Language: UR
سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پُر حکمت ارشادات اور زرّیں نصائح پر مشتمل اس کتاب میں دَورِ حاضر میں سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کے نتیجہ میں معاشرے میں پھیلنے والی اخلاقی بیماریوں سے بچنے کے طریق پیش کئے گئے ہیں۔ نیز اُن ذمہ داریوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے جو سوشل میڈیا سے استفادہ کرتے ہوئے ایک احمدی کو ملحوظ رکھنی چاہئیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے دانشمندانہ استعمال کے ذریعہ احمدی نسلوں کی ذہنی، اخلاقی اور روحانی تربیت کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔
سوشل میڈیا (SOCIAL MEDIA) سید نا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پر حکمت و پُر معارف ارشادات سے انتخاب
سوشل میڈیا (SOCIAL MEDIA) Issues Related to Social Media and its Resolution Proposed by Hazrat Khalifatul Masih V First published in UK in 2018 Quantity: 18000 Published by: Lajna Section Markazia 22 Deer Park Road, London SW19 3TL, UK Printed at: Raqeem Printing Press Farnham GU9 9PS.UK Cover Designed by: Musawer Ahmad Din Composed by: Mahmood Ahmad Malik ISBN: 978-1-84880-186-8 2
پیش لفظ سوشل میڈیا کے ذریعہ اچھائیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی برائیاں بھی دنیا میں پھیل رہی ہیں اس لئے ہماری لجنہ اور ناصرات کو اسے محتاط طریقے سے استعمال کرنا چاہئے.اور اس سلسلہ میں مختلف مواقع پر میں نے جو ہدایات دی ہیں انہیں لجنہ مرکز یہ اس کتاب میں یکجا کر کے شائع کر رہی ہے.ہے.آپ سب کو چاہئے کہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس
ابتدائیہ عصر حاضر میں جدید ٹیکنالوجی اور مواصلاتی نظام میں جس سرعت سے ترقی ہوئی ہے اس کے نتیجہ میں سوشل میڈیا کے ذریعہ عالمی سطح پر فوری روابط ، حقائق کے اظہار اور علمی آگہی کے علاوہ بھی بے شمار فوائد سے ہم شب و روز فیضیاب ہورہے ہیں.لیکن یہ تلخ حقیقت بھی عیاں ہے کہ سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کے نتیجہ میں ذاتی اور معاشرتی سطح پر بہت سی اخلاقی کمزوریاں بھی جڑ پکڑ رہی ہیں.لجنہ سیکشن مرکزیہ کو امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی تعمیل میں سوشل میڈیا‘“ کے موضوع پر یہ کتاب شائع کرنے کی سعادت میل رہی ہے جس میں خلافت خامسہ کے آغاز سے لے کر 2017ء تک کے خطبات جمعہ، خطابات، پیغامات اور سوال وجواب کی نشستوں میں ارشاد فرمودہ پر حکمت اور زریں نصائح کو یکجا کر کے کتابی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے.الحمد للہ علی ذالک.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ یہ کاوش قبول فرمائے اور کتاب پڑھنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو.آمین اس کتاب کی تیاری میں مکرمہ رضوانہ نثار صاحبہ ( معاونه لجنہ سیکشن مرکزیہ) نے ابتدائی مدارج سے خطابات وارشادات یکجا کرنے ، ان کا انتخاب اور تدوین کی ذمہ داری محنت سے نہایت احسن رنگ میں پوری کی.نیز مکرم محمود احمد ملک صاحب واقف زندگی کارکن ایڈیشنل وکالت اشاعت لندن ) کی رہنمائی اور تعاون ہر مرحلہ پر حاصل رہا.فجزاهُمُ الله تعالى خَيْراً في الدارين.خاکسار.ریحانہ احمد انچارج لجنہ سیکشن مرکز یہ 4
عناوین ابتدائیہ فہرست مضامین صفحہ نمبر پیش لفظ از سید نا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تخلیق انسانی کا مقصد 8 ٹی وی اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال سے عبادات سے غفلت 11 مومن لغویات سے پر ہیز کرتا ہے حیا کامعیار بلند کرنے کی ضرورت زینت کے نام پر بے حیائی معاشرے کی بُرائیوں کا بین الاقوامی پھیلاؤ بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار اپنی نسلوں کو میڈیا کی بُرائیوں سے بچائیں بچپن سے ہی بچوں کی تربیت کا خیال رکھیں کم عمر بچوں میں موبائل فون کا غیر ضروری استعمال غیراخلاقی ٹیلی وژن پروگرام بلاک کریں 24 25 27 27 30 31 35 36 37
موجودہ دور میں ماؤں کی ذمہ داری احمدی بچیوں کو نصائح سوشل میڈیا پر چیٹنگ اور عورتوں کی تصاویر کے ذریعہ بے پردگی کا رحجان پردہ.ظاہری یا چھپی ہوئی فحشاء سے روکتا ہے فیس بک (facebook) کے استعمال میں احتیاط کا پہلو لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتیجہ میں غیروں میں شادیاں اور نسلوں کا افسوسناک انجام نوجوان نسل کے لئے رہنمائی نوجوان نسل کو اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کی تلقین العقیق بصر : نفس کا جہاد اصلاح کی کوشش میں عادت رکاوٹ بنتی ہے بُرائیوں سے بچنے کی جامع دعائیں واقفین کو اور واقفات کو اسپیشل کیسے بن سکتے ہیں؟ اعلیٰ معیاروں کو قائم کر کے اسپیشل بنیں غیر اخلاقی باتوں سے دُورر ہیں 6 42 48 50 52 55 57 60 62 63 66 70 72 76 77 81
82 84 86 87 89 90 92 96 97 100 103 108 113 114 115 122 123 میڈیا کے شعبہ میں بھی تعلیم حاصل کریں ایم ٹی اے پر باقاعدگی سے خطبات سنیں میڈیا کے ذریعہ جھوٹ اور فریب جعلی فیس بک اکاؤنٹ سائبر اٹیک (Cyber attack) سے نظام درہم برہم موبائل فون کے عاریتاً استعمال سے دھو کہ خلفاء کی تصاویر کا غلط استعمال اور بدعات سے اجتناب سوشل میڈیا کی افادیت MTA کی برکات MTA.خلافت سے جوڑنے کا ذریعہ MTA کے ذریعہ تبلیغ مخالفت جماعتی ترقی میں روک نہیں بن سکتی رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے ذریعہ اسلام کا پیغام الاسلام ڈاٹ آرگ.اشاعتِ اسلام کا ذریعہ خطبہ جمعہ.ایک روحانی مائدہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہونے ہیں والتهرت نظراً 7
تخلیق انسانی کا مقصد تخلیق انسانی کا مقصد ٹی وی اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال سے عبادات سے غفلت
تخلیق انسانی کا مقصد انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے، اس کے تقاضے کیا ہیں اور مقصد حیات کو حاصل کرنے کے ذرائع کیا ہیں؟ اس حوالہ سے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعدد مواقع پر اپنے خطبات جمعہ اور خطابات میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ احسان عظیم ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر ایسا دماغ عطا فرمایا جس کے استعمال سے وہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ باقی مخلوق اور ہر چیز کو نہ صرف اپنے زیرنگیں کر لیتا ہے بلکہ اس سے بہترین فائدہ اٹھاتا ہے اور ہر نیا دن انسانی دماغ کی اس صلاحیت سے نئی نئی ایجادات سامنے لا رہا ہے.جو دنیاوی ترقی آج ہے وہ آج سے دس سال پہلے نہیں تھی اور جو دنیاوی ترقی آج سے دس سال پہلے تھی وہ 20 سال پہلے نہیں تھی.اسی طرح اگر پیچھے جاتے جائیں تو آج کی نئی نئی ایجادات کی اہمیت اور انسانی دماغ کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے.لیکن کیا یہ ترقی جو مادی رنگ میں انسان کی ہے یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے؟ ہر زمانے کا دنیا دار انسان یہی سمجھتا رہا کہ میری یہ ترقی اور میری یہ طاقت، میری یہ جاہ و حشمت ، میرا دنیاوی لہو و لعب میں ڈوبنا، میرا اپنی دولت سے اپنے
سے کم تر پر اپنی برتری ظاہر کرنا، اپنی دولت کو اپنی جسمانی تسکین کا ذریعہ بنانا ، اپنی طاقت سے دوسروں کو زیرنگیں کرنا ہی مقصدِ حیات ہے.یا ایک عام آدمی بھی جو ایک دنیا دار ہے جس کے پاس دولت نہیں وہ بھی یہی سمجھتا ہے بلکہ آج کل کے نوجوان جن کو دین سے رغبت نہیں دنیا کی طرف جھکے ہوئے ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جونئی ایجادات جو ہیں، ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے، یہی چیزیں اصل میں ہماری ترقی کا باعث بننے والی ہیں اور بہت سے ان چیزوں سے متاثر ہو جاتے ہیں.پس یہ انتہائی غلط تصور ہے.اس تصور نے بڑے بڑے غاصب پیدا کئے.اس تصور نے بڑے بڑے ظالم پیدا کئے.اس تصور نے عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے انسان پیدا کئے.اس تصور نے ہر زمانہ میں فرعون پیدا کئے کہ ہمارے پاس طاقت ہے، ہمارے پاس دولت ہے، ہمارے پاس جاہ وحشمت ہے.لیکن اس تصور کی خدا تعالیٰ نے جورب العالمین ہے، جو عالمین کا خالق ہے ، بڑے زور سے نفی فرمائی ہے.فرمایا کہ جن باتوں کو تم اپنا مقصد حیات سمجھتے ہو یہ تمہارا مقصد حیات نہیں ہیں.تمہیں اس لئے نہیں پیدا کیا گیا کہ ان دنیاوی مادی چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ اور دنیا سے رخصت ہو جاؤ.نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 57) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جنوری 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5 فروری 2010ء) 10
ٹی وی اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال سے عبادات سے غفلت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ النور کی درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی اور اس کا ترجمہ بھی بیان فرمایا: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خطوت الشَّيْطَنِ فَإنَّه يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء والمنكر.وَلَوْلا فَضْل الله عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللهَ يُزَى مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (النور:22) ترجمہ : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہوشیطان کے قدموں پر مت چلو.اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلتا ہے تو وہ یقینا بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں کا حکم دیتا ہے.اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تو تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی پاک نہ ہو سکتا.لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے اور اللہ بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.“ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے حوالہ سے اُن امور سے بچنے کی نصیحت فرمائی جو انسان کو اس کے مقصد حیات کے حصول ( یعنی اپنے خالق کی عبادت کرنے ) کی راہ میں رکاوٹ ہیں.حضور انور نے فرمایا: 11
دو پس شیطان سے بچنے کے لئے تو گھروں میں ہی ایسے مورچے بنانے کی ضرورت ہے کہ اس کے ہر حملے سے نہ صرف بچا جائے بلکہ اس کے حملے کا اسے جواب بھی دیا جائے.شیطان کے پیار کو پیار سمجھ کر اسے زندگی میں داخل نہ کریں بلکہ ہر وقت استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے.شیطان سے بچنے کی سب سے بڑی پناہ اللہ تعالیٰ ہی ہے.پس اس بگڑے ہوئے زمانے میں استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالی کی پناہ میں آنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ استغفار ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں انسان آسکتا ہے.کوئی انسان بھی جانتے بوجھتے ہوئے کسی برائی کی طرف نہیں جاتا.یہ فطرت کے خلاف ہے کہ ایک بات کا پتا ہو کہ اس سے نقصان ہونا ہے تو پھر بھی انسان اس چیز کو کرنے کی کوشش کرے.ایک حقیقی مومن کو تو اللہ تعالیٰ نے ویسے بھی کھول کر برائی اور اچھائی کے متعلق بتا دیا ہے.پس برائیوں اور اچھائیوں کی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق تلاش کر کے ان سے بچنے اور کرنے کی کوشش انسان کو کرنی چاہئے.شیطان کو علم ہے کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی پناہ میں ہے، اس کے حصار میں ہے، اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا.اس لئے شیطان انسان کو اس پناہ سے نکال کر، اس قلعے سے نکال کر جس میں انسان محفوظ ہے پھر اپنے پیچھے چلاتا ہے.اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ سے نکالنے کے لئے پہلے شیطان نیکیوں کا لالچ دے کر ہی انسان کو نکالتا ہے یا نیکیوں کا 12
لالچ دے کر ہی ایک مومن کو اللہ تعالی کی پناہ سے نکالا جاسکتا ہے.“ حضور انور ایدہ اللہ نے مزید فرمایا:.66 برائیوں میں سے آجکل ٹی وی ، انٹرنیٹ وغیرہ کی بعض برائیاں بھی ہیں.اکثر گھروں کے جائزے لے لیں.بڑے سے لے کر چھوٹے تک صبح فجر کی نماز اس لئے وقت پر نہیں پڑھتے کہ رات دیر تک یا تو ٹی وی دیکھتے رہے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہے، اپنے پروگرام دیکھتے رہے، نتیجتا صبح آنکھ نہیں کھلی.بلکہ ایسے لوگوں کی توجہ بھی نہیں ہوتی کہ صبح نماز کے لئے اٹھنا ہے.اور یہ دونوں چیزیں اور اس قسم کی فضولیات ایسی ہیں کہ صرف ایک آدھ دفعہ آپ کی نمازیں ضائع نہیں کرتیں بلکہ جن کو عادت پڑ جائے ان کا روزانہ کا یہ معمول ہے کہ رات دیر تک یہ پروگرام دیکھتے رہیں گے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہیں گے اور صبح نماز کے لئے اٹھنا ان کے لئے مشکل ہوگا بلکہ اٹھیں گے ہی نہیں.بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو نماز کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے.نماز جو ایک بنیادی چیز ہے جس کی ادائیگی ہر حالت میں ضروری ہے حتی کہ جنگ اور تکلیف اور بیماری کی حالت میں بھی.چاہے انسان بیٹھ کے نماز پڑھے، لیٹ کر پڑھے یا جنگ کی صورت میں یا سفر کی صورت میں قصر کر کے پڑھے لیکن بہر حال پڑھنی ہے.اور عام حالات میں تو مردوں کو باجماعت اور عورتوں کو بھی وقت پر پڑھنے کا حکم ہے.لیکن شیطان صرف ایک دنیاوی پروگرام کے لالچ میں نماز سے دور لے جاتا ہے اور اس کے علاوہ انٹرنیٹ بھی ایک ایسی چیز ہے جس 13.
میں مختلف قسم کے جو پروگرام ہیں ، پھر اپلی کیشنز ( applications) ہیں، فون وغیرہ کے ذریعہ سے یا آئی پیڈ (ipad) کے ذریعہ سے، ان میں مبتلا کرتا چلا جاتا ہے.اس پر پہلے اچھے پروگرام دیکھے جاتے ہیں.کس طرح اس کی attraction ہے.پہلے اچھے پروگرام دیکھے جاتے ہیں پھر ہر قسم کے گندے اور مخرب الاخلاق پروگرام اس سے دیکھے جاتے ہیں.کئی گھروں میں اس لئے بے چینی ہے کہ بیوی کے حق بھی ادا نہیں ہو ر ہے اور بچوں کے حق بھی ادا نہیں ہور ہے اس لئے کہ مرد رات کے وقت ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بیہودہ پروگرام دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں اور پھر ایسے گھروں کے بچے بھی اسی رنگ میں رنگمین ہو جاتے ہیں اور وہ بھی وہی کچھ دیکھتے ہیں.پس ایک احمدی گھرانے کو ان تمام بیماریوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنین کو شیطان کے حملوں سے بچانے کی کس قدر فکر ہوتی تھی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے صحابہ کو شیطان سے بچنے کی دعائیں سکھاتے تھے اور کیسی جامع دعائیں سکھاتے تھے ، اس کا ایک صحابی نے یوں بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ اے اللہ ! ہمارے دلوں میں محبت پیدا کر دے.ہماری اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا.اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا.اور ہمیں ظاہر اور.اور باطن فواحش سے بچا.اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں، ہماری آنکھوں میں، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولادوں میں برکت رکھ دے اور ہم پر 14
رجوع برحمت ہو.یقینا تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اور اے اللہ ہم پر نعمتیں مکمل فرما.(سنن ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب التشهد حديث 969) پس یہ دعا ہے جو دنیا وی غلط تفریح سے بھی روکنے کے لئے ہے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 20 رمئی 2016ء بمقام مسجد گوٹن برگ، سویڈن ) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10 جون 2016ء) خطبات جمعہ کے علاوہ بھی متعدد مواقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال کو عبادت کی راہ میں حائل قرار دیا.چنانچہ وقف نو کی ایک کلاس میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا تو محبت بھی ہوگی.خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم میری راہ میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہو تو میں دو قدم آگے بڑھاتا ہوں اور جب میری طرف کوئی چل کر آتا ہے تو میں اُس کی طرف دوڑے ہوئے جاتا ہوں.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا کہ : اگر دنیا کی خواہشات بڑھ جائیں، TV ڈراموں اور انٹرنیٹ پر اتنے مگن ہوں کہ نمازوں میں تاخیر ہو جائے تو پھر خدا کی محبت پیدا نہیں ہوسکتی.اس محبت کے حصول کے لئے اپنی خواہشات کی قربانی کرنی پڑتی ہے.“ کلاس وقف نو 8 اکتوبر 2011 ء بمقام مسجد بیت الرشید، جرمنی) مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 6 جنوری 2012ء) 15
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو اپنے ظاہری اخلاق کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کی ادائیگی کے معیار بھی بڑھانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: بعض لوگ ان مغربی ممالک میں آکر دنیا داری کے ماحول کے زیر اثر دنیا کے ماحول میں زیادہ ڈوب گئے ہیں اور زبانی تو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد کرتے ہیں لیکن حقیقت میں عمل اس سے مختلف ہیں.ہمارے احمدی یہاں کے لوگوں سے ملنے جلنے اور بہتر اخلاق غیروں کو دکھانے میں تو بہت بہتر ہیں.لیکن عبادت اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے وہ معیار نہیں ہیں جو ایک احمدی 66 کے ہونے چاہئیں........بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کے حوالہ سے بعض اخلاقی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کی تلقین فرمائی.نیز موجودہ زمانہ کی بعض ایجادات کے منفی استعمال پر تنبیہ کرتے ہوئے مشرکانہ مجالس سے بچنے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی نصیحت فرمائی.حضور انور نے ارشاد فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ انہیں کیسا ہونا چاہئے اور ان کے ایمان کی کیا حالت ہونی چاہئے.اس حوالے سے بھی میں آپ کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں تا کہ ہم میں سے ہر ایک بیعت کا حق ادا کرنے والا بن جائے.آپ اپنی جماعت کو ایک بڑی 16
ضروری نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : جکل زمانہ بہت خراب ہو رہا ہے.قسم قسم کا شرک ، بدعت اور کئی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں.بیعت کے وقت جو اقرار کیا جاتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے“.غور کرنے والی بات ہے کہ یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے.اب چاہئے کہ اس پر موت تک خوب قائم رہے اور نہ سمجھو کہ بیعت نہیں کی اور اگر قائم ہو گے تو اللہ تعالیٰ دین ودنیا میں برکت دے گا.“ فرماتے ہیں: ”اپنے اللہ کے منشاء کے مطابق پورا تقویٰ اختیار کرو.زمانہ نازک ہے.قہر الہی نمودار ہورہا ہے.جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق اپنے آپ کو بنالے گا وہ اپنی جان اور اپنی آل و اولاد پر رحم کرے گا.‘ آجکل دنیا کے حالات جو بگڑ رہے ہیں اس پر غور کرتے ہوئے سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنا چاہئے.فرمایا کہ بدی کی دو قسمیں ہیں.ایک خدا کے ساتھ شریک کرنا، اس کی عظمت کو نہ جاننا، اس کی عبادت اور اطاعت میں کسل کرنا.دوسری یہ کہ اس کے بندوں پر شفقت نہ کرنا ، ان کے حقوق ادا نہ کرنے.اب چاہئے کہ دونوں قسم کی خرابی نہ کرو.خدا کی اطاعت پر قائم رہو.جو عہد تم نے بیعت میں کیا ہے اس پر قائم رہو.خدا کے بندوں کو تکلیف نہ دو.قرآن کو بہت غور سے پڑھو.اس پر عمل کرو.ہر ایک قسم کے ٹھٹھے اور بیہودہ باتوں اور مشرکانہ مجلسوں سے بچو.پانچوں وقت نماز کو قائم رکھو.غرض کہ کوئی ایسا حکم الہی نہ ہو جسے 17
تم ٹال دو.بدن کو بھی صاف رکھو اور دل کو ہر ایک قسم کے بے جا کینے، بغض و حسد سے پاک کرو.یہ باتیں ہیں جو خدا تم سے چاہتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 75 تا 76- ایڈیشن 1985 ء مطبوعہ انگلستان) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مذکورہ بالا ارشاد پڑھنے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: اب یہ ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک اپنے آپ کو بیہودہ اور مشرکانہ مجلسوں سے بچایا ہوا ہے.بہت سے ایسے ہیں جو کہیں گے کہ ہم تو ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں.ہم تو مشرکانہ مجلسوں میں نہیں بیٹھتے.لیکن یاد رکھیں کوئی مجلس ہو جیسے انٹرنیٹ ہے یا ٹی وی ہے یا کوئی ایسا کام ہے اور مجلس ہے جو نمازوں اور عبادت سے غافل کر رہی ہے وہ مشرکان مجلس ہی ہے.“ 66 ( خطبہ جمعہ فرمودہ 21 را پریل 2017ء بمقام فرینکفرٹ، جرمنی ) مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 12 مئی 2017ء) سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے نتیجہ میں عبادات کا معیار اور دعاؤں کی قبولیت کس قدر متأثر ہوتی ہے، اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اقتباس کی روشنی میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں وضاحت فرمائی.حضور انور نے فرمایا: دو آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں: ا دعاؤں میں جوڑ و بخدا ہو کر توجہ کی جاوے تو پھر ان میں خارق عادت اثر ہوتا ہے.لیکن یہ یادرکھنا چاہیے کہ دعاؤں میں قبولیت خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے 18
آتی ہے اور دعاؤں کے لیے بھی ایک وقت ( ہوتا ہے ) جیسے صبح کا ایک خاص وقت ہے.اس وقت میں خصوصیت ہے وہ دوسرے اوقات میں نہیں.اسی طرح پر دعا کے لیے بھی بعض اوقات ہوتے ہیں جبکہ ان میں قبولیت اور اثر پیدا ہوتا 66 ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 309 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) ہر کام میں صبح کے وقت تازہ دم ہو کر جو کام انسان کرتا ہے اس کے نتائج بہترین ہوتے ہیں.آجکل کے ان لوگوں کی طرح نہیں جو ساری رات یا رات دیر تک یا تو انٹرنیٹ پر بیٹھے رہتے ہیں یا ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں یا اور دنیاوی کاموں میں ملوث رہتے ہیں.اُن کی رات کو نیند پوری نہیں ہوتی.صبح اٹھتے ہیں تو ادھ مچنڈی نیند کے ساتھ، اس میں نماز کیا ادا ہو گی؟ اور ان کے دوسرے کاموں میں کیا برکت پڑے گی.ہر شخص چاہے دنیا دار بھی ہو اپنے بہترین کام کے لئے تازہ دم ہو کر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ پوری توجہ سے کام ہو.اس کام کے بہترین نتائج ظاہر ہوں.پس آپ نے فرمایا کہ اس طرح تمہیں یہ بھی تلاش کرنا چاہئے کہ تمہارے دعاؤں کے بہترین اوقات کیا ہیں؟ وہ کیفیت کب پیدا ہوتی ہے جب دعا قبول ہوتی ہے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مارچ 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 5 اپریل 2013ء) نماز فجر کی اہمیت اور اس نماز کی بروقت ادائیگی کی راہ میں حائل بعض رُکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے عبادات اور دنیاوی کاموں میں 19
اعتدال قائم کرنے کی نصیحت اپنے ایک خطبہ جمعہ میں یوں فرمائی: بچوں کو ماں باپ اگر فجر کی نماز کے لئے اٹھائیں گے تو اُن کو جہاں نماز کی اہمیت کا اندازہ ہو گا وہاں بہت سی لغویات سے بھی وہ بچ جائیں گے.جن کو شوق ہے، بعضوں کو رات دیر تک ٹی وی دیکھنے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہنے کی عادت ہوتی ہے، خاص طور پر ویک اینڈ (weekend) پر تو نماز کے لئے جلدی اُٹھنے کی وجہ سے جلدی سونے کی عادت پڑے گی اور بلا وجہ وقت ضائع نہیں ہوگا.خاص طور پر وہ بچے جو جوانی میں قدم رکھ رہے ہیں ، اُن کو صبح اٹھنے کی وجہ سے ان دنیاوی مصروفیات کو اعتدال سے کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی.بعض مجبوریاں بھی ہوتی ہیں، اچھی دیکھنے والی چیزیں بھی ہوتی ہیں، معلوماتی باتیں بھی ہوتی ہیں، اُن سے میں نہیں روکتا، لیکن ہر چیز میں ایک اعتدال ہونا چاہئے.نمازوں کی ادائیگی کی قیمت پر ان دنیاوی چیزوں کو حاصل کرنا انتہائی بے وقوفی ہے.اس کے بعد حضور انور نے مغربی ممالک میں رہنے والوں کو نمازوں کی ادائیگی اور خلیفہ وقت کے ارشادات کو بغور سننے اور اُن پر عمل کرنے کی گراں قدر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پس میں پھر کہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.ان ملکوں میں رہنے والے دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتے.گواب تیسری دنیا میں بھی شہروں میں رہنے والوں کا 20
یہی حال ہے.لیکن بہر حال پھر بھی کچھ نہ کچھ ایک ایسی تعداد ہے جو مسجدوں میں جانے والی ہے.باوجود اس کے کہ اسلام کے اس اہم دینی فریضہ کی طرف میں بار بار توجہ دلاتا ہوں، میرے سے پہلے خلفاء بھی اس طرف بہت توجہ دلاتے رہے.اب تو اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کی نعمت سے نواز دیا ہے.پہلے اگر خلیفہ وقت کی آواز دنیا کے ہر خطے میں فوری طور پر نہیں پہنچ رہی تھی تو اب تو فوری طور پر یہ آواز اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کا پیغام ہر جگہ فوری طور پر پہنچ رہا ہے.اگر ہم میں سے بعض لوگ یا خطبات اور تقاریر نہیں سنتے یاسنتے ہیں اور بے دلی سے سنتے ہیں، ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا تو اُس عہد بیعت کو پورا کرنے والے نہیں ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے، اُس کی پابندی کروں گا، اُس کی کامل اطاعت کروں گا.یہ اطاعت سے نکلنے والے عمل ہیں کہ ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا.یہ کامل فرمانبرداری سے دور لے جانے والے عمل ہیں.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جون 2012ء بمقام مسجد بیت الرحمن واشنگٹن.امریکہ) مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 13 / جولائی 2012ء) برطانیہ میں خدام کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی نوجوانوں کو خصوصیت کے ساتھ یہی نصیحت فرمائی کہ وہ نماز کو اپنا نصب العین بنالیں.چنانچہ فرمایا: خدام الاحمدیہ کے ممبران اپنی عمر کے ایسے حصہ میں ہوتے ہیں جس میں وہ 21
جسمانی طور پر سب سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور اپنی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.انہیں اللہ تعالیٰ کی فرض عبادتوں کی ادائیگی میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے اس لئے تمام خدام اور اطفال کو اپنی نمازوں میں باقاعدہ ہونا چاہئے اور جس حد تک ممکن ہو سکے نمازوں کو باجماعت ادا کرنا چاہئے.آپ میں ہر ایک نماز کے قیام کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالے کیونکہ جنت کے دروازے خالص عبادت سے ہی کھولے جاتے ہیں.“ خطاب بر موقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ یو کے 26 رستمبر 2016ء بمقام کنگز لے سڑے) ( مطبوعہ ہفت روزه بدر قادیان 7 ستمبر 2017ء) 22
تخلیق انسانی کا مقصد وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ.(الذاريات (57) ترجمه : 66 ” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.“ 23
مومن لغویات سے پر ہیز کرتا ہے حیا کا معیار بلند کرنے کی ضرورت زینت کے نام پر بے حیائی معاشرے کی برائیوں کا بین الاقوامی پھیلاؤ 24
حیا کا معیار بلند کرنے کی ضرورت جدید ایجادات اور مواصلاتی نظام کے غیر محتاط استعمال کے نتیجہ میں دنیا کے ہر معاشرہ میں اخلاقی برائیوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے.ان بڑھتی ہوئی معاشرتی بداخلاقیوں سے احباب جماعت اور خصوصاً احمدی نوجوانوں کو بچنے کی خصوصی تلقین حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بار ہا فرمائی ہے.اسی حوالہ سے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:...آج کل کی دنیاوی ایجادات جیسا کہ میں نے شروع میں بھی ذکر کیا تھا ، ٹی وی ہے، انٹرنیٹ وغیرہ ہے اس نے حیا کے معیار کی تاریخ ہی بدل دی ہے.کھلی کھلی بے حیائی دکھانے کے بعد بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بے حیائی نہیں ہے.پس ایک احمدی کے حیا کا یہ معیار نہیں ہونا چاہئے جو ٹی وی اور انٹرنیٹ پر کوئی دیکھتا ہے.یہ حیا نہیں ہے بلکہ ہوا و ہوس میں گرفتاری ہے.بے حجابیوں اور بے پردگی نے بعض بظاہر شریف احمدی گھرانوں میں بھی حیا کے جو معیار ہیں، الٹا کر رکھ دیئے ہیں.زمانہ کی ترقی کے نام پر بعض ایسی باتیں کی جاتی ہیں، بعض ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں جو کوئی شریف آدمی دیکھ نہیں سکتا چاہے میاں بیوی ہوں.بعض حرکتیں ایسی ہیں جب دوسروں کے سامنے کی جاتی ہیں تو وہ نہ صرف ناجائز ہوتی ہیں بلکہ گناہ بن جاتی ہیں.اگر احمدی گھرانوں نے اپنے گھروں کو ان 25
بیہودگیوں سے پاک نہ رکھا تو پھر اُس عہد کا بھی پاس نہ کیا اور اپنا ایمان بھی ضائع کیا جس عہد کی تجدید انہوں نے اس زمانہ میں زمانے کے امام کے ہاتھ پہ کی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ : الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِّنَ الْإِيمَانِ - (مسلم کتاب الایمان باب شعب الایمان و افضلها...حدیث نمبر 59) ترجمہ : حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے.پس ہر احمدی نوجوان کو خاص طور پر یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آج کل کی برائیوں کو میڈیا پر دیکھ کر اس کے جال میں نہ پھنس جائیں ورنہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے.انہی بیہودگیوں کا اثر ہے کہ پھر بعض لوگ جو اس میں ملوث ہوتے ہیں تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اور اس وجہ سے پھر بعضوں کو اخراج از جماعت کی تعزیر بھی کرنی پڑتی ہے.ہمیشہ یہ بات ذہن میں ہو کہ میرا ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے.ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے حیائی ہر مرتکب کو بدنما بنا دیتی ہے اور شرم و حیا ہر حیادار کو حسن وسیرت بخشتا ہے اور 66 اسے خوبصورت بنا دیتا ہے.(ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء في الفحش والتفحش.حدیث نمبر (1974) خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جنوری 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5 فروری 2010ء) 26
زینت کے نام پر بے حیائی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مواقع پر معاشرے میں بے حیائی کی بڑھتی ہوئی روش کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے نیز اس سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے غض بصر یعنی اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے انہیں حیا سے جھکا لینے کی اسلامی تعلیم کو بھی متعد د مواقع پر تفصیل سے بیان فرمایا ہے.چنانچہ اپنے ایک خطاب میں احمدی خواتین کو ارشاد فرمایا: دو جیسا کہ میں نے کہا لباس بے حیائی والا لباس ہوتا چلا جا رہا ہے.پھر بڑے بڑے اشتہاری بورڈ کے ذریعہ سے، ٹی وی پر اشتہارات کے ذریعہ سے، انٹرنیٹ پر اشتہارات کے ذریعہ سے بلکہ اخباروں کے ذریعہ سے بھی اشتہار دئیے جاتے ہیں کہ شریف آدمی کی نظر اس پر پڑ جاتی تو شرم سے نظر جھک جاتی ہے اور جھکنی چاہئے.یہ سب کچھ ماڈرن سوسائٹی کے نام پر ، روشن خیالی کے نام پر ہوتا ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا یہ زینت اب بے حیائی بن چکی ہے یعنی 66 زینت کے نام پر بے حیائی کی اشتہار بازی ہے.“ ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی 29 جون 2013ء بمقام کالسروئے ، جرمنی) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18 اکتوبر 2013ء) معاشرے کی بُرائیوں کا بین الاقوامی پھیلاؤ موجودہ دور میں مواصلاتی نظام میں غیر معمولی وسعت کی وجہ سے اخلاقی 27
بُرائیوں کا دائرہ بھی تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے.چنانچہ اس اہم موضوع کے بارہ میں احباب جماعت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: آجکل جو عملی خطرہ ہے وہ معاشرے کی برائیوں کی بے لگامی اور پھیلاؤ ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ آزادی اظہار اور تقریر کے نام پر بعض برائیوں کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے.اس زمانے سے پہلے برائیاں محدود تھیں.یعنی محلے کی برائی محلے میں یا شہر کی برائی شہر میں یا ملک کی برائی ملک میں ہی تھی.یا زیادہ سے زیادہ قریبی ہمسائے اُس سے متاثر ہو جاتے تھے.لیکن آج سفروں کی سہولتیں، ٹی وی، انٹرنیٹ اور متفرق میڈیا نے ہر فردی اور مقامی برائی کو بین الاقوامی برائی بنا دیا ہے.انٹرنیٹ کے ذریعہ ہزاروں میلوں کے فاصلے پر رابطے کر کے بے حیائیاں اور برائیاں پھیلائی جاتی ہیں.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 6 دسمبر 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27 دسمبر 2013ء) 28
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ : الْحَيَا شُعْبَةُ مِنَ الْإِيمَانِ حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے.(مسلم کتاب الایمان باب شعب الایمان و افضلها...حدیث نمبر 59) 29
بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار اپنی نسلوں کو میڈیا کی برائیوں سے بچائیں بچپن سے ہی بچوں کی تربیت کا خیال رکھیں کم عمر بچوں میں موبائل فون کا غیر ضروری استعمال غیر اخلاقی ٹیلی وژن پروگرام بلاک کریں 30
اپنی نسلوں کو میڈیا کی برائیوں سے بچائیں سید نا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 23 اپریل 2010ء کو سوئٹزر لینڈ میں احباب جماعت اور خصوصاً نوجوان نسلوں کی تربیت کے حوالہ سے ایک نہایت اہم خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں مختلف معاشروں میں پیدا ہونے والی اخلاقی کمزوریوں اور خصوصاً مغربی معاشرہ میں نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے پھیلنے والی مختلف اخلاقی برائیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور ان کے سد باب کے لئے والدین کے علاوہ نظام جماعت اور ذیلی تنظیموں کو بھی اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.حضور انور نے فرمایا:..بعض دفعہ اولاد بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مقابلے پر کھڑی ہو جاتی ہے.وہ بھی ایک شرک کی قسم ہے.اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کا انکار کر کے اولاد کی بات ماننا بھی ایک قسم کا مخفی شرک ہے.بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی یاد کو یہ چیز میں بھلا دیتی ہیں.کئی لوگ ہیں جو احمدیت سے دُور ہٹے ہیں تو اولاد کی وجہ سے.اولاد کے بے جا لاڈ پیار نے اور اولاد کی آزادی نے اولاد کو جب دین سے ہٹایا تو خود ماں باپ بھی دین سے ہٹ گئے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ الله - (المنافقون: 10) اے مومنو! تمہیں تمہارے مال اور اولادیں 31
اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں.....66 پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک احمدی سے توقع رکھی ہے کہ ہر قسم کے جھوٹ، زنا، بدنظری ، لڑائی جھگڑا، ظلم ، خیانت، فساد، بغاوت سے ہر صورت میں بچنا ہے.ہر وقت اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ میں ان برائیوں سے بچ رہا ہوں؟ بعض لوگ ان باتوں کو چھوٹی اور معمولی چیز سمجھتے ہیں.اپنے کاروبار میں، اپنے معاملات میں جھوٹ بول جاتے ہیں.ان کے نزد یک جھوٹ بھی معمولی چیز ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی شرک کے برابر ٹھہرایا ہے.زنا ہے، بدنظری وغیرہ ہے.یہ برائیاں آج کل میڈیا کی وجہ سے عام ہو گئی ہیں.گھروں میں ٹیلی وژن کے ذریعہ یا انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ایسی ایسی بیہودہ اور لچر فلمیں اور پروگرام وغیرہ دکھائے جاتے ہیں جو انسان کو برائیوں میں دھکیل دیتے ہیں.خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بعض احمدی گھرانوں میں بھی اس برائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.پہلے تو روشن خیالی کے نام پر ان فلموں کو دیکھا جاتا ہے.پھر بعض بدقسمت گھر عملاً ان برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.تو یہ جوزنا ہے یہ دماغ کا اور آنکھ کا زنا بھی ہوتا ہے اور پھر یہی زنا بڑھتے بڑھتے حقیقی بُرائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے.ماں باپ شروع میں احتیاط نہیں کرتے اور جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو پھر افسوس کرتے اور روتے ہیں کہ ہماری نسل بگڑ گئی، ہماری اولاد میں برباد ہوگئی ہیں.اس لئے چاہئے کہ پہلے نظر رکھیں.بیہودہ پروگراموں کے دوران بچوں کوٹی وی کے سامنے نہ بیٹھنے دیں 32
اور انٹرنیٹ پر بھی نظر رکھیں.بعض ماں باپ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں.جماعتی نظام کا کام ہے کہ ان کو اس بارے میں آگاہ کریں.اسی طرح انصار اللہ ہے، لجنہ ہے، خدام الاحمدیہ ہے تنظیمیں اپنی اپنی تنظیموں کے ماتحت بھی ان برائیوں سے بچنے کے پروگرام بنائیں.نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں، اپنی تنظیموں کے ساتھ اس طرح جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے اور اس بارے میں ماں باپ کو بھی جماعتی نظام سے یا ذیلی تنظیموں سے بھر پور تعاون کرنا چاہئے.اگر ماں پ کسی قسم کی کمزوری دکھائیں گے تو اپنے بچوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہوں گے.خاص طور پر گھر کے جو نگران ہیں یعنی مردان کا سب سے زیادہ یہ فرض ہے اور ذمہ داری ہے کہ اپنی اولادوں کو اس آگ میں گرنے سے بچائیں جس آگ کے عذاب سے خدا تعالیٰ نے آپ کو یا آپ کے بڑوں کو بچایا ہے اور اپنے فضل سے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.دنیا خاص طور پر دوسرے مسلمان شدید بے چینی میں مبتلا ہیں کہ ان کو کوئی ایسی لیڈرشپ ملے جو ان کی رہنمائی کرے.لیکن آپ پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہوا ہے کہ زمانے کے امام کی بیعت میں آ کر رہنمائی مل رہی ہے.خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے سے نیکیوں پر قائم رہنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے یہ سب فضل تقاضا کرتے ہیں کہ توجہ دلانے پر ہر برائی سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں.نیکیوں پر خود بھی قدم ماریں اور اولاد کو بھی اس 33
پر چلنے کی تلقین کریں اور اس کے لئے کوشش کریں.خدا تعالیٰ کے اس ارشاد اور اندار کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ یا تیهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم : 7) اے مومنو! اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی آگ سے بچاؤ.آج کل تو دنیا کی چمک دمک اور لہو ولعب، مختلف قسم کی برائیاں جو مغربی معاشرے میں برائیاں نہیں کہلا تیں لیکن اسلامی تعلیم میں وہ برائیاں ہیں، اخلاق سے دور لے جانے والی ہیں، منہ پھاڑے کھڑی ہیں جو ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا پہلے روشن خیالی کے نام پر بعض غلط کام کئے جاتے ہیں اور پھر وہ برائیوں کی طرف دھکیلتے چلے جاتے ہیں.تو یہ نہ ہی تفریح ہے، نہ آزادی بلکہ تفریح اور آزادی کے نام پر آگ کے گڑھے ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے جو اپنے بندوں پر انتہائی مہر بان ہے،مومنوں کوکھول کر بتا دیا کہ یہ آگ ہے.یہ آگ ہے، اس سے اپنے آپ کو بھی بچاؤ اور اپنی اولادوں کو بھی بچاؤ.نوجوان لڑکے لڑکیاں جو اس معاشرے میں رہ رہے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ یہ تمہاری زندگی کا مقصد نہیں ہے.یہ نہ سمجھو کہ یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے کہ اس لہو ولعب میں پڑا جائے ، یہی ہمارے لئے سب کچھ ہے.ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے تمہارے میں اور غیر میں فرق ہونا چاہئے.“ 66 ( خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010ء بمقام سوئٹزرلینڈ) ) مطبوعه الفضل انٹرنیشل 14 مئی 2010ء ) 34
بچپن سے ہی بچوں کی تربیت کا خیال رکھیں ماحول کے اثرات بچوں کے ذہنوں پر کیسے اثر انداز ہو کر ان کے کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں نقل کا مادہ رکھا ہوا ہے جو بچپن سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ فطرت میں ہے.اس لئے بچہ کی فطرت میں بھی یہ نقل کا ماڈہ ہے.اور یہ مادہ جو ہے یقینا ہمارے فائدے کے لئے ہے لیکن اس کا غلط استعمال انسان کو تباہ بھی کر دیتا ہے یا تباہی کی طرف بھی لے جاتا ہے.یہ نقل اور ماحول کا ہی اثر ہے کہ انسان اپنے ماں باپ سے زبان سیکھتا ہے، یا باقی کام سیکھتا ہے اور اچھی باتیں سیکھتا ہے، اور اچھی باتیں سیکھ کر بچہ اعلیٰ اخلاق والا بنتا ہے.ماں باپ نیک ہیں، نمازی ہیں، قرآن پڑھنے والے ہیں، اُس کی تلاوت کرنے والے ہیں، آپس میں پیار اور محبت سے رہنے والے ہیں، جھوٹ سے نفرت کرنے والے ہیں تو بچے بھی اُن کے زیر اثر نیکیوں کو اختیار کرنے والے ہوں گے.لیکن اگر جھوٹ ، لڑائی جھگڑا ، گھر میں دوسروں کا استہزاء کرنے کی باتیں، جماعتی وقار کا بھی خیال نہ رکھنا یا اس قسم کی برائیاں جب بچہ دیکھتا ہے تو اس نقل کی فطرت کی وجہ سے یا ماحول کے اثر کی وجہ سے پھر وہ یہی برائیاں سیکھتا ہے.باہر جاتا ہے تو ماحول میں، دوستوں میں جو کچھ دیکھتا ہے، وہ سیکھنے کی کوشش کرتا 35
ہے.اس لئے بار بار میں والدین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے بچوں کے باہر کے ماحول پر بھی نظر رکھا کریں اور گھر میں بھی بچوں کے جو پروگرام ہیں، جو ٹی وی پروگرام وہ دیکھتے ہیں یا انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں اُن پر بھی نظر رکھیں.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 13 دسمبر 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) ( مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 3 جنوری 2014ء) کم عمر بچوں میں موبائل فون کا غیر ضروری استعمال جدید ٹیکنالوجی بشمول موبائل فون کے غلط استعمال کے نتیجے میں بچوں کے کردار پر جو منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ، اُن کے بارے میں تنبیہ کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی نوجوانوں اور بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے ، جرمنی میں ہونے والے اطفال الاحمدیہ کے اجتماع کے موقع پر، ارشاد فرمایا: پھر آج کل یہاں بچوں میں ایک بڑی بیماری ہے ماں باپ سے مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں موبائل لے کر دو.دس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو موبائل ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہئے.آپ کونسا بزنس کر رہے ہیں؟ آپ کوئی ایسا کام کر ہے ہیں جس کی منٹ منٹ کے بعد فون کر کے آپ کو معلومات لینے کی ضرورت ہے؟ پوچھو تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ماں باپ کو فون کرنا ہے.اگر ماں باپ کو آپ کے فون کی فکر نہیں ہے تو آپ کو بھی نہیں ہونی چاہئے.کیونکہ فون سے پھر غلط باتیں پیدا ہو جاتی ہیں.فون سے لوگ رابطے کرتے ہیں جو پھر بچوں کو ورغلاتے 36
ہیں گندی عادتیں ڈال دیتے ہیں اس لئے فون بھی بہت نقصان دہ چیز ہے اس میں بچوں کو ہوش نہیں ہوتی کہ وہ انہی کی وجہ سے غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں.اس لئے اس سے بھی بیچ کر رہیں.ٹی وی کا پروگرام جیسا کہ میں نے ابھی بات کی ہے اس میں بھی کارٹون یا بعض پروگرام جو معلوماتی ہوتے ہیں وہ دیکھنے 66 چاہئیں لیکن بیہودہ اور لغو پروگرام جتنے ہیں اس سے بچنا چاہئے.“ ( خطاب بر موقع سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ جرمنی.16 رستمبر 2011ء) مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 9 مارچ 2012ء) غیر اخلاقی ٹیلی وژن پروگرام بلاک کریں تفریح کی غرض سے نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی گھنٹوں ٹیلی وژن کے آگے بیٹھتے ہیں جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں میں بُرائیوں کو بُرا سمجھنے کی جس ختم ہو جاتی ہے.چنانچہ غیر اخلاقی ٹیلی وژن پروگرام دیکھنے اور بے حیائی کی خطرناک راہ پر چلنے سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پس شیطان کے حملے سے بچنے کے لئے اپنی بھر پور کوشش کی ضرورت 66 ہے.اس کے لئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے احسن قول ضروری ہے.“ اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان کی آیت 70 میں قول سدیڈ کے قرآنی حکم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: پھر سچائی کے معیار کے حصول کی نصیحت کے ساتھ مزید تاکید یہ فرمائی کہ 37
جن مجالس میں سچائی کی باتیں نہ ہوں ، گھٹیا اور لغو باتیں ہوں ان سے فوراً اٹھ جاؤ.جہاں خدا تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف باتیں ہوں ان مجالس میں نہ جاؤ.اب یہ گھٹیا اور لغو باتیں اس زمانے میں بعض دفعہ لاشعوری طور پر گھروں کی مجلسوں میں یا اپنی مجلسوں میں بھی ہو رہی ہوتی ہیں.نظام کے خلاف بات ہوتی ہے.کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں کہ عہدیداروں کے خلاف اگر باتیں ہیں، اگر نیچے اُس پر اصلاح نہیں ہورہی تو مجھ تک پہنچائیں.لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر جب وہ باتیں کرتے ہیں تو وہ لغو باتیں بن جاتی ہیں.کیونکہ اس سے اصلاح نہیں ہوتی.اُس میں فتنہ اور فساد اور جھگڑے مزید پیدا ہوتے ہیں.پھر اس زمانے میں ٹی وی پر گندی فلمیں ہیں.انٹرنیٹ پر انتہائی گندی اور غلیظ فلمیں ہیں.ڈانس اور گانے وغیرہ ہیں.بعض انڈین فلموں میں ایسے گانے ہیں جن میں دیوی دیوتاؤں کے نام پر مانگا جارہا ہوتا ہے، یا اُن کی بڑائی بیان کی جا رہی ہوتی ہے جس سے ایک اور سب سے بڑے اور طاقتور خدا کی نفی ہو رہی ہوتی ہے.یا یہ اظہار ہو رہا ہو کہ یہ دیوی دیوتا جو ہیں، بت جو ہیں، یہ خدا تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں.یہ بھی لغویات ہیں ، شرک ہیں.شرک اور جھوٹ ایک چیز ہے.ایسے گانوں کو بھی نہیں سنا چاہئے.“ حضور انور ایدہ اللہ نے مزید فرمایا: پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَنِ تزغ فَاسْتَعِل باللوإنه هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (خم سجده (37) اگر تجھے 38
شیطان کی طرف سے کوئی بہکا دینے والی بات پہنچی ہے، ایسی باتیں شیطان پہنچائے جو احسن قول کے خلاف ہو تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ.اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی بہت زیادہ دعا کرو.اَعُوذُ بِالله مِن الشَّيْطَنِ الرَّحِيم پڑھو.لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ پڑھو.اللہ تعالیٰ یہ امید دلاتا ہے جو سننے والا 66 اور جاننے والا ہے کہ اگر نیک نیتی سے دعائیں کی گئی ہیں تو یقینا وہ سنتا ہے.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 2013ء بمقام مسجد بیت الہدی ، سڈنی.آسٹریلیا ) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8 نومبر 2013ء) لغو باتوں (جن میں ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ بھی شامل ہیں) سے اعراض کرنے کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ نے کئی مواقع پر نصائح فرمائی ہیں.چنانچہ لجنہ اماءاللہ جرمنی کے ایک اجتماع میں ارشاد فرمایا: پھر لغو باتیں ہیں.ان لغو باتوں کے لئے میں خاص طور پر بچوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لغو باتیں صرف وہ باتیں ہی نہیں جو بڑی بوڑھیاں بیٹھ کر کرتی ہیں.وہ تو کرتی ہیں ان کو اس سے روکنا ہی ہے لیکن دس بارہ سال کی عمر کی لڑکیوں سے لے کے نوجوان لڑکیوں تک کے لئے جو ٹی وی اور انٹرنیٹ ہے یہ آج کل لغویات میں شامل ہو چکا ہے.اگر آپ لوگ سارا دن ایسے پروگرام دیکھ رہی ہیں جس میں کوئی تربیت نہیں ہے تو یہ لغویات ہے.انٹرنیٹ جو ہے، اُس میں بعض دفعہ ایسی جگہوں پر چلی جاتی ہیں جہاں سے پھر آپ واپس نہیں آسکتیں اور بے حیائی پھیلتی چلی جاتی ہے.بعض دفعہ ایسے معاملات آجاتے ہیں کہ غلط قسم 39
کے گروہوں میں لڑکوں نے لڑکیوں کو کسی حال میں پھنسا لیا اور پھر ان کو گھر چھوڑنے پڑے اور اپنے خاندان کے لئے بھی ، جماعت کے لئے بھی بدنامی کا باعث ہوئیں.اس لئے انٹرنیٹ وغیرہ سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ بھی ذہنوں کو زہریلا کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر بہت سارے پروگرام ہیں.ٹی وی پر بے حیائی کے بہت سارے پروگرام ہیں.ایسے چینل والدین کو بھی بلاک (block) کر کے رکھنے چاہئیں جو بچوں کے ذہنوں پر گندے اثر ڈالتے ہوں.ایسے مستقل لاک (lock) ہونے چاہئیں.اور جب بچے ایک دو گھنٹے جتنا بھی ٹی وی دیکھنا ہے دیکھ رہے ہیں تو بیشک دیکھیں لیکن پاک صاف ڈرامے یا کارٹون.اگر غلط پروگرام دیکھے جارہے ہیں تو یہ ماں باپ کی بھی ذمہ داری ہے اور بارہ تیرہ سال کی عمر کی جو بچیاں ہیں اُن کی بھی ہوش کی عمر ہوتی ہے، اُن کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس سے بچیں.آپ احمدی ہیں اور احمدی کا کردار ایسا ہونا چاہئے جو ایک نرالا اور انوکھا کردار ہو.پتہ لگے کہ ایک احمدی بچی ہے.“ خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 17 ستمبر 2011ء) مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16 نومبر 2012ء) 40
سید نا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ الہ کا ایک نہایت اہم ارشاد بار بار میں والدین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے بچوں کے باہر کے ماحول پر بھی نظر رکھا کریں اور گھر میں بھی بچوں کے جو پروگرام ہیں، جو ٹی وی پروگرام وہ دیکھتے ہیں یا انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں ان پر بھی نظر رکھیں.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 13 / دسمبر 2013 ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) 41
موجودہ دور میں ماؤں کی ذمہ داری رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُريَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا - (الفرقان: 75) ترجمہ : اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں سے اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے.42
موجودہ دور میں ماؤں کی ذمہ داری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب میں لجنہ اماء اللہ کی ممبرات کو عبادالرحمن کی علامات بتاتے ہوئے لغویات سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: آگے اللہ تعالیٰ ایک جگہ پھر فرماتا ہے کہ لغویات سے مومن پر ہیز کرتا ہے.ایک اور نشانی یہ ہے لغویات کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنا وقار رکھتے ہوئے ، یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم احمدی ہیں، ہمارا کام نہیں کہ دنیا کی لغویات اور فضولیات میں پڑیں، اُن سے بچتے ہوئے گزر جاتے ہیں.مثلاً آج کل مختلف ٹیلی وژن چینل ہیں جن میں انتہائی لغو اور بیہودہ پروگرام دکھائے جاتے ہیں.پھر بعض دفعہ بعض اچھے پروگرام بھی آرہے ہوتے ہیں لیکن ان کے درمیان میں انتہائی بیہودہ اور لغو اشتہارات شروع ہو جاتے ہیں.تو ہر احمدی کو چاہیئے، چاہے وہ بچی ہے،لڑکی ہے یا عورت ہے یا مرد ہے، اُس کا یہ کام ہے کہ اگر ایسے پروگرام آرہے ہوں یا کسی بھی قسم کی ایسی تصویر نظر آئے تو فوراً اسے بند کر دیں.اور جیسے میں بات کر رہا ہوں کہ اشتہار بیچ میں آجاتے ہیں تو اُن کو بھی نہیں دیکھنا چاہئے اور جو بیہودہ پروگرام میں اُن کے تو قریب بھی ایک احمدی بچی کو، ایک احمدی لڑکی کو، ایک احمدی عورت کو نہیں جانا چاہئے.43
انٹرنیٹ پر بعض سائٹس (sites) ہیں.بڑے گندے پروگرام اُن میں آتے ہیں.ان سب سے بچنا ہی حقیقی مومن کی نشانی ہے اور یہی ایک حقیقی احمدی کی نشانی ہے کہ ان سب لغویات سے، فضولیات سے بچیں.کیونکہ اللہ کے اس انعام سے جڑے رہنے کے لئے اور فیض پانے کے لئے یہ ضروری ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دعا بھی کیا کرو.اور ایسے لوگوں کی یہ نشانی ہے جو یہ دعا کرتے ہیں کہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان :75) کہ : اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں سے اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے.پس یہ دعا جہاں خود آپ کو تقویٰ پر قائم رکھے گی ، آپ کی اولاد کو بھی دنیا کے شر سے محفوظ رکھتے ہوئے تقویٰ پر چلائے گی.اور جو عورتیں یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کے خاوند دین سے رغبت نہیں رکھتے ، نمازوں میں بے قاعدہ ہیں، ان کے حق میں بھی یہ دعا ہو گی.ہمارے دل سے نکلی ہوئی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے.یہ نہ سمجھیں کہ متقیوں کا امام صرف مرد ہے.ہر عورت جو اپنے بچے کے لئے دعا کرتی ہے اور آئندہ نسلوں میں اس روح کو پھونکنے کی کوشش کرتی ہے کہ اللہ سے دل لگاؤ ، اس کے آگے جھکو، نیکیوں پر قائم ہو وہ متقیوں کا امام بننے کی کوشش کرتی ہے اور بنتی ہے.اپنے گھر کے نگران کی حیثیت سے وہ امام ہے.خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 4 نومبر 2007 ء بمقام بیت الفتوح ، لندن) مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 9 دسمبر 2016ء) 44
ماؤں کی ذمہ داری کے حوالہ سے ایک موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آئرلینڈ کی نیشل مجلس عاملہ کی عہدیداران کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: جہاں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں تعلیم کے حصول ” میں تو کوئی حرج نہیں بشر طیکہ لڑکے لڑکیوں سے دوستی نہ کریں اور ایک دوسرے سے صرف ضرورت کے تحت ہی بات کریں chat،facebook،sms اور فون کالز (phone calls) سے اجتناب کریں.ماں باپ کو ہدایت کریں کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں.ہر وقت کمپیوٹر اور موبائل فون ہاتھ میں رکھنا مناسب 66 نہیں.جو مائیں کمپیوٹر نہیں جانتیں وہ سیکھ لیں تا کہ بچوں پر نظر رہے.“ نیشنل مجلس عاملہ میٹنگ لجنہ اماءاللہ آئر لینڈ 18 رستمبر 2010ء) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22 /اکتوبر 2010ء) اسی طرح حضور انور نے احمدی خواتین کو معاشرتی لغویات اور فضولیات سے اپنے گھروں کو متاثر نہ ہونے دینے کے بارہ میں یوں نصیحت فرمائی:...اسی طرح لغویات میں گندی اور نگی فلمیں ہیں.گندی اور ننگی کتابیں ہیں.رسالے ہیں یہ سب اس بہانے سے مارکیٹ میں پھیلائی جاتی ہیں کہ اس زمانہ میں جنسی تعلقات کا پتہ لگنا چاہیے تا کہ ان برائیوں سے بچا جاسکے.بچتے تو پتہ نہیں یہ ہیں کہ نہیں لیکن سڑک پر ہر گلی کے نکڑ پر ایسے جو اشتہارات ہیں اخلاق سوز قسم کے وہ بُرائیوں میں ضرور معاشرے کو گرفتار کر دیتے ہیں.جو چیز فطری ہے اس کا جب وقت آئے گا تو خود بخود پتہ چل جائے گا.جب اس کا پتہ لگنے کی ضرورت ہے.علم کے نام پر اس ذہنی عیاشی سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے.اس لئے 45
حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ اپنے تمام اعضاء کو زنا سے بچاؤ.پس ہر عورت کو ایک فکر کے ساتھ اپنے بچوں کو سمجھانا چاہئے اور ہر بچی کو ، جو بلوغت کی عمر کو پہینچ چکی ہے، جس کا دماغ میچور (mature) ہو چکا ہے یہ احساس ہونا چاہئے کہ یہ بڑائیاں ہیں جو مزید گندگیوں میں دھکیلتی چلی جائیں گی.اس لئے ان سے بچنا ہے.ہر ایسی چیز جس کا ناجائز استعمال شروع ہو جائے وہ بھی لغویات میں ہے مثلاً انٹرنیٹ کے بارے میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں.یہ اس زمانے کی ایجاد ہے اور یہ ایجادات اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کے زمانے میں مقدر کی ہوئی تھیں.قرآن کریم میں مختلف ایجادات کا اعلان بھی فرما دیا.انٹرنیٹ بھی ان میں سے ایک ہے اور ٹیلی فون کا نظام جو ہے وہ بھی ان میں سے ایک ہے.ٹیلی وژن کا نظام ہے یہ بھی ان میں سے ایک ہے جنہوں نے اشاعت کے لئے کام آنا تھا.لیکن اگر ان ایجادات کا غلط استعمال کریں گی تو یہ لغویات میں شمار ہوں گی اور ایسی لغویات سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور ان سے بچنے کا بھی حکم ہے.جیسا کہ فرمایا ہے مومن کی تعریف یہ ہے کہ عَنِ الْغُوِ مُعْرِضُونَ جو اغو اعراض کرنے والے ہوں.لغویات سے بچنے والے ہوں.جب انٹرنیٹ پر دوستوں سے پچیٹ (chat) کرنے اور اس میں دوسروں کا مذاق اڑانے اور بھکر، توڑنے، ایک دوسرے کے خلاف کام میں لائیں گی یا لوگوں کے رشتوں میں دراڑیں پیدا کرنے کے کام میں لائیں گی، کسی دوسری عورت کی زندگی اس کے خاوند سے انٹرنیٹ پر گفتگو کر کے برباد کریں گی.ایک دوسرے کی چغلیاں ہورہی 46
ہونگی تو یہی کارآمد چیز جو ہے.لغویات میں بھی شمار ہوگی اور گناہ بھی بن رہی ہوں گی.پھر آجکل موبائل فون پر ٹیکسٹ میں پیغامات دئیے جاتے ہیں.یہ بھی ایک سلسلہ شروع ہوا ہے نیا ، آجکل بڑا سستا طریقہ ہے گپیں مار کر وقت ضائع کرنے کا اور نامحرموں سے بات کرنے کا.بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے کہ ٹیکسٹ میسج (text message) ہی تھا کونسی بات کر لی ہے.ایک دوسرے سے رابطے بڑھتے ہیں کہ سہیلی نے اپنے دوستوں میں سے کسی کا فون دے دیا اپنے دوستوں کو اپنی سہیلی کا فون دے دیا.موبائل نمبر دے دیا کسی بھی ذریعہ سے ایک دوسرے کے نمبر ہاتھ آگئے تو ٹیکسٹ میسج کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے پھر ٹیلی فون پر 12 ، 13 ، 14 سال کے بچیاں بچے لے کر پھر رہے ہوتے ہیں.پیغامات دے رہے ہوتے ہیں.اور یہی عمر ہے جو خراب ہونے کی عمر ہے اور پھر انجام ایسی حد تک چلا جاتا ہے آخر کار جہاں وہ لغو جو ہے وہ گناہ بن جاتا ہے.اس لیے احمدی بچیاں اپنی عصمت کی خاطر اپنی عزت کی خاطر اپنے خاندان کے وقار کی خاطر اپنی جماعت کے تقدس کو مد نظر رکھتے ہوئے جس کی طرف سے وہ منسوب ہو رہی ہیں جس سے وہ منسلک ہیں ان چیزوں سے بچیں اور اسی طرح احمدی مرد بھی سن رہے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو بچائیں.“ 66 خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 11 جون 2006ء) ( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 19 جون 2015ء) 47
احمدی بچیوں کو نصائح سوشل میڈیا پر چیٹنگ اور عورتوں کی تصاویر کے ذریعہ بے پردگی کا رحجان پرده - ظاہری یا اچھی ہوئی فحشاء سے روکتا ہے فیس بک (facebook) کے استعمال میں احتیاط کا پہلو لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتیجہ میں غیروں میں شادیاں اور نسلوں کا افسوسناک انجام 48
احمدی بچیوں کو نصائح احمدیت کے نتیجہ میں ملنے والے فیوض سے استفادہ کرنے کے لئے دین اسلام کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں کو اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا نا گزیر ہے.اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں: انور..بعض دفعہ ایک عمر کو پہنچ کر بعض نوجوان بچیاں جو ہیں اُن کو یہ خیال آتا ہے کہ شاید دین ہم پر بعض پابندیاں عائد کر رہا ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض ٹی وی چینلز ہیں، ویب سائٹس ہیں جو فضول اور لغو ہیں، ان کو نہ دیکھیں.لیکن غیروں کے زیر اثر یہ سوال اُٹھتے ہیں کہ اُنہیں دیکھنے میں کیا حرج ہے.ہم کون ساوہ حرکتیں کر رہی ہیں جو ٹی وی چینلز پر دکھائی جاتی ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ دو چار چھ دفعہ دیکھنے کے بعد یہی حرکتیں پھر شروع بھی ہو جاتی ہیں.بعض گھر اس لئے تباہ ہوئے کہ وہ یہی کہتے رہے کہ کیا فرق پڑتا ہے.وہ دین سے بھی گئے، دنیا سے بھی گئے، اپنے بچوں سے بھی گئے.تو یہ جو ہے کہ کیا فرق پڑتا ہے، کچھ آزادی ہونی چاہئے.یہ بڑی نقصان دہ چیز ہے.اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ لغو سے بچو تو اس لئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی فطرت کو جانتا ہے.اسے پتہ ہے کہ آزادی کے نام پر کیا کچھ ہونا ہے اور ہوتا ہے.ہمیشہ یادرکھیں که شیطان نے اللہ تعالیٰ کو یہی کہا تھا کہ میں ہر راستے سے ان بندوں کے پاس، 49
جو آدم کی یہ اولاد ہے، انہیں ورغلانے آؤں گا اور سوائے عباد الرحمن کے سب کو میں قابو کرلوں گا.اُس نے بڑاٹھل کے چیلنج دیا تھا.پس آج کل کی بعض ایجادوں کا جو غلط استعمال ہے یہ بھی شیطان کے حملوں میں سے ہی ہے.اس لئے ہر احمدی بچی کو ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.ہمیشہ سوچیں کہ ہم احمدی ہیں اور اگر ہم نے احمدی رہنا ہے تو پھر ان لغویات سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.ہمیشہ یہ سوچیں کہ اگر ہم نے احمدیت کو سچا سمجھ کر مانا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سچا سمجھتے ہیں اور آپ کو سچا سمجھتے ہوئے آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں تو ہمیں تمام ان باتوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے جن سے بچنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، تبھی ہم ان انعاموں سے فیض اٹھا سکیں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود 66 علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا ہے.“ ( خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 4 نومبر 2007ء بمقام بیت الفتوح ،لندن) ( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 19 دسمبر 2016ء) سوشل میڈیا پر چیٹنگ اور عورتوں کی تصاویر کے ذریعہ بے پردگی کا رحجان سوشل میڈیا کے ذریعہ بڑھتے ہوئے باہمی روابط اور پھر خواتین کی تصاویر کا تبادلہ ہماری اخلاقی اقدار کے صریحاً خلاف ہے جن سے احمدی نوجوان بچوں اور 50
بچیوں کو کلیۂ احتراز کرنا چاہئے.حضور انور ایدہ اللہ نے اس اہم نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے احباب جماعت کو متنبہ فرمایا: آج انٹرنیٹ یا کمپیوٹر پر آپس کے تعارف کا ایک نیا ذریعہ نکلا ہے جسے facebook کہتے ہیں.گواتنا نیا بھی نہیں لیکن بہر حال یہ بعد کی چند سالوں کی پیداوار ہے.اس طریقے سے میں نے ایک دفعہ منع بھی کیا، خطبہ میں بھی کہا کہ یہ بے حیائیوں کی ترغیب دیتا ہے جو آپس کے حجاب ہیں، ایک دوسرے کا حجاب ہے، اپنے راز ہیں اُن حجابوں کو توڑتا ہے.رازوں کو فاش کرتا ہے اور بے حیائیوں کی دعوت دیتا ہے.اس سائٹ کو بنانے والا جو ہے اس نے خود یہ کہا ہے کہ میں نے اسے اس لئے بنایا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ انسان جو کچھ ہے وہ ظاہر و باہر ہو کر دوسرے کے سامنے آجائے اور اُس کے نزدیک ظاہر و باہر ہو جانا یہ ہے کہ اگر تنگی تصویر بھی کوئی اپنی ڈالتا ہے تو بیشک ڈال دے اور اس پر دوسروں کو تبصرہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو یہ جائز ہے.اناللہ.اسی طرح دوسرے بھی جو کچھ دیکھیں کسی بارے میں اس میں ڈال دیں.یہ اخلاقی پستی اور گراوٹ کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟ اس اخلاقی پستی اور گراوٹ کی حالت میں ایک احمدی ہی ہے جس نے دنیا کو اخلاق اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار بتانے ہیں.“ اختتامی خطاب جلسه سالانہ جرمنی 26 جون 2011ء) مطبوع الفضل انٹرنیشنل 3 جولائی 2015ء) اسی طرح سوشل میڈیا کے بداثرات سے بچانے کے لئے نو جوان بچیوں کو 51
متبادل مصروفیات مہیا کرنے کے بارے میں احمدی ماؤں کو نصیحت کرتے ہوئے حضور انور نے ارشاد فرمایا: پھر آجکل سوشل میڈیا پر بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں.نوجوان لڑکے لڑکیاں ماں باپ کے سامنے خاموشی سے پچیٹنگ کر رہے ہوتے ہیں.پیغامات کا اور تصاویر کا تبادلہ ہورہا ہوتا ہے.نئے نئے پروگراموں میں اکاؤنٹ بنالئے جاتے ہیں اور سارا سارا دن فون، آئی پیڈ اور کمپیوٹر وغیرہ پر بیٹھ کر وقت ضائع کیا جاتا ہے.اس سے اخلاق بگڑتے ہیں، مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہونے لگتا ہے اور بچے دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں.ان ساری باتوں پر نظر رکھنے اور انہیں محدود کرنے کی ضرورت ہے.اس کے لئے آپ کو ان کے لئے متبادل مصروفیات بھی سوچنا ہوں گی.انہیں گھریلو کاموں میں مصروف کریں.جماعتی خدمات میں شامل کریں اور ایسی مصروفیات بنائیں جو ان کے لئے اور معاشرہ کے لئے مثبت اور مفید ہوں.یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے جسے احمدی مستورات نے بجالانا ہے.“ پیغام بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 10 جولائی 2016ء) پردہ.ظاہری یا چھپی ہوئی فحشاء سے روکتا ہے فحاشی کے پھیلاؤ کے لئے استعمال ہونے والے مختلف ذرائع کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو اس 52
برائی کے خوفناک انجام سے متنبہ فرمایا.اور اس ضمن میں سورۃ الانعام کی آیات 152 ، 153 کے حوالے سے اسلامی احکامات کا تفصیل سے ذکر فرمایا.حضور انور نے فرمایا:..اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان فواحش کے قریب بھی نہ جاؤ.یعنی ایسی تمام باتیں جو فحشاء کی طرف مائل کرتی ہیں اُن سے رُکو.اس زمانے میں تو اس کے مختلف قسم کے ذریعے نکل آتے ہیں.اس زمانے میں انٹرنیٹ ہے، اس پر بیہودہ فلمیں آ جاتی ہیں، ویب سائٹس پر ، ٹی وی پر بیہودہ فلمیں ہیں، بیہودہ اور لغو قسم کے رسالے ہیں، ان بیہودہ رسالوں کے بارے میں جو پورنوگرافی pornography وغیرہ کہلاتے ہیں اب یہاں بھی آواز اُٹھنے لگ گئی ہے کہ ایسے رسالوں کو سٹالوں اور دکانوں پر کھلے عام نہ رکھا جائے کیونکہ بچوں کے اخلاق پر بھی بُرا اثر پڑ رہا ہے.ان کو تو آج یہ خیال آیا ہے لیکن قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے یہ حکم دیا کہ یہ سب بے حیائیاں ہیں، ان کے قریب بھی نہ پھٹکو.یہ تمہیں بے حیا بنا دیں گی.تمہیں خدا سے دُور کر دیں گی، دین سے دُور کر دیں گی بلکہ قانون توڑنے والا بھی بنا دیں گی.اسلام صرف ظاہری بے حیائیوں سے نہیں روکتا بلکہ چھپی ہوئی بے حیائیوں سے بھی روکتا ہے.اور پردے کا جو حکم ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ پر دے اور حیادار لباس کی وجہ سے ایک کھلے عام تعلق اور بے تکلفی میں جولڑکے اور لڑکی میں پیدا ہو جاتی ہے، ایک روک پیدا ہوگی.اسلام بائبل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ تم عورت کو بری نظر سے نہ دیکھو بلکہ کہتا ہے کہ 53
نظریں پڑیں گی تو قربت بھی ہوگی اور پھر بے حیائی بھی پیدا ہوگی.اچھے برے کی تمیز ختم ہوگی اور پھر ایسے کھلے عام میل جول سے جب اس طرح لڑکا اور لڑ کی ، مرد اور عورت بیٹھے ہوں گے تو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تیسرا تم میں شیطان ہو گا.(سنن الترمذى كتاب الرضاع باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات حدیث نمبر (117) یہ جو انٹرنیٹ وغیرہ کی میں نے مثال دی ہے، اس میں فیس بک (facebook) اور سکائپ (skype ) وغیرہ سے جو پچیٹ (chat) وغیرہ کرتے ہیں، یہ شامل ہے.کئی گھر اس سے میں نے ٹوٹتے دیکھے ہیں.بڑے افسوس سے میں کہوں گا کہ ہمارے احمدیوں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ فحشاء کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کیونکہ شیطان پھر تمہیں اپنے قبضے میں کرلے گا.پس یہ قرآنِ کریم کے حکم کی خوبصورتی ہے کہ یہ نہیں کہ نظر اٹھا کے نہیں دیکھنا، اور نہ نظریں ملانی ہیں بلکہ نظروں کو ہمیشہ نیچے رکھنا ہے اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو.اور پھر جب نظریں نیچی ہوں گی تو پھر ظاہر ہے یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ جو آزادانہ میل جول ہے اُس میں بھی روک پیدا ہوگی.پھر یہ بھی ہے کہ فحصاء کو نہیں دیکھنا، تو جو بیہودہ اور لغو اور تخش فلمیں ہیں، جو دیکھتے ہیں اُن سے بھی روک پیدا ہو گی.پھر یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں میں نہیں اٹھنا بیٹھنا جو آزادی کے نام پر اس قسم کی باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے وه ر 54
قصے اور کہانیاں سناتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس طرف راغب کر رہے ہوتے ہیں.نہ ہی سکائپ (skype) اور فیس بُک (facebook) وغیرہ پر مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنی ہے، ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنی ہیں ، نہ ہی ان چیزوں کو ایک دوسرے سے تعلقات کا ذریعہ بنانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب ظاہر یا چھپی ہوئی فحشاء ہیں جن کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اپنے جذبات کی رو میں زیادہ بہہ جاؤ گے، تمہاری عقل اور سوچ ختم ہو جائے گی اور انجام کار اللہ تعالیٰ کے حکم کو توڑ کر اس کی ناراضگی کا موجب بن جاؤ گے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 2 را گست 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن ) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23 اگست 2013ء) فیس بک کے استعمال میں احتیاط کا پہلو واقفات ٹو کی ایک کلاس میں سوال و جواب کی نشست کے دوران ایک بچی کی طرف سے فیس بک (facebook) کے بارہ میں کئے جانے والے سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: یں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو نہ چھوڑو گے تو گنہگار بن جاؤ گے.بلکہ میں نے بتایا کہ اس کے نقصان زیادہ ہیں اور فائدہ بہت کم ہے.آجکل جن کے پاس facebook ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں ایسی جگہ پر چلے جاتے ہیں جہاں برائیاں پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں.لڑکے تعلق بناتے ہیں.بعض جگہ لڑکیاں 55
trap ہو جاتی ہیں اور facebook پر اپنی بے پردہ تصاویر ڈال دیتی ہیں.گھر میں، عام ماحول میں، آپ نے اپنی سہیلی کو تصویر بھیجی ، اُس نے آگے اپنی فیس بک پر ڈال دی اور پھر پھیلتے پھیلتے ہمبرگ سے نکل کر نیو یارک (امریکہ) اور آسٹریلیا پہنچی ہوتی ہے اور پھر وہاں سے رابطے شروع ہو جاتے ہیں.اور پھر گروپس بنتے ہیں مردوں کے ، عورتوں کے اور تصویروں کو بگاڑ کر آگے بلیک میل کرتے ہیں.اس طرح برائیاں زیادہ پھیلتی ہیں.اس لئے یہی بہتر ہے کہ برائیوں میں جایا ہی نہ جائے.“ حضور انور نے مزید فرمایا : میرا کام نصیحت کرنا ہے.قرآن کریم نے کہا ہے کہ نصیحت کرتے چلے جاؤ.جو نہیں مانتے ان کا گناہ اُن کے سر ہے.اگر facebook پر تبلیغ کرنی ہے تو پھر اس پر جائیں اور تبلیغ کریں.الاسلام ویب سائٹ پر یہ موجود ہے وہاں 66 تبلیغ کے لئے استعمال ہوتی ہے.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لڑکیاں جلد بے وقوف بن جاتی ہیں.جو کوئی تمہاری تعریف کر دے تو تم کہوگی کہ تم سے اچھا کوئی نہیں.اگر ماں باپ نصیحت کریں تو تم کہو گی کہ ہم تو جرمنی میں پڑھی ہوئی ہیں اور آپ لوگ کسی گاؤں سے اٹھ کر آگئے ہو.حضور انور نے ایک حدیث مبارکہ کے حوالہ سے فرمایا کہ : الْحِكْمَةُ ضالة المؤمن یعنی ہر اچھی بات جہاں سے بھی اور جس جگہ سے 56
بھی ملے لے لیں.ان لوگوں کی سب ایجادیں اچھی نہیں ہیں.جو بات نہیں مانتیں وہ پھر روتے روتے مجھے خط لکھتی ہیں کہ غلطی ہوگئی ہے کہ ہمیں فلاں جگہ trap کر لیا گیا ہے...جس شخص نے یہ facebook بنائی ہے اس نے خود کہا کہ میں نے اس لئے بنائی ہے کہ ہر شخص کو ننگا کر کے دنیا کے سامنے پیش کروں.کیا احمدی لڑکی نگا ہونا چاہے گی!؟.جو نہیں مانتے نہ مانیں.“ ( کلاس واقفات کو جرمنی 8 اکتوبر 2011ء بمقام مسجد بیت الرشید ) مطبوع الفضل انٹرنیشنل 6 جنوری 2012ء) لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں 66 حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بارہا یہ نصیحت فرمائی ہے کہ احمدی لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں.اسی حوالہ سے لجنہ اماءاللہ کی عہدیداران کو نصائح کرتے ہوئے حضور انور فرمایا: د مجنہ کے تبلیغ کے شعبہ کو چاہئے کہ ایسی عورتوں اور بچیوں کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو تبلیغ کے لئے استعمال کریں لیکن ایک بات واضح طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں یا عورتوں سے ہونے چاہئیں.بعض لوگوں کے انٹرنیٹ کے ذریعے سے تبلیغ کے رابطے ہوتے ہیں اور انٹرنیٹ کے تبلیغی رابطے بھی صرف لڑکیوں اور عورتوں سے رکھیں.57
مردوں کا جو تبلیغ کا حصہ ہے وہ مردوں کے حصے رہنے دیں کیونکہ اس میں بعض دفعہ بعض قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.کہا تو یہی جارہا ہوتا ہے کہ ہم تبلیغ کر رہے ہیں لیکن پھر عموماً دیکھنے میں آیا ہے، تجربہ میں آیا ہے کہ انٹرنیٹ کے بعض ایسے نتائج ظاہر ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی ایک احمدی بچی اور عورت کے مناسب حال نہیں ہوتے.پھر جو بچیاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں وہ بغیر کسی جھجک کے، شرم کے یا احساس کمتری کا شکار ہوئے ، اپنے بارے میں، اسلام کے بارے میں اپنی طالبات سے بات چیت کریں.اپنے بارے میں بتادیں کہ ہم کون ہیں پھر اس طرح اسلام کا تعارف ہوگا.“ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ آسٹریلیا 15 را پریل 2006ء) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12 جون 2015ء) تبلیغ کرنے کے لئے بہت سی احمدی لڑکیاں انٹرنیٹ وغیرہ کا سہارا لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ براہ راست تبلیغ کرنے کی نسبت یہ طریق زیادہ محفوظ اور مؤثر ہے.لیکن بعد ازاں اس کے بھی منفی نتائج ظاہر ہونے لگتے ہیں.چنانچہ پردہ کے بارہ میں اسلامی تعلیم کا اطلاق نئے دور کی ٹیکنالوجی کے ذریعے کس طرح ممکن ہے، اس حوالہ سے احمدی خواتین سے ارشاد فرمودہ اپنے ایک خطاب میں توجہ دلاتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہایت مؤثر نصائح سے نوازا.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: 58
اب انٹرنیٹ کے بارے میں بھی میں کہنا چاہتا ہوں وہ بھی اسی پردہ نہ کرنے کے زمرہ میں آتا ہے کہ chatting ہو رہی ہے.یونہی جب آ کے open کر رہے ہوتے ہیں انٹرنیٹ اور بات چیت (chatting) شروع ہوگئی تو پھر شروع میں تو بعض دفعہ یہ نہیں پتہ ہوتا کہ کون بات کر رہا ہے؟ یہاں ہماری لڑکیاں بیٹھی ہیں دوسری طرف پتہ نہیں لڑکا ہے یالڑ کی ہے اور بعض لڑکے خود کو چھپاتے ہیں اور بعض لڑکیوں سے لڑکی بن کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں.اسی طرح یہ بات بھی میرے علم میں آئی ہے کہ لڑکیاں سمجھ کر بات چیت شروع ہوگئی جماعت کا تعارف شروع ہو گیا.اور لڑکی خوش ہورہی ہوتی ہے کہ چلو دعوت الی اللہ کر رہی ہوں.یہ پتہ نہیں کہ اس لڑکی کی کیا نیت ہے.آپ کی نیت اگر صاف بھی ہے تو دوسری طرف جولڑ کا internet پر بیٹھا ہوا ہے اس کی نیت کیا ہے؟ آپ کو کیا پتہ؟ اور آہستہ آہستہ بات اتنی آگے بڑھ جاتی ہے کہ تصویروں کے تبادلے شروع ہو جاتے ہیں.اب تصویر میں دکھانا تو انتہائی بے پردگی کی بات ہے.اور پھر بعض جگہوں پہ رشتے بھی ہوئے ہیں.جیسے میں نے کہا کہ بڑے بھیانک نتیجے سامنے آئے ہیں.اور ان میں سے اکثر رشتے پھر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد نا کام بھی ہو جاتے ہیں.یا درکھیں کہ آپ نے اگر تبلیغ ہی کرنی ہے، دعوت الی اللہ کرتی ہے تولڑ کیاں لڑکیوں کو ہی دعوت الی اللہ کریں.اور لڑکوں کو تبلیغ کرنے کی ضرورت نہیں.وہ کام لڑکوں کے لئے چھوڑ دیں.کیونکہ جیسے میں نے پہلے بھی کہا کہ یہ ایک ایسی 59
معاشرتی برائی ہے جس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں.“ 66 ( خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 19 اکتوبر 2003ء بیت الفتوح ،لندن ) مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17 اپریل 2015ء) انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتیجہ میں غیروں میں شادیاں اور نسلوں کا افسوسناک انجام چند احمدی لڑکیوں اور عورتوں کے غیر احمدی مردوں سے انٹرنیٹ کے ذریعہ شروع ہونے والے باہمی روابط بالآخر شادی پر منتج ہوئے.لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ایسی شادیوں کے متوقع منفی نتائج ظاہر ہونے لگے اور ان کے نتیجہ میں اگلی نسلوں کی احمدیت سے ڈوری کے خطر ناک پہلو بھی سامنے آنے لگے.اس نہایت اہم معاملہ کے بارہ میں احمدی عورتوں کو تنبیہ کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: آج تو internet ہے.آج سے پہلے بھی جہاں بھی وہ عورتیں جنہوں نے غیر از جماعت مردوں سے شادیاں کی ہیں، اب پریشانی اور پشیمانی کا اظہار کرتی ہیں اور لکھتی ہیں کہ ہمارے سے یہ غلطی ہوگئی جو غیر از جماعت سے شادی کی.اول تو بچے باپ کی طرف زیادہ رحجان رکھتے ہیں، غیر از جماعت باپ کی طرف، اس لئے کہ اس میں آزادی زیادہ ہے.اور اگر بعض بچیاں ماں کے زیر 60
اثر کچھ نہ کچھ جماعت سے تعلق رکھ بھی رہی ہیں تو باپ مجبور کر رہا ہے کہ تمہاری شادی غیر از جماعت میں ہی ہوگی.تو بعض بچیاں باپوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں.لکھتی ہیں کہ ہماری مدد کی جائے ، ہم غیر از جماعت میں شادی نہیں کرنا چاہتیں لیکن اکثر مجبور بھی ہوتی ہیں.تو مائیں بھی اور باپ بھی اس بات پر نظر رکھیں کہ اس طرح کھلے طور پر یہ internet کے رابطے نہیں ہونے چاہئیں.پیار سے سمجھائیں ، آرام سے سمجھائیں.جولڑ کیاں شعور کی عمر کو پہنچی ہوئی ہیں خود بھی ہوش کریں ورنہ یاد رکھیں کہ آپ احمدی ماؤں کی کوکھوں سے نکلنے والے بچے غیروں کی گودوں میں دے رہی ہوں گی.کیوں آپ لوگ اپنے آپ پر اور اپنی نسلوں پر ظلم کر رہے ہیں ؟؟ “ خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 19 اکتوبر 2003 مسجد بیت الفتوح ، لندن) مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 17 اپریل 2015ء) 61
نوجوان نسل کے لئے رہنمائی نوجوان نسل کو اسلامی تعلیم پر عمل کی تلقین غض بصر : نفس کا جہاد اصلاح کی کوشش میں عادت رکاوٹ بنتی ہے بُرائیوں سے بچنے کی جامع دعائیں 62
نوجوان نسل کو اسلامی تعلیم پر عمل کی تلقین حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بار با احمدی نوجوانوں اور بچوں کو جماعتی روایات اور اپنے عہد کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگیاں گزارنے کی تلقین فرمائی ہے.چنانچہ مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کے سالانہ اجتماع کے موقع پر اپنے ایک خصوصی پیغام میں انہیں نصائح کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ : آپ اپنے اجتماعات اور اجلاسات کے موقعہ پر یہ عہد دہراتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.اس کے لئے ہر ایک کو قرآن کریم کی با قاعدگی سے تلاوت کو یقینی بنانا چاہئے کیونکہ یہ وہ روحانی نور ہے جو ہمیں حقیقی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرنا سکھاتا ہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ کامیاب مومن خشوع وخضوع کے ساتھ نمازیں ادا کرتے ہیں.اس لئے آپ میں ہر ایک کو پنجوقتہ نماز کوزندگی کا نصب العین بنانا چاہئے اور جس حد تک ممکن ہو نماز با جماعت ادا کرنی چاہئے کیونکہ باجماعت نماز کا ثواب انفرادی نماز سے زیادہ ہے.باجماعت نماز وحدت و یگانگت کا ذریعہ بن جاتی ہے اور جماعت مومنین کی اجتماعیت اور قوت ظاہر کرتی ہے.پھر آپ کے اجتماعات ایک دوسرے سے نیکی اور تقویٰ میں مسابقت والے ہونے چاہئیں.نوجوان خدام اور بڑی عمر کے اطفال کو ہر وقت اچھے دوستوں اور اچھی صحبت میں رہنا چاہئے.انٹرنیٹ اور 63
سوشل میڈیا کا غلط استعمال بھی عام ہوتا جارہا ہے.اگر کسی چیز یا کام کے نقصان دو اثرات ذہن پر پڑتے ہوں تو قرآن مجید کے مطابق وہ لغو شمار ہوگا اور مومنوں کا یہ وصف ہے کہ وہ لغو باتوں سے پر ہیز کرتے ہیں.اسی طرح اپنی عفت و حیا کو قائم رکھنا مردوں پر بھی فرض ہے.انہیں یہ حکم ہے کہ وہ غض بصر سے کام لیتے ہوئے نظریں نیچی رکھیں اور دل و دماغ کو ناپاک خیالات اور تیرے ارادوں سے پاک رکھیں.اسلام کا ہر اصول انتہائی پر حکمت اور مضبوط بنیادوں پر پر مشتمل ہے.غض بصر سے اسلام نفس پر قابو رکھنا سکھاتا ہے.پس یاد رکھیں پاکبازی ایک خادم کا لازمی اخلاقی وصف ہے اس سے آپ روحانی ترقیات حاصل کر سکتے ہیں.“ پیغام بر موقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ واطفال الاحمد یہ بھارت 10اکتوبر 2017ء) ( مطبوعہ ہفت روزہ بدر قادیان 2 نومبر 2017ء) نوجوانوں کو اپنے اندر اعلی اوصاف پیدا کرنے اور اپنے نفس کو قابورکھنے کے بارہ میں نصیحت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے خدام سے خطاب میں نہایت مدلل انداز میں پر حکمت نصائح کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ : اس کے علاوہ کئی اور برائیاں اور گناہ ہیں جو آج کے معاشرے میں بد اخلاقیاں پھیلانے کا باعث ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ روز بروز بڑھ رہی ہیں.مثلاً انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال عام ہوتا جا رہا ہے جس میں لڑکے اور لڑکیوں کی آن لائن آپس میں نامناسب chatting شامل ہے.اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بیہودہ اور بداخلاقیوں سے پر فلمیں دیکھی جاتی ہیں 64
جس میں pornography بھی شامل ہے.سگریٹ پینا اور شیشہ کا استعمال بھی پھیلنے والی برائیوں میں شامل ہے.اس کے علاوہ اس بات کو یاد رکھیں کہ بعض اوقات جائز چیزوں کا غلط استعمال بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے.اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص آدھی رات تک ٹی وی دیکھتا ر ہے یا انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے جاگتا رہے اور اس کی فجر کی نماز ضائع ہو جائے.اگر چہ وہ اچھے پروگرام ہی کیوں نہ دیکھ رہا ہو.اس کے باوجود اس کا نتیجہ نکلا کہ وہ نیکی اور تقویٰ سے دُور ہورہا ہے.پس اس پہلو سے ایک جائز چیز بھی برائی میں شمار ہوگئی جو ایک حقیقی مسلمان کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتی.پس بنیادی طور پر اگر کسی بھی کام یا چیز کے زہر یلے یا نقصان دہ اثرات کسی کے ذہن پر پڑتے ہوں تو قرآن مجید کے مطابق وہ چیز یا کام لغو شمار ہوگا.“ حضور انور ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورۃ المومنون کی آیت 6 کے حوالہ سے مزید فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ نے مومن کی ایک اور خوبی کی نشاندہی فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ.(سورۃ المومنون آیت6) اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں.اپنی عفت و حیا کو قائم رکھنا صرف ایک عورت ہی کا کام نہیں ہے بلکہ مردوں پر بھی فرض ہے.اپنی عفت کی حفاظت کرنے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ 65
ایک شخص شادی شدہ زندگی سے باہر نا جائز جنسی تعلقات سے بہتا ر ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اس کا یہ مطلب سکھایا ہے کہ ایک مومن ہمیشہ اپنی آنکھیں اور اپنے کان ہر اس چیز سے پاک رکھے جو نامناسب ہے اور اخلاقی طور پر بُری ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک چیز جو انتہائی بیہودہ ہے وہ پورنوگرافی pornography ہے.اسے دیکھنا اپنی آنکھوں اور کانوں کی علت اور پاکیزگی کو کھو دینے کے مترادف ہے.یہ بات بھی پاکبازی اور حیا سے متعلق اسلامی تعلیمات کے منافی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کا آزادانہ طور پر آپس میں میل جول ہو اور ان میں باہم تعلقات اور نامناسب دوستیاں ہوں.( خطاب از خدام بر موقع سالانہ اجتماع کیو کے 26 ستمبر 2016ء کنگز لے سڑے) ( مطبوعہ ہفت روزه بدر قادیان 7 /ستمبر 2017ء) غض بصر : نفس کا جہاد موجودہ زمانہ، تلوار کے جہاد کے بجائے نفس کی اصلاح کے جہاد کا زمانہ ہے.نیکی کی راہ پر اُسی صورت میں قائم رہا جاسکتا ہے جب قرآن کریم کے احکامات پر عمل کیا جائے.اس مضمون کے حوالہ سے جذبات نفسانی پر قابورکھنے اور غض بصر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: ”ہم احمدیوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ زمانہ بہت خطرناک زمانہ 66
ہے.شیطان ہر طرف سے پرزور حملے کر رہا ہے.اگر مسلمانوں اور خاص طور پر احمدی مسلمانوں ، مردوں اور عورتوں، نوجوانوں سب نے مذہبی اقدار کو قائم رکھنے کی کوشش نہ کی تو پھر ہمارے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے.ہم دوسروں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ہوں گے کہ ہم نے حق کو سمجھا ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سمجھایا اور ہم نے پھر بھی عمل نہ کیا.پس اگر ہم نے اپنے آپ کو ختم ہونے سے بچانا ہے تو پھر ہر اسلامی تعلیم کے ساتھ پر اعتماد ہو کر دنیا میں رہنے کی ضرورت ہے.یہ نہ سمجھیں کہ ترقی یافتہ ملکوں کی یہ ترقی ہماری ترقی اور زندگی کی ضمانت ہے اور اس کے ساتھ چلنے میں ہی ہماری بقا ہے.ان ترقی یافتہ قوموں کی ترقی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور اب جو ان کی اخلاقی حالت ہے اخلاق باختہ حرکتیں ہیں.یہ چیزیں انہیں زوال کی طرف لے جارہی ہیں اور اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو یہ آواز میں دے رہے ہیں اور اپنی تباہی کو بلا رہے ہیں.پس ایسے میں انسانی ہمدردی کے تحت ہم نے ہی ان کو صحیح راستہ دکھا کر بچانے کی کوشش کرنی ہے بجائے اس کے کہ ان کے رنگ میں رنگین ہو جائیں.اگر ان لوگوں کی اصلاح نہ ہوئی جو ان کے تکبر اور دین سے ڈوری کی وجہ سے بظاہر بہت مشکل نظر آتی ہے تو پھر آئندہ دنیا کی ترقی میں وہ قومیں اپنا کردار ادا کریں گی جو اخلاقی اور مذہبی قدروں کو قائم رکھنے والی ہوں گی.پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ہمیں خاص طور پر نوجوانوں کو اللہ تعالیٰ 67
کی تعلیم پر غور کرنے کی ضرورت ہے.دنیا سے متاثر ہو کر اس کے پیچھے چلنے کی بجائے دنیا کو اپنے پیچھے چلانے کی ضرورت ہے.“ حضور انور نے مزید فرمایا: اسلام کی ترقی کے لئے ہر وہ چیز ضروری ہے جس کا خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے.پردہ کی سختیاں صرف عورتوں کے لئے نہیں ہیں.اسلام کی پابندیاں صرف عورتوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم ہے.اللہ تعالیٰ نے پہلے مردوں کو حیا اور پردے کا طریق بتایا تھا.چنانچہ فرمایا کہ قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ - (النور: 31) مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں.یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے.یقینا اللہ جو وہ کرتے ہیں اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو پہلے کہا کہ غض بصر سے کام لو.کیوں؟ اس لئے کہ ذلك از کی لَهُمْ کیونکہ یہ بات پاکیزگی کے لئے ضروری ہے.اگر پاکیزگی نہیں تو خدا نہیں ملتا.پس عورتوں کے پردہ سے پہلے مردوں کو کہہ دیا کہ ہر ایسی چیز سے بچو جس سے تمہارے جذبات بھڑک سکتے ہوں.عورتوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا، ان میں میکس آپ ( mix up) ہونا، گندی فلمیں دیکھنا، نامحرموں سے فیس بک (facebook) پر یا کسی اور ذریعہ سے پچیٹ (chat) وغیرہ 68
کرنا، یہ چیزیں پاکیزہ نہیں رہتیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بارے میں کئی جگہ بڑی کھل کر نصیحت فرمائی ہے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : دو مشخصه پیکر یہ خدا ہی کا کلام ہے جس نے اپنے کھلے ہوئے اور نہایت واضح بیان سے ہم کو ہمارے ہر ایک قول اور فعل اور حرکت اور سکون میں حدود معینہ قائم کیا اور ادب انسانیت اور پاک روشی کا طریقہ سکھلایا.وہی ہے جس نے آنکھ اور کان اور زبان وغیرہ اعضاء کی محافظت کے لئے بکمال تاکید فرمایا قل لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ.ذَلِكَ أَزْ لَىٰ لَهُمْ یعنی مومنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھوں اور کانوں اور ستر گاہوں کو نامحرموں سے بچاویں اور ہر یک نادیدنی اور ناشنیدنی اور ناکردنی سے پر ہیز کریں کہ یہ طریقہ ان کی اندرونی پاکی کا موجب ہو گا.یعنی ان کے دل طرح طرح کے جذباتِ نفسانیہ سے محفوظ رہیں گے کیونکہ اکثر نفسانی جذبات کو حرکت دینے والے اور قوائے بہیمیہ کو فتنہ میں ڈالنے والے یہی اعضاء ہیں.اب دیکھئے کہ قرآن شریف نے نامحرموں سے بچنے کے لئے کیسی تاکید فرمائی اور کیسے کھول کر بیان کیا کہ ایماندار لوگ اپنی آنکھوں اور کانوں اور ستر گاہوں کو ضبط میں رکھیں اور ناپاکی کے مواضع سے روکتے رہیں.“ ( براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 209 حاشیہ) (خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جنوری 2017ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 فروری 2017ء) 69
اصلاح کی کوشش میں عادت رکاوٹ بنتی ہے عملی اصلاح کی جانب قدم بڑھانے میں ایک بڑی مشکل عادات میں پختگی بھی ہوتی ہے.اس اہم پہلو سے متعلق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ایک واقعہ ہے کہ ایک صاحب کو گالی دینے کی، ہر وقت گالی دینے کی، ہر بات پر گالی دینے کی عادت تھی.اور اُن کو بعض دفعہ پتہ بھی نہیں لگتا تھا کہ میں گالی دے رہا ہوں.اُن کی شکایت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کسی نے کی.آپ نے جب اُن کو بلا کر پوچھا کہ سنا ہے آپ گالیاں بڑی دیتے ہیں تو گالی دے کر کہنے لگے کون کہتا ہے میں گالی دیتا ہوں.تو عادت میں احساس ہی نہیں ہوتا کہ انسان کیا کہہ رہا ہے.بعض بالکل ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ عادت کی وجہ سے اُن کو احساس ختم ہو جاتے ہیں، احساس مٹ جاتے ہیں.لیکن اگر انسان کوشش کرے تو ان مٹے ہوئے احساسات کو ختم ہوئے ہوئے احساسات کو دوبارہ پیدا بھی کیا جا سکتا ہے، اصلاح بھی کی جاسکتی ہے.بہر حال عملی حالت کی روک میں عادت کا بہت بڑا دخل ہے.آجکل ہم دیکھتے ہیں ، بیہودہ فلمیں دیکھنے کا بڑا شوق ہے.انٹرنیٹ پرلوگوں کے شوق ہیں اور بعض لوگوں کی ایسی حالت ہے کہ ان کی نئے والی حالت ہے.وہ کھانا نہیں کھائیں گے اور بیٹھے فلمیں دیکھ رہے ہیں تو دیکھتے چلے جائیں گے.انٹرنیٹ پر 70
بیٹھے ہیں تو بیٹھے چلے جائیں گے.نیند آ رہی ہے تب بھی وہ بیٹھے دیکھتے رہیں گے.نہ بچوں کی پرواہ ، نہ بیوی کی پرواہ تو ایسے لوگ بھی ہیں.پس یہ جو عادتیں ہیں، یہ عملی اصلاح میں روک کا بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں.“ حضور انور نے مزید فرمایا: عورتوں کے لئے بھی میں ایک مثال دوں گا.پردہ اور حیا کی حالت ہے.اگر ایک دفعہ یہ ختم ہو جائے تو پھر بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے.آسٹریلیا میں مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض بڑی عمر کی عورتوں نے جو پاکستان سے وہاں آسٹریلیا میں اپنے بچوں کے پاس نئی نئی گئی تھیں، اپنی بچیوں کو یہ دیکھ کر کہ پردہ نہیں کرتیں انہیں پردے کا کہا کہ کم از کم حیا دار لباس پہنو، اسکارف لو تو اُن کی لڑکیوں میں سے بعض جو ایسی ہیں کہ پردہ نہ کرنے والی ہیں، انہوں نے یہ کہا کہ یہاں پردہ کرنا بہت بڑا جرم ہے اور آپ بھی چھوڑ دیں تو مجبوراً ان عورتوں نے بھی جو پردہ کا کہنے والی تھیں، جن کو ساری عمر پر دے کی عادت تھی اس خوف کی وجہ سے کہ جرم ہے، خود بھی پردہ چھوڑ دیا.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کوئی ایسا قانون نہیں ہے، نہ جرم ہے.کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس طرف توجہ دیتا ہے.صرف فیشن کی خاطر چند نوجوان عورتوں اور بچیوں نے پردے چھوڑ دیتے ہیں.پاکستان سے شادی ہو کر وہاں آنے والی ایک بچی نے مجھے لکھا کہ مجھے بھی زبر دستی پر دہ چھڑوا دیا گیا تھا.یا ماحول کی وجہ سے میں بھی کچھ اس دام میں آ گئی اور پردہ چھوڑ دیا.اب میں جب وہاں دورے پر گیا ہوں تو اُس نے لکھا 71
کہ آپ نے جلسہ میں جو تقریر عورتوں میں کی اور پردے کے بارے میں کہا تو اُس وقت میں نے برقع پہنا ہوا تھا تو اُس وقت سے میں نے برقع پہنے رکھا ہے اور اب میں اُس پر قائم ہوں اور کوشش بھی کر رہی ہوں اور دعا بھی کر رہی ہوں کہ اس پر قائم رہوں.اُس نے دعا کے لئے بھی لکھا.تو پردے اس لئے چھٹ رہے ہیں کہ اس حکم کی جو قرآنی حکم ہے، بار بار ذہن میں جگالی نہیں کی جاتی.نہ ہی گھروں میں اس کے ذکر ہوتے ہیں.پس عملی اصلاح کے لئے بار بار برائی کا ذکر ہونا اور نیکی کا ذکر ہونا ضروری ہے.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 20 / دسمبر 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) مطبوع الفضل انٹر نیشنل 10 جنوری 2014ء) بُرائیوں سے بچنے کی جامع دعائیں عصر حاضر میں جدید ٹیکنالوجی اور میڈیا کا غلط استعمال بلا شبہ ایک شیطانی فعل ہے.ایسے شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے دعاؤں کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے.اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنین کو شیطان کے حملوں سے بچانے کی کس قدر فکر ہوتی تھی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے صحابہ کو شیطان سے بچنے کی دعائیں سکھاتے تھے اور کیسی جامع دعائیں سکھاتے تھے، اس کا ایک 72
صحابی نے یوں بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھلائی که اے اللہ ! ہمارے دلوں میں محبت پیدا کر دے.ہماری اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا.اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا.اور ہمیں ظاہر اور باطن فواحش سے بچا.اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں ، ہماری آنکھوں میں، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولادوں میں برکت رکھ دے اور ہم پر رجوع برحمت ہو.یقینا تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اور اے اللہ ہم پر نعمتیں مکمل فرما“ (سنن ابو داؤد کتاب الصلاة باب التشهد حديث 969) پس یہ دعا ہے جو دنیاوی غلط تفریح سے بھی روکنے کے لئے ہے.دوسری ہر قسم کی فضولیات سے روکنے کے لئے ہے.شیطان کے حملوں سے روکنے کے لئے ہے.آج بھی دنیا میں تفریح کے نام پر مختلف بیہودگیاں ہورہی ہیں.جب انسان کانوں، آنکھوں میں برکت کی دعا کرے گا، جب سلامتی حاصل کرنے اور اندھیروں سے روشنی کی طرف جانے کے لئے دعا کرے گا، جب بیویوں کے حق ادا کرنے کی دعا کرے گا، جب اولاد کے قرۃ العین ہونے کی دعا کرے گا تو پھر بیہودگیوں اور فواحش کی طرف سے توجہ خود بخود ہٹ جائے گی اور یوں ایک مومن 73
پورے گھر کو شیطان سے بچانے کا ذریعہ بن جاتا ہے.“ 66 خطبہ جمعہ 20 رمئی 2016 مسجد ناصر، گوٹن برگ ،سویڈن) ( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 10 جون 2016ء) ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ شیطان کے اندھیرے راستوں کو ترک کر کے روشنی کی اُن راہوں کی طرف ہمہ وقت آتا چلا جائے جو سلامتی کے راستے ہیں.اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: ” جب اس نہج پر اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو یہی سلامتی کا راستہ ہے.انسان کی بچت اسی میں ہے کہ سلامتی کے راستے تلاش کرے.ورنہ پھر جیسا کہ فرمایا کہ تم روشنی سے اندھیروں کی طرف جاؤ گے.اور یہ شیطان کا رستہ ہے، روشنی سے اندھیروں کی طرف جانا ہے.اس لئے شیطان سے پناہ مانگتے رہو.اللہ تعالی سے اس کا فضل مانگو اور یہ دعا کرو کہ اے اللہ ! ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا اور ہر قسم کی فواحش سے ہمیں بچا.چاہے وہ باطنی ہوں.اور ظاہری سے تو پھر بعض خوف ایسے خوف ہوتے ہیں جو روکنے میں کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں.لیکن چھپی ہوئی فواحش جو ہیں یہ ایسی ہیں جو بعض دفعہ انسان کو متاثر کرتے ہوئے بہت دُور لے جاتی ہیں.مثلاً بعض دفعہ غلط نظارے، غلط فلمیں ہیں، بالکل عریاں فلمیں ہیں.اس قسم کی دوسری چیزوں کو دیکھ کر آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہورہا ہوتا ہے انسان.پھر خیالات کا زنا ہے، غلط 74
قسم کی کتابیں پڑھنا یا سوچیں لے کر آنا.بعض ماحول ایسے ہیں کہ ان میں بیٹھ کر انسان اس قسم کی فحشاء میں دھنس رہا ہوتا ہے.پھر کانوں سے بے حیائی کی باتیں سننا.تو یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے اللہ ! ہمارا عضو جو ہے اسے اپنے فضل سے پاک کر دے.اور ہمیشہ اسے پاک رکھ اور شیطان کے راستے پر چلنے والے نہ ہوں اور ہم سب کو شیطان کے راستے پر چلنے سے بچا.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 12 / دسمبر 2003ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6 فروری 2004ء) 75
واقفین کو اور واقفات نو اسپیشل کیسے بن سکتے ہیں؟ اعلیٰ معیاروں کو قائم کر کے اسپیشل بنیں غیر اخلاقی باتوں سے دُورر ہیں میڈیا کے شعبہ میں بھی تعلیم حاصل کریں ایم ٹی اے پر باقاعدگی سے خطبات سنیں 76
اعلی معیاروں کو قائم کر کے اسپیشل بنیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے متعد د مواقع پر واقفین کو اور واقفاتِ نو کے والدین کو یہ توجہ دلائی ہے کہ انہیں اپنی نسلوں کو خدا تعالی کی راہ میں پیش کرنے کی جو سعادت حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ سے ان بچوں کی تربیت کی نہایت اہم ذمہ داری بھی اُن پر عائد ہوتی ہے.واقفین ٹو کے والدین کو ہمہ وقت یہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ بچے اُن کے پاس جماعت کی امانت ہیں نیز یہ کہ ان بچوں کی چھوٹی عمر سے ہی بہترین تربیت کر کے انہیں جماعت اور معاشرے کا مفید وجود بنانا ہمارا مح نظر ہونا چاہئے.اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے واقفین کو اور واقفات کو کو خطبات و خطابات کے علاوہ واقفین کو کی خصوصی کلاسوں میں براہ راست بھی انمول نصائح فرمائی ہیں.چنانچہ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: ”حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے وفا کے مضمون کو ایک جگہ مزید کھولا ہے اور اس طرح کھولا ہے.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے.سچائی پر قائم ہو.وفا تمہاری سچی ہو.اللہ تعالیٰ سے ” حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اس 77
کی وجہ یہی تھی.چنانچہ فرمایا ہے : وَإِبْراهِيمَ الَّذِي وَثْى (النجم : 38) کہ ابراہیم وہ ابراہیم ہے جس نے وفاداری دکھائی.خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے.جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہو جاوے اور ہر ذلت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو یہ صفت پیدا نہیں ہوسکتی.بت پرستی یہی نہیں کہ انسان کسی درخت یا پتھر کی پرستش کرے بلکہ ہر ایک چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے روکتی اور اس پر مقدم ہوتی ہے وہ بت ہے اور اس قدر بت انسان اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کو پتا بھی نہیں لگتا کہ میں بت پرستی کر رہا ہوں“.کہیں آجکل کے زمانے میں ڈرامے بہت بن گئے ہیں.کہیں انٹرنیٹ بہت بن گیا ہے.کہیں دنیا کمانا بت بن گیا ہے.کہیں اور خواہشات بت بن گئی ہیں.پر آپ نے فرمایا کہ انسان کو پتا ہی نہیں لگتا کہ میں بت پرستی کر رہا ہوں اور وہ اندر ہی اندر کر رہا ہوتا ہے.پس فرمایا کہ "پس جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے.فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ خطاب ملا یہ یونہی مل گیا تھا؟ نہیں.ابْرَاهِيمَ الَّذِي وَفی کی آواز اس وقت آئی جب وہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا.اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا ہے اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے اور عمل دُکھ سے آتا ہے.عمل دُکھ سے آتا ہے یعنی انسان کو جو نیک اعمال ہیں ان کے بجالانے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کو راضی 66 78
کرنے والے اعمال کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے.اپنے آپ کو تکلیف اور دُکھ میں ڈالنا پڑتا ہے.لیکن دُکھ میں ہمیشہ نہیں رہتا انسان عمل کرنے میں بیشک دُکھ ہے لیکن دُکھ میں ہمیشہ نہیں رہتا انسان.فرمایا لیکن جب انسان خدا کے لئے دُکھ اٹھانے کے لئے تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اُس کو دُکھ میں بھی نہیں ڈالتا....ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دینا چاہا اور پوری تیار کر لی تو اللہ تعالی نے اس کے بیٹے کو بچا لیا.بیٹے کی جان بھی بچ گئی اور باپ کو بیٹے کی قربانی کی وجہ سے جودُ کھ ہونا تھا اس دُکھ سے بھی نجات ہو گئی.فرمایا کہ وہ آگ میں ڈالے گئے (حضرت ابراہیم علیہ السلام) لیکن آگ اُن پر کوئی اثر نہ کرسکی.فرماتے ہیں کہ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ تکالیف 66 دو سے بچالیتا ہے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 429-430.ایڈیشن 1985 مطبوعہ انگلستان ) پھر فرمایا: مختصراً بعض انتظامی باتوں اور واقفین کے لئے لائحہ عمل کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں.بعض لوگ سوال اٹھاتے ہیں.بعض واقفین نو کے ذہنوں میں غلط فہمیاں ہیں کہ وقف کو ہو کر ان کی کوئی علیحدہ ایک شناخت بن گئی ہے.شناخت تو بیشک بن گئی ہے لیکن اس شناخت کے ساتھ ان سے غیر معمولی طور پر امتیازی سلوک نہیں ہوگا بلکہ اس شناخت کے ساتھ ان کو اپنی قربانیوں کے معیار بڑھانے ہوں گے.بعض لوگ اپنے واقفین کو بچوں کے دماغوں میں یہ 79
بات ڈال دیتے ہیں کہ تم بڑے اسپیشل بچے ہو جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑے ہو کر بھی ان کے دماغوں میں اسپیشل ہونا رہ جاتا ہے.اور یہاں بھی اس قسم کی باتیں مجھے پہنچی ہیں.وہ وقف کی حقیقت کو پیچھے کر دیتے ہیں اور وقف نو کے ٹائٹل کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ لیتے ہیں کہ ہم اسپیشل ہو گئے.مزید فرمایا: ”جیسا کہ میں نے کہا بڑے اسپیشل ہیں لیکن اسپیشل ہونے کے لئے ان کو ثابت کرنا ہو گا.کیا ثابت کرنا ہو گا ؟ کہ وہ خدا تعالیٰ سے تعلق میں دوسروں سے بڑھے ہوئے ہیں تب وہ اسپیشل کہلائیں گے.ان میں خوفِ خدا دوسروں سے زیادہ ہے تب وہ اسپیشل کہلائیں گے.ان کی عبادتوں کے معیار دوسروں سے بہت بلند ہیں تب وہ اسپیشل کہلائیں گے.وہ فرض نمازوں کے ساتھ نوافل بھی ادا کرنے والے ہیں تب وہ اسپیشل کہلائیں گے.ان کے عمومی اخلاق کا معیار انتہائی اعلیٰ درجہ کا ہے.یہ ایک نشانی ہے اسپیشل ہونے کی.ان کی بول چال، بات چیت میں دوسروں کے مقابلے میں بہت فرق ہے.واضح پتا لگتا ہے کہ خالص تربیت یافتہ اور دین کو دنیا پر ہر حالت میں مقدم کرنے والا شخص ہے تب اسپیشل ہوں گے.لڑکیاں ہیں تو ان کا لباس اور پردہ صیح اسلامی تعلیم کا نمونہ ہے جسے دوسرے لوگ بھی دیکھ کر رشک کرنے والے ہوں اور یہ کہنے والے ہوں کہ واقعی اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی ان کے لباس اور پردہ ایک غیر معمولی نمونہ ہے تب اسپیشل ہوں گی.لڑکے ہیں تو ان کی نظریں حیا کی وجہ سے نیچے جھکی ہوئی 80
ہوں نہ کہ ادھر ادھر غلط کاموں کی طرف دیکھنے والی تب اسپیشل ہوں گے.انٹرنیٹ اور دوسری چیزوں پر لغویات دیکھنے کی بجائے وہ وقت دین کا علم حاصل کرنے کے لئے صرف کرنے والے ہوں تو تب اسپیشل ہوں گے.لڑکوں کے حلیے دوسروں سے انہیں ممتاز کرنے والے ہوں تو تب اسپیشل ہوں گے.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 28 /اکتوبر 2016ء بمقام مسجد بیت الاسلام ، ٹورانٹو، کینیڈا) ( مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 18 نومبر 2016ء) غیر اخلاقی باتوں سے دُورر ہیں غیر اخلاقی امور نہ صرف گناہ ہیں اور گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں بلکہ انسان کی فطرت پر بھی اس کے نہایت بد اثرات مرتب ہوتے ہیں.اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پر واقفین ٹو کو زریں نصائح کرتے ہوئے فرمایا: ” مومن کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ وہ نامناسب اور غیر اخلاقی چیزوں سے دُور رہتا ہے.نوجوانی کی عمر میں اور خاص طور پر مغربی معاشرے میں اس بات کا خطرہ ہے کہ ایک شخص بے حیائی سے متأثر ہو جائے اور پھر متأثر ہو جانے کی وجہ سے گمراہ ہو جائے.مثلاً غیر اخلاقی اور مخش پروگرام با قاعدگی کے ساتھ ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں اور انٹرنیٹ پر ان کا دستیاب ہونا ایک معمول کی بات ہے.یہ انتہائی بیہودہ اور گناہ کا موجب ہیں جن سے ایک مومن کو لازماً بہت دُور رہنا 81
چاہئے.یقیناً ایک واقف ئو جس کے والدین نے اس کی پیدائش سے پہلے عہد کیا تھا کہ ان کا ہونے والا بچہ اپنی پوری زندگی دین کی خدمت میں گزارے گا اسے تو خاص طور پر ان غیر اخلاقی باتوں سے دُور رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی چیزیں انسان کو دین سے دور لے جاتی ہیں.اس لئے حقیقی مومنین کو ایسی لغویات اور ہر قسم کی غلط باتوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے.“ 66 ( خطاب بر موقع نیشنل اجتماع وقف نو یو کے 28 فروری 2016ء مسجد بیت الفتوح ، لندن) ( مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 12 را گست 2016ء) میڈیا کے شعبہ میں بھی تعلیم حاصل کریں میڈیا کے شعبہ کی عالمی سطح پر وسعت کے پیش نظر احمدیوں کو اس فیلڈ میں مہارت حاصل کرنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.میڈیا کی فیلڈ میں اہم کردار ادا کرنے کے حوالہ سے مستقبل میں میڈیا کے ماہرین کی تیاری اور اس شعبہ میں جماعتی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے واقفین ئو اور واقفات ٹو کو بار ہا توجہ دلائی ہے.چنانچہ ایک موقع پر فرمایا: ہمیں ایسے واقفین کی بھی ضرورت ہے جو میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے شعبوں میں تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہیں.ایم ٹی اے کا کام دن بدن وسعت اختیار کر رہا ہے اور اب ہم نے ریڈیو اسٹیشن Voice of Islam کا بھی اجرا کیا ہے.ابھی یہ ریڈیو اسٹیشن اپنے ابتدائی مراحل میں ہے.لیکن ہماری خواہش ہے کہ ہم 82
سلسل اس کو ترقی دیں اور اس کے دائرہ کو وسیع تر کریں.اس کے لئے ہمیں مناسب افرادی قوت کی ضرورت ہے.پھر ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے علاوہ دوسرے مقامی ایم ٹی اے سٹوڈ یوز بھی ہیں.بعض جگہوں پر یا تو نئے ایم ٹی اے اسٹوڈیوز کا اجرا کیا جا رہا ہے یا متعدد ممالک میں موجودہ ایم ٹی اے کے نظام کو مزید ترقی دی جارہی ہے.اس لئے آپ میں سے وہ جن کی قابلیت یا دلچسپی اس شعبہ میں ہے انہیں چاہئے کہ وہ broadcast میڈیا یا اس سے ملتے جلتے ٹیکنیکی شعبوں کو اختیار کریں.ہمیں صحافیوں اور میڈیا کے ماہرین کی بھی ضرورت ہے.کیونکہ mass media کا اثر و رسوخ دن بدن بڑھ رہا ہے.اس لئے ہمیں اپنے لوگوں کی ضرورت ہے جو اسلام کی حقیقی تعلیمات کو میڈیا کے ذریعہ سے دنیا کے سامنے پیش کریں.چنانچہ واقفین ٹو کی حیثیت سے آپ کو جماعت کی ضروریات کو مد نظر رکھنا چاہئے.اور انہیں ضروریات پر مبنی اپنی تعلیم حاصل کرنی چاہئے اور پھر اس کے لئے حتی الوسع محنت کرنی چاہئے.جب آپ اپنے متعلقہ شعبہ میں تعلیم اور تربیت حاصل کر چکے ہوں تو پھر اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ نے جماعت کو اطلاع دے دی ہے اور اپنے آپ کو باقاعدہ واقف زندگی کے طور پر پیش کر دیا ہے اور پھر خدمت کے لئے تیار ہو جائیں.“ ( خطاب بر موقع نیشنل اجتماع وقف کو یو کے 28 فروری 2016ء بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن ) ( مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 12 را گست 2016ء) اس اہم موضوع کے حوالہ سے مذکورہ بالا خطاب سے ایک روز قبل بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفاتِ نو کے سالانہ اجتماع سے خطاب 83
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: ”ہماری جماعت میں اس چیز کی خاص ضرورت ہے کہ احمدی خواتین ڈاکٹر یا ٹیچر نہیں.اس کے علاوہ میڈیا کے شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی خدمات چاہئیں جو ایم ٹی اے اور جماعت کے دیگر شعبہ جات میں ذمہ داریاں ادا کرسکیں.اور ہمیں صحافت کے شعبہ میں بھی خواتین کی ضرورت ہے.آپ میں سے جو بھی ان شعبہ جات میں دلچسپی رکھتی ہوں انہیں ان شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنی چاہئے.“ ( خطاب بر موقع نیشنل اجتماع واقفات نو یو کے 27 فروری 2016ء بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن) ( مطبوعہ رساله مریم واقفات کو شمارہ نمبر 18 اپریل تا جون 2016ء) ایم ٹی اے پر باقاعدگی سے خطبات سنیں خلیفہ وقت کے ارشادات احمدیوں میں روحانی زندگی کے قیام کی ضمانت اور آئندہ نسلوں کی اصلاح و تربیت کا نہایت اہم ذریعہ ہوتے ہیں.چنانچہ حضور انور نے اپنے خطبات جمعہ سننے کی طرف خصوصاً واقفین کو اور واقفات ٹو کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: ایم ٹی اے پر کم از کم میرے خطبات جو ہیں وہ باقاعدگی سے سنے ہوں گے اور یہ باتیں صرف واقفین ٹو کے والدین کے لئے ضروری نہیں بلکہ ہر وہ احمدی جو چاہتا ہے کہ ان کی نسلیں نظام جماعت سے وابستہ رہیں انہیں چاہئے کہ اپنے 84
گھروں کو احمدی گھر بنائیں، دنیا داروں کے گھر نہ بنائیں اور نہ اگلی نسلیں دنیا میں پڑ کر نہ صرف احمدیت سے دور چلی جائیں گی بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی دور ہو جائیں گی اور اپنی دنیا و عاقبت دونوں بر باد کریں گی.خدا کرے کہ نہ صرف تمام واقفین کو بچے خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے والے اور تقویٰ پر چلنے والے ہوں بلکہ ان کے عزیزوں کے عمل بھی ان کو ہر قسم کی بدنامی سے بچانے والے ہوں.بلکہ ہر احمدی وہ حقیقی احمدی بن جائے جس کی بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تلقین فرمائی ہے تا کہ دنیا میں جلد تر ہم احمدیت اور حقیقی اسلام کا جھنڈا اٹھتا ہوا دیکھیں.“ خطبہ جمعہ فرموده 28 را کتوبر 2016ء بمقام مسجد بیت السلام، ٹورانٹو، کینیڈا) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18 نومبر 2016ء) 85
میڈیا کے ذریعہ جھوٹ اور فریب جعلی فیس بک اکاؤنٹ سائبراٹیک(cyber attack) سے نظام درہم برہم موبائل فون کے عاریتاً استعمال سے دھو کہ خلفاء کی تصاویر کا غلط استعمال اور بدعات سے اجتناب 86
جعلی فیس بک اکاؤنٹ آجکل میڈیا کے ذریعہ نہ صرف ہر قسم کے اخلاقی اصول پامال کئے جار ہے ہیں بلکہ کئی لوگ ریا کاری اور فریب کے مختلف طریقے اختیار کرتے ہوئے دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں.اس قسم کے دھوکوں سے محفوظ رہنے کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تیسری بات میں آج یہ کہنا چاہتا تھا کہ مجھے پتہ لگا کہ میرے نام سے آج کل انٹرنیٹ وغیرہ پرفیس بک (facebook) ہے.فیس بک کا ایک اکاؤنٹ کھلا ہوا ہے جس کا میرے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں.نہ کبھی میں نے کھولا نہ مجھے کوئی دلچسپی ہے بلکہ میں نے تو جماعت کو کچھ عرصہ ہوا، اس بارہ میں تنبیہ کی تھی کہ اس فیس بُک سے بچیں.اس میں بہت ساری قباحتیں ہیں.پتہ نہیں کسی نے بے وقوفی سے کیا ہے، کسی مخالف نے کیا ہے یا کسی احمدی نے کسی نیکی کی وجہ سے کیا ہے.لیکن جس وجہ سے بھی کیا ہے، بہر حال وہ تو بند کر وانے کی کوشش ہورہی ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہ بند ہو جائے گا.کیونکہ اس میں قباحتیں زیادہ ہیں اور فائدے کم ہیں.بلکہ انفرادی طور پر بھی میں لوگوں کو کہتا رہتا ہوں کہ یہ جو فیس بُک ہے 87
اس سے غلط قسم کی بعض باتیں نکلتی ہیں اور پھر اس شخص کے لئے بھی پریشانی کا موجب بن جاتی ہیں.خاص طور پر لڑکیوں کو تو بہت احتیاط کرنی چاہیے.لیکن بہر حال میں یہ اعلان کر دینا چاہتا تھا کہ یہ جو فیس ٹک ہے اور اس میں وہ لوگ جن کے اپنے فیس بُک کے اکاؤنٹ ہیں، وہ آ بھی رہے ہیں، پڑھ بھی رہے ہیں، اپنے منٹس (comments) بھی دے رہے ہیں جو بالکل غلط طریقہ کار ہے اس لئے اس سے بچیں اور کوئی اس میں شامل نہ ہو.اگر ایسی کوئی صورت کبھی پیدا ہوئی جس میں جماعتی طور پر کسی قسم کی فیس ٹک کی طرز کی کوئی چیز جاری کرنی ہوئی تو اس کو محفوظ طریقے سے جاری کیا جائے گا جس میں ہر ایک کی access نہ ہو اور صرف جماعتی مؤقف اس میں سامنے آئے اور اس میں جس کا دل چاہے آ جائے.کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض مخالفین نے بھی اپنے کمنٹ (comment) اس پر دئیے ہوئے ہیں.اب ایک تو ویسے ہی غیر اخلاقی بات ہے کہ کسی شخص کے نام پر کوئی دوسرا شخص چاہے وہ نیک نیتی سے ہی کر رہا ہے وہ بغیر اس کو بتائے کام شروع کر دے.اس لئے جس نے بھی کیا ہے اگر تو وہ نیک نیت تھا تو وہ فوراً اس کو بند کر دے اور استغفار کرے اور اگر شرارتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے خود بیٹے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے اور جماعت کو ترقی کی راہوں پر چلاتا چلا جائے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 31 دسمبر 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) ) مطبوعہ افضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2011ء) 88
سائبر اٹیک (Cyber attack) سے نظام درہم برہم حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں دنیا کے بعض ممالک کے کشیدہ حالات کا ذکر کرتے ہوئے بھی نت نئے طریقوں سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے حوالہ سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ”پھر نئی ایجادیں ہیں.انسانوں نے اپنے رابطوں کے لئے ، اپنے ریکارڈ رکھنے کے لئے ، اپنے معاشی اور دوسرے نظام چلانے کے لئے بڑی آسانیاں پیدا کی ہیں.کمپیوٹر نے بہت سے کاموں کو سنبھال لیا ہے.لیکن یہی ایجاد دنیا کی تباہی کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے.آجکل بار بار کبھی کسی خاص ملک میں اور کبھی پوری دنیا میں سائبر اٹیک (cyber attack) ہو رہے ہیں.سارا نظام اس سے درہم برہم ہو جاتا ہے.یہاں کا بھی این ایچ ایس (NHS) کا نظام درہم برہم ہو گیا.ایئر پورٹس کا نظام درہم برہم ہو گیا.جنگی آلات کے استعمال اور جنگوں کی وجہ بننے میں بھی یہ سائبر حملے، جو ہیں خوفناک کردار ادا کر سکتے ہیں اور تباہی لا سکتے ہیں.چنانچہ نیٹو کے ایک نمائندے نے یہ واضح کیا ہے کہ نیٹو پر یا دنیا کے حساس معاملات میں کہیں بھی یہ سائبرحملہ ہو گیا تو ایک تباہ کن جنگ کا باعث بن سکتا ہے اور مزید ہم اس قسم کا حملہ برداشت نہیں کر سکتے.یہ وارننگ وہ دے چکے ہیں.پس دنیا تو اپنی تباہی کے خود سامان کر رہی ہے اور سمجھتے ہیں کہ دنیا داروں کی 89
ترقی ان کی حفاظت کی ضامن ہے جبکہ یہ ان کی تباہی کی وجہ بن سکتی ہے اور پھر دنیا دار اور دنیا دار سر بر اہان حکومت اپنے مفادات کے لئے بالکل لا پرواہ ہو گئے ہیں.خاص طور پر جب دنیا کی سب سے بڑی ظاہری طاقت کا صدر اپنے خول میں بیٹھ کر ہوائی باتیں کر کے سمجھتا ہو کہ دنیا اب میرے کہنے کے مطابق چلے گی تو پھر اس کی یہ باتیں حالات کو مزید بگاڑنے والا بنا رہی ہیں.ایک بات تو اس سے ظاہر ہے کہ یہ اپنے تکبر کی وجہ سے اپنے ہر مخالف کو اور مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے مسلمانوں کو ختم کرنے پر بھلا بیٹھا ہوا ہے.اپنے مخالفین کو، جو چاہے کوئی بھی ہوں، ختم کرنے پر تلا بیٹھا ہے اور اس بات سے لا پرواہ ہے کہ دنیا میں مختلف وجوہات سے جو حالات پیدا ہورہے ہیں اس کے خوفناک نتائج سے وہ بھی محفوظ نہیں رہے گا.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جون 2017ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 21 جولائی 2017ء) موبائل فون کے عاریتاً استعمال سے دھو کہ کسی اجنبی یا شناسا کو بھی اپنا موبائل فون دینا اگر چہ اُس کی مدد کرنا تو ہے ہی لیکن ایسا کرنا انتہائی خطر ناک بھی ہوسکتا ہے.چنانچہ مُلک شام جو لمبے عرصہ سے خانہ جنگی کا شکار ہے، وہاں سے تعلق رکھنے والے ایک معصوم احمدی بھی ایسے ہی کسی دھوکہ کا شکار ہوئے.اُن کی نماز جنازہ کا اعلان کرتے ہوئے حضورانور 90
نے ارشاد فرمایا: میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.یہ مکرم عبد النور جابی صاحب سیر یا کا ہے 1989ء کی ان کی پیدائش ہے.غالباً ان کو وہاں کی حکومت نے گرفتار کر لیا.صحیح طرح پورے کو ائف بھی نہیں لکھے.بہر حال جو کوائف موجود ہیں اس کے مطابق چند ماہ قبل انہوں نے بزنس مینجمنٹ کی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی تھی.31 دسمبر 2013 ء کو وہاں حکومتی کارندوں نے ہی آپ کو گرفتار کیا تھا اور گرفتاری کی وجہ یہ تھی کہ کسی نے ان کا موبائل فون عاریتاً لے کر وہاں کے باغیوں کو فون کیا تھا.یہ سیر یا میں حالات خراب ہونے کے ابتدائی ایام کی بات ہے.جب کسی کو ضرورت کے وقت عاریتاً فون دینا اس وقت کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہوتی تھی تو بہر حال باغیوں میں سے کسی نے ان کا فون لے کر اپنے ساتھیوں سے مالی لین دین کی بات کی اور اس بارے میں فون کو تو حکومت کی ایجنسیاں انٹرسیپٹ (intercept) بھی کرتی ہیں، چیک کرتی ہیں.انہوں نے پکڑ لیا، تحقیق کے دوران یہ ثابت ہوا کہ آپ کے فون سے کال ہوئی تھی اور آپ کا باغیوں کے ساتھ رابطہ ہے.اس وجہ سے آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر شہید بھی کر دیا گیا.طبی رپورٹ کے مطابق مرحوم گرفتاری کے تیسرے روز ہی سر پر شدید چوٹ آنے کی وجہ سے فوت ہو گئے تھے کیونکہ یہ حکومتی پولیس والے بھی بڑا ٹارچر دیتے ہیں.جو باغیوں کا حال ہے وہی حکومت کے کارندوں کا بھی حال ہے.تاہم ان کی وفات کی خبر ان کے گھر والوں کو 22 فروری 2016ء کو 91
ملى - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ..خطبہ جمعہ فرمودہ 18 / مارچ 2016 بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 8 را پریل 2016ء) خلفاء کی تصاویر کا غلط استعمال اور بدعات سے اجتناب تصاویر کی اشاعت ( مثلاً سوشل میڈیا پر تصاویر کے استعمال کے ساتھ ) بدعات پھیلنے کے خطرناک اثرات کو بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو تفصیل سے نصائح فرمائی ہیں.ایک موقع پر فرمایا: "حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اپنی تصویر کھنچوائی لیکن جب ایک کارڈ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا (پوسٹ کارڈ تھا) جس پر آپ کی تصویر تھی تو آپ نے فرمایا کہ اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور جماعت کو ہدایت فرمائی کہ کوئی شخص ایسے کارڈ نہ خریدے.نتیجہ یہ ہوا کہ آئندہ کسی نے ایسا کرنے کی جرات نہ کی.(ماخوذ از خطبات محمودجلد 14 صفحہ 214) لیکن آجکل پھر بعض جگہوں پر بعض ٹویٹس (tweets) میں، واٹس ایپ (whatsapp) پر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ کہیں سے یہ پرانے کارڈ نکال کر یا پھر انہوں نے اپنے بزرگوں سے لئے یا بعضوں نے پرانی کتابوں کی دوکانوں سے خریدے اور پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں.تو یہ غلط طریق ہے اس کو بند 92
کرنا چاہئے.تصویر آپ نے اس لئے کھنچوائی تھی کہ دور دراز کے لوگ اور خاص طور پر یورپین لوگ جو چہرہ شناس ہوتے ہیں وہ آپ کی تصویر دیکھ کر سچائی کی تلاش کریں گے، اس کی جستجو کریں گے لیکن جب آپ نے دیکھا کہ لوگ کارڈ پر تصویر شائع کر کے یہ کاروبار کا ذریعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یا کہیں بنانہ لیں اور جب آپ نے محسوس کیا کہ اس سے بدعت نہ پھیلنی شروع ہو جائے ، یہ بدعت پھیلنے کا ذریعہ نہ بن جائے تو آپ نے سختی سے اس کو روک دیا بلکہ بعض جگہ آپ نے فرمایا کہ ان کو ضائع کروادیا جائے.پس وہ بعض لوگ جو تصویروں کا کاروبار کرتے ہیں، جنہوں نے تصویروں کو کاروبار کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور بے انتہا قیمتیں اس کی وصول کرتے ہیں ان کو توجہ کرنی چاہئے.پھر بعض ایسے بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر میں بعض رنگ بھر دیتے ہیں حالانکہ کوئی coloured تصویر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نہیں ہے.یہ بھی بالکل غلط چیز ہے اس سے بھی احتیاط کرنی چاہئے.اسی طرح خلفاء کی تصویروں کے غلط استعمال ہیں ان سے بھی بچنا چاہئے.ایک دفعہ سنیما اور بائی سکوپ کے بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ایک شوری میں بحث چل گئی تو اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ کہنا کہ سنیما یا ہائی سکوپ یا فونوگراف اپنی ذات میں برا ہے، صحیح نہیں.فونوگراف خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سنا ہے بلکہ اس کے لئے آپ نے خود ایک نظم لکھی اور پڑھوائی اور پھر یہاں کے ہندوؤں کو بلوا کر وہ نظم سنائی.یہ وہ نظم ہے 93
جس کا ایک شعر یہ ہے کہ آواز آ رہی ہے یہ فونو گراف سے ڈھونڈ و خدا کو دل سے ، نہ لاف و گزاف سے پس سینیما اپنی ذات میں برا نہیں.لوگ بڑا سوال کرتے ہیں کہ وہاں جانا گناہ تو نہیں ہے.یہ اپنی ذات میں برا نہیں ہے ) بلکہ اس زمانے میں اس کی جو صورتیں ہیں وہ مخرب اخلاق ہیں.اگر کوئی فلم کلی طور پر تبلیغی یا تعلیمی ہو اور اس میں کوئی حصہ تماشا وغیرہ کا نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں.“ (کوئی ڈرامے بازی نہ ہو.( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میری یہی رائے ہے کہ تماشا تبلیغی بھی ناجائز ہے.غلط طریق ہے.(ماخوذ ازرپورٹ مجلس مشاورت سال1939 صفحہ 86 ) پس اس بات سے ان لوگوں پر واضح ہو جانا چاہئے جو یہ کہتے ہیں کہ ایم ٹی ائے پر اگر پروگراموں میں بعض دفعہ میوزک آ جائے تو کوئی حرج نہیں یا 'وائس آف اسلام ریڈیو شروع ہوا ہے اُس پر بھی آجائے تو کوئی حرج نہیں.ان باتوں اور ان بدعات کو ختم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے.ہمیں اپنی سوچوں کو اس طرف ڈھالنا ہو گا جو آپ علیہ السلام کا مقصد تھا.نئی ایجادات سے فائدہ اٹھانا حرام نہیں، نہ یہ بدعات ہیں لیکن ان کا غلط استعمال بدعت بنادیتا ہے.بعض لوگ یہ تجویزیں بھی دیتے ہیں کہ ڈرامے کے رنگ میں تبلیغی پروگرام یا تربیتی پروگرام بنائے جائیں تو ان کا اثر ہوگا.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ اگر آپ ایک غلط بات میں داخل ہوں گے یا کوئی بھی غلط بات اپنے پروگراموں میں 94
داخل کریں گے تو کچھ عرصے بعد سوقسم کی بدعات مخود بخود داخل ہو جائیں گی.غیروں کے نزدیک تو شاید قرآن کریم بھی میوزک سے پڑھنا جائز ہے لیکن ایک احمدی نے بدعات کے خلاف جہاد کرنا ہے اس لئے ہمیں ان باتوں سے بچنا چاہئے اور بچنے کی بہت کوشش کرنی چاہئے.پھر فرمایا: ”ایک غیر احمدی نے ایک اخبار میں مضمون لکھا جو ایک لطیفہ تو ہے.اس سے ایک مولوی صاحب کی جہالت بھی ظاہر ہوتی ہے.لیکن ساتھ ہی ان کی سوچوں کا بھی پتا لگتا ہے کہ یہ اس چیز کو جائز سمجھتے ہیں.یہ لکھنے والا لکھتا ہے کہ ایک جگہ ایک عرب گلوکارہ عربی میں میوزک کے ساتھ گانا گار ہی تھی.مولوی صاحب کو بھی وہاں لے گئے.وہ بڑے جھوم جھوم کر وہ سن رہے تھے.تو انہوں نے پوچھا کہ مولوی صاحب آپ اس عربی پہ اتنا جھوم کیوں رہے ہیں.کہتے ہیں که سبحان اللہ اور ساتھ ساتھ سبحان اللہ اور ماشاء اللہ اور اللہ اکبر بھی پڑھتے جائیں.انہوں نے کہا جھوم کیوں رہے ہیں؟ کہتا ہے دیکھو.دیکھ نہیں رہے تم کتنی خوبصورت آواز میں قرآن کریم پڑھ رہی ہے.اس گانے کو انہوں نے کیونکہ وہ عربی میں تھا قرآن کریم بنادیا.تو جب یہ بدعات پھیلتی ہیں تو سوچیں بھی اسی طرح تبدیل ہو جاتی ہیں.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 18 مارچ 2016ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن ) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8 را پریل 2016ء) 95
سوشل میڈیا کی افادیت MTA کی برکات MTA.خلافت سے جوڑنے کا ذریعہ MTA کے ذریعہ تبلیغ مخالفت جماعتی ترقی میں روک نہیں بن سکتی رسالہ ریویو آف ریلیجنر“ کے ذریعہ اسلام کا پیغام الاسلام ڈاٹ آرگ - اشاعتِ اسلام کا ذریعہ خطبہ جمعہ.ایک روحانی مائدہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہونے ہیں والتهرب نظراً 96
حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے خطابات میں بار ہا تو جہ دلائی ہے کہ مواصلاتی ایجادات کو دین سے مضبوط تعلق قائم کرنے کے لئے استعمال کریں تا کہ علمی اور روحانی مائدوں سے فیضیاب ہوسکیں.یہی ذرائع دنیا کی سعید فطرت روحوں کو راستی کی طرف کھینچ کر اسلام کی آغوش میں لا رہے ہیں.MTA کی برکات مسلم ٹیلی وژن احمد یہ انٹرنیشنل روحانی مائندوں کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی برکات زمین کے کناروں تک وسیع ہیں.اس سے فیضیاب ہونے کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ نے نصائح کرتے ہوئے فرمایا: پس جس دور میں سے ہم گزر رہے ہیں اور کسی ایک ملک کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا کا یہ حال ہے.میڈیا نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے اور بد قسمتی سے نیکیوں میں قریب کرنے کی بجائے شیطان کے پیچھے چلنے میں زیادہ قریب کر دیا ہے.ایسے حالات میں ایک احمدی کو بہت زیادہ بڑھ کر اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے عطا فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں جماعت کے روحانی علمی پروگراموں کے لئے ویب سائٹ بھی عطا فرمائی.اگر ہم اپنی زیادہ توجہ اس طرف کریں تو پھر ہی ہماری توجہ اس طرف رہے گی جس سے ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے والے ہوں گے اور 97
شیطان سے بچنے والے ہوں گے.“ 66 ( خطبہ جمعہ فرمودہ 20 مئی 2016، مسجد ناصر، گوٹن برگ ، سویڈن) سیح ( مطبوع الفضل انٹرنیشنل 10 جون 2016ء) سید نا حضرت امیر المومنین خلیفة اسمع الخامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ آسٹریلیا منعقدہ دسمبر 2015 ء کے موقع پر احباب جماعت کو جو پیغام ارسال فرمایا، اُس کا اختتام ان الفاظ سے فرمایا: میں نے بار بار تمام دنیا کے احمدیوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ MTA پر جو پروگرام آتے ہیں ان کو دیکھیں.والدین بھی اس طرف توجہ کریں اور اپنی اولاد کو بھی ایم ٹی اے سے وابستہ کریں.یہ بھی ایک روحانی مائدہ ہے جو آپ کی روحانی بقا کا ذریعہ ہے.اس سے آپ کا دینی علم بڑھے گا.روحانیت میں ترقی ہو گی اور خلافت سے کامل تعلق پیدا ہو گا اور دنیا کے دوسرے چینلز کے زہریلے اثر سے بھی محفوظ رہیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو میری ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق بخشے.آمین.“ پیغام برائے جلسہ سالانہ آسٹریلیا 24 دسمبر 2015ء) ( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 15 جولائی 2016ء) اسی طرح خاص طور پر لجنہ اماءاللہ کو ایم ٹی اے کی برکات سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی تلقین کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا: جیسا کہ میں نے آج کہا ہے کہ ہم اپنی تعلیمات کو پھیلانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی مدد لے سکتے ہیں.MTA کے علاوہ جماعتی ویب سائٹس بھی ہیں جن دو 98
پر علم اور معلومات سے بھر پور پروگرام اور کتابیں با آسانی دستیاب ہیں.آپ کو ان ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے علم میں مستقل اضافہ کرنا چاہیئے.لجنہ اماءاللہ کی ہر ممبر کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑ دے اور باقاعدگی سے اس کے پروگرام دیکھیں.کم از کم اس بات کو یقینی بنائیں کہ میرا خطبہ جمعہ اور خلیفہ اس کے دیگر پروگرام ضرور دیکھیں اور اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اُن کے بچے بھی بیٹھ کر یہ پروگرام ضرور دیکھیں.جو بچیاں یہاں یو کے میں پلی بڑھی ہیں انہیں چاہئے کہ وہ بھی اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ایم ٹی اے اور جماعتی ویب سائٹس سے منسلک رہیں.انہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ وہ خلیفہ وقت کے پروگرام ضرور دیکھیں کیونکہ یہ ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کا باعث بھی ہونگے اور دین کے بارہ میں ان کا علم بھی بڑھے گا.دنیا کہ ہر حصہ کے لوگ ایم ٹی اے کے ذریعہ سچائی کو پہچان کر احمدیت کی آغوش میں آرہے ہیں.جیسا کہ کچھ عرصہ قبل فرانس کے نزدیک ایک نہایت ہی چھوٹے سے جزیرہ میں رہنے والے ایک شخص نے لکھا کہ اتفاق سے ایم ٹی اے دیکھنے کا موقع ملا اور اس وقت میرا خطبہ نشر ہو رہا تھا.اس خطبہ میں میں نے وفات مسیح کا ذکر کیا تو اس کو سن کر اس شخص نے کہا کہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہ درست تعلیم ہے.پھر اس نے انٹرنیٹ پر جماعت کے متعلق ریسرچ کی اور youtube پر ہمارے پروگرام دیکھے اور اس کے بعد اس نے کہا کہ مجھے احمدیت کی سچائی کا یقین ہو گیا اور یوں اللہ کے فضل سے اس نے بیعت کر لی.99
ایسا ہی کئی خواتین ہیں جو ہماری جماعت میں شامل ہوئیں اور وہ اپنے ایمان پر بہت پختہ ہیں.(اردو ترجمه خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 25 اکتوبر 2015ء) ( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 25 مارچ 2016ء) MTA خلافت سے جوڑنے کا ذریعہ مسلم ٹیلی وژن احمد یہ ایک نعمت عظمیٰ سے کم نہیں جس سے ہر ممکن فائدہ اٹھانا چاہئے.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس زمانے میں جیسا کہ میں نے مثالیں بھی دی ہیں، بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی طرف لے جاتی ہیں.ان کا صحیح استعمال برا نہیں ہے، لیکن ان کا غلط استعمال برائیوں کے پھیلانے، غلاظتوں کے پھیلانے، گناہوں کے پھیلانے کا بہت بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے.لیکن یہی چیزیں نیکیوں کو پھیلانے کا بھی ذریعہ ہیں.ٹی وی ہے، معلوماتی اور علمی باتیں بھی بتاتا ہے لیکن بے حیائیاں بھی اس کی وجہ سے عام ہیں.اس زمانے میں ٹی وی کا سب سے بہتر استعمال تو ہم احمدی کر رہے ہیں یا جماعت احمدیہ کر رہی ہے.میں نے جلسوں کے دنوں میں بھی توجہ دلائی تھی اور اُس کا بعض لوگوں پر اثر کبھی ہوا اور انہوں نے مجھے کہا کہ پہلے ہم ایم ٹی اے نہیں دیکھا کرتے تھے، اب آپ کے کہنے پر، توجہ دلانے پر ہم نے ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا ہے تو افسوس کرتے ہیں کہ پہلے 100
کیوں نہ اس کو دیکھا ، کیوں نہ ہم اس کے ساتھ جڑے.بعضوں نے یہ اظہار کیا کہ ہفتہ دس دن میں ہی ہمارے اندر روحانی اور علمی معیار میں اضافہ ہوا ہے.جماعت کے بارے میں ہمیں صحیح پتہ چلا ہے.پس پھر میں یاد دہانی کروارہا ہوں ، اس طرف بہت توجہ کریں، اپنے گھروں کو اس انعام سے فائدہ اٹھانے والا بنائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری تربیت کے لئے ہمارے علمی اور روحانی اضافے کے لئے ہمیں دیا ہے تا کہ ہماری نسلیں احمدیت پر قائم رہنے والی ہوں.پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑیں.اب خطبات کے علاوہ اور بھی بہت سے لائیو پروگرام آرہے ہیں جو جہاں دینی اور روحانی ترقی کا باعث ہیں وہاں علمی ترقی کا بھی باعث ہیں.جماعت اس پر لاکھوں ڈالر ہر سال خرچ کرتی ہے اس لئے کہ جماعت کے افراد کی تربیت ہو.اگر افراد جماعت اس سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو اپنے آپ کو محروم کریں گے.غیر تو اس سے اب بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور جماعت کی سچائی اُن پر واضح ہورہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور اسلام کی حقانیت کا انہیں پتہ چل رہا ہے اور صحیح ادراک ہو رہا ہے.پس یہاں کے رہنے والے احمدیوں کو بھی اور دنیا کے رہنے والے احمدیوں کو بھی ایم ٹی اے سے بھر پور استفادہ کرنا چاہئے.ایم ٹی اے کی ایک اور برکت بھی ہے کہ یہ جماعت کو خلافت کی برکات سے جوڑنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے.پس اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.“ ( خطبه جمعه فرموده 18 اکتوبر 2013ء بمقام مسجد بیت الہدی ، سڈنی.آسٹریلیا ) ( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 8 نومبر 2013ء) (101
احمدی بچیوں کی تربیت کے لئے حضور انور ایدہ اللہ نے بارہا ارشادات سے نوازا ہے.اسی حوالہ سے اپنے ایک پیغام میں فرمایا: لجنہ اماء اللہ بھی جماعت کی ذیلی تنظیموں میں سے ایک ہے جس کی آگے ایک شاخ ناصرات الاحمدیہ کہلاتی ہے جو پندرہ سال تک کی احمدی بچیوں کی تنظیم ہے.پس آپ خدا کے فضل سے جماعت کے مستحکم اور فعالی تنظیمی ڈھانچے کا حصہ ہیں جس کا کام اسلام اور احمدیت کی تعلیمات سے سب دنیا کو آگاہ کرنا ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کی دینی معلومات وسیع ہوں.اپنے عقائد سے بخوبی واقفیت ہو اور اسلامی تعلیمات کی پابندی کرتی ہوں.مثلاً حیادار لباس پہنیں، کوٹ و برقع کی عمر ہو تو اس کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلیں.بیہودہ مجالس، غیر اخلاقی دوستیوں اور انٹرنیٹ اور موبائل فون وغیرہ کی برائیوں سے خود کو بچا کر رکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ”کشتی نوح میں بد رفیق اور خراب مجلسوں کو نہ چھوڑنے والوں کو بڑا سخت انذار فرمایا ہے.پس اس تعلیم کو ہمیشہ یادرکھیں.ناصرات کی عمر تعلیم کی عمر ہے.اپنی تعلیم پر خاص دھیان دیں اور بہتر مستقبل کے لئے محنت کریں اور دعاؤں سے کام لیں.آپ اپنی مصروفیات ایسی بنائیں جن سے آپ کی دین سے محبت ظاہر ہوتی ہو.مثلاً ہر جمعہ کو جب میرا خطبہ ایم ٹی اے پر نشر ہو تو اسے سننے کا اہتمام کریں.کچھ باتیں ساتھ ساتھ نوٹ بھی کریں تا کہ پوری توجہ خطبے کی طرف مرکوز رہے.جن باتوں کی سمجھ نہ آئے گھر میں کسی بڑے (102)
سے پوچھ لیں.اس سے آپ کا خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق قائم ہو جائے گا.دینی علم بڑھے گا.سوچ اور خیالات پاک ہوجائیں گے اور خدمتِ دین اور جماعتی پروگراموں میں شمولیت کا جذ بہ تقویت پائے گا.یاد رکھیں کہ آپ جتنا اپنے آپ کو دین کے قریب رکھیں گی اتنا معاشرتی آلودگیوں سے محفوظ رہ سکیں گی.اسی سے سکونِ قلب عطا ہوگا.تبلیغ کریں گی تو بات میں اثر ہوگا.“ پیغام برائے لجنہ اماءاللہ جرمنی مطبوعہ سہ ماہی رسالہ گلدستہ 20 / مارچ2017ء) ( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 9 جون 2017ء) MTA کے ذریعہ تبلیغ ایم ٹی اے کے ذریعہ جماعتی ترقیات کا بھی بیان ہوتا ہے اور دعوت الی اللہ کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے جس کے نتیجہ میں خواتین بھی فیضیاب ہو رہی ہیں.اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا: ” میں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کام آسان کرنے کی بات کی ہے تو آج بھی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ دنیا کے سینے کھول رہا ہے جن میں عورتیں بھی شامل ہیں.میں نے صرف چند عورتوں کی مثالیں لی ہیں جنہیں اللہ اُن لوگوں میں شامل فرما رہا ہے جو خیر امت بننے کا حق ادا کرنے کے لئے آگے بڑھ رہی ہیں.شام سے ہماری ایک حلوانی صاحبہ ہیں وہ اپنی خواہیں بیان کرتی ہیں.کہتی 103
ہیں کہ میں نے پہلی خواب میں علماء کا ایک مجموعہ دیکھا اور یوں لگتا ہے کہ وہ الحوار المباشر میں ( جو ہمارا ایم ٹی اے کا عربی کا پروگرام ہے ) بیٹھے ہوئے ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے بارے میں بتا رہے ہیں.بیدار ہونے کے بعد میرے ذہن میں صرف پنجاب کا لفظ محفوظ رہا جو میں نے اس سے قبل کبھی نہیں سنا تھا.چنانچہ میں نے اپنی ایک احمدی سہیلی کو خواب سنانے کے بعد اس لفظ کا مطلب پوچھا تو وہ بہت حیران ہوئیں.اس کے کچھ عرصے کے بعد میں نے ایک اور خواب میں ایک نور دیکھا جو ایک ایسے شخص کے حلیے میں تھا جو پگڑی پہنے ہوئے ہے اور دوزانو ہو کر بیٹھا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ میں مہدی ہوں.جب میں بیدار ہوئی تو بہت خوش تھی اور میں نے بیعت کا اظہار کیا لیکن کسی وجہ سے میری بیعت لیٹ ہو گئی.کہتی ہیں تیسری خواب میں میں نے دیکھا کہ میں دن کے وقت آرام کی غرض سے لیٹی ہوئی ہوں اور ایک آواز مجھے مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ میں تیسری دفعہ تمہیں کہہ رہا ہوں کہ میں مہدی ہوں.تمہیں کس کا انتظار ہے؟ اس کے بعد میری بیٹی نے مجھے جگایا اور میں حیران و پریشان تھی.چنانچہ میں نے جلد بیعت کرلی.“ ( خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ بمقام منہائم ، جرمنی 17 ستمبر 2011ء) ( مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16 نومبر 2012ء) ایک افریقی نوجوان کی ایم ٹی اے سے محبت اور اس سے استفادہ کرنے کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ بیان فرماتے ہیں: میں آئیوری کوسٹ کے ایک شہر میں بسنے والے ایک نوجوان 104
Bassam نامی کی مثال پیش کرتا ہوں.اُس نے بتایا کہ وہ ایک غیر احمدی مسلمان تھا اور اس کی اسلام میں بہت دلچپسی تھی.وہ غیر احمد یوں کی مساجد میں جایا کرتا تھا لیکن وہ مسلمان ذاتی رنجشوں میں ملوث رہتے.یہ دیکھ کر وہ بہت دل شکستہ ہو جاتا.اُسے بہت دُکھ ہوتا اور وہ اس بات پر بہت افسوس بھی کرتا تھا.کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے جماعت احمدیہ سے متعارف کروایا گیا.چنانچہ وہ اپنی نمازیں ہماری مسجد میں ادا کر نے لگ گیا اور لوکل درس القرآن بھی سنتا اور ساتھ ساتھ لوکل احمدیوں نے اُسے تبلیغ بھی کی.جلد ہی اس پر احمدیت کی سچائی ظاہر ہوگئی اور اس نے بیعت کر لی.لیکن اس نے صرف بیعت پر ہی اکتفا نہ کیا اور نہ ہی اُس نے فقط بیعت کرنا کافی سمجھا بلکہ وہ تندہی کے ساتھ لوکل مسجد میں ایم ٹی اے دیکھتا رہا اور ایم ٹی اے دیکھنے کے نتیجہ میں وہ اتنا متاثر ہوا کہ چند مہینوں میں ہی پیسے جمع کر کے اپنے گھر میں سیٹلائیٹ ڈش لگوالی.اُس نے بتایا کہ ہر پروگرام جو وہ جماعت احمدیہ کے بارہ میں دیکھتا اُس کے ایمان میں اضافہ کا باعث بنتا.گو کہ وہ فرانسیسی زبان ہوتا ہے لیکن وہ ایسے پروگرام بھی دیکھتا جو فرانسیسی زبان میں نہیں تھے اور اُس نے ایم ٹی اے کا schedule مکمل حفظ کرلیا تھا.اُس نے بتایا کہ میرے خطبات اُس کے لئے خاص طور پر اطمینانِ قلب کا باعث ہوتے اور اسی قسم کے دوسرے پروگرام بھی.پس ہر احمدی مسلمان کو ایم ٹی اے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کو پہچاننا چاہئے اور اس کی ہرگز نا قدری نہیں کرنی چاہئے.105
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق دنیا مختلف ادوار سے گزری ہے اور اب اسلام اُس دائمی خلافت کے دور میں داخل ہوا ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے.اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ خلافت کے ساتھ اپنا بندھن اور تعلق مضبوط کرے اور آئیوری کوسٹ کے نو جوان کے نمونہ پر چلے.اس نے یہ بھی بتایا کہ حضرت خلیفہ اسیح کے خطبہ جمعہ یا حضرت خلیفہ اسیح کے کسی پروگرام میں اُس نے کوئی ناغہ نہیں کیا اور ہر پروگرام دیکھا ہے.اسے ہمیشہ ایسے نکات مل جاتے ہیں جو اُس کے ایمان میں مزید اضافہ کا باعث بنتے ہیں.اس لئے ہر احمدی نوجوان کو اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے اُس انعام کا حقیقی شکر گزار ہونا چاہئے جو اس نے ہمیں ایم ٹی اے کی صورت میں دیا ہے.ہمیں چاہئے کہ ہم ایم ٹی اے کے ساتھ مجھڑ جائیں.اللہ تعالی کے فضل سے مختلف موضوعات پر مشتمل اور مختلف حالات و واقعات کی روشنی میں ایم ٹی اے شاندار پروگرامز تیار کر رہا ہے.آپ کو چاہئے کہ ان پروگراموں کو دیکھ کر مختلف معاملات پر اور مختلف مسائل پر اسلام کے نقطۂ نظر کو مجھیں تا کہ آپ کے دینی علم میں بھی اضافہ ہو.اور اس طرح انشاء اللہ آپ کا اسلام اور جماعت سے بندھن بھی مضبوط ہو جائے گا.“ 66 اردو ترجمہ خطاب بر موقع نیشنل اجتماع خدام الاحمدیہ یو کے 14 رجون 2015ء ٹلفورڈ) مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14 اپریل 2017ء) بے شمار دوسرے افراد کی طرح ایک عرب کی بھی اسلام احمدیت میں شمولیت کا باعث ایم ٹی اے بنا.حضور انور نے اُن کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: 106
اُردن کے ایک احمد صاحب ہیں کہتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ اُن کا جماعت سے تعارف ہوا اور اس پر پیش کئے جانے والے مفاہیم کوسن کر دلی طور پر مطمئن ہو کر انہوں نے خدا تعالی سے رہنمائی کی دعا کی.اس دعا کے بعد وہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر فجر کی اذان دے رہا ہے.اس نے اذان مکمل کرنے کے بعد کچھ اس طرح کہا کہ حتى على الاحمديه حتى على الاحمدیه یعنی احمدیت کی طرف آؤ.احمدیت کی طرف آؤ.مؤذن نے رویا میں اور بھی جملے کہے لیکن مجھے صرف یہی یادر ہے.عجیب بات ہے کہ جب میں جاگا تو محلے کی مسجد میں مؤذن فجر کی اذان دے رہا تھا.اس واضح رؤیا کے بعد میں نے بیعت کا فیصلہ کرلیا.چنانچہ اپنے بیٹوں اور دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ میں نے بیعت کی.“ ( خطاب جلسہ سالانہ یو کے 13 اگست 2016ء) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20 جنوری 2017ء) ایم ٹی اے کے نتیجہ میں واقع ہونے والی ایک اور روحانی تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ گاؤں مامت فانہ (Mamt Fanna) میں مولویوں کی وجہ سے جماعت کی شدید مخالفت ہوئی.گاؤں میں جن لوگوں نے احمدیت قبول کی تھی انہوں نے ایم ٹی اے لگوالیا اور پروگرام دیکھنے لگے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ احمدیت میں لوگوں کی دلچسپی بڑھنے لگی اور آہستہ آہستہ مخالفین بھی ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھنے لگے اور لوگ جو جماعت کے شدید مخالف تھے (107)
جب خطبہ سنتے اور دیکھتے تو انہوں نے کہا کہ اس شخص کی مخالفت تو نہیں ہونی چاہئے اور کہتے ہیں اس جگہ پر 350 افراد نے احمدیت قبول کی.امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کی مامت فانہ گاؤں میں ایک خاتون احمدی ہوئیں اور ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھنے شروع کئے.موصوفہ کے خاوند احمدیت کے شدید مخالف تھے.انہوں نے گھر میں جماعت اور خلافت کے بارے میں بات کی تو وہ خاوند غصے میں آگیا اور کہا کہ آج کے بعد گھر میں احمدیت کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی اور لوگوں کی موجودگی میں بیوی کو سخت بُرا بھلا کہا.موصوفہ نے حوصلے اور صبر کے ساتھ خاوند کی بات سن لی لیکن ثابت قدمی سے احمدیت کو تھامے رکھا اور مسلسل ایم ٹی اے دیکھتی رہیں.کچھ عرصے کے بعد خاوند نے بھی ایم ٹی اے دیکھنا شروع کر دیا، چنانچہ اس کے نتیجہ میں ایک ماہ کے بعد موصوفہ کے خاوند نے بھی احمدیت قبول کرلی.( خطاب جلسہ سالانہ یو کے 22 اگست 2015ء) ( مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 12 فروری 2016ء) مخالفت جماعتی ترقی میں روک نہیں بن سکتی مخالفین احمدیت کتب ورسائل پر پابندی لگا کر احمدیت کی تبلیغ روک دینے کا گمان کر لیتے ہیں.لیکن میڈیا کے دیگر ذرائع سے خدا تعالیٰ احمدیت کی آواز کو زمین کے کناروں تک پہنچاتا چلا جارہا ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پنجاب 108
حکومت کی طرف سے کی جانے والی ایک معاندانہ کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے یہ حقیقت یوں بیان فرمائی ہے: گزشتہ جمعہ میں میں نے بتایا تھا کہ پنجاب حکومت نے جماعت کے بعض جرائد اور کتب پر پابندی لگائی ہے کہ ان کی اشاعت نہیں ہو سکتی یا ڈسپلے (display) وغیرہ نہیں ہو سکتا اور اس بات کی وہاں کی بعض اخبارات نے خبریں بھی دیں.آجکل فون پر ہی تصویری عکس، میسیج.(messages) اور مختلف قسم کے پیغام بھیجنے کے جو طریقے ہیں ان کے ذریعہ سے منٹوں میں خبریں دنیا میں گردش کر جاتی ہیں.یہ سن کے ، دیکھ کے مجھے بھی لوگ خط لکھتے ہیں.فیکس وغیرہ کے ذریعہ سے پریشانی کا اظہار کرتے ہیں.ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ باتیں کوئی نئی چیز نہیں ہیں.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ان نام نہاد علماء کے کہنے پر اسی طرح کی حرکتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں.اور ابتدا سے ہی جب ہے کہ جماعت احمد یہ قائم ہے اس قسم کی حرکتیں یہ لوگ کرتے چلے آرہے ہیں اور کرتے رہیں گے.ان حرکتوں سے نہ پہلے کبھی جماعت کو نقصان پہنچا اور نہ انشاء اللہ تعالی آئندہ کبھی پہنچے گا نہ ہی یہ پہنچا سکتے ہیں.نہ ہی کسی ماں نے وہ بچہ جنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خدائی مشن کو ان باتوں سے روک سکے.ان علماء نام نہاد علماء اور ان کی طرف دیکھنے والی حکومتوں کو احمدیت کی ترقی دیکھ کر حسد کے اظہار کا کوئی بہانہ چاہئے.اس حسد میں یہ اتنے اندھے ہیں کہ ان کی عقل پر بالکل پر دے پڑ جاتے ہیں.بظاہر پڑھے لکھے لوگ 109
جاہلوں سے بڑھ کر اپنی حالتوں کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں.کبھی انہوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ دیکھیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم اور آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح بیان فرمایا ہے اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں یہ سب کچھ کس خوبصورتی سے پیش کیا جاتا ہے.انصاف پسند مسلمان جو ہیں، عربوں میں سے بھی اور دوسری قوموں میں سے بھی جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے، جب جماعت کا لٹریچر دیکھتے ہیں، کتب دیکھتے ہیں اور پھر پتا لگتا ہے کہ حقیقت کیا ہے تو حیران ہوتے ہیں کہ ان نام نہاد علماء نے جو اپنے آپ کو اسلام کا علمبر دار سمجھتے ہیں کس طرح جھوٹ اور فریب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خیالات کو، تعلیمات کو، آپ کی تحریرات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور کرتے چلے جا رہے ہیں.یہ دیکھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کی شان کو کس طرح بیان فرمایا ہے ہمارے ایم ٹی اے کے جو لائیو ٹی وی پروگرام ہوتے ہیں ان میں بھی اور خطوط کے ذریعہ سے بھی اکثر لوگ جو ابھی احمدی نہیں ہوئے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں اس مقام اور اس شان کا اب پتا لگا ہے.نہیں تو ان علماء نے تو ہمیں جہالت کے پردے میں رکھا ہوا تھا.لوگوں پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ احمدیت کی دشمنی میں یہ لوگ شعوری طور پر یالا شعوری طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے نام پر حرف لانے کا باعث بن رہے ہیں.110
بہر حال ان علماء کا تو دین ہی دشمنی اور فساد ہے.اس لئے کبھی یہ کوشش نہیں کریں گے کہ ہم حقیقت معلوم کریں چاہے اس کی وجہ سے سادہ لوح مسلمانوں میں جتنا بھی بگاڑ پیدا ہو جائے.بہر حال یہ تو ان کے کام ہیں یہ کرتے رہیں گے اور کرتے چلے جائیں گے کیونکہ ان کو دین سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات پیارے ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح ان مخالفین کے یہ عمل ہمارے ایمانوں میں جلاء پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق میں بڑھنے کے لئے کھاد کا کام دینے والے ہونے چاہئیں.اگر ہماری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کی طرف توجہ کم تھی تو اب زیادہ توجہ پیدا ہونی چاہئے.ایک پنجاب کی حکومت کی روک سے تو کیا تمام دنیا کی حکومتوں کی روکوں سے بھی یہ کام نہیں رک سکتا کیونکہ یہ انسانی کوششوں سے کئے جانے والے کام نہیں.یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو علم و معرفت کے خزانوں کے ساتھ بھیجا ہے اور کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے.ہمیشہ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ بڑی بڑی روکوں اور مخالفتوں کے بعد جماعت کی ترقی زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے.اپنے زعم میں ہمارے خلاف جو یہ قدم اٹھایا گیا ہے یہ تو ایک معمولی سی روک ہے.ہمیں تو جتنا دبایا جائے اتنا ہی اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کو بڑھاتا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ اب بھی بہتر ہوگا.اس لئے کوئی فکر کی بات نہیں ہے.اس لئے زیادہ فکر اور پر یشانی کی ضرورت نہیں کہ حضرت (111)
مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب اب تو دنیا کے اور ممالک میں بھی چھپ رہی ہیں.ویب سائٹ پر بھی میسر ہیں.آڈیو میں بھی بعض کتب میسر ہیں اور باقی بھی انشاء اللہ تعالیٰ جلدی مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی.ایک زمانہ تھا جب یہ فکر تھی کہ اشاعت پر پابندی سے نقصان ہو سکتا ہے.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ علم ومعرفت کے جو خزانے ہیں یہ فضاؤں میں پھیلے ہوئے ہیں جو ایک بٹن دبانے سے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور کتب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.ایم ٹی اے پر بھی میں نے اب سوچا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس پہلے سے زیادہ وقت بڑھا کر دیا جائے گا اور اس طرح پاکستان کے ایک صوبے کے قانون کی وجہ سے دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا فائدہ ہو جائے گا.ہر جو روک ہوتی ہے، مخالفت ہوتی ہے ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے.نئے راستوں اور ذرائع کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.اور پھر یہ بھی ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ کہ اس سے نہ صرف اصل زبان میں کتابیں چھپیں گی یا درس ہوں گے بلکہ بہت ساری قوموں کی مقامی زبانوں میں بھی یہ مواد میسر آ جائے گا.پس جن کے دلوں میں کسی بھی قسم کی پریشانی ہے کیونکہ لوگ لکھتے ہیں اس لئے مجھے کہنا پڑ رہا ہے وہ اپنے دلوں سے نکال دیں.( خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 2015ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) ( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 5 جون 2015ء) (112)
رساله ریویو آف ریجنز کے ذریعہ اسلام کا پیغام انگریزی دان طبقہ میں اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو رسالہ ( اردو اور انگریزی) دونوں زبانوں میں 1902ء میں قادیان سے جاری فرمایا تھا، وہ آج اسلام کے نور کو پرنٹ میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ بھی دنیا بھر کے (انگریزی ، جرمن اور فرنچ زبانوں کے ) اہل علم حضرات کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے.اس رسالہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں: ر یویو آف ریجنز (Review of Religions) جس کا اجراءحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1902ء میں فرمایا تھا اور اب اس کو 114 سال ہو گئے ہیں.اب اس کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جدید زمانے کے مختلف طریق اور ذرائع استعمال کرتے ہوئے تقریباً ایک ملٹی پلیٹ فارم پر لے آیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رسالے کے پرنٹ ایڈیشن، ویب سائٹ ،سوشل میڈیا، یوٹیوب اور دیگر نمائشوں کے ذریعہ ایک کثیر تعداد تک اسلام کا پیغام پہنچایا جا رہا ہے.ان مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعہ دس لاکھ سے زائدلوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچا ہے.“ ( خطاب جلسہ سالانہ یو کے 13 راگست 2016ء بمقام حدیقہ المہدی ، آلٹن) ( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 20 جنوری 2017ء) 113)
و الاسلام ڈاٹ آرگ - اشاعت اسلام کا ذریعہ الاسلام ڈاٹ آرگ (alislam.org) ایک ایسی ویب سائٹ ہے جس میں مختلف زبانوں میں تمام ضروری تبلیغی اور تربیتی مواد یکجا کر کے پیش کر دیا گیا ہے.اس کی افادیت کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس سے استفادہ کرتے رہتے ہیں.اس ویب سائٹ کو رضا کاروں کی ایک ٹیم ہمہ وقت بہتر سے بہتر بنانے کے لئے سرگرم عمل رہتی ہے.چنانچہ ایک خطبہ جمعہ میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ایک اور بات جس کا میں آج اظہار کرنا چاہتا ہوں.میں نے یہ بات قادیان کے جلسے کے اختتام پر بتانی تھی کہ alislam جو ہماری ویب سائٹ ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے ایک نیا اضافہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی خزائن کے نام سے جو کتب ہیں اُن سب کو ایک ایسے سرچ انجن (search engine) میں ڈالا ہے جس میں اگر آپ نے تلاش کرنا ہے تو آپ کوئی بھی لفظ ، مثلاً اللہ کا نام ہے، یسوع مسیح کا نام ہے، محمد کا نام ہے اس میں ڈالیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں، اُن کتب میں جوروحانی خزائن کی جلدوں میں ہیں جہاں بھی وہ نام استعمال ہوا ہے، وہ نام اور اقتباس سامنے آ جائیں گے.اور پھر اسے آپ سرچ کر کے جو انٹرنیٹ سے دلچسپی رکھنے والے یا alislam دیکھنے والے ہیں وہ مزید صفحہ بھی دیکھ سکتے (114)
ہیں جو اصل کتاب کا صفحہ ہے.تو یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے اور یہ بہت 66 مشکل کام تھا.اللہ کے فضل سے ہمارے نو جوانوں کی ٹیم نے یہ کیا ہے.“ مزید فرمایا: تو یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو انہوں نے کیا ہے.دیکھنے والے تو اتنا محسوس نہیں کرتے.ہر کتاب کو پڑھنا، ہر کتاب میں سے ہر لفظ کو تلاش کرنا اور پھر اس کا انڈیکس بنانا، پھر اس انڈیکس کے اقتباسات، پھر اس کے صفحے کا پروگرام بنانا ایک کافی بڑا کام تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان نوجوانوں نے کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور دنیا اس سے فائدہ اٹھانے والی ہو.معترضین تو آجکل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پر اعتراض کرتے رہتے ہیں لیکن اگر دیکھیں تو یہی ایک خزانہ ہے جو دنیا کی اصلاح کا باعث بن سکتا ہے.لیکن جن پر اثر نہیں ہوناوہ لوگ تو قرآنِ کریم کی آیات کا بھی استہزاء اڑاتے تھے ، اُن پر اثر نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل اور سمجھ دے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 31 دسمبر 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) ( مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 21 جنوری 2011ء) خطبہ جمعہ.ایک روحانی مائدہ مجلس شوری جماعت احمدیہ یو کے کے اختتامی خطاب میں سید نا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شوریٰ اراکین کو ایم ٹی اے سے زیادہ سے زیادہ مستفیذ ہونے 115
کی تلقین کرتے ہوئے خاص طور پر خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سننے کی نصیحت فرمائی.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ایک اور بات جس کی طرف میں عہدیداران اور نمائندگان مجلس شوری کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ انہیں اور ان کے افراد خانہ کو جتنا زیادہ ممکن ہو سکے MTA سے استفادہ کرنا چاہئے.بلکہ آپ لوگ دیگر دوستوں کو بھی MTA سے فائدہ اٹھانے کی تلقین کریں.ابتدائی طور پر آپ ایسا کر سکتے ہیں کہ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت MTA پر اپنی دلچسپی کے پروگرامز دیکھنے کے لئے مخصوص کرلیں.مثلاً ایسے دوست جو انگریزی پروگرام سننا پسند کرتے ہیں ان کے لئے بعض بہت عمدہ انگریزی پروگرامز ہیں جو روزانہ کی بنیادوں پر MTA سے نشر کئے جاتے ہیں.انہیں وہ پروگرامز باقاعدگی سے دیکھنے چاہئیں“.سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ لوگ ہر جمعہ کو نشر ہونے والا خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنیں.اور دیگر ایسے پروگرامز بھی دیکھیں جن میں میری شمولیت ہوتی ہے جیسا کہ غیر مسلموں سے خطابات ہیں ،جلسہ پر کی جانے والی میری تقریریں ہیں یا دیگر مجالس وغیرہ.ان پروگرامز کو دیکھنا انشاء اللہ آپ لوگوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا اور اسی مقصد سے آپ لوگوں کو یہ پروگرامز دیکھنے چاہئیں.(اردو ترجمه از اختتامی خطاب مجلس شوریٰ یو کے 16 جون 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن ) ( مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 25 اکتوبر 2013ء) (116)
نیشنل اجتماع و اقلین کو جماعت احمد یہ برطانیہ کے موقع پر حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختتامی خطاب میں مختلف امور سے متعلق زریں نصائح ارشاد فرمائیں.اس خطاب میں حضور انور نے خطبات جمعہ سے استفادہ کرنے کی نصیحت خاص طور پر فرمائی کیونکہ اس کے ذریعے احباب جماعت کا خلیفہ وقت سے ایک مضبوط تعلق قائم ہوسکتا ہے.حضور انور نے ارشاد فرمایا: " آپ کا اس بات پر بھی کامل ایمان ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس دور میں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں تکمیل اشاعت اسلام کے ذرائع اور وسائل پیدا کئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دین مکمل ہو چکا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم البنین تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کی مہر تھے.لیکن اسلام کے پیغام کو تمام دنیا میں پھیلانے کے وسائل اور ذرائع ابھی ظہور میں نہیں آئے تھے.مثلاً میڈیا یا اور دوسرے ذرائع جن سے پیغام کو پھیلایا جا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں ایسے ذرائع اور وسائل مہیا ہو گئے ہیں جیسا کہ میڈیا ، ٹیلی وژن ، پریس وغیرہ جن سے اسلام کے پیغام کی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تشہیر ممکن ہو گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل کے ساتھ آج جماعت احمدیہ کو بھی یہ ذرائع عطا فرمائے ہیں تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دنیا میں پھیلایا جا سکے.اس لئے ہر فرد جماعت کا یہ فرض ہے چاہے وہ دنیا کے کسی خطہ کا باشندہ ہو کہ وہ ان جدید وسائل کا بھر پور اور صحیح طریق پر 117)
استعمال کرے.افراد جماعت کو چاہئے کہ وہ پوری کوشش کریں کہ اسلام کا پیغام ہر سمت میں اور دنیا کے ہر خطہ میں پہنچ جائے.اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے بھی وارث ٹھہریں گے جو اللہ تعالیٰ نے اس دور میں جماعت احمدیہ کے ساتھ منسوب کر دئیے ہیں.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبات جمعہ سے براہ راست استفادہ کرنے کے لئے نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا : اس کے علاوہ آپ میں یہ کامل اور غیر متزلزل اور ہر شک و شبہ سے پاک یقین ہونا چاہئے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق سچی اور حقیقی خلافت کا نظام قائم کیا جا چکا ہے جس کی کامل اطاعت اور پیروی آپ پر فرض ہے.خلافت کی اطاعت اور خلیفہ وقت کی ہدایات کی تعمیل کا ایک بہت اہم ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم فضل و احسان کی صورت میں قائم کیا ہوا ذریعہ ہے.اور وہ ایم ٹی اے ہے.اس لئے آپ جہاں کہیں ہوں آپ کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ میرا ہر خطبہ ضرور سنیں خواہ وہ کسی بھی ذریعہ سے ہو.چاہے وہ ٹیلی وژن کے ذریعہ ہو ، laptop کے ذریعہ ہو یا آپ کے موبائل فون کے ذریعہ ہو.اس دور میں کوئی بھی یہ جائز عذر نہیں کر سکتا کہ وہ پیغام یا تعلیمات کو موصول کرنے سے قاصر رہا ہے.نشر و اشاعت کے جدید وسائل کی بدولت اب ہر چیز تک رسائی با آسانی اور فورا ایک بٹن کے دبانے سے ممکن 118
ہو چکی ہے.اس لئے جہاں تک میرے مخطبات کا تعلق ہے ان تک بھی آپ کی رسائی اور دسترس مختلف ذرائع سے ہو سکتی ہے.آپ میرے خطبات ایم ٹی اے پر سن سکتے ہیں یا اس کے علاوہ آپ ایم ٹی اے کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں اور ایم ٹی اے کی on demand سروس کے ذریعہ بھی میرے خطبات کو سن سکتے ہیں.اس کے علاوہ ایم ٹی اے کے کئی دوسرے پروگرامز بھی آپ کے لئے دیکھنا بہت ضروری ہیں.ان پروگراموں کے ذریعہ آپ کا دینی علم بڑھے گا اور اس طرح آپ کا خلافت سے بھی تعلق پختہ اور مضبوط ہوگا.اپنے دینی علم کو بڑھانے کا ایک اور ذریعہ alislam ویب سائٹ بھی ہے جہاں وسیع پیمانے پر علمی مواد میسر ہے.آپ میں سے جو پختہ عمر کو پہنچ گئے ہیں انہیں جہاں تک بھی ممکن ہو اپنے آپ کو ان تمام مختلف وسائل اور ذرائع سے جوڑ دینے کی کوشش کرنی چاہئے.ایسا کرتے ہوئے جہاں آپ اپنے علم کو بڑھا رہے ہوں گے وہاں آپ کو چاہئے کہ ان ذرائع کو خلافت کے ساتھ بھی اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال میں لائیں.اور اپنی اس ذمہ داری کو نبھائیں کہ آپ دین کو دنیا کی ہر چیز پر مقدم رکھیں گے.اس دور میں بیشمار ایسے پروگرام ہیں جو ٹی وی ، ویب سائٹس اور انٹرنیٹ وغیرہ پر دستیاب ہیں جو ایک انسان کی توجہ مسلسل اپنی طرف کھینچتے ہیں.ان کا استعمال ایک لامتناہی کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے.اگر آپ یہ کہیں گے کہ ہمیں پہلے اپنے دنیاوی کاموں کو مکمل کرنا ہے اور پھر ٹی وی پر یاstreaming کے ذریعہ ایم ٹی اے دیکھیں گے تو آپ کو 119)
کبھی ایم ٹی اے دیکھنے کا وقت نہیں ملے گا.یہ وسائل اور ذرائع آپ کے علم کو بڑھانے میں فائدہ مند ثابت ہوں گے لیکن اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے آپ کو بہر حال اپنے دین کو مقدم رکھنا ہو گا.اور اپنی دنیوی مصروفیات اور پروگراموں پر دین کو ترجیح دینی ہوگی." نیشنل اجتماع واقفین کو جماعت احمد یہ برطانیہ یکم مارچ 2015ء) ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22 جولائی 2016ء) خلافت احمدیہ کے ساتھ احباب جماعت کا ایم ٹی اے کے ذریعہ عالمی سطح پر جو مضبوط تعلق استوار ہورہا ہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: اس زمانہ میں تو اللہ تعالیٰ نے اور بھی آسانی ہمارے لئے پیدا فرما دی ہے.ایک تو اپنی تربیت اور خلافت سے مضبوط تعلق کے لئے ہر احمدی کو ایم ٹی اے سننے کی ضرورت ہے اس کی عادت ڈالنی چاہئے.دوسرے تبلیغ کے لئے جو ایم ٹی اے اور ویب سائٹ پر پروگرام ہیں وہ بھی دوسروں کو بتانے چاہئیں.اپنے دوستوں کے ساتھ بعض دفعہ موقع ملتا ہے تو بیٹھ کے دیکھنے چاہئیں.دوستوں کو ان کا تعارف کروانا چاہئے.بہت سارے خط مجھے ابھی بھی آتے ہیں کہ جب سے ہم نے ایم ٹی اے پر کم از کم خطبات ہی باقاعدہ سننے شروع کئے ہیں ہمارا جماعت سے مضبوط تعلق ہو رہا ہے.ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہورہی ہے.پس آجکل ایم ٹی اے اور اسی طرح alislam کی جو ویب سائٹ ہے، یہ بڑا اچھا 120
ذریعہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ کو بھی پہنچانے کا ذریعہ ہیں اور ہر احمدی کی تربیت اور خلافت سے جوڑنے اور جماعت سے جوڑنے کا بھی ذریعہ ہیں.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس کے ساتھ بجڑنے کی کوشش کریں.( خطبه جمعه فرموده 4 / مارچ 2016ء مسجد بیت الفتوح ، لندن) ) مطبوع الفضل انٹرنیشنل 25 مارچ 2016ء) احباب جماعت کو اپنی اصلاح اور عملی حالتوں کو بہتر بنانے کے حوالہ سے خطبات جمعہ کی افادیت بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں یوں نصیحت فرمائی: بیشک جیسا کہ میں نے کہا، خلفائے احمدیت عملی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں.گزشتہ خلفاء بھی اور میں بھی خطبات وغیرہ کے ذریعہ اس نقص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں اور ان ہدایات کی روشنی میں ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی پروگرام بناتے ہیں تا کہ ہم ہر طبقے اور ہر عمر کے احمدی کو دشمن کے ان حملوں سے بچانے کی کوشش کریں.لیکن اگر ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی اصلاح کی طرف خود توجہ کرے، مخالفین دین کے حملوں کو نا کام بنانے کے لئے کھڑا ہو جائے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دشمنان دین کی اصلاح کا عزم لے کر کھڑا ہو اور صرف دفاع نہیں کرنا بلکہ حملہ کر کے ان کی اصلاح بھی کرنی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے اپنا ایک خاص تعلق ہے کرے تو نہ صرف ہم دین کے دشمنوں کے حملوں کو ناکام بنارہے ہوں گے بلکہ ا پیدا (121)
اُن کی اصلاح کر کے اُن کی دنیاو عاقبت سنوارنے والے بھی ہوں گے.بلکہ اس فتنہ کا خاتمہ کر رہے ہوں گے جو ہماری نئی نسلوں کو اپنے بد اثرات کے زیر اثر لانے کی کوشش کر رہا ہے.اس ذریعہ سے ہم اپنی نئی نسل کو بچانے والے ہوں گے.ہم اپنے کمزوروں کے ایمانوں کے بھی محافظ ہوں گے اور پھر اس عملی اصلاح کی جاگ ایک سے دوسرے کو لگتی چلی جائے گی اور یہ سلسلہ تا قیامت چلے گا.ہماری عملی اصلاح سے تبلیغ کے راستے مزید کھلتے چلے جائیں گے.نئی ایجادات برائیاں پھیلانے کے بجائے ہر ملک اور ہر خطے میں خدا تعالیٰ کے نام کو پھیلانے کا ذریعہ بن جائیں گی.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 6 دسمبر 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) ) مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27 دسمبر 2013ء) اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہونے ہیں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعہ جہاں تبلیغ اور تربیت کے امور میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے وہاں معاندین احمدیت نے بھی مختلف فتنوں کو ہوا دینے کی نت نئی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے.اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بہت وعدے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ وعدے پورے ہونے ہیں اور ہو رہے ہیں.میں بعض (122)
واقعات بھی آپ کو سناؤں گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو پھیلارہا ہے.لیکن نوجوان لڑکیوں سے خاص طور پر میں کہتا ہوں کہ بعض انٹرنیٹ اور بعض لوگوں کی باتوں میں آکے یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت جو ہے وہ ترقی نہیں کر رہی ، یا کسی بھی قسم کی مایوسی کی باتیں اُن سے شروع ہو جاتی ہیں اور دشمن ہمارے اندر مایوسی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، مخالفین پھیلانے کی کوششیں کرتے ہیں اور یہ جو آجکل کا میڈیا ہے، خاص طور پر ویب سائٹس وغیرہ ان کے ذریعے بہت بیہودہ قسم کی باتیں ہوتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ذہنوں میں مایوسی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور مایوسی پیدا ہونے کے بعد دین سے دُور ہونا شروع ہو جاتے ہیں.اس لئے اس معاملے میں بھی خیال رکھیں کہ کبھی کسی قسم کا مایوسی کا خیال نہیں آنا چاہئے.“ ( خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 17 ستمبر 2011ء) مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16 نومبر 2012ء) والنشرت نشراً دین اسلام کے حقیقی پیغام کوگل عالم میں پھیلانے کے لئے موجودہ زمانے کی ایجادات اور ذرائع ابلاغ کے جدید طریق بہت معاون اور سُودمند ثابت ہورہے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بارہا اپنے خطبات جمعہ اور خطابات میں اللہ تعالیٰ کے تائیدی نشانات اور انعامات وفتوحات کا بیان فرمایا ہے.ایک 123
موقع پر قرآن کریم کے حوالہ سے یہی مضمون پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ خدا تعالی کوئی محدود طاقتوں والا نہیں ہے.اگر وہ چاہے کہ نبی کے زمانے میں بھی نبی سے کئے گئے تمام وعدے اور فتوحات کو اس زمانہ میں اور اس کی زندگی میں پورا کر دے تو کر سکتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بعد میں آنے والے بھی ان فتوحات اور انعامات سے حصہ لینے والے بن جائیں.پس اس زمانہ کے تیز وسائل ہمیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ان کا صحیح استعمال کریں.انہیں کام میں لائیں اور صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زمانہ کے امام کے معین و مددگار بن جائیں اور مددگار بن کر اس کے مشن کو پورا کرنے والے ہوں.تیز رفتار وسائل اس طرف توجہ مبذول کروا ر ہے ہیں کہ ہم اس تیز رفتاری کو خدا تعالیٰ کا انعام سمجھتے ہوئے اس کے دین کے لئے استعمال کریں.اللہ تعالیٰ نے اگر یہ فرمایا ہے کہ والنشرتِ نَشْراً اور پیغام کو اچھی طرح نشر کرنے والوں کو بھی شہادت کے طور پر پیش کیا گیا ہے.تو یہ پیغام وہ ہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور وہ کامل اور مکمل دین جو تا قیامت قائم رہنے والا ہے اس دین کے احیائے ٹو کے لئے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے.پس خدا تعالیٰ نے اس نشر کے اس زمانہ میں جدید طریقے مہیا فرما دئیے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے پاس آج کل کے وسائل اور جدید 124
طریقے موجود نہیں تھے.اس کے باوجود انہوں نے تبلیغ اسلام کا حق ادا کر دیا.آج کل ہمارے پاس یہ طریقے موجود ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے زمانہ میں یہ مقدر تھے.اللہ تعالیٰ نے اس کی پیشگوئی بھی فرما دی تھی.یہ آیت جو ہے یہ پیشگوئی ہے جس کا دوسری جگہ اس طرح ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا الصُّحُفُ نُشرت (التکویر: 11) یعنی : اور جب کتابیں پھیلا دی جائیں گی.پس ایک تو یہ زمانہ کتابیں پھیلانے کا ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے اور اس وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روحانی خزائن کا ایک بے بہا سمندر ہمارے لئے چھوڑا ہے اور اس کی اشاعت آپ کے زمانے میں ہوئی.آپ کے صحابہ نے بھی اس کو پھیلانے میں خوب کردار ادا کیا.ہم صحابہ کے واقعات پڑھتے ہیں کہ کسی نہ کسی صحابی نے کوئی کتاب دوسرے شخص کو دی ، اس نے پڑھی، اس کے دل پر اثر ہوا اور اس طرح آہستہ آہستہ لوگ احمدیت میں شامل ہوتے چلے گئے.اور ایک قربانی کے ساتھ ان لوگوں نے یہ کام کیا جیسا کہ اسلام کے دور اول میں صحابہ نے کیا تھا.اور پھر یہ لوگ ، یہ صحابہ جن کی قسم کھائی گئی ہے، جن کو شہادت کے طور پر پیش کیا گیا ہے خدا تعالیٰ کے پسندیدہ بن گئے.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ والا کردار ادا کیا.جس سے یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن گئے.آج خدا تعالیٰ نے ان کتابوں کو نشر کرنے کے اور اسلام کے مخالفین کے (125)
جواب دینے کے پہلے سے بڑھ کر ذرائع مہیا فرما دئیے ہیں جو تیز تر ہیں.کتابیں پہنچنے میں وقت لگتا تھا اب تو یہاں پیغام نشر ہوا اور وہاں پہنچ گیا.یہاں کتاب پرنٹ ہوئی اور دوسرے end سے نکال لی گئی.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب، قرآن کریم اور دوسرا اسلامی لٹریچر انٹرنیٹ کے ذریعہ ، ٹی وی کے ذریعہ نشر ہونے کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے.جو تیزی میڈیا میں آج کل ہے آج سے چند دہائیاں پہلے ان کا تصور بھی نہیں تھا.پس یہ مواقع ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں کہ اسلام کی تبلیغ اور دفاع میں ان کو کام میں لاؤ.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ جدید ایجادات اس زمانہ میں ہمارے لئے اس نے مہیا فرمائی ہیں.ہمارے لئے یہ مہیا کر کے تبلیغ کے کام میں سہولت پیدا فرما دی ہے.اور ہماری کوشش اس میں یہ ہونی چاہئے کہ بجائے لغویات میں وقت گزارنے کے، ان سہولتوں سے غلط قسم کے فائدے اٹھانے کے ان سہولتوں کا صحیح فائدہ اٹھائیں.ان کو کام میں لائیں اور اگر اس گروہ کا ہم حصہ بن جائیں جو مسیح محمدی کے پیغام کو دنیا میں پہنچا رہا ہے تو ہم بھی اس گروہ میں شامل ہو سکتے ہیں، ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جن کی خدا تعالی نے قسم کھائی ہے.MTA کی تقریب پر میں نے انہیں یہی کہا تھا کہ آج MTA کا ہر کارکن چاہے وہ جہاں بھی دنیا میں کام کر رہا ہے، یا کسی بھی کونے میں جہاں کام کر رہا ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو دنیا کے کنارے تک پہنچانے کا کام کر رہا ہے.یہ کام تو خدا تعالیٰ نے کرنا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ 126
نے خود آپ سے فرمایا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ ذرائع بھی پیدا فرمائے ہیں کہ آپ کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچے.پس یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے اور یہ تمام ایجادات اس کی شہادت دے رہی ہیں.( خطبہ جمعہ فرمودہ 15 را کتوبر 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن) مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 5 نومبر 2010ء) جدید مواصلاتی نظام اور میڈیا کی صنعت میں روز افزوں ترقی کے نتیجہ میں احمدیوں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے.اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے درج ذیل ارشاد فرمایا ( یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضور انور نے یہ نصالح براہ راست احمدی خواتین سے خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمائی ہیں ) : ”اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہماری جماعت کے فائدہ کے لئے جدید مواصلاتی نظام اور میڈیا جیسے ذرائع ابلاغ کی سہولیات مہیا کر دی ہیں.دنیا کے ہر کو نہ میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے یہ ذرائع بہت اہم ثابت ہو رہے ہیں.جیسا کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ ہماری جماعت کا پیغام زمین کے کناروں تک پہنچ رہا ہے.تاہم یہ صورتِ حال ہماری ذمہ داری کو مزید بڑھا دیتی ہے کیونکہ جولوگ ہمارا پیغام سُن رہے ہیں وہ یہ جاننے کے لئے ہماری جانب دیکھیں گے کہ آیا ہم جو کہہ رہے ہیں اس پر خود عمل بھی کرتے ہیں.اگر وہ لوگ یہ دیکھیں گے کہ ہم جو تعلیمات پیش کر رہے ہیں وہ تو سچی ہیں لیکن احمدیوں کے اپنے عملی 127
معیار میں کمزوری پائی جاتی ہے تو اس کا اُن پر مثبت اثر ہونے کے بجائے منفی ہونے کا احتمال ہوگا.یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے ہمارا پیغام تو نیں مگر یہ محسوس کریں کہ پرانے احمدیوں کا عملی معیار توقع کے مطابق نہیں ہے تو وہ اسلام کا حقیقی پیغام پھیلانے اور اس پر عمل کرنے کا بیڑا اٹھا لیں.ایسی صورتحال میں ہماری جماعت یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی ترقی اور کامیابی کا سہرا ان نئے آنے والے نیک لوگوں کے سر ہوگا اور پیچھے رہ جانے والے ان برکتوں سے محروم رہ جائیں گے.پس پیچھے رہ جانے والوں میں آپ کا شمار نہ ہو.بلکہ احمدیت کی سچائی پھیلانے والوں کی صف اول میں نہ صرف اپنے قول سے بلکہ اپنے عمل اور کارناموں کے ذریعہ بھی شامل ہو جائیں.آپ اس روشنی کا منبع بن جائیں جس کی کرنیں اسلام کی سچائی کو روشن کر دے“.( اردو ترجمہ انگریزی خطاب بر موقع نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے بمقام للفورڈیو کے 25 /اکتوبر 2015ء) ( مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 25 مارچ 2016ء) اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم نئے دور کی ایجادات سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے اپنی تعلیمی تبلیغی اور تربیتی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے چلے جائیں.نیز خلیفہ وقت کے سلطان نصیر اور اسلام احمدیت کے قابل فخر سپوت بن کر خدمت کے میدان میں آگے بڑھتے چلے جائیں.آمین 128
129
سوشل میڈیا (Social Media) سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفة اسمع الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خلیفۃالمسیح پر حکمت ارشادات اور زریں نصائح پر مشتمل اس کتاب میں دورِ حاضر میں سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کے نتیجہ میں معاشرے میں پھیلنے والی اخلاقی بیماریوں سے بچنے کے طریق پیش کئے گئے ہیں.نیز ان ذمہ داریوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے جو سوشل میڈیا سے استفادہ کرتے ہوئے ایک احمدی کو ملحوظ رکھنی چاہئیں.اسی طرح سوشل میڈیا کے دانشمندانہ استعمال کے ذریعہ احمدی نسلوں کی ذہنی، اخلاقی اور روحانی تربیت کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے.( شائع کرده لجنه سیکشن مرکزیہ ) 130