Syed Mahmood Ullah Shah

Syed Mahmood Ullah Shah

سید محموداللہ شاہ

حیات وخدمات
Author: Other Authors

Language: UR

UR
بزرگان جماعت احمدیہ

اس کتاب میں حضرت سید محموداللہ شاہ صاحب کے سوانح حیات اور کارہائے نمایاں کی چند جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ آپ نے اپنی 52 سالہ مختصر زندگی میں جو کارنامے سرانجام دیئے ان کا اجمالی ذکر کیا گیا ہے۔ تعلیم الاسلام سکول قادیان، چنیوٹ اور ربوہ کے لئے آپ کی خدمت ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ آپ کی قیادت میں ان تعلیمی اداروں نے نہ صرف جماعت کے لئے تاریخ ساز خدمات پیش کیں بلکہ ملک و قوم کے لئے اس ادارہ کی خدمات ایک ناقابل فراموش اثاثہ ہیں۔ الغرض یہ کتاب برصغیر اور مشرقی افریقہ میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کی اعلیٰ انتظامی اور علمی خدمات اور تاریخی واقعات کو سموئے ہوئے ہیں۔


Book Content

Page 1

ميد محمود حیات و خدمات

Page 2

حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب

Page 3

نام کتاب: حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب اکتوبر 2006

Page 4

i دیباچه مشرقی افریقہ میں احمدیت کا آغاز 1895ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت میں ہوا.برصغیر پاک و ہند سے سینکڑوں لوگ روزگار کے سلسلہ میں اس زمانہ کی برٹش کالونی ( کینیا ) میں آکر آباد ہو گئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے والے بیسیوں احباب کرام بھی اُن انڈینز میں شامل تھے.حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب، حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحب، حضرت شیخ نور احمد صاحب، حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب گوڑیانی، حضرت شیخ حامد علی صاحب ، حضرت بابو محمد افضل صاحب مؤسس البدر اور کئی دیگر احباب کرام مشرقی افریقہ میں باقاعدہ جماعت میں شامل تھے.مشرقی افریقہ میں اس آباد کاری اور آمد ورفت کا سلسلہ خلافت اولیٰ اور خلافت ثانیہ میں بھی جاری رہا.خلافت ثانیہ میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب بھی افریقہ تشریف لے گئے ، جہاں آپ قریباً 16 سال تربیتی اور تعلیمی خدمات بجالاتے رہے.آپ کے والد ماجد کا نام حضرت ڈاکٹرسیدعبدالستارشاہ صاحب نور اللہ مرقدہ ہے.جو ۲۷ سال تحصیل رعیہ ضلع سیالکوٹ ( حال ضلع نارووال ) میں بطور اسسٹنٹ سرجن خدمات بجالاتے رہے.کینیا میں حضرت شاہ صاحب کو اکثر گورنر زمختلف تقاریب میں مدعو کیا کرتے تھے.ایک دفعہ برصغیر کی معروف شخصیت محترم سر آغا خاں صاحب نیروبی تشریف لے گئے.ایسے ہی موقعہ پر کسی تقریب میں حضرت شاہ صاحب کی سر آغا خان صاحب سے ملاقات ہوئی.اس تقریب میں محترم سر آغا خان صاحب نے سب سے ہاتھ ملائے اور حضرت شاہ صاحب کو گلے لگایا.تو اس وقت گورنر صاحب نے سر آغا خان سے کہا کہ تم نے کیوں ان کو گلے لگایا ہے جبکہ باقی سب سے ہاتھ ملانے پر اکتفا کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ

Page 5

He is the descendant of the Holy Prophet peace be upon him.He is my brother.کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل سے ہیں اور میرے بھائی ہیں.غرض کیا اپنے اور کیا غیر بھی آپ کی خوبیوں میں رطب اللسان تھے.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ہمارے پیارے امام حضرت خلیفتہ ایسیح الرابع رحمہ للہ تعالیٰ کے ماموں تھے.سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اگست ستمبر 1988ء میں مشرقی افریقہ کے تاریخی دورہ پر تشریف لے گئے.اس دورے کے دوران اور اس کے بعد بھی کئی مواقع پر آپ نے احباب جماعت احمدیہ کو بزرگان کے حالات زندگی اکٹھا کرنے کی تحریک فرمائی.اس موقعہ پر حضور نے مشرقی افریقہ کے ابتدائی رفقاء اور بزرگان کے حالات زندگی اکٹھے کرنے کیلئے ایک کمیٹی بھی مقرر فرمائی.حضور نے پہلی صدی کے آخری خطبہ جمعہ میں اپنے اپنے خاندان کے بزرگوں کے حالات اور ان کے احسانات کو جمع کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: اس امر کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ سمندر کی تہہ میں بغیر مقصد کے اپنی لاشیں بچھانے والے گھونگوں کی پہلی نسل اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ اس کی آئندہ نسلیں ضرور فتح یاب ہونگی اور وہ نسل سب سے بڑی فتح پانے والی ہے جو سب سے پہلے ترقی کے سلیقے سکھاتی ہے.پس اپنے ان بزرگوں کے احسانات کو نہ بھولیں جو خدا کی راہ میں اپنی جانیں بچھاتے رہے جن پر احمدیت کی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوئیں اور یہ عظیم الشان جزیرے ابھرے.وہ لوگ ہماری دعاؤں کے خاص حق دار ہیں.اگر آپ اپنے پرانے بزرگوں کو ان عظمتوں کے وقت یا درکھیں گے جو آپ کو خدا کے فضل عطا کرتے ہیں تو آپ کو حقیقی انکساری کا عرفان نصیب ہوگا.تب آپ جان لیں گے کہ آپ اپنی ذات میں کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتے.

Page 6

iii حضور نے فرمایا:- میں نے افریقہ کے دورے میں ایک یہ ہدایت دی تھی کہ اپنے بزرگوں کی نیکیوں اور احسانات کو یا درکھ کے ان کیلئے دعائیں کرنا یہ ایک ایسا اچھا خلق ہے کہ اس خلق کو ہمیں اجتماعی طور پر نہیں بلکہ ہر گھر میں رائج کرنا چاہیئے ان کے حالات کو زندہ رکھنا تمہارا فرض ہے ورنہ تم زندہ نہیں رہ سکو گے.اس سلسلہ میں میں نے ایک ملک غالباً کینیا میں ایک کمیٹی مقرر کی تھی.چنانچہ اس کمیٹی نے بڑا اچھا کام کیا اور ایک عرصہ تک ان کا میرے ساتھ رابطہ رہا اور بعض ایسے بزرگوں کے حالات اکٹھے کئے گئے جو نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے.اس لئے ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.ان کی بڑائی کیلئے شائع کرنے کی خاطر نہیں بلکہ اپنے آپ کو بڑائی عطا کرنے کیلئے ، ان کی مثالوں کو زندہ کرنے کیلئے ان کے واقعات کو محفوظ کریں اور پھر اپنی نسلوں کو بتایا کریں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے آباء واجداد تھے اور کس طرح وہ لوگ دین کی خدمت کیا کرتے تھے.حضور نے فرمایا:- بعض ایسے بھی ہونگے جن کو یہ استطاعت ہوگی کہ وہ ان واقعات کو کتابی صورت میں چھوا دیں..میں امید رکھتا ہوں کہ اگر اس نسل میں ایسے ذکر زندہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے ذکر کو بھی بلند کرے گا اور آپ یاد رکھیں کہ اگلی نسلیں اسی طرح پیار اور محبت سے اپنے سر آپ کے احسان کے سامنے جھکاتے ہوئے آپ کا مقدس ذکر کیا کریں گی اور آپ کی نیکیوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی.(خطبہ جمعہ فرمودہ 17 مارچ 1989 ءاز الفضل 27 مارچ 1989ء) زیر نظر کتاب میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے سوانح حیات و کار ہائے زندگی کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے.آپ دسمبر ۱۹۰۰ء میں رعیہ میں پیدا ہوئے اور ۱۶ دسمبر ۱۹۵۲ء کو

Page 7

iv آپ کا وصال ہوا.ٹی آئی ہائی سکول قادیان، چنیوٹ اور ربوہ میں آپ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی.آپ کی قیادت میں ٹی آئی سکول قادیان، چنیوٹ اور ربوہ نے کئی یاد گار علمی ریکارڈ قائم کئے.مشرقی افریقہ میں آپ نے انتظامی اور علمی امور کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ مشرقی افریقہ کی تعلیم و تربیت کیلئے غیر معمولی خدمات کی توفیق پائی.آپ نے اپنی اس 52 سالہ مختصر زندگی میں جو کارنامے سرانجام دیئے ان کا اجمالی تذکرہ پیش کیا جارہا ہے.نیز آپ کے دوست احباب اور شاگردوں کے آپ کے بارہ میں مشاہدات اور تاثرات بھی پیش کئے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ اسے نافع الناس بنائے.خاکسار برادرم احمد طاہر مرزا صاحب کا ممنون ہے جنہوں نے یہ کتاب ترتیب دی نیز ان تمام احباب کا بھی جنہوں نے اس سلسلہ میں ہماری مددفرمائی_فجزاهم الله احسن الجزاء.

Page 8

V پیش لفظ الحمد للہ کہ شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کو بزرگان سلسلہ عالیہ احمدیہ کی سیرت وسوانح پر کتب شائع کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقائے کرام ہمارے لئے مشعل راہ ہیں.زیر نظر کتاب حضور علیہ السلام کے ایک رفیق حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کی سیرت و سوانح پر مشتمل ہے.اس سے قبل مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان آپ کے والد محترم حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب اور آپ کے بھائی حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے متعلق کتابیں شائع کرنے کی سعادت حاصل کر چکی ہے.اس کتاب میں آپ کے خاندان کا اجمالی تعارف ، آپ کے سوانح حیات، سیرت و اخلاق اور گونا گوں دینی علمی اور تدریسی خدمات کا ذکر کیا گیا ہے.نیز حضرت شاہ صاحب کے بارہ میں کئی بزرگان اور آپ کے دوست احباب کے تاثرات بھی اس کتاب کی زینت ہیں.اللہ تعالیٰ اسے نافع الناس بنائے.آمین.

Page 9

1 3 4 LO 5 68 9 10 11 15 17 18 19 20 21 2222 22 22 23 vi رفقاء کرام کا مقام غلام اپنے آقا کی نظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفقت ارشادات حضرت خلیفتر اسیح الاوّل نور اللہ مرقدہ ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ ارشاد حضرت خلیفۃ اصیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ باب اول ایام زندگی پر ایک نظر قرآن کریم سے محبت ،نماز تہجد میں با قاعدگی 24 25 26 پاکیزہ حیات کا اجمالی خاکہ باب دوم...ابتدائی حالات زندگی ابتدائی تعلیم اور زیارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹی آئی سکول قادیان میں ایک سفر کی سعادت حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے مدفن کی زیارت ایک صحت افزا مقام کی سیر اعلی تعلیم کے لئے انگلستان روانگی علی گڑھ سے بی.ٹی کا کورس ٹی آئی سکول قادیان میں بطور استاد باب سوم مشرقی افریقہ میں خدمات مشرقی افریقہ میں احمدیت خدمات سلسلہ پر ایک طائرانہ نظر (1929ء تا 1937ء)

Page 10

vii نیروبی جماعت کی امتیازی حیثیت انفاق فی سبیل اللہ دیعوت الی اللہ میں انہماک اخلاقی و روحانی تربیت کے لیے مساعی درس قرآن مجید وحدیث شریف مدرس تذکرہ و کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدمات سلسلہ کا ایک اجمالی جائزہ (1938 ء تا1944ء) سیرة النبی عالم پر تقاریر 34 36 40 40 42 43 46 222885SS33232572 2 2 29 30 30 31 48 48 50 51 تدریس قرآن کریم آپ کی بعض اہم تقاریر نیروبی میں جلسہ سیرت النبی علیل والالم برکات خلافت جنگ اور ہندوستان جماعت احمد یہ نیروبی اور سکھ صاحبان کے دوستانہ تعلقات مجلس خدام الاحمدیہ کا ہفتۂ خلافت جلسہ سالانہ کے موقع پر اظہارِ اخلاص باب چهارم تعلیمی وتربیتی کارنامے قیام پاکستان اور ٹی آئی ہائی سکول ٹی آئی ہائی سکول چنیوٹ کے ابتدائی حالات ٹی آئی ہائی سکول ترقی کی منازل پر انسپکٹر آف سکولز کے شاندار تاثرات دو یہ ادارہ ہمارے قومی رہنما پیدا کرنے کا موجب ہوگا“ حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ کی تشریف آوری

Page 11

viii اولڈ بوائز ٹی آئی ہائی سکول کی خدمت میں ایک گزارش تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ریکارڈ کامیابی باب پیم.بسیرت و اخلاق اطاعت خلافت با اخلاق بزرگ حضرت شاہ صاحب کے نمایاں کارنامے ایک رفیق دیرینہ کے تاثرات قابل تقلید قربانیاں ایک کامیاب معمار دبستانِ احمد کا با رعب مگر نرم مزاج بہت شریف النفس اور تقویٰ شعار حضرت شاہ صاحب مجسمہ فضائل تھے ہر دلعزیز شخصیت فرشتہ سیرت نہایت مخلص ، اعلیٰ کردار کے مالک عشق رسول سے معمور ، صاحب الہام ، نرم مزاج خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ یہاں ہو گئیں اذْكُرُوا مَوْتَكُم بِالْخَيْرِ متبسم چہرہ تہجد، نماز با جماعت اور تلاوت قرآن کریم میرے شفیق استاد باب ششم.بسفر آخرت وصال کے بارہ میں ایک رؤیا قرارداد ہائے تعزیت 51 53 55 59 60 988لا لا لا م 8 61 70 77 79 82 83 85 92 96 101 102 107 109 110 112 115 116 117

Page 12

122 122 125 126 128 131 135 139 140 144 161 162 ix حضرت خلیفہ اصبع الرابع کا دور کا نیروبی ایک مکتوب گرامی باب ہفتم ایک مکتوب صاحب بصیرت کی سیر انتقام محمود مکاتیب و مضامین تعلیم الاسلام ہائی سکول باب ہشتم خاندان آپ کا خاندان انٹرویو محترمہ فرخنده اختر شاہ صاحبه ایک رباعی شجرہ نسب

Page 13

1 رفقاء کرام کا مقام سید نا حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے اپنے ایک خطبہ میں احباب جماعت کو رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی قدرومنزلت کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں کئی لوگ ایسے تھے جنہیں قادیان میں صرف دو تین دفعہ آنے کا موقعہ ملا اور انہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ ہما را قادیان سے تعلق پیدا ہو گیا اور ہم نے زمانہ کے نبی کو دیکھ لیا.مگر آج اس چیز کی اس قدر اہمیت ہے کہ ہماری جماعت میں سے کئی لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ یاد کر کے بڑی خوشی سے یہ کہنے کے لیے تیار ہو جائیں گے کہ کاش ہماری عمر میں سے دس یا بیس سال کم ہو جاتے لیکن ہمیں زندگی میں صرف ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھنے کا موقع مل جاتا...حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ تو گذر گیا اب آپ کے خلفاء اور ( رفقاء ) کا زمانہ ہے مگر یا درکھو کچھ عرصہ کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا جب چین سے لے کر یورپ کے کناروں تک لوگ سفر کریں گے اس تلاش ، اس جستجو اور اس دھن میں کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بات کی ہومگر انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا.پھر وہ کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بات نہ کی ہو، آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو صرف اس نے آپ کو دیکھا ہی ہوگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نظر نہیں آئے گا.پھر وہ تلاش کریں گے کہ کاش انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 14

2 سے بات نہ کی ہو، آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو، آپ کو دیکھا نہ ہو، مگر کم از کم وہ اس وقت اتنا چھوٹا بچہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو دیکھا ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نہیں ملے گا.لیکن آج ہماری جماعت کے لیے موقع ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کرے.“ الفضل قادیان 15 را پریل ۱۹۴۴ء صفحه 4,3) اللہ تعالیٰ ہمیں ان برکات سے فیض حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء کرام کے حالات زندگی پڑھ کر ان کے مطابق اپنی زندگی سنوار نے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 15

3 غلام اپنے آقا کی نظر میں

Page 16

4 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفقت ا ”سید محمود اللہ شاہ صاحب اپنے والدین کے ساتھ قادیان گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن شریف کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) سن کر بہت خوش ہوئے اور ان کو پیار سے گود میں بٹھا لیا ھے ایں سعادت بزور بازو نیست (روز نامه الفضل ربوه ۲۳ جنوری ۱۹۵۳ء)

Page 17

5 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الاوّل نوراللہ مرقدہ آپ کے والد ماجد حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب فرماتے ہیں: ”حضرت خلیفہ اول (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کبھی کبھی مجھ کو فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے اپنی اولاد کی خوب تربیت اور پرورش کی ہے.جس سے ہم کو دیکھ کر رشک آتا ہے“.( وصیت حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب صفحه ۴) حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرماتے ہیں: ان چاروں بھائیوں (حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، حضرت ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب، حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب اور حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب) کو دیکھ کر طبیعت بہت خوش ہو جاتی ہے.ان کے والد نے ان کی تربیت نہایت اچھے رنگ میں کی ہے.خود نیک ہونا بڑی بات ہے مگر آگے اولا د کو اپنے رنگ میں رنگین کرنا بھی کمال ہے 66 ( بحوالہ روزنامه الفضل ربوه ۲۳ جنوری ۱۹۵۳ء)

Page 18

6 ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کے ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا عبدالحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ مکرم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں.”حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے متعلق ایک مختصر سا مضمون لکھ کر آپ کی خدمت میں بھیجا تھا.اس ضمن میں حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کی ایک خواب مجھے یاد آئی.جس میں حضرت شاہ صاحب کا بھی ذکر ہے وہ بھی آپ کی خدمت میں لکھتا ہوں.حضور اپنے خط مورخہ ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۶ء میں تحریر فرماتے ہیں: پرسوں میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ( بیت ) مبارک کے اس حصہ میں کھڑا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بنایا ہوا ہے.محموداللہ شاہ اور ایک اور شخص جو یاد نہیں رہے وہاں کھڑے ہیں اور ہم اس قدر پاس کھڑے ہیں کہ قریباً قریباً بغل گیر ہونے کی حالت ہے میں نے سید محمود اللہ شاہ صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے.انہوں نے دوسرے آدمی کے.اس تیسرے شخص اور میرے درمیان جگہ خالی ہے.اتنے میں آپ آ کر اس جگہ کھڑے ہو گئے ہیں اور اس قدر قریب ہو کر کہ اس حلقہ میں داخل ہو کر میرا باز و یا سینہ اس طرح چھونا شروع کیا ہے جس طرح کوئی محبت سے چھوتا ہے.جس پر میں نے بھی محبت سے اپنا ہاتھ اٹھا کر آپ کے دائیں کان کا گوشت ہاتھ میں پکڑ کر اس طرح ملنا شروع کیا ہے جس طرح پیار اور سرزنش دونوں مدنظر ہوتے ہیں اور باپ اپنے بچہ کو محبت سے تنبیہ کرتا ہے.اس پر آپ بھی مسکرا پڑے ہیں اور میں بھی مسکرا دیا ہوں“.

Page 19

7 66 اس خواب سے حضرت شاہ صاحب کا حضور ( نوراللہ مرقدہ) سے قرب ظاہر ہے.“ شفیق استاد کی شفقت کا اثر (4/ مارچ 2003ء) حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے شاگردوں کے بہت سے ایسے واقعات ہیں کہ جہاں کہیں ان شاگردوں کو معلوم ہوا کہ فلاں شخص حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے عزیز و ا قارب میں سے ہے تو اس کے ساتھ حسب توفیق حسن سلوک کا مظاہرہ کیا.آپ کے ایک شاگرد کی بابت سید نا حضرت مصلح موعود (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) فرماتے ہیں:.پرسوں میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ کوئی شخص بیٹھا ہے جس کو میں پہچانتا نہیں.میں اسے ایک نسخہ دے رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ ڈاکٹر فضل نے یہ لکھ کر دیا ہے.اُس کے اوپر پیڈ پر اس کا مونوگراف بھی چھپا ہوا ہے جو نہایت اعلیٰ اور خوبصورت ہے.یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک ڈاکٹر فضل کومیں جانتا ہوں.میں کوئٹہ گیا تو مجھے گاؤٹ کا دورہ ہوا.ڈاکٹروں نے کہا دانت دکھا ئیں.جب ایک ڈاکٹر کو میں دانت دکھانے گیا تو اس کے مکان پر بورڈ لگا ہوا تھا ”ڈاکٹر فضل“ جب ہم فیس دینے لگے تو انہوں نے کہا، میں تو سید محمود اللہ شاہ صاحب کا شاگرد ہوں انہوں نے مجھے بچوں کی طرح پالا ہے اس لئے میں آپ سے فیس نہیں لے سکتا.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ صفحه ۱۰۱ ۱۰۲)

Page 20

8 اوپر ارشاد حضرت خلیفۃ اصیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے خلافت کے گہرے ادب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: دو بعض لوگوں کے دیکھنے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ وہ دونوں آنکھوں کے درمیان ماتھے پر اور پر نظر رکھتے ہیں.ہمارے ایک مرحوم ماموں سید محمود اللہ شاہ صاحب ان کا یہی انداز ہوا کرتا تھا.حضرت مصلح موعود ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) سے کبھی ملنے آتے تو ہمیشہ اسی طرح دیکھتے تھے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا کوئی سوال نہیں تھا اور دل کی پیاس بھی بجھ جاتی تھی کہ پورا چہرہ غور سے دیکھوں.چنانچہ ایک دور فعہ میں نے محسوس کیا کہ مجھے بھی اس طرح دیکھ رہے ہیں.میں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے آپ کی نگاہیں میرے اوپر ہوتی ہیں مگر ملتی نہیں تو تب انہوں نے یہ راز سمجھایا کہ میں نے اپنے لئے ایک ترکیب بنائی ہوئی ہے کہ ماتھے کے اوپر دو آنکھوں کے درمیان اس جگہ دیکھتا ہوں تو دیکھنے والوں کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ مجھے دیکھ نہیں رہا اور میری نظریں بھی ادب کی وجہ سے آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈالتیں.تو یہ بھی ایک انداز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ( رفیق) جو عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے وقت چھوٹے تھے مگر پھر بھی اتنے چھوٹے نہیں تھے.کیونکہ میری والدہ (حضرت سیدہ اُم طاہر جو ۱۹۰۵ء میں پیدا ہوئیں ) سے عمر میں بڑے تھے اور میری والدہ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کے بچے (صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم) سے شادی ہوئی.پس اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ( رفقاء ) ہی کا رنگ ہے جو حضرت صاحب نے بیان فرمایا ہے“.خطبه جمعه از الفضل ربوه ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۸ صفحه ۴)

Page 21

باب اوّل 9 ایام زندگی پر ایک نظر

Page 22

10 قرآن کریم سے محبت ( حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب) تیسرے چوتھے دن قرآن شریف ختم کر لیتے تھے.۱۹۴۹ء میں دس دفعہ قرآن شریف ختم کیا.فرماتے تھے کہ میری صلاح تو پندرہ دفعہ ختم کرنے کی تھی.روزنامه الفضل ربوه ۲۴ جنوری ۱۹۵۳ء) نماز تہجد میں با قاعدگی آپ فرمایا کرتے تھے کہ نماز تہجد ہم باقاعدہ ادا کیا کرتے تھے اور ہم بچپن میں سمجھا کرتے تھے کہ پانچوں نمازوں کی طرح تہجد بھی فرض ہے اس لئے کہ ہمارے گھر میں تہجد کی نماز با قاعدہ ادا کی جاتی تھی.چھوٹے بڑے بھی تہجد پڑھا کرتے 6600 روزنامه الفضل ربوه ۲۳ جنوری ۱۹۵۳ ء صفحه ۳)

Page 23

11 پاکیزہ حیات کا اجمالی خاکہ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے والد ماجد حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ کا خاندان بخارا سے ہجرت کر کے کئی صدیاں قبل برصغیر پاک و ہند کے مختلف علاقوں خصوصاً بھکر ،کلرسیداں اور سیہالہ (علاقہ راولپنڈی) میں آکر مقیم ہو گیا.حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی ۹۵-۱۸۹۴ ء میں تحصیل رعیہ ضلع سیالکوٹ ( حال ضلع نارووال ) میں بطور اسسٹنٹ سرجن تقرری ہوئی.حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ نے اپریل ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب دسمبر ۱۹۰۰ ء میں رعیہ ضلع سیالکوٹ (موجودہ تحصیل وضلع نارووال ) میں پیدا ہوئے.آپ نے ابتدائی تعلیم مشن سکول نارووال سے حاصل کی.۱۹۰۴ء میں چار سال کی عمر میں حفظ قرآن کا آغاز کیا اور ۱۹۰۹ء میں مکمل کر لیا.1902 ء میں آپ اپنے والدین کے ہمراہ زیارت مرکز کیلئے قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت بھی کی.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن سنایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے از راہ شفقت انہیں گود میں بٹھا لیا اور شفقت و محبت کا سلوک فرمایا.۱۹۰۸ء میں ٹی آئی سکول قادیان میں داخل ہوئے اور ۱۹۱۷ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا.میٹرک کے بعد ۱۹۱۷ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا جہاں سے ۱۹۲۱ء میں

Page 24

12 آپ نے بی.اے کا امتحان پاس کیا.جون تا ستمبر ۱۹۲۱ ء آپ سیدنا حضرت مصلح موعود کے ساتھ کشمیر کے سفر پر رہے.۲۷/۲۶ اگست ۱۹۲۱ء کو آسنور کشمیر میں جلسہ ہوا جس میں حضرت مصلح موعود نے بھی تقریر فرمائی.۲۶ اگست کے اجلاس میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کو تلاوت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.(الفضل قادیان 5 ستمبر 1921) آپ کی پہلی شادی آپ کی ماموں زاد سیدہ دیانت النساء صاحبہ سے بچپن میں ہوئی.جن سے ایک بچی پیدا ہوئی.ان کی وفات کے بعد دوسری شادی مکرمہ سیدہ فاطمہ صاحبہ (محمودہ بیگم ) بنت حضرت مولاناسید سرور شاہ صاحب سے ہوئی.۲۵ رنومبر ۱۹۲۲ء میں ریلوے انجینئر نگ کی فنی تعلیم کے سلسلہ میں انگلستان تشریف لے گئے.آپ نے دوران قیام یہاں سے انگریزی اور لاطینی زبانیں بھی سیکھیں.تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ ۱۹۲۴ ء میں وا پس قادیان تشریف لے آئے.۲۵ ۱۹۲۴ ء میں علی گڑھ سے بی.ٹی کا کورس مکمل کیا.بی.ٹی کرنے کے بعد ۱۹۲۵ء سے آپ نے ٹی آئی سکول قادیان میں تدریسی خدمات سرانجام دینے کا آغاز کیا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کی اجازت سے آپ ۱۹۲۹ ء میں نیر و بی مشرقی افریقہ روانہ ہوئے جہاں آپ انڈین ہائی سکول میں بطور ٹیچر خدمات سرانجام دیتے رہے.مشرقی افریقہ میں آپ نے تعلیم و تدریس کے علاوہ جماعت کی تربیتی ، دینی اور علمی سرگرمیوں میں غیر معمولی خدمات سرانجام دیں اور جماعت کو منظم کیا جس کی بناء پر مرکز نے محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم کو نومبر ۱۹۳۴ ء میں مشرقی افریقہ کے لئے بطور مربی روانہ کیا.

Page 25

13 آپ مشرقی افریقہ سے پہلی بار ۱۹۳۴ء میں قادیان تشریف لائے.آپ رخصت ختم ہونے پر ۶ / مارچ ۱۹۳۵ء کو دوبارہ مع اپنے دو بچوں کے نیروبی روانہ ہو گئے.(احکم قادیان ۱۴ مارچ ۱۹۳۵، صفحه ۲) ۱۹۴۲ء میں مشرقی افریقہ سے رخصت پر قادیان تشریف لائے اور محترمہ فرخندہ اختر صاحبہ بنت حضرت شیخ نیاز احمد صاحب سے شادی کی.آپ ۱۹۴۴ء میں مشرقی افریقہ کی مرکزی انجمن کے پریذیڈنٹ بنے جہاں آپ نے تعمیر بیت طورا میں غیر معمولی خدمات سرانجام دیں.مشرقی افریقہ کینیا میں سولہ سال تک قیام کے بعد اار اکتوبر ۱۹۴۴ء کو قادیان تشریف لائے.(الفضل ۱۳ /۱ اکتوبر ۱۹۴۴ ، صفحہ ۱) قادیان واپس آنے پر ۱۹۴۴ء میں ہی حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ نے آپ کو ٹی آئی ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر فرمایا.۱۹۴۵ء میں پر اوشنل ایسوسی ایشن کا سہ روزہ اجلاس آپ کی صدارت میں قادیان میں منعقد ہوا جس میں پنجاب بھر کے ہیڈ ماسٹر مدعو تھے.قیام پاکستان تک آپ ٹی آئی سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر خدمات بجالاتے رہے.اگست ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند پر آپ پہلے لاہور مقیم ہوئے بعد ازاں چنیوٹ منتقل ہو گئے.۱۹۴۸ ء میں چنیوٹ میں ٹی آئی سکول کا دوبارہ آغاز کیا.جہاں۱۹۵۰ ء تک آپ بطور ہیڈ ماسٹر خدمات بجالاتے رہے.۱۹۵۰ ء سے ٹی آئی سکول چنیوٹ سے مرکز سلسلہ ربوہ منتقل ہوا جہاں آپ حسب سابق خدمات بجالاتے رہے.دسمبر ۱۹۵۰ء میں آپ کو قادیان جانے کی سعادت حاصل ہوئی.جو قافلہ قادیان کیلئے روانہ ہوا، اس میں آپ کا نام ۵۵ ویں نمبر پر شامل ہے.(ضمیمه تاریخ احمدیت جلد ۱۵ صفحه ۲۱)

Page 26

14 ۱۹۵۲ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ نے پنجاب یونیورسٹی میں شاندار ریکارڈ قائم کئے.پہلی دس پوزیشنوں میں چار پوزیشنیں آپ کے سکول کے طلباء نے حاصل کیں.( الفضل لا ہور ۱۷ رمئی ۱۹۵۲ صفحہ۱ ) چنیوٹ اور ربوہ میں آپ کی قیادت میں ٹی آئی سکول نے کئی یادگار ریکارڈ قائم کئے.آپ زندگی کے آخری سانس تک خدمات بجالاتے رہے.۱۶ دسمبر ۱۹۵۲ء کو آپ کا وصال ہوا اور تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی.وصال کے وقت آپ کی عمر باون سال تھی.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے.

Page 27

باب دوم 15 ابتدائی حالات زندگی

Page 28

16 برصغیر پاک و ہند میں سادات صدیوں سے آباد ہیں.حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اور آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ سعیدۃ النساء صاحبہ کے بزرگ جدا مجد بھکری سید تھے.بھکری سیدوں کے مورث اعلیٰ حضرت سید بدرالدین بھکری تھے جن کا مزار اوچ شریف بہاولپور میں ہے.ان بزرگان کا آبائی گاؤں کلر سیداں اور سہالہ ضلع راولپنڈی قریباً پانچ صد برس سے آباد ہے.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے والد ماجد کا نام حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب تھا جو ۱۸۶۲ء میں سہالہ میں پیدا ہوئے.آپ کے دادا کا اسم گرامی حضرت باغ حسن شاہ صاحب تھا.اس خاندان کا سلسلہ نسب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تک جاملتا ہے.حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۹۵-۱۸۹۴ء کے ابتدائی سالوں میں بطور اسٹنٹ سرجن رعیہ خاص ( جو اس زمانے میں تحصیل ہوا کرتی تھی) میں تشریف لائے.رعیہ کی موجودہ تحصیل وضلع نارووال ہے.رعیہ میں آپ ۱۹۲۰ ء تک بطور اسٹنٹ سرجن ہسپتال میں طبی فرائض سرانجام دیتے رہے.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) دسمبر ۱۹۰۰ء میں رعیہ خاص میں پیدا ہوئے.آپ کل آٹھ بہن بھائی تھے اور بہن بھائیوں میں آپ کا نام چھٹے نمبر پر ہے.خود نوشت سوانح حیات سید ولی اللہ شاہ صاحب روز نامہ الفضل ربوه ۲۴، ۲۵ جنوری ۱۹۵۳ء تا بعین......احمد جلد سوم صفحه ۳۰۶،۳۰۴،۶۰٬۵۸)

Page 29

17 ابتدائی تعلیم اور زیارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ نے ابتدائی تعلیم رعیہ خاص میں حاصل کی اور گھر سے حفظ قرآن کریم کا آغاز کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے آٹھ سال کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کر لیا.آپ کا بیان ہے کہ میں نے ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی سعادت حاصل کی اور کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن کریم سنانے کی سعادت حاصل کی.آپ ۱۹۰۷ ء میں اپنے والدین کے ہمراہ جن کا یہ دستور تھا کہ ہر سال تین ماہ کی رخصت لے کر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے فیض روحانی حاصل کرنے کے لئے قادیان دار الامان حاضر ہو جایا کرتے تھے ، زیارت مرکز کیلئے قادیان روانہ ہوئے.جہاں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کا شرف حاصل کیا.چنانچہ اس کی بابت آپ کے دیرینہ دوست اور ہمعصر محترم ضیاء الدین احمد قریشی صاحب ایڈووکیٹ ( اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے) تحریر کرتے ہیں:.آپ کے والد محترم ( حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب) کو یہ شوق پیدا ہوا کہ سید عزیز اللہ شاہ صاحب یعنی آپ کے بڑے بیٹے کو قرآن شریف حفظ کروا ئیں لیکن ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اگر چھوٹے بچے یعنی محمود اللہ شاہ صاحب کو بھی ساتھ لگا دیا جائے تو بڑا بچہ بھی زیادہ شوق سے اس کام کو کرنے لگے گا.چنانچہ انہوں نے سید محمود اللہ شاہ صاحب کو بھی قرآن حفظ کرنے پر لگا دیا.شاہ صاحب کی عمر اس وقت چار سال تھی ( ۱۹۰۴ ء کا ذکر ہورہا ہے ) چنانچہ اس کام کے واسطے ایک حافظ قرآن کی خدمات حاصل کی گئیں.(حضرت سید محمود اللہ ) شاہ صاحب کے والد صاحب کو بہت شوق تھا کہ ان کے بچے قرآن شریف پڑھ جائیں.اس مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت شاہ صاحب ان دونوں بچوں کو صبح سویرے ہی حافظ صاحب کے پاس بھیجوا دیتے تھے اور یہ دن بھر وہیں رہتے

Page 30

18 تھے.کھانا وہیں جاتا تھا اور عشاء کے وقت وہاں سے لے آتے تھے.جن دنوں وہ قرآن شریف حفظ کر رہے تھے تو سید محمود اللہ شاہ صاحب اپنے والدین کے ساتھ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن شریف کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سن کر بہت خوش ہوئے اور ان کو پیار سے گود میں بٹھا لیا.(حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے آٹھ نو سال کی عمر میں مکمل قرآن شریف حفظ کر لیا تھا.(حضرت) سید محمود اللہ شاہ صاحب کی بڑی ہمشیرہ (حضرت سیدہ زینب النساء بیگم صاحبہ ( یعنی والدہ صاحبہ سید عبد اللہ شاہ (ابن سید شیر شاہ صاحب) سے روایت ہے کہ بچپن میں شاہ صاحب گھر میں کسی سے مانگ کر یا کسی سے چھین کر نہیں کھایا کرتے تھے مزاج میں ضد ، شوخی یا چڑ چڑا پن نہیں تھا.بہت سنجیدہ ، خاموش اور کوہ وقار تھے.الفضل ربوه ۲۳ جنوری ۱۹۵۳ء) ٹی آئی سکول قادیان میں آپ کے بڑے بھائی حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب ۱۹۰۳ء سے قادیان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اس کا ذکر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں کیا ہے.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ۱۹۰۸ء میں حصول تعلیم کیلئے ٹی آئی سکول قادیان میں داخل ہوئے.جہاں سے آپ نے ۱۹۷ ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا.۱۹۱۷ ء میں ہی میٹرک مکمل کرنے کے بعد آپ بی.اے کرنے کی غرض سے لاہور تشریف لے آئے جہاں آپ نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی.اے کا امتحان ۱۹۲۱ ء میں پاس کیا.دوران تعلیم آپ نے رہائش احمد یہ ہوٹل لاہور میں اختیار کی.خودنوشت سوانح حیات ولی اللہ شاہ.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ صفر ۲۴۴.الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۵۳ء) آپ کے قادیان میں طالب علمی کے زمانہ کی بابت مکرم و محترم ضیاء الدین احمد قریشی

Page 31

19 صاحب ایڈووکیٹ ( اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے ) تحریر کرتے ہیں: سید محمود اللہ شاہ صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) سے میرے بہت پرانے تعلقات تھے.ٹی آئی ہائی سکول ( قادیان) میں ان کے بڑے بھائی سید عزیز اللہ شاہ صاحب مرحوم میرے کلاس فیلو تھے...سید محمود اللہ شاہ صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) ہم سے ایک کلاس پیچھے تھے اور ان کے برادر بزرگ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ہمیں انگریزی پڑھایا کرتے تھے.ہم ایک ہی بورڈنگ میں ایک ہی جگہ پر رہا کرتے تھے اور نمازوں اور درسوں میں بھی ساتھ ہی رہا کرتے تھے.ہم قطار بنا کر نمازیں پڑھنے جایا کرتے تھے تو محمود اللہ شاہ صاحب قطار میں سب سے پیچھے رہا کرتے تھے.شاہ صاحب بہت ہی شر میلے واقع ہوئے تھے.دوسرے لڑکے لڑتے جھگڑتے تھے مگر میں نے شاہ صاحب کو کسی سے لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی اونچی آواز سے بولتے سنا.وہ متانت اور نہایت خاموشی سے اپنے کام میں لگے رہتے تھے.ہمارے بورڈنگ میں ہفتہ واری میٹنگ ہوا کرتی تھی.جس میں شاہ صاحب تلاوت قرآن کریم کے کام کو سرانجام دیا کرتے تھے.بازار میں کھڑے ہوکر کوئی چیز نہ کھاتے تھے.(حضرت سید محموداللہ ) شاہ صاحب حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے درسوں میں باقاعدہ شامل ہوتے تھے.روزنامه الفضل ربوه ۲۳ / جنوری ۱۹۵۳ء) ایک سفر کی سعادت 1921ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ طبی مشورہ کے مطابق معہ اہل خانہ و عزیز و اقارب ایک بڑے وفد کی صورت میں تین ماہ کیلئے کشمیر کے دورے پر تشریف لے گئے.آپ کا یہ دورہ 25 جون سے شروع ہو کر 29 ستمبر 1921ء کو اختتام پذیر ہوا..حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کو اس سفر میں حضور کے ہمراہ جانے کی سعادت حاصل ہوئی.اس سفر کے دوران حضور اننت ناگ اسلام آباد، گاندھر بل، چشمہ اچھا بل، چشمه ویری ناگ ،آسنور ،

Page 32

20 یاڑی پورہ اور بعض دیگر مقامات پر بھی تشریف لے گئے.اس سفر میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کو حضور کے پرائیویٹ سیکریٹری کے طور پر خدمات بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی.اس عرصہ کے سفر کے کوائف اور حضور کی دیگر مصروفیات پر مشتمل آپ کی تحریر کردہ ڈائریاں مسلسل تین ماہ الفضل میں شائع ہوتی رہیں.سیدنا حضرت مصلح موعود نے اس دوران جو خطبات و خطابات ارشاد فرمائے ان میں سے اکثر آپ کو قلمبند کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی.اس عرصہ میں حضرت شاہ صاحب کی جمله خط وکتابت مدیر الفضل قادیان کے ساتھ ہوئی.اس سفر میں کشمیر میں سو سے زائد افراد بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.اس سفر کی آپ کی تحریر کردہ بعض رپورٹس سے دلچسپ کوائف بطور نمونہ پیش ہیں.حضرت شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں:.الحمد للہ کہ مقام گاندھر بل میں چند روز قیام سے اور خصوصاً اس جگہ دریائے سندھ ( دریائے جہلم کا ایک معاون دریا) میں روزانہ غسل سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی صحت میں نمایاں فرق معلوم ہونے لگ گیا.ایک پنڈت صاحب نے ذکر کیا کہ برف کا پہاڑ بہت قریب ہے.ایک دن میں دیکھ کر آدمی واپس آسکتا ہے.اس لئے مؤرخہ 24( جولائی ) کو بہمراہی چند احباب گھوڑوں پر سوار ہوکر برف والے پہاڑ کی سیر کیلئے تشریف لے گئے.مگر آٹھ دس میل جانے کے بعد معلوم ہوا کہ برف تین چار دن کی مسافت کے بعد ملے گی.اس لئے اسی مقام سے حضور واپس تشریف لے آئے.“ الفضل قادیان 8 اگست 1921 ء ص 1-2) حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے مدفن کی زیارت وو یکم راگست کو حضور کی طبیعت مبارک قدرے خراب رہی.بعد نماز عصر حضور مع اپنے تمام اہل خانہ حضرت مسیح ناصرتی کے مدفن مبارک کی زیارت

Page 33

21 کیلئے محلہ خانیار میں تشریف لے گئے.وہاں حضور نے بہت دیر تک دعا کی اور روضہ کے محافظ کو اس کی مرمت کے لئے پانچ روپے دیئے.واپسی پر حضور نے فرمایا: بہت اچھا ہوا اگر ہماری جماعت کے آدمی جب اس کی زیارت کو آئیں تو کچھ نہ کچھ اس کی مرمت اور حفاظت کیلئے دیتے رہیں.اس سے لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت بڑھ جائے گی.اور اس طرح پر اس کی حفاظت ہوتی رہے گی." مؤرخہ 2 راگست کو حضور کشتی میں بیٹھ کر نسیم باغ اور حضرت بل تشریف لے گئے.اور وہاں سے ساڑھے دس بجے رات کو واپس آئے....مؤرخہ 9رکو حضور مع اہل خانہ و دیگر احباب ویری ناگ تشریف لے گئے.یہ جگہ اسلام آباد سے کافی فاصلہ پر ہے.مؤرخہ 11 کو صبح کی نماز کے بعد ایک شخص نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کی اور ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ٹانگوں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر حضور مع تمام قافلے کے آسنور کو روانہ ہوئے..ایک صحت افزا مقام کی سیر 66 الفضل قادیان 22 اگست 1921 ء ص 1-2) 3 ستمبر کو صبح آٹھ بجے حضور معہ چند خدام گھوڑے پر سوار ہوکر بعزم کنگ وٹن روانہ ہوئے.چار بجے کے قریب وہاں پہنچ کر رات کیلئے ڈیرا کیا.حضور کو کچھ حرارت ہوگئی.مؤرخہ 4 کی صبح کو سات بجے آگے کونسر ناگ روانہ ہو گئے.کونسر ناگ سطح سمندر سے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر ایک وسیع جھیل صاف اور شفاف پانی کی ہے.“ (الفضل قادیان 19 ستمبر 1921ء ص2) (مزید تفصیل کیلئے الفضل قادیان جولائی تا تمبر 1921ء کے قائل دیکھے جاسکتے ہیں)

Page 34

22 اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان روانگی آپ نے ۱۹۲۱ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی.اے کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد ریلوے انجینئر نگ کی تعلیم کے حصول کے لئے ۲۵ نومبر ۱۹۲۲ء کو انگلستان روانہ ہو گئے.حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ دعوۃ الی اللہ کے میدان میں بھی آپ سرگرم عمل رہے اور وہاں انگریزوں میں خوب دعوۃ الی اللہ کیا کرتے تھے.انگریز آپ کی گفتگو شوق سے سنتے اور بُرا نہیں مناتے تھے.یوں آپ نے کئی انگریزوں کی دینِ حق سے متعلق غلط فہمیاں دور کیں.انگلستان میں اس وقت حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر (اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے ) بطور مربی سلسلہ خدمات سرانجام دے رہے تھے.بعض اوقات آپ احمد یہ مرکز انگلستان تشریف لے جا کر حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر کی دینی امور میں مدد کیا کرتے تھے.حضرت مولا نا عبدالرحیم صاحب نیر نے اپنی رپورٹس میں اس بات کا تذکرہ فرمایا ہے.( الفضل قادیان ۱۹ رفروری ۱۹۲۳ ء الفضل ربوه ۲۳ ۲۴ جنوری ۱۹۵۳ء - تابعین احد جلد ۳ ص ۵۱-۲۰) انگلستان روانگی سے قبل سید نا حضرت خلیفہ اسبیع الثانی ( اللہ تعالی آپ سے راضی ہو ) نے آپ کو بہت سی قیمتی اور زریں نصائح فرمائیں.علی گڑھ سے بی.ٹی کا کورس ریلوے انجینئر نگ کی تعلیم کی غرض سے آپ انگلستان میں ۳ سال تک مقیم رہے اور ۲۵_۱۹۲۴ء میں واپس قادیان دارالامان تشریف لائے.آپ جب وطن واپس آئے تو شروع شروع میں ملازمت نہ ملی.مگر پھر کوشش کرنے پر کلکتہ میں ملازمت مل گئی.وہاں کے محکمہ کے لوگ سخت بے دین تھے جو کہ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کو سخت ناگوار تھا.آپ وہاں بیمار ہو گئے اور بیماری میں ہی واپس گھر آئے اور اپنے والد محترم حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب کے زیر علاج رہے جو اس وقت نو رہسپتال قادیان میں خدمات بجالا رہے تھے.کچھ عرصہ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی (اللہ تعالی آپ سے راضی ہو ) سے مشورہ کر کے بی.ٹی پاس

Page 35

23 کرنے کی غرض سے علی گڑھ کالج تشریف لے گئے.وہاں بھی آپ کی پابندی صوم وصلوٰۃ کی وجہ سے ساتھ رہنے والے طالب علم بہت متاثر ہوئے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے پڑھائی میں اتنی دلچسپی نہیں لی جتنی کالج کے دوسرے کاموں میں پھر بھی علی گڑھ کالج میں Theory میں فرسٹ آتے تھے اور پریکٹس Practice میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی.(روز نامه الفضل ربوه ۲۳ جنوری ۱۹۵۳ء.رپورٹ مجلس مشاورت قادیان ۱۹۲۶ - ۱۹۲۹ء) ٹی آئی سکول قادیان میں بطور استاد حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) ۱۹۲۵ء میں علی گڑھ کالج سے بیائی کرنے کے بعد ۱۹۲۵ ء میں ہی ٹی آئی سکول قادیان میں بطور استاد خدمات بجالانے لگے آپ یہاں ۱۹۲۹ ء تک خدمات بجالاتے رہے.۱۹۲۷ ء کی رپورٹ مجلس مشاورت میں درج ہے کہ ”سید محمود اللہ شاہ صاحب بی.اے سکول میں پورے طور پر تعلیمی وقت دینے لگ گئے ہیں، رپورٹس میں سال ۲۷.۱۹۲۶ ء کا ذکر کیا گیا ہے.ٹی آئی سکول میں تدریسی فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ آپ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کے سلسلے میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) اور مترجمین کی معاونت بھی کیا کرتے تھے.۱۹۲۹ ء میں آپ محکمہ تعلیم کی درخواست پر نیروبی (مشرقی افریقہ ) تشریف لے گئے جہاں آپ ۱۹۴۴ ء تک قریباً سولہ سال تعلیمی ، رفاہی اور دینی روزنامه الفضل ۲۳ ۲۴ جنوری ۱۹۵۳ء) خدمات بجالاتے رہے.☆

Page 36

باب سوم 24 مشرقی افریقہ میں خدمات

Page 37

25 مشرقی افریقہ میں احمدیت برصغیر سے باہر سب سے پہلے مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.1890ء کی دہائی میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت میں وہاں جماعت احمد یہ قائم ہو چکی تھی.اس زمانے میں کینیا برٹش کالونی تھی.جہاں ہندوستان سے ہزاروں لوگ ریلوے، میڈیکل ایجوکیشن اور بعض دیگر شعبوں میں کام کرنے کیلئے گورنمنٹ برطانیہ ہند کی طرف سے برٹش کالونی کینیا اور یوگنڈ اوغیرہ بسلسلہ روزگار عازم سفر ہوتے.انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی رفقاء بھی وہاں خدمات بجا لا رہے تھے.اطباء میں حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب جو حضرت حافظ روشن علی صاحب کے بھائی تھے.جو وہیں شہید بھی ہو گئے.حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر ،حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب گوڑیانی ، نیز دیگر احباب، جیسے حضرت منشی محمد افضل صاحب ، حضرت شیخ حامد علی صاحب اور کئی دیگر احباب کرام.بعض احباب تو ہندوستان سے بیعت کر کے وہاں گئے اور بعض دوستوں نے مشرقی افریقہ میں جا کر سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت کی سعادت حاصل کی اور آخران بزرگان کی انتھک محنت سے یہاں پر ایک مضبوط جماعت قائم ہوگئی.بعد ازاں بعض نوجوانوں بالخصوص حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب اور آپ کے بعض ہم عصروں نے جماعتی ترقی کی رفتار کو کئی گنا بڑھا دیا اور مخالفین پر اپنے علم وفضل کی دھاک بٹھادی اور اس کے ساتھ ساتھ غیروں سے رواداری اور حسن سلوک کے بھی اعلیٰ نمونہ قائم فرمائے.بہر حال اس ملک کے ساتھ تاریخ احمدیت کا قدیمی واسطہ ہے.

Page 38

26 خدمات سلسلہ پر ایک طائرانہ نظر (۱۹۲۹ء تا ۱۹۳۷ء) شخص جو حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کا کینیا میں قیام تعلیم کے شعبہ میں رہا.ایک 29 سال کی عمر میں دیارِ غیر میں علمی خدمات پر مامور ہو جائے تو یقیناً فوری طور پر اعلی نتائج حاصل کرنا مشکل امر معلوم ہوتا ہے تا ہم حضرت شاہ صاحب نے عین جوانی میں اپنے جوہر دکھائے اور عالم شباب میں وہ علمی، رفاہی ، تربیتی اور دینی کارنامے سرانجام دیئے جو اس عمر کے عام نوجوان شاذ و نادر ہی کر پاتے ہیں.آپ ۱۹۲۹ ء سے ۱۹۴۴ ء تک قریباً سولہ سال کا عرصہ خدمات بجالاتے رہے.مشرقی افریقہ میں دعوۃ الی اللہ کیلئے باقاعدہ طور پر مربی سلسلہ ۱۹۳۴ء میں بھجوائے گئے.سب سے پہلے مشرقی افریقہ میں خدمات بجالانے کیلئے حضرت شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم و مغفور کا تقرر ہوا.جماعت احمد یہ مشرقی افریقہ کی غیر معمولی خدمات کی بدولت مرکز سلسلہ کی طرف سے پہلی بار وہاں مربی سلسلہ کے تقرر کا سہرا جہاں کئی اور احباب کے سر پر ہے وہاں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے اپنے رنگ میں خدمات عالیہ کے ذریعے اس میں حصہ ڈالا.علمی حلقوں میں جماعت احمدیہ کا تعارف کروایا.مشرقی افریقہ کے کئی مقامات پر آپ نے دینی اور تربیتی امور پر خطابات و تقاریر کیں اور اخبارات و رسائل میں مضامین بھی لکھے نیز بعض مقامات پر درس قرآن و حدیث کا سلسلہ بھی جاری کیا اور بیوت الذکر کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.مشرقی افریقہ میں آپ کی خدمات کا دور ایک یادگار دور ہے.حضرت شاہ صاحب اس سولہ سال کے عرصہ میں مقامی احباب جماعت کے ساتھ مل کر نہ صرف تعلیمی میدان بلکہ جماعت احمدیہ مشرقی افریقہ کے تنظیمی ، مالی ، تربیتی اور دینی امور میں خدمات سرانجام دیتے رہے.آپ نے دعوۃ الی اللہ کی غرض سے بعض اہم کتب خانوں کی ممبر

Page 39

27 شپ حاصل کی اور بعض کتب خانوں میں دعوۃ الی اللہ کی غرض سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کا لٹریچر بھی رکھوایا.آپ نے مشرقی افریقہ کی جماعت کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا.آپ کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ احباب مشرقی افریقہ سے چندہ وصول کر کے باقاعدہ مرکز قادیان بھجوایا جائے.مشرقی افریقہ میں تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ آپ جماعتی خدمات میں بھی پیش پیش تھے.کینیا میں قیام کے دوران آپ کی خدمات پر مشتمل رپورٹس کی ایک طویل فہرست ہے.اس جگہ اجمالی طور پر آپ کی خدمات کا تذکرہ پیش کیا جا رہا ہے.(مشرقی افریقہ میں احمدیت کی تاریخ و حالات کیلئے مولانا صدیق امرتسری صاحب کی کتاب ” روح پرور یادیں ، شیخ مبارک احمد صاحب کی خود نوشت سوانح " کیفیات زندگی" اور اخبار الحکم قادیان مارچ ۱۹۰۱ ء مضمون حضرت بابومحمد افضل خان صاحب ملاحظہ کیجئے.) نیروبی جماعت کی امتیازی حیثیت حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ۱۹۲۹ ء سے ۱۹۳۴ ء تک تدریسی امور کے ساتھ ساتھ مختلف جماعتی عہدوں پر بھی فائز رہے.تحریر وتقریر سے بھی خدمات بجالاتے رہے.۱۹۳۴ء میں جماعت احمدیہ نیروبی کینیا کے امیر جماعت کے طور پر خدمات پر مامور تھے.(۱۹۳۴ ء کی انجمن کی سالانہ رپورٹ سے ماخوذ ) جماعت نیروبی سید معراج الدین صاحب پریذیڈنٹ اور سید محمود اللہ شاہ صاحب امیر جماعت احمد یہ اور ان کے مستعد اور مخلص آنریری کارکنوں کی ہمت سے آخری چار سالوں میں خصوصیت سے مرکز کی توجہ کا باعث رہی.جماعت احمد یہ نیروبی میں اس قدر قابلیت پیدا ہو چکی تھی کہ ۱۹۳۴ ء میں جماعت نے نظارت دعوة...سے درخواست کی کہ وہ با وجود غیر معمولی مخالفت کے اپنے خرچ پر ایک (مربی) چھ ماہ کے لئے منگوانا چاہتی ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ امسیح نور اللہ مرقدہ کی اجازت سے نظارت دعوة نے جماعت کی یہ درخواست قبول کر کے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مولوی فاضل کو ا ر نومبر ۱۹۳۴ء میں مشرقی افریقہ میں بھیجا.

Page 40

28 جماعت نے شیخ صاحب کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا.یہاں تک کہ بجائے چھ ماہ کے شیخ صاحب کو وہاں زیادہ عرصہ ٹھہر نا پڑا اور نیروبی کی جماعت اپنی ہمت سے ایک مستقل مشن قائم کرتی ہوئی نظر آتی ہے.اور ان کا کام کسی طرح پر بھی دوسرے مشنوں سے کم نہیں.بلکہ اس اعتبار سے کہ یہ مشن تمام مقامی اخراجات کو خود برداشت کر رہا ہے ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے.جس کے لئے تمام احباب جماعت نیروبی قابل شکر یہ اور دعاؤں کے مستحق ہیں.سید محمود اللہ شاہ صاحب بی.اے.بی.ٹی.قاضی عبدالسلام صاحب ڈاکٹر بدرالدین صاحب اور ڈاکٹر فضل الدین صاحب خاص طور پر قابل شکر یہ ہیں.ا نیروبی میں کوئی خاص عام پبلک لائبریری تو نہیں.ہر ایک قوم نے اپنی الگ الگ لائبریری بنائی ہوئی ہے.میکملن (Macmillan) لائبریری شہر کے وسط میں واقع ہے.اس میں یورپین کے سوا اور کسی کو جانے کی اجازت نہیں.گذشتہ دنوں مجھے ( مراد مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مربی سلسلہ نیروبی ) میکملن لائبریری کے انچارج سے ملنے کا اتفاق ہوا.اُن سے باتوں باتوں میں اس کا ذکر آیا کہ لائبریری کے لئے عام اجازت ہونی چاہئے.اور ہر اس شخص سے جو لائبریری سے فائدہ اٹھانا چاہے چندہ لے لیا جائے.کہنے لگے ہمیں خود بھی اس بات کا خیال ہے.مگر میکملن جس نے کئی ہزار پونڈ اس پر صرف کیا اور اسے ایک بورڈ کے سپرد کیا ہے.اس نے یہ وصیت کی تھی.کہ پورپین کے سوا اور کسی کو اجازت نہ دی جائے.ہمارے مکرم و محترم سید محمود اللہ شاہ صاحب ہی ایک ایسے شخص ہیں.جنہیں اس لائبریری والوں نے بغیر کسی درخواست و مطالبہ کے اجازت دی ہوئی ہے.“ (سالانہ رپورٹ صدرانجمن احمد یہ قادیان مئی ۱۹۳۴ء تا اپریل ۱۹۳۵ صفحه ۵ تا ۶۷) انفاق فی سبیل الله لوکل ( دعوۃ الی اللہ ) کے سلسلہ میں بعض احباب نہایت با قاعدگی کے ساتھ علاوہ دوسرے چندوں کے تربیتی فنڈ میں بھی چندہ دیتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا میں برکت دے.آمین.ان کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں.

Page 41

29 مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب، مکرم سید عبدالرزاق شاہ صاحب، مکرم قاضی عبدالسلام صاحب، مکرم چوہدری نثار احمد صاحب، مکرم سید معراج الدین صاحب، مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب، مکرم ماسٹر عبدالعزیز صاحب.جماعت احمدیہ نیروبی کے ہر ایک فرد نے اپنے اپنے رنگ میں ( دعوۃ الی اللہ ) کی ہے.خدا تعالیٰ ان سب کو اپنی برکات سے نوازے اور ان کے دلوں کو اپنی محبت و معرفت سے بھر دے.آمین.گذشته سال (۱۹۳۳ء) مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب قرآن مجید کا درس دیتے رہے ہیں.قادیان رخصت پر چلے جانے کے بعد مکرم سید معراج الدین صاحب مرحوم نے سلسلہ درس کو جاری رکھا اور یہ اس لئے تا نماز میں جو سورتیں پڑھی جاتی ہیں دوستوں کو ان کا ترجمہ آ جائے اور دوسرے کہ آخری سیپارہ میں چونکہ معاد کے متعلق خدا تعالیٰ نے واضح بیانات ارشاد فرمائے ہیں.احباب ان حالات قیامت و معاد کو سن کر اپنے دلوں میں خشیت و تقویٰ پیدا کریں اور اصلاح کریں.قرآن شریف کا درس رمضان میں پہلے پارہ سے شروع کیا گیا اور اپریل کے اخیر تک بارہ سیپاروں کا درس دیا گیا.دعوت الی اللہ میں انہماک سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدی قادیان ۱۹۳۴ - ۱۹۳۵ صفحه ۱۵ تا ۶۵) مشرقی افریقہ کی سالانہ رپورٹ ۱۹۳۶.۱۹۳۷ء سے انتخاب) نیروبی کے احباب اگر چہ کم و بیش انفرادی رنگ میں ( دعوۃ الی اللہ ) میں لگے رہے ہیں لیکن سیٹھ عثمان یعقوب صاحب چوہدری محمد شریف صاحب، بابو غلام محمد صاحب ریٹائرڈ، کریم بخش صاحب، شیخ غلام فرید صاحب اور مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب اپنے مخصوص رنگ میں حتی الوسع غیر مسلموں میں ( دعوۃ الی اللہ ) کرتے رہے.مؤرخہ ۷ ا رمئی بر مکان مکرم ملک احمد حسین صاحب یوم ( دعوۃ الی اللہ ) کے موقعہ پر دعوت چائے کا انتظام کیا گیا جس میں مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب نے سورہ کہف کے ابتدائی رکوع کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ اور آپ کے متعلق پیشگوئیوں

Page 42

30 وغیرہ کو بیان فرمایا.چند ایک غیر از جماعت شریک ہوئے اگر چہ دعوت نامے اکثر کے نام روانہ کئے گئے تھے.محمد اکرم خان صاحب غوری نے ایک لیکچر ”حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کے حالات احمد یہ بیت نیروبی میں دیا.چوہدری محمد شریف صاحب نے ایک لیکچر سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حد یہ بیت نیروبی میں دیا.چوہدری عزیز احد صاحب نے ایک پیکچر قبولیت دعا کے طریق پر دیا.سید محمود اللہ شاہ صاحب نے دو لیکچر سیرت حضرت خلیفہ المسیح الثانی“ پر دیئے.اخلاقی و روحانی تربیت کے لیے مساعی ( نیروبی سے متعلق مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب کی رپورٹ سے ماخوذ) ”مردوں میں سورہ مومنون کا درس اب شروع ہے اور عورتوں میں آخری پارہ سے شروع کیا تھا.تذکرہ ( مجموعہ کشوف والہامات ) کا درس بھی مردوں اور عورتوں میں دیتا ہوں.جماعت کی تربیت روحانی کی طرف بھی دعا اور تدبیر سے پورے زور سے کوشش شروع ہے.بچوں کی دینی تعلیم کا بھی باقاعدہ انتظام کر دیا گیا ہے.عزیزم سید عبدالرزاق شاہ صاحب بچوں کو ناظرہ قرآن مجید اور بڑوں کو ترجمہ سے پڑھاتے ہیں.اب بفضلہ نمازوں کے سنٹر مقرر کرنے کے بعد تمام مرد عورتیں اور بچے با قاعدہ نمازیں پڑھتے ہیں.عورتوں میں بفضلہ بہت حد تک اصلاح ہے اور نیکی کا شوق ہے.تحریک جدید کے مطالبات پر کما حقہ زیادہ زور دیا جاتا اور کوشش کر کے عمل کرایا جاتا ہے.درس قرآن مجید و حدیث شریف حمد عورتوں کی تربیت کے سلسلہ میں نیروبی میں قرآن مجید کا درس مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب نے سال کے آخری حصہ میں شروع کیا ہے.نیروبی کی لجنہ جسے گذشتہ سال منظم

Page 43

31 صورت میں پھر شروع کیا گیا تھا.اس کے امسال اجلاس ہوتے رہے اور خاکسار نے بھی ایک تقریر کی.جس میں ( دین حق ) کی مایہ نازخواتین کے رنگ میں رنگین ہونے کی طرف توجہ دلائی گئی.لجنہ نے امسال تحریک جدید میں نمایاں حصہ لیا اور رسالہ سواحیلی کی اشاعت میں بھی وقتاً فوقتاً امداد کرتی رہیں.“ (سالانہ رپورٹ صدرانجمن احمد یہ قادیان ۱۹۳۶ء.۱۹۳۷ء) مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مربی سلسلہ کی رپورٹ سے ماخوذ) ا جماعت احمد یہ نیروبی میں خاکسار نے تین ماہ اس سال قرآن کا درس دیا اور میری عدم موجودگی میں جناب سید محمود اللہ شاہ صاحب قرآن مجید کا درس دیتے رہے.یہاں ہفتہ وار درس ہوتا ہے.لیکن آخری حصہ سال میں قریباً روزانہ بعد نماز مغرب بھی علاوہ ہفتہ وار درس کے قرآن مجید کا درس دیا جاتا رہا.سال کے آخر تک سورہ احزاب تک کا درس ہوا.نیروبی کی خواتین میں بھی برعایت پر دہ ہفتہ وار درس ہوتا رہا.جب خاکسار نیروبی میں ہوتا تو خاکسار کو درس دینا پڑتا.والا ( مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب مکرم ان میں بھی درس دیتے رہے.مدرس تذکره و کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نیروبی میں مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب تذکرہ کا درس ایک عرصہ تک سال زیر رپورٹ میں دیتے رہے اور کچھ عرصہ تک ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعد نماز مغرب سناتے رہے.(سالانہ رپورٹ صدرانجمن احمد یہ قادیان ۱۹۳۷.۱۹۳۸ صفحہ ۱۱۸ - ۱۲۷ )

Page 44

32 خدمات سلسلہ کا ایک اجمالی جائزہ سيرة النبي علي العلم پر تقاریر (۱۹۳۸ء تا ۱۹۴۴ء) حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح حیات ، اعلیٰ اخلاق اور آپ کی پاکیز تعلیم سے آگاہ کرنے کیلئے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے ہر سال منعقد کئے جاتے ہیں.سوامسال دسمبر ۱۹۳۸ء میں یہ جلسہ منایا گیا.نیروبی میں سیرۃ النبی کے جلسہ میں ایک ہندو، ایک سکھ اور ایک عیسائی نے تقریر کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی بیان کئے.ہندو دوست نے اپنی تقریر کے دوران میں حضرت (خلیفہ اسیح الثانی ) ایدہ اللہ تعالیٰ کو خاص طور پر خراج تحسین ادا کیا اور احمدیت کے مسائل کے وزنی ہونے کا ذکر کیا.علاوہ ازیں مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب نے انگریزی زبان میں تقریر کی اور بتایا کہ دنیا میں امن کس طرح قائم ہوسکتا ہے؟ اور اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور تعلیم کو پیش کر کے یہ ثابت کیا کہ (دین حق کی تعلیم پر عمل کئے بغیر حقیقی امن کا قیام محال ہے.امسال پہلی مرتبہ ممباسہ میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ منایا گیا جو باوجود سخت مخالفت کے نہایت کامیاب رہا اور غیر مسلم معززین شریک ہوئے.مسٹر اسماعیل ٹریڈ کمشنر گورنمنٹ آف انڈیا اور دوسرے احباب نے تقریریں کیں.اخبارات نے عمدہ الفاظ میں رپورٹیں شائع کیں.شیخ صالح محمد صاحب اور مکرم با بومحمد عالم صاحب کی جدوجہد خاص طور پر قابل ذکر و شکر یہ ہے.گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی براڈ کاسٹنگ کا انتظام کیا گیا اور نیروبی براڈ کاسٹنگ اسٹیشن سے مکرم صاحب کی ایک تقریر دسمبر میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسہ کے دن شام کو براڈ کاسٹ کی گئی اور یوگنڈا ، ٹانگا نیکا کے مختلف مقامات میں علاوہ احمدیوں کے غیر از جماعت اور غیر مسلموں نے بھی اس تقریر کوسنا.“

Page 45

33 تدریس قرآن کریم ۱۷ جولائی ۱۹۳۸ ء سے ترجمہ قرآن کریم سکھانے کیلئے نائٹ سکول شروع کیا گیا اور پڑھنے والے تین کلاسوں میں تقسیم کئے گئے.سید محمود اللہ شاہ صاحب کے پاس عمر رسیدہ احباب کی کلاس ہے.دو پارے کے قریب یہ پڑھ چکے ہیں.نوجوان طبقہ کی کلاس سید عبدالرزاق شاہ صاحب کے پاس ہے.یہ کلاس گیارہ پارہ کے قریب پڑھ چکی ہے اور قاضی عبدالسلام صاحب کے پاس بچوں کی کلاس ہے جو ایک پارہ پڑھ چکی ہے.ہفتہ میں تین دن بعد نماز مغرب یہ کلاس لگتی ہے.علاوہ ازیں حضرت شاہ صاحب مکرم شیخ مبارک احمد مربی سلسلہ کی عدم موجودگی میں مئی اور جون میں درس قرآن کریم دیتے رہے اور بعد درس دینی مسائل سنائے جاتے رہے.“ سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد سید قا دیان ۳۹.۱۹۳۸ صفحه ۱۰۰ تا ۱۳۳) ۱۹۴۰ ء وا۱۹۴ میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے علمی و تربیتی امور پر پندرہ لیکچرز دیئے.نیز آپ نے درس قرآن کریم بھی دیئے.نیز نیروبی ریڈیو سے آپ کی علمی تقاریر براڈ کاسٹ کی گئیں.سالانہ رپورٹ انجمن احمد یہ ۱۹۴۱ ۱۹۴۲، صفحہ ۲۳.۲۵) یہ.۱۹۴۱-۱۲ آپ کی بعض اہم تقاریر مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اپنی ایک رپورٹ میں حضرت شاہ صاحب کی خدمات کی بابت تحریر کرتے ہیں: نیروبی میں محترمی سید محمود اللہ شاہ صاحب نے انڈین اینڈ وار“ Indian and) (War کے عنوان پر شہر کے ایک ہال میں تقریر کی.حاضری کافی تھی.لیکچر نہایت کامیاب رہا اور لیکچر کے خلاصے مختلف اخبارات میں شائع ہوئے.مؤرخہ ۴ اپریل کو اردو اور انگریزی میں نیروبی براڈ کاسٹنگ سٹیشن سے محترمی سید محمود اللہ شاہ صاحب اور برادرم محمد اکرم خان صاحب غوری نے تقریریں براڈ کاسٹ کیں.

Page 46

34 مورخہ ۱۳ پریل کو گورو گوبند سنگھ صاحب کے جنم دن پر پون گھنٹہ رام گڑھیا گوردوارہ میں اور پون گھنٹہ بازار گوردوارہ میں محترمی سید محمود اللہ شاہ صاحب نے تقریریں فرمائیں.جن میں صحیح تاریخی حوالوں سے ثابت کیا کہ گورو صاحب کے بچوں کے قتل کا الزام اور نگ زیب پر محض بہتان ہے.نیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کی روشنی میں آپ نے ایسے ذرائع بیان کئے جن سے قوموں میں اتحاد و اتفاق ہو سکتا ہے.دونوں گوردواروں کے سامعین کی مجموعی تعداد بارہ سو کے قریب ہوگی“.نیروبی میں جلسہ سیرت النبی صلہ روز نامه الفضل قادیان ۷ ارجون ۱۹۴۱ صفحه ۴-۵) ۲ اپریل ۱۹۴۱ء کو پٹیل براؤ ہڈ ہال میں سیرت النبی صلی اللہ کا ایک جلسہ مقرر ہوا.جس میں عليه وسلم کئی بزرگان نے سیرت النبی عیلم کے موضوع پر تقاریر کیں.حضرت سید محمود اللہ شاہ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ نیروبی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک حکمران کے موضوع پر انگریزی زبان میں تقریر کی یہ تقاریر اور بعض اور تقاریر نیروبی براڈ کاسٹنگ سٹیشن سے نشر کی گئیں.اس جلسہ کی بابت مکرم و محترم محمد شریف صاحب سیکرٹری دعوۃ الی اللہ نیروبی لکھتے ہیں:.را پریل صبح ساڑھے نو بجے پٹیل بر اؤ ہڈ ہال میں زیر صدارت سردار مہربان سنگھ صاحب جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم منعقد ہوا.کارروائی کی ابتداء سید عبدالرزاق شاہ صاحب ابن حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ نے تلاوت قرآن کریم سے کی پھر رشید احمد بٹ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک نظم خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی.ازاں بعد مسٹر عبد اللہ مصطفیٰ صاحب نے انگریزی میں نصف گھنٹہ تقریر کی.جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیم پیش کر کے بتایا کہ عربوں نے اس تعلیم پر عمل کر کے کتنی جلدی اعلی ترقیات حاصل کیں اور خود دنیا کے استاد قرار پائے.نیز فرمایا کہ و تعلیم ہر زمانہ کے لئے قابل عمل ہے بلکہ وہی درحقیقت ایک زندہ اور عمل کرنے کے قابل تعلیم ہے جس پر چل کر انسان دینی اور دنیوی کامیابی حاصل کر سکتا ہے.تقریر نہایت فصیح انگریزی میں تھی اور حاضرین نے اسے بہت پسند کیا.

Page 47

35 صاحب صدر نے اختتام جلسہ پر فر مایا کہ دنیا کو اس وقت امن کی بے حد ضرورت ہے اور یہ امن کی بنیادی تحریک جو ان جلسوں کے رنگ میں شروع کی گئی ہے اس کا سہرا امام جماعت احمدیہ کے سر ہے.اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی تربیت ایسے رنگ میں ہوگی کہ یہ فرقہ وارانہ جھگڑے اور فساد ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے.جلسہ ساڑھے گیارہ بجے بخیر و خوبی ختم ہوا.اسی سلسلہ میں بروز جمعہ ۱/۴ پریل شام کو پونے چھ بجے محترمی خان محمد اکرم صاحب غوری قائد خدام الاحمدیہ نے اردو میں ایک تقریر بعنوان ”جنگ کے متعلق تعلیم اور نمونہ نیروبی براڈ کاسٹنگ سٹیشن سے نشر کی اور اسی رات آٹھ بج کر دس منٹ پر محترمی حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ نیروبی نے انگریزی میں ایک تقریر بعنوان "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک حکمران براڈ کاسٹ کی.دونوں تقاریر خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت عمدہ اور مفید تھیں.“ برکات خلافت دینِ حق کا احیائے نو خلافت سے وابستہ ہے اور اس پر آشوب زمانے میں محض ایک ہی حبل اللہ ہے جس کا نام خلافت ہے.یہ وہ اللہ کا ہاتھ ہے جس کے سایہ میں ہماری زندگیاں پناہ حاصل کرتی ہیں.امام وقت کے ساتھ وابستگی زندگی کی ضمانت ہے.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کی یہ عادت تھی کہ ہر جمعرات کو احباب جماعت کو تلقین کرتے کہ نماز تہجد میں خصوصاً خلافت احمد یہ اور جماعت احمدیہ کی ترقی کیلئے دعائیں کریں.۱۰ را پریل ۱۹۴۱ء کو جبکہ آپ جماعت احمدیہ نیروبی کے پریذیڈنٹ تھے آپ نے یوم برکات خلافت کے لئے ایک جلسہ کا اہتمام کیا اس جلسہ کی رپورٹ پیش خدمت ہے.مکرم و محترم محمد شریف صاحب مرحوم ( سیکرٹری دعوۃ الی اللہ ) نیر و بی مشرقی افریقہ تحریر کرتے ہیں:...ہماری جماعت کے پریذیڈنٹ جناب حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ ہر جمعرات کو ( بیت ) میں یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ سب مرد وو

Page 48

36 اور عورتیں رات کو نماز تہجد ادا کریں.جس میں حضرت امام جماعت احمد یہ کیلئے دعا کی جائے اور لجنہ اماءاللہ تہجد پڑھنے والی مستورات کی رپورٹ بھی حاصل کرتی ہے.اس کے علاوہ جمعہ کو عصر کے بعد اور اتوار کو درس القرآن کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کیلئے خاص طور پر دعا کی جاتی ہے.تا ہم محترمی سید محمود اللہ شاہ صاحب کی تحریک پر حال ہی میں ایک یومِ برکاتِ خلافت بھی جماعت نیروبی نے منایا.جس میں اول تو سب مردوں اور عورتوں نے ( بیت) میں جمع ہو کر دو رکعت نوافل با جماعت ادا کئے.جس میں حضرت امام جماعت احمدیہ کے لئے دعا کی نیز سب نے اپنے لئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و رحم سے ہمیشہ اس نعمت خلافت سے وابستہ رکھے.اس کے بعد جلسہ شروع ہوا.جس میں اول جناب سید محمود اللہ شاہ صاحب نے قرآن کریم کی تلاوت اور تفسیر فرمائی.ازاں بعد ایک تقریر کی گئی جس میں آیت استخلاف کے متعلق حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ کے درس سے کچھ حصے سنائے گئے.پھر مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب نے حضور کے درس میں سے ایک حصہ سنایا بالآخر خان محمد اکرم غوری صاحب سیکرٹری وصایا نے احباب کو وصیت کرنے کی تحریک کی اور دعا ( الفضل قادیان ۴ رمئی ۱۹۴۱ء) کے بعد جلسہ بخیر وخوبی ختم ہوا.“ جنگ اور ہندوستان حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے کینیا کے اخبارات میں سلسلہ احمدیہ کی تعلیم اور غرض و غایت کی بابت بعض اہم مضامین شائع ہوتے رہتے تھے.۱۹۴۱ ء میں آپ کا ایک مضمون بمعہ تصویر East African Standard میں شائع ہوا.مکرم و محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب (مربی سلسلہ) مشرقی افریقہ اپنی رپورٹ از جنوری تا اپریل ۱۹۴۱ء میں تحریر کرتے ہیں: ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ نیروبی سے شائع ہوتا ہے اس کے دونمبروں میں سلسلہ کا ذکر عمدہ الفاظ میں آیا ہے ایک نمبر میں محترمی سید محمود اللہ شاہ صاحب کے مضمون ” جنگ اور

Page 49

37 ہندوستان کا خلاصہ شائع کیا گیا اور ساتھ ہی آپ کا فوٹو.اس طرح اس تقریر کے خلاصے بعض دیگر اخبارات نے بھی جو ممباسہ سے نکلتے ہیں شائع کئے.“ (روز نامه الفضل قادیان ۱۵ جون ۱۹۴۱ء ) حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کا سماجی حلقہ احباب خاص وسیع تھا.آپ جہاں بھی رہے وہاں اپنے محاسن اخلاق کے حسین نقوش بطور یاد گار چھوڑے کینیا جو کہ کئی اقوام اور مذاہب و ملل کا نام تھا اس میں ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگ آباد تھے.سکھ صاحبان بھی اس ملک کا ایک اہم رعایا تھے.جماعت احمد یہ کینیا کے ۱۹۴۰ء کے عشرہ میں سکھ صاحبان سے بہت دوستانہ مراسم تھے.نیروبی کینیا میں برصغیر کے لاکھوں افراد آباد ہیں ہندو سکھ ، عیسائی اور دوسرے مذاہب کا ایک مشترکہ معاشرہ وہاں آباد ہے.آج سے ساٹھ سال قبل جو صورتِ حال وہاں تھی آج بھی وہاں مختلف الاقوام والمذاہب لوگ آباد ہیں.۱۹۴۰ء کے عشرہ میں جماعت احمد یہ نیروبی کے سماجی سطح پر سکھ صاحبان سے دوستانہ روابط تھے اور سکھ احباب کئی تقاریب میں شامل ہوئے اس طرح وہ اپنی تقریبات میں تقاریر کرنے کیلئے حضرت محمود اللہ شاہ صاحب اور دیگر معزز افراد جماعت کو دعوت دیتے.اپریل ۱۹۴۱ء کو ایسی ہی تقریب کا انعقاد ہوا جس کی ایک جھلک اس رپورٹ سے ظاہر ہے.مکرم و محترم محمد شریف صاحب سیکرٹری دعوۃ الی اللہ نیروبی لکھتے ہیں.جماعت احمد یہ نیروبی اور سکھ صاحبان کے دوستانہ تعلقات نیروبی ۱۳ / اپریل ۱۹۴۱ء.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے قرآنی تعلیم کے ماتحت موجودہ زمانہ میں امن عالم کی جو بنیاد رکھی ہے اور مختلف اقوام میں قیام اتحاد کے جو قیمتی اصول بیان فرمائے ہیں.وہ جوں جوں سعید لوگوں تک پہنچتے ہیں وہ ان کی قدر و قیمت سمجھ رہے ہیں.کچھ عرصہ ہوا ہم نے نیروبی میں جب حضرت اقدس کی کتاب پیغام صلح کا گورمکھی ترجمہ تقسیم کیا تو بعض سکھوں نے کہا کہ یہ رسالہ زیادہ تعداد میں چھپوائیں.ہم اس کی اشاعت کیلئے روپیہ بڑی خوشی سے دیں گے.پھر ایک تعلیم یافتہ سکھ دوست نے جو انگلستان وغیرہ رہ آئے ہیں عاجز سے کہا کہ اب آئندہ دنیا میں امن حضرت مرزا صاحب کی جماعت کے ذریعہ ہی قائم ہوگا“

Page 50

38 پھر کہا ” میں نے حضرت مرزا صاحب کی کتاب ”پیغام صلح پڑھی ہے اور میں جماعت احمدیہ کے قیام امن اور اتحاد و اخوت کو ترقی دینے والی مساعی کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور میرا دلی یقین ہے کہ اب دنیا میں حضرت مرزا صاحب کی تعلیم کے ذریعہ ہی امن قائم ہوگا“.گذشتہ سال یہاں ایک نیا گوردوارہ بنا جس کے افتتاح کے وقت جماعت احمدیہ کے افراد موجود تھے اور ایک احمدی نے تقریر کی جس میں بتایا کہ ہمیں معابد کا پورا احترام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور ہماری اپنی عبادت گاہ ہر مذہب والوں کے لئے کھلی ہے جو وہاں اپنے طریق پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکتے ہیں.اس پر سکھ اصحاب نے بھی اعلان کیا کہ احمدی ہمارے گوردوارہ میں اپنی نماز جب چاہیں ادا کر سکتے ہیں.الغرض اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے احمدیت کی تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے یہاں ہمارے تعلقات ہندوؤں اور سکھوں سے بھائیوں کے سے ہیں اور ہمارے معزز سکھ اور ہندو بھائی ہمیشہ ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ وہ ہمارے پیشواؤں کی ایسی ہی عزت کرتے ہیں جیسی کہ اپنے گوروؤں اور بزرگوں کی.احمدیوں کا تو یہ مذہبی فرض ہے اور وہ تو ہر حال میں دوسرے مذاہب کے سب بزرگان کی پوری پوری عزت واحترام کرتے ہیں.آج سکھ بھائیوں کا ایک مذہبی تہوار تھا جس میں دو گوردواروں میں تقریر کرنے کیلئے انہوں نے محترمی محمود اللہ شاہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ نیروبی کو دعوت دے رکھی تھی.ایک گوردوارہ کے کارکنوں نے ساری جماعت کو دعوت طعام بھی دی.محترمی شاہ صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا.ہم حضرت بابا گورو نانک رحمۃ اللہ علیہ کی ویسی ہی عزت کرتے ہیں جیسی کہ دوسرے اولیا ء اور بزرگوں کی.حضرت بابا صاحب نے بھی دنیا کے اتحاد و اتفاق کے لئے بہت کوشش کی ہے.گورو گوبند سنگھ جی کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے فرمایا وہ حضرت اور نگ زیب رحمۃ اللہ علیہ سے بہت محبت رکھتے تھے جیسا کہ ان کے فارسی اشعار سے پایا جاتا ہے جن میں انہوں نے اور نگ زیب عالمگیر کو نہایت سخنی ، عمده سیاست دان، خدا کے نور سے منور اور فرشتہ خصلت

Page 51

39 بیان کیا ہے اور یہ نظم ان کے صاحبزادوں کے واقعہ قتل کے بعد کی ہے.اگر گورو گوبند سنگھ جی اپنے معصوم بچوں کے قتل میں ذرہ بھی حضرت اور نگ زیب کا دخل سمجھتے تو ہرگز ان کی نیکی کی تعریف نہ کرتے اور اپنے اشعار میں یہ نہ کہتے کہ اگر حکم ہو تو جان و مال لے کر حاضر خدمت ہو جاؤں.آپ نے بیان فرمایا کہ یہ محض دھوکہ دہی اور تاریخ کو بگاڑ کر مسلمانوں اور سکھوں کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تحقیقات سے ثابت ہے کہ سر ہند کے غیر مسلم دیوان نے اپنے ذاتی عناد کی بناء پر گروجی کے بچوں کو قتل کرایا تھا اور جب حضرت اور نگ زیب کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے نواب سرہند کو سخت سزا دی.گرو گوبند سنگھ جی ان حالات کو بخوبی جانتے تھے.چنانچہ انہوں نے اپنے تعلقات بادشاہ وقت سے بدستور قائم رکھے.بالآ خر فرمایا کہ ( دین ) حق اور صداقت کی تعلیم دیتا ہے.ہمیں امام جماعت احمد یہ (خلیفتہ امسیح الثانی) کی یہی تعلیم ہے کہ ہم حق اور راستبازی پر قائم رہیں.لہذا اگر کسی (مومن) کا قصور کسی معاملہ میں ثابت ہو تو ہم کھلم کھلا اس سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور ہرگز اس لئے اس کی حمایت نہ کریں گے کہ وہ ہمارا ہم مذہب ہے.ہمیں تاریخ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اور نگ زیب کا اس معاملہ میں کچھ دخل نہ تھا.لہذا ہم سچائی کے اظہار کے طور پر پورے ثبوت رکھتے ہوئے یہ بات کہتے ہیں.تقریر کے خاتمہ پر سکھ صاحبان نے شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا.یہ جماعت احمدیہ کا ہم پر احسان ہے کہ ایسے زریں خیالات سننے کا ہمیں موقعہ ملا ہے.ہم بھی جماعت احمدیہ کے بزرگوں کا پورا پورا احترام کرتے ہیں.امید ہے کہ صاحب آئندہ بھی یہاں تشریف لا کر ہمیں فائدہ پہنچائیں گے.دونوں گوردواروں میں ڈیڑھ گھنٹہ تقریر کا وقت تھا اور بفضلہ تعالیٰ ایک ہزار سے زائد معزز افراد نے ان خیالات کو سنا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے ہم سب کو اپنی ہدایت اور قرب اور محبت کے راستہ پر چلائے.“ (روز نامه الفضل قادیان ۳ مئی ۱۹۴۱ صفحه ۵)

Page 52

40 وو مجلس خدام الاحمدیہ کا ہفتۂ خلافت مکرم و محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اپنی دسمبر ۱۹۴۳ ء وجنوری ۱۹۴۴ء کی رپورٹ میں مشرقی افریقہ کی مساعی کے بارہ میں لکھتے ہیں: مجلس خدام الاحمدیہ نے ہفتہ خلافت منایا.اس کے زیر انتظام خاکسار نے دو تقریریں برکات خلافت ” خلافت ثانیہ کے عہد میں مشرقی افریقہ میں ( دعوۃ الی اللہ کے ) کام پر کیں.ان تقریروں کے علاوہ ہفتہ خلافت کے سلسلہ میں محترمی سید محمود اللہ شاہ صاحب، چوہدری محمد شریف صاحب، سید عبدالرزاق شاہ صاحب نے منصب خلافت ، خلافت و قرآن، خلافت ثانیہ کے عہد میں کیفیت و کمیت کے لحاظ سے سلسلہ کی ترقی ، کے مضامین پر تقاریر کیں.چوہدری بشارت احمد صاحب نے بھی خلافت کے مضمون پر تقریر کی.“ جلسہ سالانہ کے موقع پر اظہا را خلاص الفضل قادیان اپنی اشاعت میں لکھتا ہے:.دو (روز نامه الفضل قادیان ۲۸ مارچ ۱۹۴۴ء ) جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ہندوستان کے علاوہ دنیا کے دور دراز ملکوں سے جو پیغام بذریعہ تار موصول ہوئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب جلسہ سالانہ کے دن آتے ہیں تو مخلصین جماعت کے قلوب میں خواہ وہ دنیا کے کتنے ہی بعید گوشہ میں ہوں اور کیسے ہی حالات میں زندگی بسر کر رہے ہوں ایک ہلچل سی بچ جاتی ہے اور اس موقعہ پر قادیان دارالامان میں نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے وہ بے تاب ہو جاتے ہیں.آخر جب مجبوری اور لاچاری کو انتہاء تک پہنچا ہوا پاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ دیار محبوب میں پہنچنے اور اپنے پیارے امام سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی کوئی صورت ممکن نہیں اور حضور کی خدمت میں اپنا نام اور اپنی عرضداشت پہنچانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ تار ہے.نیروبی سے ۲۳ دسمبر ۱۹۴۳ء کو حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب بی.اے.بی.ٹی نے لکھا:

Page 53

41 کشور حضرت خلیفہ اسیح الثانی اید واللہ تعالیٰ نیروبی کے احمدی حضور کی خدمت میں اور سالانہ جلسہ کے مقدس اجتماع کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عرض کرتے ہیں اور دعا کی درخواست پیش کرتے ہیں.“ روزنامه الفضل قادیان ۲ جنوری ۱۹۴۴ - ۱/۸ کتو بر ۱۹۴۴ ص ۵-۶) *...*......⭑

Page 54

باب چهارم 42 تعلیمی وتربیتی کارنامے

Page 55

43 حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کی حیات طیبہ کئی تعلیمی اور تدریسی کارناموں سے بھری پڑی ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے پہلے مشرقی افریقہ پھر انڈیا اور بعد میں پاکستان میں تعلیمی اور تدریسی خدمات پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی.آپ جہاں بھی تدریس کے میدان میں اُترے وہاں اپنی شخصیت، کردار، اخلاق فاضلہ اور انتظامی و تدریسی مہارت کے یادگار نقوش چھوڑے.آپ کے شاگرد جہاں بھی گئے وہاں آپ کی تربیت سے بھر پور استفادہ کیا اور اگر آپ سے تعلق رکھنے والے سے کبھی کوئی ملاقات ہوئی تو اس سے بھی عقیدت ومحبت اور لحاظ کا اظہار کیا.آپ کے شاگردوں کی بہت سی ایسی مثالیں ہیں جہاں بھی گئے وہاں اپنے نیک استاد کی تعلیم و تربیت کے نمونہ کو زندہ رکھا اور آپ کے کسی عزیز کا اگر آپ کے شاگردوں کو علم ہوا تو اس پر جان و مال فدا کرنے کیلئے تیار ہو گئے.ایسی ایک نہیں کئی مثالیں ہیں.اس باب میں آپ کے تعلیمی و تدریسی کاوشوں کا ذکر کیا جارہا ہے.۱۹۴۴ء میں آپ کی تقرری بطور ہیڈ ماسٹر ٹی آئی سکول قادیان ہوئی.جولائی اگست ۴۷ ء تک آپ اسی عہدہ پر خدمات بجالاتے رہے.آپ کے عہد میں سکول ہذا میں گورنمنٹ سطح کے بعض اجلاسات بھی ہوئے.جس میں آپ کے سکول کے معیار کو سراہا گیا.آپ کی محنت اور خوبیوں کی بدولت یہ ادارہ توجہ کا مرکز بنتا گیا.تاہم قیام پاکستان کے ساتھ یہ تسلسل کچھ دیر کیلئے تعویق کا شکار ہو گیا.لیکن حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کی انتھک محنت اور دعاؤں کی بدولت ٹی.آئی.ہائی سکول دوبارہ تعلیمی میدان میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر گیا.الحمد للہ قیام پاکستان اور ٹی آئی ہائی سکول قیام پاکستان کے چند ماہ بعد ٹی آئی ہائی سکول قادیان کا سٹاف ۳۱ / اکتوبر ۱۹۴۷ء کو

Page 56

44 لاہور پہنچا اور سیدنا حضرت مصلح موعود ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) کے ارشاد پر ۶ رنومبر ۱۹۴۷ء کو لاہور سے چنیوٹ منتقل ہو گیا.چنیوٹ پہنچ کر سکول کیلئے ملک بھگوان داس کی عمارت الاٹ کی گئی.جہاں پہلے ہندو پناہ گزین ٹھہرے ہوئے تھے.انہوں نے جاتے وقت سکول کی تمام کھڑکیاں ، دروازے، الماریاں اور دیگر سامان جلا ڈالا تھا حتی کہ روشن دان تک جل گئے تھے اور بیرونی چار دیواری بھی محفوظ نہ تھی.اس صورت حال کے پیش نظر ہنگامی بنیادوں پر جو اقدامات کئے گئے ان کا سہرا حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب اور بقیہ عملہ کے سر پر ہے.چنیوٹ پہنچ کر سکول کے لئے جو اقدامات کئے گئے.آپ نے احباب جماعت کو تحریک کرنے کیلئے ٹی آئی سکول چنیوٹ کے بارہ میں آگاہ کرنے کیلئے بعض مضامین بھی تحریر کئے جن کا مقصد یہ تھا کہ ۱۹۴۷ء کے نازک حالات میں طلباء کا تعلیمی مستقبل ضائع نہ ہو اور والدین بھی ان کی تعلیم وتربیت کے بارے میں فکرمند نہ ہوں.چنانچہ آپ تحریر کرتے ہیں.”اپنے.اپنے بچے تعلیم کیلئے چنیوٹ بھیجے" تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بہترین اساتذہ اور بہترین طریقہ تعلیم میسر ہے.احباب کو علم ہوگا کہ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں طلباء کی تعداد اور تعلیمی ترقی کی رفتار دوسرے سکولوں کی نسبت روز افزوں ترقی پر ہے.مگر چونکہ ہمارا اصلح نظر خصوصاً احمدی بچوں کی تربیت ہے اس لئے ہم احمدی والدین پر خاص طور پر زور دیں گے کہ وہ تکلیف اُٹھا کر بھی اپنے بچوں کو تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں بھیجیں.سکول میں اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے بہترین قابلیت کے اساتذہ موجود ہیں جو سکول ٹائم کے علاوہ بھی بچوں کی بورڈنگ میں تعلیم (پر) مقرر ہیں اور اساتذہ اپنی نگرانی میں تمام طلباء کی پابندی اوقات کا خیال رکھتے ہیں.آپ کو یقین ہو جائے گا کہ تعلیم کے ابتدائی دور میں اس قسم کی بہترین تربیت کے سامان اور کسی سکول میں بھی میسر نہیں.اوسط ماہوار خرچ صرف ہیں روپے فی طالب علم ہے.(روز نامه الفضل لا ہور ۲۷ جنوری ۱۹۴۸ صفحه ۶ )

Page 57

45 قیام پاکستان کے بعد 4 نومبر ۱۹۴۷ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے عارضی طور پر چنیوٹ میں منتقل ہوا اس موقع پر حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے بطور ہیڈ ماسٹر ٹی آئی ہائی سکول چنیوٹ ذیل کا مضمون احباب کو تحریک دلانے کیلئے تحریر کیا.”ہمارا تعلیم الاسلام ہائی سکول“ احباب کو معلوم ہے کہ حضرت (خلیفہ مسیح الثانی) نے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے عملہ اور طلبہ کو حکم دیا ہے کہ وہ چنیوٹ (ضلع جھنگ) میں اپنا سکول جاری کر دیں.چنانچہ سکول ہذا ۶ نومبر سے چنیوٹ میں آچکا ہے اور ایک مقامی ہندوسکول کی عمارت میں ہمارا سکول کھل چکا ہے.جن اغراض کے پیش نظر حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ سے لگائے ہوئے اس باغیچہ کو یہاں منتقل فرمایا ہے وہ احباب جماعت سے مخفی نہیں.حضور کو اپنی قوم کے نونہالان کی تعلیم و تربیت کا بے حد فکر ہے.حضور اپنے بچوں کا کوئی وقت ضائع ہوتا دیکھنا گوارا نہیں فرماتے اور چاہتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو طلباء اپنے سکول میں داخل ہو کر اپنا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچا ئیں اور تعلیم کے ساتھ تربیت جو ہمارے سکول کے اجرا کی اصل غرض تھی حاصل کر کے اپنے اور جماعت کیلئے مفید وجود ثابت ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل سے احباب کو معلوم ہے کہ ہمارے سکول کا سٹاف ہر طرح تعلیم و تربیت کے کام کیلئے موزوں ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس اخلاق اور محنت اور شوق سے ہمارا عملہ طلباء کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں رہتا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے اور اس کی وجہ وہ ذاتی نگرانی اور تربیت ہے جو حضرت (خلیفتہ اسیح الثانی ) از راہ شفقت روا فر ماتے ہیں ہمارے سکول کے طلباء کو حضرت (خلیفہ اسیح الثانی) وقتاً فوقتاً ضروری ہدایات اور نصائح سے سرفراز فرماتے ہیں اور بچوں کو اپنے رنگ میں رنگین کرنے اور مفید قومی کارکن بنانے کے لائحہ عمل پر کار بند رہنے کا اہتمام فرماتے ہیں.ہمارے بچوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ خلیفہ المسیح مصلح الموعود ہمارے مربی ہیں اور اپنے بچوں کو حضور سے دور رکھنا نہ صرف ہمیں قرب الہی کے مواقع ہی حاصل کرنے سے محروم کر دیتا ہے بلکہ ایک بہت بڑی نیکی سے (بھی).

Page 58

46 اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اُس کے منشاء کے ماتحت قادیان میں ہمارا سکول ہر لحاظ سے ایک معیاری سکول بن رہا تھا لیکن منشاء الہی یہی تھا کہ ہم آزمائش کی منازل طے کریں اور اپنا کام گویا از سر نو شروع کریں.گویا یہ ہمارے امتحان کا وقت ہے اس وقت جو سنبھل گئے اور ابرا نیمی طیوری کی طرح خود اور اپنے بچوں کو حقیقی مربی کے گرد جمع کر دیا وہ یقیناً اپنی زندگی کے مقصد کے حصول میں کامیاب ہونگے اخلاص اور ایمان زلازل اور مصائب میں ہی پر کھا جاتا ہے.اس وقت جو دوست قربانی کریں گے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب گردانے جائیں گے.سکول میں تعلیم کیلئے بچوں کو پہنچانا بھی حضور کے ایک اہم مطالبہ کو پورا کرنا ہے اپنے بچوں کو آپ نے تعلیم تو دلانا ہی ہے اور اگر تھوڑ اسا اور خرچ کر کے آپ جماعتی اور قومی تربیت بھی دلا سکیں اور حضرت (خلیفتہ امسیح الثانی) کی خواہش پوری کر سکیں تو کس قدر خوش قسمتی کا موجب ہو.چنیوٹ میں ویسے رہائش اور خوراک پر خرچ بھی نہایت مناسب آئے گا کیونکہ ضروریات زندگی یہاں نسبتا ارزاں قیمت پر مہیا ہو سکتی ہیں.صحت کے لحاظ سے بھی یہ جگہ مناسب معلوم ہوتی ہے پاکستانی دوستوں کو تو اپنے بچوں کو یہاں بھجوانا کوئی خاص مشکل نظر نہیں آتا.اس لئے دوستوں کو اس طرح خاص طور پر توجہ دینی چاہئے سکول کے طلباء کی موجودہ تعداد نہایت ناتسلی بخش ہے اور مالی لحاظ سے سکول کو جاری رکھنا سراسر دشوار ہے.صدرانجمن پر پہلے ہی مالی بوجھ کافی ہے جو ضروری امور اس وقت تک جاری ہیں.ان میں سے سکول کو جاری رکھنا بھی قومی زندگی کیلئے از بس ضروری ہے لیکن اگر دوست اس فرض کی ادائیگی سے قاصر رہے اور انہوں نے فوری طور پر اپنے فرض کو نہ پہچانا تو اس کے نتائج کے وہ خود ذمہ دار ہونگے.روزنامه الفضل لاہور ۲۸ / نومبر ۱۹۴۷ ، صفحه ۵) ٹی آئی ہائی سکول چنیوٹ کے ابتدائی حالات چنیوٹ پہنچ کر مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول نے فوری طور پر تمام انتظام سنبھالا.مختلف اساتذہ کو ضروریات زندگی کی بہم رسانی پر مقرر کیا گیا.بعض کو راشن فراہم کرنے کیلئے اور بعض کو حصول مکانات پر مقرر فرمایا.اسی دوران میں سردیوں کیلئے لحاف،

Page 59

47 دریاں اور دیگر پار چات حاصل کئے گئے اور پھر پڑھائی شروع ہوئی.پہلے دن سکول میں صرف ۲۵ طلبہ حاضر تھے جن کیلئے نہ مکان کا انتظام تھا اور نہ ہی مناسب قیام کا.مگر رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ نے تو فیق عطا فرمائی اور ہمیں مکان رہائش کے لئے مل گئے.اس کے علاوہ ایک بلڈنگ بطور بورڈنگ بھی استعمال میں لائی گئی.ہیڈ ماسٹر صاحب کے احسن انتظام کے مطابق طلباء سکول اور بورڈنگ میں ہر روز وقار عمل کرتے اور فرش، دیواروں وغیرہ کی مکمل صفائی کرتے.آہستہ آہستہ طلباء کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا.چنانچہ ایک ماہ کے بعد جب انسپکٹر صاحب محکمہ تعلیم کی طرف سے سکول کا معائنہ ہوا تو طلباء کی تعدادا تھی اور اس کے علاوہ طلباء کی محنت اور پڑھائی بھی اسی ذوق شوق کے ساتھ جاری تھی.انسپکٹر صاحب نے معائنہ پر اطمینان کا اظہار کیا.جناب ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ نے ہمیں سکول کیلئے اینٹیں اور عمارتی لکڑی عطا فرمائی.جس سے طلباء کیلئے عارضی طور پر پیچ بنوائے گئے اور کچھ کرسیاں اور میزیں بھی بنوائی گئی.اس کے علاوہ محکم تعلیم کی طرف سے مبلغ ۵۰۰۰ روپیہ بطور امدادی گرانٹ بھی عطا ہوا.آخر اپریل میں طلباء کی تعداد ۲۲۵ ہوگئی اور بورڈنگ کی تعداد بھی ۱۰۰ کے لگ بھگ ہوگئی.الفضل میں اور خطوط کے ذریعے سے والدین کو توجہ دلائی گئی کہ وہ اپنے لڑکوں کوتعو الاسلام ہائی سکول میں تعلیم کیلئے بھیجیں.اس کا بفضل خدا خاطر خواہ نتیجہ ہوا.چنانچہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعداد طلبہ ۳۰۰ سے زائد ہو چکی ہے اور روز بروز بڑھ رہی ہے چونکہ طلباء کی تعداد شروع میں نسبتا کم تھی اور بجٹ میں بھی کئی مدات کی تخفیف کی گئی تھی اس لئے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے نصف سے زیادہ سٹاف کو تخفیف میں لایا گیا.گوان اسا تذہ کی خدمات کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے ہم نے یہ وعدہ بھی کیا کہ انہیں انشاء اللہ تعالیٰ عند الضرورت واپس بلا لیا جائے گا.اب ان میں سے بعض اساتذہ کو واپس بلایا جا رہا ہے.اس موقعہ پر نظارت خصوصاً سید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول ، چوہدری عبدالرحمن صاحب بی اے بی ٹی سپرنٹنڈنٹ، سید سمیع اللہ شاہ صاحب بی اے بی ٹی، ماسٹر محمد ابراہیم صاحب بی اے بی ٹی، مکرم صوفی محمد

Page 60

48 ابراہیم صاحب بی ایس سی کا شکر یہ ادا کرتی ہے کہ انہوں نے سکول کو کامیاب بنانے میں ان تھک کوشش کی اور طلباء کو ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچاتے رہے.ٹی آئی سکول ترقی کی منازل پر ہیں:.(سالانہ رپورٹ صدرانجمن احمد یہ ۴۸.۱۹۴۷ء صفحہ ۱۴۵) مکرم و محترم عبدالسلام اختر صاحب ایم.اے سابق نائب ناظر تعلیم و تربیت تحریر کرتے گذشتہ سال سکول کی طرف سے ۲۴ طالب علم میٹرک کے امتحان میں شریک ہوئے تھے جن میں سے ۲۳ کامیاب ہوئے.اور نتیجہ ۹۲ فیصدی رہا.اس سال ۶۴ طلباء میٹرک کے امتحان میں شریک ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کے طفیل ۶۱ طلباء کامیاب ہوئے.گویا نتیجہ۳.۹۵ فیصدی رہا اور صوبہ بھر میں فیصدی کے لحاظ سے بفضلہ بہترین نتیجہ رہا.جہاں ۲۶ لڑ کے فرسٹ ڈویژن میں ۲۹ سیکنڈ ڈویژن اور صرف ۶ تھرڈ ڈویژن میں کامیاب ہوئے وہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہر ایک طالب علم کو یو نیورسٹی کی طرف سے وظیفہ بھی ملا ہے.اس شاندار نتیجے پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے ہیڈ ماسٹر سکول سٹاف اور طلباء کو بذریعہ تارمبارکباد موصول ہوئی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے رتن باغ سے اور امیر صاحب جماعت احمدیہ قادیان نے قادیان سے اپنی طرف سے اور درویشوں کی طرف سے مبارکباد کے خطوط بھی لکھے.جزا ہم اللہ احسن الجزاء.“ (سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ ۴۹.۱۹۴۸ء صفحہ ۳۸.۳۹) انسپکٹر آف سکولز کے شاندار تاثرات ۲۲ فروری ۱۹۴۸ء کو انسپکٹر آف سکولز ملتان نے ٹی آئی سکول چنیوٹ کا معائنہ کیا اور ذیل کی رپورٹ پیش کی.

Page 61

49 وو میں نے ۲۲ فروری کو مقامی اے.ڈی.آئی آف سکولز کی معیت میں تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ کا ایک مختصر سا معائنہ کیا.قادیان کا یہ سکول گورنمنٹ کی آبادی کاری کی سکیم کے ماتحت ماہ نومبر میں ایم.بی.ڈی ہائی سکول چنیوٹ کی متروک عمارت میں منتقل کیا گیا.یہ عمارت غیر مسلم پناہ گزینوں کی مشرقی پنجاب کو روانگی سے پیشتر ان کی عارضی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیر مسلم یہاں سے نکلنے سے پہلے اس کی احاطہ کی دیوار، فرنیچر سکول کی آسائش و آرائش کی چیزیں ، سائنس کا سامان، لائبریری کی کتب بلکہ اس کے تمام دروازے اور کھڑکیوں تک کو یا تو تباہ و برباد کر گئے یا جلا کر راکھ کا ڈھیر کر گئے.چنانچہ جب یہاں تعلیم الاسلام کا ہائی سکول جاری ہوا تو یہ عمارت نا قابلِ استعمال تھی.سکول والوں نے جناب ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ کی خدمت میں مالی اور دیگر امداد کی درخواست کی تاکہ اس عمارت کو اس کی اصلی حالت پر لا کر اسے مفید مطلب بنایا جائے.صاحب موصوف نے از راہ مہربانی فراخدلی سے امداد کی.چنانچہ یہ امر باعث مسرت ہے کہ اس سکول کے ہیڈ ماسٹر ( سید محمود اللہ شاہ صاحب ) اور ان کے عملہ کی مساعی اور مؤ ثر نگرانی کے طفیل اب سکول کی ہر چیز با سلیقہ نظر آتی ہے اور جماعتوں میں تعلیمی کام باقاعدگی سے جاری ہو چکا ہے.مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ سکول میں اس کے پرانے اور تجربہ کار ہیڈ ماسٹر سید محمود اللہ شاہ صاحب بی.اے بی ٹی کی مؤثر نگرانی میں عمدہ تعلیمی کام ہو رہا ہے اور سکول کا سٹاف بے نفسی سے ایک منظم اور منضبط ٹیم کی طرح ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے سکول کی تعلیمی حالت کو بلند کرنے اور اعلیٰ ترین معیار پر لانے کی کوشش کر رہا ہے اس سکول کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہاں دینیات ایک لازمی مضمون قرار دیا جاتا ہے اور دینی علوم کی تعلیم سکول کا ایک اہم تعلیمی حصہ ہے یہ امر قابلِ ستائش ہے کہ قرآن کریم ناظرہ پرائمری تک اور با ترجمہ ہائی تک ختم کروایا جاتا ہے یہاں تک کہ جب اس سکول کے طلبا آخری امتحان سے فارغ ہو جاتے ہیں تو انہیں کلام الہی کے مطالب پر اچھا خاصہ عبور حاصل ہو چکا ہوتا ہے.

Page 62

50 سکول میں باقاعدہ طور پر ورزشی کھیلیں کھلائی جاتی ہیں اور لڑکوں کی صحت اور اخلاقی معیار بلند کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دی جاتی ہے.الغرض سکول با قاعدگی اور تنظیم سے چلایا جا رہا ہے اور اس میں بہت مفید کام ہورہا ہے مجھے یقین ہے کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب یہ سکول ان تمام مشکلات پر جن سے مشرقی پنجاب کے مہاجر سکولوں کو پاکستان میں قائم ہونے پر دو چار ہونا پڑا ہے مکمل طور پر قابو پالے گا اور اپنی پرانی شاندار روایات کو از سر نو قائم کر لے گا.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سکول کو پیش از پیش ترقی کے مقام پر پہنچائے وو ( قاضی ) عبدالرحمن انسپکٹر آف سکولز ملتان ڈویژن الفضل لا ہور ۲۸ مارچ ۱۹۴۸ صفحه ۵ ) یہ ادارہ ہمارے قومی رہنما پیدا کرنے کا موجب ہوگا“ روز نامہ الفضل اپنی اشاعت میں لکھتا ہے کہ:- مورخہ ۸ دسمبر ۱۹۴۸ء کو جناب ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس مغربی پنجاب بمعہ سپر نٹنڈن چنیوٹ تشریف لائے.مکرم جناب سید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کی درخواست پر آپ ہمارے سکول میں بھی تشریف لائے.آپ کے ہمراہ علاوہ دیگر احباب کے جناب سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی تھے.آپ نے ہائی کلاسز کے طلباء کی رائفل پریڈ ملاحظہ فرمائی اور اسے دیکھ کر نہایت خوش ہوئے.طلباء کا جوش اور انہماک اس درجہ قابل قدر تھا کہ آپ نے پریڈ ختم ہونے پر مندرجہ ذیل ریمارکس سکول کی ریکارڈ بک پر درج فرمائے." آج مجھے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قومی رضا کاروں کی پریڈ سکول کے میدان میں دیکھ کر بہت مسرت ہوئی ہے.لڑکوں کا جوش ایسا ہے جو حقیقت دین کا طرہ امیتاز ہے.میری دعا ہے بلکہ یقین ہے کہ یہ ادارہ ہمارے قومی رہنما پیدا کرنے کا موجب ہوگا.میرے علم میں اور کوئی ایسا سکول نہیں جس کا ریکارڈ اتنا قابل فخر اور اتنا شاندار ہوگا.“ روزنامه الفضل لاہور ۱۴ / دسمبر ۱۹۴۸ صفحه ۴)

Page 63

51 حضرت مصلح موعود نو ر اللہ مرقدہ کی تشریف آوری ۲۵ / مارچ ۱۹۴۹ کو ربوہ سے واپس لاہور تشریف لاتے ہوئے اساتذہ اور طلباء جماعت دہم کی درخواست پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی) چھ بجے شام کے قریب تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں ان سے ملاقی ہوئے.اساتذہ کو مصافحہ کا شرف بخشا.میٹرک کلاس جو آج کل امتحان دے رہی ہے اس کے اور سکول کے متعلق کوائف دریافت فرمائے اور طلباء پر نگاہ شفقت ڈال کر ان کے لئے حاضرین سمیت جو بہت بڑی تعداد میں احاطہ سکول میں جمع ہو چکے تھے دعا فرمائی.چنیوٹ کے احمدی تمام بچے مستورات اور مرد جنہیں ایک مدت کے بعد حضور کی زیارت نصیب ہوئی تھی ، بہت ہی محظوظ ہوئے.(روز نامه الفضل ۲۷ / مارچ ۱۹۴۹ء) حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں: اولڈ بوائز ٹی آئی ہائی سکول کی خدمت میں ایک گزارش قادیان میں ہمارا سکول جس قدر پر رونق اور محبوب تھا اس کی کیفیت سے آپ سب واقف ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس غرض کے لئے ہمارے سکول کو جاری فرمایا اور پھر جس حد تک حضور علیہ السلام کی خواہش کو آپ کے اس سکول نے پورا کیا وہ بھی آپ حضرات کو معلوم ہے قادیان سے ہجرت کے بعد آپ کا یہ پیارا سکول چنیوٹ میں آ کر آبادہو ااور بے سروسامانی اور کسمپرسی کے عالم میں اساتذہ اور طلباء نے اپنے سکول کے بنیادی اصولوں کو مشعلِ راہ بنائے رکھا.وہ سکول کی عام اخلاقی اور تعلیمی حالت اور ہماری مخصوص لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے پسندیدہ فضا سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہماری حقیر کوششوں کو نوازا اور نتائج کے اعتبار سے بھی ہمیں مظفر ومنصور فر مایا.

Page 64

52 چنیوٹ میں ہم محض ہر اول دستہ کی حیثیت رکھتے تھے اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کے بورڈنگ ہاؤس کی تعمیر کا سوال زیر نظر ہے تا کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے ہمیں ”ربوہ“ کے ماحول اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے قرب کی سعادت نصیب ہو سکے.ان عمارتوں کی تکمیل کے لئے کم و بیش اڑھائی تین لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اور یہ امر ظاہر ہے کہ صدرانجمن احمدیہ کی مالی حالت سر دست اس رقم خطیر کی متکفل نہیں ہو سکتی.لیکن ہمارا ربوہ پہنچنا جس قدر ضروری ہے اس کے پیش نظر صدر، صدر انجمن احمدیہ کی اجازت سے احباب جماعت اور اپنے سکول کے فارغ التحصیل دوستوں سے پُر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ خود اپنے سکول کے اخراجات پورا کرنے کا اہتمام فرما کر عنداللہ ماجور ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے بہت سے دوست ہمارے ہی سکول سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں محض اسی کے فضل سے مخیر افراد کی بھی کمی نہیں.ہمارے پرانے طلباء صرف پاکستان اور ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی موجود ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے عزت اور دولت کے مالک ہیں.چنانچہ مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ صرف مشرقی افریقہ میں بیسیوں ایسے معزز اولڈ بوائز“ موجود ہیں جوا کیلئے ان تمام اخراجات کا بوجھ اُٹھا سکتے ہیں.محترم ملک احمد حسین صاحب بیرسٹر ، ڈاکٹر احمد دین صاحب، محترم ڈاکٹر لال دین صاحب آف کمپالہ، محترم چوہدری محمد شریف صاحب اور عزیزم عبداللہ مصطفیٰ صاحب بیرسٹر اور مکرم شیخ صالح محمود صاحب اسی زمرہ احباب میں شامل ہیں.پس میں ان دوستوں کو اور ان کے علاوہ مشرقی افریقہ کے تمام مخلص احباب اور پاکستان اور بیرونی ممالک کے تمام اولڈ بوائز سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس کارخیر میں نہایت شرح صدر کے ساتھ حصہ لیں اور عطیات جلد ارسال فرما

Page 65

53 کر ممنون فرما دیں.میں انشا ءاللہ ہر عطیہ کا الفضل میں باقسط ذکر کرتار ہوں گا.بسم الله مجرها ومرسها ان ربي لغفور رحيم.“ ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ ) تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ریکارڈ کامیابی الفضل لا ہور۱۰ ؍ دسمبر ۱۹۴۹ ء صفحه ۶ ) ۱۹۵۲ء میں سکول ہذا کے طالب علم نے پنجاب بھر میں اول پوزیشن حاصل کی پوزیشن کے پہلے دس طلباء میں چار طلباء ٹی آئی سکول ربوہ کے طلباء شامل تھے.جس کا سہرا جہاں سٹاف ٹی آئی کو جاتا ہے وہاں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب خراج تحسین کے مستحق ہیں جن کی نگرانی میں اتنا اعلیٰ نتیجہ نکلا.۱۹۵۲ء کے نتائج کے اعداد شمار ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں: امسال سب سے زیادہ نمبر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ (سابق چنیوٹ ) کے طالب عمل منور احمد اور اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ ملتان کے طالب عمل محمد احسن مبارک نے حاصل گئے.یہ دونوں ہونہار طالب علم ۸۵۰ میں سے ۴۲ ۷ نمبر حاصل کر کے پنجاب بھر میں اوّل رہے.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ایک اور طالب علم سعید احمد خاں نے ۷۳۲ نمبر حاصل کر کے یو نیورسٹی میں تیسری پوزیشن حاصل کی.پھر تعلیم الاسلام ہائی سکول کو یہ امتیاز بھی حاصل ہوا کہ سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے پہلے دس طلباء میں اس کے چار طالب علم شامل ہیں.یہ سکول اس لحاظ سے بھی باقی تمام سکولوں پر سبقت لے گیا کہ اس کے چار طالب علموں نے سات سو سے زیادہ نمبر حاصل کئے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ پنجاب بھر کے سینکڑوں سکولوں کے ۳۱ ہزار طالب علموں میں سے صرف ۲۲ طلباء ایسے ہیں جنہوں نے ۷۰۰ سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں.ان بائیس ممتاز طلباء میں سے چار طالب علم تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیں کسی اور سکول کے سات سو سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد اتنی نہیں ہے.یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے چودہ طلباء فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئے.سکول کے نتیجے کی مجموعی شرح ۵۸.۷۵ فی صدی رہی.جبکہ یونیورسٹی کی شرح ۵۷.۵۲ فی

Page 66

54 صدی ہے.“ ( الفضل لا ہور ۱۷ رمئی ۱۹۵۲ صفحہ۱) حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کو سکول کا معیار بڑھانے کی کس قدر فکر تھی.باوجودیکہ آپ کا ادارہ یونیورسٹی میں نمایاں پوزیشن حاصل کر رہا تھا.آپ اس سکول کو بہت بلند دیکھنا چاہتے تھے اور بچوں کے والدین سے بھی ایسی ہی توقع رکھتے تھے.ذیل کی تحریر غالباً آپ کی آخری تحریر ہے.اس کے چھ ماہ بعد آپ کا وصال ہو گیا.آپ تحریر فرماتے ہیں.ٹی آئی سکول میں دوست اپنے ذہین بچوں کو بھی بھجوائیں اس میں شک نہیں کہ تعلیم کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھنا اور یونیورسٹی میں پوزیشن حاصل کرنا ہمارا نصب العین اور دوستوں کی زبردست خواہش ہے.لیکن امسال دوستوں کی اس خواہش کو پورا کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں.کیونکہ اس وقت تک جو نئے طلباء ہمارے ہاں آکر داخل ہوئے ہیں ان کی تعلیمی حالت نا گفتہ بہ ہے.ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ یو نیورسٹی میں کوئی پوزیشن حاصل کر سکیں گے ایک خام خیال ہے.پوزیشن در کنار ان کا محض پاس ہونا ہی کارے دارد والا معاملہ ہے.گویا اب تک احباب جماعت نے صرف کمزور ہی کمزور بچے بھیج کر بجائے سکول کا نام روشن کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کرنے کے الٹا ہمارے لئے دردسری کا سامان مہیا کر دیا ہے.اس لئے اب میں ایسے دوستوں سے جن کے بچے نسبتاً ہو نہار ہیں یہ درخواست کرنے کی جرات کرتا ہوں کہ وہ بھی اپنے سکول کی طرف توجہ فرمائیں اور اپنے ایسے بچوں کو جن میں ہماری توجہ اور محنت سے فائدہ اُٹھانے کی اہلیت موجود ہو.ان کو بھی ہمارے پاس بھجوائیں.ہم ایسے والدین کو جن کے بچے تعلیم میں اچھے ہوں.یقین دلاتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے بچوں کو ان کی موجودہ حالت سے بہت زیادہ بہتر بنا سکتے ہیں.الا ماشاء اللہ انہیں خود بھی یہاں آنے سے فائدہ ہوگا اور ان کا اپنے قومی ادارہ پر احسان مزید براں ہو گا.ہونہار بچے ہی ہماری ڈھارس ہو سکتے ہیں.لیکن افسوس ہے کہ دوستوں کی بے توجہی کی وجہ سے ہونہار عنصر کا یہاں فقدان ہے حالانکہ ذہین بچے ہی قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں اور ان پر سلسلہ کا حق فائق ہے.(افضل لاہور سے جون ۱۹۵۲ صفحیم)

Page 67

باب پنجم 55 سیرت و اخلاق

Page 68

56 56 کسی بھی شخص کی سیرت و اخلاق کے بارہ میں لکھنا بہت مشکل امر ہوتا ہے.انسان کی اصل سیرت اس کا خدا جانتا ہے یا وہ خود.ایک حد تک دوسرے جاننے والے اندازہ کر سکتے ہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے بزرگان ہمیشہ ہی عاجزی وانکساری میں زندگی گزارتے رہے ہیں.چونکہ زیادہ احباب کے حالات ضبط تحریر میں نہیں لائے جاتے اس وجہ سے ان کی بیشتر خوبیاں اور قابل تقلید نمونے پر دہ اختفاء میں رہ جاتے ہیں.اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کے اعلیٰ اخلاق کے نمونے ہمیشہ زندہ رکھے جائیں اور اس مقصد کیلئے ان کے سوانح اکھٹے کرنا ناگزیر ہوتا ہے.سیرت و سوانح نگاری کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ بات ظاہر ہے کہ جب تک کسی شخص کے سوانح کا پو را نقشہ کھینچ کرنہ دکھلایا جائے تب تک چند سطریں جو اجمالی طور پر ہوں کچھ بھی فائدہ پبلک کو نہیں پہنچا سکتیں اور ان کے لکھنے سے کوئی نتیجہ معتد بہ پیدا نہیں ہوتا.سوانح نویسی سے اصل مطلب تو یہ ہے کہ تا اس زمانے کے لوگ یا آنے والی نسلیں، ان لوگوں کے واقعات زندگی پر غور کر کے کچھ نمونہ ان کے اخلاق یا ہمت یا زہد و تقویٰ یا علم ومعرفت یا تائید دین یا ہمدردی نوع انسان یا کسی اور قسم کی قابل تعریف ترقی کا اپنے لئے حاصل کریں اور کم سے کم یہ کہ قوم کے اولوالعزم لوگوں کے حالات معلوم کر کے اس شوکت اور شان کے قابل ہو جائیں ، جو ( دین ) کے عمائد میں ہمیشہ سے پائی جاتی رہی ہے تا اس کو حمایت قوم میں مخالفین کے سامنے پیش کر سکیں اور یا یہ کہ ان لوگوں کے مرتبت یا صدق اور کذب کی نسبت کچھ رائے قائم کرسکیں اور ظاہر ہے کہ ایسے امور کے لئے کسی قدر مفصل واقعات کے جاننے کی ہر ایک کو ضرورت ہوتی ہے.اور بسا اوقات

Page 69

57 ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک نامور انسان کے واقعات پڑھنے کے وقت نہایت شوق سے اس شخص کے سوانح کو پڑھنا شروع کرتا ہے اور دل میں جوش رکھتا ہے کہ اس کے کامل حالات پر اطلاع پا کر اس سے کچھ فائدہ اٹھائے.تب اگر ایسا اتفاق ہو کہ سوانح نویس نے نہایت اجمال پر کفایت کی ہو اور لائف کے نقشہ کو صفائی سے نہ دکھلایا ہو تو یہ شخص نہایت ملول خاطر اور منقبض ہو جاتا ہے اور بسا اوقات اپنے دل میں ایسے سوانح نولیس پر اعتراض بھی کرتا ہے اور درحقیقت وہ اس اعتراض کا حق بھی رکھتا ہے کیونکہ اس وقت نہایت اشتیاق کی وجہ سے اس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ جیسے ایک بھوکے کے آگے خوان نعمت رکھا جائے اور معاً ایک لقمہ اٹھانے کے ساتھ ہی اس خوان کو اٹھا لیا جائے.اس لئے ان بزرگوں کا یہ فرض ہے جو سوانح نویسی کے لئے قلم اٹھاویں کہ اپنی کتاب کو مفید عام اور ہر دل عزیز اور مقبول انام بنانے کے لئے ، نامور انسانوں کے سوانح کو صبر اور فراخ حوصلگی کے ساتھ اس قدر بسط سے لکھیں اور ان کی لائف کو ایسے طور سے مکمل کر کے دکھلاویں کہ اس کا پڑھنا ان کی ملاقات کا قائم مقام ہو جائے تا اگر ایسی خوش بیانی سے کسی کا وقت خوش ہو تو اس سوانح نویس کی دنیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے دعا بھی کرے اور صفحات تاریخ پر نظر ڈالنے والے خوب جانتے ہیں کہ جن بزرگ محققوں نے نیک نیتی اور افادہ عام کے لئے قوم کے ممتاز شخصوں کے تذکرے لکھے ہیں، انہوں نے ایسا ہی کیا ہے.66 (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۵۹-۱۶۲) سیرت و سوانح کے بارہ میں ایک بزرگ ادیب اور سید نا حضرت اقدس علیہ السلام کے فرزند اکبر خان بہادر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: عجب دلچسپ نقشه عالم ایجاد رکھتا ہے جو آنکھیں دیکھ لیتی ہیں اُسے دل یا د رکھتا ہے

Page 70

58 ”سوانح عمریوں کی اس واسطے بھی کمی ہے کہ لوگ لکھنے اور ترتیب دینے کے وقت خیالی وجوہات اور علائق کو ضمیمہ بنا لیتے ہیں.یہ اصول قرار دینا کہ لائف میں ہمیشہ اچھائیاں ہی دکھائی جاویں یا یہ کہ لائف ایک بڑے آدمی ہی کی لکھی جاوے، ناقص اصول ہے.جب عموماً سوائے اخص کے کوئی لائف بھی کمزوریوں اور نقائص سے خالی نہیں تو پھر یہ ادعا کہ ہمیشہ ایک شخص کی لائف میں نیکیاں یا کامیابیاں ہی دکھائی جاویں ایک غیر ممکن امر کی وو آرز وکرنا ہے.“ بڑے بڑے لوگوں کی سوانح عمریاں گو اپنے نام اور اپنے ذاتی جبروت اور عظمت کے اعتبار سے کیسی ہی مشہور ہوں.لیکن ان سے زیادہ تر ان لوگوں کی سوانح عمری قابل حرمت اور قابل استناد ہے جو اپنی مدد آپ کا نمونہ ہیں.اور جن کی ابتدائی زندگی اخیر زندگی کے مقابلے رات اور دن یا ظلمت اور نور کا فرق رکھتی ہے.ہمیشہ بڑے بڑے واقعات سے ہی دلچسپ اور حیرت خیز نتیجے نہیں نکلا کرتے بعض اوقات معمولی اور چھوٹے چھوٹے قضایا بھی بڑے بڑے نتیجوں کا موجب ہو جاتے ہیں.غور کرنے والا دل اور سوچنے والا دماغ چاہئے.نتیجہ خیز باتوں سے نتیجہ نکل ہی آتا ہے.الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو (خیالات یعنی مجموعہ مضامین مختلفہ، باراول، لاہور: رفاہ عام اسٹیم پریس، جون 1907ء) اس باب میں حضرت شاہ صاحب کی سیرت و شخصیت کے بارہ میں آپ کے دوست احباب، رشتہ دار اور بعض بزرگان کے جو تاثرات و آراء دستیاب ہوسکیں، ان کا ایک حصہ نیز آپ کی زندگی میں رونما ہونے والے چیدہ چیدہ واقعات اور آپ کے بعض شاگردوں کے انٹرویوز پیش کئے جارہے ہیں.

Page 71

509 59 اطاعت خلافت مکرم و محترم شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم مربی مشرقی افریقہ، انگلستان و امریکہ نومبر ۱۹۳۴ء میں نیروبی کیلئے روانہ ہوئے.اس کے بارہ میں آپ اپنی خود نوشت سوانح حیات میں تحریر کرتے ہیں.روانگی سے قبل حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے انصر خلافت میں ملاقات کا شرف حاصل کیا.دعا اور حضور کی ہدایت سے محفوظ اور مستفیض ہوا.اس ملاقات میں بعض اور باتوں کے حضور نے اس عاجز سے یہ بھی فرمایا.پتلون نہیں پہنی اور مزید یہ ارشاد کہ آج کل سید محمود اللہ شاہ صاحب رخصت پر آئے ہوئے ہیں وہ میری کوٹھی پر ٹھہرے ہوئے ہیں ان سے مل لینا“.حضرت شاہ صاحب کئی سالوں سے نیروبی میں رہ رہے تھے.وہاں کے حالات وکوائف سے خوب واقف تھے.پانچ سال بعد چھ ماہ کی رخصت پر آئے تھے.خاکسار حضور کی ملاقات سے فارغ ہو کر سیدھا محلہ دارالا نوار حضور کی کوٹھی پر جا پہنچا اورمحترم شاہ صاحب سے ملاقات کی.ابتدائی گفتگو کے بعد انہیں بتایا کہ خاکسار کو نیروبی جانے کی ہدایت ہے اور حضور سے ابھی مل کر آ رہا ہوں.حضور نے ہی بتایا کہ آپ نیروبی سے رخصت پر آئے ہوئے ہیں اور حضور نے یہ بھی فرمایا کہ آپ سے مل لوں.جونہی انہیں یہ بتایا کہ خاکسار کی تقرری بطور (مربی) نیروبی کیلئے ہوئی ہے یہ سنتے ہی شاہ صاحب نے فرمایا ”چار پانچ سوٹ سلوالیں.انگریزوں کی حکومت ہے اور کینیا کالونی ہے.لباس وغیرہ کا ان لوگوں کو خاص احساس ہوتا ہے.ان سے یہ سن کر خاکسار نے شاہ صاحب کو بتایا کہ ابھی حضور سے مل کر آ رہا ہوں اور حضور نے تو یہ مجھے ہدایت فرمائی ہے.” پتلون نہیں پہنی، حضور کے اس ارشاد کوسن کر شاہ صاحب خاموش ہو گئے.ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا.ویسے شاہ صاحب تپاک سے ملے اور خاکسار کی تقرری پر اطمینان کا اظہار فرمایا“.کیفیات زندگی خود نوشت سوانح حیات شیخ مبارک احمد صاحب صفحه ۵۵-۵۶)

Page 72

60 با اخلاق بزرگ حضرت سیدہ خیر النساء صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کا وصال جنوری ۱۹۶۲ء میں ہوا.آپ کے وصال پر ایک مضمون میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے حضرت شاہ صاحب کی بابت تحریر کیا: وو چوتھے فرزند اس مقدس جوڑے کے حضرت حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب تھے.جو نہایت با اخلاق بزرگ تھے.آپ نہ صرف خدا تعالیٰ کے ساتھ عشق و محبت کا خاص تعلق رکھتے تھے بلکہ خیر خواہی خلق کا جذ بہ بھی اعلیٰ درجہ کا پایا جاتا تھا.آپ کی محبت کا حلقہ بہت وسیع تھا.بزرگوں کا ادب کرنا اور چھوٹوں پر شفقت کرنا آپ کا خاصا تھا.آپ کی دعاؤں کے صدقے آپ کے بیٹے بھی نیک اور پارسا ہیں.ان میں ایک خوش بخت وہ بھی ہیں جن کے نکاح میں حضرت المصلح الموعود نے اپنی ایک لخت جگر دے دی.اور اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو چھ بچے عطا فرمائے.“ (الفضل ر بوه ۳ فروری ۱۹۶۲ء)

Page 73

61 حضرت شاہ صاحب کے نمایاں کارنامے مکرم و محترم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب بی.اے ٹی آئی ہائی سکول ربوہ جنہیں ایک لمبا عرصہ قادیان اور ربوہ میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کے ساتھ خدمات بجالانے کا موقعہ ملا.آپ حضرت شاہ صاحب کی بابت اپنے تاثرات یوں تحریر کرتے ہیں.محترم حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب (ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ ) ۱۵ ؍ دسمبر ۱۹۵۲ء کو دل کی تکلیف سے بیمار ہوئے اور باوجود موجود الوقت ممکن طبی امداد کے میسر آنے کے اس حملہ کا مقابلہ نہ کر سکے اور ۱۶ دسمبر ۱۹۵۲ء کو پانچ بجے کے قریب راہی ملک عدم ہوئے.انا لله و انا اليه راجعون.اس حادثہ جانکاہ کے اتنا جلد بعد آپ کے متعلق لکھنا مجھے مشکل نظر آتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس فدائی مخلص کارکن اور ایک محسن شریک کار کی جدائی مجھ پر اس قدر شاق گزررہی ہے کہ یکسوئی اور دلجوئی سے آپ کا ذکر خیر اور آپ کے محاسن کو یکجا اور اکٹھا کرنا میرے لئے امر محال ہے.میں سردست اپنی طبیعت پر جبر کر کے محض دوستوں کے تقاضا پر جن کی اکثریت میرے رفقاء کار کی ہے.حصول ثواب کی خاطر کچھ اور جس ترتیب سے دماغ میں آتا ہے، سپرد قلم کر رہا ہوں.امید ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اُذْكُرُوا مَوْتَكُمْ بِالْخَيْرِ کے ماتحت ایسے بعض اور جماعت کے اہل قلم احباب جن کو سید محمود اللہ شاہ صاحب کو دیکھنے کا موقعہ ملا آپ کے اخلاق فاضلہ اور اوصاف کریمہ پر اپنے مخصوص شواہد پر مفصل روشنی ڈال کر احباب جماعت کو ممنون احسان فرما ئیں گے.میں صرف ان کا ایک ادنی شریک کار کی حیثیت سے اپنے اس اعلیٰ شریک کار کے متعلق چند جذبات اظہار کروں گا اور یہ زمانہ ۱۹۴۴ء سے ۱۹۵۲ ء تک محیط ہے.

Page 74

62 ٹی آئی سکول کیلئے خدمات حضرت (خلیفہ اسیح الثانی) کے ارشاد کے ماتحت محترم سید محمود اللہ شاہ صاحب نے نومبر ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ایسے وقت میں چارج لیا جب کہ سکول کے میدان میں وہ ایکا نمت اور ہم آہنگی موجود نہ تھی جو احمد یہ مرکزی سکول کا طرہ امتیاز ہونی چاہئے تعلیمی حالت ناگفتہ بہ نہیں تو معیار سے گری ہوئی ضرور تھی.اساتذہ کو آپس میں مربوط کرنا.ان کی صلاحیتوں کو سکول کیلئے مخصوص کرنا سکول کی گرتی ہوئی حالت کی سنبھالنا، سلسلہ سے طلباء اور اساتذہ کو کماحقہ وابستہ رکھنا، قوم کا ایک مفید اور کار آمد وجود بنانا ، اغیار کی نظروں میں باوقار بنانا ، یہ وہ امور تھے جن کی تعمیل کیلئے محترم سیدمحمود اللہ شاہ صاحب کا تقر عمل میں لایا گیا اور اس سلسلہ میں غیر معمولی کامیابی آپ کو حاصل ہوئی.اس سات سال کے مختصر عرصہ میں آپ نے سکول کو جس قدر بلندی اور کمال تک پہنچا دیا وہ آپ کی خداداد قابلیت پر دال ہے.بلکہ مقدار فیصدی اور کیفیت کے لحاظ سے اپنے آپ کو بہترین ثابت کر چکا ہے.پچانوے چھیانوے فیصدی نتیجہ دکھلانا اور یونیورسٹی میں پہلے سات طلباء میں سے چار طلباء پیدا کر دینا آپ کی ہی اعلی نگرانی اور خدا داد قابلیت کا نتیجہ ہے.مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے سکول میں کام کرتے ہوئے ۲۳ سال ہو چکے ہیں.میرے سارے عرصہ ملازمت میں افسران تعلیم نے سکول کے متعلق ایسی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا جس کا انہوں نے گذشتہ سال اپنی زبانی تقریروں میں اور تحریر الاگ بک میں کیا اور یہ شاہ صاحب کی مساعی اور دعاؤں کا نتیجہ ہے.اساتذہ کو مربوط کرنا شاہ صاحب کا اساتذہ کو مربوط کرنا اور ہمرنگ بنانا بھی آپ کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے.اتنا بڑا اور اس قدر پرانا سکول جس میں میں ہیں، تمھیں تمہیں سال کے پرانے تجربہ کار کارکن موجود ہوں ان سب کو ایک لڑی میں پروکر ایک دوسرے کا صحیح معنوں میں معاون اور مددگار بنا دینا اور ان میں ایک دوسرے سے سلسلہ کے مفاد کیلئے رشک کرنے کی صفت پیدا کر

Page 75

63 دینا آپ کی قابلیت پر دال ہے.خود کام کرنا اور بغیر طبائع پر بوجھ ڈالے ان سے کام لینا اور ہر ایک استعداد اور قابلیت کا پورا پورا فائدہ اٹھانا اور اس کو سلسلہ کیلئے مفید ترین وجود بنادینا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جو ہر شخص سے نہیں ہوسکتا.یہی وجہ ہے کہ اگر چہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی سلسلہ کے اس ادارہ کو جن کو آپ کی وفات سے اس قد رسخت دھکا لگا ہے گرنے نہیں دے گا اور ہماری دستگیری فرمائے گا.لیکن بظاہر یہ خلا جو آپ کے انتقال سے پیدا ہو چکا ہے پُر ہوتا نظر نہیں آتا اور اس وقت جہاں ہمیں سید محمود اللہ شاہ صاحب کے بے وقت اور اچا نک جدا ہونے کا بے حد افسوس ہے اور ہم اپنے آپ میں اس نقصان عظیم برداشت کرنے کی طاقت نہیں پاتے جو ہمیں آپ کی ذات سے پہنچا ہے وہاں یہ خیال کہ آئندہ کام کس طرح چلے گا آپ کی جدائی کو اور بھی دوبھر بنا رہا ہے.آہ! وہ عابد، خلیق اور ہمدرد انسان جو ہر کام شروع کرنے سے پہلے دعا کرے اور ہر استاد کو جو آپ کو کسی کام میں مشورہ دے یہی کہے کہ میں بھی دعا کرتا ہوں آپ بھی دعا کریں کہ اگر یہ بات سلسلہ کیلئے بہتر ہے تو ہو جائے.وہ شخص جس نے ہر رفیق کار کو اس کے اپنے حلقہ عمل میں مکمل آزادی دے رکھی ہو جس کے ساتھ کام کرنا ہر کوئی باعث عزت اور فخر خیال کرتا ہو.ایسے انسان کی موت کے صدمہ پر انسان کا قابو پانا بہت ہی مشکل ہے.آپ کی زندگی اپنے فرائض کی تکمیل کیلئے وقف تھی.دن ہو یا رات ہوسکول کے اوقات ہوں یا رخصت کا وقت ہر وقت سکول اور سلسلہ کی بہتری کیلئے آپ کی ذات گرامی سے استفادہ کیا جا سکتا تھا.آپ کو بلڈ پریشر کی تکلیف تھی اور دل میں درد رہتا تھا اور یہ تکلیف مالا طاق ہو رہی تھی لیکن آپ نے اس کی مطلقا پرواہ نہ کی.آخری تین چار روز میں یہ تکلیف زیادہ تھی.بار بار دل پر ہاتھ رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ ٹیں پڑتی ہے.میں نے بھی عرض کیا اور میرے ساتھیوں نے بھی کہا کہ آپ گھر پر آرام کریں یہاں کام تو ہوہی رہا ہے.لیکن یہی فرمایا کہ کوئی بات نہیں.تکلیف تو رہتی ہی ہے.ہم اپنا کام کیوں چھوڑیں.چنانچہ متواتر سکول میں آتے رہے اور اپنا فرض منصبی ادا کرتے رہے اور آپ کی وجہ سے سکول کی رونق اور برکت قائم رہی مشورہ لینے

Page 76

64 والے دوست آتے.نہایت محبت اور اخلاص سے انہیں ملتے.اُٹھ کر سلام کرتے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتے.بیٹھنے کو کہتے پھر خود بیٹھتے.حاجت مند کی بات پوری توجہ اور ہمدردی سے سنتے اور اس کو ضروری امداد اور مشورہ سے مستفیض فرماتے.یہاں تک کہ ملاقاتی کی تسلی ہو جاتی.آخری دن کی ملاقاتیں ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جو آپ کے ماتحت کارکن اور بیرونی احباب پر مشتمل ہوتا متواتر جاری رہتا.آپ اپنے فرائض منصبی بھی ادا کرتے جاتے اور نہایت خندہ پیشانی سے دوسروں سے بات بھی جاری رکھتے.چہرہ پر تقسم کھلتا رہتا اور آپ کی محفل گرم رہتی.آپ کا زمانہ ہمارے لئے ایک مشترک اور اخلاقی حکومت کا عہد تھا.جو ہم میں سے کسی ایک پر بھی دوبھر نہ تھا.وہ خود بھی فرماتے اور ہم بھی یہی سمجھتے کہ ہم میں سے ہر ایک ہی ہیڈ ماسٹر ہے.آخری روز ۱۵ / دسمبر کو جب آپ کو بیماری کا حملہ ہوا اس روز بھی سکول میں تشریف لائے.صبح اسمبلی لی اور معمول سے زیادہ لمبی نصائح کیں.اتفاق سے وہ حدیث جو اس روز سنائی گئی.بنی نوع انسان سے ہمدردی کے متعلق تھی.یہ چیز خود آپ کو مرغوب تھی.آپ اس پر عامل تھے اور تخلقوا باخلاق اللہ کے مظہر تھے.اس کی مفصل تشریح کی.سارا وقت سکول میں رہے اور فرائض منصبی کی سرانجام دہی کے بعد مکان پر تشریف لے گئے.مجھے تو آپ سکول کے ایک کام کے سلسلہ میں لاہور بھجوا چکے تھے.ہاں محترم صوفی محمد ابراہیم صاحب کا بیان ہے کہ جب وہ بارہ بجے کے قریب آپ کے مکان پر پہنچے تو بیماری کا حملہ ہو چکا تھا اور نبض کی حرکت بند ہو رہی تھی.کمرے میں اکیلے لیٹے تھے.جب صوفی صاحب پہنچے تو فرمایا کہ میں تو اب ختم ہو رہا ہوں.آپ میری طرف سے تمام اساتذہ اور طلباء سے کہہ دیں کہ اگر کسی کو میری طرف سے کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہو تو وہ مجھے معاف کر دے.اس فقرہ کو تین دفعہ دہرایا اور تسلی کر لی کہ ان کا یہ پیغام صوفی صاحب نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے.اللہ اللہ ! وہ انسان جس نے کبھی کسی کا دل نہ دکھایا ہو اس قدر نیک نیت اور بے ضرر ہو جس نے ہر کام حصول ثواب کی خاطر کیا ہو.اسے اس بات کا بھی کس قدر احساس ہے کہ فرائض منصبی کی بجا آوری کرتے ہوئے بھی

Page 77

65 اگر کبھی کسی کو آپ سے تکلیف پہنچی ہو تو وہ اسے معاف کر دے یا اسی دوران میں مکرم صوفی غلام محمد صاحب سے فرمایا کہ زندگی کی خواہش نہیں ہاں خاتمہ بالخیر کی آرزو ہے.دعا کریں که انجام بخیر ہو.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جنازہ سے ہی اندازہ کیجئے.ربوہ کے کم و بیش تمام مرد اس میں شامل ہوئے.چنانچہ حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا) کے جنازہ کے بعد میرے علم میں اس سے پہلے ربوہ میں کسی جنازہ پر اس قدر دوست جمع نہیں ہوئے اور یہ آپ کے اخلاق اور نیکی کا نتیجہ ہے.بدقسمتی سے میں تو اس دن لاہور تھا.میرے دوسرے دوست آخری بیماری کے روز کی کیفیت پر زیادہ اچھی طرح روشنی ڈال سکیں گے مجھے تو صرف یہ معلوم ہے کہ جب میں سات بجے شام لاہور سے واپس آیا تو مجھے اپنے گھر پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ شاہ صاحب کو آج سخت دورہ پڑا رہا ہے.چنانچہ میں مکان پر حاضر ہوا جا کر دیکھا تو بہت تکلیف میں تھے.محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب آپ کے بڑے بھائی، رفیق کار ماسٹر محمد ابراہیم صاحب ناصر.ایک کمپونڈ ر اور سکول کا ایک کارکن کمرے میں موجود تھے.میں نے اندر داخل ہوتے ہی السلام علیکم کہا.آپ کو معلوم ہوا کہ میں ہوں.اس قدر شدید تکلیف میں مصافحہ کرنے کیلئے ہاتھ بڑھایا اور پوچھا کہ بتلائیے جس کام گئے تھے کر آئے ہیں نا.کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی.میں نے بتلایا کہ الحمد للہ سب کام کر آیا ہوں.پھر میرے سامنے قے ہوئی اور درد بڑھ گیا.نوکر کو آواز دی کہ میری ٹانگ دبائے.میں نے بھی ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن منع کر دیا کہ نہیں نہیں آپ نہیں.خود یا عزیز یا رفیق برحمتک استغیث پڑھتے رہے اور مجھے فرمایا کہ اب آپ گھر جا کر آرام کریں آپ کی صحت بھی اچھی نہیں.آپ سفر سے آئے ہیں کوفت ہو گی.میں نے ٹھہر نا چاہا لیکن اصرار کیا کہ میں اپنے گھر چلا جاؤں.ناصر صاحب نے مجھے توجہ دلائی کہ الامر فوق الادب.چارونا چار میں مصافحہ کر کے دعائیں لیتا اور دیتا گھر آ گیا.پس یہ میری آخری ملاقات تھی.جس کے نقوش میرے دماغ پر ہمیشہ تازہ رہیں گے.اس ایک مثال سے واضح ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنی تکلیف کا خیال مؤخر اور اپنے ساتھیوں

Page 78

66 کے اکرام کا خیال مقدم تھا اور یہ بھی کہ اس قدر تکلیف اور درد کی شدت میں بھی سکول کے کام کے متعلق رپورٹ لینا دماغ سے نہیں اترتا تھا.فرض منصبی کی بجا آوری کا خیال اور یہی وہ انہماک ہے جس نے آپ کو شہادت کا درجہ دیا.کس قدر بلند اخلاق کا مالک اور بے نفس انسان تھا.اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے.چنیوٹ میں آپ کی نیکی کا اثر ہجرت کے بعد لاہور سے ہوتے ہوئے جب ہم چنیوٹ میں آئے تو اساتذہ اور طلباء کی مجموعی تعداد صرف ۳۴ تھی.ادھر ادھر سے احمدی طلباء ملا کر ہم نے چنیوٹ میں سکول کو اہ کی تعداد سے شروع کیا تھا جس میں اساتذہ بھی شامل تھے.ابتداء میں جس طرح خندہ پیشانی سے آپ نے بے سروسامانی اور مشکلات کا مقابلہ کیا اور احتباء اور طلباء کی رہبری فرمائی یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ چنیوٹ میں ہمارے قدم جم گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل.ہمارے سکول نے چنیوٹ کے پرانے سکولوں سے بھی زیادہ ناموری اور عزت حاصل کر لی اور آپ کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر غیر احمدی افسران اور معززین نے اپنے بچوں کو ہمارے سکول میں داخل کروا دیا.غیروں میں مقبول ہو جانا اور ان پر اپنے اخلاق کا سکہ بٹھا دینا شاہ صاحب کا ہی خاصہ تھا.انسان کی زندگی کے بعد تو اخلاق کا تقاضا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی ہے کہ ہم ہر انسان کو اچھا ہی سمجھیں اور صرف اس کی خوبیوں کا ہی تذکرہ کریں اور عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے.لیکن شاہ صاحب کا وجود ایسا تھا کہ اپنے اور غیر سبھی آپ کی زندگی میں ہی آپ کے مداح تھے.چنانچہ چنیوٹ کے غیر احمدی بھی جن کو آپ سے ملنے کا اتفاق ہوا آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور آپ کی زندگی میں ہی آپ کو نہایت تواضح اور محبت سے ملتے تھے.چنانچہ چودھری عبدالرحیم صاحب کلرک نے ذکر کیا کہ وہ ایک روز ایک کام کے سلسلہ میں چنیوٹ تحصیل میں گئے.آپ کا ذکر آیا تو وہاں خزانچی صاحب نے اپنے ایک غیر احمدی ساتھی سے کہا کہ یہ شاہ صاحب کی بات ہے.اس نے پوچھا کون سے شاہ صاحب! ان صاحب نے تعجب سے کہا سید محمود اللہ شاہ صاحب! آپ ان کو بھی نہیں جانتے وہ تو فرشتہ ہیں فرشتہ !!

Page 79

67 الغرض کوئی شخص خواہ جماعت اور سلسلہ کا کتنا ہی مخالف کیوں نہ ہو آپ کے اخلاق اور اخلاص کا معترف بلکہ مداح تھا اور سلسلہ کی اس طرح بلا واسطہ (دعوت الی اللہ ) جس خوبی اور احسن طور پر آپ کے وجود سے ہوئی اس کا اجر ہمیشہ آپ کو مالتارہ لگا.خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ بہت خوش گفتار اور جہاندیدہ تھے ہر مجلس پر چھا جاتے.محکمہ تعلیم کے انسپکٹر اور دیگر افسران جن سے تعلیم والے عام طور پر مرعوب ہوتے ہیں وہ خودشاہ صاحب کی مجلس میں بجائے باتیں سنانے اور مجلس پر چھانے کے ان کی طرف توجہ کرتے اور ان سے باتیں سننے پر مجبور ہوتے.ایک دفعہ متحدہ پنجاب کے زمانہ میں صوبہ کے ہیڈ ماسٹروں کی لدھیانہ میں ایک کانفرنس ہوئی آپ بھی شامل ہوئے.محترم میاں عبدالحکیم صاحب ہیڈ ماسٹر اسلامیہ ہائی سکول لاہور آپ کو طالب علمی کے زمانہ سے جانتے تھے.باوجود غیر از جماعت ہونے کے آپ کو دیکھتے ہی صدارت کے لئے آپ کا نام تجویز کر دیا اور دوسروں نے تائید کی.آپ کی اسی لیاقت اور ہر دلعزیزی کا ہی نتیجہ تھا کہ ایسویسی ایشن کا اگلا اجلاس قادیان میں ہی منعقد ہوا اور صوبہ بھر کے ہیڈ ماسٹر اس میں شریک ہوئے اور سلسلہ کے مرکز اور اس کے عہد یداروں سے متعارف ہوئے.باوجود اس کے طبیعت میں اس قدر استغنی اور بے نفسی تھی کہ کسی عہدہ یا اعزاز کو قطعاً قبول نہ کرتے.جب تک کہ خود دعا کر کے آپ کو اس بات کا یقین نہ ہو جاتا کہ اس میں سلسلہ کی بہتری ہوگی.ابھی پچھلے دنوں سکول بورڈ کا ممبر بننے کی طرف بعض دوستوں نے توجہ دلائی تو دوستوں کے احترام کی خاطر نامزدگی تو منظور کر لی.لیکن خود جد و جہد کرنا اور دوسروں سے متعارف ہونا گوارا نہ کیا.تالیف قلوب اور نے نفسی شاہ صاحب بلا کے ذہین اور زیرک انسان تھے.ابھی آپ نے بات کی ابتدا ہی کی ہو تفاصیل بیان نہ کی ہوں فورآبات کی تہ تک پہنچ جاتے اور تالیف قلب کرتے ہوئے اسی وقت آپ کے حسب منشاء جواب دے دیتے.اساتذہ کی کسی روز صحت خراب ہوتی ، دورانِ سکول آپ کے پاس کیفیت بیان کرنے جاتے.پہلا فقرہ ہی سنتے تو کہہ دیتے آپ گھر چلے

Page 80

68 جائیں اور آرام کریں میں انتظام کرلوں گا کام کا آپ فکر نہ کریں.بیرونی سکولوں کے ہیڈ ماسٹر الا ماشاء اللہ اپنے ماتحت اساتذہ سے مراعات اور خدمات کی توقع رکھتے ہیں اور ان کے وقت اور مال پر اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن یہ عجیب قسم کے انسان تھے خود دوستوں کی خدمت کرتے اور اپنی گرہ سے خرچ کر کے ان کو اپنا گرویدہ بناتے.آپ کی صحت بالعموم خراب رہتی تھی.زیادہ مغز ماری کرنا اور تفاصیل پر وقت ضائع کرنا آپ کے مفاد کے منافی تھا اور اصل نگرانی کے کام میں حارج ہوتا تھا.پچھلے سال ایک ایسا ہی مرحلہ پیش آیا جس کو سر انجام دینے کے لئے میں نے اپنی خدمات پیش کر دیں.مان لیا میں نے آپ کی ہدایات کے ماتحت اس کام کی تکمیل کی.لیکن جب معاوضہ کا وقت آیا تو میرے احتجاج کے باوجود اس کا اعزاز میری طرف منتقل کر دیا کس قدر بلند اخلاقی اور بے نفسی کا مظاہرہ ہے.رفقاء کار سے چشم پوشی اپنے رفقاء کار سے پورا پورا کام لینا جس تدبیر اور وسیع حوصلہ کو چاہتا ہے.شاہ صاحب کو نظم و ضبط قائم رکھنے کی خاطر اساتذہ سے بعض اوقات تختی بھی کرنا پڑتی اور میں محسوس کرتا ہوں کئی دفعہ آپ پر بیماری کے حملہ کا باعث ہماری ہی کوتاہی ہوتی.لیکن اساتذہ سے بالمشافہ ناراضگی کا اظہار کرنا شاذ کا حکم رکھتا تھا.آپ کا بالعموم فرائض کی طرف توجہ دلانے کا طریق نہایت ہی مستحسن تھا.ماسٹر عبدالرحمن صاحب بنگالی نے بتایا کہ وہ احمد نگر میں رہائش رکھنے کے باعث اکثر اوقات وقت پر سکول نہ پہنچ سکتے تھے.اس بے قاعدگی کا بعض دفعہ سکول کے انتظام پر بھی اثر پڑتا.لیکن آپ کے اخلاق کا کمال یہ تھا کہ بنگالی صاحب کی مجبوری کو پیش نظر رکھتے ہوئے کبھی زبان سے کچھ نہ کہا.شاہ صاحب خود بھی کچھ مدت ربوہ میں رہے اور سکول ابھی چنیوٹ میں ہی تھا.اتفاق سے ایک مرتبہ بنگالی صاحب اور شاہ صاحب ایک ہی بس سے چنیوٹ پہنچے.( بالعموم آپ ربوہ میں رہتے ہوئے بھی سکول سے آدھ گھنٹہ پہلے دفتر میں پہنچ جایا کرتے تھے ) بنگالی صاحب فرماتے ہیں.شاہ صاحب اڈا پر میرے ساتھ بس کا انتظار کر رہے تھے اور انہیں دیکھ کر کہا کہ آپ اپنا کام ختم کر لیں.میں آپ کی جگہ کوئی اور انتظام کر دیتا

Page 81

69 ہوں.انہی چشم پوشی اور عفو اور درگذر کی صفات حسنہ نے ہی آپ کو سٹاف کا محبوب بنائے رکھا.ہر کوئی سمجھتا اور بجا طور پر سمجھتا کہ آپ کو مجھ سے زیادہ محبت تھی اور رات دن اپنے فرائض کی بجا آوری سے خوش اور شوق سے مگن رہتا.شروع شروع میں ایک دوسرے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے رفقاء کار میں غلط نہی ہو ہی جایا کرتی ہے.چنانچہ مجھے خود ندامت سے اس امر کا اعتراف ہے کہ ابتداء میں ہم میں بھی کچھ نماد نمی پیدا ہوگئی.لیکن جب معاملہ صاف ہو گیا تو پھر اس کے بعد مجال ہے کبھی اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہو بلکہ ایک آدھ مرتبہ جب میں نے اس بدمزگی پر ندامت کا اظہار کرنا بھی چاہا تو مجھے کو منہ سے لفظ تک نہ نکالنے دیا.بلکہ اس عرصہ میں اس قدر وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا اور اس قدر محبت اور مروت کا ثبوت دیا کہ میرے سامنے آپ کے محاسن حسن تدبر اور بلند اخلاق کا ایک دفتر کھلا پڑا ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ اوراق اس کے متحمل نہیں ہو سکتے.میں اس مضمون کو اسی پر ختم کرتا ہوں.روزنامه الفضل لا ہو ر ۲۴، ۲۵ دسمبر ۱۹۵۲ء)

Page 82

70 ایک رفیق دیر سینہ کے تاثرات حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے ایک دیرینہ ساتھی مکرم ومحترم ضیاء الدین احمد قریشی صاحب ایڈووکیٹ آپ کی سیرت وخصائل کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں: سید محمود اللہ شاہ صاحب سے میرے بہت اچھے تعلقات تھے.تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ان کے بڑے بھائی سید عزیز اللہ شاہ صاحب مرحوم میرے کلاس فیلو تھے اور نہایت عزیز دوست تھے اور سید محمود اللہ شاہ صاحب ہم سے ایک کلاس پیچھے تھے ان کے برادر اور بزرگ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بھی انگریزی پڑھایا کرتے تھے.ہم ایک ہی بورڈنگ میں ایک ہی جگہ پر رہا کرتے تھے اور نمازوں اور درسوں میں بھی ساتھ رہا کرتے تھے.سید محمود اللہ شاہ صاحب کی دوسری شادی ( مراد تیسری شادی حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) نے محترمہ فرخندہ اختر صاحب سے تجویز فرمائی اور اس طرح سے یہ تعلق رشتہ داری کا رنگ اختیار کر گیا.مجھے حضرت شاہ صاحب کو بہت نزدیک سے دیکھنے کا موقعہ ملا.فسادات ۱۹۴۷ء میں بھی اکٹھے کام کیا.عہد طفولیت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے والد بزرگوار کا نام سیدعبدالستار شاہ صاحب تھا جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اولین مخلص رفقاء میں سے تھے اور بعد میں حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ کے خسر بھی بنے.آپ کے والد محترم کو یہ شوق پیدا ہوا کہ سید عزیز اللہ شاہ صاحب یعنی اپنے بڑے بیٹے کو قرآن شریف حفظ کرائیں.لیکن ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اگر چھوٹے بچے یعنی محمود اللہ شاہ صاحب کو ساتھ لگا دیا جائے تو بڑا بچہ بھی زیادہ شوق سے کام کو کرنے لگے گا.چنانچہ انہوں نے سید محمود اللہ شاہ صاحب کو بھی قرآن حفظ کرنے پر لگا دیا.شاہ صاحب کی عمر اس وقت چار سال تھی.چنانچہ اس کام کے واسطے ایک حافظ قرآن کی خدمات حاصل کی گئیں.

Page 83

71 شاہ صاحب کے والد صاحب کو بہت شوق تھا کہ ان کے بچے قرآن شریف پڑھ جائیں اور دوسرے انہیں وقت پر نماز پڑھنے کی عادت پڑ جائے.اس مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت شاہ صاحب ان دونوں کو صبح سویرے ہی حافظ صاحب کے پاس بھجوا دیتے اور یہ دن بھر وہیں رہتے تھے.کھانا بھی وہیں ہوتا تھا اور عشاء کے وقت وہاں سے لے آتے تھے جن دنوں وہ قرآن شریف حفظ کر رہے تھے.تو سید محمود اللہ شاہ صاحب اپنے والدین کے ساتھ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن شریف کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا.حضرت صاحب سن کر بہت خوش ہوئے اور ان کو پیار سے گود میں بٹھا لیا.محمود اللہ شاہ صاحب نے آٹھ نو سال کی عمر میں مکمل قرآن شریف حفظ کر لیا تھا.سید محمود اللہ شاہ صاحب کی بڑی ہمشیرہ یعنی والدہ صاحبہ سید عبداللہ شاہ صاحب سے روایت ہے کہ بچپن میں شاہ صاحب گھر میں کسی سے مانگ کر یا کسی سے چھین کر نہیں کھایا کرتے تھے.مزاج میں ضد شوخی یا چڑ چڑا پن نہیں تھا.بہت سنجیدہ خاموش اور کوہ وقار تھے.سکول کا زمانہ جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا ہے کہ خاکسار بھی بورڈنگ میں شاہ صاحب کے ساتھ ہی رہا کرتا تھا.شاہ صاحب کے بڑے بھائی میرے کلاس فیلو تھے اور شاہ صاحب ہم سے ایک کلاس پیچھے تھے.ہم قطار بنا کر نمازیں پڑھنے جایا کرتے تھے تو محمود اللہ شاہ صاحب قطار میں سب سے پیچھے رہا کرتے تھے.شاہ صاحب بہت ہی شرمیلے واقع ہوئے تھے.دوسرے لڑتے جھگڑتے تھے.مگر میں نے شاہ صاحب کو کسی سے لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی اونچی آواز سے بولتے سنا وہ متانت اور نہایت خاموشی سے اپنے کام میں لگے رہتے تھے.ہمارے بورڈنگ میں ہفتہ واری میٹنگ ہوا کرتی تھی.جس میں شاہ صاحب تلاوت قرآن کریم کے کام کو سرانجام دیا کرتے تھے بازار میں کھڑے ہو کر کوئی چیز نہ کھاتے تھے.

Page 84

72 حضرت خلیفہ مسیح الا ول کے درسوں میں شمولیت شاہ صاحب حضرت خلیفہ اسیح الاوّل ( نور اللہ مرقدہ ) کے درسوں میں باقاعدہ شامل ہوتے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ درس کے بعد نماز کا وقت آیا تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ میری طبیعت خراب ہے میں نماز نہیں پڑھاؤں گا.دوسروں لوگوں نے مختلف لوگوں کو امامت کیلئے تجویز کیا مگر حضرت خلیفہ اسیح الاوّل ( نوراللہ مرقدہ ) نے فرمایا کہ شاہ صاحب نماز پڑھائیں گے شاہ صاحب کی عمر اس وقت چودہ پندرہ سال کی تھی.ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول ( نور اللہ مرقدہ ) بیمار تھے.لڑکے قطار بنا کر نماز ادا کرنے جارہے تھے.پیروں کی آواز سن کر حضرت خلیفہ اول ( نور اللہ مرقدہ ) نے فرمایا کہ یہ کیسی آواز ہے تو انہیں بتایا گیا کہ لڑکے نماز پڑھنے جارہے ہیں.آپ نے فرمایا کہ ان کے استاد کو بلاؤ.جب استاد آیا تو آپ نے نام دریافت فرمائے اور پوچھا کہ کون کون نماز پڑھنے جا رہا ہے.استاد نے تین چار نام بتائے آخر میں اس نے کہا کہ سید محمود اللہ شاہ صاحب بھی ہیں اس پر حضرت خلیفہ اول ( نور اللہ مرقدہ ) نے فرمایا کہ "جو شخص سید بھی ہے اور حافظ بھی ہے اس کا نام سب سے اخیر میں لیتے ہو.“ حضرت خلیفہ اول ( نور اللہ مرقدہ ) فرمایا کرتے تھے کہ ان چاروں بھائیوں کو دیکھ کر طبیعت بہت خوش ہوتی ہے.ان کے والد نے ان کو تربیت نہایت اچھے رنگ میں کی ہے.خود نیک ہونا بڑی بات ہے مگر آگے اولادکو اپنے رنگ میں رنگین کرنا بھی کمال ہے.شاہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ نماز تہجد ہم باقاعدہ ادا کیا کرتے تھے اور ہم بچپن میں سمجھا کرتے تھے کہ پانچوں نمازوں کی طرح تہجد بھی فرض ہے.اس لئے کہ ہمارے گھر میں تہجد کی نماز با قاعدہ ادا کی جاتی تھی.چھوٹے بڑے سبھی تہجد پڑھا کرتے تھے.شاہ صاحب شروع سے ہی علم دوست انسان تھے اور کتب بینی کا بہت شوق تھا.میں چنیوٹ جاتا تو شاہ صاحب کے پاس قیام کرتا.باتوں باتوں میں جب کبھی کسی نئی کتاب کی نسبت میں دریافت کرتا تو شاہ صاحب کی طرف سے جواب ملتا کہ میں نے کالج کے زمانہ

Page 85

73 میں ہی سکاٹ کی ایک مشہور کتاب کا مطالعہ کر لیا تھا.اسی شوق کی وجہ سے آپ کی انگریزی بہت اعلیٰ تھی.خاکسار کو جب کبھی جواب ملتا کہ ہاں وہ کتاب میں لاہور سے لے آیا تھا اور میں نے چند دن ہی ہوئے ختم کی ہے.خاکسار نے ۱۹۱۶ء میں میٹرک کیا اور شاہ صاحب ۱۹۱۷ء میں میٹرک پاس کر کے اسلامیہ کالج میں داخل ہو گئے.ولایت کی تعلیم اسلامیہ کالج سے بی.اے کرنے کے بعد غالباً ۱۹۲۱ء میں شاہ صاحب ریلوے انجینئر نگ کے لئے ولایت گئے.( دعوۃ الی اللہ ) کا شوق بہت تھا.چنانچہ وہاں انگریزوں سے مل کر ان کو ( دعوۃ الی اللہ ) کیا کرتے تھے.وہ انگریز ان کی باتوں کو شوق سے سنتے تھے اور برانہیں مناتے تھے.باقاعدہ (دعوۃ الی اللہ ) کا کام تو شاہ صاحب نہیں کرتے تھے مگر باتوں باتوں میں ان کو ( دین حق ) کی خوبیاں سمجھاتے رہتے تھے اور اسی طریق سے وہ کئی انگریزوں کے دلوں سے ( دین حق ) کی نسبت غلط فہمیاں دور کرنے میں کامیاب ہوئے.ولایت میں ہی شاہ صاحب کو اپنی والدہ ماجدہ اور پہلی بیوی کی وفات کی خبر ملی.اس کے بعد ولایت میں ان کا دل نہ لگا.وہ تین سال وہاں تعلیم حاصل کر کے غالباً ۱۹۲۴ ء میں واپس وطن تشریف لے آئے.جب واپس وطن آئے تو شروع شروع میں ملازمت نہ ملی.مگر پھر کوشش کرنے پر کلکتہ میں ملازمت مل گئی.وہاں کے محکمہ کے لوگ سخت بے دین تھے جو کہ شاہ صاحب کو سخت ناگوار تھا.وہاں آپ بیمار بھی ہو گئے اور بیماری میں یہ واپس گھر آگئے اور اپنے والد محترم کے زیر علاج رہے جو کہ ایک ماہر ڈاکٹر تھے.کچھ عرصہ کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے مشورہ کر کے علی گڑھ بی ٹی پاس کرنے کی غرض سے تشریف لے گئے.وہاں بھی شاہ صاحب کی پابندی صوم وصلوٰۃ کی وجہ سے ساتھ رہنے والے طالب علم بہت متاثر ہوئے.خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے پڑھائی میں اتنی دلچسپی نہیں لی تھی جتنی کالج کے دوسروں کاموں میں پھر بھی Theory میں فرسٹ آئے تھے اور پریکٹس میں سیکنڈ نکلے.بی ٹی کرنے کے بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ٹیچر لگ

Page 86

74 گئے.کئی سال تک بے مثال دینی خدمات بجالاتے رہے.چنانچہ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ میں بھی امداد فر مایا کرتے تھے.۱۹۵۲ء میں سکول چنیوٹ سے ربوہ میں منتقل ہو گیا اور شاہ صاحب نے سکول کے قریب رہائش اختیار کر لی.۱۹۵۱ء کے جلسہ کے بعد شاہ صاحب مہینہ بھر بیمار رہے.گذشتہ گرمیوں میں بھی سخت تکلیف تھی.دل کی تکلیف رہا کرتی تھی.۱۵ دسمبر ۱۹۵۲ ء دن کے ۱۲ بجے بیمار ہوئے.اس دفعہ بیماری کا حملہ بہت سخت تھا اور بروز منگل صبح ۵ بجے اس دار فانی سے رحلت فرما گئے اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے.انا للہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالیٰ جنت میں ان کے درجات بلند کرے.دنیا سے بالکل بے نیاز شاہ صاحب کی سیرت تو ان واقعات سے ظاہر ہے جو میں نے اوپر بیان کئے ہیں.مگر وہ محبت اور عقیدت جو مجھے شاہ صاحب سے تھی اور ہے اور جو محبت وعقیدت ان کے عزیزوں اور احباب کو ہے اس کا تقاضہ ہے کہ چند کلمات اور عرض کر دوں.حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب کے گھر میں چارلڑ کے پیدا ہوئے اور سبھی جماعت کے واسطے مفید ثابت ہوئے.تجربہ کی بناء پر عرض ہے کہ سید محمود اللہ شاہ صاحب ان سب بھائیوں میں ممتاز تھے.باپ کے نہایت فرمانبردار بیٹے دوستوں کے لئے نہایت و فادار دوست، بیوی کے لئے نہات اچھے خاوند اولاد کیلئے شفیق باپ اور جماعت کے لئے نہایت مفید وجود ثابت ہوئے.شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رنگ میں رنگین تھے.دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے الگ رہتے تھے.حقوق اللہ وحقوق العباد کا بہت خیال رکھتے تھے.نفس پہ موت آئی ہوئی تھی.ان کی اہلیہ صاحبہ نے بتایا کہ روپیہ جمع کرنے یا جائیداد بنانے کی قطعا خواہش نہ تھی اور وہ فرماتی ہیں کہ جب کبھی میں نے کہا کہ شاہ صاحب ہمیں بھی ایک مکان بنالینا چاہئے تو ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ: ”دنیا کے مکانات وفا نہیں کرتے.دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ جنت میں مکان بخشے کیونکہ (صالح) کی رہائش کی اصل جگہ وہی ہے“

Page 87

75 حضرت شاہ صاحب دنیا سے بالکل بے نیاز واقع تھے.یعنی دنیاوی شان و شوکت کی خواہش نہیں رکھتے تھے.عہدوں کی خواہش کبھی نہیں کرتے تھے.لیکن اگر سمجھتے کہ عہدہ قبول کرنے میں سلسلہ کا فائدہ ہے تو وہ عہدہ قبول کر لیتے تھے.طبیعت کے بہت حلیم اور بردبار تھے.کسی شخص نے کتنا ہی دکھ دیا ہو لیکن اگر وہ گھر پر آ جاتا اور امداد کی درخواست کرتا تو بڑی محبت سے پیش آتے جب نیروبی میں تھے.تو ہندو سکھ عیسائی سب کی امداد کرتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ ہمدردی کے لحاظ سے سب انسان برابر ہیں.خدمت خلق کا جذ بہ بہت تھا.سخت بیماری کی حالت میں بھی لوگوں کے لئے سفارشی خطوط لکھتے تھے اور بیماری کی حالت میں ہی لوگوں کے ساتھ لائل پور وغیرہ جایا کرتے تھے اور ان کے کام کرتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح ( نور اللہ مرقدہ سے بہت محبت رکھتے تھے.نرم مزاج طبیعت میں غصہ نہیں تھا.اگر آتا تھا تو پی جاتے تھے اور زیادہ سے زیادہ اپنے برادر بزرگ سے جا کر کل واقعہ کہہ دیتے تھے.جھڑ کی دینے یا ناراض ہونے کے عادت نہ تھی.اٹھتے بیٹھتے دعاؤں میں مشغول رہتے تھے.ہجرت سے پہلے اشراق کی نماز بھی ادا کیا کرتے تھے.ہجرت کے بعد دل کی تکلیف کی وجہ سے سجدہ میں دم گھٹتا تھا اس لئے چھوڑ دی تھی.محبت قرآن کریم تیسرے چوتھے دن قرآن شریف ختم کر لیتے تھے.۱۹۴۹ء میں دس دفعہ قرآن شریف ختم کیا.فرماتے تھے کہ میری صلاح تو پندرہ دفعہ ختم کرنے کی تھی.حقوق العباد کا بہت خیال رکھتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ بندوں کے گناہ بندوں سے بخشوانے چاہئیں.نوکروں سے بھی بہت شفقت کا سلوک کرتے تھے اور دستر خوان پر اپنے ساتھ کھانا کھلاتے تھے.چھوٹے سے چھوٹا آدمی بھی آکر ملنے آتا تو اس سے پوری عزت و احترام سے پیش آتے اور اسے کرسی دیتے.مہمان نواز بہت زیادہ تھے.جب کبھی خاکسار چنیوٹ جاتا تو شاہ

Page 88

76 صاحب کے دروازہ پر آواز دیتا تو ہمیشہ استقبال کے واسطے تشریف لاتے.نہایت محبت سے مزاج پرسی کرتے اور بہت خاطر و مدارت سے پیش آتے اور جب میں رخصت ہوتا تو گھر سے کچھ فاصلہ تک خود چھوڑنے آتے.شہر میں جو سوگوار ہے ہے آج چشم اعداء بھی اشکبار ہے آج بار احباب جو اٹھاتا تھا دوش احباب پر سوار ہے آج روزنامه الفضل ۲۴٬۲۳ / جنوری ۱۹۵۳ء)

Page 89

77 قابل تقلید قربانیاں مکرم و محترم برکت علی خان صاحب فنانشل سیکرٹری تحریک جدید قادیان آپ کی مالی قربانیوں کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں:.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مکر می سید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کو.آپ نے اپنا اور اپنے خویش و اقارب کا چندہ سال گزشتہ سال بھی اپنی افریقہ والی آمد کے مطابق نہ صرف وعدہ فرمایا بلکہ اسی وقت نقد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش فرما دیا.اور اب بارہویں سال کا مطالبہ حضور کی زبان مبارک سے سن کر کہ اس سال گزشتہ سال سے بہت زیادہ ضرورت ہے مخلصین جماعت کو قربانی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے.اور حضور ایدہ اللہ تعالی کا اپنا پاک ضمونہ گیارہویں سال کی غیر معمولی رقم پر بارہویں سال میں اضافہ دیکھ کر 512 کا وعدہ پیش فرمایا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.یہ وعدہ ان کی آمد سے دُگنا سے بھی زیادہ کا ہے.یہی وہ لوگ ہیں جن کے ذریعے ( دین حق ) کو فتح ہوگی.وہ وہی ہیں جن کے دل ہر وقت قربانی کیلئے تیار رہتے ہیں.جو مشکلات اور تکالیف میں زیادہ قربانی کرتے ہیں.انہی لوگوں کی کوشش سے فتح آتی ہے اور ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی برکات نازل ہوتی ہیں.جناب شاہ صاحب مشرقی افریقہ میں بھی نہ صرف خود اپنا نیک نمونہ پیش کر کے سب سے پہلے ادا فرمایا کرتے تھے بلکہ اپنی جماعت سے بھی قابل تعریف قربانیاں کروایا کرتے تھے.اور وعدوں کی ادائیگی کی بھی جلد تر کوشش فرمایا کرتے تھے.اسی طرح اب آپ نے اپنے ہائی سکول کے اساتذہ میں بھی تحریک کر کے ان کے وعدوں کی فہرست جو 32 اساتذہ پرمشتمل ہے، گیارہویں سال پر اضافہ کروا کر بارہویں سال کی

Page 90

78 پیش حضور کی ہے.یہ فہرست 1328/11 ھش نومبر 1945ء کی ہے.مخلصین یا درکھیں کہ گیارہویں سال پر غیر معمولی اور خاص اضافہ کرنے کی ضرورت ہے.جو آپ پر حضور کا خطبہ روز روشن کی طرح ظاہر کر دے گا.ورنہ گیارہویں سال پر معمولی اضافہ کر کے وعدہ دینا از بس ضروری ہے.اللہ تعالی توفیق بخشے.“ (الفضل قادیان ۴ / دسمبر ۱۹۴۵ء)

Page 91

79 ایک کامیاب معمار دبستان احمد کا تاثرات حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری) حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بہترین اور ٹھوس کام کرنے والے خدام میں ایک نمایاں وجود تھے.ہونہار طلباء کی تربیت ، ان کو امیدوں اور امنگوں کے ساتھ پروان چڑھانا.ان میں قومی اور ملی ولولہ پیدا کرنا نہایت مشکل کام ہے.اونچے اونچے محل تعمیر کرنا اور مضبوط آہنی قلعے بنانا بہت آسان ہے لیکن قوم کے بچوں کا کردار درست کرنا اور ان کی اخلاقی عمارات کو استوار کرنا بدر جہا مشکل کام ہے اس کام کیلئے بہت زیادہ صبر اور حوصلہ کی ضرورت ہے.بہت زیادہ درد اور ہمت درکار ہے.بہت زیادہ کاوش اور دعائیں لازمی ہیں.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان تمام صفات سے متصف تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کی محنت کو بار آور فر مایا اور انہیں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اعلیٰ نتائج دیکھنے کی مسرت پیدا فرمائی.انہوں نے اپنے شاگردوں میں بلند حوصلہ اور اعلیٰ کردار پیدا کرنے میں امتیازی کامیابی حاصل کی.اپنے ساتھ کام کرنے والے اساتذہ اور دوسرے کارکنوں سے ہمدردانہ سلوک کی وجہ سے پورا پورا تعاون حاصل کیا.ان تمام نیک تاثیرات کا نمایاں اثر سکول کی حالت پر نظر آتا ہے.بے شک حضرت شاہ صاحب مرحوم وفات پاگئے ہیں اور ہر پیدا ہونے والا انسان ضرور فوت ہوتا ہے.لیکن جو نیک اثر حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے اپنے چاہنے والوں اور ساتھیوں پر چھوڑا ہے وہ نا قابل فراموش ہے.ان کے جنازہ کے بعد میں میں نے سکول کے ایک مددگار کارکن کو درد ناک لہجہ میں یہ واقعہ سناتے ہوئے سنا کہ جب بورڈنگ کے باورچی میاں خوشی محمد صاحب مرحوم فوت ہوئے تو حضرت شاہ صاحب زار زار رو ر ہے تھے اور کہتے تھے کہ باور چی تو ہزاروں مل جائیں گے لیکن میاں خوشی محمد صاحب ایسا وفادار اور دیانت دار کہاں ملے گا.حضرت شاہ صاحب میں دراصل کام کرنے والے کی قدر دانی کا بہت جذبہ تھا.اسی

Page 92

80 60 جذ بہ کی وجہ سے حضرت شاہ صاحب نے اپنے ساتھیوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا اور ان کی وفات سے سب متاثر نظر آتے ہیں.میرے ذاتی تجربہ میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب سخت مخالف حالات میں حوصلہ مندی سے کام کرنے اور خندہ پیشانی سے مشکلات کو برداشت کرنے میں ایک نمونہ تھے.انہیں یہ امتیاز حاصل تھا کہ ملاقات میں ہر شخص سے مسکراہٹ اور کھلے چہرہ سے ملتے تھے.اگر وہ اپنے حالات یا قواعد کے ماتحت کسی ضرورت مند کی ضرورت کو پورا نہ بھی کر سکتے تب بھی اس کو اپنے پاس سے مسرور دل سے رخصت کرتے تھے.بارہا ایسا ہوا ہے کہ ان کے پاس نفی کے سوا کوئی جواب نہ ہوتا تھا مگر اول تو وہ اس نفی کو ادا کرنے کے لئے بہترین سلیقہ اختیار فرماتے اور پھر اس کے ساتھ ایسے انداز سے مزید گفتگو کرتے کہ حاجت مند یہ محسوس کرتے ہوئے واپس آتا کہ اگر چہ میرا کام نہیں ہوسکا مگر شاہ صاحب بھی معذور ہیں.۱۹۴۷ء کے ایام میں ۱۹۴۷ ء کے فسادات کے ایام میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے نہایت جرات اور حوصلہ مندی سے کام کیا تھا.مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب آپ اپنے چند ساتھیوں سمیت ٹانگہ پر سوار ہو کر محلہ جات میں گھر بہ گھر پھر کر مستورات اور مردوں اور بچوں کو مشکلات میں صبر و حوصلہ کی تلقین کر رہے تھے.ان کا دل دردمند تھا اور کبھی کبھی آنکھیں بھی آبدیدہ ہو جاتی تھیں.لیکن آپ مخاطبین کو ایسے انداز سے حوصلہ کی تلقین فرماتے کہ دلوں میں ڈھارس بندھ جاتی تھی اور مایوس کن حالات کے باوجود انہیں اطمینان حاصل ہو جاتا تھا.حضرت شاہ صاحب مرحوم میں ریا اور شہرت سے نفرت تھی اور انتہاء درجہ کی تواضع اور فروتنی پائی جاتی تھی.انہیں دینی علوم سے گہرا لگاؤ تھا.حافظ قرآن مجید بھی تھے.مشرقی افریقہ کے احباب پر آپ کے پاکیزہ صحبت کا نہایت نیک اثر تھا.حضرت شاہ صاحب مرحوم کی زندگی میں ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ خدمت دین بجالانے والے لوگوں کی دل سے قدر کرتے تھے.

Page 93

81 جامعہ احمدیہ جامعہ احمدیہ کی ترقی کے لئے ان کے جذبات کو میں خوب اچھی طرح جانتا تھا.انہوں نے بارہا مجھے بتایا کہ میں آپ کے اساتذہ اور طلباء کیلئے روزانہ دعا کرتا ہوں.امتحانات کے اعلیٰ نتائج پر ایسے محبت بھرے انداز میں مبارکباد دیتے تھے کہ دل باغ باغ ہو جاتا تھا.بسا اوقات وہ چنیوٹ سے احمد نگر ہماری تقریبات میں شرکت کے لئے تشریف لاتے اور اپنی مفید معلومات سے طلباء کو مستفید فرمایا.کچھ بھی ہو بہر حال حضرت شاہ صاحب نے اپنے فرض کو بہترین رنگ میں ادا فرمایا ہے.ہم دردمند دلوں کے ساتھ حضرت سیدمحموداللہ شاہ صاحب کی اس ناگہانی وفات پرانا للہ وانا اليه راجعون کہتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ حضرت شاہ صاحب کی مغفرت فرما کر انہیں جنت الفردوس میں بلند مقامات عطا فرمائے.اور ان کے جاری کردہ نیک کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے خود غیر معمولی سامان پیدا فرمائے اور سلسلہ احمدیہ کے ایک بہترین اور ٹھوس کام کرنے والے کارکن کی وفات سے جو کمی ہوگئی ہے اپنے فضل سے اس کی تلافی فرمائے.(روز نامه الفضل لا ہو ر ۱۲ جنوری ۱۹۵۳ء)

Page 94

82 با رعب مگر نرم مزاج مکرم محترم ملک جمیل الرحمن صاحب رفیق نائب پر نسپل جامعہ احد بیدر بو تحر یر کرتے ہیں.۵۲.۱۹۵۰ء میں جب خاکسار دسویں جماعت میں تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں طالب علم تھا.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ہمارے ہیڈ ماسٹر تھے.نیز ہمارے انگریزی کے استاد بھی.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کی شخصیت کا ایک خاص رعب تھا.مگر ایسا نہیں کہ دل میں گھبراہٹ پیدا کرے بلکہ دلوں کو آپ کی شخصیت اپنی طرف کھینچ لیتی تھی.نہایت سنجیدہ تھے اور بڑی متانت سے نرمی کے ساتھ گفتگو فرماتے.میٹرک کا سالانہ امتحان ہوا تو ہر روز ہوٹل سے ہماری پوری کلاس صبح صبح آپ کے گھر پہنچتی جہاں آپ باہر تشریف لا کر دعا کراتے.جس کے بعد ہم سب اسلامیہ سکول چنیوٹ میں امتحان دینے کیلئے جاتے.خاکسار نے صرف دسویں جماعت کا ایک سال تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھا.اس عرصہ میں کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کسی طالب علم پر برس پڑے ہوں یا سزا دی ہو.“ (۲۱ /جنوری ۲۰۰۳ء)

Page 95

83 بہت شریف النفس اور تقویٰ شعار آپ کے ایک دوست سلسلہ کے بزرگ حضرت مرزا عبدالحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں اپنے تاثرات میں تحریر فرماتے ہیں: ”حضرت سید موداللہ شاہ اور خاکسار دونوں ۱۹۷ء میں لاہور میں فرسٹ ائیر کے طالب علم تھے اور احمد یہ ہوٹل میں رہتے تھے.شاہ صاحب آرٹس میں تھے اور میں سائنس میں.اسی وقت سے اُن سے دوستانہ تعلقات شروع ہوئے.حضرت شاہ صاحب ماشاء اللہ بہت شریف النفس اور تقویٰ شعار تھے.نمازوں کے پورے پابند اور دینی کاموں میں خوب حصہ لیتے تھے.اس زمانہ میں خدا کے فضل سے احمد یہ ہوٹل کے سارے طالب علم ہی اخلاقی لحاظ سے بہت نمایاں تھے.ان میں سے اکثر قادیان سے آئے تھے.شاہ صاحب بھی انہی میں سے تھے.خاکسار شملہ سے آیا تھا.جہاں خاکسار کے بھائی اور چاوغیرہ گورنمنٹ آف انڈیا کے ملازم تھے.کالج کی تعلیم سے فارغ ہو کر حضرت شاہ صاحب خدمت سلسلہ کے لئے شعبہ تعلیم میں افریقہ بھیجے گئے اور خاکسار نے حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ کے حکم کے تحت گورداسپور میں وکالت شروع کی.شاہ صاحب کے ساتھ ان کے افریقہ جانے تک دوستانہ تعلقات اور میل جول رہا.شاہ صاحب کے ساتھ ان کے افریقہ جانے کے بعد ان سے خط و کتابت تو نہ رہی لیکن سالہا سال بعد ۱۹۳۶ء میں ان کا ایک خط مجھے نیروبی سے ملا جس میں چونکہ ایک خواب کا ذکر تھا.اس لئے میں نے اسے اپنی خوابوں والی کاپی میں نقل کر لیا.یہ خط یکم مارچ ۱۹۳۶ء کا تحریر کردہ ہے.اس سے حضرت شاہ صاحب کی زندگی کے بعض پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے.ان کا پابند تہجد ہونا اور نہایت اعلی قسم کی دعائیں کرنا اور تقویٰ وطہارت وغیرہ.وہ خط حسب ذیل ہے.پرسوں میں نے خواب دیکھا میں کسی دوست کے ساتھ گورداسپور کسی کام کیلئے گیا ہوں.کام سے فارغ ہو کر عصر کے قریب میں اس کو ساتھ لیکر آپ کے مکان پر پہنچا ہوں آپ سائیکل لئے قادیان تشریف لے جانے کی تیاری میں ہیں.آپ کے

Page 96

84 ساتھ چند لوگ کھڑے ہیں جنہیں میں سمجھا کہ آپ کے ہم پیشہ لوگ ہیں اور سب یا تو غیر (از جماعت ) یا دوسرے مذاہب کے ہیں.آپ نے مصافحہ کیلئے میری طرف ہاتھ بڑھایا لیکن میں نے آپ کو گلے لگایا اور دیر تک اسی طرح آپ سے معانقہ کرتا رہا.میں محسوس کرتا تھا آپ کا تقدس اور آپ کی نیکی ، میرے دل میں محبت کی کیفیت تھی.جس کو میں نے بیداری کے بعد تمام دن محسوس کیا.معانقہ کے بعد میں نے آپ سے کہا کہ میں اپنا راستہ چھوڑ کر آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ کو دعا کیلئے کہوں.خواب سے بیداری پر تہجد کا وقت تھا.(جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ) میں نے آپ کے لئے درد بھرے دل سے دعا کی اور علاوہ اور دعاؤں کے آپ کیلئے خصوصیت کے ساتھ وہ دعا کی جو میں اپنے لئے چاہتا ہوں..نیروبی سے تشریف لانے کے بعد آپ قادیان میں تعلیم الاسلام سکول میں پڑھاتے رہے غالباً ہیڈ ماسٹر تھے اور آپ سے وقتاً فوقت ملاقات ہوتی رہتی.دعا گو وجود 66 ۱۹۴۷ء کو ہجرت کے بعد ربوہ میں رہے جہاں آپ ۱۹۵۲ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے.اس وقت آپ کی عمر صرف ۵۲ سال کے قریب تھی.انا للہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے زیادہ سے زیادہ قریب میں جگہ دے اور آپ کے وارثان کا ہمیشہ حافظ وناصر ہو.وفات سے کچھ عرصہ قبل آپ نے اس عاجز کو کھانے پر بلایا.ہم صرف دونوں تھے.دیر تک پرانی یادیں تازہ کرتے رہے آپ بہت دعائیں کرنے والے وجود تھے.آپ کی ان دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے کہ آپ کی اولاد میں سے بعض اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین کی نمایاں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں.آپ ما شاء اللہ بہت متقی اور صالح بزرگ تھے.جو اس عاجز کو ہمیشہ یادر ہے ہیں.“ ( مکتوب بنام صدر مجلس خدام الاحمدیه، ۱۸ دسمبر ۲۰۰۲ ء نیز دیکھیں تابعین احمد جلد مفتم صفحه ۴۶ ، ۴۷)

Page 97

85 ”حضرت شاہ صاحب مجسمہ فضائل تھے“ مکرم ومحترم مولانا محمد ابراہیم صاحب بھامبڑی) ( نوٹ : مکرم و محترم مولانا محمد ابراہیم صاحب بھامبڑی نے درج ذیل تاثرات لکھ کر عنایت فرمائے ہیں.) نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ نیز اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے.کُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِ كُرَامِ ( سورة الرحمن) وہ وحدہ لاشریک ہے اور لازوال ہے.سب موت کا شکار ہیں اس کو فنا نہیں.آخر یہی کہنا پڑتا ہے.انا للہ وانا اليه راجعون.حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں.اَلَا يَا سَاكِنَ الْقَصْرِ الْمُعَلَّى سَتُدْفَنُ عَبْقَرِيبٍ فِي التُّرَابِ موت کے بعد انسان ایک کہانی رہ جاتی ہے.عربی زبان کا ایک مقولہ ہے اِنَّمَا الْمَرْءُ حَدِيثُ فَكُنْ حَدِيثًا حَسَنًا انسان تو ایک افسانہ بن کر رہ جائے گا.پس تو اپنے یاد کر نے والوں کیلئے اچھی کہانی بن جا.حضرت شاہ صاحب مرحوم ایک سنہری داستان ہیں اور مجسمہ فضائل تھے.مجھے اُن کے ساتھ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۲ ء تک کام کرنے کا موقعہ ملا ہے.( یعنی حضرت شاہ صاحب کی زندگی کے آخری ۶ سال ) اور میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایسی کتاب اور رجسٹر ہیں جن کی بے شمار نقلیں ہونی چاہئیں.زندہ قوم وہی ہوتی ہے جس کی نوخیز نسل اپنے بزرگوں کی جگہ لے.

Page 98

86 ٹی آئی سکول چنیوٹ کے ابتدائی حالات حضرت شاہ صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے.اور میں سکول میں دینیات کا استاد تھا.تقسیم ملک کے بعد ہمارا سکول قادیان سے چنیوٹ منتقل ہو گیا.ہر چیز لٹ پٹ چکی تھی.اساتذہ (جو قادیان سکول میں تھے وہ ) بھی ادھر اُدھر بکھر چکے تھے.سکول میں نہ کوئی فرنیچر تھا نہ سکول کا کوئی بورڈنگ.حضرت شاہ صاحب نے اساتذہ کے تعاون سے چندہ اکٹھا کر کے سب کچھ تیار کر لیا.بورڈنگ کے لئے تین عمارتیں مل گئیں اور سکول کی عمارت پہلے ہی موجود تھی.آہستہ آہستہ طلباء آنے شروع ہو گئے.ابتداء میں بورڈنگ میں پندرہ میں طلباء آ گئے.حضرت شاہ صاحب نے بورڈنگ کا سارا کام خاکسار کے سپر د کر دیا.چند مہینوں میں ہی حضرت شاہ صاحب کی دعاؤں اور کوشش اور مقناطیسی کشش سے سکول اور بورڈنگ طلباء سے بھر گیا اور ہمارے سکول کی شہرت اور نیک نامی نہ صرف چنیوٹ بلکہ سارے ضلع جھنگ میں خوشبو کی طرح پھیل گئی.چنیوٹ کے مقامی اسلامیہ ہائی سکول کے طلباء اپنا سکول چھوڑ کر ہمارے سکول میں داخل ہونے شروع ہو گئے اور ہمارے سکول کا رعب اور وقار تمام شہر میں بڑھ گیا.یہاں تک کہ چنیوٹ کے بعض مقامی طلباء اپنے گھروں میں رہنے کی بجائے ہمارے بورڈنگ میں داخل ہو گئے.بورڈنگ میں رہائش اور پڑھائی کا انتظام بہت اچھا تھا.ہمارے سکول میں دینیات کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی.سکول کی پڑھائی شروع ہونے سے پہلے اسمبلی ہوتی تھی.قرآن مجید کی تلاوت سے ابتدء ہوتی تھی.بعدہ ” نونہالان جماعت کی نظم ( کلام سید نا خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ) اور آخر میں پاکستان کا قومی ترانہ ہوتا تھا.اور سکول کی اسمبلی میں روزانہ طلباء کو ادعیہ مسنونہ ( قرآن وحدیث کی دعائیں ) یا دکرائی جاتی تھیں اور پھر کلاسیں شروع ہو جاتی تھیں اور سکول میں روزانہ پریڈ بھی ہوتی تھی اور کام اور نگرانی

Page 99

87 کو احسن بنانے کے لئے روزانہ اساتذہ میں سے باری باری ایک ڈے ماسٹر (Day Master) مقرر کیا جاتا تھا جو سکول کے دوران ہر قسم کی نگرانی کرتا تھا.اسی طریق سے سکول کا نظم ونسق بہت بہتر ہوا کرتا تھا.طلباء بہت محتاط ہو جایا کرتے تھے.ہمارے سکول کی یہ ایک خوبی تھی کہ سکول کے دوران کوئی طالب علم سگریٹ نوشی نہیں کرتا تھانہ کوئی مخش کلامی کرتا تھا.بورڈنگ میں بھی یہی صورت حال ) ہوا کرتی تھی.سکول میں حفظ قرآن اور نماز کا انتظام کرانا حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب قرآن مجید کے حافظ تھے اور کلام اللہ سے ان کو گہرا عشق تھا.آپ نے سکول میں قرآن مجید حفظ کرنے کا اس طرح انتظام کر رکھا تھا کہ کلاسوں کے لحاظ سے قرآن مجید کے پاروں کو حفظ کرنے کیلئے تقسیم کیا ہوا تھا.ہر کلاس کے دو سیکشن ہوا کرتے تھے.چھٹی سے لیکر کلاس دہم تک پانچ کلاسیں تھیں.ہر کلاس کے ذمہ چھ چھ پارے حفظ کرنے کیلئے لگا دیئے جاتے تھے.اسی طرح سکول کے سارے طلباء اگر جمع ہوں تو سارا قرآن مجید زبانی سنا جاسکتا تھا.کلاسوں کے انچارج اس کام کے ذمہ وار ہوا کرتے تھے.سکول اور بورڈنگ میں پانچوں نمازیں باجماعت ادا کی جاتی تھیں اور طلباء کی حاضری لگتی تھی.حضرت شاہ صاحب نے امام الصلوۃ مجھے مقرر کیا ہوا تھا.شہر کی بیت الذکر میں میں جمعہ پڑھایا کرتا تھا.حضرت شاہ صاحب نے یہ کام محض اپنی شفقت سے میرے سپرد کیا ہوا تھا ورنہ کئی بزرگ موجود تھے.یہ شاہ صاحب کی مہر بانی تھی ورنہ من آنم کہ من دانم.امتوں سے شفقت اور احترام کا سلوک حضرت شاہ صاحب بڑے اوصاف کے مالک تھے.آپ میں ایک وصف یہ بھی تھا

Page 100

88 کہ اپنے ماتحت رفقاء کار کا بہت زیادہ خیال اور احترام فرمایا کرتے تھے.سکول کے اساتذہ کو تو فرمایا کرتے تھے کہ اصل ہیڈ ماسٹر تو آپ لوگ ہیں میں تو برائے نام ہیڈ ماسٹر ہوں ایک دفعہ خاکسار کو عرق النساء کے درد کا عارضہ ہو گیا.آپ خود میری عیادت کیلئے تشریف لائے اور فرمانے لگے.مولوی صاحب اگر آپ پسند کریں تو بغرض علاج آپ کو لاہور بھجوا دیتا ہوں.میں نے کہا جزاکم اللہ مجھے یہاں پر زیادہ سہولت ہے.آج تک ان کی یہ مہربانی میرے دل پر نقش ہے.اسی طرح ایک دفعہ میں نے کہیں سے آپ کی ایک بڑی رقم لا کر انہیں دی اور ہاتھ میں دیتے وقت کہا.شاہ صاحب رقم گن لیں.فرمانے لگے آپ نے جو گنی ہوئی ہے.رقم بغیر دیکھے اور گنے جیب میں رکھ لی.سپردم بتو مانية خویش را تو دانی حساب کم و بیش را شاہ صاحب کو اپنے ساتھیوں پر پورا پورا اعتماد تھا.اساتذہ کو چیک کرنے کا طریق ایک دفعہ میں کلاس کو پڑھا رہا تھا کہ آپ عقبی دروازہ سے داخل ہو کر خاموشی سے آکر طلباء کے ساتھ بیٹھ گئے.مجھے چار پانچ منٹ بعد آپ کی موجودگی کا علم ہوا میں پڑھاتا رہا.بعد میں آپ نے مجھے دفتر میں بلا کر میری حوصلہ افزائی کی اور فرمایا ماشاء اللہ آپ بہت اچھا پڑھاتے ہیں.جزاکم اللہ.اگر کسی استاد کی کمزوری دیکھتے تو بغیر نام لئے واعظانہ طور پر سمجھا دیتے.جب کوئی انسپکٹر معائنہ کیلئے آتا تو اس کی بہت تواضع اور اکرام کرتے اور وہ ان کے اخلاق سے بہت متاثر ہوتے.ایک دفعہ ایک انسپکٹر نے کہا.شاہ صاحب! ہم تو آپ سے کچھ سیکھنے کیلئے آتے ہیں.

Page 101

89 حضرت شاہ صاحب کی پُر خلوص مساعی اور دعاؤں سے ہمارا سکول ہر میدان میں ضلع بھر میں اول آتا.شروع شروع میں تو طلباء کے پاس پوری کتابیں بھی نہیں تھیں.کھانے پینے کی اشیاء میں دقت تھی.چنیوٹ میں بجلی بھی نہیں تھی پھر بھی ہمارا میٹرک کا نتیجہ شاندار ہوا کرتا تھا اور بعض طلباء بورڈ میں پوزیشن لیا کرتے تھے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ ساری برکتیں اس بزرگ وجود کی وجہ سے تھیں.میں نے حضرت شاہ صاحب کو کبھی اپنے ماتحت اسا تذہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے نہیں دیکھا.ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے.ان کی خاموشی میں بھی ایک وقار اور رعب تھا.مجھے اپنے زمانہ تعلیم میں چھ ہیڈ ماسٹروں کے تحت کام کرنے کا موقعہ ملا ہے.تمام کے تمام هـر گـل رارنگ و بو دیگر است کے مصداق لیکن میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے آپ جیسا فرشتہ سیرت اور طبع کسی کو نہیں پایا.آپ ادنیٰ سے ادنی آدمی کی بات بھی بڑی توجہ اور دلچسپی سے سنتے.بڑے وقار سے برا برلیکر چلتے ان کی چال وَيَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً کی عملی تفسیر ہو جایا کرتی تھی.اساتذہ کیلئے حصن حصین آپ اپنے ماتحت اساتذہ کے وقار اور عزت کے بھی محافظ تھے.گویا وہ اساتذہ کیلئے حصن حصین تھے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بورڈنگ کے ایک لڑکے کی نازیبا حرکت پر ایک شفیق تجربہ کار اور سینئر استاذ نے لڑکے کو سزا دی.اس لڑکے نے ایک ذی اثر شخص کی انگیخت پر استاد صاحب کے خلاف ناظر صاحب تعلیم کی خدمت میں تحریری شکایت بھجوا دی.نظارت تعلیم کی طرف سے وہ شکایت مکرم ہیڈ ماسٹر صاحب ( حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب) کے پاس بغرض تحقیق رپورٹ آ گئی.شاہ صاحب نے متعلقہ استاد صاحب سے استفسار کیا.شاہ صاحب استاد اور شاگرد کے رشتہ کو اچھی طرح جانتے تھے.ناظر صاحب کی خدمت میں رپورٹ بھجوا دی کہ میں نے تحقیق کی ہے.استاد صاحب نے عین میری منشاء کے مطابق سزا دی ہے

Page 102

90 اور اصلاح اور تادیب کی خاطر دی ہے.یوں شکایت داخل دفتر ہوگئی.واقعی ایسے اساتذہ جو مغلوب الغضب ہوکر سزا نہیں دیتے ان کے غصہ میں بھی پیار مضمر ہوتا ہے.وہ مہربانی کرتے ہیں.یا مہربانوں کی طرح ان کا طلباء کے ساتھ مربیانہ اور ہمدردانہ سلوک ہوتا ہے.شہد کی مکھی ڈنگ بھی مارتی ہے مگر شہد بھی دیتی ہے.ماں بچہ کو مارے بچہ ماں ماں پکارے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ استاد بھی حقیقت میں باپ ہی ہوتا ہے بلکہ حقیقی باپ استاد ہی ہوتا ہے.افلاطون کہتا ہے کہ باپ تو روح کو زمین پر لاتا ہے اور استادزمین سے آسمان پر پہنچاتا ہے.( تذکره: ص ۴۱۱) میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ نافرمان اور گستاخ طلباء کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچتے.ٹانگے پر سکول کی طرف رواں دواں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب اپنے ماتحت اسا تذہ کو دیکھ کر خوش ہو جایا کرتے اور بے حد احترام کیا کرتے تھے.بڑی پُر وقار شخصیت کے مالک تھے.ان دنوں جب کہ ہمارا سکول چنیوٹ میں ہوتا تھا.محترم شاہ صاحب کا رہائشی مکان شہر میں ہوتا تھا اور سکول شہر سے دور تحصیل کے پاس لاہور جانے والی سڑک پر واقعہ تھا.آپ سکول جانے کیلئے سالم ٹانگہ روزانہ لیا کرتے تھے اور راستہ میں جو استاد بھی پیدل جاتے ہوئے ملتا.اسے عزت کے ساتھ اپنے پاس بٹھا لیا کرتے.اسی طرح مجھے بھی شاہ صاحب کے ساتھ بیٹھنے کا موقعہ ملا ہوا ہے.آپ سید الـقـوم خادمھم کی عملی تفسیر تھے.شاہ صاحب اور اساتذہ کے درمیان تو من تو شدم تو من شدی تاکس نه گوید بعد ازین والی کیفیت تھی.من تن شدم تو جان شدی مـــن دیــگــــرم تـو دیـگـــری

Page 103

پانچ بھائی 91 حضرت شاہ صاحب کے چار اور بھائی بھی تھے.ا.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب -۲.حضرت سید عبدالرزاق شاہ صاحب.۳.حضرت ڈاکٹرسید حبیب اللہ شاہ صاحب.۴.حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب.اوّل الذکر دونوں بھائیوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں.اور مؤخر الذکر دونوں بھائیوں سے غائبانہ تعارف ہے.میں سمجھتا ہوں کہ پانچوں بھائی گلاب کے دلکش خوشبودار پھول تھے جو اپنے ماحول کو معطر بنادیتے تھے.میں نے ان کے والد بزرگوار مکرم و محترم حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کو بھی قادیان میں دیکھا ہوا ہے.نورانی شکل کے وجیہ بزرگ تھے.ان کی متشرع خوبصورت گھنی سفید داڑھی کا تصور کرتے مجھے فرشتوں کی یہی صیح یاد آ جاتی ہے.سُبْحَانَ الَّذِى زَيَّنَ الرِّجَالَ بِاللُّحَى وَالنِّسَاءَ بِالذَّوَائِبِ پانچوں بھائی اَلْوَلَدُ سِر لِاَبِیهِ کی پوری پوری تفسیر تھے.ان کے نیک خصائل کی وجہ سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کنبہ کو بہشتی کنبہ کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے.آہ ع زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے تاثرات حاصل کرده ۶ /جنوری ۲۰۰۳ء)

Page 104

92 92 ہر دلعزیز شخصیت مکرم مولا نا محمد صدیق صاحب امرتسری سابق مربی مغربی افریقہ ونجی تحریر کرتے ہیں:.حال ہی میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ابن حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب کے پوتے محترم عزیزم سیدمحموداللہ شاہ صاحب اور عزیزه مکرمه در مشین سلمہ اللہ تعالیٰ کے نکاح کا اعلان اور اس موقعہ پر جو خطبہ نکاح سیدنا حضرت خلیفہ ایح الرابع ( رحمہ اللہ تعالیٰ) نے پڑھا اور روزنامہ الفضل مورخہ ۲ / مارچ ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا ہے اس میں حضور ( رحمہ اللہ تعالیٰ ) نے حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب اپنے غیر معمولی اخلاق اور بعض دیگر صفات حسنہ کی وجہ سے زندگی میں جہاں بھی رہے بہت ہی ہر دلعزیز تھے اور ان کی طبیعت میں بہت ہی محبت اور شفقت پائی جاتی تھی اور بلا امتیاز مذہب وملت ہر ایک سے ہمدردی کرتے تھے لوگ بھی ان سے بہت جلد محبت کرنے لگ جاتے تھے جو دراصل انہیں کی طبیعت کا انعکاس تھا.مندرجہ بالا حقیقت کے ثبوت میں حضور نے گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کرنے والے مشرقی افریقہ سے آمدہ ہند و طالب علموں کے ایک گروپ کا واقعہ بھی بیان فرمایا ہے.اس ضمن میں یہ خاکسار بھی حضرت شاہ صاحب کے ذکر خیر کے طور پر مشرقی افریقہ سے ہی متعلق ایک واقعہ عرض کرتا ہے جو مجھ سے پیش آیا اور جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب نہ صرف مشرقی افریقہ کی اس وقت کی ایشین آبادی اور افریقن لوگوں میں بہت مقبول اور ہر دلعزیز تھے اور اپنے بلند اخلاق کی وجہ سے معروف تھے بلکہ مشرقی افریقہ پر اس زمانہ میں حکومت کرنے والے انگریز افسران کے نزدیک بھی اپنے اعلیٰ کردار محنت اور دیانت سے اپنی ذمہ

Page 105

93 داری ادا کرنے والے شمار ہوتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے حسن سلوک کی وجہ سے ان میں مقبول و معروف تھے اور انگریزوں سے بھی اس وجہ سے ان کے ساتھ نہایت اچھے اور مخلصانہ مراسم اور دوستانہ تعلقات تھے.حسن معاملہ اور دوست پروری کا اقرار ایک انگریز مسمی را برٹ ڈونی یا شائد رابرٹ انتھونی ۱۹۵۶ء میں نیروبی میں مشرقی افریقہ سے جہاں وہ بطور انسپکٹر سکولز کام کرتے تھے تبدیل ہو کر سیرالیون مغربی افریقہ آئے اور حکومت سیرالیون کی طرف سے ترقی دے کر وہ ڈائریکٹر تعلیم بنا دیئے گئے.وہ ایک مرتبہ فروری ۱۹۵۶ ء میں سکولوں کے معائنہ کے لئے سیرالیون کے وسطی شہر بو آئے خاکسار اس زمانہ میں جماعتہائے سیرالیون کا امیر ہونے کے علاوہ جنرل سپرنٹنڈنٹ احمد یہ سکولز بھی تھا.وہ ”بو پہنچ کر سب سے پہلے ہمارے سکول کے معائنہ کے لئے تشریف لائے اور ہمارے سکول کے کام سے بہت خوش ہوئے اور سکول کی Log Book میں انہوں نے بڑے اچھے ریمارکس دیئے اور سکول کے ایک ونگ کے ساتھ ایک مزید کلاس روم بنانے کی سفارش کی اور اخراجات کا انتظام بھی فرما دیا.وہ چونکہ سیرالیون میں نئے نئے آئے تھے میں نے یہ خیال کیا کہ انہیں احمدیہ مشن اور جماعت کے متعلق کچھ واقفیت بہم پہنچائی جائے.چنانچہ انہیں سلسلہ کی چند انگریزی کتب اور قرآن کریم انگریزی پیش کرنے کے علاوہ میں نے جماعت کے متعلق زبانی بھی انہیں بہت کچھ بتایا اور یہ بھی کہا کہ آپ کو علم ہی ہوگا کہ مشرقی افریقہ کے مختلف علاقوں میں بھی ہمارے کئی مشن اور جماعتیں اور سکولز اور (مربی) کامیابی سے خدمتِ خلق میں مصروف ہیں وہ میری باتیں سن کر ہنستے ہوئے کہنے لگے.آپ سمجھتے ہیں کہ میں آپ کے مشن اور مذہب ( دین حق) سے ناواقف محض

Page 106

94 ہوں اور کچھ نہیں جانتا.میں تو ایک لمبے عرصہ سے نہ صرف آپ کے مشن سے اور آپ کی ( دعوت الی اللہ ) اور تعلیمی سرگرمیوں سے متعارف ہوں بلکہ آپ کی جماعت اور ( مربیان ) سے میرے بڑے اچھے مراسم رہے ہیں اور میں آپ کی جماعت کے مداحوں میں سے ہوں اور بہت کچھ جانتا ہوں.بلکہ آپ کے جماعت کے افراد کے اعلیٰ اخلاص اور حسنِ کردار سے بہت متاثر ہوں اور کئی ایک سے میرے دوستانہ مراسم بھی رہے ہیں نیروبی کے محکمہ تعلیم میں آپ کے کئی سرکردہ نمبر میرے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں ان میں سے اپنے ایک احمدی مخلص دوست محترم محمود اللہ شاہ صاحب (مرحوم) کو تو ان کی علمی قابلیت اور بلند اخلاق اور امانت و دیانت کی وجہ سے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا وہ بھی میری طرح وہاں انسپکٹر آف سکولز تھے اور میں ان کی جاذب اور پرکشش شخصیت اور حسنِ معاملہ اور دوست پروری سے بہت متاثر تھا.اس پر میں نے عرض کیا آپ نے انجیل مقدس میں حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ قول تو ضرور پڑھا ہو گا کہ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اپنے احمدی دوستوں اور ہم پیشہ ساتھیوں کے متعلق آپ کی یہ رائے بڑی صائب اور قابلِ قدر ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کے قول کی روشنی میں آپ کو غور کرنا چاہئے.کیا آپ کے احمدی دوستوں کا یہ کردار اس امر کا ثبوت نہیں ہے کہ جس روحانی درخت سے احمدی وابستہ ہیں وہ سچا اور شیریں پھل دینے والا درخت ہے.یعنی ( دینِ حق ) ایک سچاند ہب ہے جو اپنے مخلص پیروؤں کو اعلیٰ اخلاقی اور تمدنی معیار پر پہنچانا ہے اور حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام واقعی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح ایک مامورمن اللہ اور عظیم مصلح ہیں کیونکہ پھل میٹھے درخت کے ہی میٹھے ہوتے ہیں کڑوے درخت کے پھل میٹھے نہیں ہو سکتے.میری یہ بات وہ غور سے سنتے رہے اور پھر کہنے لگے میں نے تو صاف گوئی سے کام

Page 107

95 لے کر آپ کے سامنے حقیقت کا اظہار کیا ہے.ورنہ ابھی تک میں نے آپ کی جماعت کے بانی کے دعاوی اور تعلیم اور ( دین حق ) کے سچا مذہب ہونے کے بارے میں بھی سوچا ہی نہیں اور نہ اس طرف کبھی خیال کیا ہے کیونکہ میرا اس حد تک مذہب سے لگاؤ نہیں ہے.ہاں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آپ بھی دوسروں کی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے ہیں اور دین کی تعلیم پر صحیح طور پر عمل کرنے اور غیر مسلموں کو ( دین حق) کی تعلیم سے آشنا کرنے میں دوسروں سے زیادہ مستعد اور زیادہ کوشاں ہیں.“ آخر میں خاکسار نے ان سے عرض کیا کہ چونکہ اس دنیا میں انسانی زندگی کے حقیقی مقصد کی طرف صرف مذہب ہی رہنمائی کرتا ہے اس لئے ہم مذہب سے بیگانگی یا بے اعتنائی نہیں برت سکتے.لہذا میں امید کرتا ہوں کہ میری طرف سے آپ کو پیش کرده ( دین حق ) کی مقدس کتاب قرآن کریم اور دیگر ( دینی ) لٹریچر کا آپ گہری نظر سے مطالعہ کریں گے اور ( دین حق ) اور احمدیت کی حقیقت اور سچائی معلوم کرنے کی پوری کوشش کریں گے اور حق واضح ہو جانے پر ( دین حق ) قبول کر کے اور حضرت سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آ کر اس دنیا میں اپنی زندگی کے حقیقی مقصد کو پورا کرنے والے بنیں گے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۱ / مارچ ۱۹۸۳ء)

Page 108

96 فرشته سیرت، نہایت مخلص، اعلیٰ کردار کے مالک مشرقی افریقہ کے مخلصین میں سے ایک خاندان مکرم و محترم سیٹھ عثمان یعقوب میمن کا خاندان ہے.آپ کے حالات زندگی آپ کے بچوں مکرمہ امینہ عثمان میمن صاحبہ اور مکرم اسحق عثمان صاحب آف لندن نے ۱۹۹۹ء میں شائع کرنے کی سعادت حاصل کی.مکرم و محترم سیٹھ عثمان یعقوب میمن صاحب مشرقی افریقہ میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے دوست احباب میں شامل تھے.محترم الحق عثمان صاحب حضرت شاہ صاحب کے بارے میں تحریر کرتے ہیں: ’والد صاحب کے دوستوں میں بہت ہی مشہور ہستیوں میں دو بھائی سید محمود اللہ شاہ صاحب اور سید عبدالرزاق صاحب تھے.یہ حضرت خلیفۃ اسیح الرابع ( رحمہ اللہ تعالیٰ) کے ماموں تھے.سید محمود اللہ شاہ صاحب فرشتہ سیرت نہایت مخلص اور اعلیٰ کردار کے مالک تھے.ان کے بلند اخلاق اور انکساری نے والد صاحب کا دل موہ لیا تھا.شاہ صاحب گورنمنٹ ہائی سکول میں پرنسپل تھے.احمد یہ جماعت نیروبی کے پریزیڈنٹ بھی تھے.اُن کے تین طالب علم اُن کی نیکی اور حلیم طبیعت سے متاثر تھے اُن کی بہت عزت کرتے تھے.اُن کے اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہو کر وہ جماعت میں شامل ہوئے.ہمارے پڑوس میں چوہدری فتح محمد صاحب رہتے تھے جو احمدیوں سے سخت عنا در رکھتے تھے.پہلے نوجوان جو شاہ صاحب کے اخلاق سے متاثر ہوئے ان کے صاحبزادے تھے جن کا نام محمد مسعود تھا اُنہوں نے احمدیت قبول کی.والدین نے بہت سختی کی اور آخر کار بیٹے کو عاق کر دیا.وہ ملک چھوڑ کر انڈیا چلے گئے.اللہ تعالیٰ نے اِن کی ہجرت کو اس رنگ میں قبول کیا کہ دین ودنیا دونوں سے نوازا.وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر رہے.محمد امین احمدی کے کہنے کے مطابق وہ لاہور میں Mayor بھی رہ چکے ہیں.دوسرے نو جوان کریم منہاس

Page 109

97 تھے.ان کے والد کمپالہ میں ٹھیکیدار تھے اور مسلمانوں کی جماعت کے لیڈر تھے.یہ بھی احمدیت سے سخت تعصب رکھتے تھے اور مخالفت میں پیش پیش رہتے.انہوں نے بھی اپنے بیٹے کو احمدیت قبول کرنے کے جرم میں عاق کر دیا.وہ بھی ہندوستان چلے گئے.کراچی میں دل کے امراض کے سپیشلسٹ رہے.پھر وہ امریکہ چلے گئے اور وہاں بہت ترقی حاصل کی.تیسرے اسمعیل بوہرہ تھے.ان کو بھی احمدیت میں داخل ہونے کی بھاری قیمت دینی پڑی.گھر بار چھوڑ کر جانا پڑا.یہ وہ تین لڑکے تھے جو شاہ صاحب کی حلیم طبیعت سے متاثر ہوکر جماعت میں داخل ہوئے یہ شاہ صاحب کی نیکی کا نتیجہ تھا.“ دعائیه کرشمه شاہ صاحب دُعا گواور بڑی دل آویز شخصیت کے مالک تھے.ہر قوم میں ہر دالعزیز رہے.عبادت گزار تھے.قبولیت دعا بھی معجزانہ تھی.ہماری ( بیت ) کے سامنے کرشن نائیر نام کا ایک نیک فطرت ہندور ہتا تھا.اس کا بچہ بیمار تھا بچہ بے ہوش ہو گیا اور ڈاکٹر نے جواب دے دیا کہ زندگی کی کوئی امید نہیں.بچے کی حالت بھی بہت بگڑ چکی تھی.والدین بے قرار اور بے بس تھے.اتنے میں (بیت) سے صبح کی اذان کی آواز گونجی تو نائیر صاحب نے سوچا بچہ تو جاں بلب ہے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے کیوں نہ اسے شاہ صاحب کے پاس لے چلوں کہ وہ دعا کریں.وہ بچے کو اُٹھا کر ( بیت ) میں لے گیا.فجر کی نماز شروع ہو چکی تھی.وہ پیچھے بیٹھ کر انتظار کرنے لگے.جب شاہ صاحب نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ نائیر بچے کو اٹھائے بیٹھا ہے.شاہ صاحب نے استفسار کیا تو نائیر نے حالت بیان کی اور دعا کی درخواست کی.شاہ صاحب نے بچے کو ہاتھوں میں اُٹھایا اور محراب میں داخل ہو گئے.بچے کو سامنے لٹایا اور ہاتھ پھیلا دیئے اور دیر تک اللہ میاں سے گڑ گڑائے.کچھ وقت بعد دوران دعا وہ بچہ جو

Page 110

98 رات سے بے ہوش تھا، جس پر نزع کا عالم طاری تھا، ہوش میں آنے لگا تو بچے کونائیر صاحب کے سپرد کیا.یہ دعا کا ایک بہت بڑا معجزہ تھا.آخر بچہ تندرست ہو گیا.نائیر صاحب اُن کو بھگوان کے روپ سے یاد کیا کرتے تھے.والد صاحب کے حالات اور اُن کی استقامت کا شاہ صاحب پر بہت اثر تھا اور آپ والد صاحب کیلئے بھی دعائیں کرتے والد صاحب سے ہمدردی رکھتے اور بے پناہ شفقت سے نوازتے.امام مبین کا اجرا جماعت کی طرف سے (دعوت الی اللہ کے) اشتہارات کا سلسلہ ہمیشہ سے رہا ہے جس میں امام مہدی علیہ السلام کے متعلق کثرت سے ذکر ہوا کرتا.والد صاحب اس پروگرام کے مطابق امام مبین کے عنوان سے گجراتی زبان میں اشتہار شائع کرتے رہے.اس اشتہار میں امام الزمان، امام وقت، مہدی علیہ السلام جیسے الفاظ کے علاوہ ایک خاص بات اور بھی تھی جو اسماعیلیوں کو ناگوار گزری اور وہ ۷۳ فرقوں والی حدیث تھی کہ ایک فرقہ ناجی ( نجات یافتہ ) ہو گا.اس فرقہ کی پہچان یہ ہوگی کہ وہ صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والا ہوگا اور اس کی مشابہت جماعت احمدیہ سے دی گئی تھی.جبکہ وہ لوگ اپنے آپ کو امام کے تابع اور ناجی خیال کرتے ہیں.نیروبی ایک بہت چھوٹا مگر خوبصورت شہر ہے.یہ بالکل سنٹر میں واقع ہے.یہاں پر تمام قوموں کی عبادت گاہیں، مندر، گوردوارے، جماعت خانه، بوہرہ مسجد وغیرہ ، کانفرنس ہال ، سینما گھر، لائبریری کلب، بڑے بڑے ہوٹل، چھوٹے موٹے کیفے ، ہندؤوں اور مسلمانوں کے سکول وغیرہ ہیں.وہاں سیاح اس وقت بھی آتے تھے اور آج بھی آتے ہیں.اسی وجہ سے ہماری جماعت وہاں پر اشتہارات بانٹا کرتی تھی.آغا سلطان محمد شاہ وہاں پر آئے تھے.اس سے پہلے بھی چند آغا خانی نوجوانوں

Page 111

99 میں بے چینی پائی جاتی تھی.اب انہوں نے اپنے مشنری سے سوال کئے.جس کے جواب میں ان نوجوانوں کے لیڈر غلام حسین بیچارے کی پٹائی ہوئی.اس کے بازو اور سر پر چوٹیں آئیں.انہوں نے مل کر بعد میں خوب پروپیگینڈا شروع کیا.جس کا اثر ممباسہ اور دار السلام میں بھی ہوا.اور کئی اسماعیلیوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی اور اہل سنت جماعت میں داخل ہو گئے.یہ.واقعہ غالبا ئی یا جون ۱۹۴۶ ء کا تھا.اس کے بعد ان کے ایک اسماعیلی ٹیچر جس کو بعد میں مشنری کی پوزیشن دی گئی اس نے والد صاحب سے خط و کتابت شروع کی.اس کا نام جمعہ پریم جی روپانی تھا.بہت مشہور شخصیت تھی.وہ کافی دیر تک والد صاحب کے ساتھ سوال و جواب کرتا رہا.جب ان کے پاس کوئی چارہ نہ رہا تو انہوں نے انجمن حمایت اسلام سے امداد حاصل کی.احمدیوں کے خلاف وہ گند جو ملاں سو سال سے اچھالتے آئے ہیں اس کا سہارا لیا.آخر تھک ہار کر بیٹھ گئے.روپانی نے اپنی کتاب میں اس واقع کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم نے مرزائیوں کے پمفلٹ کا منہ توڑ جواب دیا مگر اس کی کوئی تفصیل نہیں دی.اس کے معا بعد والد صاحب کو تجارت کے سلسلے میں سرکاری ٹینڈر کیلئے ممباسہ جانا پڑا.۱۹۴۶ء میں والد صاحب حج کیلئے روانہ ہو گئے.واپس آ کر اپنی دیرینہ خواہش کے مطابق قادیان دارالامان گئے.وہاں کچھ دیر قیام کر کے اپنے ملک کاٹھیاواڑ سے ہوتے ہوئے ۱۹۴۷ء میں نیروبی واپس آگئے.غالباً دو یا تین سال کے وقفہ کے بعد کمپالا کے اسماعیلیوں نے ایک خاص موقعہ پر شکوہ کیا جس کا اصل حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا.اس کی شکایت مرکز تک پہنچی.اس سلسلے میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے دو باتیں فرما ئیں وہ مجھے یاد ہیں.پہلی یہ کہ جب آغا سلطان محمد شاہ نیروبی تشریف رکھتے تھے اس موقعہ پر اشتہار نہیں بانٹے چاہئیں تھے.دوسری یہ کہ آئندہ ایسی غلطی نہ ہونے پائے

Page 112

100 اور جو ( دعوت الی اللہ کے ) کام ہوں وہ (مربیان ) کے ذمے لگائے جائیں.والد صاحب کو وہ دن بھی یاد تھے جب وہ اپنے کو تنہا محسوس کرتے اور اس تلاش ہیں رہتے کہ کوئی احمدی مل جائے.اب اللہ تعالیٰ نے ایک جماعت عطا کر دی تھی جو ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر نہ صرف (دعوت الی اللہ کے ) کاموں میں شامل تھی بلکہ ہر قسم کی مالی قربانی پر کمر بستہ تھی.اب ان کو اذیت پہنچانے والے رشتہ داروں کے بجائے مومن اور پر ہیز گار رشتہ دار ملے.ان دوستوں میں سے ایک کا ذکر کر چکی ہوں جو احمدی ہوئے اور بڑی بڑی رقمیں چندوں میں دیتے رہے.ان میں سے ایک محمد اکرم غوری صاحب تھے.آغا اکرم غوری صاحب نہایت شریف اور مخلص انسان تھے.ایک دفعہ غوری صاحب سید محمود اللہ شاہ صاحب سے ملنے ان کے گھر گئے.اس وقت شاہ صاحب باہر جانے کی تیاری کر رہے تھے.انہوں نے غوری صاحب سے کہا کہ آؤ میں تمہیں ایک نیک ہستی سے ملاؤں.شاہ صاحب غوری صاحب کو ہمارے گھر لائے اور اس طرح ان کی ملاقات والد صاحب سے ہوئی اور وہ والد صاحب سے بہت متاثر ہوئے اس بات کا ذکر انہوں نے اپنے خط میں کیا جو میرے پاس موجود ہے.افریقہ میں غوری صاحب جماعت کے مختلف شعبوں میں کام کرتے رہے.بہت ہی خوشخط تھے اور جماعت کے پمفلٹ وغیرہ انہی سے ہی لکھوائے جاتے.انہوں نے اپنے ہاتھوں سے مکمل قرآن کی جلد لکھی ہے جسے دیکھ کر انسان کی روح خوش ہو جاتی ہے.اس کے علاوہ لندن میں بھی غوری صاحب مختلف شعبوں میں کام کرتے رہے اور انہوں نے کئی انگریزی کتب کا ترجمہ کیا ہے.غوری صاحب کا مالی قربانی کا اپنا ایک انوکھا انداز تھا.ان کو تحریک نہیں کی جاتی بلکہ ان کی اولوالعزمی دوسروں کیلئے تحریک بن جاتی.سیٹھ عثمان یعقوب میمن اور مشرقی افریقہ کے احباب کا تذکرہ بار اول ۱۹۹۹ء صفحہ ۵ تا ۵۳)

Page 113

101 عشق رسول سے معمور ، صاحب الہام، نرم مزاج مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے تحریر فرماتے ہیں: تقسیم برصغیر کے وقت کے نہایت کٹھن حالات میں جن بزرگ ہستیوں نے دیگر مسلمانوں کو جو مفاضات قادیان میں جمع ہو رہے تھے اور جماعت کو محفوظ رکھنے، بحفاظت لاہور بھجوانے اور قادیان میں متعین سول اور فوجی حکام سے رابطہ رکھنے کی خصوصی خدمات سرانجام دیں.ان میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب بھی شامل تھے.اس کام کا مرکز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کا مکان تھا.خاکسار بھی اس مرکز میں ان بزرگان کے ماتحت کام کرنے والوں میں شامل تھا“ اخلاق فاضلہ ”آپ عشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور، صاحب الہام، ذکر الہی کرنے والے، عفیف، نظافت پسند، خنده رو، (اور ) نرم مزاج بزرگ تھے.باوجو د شدید علالت کے بشاشت سے سلسلہ اور احباب کے کام کو سرانجام دیتے تھے.آپ حسنِ اخلاق کی وجہ سے احباب میں بہت مقبول ومحبوب تھے.آپ ہر ایک کی خدمت کرنے کو تیار رہتے تھے.کسی وجہ سے کسی کا کام نہ ہو سکتا تب بھی آپ کی ہمدردی کا اس پر خاص اثر ہوتا.“ تابعین....احمد ، جلد سوم، با رسوم صفحه ۶۵-۷۱)

Page 114

102 خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں تاثرات مکرم و محترم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی) حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے بارے میں سب سے پہلا تصور جو ذہن میں ابھرتا ہے وہ ان کے قدوقامت ، چہرے مہرے، ان کے چلنے کے انداز اور ان کی سیرت اور طرزِ زندگی ہے.آپ کے عہد میں سکول میں ہم تو بچے ہی تھے.ٹی آئی سکول میں آمد سے قبل حضرت شاہ صاحب پہلے مشرقی افریقہ میں سروس کر چکے تھے.وہاں سے واپس قادیان تشریف لائے.جو مجھے یاد پڑتا ہے ہمارے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں سید سمیع اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر ہوا کرتے تھے.ان کا دور اپنے رنگ میں ایک عجیب دور تھا.ان کی طبیعت بڑی جدت پسند تھی.آپ نے طلبا کی اصلاح کیلئے بعض ایسے طریقے اختیار کیے جو بعد میں مقبول نہیں ہوئے لیکن ان کی طبیعت میں وہی جدت تھی.اس کا ذکر کر نا ضروری نہیں ہے کہ وہ کیا طریقے انہوں نے اختیار کیے.جب سید محمود اللہ شاہ صاحب ٹی آئی سکول قادیان میں ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے تو سب پہلے آکر انہوں نے اساتذہ کے ہاتھ سے چھڑی موقوف کروادی کہ بچوں کو بدنی سزا بالکل نہیں دی جائے گی.وہ بالکل اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ بچوں کو بدنی سزا دی جائے.حالانکہ اس زمانے میں سکولوں میں عام رواج تھا ٹیچروں کے پاس بید ہوا کرتے تھے یا سوٹیاں ہوا کرتی تھیں اور پنجاب کے سکولوں میں تو عام طور پر لطیفے کے طور پر مشہور تھا کہ وگڑے تگڑیاں دا پیر اے ڈنڈا.(اس وقت ڈنڈے یا چھڑی کو مولا بخش کہا جاتا تھا) مجھے یاد پڑتا ہے کہ اگر کسی طالب علم سے کوئی بہت ہی سنگین غلطی سرزد ہوگئی ہو تو شاید اسمبلی میں ایک آدھ دفعہ کسی طالب علم کو سزادی گئی ہور نہ کلاس روم میں عام طور پر ڈنڈے کے استعمال کی اجازت نہ تھی.

Page 115

103 طلباء کیلئے مفت کتب کا اہتمام جب چنیوٹ میں سکول قائم ہوا تو اس وقت حالت یہ تھی کہ ٹوٹی پھوٹی بلڈنگ ہمیں ملی.جس میں غالباً اب ٹریننگ ایلیمنٹری کالج ہے.چنیوٹ سے گزر کر لا ہور کو جب مڑتے ہیں تو دائیں طرف کی عمارت میں اسکول پہلے پہلے آ کے قائم ہوا تھا.اس زمانے میں کہاں کرسیاں اور کہاں میزوں پر ہم بیٹھا کرتے تھے.لٹے پٹے عالم میں ہم لوگ آئے تھے.کسی کے پاس کوئی وسائل نہ تھے.حضرت شاہ صاحب نے یہ طریق اختیار کیا کہ کتابیں بچے نہ خریدیں.چنانچہ انہوں نے ہر مضمون کی کتابوں کے سیٹ منگوا کر سکول کی لائبریری میں رکھوا دیئے.چالیس پچاس کی یاتمیں پینتیس بچوں کی کلاس ہوتی تھی اور تمیں پائیس کتا ہیں لائبریری سے آ جاتی تھیں اور وہ کلاس میں تقسیم ہو جاتیں.اس طرح پڑھائی ہو جاتی.کلاس کے بعد وہ کتب واپس لائبریری میں چلی جاتیں.کاپیاں لڑکے اپنی استعمال کرتے اور اساتذہ نوٹس تیار کر کے طلباء کو دیا کرتے تھے.اس زمانہ میں اساتذہ کرام ایسی ہی شفقت سے پڑھاتے تھے.یہ حضرت شاہ صاحب کی اپنی طبیعت کا کمال تھا جو انہوں نے اساتذہ کو ایک لہی جذبے کے ساتھ پڑھانے پر لگا دیا تھا.سارے اساتذہ ہمیں بڑی محنت سے پڑھاتے.آپ کے زمانے میں ٹی آئی سکول نے جبکہ سارے وسائل گو یا معدوم تھے اور پہلے دو تین سال تو بہت ہی مشکل حالات تھے.پنجاب یونیورسٹی کے زیر انتظام اس وقت امتحان ہوا کرتے تھے.پنجاب یونیورسٹی کی اعلیٰ پوزیشنیں ہمارے طلباء کی ہوتیں.رزلٹ ایسا اچھا نکلتا کہ پچانوے فیصد طلباء فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوتے.ٹی آئی سکول کے ساتھ ہی چنیوٹ کی شیخ برادری کا اصلاح ہائی سکول ہوا کرتا تھا.وہ سکول اب بھی ہے غالباڈگری کالج ہے.اس دور میں جب ہمارے سکول کی شہرت ایسی بڑھی تو اصلاح سکول سے لوگوں نے اپنے بچے ہمارے سکول میں داخل کرانے شروع کر دیئے.وہاں کی انتظامیہ نے حضرت شاہ صاحب سے احتجاج کیا کہ آپ یہ ہمارے طالب علم کیوں لیتے

Page 116

104 ہیں.ان کی شکایت پر جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت شاہ صاحب نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ دورانِ سال آپ کے سکول کا ہم کوئی طالب علم نہیں لیں گے.سیرت و شخصیت حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نہایت خوبصورت آدمی تھے سرخ اور سفید رنگ تھا، سوٹ پہنا کرتے تھے.عام طور پر اس زمانے میں قادیان میں سوٹ پہنے ہوئے لوگ تو بہت کم ہی نظر آتے تھے.قیام پاکستان کے بعد سید محمود اللہ شاہ صاحب چنیوٹ آ گئے.اور ہماری خوش بختی کہ چنیوٹ میں بھی آپ ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.آپ گھر سے سکول تک پیدل چل کے جاتے.نظریں نیچی کی ہوئی ہوتیں.چلنے کا انداز بڑا پُر وقار تھا.طبیعت میں متانت بہت زیادہ تھی.حتی کہ چنیوٹ کے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ قادیان کے سکول کے ہیڈ ماسٹر تو فرشتہ ہیں.حضرت شاہ صاحب کی طبیعت میں حیا بہت تھی.آنکھیں کم اٹھاتے بہت ہی مہربان وجود تھا اور طالب علموں کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پیش آتی تھی.لیکن اُن کا ایک خاص رعب تھا.ایک بہت بڑا اور نمایاں عصر جو ان کی شخصیت کا جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ چنیوٹ کے لوگ کہتے تھے کہ ان کا ہیڈ ماسٹر فرشتہ ہے بہت ہی خاموش طبع اور بہت ہی خوبصورت انسان تھے.چہرے پہ مسکراہٹ کھلی رہتی تھی.ان کے آنے سے ٹی آئی سکول کا معیار بہت بلند ہو گیا تھا.ہمارے اساتذہ کرام قادیان میں اور چنیوٹ میں بھی ان کے بعد دوسرے ہیڈ ماسٹر ہوئے سبھی بڑے اچھے ہیڈ ماسٹرز تھے.میں نے تو حضرت شاہ صاحب کے زمانے میں ہی میٹرک کیا.اس کے بعد صوفی غلام محمد صاحب یا صوفی ابراہیم صاحب ہیڈ ماسٹر ہوئے.پھر ماسٹر عبدالرحمن صاحب لائکپوری ہیڈ ماسٹر ہوئے.اسی طرح مکرم ماسٹر عبدالرحمان بنگالی صاحب ہیڈ ماسٹر ہوئے.پھر ماسٹر ابراہیم صاحب جموں والے ہیڈ ماسٹر ہوئے.ماسٹر عبدالرحمان صاحب لائل پور والے

Page 117

105 ہمیں جیومیٹری اور Mathematics پڑھایا کرتے تھے جبکہ ماسٹر اسد اللہ خان صاحب ہمیں جیوگرافی پڑھاتے.بڑے نفیس آدمی تھے وہ بھی کیا اساتذہ کا ایک جمگھٹا اور ایک کہکشاں تھی.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے سکول میں آ کے یہ رواج دیا تھا کہ اساتذہ کرام ہوم ورک بھی دیں اور طلباء کی کاپیاں خود چیک کریں.کاپیوں کے ڈھیر کے ڈھیر لگ جاتے اور وہ چیک ہو کے واپس آتیں.حضرت شاہ صاحب کے زمانے میں ڈسپلن پر بہت زور تھا اور نماز کے وقت میں ( ظہر کی نماز سردیوں کے زمانے میں سکول کے اوقات میں ہوتی تھی ) اس کا بڑا خاص اہتمام کیا کرتے.میں جب بھی ربوہ آتا ہوں بہشتی مقبرے ضرور جاتا ہوں.جہاں دیگر بزرگان کی قبروں پہ حاضری دیتا ہوں وہاں حضرت شاہ صاحب کی قبر پہ بھی ایک خاص جذبے کے ساتھ جا کر حاضری دیتا ہوں.حالانکہ ہم آپ کے دور میں بچے تھے ہمیں اتنا زیادہ ذاتی تعلق تو نہیں ہوسکتا.لیکن حضرت شاہ صاحب سے اس زمانے کے بچے بھی ایک ذاتی تعلق محسوس کرتے تھے اب بھی محسوس کرتے ہیں.بہت ہی شفیق وجود بہت ہی خوبصورت بہت ہی پارسا بہت ہی نیک انسان تھے.قیام پاکستان جب پارٹیشن کے بعد ہم چنیوٹ میں آئے تو اس وقت بھی حضرت سید محمد اللہ شاہ صاحب کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک شاہکار دیکھنے میں آیا.یہاں آتے ہی چنیوٹ میں سکول قائم کر دیا گیا ہوٹل کے لئے ایک بلڈنگ تھی جس میں صوفی غلام محمد صاحب رہتے تھے.اس بلڈنگ میں جامعہ احمدیہ کی کلاسز کچھ دن غالباً ہوئی تھیں.پھر سڑک کے کنارے ایک اور بلڈنگ ہوتی تھی اس میں دو منزلہ بلڈنگ تھی جس میں ہوٹل کے طلباء رہتے تھے.یعنی اس دور میں بھی بورڈنگ ہاؤس اور ہوٹل کا قیام رکھا گیا تھا.جو ایک جگہ نہیں مختلف عمارتوں میں تھا.پھر اس میں بچوں کی نگرانی کو قائم رکھا اور جب ربوہ کی زمین خریدی گئی اور افتتاح ہوا تو حضور افتتاح کے لئے لاہور سے تشریف لائے.وہ جگہ جہاں اب فضل عمر ہسپتال کے اندر بیت یادگار بنی ہوئی ہے.وہاں پر خیمہ نصب کیا گیا.حضور نے وہاں خطاب فرمایا.اس موقعہ پر

Page 118

106 حضرت شاہ صاحب کی ہدایت پر چنیوٹ سے سکول کے طلباء آکر اس بابرکت اور تاریخی تقریب میں شامل ہوئے.میں اس وقت نویں جماعت کا طالب علم تھا.میرے بھائی عطاء الرحمن ، چوہدری مبارک مصلح الدین صاحب ، چوہدری حمید اللہ صاحب (وکیل اعلیٰ تحریک جدید ) اور ڈاکٹر شفیق احمد ( جو کچھ عرصہ ملتان کے امیر رہے ) اس دور کے طلباء میں شامل ہیں.اس طرح جھنگ کے کچھ دوست تھے.اس زمانے کے طالب علموں کو اللہ تعالیٰ نے خدمات سلسلہ کی بڑی توفیق عطا فرمائی ہے اور اب بھی وہ خدمات بجالا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑی بڑی نوازشیں کیں.اس کی ایک وجہ ان طالب علموں کا ان بزرگوں سے تربیت حاصل کرنا ہے.ہم چنیوٹ سے آئے تھے اور احمدنگر سے بھی جامعہ کے طالب علم اس افتتاحی تقریب میں آئے تھے.اور مجھے بچپن کا وہ تصور یاد ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ نے مختلف جگہوں پر صدقہ کے طور پر بکرے قربان کئے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ چل کے جاتے اور اتنا تیز قدم تھا کہ گرد اڑتی تھی.تو یہ بھی حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے زمانے کی بات ہے.جب ربوہ کا افتتاح ہوا ہمارا سکول اس وقت چنیوٹ میں تھا.میں کچھ عرصہ بعد چنیوٹ سے لاہور آ گیا.اس کے بعد ٹی آئی کالج میں پڑھا.پھر ائیر فورس میں چلا گیا.اور اس کے بعد حضرت شاہ صاحب سے ملنے کا موقعہ نہ ملا.یہ چند باتیں جو میں نے بتائی ہیں محض اللہ برکت کے حصول کی خاطر کہ ہمارے اس عظیم محسن ہیڈ ماسٹر کا ذکر خیر ہو جائے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را ع تاثرات حاصل کردہ بمقام سرائے محبت ۱۴ / مارچ ۲۰۰۳ء)

Page 119

107 اذْكُرُوا مَوتكُم بِالْخَيْرِ مکرم و محترم چوہدری محمد صدیق صاحب سابق انچارج خلافت لائبریری تحریر کرتے ہیں: حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب، حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادہ تھے.آپ کے والد محترم ہمارے بچپن کے زمانہ میں دار الرحمت قادیان میں رہائش پذیر تھے.لیکن آپ ملک سے باہر مشرقی افریقہ میں ملازم تھے.افریقہ سے آنے پر حضرت اصلح الموعود نور اللہ مرقدہ نے آپ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر مقررفرمایا.سکول کی عمارت تعلیم الاسلام کالج کے اجراء پر کالج کو دیدی گئی اور سکول نئی عمارت متصل نور ہسپتال قادیان میں منتقل ہوا.آپ نے اپنی خداداد قابلیت سے سکول کو بہتر طور پر چلایا اور بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت فرمائی.لمصل آپ کی شادی محلہ دارالرحمت قادیان کے حضرت شیخ نیاز محمد صاحب کی بیٹی محترمہ فرخندہ اختر صاحبہ سے ہوئی جس سے آپ کے ہاں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہوئی.ہجرت کے بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول کو چنیوٹ میں ایک متروکہ سکول کی عمارت ملی جو نہایت خستہ حالت میں تھی.آپ نے اپنے حسن تدبیر سے اپنے سٹاف کے ممبران کے ذریعہ زیادہ مرمت وقار عمل کے ذریعہ کروائی.ہجرت کے بعد طلباء ملک کے مختلف حصوں میں بٹ گئے تھے.تاہم جو طلباء بھی سکول میں داخل ہوئے آپ نے ان سے نہایت مشفقانہ سلوک فرمایا اور انکی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ تعلیم کا بہترین معیار قائم فرمایا.آپ بے حد شفیق انسان تھے.محبت اور شفقت سے نہ صرف سٹاف کے ممبران کے دل موہ لیتے تھے بلکہ طلباء اور ان کے لواحقین بھی آپ کی تعریف اور آپ کی خوبیوں کے گن گاتے تھے.اہالیان چنیوٹ بھی باوجود اختلاف عقیدہ کے ان کا بے حد احترام کرتے تھے.قیام ربوہ کے موقعہ پر خاکسار اور چودھری عبدالسلام اختر صاحب شامیانے وغیرہ لاہور سے لیکر آئے چونکہ برسات کا موسم تھا.پنڈی بھٹیاں والا راستہ خراب تھا ہم براستہ

Page 120

108 الا کپور (فیصل آباد ) آئے.چنیوٹ پہنچنے تک شام ہورہی تھی.عصر مغرب کا درمیانی وقت تھا.مکرم چودھری عبدالسلام اختر صاحب نے سکول میں پیغام چھوڑا کہ فوری طور پر نو جوان طالب علم لالٹینیں لے کر ربوہ کے لئے الاٹ شدہ جگہ پر پہنچیں.چنانچہ حضرت شاہ صاحب کے تعاون سے وہ طالب علم پہنچ گئے اور اس طرح حضرت شاہ صاحب کے تعاون سے ہم لالٹینوں کی روشنی میں رات کو خیمے نصب کر سکے.جس سے ظاہر ہے کہ حضرت شاہ صاحب کے دل میں ہماری ضرورت کا کس قدر احساس تھا.مختصر یہ کہ آپ بے انتہاء خوبیوں کے مالک اور اسم با مسمی اور تعریف کے قابل تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماوے اور اعلی علیین میں اپنے قرب خاص سے نوازے.اور ان کے اہل و عیال کو بھی آپ کا حقیقی وار بنادے.اللھم آمین.‘“

Page 121

109 متبسم چہرہ مکرم ومحترم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال اول تحریک جدید انجمن احمد یہ اپنے مکتوب بنام مکرم صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان محررہ ۶ نومبر ۲۰۰۲ء میں تحریر فرماتے ہیں: تحریر خدمت ہے کہ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) ان بزرگوں میں سے تھے جن کی ایک جھلک ہی انسان کو متاثر کرنے کیلئے کافی تھی.خاکسارا ۱۹۵ء میں ربوہ کے مرکز میں واقف زندگی کی صورت میں حاضر ہوا اور پہلے روز سے ہی تحریک جدید کے حال کے شعبہ میں بطور نائب وکیل المال متعین کیا گیا.یہ کام میرے لئے بالکل نیا تھا اور بہت محنت طلب تھا.جس کے نتیجہ میں ایک لمبا عرصہ مجھے اپنے ماحول کے علاوہ کسی اور ماحول میں جانے کا موقع نہ مل سکا تھا.تا ہم ایک تقریب میں حضرت شاہ صاحب مدوح کو دیکھنے کا موقع ملا.ان کی متبسم چہرے کے ساتھ گفتگو کا انداز متاثر کئے بغیر نہ رہ سکا.میرے لئے ان کی عظمت کردار کا اندازہ کرنے کیلئے ان کی یہی ایک جھلک کافی رہی.کاش میں ایسی عظیم شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع یا تا.“

Page 122

110 تہجد، نماز با جماعت اور تلاوت قرآن کریم مکرم و محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ابن حضرت سید میر محمد الحق صاحب نوراللہ مرقدہ اپنے مکتوب محرره ۷ نومبر ۲۰۰۲ ، بنام مکرم صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان میں تحریر فرماتے ہیں.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ) کے متعلق تاثرات میں ایک تاثر تو وہی ہے جو ان کے بزرگ خاندان کے سارے افراد کے متعلق ہے.(حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، حضرت ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب ، حضرت سید عبدالرزاق شاہ صاحب ، حضرت بزرگ صاحبه سیده زینب النساء بیگم صاحبہ ( اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو ) جن کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا کہ تہجد ، نماز با جماعت اور تلاوت قرآن مجید ان سب کا شیوہ تھا.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب سے کچھ وقت پڑھنے کا موقع بھی ملا.ان کی باقاعدگی، سادگی مگر صفائی ونفاست اور بیک وقت پوری بشاشت اور پوری سنجیدگی کا تاثر طبیعت پر ہے.مجھے ان کے دفتر ہیڈ ماسٹر T.I.High School چنیوٹ میں کچھ عرصہ انگریزی پڑھنے کا موقعہ ملا.انگریزی کا تلفظ اور لہجہ بہت عمدہ تھا.ایک روز خاکسارا کیلا پہنچا ہمارے ساتھی سب غیر حاضر تھے.اور ( حضرت سید محمود اللہ ) شاہ صاحب نے معمول کے مطابق پوری با قاعدگی سے کلاس لی.چنیوٹ کے غیر از جماعت احباب کے بیٹے جو ہمارے سکول میں پڑھتے تھے.(حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے حد درجہ مداح تھے.آپ کی شفقت طلبہ کیلئے غیر معمولی تھی.ایک روز مجھے کہا کہ انگریزی زبان سیکھنے کا عمد و طریق یہ ہے کہ کسی اچھے مصنف کی

Page 123

111 کوئی کتاب لے لیں اس کا ایک صفحہ پڑھیں بے شک بار بار پڑھیں پھر کتاب بند کر دیں اور اس صفحہ کے مضمون کو انگریزی میں لکھیں.میں نے اس طریق کو آزمایا اور بہت ہی مفید پایا.آپ کے شاگرد جب ہمارے حضرت صاحب (حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی) اور خاکسار لندن یونیورسٹی کے طالب علم تھے تو ہماری ایک کلاس میں کینیا کے ایک ہندی الاصل ہندو طالب علم بھی آ کر شامل ہوئے باتوں باتوں میں جب اس طالب علم کو یہ علم ہوا کہ ہم دونوں کا تعلق اسی جماعت سے ہے جو سید محمود اللہ شاہ صاحب کی جماعت ہے اور میاں طاہر احمد حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے بھانجے ہیں تو اس ہندو طالب علم کا رویہ ہم دونوں سے حد درجہ احترام اور عقیدت کا ہو گیا.کیونکہ یہ طالب علم کینیا میں اس سکول میں پڑھتے تھے جن میں محترم شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تھے.(۷ نومبر ۲۰۰۲ء)

Page 124

112 میرے شفیق استاد حضرت صاحب کے ایک شاگر د مکرم رشید احمد طارق صاحب سابق معلم وقف جدید حال ناصر آبادشرقی ربوہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہیں:.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب جب مشرقی افریقہ کینیا سے واپس قادیان تشریف لائے.تو آپ نے قادیان میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب کی رہائش گاہ پر قیام کیا جو بورڈنگ ہاؤس کے سپرنٹنڈنٹ تھے.خاکسار نے قادیان، چنیوٹ اور ربوہ میں ان سے تحصیل علم کیا ہے.آپ کی شخصیت میں ایک عجیب قسم کا رعب تھا.سارے اساتذہ اور طلباء آپ کا احترام کرتے تھے.آپ کی چال، شخصیت اور طبیعت اثر انگیز تھی.آپ فرشتہ سیرت انسان تھے.سکول میں ہیڈ کلرک سے لیکر اساتذہ اور طلباء سمیت سبھی آپ کے رعب سے متاثر تھے.انداز تربیت سکول میں آپ شاذ ہی بدنی سزا دیتے.تا ہم بسا اوقات طلباء کی تادیب کی خاطر سزا بھی دیتے.مثلاً طلباء اگر کسی پیڑ سے بغیر اجازت آم توڑتے یا کسی کھیت سے بغیر اجازت گنے حاصل کرتے تو آپ ان کی اصلاح کی خاطر سزا بھی دیتے.تاہم اس طرح کی صورتِ حال بہت کم ہی پیدا ہوتی.آپ سکول میں اسمبلی کے بعد طلباء کو وعظ بھی کرتے اور انہیں چھوٹے چھوٹے مسائل بتلاتے.آپ کا یہ طریق ہوتا کہ کلاسوں کو چیک کرنے کیلئے کلاسوں کا راؤنڈ کرتے اور خاموشی سے اساتذہ کا معائنہ کرتے.آپ کی طبیعت میں ایسا رعب تھا جس میں وقار اور پیار بھی ساتھ شامل ہوتا.حقیقت یہ ہے طلباء کی جو پرورش اور تربیت آپ نے کی ہے اسے ہر طالب علم خوشی سے بیان کرتا ہے.آپ کی تربیت نے ہمیں آئندہ کیلئے بھی سدھار دیا.سکول میں نماز با قاعدگی سے با جماعت ہوتی تھی.ٹی آئی سکول قادیان، چنیوٹ اور

Page 125

113 ” ربوہ میں نمازوں میں با قاعدگی ہوتی.خاکسار کا اپنا تاثر ہے جب کبھی آپ سے ملاقات کرتا آپ کے دفتر میں جانا یا مجھے کوئی استاد آپ کی خدمت میں بھیجتا تو آپ کھڑے ہو کر استقبال کرتے اور بیٹھنے کیلئے کرسی پیش کرتے.ایسی عزت اور شفقت اللہ والے ہی کرتے ہیں.خاکسار نے آپ سے ساتویں سے دسویں تک تلمذ حاصل کیا ہے آپ ہمیں انگریزی پڑھایا کرتے تھے.دوران تدریس آپ کی زبان نہایت صاف اور خستہ ہوتی اور یوں محسوس ہوتا جیسے علم ہمیں گھول گھول کر پلا رہے ہیں.آپ صاحب کشوف تھے.ہم نے ان کی دعاؤں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قبول ہوتے دیکھا ہے.آپ اپنی رہائش گاہ سے ہائی سکول چنیوٹ کیلئے جو لاہور روڈ پر واقع تھا.اس کیلئے گھر سے پیدل درمیانی راستہ سے پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوتے سکول پہنچتے اور ٹانگہ پر بھی تشریف لاتے.راستے میں مزار عین بھاگ بھاگ آپ سے مصافحہ کرتے.حضرت مصلح موعود کی تشریف آوری جب ۱۹۴۹ ء میں نویں دسویں جماعت کی الوداعی پارٹی تھی.اس وقت حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ لاہور سے تشریف لائے آپ کے ساتھ حضرت اماں جان اور غالباً حضرت ام ناصر بھی تھیں.اس موقع پر خاکسار کی ڈیوٹی بھی لگائی گئی اس تقریب میں کھانا کھانے کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے دعا کروائی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ دوبار چنیوٹ سکول میں تشریف لائے.۴۹.۱۹۴۸ء میں ربوہ سے مکرم محمد دین صاحب اپنی کبڈی کی ٹیم لیکر ٹی آئی سکول کی کبڈی کی ٹیم سے میچ کھیلنے کیلئے چنیوٹ پہنچے اس وقت حضرت شاہ صاحب نے مجھے کبڈی کی ٹیم کا کپتان مقرر کیا.اس دن بڑا دلچسپ میچ ہوا ہم ایک پوائنٹ سے میچ جیت گئے.حضرت شاہ صاحب نے اس خوشی میں ہمیں دودھ پلایا اور ہماری اچھی سی دعوت بھی کی.آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتے ہی آپ پر رقت طاری ہو جایا کرتی تھی.

Page 126

114 ۱۹۴۸ء کی بات ہے ہمیں سکول سے رخصت ہوئی خاکسار سکول سے چند منٹ پہلے ہی باہر آ گیا.سڑک پر اکیلے چل رہا تھا کہ ایک پولیس والے نے مجھے کہا کہ سڑک سے نیچے اتر جاؤ.پاکستان کے وزیر خارجہ تشریف لا رہے ہیں.ابھی چند منٹ ہی گذرے تھے کہ لاہور کی طرف سے ایک گاڑی نمودار ہوئی جس میں حضرت چوہدری صاحب تشریف فرما تھے اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب گاڑی چلا رہے تھے.آپ نے گاڑی کھڑی کر کے خاکسار سے حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے مکان کا پتہ پوچھا.خاکسار نے بتایا کہ مجھے معلوم ہے.انہوں نے مجھے کار میں پیچھے بٹھا لیا اور ہم حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے گھر پہنچ گئے.بعد ازاں خاکساران سے رخصت ہوکر ربوہ آ گیا.جب آپ کا وصال ہوا تو خاکسار حضرت شاہ صاحب کے گھر پہنچا آپ کا جنازہ حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے بیت مبارک ربوہ میں پڑھایا اور خاکسار تدفین میں بھی شامل ہوا.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے.یہ تاثرات ۸ اور ۱۳ مارچ ۲۰۰۳ء کو حاصل کئے گئے )

Page 127

باب ششم 115 سفر آخرت

Page 128

116 وو وصال کے بارے میں ایک رؤیا برنا حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:.پانچ دن کی بات ہے.جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات ( یعنی ۱۲ اور ۱۳ دسمبر ۱۹۵۲ء کی درمیانی شب ) میں نے دیکھا کہ سید محمود اللہ شاہ صاحب مجھے ملنے آئے ہیں میں اور وہ بیٹھے ہیں.پاس ہی غالباً میری وہ بیوی بھی ہیں جومحمود اللہ شاہ صاحب کی بھتیجی ہیں یعنی مہر آپا.انہوں نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میری طبیعت آج اتنی خراب ہوگئی ہے کہ میں نے سکول کے لڑکوں سے کہ دیا ہے کہ ادھر ادھر دور نہ جایا کرو.کہیں ایسانہ ہو کہ تمہارے پیچھے کوئی واقعہ ہو جائے.اسی طرح میں آپ سے بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ کا کہیں باہر جانے کا ارادہ ہو تو مجھے رخصت کر کے جائیں اور رخصت کے معنی اس وقت رویا میں جنازہ کے سمجھتا ہوں.میں نے آنکھ کھلتے ہی اس رؤیا کا آخری حصہ ام متین کو بتا دیا جن کی باری اس رات تھی.لڑکوں والے حصہ کا میں نے ان سے ذکر نہیں کیا.جس وقت یہ رویا ہوا.اس وقت خیال بھی نہیں گیا کہ ان کی موت اتنی قریب ہے.اس رویا کے تیسرے دن ان کو Thrombosis کا حملہ ہوا جو ان کی موت کا باعث ہو گیا.بعض اور خواہیں بھی اس عرصہ میں آئیں جو مجھے یاد تھیں.مگر لکھوانے میں میں نے دیر کر دی اور وہ ذہن سے اتر گئیں.بہر حال ان چند ہفتوں میں جور دیا ہوئے ان میں سے ایک تو دوسرے دن ہی اور ایک تیسرے دن پورا ہو گیا.“ روزنامه الفضل لاہور ۲۴ / دسمبر ۱۹۵۲ ء صفحه ۲) وصال کی اطلاع آپ کی وفات باون سال کی عمر میں ۱۶ دسمبر ۱۹۵۲ء کو ہوئی.آپ کے وصال پر روز نامہ الفضل نے لکھا:

Page 129

117 ربوه ۱۶ دسمبر ( بذریعہ تار) یہ خبر جماعت میں نہایت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے ہیڈ ماسٹرمکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب آج صبح ۵ بجے انتقال فرما گئے.انا لله وانا اليه راجعون - مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوۃ الی اللہ ) کی طرف سے اس المناک خبر پر مشتمل جو تار وصول ہوا ہے اس کے الفاظ حسب ذیل ہیں.آج پانچ بجے صبح سیدمحموداللہ شاہ صاحب انتقال فرما گئے.انــا لــــه وانـا اليــه راجعون“ زین العابدین) (ادارہ) الفضل اس بے وقت وفات پر مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور آپ کے خاندان کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اور دست بدعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور بلند درجات عطا فرمائے.نیز پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا کرے اور ان کا حامی و ناصر ہو.آمین اللهم آمین.(روز نامہ الفضل لاہور ۱۷ دسمبر ۱۹۵۲ء) آپ کی نماز جنازہ حضرت مصلح موعود نے بیت المبارک میں پڑھائی.بعد ازاں آپ کو ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں سپردخاک کر دیا گیا.اس موقع پر طلبہ کے علاوہ دور ونزدیک سے آئے ہوئے احمدی احباب کی کثیر تعداد نے نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کی.تعزیت نامہ از طلباء ٹی آئی کالج آپ کے وصال پر ٹی آئی کالج کے طلباء نے اپنے تعزیت نامہ میں لکھا: محترم صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کی ناگہانی وفات پر ہم تعلیم الاسلام ہائی سکول کے پرانے طلبا اپنے دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں.ہمیں اپنے محبوب ہیڈ ماسٹر صاحب کی وفات سے دلی صدمہ پہنچا ہے.مرحوم کی وفات تعلیم الاسلام ہائی سکول کے لئے خصوصاً اور جماعت کیلئے عموماً بہت بڑا نقصان ہے.آپ نے جس شاندار طریق پر تعلیم

Page 130

118 الاسلام ہائی سکول کی خدمات سرانجام دیں وہ اپنی مثال آپ ہیں.آپ کا محبت بھرا سلوک ہمارے دلوں سے کبھی محو نہیں ہوسکتا.آپ کی ذات حسن سیرت کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی.ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے پیارے استاد کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.نیز ہم پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.اولڈ بوائز تعلیم الاسلام ہائی سکول ( حال طلباء ٹی آئی کالج لاہور ) قرار داد تعزیت تعلیم الاسلام ہائی سکول حضرت حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب کی وفات کے بعد آج مؤرخہ ۲۰ دسمبر کو پہلے سکول کھلا.تمام اساتذہ وطلباء کے چہروں پر افسردگی چھائی ہوئی تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ب یہ محسوس کر رہے ہیں کہ آج ہم میں ایک خلا ہے جو پر نہیں ہوسکتا.چنانچہ قرآن کریم کی تلاوت کے بعد مکرمی صوفی محمد ابراہیم صاحب نے ایک رفت آمیز تقریر میں اساتذہ اور طلباء کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے حضرت شاہ صاحب کے محاسن بیان کئے.اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور آپ کو جنت الفردوس میں جگہ دے کر اعلیٰ مقام پر سرفراز فرمائے.آمین.اس موقعہ پر مکرم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب بی اے نے مندرجہ ذیل ریزولیوشن طلباء کی طرف سے پیش کیا.مکرمی صوفی غلام محمد صاحب نے اس کی تائید کی اور سب حاضرین نے با قاعدہ اسے منظور کیا.جملہ اساتذہ اور طلبائے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کا یہ اجتماع اپنے نہایت ہی منندین اور محبوب ہیڈ ماسٹر حضرت حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب کی بے وقت اور نا گہانی وفات پر انتہائی درد اور قلق کا اظہار کرتا ہے.اور اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہے کہ وہ اپنے کرم سے ہم سب کا حافظ و ناصر ہو اور حضرت شاہ صاحب کے پسماندگان بالخصوص شاہ صاحب کے برادران اور

Page 131

119 دیگر لواحقین آپ کی بیگم صاحبہ اور آپ کے بچوں کا خود کفیل ہو.اور ان کو بھی صبر سے اس صدمہ کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرما دے.اللھم آمین.یہ اجتماع اس امر کو محسوس کرتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب سلسلے کے اس ادارے کی تعمیر کرتے ہوئے شہید ہوئے اور شاہ صاحب کے اخلاص اور حسن سلوک کی وجہ سے انتہائی دا داور محبت کے جذبات سے لبریز ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب مرحوم کی اس قربانی کو قبول فرما کر انہیں ان کی مخلصانہ خدمات کا بہتر سے بہتر اجر دے انہیں اپنے فضل سے نوازے اور اپنے قرب کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقامات میں جگہ دے.آمین.شکریہ احباب کرام روزنامه الفضل لاہور ۲۳ / دسمبر ۱۹۵۲ ، صفحہ ۶ ) حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کے وصال کے موقع پر احباب جماعت نے خاندان سادات کے نام غیر معمولی تعزیت ناموں ، مکتوب اور تاروں کے پیغامات کے ذریعہ تعزیت کا اظہار کیا.چنانچہ اس موقع پر حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) کے برادر اکبر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) نے تعزیت کرنے والوں کا ان الفاظ میں شکریہ ادا کیا:.”میرے پیارے بھائی سید محمود اللہ شاہ کی اس اندوہناک وفات کے موقعہ پر احباب نے خواہ وہ ربوہ میں رہنے والے ہیں یا ربوہ سے باہر خطوط اور تاروں کے ذریعہ جس درد اور ہمدردی کا اظہار مجھ سے اور میرے عزیزوں سے کیا ہے میں اس کیلئے ان تمام احباب کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.خطوط اور تاروں کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا کہ ان کے اپنے خاندان کا ایک عزیز ترین فردان سے جدا ہو گیا ہے.اس وقت تک جتنے خطوط اور تاریں آئی ہیں ان کی تعداد ۱۰۹ تک ہو گئی ہے اور ابھی تک کافی ڈاک پڑی ہے جو بوجہ جلسہ سالانہ کے کاموں میں مصروفیت، کھولی نہیں گئی.گھر جا کر اسے کھولوں گا.میرا دل چاہتا ہے کہ ہر ایک دوست کو اسی

Page 132

120 لب ولہجہ میں جواب دوں جس لب ولہجہ میں انہوں نے اپنے دلی جذبات کا اظہار فرمایا ہے.لیکن جوں جوں جلسہ سالانہ قریب آرہا ہے.مجھے یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی.بعض دوستوں کو میں جواب بھیج رہا ہوں جو دو تین دن سے لکھے ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے.میں کل ہی اپنے دوست مرزا عبدالحق صاحب سے کہ رہا تھا کہ احد بیت کتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے طفیل ایک وسیع برادری قائم ہے.اور کیا ہی محروم وہ شخص ہے جو اس بے نظیر برادری کا ابھی حصہ نہیں بنا جو فَالَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُمُ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا (آل عمران:۱۰۴) کا خوشکن نظارہ پیش کرتی ہے.میں اس موقعہ پر اپنے احباب سے اتنا عرض کروں گا کہ ایک عربی شاعر کہتا ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو روتا ہے اور اس کے اعزاء واقرباء اس کے ارد گرد کھڑے ہنس رہے ہوتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ خاندان میں ایک اور بچہ پیدا ہوا.شاعر کہتا ہے کہ اعلیٰ انسان تو دنیا میں ایسے طور سے اپنی زندگی بسر کر کہ جب تو جہاں سے جائے تو لوگ رو ر ہے ہیں اور تو خوش ہو رہا ہو.یہ سعادت صرف اس صورت میں نصیب ہوتی ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کا ہو جائے اور اس کا ہو کر بنی نوع انسان کی کمال ہمدردی اور اخلاص و محبت سے خدا تعالیٰ کیلئے خدمت کرے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس سعادت کو حاصل کرنے کی توفیق دے.جو میرے پیارے بھائی کے نصیب ہوئی ہے.آمین.اللهم صلى على محمد وآله بالآ خر میں اپنے لئے بھی احباب سے دعا کی درخواست کرتا ہوں جیسا کہ میں اپنا بھی فرض سمجھتا ہوں اور تمام احباب کیلئے بالالتزام دعا کی توفیق پاتا ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ جب احباب جلسہ پر آئیں تو ان تمام دوستوں سے مل کر 66 ان کا شکر یہ ادا کروں.“ روزنامه الفضل لا ہور ۲۳ / دسمبر ۱۹۵۳ء صفحه ۶)

Page 133

121 سالانہ رپورٹ میں خراج عقیدت حضرت صاحب کے وصال کے موقع پر ٹی آئی ہائی سکول نے اپنی سالانہ رپورٹ میں آپ کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا.سال زیررپورٹ میں سکول کی تاریخ میں ایک اہم اور بہت ہی افسوسناک واقعہ محترم حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم و مغفور کی وفات حسرت آیات ہے.جو ۱۶ دسمبر ۱۹۵۲ء کو اچانک آپ کی پرانی بیماری کے ایک مختصر دورہ کے بعد واقع ہوئی اور شاہ صاحب ہمیں بے وقت داغ مفارقت دیگر راہی ملک عدم ہوئے.انا للہ وانا اليه راجعون.حضرت شاہ صاحب ہمارے سکول کے پرانے طالب علم تھے.تعلیم سے فارغ ہو کر آپ نے یہیں پہلے بطور معلم اور پھر بعد میں افریقہ سے واپسی پر ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے کام کیا.آپ کے عہد میں آپ کے اخلاق فاضلہ اور خدا داد قابلیت کی وجہ سے سکول کی شہرت میں اللہ تعالیٰ کی عنایت وکرم سے معتد بہ اضافہ ہوا.بلکہ یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں کہ سکول آپ کی نگرانی میں نتائج کے لحاظ سے بہترین ادارہ بن گیا.حضرت شاہ صاحب مرحوم کی وفات سے جو خلاء پیدا ہوا اسے پر کرنا آسان نہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کمی کو پورا کر دے.“ مع گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جُدا ہے (سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد ی ر بوه ۱۹۵۳-۱۹۵۲، صفحه ۱۵)

Page 134

122 حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا دورہ نیروبی تاریخ احمدیت میں مشرقی افریقہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے یہ ملک تھا جہاں ۱۸۹۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت میں جماعت احمد یہ قائم ہوئی.مشرقی افریقہ میں بیسیوں رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام بر صغیر سے آکر آباد ہو گئے.جہاں ایک با قاعدہ مخلص اور جانثار جماعت احمد یہ قائم ہوگئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں جماعت مشرقی افریقہ کا ذکر خیر فرمایا ہے.سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اگست ستمبر ۱۹۸۸ء کو مشرقی افریقہ کے دورے پر تشریف لے گئے.اس دورے میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے کئی اہم امور کی طرف جماعتہائے مشرقی افریقہ کی توجہ مبذول کروائی.ان میں سے ایک اہم امر یہ تھا کہ احباب جماعت کو تاریخ مشرقی افریقہ اور ابتدائی احباب کرام کے حالات محفوظ کرنے کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہئے اور اس سلسلہ میں خاص ہدایات بھی جاری فرمائیں.اس دورہ کی روئیداد غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس دورہ میں مقامی قبرستان میں جا کر بزرگ احباب کی قبروں پر دعائیں کی اور بعض بزرگان کی سابقہ رہائش گاہوں پر جا کر دعائیں کی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ، حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے جہاں آپ نے دعا کی.اس روئیداد کی تفصیل ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ ستمبر ۱۹۸۸ء نیز ماہنامہ مصباح نومبر ۱۹۸۸ء میں شامل اشاعت ہے.ایک مکتوب گرامی جب ستمبر ۱۹۸۸ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ، کینیا اور مشرقی افریقہ کے دورے سے واپس تشریف لائے تو آپ نے اپنی ممانی مکرمہ فرخندہ اختر صاحبہ اہلیہ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے مکتوب کے جواب میں ایک خط تحریر فرمایا.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مبارک

Page 135

123 خط کا یہاں ذکر کر دیا جائے.جس میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کا ذکر خیر بھی شامل ہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں: My dear Momani Farkhanda Shah Assalamo Alaikum: Your letter of the 1st September, 1988 which I received after my return from East African tour, is most welcome because of its sincere sentiments as well its contents.Jazakomullah.You are quite right that lots of water has flowed from under the political bridges of Pakistan and wonderful and epoch-making events have been taking place.These are very rare moments in such historic times, and what has been set in train by the Divine Decree Of Allah, is just the, beginning of the chain of momentous events yet to come Insha Allah.It is not within the power of any human agency now to control the volatile and rapidly changing situation in the country.The Decree of Allah must now be fulfilled.My hope and prayer however is that those who belong to the Ummah of the Holy Prophet, be peace and blessings of Allah be upon him, however be if in name, are treated with mercy and are lead to the right path and saved from the agony of Allah's wrath.May Allah make us worthy of His trust and His grace, enable us to fulfill our responsibilities faithfully and successfully, and grant us courage and steadfastness.

Page 136

124 I pray that Allah may grant Shahida's husband complete and speedy recovery and bless him with sound health.I suggest one dose of Lachesis 1000 for him and another dose after one week again.Do keep me informed.I also pray for your good health, longevity and happiness.Allah graces you all with His choicest blessings.Wassalam Yours sincerely Mirza Tahir Ahmad (نوٹ: خط کا یہ آخری حصہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا ) Can you imagine just how much I remembered my dearest uncle Syed Mehmood Ullah Shah Sb.during my Nairobi visit? I even went to house where he once lived and prayed for him there.You were not far from my heart either during those sad but ferocious moments.Mirza Tahir Ahmad

Page 137

125 باب ہفتم مکاتیب و مضامین

Page 138

126 ملہ عالیہ احمدیہ کے اخبارات ورسائل الحکم، الفضل اور ریویو آف ریلیجنز میں آپ کے بعض علمی ، دینی اور تربیتی مضامین شائع ہوتے رہے نیز مخالفین کے اعتراضات کے جوابات میں بھی آپ کا قلم چلتا رہا.کینیا کے قومی و مقامی اخبارات میں آپ کے مضامین انگریزی میں شائع ہوتے رہے.دفاع واشاعت دین آپ کا خاص موضوع تھا جس پر کینیا میں ہمیشہ قلم اٹھاتے رہے.آپ کی تحریرات ایک الگ کتاب کی متقاضی ہیں.آپ کی طرز تحریر کا جدا انداز تھا جس میں ادیبانہ رنگ غالب تھا بطور نمونہ بعض مضامین و مقالات کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے.ایک مکتوب آپ ۱۹۲۹ ء میں مشرقی افریقہ تشریف لے گئے اور پانچ سال کے بعد پہلی مرتبہ ۱۹۳۳ء میں واپس قادیان تشریف لائے.مارچ ۱۹۳۵ء میں دوبارہ مشرقی افریقہ کیلئے روانہ ہو گئے.قادیان سے روانہ ہو کر آپ چند روز کے بعد بمبئی پہنچے جہاں سے آپ نے مدیر الحکم حضرت محمود احمد عرفانی ( اللہ آپ سے راضی ہو) کے نام ایک خط روانہ کیا جو اخبار الحکم میں شائع ہوا.ذیل میں وہ مکتوب پیش کیا جارہا ہے.مدیر الحکم تحریر کرتے ہیں: ”جناب صاحب کے واپس نیروبی جانے کی خبر سلسلہ کے اخبارات میں شائع ہو چکی ہے آپ نے جہاز پر سوار ہونے سے پندرہ بیس منٹ قبل ایک گرامی نامہ میرے نام لکھا.جس میں حضرت والد صاحب قبلہ ( شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ) اور حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحب کے متعلق دعا کی تحریک کی ہے.اگر چہ انہوں نے چاہا ہے کہ میں ان کے گرامی نامہ کو اپنے الفاظ میں لکھوں.مگر مجھے ان کے الفاظ سے بہتر الفاظ نہیں مل سکے.اس لئے میں سید صاحب کے الفاظ ہی میں ان کے گرامی نامہ کو درج کر رہا ہوں اور ساتھ ہی سید

Page 139

127 صاحب کی کامیابی و کامرانی کیلئے اخبار الحکم میں دعا کی تحریک کرتا ہوں.”میرے محترم شیخ صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اب جہاز پر سوار ہونے میں صرف پندرہ ہیں منٹ باقی ہیں اور میں آخری خط آپ کو لکھنے لگا ہوں اس وقت جدائی کے خیال سے میری انگلیاں مرتعش ہیں.مگر میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ آپ کو یہ سطور لکھوں اور ان کے لکھنے کا محرک حضرت قبلہ عرفانی صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کا وجود مبارک ہے.میں کل تھوڑے عرصہ کیلئے ان سے ملا.اس تھوڑی سی ملاقات نے مجھ پر اتنا گہرا اثر کیا ہے کہ میں حیط تحریر میں نہیں لا سکتا.ان کا وجود نہایت ہی قیمتی اور مبارک وجود ہے.یہ حضرت مسیح پاک علیہ التحیۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور خاندان پاک کے والہ وشیدا ہیں.ایسی پاک ہستیاں ہمارے سلسلہ میں بہت ہی کم ہیں.ان جیسے بزرگان انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ان کی قوت قدسی اور روحانی کہربائی طاقت کا اثر میں اب تک اپنے قلب و دماغ میں محسوس کر رہا ہوں.ان کی صحبت میں چپ چاپ بیٹھے رہنے سے انسان سلوک کے منازل طے کرنے میں ایک حد تک کامیاب ہوسکتا ہے.میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور دیگر بزرگان سلسلہ اور قارئین الحکم سے خلوص قلب اور دل کے درد کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ حضرت شیخ عرفانی صاحب کیلئے خصوصیت کے ساتھ دعا فرمائیں.وہ آج کل بیمار ہیں.ساتھ ہی حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحب کا بھی ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا.جتنا عرصہ میں ان کے ساتھ ان کی صحبت میں رہا ہوں.میں نے دیکھا کہ ان کے اندروہ نو رایمان اور نور عرفان ہے جو حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنے جاں نثاروں میں پیدا کیا.حضرت مسیح ناصری کے معجزہ احیاء موتی و تخلیق طیور کا درجہ حضرت مسیح

Page 140

128 موعود علیہ السلام کے معجزہ سے بہت ہی کم ہے.فی زمانہ مادی ترقی کا دور ہے اور ایمان و عرفان موجودہ تہذیب یافتہ لوگوں کیلئے ایک مشغلہ ہے.اس زمانہ میں اللہ سے محبت کرنے والوں کا ایک گروہ پیدا کر لینا معمولی بات نہیں.میں شیخ صاحب کے ساتھ سیٹھ صاحب کیلئے بھی دعا کی تحریک کرتا ہوں.آپ میری طرف سے اپنے مؤثر الفاظ میں ایک مضمون لکھ کر درج اخبار فرمائیں.صاحب بصیرت کی سیر (الحکم قادیان ۱۴ / مارچ ۱۹۳۵ صفحه ۲) آپ کا ایک ادبی اور پر معانی مضمون پیش ہے.اس مضمون کی بابت حضرت شیخ محمود احمد عرفانی صاحب تحریر کرتے ہیں:.میں بھی سید صاحب سے تعلقات نیاز مندی رکھتا تھا.اس مضمون میں جو دراصل اخبار کیلئے نہیں لکھا گیا.سید صاحب کی سیرت کا ایک باب پنہاں ہے.یہ مضمون نہ صرف اعلیٰ درجہ کی ادبی خوبیوں کا حامل ہے.بلکہ ایک بے نظیر درس معرفت بھی ہے.”زندگی کا جو بلند مفہوم سید صاحب نے پیش کیا ہے وہ ہزار ہا کتب کا دو تین سطروں میں خلاصہ ہے.اللہ تعالیٰ ان کی زندگی اور معرفت میں ترقی دے اور کبھی الحکم کیلئے کچھ لکھنے کی توفیق دے.“ ”کون ہے جسے سیر وتفریح کا شوق نہیں.لوگ سیر کو جاتے ہیں.دو دو چار چارمل کر جاتے ہیں.دنیا جہاں کی باتیں کرتے ہیں.نکتہ چینیوں کے باب کھل جاتے ہیں.ہر ایک پھول داد تحسین لیتا ہے.نظاروں کی دلفریبی پر تبادلہ خیالات ہوتا ہے کیا یہی سیر کا ماحصل ہے؟ مجھے بھی سیر کا شوق ہے.میں بھی گاہے بگاہے اپنے کام سے الگ ہو کر بند سے نکل کر شہر سے دور نکل جاتا ہوں.میری سیر نرالی ہے.میں دوستوں سے نظر بچا کر چھپ چھپا کر نکلتا ہوں.اس طرح کہ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی.میں تنہا نکلتا ہوں مگر نہیں کہہ سکتے کہ میں تنہا ہوں.میں خاموش ہوتا ہوں مگر میری خاموشی اور وں کی فصاحت اور گویائی سے کہیں زیادہ

Page 141

129 فصیح ہوتی ہے.میں باتیں کرنا جانتا ہوں.عموماً ہر مسئلہ پر بحث بھی کر سکتا ہوں.دلائل سمجھ سکتا ہوں دے سکتا ہوں.مختلف مضامین کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال سکتا ہوں.اعتراضات کو ٹھنڈے دل سے سن سکتا ہوں.مگر مجھے چھوڑ دو.تنہائی میں مجھے چھوڑ دو.پھول کی نازک اندامی قابل تحسین نہیں.کیا یہ ضروری ہے کہ میں اس کی خوبصورتی پر تبصرہ کروں.اس کی دل کو برما دینے والی نگہت کو الفاظ میں ادا کروں.یہ کیوں میری نظروں میں خوبصورت ترین شے ہے میں نہیں بتاؤں گا.نہ پوچھو مجھ سے یہ راز نہ پوچھو.تم سن کر مسکرا دو گے اور مجھے دیوانہ سمجھو گے.ہاں یہ درست ہے میں دیوانہ ہوں.مگر یہ بھی صحیح ہے میری دیوانگی لاکھوں کی فرزانگی سے ہوشمند ہے.ہوشربا ہے.میری دیوانگی مجھے اکثر وہاں پہنچاتی ہے جہاں عقلمندوں کے خیال کو بھی پہنچ نہیں.فلسفہ و منطق کی بلند ترین پرواز اس سے بہت نیچے رہتی ہے.اس لئے میں نہیں بتاؤں گا کہ یہ نھا سا پھول مجھے کیوں محبوب ہے.یہ راز سر بستہ میرے اور اس کے درمیان ہی رہے گا.میرے اطمینان دل کیلئے یہ کافی ہے کہ یہ پھول میرا محرم ہے.جب میں اسے نہیں دیکھتا تو اس وقت بھی یہ میرے پیش نظر رہتا ہے اس کی ہیئت روحی اور اس کی کیفیت معنی میرے دل و دماغ میں موجود رہتی ہے.تم بے شک اسے اپنے قریب کر کے سونگھو.میں تم سے لڑ تھوڑا ہی سکتا ہوں.مگر میں تو اسے ناک کے قریب لانا بے ادبی، بے حرمتی سمجھتا ہوں.اس کا حسنِ معنی اس کی لطافت باطنی میرے رگ و تار میں پنہاں ہے اس کی خوبصورتی میرے تمام حواس پر مستولی ہے.میں اپنی سیر میں اسے دیکھتا ہوں.ایک سرد آہ بھر کر گذرجاتا ہوں.لو مجھے بھی ایک رفیق سیر مل گیا اب تو میں تنہا نہیں؟ اچھا ہوا تم میرے ساتھ نہیں آئے ورنہ تمہیں مجھ سے شکوہ ہوتا.میں تمہارے لئے کیونکر سامان تفریح ہو سکتا ہوں.تمہارا مسلک جدا میرا طریق جدا.میں پھول کو دیکھ کر کیوں خاموش اور افسردہ ہو گیا ہوں؟ نہیں میں خاموش تو نہیں.ہاں تم اس طرز تکلم سے نا آشنا ہو.تم اس اسلوب گفتگو سے بے خبر ہو.حاشا میں تمہاری تحقیر نہیں کر رہا.ہر کے را بہر کارے ساختن.جو خوبیاں تم میں ہیں مجھ میں نہیں اور رہا یہ کہ میں افسردہ ہوں.میرے عزیز یہ بھی صحیح نہیں ہر ایک

Page 142

130 اپنے ماحول میں اپنی راحت پاتا ہے جسے تم افسردگی سمجھتے ہو.وہی میری کائنات مسرت ہے.دیکھا تم میں اور مجھ میں کس قدر تفاوت ہے.بعد مشرقین ہے.جبھی میں کہتا تھا چھوڑ دو مجھے تنہائی میں چھوڑ دو.میں میلوں چلتا ہوں.چلتا چلا جاتا ہوں.میں اپنے خیالات میں منہمک و مستغرق ہوتا ہوں نہ کسی کو مجھ سے واسطہ نہ مجھے کسی سے سروکار.راہ چلتی دنیا مجھے دیکھتی ہے.دیکھ کر مسکرادیتی ہے.ہاں میں خوب سمجھتا ہوں ان کی مسکراہٹ کو.ان کا تبسم تحقیر آمیز ہوتا ہے.”ہو نہ ہو یہ کوئی پرانے زمانوں کا بچھڑا ہوا راہ گزار ہے.نہیں یہ تو دیوانہ معلوم ہوتا ہے.دیوانہ تو 9966 66 22.66 خیر نہیں کہہ سکتے آدمی تو بظاہر بھلا چنگا معلوم ہوتا ہے.دیکھتے نہیں یہ کس طرح چلا جا رہا ہے.اسے موجودہ تہذیب کی نیرنگی و دلبر بائی چھوتک نہیں گئی." ہاں تم سب سچ کہتے ہو.درست کہتے ہو.تمہاری رائے زنی صحیح ہے.بے شک میں صدیوں کا بچھڑا ہوا راہرو ہوں.میں حقیقت میں دیوانہ بھی ہوں.ہاں اس میں صداقت کا شائبہ ضرور ہے کہ میں بظاہر اچھا بھلا ہوں.یہ تم نے بالکل ٹھیک کہا کہ موجودہ تہذیب کی رعنائیاں میری نظر میں بے معنی اور مہمل ہیں کھیل تماشے سینما تھیڑ ناچ رنگ کے جلسے کلب کی زندگی موجودہ تمدن کے لہو ولعب میرے لئے بازیچہ اطفال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے.ایک بات تمہیں بتاؤں.سن لو! مانا نہ ماننا تمہارا کام ہے.دیوانے بھی بسا اوقات کام کی بات کہہ دیتے ہیں.جسے تم زندگی سمجھے ہوئے ہو میں اسے سگِ مردار سے بھی گھناؤنی شے سمجھتا ہوں ” پھر زندگی کیا ہے؟“ موت اور کامل موت.نفس کی لذات کو، جسم کے آرام کو خواہشات اور تمناؤں کو بکلی طور پر کچل دو.جلا دو.ان کی راکھ میں سے زندگی نمودار ہوگی ، بڑھے گی ، بڑھتی چلی جائے گی ، ابد الآباد تک، ہمیشہ ہمیش مکان و زماں کی قید سے آزاد ہوکر.ہاں یہ مشکل ہے.سخت مشکل ہے.مگر : مشکلی نیست کہ آساں نہ شود اخبار الحکم قادیان ۷ را پریل ۱۹۳۷ صفحه ۶،۵)

Page 143

131 ,, انتقام محمود حضرت صاحب نے خلافت نمبر کیلئے ایک بصیرت افروز مضمون رقم فرمایا جواخبار الحکم قادیان میں شائع ہوا.یہ مضمون ”انتقام محمود“ کے عنوان سے شائع ہوا.جس میں آپ فرماتے ہیں: موسم گرما کی ابتدا تھی.گو ابھی میں بہت بچہ تھا.مگر حسیات غیر معمولی طور پر تیز تھیں.میں گردو پیش کے تاثرات اور تغیرات سے بہت متاثر ہوا کرتا تھا.میری والدہ رحمت اللہ علیہا چند روز سے نہایت پریشان اور مضطرب تھیں.رات کو آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کے بار بار دیکھتیں اور بے قرار ہو کر کہتیں ”میرے اللہ رحم کر ستارے مرجھائے ہوئے ہیں ایسا 66 9966 996 معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے میں سہم جاتا، خوف زدہ ہو جاتا، دن بھر میں اس مہم اور غیر معین ” کچھ ہونے والا ہے.‘ کے فکر میں غلطاں رہتا.میری والدہ ان پر اللہ کی ان گنت برکات ہوں ) بھی کہتی تھیں.ان کی گھبراہٹ بجا تھی.درست تھی.ان کی روح ہونے والے سانحہ سے آگاہ تھی.خود خالق الافلاک بھی متامل تھا.ہائے وہ ساعت آ پہنچنی جبکہ رب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ناموس علیہ الصلواۃ کو یعنی احمد علیہ السلام کو اپنے پاس بلانے کو تھا.موسم بہار رخصت ہوا.رخصت کیا ہوا....دنیا جہان کی مسرتیں ، نفرتیں ، کامرانیاں، ظفر یا بیاں اپنے ساتھ لیتا گیا.پنجاب کے دار الحکومت میں حضرت احدیت کا محبوب چند روز کے لئے تشریف لے گیا.اس کی زندگی کے آخری لمحے آپہنچے.اس کی آنکھیں جو ایک عالم کے ساتھ مسیحائی کر رہی تھیں مُند گئیں.اس کے سانس جو عدوان جہان کو خاکستر بنا بنا کر اس زمین کو پاک اور مطہر کیا کرتے تھے.رُک گئے.آہ ! صد آہ!! یہ سب کچھ اس کی اپنی خواہش سے ہوا.وہ اس غریب الوطنی کی زندگی سے اکتا گیا تھا.وہ ایک ماہی بے آب سے کروڑوں گنے زیادہ بے قرار تھا.اپنے رفیق اعلیٰ کے پاس جانے کو وہ

Page 144

132 وو تلملا رہا تھا تڑپ رہا تھا.اس کی گود کیلئے.یہ صاحب منزلت تفریڈ اپنے آقا کی گود میں چلا گیا.لاکھوں پسماندگان، تیم بچوں کی حالت زار کا خاکہ کھینچنا میرے امکان سے باہر ہے.بڑے بوڑھے جو ضبط اور تحمل کی تصویر بنے رہتے تھے دہاڑیں مار مار کر روتے.ایک جوسب میں بڑا تھا عمر میں مرتبت کے لحاظ سے ، فضیلت و بزرگی کے اعتبار سے اور جو صاحب "وجية في حضرتی“ کا جانشین بنے والا تھا کہتے ہیں کہ اٹھا.تاصبر وسکون کی تلقین کرے.مگر اٹھتے ہی اس نے کیا تو یہ کیا کہ خود چیخ چیخ کر رونے لگ گیا.یہ تھی صبر وسکون کی نصیحت.بس پھر کیا تھا.کہرام ہی تو مچ گیا.یہ وقت کتنا ہی نازک ہے.یہ سانحہ الم کتنا جاں گل ہے.پتھر سے پتھر دل بھی ایسے وقت میں موم ہو جاتا ہے.بدترین دشمن بھی تعصب و عناد کو بھول جاتا ہے.تمام رنجشیں اور کاوشیں فراموش ہو جاتی ہیں.مگر یہ واقعہ ہائکہ تو بالکل ایک نرالی نوعیت کا تھا.رخصت ہونے والا رحمت....تھا.یہ در حقیقت کسی خاص قوم یا ملک کی طرف منسوب نہیں تھا.یہ سب کا تھا اور سب کا یکساں ، وداع ہونے والے کیلئے عشاق کی اشک باری بے تعلق اور اجنبی لوگوں کو بھی ہزار ہزار آنسو رلاتی تھی.تخلیق فطرت تو سب کی اچھی ہے.مگر اس فطرت سے کام لینے والے.اس کو استعمال کرنے والے یکساں نہیں.چند سنگدل ، درندہ صفت مغضوب علیہم کی سند یافتہ شور و غوغا کرتے آ پہنچے.نہ انہیں انسانیت کی لاج ہے.نہ انہیں شرم و حیا.انہوں نے ایسی ایسی بیہودہ حرکتیں کیں اور ایسے ایسے حیا سوز آوازے کیسے، سوانگ بھرے کہ غیر اور اجنبی ( یعنی غیر مذاہب والے ) بھی مارے خجالت کے پسینہ پسینہ ہور ہے.اندر کمرہ میں اس ناموس الہی کی مقدس و معطر لاش ہے.اور باہر اس قسم کا ننگ آدمیت مظاہرہ ہو رہا ہے.لاکھ ضبط کیجئے.مگر کسے یا رائے تحمل ہے.اس بقعہ نور کے قریب اس کا لخت جگر اس کے حسن و احسان کا نظیر نشان رحمت و قدرت و قربت" کھڑا ہے.اس کے غم کا اندازہ وہی کچھ کر سکتا ہے جو اس کی شان کو اور اس

Page 145

133 داغ مفارقت دینے والے کی عظمت کما حقہ سمجھے.مگر اِن دو کی رفعت شان کو کوئی نہیں سمجھ سکتا.اس نے اپنے مقدس باپ کے جسم اطہر کو مخاطب کر کے کچھ اس قسم کا وعدہ کیا.اے مسجود ملائک ! میں نہیں دم لوں گا جب تک تیرے کام کو تکمیل تک نہ پہنچا لوں.میں ان سب درندوں کو جب تک انسان کی جون میں نہ بدل لوں چین نہیں کروں گا.بے شک میرا جسم نحیف ولاغر ہے.مگر میری روح میں تیری آگ افروختہ ہے.یہ ہے انتقام جو میں لوں گا اس بے حرمتی کا جو اس وقت معطر و مطہر نعش کے سامنے تیری کی جارہی ہے.اگر میرا ساتھ کسی نے نہ دیا تو میں اکیلا ہی تیری مشعل سے دنیا کا کونہ کو نہ روشن کروں گا.“ یہ وقت گذر گیا.نورالدین اعظم ( نوراللہ مرقدہ ) تخت خلافت پر متمکن ہوا.مشتاقان جمال احمد کو اس کے دم قدم سے ایک گونہ تشفی ملتی رہی اس کا قلب پر از نور یقین تھا.اس نے اپنے آقا کی جماعت کی تربیت احسن طور پر کی.خود مصحف پاک کا عاشق تھا.یہی عشق اور یہی سوز اس نے ان کے سینوں میں پیدا کیا...پر اس زندگی کو بقا نہیں.ابھی چھ برس نہیں گذرے تھے.کہ یہ نور مجسم اپنے محبوب حقیقی سے جا ملا.اس پر میرے اللہ کی بیشمار رحمتیں اور 66 برکتیں ہوں.حضرت نورالدین ( نور اللہ مرقدہ ) کا آنکھیں بند کرنا ہی تھا کہ جسدِ احمدیت پر لرزہ طاری ہوا.کچھ امراض جو پنہاں تھے اب موسم کی تبدیلی سے رونما ہوئے.ان کے شدت غلبہ نے ایک خوفناک شکل اختیار کر لی.بڑے بڑے مضبوط قوی اور شجاع ہراساں اور ترساں تھے.الہی تیرا شکر کس طرح ادا کروں.تو بڑا ہی رحیم وکریم ہے.تو نے محض اپنے فضل سے حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ کو نباض اور طبیب منتخب فرمایا.اس نے اس جد کی فصد کھولی.گندے مواد کے اخراج سے قدرتاً وجو د احمدیت کچھ ضعیف اور کمزور سا ہو گیا.مگر اس طبیب روحانی نے غذاؤں اور مقوی ادویہ سے اس کو گویا از سر نو زندہ کر دیا.وہ عہد جو اس کلمہ تمجید نے اس ” صاحب شکوہ اور عظمت“ نے کیا تھا.وہ اسے یاد تھا اور سچ تو یوں ہے کہ ہر آن اس کے پیش نظر تھا.اس کے دل و دماغ پر مستولی تھا اندرونی

Page 146

134 اصلاح کے بعد اس نے اس طرف توجہ کی اس نے اس عہد کو اچھی طرح نبھایا.اس کے علاج سے بہت سے حیوان کیڑے مکوڑے، گدھے کتے ، انسان سے با اخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بنے.بعض درندے اور خنزیر اس ” آسمان سے اترنے والے کے ذریعہ قتل وہلاک ہوئے تا زمین والوں کی راہ سیدھی ہو.“ اس ” فرزند دلبند گرامی ارجمند سے قومیں برکت پر برکت پارہی ہیں.امیر رستگاری پا رہے ہیں.بے شک میرے اللہ تو سچا.تیرے وعدے بچے.تیرے فرمان حرف بہ حرف پورے ہوئے اور ہور ہے ہیں.میری دعا ہے کہ فتح وظفر کی کلید اپنی آب و تاب میں بڑھتی چلی جائے اور اس کا انتقام نہ ختم ہو اور نہ ختم ہو.میں دنیا سے اُٹھ جاؤں.میری ہڈیاں خاک ہو جائیں.پر اس کے حسن اور اس کی شان میں فرق نہ آئے.یہ غلام ز کی بڑھتا چلا جائے اور جلد جلد بڑھتا چلا جائے.نقطہ کمال کی تو حد نہیں.انتہا نہیں جس طرح تیری حد اور انتہاء نہیں...اے خدا ! تو یوں ہی کر !!“ الحکم قادیان ۲۱ ؍ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحه ۹-۱۰)

Page 147

135 تعلیم الاسلام ہائی سکول حضرت سید موداللہ شاہ صاحب سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ تحریر کرتے ہیں: میں احباب جماعت کی آگاہی کے لئے سکول کے بعض کوائف ذیل میں درج کرتا ہوں تا کہ دوستوں کو اپنے سکول کی رفتار ترقی اور ہماری مشکلات اور ضروریات سے آگاہی ہو اور وہ اپنی مرکزی درسگاہ کی بہتری اور کامیابی کے لئے دعا فرماتے رہیں.امسال (۱۹۵۰ء میں ) میٹرک کے امتحان میں ۵ے طلباء شریک ہوئے اور ان میں سے خدا تعالیٰ کے فضل سے ۶۱ کامیاب ہوئے گویا نتیجہ فیصدی ۸۲.۷ رہا.اگر چہ یہ نتیجه گذشته سال ۹۵ فیصدی کے مقابلہ میں کمتر ہے.لیکن یونیورسٹی کی عام اوسط ۴ فیصدی اور سکولوں کی ۶۲ فیصدی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے خاصا اچھا ہے.اس سلسلہ میں اگر اس امر کوملحوظ خاطر رکھا جائے کہ ہمارے سکول میں دوسرےسکولوں کے دستور کے برعکس دسمبر تک داخلہ ہوتا رہتا ہے اور باہر سے آنے والے طلباء الا ماشاء اللہ ہمارے پرانے کی نسبت بالعموم کمزور ہوتے ہیں (اگر ایسا نہ ہوتا ) تو ہمارا نتیجہ اور بھی خوشکن ہو جاتا.پچھلے ہی سال نومبر میں درج رجسٹر ڈ طلباء کی تعداد ۶۳ تھی اور دسمبر کے وسط میں جب کہ میٹرک کا داخلہ بھجوایا گیا طلباء دہم کی تعداد۷۵ ہو چکی تھی.اگر چہ اپنے آپ کو تسلی دینے کے لئے طلباء کا آخر وقت تک داخل ہوتے رہنا ہمارے نتیجہ کے یو نیورسٹی بھر میں اول نہ رہ سکنے کی ایک بھاری وجہ بن جاتی ہے لیکن ان کو ہمارے نجی نظام سے کیا سروکار انہیں تو نتیجہ دیکھنا ہے.ہماری مشکلات ہمارے ساتھ ہیں.لیکن بہر حال امسال ہمارے نتیجے کے گذشتہ سال کی نسبت کمتر ہونے کو میں اور میرے رفقائے کار بہت بُری طرح محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری شامت اعمال ہمارے ادارہ کی نیک نامی کے راستہ میں روک ہوتی ہے اور انشاء اللہ ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تو فیق اور اس کے فضل سے اب لڑکے نتیجہ کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے.لیکن فقط میر ایا میرے رفقاء کار کا عزم اور احتیاط کے ساتھ کام کرنا شائد نتائج پیدا نہیں کر

Page 148

136 سکتا.ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ بھی اپنی ذمہ واری کو سمجھیں اور ہم سے تعاون فرمائیں.ہماری جماعت کی واقعی (جیسا کہ مکرم با بو قاسم دین صاحب امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ نے اپنے مبارکباد کے پیغام میں مجھے لکھا تھا) یہ خواہش اور آرزو ہے کہ ہمارے سکول کا نتیجہ بلحاظ کیفیت اور کمیت دوسرے تمام سکولوں سے ہر رنگ میں ممتاز ہو.لیکن دوست یہ نہیں سوچتے کہ اس خواہش کے عملی جامہ نہ پہننے میں کسی حد تک خودان کا بھی دخل ہے.اگر دوست جیسا کہ میں نے ایک مرتبہ الفضل کے ذریعہ احباب سے اپیل بھی کی تھی اپنے بچوں کو بجائے دسویں جماعت میں ہمارے پاس بھیجنے کے اور وہ بھی آخری چند مہینوں میں نویں جماعت میں بلکہ اس سے بھی نچلی جماعتوں میں ہی ہمارے پاس بھیج دیا کریں تو ہم دو سال کی تگ و دو کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے موجودہ نتیجہ سے بہتر نتائج دکھلا سکتے ہیں.میں اپنے اس نظریہ کو طلباء دہم کی موجودہ کیفیت سے واضح کرتا ہوں.موجودہ دسویں جماعت میں ۱۰۶ طلباء با قاعدہ طور پر داخل ہیں.(جو اساتذہ کی کمی کی وجہ سے اس وقت تک صرف دو فریقوں میں منقسم ہیں اور ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تعداد کے لئے دو فریق قطعی طور پر نا کافی ہیں.خیر یہ تو جملہ معترضہ ہے ) ان میں سے صرف ساٹھ طلباء ہی اپنی نویں جماعت سے ترقی پا کر آئے ہیں.باقی ۴۶ طلباء باہر سے آئے ہیں اور ان کی تعلیمی حالت بالعموم ہمارے اپنے طلباء کی نسبت خراب ہے.بلکہ ان میں سے اکثر دوسرے سکولوں سے میٹرک میں متعدد مضامین میں فیل ہو کر آئے ہیں اور آ رہے ہیں.آمد میں نے اس لئے کہا ہے کہ مجھے اس وقت تک کم از کم ۶۳ مزید طلباء کو داخل کرنے کے لئے یہاں بھیجنے کا نوٹس مل چکا ہے.باقی ماندہ طلباء اب موسمی تعطیلات کے بعد ہی داخل ہوسکیں گے.اور یہ سلسلہ دو مہینے تک جاری رہے گا.اس صورت میں طلباء کو امتحان کے لئے تیار کرنے کا جس قدر تنگ وقت ہمیں ملے گا وہ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے احباب کو تشویش کا موجب ہے.یہ درست ہے کہ ہمارا واحد یہی ادارہ ہے جس میں طلباء بیک وقت دینی اور دنیاوی علوم سے متمتع ہو سکتے ہیں.اس لئے انجمن کے قاعدہ کے مطابق ہم کسی طالب علم کو داخلہ سے روک

Page 149

137 نہیں سکتے.کیونکہ ہماری مثال تو اس شفاخانہ کی سی ہے جس میں بیماروں کو شفا پانے کے لئے داخل کیا جاتا ہے اور کمز ور طلباء کو ہمارے ہاں نیز ان کو بھی جن کی اخلاقی حالت گھر پر نہیں سدھر سکتی اور ان کو ان کے والدین کے نزدیک ہمارے ہسپتال میں داخل کرانا طالب علم کی زندگی پچانے کے لئے ضروری ہوتا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے مقدور بھر علاج کرتے بھی ہیں اور خدا تعالیٰ کی توفیق سے عام طور پر ایسے بیماروں کو صحت بھی میسر آ ہی جاتی ہے.لیکن جہاں ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کریں (چنانچہ افسران تعلیم کی نظر میں ہمارے اساتذہ خدا کے فضل سے طلباء کو شوق اور محنت سے پڑھانے میں یکتا ہیں ) اگر دوست بجائے Eleventh Hour پر مریض کو ہسپتال میں داخل کروانے کے بیماری کے آثار نمودار ہوتے ہی ہمارے سپرد کر دیا کریں تو اس سے آپ کے اس قومی ادارہ کی شہرت خدا تعالیٰ سے فضل سے ماند نہ پڑنے پائے گی.آپ اپنے بچوں کو دو تین سال ہماری تربیت میں رکھیں اور ہونہار بچوں کو اپنے پاس رکھ کر بخل سے کام نہ لیں بلکہ ہر استعداد کے لڑکوں کو یہیں بھیجیں.کیونکہ وہ ہمارا مشتر کہ سرمایہ ہیں.تو پھر آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری مشترکہ کوششیں اور دعائیں اغیار کے مقابلہ میں ہر رنگ میں کیسے شاندار نتائج پیدا کرتی ہیں.علمی ادبی اور دیگر مشاغل خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم قوم کی اس امانت کو یعنی آپ کو ظاہری علوم کے علاوہ باطنی اور روحانی علوم سے بھی بہرہ ور کرنے میں برابر کوشاں رہتے ہیں تا کہ جب ہمارے بچے سکول کی تعلیم کو مکمل کرلیں تو باہر دنیا کے کسی میدان میں دوسروں سے پیچھے نہ رہیں.نماز ، روزہ ، حتی الوسع تہجد کی عادت ڈالنا عام اخلاقی حالت کے سدھارنے میں یوں تو ہم لگے ہی ہوئے ہیں مگر وہ بات کہاں جو (احمدیوں ) کے مرکز ربوہ شریف کی فضائے پاک میں پیدا ہوسکتی ہے.البتہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی توجہ اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ربوہ میں سکول کی عمارت تعمیر ہورہی ہے اور اگر آپ نے اساتذہ کو جن کو میں آپ سے چندہ لینے کی خاطر آپ کی خدمت میں بھجوا رہا ہوں، اپنے اخلاص کے مطابق چندہ دیا تو سکول اور عملہ کے کوارٹر ، بورڈنگ ہوٹل

Page 150

138 کی تکمیل ہو سکے گی اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے بچوں سمیت عنقریب ربوہ کی فضاء سے متمتع ہو سکیں گے اور مرکزیت اور احمدیت کی صحیح روح سے وافر حصہ پاسکیں گے.احمدیت کو جس نوعیت کے نوجوانوں کی ضرورت ہے.اس سے ہم بخوبی آگاہ ہیں.چنانچہ تحریر و تقریر کے میدان میں مشق جاری ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے عمل اور عمر کے لحاظ سے ہمارے بچے کسی سے پیچھے نہیں رہتے.عزیز عبداللہ عثمان، عمر اور ظفر احمد ظفری نے پچھلے سال ضلع بھر میں ناموری حاصل کی اور اپنے سکول اور قوم کے لئے باعث افتخار ثابت ہوئے.ورزشی کھیلوں میں اگر چہ ہمارے طلباء نمایاں نہ ہو سکے اور اس کی بڑی وجہ کھیل کے میدان کا فقدان ہے.لیکن پھر بھی اپنے ضلع میں آسانی سے نہیں ہارے اور چھلانگ لگانے اور دوڑ وغیرہ یعنی atheletics میں تو ضلع بھر میں ممتاز ہیں.طلباء اپنا سبق درسی دینی و تربیتی بھول جایا کرتے ہیں اور اب وہ آپ کے اپنے پاس موسمی تعطیلات گزار رہے ہیں.اساتذہ اپنے طور پر انہیں خود بھی نصائح کرتے ہیں اور بزرگوں سے بھی ( اخویم محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ان میں شامل ہیں) چند نصائح کروا دیں اور اپنے ایک پروگرام کے مطابق ان ( مربیان) کرام اور دیگر علمائے سلسلہ سے کرواتے رہتے ہیں.اب آپ کا فرض ہے کہ آپ ان کی نگہبانی کریں اور ان کی دیکھ بھال فرمائیں کہ جب وہ واپس آئیں تو وہ ہمارا دیا ہوا سبق یاد کر کے آئیں اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک رہیں.اللھم آمین.روزنامه الفضل لاہور ۲۰ / جولائی ۱۹۵۰ء) ☆

Page 151

139 باب ہشتم خاندان

Page 152

140 آپ کا خاندان اہلیہ اول آپ کی پہلی شادی بچپن ہی میں ہوگئی تھی.مکرمہ فرخندہ اختر شاہ صاحبہ نے مؤلف کو بتایا کہ حضرت شاہ صاحب کا بیان ہے کہ جب میں نے میٹرک کیا تو اس وقت مجھے پتہ چلا کہ میں شادی شدہ ہوں.حضرت سیدہ دیانت النساء بیگم صاحبہ سے شادی ہوئی.آپ کی پہلی بیوی آپ کی ماموں زاد تھیں.ان سے آپ کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جن کا نام سیدہ رقیہ بیگم تھا.محترمہ سیدہ رقیه بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال سے ۱۹۳۵ء میں عمل میں آیا شادی کے بعد آپ آٹھ سال زندہ رہیں اور ۱۹۴۲ء میں بقضائے الہی وفات پاگئیں.ان کے بطن سے ایک بیٹی پیدا ہوئیں جن کا نام محترمہ امتہ الحئی صاحبہ ہے جو مکرم رشید احمد صاحب ریٹائر ڈونگ کمانڈر کی اہلیہ ہیں.محتر م آ با رقیہ بیگم صاحبہ نہایت پیار کرنے والی شخصیت تھیں.(سیرت حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ص۶۰) اہلیہ دوم آپ کی دوسری شادی سیدہ فاطمہ بیگم صاحبہ بنت حضرت سید سرور شاہ صاحب نور الله مرقدہ سے ہوئی.محترمہ سیدہ فاطمہ بیگم صاحبہ کی پہلی شادی سید نا حضرت خلیفتہ اصبح الاول نور اللہ مرقدہ کے صاحبزادہ میاں عبد الحئی صاحب سے ہوئی تھی.صاحبزادہ صاحب کے وصال کے بعد ان کی دوسری شادی حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب سے ہوئی.محترمہ سیدہ فاطمہ بیگم صاحبہ بعد میں سیدہ محمودہ بیگم کے نام سے مشہور ہوئیں.ان کا وصال ۳۱ اکتو بر ۱۹۲۳ ء کو ہوا.آپ موصیہ تھیں، آپ کا وصیت نمبر ۲۰۸۷ ہے.آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اور آپ کی اہلیہ

Page 153

141 حضرت سیدہ سعیدۃ النساء صاحبہ کی قبر کے پاس مدفون ہیں.تابعین احمد جلد سوم صفحه ۱۳۱۶، نیز الفضل یکم تا ۱۳ نومبر ۱۹۲۳ء) آپ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نوازا.مکرم سید مسعود مبارک شاہ صاحب اور مکرم سید داؤ د مظفر شاہ صاحب آپ کی اولاد کا ذکر کتاب کے آخر میں شجرہ نسب میں دیا گیا ہے.مکرم سید مسعود مبارک شاہ صاحب مکرم سید مسعود مبارک شاہ صاحب آپ کے بڑے بیٹے تھے.آپ ۵/جون ۱۹۱۹ء کو پیدا ہوئے.آپ سندھ کی زمینوں پر خدمات بجالاتے رہے.نیز ربوہ میں مختلف عہدوں پر بھی خدمات کرتے رہے.دفتر بیت المال میں کام کیا.پھر بطور سیکرٹری مجلس کار پرداز خدمات پر مامور ہوئے اور آخر میں ناظر بیت المال خرچ کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.جن ایام میں آپ سیکرٹری مجلس کار پرداز تھے ان ایام میں بہشتی مقبرہ میں آپ کو شجر کاری کے سلسلہ میں خاص طور کام کرنے کی توفیق ملی.آپ کا وصال ۲۱ جنوری ۱۹۹۴ء میں ہوا اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں تدفین عمل میں آئی.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے.مکرم سید مسعود مبارک شاہ صاحب کی شادی اپنی چاز ادمکرمہ سیدہ شریفہ بیگم صاحبہ سے ہوئی.آپ نہایت نیک صاحب کشوف اور دعا گو خاتون تھیں.آپ کا وصال ۱۸ فروری ۲۰۰۶ء میں ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے.آپ کے بڑے بیٹے مکرم سید مقصود احمد شاہ صاحب ٹیکسلا میں بطور صدر جماعت خدمات بجالا رہے ہیں.جبکہ آپ کے دوسرے بیٹے مکرم سید اسد شاہ صاحب اس وقت دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں خدمات بجالا رہے ہیں نیز اپنے محلہ کے صدر ہیں.باقی اولاد کے اسماء شجرہ نسب میں ملاحظہ فرمائیں.مکرم سید داؤ دمظفر شاہ صاحب مکرم سید داؤد مظفر شاہ صاحب حضرت شاہ صاحب کے چھوٹے بیٹے ہیں.آپ نومبر

Page 154

142 ۱۹۲۱ء میں پیدا ہوئے.آپ سیدنا حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کی سندھ کی زمینوں کے نگران کے طور پر خدمات بجالاتے رہے ہیں.بعد ازاں آپ تقریباً دس سال تک دفتر تبشیر تحریک جدیدر بوہ میں رضا کارانہ طور پر خدمات بجالانے کی توفیق پاتے رہے.مکرم سید داؤد مظفر شاہ صاحب کی زوجیت میں صاحبزادی امتہ احکیم بیگم صاحبہ بنت سید نا حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ آئیں.آپ ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء کو قادیان میں پیدا ہوئیں.آپ درویش طبع ، غریب پرور، یاد الہی اور دعا گوئی میں قابل رشک نمونہ تھیں.سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہمشیرہ کے انتقال مؤرخہ ۱۸ جولائی ۲۰۰۱ ء پر اپنے پیغام میں فرمایا: مرحومہ دعاؤں کا خزانہ تھیں.ان کی نیکیوں اور خوبیوں کو جاری رکھنا آپ کا فرض ہے.حضور (رحمہ اللہ تعالیٰ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کے بعد بھی آپ لوگوں پر ان کی دعاؤں کے نتیجہ میں افضال کا سلسلہ جاری رکھے.آمین.(الفضل ربوہ ۲۰ / جولائی ۲۰۰۱ء) اولاد آپ کے ۶ صاحبزادے اور ۳ صاحبزادیاں ہیں.آپ کے صاحبزادگان کو سلسلہ احمدیہ کے لئے زندگیاں وقف کرنے کی توفیق ملی.نیز آپ نے تینوں صاحبزادیوں کی شادیاں واقفین زندگی سے کی ہیں.اسماء اولا د حسب ذیل ہیں.۱- محترم سید مولود احمد صاحب.آپ میکینکل انجینئر ہیں.۲ محترمہ صاحبزادی امته السبوح صاحبہ بیگم حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز.آپ لجنہ اماءاللہ ربوہ کے مختلف شعبہ جات میں خدمات کے علاوہ صدر لجنہ ربوہ کے عہدہ پر بھی فائز رہ چکی ہیں.۳- محترم سید خالد احمد شاہ صاحب ناظر بیت المال خرچ ہیں.-۴ محترم سید قاسم احمد شاہ صاحب ناظر امور خارجہ ہیں.۵ - محترم سید طارق احمد صاحب MSc کمپیوٹر سائنس ہیں اور آج کل کینیڈا میں قیام پذیر ہیں.

Page 155

143 ۶.محترمہ صاحبزادی امتہ الرؤف صاحبہ بیگم ڈاکٹر تاثیر مجتبی صاحب.ڈاکٹر صاحب پہلے غانا میں خدمات بجالا رہے تھے.آجکل فضل عمر ہسپتال ربوہ میں مصروف کار ہیں.۷.محترم سید صہیب احمد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان میں خدمت کر رہے ہیں.۸ محترمه سیده امتہ العزیز زوبی صاحبہ بیگم مکرم ملک خالد احمد صاحب زکر.ملک صاحب واقف زندگی ہیں اور نصرت جہاں اکیڈمی میں ٹیچر ہیں.محترم سید محمود احمد شاہ صاحب آپ بطور صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان و بطور ناظر رشتہ ناطہ خدمات بجالا رہے ہیں.اہلیہ سوم حضرت شاہ صاحب کی تیسری شادی محترمہ فرخنده اختر صاحبه بنت حضرت شیخ نیاز محمد صاحب رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہوئی.۱۹۴۲ ء میں جب آپ مشرقی افریقہ کینیا سے رخصت پر قادیان تشریف لائے تو اس وقت یہ شادی ہوئی.بعد میں آپ معہ اہلیہ دوبارہ کینیا تشریف لے گئے.محترمہ ایک لمبا عرصہ نصرت جہاں کالج ربوہ کی پرنسپل کے طور پر خدمات بجالاتی رہیں اور مسز شاہ کے نام سے معروف تھیں.آپ کو انگریزی زبان میں غیر معمولی مہارت تھی.آپ کو اللہ تعالیٰ نے دو بچوں مکرم سید مشہود احمد صاحب اور مکرمہ ڈاکٹر مریم حنا صاحبہ سے نوازا.مکرم سید مشہود احمد صاحب اس وقت پاکستان میں مقیم ہیں جبکہ مکرمہ مریم حنا انگلینڈ میں مقیم ہیں.ان کی اولاد کا ذکر کتاب ہذا کے آخر میں شجرہ خاندان حضرت شاہ صاحب میں کیا گیا ہے.آپ کا وصال ۵ ستمبر ۲۰۰۵ء کو ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے.آپ کا ایک تفصیلی انٹرویو آئندہ صفحات میں دیا جارہا ہے.

Page 156

144 وو کچھ یادیں کچھ تاثرات انٹرویو محترمہ فرخندہ اختر صاحبہ اہلیہ سوم حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب) مکرمه و محترمہ فرخندہ اختر صاحبہ نے بتایا : حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے متعلق جو خود خاکسار نے سُنا ہوا ہے اور دیکھا ہوا ہے نیز آپ کے افرادِ خاندان سے جو سُنا ہوا ہے، وہ میں آپ کو بتائے دیتی ہوں.ان کی ابتدائی زندگی سے متعلق آغاز کرتی ہوں.اس سے پہلے یہ ہے کہ انگریزی میں کہتے ہیں کہ The actions of the just.smell sweet and blossom in the dust کہ وہ لوگ جو وفات پا جاتے ہیں.ان کے actions of the just رہ جاتے ہیں اور وہی ہمارے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں اور ہماری زندگی میں کام آجاتے ہیں.انہوں نے یعنی حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے خود ہی بتلایا تھا کہ وہ دسمبر ۱۹۰۰ ء میں پیدا ہوئے اور ان کا بچپن سیالکوٹ کے ضلع کی تحصیل رعیہ میں گزرا.بعد میں وہ تحصیل ختم ہوگئی اور نارووال تحصیل رہی تھی.اس وقت ان کے والد رعیہ میں بطور اسسٹنٹ سرجن خدمات بجالا رہے تھے.وہاں بچپن میں ہی ان کے والد صاحب نے ان کو اور حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب کو حفظ قرآن کروانے کے لئے گھر پر ایک حافظ مقرر کیا.اس حافظ سے اور بھائی بہنوں نے بھی قرآن کریم پڑھا تھا.حضرت شاہ صاحب کی صحت بچپن سے کمزور تھی.اس کے بعد مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان سے میٹرک کیا.ان کے والد حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب کی خواہش تھی کہ سب بچے دینی اور میڈیکل کی تعلیم حاصل کریں.کیونکہ دینی تعلیم کے بعد طلب کی تعلیم بہت اعلیٰ تعلیم ہے.جن میں بنی نوع انسان کی بھلائی بھی شامل ہے.حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے اس کے پیش نظر اپنے سارے بچوں کو Fsc کرنے کے لئے داخل

Page 157

145 کروایا تھا.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب بسا اوقات مجھے بتلایا کرتے تھے کہ جو حافظ ہم نے گھر پر رکھا ہوا ہے وہ والد صاحب کو بتایا کرتا تھا کہ ان کا حافظہ اچھا نہیں.تو والد صاحب نے پوچھا کیا انہیں یاد نہیں ہوتا.تو حافظ صاحب نے کہا کہ حفظ تو کر لیتے ہیں مگر رکوع بھول جاتا ہے.یہ باتیں سنا کر حضرت شاہ صاحب ہنسا کرتے تھے.بہر حال مختصر یہ کہ ان دونوں بھائیوں نے چھوٹی عمر میں ہی قرآن کریم حفظ کر لیا تھا اور ان کے بڑے بھائی حضرت ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے بھی قرآن کریم حفظ کیا ہوا تھا.حضرت ڈاکٹر صاحب نے تو خود حفظ کیا تھا.البتہ حضرت شاہ صاحب اور حضرت عزیز اللہ شاہ صاحب کو حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب نے باقاعدہ اہتمام سے حفظ کروایا.حضرت شاہ صاحب بتایا کرتے تھے کہ وہ دس گیارہ برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر چکے تھے.اس کے بعد یہ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں چلے آئے جہاں سے میٹرک کیا.پھر اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا.اس کے بعد ان کے والد صاحب نے انہیں حصول تعلیم کے لئے انگلستان بھیجا اور یہ بات انہوں نے خود مجھے بتلائی کہ انگلینڈ میں ان کو انہوں نے کہا تھا کہ جا کر آکسفورڈ میں پڑھیں.چنانچہ آپ انگلینڈ تشریف لے گئے.ابھی وہاں داخلہ کے لئے کچھ وقت باقی تھا.تو ان کے پروفیسر نے انہیں کہا کہ یہاں دو زبانیں سیکھنی ہوتی ہیں وہاں انگریزی کے علاوہ جرمن اور لاطینی بھی پڑھائی جاتی تھیں.چنانچہ انہوں نے لاطینی سیکھی اور بڑی عمدہ لاطینی زبان سیکھی.حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے فرمایا کہ آپ پھر ریلوے انجینئر نگ کی تعلیم حاصل کر لیں.اس کے بعد حضرت شاہ صاحب شیفلیڈ میں داخل ہو گئے جہاں سے آپ نے یہ تعلیم حاصل کی.بہر حال انہوں نے غالباً دو تین سال تعلیم حاصل کی.ان کے بارہ میں انڈیا والوں نے تو کہا تھا کہ آپ کی نظر کمزور ہے مگر آپ نے اس کمزور نظر کے ساتھ انگلستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی.انگلستان سے ریلوے انجینئر نگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ قادیان واپس

Page 158

146 تشریف لے آئے اور وہاں سے آپ نیروبی کے لئے روانہ ہو گئے نیروبی جانے کی تقریب کچھ اس طرح پیدا ہوئی کہ وہاں نیروبی میں ان کے ایک دوست تھے.بیرسٹر ملک حسن محمد یا محمد حسین صاحب تھے.ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یہ DC بنے گا.انہوں نے حضرت شاہ صاحب کو لکھا کہ کینیا میں ایک ایجو کیشن آفیسر کی ضرورت ہے.آپ یہاں نیروبی میں آجائیں یہاں ملازمت میں زیادہ فائدہ ہے میں نے حضرت شاہ صاحب سے پوچھا کہ آپ کیوں بیرسٹر صاحب کے کہنے پر نیروبی کے لئے تیار ہو گئے تھے.اس پر انہوں نے کہا.ایک تو مجھے دل میں یہ بہت خیال رہتا تھا کہ میری تعلیم پر اتنا پیسہ خرچ کیا گیا ہے.اب اس قرض کی واپسی کا بھی اہتمام کیا جانا چاہئے لیکن میں نے اس بات کا کبھی کسی سے تذکرہ نہیں کیا تھا.اس لئے میں نیروبی چلا گیا.نیروبی میں حضرت شاہ صاحب قریباً اٹھارہ برس مقیم رہے.نیروبی میں اب میں آپ کو ان کی نیروبی کی زندگی کے بارہ میں بتاتی ہوں.آپ وہاں جاتے ہی جماعتی خدمات بجالانے لگے.وہاں علمی ادبی اور سماجی جتنی بھی تنظیمیں تھیں ان میں سے کسی کے پریذیڈنٹ بنے کسی کے سیکریٹری رہے یا کسی کے متحرک ممبر رہے.اس طرح نیشنل سطح پر آپ خاصے مقبول تھے.اس زمانہ کی ہمارے پاس ان کی تصاویر بھی تھیں جو قادیان میں رو گئیں تھیں.ان میں سے ایک تصویر سر آغا خان صاحب کے ساتھ تھی.سر آغا خان کسی موقعہ پر نیروبی آئے تھے.بہر حال اس طرح کی کئی ان کی یاد گار تصاویر تھیں.حضرت شاہ صاحب کو اکثر گورنر ز مختلف تقاریب میں مدعو کیا کرتے تھے.ایسے ہی موقعہ پر ان کی سر آغا خان صاحب سے ملاقات ہوئی اس تقریب میں سر آغا خان صاحب نے سب سے ہاتھ ملائے اور حضرت شاہ صاحب کو گلے لگایا.تو اس وقت گورنر صاحب نے سر آغا خان سے کہا کہ آپ نے کیوں انہیں گلے لگایا ہے جبکہ باقی سب سے ہاتھ ملانے پر اکتفا کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ:

Page 159

147 He is the descendant of the Holy Prophet peace be upon him.He is my brother.على الله کہ یہ آنحضرت علی کی نسل سے ہیں.یہ میرے بھائی ہیں.بہر حال یہ تصویر بھی تھی ہمارے پاس لیکن یہ ساری یادیں اور تصاویر قادیان میں رہ گئیں.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے نیروبی میں اپنے سکول میں اسکاؤٹنگ بھی شروع کی تھی.نیروبی میں آپ نے جماعت احمدیہ کے لئے بڑی اچھی خدمات پیش کیں اور وہاں ساتھ ساتھ تعلیم و تدریس کا سلسلہ بھی جاری و ساری تھا اور ساری جماعت احمد یہ نیروبی کا بہت خیال رکھتے.آپ اٹھارہ برس تک جماعت کے پریذیڈنٹ رہے.آپ کا کتب خانہ نیروبی میں آپ کی ذاتی لائبریری بھی تھی.جس میں انگریزی اور تاریخ کی نہایت اعلیٰ کتب تھیں.آپ کا علمی ذوق نہایت بلند تھا.تاہم واپسی پر آتے ہوئے آپ نے نیروبی میں اتم طاہر لائبریری کا قیام کر کے ساری کتب اس لائبریری کو بطور عطیہ عنایت کر دیں.غرض شاہ صاحب نے تدریسی خدمات کے علاوہ نیروبی میں بڑی اچھی جماعت قائم کی.شاہ صاحب وہاں مسلسل جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ رہے جبکہ آپ کے بھائی سید عبد الرزاق شاہ صاحب سیکرٹری رہے.دونوں بھائی بڑے خدمت گزار تھے اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.سماجی زندگی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت شاہ صاحب کا سماجی حلقہ بہت وسیع تھا.ہم لوگ شادی کے پندرہ روز بعد ہی نیروبی کے لئے روانہ ہو گئے تھے.وہاں گئے تو جناب سارا دن شاہ صاحب گھر سے غائب یہ شکر ہے کہ کھانا کھانے گھر آتے تھے.سارا دن ان کا لوگوں میں گزرتا.آپ بتاتے کہ فلاں تنظیم کا میں صدر ہوں وہاں جاتا ہے.فلاں ادارے کا میں سیکرٹری

Page 160

148 ہوں اس لئے وہاں جانا ہے.غرض ان کا سارا وقت بے حد مصروف گزرتا تھا.دو ماہ کے بعد ایک ایجوکیشنل ڈائریکٹر نے شاہ صاحب کو بلوایا اور کہا کہ آپ کی اہلیہ بھی تعلیم یافتہ ہیں.اس جنگ میں انہیں بھی حصہ لینا چاہئے اور اپنا فرض ادا کرنا چاہئے.شاہ صاحب نے یہ بات مجھے بتائی.چنانچہ مجھے درس و تدریس کا بڑا شوق تھا.میں نے بھی وہاں بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا.ایک دفعہ ہمارے سکول میں کوئی فنکشن تھا.ہال میں وہاں ہم گئے تو کیا دیکھا کہ شاہ صاحب کی بہت سی تصویر میں لگی ہوئی ہیں.کسی ڈائر یکٹر کے ساتھ کسی ایگزیکٹو کے ساتھ ،کسی صدر کے ساتھ.میں نے ایک دفعہ شاہ صاحب سے دریافت کیا کہ یہ جو گورنر کی پارٹیاں ہوتی ہیں.اس میں صرف آپ واحد انڈین ہیں جنہیں یہ لوگ بلاتے ہیں.دوسروں کو کیوں نہیں مدعو کرتے ؟ تو آپ فرمانے لگے کہ میں خود بھی حیران تھا کہ مجھے ہی بلاتے ہیں دوسروں کو کیوں نہیں بلاتے.کینیا کے اخبارات و رسائل میں آپ کے مضامین بھی شائع ہوتے تھے.آپ کی فطرت میں خاکساری اور انکساری تھی وہ خاموش خدمت کرنے میں بھی لطف محسوس کرتے تھے.ویسے عام سماجی موضوعات پر بھی آپ مضامین لکھا کرتے تھے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ کسی نے اخبار میں کوئی آرٹیکل لکھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تعدد ازدواج کے حوالے سے اعتراضات کئے گئے تھے.آپ نے فوراً انگریزی میں اس کا جواب لکھا.آپ کا یہ مضمون مقامی اخبار نے پہلے صفحہ پر آپ کی تصویر کے ساتھ شائع کیا تھا، جسے بہت پسند کیا گیا.ٹی آئی ہائی سکول کینیا کے بعد ۱۹۴۴ء میں قادیان تشریف لے گئے اور ٹی آئی سکول کا چارج سنبھال لیا.آپ کے دور میں طلباء نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں.آپ طلباء سے بے حد محبت کرتے تھے اور کمز ور طلباء کو سکول کے علاوہ گھر میں بلا کر بھی پڑھاتے تھے اور ان کے لئے بہت دعائیں کرتے تھے.

Page 161

149 جب چنیوٹ میں مکانات دیے جا رہے تھے.تو DC جھنگ نے ہندوؤں کا محلہ ہمیں دیا.تو اس میں شاہ صاحب نے اپنے سکول کے سارے اساتذہ اور کارکنان وغیرہ رکھے اور ہمارے لئے کوئی جگہ نہ رکھی.ہمیں ہندوؤں کا ایک مندر رہائش کے لئے ملا.جہاں مندر میں ان کے پنڈت رہتے تھے.وہ ایک کمرہ تھا ساتھ اس کے کچن بھی تھا.شاہ صاحب نے کہا یہ ہمارے لئے رہائش ہے میں نے کہا یہ کون سی جگہ ہے رہنے کے لئے.اسی گھر میں شاہ صاحب کو ہارٹ اٹیک ہو گیا تھا.ڈاکٹر نے وہاں سے رہائش تبدیل کرنے کے لئے کہا پھر ایک مکان ملا جو کافی دور تھا.یہ مکان سکول سے خاصا دور تھا.اس لئے شاہ صاحب کبھی ٹانگے پہ یا کبھی پیدل سفر کر کے سکول آتے تھے.اکثر کوشش ہوتی کہ واپسی پر ٹانگہ مل جائے.چنیوٹ میں آپ کا حلقہ احباب خاصا وسیع تھا.۱۹۵۲ء میں سکول کا رزلٹ نکلنے والا تھا تو شاہ صاحب کو تار آئی کہ فلاں لڑکے ( منوراحمد صاحب آف چونڈہ ضلع سیالکوٹ ) کی تصویر بھیجو.شاہ صاحب گھر میں آئے اور کہنے لگے کہ اس لڑکے کی تصویر چاہیے.میں نے کہا شاہ صاحب آپ کا لڑکا فرسٹ آیا ہے.اس کی تصویر چھپتی ہے جو فرسٹ آتا ہے.شاہ صاحب نے کہا کہ وہ لڑکا تو سیالکوٹ کے کسی گاؤں کا رہنے والا ہے میں کہاں سے تصویر کا پتہ کروں.خیر سکول والوں کو بتایا تو انہوں نے بھی یہ کہا کہ یہ لڑکا اول آیا ہے.اس سال گورنمنٹ نے جو میٹرک کے رزلٹ کا اعلان کیا تھاوہ ریڈیو پاکستان پر نشر کیا.ہمارے گھر میں ریڈیو تھا جس پر میں نے بھی اعلان سنا.جب اعلان ہوا تو پہلا لڑکا بھی ٹی آئی سکول چنیوٹ کا فرسٹ آیا اور چوتھی پوزیشن بھی ٹی آئی سکول کے لڑکے کی تھی.غرض پہلی دس پوزیشنوں میں چار پانچ پوزیشنیں ہمارے سکول کی تھیں.یہ بات ہے ۱۹۵۲ء کی.جب رزلٹ کا اعلان سنا تو شاہ صاحب بڑے خوش ہوئے اور سارے اساتذہ کے ساتھ مل کر سجدہ شکر ادا کیا.حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ بھی اس رزلٹ سے بہت خوش ہوئے.دوسرے دن یہ رزلٹ قومی اخبارات میں بھی چھپا.چنانچہ رزلٹ کے دوسرے تیسرے روز سکول کے old students کے لئے ایک پارٹی کا اہتمام کیا.جس میں سیدنا حضرت مصلح

Page 162

150 موعود نور اللہ مرقدہ نے بھی شمولیت فرمائی اور کئی اور بزرگان بھی شامل ہوئے.حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد بھی شامل ہوئے.سیرت و شمائل (نوٹ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الفضل لا ہور ۱۷ ، ۱۸ رمئی ۱۹۵۲ء) ایک بات تو یہ میں بتانا چاہتی ہوں کہ آپ نہایت نیک بہت ہی منتقی اور پر ہیز گار انسان تھے.سخت بیماری کی حالت میں بھی تہجد نہیں چھوڑتے تھے.انہوں نے مجھے خود بتایا کہ ہمیں تو اس بات کا پتہ ہی نہیں تھا کہ تہجد جو ہے یہ لازمی اور فرض نماز نہیں ہے.بلکہ ہم سمجھتے تھے پانچوں نمازوں کی طرح تہجد بھی فرض ہے.انہوں نے بتایا کہ حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.تو انہوں نے اپنے بچوں کا تعارف کروایا اور مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم سنا اور قرآن کریم دونوں بھائیوں نے سنایا یعنی حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب نے بھی.جب حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کی وفات ہوئی.تو حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نوراللہ مرقدہ تشریف لائیں.تو انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اور حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن کریم سنایا تھا.اور ایک موقعہ پر حضرت اقدس علیہ السلام نے اس خاندان کو بہشتی ٹبر کا نام عطا فر مایا ہے.حضرت شاہ صاحب نے مجھے بتایا کہ سات سال کی عمر میں نماز شروع کی اور بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں نماز تہجد شروع کی.میرے والد صاحب نے کہا تھا کہ تہجد پڑھا کر و.وہ دن اور آج کا دن میں نے کبھی تہجد نہیں چھوڑی اور میں نے کئی دفعہ کہنا کہ شاہ صاحب آج آپ کو بخار ہے آپ کا بلڈ پریشر بڑا ہائی ہے.تو مجھے کہتے کہ تم چپ رہو ان وجوہات سے میں تہجد نہیں چھوڑ سکتا.آپ بہت خلیق اور پارسا انسان تھے.آپ سے اگر کوئی چیز مانگتا تو ضرور اس کی ضرورت پوری کر دیتے.آپ کے پاس ایک نہایت قیمتی اوور کوٹ تھا جو انگلینڈ سے کسی

Page 163

151 دوست نے آپ کو بطور تحفہ دیا تھا.اس کوٹ میں یہ خاصیت تھی سردی سے بھی بچاتا تھا اور بارش میں بھی استعمال ہوتا تھا ، جو طویل مدت تک کے لئے استعمال ہوتا تھا.ایک دفعہ آپ گھر آئے.تو میں نے پوچھا کہ وہ اوور کوٹ کہاں ہے آپ کا؟ کہنے لگے کہ وہ تو فلاں دوست نے مانگا تھا.اس نے کہیں جانا تھا میں نے اسے دے دیا ہے.غرض کہ قیمتی سے قیمتی چیز بھی اگر کسی نے مانگ لی تو دے دیتے تھے.دوسری بات جو میں نے آپ میں خاص طور پر دیکھی.میں میکے میں بھی رہی سسرال میں بھی رہی.اس کے بعد سے زندگی گزار رہی ہوں.میں نے کوئی آدمی ایسا نہیں دیکھا.جس کو کہ کوئی بھی دنیا کی چیز پسند نہ ہو.آپ کا کوئی شوق نہیں تھا کہ میں مکان بنالوں، جائیداد بنا لوں، کوئی شوق نہیں تھا کہ میں دولت اکٹھی کرلوں.کوئی شوق نہیں تھا کہ میرا بینک بیلنس ہو، یہ بات میں نے خاص طور پر آپ کی ذات میں مشاہدہ کی ہے.اور اس بات پر میری کئی دفعہ ان سے لڑائی بھی ہوئی تھی.میں نے کہا کہ مکان بنا لیں تو وہ کہتے کہ بہشت میں اللہ تعالیٰ مکان دے گا.اس وقت ہم چنیوٹ میں تھے.غرضیکہ انہیں کسی قسم کی عیش وعشرت کا قطعا شوق نہیں تھا.انہیں اس طرح کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی.مهمان نوازی ایک اور خوبی ان میں میں نے یہ مشاہدہ کی کہ آپ کو مہمان نوازی کا بہت شوق تھا.جب کوئی آتا اسے بٹھا کر چائے پلاتے ، کھانا کھلاتے اگر کبھی میں نے کسی سے پوچھ لینا کسی سے چائے کا، تو انہوں نے ناراض ہونا کہ آپ کو پتہ نہیں ہے کہ مہمان بے زبان ہوتا ہے.قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی سے نصیحت پکڑنی چاہئے تو شاہ صاحب مجھے کہتے کہ پوچھ کے کیوں لاتی ہو بغیر پوچھے لایا کرو.میں نے کہا بعض لوگ چائے پسند نہیں کرتے ہیں.بعض کولڈ ڈرنکس تو کیا حرج ہے ہم چھٹے میں شاہ صاحب کہنے لگے جو چائے نہیں پیتے تم بعد میں ان کے لئے کولڈ ڈرنکس لے آنا مگر پوچھنا نہیں کسی سے.مہمان سے پوچھنا آپ ہرگز پسند نہیں کرتے تھے.بہت ہی زیادہ مہمان نواز تھے اور یہ بھی بہت شوق تھا کہ خود کچھ دیں کسی کو.

Page 164

152 غیر معمولی قابلیت اس کے علاوہ میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آپ غیر معمولی قابل ذہین محنتی اور عالم انسان تھے.آپ کی انگریزی غیر معمولی تھی.حالانکہ میں خود تعلیم یافتہ تھی.مگر مجھے ڈکشنری دیکھنے کی ضرورت پڑتی.جب بھی کوئی لفظ پوچھنا تو انہیں اس کے معانی آتے ہوتے تھے.بعض مضامین جماعتی طور پر آپ کے پاس ترجمہ کے لئے آتے.آپ نہایت اعلیٰ ترجمہ کرتے.آپ کی Tarnslation بہت اچھی تھی English بہت ہی اچھی تھی.ایک دفعہ اتفاق سے انہیں ایک لفظ کے معانی نہ آئے تو مجھے کہا کہ یہ لفظ ڈکشنری میں دیکھو میں نے دیکھا تو ڈکشنری میں وہ لفظ ہی نہیں تھا.کہنے لگے میرا بھی یہی خیال تھا کہ یہ لفظ ڈکشنری میں نہیں تھا اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ لفظ جرمن زبان کا تھا.حضرت سیدہ اُمتم طاہر صاحبہ سے محبت اس کے علاوہ میں نے حضرت شاہ صاحب میں یہ خوبی دیکھی تھی کہ انہیں اپنی ہمشیرہ حضرت سیدہ اُم طاہر صاحبہ نور اللہ مرقدہا سے بے انتہا پیار تھا.وہ جب بیمار ہوئیں تو اس وقت شاہ صاحب نیروبی میں تھے اور ان کی بیماری سے بے حد پریشان تھے اس کے بعد جب ان کے وصال کی تار آ گئی تو شاہ صاحب تو بے ہوش ہی ہو گئے.میں حیران ہوگئی کہ کمرے میں آتے ہی آپ گر گئے ہیں.میں نے جب تار پڑھی تو حقیقت معلوم ہوئی.اس سانحہ کے بعد حضرت شاہ صاحب ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہو گئے تھے بعض دفعہ تو بہت زیادہ ہو جاتا تھا.آپ نیروبی میں حسب حالات لوگوں کے علاج معالجہ کا بھی خیال رکھتے تھے.نیروبی میں ہی دونوں بھائیوں نے وقف کا ارادہ کیا اور سید نا حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں خطوط ارسال کئے.بعد میں ناظر صاحب تعلیم حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد نوراللہ مرقدہ کی طرف سے تار آئی کہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ آپ یہاں ٹی

Page 165

153 آئی سکول قادیان میں تشریف لے آئیں.چنانچہ اس کے بعد میں حضرت شاہ صاحب نے نیروبی سے طبی وجوہات کی بنا پر ریٹائر منٹ لے لی.ڈاکٹروں نے کہا اس بیماری کی بنا پر ریٹائرمنٹ نہیں دی جاسکتی.گورنمنٹ نے کہا کہ اس صورت میں آپ کو پراویڈنٹ فنڈ نہیں ملے گا.چنانچہ اس کے باوجود آپ ریٹائر منٹ لیکر قادیان تشریف لے گئے.نیروبی میں آپ نے بہت سی بیعتیں کروائیں.میرے خیال میں نیروبی میں اس زمانے میں جتنے بھی احمدی تھے ان میں سے پچاس ساٹھ فیصد شاہ صاحب کی وساطت سے احمدی ہوئے تھے.بہت بڑے داعی الی اللہ تھے اور کئی عورتوں کو میں نے پوچھنا تو انہوں نے بتانا کہ ہم ان کی پاکیزہ زندگی اور حسن اخلاق سے متاثر ہو کر احمدی ہوئی ہیں.با قاعدہ طور پر آپ دعوۃ الی اللہ نہیں کرتے تھے.آپ کے اخلاق اور عبادات سے متاثر ہو کر لوگ احمدیت میں داخل ہوئے.بعض دفعہ عورتوں سے میں نے کوئی بات پوچھنی تو انہوں نے کہنا کہ یہ بات ہمیں شاہ صاحب نے سکھائی ہے.نیروبی میں میرا خیال ہے زیادہ تر انڈین خاندان احمدی ہوئے تھے اور آغا خانی خاندان کے افراد بھی احمدیت میں داخل ہوئے تھے اس سے بھی حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ بڑے خوش تھے.وہاں مقامی احمدی زیادہ تر مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کی کوششوں سے احمدیت میں داخل ہوئے تھے.بیت بورا کی تعمیر میں بھی حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے بھی اخلاص سے حصہ لیا تھا اور ہر طرح کا تعاون پیش کیا.آپ مالی قربانی بہت کرتے تھے.جب بھی مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے ضرورت پیش کرنی تو آپ فوراً اس پر لبیک کہتے تھے.اس بیت الذکر کی تعمیر میں بہت لوگوں کو جو وہاں کے احمدی تھے خدمات بجالانے کی توفیق ملی.بہر حال جب مولانا شیخ مبارک احمد صاحب تعمیر بیت ٹبورا کے لئے کسی غرض سے بھی آتے تو شاہ صاحب فوراً اعانت کرتے.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ کو تہی دست جانا پڑے.ٹیبو را بیت الذکر کے علاوہ نیروبی کی بیت الذکر کا بھی اکثر کام حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے کر وایا تھا.

Page 166

154 حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سے پیار آپ ویسے تو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر فرد سے آپ بے پناہ محبت اور پیار کرتے تھے.مگر جو حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سے ان کا پیار محبت اور شفقت کا سلوک تھا وہ نا قابل بیان ہے.ہم جب چنیوٹ میں تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب لاہور میں پڑھا کرتے تھے.جتنی دفعہ حضرت صاحب ہمارے گھر تشریف لاتے تو شاہ صاحب ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے.فرض کیا کہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ہمارے ہاں تین چار روز سے قیام پذیر ہیں.لیکن ان کے کمرہ میں جب وہ جاتے تو شاہ صاحب کھڑے ہو جاتے.انہوں نے جب شاہ صاحب کے کمرہ میں آنا شاہ صاحب نے کھڑے ہو جانا.میں نے کہا شاہ صاحب آپ بیمار ہیں آپ نہ کھڑے ہوا کریں.کبھی تو انہوں نے مجھے کوئی جواب نہ دینا اور کبھی کہہ دینا نہیں تمہیں نہیں معلوم....یہ ہوہی نہیں سکتا کہ وہ کمرہ میں آئے ہوں اور میں بیٹھا رہوں.اتنا ان سے پیار تھا.بے حد پیار تھا اور اکثر ان سے نظمیں بھی سنا کرتے تھے.خواہ ان کی اپنی ہوں یا دوسروں کی بہت شوق سے نظمیں سنا کرتے تھے اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بہت ہی تیز چائے پیا کرتے تھے مجھے شاہ صاحب نے کہنا کہ جاؤ چائے بنا کر لاؤ.میں نے چائے بنا کر لانا تو شاہ صاحب نے آپ سے کہنا کہ یہ خراب چائے بنا کر لائی ہیں ناں ! تو حضرت صاحبزادہ صاحب نے جواب دینا کہ ماموں خراب تو نہیں ہے لیکن ہلکی ہے.انہوں نے کہنا جاؤ تم خود بناؤ.تمہاری ممانی بہت کنجوس ہے.میں نے کہنا کہ کنجوسی کی بات نہیں جس طرح کی Strong ( تیز ) چائے یہ پیتے ہیں مجھے تو ڈر لگتا ہے کہیں بیمار نہ ہو جائیں.میں کیا کروں؟ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب جب FSC میں تھے تو ہمارے پاس چنیوٹ آئے.کہنے لگے ماموں میں نے Fsc کی تیاری کرنی ہے.تین چار کتابیں ساتھ لے آئے اور ان کتب میں سے آپ نے ایک کتاب بھی پڑھی نہیں تھی.ساری کتابیں شاہ صاحب

Page 167

155 پڑھتے جاتے اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سنتے جاتے.میں نے کہا شاہ صاحب پڑھانے کا یہ کونسا طریقہ ہے.شاہ صاحب کہنے لگے چلو رہنے دو کوئی بات نہیں.تمہیں کیا علم ہے کہ انہوں نے کس کس کا علاج کرتا ہے.جب حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہوا تو میں نے انہیں یہ بات لکھ کر بھیجی تھی کہ شاہ صاحب مجھے یہ کہا کرتے تھے تمہیں کیا پتہ یہ کس کس کا علاج کرے گا.ایک دفعہ دوسرے بھانجوں بھانجیوں نے شکوہ کیا کہ آپ ان سے زیادہ کیوں پیار کرتے ہیں تو شاہ صاحب کہنے لگے نہیں میں تو سب سے پیار کرتا ہوں لیکن وہ میری بہت پیاری بہن کا بیٹا ہے.حسینی سادات ایک دفعہ میں نے حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب سے دریافت کیا ، کیا آپ حسنی سید ہیں یا حسینی؟ اس پر آپ نے جواب دیا کہ میں نے والد ماجد ( حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب اللہ آپ سے راضی ہو) سے سنا ہے کہ ہم حسینی سید ہیں.پھر خود ہی انہوں نے ( حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ) ذکر کیا کہ ان کے والد صاحب (سید باغ حسن شاہ صاحب) نے ایک دفعہ خواب دیکھا عین جوانی کی حالت میں کہ ایک لشکر نے پڑاؤ ڈالا ہوا ہے.سپاہی ادھر اُدھر پھر رہے ہیں اور میں کھڑا ہوں ایک طرف دیکھ رہا ہوں.درمیان میں ایک بہت بڑا خیمہ نظر آتا ہے.جس میں خوب روشنی ہے.اور وہ روشنی چھن چھن کر خیمہ سے باہر آ رہی ہے.اتنے میں میرے والد صاحب (حضرت سید باغ حسن شاہ صاحب والد صاحب حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب نظر آتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تمہیں تلاش کر رہا تھا.آؤ چلو میں تم کو خیمہ میں لے جانے کے لئے تلاش کر رہا تھا.آؤ چلو میں تم کو خیمہ میں لے جاؤں.جہاں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں.انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور خیمہ کی طرف چل دیئے.خیمہ کا پردہ ہٹا تو اس قدر روشنی تھی کہ آنکھیں چکا چوند ہو گئیں.اور میری آنکھ کھل گئی.

Page 168

156 یہ خواب حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے میرے والد حضرت شیخ نیاز محمد صاحب مرحوم و مغفور ( رفیق) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بتائی تھی.حضرت شاہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم بخاری سید ہیں کیونکہ ہمارے آباء واجداد بخارا سے ہجرت کر کے کلرسیداں اور سہالہ میں آکر آباد ہو گئے تھے اور ہمارے ساتھ بہت سارے لوگ آئے تھے اور کلر سیداں میں ہماری زمینیں بھی تھیں اور حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب نوراللہ مرقدہ جب احمدی ہو گئے تو اپنی زمینیں دوسرے رشتہ داروں کو دے دیں.اور بعد میں آپ قادیان ہجرت کر آئے تھے اور عبداللہ شاہ جو سید شیر شاہ صاحب کے بیٹے تھے وہ با قاعدہ اپنی زمینوں کا ٹھیکہ لینے کے لئے کلرسیداں جایا کرتے تھے.قبولیت دعا آپ بہت دعا گو انسان تھے اور قبولیت دعا کے آپ کے بہت ہی زیادہ ایمان افروز واقعات ہیں.جب بھی میں نے انہیں نے دعا کے لئے کہا یا انہوں نے مجھے کسی خاص دعا کے لئے بتایا تو اکثر دعائیں قبول ہو جاتیں.ایک دفعہ چنیوٹ میں شدید سیلاب آیا اور ہمارے گھر میں بھی پانی آ گیا میں نے کہا شاہ صاحب کچھ تو دعا کریں.سیلاب میں لوگوں کی بہت سی چیزیں ضائع بھی ہوئیں.ہمارے پاس تو خیر کچھ زیادہ سامان بھی نہیں تھا.ہمارے پاس حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نوراللہ مرقدہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرکات کے دوصندوق رکھوائے ہوئے تھے.خیر ہم نے ایک چار پائی رکھی اس کے اوپر ایک میز رکھا اور میز کے اوپر وہ تبرکات کے صندوق رکھ دیئے.ڈر تھا کہ کہیں پانی نہ اندر چلا جائے.میں نے کہا شاہ صاحب آپ دعا تو کریں کہنے لگے ہاں میں دعا کرتا ہوں.اس وقت رات کا وقت تھا.کہنے لگے پانی ۱۲ بجے کے بعد کم ہونا شروع ہو جائے گا.میں نے کہا شاہ صاحب پانی تو اور بڑھنا شروع ہو گیا ہے.شاہ صاحب کہنے لگے میں کیا کروں مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ۱۲ بجے پانی کم ہو جائے گا.چنانچہ واقعتاً ایسا ہی ہوا.پورے ۱۲ بجے پانی ہمارے گھر سے نکلنا شروع ہو گیا.

Page 169

157 سوٹ کیس واپس آ جائے گا ایک دفعہ کیا ہوا کہ ہم والد صاحب کے ہاں گئے ہوئے تھے.شاہ صاحب کا سوٹ کیس تھا چھڑے کا بنا ہوا.اس کی مرمت کروانی تھی.شاہ صاحب ایک آدمی کے پاس مرمت کروانے کے لئے گئے.اس آدمی نے کہا کہ یہ سوٹ کیس میں گھر لے جاتا ہوں کل لے کر آؤں گا.شاہ صاحب گھر آگئے.میں نے کہا سوٹ کیس کدھر ہے کہنے لگے وہ ایک آدمی کو دے آیا ہوں اس نے کہا تھا کہ میں گھر جا کر مرمت کر کے کل لے آؤں گا.اب وہ آدمی کہاں آتا تھا میں نے کہا شاہ صاحب اتنا اچھا بنا ہوا تھا وہ اب کہاں واپس آئے گا.شاہ صاحب کہنے لگے نہیں میں نے دعا کی ہے.اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ سوٹ کیس واپس آ جائے گا.ابا جان بھی کہنے لگے کہ وہ اب کہاں واپس آئے گا.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ سوٹ کیس واپس آ گیا.جب سوٹ کیس واپس آیا تو ابا جان نے خط لکھا کہ میرا ایک دوست ہے پولیس افسر میں اس سے یہ بات کر رہا تھا کہ سوٹ کیس اس طرح گم ہو گیا ہے کہنے لگا کم از کم اس کا پتہ تو لے لیتے.خیر اچھا میں کوشش کروں گا تو دوسرے دن وہ پولیس والا ہی سوٹ کیس لے آیا اس نے بتایا کہ میرے گھر کے باہر گلی میں کوئی کہتا جارہا تھا کہ لے لوسوٹ کیس لے لو.تو مجھے آپ کی بات یاد تھی میں نے وہ سوٹ کیس لے لیا اور اس کے اوپر شاہ صاحب کا نام لکھا ہوا تھا انگریزی میں ابا اتنے حیران ہوئے کہ انہوں نے شاہ صاحب کو لکھا کہ آپ کی دعا تو واقعی کمال کی ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یوں اس آدمی سے سوٹ کیس مل جائے گا.اور ویسے بھی شاہ صاحب کی خواہیں بڑی بچی ہوا کرتی تھیں انہوں نے بعض اپنے الہامات بھی مجھے بتائے تھے لیکن عموماً کسی کو اس طرح کی باتیں بتایا نہیں کرتے تھے.ایک دفعہ نیروبی میں ایک احمدی کو کسی نے مار ڈالا تھا.اسی رات جب صبح شاہ صاحب نیند سے جاگے تو کہنے لگے کہ ہمارا احمدی بھائی مارا گیا ہے.کہنے لگے نام تو نہیں معلوم لیکن فلاں گاؤں میں احمدی مارا گیا ہے.بہر حال آپ کی خواہیں بچی ہوتی تھیں.

Page 170

158 عائلی زندگی آپ کی سب سے پہلی شادی آٹھ سال کی عمر میں ہوئی تھی.شاہ صاحب نے مجھے بتایا کہ ہمارے ماموں آئے.انہوں نے کہا کہ جو بھی ہو جس بچہ نے اتنی چھوٹی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا ہے اسے میں نے اپنا داماد بنانا ہے.انہوں نے کہا کہ ہماری بیٹی اگر چہ ان سے عمر میں سات سال بڑی ہے.لیکن جو بھی ہو اس بچہ کو میں نے اپنا داماد بنانا ہے.مجھے ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے بتایا کہ میں نے شاہ صاحب کو گود میں بٹھایا ہوا تھا.انہوں نے بتایا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ نکاح تو مجھ سے ہوا تھا.کیونکہ شاہ صاحب کو تو اس وقت ایجاب وقبول کا بھی علم نہیں تھا.وہ بھی ان کی بجائے میں نے قبول کیا تھا.یہ واقعہ سن کر ہم لوگ بہت ہنستے تھے اور ہنس ہنس کے برا حال ہو جاتا تھا.شاہ صاحب بتایا کرتے تھے کہ میں نے جب میٹرک کیا تو مجھے اس وقت پتہ چلا کہ میں شادی شدہ ہوں.اس شادی سے ان کی ایک ہی بیٹی ہوئی تھی اور ان کی بیوی فوت ہو گئیں.آپ کی دوسری شادی حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب کی بیٹی سیدہ فاطمہ بیگم صاحبہ جو بعد میں سیدہ محمودہ کے نام سے جانی جاتی ہیں، سے ہوئی.آپ مکرم سید داؤد مظفر شاہ صاحب اور مکرم سید مسعود مبارک شاہ صاحب کی والدہ تھیں.اس کے بعد آپ نے کئی برس تک شادی نہیں کی.اس کے بعد ہماری شادی ہوئی.آپ کو بیٹیوں کا بہت شوق تھا جب میری بیٹی مریم حنا پیدا ہوئیں تو بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اسی وقت سجدہ کیا.میری والدہ کہنے لگیں کہ بیٹی پیدا ہوئی ہے اور سجدہ کیا ہے.شاہ صاحب فرمانے لگے.اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کی ہے میں نے شکرانہ ادا کیا ہے.اور عقیقہ بھی ادا کیا.جب میری بچی پیدا ہوئی تو سید نا حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ مبارک باد دینے کے لئے چنیوٹ میں ہمارے گھر تشریف لائے.حضرت شاہ صاحب نے اس کا نام حضرت سیدہ ام طاہر کے نام پر مریم رکھا.آپ کے بعض مضامین جماعتی اخبارات میں شائع ہوتے رہے.آپ کا ایک مضمون جو بہت پسند کیا گیا وہ ریویو آف ریلیجنز میں شائع ہوا تھا.وہ مضمون میں نے بھی دیکھا تھا.بہت

Page 171

159 اچھا مضمون تھا.عورتوں کے لئے نصائح پر منی بھی آپ نے چند ایک مضامین لکھے.شاہ صاحب کی ذاتی ڈائریاں بھی تھیں.جن پر آپ نے اپنی خواہیں اور الہامات لکھے ہوئے تھے اور بہت سی قیمتی باتیں تھیں.ساری ڈائریاں انہوں نے وفات سے چند روز قبل پھاڑ دیں تھیں.ان کے پاس حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کے کئی خطوط بھی تھے.جو حضرت صاحب انہیں لکھتے تھے.ان میں سے ایک خط میں نے ان سے لے لیا تھا جو میرے پاس محفوظ ہے.آپ کا طلباء سے حسن سلوک طلباء سے بہت پیار کرتے تھے.ان کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے.آپ کے اخلاق سے طلباء بہت متاثر تھے.دوطلباء احمدی ہو گئے تو والدین نے ان کو گھر سے نکال دیا.بیمار طلباء کے علاج معالجہ کا بھی اہتمام کرتے تھے جو دو طلباء احمدی ہو گئے تھے شاہ صاحب نے ان کی اعلیٰ تعلیم کا اہتمام کیا.ایک کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے پاس بھیج دیا اور دوسرے کو حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کے پاس.ان طلباء میں سے ایک طالب علم بہت بڑا ڈاکٹر بنا اور دوسرے نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی.گھر میں خاندان کے بچے پڑھنے کے لئے آ جاتے تھے.حضرت سید محمود اللہ شاہ انہیں بھی پڑھایا کرتے تھے.آپ ضرورت مندوں اور غرباء کا بہت خیال رکھتے تھے اور حسب توفیق انہیں اپنی جیب سے دے دیتے تھے.بعض لوگ تو غرباء کو پکڑ پکڑ کرشاہ صاحب کے پاس لایا کرتے تھے.بعض لوگوں کے وظائف بھی لگوائے ہوئے تھے.طلباء کی فیس تو اکثر اپنی جیب سے دیتے ہوئے میں نے انہیں دیکھا ہے.تحریک جدید کے پانچ ہزار مجاہدین میں آپ کا اور آپ کے کئی افراد خاندان، والدین اور بھائی بہنوں اور اہلیہ کے اسماء شامل ہیں.تاہم سب سے زیادہ مالی قربانی کرنے والوں میں آپ کا نام اپنے خاندان سے سر فہرست ہے.اس کے علاوہ اس طرح کے آپ کے بہت سے واقعات میں جیسے کہ فلاں آدمی آج آجائے یا یہ کہ آج فلاں چیز کھانے کا جی چاہتا ہے.تو وہ چیز کہیں سے گھر میں آ جاتی.کہیں

Page 172

160 سے اچانک یا تحفہ کی صورت میں یا کوئی خود گھر آ کر دے جاتا.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا آپ کہتے کہ فلاں چیز کھانے کو جی چاہتا ہے تو کہیں سے پکی ہوئی وہ چیز آ جاتی.آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا.کینیا میں بہت سی کتب مطالعہ کی ہسٹری، ورلڈ وار، لٹریچر ایسے موضوعات پر کئی کتب آپ نے مطالعہ کی ہوئی تھی.آپ مطالعہ کتب کا بھی بہت شوق تھا.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے.آمین.( تاریخ انٹر ویوا پریل مئی ۲۰۰۳ء) ☆

Page 173

161 ایک رباعی ( کلام حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب) ہو گئیں آج مرادیں حاصل شکر اللہ مجیب دینِ تثلیث ہؤا ہے باطل الدعوات دشمن دیں ہوا ہے گھائل (الحکم قادیان ۲۱ ستمبر ۱۹۲۰ء)

Page 174

162 شجرہ نسب خاندان حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب سید بخش محمد شاه ابن سید باغ حسین شاه این سید باغ علی شاه این میران سید بدر این سید جعفر ابن سید شاه فتح محمد شاه ابن سید شاہ عمر غازی ابن میراں سید داؤد ابن سید بہادر علی شاہ ابن سید محمدعلی شاه ( اولا د حضرت امام حسین) سید بخش محمد شاہ شجره (1) سید حسین شاہ سید قائم شاہ سید جلال شاه | سید غلام حسین شاہ سید گل حسین شاہ سید باغ حسن شاه اولاد سید فتح شاه سید محمد شاہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب سید حسین شاہ (اولاد شجره ۲) (ناڑہ سیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی میں آباد) میرشاه (ناڑہ سیداں میں میر سید احمد آباد سید میراں شاہ سید شیر شاہ شهرشاه سید حل شاه سید زمان حیدرشاه اہلیہ سیدہ زینب النساء سید ابعد شاہ سید حسین شاہ حضرت سیده سعيدة اولاد النساء بیگم ا.سیدہ سلطانہ بیگم اہلیہ حضرت ڈاکٹر اہلیہ سیده منیر فاطمہ سیدہ زہرہ بیگم سیدہ فیض بتول سیدہ صنفری ۲ بے نظیر بیگم سید عبد الستارشاه اہلیہ حضرت اہلیہ عبد الحاق جہلم سید عزیز الله شاه اہلیہ حضرت سید حبیب اللہ شاہ ۳.سیده منیرہ فاطمه اہلیہ سید زمان حیدر شاه

Page 175

163 شجره (۲) حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب ابن حضرت سید باغ حسن شاہ صاحب حضرت سیدہ زینب النساء حضرت سیدہ ۳ ۵ حضرت سید حضرت ڈاکٹر حافظ حضرت حافظ حضرت حافظ اہلیہ سید شیر شاہ خیر النساء صاحبه زین العابدین سید حبیب اللہ شاہ سید عزیز اللہ شاہ سید محمود اللہ شاہ ولی اللہ شاہ ۸ حضرت سید عبدالرزاق شاہ حضرت سیدہ ام طاہر حرم حضرت مصلح موعود

Page 176

164 (اہلیہ اول) سیده دیانت النساء كار والالات النساء سیدہ رقیه بیگم شجره (۳) حضرت حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب اطمیه دوم) سیده فاطمه ( محمودہ بیگم) بنت حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب (اہلیہ سوم) مکرمه فرخنده اختر صاحبه بنت حضرت شیخ نیاز محمد صاحب اہلیہ حضرت چوہدری فتح محمد سید مسعود مبارک شاہ صاحب سید داؤ د مظفر شاہ صاحب سید مشہود احمد صاحب سیده مریم حنا صاحبہ اہلیہ سیدہ شریفہ بیگم اہلیہ صاحبزادی امتہ الحکیم اہلیہ سیدہ نجف اہلیہ ڈاکٹر نعیم اللہ سیال صاحب شجره -۳ (۱) شجره -۳(۲) شجره -۳ (۳) شجره -۳ (۴) شجره -۳ (۵) شجرہ.(۱) ر روی تیم الهی حضرت چوہدری محمد سال امتہ ائی بشری اہلیہ ونگ کمانڈر رشید احمد طارق رشید المیہ امتة اللطیف شہرہ فاروق احمد خالد اہلیہ مبارکہ شاہد امتہ القیوم صدف اہلیہ میجر عبدالرافع غالب احمد قاسم ذکی احمد دانیال خدیجہ احمد احسان احمد ارسلان احمد ملیحه رافع معزه رافع

Page 177

165 شجرہ.۳(۲) سید مسعود مبارک شاه و اہلیہ سیده شریفہ بیگم بنت حضرت سید عبدالرزاق شاہ سیدہ محمودہ اہلیہ چوہدری نصیر احمد سید مقصود احمد سید مطلوب احمد سیدہ عتیقہ سید محمود اللہ اولاد سید اسد احمد سید سعو د احمد اہلیہ در مشین اہلیہ سیدہ بشری اہلیہ رانی صاحبہ اولاد اہلیہ فوزیہ اہلیہ اولاد ڈاکٹر فرید احمد اولاد سیده طیبه سید عدنان سیده زرنا سید طیب سید احسان اہلیہ (سید قمر احمد ) سید فرهاد سیدہ ماہم سید شمائل سید حسیب نبیلہ اہلیہ شفیق احمد مبشر احمد فضیلت رو ببینه سیده فرزانه (اہلیہ اول) (اہلیہ دوم) سید عابد محمود سیدہ عالیہ رفعت اہلیہ (سید صبیح احمد )

Page 178

سید مولو د احمد 166 شجرہ.(۳) سید داؤد مظفر شاہ و اہلیہ صاحبزادی امتہ الحکیم بنت حضرت مصلح موعود ۲ سیده امتة السبوح ۳ سید خالد احمد ۴ سید قاسم احمد ۵ سید طارق احمد سید غلام مجتبی صاحب خلیفہ اصیح الخامس اولاد سیدہ ماریہ امة الوارث فرح صاحبزادہ مرزا اہلیہ سیدہ لیٹی مولود بنت مکرم (اہلیہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب) اہلیہ سیدہ ماریہ اہلیہ امة الغفور بنت اہلیہ سیدہ عالیہ طارق + خالد بنت مکرم مکرم پیر معین الدین مرحوم اولاد سید سعید احمد بنت مکرم سید محمود احمد صاحب اہلیہ اولاد سیده قدسیه خالد اولاد سیده در عدن سیدہ عفیفہ نگہت ( میر علی احمد ) اہلیہ فاتح احمد ڈاہری وقاص احمد سید یا سراحمد سید غالب احمد سیدہ نائلہ سید مسعود احمد اہلیہ (سید مہتہ الرؤف ) سیده یمنی خلود سیده بارعه قاسم سیده ملیحه مناحل منصور احمد سید عدیل احمد یری ۶ ۹ سیده امته الرؤف اہلیہ سید تا ثیر مجتبی صاحب سید صہیب احمد اہلیہ راشدہ صہیب بنت سیده امتہ العزیز زوبی اہلیہ ملک خالد احمد ڈفر صاحب سید محمود احمد اہلیہ سیدہ طیبہ صدیقہ ابن مکرم سید غلام مجتبی صاحب محمد اسحاق ورک صاحب ابن مکرم ملک عمر علی کھوکھر بنت مکرم سید محمد صادق اولاد سید صبیح احمد اولاد سید حارث شعیب احمد صاحب مرحوم اولاد شاہ صاحب اولاد اہلیہ سیدہ خولہ صہیب ملک افتخار محمود احمد سیده منزه بتول (سیدہ عالیہ رفعت ) سیده هبة الرؤف اہلیہ (صاحبزادہ مرز اوقاص احمد ) ملک حاشر احمد سیده سدره محمود سیده خلت محمود

Page 179

167 شجره (۴) سید مشہود احمد و اہلیہ سیدہ نجف سیدہ مونا شاہ اہلیہ ڈاکٹر ندیم احمد | لقمان ندیم سیدہ ما ہم شاہ اہلیہ ڈاکٹر شاہد سیده مهوش شاہ اہلیہ شہزاد سیده زین شاہ اہلیہ ذوالفقار منصور روکیا آمانی شہزاد علی منصور میباشہزاد حسن صحر فاطمه شجرہ.(۵) سیدہ مریم حنا اہلیہ ڈاکٹر نعیم اللہ میر محمود اللہ ہمایوں فارعہ میر میر احمد مصطفی

Page 179