے گا ورنہ نعوذ باللہ یہ ماننا پڑے گا کہ ایک طرف تو خدا نے یہ دُعا سکھائی کہ تم مجھ سے تمام وہ انعامات مانگو جو میں نے تم سے پہلے لوگوں پر کئے ہیں اور جن میں نبوت بھی شامل ہے اور دوسری طرف خود نبوت کا دروازہ بند کر کے یہ فیصلہ فرما دیا کہ اب نبوت کا انعام کسی شخص کو نہیں مل سکتا.ایسی گری ہوئی حرکت تو ایک ادنی اخلاق کا آدمی بھی نہیں کرے گا کہ ایک طرف تو ایک فقیر سے یہ کہے کہ تم مجھ سے فلاں چیز مانگو اور دوسری طرف اُسے یہ سنائے کہ یہ چیز تو میں تمہیں کبھی نہیں دوں گا.کیا ایسے شخص سے کوئی یہ نہیں کہے گا کہ اے بھلے مانس جب تجھے وہ چیز دینی ہی نہ تھی تو بے چارے نادار درویش سے اس کا سوال کرنے کے لئے کہنا کیا ضروری تھا؟ افسوس ہمارے مخالفین نے خدا کی قدر نہیں کی.وہ بادشاہوں کا بادشاہ جس کے ایک گن سے یہ تمام عالم وجود میں آیا اور جس کے خزانے کبھی کم نہیں ہوتے ہمیں ایک سوال سکھاتا ہے اور خود کہتا ہے اور قرآن کے 256

Page 267

بالکل شروع میں کہتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے فلاں فلاں چیز مانگو.تو کیا اب اگر کوئی شخص اُس سے اس چیز کا سوال کرے گا اور اپنے آپ کو اُس کا جاذب بھی بنائے گا تو وہ اسے اس چیز کے دینے سے انکار کر دیگا ؟ یہ الگ بات ہے کہ سائل اس انعام کا حقدار ہی نہ ہو.یا زمانہ کی ضرورت اس کی متقاضی نہ ہو اور اس وجہ سے اُس کا سوال رڈ کر دیا جائے.مگر خدا را یہ غضب تو نہ کرو کہ انعام کا دروازہ ہی بند ہو جائے اور انعام بھی وہ جس کے مانگنے کی خود خدا تعالیٰ نے تعلیم دی ہے.خلاصہ کلام یہ کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ کا سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھانا کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِم اور دوسری طرف اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی تفسیر میں یہ فرمانا کہ اس سے صالح ، شہید، صدیق اور نبی مراد ہیں اس بات پر ایک بین دلیل ہے کہ نبوت کا انعام اس امت پر ہرگز بند نہیں ہوا بلکہ اب بھی جاری ہے اور جاری رہے گا.ہاں بیشک تشریعی نبوت ضرور بند ہے کیونکہ قرآن کے نزول سے شریعت مکمل ہو چکی ہے.دوسری دلیل جو قرآن شریف سے نبوت کے جاری ہونے کی تائید میں ملتی ہے وہ اس آیت میں بیان ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- يُبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ ابْتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورة اعراف عم) یعنی اے بنی آدم ! اگر تمہارے پاس میرے رسول آئیں تمہیں میں سے اور وہ بیان کریں تم پر میری آیات تو اس وقت جو شخص تقویٰ اختیار کرے گا اور اپنی اصلاح کرے گا تو ایسے لوگوں پر کسی قسم کا خوف غالب نہیں آئے گا اور نہ وہ غمزدہ ہونگے.“ اس آیت کریمہ کے سیاق وسباق سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں ” بنی آدم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک سے بعد کے لوگ مراد ہیں.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اللہ تعالیٰ لوگوں سے یہ خطاب فرما رہا ہے کہ اے لوگو اگر تمہارے پاس میرے رسول آئیں جو تم پر میری آیات پڑھیں تو تم تقویٰ اختیار کرنا اور انہیں مان کر اپنی اصلاح کرنا.اگر تم ایسا کرو گے تو تم ہر قسم کے خوف اور حزن سے محفوظ ہو جاؤ گے.اب ناظرین انصاف سے دیکھیں کہ 257

Page 268

کس وضاحت اور کس صفائی کے ساتھ اس آیت کریمہ میں نبوت کے جاری ہونے کا ذکر موجود ہے اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے دنیا کو مخاطب کر کے فرمارہا ہے کہ اے لوگو اگر آئندہ کسی زمانہ میں تمہارے پاس رسول آئمیں جو تمہیں میں سے ہونگے تو تم انکا انکار نہ کرنا.بلکہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا اور ان رسولوں کو مان کر اپنی اصلاح کرنا.یہ تمہارے خوف اور حزن کے دور کرنے کا موجب ہوگا.خوف اور حزن سے محفوظ ہونے کے الفاظ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ آنے والا رسول اس زمانہ میں آئے گا کہ جب مسلمانوں پر بہت خوف اور حزن طاری ہوگا.مگر جو لوگ اس رسول کو مان لیں گے اُن سے یہ خوف و حزن دور کیا جائے گا.اور آیت میں رسل کا لفظ جو بصیغہ جمع بیان کیا گیا ہے اس میں اُس حقیقت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے جو آیت وَإِذَ الرُّسُلُ أَقِتَت.(سورۃ مرسلات) میں بیان ہوئی ہے جس سے یہ مراد ہے کہ آخری زمانہ میں تمام رسول ( ایک ہی بروزی وجود میں ) جمع کئے جائیں گے.اور یہ بروز مسیح موعود ہے گویا آیت زیر غور میں جو رسل کا لفظ جمع کے صیغہ میں استعمال ہوا ہے اس سے ایک سے زیادہ رسول بھی مراد ہو سکتے ہیں اور صرف مسیح موعود بھی مراد ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تمام رسولوں کا بروز ہونے کی وجہ سے اُن سب کا قائم مقام ہے اور اس آیت میں جو منکم کا لفظ رکھا گیا ہے اس میں یہ اشارہ بھی مقصود ہے کہ مسیح موعود اس وقت مبعوث ہو گا جب مسلمان آنے والے مسیح کو کسی غیر اُمت میں سے سمجھ رہے ہونگے مگر وہ اُنہیں میں سے آئے گا.اسی لئے کہا گیا کہ اگر وہ تم میں سے آئے تو انکار نہ کرنا.بہر حال یہ آیت خواہ عام ہو یا کہ خاص مسیح موعود کی بعثت کے متعلق ہو اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نہایت وضاحت کے ساتھ اس بات کا فیصلہ فرما دیا ہے کہ امت محمدیہ میں نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا بلکہ اُمید دلائی ہے کہ مسلمانوں میں خدا کی طرف سے رسول مبعوث کئے جائیں گے.حدیث سے سلسلہ نبوت کا جاری ہونا ثابت ہے اب میں حدیث کو لیتا ہوں.اس ضمن میں بعض احادیث کی بحث او پر گذر چکی ہے ان 258

Page 269

کے علاوہ میں اس جگہ دو حدیثیں اور پیش کرتا ہوں جن سے یہ بات صاف طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ امت محمدیہ میں نبوت کا دروازہ بند نہیں بلکہ گھلا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ نے فرمایا :- لوعاش ابراهيم لكان صديقاً نبيا.(ابن ماجہ جلدا کتاب الجنائز) یعنی اگر میرا یہ بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو ضر ورصدیق نبی ہو جاتا.“ اس حدیث کے معنوں میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں.الفاظ صاف ہیں اور مطلب بالکل واضح اور وہ یہ کہ اگر میرا یہ بیٹا جو قضاء الہی سے فوت ہو گیا ہے فوت نہ ہو جا تا اور زندہ رہتا تو وہ ضرور نبی ہوتا.آپ یہ نہیں فرماتے کہ اس بچے میں فطری استعداد کے طور پر نبوت کا مادہ موجود تھا.بلکہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ زندہ رہتا تو نبی ہو جاتا.آب امکانی طور پر اس حدیث کے صرف دو ہی معنے ہو سکتے ہیں.یاتو یہ کہ میرا بیٹا ابراہیم اگر زندگی پا تا توضرور نبوت کے مقام کو پہنچ جاتا لیکن چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُسے وفات دیدی اور یا یہ سمجھا جائے کہ نبوت کا دروازہ کھلا ہے اور اگر ابراہیم زندہ رہتا تو نبی بن جاتا.ان دور استوں کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں.یعنی امکانی طور پر عقلاً صرف دو نتیجے ہی نکالے جاسکتے ہیں یا تو یہ کہ نبوت کا دروازہ کھلا ہے اور یا یہ کہ چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو وفات دیدی کہ کہیں وہ بڑا ہو کر نبی نہ بن جائے.گویا یا تو نبوت کا دروازہ کھلا ماننا پڑے گا اور یا ابراہیم کی وفات کی وجہ یہ قرار دینی پڑے گی کہ خدا نے خیال کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ نبی بن کر نبوت کے دروازہ کو جو بند ہو چکا ہے کھول دے اس لئے خدا نے خوف کھا کر اُسے بچپن میں وفات دیدی کہ تا نہ ابراہیم بڑا ہو اور نہ نبوت کا دروازہ کھلنے پائے.گویا ابراہیم کی پیدائش کے وقت تو خدا نعوذ باللہ یہ بات بھول گیا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر نبی بن جائے گا اس لئے اُس نے غلطی سے اسے پیدا ہونے دیا.مگر بعد میں جب وہ پیدا ہو چکا تو خدا کو یہ بات یاد آئی اور اُس وقت اُس نے جلدی سے اُسے وفات دیدی.اب ناظرین خود سوچ لیں کہ ان دونوں مفہوموں میں کونسا مفہوم درست اور قابلِ قبول ہے ہمارے نزدیک تو یہ حدیث بآواز بلند پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس امت مرحومہ کے لئے 259

Page 270

نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا بلکہ کھلا ہے.اس کے علاوہ اس حدیث سے آیت خاتم النبین کے معنوں پر بھی کافی روشنی پڑتی ہے.کیونکہ تاریخ اسلامی کا ادنی مطالعہ رکھنے والوں کو بھی یہ بات معلوم ہوگی کہ حضور کے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات کا واقعہ آیت خاتم النبین کے نزول سے کئی سال بعد کا ہے کیونکہ آیت خاتم النبین ۵ھ میں نازل ہوئی تھی اور صاحبزادہ ابراہیم کی وفات 9 ب ھ میں ہوئی تھی.پس با وجود آیت خاتم النبین کے نازل ہو چکنے کے آپ کا یہ فرمانا کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہو جاتا اس بات کی پختہ دلیل ہے کہ آپ کے نزدیک خاتم النبیین سے یہ مراد ہرگز نہ تھی کہ آپ کے بعد نبوت کا دروازہ بالکل مسدود ہو چکا ہے.دوسری دلیل جو باب نبوت گھلا ہونے کے ثبوت میں حدیث سے ملتی ہے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو جس کا اس امت میں وعدہ دیا گیا ہے نبی اللہ کے نام سے یاد کیا ہے اور صرف ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ اسی نام سے اس کا ذکر فرمایا ہے چنانچہ صحیح مسلم میں جو حدیث نواس بن سمعان سے وارد ہوئی ہے اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چار دفعہ مسیح موعود کے متعلق نبی اللہ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :.يحصر نبی اللہ عیسی....- يرغب نبی اللہ عیسی....- يهبط نبی الله عيسى......يرغب الله عيسى.....(دیکھو مسلم باب ذکر الدجال ) یعنی ”خدا کا نبی عیسی مسیح جو آخری زمانہ میں نازل ہوگا وہ یہ کرے گا اور یہ کر دیگا.الخ اب اس بین دلیل کے بعد کسی شک کی کیا گنجائش رہ سکتی ہے کہ خودسرور کائنات اپنی زبان مبارک سے آنے والے مسیح کو نبی اللہ کے نام سے یا دفرماتے ہیں اور صرف ایک حدیث میں چار دفعہ یہی الفاظ دُہراتے ہیں تاکسی قسم کا اشتباہ نہ رہے.اس حدیث سے دو نتیجے نکلتے ہیں.ایک یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہو سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ مسیح موعوداللہ کا نبی ہے.260

Page 271

اسی طرح بخاری کی ایک حدیث میں آپ فرماتے ہیں:.انا أولى الناس بابن مريم والانبیاء اولاد علّات لیس بینی وبینہ نبی.بخاری باب و اذکر فی الکتاب (مریم) اور ابو داؤد کی ایک حدیث میں فرماتے ہیں :- لیس بینی و بینۂ نبی وَانَّہ نازل فاذارأيتموه فاعرفوه (ابوداؤد کتاب الملاحم) یعنی میں سب لوگوں کی نسبت مسیح ابن مریم سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں اور ویسے گوما میں مختلف ہوں مگر سب نبی در اصل روحانی لحاظ سے ایک ہی باپ کے بیٹے ہوتے ہیں اور میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں اور مسیح آئندہ زمانہ میں نازل ہونے والا ہے.پس جب تم اُسے دیکھو تو ضرور پہچان لینا.“ اب دیکھو اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو نبی کے نام سے یاد کیا ہے کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ گوسب انبیاء ایک دوسرے کے پدری بھائی ہیں مگر میں سب سے زیادہ مسیح موعود کے مشابہ ہوں جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک مسیح موعود زمرہ انبیاء میں داخل ہے دوسرے اس حدیث میں آپ یہ بھی صراحت فرماتے ہیں کہ میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں اور سابقہ مسیح سے ممتاز کرنے کے لئے یہ تشریح فرماتے ہیں کہ اس جگہ میری مراد اس صحیح سے ہے جو آئندہ نازل ہونے والا ہے.ان الفاظ کے بھی صاف یہی معنے ہیں کہ مسیح موعود اللہ کا نبی ہے کیونکہ جب آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی اور نبی نہیں تو ان الفاظ کا طبعی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مسیح موعود خدا کا نبی ہے.علاوہ اس کے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہ نازل" کے الفاظ فرما کر عیسی بن مریم کی شخصیت بھی معین فرما دی ہے اور فیصلہ کر دیا ہے کہ اُس سے بنی اسرائیل کا مسیح مراد نہیں جو گذر چکا بلکہ امت محمدیہ کا مسیح مراد ہے جو آخری زمانہ میں آنے والا ہے اس حدیث کے 261

Page 272

اگلے حصہ میں مسیح کا جو کام بتایا گیا ہے وہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس جگہ گذشتہ مسیح کا ذکر نہیں بلکہ آنے والے مسیح کا ذکر ہے کیونکہ اس کے متعلق گسر صلیب اور قتل دقبال وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو مسلمہ طور پر آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والے مسیح سے تعلق رکھتے ہیں.پس ثابت ہوا کہ نہ صرف یہ کہ امت محمدیہ میں نبوت کا دروازہ کھلا ہے بلکہ یہ بھی کہ مسیح موعود خدا کا ایک نبی ہے.تعجب ہے کہ ہمارے مخالف حدیث لا نَبِیَ بَعْدِی کو تو یا در کھتے ہیں مگر ان حدیثوں کو بھول جاتے ہیں جن میں صریح طور پر مسیح موعود کو نبی کہا گیا ہے حالانکہ حق یہ تھا کہ جب دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثیں تھیں تو دونوں قبول کی جاتیں اور ظاہری تضاد کو دُور کر کے اُن کے درمیان تطابق کی راہ نکالی جاتی.مگر ایسا نہیں کیا گیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے مخالفین کو محض اپنی خواہشات کی پیروی منظور ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع منظور نہیں.ورنہ رستہ صاف تھا کہ جہاں لا نَبِيَّ بَعْدِی کہا گیا ہے وہاں شریعت والی نبوت مراد ہے اور جہاں اپنے بعد کسی نبی کی خبر دی گئی ہے وہاں غیر تشریعی اور کلی نبوت مراد ہے.اس طرح دونوں قسم کی حدیثیں اپنی اپنی جگہ سچی ثابت ہوتی ہیں اور کوئی تضاد پیدا نہیں ہوتا.نبوت کے متعلق بحث کا خلاصہ خلاصہ کلام یہ کہ یہ ایک خطرناک غلطی ہے کہ ہر قسم کی نبوت کا دروازہ کلی طور پر بند سمجھ لیا گیا ہے.قرآن شریف اور حدیث نبوی اس عقیدے کی ہرگز تعلیم نہیں دیتے بلکہ بڑی وضاحت کے ساتھ بتا رہے ہیں کہ نبوت کا انعام اب بھی اُسی طرح جاری ہے جس طرح پہلی اُمتوں میں جاری تھا مگر اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک نہیں ہے بلکہ آپ کی ارفع شان کا اظہار ہے کیونکہ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے حضرت مسیح موعود نے یہ انعام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اور آپ کا ظل بن کر حاصل کیا ہے لیکن پہلے نبیوں میں سے کوئی ایسا نبی نہیں گذرا جس نے اپنے نبی متبوع کی پیروی سے نبوت کا انعام پایا ہو بلکہ وہ براہ راست خدا سے یہ انعام حاصل کرتے تھے اور کسی گذشتہ نبی کی پیروی کا اس میں دخل نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے نبی 262

Page 273

جامع جمیع کمالات نہ تھے ، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود با وجود جامع جمیع کمالاتِ ثبوت ہے پس پہلے جو انعام بلا واسطہ ملتا تھا اب وہ بواسطۂ قرآن اور بواسطہ حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم ملتا ہے.بیشک حضرت موسی کی امت میں بہت سے نبی آئے لیکن انہوں نے حضرت موسی کی پیروی کی وجہ سے نبوت نہیں پائی تھی بلکہ ان کی نبوت خدا کا ایک ایسا انعام تھا جو بلا واسطہ اور براہ راست اُن پر کیا گیا اور اس کے بعد وہ تو راۃ کی خدمت کے لئے مامور کر دیئے گئے.مگر محمد رسول اللہ کا افاضہ روحانی اس کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ آپ کی پیروی علی قدر مراتب ہر قسم کے روحانی انعام کی جاذب ہو سکتی ہے اور آپ کی روحانی توجہ نبی تراش ہے.اسی لئے آپ خاتم النبتين یعنی صاحب خاتم قرار دیئے گئے اور کوئی اور نبی اس نام کا مستحق نہیں ہوا.فالحمد للہ علی ذالک.مگر افسوس کہ خود مسلمان کہلانے والوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ عزت پسند نہ کی اور صاحب خاتم کے عالی شان مرتبہ کے متعلق نہ چاہا کہ وہ آپ کی طرف منسوب ہو.خدا نے آپ کو خاتم النبین بنایا اور کہا کہ اب تمام کمالات روحانی کی مہر تیرے ہاتھ میں دی جاتی ہے جس پر یہ مہر ثبت ہوگی وہ انعام پائے گا اور دوسرا محروم رہے گا.مگر مسلمانوں کو یہ مہر آپ کے مقدس ہاتھ میں نہ بھائی.انہوں نے کہا ہم اس مہر کو نہیں مانتے ہم تو اُس مہر کے قائل ہیں جو آتی ہے توصف لپیٹ دیتی ہے.لگتی ہے تو دفتر بند کر کے ہلتی ہے.خدا نے فرمایا اچھا آنا عند ظن عبدی ہی.میں تمہارے خیال کے مطابق ہی تم سے سلوک کرونگا اور اب تم پر وہی مہر لگائی جائے گی جو تم نے پسند کی ہے.ختم الله على قلوبهم و على سمعهم و على ابصارهم غِشَاوَة- صُمٌّ بُكُمُ عمى فهم لا يرجعون.فَإِنَّا لِلهِ وانا اليه راجعون.(مسئلہ ختم نبوت کی مفصل بحث کے لئے خاکسار مصنف کا رسالہ ختم نبوت کی حقیقت مطالعہ فرمایا جائے ).263

Page 274

نبوت کے متعلق حضرت مرزا صاحب کے دو فیصلہ کن حوالے نبوت کی بحث کو حضرت مرزا صاحب کے دو حوالوں پر ختم کرتا ہوں.فرماتے ہیں:.بقت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑ کی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی.پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اُس پر ظلمی طور پر اسی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے....میری نبوت ورسالت باعتبار محمد و احمد ہونے کے ہے نہ کہ میرے نفس کی رُو سے.اور یہ نام بحیثیت فنافی الرسول مجھے ملا ہے لہذا خاتم النبیین کے مفہوم میں فرق نہ آیا“.(ایک غلطی کا ازالہ ) پھر فرماتے ہیں:.اس امت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی....میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُسی نے مجھے بھیجا ہے اور اُسی نے میرا نام نبی رکھا ہے...خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا.(حقیقۃ الوحی ) کتاب کا خاتمہ اور خاکسار مصنف کی طرف سے دُعا اب میں اس مضمون کو جس میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے مختلف دعاوی کے متعلق بحث کی گئی ہے ختم کرتے ہوئے خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے بھائیوں کی آنکھوں کے پردوں کو دُور فرمائے تا وہ دیکھیں اور ان کے کانوں کے بوجھوں کو اتارے تا وہ سُنیں اور ان کے دلوں کی مہروں کو توڑے تا وہ سمجھیں.افسوس اُن پر کہ رات کی تاریکی دُور ہونی شروع ہوگئی اور قرص آفتاب افق مشرق سے بلند ہونے لگا.حتی کہ مغرب کے سونے والوں نے بھی کروٹ بدلی.مگر ان نیند کے ماتوں کو ہوش نہ آیا.عزیز و! پیارو! ہماری آنکھوں کے تارو! عمر تھوڑی ہے اور 264

Page 275

وقت بہت کم.پھر خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے، جہاں اپنے کئے کی جواب دہی کرنی پڑے گی ایسا نہ ہو کہ ایک صادق کو رڈ کر بیٹھو اور پھر پچھتانا پڑے جو وقت گذر جاتا ہے وہ پھر ہاتھ نہیں آتا اور جو موقعہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے وہ پھر حاصل نہیں ہوتا.پس سوچو اور سمجھو اور پھر سوچو اور سمجھو! اور حضرت مرزا صاحب کے دعوے کو اپنے من گھڑت اصولوں سے نہیں بلکہ خدا کے بتائے ہوئے معیاروں سے پر کھو اور صداقت کو تعصب کی آنکھوں سے نہیں بلکہ سچائی کی پیاسی نظروں سے تلاش کرو.خدا تمہاری آنکھیں کھولے اور ہماری آنکھوں کو ٹھنڈا کرے.آمین ثم ثم آمین یا ارحم الراحمين.وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين ت بالخ ـير 265

Page 275