Language: UR
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے حالات زندگی اور آپ کی سیرت طیبہ کے واقعات کو مصنف نے آسان طرز پر تحریر کیا ہے جس میں آپ علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے واقعات زمانی طور پر پیش کئے گئے ہیں یوں قاری آپ علیہ السلام کے آباء و اجداد سے متعارف ہونے کے بعد آپ کی دعویٰ سے قبل کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات سے آگاہی پاتا ہے اور پھر زمانہ ماموریت کے تاریخ ساز امور کی تصویری جھلکیاں دیکھنے لگتا ہے۔ آپ علیہ السلام کی مقدس سوانح سے ابتدائی تعارف بڑھانے کے لئے یہ کتابچہ بہت مفیدہے۔
ضرت مسیح موعود
صرف احمدیوں کے لئے سوانح موعود مولانا دوست محمد شاهد مورخ احمدیت
جملہ حقوق بحق مولف محفوظ : سوانح حضرت مسیح موعود *** : : نام کتاب
سوانح حضرت مسیح موعود خاندانی حالات سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مهدی موعود و مسیح مسعود علیہ السلام مشهور ایرانی قبیلہ برلاس کے چشم و چراغ تھے.آپ کا خاندان ایک شاہی خاندان تھا جس کے فارسی قالب کو جناب الٹی کی طرف سے ترکی، چینی اور فاطمی خون کا لطیف امتزاج بخشا گیا تھا.آپ کے مورث اعلیٰ مرزا ہادی بیگ تھے.جو ۱۵۳۰ء میں اپنے خاندان کے ساتھ کش سے پنجاب داخل ہوئے.اور قادیان کی مثالی ریاست کی بنیاد رکھی.جو ۱۸۰۲ تک قائم رہی.جس پر بالاخر آپ کے دادا مرزا عطاء محمد صاحب کے وقت سکھ قابض ہو گئے.اور آپ کے خاندان کو ریاست کپور تھلہ میں پناہ گزین ہونا پڑا جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں دوبارہ قادیان میں آگیا.اور آپ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کو اپنی ریاست میں سے پانچ گاؤں واپس مل گئے.ولادت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ کے بطن
مبارک سے ۱۴ شوال ۱۳۵۰ھ بمطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء طلوع فجر کے بعد قادیان میں بروز جمعہ تولد ہوئے.حضرت مسیح ناصری کی طرح آپ کی ولادت میں بھی ندرت کا رنگ تھا.کیونکہ آپ محی الدین ابن عربی کی پیشگوئی کے مطابق توام پیدا ہوئے تھے.پاکیزہ بچپن، تعلیم اور زیارت مصطف" حضور فرماتے ہیں کہ اوائل ہی سے خانہ خدا میرا مکان صالحین میرے بھائی، ذکر الہی میری دولت اور خلق خدا میرا خاندان رہا ہے.ایک صاحب کرامت اور ولی اللہ مولوی غلام رسول (قلعه میہاں سنگھ) نے آپ کو بچپن میں دیکھا تو بے ساختہ فرمایا کہ "اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے.۶-۷ سال کی عمر میں آپ نے قادیان میں ایک حنفی بزرگ فضل الہی صاحب سے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں پڑھیں.قریباً ۱۰ سال کے ہوئے تو فیروز والہ کے ایک عربی خوان اہل حدیث عالم مولوی فضل احمد صاحب آپ کی تعلیم کے لئے مقرر ہوئے.حضرت مولوی صاحب ایک دیندار اور بزرگ عالم دین تھے.جنہوں نے بہت توجہ اور محنت سے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو پڑھائے.عمر کے سترھویں اٹھارویں سال میں بٹالہ کے شیعہ عالم مولوی گل علی شاہ صاحب سے آپ نے نحو منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ حاصل کیے.اور طبی کتابیں اپنے والد بزرگوار سے پڑھیں.
دوران تعلیم آپ نے پہلی بار عالم خواب میں محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا.آپ نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کرسی اونچی ہو گئی ہے.حتی کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور آپ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا کہ گویا.اس پر سورج اور چاند کی شعائیں پڑ رہی ہیں.خدمت دین کی مجاہدانہ تیاری حضرت اقدس علیہ السلام کو ابتدا ہی سے جناب الہی سے ایسا جذب عطا ہوا کہ آپ شروع ہی سے خلوت نشین ہو گئے تھے.اور سارا سارا دن مسجد میں بیٹھ کر قرآن شریف پڑھتے اور اس کے حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے اور اسلام اور مسلمانوں کی خستہ حالی کو دیکھ کر دن رات مضطرب اور بے چین ہو جاتے تھے.غیرت رسول کا بے پناہ جذبہ شروع ہی سے ایسا موجزن تھا کہ ۱۶ ۱۷ برس کی عمر سے عیسائیوں کے اعتراضات جمع کرنے کی مہم شروع کر دی تھی.مقدمات میں راست گفتاری اور تعلق باللہ اسی زمانہ میں آپ کو اپنے والد کے حکم پر ان کے مقدمات کی پیروی کرنا پڑی.یہ ابتلائے عظیم کم و بیش سترہ برس تک جاری رہا.جس میں آپ نے راست گفتاری منکسر المزاجی اور تعلق باللہ کا ایسا بے مثال نمونہ دیکھا کہ چشم فلک نے صدیوں سے نہیں دیکھا تھا.
سیالکوٹ میں تبلیغ اسلام کے معرکے ۱۸۷۴ء سے ۱۸۷۷ء تک آپ سیالکوٹ میں بسلسلہ ملازمت قیام فرما رہے.جہاں دفتری فرائض کے بعد آپ کا پورا وقت تلاوت قرآن، عبادت گزاری، خدمت خلق اور تبلیغ اسلام میں گزرتا تھا.عیسائیوں نے پنجاب کو اور پنجاب میں خصوصاً سیالکوٹ کو عیسائیت کے فروغ کا بھاری مرکز بنا رکھا تھا.حضرت اقدس نے یہاں تبلیغ اسلام اور رو عیسائیت کا پر جوش محاذ کھول دیا اور خصوصاً سکاچ مشن کے بڑے نامی گرامی پادری بنگر سے آپ کے بڑے بڑے معرکے ہوئے اس سرو فروشانہ جہاد کا تذکرہ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کے استاد مولوی سید میر حسن صاحب سیالکوٹی کے بیانات میں بھی ملتا ہے.مناظرہ سے دستکشی اور آسمانی بشارت سیالکوٹ سے واپسی کے بعد آپ پھر قادیان میں تشریف لے آئے اور خدمت دین و ملت کی سرگرمیاں جاری کر دیں.۱۸۷۸ء میں جبکہ آپ نے بٹالہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی سے محض اللہ مناظرہ کرنے سے انکار کر دیا.اور حنفیوں کی ہنگامہ آرائی کے باوجود قرآن مجید کے اقوال رسول سے مقدم ہونے کا اعلان عام کر دیا تو رب ذوالجلال نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور آپ کو خبردی
تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے" قلمی جہاد کا آغاز ۱۸۷۲ء میں آپ نے اسلام کی تائید میں قلمی جہاد کا آغاز فرمایا اور منشور محمدی (بنگلور) اور دوسرے مسلم پریس میں مضامین سپرد قلم کرنے شروع کئے.اندازا ۱۸۷۳ء میں آپ نے شعرو سخن کو اشاعت حق کا ذریعہ بنایا.آپ اوائل میں فرخ تخلص کرتے تھے.روزوں کا مجاہدہ عظیم ۱۸۷۵ء میں آپ نے خدائے عزوجل کے ارشاد پر نو ماہ تک روزوں کا عظیم مجاہدہ کیا.جس میں آپ کو عالم روحانی کی سیر کرائی گئی.اور گزشتہ انبیاء و صلحاء اور حضرت علی و فاطمه و حسن حسین رضی اللہ عنہم کے علاوہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عین بیداری کی حالت میں زیارت نصیب ہوئی.یہ آپ ایسے عاشق رسولی کا لطیف معراج تھا.
کثرت مکالمات کی ابتداء ۲ جون ۱۸۷۲ء کو آپ کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کا انتقال ہوا اور ساتھ ہی بڑے زور شور سے آپ پر مکالمات و مخاطبات کا نزول شروع ہو گیا.اور آپ براہ راست رب العالمین کی آغوش تربیت میں آگئے.یہی وجہ ہے کہ اگرچہ آپ کے والد کے وصال کے بعد آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب (متوفی ۱۸۸۳ء) ہی پوری خاندانی جائداد پر قابض و مسفرم تھے.اور آپ کے سال تک خبر آزما عالم درویشی و فقیری میں رہے.مگر آپ کا ذوق تبلیغ اور جذبہ عبادت کم ہونے کی بجائے گویا بحر مواج کی شکل اختیار کر گیا.اور آپ ہر قسم کے دینوی جھمیلوں سے بے نیاز ہو کر خدمت دین میں سرگرم عمل ہو گئے اور خصوصاً آریہ سماج پر پوری قوت سے حملہ کر دیا.جس میں اسلام کو فتح نصیب ہوئی.براہین احمدیہ جیسی شہرہ آفاق کتاب کی اشاعت ۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۲ء تک آپ کے قلم مبارک سے براہین احمدیہ جیسی معرکہ آلارا تصنیف منظر عام پر آئی جس سے برصغیر پاک و ہ و ہند میں زبردست تہلکہ مچ گیا.اور مسلمانان ہند جو عیسائیت آریہ سماج اور مغربی فلسفہ اور الحاد کے مرکب اور خوفناک حملہ سے نیم جاں اور نڈھال ہو چکے تھے اسلام کے اس زبردست دفاع سے ایک نئی زندگی اور نئی طاقت محسوس کرنے لگے اور مسلمان علماء
و فضلاء مثلا ابو سعید محمد حسین بٹالوی ایڈووکیٹ اہل حدیث حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی اور مولانا محمد شریف صاحب بنگلوری نے اس کتاب کو ایک بے نظیر شاہکار تسلیم کیا.اور دشمنان اسلام کے ہاں صف ماتم بچھ گئی ساتھ ہی کفر کی طاقتیں مجتمع اور منتظم ہو کر آپ کے خلاف برسرپیکار ہو گئیں.دعوی ماموریت اور نشان نمائی کی عالمگیر دعوت مارچ ۱۸۸۲ء میں آپ کو ماموریت کی خلعت سے نوازا گیا.جس کے بعد ۱۸۸۴ء اور ۱۸۸۵ء میں آپ نے دنیا بھر کے غیر مسلم لیڈروں اور راہ نماؤں کو نشان نمائی کی عالمگیر دعوت دی اور اس سلسلہ میں ہیں ہزار اردو و انگریزی اشتہارات بذریعہ رجسٹری بھجوائے مگر آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے ایک نہایت مبارک خاندان کی بنیاد اور پیشگوئی مصلح موعود نومبر ۱۸۸۴ء میں دہلی کے صوفی مرتاض حضرت خواجہ میر درد رحمتہ اللہ علیہ کے نبیرہ حضرت میر ناصر نواب صاحب کی بیٹی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ آپ کے عقد میں آئیں.اس طرح
خدا نے تمام جہاں کی مدد کے لئے ایک مبارک اور مبشر خاندان کی بنیاد ڈالی.۱۸۸۶ء میں بحکم الہی آپ نے ہوشیار پور میں چلہ کشی کی.جس کے نتیجہ میں آپ کو اپنے مخلصین اور اپنے خاندان کی نسبت بھاری بشارتیں میں.نیز مصلح موعود جیسے فرزند ارجمند کی خبر دی گئی.جو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ کو سیدنا محمود المصلح الموعود کے نورانی وجود کی ولادت سے پوری ہوئی.لدھیانہ میں بیعت اولی ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کا مبارک دن ہمیشہ تاریخ سلسلہ احمدیہ میں ممتاز رہے گا.کیونکہ اس دن حضرت صوفی احمد جان لدھیانوی کے مکان واقع محلہ جدید میں پہلی بیعت ہوئی اور ۴۰ عشاق نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا.اول المبائعین ہونے کا فخر حضرت حاجی الحرمین الشریفین مولانا حکیم نورالدین بھیروی (خلیفہ المسیح الاول) کو حاصل ہوا.دعوی مسیحیت ۱۸۹۰ء کے آخر میں آپ پر انکشاف کیا گیا کہ "مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے اس پر ۱۸۹۱ء میں آپ نے فتح اسلام" "توضیح مرام " اور ازالہ ء اوہام " کتابیں شائع کر کے علمائے وقت پر اتمام
حجت کی علاوہ ازیں لدھیانہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی سے سے اور دہلی میں مولوی بشیر احمد صاحب بھوپالی سے لاجواب مباحثات کئے.مگر علماء ظواہر نے اپنی قدیم روایات کے مطابق آپ کے خلاف فتویٰ کفر لگا دیا.البتہ علامہ حالی.ریاض خیر آبادی سرسید احمد خان مولوی سراج الدین مدیر زمیندار - مولانا شبلی.عبدالحلیم شرر نواب محسن الملک مولانا محمد علی جوہر - مولانا شوکت علی جیسے روشن خیال مسلم ممالک اس مخالفت میں غیر جانبدار رہے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جنہوں نے آپ کے خلاف تکفیر پر ہندوستان بھر کے علماء کو جمع کر کے کفر نامہ شائع کیا تھا.انگریزی حکومت نے ان کو چار مربعہ زمین سے نوازا اور زندگی کے آخری دم تک انگریزوں کے کان بھرتے رہے کہ مرزا صاحب حکومت کے باغی اور مہدی سوڈانی سے زیادہ خطرناک ہیں.برطانوی افسروں کی ان پر کڑی نگرانی رہنی چاہیے.یہ حکومت کی سرپرستی ہی کا اثر تھا کہ انہوں نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ" میں یہ بلند بانگ دعوی کیا کہ میں نے مرزا صاحب کو آسمان پر چڑھایا ہے اور میں ہی زمین پر گراؤں گا.اس کے مقابل حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ.اے نے تکفیر مابستہ کمر خانه ات ویران تو فکر و گر خدا کے پاک مسیح کے یہ الفاظ ہولناک شکل میں پورے ہوئے جو عبرت کا ایک دائمی نشان ہے.
پہلا سالانہ جلسہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹ء کو جماعت احمدیہ کا پہلا سالانہ جلسہ نماز ظہر کے بعد بیت اقصیٰ قادیان میں منعقد ہوا.جس میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے حضور کی تصنیف آسمانی فیصلہ پڑھ کر سنائی.اور جلسہ ختم ہوا.اس پہلے اجتماع میں صرف ۷۵ مخلصین شامل ہوئے.عدد شہروں کا تبلیغی سفر ۱۸۹۲ء میں حضور نے لاہور، سیالکوٹ، کپور تھلہ، جالندہر اور لدھیانہ کا سفر اختیار کر کے حق و اشاعت کی آواز پنجاب بلکہ ملک کے کونہ کونہ تک پہنچادی.اگلے سال حضور اسی غرض سے فیروز بھی تشریف لے گئے.نیز امرتسر میں عیسائیوں سے ایک فیصلہ کن مباحثہ کیا.جس کی بازگشت انگلستان میں بھی سنائی دی گئی.چنانچہ لارڈ بشپ نے پادریوں کی عالمی کانفرنس میں اس خطرہ کا اظہار کیا.کہ اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں اور ہندوستان کی برطانوی مملکت میں محمد کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی جا رہی ہے.ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام ۱۸۹۳ء میں آپ نے آئینہ کمالات اسلام کے نام سے ایک
پر معارف کتاب لکھی جس میں ملکہ وکٹوریہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی.جس پر حضرت خواجہ غلام فرید چاچڑاں شریف جیسے اہل اللہ نے خراج تحسین ادا کیا.جون ۱۸۹۷ء میں ملکہ کی جوبلی ہوئی اس تقریب پر آپ نے نہ صرف ملکہ کو دوبارہ دعوت اسلام دی بلکہ انگلستان میں ایک جلسہ مذاہب کی تجویز بھی پیش فرمائی.مکہ مکرمہ میں مسیح موعود کی آمد کے چرچے فروری ۱۸۹۴ء میں آپ نے ”حمامتہ البشرعی" شائع کی جو مرکز اسلام میں خصوصاً اور دوسرے بلاد عربیہ میں عموماً کثرت سے بھجوائی گئی.اور ہر طبقہ میں آپ کا ذکر پہنچ گیا.ایک خدائی تصرف یہ ہوا کہ انہی دنوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق رمضان میں مجوزہ تاریخوں پر چاند اور سورج کو گرہن ہوا جس نے سعید روحوں میں زبر دست جنبش پیدا کر دی.۱۸۹۵ء میں مغربی دنیا نے بھی یہ نشان دیکھا اور آپ کی سچائی پر آسمانی مہر لگ گئی.تین اہم انکشافات ۱۸۹۵ء کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس سال آپ نے اللہ وید تعالیٰ کی تائید و نصرت سے تین ایسے علمی انکشافات فرمائے جن سے اسلام کی فتح کے نقارے بجنے لگے.چنانچہ آپ نے زبردست دلائل سے ثابت کیا کہ 1.عربی زبان ام الالسنہ ہے.۲.حضرت مسیح کی قبر
محلہ خانیار میں ہے.۳.سکھ تحریک کے بانی گورونانک مسلمان تھے.ل خانہار میں ہے جو کہ تحفظ ناموس رسول کے لئے آئینی تحریک اس سال آپ نے تعزیرات ہند کی دفعہ ۲۹۸ کی توسیع کا مطالبہ کیا اور تحفظ ناموس رسول کے لئے ایک آئینی تحریک اٹھائی جس کا مسلمان حلقوں میں زبردست خیر مقدم کیا گیا.اور نواب محسن الملک نے اسے خوب سراہا.تعطیل جمعہ کی تحریک یکم جون ۱۸۸۶ء کو آپ نے وائسرائے ہند کے نام اشتہار شائع کیا کہ مسلمان ملازمین کو جمعہ کے روز تعطیل دی جائے کہ یہ مقدس دن اسلامی شعار کی حیثیت رکھتا ہے.جلسہ مذاہب عالم لاہور دسمبر ۱۸۹۶ء کے آخری ہفتہ میں لاہور کے اندر ایک مذاہب عالم کا نفرنس منعقد ہوئی.جس میں آپ نے اسلام کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا.آپ نے اسلامی اصول کی فلاسفی کے عنوان سے ایک بصیرت افروز مضمون لکھا.جسے حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے نہایت خوش بیانی سے سنایا.آپ نے قبل از وقت
بذریعہ اشتہار پیشگوئی فرمائی کہ یہ مضمون بالا رہے گا.چنانچہ ایسا ہی عمل میں آیا اور دین حق کو آپ کے ہاتھوں فتح عظیم نصیب ہوئی.جس کا اعتراف اردو اور انگریزی پریس نے بھی کیا.قتل لیکھرام 4 مارچ ۱۸۹۷ء کو مشہور شاتم رسول لیکھرام پشاوری آپ کی پیشگوئی کے عین مطابق "بران محمد " سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا.آریہ سماجیوں نے اس پر سخت طوفان بد تمیزی اٹھایا.مگر آپ نے تحدی کے ساتھ ثابت کیا کہ اسلام اور آریہ مذہب کا خدا تعالیٰ کی درگاہ میں برسوں سے ایک مقدمہ دائر تھا سو آخر ۶ مارچ ۱۸۹۷ء کے اجلاس میں اس عدالت نے مسلمانوں کے حق میں ایسی ڈگری دی جس کی نہ کوئی اپیل ہے نہ مرافعہ.مقدمہ اقدام قتل اور آپ کی بریت اسی سال عیسائیوں نے ہندوؤں اور دوسرے مخالف علماء سے ملکر آپ کے خلاف مقدمہ اقدام قتل کی سازش کی.عیسائیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تک نے گواہی دی.مگر اللہ تعالٰی نے ڈگلس (حج) پر اصل حقیقت کھول دی.اور اپنے آپکو باعزت طور پر بری کر دیا.نیز کہا کہ ڈاکٹر کلارک پر آپ مقدمہ چلانے کے مجاز ہیں.مگر حضور نے فرمایا ”میں کسی پر مقدمہ کرنا
M نہیں چاہتا.میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے" اگلے سال ۱۸۹۸ء میں آپ کے مخالفین نے اپنی ناکامی کا بدلہ لینے کے لئے آپ کے خلاف مقدمہ کر دیا.لیکن اس میں بھی آپ کی بریت ہوئی اور مخالفت کا متحدہ محاذ ناکام و نامراد رہا.علاوہ ازیں مرکز احمدیت میں تعلیم الاسلام سکول کی بنیاد پڑی اور البلاغ.ایام الصلح ضرورت الامام نجم الہدیٰ جیسی معرکہ آرا کتابیں تالیف ہوئی اور اکثر شائع بھی ہو گئیں.جن سے جماعت کے اثر و نفوذ میں مزید وسعت پیدا ہوئی.۱۸۹۹ء میں آپ نے تریاق القلوب ستارہ قیصریہ اور مسیح ہندوستان کے نام سے عظیم الشان کتابیں لکھیں.مقدمه دیوار سلسلہ احمدیہ کے بیرونی دشمنوں کی جدوجہد کے پیوند خاک ہونے کے بعد آپ کے جدی بھائیوں نے ۵ جنوری ۱۹۰۰ء کو آپ کے الدار کا محاصرہ کرنے اور مٹانے کے لئے ایک دیوار کھینچ ڈالی جس سے قادیان کے احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ ہو گیا.یہ قیامت خیز دور لمبے مقدمات کے بعد ۱۲ اگست ۱۹۰۲ء کو ختم ہوا.جبکہ سرکاری عدالت کے فیصلہ کے مطابق یہ دیوار گرادی گئی.مصائب اور فتن کے ان پر آشوب دنوں میں آپ برابر قلمی جہاد میں مصروف رہے.چنانچہ تحفہ غزنویہ شائع کی.اسی زمانہ میں خطبہ الہامیہ کا زبردست علمی نشان ظہور پذیر ہوا.جس نے آپ کی حقانیت کو مہر
نیم روز کی طرح روشن کر دیا.اور علمی و ادبی عظمت کی دھاک بٹھادی.بشپ کو شکست فاش مئی ۱۹۰۰ء میں حضور نے بشپ جارج الفریڈ لی فرائے کو "معصوم نبی" کے موضوع پر بحث کرنے کے لئے للکارا.مگر اسے خدا کے بطل جلیل کے مقابلہ پر میدان میں آنے کی جرات نہ ہو سکی.انڈین پیکٹیٹر نے بشپ کے اس فرار پر زبردست تنقید کی.اور اسلام کو ایک بار پھر عیسائیت پر فتح عظیم نصیب ہوئی.اعجاز مسیح اور تحفہ گولڑویہ کی تصنیف و اشاعت ۲۸ اگست ۱۹۰۰ ء کو حضور نے گولڑہ شریف کے مشہور سجادہ نشین مہر علی شاہ صاحب کو تفسیر نویسی کی دعوت دی.پیر صاحب تو یہ دعوت ٹال گئے مگر حضور نے ان پر دو ہرے رنگ میں اتمام حجت کی.چنانچہ ایک تو "اعجاز اصبح" کے نام سے سورہ فاتحہ کے نام سے عربی میں انعامی تفسیر شائع فرمائی اور بلاد عرب و عجم میں اس کی خوب اشاعت کی.دوسرے تحفہ گولڑویہ کے نام سے ایک مبسوط کتاب شائع کی جس میں اپنی سچائی کے ناقابل تردید دلائل تحریر فرمائے.اس کتاب پر بھی آپ نے انعام دینے کا اعلان فرمایا.مگر وہ عمر بھر اس کا جواب دینے سے قاصر رہے.
فرقہ احمدیہ کا نام 1901ء میں سرکاری طور پر مردم شماری ہونے والی تھی اس لئے آپ نے ۴ نومبر ۱۹۰۰ء کو اشتہار دیا کہ آنحضرت کا جمالی اسم مبارک احمد تھا اس مناسبت سے جماعت کا نام فرقہ احمد یہ رکھا جاتا ہے.”تا اس نام کو سنتے ہی ہر شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی و صلح پھیلانے آیا ہے" مخالف علماء کو مصالحت کی پیشکش ۵ مارچ 1991ء کو آپ نے بذریعہ اشتہار مخالف علماء کو صلح کی مخلصانہ پیشکش کی کہ فریقین سخت زبانی سے پرہیز کرنے اور تہذیب و شائستگی کا التزام کرنے کا معاہدہ کریں.اور میں اپنی جماعت کے اہل قلم کی طرف سے اس کی پابندی کا انتظام کروں گا.افسوس علماء زمانہ نے امام وقت کی یہ دعوت نہایت بے دردی سے ٹھکرادی اور کہا کہ جب تک مرزا صاحب اپنی سب کتابوں کو نذر آتش کر کے اپنی دعوت پر علماء سے معافی نہ مانگیں صلح نہیں ہو سکتی.نیز ادعا کیا کہ مصالحت کی ضرورت ہی کیا ہے ”خدا اس فرقہ ابو جہلیہ و طائفہ احمقیہ کو مسیلمہ کذاب اسود عنسی کے اتباع کی طرح صفحہ ہستی - سے نیست و نابود کر دے گا"
ریویو آف ریلیجنز کا اجراء ۱۹۰۲ء میں آپ کے حکم سے اردو اور انگریزی میں رسالہ ریویو آف ریلیجنز جاری کیا گیا جس سے مغربی ممالک میں تبلیغ کا نیا دور شروع ہوا.اس رسالہ نے دینی انقلاب کا ماحول پیدا کر دیا.کونٹ ٹالسٹائی اور یورپ و امریکہ کے بعض دوسرے چوٹی کے غیر مسلم مفکرین اس کے مضامین پڑھ کر دین حق کے پاک اصولوں کی عظمت کے قائل ہونے لگے.مرکز احمدیت کے دوسرے اخبارات و رسائل مرکز احمدیت سے اب تک صرف اخبار الحکم ۱۸۹۸ء سے جاری تھا.لیکن ریویو آف ریلیجنز کے اجراء کے کئی ماہ بعد اکتوبر ۱۹۰۲ء سے البدر کے نام سے دوسرا ہفت روزہ بھی چھپنے لگا.ان دونوں اخبارات کو حضرت مسیح موعود نے اپنا دست و بازو قرار دیا.اور یہ دونوں زمانہ مسیح موعود کی تاریخ کے اکثر و بیشتر امین و پاسباں ثابت ہوئے.یکم مارچ ۱۹۰۲ء سے رسالہ تشحيد الاذہان نکلنے لگا.جس سے اندرون ملک احمدی علم کلام کی دھوم مچ گئی.اسی سال رسالہ تعلیم الاسلام بھی قادیان سے نکلنا شروع ہوا.جس کی اصل غرض تفسیر قرآن تھی.جماعت کی حیرت انگیز ترقی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے علم پاکر قبل از
۲۰ وقت یہ بتا دیا تھا کہ ملک طاعون کی لپیٹ میں آنے والا ہے اور اس مصیبت سے اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی مخلص جماعت کو خارق عادت طور پر محفوظ رکھے گا.چنانچہ ۱۹۰۲ء میں طاعون نے ہر طرف ایک قیامت برپا کر دی.لیکن مخلصین جماعت اور بالخصوص آپ کا اندار اس کے حملہ سے بالکل محفوظ رہا.خدا تعالیٰ کے اس معجزانہ سلوک کو دیکھ کر بے شمار سعید روحیں آپ پر ایمان لے آئیں.دافع البلاء اور کشتی نوح" اسی دور کی یادگار تصانیف ہیں.اعجاز احمدی" کی تالیف ۸ سے ۱۳ نومبر ۱۹۰۲ء یعنی صرف چار دن میں مباحثہ مذ امرتسر کے جواب میں آپ نے ایک مضمون اور ایک اعجازی عربی قصیدہ لکھا اور ۱۵ نومبر کو شائع کیا اور اس کا نام اعجاز احمدی رکھا.جس میں مولوی ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے علماء کو دعوت دی کہ اگر وہ بھی پانچ دنوں میں ایسا عربی قصیدہ معہ اسی قدر اردو مضمون کے شائع کر دیں تو میں بلا توقف ان کو دس ہزار روپیہ دے دوں گا.مگر ساتھ ہی یہ پیشگوئی فرمائی کہ یہ کبھی نہ ہو سکے گا.”خدا تعالیٰ ان کی قلموں کو توڑ دے گا اور ان کے دلوں کو خمی کر دے گا " چنانچہ حضرت سلطان القلم کی یہ پیشگوئی
لفظ " لفظ " پوری ہوئی.لوگ مقدمات کا نیا سلسلہ ۱۹۰۳ء سے ۱۹۰۵ء تک آپ کو مقدمات کے ایک نئے سلسلہ سے دوچار ہونا پڑا.جس کے آغاز میں آپ کو جہلم کا سفر کرنا پڑا جس میں اللہ تعالٰی نے آپ کو زبردست مقبولیت بخشی.اور ہزاروں آپ کی جماعت میں داخل ہوئے.جہلم کے مقدمہ میں برینت ہوئی.مگر جلد ہی مولوی کرم دین آف بھیں نے جہلم کی عدالت میں استفاثہ دائر کر دیا جو جون ۱۹۰۳ء میں منتقل ہو کر گورداسپور میں ایک متعصب آریہ چندو لال کی عدالت میں آگیا.آریوں نے جو قتل لیکھرام کے بعد آپ کے خون کے پیاسے ہو چکے تھے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا اور چندو لال سے ملکر آپ کی قید کا دوبارہ منصوبہ بنایا.مگر لالہ چندو لال تو خدا کی قمری تجلی کا شکار ہوا.اور آپ ہائی کورٹ میں باعزت طور پر بری کر دیے گئے.یہ 6 جنوری ۱۹۰۵ء کا واقعہ ہے.منارۃ المسیح کی بنیاد ۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء بروز جمعہ حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ
۲۲ وسلم کی پیشگوئی کی تکمیل کے لئے منارۃ المسیح کا سنگ بنیاد رکھا.جس کی تکمیل خلافت ثانیہ کے اوائل میں ہوئی.ڈوئی اور پیٹ سے متعلق جلالی پیشگوئیاں ان دنوں امریکہ میں ڈوئی اور یورپ میں پگٹ نے دعویٰ پیغمبری کر رکھا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبل از وقت ان کی تباہی کی خبر دی جو ایسی شان سے پوری ہوئی کہ پوری عیسائی دنیا دنگ رہ گئی.ڈوئی پر فالج کا حملہ ہوا اور آپ کی آنکھوں کے سامنے بڑے دکھ اور حسرت سے 9 مارچ ۱۹۰۷ء کو دنیا سے کوچ کر گیا.اسی طرح پکٹ بھی کچھ عرصہ گوشہ گمنامی میں رہ کر اپنی ناکامی کا عبرت ناک نظارہ دیکھ کر ہمیشہ کے لئے معدوم ہو گیا.تعلیم الاسلام کالج کا افتتاح ۱۸ مئی ۱۹۰۳ء کو قادیان میں تعلیم الاسلام کالج کا افتتاح ہوا.اس تقریب پر حضور بیماری کے باعث بنفس نفیس تشریف نہ لا سکے مگر آپ نے بیت الدعا میں اس کالج کے لئے بہت دعا کی.جس کی قبولیت پر تعلیم الاسلام کالج ایک زندہ اور مجسم برہان بن گیا.تین سو سال میں غلبہ احمدیت کی پیشگوئی جولائی ۱۹۰۳ کو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کابل میں
شہید کر دیے گئے.جس پر حضور نے تذکرۃ الشہادتین تصنیف فرمائی اور اس میں نہایت درد سے حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب اور حضرت شہید مرحوم کے درد ناک واقعہ شہادت کی تفصیل لکھی.اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا: ”اے عبد اللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی صدق کا نمونہ دکھایا" نیز یہ پر شوکت پیشگوئی فرمائی کی تین صدیوں کے اندر تمام دنیا میں احمدیت غالب ہو جائے گی.چنانچہ فرمایا: ”دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے" ملک کے اہم شہروں میں ایمان افروز لیکچر حضرت اقدس نے ۳ ستمبر ۱۹۰۴ کو لاہور اور ۲ نومبر ۱۹۰۴ کو سیالکوٹ کے پبلک جلسوں سے ایمان افروز خطاب فرمایا.اگلے سال
۲۴ اکتوبر ۱۹۰۵ میں آخری سفر دہلی کیا.جس میں اہل دہلی کو پیغام حق پہنچا.واپسی پر آپ کے لدھیانہ میں 4 نومبر کو اور امرتسر میں 9 نومبر کو لیکچر ہوئے.قرب وصال کے الہامات آپ کو اکتوبر و دسمبر ۱۹۰۵ء میں بذریعہ رویا و الهامات یہ خبر دی گئی کہ آپ کا زمانہ وفات قریب ہے جس پر آپ نے دسمبر ۱۹۰۵ء میں رسالہ الوصیت رقم فرمایا اور اس میں اپنی جماعت کو اہم نصائح فرمائیں.قدرت ثانیہ کی خبر اس رسالہ میں آپ نے خاص طور پر یہ خبر دی کہ قدرت ثانیہ یعنی خلافت کا نظام میرے بعد قیامت تک قائم رہے گا.بهشتی مقبرہ اور صدر انجمن احمدیہ کی بنیاد رسالہ الوصیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے ایک بہشتی مقبرہ بھی قائم کیا.اور اس کی آمد کو اشاعت دین کے اغراض پر خرچ کرنے کے لئے صدر انجمن احمدیہ کی بنیاد رکھی اور سلسلہ کی مالی اور انتظامی خدمات اس کے سپرد کیں.
مدرسہ احمدیہ کا قیام صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ ہی مدرسہ احمدیہ کی داغ بیل دینیات کلاس کی شکل میں ڈال دی گئی.جو پہلے تعلیم الاسلام ہائی سکول سے وابستہ تھی.پھر خلافت اوٹی میں ایک مستقل تعلیمی ادارہ میں بدل گئی.جس کے فرزندوں نے آگے چل کر عالمی سطح پر تبلیغی خدمات سر انجام دیں اور دے رہے ہیں.جماعت کے دو ممتاز عالم حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوئی اور حضرت مولانا برہان الدین صاحب جلمی اسی سال انتقال فرما گئے تھے اور قوم میں زبر دست خلا پیدا ہو گیا تھا.اس خلا کو پر کرنے اور آئندہ علماء پیدا کرنے کے لئے اس مدرسہ کی ضرورت پڑی.حقیقتہ الوحی کی تصنیف و اشاعت ۱۵ مارچ ۱۹۰۷ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم سے دور مسیحیت کی سب سے جامع اور ضخیم کتاب " حقیقته الوحی" شائع ہوئی.جس کے ساتھ فصیح و بلیغ عربی میں ایک رسالہ الاستفتاء بھی شامل کیا گیا جس میں فقہائے ملت خیر الانام کو ان آسمانی تائیدات کی طرف توجہ دلائی.جو ہر لمحہ آپ کے شامل حال رہیں.وقف زندگی کی پہلی تحریک اب جماعت احمدیہ کا حلقہ تبلیغ روز بروز وسیع ہو رہا تھا.اس لئے حضور نے ستمبر ۱۹۰۷ء میں وقف زندگی کی پہلی عام تحریک فرمائی.
۲۶ جس پر متعدد نوجوانان احمدیت نے کمال ذوق و شوق سے لبیک کہا.حضرت کا مضمون آریہ سماج کا نفرنس میں آریہ سماج لاہور نے دسمبر ۱۹۰۷ ء میں اپنے جلسہ سالانہ کے ساتھ ایک مذہبی کانفرنس کی جس میں حضرت اقدس مسیح موعود کا ایک پر معارف مضمون بھی پڑھا گیا.جو سرتاپا امن و آشتی تھا مگر افسوس بدسگال آریہ سماجی نمائندہ نے اپنی تقریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہایت شوخی اور بے باکی سے گالیاں دیں.حضرت اقدس کو علم ہوا تو آپ نے اس مجلس میں بیٹھنے والے احمدی وند پر انتہائی خفگی کا اظہار کیا اور فرمایا: دو تمہیں اسی وقت کھڑے ہو جانا چاہیے تھا اور اس ہال سے باہر نکل آنا چاہیے تھا اور اگر وہ تمہیں نکلنے کے لئے راستہ نہ دیتے تو پھر ہال کو خون سے بھرا ہوا ہونا چاہیے تھا؟ حضور نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ چشمہ معرفت" کے نام نے ایک لاجواب کتاب لکھی جس کے شروع میں بد باطن آریہ نمائندہ کے اعتراضات کا مسکت جواب لکھا.اور علم و معرفت کے دریا بہا دیے.آخر میں اپنا اصل مضمون بھی شائع کیا تا موازنہ ہو سکے کہ آپ کے پیش فرموده پاک خیالات کے مقابل آریوں نے کس درجہ بے شرمی کا مظاہرہ کیا ہے.یہ کتاب ۱۵ مئی ۱۹۰۸ کو اشاعت پذیر ہوئی.
۲۷ آپ کی زندگی کا آخری جلسہ سالانہ ۲۶ ۲۷ ۲۸ دسمبر ۱۹۰۷ کو آپ کی زندگی کا آخری جلسہ سالانہ منعقد ہوا.جس میں آپ نے دو تقاریر فرمائیں.جو نہایت بیش قیمت ہدایات پر مشتمل تھیں.جلسہ کے پہلے دن حضور سیر کو باہر تشریف لائے تو پروانوں کا ہجوم امڈ آیا جسے دیکھ کر حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بے ساختہ کہا.”لوگ بے چارے بچے ہیں کیا کریں.تیرہ سو سال کے بعد ایک نبی کا چہرہ دنیا میں نظر آیا ہے" فنانشل کمشنر پنجاب کی حضرت سے ملاقات ۲۱ مارچ ۱۹۰۷ء کی صبح کو سر جیمز ولسن صاحب فنانشل کمشنر پنجاب ایک دن کے دورہ پر قادیان آئے اور ایک کھلے کیمپ میں قیام کیا اور حضور سے ملاقات کی خواہش کی چنانچہ حضور پانچ بجے شام اپنے بعض خدام کے ساتھ تشریف لے گئے دوران ملاقات فنانشل کمشنر صاحب کو خوب کھول کھول کر دین حق کی خوبیاں بتائیں اور واضح فرمایا کہ دین حق دلائل قویہ اور نشانات آسمانی سے پھیلا ہے.اور اس سے آئندہ پھیلے گا اور جو جنگیں اسلام میں ہو ئیں وہ سب دفاعی تھیں.اسلام کا تلوار سے پھیلنے کا عقیدہ غلط اور مخالفوں کی اختراع ہے.کمشنر صاحب نے بعض دنیاوی باتیں کرنا چاہیں تو حضور نے فرمایا:
۲۸ " آپ دنیاوی حاکم ہیں.خدا نے ہمیں دین کے لئے روحانی حاکم بنایا ہے جس طرح آپ کے وقت کاموں کے لئے مقرر ہیں.اسی طرح ہمارے بھی کام مقرر ہیں.اب ہماری نماز کا وقت ہے" یہ کہہ کہ آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور واپس تشریف لے آئے.آخری سفر لاہور چشمہ معرفت کی تصنیف اور بعض دوسری مسلسل علمی و دینی مصروفیات کے باعث آپ کی صحت تشویشناک طور پر گر چکی تھی کہ آپ ۲۷ اپریل ۱۹۰۸ء کو لاہور تشریف لے آئے اور احمد یہ بلڈ نکس لاہور میں قیام فرما ہو کر تقریر و نصائح کا آغاز کر دیا.یہ حضور کا آخری سفر تھا.جس میں شہزادہ سلطان ابراہیم صاحب مسٹر محمد علی صاحب جعفری، پروفیسر کلمسٹ ریگ، مسٹر فضل حسین اور بہت سے دوسری نامور شخصیات آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ کی زبان مبارک سے مقدس کلمات سننے کی سعادت پائی.۱۷ مئی کو آپ نے ایک پبلک جلسہ میں روسائے لاہور کو تبلیغ فرمائی جس سے وہ ازحد متاثر ہوئے.۲۵ مئی کو حضور نے آخری پر جلال تقریر فرمائی جس کے آخری الفاظ یہ تھے.بیٹی کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے.ایسا ہی عیسی موسوی کی بجائے عینی محمدی کو آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے"
3 پیغام صلح قیام لاہور میں حضور نے دو قومی نظریہ کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالنے اور مسلمانوں اور ہندوؤں کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کے لئے ایک رسالہ ”پیغام صلح" تصنیف فرمایا.جس میں صاف لفظوں میں یہ بھی واضح فرما دیا کہ : میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں" وصال مبارک حضور کی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحب نے اس آخری سفر لاہور سے قبل قادیان میں خواب دیکھا کہ : میں نیچے اپنے صحن میں ہوں اور گول کمرہ کی طرف جاتی ہوں تو وہاں بہت سے لوگ ہیں جیسے کوئی خاص مجلس ہو.مولوی عبد الکریم صاحب دروازے کے پاس آئے اور کہا بی بی جاؤ ابا سے کہو کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صحابہ تشریف لائے ہیں آپ کو بلاتے ہیں.میں اوپر گئی اور دیکھا کہ پلنگ پر بیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت تیزی سے لکھ رہے ہیں.اور ایک خاص کیفیت آپ کے چہرے پر ہے پر نور اور پرجوش، میں نے کہا ابا
مولوی عبدالکریم کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ تشریف لائے ہیں اور آپ کو بلا رہے ہیں.آپ نے لکھتے لکھتے نظر اٹھائی اور مجھے کہا کہ جاؤ کہو یہ مضمون ختم ہوا اور میں آیا" اس آسمانی خبر کے عین مطابق ۲۵ مئی کی شام کو ”پیغام صلح" کا مضمون ختم ہوا اور اگلے روز صبح نو بجے آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.اور آپ اپنے آقا و مولا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں حاضر ہو گئے انا للہ و انا الیہ راجعون وفات کے وقت حضور کی عمر سوا تمتر سال کے قریب تھی.دن منگل کا تھا اور کی تاریخ ۲۶ مئی (۱۹۰۸ء) تھی جو ایک جدید تحقیق کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وصال بھی ہے.خدا نما اخلاق و شمائل حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب (آپ کے برادر نسبتی) فرماتے ہیں: میں نے آپ کو اس وقت دیکھا جب میں دو برس کا بچہ تھا.پھر آپ میری آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ۲۷ سال کا جوان تھا.مگر میں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپ سے زیادہ خلیق، آپ سے
۳۱ زیادہ نیک آپ سے زیادہ بزرگ آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا.آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کر گئی.اگر حضرت عائشہ نے آنحضرت صلی اللہ وسلم کی نسبت یہ بات کچی کی تھی کہ کان خلقه القرآن تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح کہہ سکتے ہیں کان حب محمد و اتباعه اللهم صل على محمد و علی ال محمد و بارک وسلم انک حمید مجید