Language: UR
حکم و عدل حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنی کتاب ’’سرّ الخلافة‘‘ جو کہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں ہے ۱۸۹۴ء میں تصنیف فرمائی اور روحانی خزائن جلد ۸ میں شامل ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان باعث نزاع مسئلہ خلافت راشدہ کے بارہ میں حضورؑ نے اس کتاب میں سیر حاصل بحث فرمائی ہے۔ آپ نے دلائل قطعیہ سے ثابت فرمایا کہ چاروں خلفاء راشدین برحق تھے تاہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب صحابہ کرام سے اعلیٰ شان رکھتے تھے اور آپ اسلا م کے لئے آدمِ ثانی تھے اور آیت استخلاف کے حقیقی معنوں میں آپ مصداق تھے۔ نیز باقی صحابہ کرامؓ کے فضائل کا بھی آپ نے بیان فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اپنی اس کتاب میں عقیدہ ظہورِ مہدی کا ذکر کرکے اپنے دعویٰ ٴ مہدویّت پر شرح و بسط سے بحث کی ہے الغرض مسئلہ خلافت پر یہ ایک بیش بہا کتاب ہے۔ اس کتاب کا ایک حصہ عربی زبان میں ہے۔ عربی حصہ کا متن اور اس کے بالمقابل اردو ترجمہ درج ہے نیز قارئین کی سہولت کے لئے سرالخلافة کا اردو حصہ بھی شامل اشاعت ہے۔
(اردو ترجمہ) سر الخلافة تصنیف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام
سر الخلافة مع اردو ترجمه
نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود پیش لفظ احباب جماعت کی خدمت میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی معرکۃ الآراء کتاب ”سر الخلافة “ اردو ترجمہ کے ساتھ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے.وَمَا تَوْفِيْقَنَا إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ حضرت اقدس کی کتاب ” سر الخلافة “ کے عربی متن کا ترجمہ محترم مولانا محمد سعید صاحب انصاری مربی سلسلہ نے کیا تھا.عربک بورڈ نے اس ترجمہ پر نظر ثانی کی جس کے بعداب احباب جماعت کے استفادہ کے لئے پیش کیا جارہا ہے.حکم و عدل حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب " سر الخلافة “ جو کہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں ہے ۱۸۹۴ء میں تصنیف فرمائی اور روحانی خزائن جلد ۸ میں شامل ہے.اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان باعث نزاع مسئلہ خلافت راشدہ کے بارہ میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کتاب میں سیر حاصل بحث فرمائی ہے.آپ نے دلائل قطعیہ سے ثابت فرمایا کہ چاروں خلفاء راشدین برحق تھے تاہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب صحابہ کرام سے اعلیٰ شان رکھتے تھے اور آپ اسلام کے لئے آدم ثانی تھے اور آیت استخلاف کے حقیقی معنوں میں آپ مصداق تھے.نیز باقی صحابہ کرام کے فضائل کا بھی آپ نے بیان فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اس کتاب میں عقیدہ ظہور مہدی کا ذکر کر کے اپنے دعوئی مہدویت پر شرح وبسط سے بحث کی ہے الغرض مسئلہ خلافت پر یہ ایک بیش بہا کتاب ہے.
اس کتاب کا ایک حصہ عربی زبان میں ہے.عربی حصہ کا متن اور اس کے بالمقابل اردو ترجمہ درج ہے نیز قارئین کی سہولت کے لئے سر الخلافہ کا اردو حصہ بھی شامل اشاعت ہے.عربی حصہ کے ترجمہ کے سلسلہ میں عربک بورڈ نے بڑی عرق ریزی سے کام کیا ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء.بورڈ کے ممبران کے اسماء درج ذیل ہیں.
ٹائٹل بار اول کا اردو ترجمہ هذا كتاب يحكم بين الشيعة واهل السنة و يهدى الى الحق في امر الخلافة وانه يقطع معاذير المخالفين.و يبرز دقارير المفترين ولا يستنكره الا من لبس الصفاقة و خلع الصدق والصداقة واتبع الكاذبين یہ کتاب اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان فیصلہ کرتی ہے اور امر خلافت میں حق کی طرف راہنمائی کرتی اور مخالفوں کے عذرات کا سد باب کرتی ہے.مفتریوں کی کذب بیانی کو ظاہر کرتی ہے.اور اس کا انکار صرف وہی کرتا ہے جس نے بے حیائی کا لبادہ پہنا ہوا ہے اور حق وصداقت سے عاری ہے اور کا ذبوں کی پیروی کرتا ہے.کتاب عزيز محكم يفحم العدا فنحمد بارء نا على ما اسعدا یہ مضبوط غالب کتاب ہے جو دشمنوں کو لاجواب کر دیتی ہے.پس ہم اپنے خدائے باری کی تعریف بیان کرتے ہیں جو اُس نے یہ سعادت بخشی.وسميته الخلافة حجة بما جاء في تلك المقاصد ارشدا اور میں نے اس کا نام سر الخلافہ رکھا ہے تا یہ ان مقاصد میں جوراہنمائی ہے اس کے لئے حجت ہو.هذا كتاب سر الخلافة لمن يبغى سبل الثقافة یہ کتاب ہر اس شخص کے لئے سر الخلافہ ہے جو ثقافت کی راہوں کی تلاش میں ہے.وقد طبع في المطبع رياض الهند امرتسر فى الشهر المبارك محرم ۳۱۲اه یہ مطبع ریاض الہند امرتسر میں طبع ہوئی ماہ مبارک محرم ۱۳۱۲ھ میں یہ کتاب محمد حسین بطالوی اور دوسرے علماء مکفرین کے الزام اور افحام اور انکی مولویت کی حقیقت کھولنے کیلئے بوعده انعام ستائیں روپیہ شائع ہوئی ہے استائیس دن بالمقابل رساله بنانے کے لئے مہلت دی گئی ہے ا اور یہ ستائیس دن روز اشاعت سے محسوب ہونگے.
سر الخلافة ان ف اردو ترجمه لله الر الرحمن يا مُعطى الإيمان والعقل والفكر، اے ایمان اور عقل و فکر عطا کرنے والے! ہم نحضر عتبتك بطيِّبات الحمد حمد و شکر کے پاکیزہ کلمات کے ساتھ تیری والشكر، ونُدانى حضرتك بتحيات دہلیز پر حاضر ہوتے ہیں.اور تمجید ، تقدیس اور الـتـمـجـيــد والتقديس والذكر، ذکر کے تحائف لے کر تیری بارگاہ کے قریب ونطلب وجهك بقصوى الطلب آتے ہیں.اور انتہائی خواہش کے ساتھ تیری ونسعى إليك في الطرب والكرب.نحفد إليك ولا نشكو الأين رضا کے طالب ہیں.خوشی اور اضطراب میں تیری طرف دوڑتے ہیں اور لپکتے ہوئے آتے ونؤمن بك ولا نأخذ في كيف وأين.وجئناك منقطعين ہیں اور کسی تھکاوٹ کے شاکی نہیں.ہم تجھ پر من الأسباب، ومستبطنين أحزانا | ايمان لاتے ہیں اور کسی بحث میں نہیں پڑتے.للقاعدين على السراب، والغافلين اور ان لوگوں کی خاطر جو سراب پر جسے بیٹھے ہیں عن الماء المعين وطرق الصواب اور آپ رواں اور صحیح راہوں سے غافل ہیں،
سر الخلافة اردو تر جمه والمستكبرين، الذين يبلعون نیز ان متکبروں کے لئے جو (معرفت ) کے میناو الريق، ويرفضون الكأس جام کو ٹھکرا کر تھوک نگل رہے ہیں اور راستبازوں والإبريق، ويُعادون الصادقين سے دشمنی کرتے ہیں ، ہم تمام اسباب منقطع کرتے يتركون الحقائق لأوهام ہوئے اور ان کے غم اپنے پیٹوں میں پالتے ہوئے ومــاكــــانـــت ظـنـونـهـم إلا تیری بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں.وہ اوہام کے لئے حقائق چھوڑ دیتے ہیں.ان کے واہمے محض ایسے بادل کی طرح ہیں جس میں پانی نہیں ہوتا.وہ أهل المعارف إلا متكاسلين، صاحبان معرفت کے پاس کاہلوں کی طرح آتے ولا ينظرون الحق إلا ہیں اور حق کو محض کھلنڈروں جیسی نگاہ سے دیکھتے كمُخلفة أو جهام، ولا يجيئون لاعبين.وهجمتهم أوهامهم ہیں.ان کے اوہام نے ان پر ایسا وار کیا ہے جیسے كالبلاء المفاجي في کسی تاریک و تاررات میں کوئی بلائے ناگہانی وارد الليل الداجي، فصار العقل ہو جائے.جس کے نتیجے میں (ان کی ) عقل ایسی كالظلف الواجى فسقطوا ہو گئی ہے جیسے کسی حیوان کا زخمی گھسا ہوا پاؤں.على أنفسهم مُكبّين.والتحصهم بنا بر ایں وہ اپنے منہ کے بل گرے ہوئے ہیں.تعصبهم إلى الإنكار، وأسفوا ان کے تعصب نے انہیں انکار پر مجبور کیا.اور على الواعظین، وولوا انہوں نے نصیحت کرنے والوں پر غم و غصے کا اظہار الدبر كالفرار.وامتلأوا کیا راہ فرار اختیار کرنے والے کی طرح پیٹھ پھیری.حشنة وحقدًا، ونقضوا وہ بغض اور کینہ سے بھر گئے اور انہوں نے عہد و عهدا وعقدًا، وطفقوا پیمان توڑ دیئے.اور اپنے خیر خواہوں کو گالیاں يسبون الناصحين.وما كان دینے لگے.ان میں کند ذہنی کے مادہ کے سوا جس فيهم إلا مادة غباوة، رُكَّبَ باثارة، میں چغل خوری کی آمیزش ہے اور کچھ بھی نہیں.
سر الخلافة اردو تر جمه فأداروا رحى الفتن من عداوة، تو انہوں نے عداوت کے باعث فتنوں کی چکی چلائی وسفَا تُرْبَهم ريح شقاوة، فبعدوا اور بدبختی کی آندھی نے ان کی خاک اڑا دی.جس عن حق وحلاوة، وجلوا عن أوطان کی وجہ سے وہ حق اور (اس کی) حلاوت سے دور ہو الصدق تائهين.كثرت الفتن من گئے اور سرگردانی کے عالم میں سچائی کے وطنوں سے حؤول طباعهم، وخُدع الناس بے وطن ہو گئے.ان کی فطرتوں کے بدل جانے سے (۳) من اختداعهم.ربّ فارحم أُمّة فتنوں کی بھر مار ہوگئی اور ان کی فریب کاری کی وجہ محمد وأصلح حالهم وطهرُ سے لوگ دھوکا کھا گئے.اے پروردگار ! امت محمدیہ پر بالهم وأزِلُ بلبالهم، وصلّ وسلم رحم فرما اور ان کی حالت درست کر دے، ان کے دل وبارك على نبيك وحبيبك پاک کر دے، ان کے اضطراب کو دور فرما.اور اپنے محمد خاتم النبيين، وخير نبی اور حبیب خاتم النبیین اور خیرالمرسلین محمد علی پر المرسلين، وآله الطيبين درود و سلام بھیج اور ان پر برکتیں نازل فرما.نیز آپ الطاهرين، وأصحابه عمائد الملة کی پاک اور مطہر آل اور آپ کے اصحاب پر جو ملت والدين، وعلى جميع عبادك اور دین کے ستون ہیں اور اسی طرح اپنے سب نیک الصالحين.آمين.بندوں پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما.آمین أما بعد فاعلم أيها الأخ الفطن، اما بعد ، اے برادر دانا! جان لے کہ یہ وہ زمانہ أن هذه الأيام أيام تتولد فيه الفتن ہے جس میں فتنے متعفن مردار میں کیڑوں کے جنم كتولد الدود في الجيفة المنتنة لینے کی طرح پیدا ہورہے ہیں.اور اس (زمانہ ) وتضطرم فيه الأهواء كاضطرام میں خواہشات خشک لکڑیوں میں آگ کے بھڑ کنے النيران من الخشب اليابسة.وأرى كى طرح ، بھڑک رہی ہیں.میں اس زمانے کے الإسلام في خطرات من إعصار هذا بگولوں اور اس وقت کی تند و تیز ہواؤں کی وجہ سے الزمان، وصراصر هذا الأوان.اسلام کو خطرات میں گھرا ہوا) دیکھتا ہوں.
سر الخلافة اردو ترجمہ قد انقلب الزمن واشتدت الفتن زمانہ بدل گیا.فتنوں نے شدت اختیار کر لی.وازورت مقلتا الكاذبين مغضبين راستبازوں پر جوش غضب سے جھوٹوں کی آنکھیں على الصادقين، واحمرت وجنتا ٹیڑھی ہوگئیں اور نیک لوگوں پر بدبختوں کے الطالحين على الصالحين.وما كان رُخسار سُرخ ہو گئے اور ان کا چیں بجبیں ہونا محض حق تعبسهم إلا لعداوة الحق وأهله اور اہل حق کی عداوت کے باعث ہے.اس لئے کہ فإن أهل الحق يفضح الخؤونَ صاحب حق خائن کی پردہ دری کرتا ہے.اور لوگوں وينجي الخلق مِن وَحُله، ولا کو اس کی اس دلدل سے بچاتا ہے اور وہ ظالم کی يصبر على كلمات الظالم وجودہ باتوں اور اس کے جو روستم کو برداشت نہیں کرتا بلکہ بل يردّ عليه من فوره، ويصول على فورًا اُسے جواب دیتا ہے اور ہر شک ڈالنے والے پر كل مريب لتكشيف معيب، وهتك اُس کے عیب ظاہر کرنے اور ملمع سازوں کا پردہ چاک ستر المدلسين.وكذلك كنتُ کرنے کے لئے حملہ کرتا ہے.اسی طرح میں بھی ان ممن أسلمتهم محبة الحق إلى طعن میں سے ہوں جنہیں حق کی محبت نے دشمنوں کی المعادين، وانجر أمرهم من حماية طعنہ زنی کے سپرد کر دیا اور جن کا معاملہ سچائی کی الصدق إلى تكفير المكفرين.حمایت کی وجہ سے مکفرین کی تکفیر تک جا پہنچا ہے.وتفصيل ذلك أن الله إذا أمرني تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب اللہ نے وبشرني بكونى مجدد هذه المائة، مجھے مامور کیا اور اس صدی کے مجدد اور والمسيح الموعود لهذه الأمة، اس امت کے لئے مسیح موعود ہونے کی مجھے وأخبرتُ المسلمين عن هذه بشارت دی اور میں نے مسلمانوں کو اس الواقعة، فغضبوا غضبا شديدا امر واقعہ کی خبر دی تو وہ جاہلوں کی طرح كالجهلة، وساء واظنا من سخت غضبناک ہوئے اور جلد بازی کے العجلة، وقالوا كذاب باعث بدظنی کی اور کہنے لگے یہ کذاب ہے
سر الخلافة اردو ترجمہ ومن المفترين.وكلما جئتُهم اور مفتریوں میں سے ہے.اور جب بھی میں ان بثمار من طيبات الكَلِم کے پاس طیب کلمات کے پھل لے کر آیا تو انہوں رضوا إعراض البشم ، حتى نے اس طرح منہ پھیر لیا جس طرح بد ہضمی کا مریض ظوالی فی الکلام (کھانے سے ) منہ موڑ لیتا ہے.یہاں تک کہ ولسعـونـي بحـمـة الـمـلام انہوں نے مجھ سے سخت کلامی کی اور ملامت کے ونصحت لهم وبلغت حق ڈنگ سے مجھے زخمی کیا.میں نے اُن کی خیر خواہی التبليغ مرارا، وأعلنتُ لهم کی اور میں نے انہیں ظاہر تبلیغ کرنے کے بعد وأسررت لهم إسرارًا، فلم تزل پوشیده طور پر تبلیغ بھی کی اور کئی مرتبہ تبلیغ کا حق ادا سحب نصاحتی تبدو کیا لیکن میری خیر خواہی کے بادل ابر بے آب کی كالجهام، ونخب مواعظی طرح رہے.اور میری بہترین نصائح ان لیموں تزيد شقوة اللئام، حتى زادوا کو شقاوت میں بڑھاتی رہیں.یہاں تک کہ وہ ظلم اعتداءًا وجفاءًا، وطبع الله علی و جفا میں بہت بڑھ گئے.اور اللہ نے ان کے دلوں قلوبهم فاشتدوا دناءة وداء پر مہر لگادی.پس وہ کمینگی اور مرض میں بڑھتے گئے وكانوا على أقوالهم مصرين اور وہ اپنی باتوں پر مصر رہے اور انہوں نے مجھ پر ولعنوني وكذبونی و کفرونی لعنت کی، مجھے جھٹلایا اور مجھے کا فر ٹھہرایا اور بہت سی وافتروا من عند أنفسهم أشياء، باتیں اپنی طرف سے افتراء کیں.پھر اللہ نے ففعل الله ما شاء ، وأرى وہی کچھ کیا جو اس نے چاہا اور اس نے مکذبوں المكذبين أنهم كانوا كاذبين كو يہ دکھا دیا کہ وہ جھوٹے ہیں.اور ہر شخص نے و طردنی کل رجل وحدانی مجھے دھتکارا اور میرا تعاقب کیا سوائے اُس إلا الذي دعانی و هدانی ذات باری کے جس نے مجھے پکارا اور میری راہنمائی فحفظني بلمحاتِ ناظرہ فرمائی.پھر اپنی نگاہِ التفات سے میری حفاظت کی
سر الخلافة اردو تر جمه وربانی بعنایات خاطره اور اپنی عنایات ذاتی سے میری تربیت فرمائی اور وجعلني من المحفوظين مجھے محفوظ لوگوں میں سے بنا دیا اور عین اس وقت وبينما أنا أفرّ من سهام أهل جب میں اہل سنت کے تیروں سے بچنے کی کوشش السنّة، وأسمع منهم أنواع كر رہا تھا اور ان کی طرف سے طرح طرح کے لعن کر الطعن واللعنة، إذ وصلني طعن سُن رہا تھا کہ بعض معزز شیعہ حضرات اور اس بعض المكاتيب من بعض أعزة فرقہ کے علماء کی طرف سے مجھے کچھ خطوط موصول الشيعة وعلماء تلك الفرقة ہوئے.(جن میں ) انہوں نے مجھ سے خلافت وسألوني عن أمر الخلافة کے بارہ میں اور خاتم الائمہ کی علامات کی نسبت وأمارات خاتم الأئمة، وكانوا دریافت کیا تھا.اور وہ صداقت اور راہنمائی کے من طلباء الحق والاهتداء بل متلاشی تھے بلکہ ان میں سے کئی ایک میرے بارے بعضهم يظنون بی ظن الأحباء ، میں دوستوں کی طرح حسن ظن رکھتے تھے اور مجھے ويتخذونـنـى مـن النصحاء ، اپنا خیر خواہ قرار دیتے تھے اور نہایت مصفا اخلاص ویذکروننی بخلوص اور پاک دل کے ساتھ میرا تذکرہ کرتے.تب أصفى وقلب أزكى، فكتبوا انہوں نے انتہائی شوق اور بڑی چاہت سے مجھے المكاتيب بشوق أبهى خطوط لکھے اور کہا کہ جلدی کوئی ایسی کافی وشافی وحرّةٍ عُظمى، وقالوا حَيَّ هَل کتاب تصنیف فرما ئیں جو ہمیں شفا بخشے اور ہمیں بكتاب أشفى، يشفينا ويروينا سیراب کرے اور ہمیں ایک مضبوط دلیل فراہم ويهب لنا برهانا أقوى ثم کرے.پھر انہوں نے مجھے مسلسل اتنے خطوط أرسلوا إلى خطوطا تترى، حتی ارسال کئے کہ میں نے ان میں (حق کے لئے ) وجدت فيها ريح كبد حرى، دلی تڑپ کی مہک پائی.جس پر مجھے اپنے فتذكرت قصتي الأولى، بارے میں اہل سنت کا ) سابقہ رویہ یاد آ گیا
سر الخلافة اردو تر جمه وانشنيتُ أقدم رجلا وأؤخر جس کے نتیجے میں میں ایک قدم آگے بڑھاتا تو أخرى، حتى قوّانی ربّی دوسرا قدم پیچھے ہٹاتا.یہاں تک کہ میرے بے نیاز الأغنى، وألقى فى روعی ما پروردگار نے مجھے قوت بخشی اور جو چاہا میرے دل ألقى، فنهضت لشهادة الحق میں ڈالا جس پر میں ایک واضح حق کی شہادت الأجلى، ولا أخاف إلا الله دینے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا اور میں اپنے بزرگ و الأعلى، والله كاف لعباده برتر اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا.اور اللہ اپنے المتوكلين.متوکل بندوں کے لئے کافی ہے.واعلم أن أهل السنة عادوني تو جان لے کہ اہل سنت نے میرے منصب کے في شَرُخ شأني، والشيعة آغاز میں مجھ سے دشمنی کی اور شیعہ حضرات نے كلموني في إقبال ،زماني، وإني میرے زمانہ اقبال میں مجھے چرکے لگائے.بلا شبہ سمعت من الأولين کلمات میں نے پہلوں سے بڑی باتیں سنیں اور جو باتیں میں كبيرة، وسأسمع من الآخرين ان دوسروں سے سنوں گا وہ ان سے بھی بڑھ کر ہوں أكبر منها، وسأصبر إن شاء گی.اور انشاء اللہ میں صبر کروں گا تا آنکہ میرے الله حتى يأتيني نصر ربّي، هو رب کی نصرت میرے پاس آ جائے.میں جہاں بھی آجائے.معى حيثما كنتُ ؛ یرانی ہوں وہ میرے ساتھ ہے.وہ مجھے دیکھتا اور مجھ پر رحم ويرحمني وهو أرحم الراحمين فرماتا ہے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ ورأيت أكثر أحزاب الشيعة لا رحم کرنے والا ہے.اور میں نے شیعوں کے اکثر يخافون عند تطاول الألسنة گروہوں کو دیکھا ہے کہ وہ زبان درازی کرتے وقت ولا يتقون ديان الآخرة، ولا خائف نہیں ہوتے اور نہ ہی آخرت کی جزا سزا کے يجمعون نشوب الحقيقة، ولا مالک سے ڈرتے ہیں.اور نہ تو وہ حقیقت کی دولت جمع يذوقون لبوب الطريقة کرتے ہیں اور نہ ہی طریقت کے مغز سے آشنا ہیں.
سر الخلافة اردو ترجمہ ولا يفكرون كالصلحاء ، ولا اور نہ وہ صلحاء کی طرح سوچتے ہیں اور نہ وہ يتخيرون طرق الاهتداء ، ہدایت کی راہیں اختیار کرتے ہیں.اس لئے فرأيت تفهيمهم على نفسی میں نے ان کو سمجھانا اپنے اوپر حق واجب اور حقا واجبًا ودَينا لازمًا، قرض لازم سمجھا جو ادا کئے بغیر ساقط نہیں ہوتا.لا يسقط بدون الأداء.فكتبتُ لہذا میں نے جلد جلد یہ رسالہ تحریر کیا کہ شاید اللہ هذه الرسالة العُجالة، لعلّ اُن کی حالت سدھار دے اور اُن کی کیفیت الله يصلح شأنهم ويُبدل بدل دے اور تا میں ان کے لئے اُن مسائل الحالة، ولأبين لهم ما اختلفوا کو جن میں انہوں نے اختلاف کیا واضح کروں فيه، وأخبرهم عن سرّ الخلافة، اور انہیں خلافت کے راز سے آگاہ کروں.وإن كـــان تـــأليــفــي هـذا اگر چہ میری اس تالیف کی حیثیت بڑھاپے کی كولد الإصافة، وما ألفتها اولاد كى طرح ہے.اور میں نے اسے محض کی إلا ترحما على الغافلين غافل مردوں اور عورتوں پر رحم کھاتے ہوئے والغافلات، وإنما الأعمال تالیف کیا ہے، درحقیقت تمام اعمال کا دارو مدار بالنيات.وأتيقن أن هذه الرسالة نیتوں پر ہے.اور مجھے یقین ہے کہ یہ رسالہ تحفظ كثيرا من ذوى الحرارة، بہت سے گرم مزاجوں کو غصہ دلائے گا.کیونکہ فإن الحق لا تخلو من المرارة حق تلخی سے خالی نہیں ہوتا.اور مجھے شیعہ علماء وسأسمع من علماء الشيعة سے بھی اُسی طرح کئی قسم کی لعن طعن سننا پڑے أنواع اللعنة، كما سمعت من گی جس طرح میں نے اہل سنت حضرات سے أهل السنة.فيارب لا توكُل سُنی.پس اے میرے رب ! صرف تجھی پر تو تکل إلا عليك، ولا نشكو إلا ہے اور صرف تیرے پاس ہم اپنی فریاد لے کر إليك، ولا ملجأ إلا ذاتك، آئے ہیں.تیری ذات کے سوا کوئی اور پناہ نہیں
سر الخلافة اردو تر جمه ولا بضاعة إلا آياتك، اور نہ ہی تیرے نشانات کے سوا کوئی اور فإن كنت أرسلتـنـی | سرمایہ ہے.پس اگر تو نے اپنے حکم سے اپنی بأمرك لإصلاح زُمرك بندوں کی اصلاح کے لئے مجھے بھیجا ہے تو فأدركني بنصرك، وأيدنى پھر اپنی مدد کے ساتھ میرے پاس آ اور اسی طرح كما تؤيد الصادقين.میری تائید فرما جس طرح تو راستبازوں وإن كنت تحبنی و تختارنی کی تائید فرماتا ہے.اگر تجھے مجھ سے محبت فلا تُخزِنــی کـالملعونین ہے اور تو نے ہی مجھے منتخب فرمایا ہے تو مجھے المخذولين.وإن تركتني بے یار و مدد گار ملعونوں کی طرح رسوا نہ کرنا.من الحافظ بعدك اگر تو نے مجھے چھوڑ دیا تو تیرے علاوہ اور ت خير الحافظين؟ کون محافظ ہوگا اور تو بہترین محافظ ہے.پس فــــادرا عنى الضراء، تمام تکالیف کو مجھ سے دور کر دے اور دشمنوں ولا تشمت بي الأعداء، کو میری ہنسی اڑانے کا موقعہ نہ دے.اور وأنت وانصرنی علی قوم کافرین | کافروں کے خلاف میری مددفرما.أما الرسالة فهي مشتملة على یہ رسالہ تمہید اور دو ابواب پر مشتمل ہے اور تمهيد وبابين، وفيها هدایات اس میں اہلِ نظر اور متقی قوم کے لئے ہدایات لذوى الـعـيـنـيـن ولقوم متقین ہیں.میری اللہ سے التجا ہے کہ وہ اس میں واسأل الله أن يضع فيها بَرَكة، بركت رکھ دے اور از رو رحمت اسے تاثیر کے ويضمخها بعطر التأثير رحمة، عطر سے ممسوح فرما دے.ہمیں اُسی قدر علم (۴) ولا علم لنا إلا ما علمنا وهو ہے جو اس نے ہمیں سکھایا اور وہی سب سے خير المعلمين.بہتر معلّم ہے.
سر الخلافة اردو ترجمه حضرة بيته التمهيد أيها الأعزة اعلموا رحمكم اے معزز حضرات ! اللہ تم پر رحم فرمائے.جان لو الله أنى امرؤٌ عُلمتُ من کہ میں ایک ایسا شخص ہوں کہ مجھے قادر و توانا اللہ رة الله القدیر ، ویسرنی ربّی کی جناب سے علم سکھایا گیا اور میرے رب نے ہر لكل دقيقة، ونجانی من اعتیاص باریک نکتہ میرے لئے آسان کر دیا.اور ہر سفر کی المسير، وعافانی و صافانی مشکلات سے مجھے بچایا اور عافیت بخشی، میرے وأسـرا بــي من بيت نفسي إلى ساتھ خالص محبت کی اور مجھے میرے نفس کے گھر العظيم الكبير.فلما وصلت سے اپنے عظیم اور وسیع گھر کی طرف لے گیا.پھر القبلة الحقيقية بعد قطع جب میں صحراؤں اور سمندروں کو عبور کرنے کے البراري والبحار.وتشرفت بعد حقيقى قبلہ تک پہنچا اور اس کے چنیدہ گھر کے بطواف بيته المختار، وخصصنی طواف کا مجھے شرف حاصل ہوا.اور میرے رب کی ربى بتجديد المدارك مہربانی نے میری استعدادوں کو جلا بخشنے کی تجدید وإدراك الأسرار، وكان ربی کے ساتھ اور اسرار تک رسائی کے لئے مجھے خدني وودودى، واستودعته مخصوص کرلیا اور میرا رب میرا حبیب اور میرا كل وجودى، وأخذتُ من لدنه محبّ بن گیا.اور میں نے اپنا پورا وجود اس كل علم من الدقائق والأسرار، کے سپرد کر دیا.اور میں نے اس کی جناب سے وصبغتُ منه في جميع الأنظار دقائق واسرار کا ہر علم حاصل کر لیا اور تمام نظریات والأفكار، صرفتُ عنان التوجه وافکار میں میں اس کی جناب سے رنگین کیا گیا.إلى كل نزاع كان بين فرق تو میں نے قوم وملت کے فرقوں کے درمیان ہر القوم والملة، وفتشت في اختلافی امر کی جانب اپنی توجہ کی باگ موڑ دی اور ہر كل أمر من السبب والعلة معاملہ کے سبب اور اُس کی علت کی چھان بین کی لطف
سر الخلافة "1 اردو ترجمہ وما تركت موطنا من مواطن البحث اور بحث و تدقیق کا کوئی مقام نہ چھوڑا.مگر تحقیق کی والتدقيق، إلا واستخرجتُ أصله رو سے اس امر کی اصلیت کو میں نے ظاہر کر دیا اور على وجه التحقيق.وعرفت أن مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ لوگوں نے اپنے قضیوں کے الناس ما أخطأوا في فصل القضايا، فیصلہ میں جو غلطیاں کیں اور جن غلطیوں کا ارتکاب وما وقعوا في الخطايا، إلا لميلهم کیا اُس کی صرف اور صرف یہ وجہ تھی کہ وہ غفلت إلى طرف مع الذهول عن طرف کے باعث ایک طرف سے ہٹ کر دوسری جانب آخر، فإنهم كبروا جهة واحدة مائل ہو گئے اور بغیر علم کے صرف ایک پہلو کو بڑا بغير علم وحسبوا ما خالفها أصغر (اہم) بنالیا اور اس کے مخالف پہلو کو چھوٹا اور حقیر وأحقر.وكان من عادات النفس سمجھا.اور یہ نفس کی عادت ہے کہ جب وہ کسی أنها إذا كانت مغمورة في حُبّ مطلوبہ شے کی محبت میں ڈوبا ہوا ہو تو وہ ان اشیاء شيء من المطلوبات، فتنسى أشیاء کو جو اس کے مخالف ہوں بھول جایا کرتا ہے اور يخالفه، ولا تسمع نصاحة ذوى ہمدردی کرنے والوں کی نصیحت کو نہیں سنتا بلکہ بسا المواساة، بل ربما يعاديهم ويحسبهم اوقات اُن سے دشمنی کرنے لگتا ہے.اور انہیں كالأعداء ، ولا يحاضر مجالسهم دشمنوں کی طرح سمجھتا ہے نہ وہ ان کی مجالس میں ولا يصغى إلى كلماتهم لشدة حاضر ہوتا اور نہ ہی دل پر دبیز پردے کی بنا پر وہ الغطاء.ولهذه المفاسد علل ان کی باتوں کو غور سے سنتا ہے اور ان خرابیوں وأسباب وطرق وأبواب، وأكبر کے کئی اسباب و علل ، طریقے اور راستے ہیں.اور علله قساوة القلوب، والتمايل على اُن کا سب سے بڑا سبب قساوت قلبی ، گنا ہوں الذنوب، وقلّة الالتفات إلى كى جانب میلان، روز آخرت کے محاسبہ کی محاسبات المعادِ، وصحبة طرف کم توجہی اور معاندین میں سے فریب الخادعين والكاذبين من أهل العناد کاروں اور جھوٹوں کے ساتھ میل جول ہے.
سر الخلافة ۱۲ اردو ترجمہ وإذا رسخوا في جهلهم فتدخل اور جب وہ اپنی جہالت میں راسخ ہو جاتے العشرات في العادات وتكون ہیں تو بہت سی لغزشیں اُن کی عادات میں داخل للنفوس كالمرادات فنعوذ ہو جاتی ہیں.اوہ وہ نفوس کے لئے دلی بالله من عشرات تنتقل إلى مرادوں کی مانند ہو جاتی ہیں.پس ہم ایسی عادات وتلحق بالهالكين لغزشوں سے جو عادات بن جائیں اور ہلاک وربما كانت هذه العادات ہونے والوں سے ملا دیں اللہ کی پناہ مانگتے مستتبعة لتعصبات راسخة من ہیں.بسا اوقات یہ عادتیں مباحثات کی وجہ مجادلات والمجادلات سے راسخ تعصبات کو جنم دیتی ہیں اور نفسانی النفسانية سم قاتل الطالب مباحثات حق اور ہدایت کے طالب کے لئے الحق والرشاد، وقلما ينجو سم قاتل ہیں.اور اس گڑھے میں گرنے الواقع في هذه الوهاد.والا شخص کم ہی بچتا ہے.بعض اوقات فساد وقد تكون العلل المفسدة پیدا کرنے والے اسباب اور گمراہ کرنے والموجبات المضلة مستترة، والے موجبات پوشیدہ اور آنکھوں سے مخفی ومن العيون مخفية، حتى لا ہوتے ہیں کہ وہ شخص بھی جس میں یہ باتیں يراها صاحبها ويحسب نفسه من موجود ہوں انہیں دیکھ نہیں پاتا اور اپنے آپ کو ان المصيبين المنصفين.وحينئذ لوگوں میں سے سمجھتا ہے جو صائب الرائے اور يسعى إلى المشاجرات منصف ہیں، تو اس وقت وہ اختلافات کی طرف ويشتد في الخصوصات ، لپکتا اور ایسے جھگڑوں میں شدت اختیار کرتا ہے ا وربمـا يـحســب خـیالا طفيفا اور کبھی وہ ادنی خیال اور کمز ور رائے کو ایسی پختہ دلیل ورأيا ضعيفا كأنه حجة قوية لا کی طرح سمجھنے لگتا ہے کہ جسے تو ڑا نہیں جاسکتا پس دحوض لها، فيميس كالفرحين وہ خوشیاں منانے والوں کی طرح جھومنے لگتا ہے.حميد لعله سهو الناسخ والصحيح ”الخصومات“.(الناشر)
سر الخلافة ۱۳ اردو تر جمه و سبب كل ذلك قلة التدبر اور یہ سب کچھ قلت تدبر ، عدم فراست، بچے (۵) وعدم التبصر ، والخلو عن العلوم علوم سے محرومی اور رسوم باطلہ کی تصویر میں الصادقة، وانتقاشُ صُورِ الرسوم (ذہن پر نقش ہونے اور نفسانی خواہشات الباطلة، والانتكاس على شهوات پر کلیۂ جھک جانے ، روحانی ذوق سے محرومی، النفس بكمال الجنوح والحرمان بلند نگاہی سے ماندگی، زمین (مادیات) کی من مذوقات الروح وعجز النظر عن الطموح والإخلاد إلى الأرض طرف جھکاؤ اوراس پراندھوں کی طرح گر والسقوط عليها كعمين.پڑنے کی وجہ سے ہے.وهذه هي العلل التي جعلت یہی وہ وجوہات ہیں جنہوں نے لوگوں کو گروہ الناس أحزابا، فافترقوا وأكثر هم در گروه کر دیا ہے اور وہ فرقوں میں بٹ گئے ہیں تخيروا تبابًا، وكذبوا الحق اور ان میں سے اکثر نے ہلاکت کو اختیار کرلیا كذابًا، بل لعنوا أهله كالمعتدین اور حق کو بُری طرح جھٹلایا بلکہ انہوں نے زیادتی وصالوا كخریج مارق علی کرنے والوں کی طرح اہلِ حق پر لعنت کی.دین المحسنين، ونظروا إلى أهل سے نکل جانے والے سرکش کی طرح محسنوں الحق بتشامخ الأنوف، وتغيظ پر حملہ کیا.اور انہوں نے اہل حق کی طرف متکبرانہ القلب المؤوف، وحسبوا انداز سے ناک بُھوں چڑھا کر اور غضبناک أنفسهم من العلماء والأدباء ، مسخ شدہ دل کے ساتھ دیکھا.اور انہوں نے وسحبوا ذيل الخيلاء ، وما كانوا اپنے آپ کو علماء وادباء میں سے سمجھا اور انہوں نے من المفلقين.ومنهم الذين تکبر کا دامن گھسیٹا حالانکہ وہ قادر الکلام نہ تھے.نالهم من الله حظ من المعرفة اُن میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں اللہ کی طرف ورزق من الحق والحكمة، سے معرفت اور حق و حکمت میں سے حصہ ملا
سر الخلافة ۱۴ اردو تر جمه وفتح الله عيونهم وأزال اور اللہ نے ان کی آنکھیں کھولیں اور ان کے ظنونهم، فرأوا الحقائق شکوک و شبہات دور کئے، پس انہوں نے محدقين.ومنهم قوم أخطأوا حقائق کو تمام پہلوؤں سے احاطہ کرتے في كل قدم، وما فرّقوا بین ہوئے دیکھا.اور بعض ان میں سے ایسے بھی وجود وعدم وما كانوا تھے جنہوں نے ہر قدم پر غلطی کھائی اور وجود ستبصرين.أصروا علی اور عدم وجود میں فرق نہ کیا اور وہ اہل بصیرت مرکوزات خطراتھم نہ تھے.وہ امور جن پر اُن کے خیالات مرکوز وخطوات خطيّاتهم، ولباس ہیں اور اپنے غلط اقدامات اور بدیوں کے سيئاتهم وكانوا قوما مفسدین پیرہن پر وہ مصر رہے اور وہ فسادی قوم ہیں.وإذا نزعوا عن المراس بعد ما جنگ کی طاقت چھین لی جانے کے بعد جب وہ نزعوا لاء البأس، ويئسوا مقابلہ سے دستبردار ہوگئے اور دفاع کرنے من الجحــاس، مالوا ميلة سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے یکدم تحقیر آمیز واحدة إلى الإيذاء بالتحقير ايذارسانی ، بہتان تراشی، افترا پردازی او والازدراء، وبنحت البهتان توہین کی طرف رُخ کرلیا.جب بھی میں نے والافتراء والتوهين.وكلما ان سے نرم گفتاری سے کام لیا وہ ظلم وستم خضعت لهم بالكلام مالوا إلى اور ایذا دہی پر تل گئے اور اگر میرے ربّ نے الإرهاق والإيلام، وكادوا جو ميرا محافظ ومددگار ہے مجھے بچایا نہ ہوتا تو يقتلوننى لو لم یعصمنی ربی قریب تھا کہ وہ مجھے قتل کر دیتے.پھر جب وہ الحفيظ المعين.فلما زاغوا ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو بھی أزاغ الله قلوبهم وزاد ذنوبهم، ٹیڑھا کر دیا اور ان کو گنا ہوں میں بڑھا دیا اور وتركهم في ظلمات متخبطین انہیں اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیا.يبدو ان ” ( سقطت من هنا سهواء، والصحيح ” إلاء“.بمعنى الشدّة والمحنة (المنجد) (الناشر)
سر الخلافة ۱۵ اردو ترجمہ فنهضت بأمر الله الكريم، وإذن پھر میں کریم ورحیم اللہ کے حکم اور اذن سے اوہام الله الرحيم، الأزيل الأوهام کے ازالہ اور بیماریوں کے علاج کے لئے اُٹھ وأداوى السقام، فاستشاطوا من کھڑا ہوا، جس پر وہ اپنی جہالت کے باعث سخت جهلهم غضبًا، وأوغلوا في أثرى غضبناک ہوئے اور عیب چینی اور گالیوں کے ساتھ زراية وسبا، وفتحوا فتاوی میرے پیچھے پڑگئے اور تکفیر کے فتوے اور کذب التكفير ودفاتر الدقارير، وصالوا بیانی کے دفتر کھول دیئے اور قسم قسم کی دروغ گوئی على بأنواع التزوير، ولدغونی سے مجھ پر حملہ کیا اور زہریلے سانپ کی زبان کی بلسان نضناض، وداسونی طرح مجھے ڈسا اور سنگریزوں کو روندنے کی طرح كرضراض.وطالما نصحت فما مجھے روندا.بسا اوقات میں نے نصیحت کی لیکن سمعوا، وربما دعوت فما انہوں نے نہیں سنی اور کئی دفعہ میں نے انہیں بلایا توجهوا، وإذا ناضلوا ففروا، وإذا مگر انہوں نے کوئی توجہ نہ دی.اور جب انہوں أخطأوا فأصروا وما أقروا، وما نے مقابلہ کیا تو بھاگ گئے اور جب غلطی کی كانوا خائفين.واجترء و اعلی تو اقرار کی بجائے اصرار کیا اور اقرار نہ کیا اور وہ خيانات فما تركوها وما ألغوها، ڈرنے والے نہ ہوئے.اور انہوں نے خیانتوں پر حتى إذا الحقائق اختفت وقضية دلیری دکھائی اور نہ تو انہیں ترک کیا اور نہ ہی الدين استعـجـمـت و شموس انہیں لغو قرار دیا یہاں تک کہ جب حقائق چھپ المعارف أفَلتُ و غربت، گئے دین کا معاملہ مبہم ہو گیا، معارف کے سورج ومعارف الملة اغتربت و تغربت، اوجھل ہو گئے اور غروب ہو گئے ، دین کے معارف والدواهي اقتربت و دنت جلاوطن اور غائب ہو گئے، مصائب بہت قریب وغلبت، وبيت الدين والديانة آگئے اور انہوں نے غلبہ پالیا.دین اور دیانت کا خلا، والأمن والإيمان أجفلا، گھر خالی ہو گیا اور امن و امان گھبرا کر بھاگ گئے.
سر الخلافة ۱۶ اردو تر جمه ورأيت أن الغاسق قد وقب، ووجه اور میں نے دیکھا کہ اندھیرا چھا گیا ہے اور راستہ المحجّة قد انتقب ، فألّفتُ كُتبا تاریک ہو گیا ہے تب میں نے دین کی تائید میں لتأييد الدين، وأترعتها من لطائف کئی کتابیں تالیف کیں اور ان کو اسرار و براہین کے 1) الأسرار والبراهين، فما انتفعوا لطيف نكات سے پر کر دیا لیکن پھر بھی انہوں نے پر بشيء من العظات بل حسبوها ان نصیحتوں سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا بلکہ انہیں من الكلم المُحفِظات، وما كانوا اشتعال انگیز باتیں خیال کیا اور وہ باز نہ آئے.پھر منتهين.ثم إذا رأوا أن الحجة جب انہوں نے دیکھا کہ حجت قائم ہوگئی ہے وردت، والنار المضرمة بردت اور بھڑکتی ہوئی آگ ٹھنڈی پڑ گئی ہے اور شکوک وما بقى جمرة من جمر الشبهات وشبہات کے انگاروں میں سے کوئی ایک انگارہ بھی فركنوا إلى أنواع التحقيرات باقی نہیں رہا تو پھر وہ طرح طرح کی تحقیر آمیز وقالوا من أشراط المجدّد الداعى باتوں کی طرف مائل ہوئے اور یہ کہا کہ اسلام کی إلى الإسلام، أن يكون من العلماء طرف دعوت دینے والے مجدد کی نشانیوں میں الراسخين والفضلاء الكرام، وهذا سے ایک یہ ہے کہ وہ راسخ علماء اور معزز فضلاء میں الرجل لا يعلم حرفا من العربية، سے ہوگا.اور یہ تو ایسا شخص ہے جو عربی کا ایک ولا شيئًا من العلوم الأدبية | حرف نہیں جانتا اور نہ ہی اسے ادبی علوم سے وإنا نراه من الجاهلين، وكانوا کچھ واقفیت ہے اور ہم اسے جاہل پاتے ہیں.اور في قولهم هذا من الصادقين وہ اپنے اس قول میں سچے بھی تھے.پس میں فدعوت ربى أن يُعلّمني إن نے اپنے رب سے دعا کی کہ اگر اُس کی مشیت شاء، فاستجاب لي الدعاء ، ہو تو وہ مجھے (عربی ) سکھا دے.پس اُس نے فأصبحتُ بفضله عارف ،اللسان، میری دعا قبول فرمائی اور میں اُس کے فضل سے ومليح البيان، ومن الماهرين زبان دان ، خوش بیان اور ماہر ( کلام ) ہو گیا.
سر الخلافة ۱۷ اردو تر جمه ނ ثم ألفتُ كتابين فى العربية پھر میں نے حضرت احدیت کے حکم مأمورًا من الحضرة الأحدية دو کتابیں عربی میں تالیف کیں اور میں نے کہا وقلت يا معشر الأعداء ، إن اے گروهِ دشمناں! اے بڑے بڑے دعوے كنتم من العلماء والأدباء ، کرنے والو اور ریا کارو اگر تم علماء وادباء میں فأتوا بمثلها يا ذوى الدعاوى سے ہواور (اپنے دعوئی میں) سچے ہو تو ان والرياء إن كنتم صادقين ( کتابوں ) کی مثل لاؤ اس پر وہ بھاگ گئے ففروا واختفوا كالذى اذان اور اس مقروض شخص کی طرح چھپ گئے جو خالی عند صفر اليدين، وما أفاق إلا ہاتھ ہو اور (اپنا) سیم وزرخرچ کرنے کے بعد ہی بعد إنفاق العين، فما قدر علی اُسے ہوش آئی ہو اور قرض کا طوق پہن لینے کے الأداء بـعـد التـطـوق بالدين، بعد اس کی ادائیگی پر قادر نہ ہو اور اس کا قرض خواہ ولازمه مستحقه وجد فی پیچھے پڑ کر اُس سے اپنے مال کا مطالبہ کر رہا ہو تقاضى اللجين، فما كان عنده اور اس (مقروض) کے پاس جھوٹے وعدوں إلا مواعيد المين؛ كذلك کے سوا اور کچھ نہ ہو.اس طرح اللہ تکبر کرنے يخزى الله قوما متكبرين.والی قوم کو رسوا کرتا ہے.والعجب أنهم مع هذا الخزى تعجب کی بات یہ ہے کہ اس قدر رسوائی ، والذلّة، وهتك الأستار والنكبة، ذلّت ، پرده دری اور نکبت کے باوجود ما رجعوا إلى التوبة والانكسار بھی انہوں نے تو بہ اور انکسار کی طرف وما اختاروا طريق الأبرار رجوع نہیں کیا اور نہ ہی ابرار واخیار والأخيار، وما صلح القلب کا طریق اختیار کیا اور نہ دلِ ماؤف درست المؤوف وما تقوضت الصفوف، ہوئے ، نہ صفوں میں انتشار پیدا ہوا ، اور نہ وما سعوا إلى الحق نادمین ہی وہ نادم ہو کر حق کی طرف دوڑ کر آئے
سر الخلافة ۱۸ اردو ترجمہ بل لووا عنى العِذار، وأبدوا بلکہ انہوں نے اپنا رخ مجھ سے پھیر لیا اور ترش التعبس والازورار، وكانوا روئی اور بے التفاتی کا اظہار کیا اور وہ شہر میں تیزی إلى الشر مبادرين.ورأيتهم سے بڑھ رہے تھے اور میں نے انہیں ان کے بخل في سلاسل بخلهم كالأسير ، کی زنجیروں میں قیدی کی طرح جکڑے ہوئے پایا وما نصحت لهم نصحا إلا اور انہیں میں نے جو بھی نصیحت کی اس کے رجعت يائسا من التأثير، حتی اثر انداز ہونے سے مایوس ہی ہو کر لوٹا تا آنکہ مجھے تذكرتُ قصة القردة والخنازیر، بندروں اور سؤروں کا قصہ یاد آیا اور جب میں نے واغرورقت عيناي بالدموع إذ بينا لوگوں کو اندھوں کی طرح پایا تو میری آنکھیں رأيتُ ذوى الأبصار كالضرير، آنسوؤں سے ڈبڈبا گئیں اس کے باوجود بھی میں وإنى مع ذلك لستُ من مایوس نہیں.تقدیر نے ان کی پردہ دری کرنے اليائسين.وقيض القدر لهتك اور ان کی بدکاریوں کی انہیں سزا دینے کا فیصلہ أستارهم وجزاء فجارهم أنهم کرلیا ہے.ان لوگوں نے صادقوں سے دشمنی کی عادوا الصادقین و آذوا اور تائید یافتہ لوگوں کو تکالیف پہنچا ئیں.سنجیدگی المنصورين، وحسبوا الجد کو عبث اور حق کو باطل جانا اور وہ اعراض کرنے عبثًا والحق باطلا، فكانوا من والے ہی تھی.کئی سالوں سے میں انہیں جھگڑوں المعرضين.وإني أراهم فى اور بکھیڑوں میں پڑے دیکھ رہا ہوں اور میں نے لدد وخصام مُذ أعوام، وما ان میں تو بہ کرنے والوں کا کوئی نشان نہیں پایا.أرى فيهم أثر التائبين فأردتُ اس لئے میں نے ارادہ کرلیا کہ میں انہیں أن أتركهم وأُعـــرض عـن چھوڑ دوں اور (ان کو ) خطاب کرنے سے اعراض الخطاب، وأطوى ذكرهم کروں اور ان کے ذکر کی صف اس طرح لپیٹ كطي السجل للكتاب دوں جس طرح بہی کے کھاتوں کو سمیٹا جاتا ہے
سر الخلافة ۱۹ اردو تر جمه وأتوجه إلى الصالحين.ولو اور نیک لوگوں کی طرف توجہ کروں.اور اگر کوئی أن لي ما يوجههم إلى ایسی چیز مجھے میسر ہوتی جو انہیں حق وصواب کی الحق والصواب لفعلته ، ولكنى طرف متوجہ کرنے والی ہوتی تو میں ضرور کر گزرتا ما أرى تدبيرا فى هذا لیکن اس بارہ میں مجھے کوئی تدبیر نظر نہیں آئی.میں الباب، وكلما دعوتهم نے جب بھی انہیں دعوت حق دی تو وہ لڑھکتے فرجعوا متدهدهين، وكلما ہوئے واپس لوٹ گئے.اور جب بھی میں نے قدتهم فقهقروا مقهقهین انہیں آگے کی طرف کھینچا وہ قہقہے لگاتے ہوئے بيد أني أرى فى هذه الأيام پچھلے قدموں پر چلنے لگے.البتہ میں ان ایام میں أن بعض العلماء من الكرام دیکھتا ہوں کہ معززین میں سے بعض علماء نے رجعوا إلى وانتشرت عقود میری طرف رجوع کیا اور ان کی دشمنی کی گرہیں ے الزهام، وزال قليل من الظلام، کھل گئیں اور کسی قدر اندھیرے چھٹ گئے اور انہوں وتبرء وا من خُبث أقوال نے دشمنوں کی گندی باتوں سے بیزاری ظاہر کی الأعداء ، وأدهشهم الإدلاج اور سخت تاریک رات میں سفر کرنے نے انہیں الليلة الليلاء ، وجاء ونی دہشت زدہ کر دیا.اور وہ سعادت مندوں کی طرح كالسعداء فقلت بَخُ بَخُ میرے پاس آئے اور اس ہدایت پا جانے پر میں لهذا الاهتداء ، وهداهم نے انہیں کلمہ تحسین کہا اور ان کے رب نے ربهم إلى عين الصواب من سراب کی چمک سے راستی کے چشمہ کی طرف ان ملامح السراب، فوافونی کی رہنمائی فرمائی.پس وہ اخلاص کے ساتھ میرے مخلصين، وشربوا من كأس پاس آئے اور انہوں نے جام یقین سے نوش اليقين، وسُقوا من ماء معین کیا اور وہ آب مصفی سے سیراب کئے گئے اور میں وأرجو أن يكمل الله رشدهم امید کرتا ہوں کہ اللہ ان کی ہدایت کامل فرمائے گا
سر الخلافة اردو تر جمه ويجعلهم من العارفين.وكذلك اور انہیں عارفوں میں سے بنائے گا.اور اسی طرح أدعو لنظارة هذا الكتاب، ان میں اس کتاب کے ناظرین کے لئے دعا کرتا ہوں کہ يوفقهم الله لهم لتخير طرق اللہ انہیں صحیح راہ اختیار کرنے کی توفیق عطا کرے.الصواب، ومن بلغ أشده فی اور جو کوئی بھی روحانی نشات میں بلوغ کو پہنچے گا تو وہ نشأة روحانية، فسيقبل دعوتي رباني تفضلات کے نتیجہ میں میری دعوت کو قبول بتفضلات ربانية، وقد سويت کرے گا.میں نے ہر اس شخص کے لئے جو میری كلماتي لكل من يصغى إلى نصائح پر کان دھرتا ہے اپنے ان کلمات کو ترتیب دیا عظاتی، والله يعلم مجالبھا ہے.اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ نصیحتیں کس کی کشش کا ويدرى طالبها، ولا تتخطى نفس باعث ہوں گی اور وہی جانتا ہے کہ کون سا ان کا فطرتها، ولا تترك قريحة طالب ہے.کوئی نفس اپنی فطرت کو پھلانگ نہیں سکتا شاكلتها، ولا يهتدى إلا من كان اور نہ کوئی طبیعت اپنے طریق کو ترک کرسکتی ہے اور ہدایت پانے والے ہی ہدایت پائیں گے.اعلموا رحمكم الله، أن قوما اللہ تم پر رحم فرمائے.جان لو کہ ان لوگوں میں من الذين قالوا نحن أتباع أھل سے جنہوں نے یہ کہا کہ ہم اہل بیت کے متبع ہیں البيت ومن الشيعة قد تكلموا اور شیعہ ہیں ایک طبقہ ایسا ہے جنہوں نے اکابر في جماعة من أكابر الصحابة صحابہ کی ایک جماعت اور رسول اللہ صلی اللہ وخلفاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء اور ملت کے ائمہ کی نسبت عليه وسلم وأئمة الملة، وغلوا طعن کیا ہے اور اپنے قول اور اپنے عقیدہ میں في قولهم وعقيدتهم، ورموهم غلو کیا ہے اور ان پر کافر اور زندیق ہونے بالكفر والزندقة، ونسبوهم إلى کے بہتان لگائے ہیں اور ان کی طرف الخيانة والغضب والظلم والغى خيانت ، غضب، ظلم اور بغاوت کو منسوب کیا.من المهتدين.
سر الخلافة ۲۱ اردو ترجمہ وما انتهوا إلى هذا الزمان وما اور وہ اس وقت تک اس سے باز نہیں آئے اور ان فاءَ مَنشَرُهم إلى الطى، وما كا یہ پروپیگنڈا ختم ہونے میں نہیں آیا اور وہ باز كانوا منتهين.بل استحلوا ذکر نہیں آرہے بلکہ انہوں نے اپنے گالیاں دینے کو سبهم، وتخيَّروه في كل خبهم ، جائز سمجھا ہے اور ہر میدان میں اسے اختیار کیا ہے وحسبوه من أعظم الحسنات اور اسے نیکیوں میں سے سب سے بڑی نیکی بلکہ بل من ذرائع الدرجات، حصول درجات کا ایک ذریعہ سمجھا ہے.انہوں ولعنوهم واستجادوا هذا نے ان صحابہ پر لعنت کی اور اس کام کو بہت اچھا العمل وشدوا عليه الأمل عمل خیال کیا اور اس پر اُمیدیں باندھیں اور یہ وظنوا أنه من أفضل أنواع خیال کیا کہ یہ فعل مختلف قسم کی نیکیوں اور قرب الہی الصالحات والقربات، وأقرب کے ذرائع میں سے افضل ترین ذریعہ ہے اور اللہ الطرق لابتغاء مرضاة الله کی رضا جوئی کا قریب ترین راستہ اور عبادت وأكبر وسائل النجاة للعابدین | گزاروں کے لئے نجات کا سب سے بڑا وسیلہ وإني لبثت فيهم بُرهةً من ہے.میں نے کچھ زمانہ اُن میں گزارا ہے اور الزمان، ويسر لی ربّی کل میرے رب نے ہر آزمائش کے وقت میرے وقت الامتحان، وكنتُ لئے آسانی پیدا کر دی اور اس موضوع کے بارے أتوجس ما كانوا يُسرون فی میں جو کچھ وہ چھپا رہے تھے میں اُسے محسوس کر رہا هذا الباب، وأصغى إلى كل تھا اور ان کی فریب دہی کے ہر طریقے پر میری طرق الاختلاب.وقيض القدر توجہ مرکوز تھی.میرے علم ومعرفت کی بہتری لحسن معرفتي أن عالما منهم کے لئے قضاء و قدر نے یہ انتظام کیا کہ ان کا كان من أساتذتى، فكنت فيهم ایک عالم میرے اساتذہ میں سے تھا.میں ان ليلا ونهارًا، وجادلتهم مرارا، میں دن رات رہا اور ان سے بارہا مباحثہ کیا.
سر الخلافة ۲۲ اردو ترجمہ وما كان أن تتوارى عنى خبيئتهم ان کا اندرونہ مجھ سے چھپا نہیں رہ سکتا تھا اور نہ أو يخفى على رؤيتهم، فوجدتُ ان کا ظاہر مجھ پر خفی تھا.مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ وہ أنهم قوم يُعادون اكابر الصحابة، لوگ اکابر صحابہ سے دشمنی رکھتے ہیں اور وہ شکوک ورضوا بغشاوة الاسترابة ورأيت وشبہات کے پردوں پر راضی ہیں.اور میں نے كل سعيهم في أن يفرط إلى دیکھا کہ ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہیں کہ وہ الشيخين ذم، أو يلحقهما وصم، شيخين (حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ) کی طرف فتارة كانوا يذكرون للناس قصة ہر برائی منسوب ہو اور ان دونوں پر دھبہ لگے.القرطاس، وتارة يشيرون إلى کبھی تو وہ لوگوں سے قصۂ قرطاس کا ذکر کرتے قضية الفدك ، ويزيدون عليه ہیں اور کبھی وہ قضیہ فدک کی طرف اشارہ کرتے أشياء من الإفك، وكذلك كانوا ہیں اور اس پر بہت سی جھوٹی باتوں کا اضافہ مجترئین علی افترائهم وسادرین کرتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے افترا پر في غلوائهم، وكنتُ أسمع جارت کرتے رہے اور جوش میں بے پرواہ منهم ذم الصحابة وذم القرآن ہو کر بڑھتے رہے.اور میں ان سے صحابہ، قرآن وذم أهل الله وجميع ذوی اور اہل اللہ اور تمام اہلِ عرفان اور امہات العرفان، وذمّ أُمهات المؤمنين المومنین کی مذمت کی باتیں سنتا تھا.لیکن جب فلما عرفت عُود شجرتھم میں ان کی اصلیت اور ان کا راز حقیقت جان وخبيئة حقيقتهم أعرضت عنهم گیا تو میں نے ان سے اعراض کیا اور گوشہ نشینی وحُبِّبَ إلى الانزواء ، وفی قلبی مجھے محبوب ہو گئی اور میرے دل میں بہت سی أشياء.وكنتُ أتضرع في حضرة باتیں تھیں اور میں (اللہ ) قاضی الحاجات کی قاضي الحاجات لیزیدنی بارگاہ میں مسلسل یہ آہ وزاری کرتا رہا کہ وہ علمًا في هذه الخصومات ان بحثوں میں میرے علم میں اضافہ فرما دے.
سر الخلافة ۲۳ اردو تر جمه فَعُلّمتُ رشدًا من الكريم الحكيم، اس پر مجھے خدائے کریم وحکیم کی طرف سے رشد وهديتُ إلى الحق من الله العلیم و ہدایت کی تعلیم دی گئی اور خدائے علیم کی طرف وأخذتُ عن رب الكائنات وما سے میری راہنمائی حق کی طرف کی گئی اور یہ میں أخذتُ عن المحدثات، ولا يكمل نے رب کائنات سے پایا.لوگوں کے اقوال رجل في مقام العلم وصحة سے اخذ نہیں کیا.اور ہر شخص مقام علم اور صحت الاعتقادات إلا بعدما یلقی اعتقادات میں صرف آسمانوں کے خالق کے العلوم من لدن خالق السموات عطا کردہ علوم کے حصول کے بعد ہی کامل ہوتا ولا يعصم من الخطاء إلا الفضل ہے اور حضرتِ کبریاء کا فضل عظیم ہی غلطی سے الكبير من حضرة الكبرياء ، ولا محفوظ رکھتا ہے.اور کوئی شخص خواہ لمبے عرصہ تک يبلغ أحد إلى حقيقة الأمور ولو ممتد اپنی ساری عمر فنا کر دے وہ خدائے رحمن کی أفنى العمر فيها إلى الدهور، إلا نسيم معرفت کے چلنے کے بغیر امور کی حقیقت بعد هبوب نسيم العرفان من الله تک نہیں پہنچ سکتا.وہی سب سے بڑا معلم اور الرحمن، وهو المعلم الأعظم اور سب سے زیادہ علم رکھنے والا صاحب حکمت والحكيم الأعلم، يُدخل من ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر يشاء في رحمته، ويجعل من لیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عارفوں میں سے بنا يشاء من العارفين.وكذلك من دیتا ہے.اسی طرح اللہ نے مجھ پر احسان الله على ورزقني من العلوم فرمایا اور مجھے اعلیٰ علوم عطا کئے اور ایسا نو ر دیا النخب، وجعل لى نورا يتبع جوشُهَب ثاقبہ کی طرح شیاطین کا تعاقب کرتا الشياطين كالشهب ، وأخرجنی ہے.وہ مجھے سخت تاریک رات سے نکال کر من ليلة حالكة الجلباب إلى نهارایسے روشن دن کی طرف لے آیا جسے سفید ما غشاه قطعة من الرباب، بادل کے ٹکڑے نے ڈھانپا ہوا نہیں تھا
سر الخلافة ۲۴ اردو ترجمہ وطرد كلّ مانع عن الباب، اور اس نے اپنی بارگاہ سے ہر روکنے والے کو مار فأصبحت بفضله من بھگایا اور (اس طرح) میں اس کے فضل سے محفوظ الـمـحـفـوظيـن.وأُعطيتُ مِن ہوگیا.مجھے خارق عادت فہم عطا کیا گیا اور ایسا نور فهم يخرق العادة، ومن نور دیا گیا جو فطرت کو منور کر دیتا ہے اور ایسے اسرار عطا ينير الفطرة، ومن اسرار تعجب کئے گئے جو حق کے متلاشیوں کو پسند آتے ہیں.اور الطالبين.وصبغ الله علومی اللہ نے میرے علوم کو تحقیق کے لطیف در لطیف بلطائف التحقيق، وصفاها نکات سے رنگین فرمایا اور انہیں شفاف شراب کی كصفاء الرحيق، وكل قضية طرح صاف کیا اور ہر مسئلہ میں میرے وجدان نے قضى بها وجدانی أرانيها الله جو فیصلہ کیا اسے اللہ نے اپنی کتاب میں مجھے دکھا في كتابه لیزید اطمینانی دیا تا کہ میرے اطمینان میں اضافہ ہو اور میرا ایمان ويتقوّى إيماني، فأحاطت عینی قوت پائے.پس میری آنکھ نے آیات کے ظاہر و ظهر الآيات وبطنها وظعاينها باطن اور اُن کے محمولات اور پوشیدہ محاسن کا احاطہ وظعنها، وأُعطيت فراسة کرلیا اور مجھے محد ثوں جیسی فراست عطا کی گئی.اور المحدثين.وأعطاني ربي میرے رب نے مجھے ہر پاکباز اور سعادت مند کے أنواع فهم جدید لکل زکیلئے جدید فہم کی مختلف انواع عنایت کیں تاکہ وہ وسعيد، ليصلح المفاسد الجديدة مفاسد جدیدہ کی اصلاح کرے.اور سعید طبائع کی ويهدى الطبائع السعيدة، ومن رہنمائی کرے.اور اُس کے علاوہ اور کون ہدایت يهدى إلا هو، وهو أرحم دے سکتا ہے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر الراحمين.نظر الزمان ووجد رحم کرنے والا ہے.اس نے زمانہ پر نظر کی اور اہل أهله قد أضاعوا الإيمان زمانہ کو اس حال میں پایا کہ وہ ایمان کھو چکے تھے اور واختاروا الكذب والبهتان، انہوں نے کذب و بہتان کو اختیار کر لیا تھا.
سر الخلافة ۲۵ اردو ترجمہ من التمن منهم خان، ومن ان میں سے جن کے سپر د بھی کوئی امانت کی گئی تكلم مان، فنفخ فی روعی اس نے خیانت کی اور جس نے بات کی اُس أسرارًا عظيمة، وكلمات نے جھوٹ بولا.پھر اس (خدا) نے میرے دل قديمة، وجعلنى من ورثاء میں اسرار عظیمہ اور کلمات قدیمہ القاء کئے.اور نبيين، وقال إنك من مجھے نبیوں کا وارث بنا دیا.اور فرمایا کہ تو المأمورين لتنذر قوما ما ماموروں میں سے ہے تا کہ تو اس قوم کو ڈرائے أُنذر آباؤهم ولتستبين سبیل جن کے آباء واجداد کو نہیں ڈرایا گیا تھا، اور تا مجرموں کی راہ واضح ہو جائے.المجرمين.الباب الأوّل في الخلافة خلافت کے بارہ میں پہلا باب اعلم، سقاك الله كأس الفكر جان لے.اللہ تجھے گہرے فکر کا جام پلائے.العميق، أنى عُلمتُ من ربی فی مجھے میرے رب کی طرف سے خلافت کے أمر الخلافة على وجه التحقيق بارے میں از روئے تحقیق تعلیم دی گئی ہے وبلغت عمق الحقيقة كاهل اور محققین کی طرح میں اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ التدقيق، وأظهر علی ربی آن گیا اور میرے ربّ نے مجھ پر یہ ظاہر کیا کہ الصديق والفاروق و عثمان، صدیق اور فاروق اور عثمان (رضی اللہ عنہم ) كانوا من أهل الصلاح والإيمان، نیکوکار اور مومن تھے اور ان لوگوں میں سے تھے 9 وكانوا من الذين آثرهم الله وخُصوا جنہیں اللہ نے چچن لیا اور جو خدائے رحمن کی بمواهب الرحمان، وشهد علی عنایات سے خاص کئے گئے.اور اکثر صاحبانِ مزاياهم كثير من ذوى العرفان | معرفت نے ان کے محاسن کی شہادت دی.
سر الخلافة ۲۶ اردو تر جمه قريب تركوا الأوطان لمرضاة حضرة انہوں نے بزرگ و برتر خدا کی خوشنودی کی خاطر الكبرياء ، ودخلوا وطيس کل وطن چھوڑے ہر جنگ کی بھٹی میں داخل ہوئے اور حرب وما بالوا حَرَّ ظهيرة موسم گرما کی دو پہر کی تپش اور سردیوں کی رات کی الصيف وبرد ليل الشتاء ، بل ٹھنڈک کی پرواہ نہ کی بلکہ نوخیز جوانوں کی طرح ماسوا في سبل الدين كفتية دین کی راہوں پر محو خرام ہوئے اور اپنوں اور مترعرعين، وما مالوا إلى غیروں کی طرف مائل نہ ہوئے اور اللہ ربّ ريب ولا غريب، وتركوا العالمین کی خاطر سب کو خیر باد کہہ دیا.ان کے الكل لله ربّ العالمين.وإن اعمال میں خوشبو اور ان کے افعال میں مہک ہے لهم نشرًا في أعمالهم، اور یہ سب کچھ ان کے مراتب کے باغات اور ان ونفحات في أفعالهم، وكلها کی نیکیوں کے گلستانوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے ترشد إلى روضات درجاتهم اور ان کی باد نسیم اپنے معطر جھونکوں سے ان کے وجنات حسناتهم.ونسيمهم اسرار کا پتہ دیتی ہے اور ان کے انوار اپنی پوری يُخبر عن سرهم بفوحاتها، تابانیوں سے ہم پر ظاہر ہوتے ہیں.پس تم اُن وأنوارهم تظهر علينا بإناراتها.کے مقام کی چمک دمک کا ان کی خوشبو کی مہک سے فاستدِلُّوا بتأرُّج عرفهم على پتہ لگاؤ.اور جلد بازی کرتے ہوئے بدگمانیوں کی تبلج عُرفهم، ولا تتبعوا الظنون پیروی مت کرو اور بعض روایات پر تکیہ نہ کرو! مستعجلين.ولا تتكأوا على بعض کیونکہ ان میں بہت زہر اور بڑا غلو ہے اور وہ قابلِ الأخبار، إذ فيها سم كثير وغلوّ اعتبار نہیں ہوتیں.ان میں سے بہت ساری روایات كبير لا يليق بالاعتبار، وكم منها تہہ وبالا کرنے والی آندھی اور بارش کا دھوکہ دینے يشابه ريحًا قُلَبًا ، أو برقًا خُلبًا، والی بجلی کے مشابہہ ہیں.پس اللہ سے ڈر اوران فاتق الله ولا تكن من متبعيها، (روایات) کی پیروی کرنے والوں میں سے نہ بن.
سر الخلافة ۲۷ اردو تر جمه | ولا تـكـن كمثل الذي يحب اور اس شخص کی طرح مت ہو جو دنیا سے پیار کرتا ہو جودنیا العاجلة ويبتغيها، ويذَرُ الآخرة اور اس کا طالب ہے اور آخرت کو چھوڑتا اور اسے ويلغيها، ولا تترك سبل باطل قرار دیتا ہے.تقویٰ اور حلم کی راہوں کو نہ چھوڑ التقوى والحلم، ولا تَقْفُ ما اور جس چیز کا علم نہ ہو اس کی اتباع نہ کر اور زیادتی ليس لك به علم، ولا تكن من کرنے والوں میں سے نہ ہو.اور یہ جان لے کہ المعتدين.واعلم أن الساعة قیامت قریب ہے اور مالک خدا د یکھ رہا ہے.تیرے قريب والمالك رقیب لئے (تیرے اعمال کی ) میزان نصب کر دی جائے وسيوضع لك الميزان، وكما گی اور جیسا کروگے ویسا بھرو گے.اپنے نفس پر ظلم تدين تدان، فلا تظلم نفسك نہ کر اور متقیوں میں سے ہو جا.میں اس وقت وكن من المتقين.ولا أجادلكم تمہارے ساتھ روایات کے متعلق بحث نہیں کروں اليوم بالأخبار ، فإنها لها أذيال كا كيونكہ بحر ذخار کی طرح ان کے دامن پھیلے كالبحر الذخار، ولا يُخرج ہوئے ہیں اور ان سے صرف صاحب بصیرت ہی منها الدرر إلا ذو الأبصار، موتی نکال سکتے ہیں.روایات و آثار کا تذکرہ والناس يكذبون بعضهم بعضا کرتے وقت لوگ ایک دوسرے کو جھٹلاتے ہیں، عند ذكر الآثار، فلا ينتفعون اور معدودے چند شرفاء ہی ان سے فائدہ اٹھاتے منها إلا قليل من الأحرار ہیں.اور میں تمہیں وہی کچھ کہتا ہوں جس کی میرے وإنما أقول لكم ما عُلمتُ من رب نے مجھے تعلیم دی.شاید اللہ تمہاری ان اسرار ربي لعل الله يهديكم إلى کی طرف رہنمائی فرماوے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ الأسرار.وإني أُخبرتُ أنهم من وه (خلفاء راشدین) صلحاء میں سے تھے.جس الصالحين، ومن آذاهم فقد نے انہیں ایذا پہنچائی تو اس نے درحقیقت اللہ کو آذى الله وكان من المعتدين اذیت دی اور وہ حد سے تجاوز کر نے والا ہو گیا.
سر الخلافة ۲۸ اردو تر جمه و من سبهم بلسان سلیط و غیظ اور جس نے زبان درازی کر کے اور غیظ و غضب مستشيط، وما انتهى عن اللعن سے مشتعل ہو کر انہیں گالیاں دیں اور لعن اور طعن والطعن وما ازدجر من الفحش سے باز نہ آیا نہ ہی فحش گوئی اور بکو اس سے رُکا بلکہ والهذيان، بل عزا إليهم أنواع ہر قسم کا ظلم اور غصب اور زیادتی ان کی طرف الظلم والغصب والعدوان، فما منسوب کی تو دراصل اس نے خود اپنے آپ پر ہی ظلم إلا نفسه، وما عادى إلا ظلم کیا اور صرف اپنے رب سے ہی دشمنی کی.صحابہ ربّه، وإن الصحابة من ان تہمتوں سے بری ہیں پس ایسی راہوں پر چلنے کی المبرئين.فلا تجترئوا على جرات نہ کرو کیونکہ یہ سب بہت بڑی ہلاکت کی تلك المسالك، فإنها من راہیں ہیں.لہذا ہر لعنت ڈالنے والے شخص کو أعظم المهالك، وليعتذر کل چاہئے کہ وہ اپنی زیادتیوں سے توبہ کرلے.اور اللہ لعان من فرطاته، وليتق الله اور اس کے مواخذے کے دن سے ڈرے.اور ويوم مؤاخذاته، وليتق ساعة اس گھڑی سے ڈرے جو خطا کاروں کے افسوس تهيج أسف المخطئين، وتُرِی میں ہیجان برپا کر دے گی اور دشمنی کرنے والوں کی ناصية العادين.وأيم الله إنه پیشانی دکھا دے گی.اور بخدا، اللہ تعالیٰ نے شیخین تعالى قد جعل الشيخين (ابوبکر و عمر) کو اور تیسرے جو ذوالنورین ہیں ہر والثالث الذى هو ذو النورین، ایک کو اسلام کے دروازے اور خیر الانام ( محمد رسول كأبواب للإسلام وطلائع فوج الله کی فوج کے ہراول دستے بنایا ہے.پس جو شخص خير الأنام، فمن أنكر شأنهم ان کی عظمت سے انکار کرتا ہے اور ان کی قطعی دلیل وحقر برهانهم، وما تأدب کو حقیر جانتا ہے اور ان کے ساتھ ادب سے پیش معهم بل أهانهم، و تصدی نہیں آتا بلکہ ان کی تذلیل کرتا اور اُن کو بُرا بھلا سب و تطاول اللسان، کہنے کے در پے رہتا اور زبان درازی کرتا ہے للسب
سر الخلافة ۲۹ اردو تر جمه فأخاف عليه من سوء مجھے اس کے بدانجام اورسلپ ایمان کا ڈر الخاتمة وسلب الإيمان ہے.اور جنہوں نے ان کو دکھ دیا، اُن پر لعن کیا والذين آذوهم ولعنوهم اور بہتان لگائے تو دل کی سختی اور خدائے رحمن ورموهم بالبهتان، فكان آخر کا غضب اُن کا انجام ٹھہرا.میرا بارہا کا تجربہ أمرهم قساوة القلب و غضب ہے اور میں اس کا کھلے طور پر اظہار بھی کر چکا الرحمان.وإني جربت ہوں کہ ان سادات سے بغض و کینہ رکھنا برکات مرارا وأظهرتها إظهارا ، أن ظاہر کرنے والے اللہ سے سب سے زیادہ قطع 10 بغض هؤلاء السادات من تعلقی کا باعث ہے اور جس نے بھی ان سے أكبر القواطع عن الله مظهر دشمنی کی تو ایسے شخص پر رحمت اور شفقت کی سب البركات، ومن عاداهم فتغلق راہیں بند کر دی جاتی ہیں اور اس کے لئے علم و عليه سُدَدُ الرحمة والحنان، ولا عرفان کے دروازے وا نہیں کئے جاتے اور اللہ تفتح له أبواب العلم والعرفان انہیں دنیا کی لذات و شہوات میں چھوڑ دیتا ہے ويتركه الله فی جذبات الدنیا اور نفسانی خواہشات کے گڑھوں میں گرا دیتا وشهواتها، ويسقط في وهاد ہے.اور اسے (اپنے آستانے سے ) دور رہنے النفس وهواتها، ويجعله من والا اور محروم کر دیتا ہے.انہیں (خلفاء راشدین المبعدين المحجوبين.وإنهم كو اسى طرح اذیت دی گئی جس طرح نبیوں کو أو ذوا كما أُو ذى النبيون، ولعنوا دی گئی اور ان پر لعنتیں ڈالی گئیں جس طرح كما لعن المرسلون، فحقق مرسلوں پر ڈالی گئیں.اس طرح اُن کا رسولوں کا بذلك ميراثهم للرسل، وتحقق وارث ہونا ثابت ہو گیا.اور روز قیامت ان کی جزاؤهم كأئمة النحل والملل جزا اقوام و ملل کے ائمہ جیسی متحقق ہو گئی.کیونکہ في يوم الدين.فإن مؤمنا إذا لعن جب مؤمن پر کسی قصور کے بغیر لعنت ڈالی جائے
سر الخلافة اردو تر جمه " وكفر من غير ذنب، ودعی اور کافر کہا جائے اور بلا وجہ اس کی ہجو کی جائے اور بهجو وسبّ من غير سبب اُسے بُرا بھلا کہا جاوے تو وہ انبیاء کے مشابہ ہو جاتا فقد شابة الأنبياء وضاهی ہے.اور اللہ کے ) برگزیدہ بندوں کی مانند بن الأصفياء ، فسيُجزى كما جاتا ہے پھر اُسے بدلہ دیا جاتا ہے جیسا نبیوں کو بدلہ يُجزى النبيون، ویری الجزاء دیا جاتا ہے.اور مرسلوں جیسی جزا پاتا ہے.یہ كالمرسلين.ولا شك أن هؤلاء لوگ بلاشبہ حضرت خیر الانبیاء کی اتباع میں عظیم كانوا على قدم عظیم فی اتباع مقام پر فائز تھے.اور جیسا کہ بزرگ و برتر اللہ نے خير الأنبياء ، وكانوا أُمّةً وسطا ان کی مدح فرمائی وہ ایک اعلیٰ امت تھے.اور اس كما مدحهم ذو العز والعلاء نے خود اپنی روح سے ان کی ایسی ہی تائید فرمائی وأيدهم بروح منه كما أيّد كل جیسے وہ اپنے تمام برگزیدہ بندوں کی تائید فرماتا أهل الاصطفاء.وقد ظهرت أنوار ہے اور فی الحقیقت ان کے صدق کے انوار اور صدقهم و آثار طهارتهم كأجلی ان کی پاکیزگی کے آثار پوری تابانی سے ظاہر الضياء، وتبين أنهم كانوا من ہوئے.اور یہ کھل کر واضح ہو گیا کہ وہ بچے تھے.الصادقين.ورضی اللہ عنہم اور اللہ ان سے اور وہ اس سے راضی ہو گئے اور ورضوا عنه ، وأعطاهم ما لم اس نے انہیں وہ کچھ عطا فرمایا جو دنیا جہاں میں يُعط أحد من العالمين.أهم کسی اور کو نہ دیا گیا تھا.کیا وہ منافق تھے! كانوا منافقين؟ حاشا وکلا، بل حَاشَا وَ كَلَّا (ایسا ہر گز نہ تھا بلکہ حقیقت یہ جل معروفهم وجلى، وإنهم ہے کہ ان کی نیکیاں عظیم اور درخشاں تھیں.وہ یقیناً كانوا طاهرين.لا عيب كتطلب | پاکباز تھے.ان کے عیوب اور ان کی لغزشوں کی مثالبهم وعثراتهم، ولا ذنب جستجو کرنے سے بڑھ کر کوئی عیب نہیں اور ان کے كتفتيش معائبهم وسيئاتهم نقائص اور برائیوں کی تلاش سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں..
سر الخلافة ۳۱ اردو ترجمہ والله إنهم كانوا من المغفورين بخدا وہ سب بخشے ہوئے لوگ تھے.قرآن ان والقرآن يحمدهم ويُثنى عليهم کی مدح و ثنا کرتا اور انہیں ایسی جنتوں کی بشارت و يبشرهم بجنات تجری من دیتا ہے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور تحتها الأنهار، ويقول إنهم فرماتا ہے کہ وہ اَصْحَابُ اليَمِين اور سال سابقین اور أصحاب اليمين والسابقون اخیار و ابرار ہیں.اور بھلے ہیں وہ انہیں برکتوں بھرا والأخيار والأبرار ، ويسلّم سلام پیش کرتا اور اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ وہ بسلام البركات عليهم مقبولوں میں سے تھے.اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ.اس ويشهد أنهم كانوا من ایسے لوگ تھے جنہوں نے اسلام کی خاطر تمام المقبولين.ولا شك أنهم قوم محبتوں کو ٹھکرا دیا.اور خیر الا نام کی محبت کی خاطر أدحضـوا الـمـودات للإسلام اپنی قوم سے دشمنی مول لی اور علام الغيوب خدا وعادوا القوم لمحبة خير الأنام کی رضا کی خاطر خطرات میں گھس گئے.قرآن واقتحموا الأخطار لمرضاة اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے اپنے مولیٰ کو الرب العلام، والقرآن يشهد مقدم رکھا، اس کی کتاب (قرآن) کی انتہائی أنهم آثروا مولاهم وأكرموا عزت کی اور وہ اپنے رب کی خاطر بحالت سجود و كتابه إكرامًا، وكانوا يبيتون قيام راتیں گزارتے تھے، قرآن کی مخالفت میں لربهم سُجَّدًا وقياما، فأى ثبوت تمہارے پاس کون سا قطعی ثبوت ہے؟ اے ظن قطعى على ما خالفه القرآن؟ کی پیروی کرنے والے! ظن یقین کے برابر والظن لا يُساوى اليقين أيها نہیں ہوا کرتا.کیا تو اس جہت پر کھڑا ہوتا ہے جسے الظان.أتقوم على جهة يبطله فرقان (حمید) باطل کر رہا ہے.اگر تجھے کوئی الفرقان؟ فأَخْرِجُ لنا إن جاءك دليل سوجھتی ہے تو ہمارے سامنے پیش کر اور طن البرهان ولا تتبع ظنون الظانين کرنے والوں کے ظنون کی پیروی مت کر.
سر الخلافة ۳۲ اردو تر جمه ووالله إنهم رجال قاموا في خدا کی قسم وہ ایسے لوگ ہیں جو خیر الکائنات صلی اللہ مواطن الممات لنصرة خیر علیہ وسلم کی مدد کی خاطر موت کے میدانوں میں الكائنات، وتركوا الله آباء هم ڈٹ گئے اور اللہ کی خاطر انہوں نے اپنے باپوں وأبناء هم ومزقوهم بالمرهفات اور بیٹوں کو چھوڑ دیا اور انہیں تیز دھار تلواروں وحاربوا الأحباء فقطعوا الرؤوس، سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اپنے پیاروں سے وأعطوا الله النفائس والنفوس جنگ کی اور ان کے سر قلم کئے.اور اللہ کی راہ میں وكانوا مع ذلك باكين لقلة اپنے نفیس اموال اور جانیں شمار کیں لیکن اس کے الأعمال و متـنـدميـن ومـا باوجود وہ اپنے اعمال کی قلت پر روتے اور سخت تمضمضت مقلتهم بنوم الراحة نادم تھے.اور ان کی آنکھ نے بھر پور نیند کا مزا إلا قليل من حقوق النفس نہیں لیا مگر بہت قلیل جو آرام کے لحاظ سے نفس للاستراحة، وما كانوا متنعمين.کا لازمی حق ہے.اور وہ نعمتوں کے دلدادہ نہیں فكيف تظنون أنهم كانوا تھے.پس تم کیسے خیال کرتے ہو کہ وہ ظلم کرتے يظلمون ويغصبون، ولا يعدلون تھے، مال غصب کرتے تھے، عدل نہیں کرتے تھے 1 ويجورون؟ وقد ثبت أنهم خرجوا اور جور و ستم کرتے تھے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ من الأهواء ، وسقطوا في حضرة نفسانی خواہشات سے باہر آچکے تھے اور وہ ہمیشہ الكبرياء ، وكانوا قوما فانين آستانہ الہی پر گرے رہتے تھے اور وہ فنا فی اللہ فكيف تسبّون أيها الأعداء ؟ لوگ تھے.اے دشمنو! کیسے تم انہیں گالیاں دیتے وما هذا الارتياء الذي يأباه ہو.اور یہ کیسی سمجھ ہے جس کا حیا انکار کرتی ہے.الحياء ؟ فاتقوا الله وارجعوا پس اللہ سے ڈرو اور نرمی اور بُردباری کی طرف إلى رفق و حلم، ستسألون عما رجوع کرو.بغیر علم اور واضح دلیل کے تم جو گمان تظنون بغير علم و برهان مبین کرتے ہو ان کی بابت تم سے ضرور پوچھا جائے گا.
سر الخلافة ۳۳ اردو تر جمه لا تنظروا إلى ذلاقتي ومرارة تم میری زبان کی تیزی اور میرے اسلوب کی مذاقتي، وانظروا إلى دليل تلخی نہ دیکھو بلکہ اس دلیل پر غور کرو جو میں عرضت عليكم وأمعنوا فيه نے تمہارے سامنے پیش کی ہے اور اس پر بـعـيـنـيـكم، فإنكم تبعتم ظنون گہری نگاہ ڈالو.کیونکہ تم صرف بدظنی کرنے الظانين، وتركتم كتابا يهب والوں کے خیالوں کے پیچھے لگے رہے ہو، الحق واليقين، وما بعد الحق اور تم نے اُس کتاب کو چھوڑ دیا جو حق اور إلا ضلال مبين.وكيف يُنسَب يقين عطا کرتی ہے.حق کو چھوڑ کر کھلی گمراہی إلى الصحابة ما يُخالف التقویٰ کے سوا کچھ نہیں.صحابہ کی طرف وہ امور کیونکر وسبله، ويُباين الورع وحلله منسوب کئے جاسکتے ہیں جو تقویٰ اور اس کی مع أن القرآن شهد بأن الله راہوں کے مخالف اور پر ہیز گاری اور اس کی حبب إليهم الإيمان، وكره پوشاکوں کے منافی ہیں جبکہ قرآن نے یہ إليهم الكفـ فر والفسوق گواہی دی ہے کہ اللہ نے ان کے لئے ایمان والعصيان، وما كَفَّرَ أحدا منهم كو محبوب بنا دیا اور کفر، فسوق اور عصیان کو مع وقوع المقاتلة، فضلا عن نا پسندیدہ.اور ان میں سے کسی کو بھی نزاع المشاجرة، بل سمّى كل أحد باہمی تو کجا آپس میں برسر پیکار ہونے کے من الفريقين مسلمين، وقال با وجود کافر قرار نہیں دیا بلکہ اللہ نے ان وَ اِنْ طَابِفَتنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ہر دو فریق کو مسلمان کا نام دیا ہے.اور فرمایا اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا.فَإِنْ وَإِنْ طَابِفَتْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا بَغَتْ إِحْدُهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدُهُمَا فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى إلَى أَمْرِ اللهِ.فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللهِ - فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا
سر الخلافة ۳۴ اردو ترجمہ بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللهَ بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا - إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ.إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ - إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمُ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.اِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمُ وَاتَّقُوا يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرُ قَوْمُ اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ - يَأَيُّهَا الَّذِينَ مِنْ قَوْمٍ عَلَى اَنْ يَكُونُوا أَمَنُوْا لَا يَسْخَرُ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَلَى خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَاءٍ أنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءِ مِنْ عَلى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ.نِّسَاءِ عَلَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ.وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَكَ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ _ وَمَنْ : لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ -.هُمُ الظَّلِمُونَ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَمْ يَتُبْ فَأُولَيكَ هُمُ الظَّلِمُونَ - يَايُّهَا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ - الظَّنِ اِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا بَعْضَ وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ.وَاتَّقُوا اللهَ.إِنَّ أَن يَأْكُلَ نَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ - وَاتَّقُوا اللهَ - إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ لا اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ.لے اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اُن دونوں میں صلح کرا دو.پھر اگر صلح ہو جانے کے بعد ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر چڑھائی کرے، تو سب مل کر اس چڑھائی کرنے والے کے خلاف جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے پھر اگر وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے تو عدل کے ساتھ ان ( دونوں لڑنے والوں ) میں صلح کرا دو اور انصاف کو مد نظر رکھواللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.مومنوں کا رشتہ آپس میں صرف بھائی بھائی کا ہے پس تم اپنے بھائیوں کے درمیان جو آپس میں لڑتے ہوں صلح کرا دیا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کر تا کہ تم پر رحم کیا جائے.اے مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے اسے حقیر
سر الخلافة ۳۵ اردو تر جمه فانظر إلى ما قال الله وهو پر اللہ تعالیٰ کے فرمان پر غور کرو اور اللہ أصدق الصادقين.إنك تُكفّر أصدق الصادقین ہے.تو مومنوں کو ان کے المؤمنين لبعض مشاجرات بعض تنازعات کی بنا پر کافر قرار دیتا ہے حالانکہ وهو يسمى الفريقين مؤمنين وہ ان کی باہم لڑائیوں اور جنگوں کے باوجود ہر دو مع مقاتلات و محاربات فریق کو مومن قرار دیتا ہے اور بعض کے بعض ويُسميهم إخوة مع بغى البعض کے خلاف سرکشی کرنے کے باوجود اُن کا نام على البعض ولا يُسمى فريقا بھائی بھائی رکھتا ہے.وہ ان میں سے کسی فریق کو منهم كافرين، بل يغضب علی کافر نہیں ٹھہرا تا.بلکہ وہ ان لوگوں سے ناراضگی الذين يتنابزون بالألقاب، کا اظہار فرماتا ہے جو ایک دوسرے کو بُرے ويلمزون أنفسهم ولا يسترون ناموں سے یاد کرتے ہیں اور اپنوں کی عیب كالأحباب ، ويسخرون گیری کرتے ہیں اور دوستوں کی طرح پردہ پوشی ويغتابون ويظنون ظن السوء نہیں کرتے.اور تمسخر، غیبت اور بدظنی کرتے ويمشون متجسسین بل ہیں اور ان کی برائیوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں يُسمى مرتكب هذه الأمور بلكه وه ان بُرائیوں کے مرتکب شخص کے لئے فسوقا بعد الإيمان، ایمان لے آنے کے بعد فاسق نام رکھتا ہے بقیہ حاشیہ صفحہ ۳۴.سمجھ کر ہنسی مذاق نہ کیا کرے.ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہو اور نہ ( کسی قوم کی ) عورتیں دوسری (قوم کی ) عورتوں کو حقیر سمجھ کر اُن سے ہنسی ٹھٹھا کیا کریں.ممکن ہے کہ وہ ( دوسری قوم یا حالات والی ) عورتیں اُن سے بہتر ہوں اور نہ تم ایک دوسرے پر طعن کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے ناموں سے یاد کیا کرو، کیونکہ ایمان کے بعد اطاعت سے نکل جانا ایک بہت ہی بُرے نام کا مستحق بنا دیتا ہے ( یعنی فاسق کا ) اور جو بھی تو بہ نہ کرے وہ ظالم ہوگا.اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچتے رہا کرو کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں اور تجس سے کام نہ لیا کرو.اور تم میں سے بعض، بعض کی غیبت نہ کیا کر ہیں.کیا تم میں سے کوئی اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا (اگر تمہاری طرف یہ بات منسوب کی جائے تو ) تم اس کو نا پسند کرو گے اور اللہ کا تقومی اختیار کرو اللہ بہت ہی توبہ قبول کرنے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.(الحجرات: ۱۰ تا ۱۳)
سر الخلافة ۳۶ اردو ترجمہ ويغضب عليه كغضبه على أهل اور وہ ایسے شخص پر اسی طرح ناراض ہوتا ہے جیسے العدوان، ولا يرضى بعباده أن وہ زیادتی کرنے والوں پر ناراض ہوتا ہے اور وہ يسبوا المؤمنين المسلمين، هذا مع اپنے بندوں کے لئے پسند نہیں کرتا کہ وہ مومنوں أنه يُسمى في هذه الآيات فريقًا من مسلمانوں کو گالی دیں باوجود اس کے کہ وہ ان المؤمنين باغين ظالمين، وفريقا من آیات میں مومنوں کے ایک فریق کو باغی اور الآخرين مظلومين، ولكن لا يسمى ظالم اور دوسرے فریق کے لوگوں کو مظلوم قرار أحدا منهما مرتدين و كفاك هذه دیتا ہے لیکن وہ ان میں سے کسی فریق کو مرتد الهداية إن كنتَ من المتقين فلا قرار نہیں دیتا.اگر تو متقی ہے تو یہ رہنمائی تدخل نفسك تحت هذه الآيات، تیرے لئے کافی ہے.اس لئے اپنے آپ کو ولا تبادر إلى المهلكات ولا ان آیات کی زد میں نہ لا.اور ہلاکت کے تقعد مع المعتدين.وقال الله فی امور کی طرف جلدی مت کر اور حد سے تجاوز مقام آخر في مدح المؤمنین کرنے والوں کے ساتھ مت بیٹھ.اللہ نے وَالْزَمَهُمُ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا ایک اور مقام پر مومنوں کی مدح میں فرمایا ہے.اَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا.فانظر وَالْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا كلمات رب العالمين.أتُسمّى وَاهْلَهَا ہے رب العالمین کے کلمات پر غور قوما فاسقين سماهم الله متقین؟ کر کیا تو ان لوگوں کو فاسق کہتا ہے جن کا نام ثم قال عزّ وجلّ في مدح صحابة الله نے متقی رکھا.پھر اللہ عزوجل نے خاتم النبيين مُحَمَّدٌ رَّسُولُ خاتم النبیین کے صحابہ کی مدح میں فرمایا : اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةً أَشِدَّاءُ عَلَى مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةً أَشِدَّاءُ الكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَريهُمْ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَريهُمْ ے اللہ نے انہیں تقویٰ کے طریق پر ثابت قدم رکھا اور وہ بلا شبہ اس کے حقدار اور اہل تھے.(الفتح: ۲۷)
سر الخلافة ۳۷ N اردو ترجمہ رُكَعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ رُكَعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا.وَرِضْوَانًا سِيْمَاهُمُ فِي وُجُوهِهِمْ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذلِكَ مَثَلُهُمْ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَيةِ وَمَثَلُهُمْ فِي في الثوريةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْئَهُ فَازَرَهُ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْلَهُ فَأَزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ پس غور يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّار کرو کہ اس نے کس طرح ان سے دشمنی کرنے فانظر كيف سمى كل من والے ہر شخص کا نام کا فر رکھا اور ان پر ناراض عاداهم كافرًا، وغضب عليهم، ہوا.پس اللہ سے ڈر اور اس ذات سے خوف فاخش الله واتق الذي يغيظ کر جو صحابہ کی وجہ سے کافروں کو غصہ دلاتی بالصحابة كافرين، وتدبر فى ہے اور ان آیات اور دوسری آیات پر تدبر هذه الآيات و آيات أخرى لعل کر.شاید اللہ تجھے ہدایت یافتہ لوگوں میں الله يجعلك من المهتدين.سے بنادے.ومـن تـظـنـي مـن الشيعة أن شیعہ حضرات میں سے جو یہ خیال کرتا ہے کہ الصديق أو الفاروق غصب (ابوبكر ) صدیق یا (عمر) فاروق نے (علی) الحقوق، وظلم المرتضى أو مرتضى يا ( فاطمۃ الزہراء کے حقوق کو غصب کیا الزهراء ، فترك الإنصاف اور ان پر ظلم کیا تو ایسے شخص نے انصاف کو چھوڑا محمد رسول اللہ اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کفار کے مقابل پر بہت سخت ہیں (اور ) آپس میں بے انتہا رحم کرنے والے.و انہیں رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا.وہ اللہ ہی سے فضل اور رضا چاہتے ہیں.سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر ان کی نشانی ہے.یہ اُن کی مثال ہے جو تورات میں ہے.اور انجیل میں ان کی مثال ایک کھیتی کی طرح ہے جو اپنی کونپل نکالے پھر اُسے مضبوط کرے پھر وہ موٹی ہو جائے اور اپنے ڈنٹھل پر کھڑی ہو جائے ، کاشتکاروں کو خوش کر دے تا کہ ان کی وجہ سے کفار کو غیظ دلائے.(الفتح:۳۰)
سر الخلافة ۳۸ اردو ترجمه.وأحب الاعتساف، وسلك اور زیادتی سے پیار کیا اور ظالموں کی راہ اختیار مسلك الظالمين.إن الذين تركوا کی.یقیناً وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے أوطانهم وخلانهم وأموالهم رسول کی خاطر اپنے وطن، عزیز دوست اور مال و ހނ وأثقالهم لله ورسوله، وأوذوا من متاع چھوڑے اور جنہیں کفا ر کی طرف الكفار وأُخرجوا من أيدى الأشرار، اذیتیں دی گئیں اور جو شر پسندوں کے ہاتھوں فصبروا كالأخيار والأبرار ، بے گھر ہوئے مگر ( پھر بھی ) انہوں نے اچھے اور نیک واستخلفوا فما أترعوا بيوتهم من لوگوں كى طرح صبر کیا.اور وہ خلیفہ بنائے گئے الفضة والعين، وما جعلوا أبنائهم تو انہوں نے (پھر بھی ) گھروں کو سیم وزر سے نہ وبناتهم ورثاء الذهب واللجين، بھرا.اور نہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو سونے اور بل ردّوا كل ما حصل إلى بيت چاندی کا وارث بنایا بلکہ جو کچھ حاصل ہوا وہ بیت المال، وما جعلوا أبناء هم خلفاء هم المال کو دے دیا.اور انہوں نے دنیا داروں اور كأبناء الدنيا وأهل الضلال، وعاشوا گمراہوں کی طرح اپنے بیٹوں کو اپنا خلیفہ نہیں في هذه الدنيا في لباس الفقر بنایا.انہوں نے اس دنیا میں زندگی فقر اور تنگ دستی والخصاصة، وما مالوا إلى التنعم كى حالت ميں بسر کی.اور وہ امراء اور رؤساء کی كذوى الإمرة والرئاسة.أيظن طرح ناز و نعمت کی طرف مائل نہ ہوئے.کیا فيهم أنهم كانوا ينهبون أموال ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ وہ الناس بالتطاولات ويميلون إلى از راه تعدی لوگوں کے اموال چھیننے والے تھے اور الغصب والنهب والغارات؟ حق چھینے ،لوٹ مار کرنے اور غارت گری کی أكان هذا أثر صحبة رسول الله طرف میلان رکھنے والے تھے.کیا سرور کائنات الكائنات وقد حمد هم الله رسول اللہ ﷺ کی صحبت قدسیہ کا یہ اثر تھا؟ حالانکہ وأثنى عليهم رب المخلوقات ؟ اللہ تمام کائنات کے رب نے ان کی حمد وثناء کی.خير
سر الخلافة ۳۹ اردو تر جمه كلا بل إنه زكى نفوسهم وطهر حقیقت یہ ہے کہ (اللہ ) نے ان کے نفوس کا قلوبهم، ونوّر ،شموسهم تزکیہ فرمایا اور ان کے دلوں کو پاکیزگی بخشی اور ان وجعلهم سابقين للطيبين الآتين کے وجودوں کو منور کیا.اور آئندہ آنے والے ولا نجد احتمالا ضعيفا ولا پاکبازوں کا پیشرو بنایا.اور ہم کوئی کمزور احتمال اور وهما طفيفا يُخبر عن فساد سطحی خیال بھی نہیں پاتے جو ان کی نیتوں کے فساد نياتهم، أو يشير إلى أدنى کی خبر دے یا ان کی ادنی برائی کی طرف اشارہ کرتا سيئاتهم، فضلا عن جزم النفس ہو چہ جائیکہ کہ ان کی ذات کی طرف ظلم منسوب على نسبة الظلم إلى ذواتهم کرنے کا کوئی پختہ ارادہ کرے.بخداوہ انصاف ووالله إنهم كانوا قوما کرنے والے لوگ تھے.اگر انہیں مال حرام کی وادی مقسطين.ولو أنهم أعطوا واديا بھی دی جاتی تو وہ اس پر تھوکتے بھی نہیں اور نہ من مال من غیر حلال فما تفلوا ہی حریصوں کی طرح اس کی طرف مائل ہوتے.عليه وما مالوا كأهل الهواء، ولو خواه سونا پہاڑوں جتنا یا سات زمینوں جتنا كان ذهبا كأمثال الربى، أو كمقدار ہوتا.اگر انہیں حلال مال ملتا تو وہ ضرور اسے الأرضين.ولو وجدوا حلالا من صاحب جبروت (خدا) کی راہ اور دینی مہمات (۱۳) المال لأنفقوه فی سبل ذی الجلال میں خرچ کرتے.پس ہم یہ کیسے خیال کر سکتے ہیں ومهمات الدين.فكيف نظن أنهم کہ انہوں نے چند درختوں کی خاطر (فاطمة) أغضبوا الزهراء لأشجار، وآذوا الزہراء کو ناراض کر دیا اور جگر گوشتہ نبی (ع) فلذة النبي كأشرار، بل للأحرار کو شر پسندوں کی طرح اذیت دی.بلکہ شرفاء نيات، ولهم على الحق ثبات نیک نیت ہوتے اور حق پر ثابت قدم ہوتے وعليهم من الله صلوات ہیں اور اللہ کی طرف سے ان پر رحمتیں نازل ہوتی والله يـعـلـم ضمائر المتقين ہیں اور اللہ متقیوں کے باطن کو خوب جانتا ہے
سر الخلافة اردو تر جمه وإن كان هذا من نوع الإيذاء اور اگر یہ ایذا رسانی کی کوئی قسم ہے تو پھر اس سے فمانجا أسد الله الفتى من جواں مرد شیر خدا (حضرت علیؓ) بھی نہیں بچے.هذا، بل هو أحد من الشركاء ، بلکہ وہ بھی برابر کے شریک ٹھہرتے ہیں کیونکہ فإنه اختـطـب بنت أبا الجهل انہوں نے ابوجہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھیجا اور و آذى الزهراء.فإياك (حضرت فاطمة الزہرہ کو اذیت دی.پس والاعتداء ، وخُذِ الاتقاء ودَع زیادتی سے بچو اور تقویٰ اختیار کرو اور حد سے تجاوز الاعتداء ولا تتناول فضالة کرنا چھوڑ دو اور ان لوگوں کا پس خوردہ تناول نہ کرو الذين زاغوا عن المحجّة جو سیدھے راستے سے ہٹ گئے اور روشن دلائل وأعرضوا عن الحق بعد رؤية دیکھنے کے باوجود انہوں نے حق سے منہ موڑ لیا.أنوار الحجة، وكانوا على اور باطل پر مصر رہے.میں تمہیں ایک ایسی راہ بتا تا الباطل مصرين.وإنى أدلك ہوں جو تمہیں شبہات سے نجات دے گی.لہذا إلى صراط تنجيك من تدبر سے کام لو اور جاہلانہ باتوں کی طرف مت شبهات، فتدبر ولا تركن إلى جھکو! اور میں اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، خواہ جهلات.وأقول الله وأرجو أن مجھے تم میں سے بعض سے ملامت سننی پڑے اور میں تنيب، ولو أسمع من بعضكم امید رکھتا ہوں کہ تم ( حق کی طرف ) جھکو گے.اور التشريب، ولا يهتدى عبد إلا کوئی بندہ ہدایت نہیں پاسکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ إذا أراد الله هداه، ولا يرتوى اسے ہدایت دینے کا ارادہ نہ فرمالے اور اُسی کے أحدٌ إلا من سُقياه.إنه یری پلانے سے ہی بندہ سیراب ہوتا ہے.وہ میرے قلبي وقلوبكم، وينظر قدمی دل کو اور تمہارے دلوں کو بھی دیکھ رہا ہے اور اس کی وأسلوبكم، ويعلم ما فی نظر میرے اقدام اور تمہارے طریق پر ہے اور وہ صدور العالمين.تمام جہانوں کے سینوں کی باتوں کو جانتا ہے.
سر الخلافة اردو تر جمه اور فاعلم أيها العزيز أن حزبا من اے عزیز ! جان لو کہ شیعہ علماء میں سے کچھ علماء الشيعة ربما يقولون إن لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ اصحاب ثلاثہ (حضرت خلافة الأصحاب الثلاثة ما ثبت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ) کی خلافت من الكتاب والسنّة، وأما خلافة كتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے.رہی سب سيدنا المرتضى وأسد الله الأتقى سے بڑھ کر متقی شیر خدا، حضرت علی المرتضیٰ کی فثبت من وجوه شتی و برهان خلافت تو وہ کئی اعتبار سے اور روشن دلیل سے أجلى، فلزم من ذلك أن يكون ثابت ہے.لہذا اس سے یہ لازم ٹھہرا کہ تینوں الخلفاء الثلاثة غاصبين ظالمين خلفاء غاصب، ظالم اور حق تلفی کرنے والے آلتين، فإن خلافتهم ما ثبتت من تھے.بناء برایں اُن کی خلافت خاتم النبیین ا خاتم النبيين وخير المرسلين | خیرالمرسلین سے ثابت نہیں ہوتی.أما الجواب فلا يخفى على اما الجواب، غور و فکر کرنے والے زیرک اور اللہ المتدبرين الفارهين و عباد الله کے تقویٰ شعار بندوں پر یہ امر مخفی نہیں کہ سیدنا المتقين، أن ادعاء ثبوت خلافة ( حضرت علی ) مرتضی کی خلافت کے ثبوت کا یہ سيدنا المرتضى صلف بحث دعویٰ کرنا محض لاف زنی ہے جس میں صداقت کی ما لحقه من الصدق سنا و زورةُ کوئی روشنی نہیں.اور ایسا بعید از قیاس خیال طيف ليس معه شهادة من ہے جس کی تائید میں ہمارے بزرگ و برتر رب كتاب ربنا الأعلى، وليس فی کی کتاب سے کوئی شہادت موجود نہیں اور اہل أيدى الشيعة شمة على ثبوت تشیع کے ہاتھ میں اس دعویٰ کا ذرہ بھر ثبوت هذا الدعوى، فلا شك أن خلافته نہیں پس اس میں کوئی شک نہیں کہ ان (علی) عارى الجلدة من حلل الثبوت کی خلافت جامہ ثبوت سے عاری محض اور ایک ایسے وبادي الجردة كالسبروت، محتاج فقیر کی طرح ہے جس کا ننگ ظاہر و با ہر ہو
سر الخلافة ۴۲ اردو تر جمه ولو كان على بحر الأنوار ومستغنيا خواه حضرت علی انوار کے سمندر ہوں اور تعریف و عن النعوت.فلا تجادل من غير حق، توصیف سے مستغنی ہوں.اس لئے ناحق بحث نہ کرو، اور ولا تستثفر بفويطتك في الرياغة، اپنی لنگوٹی کس کر اکھاڑے میں مت اُتر و اور ہمارے ولا تُرِنا ترهات البلاغة، ولا تقف سامنے اپنی جھوٹی بلاغت کا اظہار نہ کرو اور ظالموں کی طرق المتعسفين.وإني والله لطالما را ہیں اختیار نہ کرو.اور اللہ کی قسم میں نے بارہا قرآن فكرت في القرآن وأمعنتُ فی آیات میں غور و فکر کیا اور فرقان (حمید) کی آیات کو گہری نظر الفرقان، وتلقيت أمر الخلافة سے دیکھا اور امر خلافت سے متعلق تحقیق کے تمام بوسائل التحقيق، وأعددت له ذرائع اختیار کئے اور اس بارے میں تحقیق و تدقیق کے الأهَبَ كلها للتدقيق، وصرفت لئے ہر قسم کی تیاری کی اور ہر طرف اپنی نظر دوڑائی.اور ملامح عيني إلى كل الأنحاء اپنی نگاہ تحقیق کے تیر ہر جانب چلائے لیکن میں نے ورمیت مرامی لحظى إلى جميع اس میدان میں آیت استخلاف سے بڑھ کر کوئی شمشیر الأرجاء ، فما وجدت سيفًا قاطعا بُتاں نہیں پائی.اور مجھ پر یہ حقیقت کھلی کہ یہ آیت في هذا المصاف كآية الاستخلاف خلافت کے ثبوت میں عظیم تر آیت اور دلیل ناطق واستبنتُ أنها من أعظم الآیات ہے اور ہر اس شخص کے لئے جو قاضیوں کی طرح حق و والدلائل الناطقة للإثبات صداقت سے فیصلہ کرنا چاہے.یہ آیت رب کائنات والنصوص الصريحة من رب الكائنات کی طرف سے نصوص صریحہ میں سے ہے.اور مجھے لكل من يريد أن يحكم بالحق يقين ہے کہ ہر وہ شخص جو نیک طینت ہے اور غور وفکر كالقضاة، وأتيقن أنه من طاب خيمه، کرنا اس کی گھٹی اور سرشت میں داخل ہے وہ اسے وأشرب ماء الإمعان أديمُه، يقبلها شکرگزاری سے قبول کرے گا اور اس بات کو یا در کھتے شاكرا، ويحمد الله ذاکرا، علی ہوئے اللہ کی تعریف کرے گا کہ اُس نے اُسے صحیح راہ ما هداه وأخرجه من الضالين.دکھائی اور اُسے گمراہوں سے نکالا.
سر الخلافة ۴۳ اردو تر جمه وإن آيــات الـفـرقـان يقينية فرقان ( حمید ) کی آیات یقینی اور اس کے وأحكامها قطعية، وأما الأخبار احكام قطعی ہیں البتہ اخبار و روایات ظنی ہیں | والآثار فظنية وأحكامها شكية، اور ان کے احکام شک پر مبنی ہیں خواہ وہ کتنے ولو كانت مروية من الثقات ہی ثقہ اور ماہرین فن راویوں سے مروی ونـحـاريـر الرواة.ولا تنظروا ہوں.اس لئے تم ان کی ظاہری شکل کے إلى نضرة حليتها وخضرة دوحتها حسن و جمال اور ان کے تناور درخت کی شادابی کو فإن أكثرها ساقطة في الظلمات مت دیکھو کیونکہ ان میں سے اکثر تاریکیوں وليست بمعصومة من مس أیدی میں پڑی ہوئی ہیں اور ظلمت کے باسیوں کی ذوى الظلامات، وقد عسر دست برد سے محفوظ نہیں.ان کی اصلیت اشتيارها من مشار النحل، وإنما معلوم کرنا شہد کے چھتے میں سے شہد نکالنے أخذت من النهل.هذا حال أكثر سے بھی زیادہ مشکل ہے اور یہ سرسری الأحاديث كما لا يخفى على طور پر لے لی گئی ہیں.اکثر احادیث کا یہی الطيب والخبيث، فبای حدیث حال ہے جیسا کہ ہر نیک و بد پر مخفی نہیں.پھر بعد كتاب الله تؤمنون؟ وإذا كتاب اللہ کے بعد تم کس بات پر ایمان حصحص الحق فأين تذهبون؟ لاؤ گے.جب حق ظاہر ہو گیا تو پھر وماذا بعد الحق إلا الضلال، کہاں جا رہے ہو.حق کے بغیر تو گمراہی ہی فاتقوا الضلال یا معشر المسلمین گمراہی ہے.لہذا اے مسلمانوں کے گروہ، وقد قلت من قبل أن الآثار گمراہی سے بچو.میں پہلے کہہ چکا ہوں ما كفلت التزام اليقينيات، بلکه تمام روایات یقینی امور کی لازمی طور هي ذخيرة الظنيات و الشكيات پر ضامن نہیں بلکہ وہ تو ظنی ،شکی ، قیاسی والوهميات والموضوعات اور وضعی باتوں کا مجموعہ اور ذخیرہ ہیں.
سر الخلافة ۴۴ اردو تر جمه فمن ترك القرآن واتكأ پس جس نے قرآن کو چھوڑا اور ان ( روایات) عليها فيسقط في هوة پر تکیہ کیا تو وہ ہلاکتوں کے گڑھے میں گرے گا المهلكات ويلحق بالهالكين اور ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو جائے گا.إنما الأحاديث كشيخ بالی احادیث کا حال اس بوڑھے شخص کا سا ہے جس کا الرياش بادی ،الارتعاش، ولا لباس فاخرہ بوسیدہ ہو چکا ہو اور (اس کے ) بدن پر يقوم إلا بهراوة الفرقان وعصا رعشہ طاری ہو.اور وہ فرقان کی لاٹھی اور عصائے القرآن، فكيف يُرجى منها قرآن کے بغیر کھڑا نہ ہو سکتا ہو.پس اس امام اكتناز الحقائق وخزن نشب فائق قرآن کے بغیر ان احادیث سے حقائق الدقائق من دون هذا الإمام کے جمع کرنے اور دقائق کے خزینے اکٹھے کرنے الفائق؟ فهذا هو الذي يؤوى كى، امید کیسے کی جاسکتی ہے.پس یہی وہ ( قرآن ) الغريب ويطهر المعيب، ہے جو غریب روایات کو پناہ دیتا ہے.اور عیب کی ويفتتح النطق بالدلائل طرف نسبت والی احادیث کو پاک کرتا اور دلائل الصحيحة والنصوص صحیحہ اور نصوص صریحہ سے ان کے منطوق کو واضح الصريحة، وكله يقين وفيه کرتا ہے.اور قرآن تو سراپا یقین ہے اور اس للقــلــوب تسكين.وهو ميں دلوں کے لئے تسکین ہے.اور وہ الفاظ أقوى تقريرًا وقولا، وأوسع وبیان میں قوی تر اور شرح وبسط میں وسیع تر حفاوة وطولا، ومن تركه ومال ہے.اور جس نے اسے چھوڑا اور عاشق زار کی إلى غيره کالعاشق، فتجاوز طرح کسی اور کی طرف مائل ہو گیا تو وہ دین الدين والديانة ومرق مروق و دیانت کی حدود کو پھلانگ گیا اور تیزی سے نکلنے السهم الراشق، ومن غادر والے تیر کی طرح (کمان) سے نکل گیا.اور جس القرآن وأسقطه من العین نے قرآن کو ترک کیا اور اسے نظر تخفیف سے دیکھا
سر الخلافة ۴۵ اردو ترجمه وتبع روايات لا دليل على تنزهها اور ایسی روایات کی پیروی کی جن کے جھوٹ سے من المين، فقد ضل ضلالا مبینا، پاک ہونے کی کوئی دلیل نہ تھی تو وہ کھلی کھلی گمراہی میں وسيصطلى لظی حسرتین، ویریه الله پڑ گیا.اور وہ ضرور دوحسرتوں کے شعلوں میں جلے گا أنه كان على خطاء مبین.فالحاصل اور اللہ اسے دکھا دے گا کہ وہ واضح غلطی پر تھا.پس أن الأمن في اتباع القرآن والتباب حاصل کلام یہ کہ تمام تر امن و آشتی قرآن کی اتباع كل التباب في ترك الفرقان.ولا میں اور تمام تر تباہی فرقان (حمید) کے چھوڑنے میں مصيبة كمصيبة الإعراض عن ہے.اور اہل بصیرت کے نزدیک کتاب اللہ سے كتاب الـلـه عند ذوى العينين اعراض کی مصیبت جیسی کوئی اور مصیبت نہیں اس لئے فاذكروا عظمة هذا الرزء و إن اس مصیبت کی سنگینی کو یاد رکھو.اگر چہ (امام) حسین جل لديكم رزءُ الحسين، وكونوا کی مصیبت تمہارے نزدیک بڑی ہے.اے غافلوں طلاب الحق يا معشر الغافلين.کے گروہ ! حق کے طلب گار بن جاؤ.والآن نذكر الآيات الكريمة اب ہم خلافت صدیق (اکبر ) پر آیات والحجج العظيمة على خلافة کریمہ اور عظیم دلائل کا ذکر کرتے ہیں الصديق لنريك ثبوته على وجه تا کہ ہم تحقیق کی رو سے تمہیں اس کا ثبوت التحقيق، فإن طريق الارتياب پیش کریں کیونکہ شک کی راہ عذاب کا ایک قطعة من العذاب، ومن تبع ٹکڑا ہے اور جو شخص شبہات کے پیچھے چلتا الشبهات فأوقع نفسه في ہے وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے.المهلكات، وأما قطع الخصومات اور جھگڑے تو صرف یقینی باتوں سے ہی فلا يكون إلا بالیقینات، فاسمع چکائے جاتے ہیں.اس لئے میری سنو اور منى ولا تبعد عنى، وأدعو الله مجھ سے دور نہ رہو اور میں اللہ سے دعا کرتا أن يجعلك من المتبصرين ہوں کہ وہ تمہیں صاحب بصیرت بنائے.
سر الخلافة ۴۶ اردو ترجمہ قال الله عزّ وجلّ في كتابه اللہ عزوجل نے اپنی کتاب مبین ( قرآن کریم ) میں فرمایا ہے.المبين.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ أَمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ.قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا.وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذُلِكَ فَأُولَيْكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ.وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأَتُوا الزَّكُوةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأَتُوا الزَّكُوةَ وَأَطِيعُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.لَا تَحْسَبَنَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ - لَا تَحْسَبَنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مُعْجِزِيْنَ فِي الْأَرْضِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مُعْجِزِيْنَ فِي الْأَرْضِ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفُسِقُوْنَ - وَمَأْوِيهُمُ النَّارُ.وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ.وَمَأوبهُمُ النَّارُ - وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ هذا ما بشّر ربنا للمؤمنين، مومنوں کے لئے ہمارے رب نے یہ بشارتیں وأخبر عن علامات المستخلفین دی ہیں اور خلفاء کی علامات بتائی ہیں.تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو ، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.ہر گز گمان نہ کر کہ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ (مومنوں کو ) زمین میں بے بس کرتے پھریں گے جبکہ ان کا ٹھکانا آگ ہے اور بہت ہی پُر اٹھکانا ہے.(النور: ۵۶تا۵۸)
سر الخلافة है ۴۷ اردو تر جمه فمن أتى الله للاستماحة، وما | پس جو شخص خدا کے حضور عفو کا طالب ہوکر سلك مسلك الوقاحة، وما آتا ہے اور بے حیائی کی راہ پر نہیں چلتا اور شد جبائر التلبيس على ساعد صراحت کی کلائی پر حق پوشی کی پٹیاں نہیں الصراحة، فلا بد له من أن يقبل باندھتا تو ایسے شخص کے لئے ضروری ہے کہ هذا الدليل، ويترك المعاذير وہ اس دلیل کو قبول کرے اور نا معقول عذر والأقاويل، ويأخذ طرق اور بیہودہ باتیں ترک کردے اور نیک لوگوں کی راہیں اختیار کرے.الصالحين.وأما تفصيله ليبدو عليك دليله جہاں تک تم پر اس دلیل کی وضاحت کے فاعلموا يا أولى الألباب والفضل لئے تفصیل کا تعلق ہے تو اے اہلِ دانش اللباب أن الله قد وعد فى هذه وفضيلت جان لو کہ اللہ نے تمام مسلمان الآيات للمسلمين والمسلمات أنه مردوں اور عورتوں سے ان آیات میں یہ سيستخلفنّ بعض المؤمنين منهم وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے فضل اور رحم سے فضلا ورحما، ويبدلنهم من بعد ان میں سے بعض مومنوں کوضرور خلیفہ خوفهم أمنًا ، فهذا أمر لا نجد بنائے گا اور ان کے خوف کو ضرور امن کی مصداقه على وجه أتم وأكمل إلا حالت میں بدل دے گا.اس امر کا اتم اور خلافة الصديق، فإن وقت خلافته اكمل طور پر مصداق ہم حضرت صدیق كان وقت الخوف والمصائب (اکبر) کی خلافت کو ہی پاتے ہیں.کیونکہ كما لا يخفى على أهل التحقيق.جیسا کہ اہل تحقیق سے یہ امر مخفی نہیں کہ آپ فإن رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی خلافت کا وقت خوف اور مصائب کا وقت وسلم لما توفّى نزلت المصائب تھا.چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی على الإسلام والمسلمين، تو اسلام اور مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ پڑے.
سر الخلافة ۴۸ اردو تر جمه وارتد كثير من المنافقين، بہت سے منافق مرتد ہو گئے اور مرتدوں کی وتطاولت السنة المرتدين، وادعى زبانیں دراز ہو گئیں اور افترا پردازوں کے النبوة نفر من المفترین واجتمع ایک گروہ نے دعوی نبوت کر دیا اور اکثر بادیہ عليهم كثير من أهل البادية، حتى نشین ان کے گرد جمع ہو گئے یہاں تک کہ مسیلمہ لحق بمسيلمة قريب من مائة کذاب کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب جاہل ألف من الجهلة الفجرة، وهاجت اور بدکردار آدمی مل گئے اور فتنے بھڑک الفتن وكثرت المحن، وأحاطت اُٹھے اور مصائب بڑھ گئے.اور آفات نے البلايا قريبا وبعيدا، وزُلزل دور و نزدیک کا احاطہ کر لیا.اور مومنوں پر ایک المؤمنون زلزالا شديدا.هنالك شدید زلزلہ طاری ہو گیا.اس وقت تمام لوگ ابتليت كل نفس من الناس، آزمائے گئے اور خوفناک اور حواس باختہ کرنے وظهرت حالات مخوفة مدهشة والے حالات نمودار ہو گئے اور مومن ایسے الحواس، وكان المؤمنون لاچار تھے کہ گویا ان کے دلوں میں آگ کے مضطرين كأن جَمُرًا أُضرمت فی انگارے دہکائے گئے ہوں یا وہ چھری سے ذبح صلى الله قلوبهم أو ذُبحوا بالسكين کر دیئے گئے ہوں کبھی تو وہ خیر البریہ (ﷺ) وكانوا يبكون تارة من فراق کی جدائی کی وجہ سے اور گا ہے ان فتنوں کے خير البرية، وأخرى من فتن باعث جو جلا کر بھسم کر دینے والی آگ کی ظهرت كالنيران المحرقة صورت میں ظاہر ہوئے تھے روتے.امن کا ولم يكن أثرًا من أمن، وغلبت شائبہ تک نہ تھا.فتنہ پرداز گند کے ڈھیر پر اُگے المفتتنون كخضراء دِمُنِ، فزاد ہوئے سبزے کی طرح چھا گئے تھے.مومنوں کا المؤمنون خوفًا وفزعًا، وملئت خوف اور ان کی گھبراہٹ بہت بڑھ گئی تھی.القلوب دهشا و جزعا اور دل دہشت اور بے چینی سے لبریز تھے.
سر الخلافة ۴۹ اردو تر جمه ففي ذلك الأوان جُعِل أبو بكر ایسے ( نازک) وقت میں (حضرت) ابوبکر رضی الله عنه حاكم الزمان اللہ عنہ حاکم وقت اور ( حضرت ) خاتم النبین کے وخليفة خاتم النبيين.فغلب خلیفہ بنائے گئے.منافقوں ، کافروں اور مرتدوں عليه هم وغم من أطوار رآها، کے جن رویوں اور طور طریقوں کا آپ نے مشاہدہ و من آثار شاهدها في المنافقین کیا ان سے آپ ہم و غم میں ڈوب گئے آپ اس والكافرين والمرتدين، وكان طرح روتے جیسے ساون کی جھڑی لگی ہو اور آپ یبکی کمرابيع الربیع و تجری کے آنسو چشمہ رواں کی طرح بہنے لگتے اور آپ عبراته كالينابيع، ويسأل الله (رضی اللہ عنہ) (اپنے) اللہ سے اسلام اور خير الإسلام والمسلمين.مسلمانوں کی خیر کی دعا مانگتے.(حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ۱۲ عن عائشة رضى ا الله عنها قالت لما جعل أبي خليفة وفوّض ہے.آپ فرماتی ہیں کہ جب میرے والد خلیفہ الله إليه الإمارة، فرأى بمجرد بنائے گئے اور اللہ نے انہیں امارت تفویض الاستخلاف تموج الفتن من كل فرمائی تو خلافت کے آغاز ہی میں آپ نے ہر الأطراف، ومور المتنبين طرف سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیان الكاذبين، وبغاوة المرتدین نبوت کی سرگرمیوں اور منافق مرتدوں کی المنافقين.فصبّت عليه مصائب بغاوت کو دیکھا اور آپ پر اتنے مصائب ٹوٹے لو صبت على الجبال لا نهدت کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوست زمین وسقطت وانكسرت فی الحال ہو جاتے اور فوڑا گر کر ریزہ ریزہ ہو جاتے ولكنه أعطى صبرا كالمرسلین، لیکن آپ کو رسولوں جیسا صبر عطا کیا گیا.ی جاء نصر الله وقتل یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آن پہنچی اور المتنبئون وأُهلك المرتدون، جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دیئے گئے.
سر الخلافة اردو تر جمه وأُزيل الفتن ودفـع الـمـحن فتنے دور کر دیئے گئے اور مصائب چھٹ گئے اور وقضى الأمر واستقام أمر معاملے کا فیصلہ ہو گیا اور خلافت کا معاملہ مستحکم ہوا الخلافة، ونجى الله المؤمنين اور اللہ نے مومنوں کو آفت سے بچالیا اور ان کی من الآفة، وبدل من بعد خوفهم خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور ان کے أمنا، ومكن لهم دينهم وأقام لئے اُن کے دین کو تمکنت بخشی اور ایک جہان کو حق على الحق زمنا و سود وجوه پر قائم کر دیا اور مفسدوں کے چہرے کالے کر دیے.المفسدين، وأنجز وعده اور اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے(حضرت ونصر عبده الصديق، وأباد ابوبکر صدیق کی نصرت فرمائی اور سرکش الطواغيت والغرانيق، وألقى سرداروں اور بتوں کو تباہ و برباد کر دیا.اور کفار کے الرعب في قلوب الكفار، دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ پسپا ہو گئے اور فانهزموا ورجعوا وتابوا وكان (آخر) انہوں نے رجوع کر کے توبہ کی اور یہی هذا وعد من الله القهار، وهو خدائے قہار کا وعدہ تھا اور وہ سب صادقوں سے أصدق الصادقين.فانظر كيف بڑھ کر صادق ہے.پس غور کر کہ کس طرح خلافت تم وعد الخلافة مع جميع کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے لوازمه وإماراته فی الصدیق، ساتھ (حضرت ابوبکر صدیق کی ذات میں وادْعُ الله أن يشرح صدرك پورا ہوا.میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس لهذا التحقيق، وتدبر كيف تحقیق کی خاطر تمہارا سینہ کھول دے.غور کرو كانت حالة المسلمین فی وقت کہ آپ کے خلیفہ ہونے کے وقت مسلمانوں کی استخلافه وقد كان الإسلام كيا حالت تھی.اسلام مصائب کی وجہ سے آگ من المصائب كالحريق، ثم سے جلے ہوئے شخص کی طرح ( نازک حالت رد الله الـكـرة على الإسلام میں ) تھا پھر اللہ نے اسلام کو اس کی طاقت کو ٹا دی رض
سر الخلافة ۵۱ اردو ترجمہ وأخرجه من البير العميق، اور اسے گہرے کنویں سے نکالا اور جھوٹے مدعیانِ وقتل المتنبئون بأشد الآلام نبوت درد ناک عذاب سے مارے گئے اور مرند وأُهلك المرتدون كالأنعام چوپاؤں کی طرح ہلاک کئے گئے.اور اللہ نے مومنوں وآمن الله المؤمنين من خوف كانوا کو اس خوف سے جس میں وہ مُردوں کی طرح تھے فيه كالميتين.وكان المؤمنون امن عطا فرمایا.اس تکلیف کے رفع ہونے کے بعد يستبشرون بعد رفع هذا العذاب مومن خوش ہوتے تھے اور ( حضرت ابوبکر صدیق ويهنئون الصديق ويتلقونه کو مبارکباد دیتے اور مرحبا کہتے ہوئے ان سے ملتے بالترحاب، ويحمدونه ويدعون تھے ، آپ کی تعریف کرتے اور رب الارباب کی بارگاہ له من حضرة ربّ الأرباب سے آپ کے لئے دعائیں کرتے تھے.آپ کی تعظیم وبادروا إلى تعظيمه و آداب اور تکریم کے آداب بجالانے کے لئے لپکتے تھے.تكريمه، وأدخلوا حبه في تامورهم، اور انہوں نے آپ کی محبت کو اپنے دل کی گہرائی میں واقتدوا به في جميع أمورهم داخل کر لیا.اور وہ اپنے تمام معاملات میں آپ کی وكانوا له شاكرين.وصقلوا پیروی کرتے تھے اور وہ آپ کے شکر گزار خواطرهم، وسقوا نواضرهم تھے.انہوں نے اپنے دلوں کو روشن اور چہروں کو وزادوا حبا، وودّوا وطاوعوه شاداب کیا اور وہ محبت والفت میں بڑھ گئے اور جهدًا وجدا، وكانوا يحسبونه پوری جدوجہد سے آپ کی اطاعت کی وہ آپ کو مباركًا ومؤيدا كالنبيين.وكان ایک مبارک وجود اور نبیوں کی طرح تائید یافتہ سمجھتے هذا كله من صدق الصديق تھے.اور یہ سب کچھ (حضرت ابوبکر صدیق کے واليقين العميق.ووالله إنه صدق اور گہرے یقین کی وجہ سے تھا.اور بخدا كان آدم الثاني للإسلام، آپ اسلام کے لئے آدم ثانی اور خیر الا نام (محمد والمظهر الأول لأنوار خير الأنام صلى اللہ علیہ وسلم ) کے انوار کے مظہر اول تھے.
سر الخلافة ۵۲ اردو تر جمه وما كان نبيا ولكن كانت فيه آپ نبی تو نہ تھے مگر آپ میں رسولوں کے قومی موجود قوى المرسلين، فبصدقه تھے.آپ کے اس صدق کی وجہ سے ہی چمن اسلام عادت حديقة الإسلام إلى اپنی پوری رعنائیوں کی طرف لوٹ آیا.اور تیروں زخرفه التام، وأخذ زينته کے صدمات کے بعد بارونق اور شاداب ہوگیا وقرته بعد صدمات السهام، اور اس کے قسم قسم کے خوشنما پھول کھلے اور اس کی وتنوعت أزاهیره و ظهرت شاخیں گردو غبار سے صاف ہو گئیں جبکہ اس سے أغصانه من القتام، وكان پہلے اس کی حالت ایسے مُردے کی سی ہوگئی تھی جس قبل ذلك كميت نُدِبَ، پر رویا جا چکا ہو اور اس کی حالت ) قحط زدہ کی سی اور وشريد جُدِبَ، وجریح مصیبت کے شکار کی سی اور ذبح کئے گئے ایسے جانور نُوبَ و ذبيح جُوبَ ، وأليم کی سی جس کے گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا أنواع تعب، وحريق هاجرة ہو، ہوگئی تھی.اور (اس کی حالت) قسما قسم کی ذات لهب، ثم نجاه الله مشقتوں کے مارے ہوئے اور شدید تپش والی من جميع تلك البليات دو پہر کے جلائے ہوئے کی طرح تھی.پھر اللہ نے واستخلصه من سائر الآفات اسے ان تمام مصائب سے نجات بخشی اور ان ساری وأيـده بـعـجـائـب التأييدات آفات سے اسے رہائی دلائی اور عجیب در عجیب حتى أم الملوك ومَلِكَ تائیدات سے اس کی مدد فرمائی.یہاں تک کہ الرقاب، بعدما تكسر وافترش اسلام اپنی شکستگی اور خاک آلودگی کے بعد راب، فزُمّتُ السنة بادشاہوں کا امام اور گردنوں ( عوام الناس ) کا مالک المنافقين وتهلل وجه بن گیا پس منافقوں کی زبانیں گنگ ہو گئیں اور المؤمنين.وكل نفس حمدت مومنوں کے چہرے چمک اٹھے.ہر شخص نے اپنے ربه وشكرت الصدیق رب کی تعریف اور صدیق (اکبر) کا شکر یہ ادا کیا.
سر الخلافة ۵۳ اردو تر جمه وجاء ته مطاوعا إلا الزنديق، زندیق اور جو فاسق تھے اُن کے سوا ہر شخص آپ کے 1 کی والذي كان من الفاسقين پاس مطیع ہو کر آ گیا.اور یہ سب اس بندے کا اجر تھا وكان كل ذلك أجر عبد تخيَّره جسے اللہ نے منتخب فرمایا، اسے اپنا محبوب بنایا اور اس الله وصافاه و رضى عنه وعافاه سے راضی ہوا، اسے عافیت بخشی (مصائب سے والله لا يضيع أجر المحسنين | بچایا ) اوراللہ محسنوں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا.اجر فالحاصل أن هذه الآيات سو حاصل کلام یہ کہ یہ سب آیات صدیق كلها مخبرة عن خلافة الصدّيق (اکبر) کی خلافت کی خبر دیتی ہیں اور انہیں وليس لهـا مـحـمـل آخر فانظر کسی اور پر محمول نہیں کیا جاسکتا.لہذا تحقیق على وجه التحقيق، واخش الله کی رو سے غور کر اور اللہ سے ڈراور تعصب ولا تكن من المتعصبين.ثم انظر کرنے والوں میں سے نہ بن.پھر یہ بھی تو أن هذه الآيات كانت من الأنباء دیکھو کہ یہ آیات آئندہ کی پیشگوئیاں تھیں المستقبلة ليزيد إيمان المؤمنین تاکہ ان کے ظہور کے وقت مومنوں کا ایمان عند ظهورها، ولیعرفوا مواعید بڑھے اور وہ ربّ العزت کے وعدوں کو حضرة العزة، فإن الله أخبر فيها | پہچان لیں.یقیناً اللہ نے ان ( آیات ) میں عن زمان حلول الفتن ونزول خیر الا نام کی وفات کے بعد اسلام پر فتنوں المصائب على الإسلام بعد کے وارد ہونے اور مصائب کے نازل ہونے وفاة خير الأنام، ووعد أنه کے زمانہ کی خبر دی تھی.اور یہ وعدہ فرمایا تھا سيستخلف في ذلك الزمن کہ وہ ایسے وقت میں مومنوں میں سے کسی کو بعضا من المؤمنين ويؤمِنهم من خلیفہ بنائے گا اور ان کے خوف کے بعد انہیں بعد خوفهم، ویمگن دینه امن عطا فرمائے گا.اور اپنے متزلزل دین کو المتزلزل ويهلك المفسدين استحکام بخشے گا.اور مفسدوں کو ہلاک کرے گا.
سر الخلافة ۵۴ اردو تر جمه ولا شك أن مصداق هذا بے شک اس پیشگوئی کا کامل مصداق حضرت النبأ ليس إلا أبو بكر ،وزمانه ابوبکر اور آپ کے زمانے کے سوا اور کوئی فلاتنكر وقد حصحص نہیں.جب اس امر کی دلیل واضح ہو گئی ہے تو برهانه.إنه وجد الإسلام پھر انکار نہ کر.حضرت ابوبکر صدیق نے اسلام كجدار يريد أن ينقص من کو ایک ایسی دیوار کی طرح پایا جو اشرار کے شر شر أشرار، فجعله الله کے باعث گرا ہی چاہتی تھی.تب اللہ نے بیده کحصن مشید له آپ کے ہاتھوں اسے ایک ایسے مضبوط قلعہ جدران من حديد، وفيه کی طرح بنا دیا جس کی دیوار میں لوہے کی ہوں فوج مطيعون كعبید فانظر اور جس میں غلاموں کی طرح فرمانبردار فوج هل تجد من ريب في هذا ہو.پس غور کر کیا تو اس میں کوئی شک پاتا أو يسوغ عندك إتيان نظيره ہے؟ یا پھر اس کی مثال تو دوسرے گروہوں من زُمر آخرين؟ میں سے پیش کر سکتے ہو؟ وإني أعلم أن بعض الشيعة میں جانتا ہوں کہ بعض شیعہ اس موقعہ پر اہلِ يخاصم أهل السنّة فى هذا المقام، سنت سے جھگڑتے ہیں اور یہ جھگڑا ایک لمبی مدت وقد تمادت أيام الخصام، وربما پر پھیلا ہوا ہے اور بسا اوقات یہ معاملہ بحث انتهى الأمر من مخاصمة إلى مباحثے سے بڑھ کر ہاتھا پائی اور قتل وغارت تک ملاكمة ومقاتلة، وأفضتُ إلى پہنچ جاتا اور مقدمات اور عدالتوں تک جا پہنچتا محاكمة ومرافعة.وأتعجب على ہے.مجھے شیعہ (افراد) اور ان کے سوء فہم الشيعة وسوء فهمهم، وأتاوه پر تعجب ہوتا ہے اور ان کے وہم کی زیادتی پر لإفراط وهمهم، قد تجلت میں آہیں بھرتا ہوں کہ بہت سے نشانات ان لهم الآيات و ظهرت القطعیات کے لئے روشن ہوئے اور قطعی دلائل ظاہر ہوئے
سر الخلافة اردو تر جمه فيفرون ممتعضين ولا اس کے باوجود وہ ناراض ہو کر فرار ہو جاتے ہیں اور يتفكرون كالمنصفين.فها أنا انصاف سے کام لینے والوں کی طرح غور وفکر نہیں عوهم إلى أمر يفتح عينهم کرتے.لواب میں انہیں ایک ایسے امر کی طرف بلاتا وسواء بيننا وبينهم، أن نحاضر ہوں جو اُن کی آنکھیں کھول دے گا اور جو ہمارے في مضمار ، و نتضرع في اور اُن کے درمیان یکساں ہے.یہ کہ ہم دونوں فریق حضرة رب قهار، ونجعل لعنة ایک میدان میں حاضر ہوں اور رپ قہار کے حضور الله على الكاذبين.گریہ وزاری کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں.فإن لم يظهر أثر دعائى إلى سنة، اگر پھر بھی ایک سال تک میری دعا کا اثر فأقبل لنفسي كل عقوبة، وأقر ظاہر نہ ہو تو میں اپنے لئے ہر سز ا قبول کرلوں گا بأنهم كانوا من الصادقين، ومع اور اقرار کرلوں گا کہ وہ سچے تھے.علاوہ ازیں ذلك أعطى لهم خمسة آلاف من میں انہیں پانچ ہزار روپے سکہ رائج الوقت بھی الدراهم المروجة، وإن لم أعط دوں گا.اور اگر یہ رقم نہ دوں تو روز قیامت تک فلعنة الله على إلى يوم الآخرة.مجھ پر اللہ کی لعنت ہو.اور اگر وہ چاہیں تو وإن شاء وا فأجمع لهم تلك میں یہ رقم حکومت برطانیہ کے خزانے میں الدراهم في مخزن دولة البريطانة يا معززین میں سے کسی کے پاس جمع کرادوں أو عند أحد من الأعزّة.بيد أني گا.البتہ میرے مخاطب عوام الناس نہیں ہیں لا أُخاطب كل أحد من العامة، إلا صرف وہ شخص ہے جو میرے اس رسالے کے الذي ينسج رسالة على منوال هذه اسلوب پر رسالہ مرتب کرے.اور یہ طریق الرسالة.وما اخترت هذا المنهج ميں نے محض اس لئے اختیار کیا ہے تا کہ مجھے یہ إلا لأعلم أن المباهل المناضل معلوم ہو سکے کہ مد مقابل مباہلہ کرنے والا | مـن أهـل الـفـضـيـلـة والـفـطـنـة | شخص (واقعی) اہلِ فضیلت و دانش میں سے ہے.
سر الخلافة ۵۶ اردو ترجمہ لا من الجهلة العُمر الذين ليس ایسے جاہلوں، بیوقوفوں میں سے نہیں جنہیں لهم حظ وافر من العربية، فإن عربی زبان سے حصہ وافر نہیں ملا.کیونکہ وہ الذي حل محل الأنعام لا شخص جو حیوانوں کی سطح پر ہو وہ اس قابل نہیں کہ يستحق أن يؤثر للإنعام، والذى اسے انعام کے لئے فوقیت دی جائے اور جو شخص هو كالجمال، لا يليق أن يجلس اونٹوں کی طرح ہے وہ اس لائق نہیں کہ وہ حسن في مجالس الحسن والجمال و جمال کی مجالس میں بیٹھے.اور جو شخص مقابلہ (۱۸) و من تعرض للمنافثة لا بد له من کے لئے آئے اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ المشابهة.فمن لم يكن مثلی اپنے مد مقابل کے مشابہہ ہو ، پس جو شخص میری أنبل الكتاب فليس هو عندی طرح بہترین مصنف نہ ہو وہ میرے نزدیک لائقا للخطاب.ثم لما بلغتُ قُنّةَ لائِقِ خطاب نہیں.پھر جب قادر و خالق اللہ کے هذا المقام المنيع، فضلا من فضل سے میں اس ارفع مقام کی انتہائی چوٹی القدير البديع، أحب أن أرى تک جا پہنچا ہوں تو میں یہ پسند کروں گا کہ اس مثلي في هذه الكرامة، وأكره أن اعزاز میں میرا کوئی ہم پلہ ہو اور نہیں چاہوں گا أناضل كل أحد من العامة، فإنه كه هر كس و ناكس سے مقابلہ کروں.کیونکہ اس فيه كسر شأني، وعار لعلو میں میری کسر شان ہے اور میرے بلند مرتبہ کے مکاني، فلا أكلمه أبدا، بل لئے عار ہے.پس میں ایسے شخص سے کبھی کلام نہیں أعرض عن الجاهلين.کروں گا.بلکہ جاہلوں سے اعراض کروں گا.وعلمتُ أن الصديق أعظم شأنا اور مجھے علم دیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق الصحابة، تمام صحابہ میں شان میں عظیم تر اور مرتبہ میں بالاتر وأرفع مكانا من جميع ا وهو الخليفة الأوّل بغیر الاسترابة، تھے اور بلا شبہ آپ خلیفہ اول تھے اور آپ وفيه نزلت آيات الخلافة کے بارے میں ہی آیات خلافت نازل ہوئیں.رض
سر الخلافة ۵۷ اردو تر جمه وإن كنتم زعمتم يا عدا الثقافة لیکن اے تہذیب کے دشمنو! اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ أن مصداقها غيره بعد عصرہ اس خلافت کا آپ کے زمانے کے بعد آپ کے فأْتوا بفص خبره إن كنتم علاوہ کوئی اور مصداق تھا تو کوئی حتمی اور قطعی پیش صادقين.وإن لم تفعلوا ولن خبری پیش کرو اگر تم سچے ہو لیکن اگر ایسا نہ کر سکو تفعلوا فلا تكونوا أعداء اور تم ہرگز ایسا نہ کر سکو گے تو پھر برگزیدہ لوگوں کے الأخيار، واقطعوا خصاما دشمن مت بنو اور ایسے جھگڑے کو چھوڑ دو جو شر انگیز متطائر الشرار.وما كان ہو، اور کسی مومن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ جھگڑا لمؤمن أن يركن إلى اشتطاط کرنے میں شدت کی طرف مائل ہو.اور راستے اللدد، ولا يدخل باب کھل جانے کے باوجود حق کے دروازے میں الحق مع انفتاح السدد داخل نہ ہو تم ایسے شخص پر کیسے لعنت کرتے ہو وكيف تلعنون رجلا أثبت جس کے دعوی کو اللہ نے ثابت کر دیا اور اس نے الله دعواه، وإذا استعدى الله سے مدد مانگی تو اللہ نے اس کی مدد کی اور اس کی ☆ فأغـداه وأرى الآياتِ العَدُواه، نصرت کے لئے نشانات دکھائے اور بداندیشوں وطَرَّ مـكـر الـمـاكـرين، وهو كى تدبیروں کو پارہ پارہ کر دیا.اور آپ (ابوبکر) نجي الإسلام من بلاء هاض نے اسلام کو شکستہ کر دینے والی آزمائش اور جور و جفا وجور فاضَ ، وقتل الأفعى کے سیلاب سے بچایا، اور پھنکارنے والے اثر دہا النضنا، وأقام الأمن والأمان، کو ہلاک کیا.آپ نے امن وامان قائم کیا اور اللہ وخيب كل من مان، بفضل الله رب العالمین کے فضل سے ہر دروغ گوکونا کام رب العالمين.و نامراد کیا.وللصديق حسنات أُخرى اور حضرت (ابوبکر) صدیق کی اور بہت سی وبركات لا تعد ولا تحصى، خوبیاں اور بے حساب وبے شمار برکتیں ہیں ورد في اقرب الموارد: استعداه: استغاثه واستنصره، يقال : استعديت على فلان الامير فأعدانى أى استعنت به عليه فأعانني عليه.والعدوى بمعنى المعونة.(الناشر)
سر الخلافة ۵۸ اردو تر جمه وله منن على أعناق المسلمين، اور مسلمانوں کی گردنیں آپ کے زیر بار احسان ولا يـنـكـرهــا إلا الذي هو أوّل ہیں اور اس بات کا انکار صرف وہی شخص کرسکتا ہے المعتدين.وكما جعله الله موجبا جو اوّل درجہ کا زیادتی کرنے والا ہو.جس طرح لأمن المؤمنين و مطفاءً لنيران اللہ نے آپ کو مومنوں کے لئے موجب امن اور الكافرين والمرتدين، كذلك مرتدوں اور کافروں کی آگیں بجھانے والا بنایا اسی جعله من أوّل حماة الفرقان و خدام طرح اس نے آپ کو اول درجہ کا حامی فرقان اور القرآن ومُشيعي كتاب الله المبين خادم قرآن اور اللہ کی کتاب مبین کی اشاعت فبذل سعيه حق السعی فی جمع کرنے والا بنایا.پس آپ نے قرآن جمع کرنے القرآن و استطلاع ترتيبه من اور رحمان خدا کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف محبوب الرحمن، وهملت عيناه سے اس کی بیان کردہ ترتیب دریافت کرنے میں لمواساة الدين و لا همول عین پوری کوشش صرف فرما دی.اور دین کی غمخواری الماء المعين.وقد بلغت هذه میں آپ کی آنکھیں ایک چشمہ جاری کے بہنے الأخبار إلى حد الیقین، ولكن سے بھی بڑھ کر اشکبار ہوئیں.اور یہ روایات تو حد التعصب تعقَّرَ فِطنَ المتدبرين.يقين تک پہنچی ہوئی ہیں لیکن تعصب نے سوچنے وإن كنت تريد أصل الواقعات ولب والوں کی ذہانت کو تباہ کر دیا ہے.اگر تو واقعات النكات، فاربأ بنفسك أن تنظر کی اصلیت نکات کا مغز معلوم کرنا چاہتا ہے بحيث يغشاك دون التعصبات تو اپنے آپ کو اس طور سے دیکھنے سے بچا کہ وإياك وطرق التعسفات، تجھ پر تعصبات کی میل چڑھ جائے اور ظلم کی فإن النصفَة مفتاح البركات، راہوں سے بیچ کیونکہ انصاف تمام برکات کی ولا ترحض عن القلب قشف کلید ہے اور صرف اور صرف عدل وانصاف کا الظلمة إلّا نور العدل والنصفة نور ہی دل سے ظلمت کی میل کچیل کو دھو سکتا ہے.
سر الخلافة ۵۹ اردو تر جمه وإن العلوم الصادقة والمعارف اور یہ کہ بچے علوم اور میچ معارف حضرت کبریا کے الصحيحة رفيعة جدًّا كعرش عرش کی طرح بہت ہی بلند ہیں اور انصاف ان حضرة الكبرياء ، والنصفة لها (علوم) تک رسائی کے لئے ایک زینے کی مانند كسلّم الارتقاء ، فمن كان يرجو ہے.اس لئے جو شخص ان مشکلات کو حل کرنا اور حل المشكلات وقُنية النكات ان نکات کو پانے کا آرزومند ہے تو اسے چاہئے کہ فليعمل عملا صالحا ويتق التعسّف وہ اعمالِ صالحہ بجالائے اور ظلم اور تعصب اور والتعصبات وطرق الظالمين ظالموں کی راہوں سے بچے.و من حسنات الصديق ومزاياه اور ( حضرت ) ابوبکر صدیق کے محاسن اور خصوصی الخاصة أنه خُصّ لمرافقة فضائل میں سے ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سفر الهجرة، وجعل شريك سفر ہجرت میں آپ کو رفاقت کے لئے خاص کیا گیا مضائق خير البرية و أنيسه اور مخلوق میں سے سب سے بہترین شخص ( صلی اللہ 19 الخاص في باكورة المصيبة عليه وسلم ) کی مشکلات میں آپ ان کے شریک تھے ليثبت تخصصه بمحبوب اور آپ مصائب کے آغاز سے ہی حضور کے خاص الحضرة.وسرُّ ذلك أن الله انیس بنائے گئے تھے تا کہ محبوب خدا کے ساتھ آپ كان يعلم بأن الصديق أشجع كا خاص تعلق ثابت ہو اور اس میں بھید یہ تھا کہ اللہ کا الصحابة ومن التقاة وأحبهم تعالى كو يه خوب معلوم تھا کہ صدیق اکبر صحابہ میں یہ إلى رسول الله صلی اللہ علیہ سے زیادہ شجاع متقی اور ان سب سے زیادہ وسلم ومن الكماة، وكان فانيا | آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اور مر دمیدان في حُبّ سيّد الكائنات تھے اور یہ کہ سید الکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وكان اعتاد من القديم ان میں فنا تھے.آپ ابتدا سے ہی حضور کی مالی مدد یمونه ويراعی شؤونه کرتے اور آپ کے اہم امور کا خیال فرماتے تھے.
سر الخلافة اردو تر جمه فأسلی به الله نبیه فی وقت عبوس سو اللہ نے تکلیف دہ وقت اور مشکل حالات میں اپنے وعيش بوس، وخص باسم نبي (ﷺ) کی آپ کے ذریعہ تسلی فرمائی.اور الصدیق الصديق وقرب نبی الشَّقَلَین کے نام اور نبی تقلین کے قرب سے مخصوص فرمایا اور اللہ تعالیٰ وأفاض الله علیہ خلعة ثانِيَ نے آپ کو شانِی الثنین کی خلعت فاخرہ سے فیضیاب اثنين، وجعله من المخصوصین فرمایا اور اپنے خاص الخاص بندوں میں سے بنایا.ومع ذلك كان الصديق من علاوہ ازیں ( حضرت ابوبکر صدیق صاحب تجربه المجربين و من زمر اور صاحب فراست لوگوں میں سے تھے.آپ نے المتبصرين رأى كثيرا من بہت سے پیچیدہ امور اور ان کی سختیوں کو دیکھا اور کئی مغالق الأمور وشدائدها، معرکوں میں شامل ہوئے اور اُن کی جنگی چالوں کا وشهد المعارك و رأی مشاہدہ کیا.اور آپ نے کئی صحرا وکو ہسار روندے مكايدها، ووطئ البوادی اور کتنے ہی ہلاکت کے مقامات تھے جن میں آپ وجلامدها، وكم من مهلكة بے دریغ کھس گئے.اور کتنی سج راہیں تھیں جن کو اقتحمها وكم من سبل العوج آپ نے سیدھا کیا.اور کئی جنگوں میں آپ نے قومها وكم من ملحمة قدمها پیش قدمی کی اور کتنے ہی فتنے تھے جن کو آپ نے وكم من فتن عدمها وكم من نیست و نابود کیا اور کتنی ہی سواریاں تھیں جن کو آپ راحلة أنضاها في الأسفار ، وطوی نے سفروں میں ڈبلا کیا اور بہت سے مراحل طے کئے المراحل حتى صار من أهل یہاں تک کہ آپ صاحب تجر بہ وفر است بن گئے.التجربة والاختبار وكان صابرًا آپ مصائب پر صبر کرنے والے اور صاحب على الشدائد ومن المرتاضين.ریاضت تھے.پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی آیات فاختاره الله لرفاقته مورد آیاته کے مورد عے کی رفاقت کے لئے چنا اور آپ وأثنى عليه لصدقه و ثباته کے صدق و ثبات کے باعث آپ کی تعریف کی.
سر الخلافة اردو ترجمہ إشـار إلى أنه كان لرسول الله يا اشارہ تھا اس بات کا کہ آپ رسول اللہ ﷺے کے صلى الله عليه وسلم أوّل | پیاروں میں سے سب سے بڑھ کر ہیں.آپ حریت الأحباء ، وخُلِقَ من طينة کے خمیر سے پیدا کئے گئے اور وفا آپ کی گھٹی میں الحرية وتفوق در الوفاء تھی.اس وجہ سے آپ کو خوفناک اہم امراور ولأجل ذلك اختير عند ہوش رُبا خوف کے وقت منتخب کیا گیا اور اللہ علیم خطب خشی و خوف غشی وحکیم ہے.وہ تمام امور کو ان کے موقع ومحل پر واللہ علیم حکیم یضع الأمور رکھتا اور پانیوں کوان کے (مناسب حال ) سرچشموں في مواضعها، ويُجرى المياه سے جاری کرتا ہے.سو اس نے ابنِ ابی قحافہ پر من منابعها، فنظر إلى ابن أبى نگاهِ التفات ڈالی اور اس پر خاص احسان قحافة نظرةً، ومن عليه خاصة، فرمایا.اور اسے ایک یگانہ روزگار شخصیت بنا وجعله من المتفردین، وقال دیا.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور وہ بات کرنے وهو أصدق القائلين.والوں میں سب سے سچا ہے.إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ الَّذِينَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْهُمَا فِي إِذْهُمَا فِي الْخَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنُ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ اِنَّ اللهَ مَعَنَا ۚ فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُوْدِ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى.وَكَلِمَةُ اللهِ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ هِيَ الْعُلْيَا وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمُ اگر تم اس (رسول) کی مدد نہ بھی کرو تو اللہ (پہلے بھی) اس کی مدد کر چکا ہے جب اسے ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا
سر الخلافة ۶۲ اردو تر جمه فتدبَّر في هذه الآيات فهما وحزما، پس ان آیات پر عقل و فہم سے غور کر اور عمدا ولا تُعرض عمدا و عزما، وأحسن اور بالا رادہ ان سے اعراض نہ کر.اور رب العالمین النظر فيما قال رب العالمين.کے قول پر ا چھی طرح سے غور کر.ولا تلج مقاحم الأخطار بست اور برگزیدہ، نیک اور خدائے قہار کے پیاروں کو الأخيار والأبرار وأحبّاء القهّار، گالیاں دے کر پُر خطر ہلاکت گاہوں میں مت فإن أنفَس القربات تخيرُ طرق گھی.کیونکہ قرب الہی کے حصول کا بہترین التـقـلـة والإعراض عن طريق تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا اور ہلاکت کی المهلكات، وأمتن أسباب جگہوں سے بچنا ہے اور عافیت کا محکم سبب زبان پر العافية كف اللسان والتجنب من قابو رکھنا ، گالی گلوچ اور غیبت سے احتراز کرنا اور السب والغيبة، والاجتناب من بھائیوں کا گوشت کھانے (غیبت) سے اجتناب أكل لحم الإخوة.انظر إلى هذه کرنا ہے.( قرآن کریم ) کی اس مذکورہ آیت پر الآية الموصوفة، أتُثنى على غور کر.کیا یہ آیت حضرت صدیق " کی حمد وثنا الصديق أو تجعله مورد اللوم کرتی ہے یا مور دملامت وعتاب ٹھہراتی ہے؟ کیا والمعتبة ؟ أتعرف رجلا آخر من صحابہ میں سے کسی اور شخص کو تم جانتے ہو کہ جس کی الصحابة الذي حمد بهذه ان صفات (حمیدہ) کے ساتھ کسی شک وشبہ کے الصفات بغير الاسترابة ؟ بغیر تعریف کی گئی ہو.کیا تمہیں کسی ایسے شخص کا علم أتعرف رجلا سُمّى ثَانِيَ اثْنَيْنِ ہے جسے ثَانِيَ اثْنَین کے نام سے موسوم کیا گیا رض بقیہ حاشیہ صفحہ ۶۱:.(وطن سے) نکال دیا تھا اس حال میں کہ وہ دو میں سے ایک تھا جب وہ دونوں غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہ رہا تھا کہ غم نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے اس پر اپنی سکیت نازل کی اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی جن کو تم نے کبھی نہیں دیکھا اور اس نے ان لوگوں کی بات نیچی کر دکھائی جنہوں نے کفر کیا تھا اور بات اللہ ہی کی غالب ہوتی ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور ) بہت حکمت والا ہے.“ (التوبة: ۴۰)
سر الخلافة ۶۳ اردو تر جمه وشمى صاحبًا لنبي الثقلين، اور نبی دو جہاں کے رفیق کا نام دیا گیا ہو اور اس وأُشرِكَ في فضل اِنَّ اللهَ مَعَنَا فضیلت میں شریک کیا گیا ہو کہ اِنَّ اللهَ مَعَنَا وجُعِل أحد من المؤيدين؟ اور اسے دو تائید یافتہ میں سے ایک قرار دیا گیا ۲۰ أتعلم أحدًا حُمد في القرآن ہو.کیا تم کسی ایسے شخص کو جانتے ہو جس کی كمثل هذه المحمدة، وسُفر قرآن میں اس تعریف جیسی تعریف کی گئی ہو زحام الشبهات عن حالاته اور جس کے مخفی حالات سے شبہات کے ہجوم المخفية، وثبت فيه بالنصوص کو دور کر دیا گیا ہو اور جس کے بارے میں الصريحة لا الظنية الشكيّة أنه نصوص صریحہ سے نہ کہ ظنی شکی باتوں سے یہ من المقبولين؟ ووالله ما أرى ثابت ہو کہ وہ مقبولین بارگاہ الہی میں سے مثل هذا الذكر الصريح ثابت ہیں.بخدا اس قسم کا صریح ذکر جو تحقیق سے بالتحقيق الذي مخصوص ثابت شدہ ہو جو حضرت ابوبکر صدیق.بالصديق لرجل آخر في صحف مخصوص ہے، میں نے رب بیت عقیق کے رب البيت العتيق.فإن كنت في صحیفوں میں کسی اور شخص کے لئے نہیں دیکھا.شك مما قلت، أو تظن أنى عن پس اگر تجھے میری اس بات کے متعلق شک ہو یا الحق ملتُ، فأت بنظير من تمہارا یہ گمان ہو کہ میں نے حق سے گریز کیا ہے القرآن، وأرنا لرجل آخر تو قرآن سے کوئی نظیر پیش کرو اور ہمیں دکھاؤ کہ تصريحا من الفرقان، إن كنت فرقان حمید نے کسی اور شخص کے لئے ایسی صراحت کی ہوا گر تم سچوں میں سے ہو.والله إن الصديق رجل أعطى اللہ کی قسم صدیق اکبر وہ مرد خدا ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ من الله حلل الاختصاص کی طرف سے اختصاص کے کئی لباس عطا کئے گئے من الصادقين.یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے.(التوبة: ۴۰) ނ
سر الخلافة ۶۴ اردو تر جمه وشهد له الله أنه من اور اللہ نے ان کے لئے یہ گواہی دی کہ وہ خاص الخواص، وعزا معية برگزیدہ لوگوں میں سے ہیں اور اپنی ذات کی معیت ذاته إليه، وحَمدَه وشَكَرَہ کو آپ کی طرف منسوب کیا اور آپ کی تعریف و وأثنى عليه، وأشار إلى توصیف کی اور آپ کی قدردانی کی.اور یہ اشارہ أنه رجل لم يطب له فرمایا کہ آپ ایسے شخص ہیں کہ جنہیں حضرت محمد فراق المصطفى، ورضى مصطفى ﷺ کی جدائی گوارا نہ ہوئی.ہاں بفراق غيره من القربی آنحضرت کے علاوہ دیگر عزیز واقارب کی جدائی پر وآثر المولی وجاءہ آپ راضی ہو گئے.آپ نے اپنے آقا کو مقدم يسعى، فساق إلى الموت رکھا اور اُن کی طرف دوڑے چلے آئے پھر بکمال دود الرغبة، وأزجي كل رغبت آپ نے اپنے تئیں موت کے منہ میں ڈال هوى المهجة.استدعاه دیا اور ہر نفسانی خواہش کو اپنی راہ سے ہٹا دیا.الرسول للمرافقة، فقام ملبيا رسول نے آپ کو رفاقت کے لئے بلایا تو موافقت للموافقة، وإذ هم القوم میں لبیک کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے.اور بإخراج المصطفی، جاءه جب قوم نے حضرت ( محمد ) مصطفی کو نکالنے کا النبى حبيب الله الأعلى، ارادہ کیا تو بزرگ و برتر الله عز وجل کے قــــــال إني أُمرت أن محبوب نبی آپ کے پاس تشریف لائے اور أهاجر وتهاجر معى ونخرج فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ہجرت کروں اور تم من هذا المأوى، فحمدل میرے ساتھ ہجرت کرو گے اور ہم اکٹھے اس الصديق على ما جعله بتی سے نکلیں گے.پس اس پر حضرت صدیق رفيق المصطفی نے الحمد للہ پڑھا کہ ایسے مشکل وقت میں اللہ ، مثل ذلك البلوى نے انہیں مصطفیٰ " کا رفیق بننے کی سعادت بخشی.
سر الخلافة اردو تر جمه وكان ينتظر نصرة النبي المبغي وہ پہلے ہی سے نبی مظلوم (ﷺ) کی نصرت کے عليه إلى أن آلت هذه الحالة منتظر تھے.یہاں تک کہ جب نوبت یہاں تک پہنچ سے إليه، فرافقه في شجون من جد گئی تو آپ نے پوری سنجیدگی اور عواقب.ومجون، وما خاف قتل لا پرواہ ہو کرھم و غم میں آپ کا ساتھ دیا اور قاتلوں الـقـاتـليـن فـفـضـيـلته ثابتة من ے قتل کے منصوبہ سے خوفزدہ نہ ہوئے.پس آپ جلية الحكم والنص المحكم کی فضیلت حکم صریح اور نص محکم سے ثابت ہے اور وفضله بین بدلیل قاطع آپ کی بزرگی دلیل قطعی سے واضح ہے اور آپ کی وصدقه واضح كصبح ساطع صداقت روز روشن کی طرح درخشاں ہے.آپ نے إنه ارتضى بنعماء الآخرة آخرت کی نعمتوں کو پسند فرمایا اور دنیا کی ناز و نعمت وترك تنعم العاجلة، ولا يبلغ کو ترک کر دیا.دوسروں میں سے کوئی بھی آپ فضائله أحد من الآخرين.کے ان فضائل تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا.و إن سألت أن الله لِمَ آثَرَه اگر تم یہ پوچھو کہ اللہ نے سلسلۂ خلافت کے لصدر سلسلة الخلافة، وأتى سر آغاز کے لئے آپ کو کیوں مقدم فرمایا اور اس كان فيه من ربّ ذى الرأفة، میں رب رؤف کی کیا حکمت تھی ؟ تو جاننا چاہئے فاعلم أن الله قد رأى أن الصديق کہ اللہ نے یہ دیکھا کہ حضرت صدیق اکبر رضی رضي الله عنه وأرضى آمن مع الله عنه وارضی ایک غیر مسلم قوم میں سے بکمال رسول الله صلعم بقلب أسلم في قلب سلیم رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں قوم لم يسلم، وفي زمان كان اور ایسے وقت میں ایمان لائے جب نبی اللہ صلی الله وحيدًا، وكان الفساد الله عليه وسلم یک و تنہا تھے اور فساد بہت شدید تھا.شديدا، فرأى الصديق بعد هذا پس حضرت صدیق اکبر نے اس ایمان لانے الإيمان أنواع الذلة والهوان کے بعد طرح طرح کی ذلت اور رسوائی دیکھی نبى
سر الخلافة اردو ترجمہ ولعن القوم والعشيرة والإخوان اور قوم، خاندان، قبیلے، دوستوں اور بھائی بندوں کی والخلان، وأوذى في سبيل الله لعن طعن دیکھی ، رحمن خدا کی راہ میں آپ کو تکلیفیں دی الـرحـمـان، وأخرج من وطنه گئیں اور آپ کو اسی طرح وطن سے نکال دیا گیا جس كمـا أُخرج نبي الإنس ونبي طرح جن وانس کے نبی ﷺ کو نکالا گیا تھا.آپ نے الجان، ورأى محنا كثيرة من دشمنوں کی طرف سے بہت تکلیفیں اور اپنے پیارے الأعداء ، ولعنا ولوما من دوستوں کی طرف سے لعنت ملامت مشاہدہ کی.آپ الأحباء ، وجاهد بماله و نفسه نے بارگاہ رب العزت میں اپنے مال و جان سے جہاد في حضرة العزة، وكان يعيش کیا.آپ معزز اور ناز و نعم میں پلنے کے باوجود معمولی كالأذلّة، بعدما كان من الأعزّة لوگوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے.آپ راہ خدا میں ومن المتنعمين.وأخرج في وطن سے ) نکالے گئے.آپ اللہ کی راہ میں ستائے سبيل الله، وأُوذی فی سبیل گئے.آپ نے راہ خدا میں اپنے اموال سے جہاد کیا اور الله، وجاهد بأمواله في سبيل دولت وثروت رکھنے کے بعد آپ فقیروں اور مسکینوں الله، فصار بعد الثراء كالفقراء کی طرح ہو گئے.اللہ نے یہ ارادہ فرمایا کہ آپ پر والمساكين.فأراد الله أن يُريه | گزرے ہوئے ایام کی آپ کو جزا عطا فرمائے اور جو جزاء الأيام التی قد مضت علیہ آپ کے ہاتھ سے نکل گیا اس سے بہتر بدلہ دے اور ويبدله خيرا مما ضاع من اللہ کی رضامندی چاہنے کیلئے جن مصائب سے آپ يديه، و يُريه أجر ما رأى ابتغاء دو چار ہوئے ان کا صلہ آپ پر ظاہر فرمائے.اور اللہ لمرضاة الله والله لا يُضيع أجر محسنوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا.لہذا آپ کے المحسنين.فاستخلفه ر به و رفع رب نے آپ کو خلیفہ بنا دیا اور آپ کے لئے آپ کے له ذكره وأسلى وأعزّه رحمة منه ذكر كو بلند کیا اور آپ کی دل جوئی فرمائی.اور اپنے فضل کیا اورآپ اوراپنے وفضلا، وجعله أمير المؤمنين.ورحم سے عزت بخشی اور آپ کو امیر المؤمنین بنادیا.
سر الخلافة ۶۷ اردو تر جمه اعلموا، رحمكم الله، أن الصحابة اللہ آپ لوگوں پر رحم فرمائے.جان لو کہ سارے كلهم كانوا کجوارح رسول الله کے سارے صحابہ رسول اللہ ﷺ کے اعضاء و صلعم وفخر نوع الإنسان، فبعضهم جوارح کی طرح تھے اور نوع انسان کے فخر تھے.كانوا كالعيون وبعضهم كانوا خدائے رحمن کے رسول حملے کے لئے ان میں كالآذان، وبعضهم كالأيدى وبعضهم سے بعض آنکھوں جیسے تھے، بعض کانوں کی طرح كالأرجل من رسول الرحمان، وكلّ اور بعض اُن میں سے ہاتھوں کی مانند اور بعض ما عملوا من عمل أو جاهدوا من پاؤں کی طرح تھے.ان صحابہ نے جو بھی کام کئے یا جهد فكانت كلها صادرة بهذه جو بھی سعی فرمائی وہ سب کچھ ان اعضاء کی مناسبت المناسبات، وكانوا يبغون بها مرضاة سے صادر ہوئے.اور ان کی غرض اس سے محض رب الكائنات رب العالمين.فالذي رب کائنات، رب العالمین کی رضا جوئی تھی.اور يقول أن الأصحاب الثلاثة كانوا من جو شخص یہ کہتا ہے کہ اصحاب ثلاثہ کا فر، منافق یا الكافرين والمنافقين أو الغاصبين فلا غاصب تھے.بلکہ وہ سب کو ہی کا فرقرار دیتا ہے يُكفّر إلا كلهم أجمعين لأن الصحابة كيونكہ سب صحابہ نے حضرت ابوبکر کی ، پھر حضرت كلهم كانوا بايعوا أبا بكر ثم عمر ثم عمر کی اور پھر حضرت عثمان رضی الله عنهم عثمان رضى الله عنهم وأرضى و ارضی کی بیعت کی تھی.ان (خلفاء) کے وشهدوا المعارك والمواطن عظيم احکام کی تعمیل کرتے ہوئے وہ معرکوں اور بأحكامهم العظمى، وأشاعوا لڑائیوں میں شریک ہوئے اور انہوں نے الإسلام وفتحوا ديار الكافرين فما اسلام کی اشاعت کی اور کافروں کے ممالک فتح أرى أجهل من الذى يزعم أن کئے.میری نظر میں اس شخص سے بڑھ کر کوئی المسلمين ارتدوا كلهم بعد وفاة جاہل نہیں جو یہ خیال کرتا ہے کہ رسول اللہ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تمام مسلمان مرتد ہو گئے تھے
سر الخلافة ۶۸ اردو تر جمه كأنه يكذب كل مواعيد نصرة اس طرح گویا وہ ان تمام وعدوں کو جھٹلاتا ہے جو الإسلام التي مذكورة فى كتاب اسلام کی نصرت کے بارے میں علام خدا کی الله العلام، فسبحان ربنا حافظ کتاب میں مذکور ہیں.پس پاک ہے ہمارا رب جو الملة والدين.هذا قول أكثر ملت (اسلام) اور دین کا محافظ ہے.شیعوں کی الشيعة، وقد تجاوزوا الحد فی اکثریت کا یہ قول ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں تطاول الألسنة، وغضوا من نے زبان درازی میں حد سے تجاوز کیا اور حق کی الحق عينهم، فكيف ينتظم طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا.پھر ہمارے اور الوفاق بيننا وبينهم؟! وكيف ان کے درمیان کیسے موافقت راہ پاسکتی ہے؟ اور يرجع الأمر إلى ودادٍ، وإنهم لفی جبکہ وہ ایک وادی میں ہیں اور ہم دوسری وادی میں وادٍ ونحن في وادٍ ؟ والله يعلم أنا تو پھر محبت کیسے راہ پا سکتی ہے؟ اللہ خوب جانتا ہے من الصادقين.کہ ہم صادقوں میں سے ہیں.يا حسرة عليهم إنهم لا يستفيقون وائے حسرت ان پر ، کہ یہ تعصبات کی غشی من غَشَى التعصبات، ولا يكفكفون سے ہوش میں نہیں آرہے.اور نہ بہتان من البهتانات.أعجبنى شأنهم وما طرازی سے باز آ رہے ہیں.ان کی حالت أدرى ما إيمانهم، إنهم كفروا نے مجھے تعجب میں ڈالا ہے اور میں نہیں الأصحاب الثلاثة وحسبوهم جانتا کہ ان کا ایمان کیسا ہے؟ انہوں نے من المنافقين المرتدين، مع أن اصحاب ثلاثہ کو کا فر ٹھہرایا اور انہیں منافق اور القرآن ما بلغهم إلا من أيدى مرتد گردانا با وجودیکه قرآن انہیں کفار تلك الكافرين، فلزمهم أن کے ہاتھوں ہی ان تک پہنچا.پس ان کے لئے يعتقدوا أن القرآن الموجود یہ لازم ہے کہ وہ یہ اعتقاد رکھیں کہ لوگوں کے في أيدى الناس ليس بشیء ہاتھوں میں موجود قرآن کچھ بھی چیز نہیں
سر الخلافة ۶۹ اردو تر جمه بل ساقط من الأساس، وليس بلکہ بے بنیاد ہے اور تمام لوگوں کے رب کا کلام كلام رب الأناس ، بل مجموعة نہیں.بلکہ وہ تحریف کرنے والوں کے کلمات کا كلمات المحرفين.فإنهم كلهم مجموعہ ہے اور بات یہ ہے کہ تمام صحابہ اُن کے كانوا خائنين و غاصبين بزعمهم عقیدہ کے مطابق خائن اور غاصب تھے اور ان میں وما كان أحد منهم أمينا و من سے کوئی ایک بھی امین اور دیندار شخص نہ تھا.اگر یہ المتدينين.فإذا كان الأمر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر کس چیز پر ان کے دین کا كذلك فعلى ما عوّلوا في دينهم؟ انحصار ہے؟ اور ان کو دین سکھانے کے لئے ان کے وأى كتاب من الله في أيديهم ہاتھوں میں اللہ کی کونسی کتاب ہے؟ لہذا ثابت ہوا لتلقينهم؟ فثبت أنهم قوم کہ یہ ایک ایسی محروم قوم ہے جن کا نہ تو کوئی دین ہے محرومون لا دين لهم ولا كتاب اور نہ کوئی دینی کتاب.کیونکہ اس قوم نے جب یہ الدين.فإن قوما إذا فرضوا أن فرض كرلیا کہ تمام صحابہ کا فراور منافق ہو گئے الصحابة كفروا ونافقوا وارتدوا اپنی ایڑیوں پر پھر گئے اور شرک کیا اور کفر کے گند على أعقابهم وأشركوا، واتسخوا سے آلودہ ہوئے اور پاکیزگی اختیار نہ کی تو پھر بوسخ الكفر وما تطهروا، فلا بد انہیں یہ اقرار کرنے کے بغیر چارہ نہیں کہ قرآن لهم أن يُقروا بأن القرآن ما بقی اپنی صحت پر باقی نہیں رہا.اور اپنی اصل صورت على صحته وحرف وبدل عن سے محرف و مبدل ہو گیا ہے اور اس میں کمی بیشی صورته وزيد ونُقص، وغیر من کر دی گئی ہے اور اس کی ہیئت تبدیل کر دی گئی سحنته وقيد إلى غير حقيقته، فإن ہے.اور اپنی اصل حقیقت پر قائم نہیں رہا.اور هذا الإقرار لزمهم ضرورةً بعد یہ اقرار مجبورا ان کے اس امر پر جرات کے إصرارهم جرأةً على أن القرآن ما اصرار کے بعد لازم ہو گیا کہ قرآن کریم کی (۲۲) شاع من أيدى المؤمنين الصالحين، اشاعت صالح مومنوں کے ہاتھوں نہیں ہوئی
سر الخلافة ☆ اردو تر جمه وأشاعه قوم من الكافرين الخائنين بلکہ خائن مرتد کافروں نے اس کی اشاعت کی المرتدين.وإذا اعتقدوا أن القرآن ہے.اور جب ان کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مفقود مفقود، وكل من جمعه فهو كافر ہے اور اسے جمع کرنے والے سب کے سب کا فر مردود، فلا شك أنهم يئسوا مما اور مردود ہیں.تو اس صورت میں کوئی شک باقی نزل على أبي القاسم خاتم نہیں رہتا کہ وہ اس کلام سے مایوس ہو چکے ہیں النبيين، وخُلقت عليهم أبواب جو ابو القاسم خاتم النبین (ﷺ) پر نازل ہوا.العلم والمعرفة واليقين، ولزمهم اور ان پر علم و معرفت اور یقین کے دروازے بند أن يُنكروا النواميس كلها، فإنهم کردیئے گئے.اور پھر ان کے لئے یہ بھی لازم محرومون من تصديق الأنبياء ٹھہرا کہ وہ تمام آسمانی کتابوں کا انکار کریں.والإيمان بكتب المرسلين.وإذا چونکہ وہ انبیاء کی تصدیق اور مرسلین کی کتابوں پر فرضنا أنا هذا هو الحق أن ایمان لانے سے محروم ہو گئے.اور جب ہم نے ☆ الصحابة ارتدوا كلهم بعد خاتم يه فرض کر لیا کہ حق یہی ہے کہ خاتم الانبیاء الأنبياء ، وما بقى على الشريعة کے بعد سب کے سب صحابہ مرتد ہو گئے تھے اور الغراء إلا عـلـي رضي الله عنه | شریعت غراء پر علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ونفر قليلون معه من الضعفاء، ساتھ چند ضعیف لوگوں کے سوا کوئی قائم نہ رہا وهم مع إيمانهم ركنوا إلى إخفاء تھا اور وہ چند لوگ بھی اپنے ایمان کے باوجود الحقيقة، واختاروا تقيّةً للدنيا إخفاء حقیقت کی جانب جھک گئے تھے اور انہوں الدنية تخوّفًا من الأعداء ، أو نے دشمنوں سے ڈر کر حقیر دنیا کی خاطر یا جلب لجذب المنفعة و الحطام، فهذا منفعت اور فانی اموال کے لئے تقیہ اختیار کئے أعظم المصائب على الإسلام رکھا.تو یہ اسلام پر سب سے بڑی مصیبت اور وبلية شديدة على دين خير الأنام خير الا نام کے دین کے لئے شدید آفت ہے.سهو الناسخ، والصحيح ” أن “.(الناشر)
سر الخلافة اردو ترجمہ وكيف تظن أن الله أخلف اور تو کیسے خیال کرتا ہے کہ اللہ نے خود اپنے وعدوں مواعيده، وما أرى تأییده کی خلاف ورزی کی اور اپنی تائیدات کا جلوہ نہ بل جعل أوّل الدَنْ دُرْدِيَّا، دکھایا بلکہ مشکے میں موجود چیز کی بالائی سطح کو ہی وأفسد الدين من كيد تلچھٹ بنا دیا اور خائنوں کی فریب کاریوں سے الخائنين.دین کو بگاڑ دیا.فتشهد الخلق كلهم أنا بريئون ہم تمام خلق خدا کو گواہ ٹھہراتے ہیں کہ ہم اس قسم من مثل تلك العقائد، وعندنا هي کے عقائد سے بیزار ہیں.اور ہمارے نزدیک یہ کفر مقدمات الكفر وإلى الارتداد کی ابتدا ہیں اور ارتداد کی طرف لے جانے والے كالقائد، ولا تناسب فطرة کی طرح ہیں اور نیک لوگوں کی فطرت سے الصالحين.أكفر الصحابة بعد ما مناسبت نہیں رکھتے.کیا صحابہ نے اس کے بعد گفر أفنوا أعمارهم في تأييد الإسلام کا ارتکاب کیا جبکہ انہوں نے اپنی ساری عمریں وجاهدوا بأموالهم وأنفسهم اسلام کی تائید میں فنا کر دیں اور اپنے جان اور مال لنصرة خير الأنام حتى جاء هم سے حضرت خیر الا نام کی نصرت کی خاطر جہاد کیا الشيب وقرب وقت الحمام؟ یہاں تک کہ انہیں بڑھاپے نے آلیا اور موت کا فمن أين تولدت إراداة متجددة وقت قریب آ پہنچا، پھر ان خیالات کو خیر باد کہنے فاسدة بعد توديعها، وكيف کے بعد نئے فاسد خیالات کہاں سے پیدا ہو گئے؟ غاضت مياه الإيمان بعد اور ایمان کے چشمے جاری ہونے کے بعد ان کا پانی جريان ينابيعها؟ فويل للذين لا کیسے خشک ہو گیا ؟ بُرا ہو ان لوگوں کا ! جو یوم حساب يذكرون يوم الحساب، ولا کو یاد نہیں کرتے اور جورب الا رباب کی ذات سے يخافون ربّ الأرباب ويسبون نہیں ڈرتے.اور جلد بازی سے کام لیتے ہوئے الأخيار مستعجلين.نیک لوگوں کو گالیاں دیتے ہیں.
سر الخلافة ۷۲ اردو تر جمه والعجب أن الشيعة يُقرون عجیب بات یہ ہے کہ شیعہ حضرات یہ اقرار بھی بأن أبا بكر الصديق آمن فی أیام کرتے ہیں کہ (حضرت) ابوبکر صدیق دشمنوں كثرة الأعداء ، ورافق المصطفی کی کثرت کے ایام میں ایمان لائے اور آپ نے في ساعة شدّة الابتلاء ، وإذا خرج ابتلا کی سخت گھڑی میں ( حضرت محمد ) مصطفی علی رسول الله صلعم فخرج معه کی رفاقت اختیار کی اور جب رسول اللہ علی بالصدق والوفاء ، وحمل (مکہ) سے نکلے تو آپ بھی کمال صدق و وفا.التكاليف وترك المألف حضور کی معیت میں نکل کھڑے ہوئے اور تکالیف والأليف، وترك العشيرة كلها برداشت کیں اور وطن مالوف اور دوست احباب واختار الربّ اللطیف ، ثم حضر اور اپنا پورے کا پورا خاندان چھوڑ دیا اور خدائے كل غزوة وقاتل الكفار وأعان لطيف کو اختیار فرمایا.پھر ہر جنگ میں آپ شریک النبي المختار، ثم جُعل خليفة ہوئے.کفار سے لڑے اور نبی (احمد ) مختار علی في وقت ارتدت جماعة من کی مدد کی.پھر آپ اس وقت خلیفہ بنائے گئے المنافقين، وادعى النبوة كثير جب منافقوں کی ایک جماعت مرتد ہوگئی اور بہت من الكاذبين، فحاربهم سے کا زبوں نے دعویٰ نبوت کر دیا.جس پر آپ وقاتلهم حتى عادت الأرض ان سے جنگ وجدال کرتے رہے یہاں تک کہ إلى أمنها وصلاحها وخاب ملک میں دوبارہ امن وامان ہو گیا اور فتنہ پردازوں حزب المفسدين.کا گروہ خائب و خاسر ہوا.ثم مات ودفن عند قبر سید پھر آپ فوت ہوئے اور سید الانبیاء اور معصوموں النبيين وإمام المعصومين، وما کے امام (ع) کی قبر کے پہلو میں دفن کئے گئے.فارق حبيب الله ورسوله اور آپ خدا کے حبیب اور اس کے رسول ﷺ سے لا في الحياة ولا فى الممات جدا نہ ہوئے نہ زندگی میں اور نہ موت کے بعد.
سر الخلافة ۷۳ اردو تر جمه | بل التقيا بعد بين أيام معدودة معدودے چند ایام کی مفارقت کے بعد آپس میں فتهادى تحية المحبين مل گئے اور محبت کا تحفہ پیش کیا.انتہائی تعجب کی بات والعجب كل العجب أن الله یہ ہے کہ بقول ان ( شیعہ حضرات) کے اللہ نے نبی (۲۳) جعل أرض مرقد نبیه بزعمهم کے مرقد کی تربت کو خاتم النبیین اور دو کافروں، مشتركة بين خاتم النبيين غاصبوں اور خائنوں کے درمیان مشترک کر دیا.اور والكافرين الغاصبين الخائنين اپنے نبی اور حبیب کو ان دونوں (ابوبکر اور عمر) کی وما نجى نبيه وحبيبه من أذيّة ہمسائیگی کی اذیت سے نجات نہ دی.بلکہ ان جوارهما بل جعلهما له رفیقین دونوں کو دنیا اور آخرت میں آپ کے اذیت رساں مؤذيين في الدنيا والآخرة، وما رُفقاء بنا دیا اور (نعوذ باللہ ) ان دونوں نا پاکوں سے باعده عن الخبيثين سبحان ربنا آپ کو دور نہ رکھا.ہمارا رب ان کی بیان کردہ عما يصفون، بل الحق الطيبين باتوں سے پاک ہے.بلکہ اللہ نے ان دونوں پاکبازوں بإمام الطيبين.إن في ذلك کو پاکبازوں کے امام کے ساتھ ملا دیا.یقیناً اس میں اہل بصیرت کے لئے نشانات ہیں.لآيات للمتبصرين.صلى الله فتفكر يا من تحلّى بفهم، ولا اے زیور فہم سے آراستہ شخص ! سوچ! اور تركن من يقين إلى وهم ولا یقین کو چھوڑ کر وہم کی جانب مائل مت ہو.اور تجترء على إمام المعصومين امام المعصومین کے خلاف جرات نہ کر.جبکہ وأنت تعلم أن قبر نبينا صلى تجھے یہ بخوبی علم ہے کہ ہمارے نبی کریم علی الله عليه وسلم روضة عظیمة کی آرامگاہ، جنت کے باغوں میں سے ایک من روضات الجنة، وتبوأ كل عظيم باغ ہے جو ہر فضیلت اور عظمت کی ذروة الفضل والعظمة، وأحاط انتہائی بلندی کے مقام پر فائز ہے اور سعادت اور كل مراتب السعادة والعزة عزت کے تمام مراتب کا وہ احاطہ کئے ہوئے ہے.
سر الخلافة ۷۴ اردو تر جمه فما له وأهل النيران؟ فتفکر تو پھر آپ کا اور آگ کے باسیوں کا کیا واسطہ؟ ولا تختر طرق الخسران الہذا سوچ سے کام لے! اور گھاٹا پانے والوں کی و تأدب مع رسول الله یا راہیں اختیار نہ کر.اور اے آنکھوں والے ! رسول اوراے ذا العينين، ولا تجعل قبره بين اللہ ﷺ کا ادب ملحوظ رکھ ، اور حضور کی قبر کو دو الكافرين الغاصبين، ولا تُضِعُ کافروں اور غاصبوں کے درمیان مت قرار دے إيمانك للمرتضى أو الحسين، اور اپنے ایمان کو (علی) مرتضی یا (امام) حسین ولا حاجة لهما إلى إطرائك يا كى خاطر ضائع نہ کر.اے جھوٹ کے اسیر! ان کی أسـيـر الـميـن فـاغـمـدُ عَضُبَ دونوں ( بزرگوں) کو تیری مبالغہ آمیز ستائش کی لسانك وكن من المتقين ضرورت نہیں اس لئے اپنی زبان کی تلوار کو نیام أيرضى قلبك ويسرّ سِربك میں رکھ اور متقیوں میں سے بن.کیا تیرا دل پسند أن تدفن بين الكفار و کان علی کرے گا اور تیرے سینے کو اس سے سرور ملے گا يمينك ويسارك كافران كه تو کافروں کے درمیان دفن کیا جائے اور من الأشرار ؟ فكيف تجوّز تیرے دائیں اور تیرے بائیں اشرار میں سے دو لسيّد الأبرار ما لا تجوّز کافر ہوں؟ تو پھر اے قھار خدا کے قہر کے مورد تو لنفسك يا مورد قهر القهار ؟ سید الابرار کے لئے وہ چیز کیوں جائز سمجھتا ہے جو أتنزل خير الرسل منزلة لا تو خود اپنے لئے جائز نہیں سمجھتا؟ کیا تو خیر الرسل ترضاها، ولا تنظر مراتب کو اس مقام پر لا رہا ہے جس کو تو اپنے لئے پسند عصمته وإياها؟ أين ذهب نہیں کرتا.اور تو خود حضور کی عصمت کے أدبك وعقلك وفهمك ؟ مراتب کی پاسداری نہیں کرتا.تیرا ادب اور عقل أ اختطفته جن و همك و فہم کہاں چلا گیا ؟ کیا تیرے وہم کے جن نے وتركتك كالمسحورين؟ اُسے اُچک لیا ہے اور تجھے سحر زدہ کر چھوڑا ہے؟
سر الخلافة ۷۵ اردو تر جمه وكما صلت على الصديق جس طرح تو نے انتہائی تقوی شعار صدیق پر الأتقى كذلك صلت على حملہ کیا.اسی طرح تو علی مرتضیٰ پر بھی حملہ آور ہوا على المرتضى، فإنك جعلت ہے.سو تو نے نعوذ باللہ (حضرت) علی کو بھی عليا نعوذ بالله كالمنافقین، منافقوں کی طرح قرار دیا اور دو کافروں کے وقاعدا علی باب الکافرین دروازے پر بیٹھنے والا بنا دیا تا کہ اس طرح ان کا ليفيض شربه الذي غاض خشک چشمہ فیض پھر سے جاری ہو جائے اور ان وينجبر من حاله ما انهاض ولا کی شکستہ حالی رُو بہ اصلاح ہو جائے.بلا شبہ یہ شك أن هذه السير بعيدة من مخلصوں کے سیرت واطوار نہیں اور یہ روش المخلصين، ولا توجد إلا في صرف اُسی میں پائی جاتی ہیں جو منافقوں کی الذي رضى بعادات المنافقین عادات پسند کرتا ہو.وإذا سئل عن الشيعة المتعصبين اگر متعصب شیعوں سے یہ پوچھا جائے کہ مخالف من كان أوّل من أسلم من منکروں کی جماعت سے نکل کر بالغ مردوں میں سے الرجال البالغين وخرج من اسلام لانے والا پہلا شخص کون تھا؟ تو انہیں یہ کہنے المنكرين المخالفين، فلا بد کے سوا چارہ نہیں کہ وہ حضرت ابوبکر تھے.پھر جب لهم أن يقولوا إنه أبو بكر.ثم یہ پوچھا جائے کہ وہ کون تھا جس نے سب سے إذا سئل مَن كان أوّل من هاجر پہلے حضرت خاتم النبیین کے ساتھ ہجرت کی اور تمام مع خاتم النبيين ونبذ العلق تعلقات کو پس پشت ڈالا اور وہاں چلے گئے جہاں وانطلق حيث انطلق، فلا بد حضور گئے تھے تو ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ لهم أن يقولوا إنه أبو بكر نہ ہوگا کہ وہ کہیں کہ وہ حضرت ابو بکڑ تھے! پھر جب ثم إذا سئل من كان أوّل یہ پوچھا جائے کہ بفرض محال غاصب ہی سہی تا ہم المستخلفين ولو کالغاصبین، خلیفہ بنائے جانے والوں میں سے پہلا کون تھا؟ تاہم
سر الخلافة اردو تر جمه فلا بد لهم أن يقولوا إنه أبو بكر.تو انہیں یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہ ہوگا کہ ابوبکر.پھر ثم إذا سئل من كان جامع القرآن جب یہ پوچھا جائے کہ ملک ملک میں اشاعت ليشاع في البلدان، فلا بد لهم ان کے لئے قرآن کو جمع کرنے والا کون تھا ؟ تو لا محالہ يقولوا إنه أبو بكر.ثم إذا سئل کہیں گے کہ وہ (حضرت ) ابوبکر تھے.پھر جب من دفن بجوار خير المرسلین یہ پوچھا جائے کہ خیر المرسلین اور سید المعصومین وسيد المعصومين، فلا بد لهم أن کے پہلو میں کون دفن ہوئے تو یہ کہے بغیر انہیں يقولوا إنه أبو بكر وعمر.فالعجب کوئی چارہ نہ ہوگا کہ وہ ابو بکر اور عمرؓ ہیں.تو پھر كل العجب أن كل فضيلة أُعطيت كتنے تعجب کی بات ہے کہ (معاذ اللہ ) ہر فضیلت للكافرين المنافقین، و کل خیر کافروں اور منافقوں کو دے دی گئی.اور اسلام کی الإسلام ظهرت من أيدى المعادين تمام تر خیر و برکت دشمنوں کے ہاتھوں سے ظاہر أيزعم مؤمن أن أوّل لبنة ہوئی.کیا کوئی مومن یہ خیال کر سکتا ہے کہ وہ شخص لإسلام كان كافرا ومن اللئام؟ جو اسلام کے لئے خشتِ اوّل تھا وہ کا فراورلیم ثم أوّل المهاجرين مع فخر تھا ؟ پھر وہ کہ جس نے فخر المرسلین کے ساتھ سب المرسلين كان كافرًا ومن سے پہلے ہجرت کی وہ بے ایمان اور مرتد تھا؟ اس المرتدين؟ وكذلك كل فضيلة طرح تو ہر فضیلت کا فروں کو حاصل ہو گئی.یہاں حصلت للكفار حتی جوار قبر سید تک کہ سید الابرار کی قبر کی ہمسائیگی بھی ! اور علی الأبرار، وكان على من المحرومين حرماں نصیب رہے.اور اللہ ان کی مدد کی طرف ومـا مـال إليه الله بالعدوى وما مائل نہ ہوا اور نہ ہی اپنی کسی نوازش سے انہیں أجدى من جدوى، كأنه ما عرفه نوازا.گویا وہ انہیں جانتا پہچانتا ہی نہ ہو اور عدم وأخطأ من التنكير واحرورف فی شناخت کی وجہ سے غلطی کھائی اور صحیح راہ سے ہٹ المسير، وإن هذا إلا كذب مبين.گیا ہو.یہ تو ایک کھلا جھوٹ ہے.يبدو انه سهو، والصحيح الاسلام “.(الناشر)
سر الخلافة اردو تر جمه فالحق أن الصديق والفاروق سچ تو یہ ہے کہ (ابوبکر) صدیق اور (عمر) كانا من أكابر الصحابة وما ألتا فاروق دونوں اکابر صحابہ میں سے تھے.ان دونوں الحقوق، واتخذا التقویٰ نے ادائیگی حقوق میں کبھی کوتا ہی نہیں کی انہوں شرعة، والعدل نُجُعة، وكانا نے تقویٰ کو اپنی راہ اور عدل کو اپنا مقصود بنالیا تھا.ينقبان عن الأخبار ويفتشان من وہ حالات کا گہرا جائزہ لیتے اور اسرار کی کنہ تک پہنچ أصل الأسرار، وما أرادا أن جاتے تھے.دنیا کی خواہشات کا حصول کبھی بھی يُلفيا من الدنيا بغية، وبذلا ان كا مقصود نہ تھا.انہوں نے اپنے نفوس کو اللہ کی النفوس لله طاعةً.وإني لم ألق اطاعت میں لگائے رکھا.کثرت فیوض اور نبی كالشيخين في غزارة فيوضهم الثقلین کے دین کی تائید میں شیخین (یعنی ابو بکر وعمر ابوبکر و تأييد دين نبي الثقلين.كانا رضی اللہ عنہما ) جیسا میں نے کسی کو نہ پایا.یہ دونوں أسرع من القمر فى اتباع ہی آفتاب اُم و ملل (ع) کی اتباع میں شمس الأمم والزمر، وكانا في ماہتاب سے بھی زیادہ سریع الحرکت تھے اور آپ حبه من الفانين.واستعذ با کل کی محبت میں فنا تھے.انہوں نے حق کے حصول کی عذاب لتحصيل صواب خاطر ہر تکلیف کو شیر میں جانا.اور اس نبی کی خاطر ورضوا بكل هوان للنبى الذى جس کا کوئی ثانی نہیں ، ہر ذلت کو برضا و رغبت ليس له ثان، وظهرا كالأسود گوارا کیا.اور کافروں اور منکروں کے لشکروں عند تلقى القوافل والجنود من اور قافلوں سے مٹھ بھیڑ کے وقت شیروں کی ذوى الكفر والصدود ، حتی طرح سامنے آئے.یہاں تک کہ اسلام غالب غلب الإسلام وانهزم الجمع، آگیا.اور دشمن کی جمعیتوں نے ہزیمت وانزوى الشرك وانقمع اٹھائی.شرک چھٹ گیا اور اس کا قلع قمع ہو گیا وأشرقت شمس الملة والدين.اور ملت و مذہب کا سورج جگمگ جگمگ کرنے لگا
سر الخلافة ۷۸ اردو تر جمه وكـانـت خـاتـمـة أمرهما جوار اور مقبول دینی خدمات بجالاتے ہوئے اور خير المسلمين، مع خدمات مسلمانوں کی گردنوں کو لطف و احسان سے مرضية في الدين، وإحسانات زیر بار کرتے ہوئے ان دونوں کا انجام ومنن على أعناق المسلمين خير المرسلين کی ہمسائیگی پر منتج ہوا.اور یہ اُس وهذا فضل من الله الذى لا اللہ کا فضل ہے جس کی نظر سے متقی پوشیدہ نہیں تخفى عليه الأتقياء ، وإن اور بے شک فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ الفضل بيد الله يؤتيه من يشاء ، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے.جو شخص بکمال من اعتلق بذيله مع کمال میله شوق اللہ کے دامن سے وابستہ ہو جاتا ہے تو وہ فإن الله لن يُضيعه ولو عاداه اُسے ہرگز ضائع نہیں کرتا، خواہ دنیا بھر کی ہر چیز كل ما في العالمين، ولا يرى اُس کی دشمن ہو جائے.اور اللہ کا طالب کسی طالبه خسرًا ولا عسرًا ولا يذر نقصان اور تنگی کا منہ نہیں دیکھتا.اور اللہ صادقوں الله الصادقين.کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا.الله أكبر ما أعظم شأن اللہ اکبر! ان دونوں ( ابو بکر و عمر) کے صدق و خلوص سرهما وصدقهما دفنوا فی کی کیا بلندشان ہے.وہ دونوں ایسے (مبارک) مدفن مدفن لو كان موسى وعيسی میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو حيين لتمناها غبطة، ولكن لا بصدر شک وہاں دفن ہونے کی تمنا کرتے.لیکن یہ يحصل هذا المقام بالمنية، ولا مقام محض تمنا سے تو حاصل نہیں ہوسکتا اور نہ صرف يعطى بالبغية، بل هي رحمة خواہش سے عطا کیا جاسکتا ہے بلکہ یہ تو بارگاہ رب أزلية من حضرة العزة، ولا العزت کی طرف سے ایک ازلی رحمت ہے اور یہ تتوجه إلا إلى الذين توجهت رحمت صرف انہی لوگوں کی طرف رُخ کرتی ہے العناية إليهم من الأزل، جن کی طرف عنایت (الہی ) ازل سے متوجہ ہو.
سر الخلافة ۷۹ اردو ترجمہ رض وحقت بهم ملاحف الفضل یہی لوگ ہیں ) جنہیں انجام کار اللہ کے فضل کی فقضيت العجب كل العجب چادریں ڈھانپ لیتی ہیں.مجھے ایسے لوگوں پر أن الذين يُفضّلون عليا على بے حد تعجب آتا ہے جو علی کو صدیق (اکبر) پر الصديق لا يرجعون إلى هذا فضیلت دیتے ہیں اور اس تحقیق شدہ امر کی طرف التحقيق، ويتهافتون على ثناء رجوع نہیں کرتے اور ( علی ) مرتضیٰ کی توصیف پر المرتضى ولا ينظرون مقام پروانہ وار گرتے ہیں اور نہایت پاکباز صدیق الصديق الأتقى.فاسأل الذین کے مقام پر نگاہ نہیں ڈالتے.پس تو ان لوگوں سے يكفرون الصديق ويلعنون، پوچھ جو صدیق اکبر کو کافر قرار دیتے اور اُن پر وسيعلم الذين ظلموا بأى لعنتیں ڈالتے ہیں.اور یہ ظالم لوگ بہت جلد جان منقلب ينقلبون.إن الصديق لیں گے کہ کس مقام کی طرف ان کو لوٹ کر جانا والفاروق كانا أميرا ركب ہے.بلاشبہ ابوبکر صدیق “ اور عمر فاروق ” اُس علو الله قُننا على ودعوا إلى كارواں کے امیر تھے جس نے اللہ کی خاطر بلند الحق أهل الحضارة والفلا، چوٹیاں سرکیں اور انہوں نے متمدن اور بادیہ نشینوں حتى سرت دعوتهم إلى بلاد کو حق كى دعوت دی.یہاں تک کہ اُن کی یہ دعوت قصوى، وقد أودعت خلافتهما دور دراز ممالک تک پھیل گئی.اور ان دونوں کی لفائف ثمرات الإسلام خلافت میں بکثرت ثمرات اسلام ودیعت کئے گئے (۲۵) وضُمخت بالطيب العميم بأنواع اور کئی طرح کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ فوز المرام.وكان الإسلام في كامل خوشبو سے معطر کی گئی.اور اسلام حضرت زمن الصديق متألما بأنواع صديق اکبر کے زمانہ میں مختلف اقسام کے (فتنوں الحريق، وشارف أن تُشن کی) آگ سے الم رسیدہ تھا اور قریب تھا کہ کھلی کھلی على سربه فوج الغارات غارت گریاں اس کی جماعت پر حملہ آور ہوں.
سر الخلافة ۸۰ اردو تر جمه وتَنَادَى عند نهبه يا للثارات، اور اس کے لوٹ لینے پر فتح کے نعرے لگائیں.فأدركه الرب الجليل بصدق پس عین اُس وقت حضرت ابوبکر صدیق کے صدق الصديق، وأخرج بعاعه من کی وجہ سے رب جلیل اسلام کی مدد کو آ پہنچا.اور البئر العميق، فرجع إلى حالة گہرے کنویں سے اُس کا متاع عزیز نکالا.چنانچہ الصلاح من مَحْلة نازحة، اسلام بدحالی کے انتہائی مقام سے بہتر حالت کی وحالة رازحة، فأوجب لنا طرف لوٹ آیا.پس انصاف ہم پر یہ لازم ٹھہراتا الإنصاف أن نشكر هذا المعین ہے کہ ہم اس مدد گار کا شکر یہ ادا کریں اور دشمنوں کی ولا نبالى المعادين.فإياك أن پر اوہ نہ کریں.پس تو اس شخص سے بے رخی نہ تلوى عذارك عمن نصر کر جس نے تیرے سید و مولیٰ ﷺ کی مدد کی اور سيدك ومختارك ، وحفظ تیرے دین و در کی حفاظت کی اور اللہ کی خاطر تیری دينك ودارك، وقصد الله بہتری چاہی اور تجھ سے بدلہ نہ چاہا.تو پھر بڑے فلاحك و ما امتار سماحك.تعجب كا مقام ہے کہ حضرت صدیق اکبر کی فياللعجب الأظهر كيف بزرگی سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے؟ اور یہ يُنكر مجد الصديق الأكبر ؟ حقیقت ہے کہ آپ کے اوصاف حمیدہ آفتاب وقد برقت شمائلہ کالنیر کی طرح درخشندہ ہیں.اور بلا شبہ ہر مومن آپ ولا شك أن كل مؤمن یأکل کے لگائے ہوئے درخت کے پھل کھاتا اور أُكُلَ غَرُسه، ويستفيض من آپ کے پڑھائے ہوئے علوم سے فیض یاب علوم درسه.أعطى لديننا ہو رہا ہے.آپ نے ہمارے دین کے لئے الفرقان، ولدنيـانـا الأمن فرقان اور ہماری دنیا کے لئے امن و امان عطا والأمان، ومن أنكره فقد مان فرمایا.اور جس نے اس سے انکار کیا تو اُس نے ولقى الشيط والشيطان.جھوٹ بولا اور ہلاکت اور شیطان سے جا ملا.
سر الخلافة ΔΙ اردو ترجمہ والذين التبس عليهم مقامه فما اور جن لوگوں پر آپ کا مقام و مرتبہ مشتبہ رہا، ایسے أخطأوا إلا عمدًا، وحسبوا الغدق لوگ عمدا خطا کار ہیں اور انہوں نے کثیر پانی ثمدًا، فتوغروا غضبًا، وحقروا کو قلیل جانا.پس وہ غصے سے اُٹھے اور ایسے شخص کی رجلا كان أوّل المكرمين.تحقیر کی جواول درجہ کا مکرم و محترم تھا.وإن نفس الصديق كانت اور حضرت صدیق کی ذات گرامی رجاء وخوف، جامعة للرجاء والخوف، والخشية خشيت وشوق اور انس و محبت کی جامع تھی.والشوق، والأنس والمحبة اور آپ کا جوہرِ فطرت صدق وصفا میں اتم وكان جوهر فطرته أبلغ وأكمل واکمل تھا اور حضرت کبریاء کی طرف بکمال في الصفاء ، منقطعًا إلى حضرة منقطع تھا.اور نفس اور اس کی لذات سے الكبرياء ، مفارقا من النفس خالی اور ہوا و ہوس اور اس کے جذبات سے ولذاتها، بعيدًا عن الأهواء كلية دور تھا اور آپ حد درجہ کے متبتل تھے وجذباتها، وكان من المتبتلين.اور آپ سے اصلاح ہی صادر ہوئی اور آ وما صدر منه إلا الإصلاح، وما سے مومنوں کے لئے فلاح و بہبود ہی ظاہر ظهر منه للمؤمنين إلا الفلاح ہوئی.آپ ایذا اور دُکھ دینے کی تہمت وكان مبراً من تهمة الإيذاء سے پاک تھے.اس لئے تو داخلی تنازعات والضير، فلا تنظر إلى التنازعات کى طرف نہ دیکھ بلکہ انہیں بھلائی کی طرز الداخلية، واحملها على محامل پر محمول کر.کیا تو غور نہیں کرتا کہ وہ شخص الخير.ألا تفكر أن الرجل الذى جس نے کے احکامات اور ما التفت من أو امر ربه و مرضاته خوشنودی سے اپنی توجہ اپنے بیٹے بیٹیوں کی إلـى بـنـيـــه وبـنــاتـه، ليجعلهم طرف نہیں پھیری تا کہ وہ انہیں مالدار بنا ئیں متمولين أو من أحد ولاته، یا انہیں اپنے عمال میں سے بنا ئیں.پنے در
سر الخلافة ۸۲ اردو تر جمه وما كان له من الدنيا إلا ما كان اور جس نے دنیا سے صرف اسی قدر حصہ لیا جتنا ميرة ضروراته، فكيف تظن أنه ظلم اس کی ضرورتوں کے لئے کافی تھا تو پھر تو کیسے آل رسول الله مع أن الله فضله على خیال کر سکتا ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کی كلهم بحسن نياته، وجعله من آل پر ظلم روا رکھا ہوگا.باوجود یکہ اللہ نے آپ المؤيدين.وليس كل نزاع مبنيا علی کو آپ کی حسن نیت کی وجہ سے ان سب پر فساد النيات كما زعم بعض متبعى فضيلت عطا فرمائی ہوئی تھی اور آپ کو اپنا تائید الجهلات، بل رُبَّ نزاع يحدث یافتہ بنایا ہوا تھا اور ہر جھگڑا نیتوں کے فساد پر مبنی من اختلاف الاجتهادات.فالطريق نہیں ہوتا جیسا کہ جہالت کے بعض پیروکاروں الأنسب والمنهج الأصوب أن نقول نے خیال کیا ہے بلکہ اکثر جھگڑے اجتہادات إن مبدأ التنازعات في بعض صحابہ کے اختلاف سے پیدا ہوتے ہیں.سب.خير الكائنات كانت الاجتهادات زیادہ مناسب اور درست طریق یہی ہے کہ ہم لا الظلامات والسيئات کہیں کہ خیر الکائنات کے بعض صحابہ میں والمجتهدون معفوون ولو كانوا آغاز تنازعات دراصل اجتہادات تھے نہ کہ ظلم مخطئين.وقد يحدث الغل اور بدیوں کا ارتکاب.اور مجتہد اگر چہ خطا کار والحقد من التنازعات فی ہوں وہ قابل معافی ہوتے ہیں.کبھی کبھی صلحاء الصلحاء ، بل في أكابر الأنقياء بلکہ اکابر اتقیاء اور اصفیاء کے تنازعات میں بھی والأصفياء ، وفي ذلك مصالح كين اور بغض پیدا ہو جاتا ہے.اور اس میں اللہ لله ربّ العالمين.رب العالمین کی مصلحتیں ہوتی ہیں.فكلما جرى فيهم أو لہذا جو کچھ بھی ان (صحابہ) کے درمیان خرج من فيهم، فيجب واقع ہوا یا ان کی زبانوں سے نکلا اسے بیان أن يُطْوَى لا أن يُروى کرنے کی بجائے اسے لپیٹ دینا ہی مناسب ہے
سر الخلافة ۸۳ اردو تر جمه ويجب أن يُفوَّض أمورهم إلى اور اُن کے اُن امور کو اللہ کے حوالہ کرنا جو کہ الله الذي هو ولى الصالحين صالحين كا متولی ہے واجب ہے.اس کی وقد جرت سُنته أنه يقضى بين سنت جاریہ یہی ہے کہ وہ صالحین کے الصالحين على طريق لا يقضى علیه درمیان ایسے طریق پر فیصلے فرماتا ہے جس قضايا الفاسقين، فإنهم كلّهم أحباؤه طريق پر وہ فاسقوں کے فیصلے نہیں فرمایا وكلهم من المحبين المقبولین، کرتا.کیونکہ وہ سب اس کے پیارے اور ولأجل ذلك أخبرنا ربنا عن اس کی بارگاہ میں محبوب اور مقبول ہیں.اس مآل نزاعهم وقال وهو لئے ہمارے رب نے جو اصدق الصادقین أصدق القائلين.وَنَزَعْنَا مَا فِي ہے ہمیں ان کے باہمی نزاع کے انجام کی صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٌ اِخْوَانًا عَلى نسبت یہ بتایا ہے کہ وَنَزَعْنَا مَا فِي سُرُرٍ مُتَقبِلِينَ.هذا هو الأصل صُدُورِهِمْ مِنْ غِلِ اِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ الصحيح، والحق الصريح، ملین سے یہ ہے وہ صحیح اصل اور صریح حق.ولكن العامة لا يُحققون فى أمر ليكن عامۃ الناس کسی معاملے میں اہلِ كأولي الأبصار، بل يقبلون بصیرت کی طرح تحقیق نہیں کرتے.بلکہ القصص بغض الأبصار ، ثم آنکھیں بند کر کے قصوں کو قبول کر لیتے ہیں.يزيد أحد منهم شيئا علی پھر ان میں سے کوئی ایک اصل منقول میں کسی الأصل المنقول، ويتلقاه الآخر قدر اضافہ کر دیتا ہے اور دوسرا اسے قبول کر بالقبول، ویزید علیہ شیئا لیتا ہے اور اپنی طرف سے اس میں کچھ اور آخر من عند نفسه، ثم يسمعه بڑھا دیتا ہے.اور پھر تیسرا بڑے اشتیاق ثالث بشدة حرصه فیؤمن به سے اسے سنتا اور اس پر ایمان لے آتا ہے ا اور ہم ان کے دلوں سے جو بھی کہتے ہیں نکال باہر کریں گے.وہ بھائی بھائی بنتے ہوئے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے.(الحجر: ۴۸)
سر الخلافة اردو تر جمه ويُلحق به حواشی أُخرى، اور اس پر وہ مزید حاشیہ آرائی کر دیتا ہے اور یہ وهلم جرا، حتى تستتر سلسله اسی طرح چلتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ پہلی الحقيقة الأولى، وتظهر حقيقة اصل حقیقت اوجھل ہو جاتی ہے اور ایک نئی قسم کی جديدة تخالف الحق الأجلى، حقیقت جو ظاہر و باہر حق کے سراسر خلاف ہوتی ہے وكذلك هلك الناس من ابھر آتی ہے اور اس طرح راویوں کی خیانتوں سے خيانات الراوين.لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں.وكم من حقيقة تسترت اور کتنی ہی حقیقتیں ہیں جو مستور ہو گئیں اور کئی واقعات وواقعات اختفت وقصص بُذلت، ہیں جو پردہ اخفا میں چلے گئے.اور کتنے قصے بدل وأخبار غيّرت وحرفت، و کم من گئے.اور کتنی روایات محرف و مبدل ہو گئیں اور کتنے مفتريات نسجت، وأمور زيدت افتراء گھڑے گئے اور کئی امور میں کمی و بیشی کی گئی.ونقصت، ولا تعلم نفس ما كانت اور یہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ ابتدا میں واقعہ کیا تھا اور واقعة أولا ثم ما صُيّرت وجعلت پھر وہ کیا سے کیا ہو گیا.اور اگر ابتدائی صحابہ، اہلِ ولو أُحيى الأولون من الصحابة بيت اور خیر البریہ (ع) کے اقربا (پھر سے) وأهل البيت وأقارب خير البرية، زندہ کر دئیے جائیں اور یہ سب قصے اُن کے سامنے وعُرضت عليهم هذه القصص، پیش کئے جائیں تو وہ حیران و ششدر ہو جائیں اور وہ لتعجبوا وحولقوا و استرجعوا من ان لوگوں کی مفتریات کے باعث لَا حَولَ وَلَا قُوَّة مفتريات الناس، ومما طوّلوا اور اناللہ پڑھیں کہ انہوں نے شیطانی وساوس الأمر من الوسواس الخنّاس کے زیر اثر اس معاملہ کو طول دیا.اور ایک قطرے کو وجعلوا قطرةً كبحر عظیم بحر بیکراں بنادیا اور ایک بوسیدہ ہڈی کے ذرہ کو وأروا كجبال ذرّةَ عظم رمیم پہاڑوں کی طرح دکھایا اور غافلوں کو مبتلائے فریب وجاء وا بكذب يخدع الغافلين کرنے کی غرض سے جھوٹ بول دیا.
سر الخلافة وم ۸۵ اردو ترجمہ والحق أن الــفــن قـــد حق بات یہ ہے کہ ازمنہ وسطی میں فتنوں تموجت في أزمنة ،وسطی میں ایک تموج پیدا ہوا اور وہ فتنے ایک تیز ست کتموج الريح آندھی اور بادِ صرصر کے ٹیند جھونکوں کی طرح العاصفة والصراصر العظمى موجزن ہوئے.افترا پردازوں کی کتنی ہی وكم من أراجيف المفترين غلط افواہیں تھیں جو سچے لوگوں کی خبروں کی قبلت كأخبار الصادقين، طرح قبول کی گئیں.اس لئے عقل سے کام فتَفطَنُ ولا تكن من لے اور جلد بازوں میں سے مت بن.المستعجلين.ولو أُعطيت | جو فیض اللہ نے ہمیں دیا ہے اگر اس میں.ممّا أفاض الله علينا کچھ حصہ بھی تجھے ماتا تو تو جو میں نے تجھے کہا لقبلت ما قلت لك وما ہے اُسے ضرور قبول کر لیتا اور اعراض کرنے كنت من المعرضين.والآن والوں میں سے نہ ہوتا اور اب مجھے معلوم نہیں لا أعلم أنك تقبله أو کہ تو اسے قبول کرے گا یا پھر منکروں میں تكون من المنکرین سے ہوگا.اور وہ لوگ کہ شیخین کی عداوت والذين كانت عداوة الشيخين جن کی روح کا جوہر ان کی فطرت کا جزو جوهر روحهم وجزء اور ان کی طبیعت کی عادت بن چکی ہے وہ طبيعتهم، و ديدن ،قريحتهم اس وقت تک ہماری بات نہیں مانیں گے لا يقبلون قولنا أبدا حتى جب تک کہ اللہ کا امر نہیں آ جاتا.اور خواہ يأتي أمر الله، ولا يصدقون ہزاروں کشوف بھی ہوں وہ ان کی تصدیق كشوفا ولو كانت ألوفا نہیں کریں گے.پس چاہیے کہ وہ اس وقت فليتربصوا زمانا یبدی ما کا انتظار کریں جواہل دنیا کے سینوں کے في صدور العالمين.اسرار کو ظاہر کر دے گا.
سر الخلافة ۸۶ اردو ترجمہ أيها الناس لا تظنوا ظن السوء اے لوگو! صحابہ کے متعلق بدظنی مت کرو.اور في الصحابة، ولا تُهلكوا أنفسكم اپنے آپ کو شبہات کے دشت و صحرا میں ہلاک نہ ۲۷ في بوادي الاسترابة، تلك أمة کرو.یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی.اور وہ قد خلت ولا تعلمون حقيقة حقیقت جو دور ہوگئی اور چھپ گئی تم اسے نہیں بعدت واختفت، ولا تعلمون ما جانتے اور نہ ہی اس سے آگاہ ہو جو اُن کے جرى بينهم، و كيف زاغوا بعد در میان گزرا.اور وہ کیسے کج راہ ہو سکتے ہیں جن کی ما نور الله عينهم، فلا تتبعوا ما آنکھیں اللہ نے روشن کیں.جس چیز کا تمہیں علم ليس لكم به علم واتقوا الله إن نہیں اس کے پیچھے مت لگو اور اگر تم جھکنے والے ہو كنتم خاشعين.وإن الصحابة تو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یقیناً سب صحابہ اور اہل وأهل البيت كانوا روحانیین بیت روحانی لوگ تھے اور انقطاع اور تبتل الی اللہ منقطعين إلى الله ومتبتلين، فلا کرنے والے تھے.اس لئے میں یہ کبھی بھی أقبل أبدا أنهم تنازعوا للدنيا تسلیم نہیں کرتا کہ وہ (صحابہ) حقیر دنیا کی خاطر الدنية، وأسر بعضُهم غِلَّ البعض باہم لڑنے جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے کے في الطوية، حتى رجع الأمر إلى متعلق دل میں اتنا کینہ رکھا.حتی کہ معاملہ باہمی تقاتل بينهم وفساد ذات البين جنگ، جدائی ڈالنے والے فساد اور کھلے کھلے عناد وعناد مبين.ولو فرضنا أن تک جا پہنچا.اور اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ الــصـديـق الأكبر كان من الذين صديق اكبر ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آثروا الدنيا وزخرفها، ورضوا دنیا اور اس کی رعنائیوں کو مقدم کیا اور ان پر بها وكان من الغاصبین، فنضطر راضی ہو گئے اور وہ غاصب تھے.تو ایسی صورت حينئذ إلى أن نقرّ أنّ عليَّا أسد میں ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ یہ اقرار الله أيضًا كان من المنافقین کریں کہ شیر خدا علی بھی منافقوں میں شامل تھے
سر الخلافة ۸۷ اردو تر جمه وما كان كما نخاله من المتبتلين؛ اور جیسا کہ ہم ان کے متعلق خیال کرتے ہیں وہ بل كان يكب على الدنيا ويطلب دنیا کو تیاگ کر اللہ سے کو لگانے والے نہ تھے زينتها، وكان في زخارفها من بلکہ وہ دنیا پر گرے ہوئے تھے اور اس کی زینت الراغبين.ولأجل ذلك ما فارق کے طالب تھے اور اس کی رعنائیوں کے فریفتہ الكافرين المرتدين، بل دخل فيهم تھے اسی وجہ سے آپ نے کافر مرتدوں کا ساتھ كالمداهنين، واختار التقية إلى نہ چھوڑا.بلکہ مداہنت اختیار کرنے والوں کی طرح مدة قريبة من ثلاثين.ثم لما كان ان میں شامل رہے اور قریباً تمہیں سال کی مدت الصديق الأكبر كافرا أو غاصبا في تك تقيه اختیار کئے رکھا.پھر جب صدیق اکبر أعين على المرتضى رضى الله علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضی کی نگاہ میں تعالى عنه وأرضى، فلِمَ رضى بان كا فريا غاصب تھے تو پھر کیوں وہ اُن کی بیعت پر يبايعه؟ ولم ما هاجر من أرض راضی ہوئے اور کیوں انہوں نے ظلم، فتنے اور الظلم والفتنة والارتداد إلى بلاد ارتداد كى سرزمین سے دوسرے ممالک کی جانب أخرى؟ ألم تكن أرض الله واسعة ہجرت نہ کی؟ کیا اللہ کی زمین اتنی فراخ نہ تھی کہ فيهاجر فيها كما هي سُنّة ذوی وہ اس میں ہجرت کر جاتے جیسا کہ یہ تقویٰ التقى؟ انظر إلى إبراهيم الذى شعاروں کی سنت ہے.وفا شعار ابراہیم کو وقي.كيف كان في شهادة دیکھو کہ وہ حق کی شہادت میں کیسے شدید الحق شديد القوى، فلمّا القویٰ تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ اُن کا رأى أن أباه ضل ،وغوی و رأی باپ گمراہ ہو گیا اور راہِ حق سے بھٹک گیا ہے القوم أنهم يعبدون الأصنام اور یہ دیکھا کہ ان کی قوم بتوں کو پوج رہی ہے ويتركون الرب الأعلى، أعرض اور وہ ربّ اعلیٰ کو چھوڑ بیٹھے ہیں تو انہوں نے عنهم وما خاف وما بالی ان سے اعراض کر لیا اور نہ ڈرے اور نہ پرواہ کی.
سر الخلافة ۸۸ اردو تر جمه وأُدخل في النار وأوذي من وہ آگ میں ڈالے گئے اور شریروں کی طرف الأشرار، فما اختار التقيّة خوفا سے ایذاء دیئے گئے لیکن انہوں نے ان من الأشرار.فهذه هي سيرة شریروں کے خوف سے تقیہ اختیار نہ کیا.یہ الأبرار، لا يخافون السيوف ہے نیکو کاروں کی سیرت کہ وہ شمشیر و سناں ولا السنان، ويحسبون التقية سے نہیں ڈرتے اور وہ تقیہ کو گناہ کبیرہ اور من كبائر الإثم والفواحش بے حیائی اور تعدی تصور کرتے ہیں.اگر ان والعدوان، وإن صدرت شمّةٌ میں سے بطور لغزش ایک ذرہ بھی صادر منها كمثل ذلّة فيرجعون إلى ہو جائے تو وہ استغفار کرتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں.الله مستغفرين.ونعجب من علي رضی الله ہمیں تعجب ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جانتے عنه كيف بايع الصديق ہوئے بھی کہ صدیق اور فاروق کا فر ہو گئے ہیں اور والفاروق، مع علمه بأنهما قد انہوں نے حقوق تلف کئے ہیں، ان کی کیسے بیعت كفرا وأضاعا الحقوق، ولبث کرلی.وہ (علی) لمبی عمر دونوں کے ساتھ رہے اور فيهما عمرًا واتبعهما إخلاصا پورے اخلاص اور عقیدت سے ان دونوں کی اتباع وعقيدة، وما لغب وما وهَن وما أرى کی اور اس میں ) نہ وہ تھکے اور نہ کمزوری دکھائی اور كراهة، وما اضمحلت الداعية، نہ ہی کسی قسم کی کراہت کا اظہار کیا.نہ کوئی اور وجہ وما منعته التقاة الإيمانية، مع أنه آڑے آئی اور نہ ہی آپ کے ایمانی تقوی نے آپ كان مطلعا على فسادهم و کفر هم کو اس سے روکا.بایں ہمہ کہ آپ ان حضرات وارتدادهم، وما كان بينه وبين كے فساد، کفر اور ارتداد سے آگاہ تھے اور آپ کے اور کے أقوام العرب بابا مسدودًا و حجابا اقوام عرب کے درمیان نہ کوئی بند دروازہ تھا اور نہ ہی ممدودًا وما كان من المسجونين کوئی بڑی روک اور نہ ہی آپ قیدیوں میں سے تھے.
سر الخلافة ۸۹ اردو ترجمہ وكان واجبـا عـلـيـه أن يُهاجر اور آپ پر یہ واجب تھا کہ آپ کسی دوسرے إلى بعض أطراف العرب عرب علاقے اور شرق اور غرب کے کسی حصے والشرق والغرب ويحث کی جانب ہجرت فرما جاتے.اور لوگوں کو الناس على القتال ويهيج جنگ پر اُکساتے اور بادیہ نشینوں کو لڑائی الأعراب للنضال، ويُسخر هم پر جوش دلاتے اور فصاحت بیانی سے انہیں بفصاحة المقال ثم يقاتل مطیع بنا لیتے اور پھر مرتد ہونے والے لوگوں (۲۸ قوما مرتدين.سے جنگ کرتے.وقد اجتمع على المسيلمة مسیلمہ کذاب کے گرداند از ا ایک لاکھ بادیہ الكذاب زهاء مائة ألف نشین جمع ہو گئے تھے.جبکہ علی اس مدد کے من الأعراب، وكان على أحق زيادہ حقدار تھے اور اس مہم جوئی کے لئے زیادہ بهذه النصرة، وأولى لهذه مناسب تھے.پھر کیوں آپ نے دونوں الهمة، فلم اتبع الكافرین کافروں کی اتباع کی اور اُن سے محبت کا اظہار ووالى وقعد کالکسالی و ما کیا اور سُست لوگوں کی طرح بیٹھے رہے اور قام كالمجاهدين؟ فأى مجاہدوں کی طرح اٹھ کھڑے نہ ہوئے.وہ أمر منعه من هذا الخروج کون سی بات تھی جس نے آپ کو اقبال و مع إمارات الإقبال والعروج ؟ عروج کی تمام علامات ہوتے ہوئے بھی اس ولم ما نهض للحرب والبأس | خروج سے روکے رکھا.آپ جنگ و جدل اور وتأييد الحق ودعوة الناس ؟ حق کی تائید اور لوگوں کو دعوت دینے کے لئے ألم يكن أفصح القوم وأبلغهم کیوں نہ اُٹھ کھڑے ہوئے.کیا آپ قوم کے في العظات ومن الذين ينفخون سب سے فصیح و بلیغ واعظ اور ان لوگوں میں الروح في الملفوظات؟ سے نہ تھے جو لفظوں میں جان ڈال دیتے ہیں؟
سر الخلافة اردو تر جمه فما كان جمع الناس عنده إلا اپنی بلاغت اور حسن بیان کے زور سے اور سامعین فعل ساعة، بل أقل منها لقوة کے لئے اپنی پرکشش تاثیر سے لوگوں کو اپنے گرد بلاغة وبراعة، وتأثير جاذب جمع کر لینا آپ کے لئے محض ایک گھنٹے بلکہ اس للسامعين ولما جمَعَ الناس سے بھی کم تر وقت کا کام تھا.جب ایک کاذب الكاذب الدجال فكيف أسد الله رجال نے لوگوں کو جمع کر لیا تو شیر خدا جس کا تائید الذي كان مؤيده الربّ الفعّال کرنے والافعال رب تھا اور جو رب العالمین وكان محبوب رب العالمين.کا محبوب تھا کیوں نہ کر سکا.ثم من أعجب العجائب وأظهر پھر عجیب تر اور حیران کن بات یہ ہے کہ آپ الغرائب أنه ما اكتفى على أن يكون نے صرف مبایعین میں سے ہونے پر ہی اکتفا من المبايعين، بل صلی خلف نہیں کیا، بلکہ ہر نماز شیخین (ابوبکر اور عمر) کے الشيخين كل صلاة، وما تخلف پیچھے ادا کی اور کسی وقت بھی اس میں تخلف نہ کیا في وقت من أوقات، وما أعرض اور نہ ہی شکوہ کرنے والوں کی طرح اس سے كالشاكين.ودخل فی شوراهم اعراض کیا.آپ ان کی شوریٰ میں شامل ہوئے و صدق دعواهم، وأعانهم فى اور ان کے دعوے کی تصدیق کی اور ہر معاملہ كل أمر بجهد همته وسعة میں اپنی پوری ہمت اور مقدور بھر طاقت سے ان طاقته، وما كان من المتخلفین کی مدد کی اور پیچھے رہنے والوں میں سے نہ فانظر أهذا من علامات ہوئے.پس غور کر کہ کیا ستم رسیدوں اور مکفروں الملهوفين المکفرین؟ و انظر کی یہی نشانیاں ہوتی ہیں؟ اور اس پر بھی غور کر كيف اتبع الكاذبين مع علمه که کذب و افترا کا علم ہونے کے باوجود وہ بالكذب والافتراء كأن الصدق ( على ) كيونکر کا ذبوں کی اتباع کرتے رہے.والكذب كان عنده كالسواء.گویا که صدق و کذب اُن کے نزدیک یکساں تھے
سر الخلافة ۹۱ اردو تر جمه ألم يعلم أن الذين يتوكلون علی کیا آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ جو لوگ قادر و توانا قدير ذى القدرة لا يؤثرون طريق ذات پر توکل کرتے ہیں وہ ایک لحظہ کے لئے بھی پر المداهنة طرفة عين ولو مداہنت کی راہ کو اہمیت نہیں دیتے خواہ وہ کتنے ہی بالكراهة، ولا يتركون الصدق مجبور ہوں اور وہ صدق کو نہیں چھوڑتے خواہ صدق ولو أحرقهم الصدق وألقاهم إلى انہیں جلا دے، اور انہیں ہلاکت میں ڈال دے، التهلكة وجعلهم عضين؟ اور انہیں پارہ پارہ کر دے.وإن الصدق مشرب الأولياء، سچائی اولیاء کا مشرب اور اصفیاء کی علامات ومن علامات الأصفياء ، ولكن میں سے ہے.لیکن (علی) مرتضیٰ نے اس المرتضى ترك هذه السجيّة، خصلت کو ترک کر دیا اور اپنی ذات کے لئے تقیہ ونحت لنفسه التقية، واتبع طريقا تراش لیا اور ذلیل راہ اختیار کی اور کافروں کے ذليلا، وكان يحضر فناء الكافرين آنگن میں صبح و شام حاضری دیتے رہے اور وہ بكرة وأصيلا، وكان من المادحين.مدح سراؤں میں رہے.کیوں نہ آپ نے نبی وهلا اقتدى بنبي الثقلين أو ثقلین کی اقتدا کی یا حسین کی شجاعت دکھائی شجاعة الحسين و اتخذ طریق اور حیلہ سازوں کا طریق اختیار کیا؟ میں اللہ کی المحتالين ؟ و أنشدك الله أهذا قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ صفات ان من صفات الذين تطهرت لوگوں کی ہوسکتی ہیں جن کے دل بزدلی اور قلوبهم من رجس الجبن مداہنت کے گند سے پاک ہوں اور جن کا والمداهنة، وأعطاهم إيمانهم ايمان دل و جان کو قوت بخشتا ہو اور جو ہر نفاق قوة الجنان والمهجة وزكوا من اور مداہنت سے پاک صاف ہوں اور وہ كل نفاق ومداهنة، وخافوا ربهم جو صرف اپنے رب سے ڈرتے ہوں.اس وفرغوا بعده من كل خشية؟ ذات کے سوا دوسرے ہر خوف سے خالی ہوں.
سر الخلافة ۹۲ اردو تر جمه كلا بل هذه الصفات توجد في ہرگز نہیں بلکہ یہ صفات تو ان لوگوں میں پائی جاتی قوم آثروا الأهواء على حضرة ہیں جنہوں نے رب العزت پر اپنی خواہشات نفس العزة ، وقدموا الدنيا علی کو مقدم کیا ہوتا ہے اور آخرت پر دنیا کو ترجیح دی الآخرة ، وما قدروا الله حق ہوتی ہے جنہوں نے اللہ کی کما حقہ قدر نہیں کی اور (۲۹) قدره، وما استناروا من بدرہ، نہ انہوں نے اس کے بدر کامل ( محمد مصطفیٰ) کے وما كانوا مخلصين.وإني نور سے روشنی پائی اور وہ مخلص نہیں تھے.اور میرا عاشرت الخواص والعوام، میل جول خواص و عام سے رہا ہے.اور میں نے ورأيت كل طبقة من الأنام، ہر طبقہ کے لوگوں کو دیکھا ہے.لیکن میں نے تقیہ ولكني ما رأيت سيرة التقية اور حق و صداقت کو مخفی رکھنے کی سیرت صرف ان وإخفاء الحق والحقيقة إلا فی لوگوں میں دیکھی ہے جو خدائے رب العزت سے الذين لا يبالون علاقة حضرة تعلق رکھنے کی پرواہ نہیں کرتے.اللہ کی قسم میرا العزة و والله لا ترضى نفسی نفس ایک لحظہ کے لئے بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ میں لطرفة عين أن أداهن في الدين | دین کے معاملہ میں مداہنت کروں خواہ چُھری.ولو قطعتُ بالسكين، وكذلك میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں.اسی طرح كل من هداه الله فضلا ورحما، بروه شخص جسے اللہ نے اپنے فضل ورحم سے ہدایت ہر ورزق من الإخلاص رزق دی ہو اور جسے اخلاص سے رزق حسن عطا کیا گیا ہو حسنا، فلا يرضى بالنفاق وسير کبھی نفاق اور منافقوں کے اطوار کو پسند نہ کرے المنافقين.أما قرأت قصة قوم گا.کیا تم نے ان لوگوں کا واقعہ نہیں پڑھا جنہوں اختاروا الموت على حياة نے مداہنت کی زندگی پر موت کو اختیار کیا اور المداهنة وما شاء وا أن يعيشوا ایک لحظہ کے لئے بھی پسند نہ کیا کہ وہ تقیہ کے طرفة عين بالتقية وقالوا ساتھ زندگی گزاریں اور وہ یہ دعا مانگتے رہے کہ
سر الخلافة ۹۳ اردو تر جمه رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ مُسْلِمِينَ.فيا حسرة علی پس شیعوں پر افسوس ہے کہ وہ سب سے تقویٰ الشيعة إنهم اجتر ؤوا على ذمّ شعار حضرت صدیق اکبر" کی منافرت کی وجہ المرتضى بما كان عندهم منسى على مرتضی * کی اس مذمت کرنے پر دلیر سے منافرة للصدّيق الأتقى، وهفت ہوئے ہیں اور اندھے تعصب کے باعث ان کی أحلامهم بتعصب أعمى عقلیں ماری گئیں.وہ روشن چراغ کے ہوتے يتعامون مع المصباح المتقد ہوئے بھی اندھے بن رہے ہیں اور وہ نقد و نظر ولا يتـأمـلـون تـأمـل المنتقد رکھنے والے شخص جیسی سوچ سے نہیں سوچتے.وإني أرى كلماتهم مجموعة میں ان کی باتوں کو شبہات کا مجموعہ اور ان کے ريب، وملفوظاتهم رجم غيب، الفاظ کو بے سروپا تصور کرتا ہوں اور ان کو محققین وما مسهم ريح المحققين.کی ہوا تک نہیں پہنچی.أيها الناظر في هذا الكتاب اے اس کتاب کو بنظر غائر پڑھنے والے! إن كنت من عشاق الحق اگر تو حق اور راست روی کا دلدادہ ہے.تو والصواب، فكفاك آية تیرے لئے حق کے تریاق کو حاصل کرنے الاستخلاف لتحصیل تریاق اور زہرِ ہلاہل سے بچنے کے لئے آیت الحق ودفع الذعاف، فإن استخلاف ہی کافی ہے.کیونکہ اس میں فيها برهانا قويا للمنصفين انصاف پسندوں کے لئے ایک قوی دلیل فلا تحسب الأخيار كأهل موجود ہے.پس نیک شعاروں کو فسادیوں فساد، ولا تُلحق هُودًا بعاد، جیسا خیال مت کر اور ہود علیہ السلام کو عاد سے مت وتَفكَّر لساعة كالمحققین ملا اور پل بھر کے لئے محققوں کی طرح سوچ.ا اے ہمارے رب ! ہم پر صبر انڈیل اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے.(الاعراف: ۱۲۷)
سر الخلافة ۹۴ اردو تر جمه و أنت تعلم أن الأنباء المستقبلة اور تم جانتے ہو کہ اللہ رحمن کی طرف سے مستقبل کی من الله الرحمن تكون كقضاة خبروں کی حیثیت اہلِ حق اور اہلِ عدوان کے لقضايا أهل الحق وأهل درمیان واقع قضیوں کے لئے قاضیوں کی سی ہوتی العدوان، أو كجنود الله لفتح ہے یا پھر اللہ کے لشکروں کی سی ہوتی ہے جو بغاوت بلاد البغي والطغيان، فتُفرّج اور سرکشی کے ملکوں کو سر کرنے کے لئے مقرر ہیں.ضيق المشکلات بکراتِها، جو اپنے حملوں کی قوت سے مشکلات کی تنگی کو فراخی حتى يُرى ما كان ضنگا رحیبًا میں بدل دیتے ہیں.یہاں تک کہ ان کی دعا کی بقوّة صلاتها، فتبارز هذه الأنباء قوت سے تنگی ، فراخی دکھائی دینے لگتی ہے.پھر یہ كل مناضل برمح خضیب خبریں خون آلود نیزے سے ہر مقابل کا مقابلہ تى تقود إلى اليقين كل کرتی ہیں.یہاں تک کہ وہ ہر شک و شبہ میں مبتلا مرتاب ومريب، وتقطع معاذير شخص کو یقین کی طرف لے آتی ہیں اور معترضین المعترضين.وكذلك وقعت کے عذروں کو کاٹ کر رکھ دیتی ہیں.اور آیتِ آية الاستخلاف، فإنها تدع استخلاف بھی کچھ ایسی ہی واقع ہوئی ہے کیونکہ یہ كل طاعن حتى ينثنى عن آیت ہر طعنہ زن کو دھکا دیتی ہے یہاں تک کہ موقف الطعن والمصاف میدان کارزار اور رزمگاہ سے اُس کا رُخ پھر جاتا وتظهر الحق على الأعداء ولو ہے اور دشمنوں پر حق کو غالب کر دیتی ہے خواہ وہ كانوا كارهين.فإن الآية تُبشر اسے نا پسند ہی کر رہے ہوں.پس یقیناً یہ آیت الناس بأيام الأمن والاطمينان لوگوں کو ظلم و زیادتی اور سرکشی کرنے والوں کے خوف بعد زمن الخوف من أھل کے زمانے کے بعد امن واطمینان کے دنوں کی الاعتساف والعدوان، ولا يصلح بشارت دیتی ہے اور اس کا کامل مصداق ہونے لمصداقيتها إلا خلافة الصديق | كى صلاحیت صرف خلافت صدیق ہی رکھتی ہے
سر الخلافة 6 ۹۵ اردو تر جمه كما لا يخفى على أهل التحقيق.جیسا کہ یہ امر اہلِ تحقیق سے مخفی نہیں کیونکہ حضرت فإن خلافة على المرتضى ما كان على مرتضیٰ کی خلافت اس عروج، رفعت اور اعلیٰ مصداق هذا العروج والعُلى کامیابی کی مصداق نہیں ہو سکتی، بلکہ (علی کی والفوز الأجلى، بل لم یزل خلافت کے دشمنوں نے اس کی قوت کو اور اُس تبتزها عداها ما فيه من قوة کی تلواروں کی کاٹ کو سلب کرلیا تھا اور اسے وحدة مداها ، وأسقطوها في گہرے گڑھے میں دے پھینکا اور اخوت کے حق کو هوة وتركوا حق أُخوة، حتى چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس کی حالت ایسے گھر کی أصاروها كبيت أوهن من بيت طرح بنادی جو مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور العنكبوت، وتركوا أهلها ہو اور انہوں نے اہلِ خلافت کو حیران و پریشان کر كالمتحيّر المبهوت ولا شك دیا.اور اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ حضرت علی أن عليا كان نجعةَ الرُوّاد وقدوة متلاشيان (حق) کی امید گاہ اور سنیوں کا بے مثال الأجواد، وحجة الله علی العباد، نمونہ اور بندگان (خدا) کے لئے حجتہ اللہ تھے.نیز ۳۰ وخير الناس من أهل الزمان، اپنے زمانے کے لوگوں میں بہترین انسان اور ونور الله لإنارة البلدان ، ولكن ملکوں کو روشن کرنے کے لئے اللہ کے نور تھے.لیکن أيام خلافته ما كان زمن الأمن آپ کی خلافت کا دور امن و امان کا زمانہ نہ تھا بلکہ والأمان، بل زمان صراصر فتنوں اور ظلم وتعدی کی تند ہواؤں کا زمانہ تھا.الفتن والعدوان.وكان الناس عوام الناس آپ کی اور ابن ابی سفیان کی خلافت يختلفون في خلافته و خلافہ کے بارے میں اختلاف کرتے تھے اور ان دونوں ابن أبي سفيان، وكانوا ينتظرون کی طرف حیرت زدہ شخص کی طرح ٹکٹکی لگائے إليهما كحيران، وبعضهم بیٹھے تھے.اور بعض لوگ ان دونوں کو آسمان کے حسبوهما كفَرُقَدَى سماء فرقد نامی دوستاروں کی مانند تصور کرتے تھے.
سر الخلافة ۹۶ اردو ترجمہ فضل وكزَندَينِ في وعاء.والحق أن اور دونوں کو درجہ میں ہم پلہ سمجھتے تھے.لیکن سچ یہ الحق كان مع المرتضى، ومن ہے کہ حق ( علی ) مرتضی کے ساتھ تھا.اور جس نے قاتله في وقته فبغی و طغی آپ کے دور میں آپ سے جنگ کی.تو اس نے ولكن خلافته ما كان مصداق بغاوت اور سرکشی کی.لیکن آپ کی خلافت اس امن الأمن المبشر به من الرحمن کی مصداق نہ تھی جس کی بشارت خدائے رحمن کی بل أو ذى المرتضى من الأقران، طرف سے دی گئی تھی.بلکہ (حضرت علی ) مرتضی و دیست خلافته تحت أنواع کو ان کے مخالفوں کی طرف سے اذیت دی گئی اور الفتن وأصناف الافتنان، وكان آپ کی خلافت مختلف قسم اور طرح طرح کے فتنوں الله عليه عظيما، ولكن کے نیچے پامال کی گئی.آپ پر اللہ کا بڑا فضل تھا لیکن عـاش مـحـزونا و أليما، و ما قدر زندگی بھر آپ غم زدہ اور دلفگار رہے اور پہلے خلفاء على أن يشيع الدين ويرجم کی طرح دین کی اشاعت اور شیطانوں کو رجم الشياطين كالخلفاء الأولين، بل کرنے پر قادر نہ ہو سکے بلکہ آپ کو قوم کی طعن زنی ما فرغ عن أسنّة القوم ، ومُنع من سے ہی فرصت نہ ملی اور آپ کو ہر اِرادے اور كل القصد والرَّوُم.وما ألبوه خواہش سے محروم کیا گیا.وہ آپ کی مدد کے لئے بل أضبوا على إكثار الجور، و ما جمع نہ ہوئے بلکہ آپ پر پیہم ظلم ڈھانے پر یکجا ہو عدوا عن الأذى بل زاحموه گئے.اور اذیت دینے سے باز نہ آئے بلکہ آپ کی وقعدوا في المور، وكان صبورا مزاحمت کی.اور ہر راستے میں بیٹھے اور آپ بہت ومن الصالحين فلا يمكن صابر اور صالحین میں سے تھے.مگر یہ ممکن نہیں کہ أن نجعل خلافته مصداق ہم ان کی خلافت کو اس (آیت استخلاف والی ) هذه البشارة، فإن خلافته كانت في بشارت کا مصداق قرار دیں.کیونکہ آپ کی خلافت أيام الفساد والبغي والخسارة، فساد، بغاوت اور خسارے کے زمانے میں تھی
سر الخلافة ۹۷ اردو ترجمہ وما ظهر الأمن في ذلك الزمن، اور اس دور میں امن ظاہر نہ ہوا.بلکہ امن بل ظهر الخوف بعد الأمن، کے بعد خوف ظاہر ہوا.اور فتنے شروع وبدأت الفتن، وتواترت المحن ہوئے.اور لگا تار مصائب آئے اور اسلام وظهرت اختلالات فی نظام کے نظم ونسق میں اختلال ظاہر ہوا اور الإسلام، واختلافات في أُمّة خير خير الا نام ﷺ کی امت میں اختلافات الأنام، وفتحت أبواب الفتن، نمودار ہوئے.اور فتنوں کے دروازے اور وسدد الحقد والضغن، وكان في حسد اور کینے کی راہیں کھل گئیں.اور ہر نئے كل يوم جدید نزاع قوم جدید روز قوم کا نیا جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا ، زمانے کے وكثرت فتن الزمن، وطارت فتنوں کی بہتات ہوگئی اور امن کے پرندے طيور الأمن ، وكانت المفاسد اڑ گئے.اور مفاسد میں جوش پیدا ہوا اور فتنے هائجة، والفتن مائجة ، حتى قتل موجزن ہو گئے.یہاں تک کہ سید المظلومین الحسين سيد المظلومين.حسین قتل کر دئیے گئے.ومن تظنّى أن الخلافة كان اور جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ خلافت اللہ أمرًا روحانيا من الله ربّ پروردگار عالم کی جانب سے ایک روحانی العالمين، وكان مصداقه معاملہ تھا اور پہلی گھڑی سے ہی حضرت علی المرتضى من أوّل الحين مرتضیٰ اس کے مصداق تھے لیکن انہوں نے ولكنه أنف و استحى أن يجادل شرم وحیا کی وجہ سے یہ پسند نہ کیا کہ وہ ظالم قوم قوما ظالمين، فهذا عذر قبیح سے جھگڑا مول لیں.تو ایسا خیال ایک عذر قبیح وما يتلفظ به إلا وقیح، بل ہے اور ایک بے حیا شخص ہی ایسی بات منہ پر الحق الذى يجب أن يُقبل لا سکتا ہے.ہاں وہ حق جس کا قبول کرنا واجب والصدق الذى لزم أن يُتقبل ہے اور وہ سچائی جسے تسلیم کرنا لازمی ہے.
۳۱ سر الخلافة ۹۸ اردو ترجمہ هو أن مصداق نبأ الاستخلاف ھو وہ یہ ہے کہ استخلاف کی پیشگوئی کا مصداق وہی الذي كان جامع هذه الأوصاف، شخص ہے جو ان تمام صفات کا جامع ہو اور جس وثبت فيه أنه فتح على المسلمین کے متعلق یہ ثابت ہو چکا ہو کہ اس نے مسلمانوں پر أبواب أمن وصواب، ونجاهم من امن اور راستی کے در کھولے اور انہیں فتنوں اور فتن و عذاب، وفل عن الإسلام عذاب سے نجات دلائی اور اسلام کے دفاع میں حد كل ناب، وشمّر تشمير من ہر حملہ کرنے والے کے دانت توڑ دیئے اور اُس لا يألو جهدًا، وما لغب وما وهن شخص کی طرح کمر ہمت کسی جو اپنی جدوجہد میں حتى سوّى غورًا ونجدًا، وأعاد کوئی کمی نہیں چھوڑتا اور نہ ماندہ ہوا اور نہ ہی الله على يديه الأمن المفقود، کمزوری دکھائی یہاں تک کہ اس نے سب نشیب و والإقبال الموؤود، فكان الناس فراز کو ہموار کر دیا اور وہ امن جو مفقود ہو چکا تھا اور بعد خوفهم آمنين والأنباء وہ اقبال جو زندہ درگور ہو چکا تھا اسے اللہ نے اس المستقبلة إذا ظهرت علی کے ہاتھوں بحال کر دیا.اس طرح اپنے خوف کے صورها الظاهرة فصرفُها بعد لوگ پُر امن ہو گئے اور جب مستقبل کی إلى معنى آخر ظلم و فسق پیشگوئیاں اپنی ظاہری صورت پر ظاہر ہو جائیں تو بعد المشاهدة، فإن الظهور مشاہدہ کر لینے کے بعد ان کے دوسرے معنیٰ کرنا يشفى الصدور، ويهب اليقين ظلم اور فسق ہے کیونکہ ان کا ظہور سینوں کو شفا بخشتا ويلين الصخور، وإن فى فطرة اور يقين عطا کرتا ہے اور چٹانوں کو موم کر الإنسان أنه يُقدّم المشهود دیتا ہے.یہ چیز انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ على غيره من البيان، وهذا هو وہ مشاہدہ کو بیان پر مقدم کرتا ہے اور یہی عارفوں المعيار لذوى العرفان فانظُرُ کے لئے معیار ہے.اس لئے اس بات پر بھی أماط عن الإسلام وعثاءه، تو غور کر کہ کس نے اسلام سے مصائب کو دور کیا من
سر الخلافة ۹۹ اردو تر جمه وأعاده إلى نضرته وأزال ضراء ، اور اسے اُس کی رونق لوٹا دی اور اس کی مشکلات کا وأهلك المفسدين، وأباد ازالہ کیا اور مفسدوں کو تباہ اور مرتدوں کو ہلاک کیا المرتدين.ودعا إلى دين الله كل اور ہر بھگوڑے کو اللہ کے دین کی دعوت دی اور فار، وأراهم الحق بأنوار حتى بذریعہ انوار انہیں حق دکھایا یہاں تک کہ مسجد میں اكتظت المساجد بالراجعين رجوع کرنے والے لوگوں سے پُر ہو گئیں.اور وأحيا الأرض بعد موتها باذن رب رب العالمین کے اذن سے زمین کو اس کے مُردہ العالمين، وأزال حُمّى الناس مع ہو جانے کے بعد زندہ کیا اور لوگوں کے بخار کو رحـضـائه، ورحض درن البغى عوارض سمیت دور کیا اور بغاوت کی میل بشمول تکبر مع خيلا ئه بماء معين.کو پاک وصاف پانی سے دھوڈالا.ورحم الله الصديق، أحيا الإسلام اور اللہ صدیق (اکبر) پر رحمتیں نازل فرمائے کہ وقتل الزناديق، وفاض بمعروفه آپ نے اسلام کو زندہ کیا اور زندیقوں کو قتل کیا إلى يوم الدين.وكان بَكَاءًا ومن اور قیامت تک کے لئے اپنی نیکیوں کا فیضان المتبتلين.وكان من عادته جاری کر دیا.آپ بہت گریہ کرنے والے اور التضرع والدعاء والاطراح بين متبتل الی اللہ تھے اور تضرع، دعا اللہ کے حضور يدى المولى والبكاء والتذلل گرے رہنا، اس کے در پر گریہ و عاجزی سے على بابه، والاعتصام بأعتابه جھکے رہنا اور اس کے آستانے کو مضبوطی سے وكان يجتهد في الدعاء فی تھامے رکھنا آپ کی عادت میں سے تھا.آ السجدة ، ويبكى عند التلاوة، بحالت سجدہ دعا میں پورا زور لگاتے اور تلاوت ولا شك أنه فخر الاسلام کے وقت روتے تھے.آپ بلا شبہ اسلام والمرسلين.وكان جوهره اور مرسلین کے فخر ہیں.آپ کا جو ہر فطرت صلى الله قريبا من جوهر خير البرية خير البريه عل کے جو ہر فطرت کے قریب تر تھا.
سر الخلافة اردو تر جمه وكان أوّل المستعدين لقبول آپ نبوت کی خوشبوؤں کو قبول کرنے کے لئے نفحات النبوة، وكان أوّل مستعد لوگوں میں سے اول تھے.حاشر (ع) أكثر الذين رأوا حشرا رو حانیا من سے قیامت کی مانند جو حشر روحانی ظاہر ہوا آپ حاشر مثيل القيامة، وبدلوا اُس کے دیکھنے والوں میں سرفہرست تھے.اور ان الجلابيب المتدنسة بالملاحف لوگوں میں سے پہلے تھے جنہوں نے میل سے آٹی المطهرة، وضاهى الأنبياء فی چادروں کو پاک وصاف پوشاکوں سے تبدیل کر دیا النبيين.سير اور انبیاء کے اکثر خصائل میں انبیاء کے مشابہ تھے.ولا نجد فی القرآن ذکر ہم قرآن کریم میں آپ کے ذکر کے سوا کسی أحد من دون ذكره قطعا ویقینا اور ( صحابی ) کا ذکر بجز ظن و گمان کرنے والوں کے إلا ظن الظانين، والظن لا يُغنى ظن کے قطعی اور یقینی طور پر موجود نہیں پاتے اور ظن وہ من الحق شيئا ولا يروى قوما چیز ہے جو حق کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.طالبين.ومن عاداه فبينه و بین اور نہ ہی وہ ( حق کے متلاشیوں کو سیراب کر سکتا الحق باب مسدود، لا ينفتح ہے.اور جس نے آپ سے دشمنی کی تو ایسے شخص اور أبدا إلا بعد رجوعه إلى سيّد حق کے درمیان ایک ایسا بند دروازہ حائل ہے جو کبھی الصديقين.ولأجل ذلك لا بھی صدیقوں کے سردار کی طرف رجوع کئے بغیر نہ نرى في الشيعة رجلا من کھلے گا.یہی وجہ ہے کہ ہم شیعوں میں کوئی شخص اولیاء الأولياء ، ولا أحدًا من زمر میں سے نہیں پاتے اور نہ ہی کسی ایک کو بھی زمرہ اتقیاء الأتقياء ، فإنّهم على أعمال میں پاتے ہیں یقیناً وہ ایسے اعمال پر قائم ہیں جو اللہ غير مرضية عند الله، وإنهم کے حضور غیر پسندیدہ ہیں اور پھر اس وجہ سے بھی کہ وہ يُعادون الصالحين.نیک لوگوں سے عداوت رکھتے ہیں.
سر الخلافة 1+1 اردو تر جمه كلام موجز في فضائل أبي بكر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وارضاه الصديق رضي الله عنه وأرضاه کے فضائل کے بارے میں مختصر کلام كان رضی الله عنه عارفا تام آپ رضی اللہ عنہ معرفتِ تامہ رکھنے والے المعرفة، حليم الخلق رحیم عارف باللہ ، بڑے حلیم الطبع اور نہایت مہربان الفطرة، وكان يعيش فی زی فطرت کے مالک تھے اور انکسار اور مسکینی کی الانكسار والغربة، وكان كثير وضع میں زندگی بسر کرتے تھے.بہت ہی عفو و العفو والشفقة والرحمة، درگزر کرنے والے اور مجسم شفقت و رحمت وكان يُعرف بنور الجبهة.تھے.آپ اپنی پیشانی کے نور سے پہچانے وكان شديـد التـعـلـق جاتے تھے ، آپ کا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ بالمصطفى، والتصقت روحه ے سے گہرا تعلق تھا اور آپ کی روح خیر بروح خير الورى، وغشية من الورى (ع) کی روح سے پیوست تھی اور النور ما غشى مقتداه محبوب جس نور نے آپ کے آقا و مقتدا محبوب خداً المولى، واختفى تحت کو ڈھانپا تھا اُسی نور نے آپ کو بھی ڈھانپا ہوا صلى الله شعشعان نور الرسول و فیوضه تھا اور آپ رسول اللہ ﷺ کے نور کے ۳۲) العظمى.وكان ممتازا من لطيف سائے اور آپ کے عظیم فیوض کے نیچے سائر الناس في فهم القرآن چھپے ہوئے تھے.اور فہم قرآن اور سید الرسل، وفي محبة سيد الرسل وفخر فخر بنی نوع انسان کی محبت میں آپ تمام نوع الإنسان.ولما تجلى له لوگوں سے ممتاز تھے.اور جب آپ پر النشأة الأخروية والأسرار الإلهية، أخر وى حيات اور الہی اسرار منکشف ہوئے نفض التـعـلـقــات الدنيوية، تو آپ نے تمام دنیوی تعلقات توڑ دیئے
سر الخلافة ۱۰۲ اردو تر جمه ونبذ العلق الجسمانية، وانصبغ اور جسمانی وابستگیوں کو پرے پھینک دیا اور آپ بصبغ المحبوب، وترك كل مُراد اپنے محبوب کے رنگ میں رنگین ہو گئے اور واحد للواحد المطلوب، و تجردت نفسه مطلوب ہستی کی خاطر ہر مراد کو ترک کر دیا اور تمام عن كدورات الجسد، وتلونت جسمانی کدورتوں سے آپ کا نفس پاک ہو گیا.اور بلون الحق الأحد، وغابت فی کے یگانہ خدا کے رنگ میں رنگین ہو گیا.اور ربّ مرضاة ربّ العالمين.وإذا تمكن العالمين کی رضا میں گم ہو گیا اور جب سچی الہی محبت الحب الصادق الإلهي من جميع آپ کے تمام رگ و پے اور دل کی انتہائی گہرائیوں عروق نفسه، وجذر قلبه وذرات میں اور وجود کے ہر ذرہ میں جاگزین ہوگئی.اور وجوده، وظهرت أنواره فى أفعاله آپ کے افعال و اقوال میں اور برخاست و نشست وأقواله وقيامه و قعودہ، سُمّی میں اس کے انوار ظاہر ہو گئے تو آپ صدیق کے صديقًا وأعطى علمًا غضا طريا نام سے موسوم ہوئے اور آپ کو نہایت فراوانی سے وعميقا، من حضرة خير الواهبين تروتازہ اور گہر اعلم ، تمام عطا کرنے والوں میں سے فكان الصدق له ملكة مستقرة بہتر عطا کرنے والے خدا کی بارگاہ سے عطا کیا گیا.وعادة طبعية، وبدئت فيه آثاره صدق آپ کا ایک راسخ ملکہ اور طبعی خاصہ تھا.وأنواره في كل قول وفعل، وحركة اور اس صدق کے آثار و انوار آپ میں اور آپ کے وسكون، وحواس وأنفاس ، وأُدخل بر قول وفعل،حرکت وسکون اور حواس وانفاس میں في الـمـنـعـمـين عليهم من رب ظاہر ہوئے.آپ آسمانوں اور زمینوں کے رب کی السماوات والأرضين.وإنه كان طرف سے منعم علیہ گروہ میں شامل کئے گئے.آپ نُسخة إجمالية من كتاب النبوة، كتاب نبوت کا ایک اجمالی نسخہ تھے.اور آپ وكان إمام أرباب الفضل ارباب فضیلت اور جوانمردوں کے امام تھے اور نبیوں والفتوة، ومن بقية طين النبيين.کی سرشت رکھنے والے چیدہ لوگوں میں سے تھے.
سر الخلافة ۱۰۳ اردو تر جمه رضی ولا تحسب قولنا هذا نوعا من تو ہمارے اس قول کو کسی قسم کا مبالغہ تصور نہ المبالغة ولا من قبيل المسامحة کر اور نہ ہی اسے نرم رویے اور چشم پوشی کی والتجوز، ولا من فور عين المحبة قسم سے محمول کر اور نہ ہی اسے چشمہ محبت بل هو الحقيقة التي ظهرت علی سے پھوٹنے والا سمجھ بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جو من حضرة العزة.وكان مشربه بارگاہ رب العزت سے مجھ پر ظاہر ہوئی.اور الله عنه التوكل على رب آپ رضی اللہ عنہ کا مشرب رب الا رباب پر الأرباب، وقلة الالتفات إلى توكل كرنا اور اسباب کی طرف کم توجہ کرنا الأسباب، وكان كظل لرسولنا تھا.اور آپ تمام آداب میں ہمارے رسول وسيدنا صلی الله علیه وسلم فی اور آقا علیہ کے بطور ظل کے تھے اور آپ کو جميع الآداب، وكانت له مناسبة حضرت خیر البریہ سے ایک ازلی مناسبت أزلية بحضرة خير البرية، ولذلك تھی.اور یہی وجہ تھی کہ آپ کو حضور کے فیض حصل له من الفيض في الساعة سے پل بھر میں وہ کچھ حاصل ہو گیا جو الواحدة ما لم يحصل للآخرين دوسروں کو لمبے زمانوں اور دور دراز اقلیموں في الأزمنة المتطاولة والأقطار میں حاصل نہ ہوسکا.تو جان لے کہ فیوض کسی المتباعدة.واعلم أن الفيوض لا شخص كى طرف صرف مناسبتوں کی وجہ سے تتوجه إلى أحد إلا بالمناسبات ہی رُخ کرتے ہیں.اور تمام کائنات میں وكذلك جرت عادة الله فى اسى طرح اللہ کی سنت جاری وساری ہے پس الكائنات، فالذى لم يعطه القسّام جس شخص کو قتام (ازل) نے اولیاء اور ذرة مناسبة بالأولياء والأصفياء ، اصفیاء کے ساتھ ذراسی بھی مناسبت عطا نہ کی فهذا الحرمان هو الذي يُعبر بالشقوة ہو تو یہی وہ محرومی ہے جسے حضرت کبریاء کی والشقاوة عند حضرة الكبرياء جناب میں شقاوت و بد بختی سے تعبیر کیا جاتا ہے.
سر الخلافة ۱۰۴ اردو ترجمه والسعيد الأتم الأكمل هو الذى اتم و اکمل خوش بخت وہی شخص ہے جس نے حبیب أحاط عادات الحبیب حتی خدا کی عادات کا احاطہ کیا ہو.یہاں تک کہ الفاظ، ضـاهـاه في الألفاظ والكلمات كلمات اور تمام طور طریقوں میں آپ سے والأساليب.والأشقياء لا مشابہت پیدا کر لی ہو.بد بخت لوگ تو اس کمال کو يفهمون هذا الكمال كالأكمه سمجھ نہیں سکتے جس طرح ایک پیدائشی اندھا رنگوں الذي لا يرى الألوان والأشكال، اور شکلوں کو دیکھ نہیں سکتا.ایک بد بخت کے نصیب ولا حظ للشقى إلا من تجلیات میں تو پُر رعب اور پُر ہیبت (خدا) کی تجلیات کے العظموت والهيبة، فإن فطرته سوا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اس کی فطرت رحمت کے لا ترى آيات الرحمة، ولا تشم نشانات نہیں دیکھ سکتی.اور جذب اور محبت کی ريح الجذبات والمحبّة، ولا خوشبو کو نہیں سونگھ سکتی اور یہ نہیں جانتی کہ خلوص، تدرى ما المصافاة والصلاح، خیر خواہی، اُنس اور فراخی قلب کیا ہیں.کیونکہ والأنس والانشراح، فإنها وه (فطرت ) تو ظلمات سے بھری پڑی ہے.پھر ممتلاة بظلمات، فكيف تنزل اس میں برکات کے انوار اتریں تو کیسے؟ بلکہ بها أنوار برکات؟ بل نفس بدبخت شخص کا نفس تو ایک تند و تیز آندھی کے الشقي تتموج تموج الريح تموج کی طرح موجیں مارتا ہے اور اس کے العاصفة، وتشغله جذباتها عن جذبات حق اور حقیقت دیکھنے سے اسے روکتے ۳۳ رؤية الحق والحقيقة، فلا ہیں.اس لئے وہ سعادت مندوں کی طرح يجيء كأهل السعادة راغبا في معرفت میں راغب ہوتے ہوئے (حق) کی المعرفة.وأما الصديق فقد خُلق طرف نہیں آتا.جبکہ صدیق کی تخلیق مبدء فیضان متوجها إلى مبدأ الفيضان کی طرف متوجہ ہونے اور رسول رحمن علی ومقبلا على رسول الرحمن کی طرف رُخ کرنے کی صورت میں ہوئی.
سر الخلافة ۱۰۵ اردو ترجمہ فلذلك كان أحق الناس | آر صفات نبوت کے ظہور کے تمام بحلول صفات النبوة، وأولى انسانوں سے زیادہ حق دار تھے اور حضرت بأن يكون خليفة لحضرة خير البريه علہ کے خلیفہ بننے کے لئے اولیٰ خيــر البــرية، ويتــحــد مـع تھے اور اپنے ممتبوع کے ساتھ کمال اتحاد اور متبوعـه ويــوافـقـه بأتم الوفاق، موافقت تامه استوار کرنے کے اہل تھے نیز ويكون له مظهرا فی یہ کہ وہ جملہ اخلاق، صفات و عادات اپنانے جميع الأخلاق والسير والعادة اور انفسی اور آفاقی تعلقات چھوڑنے میں وترك تعلقات الأنفس آپ کے ایسے کامل ) مظہر تھے کہ تلواروں والآفاق، ولا يطرأ عليه اور نیزوں کے زور سے بھی ان کے درمیان الانفكاك بالسيوف والأسنة، قطع تعلق واقع نہ ہو سکے.اور آپ اس ويكون مستقرا على تلك حالت پر ہمیشہ قائم رہے.اور مصائب اور الحالة ولا يزعجه شيء من ڈرانے والے حالات، نیز لعنت ملامت میں المصائب والتخويفات واللوم سے کچھ بھی آپ کو بے قرار نہ کر سکے.آپ واللعنة، ويكون الداخل فی کی روح کے جوہر میں صدق و صفا، ثابت جوهر روحه صدقا وصفاء قدمی اور تقوی شعاری داخل تھی.خواہ سارا وثباتا واتقاء ، ولو ارتد العالم جہاں مرتد ہو جائے آپ ان کی پرواہ نہ كله لا يُباليهم ولا يتأخر بل کرتے اور نہ پیچھے ہٹتے بلکہ ہر آن اپنا قدم يقدم قدمه كل حين.آگے ہی بڑھاتے گئے.ولأجل ذلك قَفَّى الله ذکر اور اسی وجہ سے اللہ نے نبیوں کے فوراً الصديقين بعد النبيين، وقال بعد صدیقوں کے ذکر کو رکھا اور فرمایا : فَأُوتيكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمُ فَأُوكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ
سر الخلافة اردو تر جمه مِنَ النَّبِينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ.وفى ذلك وَالصَّلِحِین یا اور اس (آیت) میں إشارات إلى الصديق وتفضيله صديق (اکبر) اور آپ کی دوسروں پر فضیلت على الآخرين، فإن النبی صلی کے اشارے ہیں.کیونکہ نبی ﷺ نے صحابہ الله عليه وسلم ما سمى أحدًا من میں سے آپ کے سوا کسی صحابی کا نام صدیق الصحابة صديقًا إلا إياه، ليُظهر نہیں رکھا تا کہ وہ آپ کے مقام اور عظمت شان مقامه وريّاه، فانظر کالمتدبّرین کو ظاہر کرے.لہذا غور وفکر کرنے والوں کی وفي الآية إشارة عظيمة إلى طرح غور کر.اس آیت میں سالکوں کے لئے مراتب الكمال وأهلها لقوم كمال کے مراتب اور ان کی اہلیت رکھنے والوں سالكين.وإنا إذا تدبرنا هذه كى جانب بہت بڑا اشارہ ہے.اور جب ہم الآية، وبلغنا الفكر إلى النهاية نے اس آیت پر غور کیا اور سوچ کو انتہا تک پہنچایا فانكشف أن هذه الآية أكبر تو يه منکشف ہوا کہ یہ آیت ( ابوبکر صدیق کے شواهد کمالات الصديق، وفيها كمالات پر سب سے بڑی گواہ ہے اور اس میں سر عميق ينكشف علی کل من ایک گہرا راز ہے جو ہر اس شخص پر منکشف يتمايل على التحقيق.فإن أبا ہوتا ہے جو تحقیق پر مائل ہوتا ہے.پس ابو بکر وہ بكر سُمّى صديقًا على لسان ہیں جنہیں رسول مقبول (ع) کی زبان الرسول المقبول، والفرقان (مبارک) سے صدیق کا لقب عطا کیا گیا الحق الصدّيقين بالأنبياء كما اور فرقانِ حمید) نے صدیقوں کو انبیاء کے لا يخفى على ذوى العقول، ساتھ ملایا ہے جیسا کہ اہلِ عقل پر پوشیدہ نہیں.لے تو یہی وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے(یعنی) نبیوں میں سے،صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے.(النساء:۷۰)
سر الخلافة اردو تر جمه ولا نجد إطلاق هذا اللقب اور ہم صحابہ میں سے کسی ایک صحابی پر بھی اس والخطاب على أحد من لقب اور خطاب کا اطلاق نہیں پاتے اس طرح الأصحاب، فثبت فضيلة صديق امین کی فضیلت ثابت ہو گئی.کیونکہ الصديق الأمين، فإن اسمه ذكر نبیوں کے بعد آپ کے نام کا ذکر کیا گیا ہے.بعد النبيين.فانظر بالإنابة اس لئے رجوع الی اللہ کے ساتھ غور کر اور وفارق غشاوة الاسترابة، فإن شک کے پردے کو چھوڑ دے! کیونکہ مخفی اسرار الأسرار الخفية مطوية فى قرآن کے اشارات میں لیٹے ہوئے ہیں اور إشارات القرآن، ومن قرأ جو بھی قرآن پڑھتا ہے وہ اس کے معارف القرآن فابتلع كل المعارف حاصل کرتا ہے اگر چہ اس کی وجدانی حس اُن ولو ما أحستها بحاسة کا پورا ادراک نہ کرے اور یہ حقائق بے نقاب الوجدان.وتنكشف هذه ہو کر عارفوں کے دلوں پر منکشف ہوتے ہیں.الحقائق متجردةً عن الألبسة اس لئے کہ اہلِ معرفت بارگاہِ ربّ العزت على نفوس ذوی العرفان، فإن میں گر جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی أهل المعرفة يسقطون بحضرة روح ایسے دقائق پالیتی ہے کہ سب جہانوں میں العزة، فتمس روحهم دقائق لا سے کوئی ایک بھی اسے پا نہیں سکتا.غرض ان تمسها أحد من العالمین کے کلمات ہی اصل کلمات ہوتے ہیں.اس فكلماتهم كلمات، ومن دونها کے سوا تو سب خرافات ہوتی ہیں.ہاں وہ خرافات، ولكنهم يتكلمون اعلى اشاروں کے ساتھ کلام کرتے ہیں یہاں ނ بأعلى الإشارة حتى يتجاوزون تک کہ وہ دوسرے ناظرین کی حدِ نظر - نظر النظارة، فيُكفّرهم كل بالا ہوتے ہیں اس لئے ہر نبی عبارت کے غبى من عدم فهم العبارة.عدم فہم کی وجہ سے انہیں کافر ٹھہراتا ہے.
سر الخلافة اردو ترجمہ فإنهم قوم منقطعون لا پس یہ لوگ خدا کی ذات میں ایسا کھوئے ہوئے يشابههم أحد ولا يشابهون ہوتے ہیں کہ نہ تو کوئی ان کا مشابہ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ أحدا، ولا يعبدون إلا کسی کے مشابہ ہوتے ہیں.وہ صرف خدائے واحد کی أحدًا، ولا ينظرون إلى عبادت کرتے ہیں اور کھیل کود کر نے والوں کی طرف المتلاعبين كفلهم الله دیکھتے تک نہیں.اللہ ان کا اسی طرح کفیل ہو جاتا ہے ۳۴ کرجل كفل یتیما، جیسے کوئی شخص یتیم کی کفالت کرتا ہے اور اُسے دودھ ففوّضه إلى مرضعة پلانے والی عورت کے سپر د کر دیتا ہے.یہاں تک کہ سار فطيما، ثم وہ دودھ چھوڑنے کی عمر کو پہنچ جاتا ہے.پھر وہ اس کی رباه وعلمه تعلیما، پرورش کرتا اور اچھی طرح تعلیم دلاتا ہے اور پھر اسے ثم جعله وارث ورثائه اپنے وارثوں میں سے ایک وارث بنالیتا ہے اور اس پر ومن عليه منا عظيما، بڑا احسان کرتا ہے.پس بہت ہی برکت والا ہے اللہ فتبارك الله.خير المحسنين | جوسب احسان کرنے والوں سے بڑھ کر حسن ہے.فی فضائل علی رضی الله حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کے عنه اللهم وال من والاه | بارے میں.اے اللہ ! جو اُن سے دوستی ـادِ مَن عاداہ رکھتا ہے تو اُس سے دوستی رکھ اور جو اُن سے دشمنی کرتا ہے تو اس سے دشمنی کر.كان رضی اللہ عنہ تقیا آپ رضی اللہ عنہ تقوی شعار، پاک باطن نقيا ومن الذين هم أحب اور ان لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمان الناس إلى الرحمان کے ہاں سان کے ہاں سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں.
سر الخلافة 1+9 اردو تر جمه ومـن نـخــب الـجيل وسادات اور آپ قوم کے برگزیدہ اور زمانے کے الزمان أسد الله الغالب وفتی سرداروں میں سے تھے.آپ خدائے غالب الله الحنان، ندى الكف، طیب کے شیر، خدائے مہربان کے جوانمرد، سخی، پاک الجنان.وكان شجاعا وحيدًا لا دل تھے.آپ ایسے منفرد بہادر تھے جو میدان يُزايل مركزه فی المیدان ولو جنگ میں اپنی جگہ نہیں چھوڑتے خواہ ان کے قابله فوج من أهل العدوان أنفد مقابلے میں دشمنوں کی ایک فوج ہو.آپ نے العمر بعيش أنكد وبلغ النهاية ساری عمر تنگدستی میں بسر کی اور نوع انسانی کے في زهادة نوع الإنسان.وكان مقامِ زُہد کی انتہا تک پہنچے.آپ مال و دولت أوّل الرجال في إعطاء النشب عطا کرنے ، لوگوں کے ہم وغم دور کرنے اور وإماطة الشجب وتفقد اليتامى قتیموں، مسکینوں اور ہمسایوں کی خبر گیری کرنے والمساكين والجيران.وكان میں اول درجے کے مرد تھے.آپ نے جنگوں يجلّى أنواع بسالة في معارك میں طرح طرح کے بہادری کے جوہر دکھائے وكان مظهر العجائب في هيجاء تھے.تیر اور تلوار کی جنگ میں آپ سے حیرت السيف والسنان.ومع ذلك انگریز واقعات ظاہر ہوتے تھے.اس کے ساتھ كان عذب البیان فصیح اللسان ساتھ آپ نہایت شیریں بیان اور فصیح اللسان وكان يدخل بيانه في جذر بھی تھے.آپ کا بیان دلوں کی گہرائی میں اتر القلوب ويجلو به صدأ الأذهان، جاتا اور اس سے ذہنوں کے زنگ صاف ہو ويجلي مطلعه بنور البرهان جاتے اور برہان کے نور سے اس کا چہرہ دمک وكان قادرا على أنواع جاتا.آپ قسم قسم کے انداز بیان پر قادر تھے اور الأسلوب، ومن ناضله فيها جو آپ سے ان میں مقابلہ کرتا تو اسے ایک فاعتذر إليه اعتذار المغلوب.مغلوب شخص کی طرح آپ سے معذرت کرنا پڑتی.
سر الخلافة 11.اردو تر جمه وكان كاملا في كل خير وفي | آپ ہر خوبی میں اور بلاغت و فصاحت کے طرق البلاغة والفصاحة، ومن طريقوں میں کامل تھے.اور جس نے آپ کے أنكر كماله فقد سلك کمال کا انکار کیا تو اُس نے بے حیائی کا طریق مسلك الوقاحة.وكان يندب اختیار کیا.اور آپ لاچاروں کی غمخواریوں کی إلى مواساة المضطر ، ويأمر جانب ترغیب دلاتے اور قناعت کرنے والوں اور بإطعام القانع والمعتر ، وكان خستہ حالوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے.آپ من عباد الله المقربين.ومع اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے.اور اس کے ذلك كان من السابقين في ساتھ ساتھ آپ فرقان (حمید) کے جام (معرفت ) ارتضاع كأس الفرقان، وأعطى نوش کرنے میں سابقین میں سے تھے.اور آپ له فهم عجيب لإدراك دقائق کو قرآنی دقائق کے ادراک میں ایک عجیب فہم القرآن.وإني رأيته و أنا يقظان عطا کیا گیا تھا.میں نے عالم بیداری میں انہیں لا في المنام، فأعطانی تفسیر دیکھا ہے نہ کہ نیند میں.پھر (اسی حالت میں ) کتاب الله العلام، وقال آپ نے خدائے علام الغیوب) کی کتاب کی هذا تفسیری، والآن أُولِيتَ تفسیر مجھے عطا کی اور فرمایا: ”یہ میری تفسیر ہے اور فَهُنّيت بما أُوتِيتَ.فبسطتُ یہ اب آپ کو دی جاتی ہے.پس آپ کو اس عطا پر يدى وأخذت التفسیر مبارک ہو.جس پر میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور وہ وشكرت الله المعطى القدير تغير لے لی.اور میں نے صاحب قدرت عطا ووجدته ذا خَلق قویم کرنے والے اللہ کا شکر ادا کیا اور میں نے آپ کو وخُلق صميم، ومتواضعا خلق میں متناسب اور خُلق میں پختہ اور متواضع، منكسرا ومتهللا منوّرا.وأقول منكسر المزاج تاباں اور منور پایا اور میں یہ حلفاً کہتا حلفًا إنه لا قانی حُبًّا وأُلْفًا، ہوں کہ آپ مجھ سے بڑی محبت والفت سے ملے
سر الخلافة اردو تر جمه وأُلـقـي فـي روعـى أنه يعرفني اور میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آپ مجھے اور وعقيدتي، ويعلم ما أخالف میرے عقیدے کو جانتے ہیں اور میں اپنے مسلک اور الشيعة في مسلكي و مشربی مشرب میں شیعوں سے جو اختلاف رکھتا ہوں وہ اُسے ولكن ما شمخ بأنفه غنفًا، وما بھی جانتے ہیں لیکن آپ نے کسی بھی قسم کی نا پسندیدگی نأى بجانبه آنفا، بل وافانی یا ناگواری کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی ( مجھ سے ) پہلو وصافاني كالمحبين المخلصین تہی کی بلکہ وہ مجھے ملے اور مخلص محبین کی طرح مجھ وأظهر المحبة كالمصافین سے محبت کی.اور انہوں نے سچے صاف دل رکھنے الصادقين.وكان معه الحسين والے لوگوں کی طرح محبت کا اظہار فرمایا.اور آپ بل الحسنين وسید الرسل خاتم کے ساتھ حسین بلکہ حسن اور حسین دونوں اور سید النبيين، وكانت معهم فتاة الرسل خاتم النبین بھی تھے.اور ان کے ساتھ ایک جميلة صالحة جليلة مباركة نهايت خُوبُرو، صالحہ جلیلۃ القدر، بابرکت، پاکباز، مطهرة معظمة مُوقرة باهرة لائق تعظيم، باوقار، ظاہر و باہر نور مجسم جوان خاتون بھی (۳۵) السفور ظاهرة النور، ووجدتها تھیں.جنہیں میں نے غم سے بھرا ہوا پایا لیکن وہ ممتلأة من الحزن ولكن كانت اسے چھپائے ہوئے تھیں.اور میرے دل میں ڈالا كاتمة، وأُلقى فى روعى أنها گيا کہ آپ حضرت فاطمۃ الزہراہ ہیں.آپ الزهراء فاطمة.فجاء تنى وأنا میرے پاس تشریف لائیں اور میں لیٹا ہوا تھا.پس مضطجع فقعدت و وضعت آپ بیٹھ گئیں اور آپ نے میرا سر اپنی ران پر رکھ رأسي على فخذها و تلطفت لیا اور شفقت کا اظہار فرمایا اور میں نے دیکھا کہ وہ ورأيتُ أنها لبعض أحـزانـی میرے کسی غم کی وجہ سے غمزدہ اور رنجیدہ ہیں تحزن وتضجر وتتحنّن و تقلق اور بچوں کی تکالیف کے وقت ماؤں کی طرح كأمهات عند مصائب البنين شفقت و محبت اور بے چینی کا اظہار فرمارہی ہیں.
سر الخلافة ۱۱۲ اردو ترجمہ فعلمت أني نزلتُ منها بمنزلة پھر مجھے بتایا گیا کہ دین کے تعلق میں ان کے نزدیک الابن في عُلق الدين، وخطر فی میری حیثیت بمنزلہ بیٹے کے ہے اور میرے دل قلبي أن حزنها إشارة إلى ما میں خیال آیا کہ اُن کا غمگین ہونا اس امر پر کتا یہ ہے سأرى ظلما من القوم وأهل جو میں قوم ، اہل وطن اور دشمنوں سے ظلم دیکھوں گا.الوطن والمعادين.ثم جاء نى پھر حسن اور حسین دونوں میرے پاس آئے اور بھائیوں الحسنان، وكانا يبديان المحبة کی طرح مجھ سے محبت کا اظہار کرنے لگے اور ہمدردوں كالإخوان، ووافیانی کی طرح مجھے ملے.اور یہ کشف بیداری کے کشفوں میں كالمواسين.وكان هذا كشفا سے تھا.اور اس پر کئی سال گزرچکے ہیں اور مجھے حضرت من كشوف اليقظة، وقد مضت علی اور حضرت حسین کے ساتھ ایک لطیف مناسبت عليه برهة من سنين.ولى مناسبة ہے اور اس مناسبت کی حقیقت کو مشرق و مغرب کے لطيفة بعلي والحسين، ولا يعلم رب کے سوا کوئی نہیں جانتا.اور میں حضرت علی اور سرها إلا ربّ المشرقین آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جو اُن والمغربين.وإني أحب علیا سے عداوت رکھے اس سے میں عداوت رکھتا ہوں وابناه، وأعادى من عاداه، ومع اور بائیں ہمہ میں جور و جفا کرنے والوں میں سے نہیں ذلك لست من الجائرین اور یہ میرے لئے ممکن نہیں کہ میں اُس سے اعراض المتعسفين.وما كان لي أن كروں جو اللہ نے مجھ پر منکشف فرمایا اور نہ ہی میں أعرض عما كشف الله على حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہوں.اگر تم وما كنت من المعتدين.وإن لم قبول نہ کرو تو میرا عمل میرے لئے اور تمہارا عمل تقبلوا فلى عملى ولکم عملکم تمہارے لئے ہے.اور اللہ ہمارے اور تمہارے وسيحكم الله بيننا وبينكم وهو در میان ضرور فیصلہ فرمائے گا اور وہ فیصلہ کرنے والوں أحكم الحاكمين.میں سے سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے.
سر الخلافة الباب الثاني ۱۱۳ اردو ترجمه دوسرا باب في المهدى الذى هو اس مہدی کے بارے میں جو اُمت کا آدم الأمة وخَاتَم الأئمة آدم اور خاتم الائمہ ہے اعلموا أن الله الذي خلق الليل جان لو! کہ وہ اللہ جس نے رات اور دن پیدا والنهار، وأبدأ الظلامات والأنوار کئے اور ظلمتوں اور نوروں کا آغاز فرمایا.قدیم قد جرت عادته من قديم الزمان زمانے اور ابتداء زمانہ سے یہ اس کی سنت جاری وأوائل الأزمنة والأوان أنه لا رہی ہے کہ وہ کمال فساد کے مشاہدہ کے بعد ہی يتوجه إلى إصلاح إلا بعد رؤية اصلاح کی جانب توجہ فرماتا ہے.اور جب آفت کمال طلاح، وإذا بلغت الآفة اپنی آخری حد تک اور مصیبت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی مداها، وانتهت البلية إلى ہے تو عنایت الہیہ اس ( مصیبت ) کے ازالے منتهاها، فتتوجه العناية الإلهية کے لئے توجہ کرتی ہے اور ایک ایسی چیز کی تخلیق إلى إماطتها، وإلى خلق شيء کرتی ہے جو اس (مصیبت) کو دور کرنے کا يكون سببا لإزالتها.وأما مثله موجب ہو، جہاں تک اس کی مثال کا تعلق ہے تو فيوجد في العالم الجسمانی اس کی کئی واضح مثالیں اور ظاہر و با ہر نظیر میں عالم أمثلة واضحة ونظائر بينة جسمانی میں پائی جاتی ہیں.(اور یہ مثالیں اور جلية للذى اعترته شبهة نظیریں ) اس شخص کے لئے ہوتی ہیں جسے کوئی شبہ لاحق ہو یا وہ غافلوں میں سے ہو.فأكبر الأمثلة سُنّة ربانية توجد پس سب مثالوں میں بڑی مثال وہ سنت ربانی ہے جو في نزول الأمطار والمرابيع التي مینہ اور بارشوں کے نزول میں پائی جاتی ہے جو کھیتیوں اور تنزل لتنضير الزروع والأشجار ، درختوں کو سرسبز و شاداب بنانے کی غرض سے برستی ہیں أو كان من الغافلين.
سر الخلافة ۱۱۴ اردو تر جمه فإن المطر النافع لا ينزل إلا كيونكہ نفع بخش بارش صرف اضطرار کے اوقات في أوقات الاضطرار، ويُعرف میں نازل ہوتی ہے اور اس کا وقت حاجت کی وقته عند شدة الحاجة وقرب شدت اور خطروں کے قریب آجانے پر پہچانا الأخطار، فإذا الأرض يبست جاتا ہے.پس جب زمین خشک اور بنجر ہو جاتی وهمدت، واصفر كل ما أنبتت ہے اور زمین سے اگنے اور نکلنے والی ہر چیز زرد ہو وأخرجت و مست الضراء جاتی ہے اور اس پر بسنے والوں کو تکلیف پہنچتی ٣٦ أهلها والمصائب نزلت ہے اور مصائب نازل اور وارد ہونے لگتے ہیں وسقطت، وظن الناس أنهم اور لوگ یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ وہ ہلاک کر أهـلـكـوا، والدواهی قربت دیئے گئے اور مصائب بہت قریب ونزدیک ودنت، وما بقی فی الأضی آگئے ہیں اور جو ہڑوں میں ایک قطرہ باقی نہیں قطرة ماء ، والغدر نتت رہا اور تالابوں کا پانی بد بودار ہو گیا ہے تو ایسے فيغاثون الناسُ في هذا الوقت وقت میں لوگوں کے لئے بارش برسائی جاتی ہے ويُحي الله الأرض بعد موتھا اور اللہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا وترى البلدة اهتزت وربت ہے اور تو دیکھتا ہے کہ وہ زمین جوش میں آجاتی وترى كل زرع أخرج الشطَاً ہے اور بڑھنے لگتی ہے اور تو دیکھتا ہے ہر کھیتی اپنی تو وكل الأرض اخضرت کو نپلیں نکالتی ہے اور ساری زمین ہری بھری ونضرت وصار الناس بعد اور شاداب ہو جاتی ہے اور بہت سے خطرات الخطرات آمنين.کے بعد لوگ امن میں آجاتے ہیں.وهذه عادة مستمرة، وسُنة اور یہ عادت مستمرہ اور سنت قدیمہ ہے قديمة، بل تزيد الشدّة في بعض بلکہ بعض اوقات تو یہ شدت بڑھ جاتی ہے الأوقات وتتجاوز حد المعمولات اور معمولات کی حد سے تجاوز کر جاتی ہے.
سر الخلافة ۱۱۵ اردو تر جمه وترى بلدة قـد أمـحلت ذات اور تو دیکھتا ہے کہ کوئی بستی کسی سال بنجر ہو جاتی ہے.العويم، وما بقى من جهام فضلا برسنے والا بادل تو در کنار ابر بے آب تک باقی نہیں عن الغيم، وما بقى بلالة من الماء رہتا.اور پانی کی نمی تک نہیں رہتی اور سردیوں کے ولا غلالة من ذخائر الشتاء، وما پانی کے ذخیروں میں سے تھوڑی سی مقدار بھی نہیں نزلت قطرة من قطر مع طول آمد بچتی اور لمبی مدت انتظار کے باوجود بارش کا ایک الانتظار، ولاحت آثار قهر القهار ، قطرہ بھی نازل نہیں ہوتا اور قھار خدا کے قہر کے وأحال الخوف صُورَ الناس، آثار نمودار ہونے لگتے ہیں اور خوف لوگوں کی وغــلـب الـخـيـب وظهر طيران شکلوں کو تبدیل کر دیتا ہے اور مایوسی غالب آجاتی الحواس، وصار الريف كأرض ہے اور حواس باختگی ظاہر ہو جاتی ہے.سرسبز و ليس فيها غير الهباء والغبار، وما شاداب وادیاں ایسی زمین کی طرح ہو جاتی ہیں بقى ورق من الأشجار ، فضلا جہاں گرد و غبار کے سوا کچھ نہ ہو پھل تو کجا درختوں عن الأثمار، فيضطر الناس أشد کے پتے تک باقی نہیں رہتے.نتیجتا لوگ سخت بیقرار الاضطرار، وكادوا أن يهلكوا ہو جاتے ہیں.اور ناامیدی اور تباہی کے آثار کی من آثار اليأس والتبار؛ فتتوجه وجہ سے وہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتے ہیں.تب إليهم العناية، ويدركهم رحم اللہ کی عنایت ان کی طرف توجہ کرتی ہے اور اللہ کا الله وتظهر الآية، وتنضر رحم انہیں حاصل ہو جاتا ہے.اور ایک نشان ظاہر أرضهم من الأمطار، ووجوههم ہوتا ہے اور ان کی زمین بارشوں کی وجہ سے اور ان من كثرة الثمار ، فيصبحون کے چہرے پھلوں کی کثرت کے باعث تر و تازہ ہو بفضل الله مخصبين.ذلك مثل جاتے ہیں.پھر وہ اللہ کے فضل سے آسودہ ہو الذين أتت عليهم أيام الضلال جاتے ہیں.یہ ان لوگوں کی مثال ہے جن پر گمراہی وحلت بهم أسباب مضلة کا زمانہ آیا اور ان پر گمراہ گن اسباب وارد ہوئے
سر الخلافة اردو تر جمه حتى زاغوا عن محجّة ذی یہاں تک کہ وہ خدائے ذوالجلال کے راستے سے ذى الجلال، فأدركهم ذات بكرة ہٹ گئے.پھر اچانک یوں ہوا کہ ایک صبح اس کے وابل من مُزنِ رحمته، وبعث | ابر رحمت کی موسلا دھار بارش ان پر برسی اور ایک مجدد لإحياء الدين، فأخذ مجدد احیاء دین کے لئے مبعوث کر دیا گیا.تب الظانون ظن السوء يعتذرون بدظنی کرنے والے اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں إلى الله ربّ العالمين.معذرت کرنے لگے.و آخرون يكذبونه ويقولون ما اور کچھ اور لوگ اسے جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں أنزل الله من شيء ، وإن أنت إلا کہ اللہ نے کوئی چیز نازل نہیں کی اور تو تو بس ایک من المفترين فينزل الوابل تترا مفتری ہے.پھر موسلا دھار بارش لگا تار نازل حتى لا يُبقى من سوء الظنّ أثراء ہوتی ہے یہاں تک کہ بدظنی کا نشان تک باقی نہیں فيرجع الراجعون إلى الحق رہنے دیتی.تب رجوع کرنے والے نادم ہو کر متندمين.وأما الأشقياء فما حق کی طرف رجوع کرتے ہیں.اور وہ جو ينتفعون من وابل الله شيئا، بل بدبخت ہیں وہ اللہ کی اس باران رحمت سے کچھ يزيدون بغيا وظلما وعسفا بھی فائدہ حاصل نہیں کرتے بلکہ وہ بغاوت اور ظلم وكانوا قوما ظالمین.وما وتعدّی میں اور بڑھ جاتے ہیں اور وہ ظالم قوم ہی اغترفوا من ماء الله وما شربوا ہیں.انہوں نے اللہ کے پانی سے ایک چلو تک وما اغتسلوا وما توضأوا، وما نہیں بھرا.نہ (اس میں سے ) پیا، نہ غسل کیا اور نہ كانوا أن يسقوا الحرث، وكانوا ہی وضو کیا اور نہ کھیتی کو سیراب کرنے والے بنے قوما محرومين، فما رأوا الحق اور وہ محروم قوم ہیں پس انہوں نے حق کو نہ دیکھا لأنهم كانوا عمين، وإن فی کیونکہ وہ اندھے تھے.اور اس میں غور وفکر ذلك لآيات لقوم مفکرین کرنے والی قوم کے لئے بہت سے نشانات ہیں.
سر الخلافة اردو ترجمہ و مثل آخر لمرسل الخلاق وهو اور خدائے خلاق کے مرسل کی دوسری مثال قمری ليالي المحاق كما لا یخفی علی مہینے کی تاریک راتیں ہیں جیسا کہ ہر گہری نظر الممعن الرماق وعلى المتدبرين رکھنے والے اور تدبر کرنے والوں پر مخفی نہیں.فإنها ليال داجية الظلم فاحمة کیونکہ وہ راتیں بڑی تاریک و تار ہوتی ہیں جو اللمم، تأتى بعد الليالي المنيرة روشن راتوں کے بعد بڑی آفات کی طرح آتی كالآفات الكبيرة، فإذا بلغ ہیں.اور جب اندھیرے اپنی انتہا کو پہنچ جائیں اور الظلام منتهاه، وما بقی فی لیل رات میں اس کی کوئی چمک باقی نہ رہے، تب اللہ (۳۷) سناه، فيعشو الله أن يزيل الظلام ان تہہ بہ تہہ ظلمتوں کو زائل کرنے کی ٹھان لیتا ہے المركوم، ويبرز النير المغموم اور تاریکیوں میں چھپے ہوئے چاند کو باہر نکالتا فيبدأ الهلال ويملأ أمنًا ونورا ہے.اور ہلال کو ظاہر کرتا ہے اور ہولناک رات کو الليل المهال ، وكذلك جرت امن اور نور سے بھر دیتا ہے.دینی امور میں اس کی سنته في أمور الدين.فيا حسرة سنت اسی رنگ میں جاری ہے.افسوس ہے تفرقہ على أهل الشقاق، إنهم پیدا کرنے والوں پر کہ وہ قمری مہینے کی آخری يحكمون بقرب الهلال عند راتوں کے آنے پر قرب ہلال کا تو فیصلہ کر لیتے مجيء ليالي المحاق، ویرقبونه ہیں اور بڑے شوق سے اس کا انتظار بھی کرتے كالمشتاق، ولكنهم لا ينتظرون ہیں لیکن وہ دین کے اندھیروں میں کسی ہلال کا في ظلام الدين هلالا ولو بلغ انتظار نہیں کرتے.خواہ وہ اندھیرے اپنے کمال الظلام كمالا.فالحق والحق کو پہنچ چکے ہوں.یہی حق ہے اور میں حق بات أقول إنهم قوم حمقى، وما أعطى ہی کہتا ہوں کہ یہ احمق لوگ ہیں اور انہیں عقل لهم من المعقول حظ أدنى، وما سے ادنی سا بھی حصہ نہیں دیا گیا اور وہ بصیرت رکھنے والے نہیں.كانوا مستبصرين.
سر الخلافة ۱۱۸ اردو تر جمه هذا ما شهدت سُنّة الله نوع انسانی کی بھلائی کے لئے اللہ کی سنت الجارية لنوع الإنسان، وثبت أن جاریہ نے یہی گواہی دی ہے اور اس سے یہ الله يُرى مسالك الخلاص بعد ثابت ہوتا ہے کہ اللہ مختلف مصائب اور شدائد أنواع المصائب والذوبان.فلما کے بعد نجات کی راہیں دکھاتا ہے.پھر جب كان من عادات ذي الجلال خدائے ذوالجلال والا کرام کی یہی سنت ہے کہ والإكرام أنه لا يترك عباده وه اپنے کمزور بندوں کو عام ہمہ گیر قحط سالی کے الضعفاء عند القحط العام في وقت دکھوں میں نہیں چھوڑتا اور جب اللہ تعالیٰ الآلام، ولا يريد أن ينفك نظام ایسے نظام کو توڑنا نہیں چاہتا جو جسموں کی يتبعه عطب الأجسام، فكيف ہلاکت کا باعث ہو تو وہ ایسے نظام کو توڑنے پر يرضى بفك نظام فيه موت کیسے راضی ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں روحوں الأرواح ونار جهنم للدوام؟ ثم کی موت ہو اور ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ ہو.إذا نظرنا في القرآن فوجدناه پھر جب ہم قرآن پر غور کرتے ہیں.تو ہم مؤيدا لهذا البيان، وقد قال الله اُسے اس بیان کا موید پاتے ہیں.اللہ تعالیٰ تعالى إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ نے فرمایا ہے کہ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا - إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا.وإن فى مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا لے اور یقیناً اس میں ہر ذلك لبشرى لكل من تزکی، پاکباز کے لئے بشارت ہے.نیز اس میں اس وإشارة إلى أن الناس إذا رأوا فى طرف اشارہ ہے کہ جب کسی دور میں لوگ ضرر زمان ضرا وضيرًا، فيرون فی اور نقصان دیکھیں گے تو دوسرے دور میں نفع آخر نفعا وخیرا، ویرون رخاء اور خیر بھی دیکھیں گے.اور دین و دنیا کی بعد بلاء فى الدين والدنيا.آزمائشوں کے بعد آسائش بھی دیکھیں گے.ے پس یقیناً تنگی کے ساتھ آسائش ہے.یقین تنگی کے ساتھ آسائش ہے.(الانشراح:۷،۶)
سر الخلافة ۱۱۹ اردو تر جمه وكذلك قال فى آية اسی طرح اللہ نے ) ایک دوسری آیت میں أخرى لقوم يسترشدون ان لوگوں کے لئے جو ہدایت کے طالب ہیں اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ فرمایا ہے کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ فأمعنوا فيه إن كنتم لَحفِظُونَ ے اگر غور و فکر کرنے والے ہو تو اس (آیت ) پر خوب غور کرو..تفكرون.فهذه إشارة إلى بعث مجدد پس یہ ( آیت ) فساد زدہ زمانے میں ایک مجدد فی زمان مفسد كما يعلمه کی بعثت کی بابت اشارہ کرتی ہے جیسا کہ عظمند العاقلون ولا معنى لحفاظة اسے جانتے ہیں.پس سرکشی کی بد بو کے پھیلنے کے القرآن من غير حفاظة عطره وقت ، قرآن کی روح کی حفاظت کے بغیر اور عند شيوع نتن الطغيان، وإثباته بغاوت کی آندھیوں کے چلنے کے وقت دلوں میں في القلوب عند هب صراصر اس کو راسخ کئے بغیر اس کی ظاہری حفاظت کچھ معنی الطغيان، كما لا یخفی علی نہیں رکھتی.جیسا کہ عارفوں اور غور و فکر کرنے ذوى العرفان والمتدبرين.والوں پر مخفی نہیں.وإثبات القرآن في قلوب أهل اور اہل زمانہ کے دلوں میں قرآن کا الزمان لا يمكن إلا بتوسط رجل جاگزین کرنا، ایسے شخص کے توسط کے بغیر مطهر من الأدناس، ومخصوص ممکن نہیں جو تمام کثافتوں سے پاک اور بتحديد الحواس، ومُنوَّر بنفخ حواس کی تیزی سے مختص ہو.اور تمام لوگوں الروح من رب الناس، فهو کے رب کی طرف سے نفخ روح سے منور کیا المهدى الذى يهدى من رب گیا ہو.پس یہ وہ مہدی ہے جو رب العالمین العالمين، ويأخذ العلم من لدنه سے ہدایت یافتہ ہو اور اسی کی جناب سے علم پاتا ہو یقینا ہم نے ہی یہ ذکر اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.(الحجر: ۱۰)
سر الخلافة ۱۲۰ اردو ترجمہ ويدعو الناس إلى طعام فيه اور جو لوگوں کو ایسے کھانے کی طرف بلائے جس میں نجاة المدعوين.وإنما هو مدعووین کی نجات ہے اور بلا شبہ وہ (مہدی) ایک ایسے كإناء فيه أنواع غذاء ، من برتن کی طرح ہے جس میں گلے سے آسانی سے اتر جانے لبن سائغ وشواء، أو هو كنار والے دودھ اور بھنے ہوئے گوشت جیسی مختلف النوع شتاء، وللمقرور أشهى أشياء ، غذائیں ہیں یا وہ موسم سرما کی آگ کی طرح ہے اور أو كصحفة من الغرب فيها سردی زده کے لئے مرغوب ترین شے ہے یا پھر وہ سونے حلواء القند و الضرب، فمن کی پلیٹ کی مانند ہے جس میں چینی اور مصفی شہد سے جاءه أكل الخبيص، ومن تیار شدہ شیرینی ہے.پس جو بھی اُس کے پاس آئے گا أعرض فأخذ ولا محيص وہ اُس شیرینی کوکھالے گا اور جو اس سے اعراض کرے 6 ۳۸) و سيلقى السـعـيـر ولـو ألقى گا وہ پکڑا جائے گا اور اس کے لئے کوئی جائے فرار نہ المعاذير.فثبت أن وجود ہوگی اور وہ بھڑکتی آگ میں ڈالا جائے گا خواہ وہ کتنے المهديين عماد الدین، وتنزل ہی عذر پیش کرے پس ثابت ہوا کہ مہدیوں کے وجود أنوارهم عند خروج الشیاطین دین کا ستون ہیں اور اُن کے انوار شیطانوں کے خروج وتحيطهم كثير من الزمر کے وقت نزول فرما ہوتے اور بہت سی جماعتیں ان کهالات القمر.ولما كان مہدیوں کو چاند کے ہالوں کی طرح اپنے گھیرے أغلب أحوال المهديين أنهم میں لے لیتی ہیں.جبکہ مہدیوں کے حالات کا لا يظهرون إلا عند غلبة غالب امکان یہ ہے کہ بالعموم مہدی گمراہوں اور الضالين والمضلين، فسُموا گمراہ کرنے والوں کے غلبہ کے وقت ہی ظاہر بذلك الاسم إشارة إلى أن ہوتے ہیں.اس لئے اس نام سے موسوم کئے جانے الله ذا المجد والكرم طهرهم میں یہ اشارہ ہے کہ ذو المجد والاکرام اللہ من الذين فسقوا وكفروا، نے فاسقوں اور کافروں سے ان کی تطہیر فرمائی ہے
سر الخلافة ۱۲۱ اردو تر جمه وأخرجهم بأيديه من الظلمات اور خود اپنے ہاتھوں سے انہیں اندھیروں سے نور کی إلى النور، ومن الباطل إلى طرف اور باطل سے کامل حق کی طرف نکالا اور الحق الموفور، وجعلهم ورثاء انہیں نبوت کے علم کا وارث بنایا اور انہیں اس سے علم النبوة وأعطاهم حظا منه بہترین حصہ عطا فرمایا اور ان کے حواس کولطیف و دقق مداركهم وعلمهم من بنایا اور خود اپنی جناب سے انہیں تعلیم دی.اور اُن کی لدنه، وهداهم سبلا ما كان لهم ان راہوں کی طرف رہنمائی فرمائی جن کی معرفت أن يعرفوا، وأراهم طرقا ما كان اُن کے بس میں نہ تھی.اور انہیں وہ راستے دکھائے لهم أن ينظروا لولا أن أراهم که اگر اللہ انہیں وہ راستے نہ دکھاتا تو وہ دیکھ نہ سکتے کہ الله، ولذلك سُمّوا مهديين.تھے.اور اسی وجہ سے ان کا نام مہدی رکھا گیا.وأما المهدى الموعود الذي اور جہاں تک اُس مہدی موعود کا تعلق ہے جو امام هو إمام آخر الزمان و منتظر آخرالزمان ہے اور سرکشی کی زہریلی ہواؤں کے الظهور عند هب سموم الطغیان چلنے کے وقت جس کے ظہور کا انتظار کیا جا رہا ہے.فاعلم أن تحت لفظ المهدی تو جان لو کہ مہدی کے لفظ کے تحت بنی نوع انسان إشارات لطيفة إلى زمان الضلالة کے لئے ، ضلالت کے زمانے کی طرف لطیف لنوع الإنسان، وكأن الله أشار اشارے ہیں.گویا کہ اللہ نے مہدی جو ہدایت کے بلفظ المهدى المخصوص لئے مخصوص ہے کے لفظ کے ساتھ اس زمانہ کی بالهداية إلى زمان لا تبقى فيه أنوار طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب ایمان کے انوار باقی الإيمان، وتسقط القلوب علی نہ رہیں گے اور دل حقیر دنیا پر گر رہے ہوں گے الدنيا الدنية ويتركون سبل الرحمن اور رحمان کی راہوں کو چھوڑ رہے ہوں گے.وتأتى على الناس زمان الشرك نیز لوگوں پر شرک ، فسق و فجور ، شرعی محرمات کو والفسق والإباحة والافتنان، حلال قرار دینے اور فریب کاریوں کا زمانہ آئے گا
سر الخلافة ۱۲۲ اردو تر جمه ولا تبقى بركة في سلاسل اور افادہ اور استفادہ کے سلسلوں میں برکت الإفادات والاستفادات ، ويأخذ باقی نہ رہے گی اور لوگ ارتداد اور جاہلانہ الناس يتحركون إلى الارتدادات باتوں کی طرف حرکت کرنے لگ جائیں گے والجهلات، ويزيد مرض الجھل اور جنگلوں اور بیابانوں میں گھومنے پھرنے والتعامي، مع شوقهم في سير کے شوق کے ساتھ ساتھ ان کے جہل اور المعامى والموامي، ويُعرضون اندھے پن کے مرض میں اضافہ ہوگا.اور وہ عن الرشاد والسداد، ویر کنون ہدایت اور سیدھی راہ سے اعراض کریں گے إلى الفسق والفساد، وتطير اور فسق و فساد کی جانب مائل ہوں گے اور جراد الشقاوة على أشجار نوع بدبختی کی ٹڈیاں نوع انسانی کے درختوں پر الإنسان، فلا تبقى ثمر ولا لدونة اڑیں گی.اور درختوں کے پھل اور نرم شاخیں الأغصان.وترى أن الزمان من باقی نہ رہیں گی.اور تو دیکھے گا کہ اصلاح کا الصلاح قد خلا ، والإيمان زمانہ گزر گیا اور ایمان اور عمل نے گھبرا کر فرار والـعـمـل أجفلا، وطريق الرشد اختیار کر لیا اور ذریعہ ہدایت آسمان کے ثریا علق بشريا السماء فيذكر الله ستارے پر لٹک گیا.پھر تکالیف کے نزول مواعيده القديمة عند نزول کے وقت اللہ اپنے پرانے وعدوں کو یاد الضراء ، ويرى ضعف الدین فرمائے گا.اور ہر طرف دین کی کمزوری کو ظاهرًا من كل الأنحاء ، فيتوجه ظاهر و باہر طور پر دیکھے گا.تب وہ سخت فتنوں کی ليُطفئ نار الفتنة الصماء، فيخلق آگ کو بجھانے کی طرف متوجہ ہوگا.پھر وہ رجلا كخلق آدم بیدی الجلال آدم کو پیدا کرنے کی طرح اپنے جلال اور والجمال، وينفخ فيه روح جمال کے ہاتھوں سے ایک شخص پیدا کرے گا الهداية على وجه الكمال اور اس میں کامل طور پر روح ہدایت پھونکے گا.
سر الخلافة ۱۲۳ اردو تر جمه فتارة يسميه عيسى بما خلقه | پھر کبھی تو عیسائیوں پر اتمام حجت کے لئے وہ اسے كخلق ابن مريم لإتمام الحجة عیسی کے نام سے موسوم کرے گا کیونکہ اس نے على النصارى، وتارة يدعوه اسے ابن مریم کے پیدا کرنے کی طرح پیدا کیا ہوگا باسم مهدى أمين بما هو هُدِی اور کبھی وہ اسے مہدی امین کے نام سے پکارے گا من ربه للمسلمين ،الضالین کیونکہ وہ گمراہ مسلمانوں کے واسطے اپنے رب کی وأخرج للمحجوبين منهم طرف سے ہدایت یافتہ ہوگا.اور وہ مسلمانوں میں ليقودهم إلى رب العالمین سے مجوبوں کے لئے مبعوث کیا جائے گا تا کہ وہ هذا هو الحق الذي فيه انہیں ربّ العالمین تک لے جائے.یہی وہ حق تمترون، والله يعلم وأنتم لا ہے جس کے بارے میں تم شک کر رہے ہو.اور تعلمون أحيا عبدًا من عباده الله جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.اس نے اپنے ليدعو الناس إلى طرق رشادہ بندوں میں سے ایک بندے کو زندہ کیا.تا کہ وہ فاقبلوا أو لا تقبلوا، إنه فعل ما لوگوں کو اس کی ہدایت کی راہوں کی طرف بلائے.كان فاعلا أأنتم تضحكون پس قبول کرو یا نہ قبول کرو.اس نے تو بلاشبہ جو کرنا ولا تبكون، وتنظرون ولا تھا کر دیا.کیا تم ہنستے ہو اور روتے نہیں.اور دیکھتے ہولیکن بصیرت نہیں رکھتے.أيها الناس لا تغلوا في اے لوگو! اپنی خواہشات نفس میں غلو نہ کرو.اور (۳۹) تبصرون.أهوائكم، واتقوا الله الذى إليه | اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس کی طرف تم لوٹائے ترجعون ما لكم لا تقبلون جاؤ گے.تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے حکم کو قبول حكم الله و كنتم تنتظرون؟ نہیں کرتے حالانکہ تم (اس کے ) منتظر تھے.آسمان شهدت السماء فلا تبالون نے گواہی دے دی پھر بھی تم پر واہ نہیں کرتے.اور ونطقت الأرض فلا تفكرون زمین پکار اٹھی پھر بھی تم غور وفکر نہیں کرتے.
سر الخلافة ۱۲۴ اردو ترجمہ وقالوا إنا لا نقبل إلا ما قرأنا في اور انہوں نے کہا کہ ہم تو صرف اس بات کو قبول آثارنا ولو كانت آثار هم مبدلة کریں گے جو ہم نے اپنی روایات میں پڑھی أو وضعها الواضعون؟ أيها ہے خواہ وہ روایات تبدیل کر دی گئی ہوں.یا الناس انظروا ههنا وهنا وضع کرنے والوں نے انہیں وضع کر لیا ہو.اے فاتركوا الدخن و اقبلوا ما بان لوگو! ہر طرف نظر دوڑاؤ اور کینہ فساد چھوڑ دو اور جو ودنا، ولا تتبعوا الظنون أيها چیز ظاہر ہو چکی اور قریب آ چکی ہے اسے قبول کر المتقون.قد عدل الله بيننا فلا لو.اور اسے متقیو! شکوک و شبہات کی پیروی نہ تعدلوا عن عدله ولا تركنوا کرو.اللہ نے ہمارے درمیان انصاف فرما دیا إلى الشقاء أيها المسلمون ہے.لہذا اس کے عدل سے مت ہٹو اور اے يا ذراري الصالحين.لا تكونوا مسلمانو! بد بختی کی جانب مت جھکو.اے ذریت فى يدى إبليس مرتهنين، صالحین! ابلیس کے ہاتھوں گروی.ما لكم لا تتطهرون.واعلموا تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم پاکیزگی اختیار نہیں أن لله تدلّیات و نفحات کرتے.جان لو کہ اللہ کے درجات قرب اور فإذا جاء وقت التدلی خوشبوئیں ہیں.پھر جب انتہائی قرب کی گھڑی الأعظم فإذا الناس يستيقظون کا وقت آ جاتا ہے.تو لوگ یکدم بیدار ہونے وكل نفس تتنبه عند ظهوره لگتے ہیں اور اس کے ظہور کے وقت فاسقوں کے إلا الفاسقون.ولكلّ تدلّى سوا ہر نفس خوب متنبہ ہو جاتا ہے اور ہر قرب عنوان وشأن يعرفه العارفون خداوندی کا ایک عنوان اور ایک شان ہوتی ہے وأعظم التدليات يأتى جسے عارف باللہ جان لیتے ہیں.اور سب سے بعلوم مناسبة لأهل الزمان عظيم تدلى اہل زمانہ کے لئے مناسب علوم لاتی ليطفئ نائرة أهل الطغيان، ہے تا کہ وہ سرکش لوگوں کی آگ کو بجھائیں.مت رہو.
سر الخلافة ۱۲۵ اردو تر جمه فينكرها الذين كانوا عاكفين پس وہ لوگ جو اپنے بتوں کے در پر ڈھونی على أصنامهم فیسبون رمائے ہوئے ہیں اُن کا انکار کرتے ہیں، وہ ويكفرون، ولا يعلمون أنها گالیاں نکالتے ہیں اور کفر کرتے ہیں اور وہ یہ فايضة من السماء ، وأنها شفاء نہیں جانتے کہ وہ آسمانی فیض ہیں اور وہ متر ڈو للذين تنفّروا من قول المخطئين ہونے والوں اور خطا کاروں اور جاہلوں کے قول الجاهلين وكانوا يترددون سے متنفر ہونے والوں کے لئے شفا ہیں.پس فينزل الله لهم علومًا ومعارف اللہ ان کے لئے ایسے علوم اور معارف نازل فرماتا تناسب مفاسد الوقت فهم بها ہے جو مفاسدِ زمانہ کے مناسب حال ہوں اور وہ يطمئنون، كأنها ثمر غض طريٌّ اُن سے مطمئن ہوں.گویا کہ وہ (علوم) تر و تازہ وعين جارية، فهم منه يأكلون پھل ہیں جن میں سے وہ کھاتے ہیں اور چشمہ رواں ہے جس سے وہ پیتے ہیں.فحاصل البيان أن المهدى الذى پس حاصل بیان یہ ہے کہ مہدی جو بدیوں ـو مجدّد الصلاح عند طوفان کے طوفان کے وقت اصلاح کی تجدید کرنے والا ومنها يشربون.هو الطلاح، ومبلغ أحكام ربّ اور لوگوں کے پروردگار کے احکام کو نہایت الناس إلى حد الإبساس، سُمّی کوشش اور ملاطفت سے پہنچانے والا ہے،اس کا مهديا موعودًا وإماما معهودًا نام مهدی موعود اور امام معہود اور اللہ ربّ وخليفة الله ربّ العالمين العالمین کا خلیفہ رکھا گیا.اور اس باب میں ایک والسرّ الكاشف في هذا الباب ان کھلا راز یہ ہے کہ اللہ نے (اپنی) کتاب الله قد وعد فى الكتاب أن فى (قرآنِ مجید ) میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آخری آخر الأيام تنزل مصائب علی زمانے میں اسلام پر مصائب نازل ہوں الإسلام، ويخرج قوم مفسدون گے ، اور مفسدوں کی جماعت خروج کرے گی.
سر الخلافة ۱۲۶ اردو ترجمہ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ اس نے فأشار في قوله مِنْ كُلِّ حَدَبٍ اپنے قول مِنْ كُلِّ حَدَبٍ میں اشارہ فرمایا ہے أنهم يملكون كل خصب وجدب کہ وہ ہر سبزہ زار اور ویرانے کے مالک ہوں ويحيطون علی کل البلدان والدیار، گے اور تمام بلا د وامصار کا گھیراؤ کرلیں گے ويُفسدون فسادًا عاما في جميع اور وہ تمام علاقوں اور تمام شریف اور شریر قبائل الأقطار، وفي جميع قبائل الأخیار میں فساد عام بپا کر دیں گے اور لوگوں کو طرح والأشرار، ويضلون الناس بأنواع طرح کے حیلوں اور ہلاکت خیز ملمع سازیوں الحيل وغوائل الزخرفة، ويلوّثون سے گمراہ کریں گے.اور ہر طرح کے افترا اور عرض الإسلام بأصناف الافتراء تہمتوں سے اسلام کی عزت کو داغدار کریں والتهمة، ويظهر من كل طرف گے.اور ہر طرف سے ظلمت پر ظلمت ظاہر ہو على ظلمة، ويكاد الإسلام جائے گی.اور اس کے نتیجے میں اسلام مٹنے أن يزهق بتبعة، ويزيد الضلال کے قریب ہو جائے گا.گمراہی، جھوٹ اور والزور والاحتيال، ويرحل الإيمان فریب کاری بڑھ جائے گی اور ایمان کوچ کر ظلمة ره وتبقى الدعاوى والدلال، حتی جائے گا اور صرف دعوے اور نخرے باقی ر يخفى على الناس الصراط جائیں گے.یہاں تک کہ صراط مستقیم لوگوں سے المستقيم، ويشتبه عليهم مخفی ہو جائے گا اور قدیمی شاہراہ ان پر مشتبہ ہو المهيع القديم لا ينتهجون جائے گی.وہ ہدایت کی راہ پر گامزن نہ ہوں محجّة الاهتداء ، وتزلّ أقدامهم گے.ان کے قدم پھسل جائیں گے اور نفسانی وتغلب سلسلة الأهواء ، ويكون خواہشات کا سلسلہ غالب ہو جائے گا.اور المسلمون كثير التفرقة والعناد، مسلمانوں میں بہت تفرقہ اور عناد پیدا ہو جائے گا ے اور وہ ہر پہاڑی اور سمندر کی لہر پر سے پھلانگتے ہوئے دنیا میں پھیل جائے گی.(الانبیاء: ۹۷)
سر الخلافة ۱۲۷ اردو تر جمه ومنتشـرين كانتشار الجراد لا اور ٹڈی دل کے انتشار کی طرح منتشر ہو تبقى معهم أنوار الإيمان و آثار جائیں گے.ان کے پاس ایمان کے انوار العرفان، بل أكثر هم ينخرطون اور عرفان کے آثار باقی نہ رہیں گے بلکہ ان في سلك البهائم أو الذياب میں سے اکثر چوپایوں یا بھیڑیوں یا سانپوں أو الثعبان، ويكونون عن الدین کی لڑی میں پروئے جائیں گے اور وہ دین غافلين.وكل ذلك يكون من سے غافل ہو جائیں گے.او یہ سب کچھ أثر يأجوج ومأجوج ، ويشابه یا جوج اور ماجوج کے اثر سے ہوگا.اور لوگ الناس العضو المفلوج كأنهم كانهم عضو مفلوج کی طرح ہو جائیں گے.گویا کہ وہ مردہ ہیں.كانوا ميتين.ففي تلك الأيام التي يموج پھر اسی زمانے میں کہ جس میں موت اور فيها بحر الموت والضلال، گمراہی کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوگا اور لوگ ويسقط الناس على الدنيا حقیر دنیا پر گر رہے ہوں گے اور صاحب جلال الدنية ويعرضون عن الله ذى اللہ سے منہ موڑے ہوئے ہوں گے.تو اللہ محض الجلال، يخلق الله عبدا كخلقه اپنی قدرت اور ربوبیت کے کمال سے بغیر کسی آدم من كمال القدرة والربوبية، ظاهرى وسائل تعلیم کے ، آدم کی تخلیق کی طرح من غير وسائل التعاليم الظاهرية (اپنے) ایک بندے کو پیدا فرمائے گا.اور اسی ويُسمّيه آدم نظرا على هذه نسبت کے مدنظر وہ اس کا نام آدم رکھے گا.النسبة، فإن الله خلق آدم بيديه کيونکہ اللہ نے آدم کی اپنے ہاتھوں سے تخلیق وعلمه الأسماء كلها، ومن منا فرمائی اور اسے تمام اسماء سکھائے اور اس پر عظیم عظيمًا عليه وجعله مهدیا احسان فرمایا اور اسے مہدی بنایا اور صاحب وجعله من المستبصرين.بصیرت لوگوں میں سے بنایا.
سر الخلافة ۱۲۸ اردو ترجمہ وكذلك سماه عيسى ابن اور اسی طرح اس نے صراحت کے ساتھ مريم بالتصريح بما كان اس کا نام عیسی ابن مریم رکھا.کیونکہ اس کی خلقه وبعثه كمثل المسيح تخلیق اور بعثت مسیح کی طرح تھی اور اس لئے وبما کان سره کسره کہ اس کا راز مسیح کے مخفی راز کی طرح تھا.اور المستور، وكانا في علل یہ دونوں ظہور کے علل و اسباب میں متحد تھے.الظهور من المتحدين.ان دونوں کے زمانوں کے فتنوں اور ان و تشابهت فتن زمنهما دونوں کے اصلاح کے اسالیب میں مشابہت وصور إصلاحهما، و تشابھت تھی اور خود دشمنان دین کے دلوں میں بھی قلوب أعداء الدين مشابہت تھی.پس مہدی کے زمانے کی سب فالعلامة العظمى لزمان سے بڑی علامت قوم یاجوج و ماجوج کے المهدى ظلمة عظيمة من فتن فتنوں کی وجہ سے ظلمت عظیمہ ہے.جب وہ قوم يأجوج و مأجوج إذا علوا زمین پر چھا گئے اور پورا عروج حاصل کر لیا في الأرض وأكملوا العروج اور تیزی سے ہر اونچی جگہ سے (دنیا میں ) وكانوا من كل حدب ناسلین پھلانگنے والے ہو گئے ہے اور مہدی کے وفي اسم المهدى إشارات إلى نام میں غور وفکر کرنے والی قوم کے لئے هذه الفتن لقوم.متفکرین ان فتنوں کی جانب اشارے موجود ہیں.☆ الحاشية: هذه هي العلامة القطعية حاشیہ:.یہ آخری زمانے اور قرب قیامت کی قطعی علامت لأخر الزمان و قرب القيامة كما جاء في مسلم ہے.جیسا کہ مسلم میں خیر البریہ سے روایت ہے.راوی نے کہا کہ من خير البرية قال قال رسول الله صلعم " تقوم رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت آئے گی جب رومی الـقـيـامـة والـروم اكثر من سائر الناس و اراد دوسرے لوگوں سے اکثریت میں ہوں گے.رومیوں سے آپ من الروم النصارى كما هو مسلّم عند ذوى کی مراد عیسائی تھے.جیسا کہ علماء، دانشوروں اور محدثین کے ہاں یہ امر مسلم ہے.منہ الادراس والاكياس والمحدثين.منه
سر الخلافة ۱۲۹ اردو تر جمه و نجاه من قوم فاسقين فإن اسم المهدى يدل على أن پس مهدی کا نام دلالت کرتا ہے کہ وہ شخص جس کا یہ الرجل المسمى به أخرج من نام رکھا جائے گا وہ گمراہوں کی قوم میں سے پیدا کیا قوم ضالين، وأدركه هدى الله جائے گا.اور اسے اللہ کی راہنمائی حاصل ہوگی اور وہ اسے فاسق قوم سے نجات دے گا.فلا شك أن هذا الاسم يدل بلا شبہ یہ نام بین السطورا جمالاً مفاسد زمانہ پر على مفاسد الزمان بمُجمَل دلالت کرتا ہے اور ظلمات کے زمانے ، مظالم مَطُـوى مـن البيان، ويذكر من کے وقت اور آفتوں کے نزول کے لمحات زمن الظلمات ووقت الظلامات کا ذکر کرتا ہے اور زمانے کے خطرات اور وأوان نزول الآفات ويشير إلى مصائب كى طرف اشارہ کرتا اور کمزوروں کی شوائب الدهر ونوائبه، وغرائب تائید میں قادر خدا کے عجیب وغریب کاموں القادر وعجائبه من تأیید کی طرف اشارہ کرتا ہے اور قطعی دلالت کرتا المستضعفين.ويدل بدلالة ہے کہ مہدی صرف تباہ کن فتنوں اور شدید قطعية على أن المهدى لا يظهر ظلمتوں کے ظاہر ہونے پر ہی ظہور فرمائے إلا عند ظهور الفتن المبيدة گا.پس جب ضلالت بڑھ جائے گی اور والظلمات الشديدة، فإذا كثر جھگڑوں اور بحثوں میں اضافہ ہو جائے گا.الضلال وزاد اللدد و الجدال، نیک عمل معدوم ہو جائے گا اور صرف قیل و وعدم العمل الصالح وبقى القيل قال رہ جائے گی تو یہ حالت اس بات کا تقاضا والـقـال، فيقتضى هذا الحال آن کرے گی کہ ربّ فعال ایک شخص کی رہنمائی يهدى رجلا الرب الفعّال فرمائے اور ظلمت (اللہ کے ) حضور نہایت وتتضرع الظلمة في الحضرة تضرع سے یہ التجا کرے گی کہ وہ راستے کو منور لينزل نور لتنوير المحجّة کرنے کے لئے (اپنا) نور نازل فرمائے.
سر الخلافة ۱۳۰ اردو تر جمه فتنزل الملائكة والروح في پھر اس تاریک و تار رات میں فرشتے اور روح هذه الليلة الحالكة بإذن رب القدس كامل قدرت رکھنے والے رب کے اذن ذى القدرة الكاملة، فيُجعَلُ رجل سے اتریں اور ایک آدمی کو مہدی بنایا جائے اور مهديا ويُلقَى الروح عليه، ويُنور اس پر روح نازل کی جائے اور اس کے دل اور قلبه وعينيه، ويُعطى له السؤدد آنکھوں کو منور کر دیا جاوے اور اسے سرداری اور والمكرمة موهبة، ويُجعَل له عزت بطور موہبت عطا ہو اور تقوی کو اس کا زیور التقوى حلية، ويُدخل في عباد بنایا جائے اور وہ اللہ کے نصرت یافتہ بندوں میں الله المنصورين.فإن البغى إذا داخل ہو جائے.کیونکہ جب سرکشی انتہا کو پہنچے بلغ إلى انتهاء ، فهذا هو يوم حكم جائے تو وہ حکم، قضاء، فیصلے اور تنفیذ اور مدد و قضاء وفصل وإمضاء ، وعون اور عطا کرنے کا دن ہوتا ہے.اور اگر اللہ نیک وإعطاء ، ولو لا دفع الله الطلاح لوگوں کے ذریعہ برائیوں کو نہ مٹاتا تو زمین بأهل الصلاح لفسدت الأرض میں بالضرور فساد برپا ہو جاتا اور کامیابی کے ولسدت أبواب الفلاح ولهلك دروازے مسدود ہو جاتے اور تمام لوگ ضرور الناس كلهم أجمعين.ہلاک ہو جاتے.فلأجل ذلك جرت سُنة الله پس اس وجہ سے اللہ کی یہی سنت جاری ہے کہ أنه لا يُظهر ليلة ليلاء إلا ويُرى وہ کوئی گھپ اندھیری رات ظاہر نہیں فرماتا مگر بعدها قمراء ، وإنه جعل مع یہ کہ وہ اس کے بعد چاندنی رات دکھاتا ہے كل عسر يسرا، ومع كل ظلام اور یہ کہ اس نے ہر سر کے ساتھ کیسر اور ہر نورا.ففكر فى هذا النظام اندھیرے کے ساتھ نور رکھا ہے.پس تو اس نظام ليظهر عليك حقيقة المرام، وإن پر غور کرتا کہ تجھ پر حقیقت مرام ظاہر ہو.یقینا اس في ذلك لآيات للمتوسّمین میں اہلِ فراست کے لئے بہت سے نشان ہیں.
سر الخلافة ۱۳۱ اردو ترجمہ واعلم أن ظلمة هذا الزمان قد اور جان لو کہ اس زمانے کی ظلمت ہر قسم کی سرکشی فاقت كل ظلمة بأنواع الطغیان میں ہر ظلمت پر فوقیت لے گئی ہے اور خوف ناک وطلعت علينا آثار مخوفة وفتن | آثار اور دلوں کو پگھلا دینے والے فتنے ہم پر ظاہر مذيبة الجنان، والكفار نسلوا من ہو چکے ہیں اور کفارلوٹ مار کرتے ہوئے بھیڑیئے كل حدب کالسرحان ناهبین کی طرح ہر بلندی کو پھلانگ رہے ہیں.پس اب فحان أن يُعان المسلمون ويُقوّی وہ وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں کی اعانت کی جائے المستضعفون، ويوهن كيد اور کمزوروں کو طاقت بخشی جائے اور دجالوں کے الدجالين.ألم تمتلأ الأرض منصوبے کو کمزور کیا جائے.کیا زمین ظلم سے بھر ظلاما، وسفهت النفوس أحلاما نہیں گئی؟ اور لوگوں کی عقلیں ماری گئی ہیں، اور ونحت الناس أصناما، وغلب لوگوں نے بت تراش لئے ہیں اور کفر غالب آ گیا الكفر وحاق به الظفر وقل اور اُسے کامیابی حاصل ہوگئی.شرم و حیا کم ہو گئی.التخفر، فزخرفوا الزور الكبير لہذا انہوں نے بڑے سے بڑے جھوٹ کو مزین کر وزينوا الدقارير، وصالوا بكل ما کے اور ہر قبیح جھوٹ کو سجا کر پیش کیا اور ایذاء رسانی كان عندهم من لطم، وما بقی کے جو جو ذرائع ان کے پاس تھے اُن کے ساتھ على كيد من ختم و اتفق کل انہوں نے حملہ کیا اور وہ تمام منصوبے بروئے کار أهل الطلاح، وصاروا كالماء لائے.تمام بد کردار متحد ہو گئے اور پانی اور شراب والراح، وطفق زمر الجهال کی طرح باہم شیر وشکر ہو گئے.اور جاہلوں کے يتبعون آثار الدجال، ومن يقبل گروه دجال کے نقش قدم پر چلنے لگے.اور جو شخص مشرب هذيانهم يكون خالصة ان کی بیہودہ گوئی کی راہ اختیار کرے گا وہ ان کا خلصانهم.ووالله إن خباثتهم خالص پکا دوست ہو گا.اور بخدا ان کی خباثت شديدة، وأما حلمهم فمكيدة، بڑی شدید ہے اور ان کی نرم خوئی سازش ہے.
سر الخلافة ۱۳۲ اردو تر جمه متلهفين.بل هو أحبـولـة مـن حبائل بلکہ وہ تو ان کے فریب کے پھندوں میں سے ایک لهم، ورَسَن استمر من پھندہ ہے اور فریب کی ایسی رسی ہے جو ان کے فتلهم، وستعرفون دجاليتهم بٹنے سے مضبوط ہوگئی ہے.اور تم عنقریب ان کی دجالیت کو حسرت زدہ ہو کر پہچان لو گے.وإنهم قوم تفور المكائد من اور یہ ایسے لوگ ہیں کہ مکر و فریب ان کی زبان، لسانهم وعينيهم وأنفهم وأذنيهم، آنکھ، ناک، کان،ہاتھوں، کندھوں، پیروں اور ويديهم وأصدريهم و رجليهم کولہوں سے پھوٹ رہا ہے.اور میں ان کے ومذرويهم، وأرى كل مضغة اعضاء کی ایک ایک بوٹی کو فریب کاروں کی طرح من أعضائهم واثبة كالماكرين.پھڑکتے دیکھتا ہوں.زمانہ بگڑ گیا اور فسق و فجور اور فسد الزمان وعمّ الفسق ظلم عام ہو گیا.اور شہروں کے شہر اور ملک کے ملک والعدوان وتنصرت الدیار عیسائی ہو گئے.پس اللہ ہی ہے جس سے مدد طلب والبلدان؛ فالله المستعان کی جاسکتی ہے.لوگ تاریک و تاررات میں سفر کر والناس يدلـجـون في الليلة رہے ہیں اور سورج اور (اس کی) روشنی سے منہ الليلاء ويعرضون عن الشمس پھیر رہے ہیں.اور جان بوجھ کر خواہشات کی والضياء ، ويضيعون الإيمان خاطر ايمان ضائع کر رہے ہیں اور میں پادریوں کو للأهواء متعمدين وأرى اس شخص کی طرح دیکھتا ہوں، شکار جس کے قریب | القسيسين كالذى أكثبه قنص آگیا ہو یا اس کے مواقع پیدا ہو گئے ہوں.اور أو بدت له فرص، وأجدهم ميں ان کو مختلف حیلے بہانوں سے شکار کرتے بأنواع حيل قانصين.ہوئے پاتا ہوں.ومــن مـــــــائـــدهـم أنهم ان کی فریب کاریوں میں سے ایک طریق یہ يأسون جراح الموهوص ہے کہ وہ مضروب کے زخموں کا علاج کرتے ہیں
سر الخلافة ۱۳۳ اردو تر جمه و ويريشون جناح المقصوص، اور پر شکستہ کو پر لگاتے ہیں تا کہ وہ اس طرح لالچی لعلهم يسخرون قوما طامعين لوگوں کو اپنے قابو میں لے آئیں.وہ گمراہ ابن گمراہ يُرغبون ضُلا بنَ ضُلَّ ، ويفرضون كو ترغیب دلاتے اور ہر کم و بیش میں سے ان کے له من كلّ كثير وقُلّ، لعلهم لئے وظیفہ مقرر کرتے ہیں تا کہ وہ انہیں اس طوق يحبسونه بغُلّ، ثم يُسقطونه في کے ذریعہ قید کر لیں پھر وہ انہیں ہلاک شدہ لوگوں هوة الهالكين.يُبادرون إلى جبر کے گڑھے میں گرا دیتے ہیں اور شکستہ حال لوگوں کی الكسير وفك الأسير ومواساة ،اصلاح، اسیروں کی رہائی اور فقیروں کی غمخواری میں الفقير، بشرط أن يدخل في تیزی دکھاتے ہیں بشرطیکہ وہ ان کے اس دین میں دينهم الذى هو وقود السعير داخل ہو جائیں جو بھڑکتی آگ کا ایندھن ہے.وہ ويرغبونهم إلى بناتهم وأنواع ان كو اپنی بیٹیوں اور دیگر متنوع لذات کی رغبت لذاتهم ليغتر الخلق بجھلا تھم دلاتے ہیں تا کہ مخلوق اپنی جہالت کی وجہ سے ويجعلوهم كأنفسهم دھوکے میں آجائے.اور تا کہ وہ انہیں بھی اپنی طرح ۴۲ مفسدين.فالناس لا يرجعون کا فسادی بنا دیں.لوگ پڑھی جانے والی انجیلوں إليهم بأناجيل متلوّة، بل بخطبة کی وجہ سے نہیں بلکہ لٹیروں کی طرح خوبصورت مجلوة أو بمال مجان عورتوں اور مفت مال کی وجہ سے اُن کی طرف كالناهبين.ولا يتنصرون لوٹتے ہیں.وہ رؤف اور محسن اللہ کو راضی کرنے کی لأعتاب الرؤوف البر، بل خاطر عیسائی نہیں ہوتے بلکہ وہ دودھ دوہنے کی يهرولون لاحتلاب الدرّ لکی خاطر دوڑے جاتے ہیں تا کہ وہ آسودہ حال ہو يكونوا متنعمين.وكذلك أشاعوا جائیں.اس طور پر انہوں نے گمراہیوں کی اشاعت الضلالات ومدوا أطنابها، کی اور اُن کے خیمے لگا دیئے.اور ہر طرف سے وفتحوا من كل جهة بابها، گمراہیوں کے خیموں کے دروازے کھول دیئے ہیں
سر الخلافة ۱۳۴ اردو ترجمہ وأعدوا شهوات الأجوفین اور انہوں نے پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات کے سامان ودعوا طلابها ، فإذا يُسر لأحد مہیا کئے اور اُن کے طلبگاروں کو دعوت دی.پھر جب العقد، أو أعطى له النقد، اُن میں سے کسی کو عقد نکاح میسر آ جاتا ہے یا اُسے منهما و آمنوه من عیش انگد، فكان نقد مال دیا جاتا ہے اور وہ عیسائی اُسے تنگدستی سے بچا قد.وكذلك كانت فخُ لیتے ہیں تو اُن کی جو غرض ہوتی ہے وہ پوری ہو جاتی سيرهم، وشباك حِيلهم، ہے.اسی طرح اُن کی چالوں کا جال اور ان کے ولأجلها اصطف لديهم زُمر من مکروں کا دام بچھا ہے اور اسی وجہ سے اُن کے پاس الكسالى، لا يعلمون إلا الأكل سست اور کاہلوں کے ایسے گروہ قطار در قطار جمع ہو والشرب والدلال، ولا يوجد جاتے ہیں جو سوائے کھانے پینے اور نخروں کے کچھ صغرهم إلا إلى شرب المدام نہیں جانتے.اور ان کا میلان صرف اور صرف شراب أو إلى الغيد و أطايب الطعام، پینا اور محض نازک اندام عورتوں اور عمدہ کھانوں کی فيعيشون قرير العین بوصال طرف ہوتا ہے.پس وہ خوبصورت آنکھوں والی عورتوں العين ووصول العين.وكذلك كى صحبت اور مال وزر کے حصول کے ساتھ خوش و خرم لا يألو القسيسون جهدًا فی زندگی گزارتے ہیں.اس طرح پادری صاحبان إضلال العوام، ويُنعمون على عامتہ الناس کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور الذين هم كالأنعام ، وينفضون اُن لوگوں پر جو چوپایوں کی مانند ہیں نوازشیں کرتے عليهم أيادي الإنعام ، ويوطنونهم ہیں اور ان پر انعام نچھاور کرتے ہیں.اور عزت کے أمنع مقام من الإكرام، وتراهم ساتھ انہیں محفوظ مقامات پر آباد کرتے ہیں اور تو مكتين على الحطام، كأنهم هنيدة | انہیں دنیا کے ( فانی ) مال ومنال پر گرے ہوئے من راغية، أو ثلة من ثاغية.دیکھتا ہے.گویا کہ وہ اونٹنیوں کا گلہ یا بکریوں کا فهؤلاء هم الدجال المعهود، ریوڑ ہیں.پس یہی لوگ وہ دجال معہود ہیں.
سر الخلافة ۱۳۵ اردو ترجمه سے دور ہو فليَسرِ عنك إنكارك المردود.پس چاہئے کہ تمہارا انکار مردود تم.وإن هذه الأيام أيام اقتحام جائے.اور یقیناً یہ ایام گھپ اندھیروں کی یلغار لظلام، وأظلال خیام کے دن ہیں.اور ڈیرے ڈالنے والے دن کے يوم القيام، وإنا اعتمدنا خیموں کے سائے ہیں.اور ہم بلا شبہ تاریک رات ل واقتـحـمـنــا السيل میں داخل ہو چکے ہیں اور سیلاب میں اندھا دھند مختبطين.وفي منازلنا کھس چکے ہیں اور ہماری منزلوں میں ایسے طرق يضلّ بها خفير ويحار راستے موجود ہیں جن میں راہبر بھی بھٹک جائے.فيها نحریر ، وخوفنا يومنا اور جن میں ایک ماہر تجربہ کار حیران ہو جائے.الصعب الشديد، ورأينا ما ہمیں ہمارے اس نہایت کٹھن وقت نے خوفزدہ کر دیا کنامنہ نحید، وليس لنا ہے.اور ہم نے وہ کچھ دیکھا ہے جس سے ہم بچنا ما يشجع القلب المزء ود، چاہتے تھے.اور ہمارے لئے ہمارے ربّ ، ربّ ويحدو النضو المجهود إلا العالمین کے سوا کوئی نہیں جو خوفزدہ دل کو دلیر کرے ربنا رب العالمين.اور درماندہ (نفس کی ) اونٹنی کو تیز چلا سکے.والـنـاس قـد استشرفوا تلفا اور لوگ ہلاکت کے قریب پہنچ چکے ہیں وامتلأ وا حَزَنًا وأسفًا، ونسوا اور غم واندوہ سے بھر گئے ہیں.اور گزشتہ كل رزء سلف و كل بلاء زلَفَ، ہر مصیبت اور بلا کو بھول چکے ہیں.اور وہ ويستنشئون ریح مُغیث ولا مدد کی خوشبو سونگھنا چاہتے ہیں مگر خبیث کی يجدون من غير نتن خبیث بدبو کے سوا کچھ نہیں پاتے.کیا اس شر سے فهل بعد هذا الشر شر أكبر بڑھ کر بھی کوئی شر ہوسکتا ہے جسے دجال کہا منه يُقال له الدجال ؟ وقد جائے ؟ جس کی علامات ظاہر ہو چکی ہیں انكشف الآثار وتبينت الأهوال، اور اُس کے خطرات نمایاں ہو چکے ہیں.
۴۳ سر الخلافة ۱۳۶ اردو تر جمه ورأينـا حـمـارًا يجوبون عليه اور ہم نے اُس گدھے کو بھی دیکھ لیا ہے جس پر وہ البلدان، فيطس بأخفافه ملک ملک کی سیاحت کرتے ہیں اور جوسموں سے الظران، ويجعل سَنةً كشهر نوکدار پتھروں کو روندتا ہے اور اہل نظر کے نزدیک عند ذوى العينين، ويجعل سال کا سفر ایک مہینے میں اور مہینے کی مسافت ایک یا شهرا كيوم أو يومين، ويعجب دودنوں میں طے کر لیتا ہے.اور مسافروں کو خوش کر المسافرين.إنه مرکب جواب دیتا ہے.وہ ایک بہت گھومنے پھرنے والی سواری لا تـواهـقـه ركاب، ولا ثنية ولا ہے اونٹ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے نہ نو خیز نہ ہی عمر ناب، والسبل له جُدّدت رسیدہ.اُس کے لئے نئے نئے راستے بنائے گئے والأزمنة بظهوره اقتربت اور اُس کے ظہور سے زمانے سمٹ گئے.اور دس ماہ والعشار عُطّلت ، والصحف کی گابھن اونٹنیاں بیکار ہوگئیں.اخبار و رسائل کی نشرت والجبال دكت نشر و اشاعت کی گئی میں پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیئے گئے.☆ الحاشية : - اعلم ان القرآن مملو من حاشیہ:- جان لو کہ قرآن مستقبل کی پیشگوئیوں اور آنے والے الانباء المستقبلة والواقعات العظيمة الأتية عظیم واقعات سے بھرا پڑا ہے.اور لوگوں کو سکینت اور یقین کی ويقتاد الناس الى السكينة واليقين.و جانب رہنمائی فرماتا ہے.اور اُس کی اونٹنیاں ہر زمانے میں عشاره تخور لحمل السالکین فی کل زمان سالکوں کو سوار کرنے کے لئے پکار رہی ہیں اور اُس کی دیگیں بھوکوں و أعشاره تفور لتغذية الجائعين في کل اوان کو غذا فراہم کرنے کے لئے ہر دم اُبل رہی ہیں.اور وہ ( قرآن ) و هو شجرة طيبة يؤتى اكله كل حين ایسا پاک درخت ہے جو ہر وقت تازہ پھل دیتا ہے اور اُس کے و ذللت قطوفه في كل وقت للمجتنين.فما خوشے پھل چننے والوں کے لئے ہر وقت جھکے ہوئے ہیں.اور کوئی من زمن ماله من ثمر و لا تعطل شجرته زمانہ ایسا نہیں جس میں اُس کے پھل نہ ہوں.اور اُس کا درخت كشجرة عـنـي و تــمـر بل يُرى ثمراته فی انگور اور کھجور کے درخت کی طرح کبھی بے ثمر نہیں ہوتا بلکہ ہر معاملہ كل امر و يـطـعـم مستطعمين.و من اعظم میں یہ اپنے ثمرات ظاہر کرتا ہے.اور کھانے کے طالبوں کو وہ معجزاته انه لا يغادر واقعة من الواقعات.( قرآن ) کھانا کھلاتا ہے.اور اس کا عظیم تر معجزہ یہ ہے کہ وہ لوگوں التـي كـانـت مـفـيـدة للناس او مضرة ولكن کے لئے مفید یا مضر اہم واقعات میں سے کسی واقعہ کو نہیں چھوڑتا كانت من المعظمات كما قال عزّ وجل بشر طیکہ وہ اہم ہوں.جیسا کہ خدائے عزوجل نے فرمایا ہے
سر الخلافة ۱۳۷ اردو ترجمہ والبحار فجرت، والنفوس اور دریا جاری کئے گئے او رلوگوں میں ملاپ زوجت ، وجعلت الأرض كأنها پیدا کیا گیا اور زمین گویا لپیٹ دی گئی ہے اور وہ (۴۳ مطوية ومزلف طرفيها، اپنے کناروں کو قریب کرتی چلی جارہی ہے.بقية الحاشية : - فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ بقیه حاشیہ: کہ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ لے اور اس حَكِيم وفي هذا اشارة من رب عليم الی میں رب علیم کی طرف سے اس بات کا اشارہ ہے کہ ہر ہراہم ان كل ما يفرق في ليلة القدر من امر معاملہ جولیلۃ القدر میں طے پاتا ہے وہ اللہ کی عظمت و جلال والی ذي بـال فهو مكتوب في القرآن کتاب الله کتاب قرآن میں لکھا ہوا ہے.کیونکہ وہ ( قرآن ) کامل نزول ذى كل عظمة و جلال فانه نزل في کے ساتھ لیلۃ القدر میں نازل ہوا.پھر اُس قرآن سے اُس خاص ليلة القدر بـنـزول تمام فبورك منه الليل رات کو رب غلام کے اذن سے برکت دی گئی.پس جو کچھ بھی اس | باذن ربّ علام فـكـلـمـا يوجد من العجائب (خاص) رات میں عجائب پائے جاتے ہیں وہ سب ان مبارک في هذه الليلة يوجد من بركات نزول صحیفوں کے نزول کی برکات کی وجہ سے ہیں.پس قرآن ان هـذه الـصـحـف الـمـبـاركـة فـالـقـرآن احق صفات کا زیادہ حقدار اور لائق ہے کیونکہ وہ ان سب برکات کا و اولى بهذه الصفات فانه مبدأ اوّل لهذه مبدع اوّل ہے.اور اس شب قدر کو کائنات کے رب کی طرف البركات و ما بوركت الليلة الا به من ربّ سے صرف اور صرف اس (قرآن) کی وجہ سے برکت دی گئی.الكائنات ولاجل ذلك يصف القرآن | اسی وجہ سے قرآن خود کو ان اوصاف سے متصف قرار دیتا ہے جو نفسه بأوصاف توجد في ليلة القدر بل لیلۃ القدر میں پائے جاتے ہیں بلکہ یہ رات تو ہلال کی طرح ہے اور الليـلـة كـالـهـلال وهو كالبدر و ذلك مقام وہ (قرآن) چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے اور یہ امر مسلمانوں کے لئے مقام شکر اور لائق فخر ہے.الشكر والفخر للمسلمين.و انی نظرت مرارا فوجدت القرآن بحرا میں نے بارہا غور کیا تو قرآن کو ایک بحر ذخار پایا.اللہ نے زخارا و قد عظمه الله انواعا واطوارا فما اُسے انواع و اطوار سے عظمت بخشی ہے پھر مخالفوں کو کیا ہو گیا ہے لـلـمـخـالـفـيــن لا يرجون له وقارا و انکروا کہ یہ اُس کا وقار نہیں چاہتے.انہوں نے اس کی عظمت کا کلیۂ عظمته انكارا ويتكتون علی احادیث ما انکار کر دیا ہے اور وہ اُن احادیث پر تکیہ کر رہے ہیں جن کی اچھی طهر وجهها حق التطهير ويتركون الحق طرح جانچ پڑتال نہیں کی گئی.وہ قبیح جھوٹ کی خاطر خالص حق الخالص لـلـدقــاريـــر ولا يخافون ربّ کو چھوڑ رہے ہیں.اور وہ ربّ العالمین سے نہیں ڈرتے.اور الـعـالـمـيـن.واذا قيل لهم تعالوا الى كتاب جب اُن سے یہ کہا جائے کہ اُس کتاب کی طرف آؤ جو ہمارے سواء بيننا وبينكم لتخلصوا من الظلام اور تمہارے درمیان برابر ہے تا کہ تم ظلمت سے نجات پاؤ لے اس میں ہر پر حکمت بات کا فیصلہ کیا جاتا ہے.(الدخان:۵)
سر الخلافة ۱۳۸ اردو تر جمه وتركت القلاص فلا يُسعى جوان اونٹنیاں ایسی بے کار کر دی گئیں کہ اُن عليها.وليس هذا محل إلباس سے کام نہیں لیا جاتا یہ مقام حرج نہیں بلکہ اللہ بل أرصده الله لخیر الناس نے لوگوں کی بھلائی کے لئے یہ چیز تیار کی ہے.بقية الحاشية: وتفتح اعينكم قالوا کفی بقیہ حاشیہ:.اور تمہاری آنکھیں کھل جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم لنا ما سمعنا من أباء نا الاولين اولو كان نے اپنے پہلے آباء و اجداد سے سناو ہی ہمارے لئے کافی ہے.خواہ اُن أباء هـم لا يعلمون شيئا من حقایق الدین و کے یہ آباء و اجداد دین کے حقائق میں سے کچھ بھی نہ جانتے ہوں میں (۴۴) اني فكرت حق الفكر فوجدت فيه كل نے خوب غور وفکر کیا تو میں نے اس میں ذکر کی تمام انواع پائیں.اور انواع الذكر وما من رطب و لا يابس الا فی کوئی اہم اور معمولی بات ایسی نہ تھی جو اس کتاب مبین میں مذکور نہ ہو.کتاب مبين و من انباء ه انه اخبر عن نشر اُس کی پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی یہ بھی ہے کہ اس نے آخری الصحف في اخر الزمان وكذلك ظهر زمانے میں صحیفوں کی نشر و اشاعت کی خبر دی ہے.اور وہ پیشگوئی بالکل الامر في هذا الاوان وقد بدت في هذا اُسی طرح اس زمانے میں ظاہر ہو گئی.اس زمانے میں وہ کتابیں ظاہر الــزمـن كـتـب مـفـقـدة بـل مـوؤدة حتى ان ہوئیں جو پہلے نا پید بلکہ مدفون تھیں.یہاں تک کہ ان کتابوں کی کثرت كثرتهـا تـعـجـب الـنـاظرين.وظهرت کل ناظرین کو حیران کئے ہوئے ہے.اور اشاعت و کتابت کے ہر طرح وسائل الاشاعة والكتابة و لا بد من أن نقبل کے وسائل ظاہر ہو چکے ہیں اور اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم اس امر کو بغیر هذا الأمر من غير الاسترابة و ان كنت في شک وشبہ کے قبول کرلیں.اگر تم کو اس کثرت صحف کے بارے میں شك من هذا فات نظيره من زمن الاولين.کوئی شک ہو تو اس کی کوئی نظیر پہلے زمانوں سے پیش کرو.و من انباء العليم القهار انه اخبر اور علیم و قہار خدا کی پیشگوئیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اُس نے دس من تعطيل العشار و تفجير البحار ماہ کی گا بھن اونٹنیوں کے بے کار ہو جانے ،سمندروں اور دریاؤں وتزويــج الــديــار فـظـهـر كـمـا اخبر کے پھاڑے جانے اور ملکوں کے باہمی ملاپ کی اطلاع دی.اور فتبارك عالم غيوب السموات والارضين.پھر جیسے خبر دی ویسا ہی ظہور میں آگیا.پس بہت ہی برکت والا ہے واخبــر عـن قـوم ذوى خـصـب يـنـسـلون وہ خدا جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ باتوں کا علم رکھنے والا ہے.من كل حدب ويعلون علوا كبيرًا اور اُس نے ایک ایسی خوشحال قوم کے متعلق بھی خبر دی جو ہر بلندی ويفسدون في الارض فسادًا مبيرا فرئینا سے پھلانگتے ہوئے آئے گی اور بہت بڑی سرکشی کرے گی اور زمین تلك الـقـوم باعيننا ورئينا غلوهم وغلبتهم میں تباہ کن فساد برپا کرے گی.پھر ہم نے اس قوم کو بچشم خود دیکھا بـلـغـــت مشـــارق الارض و مغاربها تكاد اور ان کے غلو اور غلبہ کو بھی دیکھا جو زمین کے مشارق ومغارب میں السموات يتفطرن من مفاسدهم يلبسون پہنچ چکا ہے.قریب ہے کہ آسمان ان کے مفاسد کی وجہ سے پھٹ الحق بالباطل و كانوا قوما دجالین جائیں.وہ حق کو باطل سے ملا جلا دیتے ہیں اور وہ دجال قوم ہیں
سر الخلافة ۱۳۹ اردو ترجمہ (۳) ولو كان من صنع الدجالين.اگر چہ یہ دجالوں کی صنعت ہے.پس یہ سواریاں فهذه المراكب جارية مذ مدة، مدّت سے جاری وساری ہیں اور ان کے سوا اور وليست سواها قعدة، وفيها كوئی کر دجال نہیں ، اس میں اہل عقل کے لئے آيات للمتفطنين.کئی نشان ہیں.فثبت من هذا البيان أن هذا هو پس اس بیان سے ثابت ہو گیا کہ المہدی اور وقت ظهور المهدي ومسيح الزمان، مسیح الزمان کے ظہور کا یہی وقت ہے.یقیناً فإن الضلالة قد عمّت، والأرض ضلالت عام ہوگئی ہے اور زمین بگڑ گئی ہے فسدت، وأنواع الفتن ظهرت اور طرح طرح کے فتنے ظاہر ہو گئے ہیں اور وكثرت غوائل المفسدين فتنہ اندازوں کی ہلاکت خیز یاں بہت زیادہ ہوگئی ہیں بقية الحاشية : اتخذوا الحلم والاطماع بقیہ حاشیہ :.انہوں نے نرمی، لالچ دینے اور خوفناک تحریف کو گمراہ والتحريف المناع شبكة الاضلال واهلكوا کرنے کا ایک پھندہ بنایا ہوا ہے.اور بہت سی مخلوق (خدا) کو اس خلقا كثيرا منه هذا التثليث كالمغتال وكل تثلیث کے ذریعہ دھوکا سے ہلاک کرنے والے کی طرح ہلاک کر دیا من يقصد منهم طرق الغول الخبيث فلا بد ہے.اور اُن میں سے ہر وہ شخص جو خبیث غول بیابان کی راہیں اپنا تا له مـن هـذا التثليث فيهلكون بعض الناس ہے تو اس کو تثلیث ) کے فریب ) کے سوا چارہ نہیں.پھر وہ کچھ لوگوں کو بـالـحـلـم الـمـبـنـي على الاختداع بانواع تو دھو کے پر مبنی حالم کے ذریعہ قسم قسم کے لالچ دے کر ہلاک کرتے ہیں الاطماع و به و بعضًا أخر بظلام التحريف الذي اور کچھ اور لوگوں کو روشنی کی دشمن تحریف کے اندھیروں سے تباہ کرتے هو عدو الشعاع وكذلك يضلون الخلق ہیں اور اس طرح وہ مخلوق خدا کو عمداً گمراہ کر رہے ہیں.انہیں باپ، متعمدين.وما نفعهم حديث الاب والابن و بیٹے اور روح القدس کے قصہ نے کچھ فائدہ نہ دیا کیونکہ وہ تو محض ایک روح القدس و ان هو الا الحديث ولكن من گھڑت بات ہے.البتہ اس ( حلم ، لالچ دینے اور تحریف کرنے نفعهم هذا التثليث ففازوا بمطالب الخبث والی تثلیث نے انہیں ضرور فائدہ پہنچایا ہے.سو وہ گند اور پلیدی والرجس فعجبت لهم كيف ايدوا من روح والے مقاصد میں کامیاب ہیں.مجھے اُن پر تعجب ہے کہ کس طرح اُن القدس و نسلوا من كل حدب فرحين.کی روح القدس سے تائید کی گئی ؟ اور انہوں نے کیسے اتراتے ہوئے ولكل امر اجل فاذا جاء الاجل فلا ينفع ہر بلندی کو تیزی سے پھلانگ لیا.ہر امر کے لئے ایک میعاد ہوتی ہے الكايدين كيدهم ولا يطيقون قبل اور جب وہ میعاد آئے گی تو مکاروں کو ان کا کوئی مکر فائدہ نہ دے گا اور وہ صادقوں کا سامنا کرنے کی طاقت نہ پائیں گے.منہ الصادقين.منه
سر الخلافة ۱۴۰ اردو ترجمہ ٢٣ وكل ما ذكر فى القرآن من اور آخری زمانے کی علامات جو قرآن میں علامات آخر الزمان فقد بدت مذکور ہیں وہ تمام تر ناظرین کے لئے ظاہر كلها للناظرين.ہو چکی ہیں.والذين يرقبون ظهور اور جولوگ یہ انتظار کر رہے ہیں کہ مہدی صرف المهدي من ديار العرب، أو بلاد عرب یا مغربی ممالک کے کسی ملک سے من بلدة من بلاد الغرب فقط ظاہر ہوگا تو انہوں نے بلاشبہ بہت بڑی غلطی کا أخطأوا خطأ كبيرًا وما كانوا ارتکاب کیا اور وہ (اس رائے میں ) درست مصيبين.فإن بلاد العرب بلاد نہیں ہیں.کیونکہ بلا دعر بیہ وہ ملک ہیں جنہیں حفظها الله من الشرور والفتن اللہ تعالیٰ نے شر فتنوں اور کفار زمانہ کے مفاسد ومفاسد كفار الزمن، ولا يُتوقع سے حفاظت میں رکھا ہے.اور اُس ہادی ظهور الهادي إلا في بلاد ( برحق ) کے ظہور کی توقع صرف اُن علاقوں كثرت فيها طوفان الضلال، میں کی جاسکتی ہے جن میں گمراہی کا طوفان وكذلك جرت سُنة الله ذى زوروں پر ہو.اللہ ذوالجلال کی سنت ایسے ہی الجلال.وإنا نرى أن أرض جاری ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ سرزمین الهند مخصوصة بأنواع الفساد، ہند طرح طرح کے فسادات کے لئے مخصوص وفتحت فيها أبواب الارتداد ہے اور اس میں ارتداد کے دروازے کھول (۲۵) وكثر فيها كل فسق وفجور، دیئے گئے ہیں.اور اس میں فسق و فجور اور ظلم وظلم و زور، فلا شك أنها اور جھوٹ کی بہتات ہے.پس اس میں کوئی محتاجة بأشد الحاجة إلى شک نہیں کہ اس (سرزمین ) کو صاحب عزت و نصرة الله ذى العزة والقدرة قدرت اللہ کی نصرت اور حضرت عزت کی ومجيء مهدي من حضرة العزّة.طرف سے آمد مہدی کی اشد ضرورت ہے.
سر الخلافة ۱۴۱ اردو ترجمہ ووالله لا نرى نظیر فساد الهند بخدا! ہم ہندوستان ( میں موجود ) فساد اوران في ديار أخرى، ولا فتناً گفتن هذه عیسائیوں کے فتنوں جیسے فتنے کی نظیر دوسرے النصارى.وقد جاء في الأحاديث ممالک میں نہیں دیکھتے.صحیح حدیثوں میں آیا الصحيحة أن الدجال يخرج من ہے کہ دجال مشرقی ممالک سے خروج کرے الديار المشرقية، والقرآن يشير گا.اور قرآن کھلے کھلے قرائن کے ساتھ اس إلى ذلك بالقرائن البينة، طرف اشارہ فرماتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ فوجب أن نحكم بحسب هذه ہم ان ثابت شدہ بد یہی علامات کے مطابق العلامات الثابتة البديهة، ولا فیصلہ کریں.اور انکار کرنے والوں کے انکار کی نتوجه إلى إنكار المنكرين.طرف کوئی توجہ نہ دیں.والذين يرقبون المهدي في اور جو لوگ مہدی کا مکہ یا مدینہ میں انتظار کر مكة أو المدينة فقد وقعوا فی رہے ہیں تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گئے ہیں اور الضلالة الصريحة.وكيف، یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اللہ نے اپنے خاص فضل والله كفل صيانة تلك البقاع اور رحمت کے ساتھ ان مبارک خطہ ہائے زمین المباركة بالفضل الخاص کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہوئی ہے.ان والرحمة، ولا يدخل رعب علاقوں میں دجال کا رُعب داخل نہیں ہو گا اور الدجال فيها، ولا يجد أهلها نہ ہی وہاں کے رہنے والوں کو اس فتنہ (دجال) ريح هذه الفتنة فالبلاد کی ہوا لگے گی.لہذا وہ ممالک جہاں دجال التي يخرج فيها الدجال أحق خروج کرے گا وہ اس بات کے زیادہ لائق وأولى بأن يرحم أهلها الربُّ اور مستحق ہیں کہ اُن کے رہنے والوں پر ربّ الفعّال، ويبعث فيهم من فقال رحم فرمائے.اور آسمانی انوار کے ساتھ كان نازلا بالأنوار السماوية نازل ہونے والے کوان میں مبعوث فرمائے
سر الخلافة ۱۴۲ اردو ترجمہ كما خرج الدجال بالقوى جیسا کہ دجال شیاطین کی طرح زمینی طاقتوں الأرضية كالشياطين.وأما ما کے ساتھ ان میں ) نکلا ہے.اور یہ جو کہا گیا قيل أن المهدى مُختفِ في الغار ہے کہ مہدی کسی غار میں چھپا ہوا ہے تو اس قول فهذا قول لا أصل له عند ذوی کی اہلِ بصیرت کے نزدیک کوئی بنیاد نہیں.اور الأبصار، وهو كمثل قولهم أن يہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے وہ کہتے ہیں کہ عیسی عيسى لم يمت بل رفع بجسمه فوت نہیں ہوئے بلکہ اپنے جسم کے ساتھ آسمان إلى السماء ، وينزل عند خروج کی طرف اُٹھالئے گئے ہیں.اور وہ دجال کے الدجال والفتنة الصمّاء ، مع أن خروج اور سخت فتنے کے وقت نازل ہوں گے.القرآن يُخبر عن وفاته ببيان باوجود اس کے کہ قرآن صریح واضح بیان کے ساتھ اُن کی وفات کی خبر دیتا ہے.صريح مبين فالحق أن عيسى والإمام سوحق یہ ہے کہ عیسی اور امام محمد نے اپنے محمد أطرحا عنهما جلابيب جسموں کے چوغے اُتار پھینکے اور اُن کے ربّ أبدانهما وتوفاهما ربّهما نے ان دونوں کی روحوں کو قبض کر لیا.اور انہیں وألحقهما بالصالحين، وما صالحین کے گروہ میں شامل کر لیا.اللہ نے کسی جعل الله لعبد خُلدًا، وكل بندے کے لئے بھی ہمیشہ (زندہ) رہنا مقدر كانوا من الفانين.ولا تعجب نہیں فرمایا.اور وہ سب فانی تھے.تو اُن من أخبار ذُكر فيها قصة حياة روايات پر تعجب نہ کر جن میں حیات مسیح کا قصہ المسيح، ولا تلتفت إلى أقوال مذکور ہے اور نہ اُن اقول کی طرف توجہ کر جن میں فيها ذكر حياة الإمام ولو امام کی زندگی کا ذکر کیا گیا ہے.خواہ ( یہ ذکر ) بالتصريح، وإنها استعارات صراحت سے ہو.دراصل یہ استعارے ہیں.وفيها إشارات للمتوسّمین اور ان میں اہلِ فراست کے لئے اشارے ہیں.
سر الخلافة ۱۴۳ اردو ترجمہ والبيان الكاشف لهذه الأسرار، ان اسرار کی حقیقت کو کھولنے والا بیان اور وہ والكلام الكامل الذي هو رافع كامل كلام جو ان سے پردہ اُٹھانے والا ہے یہ الأستار، أن لله عادة قديمة ہے کہ یہ اللہ کی قدیم عادت اور سنت مستمرہ ہے وسُنّة مستمرة أنه قد يُسمّی کہ وہ وفات یافتہ نیک بندوں کو زندہ الموتى الصالحين أحياءً ، ليفهم قرار دیتا ہے تاکہ وہ اس طرح دشمنوں کو به أعداء أو يبشر به أصدقاء ، أو سمجھائے یا راستباز دوستوں کو خوشخبری دے یا یکرم به بعض عباده المتقین اس سے اپنے بعض متقی بندوں کی عزت افزائی كما قال عزّ وجلّ في الشهداء کرے.جیسا کہ اللہ عز و جل نے شہیدوں لا تحسبوهم أمواتا بل أحياء کے بارہ میں فرمایا کہ تم انہیں مردے نہ سمجھو.ففى هذا إيماء إلى أن الكافرين بلکہ وہ زندہ ہیں.پس اس میں یہ اشارہ ہے کہ كانوا يفرحون بقتل المؤمنين كا فرمومنوں کو قتل کر کے خوش ہو رہے تھے اور وكانوا يقولون إنا قتلناهم | یہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے انہیں قتل کیا ہے اور ہم غالب ہیں.وكذلك كان بعض المسلمين اور اسی طرح بعض مسلمان اپنے بھائیوں، محزونين بموت إخوانهم وخلانهم دوستوں ، باپوں اور بیٹوں کی موت سے وآبائهم وأبنائهم مع أنهم قتلوا غمگين تھے.اگر چہ یہ سب رب العالمین کی في سبيل ربّ العالمین، فسکت راہ میں قتل کئے گئے تھے.پس اللہ نے الله الكافرين المخذولين بذکر شہیدوں کی زندگی کا ذکر کر کے نامراد حياة الشهداء ، وبشر المؤمنين کافروں کا منہ بند کر دیا.اور غمزدہ مومنوں کو المحزونين أن أقاربهم من الأحياء بشارت دی کہ اُن کے رشتہ دار زندہ ہیں.وأنهم لم يموتوا وليسوا بميتين.اور یہ کہ وہ مرے نہیں اور نہ وہ مرنے والے ہیں.وإنا من الغالبين.
سر الخلافة ۱۴۴ اردو تر جمه وما ذکر فی کتابہ اور خدا نے اپنی کتاب مبین میں یہ ذکر نہیں کیا کہ (٢٦) المبين أن الحياة حياة روحانی (شہداء کی) یہ زندگی روحانی زندگی ہے اور اہلِ وليس كحياة أهل الأرضين، زمین کی زندگی کی طرح نہیں ہے بلکہ (اللہ نے) بل أكد الحياة المظنون اپنے قول عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ لے کے بقوله عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ذریعہ اُس یقینی زندگی کو زیادہ مؤکد بنا دیا اور و رد على المنكرين.منکرین کارڈ فر مایا.فكيف تعجب من قول لم يمت پھر تم اس قول سے کیونکر خوش ہوتے ہو کہ عیسی فوت عيسى، وقد جاء مثل هذا القول نہیں ہوئے حالانکہ اس قسم کا قول تو اُن لوگوں کے لقوم لحقوا بالموتى وماتوا متعلق بھی آیا ہے جو مر دوں سے یقینی طور پر جاملے بالاتفاق، وقتلوا بالإهرياق ہیں اور بالاتفاق مر چکے ہیں اور خون بہانے سے قتل ودفنوا بالیقین.أما يكفی کئے گئے اور یقینی طور پر دفن کئے گئے.بلا شک وشبہ لك حياة الشهداء بنص كتاب موت کے وقوع کی صحت کے باوجود حضرت کبریاء کی حضرة الكبرياء مع صحة واقعة كتاب كى نَص سے ثابت شہداء کی زندگی کیا تیرے الموت بغير التمارى والامتراء لئے کافی نہیں؟ پس قرآن کریم کے حضرت عیسی فأي فضل وخصوصية لحياة كو وفات یافتہ قرار دینے کے باوجود حضرت عیسی عيسى مع أن القرآن يسميه کی زندگی کے لئے کون سی فضیلت اور خصوصیت ہے؟ المتوفى، فتدبر فإنك تُسأل پس غور کر! کیونکہ جزا وسزا والے دن تجھ سے ہر عن كل خيانة ونفاق في يوم خيانت اور نفاق کے متعلق پوچھا جائے گا.اس الدين.يومئذ يتندّم المبطل على دن ہر باطل پرست اپنے اصرار کرنے اور اس سے ما أصر، وعلى ما أعرض عنه وفرّ، اعراض کرنے اور فرار اختیار کرنے پر نادم ہو گا ، لے وہ اپنے رب کے ہاں رزق دیئے جاتے ہیں.(ال عمران: ۱۷۰)
سر الخلافة ۱۴۵ اردو تر جمه ولكن لا ينفع الندم إذ الوقت ليکن یہ ندامت اُسے کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی مضى ومر، وكذلك تطلع کیونکہ وقت جاچکا اور گزر چکا ہوگا.اور اسی نار الله على أفئدة الكاذبين.طرح اللہ کی آگ کافروں کے دلوں کے ويل للمزورين الذين اندر چلی جاتی ہے پس ہلاکت ہے ان جھوٹے لا ينتهون عن تزيدهم بل ملمع سازوں کے لئے جو اپنے غلو سے باز نہیں يزيدون كل يوم وكل حين آتے بلکہ ہر روز اور ہردم بڑھتے چلے جاتے وكفى لخيانتك أن تتبع ہیں.تیری خیانت کے ثبوت میں یہی کافی ہے بغیر تحقیق کل قول رقیق که تو بلا تحقیق ہر معمولی بات کی جو تیرے کانوں بلغ آذانك، وما تطهر تک پہنچے پیروی کرنے لگتا ہے.اور تو اپنے من الجهلات جنانك دل کو جاہلانہ باتوں سے صاف نہیں کرتا اور وتسقط على كل خضراء بندہ ہوا و ہوس اور فتنوں کے خوگر کی طرح الدمن، كأهل الأهواء کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر اُگے سبزہ پر گرتا ومحبى الفتن، ولا تفتش اور پاک وصاف لوگوں کی طرح پاکیزہ چیزوں کا متلاشی نہیں.الطيب كالطيبين.ہے وقد علمت أن إطلاق لفظ الأحياء اور تجھے معلوم ہے کہ قرآنی نصوص على الأموات وإطلاق لفظ الحياة اور فرقان حمید کے محکمات کی روسے على الممات ثابت من النصوص زندوں کا لفظ مُردوں پر اور حیات کا لفظ القرآنية والمحكمات الفرقانية موت پر اطلاق پاتا ہے جیسا کہ یہ امر علم كما لا يخفى على المستطلعين کے اُن طالب علموں سے مخفی نہیں الذين يتلون القرآن متدبّرین جو قرآن کو مد تر سے پڑھتے اور کھولنے کے تدبر ويصــــون أبـوابـه مستفتحين.لئے اس کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں.
سر الخلافة ۱۴۶ اردو ترجمہ فينير عليك من هذه الحقيقة اس روشن حقیقت سے تجھ پر وہ رات جو بعض الغراء الليل الذى اكفهر على بعض علماء پر شدید تاریک ہو چکی تھی منور ہو جائے العلماء حتى انثنوا مُحقوقفین گی یہاں تک کہ وہ مستقیم الحال ہونے کے بعد کج رو ہو گئے.بعدما كانوا مستقيمين.ولعلك تقول بعد هذا البيان اس بیان کے بعد شاید تو یہ کہے کہ میں إنِّى فهمت حقيقة الحياة كأهل نے اہلِ عرفان کی طرح زندگی کی حقیقت کو العرفان، ولكن ما معنی سمجھ لیا ہے.تو پھر معقول طور پر اور ایسے النزول على وجه المعقول طریق سے جس سے حق کے متلاشیوں کے وعلى نهج يطمئن قلوب دل اطمینان حاصل کر سکیں نزول کے کیا معنی الطالبين.فاعلم أنه لفظ قد ہیں ؟ سو جان لو کہ یہ ( نزول ) کا لفظ وہ ہے كثر استعماله في القرآن، جو قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے اور وأشار الله الحمید فی مقامات خدائے حمید نے قرآن میں مختلف مقامات پر شتى من الفرقان أن كل حِبُرٍ یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہر حسن و جمال آسمان وسبر ينزل من السماء ، وما سے نازل ہوتا ہے اور ہر چیز حضرتِ کبریاء من شيء إلا ينال کماله من کے اذن سے اوپر سے ہی اپنا کمال حاصل العُلى بإذن حضرة الكبرياء ، کرتی ہے.اور زمین اُسی چیز کو لیتی ہے جسے وتلتقط الأرض ما تنفض آسمان گرا ئیں اور طبائع وہی رنگ پکڑتی السماوات، ويصبغ القرائح ہیں جو اوپر سے رنگ دیا گیا ہو.پھر (اُس بتصبيغ من الفوق، فتجعل کے بعد ) یا تو نفس کو سعادتمند بنایا جاتا ہے نفس سعيدًا أو من الأشقياء یا پھر اُسے بدبختوں اور حق سے دُور رہنے والمبعدين.والوں میں داخل کر دیا جا تا ہے.
سر الخلافة ۱۴۷ اردو تر جمه فالذين سعدوا أو شقوا يُشابه پھر سعادت مند یا بد بخت لوگ ایک دوسرے کے بعضهم بعضا، فیزیدون تشابها مشابہ ہونے لگتے ہیں.اور دن بدن اس مشابہت يوما فيوما ، حتى يُظَنّ أنهم میں بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ایک ہی شيء واحد، كذلك جرت سمجھتے جاتے ہیں.احسن الخالقین اللہ کی یہی سنت سنة أحسن الخالقين.وإليه جاریہ ہے اور اسی کی جانب خدائے عزوجل يشير عزّ وجلّ بقوله تَشَابَهَتْ اپنے قول تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ لے میں اشارہ قُلُوبُهُم فليتفكر من أُعطى فرماتا ہے.لہذا ہر اُس شخص کو جسے غور و فکر کرنے (۴۷) قوى المتفكرين.والوں کے قومی دیئے گئے ہیں غور کرنا چاہیئے.اور وقد يزيد على هذا التشابه اور کبھی بزرگ و توانا خدا کے اذن سے اس شيء آخر بإذن الله الذي هو مشابہت پر کوئی اور چیز بھی زیادہ ہو جاتی ہے أكبر وأقدر ، وهو أنه قد يفسد اور وه يه كهہ کسی نبی کی امت انتہائی درجہ تک بگڑ أُمة نبى غاية الفساد، ويفتحون جاتی ہے اور وہ اپنے اوپر ارتداد کے دروازے على أنفسهم أبواب الارتداد کھول لیتے ہیں.تب اللہ کی مصلحتیں و تقتضى مصالح الله وحكمه حکمتیں تقاضا کرتی ہیں کہ وہ انہیں عذاب نہ أن لا يعذبهم ولا يُهلكهم بل دے اور نہ ہی ہلاک کرے.بلکہ وہ انہیں يدعو إلى الحق ويرحم وهو حق كى طرف بلاتا اور رحم فرماتا ہے اور وہ أرحم الرّاحمين.فيفتح الله ارحم الراحمین ہے.پھر اللہ اس وفات یافتہ نبی عين نبى متوفى كان أُرسل إلى كى آنکھ کھولتا ہے جو اس قوم کی طرف بھیجا تلك القوم فیصرف نظرہ گیا تھا.پھر وہ اُن کی طرف اپنی نگاہ مبذول إليهم كأنه استيقظ من النوم کرتا ہے.گویا وہ ابھی نیند سے بیدار ہوا ہے ے ان کے دل آپس میں مشابہ ہو گئے.(البقرۃ: ۱۱۹)
سر الخلافة ۱۴۸ اردو تر جمه ويجد فيهم ظلما وفسادا اور وہ ان میں ظلم اور بہت بڑا فساد اور غلو اور تباہ کن كبيرًا، وعُلوا وضلالا مُبيرا، گمراہی پاتا ہے اور ان کے دلوں کو دیکھتا ہے کہ وہ ویری قلوبھم قد مُلِئَت ظلم اور جھوٹ اور فتنے اور شر سے بھر گئے ہیں تب ظلما وزورا وفتنا وشرورًا، اس کا دل بے چین ہوجاتا ہے، جان بیقرار ہوتی فيضجر قلبه، وتقلق مهجته ہے اور روح اور طبیعت مضطرب ہو جاتی ہے اور وتضطر روحه ، و قریحته چاہتا ہے کہ نزول فرما ہو کر اپنی قوم کی اصلاح ويعشو أن ينزل ويُصلح کرے اور دلیل کے ساتھ انہیں لا جواب کرے قومه ويُـفـحـمهم دليلا، لیکن وہ اُس کی طرف کوئی راہ نہیں پاتا.تب اللہ فلا يجد إليه سبيلا، فيُدركه کی تدبیر اس کی دستگیری کرتی ہے اور اُسے تدبيـــر الـحـق ويـجـعـلـه من کامیاب ہونے والوں میں سے بنادیتی ہے اور الفائزين.ويخلق الله اللہ اس کا ایسا مثیل پیدا کر دیتا ہے جس کا دل اُس مثيلا له يشابه قلبه قلبہ کے دل اور جس کا جو ہر اُس کے جوہر کے مشابہ وجوهره جوهره ، ويُنزِل ہوتا ہے اور جس ( وفات یافتہ نبی ) کا وہ مثیل إرادات الممثل به على ہے اُس کے ارادوں کو (اس) مثیل پر نازل المثيل، فيفرح الممثل بہ کرتا ہے.جس پر مُمثل بِہ اس راہ کے آسان بتيشر هذا السبيل، ويحسب ہونے کی وجہ سے خوش ہو جاتا ہے اور وہ اپنے نفسه من النازلين، ويتيقن آپ کو نازل ہونے والا سمجھتا ہے اور اسے پورا بتيقن تام قطعى أنه نزل قطعی یقین ہو جاتا ہے کہ وہ خود اپنی قوم میں بقومه، وفاز برومه، فلا يبقى نازل ہوا ہے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا له هم بعده ويكون ہے لہذا اس کے بعد اُسے کوئی غم نہیں رہتا اور وہ خوش باش ہو جاتا ہے.من المستبشرين.
سر الخلافة ۱۴۹ اردو تر جمه فهذا هو سر نزول عيسى پس یہ نزول عیسی کا وہ راز ہے جس کے الذي هم فيه يختلفون.وختم بارے میں وہ اختلاف کرتے ہیں.اللہ نے الله على قلوبهم فلا يعرفون ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اس لئے نہ تو وہ الأسرار ولا يسألون.و من تجرّدَ ان اسرار كي معرفت رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ کی عن وسخ التعصبات وصبغ پوچھتے ہیں.اور جو شخص تعصبات کی میل سے بأنوار التحقيقات، فلا يبقى له پاک ہو گیا اور تحقیقات کے انوار سے رنگین ہوا شك في هذه النكات، ولا تو اُسے اُن نكات کے بارے میں کوئی شک يكون من المرتابين تلك قوم باقی نہ رہے گا اور نہ وہ شک کرنے والوں میں قد خلوا وذهبوا ور حلوا، فلا سے ہوگا.یہ لوگ ہیں جو فوت ہو گئے ، گزر گئے يرجعون إلى الدنيا ولا يذوقون اور رحلت فرما گئے.پس وہ دنیا میں واپس نہیں موتين إلا موتتهم الأولى، وتجد آئیں گے اور نہ ہی وہ اپنی پہلی ایک موت کے السنّة والكتاب شاهدین علی سوا دو موتوں کا مزا چکھیں گے اور تو سنت اور هذا البيان، ولكن بشرط كتاب (اللہ ) کو اس بیان پر گواہ پائے گا لیکن التحقيق والإمعان وإمحاض اس کے لئے منصفوں جیسی تحقیق ، گہری نظر اور النظر كالمنصفين.بصیرت شرط ہے.وقد جاء في بعض الآثار من اللہ کے نبی (محمد) مصطفی کی بعض احادیث میں آیا الله المختار أنه قال " لو لم ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر دنیا کا صرف ایک دن باقی يبق من الدنيا إلا يوم لطول الله رہے گا تو اللہ اس دن کو لمبا کر دے گا یہاں تک کہ وہ اُس ذلك اليوم حتی یبعث فيه رجلا میں ایک ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو مجھ سے یا منى أو من أهل بيتي، يواطئ اسمه میرے اہلِ بیت میں سے ہوگا جس کا نام میرے نام اور اسمى واسم أبيه اسم أبى “ اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے موافق ہوگا.“ نبی
سر الخلافة ۱۵۰ اردو تر جمه أخرجه أبو داود الذي كان من اس حدیث کو ابوداؤد نے جو ائمہ محد ثین میں أئمة المحدثين.فقوله ”منی“ و سے تھے.درج کیا ہے.پس حضور کا یہ فرمانا کہ يواطئ اسمه اسمی“ إشارة لطيفة وہ مجھ سے ہوگا اور اُس کا نام میرے نام کے موافق إلى بياننا المذكور، ففكّرُ کطالب ہو گا ( اس میں ) ہمارے مذکورہ بیان کی طرف ایک النور ، إن كنت تريد أن تنكشف لطيف اشارہ ہے.پس اگر تو چاہتا ہے کہ تجھ پر اس عليك حقيقة السر المستور پوشیدہ بھید کی حقیقت ظاہر ہو تو ایک ٹور کے متلاشی فلا تمر غاض البصر كالظالمین کی طرح غور کر.اور ظالموں کی طرح آنکھیں بند واعلم أن المراد من مواطأة کر کے نہ گزر.اور یہ جان لے کہ ان دو ناموں کی الاسميــن مـواطـأة روحانية لا موافقت سے مراد موافقت روحانی ہے نہ کہ فنا جسمانية فانية، فإن لكل رجل اسم ہونے والی جسمانی.یقیناً حضرت کبریاء کی بارگاہ في حضرة الكبرياء ، ولا يموت میں ہر شخص کا ایک نام ہے اور وہ ( نام ) اُس وقت حتى ينكشف سر اسمه سعيدًا تک نہیں مرتا جب تک کہ اس نام کا یہ راز ظاہر نہ كان أو من الأشقياء والضالین ہو جائے کہ آیا وہ خوش بخت لوگوں میں سے تھا یا وقد يتفق توارُدُ أسماء الظاهر بدبختوں اور گمراہوں میں سے بعض اوقات كما في ” أحمد“ و ”احمد“ ، ظاہری ناموں کے توارد میں بھی اتفاق ہو جاتا ہے ولكن الأمر الذى وجدنا أحق جیسا کہ احمد سے احمد کا.لیکن جس امر کو ہم نے وأنشد، فهو أن الاتحاد اتحاد زیادہ درست اور زیادہ معروف پایا ہے وہ یہی ہے روحاني في حقيقة الاسمين که در اصل اتحادان دونوں ناموں کی حقیقت میں کمالايخفى على عارف ذی روحانی اتحاد ہے جیسا کہ ایک عارف ، بینا شخص العينين.وقد كان من هذا القبيل پر یہ امر مخفی نہیں.اور بالکل اس طرح کی وہ بات مـا الـهـمـت مـن الــرب الجليل ہے جو رب جلیل کی طرف سے مجھے الہام کی گئی
سر الخلافة ۱۵۱ اردو ترجمہ وكتبته في كتابي البراهين، اور جسے میں نے اپنی کتاب البراھین (براہین وهو أن ربی کلمنی و خاطبنی احمدیہ میں تحریر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مجھ سے وقال يَا أَحْمَدُ يَتِمُّ اسمُكَ، میرے رب نے کلام کیا اور مجھے مخاطب ہو کر فرمایا وَلا يَتِمُّ اسْمِي.فهذا هو كه يَا أَحْمَدُ يَتِمُ اسْمُكَ، وَلَا يَتِمُ الاسم الذي يُعطى للروحانيين، اسمئیے اور یہ وہ نام ہے جو روحانی لوگوں کو دیا وإليه إشارة في قوله تعالی جاتا ہے اور اسی طرف اللہ تعالیٰ کے اس قول میں وَعَلَمَ أَدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا.أى اشارہ ہے کہ وَعَلَّمَ أَدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا علمه حقائق الأشياء یعنی اسے تمام اشیاء کے حقائق کا علم عطا کیا اور كلها، وجعله عالما مجملا اسے ایک ایسا مجمل عالم بنا دیا جو تمام جہانوں کا مثيل العالمين.مثیل ہے.وأما توارد اسم الأبوين جہاں تک دو باپوں کے نام کے توارد کا تعلق كما جاء فی حدیث نبی ہے، جیسا کہ سرور دو عالم نبی ( محمد صلی اللہ علیہ الثقلين، فاعلم أنه إشارة وسلم کی حدیث میں آیا ہے سو یا د رہے کہ یہ لطيفة إلى تطابق السرين (حضرت) خاتم النبین کے دو اسرار میں من خاتم النبيين فإن أبا نبينا مطابقت کی جانب لطیف اشارہ ہے.یقینا ہمارے صلى الله عليه وسلم كان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والد انوار (الہیہ ) پانے اللہ مستعدا للأنوار فما اتفق حتى کے لئے مستعد تھے مگر ایسا اتفاق نہ ہو سکا حتی کہ مضى من هذه الدار، وكان وہ اِس جہاں سے رخصت ہو گئے.اُن کی صلى الله نور نبينا مواججًا في فطرته فطرت میں تو ہمارے نبی علیہ کا نو ر موجزن تھا لے اے احمد ! تیرا نام پورا ہو جائے گا اور میرا نام پورا نہیں ہوگا.اور اللہ نے آدم کو تمام اسماء سکھائے.(البقرۃ: ۳۲)
سر الخلافة ۱۵۲ اردو تر جمه ولكن ما ظهر فى صورته لیکن اُن کی صورت میں وہ ظاہر نہ ہو سکا.اس کی والله أعلم بسر حقیقته، وقد حقیقت کے راز کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور وہ مضى كالمستورين.وكذلك (حضور کے والد ) گمناموں کی طرح رخصت ہو تشابه أب المهدی آب گئے.اس طرح مہدی کے والد رسول مقبول کے الرسول المقبول، ففكّرُ والد کے مشابہ ہو گئے.پس تو عقلمندوں کی طرح كذوى العقول، ولا تمش غور کر اور جلد بازوں کی طرح اعراض کرتے معرضا كالمستعجلين.ہوئے مت چل.وأظن أن بعض الأئمة من أهل اور میرا خیال ہے کہ اہلِ بیت نبوت کے کسی بيت النبوة، قد ألهم من حضرة امام کو اللہ رب العزت کی طرف سے یہ الہام کیا العزة، أن الإمام محمدًا قد گیا تھا کہ امام محمد ایک غار میں چُھپ گئے ہیں اختفى في الغار، وسوف يخرج اور وہ آخری زمانے میں کفار کو قتل کرنے کے في آخر الزمان لقتل الكفار، وإعلاء لئے اور ملت (رسول) اور دین اسلام کے کلمہ كلمة الملة والدين.فهذا کو سر بلند کرنے کے لئے ضرور ظاہر ہوں گے.الخيال يشابه خیال صعود پس یہ خیال مسیح کے آسمان کی طرف صعود کر المسيح إلى السماء ونزوله عند جانے اور سخت فتنوں کے موجزن ہونے کے تموج الفتن الصمّاء.والسر وقت اُس کے نزول کے خیال کے مشابہ الذي يكشف الحقيقة ويبين ہے.اور وہ بھید جو حقیقت کو ظاہر کرتا الطريقة، هو أن هذه الكلمات اور طریقت کو واضح کرتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ اور ومثلها قد جرت على ألسنة اس جیسے دوسرے کلمات استعاروں کی شکل الملهمين بطريق الاستعارات، فھی میں ماہموں کی زبان پر جاری ہوتے ہیں.مملوّة من لطائف الإشارات، اور وہ لطیف اشاروں سے لبریز ہوتے ہیں.
سر الخلافة ۱۵۳ اردو ترجمہ فكأن القبر الذي هو بيت گویا کہ وہ قبر جو اس دُنیا سے کوچ کر جانے الأخيار بعد النقل من هذا الدار کے بعد نیکوکار لوگوں کا گھر ہے اُسے غار سے عُبِّر منــه بــالـغـار وغبر خروج تعبیر کیا گیا ہے اور مثیل جو فطرت اور جو ہر کے المثيـل المتحد طبعا وجوهرًا اعتبار سے (اپنے مُمَثَّل بِہ سے ) متحد ہے بخروج الإمام من المغارة، وهذا اُس کے خروج کو امام کے غار میں سے نکالنے كله على سبيل الاستعارة.وهذه سے تعبیر کیا گیا ہے.اور یہ تمام تر استعارے المحاورات شائعة متعارفة فی کے رنگ میں ہے اور یہ محاورات رب العالمین كلام رب العالمين، ولا یخفی کے کلام میں عام اور معروف ہیں اور یہ امر عارفوں پر مخفی نہیں.ألا تعرف كيف أنـب اللـه کیا تو یہ نہیں جانتا کہ کس طرح اللہ نے خاتم یهود زمان خاتم النبيين النبیین کے زمانے کے یہودیوں کو سرزنش فرمائی؟ وخاطبهم وقال بقول انہیں مخاطب کیا اور انہیں ان کھلے صریح الفاظ میں على العارفين.فرمایا:.صريح مبين.وَاذْفَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَكُمْ وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَكُمْ وَاغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَانْتُمْ تَنْظُرُونَ وَاغْرَقْنَا الَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُونَ.وَإِذْ وَعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ وَإِذْ وَعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَاَنْتُمْ ظَلِمُونَ.اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَاَنْتُمْ ظَلِمُونَ - ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْ بَعْدِ ذلِكَ لَعَلَّكُمْ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُم مِّنْ بَعْدِ ذلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.وَإِذْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ تَشْكُرُونَ - وَإِذْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ لے اور جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پچھاڑ دیا اور تمہیں نجات دی جب کہ ہم نے فرعون کی قوم کو غرق کر دیا اور تم دیکھ رہے تھے.
سر الخلافة ۱۵۴ اردو ترجمہ (۲۹) وَإِذْ قُلْتُمْ يَمُوسَى لَنْ تُؤْمِنَ لَكَ وَإِذْ قُلْتُمْ يَمُوسى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتُكُمُ حَتَّى نَرَى اللهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصُّعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُونَ.ثُمَّ الصُّعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُونَ.ثُمَّ بَعَثْنَكُمْ بعَثْكُم مِّنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.تَشْكُرُونَ.وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَ وَالسَّلْوِى كُلُوا الْمَنَ وَ السَّلوى كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مِنْ طَيْبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ وَمَا ظَلَمُوْنَا مَا رَزَقْنَكُمْ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلَكِنْ وَلكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ.كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ هذا ما جاء في القرآن یہ ہے جو قرآن میں آیا ہے اور جسے تم وتقرأونه فی کتاب الله اللہ کی کتاب فرقان حمید میں پڑھتے ہو.الفرقان، مع أن ظاهر صورة باوجود اس کے کہ یہ بیان ظاہری صورت هذا البيان يُخالف أصل الواقعۃ میں اصل واقعہ کے مخالف ہے.اور یہ وہ وهذا أمر لا يختلف فيه اثنان امر ہے جس میں کوئی دو شخص اختلاف نہیں فإن الله ما فرق بیهودِ کرتے.اللہ نے ہماری نبی کے زمانے زمان نبينا بحرًا من البحار، کے یہودیوں کے لئے نہ کسی سمندر کو پھاڑا بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۵۳:.اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا پھر اس کے ( جانے کے ) بعد تم بچھڑے کو (معبود) بنا بیٹھے اور تم ظلم کرنے والے تھے.پھر اس کے باوجود ہم نے تم سے در گزر کیا تا کہ شاید تم شکر کرو.اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور فرقان دیئے تا کہ ہو سکے تو تم ہدایت پا جاؤ.(البقرۃ: ۵۴۲۵۱) ے اور جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہم ہرگز تمہاری نہیں مانیں گے یہاں تک کہ ہم اللہ کوظاہر باہر دیکھ نہ لیس پس تمہیں آسمانی بجلی نے آ پکڑا اور تم دیکھتے رہ گئے.پھر ہم نے تمہاری موت ( کی سی حالت) کے بعد تمہیں اٹھایا تا کہ تم شکر کرو.اور ہم نے تم پر بادلوں کو سایہ لگن کیا اور تم پر ہم نے من اور سلویٰ اُتارے جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ خود اپنے اوپر ہی ظلم کرنے والے تھے.(البقرۃ: ۵۶ تا ۵۸)
سر الخلافة ۱۵۵ اردو تر جمه وما أغرق آل فرعون أمام أعين اور نہ ہی آل فرعون کو ان شریروں کی آنکھوں کے تلك الأشرار، وما كانوا سامنے غرق کیا.اور نہ ہی وہ ان خطرات کے وقت موجودين عند تلك الأخطار، وہاں موجود تھے.نہ اُنہوں نے بچھڑے کو معبود وما اتخذوا العجل وما كانوا بنایا اور نہ ہی وہ اُس موقع پر حاضر تھے.اور نہ ہی في ذلك الوقت حاضرین، انہوں نے یہ کہا کہ اے موسیٰ ! ہم تجھ پر ہرگز ایمان وما قالوا يا موسى لن نؤمن نہیں لائیں گے، یہاں تک ہم اللہ کو اپنی آنکھوں حتى نرى الله جهرة بل ما كان کے سامنے نہ دیکھ لیں.بلکہ موسیٰ کے زمانے میں لهم في زمان موسى أثرًا تو اِن کا نشان اور ذکر تک نہ تھا.وہ تو (بالکل) وتذكرة ، وكانوا معدومين.معدوم تھے.پھر کس طرح کڑکتی بجلی نے ان کو فكيف أخذتهم الصاعقة، پکڑلیا.اور کس طرح وہ موت کے بعد اُٹھائے وكيف بعثوا من بعد الموت گئے.اور موت سے الگ ہو گئے اور کیسے اللہ نے وفارقوا الحمام ؟ وكيف ظلل اُن پر بادلوں کا سایہ کیا.اور کس طرح انہوں نے الله عليهم الغمام؟ وكيف مَن اور سلویٰ کھایا.اور اللہ نے انہیں مصیبت أكلوا المن والسلوى، ونجاهم سے رہائی بخشی حالانکہ وہ موجود ہی نہ تھے؟ بلکہ وہ الله من البلوى، وما كانوا لمى صدیوں اور بہت دور دراز زمانے کے بعد موجودين، بل ولدوا بعد قرون پیدا ہوئے.اور کوئی بوجھ اُٹھانے والی جان متطاولة وأزمنة بعيدة مبعدة دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتی اور اللہ ایک آدمی کا ولا تزر وازرة وزر أخرى، والله دوسرے آدمی کی جگہ مؤاخذہ نہیں کرتا.کیونکہ وہ لا يأخذ رجلا مكان رجل سب عدل کرنے والوں سے بڑھ کر عدل وهو أعدل العادلين.فالسر فيه کرنے والا ہے.اس میں بھید یہ ہے کہ اللہ نے أن الله أقامهم مقام آبائهم اُنہیں اُن کے باپ دادوں کا قائمقام بنایا.
سر الخلافة ۱۵۶ اردو ترجمہ لمناسبة كانت في آرائهم، اس مناسبت کی وجہ سے جو اُن کے خیالات میں وسماهم بتسمية أسلافهم موجود تھی اور انہیں اُن کے اسلاف کا نام دے دیا وجعلهم ورثاء أوصافهم، وكذلك اور اُنہیں اُن کے اوصاف کا وارث قرار دیا.اور استمرت سنة ربّ العالمين.رب العالمین اللہ کی سنت اسی طرح جاری ہے.وإن كنت تزعم كالجهلة أن اور اگر جاہلوں کی طرح تو یہ خیال کرتا ہے کہ المراد من نزول عیسی نزول نزول عیسی سے مراد فی الحقیقت عیسی علیہ السلام عيسى عليه السلام فی الحقیقة کا نزول ہے تو یہ معاملہ تیرے لئے مشکل ہو.فيعسر عليك الأمر و تخطئ خطأ جائے گا اور یہ طریق اختیار کر کے تو بہت بڑی كبيرا في الطريقة، فإن توفّى غلطی کرے گا.کیونکہ (حضرت) عیسی کی عیسی ثابت بنص القرآن، ومعنى وفات نص قرآن سے ثابت ہے اور توفی التوفّى قد انكشف من تفسير نبی کے معنی بلا شبہ جن وانس کے نبی (ع) کی الإنس ونبي الجان، ولا مجال تفسیر سے کھل چکے ہیں.اور اس بیان میں کسی للتأويل في هذا البیان، فالنزول تاویل کی گنجائش نہیں.پس لفظ نزول جس کی الذي ما فسره خاتم النبيين بمعنى خاتم النبیین نے ایسے معنی میں تفسیر نہیں فرمائی جو يفيـد الـقـطـع واليقين بل جاء قطعیت اور یقین کا فائدہ دے بلکہ قرآن اور إطلاقه على معان مختلفة في فخرِ رسل کی احادیث میں مختلف معانی پر اس | القرآن وفی آثار فخر کا اطلاق ہوا ہے.( تو پھر ) وہ اُس لفظ توفی المرسلين، كيف يعارض لفظ کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے جس کے معنی واضح التوفي الذي قد حصحص معناہ ہو چکے اور جو نبی (اکرم ) اور ابن عباس کے وظهر بقول النبي و ابن العباس قول سے ظاہر ہیں کہ (توفی) اِمَاتَتْ یعنی أنه الإماتة وليس ما سواه؟ وفات دینا ہے.اور اس کے علاوہ کچھ نہیں.
سر الخلافة ۱۵۷ اردو تر جمه وما بقى في معناه شك ولا ريب مومنوں کے لئے اس کے معنی میں کوئی شک وشبہ للمؤمنين.وهل يستوى المتشابهات باقی نہیں رہا.کیا متشابہات اور بینات و محکمات والبينات والمحكمات؟ كلا.لا برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں.یہ کبھی برابر نہیں ہو تستوى أبدا، ولا يتبع المتشابهات سکتے.نیز متشابہات کی وہی شخص پیروی کرتا ہے إلا الذي في قلبه مرض وليس جس کے دل میں بیماری ہو اور پاک بازوں میں من المطهرين.فالتوفّی لفظ محکم سے نہ ہو.پس لفظ توفی محکمات میں سے ہے قد صرح معناه وظهر أنه الإماتة جس کے معنوں کی صراحت ہو چکی ہے اور یہ ظاہر لا سواه، و النزول لفظ متشابہ ہو گیا کہ اس لفظ کے معنی وفات دینے کے ہیں اس ۵۰ ما توجّه إلى تفسيره خاتم کے سوا کچھ بھی نہیں.اور نزول کا لفظ متشابہات الأنبياء، بل استعمله فی میں سے ہے.جس کی تفسیر کی جانب خاتم الانبیاء المسافرين.ومع ذلك إن كنتَ نے توجہ نہیں فرمائی بلکہ اسے مسافروں کے معنی میں يصعب عليك ذكرُ مجدد آخر استعمال فرمایا ہے.اس کے باوجود اگر جن وانس الزمان باسم عیسی فی احادیث کے نبی ﷺ کی احادیث میں مجد د آخر الزمان کا نبي الإنس ونبي الجان ويغلب ذکر عیسی کے نام کے ساتھ گراں گزرے اور عليك الوهم عند تعمیم اس کے معنوں کی عمومیت کے وقت و ہم تجھ پر المعنى، فاعلم أن اسم عیسی غالب آجائے تو جان لے کہ بہت سے علماء کبار جاء في بعض الآثار بمعان وسيعة کے نزدیک بعض احادیث میں جو عیسی کا نام عند العلماء الكبار، وكفاك آیا ہے وہ وسیع تر معنوں میں آیا ہے اور تیرے حدیث ذکرہ البخاری فیلئے تو وہ حدیث ہی کافی ہے جس کا امام بخاری صحيحه مع تشريحه من العلامة نے اپنی صحیح میں ذکر فرمایا ہے اور جس کی الزمخشرى و کمال تصریحه تشریح اور کمال تصریح علامہ زمخشری نے کی ہے
سر الخلافة ۱۵۸ اردو تر جمه وهو أن كل بني آدم یمشہ اور وہ یہ کہ مریم اور اس کے بیٹے عیسی کے الشيطان يوم ولدته أمه إلا مريم علاوه ہر بنی آدم کو جس دن اُس کی ماں اُسے وابنها عيسى.وهذا يُخالف جنتی ہے، شیطان مس کرتا ہے.اور یہ نص نص القرآن اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ قرآنى إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن و آيات سُلْطن اور دیگر آیات کے خلاف أُخرى، فقال الزمخشرى ان ہے.زمخشری کہتے ہیں کہ عیسی اور ان کی المراد من عيسى وأُمّه كلُّ ماں سے مراد ہر وہ متقی انسان ہے جو ان رجل تـقـى كان على صفتهما دونوں کی صفات پر ہو اور وہ پاکبازوں اور وكان من المتقين المتورعين.پر ہیز گاروں میں سے ہو.فانظر كيف سمي كل تقى پس غور کر کہ اس نے کس طرح ہر متقی کا نام عيسى، ثم انظر إلى إعراض عیسی رکھا پھر منکروں کے اعراض پر غور کر.المنكرين.وإن قلت إن الشهادة اور اگر تو کہے کہ یہ تو صرف ایک گواہی ہے اس واحدة ولا بد أن تزيد عليه شاهدًا لئے یہ ضروری ہے کہ آپ اس پر مزید کسی مرد أو شاهدةً، فاسمع وما أخال أن يا عورت گواہ کا اضافہ کریں تو سُن اور میرا تكون من السامعين.اقرأ کتاب نہیں خیال کہ تو سُننے والوں میں سے ہوگا.تو التيسير بشرح الجامع الصغير | جامع الصغیر کی شرح کتاب التيسير للشيخ الإمام العامل والمحدث کو پڑھ جو شیخ ، امام، عالم باعمل، محدث اور فقیہ الفقيه الكامل عبد الرؤوف كامل عبد الرؤف المناوی کی تصنیف ہے.اللہ المناوی رحمه الله تعالى و غفر له ان پر رحم کرے ان کی خطائیں معاف کرے، المساوى وجعله من المرحومین اور انہیں اپنے مرحوم بندوں میں شامل کرے.یقیناً (جو) میرے بندے (ہیں) ان پر تجھے کوئی غلبہ نصیب نہ ہوگا.(الحجر: ۴۳) 66
سر الخلافة ۱۵۹ اردو ترجمہ إنه ذكر هذا الحديث في | انہوں نے مذکورہ (بالا) کتاب میں اس حدیث کا الكتاب المذكور وقال ما جاء ذکر فرمایا ہے اور اس مذکور حدیث میں عیسی اور اُن کی في الحديث المزبور من ذكر والدہ کے متعلق جو ذکر آیا ہے اُس کی نسبت وہ کہتے عيسى وأُمّه فالمراد هما ومن ہیں کہ اس سے مراد وہ دونوں اور وہ سب لوگ ہیں في معناهما.فانظر بإمعان جو ان دونوں کے ہم صفات ہیں.پس بنظر غائر الـعـيـنـيـن كيف صرح بتعمیم دیکھ کہ کس طرح اُس نے ان دونوں اسماء کی هذين الاسمين، فما لك لا عمومیت کو صراحت سے بیان کر دیا ہے پس تجھے کیا تقبل قول المحققين.ہو گیا ہے کہ تو محققین کے قول کو قبول نہیں کرتا.وقد سمعت أن الإمام مالگا اور تم سُن چکے ہو کہ امام مالک ، ابنِ وابن قيم وابن تيميّة والإمام قيم ، اِبْنِ تَيْمِيَّه ، امام بخاری اور بہت سے البخارى وكثيرًا من أكابر الأئمة اکابر ائمہ اور امت کے فضلاء عیسی کی وفضلاء الأمّة، كانوا مُقرين موت کا اقرار کر نیوالے تھے اور اس بموت عيسى ومع ذلك كانوا کے ساتھ ہی وہ عیسی کے نزول پر بھی يؤمنون بنزول عيسى الذى أخبر ایمان رکھتے تھے جس کے متعلق رسول عنه رسول الله صلى الله علیه وسلم اللہ صلی علیہ وسلم نے خبر دی تھی.اور کسی وما أنكر أحد هذين الأمرين ایک شخص نے بھی ان دو باتوں سے نہ تو وما تكلم، وكانوا يُفوّضون انکار کیا اور نہ اعتراض.وہ تفاصیل کو التفاصيل إلى الله ربّ العالمين الله رب العالمین پر چھوڑ دیتے تھے اور وما كانوا في هذا مجادلين.ثم اس بارہ میں بحث نہ کرتے تھے.پھر خلف من بعدهم خلف وسواد ان کے بعد نا خلف جانشین پیدا ہوئے أقلف و فيج اعوج وأجوف، جو ناسمجھ، ٹیڑھے اور کھوکھلے تھے
سر الخلافة 17.اردو ترجمہ يجادلون بغير علم ويفرقون، جو بغیر علم کے بخشیں کرتے اور تفرقہ پیدا کرتے تھے ولا يركنون إلى سلم ويكفرون اور صلح کی جانب مائل نہیں ہوتے تھے اور اللہ کے عباد الله المؤمنين.مومن بندوں کو کا فرقرار دیتے تھے.فحاصل الكلام فى هذا المقام اس مقام پر خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے قدیم علم أن الله كان يعلم بعلمه القديم ان کی بناء پر یہ جانتا تھا کہ آخری زمانے میں عیسائی في آخر الزمان يُعادى قوم النصارى قوم طريق دینِ متین سے دشمنی کرے گی اور ربّ صراط الدين القويم، ويصدون کریم کی راہوں سے روکے گی اور کھلے کھلے جھوٹ عن سبل الرب الكريم، ويخرجون کے ساتھ نکلے گی.اور اس کے ساتھ وہ (اللہ ) یہ اد بإفك مبين.ومع ذلك كان بھی جانتا تھا کہ اس زمانے میں مسلمان تعلیم فرقان يعلم أن في هذا الزمان يترك کی خوبیوں کو چھوڑ دیں گے اور ایسی بدعات کی المسلمون نفائس تعلیم الفرقان دل فریبیوں کی پیروی کریں گے جو فرقان حمید ويتبعون زخارف بدعات ما سے ثابت نہیں.اور دین کی اعانت کرنے ثبتت من الفرقان، وينبذون أمورًا والے اور مومنوں کے لباس کو زینت دینے تعين الدين وتحبّر حلل والے امور کو پھینک دیں گے.اور وہ نت نئی المؤمنين.وتسقطون في هوة بدعتوں اور طرح طرح کی خواہشات اور محدثات الأمور وأنواع الأهواء بدیوں کے گڑھے میں گر جائیں گے.اُن والشرور، ولا يبقى لهم صدق کے لئے نہ صدق باقی رہے گا اور نہ دیانت اور ولا ديانة ولا ديـن فـقـدر فضلا نہ دین.تب اُس (خدا) نے اپنے فضل اور رحم ورحمة أن يرسل في هذا الزمان سے یہ مقدر فرمایا کہ وہ اس زمانے میں ایک رجلًا يُصلح نوعى أهل الطغيان، ایسے شخص کو بھیجے جو دونوں قسم کے سرکش افراد کی ويتم حجة الله على المبطلين اصلاح کرے اور جھوٹوں پر اللہ کی حجت تمام کرے.6 ☆ هذا ا سهو الناسخ والصحيح ” يسقطون“.(الناشر)
سر الخلافة ۱۶۱ اردو تر جمه فاقتضى تدبيره الحق أن يجعل پس اُس کے بچے انتظام نے تقاضا کیا کہ وہ اس المرسَلَ سَمِيَّ عيسى الإصلاح فرستادہ کو عیسائیوں کی اصلاح کے لئے عیسی کا ہمنام بنائے.اور مسلمانوں کی تربیت کے لئے المتنصرين، ويجعله سَمِيَّ أحمد لتربية المسلمين، ويجعله حاذيًا اُسے احمد کا ہمنام بنائے.اور اُسے ان دونوں کی حذوهما وقافيًا خطوهما کامل پیروی کرنے والا اور دونوں کے نقش قدم فسماه بالاسمين المذكورين پر چلنے والا بنائے.اسی وجہ سے اُس نے اُس وسقاه من الراحین، وجعله دافع کے مذکورہ دونوں نام رکھے.اور دوراحت بخش هم المؤمنين و رافع فتن شرابوں میں سے اُسے پلایا اور اُسے مومنوں مسيحيّين فهو عند اللہ کے غم کو دور کرنے والا اور مسیحیوں کے فتنوں کو عيسى من جهة، و أحمد من رفع كر نيوالا بنایا.پس وہ اللہ کے نزدیک ایک جهة، فاترك السبل الأخياف جہت سے عیسی اور دوسری جہت سے احمد ہے.وتجنب الخلاف والاعتساف پس تو متفرق راہوں کو چھوڑا اور مخالفت اور گمراہی واقبل الحق ولا تكن كالضنين سے بچ.حق کو قبول کر اور بخیل انسان کی طرح نہ والنبي صلى الله علیه وسلم بن.اور نبی کریم ﷺ نے جیسے اُسے مسیح کی كما وصفه بصفات المسيح صفات سے متصف قرار دیا یہاں تک کہ اُس حتى سماه ،عیسی، كذلك کا نام عیسی رکھا.اُسی طرح آپ (صلی اللہ وصفه بصفات ذاته الشريف علیہ وسلم) نے اُسے اپنی ذات شریف کی صفات حتى سماه أحمد و مشابها سے متصف فرمایا.یہاں تک کہ اُس کا نام احمد بالمصطفى، فاعلم أن هذين رکھا.اور مصطفیٰ " کا مشابہ قرار دیا.لہذا تمہیں الاسمين قد حصلا له باعتبار معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ دونوں نام دونوں فرقوں کی توجه التام إلى الفرقتين جانب پوری توجہ کے اعتبار سے اُسے حاصل ہوئے
سر الخلافة ۱۶۲ اردو تر جمه فسماه أهل السماء عیسی اور آسمان والوں نے عیسائی فرقوں کی اصلاح باعتبار توجهه وتألمه کمو اسی کی طرف اُس کی توجہ کرنے اور قیدیوں کے الأسارى إلى إصلاح فرق غمخواروں کی مانند دکھ اُٹھانے کی بناء پر اُس کا النصارى، وسموه بأحمد نام عیسی رکھا.اور انہوں نے نبی کی اُمت کی باعتبار توجهه إلى أُمّة النبى طرف اُس کے انتہائی زیادہ توجہ کرنے اور ان توجها أشد وأزيد، وتألّمه من کے برے اختلافات اور بدحالی کی وجہ سے سوء اختلافهم وعيشهم أنكد دکھ اُٹھانے کی بناء پر اُس کا نام احمد رکھا.پس فاعلم أن عيسى الموعود جان لو کہ موعود عیسی احمد ہے اور احمد موعود أحمد، وأن أحمد الموعود عیسی.پس اس واضح اور روشن را ز کو پس پشت عيسى، فلا تنبذ وراء ظهرك مت ڈال.کیا تو اُن داخلی مفاسد کو اور اُن هذا السر الأجلى.ألا تنظر إلى تكاليف كو نہیں دیکھتا جو ہمیں عیسائی اقوام کی المفاسد الداخلية وما نالنا من طرف سے پہنچی ہیں؟ کیا تو دیکھتا نہیں کہ الأقوام النصرانية؟ الست ہماری قوم نے خیر خواہی کی راہیں اور دین بگاڑ ترى أن قومنا قد أفسدوا طرق دیا ہے.اور اُن میں سے اکثر شیطانوں کی الصلاح والدين، واتبعوا راہوں پر چل نکلے ہیں.یہاں تک کہ اُن کا أكثر هم سبل الشياطين، حتی علم جگنو کی روشنی کی طرح ہو گیا.اور اُن کے صار علمهم كنار الحباحِب، علماء بیابانوں کے سراب کی مانند ہو گئے.شر وجبرهم كسراب السباسب، ان کی فطرتِ ثانیہ اور اس کے لئے تکلف وصار تطبع الشر طباعًا، تصنع اُن کی دلی خواہش بن گئے.اور وہ باہم والتكلّف له هوًى طباعًا، دست و گریباں ہوتے ہوئے دنیا پر بُری وأكبوا على الدنيا متشاجرین؟ طرح جاگرے.و
سر الخلافة ۱۶۳ اردو تر جمه يأبـر بعضهم بعضا كالعقارب اُن میں سے ہر ایک بچھوؤں کی طرح نیش زنی ولو كان المظلوم من الأقارب، کرتا ہے خواہ وہ مظلوم قرابت داروں میں وما بقى فيهم صدق الحدیث سے ہی ہو.اُن میں راست گوئی اور پُر خلوص وإمحـاض المصافات، وبدلوا محبت باقی نہیں رہی.اُنہوں نے نیکیوں کو الحسنات بالسيئات.اشتغلوا برائیوں میں بدل دیا اور وہ بھائیوں کی عیب في تطلب مثالب الإخوان ونسوا جوئی میں مشغول ہو گئے.اور باہمی اصلاح إصلاح ذات البين و حقوق اهل اور اہل ایمان کے حقوق کو ( یکسر ) بھول گئے الإيمان، وصـالوا على الإخوة اور وہ بھائیوں پر ظالموں کے حملہ کرنے کی كصول أهل العدوان أدحضوا طرح حملہ آور ہوئے.محبتوں کو پامال کیا اور المودات وأزالوا خلوص النيات خلوص نیت کو ضائع کر دیا.اور فسق اور عداوت وأشاعوا فيهم الفسق والعدوان کو اپنے اندر پھیلایا.اور لغزشوں اور بہتان واتبعوا العثرات والبهتان.زالت طرازی کے پیچھے لگ گئے.محبت کی مہکتی نفحات المحبة كل الزوال، وهبت خوشبوئیں یکسر ختم ہو گئیں اور نفاق اور جنگ رياح النفاق والجدال.ما بقى سعة وجدال کی ہوائیں چلنے لگیں.وسعت حوصلگی الصدر وصفاء الجنان و دخلت اور صفائی قلب باقی نہ رہی اور ایمان میں (۵۲) كدورات في الإيمان، وتجاوزوا کدورتیں داخل ہو گئیں.اور وہ پر ہیز گاری حدود التورع والتقاة ، وتناسوا اور تقویٰ کی تمام حدود کو پھلانگ گئے اور حقوق الإخوان والمؤمنين بھائیوں اور مومن مردوں اور مؤمنات کے والمؤمنات.لا يتحامون العقوق حقوق بھول گئے.وہ نافرمانی سے نہیں بچتے ولا يؤدون الحقوق، وأكثرهم اور حقوق ادا نہیں کرتے.اور اُن میں سے لا يعلمون إلا الفسق والنهات، اكثر فسق اور شور شرابہ کے علاوہ کچھ نہیں جانتے.
سر الخلافة ۱۶۴ اردو ترجمہ وتغير الزمان فلا ورع ولا تقویٰ اور زمانہ بدل گیا.پرہیز گاری رہی نہ تقوی ، روزہ ولا صوم ولا صلاة.قدموا الدنيا رہا نہ نماز، اُنہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی.على الآخرة، وقدموا شهوات اور اُنہوں نے نفسانی خواہشات کو حضرت ربّ النفس على حضرة العزة، وأراهم | العزت پر مقدم کیا.میں انہیں دنیا طلبی میں نیم پاگل لدنياهم كالمصاب، ولا يبالون کی طرح دیکھ رہا ہوں.وہ آخرت کی راہوں سے طرق الآخرة ولا يقصدون طریق لا پرواہ ہیں اور درست راہ اُن کا مقصود نہیں.وفا الصواب.ذهب الوفاء وفقد جاتی رہی اور حیا مفقود ہو گئی.وہ نہیں جانتے کہ الحياء، ولا يعلمون ما الاتقاء.أرى خدا خوفی کیا ہے؟ کچھ چہرے میں ایسے دیکھ رہا وجوها تلمع فيهم أسرّة الغَدر ہوں جن میں غدر کے آثار چمک رہے ہیں.وہ يحبون الليل الليلاء ويبزقون تاریک و تاررات سے محبت کرتے اور مہ کامل پر على البدر.يقرأون القرآن، تھوکتے ہیں.وہ قرآن پڑھتے ہیں لیکن خدائے ويتركون الرحمان.لا يرى منهم رحمان کو چھوڑتے ہیں.اُن کا ہمسایہ اُن سے ظلم جارهم إلا الجور، ولا شریک کے سوا کچھ نہیں دیکھتا اور صرف پستی ہی اُن کی حدبهم إلا الغورو يأكلون الضعفاء رفعت کی شریک ہے.وہ نا توانوں کو کھاتے اور ويطلبون الگور.كثر الكاذبون مزید کے طالب رہتے ہیں.جھوٹوں ، چغل خوروں، والنمامون، والواشون والمغتابون ملمع سازوں، غیبت کر نیوالوں، ظالموں، دھو کے والظالمون المغتالون، والزانون سے قتل کرنیوالوں، زانیوں، فاجروں، شرابیوں، الفاجرون، والشاربون المذنبون گنہ گاروں، خائنوں، غذاروں، دنیا کی طرف والخائنون الغدّارون، والمايلون | جھکنے والوں اور رشوت خوروں کی بہتات ہوگئی المرتشون.قست القلوب والسجايا ہے.دل اور طبیعتیں سخت ہو گئیں.وہ اللہ ނ لا يخافون الله ولا يذكرون المنايا.نہیں ڈرتے اور نہ موتوں کو یاد رکھتے ہیں.
سر الخلافة ۱۶۵ اردو تر جمه ياكلون كما يأكل الأنعام، ولا وہ جانوروں کی طرح کھاتے ہیں.اور نہیں جانتے کہ يعلمون ما الإسلام وغمرتهم اسلام کیا ہے؟ دنیا کی شہوتوں نے انہیں ڈھانپ لیا.شهوات الدنيا، فلها يتحركون اس لئے وہ اُسی کے لئے حرکت کرتے ہیں اور اُسی ولها يسكنون، وفيها ينامون کے لئے سکون.اور اسی حالت میں وہ سوتے ہیں اور وفيها يستيقظون.وأهل الثراء اسی حالت میں جاگتے ہیں.اُن کے اہل ثروت منهم غريقون فى النعم تن آسانیوں میں غرق ہیں اور جانوروں کی طرح کھاتے ويأكلون كالنعم، وأهل البلاء ہیں اور مصیبت زدہ لوگ تو نعمتوں ( آسائشوں) يبكون لفقد النعيم أو من کے فقدان کی وجہ سے یا قرض خواہ کے دباؤ کے ضغطة الغريم، فنشكوا إلى الله باعث گریاں ہیں.پس ہم اللہ کریم کی جناب الكريم، ولا حول ولا قوة إلا میں فریاد گناں ہیں.پس نصیر و معین اللہ کی مدد کے سوا بالله النصير المعين.بُرائی سے بچنے اور نیکی کرنے کی طاقت نہیں ملتی.وأما مفاسد النصارى فلا تُعدّ اور جہاں تک عیسائیوں کے مفاسد کا تعلق ولا تُحصى، وقد ذکر نا شطرا ہے تو وہ بے شمار اور بے حساب ہیں.ہم نے منها في أوراقنا الأولى.فلما ان میں سے ایک حصہ کا ذکر گذشتہ صفحات میں رأى الله سبحانه أن المفاسد کر دیا ہے.پس جب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ فارت من الخارج والداخل فی دیکھا کہ اس زمانے میں مفاسد نے باہر اور هذا الزمان اقتضت حکمته اندر سے جوش مارا ہے تو اُس کی حکمت اور ورحمته أن يُصلح هذه رحمت نے تقاضا کیا کہ وہ ایک ایسے شخص کے المفاسد برجُل له قدمان قدم ذریعہ ان مفاسد کی اصلاح فرمائے جس کے دو على قدم عیسی و قدم قدم ہوں.ایک قدم عیسی کے قدم پر اور دوسرا على قدم أحمد المصطفى قدم احمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قدم پر.
سر الخلافة ۱۶۶ اردو ترجمہ وكان هذا الرجل فانيا في اور شخص ان دو قدموں (اسوہ ) میں ایسا فنا ہونے القدمين حتى سُمّى بالاسمين.والا تھا کہ وہ دو ناموں سے موسوم کیا گیا.پس اس فخذوا هذه المعرفة الدقيقة، ولا لطيف معرفت کو مضبوطی سے تھام لو اور اس صحیح راہ تخالفوا الطريقة، ولا تكونوا كى مخالفت مت کرو اور سب سے پہلے انکار کرنے أوّل المنكرين.وإن هذا هو والوں میں سے مت بنو.رب کعبہ کی قسم! حقیقتاً الحق ورب الكعبة، وباطل ما یہی سچ ہے اور جو شیعہ حضرات اور اہلِ سنت خیال يزعم أهل التشيع والسنة.فلا کرتے ہیں وہ یکسر باطل ہے.پس میرے 2 تعجلوا على، واطلبوا الهدى بارے میں جلدی مت کرو اور ربّ العزت سے من حضرة العزة، وأتونى طالبين ہدایت طلب کرو اور سچائی کے طالب بن کر میرے فإن تعرضوا ولا تقبلوا، فتعالوا پاس آؤ.پھر اگر اعراض کرو اور قبول نہ کرو (تو) آؤ ندع أبناء نا وأبناء كم، ونساء نا ہم اپنے بیٹوں کو بلا ئیں اور تم اپنے بیٹوں کو، اور ہم ونساء كم، ثم نبتهل فنجعل لعنة اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو ، پھر ہم گڑ گڑا کر الله على الكاذبين.دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں.وهذا هو الحق الذي كشف الله یہ وہ حق ہے جو اللہ نے اپنے فضل عظیم اور على بفضله العظيم وفيضه القديم | فيض قدیم سے مجھ پر ظاہر فرمایا.در حقیقت عیسی وقد توفّى عیسى والله يعلم أنه وفات پاچکے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ وہ وفات المتوفى.وتُوفّى إمامكم محمد یافتہ ہیں.اور تمہارا امام محمد منتظر اور امام قائم ن الذي ترقبونه، وقائمُ الوقت الذى الزمان جس کا تم انتظار کر رہے ہو وہ وفات پا (۵۳) تنتظرونه.والهمتُ من ربّى أنى أنا چکا.اور مجھے میرے رب نے الہاماً بتایا ہے کہ المسيح الموعود وأحمد المسعود میں ہی مسیح موعود اور احمد مسعود ہوں.کیا تم تعجب أتعجبون ولا تفكرون فی سُنن الله کرتے ہو اور اللہ کی سنتوں پر غور نہیں کرتے
سر الخلافة ۱۶۷ اردو تر جمه وتنكرون ولا تخافون؟ و حصحص اور انکار کرتے ہو اور خوف نہیں کرتے.حق کھل کر الحق وأنتم تعرضون و جاء الوقت ظاہر ہو چکا اور تم اعراض کرتے ہو.اور وقت آ گیا وأنتم تبعدون.ومن سُن الله القديم اور تم اُس سے دور بھاگتے ہو.ازلی خدا کی جاری المستمرة الموجودة إلى هذا اور اس زمانہ تک موجود سنت جس کا جاہلوں اور الزمان التي لم تنكرها * أحد صاحب عرفان لوگوں میں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا من الجهلاء وذوى العرفان، أنه ہے یہ کہ کبھی وہ اپنی اہم آئندہ کی خبروں میں ایک قد يذكر شيئًا أو رجُلا في أنبائه چیز یا ایک شخص کا ذکر فرماتا ہے.حالانکہ اُس کے المستقبلة، ويريد منه شيئًا آخر از لی ارادہ میں اُس سے کوئی دوسری چیز یا دوسرا شخص أو رجُلا آخر في الإرادة الأزلية مراد ہوتا ہے.بسا اوقات ہم خواب میں دیکھتے ہیں وربما نرى في منام أن رجلا کہ ایک شخص کسی جگہ سے آیا ہے لیکن وہ نہیں آتا جاء من مقام فلا يجيء من جسے ہم نے (خواب میں) دیکھا ہوتا ہے بلکہ وہ رأيناه بل يجيء من ضاهاه في شخص آ جاتا ہے جو بعض صفات میں اُس کا مشابہ ہوتا بعض الصفات أو شابهه في ہے یا بعض خوبیوں یا برائیوں میں اس سے مشابہت الحسنات أو السيئات وأقص رکھتا ہے.میں تمہیں ایک عجیب واقعہ اور غیر معمولی عليك قصة عجيبة وحكاية حكایت بیان کرتا ہوں اور وہ یہ کہ میرا ایک چھوٹا بیٹا غريبةً إن لى كان ابنا صغيرًا تھا اُس کا نام بشیر تھا جسے اللہ نے شیر خواری کی عمر میں و كان اسمه بشيرا، فتوفاه وفات دے دی.اور اللہ بہتر اور سب سے بڑھ کر باقی الله في أيام الرضاع، والله خیر رہنے والا ہے اُن کے لئے جو تقوی اور پر ہیز گاری وأبقى للذين آثروا سبل التقوی کی راہوں کو مقدم رکھتے ہیں.پس مجھے میرے ربّ والارتياع فـالهـمـتُ من ربی کی طرف سے الہام ہوا کہ ہم تجھ پر فضل فرماتے إنا نردّه إليك تفضلا عليك.ہوئے اُس (بشیر ) کو تیری طرف لوٹا دیں گے.هذا سهو الناسخ والصحيح ” ينكرها “.(الناشر)
سر الخلافة ۱۶۸ اردو تر جمه وكذلك رأت أُمه فى رؤياها اسى طرح اُس کی والدہ نے بھی اپنی رؤیا میں دیکھا أن البشير قد جاء ، وقال إنی کہ بشیر آیا ہے اور کہتا ہے کہ میں تجھ سے اچھی طرح أعانقك أشد المعانقة ولا بغل گیر ہوں گا اور تجھ سے جلدی جد انہیں ہوں گا.أفارق بالسرعة.فأعطانى الله پس اس کے بعد اللہ نے مجھے دوسرا بیٹا عطا فرمایا بعده ابـنـا آخر وهو خير اور وہ عطا کرنے والوں میں سے سب سے بہتر المعطين.فعلمت أنه هو ہے.تب میں نے جانا کہ یہ وہی بشیر ہے اور خبیر البشير وقد صدق الخبير، خدا نے سچ ہی فرمایا تھا.پس میں نے اس کا نام فسميته باسمه، وأرى حُلية اُس کے نام پر رکھا اور میں اس کے وجود میں پہلے الأول في جسمه فثبتت عادة بشیر کا حلیہ دیکھتا ہوں.پس اللہ کی سنت علی وجہ الله برأى العين، أنه قد يجعل البصيرت ثابت ہوگئی کہ وہ دو آدمیوں کو ایک شريك اسم رجلين.وأما نام میں شریک کر دیتا ہے.اور جہاں تک ایک جعل البعض سَمِيَّ بعض فهى شخص کو دوسرے شخص کا ہمنام بنانے کا تعلق ہے تو أسرار لتكميل غرض لا يعلمها يه مقصد کی تکمیل کے لئے ایسے اسرار ہیں جنہیں یہ إلا مهجة العارفين.صرف عارفوں کی روح ہی سمجھ پاتی ہے.ولى صديق أحب الأصدقاء میرے ایک دوست ہیں ، سب دوستوں وأصدق الأحبّاء ، الفاضل سے زیادہ پیارے اور تمام عزیزوں سے العلامة والنحرير الفهامة، بڑھ کر بچے.فاضل ،علامہ، حاذق ، فہیم و عالم رموز الكتاب المبين فطین کتاب مبین ( قرآن ) کے رموز عارف علوم الحكم والدین کے عالم، علوم حکمت اور دین کا عرفان واسمه كصفاته المولوی رکھنے والے، جن کا نام نامی اُن کی صفاتِ الحکیم نور الدین گرامی کی طرح حکیم مولوی نورالدین ہے.
سر الخلافة ۱۶۹ اردو تر جمه فاتفق في هذه الأيام من قضاء انہی دنوں یہ اتفاق ہوا کہ اُن کا اکلوتا چھوٹا بیٹا الله الحكيم العلام أن ابنه جس کا نام محمد احمد تھا.خدائے حکیم وعلیم کی الصغير الأحد، الذي كان اسمه قضا سے خسرے کی بیماری سے وفات پا گیا.محمد أحمد، مات بمرض آپ نے صبر سے کام لیا اور اپنے حکیم و قادر اور الحصبة، فصبر ووافق ربَّه ذا رحیم خدا کی رضا پر راضی رہے.پس ایک شخص الحكمة والقدرة والرحمة نے اُس ( بچے ) کی وفات کے بعد اُسی رات فرآه رجل في ليلة وفاته بعد خواب میں اُس بچہ کو دیکھا گویا کہ وہ کہہ رہا ہے مماته كأنه يقول لا تحزنوا لهذه كہ آپ اس جدائی پر غمگین نہ ہوں، کیونکہ میں الفرقة، فإنّي أذهب لبعض کسی ضرورت کی خاطر جا رہا اور بہت جلد الضرورة، وسأرجع إليكم بقدم تمہارے پاس واپس آ جاؤں گا.یہ (خواب) السرعة.وهذا يدل على أنه اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آپ کو ایک دوسرا سيُعطى ابنا آخر، فيُضاهي الثاني بیٹا عطا کیا جائے گا اور وہ مرحوم بیٹے سے الغابر.والله قادر على كل شيء، مشابہت رکھے گا.اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ولكن أكثر الناس لا يعلمون لیکن اکثر لوگ احسن الخالقین خدا کی قدرتوں کا شؤون أحسن الخالقين.علم نہیں رکھتے.وكذلك في هذا الباب اور اس طرح اس باب میں بہت سے قصص كثيرة وشهادات كبيرة واقعات اور بڑی بڑی شہادتیں پائی جاتی ہیں وقد تركناها خوفا من طول جنہیں کلام کی طوالت کے خوف سے ہم نے الكلام، وكثيرة منها مكتوبة چھوڑ دیا ہے ان میں سے اکثر خوابوں کی تعبیر في كتب تعبیر المنام، فارجع کی کتب میں لکھے ہوئے موجود ہیں.اگر تم إليها إن كنت من الشاكين شک کرنے والے ہو تو اُن کی طرف رجوع کرو
سر الخلافة ۱۷۰ اردو ترجمہ وكيف تشك وإن الأخبار اور تم کیسے شک کر سکتے ہو جبکہ اس باب میں تو اتر تواترت في هذا الباب؟ سے خبریں موجود ہیں.شاید تو خود بھی اس عجیب ولعلك تكون أيضًا من امركا مشاہدہ کرنے والوں میں سے ہو.تمہارا کیا المشاهدين لهذا العجاب.فما خیال ہے؟ کیا تو اعتقاد رکھتا ہے کہ جب کوئی شخص (۵۴) ظنك.أتعتقد أن رجلا متوفی ایک وفات یافتہ کو خواب میں دیکھے یا الہام میں إذا رآه أحد فى المنام أو أخبر اُس کے متعلق اطلاع دی جائے اور وہ وفات یافتہ عنه في الإلهام، وقال المتوفی یہ کہے کہ میں جلد ہی دنیا میں واپس آ جاؤں گا إني سأرجع إلى الدنيا وأُلاقى اور رشتہ داروں سے ملاقات کروں گا.تو کیا وہ القربى، فهل هو راجع على فی الحقیقت واپس آجاتا ہے؟ یا اُس کے اس قول وجه الحقيقة.أو لهذا القول كى اہل طریقت کے نزدیک تأویل کی جائے گی.تأويل عند أهل الطريقة؟ فإن پس اگر تم اس موقع پر تاویل کرو گے تو پھر کیا وجہ كنتم مؤولين في هذا المقام ہے کہ تم پیش خبریوں کے بارے میں تاویل نہیں فمالكم لا تؤوّلون في أنباء کرتے جو اُن سے مشابہت تامہ رکھتی ہیں.اے تشابهها بالوجه التام؟ أتُفرّقون غافلوں کے گروہ! کیا تم اللہ کی سنتوں میں فرق بين سنن الله یا معشر الغافلين؟ کرتے ہو.پس تو غور کر اور میں نہیں سمجھتا کہ تو غور فتدبّر وما أخال أن تتدبّر إلا أن کرے.سوائے اس کے کہ میرا پروردگار چاہے جو يشاء ربي هادى الضالين.گم گشتہ راہ لوگوں کا راہنما ہے.وقد عرفت أن علامات ظهور اور یہ تو اچھی طرح سے جان چکا ہے کہ مسیح جو المسيح الذى هو المهدى قد کہ مہدی ہی ہے کے ظہور کی علامات ظاہر ہو چکی ظهرت، والفتن کثرت و عمّت ہیں اور فتنے بہت زیادہ اور عام ہو گئے اور مفاسد والمفاسد غلبت و هاجت وماجت غلبہ پا گئے اور جوش میں ہیں اور موجزن ہیں.
سر الخلافة اردو تر جمه ويسبون خير البشر في اور مخالفین ) حضرت خیر البشر عے کوکو چوں اور السكك والأسواق، وماتت بازاروں میں گالیاں دیتے ہیں اور ملت مرنے کو الملة والتفت الساق بالساق، ہے.جان کنی کا عالم ہے اور جدائی کی گھڑی آن وجاء وقت الفراق، فارحموا پہنچی ہے.پس اس دین پر رحم کھاؤ جو بے آبرو ہو الدين المهان، فإنه يرحل الآن.چکا ہے کیونکہ وہ اب کوچ کرنے کو ہے.میں تمہیں و نشدتكم الله.ألا ترون هذه الله کی قسم دیتا ہوں، کیا تم یہ بگاڑ (اپنی) آنکھوں المفاسد بالعين؟ ألا يترك سے نہیں دیکھ رہے.کیا ایمان کا شیریں چشمہ مال و عين زلال الإيمان للعين؟ زر کی خاطر ترک نہیں کیا جا رہا؟ خدا کے لئے گواہی اشهدوا الله اشهدوا.أحق هذا دو، ہاں گواہی دو کہ کیا یہ سچ ہے یا جھوٹ ؟ اور ہمیں أو من المين؟ وما زاوَلْنا أَشدَّ عیسائیوں کی سازشوں سے زیادہ کسی سے واسطہ من كيد النصارى، وإنا فی نہیں پڑا اور ہم اُن کے ہاتھوں میں اسیروں کی أيديهم كالأسارى.إذا أرادوا طرح ہیں.جب وہ فریب دہی کا ارادہ کر لیں التلبيس، فيخجلون ابلیس تو ابلیس کو بھی شرمندہ کر دیتے ہیں مصیبت ظاہر ہوگئی ظهر البأس، وحصحص اليأس اور نا امیدی کھل کر سامنے آ گئی اور لوگوں کے دل وقست قلوب الناس، واتبعوا سخت ہو گئے.اور انہوں نے وسوسہ ڈالنے والے وساوس الوسواس.وبعدوا عن شیطان کے وسوسوں کی پیروی کی.اور تقویٰ اور التقوى، وخوف الله الأعلى، بل خدائے بزرگ و برتر کے خوف سے دور جاپڑے بلکہ عادوا هذا النمط، وضاهَوا وہ اس نیک روش کے دشمن ہو گئے اور گری پڑی السقط.وقلتُ قليلا مما رأيتُ ناکارہ چیز کی طرح ہو گئے.میں نے جو دیکھا اُس وما استقصيت.ووالله ان میں سے تھوڑا بیان کیا اور اس کی تفصیل میں انتہا تک الــمــصــائـب بلغت منتهاها، نہیں گیا.اور بخدا، مصائب اپنی انتہا کو پہنچ گئے.
سر الخلافة ۱۷۲ اردو ترجمہ وما بقى من الملة إلا رسمها اور دین میں نقوش اور دعووں کے سوا کچھ باقی نہ ودعواها، وأحاطت الظلمات رہا.ظلمتوں نے گھیرا ڈال لیا اور اس (دین) کی وعدم سناها، ووطئ زروعنا چمک معدوم ہو گئی اور وحشی جانوروں نے ہماری الأوابد، فما بقى ماؤها کھیتیوں کو روند ڈالا جس کی وجہ سے نہ اس دین کا ومرعاها، وكاد الناس ان پانی باقی رہا اور نہ ہی چرا گا ہیں.اور قریب تھا کہ يهلكوا من سيل الفتن و طغواها، لوگ فتنوں کے اس سیلِ تند اور طغیانی سے ہلاک فأُعطيت سفينة من ربّى، وبسم ہو جاتے.پس میرے رب کی طرف سے مجھے الله مجريها ومرساها.وتفصیل ایک کشتی عطا کی گئی.اس کا چلنا اور ٹھہرنا اللہ کے ذلك أن الله وجد في هذا نام سے ہے.تفصیل اس کی یہ ہے کہ اللہ نے اس الزمان ضلالات النصارى مع زمانے میں نصاری کی گمراہیوں کو طرح طرح کی أنواع الطغيان، ورأى أنهم سرکشیوں کے ساتھ ملا ہوا پایا اور اُس نے دیکھا کہ ضلوا وأضلوا خلقا كثيرا، وہ خود بھی گمراہ ہو گئے ہیں.اور انہوں نے خلق وعلوا علوا كبيرا، وأكثروا كثیر کو گمراہ کیا ہوا ہے اور بڑی سرکشی کی اور بہت الفساد، وأشاعوا الارتداد فساد پیدا کر دیا ہے اور ارتداد کی ایک رو چلا دی وصالـوا على الشريعة الغراء ہے اور روشن شریعت پر حملہ آور ہوئے ہیں اور وفتحوا أبواب المعاصی اُنہوں نے معاصی اور خواہشات کے دروازے والأهواء ، ففارت غيرة الله ذی | کھول دیئے ہیں.تب اس سخت فتنے کے موقع الكبرياء عند هذه الفتنة الصماء پر بزرگ و برتر اللہ کی غیرت نے جوش مارا اور.ومع ذلك كانت فتنة داخلية اس کے ساتھ ساتھ خود مسلمانوں کے اندر بھی في المسلمين، ومزقوا فتنہ موجود تھا اور انہوں نے سید المرسلین کے باختلافات دین سید المرسلین دین کو با ہمی اختلافات سے پارہ پارہ کر دیا.
سر الخلافة ۱۷۳ اردو تر جمه وصال بعضهم على البعض اور وہ مفسدوں کی طرح ایک دوسرے پر حملہ آور كالمفسدين.فاختارنی اللہ ہوئے تو اُن کے باہمی اختلافات دُور کرنے کے لرفع اختلافهم، وجعلنی لئے اللہ نے مجھے چنا اور مجھے اُن کے انصاف کے حَكَما قاضيا لإنصافهم.فأنا لئے فیصلہ کرنے والا حَدًا لئے فیصلہ کرنے والا حـــــم بنایا.پس میں الإمام الآتي علی قدم مومنوں کے لئے ( حضرت محمد مصطفی اللہ کے المصطفى للمؤمنين، وأنا قدم پر آنے والا امام ہوں.اور میں ہی عیسائیوں المسيح متمّم الحجّة على اور نصرانیت اختیار کرنے والوں پر حجت تمام النصارى والمتنصرين.کرنے والا سیح ہوں.وجمع الله في وجودي اللہ نے میرے وجود میں دو نام جمع کر دیئے ہیں الاسمين كما اجتمعت في جس طرح میرے زمانے میں دوفتنوں کی آگ جمع زماني نار الفتنتين، وهذا هو ہو گئی اور یہی بات حق ہے اور اُس ذات کی قسم جس ۵۵) الحق وبالذي خلق الكونين نے دونوں جہاں پیدا فرمائے میں اس لئے آیا فجئت لأشيع أنوار بركاته ہوں تا کہ میں اُس کی برکات کے انوار پھیلاؤں و اختارني ربــى لـمـيـقـاته.وما اور میرے رب نے مجھے موعودہ معین وقت پر منتخب كنتُ أن أرد فضل الله الكريم فرمایا اور میرے لئے یہ ممکن نہیں کہ میں اللہ کریم وما كان لي أن أخالف مرضاة کے فضل کو رڈ کر دوں اور میرے لئے یہ بھی ممکن الرب الرحيم.وما أنا إلا كالميت نہیں کہ میں رب رحیم کی مرضی کے خلاف کروں.في يدى الغسال، وأُقلَّبُ میں تو غسال کے ہاتھوں میں میت کی مانند ہوں كـل طــرفـة بـتـقـلـيــب الفعّال، اور میں خدائے فعال کے پھرانے پر ہر دم پھرایا وجئت عند كثرة بدعات جاتا ہوں.اور میں مسلمانوں میں بدعات کی کثرت المسلمین و مفاسد المسيحيين اور عیسائیوں کے مفاسد کے موقع پر آیا ہوں.
سر الخلافة ۱۷۴ اردو ترجمہ وإن كنت في شك فانظر بإمعان اگر تجھے (اس بارے میں ) کوئی شک ہے تو ایک النظر كالمحقق الأريب، فى فتن دانا محقق کی طرح ہماری قوم میں بدعات کے فتنوں بدعات قومنا و جهلاتِ عبدة اور صلیب کے پجاریوں کی جاہلانہ باتوں کو گہری الصليب.أما ترى فتنا متوالية؟ نظر سے دیکھ ! کیا تجھے پے درپے آنے والے یہ أسمعت نظيرها في قرون خالية؟ فتنے نظر نہیں آتے.کیا تو نے کبھی قرون سابقہ میں فما لك لا تفكر كالعاقلين، ولا ان کی نظیر سنی ہے؟ تجھے کیا ہو گیا ہے کہ عقلمندوں کی تنظر كالمنصفين؟ وإن الله طرح غور و فکر نہیں کرتا اور نہ ہی منصفوں کی طرح يبعث على كل رأس مائة مجدّدَ دیکھتا ہے.اللہ ہر صدی کے سر پر مجد ددین مبعوث الدين، وكذلك جرت سُنة الله فرماتا ہے اور اسی طرح مددگار اللہ کی سنت جاری و المعين.أتظن أنه ما أرسل عند ساری ہے.کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ اُس نے اس هذا الطوفان رجلا من ذوی طوفان کے وقت کسی صاحب عرفان شخص کو نہیں العرفان، ولا تخاف الله آخِذ مبعوث کیا.اور تو مجرموں کا مؤاخذہ کرنے والے المجرمين؟ اللہ سے نہیں ڈرتا.قد انقضت على رأس المائة صدی کے سر کو گزرے گیارہ سال ہو چکے إحدى عشر سنة فما نظرت لیکن تو نے غور نہ کیا.اور سورج اور چاند گہنا گئے وانكسفت الشمس والقمر لیکن تو نے سوچ بچار نہ کی.نشانات ظاہر فما فگرت، وظهرت الآیات ہوئے لیکن تم نے نصیحت حاصل نہ کی.اور فما تذكرت، وتبينت الأمارات علامات کھل کر سامنے آگئیں.لیکن تو نے اُن کی فما وقرت أأنت تنام أو كنتَ تو قیر نہ کی.کیا تو سو رہا ہے یا اعراض کرنے من المعرضين؟ أتقول لِمَ ما والوں میں سے ہے؟ کیا تو یہ کہتا ہے کہ جیسا میرا فعل الفعّال كما كنتُ أخال؟ خیال تھا ویسا فَعال (خدا) نے کیوں نہ کیا؟
سر الخلافة ۱۷۵ اردو تر جمه وكذلك زعم الذين خلوا من اور اس طرح اُن یہودیوں نے بھی جو تم سے پہلے قبلك من اليهود، وما آمنوا ہو گزرے ہیں ایسا ہی خیال کیا تھا.وہ خیر الرسل بخير الرسل و حبیب رب المعبود اور معبود خدا کے حبیب پر ایمان نہ لائے اور انہوں وقالوا ! يخرج منا خاتم الأنبياء نے کہا کہ موعود خاتم الانبیاء ہمیں میں سے ظاہر ہوگا الموعود، وكذلك كان وعد ربنا اور اسی طرح ہمارے پروردگار کا داؤد سے وعدہ بداؤد ، وقالوا إن عيسى لا يأتي تھا.نیز انہوں نے کہا کہ عیسی ایلیا کے آسمان سے إلا بعد نزول إيليا من السماء نزول کے بعد ہی آئے گا.جس کی وجہ سے اُنہوں فكفروا بمحمد خير الرسل نے خیر الرسل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور عیسی کا جو وعيسى الذى كان من الأنبياء ، انبیاء میں سے تھے انکار کیا.اللہ نے اُن کے دلوں وختم الله على قلوبهم فما فهموا پر مہر کر دی.پس وہ حقیقت کو سمجھ نہ سکے اور وہ غور و الحقيقة، وما كانوا متدبّرين.فکر کرنے والے نہ تھے.اور اُن کے دِل سخت ہو وقست قلوبهم ونحتوا الدقاریر گئے اور اُنہوں نے قبیح جھوٹ گھڑے یہاں تک حتى صاروا قردة وخنازیر، کہ وہ بندر اور سور بن گئے اور یہی صادقوں کی وكذلك يكون مآل تکذیب تکذیب کا انجام ہوا کرتا ہے اور یہ لوگ اُن کے الصادقين.وإنهم كانوا علماء گروہوں کے علماء اور اُن سگ طینت رکھنے والوں أحزابهم وأئمة كلابهم، وكانوا کے امام تھے.وہ فقہاء بھی تھے اور محدث بھی.وہ فقهاء ومحدثین وفضلاء بڑے بڑے فاضل بھی تھے اور مفسر بھی اور اُن میں ومفسرين، وكان أكثر هم من اكثر تارک الدنیا ( راہب) تھے.پس جب وہ کجر و الراهبين.فلما زاغوا أزاغ الله ہو گئے تو اللہ نے بھی اُن کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا نہ اُن قلوبهم، وما نفعهم علمهم ولا کے علم نے انہیں کچھ فائدہ پہنچایا اور نہ ہی (امن نُخْرُوبُهم، وكانوا قوما فاسقین میں دراڑیں ڈالنے نے.اور وہ فاسق قوم تھے.
سر الخلافة ۱۷۶ اردو تر جمه فلا تفرطوا بجنب الله پس تم اللہ کے حق میں کوتاہی نہ کرو.البتہ تم وليكن فيكم رفق و حلم، ولا میں نرمی اور حالم ہونا چاہیئے.جس کا تمہیں علم نہ تقفُوا ما ليس لكم به علم، ولا ہو اُس کے پیچھے مت لگو نہ غلو کرو.اور نہ زیادتی تغلوا ولا تعتدوا، ولا تعثوا في كرو اور زمین میں خرابی پیدا نہ کرو.اور نہ ہی الأرض ولا تفسدوا، واخشوا فساد کرو.اگر تم متقی ہو تو اللہ سے ڈرو.یقیناً الله إن كنتم متقین.قد سمعتم بعض کے نام بعض دوسروں کو دیئے جانے کی سُنّة تسمية البعض بأسماء سنت کے بارہ میں تم سن چکے ہو.اس لئے تم البعض، فلا تتركوا السنن قادر و توانا اللہ کی ثابت شدہ سنتوں کو ان اوہام الثابتة من الله القدير، لأوهام کی خاطر ترک مت کرو جن کے لئے نہ تو ليس لهـا عنـدكـم من برهان تمہارے پاس کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی ونظير، وإن كنتم تصرون نظیر.لیکن اگر پھر بھی تم اس پر اصرار کرتے ہو عليها ولا تُعرضون عنها اور اس سے باز نہیں آتے تو اس سنت کے فأنبتونا بنظائر على تلك خلاف ہمیں مثالیں بتاؤ اگر تم سچے ہو.اور تم السنة إن كنتم صادقين ولن ایسی نظیر پیش کرنے کی ہرگز قدرت نہیں تقدروا أن تأتوا بنظير، فلا رکھتے.پس تم رب قدیر سے جنگ کرنے کے تبرزوا لحرب الربّ القدير لئے میدان میں مت نکلو.اور نعمت کے نازل ولا تردوا النعمة بعد نزولها، ہونے کے بعد اُسے رڈ مت کرو اور فضل (۵۲) ولا تدعوا الفضل بعد حلولها، اُترنے کے بعد اُسے نہ دھتکار و اور سب سے ولا تكونوا أوّل المعرضين.پہلے اعراض کرنے والے مت بنو.وإن كنتــم فــي شـك مـن اور اگر تم میرے امر کے بارے شک میں أمرى، ولا تنظرون نور قمری ہو اور تم میرے نورِ ماہتاب کو نہیں دیکھتے
سر الخلافة 122 اردو تر جمه وتزعمون أن المهدى اور تم خیال کرتے ہو کہ مہدی موعود اور الموعود والإمام المسعود امام مسعود بنی فاطمہ سے تباہ کن فتنوں يخرج من بنى فاطمة لإطفاء ) کی آگ بجھانے کے لئے ظاہر ہوگا فتن حاطمة، ولا يكون من قوم اور وہ کسی دوسری قوم سے نہیں ہوگا.تو آخرين، فاعلموا أن هذا وهم يه جان لو کہ یہ ایک ایسا وہم ہے جس کی لا أصل له وسهم لا نصل له، کوئی بنیاد نہیں اور ایسا تیر ہے جس کا وقد اختلف القوم فيه، كما لا کوئی پر کان نہیں اور جیسا کہ اہلِ عرفان يخفى على عارفيه، وعلی اور کامل محد ثین پر مخفی نہیں کہ اس بارے كمل المحدثين.وجاء فی میں قوم نے اختلاف کیا ہے.کیونکہ بعض الروايات أن المهدى بعض روایات میں آیا ہے کہ صاحب صاحب الآيات مِن وُلُدِ نشانات مهدی بنو عباس میں سے ہوگا.العباس، وجاء في البعض أنه اور بعض دوسری ( روایات ) میں آیا ہے منا أى من خير الناس، کہ وہ ہم میں سے یعنی خیرالناس میں وفى البعض أنه من ولد سے ہوگا اور بعض ( روایات ) میں آیا الحسن أو الحسین، ہے کہ وہ حسن یا حسین کی اولاد میں فالاختلاف لا يخفی علی ذوی سے ہو گا.پس یہ ایک ایسا اختلاف العينين.وقد قال رسول الله ہے جو کسی اہل نظر سے مخفی نہیں.نیز صلى الله عليه وسلم إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان منّا أهل البيت مع أنه سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے، جبکہ ما كان من أهل البيت، بل كان وہ اہل بیت میں سے نہ تھے، بلکہ من الفارسيين.فارسیوں میں سے تھے.
سر الخلافة ۱۷۸ اردو تر جمه ثم اعلم أن أمر النسب پھر یہ بھی جان لے کہ نسب اور قومیت کا معاملہ والأقوام أمر لا يعلم حقيقته إلا ایسا معاملہ ہے جس کی حقیقت کا صرف علام خدا کا علم العلام، والرؤيا التي كتبتها علم ہی احاطہ کر سکتا ہے.اور وہ رؤیا جسے میں نے في ذكر الزهراء تدلّ على كمال (حضرت) فاطمہ الزھراء کے ذکر میں لکھا ہے وہ تعلقى، والله أعلم بحقيقة اُن کے ساتھ میرے کمال تعلق پر دلالت کرتی الأشياء.وفی کتاب ”التيسير“ ہے.اشیاء کی اصل حقیقت کو اللہ ہی سب سے بہتر عن أبي هريرة من أسلم من أهل جانتا ہے.کتاب التيسير میں ابوھریرہ سے فارس فهو قرشي.وأنا من روایت ہے کہ اہل فارس میں سے جس نے بھی الفارس كما أنبأنى ربّى، فتفكر اسلام قبول کیا وہ قریشی ہے اور جیسا کہ میرے ربّ وہ في هذا ولا تعجل كالمتعصبین نے مجھے بتایا ہے میں اہل فارس میں سے ہوں.اس ثم الأصول المحكم والأصل لئے تو اس پر خوب غور وفکر کر اور متعصبوں کی الأعظم أن يُنظر إلى العلامات طرح جلد بازی نہ کر.پھر ایک محکم اصول اور ويُقدَّمَ البينات على الظنیات سب سے بڑا اصل یہ ہے کہ علامات کی طرف فإن كنت ترجع إلى هذه دیکھا جائے اور امور ہینہ کو امور ظنیہ پر مقدم کیا الأصول فعليك أن تتدبّر جائے.پس اگر تو اس اصول کی طرف رجوع بالنهج المعقول ليهديك الله کرے تو تیرا فرض ہے کہ معقول طریق پر تذ بر کر إلى حق مبين، وهو أن النصوص تا که الله واضح حق کی طرف تیری رہنمائی القرآنية والحديثية قد اتفقت فرمائے اور وہ اصول یہ ہے کہ نصوص قرآنیہ اور على أن الله ذا القدرة قسم حدیثیہ اس پر متفق ہیں کہ اللہ نے جو صاحب زمان هذه الأمة بحكمة منه قدرت ہے اپنی حکمت اور رحمت سے اس امت ورحمة على ثلاثة أزمنة کے زمانے کو تین زمانوں میں تقسیم فرمایا ہے
سر الخلافة ۱۷۹ اردو ترجمہ وسلّمه العلماء كلهم من غير اور جسے تمام علماء نے بغیر کسی شک وشبہ کے تسلیم کیا مرية.فالزمان الأول هو زمان ہے.پس پہلا زمانہ وہ زمانہ ہے جو خیر البریہ أوّلُ من القرون الثلاثة مِن بُدُو (ﷺ) کے زمانے کے آغاز سے پہلی تین زمان خير البرية، والزمان الثانی صدیوں کا زمانہ ہے اور دوسرا زمانہ بدعات کے زمان حدوث البدعات إلى پیدا ہونے کے زمانہ سے اُن بدعات کے بکثرت وقت كثرة شيوع المحدثات پھیل جانے تک کا زمانہ ہے.اور تیسرا زمانہ وہ والزمان الثالث هو الذى شابة ہے جو خیر البریہ (ع) کے زمانے سے مشابہت زمان خير البرية، ورجع إلى رکھتا ہے اور منھاج النبوت کی طرف لوٹ آیا منهاج النبوة، وتطهَّرَ مِن بدعات ہے اور وہ ردی بدعتوں اور روایات فاسدہ سے ردية وروايات فاسدة، وضاهى پاک ہے اور خاتم النبین کے زمانے سے مماثلت زمان خاتم النبيين، وسماه آخر رکھتا ہے اور نبی جن و انس نے اُس کا نام آخری ނ الزمان نبى الثقلين، لأنه آخر من زمانہ رکھا ہے کیونکہ وہ ان دو زمانوں میں.الزمانين.وحمد الله تعالى العباد آخر پر آنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان بعد الآخرين، كما حمد الأولين میں آنے والے بندوں کی اُسی طرح تعریف وقالَ ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ.وَتُلَّةٌ فرمائی جیسے اُس نے پہلوں کی تعریف فرمائی.مِنَ الْآخِرِينَ.ولكلّ ثلةٍ إمام، اور فرمایا: ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ - وَثُلَةٌ مِّنَ وليس فيه كلام فهذه الْآخِرِينَ لے اور ہر جماعت کا ایک امام ہے إشارة إلى خاتم الأئمة، وهو اور اس میں کوئی کلام نہیں اور یہ اشارہ ہے خاتم الائمہ المهدى الموعود اللاحق کی طرف اور وہ مہدی موعود ہے جو صحابہ سے بالصحابة، كما قال عزّ و جلّ ملنے والا ہو گا.جیسا کہ خدائے عزوجل نے فرمایا: لے پہلوں میں سے بھی ایک جماعت ہے اور بعد میں آنے والوں کی بھی ایک جماعت ہے.(الواقعۃ: ۴۰، ۴۱)
سر الخلافة ۱۸۰ اردو تر جمه وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ رسول وسئل رسول الله صلى الله عليه اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان آخرین کی وسلم عن حقيقة الآخرين فوضع حقیقت پوچھی گئی تو آپ نے اپنا ہاتھ سلمان يده على كتف سلمان کالموالین کے کندھے پر دوستوں اور پیاروں کی طرح المحبين، وقال "لو كان الإيمان رکھا اور فرمایا: لو كان الايمان معلقا معلقا بالثريا أى ذاهبًا من الدنيا بالثريا لناله رجل من هؤلاء يخير صلى الله لناله رجل من فارس.وهذه إشارة البريه ) کا آخر الائمہ کی جانب ایک ( ع) لطيفة من خير البرية إلى آخر لطيف اشارہ تھا اور اُس امام کی طرف اشارہ الأئمة، وإشارة إلى أن الإمام الذي تھا جو آخری زمانے میں ظاہر ہوگا اور ایمان يخرج في آخر الزمان ويرد إلی کے انوار زمین کی طرف واپس لائے گا اور وہ الأرض أنوار الإيمان يكون من رحمٰن اللہ کے حکم سے ابناء فارس میں سے ہو أبناء فارس بحكم الله الرحمن گا.پس غور وفکر کر.اس حدیث کے مقام کو فتفكر وتدبّر، وهذا حديث لا يبلغ کوئی دوسری حدیث نہیں پہنچ سکتی.امام مـقـامه حديث آخر، وقد ذكره بخاری نے اس حدیث کا ذکر کمال تصریح البخاری فی الصحیح بکمال سے اپنی صحیح میں کیا ہے اور جب یہ ثابت ہو التصريح.وإذا ثبت أن الإمام گیا کہ آخری زمانے میں آنے والا امام الآتي في آخر الزمان هو فارسی الاصل ہی ہو گا نہ کہ بنی نوع انسان الفارسي لا غيره من نوع الإنسان میں سے کوئی دوسرا، تو پھر کسی دوسرے شخص فما بقى لرجل آخر موضع قدم کے لئے پاؤں رکھنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی.ے اُن کے علاوہ ایک دوسری قوم بھی ہے جو ابھی اُن سے ملی نہیں.(الجمعة:۴) کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا یعنی دنیا سے جاتارہا تو اہل فارس کا کوئی شخص اُسے ضرور حاصل کر لے آئے گا.۵۷
سر الخلافة ۱۸۱ اردو تر جمه وهذا من الله مليكِ وجود اور یہ سب ہست و نیست کے مالک اللہ کی طرف وعدم، فلا تحاربوا الله ولا سے ہے.اس لئے تم اللہ سے جنگ نہ کرو اور حد تجادلوا كالمعتدين ، و آخر سے بڑھنے والوں کی طرح بحث نہ کرو اور ہماری دعوانا أن الحمد لله ربّ آخرى دعا یہی ہے کہ تمام حقیقی تعریف ربّ العالمین اللہ کو زیبا ہے.العالمين.
سر الخلافة ۱۸۲ اردو تر جمه القصيدة في مدح أبي بكر الصديق و عمر الفاروق و غيرهما من الصحابة رضی الله عنهم..حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی مدح میں قصیدہ HH HH رُوَيْدَكَ لَا تَهْجُ الصَّحَابَةَ وَاحْذَرِ وَلَا تَقْفُ كُلَّ مُزْوَرٍ وَّ تَبَصَّرِ سنجل جا.صحابہ کی ہجو نہ کر اور ڈر اور ہر فریبی کے پیچھے نہ چل اور بصیرت سے کام لے.وَلَا تَتَخَيَّرُ سُبُلَ غَيٌّ وَشِقْوَةٍ وَلَا تَلْعَنَنُ قَوْمًا أَنَارُوا كَنَيْرِ گمراہی اور بدبختی کے راستوں کو اختیار نہ کر اور ایسے لوگوں پر لعنت نہ کر جو آفتاب کی طرح روشن ہوئے.أُولئِكَ اَهْلُ اللهِ فَاخْشَ فِنَاءَهُمْ وَلَا تَقْدَحَنُ فِي عِرْضِهِمْ بِتَهَورِ یہ لوگ اہل اللہ ہیں.سوان کے صحن میں داخل ہونے سے ڈر اور دیدہ دلیری سے ان کی عزت و آبرو پر طعنہ زنی نہ کر.أولئِكَ حِزْبُ اللهِ حُفَّاظُ دِينِهِ وَاِيُدَاءُ هُمُ ابْدَاءُ مَوْلًى مُؤْثِرِ ب سب اللہ کے گروہ ہیں اور اس کے دین کے محافظ ہیں اور ان کو ایذا دینا انہیں پسند کرنے والے مولیٰ کو ایذا دینا.بنا ہے.تَصَدَّوْا لِدِينِ اللهِ صِدْقًا وَّ طَاعَةٌ لِكُلِّ عَذَابٍ مُحْرِقٍ أَوْ مُدَمِّر وہ تیار ہو گئے دینِ الہی کی خاطر صدق اور اطاعت سے ہر جلانے والے یا مہلک عذاب کے اٹھانے کے لئے.وَ طَهَّرَ وَادِي الْعِشْقِ بَحْرَ قُلُوبِهِمْ فَمَا الزَّبَدُ وَالْغُفَّاءُ بَعْدَ التَّطَهُرِ عشق کی وادی نے ان کے دلوں کے سمندر کو پاک کر دیا پس جھاگ اور میل کچیل پاک ہو جانے کے بعد باقی نہیں رہی.وَجَاءُ وُا نَبِيَّ اللَّهِ صِدْقًا فَنُوِّرُوا وَلَمْ يَبْقَ أَثْرٌ مِّنْ ظَلَامٍ مُكَدِّرِ اور وہ اللہ کے نبی کے پاس صدق دل سے آئے تو روشن کر دیئے گئے اور کدورت پیدا کرنے والی تاریکی کا کوئی اثر باقی نہ رہا.(۵۸) بِأَجْنِحَةِ الَا شُوَاقِ طَارُوا إِطَاعَةً وَصَارُوا جَوَارِحَ لِلنَّبِيِّ الْمُوَفَّرِ وہ فرمانبرداری کرتے ہوئے شوق کے پروں کے ساتھ اڑے اور نبی محترم کے لئے وہ دست و بازو بن گئے.وَنَحْنُ وَأَنْتُمْ فِي الْبَسَاتِينِ نَرْتَعُ وَهُمْ حَضَرُوا مَيْدَانَ قَتْلِ كَمَحْشَرِ ہم اور تم تو (آج ) باغوں میں مزے کرتے ہیں حالانکہ وہ قتل کے میدان میں روز محشر کی طرح حاضر ہوئے تھے.
سر الخلافة ۱۸۳ اردو ترجمہ وَتَرَكُوا هَوَى الْأَوْطَانِ لِلَّهِ خَالِصًا وَجَاؤُا الرَّسُوْلَ كَعَاشِقٍ مُتَخَيْرِ اور انہوں نے خلوص نیت سے اللہ کے لئے وطن کی محبت چھوڑ دی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عاشق شیدا کی طرح آئے.عَلَى الضُّعْفِ صَوَّالُوْنَ مِنْ قُوَّةِ الْهُدَى عَلَى الْجُرْحِ سَلالُوْنَ سَيْفَ التَّشَنُّرِ وہ باوجود ضعف کے ہدایت کی قوت کے ساتھ حملہ آور تھے.مجروح ہو جانے پر بھی ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی تلوار سونتنے والے تھے.اَتُكْفِرُ خُلُفَاءَ النَّبِيِّ تَجَاسُرًا وَتَلْعَنُ مَنْ هُوَ مِثْلَ بَدْرٍ مُنَوَّرٍ اے مخاطب! کیا تو جسارت سے نبی کے خلفاء کی تکفیر کرتا ہے؟ کیا تو ان پر لعنت کرتا ہے جو کامل چاند کی طرح روشن ہیں؟ وَإِنْ كُنْتَ قَدْ سَاءَ تُكَ اَمْرُ خِلَافَةٍ فَحَارِبُ مَلِيْكًا اِجْتَبَاهُمُ كَمُشْتَرِى اور اگر تجھ کو (ان کی ) خلافت کا معاملہ بُرا لگتا ہے تو اس بادشاہ سے لڑائی کر جس نے انہیں خریدار کی طرح پسند کر لیا ہے.فَبِإِذْنِهِ قَدْ وَقَعَ مَا كَانَ وَاقِعَا فَلَا تَبْكِ بَعْدَ ظُهُورِ قَدْرٍ مُّقَدَّرِ اُسی بادشاہ کے اذن سے واقع ہونے والا امر واقعہ ہو چکا ہے پس مقدر تقدیر کے ظاہر ہو جانے کے بعد مت رو.وَمَا اسْتَخْلَفَ اللهُ الْعَلِيْمُ كَذَاهِلِ وَمَا كَانَ رَبُّ الْكَائِنَاتِ كَمُهْتَرِ اور انہیں خداوند علیم نے بھولنے والے کی طرح خلیفہ نہیں بنایا اور رب کائنات غلط بات کہنے والے کی طرح نہ تھا.وَقُضِيَتْ أُمُورُ خِلَافَةٍ مَّوُعُودَةٍ وَفِي ذَاكَ آيَاتٌ لِقَلْبٍ مُّفَكِّرِ اور خلافت موعودہ کے کام پورے ہو گئے اور اس میں سوچنے والے دل کے لئے نشانات ہیں.وَإِنِّي أَرَى الصِّدِّيقَ كَالشَّمْسِ فِي الضُّحَى مَـائِــرُهُ مَقْبُوْلَةٌ عِندَهُوْجِرٍ میں ( ابوبکر صدیق کو چاشت کے سورج کی طرح پاتا ہوں آپ کے مناقب و اخلاق ایک روشن ضمیر انسان کی نگاہ میں مقبول ہیں.وَكَانَ لِذَاتِ الْمُصْطَفَى مِثْلَ ظِلِّهِ وَمَهُمَا أَشَارَ الْمُصْطَفَى قَامَ كَالْجَرِي وہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ کے سائے کی مثل تھا اور جب بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا تو وہ بہادر کی طرح اٹھ کھڑا ہوا.وَاعْطى لِنَصْرِ الدِّينِ اَمْوَالَ بَيْتِهِ جَمِيعًا سِوَى الشَّيْءِ الْحَقِيرِ الْمُحَقِّرِ اور اس نے دین کی نصرت کے لئے اپنے گھر کے سب اموال دے دیئے سوائے ناچیز اور معمولی اشیاء کے.وَلَمَّا دَعَاهُ نَبِيُّنَالِرِفَاقَةٍ عَلَى الْمَوْتِ أَقْبَلَ شَائِقًا غَيْرَ مُدْبِرِ اور جب ہمارے نبی نے اسے رفاقت کے لئے بلایا تو وہ موت پر شوق کے ساتھ آگے بڑھا اس حال میں کہ وہ پیٹھ پھیر نے والا نہ تھا.وَلَيْسَ مَحَلَّ الطَّعَنِ حُسْنُ صِفَاتِهِ وَإِنْ كُنْتَ قَدْ أَزْمَعْتَ جَوْرًا فَعَيْرِ اور اس کی اچھی صفات طعن کا محل نہیں.اگر تو نے ظلم سے ارادہ کیا ہے تو عیب لگاتارہ.
سر الخلافة ۱۸۴ اردو ترجمہ آبَادَ هَوَى الدُّنْيَا لِإِحْيَاءِ دِينِهِ وَجَاءَ رَسُولَ اللهِ مِنْ كُلِّ مَعْبَرٍ اس نے دنیا کی خواہشات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے احیاء کی خاطر مٹا دیا اور رسول اللہ کے پاس ہر گذرگاہ سے آیا.عَلَيْكَ بِصُحُفِ اللَّهِ يَا طَالِبَ الْهُدَى لِتَنْظُرَ أَوْصَافَ الْعَتِيقِ الْمُطَهَّرِ ، طالب ہدایت ! اللہ کے صحیفوں کو لازم پکڑ، تا تو اس پاک شریف النفس کے اوصاف دیکھے.وَمَا إِنْ أَرَى وَاللهِ فِى الصَّحُبِ كُلِّهِمُ كَمِثْلِ أَبِي بَكْرِ بِقَلْبٍ مُعَطَّرٍ اور خدا کی قسم! میں تمام کے تمام صحابہ میں کوئی شخص ابوبکر کی طرح معطر دل والا نہیں پاتا.تَخَيَّرَهُ الْأَصْحَابُ طَوْعًا لِفَضْلِهِ وَلِلْبَحْرِ سُلْطَانٌ عَلَى كُلِّ جَعْفَرٍ صحابہ نے بخوشی اس کی بزرگی کی وجہ سے اس کا انتخاب کیا.اور سمندر کو ہر دریا پر غلبہ حاصل ہے.وَيُثْنِي عَلَى الصِّدِّيقِ رَبِّ مُّهَيْمِنٌ فَمَا أَنْتَ يَا مِسْكِينُ إِنْ كُنْتَ تَزْدَرِى اور رب مہیمن، صدیق کی مدح کر رہا ہے.پس اے مسکین! تو کیا چیز ہے؟ اگر تو عیب لگاتا ہے.لَهُ بَاقِيَاتٌ صَالِحَاتٌ كَشَارِقِ لَهُ عَيْنُ آيَاتٍ لِّهَذَا التَّطَهَّرِ سورج کی طرح اس کے باقیات صالحات موجود ہیں اس پاکیزگی کی وجہ سے اس کے لئے نشانات کا ایک چشمہ موجود ہے.تَصَدَّى لِنَصْرِ الدِّينِ فِي وَقْتِ عُسْرِهِ تَبَدَّى بِغَارِ بِالرَّسُوْلِ الْمُوَّزَرِ دین کی تنگی کے وقت اس نے اس کی مدد کی ذمہ داری لی اور تائید یافتہ سول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں جانے میں پہل کی.(۵۹) مَكِينٌ أَمِينٌ زَاهِدٌ عِندَ رَبِّهِ مُخَلِّصُ دِينِ الحَقِّ مِنْ كُلِّ مُهْجِرٍ وہ اپنے رب کے حضور میں صاحب مرتبہ امانتدار اور تارک دنیا ہے.دینِ حق کو ہر ایک بیہودہ گو سے خلاصی دینے والا ہے.وَمِنْ فِتَنِ يُخْشَى عَلَى الدِّينِ شَرُّهَا وَمِنْ مِّحَنٍ كَانَتْ كَصَخْرٍ مُكَسِرِ اور خلاصی دینے والا ہے دین کو ایسے فتنوں سے جن کے شر سے دین کو خوف تھا اور ایسے دکھوں سے جو توڑنے والے پتھر کی طرح تھے.وَلَوْ كَان هذَا الرَّجُلُ رَجُلًا مُنَافِقًا فَمَنْ لِلنَّبِيِّ الْمُصْطَفَى مِنْ مُّعَزِّرِ اگر یہ آدمی کوئی منافق آدمی تھا تو پھر نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مددگار کون تھا؟ ا تَحْسَبُ صِدِّيقَ الْمُهَيْمِنِ كَافِرًا لِقَوْلِ غَرِيْقِ فِي الضَّلَالَةِ أَكْفَرِ کیا تو خدائے مھیمن کے صدیق کو کافر خیال کرتا ہے ایسے شخص کے کہنے پر جو گمراہی میں غرق اور سب سے بڑا کافر ہے.وَكَانَ كَقَلْبِ الْأَنْبِيَاءِ جَنَانُهُ وَهِمَّتُهُ صَوَّالَةٌ كَالْغَضَنُفَرِ اس کا دل تو انبیاء کے دل کی طرح تھا اور اس کی ہمت شیر کی طرح خوب حملہ کرنے والی تھی.தற்
سر الخلافة ۱۸۵ اردو ترجمہ ہے.أَرَى نُوْرَ وَجْهِ اللهِ فِي عَادَاتِهِ وَجَلْوَاتِهِ كَأَنَّهُ قِطْعُ نَيْرِ میں تو اس کی عادات اور اس کے جلووں میں اللہ کے چہرے کا نور پاتا ہوں.گویا کہ وہ آفتاب کا ٹکڑا.وَإِنَّ لَهُ فِي حَضْرَةِ الْقُدْسِ دَرَجَةً فَوَيْلٌ لِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ كَخَنُجَرٍ اور اسے جناب الہی میں ایک مرتبہ حاصل ہے.پس ہلاکت ہے ان زبانوں پر جو خنجر کی طرح تیز ہیں.وَخِدْمَاتُهُ مِثْلَ الْبُدُورِ مُنِيرَةٌ وَثَمَرَاتُهُ مِثْلَ الْجَنَا الْمُسْتَكْثَرِ اور اس کی خدمات کامل چاندوں کی طرح روشن ہیں اور اس کے پھل کثرت سے چنے ہوئے میووں کی طرح ہیں.وَجَاءَ لِتَنضِيرِ الرِّيَاضِ مُبَشِّرًا فَلِلَّهِ دَرُ مُنَضْرِ ومُبَشِّرِ اور وہ باغوں کی شادابی کے لئے بشیر ہو کر آیا.پس خدا بھلا کرے اس شاداب کرنے والے اور بشارت دینے والے کا.الحاشية: انا بينا ان ابابكر كان حمید حاشیہ:.ہم بیان کر چکے ہیں کہ ابوبکر ایک نادر روزگار، ۶۳ رجلا عبقريا وانسانا الهياجلى باخدا انسان تھے.جنہوں نے اندھیروں کے بعد اسلام کے چہرے کو مطلع الاســلام بــعــد الـظـلام و کسان تابانی بخشی اور آپ کی پوری کوشش یہی رہی کہ جس نے اسلام کو ترک قصاراه انـه مـن تـرك الاسلام فباراہ کیا.آپ نے اس سے مقابلہ کیا.اور جس نے حق سے انکار کیا.آپ و من انكـر الـحـق فـمـاراه ومن دخل نے اُس سے جنگ کی.اور جو اسلام کے گھر میں داخل ہو گیا تو اُس دار الاسلام فداراه.کـــــابـد فـــي سے نرمی اور شفقت کا سلوک کیا.آپ نے اشاعت اسلام کے لئے اشـــــاعـة الاســــلام شـــدائـد واعطی سختیاں برداشت کیں.آپ نے مخلوق کو نایاب موتی عطا کئے.اور اپنے الخلق دررا فرايد.ساس الاعراب عزم مبارک سے بادیہ نشینوں کو معاشرت سکھائی.اور ان شتر بے مہاروں العزم المبارك وهذب تلك کو کھانے پینے نشست و برخاست کے آداب ، اور نیکی کے راستوں الجمال في المسارح والمبارک کی تلاش اور جنگوں میں بڑھکیں مارنے کے ادب سکھائے.اسی واستقراء المسالك ورغاء المعارك طرح راستوں کی اُستواری کی اور آپ نے ہر طرف مایوسی دیکھ کر مـا اسـتـفتـى بـأسـا ورأى من كل طرف ياسا بھی کسی سے جنگ کے بارے میں نہیں پوچھا بلکہ آپ ہر مد مقابل انبرى لمبارات كل خصيم وما استهوته سے نبرد آزما ہونے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے.ہر بزدل اور الافكار ككل جبان وسقيم وثبت بیمار شخص کی طرح آپ کو خیالات نے بہکایا نہیں.ہر فساد اور عند كل فساد وبلوى انه ارسخ من مصیبت کے موقع پر ثابت ہوگیا کہ آپ کو ہ رضوی سے زیادہ رضوی واهلك كل من تنبى من رائخ اور مضبوط ہیں.آپ نے ہر اُس شخص کو جس نے نبوت کا كذب الدعوى.ونبذ العُلق لله جھوٹا دعویٰ کیا ہلاک کر دیا.اور اللہ تعالیٰ کی خاطر تمام تعلقات کو الا عـلـــى وكـــان كـل اهتشـاشــه فی پرے پھینک دیا.آپ کی تمام خوشی اعلاء کلمہ اسلام اور خیر الانام اعلاء كلمة الاسلام واتباع خير الانام کی اتباع میں تھی.پس اپنے دین کی حفاظت کرنے والے فدونك حافظ دينك واترك طنينك ( حضرت ابو بکر ) کا دامن تھام لے اور اپنی فضول گوئی چھوڑ دے
سر الخلافة ۱۸۶ اردو ترجمہ وَشَابَهَهُ الْفَارُوقُ فِى كُلِّ خُطَّةٍ وَسَاسَ الْبَرَايَا كَالْمَلِيكِ الْمُدَبِّرِ اور (عمر) فاروق ہر فضیلت میں ان کے مشابہ ہوا اور اس نے ایک مدبر بادشاہ کی طرح رعایا کا انتظام کیا.بقية الحاشية : - واني ماقلــت کمتبع بقیہ حاشیہ:.اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ خواہشات نفس کی پیروی الاهواء او مقلد امر وجد من الاباء بل کرنے والے شخص کی طرح یا آباؤ و اجداد کے خیالات کی تقلید حُبّب الى مُذْ سَعَت قدمي ونفث قلمى کرنے والے کی طرح نہیں کہا بلکہ جب سے میرے قدم نے چلنا ان اتخذ التـحـقـيـق شـرعـة والتعميق اور میرے قلم نے لکھنا شروع کیا، مجھے یہی محبوب رہا کہ میں تحقیق کو نجعـة فـكـنـت انقب عن كل خبر واسئل اپنا مسلک اور غور و فکر کواپنا مقصود بناؤں.چنانچہ میں ہر خبر کی چھان عن كل حبر.فوجدت الصديق صديقا بین کرتا اور ہر ماہر علم سے پوچھتا.پس میں نے صدیق وكشف على هذا الامر تحقيقا فاذا (اکبر) کو (واقعی) صدیق پایا.اور تحقیق کی رو سے یہ امر مجھ پر الفيته امام الائمة وسراج الدين والأمة منکشف ہوا.جب میں نے آپ کو تمام اماموں کا امام اور دین اور شددت يدى بغرزه و أويت الى حرزه امت کا چراغ پایا.تب میں نے آپ کی رکاب کو مضبوطی سے واستنـزلـت رحمة ربى بحب الصالحین تھام لیا اور آپ کی امان میں پناہ لی اور صالحین سے محبت کر کے فرحمنی و آوانی و ایدنی و ربانی و جعلنی اپنے رب کی رحمت حاصل کرنی چاہی.پس اُس (خدائے رحیم ) من المكرمين.وجعلني مجدد هذه المأة نے مجھ پر رحم فرمایا.پناہ دی ، میری تائید فرمائی اور میری تربیت کی والمسيح الموعود من الرحمة وجعلني من اور مجھے معزز لوگوں میں سے بنایا.اور اپنی رحمت خاص سے اُس المكلّمين واذهب عنى الحزن واعطانی نے مجھے اس صدی کا مجد داور مسیح موعود بنایا اور مجھے ملہمین میں سے مالم يعط احد من العالمين.وكل بنایا.مجھ سے غم کو دُور کیا اور مجھے وہ کچھ عطا کیا جو دنیا جہاں میں کسی ذلك بالنبي الكريم الأمى و حب اور کو عطا نہیں کیا.اور یہ سب اُس نبی کریم اتمی اور ان مقربین کی محبت هؤلاء المقربين اللهم فصل و سلّم کے طفیل حاصل ہوا.اے اللہ! تو اپنے افضل الرسل اور اپنے خاتم على افضل رسلك و خاتم انبياء ك الانبیاء اور دنیا کے تمام انسانوں سے بہتر وجود محمد علے پر درود و سلام مـحـمـد خـيـر الـنـاس اجـمـعـيـن ووالله بھیج ! بخدا ( حضرت ابوبکر شھر مین میں بھی اور دونوں قبروں میں ان ابـا بـكـر كـان صـاحـب النبی صلعم فی بھی رسول اللہ عل اللہ کے ساتھی ہیں.اس سے میری مراد ایک تو غار الحرمين و في القبرين.اعنى قبر الغار الذي کی قبر ہے جس میں آپ بحالت اضطرار وفات یافتہ شخص کی توارى فيه كالميت عند الاضطرار.والقبر طرح پناہ گزین ہوئے.اور پھر (دوسری) وہ قبر جو مدینے میں الذي فـي الـمـديـنـة ملتصقا بقبر خير البرية خير البر یہ ﷺ کی قبر کے ساتھ ملی ہوئی ہے.اس لئے صدیق (اکبر) فـانـظـر مـقــام الصديق ان كنت من اهل کے مقام کو سمجھ اگر تو گہری سمجھ کا مالک ہے.اللہ نے آپ کی اور آپ التعميق.حـمـده الله و خلافته في القرآن کی خلافت کی قرآن میں تو صیف فرمائی اور بہترین بیان سے آپ واثنى عليه باحسن البيان ولا شك انه کی ستائش کی ہے.بلا شبہ آپ اللہ کے مقبول اور پسندیدہ ہیں.اور مقبول الله و مستطاب وهل يحتقر قدره الا آپ کی قدر و منزلت کی تحقیر کسی سر پھرے شخص کے سوا کوئی نہیں کر مــصــاب غـابـت شـوائـب الاسلام بخلافتہ سکتا.آپ کی خلافت کے ذریعہ اسلام سے تمام خطرات دور ہو گئے الله صل الله
اردو ترجمہ سر الخلافة سَعَى سَعْيَ اِخْلاصِ فَظَهَرَتْ عِزَّةٌ وَشَأْنٌ عَظِيمٌ لِلْخِلَافَةِ فَانظُر اس نے اخلاص سے کوشش کی تو خلافت کی عزت اور شان عظیم ظاہر ہو گئی.پس دیکھ تو سہی.بقية الحاشية :- وكمل سعود المسلمين بقیہ حاشیہ:.اور آپ کی رافت سے مسلمانوں کی خوش بختی برأفتــه و كاد ان يـنـفـطـر عمود الاسلام پایہ تکمیل کو پہنچی.اگر خیر الانام کا صدیق صدیق اکبر نہ ہوتا تو لولا الصديق صديق خير الانام.وجد قریب تھا کہ اسلام کا ستون منہدم ہو جاتا.آپ نے اسلام کو ایک الاســلام كـالـمـهـر الـضـعـيـف والموؤف نا تواں و بے کس اور نحیف و نزار ماؤوف شخص کی طرح پایا تو آپ النحيف فنهض لاعادة حبره وسبره ماہروں کی طرح اس کی رونق و شادابی کو دوبارہ واپس لانے کے لئے كالحاذقين.واوغل فى اثر المفقود اُٹھ کھڑے ہوئے.اور ایک لئے ہوئے شخص کی طرح اپنی گمشدہ كــالــمــنهــوبيــن.حتى عاد الاسلام چیز کی تلاش میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ اسلام اپنے متناسب الى رشاقة قده وأسالة خده ونضرة قد، اپنے ملائم رخسار، اپنی شادابی جمال اور اپنے صاف پانی کی جماله و حلاوة زلالـه و كـان كلّ هذا من مٹھاس کی طرف لوٹ آیا.اور یہ سب کچھ اس بندہ امین کے اخلاص ۶۴ کا صدق هذا العبد الاميـن عـفـر النفس کی وجہ سے ہوا.آپ نے نفس کو مٹی میں ملایا اور حالت کو بدلا و بدل الحالة وما طلب الجعالة اور رحمن خدا کی خوشنودی کے سوا کسی صلے کے طالب نہ ہوئے.الا ابتغاء مرضات الرحمان و ما اور اسی حالت میں شب و روز آپ پر آئے.آپ بوسیدہ ہڈیوں میں اظل الملوان عليه الا في هذا الشأن جان ڈالنے والے، آفتوں کو دور کرنے والے اور (صحرا کے ) میٹھے كان محيى الرفات ودافع الأفات پھل والے درختوں کو بچانے والے تھے، خالص نصرت الہی) و واقــى الـغــافــات.وكلُّ لب النصرة آپ کے حصہ میں آئی.اور یہ اللہ کے فضل و رحم کی وجہ سے تھا.اور جــاء فـي حـصـتــه وهذا من فضل الله اب ہم خدائے واحد پر توکل کرتے ہوئے کسی قدر شواہد کا ذکر پر و رحمته والأن نذكــر قـلـيـــلا مــن کرتے ہیں تا کہ تجھ پر یہ بات ظاہر ہو جائے کہ کیونکر آپ نے الشواهد متوكــلا عـلـى الـلـه الواحد تند و تیز آندھیوں والے فتنوں اور جھلسانے والے شعلوں کے ليظهر عليك كيف اعدم فت فتنا مشتدة مصائب کو ختم کیا اور کس طرح آپ نے جنگ میں بڑے بڑے الهبوب ومـحـنـــا مشتـنـطة الألهوب ماہر نیزہ بازوں اور شمشیر زنوں کو ہلاک کر دیا.اس طرح آپ کی و كيف اعـــدم فــــى الــحــرب ابناء باطنی کیفیت آپ کے کارناموں سے ظاہر ہوگئی اور آپ کے الطعن والضرب فبانت دخيلة امره من اعمال نے آپ کے اوصاف حمیدہ کی حقیقت پر گواہی دی.اللہ افعاله وشهدت اعماله على آپ کو بہترین جزا عطا کرے اور متقین کے ائمہ میں آپ کا حشر الجزاء و حشره في ائمة ہو اور (اللہ ) اپنے ان محبوبوں کے صدقے ہم پر رحم فرمائے.خير سر خصاله فجزاه الله.الاتقياء ورحمنا بهؤلاء الاحباء فتقبل مني اے نعمتوں اور عنایات کے مالک خدا! میری دعا قبول يا ذالالاء والنعماء وانك ارحم الرحماء فرما.تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور تو رحم کرنے والوں میں وانك خير الراحمين.سے سب سے بہتر ہے.
سر الخلافة ۱۸۸ اردو ترجمہ وَصَبَّغَ وَجْهَ الْأَرْضِ مِنْ قَتْلِ كَفْرَةٍ فَيَاعَجَبًا مِنْ عَزْمِهِ الْمُتَشَمِّرِ اور اس نے زمین کی سطح کو کفار کے قتل سے رنگ دیا پس اس کا عزم مصمم کیا ہی عجیب تھا.بقية الحاشية: فتنة الارتداد بعد وفات بقیہ حاشیہ:.بندوں کے امام اور خیر الرسل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی النبی صعلم خير الرسل و امام العباد وفات کے بعد فتنہ ارتداد لما قبض رسول الله صلى الله عليه ” جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو عرب مرتد ہو گئے یا تو وسلم ارتدت العرب اما القبيلة مستوعبة پورے کا پورا قبیلہ یا اُن کا کچھ حصہ.نفاق پیدا ہو گیا اور مسلمان اپنی و اما بعض منها و نجم النفاق والمسلمون قلت کی وجہ سے اور دشمنوں کی کثرت کی وجہ سے نیز اپنے نبی کی كالغنم في الليلة الممطرة لقلتهم وكثرة وفات سے فضا کے تاریک ہو جانے کی وجہ سے ایسے ہو گئے تھے عدوّهم وظلام الجو بفقد نبيهم ( الجزء جیسے کہ بارش والی رات کو بھیڑ بکریاں.“ ( تاریخ ابن خلدون جزء الثاني من تاريخ ابن خلدون صفحه (۶۵) ثانی صفحہ ۶۵) ابن خلدون نے مزید لکھا ہے ”عرب کے عوام و وقال ايضا.ارتدت العرب عامة وخاصة خواص مرتد ہو گئے.اور بنو مکے اور بنو اسد طلیحہ کے ہاتھ پر جمع ہو گئے واجتمع على طليحة عوام طىء و اسد اور بنو غطفان مرتد ہو گئے.اور بنو ھو ازن متردد ہوئے اور انہوں وارتدت غطفان وتوقفت هوازن فامسكوا نے زکوۃ دینی روک دی.نیز بنوسکیم کے سردار مرتد ہو گئے.اور اسی الصدقة وارتد خواص من بني سليم وكذا طرح ہر جگہ پر باقی لوگوں کا بھی یہی حال تھا.“ (صفحہ ۶۵) ابن اثیر سائر الناس بكل مكان (صفحه ۶۵) وقال نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابن الأثيـر فـي تـاريخه لما توفى رسول الله وصال ہوا اور آپ کی وفات کی خبر مکہ اور وہاں کے گورنر عتاب بن صلى الله عليه وسلم و وصل خبره الى مكة اُسید کو پہنچی.تو عتاب چھپ گیا.اور ملکہ لرز اُٹھا.اور قریب تھا کہ وعامله عليها عتاب بن أسيد استخفى عتاب اُس کے باشندے مرتد ہو جاتے.“ ( الجزء الاول صفحہ ۱۳۴) اور وارتجت مكة وكاد اهلها يرتدون مزید لکھا ہے کہ عرب مرتد ہو گئے ، ہر قبیلہ میں سے عوام یا خواص.(الجزء الاول صفحه ۱۳۴) وقال ايضا.اور نفاق ظاہر ہو گیا اور یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی ارتدت العرب اما عامة أو خاصة من كل گرد نہیں اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیا.اور مسلمانوں کی اپنے قبيلة وظهر النفاق واشـر أبـت اليهود نبی کی وفات کی وجہ سے، نیز اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت والنصرانية و بـقـى الـمـسـلـمـون كالغنم کے باعث ایسی حالت ہوگئی تھی جیسی بارش والی رات میں بھیٹر في الـلـيـلـة الـمـمـطـرة لفقد نبيهم و قلتهم بکریوں کی ہوتی ہے.اس پر لوگوں نے ابو بکر سے کہا کہ یہ وكثرة عدوهم فقال الناس لابي بكر ان لوگ صرف اسامہ کے لشکر کو ہی مسلمانوں کا لشکر سمجھتے ہیں.اور هؤلاء يعنون جيش اسامة جند المسلمين جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں عربوں نے آپ سے بغاوت کر والعرب على ما ترى فقد انتقضت بك دی ہے.پس مناسب نہیں کہ آپ مسلمانوں کی اس جماعت کو فلا ينبغي ان تفرق جماعة المسلمین اپنے سے الگ کر لیں.اس پر ( حضرت ) ابو بکر نے فرمایا: عنك فقال ابوبكر والذي نفسي بيده اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!
سر الخلافة ۱۸۹ اردو ترجمہ وَصَارَ ذُكَاءً كَوْكَبٌ فِي وَقْتِهِ فَوَاهَا لَّهُ وَلِوَقْتِهِ الْمُتَطَهِّرِ اور اس کے عہد میں ستارہ سورج بن گیا تھا.پس آفرین ہے اس پر بھی اور اس کے پاک وقت پر بھی.بقية الحاشية :- لو ظننت ان السباع بقیہ حاشیہ:.اگر مجھے اس بات کا یقین بھی ہو جائے کہ درندے تختطفني لا نفذت جيش اسامة كما مجھے اُچک لیں گے تب بھی میں رسول اللہ علیہ کے حکم کے مطابق النبي صلعم ولا ارد قضاءً اسامہ کے لشکر کو ضرور بھیجوں گا.جو فیصلہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قضی به رسول الله صلعم وقــال ہے میں اُسے منسوخ نہیں کر سکتا.عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ عبد الله بن مسعود لقد قمنا عود لقد قمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم ایک ایسے مقام پر بعد النبي صلعم مقامًا كدنا ان کھڑے ہو گئے تھے کہ اگر اللہ ہم پر ابو بکر کے ذریعہ احسان نہ فرماتا ۶۵ کی نهلك لولا ان من الله علينا بابی تو قریب تھا کہ ہم ہلاک ہو جاتے.آپ نے ہمیں اس بات پر اکٹھا بكر رضى اللـه عـنـه اجـمـعنـا على ان کیا کہ ہم بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی ) اور بہت کہون (دوسالہ نقاتل على ابنة مخاض وابنة لبون اونٹنی) کی (زکوۃ کی وصولی کے لئے ) جنگ لڑیں اور یہ کہ ہم عرب و ان ناكل قرى عربية ونعبد الله حتى بستیوں کو کھا جائیں اور ہم اللہ کی عبادت کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ موت ہمیں آلے.(صفحہ ۱۴۲) ياتينا اليقين.(ايضا صفحه ۱۴۲) خروج مدعى النبوة مدعیان نبوت کا خروج وثب الاسود باليمن و وثب مسيلمة باليمامة اسود یمن سے ، مسیلمہ یمامہ سے اور پھر طلیحہ بن خویلد بنی ثم وثب طليحة بن خویلد فی بنی اسد يدعى اسد سے، سب کے سب نبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے اُٹھ کھڑے كلهم النبوة (ابن خلدون الجزء الثاني ہوئے.(ابن خلدون الجزء الثانی صفحہ ۶۰ ) بنی عشقان سے صفحه ۶۰) و تنبأت سجاح بنت الحارث من سجاح بنت الحارث نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر دیا.بنی تغلب میں بنى عقفان واتبعها الهذيل بن عمران في بني سے ہڈیل بن عمران نے ، بنی نمر میں سے عقبہ بن ہلال، اور تغلب و عقبة بن هلال في النمر والسليل بن بنی شیبان میں سے سلیل بن قیس اور زیاد بن بلال اُس کے قیس فی شیبان و زیاد بن بلال و اقبلت من پیروکار بن گئے.اور جزیرہ سے تعلق رکھنے والے ان گروہوں الجزيرة في هذه الجموع قاصدة المدينة لتغزو سے مل کر مدینہ کا رخ کیا تا کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ابا بكر رضی الله عنه (صفحه ۶۵) جنگ کریں.( صفحہ ۶۵) استخلافه صلى الله عليه وسلم ابا بكر نائبا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی: حضرت ابوبکر کو اپنی عنه للامامة في الصلوة نیابت میں امام الصلواۃ بنانا قال ابن خلدون ثم ثقل به الوجع واغمى ابن خلدون کہتے ہیں کہ جب آنحضور ﷺ کی تکلیف بڑھ گئی اور عليه فاجتمع عليه نساء ه واهل بیته و العباس و آپ پر غشی طاری ہوگئی تو آپ کی ازواج اور دیگر اہل بیت ، عباس اور على ثم حضر وقت الصلوة فقال مروا با علی آنحضرت کے پاس جمع ہو گئے.پھر نماز کا وقت ہوا تو آپ نے فرمایا: بكر فليصل بالناس.(الجزء الثاني صفحه ۶۲) ابو بکر سے کہ دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھادیں.“ (الجزء الثانی صفحه ۶۲)
۶۶ سر الخلافة ۱۹۰ اردو ترجمہ وَبَارَى مُلُوكَ الْكُفْرِ فِى كُلِّ مَعْرِكَ وَأَهْلَكَ كُلَّ مُبَارِزِ مُتَكَبِّرِ اور اس نے کافر بادشاہوں سے ہر معرکے میں مقابلہ کیا اور ہر متکبر جنگجو کو ہلاک کر دیا.بقيةالحاشية: مكان ابي بكر من النبي بقیہ حاشیہ:.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک صلى الله عليه وسلم حضرت ابوبکر کا مقام وقال ابن خلدون ثم قال رسول الله صلى ابن خلدون کہتے ہیں کہ ”پھر رسول اللہ ﷺ نے تین باتوں کی الله عليه وسلم بعد ما اوصى بثلاث سدوا وصیت کرنے کے بعد فرمایا: ابوبکر کے دروازے کے سوا مسجد میں هذه الابواب في المسجد الا باب ابي بكر کھلنے والے سب دروازے بند کر دو! کیونکہ میں تمام صحابہ میں فاني لا اعلم امرء افضل يدا عندي في الصحبة احسان میں کسی کو بھی ابوبکر سے زیادہ افضل نہیں جانتا.“ من ابي بكر.(الجزء الثاني صفحه ۶۲) ( الجزء الثانی صفحه ۶۲) شدة حب ابي بكر للنبي صلى الله عليه وسلّم نبی کریم ﷺ سے حضرت ابو بکر کی انتہائی محبت وذكر ابن خلدون واقبل ابوبکر و دخل ابن خلدون نے ذکر کیا ہے کہ ” (حضرت) ابوبکر آئے اور على رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ کے چہرے سے فكشف عن وجهـه وقـبـلـه وقـال بابی انت چادر ہٹائی اور آپ کو بوسہ دیا اور کہا : ” میرے ماں باپ آپ و أمي قد ذقت الموتة التي كتب الله پر قربان، اللہ نے جو موت آپ کے لئے مقدر کی تھی اُس کا مزہ عليك ولن يصيبك بعدها موتة آپ نے چکھ لیا.لیکن اب اس کے بعد بھی آپ پر موت نہیں آئے گی.“ ( ایضاً صفحہ ۶۲) ابدًا (ایضًا صفحه ۶۳) وكان من لطائف منن الله عليه واختصاصه اللہ کے لطیف احسانات میں سے جو اُس نے آپ پر فرمائے اور بكمال القرب من النبي صلى الله عليه وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال قرب کی جو خصوصیت آپ کو حاصل كما نص به ابن خلدون انه رضی الله عنه تھی ، جیسا کہ ابن خلدون نے بیان کیا ہے وہ یہ ھی کہ ابوبکر اُسی چار پائی حمل على السرير الذي حمل عليه رسول الله حمل عليه رسول اللہ پر اُٹھائے گئے جس پر رسول اللہ ﷺ کو اٹھایا گیا تھا.اور آپ کی قبر کو صلى الله عليه وسلم و جعل قبره مثل قبر النبي بھی نبی کریم ﷺ کی قبر کی طرح ہموار بنایا گیا.اور ( صحابہ نے ) آپ مسطحا والصقوا لحده بـلـحـد النبي صلعم کی لحد کو نبی کریم کی لحد کے بالکل قریب بنایا اور آپ کے سر کو رسول اللہ وجعل رأسه عند كتفى النبي صلى الله عليه صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے متوازی رکھا.آپ نے جو وسلم وكان آخـر مـا تـكـلـم به توفنی مسلما آخری کلمہ ادا فرمایا وہ یہ تھا کہ (اے اللہ ! ) مجھے مسلم ہونے کی حالت والحقني بالصالحين.(صفحه ۱۷۶) میں وفات دے اور مجھے صالحین میں شامل فرما.(صفحہ ۱۷۶) ولنكتب هنا كتابا كتبه الصديق الى قبائل مناسب ہے کہ ہم یہاں وہ خط درج کر دیں جو صدیق العرب المرتدة ليزيد المطلعون عليه اکبر نے مرتد ہونے والے قبائل عرب کی طرف لکھا تا کہ ايمانا وبصيرة بصلابة الصديق فى ترویج اس مخط پر اطلاع پانے والے، صدیق اکبر کی شعائر اللہ کی شعائر الله والذب عن جميع ماسنه ترویج اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام سنن کے رسول الله صلى الله عليه وسلم دفاع میں مضبوطی کو دیکھ کر ایمان اور بصیرت میں ترقی کریں.
سر الخلافة ۱۹۱ اردو ترجمہ أَرَى ايَةً عُظمى بِأَيْدِقَوِيَّةٍ فَوَاهَا لَّهَذَا الْعَبْقَرِى الْمُظَفَّرِ اس نے قوی ہاتھوں سے بڑا نشان دکھایا.پس آفرین ہے اس فتح مند جوانمرد پر.اِمَامُ أَنَاسٍ فِى بِجَادٍ مُرَقَّعٍ مَلِيْكُ دِيَارِ فِي كِسَاءٍ مُّغَبَّرٍ وہ پیوند شدہ کمبل میں لوگوں کا امام تھا اور غبار آلود چادر میں ملکوں کا بادشاد تھا.وَأعْطِيَ اَنْوَارًا فَصَارَ مُحَدَّثًا وَكَلَّمَهُ الرَّحْمَنُ كَالْمُتَخَيْرِ اور اسے انوار الہی دیئے گئے سو وہ خدا کا محدث بن گیا اور خدائے رحمان نے اس سے برگزیدوں کی طرح کلام کیا.بـقـيـة الـحـاشـيـة: بسـم الـلـه الـرحمن بقیہ حاشیہ: - بسم الله الرحمن الرحيم يي خط ابوبكر الــرحيــم مـن ابـي بـكـر خليفة رسول الله خلیفۃ الرسول صلعم کی طرف سے ہر خاص و عام کے لئے ہے جس صلـعـم الـی مـن بـلـغــه کتابی هذا من تک پہنچے خواہ وہ اسلام پر قائم رہا ہے یا اس سے پھر گیا ہے.عامة وخاصة أقــــام عـلـى اسـلامــه او ہدایت کی اتباع کرنے والے ہر شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کے بعد رجع عنه سلام على من اتبع الهدی گمراہی اور اندھے پن کی طرف نہیں لوٹا.پس میں تمہارے سامنے ولم يرجع بعـد الهـدى الـى الـضـلالة اُس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں.جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں والعمى فانى احمد اليكم الله الذی لا گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو واحد ہے، لاشریک اله الا هو واشهد ان لا اله الا اللہ ہے.اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں.جو تعلیم آپ لے کر وحده لا شريك له و أن محمدا آئے اُس کا ہم اقرار کرتے ہیں اور جس نے اُس سے انکار کیا عبده ورسوله نقرّ بما جاء به ونكفّر اُسے ہم کا فرقرار دیتے ہیں اور اُس سے جہاد کرتے ہیں.اما بعد من ابنى و نجاهده اما بعد فان الله واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے محمد (رسول اللہ ﷺ ) کو اپنی جناب سے تعالی ارسـل مـحـمـدا بـالحق من عنده حق دے کر اپنی مخلوق کی طرف مبشر نذیر، اور اللہ کی طرف اس الـــى خـلـقـه بشـــرا و نـذيـــا و داعیا کے حکم سے بلانے والے اور ایک منور کر دینے والے سورج کے الــى الـلــه بــاذنــه وســـراجا منيرا لينذر طور پر بھیجا.تا کہ آپ اُسے ڈرائیں جو زندہ ہو اور کافروں مـن كـــان حـيـــا و ويــحـق الـقـول علی پر فرمان صادق آجائے.اللہ تعالیٰ نے اُس شخص کو حق کے ساتھ الـكـافـريـن فـهـدى الـلـه بـالحق من اجاب ہدایت دی جس نے آپ کو قبول کیا اور جس نے آپ سے پیٹھ اليه وضرب رسول الله صلعم من پھیر لی اُس سے رسول اللہ ﷺ نے اس وقت تک جنگ کی کہ ادبـر عـنـه حتـى صــار الى الاسلام طوعا وہ طوعا و کرها اسلام میں آگیا.پھر رسول اللہ ﷺیہ وفات پا وكرها ثم توفي رسول الله صلعم وقد نفذ گئے.بعد اس کے کہ آپ نے اللہ کے حکم کو نافذ فرمالیا اور امت کی لامر الله ونصح لأمته وقضى الذي كان لأمته وقضى الذى كان خیر خواہی کر لی اور جو ذمہ داری آپ پر تھی اُسے پورا کر لیا.اور اللہ عليه و كان الله قد بيّن له ذلك ولاهل نے آپ پر اور اہل اسلام پر اپنی اس کتاب میں جو اس نے نازل الاسلام في الكتاب الذي انزل فقال فرمائی اس بات کو خوب کھول کر بیان کر دیا تھا.چنانچہ فرمایا
سر الخلافة ۱۹۲ اردو ترجمہ مَاثِرُهُ مَمْلُوَّةٌ فِي دَفَاتِرٍ فَضَائِلُهُ أَجْلَى كَبَدْرٍ أَنُوَرِ اس کی خوبیوں سے دفاتر بھرے پڑے ہیں اور اس کے فضائل بدر انور کی طرح زیادہ روشن ہیں.بقية الحاشية :- إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ بقيه حاشیه : إِنَّكَ مَيْتُ وَإِنَّهُمْ مَّيْتُوْنَ يَز ميِّتُونَ وقال وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ فرمايا وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ.قَبْلِكَ الْخُلد.أَفَأَبِنْ مِتَ فَهُمُ الْخَلِدُونَ آفَايِنْ مِتَ فَهُمُ الْخَلِدُونَ مزید براں مؤمنوں وقال للمؤمنين وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ سے فرمایا: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَّاتَ قَبْلِهِ الرُّسُلُ - آفَابِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ.وَمَنْ أَعْقَابِكُمْ.وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ يُنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ.فَلَنْ يَضُرَّ اللهَ شَيْئًا.اللهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِى الله الشَّكِرِينَ سے پس وہ جو محمد وَسَيَجْزِى الله الشكرِيْنَ.فمن کان کی عبادت کیا کرتا تھا وہ جان لے ) کہ محمد تو فوت ہو چکے.اور وہ انما يعبد محمدا فان محمدا قد جو واحد یگانہ لا شریک اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا ( اُسے معلوم ہو ) کہ مـــات و مــن كـــان انــمــا يـعبد اللہ اللہ اُس کی گھات میں لگا ہوا ہے.وہ زندہ ہے اور قائم و دائم ہے، وہ وحده لا شــــريـك لـــه فــان الله له نہیں مرے گا.اسے اونگھ اور نیند نہیں آتی.وہ اپنے کاموں کا محافظ صاد حي قيوم لا يموت ولا ہے.اپنے دشمن سے انتقام لینے والا ہے اور اُسے سزادینے والا تاخذه سنة ولا نوم حافظ لامرہ ہے.میں تمہیں اللہ کے تقویٰ کی اور تمہارے اُس بخت اور نصیب منتقم من عدوه يـجـزيـه وانـی کے حصول کی جو اللہ کے ہاں تمہارے لئے مقرر ہے.اور وہ تعلیم جو اوصيكم بتقوى الله وحظکم تمہارا نبی صلعم تمہارے پاس لے کر آیا اُس پر عمل کرنے کی تمہیں ونــصـيـبـكـم مـن الـلـه ومـا جـاء کم به تاکید کرتا ہوں.اور یہ کہ تم آپ کی رہنمائی سے رہنمائی حاصل کرو نبيكم صلعم وان تهتدوا بهداه وان اور اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑے رکھو.کیونکہ ہر وہ شخص جسے اللہ تعتصموا بدين الله فان كل من لم يهده الله ہدایت نہ دے وہ گمراہ ہے اور ہر وہ شخص جسے وہ نہ بچائے وہ آزمائش ضال و كـل مـن لـم يـعافه لمبتلى وكل من میں پڑے گا.اور ہر وہ شخص جس کی وہ اعانت نہ فرمائے وہ لم يعنه مخذول فمن هداه الله كان مهتديا بے یار و مددگار ہے.پس جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے و من اضله كان ضالا قال الله تعالٰی اور جسے وہ گمراہ قرار دے وہ گمراہ ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ا تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مرنے والے ہیں.(الزمر: ۳۱) تجھ سے پہلے ہم نے کسی انسان کو غیر طبعی عمر نہیں بخشی.کیا اگر تو مر جائے تو وہ غیر طبعی عمر تک زندہ رہیں گے.(الانبیاء: ۳۵) محمد ( ﷺ ) صرف ایک رسول ہیں.ان سے پہلے سب رسول وفات پاچکے.پھر اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو کیا تم ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو شخص اپنی دونوں ایڑیوں کے بل پھر جائے تو (یا درکھو کہ وہ اللہ کا کچھ بگاڑ نہیں سکے گا اور اللہ شکر گزاروں کو ضرور بدلہ دے گا.(ال عمران:۱۴۵)
سر الخلافة ۱۹۳ اردو ترجمہ فَوَاهَا لَّهُ وَلِسَعْيِهِ وَلِجُهْدِهِ وَكَانَ لِدِينِ مُحَمَّدٍ خَيْرَ مِغْفَرٍ پس آفرین ہے اس پر اور اس کی کوشش اور جدوجہد پر وہ دین محمد ﷺ کے لئے بہترین خود تھا.وَفِي وَقْتِهِ أَفْرَاسُ خَيْلِ مُحَمَّدٍ أَثَرْنَ غُبَارًا فِي بِلَادِ التَّنَصُّرِ اور اس کے عہد میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شاہسواروں کے گھوڑوں نے عیسائیوں کے ملک میں غبار اُڑائی.وَكَسَّرَ كِسْرَى عَسْكَرُ الدِّينِ شَوْكَةً فَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ غَيْرُ صُورِ التَّصَوُّرِ اور دین کے لشکر نے کسری کو شوکت کے لحاظ سے توڑ ڈالا پس ان (اکا سرہ) میں سے خیالی صورتوں کے سوا کچھ باقی نہ رہا.بقية الحاشية: مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ بقیہ حاشیہ: مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ.وَمَنْ الْمُهْتَدِ.وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَلَهُ وَلِيًّا يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرْشِدًا لے اور اُس کا دنیا میں مرشدًا ولم يُقبل منه في الدنيا عمل حتى کیا ہوا کوئی عمل اُس وقت تک قبول نہ کیا جائے گا جب تک وہ اس يقر به ولم يقبل منه في الأخرة صرف ولا ( دین اسلام) کا اقرار نہ کر لے.اور نہ ہی آخرت میں اُس کی طرف عدل و قد بلغنى رجوع من رجع منكم عن سے کوئی معاوضہ اور بدلہ قبول کیا جائے گا.اور مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ تم دينه بعد ان اقر بالاسلام و عمل به اغترارا بالله میں سے بعض نے اسلام کا اقرار کرنے اور اُس پر عمل کرنے کے بعد اللہ وجهالة بامره واجابة للشيطان قال الله تعالٰی تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہوئے اور اس کے معاملہ میں جہالت برتتے ہوئے وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَتِّبِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا اور شیطان کی بات مانتے ہوئے اپنے دین سے ارتداد اختیار کر لیا ہے.إِلَّا إِبْلِيْسَ كَانَ مِنَ الْجِنْ فَفَسَقَ عَنْ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَبِكَةِ اسْجُدُوا أَمْرِ رَبِّهِ.اَفَتَتَخِذُونَهُ وَذُزِيَّتَةً اَوْلِيَاءَ لِأدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ مِنْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ عَنْ أَمْرِرَيْهِ - أَفَتَتَخِذُونَهُ وَذَرِيَّتَةً أَوْلِيَاء مِنْ لِلظَّلِمِينَ بَدَلًا وقال اِنَّ الشَّيْطنَ لَكُمْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِسَ لِلظَّلِمِينَ بَدَلًا يز عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُوا فرمايا: إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا - حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحُبِ السَّعِيرِ إِنَّمَا يَدْعُوا حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحُبِ السَّعِيرِ ل جسے اللہ ( ہدایت کا راستہ دکھائے وہی ہدایت پر ہوتا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے اس کا تو ( کبھی ) کوئی دوست ( اور ) راہنما نہیں پائے گا.(الکھف: ۱۸) (اور (اُس وقت کو بھی یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ تم آدم کے ساتھ (مل کر ) سجدہ کرو.اس پر انہوں نے ( تو اس حکم کے مطابق اس کے ساتھ ہو کر ) سجدہ کیا.مگر ابلیس نے (نہ کیا ) وہ جنوں میں سے تھا سو اُس نے (اپنی فطرت کے مطابق) اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی.(اے میرے بندو!) کیا تم مجھے چھوڑ کر اس (شیطان) کو اور اس کی نسل کو (اپنے) دوست بناتے ہو.حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں اور وہ (شیطان) ظالموں کے لئے بہت ہی بُر ابدلہ ثابت ہوا ہے.(الکھف: ۵۱) یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے.پس اسے دشمن ہی بنائے رکھو.وہ اپنے گروہ کو محض اس لئے بلاتا ہے تا کہ وہ بھڑکتی آگ میں پڑنے والوں میں سے ہو جائیں.(فاطر: ۷ )
سر الخلافة ۱۹۴ اردو ترجمہ.(۲۰) وَ كَانَ بِشَوْكَتِهِ سُلَيْمَانُ وَقْتِهِ وَجُعِلَتْ لَهُ جِنَّ الْعِدَا كَالْمُسَخَّرِ اور وہ اپنی شوکت میں اپنے زمانہ کا سلیمان تھا اور دشمنوں کے جن اس کے لئے مسخر کر دئیے گئے تھے.رَأَيْتُ جَلَالَةَ شَانِهِ فَذَكَرْتُهُ وَمَا اَمُدَحُ الْمَخْلُوقَ إِلَّا لِجَوْهَرِ میں نے اس کی بزرگ شان کو دیکھا سو اس کا ذکر کیا اور میں مخلوق کی مدح و ثناء صرف اس کی خوبی کی وجہ سے کرتا ہوں.وَمَا إِنْ أَخَافُ الْخَلْقَ عِنْدَ نَصَاحَةٍ وَإِنَّ الْمَرَارَةَ يَلْزَمَنُ قَوْلَ مُنْذِرِ اور نصیحت کے وقت میں مخلوق سے نہیں ڈرتا اور انذار کرنے والے کی بات کو تلخی تو لازم ہی ہوتی ہے.فَلَمَّا أَجَازَتْ حُلَلُ قَوْلِى لُدُونَةٌ وَغَارَتْ دَقَائِقُهُ كَبِنُرِ مُقَعْرِ جب میرے قول کے لباس (الفاظ ) نرمی سے تجاوز کر گئے اور ان کی باریکیاں گہرے کنوئیں کی طرح گہری ہو گئیں.فَافْتَوُا جَمِيعًا أَنَّ كُفَرَكَ ثَابِتٌ وَقَتُلَكَ عَمَلٌ صَالِحٌ لِلْمُكَفِّرٍ تو ان سب نے فتویٰ دے دیا کہ تیرا کفر تو ثابت ہے اور ملٹر کے لئے تجھے مار ڈالنا عمل صالح ہے.بقية الحاشية :- وانـــي بـعـثـت الـيـكـم حمید بقیہ حاشیہ:.اور میں نے مہاجرین، انصار اور حسن عمل سے فلانا من المهاجرين والانصار والتابعین پیروی کرنے والے تابعین کے لشکر پر فلاں آدمی کو مقرر کر کے تمہاری باحســان و مـــتـــه ان لا يقاتل احدا ولا طرف بھیجا ہے اور میں نے اُسے حکم دیا ہے کہ وہ نہ تو کسی سے جنگ يــقــلـــه حتــى يــدعـوه الـى داعية الله کرے اور نہ اُسے اُس وقت تک قتل کرے جب تک وہ اللہ کے پیغام فمن استجاب له و اقر وكف و عمل کی طرف بلا نہ لے.پھر جو اس پیغام کو قبول کر لے اور اقرار کر لے اور صــالــحـــا قـبـل مــنــه و اعـانـه علیه باز آجائے اور نیک عمل کرے تو اس سے قبول کرے اور اُس پر اُس کی و من ابى امرت ان يـقـاتـلــه علی مدد کرے.اور جس نے انکار کیا تو میں نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اُس ذلك ثم لا يبقى على احد منهم سے اس بات پر جنگ کرے اور جس پر قابو پائے اُن میں سے کسی ایک قدر عليــــه وان يـحـرقـهـم بـالنار کو بھی باقی رہنے نہ دے اور یاوہ اُنہیں آگ سے جلا ڈالے اور ہر طریق ويقتلهم كلّ قتلة وان يس النساء سے انہیں قتل کرے، اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالے.اور کسی سے والذراري ولا يقبل من احد الا اسلام سے کم کوئی چیز قبول نہ کرے.پھر جو اُس کی اتباع کرے تو یہ اُس الاسلام فمن اتبعه فهو خير لـه ومـن کے لئے بہتر ہے اور جس نے اسے ترک کیا تو وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکے تركه فلن يعجز الله وقد امرت رسولی ان گا.اور میں نے اپنے پیغا مبر کو حکم دیا ہے کہ وہ میرے اس خط کو تمہارے يـقـرء كتـابـي في كل مجمع لكم والداعية ہر مجمع میں پڑھ کر سنا دے.اور اذان ہی (اسلام کا اعلان ہے پس الاذان فاذا اذن المســلــمــون فاذنوا جب مسلمان اذان دیں تو وہ بھی اذان دے دیں اور ان پر حملہ ) سے كفوا عنهم وان لم يؤذنوا عاجلوهم رُک جائیں.اور اگر وہ اذان نہ دیں تو ان پر حملہ جلد کرو اور جب وہ اذان واذا أذنوا اســألــوهـم مـا عـليهم فان ابوا دے دیں تو جو ان پر فرائض ہیں اُن کا مطالبہ کرو اور اگر وہ انکار کریں تو عاجلوهم وان اقروا قبل منهم.ان پر جلد حملہ کرو.اور اگر اقرار کر لیں تو اُن سے قبول کر لیا جائے.يسبى
سر الخلافة ۱۹۵ اردو ترجمہ لَقَدْزَيَّنَ الشَّيْطَانُ أَوْهَامَهُمْ لَهُمْ فَتَرَكُوا الصَّلَاحَ لِرَجُلٍ غَيٍّ مُدْخِرِ یقینا شیطان نے انسان کے وہموں کو ان کے لئے خوبصورت کر دکھایا ہے.پس انہوں نے ذلیل کرنے والی گمراہی کی خاطر نیکی کو چھوڑ دیا ہے.وَقَدْ مَسَحَ الْقَهَّارُ صُوَرَ قُلُوبِهِمْ وَفَقَدُوا مِنَ الْأَهْوَاءِ قَلْبَ التَّدَبُّر اور خدائے قہار نے ان کی اندرونی صورتوں کو مسخ کر دیا ہے اور ہوا و ہوس کی وجہ سے انہوں نے سوچنے والا دل کھو دیا ہے.وَمَا بَقِيَتْ فِى طِيْنِهِمُ رِيحُ عِفَّةٍ فَذَرْهُمْ يَسُبُّوْا كُلَّ بَرٌ مُوَقَرِ اور ان کی سرشت میں عفت کی بو بھی باقی نہیں رہی.پس چھوڑ ان کو اس حالت میں کہ وہ ہر باعزت نیک شخص کو گالیاں دیتے رہیں.وَقَدْ كُفِّرَتْ قَبْلِى صَحَابَةُ سَيِّدِى وَقَدْ جَاءَ كَ الْأَخْبَارُ مِنْ كُلِّ مُخْبِرٍ اور مجھ سے پہلے میرے آقا کے صحابہ کی تکفیر کی گئی ہے اور ہر مخبر کی طرف سے تجھے ایسی خبریں مل چکی ہیں.يُسِرُّونَ اِيُدَائِي لِجُبْنِ قُلُوبِهِمْ وَمَا إِنْ أَرَى فِيْهِمْ خَصِيمًا يُنبَرِى وہ اپنی بزدلی کی وجہ سے کی وجہ سے چھپ کر مجھے ایذاء پہنچاتے ہیں اور میں ان میں کوئی ایسا مد مقابل نہیں پاتا جو سامنے آئے.يَفِرُّونَ مِنْيُ كَالشُّعَالِبِ خَشْيَةٌ يَخَافُونَ أَسْيَافِي وَرُمُحِي وَ خَنْجَرِى وہ ڈر کے مارے مجھ سے لومڑیوں کی طرح بھاگتے ہیں، وہ میری تلواروں، میرے نیزے اور خنجر سے ڈرتے ہیں.وَمِنْهُمْ حِرَاصٌ لِلنِّضَالِ عَدَاوَةَ غِلاظٌ شِدَادٌ لَوْ يُطِيقُونَ عَسْكَرِى اور بعض ان میں سے عداوت کی وجہ سے مقابلہ کیلئے حریص ہیں.وہ سخت دشمن ہیں.کاش وہ میرے لشکر سے مقابلہ کی طاقت رکھتے.قَدِ اسْتَتَرَتْ أَنْوَارُهُمْ مِّنْ تَعَصُّبٍ وَإِنِّي أَرَاهُمْ كَالدَّمَالِ الْمُعَفَّرِ اور ان کے انوار تعصب کی وجہ سے چھپ گئے اور میں ان کو خاک آلود گوبر کی طرح پاتا ہوں.فَأَعْرَضْنَا عَنْهُمْ وَعَنْ أَرْجَائِهِمْ كَأَنَّا دَفَنَّاهُمْ بِقَبْرٍ مُّقَعْرِ پس ہم نے ان سے اور ان کے اطراف و جوانب سے منہ پھیر لیا ہے گویا کہ ہم نے ان کو گہری قبر میں دفن کر دیا ہے.وَ وَاللَّهِ إِنَّا لَانَخَافُ شُرُورَهُمْ نَقَلْنَا وَضِيْتَتْنَا إِلَى بَيْتِ أَقْدَرِ اور خدا کی قسم! ہم ان کی شرارتوں سے نہیں ڈرتے اور ہم نے اپنا قیمتی متاع خدائے قادر کے گھر منتقل کر دیا ہے.وَمَا إِنْ أَخَافُ الْخَلْقَ فِي حُكْمِ خَالِقِي وَقَدْ خَوَّفُوا وَاللَّهُ كَهْفِي وَمَأْزَرِى اور میں خالق کے حکم کے بارہ میں خلقت سے نہیں ڈرتا حالانکہ انہوں نے مجھے خوف دلایا ہے اور اللہ میری پناہ اور جائے امان ہے.وَإِنَّ الْمُهَيْمِنَ يَعْلَمَنْ كُلَّ مُضْمَرِى فَدَعْنِي وَرَبِّي يَا خَصِيْمِي وَ مُكْفِرِى اور خدائے مھیمن میرے تمام اندرونے کو جانتا ہے.پس مجھے میرے رب کے حوالہ کر دے.اے میرے دشمن اور ملکر !
سر الخلافة ۱۹۶ اردو ترجمہ وَلَوْ كُنتُ مُفْتَرِيًا كَذُوْبًا لَضَرَّنِى عَدَاوَةُ قَوْمٍ جَرَّدُوْا كُلَّ خَنْجَرِ اور اگر میں مفتری کاذب ہوتا تو ضرور مجھے نقصان دیتی ان لوگوں کی عداوت جنہوں نے ہر خنجر کو نکال لیا ہے.بِوَجْهِ الْمُهَيْمِنِ لَسْتُ رَجُلًا كَافِرًا وَإِنَّ الْمُهَيْمِنُ يَعْلَمَنْ كُلَّ مُضْمَرِى خدائے مہیمن کی ذات کی قسم! میں کافر آدمی نہیں اور یقیناً خدائے مہیمن میرے تمام اندرونے کو جانتا ہے.وَلَسْتُ بِكَذَّابٍ وَّ رَبِّي شَاهِدٌ وَيَعْلَمُ رَبِّي كُلَّ مَا فِي تَصَوُّرِى اور میں کذاب نہیں اور میرا رب گواہ ہے اور میرا رب جو کچھ میرے تصور میں ہے خوب جانتا ہے.وَ أُعْطِيتُ أَسْرَارًا فَلَا يَعْرِفُونَهَا وَلِلنَّاسِ أَرَاءٌ بِقَدْرِ التَّبَصُّـرِ اور مجھے اسرا ردئیے گئے ہیں سو وہ ان کو نہیں جانتے اور لوگوں کی رائیں ان کی بصیرت کے مطابق ہی ہوتی ہیں.فَسُبْحَانَ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا تَقَوَّلُوا عَلَيْهِ بِأَقْوَالِ الضَّلَالِ كَمُفْتَرِئُ رب العرش پاک ہے اس سے جو انہوں نے ایک مفتری کی طرح اس پر گمراہی کے اقوال گھڑ لئے ہیں.وَمَا أَنَا إِلَّا مُسْلِمٌ تَابِعُ الْهُدَى فَيَاصَاحِ لَا تَعْجَلْ هَوًى وَّ تَدَبَّرٍ اور میں تو صرف ایک مسلمان ہوں جو ہدایت کے تابع ہے پس اے دوست! ہوائے نفس کی وجہ سے جلدی نہ کر اور سوچ سے کام لے.وَلَكِنْ عُلُومِي قَدْ بَدَا لُبُّ لُبِّهَا لِمَا رَدِفَتْهَا ظُفْرُ كَشْفِ مُقَشِّر اور میرے علوم کا یہ حال ہے کہ ان کا خلاصہ مغز ظاہر ہو چکا ہے کیونکہ ان علوم کے پیچھے چھلکا اتار دینے والی وضاحت کے ناخن چلے آرہے ہیں.لَقَدْ ضَلَّ سَعْيَا مَنْ أَتَانِي مُخَالِفًا وَرَبِّي مَعِى وَاللَّهُ حِبِّى وَ مُؤْثِرِى بے شک اس کی کوشش ضائع ہوگئی جو مخالف ہو کر میرے پاس آیا اور میرا رب میرے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ میرا دوست اور مجھے پسند کرنے والا ہے.وَيَعْلُو أُولُو الطَّغْوَى بِاَوَّلِ اَمْرِهِمْ وَاَهْلُ السَّعَادَةُ فِي الزَّمَانِ الْمُؤَخَّرِ اور ابتدائے امر میں تو سرکش لوگ اوپر چڑھ آتے ہیں اور سعادتمند لوگ با لآخر بلند ہوتے ہیں.وَلَوْ كُنتَ مِنْ أَهْلِ الْمَعَارِفِ وَالْهُدَى لَصَدَّقْتَ أَقْوَالِي بِغَيْرِ تَحَيْرِ اور اگر تو اہلِ معرفت اور اہل ہدایت سے ہوتا تو تو میرے اقوال کی، کسی حیرانی کے بغیر، تصدیق کرتا.وَلَوْ جِئْتَنِي مِنْ خَوْفِ رَبِّ مُحَاسِبٍ لَأَصْبَحْتَ فِي نَعْمَائِهِ الْمُسْتَكْثَرِ اگر رپ محاسب کے خوف سے تو میرے پاس آتا تو تو اس کی بہت بڑی نعمت میں رہتا.أَلَا لَا تُضِعُ وَقَتَ الْإِنَابَةِ وَالْهُدَى صُدُودُكَ سَمٌ يَا قَلِيلَ التَّفَكُرِ خبردار! رجوع الی اللہ اور ہدایت کے وقت کو ضائع نہ کر.تیرا رک جانا اے کم سوچنے والے! ایک زہر ہے.
سر الخلافة ۱۹۷ اردو ترجمہ ނ بچا لے.وَإِنْ كُنتَ تَزْعَمُ صَبْرَ جِسْمِكَ فِي اللَّظى فَجَرِّبُهُ تَمْرِيْنَا بِحَرْقٍ مُّسَعْرٍ اگر تیرا خیال ہے کہ تیرا جسم آگ کے شعلے کو برداشت کر سکتا ہے بھڑکنے والی آگ کی جلن کی مشق کرتے ہوئے تو اس کا تجربہ کر.وَمَالَكَ لَا تَبْغِى الْمُعَالِجَ خَائِفًا وَإِنَّكَ فِي دَاءٍ عُصَالٍ كَمُحْصَرٍ اور تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو ڈر کر معالج کی خواہش نہیں کرتا حالانکہ تو قولنج کے مریض کی طرح سخت بیماری میں مبتلا.لا ہے.فَيَا أَيُّهَا الْمُرْخِي عِنَانَ تَعَصُّبِ خَفِ اللَّهَ وَاقْبَلُ تُحْفَ وَعْظِ الْمُذَكِّرِ پس اے تعصب کی باگ کو ڈھیلا کرنے والے! اللہ سے ڈر اور نصیحت کرنے والے کے وعظ کے تحفوں کو قبول کر لے.وَخَفْ نَارَيَوْمٍ لَا يَرُدُّ عَذَابَهَا تَدَلُّلُ شَيْحٍ أَوْتَظَاهُرُ مَعْشَرٍ اور اس دن کی آگ سے ڈر جس کے عذاب کو نہیں ہٹا سکے گا شیخ کا ناز و نخرہ اور نہ ہی قبیلہ کی باہمی امداد.سَئِمُنَا تَكَالِيْفَ التَّطَاوُلِ مِنْ عِدَا تَمَادَتْ لَيَالِي الْجَوْرِ يَا رَبِّ فَانُصُرِ ہم دشمنوں کی دست درازی کی تکلیفوں سے اکتا چکے ہیں.ظلم کی راتیں لمبی ہو گئی ہیں.اے میرے ربّ! تو مدد کر.وَأَنْتَ رَحِيمٌ ذُوحَنَانِ وَرَحْمَةٍ فَنَجٌ عِبَادَكُ مِنْ وَّبَالٍ مُدَمِّرِ اور تو رحیم ہے مہربان اور صاحب رحمت ہے سو اپنے بندوں کو مہلک وبال رَأَيْتَ الْخَطَايَا فِي أُمُورِ كَثِيرَةٍ وَإِسْرَافَنَا فَاغْفِرُ وَ أَيْدُ وَعَزِرِ تو نے بہت سے معاملات میں (ہماری) خطاؤں اور ہماری زیادتیوں کو دیکھا ہے.پس بخش دے اور مدد فرما اور تقویت دے.وَ اَنْتَ كَرِيمُ الْوَجْهِ مَوْلًى مُجَامِلٌ فَلَا تَطْرُدِ الْغِلْمَانَ بَعْدَ التَّخَيرِ تو کریم و مہربان ہے! تو حسن سلوک فرمانے والا آتا ہے.پس تو ان غلاموں کو منتخب فرمانے کے بعد نہ دھتکار.وَجِئْنَاكَ كَالْمَوْتَى فَأَحْيِ أُمُورَنَا وَنَسْتَغْفِرَئُكَ مُسْتَغِيْثِيْنَ فَاغْفِرٍ ہم تیرے پاس مُردوں کی طرح آئے ہیں پس ہمارے معاملات کو زندگی بخش.ہم تجھ سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے بخشش مانگتے ہیں.پس معاف فرما.إلى أَى بَابِ يَا إِلهِي تَرُدُّنِى اَتَتُرُ كُنِي فِي كَفَّ خَصْمٍ مُخَسَرِى کس دروازے کی طرف اے میرے معبود! تو مجھے دھکیلے گا؟ کیا تو مجھے میرے نقصان رساں دشمن کے ہاتھوں میں چھوڑ دے گا؟ إِلهِي فَدَتْكَ النَّفْسُ أَنْتَ مَقَاصِدِى تَعَالَ بِفَضْلٍ مِّنْ لَّدُنكَ وَبَشِّرِ اے میرے معبود! میری جان تجھ پر فدا ہو.تو ہی تو میرا مقصود ہے.اپنے فضل کے ساتھ آ اور مجھے خوشخبری دے.أَ أَعْرَضْتَ عَنِّى لَا تُكَلِّمُ رَحْمَةً وَقَدْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِ الْمَصَائِبِ مُخْبِرِى کیا تو نے مجھ سے منہ پھیر لیا ہے (جو) تو شفقت کے ساتھ مجھ سے کلام نہیں فرماتا.تو تو ان مصائب سے پہلے میرا مخبر تھا.
سر الخلافة ۱۹۸ اردو ترجمہ ۶۲ وَكَيْفَ أَظُنُ زَوَالَ حُبِّكَ طَرْفَةً وَيَأْطِرُ قَلْبِي حُبُّكَ الْمُتَكَفْرِ اور میں تیری محبت کے زوال کا ایک لحظہ کے لئے بھی کیسے گمان کر سکتا ہوں جب کہ تیری بہت بڑی محبت میرے دل کو ( تیری طرف ) جھکا رہی ہے.(٢٣) وَجَدْتُ السَّعَادَةُ كُلَّهَا فِي إِطَاعَةِ فَوَفِّقَ لِآخَرُ مِنْ خُلُوصِ وَيَسْرِ اے خدا! میں نے ساری کی ساری خوش بختی اطاعت میں پائی ہے.پس دوسروں کو بھی خلوص کی توفیق دے اور آسانی پیدا کر.الهى بِوَجْهِكَ ادْرِكِ الْعَبْدَ رَحْمَةً تَعَالَ إِلَى عَبْدِ ذَلِيْلٍ مُّكَفَّرٍ اے میرے خدا! اپنی ذات کے طفیل اس بندے کی رحم کے ساتھ دستگیری فرما اور (اپنے) کمزور اور عاجز بندے کی طرف جس کا فر ٹھہرایا گیا، آ جا.وَمِنْ قَبْلِ هَذَا كُنتَ تَسْمَعُ دَعْوَتِي وَقَدْ كُنتَ فِي الْمِضْمَارِ تُرْسِئُ وَمَأْزَرِى اور اس سے پہلے تو میری دعائیں سنتا رہا ہے اور تو میدان میں میری ڈھال اور پناہ بنا رہا ہے.اِلهى أَغِتُنِي يَا اِلهى اَمِدَّنِي وَبَشِّرُ بِمَقْصُودِى حَنَانًا وَّ خَبِّر اے میرے خدا! میری فریاد رسی کر.اے میرے خدا! میری مدد کر اور مہربانی سے میرے مقصود کی بشارت دے اور آگاہ کر.اَنِرْنِي بِنُورِكَ يَا مَلَاذِى وَ مَلْجَأَى نَعُوذُ بِوَجْهِكَ مِنْ ظَلَامٍ مُّدَعْثِرِ مجھے اپنا نور دکھا.اے میرے ملجا و ما وی ! ہم ہلاک کرنے والی تاریکی سے تیری ذات کی پناہ لیتے ہیں.وَخُذْ رَبِّ مَنْ عَادَى الصَّلاحَ وَ مُفْسِدًا وَنَزِّلُ عَلَيْهِ الرّجُزَ حَقًّارٌ دَمِّر اور اے میرے رب! نیکی کے دشمن اور مفسد کو گرفتار کر.اور حق کی خاطر اس پر عذاب نازل کر اور اسے تباہ کر.وَكُنُ رَبِّ حَنَّانًا كَمَا كُنتَ دَائِمًا وَإِنْ كُنْتُ قَدْ غَادَرْتُ عَهْدًا فَذَكِّرِ اور اے میرے رب ! تو مہربان رہ جیسا کہ تو ہمیشہ مہربان تھا اور اگر میں ذمہ داری کو چھوڑ چکا ہوں تو یاد دلا.وَإِنَّكَ مَوْلًى رَاحِمٌ ذُوْكَرَامَةٍ فَبَعْدَ عَنِ الْغِلْمَانِ يَوْمَ التَّشَرُّرِ اور یقیناً تو رحم کرنے والا آقا اور صاحب کرم ہے سو تو اپنے غلاموں سے شرمندگی کے دن کو دور کر دے.أَرَى لَيْلَةً لَيْلَاءَ ذَاتَ مَخَافَةٍ فَهَنِّى وَبَشِّرُنَا بِيَوْمٍ عَبْقَرِى میں بہت سیاہ خوفناک رات کو دیکھ رہا ہوں پس تو مبارک بادی دے اور ہمیں شاندار دن کی بشارت دے.وَفَرِّجْ كُرُوبِى يَا كَرِيْمِی وَنَجِّنِي وَمَزَقَ خَصِيمِي يَا إِلهِي وَعَفْرٍ اور اے میرے کریم ! میرے دکھوں کو دور کر دے اور مجھے نجات دے اور اے میرے خدا! میرے دشمن کو پارہ پارہ کر دے اور خاک آلود کر دے.وَلَيْسَتْ عَلَيْكَ رُمُوزُ اَمْرِى بِغُمَّةٍ وَتَعْرِفُ مَسْتُورِ وَ تَدْرِئُ مُقَعَّرِى اور میرے کام کے رموز تجھ پر مخفی نہیں ہیں اور تو میری پوشیدہ باتوں کا علم رکھتا ہے اور میرے دل کی گہرائی کو جانتا ہے.
سر الخلافة ۱۹۹ اردو ترجمہ زُلَالُكَ مَطْلُوبٌ فَاخْرِجُ عُيُونَهُ جَلالُكَ مَقْصُودٌ فَايْد وَأَظْهِرِ تیرا آب زلال مجھے مطلوب ہے سو اس کے چشموں کو جاری کر.تیرا جلال مقصود ہے پس تائید کر اور اپنا جلال ظاہر کر.وَجَدْنَاكَ رَحْمَانًا فَمَا الْهَمُ بَعْدَهُ نَعُوذُ بِنُورِكُ مِنْ زَمَانٍ مُّكَورِ جب ہم نے تجھ کو رحمان پایا ہے تو اس کے بعد کیا غم ہو سکتا ہے.ہم تاریک زمانہ سے تیرے نور کی پناہ لیتے ہیں.وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ كُلُّهُ لِرَبِّ كَرِيم قَادِرٍ وَّ مُيَسْرِ اور ہماری آخری پکار یہ ہے کہ تمام کی تمام حمد رب کریم قادر اور آسانی پیدا کرنے والے کے لئے ہے.الوصية الوصيت إن من الشهود أن القدح يہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ تنقید، تنقید کا ، اور يوجب القدح، والمدح تعریف، تعریف کا موجب بنتی ہے.کیونکہ : يـوجـب الـمـدح.فإنك إذا آپ کسی شخص سے یہ کہیں کہ تمہارا باپ نیک قلت لرجل إن أباك رجل شریف آدمی ہے تو وہ آپ کے باپ کے متعلق یہ شریف صالح، فلن يقول ہرگز نہیں کہے گا کہ وہ شریر بد بخت ہے بلکہ وہ آپ لأبيك إنه شریر طالح کو نہایت عمدہ کلام سے خوش کرے گا.اور وہ ویسے بل يرضيك بكلام ،زگاہ ہی آپ کے والد کی تعریف کرے گا جیسے آپ نے ويمدح أباك كمثل مدح اُس کے والد کی تعریف کی ہوگی.بلکہ اس سے بھی مدحت به أباه، بل يذكره اصفی و اعلی تر ذکر کرے گا.لیکن اگر آپ نے گالی بأصفاه و أعلاه، وأما إذا دی ہو گی تو آپ کو وہی کچھ کہے گا جو آپ نے کہا ہو شتمت فيكلّم كما كلّمت گا.پس اسی طرح جو لوگ صدیق (اکبر) اور فكذلك الذين يسبون الصديق ( عمر ) فاروق کو گالیاں دیتے ہیں تو حقیقہ وہ والفاروق، فإنما هم يسبون (حضرت علی کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں.عليا ويؤذونه ويُضيعون الحقوق اور انہیں اذیت پہنچاتے اور حقوق تلف کرتے ہیں.
سر الخلافة ۲۰۰ اردو تر جمه فإنك إذا قلت إن أبا بكر كيونكہ جب تو یہ کہتا ہے کہ ابوبکر کا فر ہیں تو تو كافر، فقد هيجت محب صدیق اکبر سے محبت کرنے والے کو جوش دلاتا الصديق الأكبر لأن يقول إن ہے کہ وہ یہ کہے کہ علی اُن سے بڑھ کر کا فر ہیں.عليا أكفرُ؛ فما شتمت اس طرح تو نے صدیق کو گالی نہیں دی بلکہ علی الصديق، بل شتمت علیا کو گالی دی ہے.اور تو تو نے طریق ادب سے و جاوزت الطريق.وإنك لا تجاوز کیا.کیونکہ تو کسی کے باپ کو اس لئے گالی تسب أبا أحد لئلا يسبّوا نہیں دیتا کہ وہ تیرے باپ کو گالی نہ دے.اسی أباك، وكذلك لا تشتم أُمَّ مَن طرح تو اُس شخص کی ماں کو گالی نہیں دیتا جو تجھ سے عاداك، ولكن لا تبالى عزّةَ عداوت رکھتا ہے لیکن تو خانوادہ نبوت کی عزت کی بيت النبوة، ولا تعصمهم من پرواہ نہیں کرتا او را نہیں اس سلسلہ سب وشتم کی سوء هذه السلسلة، ولا تنظر إلى تكليف سے نہیں بچاتا اور شیعہ ہونے کے دعوے فساد النتيجة مع دعاوى التشيع کرنے اور محبت کی لاف زنی کرنے کے باوجود تو وتصلف المحبّة، فكل ذنب اس کے نتیجہ کی برائی کی طرف نہیں دیکھتا.پس السبّ على عنقك يا عدو آل اے رسول اللہ کی آل اور پنجتن پاک کے دشمن اور رسول الله والخمسة المطهرة منا فق طبع شخص ! اس سب وشتم کا تمام تر گناہ تیری ومتطبعا لطباع المنافقين.گردن پر ہے.
سر الخلافة ۲۰۱ اردو تر جمه من المؤلّف إِنَّ الصَّحَابَةَ كُلَّهُمُ كَنُكَاءِ قَدْ نَوَّرُوا وَجْهَ الْوَرَى بِضِيَاءِ یقیناً صحابہ سب کے سب سورج کی مانند ہیں.انہوں نے مخلوقات کا چہرہ اپنی روشنی سے منور کر دیا.تَرَكُوا أَقَارِبَهُمْ وَحُبَّ عِيَالِهِمْ جَاءُوا رَسُولَ اللهِ كَالفُقَرَاءِ انہوں نے اپنے اقارب کو اور عیال کی محبت کو بھی چھوڑ دیا اور رسول اللہ کے حضور میں فقراء کی طرح حاضر ہو گئے.ذُبِحُوا وَمَا خَافُوا الْوَرَى مِنْ صِدْقِهِمُ بَلْ اثَرُوا الرَّحْمَانَ عِنْدَ بَلَاءِ وہ ذبح کئے گئے اور اپنے صدق کی وجہ سے مخلوق سے نہ ڈرے بلکہ مصیبت کے وقت انہوں نے خدائے رحمن کو اختیار کیا.تَحْتَ السُّيُوفِ تَشَهَّدُوا لِخُلُوصِهِمْ شَهِدُوا بِصِدْقِ الْقَلْبِ فِي الْأَمْلَاءِ اپنے خلوص کی وجہ سے وہ تلواروں کے نیچے شہید ہو گئے اور مجالس میں انہوں نے صدقِ قلب سے گواہی دی.حَضَرُوا الْمَوَاطِنَ كُلَّهَا مِنْ صِدْقِهِمْ حَفَدُوا لَهَا فِي حَرَّةٍ رَجُلَاءِ اپنے صدق کی وجہ سے وہ تمام میدانوں میں حاضر ہو گئے.وہ ان میدانوں کی سنگلاخ سخت زمین میں جمع ہو گئے.الصَّالِحُونَ الْخَاشِعُونَ لِرَبِّهِمُ الْبَائِتُونَ بِذِكْرِهِ وَبُكَاءِ وہ صالح تھے اپنے رب کے حضور عاجزی کرنے والے تھے وہ اس کے ذکر میں رو رو کر راتیں گزارنے والے تھے.قَوْمٌ كِرَام لَا نُفَرِّقُ بَيْنَهُمْ كَانُوا لِخَيْرِ الرُّسُلِ كَالْأَعْضَاءِ وہ بزرگ لوگ تھے.ہم ان کے درمیان تفریق نہیں کرتے.وہ خیر الرسل کے لئے بمنزلہ اعضاء کے تھے.مَا كَانَ طَعْنُ النَّاسِ فِيْهِمْ صَادِقًا بَلْ حِشْنَةٌ نَشَأَتْ مِنَ الْأَهْوَاءِ لوگوں کے طعن ان کے بارے میں سچے نہ تھے بلکہ وہ ایک کینہ ہے جو ہوا و ہوس سے پیدا ہوا ہے.إِنِّي أَرَى صَحْبَ الرَّسُوْلِ جَمِيعَهُمْ عِندَ الْمَلِيْكِ بِعِزَّةٍ قَعْسَاءِ میں رسول اللہ کے تمام کے تمام صحابہ کو خدا کے حضور میں دائمی عزت کے مقام پر پاتا ہوں.عُوا الرَّسُوْلَ بِرَحْلِهِ وَثَوَاءِ صَارُوا بِسُبُلِ حَبِيْبِهِمْ كَعَفَاءِ انہوں نے رسول ﷺ کی پیروی کی سفر اور حضر میں اور وہ اپنے حبیب کی راہوں میں خاک راہ ہو گئے.نَهَضُوا لِنَصْرِ نَبِيِّنَا بِوَفَاءٍ عِندَ الضَّلَالِ وَفِتْنَةٍ صَمَّاءِ ہمارے نبی ﷺ کی مدد کے لئے وفاداری کے ساتھ وہ گمراہی اور سخت فتنہ کے وقت میں اُٹھ کھڑے ہوئے.
سر الخلافة ۲۰۲ اردو ترجمہ وَتَخَيَّرُوا لِلَّهِ كُلَّ مُصِيبَةٍ وَتَهَلَّلُوا بِالْقَتْلِ وَالْإِجلاء اور انہوں نے اللہ کی خاطر ہر مصیبت کو اختیار کر لیا اور قتل اور جلاوطنی کو بھی بخوشی قبول کر لیا.اَنْوَارُهُمْ فَاقَتْ بَيَانَ مُبَيِّنٍ يَسْوَدُّ مِنْهَا وَجُهُ ذِي الشَّحْنَاءِ ان کے انوار بیان کرنے والے کے بیان سے بھی بالا ہو گئے.کینہ ور کا چہرہ ان انوار کے مقابلہ میں سیاہ ہو رہا ہے.فَانُظُرُ إِلى خِدْمَاتِهِمْ وَثَبَاتِهِمْ وَدَعِ الْعِدَا فِى غُصَّةٍ وَّ وَصَلَاءِ تو ان کی خدمتوں اور ثابت قدمی کو دیکھ اور دشمن کو ان کے غصہ اور جلن میں چھوڑ دے.ہے.يَارَبِّ فَارْحَمُنَا بِصَحْبِ نَبِيِّنَا وَاغْفِرُ وَانْتَ اللَّهُ ذُو أَلَاءِ اے میرے رب ! ہم پر بھی نبی ﷺ کے صحابہ کے طفیل رحم کر اور ہماری مغفرت فرما اور تو ہی نعمتوں والا اللہ وَ اللهُ يَعْلَمُ لَوْ قَدَرْتُ وَلَمْ آمُتُ لَاشَعُتُ مَدْحَ الصَّحْبِ فِي الْأَعْدَاءِ اللہ جانتا ہے اگر میں قدرت رکھتا اور مجھے موت کا سامنا نہ ہوتا تو میں صحابہ کی تعریف ان کے تمام دشمنوں میں خوب پھیلا کر چھوڑتا.إِن كُنتَ تَلْعَنُهُمْ وَتَضْحَكُ خِسَّةٌ فَارُقُبُ لِنَفْسِكَ كُلَّ اسْتِهْزَاءِ اگر تو ان کو لعنت کرتا رہا اور کمینگی سے ہنستا رہا تو اپنے لئے ہر استہزاء کا انتظار کر.مَنْ سَبَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ فَقَدْ رَدَى حَقٌّ فَمَا فِي الْحَقِّ مِنْ إِخْفَاءِ جس نے نبی کریم ﷺ کے اصحاب کو گالی دی تو بے شک وہ ہلاک ہو گیا.یہ ایک سچائی ہے سو اس سچائی میں کوئی اخفاء نہیں.
سر الخلافة ۲۰۳ عام اطلاع کے لئے ایک اشتہار اردو ترجمه وہ تمام صاحب جنہوں نے شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی کے رسائل اشاعت السنہ دیکھے ہوں گے یا ان کے وعظ سنے ہوں گے یا ان کے خطوط پڑھے ہوں گے وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ شیخ صاحب موصوف نے اس عاجز کی نسبت کیا کچھ کلمات ظاہر فرمائے ہیں اور کیسے کیسے خود پسندی کے بھرے ہوئے کلمات اور تکبر میں ڈوبے ہوئے تربات اُن کے منہ سے نکل گئے ہیں کہ ایک طرف تو انہوں نے اس عاجز کو کذاب اور مفتری قرار دیا ہے اور دوسری طرف بڑے زور اور اصرار سے یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ میں اعلیٰ درجہ کا مولوی ہوں اور یہ شخص سراسر جاہل اور نا دان اور زبان عربی سے محروم اور بے نصیب ہے اور شاید اس بکواس سے ان کی غرض یہ ہوگی کہ تا ان باتوں کا عوام پر اثر پڑے اور ایک طرف تو وہ شیخ بطالوی کو فاضل یگانہ تسلیم کر لیں اور اعلیٰ درجہ کا عربی دان مان لیں اور دوسری طرف مجھے اور میرے دوستوں کو یقینی طور پر سمجھ لیں کہ یہ لوگ جاہل ہیں اور نتیجہ یہ نکلے کہ جاہلوں کا اعتبار نہیں.جو لوگ واقعی مولوی ہیں انہیں کی شہادت قابلِ اعتبار ہے.میں نے اس بیچارہ کو لاہور کے ایک بڑے جلسہ میں یہ الہام بھی سنا دیا تھا کہ انسی مهین من اراد اهانتك كہ میں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کے درپے ہو.مگر تعصب ایسا بڑھا ہوا تھا کہ یہ الہامی آواز اس کے کان تک نہ پہنچ سکی اس نے چاہا کہ قوم کے دلوں میں یہ بات جم جائے کہ یہ شخص ایک حرف عربی کا نہیں جانتا پر خدا نے اسے دکھلا دیا کہ یہ بات الٹ کر اُسی پر پڑی.یہ وہی الہام ہے جو کہا گیا تھا کہ میں اُسی کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت کے درپے ہو گا.سبحان اللہ کیسے وہ قادر اور غریبوں کا حامی ہے پھر لوگ ڈرتے نہیں کیا یہ خدا تعالیٰ کا نشان نہیں کہ وہی شخص جس کی
۶۹۰ سر الخلافة ۲۰۴ اردو تر جمه نسبت کہا گیا تھا کہ جاہل ہے اور ایک صیغہ تک اس کو معلوم نہیں وہ اُن تمام مکفر وں کو جو اپنا نام مولوی رکھتے ہیں بلند آواز سے کہتا ہے کہ میری تفسیر کے مقابل پر تفسیر بناؤ تو ہزار روپے انعام لو اور نورالحق کے مقابل پر بناؤ تو پانچ ہزار روپیہ پہلے رکھا اور کوئی مولوی دم نہیں مارتا.کیا یہی مولویت ہے جس کے بھروسہ سے مجھے کا فرٹھہرایا تھا.ایھا الشیخ اب وہ الہام پورا ہوا یا کچھ کسر ہے.ایک دنیا جانتی ہے کہ میں نے اسی فیصلہ کی غرض سے اور اسی نیت سے کہ تا شیخ بطالوی کی مولویت اور تمام کفر کے فتوے لکھنے والوں کی اصلیت لوگوں پر کھل جائے.کتاب کرامات الصادقین عربی میں تالیف کی اور پھر اس کے بعد رسالہ نورالحق بھی عربی میں تالیف کیا اور میں نے صاف صاف اشتہار دے دیا کہ اگر شیخ صاحب یا تمام ملکفر مولویوں سے کوئی صاحب رسالہ کرامات الصادقین کے مقابل پر کوئی رسالہ تالیف کریں تو ایک ہزار رو پید ان کو انعام ملے گا.اور اگر نور الحق کے مقابل پر رسالہ لکھیں تو پانچ ہزار روپیہ ان کو دیا جائے گا.لیکن وہ لوگ بالمقابل لکھنے سے بالکل عاجز رہ گئے.اور جو تاریخ ہم نے اس درخواست کے لئے مقرر کی تھی یعنی اخیر جون ۱۸۹۴ ء وہ گزرگئی.شیخ صاحب کی اس خاموشی سے ثابت ہو گیا کہ وہ علم عربی سے آپ ہی بے بہرہ اور بے نصیب ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ اول درجہ کے دروغ گو اور کاذب اور بے شرم ہیں کیونکہ انہوں نے تو تقریرا و تحریر صاف اشتہار دے دیا تھا کہ یہ شخص علم عربی سے محروم اور جاہل ہے یعنی ایک لفظ تک عربی سے نہیں جانتا تو پھر ایسے ضروری مقابلہ کے وقت جس میں اُن پر فرض ہو چکا تھا کہ وہ اپنی علمیت ظاہر کرتے کیوں ایسے چُپ ہو گئے کہ گویا وہ اس دنیا میں نہیں ہیں خیال کرنا چاہیئے کہ ہم نے کس قدر تاکید سے اُن کو میدان میں بلایا اور کن کن الفاظ سے اُن کو غیرت دلا نا چاہا مگر انہوں نے اس طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا.ہم نے صرف اس خیال سے کہ شیخ صاحب کی عربی دانی کا دعوی بھی فیصلہ پا جائے رسالہ نور الحق میں یہ اشتہار دے دیا کہ اگر شیخ صاحب عرصہ تین ماہ میں اسی قدر کتاب تحریر کر کے شائع کر دیں اور وہ کتاب در حقیقت
سر الخلافة ۲۰۵ اردو تر جمه جميع لوازم بلاغت و فصاحت والتزام حق اور حکمت میں نور الحق کے ثانی ہو تو تین ہزار روپیہ نقد بطور انعام شیخ صاحب کو دیا جائے گا اور نیز الہام کے جھوٹا ٹھہرانے کے لئے بھی ایک سہل اور صاف راستہ ان کو مل جائے گا اور ہزار لعنت کے داغ سے بھی بچ جائیں گے.ورنہ وہ نہ صرف مغلوب بلکہ الہام کے مصدق ٹھہریں گے.مگر شیخ صاحب نے ان باتوں میں سے کسی بات کی بھی پرواہ نہ کی اور کچھ بھی غیرت مندی نہ دکھلائی.اس کا کیا سبب تھا ؟ بس یہی کہ یہ مقابلہ شیخ صاحب کی طاقت سے باہر ہے سونا چار انہوں نے اپنی رسوائی کو قبول کر لیا اور اس طرف رخ نہ کیا یہ اسی الہام کی تصدیق ہے کہ إِنِّي مُهين من أَراد اهانتك شيخ صاحب نے منبروں پر چڑھ چڑھ کر صدہا آدمیوں میں صد ہا موقعوں میں بار بار اس عاجز کی نسبت بیان کیا کہ یہ شخص زبان عربی سے محض بے خبر اور علوم دین سے محض نا آشنا ہے ایک جاہل آدمی ہے اور کذاب اور دجال ہے اور اسی پر بس نہ کیا بلکہ صد ہا خط اسی مضمون کے اپنے دوستوں کو لکھے اور جابجا یہی مضمون شائع کیا.اور اپنے جاہل دوستوں کے دلوں ﴿20﴾ میں بٹھا دیا کہ یہی سچ ہے.سوخدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس متکبر کا غرور توڑے اور اس گردن کش کی گردن کو مروڑے اور اس کو دکھلاوے کہ کیونکر وہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے.سواس کی توفیق اور مدد اور خاص اس کی تعلیم اور تفہیم سے یہ کتابیں تالیف ہوئیں اور ہم نے کرامات الصادقین اور نور الحق کے لئے آخری تاریخ درخواست مقابلہ کی اس مولوی اور تمام مخالفوں کے لئے اخیر جون ۱۸۹۴ ء مقرر کی تھی جو گزرگئی اور اب دونوں کتابوں کے بعد یہ کتاب سر الخلافہ تالیف ہوئی ہے جو بہت مختصر ہے اور نظم اس کی کم ہے اور ایک عربی دان شخص ایسا رسالہ سات دن میں بہت آسانی سے بنا سکتا ہے اور چھپنے کے لئے دس دن کافی ہیں لیکن ہم شیخ صاحب کی حالت اور اس کے دوستوں کی کم مائیگی پر بہت ہی رحم کر کے دس دن اور زیادہ کر دیتے ہیں اور یہ ستائیس دن ہوئے سو ہم فی دن ایک روپیہ کے حساب سے ستائیس روپیہ کے انعام پر یہ کتاب شائع کرتے ہیں اور شیخ صاحب اور ان کے
سر الخلافة ۲۰۶ اردو تر جمه اسمی مولویوں کی خدمت میں التماس ہے کہ اگر وہ اپنی سُوء قسمت سے ہزار روپیہ کا انعام لینے سے محروم رہے اور پھر پانچ ہزار روپیہ کا انعام پیش کیا گیا تو وہ وقت بھی اُن کی کم مائیگی کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اور تاریخ درخواست گزرگئی اب وہ ستائیس روپیہ کو تو نہ چھوڑیں ہم نے سنا ہے کہ ان دنوں میں شیخ صاحب پر تنگدستی کی وجہ سے تکلیفات بہت ہیں.خشک دوستوں نے وفا نہیں کی.پس ان دنوں یہ میں تو اُن کے لئے ایک روپیہ ایک اشرفی کا حکم رکھتا ہے گویا یہ ستائیس روپیہ ستائیس اشرفی ہیں جن سے کئی کام نکل سکتے ہیں اور ہم اپنے سچے دل سے اقرار کرتے ہیں کہ اگر رسالہ سر الخلافہ کے مقابل پر شیخ صاحب نے کوئی رسالہ میعاد مقررہ کے اندر شائع کر دیا اور وہ رسالہ ہمارے رسالہ کا ہم پلہ ثابت ہوا تو ہم نہ صرف ستائیس روپیہ ان کو دیں گے بلکہ یہ تحریری اقرار لکھ دیں گے کہ شیخ صاحب ضرور عربی دان اور مولوی کہلانے کے مستحق ہیں بلکہ آئندہ مولوی کے نام سے ان کو پکارا جائے گا.اور چاہیئے کہ اب کے دفعہ شیخ صاحب ہمت نہ ہاریں.یہ رسالہ تو بہت ہی تھوڑا ہے اور کچھ بھی چیز نہیں.اگر ایک ایک جز روز گھسیٹ دیں تو صرف چار پانچ روز میں اس کو ختم کر سکتے ہیں.اور اگر اپنے وجود میں کچھ بھی جان نہیں تو اُن سو ڈیڑھ سو مولویوں سے مدد لیں جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے کے مسلمانوں کو کافر اور جہنم ابدی کی سزا کے لائق ٹھہرایا اور بڑے تکبر سے اپنے تئیں مولوی کے نام سے ظاہر کیا اگر وہ ایک ایک حجز لکھ کر دیں تو شیخ صاحب بمقابل اس رسالہ کے ڈیڑھ سوجُجز کا رسالہ شائع کر سکتے ہیں لیکن ا اگر شیخ صاحب نے پھر بھی ایسا کر نہ دکھایا تو پھر بڑی بے شرمی ہو گی کہ آئندہ مولوی کہلاویں بلکہ مناسب ہے کہ آئندہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ بلوانے سے پر ہیز کریں.شیخ کا نام آپ کے لئے کافی ہے جو باپ دادے سے چلا آتا ہے یا منشی کا نام بہت نوٹ:.شیخ صاحب اپنے حال کے پرچہ میں اقراری ہیں کہ اگر اُن کے دوستوں نے اب بھی اُن کی مدد نہ کی تو وہ اس نوکری سے استعفا دے دیں گے.منہ
سر الخلافة ۲۰۷ اردو تر جمه موزوں ہوگا.لیکن ابھی یہ بات قابل آزمائش ہے کہ آپ منشی بھی ہیں یا نہیں.منشی کے لئے ضروری ہے کہ فارسی نظم میں پوری دسترس رکھتا ہو مگر میری نظر سے اب تک آپ کا کوئی فارسی دیوان نہیں گزرا.بہر حال اگر ہم رعایت اور چشم پوشی کے طور پر آپ کا منشی ہونا مان بھی لیں اور فرض کر لیں کہ آپ منشی ہیں گو منشیانہ لیاقتیں آپ میں پائی نہیں جاتیں تو چنداں حرج نہیں کیونکہ منشی گری کو ہمارے دین سے کچھ تعلق نہیں لیکن ہم کسی طرح مولوی کا خطاب ایسے نادانوں کو دے نہیں سکتے جن کو ہم پانچ ہزار روپیہ تک انعام دینا کریں تب بھی اُن کی مردہ روح میں کچھ قوت مقابلہ ظاہر نہ ہو ہزار لعنت کی دھمکی دیں کچھ غیرت نہ آوے تمام دنیا کو مددگار بنانے کے لئے اجازت دیں تب بھی ایک جھوٹے منہ سے بھی ہاں نہ کہیں ایسے لوگوں کو اگر مولوی کا لقب دیا جاوے تو کیا بجز مسلمانوں کے کافر بنانے کے کچھ اور بھی ان میں لیاقت ہے.ہر گز نہیں.چار حدیثیں پڑھ کر نام شیخ الکل نعوذ بالله من فتن هذا الدهر و اهلها ونعوذ بالله من جهلات الجاهلين.یہ بھی واضح رہے کہ ہر یک باحیا دشمن اپنی دشمنی میں کسی حد تک جا کر ٹھہر جاتا ہے اور ایسے جھوٹوں کے استعمال سے اُس کو شرم آجاتی ہے جن کی اصلیت کچھ بھی نہ ہو مگر افسوس کہ شیخ صاحب نے کچھ بھی اس انسانی شرم سے کام نہیں لیا جہاں تک ضرر رسانی کے وسائل اُن کے ذہن میں آئے انہوں نے سب استعمال کئے اور کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا.اوّل تو لوگوں کو اٹھایا کہ یہ شخص کافر ہے اور دجال ہے اس کی ملاقات سے پر ہیز کرو اور جہاں تک ہو سکے اس کو ایذا دو اور ہر ایک ظلم سے اس کو دکھ دو سب ثواب کی بات ہے.اور جب اس تدبیر میں ناکام رہے تو گورنمنٹ انگریزی کو مشتعل کرنے کے لئے کیسے کیسے جھوٹ بنائے کیسے کیسے مفتریات سے مدد لی لیکن یہ گورنمنٹ دوراندیش اور مردم شناس گورنمنٹ ہے سکھوں کے قدم پر نہیں چلتی کہ دشمن اور خود غرض کے منہ سے ایک بات سن کر افروختہ ہو جائے بلکہ اپنی خدا داد عقل سے کام
سر الخلافة ۲۰۸ اردو تر جمه لیتی ہے.سوگورنمنٹ دانشمند نے اس شخص کی تحریروں پر کچھ توجہ نہ کی اور کیونکر توجہ کرتی اس کو معلوم تھا کہ ایک خود غرض دشمن نفسانی جوش سے جھوٹی مخبری کر رہا ہے گورنمنٹ کو اس عاجز کے خاندان کے خیر خواہ ہونے پر بصیرت کامل تھی اور گورنمنٹ خوب جانتی تھی کہ یہ عاجز عرصہ چودہ سال سے برخلاف ان تمام مولویوں کے بار بار یہ مضمون شائع کر رہا ہے کہ ہم لوگ جو گورنمنٹ ۷۲ برطانیہ کی رعیت ہیں ہمارے لئے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے گورنمنٹ ھذا کے زیر اطاعت رہنا اپنا فرض ہے اور بغاوت کرنا حرام.اور جو شخص بغاوت کا طریق اختیار کرے یا اس کے لئے کوئی مفسدانہ بناڈالے یا ایسے مجمع میں شریک ہو یا راز دار ہوتو وہ اللہ اور رسول کے حکم کی نافرمانی کر رہا ہے اور جو کچھ اس عاجز نے گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیر خواہ بننے کے لئے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے وہ سب سچ ہے.نادان مولوی نہیں جانتے کہ جہاد کے واسطے شرائط ہیں سکھا شاہی لوٹ مار کا نام جہاد نہیں اور رعیت کو اپنی محافظ گورنمنٹ کے ساتھ کسی طور سے جہاد درست نہیں اللہ تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ ایک گورنمنٹ اپنی ایک رعیت کے جان اور مال اور عزت کی محافظ ہو اور ان کے دین کے لئے بھی پوری پوری آزادی عبادات کے لئے دے رکھی ہو.لیکن وہ رعیت موقع پا کر اس گورنمنٹ کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو یہ دین نہیں بلکہ بیدینی ہے اور نیک کام نہیں بلکہ بدمعاشی ہے.خدا تعالیٰ ان مسلمانوں کی حالت پر رحم کرے کہ جو اس مسئلہ کو نہیں سمجھتے اور اس گورنمنٹ کے تحت میں ایک منافقانہ زندگی بسر کر رہے ہیں جوایمانداری سے بہت بعید ہے.ہم نے سارا قرآن شریف تدبر سے دیکھا مگر نیکی کی جگہ بدی کرنے کی تعلیم کہیں نہیں پائی.ہاں یہ سچ ہے کہ اس گورنمنٹ کی قوم مذہب کے بارے میں نہایت غلطی پر ہے وہ اس روشنی کے زمانہ میں ایک انسان کو خدا بنارہے ہیں اور ایک عاجز مسکین کو رب العالمین کا لقب دے رہے ہیں.مگر اس صورت میں تو وہ اور بھی رحم کے لائق اور راہ دکھانے کے محتاج ہیں کیونکہ وہ بالکل صراط مستقیم کو بھول گئے اور دور جا پڑے ہیں.ہم کو چاہیئے کہ ان کے احسان یاد کر کے ان کے لئے جناب الہی میں دعا کریں کہ اے خداوند
سر الخلافة ۲۰۹ اردو ترجمہ قادر ذوالجلال ان کو ہدایت بخش اور ان کے دلوں کو پاک تو حید کے لئے کھول دے اور سچائی کی طرف پھیر دے تا وہ تیرے بچے اور کامل نبی اور تیری کتاب کو شناخت کر لیں اور دین اسلام ان کا مذہب ہو جائے.ہاں پادریوں کے فتنے حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں اور ان کی مذہبی گورنمنٹ ایک بہت شور ڈال رہی ہے مگر ان کے فتنے تلوار کے نہیں ہیں قلم کے فتنے ہیں سوائے مسلمانوں تم بھی قلم سے اُن کا مقابلہ کرو اور حد سے مت بڑھو.خدا تعالیٰ کا منشاء قرآن شریف میں صاف پایا جاتا ہے کہ قلم کے مقابل پر قلم ہے اور تلوار کے مقابل پر تلوار.مگر کہیں نہیں سنا گیا کہ کسی عیسائی پادری نے دین کے لئے تلوار بھی اٹھائی ہو.پھر تلوار کی تدبیریں کرنا قرآن کریم کو چھوڑنا ہے بلکہ صاف بے راہی اور الہی ہدایت سے سرکشی ہے.جن میں روحانیت نہیں وہی ایسی تدابیریں کیا کرتے ہیں جو اسلام کا بہانہ کر کے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کو سمجھے بخشے.افغانی مزاج کے آدمی اس تعلیم کو بُرا مانیں گے مگر ہم کو اظہار حق سے غرض ہے نہ ان کے خوش کرنے سے اور نہایت مضر اعتقاد جس ۷۳) سے اسلام کی روحانیت کو بہت ضرر پہنچ رہا ہے یہ ہے کہ یہ تمام مولوی ایک ایسے مہدی کے منتظر ہیں جو تمام دنیا کو خون میں غرق کر دے اور خروج کرتے ہی قتل کرنا شروع کر دے.اور یہی علامتیں اپنے فرضی مسیح کی رکھی ہوئی ہیں کہ وہ آسمان سے اترتے ہی تمام کا فروں کو قتل کر دے گا اور وہی بچے گا جو مسلمان ہو جائے.ایسے خیالات کے آدمی کسی قوم کے بچے خیر خواہ نہیں بن سکتے بلکہ ان کے ساتھ اکیلے سفر کرنا بھی خوف کی جگہ ہے.شاید کسی وقت کا فرسمجھ کر قتل نہ کر دیں اور اپنے اندر کے کفر سے بے خبر ہیں.یادرکھنا چاہیئے کہ ایسے بیہودہ مسائل کو اسلام کی بجز قرار دینا اورنعوذ باللہ قرآنی تعلیم سمجھنا اسلام سے ہنسی کرنا ہے اور مخالفوں کو ٹھیٹھے کا موقعہ دینا ہے.کوئی عقل اس بات کو تجویز نہیں کرسکتی کہ کوئی شخص آتے ہی بغیر اتمام حجت کے لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دے.یا جس گورنمنٹ کے تحت میں زندگی بسر کرے اسی کی تباہی کے گھات میں لگا رہے.معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی روحیں بکلی مسخ ہو چکی ہیں اور
سر الخلافة ۲۱۰ اردو ترجمہ انسانی ہمدردی کی خصلتیں بتمامہا ان کے اندر سے مسلوب ہوگئی ہیں یا خالق حقیقی نے پیدا ہی نہیں کیں.خدا تعالیٰ ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے.نا معلوم کہ ہمارے اس بیان سے وہ لوگ کس قدر جلیں گے اور کیسے منہ مروڑ مروڑ کر کافر کہیں گے مگر ہمیں ان کی اس تکفیر کی کچھ پرواہ نہیں.ہر ایک شخص کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے.ہمیں قرآن شریف کی کسی آیت میں یہ تعلیم نظر نہیں آتی کہ بے اتمام حجت مخالفوں کو قتل کرنا شروع کر دیا جاوے.ہمارے سید ومولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ برس تک کفار کے جور و جفا پر صبر کیا.بہت سے دکھ دیے گئے دم نہ مارا.بہت سے اصحاب اور عزیز قتل کئے گئے ایک ذرا مقابلہ نہیں کیا اور دکھوں سے پیسے گئے مگر سوائے صبر کے کچھ نہیں کیا.آخر جب کفار کے ظلم حد سے بڑھ گئے اور انہوں نے چاہا کہ سب کو قتل کر کے اسلام کو نابود ہی کر دیں تب خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کو اُن بھیٹریوں کے ہاتھ سے مدینہ میں سلامت پہنچا دیا.حقیقت میں وہی دن تھا کہ جب آسمان پر ظالموں کو سزا دینے کے لئے تجویز بھہر گئی.تادلِ مرد خد ا نامد بدرد.بیچ قومے را خدا رسوا نکرد مگر افسوس کہ کافروں نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ قتل کے لئے تعاقب کیا اور کئی چڑھائیاں کیں اور طرح طرح کے دکھ پہنچائے.آخر وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں اپنے بے شمار گناہوں کی وجہ سے اس لائق ٹھہر گئے کہ اُن پر عذاب نازل ہو.اگر ان کی شرارتیں اس حد تک نہ پہنچتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز تلوار نہ اٹھاتے مگر جنہوں نے تلوار میں اٹھا ئیں اور خدا تعالیٰ کے حضور میں بے باک اور ظالم ثابت ہوئے وہ تلواروں سے ہی مارے گئے.غرض جہاد نبوی کی یہ صورت ہے جس سے اہلِ علم بے خبر نہیں اور قرآن میں یہ ہدایتیں موجود ہیں کہ جو لوگ نیکی کریں تم بھی ان کے ساتھ نیکی کرو.جو تمہیں پناہ دیں اُن کے شکر گزار بنے رہو اور جو لوگ تمہیں دکھ نہیں دیتے ان کو تم بھی دکھ مت دو.مگر اس زمانہ کے مولویوں کی حالت پر افسوس ہے کہ وہ نیکی کی جگہ بدی کرنے کو تیار ہیں اور ایمانی روحانیت اور انسانی رحم سے خالی.اللهم اصلح امة محمد صلى الله عليه وسلم.امين
سر الخلافة ۲۱۱ اردو ترجمه شیخ محمد حسین بطالوی کا ہمارے کا فر ٹھہرانے پر اصرار اور ہماری طرف سے ہمارے اسلامی عقیدہ کا ثبوت اور نیز شیخ صاحب موصوف کے لئے ستائیس روپیہ کا انعام اگر وہ رسالہ سر الخلافہ کے مقابل پر رسالہ لکھ کر شائع کریں.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ہم نے ایک ذرہ اسلام سے خروج نہیں کیا بلکہ جہاں تک ہمارا علم اور یقین ہے ہم اُن سب باتوں پر قائم اور راسخ ہیں جو نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے ثابت ہوتی ہیں اور ہمیں بڑا افسوس ہے کہ شیخ محمد حسین صاحب اور دوسرے ہمارے مخالفوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ ہمیں کافر اور دجال بنایا اور خلود جہنم ہماری سزا ٹھہرائی بلکہ قرآن اور حدیث کو بھی چھوڑ دیا اور ہم بار بار کہتے ہیں کہ ہم اُن کی نفسانی خواہشوں اور غلطیوں اور خطاؤں کو تو کسی طرح قبول نہیں کر سکتے لیکن اگر کوئی سچی بات اور کتاب اللہ اور حدیث کے موافق کوئی عقیدہ اُن کے پاس ہو جس کے ہم بفرض محال مخالف ہوں تو ہم ہر وقت اس کے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.ہم نے انہیں دکھلا دیا اور ثابت کر دیا کہ توفی کے لفظ میں کتاب الہی کا عام محاورہ.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بول چال کا عام محاورہ اور صحابہ کی روز مرہ بول چال کا عام محاورہ اور اس وقت سے آج تک عرب کی تمام قوم کا عام محاورہ مارنے کے معنوں پر ہے نہ اور کچھ.اور ہم نے یہ بھی دکھلایا کہ جو معنی توفی کے لفظ میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے ثابت ہوئے وہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے بخاری کھول کر دیکھو اور پاک دل کے ساتھ اس آیت میں غور کرو کہ میں قیامت کے دن اُسی طرح فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کہوں گا جیسا کہ ایک عبد صالح یعنی حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا اور سوچو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلمہ لفظ توفی کے لئے کیسی ۷۵ ) ایک تفسیر لطیف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی تغییر اور تبدیل کے لفظ متنازعہ فیہ کا مصداق اپنے تئیں ایسا ٹھہرالیا جیسا کہ آیت موصوفہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُس کے
سر الخلافة ۲۱۲ اردو ترجمہ مصداق تھے.اب کیا ہمیں جائز ہے کہ ہم یہ بات زبان پر لاویں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کے حقیقی مصداق نہیں تھے اور حقیقی مصداق عیسی علیہ السلام ہی تھے اور جو کچھ اس آیت سے درحقیقت خدا تعالیٰ کا منشاء تھا اور جو معنے توفی کے واقعی طور پر اس جگہ مراد الہی تھی اور قدیم سے وہ مراد علم الہی میں قرار پا چکی تھی یعنی زندہ آسمان پر اٹھائے جانا نعوذ باللہ اس خاص معنی میں آنحضرت صلعم شریک نہیں تھے بلکہ آنحضرت نے اس آیت کو اپنی طرف منسوب کرنے کے وقت اس کے معنوں میں تغییر و تبدیل کر دی ہے اور دراصل جب اس لفظ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کریں تو اُس کے اور معنے ہیں اور جب حضرت مسیح کی طرف یہ لفظ منسوب کریں تو پھر اس کے وہی حقیقی معنے لئے جاویں گے جو خدائے تعالیٰ کے قدیم ارادہ میں تھے.پس اگر یہی بات سچ ہے تو علاوہ اس فساد صریح کے کہ ایک نبی کی شان سے بہت بعید ہے کہ وہ ایک قراردادہ معنوں کو توڑ کر اُن میں ایک ایسا بعض نادان کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام میں گما کا لفظ موجود ہے جوکسی قدر فرق پر دلالت کرتا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی اور حضرت عیسیٰ کی توفی میں کچھ فرق چاہیئے.مگر افسوس کہ یہ نادان نہیں سوچتے کہ مُشَبَّه مُشَبه به کی طر ز واقعات میں خواہ کچھ فرق ہو لیکن لغات میں فرق نہیں پڑ سکتا.مثلاً کوئی کہے کہ جس طرح زید نے روٹی کھائی میں نے بھی اسی طرح روٹی کھائی.سواگر چہ روٹی کھانے کے وضع یا عمدہ اور ناقص ہونے میں فرق ہو مگر روٹی کا لفظ جو ایک خاص معنوں کے لئے موضوع ہے اُس میں تو فرق نہیں آئے گا.یہ تو نہیں کہ ایک جگہ روٹی سے مراد روٹی اور دوسری جگہ پتھر ہو.لغات میں تو کسی طرح تصرف جائز نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور اسی قسم کا مقولہ ہے جو ابن تیمیہ نے زاد المعاد میں نقل کیا ہے اور وہ عبارت یہ ہے.قال یا معشر قريش ما ترون انى فاعل بكم قالوا خيرًا اخ كريم وابن اخ كريــم قال فاني اقول لكم كما قال يوسف لاخوته لا تثريب عليكم اليوم اذهبوا فانتم الطلقاء.الصفحه ۴۱۵.اب دیکھو تشریب کا لفظ جن معنوں سے حضرت یوسف کے قول میں ہے انہیں معنوں سے آنحضرت صلعم کے قول میں ہے.منہ
سر الخلافة ۲۱۳ اردو تر جمه تصرف کرے کہ بجر تحریف معنوی کے اور کوئی دوسرا نام اُس کا ہو ہی نہیں سکتا.دوسرا فساد یہ ہے کہ جس اتحاد مقولہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا یعنی فـلـمـا تو فیتنی کا وہ اتحاد بھی تو قائم نہ رہا کیونکہ اتحاد تو تب قائم رہتا کہ توفی کے معنوں میں آنحضرت اور حضرت عیسی شریک ہو جاتے.مگر وہ شراکت تو میسر نہ آئی پھر اتحاد کس بات میں ہوا.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اور لفظ نہیں ملتا تھا جو آپ نے نا حق ایک ایسے اشتراک کی طرف ہاتھ پھیلایا جس کا آپ کو کسی طرح سے حق نہیں پہنچتا تھا.بھلا زمین میں دفن ہونے والے اور آسمان پر زندہ اٹھائے جانے والے میں ایک ایسے لفظ میں کہ یا مر نے کے اور یا زندہ اٹھائے جانے کے معنے رکھتا ہے کیونکر اشتراک ہو.کیا ضدین ایک جگہ جمع ہوسکتی ہیں.اور اگر آیت فلما تو فیتنی میں توفی کے معنے مارنا نہیں تھا تو پھر کیا امام بخاری کی عقل ماری گئی کہ وہ اپنی صحیح میں اسی معنے کی تائید کے لئے ایک اور آیت دوسرے مقام سے اٹھا کر اس مقام میں لے آیا یعنی آیت اِنِّی مُتَوَفِّيكَ اور پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ قول ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی اس جگہ جڑ دیا کہ مُتَوَفِّيكَ مُمِيتُكَ یعنی متوفیک کے یہ معنی ہیں کہ میں تجھے مارنے والا ہوں.اگر بخاری کا یہ مطلب نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمثیلی معنوں کو ابن عباس کے صریح معنوں کے ساتھ زیادہ کھول دے تو ان دونوں آیتوں کو جمع کرنے اور ابن عباس کے معنوں کے ذکر سے کیا مطلب تھا اور کون ساحل تھا کہ توفی کے معنے کی بحث شروع کر دیتا.پس در حقیقت امام بخاری نے اس کارروائی سے توفی کے معنوں میں جو کچھ اپنا مذہب تھا ظاہر کر دیا سو اس جگہ ہمارے تائید دعوٹی کے لئے تین چیزیں ہوگئیں.اوّل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مبارک کہ جیسے عبد صالح یعنی عیسی نے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کہا.میں بھی فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کہوں گا.دوسرے ابن عباس سے توفی کے لفظ کے معنے مارنا ہے.تیسرے امام بخاری کی شہادت جو اس کی عملی کارروائی سے ظاہر ہورہی ہے.اب سوچ کر دیکھو کہ کیا ہم نے حدیث اور قرآن کو چھوڑایا ہمارے مخالفوں نے.
سر الخلافة ۲۱۴ اردو تر جمه کیا انہوں نے بھی توفی کے معنی رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اور کسی صحابی سے ثابت کئے جیسا کہ ہم نے کئے ہیں اور پھر بھی ہم اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں کہ اگر ہمارے مخالف اس ثبوت کے مقابل پر جو توقفی کی نسبت ہم نے پیش کیا اب بھی کوئی دوسرا ثبوت پیش کریں یعنی توفی کے معنوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اور حدیث ہم کو دکھلاویں اور اس کے ساتھ کسی اور صحابی کی طرف سے بھی توفی کے معنی تائیدی طور پر پیش کریں اور بخاری جیسے کسی امام حدیث کی بھی ایسی ہی شہادت توفی کے معنوں کے بارہ میں پیش کر دیں تو ہم اس کو قبول کر لیں گے مگر یہ کیسی چالا کی ہے کہ خود تو حدیث اور قرآن کو چھوڑ دیں اور الٹا ہم پر الزام دیں کہ یہ فرقہ قرآن اور حدیث سے باہر ہو گیا ہے.اے مخالف مولو یو خدا تم پر رحم کرے ذرہ غور سے توجہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ یہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے مقام متنازعہ فیہ میں توفی کے معنی بجز مارنے کے اور کچھ بھی ثابت نہیں ہوئے اور جو شخص اس ثابت شدہ معنی کو چھوڑتا ہے وہ قرآن کریم کی تفسیر بالرائے کرتا ہے کیونکہ حدیث کی رو سے بجز مارنے کے اور کوئی معن توفی آیت متنازعہ فیہ میں منقول نہیں.اسی وجہ سے شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنی تفسیر فوز الکبیر میں جو صرف آثار نبوی اور اقوال صحابہ کے التزام سے کی گئی ہے متوفيك کے معنے صرف مميتك لکھے ہیں.اگر ان کو کوئی مخالف قول ملتا تو ضرور وہ او کے لفظ سے وہ معنے بھی بیان کر جاتے.اب ہمارے مخالفوں کو شرم کرنا چاہیئے کہ کیوں وہ نصوص صریحہ کو صریح چھوڑ بیٹھے ہیں.پس اے بے باک لوگو خدا تعالیٰ سے ڈرو.کیا تم نے ایک دن مرنا نہیں.اور نزول کے لفظ پر آپ لوگ نازنہ کریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کا کچھ فیصلہ نہیں فرمایا کہ یہ نزول کن معنوں سے نزول ہے.کیونکہ نزول کئی قسم کے ہوا کرتے ہیں اور مسافر بھی ایک زمین سے دوسری زمین میں جا کر نزیل ہی کہلاتا ہے.قرآن کریم میں اُن نزولوں کا بھی ذکر ہے جو روحانی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو ہم نے لوہا اتارا ہم نے لباس
سر الخلافة ۲۱۵ اردو تر جمه اتارا ہم نے چار پائے اتارے.اور ایلیا یعنی یوحنا کے قصہ سے جس پر یہود اور نصاریٰ کا اتفاق ہے اور بائیبل میں موجود ہے صاف کھل گیا ہے کہ فوت شدہ انبیاء کا نزول اس دنیا میں روحانی طور پر ہوا کرتا ہے نہ جسمانی.وہ آسمان سے تو ہرگز نہیں نازل ہوتے مگر اُن کی روحانی خصلتیں کسی مثیل میں باذن اللہ داخل ہو کر روحانی طور پر نازل ہو جاتی ہیں اور ان کی ارادات کا شخص مثیل پر ایک سایہ ہوتا ہے اس لئے اُس مثیل کا ظہور مُمَثَلُ بِہ کا نزول سمجھا جاتا ہے.بعض اولیاء کرام نے بھی اس قسم کے نزول کا تصوف کی کتابوں میں ذکر کیا ہے.غرض عند اللہ ی قسم بھی ایک نزول کی قسم سے ہے اور اگر یہ نزول نہیں تو پھر خدائے تعالیٰ کی کتابیں باطل ہوتی ہیں.ایلیا کا قصہ جو بائبل میں موجود ہے ایک ایسا مشہور واقعہ ہے جو یہود اور نصاری دونوں فرقوں میں مسلّم ہے اور یہ کمال حماقت ہوگی کہ ہم یہ کہیں کہ ان دونوں فرقوں نے باہم مل کر اس مقام کی آیات کو تحریف کر دیا ہے بلکہ نصاری کو یہ قصہ نہایت ہی مضر پڑا ہے اور اگر اس جگہ نزول ایلیا کے ظاہری معنے کریں تو یہود بچے ٹھہرتے ہیں اور ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام سچے نبی نہیں تھے کیونکہ اب تک حضرت ایلیا علیہ السلام آسمان سے نازل نہیں ہوئے اور بائیبل کے رو سے ضرور تھا کہ وہ حضرت مسیح سے پہلے نازل ہو جاتے.حضرت مسیح کو یہ ایک بڑی دقت پیش آئی تھی کہ یہود نے ان کی نبوت میں یہ عذر پیش کر دیا جو در حقیقت ایک پہاڑ کی طرح تھا.پس اگر یہ جواب صحیح ہوتا کہ نزول ایلیا کا قصہ محرف ہے تو حضرت عیسی علیہ السلام یہود کے آگے اسی جواب کو پیش کرتے اور کہتے کہ یہ بات سرے سے ہی جھوٹ ہے کہ ایلیا پھر دنیا میں آئے گا اور ضرور ہے کہ وہ مسیح سے پہلے بجسمہ العصر کی آسمان سے اتر آوے.مگر انہوں نے یہ جواب نہیں دیا بلکہ آیت کی صحت کو مسلم رکھ کر نزول کو نزول روحانی ٹھہرایا.اور انہیں تاویلوں کے سبب سے یہودیوں نے انہیں ملحد کہا اور بالاتفاق فتوی دیا کہ یہ شخص بے دین اور کافر ہے کیونکہ نصوص توریت کو بلا قرینہ صارفہ ان کے ظاہری معنوں سے پھیرتا ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام تحریف کا عذر پیش کر دیتے اور کہہ
سر الخلافة ۲۱۶ اردو ترجمہ دیتے کہ تمہاری آسمانی کتابوں کے یہ مقامات محرف ہو گئے ہیں تو اس جواب سے بھی اگر چہ وہ یہود کا منہ تو بند نہیں کر سکتے تھے تاہم اُن کے خوارق اور معجزات کو دیکھ کر بہت سے لوگ سمجھ جاتے کہ ممکن ہے کہ یہ دعوی تحریف کا سچا ہی ہو کیونکہ یہ شخص مؤید من اللہ اور الہام یافتہ اور صاحب مجزات ہے لیکن حضرت مسیح نے تو ایسا نہ کیا بلکہ آیت کی صحت کا ایلیا کے نزول کی نسبت اقرار کر دیا جس کی وجہ سے اب تک عیسائی مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں ۷۸ اور یہود کے آگے بات بھی نہیں کر سکتے اور یہود ٹھٹھے سے کہتے ہیں کہ عیسی اُس وقت نبی ٹھہر سکتا ہے کہ جب ہم خدائے تعالیٰ کی تمام کتابوں کو جھوٹی قرار دے دیں اور اب تک عیسائیوں کو موقعہ نہیں ملا کہ اس مقام میں تحریف کا دعویٰ کر دیں اور اس بلا سے نجات پاویں کیونکہ اب وہ انیس سو برس کے بعد کیونکر اس قول کی مخالفت کر سکتے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منہ سے نکل گیا.یہ مقام ہمارے بھائی مسلمانوں کے لئے بہت غور کے قابل ہے.اُن کو سوچنا چاہیئے کہ جن ظاہری معنوں پر وہ زور دیتے ہیں اگر وہی معنے سچے ہیں تو پھر حضرت عیسی کسی طور سے بھی نبی نہیں ٹھہر سکتے بلکہ وہ نبی اللہ تو اُسی حالت میں ٹھہریں گے جب کہ حضرت ایلیا نبی کے نزول کو ایک روحانی نزول مانا جاوے.افسوس کہ اٹھارہ سو نوے برس گزرنے کے بعد وہی یہودیوں کا جھگڑا ان مولویوں اور فقیہوں نے اس عاجز کے ساتھ شروع کر دیا اور ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس پہلو کو اِس عاجز نے اختیار کیا وہ حضرت عیسی کا پہلو ہے اور جس پہلو پر مخالف مولوی جم گئے وہ یہودیوں کا پہلو ہے.اب مولویوں کے پہلو کی نحوست دیکھو کہ اس کو اختیار کرتے ہی یہودیوں سے اُن کو مشابہت نصیب ہوئی.ابھی کچھ نہیں گیا اگر سمجھ لیں.اب جبکہ اس تحقیقات سے نزول جسمانی کا کچھ پتہ نہ لگا اور نہ پہلی کتابوں میں اس کی کوئی نظیر ملی اور ملا تو یہ ملا کہ ایلیا نبی کے دنیا میں دوبارہ آنے کا جو وعدہ تھا اُس سے مراد روحانی نزول تھا نہ ظاہری تو اس تحقیقات سے ثابت ہوا کہ جب سے دنیا کی بنا پڑی ہے یعنی
سر الخلافة ۲۱۷ اردو تر جمه حضرت آدم سے لے کر تا ایں دم کبھی کسی انسان کی نسبت نزول کا لفظ جب آسمان کی طرف نسبت دیا جائے جسمانی نزول پر اطلاق نہیں پایا اور جو دعویٰ کرے کہ پایا ہے وہ اس کا ثبوت پیش کرے.اور جب اب تک نزول جسمانی پر اطلاق نہیں پایا تو اب خلاف سنت اللہ اور محاورہ قدیمہ کے جو اس کی کتابوں میں پایا جاتا ہے کیوں کر اطلاق پائے گا ولن تجد لسنة الله تبديلا_ اور پھر ہم تنزل کے طور پر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نجمی اب بھی اس صریح اور واضح بیان کو نہ سمجھے تو اتنا تو ضرور سمجھتا ہوگا کہ متنازعہ فیہ مقام میں توفی کا لفظ وہ محکم اور بین لفظ ہے جس کے معنے فیصلہ پاگئے اور قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے معنے مارنا ہی فرمایا ہے اور حضرت ابن عباس نے بھی اس کے معنے ما رنا ہی لکھا ہے اور امام بخاری نے بھی مارنے پر ہی عملی طور پر شہادت دی ہے لیکن اس کے مقابل پر نزول کا جو لفظ ہے اس کی نسبت اگر ایک بڑے سے بڑا متعصب کچھ تاویلیں کرے تو اس سے زیادہ نہیں کہ سکتا کہ وہ ایک لفظ ہے جو متشابہات میں داخل ہے لیکن فیصلہ شدہ لفظ اور اُس کے تین اور محکم معنوں کو چھوڑ کر متشابہات کی طرف دوڑ نا انہیں لوگوں کا کام ہے جن کے دل میں مرض ہے.اگر ایمان ہے تو وہ لفظ جو (۷۹) بینات اور محکمات میں داخل ہو گیا اُسی سے پنجہ مارو نہ کسی ایسے لفظ سے جو متشابہات میں داخل رہا اور متشابہات کی تاویل خدا تعالیٰ کے علم کی طرف حوالہ کرو تا نجات پاؤ.بڑی بھاری نزاع جو ہم میں اور ہمارے مخالفوں میں ہے یہی ہے جو میں نے بیان کر دی ہے اور ماحصل یہی نکلا کہ ہم بینات اور محکمات سے پنجہ مارتے ہیں جو قرآن سے ثابت ، حدیث سے ثابت ، اقوال صحابہ سے ثابت ، پہلی کتابوں کے نظائر سے ثابت ، سنت اللہ سے ثابت ، امام بخاری کے قول سے ثابت ، امام مالک کے قول سے ثابت ابن قیم کے قول سے ثابت ، ابن تیمیہ کے قول سے ثابت اور اسلام کے بعض
سر الخلافة ۲۱۸ اردو تر جمه دوسرے فرقوں کے اعتقاد سے ثابت.مگر ہمارے مخالفوں نے صرف نزول کا ذوالوجوہ لفظ پکڑا ہوا ہے جو لُغت اور قرآن اور پہلی آسمانی کتابوں کے رو سے بہت سے معنوں پر اطلاق پاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں تشریح نہیں کی کہ اس سے حضرت مسیح علیہ السلام کا جسمانی نزول مراد ہے نہ اور کچھ کیوں کہ جب کہ نبیوں کے روحانی نزول کے بارے میں ایک پہلی امت قائل ہے اور یہود جو حضرت ایلیا کے جسمانی نزول کے منتظر تھے اُن کا غلطی پر ہونا حضرت مسیح کی زبان سے ثابت ہو گیا اور اس سنت اللہ کا کہیں پتہ نہ ملا جو جسمانی نزول بھی کبھی کسی زمانہ میں گزر چکا تو یہی معنے متعین ہوئے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام سے مراد روحانی نزول ہے ورنہ اگر جسمانی نزول بھی سنت اللہ میں داخل ہے تو خدا تعالیٰ نے یہودیوں کو کیوں اس قد را بتلا میں ڈالا کہ وہ اب تک اس خیال میں مبتلا ہیں کہ سچا مسیح تب ہی آئے گا کہ جب ایلیا نبی آسمان سے نازل ہولے.جبکہ خدا تعالیٰ نے صاف وعدہ کیا تھا کہ ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور پھر اُس کے بعد مسیح آئے گا تو اس وعدہ کو اس کی ظاہری صورت پر پورا کیا ہوتا اور ایلیا نبی کو آسمان سے زمین پر بجسمه العنصری اتارا ہوتا تا یہو دلوگ جیسا کہ ایک مدت دراز سے پیشگوئی کے معنے سمجھے بیٹھے تھے اور اُن کے فقیہوں اور عالموں اور محد ثوں نے نزول جسمانی ایلیا کو اپنے اعتقاد میں داخل کر لیا تھا اس پیشگوئی کا اپنے اعتقاد کے موافق پورا ہونا دیکھ لیتے اور پھر اُن کو حضرت مسیح کی نبوت میں کچھ بھی شک باقی نہیں رہتا.مگر اُن پر یہ کیسی مصیبت پڑی کہ ان کی کتابوں میں تو ان کو صاف صاف اور صریح لفظوں میں بتلایا گیا کہ درحقیقت ایلیا ہی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور وہی مسیح سچا ہو گا جو ایلیا کے نزول کے بعد آوے لیکن یہ پیشگوئی اپنے ظاہری معنوں پر پوری نہ ہوئی اور حضرت مسیح تشریف لے آئے اور اُن کو ۸۰ یہود کے سامنے سخت مشکلات پیش آگئے.آخر کار ایک ایسی دور از حقیقت تاویل پر زور ڈالا گیا جس سے یہودیوں کو کہنا پڑا کہ عیسی سچا مسیح نہیں ہے بلکہ ایک مکار اور ملحد ہے جو
سر الخلافة ۲۱۹ اردو تر جمه اپنے مطلب کے لئے ایک صریح پیشگوئی کو ظاہر سے پھیر کر روحانی نزول کا قائل ہے.سواس وجہ سے کروڑہا آدمی کا فر اور منکر رہ کر داخل جہنم ہوئے.اے مسلمانوں اس مقام کو ذرا غور سے پڑھو کہ آپ لوگوں کی بات یہود کی بات سے ایسی مل گئی کہ دونوں باتیں ایک ہی ہو گئیں اور یقیناً سمجھو کہ مومن کی خصلت میں داخل ہے کہ وہ دوسرے کے حال سے نصیحت پکڑتا ہے.فاعتبروا یا اولی الابصار واسئلوا اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون اگر کہو کہ ہم کیونکر یقین کریں کہ یہ واقعہ صحیحہ ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ یہ مسئلہ دوقوموں کا متواترات سے ہے اور صرف یہ کہنا کہ وہ کتابیں محرف مبدل ہو گئیں ایسے متواترات کو کمزور نہیں کر سکتا.ہاں اس صورت میں ہو سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں اس قول کی تکذیب کرتا.پس جبکہ اس مسئلہ کی تکذیب حدیث اور قرآن سے ثابت نہیں ہوتی تو ہم متواترات قولی سے کسی طرح انکار نہیں کر سکتے بلکہ اگر یہ بھی فرض کر لیں کہ وہ تمام کتابیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہی نہیں ہوئیں اور سراسر انسانی تالیف ہے.پھر بھی ہم تاریخی سلسلہ کو کسی طرح مٹا نہیں سکتے اور جو امر تاریخی طرز پر دو قوموں کی متفق علیہ شہادت سے ثابت ہو گیا اب وہ شکی اور ظنی نہیں ٹھہر سکتا.جیسا کہ ہم وجود رامچندر اور کرشن اور بکرماجیت اور بدھ سے انکار نہیں کر سکتے حالانکہ ہم ان کتابوں کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں سمجھتے.پھر کیوں انکار نہیں کر سکتے ؟ تو اریخی تواتر کی وجہ سے.بعض نیم ملا عجیب جہالت کے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں.انہوں نے جو ایک تحریف کا لفظ سن رکھا ہے محل بے محل پر اُسی کو پیش کر دیتے ہیں اور تاریخی تو اتر ات کو نظر انداز کر دیا ہے.بلکہ ان کو مٹانا چاہتے ہیں.یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ ہماری قوم میں ایسے لوگ نوٹ: آنحضرت ﷺ کا آنے والے مسیح کو اپنی امت میں سے قرار دینا روحانی نزول کا مؤید ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد روحانی نزول تھانہ اور کچھ.منہ
سر الخلافة ۲۲۰ اردو تر جمه بھی مولوی کے نام سے مشہور ہیں کہ متواترات قومی کو جو تاریخ کے سلسلے میں آگئے ہیں قبول نہیں کرتے اور خواہ نخواہ غیر متعلقہ جزئیات کو تحریف میں داخل کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس موقعہ پر اگر یہودی تحریف کرتے تو وہ تحریف عیسائیوں کے مقصد کے مخالف ٹھہرتی اور اگر عیسائی تحریف کرتے تو یہودیوں کے دعوئی کے برعکس ہوتی اور جو لفظ توریت کی (۸۱) کتابوں میں موجود ہیں وہ عیسائیوں کے مقصد کو نہایت مضر پڑے ہیں.کیونکہ ان سے حضرت ایلیا کے نزول جسمانی کی پیشگوئی قبل از ظهور حضرت مسیح یقینی طور پر ثابت ہوتی ہے تو اس صورت میں تحریف کرنے میں عیسائیوں کا یہودیوں کے ساتھ اتفاق کرنا ایسا ہے جیسا کہ کوئی اپنے ہاتھ سے اپنا ناک کاٹے.وجہ یہ کہ اگر نزول ایلیا کی پیشگوئی کو ظاہر پر ہی حمل کریں تو پھر حضرت عیسی کا سچا نبی ہونا محالات میں سے ہے کیونکہ اب تک ایلیا نبی بجسمه العنصری آسمان سے نازل نہیں ہوا تو پھر عیسی جس کا اس کے بعد آنا ضروری تھا کیونکر پہلے ہی آ گیا.اور اگر ظاہر پر حمل نہ کریں اور نزول ایلیا کو نزول روحانی قرار دیں تو پھر نزول عیسی کی پیشگوئی میں کیوں ظاہر پر جم بیٹھیں.نزول برحق اور اس پر ہم ایمان لاتے ہیں بلکہ اس کا ظہور بھی دیکھ لیا لیکن جن معنوں کے رو سے یہود بندر اور سو ر کہلائے اور خدا تعالیٰ کی کتابوں میں لعنتی ٹھہرے اس طور کے نزول کے معنے بعد پہنچنے ہدایت کے وہی کرے جس کو بندر اور سور بننے کا شوق ہو.خدا تعالیٰ صادق مومنوں کو ایسے معنوں سے اپنی پناہ میں رکھے جو اس لعنت کی بشارت دیتے ہیں جو پہلے یہود پر وارد ہو چکی ہے.زیادہ اس مسئلہ میں کیا لکھیں اور کیا کہیں جن کو خدا تعالیٰ ہدایت نہ دے ہم کیونکر دے سکتے ہیں.جن کی آنکھیں وہ مالک نہ کھولے ہم کیوں کر کھول سکتے ہیں.جن مردوں کو وہ زندہ نہ کرے ہم کیوں کر کریں.اے مالک و قادر خدا اب فضل کر اور رحم کر اور اس تفرقہ کو درمیان سے اٹھا اور سچ ظاہر کر اور جھوٹ کو نابود کر کہ سب قدرت اور طاقت اور رحمت تیری ہی ہے.آمین آمین آمین.
۸۲ سر الخلافة ۲۲۱ اردو تر جمه پھر بعد اس کے واضح رہے کہ فرشتوں کے نزول سے بھی ہمیں انکار نہیں.اگر کوئی ثابت کر دے کہ فرشتوں کا نزول اسی طرح ہوتا ہے کہ وہ اپنے وجود کو آسمان سے خالی کر دیں تو ہم بشوق اس ثبوت کو سنیں گے اور اگر در حقیقت ثبوت ہوگا تو ہم اس کو قبول کر لیں گے.جہاں تک ہمیں معلوم ہے فرشتوں کا وجود ایمانیات میں داخل ہے.خدا تعالیٰ کا نزول سماء الدنیا کی طرف اور فرشتوں کا نزول دونوں ایسی حقیقتیں ہیں جو ہم سمجھ نہیں سکتے.ہاں کتاب اللہ سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ خلق جدید کے طور پر زمین پر فرشتوں کا ظہور ہو جاتا ہے دحیہ کلبی کی شکل میں جبرئیل کا ظاہر ہو نا خلق جدید تھا یا کچھ اور تھا.پھر کیا یہ ضرور ہے کہ پہلی خلق کو نابود کر لیں پھر خلق جدید کے قائل ہوں بلکہ پہلا خلق بجائے خود آسمان پر ثابت اور قائم ہے اور دوسرا خلق خدا تعالیٰ کی وسیع قدرت کا ایک نتیجہ ہے کیا خدا تعالیٰ کی قدرت سے بعید ہے کہ ایک وجود دو جگہ دو جسموں سے دکھاوے.حَاشَا وَكَلَّا ہرگز نہیں.اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير - پھر شیخ بطالوی صاحب نے اپنی دانست میں ہماری کتاب تبلیغ کی کچھ غلطیاں نکالی ہیں اور ہم افسوس سے لکھتے ہیں کہ تعصب کے جوش سے یا نادانی کی وجہ سے صحیح اور با قاعدہ ترکیبوں اور لفظوں کو بھی غلطی میں داخل کر دیا.اگر اس امر کے لئے کوئی خاص مجلس مقرر ہو تو ہم ان کو سمجھا دیں کہ ایسی شتاب کاری سے کیا کیا ندامتیں اٹھانی پڑتی ہیں.قیامت کی نشانیاں ظاہر ہو گئیں.یہ علم اور نام مولوى انا لله و انا اليه راجعون ـ وه غلطیاں جو انہوں نے بڑی جانکا ہی سے نکالی ہیں اگر وہ تمام اکٹھی کر کے لکھی جائیں تو دویا ڈیڑھ سطر کے قریب ہوں گی اور ان میں اکثر تو سہو کا تب ہیں اور تین ایسی غلطیاں جو بوجہ نہ میسر آنے نظر ثانی یا طفرہ نظر کے رہ گئی ہیں اور باقی شیخ صاحب کی اپنی عقل کی کوتاہی اور سمجھ کا گھانا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیخ صاحب نے کبھی لسان عرب کی طرف توجہ نہیں کی.بہتر تھا کہ چپ رہتے اور اور بھی اپنی پردہ دری نہ کراتے.ہمیں شوق ہی رہا کہ شیخ صاحب ہماری کتابوں کے مقابل پر کوئی فصیح بلیغ رسالہ نظم اور نثر میں نکالیں اور ہم سے
سر الخلافة ۲۲۲ اردو ترجمه انعام لیں اور ہم سے اقرار کرالیں کہ در حقیقت وہ مولوی اور عربی دان ہیں.میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ یہ رسائل جو لکھے گئے ہیں تائید الہی سے لکھے گئے ہیں.میں ان کا نام وحی اور الہام تو نہیں رکھتا مگر یہ تو ضرور کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائے ہیں.میں نے کئی مرتبہ شائع کیا کہ اگر شیخ صاحب موصوف جن کی نسبت میرا اعتقاد ہے کہ وہ خذلان میں پڑے ہوئے ہیں اور علم عربیت سے کسی اتفاق سے محروم رہ گئے ہیں مقابلہ کر کے دکھلا دیں تو وہ اس مقابلہ سے میرے ان تمام دعاوی کو نابود کر دیں گے.مگر شیخ صاحب کیوں اس طرف متوجہ نہیں ہوتے کونسی مصیبت ہے جو ان کو مانع ہے.بس یہی مصیبت ہے کہ وہ لسان عرب سے بے بہرہ اور آج کل خذلان کی حالت میں مبتلا ہیں.ان کے لئے ہرگز ممکن نہ ہوگا کہ مقابلہ کر سکیں.یہ وہی الہام ہے جو ظہور کر رہا ہے کہ انى مهين من اراد اهانتك يه وہی محمدحسین ہے جو اس عاجز کی نسبت جابجا کہتا پھرتا تھا کہ یہ شخص سخت جاہل ہے.عربی کیا ایک صیغہ تک اس کو نہیں آتا اور وہ اعلیٰ درجہ کے فاضل جو میرے ساتھ ہیں ان کو کہتا تھا کہ یہ لوگ صرف منشی ہیں.پس خدا تعالیٰ کی غیرت نے تقاضا کیا کہ اس کی پردہ دری کرے اور اس کے تکبر کو توڑے اور اس کو دکھلاوے کہ خود پسندی اور عجب کے یہ ثمرات ۸۳ ہیں.سو اس سے زیادہ اور کیا اہانت ہو گی کہ جس شخص کو جاہل سمجھتا تھا اور منبر پر چڑھ کر اور مجلسوں میں بیٹھ کر بار بار کہتا تھا کہ زبان عرب سے یہ شخص بالکل نا آشنا ہے اور اجہل ہے اُسی کے ہاتھ سے خدا تعالیٰ نے اس کو شرمندہ اور ذلیل کیا.اگر یہ نشان نہیں تو چاہئے تھا کہ محمد حسین اپنے تمام دوستوں سے مدد لیتا اور نور الحق اور کرامات الصادقین کا جواب لکھتا.اس شخص کو بڑے بڑے انعاموں کے وعدے دیئے گئے.ہزار لعنت کا ذخیرہ آگے رکھا گیا مگر اس طرف توجہ نہ کی.سو یہ نتیجہ مخالفت حق کا ہے فاتقوا الله یا اولی الابصار.اور یادر ہے کہ یہ عذر شیخ صاحب موصوف کا کہ نورالحق میں پادری بھی مخاطب ہیں
سر الخلافة ۲۲۳ اردو تر جمه اس لئے رسالہ بالمقابل لکھنے سے پہلو تہی کیا گیا نہایت مکارانہ غذر ہے.گویا ایک بہانہ ڈھونڈھا ہے کہ کسی طرح جان بچ جائے لیکن دانا سمجھتے ہیں کہ یہ بہانہ نہایت کچا اور فضول اور ایک شرمناک کارستانی ہے کیونکہ ہم نے تو لکھ دیا ہے کہ صرف پادری لوگ اور بے دین آدمی اس کے مقابلہ سے عاجز رہ سکتے ہیں سچے مسلمان عاجز نہیں ہیں.پس اگر شیخ صاحب بالمقابل رسالہ پیش کرتے تو پادریوں کی اور بھی ذلت ہوتی اور لوگ کہتے کہ مسلمانوں نے ہی یہ رسالہ بنایا تھا اور مسلمانوں نے ہی اس کے مقابل پر ایک اور رسالہ بنا دیا مگر پادریوں سے کچھ نہ ہوسکا.ماسوا اس کے تین ہزار روپیا انعام پاتے الہام کا جھوٹا ہونا ثابت کر دیتے اور قوم میں عزت حاصل کر لیتے.اور بعض ان کے پرانے دوست جو کہہ رہے ہیں کہ بس معلوم ہوا جو محمد حسین اردو دان ہے عربی نہیں جانتا یہ تمام شک ان کے دور ہو جاتے.مگر اب جو وہ مقابلہ سے دستکش ہو گئے تو آئندہ حیا سے بہت بعید ہو گا کہ اس جماعت کا نام منشی رکھیں اور خود ان امور سے گریز کریں جو مولویت کے منصب کے لئے شرط ضروری ہیں.ان لوگوں کا عجیب اعتقاد ہے جواب بھی ان لوگوں کو عربی دان ہی سمجھ رہے ہیں اور مولوی کر کے پکارتے ہیں نہایت خیر خواہی کی راہ سے پھر میں آخری دعوت کرتا ہوں اور پہلے رسالوں کے مقابلہ سے نومید ہو کر رسالہ سرالخلافہ کی طرف شیخ صاحب کو بلاتا ہوں.آپ کے لئے ستائیس دن کی میعاد اور ستائیس روپیہ نقد کا انعام مقرر کیا گیا ہے اور میں اس پر راضی ہوں کہ یہ روپیہ آپ ہی کے سپرد کروں اگر آپ طلب کریں اور ہم نہ بھیجیں تو ہم کا ذب ہیں.ہم پہلے ہی یہ روپیہ بھیج سکتے ہیں مگر آپ اقرار شائع کر دیں کہ میں ستائیس دن میں رسالہ بالمقابل شائع کر دوں گا.اگر آپ اس مدت میں شائع کر دیں تو آپ نے نہ صرف ستائیس رو پید انعام پایا بلکہ ہم عام طور پر شائع کر دیں گے کہ ہم نے اتنی مدت جو آپ کو شیخ شیخ کرکے (۸۴) پکارا اور مولوی محمد حسین نہ کہا یہ ہماری سخت غلطی تھی بلکہ آپ تو فی الواقع بڑے فاضل اور ادیب ہیں اور اس لائق ہیں کہ جو حدیث کے آپ معنے سمجھیں وہی قبول کئے جائیں.
سر الخلافة ۲۲۴ اردو تر جمه اب دیکھو کہ کس قدر آپ کو اس میں فتح میسر آتی ہے اور پھر بعد اس کے کچھ بھی حاجت نہیں کہ آپ رو پیدا کٹھا کرنے کے لئے لوگوں کو تکلیف دیں یا اس نوکری سے استعفا دینے کے لئے طیار ہو جائیں.کیونکہ جب آپ نے میرا مقابلہ کر دکھایا تو میرا الہام جھوٹا کر دیا تو اس صورت میں میرا تو کچھ باقی نہ رہا.پس آپ کو خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ اگر آپ کو علم عربی میں کچھ بھی دخل ہے ایک ذرہ بھی دخل ہے تو اب کی دفعہ تو ہرگز منہ نہ پھیریں اور اگر اس رسالہ میں کچھ غلطیاں ثابت ہوں تو آپ کے بالمقابل رسالہ کی غلطیوں سے جس قدر زیادہ ہوں گی فی غلطی ایک روپیہ آپ کو دیا جائے گا چھپیس جولائی ۱۸۹۴ ء تک اس درخواست کی میعاد ہے.اگر آپ نے ۲۵ جولائی ۱۸۹۶ء تک یہ درخواست چھاپ کر بذریعہ کسی اشتہار کے نہ بھیجی تو سمجھا جاوے گا کہ آپ اس سے بھی بھاگ گئے.اور مسلمانوں کو لازم ہے کہ ان نادانوں کو جو نام کے مولوی ہیں اور اپنے وعظوں اور رسالوں کو معاش کا ذریعہ ٹھہرا رکھا ہے خوب پکڑیں اور ہر یک جگہ جو ایسا مولوی کہیں وعظ کرنے کے لئے آوے اس سے نرمی کے ساتھ یہی سوال کریں کہ کیا آپ در حقیقت مولوی ہیں یا کسی نفسانی غرض کی وجہ سے اپنا نام مولوی رکھا لیا ہے.کیا آپ نے نور الحق کا کوئی جواب لکھایا كرامات الصادقین کا کوئی جواب تحریر کیا ہے یا رسالہ سرّ الخلافہ کے مقابل پر کوئی رسالہ نکالا ہے.اور یقین یا د رکھیں کہ یہ لوگ مولوی نہیں ہیں.مسلمانوں کو لازم ہے کہ نور الحق وغیرہ رسائل اپنے پاس رکھیں اور پادریوں اور اس جنس کے مولویوں کو ہمیشہ ان سے ملزم کرتے رہیں اور ان کی پردہ دری کر کے اسلام کو ان کے فتنہ سے بچاویں اور خوب سوچ لیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے دھوکا دہی کی راہ سے مولوی کہلا کر صد ہا مسلمانوں کو کا فرٹھہرایا اور اسلام میں ایک سخت فتنہ برپا کر دیا.والسلام على من اتبع الهدى الـــراق خاکسار غلام احمد عفی اللہ عنہ
سر الخلافة ۲۲۵ اردو ترجمه الشيخ عبد الحسين الناكفورى الشيخ عبد الحسين ناگپوری سأل عنى بعض الناس في أمر بعض لوگوں نے مجھ سے شیخ عبدالحسین ناگپوری الشيخ عبد الحسین ناکفوری کے بارے میں پوچھا ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ مہدی وقالوا إنه يدعى أنه نائب المهدى موعود کے نائب ہونے کا دعوی کرتا ہے.نیز یہ کہ الموعود، وأنه من الله ربّ وه الله رب العالمین کی طرف سے ہے.سو جان العالمين.فاعلموا أنى ما توجهتُ لوکہ میں نے اس معاملہ کی طرف توجہ نہیں دی اور نہ إلى هذا الأمر، وما أرى أن أتوجه بى اس طرف توجہ دینا مناسب سمجھتا ہوں.اللہ إليه، ويجرد الله كلَّ حقيقة من تعالى ہر حقیقت کو اُس کے پردوں سے آشکار کر أستارها، وكلّ شجرة تُعرف من دے گا اور ہر درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ثمارها، فستعرفون كل شجر من ہے.کچھ عرصہ بعد تم ہر درخت کو اُس کے پھل سے ثمره إلى حين والذي اتبعنا فی پہچان لو گے.جس شخص نے ہمارے مسلک میں مشربنا فهو منا، والذى لم يتبع ہمارى اتباع کی وہ ہم میں سے ہے اور جس نے فهو ليس منا، وسيحكم الله بيننا اتباع نہ کی تو وہ ہم میں سے نہیں.اور اللہ جلد ہی وبينهم وهو أحكم الحاكمين.ہمارے اور اُن کے درمیان فیصلہ فرما دے گا اور وہ إن الذين يبسطون يديهم إلى سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا عرض الصحابة ويحسبون ہے.وہ لوگ جو ناموس صحابہ پر دست درازی صَحُب رسول اللہ صلی اللہ کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو کا فروں عليه وسلم من الكفرة الفجرة، اور فاجروں میں سے تصور کرتے ہیں.اُن کا ہم أولئك ليسوا منا ولسنا منهم، سے اور ہمارا ان سے کوئی واسطہ نہیں.۸۵
سر الخلافة ۲۲۶ اردو ترجمہ فرقوا دين الله وكانوا انہوں نے اللہ کے دین میں تفرقہ ڈالا اور وہ كالمفسدين.أولئك الذين ما مفسدوں کی طرح ہو گئے.یہی وہ لوگ ہیں جنہوں عرفوا رسول الله حق المعرفة نے رسول اللہ (ﷺ) کو کماحقہ نہیں پہچانا اور نہ ہی وما قدروا حق قدر خير البرية خير البريه ( ع ) کی قدر کی جیسا کہ قدر کرنے کا فقالوا إن صحبه أكثر هم كانوا حق تھا.اسی لئے انہوں نے یہ کہا کہ آپ کے اکثر فاسقين كافرين.ما اتقوا صحابہ فاسق کافر تھے.وہ بے حیائیوں سے نہ الفواحش، وخانوا كل خيانة، بچے.اور ہر خیانت کے مرتکب ہوئے ظاہری بھی ما ظهر منها وما بطن ، و كانوا اور پوشیدہ بھی.اور وہ منافق تھے.پس اللہ نے منافقين.فصرف الله قلوبهم عن أن (شیعوں) کے دلوں کو حق سے پھیر دیا.وہ الحق، يتكبّرون في الأرض بغیر زمین میں ناحق تکبر کر رہے ہیں.یہ دعویٰ کرتے الحق، يقولون نحن نحب آل ہیں کہ ہم آل رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتے رسول الله وما كانوا مُحبّين.ہیں.حالانکہ وہ محبت کرنے والے نہیں ہیں.يريدون أن يُرضوا قومهم بالسب وہ چاہتے ہیں کہ اپنی قوم کو (صحابہ کرام) کو والشتم والله أحقُّ أن يُرضوه گالیاں دے دے کر راضی رکھیں.حالانکہ اگر وہ إن كانوا مؤمنين.ألا إنهم على مومن ہوتے تو اللہ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ وہ الباطل، ألا إنهم من المفسدين.اُسے خوش رکھتے.سنو کہ وہ باطل پر ہیں.اور سنو وغشيهم من التعصب ما کہ وہ مفسدوں میں سے ہیں.تعصب نے اُن کو اچھی غشيهم فانثنوا كالعمين فلن طرح سے ڈھانپا ہوا ہے اس لئے وہ اندھوں کی طرح يكون منهم ولی الرحمن ہو گئے.اُن میں سے کوئی بھی کبھی رحمن خدا کا ولی أبدا، ولهم عذاب الیم فی نہیں ہوگا.اور اُن کے لئے آخرت میں دردناک الآخرة، وهم من المحرومين.عذاب مقدر ہے.اور وہ محرومین میں سے ہیں.
سر الخلافة ۲۲۷ اردو ترجمہ إلا الذين تــابــوا وأصلحوا سوائے اُن کے جنہوں نے تو بہ کی اور اصلاح کی.وطهروا قلوبهم وزگوا اور اپنے دلوں کو پاک وصاف کیا اور اپنے نفوس کا نفوسهم، وجاء وارب تزکیہ کیا.اور رب العرش کے پاس مخلص ہو کر آئے.العرش مخلصین، فلن يضيع تو ان کا اجر اللہ ہر گز ضائع نہیں فرمائے گا اور انہیں الله أجرهم ولن يلحقهم بے یارو مددگار گروہ میں شامل نہیں کرے گا.ایسے بالمخذولين.وتجدون أنوار لوگوں کی جبینوں پر تم اللہ کے عشق کے انوار اور اُن عشق الله في جباههم، و آثار کے چہروں پر اللہ کی رحمت کے آثار پاؤ گے اور انہیں رحمة الله في وجوههم، بچے محبوں میں سے پاؤ گے.اُن کے دلوں میں ایمان وتجدونهم من المحبين نقش ہو گیا ہے اور اُن کے اور اُن کی خواہشات الصادقين.كُتب في قلوبهم نفسانیہ کے درمیان روک ڈال دی گئی ہے پس وہ الإيمان، وحيل بينهم وبين سوائے حق کے نفس کے پیچھے نہیں چلتے.اور وہ شهواتهم، فلا يتبعون النفس تضرع کرتے ہوئے آستانہ الہی پر گر گئے.اور إلا الحق، وخروا على حضرة اپنے دلوں میں اپنے محبوب کے لئے گھر بنایا اور الله متضرعين.وبنوا تبتل اختیار کرتے ہوئے اُس کے حضور حاضر لمحبوبهم بنیانا فی قلوبھم ہو گئے.اور جو اُن کے رب کی جانب سے اُن پر وبرزواله متبتلين.يتبعون اُتارا گیا وہ اُس میں سے جو بہترین ہے اُس کی أحسن ما أُنزل إليهم من پیروی کرتے ہیں.وہ تقویٰ اختیار کرتے ہیں جیسا ربهم، ويتقون حق التقاة که تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے.پس تو انہیں فتراهم كالميتين.يجتنبون مُردوں کی طرح پائے گا.وہ لوگوں کو گالی دینے اور سب الناس وغيبتهم اُن کی غیبت کرنے سے اجتناب کرتے ہیں.اور ويتقون الفواحش مُستغفرين.استغفار کرتے ہوئے مخش باتوں سے بچتے ہیں.
۸۶ سر الخلافة ۲۲۸ اردو تر جمه و يتبعون الرسول حق الاتباع وہ رسول کی کامل پیروی کرتے ہیں تو ان کو فتراهم فيه كالفانين | فَنَافِى الرسول پاتا ہے.اور اسی طرح تو وكذالك تعرف الفاسقين فاسقوں کو اُن کے چہرے، اُن کے شرک ، اور بسيماهم و شركهم و نَتَنِ اُن کے جھوٹ کی بد بو سے پہچان جائے گا.اور كذبهم، وما للأسود اے سائلوں کے گروہ! بھلا شیروں اور لومڑیوں کا کیا مقابلہ؟ والثعالب یا معشر السائلين؟ ثم اعلموا أن معرفة الأولياء پھر یہ بھی جان لے کہ اولیاء کی پہچان تقویٰ کی موقوفة على عين الاتقاء ، فلا آنکھ پر موقوف ہے.اس لئے کسی کے خلاف نہ تو تجترءوا ولا تعجلوا على أحد جرات کرو اور نہ ہی جلد بازی سے کام لو.ورنہ خود فتنقلبوا مجرمين.وسارعوا مجرم بن جاؤ گے.اور جتنی بھی تمہاری استطاعت إلى حسن الظن ما استعطم ہو ، حسن ظن میں جلدی کرو اور احسان کرو اور وا والله یحب اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.کسی المحسنين.ولا يـجـر منكم شخص کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم شقاق أحد أن تعادوا قوما نیک لوگوں سے عداوت کرنے لگو.اللہ اپنے صالحين.إن الله يمن على من بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا يشاء من عباده، ولا يُسأل عما ہے.اور اُس سے پوچھا نہیں جاتا جو وہ کرتا ہے.يفعل، فلا تنكروا كالمجترئین اس لئے جسارت کرنے والوں کی طرح انکار نہ ولا تستخفّفوا سب أولیاء کرو.اولیاء اللہ کو بُرا بھلا کہنے کوتم کوئی معمولی بات الله، إنهم قوم يغضب الله نہ سمجھو کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی خاطر اللہ لهم، ويصول على معاديهم غضبناک ہوتا ہے.اور ان کے دشمنوں پر حملہ کرتا وإنهم من المنصورین ہے اور یقیناًوہ نصرت یافتہ لوگوں میں سے ہیں.استعطم سہو کتابت ہے درست لفظ اسطعتم‘ ہے.(ناشر)
سر الخلافة ۲۲۹ اردو تر جمه ولا تجاوروهم إلا بالتي هي ان.ان سے اچھی ہی مصاحبت پیدا کرو.اگر تم متقی أحسن، ولا تجترء وا ولا تعتدوا إن ہو تو نہ گستاخی کرو اور نہ حد سے تجاوز کرو.جس كنتم متقين.ومن عادى صادقا نے بھی صادق سے عداوت کی اُسے عذاب کے فقد مسته نفحة من العذاب، لیکے نے آلیا.پس افسوس ہے ، جلد بازوں پر، فيا حسرة على المستعجلين و اگر تم میں سے کوئی صادق سے عداوت رکھتا إن كان أحد منكم يُعادى ہے تو ایسے شخص کو اگر وہ پر ہیز گاروں میں سے الصادق فاعِظُه أن يعود لمثله ہے، میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ آئندہ ایسا أبدا إن كان من المتورّعين.کرنے سے باز رہے.ومن جاءه الحق فلم يقبله اور جس کے پاس حق آیا اور اُس نے اسے قبول وزاور ذات الشمال فسیبکی نہ کیا اور بائیں جانب پھر گیا تو وہ ضرور حسرت سے أسفا، وما كان الله مُهلِكَ روئے گا.اور اللہ کسی قوم کو ہلاک نہیں کیا کرتا جب قوم حتى يتم حجته عليهم تک کہ وہ ان پر اپنی حجت تمام نہ کر دے.پھر فإذا أبوا فيأخذهم مليك جب وہ انکار کر دیں تو تمام قدرتوں کا مالک خدا مقتدر، فاتقوہ یا معشر انہیں پکڑ لیتا ہے.پس اے غافلوں کے گروہ ! تم اُس سے ڈرتے رہو.الغافلين.
سر الخلافة ۲۳۰ اردو ترجمه المكتوب إلى عُلماء هندوستان کے علماء کی الهند طرف ايك خط فمنهم المولوي عبد الجبار ان ( علماء) میں مولوی عبد الجبار غزنوی، الغزنوي، والمولوي عبد الرحمان مولوی عبد الرحمن لکھوکوی ، مولوی غلام دستگیر اللكوكوي، والمولوي غلام دستگیر ،قصوری مولوی مشتاق احمد لدھیانوی، القصوري، والمولوي مشتاق احمد مولوی محمد اسحق بٹالوی ، قاضی سلیمان ، مولوی اللودهيانوي، والمولوي محمد رشید احمد گنگوہی ، مولوی محمد بشیر بھوپالوی، إسحاق البتيـالـوي، والقاضي مولوى عبد الحق دہلوی، مولوی نذیرحسین سليمان، والمولوي رشيد أحمد دهلوی، شیخ حسین عرب بھوپالوی، حافظ الكنكوئي، والمولوي محمد بشير عبد المنان وزیر آبادی، مولوی شاہ دیں البوفالوي، والمولوي عبد الحق لدھانوی، مولوی عبد المجید دہلوی، مولوی الدهلوي، والمولوي نذير حسين عبد العزيز لدھیانوی، مولوی عبد الله الدهلوي، والشيخ حسين عرب تلونڈوی، اور مولوی نذیر حسن انبیٹوی البوفالوي، والحافظ عبد المنان سہارن پوری شامل ہیں.الوزير آبادي، والمولوي شاه دين اللودهانوي، والمولوي عبد المجيد الدهلوي، والمولوي عبد العزيز اللوديانوي، والمولوي عبد الله تلوندوي، والمولوي نذير حسن الأنبيتوي السهارنفوري
سر الخلافة ۲۳۱ اردو ترجمہ بسم الله الرحمن الرحيم.اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار الحمد لله الذي يُطلع القمر بار رحم کرنے والا ہے.حقیقی تعریف اس اللہ کو بعد دجى المحاق، ويُغيث بعد سزاوار ہے جو چاند کو گھپ اندھیری راتوں کے بعد المحل بالبعاق، ويرسل الرياح طلوع کرتا، خشک سالی کے بعد موسلا دھار بارش ۸۷ بعد الاحتباس، ويهدي عباده برساتا جس کے بعد ہوائیں بھیجتا ، خناس شیطان بعد وساوس الخنّاس، ويُظهر كے وسوسوں کے بعد اپنے بندوں کی راہنمائی نوره عند إحاطة الظلمات فرماتا ، اندھیروں کے چھا جانے کے وقت اپنا نور وينزل رُشدًا عند طوفان ظاہر فرماتا اور جہالتوں کے طوفان کے موقع پر الجهلات والصلاة والسلام ہدایت نازل فرماتا ہے.اور درود وسلام ہو تمام علی سید الرسل وخير رسولوں کے سردار اور سرور کائنات پر اور اُن تمام الكائنات، وأصحابه الذين صحابہ پر جنہوں نے طرح طرح کی برائیوں اور طهروا الأرض من أنواع بدعتوں سے روئے زمین کو پاک وصاف کر دیا.الهنات والبدعات، وآله الذین اور ( درود وسلام ہو ) آپ کی آل پر جنہوں نے تركوا بأعمالهم أسوة حسنة اپنے اعمال سے پاکباز مردوں اور پاکباز عورتوں للطيبين والطیبات، وعلی جمیع کے لئے عمدہ نمونہ چھوڑا.نیز اللہ کے تمام نیک عباد الله الصالحين.بندوں پر بھی درود و سلام ہو.أما بعد فيا عباد الله، إنكم أنتم اما بعد ، اے اللہ کے بندو! تم جانتے ہو کہ تعلمون أن ريح نفحات الإسلام کس طرح اسلام کی مہکتی ہوا ئیں تھم گئیں اور كيف ركدت، ومصابيحه كيف اُس کی شمعیں کس طرح گل ہو گئیں اور کس خبث، والفتن كيف عمّت و کثرت، طرح فتنے عام اور بکثرت ہو گئے.اور کیسے وأنواع البدع كيف ظهرت و شاعت ، طرح طرح کی بدعتیں ظاہر ہوئیں اور پھیل گئیں.
سر الخلافة ۲۳۲ اردو تر جمه وقد مضى رأس المائة الذى اور اس صدی کا سرگز ر گیا جس کا تم انتظار کر رہے کنتم ترقبونه، ففكّر والِمَ ما تھے.پس غور کرو اور سوچو کہ کیوں وہ مجددظاہر نہیں ظهر مجدد کنتم تنتظرونه؟ ہوا جس کا تم انتظار کر رہے تھے.کیا تم خیال کرتے أظننتم أن الله أخلف وعده أو ہو کہ اللہ نے وعدہ خلافی کی ہے یا پھر تم خود غافل كنتم قومًا غافلين.فاعلموا أن قوم ہو؟ پس خوب جان لو کہ اللہ نے مجھے اس الله قد أرسلني لإصلاح هذا زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے.اور اُس نے الزمان، وأعطاني علم كتابه اپنی کتاب، قرآن کا علم مجھے عطا کیا ہے اور مجھے القرآن، وجعلني مجددًا مجدد بنایا ہے تا کہ میں تمہارے درمیان اُن امور کا لأحكم بينكم فيما كنتم فيه فيصلہ کروں.جن میں تم باہم اختلاف رکھتے ہو.مختلفين.فلم لا تطيعون | پھر تم اپنے حکم کی اطاعت کیوں نہیں کرتے اور حَكَمَكُم ولِمَ تصولون منکرین؟ انکار کرتے ہوئے کیوں حملہ آور ہوتے ہو.وما كنتُ من الكافرين ولا من حالانکہ نہ تو میں کافرہوں اور نہ ہی مرتد.لیکن تم اللہ المرتدين، ولكن ما فهمتم سر کے بھید کو سمجھ نہیں پائے.تمہاری عقل جاتی رہی الله، وحار ،فهمكم وفرط اور تمہارا وہم بڑھ گیا اور تم نے مجھے کا فرٹھہرایا.اور وهمكم، وكفرتمونى، وما جو کچھ میں نے تم سے کہا اُس کے عشر عشیر تک بھی بلغتم معشار ما قلت لكم تمہیں رسائی حاصل نہ ہوئی.تم تو بہت ہی جلد باز و كنتم قومًا مستعجلين ووالله قوم ہو.اور بخدا میں (مستقل ) نبوت کا دعویدار إني لا أدعى النبوة ولا أجاوز نہیں اور ملت (محمد) سے تجاوز نہیں کر رہا.میں الملة، ولا أغترف إلا من نے تو صرف خاتم النبین کے افضال سے ہی چکو فضالة خاتم النبيين وأؤمن بھرا ہے.میں اللہ اور اُس کے فرشتوں، اُس کی بالله وملائكته وكتبه ورسله کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں.•
سر الخلافة ۲۳۳ اردو ترجمہ وأصلى و أستقبل القبلة فلم نماز پڑھتا ہوں اور قبلہ کی طرف رُخ کرتا ہوں.تکفّرونني؟ ألا تخافون الله پھر تم مجھے کیوں کافر ٹھہراتے ہو؟ کیوں تم اللہ ربّ رب العالمين؟ العالمین سے نہیں ڈرتے.أيها الناس لا تعجلوا على اے لوگو! میرے خلاف فیصلہ میں جلدی نہ کرو.ويعلم ربّي أنى مسلم فلا میرا رب جانتا ہے کہ میں مسلمان ہوں.پس تم تُكفروا المسلمين.وتدبَّروا مسلمانوں کو کافر نہ ٹھہراؤ.اللہ کے صحیفوں پر تدبر صحف الله وفكروا فی کرو، اور کتاب مبین ( قرآن ) پر غور کرو.اللہ نے كتاب مبین.وما خلقکم تمہیں اس لئے تو پیدا نہیں کیا تھا کہ تم علم کے بغیر الله لتكفّروا الناس بغیر ہی لوگوں کو کا فرقرار دو اور نرمی حلم اور حسن ظن کی علم، وتتركوا طرق رفق | راہوں کو چھوڑ دو.اور مومنوں پر لعنتیں ڈالتے وحلم وحسن ظن، وتلعنوا رہو.جانتے بوجھتے ہوئے اللہ کے قول کی مخالفت المؤمنين.لم تخالفون قول کیوں کرتے ہو.کیا تمہیں مومنوں کی تکفیر کے الله وأنتم تعلمون؟ أخُلقتم لئے ہی پیدا کیا گیا تھا.یا ( پھر ) تم نے ہمارے لـتـكـفـيــر الـمـؤمنين أو شققتم سینوں کو چیر کر دیکھا ہے اور ان میں ہمارے صدورنا ، ورأيتم نفاقنا و كفرنا نفاق، ہمارے کفر اور ہمارے جھوٹ کو تم نے وزورنا؟ فأيها الناس ، توبوا دیکھا ہے.سواے لوگو! تو بہ کرو! تو بہ کرو! اور شرم توبوا وتندموا، ولا تغلُوافی کرو اور اپنے خیالات میں غلو نہ کرو اور ضد نہ ظنكم ولا تصروا واتقوا الله کرو اور اللہ سے ڈرواور گستاخی نہ کرو اور اللہ کی ولا تجترء وا ولا تيأسوا من روح رحمت سے ناامید نہ ہو.یقیناً وہ خیرالمرسلین ملے الله، وإنه لا يُضيع أمة خير كى امت کو ضائع نہیں کرے گا.اُس نے لوگوں المرسلين.خلق الناس ليعبدوا، کو اس لئے پیدا فرمایا ہے تا کہ وہ عبادت کریں.
سر الخلافة ۲۳۴ اردو تر جمه وأرسل الرسل ليعرفوا، وليحكُم اور رسولوں کو بھیجا تا کہ وہ معرفت پیدا کریں اور تا کہ وہ فيما اختلفوا، وبيّن الأحكام ( الله ) ان کے اختلافی امور میں فیصلہ فرمائے.اور اُس ليطيعوا ويوجـروا، وبـعـث نے تمام احکام کھول کھول کر بیان کر دیئے تا کہ وہ المجددين ليُذكر الناس اطاعت کریں اور اجر پائیں.اور اُس نے مجددین کو ما ذهلوا، و دقق معارفهم مبعوث فرمایا تا کہ وہ لوگوں کو فراموش کردہ (تعلیم) یاد ليبتلوا، وليعلم الله قوما کرائے.اور اُن کو معارف دقیقہ عطا فرمائے تا کہ وہ أطاعوا وقوما أعرضوا، وشرع تبتل اختیار کریں اور تا کہ اللہ اطاعت کرنے والی قوم البيعة لأهل الطريقة ليتوارثوا اور روگردانی کرنے والی قوم کو ظاہر کر دے.اور اُس نے في البركات ويتضاعفوا، اہل طریقت کے لئے بیعت کا نظام جاری کیا تا کہ وہ وأوجب عليهم حسن الظن برکات کے وارث بنیں اور بڑھتے چلے جائیں.اور طرق الهلاك اُس نے ان پر حسن ظن واجب کیا تا کہ وہ ہلاکت کی ويُعصموا، وفتح أبواب التوبة راہوں سے اجتناب کریں اور محفوظ کئے جائیں.اور ليُرحموا ويُغفَروا، والله | اُس نے تو بہ کے دروازے کھول دیئے تا کہ اُن پر رحم کیا أوسع فضلا و رحما وھو جائے اور وہ بخشے جائیں اور اللہ فضل و رحم میں بڑا وسیع أرحم الراحمين.وما كان لى ہے اور سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا أن أفتري على الله والله ہے.اور یہ میرے لئے ممکن نہیں کہ میں اللہ پر افترا يُهلك قوما ظالمين.باندھوں.اور اللہ ظالم قوم کو ہلاک کر دے گا.وإني سُمّيت عیسی ابن مریم الہامی احکام کی رو سے میرا نام عیسی ابن مریم بأحكام الإلهام، فما كان لي أن رکھا گیا ہے.اور میرے لئے یہ ممکن نہیں کہ میں أستقيل من هذا المقام بعدما اس عہدہ سے دستبردار ہو جاؤں بعد اس کے کہ علام أقامنيی علیه أمر الله العلام خدا کے حکم سے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا گیا ہے.
سر الخلافة ۲۳۵ اردو تر جمه وما أراه مخالفا لنصوص اور میں اسے کتاب اللہ کی نصوص اور خیر کتاب الله ولا آثار خير المرسلين صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے المرسلين بل زلت قدمكم خلاف نہیں پا تا بلکہ تمہارا پاؤں پھسل گیا ہے.وما خشیتم ندمكم، وما رجعتم اور تمہیں اپنی ندامت کا بھی کچھ خوف نہیں.نہ إلى القرآن، وما أمعنتم فى تو تم نے قرآن کی طرف رجوع کیا ہے اور نہ ہی الآثار حق الإمعان، وتركتم احادیث پر كَمَا حَقَّہ غور کیا ہے.تم نے رشد و طرق الرشد والسدد، وملتم راستی کی راہوں کو چھوڑ دیا ہے اور تعصب اور إلى التعصب واللدد، جھگڑے کی طرف مائل ہو گئے ہو اور نَفْسِ امارہ وغشيتـكــم هـوى الـنـفـس کی خواہشات نے تمہیں ایسا ڈھانپ لیا ہے کہ الأمارة ، فما فهمتم معاني تم عبارت کے معانی کو سمجھ نہ سکے.اور تم نے العبارة، ووفقتم موقف متعصبون جیسا موقف اختیار کیا.ہائے تم پر المتعصبين.يا حسرة عليكم افسوس کہ تم لوگوں کی تحقیر کے لئے تو ہر دم إنكم تنتصبون لإزراء الناس، مستعد رہتے ہولیکن شیطانی فریب کاری کے ولا ترون عيوب أنفسكم من باعث تمہیں خود اپنے عیوب نہیں نظر آتے اور خدع الخناس، وتمايلتم على تم غافل ہو کر دنیا اور اس کے اسباب کی طرف الدنيا وأعراضها غافلين مائل ہو گئے ہو.اور بخدا دنیا اور دین کا ایک ووالله إن جمع الدنيا والدين جگہ جمع ہونا ایک ایسا امر ہے جو خواہش رکھنے أمر لم يحصل قط للطالبين والوں کو کبھی حاصل نہیں ہوا.اور یہ دو آزاد وإنه أشد وأصعب من نکاح عورتوں کے ساتھ نکاح اور دوسوکنوں کے مل حرتين ومعاشرة ضرتين، لو جل کر ساتھ رہنے سے کہیں مشکل اور کٹھن کنتم متدبّرين.ہے.کاش تم اس پر متد بر کر تے.
سر الخلافة ۲۳۶ اردو تر جمه ينفع اعلموا أن لباس التقوى لا جان لو کہ تقویٰ کا لباس اُس حقیقت کے بغیر أحدًا من غير حقيقة يعلمها جے صرف اللہ ہی جانتا ہے کسی کو فائدہ نہیں المولى، وما كلُّ سوداء تمرةً دے سکتا.ہر کالی چیز کھجور نہیں ہوتی اور نہ ہر ولا كل صهباء خمرةً، وكم من سرخ مشروب شراب ہوتا ہے.اور کتنے ہی مزوّر يعتلق برب العباد اعتلاق فریب کار ہیں جو رب العباد سے ایسے چمٹتے الحرباء بالأعواد ، لا يكون له ہیں جس طرح گرگٹ درختوں سے چمٹا ہوتا حظ من ثمرتها، ولا علم من ہے لیکن اُسے نہ تو اُس درخت کے پھل سے حلاوتها وكذلك جعل الله کچھ ملتا ہے اور نہ ہی اُسے اس پھل کی شیرینی کا قلوب المنافقين؛ يصلون ولا علم ہے.اللہ نے منافقوں کے دلوں کو ایسا ہی يعلمون ما الصلاة، ويتصدقون بنایا ہے.وہ نمازیں پڑھتے ہیں لیکن نہیں جانتے وما يعلمون ما الصدقات کہ نماز کی حقیقت کیا ہے؟ صدقہ دیتے ہیں ويصومون وما يعلمون ما لیکن صدقات کی حقیقت نہیں جانتے.روزے الصيام، ويحجون و ما يعلمون رکھتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ روزہ کی اصلیت ما الإحرام، ويتشهدون کیا ہے.وہ حج کرتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے وما يعلمون ما التوحید، کہ احرام کیا چیز ہے؟ وہ کلمہ شہادت پڑھتے ہیں ويسترجعون ولا يعرفون من لیکن نہیں جانتے کہ توحید کیا ہے اور وہ انا لله المالك الوحيد، إن هم إلا پڑھتے ہیں لیکن وہ نہیں پہچانتے کہ مالک ریگانہ كالأنعام بل من أسفل السافلین کون ہے؟ وہ محض جانور ہیں بلکہ سب سے گھٹیا وأما عباد الله الصادقون، وعشاقه ترین مخلوق ہیں.اور جہاں تک اللہ کے صادق المخلصون، فهم يصلون إلى بندوں اور اُس کے مخلص عُشاق کا تعلق ہے تو وہ لب الحقائق، وذهن الدقائق، حقائق کے مغز اور دقائق کے نچوڑ تک پہنچتے ہیں.
سر الخلافة ۲۳۷ اردو تر جمه ويغرس الله في قلوبهم شجرة اور اللہ اُن کے دلوں میں اپنی عظمت اور جلال عظمته ودوحة جلاله وعزته اور عزت کا شجر عظیم لگاتا ہے.پس وہ اُس کی فيعيشون بمحبته ويموتون محبت میں جیتے ہیں اور اس کی محبت میں ہی لمحبته، وإذا جاء وقت الحشر مرتے ہیں.اور جب حشر کی گھڑی آئے گی فيقومون من القبور في محبته تب بھی وہ اُس کی محبت میں سرشار قبروں سے قوم فانون ولله موجعون، اٹھیں گے.وہ فنا فی اللہ لوگ ہیں.وہ اللہ کی وإلى الله ،متبتلون، وبتحريكه خاطر تكاليف برداشت کرتے ہیں اور انقطاع الی يتحركون، وبإنطاقه ينطقون، اللہ کرنے والے ہیں.اُس کے حرکت دینے پر وبتبصيره يبصرون، وبإيمائه وه حرکت کرتے اور اُس کے بلائے بولتے يعادون أو يـوالـون.الإيمان ہیں.اور اُس کے دکھائے دیکھتے ہیں اور اُسی إيمانهم، والعدم مكانهم کے ایماء پر دشمنی یا دوستی کرتے ہیں.اصل ایمان ستروا فی ملاحف غیرة الله فلا تو انہی کا ایمان ہے.اور نیستی اُن کا مقام ہے.يعرفهم أحد من المحجوبين وہ اللہ کی غیرت کے پردوں میں ایسے مستور ہیں يُعرفون بالآيات وخرق العادات کہ کوئی محجوب شخص اُن کو پہچان نہیں سکتا.وہ والـتـأيــدات من ربّ يتولاهم، نشانات، معجزات اور اس پروردگار کی تائیدات وأنعم عليهم بأنواع الإنعامات سے پہچانے جاتے ہیں جو اُن سے دوستی رکھتا ہے يدركهم عند كل مصيبة، اور جس نے اُن پر مختلف النوع انعامات فرمائے.وينصرهم في كل معركة ہر مصیبت کے وقت وہ ان کی دستگیری فرماتا اور ہر بنــصــر مبين.إنهم تلاميذ | معرکہ میں وہ فتح مبین کے ذریعہ ان کی مدد الرحمان، والله كان فرماتا ہے.وہ رحمن خدا کے شاگرد ہیں.اللہ اُن لهم كالقوابل للصبیان کے لئے ایسا ہی ہے جیسے بچوں کے لئے دائیاں.
سر الخلافة ۲۳۸ اردو ترجمہ فيكون كل حركتهم من يد القدرة، اُن کی ہر حرکت دستِ قدرت سے اور ایک ومِن مُحرّك غاب من أعين ایسے محرک وجود (اللہ ) کی طرف سے ہوتی ہے (۸۹) البرية، ويكون كل فعلهم خارقا جو مخلوق کی نگاہوں سے اوجھل ہے.اُن کا ہر فعل للعادة، ويفوقون الناس في جميع خارق عادت ہوتا ہے اور سعادت کی تمام قسموں أنواع السعادة؛ فصبرهم كرامة میں وہ دوسرے لوگوں سے فائق ہوتے ہیں.وصدقهم كرامة، ووفائهم اُن کا صبر كرامت ، اُن کا صدق کرامت، اُن کی كرامة، ورضائهم كرامة وفا كرامت، اُن کی رضا کرامت، اُن کا حلم وحلمهم كرامة، وعلمهم كرامت، اُن کا علم کرامت، اُن کی حیاء كرامة، وحيائهم كرامة كرامت، اُن کی دعا کرامت، اُن کے کلمات ودعائهم كرامة، وكلماتهم كرامت، اُن کی عبادات کرامت ، اور اُن کا كرامة، وعباداتهم كرامة ثبات قدم کرامت ہوتی ہے.اور وہ اللہ تعالیٰ کی وثباتهم كرامة؛ وينزلون من الله طرف سے ایسے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں جس کو بمنزلة لا يعلمها الخلق.وإنهم مخلوق نہیں جانتی.وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں قوم لا يشقى جليسهم، ولا يُرَدُّ جن کا ہم نشین بدنصیب نہیں رہتا اور نہ ہی اُن کا أنيسهم، وتجد ريا المحبوب فی محبوب دھتکارا جاتا ہے.تو اُن کی مجالس میں مجالسهم، ونسيم البرکات فی محبوب کی خوشبو اور اُن کی محفلوں میں برکات کی بادِ محافلهم، إن كنتَ لست أخشَم نسیم كا كيف محسوس کرے گا.بشرطیکہ تو سونگھنے کی ومن المحرومين.وينزل صلاحیت سے عاری اور محروموں میں سے نہ ہو.بركات على جدرانهم و أبوابهم اور اُن کے در و دیوار پر اور اُن کے دوستوں پر وأحبابهم، فتراها إن كنت لست بركات نازل ہوتی ہیں اور اگر تو اندھوں میں سے نہیں تو تو ان برکات کو دیکھ لے گا.من قوم عمين.
سر الخلافة ۲۳۹ اردو تر جمه أيها الناس قد تقطعت معاذيركم اے لوگو! تمہارے عذر منقطع ہو چکے ہیں اور و تبينت دقارير كم، وأقبلتم على تمہارے قبیح جھوٹ ظاہر ہو گئے.اور تم سفاک إقبال سفّاتٍ، ولكن حفظنی ربّی حملہ آور کی طرح میری طرف بڑھے.لیکن میرے من هلاك، فأصبحت مظفرا ربّ نے مجھے ہلاکت سے بچا لیا.پس میں ومن الغالبين.أيها الناس.قد کامیاب اور غلبہ پانے والوں میں سے ہو گیا.اعتديتم اعتداء كبيرًا فاخشوا اے لوگو! تم نے بڑی زیادتی کی.اس لئے تم علیم عليمًا خبيرًا، ولا تجعلوا أنفسكم اور خبیر خدا سے ڈرو.اور اپنے نفسوں کو میری بنخها وجَجها كعِظام استخرجت مخالفانہ کوششوں میں اُن ہڈیوں کی طرح مت بناؤ مخها، ولا تعثوا في الأرض جن سے اُن کا گودا نکل چکا ہو.اور زیادتی کرتے معتدين.وإني امرء ما أبالى رفعة ہوئے زمین میں تخریب کاری نہ کرو.اور میں ایک هذه الدنيا وخفضها، ورفعها ایسا شخص ہوں جو اس دنیا کی سر بلندی اور آسودگی وخفضها، بل أحنّ إلى الفقر اور دنیا کے عزت دینے اور اس کی خوشحالی کی پرواہ والمتربة، حنين الشحيح إلى نہیں کرتا.بلکہ فقر اور خاکساری کا ایسا دلدادہ ہوں الذهب والفضة، وأتوق إلى جيسا ایک لالچی شخص رسیم و زر کا دلدادہ ہوتا ہے.التذلل توقان السقيم إلى الدواء، اور میں فروتنی کا ایسا شائق ہوں جیسے ایک مریض وذى الخصاصة إلى أهل الثراء، دوا کی طرف راغب ہوتا ہے اور حاجت مند اہلِ وأتوكل على الله أحسن ثروت کی طرف.اور میں احسن الخالقین اللہ پر الخالقين.وما أخاف حصائد توکل کرتا ہوں.میں بدگوئیوں اور پُر فریب باتوں ألسنة، وغوائل كلِم مزخرفة کے ہولناک مصائب سے نہیں ڈرتا.میرا ربّ ويتولانی ربی و یعصمنى من مجھے دوست رکھتا ہے اور وہ مجھے ہر شر اور معاندوں كل شرّ ومن فتن المعاندين.کے فتنوں سے بچاتا ہے.
سر الخلافة ۲۴۰ اردو تر جمه ނ أيها النّاس لا تتبعوا من عادى، اے لوگو! اس شخص کی پیروی نہ کرو جس نے وقوموا فرادی فرادى، ثم فكروا مخالفت کی اور فرداً فرداً کھڑے ہو کر سوچو کہ اگر إن كنت على حق ، و أنتم میں حق پر ہوں اور تم نے مجھ پر لعنت کی، مجھے لعنتموني و كذبتمونی جھٹلایا، مجھے کا فر ٹھہرایا اور مجھے دُکھ دیا تو پھر و کفرتمونی و آذیتمونی، فكيف ان ظالموں کا انجام کیا ہوگا؟ میں نے خود اپنی كانت عاقبة الظالمين؟ وما طرف سے نہیں بلکہ صرف مہربان خدا کے حکم سے اقتبـلـت أمـر الخلافة إلا بحكم امر خلافت کا آغاز کیا ہے.میں اپنے تربیت کرنے الله ذى الرأفة، وإنى بيدى ربى والے ربّ کے ہاتھوں میں ایسے ہی ہوں جیسے الدابل کصبی فی أیدی ایک بچہ دائیوں کے ہاتھوں میں.میں زمانے کے القوابل، وقد كنت محزونا من فتنوں ، عیسائیوں کے غلبہ اور طرح طرح کے فتن الزمان، وغلبة النصاری فتنوں کے باعث غمزدہ تھا.پس جب اللہ نے وأنواع الافتنان، فلما رأى الله میری انتہائی گھبراہٹ اور شدت قلق دیکھا اور یہ استطارةَ فَرَقى واستشاطة قلقی دیکھا کہ میرا دل بے چین ہو گیا ہے اور آنسوؤں ورأى أن قلبی ضجر، ونهر کا دریا بہ نکلا ہے اور جان پر بن آئی ہے اور شدید الدموع انفجر ، وطارت النفس گھبراہٹ سے اعصاب کپکپانے لگے ہیں تو شعاعًا، وأُرعدت الفرائص اُس (اللہ) نے مجھ پر شفقت اور پیار کی نگاہ ارتياعا، فنظر إلى تحننا وتلطفا، ڈالی.اور ( اپنے ) فضل و رحم سے مجھے منتخب فرمایا و تخيَّرني ترحما وتفضلا، وقال اور فرمایا کہ میں تجھے زمین میں خلیفہ بنا رہا إِنِّي جَاعِلُكَ فى الأرْضِ خَلِيفَةً ہوں.نیز فرمایا کہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں وقال أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ خلیفہ بناؤں.اس لئے میں نے آدم کو پیدا کیا سو فَخَلَقْتُ آدَمَ ، فهذا كله من ربّی یہ سب کچھ میرے پروردگار کی طرف سے ہے.
سر الخلافة ۲۴۱ اردو تر جمه فلاتحاربوا الله إن كنتم پس اگر تم متقی ہو تو اللہ سے جنگ نہ کرو.وہ جو چاہتا متقين.يفعل ما يريد أأنتم ہے وہی کرتا ہے.کیا تم تعجب کرتے ہو.مانا کہ تعجبون؟ وإني قبلتُ أنى أذَلُّ جیسا تمہارے دلوں میں ہے کہ میں لوگوں میں الناس و أني أجهل الناس كما سب سے حقیر اور سب سے کم علم ہوں.لیکن میں هو في قلوبكم، ولكن كيف ارحم الراحمین کے فضل کو کیسے رڈ کر سکتا ہوں.اس أردّ فضل أرحم الراحمين؟ وما بارے میں میں نے یہ بات بلا تحقیق نہیں کی بلکہ تكلمت قبلاً في هذا الباب، میرے پاس احادیث اور کتاب الہی (قرآن) کی (۹۰) بل عندى شهادة من الآثار شہادت موجود ہے.کیا تم اسے قبول کرتے ہو؟ کیا والكتاب، فهل أنتم تقبلون؟ تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ کس طرح اللہ نے وفات أما ترون كيف بين الله وفاة مسیح کو کھول کر بیان کر دیا ہے اور خیر الرسل المسيح، وصدقه خير الرسل ( محمد عله ) نے اُس کی صراحت سے تصدیق بالتصريح، ورَدِفَهما تفسيرُ فرمائی اور جیسا کہ تم جانتے ہو حضرت ابن عباس ابن عباس كما تعلمون أيها کی تفسیر نے ان دونوں ( قرآن و حدیث ) کی الناس ثم أنتم تنكرون وتتركون تائید کی.اے لوگو! پھر بھی تم انکار کرتے ہوا اور اللہ قول الله ورسوله ولا تخافون اور اس کے رسول (ع) کے قول کو چھوڑتے ہو وتُكبون على لفظ النزول اور ڈرتے نہیں اور نزول کے لفظ پر ہی گرے وتعلمون معناه من زُبر الأولين پڑے ہو.حالانکہ تم اس کے معنی پہلے صحیفوں سے وما قص الله عليكم قصّةً إلا خوب جانتے ہو.اللہ نے تمہارے سامنے کوئی وله مثال ذكر في صحف ایسی بات بیان نہیں کی کہ جس کی مثال گزشتہ السابقين.فكيف الضلال صحیفوں میں مذکور نہ ہو.پھر یہ بے راہ روی کیسی؟ وقد خلت لكم الأمثال؟ جبکہ تمہارے لئے یہ سب مثالیں گزر چکی ہیں.
سر الخلافة ۲۴۲ اردو تر جمه أتذرون سبل الحق متعمدين؟ کیا جان بوجھ کر تم حق کی راہوں کو چھوڑ رہے وقال الله ورزقكم في السماء ہو؟ اللہ نے فرمایا ہے کہ تمہارا رزق ، آسمان میں - وأخبركم عن نزول الحدید ہے.اور اُس نے لوہے ،لباس اور مویشیوں اور واللباس والأنعام وكل ما هو تمام وہ چیزیں جن کے تم محتاج ہو ان کے نزول تحتاجون إليه، وتعلمون أن هذه كے متعلق تمہیں بتا دیا ہے اور یہ تم جانتے ہو کہ یہ الأشياء لا تنزل من السماء بل سب اشیاء آسمان سے نازل نہیں ہوتیں.بلکہ يحدث في الأرضين.فما كان زمین سے نکلتی ہیں.یہ تو صرف اسباب مؤثرہ إلا إشارة إلى نزول الأسباب از قسم حرارت، روشنی ، بارش اور ہواؤں کے نزول المؤثرة من الحرارة والضوء کی جانب اشارہ ہے.پھر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ والمطر والأهوية، فما لكم لا تم غور و فکر نہیں کرتے اور جلد بازی کرتے ہو.تم تتفكرون وتستعجلون؟ تعلمون اشیاء کے ظاہر کو جانتے ہو لیکن اُن کی حقیقتوں کو ظاهر الأشياء وتنسون حقائقها فراموش کر دیتے ہو.اور اللہ کے نشانات سے وتمرون علی آیات الله غفلت کرتے ہوئے گزر جاتے ہو.اگر تمہیں غافلين.وإن كنتم في شك میری اس بات کے متعلق کوئی شک ہو، تو میرے من قولى فانتظروا مآل أمرى بارہ میں انجام کا انتظار کرو.میں بھی تمہارے وإني معكم من المنتظرين ساتھ انتظار کروں گا.اور کتنے ہی ایسے علوم ہیں وكم من علوم أخفاها الله جنہیں اللہ نے اپنی طرف سے آزمائش میں ابتلاء من عنده، فاعلموا أن ڈالنے کے لئے مخفی رکھا ہوا ہے.اس لئے جان السر مکنون وما في يديكم رکھو کہ یہ راز بھی پوشیدہ ہے اور تمہارے پاس ظنون إلا ظنون، فلا تکفرونی کے سوا رکھا ہی کیا ہے.لہذا اے منکروں کے لظنونكم يا معشر المنکرین گروہ! اپنے ظنوں کی بناء پر میری تکفیر مت کرو.
سر الخلافة ۲۴۳ اردو ترجمہ انتهوا خيرًا لكم، وإني طبتُ باز آ جاؤ یہی تمہارے لئے بہتر ہے.ایذاء، تحقیر، نفسا عن كل ما تفعلون من تكذيب و تکفیر کے جو بھی کام تم کرتے ہو، اس کو الإيذاء والتحقير والتكذيب بطيب خاطر قبول کرتا ہوں.میں اپنا شکوہ صرف والتكفير، وما أشكو إلا اللہ کے حضور پیش کرتا ہوں.بلکہ جب میں نے إلى الله، بل لما بصرت تمہارے انقباض کود یکھ لیا اور تمہاری بے رخی کھل بانقباضكم و تجلی لی کر میرے سامنے آگئی تو میں نے جان لیا کہ یہ إعراضكم، علمتُ أنه ابتلاء میرے رب کی طرف سے ایک آزمائش ہے.من ربی، فلــه العتبى حتى اصل رضا اُسی کی ہے کہ وہ راضی ہو جائے اور وہ يرضى، وهو أرحم الراحمين ارحم الراحمین ہے.پس میں نے رب جلیل کو یاد کیا فذكرتُ ربَّا جليلا، وصبرت اور صبر جمیل کا مظاہرہ کیا.لیکن تم ہو کہ تم نے ہدایت صبرًا جميلا، ولكنكم ما نہ پائی.تم نے ظلم کیا اور زیادتی کی.اللہ نے تو یہ اهتديتم وظلمتم و اعتدیتم فرمایا تھا کہ کسی کے ناموں کو نہ بگاڑ و، پھر بھی تم نے قال الله لا تَنَابَزُوا فنبرتم، نام بگاڑے.اُس نے تو فرمایا تھا کہ کوئی قوم وقال لَا يَسْخَرُ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ ، دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے پھر بھی تم نے مذاق فسخرتم، وقال یا عیسی اُڑایا.اُس نے یہ فرمایا تھا کہ اے عیسی ! میں تجھے إنِّي مُتَوَفِّيكَ، فأنكرتم وفات دوں گا ، پس تم نے اس کا انکار کیا.اُس نے وقال اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ فرمایا تھا کہ طن سے بکثرت بچو.تم نے پھر بھی الظَّنِّ ، فظننتم و کفرتمونی بدظنی کی اور مجھے کافر ٹھہرایا اور لعنت کی.نیز ولعنتم، وقال لَا تَجَسَّسُوا، فرمایا، تجسس نہ کرو، پھر بھی تم نے تجسس کیا.فتجسّستم، ثم صغرتم و عبستم، پھر تم نے تکبر کیا اور چیں بجبیں ہوئے.اور اُس وقال لَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضًا نے فرمایا کہ لَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا
سر الخلافة ۲۴۴ اردو ترجمہ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمُ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ أَخِيهِ مَيْتًا و قال وَلَا تَقُولُوا مَيْتًا اور فرمایا کہ وَ لَا تَقُولُوا لِمَنْ اَلْقَى لِمَنْ اَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنَّا ہے پھر بھی تم نے لَسْتَ مُؤْمِنًا ، فاغتبتم و كفرتم، غیبت کی اور تکفیر کی.اور اس وقت تک میں نے تمہیں وما أراكم إلى هذا الحين منتهين باز آنے والا نہیں پایا.کیا تم نے اللہ کی گرفت اور أنسيتم أخُذَ الله و ضغطة القبر، قبر کی تنگی کو فراموش کر دیا ہے.یا تمہارے لئے أو لكم براءة في الزبر ، أو أُذِنَ صحیفوں میں بریت کی کوئی ضمانت ہے، یا اللہ رب لكم من الله رب العالمين.فكروا العالمین کی جانب سے تمہیں کھلی اجازت ہے.ثم فكروا، أتفتى قلوبكم أن الله سوچو اور بار بار سوچو! کیا تمہارے دل فتوی دیتے الذي يعينكم عند کل تردُّد ھو ہیں کہ وہ اللہ جو ہر تر ڈر کے موقع پر تمہاری اعانت أقوى مثل هذا الزمان عن مجدد؟ فرماتا ہے وہ اس جیسے پرفتن زمانے کو مجدد سے وقد كنتم تستفتحون من قبل خالی رکھے گا جبکہ اس سے پہلے تم فتح کی دعا کرتے فلما جاء نصر الله صرتم اول تھے.پھر جب اللہ کی نصرت آگئی تو سب سے المعرضين.ولويتم عنی پہلے تم اعراض کرنے والے بن گئے.اور تم نے مجھ عذاركم، وأبديتم ازورارکم سے بے رُخی کی اور اپنے انحراف کا اظہار کیا.اور وصرفتم عنى المودّة، وبدلتم مورّت کا رُخ مجھ سے پھیر دیا اور محبت کو بغض میں بالبغض المحبة، وذاب حسن بدل دیا اور تمہارا حسن ظن پگھلتے پگھلتے نا پید ہو گیا.ظنكم واضمحل، ورحل حبّكم تمہاری محبت کوچ کرگئی اور چپکے سے کھسک گئی.اور وانسلّ، وصرتم أكبر المعادين تم سب سے بڑے عداوت کرنے والے ہو گئے.لے تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت نہ کرے.کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے.(الحجرات:۱۳) ے تم ایسے شخص کو جو تمہیں سلام کرتا ہے، یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں.(النساء: ۹۵).
سر الخلافة ۲۴۵ اردو تر جمه فلما رأيتُ إعراض التزوير وانتهاء پھر جب میں نے یہ پُر فریب اعراض دیکھا اور الأمر إلى التكفير ، علمتُ أن دیکھا کہ یہ معاملہ تو تکفیر کی حد تک پہنچ گیا ہے مخاطبتي بهذه الإخوان مجلبة تو میں نے سمجھ لیا کہ اس قسم کے دوستوں سے للهوان، فوجهت وجهى إلى مخاطب ہونا سراسر رسوائی کا باعث ہے.پھر میں أعزة العرب والمتفقهين نے عرب کے معززین اور اہل دانش کی طرف اپنی وإني أرى أنهم يقبلوننی توجہ کی.اور میرا خیال ہے کہ وہ مجھے قبول کریں ويأتوننی و یعظموننی، فسرنی گے ، میرے پاس آئیں گے اور میری تعظیم کریں مرأى هذه الوجوه المباركة گے.چنانچہ ان مبارک چہروں کی دید نے مجھے ودعاني التفاؤل بتلك خوشی بخشی اور نیک شگونی نے اس مسرت بخش الأقدام المبشرة إلى أن عمدت اقدام کی مجھے اتنی ترغیب دلائی کہ میں نے بلیغ لتنميق بعض الرسائل فی عربی میں بعض رسائل رقم کرنے کا تہیہ کر لیا.91 عربي مبين.فهـمـمُتُ لنفع تب میں نے ان بھائیوں کے فائدہ کے لئے یہ تلك الإخوان بأن أكتب لهم ارادہ کیا کہ اُن کے لئے بعض اسرار معرفت تحریر بعض أسرار العرفان ، فألفت کروں.پس میں نے تحفة بغداد، حمامة «التحفة و الحمامة»، و«نور البشرى، نور الحق، كرامات الصادقين الحق“ و ”الكرامة، ورسالة اور رساله اتمام الحجة اور يہ سر الخلافة إتمام الحجة وهذه سر تالیف کیں.اور ان کتابوں میں اُن لوگوں کے الخلافة، وفيها منافع للذين لئے بہت فوائد ہیں جنہوں نے مجھے کفر کا مورد وردت منهم مورد الكافرين ٹھہرایا ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ میرا رب وأرجو أن يغفر ربي لكل من بر اُس شخص کو بخش دے گا جو اپنے گناہ کے ارتکاب يأتيني كالمقترفين المعترفین کا اعتراف کرتے ہوئے میرے پاس آئے گا.
سر الخلافة ۲۴۶ اردو تر جمه ألا تنظرون وما بقي من خلل کیا تم دیکھتے نہیں کہ دین کے لبادے محض بوسیدہ الدين إلا أطمارًا مخرقة چیتھڑے ہو کر رہ گئے ہیں.اور اُس کا محل صرف وما من قصره إلا أطلالا جلے ہوئے کھنڈرات کی شکل میں باقی رہ گیا ہے محرقة، وكُنا مُضغة اور ہم دشمنوں کے لئے کر نوالا بن گئے ہیں.کیا للـمــاضـغيـن.أتعجبون مِن تم اس پر حیران ہو کہ اللہ اپنے فضل واحسان سے أن الله آدرگکم بفضله تمہاری مدد کے لئے آگیا ہے اور اُس نے تمہیں ومنتـه ومـا أضــاحـكـم عن اپنے سایہ رحمت سے محروم نہیں کیا.کیا اس ظل رحمته؟ أكانت لهذا زمانے کے لئے دجال کی ضرورت تھی.اور وہ الزمان حاجة إلى دجال وما ربّ فَعَّال کی نصرت کے محتاج نہ تھے.تمہیں كانوا محتاجين إلى نصرة کیا ہو گیا ہے؟ تم کن باتوں میں پڑے ہوئے رب فعال؟ ما لکم کیف ہو؟ تمہاری قوت متفکرہ اور منقولات کے فہم کا تخوضون؟ أين ذهبت قوة غور ملکہ کہاں چلا گیا؟ اور تمہاری فراست کہاں کوچ العقل وفهم النقل، وأين رحلت کر گئی؟ اور تمہاری بصیرت پر ایسی کون سی اُفتاد فراستكم، وأى آفة نزلت علی آن پڑی کہ تم صادقوں اور کاذبوں کے چہرے بصیرتـكـم، أنكم لا تعرفون پہچان نہیں رہے.اس سے پہلے میں نے تم میں عمر وجوه الصادقين والكاذبين؟ کا ایک لمبا عرصہ ) گزارا ہے کیا پھر بھی تم عقل وقد لبثت فيكم عُمُرًا من قبله سے کام نہیں لیتے.ایک شخص جو اپنی تمام أفلا تعقلون؟ وإن رجلا يبذل توانائیاں اور جو کچھ اُسے اللہ نے عطا فرمایا ہے قواه وكل ما رزقه الله و آتاه اور عنایت فرمایا ہے وہ اُس کے پسندیدہ مذہب کی لإعانة مذهب يرضاه، حتی اعانت کے لئے صرف کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ يُحسب أنه أهله وذراه اُس کا حقیقی اہل اور ماوی و ملجا شمار کیا جاتا ہے.
سر الخلافة ۲۴۷ اردو تر جمه وقد رأيتــم مـواسـاتي للإسلام، اسلام کے لئے میری غمخواری اور ملت خیر الا نام وبذل جهدى لملة خير الأنام کے لئے میری ( پیہم) مساعی کو تم دیکھ چکے ہو.ثم لا تبصرون.وعرضت لیکن پھر بھی بصیرت سے کام نہیں لیتے.اس سے علیکم کل آية قبلا، ثم لا پہلے بھی میں نے ہر نشان تمہارے سامنے پیش کیا.تنظرون.وإني جئتكم لأنجيكم لیکن پھر بھی تم غور نہیں کرتے.اور بے شک میں من مكر مُرمِض وروعٍ مُومِض تمہیں تکلیف دہ فریب اور لرزہ طاری کرنے ثم أنتم لا تفكرون.وعزوتم والے خوف سے نجات دینے کے لئے تمہارے إلى ادعاء النبوة، وما خشیتم پاس آیا ہوں.پھر بھی تم غور و فکر نہیں کرتے.تم الله عند هذه الفرية، وما كنتم نے میری طرف نبوت (مستقلہ ) کا دعویٰ منسوب خائفين.ولا تفهمون مقالی کیا ہے اور یہ افتراء کرتے وقت تم اللہ سے نہ وتحسبون أُجاجا زلالی، ڈرے اور تم ڈرنے والے ہی نہیں.تم میری ولا تعقلون.وكيف يفهم بات نہیں سمجھتے اور میرے آب زلال کو الأسرار الإلهية من سدل ثوب کڑوا خیال کرتے ہو اور عقل سے کام نہیں الخيلاء، وعدل عن الحق لیتے.اور وہ شخص اسرار الہیہ کو کیسے سمجھ سکتا ہے جو بجذبات الشحناء ، ورضى متکبر ہو، بغض و کینہ کے جذبات کی وجہ سے حق بالجهلات، ومال إلى سے ہٹا ہوا اور جاہلانہ باتوں پر راضی ہو اور الخزعبلات، وأعرض عن خرافات کی جانب مائل ہو اور اندھوں کی طرح الصراط كالعمين؟ صراط (مستقیم ) سے اعراض کر رہا ہو.وتقولون إعراضا عن مقالتي میری بات سے اعراض اور میری گمراہی کا وإظهارا لضلالتي، إن الملائكة اعلان کرتے ہوئے تم کہتے ہو کہ زمین پر ينزلون إلى الأرض بأجسامهم فرشتے اپنے جسموں سمیت اُترتے ہیں.
سر الخلافة ۲۴۸ اردو تر جمه ويُقرُون أماكن مقامهم اپنے مقامات کو خالی کر دیتے اور آسمانوں کو ويتركون السماوات خالية، خالی چھوڑ دیتے ہیں.اور بسا اوقات اُن پر وربما تمر عليهم برهة من زمانے کا کچھ عرصہ گزر جاتا ہے اور وہ اپنی الزمان لا يرجعون إلى مكان جگہ پر واپس نہیں جاتے اور بنی نوع انسان ولا تقربونة لتمادى الوقت کی مہمات کی تکمیل کی خاطر سطح زمین پر لمبا على وجه الأرض لإتمام مهمات وقت صرف ہو جانے کی وجہ سے وہ اپنے نوع الإنسان، ويضيعون زمان مکان کے قریب نہیں جاتے اور سفر کے السفر بالبطالة كما هو رأى زمانے کو یونہی بیکا ر ضائع کر دیتے ہیں جیسا شيخ البطالة؛ وإنه قال في هذا که شیخ (محمد حسین ) بطالوی کا خیال ہے.الباب مجملا، ولكن لزمه ذلك اُس نے اِس بارے میں اجمالاً کہا ہے لیکن الفساد بداهة، فإن الذى محتاج به فساد بدیہی طور پر اُسی کے ساتھ لازم ہے.إلى الحركة لإتمام الخطة، فلا کیونکہ وہ وجود جو کسی مہم کی تکمیل کے لئے شك أنه محتاج إلى صرف حركت كا محتاج ہو تو بلا شبہ وہ اِس اہم سفر میں الزمان لقطع المسافة وإتمام فاصلہ طے کرنے اور اُس مطلوبہ عمل کو پایہ العمل المطلوب من هذا تکمیل تک پہنچانے کے لئے وقت کو صرف السفر ذى الشأن، فالحاجة کرنے کا بھی محتاج ہوگا کیونکہ پہلی حاجت الأولى توجب وجود حاجة دوسری حاجت کے وجود کو مستلزم ہے.ایسا ثانية، فهذا تصرُّف فى عقيدة کرنا تو ایمانی عقیدے میں بے جا مداخلت إيمانية.ثم من المحتمل أن لا ہے.پھر اس کا بھی تو احتمال ہے کہ ایک مقصد يفضل وقت عن مقصود کو پورا کرنے سے وقت نہ بچے اور دوسرا ويبقى مقصود آخر کموءود؛ مقصد ایک زندہ درگور کی طرح پڑا رہ جائے.هذا سهو الناسخ والصحيح يقربونه“.(الناشر)
سر الخلافة ۲۴۹ اردو تر جمه فانظر ما يلزم من المحذورات پس دیکھو اس سے کتنے خطرات اور خرافات وذخيرة الخزعبلات فکیف کے انبار لازم آتے ہیں.پس تم ایک ایمانی تخرجون من عقيدة إيمانية إلى عقیدے سے نکل کر تصرفات اور تصریحات التصرفات والتصريحات، وأنتم كى طرف کس طرح جا سکتے ہو.اور یہ تو تم تعلمون أن وجود الملائكة من جانتے ہو کہ ملائکہ کا وجود ایمانیات میں الإيمانيات، فنزولهم يشابه سے ہے.پس اُن (فرشتوں) کا نزول اپنی نزول الله فى جميع الصفات تمام صفات میں اللہ کے نزول کے مشابہ أيقبل عقل إيماني أن تخلو ہے.کیا ایمان رکھنے والی عقل یہ قبول کر سکتی السماوات عند نزول الملائكة ہے کہ فرشتوں کے نزول کے وقت تمام آسمان ولا تبقى فيها شيء بعد هذه خالی ہو جائیں اور ان میں ان کے اس سفر پر الرحلة؟ كأن صفوفها روانہ ہونے کے بعد کچھ بھی باقی نہ رہے گویا تقوضت، وأبوابها قفلت، کہ ان کی صفیں پراگندہ ہو گئیں اور اُن کے وشؤونها عُطّلت وأمورها دروازوں پر تالے پڑ گئے.اور اُن کے افعال قلبت، وكل سماء ألقت ما معطل ہو گئے اور اُن کے امورالٹ پلٹ فيها وتخلّث.إن كان هذا هو ہو گئے اور ہر آسمان نے جو اُس میں موجود ہے الحق فأخرجوا من نص اُس کو باہر نکال دیا اور خالی ہو گیا.اگر یہی حق إن كنتم صادقين.ولن ہے تو کوئی نص پیش کرو.اگر تم سچے ہو.اگر تستطيعوا أن تخرجوا ولو تم مر بھی جاؤ پھر بھی تم اس نص کو ہرگز پیش متم، فتوبوا واتقوا اللہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے.پس اے يا معشر المعتدين.اعلموا ظالموں کے گروہ! تو بہ کرو اور اللہ سے ڈرو.أن الدراية والرواية توأمان، اور جان لو کہ درایت اور روایت توام ہیں.۹۲
سر الخلافة ۲۵۰ اردو ترجمہ فمن لا يراهما بنظر واحد اس لئے جو ان دونوں کو ایک نظر سے نہیں فيقع في هوة الخسران دیکھتا تو وہ گھاٹے کے گڑھے میں گرتا ہے اور ويُضيع بضاعة العرفان عرفان کے سرمایہ کو ضائع کر دیتا ہے.پھر وہ م بعد ذلك يُضيع اِس کے بعد ایمان کی حقیقت کو بھی ضائع کر حقيقة الإيمان ويلحق دے گا اور نقصان پانے والوں میں شامل ہو بالخاسرين.ومن خصائص جائے گا.ہمارے دین کی خصوصیات میں ديننا أنه يجمع العقل سے یہ بھی ہے کہ وہ عقل کو نقل کے ساتھ اور مع النقل، والدراية درایت کو روایت کے ساتھ جمع کرتا ہے اور مع الرواية، ولا يتركنا ہمیں خواب غفلت میں پڑے رہنے والوں كالنائمين فنسأل الله کی طرح نہیں رہنے دیتا.پس ہم اللہ تعالیٰ تعالى أن يُعطينا حقائق سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایمان کے الإيمان، ويُوطنناثرى حقائق عطا کرے.عرفان کی خاک کو ہمارا العرفان، ويرزقنا مَرُأَى وطن بنائے اور دل کے انوار کے ذریعہ ہمیں الجنان بأنوار الجنان، جنت کے نظاروں سے شاد کام کرے.ويُمْطِيَنا قرا الإذعان، اطاعت کی پیٹھ پر سوار کرے تا کہ ہم لنقترى قرى مرضات رضائے رب رحمان کی ضیافت سے فیضیاب رحمن، ونتخيم ہوں اور درگاہ الہی میں خیمہ زن ہوں اور اپنے بالحضرة ونسلى عن وطنوں کو بھول جائیں اور خوشنودی مولی کی الأوطان ونُغلّس غاديًا خاطر صبح صبح منہ اندھیرے سفر اختیار کریں.إلى مرضاة المولى، ونحفد اور ہر اُس چیز کی طرف جو زیادہ مناسب إلى ما هو أنسب وأولى، اور زیادہ بہتر ہو، تیزی سے دوڑ کر جائیں
اردو تر جمه ۲۵۱ سر الخلافة ونخترق في مسالک اور عرفان کی راہوں کو طے کرتے چلے جائیں اور العرفان، وننصلت فی سِكَكِ خدائے رحمن کی محبت کے کو چوں میں تیز بھاگ کر حب الرحمن، ونأوى إلى ايک دوسرے سے آگے بڑھیں اور نبی امی خاتم حصون وثيقة، ومغان أنيقة من النبيين (ع) کی اتباع کر کے، شیطانوں کے صول الشياطين، باتباع النبی حملے سے بچنے کے لئے مضبوط قلعوں اور خوش منظر الأمى خاتم النبيين.مکانوں میں پناہ لیں.اللهم فصلّ وسلم عليه إلى اے اللہ ! جزاوسزا کے دن تک تو آنحضرت پر درود يوم الدين وآخر دعوانا أن وسلام بھیج.ہماری آخری پکار یہ ہے کہ ہر حقیقی حمد الحمد لله رب العالمين.اللہ ہی کو زیبا ہے جو تمام کا ئنات کا پروردگار ہے.* ☆.بقلم احقر عباد الله الاحد غلام محمد الامرتسرى من المريدين لحضرة المسيح الموعود والمهدى المسعود ادام الله بركاتهم وقد فرغت من هذا كاتب احقر عباد الله الاحد غلام محمد امرتسری یکی از مریدان حضرت مسیح موعود و مهدی مسعود ادام الله بركاتهم فی ۱۴ جولائی ١٨٩٢ء يوم السبت.اس کو لکھ کر ۴ ۱ جولائی ۱۸۹۴ء بروز ہفتہ فارغ ہوا.☆.
سر الخلافة ۲۵۲ اردو تر جمه القصيدة للمؤلّف نَفْسِي الْفِدَاءُ لِبَدْرٍ هَاشِمِي عَرَبِى وَدَادُهُ قُرَبٌ نَاهِيْكَ عَنْ قُرَبِ میری جان فدا ہو ا کامل چاند پر جو ہاشمی عربی ہے.آپ کی محبت قربتوں کا ایسا ذریعہ ہے جو تجھے باقی قربت کے ذرائع سے بے نیاز کردینے والا ہے نَجَّا الْوَرَى مِنْ كُلِّ زُورٍ وَّ مَعْصِيَةٍ وَمِنْ فُسُوقٍ وَمِنْ شِرْكَ وَمِنْ تَبَبِ آپ نے مخلوق کو ہر جھوٹ اور گناہ سے اور فسق سے، شرک سے اور ہلاکت سے بھی نجات دی فَنُوِّرَتْ مِلَّةٌ كَانَتْ كَمَعْدُومٍ ضُعْفًا وَّ رُحِمَتُ ذَرَارِى الْجَآنَ بِالشُّهُبِ پس منور ہو گئی وہ ملت جو ضعف میں معدوم کی طرح تھی.اور شیطان کی ذریت شہابوں سے سنگسار کی گئی وَزَحْزَحَتْ دَخُنًا غَشَّى عَلَى مِلَلٍ وَسَاقَطَتْ لُؤْلُؤًا رَطْبًا عَلَى حَطَبٍ اور اس ملت نے ان تاریکیوں کو دور کر دیا جو قوموں پر چھائی ہوئی تھیں اور سوکھی لکڑیوں پر تر وتازہ موتی برسا دیئے وَنَضْرَتْ شَجُرَ ذِكْرِ اللَّهِ فِي زَمَنِ مَحْلٍ يُمِيتُ قُلُوبَ النَّاسِ مِنْ لَعِبِ اور اس ملت نے ذکر اللہ کے درخت کو شاداب کر دیا ایسے خشک سالی کے زمانے میں جولوگوں کے دلوں کو کھیل کود سے مردہ کر رہا تھا فَلاحَ نُورٌ عَلَى أَرْضِ مُكَدَّرَةٍ حَقًّا وَّ مُزِّقَتِ الْأَشْرَارُ بِالْقُضُبِ پس ایک نور تاریک زمین (دلوں) پر یقینی طور پر ظاہر ہوا اور کاٹنے والی تیز تلواروں سے اشرار پارہ پارہ کر دیئے گئے وَمَا بَقَى أَثَرٌ مِنْ ظُلْمٍ وَبِدْعَاتٍ بِنُورِ مُهْجَةِ خَيْرِ الْعُجْمِ وَالْعَرَبِ ور ظلم اور بدعات کا کوئی نشان عرب و عجم میں سے بہترین شخص کی جان کے نور کی وجہ سے باقی نہ رہا وَكَانَ الْوَرَى بِصَفَاءِ نِيَّاتٍ مَعَ رَبِّهِمُ الْعَلِي فِي كُلِّ مُنْقَلَبِ اور مخلوق نیتوں کی صفائی کی وجہ سے اپنی ہر حالت میں اپنے بلند شان والے رب کے ساتھ ہو گئی لَهُ صَحُبٌ كِرَامٌ رَّاقَ مِيُسَمُهُمْ وَجَلَّتْ مَحَاسِنُهُمْ فِي الْبَدْءِ وَالْعَقِبِ آپ کے بزرگ صحابی ہیں جن کے فضائل دلکش ہیں.اور ان کی خوبیاں ابتدا اور آخر میں شاندار ہیں لَهُمْ قُلُوبٌ كَلَيْثٍ غَيْرِ مُكْتَرِثٍ وَفَضْلُهُمْ مُسْتَبِيْنٌ.ان کے دل ایک بے پرواہ شیر کی طرح ہیں اور ان کا کمال ظاہر ہے، چھپا ہوا نہیں أَي عَلَى قُلُوبٍ -
سر الخلافة ۲۵۳ اردو ترجمہ ہے وَقَدْ أَتَتْ مِنْهُ فِي تَفْضِيْلِهِمْ تَتْرًا مِنَ الْأَحَادِيثِ مَا يُغْنِي مِنَ الطَّلَبِ اور نبی کریم ہی کی طرف سے ان کے فضائل کے بارے میں تواتر کے ساتھ ایسی حدیثیں آتی ہیں جو مزید تفتیش سے بے نیاز کر دیتی ہیں وَقَدْ أَنَارُوا كَمِثْلِ الشَّمْسِ إِيمَانًا فَإِنْ فَخَرُنَا فَمَا فِي الْفَخْرِ مِنْ كَذِبِ اور وہ سورج کی طرح ایمان سے روشن ہو گئے.پس اگر ہم ان پر فخر کریں تو اس فخر میں کوئی جھوٹ نہیں فَتَعْسًا لِّقَومٍ اَنْكَرُوْا شَانَ رُتْبِهِمُ وَلَا يَرْجِعُونَ إِلَى صُحُفٍ وَّلَا كُتُبِ پس بُرا ہو ان لوگوں کا جنہوں نے ان کے مرتبہ بلندشان کا انکار کر دیا اور وہ قرآن کریم اور کتب ( حدیث ) کی طرف رجوع نہیں کرتے وَلَا خُرُوجَ لَهُمْ مِّنْ قَبْرِ جَهَلَاتٍ وَلَا خَلَاصَ لَهُمْ مِّنْ أَمْنَعِ الْحُجُبِ اور ان کے لئے جہالتوں کی قبر سے نکلنا ممکن نہیں اور نہ انہیں سخت ترین پردوں سے چھٹکارا ممکن وَالْيَومَ تَسْخَرُ بِالْأَحْبَابِ مِنْ قَوْمٍ وَتَبْكِينُ يَوْمَ جِد الْبَيْنِ بِالْكُرَبِ آج تو قوم کے دوستوں کا مذاق اڑا رہا ہے.اور یقینی جدائی کے دن تو دکھوں کے ساتھ ضرور روئے گا وَمَنْ يُوْثِرَنْ ذَنْبًا وَّلَمْ يَخْشَ رَبَّهُ فَلَا الْمَرْءُ بَلْ ثَوْرٌ بِلَا ذَنَبِ اور جو شخص گناہ کو پسند کرے اور اپنے رب سے نہ ڈرے تو وہ آدمی نہیں ہے بلکہ بغیر ڈم کے بیل ہے أنْظُرْ مَعَارِفَنَا وَانْظُرُ دَقَائِقَنَا فَعَافِ كَرَمًا إِنْ أَخْلَلْتُ بِالْادَبِ تو ہمارے معارف کو بھی دیکھ اور دقائق کو بھی دیکھ اگر تیرے نزدیک) میں نے ادب میں کچھ خلل اندازی کی ہے تو از راہ کرم درگز رفرما وَأَعَانَنِي رَبِّي لِتَجْدِيدِ مِلَّةٍ وَإِنْ لَّمْ يُعِنُ فَمَنْ يَنْجُومِنَ الْعَطَبِ اور میرے رب نے مجھے تجدید دین کے لئے مدد دی ہے اور اگر وہ مدد نہ کرے تو ہلاکت سے کون نجات پا سکتا.وَقُلْتُ مُرْتَجِلًا مَّا قُلْتُ مِنْ نَّظْمٍ وَقَلَمِي مُسْتَهِلُ الْقَطْرِ كَالسُّحُبِ اور جو نظم میں نے کہی ہے فی البدیہ کہی ہے اس حال میں کہ میرا قلم بادلوں کی طرح بارش لانے والا وَكَفَا لَنَا خَالِقٌ ذُو الْمَجْدِ مَنَّانٌ فَمَالَنَا فِي رِيَاضِ الْخَلْقِ مِنْ اَرَبِ صلى الله ہے ہے ہمارے لئے خدائے خالق و بزرگ و محسن کافی ہے پس ہمیں مخلوق کے باغوں کی کوئی حاجت نہیں وَقَدْ جَمَعَ هَذَا النَّظْمُ مِنْ مُلَحٍ وَمِنْ نُّخَبِ بِيُمْنِ سَيِّدِنَا وَنُجُومِهِ النُّجُبِ اور یقینا اس نظم نے دلکش معانی اور عدہ سکتے بطفیل برکت ہمارے سردار ملے اور آپ کے نجیب ستاروں (اصحاب) کے جمع کر لئے ہیں وَإِنِّي بِأَرْضِ قَدْ عَلَتْ نَارُ فِتْنَتِهَا وَالْفِتَنُ تَجْرِى عَلَيْهَا جَرُى مُنْسَرِبِ اور میں ایسے ملک میں ہوں جس میں اس کے فتنہ کی آگ بلند ہوئی اور فتنے اس میں اس طرح چل رہے ہیں جس طرح تیز رفتار پانی چلتا ہے
سر الخلافة ۲۵۴ اردو ترجمہ وَمَنْ جَفَانِي فَلَا يَرْتَاعُ تَبْعَتَهُ بِمَا جَفَا بَلْ يَرَاهُ أَفْضَلَ الْقُرَبِ اور جو شخص مجھ پر ظلم کرتا ہے وہ اس ظلم کے انجام سے نہیں ڈرتا بوجہ اس ظلم کے جو اس نے کیا بلکہ اسے بڑی فضیلت والا قرب سمجھتا ہے فَأَصْبَحَتْ مُقْلَتَى عَيْنَيْنِ مَاءُ هُمَا يَجْرِى مِنَ الْحُزْنِ وَالْالَمِ وَالشَّجَبِ (میری) دونوں آنکھوں کے دو ڈیلوں کی یہ حالت ہو گئی کہ غم ، دکھ اور رنج سے ان دونوں کا پانی جاری تھا أرْجِلتُ ظُلْمًا وَّاَرْضُ حِبِّي بَعِيدَةٌ فَيَا لَيْتَنِي كُنتُ فَوُق الرَّحْلِ وَالْقَتَبِ میں ظلم سے پیادہ پا کر دیا گیا جب کہ میرے محبوب کی سرزمین دور ہے.کاش کہ میں اونٹ کے کجاوے اور پالان پر سوار ہوتا فقط