Language: UR
زیر نظر کتاب سوانح سیدنا بلالؓ’’ حصہ اول 1980ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی اور اس کا دوسرا حصہ 1981ء میں شائع ہوا جو کہ ہجرت مدینہ تک کے واقعات پر مشتمل تھا۔ یہ دونوں حصے مکرم محترم حسن محمد خان صاحب عارف ایم اے نے تصنیف فرمائے اور محترم صاجزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم اے سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے نظر ثانی فرمائی تھی۔ زیر نظرٹائپ شدہ ایڈیشن میں اس بزرگ ہستی جو دنیا کی نظر میں ایک حبشی غلام تھا مگر اسلام کی آمد سے برپا ہونے والے انقلاب کی بدولت عرب کے بڑے بڑے سردار اور آقا اسے’’سیدنا بلال‘‘کہنے میں فخر محسوس کرتے تھے ، جن کے قدموں کی چاپ جنت میں حضرت نبی کریم ﷺ نے سنی، عرش کا خدا جس کی’’اسھد أن لاالہ الا اللہ‘‘ سن کر خوش ہوتاتھا۔ اسی معزز بلالؓ کی زندگی کی جھلکیاں پیش کررہی ہے۔
سیدنا بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ دیباچه جنت میں جس کے قدموں کی چاپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی ، عرش کا خدا جس کا أسهد أن لا اله الا اللہ سن کر خوش ہوتا ہے.مکہ کے پہاڑ اور صحرا کی گرم ریت جس کی أحد، أحد کی آواز کو دبا نہ سکے اور جس حبشی غلام کو بڑے بڑے آقا اور سردار سیدنا بلال“ کہنے میں فخر محسوس کرنے لگے اسی بلال کی زندگی کی ایک جھلک پیش خدمت ہے.بلال کا نام اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک اسلام کا نام زندہ رہے گا اور اسلام کا نام قیامت تک کے لئے زندہ ہے.بلال کی یاد اس وقت تک دلوں میں قائم رہے گی جب تک اللہ اکبر اللہ اکبر أشهد أن لا اله الا الله کی صدائیں میناروں سے گونجتی رہیں گی.اور بلال کی احد، احد کی صدا مظلوموں اور مجبوروں کو ہمیشہ استقامت اور عزم و ہمت کے حوصلے دیتی رہے گی اور انہیں یہ نوید سناتی رہے گی کہ خدا اپنے سچے عاشقوں اور ایمانداروں کو کبھی ضائع نہیں کرتا.وہ خورشید کی مانند اس دنیا میں جیتے ہیں جو کبھی ڈوبتے نہیں.اور ان کو ہمیشہ عزت اور فخر کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے.وہ جو غلام ہوتے ہیں آقا بن جایا کرتے ہیں.ان کے ناموں کو رفعتیں عطا کی جاتی ہیں وہ کبھی فنا نہیں ہوتے.ایسے ہی ناموں میں سے ایک نام بلال ہے.سیدنا بلال.
سیدنا بلال پیش لفظ " میں بلال ہوں بتوں کے سائے میں شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے احمدی نو جوانوں اور بچوں کو بزرگانِ سلف کی سیرت و سوانح سے واقفیت دلانے کے لئے سادہ اور مختصر تحریر میں کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا ہے.زیر نظر کتاب ”سوانح سید نابلال حصہ اوّل 1980ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی ہے.اس کا دوسرا حصہ 1981ء میں شائع ہوا جو کہ ہجرت مدینہ تک کے واقعات پر مشتمل تھا.یہ دونوں حصے مکرم و محترم حسن محمد خان صاحب عارف ایم.اے نے تصنیف فرمائے اور محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم.اے سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ اور ملک خالد مسعود صاحب سابق مہتم اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے ان دونوں حصوں پر نظر ثانی فرمائی تھی.محترم محموداحمد صاحب سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زمانہ صدارت میں یہ دونوں حصے شائع ہوئے.2000ء میں دوبارہ ان کتب کو شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا تو اس کتاب کو مکمل کرنے کے لئے مکرم و محترم فرید احمد نوید صاحب استاذ جامعہ احمدیہ (حال صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان) سے درخواست کی گئی جس پر انہوں نے بڑی محنت کے ساتھ بقیہ حصہ کومکمل کیا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء سیدنا بلال اس کتاب کی اشاعت کے تمام مراحل میں جس کسی دوست نے بھی تعاون فرمایا ہے ہم سب کے ممنون ہیں اور احباب سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو بہترین اجر سے نوازے.فجزاهم الله احسن الجزاء
سیدنا بلال 1 عنه بلال وله میں بلال ہوں“ بتوں کے سائے میں بتوں کے سائے میں میں بلال ہوں.حبشہ میرا وطن تھا میرے ابا کا نام رباح تھا.وہ بھی غلام تھے اور میری امی کا نام حمامہ تھا اور وہ بھی غلام تھیں.گویا میں خاندانی غلام ہوں.جب مجھے مکہ کی منڈی میں میرے آقا امیہ بن خلف نے خریدا تو جانتے ہو ان دنوں غلام کیا چیز ہوا کرتی تھی ؟ بھیڑ، بکری، گائے یا اونٹ کی کچھ قدر تھی لیکن غلام اس سے بہت کمتر تھا.غلام جب پکھتا تھا تو صرف موت اسے آزاد کراتی تھی.اس کی زندگی اس کے مالک کا حکم بجالانا ہوتا تھا.غلام حکم نہ ماننے کا تو کبھی خیال بھی نہیں کر سکتا تھا.محنت کے بوجھ تلے آ کر غلام مر گیا تو مالک کی بلا سے.اُسے اگر غم ہوتا تو صرف یہ کہ اُس کی رقم کا نقصان ہو گیا وگر نہ غلام کی زندگی ختم ہو جانے کا کوئی دُکھ نہیں ہوتا تھا.میں دو مرتبہ غلام بنا.پہلی بار امیہ بن خلف مکہ کے ایک سردار نے مجھے خریدا اور دوسری بار ابو بکر نے مجھے اس سے خرید کر محمد(ﷺ) کا غلام بنا دیا.پہلے مالک کی غلامی میں ذلیل وخوار تھے اور مجھے اس بیدردی سے مارا جاتا تھا کہ ایک مرتبہ مجھے اس مار کی وجہ سے مردہ سمجھ کر ہی چھوڑ کر چلے گئے.دوسری غلامی میں میں اتنا معزز ہوا کہ آدھی دنیا کے بادشاہ حضرت عمر مجھے سیدنا بلال“ کہہ کر پکارا کرتے تھے.یہ غلامی میرے لئے بادشاہی سے کم نہ تھی.مجھے سردار دو جہاں کی وہ خدمت نصیب ہوئی جسے بڑے بڑے سرداروں نے بھی رشک کی نگاہوں سے دیکھا.میرا جسم دبلا پتلا ہے اور قد لمبا ہے اور میں دوسروں میں اونچے درخت کی طرح نظر آتا ہوں.میں حبشہ کا رہنے والا ہوں اور اپنے ملک کے لوگوں کی طرح میرا رنگ کالا ہے.میرا ایک 2 سیدنا بلال بھائی خالد ہے وہ بھی مسلمان ہے.میری ایک بہن عقرہ ہے.میری کنیت ابو عبد اللہ ہے اور بعض اوقات لوگ مجھے ابو عمر بھی کہتے ہیں.میری آواز بہت بلند ہے اور بہت اثر کرنے والی ہے.میں آپ کو وہ باتیں سناؤں گا جو میں نے خود دیکھیں یا جو مجھ پرگزرگئیں.میں نے اسلام کا آغاز دیکھا.میں نے اپنے آقا کی دُکھوں بھری زندگی بھی دیکھی اور پھر میں نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب آپ دس ہزار مقدس ساتھیوں کے ساتھ اُسی مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے جہاں سے مکہ والوں نے انہیں نکل جانے پر مجبور کر دیا تھا.میں نے اُس دن اُن کا اعلان بھی سنا کہ اگر کوئی ان کے غلام کے جھنڈے تلے بھی آجائے گا اسے امان دی جائے گی اور اسے کچھ نہیں کہا جائے گا.جانتے ہو اس غلام کا کیا نام تھا وہ میں تھا جس کا نام بلال ہے.غلاموں کی اتنی عزت شاید آسمان نے اور زمین نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی.بتوں کے سائے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کا اعلان فرما چکے تھے مخالفت کی آندھیاں چلنی شروع ہوگئی تھیں.کعبہ میں بچوں کے ہجوم تھے.تین سو ساٹھ تھے یا تین سو پینسٹھ.ہر قبیلہ کا علیحدہ بت.ہر دن کا علیحدہ بت، ہر تقریب کا علیحدہ بت، دُکھوں کے بت سکھوں کے بت، ان میں دیوتا بھی تھے اور دیویاں بھی.لات، منات اور عز کی سب سے محترم دیویاں تھیں.سارے عرب کے قبائل ہر سال مکہ آتے اور ایک خاص مہینہ ذوالحجہ میں حج کی رسومات ادا کرتے.یہ وہ دن ہوتے کہ جب کعبہ دار الامن ہوتا.کوئی کسی کو کچھ نہ کہہ سکتا.لڑائی جھگڑے سب بند قتل و خوں ریزی کے دلدادہ عرب یہ دن بڑے امن وسکون سے گزارتے.کعبہ کے مجاوروں کے کمائی کے دن بھی یہی ہوتے تھے.انہی دنوں منڈی بھی لگتی.شام کے سوداگر آتے ، یمن سے بحری تاجر پہنچتے.یمن کے تاجر اپنا مال لاتے اور اس ملک سے بھی اور اُس ملک سے
سیدنا بلال 3 بتوں کے سائے میں دل بدل گیا 4 سیدنا بلال بھی یا شاید ہر ملک سے مال آتا.غلام بھی پکنے کے لئے آیا کرتے تھے.غلہ ، کپڑا ، مرچ مصالحہ، مال مویشی سب سکتے.دیوی دیوتاؤں کے بُت بھی اسی قسم کی منڈیوں میں پکا کرتے.انہی دنوں کا ذکر ہے کہ میں ایک مرتبہ ابو جہل کے غلام کے ساتھ کعبہ کی دیوار کے سایہ تلے بیٹھا تھا کہ ابو جہل وہاں سے گزرا.ہنستے ہوئے کہنے لگا.لومیاں ! یہ ہے جو اللہ میاں سے باتیں بھی کرتا ہے.اپنے مالک کی آواز سُن کر اُس کا غلام تو جھٹ کھڑا ہو گیا اور اپنے آقا کے حکم کا انتظار کرنے لگا لیکن بات ہنسی میں اُڑ گئی.و لیکن پانی پر بھی تو چل کر دکھاؤ“.یہ آواز میرے آقا امیہ بن خلف کی تھی جو آج جہنم میں پڑا جل رہا ہے.پھر میں نے دیکھا کہ عبداللہ کے بیٹے محمد (ع) تنہا خاموش اور سر جھکائے چلے آرہے ہیں اور وہ کعبہ سے مڑ کر پہاڑی کی طرف چلے گئے.لوگ کہا کرتے کہ یہاں ایک فرشتہ آ کر اُن سے باتیں کرتا ہے.ابو سفیان بھی وہیں تھا.وہ سنجیدہ قسم کا آدمی تھا.یونہی جنسی میں بات اُڑانا اس کی عادت نہیں تھی.اس کے چہرہ پر پریشانی نظر آ رہی تھی.وہ سوچ رہا تھا کہ اس قسم کا کفر اگر پھیلتا گیا تو ہمارے دیوتا ہم سے ناراض ہو جائیں گے.اُس نے ابولہب کو کچھ غصے کی نظروں سے دیکھا اور اسے کہا.یہ تمہارا ہی تو بھتیجا ہے اسے سیدھا کرو.یہ تمہارے خاندان کا فرد ہے“.ابولہب اس وقت کچھ نشہ کی حالت میں تھا.کہنے لگا.چالیس برس کا ہو گیا ہے ذرا عقل نہیں آئی.ہے تو میرا ہی بھتیجا لیکن خاندان کے نام کو بٹہ لگا گیا ہے.پاگل کہیں کا.ابھی کل اپنے غلام کو بیٹا بھی بنا لیا ہے.پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے جو کوئی اس کے در پر جاتا اور جو مانگتا ہے کبھی انکار نہیں کرتا.ہر ایرے غیرے کو کھانا کھلا دیتا ہے.دسیوں آکر اسے یوں بیوقوف بنا کر چل دیتے ہیں.کسی کو بکری، کسی کو بھیٹر کسی کو کچھ کسی کو کچھ.خالی ہاتھ اس کے در سے کوئی نہیں جاتا.میں کیا کروں.بھتیجا پاگل ہو جائے تو چچا کیا کرے؟“ یہ کہہ کر ابولہب نے اپنے ارد گرد ساتھیوں کو اس نظر سے دیکھا کہ شاید وہ اس مشکل کا کوئی حل بتا ئیں.پریشانی بڑھتی جارہی تھی اور اس عالم میں ابوسفیان کا بازو پکڑ کر کچھ منتظر ہوکر بولا.ابوسفیان! سوچو تو سہی.جوان آدمی ، مضبوط اور صحت مند.بیوی بھی مالدار اور دولت مند اور شہر میں عزت و احترام.کیا چاہیے اور اسے ؟ اب دیکھو پہاڑ پر گیا ہے.غار میں بیٹھا سردی سے کانپ رہا ہوگا.سمجھتا ہے کہ فرشتہ آ کر اس سے باتیں کرتا ہے.میں تو سمجھتا ہوں اس کے کان بجتے ہیں اور یہ سمجھتا ہے کہ فرشتہ ہے.یہ بات سن کر سب فکرمند ہو گئے.آخر جنون تو جنون ہے.پاگل پاگل کہہ دینے سے تو کسی کا پاگل پن جاتا نہیں اور کہنے سننے سے پاگل اچھے کب ہوئے ہیں.کچھ لمحوں بعد ابولہب پھر فکرمندی کے لہجہ میں بولا.بھی کون سا زیادہ عرصہ گزرا ہے؟ سال بھر پہلے ہی کی تو بات ہے تم سب اسے جانتے تھے اس کی عزت بھی کرتے تھے.اس وقت تم لوگ اس کا ٹھٹھا مخول بھی نہیں اڑاتے تھے.اور تو اور تم لوگ اس کے پاس اپنے جھگڑے تک تو طے کرانے لے جایا کرتے تھے.آخر اسے سیانا ہی سمجھتے تھے نا تبھی تو تم لوگ اس کے پاس جاتے تھے.ابوسفیان بولا.
سیدنا بلال 5 دل بدل گیا دل بدل گیا 6 سیدنا بلال ”اچھا ٹھیک ہے.ہمارے دیوی دیوتا تو خود اس سے سمجھ لیں گے.لیکن یہ جو غریب فقیر یا غلام علمٹے اس کے ساتھ چمٹنے شروع ہوئے ہیں.ان سے تو میں نمٹوں گا جو کنگلا کنگال ہے اس کے ساتھ ہو جاتا ہے.ابھی یہ گفتگو ہورہی تھی کہ عمار وہاں آگئے.عمار کوئی امیر یا سرمایہ دار نہ تھے لیکن غلام بھی نہ تھے آزاد تھے اور اسلام لاچکے تھے.ان ظالموں نے انہیں پکڑ لیا اور گر ا لیا.لیکن اُن کا سر نہ جھکا سکے.وہ بھی اگر غلام ہوتے تو جھکی گردن، نیچی آنکھوں اور دوہری ٹانگوں کو اپنی جان کی حفاظت سمجھتے لیکن وہ تو آزاد تھے.مگر غربت بھی تو جرم ہے.وہ غریب کیوں تھے.اس لئے اُن سرداروں نے انہیں پکڑ لیا.ان فرعونوں نے انہیں کہا کہ بتاؤ محمد تمہیں کیا سکھاتا پڑھاتا ہے؟“ اُنہوں نے بڑے سکون سے جواب دیا کہ وہ کہتے ہیں.اللہ ایک ہے اور ہمیں اُس کی عبادت کرنی چاہیے، ہم سب اُسی کے بندے ہیں اور اسی طرح برابر جیسی کنگھی کے دندانے“.یہ سُن کر میری ہڈیاں تک سُن ہو گئیں.میں نے سوچا اچھا! ہم سب اللہ کے بندے ہیں؟ ہم سب برابر ہیں.میں اور امیہ برا بر معمار، ابوسفیان اور ابولہب برابر لیکن میں تو مجبور تھا.غلام جو ہوا.لیکن امیر! امیہ تو سردار مکہ تھا.وہ اسے کیسے برداشت کر لیتا.اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا چہرہ سرخ ہو گیا.میں نے سوچا.عمار میں یہ جرات کہاں سے آگئی.وہ یہ بھی تو کہہ سکتا تھا کہ محمد ہمیں عبادت کی تعلیم دیتے ہیں.ہمیں سچ بولنے کی نصیحت کرتے ہیں.ہمسایہ سے نیک سلوک کرنے کو کہتے ہیں.اور یہی سُن کر یہ ظالم انہیں چھوڑ چھاڑ دیتے.لیکن عمار نے تو انہیں ساری کتاب ہی کھول کر سنادی.ابوسفیان کے پاس ایک کوڑا ہوا کرتا تھا جب عمار نے یہ بات کہی کہ محمد ہمیں ایک خدا کی عبادت سکھاتے ہیں اور اُس کے بندے سب برابر ہیں تو اُس نے عمار کی کمر پر وہی کوڑا رسید کر کے کہا.ایک خُدا! ہمارے تو تین سو ساٹھ خُدا ہیں.ہمارے محافظ اور ہمارے خالق اور ہمارے رازق“.دل بدل گیا مجھے یاد ہے اور خوب یاد ہے کہ ابوسفیان غصے میں بھرا کبھی ادھر جاتا کبھی ادھر اور پھر اگلا لمحہ.ہاں اگلا لمحہ.اُسی لمحہ میری زندگی میں انقلاب آ گیا.ابوسفیان غصے میں بھرا بک رہا تھا کہ محمد یہ نہیں سمجھتا کہ یہی بت ہماری روزی اور ہماری کمائی کا باعث ہیں.ہر سال سارے عرب کے قبائل انہی بتوں کی پرستش کے لئے یہاں آتے ہیں.ان پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور پھر ہم سے ایسے ہی بت خرید کر بھی لے جاتے ہیں.یہی ہمارے معبود بھی ہیں اور یہی ہمارا رزق بھی ہے.کیا ہم غریبوں اور کمزوروں کی دیکھ بھال نہیں کرتے.اے عمار! کیا تمہارا حصہ تمہیں نہیں ملتا؟ اور دیکھو عمار اگر ہمارے تین سو ساٹھ بتوں کی جگہ ایک خدا آ گیا جو نہ نظر آتا ہے اور نہ اس کی آواز سنائی دیتی ہے اور محمد کہتا ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے.یہاں بھی ہے.وہاں بھی ہے.اس باغ میں بھی اُس گھر میں بھی.مکہ میں بھی یثرب میں بھی اور یروشلم میں بھی.سورج میں بھی اور چاند میں بھی.تو پھر ہم مکہ والے کہاں جائیں گے ہمارا کیا بنے گا.جب سب کا خدا ان کے گھروں میں ہی ہوگا.تو مکہ والے تو
سیدنا بلال 7 مصائب کے پہاڑ لٹ گئے.ہم کو کون پوچھنے والا ہوگا.سوچ تو سہی عمار! محمد کی بات کیا ہمیں برباد نہ کر دے گی ؟ ابوسفیان کی تقریر سے ایسا معلوم ہوا کہ گویا بات ختم ہوگئی.لیکن میرا آقا امیہ بن خلف پیچ میں کود پڑا اور مجھے آواز دی.میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی.میں نے دیکھا کہ امیہ اپنی ریشمی قباسرسراتے ہوئے عمار کے پاس پہنچا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا."ابے عمار! یہ بلال.یہ میرا غلام.اسے میں نے رقم دے کر خریدا ہے.یہ میرے برابر ہے؟ ذرا سوچ کر بتاؤ“.امیہ کا سوال! اس کا جواب کیا تھا.امیر اور بلال برابر ہیں؟ میری تو حیثیت ہی کچھ نہ تھی.امیہ کے سوال کے دو جواب ہو ہی نہیں سکتے تھے.ایک ہی جواب تھا.امیہ آقا-بلال غلام، امیہ آسمان- بلال زمین.یہ دونوں برابر ہو جائیں یہ کبھی نہیں ہوسکتا.عمارا تو اس وقت عجیب بدھوسا لگ رہا تھا.لیکن کہنے لگا.محمد ہمیں سکھاتے ہیں سب انسان، سب قومیں، سب نسلیں اللہ کے حضور سب برابر ہیں.اُس کے جواب کے بعد سناٹا چھا گیا.پھر مجھے امیہ کی آواز سنائی دی.”بلال“ اور مجھے اس وقت کیا معلوم تھا کہ یہی آواز میری دُنیا بدل دے گی.میرا خدا.میرا اللہ ہی عالم الغیب ہے.میں بلال.اپنے آقا کا حکم سُن کر آ گیا اور اس نے کہا.بلال! اس احمق کو سردار مکہ اور بلال کے درمیان فرق بتاؤ.یہ لو کوڑا اور اس کے منہ پر مارو.اسے سمجھ آ جائے گی کہ امیہ اور بلال برابر نہیں ان میں فرق ہے.مصائب کے پہاڑ 8 سیدنا بلال عمار نے مجھے دیکھا اور بڑے سکون سے منہ میری طرف کر دیا اور میں حواس باختہ ہو گیا.اور آج بھی مجھے وہ واقعہ یاد ہے.لیکن اسے دوہرانے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں کہ اس وقت مجھے کیا ہو گیا.میری آنکھوں کے آگے اندھیرا تھا.عمار نہیں تھا.لیکن ایک لمحہ بعد ہی مجھے ہوش آ گیا.عمار سکون اور چین کا مجسمہ میرے سامنے کھڑا تھا اور یہی وہ لحہ تھا کہ میرے آقا بدل گئے.امیہ بن خلف میرے جسم کا مالک رہ گیا.محمد پر میری روح قربان ہوگئی اور اس روح کی غلامی پر آج بھی میں فخر کرتا ہوں.اب میں محمد کا غلام تھا.کوڑا میرے ہاتھ سے گر گیا.مجھے ان سانسوں کی آواز آ رہی تھی.انہوں نے جو دیکھا.وہ اسے خوب سمجھ گئے اور میں بھی سمجھ گیا کہ میں کیا کر گیا ہوں.یہ ایک غلام کی بغاوت تھی.عمار جھکے کوڑا اٹھایا اور میرے ہاتھ میں تھما کر کہا.بلال ! لو یہ کوڑا اور اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کرو.وگر نہ بلال !...بلال! یہ لوگ تمہیں موت کی نیند سلا دیں گئے.لیکن میں نے کوڑا پھینک دیا اور میرا دل چین اور سکون سے بھر گیا.میں نے ان آنکھوں سے ابوسفیان کو دیکھا.اس نے امیہ کو اشارہ کیا اور پھر میں نے ہندہ ابوسفیان کی بیوی کو بھی دیکھا جسے آج تک میں نے نظر بھر کر نہ دیکھا تھا.وہ زہر بھری مسکراہٹ کے ساتھ ہنسی اور امید اپنے غصہ کی وجہ سے بول نہ سکا.چند لمحوں میں طوفان گزر گیا تو بولا.بلال میرے گھر میں صرف میرے ہی دیوتاؤں کے لئے جگہ ہے وہاں کوئی اور خدا نہیں آسکتا.اور پھر اس نے ڈھلتے ہوئے سورج پر نظر کی اور کہا.
سیدنا بلال 9 خدا ایک ہے خدا ایک ہے 10 سیدنا بلال تمہاری مرمت ہوگی لیکن آج نہیں کل.آج سورج ڈھل گیا ہے.کل کی دھوپ میں تم بالکل درست ہو جاؤ گے“.مصائب کے پہاڑ پھر میرے ہاتھ رسیوں سے باندھ دیئے گئے.میری گردن میں رسی ڈال دی گئی اور جس خوشی سے میں نے اس دن یہ رسیاں بندھوائیں.اس جیسی خوشی مجھے پہلے کبھی نہیں ملی تھی.مجھے غلاموں کی کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا اور اب مجھے موت کا انتظار تھا.موت کے انتظار میں بہت سے چراغ روشن ہو جاتے ہیں.مجھے اپنے والد کی یاد آئی جبکہ وہ ایک رنگریز کے بڑے بڑے کڑا ہوں میں رنگریزی کا کام کرتے تھے.اس ہولناک محنت کی وجہ سے وہ قبل از وقت بوڑھے ہو گئے.اور پھر مجھے میری ماں یاد آئی جنہوں نے مجھے جنم دیا.وہ کھانسی کی مریض تھیں.اور کھانستے کھانستے ہی انہوں نے دم توڑ دیا تھا.میرے ماں باپ بحیرہ قلزم کے اس پار حبشہ کے ملک سے لائے گئے تھے.وہ غلام کیسے بنے.یہ بات انہوں نے مجھے کبھی نہ بتائی البتہ میری ماں نے مجھے یہ ضرور بتایا کہ تمہارے حمل کے وقت تم آزاد تھے لیکن تمہاری پیدائش غلامی کے دوران ہوئی اسی وجہ سے مجھے ہمیشہ یہ یقین رہا کہ میری ابتداء تو آزادی سے ہی ہوئی تھی.اب میں اس اندھیری کوٹھڑی میں رسیوں سے بندھا پڑا تھا.میری کھال کئی جارہی تھی اور میں اگلے دن کے سورج کے انتظار میں تھا.مکہ کا سورج مجرموں کے لئے موت کا پیغام ہوا کرتا تھا.پھر مجھے عمار یاد آ گیا کیا یہ سزا اس نے دلوائی تھی ؟ نہیں نہیں.اس نے تو مجھے کوڑا اٹھا کر دیا تھا تا کہ میں سزا سے بچ جاؤں.کیا یہ میرا اپنا فیصلہ تھا؟ مگر غلام کو فیصلہ کا حق ہی کب ہوتا ہے وہ تو دوسروں کے فیصلوں پر عمل کرتا ہے.کیا یہ میری جرات تھی یا میری حماقت تھی کہ میں نے بغاوت کردی ؟ نہیں یہ میری جرات بھی نہیں تھی.میں بیوقوف بھی نہ تھا.اس کا جواب تو کچھ اور ہی تھا اور وہ جواب تھا.محمد (ع) میں نے محمد (ﷺ) کو بارہا دیکھا تھا لیکن ان سے بات کبھی نہ ہوئی تھی.جب حج یا دوسرے میلے ختم ہو جاتے تو مکہ پھر اپنی پہلی حالت پر آ جاتا.لوگ میرے پاس سے گزرتے.ایک غلام کی کسی کو کیا پر واہ تھی لیکن محمد ؟ اُن کی بات ہی کچھ اور تھی.وہ جب بھی پاس سے گزرتے تو ان کی نگاہوں میں کچھ اپنائیت سی ہوتی.لیکن اب...اب تو وہ خدا کا ایک عظیم الشان نشان تھے.میں اب ایک خدا کے بارہ میں سوچ رہا تھا.میں ان دنوں جاہل ان پڑھ تھا.لیکن میں پیاسا تھا.پانی کی تلاش میں تھا.اور اس پانی کی تلاش میں خدا جانے کہاں کہاں سرگرداں تھا.اے میرے خدا! لوگ کہتے ہیں کہ انسان خدا کو تلاش کرتا ہے.لیکن یہ میچ نہیں.اے میرے اللہ تو انسان کو منتخب کرتا ہے.اور کون ہے جو تیری مرضی کے بغیر تجھے تلاش کرے.اور یہی وہ رات تھی جب میں نے تیری ہی مرضی سے اور تیری ہی رضا سے تیرے ہی سامنے بلال کو سجدہ ریز کر دیا.اور میں بلال اسلام پر ایمان لے آیا.اب میری رسیاں، اب میری دردیں اور میری تکلیف میری خوشی کا سامان بن گئیں.اب میری روح ترانے گا رہی تھی.اب میں ایک خدا کے حضور سجدہ ریز تھا اور میں پرسکون ہو گیا.اب میں خدا کے رحم کا امیدوار ہو گیا اور میرے سارے خوف جاتے رہے.اگلا دن چڑھا اور اللہ کے حکم سے ہی نیا سورج نکلا.ہر کام اللہ ہی کے حکم سے ہوتا ہے اور وہ آئے اور شاید مجھ سے یہ امید کر رہے تھے کہ میں ان سے رحم کی بھیک مانگ لوں لیکن میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہ سمجھے کہ شاید میری عقل جواب دے گئی ہے مگر وہ کیا جانتے تھے کہ اب تو میرا سہارا میرا واحد خدا تھا.اب تو جو بھی سلوک وہ مجھ سے کریں گے وہی میرے مولا کی مرضی ہوگی
سیدنا بلال اور میں اس پر راضی تھا.وه.11 غلامی کی زنجیر کٹ گئی اسلام میں داخل ہونے والا پہلا غلام مجھے گلیوں میں گھسیٹتے ہوئے لئے چلے گئے.ظلم آخر ظلم ہے اکثر لوگ اسے پسند نہیں کرتے.گھروں کی کھڑکیاں بند تھیں.لوگوں کو پتہ چل گیا کہ میں نے اپنے آقا کی حکم عدولی کی ہے اور یہی بغاوت ہے.اور اسے ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا.امیہ اپنی رقم کی قیمت وصول کرنا چاہتا تھا.میں تو اس کی رقم تھا.وہ اپنی رقم یوں کیسے پھینک دیتا.اب میں اس کے کسی کام کا نہ تھا.اب تو صرف میری کھال ہی اس کے کام کی تھی جو وہ ادھیڑ دینا چاہتا تھا تا کہ دوسرے غلاموں کے لئے عبرت ہو.آج جب اس واقعہ کو پچاس برس گزرتے ہیں مجھے امیہ پر رحم آتا ہے.جو دوسروں پر ظلم کرتا ہے اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے.خدا ایک ہے میں اب انسان نہیں دو ٹانگوں والا جانور تھا.مجھے زمین پر لٹا دیا گیا.امیہ نے کوڑا تھام لیا.پھر کیا ہوا.درد کی کہانی ہے.دیکھنے والوں نے جو دیکھا.مجھے اپنی موت نظر آ رہی تھی.لیکن خدا.میرا خدا! بے انتہاء قدرتوں والا ہے.امیہ میرے جسم کو کوڑے مار رہا تھا.لیکن میری روح کو وہ کیسے کوڑا مار سکتا تھا.مجھے آج بھی اپنی وہ آواز یاد ہے جس طرح میں نے خدا کو اس دن پکارا.میں نے نماز کے لئے سینکڑوں نہیں ہزاروں بار مومنوں کو اذان دے کر اللہ کا نام لے کر بلایا ہے.لیکن اس دن مجھے صرف ایک ہی بات یاد تھی.میں ایک ہی لفظ کہہ رہا تھا.اَحَدٌ اَحَدٌ “اللہ ایک ہے.اللہ ایک ہے اور جب بھی میں اس کا نام لیتا.وہ میرا خدا.میرا اپنا اللہ میرے دل کو جواب دیتا.اللہ کا جواب دلوں کو ہی ملا کرتا ہے.میں کوڑے کھا رہا تھا لیکن میری زبان بند تھی اسے تالے لگ چکے تھے.میں ان ظالموں سے رحم کی بھیک نہیں مانگ رہا تھا.میں تو اللہ سے 12 سیدنا بلال اگر اس عذاب کے دوران میں کہیں مرجاتا تو امیہ کو بہت رنج اور افسوس ہوتا کہ اس کی رقم اتنی جلد ضائع ہو گئی.امیہ مجھے مار مار کر تھک چکا تھا.ہندہ ابوسفیان کی بیوی خوشبولگائے اٹھلاتی ہوئی آئی.میں کوڑوں سے ادھ موا ہو چکا تھا.لیکن میری زبان پر اللہ کا ہی نام تھا اور اس نے جھک کر میرے وہ الفاظ سنے تو ہنس کر بولی.و یہ غلمٹا تو اب بھی اپنے ہی دین کا پرچار کر رہا ہے.اور چلی گئی.کوڑا پھر برسنے لگا.موت کا مزا زندہ نہیں جانتے.مرنے والا ہی جانتا ہے کہ موت کیا ہے.اس دن میری تکلیفوں کا خاتمہ ہو گیا.مجھے کوڑوں کی کوئی تکلیف محسوس نہیں ہو رہی تھی.سینے پر چکی کا پاٹ رکھ دیا گیا.میری پیٹھ گرم ریت سے جھلس گئی.میرادم لبوں پر تھا.میری زبان پیاس سے باہر نکل آئی اور امیہ نے کہا.بلال کہہ کہ لات اور عزمی تیرے خدا ہیں.تیرے دیوتا ہیں“.میں نے جواب دیا.احَدٌ اَحَدٌ" اور پھر میری آنکھیں بند ہوگئیں.مجھے آسمان نظر آیا.اور وہاں میں نے سرسبز وشاداب کھیت دیکھے.پھلوں اور پھولوں سے لدے ہوئے باغ دیکھے اور میں اُن درختوں کے ٹھنڈے سائے میں بیٹھ گیا.یہاں ہر قوم اور نسل کے مرد بھی اور عورتیں بھی پھر رہی تھیں اور ان سب کے سر فخر سے اونچے تھے اور پھر وہ مجھے ایک چشمہ پر لے گئے اور میں نے جی بھر کر ٹھنڈا پانی پیا اور میری ساری پیاس بجھ گئی اور میں اپنے اللہ کے اور بھی قریب ہو گیا.مانگ رہا تھا.
سیدنا بلال 13 آزاد بلال اپنے آقا کے قدموں میں 14 سیدنا بلال غلامی کی زنجیر کٹ گئی مجھے معلوم نہیں کہ یہ خواب تھا یا حقیقت تھی یا پھر میں ان کوڑوں کی وجہ سے اپنے حواس کھو بیٹھا تھا اور آج بھی میں خود سے یہ سوال کیا کرتا ہوں.”اے بلال! اے پٹتے ہوئے بلال! کیا واقعی تو نے اس دن بابرکت اور مبارک روحوں کا ہی وطن دیکھا تھا ؟“ اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ مجھے کب تک مارتے رہے.اور میں کب تک بے سُدھ رہا.مجھے یوں کچھ یاد پڑتا ہے کہ میں نے سودے بازی کی بات سنی.ایک کرخت سی آواز تھی جو امیہ بن خلف کی تھی اور دوسرا کوئی ملائم اور شیریں سالہجہ تھا.درہموں کی بات ہو رہی تھی.مجھے نامعلوم سی ہوش آئی.میں نے آنکھ کھولنے کی کوشش کی لیکن مکہ کے سورج نے میری نظر چندھیادی اور میری آنکھیں ایک بار پھر بند ہوگئیں اور میرے کانوں میں وہی درہموں کی آوازیں آ رہی تھیں.مکہ والوں کی تو زندگی ہی درہموں کے گرد گھومتی تھی مگر میری زندگی کی سب دلچسپیاں ختم ہو چکی تھیں اور میں اب ایسی نیند سو جانا چاہتا تھا کہ جہاں ان ظالموں اور موذیوں کی آوازیں مجھے جگا نہ سکیں.انسان اپنے ظلم کی چکی میں دوسرے انسانوں کو پیس ڈالنا چاہتا ہے.لیکن اللہ تو موت دینے میں بھی شفیق ہے رحیم ہے مہربان ہے.لیکن اب مجھے ایک تیسری آواز بھی سنائی دی یہ ابوسفیان تھا اور کہہ رہا تھا کہ سزا کے دوران غلام کا سودا نہیں ہو سکتا.یہ مکہ کے رواج کے خلاف ہے لیکن امیہ نے بات کاٹی اور کہا کہ د نہیں.اس کی جان نکل چکی ہے.ابوبکر چاہے تو اس لاش کا سودا مجھے سو درہم میں مہنگا نہیں“.گفتگو تھم گئی.ابوبکر میرے قریب آئے اور میرا نام پکارا.میں نے تیز دھوپ کے باوجود آنکھ کھول کر انہیں دیکھا.امیہ تو بھڑک اٹھا اور بکنے لگا.اب کالے.سیاہ رو جانور.وحشی سانس لے“.مجھے جیت دیکھ کرامیہ کی آنکھیں چمکنے لگیں اور بولا.ابو بکرا یہ زندہ ہے زندہ.اب تو دو سولوں گا لینا ہو تو دوسو درہم گن دو اور لے جاؤ! مجھے محسوس ہوا کہ میری رسیاں ڈھیلی کی جارہی ہیں.میری چھاتی پر سے چکی کا پاٹ اٹھا لیا گیا ہے.اور بلال ایک بار پھر بک گیا.اور کوئی نوجوان مجھے سہارا دے رہا تھا.مجھے نظر نہیں آ رہا تھا.میں نے پہچاننے کی کوشش کی.یہ زیڈ تھا.محمد کا منہ بولا بیٹا.مجھ میں بات کرنے کی طاقت ہی نہ تھی اور نہ ہی اس کی ضرورت تھی.زید ہی سب کچھ کہہ گیا.بلال غلامی کی زنجیر کٹ گئی.سے کہا.امیہ خوش تھا اور ہنستے ہنستے رقم بھی گنتا جار ہا تھا اور طنز سے کہنے لگا.ابو بکر میں تو اسے سو درہم میں بھی دے دیتا.اور پھر مجھے اس کے قہقہوں کی آوزیں سنائی دینے لگیں.اسلام میں داخل ہونے والا پہلا غلام میں نے ابو بکر کو دیکھا تو مجھے یوں محسوس ہوا گویا وہ نور کا ایک چراغ ہے اور انہوں نے امیہ امیہ تم چوک گئے.تم دھوکا کھا گئے.تم ہزار مانگتے تو میں ہزار کے لئے بھی
سیدنا بلال تیار تھا.15 تربیت کا سفر تربیت کا سفر اور ابوبکڑ نے مجھے زیڈ کی مدد سے اٹھایا اور سہارے سے ہی دونوں مجھے اپنے گھر لے گئے.پانچ دن میں موت وحیات کی کشمکش میں رہا.کبھی ہوش بھی آجاتی لیکن زیادہ وقت ہے ہوش اور بے سدھ پڑا رہتا.میرے زخموں پر خدا جانے کون کون سی مرہم لگائی گئی.ایک مرتبہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے کمرے میں ایک شخص کو دعاؤں میں مصروف دیکھا.لیکن پھر مجھے غشی آ ے میں ایک شخص کود گئی.چھٹا دن چڑھا تو میں اس قابل تھا کہ باہر تازہ ہوا میں آؤں.ابو بکر کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی.خود بکری کا دودھ نکالا اور مجھے اپنے ہاتھوں سے پلایا اور کہا کہ اللہ کے رسول نے تمہارے پاس بیٹھ کر تین دن تک تمہارے لئے دعائیں کیں.یہاں تک کہ تمہارا بخار ٹوٹ گیا اور خطرہ ٹل گیا تو پھر آپ تشریف لے گئے.میں نے اپنی زندگی میں اتنا خوش قسمت کسی کو نہیں دیکھا.بلال ! اب تم اسلام میں داخل ہو.کل ہم دونوں انہیں ملنے جائیں گئے.آزاد بلال میں اسلام میں داخل ہونے والا پہلا غلام تھا.اور میرا سر آج اس فخر سے اونچا ہے کہ میں ان کم ترین لوگوں میں سے تھا جسے پتھروں سے نکال کر ثریا پر پہنچایا گیا.میں اسلام میں داخل ہونے والے ابتدائی نو لوگوں میں سے ہوں.اے اللہ ! میں کن لفظوں میں تیرا شکر ادا کروں؟ میں اب آزاد تھا.امیہ بن خلف جیسے فرعون اور ظالم کے پنجے سے نکل چکا تھا.لیکن اب میرا 16 سیدنا بلال دل محمد کا غلام ہو چکا تھا اور یہ وہ غلامی تھی جس پر میں ہزار آزادیاں قربان کر دوں.سچ تو یہ ہے کہ محمد کے پاس جو بھی آیا پھر ان کا غلام ہی ہو گیا.میرا بھی یہی حال ہوا.میں بھی حضور کے قدموں سے جدا نہیں ہونا چاہتا تھا.اب میں اسلام کا غلام تھا.محمد کا غلام تھا.اپنے خدا کا غلام تھا.اپنے آقا کے قدموں میں ابو بکر مجھے لے کر آپ کے پاس آئے میں خدا کے رسول کے سامنے حاضر تھا.میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تو تھا لیکن اب قریب سے دیکھا.میرا دل خوشی اور اطمینان سے بھر گیا.آپ کی پیشانی روشن تھی.آنکھیں سیاہ تھیں لیکن ان میں شریتی رنگ جھلکتا تھا.مصافحہ بڑی گرمجوشی سے کرتے تھے.آپ کی چال بڑی تیز مگر پُر وقار تھی.آپ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے.ابوبکڑ سے سارا ماجرا سناتو انہیں دعائیں دیں اور مجھے تسلی دیتے رہے.پھر اسلام کی باتیں بتانے لگے اور ایک خدا کی عبادت کی نصیحت کرتے رہے.اسی دن میں نے دوسری مرتبہ اسلام کا نام سنا.لیکن ابھی مجھ پر اس کا پورا مطلب واضح نہ تھا.آپ نے میری لاعلمی کو بھانپ لیا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بڑی محبت سے بولے.بلال! خدا کی رضا کے حصول کا نام اسلام ہے.خدا ایک ہے.اس کا کوئی شریک نہیں.خدا کے بندوں سے نیکی کرنا اسلام ہے.خواہ وہ کسی ملک یا کسی رنگ اور نسل کے ہوں.بلال! اسلام میں سب برابر ہیں.اور یہ وہ دین ہے جو خدا نے خود اپنے بندوں کے لئے پسند کیا ہے.“ اب مجھے پتہ لگا کہ اسلام کیا ہے.اسلام میرا دین اور محمد میرے آقا تھے.میرے محبوب تھے.اسلام لانے کے بعد میری تو دنیا ہی بدل گئی تھی.اب میں ابو بکر کے ہاں رہنے لگا.یہ مکہ کے سرداروں میں سے تھے لیکن مغرور اور متکبر
سیدنا بلال 17 تربیت کا سفر تربیت کا سفر 18 سیدنا بلال سرداروں والی کوئی بات ان میں نہ تھی.ان کا گھر بھی کوئی بڑا نہ تھا.رہنا سہنا بہت سادہ اور بے تکلف تھا.باتوں میں بڑے دھیمے اور مزاج کے نرم تھے.جس سے بات کرتے اس کا دل موہ لیتے.آپ مکہ کے کامیاب اور خوشحال تاجروں میں سے تھے لیکن اپنا مال دوسرے سرداروں کی طرح جوئے اور شراب اور دوسرے برے کاموں میں ضائع نہیں کرتے تھے.رسول اللہ کے بچپن کے دوست تھے.لیکن عمر میں چھوٹے تھے.جب آپ نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا تو عورتوں میں سب سے پہلے خدیجہ اور مردوں میں ابو بکر آپ پر ایمان لائے.جس وقت آپ مسلمان ہوئے آپ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے یہ بہت بڑی رقم تھی اور جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں آپ اپنا مال نیکی کی راہوں پر خرچ کرتے اور ان غلاموں کو خرید کر آزاد کرتے تھے جو مسلمان ہو جاتے اور جنہیں ان کے کافر اور ظالم مالک مارا پیٹا کرتے.مجھے بھی انہوں نے آزاد کرایا.ابو بکر کے بارہ میں تھوڑی سی تفصیل اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ وہ میرے محسن تھے اور انہوں نے مجھے امیہ بن خلف کے ظلم سے آزاد کرایا تھا.تربیت کا سفر ایک دفعہ کی بات ہے میں ابھی امیہ بن خلف کے لگائے ہوئے زخموں سے اچھا بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک دن آپ میرے لئے بکری کا دودھ دوہ کر لائے.میں نے شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے مجھے آزاد کرایا ہے.میں حیران ہو گیا کہ آپ الٹا میرا شکر یہ ادا کرنے لگ گئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ نے ہمیں بتایا ہے کہ غلام آزاد کرانے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے.پھر کہنے لگے بلال! میں نے تمہارے لئے ایک نیا کام سوچا ہے کیا تم اسے کرلو گے؟ یہ کام غلامی کے زمانہ کے کام سے زیادہ سخت ہوگا.میں نے جواب دیا ہاں میرے آقا! میں ضرور کروں گا.یہ سننا تھا کہ آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور مجھے یوں لگا کہ میرا جواب سن کر آپ کو تکلیف ہوئی ہے.آپ نے دودھ کا برتن ہاتھ سے رکھ دیا.میرا کان پکڑ کر اپنا م تھا میرے ماتھے سے لگا کر مجھے کہنے لگے.بلال ! تم اب آزاد ہو تمہارا کوئی آقا نہیں.آزادی سے جینا سیکھو تم کسی کے غلام نہیں ہو“.میں سنبھل گیا اور کہا ہاں یہ درست ہے.ابو بکڑ نے میرا کان چھوڑ دیا اور ہنس پڑے.اسی وقت ایک بلی ابو بکر کے قریب آ کر آپ کے پاؤں پر لوٹنے لگی.اور میاؤں میاؤں کر کے دودھ مانگنے لگی.آپ نے علیحدہ برتن میں اس کا دودھ ڈال دیا اور وہ خوشی سے پینے لگی.یہ دیکھ کر میں بڑا حیران ہوا کیونکہ میں تو شاید بلی کوٹھوکر مار کر بھگا دیتا.اس سے مجھے خیال آیا کہ ابھی تو میں نے بہت کچھ سیکھنا ہے.ابھی تو میں نے سچا مسلمان بننے کے لئے بہت کچھ کرنا ہے.بلی کی بات سے مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا.یہ بہت بعد کی بات ہے.ہجرت کے بعد جب تقریباً سارا عرب مسلمان ہو چکا تھا اور صرف مکہ کے قریش ہی کا فررہ گئے تھے.رسول اللہ دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ کو فتح کرنے جارہے تھے میں بھی ساتھ تھا.راستہ میں ایک جگہ ایک کتیا اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لئے بیٹھی تھی آپ نے لشکر کو حکم دیا کہ وہ راستے سے ہٹ کر گزریں تا کہ اس کتیا اور اس کے بچوں کو تکلیف نہ ہو.آپ انسانوں پر ہی نہیں جانوروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کی تعلیم دیتے تھے.آپ کہا کرتے تھے اگر تم نے کسی پیا سے جانور کو پانی پلایا تو تم نے اپنے لئے جنت میں جگہ بنالی اور اگر تم نے کسی بے زبان جانور کو تنگ کیا تو خدا تم سے ناراض ہو جائے گا.میں کہاں سے کہاں چلا گیا.بات میں کر رہا تھا ابوبکر کی.آپ نے مجھے سمجھایا کہ میں اب آزاد ہوں.آزاد رہنے کے لئے مجھے کوئی کام سیکھنا
سیدنا بلال 19 تربیت کا سفر مسلمانوں کی ہجرت حبشہ 20 سیدنا بلال چاہیے.آپ نے مجھے کہا اگر میں تمہیں قلم بنادوں تو لکھنا سیکھ لو گے؟ میں تمہاری مدد کروں گا.یہ میری آزاد زندگی کا ایک بہت قیمتی لمحہ تھا.میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ابوبکر مجھے لکھنا پڑھنا سکھائیں گے جو مکہ کے بڑے بڑے سرداروں کو بھی کم ہی آتا تھا.اس طرح میں نے لکھنا پڑھنا شروع کیا.ابوبکر مجھے قلم بنا دیتے میں سیاہی بناتا.کبھی کھال پر لکھتا.درختوں کی چھال پر لکھتا.ہم دن میں پانچ نمازیں پڑھتے ہیں یہ بعد میں شروع ہوئیں اور روزے تو اور بھی بعد میں شروع ہوئے.ہم یا تو اپنے اپنے گھروں میں یا شہر سے باہر کسی گھائی میں دو دو چار چارل کر نماز پڑھا کرتے تھے.انہی دنوں ایک شخص ارقم نامی مسلمان ہوئے.ان کا گھر شہر سے باہر تھا.ہم سب وہاں جمع ہو جاتے.رسول اللہ بھی وہاں آ جاتے تھے.ہم وہاں نمازیں پڑھا کرتے.رسول اللہ گیلی مٹی پر لکھتا.چولہے کی بچی ہوئی راکھ زمین پر بچھا کرلکھتا اور تو اور میں ہوا میں انگلیوں سے لکھتا کی باتیں سنتے ان سے اسلام سیکھتے.ہم اس گھر کو دارالاسلام کہا کرتے تھے.اس وقت ہماری رہتا.ابوبکر مجھے سبق دیتے.میرے لکھے ہوئے کی اصلاح کرتے.ایک دن عجیب بات ہوئی.میں بیٹھا سیا ہی بنا رہا تھا کہ ابو بکر باہر سے آئے مجھے سیاہی بنا تا دیکھ کر ان کا چہرہ کھل اٹھا.میرے سیاہی بھرے ہوئے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لئے.انہیں ایک لمحہ دیکھا اور پھر انہیں چوم لیا.مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور کہنے لگے رسول اللہ کہتے ہیں.عالم کے ہاتھ کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ قیمتی ہے.ابوبکر وہاں سے چلے گئے میں سیاہی بنانے والے برتن کے پاس بیٹھا اور دیر تک اپنے سیاہی بھرے ہاتھوں اور انگلیوں کو دیکھتا رہا.میرے ذہن میں عجیب عجیب خیال آئے.میں سوچ رہا تھا کہ محمد بھی عجیب شخص ہے جس نے مجھے اتنا بلند کر دیا کہ ابو بکر نے میرے ہاتھ چومے.میں دوسروں کی ٹھوکریں کھانے والا کالے رنگ کا غلام.ابوبکر مکہ کے سردار.میرا دل بھر آیا اور میری آنکھوں میں آنسو آگئے.اُن دنوں کے حالات میں نے مختصر ہی بیان کئے ہیں.اگر تفصیل بتاؤں تو بات لمبی ہو جائے گی.ہم مسلمان ابھی تعداد میں تھوڑے سے تھے.اسلام کی تبلیغ بھی کھلم کھلا نہ کر سکتے تھے.حضور ایسے لوگوں سے جو اسلام کے متعلق معلوم کرنا چاہتے گھر کے اندر ملتے یا شہر سے باہر کسی جگہ ملاقات کرتے.یہاں تک کہ بعض دفعہ ہمیں بھی ایک دوسرے کا پتہ نہ لگتا تھا.کیونکہ اس وقت ہم اپنے مسلمان ہونے کا ذکر کسی سے نہ کرتے تھے.ان دنوں اسلام صرف ایک اللہ پر ایمان لانا تھا.جبرائیل نے شروع میں ہی رسول اللہ کو نماز اور وضو کا طریق تو سکھا دیا تھا مگر جس طرح آج مخالفت تو ہوتی تھی مگر چونکہ ہم تھوڑے تھے اس لئے اس میں شدت نہ تھی آہستہ آہستہ قریش کو خیال ہونے لگا کہ ایسا نہ ہو کہ ہم لوگ ان کے لئے خطرہ بن جائیں اس لئے انہوں نے زور وشور سے ہماری مخالفت شروع کر دی.دشمنی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مکہ والے بت پرست تھے اور رسول اللہ بت پرستی کے خلاف تھے وہ صرف ایک خدا کو عبادت کے قابل سمجھتے تھے.پھر عرب اور خاص طور پر بڑے بڑے سرداروں کے لئے لوگوں پر ظلم کرنا، ڈاکے ڈالنا، شراب پینا، جو کھیلنا قتل کرنا ایک عام سی بات تھی.جبکہ اسلام ان باتوں سے روکتا ہے.اسلام میں کوئی غلام ہے نہ آقا، سب برابر ہیں.اس لئے بھی سردار اسلام کے دشمن ہو گئے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ قرآن اگر خدا کا کلام ہے تو محمد کی بجائے مکہ کے کسی سردار پر کیوں نہیں اترا.کتنے بڑے اور امیر سردار تھے.مگر کتنے جاہل تھے کہ وہ چاہتے تھے کہ نعوذ باللہ خدا بھی ان کی مرضی پر چلے.ان ساری باتوں کی وجہ سے وہ ہمیں تنگ کرتے رہتے اور ان کی کوشش تھی کہ اسلام کو ختم کر دیں.ایک دفعہ ملکہ کے سردار مل کر رسول اللہ کے چچا ابو طالب کے پاس گئے کہ وہ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ وہ اپنی باتیں بند کر دیں.ابو طالب نے انہیں نرمی سے سمجھا کر واپس کر دیا.دوسری دفعہ پھر کچھ سردار اکٹھے ہو کر آئے اور ابو طالب کو کہا کہ اگر محمد ان باتوں سے رک جائے تو ہم اسے اس کی خواہش کے مطابق مال دینے کو تیار ہیں.اگر وہ سرداری چاہتے ہیں تو ہم انہیں اپنا سردار بنانے پر راضی ہیں.انہوں نے دھمکی بھی دی کہ اگر محمد ان باتوں سے نہر کے تو ہم سب مل کر تمہارا
سیدنا بلال 21 مسلمانوں کی ہجرت حبشہ مقابلہ کریں گے.اس لئے اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ.اس پر ابو طالب کو فکر ہوئی.آپ نے رسول اللہ کو بلایا اور کہنے لگے میری ساری قوم میری مخالف ہو گئی ہے.اب بہتر یہی ہے کہ تم یہ کام چھوڑ دو.رسول اللہ کوئی اپنی مرضی سے تو یہ کام نہیں کر رہے تھے یہ خدا کا حکم تھاوہ اس کو پورا کرنے سے کیسے رک جاتے.آپ نے کہا چا! اگر آپ ڈرتے ہیں تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں.اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی جو کام اللہ نے میرے سپرد کیا ہے اس سے نہیں رکوں گا.جب ابو طالب نے رسول اللہ کا پکا ارادہ اور ہمت دیکھی تو کہا محمد جاؤا اپنا کام کرو جب تک میں زندہ ہوں تمہارے ساتھ ہوں.ابو طالب سے مایوس ہو کر قریش نے فیصلہ کیا کہ ہر سردار اپنے خاندان میں سے مسلمان ہونے والے پر سختی کرے اور اسے مجبور کرے کہ وہ اسلام چھوڑ دے.اس طرح مسلمانوں پر بہت سے ظلم شروع ہو گئے.ان دنوں ہم پر کیا گزرتی تھی.یہ دکھوں اور مصیبتوں کی ایک لمبی کہانی ہے.یہ تو آنسوؤں کی داستان ہے کوئی ایسا ظلم نہ تھا جو ہم پر نہیں ہوا.ہمیں رسیوں سے باندھ کر مارا جاتا تھا.مکہ کی تپتی ہوئی پتھریلی زمین پر آوارہ لڑکے ہمیں گھسیٹتے پھرتے اور بڑے بڑے پتھروں کی سلیں ہماری چھاتی پر رکھ کر اوپر بیٹھ جاتے.ہمارا کھانا بند کر دیا جاتا اور کہا جاتاجب تک اسلام نہیں چھوڑو گے تمہیں بھوکا رکھا جائے گا.ظالموں نے ہمارے کئی مسلمان بھائیوں کو تکلیفیں دے دے کر شہید کر دیا.مکہ کے سردار یوں تو بہت بہادر بنتے تھے مگر حال یہ تھا کہ بوڑھی مسلمان عورتیں بھی ان کے ظلم سے محفوظ نہ تھیں.ہماری ایک بہن سمیہ کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاوند کو شہید کر دیا پھر اس کو بھی اتنے زخم لگائے کہ اس نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی.یہ باتیں مختصر بتا رہا ہوں تفصیل اس لئے نہیں بتا سکتا کہ مجھے اپنے شہید بہن اور بھائی یاد آ جاتے ہیں.اور تو اور خود میرے آقا محمد بھی اس ظلم سے بچے ہوئے نہ تھے.کبھی قریش ان کے گلے میں کپڑا ڈال کر دونوں طرف سے اتنا کھینچتے کہ آپ کا سانس گھٹنے لگتا.کبھی نماز پڑھتے 22 سیدنا بلال حضرت حمزہ مسلمان ہوتے ہیں ہوئے آپ کے سر پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دیتے جو اتنی بھاری ہوتی کہ آپ سجدہ سے سر بھی نہ اٹھا سکتے.آپ کو پتھر مارتے.کبھی آپ کے گھر میں گند پھینکتے آپ کے دروازے پر کانٹے بچھا دیتے تا کہ باہر نکلنے میں تکلیف ہو جب اس پر بھی مسلمانوں نے اسلام کو نہ چھوڑا بلکہ ایک ایک دو دو کر کے کافر مسلمان ہونے لگے تو قریش کا غصہ اور ظلم مزید بڑھ گیا.مسلمانوں کی ہجرت حبشہ مسلمانوں پر اتنا ظلم ہوتے دیکھ کر رسول اللہ نے سوچا کہ بہتر ہوگا کہ مسلمان مکہ سے باہر چلے جائیں اس کے لئے انہوں نے میرے ملک حبشہ کو پسند کیا اور کہا کہ اس ملک کا بادشاہ عدل اور انصاف کرنے والا ہے.اس کے ملک میں ظلم نہیں ہوتا.جو مسلمان جانا چاہیں وہ وہاں چلے جائیں.پہلی دفعہ گیارہ مرد اور چار عورتوں پر مشتمل قافلہ حبشہ گیا.ان جانے والوں میں سے بہت سے لوگ قریش کے طاقتور قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے اسی بات سے تم سمجھ گئے ہو گے کہ وہ مسلمان جوطاقتور قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے وہ بھی ظلم وستم سے محفوظ نہ تھے.غلاموں یا غریبوں کے پاس تو جانے کے لئے سامان ہی نہ تھا وہ کیسے سفر کرتے.اسی لئے میں بھی حبشہ نہ جاسکا.یہ لوگ چھپ چھپ کر مکہ سے نکلے اور سمندر کی طرف چل پڑے.جب شعیبیہ کی بندرگاہ پر پہنچے تو انہیں حبشہ جانے والا جہاز مل گیا اور وہ روانہ ہو گیا.جب قریش کو پتہ چلا کہ کچھ مسلمان ان سے بیچ کر نکل گئے ہیں تو انہوں نے پیچھا کیا مگر اس وقت تک جہاز روانہ ہو چکا تھا.قریش بھی آسانی سے ہار ماننے والے نہ تھے.انہوں نے اپنے کچھ سرداروں کا وفد حبشہ بھجوایا.یہ سردار وہاں کے پادریوں اور درباریوں سے ملے اور قیمتی تحفے دے کر ان میں سے کچھ کو اپنے ساتھ ملا لیا.کچھ دن کے بعد یہ وفد بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا.بادشاہ کو بہت سے تحفے پیش کئے اور عرض کی کہ ”ہمارے شہر کے کچھ لوگوں نے ملک میں فساد ڈال دیا ہے اور ایک نیا
سیدنا بلال 23 حضرت عمر بھی مسلمان ہو گئے حضرت عمر بھی مسلمان ہو گئے مذہب بنالیا ہے.ہمارے معبودوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں.ان میں سے کچھ لوگ وہاں سے بھاگ کر آپ کے ملک میں آگئے ہیں.آپ حکم دیں کہ ہم انہیں واپس لے جاسکیں“.بادشاہ نے جواب دیا میں یونہی تو انہیں واپس نہیں کر سکتا.یہ لوگ میری پناہ میں ہیں.میں ان کی بات سن کر فیصلہ کروں گا.اگلے دن بادشاہ نے مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلایا ان سے پوچھا کہ بتاؤ یہ کیا قصہ ہے.ان مسلمانوں میں ابوطالب کے بیٹے جعفر طیار بھی تھے.انہوں نے کہا.”اے بادشاہ! بات یہ ہے کہ ہم لوگ جاہل تھے.بتوں کی پوجا کرتے تھے.برے کام کرتے تھے.اپنے سے کمزوروں اور غریبوں پر ظلم کرتے تھے.پھر خدا نے ہم میں ایک رسول بھیجا.اس نے ہمیں ان برائیوں سے روکا اور نیک کام کرنے کو کہا.ہمیں بتایا کہ خدا ایک ہے.صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے.ہم نے اس کی باتیں سنیں وہ باتیں ہمیں اچھی لگیں ہم نے بتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کی عبادت شروع کر دی اور برے کاموں سے توبہ کر لی.اچھے کام کرنے کی کوشش میں لگ گئے.اس پر ہماری قوم ہماری دشمن ہوگئی اور ہمیں مارنے پیٹنے اور ہم پر ظلم کرنے لگی.اے بادشاہ! اب ہم اس ظلم سے تنگ آ کر آپ کے ملک میں پناہ لینے آئے ہیں مگر انہوں نے یہاں بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا.بادشاہ ساری بات سمجھ گیا.اس نے جعفر سے کہا فکر نہ کرو تم میری پناہ میں ہو.تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا.ہاں مجھے وہ کلام تو سناؤ جو تمہارے نبی پر اترا ہے.جعفر نے سورۃ مریم کی آیات بادشاہ 24 سیدنا بلال کوسنا ئیں.یہ آیتیں سن کر بادشاہ کے دل پر اتنا اثر ہوا کہ وہ رو پڑا.اس نے کہا خدا کی قسم ! یہ تو ویسا ہی کلام ہے جیسا ہمارے نبی یسوع مسیح پر اترا تھا.پھر بادشاہ نے قریش سے کہا جاؤ میرے ملک سے نکل جاؤ.میں ان لوگوں کو تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا.حضرت حمزہ مسلمان ہوتے ہیں ادھر مکہ میں مسلمانوں پر ظلم وستم اسی طرح جاری تھے.ایک دن کی بات ہے کہ رسول اللہ صفا کی پہاڑی پر بیٹھے تھے.ابو جہل کا وہاں سے گزر ہوا.اس نے آتے ہی رسول اللہ کو گالیاں دینی اور برا بھلا کہنا شروع کر دیا.رسول اللہ چپ رہے اور ایک لفظ بھی جواب میں نہ کہا.رسول اللہ کے چا حمزہ کی ایک خادمہ نے سارا واقعہ دیکھا.تھوڑی دیر کے بعد حمزہ جو شکار کو گئے ہوئے تھے واپس آئے.جب گھر پہنچے تو خادمہ نے کہا کہ آپ شکار کھیل رہے ہیں اور آپ کے پیچھے ابو جہل آیا تھا اور آپ کے بھتیجے کو گالیاں دیتے ہوئے ابھی یہاں سے گیا ہے.محمد چپ کر کے سنتے رہے اور جواب میں ایک لفظ بھی نہیں کہا.یہ سن کر حمزہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور خادمہ سے پوچھا.کیا یہ بات درست ہے؟ اس نے جواب دیا اس میں شک کی کوئی بات ہی نہیں سارا واقعہ میرے سامنے ہوا ہے.یہ سنتے ہی حمزہ الٹے قدموں باہر نکلے اور خانہ کعبہ کی طرف چلے گئے.جہاں ابو جہل اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا.جاتے ہی زور سے اس کے سر پر اپنی کمان ماری اور کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ تم نے آج میرے بھتیجے کو گالیاں دی ہیں اور اس نے تمہیں جواب تک نہیں دیا یہ ان گالیوں کا جواب ہے.یہ بھی سن لو کہ میں بھی آج سے محمد کے دین پر ہوں.اس کا خدا میرا خدا ہے جو وہ کہتا ہے وہی میں کہتا ہوں.ہمت ہے تو میرے سامنے آؤ.ابو جہل کے ساتھی اس کی حمایت میں بولنے لگے مگر ابو جہل حمزہ کی بہادری اور جرات دیکھ کر ڈر گیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو یہ کہہ کر روک دیا کہ نہیں مجھ سے زیادتی ہوئی تھی.حمزہ درست کہتے ہیں بات
سیدنا بلال 25 حضرت عمر بھی مسلمان ہو گئے حضرت عمر بھی مسلمان ہو گئے کھڑا ہو گیا.حضور میرے پاس آئے اور کہا.بڑھانے کی ضرورت نہیں.یوں بات تو ختم ہوگئی.حمزہ اپنے گھر آگئے جوش میں تو یہ کہ آئے تھے کہ میں محمد کے دین پر ہوں.جب غصہ کم ہوا تو سوچنے لگے.یہ میں نے کیا کہہ دیا.دیر تک سوچتے رہے.دل تو پہلے ہی اسلام کی اچھی باتوں کو مان چکا تھا.ایک جھجک باقی تھی.آخر یہی فیصلہ کیا کہ بت پرستی چھوڑ دینی چاہیے.آپ رسول اللہ کے پاس آئے اور اسلام قبول کر لیا.حمزہ کے مسلمان ہونے پر ہم بہت خوش ہوئے.ابو بکر تو اتنے خوش ہوئے کہ خانہ کعبہ میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور خدا کے ایک ہونے کا اعلان کیا.ابوبکر کے اس اعلان پر قریش کو بہت غصہ آیا.انہوں نے ابو بکر کو اتنامارا کہ آپ بے ہوش ہو گئے.ہم انہیں اٹھا کر گھر لائے.حضرت عمرؓ بھی مسلمان ہو گئے خدا جب خوشیاں دینے پر آتا ہے تو کون اسے روک سکتا ہے.چند ہی روز بعد خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک اور خوشی دی.عمر جو خطاب کے بیٹے تھے مکہ کے مشہور سرداروں میں سے تھے اور حمزہ کی طرح بہت بہادر اور نڈر تھے.اونچے قد کے مضبوط جوان تھے.طاقتور اتنے تھے کہ چلتے ہوئے اونٹ پر چھلانگ مار کر سوار ہو جاتے.اسلام کے سخت دشمن تھے اور مسلمانوں کو بہت تکلیفیں دیا کرتے.ایک دن انہیں خیال آیا کہ روز روز کا جھگڑا ختم کیا جائے اور محمد ہی کوقتل کر دیا جائے.یہ خیال آتے ہی تلوار ہاتھ میں لے کر گھر سے نکل پڑے.ہم لوگ ان دنوں ارقم کے مکان میں ย 26 سیدنا بلال بلال ! تمہارا شکریہ.اگر میرا وقت آ گیا ہے تو ابلتا ہوا پانی تو کیا ابلتا ہوا تیل بھی مجھے نہیں بچا سکتا.عمر ابھی ارقم " کے گھر سے پچاس قدم دور ہوں گے کہ انہیں عبداللہ بن نعیم ملے.پوچھنے لگے کہاں کا ارادہ ہے.عمر نے جواب نہ دیا.عبداللہ نے پھر پوچھا.آخرنگی تلوار لے کر کہاں جا رہے ہو؟ عمر نے جواب دیا محمد کو ختم کرنے جارہا ہوں.عبداللہ نے یہ سن کر کہا.محمد کو قتل کرو گے تو عبد مناف کا سارا قبیلہ تمہارا دشمن ہو جائے گا.یہ تو خیر بعد کی بات ہے پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں.یہ سنتے ہی عمر اپنی بہن فاطمہ کے گھر کی طرف چل پڑے.اس وقت خباب ان کے گھر میں تھے اور میاں بیوی کو قرآن پڑھا رہے تھے.جب عمر نے دروازے پر آکر آواز دی، تو فاطمہ نے خباب کو چھپا دیا اور وہ کاغذ بھی چھپا دیئے جن پر قرآن لکھا ہوا تھا.فاطمہ نے دروازہ کھولا.عمر غصے میں بھرے ہوئے اندر آئے اور کہنے لگے تم اپنے دین سے پھر گئے ہو اور تم نے نیادین اختیار کر لیا ہے.یہ کہتے ہی اپنے بہنوئی سعید بن زید کو مارنے کے لئے جھپٹے.فاطمہ انہیں بچانے کے لئے درمیان میں آگئیں اور اُن کے چہرے پر چوٹ لگی.فاطمہ نے یہ سوچ کر کہ بات تو اب اکٹھے ہوا کرتے تھے.میں نے عمر کو تلوار لے کر غصہ میں جاتے ہوئے دیکھا تو ان کے ارادہ کو سمجھ گھل ہی چکی ہے کہا.عمر! ہاں ہم مسلمان ہو چکے ہیں تم سے جو ہو سکتا ہے کر لو ہم اسلام نہیں گیا اور رسول اللہ کو اس کی اطلاع دینے کے لئے ارقم کے مکان پر پہنچا.اس وقت وہاں اور بھی مسلمان موجود تھے مگر کسی کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا.میں نے رسول اللہ کو اطلاع دی.آپ نے کہا بلال ! خدا جانتا ہے کہ عمر کب مسلمان ہوگا.میں بہت گھبرایا ہو ا تھا.میں نے ادھر اُدھر کوئی ہتھیار تلاش کیا مگر وہاں کچھ نہ تھا.آگ پر پانی کا برتن اہل رہا تھا.میں وہی اُٹھا کر دروازے پر چھوڑیں گے.بہن کے چہرے پر بہتا ہو اخون اور اس کے لہجہ کی سچائی دیکھ کر عمر شرمندہ ہو گئے.کہنے لگے اچھا جو تم پڑھ رہے ہو مجھے بھی دکھاؤ.فاطمہ کہنے لگیں اگر ہم نے تمہیں وہ کاغذ دیئے تو تم پھاڑ دو گے.عمر نے کہا میں کچھ نہیں کرتا تم دکھاؤ تو سہی! فاطمہ بولیں اس طرح نہیں یہ خدا کا پاک کلام ہے.تم غسل کر کے پاک ہو جاؤ تو تمہیں دکھا دوں گی.عمر نے غسل کیا اتنے میں غصہ بھی اتر
سیدنا بلال 27 شعب ابی طالب میں محصوری شعب ابی طالب میں محصوری 28 سیدنا بلال گیا اور طبیعت میں سکون آچکا تھا.فاطمہ نے وہ کاغذان کو دیا.عمر نے پڑھنا شروع کیا وہ سورۃ طہ کی یہ آیتیں تھیں.إِنَّنِي أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى إِنَّ السَّاعَةَ اتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيْهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى میں یقیناً اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں.پس تو میری ہی عبادت کر.میرے ذکر کیلئے نماز قائم کر.قیامت یقیناً آنیوالی ہے قریب ہے کہ میں اسے ظاہر کر دوں تا کہ ہر نفس کو اپنے اعمال کے مطابق جزا دی جائے.خدا کے کلام سے عمر پر عجیب اثر ہوا.ایک دفعہ تعصب کی دیوار گر جانے کے بعد خدا کے کلام کی خوبصورتی اور عظمت نے آپ کا دل کھول دیا.بے اختیار ہو کر کہہ اٹھے میں گواہی دیتا ہوں اللہ ایک ہے.میں گواہی دیتا ہوں محمد اس کے رسول ہیں.خباب جوعمر کو غصہ میں دیکھ کر چھپے ہوئے تھے.یہ ن کر الحمدللہ الحمد للہ کہتے ہوئے باہر آئے اور کہنے لگے.ابھی کل کی بات ہے کہ میں نے رسول اللہ کو دعا کرتے سنا تھا.اے اللہ! عمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام (ابو جہل) میں سے ایک اسلام کو عطا کر دے.عمر پوچھنے لگے میں رسول اللہ کو کہاں مل سکتا ہوں؟ آپ کو بتایا گیا کہ رسول اللہ ارقم کے گھر میں ہوں گے.اسی طرح تلوار ہاتھ میں پکڑے عمر ارقم کے گھر کی طرف چل پڑے اور وہاں دروازہ کھٹکھٹایا.ہم میں سے ایک نے جھانک کر دیکھا اور کہا اوہ! یہ تو عمر ہیں ان کے ہاتھ میں تنگی تلوار ہے! حمزہ کہنے لگے؟ آنے دو.اگر عمر کی نیت خراب ہے تو اس کی تلوار ہی سے اس کی گردن اڑا دوں گا.رسول اللہ کے حکم پر دروازہ کھول دیا گیا.عمر اندر آئے.رسول اللہ نے آپ کے کرتے کو پکڑ کر کھینچا اور کہا.عمر کس ارادے سے آئے ہو؟ مخالفت سے باز آ جاؤ اگر باز نہیں آؤ گے تو خدا کے زور آور ہاتھ کا انتظار کرو.عمر آگے بڑھے بڑی عاجزی سے بولے.میں گواہی دیتا ہوں.خدا ایک ہے.میں گواہی دیتا ہوں آپ اس کے رسول ہیں.ہم مسلمان جو وہاں موجود تھے.رسول اللہ کی دُعا کے اتنا جلد پورا ہونے پر خوشی سے بے حال ہو گئے اور ہم نے مل کر اللہ اکبر کے نعرے اتنے جوش سے لگائے کہ دا یار تم جو صفا کی پہاڑیوں کے قریب تھا گونج اٹھا.عمر نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا ہم سچائی پر نہیں ہیں؟ کیوں نہیں.رسول اللہ نے فرمایا.یقینا ہم سچائی پر ہیں.عمر نے عرض کی.پھر چھپ کر کیوں عبادت کریں.کھل کر نماز کیوں نہ پڑھیں.اس وقت ہم چالیس مسلمان تھے.عمر اور حمزہ کی قیادت میں ہم خانہ کعبہ گئے اور کفار کی نظروں کے سامنے پہلی بار ہم نے نماز پڑھی.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ قریش مسلمانوں کو بہت دکھ اور تکلیف پہنچاتے تھے تا کہ وہ اسلام چھوڑ دیں لیکن جو بھی ایک دفعہ مسلمان ہو جاتا پھر واپس نہیں پھرتا تھا.اب مکہ کے دو بڑے سرداروں کے مسلمان ہو جانے سے ان کو فکر ہوئی اور انہوں نے سوچا رسول اللہ کے ساتھ کوئی ایسی بات کریں جس کے نتیجے میں وہ اپنے دین کے پھیلانے سے رک جائیں.چنانچہ قریش کے سردار ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل اور میرا پہلا آقا امیہ بن خلف، رسول اللہ کے پاس آئے اور کہنے لگے.محمد ہمارا آپس کا اختلاف بڑھتا جاتا ہے.قوم میں پھوٹ پڑ گئی ہے.اسے ختم کرنا چاہئے.آؤ کوئی ایسی تدبیر کریں کہ جس سے یہ جھگڑے ختم ہو جائیں.آپ نے کہا تم بتاؤ تم نے کیا سوچا ہے.کہنے لگے کہ یوں کرو کہ ہم اور تم دونوں مل کر عبادت کریں.جب تم اپنے خدا کی عبادت کرو تو ہم بھی تمہارے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور جب ہم اپنے بتوں کو پوجیں تو تم بھی شریک ہو جانا.اس طرح ہم میں سے جو بھی سچا ہو اس کا فائدہ دوسرے کو پہنچ جائے گا.ایسی
سیدنا بلال 29 غم کا سال بیوقوفی کی بات سن کر آپ مسکرائے اور ان کو بتایا کہ یہ کیسے ممکن ہے میں تو تمہارے بتوں کو سمجھتا ہی بے جان ہوں.یہ بالکل بے کار چیزیں ہیں.ان کے آگے سر جھکانا تو خدا کو ناراض کرنا ہے.تمہارے خیال میں میں وہ بات کر سکتا ہوں جس سے خدا نے مجھے منع کیا ہے؟ دوسری طرف تم بتوں کو پوجتے ہو تم ایک خدا کی عبادت کس طرح کرو گے.یہ سن کر وہ واپس چلے گئے.شعب ابی طالب میں محصوری اب انہوں نے سوچا کہ ہم تو محمد کے مقابلہ میں ہر دفعہ نا کام ہو جاتے ہیں.پہلے ابوطالب کو ساتھ ملانے میں ناکام ہوئے.پھر با وجود ساری کوششوں کے مسلمانوں میں سے کسی ایک کو بھی واپس اپنے مذہب میں نہیں لا سکے.حمزہ اور عمر بھی محمد کے ساتھ مل گئے ہیں.جس کی وجہ سے محمد گا اگر وہ طاقتور ہوتا جاتا ہے.نجاشی نے بھی ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا ہے اور محمد نے بھی ہماری بات نہیں مانی.اب کیا کیا جائے؟ مشورہ کرنے کے لئے قریش کے سارے قبیلوں کے سردارا کٹھے ہوئے اور یہ فیصلہ ہوا کہ سارے مسلمانوں کا اور ان لوگوں کا جو مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں بائیکاٹ کر دیں.اور ان کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہ رکھیں.ان کے ساتھ کوئی رشتہ نہ کریں نہ ان سے کوئی چیزیں خریدیں نہ ان کے ہاتھ بیچیں.یہ فیصلہ لکھ کر سارے سرداروں نے اس پر دستخط کئے اور عہد نامہ خانہ کعبہ میں لٹکا دیا.اس کے نتیجہ میں سارے مسلمان اور بنو ہاشم کے وہ لوگ جو مسلمانوں کے ساتھ تھے مکہ کے قریب ایک گھاٹی میں جو ابوطالب کی ملکیت تھی چلے گئے.اسے شعب ابی طالب کہتے ہیں.میں بھی باقی مسلمانوں کے ساتھ تھا.ہم لوگ وہاں تقریباً تین سال رہے.حال یہ تھا کہ باہر سے نہ کوئی ہمیں ملنے آ سکتا تھا نہ ہی ہم کہیں باہر جاسکتے تھے چھپ چھپا کر کبھی باہر نکلتے اور کھانے پینے کی چیزیں لے آتے.کئی کئی دن کچھ کھائے پیے بغیر گزر جاتے.ہمارے کپڑے پھٹ چکے تھے.بھوک اور پیاس کے مارے ہم سخت کمزور ہو چکے 30 سیدنا بلال اسلام کا نور پھیلنے لگا تھے.حالت یہاں تک ہوگئی تھی کہ بعد میں ہمارے ایک مسلمان بھائی نے بتایا کہ جب ایک دفعہ کئی دن سے میں نے کچھ نہیں کھایا ہو ا تھا.رات کا وقت تھا.بھوک کے مارے بری حالت تھی.اسی بے چینی میں گرتا پڑتا ادھر ادھر پھر رہا تھا کہ مجھے لگا کہ میرے پاؤں کے نیچے کوئی نرم چیز آئی ہے.اندھیرے میں میں نے ہاتھ بڑھایا اور وہ چیز اٹھا کر منہ میں ڈال لی.مجھے آج تک یہ نہیں پتہ کہ وہ کیا چیز تھی جو میں نے اس دن کھائی تھی.اڑھائی تین سال کے اس سارے عرصہ میں ہم میں سے کسی کو ایک دفعہ بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملا تھا مگر اتنی بات بتادوں کہ ان ساری تکلیفوں کے باوجود ہم میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا، جس کو کبھی خیال بھی آیا ہو کہ اپنے رب سے منہ موڑ لے.ہم مایوس بھی نہ تھے اس وقت بھی ہمیں یقین تھا کہ ہمارا خدا ہماری مدد کریگا.جیتیں گے ہم ہی.تقریباً تین سال گزرنے کے بعد ایک دن رسول اللہ نے ابو طالب کو کہا." چا! مجھے خدا نے بتایا ہے کہ وہ عہد نامہ جس کے تحت قریش نے ہمارا بائیکاٹ کر رکھا ہے، اُسے کیڑوں نے کھا لیا ہے.صرف جہاں خدا کا نام لکھا ہوا ہے وہ حصہ رہ گیا ہے.ابو طالب اُٹھے اور دیکھنے کے لئے کہ رسول اللہ کی بات درست ہے یا نہیں خانہ کعبہ گئے.وہاں جا کر دیکھا تو رسول اللہ کی بات ٹھیک تھی.وہاں قریش کے کچھ سردار بھی بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے انہیں کہا کہ محمد کہتا ہے کہ جس معاہدہ کی وجہ سے تم نے ہمیں قید کیا ہوا ہے.اس کو کیٹروں نے کھالیا.جب انہوں نے معاہدہ دیکھا تو وہ حیران رہ گئے کہ سارا عہد نامہ کیڑے کھا چکے تھے.صرف شروع میں اللہ کا نام بچ گیا تھا.اس پر قریش کے بعض سردار جو کچھ رحمدل تھے.انہیں خیال آیا اور انہوں نے کہا کہ یہ بڑے ظلم کی بات ہے کہ تین سال ہو گئے ہم لوگ آرام سے گھروں میں ہیں جبکہ ہمارے یہ بھائی مصیبت کے دن گزار رہے ہیں.اب یہ قصہ ختم ہونا چاہیے اور معاہدہ
سیدنا بلال 31 اسلام کا نور پھیلنے لگا اسلام کا نور پھیلنے لگا 32 سیدنا بلال منسوخ کر دینا چاہیے.ابو جہل اور اس کے کچھ ساتھی اس بات پر تیار نہ تھے وہ چاہتے تھے کہ معاہدہ قائم رہے.ابھی یہ بحث ہی ہو رہی تھی کہ ایک سردار مطعم بن عدی نے وہ کاغذ اٹھا کر پھاڑ دیا اور کچھ اور لوگوں کو ساتھ لے کر شعب ابی طالب آئے اور ہمیں اپنی حفاظت میں لے جا کر اپنے اپنے گھروں میں چھوڑا.اس طرح یہ مصیبت کے دن ختم ہوئے.یہ نبوت کے دسویں سال کی بات ہے.غم کا سال اس کے کچھ عرصہ بعد ابو طالب جن کی عمر۸۰ سال سے زائد ہو چکی تھی اور خدیجہ جن کی عمر ۶۵ برس کی تھی.کچھ وقفے سے وفات پاگئے.تین سال کی تکلیفوں اور قید نے ابو طالب اور خدیجہ کی صحت بہت خراب کر دی تھی.یہ دونوں رسول اللہ کے لئے بڑا سہارا تھے.ابوطالب مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر رسول اللہ کی مدد کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی.میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ خدا انہیں اس مدد کا ضرور اچھا بدلہ دے گا.خدیجہ بھی ہمارے لئے بہت سہارا تھیں.ہماری تو ماں بھی وہی تھیں.رسول اللہ پر سب سے پہلے ایمان لائی تھیں.شادی سے پہلے بڑی آرام کی زندگی گزاری تھی.لیکن بعد میں جب رسول اللہ نے دعوی کیا تو ہر قسم کے دُکھ اُٹھانے پڑے مگر آپ نے کبھی شکوہ نہیں کیا.رسول اللہ کو آپ سے بڑی محبت تھی.آپ کی وفات پر ہمیں بہت صدمہ ہوا.ان دونوں کی وفات کی وجہ سے ہم اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال کہتے ہیں.طائف کا واقعہ اب ہمیں اگر چہ شعب ابی طالب کی قید سے تو رہائی مل چکی تھی لیکن قریش کی طرف سے مخالفت اسی طرح جاری تھی اور لوگ ہماری بات تک سنے کو تیار نہ ہوتے تھے.اس لئے رسول اللہ نے ارادہ کیا کہ ملکہ سے باہر جا کر اسلام کا پیغام سنایا جائے.مکہ کے جنوب میں ۴۰ میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی شہر ہے جس کا نام طائف ہے.ان دنوں وہاں بنو ثقیف کا قبیلہ رہتا تھا.یہ بڑے امیر لوگ تھے.انہوں نے پہاڑوں پر باغات لگائے ہوئے تھے جس میں پھل وغیرہ بہت ہوتا تھا.آپ زید کو لے کر پیدل ہی طائف کی طرف روانہ ہوئے.مگر طائف کے لوگوں نے بھی آپ کی باتیں نہ سنیں.آپ دس دن تک وہاں رہے مگر طائف کے لوگوں نے اسلام قبول کرنے کی بجائے آپ کی ہنسی اڑائی.شہر کے غنڈوں اور آوارہ لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا.جنہوں نے پتھر مار مار کر آپ کو اور زید کو زخمی کر دیا اور آپ واپس مکہ آگئے.اسلام کا نور پھیلنے لگا نبوت کا گیارہواں سال شروع ہو چکا تھا.ہماری مخالفت میں کوئی کمی نہ ہوئی تھی.مکہ والے ہمیں ہر طرح کی تکلیفیں پہنچاتے تنگ کرتے اور کسی کو ہماری بات نہ سننے دیتے تھے.لیکن اس کے باوجود جو کوئی اسلام کی پیاری باتیں سنتا وہ مسلمان ہو جاتا.اس لئے آہستہ آہستہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی.رسول اللہ کی اور ہماری کوشش یہی ہوتی کہ جب بھی موقعہ ملتا ہم اسلام کا پیغام دوسروں تک پہنچاتے رہتے.عام دنوں میں قریش کے ڈر کی وجہ سے ہم لوگوں سے زیادہ مل جل نہیں سکتے تھے.حج کے دنوں میں سارے عرب کے لوگ مکہ آتے تھے ان دنوں مکہ والے بھی لڑنے جھگڑنے سے باز رہتے تھے.اس لئے یہ بڑا اچھا موقعہ ہوتا.ہم باہر سے آنے
سیدنا بلال 33 مدینہ کی طرف ہجرت والوں سے نسبتاً زیادہ آزادی سے ملتے اور اسلام کی باتیں سناتے.ایک سال مکہ سے تقریباً اڑھائی سو میل دور ایک شہر سے جس کا نام یثرب تھا کچھ لوگ حج کرنے آئے.یہ لوگ قبیلہ بنو خزرج سے تعلق رکھتے تھے.رسول اللہ سے ان کی ملاقات ہوئی آپ نے انہیں اسلام کا پیغام سنایا اور بتایا کہ خدا ایک ہے.اسی نے ہمیں پیدا کیا ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے.آپ نے انہیں خدا کا کلام سنایا.آپ کی باتیں سن کر وہ بہت اچھا اثر لے کر واپس ہوئے.یہ کل چھ آدمی تھے.رسول اللہ نے ان کو کہا کہ جو کچھ تم نے سنا ہے وہ واپس جا کر اپنے بھائیوں کو بھی بتانا.چنانچہ جب وہ واپس پہنچے تو انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ مکہ میں ایک آدمی نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور وہ یہ یہ باتیں کہتا ہے.مکہ والے اب سمجھ چکے تھے کہ ان کے ظلم مسلمانوں کو اسلام سے نہیں ہٹا سکتے.کیونکہ باوجود ان کی تمام کوششوں کے مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی.جو ایک دفعہ اسلام کی باتیں سن لیتا وہ انہیں قبول کر لیتا تھا.اس لئے قریش اب اس فکر میں تھے کہ کونسا طریقہ اختیار کیا جائے.جس سے مسلمان ختم ہو جائیں.انہی حالات میں ایک سال اور گزر گیا.اور پھر حج کے دن آگئے.سارے عرب سے لوگ حج کے لئے مکہ آئے.ایک دن رسول اللہ ملکہ کے قریب ایک جگہ عقبہ گئے اور وہاں یثرب سے آئے ہوئے لوگوں سے ملے.ان میں پانچ وہ آدمی بھی تھے جو پچھلے سال رسول اللہ سے مل چکے تھے اور سات آدمی نئے تھے.ان میں سے کچھ قبیلہ اوس کے آدمی تھے.رسول اللہ نے انہیں اسلام کا پیغام سنایا اور اللہ تعالیٰ کا کلام ان کے سامنے رکھا.ان بارہ آدمیوں نے رسول اللہ کی بیعت کر لی.اس واقعہ کو بیعت عقبہ کہتے ہیں.یثرب واپس پہنچ کر انہوں نے رسول اللہ کولکھا کہ کسی ایسے آدمی کو ہمارے پاس بھجوائیں جو ہمیں دین کی باتیں سکھائے.رسول اللہ نے مصعب بن عمیر کو بیٹرب بھجوایا.آپ نے وہاں جا کر مدینہ کی طرف ہجرت 34 سیدنا بلال بہت کام کیا.وہ مسلمانوں کو دین کی باتیں سکھاتے اور دوسروں کو اسلام کا پیغام پہنچاتے.خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ مکہ میں تو تیرہ سال میں بہت کم مسلمان ہوئے مگر یثرب کے لوگ اسلام کی طرف جلدی جلدی آنے لگے.جب اگلے سال حج کا وقت آیا تو یثرب سے مصعب بن عمیر کے ساتھ ستر آدمی آئے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے یا مسلمان ہونا چاہتے تھے.ایک دن رات کے وقت عقبہ میں ہی ان کی رسول اللہ سے ملاقات ہوئی.قریش کے ڈر سے یثرب کے یہ آدمی ایک ایک کر کے وہاں جمع ہوئے تھے.پھر رسول اللہ اپنے چا عباس کے ساتھ وہاں پہنچے.عباس نے یثرب کے لوگوں سے کہا کہ د محمد ہم میں بہت معزز ہیں اور ہمیں بہت عزیز ہیں.ان کے خاندان نے ہمیشہ ان کی حفاظت کی ہے مگر اب حالات یہ ہیں کہ یہ مکہ چھوڑ کر تمہارے پاس جانے پر مجبور ہیں.اگر تم ان کو ساتھ لے جانا چاہتے ہو تو اچھی طرح سوچ لو اور نتائج پر غور کر لو.اگر تم ان کی حفاظت کر سکتے ہو تو ٹھیک ہے اور اگر تم سمجھتے ہو کہ ان کی حفاظت نہیں کر سکتے تو اس ارادہ کو چھوڑ دو.اس پر ان کے ایک سردار نے کہا."عباس ! ہم نے تمہاری بات سنی.ہم اپنے ارادہ میں پکے ہیں.ہماری زندگیاں رسول اللہ کی خدمت کے لئے ہیں.اب اگر رسول اللہ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو فرمائیں.رسول اللہ نے قرآن مجید کا کچھ حصہ پڑھا.اسلام کے متعلق باتیں بیان کیں اور فرمایا! میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر تم خدا کے رسول کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہو تو جس طرح تم اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح میری حفاظت کا ذمہ لو.
سیدنا بلال 35 آنحضور کی ہجرت مدینہ آنحضور کی ہجرت مدینہ 36 سیدنا بلال آپ کے خاموش ہونے پر یشرب سے آئے ہوئے آدمی بے اختیار کہہ اٹھے.”ہم اپنی جانوں اور اپنے مال کی قربانی دے کر بھی آپ کی حفاظت کریں گئے.اس کے بعد ان نشتر افراد نے رسول اللہ کے ہاتھ پر باری باری بیعت کی.ہم اسے عقبہ کی دوسری بیعت کہتے ہیں.جب یہ لوگ واپس جانے لگے تو رسول اللہ نے بارہ آدمی مقرر کئے جوان کے نگران بنائے گئے.آپ نے ان کو یہ نصیحت بھی کی کہ خدا کے ساتھ کبھی کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا.اب جب میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور ماضی کی طرف نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے عقبہ کی یہ بیعت اس اندھیری رات میں چھپ چھپ کر آنے والے ستر افراد کی بیعت نہ تھی بلکہ ایک نئے دور کی ابتدا تھی.مدینہ کی طرف ہجرت یثرب میں مسلمانوں کی کافی تعداد ہو چکی تھی.دوسری طرف مکہ میں کافروں کے ظلم میں زیادتی ہوتی جارہی تھی.اس لئے رسول اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ایک ایک دو دو کر کے میٹرب کی طرف چلے جائیں.مسلمان آہستہ آہستہ بیٹرب روانہ ہونے لگے.ایک دن میں نے بھی جانے کا ارادہ کیا.میرے ساتھ چھ مرد ، دوعورتیں اور تین بچے بھی تیار ہوئے.رسول اللہ نے مجھے اس چھوٹے سے قافلہ کا امیر بنایا.یہ لمحہ میرے لئے ایک عجیب لمحہ تھا.میں جو امیہ بن خلف کا ایک حبشی غلام تھا.ہر ایک سے مار کھانا ہر ایک کی جھڑکیاں سننا جس کی قسمت تھی.آج ایک چھوٹے سے مگر آزادلوگوں کے گروہ کا امیر تھا.اگر یہ انقلاب نہیں تو اور کسے انقلاب کہتے ہیں.اڑھائی سو میل کا لمبا سفر ہم نے پیدل طے کرنا تھا.سارا راستہ ریگستان تھا.ہر طرف ریت ہی ریت تھی.گرمی زوروں پر تھی.اگر ہم جلدی بھی کرتے تو دن سے پہلے اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتے تھے.لیکن ہمارے ساتھ تو بچے اورعورتیں بھی تھیں.عجیب بات ہے کہ سخت گرمی کے باوجود یہ سفر ہمیں کوئی مشکل نہ لگا.تکلیفیں تو ضرور آئیں.بچے بیمار ہوئے.ہمارے ایک ساتھی کے پاؤں پر زخم بھی ہو گیا.جو اس نے مجھ سے چھپائے رکھا اور جب مجھے اس زخم کا پتہ لگا تو اس نے اپنی رفتار اور تیز کر دی اور ہم سے آگے آگے چلنے لگا.جب ہم یثرب پہنچے تو اس کی حالت اچھی نہ تھی.اور زخموں کی وجہ سے وہ میرے کندھے کا سہارا لے کر شہر میں داخل ہوا.ان ساری باتوں کے باوجود ہم نے اپنا سفر جاری رکھا اور آخر وہ دن بھی آ گیا.جب ہم میٹر ب پہنچ گئے.یہ ہے ہماری ہجرت کی کہانی.یہ سفر تمہیں تو شاید ایک معمولی سا سفر ہی لگے لیکن مجھے ہمیشہ یادر ہے گا.اگر چہ اس کے بعد میں نے یثرب سے مکہ کے کئی سفر کئے ہیں اور اب تو ہزاروں لوگ یہ سفر کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن ہمارا سفر کچھ اور ہی رنگ کا تھا.ہم جو کافروں کے ظلم کے ستائے ہوئے اپنی جان اور جان سے بڑھ کر اس پیغام کی حفاظت کی خاطر جو خدا کا پیغام ہے، ہمارے پیدا کرنے والے کا پیغام ہے، اپنے وطن کو چھوڑ کر جارہے تھے.ہم خالی ہاتھ تھے لیکن ہمارے پاس دونوں جہان کی دولت سے زیادہ مال تھا.تم پوچھو گے یہ مال کیا تھا، یہ وہ پیغام تھا جو خدا نے ساری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا تھا.اسی لئے یہ سفر ایک ایسا سفر تھا جو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا.جب تک دنیا قائم ہے.ریت کے اس صحراء کے نیچے ہمارے قدموں کے نشان قائم رہیں گے جو کبھی مٹ نہیں سکتے.یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا.ایک زمانہ کی ابتداء تھی جب تک اسلام باقی ہے اور جب تک مسلمان اس دنیا میں آباد ہیں وہ اپنے اپنے وقت کا اندازہ ہمارے قدموں کے نشانوں سے کرتے رہیں گے.ہمارے آنے کے بعد آہستہ آہستہ اور مسلمان بھی ہجرت کر کے آتے رہے اور مکہ میں
سیدنا بلال 37 آنحضور کی مدینہ روانگی آنحضور کی مدینہ روانگی 38 سیدنا بلال رسول اللہ کے ساتھ بہت تھوڑے مسلمان رہ گئے.ہم جو مدینہ پہنچ کر امن میں آگئے تھے اس بات سے بہت فکر مند رہتے تھے کہ پتہ نہیں رسول اللہ کے ساتھ کفار کیا سلوک کر رہے ہیں.ہمارا انتظار لمبا ہی ہوتا گیا.آہستہ آہستہ سارے مسلمان آگئے.عمر بھی آگئے ، حمزہ بھی، لیکن رسول اللہ، ابو بکر علی اور چند اور مسلمانوں کے ساتھ مکہ میں ہی رہے اور آپ ابھی کس طرح آسکتے تھے.جب تک خدا تعالیٰ آپ کو آنے کا حکم نہ دیتا.کیونکہ اللہ کے رسول کوئی کام بھی اس کے حکم کے بغیر نہیں کرتے.اکثر مسلمانوں کے وہاں سے آجانے کی وجہ سے رسول اللہ کے لئے خطرہ بڑھ گیا تھا.کیونکہ کافروں کو اب یہ فکر ہوگئی تھی کہ مسلمان مکہ سے باہر جاچکے ہیں اور وہ ڈرتے تھے کہ اسلام کا پیغام عرب کے دوسرے قبیلوں میں پھیلنا شروع ہو جائے گا.تنگ آ کر انہوں نے سوچا کہ اب کوئی ایسا طریق اختیار کرنا چاہیے کہ یہ قصہ ختم ہی ہو جائے.آنحضور عالم کی ہجرت مدینہ ﷺ مکہ میں ایک جگہ تھی جس کو دارالندوہ کہتے تھے.یہاں قوم کے سردار ا کٹھے ہو کر ان باتوں کے متعلق مشورہ کرتے جس کا ساری قوم سے تعلق ہوتا.اس جگہ سارے قبیلوں کے سردار اکٹھے ہوئے اور آپس میں مشورہ کرنے لگے کسی نے کوئی بات کہی کسی نے کچھ کہا، کسی نے کچھ کسی نے کہا محمد کو قید کر دیتے ہیں.ایک نے کہا مکہ سے جلا وطن کر دیتے ہیں.آخر ابو جہل نے مشورہ دیا.اگر تو تم سارا قصہ ختم کرنا چاہتے ہو تو اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ محمد کو ہی قتل کر دیا جائے“.اس پر ایک سردار نے یہ اعتراض کیا کہ اس طرح محمد کے قبیلہ کے لوگ قاتل سے بدلہ لینے کی کوشش کریں گے.جس پر ابو جہل بولا.اگر ہر قبیلہ میں سے ایک آدمی چنا جائے اور سارے مل کر محمد کو قتل کر دیں تو محمد کے قبیلہ کو بھی جرات نہیں ہوگی کہ سارے قبیلوں کے ساتھ لڑائی کرے“.یہ بات سارے لوگ مان گئے اور ہر قبیلہ سے ایک ایک آدمی چن لیا گیا اور فیصلہ ہوا کہ اسی رات اس تجویز پر عمل کیا جائے.اُدھر تو یہ مشورے ہو رہے تھے.ادھر میرے رب نے اپنے رسول کو ان کی سازش کی اطلاع دے دی اور حکم دیا کہ رسول اللہ بھی میرب چلے جائیں.دوپہر کا وقت تھا آپ اسی وقت حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور ان سے کہا مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے.حضرت ابو بکر رسول اللہ سے بہت محبت کرتے تھے.آپ نے بے اختیار کہا.یا رسول اللہ ! کیا میں بھی آپ کے ساتھ جا سکتا ہوں؟ رسول اللہ نے جواب دیا ہاں! آپ اتنے خوش ہوئے کہ خوشی کے مارے آپ کے آنسو نکل آئے.حضرت عائشہ جو حضرت ابو بکر کی بیٹی ہیں اس وقت وہیں تھیں.وہ کہتی ہیں مجھے اس دن پہلی دفعہ پتہ لگا کہ بہت خوشی میں انسان کے آنسو بھی آ جاتے ہیں.پھر حضرت ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ! میں نے اس سفر کے لئے پہلے ہی دو اونٹنیاں پالی ہوئی ہیں.ان میں سے ایک آپ لے لیں.حضور نے کہا.ٹھیک ہے مگر قیمت ادا کر کے لونگا.حضرت ابو بکر کے گھر والوں نے جلدی جلدی سامان تیار کیا.کھانے کی تھیلی باندھنے کے لئے جلدی میں اور کوئی کپڑا نہ ملا تو حضرت ابو بکر کی بڑی بیٹی حضرت اسماء نے اپنی چادر کو ہی پھاڑ کر اس سے کھانا باندھ دیا اور دوسرے حصہ سے پانی کا مشکیزہ باندھ دیا.اس لئے ہم انہیں ذات النطاقین یعنی دو چادروں والی کہتے ہیں.
سیدنا بلال 39 آنحضور کی مدینہ روانگی مواخات آنحضور ﷺ کی مدینہ روانگی فیصلہ یہ ہوا کہ رسول اللہ اور ابوبکر علیحدہ علیحدہ نکلیں گے اور مکہ کے باہر ا کٹھے ہو جائیں گے.وہاں سے رسول اللہ اپنے گھر آئے اور کافروں کی امانتیں آپ کے پاس تھیں وہ علی کو دیں، تا کہ وہ انہیں واپس پہنچاسکیں.اتنی دیر میں رات ہوگئی.آپ نے علی کو اپنے بستر پرلٹا دیا اور اپنی چادران پر ڈال دی.باہر کفار نے گھر کو گھیرے میں لے لیا تھا تا کہ آپ کو قتل کر سکیں لیکن ہمارا خدا تو بہت طاقتور خدا ہے.آپ رات کے وقت باہر نکلے اور ان کے جانے کا علم ہی نہ ہوا.صبح ہوئی تو انہیں پتہ چلا کہ آپ جاچکے ہیں.انہیں بہت غصہ آیا.مگر اب کیا ہوسکتا تھا.آخر ایک سردار نے اعلان کیا کہ جو کوئی محمد کو زندہ یا مردہ لائے گا.اسے سو اونٹ انعام دیئے جائیں گے.اس لالچ میں کئی آدمی رسول اللہ کی تلاش میں نکلے.رسول اللہ ابو بکر کے ساتھ مل کر سیدھے یثرب کی طرف جانے کی بجائے جو شمال کی طرف ہے، جنوب میں غار ثور کی طرف چل پڑے.رسول اللہ کی تلاش میں نکلنے والوں میں سے ایک میرے جیسا حبشی بھی تھا جو کھوجی کا کام کرتا تھا اور اپنے کام میں اتنا ماہر تھا کہ لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ ہوا میں سونگھ کر پرندے کا پتہ لگا لیتا ہے.باقی پیچھا کرنے والے تو شمال کی طرف گئے یہ بڑا ہوشیار تھا.یہ کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر جنوب کی طرف روانہ ہوا اور قدموں کے نشان دیکھتا ہو ا غار ثور تک پہنچ گیا.جہاں رسول اللہ ابوبکر کے ساتھ چھپے ہوئے تھے.غار کے نام سے یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ کوئی بڑی غار تھی.بس ایک چھوٹی سی جگہ تھی مگر میرے رب کے کام عجیب ہوتے ہیں.رسول اللہ اور ابو بکر کے غار میں داخل ہوتے ہی ایک مکڑی نے غار کے منہ پر جالا بن دیا اور قریب کے ایک درخت کی ایک شاخ پر جو جھک کر غار کے منہ کے سامنے آئی ہوئی تھی ایک کبوتری نے گھونسلا بنا کر انڈے دے دیئے تھے.غار پر پہنچ کر کھوجی نے قریش کے سرداروں سے کہا کہ سراغ اس سے آگے نہیں چلتا.اس لئے یا تو محمد اس 40 سیدنا بلال غار کے اندر ہیں یا آسمان پر چڑھ گئے ہیں.سردار مکڑی کے جالے کو دیکھ کر کہنے لگے تم عجیب بے وقوف آدمی ہو.اگر محمد اس کے اندر جاتے تو یہ جالا اور کبوتری کا گھونسلا ٹوٹ نہ جاتے اس لئے محمد اس غار کے اندر نہیں ہو سکتے.جب باہر یہ بات چیت ہو رہی تھی.اندرابوبکر رسول اللہ سے کہنے لگے یا رسول اللہ ! اگر باہر کھڑے کا فرذرا جھک کر اپنے پیروں کی طرف بھی دیکھیں تو ہم انہیں نظر آجائیں گے.رسول اللہ نے ابو بکر کو تسلی دی اور فرمایا ” فکر نہ کرو.اللہ ہمارے ساتھ ہے.ابوبکر نے کہا.یا رسول اللہ! مجھے اپنی فکر نہیں.میرا کیا ہے.میں تو آپ کی وجہ سے فکرمند ہوں.اس واقعہ کا ذکر خدا نے اپنے پاک کلام قرآن مجید میں بھی کیا ہے.رسول اللہ ! ابوبکر کے ساتھ تین دن اس غار میں ٹھہرے چوتھی رات وہاں سے نکلے.اب ایک اور آدمی عبداللہ بھی ساتھ روانہ ہوا.جس کو ابو بکر نے میٹر ب کا راستہ دکھانے کے لئے ملازم رکھا تھا.جب چلنے لگے تو رسول اللہ نے مکہ کی بستی پر آخری نظر ڈالی ور کہا.تو مجھے سب بستیوں سے زیادہ پیاری ہے مگر تیرے رہنے والے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے.چونکہ ابھی ڈر تھا کہ لوگ پیچھا کریں گے.اس لئے آپ نے راستہ بدل کر ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ مدینہ کی طرف سفر شروع کیا.دو تین دن بعد ابو بکڑ نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑا دوڑا تا ہوا پیچھے پیچھے آ رہا ہے اس آدمی کا نام سراقہ تھا.یہ بھی سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں آپ کی تلاش میں نکلا تھا.جب یہ آپ کے قریب پہنچا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور زمین پر گر پڑا.جلدی سے اٹھا اور عربوں کے طریق کے مطابق تیروں سے فال نکالی فال الٹ نکلی.مگر سو اونٹ کا لالچ اتنا تھا کہ پھر سوار ہو کر پیچھے چل پڑا.قریب پہنچا تو دوبارہ گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور گھوڑے کے پیر ریت کے اندر ھنس گئے.
سیدنا بلال 41 اذان کی ابتداء اذان کی ابتداء 42 سیدنا بلال ایک دفعہ پھر گر گیا.اس نے پھر فال نکالی فال دوبارہ الٹ نکلی تو اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا.تب اس نے رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں کو آواز دی.اس آواز پر آپ ٹھہر گئے.جب سراقہ آپ کے پاس پہنچا تو سارا واقعہ سنایا کہ وہ آپ کو پکڑنے یا قتل کرنے کی نیت سے آیا تھا مگر اب واپس جارہا ہے.حضور نے اسے صرف اتنا کہا.سراقہ ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا.جب تمہارے ہاتھوں میں کسری کے کنگن ہوں گئے.سراقہ حیران ہوا اور کہنے لگا.کسری بن ہرمزایران کے بادشاہ کے؟ حضور نے فرمایا ہاں! سراقہ کو کچھ سمجھ نہ آئی اور وہ واپس چلا گیا.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب ہم نے ایران کو شکست دی تو کسری کے کنگن بھی ہاتھ آئے.حضرت عمر کو رسول اللہ کی یہ بات یاد آئی تو انہوں نے سراقہ کو بلوایا.جو مسلمان ہو چکا تھا اور اپنے سامنے کنگن اسے پہنائے.اس طرح رسول اللہ کی پیشگوئی پوری ہوئی.ہمیں آپ کے مکہ سے روانہ ہونے کی خبرمل چکی تھی ہم مکہ سے آئے ہوئے مہاجر یثرب کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر روز آپ کے استقبال کے لئے میٹرب سے باہر جاتے اور بہت دیر انتظار کرنے کے بعد واپس آتے تھے.ایک دن ہم انتظار کرتے کرتے اپنے گھروں کو واپس آئے ہی تھے کہ ایک یہودی نے آواز دی تمہیں جس کا انتظار تھا وہ آ رہا ہے.ہم خوشی سے دیوانے ہو گئے بھاگم بھاگ باہر نکلے میٹرب کے مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی ہمارے ساتھ تھیں جو خوشی سے گارہی تھیں:.طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ قَنِيَّاتِ الوداع وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَادَعَى لِلَّهِ دَاع وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کا چاند ہمارے لئے چڑھا ہے اور ہم پر ہمیشہ کے لئے شکر واجب ہو گیا.کیونکہ خدا کی طرف ایک بلانے والے نے ہمیں بلایا ہے.اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہماری اندھیری راتوں میں رسول اللہ کا آنا چودھویں کے چاند کے چڑھنے سے بھی زیادہ خوشی کی بات تھی.خدا کا نبی خدا کا پیارا ہمارا محبوب ہمارا محمد خیریت سے یثرب پہنچ گیا تھا.وہ اپنے شہر پہنچ گیا تھا وہ شہر جس کی قسمت میں خدا کے نبی کی پناہ گاہ ہونا لکھا تھا.اس دن کے بعد سے ہم اسے یثرب کی بجائے مدینۃ النبی صم، یعنی نبی کا شہر کہنے لگے.اور اب تو شاید بہت سے لوگوں کو علم ہی نہ ہو کہ کبھی اس شہر کو میٹرب کہا جاتا تھا.اب ہم آزاد تھے.مسلمان آزاد تھے.اپنے اللہ کی مرضی پر چلنے کے لئے.اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزار نے کے لئے اور اللہ کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لئے.مواخات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آمد کے بعد سب سے پہلے ہجرت کر کے آنے والے لٹے پٹے مہاجرین کو مدینہ کے رہنے والے انصار کے سپرد کیا اور ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصار کا بھائی بنادیا.(اسے عرف عام میں مواخات کہا جاتا ہے ) رسول اللہ نے مجھے ابـو رویــحــه خشعمی کا بھائی بنایا اور ہمارا یہ تعلق جو خدا کے نبی نے باندھا تھا ہمیشہ قائم رہا اور ہم دونوں ایک دوسرے کو سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر چاہتے اور پیار کرتے تھے.اور جس حد تک ممکن ہوتا ایک دوسرے کے کام آنے کی کوشش کرتے تھے.میں جو مکہ کا ایک بے قیمت غلام تھا، جسے کوئی اپنے پاس بٹھانا بھی گوارا نہیں کرتا تھا.آج اسلام کی برکت سے ایک معزز برادری کا فرد بن چکا تھا.
سیدنا بلال 43 اذان کی ابتداء غزوات میں شرکت دیگر غزوات اور فتح مکہ مدینہ ہجرت کے بعد مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کے لئے بالکل آزاد تھے اور اسی مقصد کے لئے حضور اکرم نے مدینہ تشریف لانے کے فوراً بعد ایک مسجد کی تعمیر شروع کی.جس کے لئے تمام مہاجرین اور انصار نے بڑے جوش و خروش سے کام کیا.اور کرتے بھی کیوں نہ جب کہ ان کا محبوب آقا خود ان کے ساتھ تعمیر کے کاموں میں مصروف تھا.میں وہ منظر کیسے بھول سکتا ہوں جب رسول اللہ خود اس مسجد کی تعمیر کے لئے مٹی اٹھا اٹھا کر لاتے تھے.میں بھی ان کاموں میں شریک تھا اور اپنی ہمت کے مطابق پورے جوش اور جذبے سے یہ کام سرانجام دے رہا تھا.میں نہیں جانتا تھا کہ یہ مسجد جو آج ہم تعمیر کر رہے ہیں کل اسی میں اللہ تعالیٰ مجھے مؤذن کے طور پر اذان دینے کی سعادت بھی عطا کر دے گا.چنانچہ جب نماز با جماعت کا آغاز ہوا تو نماز کے لئے لوگوں کو بلانے اور اکٹھا کرنے کے طریقے بھی سوچے جانے لگے.بعض کا خیال تھا کہ نماز کا وقت ہونے پر آگ جلا کر دھوئیں کے ذریعے سے لوگوں کو خبر کی جائے.بعض نے کہا کہ جھنڈا بلند کیا جائے اور بعض نے ناقوس بجا کر اطلاع کرنے کا مشورہ دیا.لیکن بالآ خر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض اصحاب کی رؤیا کے مطابق اذان دینے کے طریق کو پسند فرمایا اور مجھے بلا کر ارشاد فرمایا کہ اذان کے کلمات سیکھ کر نماز کے اوقات میں ان کے ذریعے سے لوگوں کو مسجد کی طرف بلایا کروں.یہ میری زندگی کی سب سے عظیم سعادت تھی جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کی کہ میں مسجد نبوی میں مؤذن کے طور پر مامور کر دیا گیا.چنانچہ میں اپنا یہ فرض سرانجام دینے لگا.اللہ تعالیٰ نے کچھ تو فطری طور پر مجھے اونچی اور پر سوز آواز عطا کی تھی اور کچھ درد میری آواز میں اس محبت کی وجہ سے پیدا ہو جاتا تھا جو مجھے اپنے پیارے آقا اور اسلام سے تھی.یہی وجہ تھی کہ لوگ میری آواز میں 44 سیدنا بلال اذان سننا پسند کرتے تھے.عورتیں اپنے کام چھوڑ کر اذان سنے لگتیں اور بچے میرے ارد گر دا کٹھے ہو جاتے تھے.لیکن ان سب باتوں کے باوجود میں جانتا ہوں کہ یہ سب لوگ اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرتے تھے اور یہ اسلام کا پیغام ہی تھا جس نے مجھے ایسے محبت کرنے والے وجود عطا کر دیئے تھے.ور نہ میں تو صرف ایک حبشی ہوں جو کل تک معمولی غلام تھا“ (طبقات ابن سعد جز 3 ) اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے ہجرت کے پہلے سال سے لے کر لا تک با قاعدگی سے اس فرض کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور سوائے شاذ کے اس تواتر کو کبھی نہیں توڑا.ہاں مدینہ سے میری غیر حاضری کی صورت میں اذان دینے کی ذمہ داری عبداللہ بن ام مکتوم کے سپرد ہوتی تھی.بعض حالات میں صبح کی نماز کیلئے مدینہ میں دوا زا نہیں بھی ہوتی تھیں مثلا رمضان المبارک میں ایسی صورت میں پہلی اذان میں دیا کرتا تھا جو نماز کے وقت سے کافی پیشتر ہوتی تھی جبکہ دوسری اذان جو نماز کے لئے ہوتی تھی وہ عبداللہ بن ام مکتوم دیا کرتے تھے.ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ خیبر کی فتح کے بعد اسلامی لشکر آنحضرت کی سر براہی میں مدینہ واپس آ رہا تھا کہ ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا.حضور نے فرمایا کہ کوئی ایسا بندہ ہے جو صبح کی نماز کے لئے ہمیں جگانے کی ذمہ داری لے.اس پر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں جاگ کر یہ ذمہ داری ادا کروں گا اور صبح کی نماز کے لئے سب کو جگادوں گا.یوں سب لوگ بے فکر ہو کر سو گئے اور میں نے جاگنے کا ارادہ کر کے نفل نماز پڑھنی شروع کردی.کافی دیر تو نماز میں ہی گزرگئی اور اس کے بعد میں مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا تا کہ صبح کے آثار دیکھتے ہی سب کو جگادوں.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ باوجود سب تدبیروں کے میری بھی آنکھ لگ گئی اور جب صبح لوگوں نے مجھے جگایا تو دن طلوع ہو چکا تھا.ہم سب نے دن چڑھنے کے بعد نماز فجر ادا کی اور حضور ا کرم
سیدنا بلال 45 دیگر غزوات اور فتح مکہ آنحضور کی وفات 46 سیدنا بلال نے لوگوں کی دلی کیفیات کو بھانپ کر نماز کے بعد فرمایا کہ "جب تم میں سے کوئی شخص سوتا رہ جائے اور نماز قضا ہو جائے تو جس وقت آنکھ کھلے فوراً اس نماز کو پڑھ لئے“.غزوات میں شرکت کفار اور مشرکین کی طرف سے مسلمانوں پر بہت ہولناک مظالم ڈھائے گئے تھے.اور اب جبکہ مسلمان مدینہ ہجرت کر چکے تھے ان مظالم کا سلسلہ ایک اور رنگ میں شروع ہو گیا.کفار مکہ نے اسلام کو نابود کرنے کے ناپاک ارادے سے مدینہ کی طرف حملے کرنے شروع کر دیئے اور اس سلسلہ میں بہت سے معرکے ہوئے.اللہ تعالیٰ نے مظلوم مسلمانوں کو اپنے دفاع کے لئے جنگ کرنے کی اجازت دے دی تھی اس لئے اب ہم سب بڑی بے جگری کے ساتھ کفار کے مقابلے کے لئے نکلتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہمیشہ کفار کو ذلت آمیز شکست دیتے تھے.میں جو اپنے آقا کا ایک کمزور سا غلام تھا میں بھی ہر ایک معر کے میں اپنے آقا کے ساتھ شریک رہا.اور جس حد تک خدا نے توفیق دی اپنی خدمات پیش کرتارہا.غزوہ بدر اس سلسلہ کا پہلا معرکہ تھا جو مدینہ کے قریب بدر نامی ایک مقام پر پیش آیا.جس میں رسول اللہ کی سرکردگی میں صرف 313 نہتے مجاہدین نے 1000 مسلح کفار کوعبرت ناک شکست دی.اور یہ غزوہ میرے لئے اس لحاظ سے بھی یادگار ہے کہ اسی غزوہ کے بعد جب کفار شکست کھا کر اپنی جانیں بچانے کے لئے میدانِ جنگ سے فرار ہو رہے تھے تو اچانک میں نے دیکھا کہ ان بھاگنے والوں میں میرا ظالم مالک امیہ بن خلف اور اس کا بیٹا بھی تھا.اسلام اور رسول خدا کے سب سے بڑے دشمن کو بھا گتا دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا.اور میں نے ” لَا نَجَوْتُ إِنْ نَجا أُمَيّه " کا نعرہ لگایا (یعنی اگر امیہ بیچ کر چلا گیا تو میر اوجود بے فائدہ ہوگا) اور اپنے چند ساتھیوں کو ساتھ لے کر اس کا پیچھا کیا اور اسے جالیا.اور تھوڑی ہی دیر کے بعد اسلام کا یہ بدترین دشمن خاک و خون میں لتھڑا ہوا زمین پر بے جان پڑا تھا.یہ وہی امیہ تھا جو خود کو خدا سمجھا کرتا تھا اور اپنی طاقت کے زعم میں کمزور اور مجبور مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ تو ڑا کرتا تھا.جانوروں کی طرح انہیں پیٹتا تھا.گلیوں میں گھسیٹتا تھا اور گلے میں رسی ڈال کر محلے کے لڑکوں کے سپرد کر دیتا تھا.تا کہ وہ اس مظلوم کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں.اور آج وہی ظالم اپنے گناہوں کی پاداش میں بدر کے میدان میں بے یارومددگار پڑا تھا.اور اس عبرت ناک انجام کا وہ خود ذمہ دار تھا.کیونکہ ظلم کے جو بیج اس نے اپنے ہاتھوں سے بوئے تھے لازم تھا کہ وہ ان کا کڑوا پھل بھی کھاتا.سچ ہے کہ ظلم خواہ کتنا ہی بڑھ جائے اس کی قسمت میں منا ہی لکھا ہے.پس ظلم کا ایک سیاہ باب آج ہمیشہ کے لئے بند ہو چکا تھا.دیگر غزوات اور فتح مکہ غزوہ بدر کے بعد مسلمانوں اور کفار کے درمیان اور بھی بہت سے غزوات ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ایک موقعہ پر میں بھی اپنے آقا کے آگے پیچھے دائیں اور بائیں لڑنے والوں میں شامل تھا.غزوہ احد اور غزوہ غطفان میں بھی حضور کے ساتھ موجود تھا.غزوہ خندق کی کھدائی کے موقعہ پر میں بھی دیگر اصحاب کے ساتھ خندق کی کھدائی کا کام کرتا رہا.غزوہ خندق کے بعد غزوہ بنو قریظہ کی طرف روانگی کے لئے بھی حضور نے اعلان کرنے کے لئے مجھے ہی چنا اور فرمایا کہ اے بلال! مسلمانانِ مدینہ کو آگاہ کر دو کہ جو شخص بات ماننے والا اور اطاعت کرنے والا ہے وہ فوراً تیار ہو جائے اور نماز بنوقریظہ کی آبادیوں میں پہنچ کر ادا کرے.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فتح مکہ کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول اللہ کی معیت عطا فرمائی اور مکہ میں داخلے کے وقت بھی اور اس سے بھی بڑھ کر خانہ کعبہ میں داخل ہوتے ہوئے میں ان چند خوش نصیبوں میں سے تھا جو حضور کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر گئے تھے.
سیدنا بلال 47 آنحضور کی وفات مدینہ سے ہجرت اور وفات رسول اللہ نے اس موقع پر مجھے ایک عظیم اعزاز سے بھی نوازا.آپ نے اپنے اس کمزور غلام کے بارے میں اعلان فرمایا کہ جو کوئی بلال کے جھنڈے کے نیچے آ جائے گا.اُسے امان دی جائے گی.میں خدا کی قدرت پر حیران تھا کہ وہ کمزور غلام جو کل تک مکہ کی گلیوں میں خود بے امان تھا آج اہل مکہ کے لئے امان کی ضمانت بن گیا تھا.مجھ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے آج میری امان کے محتاج تھے.واقعی خدا تعالیٰ کے کام انسان کے فہم اور ادراک سے بہت بالا ہوا کرتے ہیں.حضور اکرم نے بعد میں مجھے ارشاد فرمایا کہ خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دوں اور خدائے واحد کا نام اس بستی میں بلند کروں جہاں چند سال پیشتر خدا کا نام لینے پر مظالم کی انتہاء کر دی جاتی تھی.وہ کیفیت بیان سے باہر ہے کہ میں نے یہ اذان کس طرح سے دی.میں کیسے بھول سکتا تھا کہ یہ وہی مکہ ہے جہاں خدائے واحد کا ذکر کرنے پر مجھے تپتی دھوپ میں لٹایا جاتا تھا اور کوڑے لگائے جاتے تھے.میرے ساتھیوں کو کوئلوں پر جلایا جاتا تھا اور بعض کو اسی جرم کی پاداش میں قتل بھی کر دیا گیا تھا.آج اسی مکہ کے مرکز سے جب میں اللہ اکبر کی صدا بلند کر رہا تھا تو بے اختیار یہ سوچ رہا تھا کہ اللہ واقعی بہت بڑا ہے جس نے اپنے رسول کو ہزاروں مخالفتوں اور طوفانوں کے باوجود فتح عطا فرمائی اور کوئی جتھہ اور گروہ اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو نہ روک سکا.میری آواز جوں جوں بڑھ رہی تھی اس کا جوش اور ولولہ بھی بڑھتا چلا جا رہا تھا.اور بتوں کے پوجنے والے نادان کفار مکہ کے دل اذان کے ایک ایک لفظ پر کانپ سے جاتے تھے.وہ جو 360 بتوں سے مدد کی امید لگائے بیٹھے تھے اب یہ جان چکے تھے کہ حقیقی خدا ایک ہی ہے اور ان کے بت اس کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے.48 سیدنا بلال چنانچہ ان میں سے ایک نے تو بعد میں یہاں تک کہ دیا کہ شکر ہے کہ میرا باپ پہلے مرگیا تھا ور نہ آج وہ کعبہ سے بلند ہونے والے الفاظ شاید برداشت نہ کر پاتا.میں خوش قسمت تھا کہ میں آج مکہ کی گلیوں میں خدا کا نام بلند کرنے کی توفیق پارہا تھا.اور یہ آواز لحہ بہ لمحہ پھیلتی ہی چلی جارہی تھی.الله اكب اللهُ أَكْبَرُ لا ال هَ إِلَّا الله آنحضور ﷺ کی وفات میری زندگی کا سب سے خوبصورت دن وہ تھا جب میں اپنے آقا حضرت محمد مصطفیٰ " کے قدموں میں پہنچاتھا اور اسی زندگی میں یہ تکلیف دہ دن دیکھنا بھی مقدر تھا کہ مجھے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے محبوب آقا سے جدائی کا دکھ دیکھنا پڑ رہا تھا.مجھے یاد ہے کہ اپنے آقا کی وفات پر میری زبان سے بے اختیار یہ کلمات نکلے تھے کہ " کاش میری ماں مجھے جنم ہی نہ دیتی اور اگر جنم دیا تھا تو کاش میں آج سے پہلے مرگیا ہوتا تا کہ حضور کی رحلت کے اس منظر کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھنا پڑتا.میں کیسے بھول سکتا ہوں کہ میں جو ہر نماز کی اذان دینے کے بعد اپنے پیارے آقا کے دروازے پر جا کر یہ صدا دیا کرتا تھا کہ الصلوۃ یا رسول اللہ یعنی یا رسول اللہ! نماز تیار ہے.حضور اکرم کی وفات سے تین روز قبل جب آپ کافی علیل تھے آپ کے دروازے پر گیا اور حسب معمول نماز کے لئے اطلاع دی.میری بات سن کر حضور نے فرمایا کہ ابو بکڑ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں.
سیدنا بلال 49 مدینہ سے ہجرت اور وفات 50 آپ کی علالت اور غیر حاضری کے تصور سے درد کی جو کیفیت مجھ پر گزری وہ بیان سے باہر ہے لیکن اس سے بھی بڑا صدمہ ابھی ہمارا منتظر تھا اور پھر بالآخر 12 ربیع الاول لا کو پیر کے دن وہ واقعہ ہو گیا.حضور اکرم کی وفات کیا ہوئی، ہماری تو دنیا اندھیر ہوگئی.مدینہ تاریک ہو گیا اور ہمارا پیارا آقا! ہمیں الوداع کہہ کر اپنے محبوب حقیقی کے حضور حاضر ہو گیا.حسان بن ثابت نے تو یہ شعر کہہ کر اپنی دلی کیفیت بیان کر دی کہ كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أُحَاذِرُ و یعنی اے رسول! تو میری آنکھ کی پتلی تھا اور تیری وفات کے سبب میری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں.اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے تو تیری وفات کا خوف تھا.جو واقع ہوگئی“.لیکن میں جانتا ہوں کہ ہم سب کی یہی حالت تھی بلکہ شاید اس سے بھی کچھ بڑھ کر.جس کا بیان الفاظ میں ناممکن ہے.اسے صرف وہی دل جان سکتا ہے جو ایسی کسی کیفیت سے گزرے.حضور کی وفات کے بعد مدینہ مجھے ایک ویرانے کی طرح لگتا تھا.اور جب بھی میں باہر نکلتا تھا درد کی کیفیت بہت بڑھ جایا کرتی تھی کیونکہ مدینہ کی ہر گلی ہر موڑ سے مجھے اپنے آقا کی یاد آ جاتی تھی.میرے لئے اب اس بستی میں رہنا ناممکن سا ہو گیا تھا چنانچہ ایک روز میں ہمت کر کے خلیفہ المسلمین حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ مجھے شامی سرحدوں کی طرف ہونے والے جہاد میں شرکت کی اجازت مرحمت فرمائیں تا کہ میرے دکھ میں کچھ کمی واقعہ ہو.حضرت ابوبکر صدیق نے میری درخواست سنی اور پھر بڑی محبت سے مجھے مدینہ میں ہی رہنے کا ارشاد فرمایا.آپ نے فرمایا کہ اے بلال! اس بڑھاپے میں ہمیں جدائی کا داغ نہ دو.اور یہیں مدینہ میں ہی رہو.خلیفہ وقت کا یہ ارشاد سن کر میں نے اپنا ارادہ بدل دیا اور شام جانے کا خیال دل سے نکال دیا.تا ہم حضوراکرم کی وفات کے بعد میں نے مسجد نبوی میں اذان دینا بند کر دی کیونکہ جب میں اذان میں اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ “ کہتا تھا تو رسول اللہ کو موجود نہ پا کر مجھ پر سخت رقت طاری ہو جاتی تھی.اور میں اذان مکمل نہ کر پاتا تھا.یہ محبت کی دنیا کے قصے ہیں.عام آدمی ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا لیکن ایک عاشق صادق اس بات کو بڑی اچھی طرح سے جان سکتا ہے.حضرت ابوبکر صدیق کے ارشاد پر میں مدینہ میں رک گیا لیکن حضور اکرم کی وفات کے بعد میں نے اذان دینا بند کر دیا.مدینہ سے ہجرت اور وفات حضرت بلال کی زندگی کے واقعات آپ نے سنے اور دیکھا کہ کس طرح ایک معمولی غلام کی زندگی سے وہ سیدنا بلال بنے.حضرت ابو بکر صدیق کے ارشاد پر آپ مدینہ میں رک گئے لیکن اداسی اتنی تھی کہ آپ کے لئے مدینہ میں رہنا بہت مشکل تھا.چنانچہ خلیفہ اول کی وفات کے بعد جب حضرت عمر خلیفہ بنے تو حضرت بلال نے ایک مرتبہ پھر اپنی درخواست آپ کے سامنے پیش کی.آپ کی دلی کیفیات کو دیکھتے ہوئے حضرت عمر نے آپ کو شام کی طرف جانے کی اجازت دے دی اور آپ مدینہ سے رخصت ہو کر شام چلے گئے.جہاں اسلامی لشکر کے ساتھ آپ نے بعض مہمات میں بھی حصہ لیا.آپ نے ایک سے زائد شادیاں کیں لیکن آپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی.سیدنا بلال کی وفات دمشق میں ۲۰ ھ میں قریباً ستر سال کی عمر میں ہوئی اور آپ کو باب الصغیر کے قریب ایک قبرستان میں دفن کیا گیا.یہ قبرستان دمشق میں بہت معروف ہے.اور زائرین کا ایک ہجوم سیدنا بلال کی قبر پر دعا کرنے کے لئے آتا ہے.ہم خود بھی جب اس مزار مبارک پر حاضری دینے کے لئے پہنچے تو ایک
51 عجیب کیفیت ہماری منتظر تھی.بہت سی قبروں کے درمیان ایک مزار بنا ہوا تھا جس کی سیڑھیاں اتر کر نیچے جانا پڑتا ہے.وہاں سیدنا بلال کی قبر موجود ہے.ہم نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور اپنے عظیم آقا اور اس کے عظیم غلام کے لئے دعا کی تھوڑی دیر کے بعد وہاں مامور ایک شخص نے اذان دینا شروع کی اور خوبصورت اذان سے مزار کا وہ کمرہ گونجنے لگا.یہ بلالی اذان تو نہیں تھی لیکن الفاظ وہی تھے جن کا بلال کے ساتھ ایک ایسا گہرا اور اٹوٹ تعلق تھا کہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے مزار میں ان الفاظ کی گونج سنائی دے رہی تھی.ہم نے اپنے گرد و پیش پر نگاہ دوڑائی تو معلوم ہوا کہ وہاں موجود ہر ایک آنکھ نم تھی.اور مؤذن کی صدا بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھی.الله اكبر لا الـ الله اكبر هَ إِلَّا الله O
نام کتاب.سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اشاعت...طبع چہارم (اکتوبر 2007ء) اس کتاب کی اشاعت میں قائد و عاملہ مجلس لالہ رخ واہ کینٹ ضلع راولپنڈی نے تعاون فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ اُن کو بہترین اجر سے نوازے.آمین مجز اہم اللہ احسن الجزاء