SochnayKiBatain

SochnayKiBatain

سوچنے کی باتیں

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ سبق آموز ، تاریخی واقعات کو خدام و اطفال اور دیگر احباب کی تربیت کی غرض سے انتخاب کرکے ‘‘سوچنے کی باتیں’’ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ آپ ؓ کا زمانہ خلافت نصف صدی پر محیط رہا، اور اس دوران آپ نے سینکڑوں تقاریر اور خطبات ارشاد فرمائے۔ الہامی پیش گوئیوں کے عین مطابق آپ سخت ذہین و فہیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پروجود تھے ان الہامات کی شان و شوکت آپ کے پُر معارف خطبات و تقاریر سے عیاں ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ نے آپ کو زبردست قوت بیان کا غیر معمولی ملکہ عطافرمایاتھا، آپ گھنٹوں تقریر فرماتے مجال ہے کہ کوئی سننے والا اکتائے یا تھکن کا اظہار کرے، مشکل سے مشکل مضمون کو بہت سادگی اور سلاست سے بیان کرنا آپ کی خوبی تھی، او رآٹھ آٹھ گھنٹے کی طویل تقریروں میں سامعین کو مسلسل محو اور متوجہ رکھنا اور ان کی دلچسپی و ذوق و شوق کے عالم کو برقرار رکھنا بھی آپ ہی کا کمال تھا۔ انہی تقاریر و خطابات میں آپ کا یہ بھی انداز بیان تھا کہ دوران تقریر کوئی لطیفہ، چٹکلہ یا تاریخی واقعہ بیان فرماتے جس سے نہ صرف سننے والوں کی دلچسپی بڑھ جاتی بلکہ بعض اوقات زیر بحث مضمون سامعین کی ذہنی سطح کے قریب تر ہوکر بہت آسانی سے واضح ہوجاتا۔ ایسے واقعات کی ایک یہ بھی اہمیت ہوتی ہے کہ کبھی کبھی طویل مضمون سے بھی بڑھ کر اپنا اثر دکھاتے ہیں اور ذہنی انقلاب کے لئے ایک مہمیز کا کام دیتے ہیں۔


Book Content

Page 1

سوچنے کی باتیں نام کتاب:............سوچنے کی باتیں www.alislam.org (جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں )

Page 2

فهرست عناوين نمبر شمار عنوان فن سیکھنے سے آتا ہے گردش زمانه 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 34 14 15 16 17 18 19 20 حضرت عمرؓ سے قیصر کی درخواست ایک صحابی کی قیصر کے مظالم سے نجات ایسا بھی ہوتا ہے..؟؟ محبت ہو تو ایسی ہو مصنوعی اور تکلف کا رونا بادشاہ کی خلعت اور شبلی کی تو بہ غیرت کی مثال دوست آن باشد ہنوز دلی دور است تو را شنان سو مورا شنان نادان ہے جو شمشیر کو دیکھتا ہے ادفی اعلیٰ پر قربان ہوتا ہے جماعت کی برکت زرگدا اندھیری راتوں کے تیر اچھی چیز کے اظہار کی تڑپ مخلص کی پہچان چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس نمبر شمار عنوان لڈ واور حضرت مظہر جان جاناں خدا تک پہنچنے کا ذریعہ بہا درکون ہے....2222 اسامہ ! تم قیامت کے دن کیا جواب دو گے اظہار برأت فرشتوں کو سب رشتہ داروں کی عزت کرنے کا حکم پادری کا ایک گال پر تھپڑ کھا کر...شراب انسانی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے 21 22 صفحه نمبر 23 1 24 3 25 6 26 7 27 8 28 9 29 11 30 13 31 16 32 18 33 21 34 23 35 24 36 25 37 28 38 29 39 31 40 32 41 33 35 www.alislam.org سندرسنگھا پکوڑے کھائیں گا نجوم کی حقیقت ایک احمدی نجومی کا واقعہ شہنشاہ کسرای کا عبرتناک انجام کاؤنٹ ٹالسٹائے اُٹھو اور شہزادے کو مار و.....حضرت امام حسنؓ کا غلام کو آزاد کرنا بچے کے کان میں اذان کہنے کی حکمت خدا کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں مهمان نوازی جس سے خدا خوش ہو گیا حضرت ابو ہریرہ کی دین کیلئے فاقہ کشی دیال سنگھ کیوں مسلمان نہ ہوا ایک خطر ناک عقیدہ جو کہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے بے وقوف مشرک فرانسیسی پادری صبر وقناعت کا مجسمہ ایک بڑھیا ✰✰✰ صفحه نمبر 37 39 41 43 45 46 48 50 53 54 57 60 63 65 67 68 70 73 75 78 82

Page 3

پیش لفظ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے مختلف مواقع پر حضرت مصلح موعود نو راللہ مرقدہ کے بیان فرمودہ سبق آموز تاریخی واقعات کو خدام واطفال اور دیگر احباب کی تربیت کی غرض سے ”سوچنے کی باتیں“ کے نام سے شائع کیا ہے.قبل ازیں یہ کتاب دوحصوں میں شائع ہوئی تھی جس کا پہلا حصہ نے ترتیب دیا اور یہ ۱۹۸۱ء دو رِصدارت میں شائع ہوا جبکہ اس کا دوسرا حصہ جو مرتب کردہ تھا جو ۱۹۹۳ء شائع ہوا.کے کے دورِ صدارت میں کا ان دونوں حصوں کو اکٹھا کر کے کچھ عرصہ قبل شائع کیا گیا تھا.اب اسے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے.اس کتاب کی تیاری کے سلسلہ میں نے شعبہ اشاعت سے تعاون کیا ہے.فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء اُمید ہے ہمارے خدام و اطفال ان واقعات کو پڑھ کر ان سے بھر پور استفادہ کریں گے.www.alislam.org

Page 4

دیباچه حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ کا دور خلافت نصف صدی پر محیط ہے.اس دوران آپ نے سینکڑوں ہزاروں تقاریر اور خطبات ارشاد فرمائے.آپ کے بارے اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا تھا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتلایا گیا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“.ان الہامات کی شان و شوکت آپ کے پر معارف خطبات و تقاریر میں بھی نظر آتی ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوت بیان کا غیر معمولی ملکہ عطا فرمایا تھا.گھنٹوں آپ تقریر فرماتے لیکن مجال ہے کہ سننے والا اکتائے یا تھکن کا اظہار کرے.مشکل سے مشکل مضمون کو بہت سادگی اور سلاست سے بیان کرنا آپ کی خوبی تھی.اور آٹھ آٹھ گھنٹے کی طویل تقریروں میں سامعین کو مسلسل محور کھنا اور ان کی دلچسپی اور ذوق و شوق کے عالم کو برقرار رکھنا بھی آپ ہی کا کمال تھا.انہیں تقاریر و خطابات میں آپ کا یہ بھی انداز بیان تھا کہ دورانِ تقریر کوئی لطیفہ، چکلہ یا تاریخی واقعہ بیان فرماتے جس سے نہ صرف سننے والوں کی دلچسپی بڑھ جاتی بلکہ بعض اوقات زیر بحث مضمون سامعین کی ذہنی سطح کے قریب تر ہو کر بہت آسانی سے واضح ہو جاتا.ایسے واقعات کی ایک یہ بھی اہمیت ہوتی ہے کہ کبھی کبھی طویل مضمون سے بھی بڑھ کر اپنا اثر دکھاتے ہیں اور ذہنی انقلاب کے لئے ایک مہمیز کا کام دیتے ہیں.یہ کتاب جو پیش کی جارہی ہے اس میں کچھ ایسے ہی واقعات کا انتخاب پیش کیا گیا ہے جو حضرت امام جماعت احمد یہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے اپنی تقاریر کے دوران بیان فرمائے.احباب جماعت کے افادہ علم کی خاطر ان کو الگ کر کے شائع کیا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ واقعات پڑھنے اور ان کی اصل روح کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین www.alislam.org

Page 5

2 1 فن سیکھنے سے آتا ہے میں قادیان والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تیمارداری اور بیماروں کی خدمت کرنا سیکھیں.یہاں تو یہ باتیں معمولی سمجھی جاتی ہیں لیکن یورپ میں اس کے سکھانے کے کالج ہوتے ہیں لیکن یہاں ایسی باتوں کو معمولی سمجھا جاتا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.مجھ سے ایک شخص نے مشورہ لیا کہ میں درزی کا کام سیکھنا چاہتا ہوں.میں نے کہا: بہت اچھا کام ہے.وہ باہر کام سیکھنے گیا لیکن چند ہی دن کے بعد آ گیا.اور جب میں نے پوچھا.اتنی جلدی کیوں واپس آگئے ہو تو کہنے لگا کہ میں کام کرنے کے گر سیکھ آیا ہوں، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح اسے پہلے کام کرنا نہیں آتا تھا.اسی طرح پھر بھی نہ آیا.اسی طرح میں نے کئی دفعہ بتایا ہے.ایک شخص طب پڑھنے کے لئے ایک طبیب کے پاس گیا.ایک دن طبیب ایک مریض کو دیکھنے گیا اور ساتھ اس کو بھی لے گیا.مریض کو سور ہضمی کی شکایت تھی طبیب نے کہا آپ نے شاید چنے کھائے ہیں.اس نے کہا: ہاں.شاگرد نے دیکھا تو وہاں اس کو چنے کے دانے نظر آئے.اس نے خیال کیا طبیب نے یہ دانے دیکھ کر ہی بیمار ہونے کا باعث سمجھا ہے.اور بیماری کا پتہ لگانے کا گر یہی ہے جو چیز آس پاس ہو وہی بیماری کا باعث سمجھ لی جایا کرے.یہ خیال کر کے وہ واپس اپنے وطن پہنچا اور مشہور کر دیا کہ میں طب پڑھ آیا ہوں.ایک دفعہ ایک امیر بیمار ہوا.اس کے ہاں اس کو بلوایا گیا.جب گیا.نبض دیکھنے کے بعد ادھر اُدھر دیکھنا شروع کیا اتفاقاً مریض کی چار پائی کے نیچے گھوڑے کی زین پڑی تھی.کہنے لگا: آپ نے بھی تو غضب کیا کہ زین کھائی ہے.بھلا کوئی زمین بھی کھاتا ہے.امیر نے کہا: یہ تو کوئی پاگل ہے اور اس کو پٹوا کے باہر نکلوا دیا.تو تیمارداری کا بھی ایک فن ہے جو محنت سے آتا ہے اور ہر ایک کام کا یہی حال ہے کہ جب اس کے کرنے کے طریق نہ آتے ہوں.عمدگی سے نہیں ہوسکتا.( خطبات محمود جلد 4 صفحه ۴۳۳ بحواله الفضل ۲۴ مئی ۱۹۲۰ء) www.alislam.org

Page 6

4 3 گردش زمانه مقابلہ میں اول آئے گا، اسے انعام دیا جائے گا.چنانچہ میں بھی قسمت آزمائی کے طور پر چند شعر کہہ کر اس مجلس میں حاضر ہوا.اور جب میری باری آئی تو میں نے وہ شعر سنائے.فضل تاریخوں میں ایک واقعہ آیا ہے کہ ایک امیر شاعر ایک دن حمام میں نہانے کے لئے گیا بریکی اور اس کے بھائیوں اور اس کے باپ کو یہ شعر ایسے پسند آئے کہ انہوں نے لاکھوں اور وہاں اس نے اپنا جسم ملوانے کے لئے ایک خادم کو بلوانے کا حکم دیا.حمام والے نے ایک روپیہ مجھے انعام میں دیا اور کئی خادم اور کئی گھوڑے اور کئی اونٹ اور چاندی اور سونے کے برتن مضبوط نوجوان اپنے نوکروں میں سے اس کا جسم ملنے کے لئے بھجوا دیا.جب اس نے تہہ بند اور غالیچے اور قالین اور عطریات کا اتنا بڑا خزانہ میرے حوالے کیا کہ میں دیکھ کر حیران رہ گیا وغیرہ باندھ لیا اور اپنے کپڑے اتار کر حمام میں بیٹھ گیا اور خوشبودار پانی اپنے جسم پر ڈالا اور اور میں نے کہا حضور میرے گھر میں تو اس کے رکھنے کی بھی گنجائش نہیں.انہوں نے کہا: کوئی خوشبودار مسالے خادم نے اس کے جسم پر ملنے شروع کئے تو اس وقت کی کیفیت اسے ایسی فکر مت کرو.فلاں محلہ میں فلاں بڑی عمارت کو ابھی ہمارے خادموں نے تمہارے لئے خرید لطیف معلوم ہوئی کہ اس نے اپنے نفس میں موسیقی کی طرف رغبت محسوس کی اور کچھ گنگنا گنگنا لیا ہے.اور ہمارے خادم ہی یہ سب مال اسباب اس نے محل میں ابھی ابھی پہنچا دیں گے.کر شعر پڑھنے لگا.جب وہ شعر پڑھ رہا تھا تو اچانک اس ملازم کی حالت متغیر ہو گئی اور اس کی اس دن سے میں امراء میں شمار ہوتا ہوں اور مجھے یہ شعر نہایت ہی پیارے ہیں کہ انہوں نے چیخ نکل گئی اور وہ بیہوش ہو کر زمین پر گر گیا.اس غسل کرنے والے نے سمجھا کہ شاید اس کو مرگی میری حالت کو بدل دیا اور تنگی سے نکال کر فراغت سے آشنا کیا.اس غلام نے کہا جانتے ہو کہ کا دورہ ہوا ہے.اور اس نے حمام کے افسر کو بلایا اور اس کے پاس شکایت کی کہ تم نے میرے وہ شعر جن کی وجہ سے تم اس مرتبہ کو پہنچے جس بیٹے کے لئے کہے گئے تھے.وہ میں ہی ہوں جسم کو ملنے کے لئے ایک مجنون اور بیمار کو بھیج دیا.اس نے معذرت کی اور کہا کہ آج تک اس جب میں نے یہ شعر تمہاری زبان سے سنے تو مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا.جو میں نے اپنی دائیوں نوجوان کی بیماری کا حال مجھے معلوم نہیں ہوا.یہ تو بالکل تندرست تھا.بہر حال وہ اسے ہوش اور کھلائیوں سے سنا ہوا تھا کہ تیری پیدائش پر ایک شاعر کو اتنا انعام دیا گیا تھا اور میں نے کہا میں لائے اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا واقعہ ہے.آج تک تو تم پر کبھی ایسا دورہ نہیں ہوا تھا.کہ وہ بچہ جس کی پیدائش پر یہ انعام دیا گیا تھا اور جن شعروں کی وجہ سے انعام دیا گیا تھا وہ شعر اس نوجوان نے گھبرائی ہوئی حالت میں اس شاعر سے دریافت کیا کہ آپ نے جو شعر پڑھے آج ایک اجنبی حمام میں اس راحت و آرام سے پڑھ رہا ہے اور وہ لڑکا جس کے لئے یہ شعر تھے.یہ آپ نے کس سے سنے ہیں اس نے کہا: میرے اپنے ہیں اور مجھے نہایت ہی محبوب ہیں.کیونکہ میں نہایت غریب ہوتا تھا اور نان شبینہ تک کا بھی محتاج تھا.اتفاقاً مجھے معلوم ہوا سر فضل برمکی جو ہارون الرشید کے وزراء میں سے ایک وزیر تھا اور یحیی برمکی وزیر اعظم کا بیٹا تھا اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اور شاعروں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ شعر کہہ کر لائیں.پھر جو کہے گئے تھے، ایک خادم کی حیثیت سے اس کا جسم مل رہا ہے.اس شاعر پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ اس کو چمٹ گیا اور رونے لگا اور اس نے کہا کہ میری ساری دولت تمہارے باپ دادا کی دی ہوئی ہے اور یہ تمہاری ہی دولت ہے.تم میرے گھر چلو.میں خادموں کی طرح تمہاری خدمت کروں گا اور تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا.اس لڑکے نے جواب دیا کہ جس www.alislam.org

Page 7

6 5 ذلت کو ہم پہنچ چکے ہیں وہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے.اب میں اس کے ساتھ یہ مزید ذلت نہیں خریدنا چاہتا کہ جو انعام میرے باپ نے دیا تھا وہ جا کر خود استعمال کرنا شروع کر دوں مگر چونکہ میرا را از آب کھل گیا ہے اس لئے میں اب اس جگہ بھی نہیں رہ سکتا.اب میں کسی اور علاقہ میں نکل جاؤں گا جہاں مجھے جاننے والا کوئی نہ ہو اور کوئی محرم راز میری شکل کو دیکھ کر میرے آباء کی ذلت کو یاد نہ کرے یہ کہہ کر وہ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا اور نہ معلوم کہاں غائب ہو گیا.( خطبات محمود جلد ۲ صفحہ ۲۳۶ - ۲۳۷ بحوالہ الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۵۶ء) ☆☆☆ حضرت عمرؓ سے قیصر کی درخواست حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک دفعہ قیصر کے سر میں شدید درد ہوا اور باوجود ہر قسم کے علاجوں کے اسے آرام نہ آیا کسی نے اسے کہا کہ حضرت عمرؓ کو اپنے حالات لکھ کر بھجوا دوان سے تبرک کے طور پر کوئی چیز منگوا ؤ، وہ تمہارے لئے دعا بھی کریں گے اور تبرک بھی بھجوا دیں گے ان کی دعا سے تمہیں ضرور شفا حاصل ہو جائے گی.اس نے حضرت عمر کے پاس اپنا سفیر بھیجا.حضرت عمر نے سمجھا کہ یہ متکبر لوگ ہیں میرے پاس اس نے کہاں آنا تھا اب یہ دکھ میں مبتلا ہوا ہے تو اس نے اپنا سفیر میرے پاس بھیج دیا ہے اگر میں نے اسے کوئی اور تبرک بھیجا تو ممکن ہے وہ اسے حقیر سمجھ کر استعمال نہ کرے اس لئے مجھے کوئی ایسی چیز بھجوانی چاہیے جو تبرک کا بھی کام دے اور اس کے تکبر کو بھی توڑ دے.چنانچہ انہوں نے اپنی ایک پرانی ٹوپی جس پر جگہ جگہ داغ لگے ہوئے تھے اور جو میل کی وجہ سے کالی ہو چکی تھی.اسے تبرک کے طور پر بھجوادی.اس نے جب یہ ٹوپی دیکھی تو اسے بہت برا لگا تو اس نے ٹوپی نہ پہنی مگر خدا تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ تمہیں برکت اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتی ہے اسے اتنا شدید در دسر ہوا کہ اس نے اپنے نوکروں سے کہا وہی ٹوپی لاؤ، جو عمر نے ہو بھجوائی تھی تاکہ میں اسے اپنے سر پر رکھوں چنانچہ اس نے ٹوپی پہنی اور اس کا درد جاتا رہا، چونکہ اس کو ہر آٹھویں دسویں دن سر درد ہو جایا کرتا تھا، اس لئے پھر تو اس کا یہ معمول ہو گیا کہ وہ دربار میں بیٹھتا تو وہی حضرت عمر کی میلی کچیلی ٹوپی اس نے اپنے سر پر رکھی ہوتی.( سیر روحانی جلد ۲ صفحہ ۶۶-۶۷) www.alislam.org

Page 8

8 7 ایک صحابی کی قیصر کے مظالم سے نجات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی قیصر کے پاس قید تھے اور اس نے حکم دے دیا تھا کہ انہیں سور کا گوشت کھلایا جائے وہ فاقے برداشت کرتے تھے مگر سور کے قریب نہیں جاتے تھے اور گو اسلام نے یہ کہا ہے کہ اضطرار کی حالت میں سور کا گوشت کھالینا جائز ہے مگر وہ کہتے تھے کہ میں صحابی ہوں میں ایسا نہیں کر سکتا ، جب کئی کئی دن کے فاقوں کے بعد وہ مرنے لگتے تو قیصر ا نہیں روٹی دے دیتا.جب پھر انہیں کچھ طاقت آ جاتی تو وہ پھر کہتا کہ انہیں سو ر کھلایا جائے اس طرح نہ وہ انہیں مرنے دیتا نہ جینے، کسی نے اسے کہا کہ تجھے یہ سر درد اس لئے ہے کہ تو نے اس مسلمان کو قید رکھا ہوا ہے اور اب اس کا علاج یہی ہے کہ تم عمر سے اپنے لئے دعا کراؤ اور ان سے کوئی تبرک منگواؤ.جب حضرت عمر نے اسے ٹوپی بھیجی اور اس کے درد میں افاقہ ہو گیا تو وہ اس سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اس صحابی کو بھی چھوڑ دیا.اب دیکھو کہاں قیصر ایک صحابی کو تکلیف دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی سزا کے طور پر اس کے سر میں درد پیدا کر دیتا ہے کوئی اور شخص اسے مشورہ دیتا ہے کہ عمر سے تبرک منگواؤ اور ان سے دعا کراؤ.وہ تبرک بھیجتے ہیں اور قیصر کا درد جاتارہتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس صحابی کی نجات کے بھی سامان پیدا کر دیتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اس پر ظاہر کر دیتا ہے.( سیر روحانی جلد دوم صفحه ۶۷) ایسا بھی ہوتا ہے....؟؟ یہی کھانا جو انسان کے لئے قوت اور طاقت کا باعث بلکہ انسانی زندگی کا انحصار اسی پر ہوتا ہے جب کوئی اسے حد سے زیادہ استعمال کر لیتا ہے تو یہی اس کے لئے نقصان دہ اور ہلاکت کا باعث ہو جاتا ہے.ہندؤوں کے ہاں شرادھ ہوتے ہیں.سنا گیا ہے کہ بعض وقت شرطیں لگا لگا کر پنڈت اتنا کھا جاتے ہیں کہ پیٹ پھٹ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ایک برہمنی کسی خاندان میں بیاہی گئی ایک روز اس کی ساس نے اس کو کہا کہ اپنے سسر کے لئے بستر بچھا چھوڑو کہ وہ آج شرادھ کھانے گیا ہے جب کھا کر آتا ہے تو بیٹھ نہیں سکتا.یہ سن کر بہو رونے اور پیٹنے لگی کہ میں کن کمینوں کے ہاں بیاہی گئی ہوں ہماری قوم کی تو انہوں نے ناک کاٹ دی.ساس نے پوچھا تم کیوں روتی پیٹتی ہو.کہنے لگی تمہارے ہاں میرے بیا ہے جانے سے تو ہمارے خاندان کی ناک کٹ گئی ہے.ہمارے خاندان سے تو جو کوئی شرادھ کھانے جاتا ہے وہ خود چل کر گھر نہیں آسکتا بلکہ چار پائی پر اٹھا کر اسے لانا پڑتا ہے اور تم کہتی ہو کہ وہ شرادھ کھا کر آتے ہیں تو بیٹھ نہیں سکتے.انہیں تو اتنا کھانا چاہیے کہ چل کر آ بھی نہ سکیں.کھانا عمدہ چیز ہے مگر دیکھو اس کی بد استعمالی نے ایسے لوگوں کو کیسا نکما اور سست کر دیا.خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۲۹۶ بحواله الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۶ء) ☆☆☆ www.alislam.org ☆☆☆

Page 9

10 9 محبت ہو تو ایسی ہو مجھے ہمیشہ حیرت ہوا کرتی ہے اور میں اپنے دل میں کہا کرتا ہوں کہ الہی تیری بھی عجیب قدرت ہے کہ تو نے کس طرح لوگوں کے دلوں میں میری نسبت محبت کے جذبات پیدا کر دیئے کہ جب کبھی سفر میں باہر جانے کا موقعہ ملے اور میں گھوڑے پر سوار ہوں تو ایک نہ ایک نوجوان حفاظت اور خدمت کے خیال سے میرے گھوڑے کے ساتھ ساتھ پیدل چلتا چلا جاتا ہے.اور جب میں گھوڑے سے اترتا ہوں تو وہ فوراً آگے بڑھ کر میرے پاؤں دبانے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے حضور تھک گئے ہوں گے.میں خیال کرتا ہوں کہ میں تو گھوڑے پر سوار آیا اور یہ گھوڑے کے ساتھ پیدل چلتا آیا مگر اس محبت کی وجہ سے جو اسے میرے ساتھ ہے اس کو یہ خیال ہی نہیں آتا کہ یہ تو گھوڑے پر سوار تھے یہ کس طرح تھکے ہوں گے.وہ یہی سمجھتا ہے کہ گویا گھوڑے پر وہ سوار تھا اور پیدل میں چلتا آیا چنانچہ میرے اصرار کرنے کے باوجود کہ میں نہیں تھکا میں تو گھوڑے پر آ رہا ہوں وہ یہی کہتا چلا جاتا ہے کہ نہیں حضور تھک گئے ہوں گے مجھے خدمت کا موقعہ دیا جائے.اور پاؤں دبانے لگ جاتا ہے تو جہاں محبت ہو وہاں اپنی تکلیف انسان کو کم نظر آتی ہے اور اپنے محبوب کی تکلیف بہت زیادہ دکھائی دیتی ہے.لیکن عام حالات میں اپنی تکلیف زیادہ محسوس ہوتی ہے اور دوسرے کی تکلیف کم محسوس ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے ان کو فریب سے کفار نے گرفتار کر لیا اور چونکہ ان کے ہاتھ سے مکہ والوں کا کوئی عزیز مارا گیا تھا اس لئے گرفتار کر کے انہیں مکہ والوں کے ہاتھ فروخت کر دیا.انہوں نے چاہا کہ اپنے اس عزیز کے بدلے اس صحابی کو تکلیفیں دے دے کر ماردیں.چند دن انہیں قید میں رکھا اور جب ایک دن انہوں نے چاہا کہ آپ کو شہید کریں اور قتل کی تیاری کرنے لگے تو اس وقت انہوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ بہت ڈرا ہوا ہوگا.اس صحابی سے پوچھا کہ کیا تمہارا دل چاہتا ہے کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری جگہ ہوتے اور تم آرام سے مدینہ میں اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہوئے ہوتے.انہوں نے کہا تم تو یہ کہتے ہو کہ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں ہوں اور میں مدینہ میں اپنے بیوی بچوں میں آرام سے بیٹھا ہوا ہوں لیکن مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا ہوا ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی گلیوں میں چلتے ہوئے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے.اب دیکھو اس صحابی کو اپنی تکلیف اس وقت یاد نہ رہی.بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے عشق میں مدہوش ہونے کی وجہ سے آپ کی ایک خیالی تکلیف نے اسے بے چین کر دیا.( خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۲۹۶ بحواله الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۳۸ ء ) www.alislam.org

Page 10

12 11 مصنوعی اور تکلف کا رونا انسان دوسرے کی باتوں کو سن کر ان جذبات اور احساسات کا قیاس نہیں کرسکتا.جو دوسرے کے دل میں پیدا ہور ہے ہوتے ہیں.اگر کسی کی اپنی مرغی بھی مر جائے تو اسے جتنا درد ہوتا ہے اتنا دردا سے دوسرے کے بیٹے کی وفات کی خبر سن کر نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ دوسرے کے غم کی نقل کر کے اس سے ہمدردی کرتے ہیں.ان کے دل میں کوئی رنج نہیں ہوتا.اگر وہ سامنے آ جائے گا تو رونے والی شکل بنالیں گے اور ہمدردی کے چند الفاظ اپنے منہ سے نکال دیں گے لیکن ان کے دل غم کے جذبات سے بالکل خالی ہوں گے اس کے مقابلہ میں اگر ان کی اپنی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ضائع ہو جائے تو وہ اس کے صدمہ کو برداشت نہیں کر سکتے.ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے کہ کوئی چوڑھی تھی جو بادشاہ کے گھر میں صفائی کیا کرتی تھی.ایک دفعہ جب وہ شاہی محل سے باہر نکلی تو ڈیوڑھی کے اندر کھڑے ہو کر اس کی دیوار سے سر لگا کر اس نے رونا شروع کر دیا اور اس درد اور کرب کے ساتھ روٹی کہ باہر جو دربان کھڑے تھے انہوں نے سمجھا کہ شاہی خاندان میں کوئی موت واقع ہوگئی ہے.چنانچہ اس خیال پر انہوں نے بھی بغیر سوچے سمجھے رونا شروع کر دیا اور دیوار سے لگ کر جھوٹی ہچکیاں لینی شروع کر دیں تا ایسا نہ ہو کہ ان کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ نمک حرام ہیں.ان کو روتے دیکھ کر اوروں نے بھی رونا شروع کر دیا.پھر اوروں نے.یہانتک کہ درباریوں تک یہ بات پہنچ گئی.چونکه درباریوں کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جب شاہی خاندان میں کوئی موت واقع ہو تو سیاہ لباس پہن کر آؤ.اس لئے وہ دوڑ دوڑ کر اپنے گھر گئے اور ہر ایک کالا لباس پہن کر دربار میں سر نیچے جھکا کر بیٹھ گیا اور آنکھوں کے آگے رومال رکھ لیا.تا یہ معلوم ہو کہ وہ رورہا ہے مگر جو سب سے بڑا وزیر تھاوہ کچھ مجھدار تھا وہ بغیر سیاہ لباس پہنے دربار میں آبیٹھا اور اس نے پاس والے سے پوچھا کہ کیا حادثہ ہوا ہے.اس نے کہا مجھے تو پتہ نہیں ساتھ والے کو پتہ ہوگا.میں نے اسے ماتمی لباس میں بیٹھا دیکھا تھا.میں بھی پہن کر آ گیا کہ شاید شاہی خاندان میں کوئی حادثہ ہوا ہے.اس سے پوچھا گیا تو اس نے آگے سے اپنے پاس والے کا حوالہ دیا اور اس نے تیسرے کا اور اس نے چوتھے کا.آخر در بانوں تک بات پہنچی اور انہوں نے چوڑھی کا حوالہ دیا جب اسے بلا کر پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ اللہ رکھے قلعہ میں تو ہر طرح خیریت ہے.بات یہ ہے کہ میں نے ایک سور کا بچہ پال رکھا تھا.آج صبح وہ مر گیا تو صفائی کا وقت قریب تھا اس لئے میں جلدی سے محلات میں آگئی.اور جذبات کو دبائے رکھا لیکن جب محل سے باہر آئی تو مجھ سے برداشت نہ ہوسکا.اور ڈیوڑھی میں مجھے رونا آ گیا.اب وہ جذبات جو اس چوڑھی کے دل میں دبے ہوئے تھے وہ چونکہ انہیں نکال نہیں سکی تھی اس لئے جب تک وہ صفائی میں مشغول رہی جذبات دبے رہے.مگر جب اس کا کام ختم ہو گیا اور اس کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے تو اس نے بے تاب ہوکر رونا شروع کر دیا.اور باقیوں نے اس کی بے تابی کو دیکھ کر یہ قیاس کیا کہ اس قدر غم کسی بڑے حادثہ پر ہی ہو سکتا ہے اور اس کی نقل میں رونی شکل بنا کر چیخنا شروع کر دیا.اور انہوں نے سمجھا کہ بادشاہ یا اس کی بیگم مرگئی ہے.مگر بہر حال ان کا رونا مصنوعی رونا تھا.اور اس چوڑھی کا رونا حقیقی رونا تھا کیونکہ سو رنی کا بچہ چوڑھی کا اپنا تھا اور اس کے مرنے پر اس نے حقیقی در دمحسوس کیا مگر دربان اور درباری گو بادشاہ یا اس کی ملکہ یا کسی شہزادہ کو رورہے تھے.مگر ان کا رونا مصنوعی تھا کیونکہ بادشاہ یا ملکہ سے ان کا حقیقی تعلق نہ تھا.تو اپنی قلیل سے قلیل تکلیف بھی بڑی معلوم ہوتی ہے اور دوسرے کی بڑی سے بڑی تکلیف بھی چھوٹی معلوم ہوتی ہے.( خطبات محمود جلد ۲ صفحه ۲۱۱ تا ۲۱۳.بحواله الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۳۸ء) ☆☆☆ www.alislam.org

Page 11

14 13 بادشاہ کی خلعت اور شبلی کی تو بہ ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے.شبلی ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں یہ امیر گھرانے کے تھے اور بغداد کے بادشاہ کے گورنر تھے وہ کسی کام کے متعلق بادشاہ سے مشورہ کرنے کے لئے اپنے صوبہ سے دار الحکومت میں آئے انہی دنوں ایک کمانڈرانچیف ایران کی طرف ایک ایسے دشمن کے مقابلہ میں بھیجا گیا تھا جس سے کئی فوجیں پہلے شکست کھا چکی تھیں، اس نے دشمن کو شکست دی اور ملک کو دوبارہ مملکت میں شامل کیا ، جب وہ واپس آیا تو بغداد میں اس کا بڑا بھاری استقبال کیا گیا.اور بادشاہ نے بھی ایک در بار خاص منعقد کیا تا کہ اسے انعام دیا جائے اور اس کے لئے ایک خلعت تجویز کیا جو اس کے کارناموں کے بدلہ میں اسے دیا جانا تھا مگر بدقسمتی سے سفر سے آتے ہوئے اسے نزلہ ہو گیا، دوسری بد قسمتی یہ ہوئی کہ گھر سے آتے ہوئے وہ رومال لا نا بھول گیا جب اس کو خلعت دیا گیا تو دستور کے مطابق اس کے بعد اس نے تقریر کرنی تھی کہ میں آپ کا بڑا ممنون ہوں، آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے اور میری تو اولا دور اولا داس چار گز کپڑے کے بدے میں آپ کی غلام رہے گی ، مگر جب وہ تقریر کے لئے آمادہ ہورہا تھا تو یک دم اسے چھینک آئی اور ناک سے بلغم ٹپک پڑا.بلغم کے ساتھ اگر وہ تقریر کرتا تو شاید قتل ہی کر دیا جاتا.اس نے گھبراہٹ میں ادھر اُدھر ہاتھ مارا جب دیکھا کہ رومال نہیں ملا تو نظر بچا کر اسی جبہ سے اس نے ناک پونچھ لی ، بادشاہ نے اسے دیکھ لیا وہ کہنے لگا اتار لواس خبیث کا خلعت ، یہ ہماری خلعت کی ہتک کرتا ہے اور ہمارے دیئے ہوئے تحفہ سے ناک پونچھتا ہے، اس نے یہ کہا اور شبلی نے اپنی کرسی پر چیخ ماری اور رونا شروع کر دیا چونکہ دل میں نیکی تھی اور تقویٰ تھا، خدا نے ان کی ہدایت کے لئے ایک موقعہ رکھا ہوا تھا انہوں نے چیخ ماری تو بادشاہ نے کہا خفا ہم اس پر ہوئے ہیں تم کیوں روتے ہو وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا بادشاہ میں اپنا استعفاء پیش کرتا ہوں.بادشاہ نے کہا یہ کیا بے وقت کی راگنی ہے کیا ہوا تم کو اور کیوں تم استعفاء پیش کرتے ہو.انہوں نے کہا بادشاہ میں یہ کام نہیں کر سکتا.اس نے کہا آخر ہوا کیا.انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ یہ شخص آج سے دو سال پہلے اس جگہ سے نکلا تھا اور ایک ایسی مہم پر بھیجا گیا تھا جس میں ملک کے بڑے بڑے بہادر جرنیل شکست کھا کر آئے تھے اور ایک ایسے علاقہ کی طرف بھیجا گیا تھا جس کا دوبارہ فتح کرنا بالکل ناممکن سمجھا جاتا تھا یہ دو سال باہر رہا یہ جنگلوں میں گیا، یہ پہاڑوں میں گیا اور اس نے دشمن سے متواتر لڑائیاں کیں یہ ہر روز مرتا تھا.ہر صبح مرتا تھا اور ہر شام مرتا تھا.ہر شام اس کی بیوی سوچتی تھی کہ صبح میں بیوہ ہو کر اٹھوں گی اور ہر صبح جب وہ اٹھتی تھی تو خیال کرتی تھی کہ شام مجھ پر بیوگی کی حالت میں آئے گی.ہر شام اس کے بچے سوتے تھے تو سمجھتے تھے کہ صبح ہم یتیم ہوں گے اور ہر صبح اس کے بچے اٹھتے تھے تو وہ خیال کرتے تھے کہ شام کو ہم یتیم ہوں گے ایک متواتر قربانی کے بعد اس نے اتنا بڑا ملک فتح کیا اور آپ کی مملکت میں لا کر شامل کیا.اس کے بدلہ میں آپ نے اس کو چند گز کپڑا دیا جس کی حیثیت ہی کیا تھی مگر محض اس لئے کہ اس نے مجبوراً اس خلعت سے ناک پونچھ لیا آپ اس پر اتنا خفاء ہوئے پھر میں کیا جواب دوں گا اس خدا کے سامنے جس نے مجھے یہ جسم ایسا دیا ہے جس کو کوئی بادشاہ بھی نہیں بنا سکتا جس نے مجھے یہ خلعت دی ہے اور میں اس کو تیری خاطر گندہ کر رہا ہوں میں اس کے متعلق اپنے خدا کو کیا جواب دوں گا.یہ کہہ کر وہ دربار سے نکل گئے مگر وہ اتنے ظالم اور جابر تھے کہ جب مسجد میں گئے اور انہوں نے کہا کہ میں تو بہ کرنا چاہتا ہوں تو ہر ایک نے یہی کہا کہ کمبخت کیا شیطانوں کی تو یہ بھی کہیں قبول ہوسکتی ہے، نکل جایہاں سے.انہوں نے ہر جگہ پھرنا شروع کیا مگر کسی کو یہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ان کی توبہ قبول www.alislam.org

Page 12

16 15 کرے.آخر وہ جنید بغدادی کے پاس پہنچے کہ اس اس طرح مجھ سے قصور ہوئے ہیں اور اب میں تو بہ کرنا چاہتا ہوں کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہاہاں قبول ہوسکتی ہے مگر ایک شرط پر ، پہلے اسے مانو شبلی نے کہا مجھے وہ شرط بتا ئیں، میں ہر شرط ماننے کے لئے تیار ہوں.انہوں نے کہا اس شہر میں جاؤ جہاں تم گورنر رہے ہو اور ہر گھر پر دستک دے کر کہو کہ میں تم سے معافی مانگتا ہوں اور جو جو ظلم تم نے کئے تھے ان کی لوگوں سے معافی لو.انہوں نے کہا منظور ہے چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے ہر دروازہ پر دستک دینی شروع کر دی جب لوگ نکلتے وہ کہتے کہ میں شبلی ہوں جو یہاں کا گورنر تھا میں قصور کرتا رہا ہوں.خطائیں کرتا رہا ہوں اور تم لوگوں پر ظلم کرتا رہا ہوں، اب میں اس کی معافی طلب کرتا ہوں لوگ کہہ دیتے کہ اچھا ہم نے معاف کردیا لیکن نیکی کا بیج ہمیشہ بڑھتا اور رنگ لاتا ہے دس ہیں گھروں سے گذرے تو سارے شہر میں آگ کی طرح یہ بات پھیل گئی کہ وہ گورنر جو کل تک اتنا ظالم مشہور تھا وہ آج ہر دروازہ پر جا جا کر معافیاں مانگ رہا ہے اور لوگوں کے دلوں میں روحانیت کا چشمہ پھوٹا اور انہوں نے کہا، ہمارا خدا کتنا زبردست ہے کہ ایسے ایسے ظالموں کو بھی نیکی اور توبہ کی توفیق عطا فرما دیتا ہے چنانچہ پھر تو یہ ہو کہ بلی ، جنید کے کہنے کے ماتحت ننگے پاؤں ہر دروازہ پر جا کر دستک دیتے تھے لیکن بجائے اس کے کہ دروازہ کھل کر شکوہ اور شکایت کا دروازہ کھلتا اندر سے روتے ہوئے لوگ نکلتے اور کہتے تھے کہ آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں آپ تو ہمارے لئے قابل قدر وجود ہیں اور ہمارے روحانی بزرگ ہیں.آپ ہمیں اس طرح شرمندہ نہ کریں.غرض سارے شہر سے انہوں نے معافی لی اور پھر وہ جنید کے پاس آئے اور انہوں نے توبہ قبول کی اور انہیں اپنے شاگردوں میں شامل کیا اور اب وہ مسلمانوں کے بڑے بڑے اولیاء میں سے سمجھے جاتے ( سیر روحانی جلد دوم صفحه ۱۶ تا ۱۶۳) ہیں.غیرت کی مثال وہ کیا چیز تھی جس کی وجہ سے باوجود دشمن کے زیادہ اور قوی ہونے کے مسلمان کامیاب ہوئے.وہ غیرت تھی جس کے ماتحت اتنا بڑا کام ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی حکومت قائم ہوگئی.اس زمانہ میں بھی ہمیں ایک نظیر ملتی ہے.یونان اور ترکوں کی ایک دفعہ جنگ ہوئی.یونانیوں کا گمان تھا کہ ہمیں بیرونی ممالک کی مدد سے ترکوں کے مقابلہ میں فتح حاصل ہوگی.یونانیوں کے پاس ایک قلعہ تھا جو ایک پہاڑی پر واقع تھا اور ایسے موقع پر تھا کہ وہاں سے اگر گولہ باری ہوتی تو تمام یونان کو جانے والے راستوں پر گولے پڑتے تھے.یورپ کی وہ حکومتیں جنہوں نے یونان کو انگیخت کیا تھا، ان کا خیال تھا کہ چھ مہینہ تک یہ قلع فتح نہیں ہوسکتا اور اتنے عرصہ میں روس وغیرہ حکومتوں کی طرف سے یونانیوں کے لئے کمک پہنچ جائے گی اور پھر ترکوں کا مار لینا کچھ بھی مشکل نہ ہوگا.ان لوگوں میں بھی مذہب کی ظاہری حالت کے لئے ایک غیرت تھی.ترکوں کا ایک مشہور جرنیل ( جس کا نام غالبا ابراہیم پاشا تھا) ترکوں کی فوج کا افسر تھا.اس نے حکم دیا کہ یونان کی طرف بڑھو.جب لشکر بڑھا تو یونانیوں کی طرف سے اس شدت سے گولہ باری ہوئی کہ قدم اٹھانا مشکل ہو گیا اور پہاڑی کی بلندی کی وجہ سے اس پر سیدھا چڑھنا مشکل تھا اور سپاہیوں نے درخواست کی کہ ہمیں بوٹ اتارنے کی اجازت دی جائے مگر افسر نے اجازت نہ دی اور خود ان کے لئے نمونہ بن کر آگے بڑھا.اس گولیوں کے مینہ کا مقابلہ کرنا آسان نہ تھا.تھوڑی ہی دور چل کر گولی لگی اور جرنیل زخمی ہو کر گرا.اس کے گرتے ہی سپاہی اس کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھے.مگر www.alislam.org

Page 13

18 17 اس نے انہیں کہا کہ تم کو خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ مجھے ہاتھ نہ لگاؤ اور یہیں پڑا رہنے دو.اگر تم نے مجھے عزت کے ساتھ دفن کرنا ہے تو اس کا ایک ہی مقام ہے اور وہ اس قلعہ کی چھت ہے.پس یا تو مجھے اس جگہ دفن کرو ورنہ یہیں پڑا رہنے دو کہ چیلیں اور کتے میرا گوشت نوچ کرکھا جاویں.چونکہ اس افسر کا تعلق فوج سے بہت اعلیٰ درجہ کا تھا.اس کی یہ بات ایک چنگاری بن گئی.جس نے سپاہ کی غیرت کو بارود کی طرح آگ لگا دی اور اب ان کے سامنے سوائے اس قلعہ کی فتح کے اور کوئی مقصد نہ رہا.اور وہ لوگ ایک منٹ میں کچھ کے کچھ بن گئے اور چیچنیں مارتے ہوئے اسی آگ کی بارش میں قلعہ کی طرف بڑھے اور اس طرح قلعہ کے اوپر چڑھ گئے.لکھا ہے کہ ان کے ہاتھوں کے پپوٹے اور ناخن تمام پتھروں سے رگڑ کر اڑ گئے.مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قلعہ فتح ہو گیا اور ترکوں کا وہاں جھنڈا گڑ گیا اور اس پاشا کو وہاں دفن کیا گیا.پس جب غیرت آتی ہے تو کوئی بات انہونی نہیں رہتی.(انوار العلوم جلد ۵ صفحه ۱۴ - ۱۵) دوست آن باشد بچے وفادار کی یہی علامت ہوتی ہے، وہ اپنے دوست اور محبوب کے لئے اپنی ہر چیز قربان کرنے لئے تیار ہو جاتا ہے کجا یہ کہ ایسا محبوب اور دلدار ہو جو نہ صرف محبوب اور دلدار ہو بلکہ انسان کا خالق اور مالک اور آقا بھی ہو.قصہ مشہور ہے کہ ایک نوجوان اپنے باپ کا مال دوستوں کے ساتھ مل کر اڑانے کا عادی تھا.ہر وقت اس کے اردگرد خوشامدیوں کا ہجوم رہتا اور وہ دن رات روپیہ کو برباد کرتے رہتے.اس کا باپ اسے ہمیشہ نصیحت کرتا کہ یہ خوشامدی اور خود غرض نوجوان ہیں انہیں تم سے حقیقی محبت نہیں.تم ان پر اپنا روپیہ بر با دمت کرو.مگر وہ اپنے باپ کی نصیحت کو کبھی تسلیم نہ کرتا اور یہی جواب دیتا کہ یہ میرے بچے دوست ہیں.باپ نے کہا.تمہیں اتنے دوست کہاں سے مل گئے مجھے تو ساری عمر میں صرف ایک دوست ملا ہے اور تمہاری یہ حالت ہے کہ تمہارے ارد گرد ہر وقت دوستوں کا ہجوم رہتا ہے.جب بہت عرصہ گزر گیا اور باپ کی نصیحت اس نے تسلیم نہ کی تو ایک دن باپ نے اسے کہا اگر تمہیں میری بات پر اعتبار نہیں تو تجربہ کرلو اور اپنے دوستوں کا امتحان لے لو.پھر تمہیں خود بخود پتہ لگ جائے گا کہ تمہارے کتنے حقیقی دوست ہیں.اس نے کہا میں اپنے دوستوں کا کس طرح امتحان لوں.باپ نے کہا.کہ تم ہر دوست کے مکان پر جاؤ اور اسے کہو کہ میرے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے اور جائداد سے مجھے بے دخل کر دیا ہے مجھے اس وقت کچھ روپیہ دیا جائے تا کہ میں روزگار کا انتظام کرسکوں.جب وہ اپنے دوستوں کے مکانوں پر گیا.اور انہیں معلوم ہوا کہ اسے باپ نے گھر سے نکال دیا ہے تو کسی نے اندر سے کہلا بھیجا کہ میں بیمار ہوں افسوس www.alislam.org

Page 14

20 19 ہے کہ اس وقت مل نہیں سکتا.کسی نے خادم کے ذریعہ کہلوا دیا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں.کسی نے معذرت کا اظہار کر دیا اور کہدیا کہ روپیہ تو تھا مگر آج ہی فلاں کو دیدیا گیا ہے.اسی طرح وہ خالی ہاتھ اپنے باپ کے پاس واپس پہنچا اور اسے کہا کہ آپ کی بات درست ثابت کبھی کروڑ پتیوں پر بھی ایسی مصیبت آجاتی ہے کہ وہ پیسہ پیسہ کے محتاج ہو جاتے ہیں.(جیسے مشرقی پنجاب میں کئی مسلمان کروڑ پتی تھے مگر آج وہ بالکل کنگال ہیں ) میں ساری عمر پیسہ پیسہ جمع کر کے چار پانچ سورو پید اکٹھا کیا تھا اور اسے زمین میں دبا رکھا تھا.ہوئی.میری تو کسی شخص نے مدد نہیں کی.باپ نے کہا: اب آؤ میں تمہیں اپنا دوست بتاتا اس خیال کے آنے پر میں نے زمین کھودنی شروع کر دی اور وہ تھیلی نکال لی اس لئے مجھے ہوں.یہ کہہ کر وہ اسے اپنے ساتھ شہر سے باہر جنگل کی طرف لے گیا اور ایک مکان کے پاس پہنچ کر اس نے آواز دی.جس طرح اس زمانہ میں ریل پر پہرہ ہوتا ہے اس طرح پرانے زمانے میں سڑکوں پر پہرہ ہوا کرتا تھا اور وہ شخص بھی انہی پہرہ داروں میں ملازم تھا.اس نے زنجیر کھٹکھٹائی تو اندر سے آواز آئی کہ کون ہے.اس نے اپنا نام لیا کہ فلاں شخص ہوں.اس نے کہا: بہت اچھا مگر اتنا کہنے کے بعد خاموشی طاری ہوگئی اور آدھ گھنٹے تک اندر سے کوئی جواب نہ آیا.بیٹا کہنے لگا: آپ کا دوست بھی میرے دوستوں جیسا ہی ثابت ہوا ہے.باپ نے کہا: گھبراؤ نہیں ، ابھی پتہ لگ جاتا ہے کہ اس نے نکلنے میں کیوں دیر لگائی ہے.پانچ دس منٹ اور گزرنے کے بعد وہ شخص باہر نکلا.اس نے ایک ہاتھ میں اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا.اس کی کمر میں میان بندھی ہوئی تھی اور اس کے دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی.اس نے باہر نکل کر کہا: میرے دوست معاف کرنا مجھے دیر اس لئے ہو گئی کہ آج آپ آدھی رات کے وقت تشریف لائے ہیں.جب آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو میرے دل میں خیال آیا کہ آدھی رات کے وقت آپ کا میرے پاس آنا ضرور اپنے اندر کوئی غرض رکھتا ہے.چنانچہ میں نے سوچا کہ ممکن ہے آپ پر اس وقت کوئی مصیبت آئی ہوئی ہو اور آپ مدد کے لئے میرے پاس آئے ہوں اس خیال کے آنے پر میں نے تلوار اٹھالی.کیونکہ یہی اک چیز ہے جس سے میں آپ کی مدد کر سکتا تھا.پھر مجھے خیال آیا کہ گو آپ کروڑ پتی ہیں مگر باہر آنے میں دیر ہوگئی ہے اس کے بعد مجھے خیال آیا کہ ممکن ہے آپ کے گھر والے بیمار ہوں اور ان کی تیمارداری کے لئے کسی کی مدد کی ضرورت ہو.چنانچہ میں نے اپنی بیوی کو جگایا اور اسے بھی اپنے ساتھ لے لیا.اب یہ تینوں چیز میں حاضر ہیں.بتائیے آپ کو کیا کام ہے.باپ نے اپنے بیٹے سے کہا: دیکھا.اس قسم کے دوست ہوا کرتے ہیں.یہ مثال اپنے اندر یہ سبق رکھتی ہے کہ اگر انسانوں کے دوست اس قسم کے ہو سکتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے دوست کو کیسا ہونا چاہئے.( خطبات محمود جلد ۲ صفحه ۲۹۹ تا صفحه ۳۰۱ بحواله الفضل یکم نومبر ۱۹۴۷ء) www.alislam.org

Page 15

22 21 ہنوز دلی دور است حضرت نظام الدین صاحب اولیاً جو دتی کے ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں، ان کے زمانہ کا بھی ایک بادشاہ غیاث الدین تغلق ان کا مخالف ہو گیا.وہ اس وقت بنگال کی طرف کسی جنگ پر جارہا تھا.اس نے کہا جب میں واپس آؤں گا تو انہیں سزا دونگا.ان کے مریدوں نے یہ بات سنی تو وہ بڑے گھبرائے اور انہوں نے شاہ صاحب سے آ کر کہا کہ حضور جو لوگ شاہی دربار میں رسوخ رکھتے ہیں اگر ان کے ذریعہ بادشاہ کے پاس سفارش ہو جائے تو بہتر ہوگا.آپ نے فرمایا: ہنوز دلی دور است.ابھی تو اس نے لڑائی کے لئے جانا ہے اور پھر دشمن سے جنگ کرنی ہے.ابھی سے کسی فکر کی کیا ضرورت ہے.اس وقت تو وہ دتی میں موجود ہے اور لڑائی کے لئے گیا بھی نہیں.پھر آٹھ دس دن اور گزر گئے تو مرید پھر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس آئے اور کہا: حضور اب تو آٹھ دس دن گذر چکے ہیں اور بادشاہ لڑائی کے لئے جاچکا ہے اب تو کوئی علاج سوچنا چاہئے.مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دتی دور است.آخر جس جنگ پر وہ گیا تھا اس کے متعلق خبر آگئی کہ اس میں بادشاہ کو فتح حاصل ہوگئی ہے اور وہ واپس آ رہا ہے.مرید پھر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس پہنچے اور بادشاہ کی واپسی کی خبر دی.مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دتی دور است.ابھی تو وہ دو چار سو میل کے فاصلہ پر ہے.ابھی کسی فکر کی کیا ضرورت ہے.جب وہ آٹھ دس منزل کے فاصلہ پر پہنچ گیا تو وہ پھر آئے اور انہوں نے کہا کہ اب تو وہ بہت قریب آ گیا ہے.آپ نے فرمایا: ہنوز دلی دور است.جب وہ اور زیادہ قریب آ گیا اور دو تین منزل تک پہنچ گیا تو پھر آپ کے مرید سخت گھبراہٹ کی حالت میں آپ کے پاس پہنچے مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دتی دور است.آخر ایک دن پتہ لگا کہ بادشاہ کی فوجیں فصیل کے باہر ٹھہر گئی ہیں.ان کے مرید یہ خبر سن کر پھر آپ کے پاس آئے اور کہا حضور اب تو وہ دتی کی فصیلوں تک آپہنچا ہے.آپ نے فرمایا: ہنوز دتی دور است.ابھی تو وہ فصیل کے باہر ہے.اندر تو داخل نہیں ہوا کہ ہمیں گھبراہٹ ہو.اسی رات ولی عہد نے فتح کی خوشی میں ایک بہت بڑی دعوت کی اور شاہانہ جشن منایا.ہزاروں لوگ اس دعوت اور رقص وسرور کی محفل میں شریک ہوئے.ولی عہد نے اس دعوت کا انتظام ایک بہت بڑے محل کی چھت پر کیا تھا.چونکہ چھت پر بہت زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے تھے، اس لئے اچانک چھت نیچے آگری اور بادشاہ اور اس کے رفقاء سب دب کر ہلاک ہو گئے.صبح جب بادشاہ کی موت کی خبر آئی تو انہوں نے کہا: میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ ہنوز دتی دور است.غرض ہمارا خدا بڑی بزرگ شان رکھنے والا ہے اور جو بھی اس کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرتا ہے وہ اپنی اپنی روحانیت اور درجہ کے مطابق بزرگی حاصل کر لیتا ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ کی شان اور عظمت پر حملہ کرنے والا سزا پاتا ہےاسی طرح وہ لوگ جوخدا تعالیٰ کے مقربین پر حملہ کرتے ہیں وہ بھی اپنے کئے کی سزا پائے بغیر نہیں رہتے.( تفسیر کبیر جلدے صفحہ ۳۶.۳۷) www.alislam.org

Page 16

24 23 تو را شنان سو مورا شنان اس وقت ضرورت ہے کہ ( دین حق ) کے لئے اور سلسلہ احمدیہ کے لئے ہر ایک قربانی جس کی ضرورت ہو، کی جائے اور جب تک تم میں سے ہر ایک قربانی نہیں کرے گا، ان ترقیوں کے منہ نہیں دیکھ سکو گے جو مقدر ہیں.زید و بکر کی قربانی تمہارے لئے کافی نہیں ہوسکتی.تمہارے لئے تمہاری اپنی ہی قربانی کام آنے والی ہے.اگر تم دوسروں کی قربانیوں پر خوش ہو گئے تو تمہاری مثال ایسی ہی ہوگی جیسی کسی پنڈت کے متعلق مشہور ہے.کہتے ہیں.ایک پنڈت صبح کے نہانے کو فرض قرار دیتا تھا.صبح کے وقت دریا پر گیا.سردی کا موسم تھا اتنی تو جرات نہ ہوئی کہ دریا میں داخل ہو کر نہائے.ایک کنکر اٹھا کر اس کو مخاطب کر کے کہنے لگا.تو را شنان سوموراشنان یعنی تیرا نہانا میرا نہانا ہی ہے.یہ کہہ کر کنکر دریا میں ڈال دیا.راستہ میں ایک دوسرا پنڈت ملا.اس نے کہا بھٹی کیسے نہائے.اس نے ترکیب بتلائی.اس پنڈت نے اسے مخاطب کر کے کہدیا کہ ” تو راشنان سوموراشنان‘ اور واپس آ گیا.پس سید عبداللطیف اور عبدالرحمن خان کی قربانی کو اپنے لئے کافی نہ سمجھو کسی کی نماز سے اپنی نماز ادا نہیں ہوسکتی.جو کچھ ان سے ظاہر ہوا، وہ ان کا کام تھا.تم اپنا فرض آپ ادا کرنیکی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرماوے کہ ہم ان قربانیوں کو ادا کریں.جن کی اس وقت ( دین حق) کے لئے ضرورت ہے اور ہمیں وہ دن نصیب کرے کہ ہم پوری ترقیاں دیکھیں اور ( دین حق ) اپنی اصلی شان میں آجائے.( خطبات محمود جلد ۶ صفحه ۲۴۳ بحواله الفضل ۲۴ جون ۱۹۱۹ء) نادان ہے جو شمشیر کو دیکھتا ہے شمشیر بذات خود کچھ نہیں کرسکتی.ہاں جب شمشیر زن کے ہاتھ میں ہوتی ہے تو اس وقت کام کرتی ہے.نادان ہے جو شمشیر کو دیکھتا ہے.دانا وہی ہے جو شمشیر زن کو دیکھے.مثل ہے کہ ایک بادشاہ کے لڑکے نے دیکھا کہ ایک سوار تلوار کے ایک وار میں جانور کے چاروں پاؤں کاٹ دیتا تھا.اس زمانہ میں امتحان کے لئے چاروں پاؤں جانور کے باندھ کر کھڑا کر دیتے تھے اور شمشیر زن ایک وار میں چاروں پاؤں کاٹ دیتا تھا.لڑکے نے اس سوار سے تلوار مانگی.مگر اس نے کہا: میاں اس تلوار کو کیا کرو گے.تمہارے ہاں اور بہت سی تلوار میں ہیں.لڑکے نے اپنے باپ بادشاہ کو کہا کہ فلاں سوار سے میں نے اس کی تلوار مانگی تھی مگر وہ نہیں دیتا.بادشاہ نے سوار کو بلا کر جھاڑا اور تلوار لے دی.لڑکے نے تلوار چلائی.مگر اس کے چاروں پیر تو کیا کھال بھی نہ کٹی.اس نے بادشاہ سے کہا کہ سوار نے اس تلوار کی بجائے کوئی اور دے دی ہے.سوار کو بادشاہ نے پھر بلایا.تو اس نے کہا میں نے وہی تلوار دی ہے.لائیے میں کاٹ کر دکھلاؤں.چنانچہ سوار نے تلوار لے کر جانور کے چاروں پاؤں کاٹ دیئے.تب بادشاہ سمجھ گیا کہ اصل میں یہ تلوار کا کام نہ تھا بلکہ اس شمشیر زن کا کام تھا.خطبات محمود جلد ۶ صفحه ۵۵۶ بحواله الفضل ۶ دسمبر ۱۹۲۰ء) ☆☆☆ www.alislam.org ✰✰✰

Page 17

26 25 ادنی اعلیٰ پر قربان ہوتا ہے ایک مشہور واقعہ ہے اور ہندوستان کی تاریخ پڑھنے والے بچے بھی جانتے ہیں کہ جس وقت ہمایوں بادشاہ شیر شاہ سے شکست کھا کر بھاگا ہے.اس وقت اس کا مشہور جرنیل بیرم خان دشمنوں کے قبضہ میں آ گیا جس کے ساتھ اس کا غلام بھی گرفتار ہوا.جب ان سے پوچھا گیا کہ بیرم خان کون ہے؟ تو غلام نے کہا میں ہوں.اس پر بیرم خان نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنا آپ دشمنوں پر ظاہر کر دے اور انہیں یقین دلا دے کہ میں ہی بیرم خان ہوں لیکن اس کے غلام نے ایسا رنگ اختیار کیا اور ایسے طریق سے گفتگو کی کہ دشمنوں کو یقین آ گیا کہ وہی بیرم خان ہے اور انہوں نے اسے قتل کر دیا.اس طرح بیرم خان بچ گیا.اگر چہ غلام نے جھوٹ سے کام لیا.لیکن اس میں شک نہیں کہ اس نے اپنے آپ کو آقا پر قربان کر کے اس کی جان بچالی.کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ میرے وجود کی نسبت اس کا وجود بہت قیمتی اور کارآمد ہے.چنانچہ بیرم خاں ہمایوں کی اس مصیبت کے وقت میں بہت کام آیا اور اسی کے ذریعہ ہمایوں کو بہت سی فوج ملی جس سے اس نے ہندوستان کو دوبارہ فتح کیا.یہ تو ایک شخص کی قربانی کا واقعہ ہے.بعض جگہ تو ہزاروں اور لاکھوں انسانوں نے صرف ایک شخص کے لئے اپنی جان قربان کر دی ہے.ابھی قریب ہی کے زمانہ میں ایک مشہور بادشاہ گذرا ہے جس کا نام نپولین تھا.یہ ایک معمولی خاندان کا ممبر اور بہت ہی معمولی حیثیت کا انسان تھا.حتی کہ مؤرخین کو اس کے والدین کے تاریخی حالات میں بھی شبہ پڑا ہوا ہے.بعض اس کے والد کے متعلق کچھ لکھتے ہیں اور بعض کچھ.یہ جزیرہ کا رسید کا کا رہنے والا تھا اور تعلیم پانے کے لئے فرانس میں آیا تھا.لیکن اپنی دانائی اور ملک کی خیر خواہی کی وجہ سے آہستہ آہستہ فرانس کا بادشاہ بن گیا.فرانس میں جب بغاوت اور فساد ہوا تو بادشاہ اسی کو بنایا گیا تھا.نسلی یا خاندانی تو کوئی وجہ ایسی نہ تھی کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے اور اپنا شہنشاہ بنا لیتے لیکن اس میں جو قابلیت اور ملک کی خیر خواہی تھی اس کی وجہ سے یہ مقام ایسا حاصل ہوا کہ بعض اوقات لاکھوں ہزاروں انسان اس کی خاطر اور اس کی حفاظت کرتے ہوئے ذبح ہو گئے.آخری دفعہ واٹرلو کے میدان میں جب انگریزوں اور جرمنوں نے اس کو شکست دی ہے، اس وقت کے واقعات نہایت موثر اور رقت پیدا کرنے والے ہیں.اس کے متعلق اسی کا ایک جرنیل لکھتا ہے کہ جس وقت نپولین کو یہ دھوکا لگ گیا کہ اس نے سمجھا کہ اس کی فوج کا وہ حصہ جسے اس نے پیچھے اپنی مدد کے لئے چھوڑ رکھا تھا کہ بعد میں آملے وہ آرہا ہے.حالانکہ آنیوالی فوج دشمن کی فوج تھی اور وہ بالکل قریب آگئی تھی.تو یہ خبر لے کر میں ہی نپولین کے پاس گیا.جس وقت میں گیا تو ہماری ساری فوج پراگندہ ہو رہی تھی اور گولہ بارود بالکل ختم ہو چکا تھا.آگے اور پیچھے دونوں طرف دشمن حملہ آور تھا.اس خطر ناک صورت میں ہر ایک جرنیل نپولین کے پاس آتا اور کہتا کہ اب آپ میدان سے ہٹ جائیں لیکن اس کا یہی جواب تھا کہ جس میدان میں میں اپنے ملک کے نو جوانوں کو لا کر قربان کر رہا ہوں، اس سے خود کس طرح ہٹ جاؤں.میں یہاں سے کبھی نہیں ہٹوں گا.اس وقت تو پخانہ کے آدمی نہتے ہو کر نپولین کے گرد کھڑے تھے.جن سے پوچھا گیا کہ جب تمہارے پاس لڑائی کا سامان نہیں تو کیوں نہیں ہٹ جاتے.انہوں نے کہا: ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس سامان نہیں ہے لیکن ہم اس لئے میدان سے نہیں ہٹتے کہ ہمارے ہٹنے سے نپولین پکڑا جائے گا.آخر اس کے گارڈ کے آدمی بھی کٹنے شروع ہو گئے بلکہ قریباً کٹ گئے تو بھی نپولین میدان سے ہٹ جانے پر آمادہ نہ ہوا اور اس کی جان.www.alislam.org

Page 18

28 27 نہایت خطرہ میں پڑ گئی تو دو جرنیل آئے اور انہوں نے اس کے گھوڑے کی باگیں پکڑ لیں اور کہا کہ اب ملک کی خیر خواہی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس بارہ میں آپ کی اطاعت نہ کریں.یہ کہا اور نپولین کے گھوڑے کو ایڑ لگا کر دوڑاتے ہوئے میدان سے لے گئے.( خطبات محمود جلد ۲ صفحه ۴۰ ۴۱ بحواله الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۱۸ء) جماعت کی برکت نپولین ایک بادشاہ گذرا ہے.اس کی نسبت مؤرخوں نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے.وہ فرانس کا بادشاہ تھا.اس نے روس پر حملہ کیا.روسیوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ اپنے گاؤں اور شہروں کو جلاتے جاتے اور آگے آگے نکلتے جاتے.چونکہ روس کا ملک بہت وسیع ہے اور اس کا شمالی حصہ ایسا خطرناک ہے کہ اگر کوئی واقف کار نہ ہو تو برف کی وجہ سے انسان ہلاک ہو جاتے ہیں اس لئے وہاں تک پہنچ کر نپولین کی بہت سی فوج تباہ ہوگئی.اس وقت روسیوں نے نپولین کی فوج پر حملے کرنے شروع کر دیئے اور اسے بہت تنگ کیا.حتی کہ وہ واپس ہونے پر مجبور ہوگئی اور اسے بہت جلدی واپس آنا پڑا.راستہ میں ایک جگہ ایسی تنگ ہوئی کہ بیٹھنے تک کے لئے جگہ نہ میسر ہو سکی کیونکہ تمام اردگرد دلدل تھی.اگر زمین پر بیٹھیں تو کپڑے اور ہتھیار کیچڑ سے بھر جاتے تھے اور اگر نہ بیٹھیں تو اتنے تھک گئے تھے کہ چلنے کی طاقت نہ تھی.اس وقت نپولین نے یہ تجویز کی کہ وہاں ایک کرسی تھی اس پر ایک شخص کو بیٹھا دیا.دوسرے کو اس کے گھٹنوں پر.تیسرے کو دوسرے کے گھٹنوں پر حتی کہ اس طرح ایک وسیع حلقہ میں لوگوں کو بٹھا دیا.آخری آدمی کے گھٹنوں پر اس پہلے شخص کو بٹھا کر کرسی اس کے نیچے سے نکال لی اور اس پر خود بیٹھ گیا.اس طرح تمام فوج نے آرام بھی کر لیا اور سامان بھی خراب نہ ہوا.تو جماعت کے ساتھ وابستہ ہونے میں بہت سی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض تو ایسے فوائد پہنچتے ہیں جن کا پتہ بھی نہیں لگتا کہ یہ بھی کوئی بوجھ تھا جو ہلکا ہو گیا ہے.لیکن اگر اس کام کوفرڈ افرڈ ا کرنے لگو تو بہت مشکل پیش آ جاتی ہے.( خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۱۱۲ ۱۱۳ بحوالہ الفضل ۳۰ مئی ۱۹۱۶ء) www.alislam.org

Page 19

30 29 رگدا حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ دو قسم کے گداگر ہوتے ہیں ایک وہ جو دروازے پر آ کر مانگنے کے لئے جب آواز دیتے ہیں تو کچھ لئے بغیر نہیں ملتے.ان کو ٹر گدا کہتے ہیں اور دوسرے وہ جو آ کر آواز دیتے ہیں اگر کوئی دینے سے انکار کر دے تو اگلے دروازے پر چلے جاتے ہیں.ان کو خر گدا کہتے ہیں.آپ فرماتے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور خر گدا نہیں بننا چاہئے.بلکہ نر گدا ہونا چاہئے اور اس وقت تک خدا کی درگاہ سے نہیں ہٹنا چاہئے جب تک کچھ پل نہ چکے.اس طرح کرنے سے اگر دعا قبول نہ بھی ہوئی ہو تو خدا تعالیٰ کسی اور ذریعہ سے ہی نفع پہنچادیتا ہے.پس دوسرا گر دعا کے قبول کروانے کا یہ ہے کہ انسان نر گدا بنے نہ کہ خر گدا.اور سمجھ لے کہ کچھ لے کر ہی ہٹنا ہے.خواہ پچاس سال ہی کیوں نہ دعا کرتا رہے.یہی یقین رکھے کہ خدا میری دعا ضرور سنے گا.یہ خیال بھی اپنے دل میں نہ آنے دے کہ نہیں سنے گا اگر چہ جس کام یا مقصد کے لئے وہ دعا کرتا ہو وہ بظاہر ختم شدہ ہی کیوں نہ نظر آئے پھر بھی دعا کرتا ہی جائے.لکھا ہے ایک بزرگ ہر روز دعا مانگا کرتے تھے ایک دن جبکہ وہ دعا مانگ رہے تھے ان کا ایک مرید آکر ان کے پاس بیٹھ گیا.اس وقت ان کو الہام ہوا جو اس مرید کو بھی سنائی دیا.لیکن وہ ادب کی خاطر چپکا ہورہا اور اس کے متعلق کچھ نہ کہا.دوسرے دن پھر جب انہوں نے دعا مانگنی شروع کی تو وہی الہام ہوا جسے اس مرید نے بھی سنا.اس دن بھی وہ چپ رہا.تیسرے دن پھر وہی الہام ہوا.اس دن اس سے نہ رہا گیا.اس لئے اس بزرگ کو کہنے لگا کہ آج تیسرا دن ہے کہ میں سنتا ہوں ہر روز آپ کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہاری دعا قبول نہیں کروں گا.جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے تو پھر آپ کیوں کرتے ہیں.جانے دیں.انہوں نے کہا: نادان! تو صرف تین دن خدا کی طرف سے یہ الہام سن کر گھبرا گیا ہے اور کہتا ہے کہ جانے دو.دعا ہی نہ کرو.مگر مجھے تمیں سال ہوئے ہیں یہی الہام سنتے لیکن میں نہیں گھبرایا اور نہ نا امید ہوا ہوں.خدا تعالیٰ کا کام قبول کرنا ہے اور میرا کام دعا مانگنا.تو خواہ مخواہ دخل دینے والا کون ہے؟ وہ اپنا کام کر رہا ہے میں اپنا کر رہا ہوں.لکھا ہے.دوسرے ہی دن الہام ہوا کہ تم نے تمیں سال کے عرصہ میں جس قدر دعائیں کی تھیں ہم نے وہ سب قبول کرلی ہیں.تو اللہ سے کبھی نا امید نہیں ہونا چاہئے.ناامید ہونے والے پر اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اٹھتا ہے جو شخص نا اُمید ہوتا ہے وہ سوچے کہ کونسی کمی ہے جو اس کے لئے خدا نے پوری نہیں کی.کیسے کیسے فضل اور کیسے کیسے انعام ہوئے اور ہور ہے ہیں.پھر آئندہ ناامید ہونے کی کیا وجہ ہے؟ خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۱۸۳ بحوالہ الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۱۶ء) www.alislam.org

Page 20

32 31 اندھیری راتوں کے تیر دعا ایک ایسی طاقتور چیز ہے کہ دنیا میں اور کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور بھی بہت بڑی بڑی طاقتیں ہیں، مثلاً پانی کی طاقت بجلی وغیرہ کی طاقت ہے.مگر دعا کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.ایک بزرگ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ جس جگہ رہتے تھے ان کے پڑوس میں ایک بڑا امیر رہتا تھا.جو ہر وقت گانے بجانے میں مشغول رہتا.جس سے انہیں سخت تکلیف ہوتی.ایک دن وہ اس کے پاس گئے اور جا کر کہا کہ دیکھو بھئی میں تمہارا ہمسایہ ہوں.اس لئے میرا بھی تم پر حق ہے.اول تو تمہیں اس لغو کام سے خود ہی رُک جانا چاہئے تھا.لیکن اگر ایسا نہیں کیا تو اب میری خاطر ہی اسے ترک کر دو.کیونکہ مجھے اس سے سخت تکلیف ہوتی ہے وہ چونکہ بڑا ئیں اور صاحب رسوخ تھا اس نے کہا: تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے.ہم کبھی نہیں رکیں گے.انہوں نے کہا اگر آپ اس طرح نہیں رکیں گے تو ہم بھی محبور ہیں ہم اور طرح سے روکیں گے.اس نے کہا کیا تم روکو گے؟ کیا تم میں اتنی طاقت ہے؟ میں ابھی سرکاری گارڈ منگواتا ہوں.انہوں نے کہا ہم گارڈ کا بھی مقابلہ کریں گے.اس نے کہا تم ان کا کیا مقابلہ کر سکتے ہو؟.انہوں نے کہا نا دان ! ہمارا مقابلہ تو پوں اور بندوقوں سے نہیں ہوگا بلکہ سہام اللیل سے ہوگا.لکھا ہے: یہ الفاظ انہوں نے کچھ ایسے دردناک لہجہ میں فرمائے کہ اس کی چیخیں نکل گئیں اور بول اٹھا: اس کا مقابلہ نہ میں کرسکتا ہوں نہ میرا بادشاہ کر سکتا ہے.آئندہ کے لئے میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ کو گانے بجانے کی آواز نہیں سنائی دے گی.تو دعا میں وہ طاقت ہے کہ کوئی توپ و تفنگ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی.کیوں؟ اس لئے کہ یہ تیر زمین سے نہیں بلکہ آسمان سے آتے ہیں پھر انسانوں کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدا انسانوں سے لے کر خود پھینکتا ہے اور خدا کے پھینکے ہوئے کو کوئی روک نہیں سکتا.( خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۱۴۱ بحوالہ الفضل ۴ جولائی ۱۹۱۶ء) اچھی چیز کے اظہار کی تڑپ ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک عورت نے انگوٹھی بنوائی اور اس کے اظہار کے لئے بہت طریق استعمال کئے مگر کسی نے توجہ نہ کی.آخر اس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی.جب لوگ دوڑ کر آگ بجھانے کے لئے آئے تو اتفاقاً ایک عورت کی انگوٹھی پر نظر پڑ گئی.اُس نے کہا بہن یہ انگوٹھی تم نے کب بنوائی تھی.اس نے کہا کم بخت اگر تو اس کے متعلق پہلے ہی پوچھ لیتی تو میرا گھر کیوں جلتا.ایسا تو کوئی بیوقوف ہوگا جو ایک انگوٹھی کے دکھانے کے لئے اپنے گھر کو آگ لگا دے مگر ہاں اس حکایت کے بنانے والے نے اس سے یہ ظاہر کیا ہے کہ انسانی فطرت میں یہ بات ہے کہ وہ اپنی اچھی چیز کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس جب انسانی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے اور پھر مذہب خدا کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے تو جس کے پاس یہ ہو، اس کے دل میں اس کے ظاہر کرنے کے لئے کم از کم اس عورت جتنا تو جوش ہونا چاہئے ، جس نے انگوٹھی دکھانے کے لئے اپنے گھر کو آگ لگادی تھی.جس کے پاس سچا مذہب ہو، اسے تو اس وقت تک چین نہیں آنا چاہئے جب تک کہ اپنے مذہب کا اظہار دوسروں پر نہ کرلے.خطبات محمود جلد ۵ صفحه ۳۲۸ بحواله الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۱۶ء) www.alislam.org

Page 21

34 33 مخلص کی پہچان لطیفہ مشہور ہے کہ ایک عورت کی بیٹی جس کا نام مہتی تھا، دق اور سل ہوگئی.وہ ہمیشہ یہ دعا کیا کرتی تھی کہ اے خدا! میں مرجاؤں لیکن میری بیٹی بچ جائے.جب عزرائیل اس کی جان نکالنے آئے تو اس کی بجائے میری جان نکال لے.اس عورت نے ایک گائے رکھی ہوئی تھی.ایک رات کو اس کا رسہ ٹوٹ گیا تو وہ صحن میں گھس آئی.وہاں ایک گھڑا پڑا تھا گائے نے بھوسہ کھانے کے لئے اس میں اپنا منہ ڈال لیا.گھڑے کا منہ تنگ تھا لیکن بوجہ دباؤ اس کا سر گھڑے میں پڑ گیا.مگر جب اس سے سر نکالنا چاہا تو وہ نہ نکلا.گائے گھبرائی اور صحن میں اس نے ناچنا شروع کر دیا.وہ عورت یہ خیال کرتی تھی کہ عزرائیل کی شکل نرالی ہوگی.جب اس گائے کو گھڑا اٹھائے ناچتے دیکھا تو اس نے خیال کیا کہ یہ عزرائیل ہے جو مهتی کی جان نکالنے آیا ہے.وہ پہلے تو یہ دعا کیا کرتی تھی کہ یا اللہ! میں مرجاؤں، مہتی نہ مرے اور جب عزرائیل آئے تو میرے جان نکال لے.مہتی کی جان نہ نکالے لیکن جب اس کے خیال میں عزرائیل جان نکالنے آیا تو وہ سب دعا ئیں بھول گئی اور کہنے لگی.ملک الموت من نہ مہتی ام - من یکے پیر زال محنتی ام یعنی جو عورت پہلے یہ دعا کر رہی تھی کہ عزرائیل میری لڑکی کی بجائے میری جان نکال لے.وہی جب وقت آیا تو کہنے لگی میں مہتی یعنی لڑکی کی والدہ نہیں ایک اور مزدور عورت ہوں.یہی مثال اس شخص کی ہے، جو درود پڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بیٹے قربان کرنے کے مواقع بار بار دے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو ایک دفعہ بیٹا قربان کرنے کا موقعہ ملا تھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار بیٹا قربان کرنے کا موقعہ ملے.پھر اسمعیل علیہ السلام کو تو ایک دفعہ قربان ہونے کا موقعہ ملا تھا لیکن تم دعا کرتے ہو کہ اے خدا ہمیں بار بار قربان ہونے کا موقعہ دے لیکن جب قربان ہونے کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں ملک الموت من نہ مہنتی ام - من یکے پیرزال محنتی ام.یہ چیز ہے جو عید الاضحیہ یاد کرانے کے لئے آتی ہے.گویا درود کی تشریح عیدالاضحیہ ہے اور تم یہ کہتے ہو کہ ہم خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیں گے اور جب تم ہمیشہ یہ اقرار کرتے ہو تو اب اپنی جانیں قربان کرو.کبھی تمہاری بھی عیدالاضحیہ آئے گی کر نہیں؟ ( خطبات محمود جلد ۲ صفحه ۳۴۸ بحواله الفضل ۷ اکتو برا ۱۹۵ء) ☆☆☆ www.alislam.org

Page 22

36 35 جاتے ہیں، میں غریب مسکین اور عاجز انسان اس بزرگ کے قدموں تک کس طرح پہنچ سکتا چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس ہوں.تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما کہ میری ان سے ملاقات ہو جائے.میں سمجھتا ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ ان کی طرف سرکاری سمن آیا جس میں یہ لکھا تھا کہ آپ پر بعض لوگوں کی طرف سے ایک الزام لگایا گیا ہے، اس کی جواب دہی کے لئے آپ فوراً حکومت کے سامنے حاضر ہوں ، وہ یہ سن کر حیران رہ گئے کیونکہ وہ ہمیشہ ذکر الہی میں مشغول رہتے تھے مگر چونکہ سرکاری سمن تھا وہ چل پڑے.دس بیس میل گئے ہوں گے کہ آندھی آئی ، اندھیرا چھا گیا، آسمان پر بادل امڈ آئے اور بارش شروع ہو گئی، وہ اس وقت ایک جنگل میں سے گزر رہے تھے، جس میں دُور دُور تک آبادی کا کوئی نشان تک نہ تھا صرف چند جھونپڑیاں اس جنگل میں نظر آئیں وہ ایک جھونپڑی کے قریب پہنچے اور آواز دی کہ اگر اجازت ہو تو اندر آ جاؤں.اندر سے آواز آئی کہ آ جائیے.انہوں نے گھوڑا باہر باندھا اور اندر چلے گئے.دیکھا تو ایک اپاہج شخص چار پائی پر پڑا ہے.اس نے محبت اور پیار کے ساتھ انہیں اپنے پاس بٹھالیا اور پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے اور آپ کس جگہ سے تشریف لا رہے ہیں؟ انہوں نے اپنا نام بتایا اور ساتھ ہی کہا کہ بادشاہ کی طرف سے مجھے ایک سمن پہنچا ہے جس کی تعمیل کے لئے میں جارہا ہوں اور میں حیران ہوں کہ مجھے یہ یمن کیوں آیا کیونکہ میں نے کبھی دنیوی جھگڑوں میں دخل نہیں دیا.وہ یہ واقعہ سن کر کہنے لگا کہ آپ گھبرائیں نہیں.یہ سامان اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے پاس پہنچانے کے لئے کیا ہے.میں اپاہج ہوں.رات دن چار پائی پر پڑا رہتا ہوں ، مجھے میں چلنے کی طاقت نہیں ،لیکن میں نے اپنے دوستوں سے آپ کا کئی بار ذکر سنا اور آپ کی بزرگی کی شہرت میرے کانوں تک پہنچی ، میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کیا کرتا تھا کہ یا اللہ قسمت والے تو وہاں چلے ہوں کہ اس سمن کے بہانے اللہ تعالیٰ آپ کو محض میرے لئے یہاں لایا ہے.ابھی وہ یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ باہر سے آواز آئی بارش ہورہی ہے اگر اجازت ہو تو اندر آ جاؤں.انہوں نے دروازہ کھولا اور ایک شخص اندر آیا.یہ سرکاری پیادہ تھا.انہوں نے اس سے پوچھا کہ آپ اس وقت کہاں جا رہے ہیں وہ کہنے لگا بادشاہ کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے میں فلاں بزرگ کے پاس جاؤں اور ان سے کہوں کہ آپ کو بلانے میں غلطی ہوگئی ہے دراصل وہ کسی اور کے نام سمن جاری ہونا چاہئے تھا مگر نام کی مشابہت کی وجہ سے وہ آپ کے نام جاری ہو گیا.اس لئے آپ کے آنے کی ضرورت نہیں.یہ بات سن کر وہ اپاہج مسکرایا اور اس نے کہا: دیکھا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ محض میرے لئے یہاں لایا ہے.سمن محض ایک ذریعہ تھا جس کی وجہ سے آپ میرے پاس پہنچے.یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے.والذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِ يَنَّهُمْ سُبُلَنَا جولوگ ہم میں ہو کر اور ہم سے مدد مانگتے ہوئے اپنے مقاصد کے لئے جدو جہد کرتے ہیں ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ان پر دروازے کھول دیتے ہیں.(سیر روحانی جلد دوم صفحه ۱۲۹) www.alislam.org

Page 23

38 37 لڈو اور حضرت مظہر جانِ جاناں اگر انسان اپنے دل میں شکر گذاری کا جذبہ پیدا کرے تو اسے عالم کا ذرہ ذرہ اپنا حسن دکھائی دیتا ہے اور چونکہ عالم کا ہر ذرہ خدا تعالیٰ کے احسان کے نیچے ہے اس لئے اسے خدا ہی اپنا محسن حقیقی نظر آتا ہے.حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں دتی کے ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں.ان کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں لڑو بہت پسند تھے.دلی میں بالائی کے لڈو بنتے ہیں جو بہت لذیذ ہوتے ہیں.ایک دفعہ وہ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کوئی شخص بالائی کے دولڈوان کے پاس ہدیہ لایا.ان کے ایک شاگر دغلام علی شاہ بھی اس وقت پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے وہ دونوں لڈو ان کو دے دیئے.بالائی کے لڈو بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں.اخروٹ کے برابر بلکہ اس سے بھی چھوٹے ہوتے ہیں.انہوں نے ایک دفعہ ہی وہ دونوں لڑو اٹھائے اور منہ میں ڈال لئے.جب وہ کھا چکے تو حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: میاں غلام علی ! معلوم ہوتا ہے تم کولڈ وکھانے نہیں آتے.وہ اس وقت تو خاموش ہو گئے مگر کچھ دنوں کے بعد ان سے کہنے لگے حضور مجھے لڈو کھانے سکھا دیجئے.حضرت مرزا مظہر جان جاناں نے کہا کہ اگر اب کسی دن لڈو آئیں تو مجھے بتانا.میں تمہیں لڑوکھا نا سکھا دوں گا.کچھ دنوں کے بعد پھر کوئی شخص ان کے لئے بالائی کے لڈولا یا.میاں غلام علی صاحب کہنے لگے.حضور ! آپ نے میرے ساتھ وعدہ فرمایا ہوا ہے کہ میں تمہیں لڑوکھا نا سکھا دوں گا.آج اتفاقاً پھر لڈو آ گئے ہیں.آپ مجھے بتائیں کہ لڈو کس طرح کھائے جاتے ہیں.انہوں نے اپنا رومال نکالا اور اس پر وہ لڈور کھ کر ایک لڈو سے ذرہ سا ٹکڑہ تو ڑ کر اپنے منہ میں ڈالا اور سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگ گئے.پھر فرمانے لگے.واہ مظہر جان جاناں تجھ پر تیرے رب کا کتنا بڑا فضل ہے.یہ کہ کر پھر سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگ گئے اور اپنے شاگرد کو مخاطب کر کے فرمایا : میاں غلام علی.یہ لڈو کن کن چیزوں سے بنتا ہے.انہوں نے چیزوں کے نام گنانے شروع کر دیئے کہ اس میں کچھ بالائی ہے، کچھ میٹھا ہے، کچھ میدہ ہے.یہ سن کر انہوں نے پھر سبحان اللہ سبحان اللہ کہنا شروع کر دیا اور فرمایا: میاں غلام علی.تمہیں پتہ ہے یہ میٹھا جو اس لڑو میں پڑا ہے کس طرح بنا.انہوں نے بتایا کہ زمیندار نے پہلے گنا بویا.پھر بلینے میں اس کو بیلا.پھر رس تیار ہوئی اور اس سے شکر بنائی گئی.حضرت مظہر جان جاناں فرمانے لگے: دیکھو وہ زمیندار جس نے نیشکر کو بویا تھا وہ کس طرح اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے کھیتوں میں گیا.اس نے ہل چلایا.کھیتوں کو پانی دیا اور ایک لمبے عرصہ تک محنت و مشقت برداشت کرتارہا.صرف اس لئے کہ مظہر جان جاناں ایک لڈو کھا لے.یہ کہ کر وہ پھر اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں مشغول ہو گئے اور تھوڑی دیر بعد فرمانے لگے: چھ ماہ زمیندار اپنے کھیت کو پانی دیتا رہا.پھر کس محنت سے اس نے نیشکر کو بیلا.اس سے رس نکالی اور پھر آگ جلا کر کتنی دفعہ وہ اس دنیا کے دوزخ میں گیا.محض اس لئے کہ مظہر جانِ جاناں ایک لڈو کھالے.اس کے بعد انہوں نے اسی طرح میدہ اور بالائی کے متعلق تفاصیل بیان کرنی شروع کر دیں کہ کس طرح ہزاروں آدمی دن رات ان کاموں میں مشغول رہے.انہوں نے اپنی صحت کی پرواہ نہ کی.انہوں نے اپنے آرام کو نہ دیکھا.انہوں نے اپنی آسائش کو نظر انداز کر دیا اور یہ سارے کام خدا تعالیٰ نے ان سے محض اس لئے کرائے کہ مظہر جان جاناں ایک لڈو کھالے.یہ کہہ کر ان پر پھر ربودگی کی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگ گئے.اتنے میں عصر کا وقت آ گیا اور وہ اٹھ کر نماز کیلئے چلے گئے اور لڈو اسی طرح پڑا رہا.( تفسیر کبیر جلدے صفحہ ۱۸-۱۹) www.alislam.org

Page 24

40 39 خدا تک پہنچے کا ذریعہ قصہ مشہور ہے کہ کوئی بزرگ تھے ان کے پاس ایک دفعہ ایک طالب علم آیا جو دینی علوم سیکھتا رہا.کچھ عرصہ پڑھنے کے بعد جب وہ اپنے وطن واپس جانے لگا تو وہ بزرگ اس سے کہنے لگے: میاں ایک بات بتاتے جاؤ.وہ کہنے لگا دریافت کیجئے.میں بتانے کیلئے تیار ہوں.وہ کہنے لگے اچھا یہ تو بتاؤ کیا تمہارے ہاں شیطان بھی ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگا حضور شیطان کہاں نہیں ہوتا.شیطان تو ہر جگہ ہوتا ہے.انہوں نے کہا: اچھا جب تم نے خدا تعالیٰ سے دوستی لگانی چاہی اور شیطان نے تمہیں ورغلا دیا تو تم کیا کرو گے؟ اس نے کہا میں شیطان کا مقابلہ کروں گا.کہنے لگے : فرض کرو تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ بھاگ گیا، لیکن پھر تم نے اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے جدو جہد کی اور پھر تمہیں شیطان نے روک لیا تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا: میں پھر مقابلہ کروں گا وہ کہنے لگے اچھا مان لیا تم نے دوسری دفعہ بھی اسے بھگا دیا.لیکن اگر تیسری دفعہ وہ پھر تم پر حملہ آور ہو گیا اور اس نے تمہیں اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف بڑھنے نہ دیا تو کیا کرو گے؟ وہ کچھ حیران سا ہو گیا مگر کہنے لگا: میرے پاس سوائے اس کے کیا علاج ہے کہ میں پھر اس کا مقابلہ کروں.وہ کہنے لگے: اگر ساری عمر تم شیطان سے مقابلہ ہی کرتے رہو گے تو خدا تک کب پہنچو گے.وہ لا جواب ہوکر خاموش ہو گیا.اس پر اس بزرگ نے کہا کہ اچھایہ تو بتاؤ اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جاؤ اور اس نے ایک کتا بطور پہرہ دار رکھا ہوا ہو اور جب تم اس کے دروازہ پر پہنچنے لگو تو وہ تمہاری ایڑی پکڑلے تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا کتے کو مارونگا اور کیا کرونگا.وہ کہنے لگے : فرض کرو تم نے اسے مارا اور وہ ہٹ گیا لیکن اگر دوبارہ تم نے اس دوست سے ملنے کے لئے اپنا قدم آگے بڑھایا اور پھر اس نے تمہیں آ پکڑا تو کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا: میں پھر ڈنڈا اٹھاؤں گا اور اسے ماروں گا.انہوں نے کہا اچھا تیسری بار پھر وہ تم پر حملہ آور ہو گیا تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا: اگر وہ کسی طرح باز نہ آیا تو میں اپنے دوست کو آواز دوں گا کہ ذرا باہر نکلنا.یہ تمہارا کتا مجھے آگے بڑھنے نہیں دیتا.اسے سنبھال لو.وہ کہنے لگے : بس یہی گر شیطان کے مقابلہ میں بھی اختیار کرنا اور جب تم اس کی تدابیر سے بچ نہ سکو تو خدا سے یہی کہنا کہ وہ اپنے کتے کو روکے اور تمہیں اپنے قرب میں بڑھنے دے..تم اس کا ہاتھ کیوں نہیں پکڑ لیتے جس کے قبضہ قدرت میں یہ تمام چیزیں ہیں.اگر تم اس سے دوستی لگا لو تو تمہیں ان چیزوں کا کوئی خطرہ نہ رہے اور ہر تباہی اور مصیبت سے بچے رہو.یہ علاج ہے جو قرآن کریم نے بتایا ہے.( سیر روحانی جلد اول صفحہ ۶۶ - ۶۷) www.alislam.org

Page 25

42 41 بہادر کون ہے.حدیث میں آتا ہے جب کسی کو غصہ آئے تو اگر وہ اس وقت چل رہا ہو تو کھڑا ہو جائے اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور اگر پھر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہو تو پانی پی لے.میں نے بچپن میں دیکھا ہے کہ جب بعض طالب علموں کی آپس میں لڑائی ہو جاتی ہے تو ایک پانی لے کر دوسرے کے منہ میں ڈالنے لگ جاتا اور اس طرح وہ لڑکا جسے غصہ آیا ہوتا تھا بے اختیار ہنس پڑتا اور غصہ جاتا رہتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نفس کے دبانے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ آپ فرماتے تھے.لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرْعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ (بخاری.کتاب الأدب.باب الحذر من الغضب ) کہ بہادر اس کو نہیں کہتے جو گشتی میں دوسرے کوگرالے، بہادر وہ ہے جسے غصہ آئے تو وہ اسے روک لے.پس بہادر غلام محمد پہلوان نہیں ، بڑا بہادر سگر سنگھ پہلوان نہیں بلکہ بڑا بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر قابورکھے اور اس کو روک لے.اس بارہ میں حضرت علی کی ایک مثال بڑی ایمان افزاء ہے.جنگ خیبر میں ایک بہت بڑے یہودی جرنیل کے مقابلہ کے لئے نکلے اور بڑی دیر تک اس سے لڑتے رہے چونکہ وہ بھی لڑائی کے فن کا ماہر تھا اس لئے کافی دیر تک مقابلہ کرتا رہا.آخر حضرت علیؓ نے اسے گرا لیا اور آپ اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ تلوار سے اس کی گردن کاٹ دیں.اتنے میں اس یہودی نے آپ کے منہ پر تھوک دیا.اس پر حضرت علی اسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے.وہ یہودی سخت حیران ہوا کہ انہوں نے یہ کیا کیا؟ جب یہ میرے قتل پر قادر ہو چکے تھے تو انہوں نے مجھے چھوڑ کیوں دیا؟ چنانچہ اس نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ آپ مجھے چھوڑ کر الگ کیوں ہو گئے.آپ نے فرمایا کہ میں تم سے خدا کی رضا کے لئے لڑ رہا تھا مگر جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو مجھے غصہ آ گیا اور میں نے سمجھا کہ اب اگر میں تم کو قتل کروں گا تو میر اقتل کرنا اپنے نفس کے لئے ہوگا، خدا کے لئے نہیں ہوگا.پس میں نے تمہیں چھوڑ دیا تا کہ میرا غصہ فرو ہو جائے اور میرا تمہیں قتل کرنا اپنے نفس کے لئے نہ رہے.یہ کتنا عظیم الشان کمال ہے کہ عین جنگ کے میدان میں انہوں نے ایک شدید دشمن کو محض اس لئے چھوڑ دیا تا کہ ان کا قتل کرنا اپنے نفس کے غصہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہو.(سیر روحانی جلد اول صفحه ۱۵۵ - ۱۵۶) www.alislam.org

Page 26

44 43 گے جب اس کا لا اله الا اللہ تمہارے سامنے پیش کیا جائے گا اور تمہارے پاس اس کا اسامہ ! تم قیامت کے دن کیا جواب دو گے کوئی جواب نہیں ہو گا.اسامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ناراضگی کو دیکھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جو ایک کھلی کتاب کے طور پر تھی.اس میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آتی کہ آپ کا تیر ایسے طور پر چلا ہو کہ کوئی بے گناہ اس کا شکار ہوا ہو.صحابہ کرام سے بعض دفعہ ایسی غلطیاں ہوئی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی اس کا علم ہوا آپ نے ان پر شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا.حضرت اسامہ آپ کو نہایت عزیز تھے ان کے باپ کو آپ نے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا.ایک غزوہ میں حضرت اسامہ شریک تھے کہ ایک مخالف کے تعاقب میں انہوں نے اپنا گھوڑا ڈال دیا.جب اس نے دیکھا کہ اب میں قابو آ گیا ہوں تو اس نے کہا لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ.جس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں مگر حضرت اسامہ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور اسے قتل کر دیا.بعد میں کسی شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی.آپ حضرت اسامہ پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تو نے کیوں ما را جب کہ وہ اسلام کا اقرار کر چکا تھا.حضرت اسامہ نے کہا وہ جھوٹا اور دھو کے باز تھا وہ دل سے ایمان نہیں لایا صرف ڈر کے مارے اس نے اسلام کا اقرار کیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کے لہجہ میں فرمایا: کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا کہ وہ بچے دل سے اسلام کا اظہار نہیں کر رہا تھا یعنی جب کہ وہ کہہ رہا تھا کہ میں اسلام قبول کرتا ہوں تو تمہارا کوئی حق نہیں تھا کہ تم یہ کہتے کہ تم مسلمان نہیں.اسامہ بن زیڈ نے اپنی بات پر پھر اصرار کیا اور کہا: یا رسول اللہ ! وہ تو یونہی باتیں بنا رہا تھا ورنہ اسلام اس کے دل میں کہاں داخل ہوا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اسامہ تم قیامت کے دن کیا جواب دو کر اس دن میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں اس سے پہلے کا فر ہی ہوتا اور آج مجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق ملتی تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے فعل کی وجہ سے اتنا دکھ نہ پہنچتا.(بخاری.کتاب الدیات.باب قول اللہ تعالیٰ ومن احیاها و مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۱۲۰۰ ۲۰۷) ( سیر روحانی جلد دوم صفحه ۵۵) www.alislam.org

Page 27

46 45 اظہار برأت ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالد بن ولید کو بنو جذیمہ کی طرف بھیجا.اس زمانہ میں کفار عام طور پر مسلمانوں کو صابی کہا کرتے تھے جیسے آج کل ہمیں مرزائی یا قادیانی کہا جاتا ہے.یہ دراصل جہلاء کی ایک غلطی ہے جس میں بعض لکھے پڑھے بھی شریک ہو جاتے ہیں.اگر کسی شخص کا نام اس کے ماں باپ نے عبدالرحمن رکھا ہے تو اسے عبدالشیطان کہنے سے نہ وہ عبدالشیطان بن جائے گا اور نہ عبدالشیطان کہنا کوئی شرافت ہوگی.اسی طرح صحیح طریقہ تو یہی ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو حنفی کہتا ہے تو اسے حنفی کہ شیعہ کہتا ہے تو شیعہ کہ سنی کہتا ہے تو سنی کہو مگر جس طرح لوگ ہمیں مرزائی یا قادیانی کہتے ہیں یا مشرقی پنجاب میں سکھ ہماری جماعت کے ہر شخص کو مولوی کہتے تھے ، گووہ ایک لفظ بھی عربی کا نہ جانتا ہو.اسی طرح اس زمانہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو صابی کہا جاتا تھا اور چونکہ عوام الناس میں یہی نام رائج تھا اس لئے جب خالد بن ولید نے انہیں دعوت اسلام دی تو انہوں نے بجائے یہ کہنے کے کہ ہم اسلام قبول کرتے ہیں کہہ دیا کہ صبانا، صبانا ہم صابی ہوتے ہیں ہم صابی ہوتے ہیں.حضرت خالد بن ولید نے ان الفاظ کی کوئی پرواہ نہ کی اور ان میں سے بعض کو قتل کر دیا اور بعض کو قیدی بنا لیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیے اور فرمایا اَللَّهُمَّ اِنّى أَبْرَئُ اِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ اے خدا! میں اس فعل سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جس کا ارتکاب خالد نے کیا ہے اور آپ نے یہ فقرہ دو دفعہ دہرایا.( بخاری.کتاب المغازی باب بعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم خالد بن ولید الی بنی جذیمہ) ☆☆☆ فرشتوں کو سب رشتہ داروں کی عزت کرنے کا حکم فرمایا: وہ جو اگلے جہان کا مقبرہ ہے اس میں ہر شخص اپنے اپنے درجہ کے مطابق خدا تعالیٰ کا انعام پائے گا مگر رشتہ داروں کے لحاظ سے ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ جس کے ایسے رشتہ دار ہونگے جن کے ساتھ وہ محبت سے رہ سکتا ہو اور جن کے عقائد اور خیالات سے وہ متفق ہوا ایسے سب رشتہ داروں کو اکٹھا کر دیا جائے گا خواہ باپ ہوں، بیٹے ہوں، بیویاں ہوں اور فرشتے ان پر چاروں طرف سے داخل ہوں گے اور کہیں گے السلام علیکم.امیروں کے گھروں میں اگر ان کے غریب رشتہ دار آجائیں تو وہ ان کے ساتھ نہایت حقارت سے پیش آتے ہیں اور وہ رشتہ دار بھی ان کے پاس رہنے میں شرم محسوس کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام لطیفہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہندو نے اپنے ایک بیٹے کو نہایت اعلی تعلیم دلائی اور اپنی زمین اور جائیداد وغیرہ فروخت کر کے اسے پڑھایا.یہاں تک کہ وہ ڈپٹی بن گیا.اس زمانہ میں ڈپٹی بڑا عہدہ تھا.ایک دن وہ امراء ورؤوساء کے ساتھ اپنے مکان کے صحن میں بیٹھا تھا کرسیاں بچھی ہوئی تھیں کہ اتفاقاً اس کا باپ ملنے کیلئے آ گیا.اس نے ایک میلی کچھیلی دھوتی پہنی ہوئی تھی.وہ آیا اور بے تکلفی سے ایک کرسی پر بیٹھ گیا.اس کے گندے اور غلیظ کپڑے دیکھ کر جوای.اے.سی اور دوسرے معززین بیٹھے ہوئے تھے انہیں بڑی تکلیف محسوس ہوئی مگر انہوں نے سمجھا کہ مالک مکان اسے خود ہی اٹھا دے گا، ہمیں کہنے کی کیا ضرورت ہے لیکن مالک مکان نے کچھ نہ کہا آخر انہوں نے www.alislam.org

Page 28

48 47 ڈپٹی صاحب سے پوچھا کہ ان کی کیا تعریف ہے اس پر وہ لڑکا جسے اس کے باپ نے فاقے برداشت کر کر کے تعلیم دلائی تھی بولا کہ یہ ہمارے پہلیے ہیں یعنی ہمارے گھر کے نوکر ہیں.اس پر باپ کو سخت غصہ آیا اور وہ کہنے لگا میں ان کا ہلیا تو نہیں ان کی والدہ کا ضرور ہوں.اس فقرہ سے سب لوگ سمجھ گئے کہ یہ شخص ڈپٹی صاحب کا والد ہے اور انہوں نے ان کو سخت ملامت کی کہ آپ بڑے نالائق ہیں کہ اس طرح اپنے باپ کی ہتک کرتے ہیں.تو دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ غریب رشتہ دار جب اپنے کسی امیر رشتہ دار کے ہاں جاتے ہیں تو ان کی عزت میں فرق آ جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم فرشتوں کو حکم دیں گے کہ دیکھو سلام علیک نہ کہنا بلکہ سلام علیکم کہنا اور ان سب رشتہ داروں کی عزت کرنا جو اس کے پاس جمع کئے گئے ہوں.پس سلام علیکم کہ کر اللہ تعالی نے ان کی عزت کو بھی قائم کر دیا.( سیر روحانی جلد اول صفحه ۲۲۱ ۲۲۲) پادری کا ایک گال پر تھپڑ کھاکر...چونکہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کی طاقتیں پیدا کی تھیں اس لئے کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے تھا.چنانچہ یہ راستہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی تجویز کر دیا مگر یہ راستہ مشکل نہیں بلکہ فرماتا ہے ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ خدا نے مطابق فطرت تعلیم دی ہے ایسا راستہ نہیں بنایا کہ جس پر انسان چل ہی نہ سکے.جیسے انجیل نے کہہ دیا کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دے.اب یہ تعلیم بظاہر بڑی خوش کن معلوم ہوتی ہے مگر کوئی شخص اس پر عمل نہیں کر سکتا.مصر کا ایک لطیفہ مشہور ہے وہاں چند سال ہوئے ایک عیسائی مبلغ نے تقریریں شروع کر دیں اور لوگوں پر ان کا اثر ہونا شروع ہو گیا.ایک پرانی طرز کا مسلمان وہاں سے جب بھی گذرتا دیکھتا کہ پادری وعظ کر رہا ہے اور مسلمان خاموشی سے سن رہے ہیں، اس نے سمجھا کہ شائد کوئی مسلمان مولوی اس کی باتوں کا جواب دے گا.مگر وہ اس طرف متوجہ نہ ہوئے اور خود اس کی علمی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اس کے اعتراضوں کا جواب دے سکتا اس لئے وہ اندر ہی اندر کڑھتارہتا.ایک روز خدا تعالیٰ نے اس کے دل میں جوش پیدا کر دیا اور جب پادری وعظ کرنے لگا تو اس نے زور سے اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا.پادری نے سمجھا کہ اگر میں نے اسکا مقابلہ نہ کیا تو یہ اور زیادہ دلیر ہو جائے گا چنانچہ اس نے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اٹھایا.مصری کہنے لگا: میں نے تو اپنے مذہب پر عمل کیا ہے تم اپنے مذہب پر عمل کر کے دکھا دو.تمہاری تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پر تھپڑ مارے تو اس کی طرف تمہیں اپنا دوسرا گال بھی پھیر دینا چاہئے.میں تو اس امید میں تھا کہ تم اپنے مذہب کی تعلیم کے www.alislam.org

Page 29

50 49 مطابق اپنا دوسرا گال بھی میری طرف پھیر دو گے مگر تم تو مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے ہو.اگر تمہاری تعلیم قابل عمل ہی نہیں تو تم وعظ کیا کرتے ہو؟ پادری اس وقت جوش کی حالت میں شراب انسانی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے تھا اس نے زور سے اسے گھونسا مار کر کہا اس وقت تو میں تمہارے قرآن پر ہی عمل کروں گا.انجیل پر عمل کروں گا تو تم مجھے اور مارا کرو گے.تو ہماری شریعت میں کوئی بات ایسی نہیں جو ناممکن العمل ہو.وہ کہتا ہے اگر تم سے کوئی شخص بدی کے ساتھ پیش آتا ہے تو تم عفو سے کام لو بشرطیکہ تم سمجھو کہ عفو سے اس کی اصلاح ہو جائے گی.لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ عفو سے اس کے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا نہیں ہوگا بلکہ وہ اور زیادہ بدی پر دلیر ہو جائے گا تو تم اس سے انتقام بھی لے سکتے ہو.سیر روحانی جلد اول صفحہ ۱۹۶-۱۹۷) د نیوی شراب تو عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، صحت برباد کر دیتی ہے، انسان کو خمار ہو جاتا ہے، وہ گند بکنے لگ جاتا ہے اور اس کے خیالات نا پاک اور پریشان ہو جاتے ہیں.بے شک شراب میں کچھ فائدے بھی پائے جاتے ہیں لیکن انہی عیوب کی وجہ سے دنیا کی پچاس ساٹھ سالہ زندگی بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ شراب نہ پی.پھر ہمیشہ کی زندگی میں اس کے استعمال کو جائز کیوں رکھا گیا اور کیا ایسا تو نہیں ہوگا کہ اس شراب کو پی کر میں اپنی عبودیت کو بھول جاؤں اس پر میں نے دیکھا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے:.لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ (الصافات: ۴۸) غول کے معنی عربی زبان میں عقل اور بدن کی صحت کے چلے جانے اور خمار کے پیدا ہو جانے کے ہیں.پس لَا فِيهَا غَوْلٌ کے معنی یہ ہوئے کہ اس سے عقل ضائع نہیں ہوگی ، بدن کی صحت پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا اور پینے کے بعد خمار نہیں ہوگا.یہ تین عیب ہیں جو دنیا میں شراب پینے سے پیدا ہوتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے مینا بازار کی جو شراب ملے گی اس سے نہ عقل خراب ہوگی اور نہ صحت کو کوئی نقصان پہنچے گا.لیکن اس مینا بازار میں جو شراب ملے گی اس میں ان نقائص میں سے کوئی نقص نہیں ہوگا.اسی طرح نزف کے معنی ہوتے ہیں ذَهَبَ عَقْلُهُ اَوْ سُكِّرَ یعنی عقل کا چلے جانا اور بہکی بہکی باتیں کرنا.یہ بات بھی ہر شرابی میں نظر آ سکتی ہے.خود مجھے ایک شرابی کا واقعہ یاد ہے جو میرے ساتھ پیش آیا.اب تو میں حفاظت کے خیال سے سیکنڈ کلاس میں سفر کیا کرتا www.alislam.org

Page 30

52 51 سردار صاحب کچھ کھا ئیں گے؟ میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص پاگل ہے.اتنے میں ایک اور شخص کمرہ میں داخل ہو گیا.اس پر وہ انہی سردار صاحب کو جن کو چند منٹ پہلے بڑے اعزاز سے بٹھا چکا تھا، کہنے لگا تمہیں شرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور اس کے لئے جگہ نہیں نکالتے.آخر میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو اس نے بتایا کہ انہوں نے ہوں لیکن جس زمانہ کی یہ بات ہے اس زمانہ میں میں تھرڈ کلاس میں سفر کیا کرتا تھا مگر اتفاق ایسا ہوا کہ اُس دن تھرڈ کلاس میں سخت بھیڑ تھی.میں نے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیا.مگر سیکنڈ کلاس کا کمرہ بھی ایسا بھرا ہوا تھا کہ بظاہر اس میں کسی اور کے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی تھی.چھوٹا سا کمرہ تھا اور اٹھارہ ہیں آدمی اس میں بیٹھے ہوئے تھے.بہر حال جب میں اس کمرہ میں گھسا تو ایک صاحب جو اندر بیٹھے ہوئے تھے، وہ مجھے دیکھتے ہی فوراً کھڑے ہو شراب پی ہوئی ہے.اس پر میں اگلے سٹیشن کے آتے ہی وہاں سے کھسک گیا اور میں نے گئے اور لوگوں سے کہنے لگے تمہیں شرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور یہ کھڑے ہیں.ان کے لئے بھی جگہ بناؤ تا کہ یہ بیٹھیں.میں نے سمجھا کہ گو میں انہیں نہیں جانتا مگر یہ میرے واقف ہوں گے.چنانچہ ان کے زور دینے پر لوگ ادھر ادھر ہو گئے اور میرے بیٹھنے کے لئے جگہ نکل آئی.جب میں بیٹھ گیا تو وہی صاحب کہنے لگے کہ آپ کیا کھائیں گے؟ میں نے کہا: آپ کی بڑی مہربانی ہے مگر یہ کھانے کا وقت نہیں.میں لاہور جا رہا ہوں وہاں میرے عزیز ہیں ، وہاں سے کھانا کھالوں گا.کہنے لگے نہیں پھر بھی کیا کھا ئیں گے؟ میں نے کہا: عرض تو کر دیا کہ کچھ نہیں.اس پر وہ اور زیادہ اصرار کرنے لگے اور کہنے لگے.اچھا فرمائیے کیا کھائیں گے؟ میں نے کہا: بہت بہت شکریہ میں کچھ نہیں کھاؤں گا.کہنے لگے : اچھا تو پھر فرمائیے نا کہ آپ کیا کھائیں گے؟ میں اب گھبرایا کہ یہ کیا مصیبت آگئی ہے.اس سے پہلے میں نے کسی شرابی کو نہیں دیکھا تھا.اس لئے میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں.اتنے میں ایک سکھ صاحب کمرہ میں داخل ہوئے.اس پر وہ پھر کھڑے ہو گئے اور لوگوں سے کہنے لگے تمہیں شرم نہیں آتی کمرہ میں ایک بھلا مانس آیا ہے اور تم اس کے لئے جگہ نہیں نکالتے.اور یہ بات کچھ ایسے رعب سے کہی کہ لوگوں نے اس کے لئے بھی جگہ نکال دی.جب وہ سکھ صاحب بیٹھ چکے تو دومنٹ کے بعد وہ ان سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے شکر کیا کہ اس نے مجھ کو جھاڑ ڈالنے کی کوشش نہیں کی.تو شراب انسانی عقل پر بالکل پرد ڈال دیتی ہے.☆☆☆ (سیر روحانی جلد اول صفحہ ۲۴۲ - ۲۴۴ ) www.alislam.org

Page 31

54 53 سندرسنگھا پکوڑے کھا ئیں گا مجھے ایک لطیفہ یاد ہے.قادیان میں جہاں آج کل صدرانجمن احمد یہ کے دفاتر ہیں اور جہاں سے ایک گلی ہمارے مکانوں کے نیچے سے گذرتی ہے، وہاں ایک دن میں اپنے مکان کے صحن میں ٹہلتا ہوا مضمون لکھ رہا تھا کہ نیچے گلی سے مجھے دو آدمیوں کی آواز آئی.ان میں سے ایک تو گھوڑے پر سوار تھا اور دوسرا پیدل تھا جو پیدل تھا، وہ دوسرے شخص سے کہ رہا تھا کہ سندرسنگھا پکوڑے کھا ئیں گا.میں نے سمجھا کہ آپس میں باتیں ہو رہی ہیں اور ایک شخص دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ تم پکوڑے کھاؤ گے؟ مگر تھوڑی دیر کے بعد مجھے پھر آواز آئی کہ سند رسنگھا پکوڑے کھائیں گا اور وہ شخص جو گھوڑے پر سوار تھا برابر آگے بڑھتا چلا گیا.یہاں تک کہ وہ اس موڑ پر جا پہنچا جو ( بیت ) مبارک کی طرف جاتا ہے مگر وہ برابر یہی کہتا چلا گیا کہ سندر سنگھا پکوڑے کھا ئیں گا.سندرسنگھا پکوڑے کھا ئیں گا.آخر گھوڑے کے قدموں کی آواز غائب ہوگئی اور آدھ گھنٹہ اس پر گذر گیا مگر میں نے دیکھا کہ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہیں گلی میں بیٹھا ہوا یہ کہتا چلا جاتا تھا کہ سندرسنگھا پکوڑے کھائیں گا، سندرسنگھا پکوڑے کھائیں گا حالانکہ سندر سنگھ اس وقت گھر میں بیٹھا ہوا پھکے کھا رہا ہوگا.دراصل وہ شراب کے نشہ میں تھا اور اس نشہ کی حالت میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میں اس کے ساتھ چل رہا ہوں مگر شراب کی وجہ سے اس سے چلا نہیں جاتا تھا اور عقل پر ایسا پردہ پڑا ہوا تھا کہ و ہیں دیوار کے ساتھ بیٹھا ہوا وہ سندر سنگھ کو پکوڑوں کی دعوت دیتا چلا جاتا تھا.تو شراب کی کثرت کی وجہ سے ٹانگوں کی طاقت جاتی رہتی ہے، عقل زائل ہو جاتی ہے، قومی کو نقصان پہنچتا ہے اور انسان بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے.(سیر روحانی جلد اول صفحہ 247) " نجوم کی حقیقت ایک احمدی نجومی کا واقعہ دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے سب کچھ اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے قانون کے ماتحت ہوتا ہے.یہ خیال کہ ستاروں کی گردش سے انسان آئندہ کے حالات معلوم کر سکتا ہے.قطعی طور پر غلط ہے اور لاہور والوں نے اس کا اندازہ بھی لگا لیا مگر مشکل یہ ہے کہ وہ لوگ جو دین سے پوری واقفیت نہیں رکھتے اس قسم کی غلط فہمیوں میں عموماً مبتلا رہتے ہیں اور نجم بھی بڑی آسانی سے کہہ دیتا ہے کہ مینار کے نہ ہونے کی وجہ سے مجھے ستاروں کی گردش معلوم کرنے میں غلطی لگ گئی ہے.یہی حال رمالوں، جوتشیوں اور پامسٹوں کا ہوتا ہے.میرے پاس ایک دفعہ ایک احمدی نجومی آیا اور اس نے کہا میں آپ کو کچھ کرتب دکھانا چاہتا ہوں.میں نے کہا میں اس کو سمجھتا تو لغوہی ہوں مگر تمہاری خواہش ہے تو دکھا دو.اس نے کہا: میں نے یہ بات آپ سے اس لئے کہی ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ مجھے یہ فخر حاصل ہو جائے کہ میں نے آپ کے سامنے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے.اس کے بعد اس نے کہا: آپ اپنے دل میں کوئی فارسی شعر رکھیں.میں نے فارسی نہیں پڑھی کیونکہ ہمارے استاد یہ سمجھتے تھے کہ فارسی کی تعلیم سے عربی کو نقصان پہنچتا ہے.گومثنوی رومی وغیرہ تو میں نے پڑھی ہیں مگر فارسی کی با قاعدہ تعلیم میں نے حاصل نہیں کی اور ایسے آدمی کو عموماً معروف شعر ہی یاد ہوتے ہیں.بہر حال میں نے اپنے دل میں سوچا کہ کریما بخشائے برحال که هستم امیر کند ہوا し اس نے ایک کاغذ میرے سامنے رکھ دیا جس پر یہی شعر لکھا ہوا تھا اس کے بعد اس www.alislam.org

Page 32

56 55 نے کہا کہ آپ ایک سے دس تک کوئی ہندسہ اپنے دل میں سوچیں.میں نے سات کا ہندسہ سوچا اور اس نے ایک کاغذ اٹھا کر مجھے دکھایا جس پر لکھا تھا کہ آپ سات کا ہندسہ سوچیں گے.پھر کہنے لگا کہ آپ اپنی پیٹھ پر سے کپڑا اٹھا ئیں.آپ کے دائیں طرف ایک مسہ ہے.میں نے کرتا اٹھایا تو وہاں مسہ بھی موجود تھا.میں نے کہا تمہاری پہلی دو چالاکیاں تو مجھے معلوم ہو گئیں.تم یہ بتاؤ کہ تم نے یہ کس طرح پتہ لگا لیا کہ میرے جسم کے دائیں طرف ایک مسہ ہے.اس نے کہا ہماری راول قوم اس فن میں بہت مشہور ہے اور اس نے بڑی کثرت سے انسانی جسموں کو دیکھا ہوا ہے.ایک لمبے مشاہدہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ اتنی فی صدی لوگوں کی کمر کے دائیں طرف کوئی نہ کوئی مسہ ضرور ہوتا ہے.اگر تین چار آدمیوں کو یہ بات بتائی جائے اور تین آدمیوں کے مسے نکل آئیں اور چوتھے کے نہ نکلیں تو عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم سے کوئی حسابی غلطی ہوگئی ہوگی وہ ہمارے علم پر شبہ نہیں کرتے.ان دنوں قادیان میں ایک اہل حدیث لیڈر آئے ہوئے تھے.وہ مجھے ملنے کے لئے آئے تو اتفاقا ان سے بھی اس بات کا ذکر آ گیا.کہنے لگے ان لوگوں کو کوئی علم نہیں آتا محض ارڈ پوپو ہوتے ہیں.لیکن میں بھی چاہتا ہوں کہ اس شخص کو دیکھوں.وہ اب کی دفعہ آئے تو اسے میرے پاس ضرور بھجوا دیں.وہ قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں کا رہنے والا تھا.اتفاق سے دوسرے تیسرے دن پھر آ گیا اور میں نے اسے انہی اہل حدیث مولوی صاحب کے پاس بھجوا دیا.گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد وہ میرے پاس دوڑتے ہوئے آئے اور لینے لگے یہ تو معجزہ ہے معجزہ.اس نے جتنی باتیں بتائیں وہ ساری کی ساری صحیح تھیں.معلوم ہوتا ہے اسے غیب کا علم آتا ہے.آپ اسے کہیں کہ کسی طرح یہ علم مجھے سکھا دے.میں نے ہنس کر کہا: تم تو اہل حدیث ہو اور جانتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو علم غیب نہیں.پھر یہ کیسی باتیں کرتے ہو.پھر میں نے انہیں کہا کہ ایک دفعہ تو اس نے باتیں دریافت کر لیں.اب اسے کہو کہ وہ مجھ سے پھر وہ دو باتیں دریافت کر کے دیکھے.میں نے خود بھی اسے کہا.مگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوا.جس چیز کا مجھ پر اثر تھا وہ صرف یہ تھی کہ اسے مسے کا کس طرح پتہ لگ گیا.اس کے متعلق اس نے بتایا کہ ہماری قوم کے لوگ ساری جگہ پھرتے رہتے ہیں اور وہ انڈونیشیا اور جاپان تک بھی جاتے ہیں.انہوں نے انسانی جسموں کو کثرت کے ساتھ دیکھنے کے بعد بعض نتائج قائم کئے ہوئے ہیں جو عمو ماستر ، اسی فیصدی صحیح نکلتے ہیں جیسے انشورنس والوں نے اندازے لگائے ہوئے ہیں کہ اتنے آدمی بیمہ کرائیں تو ان میں سے اتنے مرتے ہیں اور اتنے زندہ رہتے ہیں چونکہ ستر فی صدی لوگوں کا مسہ نکل آتا ہے اس لئے تمہیں فی صدی لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ جانتے تو سب کچھ ہیں ،معلوم ہوتا ہے کہ حساب میں ان سے کوئی غلطی ہوگئی ہے.(سیر روحانی جلد دوم صفحه 19 تا 21) www.alislam.org

Page 33

58 57 میرے خدا نے آج رات تمہارے خداوند کو مار دیا ہے لانے کے لئے بھیجا ہے اور یہ یہ پیغام بھی دیا ہے اگر آپ نے انکار کیا تو بادشاہ کی فوجیں عرب پر دھاوا بول دیں گی اور تمام ملک ایک مصیبت میں مبتلا ہو جائے گا اس لئے مناسب یہی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں.گورنر یمن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آپ کی شہنشاہ کسری کا عبرتناک انجام یہودی مسلمانوں کے ہمیشہ ہی ممنون احسان رہے ہیں مگر وہ مسلمانوں کے ممنون احسان بھی رہے اور پھر دشمنی بھی کرتے رہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بڑے بڑے احسانات کئے تھے مگر انہوں نے ہمیشہ آپ کی مخالفت کی اور بیرونی حکومتوں کو آپ کے خلاف اکسانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی.جب انکے تاجر ایران جاتے تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہمیشہ کسری کے کان بھرتے.اسی طرح خطوں میں بھی اسے لکھتے رہتے کہ عرب میں ایک ایسا ایسا آدمی طاقت پکڑتا جاتا ہے اگر اس کی حکومت قائم ہوگئی تو وہ ایران پر حملہ کر دے گا.بادشاہ کم عقل تھا وہ یہودیوں کے اس فریب میں آ گیا اور اس نے یمن کے گورنر کو خط لکھا کہ عرب میں جو نیا مدعی نبوت پیدا ہوا ہے تم اسے گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دو.یمن کے گورنر نے دو آدمی بھجوائے اس وقت ایران کی طاقت ویسی ہی تھی جیسے اس وقت امریکہ اور روس کی ہے اور عرب والوں کی حالت ایسی تھی جیسے سرحدی قبائل کی ہے.گورنریمن نے اپنے سپاہیوں کو بھیجتے ہوئے ان کے ذریعہ آپ کو یہ پیغام بھجوایا کہ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ آپ کا قصور کیا ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ آپ چلے آئیں.میں آپ کی سفارش کر کے شاہ ایران کے پاس بھجوا دوں گا کہ اگر اس شخص کا کوئی قصور بھی ہے تو اسے معاف کر دیا جائے.وہ دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں گورنر یمین نے آپ کو اپنے ساتھ سفارش کر دیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس کا جواب تمہیں پھر دوں گا.آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی شروع کی کہ وہ اس معاملہ میں آپ کی مدد فرمائے.دوسرے دن جب وہ ملے تو آپ نے فرمایا کہ ایک دن اور ٹھہر جاؤ.جب تیسرا دن ہوا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا آج ہمیں آئے ہوئے تین دن ہو گئے ہیں.آپ ساتھ چلئے ایسا نہ ہو کہ یہ معاملہ بگڑ جائے اور تمام عرب پر مصیبت آ جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو اپنے گورنر سے جا کر کہہ دو کہ میرے خدا نے آج رات تمہارے خداوند کو مار دیا ہے.ایرانی لوگ اپنے بادشاہ کو خداوند کہا کرتے تھے.انہوں نے کہا آپ یہ کیا فرماتے ہیں.اپنے آپ پر اور اپنی قوم پر رحم کیجئے اور ہمارے ساتھ چلئے.آپ نے فرمایا: میں نے تمہیں جواب تو دے دیا ہے.جاؤ اور گورنر یمن کو یہی بات کہہ دو.وہ واپس آگئے اور انہوں نے یمن کے گورنر سے یہ بات کہہ دی.اس نے سن کر کہا کہ یا تو یہ شخص پاگل ہے اور یا واقعہ میں خدا تعالیٰ کا نبی ہے.ہم چند دن انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آیا اس کی بات سچی ثابت ہوتی ہے یا نہیں.تھوڑے دنوں کے بعد یمن کی بندرگاہ پر اسیران کا ایک جہازلنگر انداز ہوا اور اس میں سے ایک سفیر اترا جو یمن کے گورنر کے نام ایک شاہی خط لایا.یمن کے گورنر نے اسے دیکھا تو اس پر ایک نئے بادشاہ کی مہر تھی.اس نے خط اپنے ہاتھ میں لیتے ہی درباریوں سے کہا وہ بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے جو اس عرب نے کہی تھی.اس نے خط کھولا تو وہ کسری کے بیٹے کا www.alislam.org

Page 34

60 59 تھا اور اس میں یہ لکھا تھا کہ ہمارا باپ نہایت ظالم اور سفاک انسان تھا اور اس نے تمام ملک کاؤنٹ ٹالسٹائے اٹھو اور شہزادے کو مارو..میں ایک تباہی مچارکھی تھی.ہم نے فلاں رات اسے مار دیا ہے اور اب ہم خود اس کی جگہ تخت پر بیٹھ گئے ہیں.اب تمہارا فرض ہے کہ تم اپنی مملکت کے لوگوں سے ہماری اطاعت کا اقرار لو، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ انہی سفاکیوں میں سے جو ہمارے باپ نے کیں ایک یہ بھی سفا کی تھی کہ اس نے عرب کے ایک شخص کے متعلق لکھا تھا کہ اسے گرفتار کر کے ہمارے پاس بھجوادیا جائے ، ہم اس حکم کو منسوخ کرتے ہیں.یہی حقیقت عَلَّمَهُ شَدِيدُ القُویٰ میں بیان کی گئی ہے کہ ایک طاقتور ہستی اس کی نگران ہوگی اور اس کو چھیڑ نا کوئی آسان کام نہیں ہو گا.رسول کریم ﷺ کی زندگی میں بہت سے مواقع ایسے آئے ہیں جنہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ کو چھیڑ نا خدا تعالیٰ کو چھیڑ نا تھا.( سیر روحانی جلد دوم صفحه ۴۷ تا ۴۹) ٹالسٹائے روس کا ایک مشہور مصنف گذرا ہے جو لینن اور مارکس وغیرہ کے بعد ان چوٹی کے لوگوں میں سے تھا جنہوں نے بالشویزم کی اشاعت میں سب سے بڑا حصہ لیا ہے.اب بھی دنیا کی اکثر زبانوں میں اس کی تصانیف کے تراجم پائے جاتے ہیں.اس شخص کا ایک دادا سات آٹھ پشت پہلے پیٹر بادشاہ کے زمانہ میں اس کا در بان ہوا کرتا تھا.ایک دن بادشاہ کو کوئی ضروری کام تھا اور وہ اپنی قوم کی بہتری کے لئے کوئی سکیم سوچ رہا تھا.اس نے ٹالسٹائے کو حکم دیا کہ آج کسی شخص کو اندر آنے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اگر کوئی شخص اندر آئے گا تو میرا دماغ مشوش ہو جائے گا اور میں سکیم کو پوری طرح تیار نہیں کر سکوں گا.وہ ٹالسٹائے کو تاکید کر کے اپنے کمرہ میں آ گیا.مگر بدقسمتی سے اسی وقت ایک شہزادہ آیا اور اس نے اندر داخل ہونا چاہا.ٹالسٹائے نے اپنے ہاتھ اس کے دروازہ کے آگے پھیلا دیئے اور کہا آپ اندر نہیں جاسکتے ، بادشاہ کا حکم ہے کہ کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے.اس وقت تک روس کا قانون ابھی منظم نہیں ہوا تھا اور لارڈوں، نوابوں اور شاہی خاندان والوں کے بڑے حقوق سمجھے جاتے تھے.اس دستور کے مطابق شہزادہ کو قلعہ کے اندر داخل ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا بلکہ ان سے اتر کر بعض اور لوگوں کے لئے بھی یہی دستور تھا.جب دربان نے شہزادے کو روکا تو وہ کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ میں کون ہوں؟ اس نے کہا: میں خوب جانتا ہوں آپ فلاں گرینڈ ڈیوک ہیں.اس نے کہا: کیا تم کو معلوم نہیں کہ مجھ کو ہر وقت اندر جانے کی اجازت ہے؟ دربان نے جواب دیا میں خوب جانتا ہوں.یہ سن کر وہ پھر آگے بڑھا اور اندر داخل ہونے لگا.دربان www.alislam.org

Page 35

62 61 نے پھر اسے روکا اور کہا حضور بادشاہ سلامت کا حکم ہے کہ آج کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے.اسے سخت غصہ آیا اس نے کوڑا اٹھایا اور دربان کو مارنا شروع کیا کچھ دیر مارنے کے بعد اس نے سمجھا کہ اب اسے ہوش آ گیا ہو گا وہ پھر اندر داخل ہونے لگا مگر ٹالسٹائے پھر راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا.حضور بادشاہ کا حکم ہے کہ کوئی شخص اندر داخل نہ ہو.شہزادے نے پھر اسے مارنا شروع کر دیا.وہ سر جھکا کر مارکھا تا رہا مگر جب تیسری دفعہ شہزادہ اندر داخل ہونے لگا تو پھر اس نے ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا.اندر جانے کی اجازت نہیں.بادشاہ نے منع کیا ہوا ہے.شہزادے نے پھر اسے مارنا شروع کر دیا.اتفاق کی بات ہے کہ جب پہلی دفعہ شہزادے نے دربان کو مارا تو شور کی آواز بادشاہ کے کان تک پہنچ گئی اور اس نے بالا خانہ کی کھڑی سے یہ نظارہ دیکھنا شروع کر دیا.جب تیسری دفعہ شہزادہ اسے مار رہا تھا تو بادشاہ نے اسے آواز دی کہ ٹالسٹائے ادھر آؤ.ٹالسٹائے اندر گیا اور اس کے ساتھ شہزادہ بھی بڑے غصے کی حالت میں بادشاہ کے پاس پہنچا اور اس نے کہا.آج دربان نے میری سخت ہتک کی ہے.بادشاہ نے پوچھا کیا ہوا؟ شہزادے نے کہا میں اندر آنا چاہتا تھا مگر ٹالسٹائے مجھے اندر نہیں آنے دیتا تھا.بادشاہ نے ایسی شکل بنا کر کہ گویا اس واقعہ کا اسے کوئی علم نہیں کہا.ٹالسٹائے تم نے شہزادے کو اندر داخل ہونے سے کیوں روکا.اس نے کہا حضور آپ کا حکم تھا کہ آج کسی شخص کو اندر داخل نہ ہونے دیا جائے.بادشاہ نے شہزادے کی طرف دیکھا اور کہا کہ کیا اس نے تم کو بتایا تھا کہ میں نے یہ حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے.اس نے کہا: بتایا تو تھا مگر شہزادے کو کوئی دربان روک نہیں سکتا.بادشاہ نے کہا میں جانتا ہوں کہ شہزادے کو کوئی روک نہیں سکتا مگر بادشاہ روک سکتا ہے.تم نے شہزادہ ہو کر قانون کی بے حرمتی کی ہے اور اس نے دربان ہو کر قانون کی عظمت کو سمجھا ہے اور پھر باوجود اس کے کہ اس نے تمہیں بتادیا تھا کہ یہ میر احکم ہے پھر بھی تم نے اسے مارا.اب اس کی سزا یہ ہے کہ تم اس دربان کے ہاتھوں اسی طرح مار کھاؤ جس طرح تم نے اسے مارا ہے.اس کے بعد اس نے ٹالسٹائے کو کہا: ٹالسٹائے اٹھو اور اس شہزادے کو مارو.روسی قانون کے مطابق کسی فوجی کو کوئی غیر فوجی نہیں مارسکتا.شہزادے نے کہا میں فوجی ہوں اور یہ ٹالسٹائے سویلین ہے.یہ مجھے مار نہیں سکتا.بادشاہ نے کہا: کیپٹن ٹالسٹائے میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم شہزادے کو مارو.اس نے مارنے کیلئے کوڑا اٹھایا تو شہزادے نے کہا: میں زار روس کا جرنیل ہوں اور جرنیل کو کوئی غیر جرنیل نہیں مار سکتا.بادشاہ نے کہا: جنرل ٹالسٹائے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم شہزادے کو مارو.اس پر شہزادے نے پھر روسی کانسٹی ٹیوشن کا حوالہ دے کر کہا کہ کسی نواب کو کوئی غیر نواب نہیں مار سکتا.بادشاہ نے کہا: اچھا کاؤنٹ ٹالسٹائے اٹھو اور شہزادے کو مارو.گویا در بان سے اسی وقت اس نے اسے کاؤنٹ بنادیا اور شہزادے کو اس کے ہاتھوں سے سزا دلوائی.(سیر روحانی جلد دوم صفحه ۴۴ تا ۴۶) www.alislam.org

Page 36

64 63 کہ وہ اپنے غصہ کو دبا لیں بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ وہ دوسروں کو معاف کیا کریں.حضرت امام حضرت امام حسنؓ کا غلام کو آزاد کرنا حسن فرمانے لگے.عَـفَـوْتُ عَنكَ جاؤ میں نے تمہیں معاف کر دیا.اس پر وہ کہنے لگا مومنوں کو چاہیے وہ عفو کریں، در گذر کی عادت ڈالیں اور اس کا فائدہ یہ بتایا کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تعالیٰ تمہارے گناہ بخشے.جب تم چاہتے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو بخشے تو اے مومنو تم بھی اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو! اگر تم اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو گے تو خدا تمہارے قصوروں کو معاف کرے گا.امن کو قائم کرنے کا ایک ذریعہ احسان ہے اس کے متعلق بھی قرآن کریم میں حکم موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران: ۱۳۵ ) که مومن وہ ہیں جو غصے کو دباتے ہیں جو لوگوں کو معاف کرتے ہیں اور پھر ان پر احسان بھی کرتے ہیں.اسی طرح فرماتا ہے.إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى (الحل:۹۱) کہ اللہ تعالیٰ عدل، احسان، ایتاء ذی القربی کا حکم دیتا ہے.ان تینوں کی مثال میں میں ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے سنا اور جسے بعد میں میں نے اور کتابوں میں بھی پڑھا ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام حسن نے اپنے ایک غلام کو کوئی برتن لانے کے لئے کہا.اتفاقاً وہ برتن اس نے بے احتیاطی سے اٹھایا اور وہ ٹوٹ گیا.وہ برتن کوئی اعلی قسم کا تھا حضرت امام حسنؓ کو غصہ آیا.اس پر اس غلام نے یہی آیت پڑھ دی اور کہنے لگا وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ کہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ اپنے غصہ کو دبا لیں.حضرت امام حسنؓ نے فرمایا كَظمتُ الغَيْظَ کہ میں نے اپنے غصے کو دبالیا.اس پر اس نے آیت کا اگلا حصہ پڑھ دیا اور کہنے لگا وَ الْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ کہ مومنوں کو صرف یہی حکم نہیں وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ اس سے آگے یہ بھی حکم ہے کہ مومن احسان کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت محسنوں کو حاصل ہوتی ہے.اس پر حضرت امام حسنؓ نے فرمایا جاؤ میں نے تمہیں آزاد کر دیا.گویا پہلے انہوں نے اپنے غصے کو دبایا پھر اپنے دل سے اسے معاف کر دیا اور پھر احسان یہ کیا کہ اسے آزاد کر دیا.☆☆☆ سیر روحانی جلد اول صفحه ۱۵۷ - ۱۵۸) www.alislam.org

Page 37

66 65 یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کے گھر میں بچے کے کان میں اذان کہنے کی حکمت بچہ پیدا ہو تو فوراً اس کے ایک کان میں اذان اور دوسرے کان میں اقامت کہو.یورپ کے فرانس میں ایک دفعہ ایک لڑکی کو دورے پڑنے شروع ہوئے جب اسے دورہ پڑتا تو وہ جرمن زبان میں بعض مذہبی دعائیں پڑھنا شروع کر دیتی وہ فرانسیسی لڑکی تھی اور جرمن زبان کا ایک حرف بھی نہیں جانتی تھی.جب دورے میں اس نے جرمن زبان میں باتیں شروع کیں تو ڈاکٹروں نے فوراً شور مچادیا کہ اب تو جن ثابت ہو گئے یہ لڑ کی تو جرمن زبان نہیں جانتی.یہ جو جرمن زبان بول رہی ہے تو ضرور اس کے سر پر جن سوار ہے آخر ایک ڈاکٹر نے اس کے متعلق تحقیقات شروع کی وہ حافظہ کا بہت بڑا ماہر تھا.جب اس نے تحقیق کی تو اسے معلوم ہوا کہ جب پیڑ کی دواڑھائی سال کی تھی تو اس وقت اس کی ماں ایک جرمن پادری کے پاس ملازم تھی جب وہ پادری جرمن زبان میں سرمن پڑھتا تو یہ لڑکی اس وقت پنگھوڑے میں پڑی ہوتی تھی جب اسے یہ بات معلوم ہوئی تو وہ اس جرمن پادری کی تلاش میں نکلا اسے معلوم ہوا کہ وہ جرمن پادری اس وقت سپین میں ہے.پین پہنچنے پر اسے معلوم ہوا کہ وہ پادری ریٹائر ہو کر جرمنی چلا گیا ہے اس کی تلاش میں جرمنی پہنچا.وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ پادری مر گیا ہے.مگر اس نے اپنی کوشش نہ چھوڑی اور اس نے گھر والوں سے کہا کہ اگر اس پادری کے کوئی پرانے کاغذات ہوں تو وہ مجھے دکھائے جائیں.گھر والوں نے تلاش کر کے اسے بعض کا غذات دیئے اور جب اس نے ان کا غذات کو دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ دعا ئیں جو بے ہوشی کی حالت میں وہ لڑکی پڑھا کرتی تھی وہ وہی ہیں جو اس پادری کی سرمن تھی.اب دیکھو دو اڑھائی سال کی عمر میں ایک پادری نے اس کے سامنے بعض باتیں کیں جو اس کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے محفوظ کر دیں.مد برین نے تو آج یہ معلوم کیا ہے کہ انسانی دماغ میں سالہا سال کی پرانی چیزیں محفوظ رہتی ہیں.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تم اس کے کان میں اذان کہو کیونکہ اب وہ دنیا میں آ گیا ہے اور اب اس کا دماغ اس قابل ہے کہ وہ تمہاری باتوں کو محفوظ رکھے.( سیر روحانی جلد دوم صفحه 138 ) www.alislam.org

Page 38

68 67 خدا کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں دنیا کا ذرہ ذرہ گواہی دیتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.بے شک بادی النظر میں بعض چیزیں قابل اعتراض نظر آئیں گی.لیکن جب بھی غور کیا جائے گا.انسان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام بے عیب اور پر حکمت ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی ملا دماغ کا آدمی ایک دفعہ باغ میں گیا اور اس نے دیکھا کہ آم کے درخت پر تو چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہیں اور ایک معمولی سی بیل کے ساتھ بڑا ساحلوہ کدوںلگا ہوا ہے وہ دیکھ کر یہ کہنے لگا کہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بڑا حکیم ہے مگر مجھے تو اس میں کوئی حکمت نظر نہیں آتی کہ اتنے بڑے درخت کے ساتھ تو چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہوں اور اتنی نازک سی بیل کے ساتھ اتنا بڑا حلوہ کدولگا ہوا ہو.اس کے بعد وہ آرام کرنے کے لئے اسی آم کے درخت کے نیچے سو گیا.سویا ہوا تھا کہ اچانک ایک آم ٹوٹا اور زور سے اس کے سر پر آلگا وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور کہنے لگا خدایا مجھے معاف فرما.اب تیری حکمت میری سمجھ میں آگئی ہے اگر اتنی دور سے حلوہ کدو میرے سر پر پڑتا تو میں تو مر ہی جاتا.غرض اس عالم کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے.☆☆☆ مهمان نوازی جس سے خدا خوش ہو گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی احادیث میں مسلمانوں کو مہمان نوازی کی بار بار تلقین کی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس حکم پر اس طرح عمل کیا جاتا تھا کہ جو مسافر آتے وہ مسجد میں آ کر ٹھہر جاتے اور روزانہ یہ اعلان کر دیا جاتا کہ آج مسجد میں اس قدر مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں جس جس کو توفیق ہو وہ انہیں اپنے گھروں میں لے جائے اور ان کی مہمانی کرے.ایک دفعہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا مسجد میں ایک مہمان آ گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کی طرف دیکھ کر فرمایا.کیا اس مہمان کو اپنے گھر لے جا سکتے ہو.اس نے عرض کیا کہ بہت اچھا.چنانچہ وہ اسے لے کر گھر پہنچا اور بیوی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سپرد آج ایک مہمان کیا ہے کیا گھر میں کچھ کھانے کے لئے موجود ہے اس نے کہا کہ بس ایک آدمی کا کھانا ہے میری تو یہ خواہش تھی کہ آج میں اور تم دونوں فاقہ کرتے اور کھانا بچوں کو کھلا دیتے مگر اب چونکہ مہمان آ گیا ہے اس لئے اب کھانا مہمان کو کھلا دیتے ہیں اور بچوں کو کسی طرح تھی پکا کر میں سلا دیتی ہوں.صحابی نے کہا یہ تو ہو جائے گا مگر ایک بڑی مشکل ہے بیوی نے پوچھا وہ کیا.خاوند کہنے لگا.جب یہ کھانا کھانے بیٹھا تو اصرار کرے گا کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانا کھائیں پھر ہم کیا کریں گے.(اس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا) بیوی کہنے لگی کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے اور وہ یہ کہ جب وہ کھانے بیٹھے تو میں اور تم دونوں اس کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اس وقت تم مجھے کہنا کہ روشنی کم ہے فتیلہ ذرا اوپر کر دو.اور میں روشنی کو تیز کرنے کے بہانے سے اٹھوں گی اور چراغ کو بجھا دوں گی تا کہ اندھیرا ہو جائے اور وہ دیکھ نہ سکے www.alislam.org

Page 39

70 69 کہ ہم اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں یا نہیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.دستر خوان بچھا تو خاوند کہنے لگا روشنی کچھ کم ہے ذرا اونچی کر دو.بیوی اٹھی اور اس نے چراغ کو بجھا دیا.جب اندھیرا ہو گیا تو خاوند کہنے لگا آگ سلگاؤ اور چراغ روشن کرو.بیوی نے کہا آگ تو ہے ابو ہریرہ ! اور پیو ย حضرت ابو ہریرہ کی دین کیلئے فاقہ کشی نہیں.اس نے کہا ہمسایہ سے مانگ لو اس نے کہا اس وقت ہمسائے کو کون جا کر تکلیف دے.بہتر یہی ہے کہ اسی طرح کھا لیا جائے.مہمان بھی کہنے لگا اگر اندھیرا ہو گیا ہے تو کیا حرج ہے اسی طرح کھانا کھا ئیں گے.چنانچہ اندھیرے میں ہی میاں بیوی اس کے قریب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھانا شروع کر دیا.خاوند اور بیوی دونوں نے چونکہ مشورہ کیا ہوا تھا اس لئے مہمان تو کھاتا رہا اور وہ دونوں خالی منہ ہلاتے رہے اور یہ ظاہر کرتے رہے گویا وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں.خیر کھا ناختم ہوا اور مہمان چلا گیا اللہ تعالیٰ کو ان دونوں میاں بیوی کی یہ بات ایسی پسند آئی کہ رات کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دے دی.جب صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا لوگو کچھ پتہ بھی ہے کہ رات کو کیا ہوا.صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ ہمیں تو معلوم نہیں اس پر آپ نے یہ تمام واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ جب میاں بیوی دونوں اندھیرے میں بیٹھے خالی منہ ہلا رہے تھے تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان کی اس حرکت پر عرش پر ہنسا.پھر آپ نے ہنستے ہوئے فرمایا جب اس بات پر اللہ تعالیٰ ہنسا ہے تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیوں نہ ہنسے.اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ صحابہ مہمان نوازی کو کس قدر اہم قرار دیتے تھے اور کس طرح مسجدوں کی طرح ان کے گھر کے دروازے مہمانوں کے لئے کھلے رہتے تھے.سیر روحانی جلد اول صفحه ۱۶۲ - ۱۶۳) ☆☆☆✰ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری چھ سالوں میں داخل اسلام ہوا تھا اور چونکہ اسلام پر کئی سال گذر چکے تھے اس لئے میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ اب میں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہوں گا تا کہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرمائیں میں فوراً سن لوں اور اسے دوسرے لوگوں تک پہنچا دوں.چنانچہ انہوں نے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور ہر وقت و ہیں بیٹھے رہتے.ان کا بھائی انہیں کبھی کبھی کھانا بھجوا دیتا.لیکن اکثر انہیں فاقے سے رہنا پڑتا.وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بعض دفعہ کئی کئی دن کا فاقہ ہو جاتا اور شدت بھوک کی وجہ سے میں بے ہوش ہو جا تا.لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور وہ میرے سر میں جوتیاں مارنے لگ جاتے کیونکہ عرب میں ان دنوں مرگی کا علاج یہ سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کے سر پر جوتیاں ماری جائیں.غرض میں تو بھوک کے مارے بے ہوش ہوتا اور وہ مجھے مرگی زدہ سمجھ کر میرے سر پر تڑا تڑ جوتے مارتے چلے جاتے.کہتے ہیں اسی طرح ایک دفعہ میں مسجد میں بھوکا بیٹھا تھا اور حیران تھا کہ اب کیا کروں مانگ میں نہیں سکتا تھا کیونکہ مانگتے ہوئے مجھے شرم آتی تھی اور حالت یہ تھی کہ کئی دن سے روٹی کا ایک لقمہ تک پیٹ میں نہیں گیا تھا.آخر میں مسجد کے دروازہ پر کھڑا ہو گیا کہ شاید کوئی مسلمان گذرے اور میری حالت کو دیکھ کر اسے خود ہی خیال آ جائے اور وہ کھانا بھجوا دے.اتنے میں میں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر چلے آ رہے ہیں میں نے ان www.alislam.org

Page 40

72 71 کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھ دی جس میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ذکر آتا ہے اور میں نے کہا کہ اس کے معنی کیا ہیں.حضرت ابو بکر نے اس آیت کی تفسیر بیان کی اور آگے چل پڑے.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا غصہ آیا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے کیا تفسیر کم آتی ہے کہ یہ مجھے اس کی تفسیر بتانے لگے ہیں.خیر وہ گئے تو حضرت عمرؓ آگئے میں نے اپنے دل میں کہا یہ بڑا زیرک انسان ہے یہ ضرور میرے مقصد کو سمجھ لے گا چنانچہ میں نے ان کے سامنے بھی قرآن کی وہی آیت پڑھ دی اور کہا کہ اس کے معنی کیا ہیں انہوں نے بھی اس آیت کی تفسیر کی اور آگے چل پڑے مجھے پھر غصہ آیا کہ کیا عمر" مجھ سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟ میں نے تو اس لئے معنی پوچھے تھے کہ انہیں میری حالت کا احساس ہو مگر یہ ہیں کہ معنی کر کے آگے چل دیئے.جب حضرت عمرؓ بھی چلے گئے تو میں سخت حیران ہوا کہ اب کیا کروں اتنے میں میرے کانوں میں ایک نہایت ہی شیریں آواز آئی کہ ابو ہریرہ کیا بھوک لگی ہے.میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے.پھر آپ نے فرمایا ادھر آؤ.ہمیں بھی آج فاقہ تھا مگر ابھی ایک مسلمان نے دودھ کا پیالہ تحفہ بھیجا ہے پھر آپ نے فرمایا مسجد میں نظر ڈالو.اگر کوئی اور شخص بھی بھوکا بیٹھا ہو تو اسے بھی اپنے ساتھ لے آؤ.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں میں مسجد میں گیا تو ایک نہ دو بلکہ اکٹھے چھ آدمی میرے ساتھ نکل آئے.میں نے اپنے دل میں کہا کہ آج شامت آئی.دودھ کا پیالہ تو مجھ اکیلے کے لئے بھی بمشکل کفایت کرتا مگر اب تو کچھ بھی نہیں بچے گا.بھلا جہاں سات آدمی دودھ پینے والے ہوں وہاں کیا بچ سکتا ہے مگر خیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا میں ان کو اپنے ہمراہ لے کر کھڑکی کے پاس پہنچا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ کا پیالہ بجائے مجھے دینے کے ان میں سے ایک کے ہاتھ میں دے دیا.میں نے کہا.بس اب خیر نہیں.اس نے دودھ چھوڑنا نہیں اور میں بھوکا رہ جاؤں گا.خیر اس نے کچھ دودھ پیا اور پھر چھوڑ دیا.میں نے اپنے دل میں کہا کہ شکر ہے کچھ تو دودھ بچا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دودھ دینے کی بجائے ایک دوسرے شخص کو پیالہ دیا کہ اب تم پیو.جب وہ بھی سیر ہو کر پی چکا تو میں نے کہا اب تو میری باری آئے گی اور میں اس بات کا منتظر تھا کہ اب پیالہ مجھے دیا جائے گا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پیالہ لے کر ایک اور شخص کو دے دیا اور میں نے سمجھا کہ بس اب خیر نہیں.اب تو دودھ کا بچنا بہت ہی مشکل ہے مگر اس کے پینے کے بعد بھی دودھ بیچ رہا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور کو پیالہ دیا پھر اس کے بعد ایک اور کو دیا اسی طرح چھ آدمی جو میرے ساتھ آئے تھے سب کو باری باری دیا اور آخر میں مجھے دیا اور فرمایا ابو ہریرہ اب تم دودھ پیو.میں ضمناً یہ ذکر کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے معجزات کوئی خیالی باتیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء وصلحاء کو ایسے نشانات بھی دیتا ہے تا کہ ماننے والے اپنے یقین اور ایمان میں ترقی کریں مگر یہ نشانات صرف مومنوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں تا کہ ایمان میں غیب کا پہلو قائم رہے.غرض حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں میں نے پیالہ لیا اور دودھ پینا شروع کر دیا اور اس قدر پیا اس قدر پیا کہ میری طبیعت بالکل سیر ہوگئی اور میں نے پیالہ رکھ دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو ہریرہ اور پیو میں نے پھر کچھ دودھ پیا اور پیالہ رکھ دیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو ہریرہ اور پیو.سیر روحانی جلد اول صفحه ۱۶۶ تا ۱۶۷) www.alislam.org

Page 41

74 73 جہاں ہدایت کا سوال آجائے.دیال سنگھ کیوں مسلمان نہ ہوا اگر کبھی کوئی ایسا موقع آ جائے کہ دوسرے کو ہدایت دیتے دیتے تمہارے اپنے ایمان کے ضائع ہو جانے کا بھی خطرہ ہو تو ایسی حالت میں تم دوسرے کو بے شک ہلاک ہونے دو اور اپنے ایمان کی حفاظت کرو.دیال سنگھ کالج کے بانی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بالکل اسلام کے قریب پہنچ گئے تھے مگر جو شخص انہیں تبلیغ کر رہا تھا اس نے ایک دفعہ صرف اس آیت پر تھوڑی دیر کے لئے عمل چھوڑ دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسلام سے منحرف ہو گئے.سردار دیال سنگھ صاحب جن کے نام پر لاہور میں کالج بنا ہوا ہے سکھ مذہب سے سخت متنفر تھے کسی مولوی سے انہیں اسلام کا علم ہوا اور جب اسلامی تعلیم پر انہوں نے غور کیا تو وہ بہت ہی متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی مجلس میں اسلام کی خوبیوں کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور کہنے لگ گئے کہ میں اب اسلام قبول کرنے والا ہوں.ان کا ایک ہندو دوست تھا جو بڑا چالاک تھا.اس نے جب دیکھا کہ یہ مسلمان ہونے لگے ہیں تو اس نے انہیں کہا کہ سردار صاحب ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور.یہ تو محض مسلمانوں کی باتیں ہیں کہ اسلام بڑا اچھا مذہب ہے ورنہ عمل کے لحاظ سے کوئی مسلمان بھی اسلامی تعلیم پر کار بند نہیں.اگر آپ کو میری اس بات پر اعتبار نہ ہو تو جو مولوی آپ کو اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے آتا ہے آپ اس کے سامنے ایک سورو پیدرکھ دیں اور کہیں کہ ایک دن تو میری خاطر شراب پی لے.پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ شراب پیتا ہے یا نہیں.انہوں نے کہا بہت اچھا چنا نچہ جب دوسرے دن وہی مولوی آیا تو انہوں نے سو روپیہ کی تھیلی اس کے سامنے رکھ دی اور کہا مولوی صاحب اب تو میں نے مسلمان ہو ہی جانا ہے.ایک دن تو آپ بھی میرے ساتھ شراب پی لیں اور دیکھیں میں نے آپ کی کتنی باتیں مانی ہیں کیا آپ میری اتنی معمولی سی بات بھی نہیں مان سکتے.اس کے بعد تو میں نے شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگانا.صرف آج شراب پی لیں.اس نے سو روپیہ کی تھیلی لے لی اور شراب کا گلاس اٹھا کر پی لیا.سردار دیال سنگھ صاحب پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ بجائے مسلمان ہونے کے برہمو سماج سے جاملے اور انہوں نے اپنی ساری جائداد اس کے لئے وقف کر دی.یہ نتیجہ تھا در حقیقت اس آیت کی خلاف ورزی کا.حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ (المائدة :۱۰۶) اگر روٹی کا سوال ہو تو بے شک خود بھوکے رہو اور دوسرے کو کھانا کھلاؤ.لیکن جہاں ہدایت کا سوال آ جائے اور تمہیں محسوس ہو کہ اگر تمہارا قدم ذرا بھی ڈگمگایا تو تم خود بھی ہدایت سے دور ہو جاؤ گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی صورت میں تمہیں مضبوطی سے ہدایت پر قائم رہنا چاہیے اور دوسرے کی گمراہی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے.سیر روحانی جلد اول صفحه ۱۵۳ - ۱۵۴) www.alislam.org

Page 42

76 75 ایک خطرناک عقیدہ دو.وزیر نے کہا میں دے تو دوں مگر یہ شخص شکل سے سنی معلوم ہوتا ہے بادشاہ نے کہا تمہیں کس طرح معلوم ہوا وہ کہنے لگا بس شکل سے میں نے پہچان لیا ہے.بادشاہ نے کہا اچھا تو اس کا امتحان کر لو.چنانچہ وزیر نے حضرت علی کی فضیلت بیان کرنی شروع کر دی وہ سنی جو کہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے بزرگ بھی شوق سے سنتے رہے اور کہنے لگے حضور حضرت علی کی شان میں کیا شبہ ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں تب مومن سمجھوں گا جب تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے لئے دعائیں کرتے رہو گے اور ان کا کینہ اور بغض اپنے دلوں میں نہیں رکھو گے مگر آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان سے کینہ اور بغض رکھنا ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے.اب تھوڑے دنوں تک محرم کا مہینہ آنے والا ہے.ان ایام میں کس طرح تبرا کیا جاتا اور ابوبکر، عمر اور عثمان کو گالیاں دی جاتی ہیں.حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ان کے متعلق دل میں کسی قسم کا بغض نہ ہو اور نہ صرف بغض نہ ہو بلکہ انسان محبت اور اخلاص کے ساتھ ان کے لئے ہمیشہ دعائیں مانگتا ر ہے.ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک شیعہ بادشاہ کے پاس ایک دفعہ ایک سنی بزرگ گئے اور اس سے امداد کے طالب ہوئے.وہ آدمی نیک تھے مگر چونکہ ان کا گزارہ بہت مشکل ہوتا تھا.اس لئے انہیں خیال آیا کہ میں بادشاہ کے پاس جاؤں اور اس سے کچھ مانگ لاؤں.وہ گئے تو وہاں اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے جو اپنی حاجات کے لئے آئے ہوئے تھے مگر وہ سب شیعہ تھے اور یہ سنی.جب بادشاہ مال بانٹنے کیلئے کھڑا ہوا تو وزیر نے بادشاہ کے کان میں کچھ کہا اور اس نے اس سنی بزرگ کے علاوہ باقی سب کو مال تقسیم کر دیا اور وہ ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے.یہ سنی بزرگ وہیں کھڑے رہے.آخر جب انہیں کھڑے کھڑے بہت دیر ہوگئی تو بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ اسے بھی کچھ دے کر رخصت کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور آپ کے داماد تھے خدا تعالیٰ نے انہیں خلافت عطا فرمائی.آپ کی شان سے تو انکار ہو ہی نہیں سکتا.بادشاہ کہنے لگا اب تو ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے.وزیر کہنے لگا ابھی نہیں میں بعض اور باتیں بھی دریافت کرلوں.چنانچہ اس نے اور کئی باتیں کیں مگر وہ بھی ان سب کی تصدیق کرتے چلے گئے بادشاہ نے کہا.بس اب تو تمہیں یقین آ گیا ہوگا کہ یہ سنی نہیں بلکہ شیعہ ہے.وزیر کہنے لگا ابھی نہیں.تبرا دے کر دیکھیں اگر یہ تبرے میں شامل ہو گیا تو پتہ لگ جائے گا کہ شیعہ ہے اور اگر شامل نہ ہوا تو معلوم ہو جائے گا کہ سنی ہے.چنانچہ بادشاہ نے کہا بر ہرسہ لعنت.یعنی نعوذ باللہ حضرت ابوبکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان پر لعنت.وزیر نے بھی کہا بر ہر سہ لعنت.وہ بزرگ سنی بھی بول اٹھے کہ بر ہر سہ لعنت.بادشاہ نے کہا اب تو یقینی طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے.وزیر نے کہا حضور میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ شخص منافقت سے کام لے رہا ہے وہ کہنے لگا اچھا تو پھر اس سے پوچھو کہ تم کون ہو.وزیر نے پوچھا کہ کیا آپ شیعہ ہیں وہ کہنے لگے نہیں.میں تو سنی ہوں.وزیر کہنے لگا کہ مجھے آپ کی اور باتیں تو سمجھ آگئی ہیں کہ جب میں حضرت علی کی تعریف کرتا تھا تو آپ اس لئے اس تعریف میں شامل ہو جاتے تھے کہ حضرت علی آپ کے نزدیک بھی واجب التعظیم ہیں مگر جب ہم نے یہ کہا کہ بر ہر سہ لعنت تو آپ نے بھی بر ہر سہ لعنت کہا.اس کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی.وہ کہنے لگے جب آپ نے کہا www.alislam.org

Page 43

78 77 تھا ہر ہر سہ لعنت تو آپ کی مراد تو یہ تھی کہ ابو بکر عمر اور عثمان پر لعنت ہو مگر جب میں نے بے وقوف مشرک.فرانسیسی پادری بر ہر سہ لعنت کہا تو میرا مطلب یہ تھا کہ وزیر پر بھی لعنت ہو اور بادشاہ پر بھی اور مجھ پر بھی جو ایسے گندے لوگوں کے گھر میں آ گیا ہوں.غرض شیعوں کا یہ طریق کہ صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں اور اکابر صحابہ کو منافق کہتے ہیں نا پسندیدہ اور مذکورہ بالا آیت قرآنی کے خلاف ہے.حضرت علیؓ کا درجہ بلند ماننے کے لئے اس کی کیا ضرورت ہے کہ حضرت ابوبکر عمر اور عثمان رضوان اللہ علیہم کو منافق کہا جائے اس کے بغیر بھی شیعیت قائم رہ سکتی ہے.خلاصہ یہ که قرآن کریم نہایت واضح طور پر فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے جو پاک بندے گذر چکے ہیں تمہیں ان کے متعلق دعاؤں سے کام لینا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ خدا یا ہمارے دلوں میں ان کے متعلق بغض پیدا نہ ہو کیونکہ اگر بغض پیدا ہوا تو ایمان ضائع ہو جائے گا.(سیر روحانی جلد اول صفحہ ۲۱۸ - ۲۱۹) کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی آقا اپنے نوکر سے ڈر رہا ہو اور اس کے آگے ہاتھ جوڑتا پھرتا ہو یا کوئی افسر اپنے چپڑاسی کی منتیں کرتارہتا ہو اور اگر تم کسی کو ایسا کرتے دیکھو تو کیا تم نہیں کہو گے کہ وہ پاگل ہو گیا ہے.پھر تمہیں کیوں اتنی موٹی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ وَسَخَّرَ لَكُمُ ہم نے تو ان تمام چیزوں کو تمہارا غلام بنا کر دنیا میں پیدا کیا ہے اور ان سب کا فرض ہے کہ وہ تمہاری خدمت کریں.بے شک یہ بڑی چیزیں ہیں مگر جس ہستی نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے بھی بڑی ہے.اس نے تو ان چیزوں کو تمہاری خدمت کیلئے پیدا کیا ہے مگر تمہاری عجیب حالت ہے کہ تم الٹا انہی کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ رہے ہو.قرآن کریم نے جو شرک کی اس بے ہودگی کی طرف اس زور سے توجہ دلائی ہے، مجھے اس کے متعلق ایک قصہ یاد آ گیا وہ بھی بیان کرتا ہوں کہ اس سے مشرکوں کی بے وقوفی پر خوب روشنی پڑتی ہے وہ قصہ یہ ہے کہ فرانس میں دو پادری ایک دفعہ سفر کر رہے تھے کہ سفر کرتے کرتے رات آ گئی اور انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ کہیں رات آرام سے بسر کریں اور صبح پھر اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہوجائیں.انہوں نے ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا.اندر سے ایک عورت نکلی.انہوں نے کہا ہم مسافر ہیں صرف رات کاٹنا چاہتے ہیں اگر تکلیف نہ ہو تو تھوڑی سی جگہ کا ہمارے لئے انتظام کر دیا جائے ہم صبح چلے جائیں گے.اس نے کہا جگہ تو کوئی نہیں.ایک ہی کمرہ ہے جس میں ہم میاں بیوی رہتے ہیں مگر چونکہ تمہیں بھی ضرورت ہے اس لئے ہم اس کمرہ میں ایک پردہ لٹکا دیتے ہیں ایک طرف تم سوتے رہنا.دوسری طرف ہم رات گزار لیں گے.چنانچہ اس نے پردہ لٹکا دیا اور وہ دونوں اندر آ گئے.اتفاق یہ ہے کہ ان کے پاس کچھ روپے بھی تھے.اب جب وہ سونے کے لئے لیٹے تو انہیں خیال آیا کہ www.alislam.org

Page 44

80 79 کہیں یہ گھر والے ہماری نقدی نہ چرا لیں.اس لئے انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ ذرا ہوشیار رہنا اور جاگتے رہنا.ایسا نہ ہو کہ ہم لوٹے جائیں.ادھر میاں جو پیشہ میں قصاب تھا اس خیال سے کہ ہمارے مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو بیوی سے آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگا.ان پادریوں کے پاس چونکہ روپیہ تھا انہوں نے سوچا کہ کہیں یہ لوگ ہمیں لوٹنے کی تجویز تو نہیں کر رہے اور کان لگا کر باتیں سننے لگے.ان دونوں میاں بیوی نے دوسو ر پال رکھے تھے جو سور خانے میں تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ان میں سے ایک کو دوسرے دن ذبح کر دیں.اتفاق کی بات ہے کہ ایک سو رموٹا تھا اور ایک دبلا تھا.اسی طرح ایک پادری بھی موٹا تھا اور ایک دبلا.جب پادریوں نے کان لگا کر سننا شروع کیا تو اس وقت میاں بیوی آپس میں یہ گفتگو کر رہے تھے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک کو ذبح کر دیا جائے.خاوند کہنے لگا میری بھی یہ صلاح ہے کہ ایک کو ذبح کر دیا جائے.پادریوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے سمجھا کہ بس اب ہماری خیر نہیں.یہ ضرور چھرالے کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور ہمیں مار کر نقدی اپنے قبضہ میں کرلیں گے مگر انہوں نے کہا ابھی یہ فیصلہ کرنا ٹھیک نہیں ذرا اور باتیں بھی سن لیں.پھر انہوں نے کان لگائے تو انہوں نے سنا کہ بیوی کہہ رہی ہے پہلے کس کو ذبح کریں میاں نے کہا پہلے موٹے کو ذبح کرو پتلا جو ہے اسے چند دن کھلا پلا کر پھر ذبح کر دیں گے.یہ بات انہوں نے جو نہی سنی وہ سخت گھبرائے اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہمارے قتل کی تجویز پختہ ہو چکی ہے چنانچہ انہوں نے چاہا کہ کسی طرح اس مکان سے بھاگ نکلیں.دروازے چونکہ بند تھے اس لئے دروازوں سے نکلنے کا تو کوئی راستہ نہ تھا.وہ بالا خانہ پر لیٹے ہوئے تھے انہوں نے نظر جو ماری تو دیکھا کہ ایک کھڑی کھلی ہے.بس انہوں نے جلدی سے اٹھ کر کھڑی میں سے چھلانگ لگا دی جو موٹا پادری تھاوہ پہلے گرا اور جود بلا پادری تھا وہ اس موٹے پادری کے اوپر آپڑا ہے کو تو کوئی چوٹ نہ گھی.مگر موٹا جو پہلے گرا تھا اس کے پاؤں میں سخت موچ آ گئی اور وہ چلنے کے نا قابل ہو گیا.یہ دیکھ کر دبلا پادری فوراً بھاگ کھڑا اور ساتھی کو کہتا گیا کہ میں علاقہ کے رئیس سے کچھ سپاہی مدد کے لئے لاتا ہوں تم فکر نہ کرو اور ادھر ادھر چمٹ کر اپنے آپ کو بچاؤ.ادھر موٹے پادری کو یہ فکر ہوا کہ کہیں گھر والے چھری لے کر نہ پہنچ جائیں اور مجھے ذبح نہ کر دیں.چنانچہ اس نے آہستہ آہستہ گھٹنا شروع کیا اور گھسٹتے گھسٹتے وہ اس سؤرخانہ کے پاس جا پہنچا جس میں میزبان کے سور بند تھے.مگر اسے کچھ پتہ نہ تھا کہ اندر سور ہیں یا کیا ہے اس نے خیال کیا کہ میں یہاں چھپ کر بیٹھ جاتا ہوں تا کہ گھر والے میرا تعاقب کرتے ہوئے مجھے دیکھ نہ لیں.جب اس نے سورخانہ کا دروازہ کھولا تو سور ڈر کے مارے نکل بھاگے اور یہ اندر چھپ کر بیٹھ گیا.تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ قصاب چھری لے کر موٹے سور کو ذبح کرنے کیلئے وہاں پہنچ گیا.پادری نے سمجھا کہ اب میری خیر نہیں یہ ضرور مجھے مارڈالے گا.چنانچہ وہ اور زیادہ دبک کر کونے میں چھپ گیا.قصاب نے ڈنڈا ہلایا اور کہا نکل نکل.مگر وہ اور زیادہ سمٹ سمٹا کر ایک طرف ہو گیا وہ حیران ہوا کہ سو رنکلتا کیوں نہیں مگر خیر اس نے اور زیادہ زور سے ڈنڈا پھیرا اور آواز دے کر سو رکو باہر نکالنا چاہا اور آخر گھسیٹ کر باہر نکال لیا.پادری نے سمجھ لیا کہ اب کوئی چارہ نجات کا نہیں اب میرے ذبح ہونے کا وقت آ گیا ہے اور وہ آخری کوشش کے طور پر قصاب کے آگے ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں پادری ہوں میں نے تمہارا کوئی قصور نہیں کیا.خدا کے لئے معاف کرو.ادھر قصاب نے جب دیکھا کہ سور کی بجائے اندر سے ایک آدمی نکل آیا ہے تو وہ سخت حیران ہوا اور اس نے سمجھا کہ یہ کوئی فرشتہ ہے جو میری جان نکالنے کیلئے یہاں آیا ہے چنانچہ وہ ڈر کر دوزانو ہو کر اس کے سامنے بیٹھ گیا اور ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنے لگ گیا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو ابھی میں مرنے کے قابل نہیں مجھے اپنے کام درست کر لینے دو اور اپنے گناہوں سے تائب ہو لینے دو.اب یہ عجیب نظارہ تھا کہ www.alislam.org

Page 45

82 81 ایک طرف پادری ہاتھ جوڑے جارہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو اور دوسری طرف وہ قصاب ہاتھ جوڑ رہا تھا اور کہہ رہا تھا خدا کے لئے مجھے پر رحم کرو.تھوڑی دیر تو وہ اسی طرح ایک اللہ کا دیا سب کچھ ہے دوسرے کی منتیں سماجتیں کرتے رہے اور گھبراہٹ میں نہ وہ اس کی سنتا تھا اور نہ یہ اس کی.مگر آخر صبر وقناعت کا مجسمہ ایک بڑھیا دونوں کے ہوش کچھ بجا ہونے لگے اور انہوں نے دیکھا کہ نہ وہ اس کو ذبح کرتا ہے اور نہ یہ اس کی جان نکال رہا ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہے ہیں.یہ دیکھ کر ان کی عقل کچھ پکانے لگی اور حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور قصاب نے جو غور کیا تو اپنے سامنے رات والا پادری بیٹھا دیکھا اور حیرت سے پوچھا کہ تم یہاں کہاں.اس نے کہا کہ رات کو ہم نے تم میاں بیوی کو یہ کہتے ہوئے سن پایا تھا کہ موٹے کو صبح ذبح کر دیں گے اور دبیلے کو کچھ دن کھلا پلا کر.اس لئے ہم کھڑکی سے کود کر بھاگے اور میرا چونکہ پاؤں چوٹ کھا گیا تھا میں اس سؤرخانہ میں چھپ کر بیٹھ گیا اور میرا ساتھی فوج کی مدد لینے گیا ہے.اس پر قصاب نے بے اختیار ہنسنا شروع کیا اور بتایا کہ ان کے دوسو ر ہیں ایک موٹا اور ایک دبلا.وہ تو ان سوروں میں سے موٹے کے ذبح کرنے کی تجویز کر رہے تھے اور آہستہ آہستہ اس لئے بول رہے تھے کہ مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو.اتنے میں سرکاری سوار بھی آگئے اور اس حقیقت کو معلوم کر کے سب ہنستے ہنستے لوٹ گئے.یہی حال ستارہ پرستوں کا ہے.اللہ میاں نے ان کو انسانوں کی خدمت کے لئے مقرر کیا ہے اور وہ انسان کی خدمت کر رہے ہیں مگر انسان ہے کہ ان کے آگے ہاتھ جوڑ رہا ہے اور کہ رہا ہے کہ خدا کے لئے ہم پر رحم کرو.گویاستارے اس کے غلام بن رہے ہیں اور یہ ان کا غلام بن رہا ہے.سیر روحانی جلد اول صفحہ ۷۶-۷۹) حضرت خلیفہ مسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک بڑھیا تھی جو بڑی نیک اور عبادت گزار تھی.میں نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ مائی مجھے کوئی خدمت بتاؤ.میں چاہتا ہوں کہ اگر تمہاری کوئی خواہش ہو تو اس کو پورا کر کے ثواب حاصل کروں.وہ کہنے لگی.اللہ کا دیا سب کچھ ہے.مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں.میں نے پھر اصرار کیا اور کہا کہ کچھ تو بتاؤ.میری بڑی خواہش ہے کہ میں تمہاری خدمت کروں.وہ کہنے لگی.نور الدین! مجھے اور کیا چاہیے کھانے کیلئے روٹی اور اوڑھنے کیلئے لحاف کی ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ مجھے دو روٹیاں بھجوا دیتا ہے.ایک میں کھا لیتی ہوں اور ایک میرا بیٹا کھا لیتا ہے.اور ایک لحاف ہمارے پاس موجود ہے جس میں ہم دونوں ماں بیٹا سو رہتے ہیں.میں ایک پہلو پر سوئے ہوئے تھک جاتی ہوں تو کہتی ہوں.بیٹا! اپنا پہلو بدل لے اور میں دوسرے پہلو پر ا جاتی ہوں.اس کا ایک پہلو تھک جاتا ہے تو وہ مجھے کہتا ہے اور میں اپنا پہلو بدل لیتی ہوں.بس بڑے مزے سے عمر گذر رہی ہے اور کسی چیز کی کیا ضرورت ہے.میں نے پھر اصرار کیا تو کہنے لگی اچھا.اگر تم بہت ہی اصرار کرتے ہو تو پھر مجھے ایک موٹے حرفوں والا قرآن لا دو.میری نظر اب کمزور ہو گئی ہے اور بار یک حروف نظر نہیں آتے.موٹے حرفوں والا قرآن مل جائے تو میں آسانی سے قرآن پڑھ سکوں گی.اب ایک طرف اس بڑھیا کی حالت کو دیکھو اور دوسری طرف اس امر کو سوچو کہ اب اگر کوئی چار سو روپیہ ماہوار کماتا ہے تو وہ www.alislam.org

Page 46

83 بھی بے چین ہے.پانچ سوروپیہ ماہوار کماتا ہے تو وہ بھی بے چین ہے.دو ہزار روپیہ ماہوار کماتا ہے تو وہ بھی بے چین ہے.حالانکہ مال حاصل کرنا اصل مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود راحت اور چین ہوتا ہے اور اگر یہی حاصل نہ ہوتو روپیہ لے کر کسی نے کیا کرنا ہے.( تفسیر کبیر جلدے صفحہ ۱۷) www.alislam.org

Page 46