Language: UR
مرتّبہ: نصیر احمد قمر
سلسلہ احمدیہ جلد چهارم $2003_____$1982 هر شبه نصیر احمد قمر
INTERNATIONAL ☐ PUBLICATIONS LTD سلسلہ احمدیہ ( جلد چہارم) Silsila Ahmadiyya (Vol.IV) (Urdu) A brief overview of the progress and achievements of the Ahmadiyya Muslim Jama'at during the time period of Hazrat Khalifatul-Masih IV (1982-2003) Compiled by: Naseer Ahmad Qamar First Published in UK in 2022 Islam International Publications LTD.Published by: Islam International Publications Ltd.Unit 3, Bourn Mill Business Park Guildford Road Farnham, Surrey, GU9 9PS United Kingdom Printed at: Raqeem Press, Farnham No part of this publication may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.For further information please visit www.alislam.org ISBN:978-1-84880-243-8
بسم الله الرحمن الرحيم محمدة وتصلى على رسوله الكريم وعلى عبدة المسيح الموعود تعارف 1939ء کا سال جماعت احمدیہ میں خلافت ثانیہ کی سلور جوبلی کے طور پر منایا گیا.یہ وہ سال تھا جس میں جماعت کے قیام پر پچاس سال مکمل ہوئے.چنانچہ اس مناسبت سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے جماعت کی پچاس سالہ تاریخ پر ایک کتاب مسلسلہ احمدیہ کے نام سے تحریر فرمائی جس میں تاریخ کے علاوہ سلسلہ کے عقائد، اس کے قیام کی غرض و غایت نیز جماعتی نظام اور احمدیت کے مستقبل پر مختصر مگر نہایت ہی جامع بحث تحریر فرمائی.اس کتاب کا مقصد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر فرمایا کہ من اصحاب کے کام آسکے جو سلسلہ احمدیہ کے متعلق علمی بحثوں میں پڑنے کے بغیر اس کے متعلق عام مگر مستند معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ کیا ہے اور کس غرض وغایت کے ماتحت قائم ہوا ہے اور اس کے مستقبل کے متعلق کیا کیا امیدیں وابستہ ہیں.“ رض اس کتاب کی اشاعت کے بعد یہ سلسلہ جاری ہ رہ سکا یہاں تک کہ 2008ء میں خلافت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ سلسلہ احمدیہ کی طرز پر 1939ء کے بعد کی جماعتی ترقیات، مختلف ممالک میں تبلیغ اسلام کی سرگرمیاں، قرآن مجید کی اشاعت و دیگر اہم جماعتی واقعات پر مختصر تاریخ مرتب کی جائے.چنانچہ بعد منظوری حضور انور ایدہ اللہ تعالی مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب نے سلسلہ احمدیہ جلد دوم تحریر فرمائی جس میں خلافت ثانیہ کے بقیہ دور یعنی 1939 ء سے لے کر 1965ء تک پیش آنے والے اہم حالات و واقعات کا ذکر کیا گیا ہے.اس کے بعد مکرم ڈاکٹر صاحب موصوف نے ہی خلافت ثالثہ (1965ء تا 1982ء) میں پیش آمدہ بعض حالات و واقعات کو سلسلہ احمدیہ جلد سوم میں مرتب فرمایا.
IV اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے خلافت رابعہ کے بابرکت دور ( 1982ء تا2003ء) میں جماعتی ترقیات کی ایک جھلک اور دور خلافت رابعہ میں رونما ہونے والے بعض اہم واقعات کو سلسلہ احمدیہ جلد چہارم کی صورت میں قلمبند کرنے کی ذمہ داری خاکسار کو سونپی گئی.اس کے لئے بنیادی طور پر حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبات و خطابات، بالخصوص آپ کے جماعت کے مرکزی جلسہ سالانہ کے دوسرے روز بعد دوپہر کے خطابات سے مواد لیا گیا ہے.علاوہ ازیں جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع شدہ مواد مختلف ممالک میں قائم مشنز سے موصولہ تاریخی مواد اور دوسرے جماعتی اداروں اور وکالت تبشیر لندن سے حاصل ہونے والے مواد کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے.اس کتاب کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ مخالفین احمدیت کی تمام تر مخالفتوں اور جماعتی ترقیات کو روکنے کی سر توڑ کوششوں کے باوجو د سلسلہ احمدیہ خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کی سر پرستی میں ترقیات کی نئی سے نئی منازل طے کرتا چلا جارہا ہے.عالمگیر غلبہ اسلام اور تکمیل اشاعت ہدایت کے جو عظیم الشان کام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے سپرد کئے گئے تھے، آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد الہی وعدوں کے مطابق قائم ہونے والی قدرت ثانیہ یعنی خلافت حصہ اسلامیہ احمدیہ کی نگرانی میں یہ کام نہایت درجہ کامیابی وکامرانی کے ساتھ آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں.اس کتاب کی تیاری میں خاکسار کو مکرم عبد الماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل البشیر کا غیر معمولی تعاون حاصل رہا.اسی طرح مکرم حافظ محمد ظفر اللہ عاجز صاحب ، کرم سید احسان احمد صاحب اور مکرم عبدالمنان سلام صاحب مربیان سلسلہ نے بھی خاص طور پر معاونت کی توفیق پائی.نجز اھم اللہ احسن الجزاء اللہ کرے کہ یہ کتاب قارئین کی دلچسپی اور ان کے ایمان وایقان میں اضافہ کا موجب ہو.آمین.خاکسار نصیر احمد قمر (ایڈیشنل وکیل الاشاعت لندن) نومبر 2021ء
فہرست مضامین سلسلہ احمدیہ جلد چہارم عنوان صفحہ نمبر 1 7 7 8 11 12 15 17 21 35 40 45 57 26 52 58 60 مجلس شوری ملکی مجلس شوری کے نظام کا قیام ملکی شوری کی اہمیت پہلی مجلس شوری ممالک بیرون پاکستان کا انعقاد دورِ خلافت رابعہ کی پہلی مرکزی مجلس مشاورت احمدیوں پر ہونے والے مظالم (1982ء تا2003ء) ایک جائزہ صدارتی آرڈینینس 20 خلافت اور نظام جماعت کے خلاف ایک عالمی سازش وفاقی شرعی عدالت میں آرڈیننس 20 کو چیلنج آرڈیننس کے خلاف جماعت کا رد عمل اور اللہ تعالیٰ کا سلوک جماعت احمدیہ کے افراد پر مقدمات کی ایک جھلک مقدمہ ساہیوال احمد یہ مسجد مردان کا انہدام ننکانہ صاحب، اور چک نمبر 563 گب، چک سکندر
65 67 72 77 627 78 79 80 84 84 85 86 87 87 89 90 25 50 91 91 91 92 92 VI سانحہ گھٹیالیاں بنگلہ دیش شهداء دور خلافت رابعه مشن ہاؤسز یا تبلیغی مراکز کا قیام یورپ دونئے یورپین مراکز بنانے کی تحریک اسلام آباد بیت النور - نن سپیٹ جرمنی ناصر باغ بيت النصر كولون مسجد المهدی میونخ مهدی آباد Nahe بیت المقیت بيت القیوم بیت السلام بیت اللطیف بيت الوكيل بیت الظفر بيت الرشيد
93 94 94 95 95 96 96 98 98 99 99 99 100 100 101 101 102 102 103 103 VII بيت السبوح ایوان خدمت مشرقی یورپ میں مشنوں کا قیام امریکہ امریکہ میں نئے مشن ہاؤسز اور مساجد کے قیام کی تحریک کینیڈا کینیڈا میں پانچ نئے مشن ہاؤسز کے قیام کی تحریک کیلگری وینکوور Ahmadiyya Abode of Peace ونی پیگ (صوبہ مینی کو بہ ) میں احمد یہ مشن ہاؤس مانٹریال مشن ہاؤس آٹو ا میں مشن ہاؤس مسجد محمود - رجائنا ایڈمنٹن میں مشن ہاؤس Peace Village ہیملٹن میں مشن ہاؤس.مسجد بیت النور لجنہ اماء اللہ کینیڈا کا مرکزی دفتر مس ساگا مشن ہاؤس، مسجد بیت الحمد اور جامعہ کی عمارت ایشیا اور افریقہ
104 105 110 110 110 110 111 111 112 113 115 116 117 118 118 119 119 119 120 VIII افریقہ مساجد کا قیام براعظم افریقہ گیمبیا ماریشس بر اعظم یورپ ن افتتاح مسجد بشارت انگلستان مسجد بیت الفتوح مورڈن لندن انگلستان میں سب سے بڑی مسجد بنانے کی تحریک قطب شمالی کی پہلی مسجد کے لئے تحریک جرمنی 100 مساجد کی سکیم مسجد بیت الشکور ( گراس گراؤ.ناصر باغ ) مسجد بیت الحمد ( و لش) مسجد بشارت ( اوستا بروک) مسجد بیت المومن ( میونسٹر ) جرمنی میں دیگر زیر تعمیر مساجد ہالینڈ یر اعظم امریکہ
IX نیوالیس اے احمدیہ مسجد واشنگٹن کی تحریک گوئٹے مالا ( سنٹرل امریکہ) میں پہلی احمد یہ مسجد کا افتتاح کینیڈا بڑا عظم آسٹریلیا آسٹریلیا في پاپوانیوگنی مساجد کی تعمیر اور مساجد کی وسعت کے ایک نئے دور کے آغاز کی تحریک مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت تبلیغ و دعوت الی اللہ کے شیر میں شمرات نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ وس (TUNISIA) صومالیہ (SOMALIA) کیمرون (CAMEROON) اسلامک ری پبلک آف موریطانیہ (ISLAMIC REPUBLIC OF MOURITANIA)| ری پبلک آف انگولا ( REPUBLIC OF ANGOLA) برونائی (BRUNEI) گنی بساؤ (GUINEA BISSAU) 120 121 123 125 126 126 126 126 129 133 151 153 157 158 158 158 159 160 161
ری پبلک آف روانڈا (REPUBLIC OF RWANDA) ری پبلک آف برونڈی (REPUBLIC OF BURUNDI) ری پبلک آف موزمبیق (REPUBLIC OF MOZAMBIQUE) (TUVALU),b ری پبلک آف کیری باس (REPUBLIC OF KIRIBATI) ویسٹرن صاموا (WESTERN SAMOA) روڈرگز آئی لینڈ (RODRIGUES ISLAND) ری پبلک آف آئر لینڈ (REPUBLIC OF IRELAND) برازیل (BRAZIL) تھائی لینڈ (THAILAND) زنجبار (ZANZIBAR) بھوٹان (BHUTAN) نیپال (NEPAL) یوگوسلاویہ (YUGOSLAVIA) ری پبلک آف دی کونگو یا کونگو برازاویل ( OF THE (CONGO پاپوانیوگنی (PAPUA NEW GUINEA) فن لینڈ (FINLAND) آئس لینڈ (ICELAND) (PORTUGAL) 163 164 165 167 169 169 170 171 172 175 177 177 178 179 182 REPUBLIC 183 184 185 186
187 188 189 190 190 190 191 191 192 192 193 194 196 197 197 198 199 200 200 203 XI (NAURU),t (KINGDOM OF TONGA) جنوبی کوریا (SOUTH KOREA) مالدیپ ( MALDIVES) لیون (GABON) سولومن آئی لینڈز (SOLOMON ISLANDS) مارشل آئی لینڈز (MARSHAL ISLANDS) مائکرونیشیا (MICRONESIA) تو کیلا ؤ (TOKELAU) میکسیکو (MEXICO) نیو کیلیڈونیا ( NEW CALEDONIA) منگولیا (MANGOLIA) گوام (GUAM) چوک آئی لینڈ (CHUUK ISLAND) لیتھوانیا (LITHUANIA) بیلاروس (BELARUS) ہنگری (HUNGARY) کولمبیا (COLUMBIA) ازبکستان (UZBEKISTAN) یوکرائن (UKRAINE)
204 209 212 213 214 214 214 217 218 218 219 219 219 220 220 221 222 223 224 225 XII رشیا (RUSSIA) البانيا (ALBANIA) رومانیہ (ROMANIA) بلغاریہ (BULGARIA) چاؤ (CHAD) کیپ ورڈے (CAPE VERDE ISLAND) قازاخستان (KAZAKHSTAN) نور فولک آئی لینڈ (NORFOLK ISLAND) (JAMAICA) لاؤس (LAOS) ویتنام (VIETNAM) کمبوڈیا (CAMBODIA) گریناڈا ( GRENADA) ایکوٹوریل گنی (EQUATORIAL GUINEA) مقدونیه (MACEDONIA) ایل سلواڈور (EL SALVADOR) سلووینیا (SLOVENIA) بوسنیا ( BOSNIA) قرغیزستان (KYRGYZSTAN) کروشیا (CROATIA)
XIII نکارا گودا (NICARAGUA) مایوٹ آئی لینڈ (MAYOTTE ISLAND) چیک ری پبلک CZECK REPUBLIC) سلووک ری پبلک SLOVAK REPUBLIC) لیسوتھو (LESOTHO) ایکواڈور (ECUADOR) سنٹرل افریقن ری پبلک CENTRAL AFRICAN REPUBLIC) ساؤ ٹوے (SAO TOME) میشا (SEYCHELLES) سوازی لینڈ (SWAZILAND) بوٹسوانا (BOTSWANA) نمیبیا (NAMIBIA) ویسٹرن صحارا (WESTERN SAHARA) جبوتی (DHIBOUTI) (ERITREA) (KOSOVO), موناکو (MONACO) (ANDORRA)xl| و نیز ویلا ( VENEZUELA) قبرص (CYPRUS) 225 227 227 227 228 228 229 229 230 230 231 231 232 232 232 233 233 234 234 235
235 237 237 237 238 244 245 249 249 254 257 267 272 281 XIV مالٹا ( MALTA) آذربائیجان (AZERBAIJAN) مالدووا (MALDOVA) کیوبا (CUBA) زائر (ZAIRE) زمبابوے (ZIMBABWE) نیوزی لینڈ (NEW ZEALAND) پولینڈ (POLAND) مالاوی ( REPUBLIC OF MALAWI) ارجنٹائن ( ARGENTINA) ہندوستان میں تحریک شدھی کے خلاف اعلان جہاد تحریک وقف نو تحریک وقف تو کی ضرورت اور غرض وغایت اشاعت کتب ولٹریچر دور خلافت رابعہ میں مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی بعض اہم کتب کا مختصر تعارف 290 قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف اور مختصر تشریحی نوٹس قرآن کریم کی منتخب آیات منتخب احادیث، منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود 290 292 293 297 علیہ الصلوۃ والسلام قرآن کریم کی منتخب آیات منتخب احادیث
XV 300 303 منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلامی اصول کی فلاسفی 305 مسیح ہندوستان میں 307 309 310 314 315 فتح اسلام ہماری تعلیم زَهَقَ الْبَاطِل اسلام میں ارتداد کی سزا کی حقیقت عدل، احسان اور ایتاء ذی القربی 317 Revival of Religion 318 Some Distinctive Features of Islam 318 322 الہام، عقل، علم اور سچائی مذہب کے نام پرخون 323 The Seal of Prophets - His Personality and Character 323 327 327 329 Islam's Response to Contemporary Issues An Elementary Study of Islam خلیج کا بحران اور نظام جہان کو ذوق عبادت اور آداب دعا 331 With Love to the Muslims of the World - The Ahmadiyya Perspective
XVI 332 Relationship between Religion and Politics in Islam 332 Christianity - A Journey from Facts to Fiction 334 کلام طاہر 335 Universal and Moral Values, Politics and World Peace 335 336 338 339 340 340 347 354 354 359 376 378 382 384 ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل بچوں کے لئے کتب ملینیم لٹریچر سکیم دنیا بھر میں شائع ہونے والے جماعتی اخبارات ورسائل عربی مجلہ التقوى ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل چینیوں میں تبلیغ اور چینی ڈیسک کا قیام چینی کلاس MTA چینی ترجمہ قرآن کریم و چینی لٹریچر کی مقبولیت اور غیروں کی آراء ائمة التكفير کو مباہلہ کا چیلنج مباہلہ کے چیلنج پر مولویوں کا ردعمل مباہلہ کا چیلنج اور پروفیسر طاہر القادری جماعت اسلامی کے سربراہ کو مباہلہ کا چیلنج اور ان کا ردعمل مباہلہ کا اصل مقصود
XVII مباہلہ کے نتیجہ میں دشمنوں کو ذلیل ورسوا کرنے والا ایک حیرت انگیز نشان.مینہ مقتول، اسلم قریشی کی زندہ سلامت واپسی جنرل ضیاء الحق سے متعلق نشان جنرل ضیاء کی ہرزہ سرائی اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی زبردست پیشگوئی جنرل ضیاء اور تمام مکڈ بین کو دعوت مباہلہ جنرل ضیاء کو آخری تنبیه ضیاء نمرودیت کی آگ میں خدا کی نصرت کے دو نشان.ایک دشمن کی زندگی کا اور ایک دشمن کی موت کا مباہلہ سے متعلق ایک نئی صورت حال بعض متفرق عبرت انگیز واقعات مولوی محمود احمد میر پوری کی ہلاکت کوڈ یا تھور (کیرلہ ) میں مباہلہ مباہلہ کا سال مکمل ہونے پر احمدیت کے حق میں ظاہر ہونے والے عظیم الشان نشانوں کا ذکر ضیاء الحق کی بلاکت مولوی محمود احمد میر پوری کی وفات مولوی منظور احمد چنیوٹی کی ذلت ورسوائی صد ساله جشن تشکر جماعت احمد یہ عالمگیر 386 391 393 397 398 400 401 402 409 411 414 418 426 429 431 439 جماعت احمدیہ عالمگیر کے صد سالہ جشن تفکر کے موقع پر اقوام عالم میں امن و اتحاد 449 پیدا کرنے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کا نہایت بصیرت افروز پیغام
XVIII افراد جماعت احمدیہ کے نام حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کا جماعت کی دوسری صدی کے آغاز پر پہلا پیغام جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کے آغاز پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلا الہام تاریخ انسانی میں 1989ء کے سال کی اہمیت صد سالہ جشن تشکر کی تقریبات پر ایک طائرانہ نظر بعض ممالک کے صدور، وزرائے اعظم و دیگر معززین کے پیغامات صد سالہ جوبلی نمائشیں غریبوں، بیواؤں، یتیموں اور ناداروں میں تحائف کی تقسیم عطیه خون جیل خانوں میں قیدیوں کے لیے تحائف 455 457 459 463 468 472 475 476 476 صد سالہ جشن تشکر کی مناسبت سے جماعت و ذیلی تنظیموں کے اخبارات ورسائل 478 کے خصوصی نمبرز اور دیگر سو وینیئر ز کی اشاعت یادگاری ٹکٹ کا اجراء 479 صد سالہ جوبلی کے سلسلہ میں ہونے والی تقریبات کی پریس اور الیکٹرانک میڈیا 481 میں وسیع پیمانے پر تشہیر سال تشکر کا غیر معمولی پھل Friday the 10th سورۃ الجمعہ کی تفسیر اور Friday the 10th کی تشریح ایک نشان اور قوم کو انتباہ Friday the 10th کے دونشان 489 491 494 505 509
516 518 526 527 528 541 542 543 543 543 544 544 544 545 546 546 547 547 548 XIX Friday the 10th کے تناظر میں تاریخی اہمیت کی حامل خوشخبریاں Friday the 10th کی پیشگوئی کا ایک اور عظیم الشان رنگ میں ظہور مباہلہ کا چیلنج اور Friday the 10th سکھر کے اسیران راہ مولا کی آٹھ سال بعد قید سے رہائی اور Friday the 10th سے اس کا تعلق Friday the 10th اور جماعت احمدیہ فرانس دور خلافت رابعہ کی بعض مالی تحریکات بيوت الحمد منصوبہ احیائے دفتر اول تحریک جدید دفتر دوم تحریک جدید کو زندہ رکھنا امریکہ میں پانچ نئے مراکز و مساجد کے قیام کے لئے تحریک آسٹریلیا میں مسجد کی تعمیر کے لئے تحریک یورپ میں دو بڑے مراکز کا قیام دفتر چهارم تحریک جدید کا اجراء وقف جدید کی تحریک کو عالمی بنانا جدید پرنٹنگ پریس کے قیام کے لئے تحریک سیدنا بلال فنڈ توسیع مکان بھارت فنڈ اشاعت قرآن فنڈ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے دفاتر اور ہال کی تعمیر کے لئے تحریک
XX صد سالہ جو بلی جشن منانے کے لئے ہر ملک میں یاد گار عمارت کے لئے تحریک ہالینڈ کی مسجد النور کو دس گنا بڑھانے کی تحریک توسیع و بحالی مساجد کی تحریک مالی قربانیوں کی تحریکات پر جماعت کا والہانہ لبیک مسجد واشنگٹن کے لئے تحریک صد سالہ جوبلی فنڈ نمبر 2 مشرقی یورپ میں مساجد اور مراکز کے قیام کے لئے تحریک جرمنی میں مساجد کی تعمیر بلیجیم میں ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر کی تحریک تعمیر مساجد کے لئے عمومی تحریک مسجد بیت الفتوح لندن مالی قربانی میں ایک نیا سنگ میل خدمت خلق کی بعض تحریکات نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم نصرت جہان ئوسکیم 548 549 549 550 555 555 555 556 556 556 557 558 561 564 566 نصرت جہاں سکیم کے تحت دور خلافت رابعہ میں قائم ہونے والے طبی ادارہ جات 568 نصرت جہاں سکیم کے تحت دور خلافت رابعہ میں قائم ہونے والے تعلیمی ادارہ جات 569 570 574 575 بيوت الحمد سکیم بیوت الحمد سوسائٹی کا قیام آغاز تعمیر
XXI بیوت الحمد سکیم کے تحت قادیان میں تعمیرات بيوت الحمد کالونی نمبر 1 عید کے موقع پر غربا کے ساتھ سکھ بانٹنے کی تحریک 576 576 577 دُور کے ملکوں میں پھیلے ہوئے غریبوں میں عید کے موقع پر تحالف پہنچانے کی تحریک 579 حبشہ کے مصیبت زدگان کے لئے امداد کی تحریک سیدنا بلال فنڈ El Salvador کے بتائی کے متعلق تحریک اسیران کی خدمت کی تحریک بلڈ بینک اور آئی کلینک کا قیام کفالت یکصد یتامیٰ افریقہ کے فاقہ زدگان کے لئے تحریک.افریقہ ریلیف فنڈ لائبیریا کے مہاجرین کی امداد کے لئے تحریک ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First) ہیومینٹی فرسٹ کے تحت خدمات کا مختصر احوال بوسنیا کے یتیم بچوں اور صومالیہ کے قحط زدگان کے لئے تحریک بہبود انسانی کا سال منانے کی تحریک بوسنیا کے مظلوموں کے لئے امداد کی تحریک ہو میو پیتھی طریق علاج کے ذریعہ خدمت خلق وقف جدید کی ڈسپنسری ہومیو پیتھی کلاسز 581 581 582 583 584 584 585 588 589 590 590 591 597 598 598 599
XXII صفت رحمانیت کے تحت قائم ڈسپنسریاں ظاہر ہومیو پیتھک ہسپتال اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نصرت جہاں ہو میو پیتھک کلینک اہل روانڈا کے لئے مالی تحریک مریم شادی فنڈ فرنچ سپیکنگ ممالک میں جماعت کی ترقی کے متعلق ایک رؤیا تعلق ایک نہ اور اس کی حیرت انگیز تعبیر پاکیزہ ، دائگی اور شیر میں ثمرات کی حامل غیر معمولی برکتوں سے معمور عظیم الشان تحریک.عالمی بیعت پہلی عالمی بیعت کی تقریب 607 609 610 610 612 615 623 625 پہلی عالمی بیعت کی تقریب کے موقع پر اس کے پس منظر، اہمیت اور غرض وغایت 625 کے بیان پر مشتمل حضور گا بصیرت افروز خطاب مباہلہ کے چیلنج کا ایک نئے رنگ میں اعادہ اور اس کے نتائج و ثمرات 635 673 675 689 700 710 726 752 www.alislam.org جلسہ ہائے سالانہ مبارک لکھی سفر مغربی افریقہ اور مشرقی افریقہ کے مختلف ممالک کا دورہ افریقہ کے عوام کی بہبود کے لئے اہم مشورے اور نصائح صد سالہ جوبلی کے سال کے بعض دورہ جات بیت الشافی کلینک گوئٹے مالا کا افتتاح اور حضور رحمہ اللہ کا خطاب
XXIII گوئٹے مالا میں استقبالیہ تقریب میں حضور کا خطاب گوئٹے مالن قدیم انڈین باشندوں سے بصیرت افروز خطاب اور ایک اہم پیغام مسلم ٹیلی ویژن احمد به ( MTA) انٹرنیشنل خلیفہ وقت کے خطبات اور خطابات کی اہمیت اور جماعت کا فرض ایم ٹی اے کا سفر - منزل بہ منزل ایم ٹی اے کی روزانہ نشریات کا آغاز ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی روزانہ چومیں گھنٹے کی نشریات کا آغاز 757 762 773 775 779 782 784 حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ ایم ٹی اے کے بعض سلسلہ وار پروگرام 789 اعتراضات کے جوابات انگریزی ملاقات اردو ملاقات ہومیو پیتھی کلاس ترجمۃ القرآن کلاس لِقَاء مَعَ الْعَرَب اردو کلاس بچوں کی کلاس احمدیت کی صداقت کا عالمی گواہ دنیا کو امت واحدہ بنانے کا کام خلافتِ احمدیہ کے سپرد ہے سوانحی خاکہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی اور عہد خلافت رابعہ کے بعض اہم واقعات کی سن دار تحصیل 790 790 790 790 791 791 791 791 792 800 805
1 بسم الله الرحمن الرحيم محمدة وتصلى على رسوله الكريم و علی عبد و اصبح الموعود ) خدا تعالی کے فضل اور رحم کے ساتھ.ھوالناصر کی جلد سوم میں اس بات کا ذکر ہو چکا ہے کہ 8 اور 9 رجون 1982ء کی درمیانی شب حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ اسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ایک مختصر علالت کے بعد بقضائے الہی اس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرما گئے.یہ خبر خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستہ افراد جماعت احمد یہ عالمگیر پر غم کا ایک پہاڑ بن کر گری اور اس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے احمدی انتہائی صدمہ اور غم اور کرب کی حالت میں ایک دفعہ پھر قدرت ثانیہ کے ظہور کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عاجزی اور زاری کے ساتھ دعاؤں میں مصروف ہو گئے.دوسری طرف منافقین نے ریشہ دوانیاں شروع کر دیں اور جماعت میں فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کی.اسی طرح جماعت کے مخالفین نے ملکی اخبارات ورسائل میں من گھڑت افواہوں، سراسر جھوٹی ، بے بنیاد، غلط اور لایعنی الزامات پر مشتمل خبروں اور اشتہارات کی اشاعت کی ایک مہم چلا کر مومنین خلافت کے دلوں پر چر کے لگائے.یہ منافقین اور مخالفین اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کی ان ناپاک کوششوں سے جماعت تفرقہ اور انتشار کا شکار ہو جائے گی ( نعوذ باللہ ).لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ایک دفعہ پھر مخالفین کی جھوٹی خوشیاں پامال ہوئیں اور خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت اور رحمت کے زبر دست نشان دکھاتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد کو قدرت ثانیہ کے مظہر رابع م انشاء کے طور پر کھڑا کیا.آپ 10 جون 1982ء کو خلافت کے منصب پر ممکن ہوئے اور عالمگیر جماعت احد یہ مسلمہ آپ کے ہاتھ پراکٹھی ہوکرشاہراہ غلبہ اسلام پر تیزی سے آگے بڑھنے لگی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کی وفات سے خلافتِ رابعہ کے انتخاب تک کا وقت اور اس کے بعد کے چند ابتدائی ایام بھی بہت نازک اور بڑے ابتلا کے دن تھے.لیکن مومنین نے انہیں انتہائی صبر اور وفا اور توکل علی اللہ اور دعاؤں کے ساتھ گزارا.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور آیت استخلاف میں کئے گئے اپنے وعدہ کے مطابق خلافت کے ذریعہ خوف کے ان حالات کو ایک دفعہ پھر امن میں بدل کر
2 مومنوں کے لئے تسکین اور راحت کے سامان فرمائے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے 18 جون 1982ء کے خطبہ جمعہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ربوہ کی ایک ایک گلی گواہ ہے بڑے سے بڑا ابتلا جوممکن ہو سکتا تھا، تصور میں آسکتا تھا وہ آیا اور گزر گیا اور کوئی زخم نہیں پہنچا سکا جماعت کو اور انتہائی وفا کے ساتھ اور کامل صبر کے ساتھ جماعت اس عہد پر قائم رہی کہ ہم خلافتِ احمدیہ سے وابستہ رہیں گے اور اس کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دینے کے لئے تیار ہوں گے.“ خطبہ جمعہ فرموده مؤرخہ 18 جون 1982ء بحوالہ خطبات طاہر جلد اول صفحہ 17 ) آپ نے یہ بشارت بھی دی کہ : یہ وہ آخری بڑے سے بڑا ابتل ممکن ہو سکتا تھا جو آیا اور جماعت بڑی کامیابی کے ساتھ اس امتحان سے گزرگئی اللہ تعالی کے فضلوں کے وارث بنے ہوئے.اب آئندہ انشاء اللہ تعالی خلافت احمدیہ کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا.جماعت بلوغت کے مقام پر پہنچ چکی ہے خدا کی نظر میں.اور کوئی دشمن، آنکھ، کوئی دشمن دل، کوئی دشمن کوشش اس جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گی اور خلافت احمد یہ انشاء اللہ تعالی اسی شان کے ساتھ نشو نما پاتی رہے گی جس شان کے ساتھ اللہ تعالی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدے فرماتے ہیں کہ کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جماعت زندہ رہے گی.) خطبه جمعه فرموده مؤرخہ 18 جون 1982ء بحوالہ خطبات طاہر جلد اول صفحہ 18 بلا شبہ حضور رحمہ اللہ کے کار ہائے نمایاں میں سے ایک عظیم الشان کارنامہ نظام خلافت کا استحکام بھی ہے.آپ نے تیزی سے بڑھتی اور پھیلتی ہوئی عالمی جماعت کی اپنی متضرعانہ دعاؤں اور تدابیر حسنہ اور شب و روز کی محنت و جانسوزی سے ایسی عمدہ تربیت فرمائی کہ متفرق شعوب وقبائل اور مختلف رنگوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے مختلف زبانیں بولنے والے افراد کو خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے ساتھ اٹوٹ رشتوں میں باندھ کر امت واحدہ بنا دیا.آپ کی وفات پر عالمی جماعت نے جس صبر و ثبات، نظم وضبط اور اتفاق و اتحاد کا بے نظیر نمونہ دکھایا اور بغیر کسی قسم کے ناخوشگوار واقعہ کے کامل صدق وصفاء
3 اخلاص و وفا اور استقامت اور اطاعت کا مظاہر کرتے ہوئے سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر اکٹھی ہوئی، یہ واقعہ اپنی ذات میں آپ کی اور آپ کے مقاصد کی کامیابی کا زبر دست ثبوت اور آپ کی دعاؤں کا زندہ اعجاز ہے.چنانچہ امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ السیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے پہلے خطبہ جمعہ میں اس حقیقت کا ذکر یوں فرمایا: ے جانے والے تو نے اس پیاری جماعت کو جو خوشخبری دی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوتی اور یہ جماعت آج پھر بنیان مرصوص کی طرح خلافت کے قیام و استحکام کے لئے کھڑی ہو گئی.الحمداللہ.اسی طرح حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے روزنامہ الفضل ربوہ کی خصوصی اشاعت سیدنا طاہر نمبر ( ( مطبوعہ 27 دسمبر 2003 ء) کے لئے اپنے خصوصی پیغام میں فرمایا:...حضرت صاحب کی زندگی کا دوسرا عظیم الشان مقصد خلافت احمدیہ کے استحکام 32 اور نظام جماعت کی مضبوطی کی صورت میں دکھائی دیتا ہے.آپ رحمہ اللہ نے خلافتِ احمدیہ کے ہر پہلو سے استحکام کے لئے انتھک محنت کی ہے.چنانچہ آپ کی زندگی میں نمایاں شان سے خلافت کا مقام ہر دل میں اجاگر اور قائم ہوا.آپ نے اپنے دور خلافت کے پہلے خطبہ میں ہی خلافت کو آئندہ ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہنے کی بشارت دے دی تھی جو بڑی شان سے آپ کی وفات کے وقت پوری ہوئی.اللہ تعالی نے اپنے خاص فضل اور احسان سے جماعت احمدیہ کو ہر ایک فتنہ سے محفوظ رکھا اور ایک ہاتھ پر سب کو اکٹھا کر دیا.“ حضرت خلیفة أسبح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی مبارک زندگی کے بے شمار پہلو تھے اور ہر پہلو ہی نہایت حسین ، دلکش اور دلر ہا تھا.ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد سے آپ کا ذاتی تعلق تھا اور کروڑوں دلوں کی آپ دھڑکن تھے.آپ کی نہایت پیاری اور خوشگوار یادیں سب محنیوں اور مخلصوں کے قلوب و اذہان میں خوشبو بن کر مہک رہی ہیں.کبھی یہ یادیں حسین تذکروں کی صورت میں لبوں پر آتی ہیں اور کبھی آپ کے حق میں دعائیں بن کر دلوں سے بخارات کی شکل میں اٹھتی ہیں اور اشکوں کا روپ دھار کر
4 آنکھوں سے چھلکتی ہیں.آپ فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے دور خلافت کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے مبارک دور سے خاص مماثلت ہے اور سو سال پہلے کے حالات و واقعات ایک نئے رنگ میں آپ کے دور میں دہرائے جارہے ہیں اور یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہونے والے الہامات اور آپ کی دعاؤں کا فیض ہے جو اس زمانہ کو پہنچ رہا ہے.اور یہ وہی دور ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیے گئے تھے بڑی شان سے پورے ہورہے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالی نے ایک الہام میں فرمایا تھا آسمانی تائید میں ہمارے ساتھ ہیں.آجُرُكَ قَائِم وَذِكَرُكَ دَائِم.الہام 29 جولائی 1904ء.تذکرہ ایڈیشن ششم صفحہ 435 شائع کرده نظارت نشر و اشاعت قادیان) اس الہام الہی کا فیض بھی آپ کے عہد خلافت میں خوب خوب جاری ہوا.آپ کی ساری زندگی الہی نصرت و تائید کے لاتعداد عالمگیر، انفسی اور آفاقی نشانات و معجزات سے معمور تھی.آپ کی ہر خواہش ، ہر تدبیر، ہر منصوبہ میں خدا تعالیٰ نے بے انتہا برکت ڈالی.کئی ناممکن امور آپ کی مستجاب دعاؤں سے ممکنات میں بدل گئے.آپ کی تمام مسائی ثمر آور ہوئیں اور ان کا اجر قائم ہو گیا اور ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی عظیم الشان نعمت خداوندی نے آپ کے ذکر کو داگھی بھی بنادیا.ایم ٹی اے پر جاری علم و عرفان پر مبنی آپ کے پروگرام آپ کے ذکر خیر کوئی رفعتیں عطا کرتے رہیں گے اور آپ کی محبتوں کے فیض کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا.انشاء اللہ.اس کتاب میں ہم خلافت رابعہ کے دور میں جماعت احمدیہ کی عالمی ترقی واستحکام، دنیا بھر میں مساجد اور مراکز نماز کی تعمیر اور مشن ہاؤسز کے قیام، مختلف زبانوں میں کثرت سے اسلامی لٹریچر کی طباعت، اشاعت قرآن، خدمت بنی نوع انسان، تمکنت دین اور عالمگیر غلبہ اسلام کے لئے کی جانے والی متفرق مساعی اور ان کے شیریں اور نیک ثمرات کا مختصر تذکرہ کریں گے.اسی طرح دشمنان اسلام و احمدیت کی طرف سے تبلیغ اسلام و احمدیت کی راہ میں کھڑی کی جانے والی مشکلات، ان کے جھوٹے اور شر انگیز پراپیگینڈہ ، احمدیوں پر ڈھائے جانے والے بہیمانہ مظالم اور اس کے مقابل پر خلافت احمدیہ سے
5 وابستہ احمدیوں کے صبر وثبات، ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے عظیم الشان نشانات اور معاندین احمدیت کی ناکامیوں اور نامراد ہوں اور ذلت و رسوائی کے عبرتناک واقعات کا بھی اجمالی طور پر ذکر کریں گے جن سے کی سچائی اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع" کی مذکورہ بالا بشارت اور پیشگوئی کی صداقت ایک زندہ حقیقت کے طور پر سب پر عیاں ہو جائے گی.انشاء اللہ.وباللہ التوفیق
7 مجلس شوری اللہ تعالیٰ کے حکم شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ (آل عمران (160) اور أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ (الشورى:30) کی قرآنی تعلیم کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام ہمیشہ ہی تمام اہم امور میں مشاورت فرماتے رہے ہیں.تاہم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 1922ء میں جماعت میں شوریٰ کو با قاعدہ ایک انسٹیٹیوشن کی شکل دی اور مرکزی طور پر ہر سال ایک مجلس شوریٰ کا با قاعدہ انعقاد بھی شروع فرمایا.اور اس کے بعد سے ہر سال سوائے اس کے کہ کسی سال نا گزیر وجوہات کی بنا پر ناغہ ہو گیا ہو ی مجلس شوری مسلسل منعقد ہورہی ہے.ملکی مجلس شوری کے نظام کا قیام حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے شوری جیسے اہم اور مقدس ادارہ کے استحکام کی طرف آغا ز خلافت سے ہی خصوصی توجہ فرمائی اور دنیا بھر میں بڑی تیزی کے ساتھ مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی جماعتوں کی تربیت کی خاطر اور اس غرض سے کہ جماعتی مسائل میں براہ راست تمام ملکوں کے احمدی ذاتی طور پر involve ہو جائیں یہ فیصلہ فرمایا کہ تمام ملکوں میں ایک ملکی مجلس شوری بھی ہوا کرے.کیونکہ پھیلتی ہوئی جماعتیں ساری دنیا میں تعداد کے لحاظ سے اتنی بڑھ چکی ہیں کہ ان کے نمائندوں کو مرکز میں مجلس شوریٰ میں شامل ہونے کی توفیق ملنا مشکل ہے.چنانچہ آپ نے اپنے سب سے پہلے دورہ یورپ 1982ء میں ناروے، سویڈن، ڈنمارک، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ ، سپین اور انگلستان میں اپنی موجودگی میں ان ممالک کی شوری کے الگ الگ اجلاسات کروا کر شوری کی اہمیت، اس کے طریق کار، قواعد وضوابط اور روایات وغیرہ کے بارہ میں بڑی تفصیل سے ہدایات ارشاد فرمائیں اور ان ممالک میں شوری کے نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار فرمایا.
8 مرکزی مجلس شوری کے علاوہ کسی بھی ملک کی مقامی طور پر پہلی مجلس شوری کے انعقاد کا اعزاز جماعت احمد یہ ناروے کو حاصل ہوا.جماعت احمد یہ ناروے کی تاریخ کی یہ پہلی مجلس شوری مؤرخہ 6 اگست 1982ء بروز جمعتہ المبارک (بیت النور ) اوسلو میں منعقد ہوئی جس میں جماعت احمدیہ ناروے اور اس کی ذیلی تنظیموں مجلس انصاراللہ اور اس خدام الاحمدیہ کی مجلس عاملہ کے مبران اور دیگر صائب الرائے افراد نے شرکت کی.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا : یہ ایک تاریخی دن ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یورپ میں بھی یہ دن ایک نئے باب کا اضافہ کرنے والا دن ہے.کیونکہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر ملک میں آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ ہر سال ایک مجلس شوری منعقد ہوا کرے گی.“ آپ نے یہ بھی فرمایا: مجلس شوری کا یہ تصور کہ گویا صرف ایک مرکزی مجلس شوریٰ ہو، اگر کسی کے ذہن میں ہے تو غلط تصور ہے.شوریٰ کا آغاز وہاں سے ہوا تھا اور کچھ عرصے تک مجلس شوری کے جملہ فرائض مجلس شوری مرکز یہ ہی ادا کرتی رہی ہے.لیکن جب قومیں ترقی کرتی ہیں اور پھیلتی ہیں تو ان کی تربیت کے لئے شوریٰ کے نظام کو وسیع تر کرنا پڑتا ہے.“ ملکی شوری کی اہمیت آپ نے ملکی شوری کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: در پورٹ مجلس شوری ناروے ( غیر مطبور ) صفحہ (1) گر شوری کی تربیت مختلف ملکوں کو نہ دی گئی تو خطرہ یہ ہے کہ جب احمدیت اجتماعیت اختیار کرے گی اور بڑی وسیع پیمانے پر پھیل جائے گی تو دنیا کے اکثر لوگ شوری کے تصور سے نابلد ہوں گے.اور وہ ڈیموکریسی کو ہی شوری سمجھنے لگ جائیں گے.ایک بالکل غلط طرز پر بعض ملکوں کی سوچ چلی جائے گی.اس احتمال کے فقدان کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے جس کا آج اعلان کر رہا ہوں کہ تمام ملکوں میں آئندہ انشاء اللہ سال میں ایک مجلس شوری“ ہوا کرے گی.اور اس مجلس شوری کا انتخاب خلیفہ وقت کی اجازت سے اس ملک کا امیر یا مبلغ انچارج ، اگر امیر ہوتو وہ کرے گا.اور مشورے
9 بھی جس طرح کہ نظام اسلام ہے فیصلوں کے طور پر نہیں بلکہ مشوروں کے طور پر خلیفہ وقت کو جایا کریں گے.اس لئے خواہ یہ شوریٰ ناروے میں ہو رہی ہو، خواہ یہ انگلستان میں ہورہی ہو، خواہ جاپان یا امریکہ میں ہورہی ہو، یہ ہوگی خلیفہ وقت کی مجلس شوری.یہ بات دماغ سے نکال دیں کہ یہیں مجلس شوری ہو، یہیں فیصلے ہوں اور بات ختم ہو جائے.اس مجلس شوری کی اتھارٹی ہی کوئی نہیں رہی اگر یہ کٹ گئی اللہ کے نظام سے.اللہ کا نظام تو خلافت کے واسطے سے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی تک پہنچاتا ہے.بر اور است نہیں پہنچاتا.اس لئے یہ نظام ہے جو جاری ہونا ہے.اور آج اس کا ہم افتتاح کر رہے ہیں.“ رپورٹ مجلس شوری ناروے ( غیر مطبوعہ ) صفحہ 6) فرمایا: اس کا طریق کا روہی ہو گا جور بوہ میں مرکزی شوریٰ کا ہوتا ہے...آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا مشورہ ہم خلیفہ وقت کو پیش کریں...ان مشوروں میں مقامی مربی یا امیر کو ویٹو کا حق نہیں ہو گا.اس کو یہ حق تو ہے کہ وہ مشورہ دے اس کے خلاف اور کہے کہ میں مجلس شوری کے صدر کی حیثیت سے یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ملکی مفاد کے خلاف یہ بات ہے اسے نہ قبول کیا جائے.لیکن وہ بتائے مجلس شوری کو کہ میں تمہارے خلاف مشورہ دینے لگا ہوں.کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہوگی.کھلم کھلا بتائے کہ میرے نزدیک یہ مصالح ہیں.میں آپ کے دلائل بھی خلیفہ وقت کو پہنچاؤں گا اور اپنے دلائل بھی خلیفہ وقت کو پہنچاؤں گا.اور پھر جو فیصلہ ہوا سب کو قبول ہونا چاہئے.تو اس رنگ میں آئندہ سے ہر ملک میں مجالس شوری کا انعقاد ہوگا.اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس سے ایک مزید برکت ملے گی.“ در پورٹ مجلس شوری ناروے ( غیر مطبوعہ ) صفحہ 7) حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی صدارت میں 8 اگست 1982ء کو جماعت احمد یہ سویڈن کی پہلی مجلس شوری کا انعقاد ہوا.11 اگست 1982ء کو مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن میں جماعت احمدیہ ڈنمارک کی پہلی مجلس شوری منعقد ہوئی.جماعت احمد یہ جرمنی کی پہلی مجلس مشاورت 22 اگست 1982ء کو فرینکفرٹ میں منعقد ہوئی.
10 مغربی جرمنی کی اس پہلی مجلس مشاورت میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: آئندہ سے اس مجلس شوری کی صدارت اگر مرکزی نمائندہ کوئی خاص مقرر نہ ہو تو امیر ملک ہی کیا کرے گا اور اس کی شکل یہ ہوگی کہ مجلس شوری اپنے مسائل پر غور کر کے سالانہ بجٹ پاس کر کے بھجوایا کرے گی اور وہ مشورے خاص جن کا ملک سے تعلق ہے ان کے متعلق سفارشات کرے گی اور ایسی سفارشات بھی کرے گی جو ان کے نزدیک مجلس شوری مرکز یہ میں پیش ہونی چاہئیں.اور جیسا کہ ظاہر ہے نام سے، یہ مشورے ہیں صرف اور اس وقت تک واجب التعمیل نہیں ہوں گے جب تک خلیفہ وقت کی منظوری نہ ہو.“ رپورٹ مجلس شوری جرمنی ( غیر مطبوعہ ) صفحہ 3) 29 اگست 1982ء کو جماعت احمد یہ سوئٹزرلینڈ کی پہلی ملکی مجلس شوری کا انعقاد ہوا.مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے موقع پر مورخہ 11 / اور 12 ستمبر 1982ء کو جماعت احمد یہ سپین کی پہلی مجلس شوری کا انعقاد ہوا.یہ شوری دو دن تک جاری رہی اور اس شوری کی اکثر کارروائی انگریزی زبان میں ہوئی.اس شوری میں دنیا بھر سے مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے لیے تشریف لانے والے وفود بھی شامل ہوئے اس لئے ایک لحاظ سے اس شوری کو عالمی حیثیت بھی حاصل ہو جاتی ہے.دیگر ممالک کی طرح حضور رحمہ اللہ کے قیام کی برکت سے مؤرخہ 4 ستمبر 1982ء کو ہالینڈ میں بھی یہاں کی پہلی ملکی شوری کا انعقاد ہوا.جماعت احمدیہ یو کے کی پہلی باقاعدہ ملکی شوریٰ بھی حضور رحمہ اللہ کے اسی دورہ کے دوران حضور رحمہ اللہ کی زیر صدارت منعقد ہوئی.1983ء میں آسٹریلیا اور فار ایسٹ کے دورہ کے دوران 10 ستمبر 1983ء کو مسجد احمد یہ سنگا پور میں حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے زیر صدارت جماعت احمد یہ سنگا پور کی پہلی مجلس شوری منعقد ہوئی.اس میں انڈونیشیا، ملائشیا اور سبا کے نمائندگان نے بھی شرکت کی.20 ستمبر 1983ء کو حضور رحمہ اللہ کی صدارت میں صودا کے مقام پر جماعت احمد یہ فجی کی مجلس مشاورت کا انعقاد ہوا.جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی پہلی مجلس مشاورت 3 اکتوبر 1983ء کو سڈنی میں حضور رحمہ اللہ کی
11 زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں آسٹریلیا کے علاوہ مرکز سے دو اور انڈونیشیا اور نجی سے ایک ایک نمائندہ اور حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی شامل ہوئے.جماعت احمدیہ سری لنکا کی پہلی مجلس شوری 19 اکتوبر 1983ء کو حضور رحمہ اللہ کے زیر صدارت کولمبو میں منعقد ہوئی جس میں جنوبی ہندوستان سے آئے ہوئے جماعتی نمائندگان نے بھی شرکت کی.الغرض ملکی مجالس شوری کے انعقاد کے جس سلسلہ کا آغاز 1982ء میں ہوا تھا آج خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ نظام خلافت حصہ اسلامیہ احمدیہ کے زیر ہدایت و نگرانی دنیا کے بہت سے ممالک میں مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے اور مزید وسعت پذیر ہے.پہلی مجلس شوری ممالک بیرون پاکستان کا انعقاد حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے کچھ ہی عرصہ کے بعد ارشاد فرمایا تھا کہ آنے والے جلسہ سالانہ کے موقع پر مجلس شوری ممالک بیرون منعقد کی جائے گی.اس سلسلہ میں تمام نیشنل امراء کرام کو نومبر 1982ء میں ضروری ہدایات بھجوائی گئیں اور 30 دسمبر 1982ء کو سرائے فضل عمر ( ربوہ) میں شوری ممالک بیرون حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی زیر صدارت منعقد ہوئی.اس موقع پر حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: یورپ کے سفر میں نہ صرف میں نے بلکہ تمام احباب جماعت نے یہ محسوس کیا کہ مجلس شوری کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے افراد میں غیر معمولی جذبہ خدمت پیدا ہوا.اور بہت سے ایسے اعتراضات جول اعلی کے نتیجہ میں پیدا ہو کر ایمان کو گھن کی طرح ضائع کر رہے تھے وہ از خود رفع ہو گئے.رپورٹ مجلس شوری ممالک بیرون منعقدہ مؤرخہ 30 دسمبر 1982ء ( غیر مطبوعہ) صفحہ 1) فرمایا: "یہ نظام ہے جس کا ساری دنیا سے تعارف ہونا ضروری تھا.ورنہ بہت سے ممالک میں بعض ایسے مسائل پیش آرہے تھے اور بعض جگہ وہ بڑھ رہے تھے.زیادہ سنگین نوعیت اختیار کر رہے تھے.جو نظام شوری اور نظام اسلام کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں اگر اسی طرح بڑھتے رہتے تو بہت خطرناک نتائج پر منتج ہو سکتے تھے.چنانچہ بعض Delegations نے جو یہاں تشریف لائے.انفرادی
12 ملاقات کا ان سے موقع ملا.انہوں نے کہا کہ یہ پہلانمونہ جوشوریٰ کا ہم نے دیکھا ہے اپنے اپنے ملکوں میں، اسی سے ہمیں خدا تعالی کے فضل سے اتنی جلا ملی ہے اور اتنی روشنی عطا ہوئی ہے ذہن کو کہ اب ہم اپنے آپ کو احمدیت کے لئے پہلے سے زیادہ قربانی پر آمادہ پاتے ہیں“.رپورٹ مجلس شوری ممالک بیرون منعقدہ مورخہ 30 دسمبر 1982, ( غیر مطبوعہ ) صفحہ 3) اس مجلس مشاورت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں گھانا اور نائیجیریا کی دوخواتین مکرمہ سعیدہ حسن صاحبہ اور مکرمہ حذیفہ صاحبہ نے بھی اپنی آراء پیش کیں.دور خلافت رابعہ کی پہلی مرکزی مجلس مشاورت حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے دورِ خلافت کی پہلی مرکزی مجلس مشاورت یکم، دو اور تین اپریل 1983 ء کو ربوہ میں منعقد ہوئی.حضور رحمہ اللہ نے اس موقع پر فرمایا: ہماری مجلس شوری ( جو کہ گزشتہ 60 سال سے منعقد ہوتی چلی آرہی ہے ) تمام دنیا کے احمدی مسائل کو مد نظر رکھ کر سچا غور کرتی ہے.یہ الگ بات ہے کہ اب ایک مجلس شوریٰ اس غرض سے الگ بھی قائم کی گئی ہے کہ وہ خصوصی مسائل جو بیرون پاکستان کی احمد یہ جماعتوں کے ہیں اور جن کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے اس پر غور و فکر کریں اور مشورے دیں...اس مجلس شوری نے اس (یعنی جماعت کی مرکزی مجلس مشاورت) کی سارے عالم کی مجلس شوری ہونے کی حیثیت کو ڈور نہیں کیا.اسے ہٹایا نہیں ہے.“ دور خلافت رابعہ کی اس پہلی مرکزی مجلس مشاورت کی ایک تاریخی اہمیت یہ تھی کہ حضور رحمہ اللہ کی ہدایت پر اس مجلس مشاورت میں پہلی مرتبہ خواتین کی نمائندگان نے خود اپنی آراء کا اظہار کیا.اس سے پہلے یہ طریق تھا کہ خواتین کی نمائندگان اپنی آراء لکھ کر بھجوا دیتی تھیں اور مردوں میں سے ایک مقرر کردہ نمائندہ اُن آراء کو پڑھ کر سنا دیتا تھا.ی مسئلہ کہ خواتین کی مجلس شوری میں نمائندگی ہو کہ نہ ہوسب سے پہلے 1929ء کی مجلس مشاورت کہ میں پیش ہوا تھا.حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے تاریخی حوالہ سے اس مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر
13 تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1929ء کی مجلس شوری میں لجنہ اماء اللہ کی نمائندگان کو دعوت دی کہ وہ بولنا چاہیں تو بولیں.چنانچہ پہلی تاریخی عورت جس نے اس مجلس شوریٰ میں حصہ لیا وہ استانی میمونہ تھیں جو لجنہ اماء اللہ کی بڑی ہی سرگرم رکن تھیں.تاریخ احمدیت میں یہ وہ پہلی شوری تھی جس میں عورت نے براہ راست خطاب کیا.دوسری وہ مجلس شوری تھی جو بیرونی ممالک کے نمائندگان پر مشتمل تھی اور جلسہ سالانہ کے موقع پر 30 دسمبر 1982ء کو ربوہ میں منعقد ہوئی جس میں بعض نمائندہ خواتین نے براہ راست اپنا مافی الضمیر پیش کیا تھا.حضور نے فرمایا کہ یہ ( یعنی موجودہ شوری ) تاریخ احمدیت میں تیسری مجلس شوریٰ ہے اور آئندہ سے انشاء اللہ تعالی اسی طریق کو جاری رکھا جائے گا.حضور نے مزید فرمایا کہ: اصل بات یہی ہے کہ خلیفہ وقت پابند ہے کہ وہ مشورہ لے اور حسب حالات جیسا کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے محاکمہ فرمایا تھا خلاصہ کلام یہی بنتا ہے کہ یہ عقلی مسئلہ ہے.حالات کے مطابق عورت کا مشورہ نئی نئی شکلیں اختیار کرتا چلا جائے گا.صرف ایک پہلو یہ باقی رہ جاتا ہے کہ...اس کو نمائندگی کس طریق پر دی جائے.عورت سے مشورہ لینے کے لئے مجلس شوری میں کیا طریق اختیار کیا جائے.میرے نزدیک اس کے لئے کسی تعداد کی تعیین کی ضرورت نہیں بلکہ خلیفہ وقت حسب حالات جتنی مستورات کو جس شکل میں نمائندہ کے طور پر بلانا چاہے وہ بلاتا رہے گا اور اس کے لئے کسی قاعدہ کی ضرورت نہیں.“ چنانچہ اس کے بعد جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت میں یہ طریقہ کار رائج ہو گیا کہ خواتین اپنی رائے خود پیش کرتی ہیں اور اس طرز پر سب سے پہلے جس خاتون نے اپنی رائے پیش کی وہ حضرت مصلح موعود کی حرم حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صد لجنہ اماءاللہ مرکز تھیں اور آپ کے بعد حضرت خلیفتہ انتج الثالث کی حرم حضرت سیدہ آپاطاہرہ صدیقہ صاحبہ صدرالجنہ اماء الدر بہو نے اپنی رائے پیش کی.الله بو برطانیہ میں جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی صدارت میں بعض سالوں میں انٹرنیشنل مجلس شوری کا انعقاد بھی ہوتا رہا.
نوٹ 14 شوریٰ کی عظمت و اہمیت ، مشاورت کے مختلف طریقوں، اسلامی نظام شوری کے دنیا کے مختلف نظاموں سے امتیازات، جماعت احمدیہ میں قائم با قاعدہ مشاورتی نظام، اس کے قواعد وضوابط اور آداب د روایات وغیرہ جاننے کے لئے کتاب جماعت احمدیہ کا مشاورتی نظام کا مطالعہ فرمائیں جس میں قرآن مجید، احادیث نبویہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کے ارشادات کے حوالہ سے بہت مفید معلومات جمع کر دی گئی ہیں.
15 احمدیوں پر ہونے والے مظالم (2003, 1982) ایک جائزہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.قدیم سے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے کہ وہ ورطہ عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں.لیکن غرق کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ تا ان موتیوں کے وارث ہوں جو دریائے وحدت کے نیچے ہیں.اور وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں.لیکن اس لئے نہیں کہ جلائے جائیں بلکہ اس لئے کہ تا خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں.اور ان سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور لعنت کی جاتی ہے.اور وہ ہر طرح سے ستائے جاتے اور دکھ دیئے جاتے اور طرح طرح کی بولیاں ان کی نسبت بولی جاتی ہیں.اور باطنیاں بڑھ جاتی ہیں.یہاں تک کہ بہتوں کے خیال و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ بچے ہیں بلکہ جو شخص ان کو دکھ دیتا اور لعنتیں بھیجتا ہے وہ اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ بہت ہی ثواب کا کام کر رہا ہے.پس ایک مدت تک ایسا ہی ہوتا رہتا ہے.اور اگر اس برگزیدہ پر بشریت کے تقاضا سے کچھ قبض طاری ہو تو خدا تعالی اس کو ان الفاظ سے تسلی دیتا ہے کہ صبر کر جیسا کہ پہلوں نے صبر کیا اور فرماتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں ، سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.پس وہ صبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ امر معذر اپنے بات مقررہ تک پہنچ جاتا ہے.تب غیرت الہی اس غریب کے لئے جوش مارتی ہے اور ایک ہی تجنی میں اعداء کو پاش پاش کر دیتی ہے.سوال نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور اخیر میں اس کی نوبت آتی ہے.اسی طرح خداوند کریم نے بارہا مجھے سمجھایا کہ ہنسی ہو گی اور ٹھٹھا ہو گا اور لعنتیں کریں گے اور بہت ستائیں گے لیکن آخر
16 نصرت الہی تیرے شامل ہوگی اور خدا دشمنوں کو مغلوب اور شرمندہ کرے گا.“ (انوار الاسلام روحانی خزائن جلد نمبر 8 صفحہ 5453) جماعت احمدیہ کے آغاز سے لے کر آج تک مخالفین احمدیت کی طرف سے تمسخر اور استہزاء ، کذب و افتراء اور ظلم و ستم کی ساری تاریخ حضور علیہ السلام کے مذکورہ بالا ارشاد کی حقانیت پر گواہ ہے.جماعت کی مخالفت کی جو لہریں اٹھتی رہیں کبھی کبھی ان میں غیر معمولی شدت پیدا ہو جاتی رہی ہے.اور انفرادی یا مقامی طور پر ہی نہیں بلکہ مخالفین کی اجتماعی اور منظم سازشوں کے نتیجہ میں ظلم و ستم کی کارروائیاں بہت بڑھ جاتی رہیں اور بعض اوقات جب حکومت اور اس کی انتظامیہ بھی اس سازش کا حصہ بنی اور مختلف قوانین کا سہارا لے کر اپنے خیال میں اسے نابود کرنے کے منصوبے بنائے تو اس خدائے بزرگ و برتر نے جو صبر کرنے والوں اور تقویٰ اور راستی سے کام لینے والوں کو کبھی مخذول اور بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا، اپنی قدرت کے زبر دست نشانوں سے ان کی مدد فرمائی اور انجام کار انہیں فتح اور کامیابی سے نوازا اور ان کے دشمنوں کو مغلوب، رُسوا اور شرمندہ کیا.خلافت رابعہ کے آغاز سے ہی مخالفین احمدیت کی طرف سے جماعت کے خلاف خصوصیت سے پاکستان میں منظم سازشوں اور شرارتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے بعض رؤیا کی بنا پر اور خداداد فراست اور بعض اطلاعات و شواہد کی بنا پر اس بارہ میں افراد جماعت کو قرآن مجید اور تاریخ انبیاء کی روشنی میں ہر قسم کے حالات کا صبر اور دعاؤں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنا شروع کر دیا تھا.وقت کے ساتھ ساتھ شر پسند ملاؤں اور پاکستان کی حکومت کی ملی بھگت اور ان کی فتنہ انگیزیاں نمایاں اور بھیانک ہو کر ظاہر ہوتی رہیں.1983ء میں اُس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اسلم قریشی نامی ایک شخص کی (مرحومہ) گمشدگی کو بنیاد بنا کر پاکستان بھر میں احمدیت کی مخالفت کی ایک نئی تحریک کی بنیاد رکھی.اور اس تحریک کو حکومتی سرپرستی میں آگے بڑھایا.اور احمدیوں کو جنہیں 1974ء میں آئینی اور قانونی اغراض کے لیے غیر مسلم قرار دیا جا چکا تھا اب اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور اسلامی شعائر ، اسلامی اصطلاحات وغیرہ کے استعمال سے روکنے کے لیے قانون سازی کرنے، انہیں کلیدی سرکاری عہدوں
17 سے ہٹانے اور اسلم قریشی نامی ایک نام نہاد مولوی کے مبینہ اغوا اور قتل کے الزام کے سلسلہ میں حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ کو شامل تفتیش کرنے کے علی الاعلان مطالبات کیے گئے.(اسلم قریشی کے مبینہ طور پر اغواء کے مفتر یانہ الزام کی حقیقت سے متعلق مختصر ذ کر اسی کتاب میں آگے آئے گا.) اس ضمن میں پاکستان کے بڑے بڑے شہروں مثلاً کراچی، لاہور،سیالکوٹ ،راولپنڈی نیز چنیوٹ وغیرہ میں تقسیم نبوت کانفرنسز کا انعقاد کیا گیا اور ان مطالبات کو دہرایا گیا.واضح طور پر حکومت کی پشت پناہی میں مخالفت کی ایک لہر چلائی گئی، احمدیوں کی دکانیں جلائی گئیں، مساجد کے تقدس کو پامال کر کے انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا گیا ، شہادتیں ہوئیں، لٹریچر ضبط کیا گیا.مولویوں کی سازشوں کو بھانپتے ہوئے جماعت احمدیہ نے اپنے پر لگائے جانے والے الزامات و اعتراضات کا شافی جواب دیتے ہوئے ایک پمفلٹ اک حرف ناصحانہ شائع کروایا جسے اپریل 1984ء کے پہلے عشرہ میں احمدی احباب کے ذریعے ملک بھر میں تقسیم کروایا گیا.پمفلٹ میں مذکور حقائق سے لا جواب ہو کر رد عمل میں معاندین احمدیت کی طرف سے اخباری بیانات دیے گئے، اسے خلاف آئین قرار دیا گیا اور اس کی تقسیم پر تشویش کا اظہار کیا گیا یہاں تک کہ حکومتی سطح پر DC جھنگ کے حکم کے ماتحت اسے ضبط کر لیا گیا، اس کی تشہیر کی ممانعت کر دی گئی اور اس کو تقسیم کرنے والے احباب کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی.متعد واحمد یوں کو اس جرم میں قید و بند کی صعوبتیں دی گئیں اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا مگر کسی ایک مخالف نے بھی اک حرف ناصحانہ میں بیان کئے گئے امور کا جواب دینے کی کوشش نہ کی.صدارتی آرڈیننس 20 اپریل 84ء میں بلکہ اس سے پہلے ہی مختلف ذرائع سے یہ بات ظاہر ہو چکی تھی کہ حکومت احمدیوں کے متعلق ایک آرڈیننس جاری کرنے والی ہے جس سے جماعت کے لئے بہت سی مشکلات کھڑی ہونے والی ہیں.چنانچہ پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے مورخہ 26 اپریل 1984 ء کو صدارتی آرڈیننس نمبر 20 ( آرڈیننس XX) کا اجراء اور نفاذ کیا.اس کا اعلان رات ور بجے کی خبروں میں کیا گیا.اس آرڈینینس کے مندرجات پہلے سے معلوم اطلاعات سے بہت حد تک
18 مطابقت رکھتے تھے.اس آرڈیننس کے مطابق: نمبر 1.احمدی الفاظ سے چاہیے وہ قول ہو یا تحریر یا کوئی دوسری علامت ہو الف.حضرت محمد میم کے خلفاء اور صحابہ کے علاوہ کسی اور شخص کو امیر المومنین خلیفۃ المومنین خلیفہ المسلمین صحابی رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے نہیں پکار سکتے یا ان کی طرف ان القابات کو منسوب نہیں کر سکتے ؟ ب حضرت محمد علیم کی ازواج مطہرات کے علاوہ کسی اور فرد کو 6- ام المومنين کے لفظ سے نہیں پکار سکتے یا ان کی طرف اس لقب کو منسوب نہیں کر سکتے ؟ ج حضرت محمد کے اہل بیت کے علاوہ کسی اور فرد کو.اہل بیت کے لفظ سے نہیں پکار سکتے یا ان کی طرف اس لقب کو منسوب نہیں کر سکتے ؟ و.اپنی عبادتگاہ کو مسجد کا نام نہیں دے سکتے ، اسے اس لفظ سے نہیں پکا سکتے یا اس کی طرف اسے منسوب نہیں کر سکتے ؟ نمبر 2.احمدی اپنے مذہب کی عبادت ( نماز ) کی طرف پکارے جانے کو اذان کے لفظ سے نہیں پکار سکتے ، اذان نہیں دے سکتے جیسا کہ مسلمانوں کا طرز عمل ہے.
19 دفعہ نمبر ج / 298- احمدی بلا واسطه یا بالواسطه.اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتے ،.اپنے عقیدے کو اسلام نہیں کہہ سکتے،.اپنے عقیدہ کا پر چار و تبلیغ نہیں کرسکتے، دوسروں کو اپنے عقیدہ میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دے سکتے ایسے الفاظ سے جو چاہے قولی صورت میں ہوں یا تحریری صورت میں، یا کسی بھی ظاہری صورت میں ، یا کسی بھی ایسی صورت میں جن سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں.مندرجہ بالا تمام شقوں میں سے کسی کی بھی خلاف ورزی کی صورت میں تین سال تک قید اور غیر معین، غیر محدود جرمانہ کی سزادی جاسکتی ہے.اس کے ساتھ ساتھ.ویسٹ پاکستان پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈینس XXX مجربہ 1963ء کے سیکشن 24 میں زیر (jj) دفعہ 298 ب، اور دفعہ 298 ج میں مذکور امور سے متعلقہ مواد شائع کرنے پر تین سال تک قید اور غیر معین جرمانہ کی سزا کا اضافہ کر دیا گیا.(www.thepersecution.org) حضرت خلیفہ امسح الرابع نے اسلام کے نام پر اس نہایت بہیمانہ بھیا نک اور تاریک آرڈینٹس کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ: اس آرڈنینس کے ذریعے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کو، جماعت کو، نہ صرف یہ کہ لاؤڈ سپیکر پر خطابات سے محروم کیا گیا بلکہ ایسے اقدامات کئے گئے ہیں جن کے نتیجہ میں جماعت پاکستان خلیفہ وقت کے وہاں رہتے ہوئے بھی اس کے خطابات سے محروم رہ جائے...ہر وقت یہ خطرہ تھا کہ اس خطاب کے نتیجے میں کسی وقت مجھے گورنمنٹ ہاتھ ڈال سکتی ہے کیونکہ ہاتھ ڈالنے کے لئے کوئی انہوں نے Limitation اپنے لئے چھوڑی ہی نہیں باقی.ایسا قانون ہے جس
20 کے نتیجہ میں ہر پولیس افسر جس کو چاہے، جس وقت چاہے، احمدی کو پکڑلے اور تین سال کے لئے اس کے خلاف مقدمہ دائر کر دے.کسی شریف انسان کی حفاظت کا کوئی امکان بھی باقی نہیں رہا وہاں...وہاں جو فیصلہ کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان میں کسی احمدی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ زبان سے یا ایسے ذریعہ سے جس میں زبان یا تحریر نہ بھی استعمال ہو لیکن اس کی bearing، اس کا چال چلن اس کو مسلمان ظاہر کرتا ہو؟ اگر وہ ایسا کرے گا تو تین سال کے لئے پاکستان کے قانون کے مطابق جیل میں بھجوانے کے لائق ہوگا.اور صحابہ کرام حضرت مسیح موعود کے متعلق وہ کوئی دعائیہ کلمات ایسے استعمال نہیں کر سکتا جو قرآن نے سکھاتے ہیں اور کوئی قرآنی اصطلاح استعمال نہیں کر سکتا باوجود یہ ایمان رکھنے کے کہ قرآن میرے لئے واجب التعمیل ہے اور اس کا حکم میرے لئے ماننا ضروری ہے.اذان نہیں دے سکتا.اور حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قانون اس لئے بنایا جا رہا ہے تا کہ قادیانیوں کو اسلام دشمن سرگرمیوں سے روکا جائے.اور اسلام دشمن سرگرمیوں کی تعریف یہ ہے کہ اذان نہیں دیں گے.وہ اسلامی اصطلاحیں استعمال نہیں کریں گے.عبادت گاہوں کو مسجد نہیں کہیں گے.یہ اسلام دشمن سرگرمیاں ہیں ؟“ (ماخوذ از خطاب فرموده 30 اپریل 1984ء بمقام لندن ) اس ظالمانہ آرڈینس کے تحت پاکستان میں احمدیوں کی روزمرہ کی زندگی کو قانون کی نظر میں ایک جرم بنا دیا گیا.امر واقعہ یہ ہے کہ اس نہایت ظالمانہ آرڈینینس نے صرف پاکستان کے احمدیوں کی روزمرہ کی زندگی کو ہی جرم نہیں بنایا اور انہیں کو شدید قلبی و ذہنی اور روحانی اذیت میں مبتلا نہیں کیا بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے احمدیوں کو بھی شدید اذیت میں ڈال دیا.کیونکہ جماعت احمد یہ عالمگیر خلافت کے ذریعہ سلک وحدت میں پروئی ہوئی ایک جماعت ہے اور ایک امام کے تابع ایک وجود کی حیثیت رکھتی ہے.پاکستان کے احمدیوں کو پہنچنے والی ہر تکلیف، ہر دکھ ، ہر اسیری، ہر شہادت دنیا بھر کے احمدیوں کے دلوں پر چر کے لگانے والی تھی اور وہ اپنی آزادی کو جرم سمجھنے لگے تھے اور تڑپتے تھے کہ کاش اپنے ان بھائیوں کی جگہ وہ یہ قربانیاں پیش کر رہے ہوتے.وہ اپنے بھائیوں کے دکھ درد سے الگ زندگی بسر نہیں کر سکتے تھے.اس پہلو سے اس ظالمانہ آرڈینینس کا دائرہ اثر صرف پاکستان ہی
21 نہیں بلکہ ساری دنیا کے احمدیوں پر پھیلا ہوا تھا.یہ وہ آرڈینس ہے جس کے ذریعہ پاکستان کے احمدیوں کو مذہبی آزادی اور آزادی ضمیر اور تمام بنیادی انسانی حقوق سے گویا کلی محروم کر دیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ عجیب واقعہ ہوا ہے جو دنیا کی تاریخ کے لحاظ سے پہلا ہے.یہ سیاسی Issue کے نام پر سیاسی حکومت کی طرف سے ایک فیصلہ ہوا ہے اس لئے یہ پہلا ہے.مذہب میں پہلا نہیں ہے.آج تک سیاسی حکومتوں کی طرف سے کبھی یہ واقعہ نہیں ہوا تھا کہ ٹارچر اور ظلم کے ذریعہ کسی کو جھوٹ بولنے پر مجبور کرے.ٹارچر اور ظلم سچ نکلوانے کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے.یہ الگ بات ہے بیچ نکلتا تھا تو ان کو مانتے تھے یا نہیں مانتے تھے.یہ بالکل الگ بات ہے.بعض دفعہ پھر بھی نہیں مانتے تھے لیکن مقاصد ہمیشہ ٹارچر کے دنیاوی حکومتوں کی طرف سے جنگوں میں بھی اور ویسے بھی یہ رہے ہیں کہ ظلم کر کے ، ستا کر بیچ نکلوایا جائے گا.اور یہ پہلا تاریخی واقعہ ہے کہ ایک سیاسی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ظلم کر کے جھوٹ نکلوایا جائے.جب تک وہ جھوٹ نہ بولے اس وقت تک ظلم کرتے چلے جاؤ اور سچ نہیں بولنے دینا." (ماخوذ از خطاب فرمودہ 30 مرا پریل 1984 ء بر تمام اندان ) خلافت اور نظام جماعت کے خلاف ایک عالمی سازش یہ آرڈینس جماعت کے خلاف اور نظام خلافت کے خلاف ایک نہایت ہی بھیانک سازش اور خطرناک اقدام تھا.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے 28 / دسمبر 1984ء کو بمقام پیرس ( فرانس) خطبہ جمعہ میں فرمایا: جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے یہ کوئی تنہا ایک ملک میں ہونے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی سازش کے نتیجہ میں ہورہا ہے.اس عالمی سازش میں دنیا کی بڑی طاقتیں بھی ملوث ہیں اور اسلامی ممالک میں سے بعض ملک بھی ملوث ہیں اس لئے ان واقعات کی جڑیں بہت گہری اور بہت دور تک جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی.ہم اگر یہ کہیں کہ فلاں بھی اس میں ذمہ دار ہے اور فلاں بھی اس میں ذمہ دار ہے تو دنیا والے تو کہیں گے تم اسی طرح
22 باتیں کرتے ہو جس طرح لوگوں کو عادت ہے ہر بات کو کسی بڑی طاقت کے سر پر تھوپ دینا، ہر بات کو اس سے پہلے کی گئی کسی سازش کا نتیجہ قرار دے دینا، یہ ساری باتیں دنیا میں ہوتی رہتی ہیں اور کوئی بھی ہمارے کہنے پر اس کو تسلیم نہیں کر سکتا.لیکن فی الحقیقت ایسا ہی ہے اور بڑی گہری نظر سے اور بڑی وسیع نظر سے میں نے جو حالات کا مطالعہ کیا ہے تو مجھے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے ایک بہت بڑی سازش ہے جو دراصل عالم اسلام کے خلاف ہے اور عالم اسلام ہی کو اس سازش کا آلہ کار بنایا جارہا ہے اور جن کو آلہ کار بنایا جارہا ہے ان کو علم بھی نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، کیوں کر رہے ہیں؟ کن مقاصد کے لئے ، کن اسلام کے دشمنوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے کر رہے ہیں؟ اس لئے کوئی آپ کی بات یا میری بات کو تسلیم نہیں کرے گا لیکن اللہ کی نظر تو حقائق کے پاتال تک ہوتی ہے، اللہ تعالی سے تو کوئی چیز مخفی نہیں ہے اس لئے جب وہ سزا کا فیصلہ کرتا ہے تو سب مجرموں کو پکڑتا ہے....یہ حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کی حفاظت خدا تعالی فرمائے گا اس میں کوئی بھی شک نہیں.لیکن جماعت احمد یہ بہر حال ایک تکلیف کے دور میں سے پھر بھی گزرے گی.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہر فرد جماعت خواہ وہ معصوم بھی ہو اس کی ضمانت بھی نہیں دی جاسکتی اور اس میں بھی ذرا شک نہیں کہ دنیا میں سب آدمی خطا کار نہیں ہوتے....جماعت احمدیہ کے لئے جو خطرات ہیں یہ تو ہمیں خواہ کتنے سنگین دکھائی دیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ہر خطرہ کے بعد جماعت احمدیہ کے اوپر اللہ تعالی کی بے شمار رحمتوں اور برکتوں کی بارشیں نازل ہوئی ہیں.کوئی بھی ایسا وقت نہیں آیا جماعت پر جسے ہم کڑا وقت کہہ سکتے ہیں جس کے بعد اللہ تعالٰی نے بے انتہا فضل نہ فرماتے ہوں.تو ہمارا تو ایک ضامن موجود ہے.ہمارا تو ایک مقتدر موجود ہے جس کے ہاتھ میں ہمارا ہاتھ ہے وہ کبھی ہمیں ضائع نہیں ہونے دے گا.اس کامل یقین کے ساتھ ہم ہمیشہ زندہ رہے ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے لیکن وہ بد نصیب جو اس مقتدر سے غافل ہیں جو اس کی تقدیر کے خلاف ترکیبیں سوچ رہے ہیں.وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں بر خلاف شہریار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 132)
23 اللہ تعالی کے ارادوں کے خلاف، اس کی تقدیر سے کھرانے والی تدبیریں سوچ رہے ہیں ان کا تو کوئی ضامن، کوئی محافظ نہیں.کوئی ولی نہیں ہے ان کا...تو قوم کے لئے بھی دعا کریں اور ان مسلمان ممالک کے لئے بھی دعا کریں جو بد قسمتی سے لاعلمی میں آلہ کار بنے ہوئے ہیں بعض دشمنان اسلام طاقتوں کا.اور پھر گل عالم کے لئے بھی دعا کریں کیونکہ یہ جو حالات ہیں جب یہ زیادہ آگے بڑھیں گے تو ہمارا ایک خدا ہے جو غیرت رکھنے والا خدا ہے جو بعض اوقات جب حد سے زیادہ اس کے پیاروں کو ستایا جائے تو بڑے جلال کے ساتھ دنیا پر ظاہر ہوا کرتا ہے اور جہاں تک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں گستاخی کا تعلق ہے یہ ملک یعنی پاکستان تو حد سے بڑھ چکا ہے.یعنی کبھی دنیا میں کسی نے کوئی حکومت ایسی نہیں دیکھی ہوگی جس کے سربراہ پخش کلامی کو اپنے لئے عزت افزائی کا موجب سمجھیں، تکذیب کو اپنے لئے ایک عظمت کا نشان بنا لیں اور بڑے فخر کے ساتھ افترا پردازی کریں، جھوٹ بولیں، جھوٹ کو شائع کریں اور پھر خدا کے پاک بندوں پر گند اچھالیں اور پھر قوم سے داد لینے کی خواہش کریں.ایسے واقعات تو کبھی دنیا میں کسی حکومت کی طرف سے رونما نہیں ہوئے ہوں گے سوائے قدیم زمانوں کے فرعون جن کے قصے ہم سنا کرتے تھے لیکن سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس جدید زمانے میں یہ واقعات ہو سکتے ہیں.جو سازش ہے احمدیت کے خلاف وہ بہت گہری ہے اور ابھی کلیے پوری کھل کر آپ کے سامنے بھی نہیں آئی.جو واقعات آپ کے سامنے آچکے ہیں ان کی بھی گنہ کو آپ میں سے بہت سے نہیں پہنچ سکتے.ان کو معلوم نہیں ہو سکتا دیکھنے والوں کو کہ آخر یہ کون سی منزل ہے جس کی طرف یہ واقعات ایک جلوس کی شکل میں روانہ ہور ہے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ احمدیت کی جڑوں پر حملہ کیا گیا ہے اس مرتبہ اور احمدیت کے استیصال کی ایک نہایت ہی خوفناک سازش ہے اور صرف ایک ملک میں نہیں تمام عالم میں اس سازش کے کچھ آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں اور ان کی کڑیاں مل رہی ہیں.مثلا انڈونیشیا میں بھی اسی نہج پر کام شروع ہو گیا ہے جس طرح آج سے دس سال پہلے پاکستان میں اس کی بنیاد رکھی گئی تھی.ملائشیا میں بھی انہی بنیادوں پر کام شروع ہو چکا ہے جماعت احمدیہ کے خلاف.اسی طرح افریقن ممالک کو بھی رشوتیں دی جارہی ہیں اور روپے
24 کا لالچ دے کر ان کو اکسایا جا رہا ہے کہ جماعت کے خلاف اقدامات کریں اور ان ممالک کے ذمہ دار افسران چونکہ نسبتاً بہت زیادہ شریف النفس ہیں وہ سر دست تو اس دباؤ کا مقابلہ کر رہے ہیں بلکہ خود جماعت کو مطلع کر رہے ہیں کہ ہم سے یہ مطالبات ہورہے ہیں.اور یہ صرف جماعت احمدیہ کے خلاف سازش نہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک سازش ہے عالم اسلام کے خلاف جس کا مقصد یہ ہے کہ ملا کی حکومت تمام مسلمان ممالک پر قائم کر دی جائے اور مثلا چونکہ زمانہ کے حالات سے بے خبر اور جاہل ہوتا ہے، اسے پتہ ہی نہیں کہ کسی قوم کے مفادات کا تقاضا کیا ہے، اس کو تو صرف اپنے ذاتی مقاصد سے غرض ہے اور نہ قرآن کا علم ، نہ دین کا علم اور نہ دنیا کا علم اس لئے اگر ایک جاہل قوم کو مذہب کے نام پر کسی ملک پر مسلط کر دیا جائے تو پھر وہ آقا جو ان لوگوں کو مسلط کرتے ہیں وہ بے دھڑک جو چاہیں ان سے کام لیتے ہیں.چنانچہ عجیب بات ہے کہ ہر جگہ جہاں بھی مذہبی جنونی حکومت قائم کی گئی ہے خواہ وہ اشترا کی ملکوں کی طرف سے قائم کی گئی ہو خواہ وہ مغربی ملکوں کی طرف سے قائم کی گئی ہو ایک ہی دین کے نام پر بالکل برعکس سمت میں وہ حکومتیں حرکت کر رہی ہیں.یعنی ایسی اسلامی حکومتیں آپ کو ملیں گی جو اسلام کے نام پر اشتراکیت کے حق میں کام کر رہی ہیں اور ایسی اسلامی حکومتیں بھی آپ کو ملیں گی جو اسلام کے نام پر اشتراکیت کے خلاف اور آمریت یا مغربی جمہوریت کے حق میں کام کر رہی ہیں یا Capitalism کے حق میں کام کر رہی ہیں.ایک ہی مذہب ہے، ایک ہی کتاب ہے، ایک ہی نبی ہے لیکن بالکل برعکس نتیجے کالے جارہے ہیں.وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اوپر لایا گیا ہے خاص مقاصد کی خاطر لایا گیا ہے.اسلام کا نام محض بدنام کرنے کے لئے استعمال ہو رہا ہے.مقصد یہ ہے Intolerant Regimes قائم کی جائیں.ایسی حکومتیں قائم کی جائیں جن کے اندر نہ عقل ہو ، نہ اہم ہو.صرف ایک بات پائی جائے، ایک خوبی ان میں موجود ہو کہ وہ ڈنڈے کے زور سے اپنی بات منوانا جانتی ہوں اور عقل کو کلیہ چھٹی دے کر اس بات سے بے نیاز ہو کر کہ دنیا ہمارے متعلق کیا کہتی ہے، کیا سوچتی ہے، جو بات ان کو سمجھائی جائے وہ اس کو کر گزرنے کے لئے آمادہ ہوں.ایسی Regimes ، ایسی طاقتیں جب بھی دنیا میں آتی ہیں تو تباہی مچادیا کرتی ہیں.چنانچہ اسلام کے ساتھ اس وقت یہ ہورہا ہے.جہاں مشرقی
25 طاقتوں کا زور چل رہا ہے وہ اپنی مرضی کی حکومتیں مذہب اسلام کے نام پر قائم کئے ہوئے ہیں.جہاں مغربی طاقتوں کا زور چل رہا ہے وہ اپنی پسند کی حکومتیں قائم کر رہے ہیں اور دونوں کی اس معاملہ میں ایک دوسرے سے سبقت کی دوڑ ہورہی ہے.چنانچہ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے یا مشرق وسطی میں جو کچھ ہو رہا ہے یا مشرق وسطی کی جن طاقتوں کو ان اغراض کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے یہ ساری باتیں عالمی سیاست کا اور مشرق اور مغرب کی جنگ کا ایک طبعی نتیجہ ہیں اور یہ ساری کڑیاں ان کے ساتھ جا کر ملتی ہیں.بہر حال اس وقت جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے یہ ابھی پوری طرح آپ کے سامنے کھل کر نہیں آیا، میں مختصراً آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ سوائے اس کے کہ اللہ کی تقدیر کسی ایسے وقت میں آکر ان کی اس تدبیر کو کاٹ دے اور خدا کی پکڑ کا وقت ان کی سکیموں کے مکمل ہونے کے وقت سے پہلے آجائے ان کے ارادے ایسے ہیں کہ ان کو سوچ کر بھی ایک انسان جس کا کوئی دنیا میں سہارا نہ ہو اس کی ساری زندگی بے قرار ہو سکتی ہے.اس کے تصور سے بھی انسان کا وجود لرزنے لگتا ہے.لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ نہ مجھ پر یہ اثر ہے نہ آپ پر یہ اثر ہوگا کیونکہ میں بھی جانتا ہوں کہ ہمارا خدا موجود ہے جو ہمارے ساتھ رہا ہے ہمیشہ اور ہمارے ساتھ ہمیشہ رہے گا اور آپ بھی یہ جانتے ہیں.اس لئے جب میں آپ سے یہ بات کرتا ہوں تو ڈرانے کی خاطر نہیں کرتا ، صرف بتانے کے لئے کہ آنکھیں کھول کر وقت گزاریں کہ کیا ارادے ہیں جن کی طرف یہ ملک حرکت کر رہا ہے جن کو رفتہ رفتہ کھول رہا ہے.اس دور میں یعنی 1984ء کی جو شرارت ہے اس میں ایک مکمل سکیم کے تابع پاکستان میں جماعت احمدیہ کے مرکز کو ملیا میٹ کرنے کا ارادہ تھا اور جماعت احمدیہ کی ہر اس انسٹیٹیوشن، ہر اس تنظیم پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ تھا جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے.چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے ایسے قانون بنائے جن کے نتیجہ میں خلیفہ وقت پاکستان میں رہتے ہوئے خلافت کا کوئی بھی فریضہ سرانجام نہیں دے سکتا.ایک احمدی جود یہات میں زندگی بسر کر رہا ہے یا شہروں میں بھی غیر معروف زندگی بسر کر رہا ہے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہے بھی ، اسلام کی تبلیغ بھی کرے جیسا کہ کرتا ہے تو نہ حکومت کو اس کی کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے، نہ وہ حکومت کی نظر میں آتا ہے
26 اور اگر کبھی آبھی جائے تو اس کے پکڑے جانے سے فرق کوئی نہیں پڑتا.اس کی تو اپنی خواہش پوری ہو جاتی ہے کہ میں پکڑا جاؤں اور خدا کی خاطر میں بھی کوئی تکلیف اٹھاؤں.لیکن ایک خلیفہ وقت اگر پاکستان میں السلام علیکم بھی کہے تو حکومت کے پاس یہ ذریعہ موجود ہے اور وہ قانون موجود ہے جس کو بروئے کار لا کر وہ اسے پکڑ کر تین سال کے لئے جماعت سے الگ کر سکتے ہیں اور یہی نیت تھی اور ابھی بھی ہے کہ جہاں تک جماعت کے بڑے آدمی یعنی جو دنیا کی نظر میں بڑے کہلاتے ہیں لیکن مراد یہ ہے کہ جماعت کے ایسے لوگ ایسے ذمہ دار افسران جو کسی نہ کسی لحاظ سے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، ارادے یہ ہیں کہ ان کے اوپر کسی طرح ہاتھ ڈالا جا سکے اور اس کا آغاز انہوں نے خلافت سے کیا.چنانچہ میرے آنے سے دو تین دن پہلے کے اندر جو واقعات ہوئے ہیں ان کا اس وقت تو ہمیں پورا علم نہیں تھا کیونکہ خدا کی تقدیر نے خاص رنگ میں میرے باہر بھجوانے کا انتظام - فرمایا.اس کی تفاصیل کچھ میں نے بیان کی تھیں، کچھ آئندہ کسی وقت بیان کروں گا.لیکن میں جس بات کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خلافت کے قلع قمع کی ایک نہایت بھیانک سازش تھی جس کی پہلی کڑی یہ سوچی گئی تھی کہ خلیفہ وقت کو اگر وہ کسی طرح بھی مسلمان ظاہر کرے اپنے آپ کو تو فوری طور پر قید کر کے تین سال کے لئے جماعت سے الگ کر دیا جائے اور ہمارے آنے کے بعد جو اطلاعیں ملیں ان سے معلوم ہوا کہ یہ آرڈرز جا چکے تھے بلکہ بعض حکومت کے افسران نے جو بڑے ذمہ دار اور اوپر کے افسران ہیں انہوں نے بعض احمدیوں کو بتایا کہ حیرت کی بات ہے تم لوگ کس طرح اتنی جلدی حرکت میں آگئے اور تمہیں کیسے پتہ چلا کہ کیا ہونے والا ہے.کیونکہ آرڈرز یہ تھے کہ اگر یہ خطبہ دے جو آرڈیننس کے دوسرے دن آرہا تھا تو خطبہ چونکہ ایک اسلامی کام ہے اور صرف اسی بہانے پر اس کو پکڑا جا سکتا ہے کہ تم مسلمان بنے ہو خطبہ دے کر، تشہد پڑھا ہے اس کے نتیجہ میں پکڑا جا سکتا ہے تو اگر خطبہ دے تو تب پکڑو اور اگر خطبہ نہ دے تو پھر کوئی بہانہ تلاش کرو اور ایک بھی مسجد میں ربوہ کے اگر اذان ہو جائے یا کوئی اور بہانہ بل جائے تو تب بھی اس کو پکڑ لو اور آخری آرڈر یہ تھا کہ اگر کوئی بہانہ نہ بھی ملے تو تر اشو اور پکڑو.مراد یہ تھی کہ خلیفہ وقت اگر ربوہ میں رہے تو ایک مردہ کی حیثیت سے وہاں رہے اور اپنے
27 فرائض منصبی میں سے کوئی بھی ادا نہ کر سکے.اگر وہ ایسا کرنے پر تیار ہو، ایک مردہ کی طرح زندہ رہنے پر تیار ہو تو ساری جماعت کا ایمان ختم ہو جائے گا، ساری جماعت یہ سوچے گی کہ خلیفہ وقت ہمیں تو قربانیوں کے لئے بلا رہا ہے، ہمیں تو کہتا ہے کہ اسلام کا نام بلند کرو اور خود ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا.چنانچہ جماعت کے ایمان پر حملہ تھا یہ، اور اگر خلیفہ وقت بولے جماعت کا ایمان بچانے کے لئے تو اس کو تین سال کے لئے جماعت سے الگ کر دو.چونکہ نظام جماعت ایک نئے خلیفہ کا انتخاب کر ہی نہیں سکتا جب تک پہلا خلیفہ مر نہ جائے اس وقت تک اس لحاظ سے تین سال کے لئے جماعت اپنی مرکزی قیادت سے محروم رہ جائے گی اور جس جماعت کو خلیفہ وقت کی عادت ہو جو نظام خلیفہ کے محور کے گرد گھومتا ہو اس کو کبھی بھی خلیفہ کی عدم موجودگی میں کوئی انجمن نہیں سنبھال سکتی.ناممکن ہے کہ خلافت کی کوئی متبادل چیز ایسی ہو جو خلافت کی جگہ لے لے اور دل اسی طرح تسکین پا جائیں.تو تین سال کا عرصہ جماعت سے خلافت کی ایسی علیحدگی کہ کوئی رابطہ قائم نہ رہ سکے یہ اتنی خوفناک سازش تھی کہ اگر خدانخواستہ یہ عمل میں آجاتی تب آپ کو اندازہ ہوتا کہ کتنا بڑا حملہ جماعت کی مرکزیت پر کیا گیا ہے.ساری دنیا کی جماعتیں بے قرار ہو جاتیں اور ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ رہتا، کچھ سمجھ نہ آتی کہ کیا کر رہے ہیں، کیا کرنا ہے اور پھر جذبات سے بے قابو ہو کر غیر ذمہ دارانہ حرکتیں بھی ہو سکتی تھیں.جس طرح شدید مشتعل جذبات کو اور زنمی جذبات کو اللہ تعالی نے مجھے توفیق دی سنبھالنے کی، خلیفہ وقت کی عدم موجودگی یا بے تعلقی کے نتیجہ میں تو ناممکن تھا کہ جماعت کو اس طرح سے کوئی سنبھال سکتا.جن لوگوں کو جھوٹ کی عادت ہو، ظلم اور سفا کی کی عادت ہو، افتراء پردازی کی عادت ہو، وہ کوئی بھی الزام لگا کر کوئی جھوٹ گھڑ کے پھر خلیفہ کی زندگی پر بھی حملہ کر سکتے تھے اور اس صورت میں جماعت کا اٹھ کھڑے ہونا اور اپنے قومی پر سے قابو کھو دیتا، جذبات سے بھی قابو کھو دیتا اور دماغی کیفیات پر سے بھی نظم وضبط کے کنٹرول اتار دینا ایک طبعی بات تھی.نا ممکن تھا کہ جماعت ایسی حالت میں کہ ان کو پتہ ہے کہ خلیفہ وقت ایک کلیہ معصوم انسان ہیں، ان باتوں میں ہماری جماعت کبھی پڑی نہ پڑ سکتی ہے، اس پر جھوٹے الزام لگا کر ایک بد کردار انسان نے اسے
28 موت کے گھاٹ اتارا ہے.ناممکن تھا کہ جماعت اس کو برداشت کر سکتی.جبکہ برداشت کرنے کے لئے خلافت کا جو ذریعہ خدا نے بخشا ہے اس کی رہنمائی سے محروم ہو تو اس صورت میں جماعت کا کوئی بھی رد عمل ہو سکتا تھا جو اتنا بھیانک ہو سکتا تھا اور اتنے بھیانک نتائج تک پہنچ سکتا تھا کہ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اور باوجود اس کے کہ ان باتوں کا ہمیں پہلے علم نہیں تھا.ایک رات ، جس رات یہ فیصلہ ہوا ہے اس رات خدا تعالٰی نے اچانک مجھے اس بات کا علم دیا اور ساتھ ہی اللہ تعالی نے میرے دل میں ایک بڑے زور سے یہ تحریک ڈالی کہ جس قدر جلد ہو اس ملک سے تمہارا نکلنا نظام خلافت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے.تمہاری ذات کا کوئی سوال نہیں.ایک رات پہلے یہ ہمیں عہد کر چکا تھا کہ خدا کی قسم میں جان دوں گا احمدیت کی خاطر اور کوئی دنیا کی طاقت مجھے روک نہیں سکے گی اور اس رات خدا تعالیٰ نے مجھے ایسی اطلاعات دیں کہ جن کے نتیجہ میں اچانک میرے دل کی کایا پلٹ گئی.اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ کتنی خوفناک سازش ہے جماعت کے خلاف، جسے ہر قیمت پر مجھے نا کام کرتا ہے.اور وہ سازش یہ تھی کہ جب خلیفہ وقت کو قتل کیا جائے اور جماعت اس پر ابھرے تو پھر نظام خلافت پر حملہ کیا جائے، ربوہ کو ملیا میٹ کیا جائے فوج کشی کے ذریعہ اور وہاں نیا انتخاب نہ ہونے دیا جائے خلافت کا، وہ انسٹیٹیوشن ختم کر دی جائے.اس کے بعد دنیا میں کیا باقی رہ جاتا.خدا تعالیٰ کے اپنے کام ہوتے ہیں اور جن حالات میں اللہ تعالی نے نکالا یہ اس کے کاموں ہی کا ایک ثبوت ہے.یہ نہیں میں کہتا کہ یہ ہو سکتا تھا.ناممکن تھا کہ یہ ہو جاتا ورنہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر سے ایمان اٹھ جانتا دنیا کا کہ خدا نے خود ایک نظام قائم کیا ہے، خود اس کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلام کے غلبہ کے منصوبے بنا رہا ہے اور پھر اس جماعت کے دل پر ہاتھ ڈالنے کی دشمن کو تو فیق عطا فرما دے جس جماعت کو اپنے دین کے احیاء کی خاطر قائم کیا ہے.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا.اسی لئے خدا تعالٰی نے یہ انتظام فرمایا کہ دشمن کی ہر تدبیر نا کام کر دی اس ایک تدبیر کو نا کام کر کے.اتنا بڑا احسان ہے خدا تعالی کا کہ اس کا جتنا بھی شکر اور کیا جائے اتنا ہی کم ہے.آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کتنے خوفناک نتائج سے اللہ تعالی نے جماعت کو بچالیا، کتنی بڑی سازش کو کلیتہ نا کام کر دیا.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 28 رو سمبر 1984ء، خطبات ظاہر جلد 3 صفحہ 757-769)
29 ان حالات میں مشاورت کے بعد ہی طے پایا کہ حضرت خلیفہ اسح الرابع رحم اللہ پاکستان سے ہجرت کریں.چنانچہ آپ بذریعہ کار ایک قافلہ میں ربوہ سے کراچی پہنچے اور وہاں سے 30 / اپریل 1984ء کوعلی الصبح KLM کی فلائٹ کے ذریعہ کراچی سے ایمسٹرڈیم (ہالینڈ) اور پھر وہاں سے لندن (انگلستان) پہنچے.آپ کا ہجرت کا یہ سارا سفر اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت و تائید اور حفاظت الہی کے روشن نشانات سے معمور ہے.معاندین احمدیت اور فتنہ انگیز ملاؤں کی طرف سے یہ پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اصبح الرابع رحمہ اللہ بھیس بدل کر یا جعلی ڈاکومنٹس پر ملک سے فرار ہو گئے تھے.ہمیشہ کی المسیح طرح ان کا یہ پراپیگنڈہ بھی سراسر کذب اور افتراء پر مبنی ہے اور حقیقت سے اس کا ڈور کا بھی تعلق نہیں.حضور رحمہ اللہ کے سفر ہجرت کی کسی قدر روداد جاننے کے لئے انگریز مصنف lan Adamson کی کتاب A Man of God ملاحظہ کریں.اس کتاب کا اردو ترجمہ سے شائع شدہ ہے.ہر دو کتب جماعت کی ویب سائٹ ایک مرد خدا کے نام نام سے www.alislam.org پر دستیاب ہیں) حضرت خلیفہ اصبح الرابع رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا آرڈینس اور اس کے پس پردہ سازشوں اور دشمنانِ احمدیت کے بدار ادوں اور اوچھے ہتھکنڈوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے 28 دسمبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں مزید فرمایا: اس کے بعد دوسرے درجہ پر ان کا ہاتھ ابھی تک مرکزی تنظیموں پر اٹھ رہا ہے.ربوہ کی مرکزیت کے خلاف وہ سازشیں کر رہے ہیں اور ان سازشوں کے نتیجہ میں ایک ایک کر کے وہ اپنی طرف سے ربوہ کے مرکزی خدو خال کو ملیا میٹ کرتے چلے جارہے ہیں.چنانچہ شروع میں بظاہر معمولی بات تھی لیکن اسی وقت مجھے نظر آ گیا تھا کہ آگے ان کے کیا ارادے ہیں...شروع میں انہوں نے کھیلوں پر ہاتھ ڈالا کہ ربوہ میں کبڑی ہوگی تو عالم اسلام کو خطرہ پیدا ہو جائے گا.یعنی ربوہ میں اگر کبڈی ہوئی تو اس سے تمام دنیا میں عالم اسلام کو خطرہ لاحق ہو جائے گا.ربوہ میں اگر باسکٹ بال کا میچ ہوا تو اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے اور پھر پتہ نہیں کیا ہو
30 جائے گا.پھر کھیلوں سے یہ آگے بڑھے اور اجتماعات پر ہاتھ ڈالنے شروع کئے کہ لجنہ اماء اللہ کا اجتماع ہوا تو عالم اسلام پر تباہی آجائے گی.خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہوا تو پتہ نہیں کیا خوفناک حالات دنیا میں پیدا ہو جائیں گے جس کے نتیجہ میں اسلام نعوذ باللہ من ذالک تباہ ہو جائے گا.بوڑھوں کا اجتماع ہوا تو اس سے ان کو خطرات وابستہ نظر آنے لگے کہ اس اجتماع سے بھی یا وطن..تباہ ہو جائے گا یا عالم اسلام کو نقصان پہنچے گا....چنانچہ آپ پاکستان کے اخبارات کا مطالعہ کر کے دیکھیں آپ کو ہر موقع پر اچانک اسی قسم کی خبریں نظر آئی لگ جائیں گی یعنی ایک صبح کو اٹھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تمام پاکستان میں ایک خاص طبقہ علماء ایک دم یہ شور مچانے لگ گیا ہے کہ انصار اللہ کا اجتماع نہیں ہو سکتا ور نہ عالم اسلام کو خطرہ ہے.پھر اچانک علماء کو خیال آتا ہے کہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع نہیں ہو سکتا ور نہ عالم اسلام کو خطرہ ہے، کبڈی نہیں ہو سکتی اور نہ عالم اسلام کو خطرہ ہے، باسکٹ بال نہیں ہوسکتا ور نہ عالم اسلام کو خطرہ ہے.تو یہ جو سر الاپتے تھے سارے، آخر اس کی مرکزی جڑیں تھیں.وہاں سے آواز نکلتی تھی تو یہ سب تک پہنچتی تھی.اور پھر حکومت کے اخبار تھے ، حکومت کے ٹیلی ویژن اور حکومت کے ریڈیو یہ ساری باتیں اچھالتے تھے کہ علماء یہ کہہ رہے ہیں تا کہ نفسیاتی طور پر قوم پر یہ اثر پیدا ہو کہ ہاں ایک بہت ہی خطرناک بات ہونے لگی ہے اور حکومت مجبور ہورہی ہے گویا کہ ان لوگوں کی آواز کے سامنے سر ٹھکانے پر.حالانکہ حکومت کی طرف سے یہ باتیں پیدا کی جاتی تھیں اور یہ سب کچھ ہمارے علم میں تھا.بھر اجتماعات پر انہوں نے پابندی لگادی وہی نظر آرہا تھا کہ یہاں سے شروع کریں گے.سیڑھیاں جس طرح انسان چڑھتا ہے ایک دو تین چار اس طرح اوپر تک پہنچنے لگیں گے.پھر جلسہ سالانہ ان کے لئے خطرہ بن گیا اور اس قدر شور مچایا گیا سارے ملک میں کہ گویا اگر یہ بات حکومت نے نہ مانی تو حکومت تباہ ہو جائے گی.جلسہ سالانہ اتنا بڑا واقعہ.جماعت احمدیہ کا کیا حق ہے کہ جلسہ سالانہ کرے؟ چنانچہ جلسہ سالانہ ختم کر دیا گیا اور آج جلسہ سالانہ پر یہ ہمارا اختتامی خطاب ہونا تھا.آج اٹھائیس ہے اور 28 تاریخ کو اختتامی تقریب ہوا کرتی تھی جس میں قرآن کے معارف بیان ہوتے تھے، اسلام کی خوبیاں بیان ہوتی تھیں، غیر مذاہب پر اسلام کی
31 فوقیت بیان ہوتی تھی.یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ایسی باتیں ہوں جلسہ سالانہ پر.اس کے مقابل پر کیا برداشت کر سکتے ہیں؟ ربوہ کی مساجد جن میں لاؤڈ سپیکر کھلے ہیں یعنی مولویوں کی مساجد اس میں جمعہ کے دن ایسی فحش کلامی ہوتی ہے کہ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ اس سے ربوہ کے رہنے والوں کا حال کیا ہوتا ہے؟ شدید گندی زبان استعمال کی جاتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف، جماعت احمدیہ کے سربراہوں کے خلاف، خلفاء کے خلاف، بزرگوں کے خلاف، اور اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ تعجب ہوتا ہے کہ اسلام کا نام لینے والے، اسلام کی طرف منسوب ہونے والے جھوٹ اتنا بول کیسے سکتے ہیں؟ گھر بیٹھے کہانیاں گھڑتے رہتے ہیں اور پھر فخر سے بتاتے ہیں بعد میں مولوی اپنے ساتھیوں کو کہ دیکھا کس شان کا میں نے جھوٹ گھڑا ہے؟ یہ میں نے گھڑا تھا، کسی اور نے مجھے نہیں بتایا ، یہ میرا دماغ چلا ہے اس طرف اور سارے جانتے ہیں اور ان کے ماننے والے بھی جانتے ہیں اور سارا ماحول جانتا ہے، حکومت جانتی ہے کہ محض گند پر منہ مار رہے ہیں.لیکن جب حکومت خود جھوٹی ہو، بد کردار ہو چکی ہو، خود مذہب کے نام سے کھیل رہی ہو تو پھر ان لوگوں سے ان کا دل بڑا لگتا ہے.اس قسم کے لوگ قصر شاہی تک دسترس رکھتے ہیں، وہاں تک رسائی ہو جاتی ہے، ان کے ساتھ باقاعدہ مل کر منصوبے بنائے جاتے ہیں....ابھی کچھ عرصہ پہلے جماعت کے پریس پر پابندی تھی، جماعت کی کتابیں ضبط ہورہی تھیں یہ قانون بن گیا تھا کہ جماعت احمد یہ اگر اپنے دفاع میں کچھ کہے گی تو ان کو قید کیا جائے گا ان کو سزادی جائے گی.تین سال تک قید بھی ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی ہو سکتا ہے....بہر حال اس وقت دشمن کا ارادہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو کلیتہ نہلا کردے.جماعت احمدیہ کے ہاتھ بھی جکڑ دے.جماعت احمدیہ کے پاؤں بھی جکڑ دے اور پاکستان سے جماعت احمدیہ کی مرکزیت کی ساری علامتیں مٹادے.چنانچہ ہر گز بعید نہیں کہ اس سمت میں یہ آگے قدم بڑھائیں مرکزی انجمنوں کے خلاف بھی سازش کریں ہر قسم کی.اور جماعت کے وجود، جماعت کی تنظیم کے خلاف سازش کریں.جہاں تک ان کا بس چلے گا انہوں نے کسی انصاف کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے ساتھ کوئی رحم کا سلوک نہیں کرنا.جہاں تک ان کا بس چلے گا انہوں نے ہر انسانی حق سے جماعت احمدیہ کو محروم کرنے کی مزید کوششیں کرنی ہیں اور یہ سلسلہ
32 آگے تک بڑھانے کا ان کا ارادہ ہے." اسی ضمن میں آپ نے یہ پُر شوکت اعلان بھی فرمایا کہ :...امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے ہاتھ باندھ بھی دیں، جماعت احمدیہ کو کلیتہ ہتا بھی کر دیں تب بھی خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ ہی جیتے گی کیونکہ خدا کے شیروں کے ہاتھ کبھی کوئی دنیا میں باندھ نہیں سکا.یہ زنجیر میں لازماٹوٹیں گی اور لازم یہ زنجیر میں باندھنے والے خود گرفتار کئے جائیں گے.یہ ایک ایسی تقدیر ہے جسے دنیا میں کوئی بدل نہیں سکتا.کبھی خدا کے ہاتھ بھی کسی نے باندھے ہیں؟ اس لئے خدا والوں کے جب ہاتھ باندھے جاتے ہیں تو عملاً یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ ہم خدا کے ہاتھ باندھ سکتے ہیں.اس لئے خدا کے ہاتھ تو کھلے ہیں.قرآن کریم اعلان فرما رہا ہے بَل يَلهُ مَبْسُوطَنِ (المائدہ (65) اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں.اس کا دایاں ہاتھ بھی کھلا ہے.اور اس کا بایاں ہاتھ بھی کھلا ہے اور کوئی دنیا کی طاقت خدا کے ہاتھوں کو نہیں باندھ سکتی.اس لئے آگے بڑھیں گے یہ ظالموں میں، اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ بھی میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے شیر خدا کے فضل سے بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ بھی ان پر قالب آکر رہیں گے.کوئی دنیا میں ان کے ایمان کا سر جھکا نہیں سکتا.کوئی دنیا میں جماعت احمدیہ کے عزم کا سر جھکا نہیں سکتا.کوئی دنیا میں جماعت احمدیہ کے صبر کا حوصلہ توڑ نہیں سکتا.بڑھتے رہیں جس حد تک یہ آگے بڑھتے ہیں.ہم بھی انتظار میں ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ خدا کی تدبیر بھی حرکت میں ہے.خدا کی تقدیر بھی حرکت میں ہے.اور اللہ تعالی قرآن کریم میں جیسا کہ فرماتا ہے اللهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا - واكيد كيدا - ( الطارق 16 - 17 ) یہ بھی کچھ تدبیریں کر رہے ہیں اور میں غافل نہیں ہوں.میں بھی تدبیر کر رہا ہوں اور بالآخر یقینا خداہی کی تدبیر قالب آئے گی.کب آئے گی؟ کتنی دیر میں آئے گی؟ یہ میں ابھی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ جب زیادہ تشویش کے دن آتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلسل مجھے خوشخبریاں عطا فرماتا ہے اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ ساری جماعت کو تمام دنیا میں کثرت کے ساتھ خوشخبریاں ملنی شروع ہو جاتی ہیں.جتنے بھیا تک دن آتے ہیں اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے روشنی کے وعدے زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آنے لگتے ہیں.یہ عجیب قسم کے واقعات ہیں جو عام دنیا
33 ہوں، یہ کے حالات سے بالکل مختلف ہیں.اگر یہ خواہیں نفسیاتی ہوں، اگر یہ خواہیں نفس کے دھو کے ی کشوف نفس کے دھو کے ہوں تو نفس کی کیفیت تو یہ ہے اور دنیا کے سارے ماہرین نفسیات جانتے ہیں کہ جتنا زیادہ مایوسی بڑھتی چلی جائے اتنا ہی ڈرانے والی خوا ہیں آنی شروع ہو جاتی ہیں.جتنا زیادہ انسان تاریکیوں میں گھر جاتا ہے اتنا ہی زیادہ ہولناک مناظر وہ دیکھنے لگتا ہے.غموں کے مارے ہوئے ، مصائب کے ستائے ہوئے خوفوں میں مبتلا لوگوں کو Hallucination ( فریب خیال ) شروع ہو جاتے ہیں.امن کی حالت میں بیٹھے ہوئے بھی ان کو خطرات دکھائی دینے لگتے ہیں.یہ صرف سچوں کی علامت ہوتی ہے کہ انتہائی تاریکی کے وقت میں خدا ان سے روشنی کے وعدے کرتا ہے اور ان کو روشنی کے نمونے دکھاتا ہے.انتہائی تکلیف کے وقت میں بھی خدا تعالیٰ ان کے ساتھ دل آرام باتیں کرتا ہے، ان کے دلوں کو راحت اور اطمینان اور سکون سے بھر دیتا ہے.خطبہ جمعہ فرمودہ 28 دسمبر 1984ء ، خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 769-775) الغرض مذکورہ بالا آرڈنینس کے نفاذ کے بعد ابتدائی ایام خصوصیت کے ساتھ تمام جماعت کے لئے انتہائی غم اور کرب کے ایام تھے.اس نہایت ظالمانہ آرڈینینس کے خلاف کسی بھی احمدی کا غلط رز عمل بہت خوفناک نتائج پیدا کر سکتا تھا.چنانچہ آرڈینینس کے نفاذ اور ہجرت سے قبل کے ایام میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے خاص طور پر جماعت کو صبر اور دعاؤں اور عبادات کے قیام کی طرف خصوصی توجہ دینے کی تاکیدی نصائح فرمائیں.متقی 28 اپریل 1984ء کو نماز عشاء کے بعد حضور رحمہ اللہ نے مسجد مبارک ربوہ میں حاضر ا حباب کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ: یمیں آپ کو صبر کی تلقین کرنا چاہتا ہوں.یادرکھیں سب سے بڑی طاقت صبر کی طاقت ہے جو الہی جماعتوں کو دی جاتی ہے اور جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.صبر دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہے اور دعاؤں میں قوت پیدا کرتا ہے.اور الہی جماعتوں کا صبر روحانیت میں تبدیل ہونے لگتا ہے.اس لحاظ سے میں دیکھ رہا ہوں کہ جماعت ایک نئے روحانی دور میں داخل ہو رہی ہے.لہذا یہ غم جو آپ کو ملا ہے اس کی حفاظت کریں اور اس کو دردناک دعاؤں میں تبدیل کرتے رہیں.اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کی دعاؤں اور
34 گریہ وزاری سے عرش کے کنگرے بھی لرزنے لگیں گے.پس اس غم کی حفاظت کریں اور اسے ہر گز نہ مرنے دیں.یہاں تک کہ خدا کی تقدیر خود اسے خوشیوں میں تبدیل کر دے.اگر آپ ایسا کریں گے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ دنیا کی ساری طاقتیں بھی مل کر آپ کو شکست نہیں دے سکتیں.لازما آپ کامیاب ہوں گے.“ ( الفضل 4 مئی 1984ء) افراد جماعت احمدیہ پاکستان نے بالخصوص اور عالمگیر جماعت احمدیہ نے بھی جس طرح اخلاص اور محبت اور وفا کے ساتھ ان نصائح پر عمل کیا اور پھر جس طرح خدا تعالیٰ نے اس صبر اور قربانی اور وفا پر اپنے پیار کی نظر ڈالتے ہوئے اس غم کو خوشیوں میں بدلا اور دنیا بھر میں جماعت احمد یہ پہلے سے کئی گنا بڑھ کر مضبوط و مستحکم ہوئی اور اشاعت اسلام و احمدیت کی نئی راہیں کشادہ ہوئیں اور عظیم روحانی ترقیات و فتوحات کے دروازے خدا تعالٰی کی طرف سے کھولے گئے وہ ان دعاؤں اور صبر کی قبولیت پر عظیم الشان گواہ ہیں.اس کتاب میں جماعت کی انہی عالمگیر فتوحات اور کامیابیوں میں سے بعض کا اختصار سے تذکرہ کیا گیا ہے.پاکستان میں آرڈینس نمبر 20 کے اجراء کے بعد جماعت پر کئے جانے والے مظالم کو گویا قانونی تحفظ حاصل ہو گیا تھا.اس کے نتیجہ میں یہاں متعد دشہادتیں ہوئیں.لوٹ مار کی گئی.احمد یہ مساجد کو مسمار کیا گیا.لوٹ مار کر کے جلایا گیا.کئی مساجد کو سر بمہر کر کے بند کر دیا گیا.احمدیوں کو نوکریوں سے نکالا گیا.ان کی دکانوں کو لوٹا اور جلایا گیا.احمدیوں کے خلاف سراسر جھوٹے اور ناجائز مقدمات قائم کئے گئے.مدفون احمدیوں کی نعشوں کی بے حرمتی کی گئی.تعلیمی اداروں میں احمدی طلباء کے داخلے رو کے گئے، اور اگر داخلے ہو چکے تھے تو انہیں وہاں سے نکالا گیا.سرکاری محکموں میں ملازم احمدیوں سے نہایت توہین آمیز ، غیر اخلاقی اور غیر انسانی سلوک کیا گیا.غرضیکہ ہر پہلو سے اور ہر سطح پر احمدیوں پر ہر قسم کے ممکنہ ظلم وستم کو روا رکھا گیا.ستم بالائے ستم یہ کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا گیا اور حکومت اور قانون کی چھتری کے نیچے یہ سب کچھ ہوا.
35 وفاقی شرعی عدالت میں آرڈیننس 20 کو چیلنج پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے جو اسلام کو سیاسی عزائم کے لئے استعمال کر رہے تھے اور اس غرض کے لئے عدالتوں کے اختیارات پر بھی ضرب لگا رہے تھے ایک مارشل لاء ترمیم کے ذریعہ آئین تک کو بدل ڈالا تھا.آئینی ترمیم کے ذریعہ وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی تھی جس کا دائرہ اختیار یہ قرار دیا گیا تھا کہ وہ قرآن وسنت سے متصادم قوانین کو کالعدم قرار دے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ ملکی قانون کو قرآن وسنت کے پیمانے پر پرکھنے کے لئے وفاقی شرعی عدالت قائم کی جارہی ہے اور یہ گویا نفاذ اسلام کی طرف ایک قدم تھا.آئینی اور قانونی معاملات پر نظر رکھنے والوں پر یہ بات واضح تھی کہ ایک متوازی نظام قائم کر کے دراصل اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات محدود کرنا مقصود تھا.1984ء میں جنرل ضیاء الحق نے اپنی غیر قانونی آمریت کو سہارا دینے کے لئے مذہبی انتہا پسندوں کا سہارالیا.اس سلسلہ میں 1984ء کا آرڈیننس 20 جسے امتناع قادیانیت آرڈیننس کہا گیا ہے، نافذ کیا گیا.اس قانون کے تحت مسجد کو مسجد کہنا اور اذان دینا قابل تعزیر جرائم ٹھہرائے گئے تھے.احمدیوں کے لئے خود کو مسلمان ظاہر کرنے پر بھی قید کی سزا مقرر کی گئی تھی اور بعض القابات کا استعمال بھی احمدیوں کے لئے قابل تعزیر بنا دیا گیا تھا.اس قانون کے ذریعے احمدیوں کی مذہبی آزادی پر کاری ضرب لگائی گئی تھی اور احمدیوں کے لئے روزمرہ کے سماجی تعلقات اور مذہبی فرائض کی بجا آوری قابل تعزیر ہو کر رہ گئی تھی.اس قانون کی زد براہ راست ہر احمدی پر پڑتی تھی.وفاقی شرعی عدالت میں کوئی بھی شہری کسی بھی قانون کو اس بنیاد پر چیلنج کر سکتا تھا کہ مذکورہ قانون قرآن وسنت سے متصادم ہے.اور یہ پابندیاں جو اس قانون کے تحت عائد کی گئیں وہ واضح طور پر قرآن وسنت سے معارض تھیں.چنانچہ چند احمدیوں کی طرف سے انفرادی حیثیت میں ہائی کورٹ میں اس قانون کو آئین کے تحت بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کی بناء پر چیلنج کیا گیا اور وفاقی شرعی عدالت میں ایک درخواست گزاری.درخواست کی بنیاد یہی تھی کہ یہ آرڈینس تعلیمات اسلامی کے
36 منافی اور قرآن وسنت سے متصادم ہے.وفاقی شرعی عدالت کے وضع کردہ طریق کار کے مطابق ضروری تھا کہ ان آیات قرآنی یا کتب کا حوالہ بھی دیا جائے جن پر استدلال قائم کیا گیا ہو.چنانچہ اس غرض کے لئے ڈیڑھ سو سے زائد حوالہ جات درخواست کے ساتھ شامل کئے گئے اور معین طور پر ہر پابندی کے بارے میں آیات قرآنی اور سنت کے حوالے دیے کہ کون سی پابندی، کون سی آیت یا سفت سے متصادم ہے.ان حوالوں میں متقدمین ، متأخرین اور عصر حاضر کے علماء کے حوالے شامل تھے.دوران بحث اصل کتب سے وہ حوالے عدالت میں پیش کئے گئے اور ان پر تفصیل سے بحث کی گئی، فریقین کی بحث کم و بیش چودہ دن جاری رہی.راقم الحروف ( نصیر احمد قمر ) بھی چودہ دن کی عدالتی کارروائی میں شامل رہا اور اس بات کا شاہد ہے کہ چودہ روز کی کارروائی تائیدات و نصرت الہی کا ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالی سے خبر پا کر بتایا تھا کہ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گئے.اس پیشگوئی کو اس چودہ روزہ عدالتی کارروائی میں بھی بڑی شان کے ساتھ بار بار پورا ہوتے دیکھا.احمدی درخواست گزاروں کی طرف سے شروع ہی میں یہ بات عدالت پر واضح کر دی گئی تھی کہ ہم آئینی ترمیم کو زیر بحث نہیں لانا چاہتے.یہ عدالت آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی مجاز نہیں ہے.ہم بھی اس بات کو زیر بحث نہیں لائیں گے.ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے علی الرغم، میرا مذہب کچھ بھی ہو، آرڈینٹس کی عائد کردہ پابندیوں کا جائزہ قرآن وسنت کی روشنی میں لیا جانا چاہئے.اور جو درخواست داخل کی گئی ہے اسے ہم ایک مذہبی فریضہ کے طور پر ملک و ملت کی خیر خواہی کے جذبہ سے ادا کر رہے ہیں.کیونکہ جو قانون قرآن وسنت کے منافی ہوا سے ملکی قانون کا حصہ نہیں ہونا چاہئے اور کالعدم قرار دے دینا چاہئے تا کہ قوم کسی معصیت کا شکار ہونے سے اور قرآن وسنت کے خلاف تعزیری قوانین نافذ کرنے کے وبال سے بچ جائے.اس بات کا بھی اظہار کیا کہ تعزیری قوانین اگر
37 قرآن و سنت سے متصادم ہوں تو قوم ایک بہت بڑے انتشار کا شکار ہوسکتی ہے کیونکہ قرآن وسنت کے خلاف احکام کی اطاعت لازم نہیں.آغاز میں ہی عدالت کے سامنے یہ بات رکھی گئی کہ یہ ایک نہایت اہم اور تاریخی مقدمہ ہے اور اس مقدمہ کے فیصلہ سے پاکستان کی تاریخ پر بڑے گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے.اس مقدمے کے فیصلہ ہی سے وہ راہیں متعین ہوں گی جن پر آگے چل کر اس ملک میں اسلامی قانون کا نظام نافذ ہوگا.اس مقدمہ کے فیصلہ ہی سے یہ بات ظاہر ہوگی کہ پاکستان میں مذہبی آزادی کا کس حد تک احترام کیا جائے گا اور کس حد تک اسے پامال ہونے کی اجازت دی جائے گی.اس مقدمہ کے فیصلہ ہی سے یہ بات بھی واضح ہوگی کہ آیا اقتدار وقت کو شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ آبادی کے کسی حصہ کے مذہبی معاملات میں بلا روک ٹوک داخل اندازی کرے.اور اس مقدمہ کے فیصلہ پر ہی اس بات کا انحصار ہو گا کہ مذہب، مذہبی اعتقادات اور تعبدی امور میں سیاسی اقتدار وقت کی دخل اندازی شرعاً جائز ہے یا نہیں.اور اس مقدمہ کے فیصلہ کی روشنی میں ہی اس ملک عزیز کے دوسرے شہری اپنے مذہبی حقوق کے بارے میں اپنی امیدوں اور اپنے اندیشوں کا اس نظر سے جائزہ لیں گے کہ وہ اپنے پروردگار کے حضور عبادت بجالانے میں آزاد ہیں یا نہیں.زیر بحث درخواست پر اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے 1.سب سے پہلے از روئے قرآن و سنت اقتدار وقت کی قانون سازی کی حدود اور شریعت کورٹ کے دائرہ اختیار کا جائزہ لیا گیا.2.اس کے بعد اس امر پر بحث کی گئی کہ قرآن فہمی کے اصول کیا ہیں اور قرآن وسنت کا مفہوم متعین کرنے کے لئے ہمیں کن اصولوں کی پابندی کرنی چاہئے.3.اس کے بعد یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ مذہبی آزادی کے بارہ میں روح اسلام کیا ہے؟ کیونکہ زیر نظر آرڈیننس مذہبی معاملات سے متعلق ہے اور اس کا اس نظر سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ آیا وہ مذہبی آزادی کے اسلامی اصولوں سے متصادم تو نہیں؟
38 4.اس کے بعد آرڈینس کی مختلف شقوں کا الگ الگ جائزہ لیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ یہ قانون کس طرح سے اسلامی اصولوں اور نصوص سے متعارض ہے اور اس ضمن میں اذان، لفظ مسجد، بعض اصطلاحات، حق تبلیغ اور اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے حق کا تفصیلی جائزہ لیا اور اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ آیا شریعت اسلامیہ کی رُو سے کسی ایسے فعل کو قابل تعزیر بنایا جا سکتا ہے جو اپنی ذات میں معصیت نہ ہو اور جسے شریعتِ اسلامی گناہ، مکروہ یا مذموم قرار نہ دیتی ہو.یہ امر بھی عدالت کے سامنے رکھا گیا کہ اس درخواست کے فیصلہ کرنے میں مندرجہ ذیل سوالات عدالت کے زیر غور آئیں گے جن پر عدالت کو کوئی فیصلہ دینا ہوگا.-1 کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق اور اجازت دیتا ہے کہ وہ خدا کی وحدانیت کا اقرار اور اعلان کرے؟ 2.کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق اور اجازت دیتا ہے یا نہیں کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دعویٰ میں سچا تسلیم کرے؟ 3- کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق دیتا ہے یا نہیں کہ وہ قرآن حکیم کو ایک اعلی نظام حیات سمجھ کر اسے واجب الاطاعت تسلیم کرے اور اس پر عمل کرے؟ -4 اگر کوئی غیر مسلم قرآن کے احکام پر عمل کرنا چاہے تو کیا اسے اس کی اجازت ہے یا نہیں؟ -5.اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو اس حق کی نفی قرآن کریم و سنت میں کہاں ہے؟ 6.ایسے شخص کے لئے اسلام کیا لائحہ عمل تجویز کرتا ہے جو گو غرفا مسلمان نہ ہو اور اسے قانونی حق نہ بھی ہو مگر دل و دماغ سے خدا کی وحدانیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور قرآن کی صداقت پر دل سے یقین رکھتا ہو.عدالت میں بڑی تفصیل کے ساتھ اور قومی اور مستند شواہد کے ساتھ اس آرڈیننس کے خلاف قرآن و سنت ہونے پر بحث کی گئی.وفاقی شرعی عدالت نے نہ تو اس بحث کی ریکارڈنگ کرنے کی سائلین کو اجازت دی اور نہ ہی اپنی
39 طرف سے اس کی ریکارڈنگ مہیا کی.اور عدالت کی کارروائی کی اخبارات میں اشاعت بھی روک دی گئی.اور جیسا کہ پاکستان میں یہ ایک رویہ بن گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف کارروائی میں تاثر تو یہ دیا جائے کہ جماعت کو ہر موقع دیا گیا مگر کارروائی یکطرفہ طور پر کروائی جائے.یہی کچھ وفاقی شرعی عدالت میں بھی ہوا.احمدی درخواست گزاروں کی طرف سے جو دلائل دیئے گئے اور جو حوالہ جات پیش کئے گئے اور ان سے جو استنباط کئے گئے وہ تو عوام کے سامنے نہ آئے.عدالت کی طرف سے ان کے رڈ میں قرآن وسنت سے کوئی دلیل بھی نہیں دی گئی اور یک طرفہ طور پر ایک مختصر حکم جاری کردہ 12 اگست 1984ء کے ذریعہ اس درخواست کو خارج کر دیا اور مفضل حکم 28 اکتوبر 1984ء کو سنایا جو 244 صفحات پر مشتمل تھا جس میں یکطرفہ طور پر جماعت کے خلاف زہریلا مواد عدالت کے فیصلہ میں شامل کیا گیا.اس مقدمہ کی بعض تفصیلات اور عدالتی فیصلہ پر محاکمہ کے بارہ میں جاننے کے لئے مکرم مجیب الرحمان صاحب ایڈووکیٹ کی حسب ذیل کتب ملاحظہ ہوں: 1- امتناع قادیانیت آرڈیننس 1984 ء وفاقی شرعی عدالت میں (www.alislam.org/urdu/pdf/Ordinance-XX-Shariat-Court.pdf) Error at the Apix_2 (www.thepersecution.org/archive/erratapex/index.html) حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے وفاقی شرعی عدالت کی دینی حیثیت اور شریعت کورٹ کے فیصلہ پر اپنے 17 / اگست 1984ء اور 14 رستمبر 1984ء اور 02 نومبر 1984ء کے خطبات جمعہ میں سیر حاصل تبصرہ فرمایا.ان کا مطالعہ قارئین کے لئے مفید اور دلچسپی کا موجب ہوگا.(نوٹ: یہ تمام خطبات بھی خطبات طاہر کے نام سے مذکورہ تاریخوں کے حوالہ سے جماعت احمدیہ کی ویب سائٹ www.alislam.org پر دستیاب ہیں.)
40 آرڈیننس کے خلاف جماعت کا رد عمل اور اللہ تعالیٰ کا سلوک جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے 26 اپریل 1984ء کو پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی طرف سے جاری ہونے والا نہایت ظالمانہ اور رسوائے زمانہ آرڈینینس 20 جماعت احمدیہ کی اساس اور مرکزیت پر ایک نہایت خوفناک اور شدید حملہ تھا.امر واقعہ یہ ہے کہ احمدیت تو حقیقی اسلام کا ہی دوسرا نام ہے.اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو جماعت احمدیہ کے خلاف اس آرڈینس کا اجراء اسلام کی بنیادوں پر حملے اور اسلام کے شجرہ طیبہ کی جڑوں پر تیر چلانے کے مترادف تھا اور ہے.(ستم بالائے ستم یہ کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا گیا اور اس آرڈینینس کو نفاذ اسلام کی مہم کے طور پر پیش کیا گیا) جنرل ضیاء اور اس کے ہمنوا ملاؤں اور سیاستدانوں کا خیال ہوگا کہ ان ظالمانہ قوانین سے مرعوب ہو کر احمدی اسلام سے اپنا تعلق توڑلیں گے.وہ خدا تعالیٰ کی توحید اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اقرار سے باز آجائیں گے.وہ قرآن کریم کی تلاوت اور قرآنی احکامات کی اطاعت چھوڑ دیں گے.وہ اس آرڈنینس کے نتیجہ میں ہونے والے مظالم کو برداشت نہیں کرسکیں گے اور اسلامی تعلیمات پر عمل اور اسلامی اخلاق و اقدار سے عاری ہو جائیں گے.یا ان کی اپنے امام اور خلیفہ سے وابستگی کمزور پڑ جائے گی اور یوں یہ جماعت منتشر ہو کرنابود ہو جائے گی.لیکن 26 را پریل 1984ء کے بعد کا ہر دن اور ہر لمحہ اس بات پر گواہ ہے کہ اس نہایت ظالمانہ قانون کی موجودگی میں اور ہر طرح کے حکومتی اور حکومت کی سر پرستی میں ہونے والے ظلم و تشدد کے باوجود معاندین احمدیت کو اپنے تمام مذموم مقاصد اور بد ارادوں میں سخت ہزیمت اٹھانا پڑی.اور خلافت حقہ اسلامیہ کے زیر سیادت افراد جماعت احمدیہ پاکستان نے اسلام اور ارکانِ اسلام کی عزت و توقیر اور شعائر اسلام کی عظمت کی حفاظت کے لئے بڑی جرات و بہادری اور بشاشت اور خندہ پیشانی کے ساتھ ایسی قابل رشک قربانیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جنہوں نے اسلام کے دور اول میں صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ کردی.اس ظالمانہ قانون کے حوالہ سے ہزار ہا احمدیوں کو شدید ذہنی و جسمانی، ہا قلبی و روحانی اذیتیں دی گئیں.انہیں جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا گیا.گلیوں میں گھسیٹا گیا، ان
41 کے اموال لوٹے گئے ، گھروں کو جلایا گیا.ان کی مساجد سے اور ان کے گھروں سے کلمہ طیبہ کو نہایت بے دردی سے حکومتی کارندوں نے خود مٹایا.اور کبھی اس غرض سے عیسائیوں سے بھی مدد لی اور اپنی نگرانی دسر پرستی میں ان سے کلمہ طیبہ کو مٹوایا.لیکن وہ احمدیوں کے دلوں سے خدا اور رسول کی محبت کو نوچ نہیں سکے.احمدیوں نے کلمہ شہادت کی عزت و عظمت کی حفاظت کے لئے کسی قربانی کے پیش کرنے میں ادنی سا بھی تردد نہیں کیا.انہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اور اپنے خون سے اس بات کی شہادت دی کہ اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں.انہوں نے ایشت آج علی الكفار کا نمونہ دکھاتے ہوئے ظلم کے ہر وار پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی طرح زیادہ قوت اور شدت کے ساتھ توحید کی آواز بلند کی اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ جو تپتی ریت پر بھونا گیا ہو مثل بلال اسی کا حق ہے اذاں لا إلهَ إِلَّا اللهُ جنرل ضیاء کا یہ ظالمانہ آرڈینس احمدیوں کا مسجدوں سے تعلق بھی نہیں توڑ سکا.اگر چہ احمدیوں کی متعد د مساجد کو منہدم بھی کیا گیا.کئی مساجد کو مقفل کر دیا گیا اور انہیں مسجدوں سے روکنے اور عبادت سے باز رکھنے کے لئے مختلف ظالمانہ اقدامات بھی کئے گئے مگر اس پہلو سے بھی معاندین کی کوششوں کا نتیجہ ان کی خواہشات کے بالکل برعکس نکلا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس آرڈینس کے چند ہفتوں بعد اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 رمنتی 1984 ء میں فرمایا: ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے ہمیشہ ان باتوں کے الٹ نتائج ظاہر کئے ہیں جو ہمارے خلاف دشمنوں نے مکر اور تدبیریں کیں.احمدیت کی تاریخ میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب کہ دشمن کے ارادوں کے وہ نتائج ظاہر ہوئے ہوں اور ان کی تدابیر کے وہ نتائج برآمد ہوئے ہوں جو مقصد تھا ان کا کہ ہم یہ کریں گے تو یہ نتیجہ نکلے گا...انہوں نے جب بھی جماعت احمدیہ کے مال ٹوٹے ہیں جماعت کے اموال میں برکت ہوئی.جب مسجدوں کو منہدم کیا ہماری مسجدوں میں برکت ہوئی.ہمارے نفوس ذبح کئے ہمارے نفوس میں برکت ہوئی.
42 جب قرآن کریم جلائے احمدیوں کے پکڑ کر ، حالانکہ وہی قرآن تھا جو محمد مصطفی ع کا قرآن تھا تو قرآن کی اشاعت میں بے شمار برکت ہوئی.جب انہوں نے تبلیغ پر پابندیاں لگا ئیں تو تبلیغ میں برکت ہوئی.تو آپ دیکھ لیں کہ جب 1974ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ یہ غیر مسلم ہے تو اس سے پہلے.علماء اس بات کو کھول چکے تھے کہ واقعہ یہ ہے کہ لوگ بھولے پن میں دھوکے میں آکر احمدی ہور ہے ہیں.جب تک ان پر مسلمان کا لیبل لگا ہوا ہے وہ ہوتے رہیں گے.جب مسلمان کا لیبل ہٹا دیں گے تو پھر دیکھنا کہ کس طرح لوگ رُک جاتے ہیں، کسی کو جرات نہیں ہوگی کسی کو ہمت نہیں ہوگی کہ غیر مسلم کا بورڈ آگے لگا ہوا ہو اور پھر حد کراس کر کے پار اتر کر وہ غیر مسلموں میں شامل ہو جائیں.لیکن ان کی ہر تدبیر کا خدا نے ہمیشہ الٹ نتیجہ نکالا اور 74ء کے بعد اتنی تیز رفتاری پیدا ہوگئی تبلیغ میں کہ ان کی عقلیں گم ہو گئیں.سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ جو کیا رہا ہے.جتنی بڑی دیوار بناتے ہیں اتنی بڑی بڑی چھلانگیں لگا کر لوگ پارا تر نے شروع ہو جاتے ہیں.جتنا کر یہہ المنظر بورڈ آویزاں کرتے ہیں اتنا ہی ذوق اور شوق اور محبت کے ساتھ لوگ ان کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں.یہی واقعہ تھا.یہ گواہی ہے آج جو کچھ ہو رہا ہے اس حق میں کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ سو فیصدی درست بات ہے.ان کو مجھے آگئی کہ ہماری ہر تد بیر الٹ ہو گئی ہے.ہر تد بیر نا کام ہو گئی ہے.اس لئے اب آگے بڑھو اور اور روکیں کھڑی کرو لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہمارا خدا ہر روک کو توڑنا جانتا ہے.جتنی روکیں تم کھڑی کرو گے اتنی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اور لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے اور یہی ہو کر رہے گا..“ اسی طرح آپ نے فرمایا: (خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 258-259) عبادت کو روکنے کی انہوں نے کوشش کی ہے.تمام دنیا میں ہر احمدی اپنی عبادت کے معیار کو بلند کردے.یعنی اپنے عجز کو، عجز کے معیار کو ایسا بلند کرے کہ خدا کے حضور اور زیادہ جھک جائے ، اس کی روح سجدہ ریز رہے خدا کے حضور اور وہ اپنی زندگی کو عبادت میں ملا جلا دے ایسے گویا کہ اس کی زندگی عبادت بن گئی ہو.عبادت والوں کو خدا کبھی ضائع نہیں کیا کرتا اور عبادت سے روکنے والوں کو کبھی خدا نے پہنچنے نہیں دیا.وہ کہتے ہیں کہ ہم عبادت سے روکیں
43 گے تو ہم عبادت میں پہلے سے بڑھ جائیں گے یہی جواب ہونا چاہئے...ہمارا رد عمل تو وہی ہوگا جو الہی جماعتوں کا ہوا کرتا ہے...ایک مذہبی جماعت کا اول رو عمل یہ ہوتا ہے کہ جب خدا سے ڈور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اور خدا کے قریب ہو جاتی ہیں.“ (خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 260) چنانچہ ایسا ہی ہوا.احمدیوں کا مسجدوں کے ساتھ رابطہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا.اپنے پیارے امام کی شب و روز کی تو جہات اور آپ کے پُر معارف خطبات وخطابات اور بابرکت رہنمائی اور دعاؤں کے نتیجہ میں احمدیوں کا نمازوں کے قیام اور عبادات اور دعاؤں میں شغف پہلے سے بھی بڑھ گیا.ان کی عبادتوں کا معیار ظاہری لحاظ سے بھی بلند ہوا اور باطنی لحاظ سے بھی وہ تعلق باللہ میں زیادہ مستحکم ہوتے چلے گئے.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا : نمازوں سے روکنے کی طرف انہوں نے توجہ کی تو اس قدر ایک طوفان آگیا ہے روحانیت کا کہ آپ تصور نہیں کر سکتے.چھوٹے چھوٹے بچے خط لکھتے ہیں اور رو رو کر وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے آنسوؤں سے یہ خط لکھ رہے ہیں کہ خدا کی قسم ہمیں ایک نئی روحانیت عطا ہو گئی.ہم تہجدوں میں اٹھنے لگے.ہماری عبادتوں کی کیفیت بدل گئی ہے.اس جماعت کو کون مارسکتا ہے جس کے مقابل پر ہر تد بیر خدا نے الٹادی ہو؟ عبادتوں پر حملہ کیا تو جن بچوں کے متعلق آپ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے وہ پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھا کرتے تھے آج وہ تہجد میں اٹھ کر روتے ہیں اور خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہیں اور نمازوں کا لطف حاصل ہو گیا ہے ان کو.تو یہ تو بہر حال خدا کی ایک ایسی تقدیر ہے جو نہیں بدل سکتی.ساری کائنات مل کر زور لگالے اس تقدیر کو کوئی نہیں بدل سکے گی.جتنی یہ مخالفتوں میں زیادہ بڑھیں گے اتنا ہی زیادہ اللہ تعالی جماعت کو ہر اس سمت میں برکت دے گا جس سمت میں یہ روکنے کی کوشش کریں گے.“ (خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 259) حضور رحمہ اللہ نے 30 اپریل 1984ء کو پاکستان سے لندن پہنچنے پر جو پہلا خطاب افراد جماعت سے فرمایا اس میں اس آرڈیننس کے پس منظر اور معاندین احمدیت کے بدار ا دوں اور پاکستان کے
44 احمدیوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت ہوئی ہو اور اس کے نتیجہ میں جماعت احمد یہ کمزور ہوئی ہو.اور اتنی ذلیل اور کمینی اور اتنی ظالمانہ مخالفت آج تک کبھی نہیں ہوتی.اس لئے لاز منا خدا کی تقدیر نے اسے بہانہ بنانا ہے اپنے فضلوں کا.اور ایسے فضل فرمائے گا کہ آپ کے تصور میں بھی نہیں آسکتے.اسی طرح آپ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون 1984ء میں فرمایا: دشمن تو ہمیں مارنے کے منصوبے بنا رہا ہے.ہمیں کچھ اور نظر آرہا ہے.بالکل الٹ نتائج ظاہر ہورہے ہیں.زیادہ قوت، زیادہ شان کے ساتھ جماعت آگے بڑھ رہی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح ہمیشہ دشمن کو اس کی مخالفت اس کی توقع سے بہت زیادہ مہنگی پڑی ہے یہ مخالفت، اتنی مہنگی پڑے گی، اتنی مہنگی پڑے گی کہ نسلیں ان کی پچھتائیں گی جو دشمن رہیں گی.اور آپ کی نسلیں دعائیں دیں گی ایک وقت آکر ان لوگوں کو جن کی بے حیائی کے نتیجہ میں اللہ نے اتنے فضل ہمارے اوپر فرماتے ہیں.ایک یہ بھی طریق ہوتا ہے جواب کا کہ ہم دعا دیتے ہیں ظالم مجھے کہ تیرے ظلم کے نتیجہ میں اتنے فضل خدا نے ہم پر نازل فرما دیئے.“ 66 خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 292-293) اس کتاب میں دورِ خلافت رابعہ میں جماعت احمدیہ کی ترقی اور جماعت پر موسلا دھار بارش کے قطروں کی طرح برسنے والے اللہ تعالیٰ کے لامتناہی فضلوں میں سے چند بطور نمونہ پیش کئے گئے ہیں جو خلافت احمدیہ کی حقانیت اور اسلام احمدیت کی صداقت پر روشن گواہ ہیں.مخالفین کا خیال تھا کہ یہ جماعت اس ظالمانہ قانون کے سامنے جھک جائے گی اور اسلام سے اپنا ناطہ توڑلے گی لیکن خدا نے ہر پہلو سے جماعت احمدیہ کو برکت عطا فرمائی اور سرفراز فرمایا.جبکہ وہ ملک جہاں یہ ظالمانہ آرڈیننس جاری کیا گیا وہ دینی، دنیاوی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی ہر لحاظ سے دن بدن تنزل اور انحطاط کا شکار ہوتا چلا گیا.اور وہ شخص جس نے یہ ظالمانہ آرڈینس جاری کیا تھا آج کے دانشور اس کا نہایت ذلت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور اسے ملک میں رائج تمام برائیوں کا ذمہ دار
45 قرار دیتے ہیں.خود اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی تقدیر جس رنگ میں ظاہر ہوئی اور وہ عبرت کا نشان بنا، اس کا بھی کسی قدر ذ کر کتاب میں اگلے صفحات میں آئے گا.الغرض جب سے جنرل ضیاء نے پاکستان میں اسلام کے نام پر اسلام کی جڑیں کاٹنے والا یہ ظالمانہ آرڈینس جاری کیا ہے اس ملک کو ہر طرف سے بلائیں آکے گھیر تی چلی گئیں.اور جیسا کہ حضرت خلیفہ اسی الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1991ء میں فرمایا تھا : کوئی انسانی زندگی کا ایسا پہلو نہیں ہے جس میں امن رہ گیا ہو.کوئی انسانی تعلقات کا دائرہ نہیں ہے جو گندہ نہ ہو چکا ہو.ہر وہ شہری جو پاکستان میں کسی پہلو سے زندگی بسر کر رہا ہے، اس کے کوئی نہ کوئی حقوق کسی اور نے سلب کئے ہوئے ہیں.اگر کسی شخص نے نہیں کیے تو حکومت نے سلب کیے ہیں.حکومت نے نہیں کیے تو کسی قوم نے کرلئے ہیں.کسی نہ کسی پہلو سے ہر شخص محسوس کرتا ہے کہ وہ آزادی سے سانس نہیں لے رہا.مجبور اور بے اختیار ہے اور بے بس ہے اور ظلم اتنا پھیل گیا ہے، اتنا گہرائی میں جاچکا ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی عزت بھی محفوظ نہیں.معصوم بچیوں کی عزت بھی محفوظ نہیں رہی.اغوا ہو رہے ہیں...چوری ، آچکا پن، ڈاکے، بددیانتی ، عدالتوں میں جھوٹ، کوئی ایک سلسلہ بھی پاکستانی زندگی کا ایسا نہیں رہا جہاں اسلام جاری و ساری دکھائی دیتا ہو.اور کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی علامات ظاہر ہوتی چلی جارہی ہیں...بدیوں اور معاصی اور بے اطمینانی اور بدامنی کا ایک سیلاب ہے جس میں ساری قوم غرق ہوئی پڑی ہے اور ان کو علم نہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے.جماعت احمدیہ کے افراد پر مقدمات کی ایک جھلک (ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 /ستمبر 1991ء) پاکستان میں آرڈینس 20 کے اجراء کے بعد افراد جماعت احمدیہ پر مختلف نوعیت کے ہزاروں مقدمات درج کروائے گئے.کئی مقدمات میں احمدیوں کو سزائیں سنائی گئیں.بیشتر مقدمات ایسے ہیں جو گنتی کے چند بدبخت مولویوں کی شکایت پر پولیس نے درج کئے.مثلا کسی مولوی
46 نے جماعت احمدیہ کی مسجد پر کلمہ طیبہ لا إله إلا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ تحریر شدہ دیکھا تو جھٹ پولیس میں شکایت کی کہ کلمہ کو دیکھ کر اس کے مذہبی جذبات مجروح ہو گئے ہیں.یا کسی احمدی کے سینہ پر کلمہ طیبہ کا بیج سجا دیکھا یا ہاتھ میں آلیس اللهُ بِكَافٍ عبده والی انگوٹھی دیکھی یا منہ سے السّلامُ عَلَيْكُمْ یا درود شریف سُنا، یا قرآنی آیات کی تلاوت اس کے کان میں پڑی تو فورا ان کی رگ شرارت پھڑ کی اور انہوں نے تھانے کا رُخ کیا کہ احمدی نے ان حرکات سے خود کو مسلمان ظاہر کرنے کی کوشش کی.ٹیوں بھی ہوا کہ ان بد بختوں نے جماعت کے اخبار روز نامہ الفضل یا دیگر احدی جرائد پر کوئی قرآنی آیت تحریر شدہ دیکھی یا ان میں درج حدیث شریف پڑھی یا کسی وفات یافتہ شخص کے ساتھ مرحوم یا مرحومہ کا لفظ لکھا ہوا دیکھایا پھر کسی احمدی کے خط کے اوپر بسم اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ کے الفاظ پڑھے تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور طیش میں آگئے کہ احمدی اللہ کا نام کیوں لے رہا ہے، اسلامی اصطلاحیں کیوں استعمال کر رہا ہے اور ان کے خلاف تھانہ میں رپٹ درج کروا کے ہی دم لیا.پھر ایسا بھی ہوا کہ کسی احمدی کو حوالات میں بند کرا دیا گیا.تھانہ میں علاقہ کے بڑے مولوی پہنچے اور دباؤ ڈالا کہ اس شخص سے کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے.عدالتوں کا گھیراؤ کیا کہ احمدیوں کی ضمانت نہیں ہونے دی جائے گی وگرنہ وہ علاقہ میں امن کا مسئلہ کھڑا کر دیں گے.جیل میں بند دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجائی گئیں.آوازے کے گئے.بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خلاف شدید دشنام طرازی سے کام لیا گیا اور یوں اپنی دانست میں اسلام کی عظیم خدمت سر انجام دی گئی.اُدھر جب نماز کا وقت آیا اور احمدی نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کپڑا بچھا کر قبلہ رو ہو کر نماز ادا کرنا شروع کر دی تو یہ دیکھ کر مولویوں نے ایک بار پھر اودھم مچایا.پولیس کے سپاہیوں کے پیچھے دوڑے، ان کو خوب صلواتیں سنائیں کہ غضب خدا کا یہ شخص تمہاری تحویل میں ہے اور قبلہ رو ہو کر نماز ادا کر رہا ہے اور تم اس کو بالکل منع نہیں کر رہے.پولیس کے سپاہیوں نے احمدی کو دھمکیاں دیں.ہم تمہاری ٹانگیں توڑ دیں گے.قرآن مجید کی
47 تلاوت کرو گے تو جبڑے توڑ دیں گے.تمہاری مھدی سے زبان کھینچ لیں گے.جیل کی سلاخوں میں سے بازوؤں کو پکڑا اور مروڑا اور دھمکایا کہ خبردار! آئندہ ایسی حرکت کی تو سخت سزا دیں گے.وغیرہ وغیرہ.مگر احمدی کا رشتہ نہ خدا تعالٰی سے ٹوٹا اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے.ہوا یہ کہ اُس بیچارے پر ایک اور مقدمہ درج کر دیا گیا کہ جیل میں بھی نماز پڑھ کر خود کو مسلمان ظاہر کیا ہے.ایک موقعہ پر تو ایک احمدی نوجوان کے گلے میں مفلر ڈال کر اتنا مروڑا گیا کہ اس نے خیال کیا کہ زندگی کے آخری مراحل آپہنچے ہیں.اس کا جرم یہ تھا کہ کلمہ پڑھ رہا تھا.ایک اور نوجوان کو پولیس کے سپاہیوں نے زمین پر الٹا لٹا دیا اور اس کی پیٹھ پر چڑھ کرناچنے لگے.یہ سزا اس لئے دی گئی کہ اس نے کلمہ کے پیج کو سینے سے لگائے رکھا تھا.صد آفرین اس نوجوان کی ہمت پر کہ اس کرب میں بھی زبان سے کلمہ کا ورد جاری رہا.بالآخر سپاہی تھک کر نیچے اتر آئے اور کہا کہ ابھی تک اس کافر کی زبان سے کلمہ جاری ہے.سمجھ نہیں آتا اس کا کیا علاج کریں؟ کلمہ کی خاطر احمدی نوجوانوں کو درخت سے باندھ کر الٹالٹکایا گیا.تپتی دھوپ میں ریت کے اوپر بٹھایا گیا.چیونٹیوں کے بل پر بیٹھنے کے لئے کہا گیا.احمدی نوجوانوں نے خدا کی رضا کی خاطر یہ سب کچھ برداشت کیا.پاکستان میں شاذ ہی کوئی احمدی خاندان ہو گا جس کا کوئی نہ کوئی عزیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ایذا نہ پا چکا ہو.اور اب تو کلمہ کے ساتھ احمدیوں کی محبت کے قصے پاکستان کی گلیوں میں عام ہیں.ایک محفل میں کلمہ پیج کے سلسلہ میں احمدیوں کی گرفتاریوں پر بات ہورہی تھی.محفل میں چند غیر احمدی بھی موجود تھے.احمدی نے کہا دوستو! آج ہمیں مبارکباد دو کہ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ فی زمانہ کلمہ سے محبت کرنے والے اگر کچھ لوگ موجود ہیں تو وہ صرف احمدی ہی ہیں.یہ باتیں سن کر ایک غیر احمدی بولا ہر گز نہیں.ہمیں بھی کلمہ سے کچھ کم محبت نہیں.اس پر اس احمدی نوجون نے کہا اگر ایسا ہے تو یہ لوکلمہ طیبہ کا پیج اور کالر پر لگا کر ذرا باہر سڑک پر نکل کر تو دکھاؤ.دیکھیں بھلا تمہیں کلمہ سے کتنا پیار ہے.دوسرا کہنے لگا نہیں نہیں ایسا نہ کرو بھائی ! کیوں اس کو پٹوانے کا ارادہ ہے.باہر نکلتے ہی بے چارا دھر لیا جائے گا کہ قادیانی کلمہ کا بیج لگائے پھرتا ہے.پہلے مار مار کر اس کا بھرکس نکال
48 دیں گے.بعد میں اس کی بات سنیں گے.مقدمات کی تفصیل میں جائیں تو معلوم ہو گا کہ گنتی کے چند بد بخت مولوی ہیں جنہوں نے یہ شیطانی کام اپنے ذمہ لے رکھا ہے کہ احمدیوں پر مقدمات کئے جاویں.ان میں نام نہاد مجلس ختم نبوت کے مولوی پیش پیش ہیں.پنجاب میں مولوی اللہ یار ارشد اور خدا بخش وغیرہ ہیں.سندھ میں ایک چھوٹے سے قصبہ ٹنڈو آدم کا رہنے والا ایک مولوی احمد میاں حمادی ہے جو وہاں کی جامع مسجد کا خطیب ہے اور چونکہ مسجد محکمہ اوقاف کے زیر نگرانی ہے اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولوی حمادی گورنمنٹ کا تنخواہ یافتہ ہے.اس بد بخت مولوی نے بھی احمدیت کی مخالفت کو اپنا پیشہ بنائے رکھا اور نہ صرف سندھ کی جماعت احمدیہ کے افراد پر بلکہ جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ سے نکلنے والے اخبارات و رسائل الفضل، خالد، مصباح ، تحریکب جدید، تشخیذ الا ذبان وغیرہ کے مدیران، پرنٹرز، مینجر ز اور پبلشر صاحبان پر کئی ایک مقدمات ٹنڈو آدم میں کئے تا کہ ان بزرگان کو دور دراز کا سفر طے کر کے مقدمہ کی پیشی کے لئے سندھ جانا پڑے.مولویوں کے قائم کردہ ان مقدمات کے علاوہ بہت سے مقدمات ایسے ہیں جنہیں حکومت کے نمائندگان، ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر صاحبان نے ہوم سیکرٹری کی ہدایت پر بعض احمدیوں کے خلاف قائم کیا.جماعت کے خلاف مختلف مقدمات اور ایف آئی آر پر مشتمل ایک کتاب ایف آئی آر کے نام سے شائع کی جا چکی ہے.تاریخی شواہد پر مشتمل یہ ایک نہایت اہم دستاویز ہے جس سے غیر احمدی ملاؤں کی کلمہ دشمنی، اسلام دشمنی، جھوٹ اور تکذیب و افتراء اور فتنہ انگیزی اور شرارت پر مشتمل کارروائیوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے.اسی طرح اس سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ کس طرح معصوم احمدیوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے کس قسم کی قلبی و ذہنی اور عملی اذیتیں دی گئیں.لیکن انہوں نے راہ موٹی میں یہ سب ظلم وستم نہایت صبر وشکر اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے برداشت کیا.
49 امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسح الرابع رحمہ اللہ مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ پاکستان، مکرم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ( ناظر اعلی صدر انجمن احمدیہ پاکستان ) مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب اور بہت سے دیگر سر کردہ عہدیداران جماعت کے خلاف بھی مقدمات درج کیے گئے.ہمارے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ( خلیفہ اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ) کو بھی اس وقت جب ایدہ آپ بطور ناظر اعلی صدر انجمن احمدیہ پاکستان خدمات بجالا رہے تھے سراسر جھوٹے مقدمہ میں ملوث کر کے حوالات میں رکھا گیا اور عہد خلافت رابعہ میں آپ کو اسیر راہ مولی ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.اسی طرح مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ( مرحوم ) اور مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ( مرحوم ) کو بھی زیر حراست رکھا گیا اور انہیں اور کئی دیگر معزز عہدیداران جماعت کو راہ مولا میں اسیری کی سعادت حاصل ہوئی.ان میں سے کئی ایک ضعیف و بیمار اور عمر رسیدہ تھے.مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا صادق آن باشد که ایام بلا می گزارد با محبت باوفا گر قضا را عاشقی گردد اسیر بوسد آن زنجیر را کز آشنا سب نے اپنے مولا کی محبت میں اسیری کو خندہ پیشانی اور اولوالعزمی سے قبول کر کے اپنے ایمانوں کی صداقت اور خدا تعالیٰ سے محبت اور وفا پر عملی گواہی دی.جماعتی اخبار اور رسائل کے مدیران اور پبلشرز، پرنٹرز اور مضمون نگاروں کے خلاف بھی مقدمات بنائے گئے اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا.بہت سے احمدیوں کے خلاف قرآن کریم کی توہین اور گستاخی رسول کا نہایت ہی گھناؤنا اور سراسر جھوٹ اور افترا پر مبنی الزام لگا کر مقدمات بنائے گئے اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا.9 اگست 1987ء کو مولوی احمدی میاں حمادی ساکن ٹنڈو آدم نے ایک تحریری درخواست کے
50 ذریعہ حکام سے شکایت کی کہ احمدیوں نے خدام الاحد یہ سپورٹس ریلی کے موقعہ پر لاؤڈ سپیکر پر درود شریف پڑھا اور آیات قرآنی کی تلاوت کی ہے.اس لئے ان کے خلاف تعزیری کارروائی کی جائے.سانگھڑ سندھ کے ایک احمدی کے خلاف مقدمہ زیر دفعہ C/295 اور C/298 درج کیا گیا.ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے گھر کی دیوار پر آليْسَ اللهُ بِكَافٍ عبد لکھا ہوا تھا.18 / اپریل 1988ء کو جھنگ کے ایک احمدی کی دکان پر علاقہ مجسٹریٹ نے چھاپہ مارا اور ان کے خلاف دکان کے شوکیس کے شیشہ پر کلمہ طیبہ کا سٹیکر لگانے کے جرم میں زیر دفعہ B/295 مقدمہ درج کر دیا.اس مقدمہ میں مجسٹریٹ خود مدعی تھا.ایک مقدمہ میں ایک احمدی کا جرم یہ قرار دیا گیا تھا کہ انہوں نے رمضان المبارک میں سحری اور افطاری کا ٹائم ٹیبل شائع کیا اور اس پر کلمہ طیبہ اور مسجد نبوی کی تصویر کے علاوہ روزہ رکھنے اور کھولنے کی دعائیں بھی شائع کیں.ایک احمدی دوست بس پر سوار ہوئے.بس میں سوار چار نوجوانوں نے ان کے ہاتھ پر کلمہ طیبہ والی انگوٹھی دیکھ کر ان سے پوچھا کہ تم قادیانی ہو؟ انہوں نے بتایا کہ وہ احمدی ہیں.نوجوانوں نے انہیں کہا کہ انگوٹھی اتار دو کیونکہ غیرمسلم کلمہ طیبہ والی انگوٹھی نہیں پہن سکتا.ان کے انکار پر نوجوانوں نے زبردستی انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی.چنیوٹ تک یونہی تکرار ہوتی رہی.وہاں نو جوانوں نے اس احمدی کو بس سے اتار لیا.جی بھر کر گالیاں دیں اور مارتے ہوئے تھانہ کی طرف لے گئے.پولیس افسران نے انہیں مشورہ دیا کہ یہ ربوہ کا کیس ہے لہذا اس احمدی کو دوبارہ ربوہ لایا گیا جہاں تھانہ میں ان کے خلاف کلمہ طیبہ کی انگوٹھی پہنے اور تبلیغ کرنے کے جرم میں زیر دفعہ B/298 اور C/298 مقدمہ درج کیا گیا.ایک مقدمہ میں غیر احمدی مولوی کی طرف سے یہ جرم بیان کیا گیا کہ 29 دسمبر 1988ء کے الفضل میں اسلامی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں.ایک مرتدہ کافرہ کے لئے دعائے مغفرت اور مرحومہ کا لفظ لکھا گیا ہے.ان الفاظ سے قادیانیوں نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا ہے اور جرم کا ارتکاب کیا ہے.“
51 جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر ایک مقدمہ بعض احمدی نوجوانوں کے خلاف اس جرم کی بنا پر قائم کیا گیا کہ وہ آدھے بازوؤں والی سیاہ بنی نہیں ٹی شرٹس جن پر Years of 100 Truth لکھا ہوا تھا پہنے ہوئے تھے، مرزا غلام احمد کی بجے کے نعرے لگارہے تھے اور آتش بازی چلا کر جشن کا اظہار کر رہے تھے.ایک احراری مولوی کی درخواست پر 18 دسمبر 1989ء کو زیر دفعہ C/298 تھانہ ربوہ میں تیرہ سر کردہ احمدی احباب کے خلاف ایک مقدمہ کا اندراج کیا گیا جس میں شکایت کی گئی کہ ربوہ میں احمدی مساجد اور رہائشی مکانات پر کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات تحریر کی گئی ہیں.اس مقدمہ میں مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ اور خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کئی معزز افراد اور سلسلہ کے عمائدین کو نامزد کیا گیا.ایس ایچ اوتھا نہ ربوہ کی طرف سے ایک مقدمہ تمام احمدی اہالیان ربوہ کے خلاف جن کی آبادی کم و بیش پچاس ہزار ہے مورخہ 15 دسمبر 1989ء کو زیر دفعہ C/298 تعزیرات پاکستان درج کیا گیا.تھانیدار نے پرچہ درج کرتے ہوئے لکھا: بروئے اطلاعات و خط و کتابت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت و مبلغین احرار و معززین علاقہ کے توسط سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ علاقہ تھانہ ربوہ کے مختلف مقامات پر بسنے والے مرزائی جنہیں آئین پاکستان کی ترمیم 1974ء کی رُو سے غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہوا ہے اور امتناع قادیانی آرڈیننس 1984ء کی رُو سے قادیانی مذہب کی ہر قسم کی تبلیغ تحریر اتقریر اء اشارة بلا واسطه و بالواسطه اور اسلامی و قرآنی اصطلاحات کے استعمال سے روکا گیا.لیکن مرزائیوں نے اس پابندی کے باوجود اپنی قبروں، عمارات ، دفاتر جماعت احمدیہ، عبادت گاہوں، کاروباری مراکز و غیرہ پر کلمہ طیبہ اور دیگر قرآنی آیات تحریر کی ہوئی ہیں.مزید یہ کہ وہ آئے دن مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو قادیانیت کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں جن میں جان بوجھ کر مسلمانوں کو السلام علیکم کہہ دینا اور اذان فجر کے اوقات میں ٹولیوں کی صورت میں بآواز بلند شہر میں کلمہ طیبہ پڑھنا اور دیگر بچوں قسم کی اسلامی حرکات کا اعادہ
52 کرتے ہیں.“ ایک مقدمہ اس بنا پر پر قائم کیا گیا کہ مجلس اطفال الاحمدیہ کی آل ربوہ صنعتی نمائش منعقدہ ایوان محمود ربوه بروز یکم، دو، تین اکتوبر 1990ء کے لئے جاری کردہ داخلہ ٹکٹ پر مسلم، کلمہ طیبہ اور قرآن کریم کی آیت لکھ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا ہے.چنانچہ اس کی درخواست پر منتظمین نمائش پر زیر دفعہ C/298 تھانہ ربوہ میں مقدمہ درج کیا گیا.جن احمدیوں پر مقدمات بنائے گئے ان میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی، بڑی عمر کے ضعیف اور معمر افراد بھی تھے اور نو جوان اور بچے بھی.مئی 1992ء میں نکانہ صاحب کے ایک احمدی ناصر احمد صاحب نے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے جو دعوتی کارڈ شائع کیا اس پر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ، نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ إِنْشَاء الله اور نکاح مسنونہ کے الفاظ درج تھے.اس پر ان کے اور جن دیگر بارہ احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ان میں ایک شاہ رخ سکندر صرف نو (9) ماہ کا بچہ تھا.مقدمه ساہیوال 26 اکتوبر 1984ء کو ساہیوال کی احمدیہ مسجد میں صبح نماز کے بعد بعض مولویوں نے اور ان کے مدرسوں میں پڑھنے والے طلباء نے مل کر ہلہ بول دیا اور اپنے ساتھ وہ برش اور پینٹ وغیرہ لے کر آئے تا کہ مسجد سے جہاں جہاں کلمہ شہادۃ لکھا ہوا ہے اُس کو مٹادیں.چنانچہ باہر کی دیواروں پر اور باہر کے دروازے پر تو وہ مٹانے میں کامیاب ہو گئے لیکن جب مسجد کا جو اندر کا دروازہ ہے اس پر سے کلمہ مٹانے لگے تو چند نوجوانوں نے جو وہاں اس وقت موجود تھے مزاحمت کی اور یہ کہا کہ کسی قیمت پر بھی خواہ ہماری جان جائے ہم تمہیں اپنی مسجد سے کلمہ شہادۃ نہیں مٹانے دیں گے.چونکہ حملہ آوروں کی تعداد بہت زیادہ تھی ایک نوجوان کو تو انہوں نے وہیں پکڑ لیا اور باقیوں کو قتل کی دھمکی دیتے ہوئے مسجد پر حملہ کر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی.اس وقت وہاں ایک احمدی نوجوان نے بندوق سے دو فضائی فائر کئے تا کہ حملہ آور ڈر کے بھاگ جائیں اور ڈر کر کچھ دیر کے لئے وہ بھاگ کر باہر نکل گئے لیکن پھر وہ دوبارہ ہلہ بول کے
53 اندر گئے.اس وقت اپنی جان کے خطرے کے پیش نظر یا اس اعلیٰ مقصد کے لئے کہ کسی قیمت پر بھی وہ مسجد احمدیہ سے کلمہ شہادۃ کو نہیں ملنے دیں گے، اسی نوجوان نے دو فائر کئے اور اس کے نتیجے میں دو حملہ آور وہیں زخمی ہو کر گر گئے اور وہیں انہوں نے جان دے دی اور باقی بھاگ گئے.بعد ازاں پولیس نے جو ملزم گرفتار کئے جن پر الزام بتایا گیا وہ سات تھے لیکن مقدمہ گیارہ کے خلاف درج کیا گیا.عملاً فائر کرنے والا صرف ایک نوجوان تھا اور باقی تین کی طرف سے حملہ آوروں کو کسی قسم کی کوئی گزند نہیں پہنچی.اس کے علاوہ جن افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا ان میں سے بعض موقع پر موجود ہی نہیں تھے.یوں خلاف واقعہ جھوٹے طور پر معصوم احمدیوں کو بھی اس مقدمہ میں ملوث کیا گیا.ان میں سے ایک جماعت کے مربی سلسلہ محمد الیاس منیر صاحب تھے جو مسجد سے ملحقہ اپنے گھر میں تھے.ان کو جب بندوق کے چلنے کی آواز آئی تو وہ نیچے آئے اس وقت ان کو پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ کیا واقعہ ہوا ہے.اور کچھ لوگ ایسے تھے جو ساہیوال میں موجود نہیں تھے.مگر ان علماء نے جانتے ہوئے کہ سارا جھوٹ ہے نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کا نام پرچے میں درج کروایا جن کا کوئی ڈور کا بھی تعلق نہیں تھا بلکہ سراسر الف سے ہی تک پوری کی پوری جھوٹی کہانی بنائی.چونکہ دو احمدی جن کے خلاف الزام تھا کہ انہوں نے قتل میں حصہ لیا ہے وہ وکیل تھے اور بار کونسل کے ممبر اور ہر دلعزیز ممبر تھے.اس لئے ان مولویوں کے جھوٹ سے پردہ فاش کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی بن گیا کہ بار کونسل نے ایک بڑا شدید Resolution پاس کیا اور اس بات کی گواہی دی کہ یہ دو احمدی جو ہماری کونسل کے ممبر ہیں ان کے متعلق تو ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ ان کا ڈور کا بھی اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں.اس لئے ہم اس کے خلاف احتجاج کرتے اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کا نام خارج کیا جائے.اُس علاقے میں یہ جھوٹ اتنا مشہور ہوا کہ بہت سے چوٹی کے شریف وکلاء جو Criminal Cases کے ماہرین تھے انہوں نے علماء کے مقدمہ کی پیروی سے کلیہ انکار کر دیا.انہوں نے کہا کہ اتنا جھوٹا مقدمہ، ایسا ظالمانہ الزام کہ معصوم لوگ جن کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ان کو تم شامل کر رہے ہو اور پھر ساری کہانیاں الف سے ہی تک جھوٹی ہیں.کلمہ مٹانے جارہے ہو اور بیان بیہ دے رہے ہو کہ ہم یہ سننے گئے تھے کہ مسجد میں اذان تو نہیں ہورہی اور یہ سننے کے لئے اس وقت گئے تھے جبکہ نمازیں بھی ختم ہو چکی تھیں اور
54 نمازی اپنے اپنے گھروں کو بھی جاچکے تھے.اور یہ کہنا کہ ہم اندر گئے بھی نہیں.ہم تو صرف کھڑے سن رہے تھے، اس پر فلاں فلاں شخص نے اس طرح فائرنگ کی اور اس طرح حملہ کر کے ہمیں قتل کیا اور پھر گھسیٹ کر اندر لے گئے.تو ایک طرف علماء دین کی یہ جرات اور بے با کی تھی کہ خدا اورمحمد مصطفی علیم کے نام کی قسمیں کھا کر اور قرآن اٹھا اُٹھا کر کلیۂ بے بنیا واقعات کی شہادت دے رہے تھے اور دوسری طرف وہ جن کو دنیا دار کہا جاتا ہے یعنی عام وکلاء اپنی روزی کمانے والے جن کا ظاہری طور پر دین سے تعو سے تعلق نہیں ہے، وہ حیا محسوس کر رہے تھے کہ اس مقدمے میں فیس لے کر بھی کسی طرح ملوث ہو جائیں.وہ سات افراد جن کو گرفتار کیا گیا تھا ان کو طرح طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ایک لمبا عرصہ تک بہت شدید تکلیفیں پہنچائی گئیں لیکن اللہ کے فضل سے وہ لوگ ثابت قدم رہے.اس مقدمے کا جو فیصلہ سنایا گیا اس کی رُو سے دو احمد یوں رانا نعیم الدین صاحب اور محمد الیاس منیر صاحب کو موت کی سزا سنائی گئی اور باقی کو عمر قید پچیس پچیس سال قید با مشقت.یہ مقدمہ تو شروع سے آخر تک جھوٹ ہی جھوٹ تھا، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اس فیصلے کی توثیق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے خود کی اور اخباروں میں فخر کے ساتھ اس بات کا اعلان کروایا کہ وہ اس قتل کے ذمہ دار احمدیوں کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.یہ وہ پہلو ہے جو اس لحاظ سے تعجب انگیز ہے کہ دنیا بھر میں مقدمات ہوتے ہیں، قتل ہو جاتے ہیں.واقعہ بچے مقدمات میں سزائیں ملتی ہیں مگر ملکوں کے صدر کبھی اپنے نام کو ان باتوں میں ملوث نہیں کیا کرتے.عدلیہ کی کارروائی ہوتی ہے بچی ہو یا جھوٹی ہو لیکن ایک ملک کا صدر فخر سے یہ اعلان کرے کہ یہ جو قتل ہونے والے ہیں اس کا فیصلہ میں نے کیا ہے.یہ بات نہ صرف عموماً تعجب انگیز ہے بلکہ اس لئے بھی کہ یہ فیصلہ کرنے والے کی دہریت سے پردہ اٹھاتی ہے.دنیا کے نام پر مظالم کرنے والے بعض دفعہ خدا کے قائل بھی ہوتے ہیں تو غفلت کی حالت میں ظلم کر جایا کرتے ہیں.مگر ایک شخص جو خدا کے نام پر ظلم کر رہا ہو اور معصوم انسان کے متعلق مقتل کا فیصلہ کر رہا ہو.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کو خدا پر ایمان ہو یا اس بات پر یقین ہو کہ وہ قیامت کے دن جوابدہ ہوگا.
55 حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس ظالمانہ فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : خلیفہ قرآن سے یہ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایسے فیصلے ہوتے رہے ہیں.بعض ظالموں کو ظلم کا موقع بھی مل جاتا رہا ہے لیکن خدا کی پکڑ ضرور ظاہر ہوئی ہے ان کے متعلق.آہستہ آئی ہو یا دیر سے آئی ہو.خدا کی پکڑنے ایسے صاحب جبروت لوگوں کو جو اپنے آپ کو صاحب جبروت سمجھتے تھے اور خدا تعالیٰ کو بے طاقت اور بے اختیار جانتے تھے یا اس کے وجود ہی کے قائل نہیں تھے ان کے اس طرح نام ونشان دنیا سے مٹا دئیے کہ عزت کا ہر پہلو ان کے ناموں سے مٹ گیا اور ذلت کے سارے پہلوان کے ناموں کے ساتھ لگے ہوئے ہمیشہ کے لئے زندہ رہ گئے.رہتی دنیا تک رحمتوں کی بجائے لعنتوں سے یاد کرنے کے لئے وہ نام باقی رکھے گئے.اس لئے ہم تو اس خدا کو جانتے ہیں، اس صاحب جبروت کو جانتے ہیں.کسی اور خدا کی خدائی کے قائل نہیں.اس لئے احمدیوں کا سران ظالمانہ سزاؤں کے نتیجے میں جھکے گا نہیں بلکہ اور بلند ہوگا، اور بلند ہوگا یہاں تک کہ خدا کی غیرت یہ فیصلہ کرے گی کہ دنیا میں سب سے زیادہ سر بلندی احمدی کے سر کو نصیب ہوگی کیونکہ یہی وہ سر ہے جو خدا کے حضور سب سے زیادہ عاجزانہ طور پر جھکنے والا سر ہے." 66 آپ نے فرمایا: خطبہ جمعہ فرموده 21 / فروری 1986ء.خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 162) " ہم نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ ان کو یہ توفیق بخشے گا کہ نہیں کہ اپنے ظالمانہ فیصلے پر عمل پیرا ہو سکیں.خدا تعالیٰ نے انسان کے ہاتھ میں جو بھی تدبیر میں رکھی ہیں ان تدبیروں سے بھی ہم کام لے رہے نہیں اور لیتے رہیں گے اور تقدیروں کے رخ بدلنے کے لئے جو دعا کے ہتھیار ہمیں عطا کیے ہیں ہم ان دعاؤں سے بھی کام لیتے رہیں گے کیونکہ دعاؤں کے ذریعہ تقدیریں بھی ٹل جایا کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود خدا کی مرضی بہر حال غالب رہے گی.اگر خدا نے کسی قوم کو شہادت کی سعادت عطا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم اس کی ہر رضا پر راضی رہیں گے.“ آپ نے اسی خطبہ میں فرمایا: خدا کے نام پر مرنے کے لئے تیار رہنے والوں کو کبھی موت مار نہیں سکی کبھی کوئی
56 دشمن ان پر فتح یاب نہیں ہو سکا.اپنی دعاؤں میں التزام اختیار کرو کیونکہ قرآن کریم کی ایک آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں.جو مانگتا ہے اس کو ضرور دیا جاتا ہے.اسی لئے میں کہتا ہوں کہ دعا جیسی کوئی چیز نہیں.دنیا میں دیکھو کہ بعض خر گدا ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ہر روز شور ڈالتے رہتے ہیں ان کو آخر کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے.اور اللہ تعالیٰ تو قادر اور کریم ہے.جب یہ اڑ کر دعا کرتا ہے یعنی بندہ، تو پالیتا ہے.کیا خدا انسان جیسا بھی نہیں.( الحکم جلد 8 مارچ 1906ء) خطبہ جمعہ فرموده 21 فروری 1986ء.خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 170-169) حضور رحمہ اللہ نے ان اسیرانِ راہِ مولا کے دکھ کو اس طرح اپنے اوپر لیا کہ آپ اکثر اپنے خطبات و خطابات میں ان کی رہائی کے لئے احباب جماعت کو نہایت دلسوزی سے دعاؤں کی تحریک فرماتے.آپ کس طرح ان کی آزادی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور تڑپ تڑپ کر دعائیں کرتے رہے، اس کا اندازہ آپ کے ان خطوط سے بھی ہوتا ہے جو آپ نے ان اسیران اور ان کے اہلِ خانہ اور عزیزوں کو خود اپنے ہاتھ سے تحریر فرمائے.( اس مقدمہ ساہیوال اور اسیرانِ راہ مولی کے کرب انگیز حالات کی تفصیل جاننے کے لئے ملاحظہ ہو مکرم محمد الیاس منیر صاحب کی خود نوشت کتاب حکایت دارورسن.) حضور رحمہ اللہ نے اپنی ایک نظم میں اسیرانِ راہِ مولا کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا: ہیں کس کے بدن دیس میں پابند سلاسل پردیس میں اک روح گرفتار بلا ہے کیا تم کو خبر ہے کہ مولا کے اسیروا غم سے مجھے اک رشتہ جاں سب سے سوا ہے آجاتے ہو کرتے ہو ملاقات شب و روز سلسلۂ ربط نہم صبح و مسا ہے اے تنگی زنداں کے ستائے ہوئے مہمان وا چشم ہے، دل باز، در سینہ کھلا ہے تم نے میری جلوت میں نئے رنگ بھرے ہیں تم نے میری تنہائیوں میں ساتھ دیا ہے تم چاندنی راتوں میں میرے پاس رہے ہو تم سے ہی مری نقرئی صبحوں میں ضیا ہے کیس دن مجھے تم یاد نہیں آتے مگر آج کیا روز قیامت ہے! کہ اک حشر بپا ہے
57 یادوں کے مسافر ہو تمناؤں کے پیکر بھر دیتے ہو دل، پھر بھی وہی ایک خلا ہے سینے سے لگا لینے کی حسرت نہیں مٹتی پہلو میں بٹھانے کی تڑپ حد سے سوا ہے یا رب یہ گدا تیرے ہی ڈر کا ہے سوالی جو وان ملا تیری ہی چوکھٹ سے ملا ہے گم گشته اسیران که مولا کی خاطر لذت سے فقیر ایک دُعا مانگ رہا ہے جس ترہ میں وہ کھوئے گئے اس راہ پر گدا ایک کشکول لئے چلتا ہے لب پہ یہ صدا ہے خیرات کر اب ان کی رہائی مرے آقا ! کشکول میں بھر دے جو میرے دل میں بھرا ہے میں تجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے میں تیرا ہوں تو میرا خدا، میرا خدا ہے آپ کم و بیش مسلسل دس سال تک اسی کرب میں مبتلا رہے.بالآخر آپ کی دعائیں اس شان سے بارگاہ رب العزت میں قبولیت کے شرف سے بازیاب ہوئیں کہ وہ ظالم حکمران جوان اسیران کو پھانسی پر لٹکانا چاہتا تھا وہ خود خدا تعالی کی گرفت میں آیا اور ایک فضائی حادثہ میں اس عبرتناک طور پر بلاک ہوا کہ اس کا تمام جسم جل کر خاکستر ہو گیا.اور ملک میں ایسی تبدیلیاں آئیں کہ پہلے ان اسیران کی موت کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوئی اور پھر بالآخر 20 مارچ 1994ء کو ان کی رہائی عمل میں آئی.بعد میں یہ اسیران راہ مولی لندن آئے اور حضرت خلیفہ امسیح نے انہیں اپنے سینے سے لگایا.اسیرانِ راہ مولی ساہیوال کی یہ ربائی اور ان کی موت کے خواہاں جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت اور رسوائی اس دور کے زبر دست نشانوں میں سے نشان تھے جو خلافت حصہ اسلامیہ احمدیہ کی صداقت اور اس کے موید من اللہ ہونے پر گواہ ہیں......احمد یہ مسجد مردان کا انہدام اگست 1986ء کو مردان (پاکستان) میں عید کے دن جب افراد جماعت مرد وزن اور بچے عید پڑھ کر فارغ ہوئے ہی تھے.پیشتر اس کے کہ ان میں سے کوئی مسجد سے باہر جاتا بعض مسلمان کہلانے والے جنونی ملاں حکومت کی سرپرستی میں، حکومت کے نمائندوں، ان کے افسران اور پولیس کے ساتھ دو تین سو کی تعداد میں مسجد پر حملہ آور ہوئے.پولیس نے اندر داخل ہو کر یہ اعلان کیا کہ وہ
58 جماعت کے چار سر کردہ دوستوں کو گرفتار کریں گے.جب ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو تمام موجود احمدی مردوں، عورتوں اور بچوں نے یہ اصرار کیا کہ ان کو تم اگر قید کرو گے تو ہم سب کو قید کر کے لے جانا پڑے گا.چنانچہ ان سب کو پولیس نے اپنی حراست میں لے کر ویگن بھر کر حوالات میں داخل کرنا شروع کیا اور جب مسجد خالی ہوگئی تو پھر ان تمام حملہ آوروں نے پولیس کی معیت میں اور اس کی حفاظت میں مسجد پر ہلہ بول دیا اور مسجد کو شہید کرنا شروع کر دیا.منہدم کرنے سے پہلے انہوں نے مسجد کے قالین، پنکھے اور دیگر قیمتی اشیاء کو سمیٹا اور جس کے ہاتھ میں جو چیز آئی وہ لے اڑا.ان حملہ آوروں کا یہ حال تھا کہ جب وہ مسجد پر ہلہ بولتے تھے اور اسے مسمار کرتے تھے تو نعرہ ہائے تکبیر بھی بلند کرتے تھے اور لبيك اللهم لبيك کہتے تھے کہ اے اللہ ! ہم تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے تیری عبادتگاہوں کو مسمار کر رہے ہیں.کونسا اللہ ہے جس کو مخاطب کر کے وہ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ کہتے تھے یقیناً و محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا الہ تو نہیں جو غیروں کی عبادت گاہوں کی بھی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے، وہ خدا جوعیسائیوں کے معاہد کی حفاظت کی بھی تعلیم دیتا ہے، وہ خدا جس نے تمام دنیا کے معابد کی حفاظت کی تعلیم دی بلکہ مسلمانوں کو ان کا ذمہ دار ٹھہرایا.ان ظالموں نے جنہوں نے اللہ کے نام پر اور اسلام کے نام پر مسجد کو شہید کرنا شروع کیا انہوں نے مسجد احمدیہ سے جتنے قرآن کریم کے نسخے نکلے ان کو پھاڑ کر وہاں گندی نالیوں میں پھینکا، ان کو پاؤں تلے روندا اور بعض بد بختوں نے اس پر پیشاب کیا اور ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے تھے.(ماخوذ از خطبه جمعه فرموده 22 را گست و 29 را گست 1986ء) نکانہ صاحب، اور چک نمبر 563 گب مورخہ 12 / اپریل 1989ء کو ضلع شیخو پورہ کے علاقہ نکانہ صاحب اور چک نمبر 563 گ ب میں عالمی تحریک تحفظ ختم نبوت کی زیر سر پرستی مخالفین کے ایک جلوس نے احمدیوں کے گھروں پر حملہ کیا.ان کو لوٹا، ان کو آگیں لگائیں.HRCP (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ) کی رپورٹ کے مطابق اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ مؤرخہ 11 اپریل کی شام ننکانہ صاحب کی ایک مسجد سے اعلان ہونا شروع ہوتے کہ چک نمبر 563 گ ب میں احمدیوں نے قرآن شریف کو
59 ( نعوذ باللہ ) جلا دیا ہے اس لئے کل ہڑتال ہوگی اور احتجاجی جلوس نکالا جائے گا.جماعت احمدیہ کے نمائندگان نے معاملے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اپنے علاقہ کے ایس ایچ او ڈی ایس پی اور اے سی کو اطلاع کرنے کی کوشش کی اور بمشکل ان تک پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوئے.اگلے دن جب دوبارہ اے سی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے انہیں یقین دلایا کہ حکومت نے کسی بھی قسم کی بدمزگی سے بچنے کے لئے اور امن و امان کو یقینی بنانے کے لئے مناسب انتظام کر لئے ہیں.ڈی ایس پی نے بھی ایسی ہی یقین دہانی کروائی اور کہا کہ ضلعی ہیڈ کوارٹر شیخو پورہ سے مزید پولیس کی نفری بلوالی گئی ہے.اس پر احمدیوں کو کسی قدر تسلی ہوتی.اس کے باوجود دستم گروں نے جلوس نکالا اور بد زبانی کرتے ہوئے انتظامیہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی مداخلت کے بغیر دندناتے ہوئے انتہائی منظم طور پر کئی گھنٹوں تک احمدیوں کے گھروں پر حملہ آور رہے.ان کو لوٹا ، انہیں منہدم کرنے کی کوشش کی اور بقیہ ماندہ سامان کو آگ لگادی.یہ بات توجہ طلب ہے کہ ننکانہ صاحب میں احمدیوں کے گھر شہر کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں.حملہ آوروں کے مختلف گروپس نے بیک وقت مختلف علاقوں میں واقع احمدی گھروں پر حملے کئے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب کچھ باقاعدہ پلاننگ سے ہور ہا تھا.ان لوگوں نے گھروں کو آگ لگانے کے لئے سیاہ رنگ کا کیمیکل بھی استعمال کیا.نکانہ صاحب میں جلاؤ گھیراؤ کے بعد یہ جلوس کچھ ہی فاصلے پر موجود گاؤں چک نمبر 563 گ ب کی طرف روانہ ہوا جہاں پر احمد یہ مسجد اور کچھ گھروں کو نقصان پہنچایا گیا.ان بدنصیبوں نے احمدیوں کے گھروں اور مسجد میں موجود کئی قرآن کریم اور تفاسیر قرآن کے نسخوں کو نذر آتش کر دیا.اور کسی بھی قسم کے الزام سے بچنے کے لئے ان جلے ہوئے نسخوں کو کنویں میں ڈال دیا.مجموعی طور پر ان واقعات میں 28 احمدی گھروں کو نقصان پہنچایا گیا.محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس موقع پر احمدیوں کو کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہ اٹھانا پڑا.اس واقعہ میں انتظامیہ مکمل طور پر بلوائیوں کی سر پرستی کرتی رہی.اطلاعات کے مطابق ڈی ایس پی اسلم لودھی پولیس کی سرکردگی میں خود عوام کو ساتھ لے کر آگئیں لگوا رہے تھے.دوسری طرف اے سی صاحب بھی اسی شغل میں مصروف تھے اور بعض دفعہ وہ خود سامان نکال کر پکڑاتے تھے کہ یہ چیز
60 رہ گئی ہے اس کو بھی ڈھیری میں ڈالو اور آگ لگاؤ.جہاں تک ننکانہ صاحب کی جماعت کا تعلق ہے انہوں نے اپنے عظیم کردار سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا سر بلند کیا.اور کوئی بھاگ کر کہیں نہیں گیا.اپنے جلے ہوئے مکانوں میں اپنے بچوں کو لے کر وہیں بیٹھ رہے اور کلیہ دشمن کی اس کوشش کورڈ کر دیا کہ وہ جماعت کی بزدلی دیکھیں.(ماخوذ از خطبه جمعه فرمود : 14 / اپریل 1989 ء ) قرآن کریم میں سورۃ البروج میں بعض خدا کے پاک بندوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب انہوں نے ربنا اللہ کا دعوی بلند کیا تو بعض ظالموں نے ان کو گڑھوں میں اتارا یا ان کے اموال اور سامانوں کو اکٹھا کیا اور آگیں لگائیں اور تماشے دیکھے اور وہ اس بات کے گواہ تھے اور دیکھ رہے تھے اور مزے اڑا رہے تھے.نکانہ صاحب میں بھی ایسا ہی واقعہ گزرا.پولیس اور حکومت کے افسران اپنے سامنے احمدی گھروں کو جلوا رہے تھے اور پھر تماشے دیکھ رہے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اپریل 1989ء میں اس امر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: قرآن کریم نے جو نقشے پرانی قوموں کے کھینچے ہیں اور پرانے متقیوں کے کھینچے ہیں ہم بھی وہ خوش نصیب ہیں جن پر وہ نقشے اطلاق پارہے ہیں اور نکانہ صاحب کی جماعت وہ خوش نصیب جماعت ہے جو اس صدی کی پہلی جماعت ہے.چک نمبر 563 اور 565 کو بھی شامل کر لیں جو آئندہ صدی کے لئے جماعت کے عزم کا نشان بن گئے ہیں.کوئی دنیا کی آگ ان کو مغلوب نہیں کر سکتی.“ (ماخوذ از خطبات طاہر جلد 8- مخطبہ جمعہ فرمودہ 14 اپریل 1989ء) چک سکندر اس افسوسناک واقعہ کے چند ماہ بعد گجرات میں اسی کہانی کو دہرایا گیا.چک سکندر ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں کا ایک گاؤں ہے.پانچ سو گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں میں قریب سوا سو گھر احمد یوں کے ہیں.مسلک اور عقیدہ کے اختلاف کے باوجود گزشتہ ایک سو سال سے یہاں کے باشندوں کے باہمی تعلقات انتہائی خوشگوار تھے، حتی کہ احمدیوں اور غیر احمدیوں کی مسجد بھی مشترک تھی لیکن جب ضیاء
61 دور میں آمریت نے ملک میں صوبائی ، لسانی اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کو ہوا دی اور بطور خاص احمدیوں کی کردار کشی کے لئے سرکاری سطح پر ایک منظم مہم چلائی تو مولویوں کے ایک مخصوص گروہ نے شہ پا کر ملک کی پُرامن فضا کو مکڈر کر دیا.اس گاؤں میں پہلے مشترکہ مسجد سے احمدیوں کو بے دخل کیا گیا.جب احمدیوں نے اپنی زمین پر مسجد کی تعمیر شروع کی تو عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر کے اس کی تعمیر رکوادی گئی.1989ء میں جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کے بعد سے وہاں حالات کی کشیدگی میں اضافہ ہوا اور احمدیوں کو شدید تنگ کیا جا رہا تھا.احمدیوں کے مکانوں پر حملے کئے گئے، دروازے توڑے اور جلائے گئے.ایک گھر کی چھت اکھیڑی گئی.ایذا رسانی اور مخالفت کی اس کیفیت کو احمدی نہایت صبر سے برداشت کرتے رہے.ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو بار بار بتایا گیا کہ گاؤں کا امن برباد ہو چکا ہے.احمدیوں کا مالی نقصان بھی ہو چکا ہے اور ان کی جانیں بھی خطرے میں ہیں لیکن پولیس نے ایک آدھ بار گاؤں کا چکر لگا کر واپس جانے کے سوا کوئی اقدام نہیں کیا.آخر 16 جولائی 1989ء کو ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت مذہب کے چند علمبرداروں نے قتل وغارت گری کا مظاہرہ کرتے ہوئے احمدیوں پر وہ انسانیت سوز مظالم ڈھائے جن کے بیان سے قلم لرزتا ہے.سب سے پہلے گاؤں کے راستوں کی ناکہ بندی کی گئی اور پھر منظم طریق پر احمدی گھروں کو آگ لگانی شروع کی گئی.مال و اسباب لوٹا گیا اور مخالفین نے اپنے گھروں کی چھتوں سے احمدیوں پر فائرنگ شروع کر دی.اسی اثناء میں پولیس پہنچ گئی.پولیس نے احمدیوں کو اپنا دفاع کرنے سے روک دیا.ان کو اپنے لائسنس یافتہ ہتھیار جمع کرانے کو کہا گیا.ایک احمدی نذیر احمد ساقی کو، جو اپنے مکان کی چھت پر تھے، پولیس نے نیچے بلایا.جب وہ نیچے آئے تو پولیس کی موجودگی میں ایک مخالف نے ان پر فائر کر کے ان کو شہید کر دیا.اس دوران مخالفین احمدی گھروں کو آگ لگاتے رہے.اس سانحہ میں ایک سو سے زائد احمدی گھر جلائے گئے.اور کوشش کی گئی کہ احمدیوں کو ان کے گھروں کے اندر زندہ جلا دیا جائے.آگ سے بچ کر اور انگاروں پر سے گزرتے ہوئے جو احمدی باہر آرہے تھے ان پر فائر کھول دیا گیا.چنانچہ محمد رفیق ولد خان محمد صاحب اور ایک بچی عزیزہ نبیلہ بنت مشتاق احمد صاحب اس.
62 ظالمانہ کاروائی میں جاں بحق ہو گئے.بہت سی خواتین، بچے اور ماسٹر عبدالرزاق ولد مولوی عبدالمالک جیسے معمر بزرگ شدید زخمی ہوئے.شقاوت قلبی کی انتہا تھی کہ احمدیوں کے اسی (80) کے قریب مویشی بھی ہلاک کر کے جلتی آگ میں جھونک دیے گئے.قابل ذکر امر یہ ہے کہ ایس پی، ڈی آئی جی اور ڈی سی، پولیس کی بھاری جمعیت کے ساتھ اس خونی ڈرامہ کے شروع ہی میں گاؤں پہنچ گئے تھے اور یہ ساری قتل وغارت گری ،لوٹ مار اور بھیا تک مظالم ان کی موجودگی میں جاری رہے.اور پھر ظالموں کو تو کچھ نہ کہا گیا الٹا مظلوم احمدیوں کے سترہ افراد کو ایک غیر احمدی شخص احمد علی کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا.یہ شخص احمدیوں کے گھروں پر کیے جانے والے حملوں کے دوران حملہ آوروں کی ہی گولی کا نشانہ بن گیا تھا.باقی احمدیوں کو ہراساں کر کے گاؤں سے نکال دیا گیا.جب احمدیوں نے اپنے مقتولین کو اپنی ملکیتی زمین میں واقع قبرستان میں دفن کرنا چاہا تو اس کی بھی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ پولیس زبر دستی ان لاشوں کور بوہ چھوڑ گئی.احمدیوں پر اس قیامت صغریٰ کو بپا کرنے کے بعد کافی عرصہ تک گاؤں کے گرد پولیس کا محاصرہ رہا.کسی احمدی کو اندر جانے کی اجازت نہ تھی.جو احمدی گاؤں میں محصور رہے ان کے بارے میں کوئی اطلاع باہر نہیں جانے دی جاتی تھی.انتظامیہ سے ہر سطح پر درخواست کی گئی کہ احمدیوں کو دوبارہ ان کے گھروں میں جانے کی اجازت دی جائے یا کم از کم اتنی اجازت دی جائے کہ کوئی ذمہ دار احمدی پولیس کے ساتھ جا کر محصور احمدیوں کی خبر لے لیکن کافی عرصہ تک ہر سطح پر ٹال مٹول سے کام لیا گیا.دوسری طرف قومی اخبارات میں انتہائی دیدہ دلیری سے مذہبی اجارہ داروں کے بیانات شائع کئے گئے کہ کسی احمدی کوچک سکندر میں واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور بڑے فخر سے یہ خبریں چھاپی گئیں کہ چک سکندر کے محصور قادیانیوں نے اسلام قبول کر لیا ہے.گاؤں میں بانی جماعت احمد یہ اور احمدیوں کے خلاف نمایاں طور پر دل آزار بینر آویزاں کیے گئے.بعد ازاں احمدیوں کے گھروں سے لوٹا گیا سامان نیلام کر دیا گیا اور احمدیوں کو الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ اپنے عقائد سے توبہ کرلیں بصورت دیگر انہیں قتل کر دیا جائے گا.قومی اخبارات وحشت و بربریت کے اس مظاہرہ پر خاموش رہے.حقوق انسانی کے علمبرداران
63 مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے سے گھبراتے رہے.پاکستان کا وہ آئین جو بلا امتیا ز تمام شہریوں کے جان و مال اور عزتوں کی حفاظت کا ضامن ہے، حرکت میں آنے سے قاصر رہا.اس واقعہ کے بعد علاقہ میں حکومت نے صوبائی یا وفاقی سطح پر چک سکندر کے مظلومین کے لئے نہ کوئی امدادی کیمپ کھولا، نہ زخمیوں کو طبی امداد دی ، نہ ان کی دادرسی کے لئے کسی وزیر نے کوئی بیان دیا.( بحوالہ www.thepersecution.org) اس واقعہ کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے فریقین کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے ساتھ رابطہ کر کے ایک رپورٹ تشکیل دی.یہ مختصر مگر جامع رپورٹ شائع شدہ وو ہے.اس کے آخر میں جو نتائج انند کئے گئے ہیں وہ ذیل میں درج کیے جاتے ہیں : جائے حادثہ پر موجود شواہد اور اس واقعہ سے متعلق اخذ کیے جانے والے قرائن کی روشنی میں کمیٹی درج ذیل نتائج تک پہنچی ہے: 1 مورخہ 16 جولائی 1989ء کو احمدیوں کے خلاف ہونے والے فسادات نفرت انگیز فرقہ وارانہ جذبات کو ابھارنے کے باعث ہوئے.ایک شخص جس نے ان فسادات میں اپنا شامل ہونا تسلیم کیا محمد عامر ہے.اس کی حرکات و سکنات کا نوٹس انتظامیہ کو قبل از وقت لے لینا چاہئے تھا.2 وہاں سے اکٹھے کئے جانے والے قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات کی رو چلانے اور ان فسادات کے دوران مؤرخہ 16 / جولائی 1989ء کو احمدیوں پر حملے کرنے میں منظم اینٹی احمد یہ تنظیمیں سرگرم عمل تھیں.3.اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ مؤرخہ 16 جولائی 1989ء کو ہونے والے واقعہ کے بعد احمدیوں کو جائے وقوع سے زبردستی نکال لے جانے اور ان کے زخمیوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک میں انتظامیہ نے احمدیوں کے خلاف دوسرے فریق کی بے جا طرفداری سے کام لیا.4 کمیٹی کا یہ خیال ہے کہ اگر احمدیوں کو ان کی حفاظت کے لئے جائے وقوع سے نکال لے جانا مقصود تھا تو ان کا وہاں سے نکالا جانا عارضی نوعیت کا ہونا چاہیے تھا نیز ان کے عارضی قیام کے لئے مناسب انتظامات کئے جانے چاہیے تھے.یہ انتظامیہ کا فرض تھا کہ اس گاؤں میں احمدیوں کے محفوظ
64 قیام کوممکن بناتی اور ان کی جان و مال کو جو بھی خطرات درپیش تھے ان کا سد باب کرتی.انتظامیہ اس لحاظ سے اپنے فرائض کو سر انجام دینے میں بری طرح سے ناکام رہی.5.اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد اس واقعہ کی باقاعدہ تحقیق و تفتیش قطعا عمل میں نہیں لائی گئی اور اس واقعہ سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی سرکاری رپورٹ موجود نہیں ہے.6.جن لوگوں نے احمدیوں کے جان و مال پر حملہ کیا ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا.“ HRCP Report on Chak Sikandar Arson & Violence against Minorities July) 1989 by Human Rights Commission of Pakistan P.16-17) یہ سارا ظلم پاکستان کی پنجاب پولیس نے کروایا.اس وقت وہاں جو آئی جی پولیس تھے وہ وہی تھے جن کی زیر نگرانی 1974ء میں سرگودھا میں احمدیوں کے گھر جلائے گئے تھے.سارے ضلع کی انتظامیہ اس خبیثانہ اور ظالمانہ فعل میں پوری طرح ملوث اور ذمہ دار تھی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جولائی 1989ء میں چک سکندر کے اس واقعہ کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا:...احمدی شہداء کا خون ضائع ہونے والا نہیں ہے.اس کے ایک ایک قطرے کا ظالموں سے حساب لیا جائے گا اور اس کا ایک ایک قطرہ جماعت احمدیہ کے لئے نئی بہاریں لے کر آئے گا اور نئے چمن کھلائے گا اور نئی بستیوں کی آبیاری کرے گا اور تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کے نشو نما کے لئے یہ قطره باران رحمت کے قطروں سے بڑھ کر ثابت ہوگا." اسی طرح آپ نے فرمایا: ان شہادتوں کا جو اب ہوتی ہیں اور ان واقعات کا مجھے کوئی شبہ نہیں کہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت سے ایک گہرا تعلق ہے اور بہت سے! بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اتفاقی نہیں ہے.اس لئے افغانستان کے سو سال جس عذاب میں گزرے ہیں اس شہادت کے بعد اس سے پاکستان کو سبق لینا چاہئے.اگر پاکستان نے اس بات سے سبق نہ لیا تو جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اس کی ترقی کو کوئی دنیا کی طاقت روک
65 نہیں سکتی.جب سے پاکستان نے مخالفت شروع کی ہوئی ہے جماعت اگر چل رہی تھی تو تیزی سے دوڑ رہی ہے، اگر دوڑ رہی تھی تو اڑتی چلی جارہی ہے.کوئی دنیا کا ایسا ملک نہیں جہاں جماعت احمد یہ خدا تعالٰی کے فضل سے پہلے سے بیسیوں گنا زیادہ تیز رفتار کے ساتھ آگے نہیں بڑھ رہی.اس لئے جماعت کی تقدیر تو آسمان پر لکھی ہوئی ہے.تمہارے ذلیل اور رسوا ہا تھ آسمان پر لکھی ہوئی تقدیر کو مٹا نہیں سکتے.تمہاری رسوائی کی تقدیر اس زمین پر بھی لکھی جائے گی اور اگر تم اپنے ظلم اور سفاکی سے باز نہ آئے تو تمہیں خدا کی تقدیر عبرت کا نشان بنادے گی اور تم ماضی کا حصہ بن جاؤ گے، مستقبل میں آگے بڑھنے والی قوموں میں شمار نہیں کئے جاؤ گے.“ ( خطبات ظاہر جلد 8 صفحہ 497 498 مخطبہ جمعہ فرموده 21 جولائی 1989ء) حضرت خلیفہ امسح الرابع " کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ بڑی شان کے ساتھ پورے ہوئے اور جماعت احمد یہ بیسیوں گنا تیز رفتاری سے شاہراہ غلبہ اسلام و احمدیت پر آگے بڑھتی چلی جارہی ہے اور دوسری طرف پاکستان میں معاندین احمدیت ملاں اور ان کی سرپرست حکومتیں ذلت و رسوائی کا شکار ہیں.یہ ایسی کھلی حقیقتیں ہیں جن سے کوئی شہرہ چشم ہی انکار کر سکتا ہے.سانحہ گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں واقع گھٹیالیاں کا گاؤں جماعت احمدیہ میں اس وجہ سے بھی مشہور ہے کیونکہ ربوہ کے بعد اسی قصبے میں جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام تعلیم الاسلام ہائی سکول اور تعلیم الاسلام کالج قائم ہوا جن میں سے تعلیم الاسلام سکول آج بھی قائم ہے.اس قصبے کی تین ہزار آبادی میں دو تہائی غیر از جماعت افراد ہیں.اس قصبے میں دو احمدی مساجد ہیں، ایک شمال میں اور دوسری شرقی سمت ہے.شرقی سمت کی مسجد قصبے کے شرقی کونے میں واقع ہے جس کے قریب ہی پسرور جانے والی سڑک گزرتی ہے.مؤرخہ 30 اکتوبر 2000ء کی صبح نماز فجر پانچ بج کر پچیس منٹ پر ادا کی گئی.امام الصلوۃ کے فرائض مکرم مشتاق احمد صاحب انجام دیتے تھے جو اس مجلس کے زعیم انصار اللہ اور عت کے سیکرٹری امور عامہ بھی تھے.نماز کے بعد انہوں نے تفسیر صغیر سے سورۃ فاتحہ کا درس دیا جو معمول سے قدرے طویل ہو گیا.درس ختم ہونے کے بعد ایک نوجوان خادم محمد اسلم نے ان سے
66 قرآن کریم لیا اور ان کے دائیں ہاتھ بیٹھ کر تلاوت کرنے ہی لگا تھا کہ مسجد میں قیامت برپا ہوگئی.گھٹیالیاں سے پسرور جانے والی سڑک پر ایک سلیٹی رنگ کی کار آ کر ر کی جس میں دو افراد بیٹھے رہے اور باقی دو جنہوں نے چادر میں لیٹی ہوئی تھیں اور منہ پر نقاب ڈالے ہوئے تھے مسجد میں داخل ہوئے.ادھر درس ختم ہونے کے بعد تین افراد باہر نکلے، سب سے آگے عباس علی صاحب تھے جو ایک مضبوط اور تنومند 35 رسالہ نوجوان تھے.کلاشنکوفوں سے مسلح دو افراد نے جو مسجد کے صحن سے آگے آکر دروازے تک پہنچ چکے تھے اندر سے نکلنے والے تینوں افراد کو واپس مسجد میں جانے کو کہا.عباس علی صاحب بڑی جرات اور دلیری سے آگے والے شخص سے الجھ پڑے اور اس کی گن پر ہاتھ ڈال دیا اور ڈپٹ کر کہا تم کون ہو.تم باہر نکلو.اسی لمحے دوسرے مسلح شخص نے کلاشنکوف عباس علی صاحب کے جسم سے لگا کر پورا برسٹ ان کے پیٹ میں اتار دیا اور اندر سے آنے والے دوسرے نوجوان کو بٹ مار کر اندر گرا دیا اور تیسرے نو جوان تسنیم عرف مٹھو کو بھی دھکیل دیا.اس نے اندر آتے ہی دروازہ بند کرنے کی کوشش کی اور ایک دروازے کی کنڈی لگادی مگر دوسرا دروازہ بند نہ کر سکا.مسجد کے اندر بعض لوگ ابھی بیٹھے تھے اور بعض کھڑے تھے.مشتاق صاحب نے جو محراب میں بیٹھے تھے جب ایک نوجوان کو اندر کی طرف گرتے دیکھا تو وہ فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ ہی مسلح شخص کی کلاشنکوف سے گولیاں چلنے لگیں.اس نے نیم دائرہ بنا کر ساری مسجد کے اندر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی.فائرنگ سے نکلنے والا دھواں اور جسموں سے نکلنے والا لہو ہر طرف پھیل گیا.دونوں مسلح افراد نے چند لمحوں میں اپنی کارروائی ختم کی اور باہر نکل گئے.باہر نکل کر انہوں نے ہوائی فائر کیا تا کہ کوئی ان کے پیچھے نہ آسکے.پھر وہ بھاگ کر گاڑی میں بیٹھے اور سلیٹی رنگ کی کار پسرور کی طرف فرار ہوگئی.مسجد کے اندر لوگ ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے.جن کو زیادہ گولیاں لگی تھیں وہ جان کنی کی کیفیت میں تھے.حملہ آور کے سامنے مسجد کا ستون اور اس کے پیچھے محراب تھی جس میں مشتاق صاحب کھڑے تھے.جب ان کو یہ احساس ہوا کہ وہ زندہ سلامت ہیں مگر بہت سے احباب شدید زخمی ہیں تو ان کے سینے سے اللہ اکبر کی آواز بلند ہوئی.اس کے ساتھ ہی جو لوگ زندہ بچ گئے تھے انہوں نے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگانے شروع کر دیئے.مشتاق صاحب نے لوٹے میں پانی لا کر زخمیوں
67 کو پلانا شروع کیا.قصبے کے دیگر لوگ بھی جمع ہو گئے.اس واقعہ میں 4 افراد شہید جبکہ 16افراد شدید زخمی ہوئے.شہداء میں محترم غلام محمد صاحب ولد علی محمد صاحب ( عمر 68 سال) محترم عطاء اللہ صاحب ولد مولا بخش صاحب ( عمر 65 سال)، محترم عباس علی صاحب ولد فیض احمد صاحب ( عمر 35 رسال) اور محترم افتخار احمد صاحب ولد چوہدری محمد صادق صاحب ( عمر 35 رسال) اور شہزاد احمد ( عمر 16 رسال) شامل ہیں.بنگلہ دیش پاکستان میں مخالفت کی اس آگ کو معاندین احمدیت نے دیگر ممالک میں بھی منتقل کرنا شروع کر دیا.بنگلہ دیش بھی ان ممالک میں سے ایک ملک ہے.اس میں منظم طور پر جب احمدیوں کی مخالفت کا شوشہ چھوڑا گیا اور حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے تو اس ملک کے بعض عقلمند سیاسی لیڈرز نے پاکستان سے سبق سیکھتے ہوئے انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا.تاہم اس کے باوجود بنگلہ دیش کے شہروں اور گاؤں سا کھیر (Sathkira) (سندربن ) ، ناٹور (Natore)، براہمن بڑی (Brahmanbaria)، بھا دو گڑھ (Bhadugarh) کھلنا، جمال پور، چٹاگانگ، ناصر آباد، طاہر آباد، شری شاباڑی، کھڑام پور، دیو گرام، کروڑا، گھٹورا اور ڈھا کہ وغیرہ میں احمدیہ مساجد اور احمدی گھروں پر حملے کئے گئے.کئی گھر جلا دیئے گئے، مسجدوں کو بھی جلایا گیا.بعض جگہوں پر احمد یہ مساجد پر مخالفین نے زبر دستی نا جائز قبضہ کر لیا.اسی طرح انہیں پتھراؤ اور ایک جگہ بموں سے نقصان پہنچایا گیا.ان فسادات میں سات احمدی شہید جبکہ متعد د احمدی زخمی ہوئے.جماعتہائے احمد یہ بنگلہ دیش نے جس صبر و استقامت کے ساتھ ان مظالم کو برداشت کیا اور ایمانی جرات اور ہمت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12 فروری 1993ء میں جماعت احمد یہ بنگلہ دیش کے سالانہ جلسے کے اختتام پر اُن سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:
68 بنگلہ دیش بہت ہی بڑے ابتلا میں سے بلکہ بار بار ابتلاؤں میں سے گزرا ہے اور ان پر اللہ تعالی کا خاص فضل ہے کہ باوجود اس کے کہ جماعت چھوٹی اور دیکھنے میں کمزور ہے مگر ایمان اور ہمت اور استقلال اور بہادری میں اور ثابت قدمی میں دنیا کی کسی جماعت سے پیچھے نہیں بلکہ اکثر جماعتوں سے آگے قرار دیا جا سکتا ہے.اتنے بڑے بڑے بوجھ، اس حیرت انگیز طریق پر جماعت نے اٹھائے اور جہت سے مسکراتے ہوئے بغیر خوف کے اظہار کے بڑے بڑے خوفوں سے گزر گئے اور بڑے بڑے نقصانات کے رونے نہیں روئے اور اللہ کی حمد کے گیت گاتے ہوئے اس بات پر شکر کرتے ہوئے کہ خدا نے ہمیں توفیق بخشی اور استقامت عطا فرمائی وہ جماعت آگے سے آگے بڑھتی چلی جارہی ہے.اور ہر ابتلا کا فوری نتیجہ خدا کے غیر معمولی فضلوں کی صورت میں ان پر نازل ہو رہا ہے اور ہر وہ کوشش جو ان کو کمزور بنانے کی کی جارہی ہے وہ ان کو پہلے سے بہت زیادہ طاقتور بنا کر نکالتی ہے.یہ تو خدا کا ایک عمومی سلوک ہے جو سب اچھی جماعتوں سے ہوا کرتا ہے.لیکن جیسے کہتے ہیں جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہوگا.تو وہ ماشاء اللہ اپنی قربانیوں میں گڑ بہت ڈالتے ہیں اور ویسے بھی ان کو میٹھے کی بہت عادت ہے اس لئے یہ گڑ والا محاورہ ان پر خاص صادق آتا ہے.بگر قربانیوں کا جہاں تک تعلق ہے ان میں جتنا میٹھا ڈالیں اچھا ہے کیونکہ وہ میٹھا تو منظور ہی منظور ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ آپ کی قربانیوں کو بہت جلد جلد پھل عطا کرتا ہے....حضور نے فرمایا: جماعت احمدیہ کا سورہ صف کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور جماعت احمد یہ بنگلہ دیش جس شان کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر رہی ہے اور جس اخلاص کے ساتھ ثابت قدمی سے ابتلاؤں کو برداشت کر رہی ہے اور نیکیوں میں آگے بڑھ رہی ہے اس وجہ سے میں نے انہی آیات کو آج اُن کے جلسہ کے لئے موضوع بنایا تا کہ ان کو پتہ لگے کہ قرآن کریم میں ان کا ذکر موجود ہے.بظاہر کہنے کو تو یہاں یہ ذکر نہیں کہ 4 بخشی بازار ڈھا کہ میں یہ ہوگا یا برہم بڑیے میں فلاں بات ہو گی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو ٹھنٹے کھینچے ہیں کہ خدا کی خاطر کیا کیا تکلیفیں اٹھائی جاتی ہیں وہ یہاں موجود ہیں اور اس کی جزا جو دی جاتی ہے وہ بھی ذکر ہے.فرمایا
69 جاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَالفُسکھ جو کچھ بھی مصیبتیں تم پر ٹوٹیں، جو مظالم تم پر توڑے جائیں، تم ثابت قدمی کے ساتھ اپنے اموال کی قربانی بھی پیش کرتے چلے جاتے ہو اور جانوں کی قربانی بھی پیش کرتے چلے جاتے ہو.چنانچہ وہاں جس قسم کے ہولناک حالات پیدا کئے گئے ہیں، برہمن بڑیہ میں منتقلی اور 4 - بخشی بازار ڈھا کہ میں ان حالات کے نتیجہ میں بڑے بڑے بہادروں کا بھی پتہ پانی ہو سکتا تھا اور بڑے بڑے دلیر کہلانے والے بھی خوفزدہ ہو سکتے تھے.لیکن چھوٹے بچے کیا اور مرد کیا اور بڑے کیا سب نے صبر کا اور استقامت کا ایسا عظیم نمونہ دکھایا ہے.اس دلیری کے ساتھ ان خوفوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھجھکے بغیر اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے اور ظالموں نے ان کو اس طرح پیٹا ہے جس طرح کسی مٹی کے ڈھیر پر سوٹے ہر سائے جارہے ہوں اور اف تک نہیں کی چیخیں نہیں ماریں، شور نہیں مچایا میں نہیں کیں اور کسی قسم کی بھی کمزوری کا اظہار نہیں کیا..ان میں جو بوڑھے تھے وہ بھی تقریباً جاں بلب ہو گئے اور جوان اور بچے جو تھے وہ بھی بری طرح بیٹے گئے.بہت دردناک طریق پر ان کو مارا گیا یہاں تک کہ بعض دیکھنے والے غیر احمدیوں نے جب دیکھا تو بعد میں تعجب کا اظہار کیا کہ بیچ کس طرح گئے.کیونکہ جس حال میں وہ چھوڑ کر گئے تھے بظاہر بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی.لیکن بنگلہ دیش کی جماعت کی جو خوبی میں بیان کر رہا ہوں وہ ان کی بہادری ہے.ذرہ بھر بھی انہوں نے وحشت نہیں دکھائی.خوف کا اظہار نہیں کیا.اور اللہ کے فضل سے بڑی محبت اور پیار کے ساتھ خدا کی خاطر ان دکھوں کو برداشت کیا.ان کے سامنے لیے عرصہ کی قربانیوں کا پھل جو بخشی بازار کی عمارت کی صورت میں تھا اور اس میں مختلف قسم کا قیمتی فرنیچر بھی سجا ہوا تھا، مختلف کمرے تھے، رہائش کی مختلف جگہیں بھی تھیں، مسجد بہت خوبصورت سجائی گئی تھی.بہت خرچ کیا گیا تھا.ان سب چیزوں کو اپنے سامنے آگ لگتے، جلتے، برباد ہوتے ہوئے بظاہر دیکھا لیکن قطعا واویلا نہیں کیا اور بعد میں بھی جو خط مجھے وہاں سے ملے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ خدا نے اپنے فضل سے اس جماعت کو غیر معمولی طور پر اخلاص اور استقامت عطا فرمائی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر معمولی طور پر بنگال کی جماعت نے خدا کی راہ میں ثابت قدمی دکھائی ہے.
70 ایک احمدی خاتون کے متعلق مثل مجھے خط ملا کہ جب اُن کو خبر ملی.ان کا کوئی عزیز رشتہ دار کوئی تعلق والا نہیں تھا اور جب اُن کو پتہ چلا کہ کتنے خوفناک حالات ہیں اور کس بری طرح مارا پیٹا جا رہا ہے اور تقریبا ذبح کر کے لوگ چھوڑ گئے ہیں تو ان کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ بغیر کسی سے بات کئے فورار کٹا پکڑا اور کہا کہ میں کیوں محروم رہوں، میں وہاں پہنچوں گی اور میں بھی دفاع میں حصہ لوں گی.چنانچہ جب وہ پہنچی ہیں تو وہاں سب ہنگامہ ختم ہو چکا تھا اور پہنچ کر انہوں نے وہاں لوگوں کو دیکھا.کچھ زخمی تھے اور کچھ دوسرے.انہوں نے کہا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو ماررہے تھے.میں بھی تو اسی لئے آئی تھی، تو ان کو بتایا گیا کہ یہ سب معاملہ تو ختم ہو چکا ہے.اب تو رخی ہسپتال جا رہے ہیں.جو آ گیں تھیں وہ کچھ ٹھنڈی ہو گئی ہیں اور کچھ ٹھنڈی کی جا رہی ہیں....تو بنگالی احمدیوں کا ذکر خیر اور ان کی استقامت کا اور اخلاص کا ذکر خیر تاریخ احمدیت میں ہمیشہ کے لئے سنہری لفظوں سے محفوظ ہونا چاہئے....پس اہل بنگال اور بنگال کی جماعتوں کو یہ خوشخبری ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اس کے نتیجہ میں خدا تعالی کے فضل مختلف صورتوں میں ظاہر ہوں گے، آخرت سے تعلق رکھنے والے فضل بھی نازل ہوں گے اور دنیا سے تعلق رکھنے والے فضل بھی نازل ہوں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس خوشخبری میں صرف بنگال کے احمدی ہی نہیں بلکہ بنگال کے عوام الناس بھی عموما داخل ہیں.اس لئے کہ بنگالی مزاج میں ایک ایسی شرافت پائی جاتی ہے جو مذہبی جنون رکھنے والی قوموں میں عموما نہیں پائی جاتی.مذہبی جنونی تو وہاں موجود ہیں لیکن بنگال کا مزاج عدل والا مزاج ہے اور عقل کے لحاظ سے میں نے بنگالی کا دماغ دیکھا ہے کہ ہمارے پنجابیوں کی نسبت روز مرہ معاملات میں، سیاست میں، مسائل کو سمجھنے میں بہت زیادہ روشن ہے.وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے دماغ کی قسم اچھی ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ اُن میں انصاف پایا جاتا ہے اور سب سے زیادہ پاگل کرنے والی چیز بے انصافی ہے.اس لئے پنجاب میں ویسے دماغ بہت اچھے ہیں وہ جب دنیا کے علوم میں منبع کرتے ہیں، جستجو کرتے ہیں تو بڑی بڑی ترقیاں پا جاتے ہیں.سیاست کے ایچ بیچ میں بھی خوب جو ہر دکھاتے ہیں لیکن گہری عقل اور تقویٰ کی روشنی مدل کے بغیر نصیب نہیں ہوا کرتی.وہاں حدل
71 کم ہے اور اسی نے ساری مصیبت ڈالی ہوئی ہے.اگر پاکستان کو عدل نصیب ہو جائے تو پاکستانی قوم دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ صف اول کی قوموں میں غیر معمولی چمکنے والی قوم بن سکتی ہے.مگر بہر حال بنگلہ دیش کی جو خاص خوبی مجھے دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ان میں عدل پایا جاتا ہے.پنجابی کے مقابل پر بہت زیادہ عدل مزاج لوگ ہیں.پس ساری قوم نے بڑا ہی عمدہ رز عمل دکھایا ہے.اتنی کھلم کھلا اور اتنی زور کے ساتھ جماعت احمدیہ کی تائید ہوتی ہے اور اکثریت کے رہنما ہونے کے دعویدار علماء کو مجرم گردانا گیا ہے اور کھلم کھلا کہا گیا ہے کہ تم دھو کے باز ہو تم نے ظلم کیا ہے.تم نے قرآن کی بے عزتی کی تم نے اسلام کی بے عزتی کی تمہیں کوئی حق نہیں تھا.جب بابری مسجد والا واقعہ ہوا ہے تو بعض اخباروں نے بڑے سخت اداریے لکھے ہیں کہ اے ملاں ! تو بابری مسجد کو روتا ہے.4 بخشی بازار میں جماعت احمدیہ کی مسجد کے ساتھ کل تونے کیا کیا تھا؟ مجھے حق کیا ہے کہ کسی اور مسجد کی بربادی پر کسی قسم کا احتجاج کرے؟ تو ساری قوم نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قیام عدل کا جو نمونہ دکھایا ہے اُس سے میرا دل بنگلہ دیش کے لئے بہت راضی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی اس قوم پر فضل فرمائے گا.اور جہاں جماعت پر فضل فرمائے گا، بنگالیوں پر بالعموم بھی فضل فرمائے گا.خدا کرے کہ ان کی سیاست اُن کو عدل پر قائم رہنے دے....اے اہل بنگالہ میں تمہیں مبارکباد دیتا ہوں.تم نے جس طرح میرے دل کو راضی کیا میری دعا ہے کہ اس سے ان گنت زیادہ خدا کا دل تم سے راضی ہو اور خدا تعالیٰ جب کسی کو نصیب ہو جائے تو اُسے دنیا بھی عطا ہو گئی اور آخرت بھی ہو گئی.آمین خطبه جمعه فرمودہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع " 12 فروری 1993ء.خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 136:120) اس کے علاوہ بلغاریہ، مصر، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، قازاقستان، قرغزستان، ملائشیا، فلسطین، سعودی عرب، سنگاپور، تھائی لینڈ ٹرینیڈاڈ، ہالینڈ، ناروے اور یو کے میں بھی احمدیوں کے خلاف ظلم و زیادتی کے بعض واقعات منظر عام پر آئے اور حکومت پاکستان کی شرانگیزی اور پشت پناہی کے نتیجہ میں پاکستان سے باہر کے ممالک میں بھی احمد یہ مساجد، مشن ہاؤسز اور جماعتی املاک کو نقصان پہنچانے کی مذموم کارروائیاں کی گئیں.
72 شہداء دور خلافت رابعه تاریخ انبیاء اس بات پر شاہد ہے کہ بسا اوقات خدا کے مامورین و مرسلین پر ایمان لانے والوں کو ان کے معاندین و مکذبین کی طرف سے اس قدر شدید مخالفتوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا کہ انہیں اپنے خون دے کر اور اپنی جانیں قربان کر کے اپنے ایمان کی صداقت پر گواہی دینی پڑی.اس پہلو سے سید المرسلین، خاتم النعمین حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی قربانیوں اور شہادتوں کی تاریخ نہایت ارفع اور روشن اور دلگد از تاریخ ہے.اسی سنت انبیاء کے مطابق اس زمانہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کامل اور عاشق صادق اور آپ کے موعود مہدی ومسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے متبعین کو بھی سخت اذیتوں اور ابتلاؤں سے گزرنا پڑا.چنانچہ بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں ہی شہادتوں کی بنیاد بھی پڑی.حضور علیہ السلام نے افغانستان سے تعلق رکھنے والے دو جلیل القدر صحابہ حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب اور حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید کا ذکر اپنی تصنیف متذکرۃ الشہادتین میں بڑے ہی دلگداز انداز میں فرمایا.ہر دو شہدائے کرام کے واقعات ہائلہ پڑھ کر انسان لرز جاتا ہے کہ انہیں کس بیدردی کے ساتھ شہید کیا گیا.دوسری طرف ان شہداء کی غیر معمولی استقامت و ثابت قدمی انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈالتی ہے.میں ان ابتدائی شہادتوں کی تفصیل جاننے کے لئے کتاب تذکرۃ الشہادتین کا مطالعہ بہت اہمیت رکھتا ہے.حضور علیہ السلام نے ان شہداء کے ذکر میں ایک مقام پر فرمایا:...ایسے لوگ اکسیر احمر کے حکم میں ہیں جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فدا کرتے ہیں اور زن و فرزند کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے.اے عبداللطیف ! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تونے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جولوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے.“ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 60) یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد
73 خلافت احمدیہ کے مختلف ادوار میں بھی متعدد شہداء نے اپنے بزرگ اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں اور اسی طرح صدق و وفا کے شاندار نمونے دکھائے.خلافت رابعہ کے عہد میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مذکورہ بالا ارشاد کو بیان کرنے کے بعد اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اپریل 1999ء میں فرمایا: جماعت کی طرف سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روح کو ئیں کامل یقین سے یہ پیغام دے سکتا ہوں.اے ہمارے آقا ! تیرے بعد تیری جماعت انہی راستوں پر چلی ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ چلتی رہے گی جو رستے صاحبزادہ عبداللطیف شہید نے ہمارے لئے بنائے تھے.گوان سے نسبت کوئی نہیں مگر غلامانہ ہم انہیں راستوں پر چل رہے ہیں.“ (مخطیه جمعه فرموده 23 اپریل 1999 ء - خطبات طاہر بابت شہداء صفحہ 25) حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے 1999ء میں شہدائے احمدیت کے تذکرہ پر مشتمل خطبات کا ایک سلسلہ شروع فرمایا جو بعد میں شہدائے احمدیت کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے.یہ کتاب جماعت کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور مومنین کے ایمان و اخلاص اور جذ بہ قربانی کو بڑھانے کا موجب ہے.اس مختصر تمہید کے بعد ذیل میں ہم عہد خلافت رابعہ میں شہادت کا اعزاز پانے والوں کی فہرست درج کر رہے ہیں.( ان شہادتوں کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب شہدائے احمدیت) [www.alislam.org/urdu/pdf/Shuhda-e-Ahmadiyyat-Aaghaz-ta-Khilafat-4.pdf] ان شہداء میں پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں شہادت پانے والے شامل ہیں.ان میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں اور بچے بھی.خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را
74 نمبر شمار 1 2 3 4 30 6 7 8 9 10 تاریخ اسماء شہدائے کرام 16 اپریل 1983 ء ماسٹر عبد الحکیم ابرو شہید 8 اگست 1983ء ڈاکٹر مظفر احمد شہید 8 ستمبر 1983ء شیخ ناصر احمد شهید 10 اپریل 1984ء چوہدری عبد الحمید شهید یکم مئی 1984ء قریشی عبد الرحمان شهید 16 جون 1984ء ڈاکٹر عبد القادر شهید 15 مارچ 1985ء ڈاکٹر انعام الرحمن شہید 17 اپریل 1985ء چوہدری عبد الرزاق شہید 9 جون 1985ء ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر شهید 29 جولائی 1985 ء محمود احمد اٹھوال شہید 10 اگست 1985 ء قریشی محمد اسلم شہید ( مربی سلسلہ ) +1986/18 18 اپریل 1986، مرزا منور بیگ شهید 11 مئی 1986ء سید قمر الحق شهید 11 رمتی 1986ء راق خالد سلیمان شهید 9 جون 1986ء رخسانه طارق شهید 9 جولائی 1986ء بابو عبد الغفار شهيد 25 فروری 1987ء غلام ظہیر احمد شہید 14 مئی 1989ء ڈاکٹر منور احمد شہید 16 جولائی 1989ء نذیر احمد ساتی شهید 16 جولائی 1989ء رفیق احمد ثاقب شهید 16 جولائی 1989ء نبیلہ شہید اگست 1989ء ڈاکٹر عبدالقدیر جدران شهید 28 ستمبر 1989ء ڈاکٹر عبد القدوس جدیران 17 جنوری 1990 ء قاضی بشیر احمد کھوکھر شہید 30 جون 1990ء مبشر احمد شہید واره لاڑکانہ امریکہ اوکاڑہ مقام محراب پور (سندھ) سکھر (سندھ) فیصل آباد بھر یا روڈ حیدر آباد پنوں عاقل ٹرینیڈاڈ لاہور سکھر کراچی مردان حیدرآباد سوہاوہ، جہلم سکرنڈ (سندھ) چک سکندر گجرات چک سکندر گجرات چک سکندر گجرات قاضی احمد نواب شاہ قاضی احمد نواب شاہ 17 نومبر 1990ء نصیر احمد علوی شهید شیخو پوره تیما پور.کرناٹک.بھارت ووٹر نواب شاہ 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26
75 16 رو سمبر 1992ء محمد اشرف شهید 5 فروری 1994.احمد نصر الله شهید 5 فروری 1994ء را نا ریاض احمد شهید 30 اگست 1994 ء وسیم احمد بٹ شہید 30 اگست 1994ء حفیظ احمد بٹ شہید 10 اکتوبر 1994ء ڈاکٹر نسیم احمد با بر شہید 28 اکتوبر 1994ء عبد الرحمان با جوه شهید 30 اکتوبر 1994ء والشاد حسین کبھی شہید 10 نومبر 1994ء سلیم احمد پال شہید 19 رو تمبر 1994ء انور حسین ابڑو شہید 9 اپریل 1995ء ریاض احمد شہید 3 رمق 1995ء مبارک احمد شهر ما شهید 8 نومبر 1996ء محمد صادق شهید 19 جون 1997ء چوہدری عتیق احمد با جوه شهید 26 اکتوبر 1997ء ڈاکٹر نذیر احمد ڈھونیکی شہید 12 رو سمبر 1997ء مظفر احمد شر ما ایڈووکیٹ شہید 8 فروری 1998ء میاں محمد اکبر اقبال شهید 7 جولائی 1998 ء محمد ایوب اعظم شهید 4 اگست 1998 ء ملک نصیر احمد شهید 10 اکتوبر 1998 ء ماسٹر نذیر احمد بگھیو شهید 30 اکتوبر 1998ء چوہدری عبدالرشید شریف شہید یکم دسمبر 1998ء ملک اعجاز احمد شہید 14 / اپریل 1999 ء مرزا غلام قادر احمد شہید ومي 1999ء مبارکہ بیگم شهید (اہلیہ عر سلیم بٹ صاحب) 8 اکتوبر 1999ء نور الدین احمد شهید 8 اکتوبر 1999ء محمد جہانگیر حسین شهید 8 اکتوبر 1999ء محمد اکبر حسین شهید جلہن گوجرانوالہ اہور لاہور فیصل آباد فیصل آباد اسلام آباد کراچی لاڑکانہ کراچی لاڑکانہ شب قدر مردان شکار پور سند در حافظ آباد وہاڑی گوجرانوالہ شکار پور یوگنڈا واہ کینٹ وہاڑی نواب شاہ لاہور وزیر آباد گوجرانواله زیده چونڈہ سیالکوٹ کھلنا.بنگلہ دیش کھلنا.بنگلہ دیش کھلنا.بنگلہ دیش 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53
76 54 55 56 57 8 اکتوبر 1999ء سبحان علی موڈل شہید 8 اکتوبر 1999ء محمد محب اللہ شہید 8 اکتوبر 1999ء ڈاکٹر عبد الماجد شہید 8 اکتوبر 1999ء ممتاز الدین احمد شهید 18 جنوری 2000ء ڈاکٹر شمس الحق طیب شہید 15 اپریل 2000، مولانا عبد الرحیم شهید 8 جون 2000ء چوہدری عبد اللطیف اٹھوال شهید 30 اکتوبر 2000ء انتخار احمد شهید 306 را کتوبر 2000ء شہزاد احمد شہید.(عمر 16 سال) 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 30 اکتوبر 2000ء عطاء اللہ شہید 30 اکتوبر 2000 غلام محمد شهید 30 اکتوبر 2000ء عباس علی شهید 10 نومبر 2000ء ماسٹر ناصر احمد شہید 10 نومبر 2000ء مبارک احمد شهید - ( عمر 15 رسال) 10 نومبر 2000ء نذیر احمد رائے پوری شہید.(والد) 10 نومبر 2000ء عارف محمود شہید.(بیٹا) 10 نومبر 2000ء مدثر احمد شہید 22 جون 2001ء پاپوحسن شهید 28 جولائی 2001 شیخ نذیر احمد شهید 13 / ستمبر 2001ء نور احمد چوہدری شہید (والد).13 ستمبر 2001ء طاہر احمد شہید.(بیٹا) 10 جنوری 2002 غلام مصطفی محسن شهید یکم ستمبر 2002ء مقصود احمد شهید 14 نومبر 2002ء عبد الوحید شهید 15 نومبر 2002ء ڈاکٹر رشید احمد شہید 25 فروری 2003ء میاں اقبال احمد ایڈووکیٹ شہید کھلنا.بنگلہ دیش کھلنا.بنگلہ دیش کھلنا.بنگلہ دیش کھلنا.بنگلہ دیش فیصل آباد لدھیانہ بھارت چک بہوڑو.شیخو پورہ گھٹیالیاں.سیالکوٹ گھٹیالیاں.سیالکوٹ گھٹیالیاں.سیالکوٹ گھٹیالیاں.سیالکوٹ گھٹیالیاں.سیالکوٹ تخت ہزارہ سرگودھا تخت ہزارہ سرگودها تخت ہزارہ سرگودھا تخت ہزارہ سرگودھا تخت ہزارہ سرگودھا انڈونیشیا فیصل آباد سدہ والا نیواں.نارووال سده والا نیواں نارووال پیر محل ٹوبہ ٹیک سنگھ فیصل آباد فیصل آباد رحیم یارخان راجن پور
77 مشن ہاؤسز یا تبلیغی مراکز کا قیام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر خبر دی تھی کہ وہ : میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا...اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.“ تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409) آپ نے بڑے جلال اور متحدی کے ساتھ فرمایا تھا کہ : م نے تمام لوگو اسن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا...خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامرادر کھے گا.“ ( مذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66) چنانچہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ معاندین کے تمام تر بد ارادوں اور ان کی طرف سے کھڑی کی جانے والی تمام روکوں کے باوجود جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ مسلسل بڑھتی اور ترقی کرتی چلی جارہی ہے اور خدا تعالیٰ اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈال رہا ہے.چنانچہ دنیا بھر میں اسلام احمدیت کے نفوذ اور مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ کے مشنر، اور تبلیغی مراکز اور ان مراکز سے اسلام احمدیت کے محبت بھرے امن وسلامتی کے پیغام کی اشاعت پر مشتمل پر امن مساعی اس پر شاہد ناطق ہیں.1982ء میں جب خلافت رابعہ کے مبارک دور کا آغاز ہوا اس وقت دنیا کے 28 رممالک میں با قاعدہ مشن قائم تھے اور مرکزی مبلغ کام کر رہے تھے.خلافت رابعہ کے دور میں نہ صرف ان نئے ممالک میں جہاں اسلام احمدیت کا نفوذ ہوا نے مشنز اور تبلیغی مراکز قائم ہوئے بلکہ جن ممالک میں پہلے سے احمد یہ مشنز قائم تھے ان میں بھی توسیع ہوئی اور پہلے کی نسبت اپنے رقبہ اور عمارت کے لحاظ سے بہت وسیع اور کشادہ مراکز تبلیغ قائم ہوئے.
یورپ 78 مثال کے طور پر یورپ میں احمدیہ مسلم مشن کا آغاز 1914ء میں ہوا اور سب سے پہلا مشن انگلستان میں جاری ہوا.70 سال کے عرصہ میں 1984 ء تک یورپ کے آٹھ ممالک (انگلستان، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ ، سویڈن، سپین، ناروے، جرمنی اور ہالینڈ ) میں جماعتی مشن ہاؤسز یا ر ہائشی عمارات جو بطور مشن ہاؤس زیر استعمال رہیں ان کی کل تعداد 17 تھی.ڈنمارک 1 ، سوئٹزرلینڈ 1 ، سویڈن 1 ،سپین 1 ، ناروے 1 ، جرمنی 2 ( فرینکفرٹ و ہمبرگ)، ہالینڈ 1، انگلستان 9 ( مسجد فضل لندن، ہڈرزفیلڈ ، بریڈ فورڈ ، گلاسگو جانگھم ، برمنگھم ، ساؤتھ آل، مانچسٹر، کرائیڈن).لیکن 1984ء سے 1986 ء تک کے صرف دو سال کے عرصہ میں یورپ میں فرانس، بیلجیم، ہالینڈ، جرمنی اور برطانیہ میں جو نئے تبلیغی مراکز اور رہائشی عمارات یا جگہیں بطور مشن ہاؤس خریدی گئیں ان کی تعداد 10 تھی.70 سال کے عرصہ میں یورپ کے 8 ممالک میں مشن کا قیام اور 1984ء تا1986ء دوسال کا کے عرصہ میں دو نئے ممالک فرانس اور سلیم کا ضافہ اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی فضل تھا.پھر یہ نئی خرید کردہ جگہیں پہلے کی نسبت رقبہ اور عمارت کے لحاظ سے بہت وسیع اور کشادہ ہیں.ہالینڈ (بیت النورین سپیٹ ) افتتاح 13 ستمبر 1985ء تعمیم (بیت السلام، پہلامشن ) افتتاح 15 ستمبر 1985ء جرمنی ( بیت النصر كولون ) افتتاح 17 ستمبر 1985ء ( ناصر باغ) افتتاح 22 ستمبر 1985ء مسجد المهدی میونخ ) ( 27 اکتوبر 1986ء)، فرانس ( بیت السلام، پہلامشن) افتتاح 13 اکتوبر 1985ء جلنگھم برطانیہ ( ناصر بال قم ( 1982ء، اسلام آباد (فلفورڈ ) 18 رستمبر 1984ء، ( بیت الاحد.سٹو، ایسٹ لندن ( 1984ء، (مشن ہاؤس و مرکز نما ز گلاسگو ایسٹ ( 1987ء، ( بیت الرحمان گلاسگو.سکاٹ لینڈ ( 1988ء، ( بیت الشکور آکسفورڈ ) 1988ء، ( بيت النور ہنسلو )1989ء،
79 دار الامان مانچسٹر ( 1991ء ، ( بیت السبحان کرائیڈن) 1993ء ، ( بیت الاکرام لیسٹر ) 1993ء ، ( بيت الفتوح مارڈن ) 1996ء ، ( بیت المعید کیمبرج ) 1997ء ، ( دار البرکات برمنگھم ) 1998 ء.اس کا باقاعدہ افتتاح 2004ء میں ہوا ، ( بیت النور.ٹوٹنگ ( 1998ء، ( مسجد المہدی.بریڈ فورڈ 2000ء.اس کا باقاعدہ افتتاح 2008ء میں ہوا، ( بیت الاسلام سکتھو رپ) 2002ء.اس کا باقاعدہ افتتاح 2004ء میں ہوا.رو نئے یور این مراکز بنانے کی تحریک 18 مئی 1984ء کو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک عظیم الشان جامع پروگرام کا اعلان فرمایا جس کا مقصد دعوت الی اللہ کے کام کو وسیع کرنا تھا.اس مقصد کو پورا کرنے کی غرض سے حضور رحمہ اللہ نے دونئے یورپین مراکز کے قیام کی تحریک فرمائی جن میں سے ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں بننا تھا.حضور نے فرمایا:.39 دونئے مرا کز یورپ کے لئے بنانے کا پروگرام ہے ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں.انگلستان کو یورپ میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے اس لئے انگلستان میں بہر حال بہت بڑا مشن چاہئے.اس لئے انگلستان میں بہت بڑا مرکز قائم کرتا ہے اور ایک جرمنی میں کیونکہ جرمنی کی جماعت بہت مخلص اور تبلیغ میں دن رات منہمک ہے.ایسا اللہ نے ان کو اخلاص بخشا ہے کہ جب چندہ کی ضرورت پڑی تو جرمنی کا مشن بہت سے دوسرے مشنوں کے لئے کفیل بن گیا تھا اور حیرت انگیز قربانی کے مظاہرے انہوں نے کیے...اس لئے اللہ تعالی رو پید اپنے فضل سے مہیا کرے گا.(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع 18 مئی 1984ء.خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 265-266) حضور رحمہ اللہ نے خود اپنی جانب سے دس ہزار پاؤنڈ کے وعدہ کے ساتھ اس تحریک کا آغا ز فرمایا.پہلے تو حضور نے یہ سکیم صرف یورپین ممالک کے سامنے رکھی پھر 29 جون 1984ء کو اس کو پوری دنیا کے لئے وسیع کر دیا.الحمدللہ کہ اللہ کے فضل سے یہ دونوں مشن قائم ہو گئے.ناصر باغ ، جرمنی میں اور اسلام آباد ( فلفورڈ سرے) انگلستان میں.
اسلام آبا و 80 مکرم عبد الباقی ارشد صاحب سیکرٹری جائیداد جماعت احمدیہ برطانیہ نے حضور انور رحمہ اللہ کی ہدایت پر 18 ستمبر 1984 ء کو Real Estate Agent, Bernard Marcus کے زیر انتظام نیلامی میں شرکت کی اور 423,000 کی مالیت میں قریباً25 را یکڑ رقبہ پرمشتمل اسلام آباد کی جگہ خریدی گئی.بعد میں مزید 6 را یکٹر بھی اس میں شامل ہو گئی.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے 21 ستمبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں اس مرکز کی خرید کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ایک خوشخبری جو میں نے پہلے بھی دی تھی اب پھر آپ کو بھی دیتا ہوں اور باقی جماعت کو بھی کہ جو یوروپین مشن بنانے کی تجویز تھی اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انگلستان میں ایک بہت ہی موزوں جگہ میسر آگئی ہے.پچیس ایکڑ رقبہ ہے.سرے (Surrey) میں اور مسجد لندن سے قریباً چالیس منٹ یا 35 منٹ کا فاصلہ ہے.بہت اچھی اور جگہ کشادہ.آپ کی ساری ضروریات انشاء اللہ تعالیٰ وہاں پوری ہو جایا کریں گی بلکہ یورپین جلسے بھی جب آپ کریں گے تو انشاء اللہ وہ بھی خدا کے فضل سے وہاں بآسانی سماسکیں گے.لیکن سر دست وہ جگہ آپ کی ضرورت سے زائد معلوم ہوتی ہے کیونکہ کھلی ہے اور لی اس نیت سے ہے کھلی جگہ کہ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ہمیشہ جب ہم مسجدیں بڑھاتے ہیں یا دفاتر بڑھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو چھوٹا کر دیتا ہے.اس لئے اس نیت اور دعا کے ساتھ یہ جگہ لی ہے تا کہ آپ تبلیغ کریں اور بکثرت پھیلیں اور دیکھتے دیکھتے یہ جگہ چھوٹی ہو جائے.تو یہ دعائیں کریں خاص طور پر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ اس وقت جو جگہ وسیع نظر آرہی ہے وہ بہت جلد ہمیں چھوٹی دکھائی دینے لگے اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اور بھی زیادہ وسیع جگہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.“ ) خطبه جمعه بیان فرموده حضرت خلیفہ مسیح الرابع 21 ستمبر 1984 ء - خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 532-533) اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام آباد کا مرکز بہت سی جماعتی تقریبات کے لئے استعمال ہوتا رہا.چنانچہ 1985ء سے 2004ء تک جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ ہائے سالانہ بھی اسلام آباد میں منعقد
81 ہوتے رہے.اس جگہ منعقد ہونے والے آخری جلسہ کی حاضری بائیس ہزار افراد پر مشتمل تھی.اس جگہ ایڈیشنل وکالت اشاعت اور ایڈیشنل وکالت تصنیف کے دفاتر کے علاوہ رقیم پریس اور مختلف زبانوں کے مرکزی ڈیسکس کے دفاتر بھی قائم ہوئے اور متعد ومرکزی مبلغین وسٹاف کی رہائش کے طور پر بھی یہ جگہ زیر استعمال رہی.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات کے بعد آپ کی تدفین بھی اسلام آباد میں ہی ہوئی.بعد ازاں آپ کی حرم محترمہ آصفہ بیگم صاحبہ (مرحومہ) کی نعش بھی بروک ڈڈ کے قبرستان سے اسلام آباد منتقل کی گئی اور آپ کے مزار کے پہلو میں تدفین عمل میں آئی.جیسا کہ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جگہ بھی جماعتی ضروریات کے لئے چھوٹی پڑ گئی اور خلافت خامسہ کے مبارک عہد میں 2005ء میں اللہ تعالی نے جماعت کو 208 رایکٹر رقبہ ر مشتمل قطعہ زمین عطا فرمایا جس کا نام حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی نے حدیقہ المہدی عطا فر مایا.جہاں 2006ء سے جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کا انعقاد ہو رہا ہے.حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ستمبر 1985ء بمقام من سپیٹ ہالینڈ میں فرمایا:...ساری جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب لوگ یعنی دشمن جماعت احمدیہ کے گھر چھین رہے تھے یا جلا رہے تھے تو اللہ تعالی آسمان سے یہ ہدایت دے رہا تھا کہ وَشِعُ مَحانَكَ ) سراج منیر - روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 73) اپنے مکانوں کو وسیع کرنے کی تیاری کرو اور ہر دفعہ جماعت احمدیہ کے مکانات ہر ابتلا کے بعد وسیع تر ہوتے چلے گئے.اس کی بارہا میں نے مثالیں دی ہیں.اتنی کثرت کے ساتھ اس کی مثالیں ہر ابتلا کے دور میں ملتی ہیں کہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تک ہیں کہ جن احمدی گھروں کو جلایا گیا یا لوٹا گیا، جن کو کھنڈروں میں تبدیل کیا گیا ان گھروں کے مکینوں کو خدا تعالٰی نے اتنے وسیع مکان عطا فرمائے، اتنے خوبصورت، اتنے عظیم الشان کہ ان کے مقابل پر وہ پہلے گھر محض جھونپڑے دکھائی دیتے تھے.تو یہ تو ایک انفرادی سلوک تھا خدا تعالیٰ کا جماعت کے ساتھ.اسی قسم کا سلوک بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جماعت کے ساتھ بھی ہوتا چلا آیا ہے.ایک ملک میں زمین تنگ کرنے کی کوشش کی گئی تو نے ملک عطا کر دیئے گئے نئی تبلیغ میں وسعتیں پیدا کردی گئیں اور نئی سرزمین خدا کی
82 طرف سے عطا ہونے لگی.اس دور ابتلا میں بھی انگلستان میں اسلام آباد کی وسیع سرزمین عطا فرمائی گئی...کہ وہاں خدا کے فضل سے جلسہ سالانہ انگلستان منعقد کرنے کی توفیق عطا ہوئی..." 66 اسلام آباد (فلفورڈ) کے حوالہ سے 15 اپریل 2019 ء کا دن ایک غیر معمولی اور تاریخی اہمیت کا حامل دن ہے.یہ وہ دن ہے جب حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد فضل لندن سے نقل مکانی فرما کر اسلام آباد کو خلیفہ وقت کی رہائش گاہ کے طور پر اختیار فرمایا اور اس کے ساتھ ہی اسلام آباد کو جماعت احمدیہ عالمگیر کے نئے مرکز کی حیثیت سے نئی عظمت اور شان حاصل ہوئی.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12 را پریل 2019ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الہام وَشِعُ مَكَانَكَ ( یعنی اپنی مکانیت کو وسیع کرو) کے حوالہ سے جماعتی تاریخ کے اس نہایت اہم سنگ میل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی جب اپنے انبیاء کو الہاما کوئی حکم دیتا ہے کہ یہ کرو تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی تائیدات اور نصرت بھی فرمائے گا اور وسائل کے سامان بھی پیدا فرمائے گا اور پھر اس طرح یہ تکمیل کو پہنچے گا اور یہی ہمارا تجربہ ہے.جماعت کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کس شان سے اللہ تعالی نے اس الہام کو پورا کیا اور ابھی بھی پورا فرما تا چلا جارہا ہے.ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ادنی غلام ہیں ہمیں بھی اس الہام کے متعلق مختلف وقتوں میں پورا ہونے کے نظارے دکھاتا چلا جارہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہر الہام اور اللہ تعالی کا آپ کو کسی بھی معاملے میں حکم دینا یا پیشنگوئی کے رنگ میں بتانا اصل میں تو آپ کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین یعنی اسلام کی اشاعت اور ترقی کے ہونے کی خوش خبری ہے اور پھر آپ کے بعد سلسلۂ خلافت کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کی خوش خبری ہے.پس ہر قدم جو ہمارا آگے بڑھتا ہے یا جوترقی ہم دیکھتے ہیں وہ اصل میں اللہ تعالیٰ کے اس منصوبے کا حصہ ہے جو اللہ تعالی نے اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے لیے
83 بتایا ہوا ہے.حضرت خلیفہ ایسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: خلافت کے یہاں یو کے میں ہجرت کے بعد برطانیہ میں بھی ، یورپ میں بھی، امریکہ میں بھی، افریقہ اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جماعت کے پھیلاؤ کے ساتھ مکانیت وسیع ہوتی چلی گئی.اللہ تعالی میں جگہیں مہیا کرتا چلا گیا.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جب یہاں ہجرت کر کے آئے تھے تو فوری طور پر اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر اپنی وسعت کا ایک نظارہ دیکھایا اور اسلام آباد میں 25 /1 ایکڑ زمین جماعت کو خریدنے کی توفیق ملی اور اس کے بعد مزیداس میں چھ ایکڑ بھی شامل ہوگئی جاں جلس بھی ہوتا رہ اور کچھ پانی بھی جماعت کارکنوں کے لیے، واقعین زندگی کے لیے میسر تھی.ایک بنگلہ بھی جو خلیفہ اسیح کی رہائش کے لیے تھا.کچھ دفاتر بھی تھے.ایک ہی کہ نما جو جگہ تھی اس میں مجد بھی بنائی گئی تھی اور مجھے یاد ہے جب ایک دفعہ یہاں آیا 1985ء میں تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے مجھے خاص طور پر فرمایا تھا کہ بڑی اچھی جگہ اللہ تعالی نے ہمیں مرکز کے لیے بھی مہیا کردی ہے.کم و بیش یہی الفاظ تھے مگر معین نہیں.اور مجھے یقین ہے اور بعض دوسرے شواہد بھی ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی کا یہاں باقاعدہ مرکز بنانے کا ارادہ تھا.بہر حال ہر کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر فرمایا ہوا ہے.اب اللہ تعالی نے توفیق دی کہ اسلام آباد میں نئی تعمیر ہوتی ہے.کچھ دفاتر بہتر سہولتوں کے ساتھ بنائے گئے ہیں.باقاعدہ مسجد بنائی گئی ہے.خلیفہ وقت کی رہائش بنائی گئی ہے اور واقفین زندگی اور کارکنوں کے لیے گھر بھی تعمیر ہوئے ہیں اور اور بھی تعمیر ہوں گے...جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ خلیفہ وقت کی رہائش گاہ اور دفاتر وغیرہ بھی وہاں بن گئے ہیں.بڑی مسجد بھی بن گئی ہے.اس لیے اب میں بھی لندن سے ان شاء اللہ تعالیٰ چند دنوں میں اسلام آباد منتقل ہو جاؤں گا.وہاں منتقلی کے بعد ہر لحاظ سے وہاں کی رہائش بھی بابرکت ہونے کے لیے دعا کریں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ فضل فرما تا ر ہے.اللہ تعالی اسلام آباد سے اسلام کی تبلیغ کے کام کو پہلے سے زیادہ وسعت عطا فرمائے اور وسّع مكانك صرف مکانیت کی وسعت کا ذریعہ ہی نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے منصوبوں کی تکمیل میں وسعت کا ذریعہ بھی بنے.
84...دوبارہ میں یہی کہتا ہوں کہ دعا کریں اللہ تعالی اس منصوبے کو اور وہاں منتقل ہونے کو ہر لحاظ سے با برکت فرمائے.“ بیت النور من سپیٹ (مخطبہ جمعہ فرمودہ 12 /1 اپریل 2019ء) حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ نے 13 ستمبر 1985ء کے خطبہ جمعہ میں ن سپیٹ کے مرکز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اب ہمیں ہالینڈ میں یہ دوسرا مرکز عطا فرمایا ہے جو یورو پین مراکز کی تحریک کا یہ ایک بچہ ہے.تحریک تو میں نے دو مرا کز کے لئے کی تھی.ایک جرمنی میں اور ایک انگلستان میں.لیکن اللہ تعالی عجیب شان سے اپنے وعدوں کو پورے فرماتا ہے.ہمیشہ توقع سے بہت بڑھ کر عطا کرتا ہے.اور جتنی چھلانگ ہماری امنگیں لگا سکتی ہیں اُن سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی اجابت دعا رحمت لے کر نازل ہوتی ہے.اور بہت زیادہ رفعتیں عطا کرتی ہے اُس سے جو ہم تصور باندھتے ہیں.چنانچہ اس دور ابتلا کا یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ خدا تعالی سے ہم نے دو مرکز مانگے تھے.خدا تعالیٰ نے دو سے زائد دئیے.اور اب یہ تیسرا مرکز ہے.ایک جرمنی میں ہے جس کا افتتاح بعد میں ہو گا لیکن جوں جوں افتتاح ہوتار ہے گائیں بتاتا چلا جاؤں گا آپ کو.تو بہر حال یہ دوسر ا مر کز ہے جس کا افتتاح ہو رہا ہے اور یہ ہماری امیدوں سے ہمارے منصوبوں سے بالکل الگ ایک نئی چیز عطا ہوتی ہے.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ستمبر 1985ء، خطبات طاہر جلد 4 صفحہ 773) جرمنی ذیل میں جماعت احمد یہ جرمنی کے بعض مشن ہاؤسز اور مراکز نماز کی کسی قدر تفصیل درج کی جاتی ہے.1982 ء تک جرمنی میں جماعت احمدیہ کے صرف دو مشن کام کر رہے تھے ایک فرانکفورٹ میں اور دوسرا ہمبرگ میں.1984ء کے حالات نے بے شمار احمدیوں کو نقل مکانی کر کے جرمنی کے مختلف شہروں میں آباد ہونے پر مجبور کر دیا تھا.جرمنی میں احمدیوں کی بڑی تعداد آجانے کی وجہ سے مزید مشنز
85 کے قیام کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی.حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے 18 مئی 1984ء کو خطبہ جمعہ میں ایک عظیم الشان جامع پروگرام کا اعلان فرمایا جس کا ایک اہم پہلو دو نئے یورپین مراکز کے قیام کی تحریک پر مشتمل تھا.ان میں سے ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں بننا تھا.ناصر باغ حضور رحمہ اللہ کی تحریک پر جماعت جرمنی نے والہانہ انداز میں لبیک کہنے کی سعادت پائی اور فرانکفورٹ سے قریباً35 کلومیٹر دور گروس گیراؤ (Gros Gerau) نامی شہر کے نواح میں ایک وسیع قطعہ اراضی خریدنے کی توفیق پائی.اس جگہ پہلے ایک تفریحی پارک تھا اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث یہاں متعدد مرتبہ سیر کے لئے تشریف لا چکے تھے اور حضور کو یہ جگہ بہت پسند تھی.یہی وجہ تھی کہ اس کی خرید کے بعد حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے اسے ناصر باغ کا نام عطا فرمایا.ناصر باغ کا کل رقبہ 28968 مربع میٹر ہے.اس قطعہ اراضی پر ابتدا میں لکڑی سے بنی ہوئی ایک عمارت تھی جس کے ہال میں مسجد قائم کی گئی اور بقیہ عمارت میں جماعت کے مرکزی دفاتر بنائے گئے جبکہ ایک حصہ میں حضور کی ہدایت کے مطابق محترم عبداللہ واکس باؤ زر صاحب امیر جمات جرمنی نے رہائش اختیار کی.1989ء میں یہاں آگ لگ جانے سے لکڑی کی ساری عمارت جل گئی جس کے بعد یہاں جماعت جرمنی کا سب سے بڑا وقار عمل ہوا جس میں سینکڑوں احباب جماعت نے محترم مبشر احمد باجوہ شہید ریجنل امیر فرانکفورٹ اور محترم چوہدری عبدالعزیز ڈوگر صاحب مرحوم ( چوہدری صاحب موصوف کو حضور نے خصوصی طور پر تعمیراتی کام کے لئے جرمنی بھجوایا تھا) کی نگرانی میں کئی ماہ تک سخت محنت کر کے جدید سہولتوں سے آراستہ ایک بہت بڑا کمپلیکس تعمیر کیا.جس میں سطح زمین پر مردوں کے لیے اور نہ خانہ میں مستورات کے لئے ایک وسیع مسجد بیت الشکور کے علاوہ ایک ہال اور متعدد دفاتر شامل تھے.اس کا افتتاح 13 اپریل 1993 ء کو ہوا.اس وسیع اراضی کے ملنے کے بعد جماعت کو اپنے جملہ پروگراموں کے لیے موزوں جگہ میسر آگئی
86 تھی.چنانچہ اس کی خرید کے بعد سے 1995 ء تک جماعت کے جلسہ سالانہ اور ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات یہاں منعقد ہوتے رہے.دوسرا یورپین اجتماع خدام الاحمدیہ بھی یہاں منعقد ہوا.فٹبال اور باسکٹ بال اور دیگر تفریحی پروگراموں کے لیے بھی اس مرکز میں باقاعدہ گراؤنڈز اور انتظامات موجود ہیں.مختلف ریجنل اجتماعات اور تربیتی کلاسز کا بھی یہاں با قاعدہ انعقاد ہوتا ہے.بيت النصر كولون 1984ء کے اواخر میں حضور حمہ اللہ نے جرمنی کا دورہ فرمایا تو جرمنی کے دو بڑے شہروں کولون اور میونخ میں مشنز کھولنے کا ارشاد فرمایا.ان میں سے کولون مشن کا افتتاح سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے اپنے 1985ء کے دورہ جرمنی کے دوران 17 ستمبر کو فرمایا.اس کا نام حضور نے بیت النصر عطا فرمایا.یمیشن کولون شہر کی آبادی میں 4.Eichhornstr پر واقع ایک وسیع اور مضبوط تین منزلہ عمارت پر مشتمل ہے جس کا کل رقبہ 1593 مربع میٹر ہے.اس کی خرید کے بعد مقامی احباب نے وقار عمل کر کے اس میں موجود دو بڑے ہالوں کو مرد و خواتین کے لئے مسجد میں ڈھالا جبکہ اس کے دیگر حصوں میں متعدد دفاتر اور دور ہائشی مکان بنائے گئے جن میں سے ایک مربی ہاؤس اور دوسرا مہمان خانہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے.تہ خانہ میں ایک بڑا کچن اور کھانے کا ہال ہے.علاوہ ازیں یہاں دو بڑے کمروں پر مشتمل ایم ٹی اے کا ریجنل سٹوڈیو بھی قائم کیا گیا ہے.اس کی مسجد کا بال اتنا بڑا ہے کہ یہاں جملہ ذیلی تنظیموں کے مختلف ریجنل پروگرام اور تربیتی کلاسز منعقد ہو رہی ہیں.علاوہ ازیں ایک عرصہ تک جماعت جرمنی کی مجلس شوری بھی یہاں ہوتی رہی.2011ء میں اس عمارت میں بعض تبدیلیاں کر کے قانونی تقاضے پورے کئے گئے جس کے نتیجہ میں سرکاری طور پر اجازت ملنے کے بعد جانب محراب بارہ میٹر اونچا مینار تعمیر کیا گیا.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نے اسے سو مساجد سکیم میں شامل کرتے ہوئے اس کا12 جون 2011ء کو افتتاح فرمایا.
مسجد المهدی میونخ 87 حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے جرمنی کے تیسرے بڑے شہر میونخ میں مشن ہاؤس کھولنے کی ہدایت 1984 ء کے اواخر میں فرمائی تھی.چنانچہ جماعت اسی وقت سے جگہ کی تلاش کرنے لگی تھی جس میں کامیابی 1986ء میں اُس وقت ہوئی جب میونخ کے نواح میں ایک چھوٹے سے قصبہ Neufahrn ( نوے فارن ) میں 7 Massenhausener Straße پر واقع ایک تین منزلہ گھر اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا.437 مربع میٹر کے قطعہ اراضی پر بنی ہوئی عمارت میں تبدیلی کر کے مسجد کی شکل دی گئی، دفاتر بنائے گئے.بالائی منزل کو مربی سلسلہ کی رہائش کے لئے مخصوص کیا گیا.حضور نے 27اکتوبر 1986ء کو اس کا افتتاح فرمایا اور اسے مسجد المہدی کا نام عطا فرمایا.2014ء میں یہاں توسیع کر کے عقبی حصہ میں خواتین کےلئے مسجد کاہل اور کی تعمیر کیا گی نیز ایک مینارہ تعمیر کر کے اسے بیرونی طور پر بھی مسجد کی شکل دی گئی.اس کے بعد اسی سال حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورہ جرمنی کے دوران اس کا افتتاح فرمایا اور اس کے نواح میں واقع ایک ہال میں بہت بڑی استقبالیہ تقریب سے خطاب فرمایا جس میں پانچ سو کے قریب جرمن مہمان شریک تھے.مهدی آباد Nahe 1989ء میں جماعت جرمنی کو اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہمبرگ کے قریب Nahe نامی قصبہ میں 11.Walkendorferstr پر واقع 169 یکٹر پر مشتمل قطعہ اراضی خریدنے کی توفیق ملی.یہ قطعہ اراضی زیادہ تر زرعی زمین پر مشتمل تھا.تاہم اس میں موجود ایک گھر کو بطور مربی ہاؤس اور بڑے بڑے ہالوں کو مسجد اور جماعتی پروگراموں کے لئے استعمال کیا جاتا رہا.اس بارہ میں حضرت خلیفہ اصبح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ انگلستان 1989ء کے دوسرے روز کے خطاب میں جماعت پر دوران سال ہونے والے اللہ تعالیٰ کے افضال و برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: وہ مشن ہاؤ سر جس کا ترجمہ میں نے کیا ہے تبلیغی مراکز.اب میں ان کے اضافے کی بات کرتا ہوں.جب
88 میں یہاں آیا ہوں تو دنیا کے ان ممالک میں جہاں غیر معمولی طور پر جماعت احمد یہ کام کر رہی ہے مشن ہاؤسز کی تعداد ایک سو پچہتر (175) تھی.پھر اس میں اضافہ ہوا اور ایک سوا کانوے (191) ہوگئی.اس کے بعد جو اضافہ ہوا ہے ان کی تعداد ایک سو گیارہ (111) ہے اور جہاں تک یورپ یا دیگر ممالک کے مشن ہاؤسز بنانے کا تعلق ہے.خصوصاً یورپ میں.وہاں ہمارے مشن ہاؤس کا رقبہ یعی تبلیغی مراکز کا رقبہ پہلے تبلیغی مراکز کی نسبت اتنا زیادہ ہے کہ بعض جگہوں میں، دو چار جگہوں میں ایک واحد مشن ہاؤس کا رقبہ اس سے پہلے کے سارے یورپ کے مشن ہاؤسز کے رقبے سے بڑا ہے.ابھی حال ہی میں جرمنی کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ ہمبرگ میں ایک بڑا مشن ہاؤس قائم کریں جہاں مسجد کی تعمیر بھی ہوگی.اور اس کا رقبہ انہتر (69) ایکڑ ہے.اب جرمنی جیسے ملک میں جہاں زمین کی بے حد قیمت ہے اور تعمیری علاقوں میں تو زمین کی بہت ہی زیادہ قیمت ہے خدا کے فضل سے ہمیں ایک اتنا بڑا رقبہ عطا ہوا جس میں بہت بڑا مشن ہاؤس پہلے سے بنا ہوا موجود ہے.اب انشاء اللہ تعالیٰ جب ہم مسجد تعمیر کر لیں گے تو ایک نئی سکیم کا یہ پہلا حصہ ہوگا، پہلا قدم ہوگا.جب میں گزشتہ Centenary جلسے میں شرکت کے لئے جرمنی پہنچا تو ان سے میں نے یہ تحریک کی کہ آپ خدا کے فضل سے بہت تیزی سے آگے بڑھنے والی جماعت ہیں اور اس وقت تمام مغربی دنیا کی جماعتوں کے لئے ایک نمونہ بن چکے ہیں.اس لئے میری یہ خواہش ہے کہ صد سالہ جشن تشکر کو اس طرح منائیں کہ آپ مغربی دنیا کا پہلا ملک ثابت ہوں جہاں سومساجد تعمیر کی جائیں.جرمنی کی جماعت نے اس پر لبیک کہا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر طرف ایک روچل پڑی ہے اس عظیم خدمت کی سعادت حاصل کرنے کی اور یہ پہلی مسجد ہوگی سوسالہ سکیم میں.تو اللہ تعالی کے فضل سے نہ صرف یہ کہ ہم ترقی کر رہے ہیں اور مسلسل ترقی کر رہے ہیں بلکہ ترقی کی رفتار میں حیرت انگیز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے.ماخوذ از خطاب حضرت خلیفہ مسیح الرابع " بر موقع جلسہ سالانہ اگلستان 1989 ( دوسرے روز بعد دو پہر کا خطاب) 2011ء میں ایک بہت بڑے تعمیراتی منصوبہ کے تحت مہدی آباد کے ایک حصہ میں گھر بنانے کے لیے پلاٹ بنائے گئے اور ترقیاتی کام کر کے اسے رہائشی کالونی میں تبدیل کیا گیا اور احباب
89 جماعت کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے ذاتی گھر بنانے کے لئے اس میں پلاٹ خرید ہیں.اس منصوبہ میں ایک پلاٹ مسجد کے لئے بھی مخصوص کیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ نے بھی اس کالونی میں اپنے لئے ایک پلاٹ خریدا اور اپنے دورہ جرمنی کے دوران 14 جون 2011ء کو یہاں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.اس موقع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے گھر کا سنگ بنیاد بھی رکھا.حضور انور کے اس دورہ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے مہدی آباد کے کوائف اس طرح سے بیان کئے گئے: مهدی آباد ہمبرگ شہر سے تیس کلومیٹر دور Nahe نامی قصبہ اور ضلع Segeberg میں واقع ہے.صوبہ کا نام Schleswig-Holstein ہے اور یہ صوبہ جرمنی کے شمال کی طرف ہے.اس صوبہ کا دار الحکومت Kiel ہے اور یہ وہی شہر ہے جس کے ایک جرمن باشندے نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو آپ کی زندگی میں پہچانا تھا اور آپ پر ایمان لایا تھا.یہ قطعہ زمین جس کا نام مہدی آباد ہے.12 جولائی 1989ء کو چھ لاکھ جرمن مارک میں خریدا گیا.مہدی آباد دو قطعات زمین پر مشتمل ہے.ایک قطعہ زمین کا رقبہ جس پر جماعتی سینٹر موجود ہے اور اب مسجد کی تعمیر کا پروگرام ہے ، 21478 مربع میٹر یعنی پانچ ایکڑ سے زیادہ ہے.اور دوسرا قطعہ زمین جو اس پہلے قطعہ سے آٹھ صد میٹر دور ہے ایک زرعی زمین پر مشتمل ہے اور اس کا رقبہ ایک لاکھ 51 ہزار مربع میٹر ہے.ایکٹر میں یہ رقبہ 137.26 ایکڑ ہے.مہدی آباد میں جو موجودہ عمارت پہلے کی بنی ہوئی ہے اس کے ایک حصہ کو رہائشی طور پر اور ایک حصہ کے دو بالوں کو مرحمت وغیرہ کر کے نماز کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے.یہاں مسجد کی تعمیر کی اجازت کے حصول کے لئے ایک لمبا وقت لگا ہے اور پورے علاقہ کا ایک Master Plan بنا کر پیش کرنا پڑا ہے اور بعض شرائط کے ساتھ مسجد کی تعمیر کی اجازت ملی ہے.بیت المقیت الفضل انٹرنیشنل 22 جولائی 2011 تا 04 اگست 2011 صفحہ 23) جماعت جرمنی کے مرکزی دفاتر کی ضرورت پورا کرنے کی غرض سے 1991ء میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ کے وسط میں Mittelweg43 پر واقع ایک چار منزلہ عمارت خریدی گئی.اس میں
90 جماعت کے مرکزی شعبہ جات میں سے محترم نیشنل امیر صاحب کے دفتر کے ساتھ صرف چند بڑے شعبوں کے دفاتر قائم کئے جاسکے.علاوہ ازیں اس کے تہ خانہ میں مسجد بنائی گئی جبکہ کچھ حصہ کو رہائشی بنا کر ایک مختصر سے مہمان خانہ کے طور پر استعمال کیا گیا.اس طرح سے جماعت کے دفاتر مسجد نور فرانکفورٹ کے دو کمروں سے نکل کر اس نسبتاً بڑی عمارت میں منتقل ہو گئے.تاہم شعبہ پریس اور شعبہ رشتہ ناطہ مسجد نور میں ہی رہے جبکہ شعبہ امور عامہ ناصر باغ میں اور شعبہ اشاعت Hanauer Landstr.50 Frankfurt پر واقع کرائے کی ایک عمارت میں تھا.2002ء میں اللہ تعالی نے جماعت جرمنی کو بیت السبوح کی وسیع عمارت خریدنے کی توفیق عطا فرمائی جس کے بعد بیت المقیت کو فروخت کر دیا گیا.بيت القيوم یہ مشن ہاؤس فرینکفرٹ کے انتہائی شمال میں 909.Homburger Landstr پر واقع بڑے ہال اور رہائشی حصہ کے ساتھ نصف ایکڑ کے قریب زرعی زمین پر مشتمل ہے جسے 1993ء.میں جماعت فرانکفورٹ کی ضروریات کے لئے خریدا گیا.اس کے بغلی بالوں کی مرمت کر کے مسجد اور دفاتر میں تبدیل کیا گیا جبکہ اس کا وسیع ہال لوکل امارت کے اجلاسات کے لئے استعمال کیا جاتارہا.اسی ہال میں باسکٹ بال کی گراؤنڈ بھی بنائی گئی.اسی جگہ ایم ٹی اے کا ابتدائی دفتر بنا اور جماعت کی مرکزی لائبریری بھی قائم کی گئی اور بعد ازاں یہاں با قاعدہ سٹوڈیو بھی تعمیر ہوا جسے محترم مبشر باجوہ صاحب نیشنل سیکرٹری سمعی و بصری کی شہادت کے بعد حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے مبشر سٹوڈیو کا نام عطا فرمایا.اس کے رہائشی حصہ میں مبلغ انچارج جرمنی محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب مرحوم کا قیام رہا جبکہ چار بیڈ رومز اور ایک بڑی بیٹھک پر مشتمل ایک گھر کو مہمان خانہ بنایا گیا.بیت السبوح کی خرید کے بعد اس عمارت کو بطور سٹور استعمال کیا جانے لگا.ابتدا میں جلسہ سالانہ کا سٹور رہا اس کے بعد سے اب تک شعبہ سو مساجد کا سٹور اور ورکشاپ ہے نیز دو واقفین زندگی کی
91 رہائشگاہیں ہیں.بیت السلام فرانکفورٹ سے فرانس جانے والی مشہور شاہراہ موٹر وے نمبر 6 پر واقع جرمنی کے شہر فرائنز ہائم ( Freinsheim) میں 11.Haintorstr پر مقامی جماعت کے لئے یہ عمارت 3 نومبر 1993ء کو خریدی گئی.جس کا نام حضرت خلیفہ مسیح الرائع نے اپنے مکتوب محررہ 15 مارچ 1994ء میں نبیت السلام عطا فرمایا.اس عمارت کی نچلی منزل میں مردوں اور بالائی منزل میں خواتین کے لئے مسجد بنائی گئی جبکہ اس کے پہلو میں موجود کمروں کو بطور دفتر اور مہمان خانہ استعمال کیا جاتا رہا.اس کے عقب میں ایک مستقف صحن بھی تھا جہاں اب باقاعدہ مسجد تعمیر کرنے کے منصوبہ پر کام ہورہا ہے.بیت اللطیف اوفن باخ (Offenbach ) میں جماعت اور مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے 822.Luisenstr پر واقع ایک تین منزلہ عمارت 1994ء میں خریدی گئی اور اس کی ضروری مرمتوں کے بعد اگلے سال اس کا افتتاح حضرت خلیفہ اسبح الرائع نے اپنے دورہ جرمنی مئی 1995ء کے دوران فرمایا.یہ عمارت مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی نے اپنے بجٹ سے خریدی تھی اور اس میں اس کے مرکزی دفاتر قائم کئے گئے تاہم اس کا ایک حصہ مقامی جماعت کے لئے بطور مسجد بھی مخصوص کیا گیا.2001ء میں بیت السبوح فرانکفورٹ خریدا گیا تو مجلس خدام الاحمدیہ کے مرکزی وفا تربیت السبوح کے ایک حصہ میں منتقل ہو گئے اور اس کے بعد یہ عمارت مقامی جماعت کے استعمال میں رہی اور 2007ء میں جماعت اوفن باخ کی اپنی مسجد جامع تعمیر ہو جانے کے بعد یہاں دفتر دار القضاء جرمنی قائم کر دیا گیا.بيت الوکیل جرمنی کی مشہور بندرگاہ والے شہر بریم بافن (Bremerhaven) میں 23 Post Straße پر واقع ایک عمارت 1994ء میں خریدی گئی اور اس کا افتتاح حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے اپنے
92 دورہ جرمنی مئی 1995ء کے دوران فرمایا اور اسے بیت الوکیل کا نام عطا فرمایا.اس موقع پر البانین مہمانوں کے ساتھ ایک بھر پور مجلس سوال و جواب بھی منعقد ہوئی.اس میں ایک بڑے ہال کے علاوہ رہائشی فلیٹ، دفاتر اور وسیع پارکنگ ایریا شامل ہے.بیت الظفر جرمنی کے عین وسط میں ایک قصبہ Immenhausen میں 1 Am Bahnhof پر واقع ایک تین منزلہ عمارت جولائی 1996ء میں خریدی گئی.اس مشن ہاؤس میں خلیفہ مسیح الرائع نے دو دفعہ 1997ء اور 1998ء میں قیام بھی فرمایا.یہاں حضور کے ساتھ مختلف مجالس سوال و جواب کا انعقاد ہوا.یہ مشن ہاؤس جہاں نمازوں کے لئے استعمال ہوتا ہے وہیں یہ دفاتر، رہائش گاہ مربی سلسلہ اور لائبریری کے ساتھ جماعت کا علاقائی مرکز بھی رہا ہے.یہاں ریجن کے مختلف پروگرام منعقد ہوتے رہے ہیں جن میں تنظیموں کے اجتماعات کے علاوہ تربیتی کلاسز اور ریفریشر کورسز شامل ہیں.اس کا رقبہ 3715( تین ہزار سات سو پندرہ ) مربع میٹر ہے.جس میں 1364 ( ایک ہزار تین سو چونسٹھ ) مربع میٹر پر تعمیر شدہ عمارت ہے.بيت الرشيد ہمبرگ کی جماعت جرمنی کی سب سے بڑی اور قدیمی جماعت ہے جس کی ضروریات کے لئے صرف مسجد فضل عمر تھی جو نا کافی ہو چکی تھی.چنانچہ جنوری 1994ء میں ہمبرگ شہر کے شمالی علاقہ میں 46 Pinneberger Straße پر واقع ایک وسیع و عریض عمارت خریدی گئی جس کا مجموعی رقبہ 2783 مربع میٹر ہے.اس میں قریباً ایک ہزار افراد کے لئے دو ہال بطور مسجد مخصوص کئے گئے ہیں جبکہ ایک بڑا ہال مختلف مقاصد کے لئے استعمال ہوتا ہے.2001 ء تک نیشنل مجلس شوری بھی یہاں منعقد ہوتی رہی ہے.اس کے ملحقہ کمروں میں سے ایک حصہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی رہائش کے لئے مخصوص ہے.علاوہ ازیں اس میں ایک بڑی لائبریری، جماعتی دفاتر، ایم ٹی اے کا ریجنل سٹوڈیو ، مہمان خانہ اور کچن بھی موجود ہے.جماعت ہمبرگ کی تمام بڑی تقریبات کا انعقاد یہاں
ہوتا ہے.93 بيت السبوح 1974ء اور پھر 1984ء کے بعد جرمنی کی جماعتوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا اورسن 2000 ، تک جماعتوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر چکی تھی.ان حالات میں جماعت جرمنی کو ایک بڑی مرکزی عمارت کی شدید ضرورت تھی جہاں سب مرکزی دفاتر کے علاوہ ضروری رہائشیں بھی ہوں خصوصاً حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے رہائش کے ساتھ ساتھ ایسی موزوں سہولت ہو جہاں آپ احباب جماعت سے بآسانی ملاقاتیں کر سکیں اور بڑی تعداد میں یہاں آنے والے نمازی حضور کی اقتدا میں نمازیں بھی ادا کر سکیں.چنانچہ اپریل 2001ء میں اللہ تعالی نے جماعت جرمنی کو فرینکفرٹ میں موٹر وے کے بالکل قریب شہری آبادی میں 11.Genfer Str پر واقع ایک چار منزلہ وسیع عمارت قریب سات ملین مارک میں خریدنے کی توفیق عطا فرمائی جس کا کل رقبہ ساڑھے سات ہزار مربع میٹر ہے اور اس میں چاروں منزلوں پر مشتمل مجموعی مستقف حصہ آٹھ ہزار مربع میٹر ہے.اس میں دو بڑے اور دو نسبتا چھوٹے بال ہیں.دونوں چھوٹے بالز کو مسجد کی شکل دے کر مردوں اور مستورات کے لئے بطور مسجد مخصوص کر دیا گیا ہے جبکہ بڑے ہال مختلف مقاصد کے لئے استعمال ہو رہے ہیں.یہاں 2002ء سے جماعت کے علاوہ ذیلی تنظیموں کی بھی مجلس شوری منعقد ہورہی ہے.علاوہ ازیں نماز جمعہ وعیدین بھی ہوتی ہیں.شادیوں کے لئے بھی ان بالز کو استعمال کیا جاتا ہے.علاوہ ازیں مختلف گراؤنڈ ز بنا کر کھیلوں کا انتظام بھی موجود ہے.اس وسیع عمارت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب مرکزی دفاتر، ایم ٹی اے کا مرکزی سٹوڈیو، شعبہ اشاعت کا بہت بڑا سٹور، ہزاروں کتب پر مشتمل مرکزی لائبریری، وسیع لنگر خانہ اور دعوت الی اللہ روم قائم کئے گئے ہیں.رہائشی حصہ میں سب سے بالائی منزل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی رہائش کے لئے مخصوص ہے جبکہ اس کے پہلو میں مبلغ انچارج صاحب کی رہائش گاہ کے علاوہ دو دو کمروں کے چار مکان ہیں جنہیں مہمان خانہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے.اس کے احاطہ کے اندر 74 کاروں کے لئے
94 پارکنگ کی گنجائش بھی ہے جبکہ اس کے سامنے کھلی پارکنگ کی وسیع سہولت میسر ہے.اس کے احاطہ میں احباب جماعت کی سہولت کے لیے بک شاپ کے علاوہ کریانہ کی ایک دکان بھی کھولی گئی ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے آخری دورہ جرمنی اگست 2001ء میں اسی عمارت میں قیام فرمایا تھا اور حضور رحمہ اللہ نے ہی اس عمارت کو بیت السبوح کا نام عطا فرمایا.ایوان خدمت بیت السبوح کے احاطہ میں ہی ایک اور چار منزلہ عمارت میں مجلس خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ جرمنی کے مرکزی دفاتر ہیں.اس عمارت میں دفاتر کے لئے کمروں کے علاوہ دو بڑے ہال نما کانفرنس رومز بھی ہیں.ایک رہائشی مکان ہے جسے گیسٹ ہاؤس کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے.جامعہ احمدیہ جرمنی کا آغاز ہوا تو ابتدائی چند سال (2008ء تا2012ء) جامعہ کی کلاسز ایوان خدمت میں ہی ہوتی رہیں اور طلبا کے لئے ہوسٹل بیت السبوح کے مختلف حصوں میں رہا.خلافت رابعہ میں یورپ کے درج ذیل ممالک میں پہلی بار مشن ہاؤسز اور مراکز خریدے گئے : فرانس، پر نگال، آئرلینڈ ، پنجم، پولینڈ، ترکی، البانیہ، بلغاریہ، کوسود دو اور بوسنیا.دور خلافت رابعہ کے آخر تک اللہ تعالٰی کے فضل سے 18 ر یوروپین ممالک میں مشن ہاؤسز اور مراکز کی مجموعی تعداد 148 ہوگئی جبکہ 1984ء میں یہ تعداد گل 8 ممالک میں صرف 16 تھی.مشرقی یورپ میں مشنوں کا قیام حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 دسمبر 1996ء میں مشرقی یورپ کے ممالک کے لئے 15 لاکھ ڈالر کی مالی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ مشرقی یورپ کے ممالک میں مساجد قائم کرنے مشن ہا ؤس تعمیر کرنے اور ان ممالک کے لوگوں کی تربیت کے لئے ان ہی کے افراد کو تربیت دینا ایک اہم ضرورت ہے.حضور نے فرمایا حسب معمول اس چندے کا دسواں حصہ میں خود ادا کروں گا.نیز فرمایا کہ اس تحریک کی مدت دو سال ہوگی اور پہلے سال دو تہائی ادائیگی کرنی ہوگی.( الفضل 30 نومبر 1996ء)
امریکہ 95 امریکہ میں 1920ء میں احد یہ مشن کا آغاز ہوا.184 ء یہ مشن کا آغاز ہوا.1984ء تک 64 سال کے عرصہ میں امریکہ کا میں مشنرز کی تعداد سات تھی.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آغا ز خلافت میں امریکہ میں کم از کم پانچ نئے مراکز کے قیام کی تحریک فرمائی تھی اور اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ اگر دس ہو جائیں تو بہتر ہے.اللہ تعالیٰ نے اس خواہش میں برکت ڈالی اور 84 تا 86ء دو سال کے عرصہ میں صرف امریکہ میں 11 رنئے مراکز جماعت کو خریدنے کی توفیق ملی (واشنگٹن ڈی سی، لاس اینجلس ، ڈیٹرائٹ، شکا گو، نیو یارک،Cleaveland ، ولنگ برو، پورٹ لینڈ ، طوسان، یارک، زائن ).یہ سب جگہیں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے پرانے مشن ہاؤسز کے مقابلہ میں بہت وسیع اور کشادہ ہیں.اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1984 ء تک امریکہ میں موجود سات مشن ہاؤسز کا گل رقبہ سوا دو ایکڑ تھا.اور 84 تا86ء دو سال کے عرصہ میں خریدی گئی 11 عمارات و قطعات کا گل رقبہ ساڑھے اڑتیس ایکڑ تھا.امریکہ میں نئے مشن ہاؤسز اور مساجد کے قیام کی تحریک ریاستہائے متحدہ امریکہ عالمی افق پر ایک عظمت کا حامل نام ہے.یہاں جماعت کا آغاز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخلص اور فدائی صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا.اس عرصہ میں جماعت میں ترقی ہوئی تاہم مساجد اور مشنوں کی تعداد میں ضروریات کے مطابق اضافہ نہیں ہوا.بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر 15 دسمبر 1982ء کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے احباب جماعت کے نام اپنے ایک پیغام میں اڑھائی ملین ڈالرز جمع کرنے کی تحریک فرمائی اور اپنی طرف سے 15 ہزار ڈالر عطا فرمائے.حضور نے فرمایا: در میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پانچ مشن ہاؤسز کی تعمیر کو پیش نظر رکھ کر کام شروع کر دیں اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے توفیق
96 بڑھانے کی کوشش کریں تو بعید نہیں کہ ہم ان پانچ مشن ہاؤسز کا بوجھ برداشت کر سکیں.“ روزنامه الفضل مورخہ 31 مارچ 1983ء) اس تحریک پر احباب جماعت نے والہانہ لبیک کہا اور 1983ء (جولائی) کی رپورٹ کے مطابق تقریبا ڈیڑھ ملین ڈالرز کے وعدہ جات موصول ہو گئے اور پانچ ملین ڈالرز مالیت کی زمین کے عطیہ کی وصولی کے علاوہ نقد وصولی ایک لاکھ ستائیس ہزار ڈالرز ہوگئی اور یکم اگست 1987ء کو جلسہ سالانہ لندن کے دوسرے دن خطاب میں حضور نے اس تحریک کے ضمن میں فرمایا: میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ذمہ داری پانچ کی ڈال رہا ہوں، میری دلی تمنا یہ ہے کہ دس ہو جائیں تو بہتر ہے.چنانچہ...دس مقامات پر نہ صرف زمین لی گئی بلکہ گیارھواں مرکز بھی قائم کر دیا گیا ہے.اب سال رواں میں جو مزید مرا کز قائم کئے گئے ہیں، جگہیں خریدی گئیں یا عمارتیں لی گئیں ان کو شامل کر کے یہ تعداد خدا کے فضل سے 17 ہو چکی ہے اور بعض جگہ بہت وسیع رقبے ہیں اور بہت خوبصورت عمارتوں کے نقشے بنائے گئے ہیں اور اللہ کے فضل سے ان پر کام شروع ہو چکا ہے.امید ہے جلد وہاں بعض نئی مساجد منصہ شہود پر ابھریں گی.“ اکتوبر نومبر 1987ء میں حضور نے دورہ امریکہ کے دوران 3 / مساجد کا افتتاح فرمایا اور 5 ر کا سنگ بنیادرکھا.جن میں واشنگٹن اور لاس اینجلس کی مساجد کا سنگ بنیاد بھی تھا.14 اکتوبر 1994ء کو حضور نے امریکہ میں مسجد بیت الرحمن (واشنگٹن) اور 23 / اکتوبر 1994ء کو مسجد صادق ( شکاگو ) کا افتتاح فرمایا.1994ء میں ہی شکاگو میں ایک عمارت 85 رہزار ڈالرز کی مالیت سے خریدی گئی.خلافت رابعہ میں امریکہ میں مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعداد اللہ تعالی کے خاص فضل سے 6ار سے بڑھ کر 36 رتک پہنچ گئی.کینیڈا کینیڈا میں پانچ نئے مشن ہاؤسز کے قیام کی تحریک 20 اپریل 1983ء کو حضور نے جماعت احمدیہ کینیڈا کے نام پیغام ارسال کیا اور اس
97 میں جماعت کینیڈا کو تحریک فرمائی کہ جماعت امریکہ کی طرح وہ بھی آگے بڑھیں اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کمر ہمت کس لیں اور تین سال کے اندراندر مبلغ چھ لاکھ ڈالر کینیڈا میں نئے مشن ہاؤسز اور مساجد کے قیام اور موجودہ مشن ہاؤسز کی توسیع کے لئے پیش کریں اور ہر فرد اپنی توفیق کے مطابق قربانی پیش کرے.( روزنامہ الفضل یکم جون 1983ء) احباب جماعت نے اس تحریک میں والہانہ حصہ لیا.چنانچہ ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں یعنی 11 مئی 1983 ء تک دو لاکھ چار ہزار تین صد پینتیس (204,335 ڈالرز کے وعدے ہو گئے.1988ء کے جلسہ سالانہ پر حضور نے کینیڈا کی بابت فرمایا: کینیڈا میں جو پہلے مشن موجود تھے ان کو وسعت دی گئی ہے.اگر چہ نئی جگہ میں مشن بنانے کی توفیق نہیں ملی لیکن جہاں مشن بہت چھوٹے تھے یا ان کی زمین بہت تھوڑی تھی ان کو وسعت دینے کی توفیق ملی ہے.“ ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید اگست 1988ء) پھر یکم جولائی 1988ء کو حضور نے کینیڈا میں نئی مساجد کی تعمیر کے لئے 25 لاکھ ڈالر جمع کرنے کی تحریک فرمائی.چنانچہ 12 سے زائد مقامات پر نئے مراکز اور مشن ہاؤسز قائم ہو گئے.1984ء میں کینیڈا میں پانچ مشن ہاؤسز تھے.دور ہجرت میں پانچ نئے مشن ہاؤسز کا اضافہ ہوا.وہاں کے بعض پرانے مشن ہاؤسز فروخت کر کے ان کی جگہ بیسیوں گنا بڑے مشن ہاؤسز خریدے گئے.مثلاً 1984 ء تک ٹورانٹو میں تین بیڈ کا ایک مشن ہاؤس تھا.1985ء میں ٹورانٹو کے علاقہ میپل میں کینیڈا جماعت کے مرکز کے لئے 25 را یکٹر زمین خریدی گئی.یہ جگہ وان (Vaughan) سٹی میں ہے جو ٹورانٹو کے شمال میں واقع ہے.یہ کینیڈا کی مشہور تفریح گاہ کینیڈاؤ نڈرلینڈ کے شمال میں تھوڑی سی مسافت پر ہے.یہ تین منزلہ عمارت 22 کمروں پر مشتمل تھی.اس میں ضروری تبدیلیوں کے بعد 1986ء میں یہاں نقل مکانی کی گئی.اس مشن کا نام حضرت خلیفہ اصبح الرابع رحمہ اللہ نے بیت الاسلام رکھا.اس وسیع زمین پر مرکزی مشن ہاؤس قائم ہوا اور بعد ازاں اس وقت کی شمالی امریکہ کی سب سے بڑی مسجد مسجد بیت الاسلام تعمیر ہوئی.اس تعمیر
98 پر چار ملین ڈالر کی لاگت آئی.17 / اکتوبر 1992ء کو حضور نے مسجد بیت الاسلام ٹورانٹو کا افتتاح فرمایا.حضور کی تو جہات کے نتیجہ میں یہاں حکومتی حلقوں میں بھی جماعت بہت نیک نام اور وسیع اثر ورسوخ کی مالک ہے.حضور کے دورہ جات کے دوران کئی شہروں کے میئر ز نے اس دن ( 17 اکتوبر 1992ء) کو مسجد کا دن اور اس ہفتہ ( 16 تا 23 اکتوبر ) کو Ahmadiyya Week' قرار دیا.دستان کیلگری 1980ء میں کینیڈا کے صوبہ البرٹ میں کیلگری میں مکرم چوہدری محمد الیاس صاحب نے جماعت کے لئے حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک سو ساڑھے باون (152.5) ایکٹر زمین کا ٹکڑا پیش کیا.بعد ازاں 1984ء میں ہائی وے 2 پر ایک اور قطعہ زمین ساڑھے آٹھ (8.5) ایکڑ پر مشتمل جماعت کے لئے پیش کیا.کیلگری میں پہلامشن ہاؤس ایک رہائشی مکان کی شکل میں 26 جنوری 1979ء کو خریدا گیا تھا.یہ مکان 1988 ء تک استعمال میں رہا.اسی سال تین لاکھ ڈالر کی مالیت سے ایک چرچ کی عمارت خریدی گئی اور چرچ والوں کی اجازت سے اسے مسجد میں تبدیل کیا گیا.چرچ کی عمارت کے ساتھ برلب سڑک دور رہائشی مکان بھی تھے.اس مسجد کا افتتاح حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے 28 رجون 1988ء کو فرمایا.وینکوور وینکوور میں مشن ہاؤس اکتوبر 1982ء میں خریدا گیا تھا.یہ ایک رہائشی مکان تھا جو 72 ہزار ڈالر کی لاگت سے خریدا گیا.اس کا نام بیت الدعاء تجویز ہوا.جلد ہی یہ جماعت کی مساعی کے لئے ناکافی ہو گیا.چنانچہ اس کو فروخت کر کے 12 جون 1995ء کومشن ہاؤس کے لئے تین لاکھ سترہ ہزار ڈالر کی مالیت سے ایک جگہ خریدی گئی.اس جگہ کا رقبہ پانچ ایکڑ تھا اور اس میں دو عدد عمارتیں بھی بنی ہوئی تھیں جو بطور مشن ہاؤس استعمال میں رہیں.لیکن اسی سال اس جگہ کو فروخت کر کے 9لاکھ ڈالرز میں ایک سکول
99 کی عمارت پر مشتمل 3.6 ایکڑ زمین خریدی.اس جگہ مسجد کی تعمیر کا منصوبہ تھا.چنانچہ حضرت خلیفہ اصیح الرابع رحمہ اللہ نے وینکوور میں اپنے 1997ء کے سفر کے دوران یہاں آ کر دعا کی.2005ء میں جب حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وینکوور تشریف لائے تو آپ نے یہاں مسجد کی بنیاد رکھی.یہاں بفضلہ تعالی خوبصورت مسجد بیت الرحمن، تعمیر کی گئی.حضرت خلیفة اصبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 18 مئی 2013ء کو اس کا افتتاح فرمایا.Ahmadiyya Abode of Peace حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کی منظوری سے جماعت نے اونٹاریو کی صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر سستے کرائے پر رہائش فراہم کرنے والے منصوبے کو شروع کیا.دو کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی لاگت سے چودہ منزلہ یہ عمارت 1993ء میں مکمل ہوئی.اس میں ایک سو چھیاسٹھ (166) اپارٹمنٹس ہیں.بلڈنگ کے تین دفاتر ہیں اور ایک ہال ہے جو بطور مسجد بھی استعمال ہوتا ہے.ونی پیگ (صوبہ مینی کو بہ ) میں احمدیہ مشن ہاؤس ونی پیگ جماعت نے 1990ء میں Fort Rouge کے علاقہ میں بہت مناسب قیمت پر Kylemore Avenue 525 پر دو ہزار مربع فٹ کی عمارت بطور کمیونٹی سنٹر ایک لاکھ 45 ہزار ڈالرز کی مالیت سے خریدی.اس میں تین صدا فراد کے لئے نماز ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے.23 نومبر 1990ء کو کرم نسیم مہدی صاحب امیر جماعت کینیڈا نے اس کا افتتاح کیا.مانٹریال مشن ہاؤس کینیڈا میں مانٹریال شہر جماعت احمدیہ کی تاریخ میں خاص مقام کا حامل ہے جہاں سب سے پہلے جماعت اپنے نظام کے ساتھ قائم ہوئی.یہاں جماعت نے ابتدا ہی میں اپنی جملہ مساعی کے لئے ایک مشن ہاؤس حاصل کر لیا تھا.خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے جماعت نے 1995ء میں مانٹریال کے مشہور دریا سینٹ لارنس کے کنارے ایک وسیع عمارت صرف پانچ لاکھ ڈالرز میں حاصل کی.یہ عمارت ایک چرچ کے طور پر استعمال ہوتی تھی، اس لئے نماز اور جماعت کے دیگر کاموں کے لئے یہاں کوئی
100 قانونی روک نہیں تھی.یہ تین منزلہ عمارت مضبوط اور خوبصورت تھی.اس کی اوپر والی منزل پر چار بیڈ روم اور تین بیڈ روم والے دو اپارٹمنٹ تھے.درمیانی منزل پر ایک بڑا ہال تھا جس میں تین سو نمازیوں کی گنجائش تھی.اس کے ساتھ ایک بڑا کچن تھا.نچلی منزل میں دو بیڈ روم کا ایک اپارٹمنٹ، دو بال، تین کمیونٹی واش روم اور ایک بہت بڑا سٹور تھا.اس عمارت کے ارد گرد تقریبا ایک سو کاریں پارک ہو سکتی تھیں.اس کا مستقف حصہ 12 ہزار مربع فٹ اور زمین کا رقبہ 27 ہزار مربع فٹ تھا.اس کے حصول کے لئے قانونی کارروائی مکمل ہونے پر مورخہ 15 دسمبر 1995ء کو مکرم امیر صاحب کینیڈا نے نماز جمعہ کی ادائیگی سے اس کا افتتاح کیا.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے طفیل 1995ء میں خریدی جانے والی یہ وسیع جگہ بھی 2007ء تک جماعت مانٹریال کے لئے چھوٹی اور نا کافی ہوگئی.لہذا بعد ازاں اسے فروخت کر کے ایک اور وسیع عمارت خریدی گئی.آٹو ا میں مشن ہاؤس 1995ء میں کینیڈا کے دارالحکومت آٹو میں جماعت نے یکصد ایکڑ قطعہ زمین خریدا جس کے ساتھ ایک عمارت بھی ہے.اس کا مستقف حصہ 2048 مربع فٹ ہے.اس میں کم و بیش 350 افراد نماز ادا کر سکتے ہیں.اس کا ایک حصہ مربی سلسلہ کی رہائشگاہ اور مشن ہاؤس کے لئے استعمال ہو رہا ہے.مسجد محمود - رجائنا یہ سکیچوان کے دارالخلافہ Regina میں 1996ء میں ڈیڑھ ایکڑ زمین برائے تعمیر کمیونٹی سنٹر و مسجد 60 ہزار ڈالر کی مالیت سے خریدی گئی.2016ء میں اس جگہ ایک خوبصورت مسجد مسجد محمود تعمیر کی گئی.اسی سال ماہ نومبر میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا افتتاح فرمایا.
101 ایڈمنٹن میں مشن ہاؤس ایڈمنٹن کا مشن ہاؤس 'بیت الہادی Ave, Edmonton Alberta TSE 8707-53) 59 شہر کے وسط میں واقع ہے.مشن ہاؤس کے لئے یہ عمارت 1997ء میں خریدی گئی تھی.اس کے ایک بڑے ہال میں تین صد مرد احباب کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے جبکہ خواتین کے ہال میں ڈیڑھ صد خواتین نماز ادا کر سکتی ہیں.اس کے علاوہ ایک بڑا ہال جنرل میٹنگز اور دوسرے مختلف کاموں کے لئے استعمال ہوتا ہے.دفاتر اور رہائشی حصہ اس کے علاوہ ہیں.علاوہ ازیں نئے مشن ہاؤس کے لئے بفضلہ تعالی ایڈ منٹن شہر میں ایک نہایت موزوں جگہ پر 33 ایکڑ کا رقبہ ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالر سے 28 اپریل 1997ء میں خرید لیا گیا تھا.انشاء اللہ یہاں بھی مسجد تعمیر ہوگی.Peace Village حضرت خلیفۃ ابیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے دورہ کینیڈا 1997 ء کے دوران ارشاد فرمایا کہ بڑی خلیفہ بڑی مساجد بنا دینا ہی کافی نہیں، ان کی آبادی کی بھی کوشش ہونی چاہئے.مسجد بیت الاسلام اس وقت ٹورانٹو شہر سے باہر تھی.نماز جمعہ خصوصی اجلاسات اور تقریبات کے علاوہ اس میں نمازوں کی حاضری بہت کم ہوتی تھی.حضور کے اس اظہار کے وقت گو مسجد کے ارد گرد بعض رہائشی منصوبے چل رہے تھے مگر یہ خیال نہیں تھا کہ احمدی کثرت سے یہاں منتقل ہوسکیں گے.ایک بلڈر نے مسجد سے ملحقہ 150ایکڑ زمین پر مکانات کی تعمیر کا منصوبہ بنایا.اس سے بات چیت کی گئی کہ اگر وہ مکانوں کے نقشوں میں ہماری ضروریات کے مطابق تبدیلیاں کرے اور قیمت بھی اچھی دے تو ہم افراد جماعت کو یہاں مکان خریدنے کی طرف توجہ دلائیں گے.اس نے اس پیشکش کو قبول کیا اور جماعت کی تحریک پر احباب جماعت نے یہاں مکان خرید نے شروع کئے.یہ رجحان اس تیزی سے بڑھا کہ سٹی کونسل نے نہ صرف رہائشی منصوبہ کا بلکہ مسجد کے اردگرد سارے ماحول میں ہماری ضروریات اور مفادات کا خیال رکھا.
102 5 اپریل 1999ء کو مسجد بیت الاسلام کے ساتھ اس رہائشی کالونی کی تعمیر کا آغاز ہوا.اس کالونی میں 1200 سے زائد احمدی آباد ہیں.اس منصوبہ کو خدا تعالیٰ نے اتنی برکت دی کہ اس کے فضل سے کینیڈا کا دنیا میں ایک منفرد اور امتیازی مقام ہے کہ اس جگہ کو جماعت کی درخواست پر دارالامن یعنی پیس ولیج Peace) (Village کا نام دیا گیا اور اس کی گلیوں کے نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس خلفاء اور جماعت کے دیگر بزرگوں کے ناموں پر رکھے گئے.اس بارہ میں مخالفت بھی ہوئی مگر سٹی کونسل نے متفقہ طور پر یہ نام منظور کئے.پیس ویلیج کی سڑکوں اور گلیوں کے نام حسب ذیل ہیں: احمد یہ ایونیو، نورالدین کورٹ ،محمود کریسنٹ، ناصر سٹریٹ ،طاہر سٹریٹ، بشیرسٹریٹ،ظفر اللہ خان کریسنٹ،عبدالسلام سٹریٹ، ماسک گیٹ.پیس ویلیج کے اندر ایک چھوٹا سا پارک ہے.سٹی کونسل کی طرف سے جس کا نام فیضیہ مہدی پارک رکھا گیا ہے.ان سڑکوں اور گلیوں پر کونسل کی طرف سے ان ناموں کے باقاعدہ بورڈ لگے ہیں اور علاقہ اور شہر کے نقشوں پر یہ نام طبع ہو چکے ہیں.علاوہ ازیں بیٹی کونسل نے متفقہ طور پر مسجد بیت الاسلام کے جنوبی جانب ایک بہت بڑے پبلک پارک کا نام احمد یہ پارک رکھا ہے.ہیملٹن میں مشن ہاؤس مسجد بیت النور اس مشن ہاؤس کی عمارت 1998ء میں خریدی گئی تھی.اس کا مجموعی رقبہ 21 ہزار مربع فٹ ہے.جبکہ ساڑھے پانچ ہزار مربع فٹ حصہ پر عمارت تعمیر ہے.یہ عمارت شہر کی شرقا غربا تین بڑی سڑکوں میں سے ایک سڑک کنگ سٹریٹ پر واقع ہے.لجنہ اماء اللہ کینیڈا کا مرکزی دفتر خدا تعالیٰ کے فضل سے اواخر 1999ء میں لجنہ اماء اللہ کینیڈا نے اپنا الگ مرکزی دفتر خریدا.2000ء کے شروع میں مسجد بیت الاسلام کے بالمقابل احمد یہ ایونیو پر مکان نمبر 96 کی خرید کے تمام مراحل مکمل ہو گئے تو 15 جنوری کو اس کا افتتاح عمل میں آیا.
103 اس عمارت کا مسقف رقبہ 3030 مربع فٹ ہے.اس کی بالائی منزل پر چھ دفاتر ہیں.نچلی منزل میں عمومی اجلاس کے لئے کشادہ بال، استقبالیہ دفتر اور باورچی خانہ ہے.تہہ خانہ میں بہت اچھی لائبریری اور شعبہ سمعی و بصری ایم ٹی اے لجنہ کا دفتر ہے.مس سا کامشن ہاؤس، مسجد بیت الحمد اور جامعہ کی عمارت خدا تعالیٰ نے 26 اپریل 1999ء کو جماعت کو ٹورانٹو میں مس ساگا کے علاقہ میں ایک وسیع و عریض عمارت عطا فرمائی.28000 مربع فٹ کی یہ عمارت کینیڈا کی مشہور ہائی وے 104 کے بالکل قریب مسس ساگا میں مقامی ٹاؤن کے درمیان واقع ہے.اس کا کل رقبہ سوا پانچ ایکڑ ہے.اس میں 225 کاروں کے لئے پختہ پارکنگ موجود ہے.ایک بہت بڑا ہال ہے جو مس ساگا جماعت کی تقریبات ، جامعہ کی تقریبات کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور مسجد کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے.بہترین فرنیچر پر مشتمل 40 دفاتر موجود تھے.ایک بڑا انڈسٹریل کچن جس میں بڑے بڑے فریزر اور کولر بھی ہیں اور چار، پانچ سو افراد کے لئے ڈائٹنگ بال بھی ہے.اسی عمارت میں ابتداء جامعہ احمدیہ کینیڈا بھی قائم ہوا اور جماعت مس ساگا اور اس پورے ریجن کے لئے یہ عمارت مشن ہاؤس کے طور پر بھی استعمال ہورہی ہے.ساری عمارت ایئر کنڈیشنڈ ہے اور نہایت اچھی حالت میں ہے.یہ عمارت 19 لاکھ 95 ہزار ڈالرز میں خریدی گئی.اس عمارت کی خرید کے لئے جماعت احمدیہ کینیڈا نے تین ماہ کے عرصہ میں 20 لاکھ ڈالرز سے زائد رقم اکٹھی کی.احمدی خواتین اور بچیوں نے کثرت سے اپنے زیورات پیش کئے.ایشیا اور افریقہ اسی طرح ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک میں خدا تعالٰی کے فضل سے بہت وسیع عمارات اور قطعات اراضی بطور مشن ہاؤسز خریدے گئے.بعض جگہوں پر بعض مخیر احمدیوں نے انفرادی طور پر بعض عمارات یا قطعات خرید کر جماعت کو تحفہ دیئے.افریقہ میں بعض جگہوں پر مقامی قبائل کے چیفس نے یا حکومت نے جماعت کی خدمات پر اظہار تشکر کے طور پر بعض قطعات زمین پیش کئے.
104 افریقہ 1984ء میں براعظم افریقہ کے 14 ممالک میں احمدیہ مشن ہاؤسز اور مراکز کی تعداد 68 تھی جو اپریل 2003 ء تک 25 رممالک میں 656 رہو گئی.اسی طرح منتقلی انڈونیشیا میں 1998ء میں مراکز تبلیغ کی تعداد ننانوے (99) تھی جو 2003 ء میں ایک سواٹر تئیس (138) ہو چکی تھی.الغرض مشن ہاؤسز کے قیام کے لحاظ سے بھی جماعت کا قدم مسلسل ترقی کی طرف بڑھتا رہا.عمارات کی خرید ہی نہیں بلکہ ان کی نگہداشت اور ان کے انتظام وانصرام کو چلانا بھی بھاری اخراجات کا متقاضی ہوتا ہے.لیکن خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستہ افراد جماعت کو جن میں مرد، عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی کہ انہوں نے مالی قربانی کی نہایت شاندار مثالیں پیش کیں اور پیش کرتے چلے جا رہے ہیں اور دنیا بھر میں اسلام احمدیت کی اشاعت کے لئے نئے مراکز تبلیغ کا قیام اور پہلے سے قائم مراکز میں وسعت اور توسیع کا کام مسلسل جاری ہے.ان مشن ہاؤسز کے قیام، تعمیر اور توسیع اور انہیں سنوارنے اور خوبصورت بنانے کے سلسلہ میں افراد جماعت کی مالی قربانیوں کے علاوہ اکثر مواقع پر احباب جماعت نے وقار عمل کے ذریعہ بھی حصہ لیا اور ہزار ہا گھنٹے اس غرض سے وقف کئے.اور یوں صرف مال کی ہی نہیں بلکہ دینی اغراض کے لئے وقت کی قربانی کی بھی لازوال اور درخشندہ مثالیں قائم کیں.الغرض دنیا بھر میں قائم مشن ہاؤسز یا مراکز تبلیغ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلہ کی حقانیت اور اس کے پاکیزہ منصوبوں میں نہایت درجہ فوق العادت برکت پر عظیم الشان گواہ ہیں.2003 ء تک دنیا کے 85 ممالک میں 1239 رمشن ہاؤسز یا مراکز تبلیغ قائم ہو چکے تھے.
105 مساجد کا قیام اسلام احمدیت کی ترقی و استحکام میں مساجد کو ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے.مسجد وہ مقام ہے جہاں مومنین اللہ ورسول کے احکامات کے تابع خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں اور باجماعت نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں.اور یوں اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں سے حصہ پاتے ہیں جن کا اس نے نماز با جماعت قائم کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقع پر مسجدوں کے قیام کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:.اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے.یہ خانہ خدا ہوتا ہے.جس گاؤں یاشہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہوگئی تو مجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑگئی.اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہئے.پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا.لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بد اخلاص ہو.محض اللہ اسے کیا جاوے.نفسانی اغراض یا کسی شتر کو ہر گز دخل نہ ہو.جب خدا برکت دے گا.“ ( ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 119.ایڈیشن 1985 ، مطبوعہ انگلستان) اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی اس کے آغاز سے ہی مساجد کے قیام کی طرف خصوصی توجہ ہے اور خلافت احمدیہ کے زیر ہدایت ونگرانی باقاعدہ ایک سکیم کے طور پر مساجد کی تعمیر و توسیع کا کام منظم طور پر جاری ہے.اور بہت سے مقامات پر مرکزی نظام کے تابع مساجد کی تعمیر کے منصوبے بنائے جاتے ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے عہد خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ دسمبر 1982ء کے موقع پر اپنے دوسرے روز کے خطاب میں بتایا کہ اس سال نو (9) مختلف ممالک میں مرکزی اخراجات کے تابع 24 / بڑی وسیع اور پختہ مساجد تعمیر کی گئیں.اگلے سال دسمبر 1983 ء کے جلسہ کے موقع پر آپ نے بتایا کہ اس سال دس ممالک میں
106 32 رنئی مساجد تعمیر ہوئیں.1984ء میں حکومت پاکستان کے ظالمانہ آرڈنینس 20 کے نفاذ کے بعد پاکستان میں احمدیوں کے لئے مساجد کی تعمیر کی اجازت تو ایک طرف، ان پر یہ پابندی لگادی گئی کہ وہ اپنی مسجد کو مسجد بھی نہیں کہہ سکتے.کئی جگہوں پر احمد یہ مساجد پر حملے کئے گئے.بعض جگہوں پر احمدیوں سے ان کی مساجد چھین کر ان پر ناجائز قبضہ کر لیا گیا.بعض جگہ مساجد کو سیل (seal) کر دیا گیا.بعض مساجد کو منہدم کیا گیا.مساجد کے ساز و سامان کو لوٹا اور جلایا گیا.مخالفین کے ارادے تو یہ تھے کہ اس طرح احمدی عبادت سے منحرف ہو جائیں گے.لیکن معاندین احمدیت کی ان ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف جماعت احمدیہ نے اپنے امام کے تابع وہ رد عمل دکھایا جو ایک حقیقی مومن جماعت کی شان ہے.وہ پہلے سے زیادہ قوت اور عزم اور ارادوں کے ساتھ عبادات پر قائم ہوئے اور ان کی عبادت کے معیاروں میں اضافہ ہوا.نمازوں میں باقاعدگی اور التزام اور خشوع و خضوع اور سوز و گداز نے ان کو نئی روحانی رفعتیں بخشیں.اور خدا تعالی کے گھروں کی تعمیر کے لئے پہلے سے بڑھ کر قربانیاں پیش کیں.حضور رحمہ اللہ نے معاندین احمدیت کی احمدیوں کو زبر دستی نماز سے روکنے کی کوشش میں ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 28 رنومبر 1986ء میں فرمایا: بکثرت ایسے احمدی جو پہلے نمازوں میں سستی دیکھا جاتے تھے وہ نمازوں میں اور زیادہ مضبوط ہو گئے.جو باجماعت نماز کے عادی نہیں تھے انہوں نے باجماعت نمازیں شروع کردیں.جو تہجد نہیں پڑھتے تھے، انہوں نے تہجد پڑھنا شروع کر دی اور جو بے نمازی تھے وہ نمازی بنے لگ گئے اور اس کا رد عمل...ایسا وسیع ہے، اتنا پر شوکت ہے کہ صرف پاکستان میں نہیں ہوا یہ رد عمل ، انگلستان میں بھی ہوا، جرمنی میں بھی ہوا، چین میں بھی ہوا ، جاپان میں بھی ہوا، امریکہ میں بھی ہوا ، افریقہ میں بھی ہوا، کوئی دنیا کا ملک ایسا نہیں ہے جہاں پاکستان کے حکمرانوں کی اس ناپاک کوشش کا رد عمل اس صورت میں دنیا میں ظاہر نہ ہوا ہو کہ انہوں نے وہاں احمدیوں کونمازوں سے روکنے کی کوشش کی ہو اور دنیا کے کونے کونے میں احمدی نمازوں پر زیادہ قائم نہ ہو گئے ہوں.تعداد کے لحاظ سے بھی، جماز کے مزاج کے لحاظ سے بھی،
107 روحانیت کی شیرینی کے لحاظ سے بھی ، خشوع و خضوع کے لحاظ سے بھی، غرضیکہ ہر پہلو سے اس کوشش کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں نکلا کہ جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز کا معیار ہر صورت میں ہر پہلو سے اب پہلے کی نسبت بہت اونچا ہو گیا.“ خطبات طاہر جلد 5 خطبات 1986 ، صفحہ 787) خدا کے فضل سے دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام بڑی خوبصورت اور تقویٰ پر مبنی مساجد کی تعمیر کا سلسلہ بھی بہت تیزی سے آگے بڑھا.ظاہری خوبصورتی اور وجاہت اور حشمت کے لحاظ سے تو جماعت احمد یہ دنیا کی امیر قوموں کا مقابلہ نہیں کر سکتی.لیکن قربانی کی روح میں دنیا کی کوئی قوم جماعت احمدیہ کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچتی.جماعت کا اخلاص، اس کی قربانی اور اس کا جذ بہ خدمت حیرت انگیز ہے.پھر جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں کو قبول فرمایا اور قربانی کرنے والوں کے اموال ونفوس میں برکتیں بخشیں اور اپنے فضلوں سے نوازا سینکڑوں کیا ہزاروں ایسی ایمان افروز داستانیں دنیا بھر میں پھیلی پڑی ہیں.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 مئی 1984ء میں فرمایا: اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے ہمیشہ ان باتوں کے الٹ نتائج ظاہر کئے ہیں جو ہمارے خلاف دشمنوں نے مکر اور تدبیریں کیں.احمدیت کی تاریخ میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب کہ دشمن کے ارادوں کے وہ نتائج ظاہر ہوئے ہوں اور ان کی تدابیر کے وہ نتائج بر آمد ہوئے ہوں جو مقصد تھا ان کا کہ ہم یہ کریں گے تو یہ نتیجہ نکلے گا.انہوں نے جب بھی جماعت احمدیہ کے اموال لوٹے ہیں جماعت کے اموال میں برکت ہوئی ، جب مسجدوں کو منہدم کیا ہماری مسجدوں میں برکت ہوئی، ہمارے نفوس ذبح کئے ہمارے نفوس میں برکت ہوئی، جب قرآن کریم جلائے..تو قرآن کی اشاعت میں بے شمار برکت ہوئی.جب انہوں نے تلی پرپابندی لگائی توتلی میں برکت ہوئی.“ چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے پاکستان میں احمدیہ مساجد پر پابندی کے آرڈیننس کے رڈ عمل میں بیرونِ پاکستان کی جماعتوں کو تحریک فرمائی کہ وہ خدا کے گھروں کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.آپ نے 1985ء میں جماعت کو یہ تحریک فرمائی کہ یہ سال مساجد کی تعمیر کے سال کے
108 طور پر منایا جائے.اس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں مساجد اور مراکز نماز اور مشن ہاؤسز کے قیام کی طرف غیر معمولی توجہ ہوئی.اور ہر آنے والے سال میں مسلسل جماعتی مساجد کی تعمیر میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ بہت سے مقامات پر جماعت کو بنی بنائی مساجد عطا ہوئیں کیونکہ کامیاب تبلیغ کے نتیجہ میں پورا گاؤں یا گاؤں کی اکثریت اپنے اماموں کے ساتھ احمد کی ہوئی اور یوں بنی بنائی مساجد جماعت کو عطا ہوئیں.پھر اللہ تعالیٰ نے مساجد میں اس طرح بھی وسعت عطا فرمائی کہ بعض بہت وسیع رقبے پر مشتمل نہایت خوبصورت اور عظیم الشان مساجد کی تعمیر کی توفیق جماعت کو عطا فرمائی.ان مساجد کی تعمیر کے دوران اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بہت ہی ایمان افروز واقعات بھی ظاہر ہوئے.مساجد کی تعمیر کے لئے قربانیاں پیش کرنے والوں کے ایمان و اخلاص اور قربانی کے بے نظیر واقعات بھی رونما ہوئے اور مساجد کی تعمیر میں روکیں ڈالنے والے مخالفین کی ذلت و رسوائی کے عبرتناک نشانات بھی ظاہر ہوئے.یہ بھی ایک طویل اور دلچسپ اور رُوح پرور تفصیل ہے اور تاریخ احمدیت کا ایک نہایت ہی روشن باب ہے.ذیل میں عہد خلافت رابعہ میں تعمیر ہونے والی بعض اہم اور بڑی مساجد و مراکز نماز کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے.بالخصوص ایسی مساجد مراکز نماز کا جن کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے رکھا یا آپ نے ان کا افتتاح فرمایا.یا حضور رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں کسی ملک میں پہلی مسجد کا قیام عمل میں آیا.عہد خلافت رابعہ میں پاکستان میں 20 کے قریب مساجد شہید کی گئیں.لست 1987 ء میں بیت النور ہالینڈ کو بعض شریر اور شر پسند عناصر نے جلانے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور قیمتی دستاویزات اور اشیاء ضائع کر دیں.اس واقعہ کا ذکر کر کے حضور نے 21 / اگست 1987ء کے خطبہ جمعہ میں ہالینڈ کی مسجد کو دس گنا بڑا بنانے کا اعلان کیا اور 18 رستمبر 1987ء کے خطبہ جمعہ میں منہدم شدہ مساجد کی مرمت اور از سر نو تعمیر کے لئے فنڈ کی تحریک کی اور فنڈ کا قیام اپنی طرف سے ایک ہزار پونڈ کی رقم کا وعدہ فرما کر کیا.
109 حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ 1989ء کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا: چونکہ پاکستان میں مساجد پر اور معاہد پر حملہ تھا اس لئے میں نے جماعت کو سمجھایا کہ ہم ظلم کا جواب ظلم سے تو نہیں دے سکتے مگر مسابقت کی روح کے ساتھ ہم یہ جواب دیں گے.قرآن کریم نے ہمیں نیکیوں میں آگے بڑھنے کی تلقین فرمائی ہے...اس لئے میں نے جماعت کو تاکید کی کہ وہاں اگر ایک مسجد جلاتے ہیں تو آپ بیسیوں مسجدیں باہر کی دنیا میں بنا دیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے اس آواز پر لٹھیک کہتے ہوئے عظیم الشان خدمت سر انجام دینے کی توفیق پائی.جس سال لندن آیا ہوں اس سال مساجد کی تعمیر کی تعداد دنیا بھر میں 32 تھی اور باقی چار سالوں میں خدا کے فضل سے جماعت کو 660 نئی مسجدیں بنانے کی توفیق ملی ہے....اس کے علاوہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ بعض بنی بنائی مسجدیں بھی ہمیں عطا کی ہیں اور جوں جوں جماعتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ان جماعتوں کے ساتھ بہت سے دیہات کی بنی بنائی مسجد میں پوری کی پوری جماعت احمد یہ کومل گئیں.ان مساجد کی تعداد 201 ہے جو ان کے علاوہ ہے جو میں نے بیان کی ہے.“ حضرت خلیفة أسبح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ 1992ء کے موقع پر مساجد کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: پاکستان میں جو سب سے بڑا ظلم توڑا جا رہا ہے وہ عبادت کی راہ میں روکیں ڈالنا ہے جس کو قرآن کریم نے سب سے بڑا ظلم قرار دیا ہے کہ کون ہے اس سے زیادہ ظالم جو خدا کی مساجد میں جا کر عبادت کرنے والوں کو عبادت سے روکتا ہے (البقرہ: 115 ).تو پاکستان میں جتنے بھی مظالم ہیں کچھ بدنی ہیں ان سے بدن کو تکلیف پہنچتی ہے لیکن جو روحانی مظالم ہیں وہ اس سے بہت زیادہ سنگین ہیں اللہ کی نظر میں.اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری مساجد کو منہدم کیا گیا، ان کی تالہ بندی کی گئی ، مساجد میں جانے سے روکا گیا.اُس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے اس کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ کو دنیا بھر میں نئی مساجد عطا کی ہیں کہ ان کے ذکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور روح سجدہ ریز ہو جاتی ہے جو کتنا محسن خدا ہے.نئی مساجد جو امسال بنی ہیں وہ
110 307 ہیں اور 80 زیر تعمیر ہیں.(اس طرح یہ کل تعداد 387 ہے).یز اعظم افریقہ گیمبیا 1988ء میں دورۂ مغربی افریقہ کے دوران حضرت خلیفہ مسیح الرائع نے گیمبیا میں دو احمد یہ مساجد کا افتتاح فرمایا اور دومشن ہاؤسز، ایک مسجد اور ایک کلینک کا سنگ بنیادرکھا.ان میں سے ایک شہر Talinding Kunjang کی مسجد بیت السلام تھی جس کا سنگ بنیاد 20 جنوری 1988 ء کو رکھا گیا تھا.ماریشس 18 رستمبر 1988ء کو حضور نے ماریشس کے مقام نیو گرو و (New Grove) پر مسجد بیت السلام کا سنگ بنیاد رکھا.اور اس کا افتتاح 1993ء میں فرمایا.اس مسجد کے لئے قطعہ زمین مقامی احمدی فیملی نے بطور ہد یہ جماعت کو پیش کیا تھا.اس تقریب سنگ بنیاد میں آنریبل را مدت جدو ( Ramduth Jaddoo) ،منسٹر فارور کس بھی شامل ہوئے.اسی روز 18 ستمبر 1988ء کو حضور نے اپنے ماریشس کے پہلے دورہ کے دوران وہاں کے علاقہ Quartier Millitaire میں تعمیر ہونے والی مسجد طاہر کا افتتاح فرمایا.بر اعظم یورپ 1% حضور انور نے 11 ستمبر تا 15 اکتوبر 1985ء پانچ ہفتوں کا یورپ کا دورہ فرمایا.مغربی جرمنی، اٹلی، سپین، فرانس، سوئٹر لینڈ، ہالینڈ اور ٹیم تشریف لے گئے اور اس دورہ کے دوران پانچ نئے مراکز کا افتتاح فرمایا.
سپین 111 حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے مورخہ 10 ستمبر 1982ء کو سپین کے شہر پیدرو آباد میں سات سو سال بعد تعمیر ہونے والی مسجد بشارت کا افتتاح فرمایا.اس مسجد کی تعمیر جماعت احمدیہ کے صد سالہ جو بلی منصوبہ کے ایک اہم حصہ کے طور پر ہوئی.اس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے بنفس نفیس سپین تشریف لے جا کر مورخہ 19اکتوبر 1980ء کو دورہ یورپ کے دوران رکھا تھا.اس کے افتتاح کی تاریخ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے اپنے وصال سے قبل مقرر فرمائی تھی.افتتاح مسجد بشارت اس موقع پر چار بر اعظموں ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے 40 ممالک سے دو ہزار کے قریب احمدی موجود تھے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس موقع پر اپنے تاریخی خطبہ جمعہ فرموده 10 ستمبر 1982ء میں فرمایا : مسجدوں کی تعمیر ایک بہت ہی مقدس فریضہ ہے.لیکن جو مسجد میں ہم بنا رہے ہیں یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جیسا کہ عام طور پر دنیا میں ہوتا ہے.ان مسجدوں کے پس منظر میں لمبی قربانیوں کی تاریخ ہے.یہ کچھ امیر لوگوں کی وقتی کوشش یا جذباتی قربانی کا نتیجہ نہیں.کچھ ایسے لوگوں کی جن کو خدا نے زیادہ دولت بخشی ہو اور وہ نہ جانتے ہوں کہ کہاں خرچ کرنی ہے.بلکہ خصوصا اس مسجد کے پیچھے تو ایک بہت ہی لبی ، گہری ، مسلسل قربانیوں کی تاریخ ہے.“ خطبات طاہر جلد اول / خطبات 1982، صفحہ 136) اس موقع پر مسجد کے افتتاح کی مناسبت سے منعقدہ خصوصی تقریب میں احمدی احباب کے علاوہ قریبا تین ہزار مقامی سپینش افراد نے شرکت کی.اسی طرح سپین کے مقامی اخبارات اور پریس و میڈیا اور مختلف نیوز ایجنسیز کے پچاس سے زائد نمائندگان اس تقریب میں شامل ہوئے.اور نہ صرف سپین کے ذرائع ابلاغ نے اس تقریب کو بہت نمایاں کر کے شائع اور نشر کیا بلکہ یورپ اور دنیا کے متعدد ممالک کے سمعی و بصری نشریاتی اداروں نے اس مسجد کے افتتاح کی تقریب کی نہایت خوش آئند الفاظ
112 میں خبریں نشر کیں اور اس کی جھلکیاں دکھائیں اور عالمی شہرت کے مالک کثیر الاشاعت اخبارات و جرائد نے اپنے ادارتی کالموں میں اس کا اچھے رنگ میں ذکر کیا.اور اس طرح کروڑوں افراد تک اس مسجد کی تعمیر اور افتتاح اور اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا.قرطبہ کے ایک جریدہ لا دوز یعنی صدائے قرطبہ نے اپنے اداریہ میں لکھا: بیشک پید رو آباد میں تعمیر ہونے والی مسجد جماعت احمدیہ کے لئے انتہائی مذہبی اہمیت کی حامل ہے جس کے افتتاح کے موقع پر دو ہزار کے لگ بھگ احمدی دنیا کے کونے کونے سے کھنچے چلے آتے ہیں لیکن یہ مسجد اہل قرطبہ کے لئے بھی کچھ کم اہمیت کی حامل نہیں اس لئے کہ یہ رواداری اور مذہبی عقائد کی آزادانہ تبلیغ و اشاعت کے سلسلہ میں ایک یادگار بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے اور تاریخی اعتبار سے اس کا رشتہ رواداری کے اس جذبہ اور روح کے ساتھ جا ملتا ہے جس کا مظاہرہ خلفائے قرطبہ نے اپنے دور حکومت میں کیا.دریائے وادی الكبير کے کنارے پیدرود آباد کے قرب میں واقع اس نو تعمیر مسجد کے خوبصورت مینار ہمیں ایک خاص تاریخی جذبہ کا احساس دلاتے ہیں.اس حقیقت کا انکار کئے بغیر کہ قرطبہ اور اندلس میں عیسائیت کی جڑیں بہت مضبوط اور گہری ہیں ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ مینار رواداری کی علامت اور نشان کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں اس اہم تاریخی ماضی کو دہرانے کا ایک واضح اشارہ موجود ہے جسے یکسر فراموش کر دینے کا کوئی جواز نہیں." انگلستان جلنگی 5 اکتوبر 1982ء کو حضور انور نے انگلستان کے شہر منظم (Gillingham) میں اور 7 اکتوبر 1982ء کولندن کے علاقہ کرائیڈن میں اور 10 مئی 1986ء کو گلاسگو میں سکاٹ لینڈ کے نئے احمدیہ مشن ہاؤسز کا افتتاح فرمایا.
113 مسجد بیت الفتوح مورڈن لندن انگلستان میں سب سے بڑی مسجد بنانے کی تحریک حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے انگلستان میں سب سے بڑی مسجد بنانے کی تحریک کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 24 فروری 1995ء میں فرمایا: نگلستان میں ایک بہت بڑی مسجد کی ضرورت ہے.یہاں اب تک جو دوسری بڑی بڑی مساجد بنائی گئی ہیں ان میں بتایا جاتا ہے کہ گلاسگو کی مسجد میں سب سے زیادہ نمازی آسکتے نہیں یعنی دو ہزار کی تعداد میں.اب میں نہیں کہہ سکتا کہ اس میں زیادہ آسکتے ہیں یا ریجنٹ پارک کی مسجد میں.مگر جو اندازہ ایک دفعہ میں نے لگوایا تھا اس سے یہی لگتا ہے کہ ریجنٹ پارک کی مسجد کے ملحقات تو بڑے ہیں مگر نمازیوں کی جگہ اتنی نہیں ہے.اس لئے بعید نہیں کہ گلاسگو والوں کا دعویٰ درست ہو کہ انگلستان کی سب سے بڑی مسجد ہے.جماعت احمدیہ کی تعداد تو دوسروں کے مقابل پر بہت تھوڑی ہے لیکن جماعت احمدیہ کے عبادت گزار بندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.اس لئے ہمیں دو ہزار کی مسجد کام نہیں دے گی.مرکزی جو جلسے ہوتے ہیں یا مرکزی تقریبات جن میں عبادت کے لئے وسیع جگہوں کی ضرورت پڑتی ہے ان میں انگلستان کی ضرورت چھ سات ہزار تک بھی جا پہنچتی ہے.تو میں نہیں سمجھتا کہ سر دست آپ کے اندر یہ استطاعت ہے کہ چھ سات ہزار نمازیوں کے لئے مسجد تعمیر کر سکیں.مگر ایسی مسجد کی بنیاد ڈالنا ضروری ہے جس میں یہ سہولتیں مہیا ہوں کہ آئندہ حسب ضرورت اور حسب توفیق اس کی توسیع ہوتی چلی جائے اور مسجد کے عمومی نقشے پر برا اثر نہ پڑے.یعنی سادگی تو اپنی جگہ درست ہے مگر بدزیبی تو خدا کو پسند نہیں ہے.ایسے ملحقات، ایسے الحاقی اضافے جو بد صورتی پیدا کریں وہ اچھے نہیں ہیں.اس لئے اپنی پلا ئنگ میں، اپنی منصوبہ بندی میں یہاں کی جماعت کو چاہئے کہ یہ گنجائش رکھیں کہ آئندہ دس پندرہ ہزار تک کے لئے بھی وہ مسجد بڑھائی جا سکتی ہو تو بڑھائی جائے اور پھر بھی ٹھیک لگے.دونوں طرف سے آگے اور پیچھے متوازن بڑھنے کی جگہ بھی ہونی چاہئے اور نقشہ پہلے سے ہی بنا چاہئے مختلف stages ، منازل کا نقشہ.
114 اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ سر دست جوئیں نے تخمینہ لگایا ہے، امیر صاحب سے مشورہ بھی کیا ہے تو وہ بھی کہتے ہیں ٹھیک ہے.مگر کچھ ان کے ٹھیک سے مجھے لگا تھا کہ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت میں ابھی یہ توفیق نہیں، تو تو فیق تو خدا بڑھا دیا کرتا ہے.میں نے پانچ ملین کا تخمینہ لگایا ہے یہاں کی مرکزی مسجد کے لئے اور جیسا کہ میرا پرانا دستور چلا آرہا ہے اللہ توفیق بھی عطا فرما رہا ہے کہ ہر وہ وسیع، بڑی تحریک جو کرتا ہوں اس کا سواں حصہ میں اپنی طرف سے پیش کرتا ہوں.لیکن اس سے پہلے میں امیر صاحب کی طرف سے دس ہزار پاؤنڈ کا وعدہ لکھوا رہا ہوں تا کہ ان کا پہلا نمبر رہے.اگر چہ میری نیتوں میں ان سے پہلے غالبا یہ بات چلی آرہی تھی کہ پچاس ہزار پاؤنڈ کا میں اکیلا نہیں بلکہ اپنی بچیوں، دامادوں، بچوں اور مرحومین سے تعلق والوں کی طرف سے یہ لکھواؤں.پانچ سال کا عرصہ میرے ذہن میں ہے.پانچ سال میں اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا تو یہ رقم سارے وعدہ کروانے والے پوری کر دیں.لیکن اگر یہ وعدے اتنے نہ ہوئے تو پھر پانچ سال مزید بھی اس کو بڑھایا جا سکتا ہے.اور مسجد کے معاملے میں بنیادیں وسیع ہونی چاہئیں اور سادہ سی عمارت کی تعمیر بھی ہو جانی چاہئے.باقی زیبائشیں بعد کی باتیں ہیں، دیکھی جائیں گی.تو میں سمجھتا ہوں کہ پچاس لاکھ اگر پانچ سال میں نہ بھی پورا ہو ( پانچ ملین تو پچاس لاکھ بنتا ہے بہت بڑی رقم ہے ) تو دس لاکھ بھی سہی لیکن ارادے بلند رکھیں اور اللہ سے توقعات بلند رکھیں.نئی نسل کے جو بچے اب خدا کے فضل سے مختلف نوکریوں پر لگ رہے ہیں ان کو بھی شامل کریں اور خدا سے توفیق بڑھانے کی دعائیں مانگیں تو کوئی بعید نہیں.اور پھر جب بھی تحریک کی جاتی ہے تو سب دنیا سے خدا ویسے بھی مدد گار کھڑے کر دیتا ہے.کچھ ایسے جوش رکھنے والے متمول دوست ہیں کہ دنیا کی کوئی بھی تحریک ہو پیچھے نہیں رہنا چاہتے تو وہ بھی آپ کی انشاء اللہ نصرت فرمائیں گے.تو اس وقت میں پانچ ملین کی تحریک جماعت انگلستان کی مرکزی مسجد کے لئے کرتا ہوں اور اس دعا اور نیت کے ساتھ کہ یہ لازمنا انگلستان کی وسیع ترین مسجد ہو.عبادتوں کی گنجائش پر زور ہونا چاہئے.جو ملحقہ عمارتیں ہیں یا دوسرے نخرے ہیں ان کو بے شک نظر انداز کر دیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہو جائے تو یہ بھی بعید نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں پھر جرمنی کو بڑی تحریک ہوگی کیونکہ جرمنی آپ کی رقیب جماعت ہے اور وہ
115 برداشت نہیں کر سکتی کہ کسی نیکی میں آپ ان سے آگے نکل جائیں.تو آپ نے قدم بڑھایا تو وہ بھی بڑھائیں گے، یہ سلسلہ چل پڑے گا انشاء اللہ.تو اب وقت ہے کہ ہم عبادتوں کی طرف توجہ جب کر رہے ہیں تو عبادت گاہوں کی طرف بھی توجہ کریں.“ ) خطبه جمعه فرمود : 24 فروری 1995ء ، خطبات طاہر جلد 14 ، صفحہ 138-140) الغرض حضور نے برطانیہ کی نئی اور وسیع مسجد کے لئے 24 / فروری 1995ء کو 5 رملین پاؤنڈ کی تحریک فرمائی.28 مارچ 1999ء کو حضور نے بیت الفتوح کی مجوزہ جگہ پر نماز عید الاضحی پڑھائی اور اسی سال 19 / 1اکتوبر کو حضور نے مسجد بیت الفتوح کا سنگِ بنیاد رکھا.16 / فروری 2001 ء کو حضور نے اس مسجد کے لئے مزید 5 رملین پاؤنڈ کی تحریک فرمائی.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 3 اکتوبر 2003ء کو اس کا افتتاح فرمایا.اس مسجد میں بیک وقت دس ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں.نیز یہ مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے.قطب شمالی کی پہلی مسجد کے لئے تحریک حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 8 اکتوبر 1993ء میں فرمایا کہ: جماعت احمد یہ ناروے کے متعلق یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے North Cape میں مسجد بنانے کی حامی بھری تھی اور ان کے سپر دئیں نے یہ کام کیا تھا کہ چھدوں کی اپیل سے پہلے وہاں زمین لیں اور جماعت قائم کریں.پھر ساری دنیا سے چندوں کی اپیل کی جائے گی اور آپ کی جو کمی ہے وہ پوری ہو جائے گی.انہوں نے یہ خوشخبری بھیجی ہے کہ اللہ تعالی کے فضل سے کمیون نے باقاعدہ فیصلہ کر کے وہاں ایک نہایت ہی عمدہ با موقع اوپر کی زمین جو ایک خوبصورت پہاڑ پر واقع ہے اور ایک ایکڑ سے زیادہ رقبہ ہے وہ جماعت احمدیہ کو مسجد کے لئے تحفہ پیش کر دی ہے اور انہوں نے کوئی پیسہ وصول نہیں کیا.دوسرا کام کرنے کے لئے ان کا وفد اب وہاں گیا ہے یا جانے والا ہے تبلیغ کر کے وہاں جماعت قائم کرے گا.جب یہ دونوں شرطیں اکٹھی ہو جائیں گی تو پھر انشا اللہ تعالی چندہ کی عام تحریک بھی کر دی جائے گی.“
116 حضور نے فرمایا کہ: میرے ساتھ جو قافلہ تھا انہوں نے ایک ہزار پاؤنڈ کا وعدہ تحریک سے پہلے ہی کر دیا تھا.اس میں میں نے بھی اپنا وعدہ شامل کر لیا.اس طرح ہمارے قافلے کا دو ہزار کا وحدہ اور کچھ خطبہ کے نتیجہ میں دوست از خود وعدہ بھی لکھوا گئے یا رقم ادا کر دی.بہر حال جب عام تحریک ہوگی اور جب جیسا میں نے بتایا ہے وہاں جماعت بھی کچھ قائم ہو جائے گی تو مسجد کے کام کا آغاز ہو جائے گا.“ جرمنی.100 مساجد کی سکیم ( خطبات طاہر جلد 12 خطبات 1993 صفحه 769) ستمبر 1985ء میں مغربی جرمنی کے شہر کولون (Köln) میں 17 ستمبر کو حضور نے ایک نئے مرکز بیت النصر کا افتتاح فرمایا.22 ستمبر 1985ء کو حضور انور نے جرمنی کے شہر گروس گیراؤ (Groß-Gerau) میں نئے مرکز ناصر باغ کا افتتاح فرمایا.جلسہ سالانہ جرمنی 1988ء کے موقع پر حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے جماعت احمدیہ جرمنی کو صد سالہ جشن تشکر کے حوالہ سے ملک بھر میں سو مساجد تعمیر کرنے کا منصوبہ عطا فرمایا.اس موقع پر حضور نے فرمایا: گزشتہ سو سال کامیابی کے ساتھ گزرنے کے طور پر سو مساجد جرمنی میں بنا دیں، اظہار تشکر کے طور پر.روزنامه الفضل ربوہ مورخہ 5 جون 1989 ، صفحہ 5) چنانچہ جماعت جرمنی نے اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لاکھوں مارک کے وعدے پیش کر دئیے.مگر کئی سال گزرنے کے بعد بھی بعض قانونی اور معاشرتی رکاوٹوں کے باعث اس منصوبہ کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا.22 رمئی 1997ء کو حضرت سیدہ مہر آپا حرم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی.23 مئی کو
117 حضور نے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ جرمنی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مہر آپا کی طرف سے جرمنی کی 100 مساجد سکیم میں 3لاکھ جرمن مارک پیش کئے جائیں گے ( یہ وعدہ بعد میں بڑھا کر 5 لاکھ کر دیا) نیز اپنی طرف سے 50 ہزار مارک دینے کا اعلان فرمایا.( جو بعد میں بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ کر دئیے ) 1997 ء میں حضور نے ایک مرتبہ پھر اس منصوبہ کی طرف توجہ دلائی.25 نومبر 1998ء کو حضور نے پلش میں پہلی مسجد بیت الحمد کا سنگ بنیاد رکھا اور 9 جنوری 2000ء کو اس کا افتتاح ہوا.چند سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد بیت الحمد فلش اور مسجد بشارت اوستا بروک مکمل ہو گئیں اور حضور کے دست مبارک سے ان مساجد کے افتتاح عمل میں آئے.جبکہ مسجد بیت المومن میونسٹر کا حضور نے سنگ بنیا د رکھا.علاوہ ازیں مسجد ناصر ( بریمن) (سنگ بنیاد نومبر 2001ء) ، مسجد نور الدین (ڈار مشھوٹ) سنگ بنیاد 11 مئی 2002ء) اور مسجد طاہر ( کو بلنز ) میں مساجد کی تعمیر خلافت رابعہ کے آخری سالوں میں شروع ہو چکی تھی.جبکہ مسجد حبیب (کیل)، مسجد بیت العزیز (ریڈ شیڈٹ)، جامع مسجد اون باخ)، مسجد سمیع ( ہنور ) ، مسجد بیت العلیم (ورز برگ) اور مسجد الہدی (اورزنگن) کے لئے قطعات زمین خریدے جاچکے تھے.عہد خلافت رابعہ میں جرمنی میں مساجد کی تعمیر سے متعلق بعض مزید تفصیلات درج ذیل ہیں.مسجد بیت الشکور ( گراس گراؤ.ناصر باغ) مسجد بیت الشکور جرمنی کے شہر Gross-Gerau میں واقع جماعتی مرکز ناصر باغ میں تعمیر ہوئی.ناصر باغ میں لگنے والی آگ سے وہاں موجود لکڑی کی عمارت مکمل طور پر جل گئی تھی.اس علاقہ میں احمدیوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہورہا تھا.چنانچہ تقریب دو سال کی تگ ودو کے بعد مقامی انتظامیہ نے ناصر باغ میں مسجد بنانے کی اجازت دی.مسجد کے ساتھ ایک بڑا ہال، دفاتر اور مبلغ سلسلہ کی رہائش بھی تعمیر کی گئی.اس مسجد کو حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے بیت الشکور کا نام دیا.مسجد کا
118 سنگ بنیاد 13 / اپریل 1991ء کو رکھا گیا اور 13 را پریل 1993ء کو افتتاح عمل میں آیا.مسجد بیت الشکور کا کل رقبہ 1850 مربع میٹر ہے.اس مسجد کے مردانہ ہال کا رقبہ 484 مربع میٹر ہے اور Basement میں خواتین کے لئے قریب اتنی ہی گنجائش کی بڑی مسجد بنائی گئی ہے.630 مربع میٹر میں دفاتر اور رہائشگاہ بنائی گئی.یہ منصوبہ اس لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی خواہش پر تمام عمارت وقار عمل کر کے جماعت جرمنی کے افراد نے اپنے ہاتھوں سے بنائی.دو سال تک بڑی دور دور سے احباب تشریف لا کر وقار عمل میں حصہ لیتے رہے.مسجد بیت الحمد (فلش) سومساجد سکیم کے تحت پہلی باقاعدہ طور پر تعمیر ہونے والی مسجد لکسمبرگ کے قریب جرمنی کے شہر Wittlich میں بنائی گئی.اس کا سنگ بنیاد نومبر 1998ء میں رکھا گیا اور 09 جنوری 2000ء کو اس کا افتتاح ہوا.اس موقع کے لئے حضور نے خصوصی پیغام ارسال کیا.پھر اسی سال 05 جون 2000ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الرابع یہاں رونق افروز ہوئے اور رات قیام فرمانے کے بعد اگلے روز تبلیغی نشست سے خطاب فرمایا.اس مسجد کا پلاٹ تین ہزار پانچ سو مربع میٹر ہے اور مسجد 200 مربع میٹر پر تعمیر کی گئی ہے جود ومنزلوں پر مشتمل ہے.گراؤنڈ فلور پر خواتین کے لئے مسجد کے علاوہ چار کمروں کا مربی جو دو ہاؤس ہے اور بالائی منزل پر مردانہ مسجد کے ساتھ دفاتر ہیں جبکہ تہ خانہ میں ایک کثیر المقاصد بال ہے.مسجد بشارت (اوسنا بروک) یہ مسجد OSNABRUCK میں تعمیر ہوئی.اکتوبر 1999ء میں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اکتوبر 2002ء میں اس کا افتتاح ہوا.2481 مربع میٹر کے پلاٹ پر بنائی جانے والی مسجد کا تعمیری رقبہ 211 مربع میٹر ہے.جس میں 215 نمازیوں کی گنجائش ہے.اس مسجد کی خصوصیت اس کے گنبد کے اطراف دو مینار ہیں.مسجد کے علاوہ دو کمروں کی رہائش، لائبریری اور جماعتی ضرورت کے کچن کے علاوہ تہ خانہ میں ایک ہال بھی اس عمارت کا حصہ ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے 31 را گست 2000ء کوزیر تعمیر مسجد کا معائنہ فرمایا اور یہاں ظہر و عصر کی نمازیں ادا کیں.
119 مسجد بیت المومن ( میونسٹر) اس مسجد کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے 31 اگست 2000ء کو میونسٹر شہر میں رکھا.7 سے تبلیغی اس سے قبل بھی 1995ء میں حضور نے اس شہر میں ایک تبلیغی نشست کو رونق بخشی تھی.اس مسجد کی تعمیر حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ کی زندگی میں مکمل ہو گئی تھی تاہم اس کا افتتاح حضور کی وفات کے چند روز بعد 03 مئی 2003ء کو عمل میں آیا.اس میں 213 نمازیوں کے ادا کرنے کی گنجائش ہے.مسجد مومن کے میناروں کی اونچائی دس میٹر ہے.پلاٹ کا رقبہ 1015 مربع میٹر ہے.اس میں مسجد کے ساتھ چار کمروں پر مشتمل مربی ہاؤس، دفتر اور لائبریری بھی ہے.جرمنی میں دیگر زیر تعمیر مساجد علاوہ ازیں مسجد نورالدین (ڈار مشکلٹ) مسجد ناصر ( بریمن) اور مسجد طاہر ( کوبلنز ) کا سنگ بنیاد خلافت رابعہ کے دور میں رکھ دیا گیا تھا.مسجد نور الدین ( ڈار مشکوٹ) کا سنگ بنیاد 11 مئی 2002ء کو رکھا گیا.مسجد ناصر ( بریمن) کا سنگ بنیاد نومبر 2001ء میں رکھا گیا.اسی طرح کیل شہر میں مسجد حبیب کی تعمیر کے لئے 3 ستمبر 1999ء کو پلاٹ خرید لیا گیا تھا.خلافت رابعہ کے زمانہ میں جو مزید پلاٹ خریدے گئے ان میں Riedstadt میں مسجد عزیز کے لئے پلاٹ 5 اپریل 2000ء، جامع مسجد (اوفن باخ) کے لئے پلاٹ 7 اگست 2000ء مسجد سمیع (ہنوور) کے لئے پلاٹ 20 اپریل 2001ء ، بیت العلیم ( ورز برگ) کے لئے پلاٹ 14 ستمبر 2001ء مسجد الہدی (Usingen) کے لئے پلاٹ 12 / فروری 2002ء ، اور مسجد بشیر (Bensheim) کے لئے پلاٹ 9 دسمبر 2002ء کو خریدے گئے.ان پلاٹوں کی منظوری حضرت خلیفہ اسیح الرابع سے حاصل کی گئی تاہم ان کی تعمیر عہد خلافت خامسہ کے ابتدائی سالوں میں ہوئی.ہالینڈ 13 ستمبر 1985ء کو حضور نے فن سپیٹ (ہالینڈ) میں نئے مرکز بیت النور کا افتتاح فرمایا.
120 یز اعظم امریکہ یوایس اے جنوری 1983ء میں حضرت خلیفہ امسح الرائع نے جماعت احمد یہ امریکہ کو تحر یک فرمائی کہ آئندہ چار پانچ سال میں امریکہ میں کم از کم پانچ نئے مشن ہاؤسز اور مساجد قائم کرنے کی کوشش کی جائے.29 جون 1984ء کو حضور انور نے امریکہ و یورپ کے مراکز کے لئے جملہ احمدیوں کو چندہ کی تحریک فرمائی.1984ء میں شکاگو میں Glen Ellyn میں جماعت نے مسجد ر مشن ہاؤس کے لئے پانچ ایکڑ کا ایک پلاٹ خریدا.اسی سال شکاگو کے پہلے مشن واقع Wabash Street سے ملحقہ مکان خریدا تا کہ مشن کی عمارت میں توسیع کی جا سکے..اسی سال ڈیٹرائٹ (میامی ) میں مسجد و مشن ہاؤس کی تعمیر کے لئے سات ایکڑ کا پلاٹ خریدا..نیو یارک میں ایک عمارت بطور مرکز نما ز خریدی گئی جس کا نام بیت الظفر رکھا گیا.زائن میں ایک پلاٹ مشن ہاؤس اور مرکز نماز کے طور پر خریدا گیا.اور ہاسٹن میں مقامی افراد جماعت نے 2 ایکڑ کا ایک پلاٹ مسجد کے لئے تحفہ دیا.1985ء میں New Orleans میں ایک عمارت بطور مرکز نما ز خریدی گئی..اسی طرح تو سان (Tueson) ایریزونا میں مسجد کی تعمیر ہوئی..لاس اینجلس ( کیلیفورنیا) میں 14.75 ایکڑ کا پلاٹ مسجد ومشن ہاؤس کے لئے خریدا گیا جس پر مسجد بیت الحمید تعمیر ہوئی.اکتوبر نومبر 1987ء میں حضور نے امریکہ کی گیارہ ریاستوں کا دورہ فرمایا.یہ دورہ تقریبا ڈیڑھ ماہ کا تھا.حضور کینیڈا بھی تشریف لے گئے.اس دورہ کے دوران حضور انور نے امریکہ میں تین مساجد کا افتتاح فرمایا جن میں فلاڈلفیا، تو سان اور پورٹ لینڈ کی مساجد شامل ہیں.
121 8/اکتوبر 1987ء کو نیو جرسی کے شہر ولنگ برو(Willingboro) میں قائم کی جانے والی مسجد النصر کا افتتاح فرما کر اسی روز وہاں سے کار پر فلاڈلفیا تشریف لے گئے اور وہاں قائم کی جانے والی مسجد ناصر اور اس سے ملحقہ مشن ہاؤس کا افتتاح فرمایا.نیز اسی دورہ کے دوران پانچ مساجد کا سنگ بنیاد رکھا جن میں مسجد بیت الرحمن واشنگٹن ( 9 /اکتوبر 1987 ء ) اور ڈیٹرائٹ کے علاقہ ٹرائے (Troy) میں مسجد اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد (15 اکتوبر 1987ء) رکھا.( نوٹ : بعد ازاں ڈیٹرائٹ کی اس مسجد کی جگہ کو لوکل گورنمنٹ نے سڑک کی تعمیر کے لئے جماعت سے حاصل کر لیا.اس لئے اس کے مقابل پر ٹرائے کی بجائے فارمنگٹن کے علاقہ میں 2001ء میں 5 را یکٹر جگہ حاصل کر کے یہاں مسجد تعمیر کی گئی).حضور انور رحمہ اللہ نے احباب جماعت کی دعوت پر مسجد یوسف توسان (Tuscan) اریزونا کا افتتاح 21 اکتوبر 1987ء کو فرمایا.23 اکتوبر 1987ء بروز جمعتہ المبارک حضور رحمہ اللہ نے لاس اینجلس کے علاقہ Hawthorne میں مسجد بیت السلام کا سنگ بنیا درکھا.1987ء میں ہی Cleavaland ( اوہایو) میں ایک عمارت بطور مرکز نما ز خریدی گئی جس کا نام بیت الاحد رکھا گیا.1988ء میں Pittsburgh اور San Jose میں مشن ہاؤسز ( مراکز نماز ) کی عمارات خریدی گئیں.احمد یہ مسجد واشنگٹن کی تحریک حضرت خلیفہ مسیح الرائع نے اپنے خطبہ جمعہ بمقام لاس اینجلس (امریکہ ) فرموده 7 / جولائی 1989ء میں واشنگٹن میں مرکزی مسجد کی تعمیر میں احباب جماعت کو حصہ لینے کی تحریک فرمائی.اس سلسلہ میں حضور نے لجنہ نیویارک کی طرف سے پیش کیا جانے والا تیس ہزار ڈالرز کا چیک اور
122 ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب کی طرف سے پیش کیا جانے والا پچاس ہزار ڈالر کا چیک بھی اس مسجد کے لئے وقف کرنے کا اعلان کیا.اور فرمایا: جوبلی کے...اس سال کی غیر معمولی خوشی کے موقع پر جس نے بھی امریکہ سے اس نیت سے روپیہ مجھے پیش کیا وہ میں انشاء اللہ مسجد واشنگٹن ہی کو دوں گا.لیکن اس کے علاوہ بھی ایک عمومی تحریک کی ضرورت ہے.ہم نے جائزہ لیا ہے اس وقت مہنگائی اتنی ہو چکی ہے کہ مسجد واشنگٹن اگر ایک سال سے سولہ مہینے کے اندر اندر تعمیر کی جائے تو پچیس لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے..میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت امریکہ یہ سال خصوصیت سے واشنگٹن کی مسجد کا سال منائے تو جتنی رقم بھی اکٹھی ہو ایک سال کے اندر وہ ابتدائی ضرورت کے لئے انشاء اللہ پوری ہو جائے گی.لیکن ساتھ ہی میں تمام دنیا کی جماعتوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ واشنگٹن کی مسجد میں وہ بھی حصہ ڈالیں.“ (خطبات طاہر جلد نمبر 8 خطبات 1989 صفحہ 469-471) Silver Spring Maryland USA میں جماعت نے حضور کی تحریک پر 80 کی دہائی میں پونے نو ایکٹر رقبہ حاصل کیا جس پر مسجد بیت الرحمن کی تعمیر کا کام 1993ء میں شروع ہوا.حضرت خلیفۃ اسبح الرائع نے 1994ء کے جلسہ سالانہ امریکہ کے موقع پر 14 اکتوبر کو اس کا با قاعده افتتاح فرمایا جو جماعت احمدیہ امریکہ کی مرکزی مسجد کے طور پر استعمال ہورہی ہے.حضور انور نے اسی روز ایم ٹی اے کے ارتھ اسٹیشن کا بھی باقاعدہ افتتاح فرمایا..1989ء میں مسجد بیت الحمید ( لاس اینجلس) کی تکمیل ہوئی.اس پراجیکٹ پر 1.3 ملین ڈالرز خرچ ہوئے.7 جولائی 1989ء کو حضور نے اس کا افتتاح فرمایا..اسی سال روچیسٹر میں جماعت نے ایک عمارت بطور مرکز نما ز خریدی..1990ء میں ہیوسٹن (Houston) میں مسجد و مشن ہاؤس کے لئے ایک عمارت خریدی گئی.1992ء میں سینٹ لوئیس (Charlote (Ne) (St.Louis اور ملوا کی (WI) میں عمارات خریدی گئیں.1993ء میں میامی ( فلوریڈا) میں مسجد ومشن ہاؤس کے لئے ایک عمارت خریدی گئی.
123 23 اکتوبر 1994ء کو حضور انور نے مسجد بیت الصادق شکا گو کا افتتاح فرمایا..1996ء میں San Jose میں ایک عمارت بطور مرکز نما ز خریدی گئی.1997ء میں (Old Bridge (N میں ایک عمارت بطور مشن ہاؤس اور مرکز نما خریدی گئی.اسی طرح Dallas میں 4.75 ایکڑ کا ایک پلاٹ خریدا گیا.1998ء میں (Albany (NY میں افراد جماعت نے ایک سکول کی عمارت مسجد و مرکز نماز کے طور پر خریدی.گوئٹے مالا ( سنٹرل امریکہ ) میں پہلی احمد یہ مسجد کا افتتاح - مسجد حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے 13 جولائی 1989 ء کو گوئٹے مالا کی پہلی مسجد بیت الاول کا افتتاح فرمایا.یہ مسجد صرف گوئٹے مالا کی ہی نہیں بلکہ سنٹرل امریکہ کی بھی پہلی احمد یہ مسجد ہے.اس مسجد کے لئے زمین کی خرید اور تعمیر کے تمام اخراجات مکرم چوہدری محمد الیاس صاحب آف کیلگری ( کینیڈا) ابن مکرم چوہدری محمد اسحاق صاحب ( یکے از اسیرانِ راہ مولا ساہیوال) نے برداشت کئے.گوئٹے مالا کی اس مسجد کے لئے زمین کی خرید کی کارروائی ستمبر 1988ء میں ہوئی.یکم نومبر 1988ء کو مکرم ڈاکٹر وسیم سید صاحب نے اس کا نقشہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کیا.یہ نقشہ گوئٹے مالا کے ایک قابل اور معروف آرکیٹیکٹ روبرتو بیانکی Mr.Roberto) Beanqui نے تیار کیا تھا.حضور رحمہ اللہ نے اسے بعض اہم اور بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ منظور فرمایا اور اس مسجد کا نام بہیت الاول عطا فرمایا.گوئٹے مالا اور میکسیکو کی سرحد کو ملانے والی ملک کی معروف شاہراہ Inter Americana پر گوئٹے مالا شہر سے ہیں کلومیٹر کے فاصلہ پر اونچی پہاڑی پر برلب شاہراہ واقع اس جگہ پر ایک جنگل تھا اور یہ رہائش کے قابل نہ تھی.6 فروری 1989ء کو مکرم اقبال احمد مجم صاحب مرکزی مبلغ سلسلہ نے دعا کے ساتھ کام کا آغاز کیا.
124 جنگل کی صفائی اور جگہ کی درستی کے بعد ماہ مارچ کے آخر پر تعمیر کا اصل کام شروع ہوا.مسجد کے انجنیئر Mr.Felipe Cojolon تھے جنہوں نے مستریوں اور مزدوروں سے اور ٹائم لگوا کر دن رات محنت کر کے 3 جولائی 1989 ء سے پہلے اسے مکمل کروالیا.گوئٹے مالا جیسے پسماندہ ملک میں اتنی وسیع مسجد اور مشن ہاؤس کا تعمیراتی کام محض تین ماہ کے اندر مکمل کرنا بظاہر ناممکنات میں سے تھا.وہاں پانی اور بجلی کے مسائل بھی تھے.اور ان ایام میں شدید بارشوں کا ایسا موسم بھی شروع ہو چکا تھا کہ جب ایک دفعہ بارش شروع ہو جائے تو دنوں بلکہ ہفتوں تک چلتی ہے.مکرم اقبال احمد صاحب محجم اتنے قلیل عرصہ میں اور ایسے موسم کے باوجود اس مسجد کی تعمیر کو ایک معجزہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ”جب فروری 1989ء میں مسجد و مشن ہاؤس کے تعمیری کام کا آغاز ہوا تو مکرم مبارک احمد ساقی صاحب ایڈیشنل وکیل العبشیر (لندن) نے اطلاع بھیجوائی کہ اگر اسی فیصد کام بھی ہو جائے تو حضور ایدہ اللہ بنفس نفیس تشریف لا کر اس کا افتتاح فرمائیں گے.“ چنانچہ تعمیراتی کام کو تیز کرنے کے لئے انجنیئر صاحب کے مشورہ سے زیادہ مزدور لگا کر دو شفٹوں میں کام شروع کیا گیا اور حضور رحمہ اللہ کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے لکھا گیا.مکرم اقبال احمد نجم صاحب لکھتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی نشان دکھایا.چنانچہ جب ضرورت محسوس ہوتی بارش ہو جاتی اور جب ضرورت نہ محسوس ہوتی نہ برستی.جس کے نتیجہ میں حضور کے دورہ سے قبل اس حد تک کام مکمل ہو گیا کہ آپ نے بنفس نفیس تشریف لا کر اس کا افتتاح فرمایا.“ اس مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے ایک اور نہایت اہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب اس مسجد کے لئے زمین خریدی گئی اور یہاں مجد کی تعمیر شروع ہوئی اس وقت گوئٹے مالا میں ایک بھی مقامی فرد احمدی نہ تھا.لیکن حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے دورہ گوئٹے مالا کے دوران ہی چند مقامی لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمد یہ مسلمہ میں شمولیت کی سعادت حاصل کی.اور آج خلافت احمدیہ کی زیر ہدایت و نگرانی خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ایک اچھی مضبوط اور فعال جماعت قائم ہے جو نہ صرف گوئٹے مالا میں بلکہ سینٹرل امریکہ کے دیگر ممالک میں بھی تبلیغ و تربیت اور
125 خدمت نوع انسانی کے بہت سے قابل قدر امور اور لائق تحسین کام انجام دینے کی توفیق پارہی ہے.گوئٹے مالا میں احمدیت کا جو بیچ 1989ء میں لگا تھا وہ ایک سرسبز و شاداب شجرہ طیبہ میں بدل چکا ہے اور خدا کے فضلوں کے شیریں ثمرات سے لدا ہوا ہے.اس مسجد کی باقاعدہ افتتاحی تقریب اور اس موقع پر ملک بھر میں کثرت سے اسلام احمدیت کے پیغام کی تشہیر کی کسی قدر تفصیلات اسی کتاب میں حضور رحمہ اللہ کے مبارک اللہی سفروں کے عنوان کے تحت ملاحظہ ہوں.) گوئٹے مالا کی مسجد بیت الاول کی یادگاری تختی کے لئے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے حسب ذیل تحریر منظور فرمائی جس کا سپینش ترجمہ کر کے مسجد کے مرکزی دروازے پر لگایا گیا.گوئٹے مالا میں تعمیر ہونے والی پہلی تاریخی مسجد جس کی تعمیر کی توفیق اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ مسلمہ کو عطا فرمائی.اس مسجد اور ملحقہ مشن ہاؤس کی تعمیر کے جملہ اخراجات مکرم چوہدری محمد الیاس صاحب آف کینیڈا نے ادا کئے.اس مسجد کا افتتاح امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ ایج الرابع نے مورخہ 3 جولائی 1989 ء کو کیا.اللہ تعالی اس مسجد کو ہمیشہ محض اللہ عبادت کرنے والوں سے معمور رکھے اور کبھی خدا کے سوا اس گھر میں کسی اور کی عبادت نہ کی جائے.“ کینیڈا 04:09 20 اپریل 1983ء کو حضور نے کینیڈا کے احباب کے نام پیغام بھجوایا کہ امریکہ کے احباب کی طرح آگے بڑھیں اور آئندہ تین سال میں کینیڈا میں نے مشن ہاؤسز اور مساجد کے قیام اور موجودہ مشنز میں توسیع کے لئے چھ لاکھ ڈالر جمع کریں.20 ستمبر 1986ء کو حضور نے اپنے دست مبارک سے کینیڈا میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد مسجد بیت الاسلام کا سنگ بنیاد رکھا.مسجد کی تعمیر کا پرمٹ 14 جولائی 1989ء کو ملا.7 /ستمبر 1989ء کو اجتماعی دعا کے ساتھ اس کی کھدائی کا کام شروع ہوا.اور تین سال کے بعد 17 / اکتوبر
126 1992 ء کو حضور نے ٹورانٹو کینیڈا میں جماعت احمدیہ کی مرکزی مسجد مسجد بیت الاسلام کا افتتاح فرمایا.اس تقریب کو ایم ٹی اے کے ذریعہ پوری دنیا میں براہ راست نشر کیا گیا.حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1992ء میں کینیڈا کے شہر مس ساگا میں مسجد کی کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی اور اس ضمن میں اپنی طرف سے 12 ہزار ڈالر دینے کا اعلان و همچة فرمایا.میز اعظم آسٹریلیا آسٹریلیا 30 ستمبر 1983ء کو حضور انور نے آسٹریلیا کی پہلی مسجد بیت الہدی اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا اور 14 جولائی 1989ء کو افتتاح فرمایا.في 25 ستمبر 1983ء کو حضور انور نے نجی کے شہر لٹو کا میں احمدیہ مسجد مسجد رضوان کا سنگ بنیادرکھا.پاپوانیوگنی 17 اپریل 1995ء کو حضور انور نے پاپوا نیو گنی (Papua New Guinea) میں ایک مسجد کے افتتاح کا اعلان اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا.یہ اپنے رنگ میں ایک منفرد افتتاح تھا جہاں حضور رحمہ اللہ خود بنفس نفیس تو تشریف نہیں لے جا سکے لیکن خطبہ جمعہ میں اس کے افتتاح کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا: آج ایک نئے ملک میں ایک نئی مسجد کے افتتاح کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.یہ پاپوانیوگنی کی مسجد ہے اور اس کا نام بیت الکریم رکھا گیا ہے.اب جتنے بھی مساجد کے نام رکھے جارہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے نام پر ہی ہیں یا اللہ کے اسماء پر ہیں...آج کریم نام کی مسجد کا جو اللہ کے کریم نام کی طرف منسوب ہو رہی ہے اس کا افتتاح ہورہا ہے.یہ جو ملک ہے اس کا حدود اربعہ یہ ہے کہ اس کے ایک طرف انڈونیشیا واقع ہے اور تھائی لینڈ اس کے قریب
127 ہے.آسٹریلیا اس کے جنوب میں ہے.آسٹریلیا کے شمال سے قریب ہے یہ جزیرہ بلکہ بہت سے سینکڑوں جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے.اور مشرق میں ملائشیا ہے اور ملائشیا بھی بہت سے جزائرہ پر مشتمل ہے...اس مسجد کے آغاز کے لئے میں نے اپنا نمائندہ رفیق چانن صاحب کو بنایا ہے جو تھائی لینڈ سے وہاں پہنچے ہیں.رفیق چانن صاحب ہمارے Swiss احمدی ہیں.اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ ان کو اپنی زندگی کے اس دور میں بہت تاریخی خدمات کی توفیق مل رہی ہے.تھائی لینڈ میں بھی اور ارد گرد کے علاقوں میں بھی ایسے ملکوں میں جہاں احمدیت کا نام تک لوگ نہیں جانتے تھے وہاں ان کو خدا کے فضل کے ساتھ انڈونیشیا کے مبلغین اور دوسرے رضا کاروں کی مدد سے جماعتیں قائم کرنے کی توفیق مل گئی ہے اور بہت ٹھوس کام اس علاقے میں ہو رہا ہے.اس لئے میں نے ان کو اپنے نمائندے کے طور پر وہاں مسجد کے افتتاح کے لئے بھیجا ہے.اس کے علاوہ بھی انڈونیشیا سے اور ارد گرد کے ممالک سے بہت سے مخلصین شرکت کے لئے وہاں آج جمع ہوئے ہیں.یہ ایک ایسا ملک ہے جس پر عیسائیت کا بہت بھاری غلبہ ہے اور ایک عرصے تک عیسائیت کے سوا کسی کو وہاں پیغام پہنچانے کی اجازت ہی نہیں تھی.جماعت احمدیہ کو بھی آغاز میں بہت دقتوں کا سامنا کرنا پڑا.عیسائیوں نے کھل کر مخالفت کی.مسجد کی بھی مخالفت کی، ہر حکومت کی سطح پر بھی انہوں نے اثر و رسوخ ڈالنے کی کوشش کی کھل کر اخباروں میں عیسائی پادریوں نے مضمون لکھے کہ عیسائیت کے سوا اس ملک میں کسی اور کو تبلیغ کی اجازت نہیں ہوئی چاہئے اور وہ پالیسی جو ساری دنیا میں عیسائی ملک پیش کرتے ہیں آزادی ضمیر کی، جہاں موقع ملا وہاں خود اس پالیسی کو اپنے قدموں تلے کچل دیا اور کھلم کھلا مذہب کو اپنے نام منسوب کر کے اس کے تمام حقوق اپنی طرف وابستہ کر لئے.اس سلسلے میں ہمیں بڑی جدو جہد کرنی پڑی ہے.تمام دنیا سے ان کی ایمبیسیز کو اور ان کے ملک کو خطوط لکھوائے گئے، اخبارات میں بھی احتجاج کروائے گئے.ان اخبارات کو جو نسب کا آزاد تھے مضامین لکھ کر بھیجے گئے.چنانچہ اللہ کے فضل سے ان کا مثبت اثر ظاہر ہوا اور حکومت نے یہ قطعی فیصلہ کر لیا جو سیاسی حقوق ہیں اور تمدنی حقوق ہیں ان پر ہم کسی قیمت پر مذہب کو اثر انداز نہیں ہونے دیں گے.یہاں تک کہ ان کے سب
128 سے بڑے افسر نے جو عیسائیت سے متاثر تھا اور متعصب تھا اس نے جب حکومت کے سامنے اس مسجد کی منظوری کے آخری فیصلے سے پہلے ایک نوٹ لکھا، میمورنڈم جس کو کہتے ہیں، اس میں کہا کہ عیسائی چونکہ بہت مخالف ہیں اس لئے اس مسئلہ پر میں ہر پہلو سے غور کرنے کے بعد پھر فیصلہ کرنا چاہئے.تو پرائم منسٹر صاحب نے اس پر جو مختصر جواب لکھا وہ یہ تھا کہ تم اپنے کام سے کام رکھو.حکومت کے قوانین کی پابندی کرنا تمہارا کام ہے.ان قوانین میں جہاں کہیں کوئی رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تمہارا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کرو لیکن ان قوانین سے ہٹ کر باہر کے معاملات کا تم سے کوئی تعلق نہیں.اگر تم نے کام کرنا ہے تو قوانین کے مطابق کرو.یہ اتنا واضح جواب تھا کہ اس کے بعد پھر کسی کو جرات نہیں ہوئی اور خدا کے فضل سے مسجد پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے، ساتھ مشن ہاؤس بھی بن گیا ہے.اس ضمن میں اللہ تعالی کی طرف سے ایک عجیب نشان بھی ظاہر ہوا، ہر جگہ نشانات عجیب ہی ہوتے ہیں مگر یہ واقعہ ہے اس کو ریکارڈ کرانے کے لئے اسی افتتاح کے موقع پر آپ سب کے سامنے رکھتا ہوں.عیسائیت نے جب اپنا زور مکمل کر لیا اور ناکام ہو گئی تو وہ چند مسلمان جو باہر سے آکر وہاں آباد ہوئے ہیں اور بعض امیر ملکوں سے ان کے تعلقات ہیں ان کو مدد بھی ملتی ہے، ان میں سے چند نے ایک سوسائٹی بنائی ہے اسلامک سوسائٹی ، ان کا جوسر کردہ ممبر ہے انہوں نے اکرم احمدی صاحب کو گالیوں سے بھرا ہوا خط لکھا اور انہوں نے کہا کہ کسی قیمت پر ہم یہاں یہ مسجد برداشت نہیں کریں گے.یعنی چرچ ہر جگہ بنے ہوئے ہیں، پھیلتے جا رہے ہیں دُور دراز جزائر میں بھی کلیسا تعمیر ہورہے ہیں، ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی مگر پہلی مسجد جو تعمیر ہورہی تھی اس پر ایسی آگ لگی کہ نہ صرف گالیوں کا خط لکھا بلکہ یہ دھمکی دی کہ میں اس مسجد کو آگ لگوا دوں گا لیکن یہ مسجد ہم سے برداشت نہیں ہو سکتی.بعد میں انہوں نے مسجد کو نا کام کرنے کی خاطر اس کے قریب ہی اپنا گھر بنوایا اور وہاں ایک اپنی مسجد چھوٹی سی تعمیر کروائی، گویا کہ وہ پہلی مسجد بن گئی.حالانکہ یہ مسجد اس سے بہت پہلے بن چکی تھی اور انہوں نے محض ایک دکھاوے کے طور پر کہ نہیں ہم نے بھی الگ مسجد بنالی ہے.اس شخص کے کچھ دشمن بھی تھے.آپس میں مخالفتیں بھی تھیں.انہوں نے اس گھر کو مسجد سمیت آگ لگا دی.جو گھر اس آگ کے نتیجے میں بنایا گیا تھا جو اس کے دل
129 میں بھڑ کی ہوئی تھی.پس وہ شخص جس نے جماعت کی مسجد کو آگ لگانے کی دھمکی دی تھی اس کا گھر بھی جل گیا اور وہ مصنوعی، دنیا کی خاطر بنائی ہوئی مسجد بھی جل گئی.تو اللہ تعالیٰ کے نشانات ہر جگہ احمدیت کی تائید میں ظاہر ہوتے ہیں.“ (مخطبہ جمعہ فرمودہ 7 اپریل 1995ء، خطبات طاہر جلد 14 صفحہ 236233) مساجد کی تخمیر اور مساجد کی وسعت کے ایک نئے دور کے آغاز کی تحریک حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 24 / فروری 1995ء میں ساری جماعت کو بالعموم مساجد کی تعمیر اور توسیع کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: مساجد کی تعمیر اور مساجد کی وسعت کا ایک نیا دور شروع ہونا چاہئے.توسیع مساجد ایک ایسا کام ہے جو جماعت کی توسیع سے گہرا تعلق رکھتا ہے.جب بھی ہم نے توسیع مساجد کی مہم چلائی ہے اور مشنوں کی، وہ بھی مساجد ہی ہیں ہمارے لئے، تو اللہ نے بے شمار فضل فرماتے ہیں اور جماعت کے دعوت الی اللہ کے کاموں میں بہت برکت پڑی ہے.تو اس لئے یہ ایک عام تحریک ہے گل عالم کی جماعتوں کے لئے کہ مساجد تعمیر کرنے اور مساجد میں توسیع کرنے کی مہم شروع کریں.جتنی توفیق ہے اس طرح کریں.دنیا داری کے جھگڑوں میں پڑ کر ظاہری خوبصورتی اور قیمتی سامانوں کی فراہمی کا انتظار نہ کریں.جیسی بھی مسجد ہے اسے اللہ کا ذکر برکت بخشتا ہے، وہ مومن برکت بخشتے ہیں جو تقویٰ لے کر وہاں سے سجائے پہنچتے ہیں.مسجد کی سجاوٹ تو ان متقیوں سے ہے.پس اس پہلو سے جہاں تک ممکن ہے خوبصورت دیدہ زیب مسجد بنانا اللہ تعالٰی کی صفت جمال کے منافی تو نہیں.مگر اس انتظار میں کہ اتنا پیسہ ہو تو پھر ایسی مساجد بنائی جائیں، مساجد کی بنیادی ضرورت کو نظر انداز کر دیا تو یہ جائز نہیں ہے.یہ پھر دنیا داری ہے، یہ عبادت کی محبت نہیں ہے.پس حسب توفیقی وسعتیں دیں.خوبصورت نہیں بنتی تو سادہ مگر اس وقت ستھری اچھی چیز دکھائی دے اور جتنی توفیق ہے اس کے مطابق یہ کام شروع کریں.( خطبہ جمعہ فرمودہ 24 فروری 1995ء ، خطبات ظاہر چار 14 صفحہ 137-138) حضور کی تحریک توسیع مساجد کے تحت بھی سینکڑوں مساجد کی از سر نو تعمیر ہوئی اور اضافے کئے گئے.اور امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ بر اعظم ایشیا، یورپ اور افریقہ میں بیسیوں نئی مساجد تعمیر ہوئیں اور
130 نئے مرا کز نماز قائم ہوئے.مجموعی طور پر خلافت رابعہ میں جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے ہزاروں مساجد مراکز نماز تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی.نیز ہزاروں وہ بھی ہیں جو مقتدیوں سمیت جماعت کو ملیں.اس سلسلہ میں چند کو الف قارئین کی دلچسپی اور معلومات میں اضافہ کے لئے درج ذیل ہیں: :,1989-1990 1989 ء کا سال جماعت احمدیہ کی صد سالہ جو ہلی کا سال تھا.اس سال جماعت کو 334 نئی مساجد کی تعمیر کی توفیق ملی.اس کے علاوہ 224 مساجد نمازیوں سمیت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں.:,1990-1991 اس عرصہ میں نئی تعمیر ہونے والی اور زیر تعمیر مساجد کی کل تعداد 111 تھی.اس کے علاوہ 760 مساجد بنی بنائی ملیں.:,1991-1992 اس عرصہ میں 307 نئی مساجد بنائی گئیں جبکہ 80 زیر تعمیر تھیں.اس طرح کل تعداد 387 ہو جاتی ہے.:,1992-1993 اس سال 318 مساجد کا اضافہ ہوا.112 نئی تعمیر ہوئیں اور 206 اماموں اور نمازیوں سمیت اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عطا فرمائیں.اس کے علاوہ 217 مساجد زیر تعمیر تھیں.:,1993-1994 اس سال 682 مساجد کا اضافہ ہوا.110 نئی تعمیر ہوئیں اور 572 نو مبایعین کے ساتھ بنی بنائی ملیں.اس کے علاوہ 86 مساجد زیر تعمیر تھیں.1995ء سے 2003 ء تک کے عرصہ میں دنیا بھر میں 1137 مساجد تعمیر ہوئیں اور مراکز نماز کا قیام عمل میں آیا.اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں بنی بنائی مساجد عطا ہوئیں.
131 : 2002-2003 حضرت خلیفہ اس الرابع رحمہ اللہ کی وفات اپریل 2003ء میں ہوئی اور اس کے بعد خلافت خامسہ کا مبارک دور شروع ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ یو کے، کے موقع پر دوسرے دن کے بعد دوپہر کے خطاب میں 2002-2003ء کے دوران مساجد کی تعمیر کے حوالہ سے بتایا کہ اس سال 226 مساجد کا اضافہ ہوا.121 نئی مساجد تعمیر ہوئیں اور 105 مساجد اپنے اماموں اور نمازیوں سمیت عطا ہوئیں.
133 مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت تیرھویں صدی ہجری کا زمانہ وہ زمانہ تھا جس میں قرآن مجید عملاً زمین سے اٹھ چکا تھا.ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ایسی تھی جو قرآن کریم پڑھنا ہی نہیں جانتی تھی.قرآن مجید غلافوں میں بند کر کے طاقچوں کی زینت بنا دیا گیا تھا.جو قرآن پڑھتے تھے ان میں سے اکثریت کا حدیث نبوی کے مطابق یہ حال تھا کہ وہ ان کے حلق سے نیچے ہی نہیں اُترتا تھا اور ان کی زندگیوں میں قرآنی تعلیم کا کوئی اظہار نہیں ہوتا تھا.بہت سی اعتقادی اور علمی و عملی خرابیاں مسلمانوں میں پیدا ہو چکی تھیں.اور لا یبقی من الْإِسْلامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَشمہ کا مضمون ان پر صادق آتا تھا.علماء کی حالت اور بھی نا گفتہ بہ تھی.قرآنی آیات کی منسوخی کا باطل عقیدہ ان میں رائج تھا.ایک سے لے کر سات سو تک آیات منسوخ قرار دے دی گئی تھیں.بدقسمتی سے آج بھی ایسے علماء پائے جاتے ہیں جو اس عقیدہ پر نہ صرف قائم ہیں بلکہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کا پر چار کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ عقیدہ تو ہین قرآن کے مترادف ہے.قرآن مجید میں مذکور انبیاء علیہم السلام کے واقعات کو محض قضوں اور کہانیوں کے طور پر پیش کیا جاتا تھا.ایک طبقہ ایسا تھا جو احادیث کو اور روایات کو قرآن پر مقدم رکھتا تھا.بعض مسلمانوں نے حال کے جدید علوم اور فلسفہ اور سائنس سے ڈر کر قرآنی آیات کو تاویلات کے شکنجے پر چڑھا دیا تھا اور اس میں اس حد تک دور نکل گئے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی و الہام، استجابت دعا، نزول ملائکہ اور اخبار غیبیہ وغیرہ اہم امور کا انکار کر دیا.غرض یہ وہ زمانہ تھا جب ایمان ثریا پر اُٹھ گیا تھا اور قرآن آسمان پر اٹھایا جا چکا تھا اور اب وہ وقت آچکا تھا کہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ میں مذکور پیشگوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
134 تصریح کے مطابق وہ رجل فارس مبعوث ہو جو قرآن کو آسمان سے واپس لائے اور ایمان کو پھر سے دلوں میں قائم کرے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آیت قرآنی و اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کی تفسیر میں یہ لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اس کے اعداد میں ہی اس زمانے کی طرف اشارہ کر دیا گیا تھا جو اس موعود رجل فارس کے ظہور کا زمانہ تھا.آپ فرماتے ہیں:.اس آیت میں وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے تمام حروف کے اعداد سے جو 1275 میں اس بات کی طرف اشارہ کر دیا جو أُخَرِينَ مِنْهُمْ کا مصداق جو فارسی الاصل ہے اپنے نشاء ظاہر کا بلوغ اس مین میں پورا کر کے صحابہ سے مناسبت پیدا کر لے گا.سو یہی سن 1275 ہجری جو آیت وَأَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا لم کے حروف کی اعداد سے ظاہر ہوتا ہے اس عاجز کی بلوغ اور پیدائش ثانی اور تولد روحانی کی تاریخ ہے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 219-220 ) چنانچہ بانی جماعت احمد یہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود الاسلام قرآن و حدیث میں مذکور پیشگوئیوں کے عین مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے احیاء دینِ اسلام اور قیامِ شریعت کے لئے مبعوث ہوئے.آپ نے فرمایا: ” مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتیں ظاہر کروں اور اُن تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں اُن نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں“.بركات الدمار وحانی خزائن جلد 6 صفحہ 34)
135 اسی طرح آپ نے فرمایا: خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کر کے اور صد ہانشان آسمانی اور خواری غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صد با دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیمات حصہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور را انج فرمادے اور اپنی محبت ان پر پوری کرے.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 596 حاشیہ نمبر (3) عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف رسمی اور ظاہری طور پر قرآن شریف یا اس کے تراجم کو پھیلانا ہی خدمت قرآن ہے.مگر حضور عالی کلام نے فرمایا: صرف رسمی اور ظاہری طور پر قرآن شریف کے تراجم پھیلانا یا فقط ک دینیہ اور احادیث نبویہ کو اردو یا فارسی میں ترجمہ کر کے رواج دینا یا بدعات سے بھرے ہوئے خشک طریقے جیسے زمانہ حال کے اکثر مشائخ کا دستور ہورہا ہے سکھلانا، یہ امور ایسے نہیں ہیں جن کو کامل اور واقعی طور پر تجدید دین کہا جائے بلکہ مؤخر الذکر طریق تو شیطانی راہوں کی تجدید ہے اور دین کا رہزن.قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کو دنیا میں پھیلانا بیشک عمدہ طریق ہے مگر رسمی طور پر اور تکلف اور فکر اور خوض سے یہ کام کرنا اور اپنا نفس واقعی طور پر حدیث اور قرآن کا مورد نہ ہونا ایسی ظاہری اور بے مغز خدمتیں ہر ایک با علم آدمی کر سکتا ہے اور ہمیشہ جاری ہیں.ان کو مجد دیت سے کچھ علاقہ نہیں.یہ تمام امور خدا تعالیٰ کے نزدیک فقط استخوان فروشی ہے اس سے بڑھ کر نہیں“.اسی طرح فرمایا: جولوگ خدا تعالی کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخوان فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ انہیں ان تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں اور ان کی باتیں از قبیل جوشیدن ہوتی ہیں،
136 محض از قبیل کوشیدن.اور وہ حال سے بولتے ہیں، نہ مجر وقال ہے.اور خدا تعالی کے الہام کی تختی ان کے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کے وقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور ان کی گفتار اور کردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی کیونکہ وہ بکلی مصفا کئے گئے اور بتمام و کمال کھینچے گئے ہیں.نیخ اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 6-7 حاشیہ) الغرض حضرت اقدس مسیح موعود مالیکلام نے خدمت قرآن کی جو راہیں اپنے قول اور فعل سے روشن فرمائی تھیں، آپ کے بعد آپ کے مقدس خلفاء کرام نے ان تمام نورانی راہوں پر بڑے عزم اور استقلال کے ساتھ قدم آگے بڑھایا اور آپ کی قائم کردہ بنیادوں پر ایک عالیشان عمارت کھڑی کر دی.حقیقت یہ ہے کہ خلفائے مسیح موعود نے اپنے آقا حضرت اقدس مسیح موعود السلام کی نمائندگی میں تمام عالم میں قرآنی تعلیمات کی حقانیت کے اثبات اور قرآنی علوم و معارف اور حقائق و دقائق کی تعلیم و تدریس اور ترویج و اشاعت اور قرآن مجید کی عزت و عظمت کے اظہار اور اس کے عملی نمونوں کے قیام و استحکام کے لئے جس محنت اور جانفشانی سے اپنے جگر خون کئے اور مسیح پاک علیہ سلام کی جاری فرمودہ عظیم مہمات کو نہایت کامیابی و کامرانی سے آگے بڑھایا اس کا ذکر اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں.یہ حکایت بہت طویل ، لذت بھری اور حد درجہ ایمان افروز ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علی سلام کی مقدس خلافت کی آسمانی رہنمائی اور قیادت میں خدا تعالی کے پاک کلام قرآن مجید و فرقان حمید کے مختلف زبانوں میں تراجم اور ان کی اشاعت کے حوالہ سے قارئین کی خدمت میں مختصراً کچھ کوائف پیش کرنے سے قبل یہ بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ خلافت حقہ اسلامیہ سے وابستہ جماعت احمدیہ کے علاوہ بھی بعض مسلمان افراد ، اداروں ، جماعتوں، فرقوں یا حکومتوں نے مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم شائع کئے ہیں لیکن احمد یہ مسلم جماعت وہ منفرد جماعت ہے جس نے خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کی بابرکت قیادت اور مقدس رہنمائی میں با قاعدہ ایک منظم پروگرام کے تحت دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور اس سلسلہ میں اٹھنے والے تمام اخراجات افراد جماعت احمد یہ اپنے امام کی تحریک پر خود
137 برداشت کرتے ہیں.اگر چہ اس جماعت کے اکثر افراد دنیوی اور مادی وسائل کے لحاظ سے بہت معمولی حیثیت رکھتے ہیں اور اس جماعت کے پاس نہ تو تیل کی دولت ہے اور نہ دوسرے معدنی ذخائر کی لیکن اس جماعت کو ایسی سیادت نصیب ہے جو خدا تعالیٰ سے مؤید و منصور ہے اور جس کی پیشگوئی پہلے سے قرآن وحدیث میں کی گئی تھی.اور اس الہی امامت و خلافت کو سچے دلوں اور اخلاص کی دولت سے مالا مال افراد پر مشتمل ایسی جماعت عطا ہوئی ہے جو دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے جان، مال، وقت اور عزت سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت مستعد ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو خدمت قرآن کی اس توفیق اور سعادت کا ملنا خود قرآن مجید میں مذکور پیش خبریوں اور پیشنگوئیوں کے عین مطابق ہے اور اس کے ساتھ الہی نصرت و تائید اور کامیابی کے عظیم الشان وعدے ہیں.خدا تعالیٰ نے یہ خدمت اور یہ سعادت پہلے سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق ، آپ کے عظیم روحانی فرزند اور غلام ، جرى اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاء حضرت مسیح موعود اور وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 4) کی مصداق آپ کو عطا ہونے والی جماعت کے لئے مقدر فرما رکھی تھی.سوضرور تھا کہ ایسا ہوتا اور ایسا ہی ہوا.اور یہ وہ خاص امتیاز ہے جو کسی اور مسلمان فرد، ادارے تنظیم، فرقے یا جماعت کو حاصل نہیں.اس بات کے ثبوت میں اور اس کی کسی قدر وضاحت کے لئے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے بہت سے ارشادات میں سے صرف چند ایک ذیل میں ہدیہ قارئین ہیں جن میں آپ نے قرآن مجید کی روشنی میں یہ ثابت فرمایا ہے کہ مختلف زبانوں میں قرآن مجید ، فرقان حمید کے تراجم اور تعلیمات قرآنیہ کی اشاعت مسیح موعود کے زمانہ میں اور اسی کے ہاتھوں سے مقدر تھی ، جس کا آنا ظنی اور بروزی طور پر گویا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا تھا.اور یہ سب خدمتیں، یہ سب کامیابیاں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا سلسلہ اور آپ ہی کی روحانی تو جہات کا فیض ہے.
138 حضرت مسیح موعود ع السلام فرماتے ہیں:.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے اعراض میں سے ایک تکمیل دین بھی تھی جس کے لئے فرمایا گیا تھا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَثْمَمتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى (المائدہ:4) اب اس تکمیل میں دو خو بیاں تھیں.ایک تکمیل ہدایت اور دوسری تکمیل اشاعت ہدایت.تکمیل ہدایت کا زمانہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا پہلا زمانہ تھا اور تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ آپ کا دوسرا زمانہ ہے جبکہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا عِلم (الجمعة: 4) کا وقت آنے والا ہے اور وہ وقت اب ہے.یعنی میرا کھا زمانہ یعنی مسیح موعود کا زمانہ “ اسی طرح فرمایا: الحکم جلد 6 نمبر 43 مورخہ 30 نومبر 1902 ، صفحہ 2) اتمام نعمت کی صورتیں دراصل دو ہیں.اوّل تکمیل ہدایت.دوم تکمیل اشاعت ہدایت.اب تم غور کر کے دیکھو تکمیل ہدایت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کامل طور پر ہو چکی لیکن اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا تھا کہ تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ دوسرا ہو جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بروزی رنگ میں ظہور فرما دیں اور وہ زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہے.یہی وجہ ہے کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّه (الصف (10) اس شان میں فرمایا گیا ہے.تمام مفسرین نے بالا تفاق اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے.در حقیقت اظہار دین اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ کل مذاہب میدان میں نکل آدیں اور اشاعت مذہب کے ہر قسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جائیں اور وہ زمانہ خدا کے فضل سے آگیا ہے.چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت
139 اور طبع میں جو جو سہولتیں میسر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں......جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہار دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں.اس لئے یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ليُظهِر لا علَى الدِّينِ كُلِم (الصف: 10) کہہ کر فرمائی تھی.یہ وہی زمانہ ہے جو الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتى (المائدہ:4) کی شان کو بلند کرنے والا اور تکمیل اشاعت ہدایت کی صورت میں دوبارہ اتمام نعمت کا زمانہ ہے.اور پھر یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا مهم (الجمعة: 4) کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے.“ الحكم بلد 6 نمبر 18 مورخہ 17 مئی 1902، صفحہ 5-6) حضور علیہ السلام نے اپنی تصنیف ” تحفہ گولڑویہ میں اس امر کو بہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں:.ضرور تھا کہ جیسا کہ تکمیل ہدایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ہوئی ایسا ہی تکمیل اشاعت ہدایت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہو.کیونکہ یہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبی کام تھے.لیکن سنت اللہ کے لحاظ سے اس قدر مخلور آپ کے لئے غیر ممکن تھا کہ آپ اس آخری زمانہ کو پاتے اور نیز ایسا خلود شرک کے پھیلنے کا ایک ذریعہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خدمت منصبی کو ایک ایسے امتی کے ہاتھ سے پورا کیا کہ جو اپنی ٹھو اور روحانیت کے رُو سے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کا ایک ٹکڑا تھا یا یوں کہو کہ وہی تھا اور آسمان پر ظلمی طور پر آپ کے نام کا شریک تھا....چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے اور آپ کی شریعت حمام دنیا کے لئے عام تھی اور آپ کی نسبت فرمایا گیا تھا وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (الاحزاب (41) اور نیز آپ کو یہ خطاب
140 عطا ہوا تھا یا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 159) سو اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد حیات میں وہ تمام متفرق ہدایتیں جو حضرت آدم سے حضرت عیسی تک تھیں قرآن شریف میں جمع کی گئیں لیکن مضمون آیت يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 159) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عملی طور پر پورا نہیں ہو سکا کیونکہ کامل اشاعت اس پر موقوف تھی که تمام ممالک مختلفہ یعنی ایشیا اور یورپ اور افریقہ اور امریکہ اور آبادی دنیا کے انتہائی گوشوں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی تبلیغ قرآن ہو جاتی اور یہ اس وقت غیر ممکن تھا بلکہ اس وقت تک تو دنیا کی کئی آبادیوں کا ابھی پتہ بھی نہیں لگا تھا اور دور در از سفروں کے ذرائع ایسے مشکل تھے کہ گویا معدوم تھے.بلکہ....1257 ہجری تک بھی اشاعت کے وسائل کاملہ گویا کالعدم تھے اور اس زمانہ تک امریکہ گل اور یورپ کا اکثر حصہ قرآنی تبلیغ اور اس کے دلائل سے بے نصیب رہا ہوا تھا.......غرض آیت موصوفہ بالا میں جو فرمایا گیا تھا کہ اے زمین کے باشندو! میں تم سب کی طرف رسول ہوں عملی طور پر اس آیت کے مطابق تمام دنیا کو ان دنوں سے پہلے ہر گز تبلیغ نہیں ہوسکی اور نہ اتمام حجت ہوا کیونکہ وسائل اشاعت موجود نہیں تھے.اور نیز زبانوں کی اجنبیت سخت روک تھی.اور نیز یہ کہ دلائل حقانیت اسلام کی واقفیت اس پر موقوف تھی کہ اسلامی ہدایتیں غیر زبانوں میں ترجمہ ہوں اور یا وہ لوگ خود اسلام کی زبان سے واقفیت پیدا کرلیں.اور یہ دونوں امر اُس وقت غیر ممکن تھے.لیکن قرآن شریف کا یہ فرمانا کہ وَمَن بَلغَ یہ امید دلاتا تھا کہ ابھی اور بہت سے لوگ ہیں جو ابھی تبلیغ قرآنی ان تک نہیں پہنچی.ایسا ہی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا علم (الجمعة: 4) اس بات کو ظاہر کر رہی تھی کہ گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہدایت کا ذخیرہ کامل ہو گیا مگر ابھی اشاعت ناقص ہے اور اس آیت میں جو منم مخد
141 کا لفظ ہے وہ ظاہر کر رہا تھا کہ ایک شخص اس زمانہ میں جو تکمیل اشاعت کے لئے موزون ہے مبعوث ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں ہوگا اور اس کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ میں ہوں گے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 258-261) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں میں اسلام کی اشاعت کے لئے قرآن کریم کی ایک تفسیر بھی تیار کر کے اور انگریزی میں ترجمہ کرا کے بھیجی جائے اور فرمایا کہ: میں اس بات کو صاف صاف بیان کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ یہ میرا کام ہے.دوسرے سے ہر گز ایسا نہیں ہو گا جیسا مجھ سے یا جیسا اس سے جو میری شاخ ہے اور مجھے ہی میں داخل ہے".ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 518) چنانچہ جماعت احمدیہ کی 130 سالہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ تکمیل اشاعت ہدایت کا وہ مبارک کام جس کا آغاز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقدس ہاتھوں سے ہوا تھا وہ الہی وعدوں کے مطابق آپ کے بعد ظاہر ہونے والی قدرت ثانیہ یعنی خلافت حفصہ اسلامیہ احمدیہ کے ذریعہ نہایت کامیابی اور کامرانی کے ساتھ مسلسل وسعت پذیر ہے.اور جیسا کہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں بشارت دی گئی تھی خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستہ افراد جماعت احمد یہ اس سلسلہ میں اپنے امام کے تابع تمام ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے دامے، درمے سخنے ہر قسم کی قربانیاں پیش کرتے ہوئے نہایت محنت اور اخلاص اور جانفشانی کے ساتھ مصروف جہاد ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی ہدایت پر انگریزی ترجمہ قرآن کریم کا کام مولوی محمدعلی صاحب کے سپرد کیا گیا اور اس کے لئے انہیں تمام ممکنہ ضروری سہولیات فراہم کی گئیں اور زر کثیر خرچ کیا گیا.حضرت خلیفہ اسبح الاول خود بنفس نفیس انگریزی ترجمہ قرآن کے نوٹس سنتے اور حقائق و معارف قرآن بیان فرماتے.آپ کی دلی خواہش تھی کہ انگریزی ترجمہ قرآن جلد شائع ہو.ترجمہ کے نوٹ آخری مراحل پر تھے کہ حضرت خلیفتہ اسح الاول کی وفات ہوگئی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین
142 محمود احمدخلیفہ اسے منتخب ہوئے تو مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء نے آپ کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.بعد میں وہ قادیان کو چھوڑ کر لاہور منتقل ہو گئے اور ترجمہ قرآن کا وہ مسودہ جو حضرت خلیفہ امسح الاول کی زیر ہدایت ونگرانی تیار ہوا تھاوہ بھی ساتھ لے گئے.اس کے بعد حضرت مصلح موعود نمی کشتہ نے اس طرف توجہ فرمائی.آپ نے 1915ء میں ایک پارہ کی تفسیر خود لکھی اور وہ اردو اور انگریزی میں طبع بھی ہوئی.اور فرمایا کہ میں ایک نمونہ قائم کر رہا ہوں.جماعت کے علماء کا کام ہے کہ وہ اسی طرز پر اس کو آگے بڑھائیں.حضرت مصلح موعود نے حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت خان بہادر ابو الہاشم خان صاحب اور حضرت ملک غلام فرید صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی اور ان کی مجموعی کوششوں سے ایک مکمل اور مستند انگریزی ترجمہ اور پھر اس کی تفسیر بھی شائع ہوئی.قرآن مجید کی انگریزی تفسیر قریباً تین ہزار صفحات پر پھیلی ہوتی ہے جو عجیب و غریب قرآنی معارف کا حسین و دلفریب مرقع ہے.اس کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کا دیباچہ بھی ہے.یورپ اور امریکہ کے چوٹی کے اہل علم نے اس کو سراہا.اسی طرح مسلمان مشاہیر نے بھی اس کی تعریف کی.ایک مستشرق رچرڈ بیل نے اسے قرآنی تعلیمات کو ایک ایسی شکل میں پیش کرنے کی کوشش قرار دیا جو موجودہ زمانہ کی ضروریات کے مناسب حال روحانی زندگی اور تبلیغی جدو جہد کی آئینہ دار ہے اور مجموعی لحاظ سے روشن خیالی اور ترقی پسندی پر دلالت کرتی ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے 1944ء میں مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت سے متعلق خصوصی تحریک فرمائی.چنانچہ آپ نے 20 اکتوبر 1944ء کو دنیا کی آٹھ مشہور زبانوں انگریزی (انگریزی میں ترجمہ پہلے سے مکمل ہو چکا تھا) ، روسی، جرمن، فرانسیسی ، اطالوی، ڈرچ ، ہسپانوی اور پرتگیزی زبان میں قرآن مجید کے تراجم کی عظیم الشان تحریک فرمائی اور پھر اپنے عہد خلافت میں اس کی تکمیل کے لئے کامیاب جدو جہد فرمائی.جیسا کہ قرآن مجید میں وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بم کے الفاظ میں پیشگوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ میں ہوں گے جماعت احمدیہ کے افراد مرد وزن نے اس
143 تحریک پر جس شان کے ساتھ اور والہانہ طور پر لبیک کہا وہ غیر معمولی ہے.حضرت مصلح موعودؓ کے اندازہ کے مطابق ان تراجم اور ان کی چھپوائی کے لئے ایک لاکھ 94 ہزار روپے کی ضرورت تھی جس کا آپ نے جماعت سے مطالبہ کیا.لیکن مسیح پاک ایلام اور خلافت حفصہ کی فدائی جماعت نے دولاکھ ساٹھ ہزار روپے کے وعدے قلیل عرصہ میں پیش کر دئیے اور پھر ان کا اکثر حصہ وصول ہو گیا اور دو سال کے عرصہ میں مذکورہ بالا ساتوں زبانوں میں تراجم مکمل ہو گئے.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے فرمایا: قرآن کے سات مختلف زبانوں میں جو تراجم ہورہے تھے وہ خدا تعالی کے فضل سے مکمل ہو گئے ہیں اور ان کی ایک اور نقل بینک میں محفوظ کر لی گئی ہے.صرف اس بات کا انتظار ہے کہ ہمارے مبلغین ان زبانوں کو سیکھ کر ان پر نظر ثانی کر لیں تا غلطی کا امکان نہ رہے.( الفضل 28 دسمبر 1946ء) الغرض حضرت مسیح موعود کے مقدس خلفاء کی نگرانی میں اور ان کی تحریکات کے مطابق مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور ان کی اشاعت کا مبارک سلسلہ مسلسل آگے بڑھتا رہا.خلافت ثانیہ کے عہد میں اردو ، ڈچ، سواحیلی ، جرمن اور انگریزی کل پانچ زبانوں میں مکمل قرآن کریم کے تراجم طبع ہوئے.جبکہ ڈینش میں پہلے سات پاروں کا ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹس اور یوگنڈا کی زبان لوگنڈا میں پہلے پانچ پاروں کا ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹس اور مینڈے زبان میں پہلے پارہ کا ترجمہ شائع ہوا.خلافت ثالثہ کے دور میں یہ سلسلہ آگے بڑھا اور ڈینش ، اسپرانٹو، انڈونیشین اور یوروبا.چار مزید زبانوں میں مکمل قرآن کریم کے تراجم طبع ہوئے.اسی طرح انگریزی میں تفسیر القرآن کا ایک جلد میں خلاصہ پہلی بار شائع ہوا.نیز سویڈش اور خمین زبان میں جزوی طور پر بعض پاروں کا ترجمہ طبع ہوا.خلافت رابعہ کے پہلے دو سالوں (1982ء.1983ء) میں گورمکھی اور لو گنڈا زبان میں مکمل قرآن کریم کے تراجم طبع ہوئے.1984ء میں جب حضرت خلیفہ مسح الراج رحم اللہ کو پاکستانکے فوجی ڈکٹیٹر ضیا الحق کے ظالمانہ
144 آرڈیننس 20 کی وجہ سے پاکستان سے ہجرت کرنا پڑی اس وقت تک گیارہ زبانوں میں مکمل قرآن کریم کے تراجم شائع ہو چکے تھے.1989ء کا سال جماعت کی تاسیس پر سو سال مکمل ہونے کے لحاظ سے صد سالہ جو ہلی کا سال تھا اور جماعتی تاریخ میں یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اس کے شایان شان دیگر پروگراموں کی طرح مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت کا منصوبہ بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے اپریل 1984ء میں پاکستان سے ہجرت کے بعد سے جولائی 1989ء تک کے ہجرت کے پانچ سالوں میں حسب ذیل 16 نئی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم طبع ہوئے.1- فرینچ، 2.اٹالین، 3 نحسین، 4- ہندی، 5 رشین، 6 - پرتگیزی، 7.سویڈش، 8.کورین، 9 - کیکویو، 10 سپینش، 11 جاپانی، 12 - ملائی، 13 - فارسی، 14.سندھی، 15.بنگلہ، 16.اُڑے.(اٹالین ، Malay اور فارسی ترجمہ سے متعلق طباعت پر معلوم ہوا کہ جلدی میں ان میں بعض غلطیاں رہ گئی ہیں چنانچہ ان تراجم کی سرکولیشن روک دی گئی اور ازسرنو ان پر کام شروع کیا گیا.فارسی اور اٹالین تراجم قرآن ریویژن کے بعد شائع ہو چکے ہیں.Malay پر کام جاری ہے.) 1989ء میں کئی تراجم طباعت کے مختلف مراحل میں تھے اور جلسہ سالانہ یو کے (جولائی 1989ء) تک شائع نہیں ہو سکے تھے.چنانچہ اگست 1989ء سے جولائی 1990 ء تک کے صرف ایک سال کے عرصہ میں حسب ذیل 15 مزید نئی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کرنے کی سعادت جماعت کو حاصل ہوئی.1 البانین، 2.مینڈے، 3- گریک ، 4- تامل، 5- ویتنامی، 6 گجراتی ، 7 ٹرکش، 8_ طوالوئن، 9 چینی 10 - پشتو ، 11.پولش، 12 - چیک 13 - سرائیکی ، 14.پنجابی ، 15.اگبو.اس طرح 1984ء میں جماعت کے زیر انتظام مختلف زبانوں میں شائع کردہ تراجم قرآن کریم کی جو تعداد صرف گیارہ تھی وہ جولائی 1990 ء تک 42 میں تبدیل ہو چکی تھی.چھ سال کے قلیل عرصہ میں
145 31 نئے تراجم کے ساتھ یہ قریباً چار گنا اضافہ تھا اور ابھی کئی تراجم تکمیل کے بعد طباعت کے مختلف مراحل میں سے گزر رہے تھے.چنانچہ 1994ء تک جماعت احمدیہ کو آٹھ مزید زبانوں ( بلغارین، ملیالم، منی پوری، سندھی، تی گالاگ، تیلگو، ہاؤسا، مراٹھی) کے اضافہ کے ساتھ مجموعی طور پر پچاس زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی طباعت کی سعادت حاصل ہو چکی تھی.( بلغارین ترجمہ کے طبع ہونے پر معلوم ہوا کہ اس میں بعض غلطیاں ہیں چنانچہ اسے withdraw کر لیا گیا.اس وقت یہ ترجمہ زیر تکمیل ہے) اس کے بعد ناروتئین، کشمیری، سنڈانیز، نیپالی، بجولا اور کیکامبا میں تراجم قرآن شائع ہوئے اور یوں 1982ء سے لے کر 2003ء تک صرف خلافتِ رابعہ کے اکیس سالہ عہد سعادت میں 47 رزبانوں میں مکمل قرآن مجید کے تراجم طبع ہوئے.جبکہ اس کے علاوہ تھائی ، میانمار اور جاوانیز زبانوں میں پہلے دس پاروں کا ترجمہ شائع ہوا.دنیا میں تیل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال بڑے بڑے ممالک ہیں جو مسلمان ممالک کہلاتے ہیں لیکن کسی حکومت کو اتنی عظیم الشان خدمت کی توفیق نہیں ملی.اگر چہ ان کی طرف سے بعض تراجم شائع کئے جاتے ہیں لیکن جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے یہ بے مغز خدمتیں ہیں.کیونکہ ان کے تراجم و تفاسیر میں کئی باتیں قرآنی تعلیمات کے منافی اور اس سے متصادم ہیں اور ان میں ایسے اعتقادات اپنائے گئے ہیں جو قرآن مجید کے محکمات کے خلاف ہیں.غرضیکہ ساری دنیا میں خلافت احمدیہ سے وابستہ جماعت احمد یہ وہ واحد جماعت ہے جسے تن تنہا اتنی بہت سی زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت کی توفیق حاصل ہوئی ہے.آج دنیا کے پردہ پر وہ کون سی جماعت ہے جسے صرف محبت قرآن کے جرم میں اور قرآنی تعلیمات کی اشاعت اور اس کا عملی نمونہ پیش کرنے کے جرم میں ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے.کوئی نہیں مگر ایک جماعت یعنی وہ جماعت احمد یہ جو خلافت حلقہ سے وابستہ ہے.اگر وہ قرآن کریم کی تلاوت کریں، ان کے پاس سے قرآن مجید کے نسخے برآمد ہوں، وہ احکامات قرآنی کے مطابق نماز، روزہ وغیرہ عبادات
146 بجالائیں، وہ امانت و دیانت اور سچائی اور تقویٰ سے کام لیں اور اسلام کے، قرآن کے امن وسلامتی کے پیغام کی تشہیر کریں تو اس جرم میں ان پر مقدمات بنائے جاتے ہیں.ان پر تو ہین قرآن اور تو بین اسلام کی دفعات لگائی جاتی ہیں اور جیلوں میں ٹھونسا جاتا ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے.ان کی جائیداد میں لوٹی جاتی ہیں.ان کے گھر، ان کی مساجد منہدم کی جاتی ہیں اور نماز کی حالت میں ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر کے ان کے خون سے زمین سُرخ کی جاتی ہے.کیا خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستہ جماعت احمدیہ کے سوا کوئی اور جماعت ایسی ہے جو اس طرح قرآن کی محبت میں گرفتار اور فدا ہو کر اس کی خاطر اپنی جان ، مال، وقت ، عزت اور اولاد غرضیکہ ہر چیز کو بلا دریغ قربان کرنے پر نہ صرف آمادہ ہے بلکہ قربان کر رہی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مقدس خلفائے کرام اور آپ کے بچے متبعین ہی وہ سَفَرَة كرَام بَرَرَةٍ “ ہیں جن کے ہاتھوں میں خدا تعالیٰ نے دنیا بھر میں قرآن کی سچی خدمت اور اس کی عظمت کے اظہار کا علم تھمایا ہے.جو کسی تلوار اور نیزہ سے نہیں، کسی بندوق یا توپ یا بم کے زور سے نہیں بلکہ قرآن کا حربہ ہاتھ میں لے کر، اس کے نور کو اپنے سینوں میں بسا کر، حجت اور بربان اور زمینی و آسمانی نشانات اور الہی نصرت و تائیدات کے ساتھ ساری دنیا میں جہاد کبیر میں مصروف ہیں.اور صرف اپنے قول سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے قرآنی تعلیمات کی حقانیت اور قرآنی برکات و تاثیرات کے تازہ بتازہ اور شیریں و خوشبودار ثمرات کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس کتاب کے زندہ کتاب ہونے اور اس کی عظمتوں پر گواہ ہیں.جماعت احمدیہ کی طرف سے مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے تراجم قرآن کریم کی فہرست درج ذیل ہے.اس فہرست میں ان تراجم کے صرف پہلے ایڈیشن کا سن طباعت دیا گیا ہے.
147 Published Translations of the Holy Quran First Year of Publication No Language 1 Dutch 1953 2 Kiswahili 1953 3 German 1954 4 English (Hz.Maulwi Sher Ali) 1955 English (5 volume commentary) First part was published in 1947 English (Malik Ghulam Farid) One volume short commentary 1969 5 Urdu (Tafseer e Sagheer) 1957 Urdu (Translation by KM IV) 2000 6 Danish 1967 7 Esperanto 1970 8 Indonesian 1970 9 Yoruba 1976 10 Gurmukhi 1983 11 Luganda 1984 12 French 1985 13 Italian 1986 Due to serious mistakes it was withdrawn and recycled.Revised edition published in 2020 14 Fijian 1987 15 Hindi 1987 16 Russian 1987 17 Japanese 1988 18 Kikuyu 1988 19 Korean 1988 20 Portuguese 1988 21 Spanish 1988 22 Swedish 1988 23 Greek 1989
148 24 Malaya 25 Oria 26 Persian 1989 Due to serious mistakes it was withdrawn and recycled.Under revision 1989 1989 Second revised edition printed in 2003 27 Punjabi 1989 28 Tamil 1989 29 Vietnamese 1989 30 Albanian 1990 31 Assamese 1990 32 Bangali 1990 33 Chinese 1990 34 Czech 1990 35 Gujrati 1990 36 Igbo 1990 37 Mende 1990 38 Pashtu 1990 39 Polish 1990 40 Saraeiki 1990 41 Turkish 1990 42 Tuvaluan 1990 43 Bulgarian 1991 Due to serious mistakes it was withdrawn and recycled.Under revision 44 Malayalam 1991 45 Manipuri 1991 46 Sindhi 1991 47 Tagalog 1991 48 Telugu 1991 49 Hausa 1992 50 Marathi 1992 51 Norwegian 1996 52 Kashmiri 1998 53 Sundanese 1998 54 Thai Vol: 1 (Part 1 to 10) 1999
149 Thai Vol: 2 (Part 11 to 20) 2006 Thai Vol: 3 (Part 21 to 30) June 2008 55 Nepali 2001 56 Jula 2002 57 Kikamba 2002 58 Catalan 2003 59 Kanada 2004 60 Creole 2004 61 Uzbec 2005 62 More 2006 63 Fula 2007 64 Mandinka 2007 65 Wolof 2007 66 Bosnian 2008 67 Malagasy May 2008 68 Kyrgis 69 Ashanti 70 Maure (NZ) (Part 1-15) July 2008 October 2008 July 2008 Maure (NZ) (Complete) 2013 71 Mayanmar (Vol: 1 Part 1 to 10) 2003 Mayanmar (Vol: 11 Part 1 to 20) 2012 Mayanmar (Complete) July 2015 72 Kriol July 2010 73 Yao March 2013 74 Sinhala 2015 75 Javanese (Part 1-10) 2000 76 Dogri 2017
151 تبلیغ و دعوت الی اللہ کے شیریں ثمرات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ ارحمہ اللہ نے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد آغاز سے ہی جماعت کو تبلیغ اور دعوت الی اللہ کی طرف خصوصی توجہ دینے کی تاکید فرمائی.چنانچہ آپ نے اپنے خطبات میں، خطابات میں مختلف مجالس عرفان میں، اپنے پیغامات میں، افراد جماعت احمدیہ کو، جماعتی نظام کو اور ذیلی تنظیموں کو مختلف طریق پر نہایت ہی مؤثر، ولولہ انگیز اور دل موہ لینے والے انداز میں تبلیغ اسلام اور دعوت الی اللہ کے لئے بیدار کیا اور بڑی تفصیل کے ساتھ اس کی اہمیت، اس کے طریق اور اس کے تقاضوں پر روشنی ڈالی اور مختلف پہلوؤں سے نہ صرف علمی طور پر رہنمائی فرمائی بلکہ اس کے لئے ہر ممکن ذریعہ کو استعمال کرتے ہوئے ٹھوس عملی اقدامات بھی فرمائے.اس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں تبلیغ اور دعوت الی اللہ کی مساعی میں غیر معمولی اضافہ ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعوت الی اللہ کی یہ مہم دن بدن زور پکڑتی گئی اور کثرت سے لوگوں کی توجہ اسلام احمدیت کی طرف ہونا شروع ہوئی.دعوت الی اللہ کی مہم میں ان کامیابیوں پر مخالفین کی حسد کی آگ بھڑک اٹھی.چنانچہ پاکستان میں جاری ہونے والے آرڈنینس 20 کے ذریعہ احمدیوں کو تبلیغ سے روکا گیا.اس کی رُو سے یہ اعلان کیا گیا کہ اگر کوئی احمدی اپنے آپ کو یا اپنے عقیدہ کو اسلام کی طرف منسوب کرے گا یا اپنے عقیدہ کی اشاعت کرے گا یا اس کی طرف دوسروں کو دعوت دے گا تو اسے تین سال قید بامشقت اور اس کے علاوہ بھاری جرمانے کی سزا دی جائے گی.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس کے مقابلے کے لئے جو لائحہ عمل افراد جماعت کو عطا فرمایا اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: دوسرا ہمیں تبلیغ سے روکا جارہا ہے.اس لئے ظاہر بات ہے کہ الٹ رہی عمل ہوگا.ہم تو زندہ قوم ہیں اللہ کے فضل سے.ہمیں تو جس سمت میں تم رو کو گے اسی سمت میں آگے بڑھیں گے اپنے رب کے فضل کے ساتھ اور اس کی نصرت کے ساتھ.اس لئے تبلیغ کو پہلے سے کئی گنا زیادہ تیز کر دیں...ہر جگہ
152 ہر مذہب میں ہر طبقہ فکر میں تبلیغ کو تیز کرنا ہے.“ خطبہ جمعہ فرمود و 18 مئی 1984 خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 261) اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور اس کی نصرت کے ساتھ دنیا بھر میں تبلیغی مہمات کئی گنا تیز ہو گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے نئے ممالک میں ، نئے مقامات پر جماعتیں قائم ہوئیں اور بیعتوں کی صورت میں ان مساعی کے نہایت ہی شیریں ثمرات عطا ہونے لگے.
153 نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی نظروں کے نیچے جب ہندوستان کے ایک شہر لدھیانہ میں 23 مارچ 1889ء کو سلسلۂ بیعت کا آغاز فرمایا تو خدا تعالی سے علم پا کر اس کی روز افزوں ترقی کی بشارات بھی دیں.آپ نے فرمایا کہ خدا تعالٰی نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلے کو تمام زمین میں پھیلائے گا...ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پینے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.“ اسی طرح فرمایا: ( متجلیات البید روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409) ے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنا یا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور محبت اور برہان کی رُو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.“ (تذکرة الشهادئين روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66) چنانچہ ہم دیکھتے ہیں اور ایک عالم اس پر گواہ ہے کہ دنیا کو روحانی حیات بخشنے کے لیے کا جو میچ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ سے لگایا تھا وہ بڑھا اور پھولا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں اور آج وہ ایک بڑا درخت بن چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی نصرت و تائید کے لاتعداد شیر میں اعمار سے لدا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام آپ کی مقدس حیات میں ہی تمام بر اعظموں میں پہنچ چکا تھا اور ایشیا، یورپ، افریقہ، امریکہ اور آسٹریلیا میں آپ کے ماننے والے اور آپ کی بیعت میں شامل افراد موجود تھے.آپ کے اس عالم فانی سے کوچ کرنے کے بعد حسب وعدہ البہی قدرت ثانیہ یعنی خلافت کا ظہور ہوا اور تمکنت دین کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا.حضرت خلیفتہ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ
154 کے عہد خلافت میں ہندوستان سے باہر انگلستان میں پہلا باقاعدہ مشن 1913ء میں قائم ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں عالمگیر اشاعت اسلام کی مہم میں غیر معمولی تیزی آئی.ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے مختلف ممالک میں مبلغین کا ایک وسیع نظام قائم ہوا.بالخصوص تحریک جدید کی نہایت عظیم الشان تحریک (1934 ء) کے بعد سے دنیا بھر میں مشنوں کے قیام اور مختلف زبانوں میں تراجم قرآن مجید اور دیگر اسلامی لٹریچر کی اشاعت کے کاموں میں بہت وسعت پیدا ہو گئی.یہی سلسلہ خلافت ثالثہ کے دور میں بھی آگے بڑھتا رہا.اس کا کسی قدر احوال قارئین کی گزشتہ جلدوں میں پڑھ چکے ہیں.1982ء میں حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ کی وفات کے بعد حضرت مرزا طاہر احمد صاحب منصب خلافت پر متمکن ہوئے.دسمبر 1982ء میں منعقدہ عالمی شوری کی رپورٹ کے مطابق اُس وقت تک دنیا کے 31 ممالک میں باقاعدہ مشن قائم ہو چکے تھے.اس کے علاوہ 32 ممالک میں باقاعدہ جماعتیں قائم ہو چکی تھیں اور 27 رایسے ممالک تھے جہاں انگار کا طور پر احمدی موجود تھے لیکن وہاں با قاعدہ جماعتوں کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا.اس لحاظ سے گل 90 ممالک ایسے تھے جن میں یا تو با قاعدہ مشن قائم تھے پاتھا تیں قائم نہیں یا کچھ احمدی موجود تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے جماعت احمدیہ کے قیام پر سو سال پورے ہونے پر جماعت کو صد سالہ جوبلی کا جو پروگرام دیا تھا اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ کوشش کی جائے کہ 1989ء تک کم سے کم سو ممالک میں جماعت کا قیام عمل میں آجائے.اس کے لئے سوممالک میں تبلیغی منصوبہ کے تحت جو مساعی جاری تھیں خلافت رابعہ کے دور میں ان میں غیر معمولی اضافہ ہوا.بالخصوص حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کی پاکستان سے ہجرت ( اپریل 1984ء) کے بعد تو اس سلسلہ میں بہت تیز رفتاری سے کام ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کاوشوں کو بہت ہی شیریں پھل عطا فرمائے.1984ء میں جب حضرت خلیفہ المسح الرابع حمہ اللہ کو خاص حالات میں پاکستان سے ہجرت کرنا
155 پڑی اور آپ انگلستان تشریف لے آئے اس وقت تک 91 ممالک میں جماعت قائم ہو چکی تھی (ماخوذ از خطاب حضرت خلیفہ اسمع الرابع رحمہ اللہ بر موقع جلسہ سالانہ یو کے 18 جولائی 1987ء دوسرا روز بعد دو پہر ).اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں ہجرت کرنے والوں سے مراغما كَثِيرًا وَسَعَةً (النساء: 101) کا جو وعدہ قرآن مجید میں فرمایا ہے اس کا ایک نہایت خوبصورت اظہار جماعت احمدیہ کی مختلف ممالک میں ترقی اور پھیلاؤ اور قبولیت کی صورت میں ہوا.احمدیت کے مخالف مولویوں نے تو پاکستان میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے احمدیت کو نہ صرف ملک بدر کر دیا ہے بلکہ ملک ملک سے اسے مٹا کر چھوڑیں گے اور اُس وقت کے پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے یہ اعلان کیا اور اس کے نمائندہ نے لندن میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام 4 تا 6 / اگست 1985ء کو منعقد کی جانے والی کانفرنس میں باقاعدہ اس کا یہ پیغام پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا تھا کہ "We will Inshallah persevere in our effort to ensure that the cancer of Qadianism is exterminated." (The Times, London 5 September 1984) (Message from General M.Zia-Ul-Haq President Islamic Republic of Pakistan To International Khatm-e-Nabuwwat Conference London, August 4-6, 1985) لیکن دنیا نے دیکھا کہ باوجود تمام تر مخالفتوں اور دشمنان احمدیت کے جھوٹے پراپیگنڈوں اور ظالمانہ کارروائیوں کے یہ سلسلہ بڑھتا رہا اور نہ صرف یہ کہ ایشیا، یورپ، افریقہ، امریکہ اور آسٹریلیا میں پہلے سے موجود مشنز اور جماعتیں مستحکم سے مستحکم تر ہوتی چلی گئیں اور ان میں مختلف جہتوں سے غیر معمولی ترقی ہوئی بلکہ ہر سال نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ ہوتارہا.چنانچہ حضرت خلیفتہ انبیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات اپریل 2003 ء تک 175 ممالک میں جماعت کا نفوذ ہوچکا تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جماعت کے تمام ملکوں میں پھیلنے کی جو بشارت دی تھی وہ بڑی عظمت اور شان کے ساتھ خلافت احمدیہ کے ذریعہ مسلسل پوری ہوتی چلی جارہی ہے.خلافتِ خامسہ کے مبارک عہد میں 2019ء تک 213 رممالک میں جماعت قائم ہو چکی ہے.
156 اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ یہ پودا بڑی تیزی سے نشو و نما پاتے ہوئے جانفزا بہار دکھلا رہا ہے.نے ممالک میں جماعت کے نفوذ اور اس کی ترقی کا یہ سفر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے لا تعداد نشانوں سے معمور ہے.ملک ملک میں، جابجا مبلغین اور داعیان الی اللہ اور افراد جماعت کے اخلاص و فدائیت اور قربانیوں کی نہایت ایمان افروز اور دلگداز داستانیں پھیلی پڑی ہیں.اس مختصر سی کتاب میں ان سب امور کا احاطہ ممکن نہیں.ذیل میں ہم خلافت رابعہ کے مبارک عہد میں نئے ممالک میں جماعت کے نفوذ کے حوالہ سے نہایت اختصار کے ساتھ کچھ احوال درج کر رہے ہیں.ان میں سے بعض ایسے ممالک ہیں جہاں خدا تعالی کے فضل سے بڑی تیزی سے جماعت کی نشو نما ہوئی اور بہت جلد مضبوط جماعتیں اور مشنز قائم ہوئے.بعض ایسے بھی ہیں جہاں بیعتوں کا آغاز ہوا اور گویا ایک بیچ ڈالا گیا لیکن پھر رابطوں میں کمی یا دیگر مشکلات کی وجہ سے ترقی کی رفتار ست رہی یا بیعت کنندگان وہاں سے ہجرت کر گئے یا رابطہ بالکل ختم ہو گیا.لیکن پھر ایک لمبے انقطاع کے بعد خلافت خامسہ کے مبارک دور میں اب وہاں مبلغین و معلمین کے ذریعہ با قاعدہ مشنرز کا قیام عمل میں آچکا ہے اور دن بدن تبلیغی و تربیتی مساعی میں تیزی آرہی ہے اور جماعت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو کر آگے بڑھ رہی ہے جس کی تفصیل خلافتِ خامسہ کے مبارک دور کے ذکر میں اپنی جگہ پر آئے گی.انشاء اللہ.
157 تیونس (TUNISIA) شمالی افریقہ کا سب سے چھوٹا ملک ہے جس کے مغرب میں الجیریا، جنوب مشرقی جانب لیبیا جبکہ جنوب اور مشرق کی جانب بحیرہ روم واقع ہے.165,000 مربع کلومیٹر کے رقبہ پر واقع اس ملک کی آبادی لگ بھگ 10.7 ملین نفوس پر مشتمل ہے.اس ملک کی آبادی کا 98 فیصد حصہ مسلمان جبکہ ایک فیصد عیسائی اور باقی ماندہ ایک فیصد یہودی یا دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں.مسلمانوں میں بھی زیادہ تر مالکی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہیں.1983ء میں تیونس کے دو نو جوان جو سیر و تفریح کے لیے ڈنمارک آئے ہوئے تھے.احمد یہ مشن ڈنمارک سے رابطہ کے بعد بیعت کر کے میں شامل ہوئے.واپس تیونس جا کر دعوت الی اللہ کا کام کرتے رہے.1984ء میں وہاں سے ایک مزید بیعت بھی بھجوائی.( خطاب حضرت خلیفہ مسیح الرابع بر موقع جلسہ سالانہ یو کے 1985ء ( دوسرادن)) جن دونوجوانوں نے ڈنمارک مشن کے ذریعہ بیعت کی تھی ان میں سے ایک مکرم عبادہ بر بوش صاحب تھے جنہوں نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی اور حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر انگلستان آگئے.آپ کو انگلستان میں مختلف مرکزی شعبوں میں کام کرنے کے علاوہ حضرت خلیفه امسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ لقاء مع العرب کے پروگرام میں شرکت اور ترجمانی کی سعادت حاصل ہوئی.اس وقت آپ مجلہ التقوی کے ایڈیٹر کے طور پر سلسلہ کی خدمت کی توفیق پارہے ہیں.مکرم عباده بر بوش صاحب کے تفصیلی حالات زندگی کے لئے ملاحظہ ہو کتاب صلحاء العرب و ابدال الشام جلد اول صفحہ 236 تا 251)
158 صومالیہ (SOMALIA) 1983ء میں ایک پاکستانی انجینئر مکرم چوہدری عبد الغفور صاحب کے ذریعہ پانچ افراد نے صومالیہ میں بیعت کی.اس طرح یہاں جماعت کی ابتدا ہوئی.بعد ازاں کینیا سے مقامی معلم وہاں کے دورے کرتے رہے اور جماعت کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا.کیمرون (CAMEROON) مارچ 1983ء میں نائیجیر یا جماعت کے وائس پریذیڈنٹ مکرم الحاج حمزہ سنی لو صاحب کیمرون دورہ پر تشریف لے گئے اور جماعت کی ابتدا ہوئی.پھر نائیجیریا سے مبلغین وہاں کے دورے کرتے رہے اور جماعت ترقی کرتی رہی.اسلامک ری پبلک آف موریطانیہ (ISLAMIC REPUBLIC OF MOURITANIA) مغربی افریقہ میں واقع اسلامک ری پبلک آف موریطانیہ کے مغرب میں بحر اوقیانوس، شمال میں ویسٹرن صحارا ، شمال مشرق میں الجیریا، مشرق اور جنوب مشرق میں مالی جبکہ جنوب مغرب میں سینیگال کے ممالک واقع ہیں.اس کی سرکاری زبان عربی ہے.1,030,700 مربع کلومیٹر رقبہ پر محیط اس ملک کی آبادی 3,359,185 نفوس پر مشتمل ہے.یہاں پر قریبا %100 لوگ مسلمان ہیں جن میں اکثریت مٹی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہیں.1983ء میں گیمبیا مشن نے لوکل مبلغ مکرم حامد مبائی (Mbaye) صاحب کو موریطانیہ بھیجوایا جو
159 ایک ماہ تک وہاں رہے.اس دوران کئی افراد نے بیعت کی.اس طرح موریطانیہ میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.1985ء کے دوران گیمبیا مشن کی مساعی سے موریطانیہ میں اکہتر افراد نے احمدیت قبول کی.مارچ 1986ء میں مکرم داؤ د احمد حنیف صاحب امیر ومبلغ انچارج گیمبیا مشن مکرم حامد مبائی صاحب کے ہمراہ دورہ پر موریطانیہ تشریف لے گئے.1987ء میں مزید بیعتیں ہوئیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں جماعت مسلسل ترقی پذیر ہے.ری پبلک آف انگولا (REPUBLIC OF ANGOLA) افریقہ کے جنوب میں واقع ریپبلک آف انگولا کے جنوبی جانب نمیبیا، شمال کی جانب ڈیموکریٹک ریپبلک آف کونگو، مشرق کی جانب زیمبیا جبکہ مغرب میں بحر اوقیانوس واقع ہیں.اس ملک کی سرکاری زبان پرتگیزی ہے.1,246,700 مربع کلومیٹر پر محیط اس ملک کی آبادی 18.5 ملین نفوس پر مشتمل ہے جس میں سے تقریبا 99 فیصد آبادی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی ہے جبکہ ایک فیصد مسلمان اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے اس ملک میں آباد ہیں.مکرم مولانا صدیق احمد منور صاحب لکھتے ہیں : " انگولا ایک کمیونسٹ ملک ہے جہاں مذہبی تبلیغ پر بہت پابندیاں ہیں جن میں اسلام کی تبلیغ پر بھی پابندی ہے.جہاں تک خاکسار کی معلومات کا تعلق ہے انگولا میں احمدیت کا آغاز 1984ء میں ہوا.انگولا کے سب سے پہلے احمدی کا نام Tahir Ahmad Miguel Domingo ہے.انہوں نے 1983 میں احمدیہ مشن سپین کے ذریعہ اسلام قبول کیا اور 1984ء میں باقاعدہ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.1986ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرائع سے ملاقات کے لئے انگلستان تشریف لے گئے.حضور انور رحمہ اللہ کے ارشاد کے مطابق انگولا کی نگرانی زائر مشن کے سپرد ہوئی.زائر سے انگولا مشن میں جماعت کا لٹریچر
160 بھیجوایا جاتا رہا.بعض انگولین لوگوں نے بھی زائر آکر احمدیت قبول کی اور اس طرح اس ملک میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.برونائی (BRUNEI) ریاست برونائی جنوب مشرقی ایشیا کے علاقہ میں جزیرہ بورنیو کے ساحلی علاقہ میں واقع ہے.دار الحکومت Bandar Seri Begawan، سرکاری زبان ملائی، رقبہ 5,765 مربع کلومیٹر ہے.آبادی کا دو تہائی حصہ مسلمان ہے.اس کے علاوہ %13 بدھسٹ ، %10 عیسائی اور %07 آزاد خیال طبقہ ہے.اپریل 1985ء میں انڈونیشیا سے مکرم حسن بصری صاحب اور مکرم محی الدین شاہ صاحب پر مشتمل مبلغین کے ایک وفد نے برونائی دار السلام کا تبلیغی دورہ کیا جہاں چند افراد جماعت موجود تھے.اس دورہ میں انفرادی سطح پر مختلف افرادسے تبلیغی رابطہ کیا گیا.حضرت خلیفہ اسح الرائع نے جلسہ سالانہ یو کے 1987ء کے موقع پر دوسرے روز بعد دوپہر کے خطاب میں بتایا کہ کینیڈا میں ایک نوجوان برونائی سے اعلی تعلیم کے لئے گئے ہوئے تھے.انہوں نے کینیڈا میں احمدیت میں شمولیت کی اور بڑی تیزی سے اخلاص اور محبت میں ترقی کی رخصتیں گزارنے کے لئے جب وہ برونائی جارہے تھے تو انہوں نے خود اس خواہش کا اظہار کیا کہ رمضان کا مہینہ لندن میں وہ میرے قریب گزاریں اور عید کے بعد یہاں سے جائیں.چنانچہ بڑے شوق سے ہم نے ان کو دعوت دی اور اس رمضان میں پورے روزے بھی رکھے، اعتکاف بھی بیٹھے اور روزانہ میرے ساتھ سیر پہ جاکے اعتکاف سے پہلے وہ مسائل کی گفتگو بھی کرتے رہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت تیار ہو کر یہاں سے وہ برونائی گئے ہیں...اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ ان کو وہاں کامیابی نصیب ہوئی ہوگی.“ (ماخوذ از خطاب بر موقع جلسہ سالانہ یو کے 1985ء 1987ء) بعد ازاں برونائی جماعت ملائشیا جماعت کے سپرد ہوتی اور ملائشیا سے مبلغین اور داعیان الی اللہ نے برونائی کے احمدی احباب سے رابطہ رکھا.
161 گنی بساؤ (GUINEA BISSAU) 1971ء میں گنی بساؤ کے ایک نوجوان مکرم محمد باہ صاحب گیمبیا گئے.وہاں ان کو فرافینی شہر میں مکرم الحاجی ابراہیم چکنی صاحب مرحوم کے ذریعہ احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.1974ء میں مکرم محمد باہ صاحب واپس گنی بساؤ آگئے.کچھ عرصہ کے بعد ان کا رابطہ جماعت سے کٹ گیا.بعد ازاں ان کا رابطہ دوبارہ جماعت کے ساتھ 1993ء میں ہوا.یہ وہ سال ہے جس میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے عالمی بیعت کی تحریک کا آغا ز فرمایا.20 دسمبر 1983ء کو گیمبیا میں ہی گنی بساؤ کے ایک دوست مکرم عیسی فاقی صاحب نے بیعت کی سعادت حاصل کی.1985ء ، 1986ء اور 1987ء میں گیمبیا سے لوکل معلمین و داعیان الی اللہ کے وفود گنی بساؤ تبلیغی غرض سے جاتے رہے.مارچ 1986ء میں گنی بساؤ سے دو افراد پر مشتمل ایک وفد گیمبیا کے جلسہ میں شامل ہوا جہاں انہیں بیعت کر کے میں شمولیت کی توفیق ملی.1987 ء تک گنی بساؤ میں ہونے والی بیعتوں کی کل تعداد 25 رتھی.گنی بساؤ میں محموص (Qumus) شہر میں جس کا اب نیا نام فریم (Farim) ہے سب سے پہلے جماعت کا قیام عمل میں آیا جو کہ دُوئی (Oio) ریجن میں واقع ہے.1988ء میں جب حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ گیمبیا تشریف لائے تو گنی بساؤ سے ایک وفد کو گیمبیا جانے اور حضور انور رحمہ اللہ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا.مکرم داؤد احمد حنیف صاحب امیر و مشنری انچارج گیمبیا نے 1987ء اور پھر 1992ء میں گنی بساؤ کا دورہ کیا.آخر نومبر 1992ء میں آپ نے ایک وفد کے ساتھ گنی بساؤ کے صدر مملکت سے ملاقات کی.اس وفد کو ملک کے اندرونی حصوں کا دورہ کرنے اور دعوت الی اللہ کرنے کی بھی توفیق ملی اور کچھ مزید بیعتیں بھی عطا ہوتیں.اپریل 1993 ء میں جب حضرت خلیفہ اسمع الرابع رحمہ اللہ نے مالی بیعت کی تحریک کا اعلان
162 فرمایا تو گیمبیا سے گنی بساؤ میں دعوت الی اللہ کی کوششوں میں مزید تیزی آئی.اور ایک قلیل عرصہ کے اندر سینکڑوں بیعتیں ہوئیں اور نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا اور یہاں 6 ر نئے مقامات پر احمدیت کا پودا لگا.اس کے ساتھ ہی تعلیمی وتربیتی مساعی کا سلسلہ بھی شروع ہوا.1994 ء میں گنی بساؤ کے باقاعدہ دس معلمین تیار کرنے کے بعد جماعتوں میں مقرر کر دیے گئے.اس دوران گیمبیا کے ایک مقامی مشنری مکرم اسماعیل تراولے صاحب ( مرحوم ) کو بھی گیمبیا سے گنی بساؤ ٹرانسفر کر دیا گیا اور وہ فریم جماعت میں آکر سیٹل ہو گئے اور کام شروع کر دیا.بعد ازاں 1996ء میں رمضان المبارک کے مہینہ میں ایک حادثہ کے نتیجہ میں ان کو شہادت کا رتبہ نصیب ہوا.1994ء میں گنی بساؤ میں مرکزی مبلغ کا باقاعدہ تقرر ہوا.جولائی 1995ء میں گنی بساؤ جماعت کی با قاعدہ رجسٹریشن ہوئی.دارالحکومت بساؤ میں جماعتی مشن کا آغاز کرایہ پر مکان لے کر کیا گیا.2000 ء تک چالیس لوکل معلمین اور دومزید مرکزی مبلغین گنی بساؤ میں کام کر رہے تھے.جماعت احمد یہ گنی بساؤ نے لوگوں کو اسلام سکھانے اور قرآن کریم کی تعلیم دینے کے علاوہ ضرورت مندوں، محتاجوں اور بیواؤں کی امداد اور خدمت خلق کے کام بھی انجام دیئے.1997ء میں تین دیہات گابو (Gabu) ریجن میں آگ لگنے سے جل گئے تھے.اسی طرح 2000ء میں بعض دیہات آگ لگنے کی وجہ سے جل گئے تھے.ان مواقع پر اور اس کے علاوہ بھی متعدد مواقع پر جماعت کو حکومت کی درخواست پر متاثرین اور ضرورت مندوں اور قیدیوں اور مریضوں کی خدمت اور علاج کی توفیق ملی.1998ء میں گردن توڑ بخار کی وبا پھیلنے کے موقع پر جماعت کو متاثرہ علاقہ میں سو سے زائد دیہات میں ہومیو پیتھک دوائیں تقسیم کرنے کی توفیق عطا ہوئی.سال 2000 ء تک جماعت کو گنی بساؤ میں چار مساجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی جبکہ مزید چار مساجد زیر تعمیر تھیں.بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے نصرت جہاں سکیم کے تحت وقف کر کے پہلے ڈاکٹر مکرم مبارک احمد صاحب آغا گنی بساؤ پہنچے اور ملک کے دوسرے بڑے شہر بافاٹا (Bafata) میں کلینک کا
آغاز کیا.163 2001ء میں مزید ڈاکٹر گنی بساؤ پہنچے اور یوں خدمت خلق کے کام میں مزید وسعت پیدا ہوئی.گنی بساؤ میں 1995ء میں پہلے ایک روزہ جلسہ سالانہ کے ساتھ سالانہ جلسوں کا آغاز کیا گیا تھا.پھر 1997ء سے باقاعدہ تین روزہ جلسہ سالانہ کا آغاز کیا گیا.1998ء اور 1999ء میں ملکی حالات خراب ہونے کی وجہ سے جلسہ سالانہ کا انعقاد نہیں ہو سکا.گنی بساؤ کی دو مقامی زبانوں Kiriole اور Balanta میں قرآن کریم کے مکمل ترجمہ کا کام کیا گیا.( Kiriole زبان میں ترجمہ قرآن کریم جولائی 2010ء میں شائع ہو چکا ہے ).گنی بساؤ میں تینتالیس فیصد Pagans ہیں جن کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے.جماعت احمد یہ نے ان میں بھی پیغام حق پہنچانا شروع کیا جس کے نتیجہ میں جنوری 2000ء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ساؤتھ ریجن میں گیو سانکی (Kabu Sanki) کے مقام پر پہلی بار بلانتا (Balanta) قبیلہ کے ستر افراد کو ایک ساتھ اسلام میں داخل ہونے کی توفیق ملی.الحمد للہ 2000ء میں نیشنل ریڈیو پر ہفتہ وار نصف گھنٹے کے پروگرام شروع کئے گئے جن کے ذریعہ کثیر افراد تک اسلام کا پیغام پہنچنا شروع ہوا.یہ پروگرام مقامی زبان Kiriole میں پیش کئے جاتے تھے.ری پبلک آف روانڈا (REPUBLIC OF RWANDA) وسطی افریقہ میں واقع روانڈا کے ہمسایہ ممالک میں یوگنڈا، تنزانیہ، برونڈی اور ڈیموکریٹک ری پبلک آف دی کونگو شامل ہیں.26,338 مربع کلو میٹر پر پھیلے ہوئے اس ملک کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد ہے.سرکاری زبان Kinyarwanda، فریج اور انگریزی ہیں.عقیدہ کے لحاظ سے ان میں سے اکثریت کیتھولک عیسائی ہیں جبکہ %4 کے قریب مسلمان ہیں.روانڈا میں جماعت کے قیام سے متعلق تنزانیہ، زیمبیا اور زائر مشن کی طرف سے داعیان الی اللہ
164 کے ذریعہ کوششیں ایک عرصہ سے جاری تھیں.مختلف طبقات فکر کے افراد کولٹر بھر بھجوایا جاتا رہا.واقفین عارضی کے وفود بھی جاتے رہے.16 مئی 1984ء کو 22 افراد نے بیعت کی.1985 ء تک کم و بیش ڈیڑھ صد افراد پر مشتمل جماعت قائم ہو چکی تھی.1987ء میں یوگنڈا سے بھی تبلیغی وفود بھجوائے گئے.ری پبلک آف برونڈی (REPUBLIC OF BURUNDI) یہ ملک مشرقی افریقہ میں واقع ہے.اس کے شمال میں روانڈا، مشرق اور جنوب میں تنزانیہ جبکہ مغرب میں ڈیموکریٹک ری پبلک آف کونگو موجود ہیں.اس کے دارالحکومت کا نام Bujumbura ہے.سرکاری زبان Kirundi اور فرنچ ہیں.یہ ملک 27,834 مربع کلومیٹر علاقے پر محیط ہے.آبادی کا %75 حصہ عیسائی ہے جن میں سے اکثریت رومن کیتھولک ہیں، 20% حصہ لوکل قبائلی مذہبی روایات کے علمبردار ہیں جبکہ بقیہ %5 مسلمان ہیں.تنزانیہ کے ہمسایہ ملک برونڈی میں سب سے پہلے ایک نوجوان حسن سلیمانی احمد بیعت کر کے میں داخل ہوئے.ان کے احمدیت کی طرف راغب ہونے کی وجہ قبولیت دعا کا ایک واقعہ ہے جو اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشان کے طور پر دکھایا.یہ نوجوان ایک موذی مرض میں مبتلا تھے.سعودی عرب پڑھنے کے لئے گئے لیکن بیماری کی وجہ سے اڑھائی سال بعد واپس آگئے.بہت علاج کروانے کے باوجود آرام نہ آیا.جماعت احمدیہ سے سخت نفرت اور عناد رکھتے تھے.جب مرض نے شدت اختیار کی تو ان کے دل میں خیال آیا کہ بانی سلسلہ احمد یہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.اور مسیح ناصری تو بیماروں کو اچھا کرتے تھے.انہوں نے دعا کی کہ اے خدا! اگر بانی واقعی سچے دعویدار ہیں تو ان کی صداقت کے نشان کے طور پر مجھے اس موذی مرض سے شفا دے دے.جب وہ صبح اٹھے تو بیماری کا نام ونشان بھی نہیں تھا.انہوں نے فوراً اپنے احمدی
165 ہونے کا اعلان کر دیا.لوگوں نے بہت مخالفت کی اور برا بھلا کہا کہ تم پاگل ہو گئے ہو.یہ شیطانی خیالات ہیں.مگر انہوں نے کسی کی پرواہ کئے بغیر اعلان کیا کہ میرے لئے مسیح زمان کی صداقت کا اس سے بڑھ کر اور کیا معجزہ ہوسکتا ہے.1985ء تک وہاں 47 بالغ افراد کی جماعت قائم ہو چکی تھی.جماعت کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی.ری پبلک آف موزمبیق (REPUBLIC OF MOZAMBIQUE) یہ ملک جنوب مشرقی افریقہ میں واقع ہے.اس کے مشرق میں بحیرہ ہند، شمال میں تنزانیہ، شمال مغرب میں ملاوی اور زیمبیا ، مغرب میں زمبابوے اور جنوب مغرب میں سوازی لینڈ اور جنوب افریقہ واقع ہیں.اس ملک کا دارلحکومت ما پوٹو ہے.سرکاری زبان پرتگیزی ہے.801590 مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل اس ملک کی آبادی 29537914 نفوس پر مشتمل مشتمل ہے.آبادی کا 56.1 فیصد عیسائی - 17.9 فیصد مسلمان 7.3 فیصد دیگر مذاہب 18.7 فیصد لا مذہب ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تنزانیہ مشن کے تحت آنریری مبلغ رشیدی یاولی (Rashidi Yawali) کے ذریعہ 1975ء میں موزمبیق (Mozambique) میں کام کا آغاز ہوا جماعت احمدیہ کا نفوذ ہوا.ٹیمبے (Chipembe ) میں 20-25 افراد نے احمدیت قبول کی.لیکن بعد میں جماعت کی مخالفت اور معلم صاحب کے واپس آنے کی وجہ سے رابطے قائم نہ رہے.ابتدائی احمدیوں میں رشیدی نادی Rashidi) Nadi اور عباس مریجالا (Abbas Marijala) بھی تھے.تفصیل بتاتے ہوئے مکرم رشیدی یاولی صاحب کہتے ہیں کہ خاکسار 1975ء میں موزمبیق گیا اور اگلے سال 1976 ء میں واپس آنا چاہتا تھا.اس مقصد کے لئے میں اس گاڑی میں بیٹھا جو کہ ان لوگوں کو واپس کر رہی تھی جو کہ جنگ کی وجہ سے موزمبیق
166 گئے تھے.گاڑی" پیمبا " (Pemba) (ریجنل دار الحکومت) سے گزرتے ہوئے " مویڈ" ( Mweda) سے تنزانیہ رہی تھی کہ " مویڈا پہنچنے سے پہلے ہی خراب ہو گئی.ڈرائیور نے کہا کہ گاڑی آگے جانے کے قابل نہیں ہے.لہذا ہم پیدل چل کر " مویڈ" پہنچے.وہاں ہمیں قید کر لیا گیا.کچھ دنوں بعد ہمیں حکم ہوا کہ موزمبیق کے جس جس علاقے سے جو آیا ہے واپس جائے گا.تنزانیہ جانے کی اجازت نہیں.لیکن انہوں نے کہا کہ کوئی گاڑی نہیں ہے پیدل واپس جائیں.ہم مسلسل چار دن پیدل چلتے رہے.اس سے ہم کمزور ہو گئے، راستے میں موسلا دھار بارش کی وجہ سے بھی کافی تکلیف اٹھانی پڑی.بہر حال شیمپے (Chipembe) میں جو تبلیغ کا کام میں نے شروع کیا تھا اس کو جاری رکھا.اور خدا تعالیٰ نے بہت تبلیغ کرنے کا موقع بھی دیا اور کئی افراد نے بیعت کی.مخالفت بھی بہت ہوئی.ہم نے جب مسجد بنائی تو سرکاری افسر کو کہہ کر ہماری مسجد کو تالا لگوادیا گیا.ہم باہر نماز پڑھنا شروع ہو گئے.پھر ہم نے دوسری جگہ مسجد بنائی اس کو بھی سرکار نے بند کروایا.کچھ عرصہ بعد تیسری مسجد بنائی.اسی طرح اس کو بھی بند کروادیا گیا لیکن ہم کھلی جگہ پر باجماعت نمازیں پڑھتے رہے.ایک مخالف احمدیت جو کہ جادوٹو نا بھی کرتا تھا اس کو ایسی بیماری لگی کہ وہ کو نئے کھاتا تھا اور کہنے لگا کہ میں معلم رشیدی یاولی اور معلم رشیدی نادی کے جادو کی وجہ سے مر جاؤں گا.معلم رشیدی یاولی نے اس کو جواب دیا کہ ہم نے کوئی جادوٹو نا نہیں کیا بلکہ تم جو ہم احمدیوں پر حیلے کرتے ہو و ہی تم پر ٹوٹ کر آئے ہیں.اگر تم ٹھیک ہونا چاہتے ہو تو تو بہ کرو اور احمدیت سے عداوت چھوڑ دو تو خدا تعالی تمہیں ٹھیک کر دے گا.اس نے توبہ کی ، خدا تعالیٰ نے اس پر رحم کیا اور وہ ٹھیک ہو گیا اور اس کے بعد کئی سال تک زندہ رہا.اس کے بعد اس نے مخالفت نہیں کی.اس کے بعد پھر مخالفت کا زور بڑھا.ایک دن مخاصمہ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی.پولیس آئی.رشیدی یاولی ، رشیدی نادی اور عباس مریجالا اور اہل السنہ میں سے بھی ایک آدمی کو گرفتار کیا.رشید یا ولی صاحب بتاتے ہیں کہ ہم ایک ماہ تک قید میں رہے.اس عرصہ میں انہوں نے ہمیں نماز پڑھنے سے سختی سے
167 روک دیا تھا لیکن ہم کسی نہ کسی طرح عبادت کر لیتے تھے لیکن ان کو اس بات کا علم نہ ہونے دیتے.ایک ماہ بعد ہمیں آفس میں بلایا گیا اور پولیس آفیسر نے دونوں پارٹیوں سے ان کا اعتقاد پوچھا.خاکسار نے ان کو احادیث نبویہ کی رُو سے بتایا کہ بدعات مثلاً مولود، ختمہ ، اربعین، اس طرح کی تمام بدعات دین کا حصہ نہیں ہیں.آفیسر نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا.پولیس آفیسر نے کہا کہ تم لوگ ان احمدیوں کی پیروی کرو جو اپنی بات کی دلیل تو جانتے ہیں.تم دونوں پارٹیاں اب سے ایک ہی مسجد میں نماز پڑھا کرو گے.ہم نماز کے لئے جلدی پہنچتے اور ہمیشہ امامت کراتے.کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے وہ مسجد چھوڑ دی.لیکن کبھی کبھی وہ اس مسجد میں آجایا کرتے تھے.پھر ہم نے حالات دیکھ کر اپنی مٹی کی کچی عمارت کی مسجد بنالی تھی.ایک سال ایسا ہوا کہ جس طرف احمدیوں کی فصلیں تھیں اس طرف بارشیں ہوئیں اور جس طرف غیر از جماعت کی فصلیں تھیں اس سال ان کی فصلیں سوکھ گئیں.اس طرح خدا تعالٰی مومنین کے ازدیاد ایمان کے لئے اپنی تائیدات کے نظارے بار بار دکھاتا رہا.“.....طوالو (TUVALU) سو ممالک میں تبلیغی منصوبہ کے تحت جن نئے ممالک میں 86-1985ء کے دوران احمدیت کا نفوذ ہوا ان میں سے ایک طوالو ( Tuvalu) ہے.طوالو ساؤتھ ایسٹ پیسیفک کے جزائر میں سے ایک چھوٹا سا جزیرہ عملاً زمین کے کنارے پر Dateline کے پرلی طرف واقع ہے.یہ برٹش کالونی ہے.رقبہ 24 مربع کلومیٹر، دار الحکومت Funafuti ہے.ان کی اپنی زبان Tuvaluan ہے.انگریزی بولی اور سمجھی جاتی ہے.عیسائیت یہاں 1861ء میں پہنچی.80 فیصد لوگ Tuvaluan Church سے وابستہ ہیں جو لندن مشنری سوسائٹی کے ذریعہ جاری ہوا.حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس جزیرہ میں تبلیغی مساعی کے آغاز کا پس منظر بیان کرتے
168 ہوئے فرمایا: اس جزیرے کے متعلق ایک بہت ہی دلچسپ بات یہ بتانے کے قابل ہے کہ ایک دن مجھے ایک ایسا خط موصول ہوائی سے جس میں بتایا گیا کہ فلاں فلاں جزیرے ایسے ہیں جن میں کوئی بھی مسلمان نہیں ہے اور ان میں ہمیں ضرور اسلام کو پھیلانے کا منصوبہ بنانا چاہئے اور ان میں خصوصیت سے طوالو کاذ کر تھا.چنانچہ میری نظر طوالو پر پڑی اور میں نے سوچا کہ اس جزیرے میں لازم اس سال انشاءاللہ تعالی ہم کوشش کریں گے.دوسرے روز افتخار احمد ایاز صاحب، ایک ہمارے دوست ہیں جو United Nations میں کام کر رہے ہیں وہ میرے پاس تشریف لائے اور مجھے کہا کہ ایک ضروری مشورہ کرنا ہے.وہ مشورہ یہ ہے کہ مجھے پہلی نوکری سے جواب مل چکا ہے اور ایک نوکری ایک دُور دراز کے جزیرے میں پیش ہوتی ہے اس کا نام طوالو ہے.آپ بتائیں کہ میں اس نوکری کو قبول کروں یا نہ کروں.آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ میرے دل کی اس وقت کیا کیفیت تھی یوں لگتا تھا کہ آسمان سے خدا نے اس تمنا کا جواب دیا ہے.میں اٹھ کر ان کے گلے لگ گیا.میں نے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ.میں تو انتظار کر رہا تھا کہ کب خدا راستہ پیدا کرے.آپ جائیں اور آپ خدا کے فضل سے وہاں کے پہلے مبلغ ہیں.چنانچہ اللہ تعالی نے یہ فضل فرمایا.ان کے کام میں ایسی برکت دی کہ وہاں بڑی تیزی کے ساتھ جماعت قائم ہوئی اور خالص عیسائی رومن کیتھولک عیسائیوں میں سے ایسے پیارے موخہ پیدا ہونے شروع ہوئے کہ ان کو دیکھ کر رشک آتا ہے.اقتباس از خطاب بر موقع جلسہ سالانہ کیو کے 1986 ء ) طوالو میں تبلیغ اسلام و احمدیت کا آغا ز مکرم افتخار احمد ایاز صاحب کے ذریعہ اپریل 1985ء میں ہوا.مرکزی مبلغین مختلف اوقات میں یہاں خدمات سرانجام دیتے رہے.1991ء میں ایک خوبصورت مسجد اور مشن ہاؤس طوالو کے دار الحکومت شہر Funafuti میں تعمیر ہوئے.طوالوتن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور بنیادی لٹریچر بھی شائع ہوا.
169 ری پبلک آف کیری باس (REPUBLIC OF KIRIBATI) کیری باس (Kiribati) بھی پیسیفک جزائر میں سے ایک جزیرہ ملک ہے.اس کا رقبہ 264 مربع کلومیٹر ہے.اور آبادی قریبا 60 ہزار نفوس پر مشتمل ہے.1978ء میں آزاد ہوا اور اب رپبلک ہے.دار الحکومت Tarawa اور سرکاری زبان انگریزی اور گلبرٹیز ہیں.یہاں پر زیادہ تعد اد عیسائیوں کی ہے جبکہ بہائی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد آبادی کا %2.2 ہے.اس جزیرہ میں دسمبر 1986ء میں مکرم افتخار احمد ایاز صاحب کی تبلیغی کوششوں سے ایک خاتون مکرمہ Selvia صاحبہ نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی.بعد میں ان کی فیملی نے بھی بیعت کر لی.اور یوں اس جزیرہ میں احمدیت کا نفوذ ہوا.ویسٹرن صاموا (WESTERN SAMOA) ویسٹرن صامو آرقبہ 284 کلومیٹر ہے.زیادہ تر پہاڑی و آتش فشانی علاقہ ہے.پہلے نیوزی لینڈ کے ** ماتحت تھا.1962ء میں آزاد ہوا.ویسٹرن صامو آمیں دو بڑے جزائر ہیں.ایک SAVAII اور دوسرا UPOLA اور سات دیگر چھوٹے جزائر ہیں.Congrigational Christian Church سب سے زیادہ باثر ہے.اس کے علاوہ کیتھولک چرچ.LD.S اور.S.D.A وغیرہ بھی ہیں.غیر عیسائی مذہبوں میں بہائی ہیں جن کی تعداد 200 کے قریب ہے.APIA ویسٹرن صامو آکا دارالحکومت ہے.1986-1984ء: مکرم مبارک احمد خان صاحب، اعزازی واقف زندگی، بطور ٹیچر Samoa میں تقریباً تین سال قیام پذیر رہے تھے اور ان کی کوششوں سے جنوری 1986ء میں ایک فیملی بیعت کر کے میں شامل ہوئی.سب سے پہلے احمدی دوست کا نام ۲ M Taavo Vola تھا.جولائی 1986 ء تک تقریبا دس بیعتیں ریکارڈ ہوئی تھیں.
170 1987ء.1988ء کے عرصہ میں مکرم مولانا عبد العزیز وینس صاحب (امیر و مشنری انچارج نبی ) کے دورہ جات کے نتیجہ میں یہاں دو درجن سے زائد یعمیں ریکارڈ ہوئیں.محترم مولانا صاحب کے ذریعہ سے جو پہلے مقامی دوست 1987 ء میں اسلام احمدیت میں داخل ہوئے وہ الیکی شوسٹر احمد Aleki Schuster Ahmed) تھے.ان کے ذریعہ مستقبل میں مزید بیعت میں بھی ہوئیں.Samoa بدقسمتی سے بیعت کرنے کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یہ غیر احمدی مسلمانوں کے ساتھ جاملے.1992 ء.1994ء : اس عرصہ میں ایک احمدی ڈاکٹر مکرم نصیر الدین صاحب UNDP کے تحت Sa میں کام کی غرض سے مقیم رہے.ان کے ذریعہ جو بیعتیں ماضی میں ہوئی تھیں ان کی تلاش اور رابطہ کی کوشش کی گئی.جنوری 1994ء میں Aleki Schuster نے دوبارہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ احمدیت میں شمولیت اختیار کی اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں اطلاع اور دعا کے لئے خط بھی لکھا.تھوڑے ہی عرصہ میں مزید بیعتیں بھی ہوئیں اور محترم ڈاکٹر نصیر الدین صاحب نے Aleki صاحب کے ساتھ مل کر جماعت کو Samoa میں رجسٹر کروایا.ڈاکٹر صاحب کی یہاں موجودگی تک جمعہ اور نماز با جماعت کی ادائیگی کا اہتمام ہوتا رہا لیکن ان کے جانے کے بعد پھر ان لوگوں سے آہستہ آہستہ رابطہ منقطع ہو گیا.روڈرگز آئی لینڈ (RODRIGUES ISLAND) روڈرگز آئی لینڈ ری پبلک آف ماریشس کے جزائر میں سے ایک جزیرہ ہے اور یہ ماریشس کا ہی ایک حصہ ہے.ماریشس سے مشرق کی جانب 560 کلومیٹر دور آباد یہ جزیرہ بحیرہ ہند میں واقع ہے.یہ جزیرہ بھی Mascarene Islands کے سلسلہ کا ایک جزیرہ ہے.اس کا رقبہ 109 / مربع کلومیٹر (42 /مربع میل) اور آبادی قریبا 38,000 نفوس پر مشتمل ہے.اس کا دار الحکومت Port Mathurin جبکہ سرکاری زبان انگریزی ہے.
171 جماعت احمد یہ ماریشس کی تبلیغی مساعی سے جولائی 1985ء میں یہاں 15 بیعتیں ہوئیں اور اس طرح سے اس جزیرہ میں احمدیت کا نفوذ اور جماعت کا قیام عمل میں آیا.حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے اپنے دورہ ماریشس کے دوران اس جزیرہ کا بھی دورہ کیا تھا اور یہاں کے گورنر نے حضور انور سے ملاقات کی تھی.دورہ کے دوران احباب جماعت اور فیملیز نے بھی حضور انور سے شرف ملاقات پایا.ری پبلک آف آئر لینڈ (REPUBLIC OF IRELAND) یہاں 1986ء میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.14 اگست 1988ء کو کرم رشید احمد صاحب ارشد پہلے مرکزی مبلغ کی حیثیت سے آئر لینڈ تشریف لے گئے.اور جنوری 1989ء میں آئرلینڈ کے شہر گالوے میں اس ملک کا پہلا مشن ہاؤس ایک خوبصورت عمارت کی شکل میں خریدا گیا.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ جماعت احمدیہ کے قیام کے صد سالہ جشن تشکر کی تقریبات کے سلسلہ میں آئرلینڈ تشریف لے گئے اور 31 مارچ 1989ء بروز جمعتہ المبارک اس مشن ہاؤس کا با قاعدہ افتتاح فرمایا.اس طرح جماعت احمدیہ کی دوسری صدی میں افتتاح ہونے والا یہ پہلامشن ہاؤس تھا.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہکے دورۃ آئر لینڈ کی مقامی پریس میں بہت پذیرائی ہوئی.اپریل 2003 یعنی دور خلافت رابعہ کے اختتام تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ملک کے 2 صوبوں میں یعنی Leinster اور Connacht میں دو جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.اور اندازاً 80 را حمدی یہاں موجود تھے.نیز جماعت کے صد سالہ جشن تشکر کے موقعہ پر آئرلینڈ کی جماعت نے
172 اپنی ملکی زبان Gaeilge میں 3 رکتب کا ترجمہ کیا جن میں منتخب آیات قرآنیہ منتخب احادیث نبوی اور منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام تیار ہو کرطبع ہو چکی تھیں.جماعت احمدیہ آئرلینڈ کو 2002ء میں اپنا پہلا جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق ملی.شاملین کی تعداد 120 سے زائد تھی.برازیل (BRAZIL) برازیل جو جنوبی امریکہ کا بہت بڑا اور وسیع ملک ہے.اس کا رقبہ 8,511,965 مربع کلو میٹر ہے.یہاں کل 28 رصوبے ہیں.حکومت ری پبلک ہے.دارالحکومت برازیلیا اور سرکاری زبان پرتگیزی ہے.برازیل دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے.برازیل کا جنوب مشرقی حصہ سطح مرتفع ہے.اکثر حصہ میدانی ہے.جولائی 1985ء میں مرکز سے براہ راست مبلغ سلسلہ مکرم اقبال احمد صاحب نجم کو برازیل بھجوانے کے ساتھ تبلیغ کا باقاعدہ آغاز ہوا.اس سے قبل مکرم سید محمود احمد صاحب مع فیملی برازیل میں مقیم تھے.مبلغ سلسلہ کی آمد کے بعد برازیل میں جماعت کی باقاعدہ رجسٹریشن ہوئی اور پرتگیزی زبان میں ابتدائی لٹریچر تیار کیا گیا.1986ء میں برازیل میں ایک پڑھی لکھی خاتون مکرمہ امینہ ایدل وائزر صاحبہ نے اپنے ایک کشف کی بنا پر بیعت کر کے میں شمولیت کی سعادت پائی.ان کی بیعت کا ذکر کرتے ہوئے ماغ سلسلہ مکرم اقبال احمدمجم صاحب لکھتے ہیں کہ :...آپ کے خاوند نیوی میں کرنل رہے تھے اور آپ ان کے ہمراہ امریکہ اور میکسیکو رہی تھیں اور انگریزی اور سپینش جانتی تھیں اور کبھی برازیل میں خواتین کے ایک رسالہ کی ایڈیٹر بھی رہی تھیں اور
173 ریو ( Rio) میں Copa cabans کے ساحل کے علاقہ میں جو...علاقہ Flemengo کے قریب تھا...قیام فرما تھیں اور عمر کوئی 60، 70 سال ہو گی...جب کھانے کی میز پر اکٹھے ہوئے تو انہوں نے مجھے ایسے دیکھا جیسے کہ پہچاننے کی کوشش کر رہی ہوں.مگر انہوں نے مجھے کہاں دیکھا؟ خیر تبلیغی باتیں ہوتی رہیں اور میں نے انہیں اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی ) اور مسیح ہندوستان میں (انگریزی) دی جو وہ لے گئیں اور دو دن میں ہی انہیں پڑھ ڈالا.رات دن ایک کر کے پڑھا اور مجھے کہنے لگیں کہ میں بیعت کرتی ہوں.میں نے عرض کیا اتنی جلدی کیا ہے؟ دعا کر کے تسلی کر لیں اور کچھ اور لٹریچر پڑھ لیں.کہنے لگیں کہ نہیں آپ مزید دیر نہ کریں میں نے جو سمجھنا تھا سمجھ لیا ہے.میں نے کہا کیا آپ نے کوئی رویا وغیرہ دیکھی ہے جو اتنے وثوق سے کہ رہی ہیں.کہنے لگیں ہاں! اور بتایا کہ یہ Floria Nopalis کی بات ہے.نومبر 1975ء میں میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا تھا.اس وقت ایک کشف میں میں نے ایک فرشتہ دیکھا تھا جو تمہاری طرح کا تھا اور آج ان کتابوں کے مطالعہ سے مجھے وہ سکون و اطمینان اور روحانی وجدان کی کیفیت حاصل ہو گئی ہے جو اس وقت محسوس کی تھی.آپ اپنی ایک نوٹ بک لے کر آئیں جس میں آپ نے اپنے ہاتھ سے اپنا کشف لکھا ہوا تھا.وہ میں بیان کئے دیتا ہوں.آپ نے بتایا کہ اس زمانہ میں پادریوں کی حکومت تھی.کسی عورت کو چرچ میں بولنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور مجھے سوالات سوجھتے رہتے تھے.میں نے ایک دن کچھ سوال کئے تو پادری نے مجھے چرچ سے نکال دیا.چنانچہ میں نے بہت بے عزتی محسوس کی اور گھر آکر بہت روئی اور اللہ تعالی یعنی آسمانی باپ سے دعا کی اور فریادرسی چاہی تو میں نے یہ کشف دیکھا جو میں نے سبز روشنائی سے لکھ کر رکھا ہوا ہے.کشف ایدل وائز المیداد یا زسٹر امینه اس نے سبز لباس زیب تن کیا ہوا تھا.جیسے زیتون کا رنگ ہوتا ہے اس کے لباس میں بڑے بڑے بٹن تھے.اس کے سیاہ رنگ کے جوتے تھے.اس نے اپنی کمر ایک سنہری بیٹی سے گسی ہوئی تھی جس میں ایک سنہری نوک والی تلوار لٹک رہی تھی.اس کے سر پر ایک کپڑا دھرا تھا جس میں
174 سنہری کام ہوا تھا اور نیچے ایک کھلی سی شلوار زیب تن کی ہوئی تھی.وہ میرے کمرے میں ایک کھلے دروازے سے داخل ہوا.اس کی آواز بلند اور مضبوط تھی.اس کا رنگ سانولا تھا اور آنکھیں موٹی موٹی اور ناک بھی ایسی ہی تھی.اس نے اپنی تلوار بیٹی میں سے نکال کر فضا میں لہرائی اور میں خوف محسوس کرنے لگی.پھر میں نے سنا وہ کہہ رہا تھا میں تمہارا محافظ ہوں اور تمہارا دفاع کرنے آیا ہوں یہ سن کر میں بہت پر سکون اور مطمئن ہو گئی.یہ چند گھڑیاں جو سکون و اطمینان کی گزریں میری تمام زندگی کو پُر مسرت اور خوش آئند بناتی ہوئی مجھ پر محیط ہوگئیں.وہ میرا محافظ کہاں کا ہے؟ یہ میں اس سے دریافت کرتی مگر اس خیال سے کہ ایسا پوچھنا کہیں اسے ناگوار نہ گزرے چپ ہی رہی.وہ تو زندگی بخش تھا بلکہ لافانی ! وہ انسان تھا یا ایک انسان کے لباس میں فرشتہ تھا وہ چند گھڑیاں جو میں نے اس کے ہمراہ گزاریں تو میں نے ان میں محسوس کیا کہ وہ تو ایک محبت مجسم تھا.کیا اعتماد تھا کیا بھروسہ تھا ! وہ جو بھی تھا خواہش میری یہی تھی کہ یہ حالت سکون و اطمینان جو مجھے حاصل ہوئی ہے ہمیشہ کے لیے جاودانی ہو جائے Mistic لوگ مجھے رات دن پریشان کرتے اور مجھے مقدس تحریرات کے مطالعہ سے روکتے ہیں اور اس طرح سے اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالتے ہیں.مگر اب تو مجھے ان کے خلاف ایک محافظ مل گیا ہے.میں بہت خوش ہوئی اور ایک پُر مسرت شیخ میرے وجود کے اندر سے یعنی میری روح میں سے بلند ہوئی اور مجھے یوں لگا جیسے ساری کائنات اس کو سن رہی ہے اور میرا ایک کمز ور عورت کا محافظ ایک بہت عظیم شخص مقرر ہوا ہے.مجھے یوں لگا جیسے کہ میرا خدا مجھ میں سما گیا ہے اور مجھے مردوں میں سے نکال کر زندوں میں شامل کر دیا گیا ہے.جو صرف میں نے ہی محسوس کیا اور جیسے اپنے شعور میں صرف میں نے ہی سمجھا.Floria Nopolis, November1975" مکرم اقبال احمد نجم صاحب لکھتے ہیں کہ سٹرامینہ نے اس کشف کے ساتھ یہ تحریر لکھ کردی : یں ایدل وائز المیداد یاز امینہ.خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر اقرار کرتی ہوں کہ یہ میرا ایک سچا کشف
175 ہے جو احمدیت و اسلام کے قبول کرنے سے پورا ہوا ہے.( ایدل وائز 3 رمئی 1987 ء) (ماخوذ از نقوش زندگی.مصنفہ اقبال احمد حجم صفحات 123 / تا125) اللہ تعالی نے سٹرامینہ کی شکل میں جماعت احمد یہ برازیل کو ایک فرشتہ صفت واقعۂ زندگی سے نوازا جو دن رات انتھک کوشش کر کے جماعت کے تعارف اور عقائد پر مبنی پمفلٹس و کتب وغیرہ کا ترجمہ کرتی رہیں جو لندن سے چھپ کر تیار ہوتے گئے.اور کچھ ہی عرصہ میں 15 سے زائد کتب اور پمفلٹ جن میں اسلامی اصول کی فلاسفی اور مسیح ہندوستان میں، وغیرہ جیسی نعیم اور معرکتہ الآراء کتب بھی شامل تھیں پرتگیزی زبان میں ترجمہ ہو کر طبع ہوئیں.کچھ ہی عرصہ بعد حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے قرآن کریم کا پرتگیزی زبان میں ترجمہ کرنے کا ارشاد فرمایا تو سٹر امینہ پھر کمر بستہ ہوگئیں اوراللہ تعالیٰ نے اپنی خاص نصرت اور خلیفۂ وقت کی دعا اور توجہ کی بدولت آپ کے نصیب میں پرتگیزی زبان میں اپنے عظیم الشان کلام کے ترجمہ کی لازوال خدمت رکھ دی.انہیں کو اللہ تعالی نے بظاہر انتہائی ناسازگار حالت میں پرتگال میں جماعت احمدیہ کی رجسٹرین کی توفیق بھی بخشی.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے صد سالہ جشن تشکر کے جلسہ کے موقع پر اپنے خطاب میں ان کا پہلی احمدی خاتون مبلغ کے طور پر ذکر فرمایا.تھائی لینڈ (THAILAND) تھائی لینڈ کے مغرب میں برما، شمال مشرق میں لاؤس ، مشرق میں کمبوڈیا اور جنوب میں ملائشیا کے ممالک ہیں.دولاکھ مربع میل کے رقبہ اور پچاس ملین کی آبادی پر مشتمل اس ملک کا سرکاری مذہب بدھ ازم ہے.تھائی لینڈ میں پہنچنے والے پہلے احمدی جن کا نام Mr.A.P.Bava تھا دراصل کیرالہ انڈیا کے رہائشی تھے.انہوں نے میانمار ( جو پہلے برما کے نام سے جانا جاتا تھا) کے شہر رنگون میں ایک احمدی مبلغ کے
176 ذریعہ بیعت کی تھی.موصوف 1950ء کی دہائی میں تلاش معاش کے سلسلے میں تھائی لینڈ پہنچے جہاں ایک مقامی خاتون سے شادی کر کے باقاعدہ رہائش اختیار کر لی.آپ کیرالہ اور میانمار کے ایک دوست کے ذریعے نظام جماعت سے رابطے میں رہے.آپ نے 71 سال کی عمر میں تھائی لینڈ میں ہی وفات پائی.تھائی لینڈ میں اپنے قیام کے دوران آپ نے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا اور کئی خاندان آپ کے ذریعہ آغوش احمدیت میں آگئے.ان میں قابل ذکر Mr.Yusuf ہیں جو مکرم Bava صاحب کے برادر نسبتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اخلاص و وفا میں ترقی عطا فرمائی اور انہوں نے نہ صرف لٹریچر کی اشاعت وغیرہ کے لیے خطیر رقم تحفہ دی بلکہ اپنے بیٹے Mr.Jumma Khan کی زندگی وقف کر دی اور انہیں انڈونیشیامیں تحصیل علم کے لیے بھجوا دیا.وہاں سے تکمیل تعلیم کے بعد واپس آکر بطور مبلغ سلسلہ خدمات بجالا رہے ہیں.سو ممالک میں تبلیغی منصوبہ کے تحت یہ ملک انڈونیشیا کے سپرد تھا.اپریل 1985ء میں عبد الباسط صاحب انڈو نیشین مرکزی مبلغ تھائی لینڈ تشریف لے گئے اور وہاں با قاعدہ جماعت کا قیام عمل میں آیا.مکرم رفیق چانن صاحب کو تھائی لینڈ جماعت کے پہلے نیشنل صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے.2002ء میں تھائی لینڈ کے صوبہ Pathumthani میں ایک مکان کو مشن ہاؤس کے طور پر خرید کیا گیا.تھائی لینڈ جماعت کا پہلا جلسہ جنوبی تھائی لینڈ کے شہر Ban Bangnai کی مسجد میں 1996ء میں منعقد ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو قرآن مجید کا تھائی زبان میں ترجمہ کروا کر اسے چھپوانے کی سعادت مل چکی ہے.اس کے ساتھ ساتھ منتخب آیات ، منتخب احادیث، منتخب تحریرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ مختلف موضوعات پر لٹریچر تیار کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے.اپریل 2003 ء تک 2 / مرکزی مبلغین اور ایک معلم تبلیغ اسلام اور اس ملک میں موجود احمدی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے.اس کے ساتھ ساتھ اس ملک میں
177 مشن ہاؤسز کی تعداد 2 تھی.زنجبار (ZANZIBAR) تنزانیہ کی سلطنت کے زیرنگیں زنجبار آئی لینڈ مشرقی افریقہ میں واقع ہے.اور یہ ملک تنزانیہ کاری حصہ ہے.چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ریاست زنجبار کے دو بڑے جزائر Unguia ( جو عرف عام میں زنجبار کہلاتا ہے ) اور Pemba ہیں.زنجبار میں تنزانیہ مشن کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں 1985ء میں چند بیعتیں ہوئیں اور اس طرح وہاں احمدیت کا نفوذ ہوا.زنجبار کے دوسرے بڑے جزیرہ Pemba میں 1986ء میں احمدیت کا نفوذ ہوا اور ایک دوست مکرم علی صاحب بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.ان کی تبلیغی مساعی سے 1987ء میں ایک پورا خاندان احمدیت میں داخل ہوا.نو احمدیوں کی شدید مخالفت بھی ہوئی لیکن خدا کے فضل سے افراد جماعت نے استقامت دکھائی.بھوٹان (BHUTAN) ہندوستان کے صوبہ بنگال وسلم کے ساتھ بھوٹان کا ملک ایک پہاڑی سلسلہ کے طور پر نظر آتا ہے.اس کا دار الحکومت تھمپو (Thimpho) ہے.اس ملک میں %76 بدھسٹ ، %22 ہندو اور %2 عیسائی و مسلمان بسے ہوئے ہیں.یہاں کی قومی زبان جو نکھا ہے.1986ء میں قادیان سے پہلی بار مکرم سلطان احمد ظفر صاحب و مکرم عبدالمومن صاحب راشد نے
178 یہاں آکر تبلیغی سروے کیا اور بھوٹان کے اندر جا کر نشیلنگ شہر کا دورہ کیا.پہلے یہاں کرایہ کے ایک مکان سے تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز ہوا اس کے بعد ایک قطعہ زمین خرید کر یہاں ایک مسجد و مشن ہاؤس تعمیر کئے گئے.نیپال (NEPAL) نیپال ملک ہندوستان کے شمال مشرق میں واقع ہے.چین اس کے جنوب میں ہے.اس کا کل رقبہ 56,872 مربع میل اور آبادی 2,75,00,000 ہے.اس کا دار الحکومت کھٹمنڈو ہے.1985ء کے شروع میں نیپال میں تبلیغی مساعی کا آغاز کیا گیا.قادیان سے وقف عارضی کے تحت مختلف وفود بھجوائے جاتے رہے.اللہ تعالی کے فضل سے 1986ء میں پر سونی بھاٹہ نیپال میں سب سے پہلے احمدیت کا پودا لگا.وہاں کے مکرم ڈاکٹر خلیل احمد صاحب و ان کے خاندان والے ابتدائی احمدیوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے غیر معمولی قربانیاں پیش کیں.1994ء میں جماعت احمدیہ کے مشنز کو احمد یہ سنگھ نیپال کے طور پر سرکار کے پاس رجسٹرڈ کرایا گیا جس سے جماعتی مساعی کو مزید فروغ و استحکام حاصل ہوا.جماعت احمد یہ نیپال کے نئے سینٹر کھلے اور افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا.نیپال میں کئی جماعتی سینٹروں میں ہو میو پیتھی علاج اپنوں اور غیروں کو مفت مہیا کیا.پر سونی کے علاوہ جماعت احمدیہ کا قیام مزید نواحی گاؤں جھواں، امپیٹی ، پھلور یا اور کھلو چڑی میں بھی ہو گیا.اس کے بعد خیال کے بڑے شہر پر گیج میں جماعت کا سینٹر قائم ہوگیا.ابتدا میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی مجالس سوال و جواب ، مجالس عرفان اور خطبات جمعہ کی آڈیو وڈیو کیسٹس کے ذریعہ دعوت الی اللہ کی جاتی تھی.پھر ایم ٹی اے کے ذریعہ کو بھی استعمال کیا گیا.معاندین کی طرف سے بعض جگہوں پر شدید مخالفتیں بھی ہوئیں.
179 خلافت رابعہ کے مبارک دور میں قرآن مجید کا نیپالی ترجمہ ہوا جسے ڈاکٹر پریم کمار کھتری صاحب پروفیسر تربھون یونیورسٹی نے کیا.محترم مولانا عطاء الرحمن صاحب خالد نیپالی مبلغ سلسلہ نے اس کی نظر ثانی ایک کمیٹی کے ساتھ مل کر کی..اسی طرح اسلامی اصول کی فلاسفی ، پیغام صلح و ہماری تعلیم کا نیپالی ترجمہ بھی کیا گیا.نیز منتخب آیات، منتخب احادیث و منتخب تحریرات سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نیپالی تراجم بھی ہوئے.یہ مختلف لائبریریز اور دیگر اہم جگہوں پر رکھوائے گئے.محترم وکیل اعلیٰ صاحب تحریک جدید قادیان نے اس وقت کے وزیر اعظم شری منموہن ادھیکاری جی سے نیشنل صدر جماعت احمد یہ نیپال مکرم ڈاکٹر خلیل احمد صاحب کے ہمراہ ملاقات کی اور انہیں قرآن مجید دیگر کتب سلسله ( نیپالی ترجمہ) تحفہ پیش کیں.انہوں نے کہا کہ جماعت احمد یہ نیپال کے گاؤں میں عام آدمی کی فلاح و بہبود کے جو کام کر رہی ہے (سکے لگا کر دے رہی ہے، ہومیومیڈیسن فراہم کرتی ہے اور دیگر امدادی اسکیمیں جاری کئے ہوئے ہے) اسے مزید علاقوں تک پھیلائیں.راجہ کی حکومت کے خاتمہ کے بعد نیپال میں کھلے عام تبلیغ کی اجازت ہو گئی.چنانچہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضور رحمہ اللہ کی منظوری سے جلسہ پیشوایان مذاہب منعقد کئے جانے لگے.ایسے جلسوں سے اسلام احمدیت کی حسین پر امن تعلیم کی تشہیر لاکھوں افراد تک ہو گئی.اخبارات اور TVنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصاویر اور حضور رحمہ اللہ کی تصاویر کے ساتھ خبریں دینی شروع کر دیں اس سے وسیع پیمانے پر ملک نیپال میں جماعت احمدیہ کا تعارف ہو گیا.کھٹمنڈو اور اظہری میں عمارات بطور مراکز تبلیغ خرید کی گئیں.اسی طرح بعض جگہوں میں قبرستان کی زمین بھی خرید کی گئیں.یوگوسلاویہ (YUGOSLAVIA) یوگو سلاویہ کے معنے ہیں South Slavia.یہ کئی قومیتوں کے لوگوں پر مشتمل ہے.رقبہ 255,804 مربع کلومیٹر اور آبادی 22 ملین کے قریب ہے.65 فیصد آبادی کی مادری زبان
180 سر یوکریٹ ہے.ان کی اکثریت عیسائی ہے.دس فیصد کی مادری زبان Macedonian ہے.8 فیصد کی مادری زبان Slovenian ہے.دس فیصد کی مادری زبان البانین ہے.ان کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے.اکتوبر 1983ء میں مکرم مشتاق احمد صاحب باجوہ کی تبلیغ سے ایک دوست Mr.Daut Dauti احمدی ہوئے جنہوں نے بعد میں انگلستان آکر ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی اور بعض سر بو کر بیٹ زبان میں کئے گئے تراجم کے مسودات کو ٹائپ کیا.اور واپس جا کر تبلیغ کا کام جاری رکھا.1986ء کے دوران وہاں 30 افراد پر مشتمل جماعت بن چکی تھی.محترم ڈاکٹر عیسی رستمی (Dr.Isah Rrustemi ) صاحب کو سودو کے ابتدائی احمدیوں میں سے ہیں اور 2010 تا 2012 ، جماعت احمدیہ کو سودو کے صدر بھی رہے ہیں.محترم ڈاکٹر عیسی رستمی صاحب بیان کرتے ہیں کہ کوسوو دو میں اکثریت البانین قوم آباد ہے، لہذا وہاں پر زبان بھی البانین بولی جاتی ہے.یہ ان دنوں کی بات ہے جب کوسووو (Kosovo) یوگوسلاویہ میں ہوتا تھا اور یوگوسلاویہ ایک کمیونسٹ سٹیٹ کہلاتا تھا.اور Bashkasia Islame اسلامی یونین وہ واحد ادارہ تھا جو مسلمانوں کی نمائندگی کیا کرتا تھا.یوگوسلاویہ کے چند مسلمانوں کا جماعت احمدیہ مسلمہ سے سب سے پہلا رابطہ 1974ء میں Zurich سوئٹزرلینڈ میں ہوا جب وہاں جماعت احمدیہ کی مسجد کا افتتاح ہورہا تھا.بہت سارے البانین مزدور جو سوئٹزرلینڈ میں کام کیا کرتے تھے مسجد کا افتتاح دیکھنے کے لئے گئے.جماعت احمدیہ کے ساتھ یوگوسلاویہ کے البانین مسلمانوں کے رابطہ کی یہ ایک حسین ابتدا تھی.میرے گاؤں Kokaj ( کو کانے ) کے ایک شہری مسمی Demush Ismaili صاحب نے ایک قافلہ کے ساتھ ربوہ پاکستان کی زیارت کی اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا.وہاں سے واپس آنے کے بعد مکرم موصوف نے میرے والد محترم Murat Rrustemi صاحب کو جماعت احمدیہ کے بارے میں Zurich کی مسجد اور پاکستان کے سفر کے حوالہ سے اپنے گہرے تاثرات بتائے تھے.مکرم Demush Ismaili صاحب وہ پہلے شخص تھے
181 جنہوں نے کوسووو میں غالباً 1982ء میں جماعت سوئٹر لینڈ کے مبلغ محترم مشتاق باجوہ صاحب کا خیر مقدم کیا.محترم باجوہ صاحب کا یہ دورہ اس لئے بھی شہرت پا گیا کیونکہ ان کو یوگوسلاویہ پولیس نے پکڑ لیا تھا اور بوسنیا کے Sarajevo شہر میں ایک نامعلوم اسلامی جماعت سے تعلق رکھنے کے سبب تین دن تک قید کر لیا تھا.ڈاکٹر عیسی رستمی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے 1984ء میں سوئٹزرلینڈ کی مسجد کی زیارت کی اور ایک ہفتہ وہاں مہمان کے طور پر قیام کی بھی توفیق پائی.اس کے بعد غالباً 1985 ء میں خاکسار کے گاؤں کو کائے میں مخلص ڈینش احمدی Haji Noh Svend Hansen صاحب دس دن کے وقف عارضی پر تشریف لائے.موصوف ہمارے ہی گھر پر ٹھہرے تھے.ہم نے ان کے ساتھ وہاں جمعہ کی نماز بھی پڑھی.جلسہ سالانہ یو کے 1985ء میں خاکسار ایک مختصر وفد کے ساتھ شامل ہوا اور چند دن حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی بابرکت صحبت میں رہنے کا موقع ملا.جس سال حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستانی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کو مباہلہ کا چیلنج دیا تھا، یعنی 1988ء میں اس سال بھی میں جلسہ پر گیا تھا، بلکہ جلسہ کے بعد حضور نے جس خطبہ جمعہ میں اس کی بلاکت کی برملا پیشگوئی کی تھی تو اس وقت میں بھی مسجد میں موجود تھا.لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میری ایمانی حالت ایسی نہیں تھی کہ حضور اقدس کے مقام کا صحیح اندازہ لگا سکتا.چنانچہ میں سوچنے لگا کہ کیا اس قسم کی پیشگوئی کوئی جلد بازی تو نہیں.لیکن اس کے معا بعد جب میں لندن سے واپس یوگوسلاویہ آ گیا تو چند ہی دنوں بعد میں ایک بس میں سفر کر رہا تھا.اس وقت میں ملٹری میں شامل تھا.بس کا ریڈیو بج رہا تھا کہ اچانک اس میں خبریں آئیں اور میں نے بس میں بیٹھے یہ حیران کن خبر سنی کہ جنرل ضیاء الحق اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ہوائی جہاز کے گرنے سے جل کر راکھ ہو گیا.میرے لئے یہ ایک نہایت ہی ایمان افروز واقعہ تھا.سن 1986ء یا 1987ء میں مشہور اسلامی رسالہ نے جو کہ Sarajevo سے شائع ہوا کرتا تھا جس کا نام غالباً تقویم تھا، جماعت احمدیہ کے خلاف ایک کافی لمبا مضمون چھاپا.اس مضمون کے چھپنے
182 سے ہماری پریشانیاں کافی بڑھ گئی تھیں کیوںکہ یہ رسالہ اس زمانہ میں کوسوو میں کافی پڑھا جا تا تھا.اس کی ایک کاپی میں نے حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو ملاقات کے دوران دی تھی.بلکہ اس کا جواب بھی تیار کر کے رسالہ مذکورہ کو ارسال کیا تھا جس کو انہوں نے کبھی نہیں چھاپا.سن 1987ء میں میں نے ایک بڑی وزنی type writing machine خریدی ، تا کہ اس کو لندن محترم زکریا خان صاحب کو ارسال کروں جو کہ جماعتی کتب کا البا نین زبان میں ترجمہ کیا کرتے تھے.اس زمانہ میں ہمیں باقاعدہ بیعت کرنے اور اس کی اہمیت کا کوئی علم نہیں تھا.میں اپنے آپ کو اپنے سوئٹزر لینڈ کے سب سے پہلے وزٹ پر ہی احمدی سمجھتا تھا.بعد میں میری شادی ہوگئی اور 1989ء میں میری اہلیہ Sevide Rrustemi صاحبہ نے جلسہ سالانہ لندن پر بیعت کرنے کا اظہار کیا تو مجھے بھی کہا گیا کہ میرا بیعت فارم بھی کہیں ریکارڈ میں نہیں ہے.لہذا میں نے بیعت فارم اسی سال اپنی اہلیہ کے ساتھ پر کیا.جبکہ دل سے اور عمل سے بھی میں اس سے کئی سال قبل احمدی ہو چکا تھا.میرے بھائی موسی رستمی صاحب میرے ذریعہ احمدی ہوئے.جنہوں نے بعد میں اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی اور انہیں ایک لمبا عرصہ جماعت احمدیہ کو سود کا صدر رہنے کی توفیق بھی ملی اور انہوں نے بطور معلم Kosovo میں خدمت کی توفیق پائی.میں اکثر جماعت کا لٹریچر گھر پر لاتا تو موسیٰ صاحب ان کو پڑھا کرتے.موسیٰ صاحب کی ایک حادثہ کے نتیجہ میں وفات ہوئی.ری پبلک آف دی کونگو یا کونگو براز اویل (REPUBLIC OF THE CONGO) وسطی افریقہ کے ملک دی ری پبلک آف دی کونگو کو کونگو برازاویلا بھی کہا جاتا ہے.برازاویل اس کا دار الحکومت ہے.اس کے ہمسایہ ممالک میں گیون، کیمرون ، ری پبلک آف سینٹرل افریقہ اور ڈیموکریٹک ری پبلک آف دی کونگو شامل ہیں.اس کی سرکاری زبان فرانسیسی ہے.342,000 مربع کلومیٹر (132,047 /مربع میل) کے علاقہ پر محیط اس ملک کی آبادی قریبا 4.3 ملین نفوس پر مشتمل ہے.
183 زائر ( کانگو کنشاسا) سے مارچ 1987ء میں جماعت کا ایک وفد کا نگو برازاویل بھجوایا گیا جس نے وہاں جا کر کام کا جائزہ لیا اور تبلیغ کی اور مختصر عرصہ میں خدا کے فضل سے تین دوستوں نے احمدیت قبول کرلی.اپریل میں پھر ایک دوسرا وفد کانگو بھجوایا گیا.اللہ تعالیٰ نے پھر فضل فرمایا اور مزید تین بیعھیں ہوئیں.اس طرح 1987ء میں اس ملک میں 6 بیعتوں کے ذریعہ جماعت کا قیام عمل میں آیا.ابتدائی احمدیوں میں دو احمدی نوجوانوں مکرم فرید کچھیما اور مسٹر عبدالرحمن کا نام قابل ذکر ہے.بعد ازاں جماعت احمد یہ زائر کے لوکل معلم مکرم Issa Malouyida کی خاص کوششوں سے وہاں جماعت کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا.آپ کو کئی بار ری پبلک آف کونگو کے دارلحکومت Brazaville جا کر احمدیت کی تبلیغ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.جون 1988 ء سے وہاں مکان کرایہ پر لے کر باقاعدہ مشن کا آغاز کر دیا گیا.ابتدا میں یہاں احمدیوں کی تعداد 30 کے لگ بھگ تھی.ان احمدیوں میں بعض زائر اور کچھ انگولا کے باشندے بھی شامل تھے.بعد ازاں ملکی حالات کی خرابی کی وجہ سے اس ملک میں مشن کو عارضی طور پر بند کرنا پڑا.2001ء میں کونگو کنشاسا سے ایک وفد کئی مرتبہ کونگو بر از اویل تبلیغ کی غرض سے گیا.پاپوانیوگنی (PAPUA NEW GUINEA) پاپوانیوگنی ایک بہت بڑے جزیرے [ نیو گنی ] کے تقریباً نصف حصے اور اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے سینکڑوں جزائر پر مشتمل ہے.یہ ملک 1975ء میں آزاد ہوا.یہ بھی بحر الکاہل کا ایک اہم جزیرہ ہے.اس کے مغرب میں انڈونیشیا، جنوب میں آسٹریلیا اور مشرق میں میلانیسیا کا علاقہ ہے.جو جزائر کی صورت میں چھوٹے چھوٹے ممالک پر پھیلا پڑا ہے.طوالو اور کیری باس بھی انہی جزائر میں سے ہیں جن میں خدا کے فضل سے 1986ء میں ہماری جماعتیں قائم ہوئیں.اس ملک کا رقبہ 1,78,260 مربع میل ہے.دار الحکومت PORT MORESBY اور
184 آبادی تینتیس لاکھ چھیانوے ہزار ہے.زبانیں انگریزی، پہچن ، موتو اور مورے ہیں.اکثر لوگوں کا مذہب عیسائیت ہے.اس کے علاوہ مختلف قبائل بھی ہیں اور کچھ مسلمان بھی ملتے ہیں.اس ملک میں احمدیت کے قیام کا آغاز ایک داعی الی اللہ محمد اکرم احمدی صاحب کی کوششوں سے ہوا.آپ 1987ء کے آغاز میں اپنی ملازمت کے سلسلہ میں لندن سے پاپوا نیوگنی تشریف لے گئے.اللہ تعالیٰ نے ان کی تبلیغی کوششوں کو پھل لگایا اور دو نو جوان بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یو کے 1987ء کے موقع پر اپنے خطاب میں اس ملک میں احمدیت کے نفوذ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: گزشتہ سال یہاں انگلستان میں ایک مخلص تبلیغ کا شوق رکھنے والے نوجوان محمد اکرم احمدی صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان کو ایک ملازمت کی پیشکش پاپوانیوگنی سے آئی ہے اور وہ وہاں جانے کا رحجان نہیں رکھتے کیونکہ بہت دُور ہے.اور ایک لمبے عرصہ تک خاندان کی جدائی برداشت کرنی ہوگی.تو مجھے چونکہ دلچسپی تھی وہاں جماعت قائم کرنے میں اور میں جانتا تھا کہ ان کو بھی تبلیغ کا بے حد شوق ہے.تو جب میں نے یہ ذکر کیا تو انہوں نے بڑی خوشی سے وہاں جانے پر رضامندی ظاہر کر دی اور اب اللہ تعالی کے فضل سے انہی کی تبلیغ سے وہاں مقامی عیسائی احمدی ہو چکے ہیں.“ 1990ء میں پاپوانیوگنی میں جماعت کی باقاعدہ رجسٹریشن بھی ہوگئی اور تبلیغی وتربیتی مساعی میں مزید سہولت پیدا ہوگئی.فن لینڈ (FINLAND) اس ملک کا دو تہائی حصہ جنگوں اور جھیلوں پر مشتمل ہے.اس کے مشرق میں روس، مغرب میں
185 سویڈن، شمال میں ناروے اور جنوب میں Baltic Sea ہے.اس ملک کا رقبہ 1,30,557 / مربع میل ہے.آبادی انچاس لاکھ دس ہزار، زبان فنش اور کچھ لوگ سویڈش بھی بولتے ہیں.مذہب 92 فیصدی عیسائیت ہے اور تھیرین چرچ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یو کے 1987ء کے موقع پر اپنے خطاب میں اس ملک میں احمدیت کے نفوذ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا جولائی 1987ء میں ناروے کے مبلغ انچارج مکرم کمال یوسف صاحب اپنے ساتھ احدی مخلص داعین الی اللہ کی ایک ٹیم لے کر گئے.دو دورے انہوں نے وہاں کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے دورے میں آٹھ اور دوسرے دورے میں سات دوستوں نے بیعت کر کے شمولیت اختیار کی.ان میں دو عرب، دوسینی گال سے تعلق رکھنے والے اور چارفن لینڈ کے مقامی باشندے فنش تھے جو پہلے دورے میں احمدی ہوئے.دوسرے دورہ میں سات بیعتیں ہوئیں جن میں سے تین دوست فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے تھے.گو یا خدا کے فضل سے سات فنش مقامی دوست اسلام میں داخل ہوئے.“ اپریل 2003 یعنی دور خلافتِ رابعہ کے اختتام تک اللہ تعالی کے فضل سے اس ملک میں دو صوبوں میں احمدی آباد تھے (ابھی تعداد کی کمی کی وجہ سے جماعتوں کا قیام نہیں ہوا تھا اور ایک مرکزی جماعت تھی ) اور اندازاً دس احمدی یہاں موجود تھے نیز قرآن کریم کی آیات کا مقامی فنش زبان میں ترجمہ ہو کر شائع اور تقسیم کیا جا چکا تھا.آئس لینڈ (ICELAND) آئس لینڈ (Iceland) نارتھ اٹلانٹک میں واقع ہے.اس کے مشرق میں ناروے، مغرب میں گرین لینڈ اور جنوب مشرق میں برطانیہ ہیں.اس کا رقبہ 39,768 مربع میل ہے.آبادی دو لاکھ سینتالیس ہزار ہے.زبان آئس لینڈک ہے اور مذہب عیسائیت.
186 حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ کیو کے 1987ء کے موقع پر اپنے خطاب میں اس ملک میں احمدیت کے نفوذ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ڈنمارک مشن کی طرف سے 86-1985ء کے دوران آئس لینڈ کی 15 لائبریریوں کو تبلیغی لٹریچر بھجوانے کا ذکر ملتا ہے.87-1986ء کے دوران آئس لینڈ کے ایک نوجوان Loftur Reimar صاحب جو ایڈنبرا یونیورسٹی میں P.hd کر رہے تھے انہوں نے از خود مرکز لندن سے رابطہ قائم کیا اور کہا میرے بعض دوست احمدی ہیں اور میرے دل میں اس مذہب کی بہت محبت پیدا ہو چکی ہے اس لئے میری بیعت قبول کی جائے.چنانچہ وہاں کے مبلغ کو لکھا گیا اور انہوں نے بڑی خوشی کے ساتھ بیعت کی.جرمنی کی جماعت کے سپرد یہ ملک کیا گیا جس کے نتیجہ میں وہاں بیعتیں بھی ہوئیں.آئس لینڈ سے وفد بھی جلسہ پر آتے رہے.“ پر لگال (PORTUGAL) اقتباس از خطاب 1987 نائل نمبر 18 صفحہ 21) پرتگال مغربی یورپ کا ملک ہے.اس کے شمال اور مشرق میں سپین جنوب اور مغرب میں نارتھ اٹلانٹک Ocean ہیں.رقبہ 553, 35 / مربع میل) آبادی ایک کروڑ ایک لاکھ، دار الحکومت Lisbon اور زبان پرتگیز ہے.مذہب عیسائیت جو 96 فیصد رومن کیتھولک ہیں.حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یو کے 1987ء پر اپنے خطاب میں پرتگال میں مشن کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.یہاں گزشتہ چند سال سے میں کوشش کر رہا تھا کہ سپین کی معرفت یا کسی اور ذریعہ سے جماعت
187 رجسٹر ہو جائے اور وہاں باقاعدہ مشن کا آغاز کریں مگر باوجود کوشش کے ہم اس میں ناکام رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس خواہش کو اس طرح پورا فرما دیا کہ ہماری ایک احمدی خاتون جو برازیل میں اسلام میں داخل ہوئیں مسٹر امینہ، وہ جب اسلام میں داخل ہوئیں کیونکہ ان کی زبان پر چگیز ہے اور وہ پرانی پر لگال کی ہی باشندہ تھیں اس لئے مجھے خیال آیا کہ ان کے سپرد یہ کام کیا جائے کیونکہ وہ بہت جوش رکھتی تھیں خدمت دین کا اور جب سے وہ مسلمان ہوتی ہیں وہ کئی پمفلٹس اور کتابوں کے ترجمے کر چکی ہیں اور قرآن کریم کے ترجمہ کی دہرائی میں بھی انہوں نے بہت محنت سے کام لیا ہے....وہ اس جلسے پر تشریف لائی ہوئی ہیں.چنانچہ یہ ان کو توفیق ملی کہ پرتگال میں پہلی مرتبہ جماعت احمدیہ کو رجسٹر کروانے میں کامیاب ہو گئیں.“ جون 1987 ء میں سٹرامینہ نے مرکز کی ہدایت پر پرتگال کا دورہ کیا اور جون 1987ء میں ہی پر لگال میں جماعت کی رجسٹریشن ہو گئی.جماعت کی تاریخ میں یہ پہلا مشن ہے جو ایک نواحمدی خاتون کی کوشش کے نتیجہ میں رجسٹرڈ ہوا ہے.1988ء میں سپین سے مکرم کرم الہی ظفر صاحب مبلغ سلسلہ پر نکال تشریف لے گئے اور ان کے ذریعہ وہاں چند افراد بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے.اس طرح یہاں باقاعدہ مشن کا آغاز ہوا.اور ایک فلیٹ بطور مشن ہاؤس خریدا گیا.حضرت خلیفہ امسیح الرائع نے جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کے سال (1989ء) میں پرتگال کا دورہ بھی فرمایا.یہ دورہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیاب رہا.اس کی کسی قدر تفصیلات کا ذکر حضور رحمہ اللہ کے سفروں کے عنوان کے تحت بیان ہو گا.ناورو (NAURU) ناؤرو[NAURU] ساؤتھ پیسیفک کا جزیرہ ہے جو طوالو سے اوپر تقریباً شمال میں واقع ہے.یہ جزیرہ دنیا کی سب سے چھوٹی ری پبلک ہے.اس کا رقبہ صرف آٹھ مربع میل ہے یعنی دو میل ایک
188 طرف اور چار میل ایک طرف.آسٹریلیا کے ماتحت تھا، 1968ء میں آزاد ہوا.آبادی آٹھ ہزار ایک سو ہے، زبان انگریزی اور NAURUAN ہے.مذہب عیسائیت ہے جن میں سے 66 فیصد پراٹسٹنٹ ہیں.جون 1987ء میں مکرم افتخار احمد ایاز صاحب آنریری مبلغ طوالو نے ایک مقامی داعی الی اللہ کو تبلیغ کے لئے Nauru بھجوایا.چنانچہ ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں ایک دوست بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.بعد میں مزید بیعھیں بھی ہوئیں.اس طرح یہاں جماعت کے قیام کا آغاز ہوا.ٹونگا (KINGDOM OF TONGA) یہ ملک south pacific کے جزائر میں سے ایک جزیرہ کی شکل میں ہے اور فجی کے مشرق میں واقع ہے.1970ء میں آزاد ہوا.یہ ملک پہلے برطانیہ کے ماتحت تھا.1985ء میں فجی سے تین مخلص احمدی بطور واقفین عارضی ٹونگا گئے.ان کی تبلیغی مساعی سے دو افراد بیعت کر کے میں داخل ہوئے.اور یوں اس ملک میں پہلی بار احمدیت کا نفوذ ہوا.اپریل 1988ء میں فجی سے مبلغ سلسلہ نے ٹونگا کا دورہ کیا.اس دوران مزید بیعتیں ہوئیں.اور یہاں با قاعدہ جماعت کا قیام عمل میں آیا.Peili Lutui صاحب کو اسلام احمد بیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.نیز نبی آکر اسلام کے بارہ میں مزید معلومات حاصل کیں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع " نے 1989ء میں جب فجی کا دورہ کیا تو Peili Lutui صاحب کا با قاعدہ انٹرو یولیا اور از راہ شفقت اُن کا اسلامی نام محمد الفاتح رکھا اور انہیں ٹونگا میں لوکل معلم کے طور پر منتخب کیا.اپریل 2003 یعنی دور خلافت رابعہ کے اختتام تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ملک کے سب سے بڑے جزیرےTongatapu میں جماعت قائم ہو چکی تھی.اسی جزیرہ پرٹونگا کا دارالحکومت شہر
189 Nuku'Alofa کبھی واقع ہے.گومذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے یہاں عیسائیت کے علاوہ کسی بھی دوسرے مذہب کو رجسٹرڈ کرنے کی اجازت نہ ہے یہی وجہ ہے کہ ٹونگا میں عوام اور حکومتی لیول پر جماعت احمدیہ کا تعارف ہونے کے باوجود ابھی تک جماعت کی رجسٹریشن نہیں ہوسکی.ٹونگا کی زبان میں منتخب قرآنی آیات، منتخب احادیث، منتخب تحریرات سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام شائع ہو چکے ہیں.نیز ٹونگا میں چونکہ لوکل زبان کے علاوہ انگریزی زبان ہی سرکاری دفاتر میں اور عام طور پر استعمال ہوتی ہے اس لئے ان کی ضرورت کے مطابق نجی سے انگریزی لٹریچر انہیں حسب ضرورت مہیا ہو جاتا ہے.تبلیغ کے لیے وہاں ٹی وی اور ریڈیو اسٹیشن کو بھی گاہے بگاہے زیر استعمال لایا جاتا ہے.جنوبی کوریا (SOUTH KOREA) یہ ملک جاپان سے اوپر شمال مغرب کی طرف واقع ہے.اس کے شمال میں North Korea مغربہ میں Yellow Sea اور جنوب مشرق میں Sea of Japan ہیں.دار الحکومت Seoul ہے.جنوری 1982ء میں مکرم عطاء المجیب راشد صاحب مبلغ انچارج جاپان نے کوریا کا پہلا دورہ کیا.اس کے بعد مختلف وقتوں میں مختلف وفود نے 9 مرتبہ کوریا کا دورہ کیا.انہوں نے وہاں کثرت سے لٹریچر تقسیم کیا اور مختلف لوگوں سے روابط بڑھائے.فروری 1988ء میں مکرم مقبول احمد شاد صاحب جاپان سے کور یا وقف عارضی پر تشریف لے گئے.مارچ 1988ء میں ایک مقامی کورین نوجوان Mr.Kim Ye Tae بیعت کر کے میں داخل ہوئے.اس طرح یہاں پہلی بار احمدیت کا پودا لگا.
190 مالدیپ (MALDIVES) 1987ء میں ہندوستان سے مولوی محمد ایوب صاحب مالا باری نے مالدیپ کا دورہ کیا.اس دورہ کے دوران ان کا تعارف مالدیپ کے ایک نوجوان عبد الودود صاحب سے ہوا.عبدالودود صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھا.حضور کی طرف سے تفصیلی جواب ملنے پر اکتوبر 1987ء میں یہ نوجوان بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.اس طرح اس ملک میں احمدیت کا پودا لگا.(GABON) یہ براعظم افریقہ کا ایک ملک ہے.اس کے مشرق اور جنوب میں کانگو برازاویل، شمال میں کیمرون اور مغرب میں Atlantic Occean ہے.اکتوبر 1987ء میں یہاں ایک دوست M.Ibrahim Boulondo بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.پھر ان کے ذریعہ ایک دوسرے دوست M.Alinou Moukoumbi صاحب نے بیعت کی.اس طرح اس ملک میں احمدیت کا پودا لگا.بینن سے مبلغین اس ملک کے مسلسل دورے کرتے رہے.سولومن آئی لینڈز (SOLOMON ISLANDS) طوالومشن کے ذریعہ یہاں 1988ء میں احمدیت کا نفوذ ہوا.اپریل 2003ء یعنی دور خلافت رابعہ کے اختتام تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ملک میں دو جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.اور
191 سو کے قریب احمدی یہاں موجود تھے.ایک معلم تبلیغ اسلام اور اس ملک میں موجود احمدی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے.اس کے ساتھ ساتھ اس ملک میں مشن ہاؤسز کی تعداد ایک تھی.جماعتی مشن کی عمارت کے ایک حصہ کو مسجد کی شکل دے کر تیار کیا گیا ہے.جماعت کی باقاعدہ رجسٹریشن کا کام اوائل 2003ء میں شروع ہوا اور مئی 2003ء میں جماعت با قاعدہ رجسٹرڈ ہو گئی.مارشل آئی لینڈز (MARSHAL ISLANDS) مارشل آئی لینڈ جزائر Pacific کے شمال مشرق میں واقع 24 جزائر پر مشتمل ایک خود مختار ملک ہے.اس ملک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مبلغ سلسلہ احمد جبریل سعید صاحب آف گھانا کو 1990ء میں احمدیت کا پودا نصب کرنے کی توفیق عطا ہوئی.اپریل 2003 یعنی دور خلافت رابعہ کے اختتام تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ملک میں باقاعدہ جماعت قائم ہو چکی تھی اور انداز آدس سے پندرہ احمدی یہاں موجود تھے.امریکہ سے جماعتی عہدیداران یہاں کے دورے کرتے رہے اور جماعت کو منظم کرنے کا کام کیا.ماتكرونيشيا (MICRONESIA) یہ بھی بحر الکاہل کا ہی جزیرہ ہے اور اس کا رقبہ 701 / مربع کلومیٹر ہے.مذہب عیسائیت
192 اور عیسائیت میں سے خصوصیت سے رومن کیتھولزم ہے، زبان انگریزی ہے.طوالو کے مبلغ مکرم احمد جبرئیل سعید صاحب ایک تبلیغی منصوبہ کے تحت 1990ء میں اس ملک میں تشریف لے گئے.پہلے ہی دورہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی سے نوازا اور 6 رسعید روحیں بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئیں.بعد میں مزید بیعتیں بھی ہوئیں.اور اس طرح یہاں احمدیت کا پودا لگا.تو کیلا ؤ (TOKELAU) یہ جزیرہ ملک تین چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے اور PACIFIC کے مغرب میں واقع ہے.طوالو سے 1990ء میں مکرم افتخار احمد صاحب ایاز اپنے ایک کام کے سلسہ میں اس ملک میں تشریف لے گئے.ان کے وہاں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین خاندانوں کو بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی.اس طرح اس جزیرہ میں جماعت کا نفوذ ہوا.میکسیکو (MEXICO) ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور وسطی امریکہ کے درمیان واقعہ یہ ملک قریبا آٹھ کروڑ کی آبادی پر مشتمل ہے اور مذہب تقریباً گلیہ عیسائیت ہے.یہاں کی زبان Spanish ہے.اس کے علاوہ مقامی Indian Languages بھی ہیں.Houston کے دو نو جوانوں مکرم مرزا ظفر احمد صاحب، حسن پرویز صاحب اور ان کی اہلیہ ( جو سپینش بولتی ہیں) پر مشتمل وفد نے مختلف اوقات میں Mexico کے 6 دورے کئے.جنوری 1990ء میں
193 RAMIRE ہے.Mexico کے ایک باپ بیٹے کو جو گزشتہ دو سال سے احمدیت کے لٹریچر کا مطالعہ کر رہے تھے بیعت کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شمولیت کی توفیق ملی.باپ کا نام YASIN BURHAN یہ مسلمان تھے.انہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے ایک خط میں لکھا کہ یہ احمدیت کا لٹریچر ملنے پر اسے اپنی تقریروں میں بیان کرنے لگے.آہستہ آہستہ ان کی مخالفت ہونے لگی.ایک روز ان کی ایک جگہ پر تقریر تھی جو انہوں نے احمدی لٹریچر کی مدد سے کرنی تھی لیکن مخالفین نے ان کی تمام کتب چھین لیں اور انہیں تقریر بھی نہ کرنے دی.اس بات سے ان کا ایمان اور مضبوط ہوا اور وہ ثابت قدم رہے اور آخر بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے 1991ء میں یہاں کا دورہ بھی فرمایا.اس دورہ کے دوران 28 /افراد نے حضور انور کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت بھی حاصل کی.نیو کیلیڈونیا (NEW CALEDONIA) سات چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل یہ جزیرہ ملک West Pacific میں واقع ہے اور آسٹریلیا سے مشرق میں 700 میل کے فاصلہ پر ہے.اس ملک پر فرانسیسیوں کی حکومت ہے.اس کا رقبہ 358, 7 /مربع میل اور آبادی ایک لاکھ 60 ہزار ہے.New Caledonia کے اصل باشندے Melenesian ہیں ان کی کل آبادی 75 ہزار کے قریب ہے.علاوہ ازیں دوسری اقوام کے لوگ بھی آباد ہیں جن میں 6 ہزار کے قریب انڈو نیشین ہیں.اس ملک میں احمدیت کا پورا اکتوبر 1990ء میں لگا.طوالو سے مکرم افتخار احمد صاحب ایاز ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے نیو کیلیڈونیا تشریف لے گئے.وہاں انہیں ترجمانی کے لئے ایک انگلش ٹیچر مہیا کیا گیا.انہوں نے اسے بھی تبلیغ کی اور اس کے
194 ذریعہ دوسروں تک بھی پیغام حق پہنچایا.اور اپنے قیام کے دوران تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا.اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو قبول فرمایا.ان کی وہاں سے روانگی سے قبل ہی ترجمان ٹیچر مع فیملی بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے اور وہاں کے پہلے احمدی ہونے کا اعزاز پایا.بعد میں مزید دو خاندانوں نے بھی بیعت کی سعادت پائی.آسٹریلیا سے مبلغین با قاعدہ یہاں کا دورہ کرتے ہیں اور اپنے رابطے اور تعلقات بڑھا رہے ہیں.منگولیا (MANGOLIA) حضرت خلیفہ مسیح الرابع حمہ اللہ نے جلسہ سالانہ 1991ء کے موقع پر اپنے خطاب میں منگولیا میں احمدیت کے نفوذ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: منگولیا میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے.منگولیا کا قصہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے وہاں کے ایک مسلمان علاقہ کے نمائندہ ممبر پارلیمنٹ انگلستان تشریف لائے.یہاں ملاقاتوں کے دوران کسی ایسے شخص نے جو احمدیت سے واقف تھا ان کو کہا کہ اگر تمہیں اسلام میں دلچسپی ہے تو جماعت احمدیہ سے رابطہ پیدا کرو کیونکہ اصل سچا اسلام تو انہی کے پاس ہے.چنانچہ وہ کہنے والا اگر چہ احمدی نہیں تھا لیکن اس کی راہنمائی کر گیا.وہ مجھے ملنے کے لئے تشریف لائے ، ان سے بہت سی ملاقاتیں ہوئیں لیکن ان کا کچھ رحجان عرب دنیا کی طرف تھا، ایران کی طرف تھا، انڈونیشیا کی طرف تھا اور ہو سکتا ہے چونکہ سیاسی انسان تھے اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ اس چھوٹی سی غریب جماعت سے کیا رابطہ کرنا ہے.بڑے بڑے اسلامی ممالک سے رابطہ ہونا چاہئے.مگر بہر حال یہ ان کا احسان ہے کہ اپنے وعدے کے مطابق واپس اس ملک میں جا کر انہوں نے مجھے دعوت نامہ بھجوایا کہ اپنے نمائندے کو آپ کو بھیجوا دیں.ان کی طرف سے دعوت کے بغیر نمائندہ وہاں جا نہیں سکتا تھا.“ چنانچہ ان کی دعوت پر فور آویزہ مل گیا اور ہمارے خاور صاحب جو روسی زبان کے ماہر کے طور پر تیار
195 ہوئے ہیں.ان کو میں نے بھیجوایا...وہاں کے مسلمان لیڈروں سے انہوں نے رابطہ پیدا کیا.اور ان کو جب احمدیت کا پیغام دیا اور خصوصیت سے ایک چھوٹا سا رسالہ ان کو پڑھایا جو میں اہل روس کے نام لکھ چکا تھا ( وہ جو طبع ہو چکا تھا.) اس کا نام ہے کہ Message with love to the.nations of U.S.S.R روسی زبان میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے.اس میں خوب کھول کر فرق بتادیا گیا ہے.ہم کہاں ہیں، ہمیں دوسرے مسلمان کسی صورت میں دیکھتے ہیں ، بنیادی فرق کیا ہیں اور کوئی بات چھپا کے نہیں رکھی گئی.وہ پڑھنے کے بعد ان کے بعض لیڈروں نے وہیں احمدیت میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا اس کے بعد ان کے دو مرد اور ایک خاتون پر مشتل وندلندن بھی آیا اور حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ سے نشستیں ہوئیں جن میں جماعت کا تفصیلی تعارف انہیں کروایا گیا.حضور رحمہ اللہ نے مزید فرمایا : م اللہ تعالیٰ کے فضل سے منگولیا میں بھی بہت عمدگی کے ساتھ جماعت احمدیہ کا تعارف ہو چکا ہے اور قدم جم چکے ہیں.“ اس ملک کے شمال مشرق میں رشیا اور جنوب مغرب میں چین کا ملک ہے.گویا اس کے چاروں طرف دو بڑی طاقتیں ہیں.اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار ہے جس میں سے تقریبا ایک لاکھ ملک کے انتہائی مغربی علاقہ میں آباد ہیں.یہاں لندن سے ماہ مئی 1991ء میں کلیم خاور صاحب کو منگولیا کے دورہ پر بھجوایا گیا.جہاں انہوں نے مسلمان لیڈروں سے ملاقاتیں کیں.اور خصوصا ملک کے انتہائی مغربی حصہ میں جہاں تقریبا ایک لاکھ مسلمان آباد ہیں وہاں کے حکومتی پارٹی کے سر کردہ احباب سے رابطے کئے اور احمدیت کا پیغام ان تک پہنچایا.اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے 6 بیعتیں ہوئیں.دو مختلف مقامات پر جا کر ایک ہزار سے
196 زائد لوگوں سے خطاب کیا اور احمدیت کا پیغام ان تک پہنچایا.سبھی احباب نے جماعت کے پروگراموں میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا.بعد میں وہاں سے 3 افراد پر مشتمل ایک وفد لندن آیا.یہاں آنے سے قبل اس وفد نے پاکستان میں اپنے قیام کے دوران ربوہ ، راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور کی جماعتوں کا دورہ کیا.یہاں انہوں نے ایک ہفتہ قیام کیا.تین ممبران پر مشتمل اس وفد میں ایک حکومتی پارٹی کے اپنے صوبہ میں جنرل سیکرٹری تھے.دوسرے ایک مسلمان تنظیم کے سر براہ تھے اور تیسر امبر عورتوں کی ایک لیڈر تھیں.انچارج صاحب مرکزی رشین ڈیسک یوکے اور صدر صاحب جماعت ماسکو ( رشیا) نے منگولیا کا دورہ کیا اور وہاں مختلف رابطے کئے اور مزید پروگراموں کا جائزہ لیا.گوام (GUAM) گوام (Guam) پیسیفک ریجن کے شمال مغرب میں MARIANAS جزائر گروپ کا سب سے بڑا جزیرہ ہے.اور امریکہ کی ایک خود مختار ریاست ہے.سرکاری زبان انگریزی ہے.گوام کے باشندوں کو CHAMOROS کہتے ہیں.یہ لوگ انڈو نیشین نسل سے تعلق رکھتے ہیں.لوگوں کی اکثریت رومن کیتھولک ہے.فروری 1992ء میں مکرم افتخار احمد ایاز صاحب اس جزیرہ کے دورہ پر تشریف لے گئے.وہاں پہنچنے کے بعد ٹیلیفون ڈائریکٹری کے ذریعہ ایک ایسے دوست سے رابطہ ہوا جو کیتھولک مذہب سے نالاں تھے اور عرصہ سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ انہیں کوئی اسلام کی تعلیم سے آگاہ کرے.چنانچہ ان کو اللہ تعالی نے اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.پھر ان کے ذریعہ چند دوسرے لوگوں سے بھی
197 رابطہ ہوا اور ان میں سے بھی لوگ بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوئے.چوک آئی لینڈ (CHUUK ISLAND) Federated States of Micronesia کی ایک خود مختار ریاست ہے.یہاں کے باشندے مختلف قبائل میں بٹے ہوئے ہیں.جس کی وجہ سے مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن سرکاری زبان انگریزی ہے.مائکرونیشیا کی 80 فیصد آبادی Chuuk اور ایک دوسری ریاست Ponape میں آباد ہے.اور خدا کے فضل سے ان دونوں ریاستوں میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے.سال 1992 ء میں یہاں مکرم افتخار احمد صاحب ایاز تبلیغی دورہ پر تشریف لے گئے اور ان کا وہاں ایک افسر تعلیم سے رابطہ ہوا اور اللہ تعالٰی نے انہیں احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.لیتھوانیا (LITHUANIA) لیتھوانیا(Lithuania) بالٹک اسٹیٹس میں سے ایک ہے.اس کے حدود اربعہ میں پولینڈ ، بیلاروس، لاٹو یا اور کلمینن گراڈ شامل ہیں.یہاں 1992ء میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.ALYTUS شہر میں جماعت کی رجسٹریشن ہوئی.مکرم اخلاق احمد انجم صاحب لیتھوانیا کے پہلے مبلغ کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.مرکز لندن سے ایڈیشنل وکیل التبشیر مکرم مبارک احد ساقی صاحب اور مرکزی نمائندگان نے بھی لیتھوانیا کے دورے کئے.1993 ء کے اوائل میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع " کی اجازت سے مکرم فہیم احمد بھٹی صاحب آف یو کے اپنی زندگی وقف کر کے مع فیملی لیتھوانیا گئے.26 فروری 1993ء کو مکرم حافظ سعید الرحمان صاحب لیتھوانیا کے دوسرے مبلغ کی حیثیت سے
198 وہاں پہنچے اور مکرم اخلاق احمد انجم صاحب سے مشن کا چارج لیا.لیتھوانیا میں ابتدائی احمدی ہونے والے احباب تا تاری النسل تھے.بیلاروس (BELARUS) بیلاروس مشرقی یورپ کا ایک خوبصورت ملک ہے.اس کے شمال مشرق میں رشین فیڈریشن (روس) ، جنوب میں یوکرائن، اس کے مغرب میں پولینڈ اور شمال مغرب میں لتھوانیا اور لاٹویا کی ریاستیں ہیں.بیلا روس کا دار الحکومت منسک (Minsk) ہے.سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد بیلا روس نے 25 اگست 1991ء کو آزادی کا اعلان کر دیا اور یوں ایک آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا.مکرم اخلاق احمد انجم صاحب مبلغ سلسلہ لتھوانیا اور مکرم حامد کریم محمود صاحب مبلغ سلسلہ پولینڈ نے 1992ء میں ری پبلک آف بیلاروس کا دورہ کیا.1993ء میں یو کے سے مکرم ڈاکٹر سعید احمد خان صاحب اور ان کی اہلیہ مکرمہ سلمیٰ خان صاحبہ وقف عارضی کی غرض سے بیلاروس گئے.اس دوران تین بیلارشین افراد بیعت کر کے میں داخل ہوئے.1993ء میں جلسہ سالانہ لندن کے بعد مرکز سے مکرم اللہ بخش صادق صاحب اور مکرم حامد کریم محمود صاحب مبلغ سلسلہ پولینڈ نے بیلا روس کا دورہ کیا.21 / مارچ 1994ء کو مکرم حافظ سعید الرحمن صاحب مبلغ سلسلہ بیلا روس کے پہلے مبلغ کی حیثیت سے بیلا روس آئے.17 دسمبر 1994ء کو پاکستان سے بیلاروس کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے 49 احمدی طلباء کی آمد کے ساتھ مارچ 1995ء میں بیلاروس میں با قاعدہ جماعت کا قیام اور تنظیم عمل میں آئی.1995ء میں مزید 20 رطلباء پاکستان سے بیلا روس آئے.
199 6 رنومبر 1995ء کومکرم خواجہ مظفر احمد صاحب مبلغ سلسلہ بیلاروس پہنچے.تقریبا 5 ماہ کے بعد آپ کی قازخستان کے مبلغ کے طور پر تقرری ہوئی.مکرم شاہد محمود کاہلوں صاحب مبلغ سلسلہ 31 / اکتوبر 1996ء کو گرودنا، بیلا روس پہنچے.ان کی تقرری Minsk کے سینٹر میں کی گئی.ان کے زیر تبلیغ دوست مکرم را فائیل کشکل دین صاحب ( اور شا) کو 30 اپریل 1997ء کو بیعت کر کے میں شامل ہونے کی توفیق ملی.ہنگری (HUNGARY) ہنگری میں مشن کا آغاز در حقیقت 1936ء میں ہوا.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس زمانہ کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی تیزی سے ہنگری میں ایک طبقہ نے احمدیت کے پیغام کو یعنی حقیقی اسلام کو قبول کیا لیکن اس کے بعد جنگ کے حالات نے تبلیغ احمدیت کو اور احمدیت کے نفوذ کو وہاں ناممکن بنا دیا.چونکہ بہت جلد وہاں ایک اشترا کی انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجہ میں تمام مذاہب پر نشوونما میں اور تبلیغ میں پابندیاں لگادی گئیں یہاں تک کہ بہت سے قبرستانوں کے کتبے بھی اکھاڑ پھینکے گئے اور جو احمدی تھے وہ دنیا میں ادھر ادھر بکھر گئے.کبھی کبھار ان کے ساتھ جنوبی امریکہ سے خطوں کے ذریعہ رابطہ ہوا کرتا تھا.رفتہ رفتہ وہ رابطہ بھی مٹ گیا.چنانچہ ہنگری کو 1988 ء میں ان ممالک کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا جہاں با قاعدہ جماعت احمدیہ کا نفوذ ہو چکا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یو کے 1993ء کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا: اب اس نئے دور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ وہاں رابطے مکمل ہوئے اور سب سے پہلا پھل جو اس دور کا ہے وہ مخلوس زلئی (MIKLOS ZELEI) ہیں جو خود انگلستان تشریف لائے تھے ہمارے ایک بہت ہی مخلص رشین احمدی دوست را ویل صاحب چونکہ علمی طبقوں میں بہت شہرت رکھتے ہیں.اس لئے ان سے بھی اسی لحاظ سے ان کے تعلقات تھے.وہ ان کو بار بار مسجد لانے لگے اور
200 چند ملاقاتوں ہی میں میں نے دیکھا کہ ان کے دل کی کیفیت بدل رہی ہے اور خدا کے فضل سے یہاں سے بیعت کر کے گئے.واپس جا کر انہوں نے پھر وہاں مزید تبلیغ کی بنیادیں استوار کیں.مئی 1993ء اور جون 1993 ء میں وہاں مزید بیعتیں ہوئیں.Miklos Zelei صاحب جلسہ سالانہ یو کے 1993ء میں عالمی بیعت میں ہنگری کی نمائندگی میں شامل ہوئے.کولمبیا (COLUMBIA) کولمبیا لاطینی امریکہ کا ملک ہے.1992ء میں یہاں نیا مشن کھولا گیا تھا.اپریل 1993ء سے باقاعدہ بیعتوں کا آغاز ہوا اور ایک مقامی جماعت قائم ہوئی.ازبکستان (UZBEKISTAN) دیوار برلن کا انہدام ، سوشلزم کی ناکامی ، سوویت یونین کا بکھرنا اور رشیا میں جماعت احمدیہ کا نفوذ عہد خلافتِ رابعہ کے واقعات ہیں.سوویت یونین کی کوکھ سے جنم لینے والے ممالک میں سے ایک ملک ازبکستان ہے.جسے " ماوراء النہر" کے " حارث و منصور مہدی موعود کے آباء کا وطن ہونے کا شرف حاصل ہے.قرون اولی و وسطی میں اسلام کی شان و شوکت اور عظمت کی علامت سمرقند، بخارا، نیوه، قرشی، تاشقند، فرغانہ اند یجا اور ترمز جیسے عظیم شہر ازبکستان کے ماتھے کا جھومر ہیں.ازبکستان کی آزادی کے ساتھ ہی حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے واقفین عارضی ، طلباء، ماہرین اقتصادیات اور کاروباری حضرات نے اس ملک کا رخ کیا جن میں مکرم نعیم اللہ خان صاحب مرحوم، مکرم چوہدری مقصود الرحمن صاحب، مکرم سید تو قیر مجتبی صاحہ
201 مکرم مشہود احمد طور صاحب، مکرم سید نادر سیدین صاحب مرحوم، مکرم ڈاکٹر محمود السن صاحب نوری، مکرم ڈاکٹر امتیاز احمد صاحب، مکرم ڈاکٹر افتخار احمد صاحب شہید، مکرم چوہدری محمود احمد صاحب، مکرم منور سعید صاحب شامل ہیں.ماہر اقتصادیات مکرم ڈاکٹر عبدالکریم صاحب نے ایک سال کی وقف عارضی پر سٹیٹ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات سر انجام دیں.مکرم سعادت احمد پراچہ صاحب مرحوم کو ایک ہوائی سفر کے دوران مکرم امان اللہ خان صاحب نائب وزیر خارجہ ازبکستان کو پیغام پہنچانے کی توفیق ملی جن کے ساتھ مکرم سید حسن طاہر بخاری صاحب مبلغ سلسلہ کا مسلسل رابطہ رہا اور انہیں جلسہ سالانہ یو کے میں شرکت کے ساتھ خلیفہ وقت کی ملاقات اور بیعت کی سعادت نصیب ہوئی.مکرم ڈاکٹر فیصل راجہ صاحب نے اپنی تعلیم ازبکستان سے مکمل کی.ان کی رشین نژاد احمدی بیوی کا تعلق بھی ازبکستان سے ہے.1997ء.1993 ء مکرم خالد ملک صاحب نے اقوام متحدہ کے ازبکستان میں نمائندہ کے طور پر خدمات سر انجام دیں.مقتدر حلقوں میں وہ احمدی مسلمان کے طور پر جانے جاتے تھے.اپنے اعلیٰ اخلاق اور انتھک محنت کی بدولت انہوں نے صدر مملکت سمیت حکومتی حلقوں اور عوام میں بہت نیک نامی حاصل کی.بعض بہت اہم مواقع پر انہیں بھی نمایاں خدمت کی توفیق ملی.مکرم کلیم خاور صاحب مرحوم وہ خوش قسمت فرد ہیں جنہیں سب سے پہلے بطور مرکزی نمائندہ ازبکستان کا دورہ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.اس دورہ کے نتیجہ میں بخارا سے اعلیٰ عہدیداران کا ایک وفد جلسہ سالانہ یوکے میں بھی شریک ہوا.مکرم مولانا منیر الدین صاحب شمس کو بھی بطور مرکزی نمائندہ 1992 ء میں ازبکستان کا دورہ کرنے کی سعادت ملی.اس دورہ کے دوران انہوں نے مختلف سرکاری افسران سے رابطوں کو ازسر نو زندہ کیا.اس دور میں ازبکستان کے پہلے باقاعدہ مبلغ ہونے کا شرف مکرم مرزا نصیر احمد صاحب کو حاصل ہے.آپ اس خدمت کے لئے 1992ء میں ازبکستان پہنچے اور مارچ 1993 ء تک خدمات بجا لاتے رہے.اپنے مختصر قیام کے دوران آپ کو اس ملک میں دوبارہ جماعت کا پودا لگانے کی توفیق ملی.
202 مکرم اسحاق جمالو و صاحب وہ خوش نصیب ہیں جنہیں 1993ء میں بیعت کر کے ازبکستان کا پہلا احمدی ہونے کا شرف حاصل ہوا.مکرم اسحاق جمالو و صاحب دو احمدی طلباء مکرم منیر خان صاحب اور مکرم قاسم خان صاحب کے دوست تھے اور ان دونوں کے توسط سے ہی مکرم مرزا نصیر احمد صاحب کے رابطہ میں آئے تھے.ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں مزید پانچ پتیں ہوئیں.حضور رحمہ اللہ کے ارشاد پر مکرم سید حسن طاہر بخاری صاحب وسط مارچ 1993ء میں ماسکو سے تاشقند پہنچے اور مکرم مرزا نصیر احمد صاحب سے چارج لیا.آپ 5 جون 1998 ء تک ازبکستان میں خدمات بجالاتے رہے.9 جولائی 1994ء کو دو مبلغیین مکرم حافظ ظہور احمد مدثر صاحب اور مکرم منصور احمد شاہد صاحب ازبکستان پہنچے.ضروری قانونی کارروائی کے بعد مکرم حافظ ظہور احمد صاحب کو ستمبر 1994ء میں بخار بھجوایا گیا جہاں ان کا قیام جولائی 1995 ء تک رہا.اکتوبر 1994ء میں مکرم منصور احمد شاہد صاحب کو سمرقند بھیجا گیا تا کہ وہاں مشن کا آغاز کر سکیں لیکن وہ بیمار ہو جانے کی وجہ سے جلد واپس پاکستان چلے گئے.ستمبر یا اکتوبر 1995ء میں مکرم نصر اللہ خان ملمی صاحب مرحوم مربی سلسلہ ازبک زبان کی تعلیم کیلئے تاشقند پہنچے.تاشقند میں زبان کے ابتدائی بنیادی کورس کے بعد اگست 1996ء میں انہیں سمرقند دولت یونیورسٹی میں اعلی تعلیم کے لیے داخل کروایا گیا.جہاں قریباً چھ ماہ ان کا قیام رہا.اس ! کے بعد وہ رخصت پر پاکستان گئے اور بیمار ہونے کی وجہ سے واپس تشریف نہ لا سکے.تین مزید مبلغین مکرم بشارت احمد صاحب، مکرم ملک طاہر حیات صاحب، مکرم ارشد محمود ظفر صاحب 31 اگست 1996ء کو ازبک زبان کی تعلیم کے لئے پہنچے.مکرم طاہر حیات صاحب کو ابتدائی بنیادی کورس میں تاشقند میں ہی داخلہ دلوایا گیا.جبکہ دیگر دو مبلغین کو زبان کے بنیادی کورس میں داخلہ کے لئے بخار بھجوایا گیا جہاں ان کا قیام جون 1997 ء تک رہا.اپریل 2003 یعنی دور خلافت رابعہ کے اختتام تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ملک کے تمام صوبوں میں احمدی مسلمان موجود تھے.
203 یوکرائن (UKRAINE) یوکرائن مشرقی یورپ کا ایک خود مختار اور رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے جو بحیرہ اسود، پہاڑوں اور آرتھوڈ کس چرچ کی وجہ سے مشہور ہے.اس کے مشرق اور شمال مشرق میں روس، شمال مغرب میں بیلا روس، اس کے مغرب میں پولینڈ اور سلواکیہ، جنوب مغرب میں ہنگری ، رومانیہ اور ملد و واجبکہ اس کے جنوب اور جنوب مغرب میں بحیرہ اسود اور بحیرہ ازوف واقع ہیں.سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد یوکرائن نے 24 / اگست 1991ء کو آزادی کا اعلان کر دیا اور یوں ایک آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے ان علاقوں کی نسبت الہاما مطلع فرمایا تھا کہ میں اپنی جماعت کورشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں.“ (رجسٹر روایات صحابہ جلد 12 صفحہ 114 روایت شیخ عبدالکریم صاحب جلد ساز کراچی) حضرت خلیفہ امسح الرائع نے جلسہ سالانہ یو کے 1993ء کے موقع پر اپنے دوسرے دن بعد دو پہر کے خطاب میں فرمایا: یوکرائن میں برادرم عزیزم رفیق چانن کے ذریعہ قلمی دوستی کے ساتھ تبلیغ کا آغاز ہوا اور وہاں ایک صاحب علی وسیلی اتیکوف (Ali Wasili Etikov) نے خط و کتابت کے ذریعہ اور پھر ہم سے رابطے کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کو قبول کیا اور وہاں بھی چونکہ کچھ اور دوست باہر سے تشریف لائے ہوئے تھے جو احمدی ہو چکے تھے یا احمدی تھے پہلے ہی، اس لئے اب وہاں بھی باقاعدہ جماعت قائم ہو چکی ہے.یہعلی صاحب بھی اس وقت جلسہ میں شریک ہیں“ مکرم اخلاق احمد انجم صاحب مبلغ ماسکو نے جولائی 1993ء میں یوکرائن کے دو شہروں Kiev اور Vinnista کا دورہ کیا اور جماعت کی وہاں رجسٹریشن کے سلسلہ میں معلومات لیں.اور یوکرائن میں مقیم احمدی طلباء سے رابطہ کیا.13 جنوری 1999ء کو مکرم حافظ سعید الرحمن صاحب یوکرائن کے پہلے مبلغ سلسلہ کے طور پر یوکرائن پہنچے اور وہاں با قاعدہ مشن کا قیام عمل میں آیا.
204 27 رستمبر 1999ء کو اللہ تعالی کے فضل سے یہاں مکرمہ Yoroslava Shahid Antolivna نے بیعت کی توفیق پائی.اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغی و تربیتی مساعی کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور مزید یعنیں بھی ہوئیں.2001ء میں پہلی بار یہاں نیشنل مجلس عاملہ کا قیام عمل میں آیا اور حافظ سعید الرحمان صاحب صدر جماعت مقرر ہوئے.رشیا (Russia).......حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ایک مضمون مطبوعہ اخبار الفضل 19 اگست 1923ء کے مطابق 1919ء میں رشیا اور اس کے بعض علاقوں میں کئی لوگ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کی تصدیق کر کے احمدیت میں شامل ہو چکے تھے.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں 1921ء اور 1924ء میں باقاعدہ طور پر مکرم مولوی محمد امین خان صاحب افغانی اور مکرم مولوی ظہور حسین صاحب کو ان علاقوں میں بالخصوص بخارا کے علاقہ میں تبلیغ اسلام واحمدیت کے لئے بھیجوایا.نہایت نامساعد حالات میں اور کئی قسم کی صعوبتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اور ہر قسم کے ظلم وتشدد کو برداشت کرتے ہوئے ان ہر دو مبلغین کی کوششوں سے مزید کئی سعید روحوں کو قبول احمدیت کی سعادت حاصل ہوئی.(تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 400 404 وصفحہ 4957473.اور کتاب "آپ بیتی مصنفہ حضرت مولوی ظہور حسین صاحب) بعد ازاں ایک لمبے عرصہ تک روس اور اس کی ریاستوں میں موجود احمدیوں سے مرکز کا رابطہ ممکن نہیں ہو سکا.پھر عہد خلافت رابعہ میں حضرت خلیفہ میں خلیفہ رحمہ ت خلیفة المسح الرابع رحمہ اللہ کی پاکستان سے برطانیہ ہجرت (1984ء) کے بعد اور بالخصوص عالمی سطح پر ہونے والی بعض سیاسی تبدیلیوں اور دیوار برلن کے انہدام ( 1989ء) اور سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ اور بعض ریاستوں کی آزادی کے بعد ان ممالک
205 میں رابطوں اور تبلیغ کے امکانات روشن ہوئے.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے رشیا اور سابقہ سوویت یونین کی ریاستوں میں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے اور حالات کا جائزہ لینے کی غرض سے مرکز سے وقتا فوقتا مرکزی مبلغین اور بعض دیگر نمائندگان کو بھجوانا شروع فرمایا جنہوں نے رشیا، بیلاروس بتھوانیا، ازبکستان، منگولیا وغیرہ کا دورہ کیا.ان دوروں کے نتیجے میں بعض مقامات پر بعض سعید روحوں کو قبول احمدیت کی توفیق نصیب ہوئی.حضور کے ارشاد پر 1991ء میں مکرم منیر الدین شمس صاحب نے جماعت کی نمائندگی میں احمد یہ مسلم پبلیکشنز کی طرف سے انٹرنیشنل بک فیئر ماسکو میں شرکت کی.اسی طرح آپ نے ماسکو اور لینن گراڈ کا دورہ کیا.ماسکو پبلک لائبریری میں رشین ترجمہ قرآن کریم اور جماعت کی بعض دیگر کتب بھی رکھوائی گئیں.لینن گراڈ میں جماعتی کتب کی طباعت کے سلسلہ میں مختلف کمپنیوں سے رابطے گئے.1992ء میں آپ دوبارہ سوویت یونین کی مختلف ریاستوں کے دورہ پر تشریف لے گئے.اس دورہ میں مختلف اہم مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں کیں.انہیں جماعت کا تعارف کروایا اور جماعتی لٹریچر بھی دیا.ماسکو اور کاذان کے دورہ میں مکرم ڈاکٹر ولی احمد شاہ صاحب آف لندن بھی بطور واقف عارضی آپ کے ساتھ رہے.اس دورہ میں 10 بیعتیں بھی ہوئیں.1993 ء کے آغاز میں پاکستان سے باقاعدہ طور پر چار مربیان کرام کو ان علاقوں کی طرف بھجوایا گیا.ان مبلغین میں مکرم سید حسن طاہر بخاری صاحب، مکرم حافظ سعید الرحمن صاحب ، مکرم مشہود احمد ظفر صاحب اور مکرم را نا خالد احمد صاحب شامل تھے.ان کے ساتھ مکرم ڈاکٹر عبد الخالق خالد صاحب کو بھی بھیجوایا گیا.یہ سب احباب یکم فروری 1993ء کو ازبکستان کے شہر تاشقند پہنچے جہاں پہلے سے موجود مبلغ سلسلہ مکرم مرز انصیر احمد صاحب اور ایک مقامی احمدی دوست مکرم اسحاق جمالوف صاحب نے ائر پورٹ پر ان کا استقبال کیا.تاشقند میں تین دن کے قیام کے بعد یہ سارے احباب تاشقند سے بذریعہ جہا ز فلائی کر کے 4 فروری کی صبح رشیا کے دارالحکومت ماسکو پہنچے.ماسکو میں چند روز قیام کے بعد مبلغ سلسلہ مکرم چوہدری اخلاق احمد انجم صاحب جو قبل ازیں رشیا کا
206 دورہ کر چکے تھے اور لیتھوانیا میں ایک سال اور کا ذان ( تاتارستان ) اور رشیا میں کچھ عرصہ خدمت بجا لا چکے تھے مکرم حافظ سعید الرحمن صاحب کو لتھوانیا، مکرم مشہود احمد ظفر صاحب کو کازان ( تاتارستان) چھوڑ کر اور وہاں پر جماعت کے افراد سے متعارف کروانے کے بعد واپس ماسکو آئے.مکرم مرزا نصیر احمد صاحب کی واپسی کے بعد حضور رحمہ اللہ نے مکرم سید حسن طاہر بخاری صاحب کی تاشقند (ازبکستان) کے لئے اور مکرم را نا خالد احمد صاحب کی ماسکو ( رشیا) کے لئے تقرری فرمائی.مکرم اخلاق احمد انجم صاحب اور مکرم را نا خالد احمد صاحب نے جماعت کی ماسکو (رشیا) میں رجسٹریشن اور ماسکو مشن ہاؤس کے طور پر ایک فلیٹ خریدنے کے لئے تگ و دو شروع کر دی.چنانچہ 1993ء میں ماسکو کے سنٹر سے کچھ فاصلے پر Elektrozavodskaya کے علاقہ میں ایک تین کمرے کا بڑا فلیٹ خریدا جو آج تک جماعت احمدیہ ماسکو کے مشن ہاؤس کے طور پر استعمال ہو رہا ہے.جماعت کی رجسٹریشن کے لئے بھی کافی کوشش کی گئی.چنانچہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے جولائی 1993ء میں جماعت احمد یہ ماسکو کی رجسٹریشن عمل میں آئی.مکرم اخلاق احمد انجم صاحب جولائی 1993 میں ماسکو سے لندن واپس تشریف لے گئے.جولائی 1995ء میں پاکستان سے مکرم آغا سکی خان صاحب بطور مبلغ رشیا پہنچے.چند ماہ ماسکو میں رہنے کے بعد ان کا داخلہ ایک نزد یکی شہر تو یر (TVER) کی ایک یونیورسٹی میں ہو گیا جہاں اور بھی احمدی طلباء پڑھ رہے تھے.مکرم خواجہ مظفر احمد صاحب بطور مبلغ اکتوبر 1995 ء میں ماسکو پہنچے.آغاز میں ان کی تقرری بیلاروس کے لئے عمل میں آئی.پھر 1996ء میں مرکز نے ان کی تقرری ملک قازاخستان کے لئے کر دی جہاں ان کو 2005 ء تک خدمت دین کی توفیق ملی.1996ء میں مکرم را نا خالد احمد صاحب اور مکرم آغا سکی خان صاحب نے سینٹ پیٹرز برگ (جسے پہلے لینن گراڈ بھی کہا جاتا تھا) کا دورہ کیا.یہ شہر ماسکو کے بعد رشیا کا دوسرا بڑا شہر ہے.
207 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی اجازت سے ماسکو کے بعد رشیا کے اس دوسرے بڑے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں 1997ء میں جماعت کا مشن ہاؤس خریدا گیا.جہاں مکرم آغا سکئی خان صاحب 1997 ء تا 2000 ، خدمات دینیہ بجا لاتے رہے.بعد ازاں 2001ء میں مکرم عطاء الرب چیمہ صاحب کی تقرری سینٹ پیٹرز برگ مشن میں کی گئی جہاں ان کو 2011 ء تک بطور مبلغ خدمات بجا لانے کی توفیق ملی.ماسکو شہر کی جماعت میں 1993ء کی ابتدا سے ہی سعید روحوں نے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہونا شروع کر دیا تھا.تو ے (90) کی دہائی میں جن مختلف اقوام کے لوگوں نے بیعت کی توفیق پائی ان میں تاتار، ازبک، تاجک، آذربائیجانی، آرمینین، قازاخ، رشین ، پاکستانی، اسی طرح بعض یہودی و عیسائی مذہب کے لوگ بھی شامل ہیں.اس طرح ماسکو اور رشیا کے دیگر شہروں مثلاً سینٹ پیٹرز برگ، کازان، ایوانووا (lvonovo) ، ولادیمیر، گورکی (GORKY) ، تویر (Tver) اور سمارا (Samara) وغیرہ میں پھیلے ہوئے افراد جماعت کی مجموعی تعداد 100 سے 150 کے درمیان ہو گئی تھی.مکرم را نا خالد احمد صاحب کو فروری 1993ء تا یکم نومبر 2009 ، بطور مبلغ انچارج رشیا خدمت کی توفیق ملی.تاتارستان جو رشیا کی ایک سٹیٹ ہے.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ نے جلسہ سالانہ یو کے 1993ء کے موقع پر اپنے خطاب میں یہاں احمدیت کے نفوذ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: تاتارستان [ TATARSTAN] میں جو برادرم را ویل کا اصل وطن ہے دو سال یا تین سال پہلے وہاں سے مرات محمد جان صاحب جلسہ UK میں تشریف لائے تھے اور یہ ثابت قدم رہے، وفادار ثابت ہوئے.واپس جا کر انہوں نے رابطہ رکھا اور اپنے آپ کو احمدی قرار دیتے رہے.ان کی بیٹی نے بھی بہت ہی اخلاص کے ساتھ جماعت کے ساتھ تعلق رکھا اور ایک دوسرے کے ایمان کو یہ تقویت دیتے رہے.اب وہاں خدا کے فضل سے باقاعدہ مشن ہاؤس قائم ہو چکا ہے، جماعت قائم ہو چکی ہے اور
208 ارد گرد خدا کے فضل سے تیزی سے رسوخ پھیل رہا ہے بلکہ ایک موقع پر جبکہ ہمارا یہاں سے وفد وہاں گفت وشنید کے لئے گیا راویل صاحب اس وفد میں شامل تھے تو وہاں کے وائس پریذیڈنٹ نے ٹیلیویژن پر انٹرویو دیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ احمدی عقیدہ ہمیں اس لحاظ سے قبول ہے کہ ہمارے لئے یہ جماعت بہتر ہے.اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ کھلے ہاتھوں اور کشادہ سینے کے ساتھ اس جماعت کا استقبال کیا جائے.چنانچہ خدا کے فضل سے اب وہاں ایک تائیدی رو چل پڑی ہے لیکن احمد بیت کو قبول کرنا ان قوموں کے لئے اتنا آسان نہیں جو 70 سال تک دہریت کے زہر سے مسموم رہے اور اس کے نتیجہ میں باوجود اس کے کہ خدا کے فضل سے اسلام سے تعلق ٹوٹا نہیں اور اسلامیت کا شعور ان کے دلوں میں قائم رہا لیکن عملاً اسلام کی تفاصیل سے کچھ آگاہی نہیں تھی اور بحیثیت Muslim Nation کے تو اسلام کے اندار ہے لیکن بحیثیت مذہب اسلام کے یہ عملاً اسلام سے باہر ہی رہے.ان کو دوبارہ اسلام میں داخل کرنا اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور حقانیت کا یقین دلوں میں جاگزین کرنا محنت طلب ہے اور دعاؤں کا محتاج ہے اور اعجاز کا منتظر ہے.اس لئے دعائیں کریں.ہم جس حد تک محنت ہے کر رہے ہیں، دعائیں بھی کرتے ہیں.ساری جماعت دعائیں کرے کہ اللہ تعالیٰ وہاں اعجازی نشان دکھائے کیونکہ در حقیقت روحانی انقلابات کے لئے دلائل سے بہت بڑھ کر اعجازی نشان کام آیا کرتے ہیں.“ مکرم مرات محمد جان صاحب کو بطور صدر جماعت کا ذان تا تارستان رشیا کئی سال خدمت کی توفیق علی مکرم مرات صاحب اور ان کی فیملی نے 1992ء میں مکرم منیر الدین شمس صاحب کے دورہ کا ذان کے دوران بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی.اس دورہ کے دوران تاتارستان میں جماعت کا باقاعدہ نظام قائم کیا گیا.جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے مکرم مشہود احمد ظفر صاحب مبلغ سلسلہ کا تقرر رشیا کے ایک بڑے مسلم آبادی والے شہر کا ذان میں کیا گیا تھا.مکرم مشہود احمد صاحب کو کا ذان مشن میں فروری 1993 ء سے ستمبر 2002 ء تک خدمت کی توفیق ملی.
209 مکرم مبشر احمد عابد صاحب مبلغ سلسلہ کو یکم دسمبر 1998 ء سے 21 مئی 2001 ء تک رشیا کے شہر ایوانو وا میں خدمت کی توفیق ملی.1997ء میں مکرم رستم حماد ولی صاحب ( حال معلم وصدر جماعت احمد یہ ماسکورشیا) نے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی.ان کا تعلق تا تار قوم سے ہے.انہوں نے جماعت کے ساتھ اخلاص و محبت کے تعلق میں بڑی تیزی سے ترقی کی اور ہر طرح سے خدمت پر مستعد رہے.1998ء میں انہوں نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی.1999ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ان کا وقف قبول فرمایا.اس وقت سے آپ نہایت محنت اور اخلاص کے ساتھ خدمات دینیہ بجالا رہے ہیں.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی پاکستان سے لندن ہجرت کے بعد جلسہ سالانہ یو کے ایک مرکزی جلسہ سالانہ کی شکل اختیار کر گیا تھا.اس لئے ہر سال دنیا بھر سے دور دراز کے ممالک سے لوگ جوق در جوق اس جلسہ میں شمولیت کے لئے لندن آتے ہیں.قریباً 1998ء سے ہر سال رشیا سے بھی ایک وفد جلسہ سالانہ یو کے میں شرکت کے لئے پہنچتا ہے جس میں احمدی و غیر از جماعت افراد شامل ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے رشیا اور اس کی ریاستوں میں افراد جماعت دن بدن اخلاص میں ترقی کر رہے ہیں اور تمام مخالفتوں کو برداشت کرتے ہوئے صدق و وفا کی شمعیں روشن کئے ہوئے ہیں اور جماعت ان علاقوں میں ترقی پذیر ہے.الباتيا (ALBANIA) البانین قوم میں جماعت کا با قاعدہ پیغام حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ پہنچا، جن کی ملاقات اٹلی میں قیام کے دوران ایک البانین نو جوان مکرم عثمان کلا یا صاحب Osman)
210 (Kalaja سے ہوئی جو تعلیم کے سلسلہ میں وہاں قیام پذیر تھے.محترم مولوی صاحب کی تبلیغ سے مکرم عثمان کلا یا صاحب خاندان سمیت حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے.بعد میں جب البانی میں با قاعدہ احمد پیشن ہو قائم کرنے کی غرض سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مولوی محمد الدین صاحب کو 18 اپریل 1936ء کو قادیان سے البانیا کے پہلے مبلغ کے طور پر روانہ فرمایا تو یہ رابطے مزید مضبوط ہوئے.تاریخ احمدیت جلد 7 میں ان کے البانیا میں مختصر قیام اور تبلیغی مسائی کا تفصیلی ذکر موجود ہے.صرف تین ماہ کے قیام کے بعد مخدوش ملکی حالات کی وجہ سے مولوی صاحب کو مجبوراً البانبیا چھوڑنا پڑا.البتہ مکرم عثمان کلا یا صاحب خط و کتابت کے ذریعہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ہدایات پاتے رہے، یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد البانیا میں کمیونسٹ حکومت کا قیام عمل میں آیا جس کے بعد ہر قسم کے رابطے ختم ہو گئے.کمیونسٹ حکومت نے تدریجا ہر قسم کی مذہبی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کیں.1990ء میں کمیونسٹ حکومت کے زوال تک البانیا کے باقی دنیا سے روابط منقطع تھے، جس کی وجہ سے احمدیت کے پیغام کی تشہیر بھی البانیا میں نہ ہوسکی.بہر حال البانین زبان میں جماعتی لٹریچر کی اشاعت اور البانین قوم تک پیغام احمدیت پہنچانے کے لیے حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالی کے دور خلافت میں محترم محمد کریا خان صاحب کو یوگوسلاویہ بھیجا گیا.جنہوں نے مارچ 1975ء سے جون 1982 ء تک کو سودا میں قیام کیا جہاں البانین آباد.حالا ہیں.بعد میں سیاسی حالات خراب ہونے کی وجہ سے انہیں مجبوراً واپس پاکستان جانا پڑا.حضرت خلیفة اصبح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر موصوف کو جماعت کی طرف سے قرآن کریم کے پہلے البانین ترجمہ کی توفیق ملی جو 1989ء میں صد سالہ جوبلی کے موقع پر شائع ہوا.علاوہ ازیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کی کتب کے البانین تراجم کا آغاز ہوا.اسی دوران سویڈن میں ایک البانین نو جوان مکرم Raif Dika صاحب بیعت کر کے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.کچھ عرصہ بعد ہی ان کے آبائی وطن البانیا میں تبلیغی کاوشوں کا با قاعدہ آغا ز ہوا.اپریل
211 1994ء میں سویڈن سے محترم مشہود الحق صاحب امیر جماعت سویڈن کی قیادت میں پہلا جماعتی وفد البانیا پہنچا اور اس طرح سے Pogradec اور اردگرد کے علاقوں میں تبلیغی و تربیتی مساعی کا باقاعدہ آغاز ہوا.ان مسائی میں مزید تیزی آئی تو سویڈن کے علاوہ، جرمنی اور برطانیہ سے واقفین عارضی نے بھی آنا شروع کر دیا.1995ء میں محترم مشہور الحق صاحب امیر جماعت سویڈن، محترم آفتاب احمد خان صاحب امیر جماعت برطانیہ، محترم ہادی علی چوہدری صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن اور مکرم Raif Dika صاحب کے ذریعہ جماعت کی باقاعدہ رجسٹریشن عمل میں آئی.اسی دوران تقریباً نصف صدی کے بعد مکرم عثمان کلا یا صاحب نے قادیان ( انڈیا ) ایک خط بھیجوایا جس پر صرف ”مرزا بشیر الدین محمود قادیان انڈیا ' درج تھا.اس خط میں انہوں نے درخواست کی تھی کہ جماعت ان سے رابطہ کرے.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کو اس کا علم ہوا تو آپ کی خصوصی ہدایت پر مکرم محمد زکریا خان صاحب پہلی مرتبہ 1995ء میں البانیا پہنچے اور مکرم عثمان کلا یا صاحب کو تلاش کیا اور اُن سے ملاقات کی.موصوف کو اسی سال جلسہ سالانہ برطانیہ میں شرکت کرنے کی بھی توفیق ملی.چنانچہ جلسہ کے دوسرے روز حضور رحمہ اللہ نے اپنے بعد دوپہر کے خطاب کے دوران ان کا تعارف کرواتے ہوئے ایک تصویر بھی دکھائی جس میں پہلے مبلغ مولوی محمد دین صاحب ، مکرم عثمان کلا یا صاحب اور اُن کے بھتیجے ڈاکٹر Bajram Preza صاحب تھے.بعد میں ازراہ شفقت حضور رحمہ اللہ نے مکرم عثمان کلا یا صاحب اور ڈاکٹر Bajram Preza صاحب کو جو جلسہ سالانہ برطانیہ میں تشریف لائے ہوئے تھے، اسٹیج پر بلایا اور اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا موقع دیا.اس موقع پر ایک البانین امام Shefki صاحب بھی موجود تھے.1996ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے البانیا مشن کی ذمہ داری مکرم محمد زکریا خان صاحب کے سپرد کی اور حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر 1999ء میں ایک لمبی تگ ودو کے بعد دار الحکومت ترانا (Tirana) کے نواحی علاقہ میں 33976 مربع میٹر پر مشتمل ایک وسیع زمین خریدی گئی جس پر ایک
212 تین منزلہ مشن ہاؤس اور ایک خوبصورت مسجد کی تعمیر کی گئی.2001 ء تک مسجد و مشن ہاؤس کی تعمیر مکمل ہو گئی.حضور رحمہ اللہ نے مشن ہاؤس کا نام ”دار الفلاح اور مسجد کا نام بیت الاول عطا فرمایا.اس مسجد کی پہچان دو اونچے منارے ہیں جو ڈور سے نظر آتے ہیں.اس مسجد کے مستقف حصّہ میں چھ صد افراد نماز ادا کر سکتے ہیں.تین منزلہ مشن ہاؤس میں مرکزی دفاتر لیکچر ہال، لائبریری، میٹنگ روم کے علاوہ مہمانوں کی رہائش کے لیے بھی انتظام کیا گیا ہے.اس مسجد بیت الاول کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ کمیونزم کے زوال کے بعد کمیونسٹ بلاک میں تعمیر ہونے والی یہ جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد ہے.2000ء میں مکرم ساجد احمد صاحب نسیم مبلغ کے طور پر البانیا پہنچے جنہوں نے محترم محمد زکریا خان صاحب صدر جماعت احمد یہ البانیا کے ساتھ مل کر مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر میں خدمات سرانجام دیں.لیکن ویزہ کی مشکلات کی وجہ سے موصوف کو کچھ عرصہ بعد ہی البانیا سے نکلنا پڑا.رومانیہ (ROMANIA) 1990ء کی دہائی میں جماعت احمدیہ جرمنی نے داعیان الی اللہ کے وفود کے ذریعہ رومانیہ میں تبلیغ کا کام شروع کیا.ان کوششوں کو پھل لگا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں جماعت کا پودا لگا..اپریل 1994ء میں جرمنی سے پہلا تبلیغی وفد رومانیہ پہنچا.اس پہلے دورہ کے نتیجے میں 6 بیٹھیں ہوئیں جن میں ایک مسجد کے امام اور ان کی فیملی شامل تھی.بعد ازاں جرمنی سے ایک دوسرے وفد نے رومانیہ کا دورہ کیا.جس کے نتیجہ میں مزید 36 بیعتیں حاصل ہوئیں.ان میں بھی 2 مساجد کے امام بھی شامل تھے.اس طرح 42 بیعتوں کے ساتھ رومانیہ میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.اسی دور میں لوکل زبان میں منتخب قرآنی آیات اور منتخب احادیث کی طباعت ہو چکی تھی.
213 بلغارية (BULGARIA) بلغاریہ مشرقی یورپ کا ایک اہم ملک ہے جس کے مشرق میں بحر اسود، شمال میں رومانیہ، مغرب میں مقدونیہ، جنوب میں یونان اور جنوب مشرق میں ترکی واقع ہے.مکرم ڈاکٹر عبد الغفار صاحب مربی سلسلہ (جرمنی) کے ذریعہ اور مکرم شیخ شوکت علی صاحب کے تعاون سے پہلی بیعت مکرم ارجان صاحب نے کی جو اس وقت جرمنی میں رہائش پذیر تھے.مکرم ارجان صاحب کی دعوت پر 30 اپریل 1994ء کو چار افراد پر مشتمل وفد جرمنی سے بلغاریہ گیا.وہاں مختلف شہروں کے دورہ جات کئے اور تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کیا.اس موقع پر 12 / بیعتیں بھی ہوئیں.بعد ازاں مزید دورہ جات اور بیعتوں کا سلسلہ چلتا رہا.ستمبر 2000ء میں دو مبلغین مکرم محمد اشرف ضیاء صاحب اور مکرم طاہر احمد صاحب بلغاریہ پہنچے.انہوں نے بطور طالب علم شہر بلا غوئیو گراڈ (Blagoevgrad) کی یونیورسٹی میں داخلہ لیا.مبلغین کی آمد پر لوکل جماعتوں کا قیام عمل میں آیا نماز سینٹرز بنے ، چندے کا نظام جاری ہوا، اجلاسات شروع ہوئے.بلغاریہ سے نو (9) افراد پر مشتمل ایک وفد نے پہلی بار جلسہ سالانہ جرمنی 2001ء میں شمولیت اختیار کی اور حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ سے شرف ملاقات حاصل کیا.اپریل 2003ء یعنی دور خلافت رابعہ کے اختتام تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے 5 مقامات پر جماعتیں قائم ہو چکی تھیں، اور اندازا 300 مراحمدی یہاں موجود تھے.تمام جماعتوں اور بعض مقامات پر انفرادی گھروں میں ایم ٹی اے کا انتظام ہو چکا تھا.جماعتوں میں خطبات جمعہ کا لائیو ترجمہ ہوتا تھا.حکومتی سطح پر ملاؤں کی طرف سے مخالفت بھی ہے.باوجود ان مشکلات کے جماعت ترقی کر رہی ہے.بلغارین زبان میں ایک ماہانہ رسالہ بھی شائع ہوتا ہے اور جماعتی لٹریچر تیار ہورہا ہے.
214 چاؤ (CHAD) یہ مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے.جنوری 1994ء میں نائیجیریا سے پہلا تبلیغی وفد چاڑ پہنچا.اس کے بعد مزید دو وفود چاڑ بھجوائے گئے.الحمد للہ کہ ان دونوں وفود کی کوششوں کے نتیجہ میں وہاں 43 افراد پر مشتمل جماعت قائم ہو گئی اور یہاں مشن کھول دیا گیا.مسلغ انچارج نائجیر یا مکرم عبد الخالق صاحب نیر نے یہاں کے متعدد دورے کئے اور جماعت کو منظم کیا.کیپ ورڈے (CAPE VERDE ISLAND) یہ آٹھ جزائر پر مشتمل بر اعظم افریقہ کا ایک ملک ہے.نومبر 1993ء میں گیمبیا سے مکرم منور احمد خورشید صاحب مربی سلسلہ نے اس ملک کا دورہ کیا.دو ہفتوں کے قیام کے دوران 22 بیعتوں کے ساتھ یہاں جماعت کا قیام عمل میں آیا.یہاں اب باقاعدہ جماعت کا مشن قائم ہے اور گیمبیا سے ایک معلم وہاں خدمات بجالا رہے ہیں.قازاخستان 9 9 0 0 2 2 0 0 4 (KAZAKHSTAN) سابقہ سوویت یونین جو کہ USSR ( یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک ) کہلاتا تھا اس کا شیرازہ بکھرنے کے بعد بعض ریاستیں اپنی آزادی کے بعد CIS ( کامن ویلتھ انڈیپنڈنٹ سٹیٹس) کہلانے لگیں.ان ممالک میں 16 / دسمبر 1991ء کو سوویت یونین سے الگ ہونے والی ریاست قازاخستان کا رقبہ ستائیس لاکھ سترہ ہزار تین سو مربع کلومیٹر ہے.یہ بلحاظ رقبہ دنیا کا نواں بڑا ملک ہے.
215 CIS میں روس کے بعد رقبہ کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے.تیل، گیس اور بہت سی معدنیات سے مالا مال ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے قازاخستان میں پہلے احمدی ہونے کا شرف مکرم المیس (Yelmes) صاحب کو حاصل ہے.آپ گلاسگومشن کے ذریعہ 1991ء میں جماعت سے متعارف ہوئے.گلاسگو مشن نے اس وقت ایک تقریب میں 80 کے قریب مہمانوں کو مدعو کیا جن میں زیادہ ترشین بولنے والے احباب تھے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی رشین میں ترجمہ شدہ کتب اور سوال وجواب کی ویڈ یو دیکھ کر اورمعلومات کے بعد مکرم امسیس صاحب کو 1991ء میں ہی احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.تارخ قوم سے تعلق رکھنے والے یہ پہلے احمدی ہیں.1992ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الرابع " کی ہدایت پر مکرم منیر الدین شمس صاحب نے قازخستان کا دورہ کیا.الما آتا میں بعض افراد جماعت اور دیگر تعلق رکھنے والوں سے ملاقاتیں کیں.اسی طرح تازخستان کے مفتی مقیم الما آتا سے بھی ملاقات کی اور الما آتا کی مرکزی لائبریری کے لئے مختلف جماعتی کتب تحفہ پیش کیں.1993ء میں مکرم چوہدری مقصودالرحمن صاحب نے حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ کی تحریک پر بیک کہتے ہوئے واپڈا (پاکستان) میں 17 ویں گریڈ کی ریونیو آفیسر کی ملازمت چھوڑ کر اپنے آپ کو ایک سال کے لئے رشین ممالک میں خدمت کے لئے پیش کیا اور اکتوبر 1994ء میں الماتی قازخستان پہنچے.جہاں انہیں تقریباً پانچ سال تک تاریخی خدمت کی توفیق ملی.یونیورسٹی میں انگلش کے پروفیسر کے طور پر بھی خدمات بجالانے کے ساتھ ساتھ تعلیم القرآن" کے نام سے ایک رجسٹریشن کرا کر بھر پور تبلیغ بھی کرتے رہے.الماتا میں عام لوگوں تک احمدیت کا پیغام آپ کے ذریعہ پہنچا ور متعدد افراد کو بیعت کی تو فیق ملی.1994ء میں قازخستان کے قومی شاعر ” آبائے“ کے دفتر Abai House کی افتتاحی تقریب کے حوالہ سے ایک وفد قازاخستان سے ROLLAN SEISENBA JEW ( رُلان سنین بایو) کی قیادت میں لندن گیا.جماعت انگلستان کی طرف سے انہیں تعارف کے لئے مسجد فضل میں دعوت دی گئی.حضرت
216 خلیفہ مسیح الرابع حمہ اللہ سےمسلسل ملاقاتوں اورسوال وجواب کی مجالس کے نتیجہ میں پانی احباب نے بیعت کی.1994ء میں حضور پرنور کے ساتھ ان احباب کی انگریزی ، شین کی سوال وجواب کی مجالس منعقد ہوئیں.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہدایت کے مطابق 7 اپریل 1996ء کو منسک (Minsk) بیلاروس سے قازخستان کے پہلے مبلغ کے طور پر خواجہ مظفر احمد صاحب الماتا پہنچے.آپ کے آنے پر یہاں پر باقاعدہ نظام جماعت قائم ہوا.قازخستان میں جماعت کی رجسٹریشن کا کام 1997ء میں مکمل کیا گیا جس کے بعد کھل کر تبلیغ اسلام احمدیت کے فریضہ کو سر انجام دیا گیا.یکم اپریل 1997ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی اجازت اور رہنمائی کی بدولت قازخستان کے اس وقت کے دارالحکومت لما تا کے رہائشی علاقہ بائیجا سووا (Baitasova) روڈ پر واقع 654 مربع گز قطعہ زمین جس پر ایک عمارت بھی تعمیر شدہ موجود تھی 38000 ڈالرز کے عوض جماعت احمدیہ قازخستان کے نام پر خرید کی گئی.ایک رشین دوست سے خریدا گیا یہ مشن ہاؤس وقار عمل کے ذریعہ قابل استعمال حالت میں لایا گیا.ضروری مرمت وغیرہ کروائی گئی اور یہاں جماعتی سرگرمیوں کا آغاز ایک نئے جوش و جذبہ کے ساتھ کر دیا گیا.28 رستمبر 1998ء کو جماعت احمدیہ کی برانچ شہر چمکنت ، میں رجسٹرڈ کروائی گئی.یہاں اس وقت محترم حسن طاہر بخاری صاحب بطور مبلغ موجود تھے جو ازبکستان کے نامساعد حالات کی وجہ سے جون 1998ء میں یہاں آئے تھے.25 رستمبر 2002ء کو 22000 ڈالرز کے عوض مشن ہاؤس کے لئے 586 مربع گز جگہ بمعہ عمارت خرید کی گئی.اس رقبہ میں دو عدد دو منزلہ عمارات پہلے سے موجود تھیں.ان کے علاوہ مہلدی قرغان میں فروری 2002ء میں اور شمالی قازخستان میں سیمی پلا تنسک (Semiplatinsk) میں اپریل 2009ء میں مشن ہاؤس خریدنے کی توفیق حاصل ہوئی.قازخستان میں دور خلافت رابعہ میں جلسہ سالانہ کرنے کی اجازت نہ ہونے کے باعث وہاں سے احباب جماعت کو اپنے خرچ پر جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہونے کی تحریک کی جاتی جس پر مختلف سالوں میں دسیوں احمدی، غیر احمدی اور غیر مسلم افراد بھی شامل ہوتے رہے.حضرت خلیفہ اسیح سے
217 ملاقات اور ان سے اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر کے ایک خاص سرور حاصل کرتے رہے.نورفولک آئی لینڈ (NORFOLK ISLAND) نور فولک آئی لینڈ [ NOR FOLK ISLAND] نیوزی لینڈ جزیرے کے شمال میں [ قریباً 600 میل دور واقع ہے.حضرت خلیفہ مسیح الرابع حمہ اللہ نے لسہ سالانہ یو کے 1994ء کے موقع پر اپنے خطاب میں اس ملک میں احمدیت کے نفوذ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک عجیب انداز میں جماعت قائم ہوئی ، کسی خاص کوشش اور محنت کے نتیجے میں نہیں بلکہ یوں لگا جیسے اچانک کوئی واقعہ رونما ہو جائے.ہوا یوں کہ طوالو پارلیمنٹ کے سپیکر ڈاکٹر پواپوا (Puapua) وہاں جو پہلے پرائم منسٹر بھی رہ چکے ہیں اور مجھ سے ملاقات ہو چکی ہے جماعت احمدیہ کے لئے بہت خیر سگالی کے جذبات رکھتے ہیں وہ ایک دفعہ اس ملک کے دورے پر جارہے تھے تو ہمارے افتخار ایاز صاحب نے ان سے ذکر کیا کہ ہماری خواہش ہے کہ اس ملک میں بھی احمدیت نافذ ہو اور واقعہ یہ بیان کرتے ہیں کہ نورفولک (Norfolk) جارہے تھے یہ جزیرہ نجی اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہے جانے سے قبل میں نے انہیں تین کتابیں دیں که دوران سفر مطالعہ کریں اور جب وہاں جائیں تو پھر دیکھیں کہ وہاں احمدیت کو کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے اس میں ہماری مدد کریں.وہ واپس آئے اور یہ کہا کہ میں نے کچھ حصہ پڑھا تھا لیکن کتابیں ہوٹل کے کمرے میں بھول آیا ہوں اور اس کے لئے میں معذرت پیش کرتا ہوں.دو دن کے بعد اس ہوٹل کے اسسٹنٹ مینجر کا فون آیا کہ میرے ہوٹل کے کمرے سے کچھ کتابیں ملی ہیں وہ اتنی دلچسپ ہیں اور ان کی اعلیٰ تعلیم سے میں اتنا متاثر ہوا ہوں کہ انہوں نے ان وزیر صاحب سے درخواست کی کہ مجھے اجازت دیں کہ میں یہ کتابیں اپنے پاس ہی رکھ لوں بلکہ ہو سکے تو مجھے تعارف کروادیں وہ کون لوگ ہیں جو ایسی کتابیں لکھتے ہیں تاکہ میں ان سے رابطہ کروں.پس جب افتخار صاحب کا ان سے رابطہ ہوا، ان کو
218 کتابیں بھیجی گئیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی خوشی کے ساتھ وہ جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے اور یہ عہد کیا کہ اب انشاء اللہ جلد اپنے ملک میں جماعت احمدیہ کو پھیلائیں گے.تو اس طرح اتفاقی حادثات جو دکھائی دیتے ہیں مگر حقیقت میں خدا کی تقدیر ہے جو ظاہر ہورہی ہے.اس ذریعہ سے بھی خدا تعالی کے فضل سے بعض ملکوں میں احمدیت کی داغ بیل ڈالی گئی ہے." جمیکا (JAMAICA) اس ملک میں ستمبر 1994ء میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.اپریل 2003ء یعنی دورِ خلافتِ رابعہ کے اختتام تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ملک کی دو Parishes میں دو جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.ایک Kingston کے علاقہ میں اور ایک جمیکا کے مغربی علاقہ Trelawny میں.اپریل 2003ء میں ان دونوں جماعتوں میں مجموعی طور پر 20 احمدی تھے اور کوئی مبلغ یا لوکل مشنری موجود نہیں تھے.ان جماعتوں سے رابطہ کینیڈایا امریکہ سے آنے والے واقفین عارضی کے ذریعہ ہوتا تھا.لاؤس (LAOS) لاؤس میں اکتوبر 1994ء میں احمدیت کا نفوذ ہوا.تھائی لینڈ سے ایک معلم کر نیا صاحب لاؤس میں دعوت الی اللہ کے لئے تشریف لے گئے.اللہ تعالیٰ نے ان کی تبلیغی کوششوں میں برکت ڈالی اور 122 افراد احمدیت میں شامل ہوئے.
219 ویتنام (VIETNAM) جنوری 1995ء میں ویت نام میں بھی جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.انڈونیشیا سے مبلغ سلسلہ حسن بصری صاحب یہاں تبلیغ کے لئے پہنچے.اس دورہ کے دوران 113 / افراد پر مشتمل ایک گاؤں اپنی مسجد اور امام سمیت احمدی ہوا.پھر ایک دوسرے گاؤں میں بھی 168 / افراد نے بیعت کی توفیق پانی اور یہاں جماعت قائم ہوئی.کمبوڈیا (CAMBODIA) نومبر 1995ء میں انڈو نیشین مبلغ مکرم حسن بصری صاحب یہاں تبلیغ کے لیے پہنچے.مختلف دیہات کے امام مساجد سے رابطہ کر کے تبلیغی پروگرام منعقد کئے.اس دورہ کے نتیجہ میں کمبوڈیا میں 378 افراد پر مشتمل جماعت قائم ہوئی.دو امام مساجد نے بھی بیعت کی.حاجی جعفر صاحب پہلے کمبوڈین احمدی تھے جو بعد میں جماعت احمدیہ کمبوڈیا کے پہلے صدر بھی بنے.آپ نے 2009ء میں وفات پائی.جماعت کمبوڈیا نے Cham اور Khmer زبانوں میں بعض پمفلٹس اسلام احمدیت کے تعارف پر مشتمل فولڈرز بھی تیار کر کے شائع کئے.اللہ تعالی کے فضل سے یہاں سات مقامات پر جماعتیں قائم ہوچکی ہیں.مساجد کی تعداد چھ ہے تبلیغی مراکز پانچ ہیں اور چھ مرکزی مبلغین اور لوکل معلمین کام کر رہے ہیں.گریناڈا (GRENADA) 1995ء میں گریناڈا میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.ٹرینیڈاڈ سے امیر ومبلغ انچارج مکرم
220 ابراہیم بن یعقوب صاحب نے اس ملک کا دورہ کیا اور اللہ کے فضل سے ان کو پہلے ہی دورہ میں کامیابی نصیب ہوئی اور آٹھ افراد بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.ابراہیم بن یعقوب صاحب نے ملک کے وزیر اعظم سے بھی ملاقات کی اور انہیں قرآن کریم اور لٹریچر پیش کیا.ایکوٹوریل گئی (EQUATORIAL GUINEA) مغربی افریقہ کا یہ ملک Gabon اور Cameroon کے درمیان واقع ہے.مئی 1995ء میں نائیجیریا مشن کی مساعی سے ایکوٹوریل گئی میں جماعت کا نفوذ ہوا.اور 21 را فراد پر مشتمل جماعت قائم ہوئی.اب یہاں 14 رجماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور ایک معلم یہاں کام کر رہے ہیں.مقدونیه (MACEDONIA) مقدونیہ (Macedonia) کے افراد سے پہلا رابطہ جرمنی میں ہوا.جرمنی کے شہر آخن (Achen) میں چند احمدی رہائش پذیر تھے.ان میں ایک دوست عبدالرشید خالد صاحب جو ایک فیکٹری میں ملازم تھے 1979ء سے جرمنی میں رہائش پذیر تھے.فیکٹری میں ان کا تعارف ایک یوگوسلاوین سے ہوا جو مسلمان تھے اور جن کا نام مکرم با زیت از نود (Bajazit zinov) تھا.انہوں نے 1983ء میں تحریری بیعت کی اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی پاکستان سے ہجرت کے بعد 1985ء میں حضور کے ہاتھ پر براہ راست بیعت کرنے کی سعادت بھی حاصل کی.انہوں نے اپنے ایمان میں بہت ترقی کی اور جلد ہی ان کے والدین مکرم ابراہیم محمود یو صاحب اور مکرمہ زکریا
221 محمود و وہ صاحبہ اور بھائی نے بھی بیعت کر لی.بعد میں مکرم Bajazit Izinov نے جرمنی بھر میں تبلیغ احمدیت میں نمایاں کام کیا.ان کے ذریعہ ان کے کئی اور رشتہ دار بھی احمدی ہوئے.یہ دوست مقدونیہ ما گئے لیکن ان کے ذریعہ احمدی ہونے والے ایک دوست مکرم شریف در وسکی صاحب جرمنی سے مقدونیہ Berovo اپریل 1995ء میں گئے.Berovo سے احمدیت کا آغاز ہوا.اس دور میں وقتا فوقتا جرمنی سے بعض احباب وقف عارضی پر جاتے رہے.نہیں اپریل 2003ء تک Berovo میں جماعت قائم ہوئی تھی اور 150 کے قریب احباب نے جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی.ایل سلواڈور (EI SALVADOR) سینٹرل امریکہ کا سب سے چھوٹا ملک ہے.قومی زبان سپینش ہے.ہمسایہ ممالک میں Guatemala ، ہندوراس Honduras) اور نگارا گوآ (Nicaragua) ہیں.مکرم محمد ا کرم عمر صاحب مبلغ گوائٹے مالا نے اپنی سالانہ رپورٹ 1995-1994ء میں اطلاع دی کہ اس ملک کے دو باشندوں کو جب جماعت احمدیہ کا لٹریچر پہنچا تو اس کے نتیجہ میں مئی 1995ء میں انہوں نے بذریعہ خط بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی.سال 1996ء اور 1997ء میں مکرم محمد اکرم عمر صاحب نے اس ملک کے دورے کئے جہاں مقامی ریڈیو اور TVپر ان کے پروگرام نشر ہوئے اور مختلف اخبارات و رسائل کو انٹرویو دیئے گئے جس سے احمدیت کا پیغام مختلف لوگوں تک پہنچا.اللہ تعالیٰ نے ان کی تبلیغی کوششوں میں برکت ڈالی اور 55 افراد نے احمدیت قبول کی اور باقاعدہ جماعت کا قیام عمل میں آیا.بعد ازاں یہاں گوائٹے مالا سے جماعتی نمائندگان دورے کرتے ر ہے.
222 سلووينيا (SLOVENIA) سلووینیا 1991ء میں یوگوسلاویہ سے آزاد ہونے والا پہلا ملک تھا.بعض مبلغین اس وقت سے تبلیغی دورہ جات کرتے رہے ہیں.1990ء کی دہائی میں جرمنی کے علاقہ Neufahrn سے تعلق رکھنے والے احمدی دوست نذیر احمد صاحب اپنے ذاتی خرچ پر ( غالبا کاروبار کے سلسلہ میں ) سلوو بینیا کے شہر Velenje گئے جہاں ان کی تبلیغ سے ایک فیملی احمدی ہوئی.یہ لوگ جلسہ سالانہ یو کے میں شامل ہوتے رہے لیکن بد قسمتی سے مقامی ملاں کے دباؤ اور منفی پراپیگینڈا کی وجہ سے یہ ثابت قدم مندرہ سکے.اپریل 1996ء میں ایک تبلیغی پروگرام کے تحت نذیر احد صاحب کوسلو پنیا بھجوایا گیا.ایک ہفتہ کے دوران وہاں دس تبلیغی مجالس ہوئیں.اور سوال و جواب کے پروگرام ہوئے.اس موقع پر 2 افراد پر مشتمل پانچ فیملیز کواحدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.خدام الاحمدیہ جرمنی کے اجتماع کے موقع پر Slovenia جماعت کے چند کو احمدی دوست جرمنی آئے اور حضور رحمہ اللہ کو اپنے ملک کا جھنڈا پیش کیا اور اجتماعی بیعت میں بھی شامل ہوئے.سال 2000 ء اور 2001ء میں نذیر احمد صاحب کی سلو د ینیا کے دوسرے بڑے شہر Maribor میں تبلیغی کاوشوں سے کافی تعداد میں مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے.ان میں سے بہت سے لوگ بسوں میں قافلوں کی صورت میں جلسہ سالانہ جرمنی میں بھی شامل ہوتے رہے.
223 بوسنیا (BOSNIA) بوسنیا کے بعض پرانے اخبارات سے پتہ چلا ہے کہ 1930ء میں یہاں احمدیت کا تعارف پہنچا اور بعض رسائل نے اس زمانہ میں کافی مثبت طور پر جماعت کا ذکر کیا.اس کے بعد کے بعض رسائل میں جو 1937ء کے ہیں حضرت مولانا محمد دین صاحب کا ذکر ملتا ہے کہ وہ بلغراد میں احمدیت کی تبلیغ کر رہے ہیں.یہ ذکر مثبت اور منفی دونوں طور پر پایا جاتا ہے.یہاں کے حالات کی بنا پر مولانامحمد دین صاحب کو جلد ہی یوگوسلاویہ سے واپس جانا پڑا.ایک لمبے عرصہ تک ایسی کوئی صورت نہ بنی کہ جماعت یہاں مبلغ بھجوائی یا پیغام بھجواتی.6 اپریل 1992ء کو دنیا نے بوسنیا کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے قبول کیا تو یہاں جنگ چھڑ گئی.اس جنگ میں قریبا دولاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور کئی لاکھ نے یہاں سے ہجرت کی.یہ مہاجر مین جب دوسرے یورپی ممالک میں گئے تو حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشادات کی بنا پر جہاں تک ہوسکا احمدیوں نے ان مظلوموں کی خدمت کی.بوسنیا میں جاری جنگ 1995 ء کے آخر میں اختتام پذیر ہوئی.تب جماعت نے یہاں مشن کھولنے کا فیصلہ کیا.28 ستمبر 1996ء کو مرکزی مبلغ نے بوسنیا میں تزلہ ( Tuzla) کے قریب ایک چھوٹے سے شہر غرا چانقہ (Gracanica) میں ایک چھوٹے سے مکان سے کام کا آغاز کیا.پھر اکتوبر 1997ء سے سرائیوو سے کام کا آغاز ہوا.25 مارچ2002ء کو جماعت نے مشن ہاؤس کے طور پر ایک عمارت خریدی.یکم مارچ 2003 ء سے اس مشن سے با قاعدہ کام شروع ہو گیا.اس کا نام حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے مسجد بیت السلام رکھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بوسنین زبان میں بہت سالٹریچر تیار ہو کر طبع ہوا.اپریل 2003 یعنی دور خلافت رابعہ کے اختتام تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ملک کے 2 رصوبوں میں 5ر جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.اور انداز 100 راحمدی یہاں موجود تھے.نیز یہاں کی مقامی زبان میں ہزاروں کی تعداد میں لٹریچر تیار ہو کرطبع ہو چکا تھا.
224 قرغیزستان (KYRGYZSTAN) جمہور یہ قرغیزستان وسطی ایشیا میں واقع ایک ترک نژاد مسلمان ریاست ہے.اس کے شمال میں قازخستان، مغرب میں ازبکستان ، جنوب میں تاجکستان اور مشرق میں چین واقع ہیں.اس کا دار الحکومت ہے.1919 ء سے یہاں سوویت دور شروع ہوا جو 31 اگست 1991ء میں جمہوریہ قرغیر ستان کی آزادی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا.بشکیک جولائی 1995 ء میں ازبکستان سے مبلغ سلسلہ حافظ ظہور احمد مدثر صاحب قرغیزستان تبلیغ کے لئے پہنچے.ان کے ساتھ ایک اور احمدی بزنس مین مکرم نعیم اللہ خان صاحب بھی ازبکستان سے یہاں آئے.اللہ تعالٰی نے فضل فرمایا اور تھوڑے ہی عرصہ میں دس افراد نے بیعت کی توفیق پائی.مکرم حافظ ظہور احمد مدثر صاحب کے عرصہ قیام 1995 ء تا 2006ء کے دوران بھی باقاعدہ جماعت کا قیام عمل میں آیا.چنانچہ بشکیک شہر میں کرایہ پر ایک عمارت حاصل کر کے تبلیغی مرکز قائم کیا گیا.مکرم حافظ ظہور مدثر صاحب 2006 ء میں پاکستان واپس تشریف لے گئے.خلافت رابعہ کے دور میں مکرم حافظ ظہور مدثر صاحب کے علاوہ دیگر چند مبلغین کو بھی قرغیزستان کی مختلف جماعتوں میں خدمت کی توفیق ملی.مکرم بشارت احمد شاہد صاحب جون 1997 ء میں ازبکستان سے قرغیزستان کے شہر اوش تشریف لے گئے.1997ء تا جولائی 2002ء اوش میں رہے.جولائی 2002 ء تا 2009 ء تک قرغیزستان کے دوسرے شہر کارا کول میں خدمت کی توفیق پائی.2009 ء تا 30 اپریل 2012 ء تک بشکیک میں رہے.30 اپریل 2012 ء کو پاکستان واپسی ہوئی.مکرم ملک طاہر حیات صاحب ستمبر 1998 کو ازبکستان سے قرغیزستان کے شہر اوش تشریف لائے.ستمبر 1998 تا اگست 2003 اوش میں رہے.مکرم ارشد محمود ظفر صاحب کی اکتوبر 1998ء میں ازبکستان سے قرغیزستان کے شہر اوش آمد ہوئی.اکتوبر 1998 ء تا اپریل 2006 ء اوش میں قیام رہا.
225 کروشیا (CROATIA) کروشیا میں 1997ء میں احمدیت کا پودا نصب ہوا اور اُن کے نمائندے جلسہ سالانہ یو کے میں شمولیت کے لئے تشریف لائے.یہ ملک سابقہ یوگوسلاویہ کی ایک آزاد شدہ ریاست ہے.یہاں سے ہجرت کر کے جرمنی میں آئی ہوئی ایک کروشین فیملی نے بیعت کی.بعد ازاں یہ فیملی واپس کروشیا چلی گئی.اور انہوں نے پیغام بھجوایا کہ ہم سے رابطہ کریں اور تبلیغی پروگرام بنائیں.چنانچہ جرمنی سے ایک تبلیغی وفد کو کروشیا بھجوایا گیا.اللہ کے فضل سے وہاں پر 18 ربیعتیں حاصل ہوئیں اور جماعت کا قیام عمل میں آیا.نکاراگووا (NICARAGUA) 1998ء میں نکاراگوا میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.یہ ملک گوائٹے مالا کے ماتحت ہے.جماعت گوائٹے مالا کی طرف سے اس ملک کے دورہ جات کئے جاتے ہیں.اس ملک میں احمدیت کا پودا لگنے کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے.محمد اکرم عمر صاحب مبلغ گوائٹے مالا نے اپنی رپورٹ 19 جولائی 1998ء میں لکھا کہ اس ملک میں احمدیت کا پودا اس طرح لگا کہ نکاراگودا سے ایک فیملی ذریعہ معاش کی تلاش میں 1996ء میں گوائٹے مالا آئی.فیملی کے سر براہ Diego Manuel Cordoba کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے جو انہوں نے خود سنایا ہے اور لکھ کر بھی دیا ہے.لکھتے ہیں: گوائٹے مالا آنے سے پہلے میں ایک کافر تھا.میرا کوئی دین ایمان نہ تھا.خدا کا تو قائل تھا لیکن مذہب میں تضادات کو پا کر متنفر تھا.( دوسری طرف ذریعہ معاش کی فکر مندی بھی تھی).
226 ایک دن ایک عورت نے مجھے ناحق پریشان کیا اور بہت تکلیف پہنچائی.میں نے خدا کے حضور رورو کر دعا کی کہ میرے دل میں اس کے خلاف کوئی نفرت پیدا نہ ہو.اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں خدا سے دعا تو مانگ رہا ہوں لیکن میرا کوئی مذہب نہیں.تب میں نے معالیہ دعا کی کہ خدایا مجھے سچائی کا نور عطا کر.اور تو خود مجھے سیدھی راہ دیکھا.اگلے دن ایک کام کی غرض سے میں عبدل (احمدی دوست) سے ملا.باتوں باتوں میں اس نے مجھ سے اسلام کا ذکر کیا.میں نے دل میں سوچا یہ بھی کوئی مذہبی پاگل ہوگا.لیکن جوں جوں اس نے خدا کی وحدانیت اور اسلام کی معقول تعلیم کی وضاحت کی مجھے اس میں دلچسپی پیدا ہوگئی اور چند دن بعد میرا دل اسلام قبول کرنے کے لئے تیار تھا.میرے تمام شکوک رفع ہو چکے تھے.امام صاحب نے میرے بعض سوالات اور شکوک کا معقول جواب دے کر مجھے مطمئن کر دیا.یہ دوست اللہ کے فضل سے مخلص احمدی ہیں.تبلیغ بھی کرتے ہیں.بعد ازاں ان کی بیوی اور دو بچوں نے اسلام قبول کر لیا.ایک بیٹا کارا گو و امیں ہے اور باقی فیملی گوائٹے مالا میں ہے.ان کا اسلامی نام عابد رکھا گیا.انہوں نے 13 ستمبر 1996ء میں بیعت کرنے کی سعادت پائی.گوائٹے مالا میں تربیت حاصل کرنے کے بعد نکاراگووا واپس جا کر فریضہ تبلیغ ادا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے.مگر زندگی نے وفا نہ کی اور 29 جولائی 1998ء کو ٹریفک کے ایک حادثہ میں وفات پاگئے.انا للہ و انا الیہ راجِعُون.حادثہ میں ان کی اہلیہ بھی شدید زخمی ہوئیں اور صحت یاب ہونے کے بعد واپس اپنے ملک نکاراگودا چلی گئیں اور اپنے عزیز واقارب و ماحول میں اشاعت اسلام کا فریضہ انجام دیتی رہیں.کاراگوا میں 6 سعتیں اللہ تعالی نے اپنے فضل سے عطا فرمائیں.
227 مایوٹ آئی لینڈ (MAYOTTE ISLAND) سال 1998 ء میں Mayotte Island میں احمدیت کا نفوذ ہوا.ماریشس سے داعیان الی اللہ مایوٹ آئی لینڈ کا دورہ کرتے رہے.مکرم نسیم تیجو صاحب اور مکرم امین جواہر صاحب دورہ کرنے والوں میں شامل تھے تبلیغ کے نتیجہ میں چند افراد بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.جن میں ابوشیہابی صاحب، ابراہیم صاحب، سلیم سدی صاحب اور عبداللہ جاجا صاحب، سراج الدین صاحب، ریجار و صاحب شامل تھے.ابراہیم صاحب پہلے صدر جماعت مایوٹ آئی لینڈ مقرر ہوئے.چیک ری پبلک (CZECK REPUBLIC) سال 1999ء میں جماعت احمدیہ جرمنی کے ذریعہ ملک چیک ری پبلک میں جماعت کا قیام اس طرح عمل میں آیا کہ یہاں چند پاکستانی احمدی نوجوان اور فیملیز آکر آباد ہوئیں اور ان کو باقاعدہ منظم کر کے نظام جماعت قائم کیا گیا.سلووک ری پبلک (SLOVAK REPUBLIC) 1999ء میں جماعت جرمنی کے ذریعہ سلوک ری پبلک میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.یہاں بھی مختلف جگہوں سے چند احمدی نوجوان آکر آباد ہوئے جن کو باقاعدہ منظم کر کے جماعت قائم کی گئی.
228 لیسوتھو (LESOTHO) بر اعظم افریقہ کے اس ملک میں جماعت احمد یہ ساؤتھ افریقہ کی تبلیغی مساعی سے 1999ء میں احمدیت کا نفوذ ہوا.2002ء میں جامعہ احمد یہ گھانا سے تربیت یافتہ معلم کی تقرری یہاں پر ہوئی جنہوں نے Thaba Bosiu ٹاؤن میں کرایہ کا مکان لے کر کام کا آغاز کیا.یہ وہ گاؤں ہے جہاں سے جماعت کی ابتدا ہوئی تھی.رہائش کے علاوہ نماز کے لئے علیحدہ جگہ کرایہ پر لی اور تبلیغ و تربیت کے کام کو تیز کیا گیا.اُن کی کوشش سے مقامی جماعت کے علاوہ دو اور جگہوں Thaba Khufa اور Maseru شہر میں ابتدائی چھوٹی جماعتیں قائم ہوئیں.ان تین جماعتوں میں 50 سے زائد تجنید تھی.نئے احمدیوں کو مالی قربانی کے نظام سے متعارف کروایا گیا.ایکواڈور (ECUADOR) 1999ء میں ایکواڈور ( Ecuador) میں احمدیت کا نفوذ اس طرح ہوا کہ کینیڈا میں ایکواڈور کے ایک دوست [FERNANDO ASTUDILLO] نے احمدیت قبول کی تھی جن کا اسلامی نام ناصر احمد رکھا گیا.انہوں نے جلد جلد اخلاص میں ترقی کی.یہ اپنے عزیزوں سے ملنے ایکواڈور گئے اور ان کی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے اُن کے کٹر رومن کیتھولک خاندان میں سے پانچ افراد نے اسلام قبول کر لیا.
229 سنٹرل افریقن ری پبلک (CENTRAL AFRICAN REPUBLIC) اس ملک میں جماعت کا قیام بینن (Benin) جماعت کی تبلیغی کوششوں کے نتیجہ میں 2000ء میں ہوا.انہوں نے ایک علاقہ کا انتخاب کر کے کام شروع کیا.رابطے کر کے لٹریچر تقسیم کیا اور متعد د تبلیغی مجالس کا انعقاد کیا.اس کے نتیجہ میں 62 ع ھیں عطا ہوئیں.جن میں ایک مسجد کے امام بھی شامل ہیں.بعد ازاں یہاں بینن سے معلمین دورہ کرتے رہے.پھر یہاں ایک عرصہ تک سول وار (Civil War) جاری رہی.اس کے بعد حالات بہتر ہونے پر یہاں با قاعدہ مرکزی مبلغ کا تقرر ہوا اور ایک عمارت حاصل کر کے باقاعدہ جماعتی سنٹر قائم کیا گیا.ساؤ ٹومے (SAO TOME) نومبر 1999ء میں امیر صاحب بینن نے ایک مقامی معلم کے ساتھ اس ملک کا دورہ کیا.وہاں پہنچ کر مختلف لوگوں سے رابطے کئے جن میں مسلمان اور عیسائی شامل تھے.باوجود کوشش کے تبلیغی پروگراموں میں اُس وقت کامیابی نہ ہو سکی.2000ء میں یہاں جماعت کا نفوذ ہوا.یہاں سب سے پہلے احمدی کا نام ابراہیم ہے.مزید تبلیغی پروگراموں کے نتیجہ میں ابراہیم صاحب کے ساتھیوں نے بھی احمدیت قبول کر لی.یہاں گل دس ہی تھیں ہوئیں اور باقاعدہ صدر کا تقرر کر کے نظام جماعت قائم کر دیا گیا.
230 (SEYCHELLES) اکتوبر 1999ء میں سیشلز سے پانچ افراد پر مشتمل ایک فیملی نے ماریشس میں احمدیت قبول کی اور واپس آکر جماعتی وفد بھیجوانے کی درخواست کی.ماریشس سے ایک داعی الی اللہ دورہ پر گئے.ان کے وہاں قیام کے دوران مزید بیعتیں ہوئیں اور اللہ کے فضل سے جماعت با قاعدہ رجسٹرڈ ہو گئی.بعد ازاں ماریشس سے مبلغین مسلسل یہاں کے دورے کرتے رہے اور کام کو مزید آگے بڑھایا.سوازی لینڈ (SWAZILAND) فروری 2000ء میں ساؤتھ افریقہ جماعت کے تبلیغی وفد نے اس ملک کا دورہ کیا.علاقہ HLATIKULU کا انتخاب کر کے وہاں تبلیغی مجالس منعقد کیں اور سوال و جواب ہوئے.علاقہ کے چیف بھی ان پروگراموں میں شامل ہوئے.ایک مجلس کے آخر پر پانچ افراد نے احمدیت میں داخل ہونے کا اعلان کیا.ان میں چیف کے دولڑ کے اور تین اور نو جوان شامل ہیں.سوازی لینڈ میں ساؤتھ افریقہ سے مزید وفد تبلیغ کے لئے جاتے رہے جس کے نتیجہ میں HLATIKULU (ھلائی کولو ) گاؤں میں جہاں سے ابتدا ہوئی تھی چھوٹی سی جماعت بن گئی اور چیف نے بھی بعد میں بیعت کرلی اور سڑک کے کنارے 40 X 50 مربع میٹر جگہ جماعت کو سجد کی تعمیر کے لئے دے دی.اس پر حضرت خلیفہ اصبح الرابع رحمہ اللہ کی منظوری سے 2002ء میں فانا سے ایک معلم یہاں مقرر ہوئے جنہوں نے ابتدائی احمدیوں کی تربیت کا کام شروع کیا.آہستہ آہستہ احمدیوں کی تعداد یہاں 28 ہوگئی.
231 بوٹسوانا (BOTSWANA) نومبر 1999ء میں جماعت ساؤتھ افریقہ نے پہلا وفد یہاں دورہ پر بھجوایا جس نے مختلف مقامات کا دورہ کیا، سوال و جواب کی مجالس ہوئیں.پھر جنوری 2000ء میں دوسرا وفد تبلیغی دورہ پر یہاں بارہ مقامات پر گیا.وہاں کے چیف اور مقامی باشندوں کو تبلیغ کا موقعہ ملا.چار دوست بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.تین افراد پر مشتمل ایک احمدی فیملی پہلے سے وہاں مقیم ہے.اس طرح سات افراد پر مشتمل وہاں با قاعدہ جماعت قائم ہوئی.نمیبا (NAMIBIA) جنوری 2000ء میں ساؤتھ افریقہ جماعت نے پہلا وفد یہاں دورہ پر بھجوایا الحمد للہ پہلے ہی دورہ میں نمایاں کام ہوا.مختلف علاقوں میں ہزاروں افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا.ملک کی چار بڑی لائبریریوں میں قرآن کریم اور دیگر اہم کتب رکھوائی گئیں.ایک علاقہ میں پہلی ہی تبلیغی مجلس میں ایک دوست رشید صاحب بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.اس کے بعد جولائی 2000ء میں ایک دوسرا وفد نمیبیا پہنچا اور تبلیغی پروگراموں اور مجالس سوال و جواب کے نتیجہ میں مزید تین افراد نے احمدیت قبول کی.اس طرح یہاں چار افراد پر مشتمل جماعت قائم ہو گئی.اس کے بعد مزید وفود بھی ساؤتھ افریقہ سے وہاں جاتے رہے اور مزید لوگوں سے رابطہ ہوا اور ایک اور دوست ابوبکر صاحب نے بھی بیعت کر لی.
232 رو ویسٹرن صحارا (WESTERN SAHARA) سینیگال کے ریگستان میں سات دن رات کا بڑا تکلیف دہ سفر کر کے یہ گروپ موریطانیہ کے آخری قصبہ زونیا ( ZURIAT) اور ویسٹرن صحارا کے بارڈر کے علاقہ میں پہنچا.ایک معلم بیمار ہو گئے جن کو واپس آنا پڑا.دوسرے معلم نے اپنا پروگرام جاری رکھا اور تبلیغی مجالس منعقد کیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی سے نوازا اور 13 افراد پرمشتمل 3 فیملیز نے احمدیت قبول کی اور یوں یہاں احمدیت کا نفوذ ہوا.معلمین مشتمل و قدمتی 2000 ء میں اس ملک کے تبلیغی سفر پر روانہ ہوا.موریطانیہ جبوتی (DHIBOUTI) یہ ملک کینیا جماعت کے سپرد کیا گیا تھا.کینیا نے یہاں تبلیغی وفود بھجوائے.سال 2000ء میں UTHUMAN MWAVYOMBO اور معلم ابراہیم دارا GUYE نے یہاں کا دورہ کیا.اللہ تعالیٰ نے ان کے تبلیغی پروگراموں میں برکت ڈالی اور یہاں 50 افراد کو جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی.اس طرح یہاں احمدیت کا نفوذ ہوا.محمد عبد الرحمن صاحب صدر جماعت اور حسن عمر صاحب سیکرٹری تبلیغ مقرر ہوئے.اریٹریا (ERITREA) براعظم افریقہ کا یہ ملک بھی کینیا جماعت کے سپرد کیا گیا تھا.کینیا سے دو معلمین عثمان MWAVYOMBO اور ابراہیم دارا GUYE صاحب نے اس ملک کے دورے کئے.سال
233 2000ء میں JOBAT نامی گاؤں میں یکصد کے قریب افراد کو جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی.یوسف ابراہیم صاحب صدر جماعت اور احسان ابوبکر صاحب سیکرٹری تبلیغ مقرر ہوئے.کوسووو (KOSOVO) سال 2000ء میں جماعت احمد یہ جرمنی کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں 21 افراد نے بیعت کرنے کی توفیق پائی اور جماعت کا قیام عمل میں آیا.اب (2019ء) اللہ کے فضل سے یہاں تین جماعتیں قائم ہیں.مرکزی مسجد اور مشن ہاؤس بھی ہے اور ایک مرکزی مبلغ اور لوکل معلم بھی کام کر رہے ہیں اور جماعت مسلسل بڑھ رہی ہے.موٹا کو (MONACO) یکم جون 2000ء کو فرانس سے چار داعیان الی اللہ پر مشتمل قافلہ اس ملک کے دورہ پر روانہ ہوا.مونا کو میں قیام کے دوران مختلف لوگوں سے تبلیغی رابطے کئے اور پیغام حق پہنچایا.اپنا لٹریچر اور ہوٹل کا ایڈریس تقسیم کیا.صبح نماز فجر تک وہاں پر آنے والے لوگوں سے گفت وشنید جاری رہی.نماز فجر کے بعد ان میں سے دو افراد خدا کے فضل سے اسلام احمدیت قبول کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.پھر ان کے گھروں میں تبلیغی نشست منعقد کی گئی اور پانچ افراد پر مشتمل ایک فیملی نے بیعت کرلی اور لیوں مونا کو میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.
234 اندورا (ANDORRA) جماعت احمد یہ فرانس کی طرف سے یکم جولائی 2000ء کو چار افراد پر مشتمل وفد اس ملک کے تبلیغی دورہ پر روانہ ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو مساجد کے اماموں سے رابطہ ہوا.اُن میں سے ایک امام پر وفیسر ہیں اور دوسرے ایک مقامی تنظیم کے صدر بھی ہیں.ان کے ذریعہ تبلیغی پروگرام منعقد ہوئے.سوال وجواب کی پہلی مجلس پانچ گھنٹے جاری رہی.اگلے روز دو گھنٹے تک تبلیغی مجلس اور سوال و جواب کا پروگرام ہوا.اس کے بعد لٹریچر تقسیم کیا گیا.اسی روز شام کو دونوں امام ہوٹل آئے اور کہا کہ آپ ہماری بیعت لے لیں.ہم احمدیت میں داخل ہونا چاہتے ہیں.انہوں نے مزید بیعت فارم بھی لئے اور کہا کہ اب ہم احمدیت کے پیغام کو آگے پہنچائیں گے.اس طرح اس ملک میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.و مینی ویلا (VENEZUELA) گیانا میں وینزویلا سے آئے ہوئے ایک دوست سیف الدین نامی نے بیعت کی جو دس سال وینزویلا میں مقیم رہ چکے تھے اور وہاں کی زبان پر بھی ان کو پورا عبور حاصل تھا.2001ء میں یہ صاحب گیانا کے مبلغ الحسن بشیر صاحب کے ساتھ وینزویلا کے سفر پر روانہ ہوئے اور اس سفر کے دوران پچیس افراد کو قبول احمدیت کی توفیق ملی.اپریل 2003 یعنی دور خلافت رابعہ کے اختتام تک اللہ تعالی کے فضل سے اس ملک کے دار الحکومت کراکس (Caracus) میں جماعت قائم ہو چکی تھی.بعد میں گیانا سے مبلغین نے اس ملک کے مزید دورے کئے.
235 قبرص (CYPRUS) 2001ء میں جماعت احمدیہ ترکی اور جماعت احمدیہ جرمنی کی تبلیغی مساعی سے یہاں درج ذیل افراد بیعت کر کے میں شامل ہوئے اور یوں جماعت کا آغاز ہوا.مکرم Hassane Mahamat صاحب Los Mustafa صاحب ، Bani Abdullah صاحب Sahin Taha صاحب Sahin Nuray ،صاحب Sahin Hasan صاحب، Sahin Sirvan ،صاحبه Sahin yonca صاحبہ Dundar Esat صاحب، Esref Mehmet صاحب Fellaoglue Niyazi صاحب Mahmut Halit صاحب کا Yavas Koc Yusuf Tidin Hakan Arslan Turan 6.Emre صاحب Eroglu Seckin صاحب بعد ازاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں باقاعدہ نظام جماعت قائم کیا گیا اور یہاں مجلس عاملہ کا قیام بھی عمل میں آیا.یونان کے مبلغ سلسلہ عطاء النصیر صاحب نے بھی اس ملک کا دورہ کیا اور جماعت کو منظم کیا.مالٹا (MALTA) 2001ء میں اس ملک میں جماعت احمد یہ جرمنی کو احمدیت کا پودا لگانے کی توفیق ملی.یہاں انہوں نے دو تبلیغی وفود بھجوائے جنہوں نے مالٹا پہنچ کر سات مختلف شہروں میں تبلیغی میٹنگز کیں اور لٹریچر تقسیم کیا.ملک کی بڑی لائبریریوں میں لٹریچر رکھوایا.یہاں تبلیغی پروگراموں کے دوران اللہ کے فضل سے چار افراد کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.مالٹا بحیرہ روم (Mediterranean Sea) کے عین وسط میں واقع ہے.اس کے شمال میں
236 93 کلومیٹر دور سلی (اٹلی) مغرب میں 350 کلومیٹر طرابلس (لیبیا) واقع ہیں.مالٹا تیونس کے مشرق میں 290 کلومیٹر دور ہے.مالٹا کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے اور سب سے قریب ترین خشکی کا علاقہ سلی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ بڑی شان سے پورا ہو چکا ہے اور جہاں زمین کے کناروں تک امام الزمان کا پیغام پہنچ چکا ہے وہیں پر سمندروں اور پانیوں کے درمیان واقع آبادیاں بھی اس پیغام سے سیراب ہورہی ہیں.مالٹا پانچ جزیروں مالٹا، گوزو، کومینو، کومینوٹو اور فلفل پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے تاہم کومینوٹو اور فلفلا نہایت چھوٹے ہیں اور وہاں پر لوگ رہائش نہیں رکھتے.مالٹا کی زیادہ آبادی دو جزیروں مالٹا (Malta) اور گوزو ( Gozo) میں ہے.مالٹا کی کل آبادی چار لاکھ دس ہزار نفوس پر مشتمل ہے.اس چھوٹے سے ملک کا کل رقبہ 316 مربع کلومیٹر ہے.مالٹا کا دارالحکومت والیٹا (Valletta) ہے.روز نامه الفضل ربوہ مورخہ یکم جنوری 2003ء کے مطابق 27 جولائی 1955ء کو مالٹا کے ایک انجینئر نے لندن میں حضرت مصلح موعودہؓ کے ہاتھ پر بیعت کی.اور اس طرح مالٹا میں جماعت کی بنیاد رکھی گئی.مالٹا میں جماعت کے تعارف سے متعلق جماعت احمدیہ جرمنی کے صد سالہ خلافت جو بلی سود نیئر کے صفحہ نمبر 282 پر ایک مختصر رپورٹ شائع شدہ ہے.اس کے مطابق جرمنی سے مکرم منیر احمد منور صاحب مربی سلسلہ اور مکرم نعیم احد صاحب نے مالٹا جا کر تبلیغ کا کام شروع کیا اور وہاں احمدیت کا پودا لگایا.اس کی آبیاری کے لئے جرمنی سے واقفین عارضی مکرم افتخار احمد بھٹی صاحب، مکرم ایاد عودہ صاحب اور مبلغین سلسلہ مکرم ڈاکٹر عبد الغفار صاحب اور مکرم عبد الباسط طارق صاحب نے دورہ جات کئے.انہوں نے کتب کے اسٹال لگائے ، افراد سے انفرادی ملاقاتیں کیں.مالٹا میں جماعت احمدیہ کی باقاعدہ رجسٹریشن مورخہ 13 نومبر 2003ء کو ہوئی.
237 آذربائیجان (AZERBAIJAN) جرمنی سے تبلیغی وفود آذربائیجان جاتے رہے.انہوں نے وہاں مختلف لوگوں سے رابطے کئے اور سوال و جواب کی مجالس ہوئیں.سال 2001 ء میں جرمنی سے مکرم محمد جلال شمس صاحب مبلغ سلسلہ نے اس ملک کا دورہ کیا.اللہ تعالی نے کامیابی عطا فرمائی اور اس دورہ کے دوران ان کو 51 بیعتیں عطا ہوئیں اور اس طرح آذربائیجان میں جماعت کا نفوذ ہوا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آذربائیجان میں با قاعدہ ایک مرکزی مبلغ کا تقرر ہو چکا ہے.مقامی ریڈیو، TV پر پروگرام بھی نشر ہوتے ہیں اور مقامی زبان میں کتب کے تراجم کا کام بھی جاری ہے.مالدووا (MALDOVA) سال 2002ء میں اس ملک میں جماعت احمدیہ جرمنی کے ذریعہ احمدیت کا نفوذ ہوا.مجلس انصار الله جرمنی نے یہاں تبلیغ اور احمدیت کے قیام کے سلسلہ میں خصوصی مساعی کرنے کی توفیق پائی.کیوبا (CUBA) اس ملک میں احمدیت کا آغاز 2003ء میں دہلی (انڈیا) کے ایک دوست مفیض الاسلام صاحب کے ذریعہ ہوا.یہ اپنے کام کی غرض سے وہاں گئے اور دور ان قیام تبلیغی رابطے کیے اور مرکز کو ان لوگوں کے ایڈریسر بھجوائے.چنانچہ ان ایڈریسز پر سپین مشن کے ذریعہ سپینش زبان میں لٹریچر بھجوایا گیا اور
238 ان لوگوں سے مسلسل رابطہ رکھا گیا اور الحمدللہ وہاں کے دارالحکومت ہوانا (Hawana) میں 14 / افراد بیعت فارم پُر کر کے جماعت میں شامل ہوئے.بعد ازاں گوائٹے مالا سے مرکزی مبلغ اس ملک کے دورے کرتے رہے.زائر (ZAIRE) قدرتی وسائل سے مالا مال ملک زائر (ZAIRE) موجودہ عوامی جمہوریہ کونگو (DEMOCRATIC REPUBLIC OF CONGO) سینٹرل افریقہ کا ایک وسیع و عریض اور نہایت اہم ملک ہے.عوامی جمہوریہ کونگو کا دارلحکومت کنشاسا ، دنیا کا سب سے بڑا فرنچ بولنے والا شہر ہے.یہ شہر دریائے کونگو پر واقع ہے.موجودہ عوامی جمہور یہ کونگو، جو پہلے زائر کہلاتا تھا، کی سرحدیں نو ممالک کے ساتھ لگتی ہیں.مشرق میں تنزانیہ، برونڈی ، روانڈا، یوگنڈا، اور شمال میں ساؤتھ سوڈان ، ری پبلک آف سینٹرل افریقہ، مغرب میں ری پبلک آف کونگو، اور جنوب میں انگولا اور ری پبلک آف زیمبیا واقع ہیں.اس کے علاوہ جنوب مغرب میں بحر اٹلانٹک کے ساتھ 37 کلومیٹر کی ساحلی پٹی بھی ہے.سات کروڑ آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا سب سے بڑا فریج ملک ہے.رقبہ کے لحاظ سے افریقہ کا دوسرا جبکہ دنیا کا گیارہواں بڑا ملک ہے.عوامی جمہوریہ کونگو کو اس کے دارالحکومت کے نام سے کونگو کنشا سا بھی لکھا اور پکارا جاتا ہے.کونگو میں بولی جانے والی زبانیں لنگالا، کیکونگو، چلو بہ اور سواحیلی بڑی زبانیں ہیں.فریج سرکاری زبان ہے.جبکہ دیگر بہت سی لوکل زبانیں بھی بولی جاتی ہیں.عوامی جمہوریہ کونگو میں جماعت احمدیہ کی ابتدا : کونگو کے ہمسایہ ممالک تنزانیہ، یوگنڈا اور کینیا میں ایک مدت سے مشن قائم تھے اور جماعت کی طرف سے سواحیلی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اور دیگر لٹریچر شائع ہو کر بکثرت علاقے میں پھیل چکا تھا.بعض علاقوں میں 50-1945 کے سالوں میں جماعت کا پیغام پہنچ چکا تھا.تاہم 65-1960
239 کے عرصہ میں یہ مطبوعات ان ممالک سے اور خاص طور پر کینیا سے کونگو میں پہنچیں.نیز کونگو کے رہنے والوں کی ان ممالک میں آمد و رفت کی وجہ سے احمدیت ان میں متعارف ہوئی.خط و کتابت کے ذریعہ انفرادی طور پر بھی اس علاقے میں روابط قائم ہوئے.اولین احمدی: ابتدائی طور پر جماعت کا پیغام کونگو کے مشرقی علاقوں میں آیا.یہ سواحیلی بولنے والے علاقے ہیں.یہاں کینیا سے آنے والے لٹریچر کے ذریعہ پیغام پہنچا تھا.اسی طرح کم و بیش اسی دور (1960-65ء) میں کونگو کے سینٹر میں واقع صوبہ کسائی اور میٹل کے ڈسٹرکٹ Tshilenge تحصیل Kabeya Kamuanga کے ایک گاؤں Bena Mulombo میں ایک آدمی عیسی Musumadi نے جو نیروبی کینیا سے ہو کر آیا تھا لوگوں کو اسلام کا پیغام دینا شروع کیا.لیکن عیسائی چرچ کی طرف سے عوام میں اسلام مخالف پروپیگینڈا بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ اسلام سے بہت خائف تھے.مکرم میسلی صاحب اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے گھر میں ہی نماز ادا کرتے رہے.1960-61ء میں آپ کے پوتے ابراہیم Kanku نے بھی احمدیت قبول کر لی.مزید معلومات کے لئے تنزانیہ مشن کے ساتھ رابطہ میں رہے اور وہاں سے واپسی پر اپنے احمدی بھائیوں کے ساتھ مل کر جھیل Munkamba کے گاؤں Bena Mulombo میں ایک احمدی کیمپ کی بنیاد رکھی جس کا نام انہوں نے Rabwah Munkamba رکھا.1968-70ء میں صوبہ کسائی اوکسی ڈینٹل کے ایک مسلمان عثمان بادی نے بانتو (Usman Badi Ne Bantu) نے احمدیت قبول کرلی.یہ کسائی اوکسی ڈینٹل کی تحصیل Dimbelenge ( جسم بے لینگے ) میں رہتے تھے.ان کو جماعت کا پیغام کینیا سے آنے والے ایک اخبار یا رسالے Mapenzi Ya Mungu ( محبت الہی) کے ذریعہ ملا.یہ اخباران کی ایک بہن کے ذریعہ ان تک پہنچا تھا جس کی روانڈا میں شادی ہوئی تھی لیکن کینیا آتی جاتی رہتی
240 تھی.اس رسالے سے حاصل ہونے والی معلومات کو انہوں نے مکرم یوسف Kabasuasua صاحب تک پہنچایا تو انہوں نے بھی احمدیت کو قبول کر لیا.پھر یہ دونوں احباب Kananga کے مکرم ابرہیم Batubiabia کے پاس گئے.انہوں نے بھی پیغام حق کو قبول کر لیا.ان لوگوں نے رسالے پر دیئے گئے ایڈریس پر خط لکھا.اس خط کا جواب مئی 1976ء میں آیا جس کے ساتھ چند سواحیلی کتب بھی تھیں.ان کتب میں کسی جگہ دس شرائط بیعت بھی درج تھیں.انہوں نے شرائط بیعت والے حصے کو فوٹو کاپی کر کے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو دینا شروع کیا اور جب ایک تعداد نے بیعت کر لی تو یہ بیعت فارمز مرکز ارسال کر دئیے.مرکز کی طرف سے پیغام ملا کہ اپنا ایک نمائندہ چن کر اطلاع دیں.چنانچہ انہوں نے عثمان بادی نے بانٹو کو اپنا نمائندہ مقرر کیا اور مرکز اطلاع دی جہاں سے تقرری کا خط بھی موصول ہوا.احمدیت کو صوبہ کسائی اوکسی ڈینٹل میں متعارف کروانے کے لئے عثمان بادی نے بانتو صاحب نے بہت کوشش کی جس کے نتیجہ میں 1976ء میں 81 افراد نے احمدیت قبول کی.ابتدائی مساجد : 1978ء تک کا نانگا میں مزید احمدی ہو چکے تھے.انہوں نے کا نانگا کے نواحی گاؤںNtambwe میں پیغام دیا تو یہاں لوگوں نے احمدیت کو قبول کر لیا.ان احمدیوں نے اعلامیہ تبلیغ شروع کر دی اور یہ دعا کی کہ خدا تعالی پورے ملک میں احمدیت قائم کر دے اور احمد یہ مسجد قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا.جب وہاں کے چیف سے زمین کے حصول کے لئے درخواست کی گئی تو اس نے جگہ دے دی.مسجد کی تعمیر میں احباب جماعت نے بڑی محنت اور لگن سے کام کیا خصوصا گیارہ آدمیوں نے خود کام کر کے کچی مسجد کی تعمیر کا کام مکمل کیا.کونگو کے مشرقی صوبہ Maniema ( مانی اے ما) کے علاقے Karomo ( کارومو) میں مکرم اور لیس Kapaya صاحب نے خلافت ثانیہ کے دور میں بیعت کر لی تھی.پھر 1974ء میں ان کے ذریعہ مکرم حسن Mwiny Sefu صاحب نے احمدیت قبول کر لی.اسی طرح Maniema شہر
241 Kasongo کے بعض نوجوان تنزانیہ کے شہر Kianga تعلیم حاصل کرنے گئے جہاں انہیں احمدیت کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں.مکرم اور لیس Kapaya صاحب نے حسن Mwiny Sefu کو مخالفت کے پیش نظر کھلے عام تبلیغ کرنے سے منع کیا لیکن حسن MwinySefu نے احمدیت کا پیغام دوسروں کو دینا شروع کیا.یہاں تک کہ سنی مسلمانوں نے 1986ء میں حسن winy Sefu سے مناظرہ کرنے کے لئے ایک وفد Karomo بھجوایا.اس مناظرے میں احمدیت کی فتح ہوئی اور اس کے بعد مزید بیعتیں ہوئیں.مکرم حسن Mwiny Sefu صاحب نے اپنے خرچ پر جماعت کے متعلق مزید معلومات لینے کی خاطر تنزانیہ کا سفر کیا.اس طرح جب انہیں کنشاسا میں امیر جماعت کے آنے کی اطلاع ملی تو کنشاسا کا سفر کیا اور مولانا صدیق احمد منور صاحب سے ملے.یہ بات اہم ہے کہ karomo سے کنشاسا کا سفر آج بھی آسان نہیں ہے اور اُس زمانے میں بھی مشکل تھا.دو ہزار کلومیٹر دور سے کنٹا سا آنا آسان کام نہیں تھا.اس کے لئے ہمت کے علاوہ وسائل بھی درکار تھے.اس خدا کے بندے نے ان اسفار کے لئے یہ رقم کیسے اکٹھی کی اور کتنی قربانی کی، یہ خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.بہر حال یہ غیر معمولی قربانی تھی.کنشاسا سے واپس جا کر مکرم حسن MwinySefu نے تبلیغی سرگرمیاں مزید تیز کر دیں اور ان کی کوششوں کے نتیجے میں مزید دس گاؤں میں جماعت قائم ہوگئی.1981ء میں کا نانگا کے علاقے میں احمدیوں کا جینا دوبھر کردیا گیا.مخالفین نے یہ بات مشہور کر دی کہ احمدی خون پر لوگوں کی بیعت لیتے ہیں اور اپنے مرکز ربوہ بھجواتے ہیں.جب حکومت کے دفتروں میں یہ بات گردش کرنے لگی تو کا نانگا کے اہم احمدی احباب کو گرفتار کر لیا گیا.یہ احمدی جیل میں تو صرف چار دن رہے لیکن اس دوران میں ان پر تفتیش کے نام پر لرزہ خیز مظالم توڑے گئے.عدالت میں بیعت فارم پیش کیا گیا اور جماعت کا تعارف کروایا گیا تو ان احباب کو چار دن بعد رہا کر دیا گیا.یہ گرفتاریاں بعد میں بھی مختلف اوقات میں ہوتی رہیں.مقامی احمدیوں کی طرف سے زائر میں مبلغ بھجوانے کی درخواستیں مرکز بھجوائی جارہی تھیں.چنانچہ مختلف اوقات میں بعض مرکزی مبلغین کو زائر کا دورہ کرنے کی توفیق ملی.
242 حضرت خلیفہ امسح الثالث کے حکم پر مولانا صدیق احمد منور صاحب ماریشس سے زائر کے دورے پر گئے.آپ نے ایک ماہ (2 جون تا 5 جولائی 1982 ء) زائر موجودہ کونگو کنشاسا کا دورہ کیا.آپ کچھ دن کنشاسا ٹھہرنے کے بعد صوبہ کسائی اوکسی ڈینٹل کے صوبائی دارالحکومت Kananga ( کانالگا) کے دورے پر تشریف لے گئے.یہاں آپ نے ایک احمدی مکرم محمد اسماعیل Mukanya (مکانیا) صاحب کے ہاں تین ہفتے قیام کیا، پھر کنشاسا گئے اور مشن کے قیام کا جائزہ لینے کے بعد واپس ماریشس چلے گئے.بعد ازاں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر زائر کے پہلے با قاعدہ مبلغ کے طور پر آپ جون 1984ء میں زائر پہنچے.ابتدا میں آپ کا قیام مکرم عثمان کلونجی (Kalunji) صاحب کے ہاں رہا.ان کے گھر سات ماہ رہ کر جماعت کی تعلیم و تربیت کی اور تبلیغی سرگرمیاں بھی انجام دیں.مکرم عثمان کلونجی صاحب کے تعاون اور تبلیغ سے بعض اور لوگوں نے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.اس بار مولانا موصوف کی زائر آمد کے بعد سب سے پہلی بیعت کنشاسا کے ایک پروٹسٹنٹ نو جوان Mr.Nandu نے کی.ان کا اسلامی نام طاہر رکھا گیا.بیگھر کنشاسا میں پہلا تبلیغی و تربیتی سینٹر بنا.1984ء کے آخر میں جماعت کی رجسٹریشن کے لئے کوشش شروع کی گئی.1987ء میں دار الحکومت کنشاسا کی سٹی کونسل نے صوبہ کنشاسا میں تبلیغی سرگرمیوں کی اجازت دی.اپریل 1987ء میں اللہ تعالی نے جماعت کو اپنے نیشنل ہیڈ کوارٹر کے لئے شہر کے ایک علاقہ میں عمارت خریدنے کی توفیق عطا فرمائی.یہ وہی عمارت تھی جس میں گزشتہ تین سال سے کرائے پر مشن قائم تھا.یہ عمارت چالیس ہزار امریکن ڈالرز میں خریدی گئی.احمد یہ مرکز کی خرید کے بعد جماعتی سرگرمیوں میں تیزی اور وسعت پیدا ہوگئی.کنٹا سا میں دو سکولوں کا قیام : قیام جماعت احمدیہ کا ایک بڑا مقصد بنی نوع انسان کی بلا امتیاز ، بے لوث خدمت ہے.اس حوالہ سے جماعت احمدیہ زائرے نے اپنے منصوبوں کا آغاز تعلیم کے میدان سے کیا.ستمبر 1987ء میں
243 ایک پرائمری اور ایک سیکنڈری سکول کا آغاز کیا گیا.یہ ادارہ کنشاسا کے zone, Barumbu میں شروع کیا گیا.شروع میں عمارت کرایہ پر لی گئی.عمارت کے مالک نے کچھ عرصہ بعد جماعت احمدیہ کے کردار اور جماعت کے اعلی مقاصد خدمت خلق دیکھ کر اچھی قیمت پر یہ عمارت جماعت کو فروخت کر دی.پرائمری سکول میں نرسری حصہ بھی تھا.پرائمری سکول صبح شروع ہو کر دو پہر کو بند ہو جاتا اور بعد دو پرسیکنڈری سکول شروع ہوتا جو کہ شام تک جاری رہتا.آغا ز میں صرف 75 طلبہ تھے.سکولوں کی اعلیٰ کار کردگی اور نیک شہرت کو دیکھ کر 1989ء میں وزیر تعلیم نے دونوں سکولوں کے لیے علیحدہ علیحدہ رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ جاری کئے.نرسری اور پرائمری سکول کا نام احمد یہ پرائمری اینڈ نرسری سکول ہے، جبکہ سیکنڈری سکول کا نام Institute Luvua ہے.احمدیہ کلینک کا قیام : 1987ء میں دار الحکومت کنشاسا کے Masina زون میں ایک احمدیہ کلینک کا آغاز کیا گیا.آغاز میں ایک لوکل ڈاکٹر کو یہ کام سپرد کیا گیا.کچھ وقت کے بعد نصرت جہاں سکیم کے ماتحت ماریشس کے ایک واقف زندگی ڈاکٹر کرم ریاض امیر الدین صاحب زائر تشریف لائے.مکرم ڈاکٹر صاحب کی آمد زائر جماعت کی تاریخ میں اس لئے بھی اہم تھی کہ حکومت کے محکمہ صحت کے مطابق وہ زائر آنے والے پہلے ڈاکٹر تھے جو ایک مسلم تنظیم کی طرف سے زائر میں میڈیکل خدمات کے لئے باہر سے منگوائے گئے تھے.مکرم ڈاکٹر ریاض امیر الدین صاحب نے بہت محنت اور توجہ سے کلینک کو منظم کیا اور ان کے بے لوث جذبہ خدمت نے سارے ملک میں اس منصو بہ کو مشہور کر دیا.اس کلینک کے علاوہ مرکزی مشن ہاؤس میں ایک میڈیکل سینٹر ہے جو اس کلینک کی برانچ ہے اور آؤٹ ڈور سروسز (outdoor services) دیتا ہے.جماعت احمد یہ زائرے کی شوریٰ کا انعقاد : جماعت احمد یہ زائر میں پہلی مرتبہ مجلس شوری کا انعقاد 18 رستمبر 1989ء کو حضرت خلیفہ المسح الرابع
244 کے نمائندہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی تحریک جدید کی زیر صدارت ہوا.بعد میں مختلف اوقات میں کئی مرکزی نمائندگان بھی دورہ کے لئے آتے رہے.زمبابوے (ZIMBABWE) زمبابوے مشرقی افریقہ میں واقع ہے.اس کی سرحدیں زیمبیا، موزمبیق، ساؤتھ افریقہ اور سوڈ سوانا سے ملتی ہیں.1981ء میں مکرم مولوی عبد الباسط صاحب مبلغ زیمبیا مرکز کی ہدایت پر زمبابوے گئے تا وہاں مشن قائم کرنے کے بارہ میں حالات کا جائزہ لیا جا سکے.زمبابوے میں ملازمت کے سلسلہ میں رہائش پذیر ایشیائی احمدیوں کے تعاون سے مکرم مولوی صاحب موصوف نے مشن کے لئے ایک مکان خریدا اور اس طرح احمدیوں کے لئے ایک مرکزی جگہ بن گئی.زمبابوے چونکہ سوشلسٹ ملک ہے جہاں مذہبی جماعتیں کھل کر کام نہیں کرسکتیں.مذہبی جماعتوں کی رجسٹریشن میں بہت سی قانونی مشکلات حائل ہیں.چنانچہ انفرادی رابطوں اور لٹریچر کے ساتھ ساتھ اہم مواقع پر سر کردہ شخصیتوں کو مل کر پیغام حق پہنچانے کا طریق اپنایا گیا.1986ء میں غیر وابستہ تحریک میں شامل ملکوں کی کانفرنس ہرارے (Harare) میں منعقد ہوئی تو مختلف ممالک کے نمائندوں سے احباب جماعت نے ملاقات کی اور انہیں احمدیت کا تعارف کروایا.خانا سے تعلق رکھنے والے مبلغ احمدیت مکرم محمد بن صالح صاحب کو زمبابوے بھجوایا گیا جنہوں نے آٹھ ماہ تک وہاں رہ کر تبلیغ و تربیت کا کام کیا لیکن ویزا میں توسیع نہ ہونے کے باعث انہیں واپس آنا پڑا.
245 نیوزی لینڈ (NEW ZEALAND) ملک نیوزی لینڈ دو بڑے جزیروں اور کئی چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے.بڑے جزائر کو شمالی اور جنوبی جزائر کہا جاتا ہے.اس کے قریب ترین ہمسایہ ملک شمال میں New Caledonia ، في اور Tonga واقع ہیں جب کہ شمال مغرب میں دو ہزار کلومیٹر کے فاصلہ پر آسٹریلی واقع ہے.نیوزی لینڈ کی آبادی 4.1 ملین ہے.یہاں کے مقامی باشندوں کو Maori کہا جاتا ہے ان کی شرح 14.7 فیصد ہے.اس ملک کا کل رقبہ دو لاکھ 67 ہزار 844 مربع کلومیٹر ہے.عیسائیت یہاں کا سب سے بڑا مذہب ہے.دوسرے مذاہب میں ہندو ازم، بدھ ازم اور اسلام شامل ہیں.یہ ملک 1841ء میں برطانوی کالونی بنا اور 1931ء میں یہ ایک مکمل آزاد ملک قرار پایا.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نیوزی لینڈ میں ایک فعال اور مستعد جماعت قائم ہے.نیوزی لینڈ وہ ملک ہے جس کے ایک باشندے پروفیسر کمنٹ ریگ Clement) Wragge نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے وصال سے چند روز قبل مئی 1908ء میں لاہور میں ملاقات کی سعادت حاصل کی.پروفیسر Lindley Wragge Clement کا تعارف یہ ہے کہ یہ غیر معمولی قابلیت اور جرآت کے حامل انسان تھے.آپ انگلستان میں پیدا ہوئے.Law Navigation Meteorology میں اعلی تعلیم حاصل کی اور موسمیات اور علم بیت (Astronomy) کے میدانوں میں اپنالو با منوایا.آسٹریلیا میں بھی لمبا عرصہ قیام کیا.وہاں آپ کو ان علوم پر ایک اتھارٹی تسلیم کیا جاتا تھا.آپ نے ہندوستان کے سفر کے دوران 12 رمئی اور 18 مئی 1908ء کو لاہور میں حضرت اقدس مسیح موعود علی کلام سے دو بار ملاقات کی.اس ملاقات میں ان کے ساتھ ان کی بیوی اور چھوٹا لڑکا بھی تھا.پروفیسر صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود مالیکلام سے مختلف سوالات کئے.حضرت اقدس مسیح
246 موعود ع السلام نے ان کے جوابات عطا فرمائے جن سے آپ بیحد متاثر ہوئے.حضرت اقدس مسیح موعود ع السلام کے ملفوظات جلد اس میں ان دونوں ملاقاتوں کا تفصیل سے ذکر ہے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ جو ان پروفیسر صاحب کو اپنے ساتھ لائے تھے، نے بھی اپنی کتاب ذکر حبیب میں پروفیسر Wragge کا حضرت اقدس مسیح موعود عالی کام سے ملاقات کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے.ہندوستان کے اس سفر کے بعد پروفیسر صاحب نیوزی لینڈ چلے گئے تھے.بعد میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ سے آپ کی خط و کتابت رہی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب پروفیسر ریگ کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ پروفیسر بعد میں احمدی ہو گیا تھا اور مرتے دم تک اس عقیدہ پر قائم رہا اور اس کے خطوط میرے پاس آتے رہے.گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے ہی احمدیت کا نفوذ ہو چکا تھا.1987ء میں یہاں باقاعدہ جماعت کے قیام سے قبل مختلف ممالک سے احمدی طلباء نیوزی لینڈ میں آکر کچھ عرصہ قیام کرتے رہے.جن میں جلال مقبول صاحب (1980ء) ، محمد اقبال صاحب (1981ء) ڈاکٹر محمد اسلم ناصر صاحب ( 1982ء) کے دوران یہاں رہے.85-1984 کے عرصہ میں محمد اسلم ناصر صاحب نے یونیورسٹی کے شعبہ مطالعہ مذاہب کے صدر سے مل کر اسلام پر آٹھ لیکچر دیئے اور یونیورسٹی کے طلباء کو پیغام پہنچایا.خطاب حضرت خلیفة اسم الرابع بر موقع جلسہ سالانہ یو کے 1985ء دوسرا روز بعد دو پہر) مئی 1987ء میں یہاں با قاعدہ جماعت کا قیام عمل میں آیا اور مکرم مبارک احمد خان صاحب اس کے پہلے صدر مقرر ہوئے.19 اگست 1987ء کو جماعت کی رجسٹریشن کے لئے جسٹس ڈیپارٹمنٹ آک لینڈ میں درخواست دی گئی.25 دسمبر 1987ء کو لجنہ اماء اللہ کی تنظیم قائم کی گئی.وسط 1988ء میں ڈاکٹر محمد سہراب صاحب نیشنل قائد خدام الاحمدیہ نیوزی لینڈ مقرر ہوئے.اسی سال اقبال احمد خان صاحب نیشنل ریم انصار اللہ مقرر کئے گئے.اسی عرصہ کے دوران حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی منظوری سے پیام امن کے نام سے جماعتی رسالہ کا آغاز ہوا.
247 1989ء کے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ المسح الرائع نے احمدیوں کو نماز جمعہ با قاعدہ ادا کرنے کا ارشاد فرمایا تھا.چونکہ جماعت احمد یہ نیوزی لینڈ کے پاس اس وقت تک کوئی مسجد نہ تھی اس لیے فوری طور پر اس ارشاد کی تعمیل میں سینٹرل آک لینڈ کے علاقہ میں محترم محمد طاہر صاحب کی رہائشگاہ پر اور جنوبی آک لینڈ کے علاقہ میں محترم مبارک احمد خان صاحب کی رہائشگاہ پر باقاعدگی سے نماز جمعہ کی ادائیگی ہوتی رہی.جبکہ دیگر جماعتی تقریبات مثلاً جلسہ سالانہ و سالانہ اجتماعات وغیرہ کے لیے Aorere College جنوبی آک لینڈ یا دیگر جگہوں مثلا کونسل ہال وغیرہ میں انتظام کیا جاتا.مسجد بیت المقیت جماعت احمدیہ کا مرکز ” بیت المقیت نیوزی لینڈ کے دارالحکومت Auck Land کے علاقہ Manurewa میں واقع ہے.اس کا رقبہ 1.5 ایکڑ ہے مقامی جماعت نے یہ جگہ 1998ء میں خریدی تھی.یہاں ایک بڑے ہال کے علاوہ مشن ہاؤس، گیسٹ ہاؤس، دفاتر، لائبریری اور جماعتی تقریبات کے لئے کچن وغیرہ موجود ہیں.ہال کے دو حصے ہیں.ایک حصے میں مرد اور دوسرے حصہ میں مستورات نماز ادا کرتی ہیں.جماعت کا یہ سارا سینٹر ائیر کنڈیشنڈ ہے.اور اس سنٹر کے ارد گرد سارا احاطہ پختہ اور صاف ستھرا ہے.حضرت خلیفتہ اسمع الرابع کا دورہ آک لینڈ (Auckland) ( نیوزی لینڈ) جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کے بابرکت سال (1989ء) میں حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ کا دورہ فرمایا.حضور انور نے مورخہ 15 جولائی کو رات 11 بجے آک لینڈ انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر ورود فرمایا.حضور انور ایئر پورٹ کے احاطہ میں موجود ایک جگہ تشریف لے گئے جہاں نیوزی لینڈ کے قدیم روایتی ماؤری (Maori) طریق کے مطابق وہاں کے مقامی باشندوں نے حضور انور کا استقبال کیا.حضور انور نے جواتا پر خلوص انداز سے ان کا شکر یہ ادا کیا اور اپنے گلے میں موجود بار کو ایک ماؤری بچی کو پہنا دیا جسے ان لوگوں نے بہت سراہا.
248 اس کے بعد حضور رحمہ اللہ اپنی قیامگاہ White Herron Hotel میں تشریف لے گئے جو Parnell میں واقع ہے.یہاں پہنچ کر حضور رحمہ اللہ نے احباب جماعت کو شرف ملاقات بخشا اور نماز مغرب وعشاء پڑھائیں.اپنے دورہ کے دوسرے روز مؤرخہ 16 جولائی کو حضور انور نے ممبران مجلس عاملہ سے میٹنگ کی جس میں ازراہ شفقت دیگر ممبران جماعت کو بھی شامل فرمالیا.اس میٹنگ میں حضور انور نے مختلف امور کی بابت رہنمائی اور ہدایات سے نوازا.ریڈیوپیسیفک نے لائیو جبکہ ریڈیو نیوزی لینڈ نے حضور انور کے Recorded انٹرویوز براڈ کاسٹ کیے.جبکہ Holmes Show ( نیوزی لینڈ ٹی وی) کے میزبان نے اپنے پروگرام کے لیے حضور انور کا انٹرویو بھی ریکارڈ کیا.اس کے علاوہ نیوزی لینڈ ہیرالڈ نے بھی حضور انور کا انٹرو یولیا.اس دورہ کے دوران حضور انور نے ایک پر وقار تقریب ظہرانہ میں بھی شرکت فرمائی جس میں ملک کی نامور سیاسی و سماجی شخصیات جن میں وزیر تعلیم ممبران پارلیمنٹ، اپوزیشن پارٹی کے ممبران، مختلف علاقوں کے میئرز، ماہرین تعلیم اور کاروباری طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد اور ماؤری چیف Mr.Maurice Wilson وغیرہ شامل تھے.حضور انور نے ماؤری چیف کو جلسہ سالانہ یو کے میں حضور کے ذاتی مہمان کے طور پر شرکت کی دعوت دی جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا.اپنی واپسی سے پہلے حضور انور نے ایئر پورٹ پر تین خواتین کی بیعت کو بھی قبول فرمایا.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2006ء اور پھر 2013ء میں نیوزی لینڈ کا دورہ فرمایا اور اس دوران ماؤری قبیلہ کے چیف کی دعوت پر اس کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ میں تشریف لے گئے.حضور انور ایدہ اللہ نے جماعت احمد یہ نیوزی لینڈ کے جلسہ سالانہ کو برکت بخشی اور وہاں موجود احمدیوں کو شرف ملاقات بخشا.اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ماؤری زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.(عہد خلافت خامسہ کے بیان میں ان امور کا تفصیلی ذکر اپنی جگہ پر آئے گا.)
249 پولینڈ (POLAND) پولینڈ میں جماعت تو پہلے سے قائم تھی لیکن وہاں مشن قائم نہیں تھا.نومبر 1990ء میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مکرم حامد کریم صاحب مسلغ سلسلہ کو پولینڈ بھجوایا تا کہ وہاں جماعت کی رجسٹریشن اور مشن کے قیام کی کوشش کریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی سال میں مشن کی رجسٹریشن ہو گئی.1992ء میں مشن ہاؤس کے لیے عمارت خریدی گئی اور باقاعدہ طور پر تبلیغ اور پولش زبان میں لٹریچر کی تیاری و اشاعت کا کام ہونے لگا.پولش زبان میں ترجمہ قرآن کریم کے علاوہ سلسلہ کی کئی کتب پوش میں ترجمہ ہو کرطبع ہو چکی ہیں اور یہاں با قاعدہ ایک مرکزی مبلغ کا تنقر ہے اور جماعت ہو ک اور فقال ہو چکی ہے.پولینڈ میں حضرت خلیفتہ اسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر منیر الدین شمس صاحب ایڈیشنل وکیل اتصنیف نے دو مرتبہ انٹرنیشنل بک فیئر وارسا میں جماعت احمدیہ کا بک سٹال لگایا.اس موقع پر کثرت کے ساتھ اسلامی کتب اور جماعت کا لٹریچر تقسیم کرنے کے علاوہ پولش ترجمہ قرآن متعارف کروایا گیا.ان دنوں بہت سی پابندیوں کی بناء پر مذہبی کتب پولینڈ میں نہیں لائی جاسکتی تھی.بک فیئر کے ذریعہ مکرم شمس صاحب نے دیگر کتب کے علاوہ رشین اور پولش ترجمہ قرآن کی کا پیاں وہاں تقسیم کیں نیز مرکزی لائبریری وارسا میں بک فیئر کے اختتام پر تحفہ دیں.ان مواقع پر مختلف بک سیلرز سے روابط بڑھے اور معروف شخصیات کے ساتھ تعارف ہوا.مالاوی (REPUBLIC OF MALAWI) مالاوی وسطی افریقہ کے جنوب میں واقعہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جو افریقہ کے نقشے پر شمالاً جنوبا پھیلا ہوا ہے.اس کے مشرقی حصہ میں جھیل مالاوی پائی جاتی ہے جو کہ سطح سمندر سے 1500 فٹ
250 بلند ہے.اس کی لمبائی 350 میل اور چوڑائی 25 رمیل ہے.اس جھیل کی وجہ سے اس ملک کا نام مالاوی پکارا جاتا ہے.آزادی سے قبل اس کا نام نیا سالینڈ تھا.1963ء میں آزادی کے فور ابعد نئی حکومت نے اس کا نام مالاوی رکھ دیا یعنی چمکتے سورج اور پانیوں والی سرزمین.یہ ملک نہایت خوبصورت مناظر اور سر سبز و شاداب وادیوں، بہت زیادہ نشیب و فراز اور ندی نالوں پر مشتمل ہے.مشہور رفٹ ویلی اور جھیل مالاوی نے اس کی خوبصورتی اور زرخیزی میں کافی اضافہ کر رکھا ہے.جبکہ اس کا رقبہ 118,485 مربع کلومیٹر ہے.یہ شمال مشرق میں تنزانیہ، مشرق مغرب اور جنوب میں موزمبیق اور مغرب میں زیمبیا سے گھرا ہوا ہے.شمال اور جنوب میں اس کی چوڑائی زیادہ سے زیادہ 25 سے 30 کلومیٹر اور وسطی علاقہ میں سات آٹھ سوکلو میٹر ہے.اس ملک کی بڑی پیداوار مکتی، تمبا کو، مونگ پھلی اور تیل پیدا کرنے والی فصلیں ہیں.ملکی تقسیم کے لحاظ سے اس کے تین ریجن شمالی ، وسطی اور جنوبی ہیں.اس کا صدر مقام Lilongwe ہے.احمدیت کا نفوذ : مالاوی میں احمدیت کا نفوذ 1950ء کی دہائی میں ہو چکا تھا.شمال میں تنزانیہ کی سرحد کے ساتھ ایک گاؤں میں ایک دوست آشم چیڈا حاجیری صاحب کو چند کتب مطالعہ کرنے کے بعد احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.آہستہ آہستہ انہوں نے تبلیغ شروع کی اور خال خال لوگ احمدیت میں داخل ہوئے.مکرم حاجیری صاحب نے تنزانیہ میں احمدیہ مشن سے رابطہ قائم کیا.وہاں سے ان کا رابطہ لندن کروایا گیا.اس رسل اور سائل کے سلسلہ نے ترقی کی مکرم حاجیری صاحب کو دونوں اطراف سے لٹریچر ملنے لگا.اور یوں وہ اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ احمدیت کی تبلیغ بھی کرنے لگے اور دور و نز د یک چند مقامات پر کچھ لوگ احمدی ہو گئے.مگر جماعت منظم نہیں تھی اور اسی طرح تربیت کی بھی محتاج تھی.مشکل حالات کے باوجود مکرم حاجیری صاحب نے ہمت نہیں ہاری.جماعت احمدیہ کی صد سالہ جو بلی (1989 ء) کے موقع پر ایسے ملک جن میں احمدی تو تھے مگر باقاعدہ مرکز ابھی قائم نہیں ہوا تھا ان کو ہمسایہ ملک جہاں پر باقاعدہ مرکز قائم تھا کی نگرانی میں دینے کا پروگرام
251 بنایا گیا اور یوں اس سکیم کے تحت زیمبیا کے حصہ میں مالاوی اور زمبابوے آئے.الفضل انٹرنیشنل 14/8 مارچ 1996ء) مرکز کی طرف سے سو ممالک میں تبلیغی منصوبہ کے تحت یہ ملک تنزانیہ اور زیمبیا مشن کے سپرد کیا گیا.ہر دو مشنز کی طرف سے تبلیغی کوششیں ہوتی رہیں.مالاوی (Malawi) افریقن ممالک میں ے ایک وہ ملک ہے جہاں بیرونی لوگوں کو تبلیغ کی ویسے اجازت نہیں ہے اس لئے زیادہ تر وہاں کیسٹس سے کام لیا گیا.مالاوی زبان میں کیسٹس تیار کروائی گئیں اور وہاں بھجوائی گئیں.1985ء میں زیمبیا مشن کی تبلیغی کوششوں سے بیعتوں کا سلسلہ شروع ہوا.86-85ء میں تنزانیہ مشن کی طرف سے کیا ؤ زبان میں تین کیسٹس مالاوی بھجوائی گئیں.ایک دوست وقف عارضی کے تحت وہاں گئے.زیمبیا مشن نے چار مزید بیعتوں کی اطلاع دی.نیز مکرم مقبول احمد ذبیح صاحب مبلغ انچارج زیمبیا مشن نے 87-1986ء میں مالاوی کا تفصیلی دورہ کیا.اس دورہ کے دوران آپ کو اور اس ملک کے پرانے احمدی مکرم اے سی حاجیری صاحب کو قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنا پڑیں.لیکن انہوں نے بڑی بہادری کے ساتھ ان مشکلات کا مقابلہ کیا.1986ء میں وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے با قاعدہ جماعتی تنظیم قائم ہو گئی.اس کی مزید تفصیل مکرم مقبول احمد ذبیح صاحب مرحوم کے ایک مضمون مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل شمارہ نمبر 45 اور 46 سے خلاصہ ذیل میں درج کی جاتی ہے.مرکز کی اجازت سے مکرم مقبول احمد صاحب ذبیح مبلغ انچارج جماعت احمدیہ زیمبیا نے 13 / دسمبر 1987ء کو مالاوی کا سفر اختیار کیا.وہاں مکرم حاجیری صاحب سے ملے اور ان کے ہاں مہمان ٹھہرے.مکرم ذبیح صاحب کے جانے سے پہلے ہی مکرم حاجیری صاحب مالاوی میں جماعت کی باقاعدہ رجسٹریشن کی کوشش کر رہے تھے.اس کے بارہ میں لائحہ عمل طے کر کے کام کو مزید آگے بڑھایا گیا.تبلیغی سفر اور پر اثر تقاریر : مؤرخہ 15 دسمبر 1987ء سے 2 جنوری 1988 ء تک انہوں نے دور دراز کے دیہی علاقوں کا دورہ کیا.جس کے دوران انہوں نے احمدیوں سے رابطہ جبکہ غیر احمدی مسلمانوں کو تبلیغ کا مقدس فریضہ سرانجام دیا.یہ گاؤں ایسے علاقوں میں واقع تھے جہاں نہ کوئی ٹرانسپورٹ پہنچ سکتی تھی اور نہ ہی راستہ
252 ہموار.لہذا اکثر و بیشتر خراب موسم اور نشیب و فراز سے بھر پور راستوں سے پیدل سفر کر کے خلق خدا کو احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا.بعض سفروں میں مکرم حاجیری صاحب ہمراہ تھے جبکہ بعض دیگر میں ایک احمدی طالب علم Mr.Hamid Stanbuly ساتھ رہے.اللہ تعالیٰ کی راہ میں اسیری : مالاوی جو آئینی لحاظ سے ایک سیکولر (Secular) ملک ہے اور یہاں اپنے مذہب کے پر چار کرنے کی بالکل آزادی ہے، اس ملک میں قائم مسلم ایسوسی ایشن نے پولیس کی ملی بھگت سے احمدیت کا پیغام پہنچانے والے ان فرشتہ صفت احباب پر سراسر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں گرفتار کروا دیا.اور جیسا کہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے مالاوی میں بغیر کسی عدالتی کارروائی کے کافی لمبے عرصے تک بھی لوگوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں.ہر تین احباب کے بیانات قلمبند ہونے کے بعد مکرم سٹانبولی صاحب کو بوجہ طالب علم ہونے کے رہا کر دیا گیا جبکہ مکرم مقبول احمد ذبیح صاحب اور مکرم حاجیری صاحب کو سخت ناگزیر حالات میں محض اللہ تعالیٰ کے مسیح کا پیغام پہنچانے کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں.جبیل میں صفائی کے انتہائی ناقص انتظامات کی وجہ سے مکرم ذبیح صاحب بہار رہنے لگے اور ہسپتال بھی جانا پڑا.اس دوران مکرم سٹانبولی صاحب کے ذریعہ حضرت خلیفة اصبح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو حالات سے آگاہ کیا گیا اور باقاعدہ رپورٹ بھیجوائی جاتی رہی.حضور انور رحمہ اللہ کی دعاء توجہ اور رہنمائی کی بدولت 30 مارچ کو ان اسیران کی معجزا نہ رہائی کے سامان پیدا ہو گئے.اور جس پولیس آفیسر نے انہیں جیل میں ڈالتے ہوئے بڑے متکبرانہ انداز میں یہ کہا تھا کہ ایک انڈین کو بھی بند کیا ہوا ہے.اب وہ وہیں گل سڑ جائے گا اور کبھی رہا نہیں ہو سکے گا.وہ خدا خدا کرتا پھرتا ہے.پولیس میں خدا کا کوئی تصور نہیں ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کی غیرت فرماتے ہوئے چند ہی دنوں بعد اسی پولیس افسر کے ہاتھوں انہیں رہا کروایا.رہائی کے بعد مکرم ذبیح صاحب کا پاسپورٹ پولیس نے اپنے قبضہ میں رکھا اور پولیس سٹیشن میں روزانہ حاضری لگانے کی شرط پر رہا کیا گیا.اس دوران آپ نے لمبے (Limbe) میں ایک ریسٹ ہاؤس کا ایک کمرہ کرائے پر
253 لے لیا.ایک ہفتہ ہسپتال داخل بھی رہے.چنانچہ قریباً ایک ماہ مزید انہیں تکلیف پہنچانے کے بعد پولیس نے ان کا پاسپورٹ امیگریشن کے پاس بھیجوا دیا.اور آپ 29 اپریل 1988ء کو مالاوی سے زیم یا واپس تشریف لے آئے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کا نمائندہ: حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے دعاؤں سے فیضیاب کرنے کے ساتھ ساتھ از راہ شفقت مکرم ذبیح صاحب کی لمبے (Limbe) میں نظر بندی کے دوران مکرم الحاج محمد سالم کنگ لیلو صاحب کو تنزانیہ سے ان کی خبر گیری کے لیے بطور اپنے نمائندہ کے بھجوایا جو 4 ردن قیام کر کے واپس تشریف لے گئے.رہائی کے بعد مکرم حاجیری صاحب کی سروس بھی دوبارہ بحال ہوگئی اور ان پر اللہ تعالیٰ نے کئی رنگ میں اپنے فضلوں کی بارشیں فرمائیں.فالحمد للہ علی ذالک جماعت احمد یہ مالاوی کی رجسٹریشن : جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ مکرم آشم چیڈا حاجیری صاحب جماعت احمد یہ مالاوی کی باقاعدہ رجسٹریشن کے لئے بے انتہا کوشش کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی محنت کو 1994ء میں رنگ لگایا.جب مکرم وسیم احمد چیمہ صاحب امیر و مشنری انچارج جماعت احمدیہ تنزانیہ دس روزه دوره پر مالاوی تشریف لے گئے تو انہوں نے مختلف قانونی ماہرین سے ملاقاتیں کیں اور رجسٹریشن کے لئے خاص کوشش کی.انہی کوششوں کے نتیجے میں مالاوی حکومت نے جماعت احمدیہ کو 1994ء میں با قاعدہ رجسٹر کر لیا.اور یوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حکومتی سطح پر جماعت احمدیہ کو جانا جانے لگا.مکرم آشم چیڈا حا جیری صاحب جو کہ جماعت احمد یہ مالاوی کے اولین احمدی اور پہلے نیشنل صدر تھے اور بہت ہی متقی، پرہیز گار، حقیقی داعی الی اللہ تھے، کی وفات سال 2015ء میں ہوئی.نے لٹریچر کی اشاعت : اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ مالاوی کی رجسٹریشن کے بعد اس کی ترقی کے لئے تنزانیہ مشن نے بہت سے اقدامات اٹھائے تا کہ وہاں جماعت مضبوط قدموں پر کھڑی ہو سکے.قرآن کریم کی
254 منتخب آیات اور منتخب احادیث کا مالاوین احمدیوں کے لئے یاؤ (Yao) زبان میں ترجمہ کروایا گیا.مکرم حمید ستامبولی صاحب (Hamid Stambuli) جن کا قبل ازیں ذکر گزر چکا ہے کہ انہیں مولانا مقبول احمد ذبیح صاحب کے ساتھ بھی کچھ کام کرنے کا موقع ملا انہیں جامعہ احمدیہ تنزانیہ میں پڑھنے کے لئے بھیجا گیا اور پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ان کی تقرری بطور معلم انچارج جماعت احمد یہ مالاوی ہوئی.انہیں بھی ایک لمبا عرصہ بطور معلم سلسلہ خدمت کرنے کا موقع ملا.ارجنٹائن (ARGENTINA) یہ ملک براعظم امریکہ کے جنوبی حصہ میں واقع ہے جسے لاطینی امریکہ بھی کہا جاتا ہے.اس کے شمال میں بولیویا اور پیراگوئے، شمال مشرق میں برازیل، مشرق میں یوراگوئے اور بحر اوقیانوس ، مغرب میں چلی جبکہ جنوب میں Drake Passage کے پانی واقع ہیں.2,780,400 مربع کلومیٹر (1,073,500 مربع میل) کے رقبے کے ساتھ یہ ملک دنیا کا آٹھواں بڑا ، لاطینی امریکہ کا دوسرا بڑا جبکہ سپینش زبان کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے.مذہب : یہاں کے %167 افراد عیسائی، %15 افراد لا مذہب، ایک فیصد مسلمان ، %07 لوگ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں جبکہ %109 افراد ایسے ہیں جنہوں نے اپنا مذہب ڈیکلیئر نہیں کیا.ارجنٹائن میں 1936ء میں پہلی بار جماعت کا مشن قائم ہوا تھا اور تیسں شامی نژاد باشندے احمدیت میں داخل ہوئے تھے.بعد ازاں ہنگری سے بھی کچھ خاندان منتقل ہو کر یہاں آباد ہوئے.جنگ عظیم دوم کی وجہ سے یہ رابطے قائم نہ رہ سکے.اگا ذگا ان کی طرف سے خط کے ذریعہ مرکز سے رابطہ بھی رہا پھر اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ رابطے بھی منقطع ہو گئے.1990ء میں برازیل کے ایک احمدی دوست مکرم سید محمود احمد صاحب اپنے خرچ پر وقف عارضی پر
255 ارجنٹائن تشریف لے گئے.انہوں نے ملک کے دار الحکومت Buenos Aires میں ایک مکان خرید کر بطور مشن ہاؤس جماعت کے سپرد کیا.برازیل سے ایک نوجوان معلم مکرم الفونسو بخاری صاحب کو عارضی طور پر بھجوایا گیا.برازیل سے وہاں کے مبلغ سلسلہ وسیم احمد ظفر صاحب نے بھی ارجنٹائن کے دورے کئے اور جماعتی رجسٹریشن کے حوالہ سے کوششیں کیں.
257 ہندوستان میں تحریک شدھی کے خلاف اعلان جہاد 1922 ء ، 1923ء اور 1924ء کے دور میں جو مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں ایک انتہائی دردناک دور تھا.ملکانہ کے علاقہ میں ایک شدھی کی تحریک چلائی گئی تھی اور کثرت سے راجپوتوں کو یہ کہہ کر دوبارہ ہندو بنایا جارہا تھا کہ تمہارے آباؤ اجداد تو ہندو تھے اور تمہیں مسلمان بادشاہوں نے زبر دستی مسلمان بنا لیا تھا اس لئے تمہارا اصل مقام، تمہارا دائمی مقام ہندو سوسائٹی میں ہے اور اگر تم دوبارہ ہندو بن گئے تو تمہیں اور بہت سی ایسی مراعات حاصل ہو جائیں گی جو اس سے پہلے حاصل نہیں ہیں.روپیہ کا بھی لالچ دیا گیا اور روپیہ خرچ بھی کیا گیا اور بعض جگہ جبر سے بھی کام لیا گیا اور ہندوؤں کی طرف سے اس علاقہ میں ایسے تنگ حالات کر دئیے گئے کہ بہت سے مسلمان مجبور ہو کر اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ پا کر ہندو ہونے شروع ہوئے.اس وقت جماعت احمد یہ ہی کو یہ توفیق ملی کہ اس انتہائی خوفناک سازش کو بے نقاب کرے اور حضرت مصلح موعود خلیفتہ اسیح الثانی کو اللہ تعالی نے اس شدھی کی تحریک کے خلاف ایک انتہائی کامیاب جہاد شروع کرنے کی توفیق عطا فرمائی.تمام ہندوستان کے مسلمان علماء کو خطوط بھی لکھے گئے، وفود بھیج کر ان سے ملاقاتیں کی گئیں ، ان کی غیرت کو ابھارا گیا، ان کی حمیت کو اکسایا گیا، ان کی منتیں بھی کی گئیں، ان کو طرح طرح سے اسلام کی محبت کے واسطے دے کر اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ اپنے وقتی اختلافات کو چھوڑ دو اور سارے مل کر اسلام کے خلاف اس انتہائی خوفناک سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہو جاؤ.کچھ عرصہ تک یہ کام بہت اچھا چلا اور چونکہ اس وقت کے اہل بصیرت مسلمان علماء یہ سمجھتے تھے کہ جماعت احمد یہ جب تک اس تحریک میں مرکزی کردار ادا نہ کرے یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی اس لئے انہوں نے جماعت احمدیہ کی تائید کی اور ہر طرح سے اس معاملہ
258 میں جماعت سے تعاون بھی کیا بلکہ حضرت مصلح موعودؓ کو خطوط لکھ کر کھلم کھلا اس بات کا بھی اقرار کیا کہ اگر آپ نے اس تحریک کی پشت پناہی نہ کی اور بھر پور حصہ نہ لیا تو ہمیں ڈر ہے کہ یہ تحریک مر جائے گی.یہ تاریخ کی باتیں ہیں اور مختلف اخبارات اور رسائل اور کتب کی زینت بن چکی ہیں.بیسویں صدی عیسوی میں اسی کی دہائی میں ہندوستان میں دوبارہ ایک نہایت ہی خوفناک شدھی کی تحریک شروع کی گئی اور وہی ملکانہ کا علاقہ اس کے لئے منتخب کیا گیا اور اس دفعہ غالباً ہندوستان کے بعض انتہا پرست ہندوؤں کو جن میں آریہ بھی پیش پیش تھے یہ شہ تھی کہ وہ جماعت جو اس معاملے میں اسلام کا فقال دفاع کر سکتی تھی، جو مسلسل بے خوف قربانیاں دے سکتی تھی ، اس کی اکثریت تو یہاں سے ہجرت کر کے پاکستان جا چکی ہے اور پاکستان میں وہ خود ایسے مصائب میں مبتلا ہے کہ اسے اس بات کی ہوش ہی نہیں ہوسکتی کہ ہندوستان کی سرزمین میں آکر یہاں اس شدھی کی تحریک کے خلاف کسی جہاد کا آغاز کرے.اور جہاں تک ہندوستان کی جماعتوں کا تعلق ہے وہ جانتے ہیں کہ اس زمانے کی نسبت جب یہ شدھی کی تحریک انیس سو بائیس ہمیں ، چوبیس کے سالوں میں آغا ز پائی اور پھر انجام کو پہنچی.اس زمانے میں ہندوستان میں جماعت کو جو طاقت حاصل تھی اب اس کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں ہے.اس وجہ سے بھی ان کی حوصلہ افزائی ہو گئی.(ماخوذ از خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع فرموده 22 اگست 1986ء.خطبات طاہر جلد 5 صفحہ 562561) لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں وعدہ ہے کہ اس نے تمکنت دین کو خلافت سے وابستہ فرمایا ہے اس صورتحال کے مقابلہ کے لیے خلافت احمد یہ ہی میدان عمل میں اتری اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے شدھی کی اس تحریک کو کا فوری نوٹس لیا اور اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لئے ایک زبرست جہاد کا اعلان فرمایا.ظاہر ہے کہ یہ جہاد توپ و تفنگ اور مہلک ہتھیاروں کے ساتھ نہیں بلکہ اسلامی تعلیم کے عین مطابق اور جماعت احمدیہ کی عظیم الشان روایات کو قائم رکھتے ہوئے قیمت و برہان اور بنی تعلیم وتربیت کے ساتھ کیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے شدھی کی اس تحریک کے مقابلہ کا اعلان کرتے ہوئے فرمايا:
259 جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کچھ پاکستان میں جماعت کے حالات کی بنا پر ان کو اس بات کی جرات ہوئی لیکن میں ہندوستان کے ان انتہا پسند آریوں اور دیگر مذہبی جنونیوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ کسی قیمت پر بھی جماعت احمد یہ اس جہاد سے باز نہیں آئے گی.حضرت ابو بکر صدیق کی سنت، آپ کا اسوہ ہمارے لئے کافی ہے.اس معاملہ میں وہ سنت اور وہ اُسوہ بعینہ ان حالات پر چسپاں ہو رہا ہے.جب ہر طرف اسلام کے خلاف، اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت پھیل گئی اور تمام عرب میں قبائل نہ صرف مرتد ہونے لگے بلکہ مرکز اسلام پر حملہ آور ہونے لگے.بہت ہی دردناک طریق پر مسلمانوں کو جو چند مسلمان ان کے علاقوں میں ایسے تھے جنہوں نے ارتداد کا انکار کیا ان کو قتل کیا گیا، ان کے گھر جلائے گئے ، ہر طرح کی اذیتیں دی گئیں یہاں تک کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ سارا عرب اسلام کا بافی ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوگا.اس وقت حضرت ابو بکر صدیق نے جو حیرت انگیز اسلامی حمیت اور غیرت کا نمونہ دکھایا اور انتہائی کمزور ہونے کے باوجود بڑی کامیابی اور عزم کے ساتھ اور کامل توکل کے ساتھ ، دعاؤں کے ساتھ، اس تحریک کے مقابلہ پر مسلمانوں کو صف آراء کیا اور انتہائی کامیابی کے ساتھ اس مہم کو آخر تک پہنچایا یہاں تک کہ سارے عرب میں ایک بھی باقی باقی نہیں رہا.اور یہ عظیم الشان واقعہ چند سالوں کے اندراندر ہوا ہے.اور حضرت ابو بکر صدیق کی طبیعت کا علم اور بظاہر جو کمزوری تھی اور نرمی اور رفیق پایا جاتا تھا اس کے پیش نظر آپ کا یہ اُسوہ اور بھی زیادہ حیرت انگیز دکھائی دینے لگتا ہے.کیسا عزم اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ، کیسی ہمت بخشی کہ اتنے زیادہ غالب دشمن کے مقابل پر اتنے تھوڑے مسلمانوں کے ساتھ جن کی لڑنے کی اہلیت رکھنے والی اکثریت ایک ایسے سرینہ پر بھجوائی جارہی تھی جو عرب کے شمال میں عالم اسلام کی سرحدوں پر واقع ہونے والا تھا.اور باوجود اس کے کہ اس کی شدید ضرورت تھی مدینہ میں چونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی بھی ہم نے وہ سریہ مقرر فرمایا تھا اس لئے آپ نے اس لشکر کو بھی نہیں روکا.گو یا کمزوری کی حالت اس سے بہت زیادہ خطر ناک تھی جو ویسے بھی مؤرخین کو صاف دکھائی دیتی ہے.اگر وہ لشکر باہر نہ بھی بھیجوایا جاتا تو مدینہ کے مسلمانوں کی حالت ایسی نہیں تھی کہ سارے عرب کے قبائل کا مقابلہ کر سکے.اگر وہ شکر یہ بھی بھجوایا جاتا تب بھی ان عرب قبائل کے مقابلہ کے لئے صف آراء ہو جانا ایک عظیم
260 ہمت کا مظہر ہے.لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اکثر لڑنے والے بہا در جنگجو جوان عمر سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرام کو سرینہ پر بھجوایا جارہا تھا تو پیچھے بظاہر کچھ بھی باقی نہیں رہتا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ آپ کو عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی.پس قطع نظر اس کے کہ جماعت احمد یہ ہندوستان میں اس سے بھی بہت زیادہ کمزور ہے جتنی عرب کے دل میں مدینہ کی کیفیت تھی، باوجود اس کے کہ پاکستان میں بھی جماعت احمدیہ کو عظیم الشان مسائل اور مصائب کا سامنا ہے.میں ہندوستان میں شدھی کی تحریک کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں اور اس سلسلہ میں پہلے ہی ناظر صاحب اعلی قادیان کو ہدایات دی جا چکی ہیں اور وہ طریق جو پہلے رائج تھے اگر سوفیصدی ان کی پیروی نہیں ہو سکتی تو نئے طریق سوچے جائیں.بہر حال جب تک یہ شدھی تحریک وہاں چلتی رہے گی اس کے دفاع کا جھنڈا انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں رہے گا." حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: اس وقت تک کی اطلاعوں کے مطابق جو انتہا پرست ہندو مذہبی تحریکات اس تحریک کی سر براہی کر رہی ہیں ان کا اعلان یہ ہے کہ ہم چالیس ہزار راٹھ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنا چکے ہیں اور حکومت نے اپنے ذرائع سے جائزہ لینے کے بعد دس ہزار کی تعداد تسلیم کی ہے.انتہائی خوفناک حالت ہے.لیکن جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ ہم پہلے ہی ایک شدھی کی تحریک کے خلاف نبرد آزما ہیں.23-1922ء کے مقابل پر آج ہمیں دوشدھی کی تحریکوں کا مقابلہ کرنا ہے.ایک وہ تحریک جو ہندوؤں نے مسلمانوں کو غیر مسلم بنانے کی چلائی ہے اور ایک وہ تحریک جو پاکستان کے ملانوں نے مسلمانوں کو غیر مسلم بنانے کی چلاتی ہے.دوملکوں میں دو شکھی لڑائی ہمیں لڑنی ہے.ایک ملک میں انتہائی کامیابی کے ساتھ ہم اس جہاد میں پہلے ہی مصروف ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جب آپ ان دونوں تحریکات کے Features یعنی ان کے نقوش کا موازنہ کریں تو کئی لحاظ سے پاکستان میں چلائی جانے والی شدھی کی تحریک ہندوؤں کی چلائی جانے والی شدھی کی تحریک سے زیادہ ظالمانہ اور زیادہ خطرناک ہے.1923ء میں جو
261 تحریک اپنے عروج کو پہنچی تھی اس تحریک میں مسلمانوں کو جب تک ہندو بنا نہیں لیا جاتا تھا اور وہ اقرار نہیں کرتے تھے کہ ہم ہندو ہو گئے اس وقت تک ان کی مسجدوں کی شکل نہیں بدلائی جاتی تھی.ان سے ان کے مسلمان ہونے کے حقوق چھینے نہیں جاتے تھے.ان کی کتب مقدسہ کی بے حرمتی نہیں کی جاتی تھی.ان سے قرآن چھین چھین کر ان کو گلیوں میں نہیں پھینکا جاتا تھا.ان کی مساجد مسمار نہیں کی جاتی تھیں.ان کو اس حق سے محروم نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ اللہ کا نام لیں اور خدا کی تو حید کے گن گائیں.ان کو زبر دستی آنحضرت ص کے انکار پر اس طرح مجبور نہیں کیا جاتا تھا کہ اگر انکار نہیں کرو گے تو تمہیں گلیوں میں گھسیٹا جائے گا اور مارا جائے گا اور قید خانوں میں پہنچایا جائے گا.پس پاکستان میں چلائی جانے والی وہابی علماء کی شدھی کی تحریک ان تمام نقوش میں، ان تمام تفاصیل میں، ہندوؤں کی چلائی جانے والی اس تحریک سے بھی زیادہ بھیانک ہے اور آج کی چلائی جانے والی تحریک سے بھی زیادہ بھیانک ہے.“ آپ نے فرمایا: یہ بھی ایک تحریک ہے جو شدھی کی جس کا مقابلہ ہم بڑی کامیابی سے کر رہے ہیں.لیکن اگر ہندوستان کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اتنے خوفناک حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے جماعت اس طرح پھنس چکی ہے کہ وہ ہماری تحریک کو نظر انداز کر دے گی تو اس خواب و خیال کی دنیا سے باہر آجائیں.کسی قیمت پر بھی اسلام کے خلاف ہونے والے حملے کو جماعت احمد یہ ہر گز نظر انداز نہیں کر سکتی.کہیں بھی یہ حملہ ہو گا، کہیں بھی اسلام کو بڑی آنکھ سے دیکھا جائے گا تو صف اول پر لڑنے کے لئے ہمیشہ جماعت احمدیہ کے خدام اور انصار اور ضرورت پڑی تو مستورات بھی سامنے آئیں گی.اس لئے ہمیں ہندوستان میں شدھی کی تحریک کے خلاف جہاد کا ایک عام اعلان کر رہا ہوں.“ ( خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ ابیح الرابع فرمودہ 22 اگست 1986ء - خطبات طاہر جلد 5 صفحہ 563-567) چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہدایت کے تحت ہندوستان کی مختلف جماعتوں سے ملکانہ کے اس علاقہ ارتداد میں مبلغین و معلمین کے وفود پہنچے.بعض خواتین نے بھی کچھ عرصہ وقف کر کے وہاں کام کیا.ابتدا میں ہمارے ان وفود کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.ان کو رہائش کے لیے جگہیں
262 نہیں دی گئیں.اگر کسی نے کرایہ پر کوئی مکان دے بھی دیا تو مالک مکان کو تنگ کیا گیا اور ان کو بھی معاندین کی طرف سے دھمکیاں ملتی رہیں.لیکن ہمارے مبلغین اور معلمین نے اس علاقہ میں بہت اچھے رنگ میں شدھی کی اس تحریک کا مقابلہ کیا اور مسلماں را مسلماں باز کردنڈ کا عظیم الشان اور مبارک کام انجام دیتے ہوئے یہاں کے لوگوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا.چنانچہ فروری 1987ء سے جون 1988 ء تک کی ایک رپورٹ کے مطابق اس علاقہ ارتداد میں 562 سر افراد جن میں بچے، بڑے، عورتیں اور بچیاں سبھی شامل ہیں کلمہ طیبہ سیکھ چکے تھے.276 را فراد مکمل نماز سیکھ چکے تھے.526 را فراد کلمہ طیبہ اور نماز سیکھ رہے تھے.406 را فراد قاعدہ یسر نا القرآن پڑھ رہے تھے.جبکہ 163 افراد قاعدہ یسرنا القرآن ختم کر چکے تھے.200 افراد قرآن کریم پڑھ رہے تھے.جبکہ 32 افراد قرآن کریم ناظرہ ختم کر چکے تھے.اسی طرح دیگر دینی تعلیمات حاصل کرنے والوں کی تعداد 532 تھی.اس دوران اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقہ ارتداد میں 4 نئے جماعتی سنٹرز کا اضافہ ہوا.اس طرح یہاں سنٹرز کی کل تعداد 24 ہوگئی.یوپی کے علاقہ میں 172 ر اور راجستھان کے علاقہ میں 208 ربیع میں ہوئیں.اس طرح اس علاقہ ارتداد میں اس عرصہ میں 380 ربیع میں ہوئیں اور 2 نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.اس علاقہ ارتداد میں گل 26 مبلغین ومعلمین کام کرتے رہے.نمازوں میں مساجد بھرنا شروع ہو گئیں اور شدھی کی اس تحریک کو بڑی کامیابی سے شکست دے دی.اس علاقہ ارتداد میں مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے تعلیمی و تربیتی جہاد کے ساتھ ساتھ ہمدردی بنی نوع انسان کے جذبہ کے تحت ہزاروں افراد تک بلا تمیز مسلم و غیر مسلم ہومیو پیتھک ادویہ بھی
263 تقسیم کی گئیں جس کے نتیجہ میں بہت سے لوگوں کو ہماریوں سے شفا ملی.جس کی وجہ سے اس علاقہ پر بہت نیک اثر قائم ہوا.جماعت احمدیہ کے تمام تبلیغی و دینی کاموں کی طرح اس عظیم الشان جہاد میں بھی اللہ تعالی اور اس کے فرشتوں کی غیر معمولی تائید و نصرت شامل حال رہی اور بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے مومنوں کے ایمان کو تقویت عطا ہوئی اور مخالفین ذلیل اور شرمندہ ہوئے.ایک ایسے ہی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے مکرم سید سعید احمد صاحب لکھتے ہیں کہ : سبحان نامی گاؤں میں ہمارے ایک دورہ کے دوران وہاں پر مقیم ایک غیر از جماعت مولوی نے ( جود یو بند کا پڑھا ہوا ہے ) ہماری بہت مخالفت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف گستاخانہ کلمات کہے.ڈیڑھ ماہ کے اندر ہی اس مولوی کو بے شمار پریشانیوں نے گھیر لیا اور اسے مجبور اسبحان چھوڑ کر دہلی جانا پڑا.دہلی پہنچ کر اسے یہ احساس ہوا کہ اس پر جو یہ مصائب و تکالیف آئی ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخی کا نتیجہ ہیں.چنانچہ اس نے نادم ہو کر دہلی سے خط لکھا کہ میں چاروں طرف سے مصائب میں گھرا ہوا ہوں اور مجھ پر یہ مشکلات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کے نتیجہ میں آتی ہیں.مجھے معاف کر دیا جائے.میں آج ہی احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار ہوں.مجھ سے رابطہ کیا جائے اور میرے لئے دعا کی جائے“.اسی طرح مکرم ظہیر احمد صاحب خادم لکھتے ہیں: މ علاقہ ارتداد میں ہمارے ایک مبلغ گاؤں کے پٹواری کے ہاں مقیم تھے اور تقریباً ایک سال سے وہاں تعلیم و تربیت کے کام میں مصروف تھے.پٹواری صاحب فی ذاتہ انتہائی نیک فطرت ہیں.ان کا داماد جو فوج میں تھا کچھ عرصہ سے شدھ ہو چکا تھا اور چوہان سبھا کا سرگرم رکن تھا.اس فوجی کولوگوں نے طعن و تشنیع کی کہ تو چوہان سبھا کا بڑا سر گرم رکن بنا پھرتا ہے اور تیرے سسرال والوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے ایک مولوی کو اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے.جب تک تو اس مولوی کو یہاں سے نہیں نکالے گا یہ سنٹر ٹوٹ ہی نہیں سکتا.
264 چنانچہ وہ فوجی اپنی اہلیہ کو لے کر اپنے سسرال (یعنی پٹواری صاحب کے ہاں ) آیا اور کہا کہ مولوی صاحب کو یہاں سے نکالو ورنہ اپنی بیٹی سنبھالو.اب پٹواری صاحب بے چارے گھبرا گئے.کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا کریں.پٹواری صاحب کے گھر میں ایک کہرام کا ساعالم بر پا ہو گیا.آخر مجبوراً مولوی صاحب کو کمرہ خالی کرنے کے لئے کہہ دیا گیا.مولوی صاحب نے بھی اپنا سامان باہر رکھنا شروع کردیا مگر کچھ معلوم نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے.ساتھ دعائیں بھی کر رہے تھے.دوسری طرف قدرت نے یہ نشان دکھایا کہ اسی صبح دہلی سے ایک خاتون کچھ دنوں کے لئے گاؤں واپس آتی.جب انہیں اس صورت حال کا علم ہوا تو انہوں نے مولوی صاحب کو اپنے مکان کی پیشکش کر دی اور کہا کہ چونکہ ہم دہلی میں رہتے ہیں اس لئے اس گاؤں میں ہمارا امکان خالی ہے آپ جب تک چاہیں رہیں.اس خاتون نے مکان کی چابیاں مولوی صاحب کے سپر د کیں اور شام کو واپس چلی گئی اور یوں لگتا ہے کہ وہ دہلی سے صرف اسی غرض کے لئے آئی تھی.اُدھر پٹواری صاحب کا داماد شرم کے مارے منہ چھپائے پھرتا رہا اور لوگوں کے سامنے آنے سے بھی کتر ا تارہا.“ اسی طرح مکرم سید سعید احمد صاحب لکھتے ہیں کہ : ساند ھن یوپی میں 15 افراد بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور یہ وہ افراد ہیں جو 1924ء سے تحریک ارتداد میں شامل ہو چکے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلغین کو نہ صرف موجودہ تحریک شدھی کے خلاف جہاد کرنے کی توفیق ملی بلکہ گزشتہ 1924ء کی تحریک شدھی کے نتیجہ میں ارتداد اختیار کرنے والوں میں سے جو بچے کچھے رہ گئے تھے اب ان کو بھی واپس اسلام میں لانے کی توفیق مل رہی ہے.“ اسی طرح آپ لکھتے ہیں: کھاڑیا ( اجمیر ) جہاں ہمارا ایک سنٹر ہے.وہاں ایک ہینڈ پمپ لگوانے کا پروگرام
265 بنایا گیا.اس علاقہ میں گورنمنٹ کی طرف سے پہلے چار ہینڈ پمپ لگوائے گئے تھے جو سب کے سب ناکام ہو چکے تھے.کہیں پانی نہیں لکھتا تھا اور کہیں نمکین اور کھارا پانی لکھتا تھا.چنانچہ جب ہم نے ہینڈ پمپ لگانے کا پروگرام بنایا تو ایک لمبی پر سوز دعا کے بعد ایک جگہ کا انتخاب کیا گیا.مولوی بشیر احمد صاحب خادم جو اس موقع پر تشریف لے گئے تھے رات کو خواب میں بھی انہوں نے دیکھا کہ جو جگہ نلکا کے لئے منتخب کی گئی ہے وہاں سے نہایت شفاف اور میٹھا پانی نکلا ہے.چنانچہ اسی جگہ پر بورنگ کروائی گئی.جب دو سوفٹ تک پانی نہ نکلا تو ہمیں مایوسی ہونے لگی اور غیر مسلم و مخالفین احمدیت نے استہزاء کرنا شروع کر دیا اور یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ یہ جماعت جھوٹی ہے.ان کے پاس حرام کا پیسہ ہے تبھی یہاں پانی نہیں نکلا.“ سعید صاحب بتاتے ہیں ایک طرف ان کی یہ باتیں تھیں.دوسری طرف ہم سب دعاؤں میں لگے ہوئے تھے کہ اچانک جب بورنگ 220 فٹ تک پہنچی تو نہایت صاف اور میٹھا پانی نکلنا شروع ہو گیا اور تمام استہزاء کرنے والے مخالفین شرمندہ ہو گئے.جہاں اللہ تعالیٰ نے مخالفین کے منہ بند کر دیے وہاں ہمارے اس سنٹر کے تمام افراد کے دل میں احمدیت کی صداقت گھر کر گئی.مکرم سید سعید احمد صاحب اپنے خط محررہ 21 دسمبر 1987ء میں لکھتے ہیں کہ : علاقہ ارتداد کے ایک ساندھن نامی گاؤں کے چند کھیتوں میں آگ لگ گئی.انہی کھیتوں کے درمیان ہمارے ایک ٹو احمدی کا بھی کھیت تھا.اس کے ارد گرد کے تمام کھیت جل کر راکھ کا ھیر بن گئے لیکن احمدی کا کھیت اور اس کی فصل آگ سے بالکل محفوظ رہی.آگ اس کھیت کے قریب پہنچ کر ختم ہو گئی.“ مکرم سید سعید احمد صاحب اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ : علاقہ بیادر کے تھانے کا انچارج ہمارے سخت خلاف تھا اور اس نے ایک روز ہمیں بیادر چھوڑنے کا حکم دے دیا.اللہ تعالیٰ کی نصرت بڑے عجیب رنگ میں ظاہر ہوئی کہ اس حکم دینے
266 کے عین تیسرے دن بعد وہ ایک کیس میں ملوث ہو کر اسی تھانہ میں مجرم کی حیثیت میں لایا گیا.پھر بعد میں اسے معطل کر دیا گیا.الغرض جماعت احمد یہ بھارت کو حضرت خلیفہ اسیح کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالی کے فضل اور اس کی نصرت و تائید کے ساتھ شدھی کی تحریک کے خلاف جہاد میں غیر معمولی اور ثمر آور خدمات کی توفیق ملی.
267 تحریک وقف کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: صل توحید کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لو.اور یہ محبت ثابت نہیں ہو سکتی جب تک عملی حصہ میں کامل نہ ہو.میری غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو.اور یہی اسلام ہے اور یہی وہ غرض ہے جس کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 138 ایڈیشن 1985، مطبوعہ انگلستان) اگر چہ جماعت احمدیہ میں وقف زندگی کا سلسلہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مبارک زندگی میں ہی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہو چکا تھا لیکن خلافت ثانیہ کے دور میں وقف زندگی کا با قاعدہ ایک نظام قائم ہوا.خلفائے احمدیت نے مختلف وقتوں میں مختلف رنگ میں وقف کے لئے تحریکات فرمائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان تحریکات پر لبیک کہتے ہوئے کئی خوش نصیب افراد نے اپنی زندگیاں خدمت دین و اشاعتِ اسلام کے لئے وقف کر کے مختلف بلاد و امصار میں مختلف حیثیتوں میں عظیم الشان خدمات کی توفیق پائی.تا ہم حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی تحریک وقف کو جماعت میں رائج وقف زندگی کی تحریکات سے مختلف اور منفرد اور ایک نئے رنگ میں وقف کی تحریک تھی.اور اس تحریک کی بنیاد بھی قرآن مجید پر اور بالخصوص سورۃ آل عمران کی آیت 33 میں مذکور حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کی ایک دعا سے لطیف استنباط پر مشتمل تھی.چنانچہ حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 1987ء بمقام مسجد فضل لندن میں اس تحریک کا پس منظر اور اس خاص موقع پر اس تحریک کی غرض وغایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: انبیاء کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنا سب کچھ دینے کی خاطر یہ سوچتے سوچتے کہ ہم
268 اور کیا دیں اور کیا دیں؟ اپنی اولادیں بھی پیش کرتے ہیں اور بعض دفعہ ابھی اولاد پیدا بھی نہیں ہوتی تو پیش کر رہے ہوتے ہیں.ابرار کی یہ سنت ہے انبیاء کے علاوہ.جیسے حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے یہ التجا کی خدا سے رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِى محررًا فَتَقَبَّلُ مِنِى إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (آل عمران : 36) کہ میرے.رب جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے میں تیرے لئے پیش کررہی ہوں.نہیں پتہ کیا چیز ہے؟ لڑکی ہے یا لڑکا ہے.اچھا ہے یا برا ہے.مگر جو کچھ ہے وہ سب کچھ تمہیں دے رہی ہوں تو فتقبل مٹی مجھ سے قبول فرما.اِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.تو بہت ہی سنے والا اور جاننے والا ہے....یہ دعا حضرت مریم کی والدہ کی جو آل عمران سے تھیں خدا تعالیٰ کو ایسی پسند آئی جسے قرآن کریم میں آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا اور پھر حضرت ابراہیم کی دعا اپنی اولاد کے متعلق اور دوسرے انبیاء کی دعائیں اپنی اولاد کے متعلق یہ ساری قرآن کریم نے محفوظ فرما دیں.بعض جگہ آپ کو ظاہر طور پر وقف کا مضمون نظر نہیں آئے گا جیسا کہ یہاں آیا ہے مُجددا.اے خدا! میں تیری راہ میں اس بچے کو وقف کرتی ہوں.لیکن بسا اوقات آپ کو یہ دعا نظر آئے گی کہ اے خدا جو نعمت تو نے مجھے دی ہے وہ میری اولاد کو بھی دے اور ان میں بھی انعام جاری فرما.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اس رنگ میں دعا کی.لیکن حقیقت میں اگر آپ غور کریں تو جو انعام مانگا جارہا ہے وہ وقف کامل ہے.کامل وقف کے سوانبوت ہو ہی نہیں ہوسکتی اور سب سے زیادہ بنی نوع انسان سے آزاد یعنی محر ر اور خدا کی غلامی میں جکڑ ا جانے والا نبی ہوتا ہے.تو امر واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص یہ دعا کرتا ہے کہ میری اولاد میں نبوت کو جاری فرما تو اس دعا کا حقیقی معنی یہ ہے میری اولاد کو ہمیشہ میری طرح غلام در غلام در غلام بناتا چلا جا.اپنی محبت میں اپنی اطاعت میں جکڑتا چلا جا.اتنا کامل طور پر جکڑ لے کہ دنیا میں کوئی آزادی کا پہلونہ رہے.تو محررا...دنیا سے آزاد کر کے میں تیرے سپرد کرتی
269 ہوں.یہ مضمون اور بھی زیادہ بالا ہے وقف کا کہ میری اولاد کو تو اپنی غلامی میں جکڑ لے اور کوئی پہلو بھی آزاد نہ رہنے دے.بہر حال یہ بھی ایک پہلو ہے کہ جو کچھ تھا وہ تو دیا خدا کی راہ میں لیکن جو ابھی ہاتھ میں نہیں آیا وہ بھی پیش کرنے کی تمنار کھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی چلہ کشی کی تھی اس مضمون میں.چالیس دن یہ گریہ وزاری کرتے رہے...کہ اے خدا! مجھے اولاد دے اور وہ دے جو تیری غلام ہو جائے.میری طرف سے تحفہ ہو تیرے حضور.پس میں نے یہ سوچا کہ ساری جماعت کو میں اس بات پر آمادہ کروں کہ اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے جہاں روحانی اولاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں دعوت الی اللہ کے ذریعہ، وہاں اپنے آئندہ ہونے والے بچوں کو خدا کی راہ میں ابھی سے وقف کردیں اور یہ دعا مانگیں کہ اے خدا! ہمیں ایک بیٹا دے.لیکن اگر تیرے نزدیک بیٹی ہی ہمارے لئے مقدر ہے تو ہماری بیٹی ہی تیرے حضور پیش ہے.ما في بطنی جو کچھ بھی میرے بطن میں ہے.یہ مائیں دعائیں کریں اور والدین بھی ابراہیمی دعائیں کریں کہ اے خدا انہیں اپنے لئے چن لے اور اپنے لئے خاص کرلے.تیرے ہو کر رہ جائیں.اور آئندہ صدی میں ایک عظیم الشان بچوں کی فوج ساری دنیا سے اس طرح داخل ہورہی ہو کہ وہ دنیا سے آزاد ہو رہی ہو اور محمد رسول اللہ علی اور محمد رسول اللہ علی کے خدا کے غلام بن کے اس صدی میں داخل ہو رہی ہو.چھوٹے چھوٹے بچے ہم خدا کے حضور تحفے پیش کر رہے ہوں.اور اس کی شدید ضرورت ہے.آئندہ سو سالوں میں جس کثرت سے اسلام نے ہر جگہ پھیلنا ہے وہاں لاکھوں تربیت یافتہ غلام چاہئیں جو محمد رسول اللہ علیم اور خدا کے غلام ہوں.واقعین زندگی چاہئیں کثرت کے ساتھ اور ہر طبقہ زندگی کے ساتھ واقفین زندگی چاہئیں.ہر ملک سے واقفین زندگی چاہئیں.آپ نے فرمایا:
270 اس سے پہلے جو ہم تحریک کرتے رہے ہیں بہت کوشش کرتے رہے لیکن بعض خاص طبقوں نے عملاً اپنے آپ کو وقف زندگی سے مستنی سمجھا اور عملاً جو واقفین سلسلہ کو ملتے رہے وہ زندگی کے ہر طبقے سے نہیں آتے.بعض بہت صاحب حیثیت لوگوں نے بھی اپنے بچے پیش کئے لیکن بالعموم دنیا کی نظر میں جس طبقے کو بہت زیادہ عزت سے نہیں دیکھا جاتا، درمیانہ درجہ کا غریبانہ جو طبقہ ہے اس میں سے وہ بچے پیش ہوتے رہے.اس طبقے کے ان واقفین زندگی کا آنا ان واقفین زندگی کی عزت بڑھانے کا موجب ہے.عزت گرانے کا موجب نہیں.لیکن دوسرے طبقے سے نہ آنا ان طبقوں کی عزت گرانے کا ضرور موجب ہے.“ آپ نے فرمایا : یں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان خاندانوں کی عزتیں باقی نہیں رہیں گی جو بظاہر دنیا میں معزز ہیں اور خدا کے نزدیک وہ خود اپنے آپ کو آئندہ ذلیل کرتے چلے جائیں گے اگر خدا کے حضور انہوں نے اپنے بچے پیش کرنے کا ٹر نہ سیکھا.اور یہ سنت انبیاء ہے.انبیاء کے بچوں سے زیادہ معزز اور کوئی بچے دنیا میں نہیں ہو سکتے.انہوں نے اس عاجزی سے وقف کئے ہیں ، اس طرح منتیں کر کے وقف کئے ہیں، اس طرح گریہ وزاری کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے ، روتے ہوئے وقف کئے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے ان کو دیکھ کر.پس اگلی صدی کو شدید ضرورت ہے کہ جماعت کے ہر طبقے سے لکھو کھا کی تعداد میں واقفین زندگی آئیں.ایک صدی کے بعد ہم دراصل خدا کے حضور تحفہ پیش کر رہے ہوں گے لیکن استعمال تو اس صدی کے لوگوں نے کرنا ہے بہر حال یہ تحفہ ہم اس صدی کو دینے والے ہیں.اس لئے جن کو بھی توفیق ہے وہ اس تحفے کے لئے بھی تیار ہو جائیں.ہوسکتا ہے اس نیت کی، اس نذر کی برکت سے بعض ایسے خاندان جن میں اولاد
271 نہیں پیدا ہورہی اور ایسے میاں بیوی جو کسی وجہ سے اولاد سے محروم ہیں اللہ تعالی اس قربانی کی روح کو قبول فرماتے ہوئے ان کو بھی اولاد دیدے.خدا تعالٰی اس سے پہلے یہ کر چکا ہے.جو انبیاء اولاد کی دعائیں مانگتے ہیں، وقف کی خاطر مانگتے ہیں تو بعض دفعہ بڑھاپے میں بھی تو اولاد ہو جاتی ہے ایسی صورت میں بھی ہو جاتی ہے کہ بیوی بھی بانجھ اور خاوند بھی.حضرت زکریا علیہ السلام کو دیکھیں اس شان سے دعا کی تھی یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں ، میرا سر بھڑک اٹھا ہے بڑھاپے کے شعلوں سے اور ہڈیاں تک گل گئیں اور میری بیوی عاقیر ہے.یعنی اس میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہی کوئی نہیں ہے.لیکن میری یہی تمنا ہے کہ تیری راہ میں ایک بچہ پیش کروں اس لئے میری تمنا کو قبول فرما....اس عظمت کی، اس درد کی دعا تھی کہ اسی وقت، دعا کی حالت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے بیٹی کی خوشخبری دی.خود اس کا نام رکھا اور اس میں بھی عظیم الشان خدا کے پیار کا اظہار ہے....پس اس رنگ میں آپ اگلی صدی میں جو خدا کے حضور تحفے بھیجنے والے ہیں یا بھیج رہے ہیں...مجھے خدا نے یہ توجہ دلائی کہ میں آپ کو بتادوں کہ آئندہ دو سال کے اندر یہ عہد کرلیں کہ جس کو بھی جو اولاد نصیب ہوگی وہ خدا کے حضور پیش کر دے گا اور اگر آج کچھ مائیں حاملہ ہیں تو وہ بھی اس تحریک میں اگر پہلے شامل نہیں ہو سکی تھیں تو اب ہو جائیں.وہ بھی یہ عہد کر لیں لیکن ماں باپ کو مل کر کرنا ہوگا.دونوں کو اکٹھے فیصلہ کرنا چاہیئے تا کہ اس سلسلے میں پھر پیچھتی بھی پیدا ہو اولاد کی تربیت میں اور بچپن سے ان کی اعلیٰ تربیت کرنا شروع کر دیں اور اعلیٰ تربیت کے ساتھ ان کو بچپن سے ہی اس بات پر آمادہ کرنا شروع کریں کہ تم ایک عظیم مقصد کے لئے ایک عظیم الشان وقت میں پیدا ہوئے ہو جبکہ غلبہ اسلام کی ایک صدی، غلبہ اسلام کی دوسری صدی سے مل رہی تھی.اس جوڑ پر تمہاری پیدائش ہوئی ہے
272 اور اس نیت اور دعا کے ساتھ ہم نے تجھ کو مانگا تھا خدا سے کہ...آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے اس کے عظیم الشان مجاہد بن جاؤ.اگر اس طرح دعائیں کرتے ہوئے لوگ اپنے آئندہ بچوں کو وقف کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ بہت ہی حسین اور بہت پیاری ایک نسل تمہاری آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے اپنے آپ کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہوگی.خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 1987ء.خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 246-250) تحر یک وقف ٹو کی ضرورت اور غرض وغایت جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا جاچکا ہے کہ وقف ٹو کی تحریک سے قبل بھی جماعت میں وقف زندگی کا نظام قائم تھا اور لوگ خود اپنی یا اپنی اولاد کی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کیا کرتے تھے.لیکن پیدائش سے قبل بچوں کو وقف کرنے کی اس نئی تحریک کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس میں کیا خاص بات پیش نظر تھی.اس پہلو سے حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 10 / فروری 1989ء میں ایک تجزیہ پیش کرتے ہوئے فرمایا: ”خدا کے حضور بچے کو پیش کرنا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہے.کوئی معمولی بات نہیں ہے.اور آپ یاد رکھیں کہ وہ لوگ جو خلوص اور پیار کے ساتھ قربانیاں دیا کرتے ہیں وہ اپنے پیار کی نسبت سے اُن قربانیوں کو سجا کر پیش کیا کرتے ہیں.قربانیاں اور تحفے در اصل ایک ہی ذیل میں آتے ہیں.قربانیاں تحفوں کا رنگ رکھتی ہیں اور اُن کے ساتھ سجاوٹ ضروری ہے.آپ نے دیکھا ہو گا بعض لوگ تو مینڈھوں کو ، بکروں کو بھی خوب سجاتے ہیں اور بعض تو ان کو زیور پہنا کہ پھر قربان گاہوں کی طرف لے کر جاتے ہیں، پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور کئی قسم کی سجاوٹیں کرتے ہیں.انسانی قربانی کی سجاوٹیں اور طرح کی ہیں.انسانی زندگی کی سجاوٹ تقویٰ سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار اور اُس کی
273 محبت کے نتیجے میں انسانی روح بن ٹھن کر تیار ہوا کرتی ہے.پس پیشتر اس سے کہ یہ بچے اتنے بڑے ہوں کہ جماعت کے سپرد کئے جائیں گے.ان ماں باپ کی بہت ذمہ داری ہے کہ وہ ان قربانیوں کو اس طرح تیار کریں کہ ان کے دل کی حسرتیں پوری ہوں.جس شان کے ساتھ وہ خدا کے حضور ایک غیر معمولی تحفہ پیش کرنے کی تمنا رکھتے ہیں وہ تمنائیں پوری ہوں.“ آپ نے فرمایا: اس سے پہلے جو مختلف ادوار میں واقفین جماعت کے سامنے پیش کئے جاتے رہے ان کی تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ کئی قسم کے واقفین ہیں.کچھ تو وہ تھے جنہوں نے بڑی عمروں میں ایسی حالت میں اپنے آپ کو خود پیش کیا کہ خوش قسمتی کے ساتھ اُن کی اپنی تربیت بہت اچھی ہوئی ہوئی تھی اور وقف نہ بھی کرتے تب بھی وقف کی روح رکھنے والے لوگ تھے.صحابہ کی اولاد یا اول تابعین کی اولاد، اچھے ماحول میں ، اچھی پرورش اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اچھی عادات سے سجے ہوئے لوگ تھے.وہ واقعین کا جو گروہ ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر پہلو سے زندگی کے ہر شعبے میں نہایت کامیاب رہا.پھر ایک ایسا دور آیا جب بچے وقف کرنے شروع کئے گئے.یعنی والدین نے اپنی اولاد کو خود وقف کرنا چاہا.اس دور میں مختلف قسم کے واقصین ہمارے سامنے آئے ہیں.بہت سے وہ ہیں جن کو والدین سمجھتے ہیں کہ جب ہم جماعت کے سپرد کریں گے تو وہ خود ہی تربیت کریں گے اور اس عرصے میں انہوں نے اُن پر نظر نہیں رکھی.پس جب وہ جامعہ میں پیش ہوتے ہیں تو بالکل ایسے Raw میٹریل کے طور پر، ایسے خام مال کے طور پر پیش ہوتے ہیں جس کے اندر بعض مختلف قسم کی ملاوٹیں بھی شامل ہو چکی ہوتی ہیں ان کو صاف کرنا ایک کار وارد ہوا کرتا ہے.اُن کو وقف کی روح کے مطابق ڈھالنا بعض دفعہ مشکل بلکہ محال ہو جایا کرتا ہے اور بعض بد عادتیں وہ ساتھ لے کر آتے ہیں.یعنی بعض باتیں جماعت ویسے
274 سوچ بھی نہیں سکتی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بعض لڑکوں کو جامعہ میں چوری کے نتیجے میں وقف سے فارغ کیا گیا ہے.کسی کو جھوٹ کے نتیجے میں وقف سے خارج کیا گیا ہے.اب یہ باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اچھے نیک ، صالح احمدی میں پائی جائیں کجا یہ کہ وہ واقفین زندگی میں پائی جائیں لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ والدین نے پیش تو کر دیا لیکن تربیت کی طرف توجہ نہ کی یا اتنی دیر کے بعد اُن کو وقف کا خیال آیا کہ اس وقت تربیت کا وقت باقی نہیں رہا تھا.بعض والدین سے تو یہ بھی پتہ چلا کہ انہوں نے اس وجہ سے بچہ وقف کیا تھا کہ عادتیں بہت بگڑی ہوئی تھیں اور وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح تو ٹھیک نہیں ہوتا ، وقف کر دو تو آپ ہی جا کر جماعت سنبھال لے گی اور ٹھیک کرے گی.“ اسی طرح ایک موقع پر فرمایا: خطبہ جمعہ فرمودہ 10 فروری 1989ء.خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 85-86) جہاں تک اولادوں کے وقف کا تعلق ہے اس ضمن میں ابھی اس شان کی قربانی پیدا نہیں ہوئی تھی کیونکہ مختلف اوقات میں جب وقف کے لئے زور دیا جاتا رہا تو جماعت اپنے جگر گوشے پیش کرتی رہی ہے لیکن درمیان میں بسا اوقات لمبے عرصے پڑ گئے، لمبے وقفے حائل ہو گئے کہ جب خلیفہ وقت نے وقف کی طرف توجہ نہیں دلائی اس لئے جماعت بھی اس معاملے میں خاموش ہو گئی.چنانچہ آئندہ کی ضرورتوں کے پیش نظر میں نے یہ تحریک کی کہ اپنے بچوں کو ، اپنی آئندہ نسلوں کو وقف کرو.اگلی صدی میں ہمارے کام بہت کثرت سے پھیلنے والے ہیں.ان کے اندازے ابھی سے کچھ ہونے شروع ہو گئے ہیں.بالکل نئے نئے ممالک کی فتح کے اللہ تعالی سامان پیدا فرما رہا ہے، نئی نئی قوموں میں جماعت کو داخل کر رہا ہے اور خود بخود ہورہا ہے، ہماری کوششوں سے بعض دفعہ تعلق نظر آتا ہے بعض دفعہ کوئی تعلق نظر نہیں آتا....خدا تعالی کی طرف سے ایک سازگار ہوا چلائی جارہی ہے، کچھ پھل ہیں جو پکائے جا رہے ہیں.اس لئے کہ جماعت ترقی کے بالکل نئے دور میں داخل ہونے والی ہے.
275 بہت ہی عظیم الشان ترقیات آپ کا انتظار کر رہی ہیں.ان کے لئے اللہ تعالیٰ آپ کو تیار فرمارہا ہے.اس لئے مجھے یقین ہے کہ اگلی صدی میں لکھوکھا واقفین زندگی کی ضرورت پڑے گی.اسی لئے میں نے جماعت میں ایک تحریک کی تھی کہ ابھی سے اپنے بچے پیش کر دیں تا کہ پھر جب ہم صدی میں داخل ہوں تو خدا کے حضور پہلے ہی تیار ہو کر حاضر ہوں.اور جب بھی خدا کے حضور کوئی قربانی پیش کی جاتی ہے اس کے لئے مصارف کا انتظام بھی اللہ تعالیٰ خود ہی فرما دیتا ہے.اگر لاکھ واقفین آپ پیش کریں گے تو یقین جانیں کہ لاکھ واقفین کے لئے تمام ضروری سامان خدا خود مہیا فرمائے گا.مشنوں کے لئے جگہ عطا کرے گا، ان کے تبلیغ کے لئے جتنی بھی ضرورتیں ہیں وہ ضرورتیں پوری فرمائے گا، ان کے اپنے لئے رزق کا انتظام فرمائے گا اور پھر اسی نسبت سے نئی نئی قوموں میں، نئے نئے علاقوں میں احمدیت اور اسلام کی طرف رجحان پیدا فرمادے گا.تو بعض دعائیں ہوتی ہیں زبان کی دعائیں.بعض ہوتی ہیں عمل کی دعائیں.یہ بھی میرے ذہن میں ایک بات تھی کہ ہم عملاً خدا کے حضور دعا کے طور پر یہ بچے پیش کر دیں کہ اللہ تیرے حضور حاضر ہیں اب تو سنبھال تیرا کام ہے.اب ہمارے نہیں رہے تیرے ہو گئے ہیں.تو نے ہی ان کو پالنا ہے.تو نے ہی ان کے لئے سارے انتظامات فرمانے ہیں، ان سے کام لینے کے انتظامات فرمانے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت بالعموم بہت اچھے طریق پر اس آواز کا جواب دے رہی ہے....اگلی نسل کا وقف اس بات پر منحصر ہے کہ وہ خود بھی ایمان لانے والی ہو اور عمل صالح کرنے والی ہو.اگر وہ ایمان لے آئیں اور عمل صالح کریں تو پھر ان کی ساری نیکیاں تمہارے درجات کی بلندی کا موجب بھی بنیں گی....پس جماعت کو اپنی اس اولاد کی تربیت کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.بچپن سے ہی ان بچوں کے دلوں میں خدا کی محبت اس طرح بھر دیں اور اس خلوص
276 کے ساتھ ان کے لئے دعائیں کریں کہ جو آپ کی کوتاہیاں ہیں ان کو نظر انداز فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت بھرنا شروع کر دیں.مائیں ان کو دودھ میں اللہ کی محبت پلائیں اور بچپن سے یہ مختلف دکھائی دینے لگیں.بہ جو نو مضمون ہے مختلف دکھائی دینے والا اس کا تعلق بھی ایک بچے کے وقف سے ہے.حضرت مریم کو ان کی والدہ نے وقف فرمایا اور خدا کے سپرد کر دیا کہ اب تو جان، جو چاہیے کر میں نے تو وقف کرنا تھا.لڑکا یالڑ کی عطا کرنا تیرا کام تھا.جو کچھ بھی ہے میں نے تیرے حضور پیش کر دیا اور قرآن کریم فرماتا ہے بچپن سے ہی ان کے حالات دوسرے بچوں سے مختلف تھے.اُن کے اندر بعض امتیازی شانیں تھیں جن کو حضرت ذکریا نے محسوس فرمایا اور ان امتیازی نشانات کو دیکھ کر ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی اور جو دعا بن گئی کہ اے خدا مجھے بھی تو ایسی اولاد عطا فرما.جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت بیٹی کی خوشخبری دی.پھر اسی ماں کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہوا اس کے بھی بچپن میں آثار دوسرے بچوں سے مختلف تھے.فِي الْمَهْدِوَ کُھلا.( آل عمران : 47 ) وہ گفتگو کرتا تھا ، خدائی تگو کرتا تھا، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا تھا.تو ان دونوں مثالوں میں ہمارے لئے ایک سبق ہے کہ بچپن ہی سے وقف کرنے والی اولاد کے دل میں اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی محبت پیدا کرنی چاہئے اور صرف کوشش سے مطمئن نہیں ہونا چاہئے.جب تک وہ آثار ان میں ظاہر نہ ہو جائیں اُس وقت تک اطمینان نہیں پکڑنا چاہئے.پس اب ان کی تربیت کا جو دور ہے اس میں اللہ تعالیٰ ماں باپ کو زندگی عطا فرمائے کہ وہ خود محبت کے ساتھ ان وقف شدہ بچوں کی تربیت کرسکیں.اس تربیت کے دور میں دعائیں بھی آپ کو کرنی ہوں گی، ہر قسم کے ذرائع کو استعمال میں لانا ہوگا یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں دن بدن اپنی اولاد کی طرف سے زیادہ ٹھنڈی ہوتی چلی جائیں گی....جو بچے بچپن سے ہی خدا تعالیٰ سے محبت کرنے لگ جائیں ان کے لئے اعجازی نشان عطا
277 ہونے میں دیر نہیں کی جاتی.یہ خیال نہ کریں کہ جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں، بالغ نہ ہو جائیں اللہ تعالیٰ ان سے کوئی اعجازی سلوک نہیں فرمایا کرتا.بچپن سے ہی ان کے اندر اعجازی طاقتیں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں.ان کی دعائیں قبول ہونے لگ جاتی ہیں.ان کی خواہشات دعا بن جاتی ہیں اور ایسے بچے نمایاں ہو کر باقی بچوں سے ایک الگ وجود دکھائی دینے لگتے ہیں.ایسے وقف کریں جو قرآن کریم کی وقف کی مثالوں کے اوپر پورے اترنے والے ہوں.ایسے وقف کریں کہ اگلی صدیاں ناز کریں ان پر بھی اور آپ پر بھی جنہوں نے وقف کئے تھے کہ ہاں ہاں ایسی ایسی مائیں تھیں جنہوں نے یہ لعل ہمارے لئے تحفہ بھیجے.ایسے باپ تھے جنہوں نے اس طرح دعاؤں کے ساتھ اور گریہ وزاری کے ساتھ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کا خیال رکھا تھا، اپنے جگر گوشے ہماری ہی بھلائی کے لئے پیش کر دئیے تھے.یہ جب آپ کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ سے وعدہ کرتا ہے کہ آپ کو ان نیکیوں کے برابر اجر نہیں بلکہ دوہرا تہرا، ہمیشہ بڑھتے رہنے والا اجر عطا ہوگا اور آپ کی نیکیاں Skyscrapers بننی شروع ہو جائیں گی، بالا خانے عطا ہوں گے.اس لئے کہ اگر پہلی نسل بھی نیکی پر قائم ہو جائے تو ایک منزلہ نیکی کی بجائے دو منزلہ نیکی بن گئی اور اگر نسلاً بعد نسل اسی طرح ان کی اولاد اور پھر اُن کی اولاد اور پھر ان کی اولاد نیکیوں پر قائم ہوتی چلی جائے تو آپ کو تو Skyscrapers ہی اس شان کے عطا ہوں گے کہ دنیا نے کبھی اس شان کے Skyscrapers نہیں دیکھے.امریکہ کے بنائے ہوئے Skyscrapers تو کوئی چودہ سوفٹ پر جاکے ختم ہو جاتا ہے، کوئی پندرہ سوفٹ پہ جا کے ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ جو بالا خانے ہیں یہ زمین سے اٹھتے ہیں اور آسمان سے باتیں کرتے ہیں، ان کی بلندیاں آسمان کے کنگروں کو چھوتی ہیں.اتنے عظیم الشان اجر ہیں اس نیکی کے جو اس آیت میں بیان کئے گئے ہیں کہ میں جماعت کو تو جہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ اس کے پیچھے متبع کریں اور اس کی روح
278 کو قائم کرتے ہوئے پورے انہماک اور پورے خلوص کے ساتھ یہ کوشش کریں کہ ان کی قربانیاں قبولیت کا درجہ پا جائیں تو پھر اجر اتنا ہے کہ اس کی کوئی انتہا نہیں.ایسی رفعتیں آپ کے لئے مقدر ہیں خدا کی طرف سے کہ کسی انسان کا تصور بھی ان کو نہیں پہنچ سکتا.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین £6 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1989 - خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 462458) ابتدائی طور پر وقف کو کی یہ تحریک جماعت کی صد سالہ جوہلی کے استقبال کے حوالہ سے دو سال کے لئے جاری کی گئی تھی.حضور رحمہ اللہ نے اس تحریک کے آغاز (3) اپریل 1987 ء ) پر اور اس کے بعد بھی مختلف مواقع پر اپنے خطبات اور خطابات کے ذریعہ واقفین ٹو کی صحیح خطوط پر تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں تفصیلی ہدایات اور پروگرام عطا فرمائے اور والدین کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.اسی طرح ان واقفین کو بچوں اور بچیوں کی نگہداشت اور رہنمائی کے لئے تحریک جدید میں باقاعدہ ایک وکالت وکالت وقف کو کے نام سے قائم فرمائی.جب اس تحریک پر قریبا دو سال کا عرصہ مکمل ہونے کو آیا اس وقت تک بارہ سو کے لگ بھگ واقعین اس تحریک میں شامل ہو چکے تھے.حضور رحمہ اللہ نے اس بارہ میں اپنی توقعات کا ذکر کرتے ہوئے اور اس بنا پر کہ ابھی بہت سے لوگوں تک یہ تحریک کماتھے پہنچ نہیں سکی تھی اس میں شمولیت کی مدت کی توسیع فرما دی.چنانچہ خطبہ جمعہ فرموده 10 فروری 1989ء میں آپ نے فرمایا: آئندہ صدی کی تیاری کے سلسلے میں ایک بہت ہی اہم تیاری کا تعلق واقفین کو سے ہے.وقف ٹو کی جو میں نے تحریک کی تھی اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بارہ سو سے زائد ایسے بچوں کے متعلق اطلاع مل چکی ہے جو وقف نو کی نیت کے ساتھ دعائیں مانگتے ہوئے خدا سے مانگے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُن کی خیر وعافیت کے ساتھ ولادت کا سامان فرمایا.یہ چھوٹے چھوٹے بچے آئندہ صدی کے واقعین کو
279 - کہلاتے ہیں....وقف نو کے لئے جتنی تعداد کی توقع تھی اتنی تعداد بلکہ اس کا ایک حصہ بھی ابھی پورا نہیں ہو سکا اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے اس میں پیغام پہنچانے والوں کا قصور ہے.بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں عامتہ الناس تک یہ پیغام پہنچایا ہی نہیں گیا اور جن دنوں یہ تحریک کی گئی تھی ان دنوں کیسٹ کا نظام آج کی نسبت بہت کمزور حالت میں تھا اور افریقہ کے ممالک ، ایسے دیگر ممالک جہاں اُردو زبان نہیں سمجھی جاتی اور بعض علاقوں میں انگریزی بھی نہیں سمجھی جاتی وہاں ترجمہ کر کے کیسٹس پھیلانے کا عملاً کوئی انتظام نہیں تھا.اس وجہ سے وہ جو براہ راست پیغام کا اثر ہو سکتا ہے اُس سے بہت سے احمدی علاقے محروم رہ گئے.“ آپ نے فرمایا: میری خواہش یہ تھی کم سے کم پانچ ہزار بچے اگلی صدی کے واقفین کو کے طور پر ہم خدا کے حضور پیش کریں.ابھی کافی سفر باقی ہے اس تعداد کو پورا کرنے میں.اور دوست یہ لکھ رہے ہیں کہ جہاں تک اُن کا تاثر تھایا میں نے جو شروع میں خطبے میں بات کی تھی اس کا واقعہ یہی نتیجہ نکلتا ہوگا کہ جو اس صدی سے پہلے پہلے بچے پیدا ہو جائیں گے وہ وقف کو میں لئے جائیں گے اور اس کے بعد یہ سلسلہ بند ہو جائے گا.لیکن جس طرح بعض دوستوں کے خطوط سے پتہ چل رہا ہے وہ خواہش رکھتے ہیں لیکن یہ سمجھ کر کہ اب وقت نہیں رہا وہ اس خواہش کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے ، ان کے لئے اور مزید تمام دنیا کی جماعتوں کے لئے جن تک ابھی یہ پیغام ہی نہیں پہنچائیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ وقف ٹو میں شمولیت کے لئے مزید دو سال کا عرصہ بڑھایا جاتا ہے اور یہ عرصہ فی الحال دو سال کا بڑھایا جارہا ہے تا کہ اس پہلی تحریک میں شامل ہو جائے ورنہ یہ تحریک تو بار بار ہوتی ہی رہے گی.لیکن وہ خصوصاً تاریخی تحریک جس میں انگلی صدی کے لئے ایک واقفین بچوں کی پہلی فوج تیار ہو رہی ہے اُس کا عرصہ آج تا دو سال تک بڑھایا جا رہا ہے.اس عرصے میں جماعتیں کوشش کرلیں
280 اور جس حد تک بھی ممکن ہو یہ فوج پانچ ہزار تو ضرور ہو جائے.اس سے بڑھ جائے تو بہت ہی اچھا ہے." خطبہ جمعہ فرمودہ 10 / فروری 1989 خطبات طاہر جلد 8 - صفحہ 83-84) اللہ تعالیٰ کے فضل سے جوں جوں اس تحریک کی تفصیلات افراد جماعت تک پہنچیں، خلیفہ وقت کی طرف سے جاری ہونے والی ہر تحریک کی طرح افراد جماعت مردوزن نے اس پر بھی والہانہ لبیک کہا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں غیر معمولی برکت عطا فرمائی.کئی ایسے لوگ جن کے ہاں سالہا سال سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی اس تحریک میں شمولیت کی نیت اور وعدہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا.بعضوں کے ہاں لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوتی تھیں لیکن وقف کو کی مبارک تحریک میں شمولیت کی نیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں معجزانہ طور پر اولاد نرینہ سے نوازا.ایسے بیبیسیوں واقعات جماعت کی تاریخ میں دنیا بھر میں پھیلے پڑے ہیں.حضرت خلیفة اصبح الرابع رحمہ اللہ نے 1989ء میں اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ دو سال تک واقفین ٹو کی پہلی فوج کی تعداد کم از کم پانچ ہزار تک ہو جائے.خلیفہ وقت کے اس مطالبہ کے جواب میں 1991 ء تک افراد جماعت نے بارہ ہزار جگر گوشوں کو اس تحریک میں شامل کرنے کی سعادت پائی.پھر 1991ء میں حضور رحمہ اللہ نے احباب جماعت کی خواہش اور اصرار پر اس تحریک کو مستقل فرما دیا.چنانچہ یہ تحریک آج بھی جاری وساری ہے.دور خلافت رابعہ کے اختتام تک دنیا بھر کے واقفین کو بچوں کی کل تعداد 26321 تھی جن میں سے 17680 لڑکے اور 8641 لڑکیاں تھیں.........
281 اشاعت کتب ولٹریچر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آیت قرآنی هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله (سورۃ الصف: 10) کی تفسیر میں فرمایا: یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجاتا اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کر دے.یعنی ایک عالمگیر غلبہ اس کو عطا کرے....اس آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا.“ - چشمه معرفت - روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 91) اس عالمگیر غلبہ اسلام کے لئے جن ذرائع اور وسائل کی ضرورت تھی وہ بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ظاہر فرمائے.حضور علیہ السلام نے اس عالمگیر غلبہ اسلام کے لئے اپنی تصنیف 'فتح اسلام میں جو عظیم الشان منصوبہ پیش فرمایا اس کی پانچ شاخوں میں سے ایک شارخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ اور دوسری شاخ اشتہارات کے جاری کرنے کا سلسلہ ہے.حضور علیہ السلام نے آج سے کم و بیش سوا سو سال پہلے ہندوستان کے ایک چھوٹے سے قصبہ قادیان میں بیٹھ کر اس زمانے کی مشکلات اور کئی قسم کی مالی تنگیوں کے باوجود نہایت محنت اور جانفشانی کے ساتھ، اپنا جگر خون کر کے احیائے دین اور اعلائے کلمہ اسلام کے لئے تن تنہا متعددنہایت بلند پای علمی تصنیفات کے علاوہ ہزارہ اشتہارات شائع کر کے دنیا بھر میں بھجوائے جن میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام کی افضلیت کو نہایت قوی دلائل اور تازہ بتازہ روشن نشانات کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا.آپ کی یہ تصنیفات و اشتہارات اردو، عربی، فارسی اور انگریزی وغیرہ زبانوں میں شائع ہوئے.چنانچہ 1890 ء تک آپ میں ہزار سے زیادہ اشتہارات اسلامی حجتوں کو غیر قوموں پر پورا کرنے کے لئے شائع فرما چکے تھے.
282 آپ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں جو 1891ء کی تصنیف ہے فرماتے ہیں کہ آپ نے بارہ ہزار کے قریب اشتہارات دعوتِ اسلام رجسٹری کرا کر تمام قوموں کے پیشواؤں اور امیروں اور والیان ملک کے نام روانہ کئے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 156- حاشیہ) اور آئینہ کمالات اسلام میں جو 1892ء کی تصنیف ہے آپ فرماتے ہیں کہ آپ نے بارہ ہزار کے قریب خط اور اشتہار الہامی برکات کے مقابلہ کے لئے مذاہب غیر کی طرف روانہ کئے بالخصوص پادریوں میں سے شاید ایک بھی نامی پادری یورپ اور امریکہ اور ہندوستان میں باقی نہیں ہوگا جس کی طرف خط رجسٹری کر کے نہ بھیجا ہو.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 348) دسمبر 1900ء تک آپ نے چالیس کتب تالیف فرمائی تھیں اور ساٹھ ہزار کے قریب اشتہارات شائع فرما چکے تھے.آپ کی زندگی میں صرف اشتہارات کی کل تعداد اشاعت کا اندازہ 76 سے 80 ہزار کا ہے.1901 ء تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشتہارات اور چند کتب انگریزی میں ترجمہ ہو کر یورپ اور امریکہ میں پہنچ چکی تھیں لیکن آپ کا منشاء تھا کہ مغربی ممالک تک اسلام کی آواز پہنچانے کے لئے ایک ماہوار انگریزی رسالہ جاری کیا جائے جس میں خاص طور پر ان مضامین کے تراجم شائع ہوں جو تائید اسلام میں خود حضور علیہ السلام کے قلم سے نکلتے ہوں.چنانچہ اس وقت سے ریویو آف ریلیجنز کے نام سے رسالہ شائع ہونا شروع ہوا.1901ء میں ہی حضور علیہ السلام کی کتب کے انگریزی تراجم کے لئے ایک مستقل ادارہ انجمن اشاعت اسلام کے نام سے قائم کیا گیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقدس ہاتھوں سے فتح اسلام کے منصوبہ کی جو شاخیں لگائی گئی تھیں وہ سب آپ کی محنت اور تنظیم اور متضر" عامہ دعاؤں سے خوب پھلی اور پھولیں اور آپ کے بعد خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کی زیر ہدایت و نگرانی ان میں سے ہر شاخ مثمر ثمرات حسنہ ہوئی.بڑی کثرت کے ساتھ مختلف اسلامی موضوعات پر نہایت بیش قیمت لٹریچر تیار ہوا اور اس کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم کر کے وسیع پیمانے پر اس کی تقسیم عمل میں آئی.
283 حضرت خلیفہ امسح الثالث رحمہ اللہ نے جماعت احمدیہ کے قیام پر سو سال کا عرصہ ہونے پر جس صد سالہ جشنِ تشکر کا منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا تھا اس کا ایک اہم حصہ دنیا کی مختلف زبانوں میں لٹریچر کی تیاری اور موجود لٹریچر کے تراجم اور ان کی طباعت و تقسیم بھی تھا.اور خدا تعالی کے فضل سے اس پہلو سے باقاعدہ منصوبہ کے تحت کام کو آگے بڑھایا گیا.خلافت رابعہ کے مبارک عہد میں اس میں مزید وسعت پیدا ہوئی.آپ کے عہد خلافت کے پہلے دو سالوں (1982ء اور 1983 ء) کے دوران جولٹریچر مرکزی طور پر شائع ہوا اس کی تعداد ایک لاکھ 9 ہزار 966 تھی.پھر 1984ء میں پاکستان میں جماعت کے خلاف حکومت نے ایک آرڈینس کے ذریعہ لٹریچر کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی.جماعت کے پریس کو سیل (seal) کیا گیا.جماعت کے اخبار اور رسائل پر پابندیاں لگائی گئیں.کئی کتب کو ضبط کیا گیا.اخبار اور رسائل کے مدیران اور پبلشرز پر مقدمات بنائے گئے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کو اس آرڈ سینس کی وجہ سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے لئے ملک سے ہجرت کرنا پڑی اور جماعت ایک نئے اور انقلابی دور میں داخل ہوئی.پاکستان میں آرڈینینس کے ذریعہ جماعت پر لٹریچر کی اشاعت پر جو پابندی لگائی گئی تھی اس کے - مقابلہ کے لئے حضرت خلیفۃ اسح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا کہ : میں نے فیصلہ کیا ہے کہ انشاء اللہ تعالی، اللہ تعالی کے فضل اور رحم اور اس کی توفیق کے ساتھ ساری دنیا میں اشاعت لٹریچر کے کام کو کئی گنا زیادہ بڑھا دینا ہے، اتنا کہ ان سے سنبھالا نہ جائے ، تمام دنیا میں اشاعت کتب کا، اشاعت لٹریچر کا ایک بہت زبردست منصوبہ ہے میرے ذہن میں جس کو انشاء اللہ تعالیٰ حسب توفیق آہستہ آہستہ کھولوں گا اور جہاں تک خدا توفیق عطا فرمائے گا اس پر عمل درآمد شروع کیا جائے گا.لٹریچر کی اشاعت میں نئی زبانوں کو شامل کرتا ہے اور اس ذریعہ سے کثرت کے ساتھ ایسے ممالک میں داخل ہوتا ہے جہاں ابھی تک احمدیت داخل نہیں ہوتی ، ایسی قوموں میں داخل
284 ہونا ہے جہاں ابھی تک احمدیت داخل نہیں ہوئی، ایسے طبقات میں داخل ہوتا ہے جہاں ابھی تک احمدیت داخل نہیں ہوئی...بہت سے خلا ہیں، کئی قسم کے لوگ ہیں، کئی قسم کی بولیاں بولنے والے، کئی قسم کے طبقات فکر سے تعلق رکھنے والے، اتنے بڑے بڑے خلا ہیں جن تک ہم ابھی اس لئے نہیں پہنچ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس لٹریچر نہیں ہے.تو نہ صرف یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب اور موجود لٹریچر کو زیادہ شائع کرنا ہے بلکہ نئی زبانوں میں لٹریچر پیدا کرنا ہے.مخطبه جمعه فرمودہ 18 مئی 1984ء.خطبات ظاہر جلد 3 صفحہ 262 263) چنانچہ آپ نے اس طرف فوری توجہ فرمائی.انگلستان میں تصنیف اور اشاعت کے شعبے قائم فرمائے.پہلے سے موجود کتب ولٹریچر کی ری پرنٹنگ، ان کے تراجم اور مختلف زبانوں میں مختلف موضوعات پر نئے لٹریچر کی تیاری و طباعت کے کام کو نہایت ٹھوس بنیادوں پر منظم کیا گیا.حضور رحمہ اللہ کی پاکستان سے ہجرت کے بعد ایک سال کے اندر اندر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پر مشتمل روحانی خزائن کی 23 جلدیں، اسی طرح آپ کے اشتہارات کے مجموعہ پر مشتمل تین جلدیں، اور ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دس جلدیں اور قرآن مجید کی تفسیر پر مشتمل حضرت خلیفہ امسح الثانی کی تفسیر کبیر کی دس جلدیں ملا کر گل 146 کتب کا سیٹ انگلستان سے شائع کیا گیا.اسی طرح عربی، اردو، انگریزی اور دیگر کئی زبانوں میں تعلیمی تبلیغی اور تربیتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے چھوٹی بڑی مختلف کتب کثرت سے شائع کی گئیں.لٹریچر کی طباعت کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر اسلام آباد ( فلفورڈ ) میں رقیم پریس کے نام سے اپنا پریس لگایا گیا.اسی طرح افریقہ کے مختلف ممالک میں اس کی شاخیں قائم کی گئیں.چنانچہ خلافت رابعہ کے عہد میں افریقہ کے حسب ذیل چھ ممالک میں جماعت کے اپنے پریس قائم ہو چکے تھے جن سے لکھو کھا کی تعداد میں جماعتی لٹریچر شائع ہوا: 1 - تنزانیہ، 2.سیرالیون، 3 گھانا ، 4.نائیجیریا،5 - گیمبیا، 6.آئیوری کوسٹ
285 مختلف زبانوں میں لٹریچر کی تیاری کے لئے ان زبانوں میں ماہرین کی تیاری کے علاوہ مرکز میں مختلف زبانوں کے ڈیسکس قائم کئے گئے.ان میں عربک ڈیسک، بنگلہ ڈیسک، رشین ڈیسک، ٹرکش ڈیسک، فریج ڈیسک اور چینی ڈیسک شامل ہیں.اسی طرح مختلف ممالک میں ان کی مقامی زبانوں میں موجود کتب کے تراجم اور نئے لٹریچر کی تیاری کے منصوبے بنائے گئے جن کے تحت مختلف موضوعات پر بڑی تیزی کے ساتھ اعلی پایہ کا اسلامی لٹریچر وجود میں آیا.اسی طرح دنیا بھر میں قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں تراجم کے علاوہ منتخب آیات قرآنیہ، منتخب احادیث نبویہ اور منتخب تحریرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کم سے کم سو زبانوں میں تراجم کے عظیم الشان منصوبہ پر نہایت سرگرمی سے عمل شروع ہوا.چنانچہ 1984ء تا1988ء کے چار سال کے قلیل عرصہ میں صرف انگلستان سے 11 / زبانوں میں 120 مختلف کتب رپمفلٹس وغیرہ 8 لاکھ 9 ہزار کی تعداد میں طبع ہوئے.1988-1989ء میں 11 زبانوں میں 26 مختلف کتب و دیگر لٹریچر ایک لاکھ 19 ہزار کی تعداد میں طبع ہوا.1991 1990ء تک کم و بیش سو زبانوں میں منتخب آیات قرآنیہ، منتخب احادیث نبویہ اور منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام طبع ہو چکی تھیں.اور کئی زبانوں میں ان کتب کے تراجم زیر طبع تھے.1984ء سے 1994 ء تک کے 10 سالوں میں 9 مرزبانوں میں تراجم قرآن کریم 81 ہزار کی تعداد میں ری پرنٹ ہوئے.طبع ہونے والے نئے تراجم قرآن کریم اس کے علاوہ تھے.مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم اور ان کی طباعت سے متعلق کسی قدر تفصیل اس کتاب میں الگ عنوان کے تحت پیش کی جا چکی ہے.دشمنِ احمدیت تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آسمانی آواز کو دبانے کی تدبیریں کر رہا تھا لیکن خیر الماکرین خدائے ذوالجلال والا کرام اس آواز کوشش جہات میں پھیلانے کے سامان
286 فرمارہا تھا.حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے پاکستان سے ہجرت کے بعد اشاعت لٹریچر کے خلیفة المسح سلسلہ میں ہونے والے اس وسیع کام کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کے غیر معمولی احسان اور انعام کے طور پر پیش کرتے ہوئے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر 1989ء میں فرمایا: پاکستان سے انگلستان کی طرف عارضی ہجرت کرنے کے بعض فوائد ایسے تھے جو رفتہ رفتہ روشن ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت واضح ہوتی چلی گئی.ان بہت سے فوائد میں سے جو خدا کی تقدیر کے مطابق ہمیں لازماً اس طرح عطا ہونے تھے جیسے بچے کو دوا دی جاتی ہے اور اس کی شفا کے لئے اور اس کی زندگی کے لئے ، اس کی بقا کے لئے وہ دوا ضروری ہوا کرتی ہے خواہ کیسی ہی کڑوی کیوں نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس طرح ہمیں رحمتیں گھوٹ گھوٹ کر پلائیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعض خدمت کے ایسے میدان نظر کے سامنے ابھرے جن کی طرف پہلے کوئی توجہ نہیں تھی.مثلاً ایک لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود مشرقی دُنیا جو اشترا کی دُنیا کہلاتی ہے یعنی مشرق کا وہ حصہ جو اشتراکیت کے قبضہ میں ہے، اس میں بسنے والے اربوں انسانوں کے لئے ہم نے کوئی تیاری نہ کی تھی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما یہ خوشخبری عطا فرمائی تھی کہ میں تجھے روس میں اس کثرت سے مسلمان عطا کروں گا کہ آپ نے اس نظارے کو یوں بیان فرمایا جیسے ریت کے ذرے ہوں اور اس کے علاوہ روس کا عصا آپ کے ہاتھوں میں تھمایا گیا جو رویا میں یوں معلوم ہوا جیسے اس کے اندر دو نالی بندوق ہوتی ہے.یعنی عصا ایسا جود در مار ہو اور دور اثر ہو.جب تک انگلستان آنے کی تقدیر یا انگلستان لائے جانے کی تقدیر ظاہر نہیں ہوئی ان امور پر ان معنوں میں تو نظر تھی کہ یہ خدا کی طرف سے عطا کردہ خوشخبریاں تھیں اور ہر احمدی کا دل مطمئن تھا کہ یقیناً یہ پوری ہوں گی.لیکن کیسے ہوں گی؟ اور انہیں پورا کرنے کے لئے مومن کو جو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے وہ ہم کیسے ادا کریں گے؟ ان چیزوں پر نظر نہیں تھی.نہ ان حالات میں ہوسکتی تھی.یہاں آنے کے بعد سب سے پہلے کاموں میں سے ایک یہ کام کرنے کی توفیق ملی کہ اشترا کی مشرقی دُنیا میں جتنے ممالک ہیں ان کی زبانوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے چھوٹے چھوٹے رسالے اور کتابیں تیار ہونا
287 شروع ہوئیں.اور قرآن کریم کے بعض مکمل ترجمے ان زبانوں میں کرنے کی توفیق ملی.اور بعض زبانوں میں اقتباسات شائع کرنے کی توفیق ملی.اسی طرح احادیث نبویہ میں سے منتخب احادیث جو ہم نے سوچا کہ اس زمانے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اور انسان کی ضرورتوں کے لحاظ سے پیاس بجھانے کے لئے اہمیت رکھتی ہیں ان کا ترجمہ کرنے کی اور ان کی اشاعت کی توفیق ملی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت سے اقتباسات جو قرآن کریم کی آیات اور احادیث کے مضمون سے مطابقت رکھتے تھے اور انہیں کی تفسیر تھے ان کو اس نقطہ نگاہ سے چلنے کی توفیق ملی کہ ایک پڑھنے والا جب قرآن کریم کے مضامین سے گزر کر احادیث کے مضامین سے ہوتا ہوا حضرت مسیح موعود کے اقتباسات تک پہنچتا ہے تو اسے پہلی دونوں تحریروں کا زیادہ لطف آنے لگے اور اس کا ذہن زیادہ عمدگی کے ساتھ ان کے مطالب کو پاسکے اور اس کے اندر یہ احساس قوی تر ہوتا چلا جائے کہ قرآن کریم کی تفسیر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے کلام میں ہے.تو اس طرح ان کے درمیان ایک تطبیق پیدا کرنے کی بھی کوشش کی گئی.کسی حد تک اس کی توفیق ملی.اور پھر ان کے تراجم کئے گئے اور کتابیں اشاعت کے لئے تیار ہوئیں.یہ سب کچھ ہورہا تھا لیکن کچھ علم نہیں تھا کہ ان کتابوں کو ، اس لٹریچر کو ان ملکوں تک پہنچانے کے سامان کیسے میسر آئیں گے.صرف یہی نہیں اور بھی بہت سے مضامین پر رسالے شائع کئے گئے، تراجم تیار کئے گئے اور ان کی طباعت کروائی گئی.آپ شاید ہی اندازہ کر سکیں کہ یہ کام کتنا مشکل تھا اور کتنا ذمہ داری کا کام تھا.کیونکہ صحیح آدمی کی تلاش کرنا اور اس سے رابطہ کرنا اور اس کو تیار کرنا کہ ان کتب کا ترجمہ کرے یا ان رسائل کا ترجمہ کرے اور پھر یہ نگاہ رکھنا کہ وہ ترجمہ درست اور اصل کے مطابق ہے جب کہ ہم خود ان زبانوں سے نابلد ہیں.اس کے لئے متبادل ماہرین کی تلاش کرنا، ایسے جن میں سے بہتوں کی عربی پر بھی نظر ہو اور اسلام کی اصطلاحات سے بھی واقف ہوں.یہ ایک بہت ہی وسیع کام تھا.لیکن اللہ تعالی نے آغاز ہی سے اس کو آسان فرمانا شروع کر دیا.....بندوں کے ہا تھ حرکت تو کرتے ہیں مگر خدا کے ہاتھوں میں بندوں کے قدم آگے تو اٹھتے ہیں لیکن خدا کی طاقت
288 سے آگے اٹھتے ہیں اور تمام وہ امور جو دین کے لئے سر انجام دینے کی توفیق ملتی ہے ان پر جب آپ آفاقی نظر ڈالتے ہیں تو آپ کو جابجا خدا تعالیٰ کی تقدیر کار فرما دکھائی دیتی ہے.نظر آنے لگتی ہے کہ کس طرح کس موقع پر خدا کی تقدیر نے کیا سامان پیدا فرمایا...؟ تقدیر یہ مہرے چلا رہی تھی اور اس تھوڑے سے عرصے میں حیرت انگیز طور پر کثرت کے ساتھ مشرقی یورپ کی زبانوں میں اسلام کا لٹریچر تیار کرنے کی توفیق ملی.روسی زبان میں لٹریچر تیار کرنے کی توفیق ملی، چینی زبان میں لٹریچر تیار کرنے کی توفیق ملی اور ہم انتظار میں بیٹھے رہے کہ اب دیکھیں خدا آئندہ کیا سامان کرتا ہے؟ بہت بڑی بڑی دیواریں رستے میں حائل تھیں لیکن اب دیکھیں کہ آپ کے دیکھتے دیکھتے وہ دیواریں ٹوٹنی شروع ہو گئیں.جب دیوار برلن گر رہی تھی اور ٹیلی ویژن پر لوگ دیکھ رہے تھے اور عجیب عجیب رنگ میں اپنی خوشیوں کے اظہار کر رہے تھے اور جوش کا اظہار کر رہے تھے تو میرا دل اللہ کی حمد کے ترانے گارہا تھا.وہ سمجھتے تھے کہ ان کی خاطر دیوار برلن گرائی جارہی ہے.میں جانتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر دیوار برلن گرائی جارہی ہے اور اب اسلام کے ان ملکوں میں پھیلنے کے دن آرہے ہیں اور وہ تیاریاں جو خدا کی تقدیر نے ہم سے کروائی تھیں وہ رائیگاں نہیں جائیں گی.ان کو خدا تعالیٰ نے اس رنگ میں مکمل فرمایا اور ایسے وقت میں مکمل فرمایا جب کہ دوسری طرف سے روکیں توڑنے کے سامان بھی تیار تھے اور جونہی ہم یہاں خدمت کے لئے تیار ہوئے خدا تعالیٰ نے وہ حائل روکیں ساری دُور کرنی شروع کر دیں.یہ وہ زندہ خدا ہے جو احمدیت کا خدا ہے جس نے ہمیشہ احمدیت کی پشت پناہی فرمائی ہے اور ہر قدم پر ہماری مدد فرماتی ہے.کون دُنیا کی طاقت ہے جو اس خدا کی محبت ہمارے دل سے نوچ کر پھینک سکتی ہے؟ کون ہے جو ہمارے دل میں شکوک پیدا کر سکتا ہے؟ ہم خدا کی اس تقدیر کو روزمرہ ہمیشہ ظاہر ہوتے دیکھتے ہیں.مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے دیکھتے ہیں.کبھی کبھی بکھری ہوئی مختلف صورتوں میں ظاہر دیکھتے ہیں اور کبھی کبھی ان صورتوں کا اجتماع ہوتا دیکھتے ہیں اور ایک نہایت ہی خوبصورت منظم شکل ان تدبیروں کی نظر آتی ہے اور اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ ہم جب سوئے ہوئے ہوتے ہیں، جب ہم بعض باتوں سے غافل ہوتے ہیں، تو ہمارا
289 خدا واقعی جاگتا ہے اور واقعی ان کاموں کو ہمارے لئے کرتا ہے جن کاموں سے ہم غافل ہوتے ہیں، جن کاموں کو کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہوتی.پس خدا کی تقدیر نے ایک طرف وہ کام ہمارے لئے آسان کر دیئے جو کام بہت مشکل تھے اور اب بھی جب ماہرین ان باتوں کو دیکھتے ہیں تو یقین نہیں کرتے کہ اتنے تھوڑے عرصے میں اتنے حیرت انگیز کام کیسے انجام دینے کی توفیق ملی.لیکن ان کو نہیں پتہ کہ دراصل یہ اللہ کی قدرت کا ہاتھ ہے، اس کی محبت اور رآفت اور شفقت کا ہاتھ ہے جو ہر مشکل کو آسان کرتا چلا جاتا ہے اور اب جو نئے سامان پیدا ہوئے ہیں ان کے نتیجے میں میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کے غلے کا یہ دوسرا دور بڑی تیزی کے ساتھ اثر پذیر ہو جائے گا.دوسرے دور سے مراد آخرین کا دور ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دور ہے.اور تیزی کے ساتھ اثر پذیر ہونے سے مراد میری یہ ہے کہ اب اس رفتار میں مزید تیزی پیدا ہوگی اور وہ علاقے جو اب تک خالی تھے اور وہ دنیا کی ایک بہت بڑی تعداد ہے ان علاقوں کی تعداد باقی دنیا کے علاقوں سے اگر زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں ہوسکتی.کیونکہ انہیں علاقوں میں سارے چین کی آبادی شامل ہے.سارے روس کی آبادی شامل ہے، سارا مشرقی یورپ ہے.پھر اور ایسی مشرقی طاقتیں ہیں یا مشرقی ممالک ہیں جو اشتراکیت کے دام میں آئے ہوئے ہیں.تو بہت بڑی وسیع آبادی ہے.نصف دنیا کے قریب انسانوں کی ایسی آبادیاں ہیں جن تک پہلے اسلام کا پیغام پہنچنے کے کوئی سامان نہیں تھے تو اس لئے جہاں ان باتوں کو دیکھ کے دل شکر اور حمد سے بھر جاتا ہے اور یقین ہو جاتا ہے کہ یہ کام خدا ہی کے ہیں، خدا ہی نے کرنے ہیں.وہاں زمہ داریوں کا احساس بھی بڑھتا ہے.“ ( خطبہ جمعہ فرموده یکم دسمبر 1989ء.خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 771 تا 776) 6 3 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0
290 دورِ خلافت رابعہ میں مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی بعض اہم کتب کا مختصر تعارف دور خلافت رابعہ میں دنیا بھر میں سو سے زائد زبانوں میں شائع ہونے والے متفرق لٹریچر کی تفصیل اپنی ذات میں ایک الگ کتاب کی متقاضی ہے.ذیل میں بعض کو ائف اور بعض کتب کا مختصر تعارف اور مختلف زبانوں میں ان کے تراجم کی تفصیل پیش کی جاتی ہے جن سے عہد خلافت رابعہ میں اشاعت کتب ولٹریچر کے غیر معمولی کام کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے.ان کتب کا مختصر تعارف اس غرض سے دیا جارہا ہے تا کہ قارئین کو ان کتب کی اہمیت سے آگاہی ہو اور وہ حسب ضرورت ان سے استفادہ کر سکیں.ان میں سے بہت سی کتب جماعت کی ویب سائٹ (www.alislam.org) پر دستیاب ہیں.بعض زبانوں میں ان کتب کے تراجم کے لئے ان متعلقہ ممالک کے مشنز سے رابطہ کیا جا سکتا ہے جہاں وہ زبان بولی جاتی ہے.قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف اور مختصر تشریحی نوٹس قرآن کریم حی و قیوم، زندہ خدا کی کتاب ہے جو قیامت تک نوع انسانی کے لئے ہدایت اور رہنمائی کی دستاویز ہے.اس کی جڑیں فطرت انسانی میں مضبوطی سے پیوست ہیں اور اس کی شاخیں آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہیں اور یہ شجرہ طیبہ ہر زمانے اور ہر دور میں تازہ بتازہ علوم و معارف کے اثمار نوع انسانی کو مہیا کرتا ہے.ہدایت اور رحمت کے یہ خزائن انسانی معاشرہ کی ضروریات، انسان کے فہم و اور اک اور تخلیق کائنات کے بارہ میں اس کے علم کی وسعت اور گہرائی کے مطابق وَ مَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ( الحجر : 22) کے تحت ہر دور میں نازل ہوتے رہتے ہیں اور قیامت تک نازل ہوتے رہیں گے.امام آخر الزمان، حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم، دقائق و معارف ، اسرار و رموز اور روحانی نکات اس قدر کثرت سے نازل فرمائے ہیں کہ حضور کی
291 تحریرات اور ملفوظات ان علوم کی فراوانی سے لبریز ہو کر چھلک رہے ہیں اور انہی آسمانی علوم سے سیراب ہو کر ذہنوں کو وہ چلا ملی ہے جو خلفائے احمدیت کے تراجم اور تغیر قرآن کریم میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے.تاہم ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے ترجمہ و تفسیر کا رنگ الگ ہے اور حضرت مصلح موعود خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ترجمہ وتفسیر کی شان الگ ہے جو حضور کی معرکتہ الآراء اور شاہکار تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر میں نمایاں ہے.اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے تفسیری نکات ایک منظر در تنگ رکھتے ہیں.حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کا یہ اردو ترجمہ قرآن کریم حضور رحمہ اللہ کے وسیع مطالعہ، غور وفکر اور سالہا سال کی شب و روز کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے.اس ترجمہ میں بہت سے مشکل مقامات ایسے تھے جن کے حل کے لئے حضور رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ سے خاص طور پر رہنمائی چاہی اور اللہ تعالی نے محض اپنے فضل سے حضور کو ایسے معانی سمجھائے جن سے وہ مشکل مقامات حل ہو گئے.ی ترجمه آسان ، سلیس اور عام فہم ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک ندرت رکھتا ہے.اس ترجمہ میں اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے کہ یہ ترجمہ قرآن کریم کے متن کے بالکل مطابق ہو اور کسی صورت میں بھی یہ متن سے تجاوز نہ کرے.اس سلسلہ میں اتنی احتیاط برتی گئی ہے کہ اگر متن کے الفاظ کا اردو ترجمہ کرنے سے مفہوم واضح نہ ہوتا ہو تو ترجمہ کے ابلاغ اور سلاست کے لئے جو وضاحتی الفاظ ترجمہ میں شامل کئے گئے ہیں انہیں قرآن کریم کے تقدس کے پیش نظر بریکٹ میں رکھا گیا ہے تا کہ پڑھنے والے پر یہ امر واضح رہے کہ یہ اصل عربی متن کا ترجمہ نہیں بلکہ مترجم کے وضاحتی الفاظ ہیں.اس لحاظ سے یہ ایک قسم کا لفظی ترجمہ ہے لیکن اس کے باوجود رواں سلیس اور اردو زبان کے رائج الوقت محاورہ کے بھی عین مطابق.اس ترجمہ میں جن مقامات پر قرآن کریم کے عربی الفاظ کا ترجمہ رائج اور معروف تراجم سے ہٹ کر کیا گیا ہے وہاں اختیار کردہ ترجمہ کی سند کے طور پر حاشیہ میں عربی لغات اور دیگر کتب کا حوالہ دیا گیا ہے.یہ ترجمہ ایک منفرد اسلوب رکھتا ہے.علوم جدیدہ کے انکشافات کی روشنی میں اس دائمی کتاب کے
292 ایک ایک لفظ کو دوبارہ سمجھنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے اور جن مقامات پر بھی عربی لغت اور قواعد صرف ونحو نے اجازت دی ہے وہاں سابقہ تراجم کی بجائے بالکل نئے اور اچھوتے معنی اختیار کئے گئے ہیں.اس ترجمہ میں بعض منتخب آیات پر تشریحی نوٹس بھی دیئے گئے ہیں.اور تمام سورتوں کے آغاز میں ہر سورۃ کے مضامین کا مختصر تعارف بھی درج ہے.اس تعارف کو پڑھنے کے بعد سورۃ کے مضامین کو سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے اور قارئین کو فہم قرآن کے لئے ایک چلا نصیب ہوتی ہے.بارہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس ترجمہ قرآن کریم کے آخر پر مضامین قرآن کا ایک تفصیلی انڈیکس بھی دیا گیا ہے جو تحقیق کرنے والوں کے لئے بہت مفید اور محمد ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس ترجمہ سے متعلق فرمایا ہے: حتی المقدور یہ کوشش کی گئی ہے کہ قرآن کریم کا ایک ایسا ترجمہ تیار ہو جائے جو اپنے رنگ میں تفسیر کا بھی قائمقام ہوتا کہ غور کرنے والے اس میں سے مطالب نکال سکیں.اللہ کرے کہ یہ ترجمہ ایک بھاری اکثریت کے لئے قرآن کریم سمجھنے سمجھانے اور اس کی محبت دلوں میں بٹھانے کا موجب بنے.قرآن کریم کی منتخب آیات منتخب احادیث، منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے جماعت احمدیہ کی صد سالہ جو بلی کے موقع پر دنیا کی زیادہ سے زیادہ آبادی تک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے ایک نہایت جامع پروگرام یہ بنایا کہ بعض اہم بنیادی موضوعات پر آیات قرآن کریم، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات سے انتخاب فرمایا.اور پھر ان کے مختلف زبانوں میں تراجم کر کے وسیع پیمانے پر ان کی اشاعت کا اہتمام فرمایا.ان آیات قرآنی، احادیث نبویہ اور تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انتخاب خود
293 حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بنفس نفیس فرمایا.اور ان تینوں کتب ( یعنی قرآن کریم کی منتخب آیات منتخب احادیث نبوی علم اور منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کو جماعت کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر پاکستان میں راہ مولا میں اسیری اور کلمہ طیبہ سے محبت کے جرم میں تشد دو تعذیب برداشت کرنے والے احمدیوں کی طرف سے ایک تحفہ قرار دیتے ہوئے سیدنا بلال فنڈ سے ان کی اشاعت کا اہتمام فرمایا.چنانچہ ان تینوں کتب کے آغاز میں حسب ذیل الفاظ بطور انتساب شائع ہوئے: كلمة طيب لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ سے محبت کے جرم میں گرفتاریوں، مقدمات، قید و بند، تعد دو تعذیب اور قتل و غارت کو بلالی روح کے ساتھ برداشت کرنے والے احمدیوں کی طرف سے جماعت احمدیہ عالمگیر کی صد سالہ جوبلی کے مبارک موقع پر ایک پاکیزہ تحفہ“ ذیل میں ان تینوں کتب کے مضامین کا مختصر تعارف اور ان زبانوں کی تفصیل ہدیہ قارئین ہے جن میں ان کے تراجم اب تک شائع ہو چکے ہیں.بعض زبانیں ایسی بھی ہیں جو بولی تو جاتی ہیں لیکن ان کا تحریر میں استعمال عام نہیں ہے.ان زبانوں میں ان کتب کے تراجم تو طبع نہیں ہوئے لیکن ان کی آڈیو کیسٹس تیار کی گئیں.غیر مسلموں اور نو مسلموں کو اسلام احمدیت کا ابتدائی اور مختصر تعارف کروانے کے لئے یہ تینوں کتب ایک بہت ہی جامع اور خوبصورت تحفہ ہیں.قرآن کریم کی منتخب آیات اس میں حضور رحمہ اللہ نے 20 مختلف عناوین پر آیات قرآنی کا انتخاب فرمایا.یہ عناوین قرآنی متن کا حصہ نہیں ہیں اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مذکورہ عنوان سے متعلق صرف وہی آیات ہیں جو کتاب میں پیش کی گئی ہیں بلکہ یہ محض ایک نمونہ ہے تاکہ لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناسی ہو اور ان کے دلوں میں اس سے مزید آگاہی کے لئے ایک طلب پیدا ہو.اس کتاب میں جن عناوین کے تحت آیات درج کی گئی ہیں وہ حسب ذیل ہیں.اللہ تعالی.فرشتے.قرآن مجید - انبیاء حضرت محمد مصطفی.عبادات.روزہ.اتفاق فی سبیل اللہ - حج - تبلیغ اسلام.اخلاق.اقتصادی نظام کے
294 بنیادی اصول.جہاد.مومنوں کا کردار.مرد اور عورت کے مساوی حقوق.سود کی ممانعت.پیشگوئیاں.فطرت کا مطالعہ قرآنی دعائیں.حفظ کرنے کے لئے قرآن کریم کی بعض چھوٹی سورتیں.ان زبانوں کی فہرست جن میں قرآن کریم کی منتخب آیات کے تراجم طبع ہو چکے ہیں No Language No Language 1 Afrikaans 16 Bosnian 2 Albanian 17 Bulgarian 3 Amheric 18 Burmese 4 Asante 19 Catalan 5 Assamese 20 Chichiwa 6 Azerbijani 21 Chinese 7 Balinese 22 Chiyao 00 8 Balouchi 23 Creole 9 Bangali 24 Czech 10 Bassa 25 Dagbani 11 Batakese 26 Danish 12 Baoule 27 Dogri 13 Bemba 28 Dusan 14 Bete 29 Dutch 15 Bhutani 30 English
295 31 Esperanto 32 Estonian 33 Ewe 34 Fante 3||3 52 Italian 53 Japanese 54 Javanese 55 Jula 35 Fijian 56 Kannada 36 Finnish 57 Kashmiri 37 French 58 Kikamba 38 Fula 59 Kikongo 39 Ga 60 Kikuyu 40 Georgian 61 Korean 41 German 62 Kpelle 42 Greek 43 Gujrati 44 Gurmukhi 45 Hausa 46 Hebrew 47 Hindi 48 Hungarian 49 Igbo 50 Indonesian 51 Irish 63 Kurdish 64 Latvian 65 Lingala 866 Lithuanian 67 Lugandan 68 Mandinka 69 Malay 70 Malayalam 71 Maori 72 Marathi
296 73 Mende 94 Swahili 74 Nepali 95 Swedish 75 Norwegian 96 Tamil 76 Nzema 97 Telugu 77 Oriya 98 Temme 78 Oromo 79 Pashtu 99 Tongan 100 Turkish 80 Persian 101 Tuvaluan 81 Polish 82 Portuguese 83 Punjabi 84 Romanian 102 Ukranian 103 Urdu 104 Vai 105 Vietnamese 106 Waale 85 Russian 86 Samoan 107 Welsh 87 Saraeki 108 Xhosa 88 Serbo-Croatian 109 Yao 89 Sindhi 90 Sinhala 91 Spanish 92 Sundanese 93 Suranan 110 Yiddish 111 Yoruba
297 منتخب احادیث قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے لئے ایک اُسوۂ حسنہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے.آپ پر جو وحی الہی نازل ہوئی آپ نے اس کی کامل اتباع کی اور آپ کی اطاعت دراصل اللہ تعالی کے احکامات کی ہی اطاعت ہے.اس پہلو سے آپ کی حیات طیبہ، آپ کے شب و روز کے معمولات اور آپ کے فرمودات پر مبنی یہ انتخاب بہت اہم اور بنیادی امور پر روشنی ڈالنے والا ہے.اس کتاب کے آغاز میں ایک مختصر مقدمہ میں احادیث کی اہمیت اور احادیث کی اہم اور مستند کتب کا مختصر تعارف بھی قارئین کے لئے دیا گیا ہے.اس کے بعد مندرجہ ذیل 32 عنوانات کے تحت گل 193 احادیث درج کی گئی ہیں.نیتوں اور اعمال کی نسبت.اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت.لاثانی توحید.بہترین ذکر، ذکر الہی.محبت الہی.قرآن کریم.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۃ حسنہ.اسلام کی بنیاد.نماز کی شرائط اور آداب.روزہ.حج انفاق فی سبیل اللہ.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر.حلال و حرام.نکاح.حسن سلوک.اسلامی معاشرہ شکر گزاری و احسان مندی والدین سے محسن سلوک.ہمسایہ سے محسن سلوک.کمزوروں سے شفقت عفو و درگزر.کھانے پینے کے آداب.لباس.صفائی و پاکیزگی.حسد - تکبر جھوٹ.مسلمانوں کا تنزل.امام مہدی کی بعثت.خطبہ حجۃ الوداع.ان زبانوں کی فہرست جن میں منتخب احادیث نبوی میل اے کے تراجم طبع ہو چکے ہیں No Language No Language 1 Afrikaans 5 Assamese 2 Albanian 6 Balinese 3 ¡Amheric 7 Balouchi 4 Asante 8 Bangali
298 9 Bassa 10 Batakese 30 Greek 31 Gujrati 11 Bemba 32 Gurmukhi 12 Bulgarian 33 Hausa 13 Burmese 34 Hebrew 14 Catalan 35 Hindi 15 Chinese 36 Hungarian 16 Creole 37 Igbo 17 Danish 38 Indonesian 18 Dogri 39 Irish 19 Dutch 40 Italian 2 20 English 41 Japanese 21 Esperanto 42 Javanese 22 Estonian 43 Kannada 24 Fijian 23 Fante 44 Kashmiri 45 Kikuyu 25 French 46 Korean 26 Fula 27 Ga 28 Georgian 29 German 47 Kurdish 48 Lingala 49 Lugandan 86 50 Mandinkan
299 51 Malayalam 52 Maori 69 Sindhi 70 Sinhala 54 妈妈 8 53 Marathi 71 Spanish Mende 72 Sundanese 55 Nepali 73 Swahili 56 Norwegian 74 Swedish 57 Nyanja 75 Tamil 58 Oriya 76 Telugu 59 Pashtu 60 Persian 77 Temne 78 Tongan 61 Polish 79 Tshiluba 62 Portuguese 80 Turkish 63 Punjabi 66 Samoan 64 Romanian 65 Russian 8 22 81 Tuvaluan 82 Urdu 83 Welsh 84 Xhosa 67 Saraeki 85 Yao 68 Serbo-Croatian 86 Yiddish 87 Yoruba
300 منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ( 1908ء - 1835ء ) مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اس کی ہدایت کے تابع یہ اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس زمانہ کی اصلاح کے لئے مامور فرمایا ہے اور آپ ہی وہ مہدی آخر زمان اور مسیح موعود ہیں جس کے ذریعہ تمام ادیان پر اسلام کا غلبہ مقدر ہے اور جس کے ظہور کی خبر حضرت خاتم النعمين محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی.جماعت احمدیہ کے پیغام، اس کی اقدار اور اس کے پیش کردہ پروگرام کا صحیح ادراک حاصل کرنے اور بانی جماعت احمدیہ کے دعاوی کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے بہترین اور یقینی ذریعہ یہی ہے کہ آپ کی تحریرات کا براہ راست غیر جانبدار نہ مطالعہ کیا جائے.چنانچہ اس مختصر کتاب میں بطور نمونہ 24 مختلف عناوین پر حضور علیہ السلام کی تحریرات سے ایک انتخاب دیا گیا ہے.یہ عناوین حسب ذیل ہیں.اللہ تعالی.رؤیت الہی.خدا کا اپنے وفا شعار بندوں سے سلوک.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.قرآن کریم.وحی و الہام.ہمارے عقائد.مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام.پاک جماعت کا قیام اور نصائح انجام سلسلہ - آخری فتح- روح - حیات بعد الموت.مذاہب عالم.گناہ.نجات.جہاد.ڈھا.ہمدردی بنی نوع انسان.فرشتے.یا جوج ما مجوج.ٹور کا موسم ان زبانوں کی فہرست جن میں منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام طبع ہو چکی ہیں No Language No Language 1 Afrikaans 6 Balouchi 2 Amheric 7 Bangali 3 Asante 8 Bassa 4 Assamese 9 Batakese 5 LO Balinese 10 Bemba
301 11 Bulgarian 12 Catalan 33 Hindi 34 Igbo 13 Chinese 35 Indonesian 14 Creol 36 Irish 15 Czech 37 Italian 16 Dagbani 38 Japanese 17 Danish 39 Javanese 18 Dogri 40 Kannada 19 Dutch 41 Kashmiri 20 English 42 Kikamba 21 2 2 2 2 Esperanto 43 Kikongo 22 Estonian 44 Kikuyu 23 Ewe 45 Korean 24 Fante 46 Kurdish 25 Fijian 47 Lugandan 26 Ga 48 Madinka 27 Georgian 49 Malayalam 28 German 50 Maori 29 Greek 30 Gujrati 51 Marathi 52 Mende 31 Gurmukhi 53 Nepali 32 Hebrew 54 Norwegian
302 55 Nzema 56 Oriya 57 Oromo 58 Pashtu 69 Tamil 70 Telugu 71 Temne 72 Thai 73 Tongan 59 Persian 60 Polish 74 Turkish 61 Punjabi 75 Tuvaluan 62 Russian 76 Vietnamese 63 Samoan 77 Waale 822 64 Saraeki 78 Welsh 65 Sindhi 79 Xhosa 66 Sundanese 80 Yao 81 Yiddish 67 Swahili 68 Swedish
303 اسلامی اصول کی فلاسفی 1896ء میں ایک صاحب سوامی سادھو شموگن چندر صاحب نے لاہور میں ایک مذہبی کا نفرنس یا جلسہ اعظم مذاہب کے انعقاد کا اہتمام کیا اور اس میں شمولیت کے لیے مختلف مذاہب کے نمائندوں کو دعوت دی.ماہ دسمبر 1896ء کے آخر پر یہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے کمیٹی جلسہ کی طرف سے اعلان کردہ پانچ سوالوں پر تقریریں کیں جو کمیٹی کی طرف سے بغرض جوابات پہلے شائع کر دیئے گئے تھے.اور ان کے جوابات کے لیے کمیٹی کی طرف سے یہ شرط لگائی گئی تھی کہ تقریر کرنے والا اپنے بیان کو حتی الامکان اس کتاب تک محدود رکھے جس کو وہ مذہبی طور سے مقدس مان چکا ہے.سوالات یہ تھے.1.انسان کی جسمانی ، اخلاقی اور روحانی حالتیں 2.انسان کی زندگی کے بعد کی حالت یعنی معظمیٰ 3.دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیا ہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے؟ 4 کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے؟ 5 علم یعنی گیان اور معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کانفرنس کے لیے ایک مضمون تحریر فرمایا جسے حضور علیہ السلام کی موجودگی میں آپ کے ایک خادم مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھ کر سنایا.حضور علیہ السلام نے جلسہ کے انعقاد سے قبل 21 دسمبر 1896ء کو اپنے مضمون کے غالب آنے سے متعلق اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر ایک اشتہار شائع کیا جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ جلسه اعظم مذاہب جو لاہور ٹاؤن ہال میں 26 ، 27، 28 دسمبر 1896ء کو ہوگا.اُس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارہ میں پڑھا جائے گا.یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اُس کی تائید سے لکھا گیا ہے.اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن
304 ہو جائے گا کہ در حقیقت یہ خدا کا کلام ہے اور رب العالمین کی کتاب ہے.اور جو شخص اس مضمون کو اول سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب سنے گائیں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اُس میں پیدا ہوگا اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آجائے گی.میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزہ ہ ہے.مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لیے مجبور کیا ہے تا وہ قرآن شریف کے حسن و جمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور ٹور سے نفرت رکھتے ہیں.مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا.اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشر طیکہ حاضر ہوں اور اس کو اوّل سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی اور ہر گز قادر نہیں ہوں گی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں.خواہ وہ عیسائی ہوں، خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور....چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا اور اس وقت کے اخبارات نے اس مضمون کی برتری کا اعتراف کیا.یہ مضمون پہلے رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب لاہور میں من وعن شائع ہوا.اور جماعت احمدیہ کی طرف سے اسلامی اصول کی فلاسفی کے عنوان کے ماتحت کتابی صورت میں شائع کیا گیا.انگریزی میں یہ مضمون The Philosophy of The Teachings of Islam کے نام سے شائع ہوا.خلافت رابعہ کے عہد میں 1996ء میں اس مضمون کی اشاعت پر سوسال کا عرصہ پورا ہوا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر اس کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم کر کے بکثرت ) اس کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا اور حسب ذیل 54 زبانوں میں اسے طبع کیا گیا.افریقان البانین.عربی.اسائٹی.آسامی.بلوچی.بنگلہ.بوسنین.بلغارین.برمی.چینی.ڈینش ڈچ.انگریزی.اسپرانٹو نمین - فریچ.جرمن گر یک گجراتی.گور لکھی.ہاؤسا.عبرانی.ہندی.انڈونیشین.اٹالین.جاپانی.کیری باتی.سواحیلی - کورین.لو گنڈا..ملیالم.منی پوری.مراٹھی.نیپالی ناروکین.پشتو.فارسی.پولش پرتگیزی.پنجابی.رشین.سرائیکی.سپینش.
305 سویڈش تامل.تلگو تھائی.چوٹی (Twi).اردو.ازبک خوزا (Xhoza) پیش(Yiddish).یورویا.مسیح ہندوستان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب میں خصوصیت سے مسیح ناصری علیہ السلام کی صلیبی موت سے نجات اور زندہ بجسد عنصری آسمان پر نہ اٹھائے جانے اور یروشلم کے علاقہ سے ہجرت اور طبعی زندگی گزار کر وفات پانے کے مسئلہ پر تفصیلی بحث کی ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں:.اس کتاب کا اصل مدعا مسلمانوں اور عیسائیوں کی اس غلطی کی اصلاح ہے جو ان کے بعض اعتقادات میں دخل پا گئی ہے....کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ چلے گئے ہیں...اور کسی وقت آخری زمانہ میں پھر زمین پر نازل ہوں گے اور ان دونوں فریق یعنی اہل اسلام اور مسیحیوں کے بیان میں فرق صرف اتنا ہے کہ عیسائی تو اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر جان دی اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر مع جسم عنصری چڑھ گئے اور اپنے باپ کے دائیں ہاتھ جابیٹھے اور پھر آخری زمانہ میں دنیا کی عدالت کے لئے زمین پر آئیں گے...جب ہر ایک آدمی جس نے اس کو یا اس کی ماں کو بھی خدا کر کے نہیں مانا پکڑا جائے گا اور جہنم میں ڈالا جائے گا جہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا.مگر مسلمانوں کے مذکورہ بالا فرقے کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ صلیب پر مرے بلکہ اس وقت جبکہ یہودیوں نے ان کو مصلوب کرنے کے لئے گرفتار کیا.خدا کا فرشتہ ان کو مع جسم عنصری آسمان پر لے گیا اور اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں...وہ آخری زمانہ میں دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دمشق کے منارہ کے قریب یا کسی اور جگہ اتریں گے...اور بجز ایسے شخص کے جو بلا توقف مسلمان ہو جائے اور کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے.اور فرماتے ہیں: (مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 5، 6) اس کتاب کو ئیں اس مراد سے لکھتا ہوں کہ تا واقعات صحیحہ اور نہایت کامیل اور
306 ثابت شده تاریخی شہادتوں اور غیر قوموں کی قدیم تحریروں سے ان غلط اور خطر ناک خیالات کو ڈور کروں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے اکثر فرقوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی پہلی اور آخری زندگی کی نسبت پھیلے ہوئے ہیں.“ اور فرماتے ہیں: سوئیں اس کتاب میں یہ ثابت کروں گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے اور نہ کبھی امید رکھنی چاہئے کہ وہ پھر زمین پر آسمان سے نازل ہوں گے بلکہ وہ ایک سو بیس برس کی عمر پا کر سرینگر کشمیر میں فوت ہو گئے اور سرینگر محلہ خانیار میں ان کی قبر ہے..مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 14) گو حضور کا ارادہ دس باب اور ایک خاتمہ لکھنے کا تھا مگر بعد میں صرف مندرجہ ذیل چار ابواب پر ہی اکتفا کی.باب اول: مسیح کے صلیبی موت سے بچنے پر انجیلی دلائل باب دوم : ان شہادتوں کے بیان میں جو حضرت مسیح کے صلیبی موت سے بچ جانے کی نسبت قرآن وحدیث سے ملتی ہیں.باب سوم: ان شہادتوں کے بیان میں جو طب کی کتابوں سے لی گئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب سے زندہ اتر آئے اور ان کے زخموں کے علاج کے لئے ان کے حواریوں نے یہ مرہم تیار کی جس کا نام مرہم عیسی“ ہے.باب چهارم اُن شہادتوں کے بیان میں جو تاریخی کتب سے لی گئی ہیں جن میں حضرت مسیح علیہ السلام کے واقعہ صلیب کے بعد اپنے ملک سے ان کے نصیبین ، افغانستان اور ہندوستان کی طرف ہجرت کرنے کا ذکر آتا ہے.اپنی تصنیف تریاق القلوب میں حضرت اقدس اس کتاب کے متعلق فرماتے ہیں: "جو شخص میری کتاب مسیح ہندوستان میں اول سے آخر تک پڑھے گا گو وہ مسلمان جو یا عیسائی یا یہودی یا آریہ ممکن نہیں کہ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد اس بات کا وہ قائل نہ ہو
307 جائے کہ مسیح کے آسمان پر جانے کا خیال لغو اور جھوٹ اور افتراء ہے.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد نمبر 15 صفحہ 145) الغرض یہ کتاب ایک نہایت اہم مسئلہ کی علمی تحقیق پر مشتمل ہے جو دنیا کی تین بڑی اقوام سے تعلق رکھتا ہے یعنی یہودی، عیسائی اور مسلمان.1994ء میں اس انقلاب انگیز تصنیف پر سوسال کا عرصہ پورا ہونا تھا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہدایت پر اردو زبان کے علاوہ جن 12 زبانوں میں اس کے تراجم کی اشاعت ہوئی وہ حسب ذیل ہیں.البانین.عربی.بلغارین.انگریزی.فریج.جرمن.انڈو نیشین.سواحیلی.نارو سکین.پرتگیزی.رشین سپینش.فتح اسلام انیسویں صدی کے آخری عشروں میں ہندوستان میں عیسائی مشن بہت فعال تھا.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ سارے ہندوستان میں عیسائیوں کے مضبوط تبلیغی مشن قائم ہو چکے تھے.مشن سکول اور کالج جگہ جگہ کھولے اور کروڑوں کی تعداد میں کتب پمفلٹ اور اشتہارات مفت تقسیم کیے جارہے تھے.اور ہر جگہ رَبُّنَا المَسِیح ربنا المسیح کی صدا بلند ہورہی تھی اور ہمیشہ کے لیے زندہ اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا جو آخری زمانہ میں آسمان سے جلالی نزول فرما کر قوموں کی بادشاہت کرے گا جس کے سامنے تمام قومیں اپنا سر جھکا ئیں گی یسوع مسیح کو قرار دیا جارہا تھا اور انگریزی حکومت کے اعلیٰ ارکان بھی تبلیغ عیسائیت کے پشت پناہ بن رہے تھے اور پادریوں کی مساعی کو بنظر استحسان دیکھتے اور عیسائیت کی رفتار ترقی کو دیکھ کر یہ خیال کر رہے تھے کہ اب سارا ہندوستان چند سالوں میں عیسائیت کی آغوش میں آگرے گا.چنانچہ پنجاب کے ایک لیفٹننٹ گورنر چارلس ایچی سن جنہوں نے 21 نومبر 1883ء کو مشن چرچ بٹالہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا، 1888ء میں عیسائی مشنریوں کے ایک اجلاس کو جس کے صدر اس علاقہ کے بشپ تھے.خطاب کرتے ہوئے کہا:
308 جس رفتار سے ہندوستان کی معمولی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اس سے چار پانچ گنا زیادہ تیز رفتار سے عیسائیت اس ملک میں پھیل رہی ہے اور اس وقت ہندوستانی عیسائیوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے.پھر جو عیسائی ہوتے تھے انہیں اچھی اچھی ملازمتیں مل جاتی تھیں.مثلاً عبد اللہ آتھم اور پادری صفدر علی ڈپٹی بن گئے.پادری عماد الدین کو بھی یہ عہدہ پیش کیا گیا مگر اس نے پادری رہنا بہتر خیال کیا.غرض سارے پنجاب میں پادریوں کا ایک جال پھیلایا گیا.عیسائی مناد شہروں، قصبات اور دیہاتوں میں علانیہ عیسائیت کی تبلیغ کرتے.ہسپتالوں میں باقاعدہ مبلغ مقرر تھے.لیڈی ڈاکٹر ز علاج کے ذریعہ عیسائیت کا اثر لوگوں کے گھروں تک پہنچاتی تھیں.مذہبی معتقدات کے لحاظ سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے پادریوں کے پاس سب سے بڑا حریہ یہ تھا کہ یسوع مسیح آسمان پر زندہ موجود ہے اور وہی ہے جو دنیا کی رستگاری اور عالم کی نجات کے لیے آخری زمانہ میں جلالی شان کے ساتھ نازل ہوگا.اور تمام انبیاء بشمول محمد( ما ) وفات پاچکے ہیں اور وہ کسی کی مدد نہیں کر سکتے.پس زندہ کو چھوڑ کر مردوں کے پیچھے لگنا عقلمندی نہیں ہے.اور یہی عقیدہ مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق مسلمانوں کا تھا.وہ انہیں خالق طیور، نجی اموات، غیب کی باتیں بتانے والے اور غیر طبعی زندگی پانے والے، آسمان پر الان كما كان کا مصداق یقین کرتے تھے اور آسمان سے اُس کے جلالی نزول کے قائل اور منتظر تھے.وہ اُسی کو اپنی تمام مرضوں کا مداوا اور اپنی دینی و دنیاوی ترقیات کو اس کے نزول کے ساتھ وابستہ سمجھتے تھے.اسی وجہ سے بعض سمجھ دار تعلیم یافتہ مسلمان لیڈر بھی یہ خیال کرنے لگے تھے کہ دنیا کا آئندہ مذہب عیسائیت ہوگا.اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے کلیہ مایوس ہو چکے تھے.ان حالات میں اللہ تعالی نے ملت اسلامیہ کے حال پر رحم فرما کر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام پر بذریعہ الہام منکشف کیا کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.وَكَانَ وَعْدُ اللهِ مَفْعُولًا.چنانچہ آپ نے 1890ء کے آخر میں
309 رسالہ فتح اسلام“ لکھا جو 1891ء کے اوائل میں چھپ کر شائع ہوا.اس میں آپ نے اعلان فرمایا کہ آنحضرت ام کی پیشگوئی کے مطابق "مسیح جو آنے والے تھا یہی ہے.چاہو تو قبول کرو.نیز فرمایا کہ مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے.“ یہ مختصر رسالہ بہت سے اہم مضامین پر مشتمل ہے.آپ نے اس میں بتایا کہ میں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لیے بھیجا گیا تادین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے.آپ نے لکھا کہ مسچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لیے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے.“ آپ نے اسلام کے احیاء کے تقاضوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کے لیے عملی اقدامات پر مشتمل ایک وسیع منصو بہ بھی پیش فرمایا.عہد خلافت رابعہ میں اس نہایت اہم رسالہ کی تصنیف پر بھی سو سال کا عرصہ پورا ہوا.چنانچہ اس کے مختلف زبانوں میں تراجم کر کے وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا.حسب ذیل 6 زبانوں میں اس کی اشاعت ہوئی.بنگلہ.انگریزی.فریج.جرمن.انڈونیشین.اردو.ہماری تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 5 اکتوبر 1902ء کو ایک کتاب کشتی نوح تحریر فرمائی.اس کی وجہ تالیف یہ تھی کہ حضور علیہ السلام نے 6 فروری 1898ء کو ایک رؤیا دیکھا جس میں آپ کو ہندوستان میں طاعون کی وبا کے پھیلنے کی خبر دی گئی.آپ نے اس انداری خبر کی تشہیر فرمائی.اس پیشگوئی کے مطابق پنجاب میں طاعون پھیلی اور ماہ اکتوبر 1902ء میں جبکہ طاعون زوروں پر تھی گورنمنٹ نے پنجاب میں طاعون کے ٹیکے کی سکیم وسیع پیمانہ پر شروع کی اور تقریر و تحریر کے ذریعے سے یہ پروپیگنڈا کیا کہ ہر شخص کے لئے ٹیکہ لگانا ضروری ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ٹیکا لگوانے سے انکار کیا اور 5 اکتوبر 1902ء کو کشتی نوح کتاب شائع فرمائی جس میں آپ نے گورنمنٹ کی طرف سے ٹیکا کے انتظامات کو سراہتے ہوئے فرمایا: یہ وہ کام ہے جس کا شکر گزاری سے استقبال کرنا دانشمند رعایا کا فرض ہے.“
310 اور اپنے اور اپنی جماعت کے متعلق فرمایا: دار گر ہمارے لئے ایک آسمانی روک نہ ہوتی تو سب سے پہلے رعایا میں سے ہم ٹھیکہ کراتے اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لئے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے.سو اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ ٹو اور جو شخص تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہوگا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور بچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گاوہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے.لیکن وہ جو کامل طور پر پیروی نہیں کرتا وہ مجھ میں سے نہیں ہے اس کے لئے مت دلگیر ہو.یہ حکم الہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لئے اور ان سب کے لئے جو ہمارے گھر کی چاردیوار میں رہتے ہیں ڈیکا کی کچھ ضرورت نہیں ؟ اور فرمایا: گر یہ سوال ہو کہ وہ تعلیم کیا ہے جس کی پوری پابندی طاعون کے حملہ سے بچا سکتی ہے تو میں بطور مختصر چند سطریں نیچے لکھ دیتا ہوں.“ اس سے آگے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ تعلیم لکھی ہے.بعد میں اس تعلیم والے حصہ کو قدرے اختصار کے ساتھ ایک Abridged Version کے طور پر اردو میں 'ہماری تعلیم کے عنوان سے شائع کیا گیا اور اس کا انگریزی ترجمہ Our Teaching کے نام سے شائع ہوا.عہد خلافت رابعہ میں یہ کتاب حسب ذیل 20 زبانوں میں شائع کی گئی.البائین.بنگلہ.بوسنین - بلغارین.ڈچ - انگریزی.فریج.جرمن.ہندی.انڈونیشین.جاپانی.خمیر (Khmer).فارسی.پرتگیزی رشین سپینش.تھائی ٹرکش از یک اردو.زَهَقَ الْبَاطِل یوں تو الہی جماعتوں کو مکڈ بین و مگھرین کے فتنوں اور اشتر الناس کی شرارتوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے.لیکن یہ بھی خدائے لم یزل کی تقدیر ہے کہ جبر و استبداد کے یہ مجھے دور دجل و فریب کی یہ کٹھ پتلیاں آفتاب صدق کی حمازت کی تاب نہیں لاسکتیں اور دیکھتے ہی دیکھتے موم کی طرح پکھل
311 جاتی ہیں اور رخ صداقت پر پہلے سے زیادہ نکھار آجاتا ہے اور حق ایک نئی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے.اس کی ایک مثال حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے خطبات کا وہ مجموعہ ہے جو مزحق الباطل کے عنوان سے اس وقت منصہ شہود پر آیا جب پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی ایماء پر حکومت پاکستان کی طرف سے 1984ء کے آرڈ مینٹس XX کی بزعم خود تائید میں قادیانیت اسلام کے لیے سنگین خطرہ کے نام سے ایک کتابچہ شائع کیا گیا جس میں جماعت احمد یہ مسلمہ کے خلاف جھوٹے پروپیگینڈے اور کذب و افتراء کی بھر مار کر دی گئی اور تہذیب و شرافت اور شرم و حیا کی تمام اقدار بالائے طاق رکھ دی گئیں.اسے مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کر دنیا میں کثرت سے تقسیم کیا گیا اور اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان میں احمدیوں کو اس ظالمانہ آرڈینینس (Ordinance XX) کے نفاذ کے ذریعے سے دفاع کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا.اس مینہ قرطاس ابیض میں جو جھوٹ کی سیاہی سے بھر پور تھا بانی جماعت احمدیہ کی ذات کی کردار کشی کی کوشش کے علاوہ جماعت احمدیہ کے عقائد کے خلاف انتہائی غلط تصویر پیش کی گئی اور ایسے بے بنیاد اعتراضات اٹھا کر نفرت اور اشتعال انگیزی کی مذموم کوشش کی گئی جن کے جوابات بار ہا جماعت کی طرف سے دیئے جاچکے تھے.اس تناظر میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے حقیقت کے اظہار اور اس جھوٹے پروپیگنڈے کے رڈ کے لیے خطبات کا ایک سلسلہ شروع فرمایا جو 25 جنوری 1985ء سے شروع ہو کر 31 مئی 1985ء تک جاری رہا.خطبات کے اس گراں قدر علمی مجموعہ میں آپ کا وہ بصیرت افروز خطاب بھی شامل ہے جو آپ نے جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر عرفان ختم نبوت“ کے عنوان سے 7 ر ا پریل 1985ء کو اسلام آباد ( ملفورڈ ) میں فرمایا تھا.یہ خطبات و خطاب کیا تھے ؟ گویا استدلال و براہین کی ایک مجوئے نور تھی جو بے بنیاد الزامات اور بودے اعتراضات کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئی.آپ نے ایک ایک اعتراض کو لیا، قرآن و سنت کے معیاروں پر پرکھا، عقل و خرد کی میزان پر تو لا اور تاریخی شہادتوں کی روشنی میں اس کا ایسا رد کیا
312 که رمق الباطل کی تصویر نگاہوں کے سامنے آگئی.معترضین کی کمر ٹوٹ گئی اور متلاشیان حق پر اتمام حجت ہو گئی.آپ نے مخالفین کی سازشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے فرمایا: در تم کہ رہے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں ہم اس لیے ضبط کر رہے ہیں کہ ان سے مسلمان عوام خصوصاً پاکستانی عوام کی دل آزاری ہوتی ہے اور اس دل آزاری کا علاج یہ کیا کہ وہ حصے جن سے دل آزاری نہیں ہوتی ان کا شائع کرنا تو قانونا بند کر دیا اور جن سے تمہارے زعم میں دل آزاری ہوتی ہے ان کو گورنمنٹ کے خرچ پر بصرف کثیر ساری دنیا میں پھیلا رہے ہو.پس بظاہر تو یہ ایک تضاد ہے لیکن یہ تضاد ایک چالا کی کے نتیجہ میں ہے.انہوں نے ایک ظالمانہ اور ناپاک حملہ کرنا ہی تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں اعتراضات کے جوابات موجود ہیں...ایک طرف تو لکھتے ہیں کہ گزشتہ قومی اسمبلی کا واقعی یہ بڑا کارنامہ ہے لیکن باوجود اس کے وہ قومی اسمبلی ان کو dissolve کرنی پڑی اور اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس کے سارے ممبران ( الا ماشاء اللہ ) گندے اور بدکار تھے." ( خطبہ 25 جنوری 1985ء زحق الباطل) اس طرح حضور رحمہ اللہ اس کا تضاد واضح کرتے ہیں اور ایک ایک اعتراض کو لے کر اس کا مسکت جواب دیتے ہیں.ذیل میں صرف ان خطبات کے عناوین درج کیے جاتے ہیں.(1) کذب و افتراء کی دل آزار مہم اور اس کا پس منظر (2) خود کاشتہ پودا.تاریخی واقعات کے آئینے میں (3) ہندوستان میں انگریزوں کے مفادات اور ان کے اصل محافظ (4) اسلام کا نظریہ جہاد اور جماعت احمدیہ (5) مسلمانان ہندوستان کا قومی تحفظ اور جماعت احمدیہ
313 (6) مسلمانان ہند کے مفادات کا تحفظ اور جماعت احمدیہ کی عظیم الشان قربانیاں (7) کشمیر اور فلسطین کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ کی عظیم الشان خدمات (8) مسلمانان فلسطین کا المیہ اور جماعت احمدیہ کی خدمات جلیلہ (9) عُلماءُ هُمُ - امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ (10) حضرت بانی جماعت احمدیہ پر چند اعتراضات کے مدلل اور مسکت جوابات (11) حضرت مسیح موعود ( علیہ الصلوۃ والسلام ) مهدی آخر الزماں کے دعاوی اور بزرگان سلف صالحین کی قومی شہادتیں (12) عرفان ختم نبوت (13) پر حکمت تاویلات پر ظاہر پرستوں کا مضحکہ خیز رد عمل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پر شوکت کلام مسلمان مشاہیر کی نظر میں (14) انتہائی ظالمانہ تکفیر وتکذیب کے مقابلہ میں حضرت بانی سلسلہ کا صبر وتحمل ، ہمت و حوصلہ اور ابلاغ حق (15) اسلام کی عالمگیر ترقی کا عظیم الشان منصوبہ.اسے سازش کا نام دینا اسلام دشمنی کے مترادف ہے (16) مسلمانوں کے باہمی اختلافات.بگڑے ہوئے عقائد اور حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان خدمات (17) عددی اکثریت کا غیر شرعی فیصلہ اور احمدیت کی عظیم الشان فتح (18) ایک نشان.ایک انتباہ یہ تمام خطبات اردو، عربی اور انگریزی میں شائع ہو چکے ہیں.اسی طرح بعض دوسری زبانوں میں بھی ان میں سے بعض خطبات کے تراجم شائع ہو چکے ہیں.مخالفین احمدیت کے اعتراضات کے جواب معلوم کرنے کے لئے یہ نہایت مفید علمی خزائن ہیں.جو بھی درد دل رکھنے والا صاحب بصیرت شخص اس مجموعہ خطبات کا مطالعہ کرے گا وہ حضور رحمہ اللہ کے
314 تدبر اور بصیرت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے گا.یہ خطبات متلاشیان حق کے لئے مینارہ نور ہیں.اسلام میں ارتداد کی سزا کی حقیقت آغاز اسلام سے لے کر آج تک اسلام اور عالم اسلام کو دشمنوں سے اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا خود بعض سادہ لوح مسلمان علماء کے ہاتھوں پہنچا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ دشمنان اسلام نے بھی اکثر اوقات ان سادہ لوح علماء کے جاہلانہ فتووں کو ہی بنیاد بنا کر اسلام پر حملے کئے ہیں.علماء میں یہ غلط رجحان اس لیے پیدا ہوا کہ انہوں نے اپنے سیاسی اور تمدنی ماحول سے متاثر ہو کر اسلام کے بعض احکامات کی ایسی تشریحات کو جو سیاسی رنگ لیے ہوئے تھیں ترجیح دی اور قرآن کریم کی واضح تعلیمات اور آنحضرت لم کے اسوہ حسنہ کو پس پشت ڈال دیا.قتل مرتد کا عقیدہ بھی ان غلط رجحانات اور بے بنیاد نظریات میں سے ایک ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس خوفناک عقیدہ کی کوئی بنیاد نہ تو قرآن کریم میں ہے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کی سنت طیبہ میں، بلکہ یہ محض ایک سیاسی نظریہ تھا جسے عباسی خلفاء اور دوسرے حکام نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بعض متعصب علماء کی مدد سے اختراع کیا یہاں تک کہ اس دور کے دوسرے غیر متعصب علماء بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.اور بدقسمتی سے بعد میں آنے والے علماء کی اکثریت نے، جو انہی سابقہ علماء کے مکاتب فکر کے زیر سایہ پروان چڑھی تھی، اس نہایت خطرناک غیر اسلامی نظریہ کو بغیر کسی تحقیق اور تنقید کے قبول کرلیا.اس ناپاک عقیدہ کے نہایت خوفناک نتائج نکلے.یہاں تک کہ علماء اسلام کو محض معمولی اختلافات پر خود علمائے اسلام نے مرتد قرار دیا اور حکام اور صاحب نفوذ علماء نے اس ہتھیار کو اپنے مخالفین کے خلاف خوب خوب استعمال کیا.تاریخ اسلام کے یہ نہایت دردناک ابواب سپین میں عیسائی حکومتوں کی یاد دلاتے ہیں جب اسی قسم کے نظریات کے قائل عیسائیوں نے خود اپنے عیسائی بھائیوں کو معمولی اختلافات پر نہایت وحشت ناک سزائیں دیں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس کتاب میں اُس تاریک دور کے واقعات کی تفصیل میں
315 جانے کی بجائے اس ناپاک اور فاسد عقیدہ کا ہر پہلو سے تجزیہ کیا ہے اور قرآن کریم ، سنت نبوی ملا لی اور خلفائے راشدین کے زمانہ کے تاریخی واقعات کی روشنی میں اس عقیدہ کا جھوٹا ہونا ثابت کیا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام کے نہایت حسین چہرہ کو داغدار کرنے کی ناپاک کوشش اس بھیانک نظریہ کے ذریعہ کی گئی.چنانچہ یہ فاسد نظریہ ہی وہ سب سے خطرناک ہتھیار تھا جسے دشمنان اسلام نے سب سے بڑھ کر اسلام کے خلاف استعمال کیا.ان حقائق پر مشتمل یہ عظیم خطاب حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالی نے جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر بتاریخ 27 جولائی 1986ء بمقام اسلام آباد للفورڈ ( Surrey) ارشاد فرمایا.جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوا.امید ہے یہ خطاب غیر متعصب کو اسلام کی صحیح اور پاک تعلیمات کو بہتر رنگ میں سمجھنے میں مدد دے گا اور اسلام کے دفاع کے لیے، خصوصاً اس میدان میں، ان کے اندر نئی روح پھونک دے گا.انشاء اللہ العزیز.اس خطاب کو کتابی صورت میں ڈھالتے وقت حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعض مناسب ترامیم اور مفید اضافے فرمائے.یہ خطاب انگریزی زبان میں The Truth About the Alleged Punishment for Apostasy in Islam کے نام سے اور عربی زبان میں حَقِيقَةُ عُقُوبَةِ الرِّدة في الْإِسْلَام کے نام سے شائع ہوا.عدل، احسان اور ایتاء ذی القربی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اس الرابع ب خلیفہ مسیح الرابع امام جماعت احمد یہ عالمگیر 1982ء تا 2003ء) نے 1982ء میں مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد جلسہ سالانہ ربوہ (پاکستان) کے موقع پر اردو میں اسلام کا نظام عدل، احسان اور ایتاء ذی القربی کے عنوان سے خطابات کا ایک سلسلہ شروع فرمایا.اس سلسلہ کا دوسرا خطاب آپ نے جلسہ سالانہ ربوہ (پاکستان) کے موقع پر 1983ء
316 میں ارشاد فرمایا.1984ء میں بوجوہ آپ کو انگلستان ہجرت کرنا پڑی جہاں آپ نے جلسہ سالانہ انگلستان کے موقع پر اسی موضوع پر دو مزید خطابات ارشاد فرمائے جن میں سے پہلا یعنی اس سلسلہ کا تیسرا خطاب 2 اگست 1987ء کو اور دوسرا یعنی اس سلسلہ کا چوتھا اور آخری خطاب 24 جولائی 1988ء کوارشاد فرمایا.اس عنوان پر پہلے خطاب کا انگریزی میں ترجمہ Absolute Justice, Kindness and Kinship.The Three Creative Principles کے عنوان سے 1996ء میں شائع ہوا.بعد ازاں حضور انور نے چاروں خطابات کے مسودات کی خود نظر ثانی کرتے ہوئے ان میں متعدد اضافے اور تبدیلیاں فرمائیں.کم و بیش 250 صفحات پر مشتمل یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ عدل، احسان، اور ایتاء ذی القربیٰ تین بنیادی تخلیقی اصول ہیں اور ان کا تعلق صرف انسان سے ہی نہیں بلکہ عالم نباتات اور عالم حیوانات سے بھی ہے.چنانچہ تخلیق کائنات، زمین کے ماحولیاتی نظام، عالم حیوانات، انسانی ارتقاء اور جسم انسانی کے اندر عدل اور توازن کے مضمون کے ساتھ ساتھ عدل سے انحراف کے نتائج کا ذکر کیا گیا ہے.اسی طرح مذہب کی تشکیل میں ان تینوں تخلیقی اصولوں کی کارفرمائی اور بالخصوص دین اسلام میں ان تینوں امور کے متعلق تعلیمات.مذہب میں آزادی ضمیر.اسلامی جہاد کے متعلق لوگوں میں پائی جانے والی غلط فہمی.عبادات میں عدل، احسان اور ایتاء ذی القربی کا مقام.امانت و احتساب.مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ایک دوسرے کے خلاف شہادت.اسلامی نظام شہادت.عام لین دین کی شہادات.اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور صاحب علم بندوں کی گواہی کا نظام.نبیوں کی ایک دوسرے کے حق میں شہادت.کائنات میں خدا کا ریکارڈنگ سسٹم.بندہ سے خدا کا معاہدہ اور ذیلی معاہدات.میثاق انسین.اہلِ کتاب سے معاہدہ قومی معاہدہ کی خلاف ورزی کی سزا.جرم اور سزا میں باہمی مناسبت نقض عہد کی سزاؤں، ایفائے عہد کی جزا.انفرادی معاہدات اور عہد شکنی کی سزا.غیروں سے معاہدات کی
317 قسمیں.معاہدہ صلح حدیبیہ.میثاق مدینہ.معاہدات کی پابندی میں اسوۃ رسول.معاہدات کی پابندی کی مختلف مثالیں.قول میں عدل.بنی نوع انسان کے مابین قیام عدل کا بنیادی اصول نسلی برابری کا عظیم الشان چارٹر.نسل پرستی سے بچاؤ کے لئے قرآن کریم کی حکیمانہ تعلیم.بین الاقوامی جھگڑوں کے فیصلہ کے لئے قرآن کی عادلانہ تعلیم اور قرآنی تعلیم کی خلاف ورزیوں کے نتیجہ میں آئندہ جنگوں کا خطرہ.بلا امتیا ز تمام بنی نوع انسان کے معاملات میں نیکی کی قرآنی تعلیم.رشتہ داروں کے متعلق عدل و احسان کی تعلیم.والدین کے بچوں پر حقوق.والدین سے حسن سلوک کی تعلیم.اولاد کے والدین پر حقوق.اولاد کے مابین عدل کی تعلیم.اولاد سے عدل کی جزا.عدل کے بعد اولاد سے احسان کی تعلیم.تکریم اولاد.بتائی کے حقوق.یتامیٰ کے بارہ میں احسان کی تعلیم.اقرباء کے حقوق.صلہ رحمی کی تعلیم.صلہ رحمی، رحم اور رحمانیت کا باہمی تعلق.یہ ان بہت سے موضوعات میں سے چند ایک ہیں جن پر اس کتاب میں قرآن وسنت اور احادیث نبویہ کے حوالہ سے بہت عمدہ رنگ میں اور آسان انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے.فی زمانہ ان موضوعات کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے.دنیا میں قیام امن کے لئے اسلامی تعلیم میں ان امور پر کافی رہنمائی موجود ہے.اس پہلو سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید اور اہم ہے.یہ چاروں خطابات اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی طبع ہو چکے ہیں.Revival of Religion ضرت خلیفہ امسح الرابع رحمہ اللہ نے 1983ء میں نجی آئی لینڈ کے دورہ کے دوران 23 ستمبر کو حضرت فجی میں صووا کی یونیورسٹی آف ساؤتھ پیسیفک میں احمدیت اور مذاہب کے احیاء کی فلاسفی کے موضوع پر خطاب فرمایا جو پہلے Philosophy of The Revival of Religion کے نام سے اور بعد میں صرف Revival of Religion کے نام سے شائع ہوا.اس مختصر سے رسالہ میں آپ نے احیاء مذاہب کی فلاسفی پر بصیرت افروز روشنی ڈالتے ہوئے اسلام میں مسیح موعود کی بعثت سے متعلق پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے تاریخ قرآنی کے حوالہ سے ان کی حقیقت کو پیش کیا ہے.
318 یہ کتاب البانین، عربی، آذربائیجانی، بوسنین، بلغارین، ڈینش، انگریزی، فرینچ، فارسی، پرتگیزی، رشین سپینش، سویڈش تھائی اور ٹرکش ( گل 15) زبانوں میں شائع ہو چکی ہے.Some Distinctive Features of Islam 1983ء میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ الرابع رحمہ اللہ نے آسٹریلیا کے دورہ کے دوران 30 /ستمبر کو آسٹریلیا میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد مسجد بیت الہدی کا سنگ بنیا د رکھا.اسی دورہ کے دوران 5 اکتوبر کو آپ نے کینبرا یونیورسٹی آسٹریلیا میں Some Distinctive Features of Islam کے موضوع پر خطاب فرمایا.یہ مختصر رسالہ اسی خطاب پر مشتمل ہے.اس میں آپ نے بتایا کہ تمام سچے مذاہب خدا کی طرف سے پیدا ہوئے.اسلام ایک عالمی مذہب ہے.اسلام اور دوسرے مذاہب کی تعلیمات میں فرق کی وجہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرنے کے بعد آپ نے دین اسلام کی کاملیت ، قرآن مجید کے ہر قسم کی انسانی دست برد سے محفوظ ہونے کے علاوہ زکوۃ اور سود کے نظام میں فرق.سیاسی امور میں اسلام کی رہنمائی.عدل کے اسلامی تصور اور اسلام کی دیگر امتیازی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام امن کا مذہب ہے.آخر پر آپ نے احد یہ مسلم جماعت کا تعارف بھی پیش کیا ہے.اس مختصر مگر نہایت جامع خطاب کا ترجمہ حسب ذیل 17 زبانوں میں شائع ہو چکا ہے.البائین، آذر بائیجانی، بنگلہ، بلغارین، ڈینش، انگریزی، فریج، گریک، اٹالین، جاپانی، خمیر (Khmer)، سواحیلی، نارو سکین، پولش، پرتگیزی، رشین، از یک.الہام ، عقل، علم اور سچائی اس کتاب کا آغاز 1987ء میں مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی ، سابق مبلغ انچارج سوئٹزرلینڈ کی ایک تجویز سے ہوا جو انہوں نے زیورک یونیورسٹی میں علم الملل (Ethnology) کے پروفیسر ڈاکٹر کارل بینکنگ کو پیش کی.انہوں نے پروفیسر صاحب سے درخواست کی کہ جماعت احمد یہ عالمگیر کے سر براہ کو اسلام کے متعلق لیکچر دینے کی دعوت دی جائے کیونکہ اس موضوع پر کبھی کسی مذہبی عالم نے یونیورسٹی
319 میں خطاب نہیں کیا.پروفیسر صاحب نے پہلے تو اس تجویز کو قبول نہ کیا کیونکہ ان کے خیال میں یونیورسٹی کے طلبا مذہب میں بہت کم دلچسپی رکھتے تھے.در حقیقت ان میں سے اکثر دہر یہ ہونے میں فخر محسوس کرتے تھے اور کسی بھی مذہب کے لیے ان کے دل میں کوئی خاص احترام نہ تھا.تاہم چند دنوں کے بعد پروفیسر صاحب نے خود مسعود صاحب کو یہ تجویز دی کہ عنوان کچھ اس طرح بنایا جائے کہ عقلیت پسندی اس میں بنیادی موضوع ہو.موازنہ کی خاطر وحی و الہام کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے تا کہ یہ بتایا جا سکے کہ حقیقی علم اور ابدی صداقتوں تک لے جانے میں دونوں کا الگ الگ کیا کردار ہے.اُن کا خیال تھا کہ شاید اس قسم کے موضوع میں طلبا دلچسپی لیں.حضور رحمہ اللہ نے اس تجویز کو قبول فرمایا اور اپنی معمول کی دیگر تمام مصروفیات کے ساتھ ساتھ صرف ایک ہفتہ کے اندر A4 سائز کے قریبا ایک سو پچیس صفحات پر مشتمل ایک مضمون اردو زبان میں Dictate کروایا.جب یہ مضمون تیار ہو گیا تو جرمن زبان میں ترجمہ کی غرض سے مکرم شیخ ناصر احمد صاحب کو سوئٹزرلینڈ بھجوایا گیا.لیکن لیکچر کے لئے وقت چونکہ محدود تھا اور یہ ممکن نہ تھا کہ اس سارے مضمون کا ترجمہ اس مختصر اور محدود وقت میں سنایا جا سکتا اس لئے انہوں نے حضور رحمہ اللہ کی اجازت سے اردو میں تحریر فرمودہ اس مضمون کا خلاصہ جرمن زبان میں تیار کیا.14 جون 1987ء بروز جمعرات رات آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر , Rationality Revelation, Knowledge, Eternal Truth یعنی عقل، الہام علم اور ابدی صداقت کے موضوع پر مجوزہ لیکچر کا یونیورسٹی کے Oule آڈیٹوریم میں اہتمام کیا گیا.طلبا اس موضوع کو سن کر کھنچے چلے آئے اور Oule آڈیٹوریم کی تمام نشستیں پر ہوگئیں یہاں تک کہ ایک دوسرے ہال میں ٹیلی ویژن سکرینز اور لاؤڈ سپیکر کے اضافی انتظامات کے ذریعہ پروگرام دکھانا پڑا.یہ وہی آڈیٹوریم تھا جہاں سر ونسٹن چرچل نے 9 ستمبر 1946ء کو "Let Europe Arise" کے موضوع پر تاریخی خطاب کیا.حضور رحمہ اللہ کے ابتدائی تعارفی کلمات کے بعد جو آپ نے انگریزی میں فرمائے مکرم شیخ ناصر احمد
320 صاحب نے حضور رحمہ اللہ کے اردو میں تحریر فرمودہ مضمون کا خلاصہ جرمن زبان میں پیش کیا.انہیں اس تحریر شدہ تقریر کو پڑھ کر سنانے میں قریباً سوا گھنٹہ لگا.اس کے اختتام پر حاضرین کو سوالات کی دعوت دی گئی.سوال و جواب کی یہ مجلس اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی.یوں اس کتاب کا آغاز ہوا جس کے لئے اس لیکچر کی حیثیت محض ایک بیچ کی تھی.بعد ازاں حضور رحمہ اللہ نے اردو مسودہ میں کئی اضافے فرمائے.الغرض یہ لیکچر حضور رحمہ اللہ کی اس معرکتہ الآراء کتاب کی بنیاد بنا جو بعد ازاں, Revelation Rationality, Knowledge and Truth کے نام سے انگریزی زبان میں شائع ہوئی.یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے.ذیل میں اس کے عنوانات کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے جس سے اس کی اہمیت اور اس میں درج متنوع مضامین کا کسی قدر اندازہ ہوسکتا ہے.یہ کتاب عصر حاضر میں انسانی ذہن میں اٹھنے والے بہت سے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے.یہ تمام جوابات قرآن مجید کی تعلیمات پر مبنی ہیں اور اس کی صداقتوں کو ظاہر کرنے والے ہیں.باب اول تعارف: تاریخی تناظر میں.فرد اور معاشرہ.اسلامی مکاتب فکر ( الاشعریہ معتزلہ، صوفی ازم، مسلم سپین کا مکاتب فکر، عالم اسلام کی حالت زار ).فلسفہ یورپ.یونانی فلسفہ.باب دوم ہندومت.بدھ مت کنفیوشن ازم - تاؤازم.زرتشت ازم.دکھ اور الم کا مسئلہ.باب سوم سیکولر نقطہ ہائے نظر کا تجزیہ.آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا خدا کے بارہ میں تصور.باب چہارم الہام کی حقیقت ( وجدان، دیگر نفسیاتی تجارب عمل تنویم یا ہپناٹزم، اشراق یا ٹیلی پیتھی ، صحت الشعور
321 سے متعلق دیگر تجارب ).الہام اور عقل.ایمان بالغیب الْبَيْنَه.ایک بین اصول القيمة : دانی تعلیم.قرآن کریم اور کائنات ( قرآن کریم اور اجرام فلکی) عنظر اپی اور محدود کائنات.قرآن کریم اور غیر ارضی حیات.باب پنجم حیات: وحی قرآن کی روشنی میں اجمالی تعارف.( اولین جاندار اجسام کی تخلیق تخلیق میں مٹی کا کردار زندگی کی تخلیق یا بقا با مقصد ہے یا اتفاقی ؟ سمتوں کی حقیقت، انتخاب طبعی اور اصول بقائے اصلح ، شطرنج یا چانس کا کھیل ).زندگی کے آغاز سے متعلق مختلف نظریات ( آغاز حیات کے متعلق مختلف آراء ، ایک نیا سنگ میل ).جنات کا وجود ارتقا میں چکنی مٹی اور ضیائی تالیف کا کردار.بقا: حادثہ یا منصوبہ بندی؟ قدرت میں سمت یا کائٹریلیٹی (Chirality) نظریہ انتخاب طبعی اور بقائے اصلح.مچھر.شطرنج کی بازی یا اتفاقات کا کھیل؟ کرہ ارض پر زندگی کا مستقبل.وقت کا اندھا، بہرہ اور گونگا خالق.باب ششم عالم غیب کا انکشاف اور قرآن کریم مستقبل قریب اور بعید کی پیشگوئیاں.غزوہ خندق، آثار قدیمہ کی دریافت کے متعلق پیشگوئی.عالمگیر ایٹی تباہی.جینیاتی انجنیئر نگ.طاعون کا نشان.ایڈز کا وائرس.باب ہفتم مستقبل میں وحی و الہام.خاتمیت کی حکمت، حضرت امام مہدی علیہ السلام، غیر تشریعی نبی اور الہام.کیا غیر تشریعی نبی آسکتا ہے؟ حضرت عیسی علیہ السلام اور ختم نبوت.آخر پر ختمہ اور فرہنگ بھی ہے.اور ایک جامع انداز میں انڈیکس بھی دیا گیا ہے جو خاص طور پر ریسرچ کرنے والے افراد کے لئے بہت مفید ہے.یہ کتاب انگریزی کے علاوہ اردو، عربی، رشین اور جرمن زبان میں بھی شائع ہو چکی ہے.
322 مذہب کے نام پرخون انسان کی تاریخ خاک و خون میں لتھڑی پڑی ہے.اس دن سے لے کر آج تک جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا اس قدر خون ناحق بہایا گیا ہے کہ اگر اس خون کو جمع کیا جائے تو آج رُوئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے کپڑے اس خون میں رنگے جاسکتے ہیں بلکہ شاید اس پر بھی وہ خون بیچ رہے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے لباس بھی لالہ رنگ کرنے کے لئے کافی ہو.مگر مقام حیرت ہے کہ اس پر بھی آج تک انسان کی خون کی پیاس نہیں بھی ! یہ خون کبھی عزت و ناموس کے نام پر کئے گئے کبھی بغض و عناد کی بنا پر کبھی رزق کی تلاش میں نکلی ہوئی فاقہ کش قوموں نے یہ مظالم ڈھائے اور کبھی محض تسخیر عالم جابر شہنشاہوں کا مطمح نظر تھی.پھر ایسا بھی بہت مرتبہ ہوا کہ یہ خون ریزیاں خود خدا کے ہی نام پر کی گئیں اور مذہب کو آڑ بنا کر سفاکانہ بنی نوع انسان کا خون بہایا گیا.یہ سب کچھ ہوا اور آج بھی ہورہا ہے اور اپنے کردار کا یہ رخ دیکھ کر انسان کا دل بسا اوقات یاس و ناامیدی سے بھر جاتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ کیا اسی لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا؟ ایک مذہب تھا کہ جس سے یہ توقع تھی کہ انسان کو انسانیت کے آداب سکھائے گا مگر خود اس کا دامن بھی خون آلود نظر آتا ہے.“ 66 مذکورہ بالا اقتباس کتاب مذہب کے نام پر خون کے ابتدائی چند صفحات سے ماخوذ ہے.حضرت (صاحبزادہ) مرزا طاہر احمد صاحب کی یہ کتاب سب سے پہلے دسمبر 1962ء میں شائع ہوئی.اس میں آپ نے بعض مسلمانوں کے اسلامی جہاد کے متعلق غلط تصور اور اسلام کے نام پر دہشت پسندی اور قتل و غارتگری کے فاسدانہ خیالات کا قرآن کریم، احادیث نبویہ اور آنحضرت میم کے اُسوہ حسنہ کی روشنی میں پرزور اور مدلل بطلان ثابت کیا اور بتایا کہ ایسے افکار و خیالات کا اسلام کی حقیقی تعلیم سے دور کا بھی تعلق نہیں بلکہ یہ خیالات اسلام کے دشمنوں اور متعصب مستشرقین کے آئینہ دار ہیں.1989ء میں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ Murder in The Name of Allah کے نام سے شائع ہوا.اس وقت کے معروضی حالات کے پیش نظر اسلام کے متعلق اہل مغرب کی
323 غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے اس میں متعدد ابواب کا اضافہ کیا گیا.بعد میں ان اضافہ شدہ ابواب کا اردو ترجمہ کتاب کے اردو ایڈیشن میں بھی شامل کیا گیا.عہد خلافت رابعہ میں اردو کے علاوہ حسب ذیل 7 زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہوئے.البانین، عربی، بنگلہ، انگریزی، سواحیلی ، رشین، رکش.The Seal of Prophets- His Personality and Character یہ کتاب حضرت خلیلہ اصبع الرابع رحم اللہ کے اس لیکچر پر مشتمل ہے جو آپ نے آنحضرت بانی کی سیرت کے موضوع پر 15 اکتوبر 1989ء کو ہنسلو کے Heathland سکول میں منعقدہ جلسہ سیرۃ النبی میں دیا.اس تقریب میں ممبران پارلیمنٹ اور علاقہ کے بہت سے سیاسی ، سماجی اور مذہبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے معززین نے شمولیت کی.اس میں آنحضرت علم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں بالخصوص آپ کی گھریلو زندگی اور جانوروں سے شفقت اور مساوات اور عدل و انصاف کے قیام سے متعلق تعلیمات اور واقعات کو پیش کیا گیا.اسی طرح تو بین رسالت (Blasphemy) کے موضوع پر بھی اسلامی تعلیمات کو بیان کیا گیا.اور حضور اکرم ﷺ کی سیرت و کردار کی عظمت کے اعتراف پر مشتمل بعض مستشرقین و مغربی مصنفین کے اقتباسات بھی دیئے گئے ہیں.Islam's Response to Contemporary Issues 1989ء میں جماعت احمدیہ کے قیام کی صد سالہ جوبلی منائی گئی.صد سالہ جوبلی کی تقریبات کے پروگرام کے تحت 24 فروری 1990ء کو لندن کے کوئین ایلز بتھ 11 کانفرنس سنٹر (QE II Islam's Response to" (Conference Centre London Contemporary Issues“ (اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل ) کے موضوع پر حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے انگریزی زبان میں ایک تقریر فرمائی.اس تقریر کو سننے کے لئے دانشور طبقوں سے تعلق رکھنے والے آٹھ صد معزز مہمان تشریف لائے.ان میں
324 سیاست دان، صحافی، پروفیسر صاحبان، اساتذہ کرام، مذہبی علوم کے ماہرین، عربی دان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معزز خواتین و حضرات شامل تھے.مکرم ایڈورڈ مار ٹیمر (Edward Mortimer) صاحب نے اس تقریب کی صدارت کی جبکہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطاب کے بعد آنریل ممبر پارلیمنٹ مکرم ہیوگو سمرسن ( Hugo Summerson) نے جذبات تشکر کا اظہار کیا.بعد ازاں سوال و جواب کی ایک مختصر مجلس منعقد ہوئی.اس نوعیت کے پبلک اجتماعات میں بالعموم تقاریر کے لئے جتنا وقت مختص کیا جاتا ہے اس میں ایسے وسیع مضمون کو کماحقہ بیان کرناممکن نہیں ہوتا لیکن حضرت امام جماعت احمد یہ رحمہ اللہ تعالی نے مختصر وقت کے باوجود اس موضوع پر سیر حاصل بحث فرمائی."Islam's Response بعد میں یہ خطاب ضروری اضافوں کے ساتھ Response to Contemporary Issues کے نام سے 1992ء میں انگریزی میں شائع ہوا.اس خطاب میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی دُور بین نگاہ نے مستقبل کے جن امکانات اور خدشات کی نشاندہی فرمائی تھی وہ حیرت انگیز طور پر سچ ثابت ہوئے.مثال کے طور پر اشتراکیت کے زوال کے بعد مشرقی یورپ کے ممالک میں عظیم الشان تبدیلیاں رونما ہوئیں.اقوام متحدہ بین الاقوامی معاملات میں وہی کردار ادا کر رہی ہے جس کی طرف حضور نے اشارہ فرمایا تھا.برطانیہ میں شرح سود کی پالیسی کا نتیجہ اقتصادی بدحالی کی صورت میں سامنے آیا.یہ تمام امور اور در حقیقت ان کے علاوہ بہت سے امور اس خطاب میں قبل از وقت پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیئے گئے تھے.حضرت امام جماعت احمدیہ نے 71 1990ء کے آغاز میں جب یہ خطاب فرمایا تھا اس وقت ابھی ان تمام تبدیلیوں کے آثار دنیا کے افق پر ظاہر نہیں ہوتے تھے.حضور رحمہ اللہ کا یہ خطاب جس پیغام پر مشتمل ہے وہ دائمی اہمیت کا حامل ہے اور اس کا تعلق امن عالم کے مستقبل سے ہے.اس کتاب میں جن موضوعات پر اسلامی تعلیم کو پیش کیا گیا ہے.یہ موضوعات آج بھی اہمیت کے حامل ہیں.اور ان موضوعات پر غیر مسلموں کی طرف سے اٹھنے والے سوالات کے جوابات پر مشتمل یہ
325 کتاب غیر معمولی افادیت کی حامل ہے.اس کتاب کے ذیلی عنوانات میں سے بعض ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.ان عنوانات سے بھی اس کی اہمیت کا کسی قدرا ندازہ کیا جاسکتا ہے.1.مذاہب عالم کے مابین امن و آشتی اور ہم آہنگی مذہبی اقدار کو فضول اور غیر ضروری سمجھ لیا گیا.انبیاء ہر قوم میں مبعوث ہوتے رہے ہیں.بلحاظ منصب تمام انبیاء برابر ہیں.کیا منصب میں برابری کے باوجود انبیاء کے مقام و مرتبہ میں فرق ہو سکتا ہے؟ نجات پر کسی ایک مذہب کی اجارہ داری نہیں ہوسکتی.مذاہب کے مابین ہم آہنگی اور باہمی احترام کا فروغ.مذہب کے عالمگیر ہونے کا نظریہ.اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے.اشاعت دین کے ذرائع.جبر کی بکلی نفی.کون سامذہب باقی رہے گا؟ ( بقائے اصلح ).آزادی تقریر.آزادی کی حدود.مذہبی تقدس کی پامالی.مذاہب کا باہمی تعاون.حاصل بحث.2.معاشرتی امن عصر حاضر کا معاشرتی نظام.دو قسم کے معاشرتی ماحول.مادہ پرست معاشرہ کا انجام.حیات بعد الموت کا انکار.مادہ پرست معاشرہ کی چار خصوصیات اعمال کی جوابدہی کا تصور.اسلامی معاشرہ کا مخصوص ماحول.اسلامی معاشرہ کے بنیادی اصول.عفت اور پاکدامنی.پردہ اور اس کی حقیقت.حقوق نسواں کے ایک نئے دور کا آغاز.عورتوں کے لئے مساوی حقوق.تعدد ازدواج - عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال.مستقبل کی نسلیں.بے مقصد اور فضول مشاغل کی حوصلہ شکنی.خواہشات پر قابو پانا.عہد و پیمان اور معاہدات کا احترام.برائی کا خاتمہ.ایک اجتماعی ذمہ داری.اوامر و نواہی.اسلام نسل پرستی کورڈ کرتا ہے.3.معاشرتی اقتصادی امن سرمایہ دارانہ نظام، سوشلزم اور اسلام میں معاشی انصاف کا تصور.تنگ دستی کے باوجود اعلی مقاصد کے لیے خرچ کرنا.غرباء کے لیے خرچ کرنا.شکر گزاری کا جذبہ.نیکی کے اجر کی توقع کسی انسان سے نہ
326 رکھنا.بھیک مانگنا.مالی قربانی کے لیے طیب مال کی شرط.خدا کے راستہ میں اعلانیہ اور پوشیدہ خرچ.معاشرتی ذمہ داریاں.تاریخ اسلام کا ایک واقعہ.خدا کی عطا کردہ سب نعمتوں میں سے خرچ کرنا.خدمت خلق.شراب نوشی اور جوئے کی ممانعت.شراب نوشی کے باعث ہونے والی اموات.شراب نوشی کے باعث ہونے والے سالانہ اقتصادی نقصانات.4 - اقتصادی امن سرمایہ دارانہ نظام، اشتراکیت اور اسلام کا اقتصادی فلسفہ.سرمایہ دارانہ نظام.سائینٹفک سوشلزم.اسلامی نظریہ سرمایہ دارانہ معاشرہ کی چار خصوصیات.دنیا کا بدلتا ہوا اقتصادی نظام.اسلام کا اقتصادی نظام زکوۃ.سود کی ممانعت.برطانیہ میں شرح سود کا مسئلہ.سود کے دیگر نقصانات سود،امن کے لئے ایک خطرہ.دولت کے انبار لگانے کی ممانعت.سادہ طرزِ زندگی.شادی و بیاہ کے اخراجات.غرباء کی دعوت قبول کرنا.کھانے پینے میں اعتدال.قرض کا لین دین.معاشی طبقاتی فرق.اسلام کا قانونِ وراثت.رشوت کی ممانعت.تجارتی ضابطہ اخلاق.بنیادی ضروریات زندگی.عبادت.معاشرتی وحدت کا ایک ذریعہ.عالمی ذمہ داریاں.5 قومی اور بین الاقوامی سیاسی امن اسلام کسی سیاسی نظام کو کلیہ رد نہیں کرتا.بادشاہت.جمہوریت کیا ہے؟ جمہوریت کا اسلامی تصور.اسلامی جمہوریت کے دوستون.مشاورت.اسلامی حکومت کیا ہے؟ ملائیت.کیا مذہب کا وفادار مملکت کا غدار ہو سکتا ہے؟ کیا صرف مذہب ہی کو قانون سازی کا حق حاصل ہے؟ اسلام اور ریاست.بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد کامل انصاف پر ہے.اقوام متحدہ کا کردار.6- انفرادی امن مسابقت في الخیرات.اعزہ واقرباء کے ساتھ محبت.خدمت خلق.رضائے باری تعالیٰ کا حصول.لوگوں کے دکھ درد سے ہمیشہ باخبر رہنا.محبت و شفقت کا وسیع دائرہ تخلیق انسانی کا مقصد.اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کوئی امن نصیب نہیں ہو سکتا.
327 عہد خلافت رابعہ میں یہ اہم تصنیف حسب ذیل کام زبانوں میں شائع ہوئی.انگریزی - عربی.بنگلہ - فریح.نارو سکین.رشین.اور اس کا اردو ترجمہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے عہد میں 2005ء میں شائع ہوا.An Elementary Study of Islam یہ کتاب حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کے اس لیکچر پر مبنی ہے جو آپ نے 12 مارچ1990ء آر کو سپین کی Seville یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک سٹڈیز کی دعوت پر دیا.اس میں آپ نے اختصار کے ساتھ اسلام کے بنیادی عقائد و ایمانیات کا تعارف کرواتے ہوئے اس اہم نکتہ کو خاص طور پر نمایاں کیا ہے کہ بنیادی طور پر تمام مذاہب کی تعلیمات میں اشتراک پایا جاتا ہے.اسی طرح اس لیکچر میں حضور نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کی عالمگیریت کو پیش کیا ہے.اسی طرح جہاد کے متعلق صحیح اسلامی تعلیمات کو پیش کرتے ہوئے غلط تصورات کی نفی کی گئی ہے.غیر مسلموں اور نو مسلموں کو اسلام کے عمومی اور بنیادی عقائد سے متعارف کرانے کے لئے یہ کتاب بہترین تحفہ ہے.خلافت رابعہ کے عہد میں یہ کتاب انگریزی کے علاوہ البانین اور نار و یکمین میں بھی شائع ہوئی.خلیج کا بحران اور نظام جہانِ تو یہ کتاب حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسح الرابع رحمہ اللہ کے ان خطبات جمعہ کا مجموعہ ہے جو آپ نے خلیجی جنگ کے دوران انگلستان میں ارشاد فرماتے تھے.2 اگست 1990ء کو عراق نے کویت پر حملہ کیا اور اس کے ساتھ ہی خلیج کے ان ممالک میں آگ اور خون اور تباہی و بربادی کے ایک لمبے دور کا آغاز ہوا جس میں لاکھوں افراد لقمہ اجل ہوئے.لکھوکھا طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا ہوئے اور نہایت ہی دردناک اور المناک واقعات رونما ہوئے.حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس حملہ کے اگلے روز 3 سر اگست 1990ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں عراق کے کویت پر حملہ کے پس منظر کا تجزیہ کرتے ہوئے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں
328 ان دونوں ممالک کو بالخصوص اور تمام مسلمان حکومتوں کو بالعموم تنازعات کو حل کرنے کے بارہ میں نصیحت کی.اور اس کے ساتھ ہی خلیجی بحران اور اس کے مہلک مضمرات کے حوالہ سے خطبات کی ایک سیریز کا آغاز ہوا.اور آپ نے سترہ خطبات جمعہ میں اس ہولناک جنگ کے پس پردہ عوامل اور مہلک مضمرات کے علاوہ عالم اسلام پر مرتب ہونے والے اس کے دوررس اثرات کا نہایت گہری نظر سے تجزیہ فرمایا اور صیہونیت اور مغربی طاقتوں کی ان خطرناک سازشوں سے پردہ اٹھا یا جو وہ عالم اسلام کے خلاف کر رہے ہیں.آپ نے امت مسلمہ کو ان مہیب خطرات سے بھی متنبہ فرمایا جو مستقبل میں انہیں پیش آسکتے ہیں اور دردمندانہ دل کے ساتھ ایسی بیش قیمت نصائح سے نوازا جن پر عمل پیرا ہونے سے دین اور دنیا دونوں سُدھر سکتے ہیں.حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطبات میں واضح فرمایا کہ دنیا میں پائیدار امن اور بنی نوع انسان کی حقیقی آزادی اور خوشحالی کی ضمانت صرف وہ نظام دے سکتا ہے جس کی بنیاد قرآن کریم کے پیش کردہ نظام عدل پر ہو.امریکہ کا پیش کردہ New world order اس کی ضمانت نہیں دے سکتا کیونکہ اس کی بنیاد تقویٰ اور عدل پر نہیں بلکہ خود غرضی، برتری کے احساس اور اخلاق سے عاری سیاست پر ہے.اس کے ہاں انصاف کے دوہرے معیار کار فرما ہیں اور وہ اقوام متحدہ کی تنظیم کو اپنے استعماری مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے جبکہ وہ خود صیہونیت اور اسرائیل کا آلہ کار بنا ہوا ہے.آپ نے نہ صرف عالم اسلام اور تیسری دنیا کو بلکہ امن عالم کے خواب کو حقیقت میں ڈھالنے کے لئے دنیا کی بڑی طاقتوں اور ان کے رہنماؤں کو بھی مشوروں سے نوازا.آپ نے ان نصائح اور مشوروں کو نظر انداز کرنے کی صورت میں جن ہولناک اور تباہ کن حالات سے خبر دار کیا تھا افسوس ہے کہ ان نصائح پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ایک دفعہ پھر خلیج کی جنگ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک صورت میں رونما ہوئی اور یہ خطہ آج تک لہو رنگ ہے اور نہ صرف وہاں پر امن کا فقدان ہے بلکہ اس کے اثرات ساری دنیا میں پھیل چکے ہیں.
329 خلیج کے حالات کے بچے اور دیانتدارانہ اور تقویٰ اور راستی پر مبنی بصیرت افروز اور چشم کشا تجزیہ پر مشتمل یہ کتاب امنِ عالم کے خواہاں افراد کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے.یہ کتاب اردو کے علاوہ عربی، انگریزی اور ٹرکش میں بھی شائع ہو چکی ہے.زوق عبادت اور آداب دعا حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1990ء میں فرمایا: بہت سے دوست مختلف ممالک سے جو خطوط لکھتے ہیں ان میں بارہا اس سوال کا اعادہ کیا جاتا ہے.یعنی تکرار سے بار بار مختلف دوستوں کی طرف سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ عبادت میں مزا پیدا کرنے کی کیا ترکیب ہے؟ بعض لوگ علمی پیاس بجھانے کی خاطر بغیر کسی ہیجان کے لکھتے ہیں.اور بعض معلوم ہوتا ہے شدید اعصابی دباؤ کا شکار ہیں.بہت کوشش کرتے ہیں، بہت زور مارتے ہیں لیکن عبادت میں مزا نہیں آتا.بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو عبادت کے بیرونی دروازے تک پہنچے ہوتے ہیں اور عبادت کو چھوڑ کر جانے کا قصد کر چکے ہوتے ہیں اور وہ گویا مجھے آخری تنبیہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ابھی بھی ہمیں سمجھ لو اور بچا لو ورنہ پھر اگر ہم نے عبادت سے منہ موڑ لیا تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے.مختلف دوستوں کو میں مختصراً مختلف جواب دیتا ہوں لیکن یہ مضمون اتنا اہم ہے کہ باوجود اس کے کہ اس سے پہلے بھی اس پر روشنی ڈال چکا ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ مختلف پہلوؤں سے مختلف زاویوں سے بار بار اس مضمون کو جماعت کے سامنے کھولنا چاہیئے.“ چنانچہ اس کے ساتھ ہی حضور رحمہ اللہ نے خطبات کا ایک سلسلہ شروع فرمایا جس میں اس اہم سوال کے جواب پر سورۃ فاتحہ کے نقطہ نگاہ سے مختلف پیرایوں میں روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح سورۃ فاتحہ عبادت کے رموز سکھاتی ہے اور عبادت میں لذت پیدا کرتی ہے.اسی تسلسل میں آپ نے ذوق عبادت کے حصول کے لئے دعا کی اہمیت ، اس کے آداب اور خدا تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں کی دعاؤں کا مضمون بھی بیان فرمایا اور بتایا کہ ان میں اکثر دعائیں وہ ہیں جو خدا تعالیٰ نے ان کو خود سکھائیں.انہیں دعاؤں کے طریق سکھائے یا ان کے دل کی گہرائیوں سے بے ساختہ اٹھی ہوئی دعاؤں
330 کو قبول فرمایا اور ان کے ذکر کو بڑے پیار کے ساتھ قرآن کریم میں محفوظ فرمایا.دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس نے تمام انبیاء کی دعاؤں کا خلاصہ اس شان کے ساتھ ، اس حفاظت کے ساتھ پیش کیا ہو جس طرح قرآن کریم نے پیش کیا ہے.چنانچہ حضور رحمہ اللہ نے قرآنی دعاؤں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے معانی و مطالب کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا اور اسی طرح نماز کی ظاہری حرکات اور نماز کے اندر پڑھے جانے والے کلمات کی پر معارف تشریح و تفسیر بیان فرمائی.24 خطبات جمعہ پر مشتمل یہ بصیرت افروز مضمون یکجائی طور پر ذوق عبادت اور آداب دعا کے نام سے شائع ہوا جو A5 سائز کے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے.اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے روزنامہ الفضل ربوہ کے سیدنا طاہر نمبر (2003ء) کے لئے جو خصوصی پیغام عطا فرمایا اس میں آپ نے فرمایا: حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کا وجود نہایت پاک اور خدا تعالیٰ کی ذات میں ڈوبا ہوا و جو د تھا.آپ کو خدا تعالی پر کامل تو کل تھا اور دعاؤں پر بہت زور دیتے تھے.آپ نے اپنی ساری زندگی سب سے زیادہ دعا کو اہمیت دی.خود بھی دعاؤں میں ہمیشہ مصروف رہتے اور دوسروں کو بھی اس کی نصیحت فرماتے رہتے.چنانچہ دعا کی اہمیت کو احمدیوں کے دلوں میں راسخ کرنے کے لئے آپ نے بڑے پر معارف خطبات کا ایک طویل سلسلہ جاری فرمایا جن میں آپ نے قرآن کریم اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سوز میں ڈوبی ہوئی دعاؤں اور حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کا بڑی تفصیل سے ذکر فرمایا اور اس طرح جماعت کے ہر فرد کو خواہ چھوٹا ہو یا بڑا دعاؤں کے حسین انداز سکھلائے اور دعاؤں پر ہر احمدی کے یقین کو ایک نئی روشنی اور پختگی عطا فرمائی.کیونکہ یہ دعا ہی تو ہے جو ہماری عبادتوں کا مغز ہے.پس حضور رحمہ اللہ کی یادوں کو زندہ رکھتے ہوئے میں بھی آپ سب کو دعاؤں کی طرف ہی توجہ دلاتا ہوں.یاد رکھیں کہ دعاؤں سے ہی انسان اللہ تعالی کا مقرب بنا اور منعم علیہ میں داخل
331 ہوتا ہے.قرآن کریم کی اوّل بھی دعا پر ہے اور انتہا بھی دعا پر.دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی اور انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذ ریعہ دعا ہی تھی اور یہی ایک عظیم الشان حربہ ہے جو اس آخری زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فتوحات کے لئے عطا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دار گر مردے زندہ ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے اور اگر اسیر رہائی پاسکتے ہیں تو دعاؤں سے اور اگر گندے پاک ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے.“ پس آپ اپنی ایمانی اور عملی طاقتوں کو بڑھانے کے لئے دعاؤں میں لگے رہیں اور یوں سمجھیں کہ آپ دعاؤں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور یہ دعائیں ہی ہیں جو آپ کے کام سنوار دیں گی.“ With Love to the Muslims of the World- The Ahmadiyya Perspective 1990ء میں آذربائیجان کی Council of the Unionwide Voluntary Trade Union Sports Federation کی دعوت پر مسلم ٹائیگرز احمدیہ (MTA) با کی ٹیم یو کے نے BAKU آذربائیجان کا دورہ کیا اور ہاکی کے میچز کھیلے.بعد میں وہاں کی ٹیم یو کے آئی اور ایم ٹی اے ہاکی کلب کے ساتھ میچز کھیلے.اس موقع پر حضرت خلیفۃ ابیح الرابع رحمہ اللہ نے آذربائیجان کی قوم کو مخاطب کر کے اور اسی طرح سابقہ USSR کے افراد کو پیش نظر رکھ کر یہ پیغام تحریر فرمایا جس کا رشین میں بھی ترجمہ کیا گیا.یہ پیغام ایک عالمی حیثیت رکھتا ہے.اس میں جماعت احمدیہ کا تعارف.جماعت کے مخالفین کے سوالات و اعتراضات کے جوابات مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغایت.جماعت احمدیہ کے عقائد.جماعت احمدیہ کی مخالفت.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور جماعت احمدیہ مسلمہ کی امتیازی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے.اسی طرح حضرت مسیح ابن مریم کے حوالہ سے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں فرق یعنی حیات و وفات مسیح کے موضوع پر بات کی گئی ہے.اور مسیح موعود کے کاموں
332 کسر صلیب اور قتل خنزیر.دجال اور خر دجال کی حقیقت مسیح و مہدی کے ایک ہی وجود ہونے اور ختم نبوت کے موضوعات پر بحث کی گئی ہے.اسی طرح احمدیوں اور شیعہ عقائد میں فرق.امام مہدی کے مقام، رشیا میں احمدی مبلغ کی مساعی اور خلافت احمد یہ جیسے اہم موضوعات کو بیان کیا گیا ہے.Relationship between Religion and Politics in Islam غیر مسلم دنیا میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے حوالہ سے بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور اس پہلو سے اکثر دین اسلام کو اعتراضات کا نشانہ بنایا جاتا ہے.اس غلط فہمی اور اسلام کو مورد اعتراض بنانے میں بہت بڑا دخل نام نہاد مسلم علماء اور بعض مسلمان حکمرانوں کے اعمال اور نفاذ شریعت کے نام پر جبر و تند رپر مشتمل ظالمانہ کاروائیوں کا ہے.حضرت خلیفۃ اسبح الرابع رحمہ اللہ جب 1991ء میں سرینام کے دورہ پر تشریف لے گئے تو وہاں کی انٹر ریجس کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب میں آپ نے 3 جون 1991ء کو مذکورہ بالا عنوان پر ایک مختصر خطاب فرمایا.خطاب کے بعد سوال و جواب بھی ہوئے.یہی خطاب بعد میں مذکورہ بالا عنوان کے ساتھ شائع ہوا.اس میں حضور رحمہ اللہ نے پاکستان میں نفاذ شریعت کے قانون کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے شرعی قانون کی حیثیت اور مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ ملاں اور سیاستدان در اصل اپنے ذاتی مفادات کے لئے اقتدار کو حاصل کرنے یا اسے طول دینے کے لئے نفاذ شریعت کا نام استعمال کرتے ہیں.ورنہ خود ان کی اپنی زندگیاں اور روزمرہ کے معمولات شریعت کے احکامات سے صریح طور پر متصادم ہیں.Christianity - A Journey from facts to fiction حضرت مسیح ناصری کی ذات صرف مسیحیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر دو بڑے مذاہب یہودیت اور اسلام کے نزدیک بھی بہت اہمیت رکھتی ہے.اگر مسیح علیہ السلام کی ذات کی نوعیت و
333 ماجیت اور آپ کی آمد اول اور موعودہ آمدثانی کے بارہ میں وسیع اثر ورسوخ رکھنے والے یہ عظیم مذاہب کسی ایک مشترکہ تفہیم یا نظریہ پر باہم متفق ہو جائیں تو اس سے ان بہت سے مسائل کے حل ہونے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جن سے فی زمانہ نوع انسانی دو چار ہے اور ان ہر سہ مذاہب کے درمیان بہت سے اختلافات دور ہو کر باہمی رقابت و مخاصمت ختم ہوسکتی ہے.بدقسمتی یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی سے تعلق رکھنے والے حقائق ، ان کی آمد کے مقصد اور ان کی شخصیت یا ذات کو صحیح طور پر سمجھاری نہیں گیا اور ان کی زندگی کے جملہ پہلوؤں کو عجیب و غریب معنی پہنا دیئے گئے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس کتاب میں مسیح ناصری کی ذات اور ان سے متعلقہ مختلف افکار و نظریات ، واقعه صلیب، کفارہ اور گناہوں سے نجات ، تثلیث ، واقعہ صلیب کے بعد مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے مسیح علیہ السلام کے ابتدائی حواریوں اور بعد میں سینٹ پال کے ذریعہ قائم ہونے والی موجودہ مسیحیت کے درمیان اعتقادی فرق اور مسیح کی آمد ثانی وغیرہ امور سے متعلق تمام امور کا خالصہ منطقی نقطہ نظر سے جائزہ پیش کیا ہے.کیونکہ خود آپ کے الفاظ میں: دد منطقی نقطہ نظری ذہنی اور فکری لحاظ سے ایک ایسا پلیٹ فارم یا مقام اتصال کی حیثیت رکھتا ہے جو سب کے مابین مشترک ہے اور اسے تعمیری اور با مقصد تبادلۂ خیالات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے.بصورت دیگر محض اناجیل کے بیانات اور ان کی متعدد تشریحات کی بنا پر کئے جانے والا کوئی بھی تبادلہ خیال، مباحثہ اور تبادلہ کسی ایسی الجھن میں ڈالنے کا موجب بنے گا کہ اس گنجلک سے باہر نکلنا بہت مشکل ہو جائے گا....انسانی منطق اور استدلال کو ( جبکہ نئے سائنسی علوم کی معاونت بھی اسے حاصل ہو چکی ہے ) ایک ایسی منطق اور ایک ایسے استدلال کی حیثیت حاصل ہے جس کا نہ کوئی عقیدہ ہے اور نہ کسی مذہبی ملک کا ہی وہ پابند ہے اور نہ ہی کسی مخصوص رنگ ونسل کی آمیزش کا دخل اس میں ممکن ہے.اسی لیے جملہ اقوام اور مذاہب کے مابین اسے ایک مشترکہ قدر کی حیثیت حاصل ہے.لہذا ایک ایسے متفقہ نظریہ تک پہنچنے کے لیے جو سب کے نزدیک قابل قبول ہو صرف اور صرف منطقی استدلال ہی واحد بنیاد کا کام دے سکتا ہے.“
334 اس کتاب کی غرض و غایت اور خالصہ منطقی نقطہ نظر سے اس تجزیہ کی ضرورت و اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ : دم کثر دیکھنے میں آتا ہے کہ مرورِ زمانہ سے حقیقت بگڑ کر افسانوں اور قصے کہانیوں کا رنگ اختیار کر لیتی ہے.ایسے قصے اور افسانے انسان کو زندگی کے اصل مقصد سے دور لے جانے کا موجب بن جایا کرتے ہیں.اس کے نتیجہ میں مذہب یکسر ایسے خیالی اور تصوراتی روپ میں ڈھل جاتا ہے جس کا اصل حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا.برخلاف اس کے حقیقی اور اصلی مذہب کی جڑیں تاریخی حقائق اور سچائیوں میں پیوست ہوتی ہیں اس لئے اصلی اور حقیقی مذہب انسانی معاشرے میں نمایاں تبدیلیاں لانے کی اہلیت اپنے اندر رکھتا ہے.اس لحاظ سے مسیح کے اہل مذہب اور اس کی تعلیم کو جاننے اور سمجھنے کے لیے حقیقت کو کہانیوں سے، اور سچائی کو افسانوی قصوں سے جدا اور پاک کرنا ضروری ہے.میری اس کوشش اور کاوش کا اصل مقصد بھی تلاش کر کے حق تک پہنچنا ہے.“ کتاب کے آخر پر آپ نے مسیح کی آمد ثانی کے مضمون کو بھی بیان فرمایا ہے اور اس پیشگوئی کے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں ظہور پر روشنی ڈالی ہے.اس نہایت فاضلانہ کتاب کے انگریزی کے علاوہ عربی، فریج، انڈونیشین، سواحیلی، نارو یکین، سپینش اور اردو میں تراجم طبع ہو چکے ہیں.یوں یہ کتاب 8 رزبانوں میں دستیاب ہے.کلام ظاہر حضرت خلیفہ اصبح الرابع رحم اللہ کے منظوم کلام کا متن مجموع حضو رحمہ اللہ کی اجازت سے حضور کی زندگی میں اور حضور کی نظر ثانی کے بعد پہلی بار لجنہ اماءاللہ کراچی نے عمدہ کتابت اور دیدہ زیب طباعت کے ساتھ شائع کرنے کی سعادت حاصل کی.اس کے آخر پر ایک Glossary بھی دی گئی ہے جس میں مشکل الفاظ کا تلفظ اور معانی بھی درج کئے گئے ہیں.
335 Universal and Moral Values, Politics and World Peace ی مختصر رسالہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے اس خطاب کے بعض حصوں کے انگریزی ترجمہ پر مشتمل ہے جو آپ نے 29 جون 1997ء کو جماعت احمدیہ کینیڈا کے جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس میں فرمایا.اس میں حضور رحمہ اللہ نے سودی نظام پر مبنی معاشرہ کی خرابیوں اور اخلاقی انحطاط کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ چیزیں کس طرح دنیا کے امن کو برباد کرنے والی ہیں.آپ نے تمام بنی نوع انسان کو اخلاقی اقدار کی طرف متوجہ کرتے ہوئے دنیا میں قیام امن کے لیے تمام مذاہب میں مشترک تعلیم یعنی توحید کے قیام کو لازمی قرار دیا.ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل.جدید ایڈیشن مشتمل جلد اول و دوم ( ترمیم و اضافوں کے ساتھ ) مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ انٹرنیشنل پر نشر کئے گئے حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ کے لیکچر کا مجموعہ جیسا کہ اس عنوان سے ظاہر ہے اس کتاب کی بنیاد حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کے ان ٹیچرز پر ہے جو آپ نے مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ (MTA) انٹرنیشنل پر دیئے.ان کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اس ستے اور نہایت لطیف طریق علاج کو عام کیا جائے اور لوگ مہنگے ایلو پیتھک علاج کی بجائے ہومیو پیتھی کا علم حاصل کر کے اپنی روز مرہ کی تکالیف میں اس سے استفادہ کر سکیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان لیکچرز کے نتیجہ میں دنیا بھر میں ہومیو پیتھی کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی اور حضور رحمہ اللہ کی رہنمائی کے نتیجہ میں مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ کے زیر انتظام کثرت سے فری ہومیوڈسپنسریاں بھی وجود میں آئیں اور بلا مبالغہ لاکھوں افراد ان سے م سے مستفیض ہوئے اور یہ سلسلہ خلافت احمدیہ کی سر پرستی میں مسلسل وسعت پذیر ہے.
336 ہومیو پیتھی طریقہ علاج کے تعارف اور بعض اہم ادویہ کے خواص اور طریق استعمال اور روز مرہ کام آنے والے بہت سے نسخے اور تجارب اس کتاب میں بیان ہیں اور لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.اس کا پہلا ایڈیشن 1996 ء میں شائع ہوا.بعد ازاں نظر ثانی اور متعدد اضافوں کے ساتھ 1998ء میں یہ کتاب شائع ہوئی.اس کتاب کا انگریزی اور عربی میں ترجمہ بھی طبع ہو چکا ہے.بچوں کے لئے کتب حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے پاکستان سے ہجرت کے بعد شدت سے محسوس کیا کہ مغربی ممالک میں رہنے والے بچوں کے لیے اور نو احمدیوں کے لئے خصوصیت سے دینی، اسلامی تعلیمی و تربیتی لٹریچر کی ضرورت ہے.چنانچہ آپ نے ایک چلڈرن بک کمیٹی تشکیل فرمائی اور ذاتی طور پر اپنی زیر نگرانی و ہدایات بچوں کے لئے کتب تیار کروائیں.ذیل میں ایسی کتب کی فہرست دی جارہی ہے جو اس کمیٹی نے تیار کیں اور طبع ہوئیں.اس کے ساتھ ہی ان زبانوں کی فہرست بھی ہدیہ قارئین کی جاتی ہے جن میں ترجمہ ہو کر یہ کتب شائع ہو چکی ہیں.ان کتب اور ان کے تراجم کی فہرست کے مطالعہ سے ہی اس کام کی وسعت کا اندازہ ہو سکتا ہے.پاکستان اور ہندوستان میں اردو زبان میں جماعت اور ذیلی تنظیموں کی طرف سے بچوں کے لئے شائع ہونے والی بیسیوں کتب اس کے علاوہ ہیں جو عہد خلافت رابعہ میں کثیر تعداد میں شائع ہوئیں.Title A Book of Religious Knowledge 2 ABC for Muslim Children Language English, Kiswahili English, Danish, Bulgarian, Spanish, Kiswahili, Lithuanian
337 3 Ahmad and Sarah 4 Ahmad And Sarah go to Mosque 5 Holy Prophet's Kindness to Children English, Bulgarian, Portugese, Albanian, French, Danish, Spanish, Maltese, Bosnian English, Bulgarian, Russian, Uzbek, Albanian, Bosnian, Maltese, Bosnian English, Danish, Spanish, Russian, Bulgarian, French, Bosnian, Maltese, Bosnian, Kiswahili 6 Golden Deeds of Muslims English q Hadhrat Umar Farooq Englsih, Bosnian 8 00 Hadhrat Nuh English, Bosnian 9 Hadhrat Sayyedah Khadijah English, Bosnian 10 Islamic Teachings for Ahmadi English, German Muslim Children 11 The Words of Wisdom and English, Kiswahili Purification 12 Stories from Early Islam English, Arabic, Spanish, Bulgarian, Russian, Bosnian 13 Mosque, It's importance in the English, Bosnian 14 life of a Muslim Muslim Festivals and English, Maltese Ceremonies 15 My Book about God English, Khemer, French, Norvegian 16 The True Story of Jesus 17 Bilal English, French, Kiswahili English, Bosnian الغرض نہ صرف بیرون پاکستان بلکہ پاکستان میں بھی نامساعد حالات اور ناروا پابندیوں اور جماعتی پریس کی بار ہا بندش جیسی مشکلات کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے اصحاب الکہف والرقیم کی مصداق اس جماعت نے کثرت سے نہ صرف نئی کتب، پمفلٹ، فولڈرز اور دیگر ٹریچر وغیرہ تیار کر کے
338 شائع کئے بلکہ بہت سی پہلے سے طبع شدہ کتب کو بھی بہتر اور عمدہ کمپوزنگ کے ساتھ شائع کیا.یہ کتب جماعتی نظام کے تحت مرکزی شعبہ جات نے بھی شائع کیں اور ذیلی تنظیموں نے بھی خوب اس نیک کام میں حصہ لیا.اور سینکڑوں مختلف موضوعات پر ہزار ہا کی تعداد میں لٹریچر شائع کیا گیا جس کی تفصیلات کا طہ اس جگہ ممکن نہیں.ملمينيم الشریر سیکیم جماعت احمد یہ سوئٹزرلینڈ کی طرف سے برطانیہ کے جلسہ سالانہ 1999ء کے موقع پر منعقد ہونے والی انٹرنیشنل مجلس شوری میں یہ تجویز پیش ہوئی کہ تمام دنیا خصوصا عیسائی دنیا سن 2000ء کو لینیم سال کے طور پر منارہی ہے.جماعت احمدیہ بھی اس مناسبت سے ملینیم کے آغاز یعنی 2001ء کے لئے کوئی خصوصی پروگرام بنائے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس پر فرمایا کہ جماعت کے پروگرام تو ایک جاری وساری سلسلہ ہے.مختلف زبانوں میں لٹریچر کی تیاری اور تراجم کے کام کو تیز کیا جائے اور جماعت کے لئے مناسب ہے کہ وہ نے ملینیم کے پہلے سال یعنی 2001ء میں کثرت سے لٹریچر کی اشاعت کے ذریعہ دنیا کی کم سے کم 1/10 آبادی تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچائے.اس سلسلہ میں حضور نے تفصیل سے ہدایات ارشاد فرمائیں کہ کس نہج پر کام کیا جائے.چنانچہ اس سال کثیر تعداد میں لٹریچر کی طباعت اور تقسیم کے علاوہ دنیا کی 1/10 آبادی تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے دیگر ذرائع مثل ملکی اخبارات ورسائل میں اعلانات، اشتہارات اور مضامین کی اشاعت، ریڈیو، ٹی وی پروگرام اور پبلک جلسوں میں تقاریر، بک فیئرز، بک سٹالز اور مختلف میلوں اور نمائش گاہوں اور لائبریریوں وغیرہ میں جماعتی لٹریچر کی نمائش کو بھی اس پروگرام کا حصہ بنایا گیا.جماعتوں نے مقامی زبانوں میں جماعت کے تعارف پر مشتمل فولڈر کی تیاری و تراجم اور ان کی طباعت کا اہتمام کیا.اور اس کی مؤثر اور بھر پور تقسیم کے تفصیلی پلان بنائے.چنانچہ صرف اس ایک سال میں دنیا بھر میں 63 رزبانوں میں ایک کروڑ 83لاکھ 91 ہزار 194 کی تعداد میں لٹریچر طبع ہوا.اس سے قبل جماعت کی 111 رسالہ تاریخ میں اتنی قلیل مدت میں کبھی اتنی
339 زیادہ زبانوں میں اور اتنی بڑی تعداد میں جماعتی لٹریچر شائع نہیں ہوا.اس کے علاوہ دنیا بھر میں 322 راخبارات میں 892 آرٹیکلز شائع ہوئے.اسی طرح صرف اس ایک سال کے اندر 4176 / بک سٹالز، بک فیئرز اور نمائشوں کے ذریعہ سوا کروڑ سے زائد افراد تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا.دنیا بھر میں شائع ہونے والے جماعتی اخبارات و رسائل اشاعت کتب ولٹریچر کے ضمن میں دنیا بھر میں مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے جماعتی اخبارات و رسائل کا ذکر بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے.ان اخبارات و رسائل کے ذریعہ بھی اسلام احمدیت کا پیغام بڑی کثرت سے پھیلتا ہے.اور ان میں شائع ہونے والے تعلیمی وتربیتی وتبلیغی نوعیت کے مضامین اپنی افادیت کے لحاظ سے غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں.خلافت رابعہ کے آغاز پر جون 1982 ء تک ایسے جماعتی اخبارات و رسائل دنیا کے 20 ممالک میں شائع ہورہے تھے اور ان کی تعداد 26 تھی.حضور رحمہ اللہ کی ہجرت کے وقت اپریل 1984 ء تک 25 / ممالک میں شائع ہونے والے ان اخبارات ورسائل کی تعداد 46 ہو چکی تھی.اور خلافت رابعہ کے پہلے دس سال کا عرصہ پورا ہونے پر جولائی 1992 ء تک 38 ممالک میں جماعت کے 94, اخبارات و رسائل 17/ مختلف زبانوں میں شائع ہو رہے تھے.گویا ان سالوں میں 18 ممالک اور 68 / رسائل کا اضافہ ہوا.اور 1994ء میں یعنی ہجرت کے دس سال بعد یہ تعداد 39 رممالک میں 107 / اخبارات و رسائل تک پہنچ چکی تھی جو 17/ مختلف زبانوں میں شائع ہو رہے تھے.(گویا ہجرت کے دس سالوں میں 14 رممالک اور 61 / رسائل کا اضافہ ہوا).اس کے بعد بھی کئی ممالک میں نئے رسائل شائع ہوئے.ذیل میں مرکزی طور پر شائع ہونے والے عربی مجلہ اور الفضل انٹرنیشنل کا مختصر تعارف درج کیا جاتا ہے.
340 عربی مجلہ التقوى عرب دنیا میں اور عربی بولنے والوں میں تبلیغ اسلام و احمدیت کے کام کو وسیع اور تیز تر کرنے ،عرب احمدی احباب سے رابطہ رکھنے، ان کی تبلیغی، تربیتی اور علمی لٹریچر کی ضروریات کو پورا کرنے ، اسی طرح عربی زبان میں تراجم ، مزید لٹریچر کی تیاری ، اور عربی زبان میں ایک رسالہ کے اجراء کے لئے جنوری 1986ء میں حضرت خلیفتہ اصبح الرابع رحمہ اللہ نے لندن میں ایک مرکزی عربک ڈیسک قائم فرمایا.12 جنوری 1988ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے عربک ڈیسک کے تحت عربی ماہانہ رسالہ کا اجراء فرمایا اور اس کا نام ” التقوی عطا فرمایا.اس مجلہ کا پہلا شمارہ مئی 1988ء میں شائع ہوا.اب تک مجلہ التقومی کے اہم ترین شمارہ جات میں صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر شائع ہونے والا نمبر اور خلافت جوبلی 2008ء کے موقع پر شائع ہونے والا جوبلی نمبر ہے.جن میں جماعت کی صد سالہ تاریخ بڑے ٹھوس اور دلآویز مقالات اور خوبصورت تصاویر کے ساتھ ایک اچھوتے انداز میں محفوظ کر دی گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس رسالہ میں بہت برکت ڈالی.باجود مشکلات کے یہ رسالہ عرب دنیا میں اور عربی بولنے والے افراد تک پہنچا.بہتوں کے شکوک و شبہات دور ہوئے اور کئی روحوں نے ہدایت پائی.یہ رسالہ جماعت کی مرکزی ویب سائٹ پر موجود ہے اور بڑی کثرت کے ساتھ لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں.ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل پاکستان سے اردو زبان میں جماعت کا مرکزی اخبار روز نامہ الفضل، شائع ہوتا تھا لیکن 126اپریل 1984ء کو جنرل ضیاء کے اینٹی احمد یہ آرڈیننس 20 کے نفاذ کے بعد جہاں جماعت احمد یہ پاکستان پر مظالم اور ناروا سختیوں کا ایک دور شروع ہوا وہاں جماعت کے مرکزی اخبار روزنامہ الفضل ربوہ اور دیگر جماعتی رسائل کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.جنرل ضیاء کے آمرانہ دور میں خصوصیت کے ساتھ الفضل کی آواز کو دبانے اور اس کی آزادی پر قدغن لگانے کی ہر مذموم سعی کی گئی حتی کہ ایک لمبا دور ایسا
341 بھی آیا جبکہ یہ اخبار مسلسل بند رہا.روز نامہ الفضل اور دیگر جماعتی جرائد کے ایڈیٹرز، ان کے مضمون نگاروں، پبلشرز اور پریس کے خلاف متعدد مقدمات بنائے گئے اور قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا گیا.ان حالات میں حضرت متعدد خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے لندن سے ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل کے اجراء کی غرض سے 7 مارچ 1993ء کو الفضل انٹرنیشنل کمیٹی قائم فرمائی اور اسے مفصل ہدایات سے نوازا.اس کمیٹی کا پہلا اجلاس 9 مارچ 1993ء کو محمود ہال مسجد فضل لندن میں ہوا.حضور رحمہ اللہ کی منظوری سے اخبار کا نمونہ کا ایک شمارہ جولائی 1993ء میں جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر شائع ہوا.اس شمارہ کے لئے حضور رحمہ اللہ نے 22 جولائی 1993ء کو خصوصی پیغام عطا فرمایا جو 30 جولائی 1993ء کو شائع ہونے والے نمونہ کے شمارہ میں صفحہ اول پر شائع ہوا.اس پیغام میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: اخبار الفضل سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے بابرکت دور خلافت میں حضرت مصلح موعودؓ کے ذریعہ 18 جون 1913ء کو جاری ہوا.اس وقت آپ منصب خلافت پر مامور نہیں ہوئے تھے اور صاحبزادہ مرزا محمود احمد کے نام سے جانے جاتے تھے.آج الفضل کا پرچہ جس کا آغا ز سادگی سے غالباً چند سو پر چوں سے ہوا تھا نئی آب و تاب اور شان کے ساتھ نئے عالمی دور میں داخل ہو رہا ہے اور لندن سے اس کے انٹرنیشنل ایڈیشن کی اشاعت کا آغاز ہورہا ہے....اخبار الفضل خدا تعالی کے فضل کے ساتھ تقسیم ہندو پاک سے پہلے برصغیر میں بلا روک ٹوک مکمل آزادی کے ساتھ جماعت کی علمی ، روحانی اور مذہبی خدمات سر انجام دیتا رہا اور اس اخبار نے جماعت کے ایک بڑے حصہ کو دنیا کے روز مرہ کے اخباروں سے بھی ایک حد تک مستغنی رکھا کیونکہ عالمی اور ملکی خبریں نہایت عمدہ اور دلچسپ انداز میں اختصار کے ساتھ اس اخبار میں شائع ہوتی رہیں.لیکن تقسیم ہندو پاکستان کے بعد جب پاکستان میں
342 ملائیت نے سر اٹھانا شروع کیا تو افضل پر کئی ابتلاء کے دور آئے اور کئی قسم کی پابندیاں لگنی شروع ہوئیں یہاں تک کہ جنرل ضیاء صاحب کے آمرانہ دور میں توحتی المقدور افضل کی آواز کو دبانے اور الفضل کی آزادی پر قدغن لگانے کی ہر مذموم سعی کی گئی حتی کہ ایک لمبا تکلیف دہ دور ایسا بھی آیا جب یہ اخبار مسلسل بند رہا.اور پاکستانی جماعت خصوصیت کے ساتھ مرکزی خبروں کے اس اہم رشتے سے کٹ جانے سے بے چین اور بے قرار رہی.تربیتی لحاظ سے بھی خصوصاً چھوٹی جماعتوں میں اس کا منفی اثر ظاہر ہونا شروع ہوا لیکن جماعت احمدیہ نے بالآخر قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ الفضل کے اجراء کا حق بحال کرالیا.اللہ تعالیٰ اس وقت کی عدلیہ کو جزائے خیر دے جنہوں نے جماعت احمدیہ کے معاملہ میں انصاف کا جھنڈا بلند کرنے کی جرات دکھائی.اس از سر نو اجراء کے باوجود وہ مستقل پابندیاں جو ضیاء الحق کے آمرانہ آرڈنینس کے ذریعہ جماعت پر قائم کی گئیں ان پابندیوں سے افضل اور جماعت کے دیگر جرائد و رسائل کو جو مستقل زخم لگائے گئے تھے وہ اسی طرح ہرے رہے اور رستے رہے.چنانچہ آج بھی آپ جگہ جگہ الفضل کی عبارتوں اور جملوں میں جو خلا د یکھتے ہیں یا بریکٹوں میں بعض غائب عبارتوں کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے یہ سب انہی زخموں کے رستے ہوئے ناسور ہیں.جماعت احمد یہ عالمگیر اپنے بہت ہی محبوب روز نامہ کے ساتھ یہ بدسلوکی ہوتے دیکھ کر ہمیشہ کرب محسوس کرتی رہی اور یہ خیال بار بار ا بھرتا رہا کہ کیوں نہ الفضل کا ایک عالمگیر متبادل جاری کیا جائے.اس خیال کو اس وجہ سے بھی مزید تقویت پہنچی کہ محض الفضل کی آزادی تحریر پر ہی پابندی نہیں تھی بلکہ اشاعت کی راہ میں ازراہ شرارت بار بار روکیں ڈالی جاتی رہیں.چنانچہ جس طرح بے باک حق گو ہفتہ وار لا ہور کے ساتھ مستقلاًیہ سلوک جاری رہا کہ نامعلوم بے چہرہ اداروں کی طرف سے ڈاک خانوں سے بنڈل کے بنڈل غائب کر دئیے جاتے تھے اور اب بھی کم و بیش یہ سلسلہ جاری ہے ویسا ہی کچھ معاملہ الفضل
343 سے بھی گاہے بگاہے ہو تا رہا جس کی وجہ سے اچانک اخبار کی ترسیل میں خلا پیدا ہونا عالمگیر قارئین کے لئے مزید اذیت کا موجب بنتا رہا.یہ وہ پس منظر ہے جس نے بالآخر الفضل کی عالمگیر اشاعت کی ضرورت اور خواہش کو حقیقت کا روپ عطا کر دیا....الفضل انٹرنیشنل بلا تاخہ ہفتہ وار جاری کرنے میں ابھی کچھ اور وقت لگے گا لیکن اس کا ایک نمونہ پہلے پرچہ کے طور پر احباب کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے.“ پیغام کے آخر میں حضور رحمہ اللہ نے دعا کی کہ : خدا کرے یہ اخبار نہ صرف جاری رہے بلکہ بیش از پیش ترقی کرتا ہوا ہفتہ وار کی بجائے روز نامہ میں تبدیل ہو جائے لیکن ابھی اس سفر میں بہت اہم مراحل اور بھی طے کرنے ہوں گے.جماعت احمدیہ عالمگیر کو الفضل کا یہ نیا دور مبارک ہو" الفضل انٹرنیشنل کے پہلے مدیر اعلی مکرم چوہدری رشید احمد صاحب نمونہ کے اس شمارہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں: اس شمارہ کے شائع ہونے کے بعد ہمارا خیال تھا کہ ہم چند ہفتوں کے بعد ہی اس قابل ہو جائیں گے کہ افضل انٹرنیشنل کا با قاعدہ اجراء ہو سکے.اس سلسلہ میں تمام ممکن تدابیر اختیار کی جارہی تھیں مگر باوجود کوشش کے بعض معاملات طول پکڑتے گئے اور وقت سرعت کے ساتھ نکلتا گیا.حتی کہ دسمبر کا مہینہ آ گیا اور حضور انور نے تمام انتظامات کا جائزہ لے کر فرمایا کہ جنوری 1994 ء سے اس کی باقاعدہ اشاعت کا انتظام کریں.اسی دوران ایک روح پرور واقعہ پیش آیا جس کا...بیان ضروری ہے.وہ یہ کہ 30 جولائی 1993ء کے پرچہ کی اشاعت کے بعد جہاں مختلف ممالک سے احباب کرام کے تہنیت کے پیغامات موصول ہوئے وہاں کینیڈا سے مکرم مولا نانسیم مہدی صاحب نے حضور پرنور کی خدمت میں ایک فیکس 25 اگست 1993ء کو روانہ کیا جس میں لکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود کے الہام ”دیکھو میرے دوستو! اخبار شائع ہو گیا‘ کے حروف ابجد
344 کے حساب سے کل تعداد 1993 بنتی ہے اور خوش قسمتی سے افضل انٹر نیشنل کے اجراء کا سال بھی 1993 ء ہے گویا اس الہام میں یہ خوشخبری ہے کہ سال 1993ء میں ایک اخبار شائع ہوگا جو غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگا.یہ فیکس جب حضور انور کی خدمت میں پیش ہوئی تو اس کے حاشیہ پر حضور انور نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے لئے ہدایت لکھی کہ وہ اس بارہ میں زبانی ہدایت لیں.مولانا نصیر احمد قمر صاحب جو اس وقت پرائیویٹ سیکرٹری تھے فرماتے ہیں کہ حضور نے انہیں بلا کر یہ ہدایت بھی کی تھی کہ اس فیکس کے بارہ میں ایڈیٹر افضل یا افضل کمیٹی کے کسی ممبر سے بات نہ کریں.ان کو اپنے طور پر تیاری کرنے دیں.زبر دستی الہام کو چسپاں کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے.مولانا نصیر قمر صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس ارشاد کی تعمیل میں میں نے کسی سے اس فیکس کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی خط پر کسی قسم کا نوٹ لکھا.اس واقعہ کے چند روز بعد مولانا نصیر احمدقر صاحب رخصت پر پاکستان تشریف لے گئے اور یہ خط پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں پڑا رہا.اوائل دسمبر میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے الفضل کمیٹی کے ممبران کو بلایا اور ان کے کام کا تفصیلی جائزہ لیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہفتہ وار الفضل انٹرنیشنل کا باقاعدہ شمارہ 7 جنوری 1994ء کو شائع کیا جائے.مولانا نصیر احمد قمر صاحب کے جانے کے بعد مولانا منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہوئے.انہوں نے جب ڈاک میں یہ خط دیکھا کہ اس کا جواب نہیں بھیجوایا گیا تو دوبارہ حضور کی خدمت میں پیش کیا جس پر حضور نے مورخہ 10 دسمبر 1993ء کو مکرم مولانا نسیم مہدی صاحب کو ایک خط اس سلسلہ میں تحریر کیا جس میں لکھا کہ : " الفضل انٹرنیشنل کے اجراء پر آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ”دیکھو میرے دوستو! اخبار شائع ہو گیا “ کے اعداد 1993 بیان کر کے 1993ء میں اس کی اشاعت کے واقعہ کو غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے.دو 66
345 جزاکم اللہ غیر معمولی تو خدا کے فضل سے ہے ہی لیکن لفظ "شائع“ کے حرف " ( ہمزہ ) کا عدد 1 آپ نے چھوڑ دیا ہے.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں تھی.کیونکہ الفضل عملاً جنوری 1994 ء سے با قاعدہ شروع ہو رہا ہے اور “ کا ایک (1) عدد شامل کر کے یہ اعداد بالکل 1994 بن گئے ہیں جو کہ اخبار کے اجراء کا اصل سن ہے.ہم نے جان بوجھ کر آپ کے اس خط کو Release نہیں کیا تھا اور الفضل کی انتظامیہ کو بتایا تک نہیں تھا تا کہ وہ اس کے باقاعدہ اجراء کی تاریخیں اس کے مطابق set کرنے کی کوشش نہ کریں.لیکن اب جبکہ اس کے اجراء کی تاریخ طے ہو چکی ہے تو اول آپ کا یہ خط دوبارہ میرے سامنے پیش ہوا ہے.دوسرے وہ تاریخ میں 1994ء کا آغاز ہے جو کہ اس الہام کے اعداد کا حقیقی مجموعہ ہے.“ یوں خدا تعالیٰ نے سب کی نظروں سے اسے فیصلہ ہو جانے کے کئی روز بعد تک اوجھل رکھ کر یہ فعلی شہادت مہیا فرما دی کہ یہ فیصلہ اس کا تائید یافتہ اور اس الہام کی تکمیل کا مظہر ہے.فالحمد للہ علی ذلک الفضل انٹرنیشنل 6 فروری 2004 ، صفحہ 43) 7 جنوری 1994 ء سے ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل کی باقاعدہ ہفتہ وار اشاعت کا آغاز ہوا.اسی دن ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی روزانہ بارہ گھنٹے کی نشریات کا بھی آغا ز ہوا.
347 چینیوں میں تبلیغ اور چینی ڈیسک کا قیام حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنی خلافت کے ابتدا میں ہی چین میں تبلیغ کی طرف توجہ فرمائی.چینی زبان کے ماہر اور کے جید عالم مکرم محمد عثمان مچو صاحب کو چینی زبان میں لٹریچر کی تیاری اور چینیوں سے روابط کا فریضہ سونپا گیا.چنانچہ چینی زبان میں لٹریچر کی تیاری کا کام زور شور سے شروع ہوا اور چینیوں میں تبلیغ کا کام وسیع ہوا.1986ء میں انگلستان میں چینی ڈیسک کا قیام عمل میں آیا جس نے حضرت خلیفہ المسح الرابع کی زیر ہدایت اور نگرانی قرآن مجید اور دیگر اسلامی لٹریچر کے چینی زبان میں ترجمہ اور تیاری کا کام کیا.جماعت کی صد سالہ جوبلی کے سال 1989ء میں یہ ترجمہ قرآن مکمل ہو گیا.اسی طرح منتخب قرآنی.آیات، منتخب احادیث اور منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی شائع ہو گئیں.اس کے بعد لٹریچر کے ذریعہ تبلیغ کا پروگرام بنایا گیا.اور دنیا میں جہاں جہاں چینی آباد میں خصوصاً چین میں قرآن کریم کا چینی ترجمہ اور دیگر لٹریچر بھجوانا شروع کر دیا.جماعت احمدیہ کی طرف سے کئے جانے والے ترجمہ قرآن کریم کا چینیوں خصوصاً مسلمانوں پر بہت اچھا اثر پڑا.قرآن کریم کے چینی ترجمہ کی تعریف میں بے شمار خطوط موصول ہوئے اور لوگ لٹریچر کا مطالبہ کرنے لگے.اکثر لوگوں کی رائے میں یہ ترجمہ اور نوٹس چینی تراجم میں سب سے اعلیٰ ہے.لوگوں نے خریدنے کی خواہش بھی کی اور خود چھپوانے کی اجازت بھی مانگی.اور ایک شخص نے تو بغیر اجازت ہی شائع کر دیا.حضور نے آئندہ چینی زبان کے ماہرین تیار کرنے کے لئے بھی سکیم تیار فرمائی اور وقتاً فوقتاً واقفین زندگی کو زبان سیکھنے کے لئے چین بھیجوانا شروع کیا.اسی طرح یہ تحریک بھی فرمائی کہ دنیا کے احمدی اپنے واقف زندگی بچوں کو چینی زبان سکھانے کا انتظام کریں.جب MTA شروع ہوا تو حضور رحمہ اللہ نے اس میں چینی زبان سکھانے کا پروگرام بھی رکھا.اور MTA کے ذریعہ چینیوں کو تبلیغ کا پروگرام بنایا.ایک تو چینی زبان سکھانے کا پروگرام شروع کرایا اور
348 دوسرے چینی زبان کے لٹریچر سے ان کو متعارف کرانے کے لئے ایک پروگرام تیار ہوا جس میں مختلف چینی کتب پڑھ کر سنائی جاتیں.چینی لٹریچر کی آڈیو اور ویڈیو بھی تیار کی گئیں.انٹرنیٹ کے ذریعہ چینیوں تک پیغام پہنچانے کی غرض سے تیار شدہ لٹریچر کو ویب سائٹ پر ڈال دیا گیا.جتنا بھی چینی زبان کا لٹریچر تیار ہوا ہے اسے کثیر تعداد میں چین کے اندر طبع کر کے تقسیم کرنے کا جائزہ بھی لیا گیا.لیکن افسوس کہ اجازت نہ مل سکی.اگر چہ اپنے طور پر ایک چینی نے بغیر اجازت ہی ہمارا ترجمه قرآن شائع کر دیا گو اس کی طباعت کا معیار اچھا نہیں ہے.ایم ٹی اے کی اگر چہ وہاں نشریات نہیں دیکھی جاتیں لیکن انٹرنیٹ اور ای میل کے ذریعہ ہمارا لٹریچر وہاں پہنچنا شروع ہو گیا جس کا دائرہ بہت وسیع ہے.حضور رحمہ اللہ کی یہ بھی خواہش تھی کہ کسی وقت خود چین جا کر تبلیغ کو وسیع کرنے کے پروگرام کا جائزہ لیا جائے لیکن حالات نے اجازت نہ دی.مگر آپ رحمہ اللہ کی خواہش کسی حد تک اس طرح پوری ہوئی کہ حضور نے چینی قوم کے لئے ایک پیغام کتابچہ With Love to the Chinese" "brothers کی صورت میں تیار کروایا.حضور نے سنگا پور کو چینیوں میں تبلیغ کے لئے مرکز قرار دیا.اکثر چینی لٹریچر وہاں ہی تیار ہوا اور پھر وہاں سے ساری دنیا میں پھیلایا گیا.جماعت کے دوسرے مشنوں کو بھی یہیں سے یا یو کے سے لٹریچر بھجوایا جاتا رہا.71 ملائشیا اور انڈونیشیا دونوں ملکوں میں کثیر تعداد میں چینی آباد ہیں.وہاں کے کتب خانوں میں بھی چینی کتب رکھوائی گئیں.وہاں کے مسلمان چینی لٹریچر سے فائدہ اٹھاتے ہیں.ملائشیا میں ایک مرتبہ کنفیوشس ازم کے متعلق انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی تھی.اس میں سنگاپور کی چینی یونیورسٹی کے شعبہ چینی کے سربراہ نے کثیر تعداد میں ہمارا چینی ترجمہ قرآن تقسیم کیا.ہانگ کانگ اور مکاؤ میں بھی رابطے کئے گئے.لٹریچر تقسیم کیا گیا اور لائبریریوں اور دکانوں میں لٹریچر رکھوایا گیا.
349 خلافت رابعہ کے مبارک دور میں چینی زبان میں جن کتب کا ترجمہ اور طباعت ہو چکی تھی ان کی فہرست درج ذیل ہے.-1 قرآن کریم عربی متن مع چینی زبان میں ترجمہ و تشریحی نوٹس یہ قرآن کریم کے رواں چینی ترجمہ پر مشتمل ہے.ہر سورۃ کے شروع میں اس کا تعارف اور گزشتہ سورۃ سے تعلق بیان کیا گیا ہے.نیچے حاشیہ میں منتخب اہم آیات پر نوٹس دیے گئے ہیں جس میں حل لغات، آیات کی تشریح وغیرہ موجود ہے.اس طرح Cross Refrence کے لئے بھی آیات و سور کے نمبر درج ہیں جس سے قاری کو ایک مضمون کی آیات ڈھونڈنے میں بے حد آسانی ہو جاتی ہے.قرآن کریم کے آخر میں مضامین کے مطابق انڈیکس بھی تیار کیا گیا ہے.2 منتخب قرآنی آیات 20 مختلف عناوین کے تحت منتخب آیات مع چینی ترجمہ شائع کی گئی ہیں.خصوصاً اللہ تعالی، ملائکہ، قرآن کریم، انبیاء، جہاد اور پیشگوئیاں وغیرہ موضوعات پر آیات پیش کی گئی ہیں.3 - منتخب احادیث 193 / احادیث منتخب کر کے مختلف عناوین کے تحت ان کو چینی ترجمہ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.4 منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود اس میں 24 مختلف عناوین کے تحت حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے منتخبہ حصے مع چینی ترجمہ پیش کئے گئے ہیں.مثلاً اللہ تعالیٰ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود کا مشن، ملائکہ اور وحی، حیات بعد الموت کے مضامین کے متعلق حضور کی تحریرات درج کی گئی ہیں.5.اسلامی اصول کی فلاسفی حضرت مسیح موعود کے شہرہ آفاق لیکچر کا چینی ترجمہ ہے جو حضور نے جلسہ اعظم مذاہب منعقدہ 1896ء کے لئے تحریر فرمایا تھا.
350 6- سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب حضرت مسیح موعود کی تحریر کردہ کتاب کے چینی ترجمہ پر مشتمل ہے.اس میں حضور نے ایک عیسائی پروفیسر سراج الدین کے چار سوالوں کا جواب تحریر فرمایا.اور عیسائیوں کے عقیدہ کفارہ کا رڈ فرمایا نیز نجات کا حقیقی مفہوم بیان فرمایا.اسی طرح آنحضرت علی کی بعثت کی ضرورت اور قرآن کریم کی تعلیم کی برتری ثابت فرمائی ہے.Revelation- its nature and characteristic_7 اس مختصر کتابچہ میں وحی اور الہام کے متعلق حضرت مسیح موعود کی کتاب 'براہین احمدیہ سے اقتباسات منتخب کر کے پیش کئے گئے ہیں.Absolute Justice, kindness and kinship_8 یہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے ایک جلسہ سالانہ کے خطاب کا چینی ترجمہ ہے.With love to the Chinese brothers_9 یہ محبت اور بھائی چارے کا وہ پیغام ہے جو حضرت خلیفتہ ایج ن خلیفہ المسح الرائع نے اپنے چینی بھائیوں کو دیا.اور فرمایا کہ چین میرے آباؤ اجداد کا ملک ہے اور میں اس پیغام کے ذریعہ اپنے بھائیوں سے ذہنی اور روحانی رابطہ قائم کرنے کا خواہاں ہوں.اس کتاب میں جماعت احمد یہ اور بانی جماعت کا تعارف کروایا گیا ہے اور احمدی اور غیر احمدی نقطۂ نظر کا حسین موازنہ پیش کیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ احمد یہ جماعت ہی حقیقی اسلام پر قائم ہے.اس لئے سب کو اس جماعت کے متعلق سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس میں چینی قوم کے نام پیغام دیتے ہوئے فرمایا:.پیارے بھائیو اور بہنو! بسم الله الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمتہ الله و بركاته چین میرے آباء و اجداد کا ملک ہے.میرے آباء و اجداد منگولیا چین کے ایک حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے جد امجد حاجی برلاس سلطان تیمور کے چچا تھے اور
351 سولہویں صدی کی ابتدا میں حاجی بر لاس کی اولاد میں سے مرزا ہادی بیگ نے ہندوستان ہجرت کی اور صوبہ پنجاب میں دریائے بیاس کے پاس ایک جگہ رہائش اختیار کی اور اس جگہ کا نام م سلام پور رکھا.بعد ازاں انہیں قاضی کا عہدہ ملنے کے بعد اس جگہ کا نام اسلام پور قاضی تبدیل ہو گیا جسے بعد میں مقامی لوگوں نے صرف قاضی“ کے نام سے شہرت دی اور پھر یہ تلفظ بگڑتے بگڑتے ”قادیان“ بن گیا.میرے دادا مرزا غلام احمد صاحب، میرے والد مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور میں اسی جگہ پیدا ہوئے.بنی نوع انسان سے محبت کرنا اسلام کی بنیادی تعلیم ہے.اسی لئے مومن بنی نوع انسان سے پیار کرتے ہیں اور میں اسی محبت کی وجہ سے سالہا سال سے اس جدو جہد میں مصروف ہوں کہ دنیا کی ہر قوم تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے ان سے رابطہ کیا جائے ، یعنی وہی اسلام جس پر میں خود ایمان رکھتا ہوں اور اس پر عمل پیرا ہوں.میرے عزیز بھائیو اور بہنو! آپ جو ملک چین میں رہتے ہیں.بعض وجوہات کی بناء پر آپ تک ذاتی رابطہ کے ذریعہ میں ان مذہبی حقائق کو نہیں پہنچا سکا جو میرے علم میں تھے لیکن حدیث نبوی ہے حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيمَان یعنی وطن کے ساتھ محبت ایمان کا حصہ ہے، چنانچہ آپ کے لئے میرے دل میں جو محبت کے جذبات ہیں وہ مجھے ان فرائض کو نہ صرف فراموش نہیں ہونے دیتے بلکہ اس فرض کی ادائیگی میں دیر ہونے کی وجہ سے غم و فکر میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے یہ پیغام پہنچانے کا موقع میسر آگیا ہے.میرا دل مطمئن ہے اور اس کے لئے میں خدا تعالی کا شکر بجالاتا ہوں کہ اس نے مجھے یہ نہایت اہم موقع عطا فرمایا.دوسرے میں امید رکھتا ہوں کہ میرے آباء واجداد کے ملک سے تعلق رکھنے والے میرے بہن بھائی میرے جذبات محبت کو نظر انداز نہیں کریں گے بلکہ خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول اور اس کی محبت کو پانے کی خاطر ، تا وہ دونوں جہانوں کی ترقیات اور برکات سے حصہ پاویں، میرے اس پیغام کو سنجیدگی اور غیر جانبداری اور تحقیقی نگاہ سے دیکھیں گے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو غور و فکر کے ساتھ ان باتوں پر توجہ دینے اور صراط مستقیم پر
352 چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.“ 10.اسلام اور دیگر مذاہب یه کرم محمد عثمان چو چنگ شی صاحب کی تصنیف ہے جس میں مختلف مذاہب کا موازنہ پیش کیا گیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو بنی نوع انسان کی ہر زمانہ کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے.قرآن کریم ہی خدائے واحد کا کلام ہے.آنحضرت علیم ہی وہ نبی ہیں جو ساری دنیا کے لئے مبعوث ہوئے.قرآن کریم اور اسلام کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے.آپ کی صداقت کے دلائل بھی اس کتاب میں بڑے عمدہ طریق سے پیش کئے گئے ہیں.Positive and Negative Reviews of our Chinese_11 translation and commentary of The Holy Quran including the views of the editor.اس کتاب میں قرآن کریم کے چینی ترجمہ کے متعلق چینی علماء ، صحافیوں، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تبصرے درج ہیں.اسی طرح بعض منفی تبصروں کے رڈ میں دلائل دیئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کا چینی ترجمہ قرآن مجید اور تفسیر ہی مستند اور صحیح ہے.The Essence of Islam - 12 حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے لیکچر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو مد نظر رکھ کر یہ کتاب چینی زبان میں تیار کی گئی ہے.اس میں مذہب کی چار اغراض کا ذکر ہے.یعنی اسلام میں خدا کا تصور، اخلاق، اسلام کے معاشرتی پہلو اور حیاۃ بعد الموت وغیرہ.آخر میں ان چینی مکاتب فکر کا ذکر کیا گیا ہے جن کی تعلیم اسلامی تعلیم سے قریب ہے.علاوہ ازیں درج ذیل فولڈ رز چینی زبان میں طبع ہوئے: What is Islam - 1 Brief introduction of Islam_2 Ahmad ---The Promised Messiah_3 Was Jesus God or Son of God_4 Jesus in the Holy Quran_5
353 Deliverance of Jesus Christ from the cross_6 Why I believe in Islam _7 حضور رحمہ اللہ کے عہد سعادت میں چینی زبان میں لٹریچر پر جو کام ہوا اس کا اندازہ ذیل کی فہرست سے بھی ہو سکتا ہے.ان سب کتب کے تراجم چینی زبان میں ہو چکے تھے.ان پر نظر ثانی وغیرہ کا کام ہورہا تھا.Murder in the name of Allah_1 Islam's responce to contemporary issues_2 Jesus in India_3 An Elementary study of Islam_4 Muslim prayer book _5 Ahmad-the Promsed Messiah_6 Promised Messiah has come_7 Institution of Khilafat_8 Consumption of pork_9 Five volume commentary of the Holy Quran-10 اس میں سے دو جلدوں کا ترجمہ ہو چکا ہے.) Some Distinctive Features of Islam_11 Revival of Religion_12 چینی زبان میں حسب ذیل لٹریچر جماعت کی آفیشل ویب سائٹ www.alislam.org پر ڈال دیا گیا ہے.The Holy Quran (Surah Al-Fatihah and Al-Baqarah with commentary)_1 Slected Ahadith_2 The Philosophy of the teachings of Islam_3 Essence of Islam_4 Revelation-its nature and characteristics_5 Catalogue of Chinese books_6 Six folders_7 Four questions of Sirajuddin, a christian answered._8 چینی زبان کا وہ مواد جو MTA کے لئے مکرم محمد عثمان چو صاحب کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا.اس
354 کی تفصیل حسب ذیل ہے.(1) قرآن کریم مکمل چینی ترجمہ.آڈیو (2) قرآن کریم متن اور چینی ترجمہ کی تصویر کے ساتھ ( سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ کا کچھ حصہ ) (3) قرآن کریم عربی مع چینی ترجمہ قاری کی تصویر کے ساتھ ( سورۃ النساء جاری تھی) (4) منتخب قرآنی آیات (5) منتخب احادیث (6) اسلامی اصول کی فلاسفی (از حضرت اقدس مسیح موعود ) (7) سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ( از حضرت اقدس مسیح موعود ) (8) وحی کی حقیقت.( حضرت مسیح موعود کی کتاب سے اقتباس) (9) عدل.احسان اور ایتاء ذی القربی ( از حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ ) (10) میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں.With love to Chinese brothers(11) Essence of Islam(12) Positive and negetive reviews of our translation of(13) the Holy Quran and views of the editor.چینی کلاس MTA اس کی نصف نصف گھنٹہ کی کل 351 کلاسیں ریکارڈ ہوئیں.ان میں سے 250 براڈ کاسٹ ہو چکی تھیں.چینی ترجمہ قرآن کریم و چینی لٹریچر کی مقبولیت اور غیروں کی آراء اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ہمارے چینی ترجمہ قرآن کریم و دیگر لٹریچر کا سعید فطرت لوگوں پر غیر معمولی نیک اثر پیدا ہوا اور اندر ہی اندر دلوں میں پاک تبدیلیاں ہو رہی ہیں.کئی ایک افراد و اداروں کی طرف سے ہمارے ترجمہ قرآن کریم ولٹریچر سے متعلق بہت حوصلہ افز اخطوط و تبصرے موصول
355 ہوئے.ذیل میں نمونیہ چند خطوط کے اقتباسات پیش ہیں.قرآن کریم کے بارہ میں چین سے ایک مسلمان جناب صالح وانگ ( چینی زبان کے ایک ریٹائرڈ استاد ) لکھتے ہیں : پیارے قابل احترام دوست چوچنگ شی چینی اخبار سے یہ علم ہوا تھا کہ ایک سمندر پار چینی کی تئیس سالہ محنت سے چار برس میں ترجمہ قرآن پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے نیز یہ بھی علم ہوا کہ ترجمہ بہت عام نہم ، رواں اور سنجیدہ یہ ہے اور ایک اعلی ترجمہ ہے.نیز علمی لحاظ سے اس پانیہ کی علمی کتاب بہت کم پائی جاتی ہے.چنانچہ مجھے شدید خواہش تھی کہ میں اسے پڑھ سکوں لیکن یہ سمندر پار شائع ہوا تھا، اپنے ملک میں دستیاب نہیں تھا اور نہ ہی خریدا جا سکتا تھا.خدا کا شکر ہے کہ میں نے کچھ ہی عرصہ قبل Suzhou کی ایک مسجد میں ایک بزرگ Ba Shang Xiang کے پاس یہ ترجمہ پایا اور اسی وقت ان سے عاریہ لے کر مطالعہ شروع کیا اور اس پر غور وفکر کیا.میرے پاس امام و انگ کا ترجمہ و تفسیر بھی ہے اور پروفیسر ما جنگ کا ترجمہ قرآن بھی.شمس الدین کا ترجمہ و تفسیر بھی اور پروفیسر سونگ لن کا منظوم ترجمہ بھی.یہ سب تراجم خوبیوں کے حامل ہیں.لیکن آپ کے ترجمہ کی منفرد اور زائد خصوصیت ہر سورت کا تعارف اور فٹ نوٹس کی موجودگی ہے.تعارف میں آپ نے سورۃ کی وجہ تسمیہ، جائے نزول، وقت نزول، سیاق وسباق کے حوالہ سے تعارف اور بیان ہونے والے مضمون کا خلاصہ بیان کیا ہے.اس طرح فٹ نوٹس میں مواد وافر، سیر حاصل اور عمیق ہے.نیز عربی الفاظ کا ترجمہ اور تشریح بھی ہے اور اسی طرح بعض فقرات کی تشریح بھی.نیز آیات کی وجہ نزول اور تاریخی شخصیات کا تعارف بھی شامل ہے.اسی طرح عیسائیت اور یہودیت کو سامنے رکھ کر موازنہ مذاہب بھی کیا گیا ہے.چنانچہ تفسیر ٹھوس، جامع اور عملی زندگی سے گہرا ربط رکھتی ہے.مثلاً سورہ لہب کی تشریح میں یورپ کے دو گروہوں کا ذکر قاری کے لئے ایک گہرا انکشاف ہے اور بہت حوصلہ افزا بھی.آپ کے
356 ترجمہ کی ترتیب اعلیٰ ہے.نیز Cross Reference بھی دیئے گئے ہیں اور مختلف مضامین پر مشتمل انڈیکس بھی موجود ہے.بلاشبہ یہ ترتیب ایک مکمل ترتیب ہے جس سے قارئین کو بہت سی سہولیات اور فوائد ملتے ہیں اور جس کے پاس بھی آنکھ ہو وہ اسے دیکھ سکتا ہے.“ ایک دینی ادارہ کے مسلمان طالب علم مالن چئے، نے مکرم محمد عثمان نچو صاحب کو ایک خط میں تحریر مجھے تو یہ خیال بھی نہ تھا کہ بہت سی ایسی قیمتی کتب کا تحفہ آپ مجھے ارسال کریں گے جس کی اپنے قلب و ذہن کو سیراب کرنے کے لئے شب و روز مجھے تلاش تھی.چنانچہ جب مجھے یہ ملا تو میں ایک اچانک خوشی سے سرشار ہو کر الحمد للہ کہنے لگا، اور مجھے احساس ہوا گویا صحرانوردی میں کوئی لالہ زار مل جائے یا کسی پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کے لئے نوکیلے پتھروں میں سے کوئی صاف راستہ مل جائے ، پس میرا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا.ہر ایک دل جو اخلاص سے خالی ہو وہ سچائی کو قبول نہیں کر سکتا اور ہر وہ آنکھ جس میں وسعت نظر نہ ہو وہ پس پردہ صداقت سے نا آشنا رہتی ہے.آخر سچائی کی روشنی نے میرے دماغ کا در وا کر دیا ہے اور اب مجھے تن تنہا یخ بستہ موسم میں کھڑے ہوتے ہوئے بھی خوشگوار گرمی کا احساس ہونے لگا ہے.آپ کے لٹریچر سے مجھے صداقت کی وہ معرفت حاصل ہوتی ہے جس سے میرا باطن احساس کمتری اور گمراہی کی پریشانی سے پاک ہو رہا ہے گویا مجھے ایک، ایسا سورج مل گیا ہے جس کے نور نے مجھے یہ فراست عطا کی ہے جس سے مجھے اپنے مقصد حیات یعنی صراط مستقیم سے بھٹکانے والے بتوں کا علم ہو جائے گا.اب میں تنہا نہیں ہوں بلکہ آپ میرے بزرگ ہیں، دوست اور شناسا ہیں، بھائی ہیں جو مشکل مراحل پر میری راہنمائی کریں گے.جو کتاب آپ نے مجھے ارسال کی ہے یہ وہ نور صداقت ہے جو چین میں
357 نور افشانی کرے گا اور اس ضیا پاشی کو اب کوئی روک نہیں سکے گا اور یہ ایک ایسا مصفا چشمہ ہے جو چینی عوام کے قلوب کو سیراب کرے گا اور ہر ایک ایسی روح کو جو خشک ہو کر مرجھا چکی ہوگی، دوبارہ تروتازہ کر دے گا.امر واقعہ یہی ہے کہ آج کا نوجوان جس روحانی تشنگی اور بھوک کا شکار ہے وہ اب نا قابل برداشت ہو چکی ہے اور جب بیابان میں سفر کرتے ہوئے اچانک مصفا پانی مل جائے تو اس دم حاصل ہونے والی مسرت کا اظہار بھی مشکل ہوتا ہے.میرے والد نے مجھے خط میں یوں لکھا ہے میں اس وقت پریشان ہوں تم میری طرف سے میرے محترم روحانی بھائی عثمان کو سلام پہنچا دو.ان کا لٹریچر بادل کی اس گرج کی مانند ہے جس نے سارے چین کولرزہ بر اندام کر دیا ہے اور یہ قلوب کے لئے ایک ایسی تیز ہوا کی طرح ہے جو پانی میں لہریں پیدا کر دیتی ہے.آپ کا قرآن کریم سے متعلق جو وسیع علم ہے اور پھر اس کے بیان میں جو سلاست ہے وہ آج کے دور میں مفقود نظر آتی ہے.اس لئے دراصل آپ نے ہمیں محض کتابیں ہی ارسال نہیں کی ہیں...اس پر ہم پدر و پسر کس طرح اپنے رب کا شکر یہ ادا کریں اور کس طرح آپ کے بھی مشکور ہوں.خدا کی تقدیر نہایت عجیب ہے، گو ہمارے درمیان فاصلہ طویل ہے لیکن ہمارے دل بہت قریب ہیں محض اس لئے کہ ہم ایک خدائے عظیم پر ایمان رکھتے ہیں.امید ہے کہ ہم خدا کی راہ میں مزید قربت حاصل کریں گے.آپ رضائے باری تعالیٰ کی خاطر میری روحانی نشو ونما کریں، امداد کا ہاتھ پھیلائیں تا کہ میں اسلام کا ایک مضبوط سپاہی بن جاؤں اور اپنے خون جگر سے چھینی بھائیوں میں روحانی بیداری پیدا کرسکوں.“ Kung Ming شہر کی مسلم ایسوسی ایشن کے ایک سیکرٹری نے مکرم محمد عثمان چو صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:
358 ”میں نے حال ہی میں آپ کے ترجمہ قرآن کے کچھ ابواب کا مطالعہ کیا تھا.میں نے اس کتاب کو گرانقدر جواہرات کی مثل پایا.قبل ازیں میرے پاس چار تراجم قرآن موجود ہیں.ان تراجم کے طرز بیان مختلف ہیں...جبکہ آپ کا ترجمہ اعلی تر ہے.نیز آپ کی تحریر نہایت پاکیزہ اور ٹھوس ہے اور ترجمہ جامع ہے.اور ایسا تحقیقی ترجمہ ہے جو عام طور پر مشاہدہ میں نہیں آتا.جو شخص بھی قرآن کریم کی تحقیق کی خواہش رکھتا ہے آپ کا یہ ترجمہ اس کے لئے وافر مواد مہیا کرتا ہے.اور بصیرت کو جلا دینے والا ہے.کئی مسلمان مجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ یہ کتاب کہاں سے خرید سکتے ہیں.“ چائنا اسلام ایسوسی ایشن کے مرکزی جریدہ چائنا مسلم کے مدیر نے لکھا: ”آپ کا چینی ترجمہ ایک عظیم الشان کامیابی ہے اور بلا شبہ اس کی اشاء تعلیمات اسلامیہ اور اسلامی ثقافت کے لئے عظیم الشان contribution ہے.یہ کتاب چینی زبان جاننے والوں کے لئے قرآن کریم کے فہم اور اسلامی تعلیم کے اور اک کے لئے بہت ممد ہے.یہ کتاب ایک اہم اور روشن دستاویز کے طور پر تاریخ میں محفوظ رہے گی.“ ٹیکسٹائل یونیورسٹی شنگھائی کے انگریزی کے ریٹائرڈ پروفیسر Zhou Jing-Av نے چینی ترجمه قرآن پر تبصرہ کرتے ہوئے مکرم عثمان چینی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ : قرآن کریم کے عربی متن اور ترجمہ کے ساتھ شائع شدہ اب تک تمام کتب میں سے آپ کی کتاب زبان کی خوبصورتی، پرنٹنگ کی دلکشی اور فٹ نوٹس کی سلاست و وضاحت کے اعتبار سے اس زمانہ میں ایک عظیم الشان کارنامہ ہے.آپ نے اسلام اور احمد یہ جماعت کے لئے عظیم تاریخی قربانی پیش کی ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ یہ ترجمہ قرآن نہ صرف چین بلکہ دنیا بھر کے چینیوں میں وسیع طور پر پہنچایا جائے گا.“
359 ائمة التكفير كومباہلہ کا چیلنج حضرت خلیفہ امسح الرابع رحمہ اللہ نے رمضان المبارک 1988ء میں سورۃ آل عمران کی جن آیات کا درس ارشاد فرمایا ان میں ایک آیت مباہلہ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ كَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَأَبْنَاءَ كُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَ كُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.( آل عمران (62) بھی تھی.اس درس کے دوران آپ نے مباہلہ سے متعلق اسلامی تعلیم کے اصول اور ان اصولوں کی روشنی میں مباہلہ کے طریقہ کار پر تفصیل سے روشنی ڈالی.آپ خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 1988ء میں فرماتے ہیں: ای درس کے دوران میری توجہ اس طرف پھیری گئی کہ چونکہ یہ احمدیت کی پہلی صدی کے آخری ایام ہیں اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو سو سال سے تکذیب کی جارہی ہے اور پہلی صدی کے اختتام پر مکۂ بین کا شوروغوفا بہت بلند ہو گیا ہے اس لئے اس 66 وقت اس تکذیب کا جواب مباہلہ کے چیلنج ہی کے ذریعے دینا مناسب ہوگا." (خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 387) چنانچہ اسی خطبہ میں آپ نے اختصار کے ساتھ مباہلہ کے مضمون کے بعض اہم نکات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: مباہلہ محض غلط بات پر ایمان رکھنے والوں سے نہیں کیا جا رہا بلکہ ایسے غلط ایمان رکھنے والوں سے کیا جا رہا ہے جو جھوٹے ہیں.جو جانتے ہیں کہ ان کے ایمان کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے.جو واضح طور پر آنکھیں کھول کر خدا پر افترا کرنے والے ہیں.پس ایسا مکذب جو بے حیا ہو چکا ہو، ایسا مکذب جس پر بسا اوقات یہ بات واضح
360 ہو چکی ہو کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور بالا رادہ تکذیب سے باز نہ آئے اس مکذب کو دعوت مباہلہ ہے اور اس مباہلہ میں دو فریق ہوتے ہیں.." مباہلہ میں ایک طرف سے خدا کی طرف سے ہونے کے دعویدار کا ہونا ضروری ہے اور دوسری طرف اُس دعویدار کی تکذیب کرنے والوں کا ہونا ضروری ہے.قرآن کریم میں مباہلہ کا یہی مفہوم ہے.اس کے سوا اور کوئی مفہوم نہیں ہے...65 قرآن کریم نے جو مباہلہ کا نقشہ کھینچا ہے اس نقشہ کی رو سے جب بھی حالات ملتے جلتے دکھائی دیں اُس وقت مباہلہ کا اختیار ہو جاتا ہے تو دونوں طرف را ہنما ہونے چاہئیں.معز را ہنما ہونے چاہئیں جن کے پیچھے پوری قوم ہو اور معاملہ کسی خدا کی طرف سے ظاہر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کی سچائی کا معاملہ ہو اور ایک قوم اسے جھٹلا رہی ہو اور دوسری اس کو ماننے والی اُس کی تائید میں دل و جان کے نذرانے پیش کرنے کے لئے حاضر ہورہی ہو اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کے لئے تیار ہو.“ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: " آج کل کے اس دور میں جبکہ بدقسمتی سے پاکستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب کا اس دور میں جھنڈا اٹھا لیا ہے اور پاکستان کے بد نصیب سر براہ نے جو پہلے ڈکٹیٹر کے طور پر ظاہر ہوئے پھر اس کے بعد صدر کا چولہ پہنا...وہ اس وقت حضرت مسیح موعود کی تکذیب کے سب سے بڑے طہر دار ہیں اور ان کے ساتھ بعض علماء نے جو حاشیہ بردار ہیں انہوں نے بھی بد زبانی اور بد کلامی کی حد کر دی ہے...ہ میں نے کئی طریق سے اس قوم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنی حیثیت اور اپنے مقام کو سمجھو.بے وجہ ایسے معاملات میں دخل نہ دو جن کے نتیجہ میں تم خود اپنی ہلاکت کو دعوت دینے والے ثابت ہو گئے اور ادب کی زبان اختیار کرو.اگر تمہیں ایک دعویدار کے دعوی کی سچائی پر ایمان نہیں ہے تو خاموشی اختیار کرو.اور یا انکار کرنا ہے تو انکار میں بھی ادب کا پہلو ہاتھ سے نہ جانے دو.“ آپ نے فرمایا:
361 مختلف رنگ میں جس حد تک بھی خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی گزشتہ چند سال مسلسل اس قوم کو اور تکذیب کے راہنماؤں اور ائمہ کو نیک نصیحت کے ذریعہ قرآن کریم کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری آواز میں بہرے کانوں پر پڑتی رہی ہیں.کسی نے ان نصیحتوں کی طرف توجہ نہ دی اور مسلسل یہ لوگ تکذیب اور شرارت میں اور ایذا رسانی میں بڑھتے چلے گئے.پس اس وقت یہ مناسب ہے کہ اس صدی کے اختتام سے پہلے اس قوم کو قرآن کی زبان میں مباہلہ کی طرف بلایا جائے.گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں ارباب پاکستان نے یہ وطیرہ اختیار کیا ہے کہ احمدیت کے خلاف ہر قسم کی ہرزہ سرائی کو کھلی چھٹی ہے، ہر قسم کا گندہ اور فساد والا لٹریچر اور دروغ اور افتراء پر مبنی لٹریچر کھلے عام شائع کیا جا رہا ہے، کثرت کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے.ملک میں ہی نہیں بلکہ غیر ملکوں میں بھی حکومت کے خرچ پر یا حکومت کے ظاہری خرچ پر نہیں تو مخفی خرچ پر امداد کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے، مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کئے جا رہے ہیں....اس لئے اب سمجھانے کا وقت گزر چکا ہے.دوسرا یہ کہ احمدیت کی طرف سے جب جوابی لٹریچر شائع کیا جاتا ہے تو شائع کرنے والوں اور تقسیم کرنے والوں کو قید کر لیا جاتا ہے، اس لٹریچر کو ضبط کر لیا جاتا ہے.گزشتہ چند سالوں میں سینکڑوں احمدی رسائل اور اخبارات اور اشتہارات ضبط کئے گئے اور سینکڑوں احمدی نوجوانوں E$ کو اس جرم کے ارتکاب میں قید کر لیا گیا......اس کے بعد لاحجةٌ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُذاب تمہارے اور ہمارے درمیان حجت کی کوئی بات باقی نہیں رہی.جب یہ حالت پہنچ جائے تو اس کے بعد مباہلہ کے سوا چارہ کوئی نہیں رہتا.چونکہ اصل دعوی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا دعوی ( ہے ).بگر اس حیثیت میں کہ ہمیں بھی اس دعویٰ کی تصدیق کے لئے اپنے جان و مال اور عزتوں کو پیش کرنے کے لئے بلایا جارہا ہے.اس حیثیت سے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مباہلہ کی آواز کو آج پھر اٹھاتا ہوں.“ ( خطبات طاہر شائع کردہ طا ہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد 7 صفحہ 388 395)
362 اسی طرح آپ نے 10 جون 1988ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: دو گزشتہ چند سالوں میں جماعت احمدیہ کے معاندین اور مخالفین اور مکڈ بین نے، خصوصاً علماء کے اس گروہ نے جو ائمۃ التکفیر کہلانے کے مستحق ہیں ظلم اور افتراء اور تکذیب اور استہزاء اور تخفیف اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تذلیل کرنے کی کوشش میں تمام حدیں توڑ دیں ہیں اور انسانی تصور میں جتنی بھی حدیں ممکن ہیں شرافت اور نجابت کی، ان سب سے تجاوز کر گئے ہیں.اور مسلسل پاکستان میں ہر روز کوئی نہ کوئی جھوٹ اور افتراء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت پر گھڑا جاتا ہے اور علی الاعلان کھلے بندوں اس کذب اور افتراء کا کثرت کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے اور تشہیر کی جاتی ہے.کوئی ان کو روکنے والا بظا ہر نہیں.ان شریروں کی مدد پر حکومت بھی کھڑی ہے اور دوسرے صاحب استطاعت اور صاحب اقتدار لوگ بھی ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں.عوام الناس کی اکثریت شریف ہے مگر شرافت کی زبان گونگی اور کمزور ہے اور ان کو جرآت اور حوصلہ نہیں کہ اس کذب وافتراء اور تعدی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر سکیں کجا یہ کہ سینہ سپر ہو کر اس کی راہ روک دیں.یہ معاملہ اب اس قدر حد سے تجاوز کر چکا ہے اور اس طرح جماعت احمدیہ کے سینے چھلنی ہیں اور اس طرح ان کی روحیں اس کذب و افتراء کی تعفن سے بیزار ہیں اور متلارہی ہیں اور اس طرح اپنی بے بسی پر وہ خدا کے حضور گریہ کناں ہیں اور کوئی دنیا کے لحاظ سے ان کی پیش نہیں جاتی.ان کے دلوں کی آواز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مصرعہ کی مصداق ہے کہ حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تو اب ہے پس اب ظلم کی اس انتہا کے بعد باوجود اس کے کہ بار بار اس قوم کو ہر رنگ میں سمجھانے کی کوشش کی.اب میں مجبور ہو گیا ہوں کہ مکھرین اور منکر بین اور ان کے سربراہوں اور ان کے ائمہ کو قرآن کریم کے الفاظ میں مباہلہ کا چیلنج دوں یا کہنا چاہئے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق حق و صداقت میں امتیاز پیدا کرنے کی خاطر مباہلہ کا چیلنج دوں.....یہ معاملہ اس حال کو پہنچ چکا ہے اور جماعت احمدیہ کی پہلی صدی بھی جو کہ اختتام کو پانچ رہی ہے اس لئے تمام احمدیوں کے دکھ اور بے قراری اور مسلسل صبر کی آہوں سے مجبور ہو کر
363 اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جماعت احمد یہ حالمگیر کی طرف سے ان سارے منگھرین ، مکڈ بین افتراء کرنے والے ائمۃ التکفیر کو مباہلہ کا چیلنج دوں اور پاکستان کے عوام الناس سے درخواست کروں کہ آپ ان کی تائید میں آمین کہنے والے نہ بنیں ورنہ خدا کی پکڑ آپ پر بھی نازل ہو گی..اور آپ اس سے بچ نہیں سکیں گے...لیکن میں یہ بتاتا ہوں کہ وہ ائمہ تکفیر جو جسارت کے ساتھ اس مباہلہ کے چیلنج کو قبول کریں گے مجھے خدا کی غیرت سے، اس کی حمیت سے توقع ہے کہ وہ ان کے خلاف اور جماعت احمدیہ کی صداقت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے حق میں عظیم الشان نشان دکھائے گا.“ ( خطبات طاہر شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد 7 صفحہ 420409) حضور رحمہ اللہ نے اس خطبہ جمعہ میں پاکستان کے اخبارات میں شائع ہونے والے بیانات اور حکومت کے سر براہوں اور صاحب اقتدار لوگوں کی تقریروں اور ٹیلی وژن کے ذریعہ کئے جانے والے اعلانات میں سے بعض اقتباسات پیش کرتے ہوئے جماعت احمدیہ پر باندھے جانے والے افتراؤں کا ذکر کر کے جھوٹوں پر خدا کی لعنت ڈالی.ذیل میں مباہلہ کے اس چیلنج کا مکمل متن درج کیا جاتا ہے جو باقاعدہ طور پر طبع کروانے کے بعد بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق اور اسی طرح بعض دیگر معاندین، مکفرین و مکڈ بین کو بھجوایا گیا.اور پاکستان میں بالخصوص اور دنیا کے تمام ممالک میں بھی اس کی کثرت سے اشاعت کی حتى
364 الله جماعت احمدیہ عالمگیر کی طرف سے دنیا بھر کے معاندین اور منفرین اور مکڈ بین کو مباہلہ کا کھلا کھلا چیلنج بسم الله الرحمن الرحیم جب سے حکومت پاکستان نے جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مذہبی اور انسانی حق غصب کیا ہے کہ وہ اپنے دعاوی اور ایمان کے مطابق اسلام کو اپنا مذہب قرار دے اس وقت سے حکومت پاکستان کی سرپرستی میں مسلسل جماعت احمدیہ کے خلاف نہایت جھوٹے اور شر انگیز پراپیگینڈہ کی ایک عالمگیر مہم جاری ہے.قرآن کریم کی تعلیم کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے احمدیت کو قادیانیت اور مرزائیت کے فرضی ناموں سے پکارا جا رہا ہے.اسی طرح ایک فرضی مذہب بنا کر جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے جو ہر گز جماعت احمدیہ کا مذہب نہیں.کذب و افتراء کی اس عالی مہم کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں.اول :- حضرت بانی کی ذات کو ہر قسم کے ناپاک حملوں کا نشانہ بنانا، آپ کے تمام دعاوی کی تکذیب کرنا، آپ کو مفتری اور خدا پر جھوٹ بولنے والا، دنبال اور فریبی قرار دینا اور آپ کی طرف ایسے فرضی عقائد منسوب کرنا جو ہر گز آپ کے عقائد نہیں تھے.دوسرا پہلو آپ کی قائم کردہ جماعت پر سراسر جھوٹے الزامات لگانے اور اس کے خلاف شر انگیز پراپیگنڈہ کرنے سے تعلق رکھتا ہے.مسلسل جماعت احمدیہ کی طرف ایسے عقید ے منسوب کئے جارہے ہیں جو ہر گز جماعت احمدیہ کے عقائد نہیں.اسی طرح جماعت احمد یہ اور امام جماعت احمدیہ کوسراسر ظلم اور تعدی کی راہ سے بعض نہایت سنگین جرائم کا مرتکب قرار دے کر پاکستان اور بیرونی دنیا میں بدنام کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے.
365 جھگڑا بہت طول پکڑ گیا ہے اور سراسر یکطرفہ مظالم کا یہ سلسلہ بند ہونے میں نہیں آرہا.جماعت احمدیہ نے ہر لحاظ سے صبر کا نمونہ دکھایا اور محض اللہ ان یکطرفہ مظالم کو مسلسل حو صلے سے برداشت کیا اور جہاں تک ظالموں کو سمجھانے کا تعلق ہے، ہر پر امن ذریعہ کو اختیار کرتے ہوئے معاندین و مکڈ بین کے ائمہ کو ہر رنگ میں سمجھانے کی کوشش کی اور ایسی حرکتوں کے عواقب سے متنبہ کیا اور خوب کھلے لفظوں میں باخبر کیا کہ تم ی ظلم محض جماعت احمدیہ پر احمدیہ پر نہیں بلکہ عالم اسلام اور خصوصیت سے پاکستان کے عوام پر کر رہے ہو اور دھوکہ اور فریب سے ان کو ان مظالم میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک کر کے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنارہے ہو اور دن بدن جو نت نئے مصائب پاکستان کے غریب عوام پر ٹوٹ رہے ہیں ان کے اصل ذمہ دار تم ہو اور یہ مصائب خدا تعالیٰ کی بڑھتی ہوئی ناراضگی کے آئینہ دار ہیں.لیکن افسوس کہ ظلم کرنے والے ہاتھ رکنے کی بجائے ظلم و تعدی میں مزید بڑھتے چلے گئے اور اب معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ جماعت احمد یہ اس ظلم کو مزید برداشت نہیں کر سکتی.لہذا ایک لمبے صبر اور غور وفکر اور دعاؤں کے بعد میں بحیثیت امام جماعت احمد یہ یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ تمام مکڈ بین اور معاندین کو جو عمدا اس شرارت کے ذمہ دار ہیں خواہ وہ کسی طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں قرآنی تعلیم کے مطابق کھلم کھلا مباہلے کا چیلنج دوں اور اس قضیہ کو اس دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عدالت میں لے جاؤں کہ خدا تعالیٰ ظالموں اور مظلوموں کے درمیان اپنی قہری تھیلی سے فرق کر کے دکھا دے.ہم ان دونوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے دو طریق پر مباہلہ کا چیلنج شائع کر رہے ہیں.ہر مکذب، مگھر کو کھلی دعوت ہے کہ مباہلہ کے جس چیلنج کو چاہے قبول کرے اور میدان میں نکلے تا کہ دنیا بھر کے سادہ لوح مسلمان یا ایسے علماء اور عوام الناس جو احمدیت کے متعلق کوئی ذاتی علم نہیں رکھتے اور سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے جماعت کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں، خدا تعالی کی طرف سے ظاہر ہونے والے آسمانی فیصلہ کی روشنی میں سچے اور جھوٹے کے درمیان تمیز اور تفریق کر سکیں.چیلنج نمبر 1 جہاں تک بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے سچے یا جھوٹے ہونے کا
366 تعلق ہے، جنہوں نے امت محمدیہ میں مبعوث ہونے والے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعوی کیا، ہمیں مباہلے کا کوئی نیا چیلنج پیش کرنے کی ضرورت نہیں.خود بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے اپنے الفاظ میں ہمیشہ کے لیے ایک کھلا چیلنج موجود ہے.ہم سب مکہ بین و گھرین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس چیلنج کو غور سے پڑھ کر یہ فیصلہ کریں کہ کیا وہ اس کے عواقب سے باخبر ہو کر اس کو قبول کرنے کے لئے جرات کے ساتھ تیار ہیں.آپ کے الفاظ میں وہ چیلنج حسب ذیل ہے.حمه ہر ایک جو مجھے کڈ اب سمجھتا ہے اور ہر ایک جو مگار اور مفتری خیال کرتا ہے اور میرے دعوی مسیح موعود کے بارہ میں میرا مکذب ہے اور جو کچھ مجھے خدا تعالی کی طرف سے وحی ہوئی اس کو میرا افتراء خیال کرتا ہے وہ خواہ مسلمان کہلاتا ہو یا ہندو یا آریہ یاکسی مذہب کا پابند ہو اس کو بہر حال اختیار ہے کہ اپنے طور پر مجھے مقابل پر رکھ کر تحریری مباہلہ شائع کرے...کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے یہ بصیرت کامل طور پر حاصل ہے کہ یہ شخص ( اس جگہ تصریح سے میرا نام لکھے) جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے در حقیقت کذاب ہے اور یہ الہام جن میں سے بعض اس نے اس کتاب میں لکھے ہیں یہ خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ سب اس کا افتراء ہے اور میں اس کو در حقیقت اپنی کامل بصیرت اور کامل غور کے بعد اور یقین کامل کے ساتھ مفتری اور کذاب اور دنبال سمجھتا ہوں.پس اے خدائے قادر اگر تیرے نزدیک یہ شخص صادق ہے اور کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین نہیں ہے تو میرے پر اس تکذیب اور توہین کی وجہ سے کوئی عذاب شدید نازل کرور نہ اس کو مذاب میں مبتلا کر.آمین.ہر ایک کے لئے کوئی تازہ نشان طلب کرنے کے لئے یہ دروازہ کھلا ہے.“ حقیقت الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 72،71) چونکہ بانی سلسلہ احمد یہ اس وقت اس دنیا میں موجود نہیں اور مباہلہ کا چیلنج قبول کرنے والے کے سامنے آپ کی نمائندگی میں کسی فریق کا ہونا ضروری ہے اس لئے میں اور جماعتِ احمد یہ اس ذمہ داری کو پورے شرح صدر، انبساط اور کامل یقین کے ساتھ قبول کرنے کا اعلان کرتے ہیں.
367 چیلنج نمبر 2 جماعت احمدیہ کے وہ تمام معاندین جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے خلق خدا کو مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جماعت احمد یہ جسے وہ قادیانی یا مرزائی کہتے ہیں حسب ذیل عقائد رکھتی ہے.ان کے نزدیک : الف :.یہ جماعت دعوی کرتی ہے کہ اس کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی..خدا تھے..خدا کا بیٹا تھے..خدا کا باپ تھے..تمام انبیاء سے بشمول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم افضل اور برتر تھے..ان کی وحی کے مقابلہ میں حدید مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شے نہیں..ان کی عبادت کی جگہ مسجد عزت و احترام میں خانہ کعبہ کے برابر ہے.قادیان کی سرزمین مکہ مکرمہ کے ہم مرتبہ ہے.قادیان سال میں ایک دفعہ جانا تمام گناہوں کی بخشش کا موجب بنتا ہے..اور حج بیت اللہ کی بجائے قادیان کے جلسہ میں شمولیت ہی حج ہے.میں بحیثیت سربراہ جماعت احمدیہ عالمگیر یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ سارے الزامات سراسر جھوٹے اور کھلم کھلا افتراء ہیں.ان مذکورہ عقائد میں سے ایک عقیدہ بھی جماعت احمد یہ کا عقیدہ نہیں.لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ب: - بانی کی عمومی تکذیب کے علاوہ ان کی مقدس ذات سے دنیا کو بالخصوص مسلمانوں کو متنفر کرنے کے لئے حسب ذیل مکروہ الزامات بھی لگائے جارہے ہیں کہ ہائی نے
368.ختم نبوت سے صریحی انکار کیا..قرآن مجید میں لفظی و معنوی تحریف کی.روضہ رسول کی توہین کی اور اسے نہایت متعفن اور حشرات الارض کی جگہ قرار دیا..حضرت امام حسین کی توہین کی اور ان کے ذکر کو گونہ یعنی مٹی کا ڈھیر قرار دیا.جھوٹے مدعیان نبوت کا مطالعہ کر کے دعویٰ نبوت کیا..انگریز کے ایماء پر اسلامی نظریہ جہاد کو منسوخ کیا.شرعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور نئی شریعت لے کر آئے اور قرآن کریم کے مقابل پر احمدیوں کی کتاب ”تذکرہ“ ہے جسے وہ قرآن کریم کے ہم مرتبہ قرار دیتے ہیں.میں بحیثیت امام جماعت احمد یہ عالمگیر اعلان کرتا ہوں کہ یہ سب الزامات بھی سراسر جھوٹے اور افتراء ہیں اور ان میں ایک بھی سچا نہیں.لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ج: - حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ذات پر گندا چھالنے کی خاطر مزید یہ کہا گیا کہ وہ دھوکہ باز اور ہے ایمان ہے..انہیں گھر کا مال غبن کرنے کی پاداش میں والد نے گھر سے نکال دیا تھا.ان کی اکثر پیشگوئیاں اور مینہ وحی الہی جھوٹ کا پلندہ ہیں..انگریز نے مرزا غلام احمد قادیانی کو لاکھوں ایکڑ زمینیں دیں.میں جماعت احمد یہ عالمگیر کی نمائندگی میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ سب باتیں سراسر جھوٹ اور افتراء کا پلندہ ہیں.لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ د:.بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے علاہ جماعت احمدیہ پر جو دیگر عمومی الزامات لگائے
369 جاتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں :.جماعت احمد یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے..ملت اسلامیہ کی دشمن ہے..حالیم اسلام کے لئے ایک سرطان ہے.انگریزوں اور یہودیوں کی اسلام دشمن سازش ہے..اسرائیل اور یہودیوں کی ایجنٹ ہے..امریکہ کی ایجنٹ ہے..اس جماعت اور روس میں خفیہ مذاکرات کے ذریعہ تعلقات قائم ہو چکے ہیں.نام نہاد اسرائیلی فوج کے اندر اس کا وجود ایک کھلا راز ہے.قادیانی شر پسندی کے لئے اسرائیل میں ٹریٹنگ لیتے ہیں.چھ سو پاکستانی قادیانی اسرائیلی فوج میں بھرتی ہو گئے.جرمنی میں چار ہزار قادیانی گوریلا تربیت حاصل کر رہے ہیں.میں بحیثیت سربراہ جماعت احمد یہ عالمگیر یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ سب باتیں سرتا پا جھوٹ ہیں اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں.لَعْتَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ر: ان الزامات کے علاوہ حسب ذیل نہایت مکروہ الزام بھی جماعت احمدیہ پر لگائے جاتے ہیں.احمدیوں کا کلمہ الگ ہے اور مسلمانوں والا کلمہ نہیں.جب احمدی مسلمانوں والا کلمہ لا إلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پڑھتے ہیں تو دھوکہ دینے کی خاطر پڑھتے ہیں اور محمد سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں..احمدیوں کا خدا وہ خدا نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کا خدا ہے.قادیانی جن ملائکہ پر ایمان لاتے ہیں وہ وہ ملائک نہیں جن کا قرآن وسنت میں ذکر
370 ملتا ہے.الگ ہیں..قادیانیوں کے رسول بھی مختلف..ان کی عبادت بھی اسلام سے مختلف..ان کا حج بھی مختلف.غرضیکہ تمام بنیادی اسلامی عقائد میں قادیانیوں کے عقائد قرآن وسنت سے جدا اور میں بحیثیت سربراہ جماعت احمدیہ عالمگیر اعلان کرتا ہوں کہ یہ الزامات سراسر جھوٹ اور افتراء ہیں اور کوئی ایک بھی ان میں سے سچا نہیں.لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ✰✰✰ ز : جہاں تک پاکستان میں قومی اور ملی نقطۂ نگاہ سے احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا تعلق ہے، حسب ذیل پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے.قادیانی عقیدہ کے مطابق پاکستان اللہ کی مرضی کے خلاف بنا ہے.- مرزا محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی نے پاکستان توڑنے کا عہد کیا تھا..تمام قادیانی اکھنڈ ہندوستان کے متعلق مرزا بشیر الدین محمود احمد کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے کوشاں ہیں.لیاقت علی خاں کو ایک قادیانی نے قتل کیا تھا..قادیانیوں نے ملک میں خانہ جنگی کا منصوبہ تیار کر رکھا ہے.قادیانی پاکستان کی سلامتی کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں.ملک میں موجودہ بد امنی قادیانی سازش کا نتیجہ ہے.کراچی کے ہنگاموں کے پیچھے قادیانیوں کا ہاتھ ہے.کراچی میں قادیانیوں نے کرفیو کے دوران دکانیں جلائیں.بادشاہی مسجد کا واقعہ ( جس میں دیوبندیوں اور بریلویوں کی آپس میں لڑائی ہوئی)
371 قادیانیوں کی سازش ہے..قادیانیوں نے پانچ صد علماء کے قتل کا منصوبہ بنایا.ملک میں بموں کے دھماکے، فرقہ واریت، لسانی تعصبات اور تخریبی واقعات کے پیچھے قادیانی جماعت کا ہاتھ ہے.اوجڑی کیمپ میں دھما کہ قادیانی افسروں نے کروایا ہے.چکے تھے..سانحہ راولپنڈی و اسلام آباد ( اوجڑی کیمپ) سے دور روز قبل قادیانی اس علاقہ کو چھوڑ.ربوہ میں روسی ساخت کا اسلحہ بھاری تعداد میں موجود ہے..قادیانی ربوہ میں نوجوانوں کو روسی اسلحہ سے مسلح کر کے ملک میں تخریب کاری کی تربیت دے رہے ہیں.قادیانی افسر نے ایٹمی راز چوری کر کے اسرائیل کو دئیے.میں بحیثیت سربراہ جماعت احمد یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ تمام الزامات اول تا آخر جھوٹ اور افتراء کا پلندہ ہیں اور رٹی بھر صداقت نہیں.لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ س :.جماعت احمدیہ کے موجودہ امام یعنی اس عاجز کے متعلق حسب ذیل پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ اسلم قریشی نامی ایک شخص کے اغواء اور قتل میں ملوث ہے..غیر مسلم حکومتوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے.فرضی نام اور فرضی پاسپورٹ پر مع اہل وعیال ملک سے فرار ہوا.لندن میں روسی سفیر سے طویل ملاقات کی..نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبد السلام کے ہمراہ اسرائیل کا دورہ کیا.میں بحیثیت امام جماعت احمد یہ یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ تمام الزامات کی جھوٹے اور
372 افتراء ہیں اور ان میں کوئی بھی صداقت نہیں.لَعْنَةُ الموعَلَى الْكاذِبان سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر معاندین احمدیت کے مذکورہ بالا الزامات غلط ہیں اور احمدیت وہ نہیں جو اوپر بیان کی گئی ہے تو پھر جماعت احمدیہ کے دعوئی کے مطابق اس کے عقائد کیا ہیں؟ میں جماعت احمدیہ کی نمائندگی میں بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے وہ الفاظ دہراتا ہوں جو احمد بیت کے عقائد پر کھلی کھلی روشنی ڈالتے ہیں.اور مخالفین احمدیت کو پھر یہ واضح چیلنج دیتا ہوں کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے وہ عقائد نہیں جو حسب ذیل تحریر میں بیان کئے گئے ہیں تو ان کے جھوٹا ہونے کا واشگاف اور کھلے کھلے الفاظ میں اعلان کریں اور لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کہیں.بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ فرماتے ہیں: ور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے.اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ بچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لا إله إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ اور اس پر مریں اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں اور صوم و صلوۃ اور زکوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں.غرض وہ تمام امور جن پر
373 سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا.اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے.اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے.“ ( ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 523) میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے، اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے.کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتاوہ محروم ازلی ہے.ہم کیا چیز اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فررحمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پانی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اس کا میل نہی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 118، 119 ) یہ ہے جماعت احمدیہ کا عقیدہ اور مذہب اور یہ ہے حضرت بانی کا وہ مقام جو اُن کا اصلی اور حقیقی مقام ہے.جو شخص بھی اس کے سوا کسی اور مذہب کو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کرنے کی جسارت کرتا ہے وہ سراسر ظلم اور افتراء سے کام لیتا ہے.اور میں بحیثیت امام جماعت احمدیہ یہ دعوت دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص مذکورہ بالا عبارات پڑھنے کے بعد بھی اپنے
374 شخص خواه معاندانہ موقف پر قائم رہے اور جماعت پر جھوٹ بولنے سے باز نہ آئے تو حکومت پاکستان سے تعلق رکھتا ہو یا کسی اور حکومت سے، رابطہ عالم اسلامی سے تعلق رکھتا ہو یا علماء کے کسی گروہ سے، سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو یا غیر سیاسی شخصیت ہو.غرضیکہ ہر وہ شخص جو کسی گروہ کی نمائندگی کرتا ہو میرے مباہلہ کے چیلنج کو قبول کرے اور حسب ذیل دعائیں میرے ساتھ شریک ہو اور اپنے اہل وعیال، اپنے مردوں اور عورتوں اور ان تمام مشبعین کو بھی اپنے ساتھ شریک کرے جو اس کی ہمنوائی کادم بھرتے ہیں اور فریق ثانی بن کر مباہلہ کے اس چیلنج پر دستخط کرے اور اس کا اعلان عام کرے اور پھر ہر ممکنہ ذریعہ سے اس کی تشہیر کرے.اے قادر و توانا، عالم الغیب والشہادة خدا! ہم تیری جبروت اور تیری عظمت اور تیرے وقار اور تیرے جلال کی قسم کھا کر اور تیری غیرت کو ابھارتے ہوئے تجھ سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو فریق بھی ان دعاوی میں سچا ہے جن کا ذ کرا و پر گذر چکا ہے اس پر دونوں جہان کی رحمتیں نازل فرما.اس کی ساری مصیبتیں دُور کر.اس کی سچائی کو ساری دنیا پر روشن کر دے.اس کو برکت پر برکت دے اور اس کی طرف منسوب ہونے والے ہر بڑے اور چھوٹے، مرد و عورت کو نیک چلن اور پاکبازی عطا کر اور سچا تقویٰ نصیب فرما اور دن بدن اس سے اپنی قربت اور پیار کے نشان پہلے سے بڑھ کر ظاہر فرما تا کہ دنیا خوب دیکھ لے کہ تو ان کے ساتھ ہے اور ان کی حمایت اور ان کی پشت پناہی میں کھڑا ہے.اور ان کے اعمال، ان کی خصلتوں اور اٹھنے اور بیٹھنے اور اسلوب زندگی سے خوب اچھی طرح جان لے کہ یہ خدا اوالوں کی جماعت ہے اور خدا کے دشمنوں اور شیطانوں کی جماعت نہیں ہے.اور اے خدا! تیرے نزدیک ہم میں سے جو فریق جھوٹا اور مفتری ہے اس پر ایک سال کے اندر اندر اپنا غضب نازل فرما اور اسے ذلت اور نکبت کی مار دے کر اپنے عذاب اور قہری تجلیوں کا نشانہ بنا اور اس طور سے ان کو اپنے عذاب کی چکی میں پیس اور مصیبتوں پر مصیبتیں ان پر نازل کر اور بلاؤں پر بلائیں ڈال کہ دنیا خوب اچھی طرح دیکھ لے کہ ان آفات میں بندے کی شرارت اور دشمنی اور بغض کا دخل نہیں بلکہ محض خدا کی غیرت اور قدرت کا ہاتھ یہ سب عجائب کام وکھلا رہا ہے.اس رنگ میں اس جھوٹے گروہ کو سزا دے کہ اس سزا میں مباہلہ میں شریک کسی
375 فریق کے مکر و فریب کے ہاتھ کا کوئی بھی دخل نہ ہو.اور وہ محض تیرے غضب اور تیری عقوبت کی جلوہ گری ہوتا کہ سچے اور جھوٹے میں خوب تمیز ہو جائے اور حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر ہو اور ظالم اور مظلوم کی راہیں جدا جدا کر کے دکھائی جائیں.اور ہر وہ شخص جو تقویٰ کا صبح اپنے سینہ میں رکھتا ہے اور ہر وہ آنکھ جو اخلاص کے ساتھ حق کی متلاشی ہے اس پر معاملہ مشتبہ نہ رہے اور ہر اہل بصیرت پر خوب کھل جائے کہ سچائی کس کے ساتھ ہے اور حق کس کی حمایت میں کھڑا ہے.( آمین یا رب العالمين ) م ہیں فریق اول ( امام جماعت احمد یہ عالمگیر فریق ثانی بانی کے وہ تمام مکترین دنیا بھر کے احمدی مردوزن چھوٹے بڑے کی نمائندگی میں ) و مکہ بین جو پوری شرح صدر اور ذمہ داری مرزا طاہر احمد ولد مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمد یہ عالمگیر جمعۃ المبارک 10 مرجون 1988ء کے ساتھ عواقب سے باخبر ہو کر اس مباہلہ کا فریق ثانی بنا منظور کرتے ہیں.
376 مباہلہ کے چیلنج پر مولویوں کارڈ عمل مباہلہ کے اس چیلنج کے بعد دنیا بھر میں مختلف معاندین کی طرف سے کئی قسم کے تبصرے اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے.بعض نے مباہلہ کے چیلنج کو قبول کرنے سے گریز کے لئے عجیب و غریب حذر تراشے اور بعض نے اپنے اپنے رنگ میں یہ اعلان کئے کہ مباہلہ منظور ہے لیکن تفصیلی بیان میں بعض اپنی عبارتیں داخل کر دیں جن کی رو سے وہ بعد میں یہ کہ سکیں کہ ہم نے مباہلہ منظور تو کیا تھا مگر فلاں شرط کے ساتھ کیا تھا اور چونکہ یہ شرط پوری نہیں کی گئی اس لئے مباہلہ بھی نہیں ہوا.چنانچہ مختلف قسم کے تبصرے اخبارات و اشتہارات میں شائع ہوتے رہے.اُن میں سے بعض نے یہ کہا کہ فلاں میدان میں پہنچو، کوئی کہتا فلاں میدان میں پہنچو، کوئی کہتا مسجد نبوی میں داخل ہو کے مباہلہ کرو اور مسجد نبوی کے متعلق پھر خود ہی فتویٰ دیتا کہ بعض کے نزدیک کافر کو وہاں آنے کی اجازت نہیں ہے لیکن بعض فقہاء نے بعض مجبوریوں کی خاطر کافروں کو اندر آنے کی اجازت دے دی ہے.جبکہ قرآن کریم صرف یہ فرماتا ہے ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کہ ہم پھر ابتہال کریں اور ابتہال کے بعد اللہ تعالیٰ کی لعنت جھوٹے پر ڈالیں.اب جھوٹے پر خدا کی لعنت ڈالنے میں کون سے مقام کی ضرورت ہے؟ کون سے ملک یا کسی خاص صوبے، علاقے یا شہر کی ضرورت ہے؟ سارے قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کو مباہلے کا چیلنج دے رہے تھے ان کے بیوی بچے، مرد، عورتیں بڑے چھوٹے سارے اس جگہ سے بہت دُور تھے اور ہر گز یہ مقصود نہیں تھا کہ پہلے ان سب کو یہاں لے کے آؤ پھر مباہلہ قبول ہوگا.لیکن اکثر علماء نے انتہال کا مطلب گالیاں دینا سمجھ رکھا ہے.چنانچہ مباہلے کے اس چیلنج کے جواب میں معاند مولویوں کی طرف سے جماعت کے خلاف نہایت ہی گندے، لغو اور بیہودہ اعتراضات پر مشتمل رسالے شائع کر کے لوگوں میں شدید اشتعال پھیلایا گیا.شاید ان کے نزدیک انتہال کا معنی اشتعال ہے.بہت سی جگہوں پر مباہلہ کا چیلنج تقسیم کرنے والے احمدیوں کو یہ کہ کراذیتیں دی گئیں اور قید میں ڈالا گیا اور ان پر کئی قسم کے مقدمے کھڑے کئے گئے کہ انہوں نے اس چیلنج مباہلہ کے ذریعہ
377 ابتہال کی طرف بلا کر انہیں اشتعال دلایا ہے.حالانکہ مباہلہ تو معاملہ کو خدا تعالیٰ کی عدالت میں لے کر جانے کا نام ہے اور اس کا تعلق دنیا کی عدالت سے ہے ہی نہیں.بعض اہل سنت علماء کا یہ موقف تھا کہ غیر مسلم سے مباہلہ نہیں ہو سکتا یعنی ان معنوں میں کہ وہ کہتے ہیں کہ غیر مسلم کوحق نہیں ہے کہ مباہلہ کا چیلنج دے.اور چونکہ وہ احمدیوں کو غیر مسلم سمجھتے ہیں اس لئے وہ اہلہ کا چیلنج قبول نہیں کر سکتے.بعض نے یہ کہا کہ مباہلہ کا چیلنج ہم اس لیے قبول نہیں کر سکتے کہ قرآن کریم سے نص صریح سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکتا.تو چونکہ ختم نبوت کا ہمارا عقیدہ قرآن کی نص صریح سے ثابت شدہ ہے اس لیے اس پر مباہلہ نہیں ہوسکتا.اب جہالت کی حد ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت سے بڑھ کر خاتمیت ثابت ہے.قرآن کریم نے تو مباہلہ کا چیلنج ہی اس بات پر دیا تھا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں یا مخالف سچا ہے اور وہ ان کے نزدیک نص صریح سے ثابت نہیں تھا.نعوذ باللہ من ذالک.اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت تھی کہ وہ چیلنج دے دیں.کیونکہ آپ کی صداقت خدانخواستہ نعوذ باللہ من ذالک چونکہ مہم تھی اس لیے مباہلہ کے لئے گویا اُس کی وضاحت چاہی گئی تھی.پھر انگلستان میں بعض علماء نے اس بات کا اظہار کیا کہ مباہلہ کا چیلنج منظور ہے.آپ بھی اپنے بیوی بچوں کو لے کے آجائیں ہم بھی آجاتے ہیں اور پھر ہم دریائے ٹیمز میں چھلانگ لگا ئیں گے اور جو پار اُتر جائے گا وہ سچا اور جوڈوب جائے گا وہ جھوٹا.معاند مولویوں کے ایسے بیانات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ دین کے معاملے میں ہر گز سنجیدہ نہیں.وہ تمسخر سے یا گالیاں دے کر یا شور مچا کر سمجھتے ہیں کہ اپنا مقدمہ جیت جائیں گے لیکن فی الحقیقت خدا کی عدالت میں مقدمہ لے جانا ہی نہیں چاہتے.ان کے بیانات کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ آخر دنیا کے فیصلے کی طرف کو ٹتے ہیں یا دنیاوی مقابلوں کے ذریعہ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.ایک صاحب نے پاکستان سے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے یہ پیغام بھیجا کہ دنیا کی کسی چوٹی کی
378 عمارت سے یا پہاڑی سے کسی بلندی سے آپ بھی چھلانگ لگا ئیں میں بھی چھلانگ لگا تا ہوں جو بیچ جائے وہ سچا.جو نہ بچے گا وہ جھوٹا.حالانکہ یہ وہی چیلنج ہے جو شیطان نے مسیح کو دیا تھا اور مسیح نے اسی سے اُس کو پہچانا تھا.لاہور سے طاہر القادری صاحب نے اعلان کیا کہ فلاں تاریخ کو ہم منٹو پارک پہنچ جائیں گے.اُس تاریخ کو مرزا طاہر احمد کا اپنے ساتھیوں سمیت رات کے بارہ بجے وہاں موجود ہونا ضروری ہے اور اگروہ نہ پہنچے تو پھر ہم ایک مہینہ انتظار کریں گے.ایک مہینے کے بعد پھر ہم حکومت پاکستان سے کہیں گے کہ ان کے ہارنے کا اور ہمارے جیتنے کا اعلان کر دیں.گویا ان کی عدالت ہی دنیا کی عدالت ہے، ان کا خدا گویا حکومت پاکستان ہے اور اس نے فیصلہ کرنا ہے.کبھی کسی مباہلے کا فیصلہ اس طرح ہوا ہے کہ فلاں حکومت نے اعلان کر دیا کہ فلاں بار گیا فلاں جیت گیا؟ وہ سمجھتے ہیں چالاکی سے، ہوشیاری سے، چرب زبانی سے اگر ہم دنیا پر اور اپنے مریدوں پر یہ اثر ڈال دیں کہ ہم جیت گئے اور دشمن ہار گیا تو یہی مباہلہ کا انجام ہے اور یہی بہت کافی ہے.حالانکہ یہ کافی نہیں ہے.اب تک خدا تعالیٰ نے مباہلہ کے بعد جو نشان ظاہر فرماتے ہیں اس سے ایک بات تو ثابت ہوئی کہ ان کا جھوٹا ہو نادن بدن کھلتا چلا جا رہا ہے.ماخوذ از خطبہ جمعہ فرموده 5 را گست 1988ء - خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 545531) مباہلہ کا چیلنج اور پروفیسر طاہر القادری حضور رحمہ اللہ کی طرف سے مباہلہ کے چیلنج کے جواب میں جناب طاہر القادری صاحب کے اس قسم کے بیانات پر جماعت احمدیہ کے پریس سیکرٹری رشید احمد چوہدری صاحب کی طرف سے ان کے نام ایک خط لکھا گیا.یہ خط روزنامہ آغاز کراچی 24 اکتوبر 1988ء میں شائع ہوا.یہ خط ہفت روزہ بدر قادیان 17 نومبر 1988ء میں بھی شائع ہوا.اور ذیل میں ہدیہ قارئین ہے.) جناب طاہر القادری صاحب! آپ کی طرف سے امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے مباہلہ کے چیلنج کے جواب میں جو اشتہاری قسم کے خطوط اور بیانات اخباروں میں شائع ہو رہے ہیں ان کے
379 مطالعہ کے بعد ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ آپ اس معاملہ میں سنجیدہ نہیں بلکہ آپ کا دل تقویٰ سے خالی ہے.اور آپ کی حیثیت ایک مجمع باز کی سی ہے جو سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے چالاکیوں سے کام لے رہا ہے.سب سے پہلے تو آپ کا یہ ظاہر کرنا کہ گویا امام جماعت احمدیہ نے چیلنج قبول کرنا ہے صریحا عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کے مترادف ہے.کیونکہ امام جماعت احمد یہ تو نہ صرف چیلنج دے چکے ہیں بلکہ کھلم کھلا خطبات میں بھی اور تحریر کے ذریعہ بھی متعدد بار آپ لوگوں کے الزامات کے جواب میں لعنتہ اللہ علی الکاذبین کہہ چکے ہیں اور مباہلہ کے چیلنج کا ایک فریق بن چکے ہیں جس کے بعد تو آپ کی طرف سے ہی قبولیت کا سوال باقی تھا، نہ کہ دوبارہ ان کی طرف ہے.آپ کو بھی چاہئے تھا کہ جس طرح جماعت احمدیہ نے چیلنج شائع کروایا ہے.اخبارات میں اکیلے یا میل کر اپنے دستخطوں کے ساتھ امام جماعت احمدیہ کے چیلنج کے الفاظ کو شائع کراتے اور تحذی کے ساتھ اعلان کراتے کہ مرزا طاہر احمد ان سب باتوں میں جھوٹا ہے اور جس شخص پر یہ بطور مسیح موعود اور امام مہدی ایمان لایا ہے وہ بھی یقینا جھوٹا ہے.پس جس طرح اس نے لعنۃ اللہ علی الکاذبین کہہ کر جھوٹے پر لعنت ڈالی ہے ہم بھی قرآن کریم کے بیان کردہ الفاظ میں لعنتہ اللہ علی الکاذبین کہہ کر پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ مرزا طاہر احمد کے دیے ہوئے مباہلہ میں جن الزامات کو وہ علماء کی طرف سے بہتان قرار دے رہے ہیں وہ سارے الزامات بچے ہیں اور اگر ہم جھوٹ بول رہے ہیں تو اللہ تعالی کی ہم پر لعنت پڑے.اگر آپ میں ذرا سا بھی تقویٰ ہوتا تو یہ سیدھا سادا طریق اختیار کرتے.دوسرا پہلو اس مطالبہ سے تعلق رکھتا ہے جو آپ کی طرف سے پیش ہو رہا ہے کہ فلاں میدان میں اکٹھے ہوں اور اگر لاہور فلاں تاریخ کو نہ پہنچیں تو ہم تمہیں جھوٹا سمجھیں گے.یا ہمیں وقت دو کہ ہم تمہاری مقرر کردہ جگہ پر پہنچ کر مباہلہ کریں.ہمارے نزدیک یہ سب نفس کی بہانہ سازیاں ہیں اور مباہلہ سے فرار کی راہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ کائنات میں ہر جگہ ہے اور اس کے قبضہ قدرت سے کوئی جگہ باہر نہیں اور کوئی مقام اس کے تسلط اور جبروت سے خالی نہیں.وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمواتِ وَ الْأَرْضَ اس کی کرسی زمین و آسمان پر محیط ہے، نہ کسی دنیاوی بادشاہ
380 کی طرح پاکستان یا انگلستان میں کسی مقام پر پڑی ہوئی ہے.اس کو مخاطب کر کے لعنتہ اللہ علی الکاذبین کہنے میں آپ کو آخر کیا خطرہ ہے؟ اور کیوں فریقین کی موجودگی ضروری ہے؟ کیا خدا تعالی اس بات پر قادر نہیں کہ آپ کی لاہور میں ڈالی ہوئی لعنت کا انہیں لندن میں شکار بنادے یا اُن کی دنیا میں کسی مقام سے ڈالی ہوئی لعنت کا آپ کو شکار بنادے.خواہ کہیں بھی آپ ہوں.تیسری بات یہ ہے کہ اگر آپ آیت مباہلہ سے یہ استنباط کر رہے ہیں کہ آمنے سامنے ہونا ضروری ہے تو اس کی رُو سے پھر تمام انفس" جو خواہ کسی فریق سے تعلق رکھتے ہوں، ان کا اپنے سارے بیوی بچوں کے ہمراہ وہاں موجود ہونا ضروری ہوگا.اور کیا پھر ساری دُنیا کے ایک کروڑ احمدیوں کا اور آپ کے مریدوں کا، خواہ وہ ہزاروں میں ہوں یا لاکھوں میں، کسی ایک مقام پر اکٹھا ہونا ممکن ہے؟ آپ اپنی ایک لغو تا ویل کو قرآن پاک کی طرف منسوب نہ کریں.مزید برآں کیا آپ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ مباہلہ کا چیلنج جونجر ان کے عیسائی وفد کو دیا گیا تھا،اس میں اُن سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ تم اپنے بیوی بچوں اور انفس کو مدینہ میں حاضر کر دورنہ مباہلہ نہیں ہو سکے گا.یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشکش فرمائی تھی کہ آپ اور آپ کے اعزہ و اقارب اور دیگر مسلمان انفس سب نجران میں کسی جگہ اکٹھے ہوں گے.پس آپ ایسی لغو تاویل کرتے ہیں جو عقل اور واقعات، دونوں کے خلاف ہے.4.بہر حال اگر آپ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ مباہلہ سے بچنے کے لئے یہ بہانہ اختیار کرنا ہے کہ خدا تعالی ، نعوذ باللہ، اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ دور بیٹھے ہوئے لوگوں پر لعنت کے ابتهال کو قبول فرمائے تو پھر ہم آپ کی توجہ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت کی طرف مبذول کراتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نان زعمعُمُ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَتَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (سورة الجمعه 7) آپ چونکہ سمجھتے ہیں کہ آپ مرزا غلام احمدقادیانی اور ان کے متبعین کی نسبت خدا تعالیٰ کو زیادہ پیارے ہیں.لہذا اس آیت کی روشنی میں موت کی تمنا کر کے دکھائیں کہ اگر آپ اس دعوی میں جھوٹے ہیں تو اللہ تعالی آپ کو ایک عبرتناک موت دے کر دنیا کے لئے ہدایت کا موجب بنادے.5.ہم چونکہ قطعی طور پر اس یقین پر قائم ہیں کہ مبللہ کے لئے کسی ایک جگہ اکٹھا ہونا ضروری
381 نہیں.صرف وضاحت کے ساتھ دنیا کے علم میں لا کر یہ دعا کرنی ضروری ہے کہ جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو.تا کہ یہ محض انفرادی بددعانہ رہے بلکہ اس کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والے نشان بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کا موجب بنیں.اس لئے امام جماعت احمدیہ نے جو پیشکش کی تھی، اس میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی تھی اور وہ خود اپنی جماعت کے ساتھ 10 جون 1988ء بروز جمعتہ المبارک جھوٹے پر لعنت ڈال کر مباہلہ کا ایک فریق پہلے ہی بن چکے ہیں.پس اگر آپ میں اخلاقی اور ایمانی جرات ہے تو آپ بھی صاف صاف اعلان کریں کہ آپ کو یہ دعوت منظور ہے یا نہیں؟ اگر منظور ہے تو پھر وہ التزامات دہرائیں جو آپ لوگ مدت سے جماعت احمدیہ پر لگاتے چلے آرہے ہیں اور جن کا ذکر مباہلہ کے چینج میں کیا گیا ہے اور لعنتہ اللہ علی الکاذ مبین کہ کر مباہلہ کا فریق بن جائیں.لیکن ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ تقویٰ اختیار کریں اور استغفار سے کام لیں اور خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ امام کے خلاف بے با کی چھوڑ دیں تا کہ آپ خدا کی ناراضگی سے بچیں.اور اب تک خدا تعالیٰ نے جو تائیدی نشان ظاہر فرماتے ہیں، ان سے عبرت حاصل کریں.مباہلہ کالب لباب تو یہ ہے کہ دوسرے فریق کا جھوٹ دنیا پر ظاہر ہو جائے.اگر آپ نے بقیہ امور کے متعلق ضد کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہو تو بھی مخالف علماء کے اس جھوٹ کا آپ کیا عذر پیش کریں گے جس کا مباہلہ میں ذکر ہے.اور وہ جھوٹ سب دنیا کے سامنے طشت از بام ہو چکا ہے.یعنی جماعت احمدیہ اور امام جماعت احمدیہ پر اسلم قریشی کے قتل کا الزام.اگر آپ اس تنبیہ کے باوجود بھی دھوکہ دہی سے باز نہ آئے اور عوام پر یہ تاثر ڈالا کہ آپ میلہ کا چیلنج دے رہے ہیں اور گو یا ہم راہ فرار اختیار کر رہے ہیں تو ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کے اس فعل کو مسلہ کی قبولیت کے مترادف سمجھتے ہوئے آپ کے متعلق اپنا قہری نشان ظاہر فرمائے.خاکسار: رشید احمد چوہدری پریس سیکرٹری جماعت احمدیہ - لندن ( بحوالہ ہفت روزہ بدر قادیان - 17 نومبر 1988 ، صفحہ 11)
382 جماعت اسلامی کے سربراہ کو مباہلہ کا چیلنج اور ان کار عمل جماعت اسلامی کے سربراہ میاں طفیل محمد کو بھی مباہلہ کا چیلنج بھجوایا گیا تھا.انہوں نے جو جواب دیا اس کے اہم نکات کا جواب دیتے ہوئے انہیں مکرم رشید احمد چوہدری صاحب پریس سیکرٹری نے لکھا: جناب میاں طفیل محمد صاحب ! آپ کا خط حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں موصول ہوا.آپ کے خط کے اہم نکات کا جواب اختصار کے ساتھ درج ذیل ہے.1.آپ نے فرمایا ہے کہ احمدیوں کو قرآن پاک کی اصطلاحیں استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ ہماری پارلیمان، ہماری عدالتیں اور ہمارے علماء و مفکرین سب کے سب مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیروکاروں کو خارج از اسلام اور غیر مسلم قرار دے چکے ہیں.آپ کی اس تحریر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ محض ایک دنیا دار آدمی ہیں اور مذہب کو بھی صرف سیاست کے ترازو میں تو لنا جانتے ہیں.تبھی تو آپ نے خدا اور اس کے رسول کے فیصلوں کو یکسر نظر انداز کر کے پارلیمان کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے.یہ پارلیمان وہ ہے جس کی اکثریت خود آپ کے نزدیک دینی علم و عمل سے عاری تھی.آپ نے قرآن کریم، احادیث اور تمام سابقہ ائمہ اسلام سے ہٹ کر یہ عجیب مسلک اختیار کر لیا ہے کہ کسی شخص یا جماعت کے مسلمان ہونے کا فیصلہ خدا اور اس کا رسول نہیں کریں گے.بلکہ ملکی پارلیمان، عدالتیں اور ملاں مجاز ہیں کہ جس کو چاہیں مسلمان قرار دیں اور جس کو چاہیں دائرہ اسلام سے خارج کردیں.جماعت احمدیہ کا موقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ہر وہ شخص جو کلمہ شہادت پڑھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، اس کے مسلمان کہلانے کا حق دنیا میں کوئی اس سے نہیں چھین سکتا.یہ حق اس کو خدا اور رسول نے دیا ہے.اور دنیا کی طاقت نہیں کہ اس سے اس حق کو چھین سکے جو خدا اور رسول نے اس کو عطا کیا ہے.آپ کے خط سے یہ بھی کوتاہ نظری معلوم ہوئی کہ اسلام تو عالمگیر ہے اور آپ پاکستان کی پارلیمنٹ
383 کے فیصلے کو ایک عالمگیر مذہب کے اوپر چسپاں کرنے کا زعم رکھتے ہیں.پاکستان کا قانون تو پاکستان کی جغرافیائی حد سے باہر نہیں جاتا جبکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین تھے.اس لئے پاکستان ہو یا کوئی اور ملک کسی کے سیاسی فیصلے کا مذہب اسلام پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا.2.آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ”ہمارے نزدیک مباہلہ تو کجا، کسی بحث و تکرار کے لئے آمادگی بھی ارتکاب کفر کے مترادف ہے.“ آپ کی یہ بات بھی قرآن کریم اور سنت رسول کے بالکل برعکس ہے.اور آپ کا موقف یہ بنتا ہے کہ چونکہ آپ کو احمدیت کے جھوٹا ہونے اور اپنے سچا ہونے پر کامل اعتماد ہے، اس لئے کسی مباہلہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی.آپ نے یہ اتنا خطرناک موقف اختیار کیا ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی ایسی بہتک کی ہے کہ آپ پر کثرت سے استغفار لازم ہے.جب حضور اکرم نے نجران کے عیسائیوں کو مباہلہ کی دعوت دی تو کیا نعوذ باللہ آپ کو ان کے جھوٹا ہونے اور اپنے سچا ہونے میں کسی قسم کا شک تھا؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر ایمان ہے؟ آپ کی ذہنی الجھنوں اور تضاد پر افسوس ہوتا ہے کہ عالم دین کہلا کر کس قدر دین کی مبادیات سے غافل ہیں.آپ کے خط کے دوسرے حصے میں جن الزامات کا ذکر کیا گیا ہے یہ تو سب وہی الزامات ہیں جو ہمیشہ جماعت پر لگائے جاتے ہیں اور آپ کی اس قسم کی دل آزاریوں کی وجہ سے ہی تو آپ کو دعوت مباہلہ دی گئی ہے.آپ پھر انہی باتوں کو دہرا رہے ہیں.حضرت امام جماعت احمدیہ کو ان الزامات کے جھوٹا ہونے پر اتنا یقین ہے کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِین کہا ہے.اگر آپ کو ان الزامات کی صداقت پر اتنا ہی یقین ہے تو پھر لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الكاذبين کہنے میں کیا حرج ہے؟ کیا عالم الغیب والشہادۃ خدا کوعلم نہیں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ؟ آپ کے لئے تو یہ بہترین موقعہ ہے کہ آپ حضرت امام جماعت احمد یہ کایہ چیلنج قبول کر کے عوام الناس
384 کو گمراہی سے بچالیں.ہماری تو سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر آپ فیصلہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں لے جانے سے ہچکچاہٹ کیوں ظاہر کر رہے ہیں.“ مباہلہ کا اصل مقصود ( بحوالہ ہفت روزه بدر قادیان 19 جنوری 1989 ، صفحہ 1 اور 6) حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 5 ر ا گست 1988ء میں بتایا کہ مباہلہ سے مقصد صرف اتنا ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے روشن نشان ظاہر فرمائے جس کے نتیجہ میں کثرت سے لوگ ہدایت پائیں.آپ نے فرمایا:...اس لیے اگر عبرت انگیز نشان چاہتے ہیں تو اس وجہ سے کیونکہ عبرت میں دنیا کا ایک نشان کو دیکھنے کا مضمون شامل ہوتا ہے.جب کہتے ہیں کہ فلاں سزا میں عبرت پائی جاتی ہے تو مراد یہ ہے کہ لوگ کثرت سے اُسے دیکھیں اور اس سے استفادہ کریں.تو آپ عبرت کے نشان ضرور مانگیں اور یہ دعا ضرور کریں کہ وہ علماء جو بد کلامی سے باز نہیں آرہے، جو مباہلہ کے مضمون کو بھی دھوکے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور مزید تخلق خدا سے مکرو فریب سے کام لے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کے مکر و فریب ننگے کر دے، اُن کے جھوٹ ظاہر فرمادے اور انہیں عبرتناک سزائیں دے.تاکہ دنیا ان کی سزاؤں سے استفادہ کرے اور وہ جو ڈرنے والے ہیں اور وہ خاموش اکثریت جو در اصل حما شاہین ہے اُسے بھی اس مذاب سے بچائے...خدا تعالیٰ سے یہ دھا کریں کہ صرف وہ معاندین تیرے مذاب کے نیچے آئیں اور عبرت کا نشان بنیں جنہوں نے عمداً جانتے بوجھتے حق کی مخالفت کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے...اور کھلم کھلا کذاب ہیں اور شرارت اور افترا پردازی سے باز نہیں آر ہے اور ان کے وہ مرید اور ماننے والے جو ہمیشہ فساد میں ان کا ساتھ دیتے ہیں اور جب وہ انہیں معصوم انسانوں پر ظلم کے لیے بلاتے ہیں تو لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں صرف ان کو اپنے عذاب کا نشان بنا اور عبرت کا نشان بنا..اگر عبرت کے نشان کے ساتھ ساری قوم ہی مٹ جائے تو پھر حق کو قبول کون کرے گا.اس خیال سے بھی...کہ اکثریت بچ جائے ، اکثریت اس نشان کو دیکھے، اکثریت اس نشان سے فائدہ اٹھائے اور اللہ تعالی کے فضل اور رحم کے ساتھ اس مباہلہ کے بعد احمدیت ایک عظیم
385 الشان طاقت کے طور پر ابھرے اور اتنا عظیم نشان ظاہر ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ علاقوں کے علاقے مسلمانوں کے احمدیت کے ساتھ شامل ہو جائیں اور وہ فتح کا دن جو ہمیں ڈور دکھائی دے رہا ہے.اس بڑھتی ہوئی پھیلتی ہوئی توانا کر ہوئی قوت کے ساتھ جلد تر ہمارے قریب آجائے اور تمام دنیا پر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا جھنڈا نصب کر سکیں.“ ( خطبات طاہر شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن رہوہ جلد 7 صفحہ 538-540) اس مباہلہ کے نتیجہ میں احمدیت کی صداقت کو ظاہر کرنے والے اور مکڈ بین و مکھرین کے جھوٹ اور افتراء پر مبنی الزامات کی قلعی کھولنے والے متعدد عظیم الشان نشانات ظاہر ہوئے.احمدیت کے مخالف وہ علماء اور مسلمان حکومتوں کے سربراہ جو جماعت احمدیہ پر کبھی انگریزوں کے، کبھی امریکہ کے اور کبھی یہودیوں کے ایجنٹ ہونے کے الزام دھرتے تھے اس مباہلہ کے بعد عالمی سطح پر ایسے واقعات رونما ہوئے کہ خود انہی لوگوں پر یہ الزام ٹھوس حقائق کے ساتھ واپس لوٹائے گئے اور دنیا پر خوب آشکار ہو گیا کہ کون کس کا ایجنٹ ہے اور کون کس کے مفادات کا محافظ ہے.اسی طرح وہ لوگ جو احمدیوں کو پاکستان کا دشمن اور ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتے تھے اور ملک کے اندر ہر قسم کی بدامنی اور فساد کا اور دہشتگردی اور تخریب کاری کا ذمہ دار احمدیوں کو ٹھہراتے تھے خود و ہی ان حرکتوں میں ملوث ثابت ہوئے.ایک ایک جھوٹ اور افتراء انہی پر واپس کو ٹا.اور یہ تمام امور قطعی شواہد کے ساتھ اخبارات اور میڈیا میں محفوظ ہو گئے.خدا کی لعنت کی ماران جھوٹوں پر پڑی اور وہ طرح طرح کی ذلت و نکبت اور عذاب اور قہری تجلیوں کا نشانہ بنے.ان سب باتوں کی عبرت انگیز تفصیلات بہت طویل ہیں.وقت آئے گا اور لکھنے والے تحقیق کر کے ان باتوں کو لکھیں گے.لیکن سر دست ہم اس تفصیل میں جانا نہیں چاہتے.اس کے بالمقابل خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستہ جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کی برسات خوب کھل کر برسی.جماعت کو برکت پر برکت عطا ہوئی اور اس مباہلہ کے بعد
386 آنے والا ہر دن، ہر مہینہ اور ہر سال احمدیت کی صداقت کو روشن سے روشن تر کرنے والا ثابت ہوا.یہ مضمون بھی بہت طویل اور حد درجہ ایمان افروز ہے.اس کتاب میں صرف بعض پہلوؤں سے احمدیت کی ترقی کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جارہا ہے.اور احمدیت کی حقانیت کو ثابت کرنے والے لا تعداد نشانوں میں سے بعض کا تذکرہ ہدیہ قارئین ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کر دگار مباہلہ کے نتیجہ میں دشمنوں کو ذلیل ورسوا کرنے والا ایک حیرت انگیز نشان مینہ مقتول اسلم قریشی کی زندہ سلامت واپسی مباہلہ کے چیلنج میں حضرت خلیفتہ امسح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے اس الزام کا خاص طور پر ذکر فرمایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ اسلم قریشی نامی ایک شخص کے اغواء اور قتل میں ملوث ہیں ( نعوذ باللہ ).حضور نے اس الزام کا معین طور پر ذکر کرتے ہوئے اور اسے سراسر جھوٹ اور افتراء قرار دیتے ہوئے لَعْنَةُ الله عَلَى الْكَاذِبِینَ کی دعا کی تھی.اللہ تعالی کی یہ شان ہے کہ ابھی اس مباہلہ کے چیلنج کو ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ اسلم قریشی نام وہ شخص جس کے قتل کا الزام بحیثیت سربراہ جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع ( رحمہ اللہ) پر لگایا جاتا تھا اور ساری را جماعت کو اس پر متہم کیا جاتا تھا زندہ سلامت ایران سے کوئٹہ ( پاکستان ) پہنچ گیا.حضرت خلیفۃ أسبح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یو کے 1988ء کے موقع پر 22 جولائی کو اپنے افتتاحی خطاب میں اسلم قریشی کی واپسی اور مخالفین پر مباہلہ کی اس زبردست مار اور ان کے جھوٹ اور افتراء کا پردہ فاش ہونے کا ذکر کرتے ہوئے اسے خدا تعالی کا ایک حیرت انگیز نشان قرار دیا جس نے دشمنوں کو رسوا اور ذلیل کر دیا.“ یہ اسلم قریشی وہی شخص ہے جو اسلام آباد (پاکستان) میں ایک لفٹ آپر میر تھا.جس نے صاحبزادہ
387.مرزا مظفر احمد صاحب پر اسلام آباد میں قاتلانہ حملہ کیا تھا.اس قاتلانہ حملہ کے نتیجہ میں یہ صاحب اچانک مولانا بن گئے اور مولانا بھی اس پایہ کے کہ تحفظ ختم نبوت کی مجلس میں اور مجلس احرار میں ان کو بے بدل عاشق رسول کے خطاب دیئے گئے.اس شخص کے متعلق مخالف احمدیت ملاؤں نے حلف اٹھا اٹھا کر اور واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیے ہوئے تھے کہ احمدیوں کی طرف سے نہ صرف یہ کہ اس کو اغوا کیا گیا ہے بلکہ اغوا کر کے قتل کر دیا گیا ہے.یہاں تک اعلان تھے کہ قصر خلافت ( ربوہ) کی عمارت کو اکھاڑیں اس کی زمین میں سے اس مولوی کی لاش نکلے گی.اور یہ اعلان کیسے گئے تھے کہ اگر ہم جھوٹے ثابت ہوں تو ہمیں برسر عام پھانسی دی جائے، کوڑے لگائے جائیں، گولی سے اڑا دیا جائے.(ملاحظہ ہوں اخبار جنگ لاہور 26 / فروری 1983 ء بیان مولانا عبد القادر روپڑی ، لولاک 20 رمئی 1983 ، صفحہ 5 ، لولاک 27 رمئی 1983ء ، جسارت 11 جولائی 1984ء، ہفت روزہ ختم نبوت انٹرنیشنل جلد 4 شماره 31 صفحہ 15 ، امروز 12 / فروری 1986ء، ہفت روزہ چٹان 19 / نومبر 1984ء ، لولاک 14 جولائی 1983ء صفحہ 14 ، وفاق لاہور 25 نومبر 1984ء، نوائے وقت لاہور 18 فروری 1984ء) اسلم قریشی کی روپوشی کے حوالہ سے اخبارات میں شائع ہونے والی مختلف خبروں کے تجزیہ سے یہ بات خوب کھل جاتی ہے کہ یہ ایک باقاعدہ سازش تھی اور کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا.اس حوالہ سے عوام میں جماعت کے خلاف خوب اشتعال پھیلا یا گیا اور احمدیوں کو طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا گیا.اس ساری مہم میں اُس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی پشت پنا ہی ملاؤں کو حاصل تھی.چنانچہ 8 رمئی 1984ء کے روزنامہ نوائے وقت میں حکومت پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی طرف منسوب یہ خبر شائع ہوئی کہ اسلم قریشی کی گمشدگی کا معاملہ میرے لئے باعث تشویش ہے.“ اسی طرح اخبارات میں یہ بھی ذکر ہوا کہ جنرل ضیاء نے پولیس کو جلد سے جلد اور کم سے کم وقت میں اپنی تحقیقات فائنلائز کرنے کی تاکید کی ہے.22 / فروری 1985ء کو یہ اعلان اخبار میں شائع ہوا کہ صدر پاکستان نے سیالکوٹ کے مولانا اسلم قریشی کی گمشدگی کا معاملہ حل نہ کرنے پر سخت نوٹس لیا اور پولیس کو ڈرایا دھمکایا ہے کہ تم کیوں اس معمہ کو جلد
388 حل نہیں کرتے.صدر پاکستان نے پنجاب پولیس کو تمام وسائل بروئے کارلانے کی ہدایت کی.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اسلم قریشی کی روپوشی اور مباہلہ کے چیلنج کے بعد اس کی بازیابی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: م اللہ تعالی نے جب مجھے یہ توفیق عطا فرمائی کہ میں تمام معاندین احمدیت کو مباہلہ کا چیلنج دوں تو اس میں میں نے یہ بات بطور خاص لکھی ، خطبے میں بھی بیان کی اور تحریر میں یہ بات شامل کی کہ تیم بحیثیت سربراہ جماعت احمد یہ مجھ پر ایک شخص اسلم قریشی کے قتل کا الزام لگا رہے ہو...اس لئے تمہیں مباہلہ کا چیلنج دیتے ہوئے میں اس بات کو بھی شامل کرتا ہوں تم بھی خدا کی قسم کھا کر کہو کہ واقعہ اس شخص کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا ہے اور جماعت احمدیہ کے سربراہ نے ایسا کیا ہے اور میں بھی اعلان کرتا ہوں کہ الف سے 'ی' تک یہ سارا دروغ ہی دروغ ، جھوٹ ہی جھوٹ ہے.پس تم بھی خدا کی لعنت ڈالو جھوٹے پر اور میں بھی خدا کی لعنت ڈالتا ہوں جھوٹے پر.یہ اس تاریخ کا اعلان ہے اور ایک مہینے کے اندر اندر بلکہ بعینہ ایک مہینے پر عین اس تاریخ کو، جولائی ہی کی اس تاریخ کو اسلم قریشی صاحب ایران سے کوئٹہ پہنچ گئے.گو ان کے پہنچنے کی خبریں کچھ دن بعد شائع ہوئیں.لیکن یہ بات مسلمہ اور مصدقہ ہے کہ وہ مین دس تاریخ کو پاکستان میں داخل ہوئے...13 / جولائی 1988 ء کو ایک پریس کانفرنس بلائی گئی جس میں آئی جی پنجاب پولیس نے یہ انکشاف کیا اور اس پر مولانا اسلم صاحب کے ساتھ پریس والوں نے کچھ سوال بھی کئے جن کے جواب بھی اخبار میں شائع ہوئے.“ اس پریس کانفرنس میں اسلم قریشی صاحب نے کہا کہ میں نے نامساعد گھر یلو اقتصادی حالات اور نا موافق دینی ماحول سے تنگ آکر خود ہی رخت سفر باندھا اور یہاں سے پہلے گوادر اور پھر ایران چلا گیا اور بعد میں ایرانی فوج میں بھرتی ہو گیا....اس نے یہ بھی کہا کہ میں خود اس لئے گم نہیں ہوا کہ قادیانی اقلیت کو پریشان کروں.اس نے یہ بھی اقرار کیا کہ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا بلکہ میں اپنی مرضی سے بعض وجوہ کی بنا پر ایران گیا تھا.(دیکھیے اخبارات نوائے وقت لاہور 13 / جولائی 1988ء، مشرق لاہور 13 جولائی 1988ء ، روزنامه جنگ لاہور 13 جولائی 1988ء ،
389 امروز 13 / جولائی 1988ء ، جنگ 14 جولائی 1988ء ، روزنامه ملت لندن 14 ر جولائی 1988ء وغيره) اسلم قریشی کی روپوشی اور واپسی اور اس کے بیانات سے یہ بات خوب واضح ہو گئی کہ جماعت احمدیہ پر اس کے اغوا اور قتل کا الزام سراسر جھوٹ اور افتراء تھا.اسلم قریشی کے اس طرح اچانک سامنے آنے سے معاند احمد بیت علماء کا نہ صرف جھوٹا ہونا ثابت ہوا بلکہ ان کی ذلت ورسوائی بھی ہوئی اور یہ واقعہ عین اس وقت ہوا جبکہ ایک مہینہ پہلے باقاعدہ ان کو مباہلہ کا چیلنج دیا گیا تھا اور اس میں اس الزام کا ذکر کرتے ہوئے جھوٹوں پر خدا کی لعنت ڈالی گئی تھی.بلاشبہ یہ ایک حیرت انگیز نشان تھا جو مباہلہ کے نتیجہ میں ظاہر ہوا اور جس نے جھوٹوں کو ذلیل ورسوا کر دیا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنی ایک نظم میں اس نشان کا ذکر فرمایا جو جلسہ سالانہ یو کے 1988ء پر پڑھی گئی.آپ فرماتے ہیں:.دیکھو اِک شاطر دشمن نے کیسا ظالم کام کیا پھینکا مکر کا جال اور طائر حق زیر الزام کیا نا حق ہم مجبوروں کو اک تہمت دی جلادی کی قتل کے آپ ارادے باندھے ہم کو عبث بدنام کیا دیکھو پھر تقدیر خدا نے، کیسا اُسے ناکام کیا مکر کی ہر بازی الٹا دی، دجل کو طشت از بام کیا الٹی پڑگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دغا نے کام کیا دیکھا اِس بیماری دل نے، آخر کام تمام کیا زنده باد غلام احمد، پڑ گیا جس کا دشمن جھوٹا جَاءَ الْحَقُ وَزَهَقَ الْبَاطِلِ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا جب سے خدا نے ان عاجز کندھوں پر بار امانت ڈالا راہ میں دیکھو کتنے کٹھن اور کتنے مہیب مراحل آئے
390 بھیڑوں کی کھالوں میں لیٹے ، کتنے گرگ ملے رستے میں مقتولوں کے بھیس میں دیکھو، کیسے کیسے قاتل آئے آخر شیر خدا نے بھر کر، ہر بن باسی کو للکارا کوئی مُبارز ہو تو نکلے، سامنے کوئی مباہل آئے ہمت کس کو تھی کہ اٹھتا، کس کا دل گردہ تھا نکلتا کس کا پتا تھا کہ اٹھ کر، مرد حق کے مقابل آئے آخر طاہر سچا نکلا، آخر ملاں جھوٹا نکلا جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلِ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ملاں کیا روپوش ہوا اک تھی بھاگوں چھینکا ٹوٹا اپنے مریدوں کی آنکھوں میں جھونکی دُھول اور پیسہ لوٹا قریہ قریہ فساد ہوئے تب، فتنہ گر آزاد ہوئے سب احمدیوں کو بستی بستی پکڑا دھکڑا مارا کوٹا کر ڈالیں مسمار مساجد ٹوٹ لئے کتنے ہی معابد جن کو پلید کہا کرتے تھے، لے بھاگے سب اُن کا نجوٹھا کاٹھ کی ہنڈیا کب تک چڑھتی ، وہ دن آنا تھا کہ پھٹتی وہ دن آیا اور فریب کا، چوراہے میں بھانڈا پھوٹا کہتے ہیں پولیس نے آخر، کھود پہاڑ نکالا چوہا جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلِ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا جاؤں ہر دم تیرے وارے، میرے جانی میرے پیارے مو نے اپنے کرم سے میرے، خود ہی کام بناتے سارے پھر اک بار گڑھے میں تو نے، سب دشمن چن چن کر اتارے
391 کر دئیے پھر اک بار ہمارے آقا کے اونچے مینارے اے آڑے وقتوں کے سہارے، سبحان اللہ یہ نظارے اک دشمن کو زندہ کر کے مار دیئے ہیں دشمن سارے دیکھا کچھ.مغرب کے افق سے کیسا سچ کا سورج نکلا مجھ گئے دیپ جلسم نظر کے، جٹ گئے جھوٹ کے چاند ستارے اپنا منہ ہی کر لیا گندا، پاگل نے جب چاند پر تھوکا جَاءَ الْحَقُ وَزَهَقَ الْبَاطِلِ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا جنرل ضیاء الحق سے متعلق نشان ( جلسہ سالانہ کیو کے 1988 ء حوالہ کلام طاہر صفحہ 31 33) حکومت پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق نے برسر اقتدار آنے کے چند ہفتے بعد ہی احمدیت کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا تھا.چنانچہ اس نے فخریہ بیان دیا کہ ہم قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے چکے ہیں.“ (نوائے وقت 13 ستمبر 1977ء صفحه (4) 6 تا 18اکتوبر 1978ء کو ضیاء حکومت کے زیر اہتمام پہلی ایشیائی کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی جس میں احمدیوں کے غیر مسلم ہونے اور ان کے بائیکاٹ کرنے کی قرار داد منظور کی گئی.مطبوعہ رپورٹ کا نفرنس صفحہ 69-71) 24 / مارچ 1981ء کو جنرل ضیاء نے عبوری آئین کے لئے ایک نئی شق کا اضافہ کر کے وضاحت کی کہ قادیانی غیر مسلم ہیں.30 مئی 1981ء کو ضیاء حکومت نے تفسیر صغیر کو ضبط کر لیا جس کے بعد مخالف احمدیت سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا.18 نومبر 1983ء کو جنرل ضیاء نے بیان دیا کہ میں قادیانیوں کو کافر سے بھی بدتر سمجھتا ہوں.( روزنامہ جنگ 18 دسمبر 1983ء)
392 اس پس منظر میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے عہد خلافت کے دوسرے جلسہ سالانہ (دسمبر 1983ء) کے موقع پر اپنی ایک پُر شوکت نظم میں جو انذار فرمایا وہ بعد میں حیرت انگیز طور پر ایک نشان کی صورت میں پورا ہوا.آپ نے فرمایا: دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو! آفت ظلمت وجور عمل جائے گی آو مومن سے ٹکرا کے طوفان کا رخ پلٹ جائے گا، رت بدل جائے گی تحم دعائیں کرو یہ دعا ہی تو تھی، جس نے توڑا تھا سر کبر عمر ودکا ہے ازل سے یہ تقدیر نمرودیت ، آپ ہی آگ میں اپنی جل جائے گی یہ دُعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا، ساحروں کے مقابل بنا اژدھا آج بھی دیکھنا مر وحق کی دعا بسحر کی ناگنوں کو نگل جائے گی ہے ترے پاس کیا گالیوں کے سوا، ساتھ میرے ہے تائید رب الوریٰ کل چلی تھی جو لکھو پہ تریخ دعاء آج بھی اذن ہو گا تو چل جائے گی دیر اگر ہو تو اندھیر ہر گز نہیں، قولِ أُمَلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِدِين سنت اللہ ہے، لا جرم بِالْیقیں، بات ایسی نہیں جو بدل جائے گی 19 دسمبر 1983ء کو جنرل ضیاء نے ایک غضب آلود بیان میں احمدیوں کو منافقین اور مشرکین قرار دیتے ہوئے دھمکی دی کہ انہیں ختم نبوت یا نظریہ اسلام سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.روزنامه جنگ لاہور 20 دسمبر 1983ء) اگلے سال 17 فروری 1983ء کو ایک خاص سازش کے تحت اسلم قریشی کی پر اسرار گمشدگی کا ڈھونگ رچایا گیا اور اس کے اغوا اور قتل کی تہمت جماعت احمدیہ کے مقدس امام حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ پر لگائی گئی.شخص 12 جولائی 1988ء کوڈرامائی انداز میں واپس آ گیا.اس کی تفصیل الگ بیان ہو چکی ہے.) 15 اپریل 1984ء کو جنرل ضیاء الحق نے لاہور میں ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ قادیانیوں کو اپنے عقائد کی تشہیر کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اگر انہوں نے اپنی تبلیغ بند نہ کی تو ان کے
393 خلاف سخت اقدامات کئے جائیں گے.ان کے اخبار و رسائل اور کتب ضبط کر لی جائیں گی.ڈان کراچی، نوائے وقت لاہور، جنگ لاہور ، مشرق لاہور 15 را پریل 1984ء) 26 را پریل 1984ء کو جنرل ضیاء نے جماعت احمدیہ کے خلاف بدنام زمانہ صدارتی آرڈینٹس نمبر 20 نافذ کردیا جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا.ضیاء حکومت کی وسیع اور خطرناک سازش کو پاش پاش کرتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الرابع خدا تعالیٰ کے فرشتوں کے جلو میں بخیریت 30 اپریل 1984ء کو انگلستان پہنچ گئے.اس رُسوائے عالم آرڈینینس کے بعد جنرل ضیاء کے دور میں پاکستان کے احمدیوں پر قافیہ حیات مزید تنگ کر دیا گیا.اذانیں بند کر دی گئیں.کلمہ طیبہ پڑھنے، لکھنے اور اس کے بیج اپنے سینوں پر آویزاں کرنے کی پاداش میں بہت سے مظلوم احمدی جیلوں میں ٹھونس دیئے گئے.جماعت کی متعدد کتابوں پر پابندی لگادی گئی.ضیاء الاسلام پریس ربوہ کو سر بمہر کر دیا گیا.روزنامہ الفضل کو بند کر دیا گیا.جلسہ سالانہ اور دوسرے اجتماعات بھی ختم کر دیے گئے.پاسپورٹ میں مذہب کے ناد کا اضافہ کیا گیا.جنرل ضیاء کی ہرزہ سرائی اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع " کی زبردست پیشگوئی جنرل ضیاء نے 8 دسمبر 1984ء کو قومی سیرت کانفرنس میں جماعت احمدیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ” میں ان تمام لوگوں کو جو غلط راستے پر ہمیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ کلمہ پڑھیں.اسلام کی صفوں میں شامل ہو جائیں.ختم نبوت پر ایمان لے آئیں.اور قرآن پاک کو اللہ تعالی کی آخری کتاب سمجھیں.اگر یہ لوگ ایسا کرلیں تو میں انہیں سینے سے لگانے کے لیے تیار ہوں“.نیز کہا ملک میں اقلیتیں محفوظ ہیں لیکن مشرکین کے لئے کوئی گنجائش نہیں.“ ( روزنامہ مشرقی ایوننگ اسپیشل کراچی 8 دسمبر 1984ء) سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے اس کے جواب میں 14 دسمبر 1984ء کومسجد مبارک ہالینڈ میں ایک باطل شکن اور جلالی خطبہ ارشاد فرمایا اور بتایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت احمدیہ پر یہ الزام کہ ( نعوذ باللہ من ذالک) وہ گستاخ رسول ہیں اس سے زیادہ جھوٹا، بہیمانہ اور ظالمانہ الزام اور کوئی نہیں لگایا جاسکتا.نیز یہ پرشوکت پیشگوئی فرمائی کہ
394 خدا تعالٰی کی عظمت کی قسم کھا کر ہم کہتے ہیں، خدا کے جتنے بھی مقدس نام ہیں ان سب ناموں کی قسم کھا کر کہتے ہیں، ان ناموں کی بھی جو دنیا کو معلوم ہیں اور ان مقدس ناموں کی بھی جن کی سنہ اور جن کی انتہا کا کسی کو کوئی علم نہیں کہ ہم حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے پاؤں تک عاشقی ہیں.آپ کے قدموں کی خاک کے بھی عاشق ہیں.اس زندگی پر ہم لعنت بھیجتے ہیں جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے عاری ہو.اگر یہ الزام سچ ہے تو اے خدا ہم پر بھی لعنتیں نازل فرما اور ہماری نسلوں پر قیامت تک لعنتیں کرتا چلا جا کیونکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری کا ہم کوئی تصور نہیں کر سکتے.یہی وہ لعنت ہے، اس لعنت کو ہم کسی قیمت پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.اور اگر یہ جھوٹ ہے تو پھر قرآن کریم کی زبان سے زیادہ میں اور کوئی زبان استعمال نہیں کرتا کہ لغتتَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَافِيين لَعْنَةُ الله عَلَى الْكَاذِبِينَ اب یہ آسمان کا خدا بتائے گا اور آنے والی تاریخ بتائے گی کہ آسمان کس پر لعنتیں برسا رہا ہے اور کس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے؟ کس کو عزت اور شرف سے یادر کھا جاتا ہے اور کس کو ذلت اور نامرادی کے ساتھ یا درکھا جاتا ہے؟...اسی طرح فرمایا: جماعت احمدیہ تو خدا تعالی کے فضل سے ایک والی رکھتی ہے، ایک ولی رکھتی ہے.جماعت احمدیہ کا ایک مولا ہے اور زمین و آسمان کا خدا ہمارا مولا ہے.لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارا کوئی مولا نہیں.خدا کی قسم جب ہمارا مولا ہماری مدد کو آئے گا تو کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکے گا.خدا کی تقدیر جب تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کرے گی تو تمہارے نام ونشان مٹادیئے جائیں گے اور ہمیشہ دنیا تمہیں ذلت اور رسوائی کے ساتھ یاد کرے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام عاشق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہمیشہ روز بروز زیادہ سے زیادہ عزت اور محبت اور عشق کے ساتھ یاد کیا جایا کرے گا.“ جہاں تک صدر پاکستان کی طرف منسوب بیان کے اس حصہ کا تعلق تھا کہ احمدیوں کے لئے دو ہی راستے ہیں یا تو ملک چھوڑ جاؤ یا پھر سیدھی طرح کلمہ پڑھ کر مسلمان بن جاؤ تو ہم تمہیں چھاتی سے لگالیں گے.اس کا بھی حضور رحمہ اللہ نے بہت پر زور، مدلل اور باطل شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:
395 احمدیوں کو کہا جارہا ہے کہ وطن چھوڑ دو.اور پھر اگلی بات، در نہ کلمہ پڑھ لو.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.کلمہ پڑھنے کے نتیجے میں تو مارے جارہے ہیں ابھی تک بے چارے.اس جرم میں تو وہ سزائیں دیئے جارہے ہیں کہ کلمہ کیوں پڑھتے ہیں؟ اس جرم کی پاداش میں جیلیں بھر رہے ہو تم کہ احمدی کلمہ کیوں پڑھتے ہیں اور سیاہیاں پھر وار ہے ہو.یہ وہ اسلامی حکومت ہے جو اسلام کے نام پر قائم کی گئی تھی اور اب اسلام ہی کے نام پر کلے مٹانے پر لگی ہوتی ہے..کلمہ مٹانے والے تو تم ہو، کلمہ کو سینے سے لگانے والے تو ہم ہیں اور ہمیں کون سا کلمہ پڑھوانا چاہتے ہو؟ تمہارا کلمہ تو ہم نہیں پڑھیں گے.تمہارے ملاؤں کا کلمہ تو ہم نہیں پڑھیں گے.ہماری زبانیں گنڈی سے کھنچوا دو اگر کھنچوانے کی طاقت ہے.ہماری گردنیں کاٹ دو اگر کاٹنے کی طاقت ہے.ہمارے اموال تلف کر دوا گر تلف کرنے کی طاقت ہے.مگر خدا کی قسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھیں گے اور تمہارا کلمہ نہیں پڑھیں گے.ایک بھی احمدی ماں یا بیٹا نہیں ہے، ایک جوان یا بوڑھا نہیں ہے جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ کو چھوڑ کر کسی صدر مملکت، کسی سر براہ حکومت کا کلمہ پڑھ لے.اس لئے اُن سے کلمے پڑھواؤ، اُن کو چھاتیوں سے لگاؤ جن کو تمہاری چھاتیوں سے لگنے کی پروا ہے.جو مرتے ہیں کہ کسی طرح تمہاری چوکھٹ تک پہنچیں اور سجدے کریں تمہاری حکومت کو.ہمیں تو ان چھاتیوں کی کوئی پرواہ نہیں جن چھاتیوں میں جھوٹ ہے ، جن چھاتیوں میں بغض ہے، جن چھاتیوں میں کوئی انسانی قدر باقی نہیں رہی.ہم کیسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کی چھاتی کو چھوڑ کر تمہاری چھاتی سے لگنا گوارا کریں؟ کیسی دھمکی ہے! کیا لالچ ہے! اس قوم کو تو چھاتی سے لگاتے نہیں جو تمہارے نزدیک وہی کلمہ پڑھ رہی ہے جو تم پڑھ رہے ہو.اس قوم کی عزت سے تو کھیل رہے ہو جس قوم سے تمہارا کوئی مذہبی اختلاف نہیں ہے.وہ کونسی چھاتیاں تھیں جن کو تم نے چھلنی کیا سندھ میں، جن کو بلوچستان میں چھلنی کیا، جن کو پنجاب اور صوبہ سرحد میں چھلنی کیا ؟ کیوں کیا ؟ کیا وہ، وہ کلمہ نہیں پڑھتی تھیں جو تم سمجھتے ہو کہ تم پڑھتے ہو؟ پھر کس جرم اور کس کی سزا میں تم نے ان پر یہ مظالم روار کھے اور بعض گلیوں کو خون سے بھر دیا؟ بڑوں کے خون لئے ، بچوں کے خون لئے ، جوانوں
396 کے خون لئے ، عورتوں کو شدید اذیت ناک مصیبتوں قیدوں میں مبتلا رکھا اور ان کی بے عزتیاں کروائی گئیں.اس اسلامی حکومت میں تم یہ کہہ رہے ہو کہ ہماری چھاتی سے لگو کلمہ پڑھ کر کلمہ پڑھ کر تو ہم چھاتی سے لگنے کے اہل نہیں رہتے، ہم تو جیلوں کے قابل ہو جاتے ہیں لیکن جن کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ کوئی مذہبی اختلاف نہیں ہے، ایک ہی کلمہ ہے، ایک ہی زبان ہے ، ان کی چھاتیوں سے کیوں نہیں لگتے ؟ ان کو کیوں اپنی چھاتیوں سے نہیں لگاتے.ان کو کیوں پاؤں تلے روندتے ہی روند تے چلے جارہے ہو؟“ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: فراعین کے مظالم اور بڑے بڑے بد کردار اور متکبرین کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم کئی قسم کی آفات کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے ایسے لوگوں کو گھیر لیا جوز مینی بھی تھیں اور سماوی بھی تھیں.کچھ ایسی بھی تھیں جن میں بندوں کا دخل نہیں تھا.محض وہ آسمان سے نازل ہوئیں یا زمین سے پھوٹیں اور کچھ ایسی بھی تھیں جن میں بندوں کا بھی دخل تھا اور بندوں کو استعمال کیا گیا.ان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم آئندہ کے بارہ میں ایک ایسی پیشگوئی فرماتا ہے جو بعینہ ان حالات پر پوری لگتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ کہنے والے کی زبان سے قرآن کریم یہ کہلواتا ہے ویا قو مرائی اتحافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّعَادِ (المؤمن (33) کہ اے میری قوم میں تم پر ایک ایسے مذاب سے بھی ڈرتا ہوں جو تمہیں آئے گا جس کی شکل صورت یہ ہوگی کہ اہل وطن ایک دوسرے کو تمہارے خلاف مدد کے لئے پکاریں گے.القتاد اس کو کہتے ہیں جب شور پڑ جائے اور واویلا شروع ہو جائے اور وہ لوگ جو پنجاب کے دیہات سے خصوصاً واقف ہیں ان کو علم ہے خصوصاً جھنگ وغیرہ کے علاقے میں اگر رات کو کوئی چوری ہو جائے یا کوئی اور آفت پڑ جائے تولوگ، زمیندار چھتوں پر نکل جاتے ہیں اور واویلا شروع کر دیتے ہیں اور سارے ملک کو اپنی مدد کے لئے پکارتے ہیں ظالم کے خلاف.چنانچہ وہ آواز جہاں پہنچتی ہے پھر وہ آگے آواز چل پڑتی ہے.پھر اس سے آگے چل پڑتی ہے.پھر اس سے آگے چل پڑتی ہے.اور جہاں جہاں وہ آواز پہنچتی ہے لوگ گھروں سے نکل کر جو ان کے ہاتھ میں آتا ہے وہ لے کر نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ ایک مظلوم کی مدد کے لئے چلیں.تو اس کو کہتے ہیں يَوْمَ القتاد...خدا کی اس تقدیر
397 سے ڈرو جب کہ زمین میں تمہارے خلاف یوم الشَّعَادِ کی سی کیفیت پیدا ہو جائے اور سارا ملک ایک دوسرے کو تمہارے ظلم اور جبر کے خلاف آواز دینے لگے کہ اٹھو اور اس ظالم کو چکنا چور کر کے رکھ دو.اس کو ملیا میٹ کر کے رکھ دو.اور اگر یہ بس نہ جائے تو قو میں دوسری قوموں کو اپنی طرف بلائیں.یہ تقدیر الہی ہے تو لازما پوری ہو کر رہے گی.آج نہیں تو کل تم اس کا نمونہ دیکھو گے کیونکہ خدا تعالیٰ کے ہاں دیر تو ہے اندھیر کوئی نہیں.وہ ڈھیل تو دیا کرتا ہے مگر جب اس کی پکڑ آیا کرتی ہے تو ولات حین مناص (ص) (4) کوئی بھاگنے کی جگہ باقی نہیں رہتی.ایسا کامل گھیرا پڑ جاتا ہے کہ سوائے حسرت و نامرادی کے اور کچھ بھی انسان کے قبضہ قدرت میں نہیں ہوتا.اس وقت وہ یاد کرتا ہے کہ کاش ! میں اس سے پہلے اس دائرے سے باہر نکل چکا ہوتا مگر لکھنے کی کوئی راہ باقی نہیں.لیکن افسوس ہے ان قوموں پر جو ایسے وقت تک انتظار کریں کہ جب خدا کی تقدیر ایسی غضبناک ہو چکی ہو تو ان سربراہوں کے ساتھ قوموں پر بھی خدا کی ناراضگی کا عذاب ٹوٹ پڑے.“ ( خطبات طاہر شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد 3 صفحہ 723 739) جنرل ضیاء الحق نے لندن میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی ایک کانفرنس منعقدہ 1985ء کے لئے ایک خصوصی پیغام میں جماعت احمدیہ کو ایک کینسر قرار دیتے ہوئے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کیا.اپنے اس پیغام میں اس نے کہا: "in the last few years, in particular, the Government of Pakistan has taken several stringent administrative and legal measures to prevent the Qadianis from masquerading as Muslims, and from practising various Shaure-Islami.We will Insha'Allah, persevere in our effort to ensure that the cancer of Qadianism is exterminated." (Message from General M.Zia-Ul-Haq President Islamic Republic of Pakistan to International Khatm-e-Nabuwwat Conference, London, August, 4-6, 1985) جنرل ضیاء اور تمام مکہ بین کو دعوت مباہلہ حضرت خلیفۃ اصبح الرابع رحمہ اللہ نے 10 / جون 1988ء کو نہایت پر شوکت انداز میں
398 جنرل ضیاء، شریعت کورٹ کے ججوں اور سب مکفرین اور مکڈ بین کو دعوت مباہلہ کے لئے للکارا.جنرل ضیاء الحق کو مباہلہ کا چیلنج 11 جولائی کو ڈاک کے ذریعہ بھجوایا گیا.جنرل ضیاء کو آخری تشبیہ سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو ہر گز اس بات سے خوشی نہیں تھی کہ جنرل ضیاء اپنے مظالم کی پاداش میں خدا تعالی کی قہری تجلی کا نشانہ بنے.یہی وجہ ہے کہ حضور نے انہیں بار بار تنبیہ فرمائی نجات کے رستے بتائے اور یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر دنیوی وجاہت کھل کر تو بہ کرنے میں مانع ہے تو کم از کم ظلم سے ہاتھ روک لیں اور خاموش رہیں.ہم یہ سمجھ لیں گے کہ آپ نے مباہلہ کا چیلنج قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ظلم سے باز آ گئے ہیں.اس کے ساتھ ہی یکم جولائی 1988ء کے خطبہ جمعہ میں انہیں بتایا کہ چونکہ وہ ائمہ انگیر کے سردار ہیں اور معصوم احمد یوں پر ظلم کر کے لذت محسوس کرتے ہیں.اس لئے خواہ چیلنج قبول کریں یا نہ کریں اگر وہ اپنے ظلم سے باز نہ آئے تو ان کا یہ فعل چیلنج قبول کرنے کے مترادف ہوگا.آپ نے فرمایا:.جہاں تک صدر پاکستان ضیاء صاحب کا تعلق ہے ان کے متعلق ہمیں ابھی ان کو کچھ وقت دینا چاہئے.ابھی ابھی انہوں نے کچھ سیاسی کارروائیاں کی ہیں اور اگر چہ وہ اسلام کے نام پر کی ہیں مگر بہر حال سیاسی کارروائیاں ہیں اور ان میں وہ مصروف بہت ہیں.ابھی تک ان کو یہ بھی قطعی طور پر علم نہیں کہ آئندہ چند روز میں کیا واقعات رونما ہو جائیں گے.اس لئے ہو سکتا ہے وہ ترو و محسوس کرتے ہوں کہ یہ نہ ہو کہ ادھر میں چیلنج قبول کروں اُدھر کچھ اور واقعہ ہو جائے.اس لئے جب تک ان کی کرسی مضبوط نہ ہو جائے ، جب تک وہ اپنے منصوبوں پر کار بند نہ ہو جائیں اور محسوس نہ کریں کہ ہاں اب وہ اس مقام پہ پہنچ گئے ہیں جہاں جس کو چاہیں چیلنج دیں، جس قسم کی عقوبت سے ڈرایا جائے اس کو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے قبول کریں.اس مرتبے و مقام تک ابھی وہ پہنچے نہیں ہیں.اس لئے ہم انتظار کرتے ہیں کہ خدا کی تقدیر دیکھیں کیا ظاہر کرے.یکن چیلنج قبول کریں یانہ کریں چونکہ تمام ائمہ انگر ین کے امام ہیں اور تمام اذیت دینے والوں میں سب سے زیادہ ذمہ داری اس ایک شخص پر عائد ہوتی ہے.جنہوں نے معصوم احمدیوں پر ظلم کئے ہیں اور اس ظلم کے پیچھے پڑ کر جھانکنے کی کوشش کی ہے کہ جوئیں نے حکم جاری کیا تھا وہ
399 جاری ہو بھی گیا ہے کہ نہیں اور ایک معصوم احمدی کیسے تکلیف محسوس کر رہا ہے.جب تک یہ پتہ نہ چلے، ان کو لذت محسوس نہیں ہوتی تھی.ایسے شخص کا زبان سے چیلنج قبول کرناضروری نہیں ہوا کرتا.اس کا اپنے ظلم وستم میں اسی طرح جاری رہنا اس بات کا نشان ہوتا ہے کہ اس نے چیلنج کو قبول کر لیا ہے.اس لئے اس پہلو سے بھی وقت بتائے گا کہ کس حد تک ان کو جرات ہے خدا تعالی کے مقابلے کی اور انصاف کا خون کرنے کی.“ ( خطبات طاہر شائع کرد و طا ہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد 7 صفحہ 461 462) ازاں بعد حضور نے قریبا ڈیڑھ ماہ تک انہیں مہلت دی کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کر کے جبر و تشدد سے دست کش ہو جائیں لیکن ان کے ظالمانہ رویہ میں ذرہ برابر تبد یلی نہ آئی.جس پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے دل میں القائے ربانی کے تحت ایک زبردست جوش پیدا ہوا اور حضور نے 12 اگست 1988ء کے خطبہ جمعہ میں اپنی ایک انداری رویا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: جس قوم کو آج ہم مخاطب کر رہے ہیں، جس کو ہم نے مباہلہ کی دعوت دی ہے بدقسمتی سے ان کے مقدر میں خدا تعالی کی ناراضگی کا دن دیکھنا ہے.“ آپ نے فرمایا: یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سزا ایک قسم کا مقدر بن گئی ہے اور لازمنا ان میں سے ایک طبقہ، میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ سب نہیں، ایک طبقہ عبرت کا نشان بنے گا.“ چنانچہ آپ نے نہایت پر جلال لب ولہجہ میں انہیں آخری بار انتباہ کرتے ہوئے فرمایا: اس موقع پر جبکہ مباہلہ کی دعوت غیروں کو دی گئی ہے اس وجہ سے خصوصیت سے کہ یہ استہزاء میں بڑھ رہے ہیں اور اپنے گزشتہ کردار میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر رہے.استہزاء میں بھی پڑھ رہے ہیں، ظلم میں بھی بڑھ رہے ہیں اور حکومت کا جہاں تک تعلق ہے وہ معصوم احمدیوں پر قانونی حربے استعمال کر کے طرح طرح کے ستم ڈھارہی ہے.اور آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے آغاز ہی میں حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ آپ اگر اپنی شان کے خلاف بھی سمجھتے ہوں چیلنج کو قبول کرنا، اگر آپ زیادتیوں سے باز نہ آئے اور ظلم وستم کی یہ راہ نہ چھوڑی تو جہاں تک میں سمجھتا ہوں خدا کی تقدیر اسے مباہلہ کا چیلنج قبول کرنے کے مترادف بنائے گی اور آپ سزا سے بچ نہیں سکیں گے.تو یہ
400 حالات جس طرف اشارہ کر رہے تھے وہاں تک ہمارے ظن کا تعلق تھا.اندازہ ہو رہا تھا کہ بہت سے ایسے مکڈ بین ہیں جو شرارت سے باز نہیں آرہے بلکہ تسخر اور استہزاء میں اور ظلم وستم میں بڑھ رہے ہیں.چنانچہ سارے پاکستان میں بار بار یہ کوشش کی گئی ہے علماء کی طرف سے کہ اس میلہ کو انتہال کی بجائے اشتعال کا ذریعہ بنایا جائے اور کثرت کے ساتھ احمدیوں کے خلاف عوام الناس کے جذبات مشتعل کر کے انہیں ان کو مارنے پیٹے قتل کرنے، ٹوٹنے اور ان کے گھر جلانے پر آمادہ کیا جائے.وہ سمجھتے ہیں اس طرح ہم ایک اپنی تقدیر ظاہر کریں گے.ہم اپنے ہاتھوں سے ان کو سزا دے سکتے ہیں اور ہم ان کو بتائیں گے کہ خدا کون ہے.چنانچہ اس عزم کے ساتھ وہ اُٹھے ہیں کہ دنیا سے خدا کی خدائی کی بجائے اپنی خدائی منوائیں اور یہ بتائیں کہ ہم میں طاقت ہے ان کو مٹانے کی.اور یہی انہوں نے مباہلے کا مطلب سمجھا ہے.اس لیے اگر چہ بارہا کثرت کے ساتھ احمدیوں کی تکلیفوں کی خبر میں مل رہی ہیں.لیکن مجھے کامل یقین ہے کہ یہ مقابلہ خدا سے ہے ان لوگوں کا اور اس میں جماعت احمد یہ نہ کچھ کرسکتی ہے نہ اس کے کرنے کا کوئی محل اور مقام ہے، صرف انتظار ہے.خدا کی تقدیر لازما ان کو پکڑے گی اور لازمنا ان کو سزا دے گی جوان شرارتوں سے باز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ معصوم احمدی جن کو اب سزا دی جارہی ہے ان کو صرف اس جرم کی سزادی جارہی ہے کہ ہم خدا کی طرف اپنے مقدمے کو لے جاتے ہیں.“ ( خطبات طاہر شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد 7 صفحہ 555553) ضیاء نمرودیت کی آگ میں آفریدا کے مقدس خلیفہ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات حرف بہ حرف پوری ہوئی اور جنرل محمد ضیاء الحق جس نے احمدیت کو کینسر قرار دے کر مٹا دینے کی دھمکی دی تھی 17 اگست 1988ء کو 130-C طیارہ میں حادثہ کا شکار ہو گیا اور خدائے ذوالجلال نے اس کے پر نچے اڑا دیے اور ان جرنیلوں کو بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جو اس کے دست و بازو بنے ہوئے تھے.برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق صدر ضیاء الحق کے تابوت میں مرحوم صدر کے صرف جبڑے کی ہڈی تھی کیونکہ ان کی لاش میں صرف یہی ایک جز د تھا جس کی شناخت کی جاسکی.روزنامه ملت لندن 27، 28، اگست 1988 ء )
401 فنانشل ٹائمز اپنی سوموار 22 اگست 1988ء کی اشاعت میں اسلام آباد پاکستان میں موجود اپنی رپورٹر کرسٹینا لیمب کے حوالہ سے تحریر کرتا ہے: "The President was burried on the lawn outside Pakistan's Faisal Mosque, which resembles a spaceship.As the coffin containing only his jaw (nothing else of him could be found) was lowered into the grave, a 21-gun salute sounded." (Financial Times 22 August 1988) تحقیقاتی ٹیم اپنے سائنسی تجزیہ اور تحقیقات کے باوجود آج تک اس راز سر بستہ سے پردہ نہیں اٹھا سکی کہ وہ حافظ کیسے روانا ہوا.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے جولائی 1986ء میں فرمایا تھا.تمہیں مٹانے کا زعم لے کر اٹھے ہیں جو خاک کے بگولے خدا اڑا دے گا خاک ان کی کرے گا رُسوائے عام کہنا ضیاء کی ہلاکت کے اس نشان سے ایک مرد خدا کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ بڑی شان کے ساتھ پورے ہوتے.خدا کی نصرت کے دونشان ایک دشمن کی زندگی کا اور ایک دشمن کی موت کا حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے مباہلہ کے نتیجہ میں مبینہ مقتول اسلم قریشی کی زندہ سلامت واپسی اور جنرل ضیاء الحق کی عبرتناک بلاکت کے اعجازی نشانوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اگست 1988ء میں فرمایا: ”خدا نے حال ہی میں دو نشان دکھاتے ہیں.ایک دشمن کی زندگی کا اور ایک دشمن کی موت کا.جب ہم نے خدا کی طرف سے دشمن کی زندگی کا نشان دیکھا تب بھی ہم خوش ہوئے اور جب ہم نے اپنے موٹی کی طرف سے دشمن کی موت کا نشان دیکھا تب بھی ہم خوش ہوئے.اللہ تعالٰی کی نصرت کے نشان پر ہم خوش ہیں.کسی کی موت اور زندگی سے ہماری خوشیوں کا کوئی تعلق
402 نہیں.اس کے برعکس وہ لوگ جن کے ذاتی تعلقات تھے گمشدہ مولوی سے، جو شور مچارہے تھے کہ اس کی موت کا غم ہمیں بلاک کر رہا ہے.جب تک ہم اس کے خون کا بدلہ نہ لے لیں ہمیں چین نہیں آئے گا.اس کی زندگی کی خوشی کی خبر سنتے ہی ان پر موت طاری ہو گئی.ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہر طرف سوگ کا عالم ہو، جھوٹے کی یہ پہچان ہوا کرتی ہے اور اس طرح خدا بچوں اور جھوٹوں میں امتیاز کر کے دکھا دیا کرتا ہے.آج جنرل ضیاء الحق صاحب کی موت پر جو یہ علماء صدمے کا اظہار کر رہے ہیں یہ وہی ہیں جو کل تک ان کو گالیاں دے رہے تھے.اس لیے ان کے اس رد عمل نے بتا دیا کہ موت کا صدمہ نہیں ان کو اس بات کا صدمہ ہے کہ خدا کا ایک نشان احمدیت کے حق میں ظاہر ہو گیا.اُس کی سیاہی ان کے چہروں پر پھر گئی ہے.“ ( مخطبہ جمعہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع فرموده 19 اگست 1988ء - خطبات و طاہر جلد 7 صفر 560-561) اسی طرح آپ نے فرمایا: بہر حال یہ ایک ایسا عظیم الشان تاریخی نوعیت کا نشان ہے جس کے اوپر ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی نصرت ظاہر ہونے کے نتیجہ میں شکر واجب ہو گیا ہے اور یہ شکر خدا تعالی کی حمد کے ذریعہ ظاہر ہونا چاہئے.“ خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ اسح الرابع فرموده 19 اگست 1988ء.خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 563) مباہلہ سے متعلق ایک نئی صورت حال 13 نومبر 1988ء کو اہل سنت والجماعت برطانیہ نے کل یورپ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا اور حضرت امام جماعت احمدیہ کے مباہلہ کے چیلنج کے جواب میں ایک پمفلٹ بعنوان "مرکزی جماعت اہلسنت یو کے کی طرف سے دنیا بھر کے منکرین ختم نبوت، مرزائیوں، قادیانیوں، اور غلام احمدیوں کے سر براہ مرزا طاہر احد کا چیلنج مباہلہ ( محض اتمام حجت کے لئے ) قبول“ شائع کیا اور کثیر تعداد میں برطانیہ کے شمالی علاقوں میں تقسیم کیا گیا مگر جماعت احمدیہ کو اس کی کاپی یہ بھجوائی گئی.مولوی احمد نثار بیگ صاحب قادری خطیب جامع مسجد مانچسٹر نے اس پمفلٹ میں اعلان کیا کہ :
403 ہم آپ کو اس سنہری موقع کے لئے پورا مہینہ دیتے ہیں.آپ ہمارا پمفلٹ ملتے ہی خود یا اپنے چوہدری رشید کے ذریعے مقام و تاریخ کا اعلان کریں.اور اس کا خوب خوب چرچا اور پروپیگنڈہ کریں.اخبارات میں اعلانات اور اشتہارات دیں.پمفلٹ نکالیں تا کہ ہمارے تمام علماء اہلسنت و عوام اہل سنت کو بھی معلوم ہو جائے.ادھر ہم بھی آپ کی مقرر کردہ تاریخ و مقام پر حاضر ہونے کا خوب خوب اعلان و چر چا کریں گے.تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اس موقع پر جمع ہوسکیں.اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تائید ربانی سے حق و باطل میں فیصلہ ہو جائے.اور اگر آپ کو یہ بھی منظور نہیں جس میں اگر چہ کوئی راہ فرار باقی نہیں رہتی.تو ہم آپ کو مکانی مشارکت کی بجائے زمانی مشارکت کا موقع دینے کے لئے بھی تیار ہیں ، تا کہ آپ کسی بھی طرح کا کوئی بھی عذر پیش کرنے کے قابل ہی نہ رہیں اور آنکھ والے عبرت پکڑیں...وہ اس طرح کہ ہم آج سے پانچ ہفتے بعد کی تاریخ مقرر کر دیتے ہیں یعنی 23 دسمبر بروز جمعہ حق و باطل میں فیصلے کا دن آپ اپنی جگہ پر ہی دُعا میں مشارکت کر سکتے ہیں.تمام علمائے اسلام جمعتہ المبارک کے خطبوں میں قادیانیت کے کفریات پر اظہار فرمائیں گے.آپ علماء اسلام کے خلاف اپنی تقریر میں اپنا نکتہ نظر پیش کریں.اس کے بعد ایک مقررہ وقت پر مثلا دن کے ڈیڑھ (1:30) بجے یا 2 بجے جس کا اعلان کر دیا جائے گا.ادھر پوری ملت اسلامیہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بوسیلہ حضرت محمد مصطفی علیہ التحیۃ والثناء فتنہ قادیانیت سے نجات کے لئے دعا مانگے گی.ادھر آپ ہمارے خلاف دعائیں مانگیں.اور احکم الحاکمین اہل حق کے بارے میں فیصلہ فرما دے گا.یقینا یہ تجویز تو آپ کو ضرور منظور ہوگی.بہر حال پہلی تجویز ہو یا دوسری ! جو بھی منظور ہو اس کا آپ اعلان کریں.اور اعلان میں جلدی کریں.چیلنج آپ نے دیا ہے اور ہم نے اللہ تعالی کی تائید سے قبول کیا ہے! آپ جتنا جلدی جواب دیں گے.اتنا زیادہ چرچا کیا جاسکے گا.نشر و اشاعت کی جاسکے گی.
404 فریق اول مباہلہ فریق ثانی مباہلہ جماعت احمدیہ قادیانیہ، مرزا عیہ کے دنیا بھر کے مرکزی جماعت اہلسنت هر دو زن اور چھوٹے بڑے کے نمائندہ، مرزا طاہر احمد کیو.کے.( مسلمانان عالم کی نمائندگی میں) نوٹ: فریق ثانی میں علماء کرام کے نام اس لئے نہیں لکھے کہ سینکڑوں ہزاروں علماء حق اس کے لئے تیار ہیں.جبکہ یہاں اتنی جگہ نہیں ہے.مرتب.احمد نثار بیگ، قادری ایم اے خادم اہلسنت والجماعت ( مؤرخہ 13 نومبر 1988ء بمقام مہر الملت جامع مسجد 21 شیکسپیئر سٹریٹ، برمنگھم زیر اہتمام مرکزی جماعت اہلسنت یوکے، گل یورپ ختم نبوت کانفرنس کے موقع پر جماعت اہلسنت کی طرف سے شائع کیا گیا.) جماعت احمدیہ کے پریس ڈیسک کو اس پمفلٹ کا علم مانچسٹر کے دو دوستوں کے ذریعہ مؤرخہ 16 دسمبر کو ہوا.معاملہ کی نزاکت کے باعث جماعت احمدیہ کے پریس ڈیسک کی طرف سے فوری طور پر حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی سے ضروری ہدایات لے کر مولوی نثار بیگ صاحب کو اپنی اپنی مساجد میں جمعہ 23 دسمبر کو ایک بجے سے ڈیڑھ بجے تک دعائے مباہلہ میں شرکت کی اطلاع دے دی گئی.اس جوابی خط کے ہمراہ حضور کے ارشاد کے ماتحت قادری صاحب کو کتاب حقیقۃ الوحی بھی بھجوا دی گئی تا کہ وہ جماعت احمدیہ کے عقائد اور تعلیم سے بخوبی آگاہی حاصل کر سکیں.اور اسی مضمون کی خبریں اخبارات کو ارسال کر دی گئیں.نیز یورپ کی جماعتوں کو بالخصوص اور دیگر جماعتوں کو بالعموم اطلاع کر دی کہ وہ مقررہ دن اپنے طور پر خصوصیت سے مباہلہ کی کامیابی اور مزید واضح اور روشن نشانوں کے ظہور کے لئے دعائیں کرتے رہیں.برطانیہ کے اخبارات میں ”مباہلہ" سے متعلق جلی حروف میں اس بارہ میں خبریں شائع ہوئیں.(ملاحظہ ہوں اخبار روز نامہ ملت لندن 22 ، 24 اور 25 رسمبر 1988ء.روزنامہ جنگ لندن
405 22، 24 اور 25 رسمبر 1988ء) 23 دسمبر 1988ء کو حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے مجد فضل لندن میں اپنے خطبہ جمعہ میں اس بارہ میں تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ایک تازہ صورتحال مباہلہ کی یہ پیدا ہوتی ہے کہ کم و بیش چھ ماہ کے بعد یہاں انگلستان کے ایک مولوی نے جماعت احمدیہ کو یا مجھے خصوصیت کے ساتھ یہ چیلنج دیا کہ آپ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ایک جگہ اجتماع ضروری نہیں.یعنی مشارکت مکانی ضروری نہیں.مکان یعنی جگہ کے اعتبار سے ایک جگہ اکٹھا ہونا ضروری نہیں.تو ہم آپ کے لئے ایک اور صورت پیش کرتے ہیں.گویا کہ نعوذ باللہ وہ ہماری پیروی کر رہے ہیں اور ہم بھاگ رہے ہیں.حالانکہ ہم ان کے پیچھے جارہے ہیں.ہم تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا کے حضور کہہ چکے ہیں جو کہنا ہے، لعنت ڈال چکے ہیں جھوٹوں پر تمہیں جرات ہے !تم بھی ڈال کے دکھا دو.صرف یہ بات تھی.لیکن دنیا کو دھوکہ دینے کی خاطر اور شاید اس خیال سے کہ ہم اس بات کو نہیں مانیں گے انہوں نے یہ ایک مضمون شائع کر کے سب جگہ بھیجوایا ، صرف ہمیں نہیں بھیجوایا.اس سے یہ شبہ اور قوی ہوتا ہے کہ ان کی نیت یہ تھی کہ ان کو پتہ ہی نہ لگے.غیر احمدیوں میں مضمون تقسیم ہو گیا.ہمیں نہیں بھجوایا گیا.اور مضمون یہ تھا کہ ہم 23 دسمبر کو جمعہ ہے اس میں آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ مشارکت مکانی نہیں تو مشارکت زمانی کرلیں.یہ مولویانہ محاورہ ہے.مراد یہ ہے کہ آپ ایک جگہ اکٹھے ہونا نہیں چاہتے تو ایک وقت میں اکٹھے ہو جائیں اور کوئی وقت مقرر کر لیں....میں نے کہا فوراً ان سے رابطہ کرو.ان کو کہو ہمیں منظور ہے.اگر چہ ہمارا موقف ہی ہے کہ اس قسم کی انہوں نے جو مشارکتیں بنائی ہوتی ہیں اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اس اتفاق کی ضرورت ہے ذہنی طور پر کہ ہم خدا کے حضور اپنا سب کچھ ، اپنے مال و دولت، اپنی عزتیں، اپنے بچے ، اپنے مرد، اپنی عورتیں لے کر حاضر ہو جاتے ہیں.یہ نہیں کہ کسی خاص جگہ پر ان سب کو سمیٹ کر گلوں کی طرح حاضر ہورہے ہیں بلکہ خدا کے حضور پیش کر رہے ہیں اور یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا ! اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہم پر لعنت کر اور اگر ہمارے دشمن جھوٹ بول رہے ہیں اور وہ ظلم سے باز نہیں آر ہے تو ان پر لعنت کر.یہ مضمون ہے جس کی رو سے ہم تو مباہلہ میں داخل ہو چکے ہیں.لیکن
406 چونکہ آپ کا اصرار ہے اور آپ ہی اس کو تماشا بنانا چاہتے تھے...ہم اس کو اسی طرح تسلیم کرتے ہیں اور اس مشارکت زمانی کے ساتھ اب وقت مقرر کر لو اور ہم بھی آتے ہیں میدان میں تم بھی میدان میں نکلو.اب ان کے لئے بھاگنے کی راہ کوئی نہیں تھی.کیونکہ وہ جو شرائط پیش کر چکے تھے ہم مان گئے لیکن آخری وقت میں ایک چالا کی انہوں نے کرلی ہے.جنگ اخبار میں جو خبر شائع ہوئی ہے اگر وہ درست ہے تو اس کی رُو سے انہوں نے آخری چالا کی بچنے کے لئے یہ کی ہے کہ ہم چونکہ میں ہی بچے اس لئے ہم اپنے اوپر لعنت نہیں ڈالیں گے بلکہ صرف احمدیوں پر لعنت ڈالیں گے.یعنی قادیانیوں کے خلاف لعنتیں ڈالیں گے کہ اللہ ان کو ساری دنیا میں برباد کر دے، ذلیل ورسوا کر دے، کچھ نہ ان کا چھوڑ، ان کے گھر بار کو آگیں لگا دے وغیرہ وغیرہ.یعنی کو سنے کوسیں گے لیکن قرآن کی زبان میں لَعْنَةُ الله عَلَى الْكَاذِہین ( آل عمران 62) نہیں کہیں گے چونکہ ہم تو ہیں ہی بچے.“ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: عجیب بات ہے کہ اگر سچے ہیں تو کاذبین کی لعنت کس طرح تم پر پڑ جائے گی.تمہیں یہ یقین کیوں نہیں ہے کہ جب ہم کہیں گے کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ تو خدا تمہیں معاف کر دے گا کیونکہ تم جھوٹے نہیں ہو.دل بتا رہے ہیں کہ جھوٹے ہیں اور اس لئے اس سے فرار کی یہ راہ اختیار کی ہے کہ ہم تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے اوپر لعنت ہی نہیں ڈالی تھی کہ اے خدا! یہ کیا بات ہے.ہم نے تو قادیانیوں پر لعنت ڈالی تھی.ان پر لعنت ڈال.ہم پر نہ ڈالنا ہمیں جھوٹ کی اجازت ہے.دوسرا ایک عجیب تمسخر ہے مسلہلہ سے بلکہ ظلم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شدید تک ہے اور خدا کی شدید گستاخی ہے.اللہ تعالیٰ نے جب حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ طیہ و آلہ وسلم کو فرمایا کہ اپنے مقابل جھوٹوں کے پاس جاؤ اور ان کو یہ کہو کہ لَعْنَةُ الله عَلَى الْكَاذِبِین میں بھی کہتا ہوں تم بھی کہوتا کہ جو شخص جھوٹا ہے خدا اس پر لعنت ڈالے.کیا نعوذ باللہ من ذالک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی صداقت کا یقین نہیں تھا؟ اس یقین کے با وجود کیا خدا کوعلم نہیں تھا کہ کائنات میں سب سے بڑا سچا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.
407 تو پھر آپ " کو کیوں کہا کہ اس لعنت کی طرف دعوت دو کہ لَعْنَةُ الله عَلَى الْكَاذِبِين جو بھی فریق جھوٹا ہے خدا کی لعنت اس پر پڑے.تو ایسے جاہل ہیں اپنی نجات کے لئے اگر ان کو خدا اور رسول پر بھی حملے کرنے پڑیں تو اپنی فرار کی راہیں یہ ضرور کالیں گے اور دنیا کے سامنے اپنی عزت بچانے کی کوشش کریں گے.مگر چونکہ یہ فرار کی راہ نکالنا بذات خود ایک ملعون فعل ہے.ایسی ذلیل قیمت ان کو دینی پڑی ہے اس نجات کی راہ کے نکالنے کی خاطر کہ یہ خود اپنی ذات میں خدا کے نزدیک ایک کبیر گناہ ہے.اس طرح مباہلہ کے مضمون کو توڑ مروڑ کے خواہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حرف آئے ، خواہ خدا کی آپ سے محبت اور غیرت پر حرف آئے.انہوں نے اپنی فرار کی راہ ضرور نکال لینی ہے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ جتنی لعنتیں یہ ہم پر ڈالیں گے یہ ساری لعنتیں الٹ کر ان پر پڑیں گی.اور جتنی لعنتیں یہ ہم پر ڈالیں گے وہ ساری رحمتوں کے پھول بن کر جماعت پر برسیں گی.اس لئے میری تو یہ دعا رہی ہے، خواہش رہی ہے کہ کثرت سے لوگ ان کے ساتھ مل کر منتیں ڈالیں لیکن میں نے نہ خود یہ دعا کی ہے، نہ جماعت کو ایسی دعا کے لئے کہا ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک تمام غیر احمدی مسلمانوں پر لعنت ڈالیں، ہر گز نہیں...بلکہ یہ دعا کرنی ہے کہ ان لعنت ڈالنے والوں پر ان کی لعنتیں پڑیں اور یہ دعا جو ہے کسی انتقامی کارروائی کی وجہ سے نہیں.ایک مجبوری ہے، اس سے ایک خیر کی راہ نکلتی ہے.مباہلہ کا ایک پہلو یہ ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہ دشمن ہیں جو معاندین کے سرکردہ امر اہ اور بڑے بڑے لیڈر جو دراصل ہدایت کی راہ رو کے کھڑے ہیں اور تمام عوام الناس بیچارے دنیا میں ہر جگہ، اس لئے احمدیت میں داخل نہیں ہو سکتے کہ انہوں نے آگے دروازے بند کئے ہوئے ہیں.احمدیت جو ہے، جس قسم کی حقیقت ہے، جو سچائی ہے، جو پیغام ہے اگر بعینہ اسی طرح بغیر مبالغہ کے اور بغیر اس کو توڑے مروڑے آج عوام الناس کے سامنے آپ رکھ دیں تو آپ دیکھیں کتنا عظیم الشان اس کا نتیجہ اور اثر ظاہر ہوتا ہے.بہت سے لوگ جن کو مباہلہ کا اشتہار دیا گیا یہ پڑھ کر احمدی ہوئے.انہوں نے کہا کہ ہمیں آج پتہ لگ رہا ہے کہ سچے عقیدے آپ کے کیا ہیں اور جس طرح جرآت کے ساتھ یہ خدا تعالیٰ کے حضور عرض
408 کیا گیا ہے کہ اے خدا! اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہم پر لعنت ڈال، بچوں کو تو یہ توفیق مل سکتی ہے جھوٹوں کو نہیں مل سکتی.اس لئے بہت سے لوگ مباہلہ کی اس تحریر کو پڑھ کر احمدی ہو گئے ہیں.آپ نے فرمایا: مجھے یقین ہے کہ یہ ایک نیا Impetus مل گیا ہے اس سے مباہلہ کو تقریبا چھ ماہ گزرے تھے اور اگلے چھ ماہ کے لئے دوبارہ متوجہ کرنے کے لئے جماعت کو اللہ تعالیٰ نے یہ سامان فرما دیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ جس طرح پہلے چھ ماہ میں خدا تعالی نے عظیم الشان نشان دکھائے ہیں اور حیرت انگیز تاریخی نوعیت کے نشان دکھائے ہیں.اسی طرح انشاء اللہ یہ باقی چھے ماہ بھی بلکہ اس کے بعد بھی اگلا سارا سال اور انگلی صدی، پوری کی پوری صدی بھی اس مباہلہ کی برکتوں کے پھل کھاتی رہے گی.پھر آئندہ انگلی صدی کے لئے خدا جن کو مباہلوں کے لئے کھڑا کرے گا پھر اللہ، انشاء اللہ، ان کی دعاؤں کے پھل اگلی صدی کو بھی عطا کرے گا.لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ مباہلہ ایک سال کا یا دو سال کا یا تین سال کا مسلہ نہیں.یہ خدا تعالیٰ نے ایسے موقع پر بنایا ہے کہ اس کی رحمتیں اور اس کی برکتیں اور اس کے پھل اگلی صدی میں آنے والی ساری مخلوق کو عطا ہوتے چلے جائیں گے جو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ صداقت کو قبول کرے گی.اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے اور ان کی سب لعنتوں کو اُن پر لعنتیں بنا کر برسائے جو لعنت ڈال رہے ہیں.اُن پر نہ کہ باقی غریبوں اور مظلوموں اور بیچاروں پر جن کو کچھ پتہ نہیں کہ احمدیت کیا ہے.اور ان کی ہر لعنت ہم پر خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے پھول بن کر آج بھی برسے، کل بھی برسے اور آئندہ ہمیشہ برستی رہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین E “ مخطبہ جمعہ حضرت خلیفہ اسح الرابع فرموده 23 دسمبر 1988ء.خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 887-870) چنانچہ جماعت احمدیہ پر لعنتیں ڈالنے والوں پر خدا کی لعنتیں کچھ اس طرح سے برسیں کہ ان لوگوں میں باہم افتراق اور فرقہ واریت اور ایک دوسرے کی مسجدوں پر حملے اور دہشتگردی اور قتل و غارتگری کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا.اغواء برائے تاوان اور ڈکیتی اور منشیات کے
409 استعمال کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا.یہاں تک کہ خود ملاؤں نے اور بہت سے دانشوروں نے اور لکھنے والوں نے یہ لکھا اور کہا اور تسلیم کیا کہ ہم ایک لعنتی قوم ہو گئے ہیں.اور یہ سلسلہ اس وقت سے آج تک مسلسل جاری ہے.دوسری طرف جماعت احمدیہ کے خلاف ان کی ہر لعنت جماعت پر خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے پھول بن کر برسی اور برستی چلی جارہی ہے.جماعت احمد یہ خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے زیر سیادت دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت اور تمکنت دین، اشاعت قرآن کریم اور خدمت بنی نوع انسان کی مختلف عظیم الشان مہمات میں مصروف ہے اور شاہراہ غلبہ اسلام پر تیزی سے گامزن ہے.اس کی کسی قدر جھلکیاں اس کتاب میں پیش کی جارہی ہیں.بعض متفرق عبرت انگیز واقعات مباہلہ کے نتیجہ میں عالی طور پر جماعت احمدیہ کی ترقی و استحکام کے ساتھ ساتھ مقامی طور پر بعض نہایت عبرت انگیز واقعات بھی ظاہر ہوئے.ان میں سے چند ایک ہدیہ قارئین ہیں.پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع شیخو پورہ کے ایک قصبہ شاہ کوٹ میں احمدیوں کے چند گھرانے تھے.وہاں ایک صاحب عاشق حسین نامی جوزر گر کا کام کرتے تھے جماعت احمدیہ کی مخالفت میں اور جماعت پر گندا چھالنے میں اتنا پیش پیش تھے کہ انہیں جماعت کے مخالف ٹولے میں ایک نمایاں مقام حاصل ہو گیا اور مولوی نہ ہونے کے باوجود بھی یہ گویا مخالف علماء کے سربراہ بن گئے.جب حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کا باہلہ کا چیلنج وہاں تقسیم ہوا تو عاشق حسین صاحب نے ایک جلوس اکٹھا کیا.جماعت کے خلاف نہایت اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں اور اس جلوس کو اس بات پر آمادہ کیا کہ احمدیوں کی دکانیں لوٹو ، جلاؤ اور ان کو اپنے گھروں میں زندہ جلاد و یا قتل کر دو تا کہ دنیا پر ثابت ہو جائے کہ احمدی جھوٹے ہیں اور ان کا مباہلہ ان کو پڑ گیا ہے.یہ ارادہ باندھ کر جلوس کو تیار کر کے انہوں نے کہا کہ آپ انتظار کریں میں ابھی دکان سے ایک چھوٹا سا کام کر کے آتا ہوں.وہ دکان میں پہنچے، پنکھا چلایا مگر وہی پنکھا جو روز چلایا کرتے تھے الہی تقدیر سے اس میں بجلی کا کرنٹ آپکا
410 تھا اور وہ وہیں بجلی کے جھٹکے سے مر گئے.یہ بجلی سے مرنا بھی اپنے اندر ایک قہری نشان رکھتا ہے.اس میں کسی انسانی ہاتھ کا دخل نہیں تھا.اور وہ جلوس جو احمدیوں کے گھر اور ان کی دکانیں جلانے یا ان کو مارنے لوٹنے کے لئے بنایا گیا تھا وہ ان کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہو گیا اور ان کے جنازے کا جلوس بن گیا.(ماخوذ از خطبه جمع فرموده حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم الله 5 اگست 1988 ، خطبات طاہر جلد 7) حمدالله ایک اور شدید معاند احمدیت کے متعلق مجیب الرحمان صاحب ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ 1984ء میں شریعت کورٹ میں ایک شخص قاضی مجیب الرحمان پشاوری نے جماعت کے خلاف انتہائی شر انگیز بیان دیئے.یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے ٹیلی ویژن پر جماعت کے خلاف ارتداد کی بنا پر واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا.اس مباہلہ کے چیلنج کے کچھ عرصے کے بعد اچانک یہ صاحب دل کا دورہ پڑنے سے مر گئے.حضرت خلیفہ اسح الرائع نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 5 را گست 1988ء میں فرمایا : چونکہ یہ وہ صاحب ہیں جن کے متعلق جب مجھے اطلاع ملی تھی اس وقت بھی دل سے ایک لعنت نکلی تھی.اس لیے میں نہیں جانتا کہ انہوں نے کھلم کھلا مباہلہ کا چیلنج قبول کیا تھا یا نہیں کیا لیکن اس بات میں شک نہیں کہ چونکہ انہوں نے احمدیوں کے قتل کا فتوی دیا تھا.اس لیے مباہلہ کے چیلنج کے بعد ان کا مرجانا خود یہ بھی ایک نشان ہے اللہ تعالی کی طرف سے.کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے.“ آپ نے مزید فرمایا میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ خدا کی چکی حرکت میں آچکی ہے اور جب خدا کی تقدیر کی چکی حرکت میں آجائے تو کوئی نہیں جو اس کو روک سکے اور کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے کہ جب خدا چاہے کہ کوئی اس چگی میں پیا جائے تو اس چنگی کے عذاب سے بچا سکے.“ ( خطبات طاہر شائع کردہ طا ہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد 7 صفحہ 543542)
411 مولوی محمود احمد میر پوری کی ہلاکت برطانیہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے شدید معاند اہلحدیث لیڈر مولانامحمود احمد میر پوری خدا تعالیٰ کی قہری محلی کا نشانہ بن گئے.مولانا محمود احمد میر پوری کے مرنے پر اخبار حیدر (راولپنڈی ) اپنی 27 را کتوبر 1988ء کی اشاعت میں لکھتا ہے: ریاست جموں و کشمیر کے مایہ ناز سپوت اعظم ، مذہبی سکالر، مدینہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل، عالم دین، اسلامک شریعت کونسل برطانیہ کے سیکرٹری جنرل، مرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ کے ناظم اعلی، ماہنامہ صراط مستقیم برطانیہ کے ایڈیٹر اور تحریک آزادی کے صف اول کے راہ نما تھے.مولوی میر پوری تحریر اور تقریر دونوں کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی مخالفت پر کمر بستہ تھے اور اپنے رسالہ صراط اور دیگر اخبارات میں اکثر کے خلاف زہر اگلتے رہتے اگلتے رہتے تھے.چنانچہ 7 مارچ 1985ء کو جماعت کے خلاف ان کا ایک طویل خط روزنامہ جنگ لندن میں شائع ہوا جس میں انہوں نے عوام الناس کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بانی نے اپنی وفات سے ایک سال قبل ایک اشتہار شائع کیا جس میں انہوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو مباہلہ کا چیلنج دیتے ہوئے لکھا کہ: دم گریں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے پرچہ اہلحدیث میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی بلاک ہو جاؤں گا.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے مباہلہ کا چیلنج 1897ء میں دیا تھا مگر مولوی ثناء اللہ امرتسری دس سال تک اس کے جواب میں خاموش رہے.لیکن مولانا میر پوری اس تحریر سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ گویا حضرت مرزا صاحب کی وفات مباہلہ کے اس چیلنج کی وجہ سے ہوئی تھی.اسی طرح مولوی صاحب نے ان تمام تحریرات کو جو مولوی ثناء اللہ امرتسری نے حضرت اقدس بانی کے مباہلہ کے چیلنج کے جواب میں لکھیں اور جن سے واضح طور پر ان کا مباہلہ سے فرار اور خوف ثابت ہوتا ہے پردہ اخفاء میں رکھ کرعوام الناس کو صریح دھوکے میں مبتلا کیا اور جانتے بوجھتے ہوئے یہ موقف پیش کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام
412 ( نعوذ باللہ ) مولوی ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ مباہلہ کے نتیجہ میں فوت ہوئے تھے اور ترنگ میں آکر اسی اخبار کے ذریعہ مولانا میر پوری نے حضرت امام جماعت احمدیہ کو درج ذیل الفاظ میں مباہلہ کا چیلنج بھی دے دیا.دو میں مرزا طاہر احد کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ اس بات پر مباہلہ کریں کہ مرزا غلام احمد سچا نبی تھا یا جھوٹا، ہمارا دعویٰ اور ایمان ہے کہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں...ان کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا اور کذاب ہوگا.وہ حضرات جو بیچارے کسی لالچ و طمع کی بناء پر قادیانیت قبول کر لیتے ہیں انہیں قربانی کا بکر ابنانے کی بجائے مرزا صاحب سامنے آئیں تا کہ ایک ہی بار فیصلہ ہو جائے.“ روزنامه جنگ لندن 7 / مارچ 1985ء) 10 رجون 1988ء کو جب حضرت امام جماعت احمدیہ نے تمام مگھرین اور مکڈ بین کو مباہلہ کا چیلنج دیا تو اتمام حجت کی غرض سے اس کی ایک کاپی بذریعہ ریکارڈ ڈ ڈیلوری 15 جولائی 1988ء کو مولوی محمود احمد میر پوری صاحب کو بھی بھیجوا دی گئی.لیکن اپنے اسلاف کی طرح انہوں نے اسے قبول کرنے سے گریز کیا اور محبت بازی سے کام لیتے ہوئے اپنے رسالہ صراط مستقیم میں لکھا : جہاں تک مباہلہ کا تعلق ہے تو وہ تو نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہی دعوت دے سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب اللہ کی طرف سے اُسے اس امر کا حکم ہو.“ مزید لکھا کہ : اس لئے اب مرزا طاہر احمد کو مرزا صاحب کی نمائندگی کرنے یا فریق بننے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا وہ اپنے اعلان دعا کے انجام سے دو چار ہو چکا ہے.“ ( صراط مستقیم جولائی 1988 ء) یہ تو اب مولوی محمود میر پوری صاحب کا کوئی معتقد ہی بتا سکتا ہے کہ 1985ء میں جب انہوں نے امام جماعت احمدیہ کو مباہلہ کا چیلنج دیا تھا تو کیا وہ نبوت کے مقام پر فائز تھے؟ اور انہوں نے خدائی حکم سے ایسا کیا تھا یا جھوٹ بولا تھا؟
413 صرف اسی پر بس نہیں مولانا میر پوری صاحب نے مباہلہ 10 جون 1988ء کے جواب میں ایک مضمون بعنوان ”قادیانیوں کی طرف سے مباہلہ کا چیلنج“ لکھا اور اس میں بعض ایسے الفاظ بھی تحریر کر ڈالے جو خدا تعالیٰ کے غیظ و غضب کو بھڑ کانے والے اور مباہلہ جیسے قرآنی طریق فیصلہ کی کھلی بے ادبی کرنے والے الفاظ تھے.چنانچہ انہوں نے لکھا:.نے چیلنج اور دعوے محض چکر اور فراڈ ہیں.مسلمانوں کو چاہیے کہ انہیں ذرہ برابر اہمیت نہ دیں.“ ( صراط مستقیم جولائی 1988، صفحہ 9) اسی اخبار کے ذریعہ انہوں نے قادیانیوں کی موجودہ ہم کو شر انگیز قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ان کے اس پراپیگینڈے سے متاثر نہ ہوں اور ان کا بائیکاٹ جاری رکھیں“ ابھی مولانا کے اس مضمون پر ایک ماہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے صداقتِ احمدیت کے اظہار کے لئے ایک زور دار نشان دکھایا اور دشمن احمدیت جنرل ضیاء الحق ایک عبرتناک موت کا شکار ہو گئے.مگر افسوس کہ مولانا محمود میر پوری نے اس سے سبق نہ لیا بلکہ الٹا یہ بیان بازی شروع کر دی کہ :.قادیانیوں نے شاہ فیصل اور بھٹو کی موت کو بھی اپنی بددعاؤں کا نتیجہ قرار دیا تھا.جنرل ضیاء کی موت کو مباہلہ کا چیلنج قرار دینا مضحکہ خیز ہے...فیصلے کا معیار یہ حادثاتی موتیں نہیں ہیں بلکہ اس مسئلہ کا فیصلہ تو 1908ء میں ہو چکا ہے.66 روزنامه ملت اندن 7 ستمبر 1988ء) ان تحریرات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا محمود میر پوری صاحب شوخی شرارت اور بے باکی میں شرافت کی تمام حدیں پھلانگ چکے تھے.لہذا آیت مباہلہ کی شرائط کے مطابق اللہ تعالی کی لعنت نے ان کا پیچھا اسی طرح کیا جس طرح انہوں نے قرآنی آیت کے مقابلہ پر گستاخی دکھائی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی قہری تحلیلی کا نشانہ بن گئے.10 اکتوبر 1988ء کو جب مولانا میر پوری بمعہ افراد خاندان نیوکاسل (Newcastle) سے واپس آرہے تھے تو راستہ میں اچانک ان کی کارجام (jam) ہو گئی اور پیچھے سے آنے والا تیز رفتار ٹرک ان کی کار کے اوپر چڑھ گی اور نانا نا پانچ کاریں آپس میں متصادم ہو گئیں.جس کے نتیجہ میں مولوی محمود
414 میر پوری، ان کا آٹھ سالہ بیٹا اور خوشدامن موقع پر ہی ہلاک ہو گئے اور ان کی اہلیہ اور ایک چھوٹے بچے کو زخمی حالت میں ہسپتال جانا پڑا.ممکن ہے مولوی میر پوری کے ہم خیال اس واقعہ کو بھی فقط حادثاتی موت قرار دیں.مگر خدا تعالیٰ کی قہری تجلی کی پہلی چمکار کے بعد ایک اور واضح نشان رونما ہوا کہ جب مولانا کی تعزیت پر ان کے ہمنوا اور اقارب اس مکان پر جمع ہوئے جہاں ان کی میت رکھی تھی تو یکا یک کمرے کے فرش نے جواب دے دیا اور وہاں موجود مردوزن اور بچے دھڑام سے نیچے نہ خانہ میں جا گرے.اس حادثہ میں مولانا کی بیوی دوبارہ زخمی ہو گئیں جو ہسپتال سے محض جنازے کی خاطر گھر آئی تھیں.دوبارہ پھر ہسپتال جاپڑیں.مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو بر متکلم کا انگریزی اخبار Daily News،12 اکتوبر 1988ء).......کوڈ یا تھور ( کیرلہ ) میں مسائلہ یا سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی خاص اجازت سے کوڈ یا تھور ( کیرلہ ) میں انجمن اشاعت اسلام اور جماعت احمدیہ کے مابین مورخہ 28 رمئی 1989ء کو شام کے پانچ بجے ایک مباہلہ ہوا.ہر دو جماعتوں میں چالیس چالیس افراد اس مباہلہ میں شریک ہوئے.انجمن اشاعت اسلام، جماعت اسلامی، اہل حدیث تبلیغی جماعت کا مرکب تھا.دس ہزار افراد دعائے مباہلہ کا نظارہ کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے.کو ڈیا تھور میں منعقدہ اس دعائے مباہلہ کا موضوع مقام نبوت' تھا.سب سے پہلے احمد یہ مسلم جماعت کی طرف سے کیرلہ احد یہ مسلم جماعت کے چیف مشنری مولوی محمد ابو الوفا صاحب نے مندرجہ ذیل دعا کی: ”ہمارا یہ ایمان ہے کہ جس کا ہم اعلان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسلمانوں کے لئے وعدہ کیے گئے مسیح و مہدی اور مسیح ابن مریم ہیں.آپ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے متبع اور غیر تشریعی انتی نبی رسول ہیں.اے قادر مطلق خدا! اگر ہم اپنے ایمان اور دعویٰ میں جھوٹے ہیں تو ہم پر سخت عذاب نازل فرما.اگر ہم بچے ہیں تو ہم پر اپنا فضل نازل فرما.اس وقت تمام احمد یوں نے
415 آمین کہا.اس کے بعد انجمن اشاعت اسلام کی طرف سے ایم محمد مدنی نے مندرجہ ذیل دعا کی: ”ہمارا یہ ایمان ہے کہ جس کا ہم اعلان کرتے ہیں کہ مرزا احمد قادیانی نہ خدا کے مامور تھے اور نہ ہی نبی یا رسول یا انتی نبی تھے.محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبوت ہوگی اور کوئی رسالت ہوگی.اگر ہم اپنے ایمان اور دعوی میں جھوٹے ہیں تو خدایا تیری لعنت ہم پر نازل ہو.اگر ہم سچے ہیں تو ہم پر اپنا فضل نازل فرما.“ اس وقت ان کے ساتھ والوں نے آمین کہا.اس کے بعد فریقین کی طرف سے مشترکہ دعا کی گئی کہ خدایا ہم میں جو فریق حق و صداقت پر قائم ہے لوگوں پر اس کے اظہار کے لئے اور جھوٹوں کی نشان دہی کے لئے تو چھ ماہ کے اندر اندر واضح نشان ظاہر فرما.“ انجمن اشاعت اسلام کے سیکرٹری نے اس مباہلہ کے بارے میں ایک بیان میں کہا کہ انجمن کی ایک واضح خصوصیت یہ ہے کہ کیرلہ میں کام کرنے والے تمام اسلامی فرقے اپنے فروعی اختلاف کو بھول کر قادیانیت کے خلاف متحد ہوئے ہیں.( خروج ہند 2 جولائی 1989 ء ) اس تحریر میں در حقیقت جماعت احمدیہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا.کیونکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخری زمانہ میں میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی.وہ سب کے سب جہنم میں جانے والے ہوں گے سوائے ایک کے.مباہلہ کیرلہ کے بعد یہ اطلاع ملی کہ کیرلہ کے اسلامی فرقوں کو پھر اپنے فروعی اختلاف یاد آگئے ہیں.انہوں نے مباہلہ کرنے کی وجہ سے انجمن اشاعت اسلام کی سخت مذمت کی ہے.جماعت احمدیہ اور انجمن اشاعت اسلام کے مابین ہوئے مباہلہ کے دوسرے دن جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے وہیں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں تمام مقررین نے انجمن اشاعت اسلام کی شدید طور پر مذمت کی.گویا یہ پہلی لعنت ہے جو انجمن اشاعت اسلام پر پڑی.
دوسری لعنت 416 انجمن اشاعت اسلام نے ایک اخباری نوٹ میں کہا کہ مباہلہ کے دوسرے دن ہی جماعت احمد یہ کے صوبائی امیر محترم ڈاکٹر منصور احمد صاحب اور چیف مشنری مولانا محمد ابوالوفا صاحب وفات پاگئے ہیں.حالانکہ یہ دونوں بزرگ ایک عرصہ تک زندہ رہے.احمدی مبلغ مکرم مولانا محمد عمر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ قادیان میں ( دسمبر 1989ء میں ) منعقدہ جماعت کے جلسہ سالانہ میں مباہلہ کے بارے میں خاکسار کی تقریر تھی.انجمن اشاعت اسلام کے اس صریح جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے جلسہ سالانہ کے اسٹیج پر دونوں بزرگوں نے کھڑے ہو کر اور اپنے آپ کو پیش کر کے انجمن اشاعت اسلام کا جھوٹ ثابت کیا.یہ دوسری لعنت ہے جو مباہلہ کے نتیجہ میں ظاہر ہوئی.یعنی دعائے مباہلہ میں جھوٹ بولنے والے پر لعنت اللہ علی الکاذبین عائد ہوتی ہے.تیسری لعنت جماعت احمدیہ کے دو شدید مخالف عبد اللطیف اور حارث سے نشہ آور Ampule پکڑے گئے.عبداللطیف کے پاس 1680 اور حارث کے پاس Ampules 1667 فروخت کرنے کے لئے رکھے ہوئے تھے جس کی قیمت سترہ لاکھ بتائی جاتی ہے.یہ دونوں اشخاص انجمن اشاعت اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے خلاف سرگرم عمل تھے.پولیس ایک عرصہ ان کا تعاقب کرتی رہی بالآخر پکڑے گئے.یہ بات انجمن اشاعت اسلام کے لئے ایک اور لعنت کا موجب بنی.دوسری طرف مباہلہ کے بعد وسیع پیمانے پر جن لوگوں کے اندر سعادت تھی سینکڑوں کی تعداد میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے.مباہلہ کے بعد جماعت اسلامی کا ایک شعبہ Student Islamic MovementSIMI) of India) کے ایک سرگرم ممبر مولوی محمد سلیم صاحب کو مورخہ 30 ستمبر 1989ء کو بیعت کرنے کی توفیق علی بیعت کرنے کے بعد موصوف قادیان تشریف لے گئے.وہاں معلم کورس مکمل کر کے
417 آندھرا پردیش میں بطور مبلغ مقرر ہوئے.اس کے بعد موصوف کیرلہ میں کوڈنگلور بطور مبلغ مقرر ہوئے.مکرم مولوی محمد سلیم صاحب جو کوڈنگلور کے رہنے والے تھے اس بستی کے ارد گرد موصوف کی تبلیغ کے نتیجہ میں 78 / افراد کو بیعت کرنے کی توفیق ملی.وہاں ایک شاندار مسجد تعمیر ہوئی جس کا نام خلیفہ وقت نے دار العافیت' رکھا.مباہلہ کے بعد کوڈیا تھور کے مضافات ملکم ، چنیدہ منگلم وغیرہ کے لوگوں نے بیعت کی اس میں جماعت اسلامی کے سرگرم ممبران بھی شامل ہیں.اس کے بعد کوڈنگلور کے ہی رہنے والے اور جماعت اسلامی کے ایک سرگرم رکن مکرم مولوی محمد یوسف صاحب کو بھی بیعت کرنے کی توفیق ملی.جماعت اسلامی کے سر کردہ مہران پی.کے.شمس الدین صاحب، پی.پی بیران صاحب وغیرہ افراد قابل ذکر ہیں.علاوہ ازیں بارہ خاندان بھی بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے.الغرض مباہلہ کے بعد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے والے سینکڑوں افراد کا اس وقت نام لینا ممکن نہیں.ان بیعت کنندگان میں زیادہ تر جماعت اسلامی کے سرکردہ ممبران اور ان کے عہدیداران تھے.انجمن اشاعت اسلام کے صدر کا کیری عبد اللہ نے اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا.جماعت احمدیہ کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے.ان کے اب دوخلیفہ ہو گئے ہیں.ایک خلیفہ امسیح پنجم، دوسرا ایم.ٹی.اے کے ذریعہ وعظ و نصیحت کرتے رہتے ہیں." مباہلہ کے وقت کیرلہ میں 33 جماعتیں تھیں.مباہلہ کے بعد 18 / جماعتوں کا اضافہ ہوا.مباہلہ سے قبل کیرلہ میں 34 مساجد تھیں.مباہلہ کے بعد 8 مزید مساجد کی تعمیر ہوئی.کئی مساجد کی renovation کی گئی.کوڑیا تھور میں مباہلہ سے قبل ایک چھوٹی سی مسجد تھی.اب یہ مسجد بھی دو منزلہ نہایت خوبصورت اور پُر وقار مسجد میں تبدیل ہو چکی ہے.مباہلہ کے بعد انجمن اشاعت اسلام منتشر ہو گئی.اب اس کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں.اس کا سیکرٹری عبد الرحمن اب خاموش ہے.خدا تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ مباہلہ کے بعد کیرلہ کے احباب ومستورات میں مالی قربانی اور لازمی چندہ جات، حصہ آمد، چندہ عام، چندہ تحریک جدید اور چندہ وقف جدید میں ہندوستان کی دیگر جماعتوں کی نسبت بہت اونچا مقام حاصل ہے.الحمد للہ علی ذالک.
418 الغرض اس مباہلہ کے نتیجہ میں بھی جماعت احمدیہ نے خدا کے فضل سے ترقی کی نئی منزلیں سرکیں اور جو جھوٹے اور مفتری تھے وہ مزید افتراق و انتشار کا شکار ہوئے.مباہلہ کا سال مکمل ہونے پر احمدیت کے حق میں ظاہر ہونے والے عظیم الشان نشانوں کا ذکر اس مباہلہ کے موضوع پر آخر میں حضرت خلیفۃ ابیح الرابع رحمہ اللہ کے اس خطبہ جمعہ سے بعض اقتباسات کا پیش کرنا نہایت موزوں اور مناسب ہوگا جو حضور رحمہ اللہ نے مباہلہ کے چیلنج پر ایک سال کا عرصہ مکمل ہونے پر 9 جون 1989 ء کو مسجد فضل لندن میں ارشاد فرمایا.حضور رحمہ اللہ نے اس خطبہ جمعہ میں مباہلہ کے سال میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والے متعدد نہایت روشن اور درخشاں نشانات میں سے چند کا تذکرہ بھی فرمایا.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: آج سے ایک سال پہلے 10 جون 1988ء کو جماعت احمد یہ عالمگیر کی نمائندگی میں جو مباہلہ کا چیلنج میں نے دشمنان احمدیت کے سربراہوں اور مگھرین اور مکڈ بین کے امراء کو دیا تھا اس پر آج ایک سال گزرتا ہے.اس دوران میں جو جو خدا تعالی کی طرف سے نشانات ظاہر ہوئے ان میں سے چند کا تذکرہ آج میں کروں گا لیکن اس سے پہلے کچھ وضاحتیں کرنی ضروری سمجھتا ہوں.مباہلہ کی تاریخ کا آغاز 10 رجون سے ہوتا ہے اور 9 رجون کو ایک سال یعنی آج وہ سال پورا ہوتا ہے.لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ مباہلے اس دوران پیدا ہوئے ہیں.چونکہ ایک سال کی مدت میں نے مکڈ بین، مگھرین کے امراء کو دے رکھی تھی اس لئے اس سال کے دوران ہی جب انہوں نے قبول کرنے کا اقرار کیا تو میں نے اسے تسلیم کر لیا اس لئے جہاں تک احمد یہ جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے چیلنج دینے کا تعلق ہے ہمارا یہ سال آج پورا ہورہا ہے.جہاں تک دشمنان احمدیت کے اس چیلنج کو قبول کرنے کا تعلق ہے بعض نے عمومی طور پر اسی وقت قبول کیا اور اخبارات میں اس کا اظہار کیالیکن ساتھ شرطیں ایسی لگائیں جن کے نتیجے میں ان کے لئے فرار کی راہ کھلی تھی اور یہ کہنے کا موقع باقی تھا کہ ہم نے تو یہ
419 کہا تھا کہ فلاں جگہ پہنچو تو مباہلہ ہوگا اور فلاں جگہ پہنچو تو نہیں ہوگا.اُن مباہلوں کو میں مباہلوں میں شمار نہیں کرتا لیکن اس کے علاوہ جن لوگوں نے مثلاً انگلستان کے بعض علماء نے مشارکت زمانی کہہ کر یعنی یہ کہہ کر کہ اگر چہ ایک جگہ ہم اکٹھے نہیں ہو سکتے لیکن زمانے میں مشترک ہو سکتے ہیں اس لئے فلاں تاریخ کو آپ بھی دعائیں کریں، ہم بھی دعائیں کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک یہ مباہلہ ہو جائے گا.تو اس کو میں مباہلہ تسلیم کرتا ہوں ان معنوں میں کہ دونوں طرف سے برابر کا مباہلہ ہے اور دونوں کی طرف سے خوب وضاحت کے بعد اس ذمہ داری کو قبول کر لیا گیا ہے.اسی طرح ہندوستان میں ابھی چند دن پہلے ایک مباہلہ میری اجازت سے ہوا اور وہ بھی چونکہ اس سال کے اندر ہوا اس لئے اسے بھی بطور مباہلہ کے ہم تسلیم کر چکے ہیں....اس دوران بعض انفرادی واقعات بھی ہوئے ہیں جن کا جماعت کی طرف سے اجتماعی مباہلہ سے تعلق نہیں تھا لیکن اس مباہلہ کے سائے میں اس سے جرآت اور حوصلہ پا کر بعض احمدیوں نے انفرادی طور پر بعض دوسرے غیر احمدی مخالفین کو انفرادی طور پر چیلنج دیا اور وہ انہوں نے قبول کیا.اس کی تاریخ بھی ہم با قاعدہ منضبط کر رہے ہیں، محفوظ کر رہے ہیں اور بہت سے ایسے نشانات ظاہر ہو چکے ہیں جو حیرت انگیز ہیں، کچھ اور انشاء اللہ ہوں گے پھر اس بارے میں بھی میں علیحدہ بعد ازاں کسی وقت جماعت کو مطلع کروں گا.آج جو گفتگو کر رہا ہوں اس کا اس سال کے عمومی حالات سے تعلق ہے اور مباہلہ کی دعا سے تعلق ہے.مباہلہ کی دعا میں میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس عرصے میں کوئی احمدی نہیں مرے گا اور سارے دشمنان احمدیت مر جائیں گے.ایسی لغو بات میں کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ خدا کی تقدیر میں دخل دینے والی بات ہے اور مباہلہ کے مضمون کو حد سے آگے بڑھانے والی بات ہے.سوائے اس کے کہ اللہ تعالی کسی دشمن کی موت کی معین خبر دے، مباہلہ کو معین کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے.اس لئے جیسے کہ میں آپ کے سامنے اب عبارت پڑھ کے سناؤں گا آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جو دعا میں نے تجویز کی تھی اور جس کو ملحوظ رکھ کر دشمنوں نے مباہلہ کو قبول کیا ہے وہ دعا یہ تھی: ”اے قادر و توانا عالم الغيب والشهادة خدا! ہم تیری جبروت اور تیری عظمت، تیرے وقار اور تیرے جلال کی قسم کھا کر اور تیری غیرت کو ابھارتے ہوئے تجھ سے یہ
420 استدعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو فریق بھی ان دعاوی میں سچا ہے جن کا اوپر ذکر گزر چکا ہے اس پر دونوں جہان کی رحمتیں نازل فرما، اس کی ساری مصیبتیں دور کر، اس کی سچائی کو ساری دنیا پر روشن کر دے، اس کو برکت پر برکت دے اور اس کے معاشرہ سے ہر فساد اور ہر شر کو دور کر دے اور اس کی طرف منسوب ہونے والے ہر بڑے اور چھوٹے مرد و عورت کو نیک چلینی اور پاکبازی عطا کر اور سچا تقویٰ نصیب فرما اور دن بدن اس سے اپنی قربت اور پیار کے نشان پہلے سے بڑھ کر ظاہر فرما تا کہ دنیا خوب دیکھ لے کہ تو ان کے ساتھ ہے اور ان کی حمایت اور ان کی پشت پناہی میں کھڑا ہے اور ان کے اعمال ، ان کی خصلتوں اور اُٹھنے اور بیٹھنے اور اسلوب زندگی سے خوب اچھی طرح جان لے کہ یہ خدا والوں کی جماعت ہے اور خدا کے دشمنوں اور شیطانوں کی جماعت نہیں ہے.اور اے خدا! تیرے نزدیک ہم میں سے جو فریق جھوٹا اور مفتری ہے اس پر ایک سال کے اندر اپنا غضب نازل فرما اور اسے ذلت اور نکبت کی ماردے کر اپنے عذاب اور قہری تجلیوں کی نشانی بنا اور اس طور سے ان کو اپنے عذاب کی چکی میں پیس اور مصیبتوں پر مصیبتیں ان پر نازل کر اور بلاؤں پر بلائیں ڈال کہ دنیا خوب اچھی طرح دیکھ لے کہ ان آفات میں بندے کی شرارت اور دشمنی اور بغض کا دخل نہیں بلکہ محض خدا کی غیرت اور قدرت کا ہاتھ یہ سب عجائب کام دکھلا رہا ہے.اس رنگ میں اس جھوٹے گروہ کو سزا دے کہ اس سزا میں مباہلہ میں شریک کسی فریق کے مکرو فریب کے ہاتھ کا کوئی بھی دخل نہ ہو اور وہ محض تیرے غضب اور تیری عقوبت کی جلوہ گری ہو، تا کہ بچے اور جھوٹے میں خوب تمیز ہو جائے اور حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر ہو اور ظالم اور مظلوم کی راہیں خدا خدا کر کے دکھائی جائیں اور ہر وہ شخص جو تقویٰ کا بیج اپنے سینے میں رکھتا ہے اور ہر وہ آنکھ جو اخلاص کے ساتھ حق کی متلاشی ہے اس پر معاملہ
421 مشتبہ نہ رہے اور ہر اہل بصیرت پر خوب کھل جائے کہ سچائی کس کے ساتھ ہے اور حق کس کی حمایت میں کھڑا ہے.(آمین یارب العالمین) (مباہلہ کا کھلا کھلا چیلنج صفحہ 15،14) اس ضمن میں مزید بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک اور وضاحت بھی ضروری ہے کہ دعا میں انسان کبھی کوئی کمی نہیں رکھتا اور دعامانگتے ہوئے خدا تعالیٰ پر حدیں قائم نہیں کیا کرتا.اسی لئے جب میں یہ دعا تحریر کر رہا تھا تو باوجود اس کے کہ میرا ذہن بار بار اس طرف گیا کہ ایسی دعا مانگنا کہ ہر احمدی کے ساتھ یہ سلوک ہو، ہر احمدی بچہ، بوڑھا، جو ان نیک ہو جائے اور تمام مصیبتیں دور ہو جائیں یہ میں اپنے آپ کو باندھ رہا ہوں اور دشمن کو اعتراض کا موقع مہیا کر رہا ہوں اور خدا کی تقدیر کو بظاہر گویا مجبور کر رہا ہوں کہ وہ ہم سے ایسا سلوک کرے جو اس سے پہلے کبھی دنیا میں کسی سے سلوک نہیں ہوا.اس کے باوجود میں نے یہ عبارت تحریر کی.اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن کریم کے مطالعہ سے مجھ پر یہ بات روشن تھی کہ انبیاء نے دعاؤں میں کنجوسی نہیں کی اور کمی نہیں کی اور خدا نے قبولیت کے وقت اپنی قدرت کا نشان دکھایا ہے، اپنی مالکیت کا ثبوت دیا ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا دیکھیں اور خصوصیت سے وہی دعا میرے پیش نظر تھی کہ اپنی اولاد کے لئے قیامت تک کے لئے یہ دعا کی کہ وہ سارے نیک اور پارسا ہوں کوئی بھی ان میں بدنہ نکلے اور پھر ان کو آئمہ بنا اور پھر ان کے ساتھ یہ سلوک فرما.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا لا يَنَالُ عَهْدِى الظَّالِمِينَ ( البقرہ 125) اے ابراہیم تو مجھے بہت پیارا سہی، ساری کائنات کا آج تو خلاصہ ہے اور یہ فقرہ میں نہیں کہہ رہا خدا تعالیٰ نے آپ کو امت کہہ کر یہی بیان فرمایا کہ تو ایک ہوتے ہوئے امت ہے.یعنی اس وقت ساری کائنات کا خلاصہ تو ہے.پھر بھی میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا.چنانچہ اسی لئے میں جماعت کو اس سال کے دوران اس دعا کے باوجود یہ نصیحت کرتا رہا کہ ہوش سے قدم اٹھا ئیں.اگر اس سال میں انہوں نے اپنی برائیاں دور کرنے کی کوشش نہ کی اور بدیوں پر قائم رہے تو خدا کی تقدیر ان کو معاف نہیں کرے گی.اس غلط نہی میں مبتلا نہ ہوں، چونکہ مباہلہ کی دعا سب پر حاوی دکھائی دیتی ہے اس لئے وہ جو چاہیں کریں اُن سے کوئی باز پرس نہیں کی جائے گی.یہ وجہ تھی جو میں نے دعا میں بظاہر اپنے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی.کیونکہ میرا توکل خدا پر تھا اور دعا خدا سے مانگ
422 رہا تھا اور سنت انبیاء مجھے یہی دکھا رہی تھی کہ دُعا میں کامل ہو جاؤ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل جتنا بھی نازل ہو اس کو خوشی سے قبول کرو اور تسلیم ورضا کے ساتھ اس پر راضی ہو جاؤ.پس یہ ہے اس کا پس منظر لیکن جہاں تک حالات کے فرق ہونے کا تعلق ہے.حالات کے جدا جدا ہونے کا تعلق ہے یا جدا جدا کر دکھانے کا تعلق ہے، یہ ایسا مضمون ہے جس میں کوئی اشتباہ باقی نہیں رکھا کرتا اور کوئی اشتباہ باقی نہیں رہا.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، اتنی برکتیں نازل ہوئی ہیں اس دور میں کہ دنیا کا ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں احمدیوں کو نمایاں طور پر یہ احساس نہیں ہوا کہ ہاں ہم ایک نئے وجود کے طور پر ابھر رہے ہیں اور جہاں غیروں نے ان کے ساتھ پہلے سے بہت بڑھ کر محبت اور تعظیم کا سلوک نہیں کیا.اور وہ ممالک جہاں ان کو پوچھتا بھی کوئی نہیں تھا، وہاں بڑے بڑے لوگوں کی، اخبارات کی، ٹیلی ویژنز کی ، ریڈیوز کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوئی اور حالات پلٹ گئے.ابھی کل ہی کی بات ہے مشرقی افریقہ سے ایک دوست تشریف لائے جو آج خطبہ میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں قریشی عبدالمنان صاحب وہ اخبارات کے تراشے لائے اور کچھ اصل اخبارات لائے اور مجھے بتایا کہ ہمارے آنے سے قبل یعنی اسی سال جو اس ملک کے حالات تھے، جو احمدیوں کی وہاں عزت تھی یا احمدیوں سے تعارف تھا لوگوں کو کہتے ہیں اس کا حال آپ نے خود دیکھ لیا تھا.ایک مجلس میں جب ایک بہت ہی معز اور معروف حج نے، منصف نے آپ کو یہ کہا کہ میں نے تو پہلے احمدیت کا کوئی ذکر نہیں سنا اور آج یہ حال ہے کہ ملک کا بچہ بچہ احمدیت کو جانتا ہے.اخبارات میں تشہیر ہوئی اور ایسی زبر دست اتنی خوبصورت.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصاویر، خلفاء کی تصاویر نہایت ہی عمدہ رنگ میں دے کر اور بہت بڑے بڑے پوسٹرز کی صورت میں اخبارات میں احمدیت کے متعلق یہ اعلانات شائع ہوئے اور پھر ریڈیو نے بھی وہ باتیں سنائیں دنیا کو اور ٹیلی ویژن نے بھی بلکہ پورا پیغام جو میں نے دیا تھا وہ بھی پڑھ کے سنایا.تو یہ عجیب اللہ کی شان ہے کہ مباہلہ کا سال وہی مقرر فرمایا جو جماعت احمدیہ کا نئی صدی میں داخل ہونے کا سال تھا اور اس کے نتیجے میں محض تمام دنیا میں حیرت انگیز تائید کے کرشمے ہی نہیں دکھائے بلکہ اس کے نتیجے میں احمدیوں کو خاص طور پر اپنی حالت سدھارنے کی طرف متوجہ فرما دیا.کیونکہ یہ احساس صدی کے اختتام کے ساتھ ساتھ احمدیوں میں بڑھتا چلا گیا کہ ہم نے اگلی صدی میں اپنی پہلی
423 برائیوں کے ساتھ داخل نہیں ہونا اور احمدی بڑوں نے بھی اور بچوں نے بھی نہ صرف کوششیں کیں بلکہ مجھے مسلسل دعا کے بھی خط لکھتے رہے کہ ہم نے فیصلے کئے ہیں جو بعض برائیاں ہیں ان کو لے کر ہم نے انگلی صدی میں سانس نہیں لینا.بعض ایسی برائیاں ہیں جو ہم پر قابض ہو چکی ہیں ، ہماری زندگی کا ساتھ تھیں ان کو جدا کرنا آسان کام نہیں اس لئے ہم بھی دعا کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں ، آپ بھی دعائیں کریں.مجھے بار بار اس سے یہ محسوس ہوتا رہا کہ یہ مجیب اللہ کی شان ہے کہ اس نے مباہلہ کی دعا ایسے سال میں کروائی جب کہ تمام حالات کا رخ احمدیوں کی اصلاح کی جانب تھا اور وہ اس مباہلہ کی کامیابی میں حمد ثابت ہوئے....پس آج ہم بالعموم تمام دنیا کی جماعتوں کی نمائندگی میں یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ مباہلہ کے اس سال میں جماعت احمدیہ کے اکثر افراد کو اس توجہ اور غیر معمولی انجاک کے ساتھ اپنی برائیاں چھوڑنے اور نیکیاں اختیار کرنے کی توفیق ملی ہے کہ اس سے پہلے شاؤ کے طور پر بھی کبھی ایسا واقعہ ہوا ہو.مختلف وقتوں میں خلفاء کی تحریک پر جماعتیں اصلاح کی طرف متوجہ ہوتی ہیں مگر ایک عالمگیر حیثیت سے کہ تمام دنیا میں ہر ملک میں، ایک سو بیس ممالک میں یہ توجہ بڑی نمایاں شان کے ساتھ بیدار ہوتی ہو اور اس کا گہرا اثر دور دور تک مردوں، عورتوں اور بچوں پر پڑا ہو.یہ واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور خدا کی غیر معمولی توفیق کے بغیر ہونا ممکن نہیں ہے.میں نے کئی دفعہ ان علماء کو چیلنج کیا ہے کہ بھتی! اگر تم نیکی کے علمبردار ہو اور واقعی اسلام سے محبت رکھتے ہو تو ایک شہر کو چن لو پاکستان میں ، چنیوٹ لے لو، فیصل آباد لے لو اور ساری قوتیں وہاں مجتمع کرلو اور وہاں سے برائیاں دور کرنے کی کوشش کرو.یہ مقابلہ ہے، یہ مسابقت کی روح ہے جو اسلام پیش کرتا ہے.پھر دیکھو کہ خدا تمہیں تو فیق عطا فرماتا ہے یا ہمیں توفیق عطا فرماتا ہے.کہاں یہ کہ ساری دنیا میں ایک سو بیس ممالک میں پھیلی ہوئی ہزار ہا بلکہ لاکھوں بستیوں میں پھیلی ہوئی جماعت کو خدا تعالی یہ توفیق بخشے کہ ہر جگہ خدا اصلاح کے کرشمے دکھائے ، اصلاح کے معجزے دکھائے.پس خدا کا یہ بہت عظیم الشان احسان ہے مگر میں جماعت احمدیہ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اصل معجزہ اصلاح کا معجزہ ہی ہوا کرتا ہے.میں دوسری قسم کے معجزے کا بھی ذکر کروں گا لیکن آپ یا درکھیں کہ سب سے بڑا معجزہ دنیا میں صداقت کے ثبوت کے لئے اصلاح کا معجزہ ہوا کرتا ہے.باقی ساری باتیں آنے جانے والی ہیں، باقی ساری باتیں وقت کے تماشے ہیں یا ایک وقت میں ایمان افروز باتیں ہی ہیں
424 لیکن ان کی حیثیت ایک وقتی ہے، ایک عارضی حیثیت ہے.وہ آتی ہیں دل پر نیک اثر چھوڑ کر چلی جایا کرتی ہیں.لیکن نیکیوں کو خدا تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیشہ البقيت الصلحت (الکہف (47) کے طور پر پیش فرماتا ہے.جو نیکیاں آپ نے اختیار کر لیں وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے نہ صرف آپ کے وجود کو سنوار گئیں بلکہ آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہونی شروع ہو جائیں گی اور اگر نسلاً بعد نسل کسی قوم کو نیکیاں اختیار کرنے کی منتقل ہو توفیق ملے تو وہ عادتوں کا حصہ بن جایا کرتی ہیں اور پھر وہی ہیں جو enetic Symbols اس میں مل جاتی ہیں اور خدا نے جو نظام وراثت کا قانون بدن کے اندر جاری فرمایا ہے اس نظامِ وراثت کا حصہ بن جایا کرتی ہیں.اس لئے اس سال کی نیکیوں کو اس سال کے آخر پر بھلانا نیکی نہیں ہے بلکہ سارے ماحصل کو ضائع کرنے والی بات ہے.آپ یہ کوشش کریں کہ ان نیکیوں کو جن کو آپ نے اختیار کیا ہے نہ صرف ان کو صبر کے ساتھ پکڑ کر بیٹھیں اور ہر گز ضائع نہ ہونے دیں بلکہ ان نیکیوں کا ایک اور فائدہ اٹھائیں کیونکہ کہا جاتا ہے اور تجربہ یہی ہے اور قرآن کریم کے مطالعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نیکیاں دوسری نیکیوں کو پیدا بھی کرتی ہیں....آپ کے خون میں نیکیاں آجانی چاہئیں.وہ نیکیاں جو ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ کے خاندانوں کا حصہ اور طرہ امتیاز بن جائیں.وہ احمدیت کا نشان بن جائیں اور امتیازی شان احمدیت ان نیکیوں کے ذریعے دنیا میں ظاہر ہونے لگے.یہی میری دعا تھی، اس دعا کو خدا نے بڑی شان کے ساتھ ، بڑے وسیع پیمانے پر قبول فرمایا ہے.لیکن ابھی بہت سفر باقی ہے اور ابھی بہت سی کمزوریاں ایسی ہیں جنہیں ہمیں گرانا ہے اپنے وجود سے اور بہت سی نیکیاں ہیں جنہیں داخل کرنا ہے اور سینے کے ساتھ لگانا ہے اس لئے میں جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ اس مباہلہ کے سال کی برکتوں کو دائمی کرنے کی کوشش کریں.اس عرصے میں خصوصاً ان علاقوں میں جو ہماری مخالفت میں پیش پیش رہے ہیں اور ان علماء کے دائروں میں جہاں احمدیت پر بے حد گند اچھالے گئے، جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب میں ہر حد اعتدال سے تجاوز کیا گیا اور انتہائی بے باکی سے آپ پر ناپاک حملے کئے گئے.اتنی بدیاں پھیلی ہیں اس عرصے میں، اتنی بدامنی ہوئی ہے، اتنے فساد بڑھے ہیں، اس طرح گھر گھر کا بگلی گلی کا امن اٹھ گیا ہے کہ جو پاکستان جاتا ہے وہ اس بات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور خوفزدہ ہو کر واپس آتا ہے.بعض **
425 لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ جس پاکستان کو آپ چھوڑ کر آئے تھے اس کا خیال بھول جائیں.اب ایک اور جگہ ہے وہاں.جہاں درندگی ہے، جہاں وحشت ہے، جہاں خود غرضی ہے، جہاں مستقبل پر اعتماد اٹھ چکا ہے اور اخبارات میں ایسے روز مرہ واقعات چھپتے رہتے ہیں جن کو پڑھ کر آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ وہ ملک جو ساری دنیا میں اپنے اسلام کا ڈنکا بجا رہا ہے اور یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا کہ ہم اسلام کے مجاہد ہیں ، ہم اسلام سے محبت کرنے والے ہیں وہاں اس قسم کی بدیاں اس کثرت کے ساتھ پھیل رہی ہوں.ڈرگز ہیں تو وہ ہاتھ سے بے قابو ہوتی جارہی ہیں اور دوسری بدیاں ہیں ان کا حال یہ ہے کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے یہ خبر بھی شائع ہوئی اخبارات میں جس کی کوئی تردید شائع نہیں ہوئی کہ ستائیسویں رات رمضان المبارک کو انڈین ایمبیسی کی دعوت پر بہت سے پاکستانی عمائدین تشریف لے گئے اور ساری رات شراب پیتے گزاری.یہاں تک کہ بعض کو جس طرح لاشوں کو اُٹھا کر ڈھیریوں کے طور پر منتقل کیا جاتا ہے اس طرح اٹھا اٹھا کر ان کی ڈھیریاں موٹروں میں ڈالی گئیں.ان میں یہ بھی طاقت نہیں تھی کہ وہ خود ڈگمگاتے ہوئے قدموں کے ساتھ ہی اپنی موٹر تک پہنچ سکیں.لیکن صرف یہی نہیں بے انتہا دردناک حالات ہیں.ان کی تفصیل میں بیان نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ دکھ کی باتیں ہیں اور اس ضمن میں میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ جو دعا تھی اس میں فرق ظاہر کرنے کے لئے مجبوراً یہ بددعا بھی دینی پڑی.مگر خدا گواہ ہے کہ ہمیں اس میں کوئی خوشی نہیں ہے.صرف ایک تفریق کی خاطر، ایک امتیاز کی خاطر، دشمن کے دکھوں سے تنگ آ کر بعض دفعہ انسان ایسی بات کر دیتا ہے.جب میں نے دوبارہ اس کو پڑھا تو ہمیشہ مجھے تکلیف ہوئی اور بعض دفعہ میں نے کہا کاش یہ میں نے نہ کہا ہوتا، صرف یک طرفہ بات ہی کہہ دیتا.اس لئے اس پر آپ خوش نہ ہوں ورنہ یہ خوشی آپ کے دلوں کو زنگ لگائے گی.امت مصطفی ملیم میں برائیاں کسی رنگ میں بھی بڑھیں وہ ہمارے لئے دکھ کا موجب ہونی چاہئیں، ہمارے لئے تکلیف کا موجب ہونی چاہئیں.اس کے ذمہ دار یہ علماء ہوں یا دیگر محرکات یا واقعات ہوں لیکن ایک سچے اسلام سے محبت کرنے والے کے لئے اس میں خوشی کا کوئی مقام نہیں ہے.ہاں استغفار کا مقام ہے.پس جہاں تک خدا کی تقدیر کا تعلق ہے اس نے بڑے وسیع پیمانے پر اس معاملے کو کھول کر رکھ دیا ہے.
426 لیکن اس کے علاوہ بعض انفرادی نشانات بھی ظاہر ہوئے ہیں اور وہ ایسے نشانات ہیں جن کی ضرورت اس لئے پڑتی ہے کہ بعض لوگ ان وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے نشانات کے مطالعہ کی بصیرت نہیں رکھتے.ان کی نظر میں یہ توفیق نہیں ہوتی ، لگا ہیں محدود ہوتی ہیں.یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اس عالی حیثیت سے ان نشانات کا مطالعہ کریں اور موازنہ کریں اور اس طرح صداقت اور جھوٹ میں تفریق کر کے دیکھ سکیں.پس ان کے لئے پھر خدا تعالٰی بعض نشانات کی انفرادی چوٹیاں قائم کرتا ہے.ایسے لوگ جن پر ان کی نظر ہوتی ہے ان کے ساتھ خاص سلوک کرتا ہے اور وہ سلوک دیکھ کر پھر بعض دفعہ وہ عبرت کا نشان بنتے ہیں، بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہوئے وہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جاتے ہیں کہ اس طرح خدا تعالی کی برکتیں عطا کی جاتی ہیں.ضیاء الحق کی ہلاکت اس پہلو سے سب سے زیادہ اہم ذکر ضیاء الحق صاحب سابق صدر پاکستان اور سابق ڈکٹیٹر پاکستان کا ہے.اس کی تفاصیل میں اب دوبارہ جانا مناسب نہیں.لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ مباہلہ کا چیلنج جو دراصل جس کا آغاز رمضان مبارک 1988 مئی میں ہوا تھا غالباً 14 رمئی یا 17 مئی کو یہ پہلی دفعہ درس میں میں نے اس کا ذکر کیا تھا.لیکن چیلنج باقاعدہ 10 جون کے خطبے میں یعنی بروز جمعہ دیا گیا.اس کے بعد بار بار مرحوم صدر کو یہ توجہ دلائی جاتی رہی کہ آپ اگر چیلنج قبول کرنے میں سیکی محسوس کرتے ہیں، کسی قسم کی خفت محسوس کرتے ہیں اس خیال سے کہ آپ بہت بڑے آدمی ہیں اور میں بالکل بے حیثیت اور چھوٹا انسان ہوں یا جماعت کی آپ کی نظر میں کوئی بھی قدر و قیمت نہیں ہے تو کم سے کم ظلم سے باز آ جائیں.اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو میری دعا یہ ہے کہ خدا کی نظر میں یہ مباہلہ قبول سمجھا جائے.یعنی خدا کی نظر میں آپ کی حیثیت مباہلہ قبول کرنے والے کی شمار ہو اور پھر خدا کا عذاب آپ پر نازل ہو.اس لئے میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں.ہاں اگر آپ ان چیزوں سے باز آجائیں تو آپ کا پیغام ہمیں یہی ہوگا کہ ہاں میں مباہلہ قبول کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا یعنی مباہلہ قبول کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لئے میں اپنے ظلموں سے تو بہ کر رہا ہوں.ایسی صورت میں ہم یہ دعا کریں گے کہ اللہ تعالٰی آپ پر فضل فرمائے ، آپ کو مزید ہدایت
427 عطا کرے.نہ صرف یہ کہ انہوں نے اس نصیحت پر عمل نہیں کیا بلکہ مخالفانہ عمل کیا اور شرارت میں بڑھنا شروع ہوئے.یہاں تک کہ مرنے سے چند دن پہلے ایک مبہم ساز کر بھی کیا کہ میں عنقریب ایک خوشخبری اور سناؤں گا.اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا خباثت پنپ رہی تھی جس کو پایہ تکمیل پر پہنچنے سے پہلے ہی خدا نے نوچ کر پھینک دیا.مگر بہر حال وہاں سے جو اطلاعات مل رہی تھیں اس سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ جو انہوں نے مرنے سے کچھ عرصہ پہلے علماء کی کانفرنس بلائی تھی جس میں یہ وعدہ کیا تھا خوشخبری کا اس میں کچھ احمدیوں کے خلاف سازشیں ہوئی تھیں اور انہیں پھر مزید قوانین کی صورت میں ڈھال کر احمدیوں کا عرصہ حیات مزید تنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا.یعنی گیارہ اور بارہ کی درمیانی رات.میں نے اس سے پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس خطبے میں میں یہ ذکر کروں گا کہ ضیاء الحق صاحب نے عملاً یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مباہلہ کو تخفیف کی نظر سے دیکھتے ہیں، حقارت سے دیکھ رہے ہیں اور چیلنج کو قبول کرتے ہوئے مخالفانہ کوششوں میں بڑھ رہے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو لاز ما بد انجام تک پہنچائے گا.لیکن اسی رات یہ عجیب رویا میں نے دیکھی کہ وہ تفصیل آپ جانتے ہیں، صرف خلاصہ اس کا یہ ہے کہ خدا کے غضب کی چکی جس طرح پہلے دشمنوں کو پیستی رہی ہے اس طرح لازماً اب بھی چلے گی اور کوئی دنیا کی طاقت اس قانون کو روک نہیں سکتی.جو دشمنوں کے ساتھ خدا کے سلوک کی تاریخ آپ قرآن کریم میں پڑھتے ہیں وہ آج بھی دہرائی جائے گی.چنانچہ اس رویا سے جرآت پاتے ہوئے اور یقینی طور پر اس کی یہی تعبیر سمجھتے ہوئے کہ چونکہ ضیاء صاحب میرے ذہن میں تھے اور خطبے کا موضوع بننے والے تھے اس لئے ان کے متعلق ہی ہے.میں نے کھل کر آپ کے سامنے ذکر کیا کہ اب خدا کی تقدیر سے یہ شخص بچ نہیں سکتا اور لازما وہ جاری ہوگی.چنانچہ دیکھئے کہ اللہ تعالی نے حیرت انگیز یہ نشان دکھایا.12 اگست کا یہ خطبہ ہے اور سترہ تاریخ کو وہ ایک دھماکے کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹادئیے گئے.بعد ازاں میں نے احمدیوں کی بھیجی ہوئی رؤیا کے پرانے رجسٹر کا مطالعہ کیا اور وہ مضمون بہت ہی دلچسپ ہے وہ انشاء اللہ بعد میں کسی وقت یا بیان کروں گا یا وہ شائع کر دیا جائے گا.حیرت انگیز طور پر اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو اسی انجام کے متعلق پہلے ہی باخبر کر دیا تھا.ایک خاتون نے لکھا کہ میں نے دیکھا
428 که ضیاء صاحب آسمان کی طرف اٹھتے ہیں اور ایک غبارے کی طرح پھٹ کر تباہ ہو جاتے ہیں.اب ایک آدمی کے عام تصور میں یہ بات نہیں آتی کہ آسمان کی طرف اٹھے اور غبارے کی طرح پھٹ کر تباہ ہو جائے اور بالکل ایسا ہی واقعہ ہوا ہے.ایک شخص نے رویا میں دیکھا کہ شیخ مبارک احمد صاحب امریکہ والے جو آج کل امریکہ میں ہیں وہ کہ رہے ہیں کہ ضیاء کا جہاز ہوا میں تباہ ہو جائے گا اور یہ ساری رؤیاء پہلے لکھ کر انہوں نے بھیجی ہوئی ہیں.ایک شخص نے لکھا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے واضح طور پر خبر دی ہے کہ 1988 ء کا سال ضیاء کے انجام کا سال ہے.پس اور بھی اب میں مطالعہ کروارہا ہوں رجسٹروں کا.ان کی تاریخیں، خط کس تاریخ کو ملے، کون کون صاحب ہیں...جماعت کے ازدیاد ایمان کے لئے اور دنیا کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنانے کی خاطر انشاء اللہ ان چیزوں کو شائع کر دیا جائے گا.اب میں ایک ایسے شخص کا ذکر کرتا ہوں جس کے انجام کی جماعت احمد یہ انگلستان گواہ ہے اور یہ بھی ایسا انجام ہے جو اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا گہرا مباہلہ سے تعلق ہے.ضمنا میں آپ کو یہ بتا دوں کہ دنیا میں لوگ مرتے ہی رہتے ہیں، احمدی بھی فوت ہوئے اس عرصے میں، بغیر احمدی بھی کثرت کے ساتھ فوت ہوئے.سینکڑوں احمدی ہوئے تو کھوکھہا غیر احمدی بھی فوت ہوئے.نہ کبھی میں نے سوچا، نہ آپ کو سوچنا چاہئے کہ مباہلہ کے نتیجے میں لوگ مر رہے ہیں.اس معاملے میں احتیاط ضروری ہے.خدا تعالیٰ کی تقدیر جتنا نشان دکھائے اسی کو قبول کرنا چاہیئے اور اپنی طرف سے نشان بنا بنا کر خدا کی طرف منسوب نہیں کرنے چاہئیں.یہ ایک بہت ہی جاہلانہ طریق ہے کہ ہم سوچ سوچ کے آپ ہی خدا نے نشان نہیں دیئے ہم بنالیتے ہیں.جس طرح مولویوں نے کیا کہ خدا نے ان کو نہیں مارا، ہم مارتے ہیں.اس کو تو ہم ایک جہالت کے طور پر رڈ کرتے ہیں.نہایت ہی بیوقوفوں والا طریق ہے اس لئے جماعت احمدیہ کو تقوی کی باریک راہیں اختیار کرنی چاہئیں.اتنی بات کریں جس کے متعلق آپ کامل یقین کے ساتھ شواہد پر قائم ہوتے ہوئے دنیا کو بتا سکیں، خود یہ یقین رکھتے ہوں کہ خدا تعالی کی طرف سے ایک نشان ہے.پس ان میں سے ایک میں نے چنا ہے.
429 مولوی محمود احمد میر پوری کی وفات...ایک مولوی محمود احمد صاحب میر پوری یہاں ہوا کرتے تھے.سیکرٹری جنرل اسلامک شریعت کونسل برطانیہ، ناظم اعلی مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ، ایڈیٹر صراط مستقیم بر محکم برطانیہ مباہلہ کے منگھ کچھ عرصہ بعد انہوں نے یہ اعلان شائع کیا کہ مباہلہ تو یونہی فضول بات ہے لوگ مر بھی جاتے ہیں خوامخواہ پھر احمدیوں کو عادت پڑتی ہے بتانے کی کہ یہ اس کی وجہ سے مر گیا.ضیاء بھی اسی طرح اتفاقا مرا ہے اور دیکھ لواحمدیوں نے کیا کہنا شروع کر دیا ہے.اس لئے یہ لغو بات ہے.اور پھر یہ بھی کہا کہ مباہلہ کے چیلنج دینا تو صرف نبیوں کا کام ہے اور مرزا طاہر احمد کا دعویٰ ہی نہیں نبوت کا اس لئے اس کو کیا حق ہے مباہلہ کا چیلنج دینے کا.اس کے بعد یہ واقعہ ہوا جو بظاہر حیرت انگیز تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ خدا کی تقدیر ظاہر ہوئی ہے کہ ایک ایسا حادثہ ہوا جس کے متعلق سب کو تعجب ہے کہ حادثہ ہونا چاہیئے ہی نہیں تھا.اس کی تفاصیل اخبارات میں بڑی درد ناک چھپی اور جب ان کی لاش گھر لائی گئی اور ان کے ساتھ ان کے عزیزوں کی ساس کی اور بچے وغیرہ کی تو جس جگہ وہ لاش رکھی گئی تھی وہ صحن ہی گر کر نیچے گر پڑا اور اس کے نتیجے میں پھر کثرت سے لوگ زخمی ہوئے ، واویلا پڑ گیا، کہرام مچ گیا.تو یہ واقعہ ایسا تھا جس سے مجھے خیال ہوا کہ اس کی تحقیق کروانی چاہئے کہ اگر ایک شخص مباہلہ کو قبول کرنے سے انکار کر رہا ہے تو اس کے اوپر خدا تعالی کیوں ایسا ایک دم غضبناک ہوا.اس کے لئے کوئی وجہ ہونی چاہئے، اس کی تحقیق ہونی چاہئے.چنانچہ جب میں نے تحقیق کی تو ایک حیرت انگیز بات یہ معلوم ہوئی کہ انہی مولوی صاحب نے 7 مارچ 1985ء کو مجھے چیلنج دیا ور وہ چیلنج چھپا ہوا روز نامہ جنگ میں موجود ہے.وہی شخص جو کہتا ہے کہ نبوت کے دعویٰ کے سوا کوئی چیلنج دے ہی نہیں سکتا، وہی شخص جو کہتا ہے کہ یہ بہانہ خوریاں ہیں اور یہ کوئی نشان نہیں وہ اس سے پہلے مجھے چیلنج دے چکا تھا.پس جب میں نے وہ چیلنج دیا معا دونوں فریق میں مقبولیت ہو گئی اس کی.کیونکہ وہ پہلے ہی چیلنج دے چکا تھا اس میں ذکر کرتا ہے کہ جب وہ قبول کرے گا اس وقت مباہلہ ہو جائے گا.پس یہ وجہ تھی، خدا کی تقدیر یونہی بے وجہ کوئی کام نہیں کیا کرتی.اب میں اس پس منظر میں ان کا یہ چیلنج پڑھ کر آپ کو سناتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح خدا کی تقدیر باریک نظر سے فیصلے فرماتی ہے.وہ لکھتے ہیں:
430 میں مرزا طاہر احمد کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ اس بات پر مباہلہ کریں کہ مرزا غلام احمد سچا نبی تھا یا جھوٹا.ہمارا دعویٰ اور ایمان ہے کہ سرور دو عالم علام آخری نبی ہیں ان کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا اور کذاب ہوگا.وہ حضرات جو بیچارے کسی لالچ و طمع کی بناء پر قادیانیت قبول کر لیتے ہیں انہیں قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے مرزا صاحب سامنے آجائیں تا کہ ایک ہی بار فیصلہ ہو جائے.“ یہ 7 مارچ 1985ء کو ان کا چیلنج شائع ہوا ہوا تھا اور قطعا میرے علم میں نہیں تھا.لیکن جب میں نے تحقیق کروائی، اس وجہ سے کروائی کہ یہ جس قسم کے واقعات ہیں یہ کوئی اتفاقی حادثات نظر ہی نہیں آتے.صاف پتہ چل رہا ہے کہ مباہلہ کا کوئی اثر ہے.تب پتہ چلا کہ وہ اس بدبختی کی وجہ سے مارا گیا ہے.مجھے کہتا ہے کہ جماعت کو قربانی کا بکرا نہ بناؤ خود کیوں نہیں بنتے تا کہ ایک دفعہ قصہ پاک ہو جائے.پس خدا تعالیٰ نے اس کو قربانی کا بکرا بنا دیا اور وہ قصہ ہمیشہ کے لئے پاک کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر اس کی یہ ہلاکت ہمیشہ کے لئے مہر تصدیق بن کر ثبت ہو چکی ہے.کوئی طاقت اب دنیا میں نہیں جو اس صداقت کی گواہی کو مٹا سکے.جو دوسرے حوالے جن سے مجھے تعجب ہوا تھا جس میں اس نے انکار کیا ہوا ہے وہ ہیں "صراط مستقیم ، برمنگھم جولائی 1988ء.اس میں لکھتا ہے: اس لئے اب مرزا طاہر احمد کو مرزا صاحب کی نمائندگی کرنے یا فریق بننے کی کوئی ضرورت نہیں.کیونکہ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا وہ اپنے اعلان یا دعا کے انجام سے دو چار ہو چکا ہے." چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب پر اس نے تلبیس کی تھی یعنی تضحیک کی خاطر حق کی تلیس کی تھی حق کو چھپایا تھا اور پہلے خود چیلنج دے بیٹھا تھا اس لئے خدا کی سزا سے بچ نہیں سکا.اس میں ایک بات اور لکھی جہاں تک مبلہ کا تعلق ہے وہ تو نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہی دے سکتا ہے.گویا پہلا مباہلہ جب اس کا چیلنج دیا تھا وہ نبوت کا دعویٰ کر رہے تھے اس وقت اور جھوٹا دعویٰ نبوت کرنے
431 والا ویسے ہی ہلاک ہو جایا کرتا ہے.10 اکتوبر 1988ء کو اس کار کے حادثے کی خبر چھپی ہے.واقعہ یہ بھی ایک دردناک خبر ہے.اس پر ہمیں خوشی نہیں ہے.پھر برمنگھم کے Daily News میں جو واقعہ شائع ہوا ہے غم زدہ بیوہ کو ایک اور حادثہ سے دو چار ہونا پڑا اور اس طرح سوگواروں کا ہجوم ( یہ انگریزی اخبار میں شائع ہوا اس کا ترجمہ کیا گیا ہے.ہجوم کا ہجوم تہہ خانے میں جا پڑا اور پھر اس سے بہت سے زخمی ہوئے.قریباً پچیس کے قریب اور واویلا پڑ گیا.اس پر ہمیں کوئی خوشی نہیں، حقیقت ہے اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ تکلیف دہ واقعہ ہے اور کسی کی تکلیف پر مومن خوش نہیں ہوا کرتا لیکن خدا کے نشان پر ضرور خوش ہوا کرتا ہے.مولوی منظور احمد چنیوٹی کی ذلت ورسوائی اب میں آپ کے سامنے ایک دوسرے شخص کا ذکر کرتا ہوں جو دریدہ دہنی میں آج اپنی مثال آپ ہے اور ان صاحب کا نام ہے منظور احمد چنیوٹی.انہوں نے ایک اعلان شائع کیا مباہلہ کے جواب میں اور اخبار جنگ لندن میں ایک سرخی لگی 21 را کتوبر 1988 ء کو گلے سال 15 رستمبر تک میں تو ہوں گا قادیانی جماعت زندہ نہیں رہے گی، مولانا منظور احمد چنیوٹی کا جوابی چیلنج جب یہ بات شائع ہوئی تو اس کے جواب میں میں نے ایک خطبہ پڑھا اور خطبے میں اس کا ذکر کیا اور میں نے کہا منظور چنیوٹی صاحب ہمیشہ بہانے سے کسی نہ کسی طرح اپنے فرار کی راہ اختیار کر لیا کرتے تھے نہ اب قابو آ گئے ہیں.کھلم کھلا انہوں نے یہ کہ دیا، اعلان یہ کیا، جماعت احمد یہ نہیں رہے گی اور اس اعلان کی مماثلت کے طور پر مجھے لیکھرام یاد آیا اور اس کا بھی میں نے ذکر کیا کہ اس نے بھی اسی قسم کا ایک اعلان کیا تھا کہ حضرت مرزا صاحب تو جھوٹے نکلیں گے اور میں اس طرح سچا نکلوں گا کہ جس عرصے میں یہ کہتے ہیں کہ میں مٹنے والا ہوں ، جماعت احمدیہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی.تو میں نے کہا ایک وہ لیکھر ام تھا ایک آج ام پیدا ہوا ہے جس نے یہ چیلنج کیا ہے.اس کے نتیجے میں بعد میں ان کو بڑی سخت گھبراہٹ ہوئی کہ یہ تو میں ایسے چیلنج کر بیٹھا ہوں کہ جو بظاہر پورا ہوتے دکھائی نہیں دیتا تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں شائد یا ویسے ہی کسی جگہ اعلان کیا اور روزنامہ جنگ لاہور میں 30 جنوری 1989ء کی اشاعت میں یہ آپ
432 اس کو پڑھ سکتے ہیں.منظور احمد چنیوٹی نے دعوی کیا کہ انہوں نے 15 ستمبر 1989ء تک صرف مرزا طاہر احمد کے ختم ہو جانے کی بات کی تھی ساری جماعت احمدیہ کی نہیں.چلیں ایک یہ بھی اُن کو وقت کے اوپر تو بہ کی وضاحت کی توفیق مل گئی.اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ منظور احمد صاحب چنیوٹی کے ساتھ جو خدا کا سلوک ہوا اور جو ان کے متعلق میں نے کہا تھا وہ کیا تھا؟ انہوں نے بعد میں بہت واویلا کیا کہ جماعت احمدیہ کے امام نے میرے متعلق قتل کی پیشگوئی کی ہے اور جس طرح ضیاء کو انہوں نے قتل کروایا ہے اس طرح میرے قتل کے بھی در پے ہیں.اس لئے انہوں نے اعلان کیا اپنے خطبات میں کہ میں اس کا نوٹس صدر پاکستان کو بھی دے چکا ہوں، پرائم منسٹر کو بھی دے چکا ہوں باقی پولیس کے سب افسران کو بھی دے چکا ہوں کہ اگر میں قتل ہوا تو میرا قاتل مرزا طاہر احمد ہوگا کیونکہ اس نے یہ اعلان کروا دیا ہے.یعنی مباہلہ تو جھوٹ اور بیچ پر تھا اور جواب میں جھوٹ بولا جا رہا ہے وہ بھی کھلا کھلا اور بچہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد بھی کہا کہ میرے کف میں ان کی وہ کیسٹ ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا اور آپ سب سن چکے ہیں اس خطبے کو، وہاں ہر گز یہ اعلان نہیں کیا گیا تھا.کھلم کھلا جھوٹ.وہ اعلان کیا تھا میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں پھر دیکھیں آپ کہ خدا تعالیٰ نے وہ باتیں سچی کر دکھائیں یا نہیں جو ان کے متعلق میں نے کہی تھیں.میں نے یہ کہا تھا کہ 23 یہ مولوی لازماً اب اپنی ذلت اور رسوائی کو پہنچنے والا ہے.( یہ ہے پیشگوئی ) یہ مولوی لازماً اب اپنی ذلت اور رسوائی کو پہنچنے والا ہے کوئی دنیا کی طاقت اب اس کو اس ذلت اور رسوائی سے بچا نہیں سکتی جو خدا تعالیٰ مباہلہ میں جھوٹ بولنے والے باغیوں کے لئے مقدر کر چکا ہے اور لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (آل عمران 62) کے اثر سے اور اس کی پکڑ سے اب کوئی دنیا کی طاقت اسے بچا نہیں سکتی.پس انشاء اللہ ستمبر آئے گا اور ہم دیکھیں گے کہ احمدیت نہ صرف زندہ ہے بلکہ زندہ تر ہے.ہر زندگی کے میدان میں پہلے سے بڑھ کر زندہ ہو چکی ہے.اگر مولوی
433 منظور چنیوٹی زندہ رہا یہ الفاظ ہیں ) تو ایک ملک بھی اس کو ایسا دکھائی نہیں دے گا جس میں احمدیت مرگئی ہو.“ 66 اس کے متعلق وہ کہتا ہے کہ میرے قتل کے متعلق دھمکی دی گئی.ہے.دم گر منظور چنیوٹی زندہ رہا تو ایک ملک بھی اس کو ایسا دکھائی نہیں دے گا جس میں احمدیت مرگئی ہو اور کثرت سے ایسے ملک دکھائی دیں گے جہاں پر احمدیت از سر کو زندہ ہوتی ہے یا احمدیت نئی شان کے ساتھ داخل ہوئی ہے اور کثرت کے ساتھ مردوں کو زندہ کر رہی ہے.پس ایک وہ اعلان تھا جو منظور چنیوٹی نے کیا تھا.ایک یہ اعلان ہے جو میں آج آپ کے سامنے کر رہا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا ادھر سے اُدھر ہو جائے ، خدا کی خدائی میں یہ بات ممکن نہیں ہے کہ منظور چنیوٹی سچا ثابت ہو اور میں جھوٹا نکلوں.منظور چنیوٹی جن خیالات و عقائد کا قائل ہے وہ بچے ثابت ہوں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو عقائد ہمیں عطا فرمائے ہیں، آپ اور میں جن کے علمبردار ہیں، یہ عقائد جھوٹے ثابت ہوں.یہ ممکن نہیں ہے.اس لئے ی شخص بڑی شوخیاں دکھاتا رہا اور جگہ جگہ بھا گتا رہا.اب اس کی فرار کی کوئی راہ اس کے کام نہیں آئے گی اور خدا کی تقدیر اس کے فرار کی ہر راہ بند کر دے گی اور اس کی ذلت اور رسوائی دیکھنا آپ کے مقدر میں لکھا گیا ہے.انشاء اللہ.“ مخطبہ جمعہ 25 رنومبر 1988ء) اس کے بعد جو واقعات رونما ہوئے.روزنامہ ملت 6 مارچ 1989 ء لندن میں یہ خبر شائع ہوئی.پنجاب اسمبلی میں بحث کے دوران خواجہ یوسف نے کہا کہ مولانا منظور احمد چنیوٹی نے مولانا اسلم قریشی کی گمشدگی کے موقع پر دعویٰ کیا تھا کہ وہ بازیاب ہوئے تو میں پھانسی چڑھ جاؤں گا.ایک اور نشان کی طرف بھی اشارہ کر دیا ایک غیر احمدی اسمبلی کے ممبر نے.اب یہ خدا نے اس کے دل میں ڈالی ہے بات ورنہ کسی کو اس ماحول میں کیسے جرات ہوئی کہ احمدیوں کی تائید میں ایسی بات، ایسی جرات سے
434 کرے.کہتا ہے کہ اس نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ بازیاب ہوئے تو میں پھانسی پر چڑھ جاؤں گا لیکن وہ اس وعدے پر پورا نہ اترے اسی لئے زیر بحث معاملہ میں بھی ان کے دعوی کو تسلیم کرنا مشکل ہے.یہ زیر بحث معاملہ کیا تھا ؟ سنیے! وہ کہتے ہیں قادیانی جماعت کے سر براہ مرزا طاہر احمد نے ایک من گھڑت خبر کو بنیاد بنا کر اپنے خطبہ جمعہ میں تقریر کرتے ہوئے 15 ستمبر 1989ء سے قبل میرے قتل کی پیشگوئی کی ہے اور میں تحریک استحقاق پیش کرتا ہوں.تو وہ ہے تو جھوٹا ہی آپ جانتے ہیں.یعنی خدا نے اسمبلی کے ممبروں سے اس کا جھوٹ ہونا ثابت کروایا حالانکہ ان کو علم نہیں تھا کہ یہ جھوٹا ہے.لیکن کیسا عمدہ استدلال کیا اس نے کہ یہ شخص اتنا جھوٹا ہے کہ کہتا تھا اسلم قریشی کو مرزا طاہر احمد نے قتل کروادیا اور اگروہ زندہ ثابت ہو جائے ، نکل آئے دوبارہ ، تو بر سر عام میں پھانسی چڑھ جاؤں گا.پھر ابھی تک زندہ ہے سامنے بیٹھا ہوا ہے.اتنا جھوٹا شخص.اس کا اعتبار کیا جاسکتا ہے؟ تو لعنت اللہ عَلَی الْكَاذِبِينَ (آل عمران 62) تو پڑ گئی.پھر ان کے متعلق ایک مولوی صاحب نے بیان دیا علامہ سید زبیر شاہ صاحب بخاری 29 را پریل 1989ء کو مساوات میں یہ اعلان شائع ہوا ان کی طرف سے کہ منظور چنیوٹی عملا اسمبلی کی رکنیت کھو چکے ہیں اب وہ صرف چنیوٹ کے کھال فروش قصاب کے سوا کچھ نہیں ہیں.جو اپنی عزتوں کے اتنے دعوے کیا کرتا تھا کہ میں سارے پاکستان کا مولوی ہوں اور درباروں تک میری رسائی ہے، اس کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے.پھر جو کہتا تھا کہ میں حملہ کرواؤں گا خود اس کو تسلیم ہے کہ میں نے نہیں کروایا مگر خدا کی تقدیر نے حملہ ضرور کروا دیا اس پر.اور روز نامہ جنگ لاہور 22 نومبر 1988ء کی خبر ہے.منظور چنیوٹی پر قاتلانہ حملہ بیٹا اور بھتیجا زخمی.مولانا کے اظہار دعوت ارشاد پر مخالفین کی فائرنگ اور پتھراؤ.چنیوٹی کے لڑکے ثناء اللہ اور بھیجے امیر حمزہ کو قاضی صفدر علی کے حامیوں نے کافی مارا پیٹا.کوئی اشتباہ بھی کسی کے ذہن میں پیدا ہوا، نہ مقدمہ میرے خلاف درج کروانے کی اس کو تو فیق علی اور واقعہ جو اس کے منہ سے بات نکلی تھی وہ خدا نے اس طرح پوری کی کہ اس کو جھوٹا کرتے ہوئے پوری کی.اس کو سچا کرتے ہوئے نہیں کہ قتل کا ارادہ تو ہوا، قتل کی کوشش بھی کی گئی لیکن میں نے نہیں کروائی.خدا نے و ہیں بعض لوگوں سے کوشش کروائی.جنگ لندن 22 دسمبر کو یہ خبر شائع ہوئی ایک اسمبلی کی روئداد کے متعلق ایک صاحب نے یہ
435 اعلان کیا.پنجاب اسمبلی کے اندر ہونے والا واقعہ ہے یہ بھی.وہاں ایک ممبر نے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ مولانا منظور احمد چنیوٹی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں انہیں بے گناہ طور پر پکڑا گیا تھا اور انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا.اس پر اپوزیشن (Opposition) کے رکن محمود الحسن ڈار نے کہا کہ میں ان کا ہمسایہ ہوں یہ اخلاقی جرم میں اندر گئے تھے.یہ اسمبلی کی گواہی، مہر لگ گئی اس کے اوپر.ہنگامی اجلاس چنیوٹ بارایسوسی ایشن روز نامہ حیدر راولپنڈی 13 جنوری 1989 ء.منظور چنیوٹی اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتے ہیں اور انہوں نے جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے.مقامی انتظامیہ اور پولیس منظور چنیوٹی کی نازیبا الفاظ پر مبنی تقاریر سے خوفزدہ ہو کر جان بوجھ کر بے گناہ لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کر رہی ہے.متفقہ قرارداد بار ایسوسی ایشن چنیوٹ.یعنی جس جگہ کے یہ ہیں اور جس فخر کے ساتھ جس کے نمائندہ بنتے ہیں وہاں کی بار ایسوسی ایشن کی متفقہ قرارداد ہے.منظور چنیوٹی اور اس کے بیٹے کے خلاف 182ت پ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے اور منظور چنیوٹی کو تحفظ امن عامہ کے تحت فوری طور پر گرفتار کیا جائے....جہاں تک عمومی طور پر ان علماء کا تعلق ہے جو بڑے کڑ وف“ کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اور ایسے ایسے مقامات سے حصہ لے رہے تھے جہاں تاریخی طور پر وہ پہلے منتخب ہوتے چلے آئے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ مقامات ان کی جاگیریں ہیں مثلاً کراچی، حیدر آباد اور بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں پر مسلسل پاکستان کے بننے کے بعد مولویوں کا اثر بڑھتار ہا اور بعض ایسی سیٹیں تھیں جن پر وہ ہمیشہ سے قابض ہوئے چلے آرہے تھے.انتخابات کے بعد روز نامہ حیدر راولپنڈی 27 نومبر 1988ء میں یہ خبر شائع ہوئی.پاکستان کے عام انتخابات میں مولویوں کی اکثریت کی ناکامی.انجمن سادات جعفریہ اسلام آباد کے سیکرٹری نشر و اشاعت ملک اختر جعفری اور جنرل سیکرٹری سید تقی حسین کاظمی نے عام انتخابات میں مذہبی سیاستدانوں کی شکست فاش کو ضیاء ازم کے خاتمے کی طرف ایک بڑی پیش قدمی قرار دیا ہے...تو میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ مباہلہ کا جو پہلا راؤنڈ ہے یعنی وہ سال جو آج ختم ہورہا ہے اور وہ چیلنج جوہم نے دیا تھا وہ عظیم الشان کامیابی کے ساتھ روز روشن کی طرح ظاہر ہو کر تمام دنیا پر احمدیت کی سچائی کو روشن کر رہا ہے.اس سچائی کے نور کو بڑھانے میں آپ نے
436 بھی کچھ کام کرتا ہے اور وہ ہے آپ کی نیکی، آپ کا تقویٰ، آپ کی دعائیں.یہ وہ سورج نہیں ہے جو نکلنے کے بعد پھر ایک وقت کے بعد مدھم پڑا کرتے ہیں.جو سچائی کے نشان کے طور پر خدا کی طرف سے سورج ابھرا کرتے ہیں وقت کے ساتھ ان کی روشنی بڑھتی رہتی ہے اور ان کا نور پھیلتا چلا جاتا ہے.وہ نشانات جو حضرت اقدس محمد مصطفی علی کے زمانے میں کور باطن دشمن نزدیک سے نہیں دیکھ سکتے تھے اور جن کی شہرت زیادہ سے زیادہ مکہ کے ارد گرد تک پہنچی تھی آج دنیا کے کناروں تک وہ شہرت پاچکے ہیں اور دنیا کی عظیم قوموں تک بھی وہ نشان اپنی روشنی پہنچارہے ہیں اور دن بدن اپنی چمک میں بڑھتے چلے جارہے ہیں.اس لئے مباہلہ کا یہ جو نشان ہے یہ بھی آج اور کل تک کا نشان نہیں.نہ پرسوں تک کا نشان ہے.یہ ہمیشہ ہمیش کا ایک نشان ہے جس کی روشنی بڑھ سکتی ہے.اور اس کا احمدیت کے کردار سے گہرا تعلق ہے.پس اپنے کردار کو جتنا روشن کریں گے، اپنے سینے کو جتنا منور کریں گے اتنا ہی احمدیت کی صداقت کا سورج روشن تر ہوتا چلا جائے گا.پس میری آپ سے یہی اپیل ہے کہ خدا کا شکر بھی کثرت سے کریں.اس نے بے انتہا ہم پر فضل نازل فرمائے.بے انتہا برکتیں دیں، جماعت کو اتنی ترقی دی اور جماعت کی تاریخ میں ایسے ایسے دن آئے جن کی کوئی مثال اس سے پہلے نظر نہیں آتی.مثلاً اسی سال چند دن پہلے ایک ملک سے یہ اطلاع ملی جہاں صرف پانچ سو احمدی تھے کہ آج خدا تعالیٰ نے یہ ہمیں دن دکھایا ہے کہ تیرہ ہزار آٹھ سو کچھ احباب بیعت کر کے با قاعدہ جماعت احمدیہ میں داخل ہو رہے ہیں.اس سے پہلے دس ہزار تک کی خبر تو ہم نے سنی ہوئی تھی غالباً پرانے زمانے میں کہیں لیکن وہ بھی اس قسم کی تھی کہ ایک قبیلے میں جاکے اعلان کیا اور اندازہ لگایا کہ وہ دس ہزار ہوگا لیکن یہ کہ دس ہزار با قاعدہ افراد ہوں یہ واضح نہیں تھا، اب پوری گفتی بنائی گئی ہے.تیرہ ہزار اتنے سو افراد جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور ہر طرف یہی نظارہ ہے.خدیجہ نذیر صاحبہ جن کو میں نے بیعتوں کے اوپر مقرر کیا ہے جب وہ آتی ہیں ان کی بشاشت سے ان کا چہرہ کھل اٹھتا ہے.کہتی ہیں اب تک خدا کے فضل سے وہ دگنا ہونے کا جو آپ نے کہا تھا وہ خدا تعالیٰ پورا کر کے دکھا رہا ہے.پچھلے سال اگر چودہ ہزار تھی تو آج اٹھائیس ہزار ہو چکی ہے ایک خطے میں اور کل کی پچاس ہزار ہونے کی توقعات بڑی نمایاں ابھی سے نظر آ رہی ہیں.تو اس طرح خدا تعالی نے
437 اس سال جماعت پر فضل کثرت سے نازل فرمائے ہیں اور بعض ایسے ممالک میں جماعت کو ازسرنو زندہ کیا ہے جہاں ہمارا کوئی اختیار نہیں تھا.میں نے اس مباہلہ کی دعا میں یہ بھی کہا تھا کہ تم دیکھو گے اگر تم زندہ رہو گے.میں نے منظور چنیوٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تم زندہ رہے تو دیکھو گے کہ جماعت مرنے کی بجائے بعض ملکوں میں از سر نو زندہ ہو جائے گی.چنانچہ چین ایک ایسا ملک ہے جہاں خدا کے فضل سے پچھلے چند دنوں میں از سر کو جماعت زندہ ہوتی ہے اور نہ صرف یہ کہ چین میں کئی جگہ جماعت قائم ہوتی ہے بلکہ چین سے باہر جو بعض علماء نکلے تھے انہوں نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا اور مجھے ان کے خط موصول ہوئے ہیں کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم واپس جائیں گے تو احمدیت کا بڑے زور سے پر چار کریں گے اور وہ اپنے علاقوں کے بڑے لوگ ہیں.عجیب اتفاق ہے اور یہ اتفاق نہیں ، خدا کی تقدیر ہے کہ ہمارے عثمان چینی صاحب کے خسر چند دن ہوئے چین سے آئے وہ اپنے علاقے کے بڑے عالم ہیں اور اسمبلی کے ممبر ہیں وہاں کی پراونشل اسمبلی کے اور جماعت کے بڑے سخت مخالف.ان کی بیٹی مخلص احمدی ہو گئی لیکن خود مخالف.جب یہاں تشریف لائے تو بیٹی تنگ آگئی تھی ان کی مخالفت سے.میرے پاس آکے رونے والی ہو گئی.باپ کو ساتھ لے کے آئی کہ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا میں کروں کیا؟ آپ میرے لئے خدا کے لئے دعا کریں میں تو بہت پریشانی میں مبتلا ہوگئی ہوں.میں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں بات ان کے پلتے ہی نہیں پڑتی.ان کو میں نے کچھ سمجھایا، کچھ دعا کی اور عثمان چینی صاحب کو بھی بلالیا کہ بقیہ کسر وہ پوری کریں.چنانچہ عجیب اتفاق، میں اسے اتفاق کہہ دیتا ہوں مگر اس کو کہنا چاہئے خدا کی تقدیر ہے.ایک دوست ان دنوں میں میرے پاس تشریف لائے.لاہور سے تھے.انہوں نے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھی ہے کہ علماء بعض آپ کے پاس آرہے ہیں دوسرے ملکوں کے بڑے دور دور سے اور غالباً چین کا بھی اس کا ذکر تھا....اور وہ ایسے علماء ہیں جو اپنے علاقے پر بڑا اثر رکھتے ہیں اور آپ کے پاس چند دن ٹھہر کے احمدیت قبول کر کے واپس چلے جاتے ہیں اور ان علاقوں میں پھر آگے احمدیت کے چرچے چل پڑتے ہیں.تو میں نے ان کو کہا کہ ایک عالم تو آج کل یہاں پہنچا ہوا ہے.اب دیکھیں.چنانچہ جانے سے پہلے اللہ تعالی کے
438 فضل سے ان کے سارے شکوک صاف ہوئے.انہوں نے بیعت کی، آ کے مجھے دعا کے لئے تاکید کی اور ساتھ میں یہ وعدہ کیا کہ آپ دیکھیں گے کہ میں اپنے عہد پر پورا اترنے والا انسان ہوں، میں جا کر اپنی ساری کوشش صرف کروں گا کہ وہ سارا علاقہ عنقریب احمدیت کے نور سے منور ہو جائے.تو یہ مباہلہ کا ایک یہ بھی پھل ہے.میں نے کہا تھا اگلی صدیاں اس کے پھل پائیں گی انشاء اللہ.پس چین میں جواز سرنو احمدیت زندہ ہوئی ہے اس کا پھل تو اگلی صدیاں کیا، قیامت تک انشاء اللہ چین کے لوگ کھاتے رہیں گے اور استفادہ کرتے رہیں گے.پس الحمد للہ جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے.لیکن ابھی دعائیں جاری رہنی چاہئیں اور نیک اعمال کے ساتھ مباہلہ کے نشان کو روشن تر کرنے کی ضرورت باقی ہے.( مخطبہ جمعہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع فرموده 9 رجون 1989ء - خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 383-404) مولوی منظور احمد چنیوٹی کی ذلت ورسوائی کی مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب فتح مباہلہ یا ذلتوں کی مار“.شائع کردہ اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ)
439 صد سالہ جشن تشکر جماعت احمد یہ عالمگیر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے 23 / مارچ 1889ء کو سلسلہ بیعت کا آغاز کرتے ہوئے جماعت امیہ کی بنیادرکھی تھی.اور 23 مارچ 1989ء کو اس پر سو سال کا عرصہ پورا ہو رہا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے 1973ء کے جلسہ سالانہ ( منعقدہ ربوہ.پاکستان ) کے موقع پر اپنے اختتامی خطاب میں فرمایا کہ: حضرت مصلح موعود کی یہ خواہش تھی کہ جماعت صد سالہ جشن منائے.یعنی وہ لوگ جن کوسوواں سال دیکھنا نصیب ہو وہ صد سالہ جشن منائیں.اور میں بھی اپنی اس خواہش کا اظہار کرتا ہوں کہ صد سالہ جشن منایا جائے.“ اس صد سالہ جشن کی غرض وغایت کا ذکر کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: حمد و عزم یہ دو لفظ ہیں جن کا انتہائی مظاہرہ انشاء اللہ 1989ء میں ہماری طرف سے کیا جائے گا.وباللہ التوفیق اور اس حمد اور عزم کے عظیم مظاہرے کے لئے قرآن کریم کی عین ہدایت کے مطابق ہم نے تیاری کرنی ہے.اشاعت اسلام کے پروگرام بنانے ہیں.خدا کی راہ میں قربانیاں دینی ہیں.نئی نئی سکیمیں سوچتی ہیں.“ حضور رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں جماعت کو دعاؤں، عبادات اور تسبیحات پر مشتمل ایک روحانی پروگرام بھی عطا فرمایا.اور دنیا بھر میں اشاعت اسلام او تعلیم و تربیت کے کاموں کو تیز تر کرنے اور ساری دنیا کے انسانوں کو امت واحدہ بنانے کے سلسلہ میں درپیش چیلنجز اور کاموں کا ذکر کرتے ہوئے ان عظیم دینی و روحانی مقاصد کو حاصل کرنے اور اس نہایت مبارک منصوبہ کی تکمیل کے لئے مالی تقاضوں کے پیش نظر افراد جماعت کو اڑھائی کروڑ روپیہ پیش کرنے کی اپیل کی.اور ساتھ ہی فرمایا کہ:
440 یمیں اپنے رب کریم پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے آج ہی یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالی ان سولہ سالوں میں ہمارے اس منصوبہ کے لئے پانچ کروڑ روپے کا انتظام کردے گا.“ حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں خلافت جوبلی کا یہ منصوبہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بتدریج اپنے اعلیٰ مقاصد کے حصول کی طرف نہایت کامیابی کے ساتھ بڑھتا رہا.اشاعت اسلام اور تعلیم و تربیت کے کام کو تیز کرنے کے لئے دنیا کے مختلف علاقوں میں مراکز کے قیام، مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر اور دیگر اسلامی لٹریچر کی اشاعت، مساجد کی تعمیر اور خدمت انسانیت وغیرہ متعدد پہلوؤں سے گہرے غور وفکر اور مشوروں کے بعد متعدد پروگرام تشکیل دیئے گئے اور بہت سے عملی اقدامات کئے گئے اور یوں صد سالہ جو بلی منصوبہ کی خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت کامیابی کے ساتھ اپنے عظیم مقاصد کی طرف پیش رفت جاری رہی.اس کا کسی قدر احوال جلد سوم میں گزر چکا ہے.اسی طرح یہ بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ جب بھی الہی جماعت ترقی کی طرف قدم بڑھاتی ہے تو یہ امر مخالفانہ قوتوں کو غصہ دلانے کا موجب ہوتا ہے اور وہ بھی اپنی معاندانہ کارروائیوں میں مزید زور لگاتے اور جماعت مومنین کے نیک ارادوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور انہیں ظلم ستم کا نشانہ بنانے میں سرگرم ہو جاتے ہیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے اس منصوبہ کے اعلان کے ساتھ آغاز میں ہی اس بارہ میں بھی جماعت کو متنبہ فرما دیا تھا اور بتایا تھا کہ اب تک ہماری مخالفت ملکی مخالفت تھی یا مقامی مخالفت تھی لیکن اب ہماری مخالفت بین الاقوامی اتحاد کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ہے اور اس میں نہ صرف ظاہری طور پر اسلام پر کاربند جماعتیں بلکہ ان کے ساتھ اہل کتاب جو دشمنان اسلام ہیں اور اہل الحاد جو مذہب کے بھی شدید مخالف ہیں اکٹھے ہو کر احمدیت کو مٹانے کے درپے ہیں.لیکن اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ بشارت بھی دی کہ یہ لوگ اپنے بد ارادوں میں ناکام و نامراد ہوں گے.آپ نے فرمایا:..اب ہماری مخالفت بین الاقوامی اتحاد کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے اور أفتی اسلام پر جو حالات جنگ احزاب کے موقع پر ابھرے تھے کہ اہل کتاب اور مشرکین نے
441 گٹھ جوڑ کر کے مدینہ پر حملہ کیا تھا اور اسلام کو مٹانے کی کوشش کی تھی ، اسلام کی اس نشاۃ ثانیہ میں پھر وہی حالات پیدا ہو گئے ہیں.چنانچہ ظاہری علوم رکھنے والے اہل قرآن اور اسلام کے دشمن اہل کتاب اور انسانیت اور مذہب کے دشمن اہل الحاد یہ تینوں طاقتیں اکٹھی ہو کر نشاۃ ثانیہ کو مغلوب کرنے کے لئے افقی اسلام پر ابھری ہیں.جو وعدہ اس وقت مسلمانوں کو دیا گیا تھا میں سمجھتا ہوں انہی آیتوں میں ہمارے لئے بھی وعدہ ہے کہ سَيُنْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ النُّبُرَ (القمر 46) تم جمع تو ہو گئے ہو.تم مخالف متضاد طاقتیں ہو جو اسلام کو مغلوب کرنے کے لئے اکٹھی ہو کر سامنے آگئی ہو.لیکن سيهزم الجمع تمہارا اتحاد تمہیں کامیابی کی طرف نہیں لے جائے گا بلکہ تم پیٹھ پھیر کر بھاگ جاؤ گے اور نا کام ہو گے.انشاء اللہ تعالی...چنانچہ بعد کے حالات نے مخالفین کی سازشوں کو بے نقاب کیا.1974ء میں پاکستان میں جماعت کی مخالفت اور عالمی سطح پر جھوٹ اور افتراء پر مبنی پراپیگنڈہ اور احمدیوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں اور احمدیوں کی اپنے ایمان کی حفاظت میں ہر قسم کی قربانیاں اور شہادتیں اور صبر واستقامت کے عظیم الشان نمونے اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے ظالموں کی گرفت کے عبرتناک واقعات تاریخ کا حصہ ہیں.ان کا کسی قدر ذ کر بھی جلد سوم میں گزر چکا ہے.الغرض مخالفین اسلام و احمدیت کی نہایت بھیانک سازشوں اور ظالمانہ کارروائیوں کے علی الرغم کاروانِ احمدیت خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کی آسمانی قیادت میں مسلسل آگے بڑھتا رہا.جون 1982 ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی وفات پر دشمنانِ احمدیت نے کوشش کی کہ جماعت ایک ہاتھ پر جمع نہ ہو سکے.لیکن خدا تعالیٰ نے ان کو سخت ہزیمت دی اور اپنے وعدہ کے مطابق خوف کے حالات کو امن میں بدلا اور حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے ہاتھ پر ساری جماعت متحد ہو کر تمکنت دین کی شاہراہ پر نئے عزم اور ارادوں کے ساتھ اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے نئے جوش و جذبہ اور ولولہ کے ساتھ نہایت تیزی سے آگے بڑھنے لگی.دنیا بھر میں اشاعت اسلام کے مختلف منصوبوں کی تکمیل کے لئے افراد جماعت نے اموال و نفوس کی قربانی کے نئے اور بلند معیار قائم کئے.لیکن جیسا کہ الہی جماعتوں کی تقدیر ہے حاسدوں کی حاسدانہ کاروائیاں بھی
442 تیز تر ہوگئیں اور شریروں نے جماعت احمدیہ کی ترقی کو روکنے اور خلافت احمد یہ کو بزعم خود نابود کرنے کے نہایت مکروہ اور گھناؤنے منصوبے بنائے اور اس سلسلہ میں خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے اُس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے صدارتی آرڈینس نمبر 20 کے ذریعہ ایسے ظالمانہ اقدامات کئے کہ اگر یہ جماعت خدائے قادر و قیوم کی قائم کردہ اور اس کی حفاظت کے حصار میں نہ ہوتی تو کب کی فنا ہو چکی ہوتی.لیکن خدا تعالیٰ نے ایک دفعہ پھر دشمن کے مکر اس پر الٹائے اور جو آگ اس نے احمدیوں کو جلانے کے لئے بھڑکائی تھی وہ خود اس کی لپیٹ میں آ گیا.اور احمدیت کا قافلہ عہد خلافت رابعہ میں بھی نہایت اعزاز کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ راہ مولا میں ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہوئے کامیابیوں کے ساتھ سر فراز ہوا.1984ء میں حکومت پاکستان کے ظالمانہ آرڈینینس نمبر 20 کے نتیجہ میں جب حضرت خلیفة اصبح الرابع رحمہ اللہ کو پاکستان سے ہجرت کرنا پڑی اس کے بعد سے تو جماعت کی ترقی کی رفتار میں حیرت انگیز اضافہ ہوا.دنیا بھر میں اشاعت اسلام تبلیغ و دعوت الی اللہ مختلف ممالک میں نئے مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز کے قیام، صد سالہ جو ہلی تک کم سے کم سو ممالک میں جماعت احمدیہ کے نفوذ ، سوزبانوں میں قرآن کریم کے تراجم، مختلف زبانوں میں اسلام کے بنیادی تعارف اور قرآن مجید و احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کی بکثرت اشاعت، مساجد کی تعمیر ، عالمی جماعت کی تعلیم و تربیت، بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور خدمتِ انسانیت کے مختلف منصوبوں پر جو کام ہوا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت کے روشن نشانوں سے ان مسائی کو مثمر ثمرات حسنہ بنایا اور قدم قدم پر دشمنان احمدیت کو ناکامیوں اور ذلتوں سے ہمکنار کیا، اس کا کسی قدر اندازہ اس کتاب کے مندرجات سے لگایا جا سکتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ صد سالہ جوبلی منصوبہ کا وہ پودا جو 1973ء میں لگایا گیا تھا وہ مخالفت کی تیز آندھیوں اور ہولناک طوفانوں کے باوجود محض خدا کے فضل سے اور اسی کی حفاظت میں اپنی سرسبزی و شادابی میں مسلسل بڑھا اور پھلا اور پھولا اور ایک عالم اس کے شیریں ثمرات سے فیضیاب ہوا.
443 عہد خلافت رابعہ میں 1982ء سے صد سالہ جشن تشکر 23 مارچ 1989 ء تک اور اس کے بعد بھی جوں جوں جماعت ترقی کرتی رہی مخالفین کی شر انگیزیاں،فتنہ وفساد اور حاسدانہ کارروائیاں بھی بڑھتی رہیں.الـ ان کی پوری کوشش رہی کہ صد سالہ جوہلی کے جشن کو ناکام بنایا جائے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے مختلف مواقع پر اس پہلو سے جماعت کے خلاف عالمی سازشوں سے نہ صرف پردہ اٹھایا بلکہ آسمانی رہنمائی اور خدائی تائید کے ساتھ ان سب سازشوں کو نہایت جرات کے ساتھ اور حکمت بالغہ کے ساتھ نا کام کیا اور احمدیت کی کشتی کو ان تمام طوفانوں سے کامیابی سے نکال کر اس کی منزل کی طرف رواں دواں رکھا.صد سالہ جوہلی سے قریباً دو سال قبل 30 جنوری 1987ء کو خطبہ جمعہ میں دشمنوں کی شرارتوں اور بدار دوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: صد سالہ جوبلی کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ صرف دو سال باقی رہ گئے ہیں اور صد سالہ جو بلی در اصل ہمارے دشمنوں کا اس وقت وہ خاص نشانہ بنی ہوتی ہے ان کی نفرتوں کا، ان کے حسد کا اور وہ ہر طرح سے پورا زور لگا رہے ہیں کہ صد سالہ جو ہبلی کے جشن کو ناکام بنا دینا ہے.ربوہ کے خلاف جو سازشیں ہوئیں، جماعت احمدیہ کے خلاف جو پاکستان میں سازشیں ہوئیں، جن کا سب سے بڑا نقطہ ربوہ پہ جا کے ختم ہوتا تھا کہ ربوہ کی مرکزی حیثیت کو ختم کیا جائے ، ربوہ کی شان نوٹ لی جائے ، ربوہ میں ہر قسم کے جلسے بند کر دئیے جائیں کیونکہ بالآخر بڑی تیزی کے ساتھ جماعت صد سالہ جوبلی کے جشن کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس مقام نے وہ ساری دنیا کا مرکز اور مطمح نظر ین جاتا ہے.یہاں اگر کوئی شاندار سطح پر سو سالہ جشن منایا گیا تو اس کے نتیجے میں سارے پاکستان میں نہیں ساری دنیا میں یہ بات لازمتا مستحکم ہو جائے گی کہ اب اس جماعت کو دنیا میں کوئی مٹا نہیں سکتا.اس درجہ کمال کو پہنچ چکی ہے، اس بڑے مرتبے کو پہنچ چکی ہے، اتنی قوت حاصل کر چکی ہے کہ اب اس جماعت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.یہ وہ خطرہ تھا جس کے پیش نظر ساری سازشوں نے جنم لیا اور اسی لئے کھیلیں بند کیں پہلے، درجہ بدرجہ دشمن نے اپنی سکیم کو کھولا ہے.کھیلیں بند کیں، چھوٹے چھوٹے اجتماعات بند کئے، لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بند کیا، پھر گاڑیاں جو
444 چلا کرتی تھیں خاص وقت میں ان کی سہولت کھینچ لی.ہر طرح سے رخ بالآخر جلسے کی طرف ہی تھا اور جلسہ سالانہ بند کر کے انہوں نے اپنی طرف سے جو پلی کے جلسے کی راہ میں وہ دیوار کھڑی کردی جو وہ سمجھتے ہیں کہ ٹوٹ نہیں سکتی لیکن ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے جہاں تک اللہ تعالی کی تقدیر ہے یہ تو یقینی ہے کہ اس کے بدلے میں جو دشمن ہم سے کر رہا ہے خدا تعالیٰ بہت بڑی عظمتیں دینے والا ہے.جس شان کا تصور کر کے انہوں نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی ان کے ذہن سے یہ بات نکل گئی کہ ہم جس کے غلام ہیں وہ تو لحہ لحہ نئی شان دکھانے والا آتا ہے اور جس خدا نے اس کو پیدا کیا وہ تو کل یوم ھوٹی شان کا مقام رکھتا ہے.اس سے ہر شان پھوٹتی ہے.تو جو محمد مصطفی ﷺ کا غلام ہو اور اللہ کا غلام ہو اس کی شان کیسے کوئی نوچ کے چھین سکتا ہے، نا ممکن کام ہے یہ ان کے لئے.اگر خدانخواستہ ربوہ میں حالات ایسے نہ ہوئے کہ وہاں جشن اس طرح منایا جائے جیسا کہ جماعت نے منانا تھا تو دنیا کے کونے کونے میں اس شان اور اس قوت کے ساتھ یہ جشن منایا جائے گا کہ دشمنوں کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے اس کے ولولے سے اور ان کے دبدبے سے.جس شوکت سے نعرہ تکبیر بلند ہوں گے دنیا میں وہ ان کے دلوں کو دہلا دینے والی شوکت ہو گی.اس لئے کہاں ان کی طاقت ، کہاں ان کی مجال کہ محمد مصطفی کے غلاموں کی شان کھینچ سکیں، شان نورچ سکیں.یہ نہیں نوچ سکتے.یہ ملک جہاں میں اس وقت مخاطب جو رہا ہوں آپ سے، یہ ملک بھی نئی اور دو بالا شان کے ساتھ اسلام کا حسن دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہو گا.اور آپ ہوں گے جو اس حسن کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوں گے.افریقہ بھی ایک نئی شان کے ساتھ نئے ولولے کے ساتھ پیش کر رہا ہو گا.نئے روپ کے ساتھ یہ شان ایشیا کے سارے ممالک میں دکھائی جائے گی، نئے روپ کے ساتھ یہ شان دنیا کے ہر بر اعظم میں دکھائی جائے گی.“ تخطبه جمعه فرموده 30 جنوری 1987ء بمقام مسجد فضل المدن (یوکے).خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 70-71) چنانچہ ایسا ہی ہوا.پاکستان بھر میں اور خصوصیت سے پنجاب میں احمدیوں پر صد سالہ جشن تشکر کی خوشیاں منانے پر پابندی لگا دی گئی اور اس سلسلہ میں حکومت کی طرف سے ایک نہایت مضحکہ خیز اور
445 جاہلانہ آرڈر جاری کیا گیا.یہ حکم نامہ اس بات کا بھی ایک زبر دست ثبوت تھا کہ جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی اور اس پر خدا تعالیٰ کے فضلوں اور احسانات کی موسلا دھار بارش نے کس طرح معاندین احمدیت کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑ کا رکھی ہے.ان کا یہ حکم دینا بتا تا ہے کہ ان کے دلوں میں ایک آگ لگی ہوتی ہے اور وہ اس جہنم میں جل رہے ہیں کہ احمدیوں کو کیوں خدا تعالیٰ نئی نئی رفعتیں اور نئی نئی برکتیں عطا کرتا چلا جا رہا ہے.وہ شخص جو کسی کی خوشی پر عذاب میں مبتلا ہو اس کے لئے اس سے زیادہ اور کیا جہنم سوچی جاسکتی ہے.ذیل میں اس حکومتی آرڈر کے بعض حصے ہدیہ قارئین ہیں.ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ نے اپنے اس حکم نامہ میں لکھا کہ : 35 جبکہ میرے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ ضلع جھنگ میں قادیانی 23 مارچ 1989ء کو قادیانیت کی اپنی صد سالہ جوبلی منعقد کر رہے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے چراغاں کرنے، عمارات سجانے، سجاوٹی گیٹ کھڑے کرنے، پمفلٹ تقسیم کرنے، دیواروں پر پوسٹر لگانے، شیرینی بانٹنے، سپیٹل کھانے، بیجز کی نمائش، بینر لگانے اور جھنڈیاں وغیرہ لگانے کا انتظام کیا ہے جو کہ مسلمانوں کے نزدیک سخت قابل اعتراض ہے.اسی طرح اس میں لکھا کہ : پنجاب گورنمنٹ کے ہوم ڈپارٹمنٹ نے بذریعہ ٹیلی پرنٹر پیغام بتاریخ 20 / مارچ 1989ء میں متذکرہ بالا قادیانیوں کے صد سالہ جشن پر صوبے بھر میں پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے.اور جبکہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ PPC 298-C ایکٹ XLV 1860ء کے تحت قادیانی گروہ کے کسی شخص کو یہ اختیار نہیں کہ وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرے یا اپنے دین کو اسلام کہے یا قرار دے یا اپنے دین کی تبلیغ یا پر چار کرے یا دوسروں کو اپنے دین کی تحریری زبان یا کسی مرئی طریق سے دعوت دے یا کسی بھی انداز سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائے تو مستوجب سزا ٹھہرے گا جبکہ میری رائے اور گورنمنٹ کے مندرجہ بالا فیصلے اور تعزیرات پاکستان کے مندرجات کے مطابق اور زیر دفعہ C-29
446 ایکٹ XLV آف 1860ء ایسی کافی وجو ہات موجود ہیں کہ اس کی (یعنی صد سالہ تقریبات کی فوری روک تھام کی جائے اور ایسی ہدایات کا اجراء ضروری ہے جو انسانی زندگی، املاک اور امن و سکون حامہ کو درپیش خطرہ کا انسداد کریں.اس لئے اب میں چوہدری محمد سلیم ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ دفعہ 144 PPC 1998 ج کے تحت اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے قادیانیوں کوضلع جھنگ میں مندرجہ ذیل سرگرمیوں سے باز رکھنے کے لئے حکم صادر کرتا ہوں.عمارات اور ان کے احاطوں میں چراغاں کرنا.( یعنی اپنے گھروں کے اندر بھی نہیں چراغاں کر سکتے ، سجاوٹی گیٹ لگانا، جلسے اور جلوس کا انعقاد، لاؤڈ سپیکر یا میگا فون کا استعمال، نعرے لگانا، بیجز آویزاں کرنا، رنگ برنگے تھے اور بینرز لگانا، پمفلٹ تقسیم کرنا، پوسٹر لگانا، دیواروں پر لکھنا، مٹھائی یا کھانا یا تقسیم کرنا اور کوئی ایسی حرکت جو بالواسطہ یا بلاواسطہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات انگیخت یا مجروح کرنے کا موجب ہو.......میرے ہاتھ اور عدالت کی مہر سے آج مورخہ 21 مارچ 1989ء کو جاری کیا گیا.چوہدری محمد سلیم ڈپٹی کمشنر حه فرموده 24 مارچ 1989ء بمقام اسلام آباد فلفورڈ.خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 199-197) مامانو از خطبه جمع فرموده 24 حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کو جب اس ظالمانہ حکم نامے کی اطلاع ہوئی تو حضور رحمہ اللہ نے پاکستان کے احمدیوں کو پیغام دیا کہ جو کچھ بھی ہو آپ نے اپنے حوصلہ کا سر بلند رکھنا ہے اور قطعا ان لوگوں سے مرعوب نہیں ہونا.اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 24 / مارچ 1989ء میں فرمایا: ایک سو سال کے خدا تعالی کے بے انتہا احسانات ہیں جو جماعت پر نازل ہوئے ہیں.اس کے نتیجے میں جو خوشیاں دلوں سے پھوٹ رہی ہیں ان کو دنیا کی کوئی طاقت دبا نہیں سکتی.اس لئے آج میرا آپ کو پیغام یہ ہے کہ آپ نے لازماً خوش رہنا ہے.جو کچھ سر پر گزرے آپ نے اپنی خوشی کو مغلوب نہیں ہونے دیتا......جب میں ربوہ سے روانہ ہو رہا تھا تو میں نے آپ سے ایک وحدہ لیا تھا اور وہ وعدہ یہ تھا کہ آپ اس غم کو مرنے نہیں دیں گے اور ہمیشہ اس غم کو تازہ رکھیں گے.اس وعدے کو آج آپ بھول جائیں، آج میں آپ سے ایک نیا
447 وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ خدا تعالٰی کے بے انتہا فضلوں نے جو جماعت کو خوشیاں دی ہیں آپ ان خوشیوں کو زندہ رکھیں اور کسی ظالم کو اجازت نہیں دیں گے کہ اس کے پنجے آپ کے دلوں سے ان رحمتوں کی خوشیوں کو چھین لیں.آپ کو نئے کپڑے پہنے کی اجازت نہیں تو پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑوں میں بازاروں میں پھریں اور خوشیوں سے آپ کے چہرے دمک رہے ہوں.آپ کے وجود کا ذرہ ذرہ ان دشمنوں کو نا کام اور نامراد کر رہا ہو اور ان کو کہہ رہا ہو کہ ہماری مقدس خوشیوں تک پہنچنے کی تمہارے بہیمانہ پنجوں کو اجازت نہیں دی جائے گی.پھر دیکھیں یہ لوگ کس طرح آپ کو نا کام اور نامراد کر سکتے ہیں؟ کوئی دنیا کی طاقت آپ کو نا کام اور نامراد نہیں کر سکتی.خدا کے فضلوں کی خوشیاں کوئی دنیا میں روک سکتا ہے؟ خدا کی رحمتوں کی خوشیاں کوئی دنیا میں روک سکتا ہے؟ چنانچہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالی کے فضل سے وہاں ایک بالکل نئی فضا پیدا ہو گئی اور پنجاب میں جہاں جہاں یہ پیغام پہنچاوہاں بہت سے شہروں میں تو انہوں نے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی کہ کوئی ہمیں قید کرتا ہے، مارتا ہے، گلیوں میں گھسیٹتا ہے ، گالیاں دیتا ہے.انہوں نے خوب جشن منائے.ربوہ کی تو دوسری حیثیت کے پیش نظر اگر چہ وہاں بیٹیاں تو نہیں جل سکیں لیکن میں نے ان سے کہا کہ اتارنی آپ نے نہیں ہیں.یہ دن ایسا ہے یعنی 23 مارچ کا دن کہ جس دن یہ ساری قوم مجبور ہو گئی ہے بتیاں جلانے پر اور خوشیاں منانے پر کیونکہ خدا کی تقدیر نے اس دن کو یوم پاکستان بنا دیا ہے.اس لئے ان گھروں کی بتیاں احمدیت کی خوشیاں منارہی ہوں گی خدا کی نظر میں، اور وہ بتیاں جو ان کو نظر نہیں آتیں جلتی ہوئی آپ کے گھروں پر وہ خدا کی نظر میں سب سے زیادہ روشن قرار دی جائیں گی.اور ایسا ہوتا ہے، خدا کی تقدیر میں ایسا ہوتا آیا ہے.اس لئے احمدیت کو دنیا کی کوئی طاقت ناکام اور نامراد نہیں کر سکتی.یہ بات یاد رکھیں ہمارے لئے خوشیوں کے دن آئے ہیں اور خوشیوں کے دن بڑھتے چلے جائیں گے ہمارے لئے.ہمارے لئے خوشیاں ایسی مقدر ہو چکی ہیں جو ہماری راتوں کو بھی دن بنا دیں گی.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ایک ذرہ بھی مجھے اس بات میں شک نہیں کہ نئی صدی احمدیت کے لئے نئی نئی خوشیاں لے کر آنے والی ہے.پس خوشی سے اچھلو اور کو دو اور خدا کی رحمتوں پر شکر کے لئے اور تیاری کرو.اپنے شکروں کے معیار کو اور زیادہ بڑھاؤ کیونکہ ہم نے تو آج خدا تعالی کے گزشتہ فضلوں کو
448 جو دیکھا ہے اس کی روشنی میں ہم یقین کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل اتنا روشن ہے اور اتنا عظیم الشان ہے کہ جس طرح آج سے سو سال پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ دنیا کے ایک سونہیں ممالک میں جماعت احمد یہ پھیل چکی ہوگی اور کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس سے پہلے تیرہ سو سال میں ساری دنیا کے مسلمانوں نے جتنی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کئے ہیں اس سے دوگنی زبانوں میں، چند سال میں جماعت احمدیہ کو توفیق ملی کہ تراجم کر کے ساری دنیا میں اس مقدس صحیفے کے ترجمے کو پھیلا دے.....€6 پس میں ربوہ کے رہنے والے ہوں یا پنجاب کے دوسرے علاقوں کے لوگ جو اس حکم کوسن کر غمزدہ ہیں ان کو میں دوبارہ یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی خوشیاں ان کی پہنچ سے بالا ہیں.آپ خوش رہیں اور خدا تعالی مزید آپ کی خوشیاں بڑھاتا چلا جائے گا.یہ کیوں نہیں سوچتے آپ کہ کس قدر ان کے دل مغضوب ہو چکے ہیں.کس قدر ان کی تکلیف کے نئے نئے سامان خدا تعالیٰ نے پیدا کر دیتے ہیں.یعنی وہ شخص جو کسی کی خوشی پر عذاب میں مبتلا ہو اس سے زیادہ اور کیا جہنم سوچی جاسکتی ہے.بڑے ہی سادہ لوح ہیں وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حکم دے کر ہماری خوشیاں چھین لی ہیں.ان کا حکم دینا بتا تا ہے کہ ان کے دلوں میں آگ لگی ہوتی ہے.اس جہنم میں جل رہے ہیں کہ احمدیوں کو کیوں خدا تعالٰی نئی نئی رفعتیں، نئی نئی برکتیں عطا کرتا چلا جارہا ہے.حیرت ہوتی ہے کہ کس قدر بیوقوف اور جاہل قوم ہے یہ کہ جو اس طرح دوسرے کی خوشیاں چھینے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ رذیل کوشش بتا رہی ہے کہ دلوں میں ایک آگ لگی ہوئی ہے، جہنم برپا ہے.بہت انہوں نے کوشش کی، بہت زور مارے کہ احمدیت کو نا کام اور نامراد کر دیں.آج سو سال کے بعد اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں کہ کوئی پیش نہیں گئی، کوئی سختی کام نہ آئی، کسی قسم کے رزیل ارادوں نے احمدیت کو نا کام تو کیا کرنا تھا احمدیت کے پاؤں کی خاک کو بھی وہ ناکام و نامراد نہیں کر سکے.یہ وہ کیفیت ہے جو اس حکم سے ظاہر ہے.ایک شکست کا اعتراف ہے کہ ہم سب کچھ کر بیٹھے ہیں، ہم نامراد ہو گئے ہیں، اب خدا کے لئے خوش نہ ہو کیونکہ تمہاری خوشیاں ہمیں تکلیف دیں گی.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 24 مارچ 1989ء بمقام اسلام آباد، للفورڈ.خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 194-196)
449 جماعت احمدیہ عالمگیر کے صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر اقوام عالم میں امن والحاد پیدا کرنے کے لئے سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کا نہایت بصیرت افروز پیغام "بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ مُلک ہند میں مشرقی پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں آج سے ایک سو سال پہلے ایک عجیب ماجرا گزرا، جسے آئندہ بنی نوع انسان کے لئے ایک عظیم عہد آفریں واقعہ بنا تھا.وہاں ایک ایسا مذہبی راہنما مبعوث ہوا جس نے خدا کے اذن سے دور آخر میں ظاہر ہونے والے آسمانی مصلح ہونے کا دعوی کیا.یوں تو دنیا میں ایسے سینکڑوں دعویدار پیدا ہوئے اور آئندہ بھی پیدا ہوتے رہیں گے لیکن اس کے دعوی میں ایک ایسی بات تھی جو سب سے الگ اور سب سے عجیب تھی.اس نے ایک ایسا دعویٰ کیا جس نے ایک نئے انداز میں اقوام عالم کے اتحاد کی بنا ڈالی اور توحید باری تعالیٰ کی ایک ایسی تفسیر کی جس نے دور آخر میں ظاہر ہونے والے متفرق مصلحین کے پراگندہ تصور کو وحدت کا جامہ پہنایا.وہ انقلاب آفریں اعلان کیا تھا جس نے اس دور کی مذہبی دنیا میں ایک ہیجان برپا کر دیا اور جس کا ارتعاش زمین کے کناروں تک محسوس کیا گیا.یہ وہ دور تھا جسے ہم بالعموم دور انتظار کہہ سکتے ہیں.تمام دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کے پیروکار، کیا یہودی اور کیا عیسائی، کیا مسلمان اور کیا ہندو، کیا بدھ اور کیا زرتشتی اور کیا کنفیوشس کے مانے والے.سبھی اپنے اپنے مذہب کی راہ پر آخری زمانہ کے موعود مصلح کی آمد کا انتظار کر رہے تھے.یہود کو بھی ایک مسیح کی انتظار تھی جس نے دور آخر میں ظاہر ہونا تھا.اور عیسائیوں کو بھی ایک مسیح کی آمد کا انتظار تھا.مسلمان بھی ایک موعود مسیح کی آمد کے منتظر تھے اور ایک
450 مہدی معہود کی راہ دیکھ رہے تھے.ہندو کرشن کی آمد ثانی کے منتظر اور بدھ مت کے ماننے والے بدھا کے نئے روپ میں ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے تھے.ہر مذہب میں ایسی قطعی اور واضح پیشگوئیاں موجود تھیں کہ آخری زمانے میں سچائی کے عالمگیر غلبہ کی خاطر خدا تعالیٰ کسی مصلح کو ضرور بھیجے گا.لیکن مشکل یتھی کہ ہر مذہب اس ظاہر ہونے والے مصلح کو الگ الگ ناموں سے یاد کر رہا تھا.بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو اللہ تعالیٰ نے یہ راز سمجھایا کہ مختلف مذاہب میں جو مختلف ناموں سے آخری موعود عالم کی پیشگوئیاں ملتی ہیں اگر چہ وہ سب بنیادی طور پر درست ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ خدائے واحد و یگانہ نے ہر مذہب میں الگ الگ مصلح بھیجنا تھا بلکہ مراد یہ تھی کہ ایک ہی مذہب میں جسے خدا تعالیٰ اپنے جلوہ توحید کے لئے اختیار فرماتا، ایک ایسے موغو و عالم کو مبعوث فرمانا تھا جو تمام مذاہب کے موعود مصلحین کی بھی نمائندگی کرتا.تابنی آدم کو ایک عالمی وحدت کی لڑی میں پرو کر توحید خالق کا ایک رُوح پرور نظارہ توحید خلق کے آئینہ میں دکھایا جاوے.آپ نے اذنِ الہی کے تابع یہ اعلان کیا کہ وہ مذہب اسلام ہے جسے خدا تعالیٰ نے اپنی توحید کے عالمگیر جلوہ کے لئے اختیار فرمایا ہے اور محمد عربی احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم وہ آخری صاحب قانون رسول ہیں جو سب جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں اور جن کی غلامی میں وہ مصلح عالم پیدا ہونا تھا جس کا مختلف ناموں کے ساتھ مختلف لبادوں میں مختلف مذاہب میں ذکر ملتا ہے.بہت عجیب یہ دعوی تھا اور وہ یکا و تنہا آواز جو ہندوستان کی ایک چھوٹی سی گمنام بستی سے بلند ہوئی تھی بظاہر کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی کہ قابل توجہ اور قابل پذیرائی سمجھی جاتی.لیکن تعجب ہے کہ دنیا نے اس آواز کی طرف بڑی سنجیدگی سے توجہ کی.اور جہاں آپ کی تائید میں دنیا کے مختلف ممالک سے بعض آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں، وہاں مخالفت کا بھی ایک ایسا شور برپا ہوا جس کی نظیر انسانی تاریخ میں شاز شاز ملتی ہے اور ایسے تاریخ ساز ادوار کی یاد دلاتی ہے جب خدا تعالیٰ اپنی نمائندگی میں اپنے بعض کمزور بندوں کو پیغام حق کے لئے کھڑا کرتا ہے اور باوجود اس کے کہ تمام دنیوی طاقتیں ان کی
451 مخالف ہو جاتی ہیں پھر بھی وہ ان کی پشت پناہی کرتا، ہر لحظہ ان کی حفاظت کے سامان فرماتا اور قدم بقدم ان کی کمزوری کو طاقت میں تبدیل فرماتا چلا جاتا ہے.پس یہی معاملہ اس دعویدار اور اس کی جماعت کے ساتھ کیا گیا.دُنیا نے آپ کی مخالفت کو انتہا تک پہنچا دیا.آپ کے خلاف کفر و الحاد کے فتاوی صادر کئے گئے.جھوٹے مقدموں میں ملوث کیا گیا.قتل کے منصوبے باندھے گئے.آپ کے متبعین کو ہر لحاظ سے ستایا گیا.ان کی مذہبی آزادی کو پائمال کیا گیا اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا.ان کے نفوس و اموال کو مباح قرار دے کر ان کو واجب القتل ٹھہرایا گیا.ظالمانہ طور پر وہ شہید کئے گئے.اذیت ناک جسمانی سزائیں دی گئیں.دُکانیں لوٹی گئیں.تجارتیں برباد کر دی گئیں اور گھر جلا دیئے گئے.حتی کہ بارہا مساجد بھی منہدم کر دی گئیں.غرضیکہ مخالفت کا ہر وہ ذریعہ اختیار کیا گیا جس کا مقصد آپ کے پیغام اور آپ کی جماعت کو صفحہ ہستی سے مٹادینا تھا لیکن دشمنی اور عناد کا یہ طوفان اس آواز کو دبا نہ سکا اور مخالفت کی ہر لہر سے جماعت احمدیہ پہلے سے قوی تر اور بلند تر ہو کر ابھری.پس جماعت کے قیام سے لے کر ایک سو سال تک بلاشبہ اس نحیف اور کمز در جماعت کو قادر و توانا خدا کی تائید اور پشت پناہی حاصل تھی.اور ہرلمحہ اس کا دست قدرت اس کی حفاظت فرمار ہا تھا.ان بے شمار فضلوں اور پیہم نوازشات پر اپنے حسن خدا کا ذکر بلند کرنے اور اظہار تشکر کی خاطر جماعت احمدیہ 1989ء کا سال صد سالہ جشن تشکر کے طور پر منارہی ہے.اِس مبارک موقعہ پر بڑے خلوص اور عجز کے ساتھ میں اپنے تمام انسان بھائیوں کو جماعت احمدیہ مسلمہ میں شمولیت کی دعوت دیتا ہوں اور عالم الغیب والشہادۃ خدا کو گواہ ٹھہرا کر کہتا ہوں کہ یہ ایک پیچی اور مخلص جماعت ہے جو اسلام کو دین حق تسلیم کرتی ہے اور ایمان رکھتی ہے کہ آج بنی نوع انسان کی نجات اسلام ہی کے دامن سے وابستہ ہے.اسلام تمام بنی آدم کو وحدت اور امن کا پیغام دیتا ہے اور اپنی اشاعت کے لئے کسی قسم کے جبر و تشدد کے ذرائع کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور انسانی آزادی ضمیر کا علمبردار ہے.اسلام انسان کو ہوائے نفس کی غلامی سے نجات بخشتا ہے اور ایک سادہ
452 مگر انتہائی ترقی یافتہ نظام عطا کرتا ہے جو اس کے تمام اقتصادی، تمدنی اور معاشرتی مسائل کا موثر حل اپنے اندر رکھتا ہے.اسلام ایک ایسا سیاسی نظریہ دنیا کو عطا کرتا ہے جس میں جھوٹ اور فریب دہی کی کوئی گنجائش نہیں اور ایسے کامل عدل کی تعلیم دیتا ہے جو انفرادی، قومی اور گروہی مصالح سے بالاتر ہے.اور دوست دشمن کے حقوق کو مساوی میزان سے تولتا ہے.جماعت احمد یہ ایمان رکھتی ہے کہ یہی دین ہے جو صلاحیت رکھتا ہے کہ آج تمام اقوام عالم کو ایک ہاتھ پر جمع کرے اور توحید کی لڑی میں پرو دے.پس میں اس اہم اور مبارک موقعہ پر بحیثیت امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر روئے زمین پر بسنے والے اپنے تمام انسان بھائیوں کو اسی دین امن اور دین توحید کی طرف دل کی گہرائی اور پر خلوص جذبہ انتقوت کے ساتھ بلاتا ہوں.ہر چند کہ احمدیت بادی النظر میں ابھی ایک ایسی قوت کے طور پر نہیں اُبھری جو ایک عالمی انقلاب بر پا کرنے کی قدرت رکھتی ہو لیکن ہر صاحب بصیرت یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا کہ گزشتہ ایک سو سال میں شدید مخالفتوں کے باوجود اس جماعت کی حیرت انگیز عالمی ترقی کوئی ایسا معمولی واقعہ نہیں جسے نظر انداز کیا جاسکے.اس عرصہ میں جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دُنیا کے 120 ممالک میں قائم اور مستحکم ہو چکی ہے اور اس کی ترقی کی رفتار لحظہ بہ لحظہ تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے اور اس جماعت کے حق میں وہ سب کچھ رونما ہو رہا ہے، جس کا ایک سو سال پہلے انسانی تخمینوں کے لحاظ سے کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا.پس یقیناً وہ خدا کی ہی آواز تھی جس نے اس جماعت کے مستقبل کے بارہ میں بائی کو ان الفاظ میں خبر دی :.میں اپنی چہکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دُنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ انہیں الہی بشارات سے روشنی اور قوت پا کر بانی نے بنی نوع انسان کو یہ عظیم خبر دی کہ :.قریب ہے کہ میں ایک عظیم الطحان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور
453 زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں.میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور ابال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پنکی کی طرح اس مُشتِ خاک کو کھڑا کر دیا ہے.ہر یک وہ شخص جس پر تو بہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں.کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کر سکتیں؟ کیا وہ زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا کا احساس نہیں؟“ (ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 403) سعید بخت ہے وہ انسان جو آسمانی آواز پر کان دھرے اور محمد ا کے قائم کردہ امام کی دعوت پر لٹیک کہنے کی سعادت پائے.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خلیفہ مسیح الرابع، اس زمانے میں رُوئے زمین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند اور مامور زمانہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی توحید اور تمام بنی نوع انسان کے درمیان عالمی وحدت کے قیام کے آسمانی منصوبہ کے ذکر پر مشتمل یہ اہم پیغام دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کر کے نہ صرف جماعت احمدیہ کے اخبارات ورسائل میں شائع ہوا بلکہ کئی ممالک کے مقامی نیشنل اخبارات میں بھی اس کی اشاعت ہوئی اور ریڈیو اور ٹی وی چینلر پر بھی نشر ہوا.اس کے علاوہ بھی بڑی کثرت سے اسے الگ سے شائع کر کے تقسیم کیا گیا.جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کے آغاز پر حضرت خلیفتہ اُسیح کا یہ غیر معمولی پیغام جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض وغایت اور اس کے لائحہ عمل اور اس سلسلہ میں دی گئی قربانیوں پر بھی بخوبی روشنی ڈالتا ہے.
454 الغرض انہی جذبات اور عزم اور ارادوں کے ساتھ عالمگیر جماعت احمد یہ اپنی دوسری صدی میں داخل ہوئی اور خلافت احمدیہ کی بابرکت آسمانی قیادت میں نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے.
455 افراد جماعت احمدیہ کے نام حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ ک جماعت کی دوسری صدی کے آغاز پر پہلا پیغام جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کے پہلے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے عالمگیر جماعت احمدیہ کے افراد کو جو پہلا پیغام دیا وہ یہ تھا کہ گزشتہ صدی میں اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والے عظیم اور ان گنت احسانوں کو ہمیشہ یادرکھیں اور احسان مندی کے جذبات کو پیدا کریں.آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: گزشتہ صدی میں ہم پر اتنے احسانات کی بارشیں نازل فرمائیں، اس کثرت کے ساتھ خدا کی رحمتوں کے نشان ہم نے نازل ہوتے دیکھے، اتنے عظیم خطرات سے خدا تعالیٰ نے جماعت کو محفوظ اس طرح نکالا جس طرح محبت کرنے والے دو بازؤں میں سمیٹ لیا گیا ہو اور بسا اوقات ایسے سخت وقت آئے ، ایسے کڑے وقت آئے کہ خطرہ تھا کہ بعض علاقوں سے جماعت کی صف لپیٹ دی جائے گی مگر خدا تعالی کی غیر معمولی قدرت نے حیرت انگیز جلوے دیکھائے.پس ان سب امور کی طرف جب ہم نگاہ دوڑاتے ہیں تو شکر کے جتنے بھی جذبات دل میں پیدا ہوتے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ پیاس نہیں بجھی.......پس اس صدی کو شکر کی صدی بنانا ہے اور خدا تعالیٰ کے احسانات کو یا در کھنے اور احسانات کو پہچانے کی صدی بناتا ہے.“ فرمايا: ہم جب کہتے ہیں کہ ان گنت احسانات ہیں.بارش کی طرح اس کے فضل نازل ہوتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ ہم درست کہہ رہے ہیں اس میں کوئی مبالغہ نہیں.ایک قطرے کا مبالغہ بھی اس میں نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی بارشوں نے ایک سوسال تک جماعت احمدیہ پر ہر قسم کے فضل نازل فرمائے.ع اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں کہ میں قطرہ تھا اس کے فضل نے دریا بنا دیا اور ایک خاک کا ذرہ تھا جسے خدا نے ثریا بنا دیا ہے.پس آج جو ایک کروڑ احمدی اس دنیا
456 میں بس رہے ہیں یہ اسی قطرے کے بنے ہوئے دریا ہیں.پس اگر آپ خدا تعالیٰ کے احسانات کے ہر قطرے پر شکر ادا کرنے کا سلیقہ سیکھ جائیں گے تو آپ میں سے ہر ایک قطرہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ انگلی صدی کے آغاز سے پہلے ایک ایک کروڑ بن جائے.اور اگر زمین پر آپ کے پھیلنے کی جگہ نہیں ہوگی تو اس صدی کا خدا آسمان میں وسعتیں عطا کرے گا اور آسمان میں آپ کے پھیلنے کے لئے گنجائشیں نکالی جائیں گی.زمانہ بڑی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے.لیکن یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اگر آپ احسان مند رہیں گے تو خدا کے فضلوں کے ساتھ آپ کے احسان مندی کا کوئی مقابلہ نہیں ہو سکتا.وہ فضل آپ سے سینکڑوں ہزاروں گنا تیز رفتاری کے ساتھ آگے آگے بھاگیں گے اور آپ کا احاطہ کر لیں گے اور آپ میں استطاعت نہیں ہوگی کہ ان فضلوں کا احاطہ کر سکیں.پس اس اگلی صدی کا پہلا پیغام ساری جماعت احمدیہ کے نام یہ ہے کہ خدا تعالی کے احسانات کا شمار کرنے کی کوشش کریں اور خدا تعالیٰ کے احسانات میں ڈوبنے کی کوشش کریں.آپ کے سارے مسائل احسان مندی کے ذریعے سے حل ہو سکتے ہیں.ساری مشکلات جذ به احسان مندی کے ساتھ ڈور ہو سکتی ہیں.لیکن احسان مندی حقیقی ہونی چاہئے، محض زبانی نہیں ہونی چاہئے.عادت ڈالیں، اپنی فطرت ثانیہ بنالیں کہ خدا تعالی کے پیار اور محبت کا ذکر کر کے سوچوں میں ڈوب جایا کریں اور سوچا کریں کہ یہ بھی خدا کا احسان ہوا، وہ بھی خدا کا احسان ہوا.“ ( خطبہ جمعہ فرموده 24 مارچ 1989ء بمقام اسلام آباد، للفورڈ.خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 182-189).......
457 جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کے آغاز پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلا الہام حضور انور رحمہ اللہ نے اپنے اسی خطبہ جمعہ ( فرمودہ 24 مارچ 1989ء) میں عالمگیر جماعت احمدیہ کے افراد کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوسری صدی کے آغاز پر آپ کو ہونے والے پہلے الہام کا ذکر بھی فرمایا.آپ نے فرمایا: آئندہ صدی بہت سے انعامات ہمارے لئے لانے والی ہے.خدا کے بیشمار انعامات جو صدی کے آغاز سے نازل ہونے شروع ہوئے ہم ان کا احاطہ نہیں کر سکتے.بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کا علم بعد میں ہوگا.لیکن ایک بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں سب سے آخر پر لیکن سب سے اہم.اس صدی کا پہلا الہام جو مجھے ہوا وہ صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ہوا وہ تھا السلام عَلَيْكُمْ وَرحمة الله...وہ خدا جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس خدا کو گواہ ٹھہرا کر کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے اس صدی کا پہلا پیغام مجھے یہ دیا ہے کہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ.دنیا خواہ چاہے آپ پر ہزار لعنتیں زبانی ڈالتی پھرے، ہزار، لاکھ کروڑ کوششیں کرے آپ کو مٹانے کی مگر اس صدی کے سر پر خدا کی طرف سے نازل ہونے والا سلام ہمیشہ آپ کے سروں پر رحمت کے سائے کئے رکھے گا اور ان رحمتوں اور سلامتیوں کے سائے تلے آپ آگے بڑھیں گے.یہ صرف میرے نام پیغام نہیں ہے بلکہ تمام دنیا کی جماعت کے لئے یہ پیغام ہے السلام عَلَيْكُمْ وَرحمة الله - یہ برکاتہ کا لفظ تو مجھے یاد نہیں لیکن السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله تو بالکل صاف کھلی آواز میں روشن آواز میں کہا اور اس سے میرا دل حمد سے بھر گیا کہ خدا تعالیٰ کی کیسی شان ہے کہ پہلی صدی کے آغاز پر ہی وہی وقت جب صدی شروع ہورہی تھی اس وقت خدا تعالیٰ نے بڑے پیار اور محبت کی آواز میں اور بڑی کھلی کھلی واضح آواز میں السلام عليكم کا تحفہ مجھ پر نازل فرمایا تا کہ میں اسے تمام دنیا کی جماعتوں کے سامنے پیش کر سکوں.“ آپ نے فرمایا کہ : و مجھے کامل یقین ہے کہ سلام ان احمدیوں کو بھی پہنچے گا جو بھی پیدا نہیں ہوئے.ان
458 احمدیوں کو بھی پہنچے گا جو ابھی احمدی نہیں ہوئے.ان قوموں کو بھی پہنچے گا جن تک ابھی احمدیت کا پیغام نہیں پہنچا.آئندہ ایک سو سال میں احمدیت نے کتنی ترقی کرنی ہے، ہم اس کا ابھی تصور بھی نہیں باندھ سکتے.کن کن نئی سرزمینوں میں اس احمدیت نے جڑیں پکڑنی ہیں اور تنومند درخت بننے ہیں اور عظیم الشان خدا تعالٰی کی رحمتوں کے سائے ان درختوں کے ذریعے ان تمام زمینوں پر محیط ہونے ہیں، ہم ان باتوں کا آج تصور بھی نہیں کر سکتے.لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ جہاں تک بھی احمدیت پھیلے گی، دنیا کے جس جس خطے میں بھی احمدیت کا پیغام قبول کیا جائے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو امام زمانہ تسلیم کیا جائے گا، جہاں جہاں حضرت محمد مصطفی بی کی سرداری کے سامنے احمدیت کے ذریعے سر تسلیم خم کئے جائیں گے ان سب کو اس سلام کا تحفہ ہمیشہ ہمیش پہنچتا رہے گا.پھر آئندہ صدی میں کیا ہوتا ہے؟ اللہ بہتر جانتا ہے، کیسے لوگ ہوں گے.مجھے امید ہے اور مجھے کامل یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ خدا تعالیٰ تقویٰ کی ایک نئی لہر جاری کرے گا اس صدی کے لئے بھی اور رحمتوں کے نئے پیغام آئندہ صدی کے لئے خود پیش فرمائے گا.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 24 مارچ 1989ء بمقام اسلام آباد، للفورڈ.خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 182-189)
459 تاریخ انسانی میں 1989ء کے سال کی اہمیت حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے 1989 ء کے سال کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے بعض نہایت لطیف اور ایمان افروز پہلوؤں کا ذکر فرمایا.چنانچہ خطبہ جمعہ فرموده 29 دسمبر 1989ء میں آپ نے فرمایا: یہ جمعہ جس کی ادائیگی کے لئے آج ہم اکٹھے ہوئے ہیں، سال 1989ء کا آخری جمعہ ہے اور دو روز تک یہ سال اختتام پذیر ہونے والا ہے.یہ سال نہ صرف یہ کہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک غیر معمولی سال ہے بلکہ دنیا کی تاریخ میں بھی یہ سال ایک غیر معمولی سال بن کر ابھرا ہے اور اس میں خدا تعالی کی گہری حکمتیں پوشیدہ ہیں.آپ کو یاد ہو گا جب ہم ربوہ میں 23 مارچ کا دن خوشی کے دن کے طور پر منانا چاہتے تھے تو جماعت کے دشمنوں نے پورا زور لگایا کہ وہ ربوہ میں یا دوسری جگہوں پر بھی جماعت احمدیہ کو اس دن کی خوشی نہ منانے دیں.لیکن خدا کی تقدیر نے ان کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ سارے ملک میں وہ دن خوشیوں کے دن کے طور پر منائیں اور 23 / تاریخ یوم پاکستان کی ایسی تاریخ ہے جسے پاکستان کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا.تو بہت لمبا عرصہ پہلے جب 23 مارچ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لدھیانہ میں بیعت لی ، اس بات کو پاکستان بنانے والوں نے یا پاکستان کی راہ میں خدمتیں کرنے والوں نے تو کبھی سوچا بھی نہ ہوگا اور 23 مارچ کا دن یوم پاکستان مقرر ہونا ایک ایسا فعل ہے جس میں پاکستان کی تحریک سے تعلق رکھنے والوں کا کوئی بھی عمل دخل نہیں.تقدیر نے یہ دن ان پر مسلط کر دیا، ان پر ٹھونس دیا.جب تک وہ اس دن کو جماعت احمدیہ کی خوشیوں کے دن کے طور پر نہیں مناتے ، یہ دن ان پر مسلط ہو چکا ہے اور جب وہ اس کو پہچان جائیں گے تو پھر وہ اصلی خوشیوں کا دن ابھرے گا، جب 23 مارچ کو پاکستان کے قیام کا دن بھی ہوگا اور احمدیت کے قیام کا دن بھی ہوگا.اور یہ دونوں خوشیاں مل کر عید میں بن جایا کریں گی.اسی طرح کی ایک حکمت اس سال میں بھی پوشیدہ ہے.اس سال میں ایسے حیرت انگیز تغیرات بر پا ہوئے ہیں کہ دنیا کے دانشوروں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا.یورپ میں جو کچھ
460 ہوا ہے اور جو کچھ ہورہا ہے اور اسی طرح دنیا کے دیگر بعض ممالک میں تبدیلیوں کے جو آثار ظاہر ہور ہے ہیں.یہ وہ سب تبدیلیاں ایسی ہیں جن میں سیاستدانوں کا کوئی عمل دخل نہیں.ان کے لئے یورپ میں ہونے والی عظیم تبدیلیاں اور اشترا کی ممالک میں ہونے والے انقلابات اسی طرح تعجب انگیز تھے جس طرح باقی دنیا کے لئے تعجب انگیز تھے.ان کی کوششوں کا جہاں تک دخل ہے وہ کوششیں تو چین میں کی گئی تھیں اور انسانی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور ساری دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سیاست دانوں نے مل کر چین میں جو انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی تھی اس میں وہ کلیہ ناکام رہے.وہاں انقلابات ہوئے جہاں محض خدا کی تقدیر کو دخل تھا.جہاں انسانی کوششوں کا کوئی بھی ہاتھ نہیں تھا.اس لئے ابھی سے دانشور یہ لکھنے لگے ہیں اور مختلف مواقع پر یہ بیان دینے لگے ہیں کہ یہ سال جو 1989ء کا سال ہے، یہ انسانی تاریخ میں ایک ایسا بلند اور ممتاز سال بن کر ابھرا ہے کہ اسے قیامت تک مؤرخ بھلا نہیں سکے گا.ایک غیر معمولی شان ہے اس سال میں اور آئندہ کے لئے بنیادیں ڈالنے والا سال ہے.پس اس کی بلندی محض اپنی ذات کی بلندی نہیں بلکہ آئندہ دنیا کی سر بلندی کے لئے اس سال میں بنیادیں قائم کی گئی ہیں.اور یہ وہی سال ہے جس کو خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کا عالمی جشن تشکر قرار دیا.آپ نے فرمایا: اللہ تقدیر بہا رہا ہے اور تمام دنیا کو مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کے سال کو کبھی نہ بھلا سکے اور ہمیشہ اس سال کو سنہری حروف سے لکھتی چلی جائے.پس خدا کی بہت سی تقدیریں مخفی طور پر ایسے کام کر رہی ہوتی ہیں کہ سطح پر ان کے کوئی اثرات ظاہر نہیں ہوتے.اچانک جس طرح سمندروں میں جزیرے ابھر آتے ہیں اس طرح جب وہ خدا کی تقدیر آخری صورت میں ابھرتی ہے تو دنیا حیرت سے اس کو دیکھنے لگتی ہے.پس ان دونوں باتوں میں حکمت ہے.یہ دونوں باتیں اتفاقی نہیں ہیں." آپ نے فرمایا: 23 مارچ کے دن کو پاکستان کی خوشیوں کا دن قرار دے دینا اور صد سالہ جشن تفکر کے سال کو تمام عالم کی خوشیوں کا سال قرار دے دینا اور اس سال میں حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کرنا اور
461 حیرت انگیز تبدیلیوں کی بنیادیں قائم کرنا، یہ ایسی باتیں تو نہیں ہیں جو اتفاقا اکٹھی ہو گئی ہیں.ان کے اندر خدا کی تقدیر کار فرما دکھائی دیتی ہے اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اس کثرت کے ساتھ فضل کبھی نازل نہیں ہوئے جتنے اس سال نازل ہوئے ہیں اور اس میں کسی حد تک تو آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم نے جشن تشکر کی تیاریاں کی تھیں، اس کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ تو ہوتاہی تھا.لیکن خدا کے جن فضلوں کا میں پہلے ذکر کرتا چلا آیا ہوں ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کا ہماری تیاری سے کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں تھا.خدا کی طرف سے آسمان سے فضل نازل ہوئے ہیں اور ان کو ہم نے نازل ہوتے دیکھا ہے اور ہر پہلو سے جماعت کو اس سال میں غیر معمولی عظمت عطا ہوئی ، غیر معمولی تقویت نصیب ہوئی اور ہمارے دشمنوں کو غیر معمولی ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا.یہ سب باتیں اتفاقی تو نہیں ہو سکتیں.“ آپ نے فرمایا: 32 یہ وہ سال ہے کہ جب بیعتوں کے لحاظ سے بھی اس کثرت سے خدا تعالیٰ نے لوگوں کو جماعت احمد یہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ جب آپ اس کا گراف دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے.یوں لگتا ہے جیسے ایک بلند ہوتی ہوئی سڑک پر اچانک مینار بنا دیا گیا ہو اور مینار کے ساتھ وہ سڑک اٹھنی شروع ہو جائے.لیکن یہ بھی مجھے یقین ہے، میں خدا کے فضل سے یہ امید رکھتا ہوں کہ چونکہ یہ اتفاقی واقعہ نہیں اس لئے یہ جو ترقی کی رو ہے یہ آگے بڑھے گی اور پیچھے نہیں ہٹے گی.دنیا کی تاریخ میں تو یہ سال ابھرا ہے اور ابھر کر پھر کسی حد تک نیچے کرنے والا ہے.مگر میں خدا تعالی کے فضل سے امید رکھتا ہوں اور اسی کے لئے آپ کو دعا کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دعا یہ کریں کہ مڑ کر دیکھیں تو اس سال کے پیچھے گہرائی دکھائی دے.مگر آگے دیکھیں تو پھر اور اٹھتے ہوئے بلند تر مینار دکھائی دیں اور یہ سال آئندہ ترقی کے لئے رفتاریں سیٹ کرنے وال Pace Maker ہے." آپ نے فرمایا: دعائیں کریں کہ ہمارے لئے خدا ایسی ہوائیں چلائے کہ ہمارے دن کا سفر بھی
462 ایک سال کے سفر کے برابر ہو جائے اور ہماری راتوں کا سفر بھی ایک سال کے برابر ہو جائے اور اس تیزی کے ساتھ ہم دنیا میں ترقی کرتے ہوئے خدا کی توحید کا پیغام تمام عالم کو پہنچائیں اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ہی کے حسن سے گل عالم کو خیرہ کر دیں.دعاؤں کے ساتھ، کوسشش کے ساتھ، محکم عزم کے ساتھ اور صبر کے ساتھ اب ہمیں بہت تیز رفتار سے آگے بڑھنا ہے اور خدا کرے کہ ہمارا اگلا سال یہ ثابت کرنے والا ہو کہ ہم 1989 ء کے سال کو مڑ کر ایک بلندی کے سال کے طور پر نہیں بلکہ بلندیاں پیدا کرنے والے سال کے طور پر دیکھا کریں گے.“ خطبه جمعه فرموده 29 روسمبر 1989ء خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 838835)
463 صد سالہ جشن تشکر کی تقریبات پر ایک طائرانہ نظر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ساری دنیا میں افراد جماعت نے جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کا آغا ز حسب پروگرام نماز تہجد ( اور اکثر مقامات پر باجماعت نماز تہجد ) اور صدقات اور نوافل اور دعاؤں اور تسبیح و تحمید اور درود سے فضاؤں کو معطر کرتے ہوئے کیا.کئی جماعتوں نے پہلی صدی کے آخری دن نفلی روزہ رکھا.مساجد و جماعتی مراکز اور احمدی ہسپتالوں ، سکولوں اور دیگر جماعتی عمارات کے علاوہ افراد جماعت نے اپنے گھروں پر بھی چراغاں کیا اور انہیں جھنڈیوں اور خوبصورت بینرز سے سجایا.ہمسایوں، دوستوں اور غیر از جماعت اور غیر مسلموں کو تحائف دیے.شیرینی تقسیم کی.کثرت سے ایسی دعوتوں کا اہتمام کیا جن میں خصوصیت سے غرباء اور یتیموں اور بے سہاروں کو بلایا گیا.کئی جماعتوں نے جوبلی کی مناسبت سے کئی ایک خصوصی سونیر ز تیار کیے جو کثرت سے تقسیم کیے گئے.پاکستان میں جہاں احمدیوں پر ہر قسم کی ناروا اور غیر انسانی پابندیاں تھیں وہاں بھی افراد جماعت نے حضرت خلیفہ اسیح کے ارشادات کے مطابق مسکراتے ہوئے اور سر بلند کر کے خوشی و مسرت کے اس تاریخی موقع کے مناسب حال پروگرام منعقد کیے.کئی جگہوں پر شریف النفس معززین، مقامی سیاسی وسماجی رہنما اور ڈاکٹرز، وکلاء اور اہل علم و دانش ان پروگراموں میں شامل ہوئے اور جماعت احمدیہ کی خدمات اسلام و خدمت قرآن کو سراہا.راولپنڈی (پاکستان) میں ایک عصرانہ میں ایک ایسی ہی تقریب میں ایک صحافی نے دوران تقریر کہا اور درست کہا کہ یہ جشن حضرت بانی کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان ہے.“ کئی ممالک میں خصوصیت سے جو ہلی جلسے منعقد کیے گئے جن میں وہاں کے ممبران پارلیمنٹ، وزراء، دیگر سر کردہ سیاسی و سماجی شخصیات، مذہبی و غیر مذہبی رہنما اور مختلف مذاہب کے نمائندگان شامل ہوئے اور جماعت احمدیہ کی امن پسندی اور ملک وقوم کی خدمت اور معاشرتی ہم آہنگی کے لیے نمایاں کردار کو سراہا.کئی ممالک میں افراد جماعت نے مارچ پاسٹ کیے اور جلوس نکالے جو اللہ تعالیٰ کی تکبیر وتحمید اور
464 آنحضرت ﷺ پر درود وسلام کے پاکیزہ نغمات گاتے ہوئے مختلف شاہراہوں سے گزرے.اس سلسلہ میں سب سے بڑا مارچ پاسٹ سالٹ پانڈ (غانا) میں ہوا جہاں غانا کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے ہیں ہزار افراد نے مارچ پاسٹ میں حصہ لیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے آنحضرت عالم پر درود و سلام بھیجتے ہوئے شہر کی تمام بڑی سڑکوں پر احمدیت اور غانا کے جھنڈے لہراتے ہوئے چکر لگایا.سیرالیون میں بھی تمام بڑی بڑی جماعتوں میں کامیاب مارچ پاسٹ ہوئے جن میں احمد یہ سکولوں کے طلباء و طالبات اور اساتذہ بھی شامل ہوئے.کثیر تعداد میں غیر از جماعت افراد بھی جماعت کے اس جشن تشکر کے جلوس میں شامل ہوئے.مختلف جگہوں پر ان جلوسوں میں شامل ہونے والوں کی تعداد اوسطاً پانچ سے چھ ہزار رہی.تقریباً ہر جگہ پر گورنمنٹ کے اعلیٰ حکام وافسران، ممبران پارلیمنٹ اور مقامی و علاقائی چیفس اور دیگر سرکردہ افراد بھی شامل ہوئے اور بعض نے خطاب بھی کیے.فری ٹاؤن میں منسٹر آف سٹیٹ فار پریذیڈنشل آفیئر ز آنریل ڈاکٹر اے.کے طورے نے اپنے خطاب میں جماعت احمدیہ کی خدمات انسانیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: احمد یہ مشن سیرالیون میں 50 سالوں سے جبکہ ساری دنیا میں 100 سالوں سے رکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہے.“ دارو ( سیرالیون ) میں مارچ پاسٹ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک عیسائی میجر نے کہا: آج اگر اسلام کی طرف سے کوئی جماعت اسلام کو قوت اور فروغ دے رہی ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہے جس نے اسلام کی خدمت کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسلام انسانیت کے لیے آرام اور سکون کا ٹھکانہ ہے.“ الحاج مصطفی سینوسی صاحب سابق نائب وزیر اعظم سیرالیون اور صدر مسلم کانگرس نے تقریر کرتے ہوئے کہا: سیرالیون میں احمد یہ مشن کے آنے سے پہلے عیسائی چھائے ہوئے تھے.مسلمان اپنے آپ کو مسلم ظاہر کرنے میں خفت محسوس کرتے تھے.ہم احمد یہ مشن کے ممنون ہیں کہ
465 انہوں نے تبلیغ اسلام کا کام کر کے عیسائی مادوں کو کھلا چیلنج دیا اور تعلیمی مدارس قائم کیے.اگر جماعت احمد یہ سیرالیون میں نہ آئی ہوتی تو سارے مسلمان عیسائی ہو چکے ہوتے.“ رو کو پر ( سیرالیون ) میں ٹاؤن چیف نے جماعت کے بارہ میں کہا: جماعت احمدیہ کا امن و امان سے دینی خدمات میں مصروف رہنا ان کی کامیابی اور سچا ہونے کی دلیل ہے جبکہ شہر کی دوسری مساجد سیاست کا اکھاڑہ بنی ہوتی ہیں." مگبور کا سیرالیون ) میں ڈسٹرکٹ آفیسر مسٹر کیبی نے خود تقریب میں حضرت خلیفہ امسح الرابع کا صد سالہ جوبلی کے موقع پر دیا گیا پیغام پڑھ کر سنایا اور کہا کہ : جو کچھ اس پیغام میں کہا گیا ہے وہ سو فیصد درست ہے.“ مور گورو ( تنزانیہ) میں جشن تشکر کے سلسلہ میں منعقدہ ایک تقریب میں ممبران پارلیمنٹ، ریجنل کمشنر، تعلیمی اداروں کے پرنسپلز، میڈیکل آفیسرز، سیاسی پارٹیوں کے لیڈرز اور مذہبی جماعتوں کے نمائندگان بھی شامل ہوئے اور حاضرین سے خطاب بھی کیا.مقررین نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ : جو شخص سو سال میں اس قدر مخلص اور جو شیلی جماعت پیدا کر سکتا ہے وہ ہر گز جھوٹا نہیں ہوسکتا.بلکہ وہ یقیناً خدا کی طرف سے ہے اور خدا کا سچا موعود ہے." انڈونیشیا میں صد سالہ جشن تشکر کے ایک جلسہ میں ایک یونیورسٹی کے غیر احمدی پروفیسر نے خطاب کرتے ہوئے کہا: آج دنیا میں صرف جماعت احمد یہ ہی ہے جو عیسائیت کا مقابلہ کرسکتی ہے.“ گیمبیا کے پریذیڈنٹ آفس کے پارلیمانی سیکرٹری الحاجی بیٹی پیسے نے جماعت احمدیہ کے جوبلی سال کے جلسہ سالانہ کے موقع پر افتتاحی تقریب میں خطاب کے دوران کہا.محمد یہ مشن اہل گیمبیا کی نہ صرف روحانی بلکہ مادی ترقی کے لیے جو اہم کردار ادا کر رہا ہے گیمبیا گورنمنٹ اس کی معترف ہے اور اسے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے.جماعت احمدیہ کی 17 مساجد، 3 ہائی سکول اور 5 میڈیکل سنٹر جن میں سات ڈاکٹر کام کر رہے ہیں جماعت کی طرف سے المی گیمبیا کے لیے کی جانے والی خدمت کو نمایاں طور پر ظاہر کر رہے ہیں."
466 لائبیریا ( مغربی افریقہ میں LARGO کی جماعت میں جشن تشکر کے سلسلہ میں منعقدہ ایک تقریب میں علاقہ کی انیس (19) سر کردہ شخصیات شامل ہوئیں.ان میں کا ؤنٹی کے سپرنٹنڈنٹ، کمشنر، چیف امام، ائمہ مساجد اور ٹاؤن چیفس شامل تھے.جلسہ کی صدارت کا ؤنٹی کے سپرنٹنڈنٹ صاحب نے کی جو اس تقریب میں شمولیت کی غرض سے بطور خاص 80 میل کا سفر طے کر کے آئے.سپرنٹنڈنٹ صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا: جماعت احمد یہ نہ صرف مذہب کی بلکہ انسانیت کی بھی بھر پور خدمات بجا لا رہی ہے.جماعت کی ان خدمات کو دیکھتے ہوئے میں کہ سکتا ہوں کہ جماعت احمد یہ لائبیریائیں مستقبل قریب میں ضرور اپنی جڑیں مضبوط کرے گی.“ انہوں نے مزید کہا کہ : گو میں عیسائی ہوں لیکن اسلام کے بارہ میں میں نے جتنا بھی علم حاصل کیا ہے وہ صرف اور صرف احمد یہ لٹریچر کے ذریعہ حاصل کیا ہے اور اس لٹریچر کے ذریعہ ہی مجھے قرآن کریم پڑھنے کی ترغیب ہوئی اور مجھے جماعت کی طرف سے ترجمہ شدہ قرآن پڑھنے کا موقع ملا.“ مغربی جرمنی کی تریسٹھ (63) جماعتوں نے نہایت شاندار طریق پر جشن تشکر منایا.ہر جماعت نے کثرت سے ایسی تقاریب منعقد کیں جن میں علاقہ کے جرمن افراد کو خصوصیت سے شمولیت کی دعوت دی گئی.بہت سے مسلم و غیر مسلم مہمان ان میں شامل ہوئے.اکثر مقامات پر علاقہ کے میئرز نے تقاریب میں شرکت کی.فرینکفرٹ کے مشہور ہوٹل ”فرینکفرٹ ہوف“ میں ایک استقبالیہ تقریب میں 150 سے زائد جرمن مہمان شامل ہوئے.اس تقریب میں نظریاتی فزکس میں معروف نوبیل لارئیٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا.کالمار ( سویڈن) میں جشن تشکر کے سلسلہ میں منعقدہ ایک تقریب میں صوبے کے چیف، پارلیمنٹ کے ممبرز، یونیورسٹی کے ڈائر یکٹرز، صوبے کے تمام سکولوں کے ریجمینٹس ٹیچرز، ایمپلائمنٹ پیکیھنچ کے ڈائریکٹر اور دیگر کئی اہم افراد شامل ہوئے.اس موقع پر ایمپلائمنٹ ایکیھنچ کے ڈائریکٹر نے خطاب کرتے ہوئے کہا:
467 ہمیں ان احمدیوں سے سبق سیکھنا چاہئے کہ جو خو بیاں مثلاً سچ بولنا، خدمت کرنا، ایک دوسرے کی مدد کرنا اور خیر خواہی کرنا ہم چاہتے ہیں کہ ہم میں ہوں وہ ان احمدیوں میں پہلے سے ہی موجود ہیں.آسٹریلیا میں جلسہ کے موقع پر ایک غیر از جماعت عرب پروفیسر نے علی الاعلان کہا کہ مجھے حضرت مسیح ناصری کی وفات سے متعلق جماعت احمدیہ کے نظریات سے مکمل اتفاق ہے اور اسی طرح ہر ور شخص جوکہ لا إله إلا الله محمد رسول اللہ پڑھتا ہے وہ مسلمان ہے اور کوئی بھی ایسے شخص کو غیر مسلم قرار نہیں دے سکتا.وه ٹورنٹو (کینیڈا) میں تیس مارچ کی رات ایک تقریب عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں دوہزار سے زائد افراد شریک ہوئے.ان میں چھ فیڈرل ممبرز آف پارلیمنٹ کے علاوہ اونٹاریو کے پریمیئر کے نمائندہ، حجز ،ڈائریکٹر، مختلف فرموں کے مالکان اور دیگر سرکردہ شخصیات شامل تھیں.اس موقع پر گورنر جنرل آف کینیڈا، وزیر اعظم کینیڈا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈرز اور وزراء کی طرف سے خیر سگالی اور مبارکباد کے پیغامات بھی پڑھے گئے.اس موقع پر ایک ممبر پارلیمنٹ آنریبل Bob Horner نے اپنے خطاب کے دوران سٹیج پر لگے ہوئے ایک بینر میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: مسیح (موجود) نے ایک سو سال پہلے یہ کہا تھا اور آج یہ بات پوری ہو گئی ہے اور انگلی صدی کے اختتام پر نجانے اور کیا کچھ ہو جائے گا.“ 6 0 0 0 0 0 99 000
468 بعض ممالک کے صدور، وزرائے اعظم و دیگر معززین کے پیغامات بعض ممالک کے صدر ان اور وزرائے اعظم نے ہمارے جشن تشکر کے سلسلہ میں منعقدہ جلسوں اور استقبالیہ تقریبات کے لیے خصوصی پیغام بھی دیے.ذیل میں چند ایک پیغامات ہدیہ قارئین ہیں جو جماعت احمدیہ کی اسلامی اور ملکی اور انہی خدمات کی ایسی شہادتیں ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا.کینیڈا کے وزیر اعظم کا پیغام کینیڈا کے وزیر اعظم Brian Mulroney نے اپنے پیغام میں کہا: "It is my sincere pleasure to extend to the members of the Ahmadiyya Movement in Islam my congratulations and best wishes on the centenary of the founding of your Movement.The Ahmadiyya community represents an important and valued part of the Canadian mosaic, and contributes much to the enrichment of our society.I wish you well in your celebrations not only on March 23 but throughout the year." کینیڈا کی پارلیمنٹ کے اپوزیشن لیڈر کا پیغام کینیڈا کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر John Turner نے اپنے پیغام میں کہا: "The Ahmadiyya Movement brings with it a commitment to work selflessly and tirelessly to promote universal love and brotherhood.Your belief that no barrier of race or colour or nationality should stand in the way of this objective is a welcome contribution to the tolerance necessary in our diverse Canadian scoiety.It is a pleasure for me to offer my best wishes to the Canadian members of the Ahmadiyya Movement in
469 Islam as they celebrate their centennial with thanksgiving." کینیڈا کے گورنر جنرل کا پیغام کینیڈا کے گورنر جنرل Jean Sawe نے اپنے پیغام میں کہا: "I am pleased to extend my warmest greetings to all those participating in the centenary thanksgiving celebrations of the Ahmadiyya Movement.On behalf of all Canadians, I convey my sincere congratulations and appreciation for the contribution of your Movement to the spiritual life and well-being of our nation.The philanthropic activities undertaken by the Ahmadiyya Movement and its work with hospitals, clinics and schools in the poorer parts of the world bear eloquent testimony to the invaluable role played by those inspired by faith and spiritual values.May you continue to embrace the future in a spirit of hope and optimism.To all Canadians celebrating this special anniversary of the Ahmadiyya Movement, I send my best wishesh for a successful event." وزیر اعظم ماریشس کا پیغام وزیر اعظم ماریشس Hon.Anerood Jugnauth نے اپنے پیغام میں کہا: " مجھے یہ سن کر بے حد خوشی ہوئی ہے کہ احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن ماریشس، عالمگیر جماعت احمدیہ کے صد سالہ یوم تاسیس کے موقع پر ایک استقبالیہ منعقد کر رہی ہے.میں اس موقع پر آپ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں.میری یہ دلی خواہش ہے کہ اس تاریخی موقع پر آپ کی تقریبات انتہائی کامیاب رہیں.عالمگیر جماعت احمدیہ گزشتہ ایک صدی سے انسان کی مستقل روحانی ترقی کے لیے
470 کوشاں ہے.یقینا یہ ایک عظیم الشان اور قابل قدر کاوش ہے.ممکن ہے اس مہم میں اپنے نیک اور عظیم مقاصد کے حصول میں آپ کو مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہو جیسے کہ تمام مثبت اور مفید تحریکات کے ساتھ ہوتا آیا ہے.لیکن ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اس سے آپ کے حوصلے نہ ہی پست ہوئے اور نہ ہی آپ کے عزم میں کمی آئی بلکہ آپ مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن رہے.مجھے اس امر کو ریکارڈ پر لاتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ آپ کی جماعت نے ہمارے ملک کی مختلف النوع معاشرت میں اتحاد قائم کرنے میں شاندار خدمات سر انجام دی ہیں.آئیے ہم سب مل کر ماریشس کو پہلے سے بہتر، زیادہ مضبوط اور زیادہ ماڈرن مملکت بنانے کے لیے اپنی کاوشوں کو تیز تر کر دیں.“ صدر مملکت لائبیریا کا پیغام 21 مارچ 1989ء کی شام کو منروویا (لائبیریا) میں جلسہ مسیح موعود منعقد ہوا.اس موقع پر صدر مملکت لائبیریا کی نمائندگی میں کابینہ کے ڈائریکٹر جنرل نے جلسہ میں شرکت کی اور صدر مملکت لائبیر یاHon.Dr.Samuel Kanyon Doe کا پیغام پڑھ کر سنایا.صدر مملکت نے اپنے پیغام میں کہا: جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر آپ کو مبارکباد بھیجتے ہوئے میں بے حد خوشی محسوس کر رہا ہوں.گزشتہ سال جب آپ کے امام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے لائبیریا کا دورہ کیا تو ان سے ملاقات کر کے مجھے بالخصوص خوشی ہوئی.ہماری ملاقات میں آپ نے مجھے جماعت احمدیہ کی عالمگیر کوششوں سے آگاہ کیا.خصوصی طور پر تعلیم، صحت اور زراعت کے شعبوں میں مغربی افریقہ میں خدمات کا ذکر فرمایا.نیز لائبیریا میں جو نئے اقدامات کیے جار ہے ہیں ان کا بھی تذکرہ ہوا.جماعت احمدیہ کی ان عظیم الشان خدمات کے ہم سب معترف ہیں اور ان خدمات کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں.آج اس موقع پر آپ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے میں امید کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ
471 بنی نوع انسان کی پہلے سے بھی زیادہ خدمت کے جذبہ سے دوسری صدی میں داخل ہوگی.میں آپ کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ، لائبیریا کے عوام کی بہبود کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھے گی.“ سیرالیون کے صدر کا پیغام سیرالیون کے صدر نے اپنے پیغام میں کہا: " آپ نے میرے متعلق جن جذبات کا اظہار کیا ہے میں ان کے لیے ممنون ہوں.ہمیں مذہب کے میدان میں ایک نئی طرح کو رواج دینا چاہیے.آپ کی جماعت سو سال قبل معرض وجود میں آئی.جو کوششیں اس دوران آپ کی جماعت نے کی ہیں وہ قابل تشکر ہیں.امتدادزمانہ فی نفسہ کوئی بڑی بات نہیں ہوتی.اصل بات تو یہ ہوتی ہے کہ اس لیے وقت سے کیا فائدہ اٹھایا گیا.بعض وہ ہوتے ہیں جو ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد جب اس جہان سے رخصت ہوتے ہیں تو ان کے بعد ان کو کوئی جانتا بھی نہیں.جبکہ بعض اس دنیا میں تھوڑا عرصہ رہتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک درخشاں باب چھوڑ جاتے ہیں اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہ جاتے ہیں.آپ کی جماعت ایسی ہے جنہوں نے یہ دونوں باتیں اپنے اندر پیدا کر لی ہیں.یعنی ایک لمبا زمانہ اور درخشاں باب.جو کہ بہت کم کسی کو نصیب ہوتے ہیں.میں سیرالیون کو لیتا ہوں.اس ملک میں احمدیت کی آمد نے اس ملک کے لوگوں کے اندر ایک غیر معمولی تبدیلی پیدا کر دی ہے.خصوصاً تعلیم اور صحت میں.ان دونوں شعبوں میں آپ نے ایک حیران کن کام کیا ہے.احمد یہ سکول ہر جگہ نظر آتے ہیں جو کہ تعداد اور تعلیم دونوں لحاظ سے بدرجہا آگے ہیں.میں ان کو دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس کرتا ہوں.یہی حال ہسپتالوں ، کلینک اور ہیلتھ سنٹرز کا ہے.یہ لوگوں کی بے لوث اور قابل قدر خدمت سر انجام دے رہے ہیں.گورنمنٹ کے ذہن میں بہت سی سکیمیں اور پروگرام ہوتے ہیں لیکن ان کو پورا نہیں کر سکتے.ہم ہر جگہ ہسپتال، کلینک یا ہیلتھ سنٹرز اور سکول نہیں بنا سکتے.گو ہماری خواہش ہوتی ہے لیکن کچھ ہماری مجبوریاں ہوتی ہیں.اس واسطے جب آپ کی طرح کے نیک لوگ آتے ہیں اور ہمارے ان علاقوں میں ہسپتال یا سکول جاری کرتے ہیں تو اس طرح آپ نہ صرف گورنمنٹ بلکہ
472 عوام کی مدد کر رہے ہوتے ہیں.آپ اپنے اس نیک اور نہایت شاندار کام کو جاری رکھیں.“ صد سالہ جوبلی نمائشیں صد سالہ جشن تشکر کے پروگراموں کا ایک اہم حصہ جماعت احمدیہ کی سوسالہ خدمات اسلام اور خدمت بنی نوع انسان کی اہم جھلکیوں پر مشتمل خصوصی نمائشوں کا انعقاد بھی تھا.اس سلسلہ میں مرکزی طور پر بہت سا مواد تیار کر کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے جماعت کے مشنز کو بھجوایا گیا.ان میں جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام مختلف زبانوں میں مکمل قرآن مجید کے تراجم، کم وبیش سوز بانوں میں اسلامی تعلیمات کے مختلف اہم اور بنیادی مضامین پر مشتمل منتخب آیات قرآنی منتخب احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تحریر فرمودہ کتب اور آپ کے ملفوظات کا سیٹ، تفسیر کبیر از حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اور دیگر متفرق موضوعات پر نہایت اہم اسلامی لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کی عالمگیر اشاعت اسلام کی سوسالہ مساعی اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے کی گئی کوششوں، دنیا بھر میں مساجد کی تعمیر تعلیمی وطبی اداروں اور مختلف میدانوں میں افراد جماعت کی قربانیوں اور جماعت کی عالمی ترقی کی عکاس منتخب تصاویر اور گرافس شامل تھے.کئی ممالک نے خاص طور پر جو بلی کی اس نمائش کے لئے باقاعدہ نمائش بال تعمیر کئے.چنانچہ 23 مارچ 1989 ء تک اُس وقت تک کی موصولہ رپورٹس کے مطابق 41 رممالک میں 123 مقامات پر باقاعدہ طور پر مستقل نمائش گاہیں قائم کی جا چکی تھیں اور بہت سے مقامات پر مختصر یا عارضی اور موبائل نمائشوں کا اہتمام کیا گیا تھا.اسلام احمدیت اور ملک و ملت اور نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے لئے جماعتی خدمات کی عکاس ان نمائشوں سے جہاں افراد جماعت کو اور بالخصوص نئی نسلوں اور تو احمدیوں کو اپنے اسلاف کی عظیم قربانیوں اور اسلامی خدمات سے آگاہی ہوئی ، ان کے ایمانوں میں اضافہ ہوا اور بشاشت قلبی سے خدمات کے اس سلسلہ کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے قربانیوں کے لئے نئے عزم اور ولولے بیدار ہوئے ، وہاں یہ نمائشیں بہت سے شریف النفس غیر از جماعت مسلمانوں کے دلوں سے بھی جماعت کے متعلق ملاؤں کے منفی پراپیگنڈہ کے ازالہ کا
473 موجب ہوئیں.لوگ جب دیکھتے کہ کس طرح ایک چھوٹی سی جماعت نے سو سال کے عرصہ میں تن تنہا دنیا کی تمام بڑی بڑی زبانوں میں تراجم قرآن کریم شائع کرنے کی توفیق پائی ہے اور ساری دنیا میں اشاعت اسلام کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے تو اس کا ان پر بہت اچھا اثر پڑتا.اسی طرح افریقہ اور دوسرے کئی غریب ممالک میں وہاں کے عوام کی تعلیمی وطبی میدان میں خدمات اور سکولز، کالجز اور اسپتالز اور کلینکس کے قیام اور معاشرتی ہم آہنگی کے لئے کی گئی مساعی کو تصویری زبان میں دیکھ کر وہاں کے عوام اور حکمران اور دیگر سیاسی و سماجی اہم شخصیات اور لوکل چیفس اور انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے افراد ان کاموں کو سراہتے ہوئے جماعت کو خراج تحسین پیش کرتے اور جماعت احمدیہ کی صداقت اور ترقی کی شہادت دیتے.گھانا کے شہر ا کرا (Accra) میں صد سالہ جوبلی کی نمائش کے افتتاح کے موقع پر ڈائریکٹر انفارمیشن گھانا کو خصوصی طور پر دعوت دی گئی تھی.انہوں نے جب نمائش میں قرآن مجید کے کئی زبانوں میں تراجم، مختلف زبانوں میں شائع شدہ اسلامی لٹریچر، تصاویر اور چارٹس وغیرہ دیکھے تو اس نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے بر ملا طور پر یہ ریمارکس دیئے کہ آپ کے ان کاموں اور حیرت انگیز ترقی کو دیکھ کر یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ آپ کی جماعت سوسال نہیں بلکہ پانچ سو سال پرانی ہے.سیرالیون میں دارو (Daru) کے مقام پر ایک عیسائی میجر نے کہا کہ : "جماعت احمدیہ نے متعدد زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور کم و بیش سوز بانوں میں قرآنی پیغام کی اشاعت اور بے شمار کتب ولٹریچر شائع کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ احمدیہ مسلم جماعت نہ صرف زندہ جماعت ہے بلکہ آئندہ دنیا میں زبردست ترقی کرے گی.“ ئن سپیٹ (ہالینڈ) میں وہاں کے لارڈ میئر Mr.C.Kove نے مشن ہاؤس میں لگائی گئی نمائش کا افتتاح کیا.اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے لارڈ میئر نے کہا کہ : 23 صد سالہ جوبلی کی نمائش ہے.جماعت احمدیہ نے ان سو سالوں میں دنیا کے کناروں تک شہرت پائی ہے.ہم اس بات کے شاہد ہیں کہ جماعت احمد یہ امن سے محبت رکھنے والا فرقہ ہے.“
474 فرینکفرٹ (جرمنی) میں قرآن کریم اور دیگر لٹریچر کی نمائش کی بہت شہرت ہوئی.آٹھ سو سے زائد افراد نے اسے دیکھا.کولون میں ایک ایسی نمائش میں کینیا کے کونسلر اور قائمقام ایمبیسڈرتشریف لائے.یہ کیتھولک عیسائی تھے.انہیں جب سواحیلی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ تحفہ پیش کیا گیا تو اسے بڑی عقیدت اور احترام سے سینے سے لگایا اور انتہائی خوشی کا اظہار کیا.- کولون (جرمنی) میں ایک تقریب میں ایک ترک دوست جو اسلامک انویٹیشن ایسوسی ایشن سے تعلق رکھتے تھے اور بڑے پڑھے لکھے تھے نمائش کو دیکھ کر کہنے لگے : یمیں آج تک آپ لوگوں کو کافر کہتا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ اسلام تو آپ ہی لوگوں میں ہے.“ قرآن کریم کے تراجم کی طرف اشارہ کر کے کہا : " کیا یہ غیر مسلموں کے کام ہیں؟“ کر چمپیئن ساند (ناروے) میں جشن تشکر کے سلسلہ میں لگائی گئی نمائش کا افتتاح شہر کے میئر نے کیا.اس موقع پر میئر نے کہا: عیسائی ہوتے ہوئے احمدی مسلمانوں کے زیر اہتمام ایک نمائش کا افتتاح کرنا میرے لئے ایک خاص تجربہ ہے.یہ تقریب ہمیں ایک نئی دنیا دکھاتی ہے جہاں ہمیں لازمتا ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو زندگی گزارنے کے لئے ایک دوسرے کو سمجھنا ہوگا اور ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آنا ہوگا.“ کئی ممالک میں صدسالہ جو بلی نمائش کی تصاویر بالخصوص مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کو اخبارات میں نمایاں طور پر شائع کیا گیا اور ٹی وی میں بھی تشہیر ہوئی.الغرض صد سالہ جو بلی نمائشوں نے بھی اسلام احمدیت کی اشاعت میں نہایت اہم کردار ادا کیا........
475 غریبوں، بیواؤں، یتیموں اور ناداروں میں تحائف کی تقسیم جشن تشکر کی خوشیوں میں بیواؤں، یتیموں، ناداروں اور معذوروں کو شامل کرنے کے لیے محض رضائے باری تعالیٰ کی خاطر دنیا بھر میں کثرت کے ساتھ افراد جماعت نے ذاتی طور پر اور بہت سے مقامات پر اجتماعی طور پر اجتماعی صدقات و خیرات کا اہتمام کیا.کئی مقامات پر ایسی دعوتوں کی تقریبات منعقد کی گئیں جن میں علاقہ کے غرباء ویتامی و بیوگان کو خصوصیت سے شرکت کی دعوت دی گئی.بعض چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے اپنے پورے گاؤں کے ایسے مستحق افراد تک کھانا اور جشن تشکر کے سلسلہ میں مٹھائی اور دیگر تحائف تقسیم کیے.اسی طرح یتیم خانوں اور ہسپتالوں میں تحائف دیے گئے اور یوں ایسے ہزار ہا افراد کو جشن تشکر کی خوشی میں شامل کیا گیا.م سیرالیون میں نادار اور غریب افراد کے لیے جماعت کی طرف سے منسٹر آف سٹیٹ فار سوشل ویلفیر ( مادام ایم کونٹے ) کو عطیہ پیش کیا گیا تو انہوں نے تحفہ وصول کرتے ہوئے کہا: میں آج عزت مآب صدر مملکت کی نمائندگی میں جماعت احمدیہ کی طرف سے اس عظیم اور نہ بھولنے والی قربانی پر مشن کا شکر یہ ادا کرتی ہوں.احمد یہ مشن آج سرزمین سیرالیون میں اپنی خدمات کی وجہ سے جانا پہچانا مشن ہے.وہ طبقی اور تعلیمی میدانوں میں ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر کام کر رہا ہے.جہاں تک غریب لوگوں کی خدمت کا تعلق ہے تو ہر ایک سمجھدار اور ملک کا وفادار جماعت احمدیہ کی خدمات کو قدر کی نگاہوں سے دیکھے گا.“ آئیوری کوسٹ میں ایک یتیم خانہ میں جماعت کی خدمت کو عجیب رنگ میں سراہا گیا.جماعت کا وفد جب مخالف کے ساتھ یتیم خانہ پہنچا تو عجیب اتفاق ہوا کہ اس وقت یتیم خانہ کا انچارج ایک عیسائی کن کے ساتھ یتیم خانہ کے مسائل پر گفتگو کر رہا تھا کہ یتیم خانہ تو قائم کر دیا ہے اب عیسائی اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہے.جو کچھ حکومت کی طرف سے ملتا ہے وہ ٹھیک آج ختم ہو جائے گا.اس پر اس عیسائی عن نے کہا اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کے لیے فرشتے بھجوا دے گا.یہ بات کرتے کرتے وہ باہر نکل رہی تھی کہ اس کی نظر جماعت احمدیہ کے وفد پر پڑی تو کہنے لگی ! لگتا ہے یہ فرشتے آگئے.
476 یتیم خانہ کے مینجر نے بہت گرم جوشی سے وفد کا استقبال کیا.جب وفد نے اسے اپنا تعارفی کارڈ پیش کیا جس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے یہ مبارک الفاظ تحریر تھے یں اس زمانہ کی تاریکیوں کا نور ہوں.“ تو یہ تحریر دیکھتے ہی یتیم خانے کا مینجر کہنے لگا کہ : یہ جو آپ کے کارڈ پر لکھا ہے ”ہمیں اس زمانہ کی تاریکیوں کا نور ہوں“ واقعی درست ہے.آج آپ ایسے وقت میں ان یتیم بچوں کے لیے امید کی کرن بن کر آئے ہیں کہ جب کسی اور طرف سے امید باقی نہ رہی تھی.“ عطیہ خون کئی مقامات پر جماعتوں نے مقامی ہسپتالوں میں خون کا عطیہ پیش کیا.ان خون کا عطیہ پیش کرنے والوں میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی.یوں خوشی کے اس موقع پر انسانیت کی خدمت کا ایک بہت ہی اعلیٰ نمونہ پیش کیا گیا.مثلاً: سرینگر (کشمیر) میں سو سے زائد احمدی مردوں اور عورتوں نے گورنمنٹ کے ہسپتال کے لیے عطیہ خون دیا.انڈونیشیا کی مختلف جماعتوں کے 462 خدام نے خون کا عطیہ پیش کیا.گھانا میں اکرا، کماسی اور سنٹرل ریجن میں مجموعی طور پر 176 خدام نے مقامی اسپتالوں میں خون کا عطیہ دیا، علاوہ ازیں اور بھی کئی مقامات پر عطیہ خون کے خصوصی پروگرام ہوئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی تمام مساعی کو مقامی انتظامیہ اور دیگر افراد نے بھی بہت سراہا.جیل خانوں میں قیدیوں کے لیے تحائف پاکستان کے احمدی اسیران راہ مولیٰ کی یاد میں دنیا کی مختلف جیلوں میں قید افراد کو بھی جشن تشکر کی خوشی میں شامل کرنے کے لیے کئی ممالک میں احمدی وفود نے جیل خانوں کو وزٹ کیا اور قیدیوں کے لیے تحائف وغیرہ لے کر گئے.ایسے مواقع کی چند ایک نہایت دلچسپ تفصیلات درج ذیل ہیں.تنزانیہ (مشرقی افریقہ) میں قیدیوں کے لیے جیل کے افسران کو ایک گائے تحفہ پیش کی گئی.
477 اس پر انسپکٹر جنرل جیل نے کہا : ”ہماری تنزانیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک جماعت کی طرف سے قیدیوں کے لیے ایک گائے پیش کی گئی ہے." انڈونیشیا کی جماعت نے وسیع پیمانے پر جیلوں سے رابطہ کیا اور قیدیوں میں کھانا، مٹھائی اور تحائف تقسیم کیے.تاسک ملایا کی جیل میں جا کر جماعتی وفد نے قیدیوں کو جائے نماز اور کھانے اور مٹھائی کے ڈبے تحفہ دیے اور اس تقریب کا پس منظر بتایا تو جیل کے افسران نے برملا کہا: "جماعت احمد یہ پہلی اسلامی آرگنائزیشن ہے جس نے قیدیوں سے یہ ہمدردی دکھاتی ہے.“ آئیوری کوسٹ میں جب قیدیوں کے لیے مخالف دئیے تو جیل خانہ میں مسلمانوں کے نمائندوں نے کہا کہ: دوسرے مسلمان بھی تبلیغ کے لیے یہاں آتے ہیں لیکن کبھی کسی نے ہماری مشکلات اور ضروریات کی طرف توجہ دینے کی زحمت نہیں کی.آج صرف جماعت احمدیہ نے ہی اس انداز میں سوچا ہے." پونچھ (کشمیر) میں جیل کے احاطہ میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں تمام قیدیوں کو تحائف دیے گئے.اس تقریب میں قیدیوں، پولیس اور جیل کے عملہ کے علاوہ بعض دیگر سر کردہ شخصیات نے بھی شرکت کی.اس موقع پر مقامی ڈپٹی کمشنر نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ور ضلع کا کمشنر ہونے کے باوجود مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ جیل کی اونچی دیواروں کے اندر بھی جا کر دیکھوں.لیکن آج جماعت احمدیہ کے اس پروگرام نے میرے اندر احساس پیدا کر دیا ہے.میں جماعت احمدیہ کا ممنون ہوں.“
478 صد سالہ جشن تشکر کی مناسبت سے جماعت و ذیلی تنظیموں کے اخبارات ورسائل کے خصوصی نمبر ز اور دیگر سود نیئر ز کی اشاعت صد سالہ جشن تشکر کے پروگراموں کا ایک اہم حصہ جماعت کی سوسالہ تاریخ کے اہم واقعات اور اس کی خدمت اسلام و خدمتِ انسانیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے والے مضامین و تصاویر پر مشتمل اخبارات ورسائل وسو نیئر ز کی اشاعت بھی تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پہلو سے بھی دنیا بھر میں جماعتی وذیلی تنظیموں کے اخبارات ورسائل نے خصوصی نمبر شائع کیے اور کئی ایک ضخیم اور نہایت اہم اور وقیع مضامین پر مشتمل خوبصورت اور دیدہ زیب با تصویر سودنیز ز شائع کیے.یہ خصوصی نمبرز اردو، انگریزی، ڈچ ، جرمن، فریج، سویڈش، انڈونیشین، ڈینش، بنگلہ وغیرہ مختلف زبانوں میں شائع ہوئے.جن اخبارات و رسائل نے خصوصی نمبر ز شائع کئے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں: رسائل روزنامه الفضل ربوہ ماہنامہ خالد - ماہنامہ تشخیذ الا زبان، ماہنامہ انصار الله ماہنامہ مصباح، ماہنامہ تحریک جدید - ملک پاکستان برطانیہ ماہنامہ ریویو آف ریلیجنز ، ماہنامہ التقویٰ، اخبار احمدیہ، طارق النصر به ,The Muslim Herald ، البصيرت انڈیا ہفت روزہ اخبار بدر جرمنی اخبار احمدیہ سوئٹزرلینڈ ہالینڈ Der Islam Alislam ڈنمارک ناروے الجہاد کینیڈا احمدیہ گزٹ
479 احمد یہ گزٹ.The Muslim Sunrise - 1- عائشہ امریکہ ماریشس خالد بنگلہ دیش The Ahmadi اس کے علاوہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی (پاکستان) کی جماعتوں نے سو نیئر شائع کئے.انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز نے Years of Realization 100 کے نام سے سود نیتر شائع کیا.جماعت جرمنی نے بھی دوسو نیئر شائع کئے.ان میں سے ایک مکمل جرمن زبان میں شائع کیا گیا.برطانیہ کی جماعت نے بھی ایک سوو نیئر شائع کیا.اور خدام الاحمدیہ بنگلہ دیش نے انگریزی اور بنگلہ میں ایک سو نیئر شائع کیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان خصوصی نمبرز اور سود نیئر ز کی اشاعت نے بھی جماعت کی مساعی کے تعارف اور اسلام احمدیت کے پیغام کی تشہیر میں بہت مفید اور قابل تحسین کردار ادا کیا.یادگاری ٹکٹ کا اجراء گورنمنٹ سیرالیون نے احمد یہ مسلم جماعت سیرالیون کی ملکی وملی خدمات کے اعتراف کے طور پر جماعت کے صد سالہ جشن تشکر کے تاریخی موقع پر ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا.جماعت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی ملک کے محکمہ ڈاک نے جماعت احمدیہ کی کسی تقریب کی یاد میں ٹکٹ جاری کیا ہو.اس ٹکٹ کے اجراء کی تقریب کا اہتمام فری ٹاؤن ( سیرالیون) کے مرکزی پوسٹ آفس کے ہال میں کیا گیا.اس تقریب کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ گورنمنٹ نے اس کو اپنی سرکاری تقریب قرار دے دیا تھا.دوران تقریب احمدیہ مسلم سیکنڈری سکول فری ٹاؤن کے طلباء نے ان ممالک کے جھنڈوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا جن میں اس وقت تک احمدیت کا نفوذ ہو چکا تھا.تین سو کی تعداد میں یہ طلباء بار بار ایک خوبصورت نغمہ
480 Ahmadiyya Came to Serve, To Serve for ever اپنی سریلی آواز میں پڑھ کر حاضرین کو محظوظ کرتے رہے.اسی طرح اس موقع پر صبح سے ہی پولیس بینڈ بھی اپنی سازوں سے عوام کے لیے کشش کا موجب بنا رہا.اس تقریب میں ممبران پارلیمنٹ مختلف ممالک کے سفراء، مختلف سرکاری محکموں کے آفیسرز اور دیگر سر کردہ لوگ شامل ہوئے.الحاج مصطفی سنوسی نائب وزیر اعظم نے بھی تقریب میں شمولیت کی.تقریب کی صدارت کے فرائض چیف سیکرٹری وزارت مواصلات مسٹر ماطوری نے ادا کیے.اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری موصوف نے کہا: " آج جماعت احمدیہ کے قیام پر سو سال کا عرصہ پورا ہونے پر گورنمنٹ سیرالیون کی طرف سے یادگاری ٹکٹ کا اجراء اس بات کی علامت ہے کہ گورنمنٹ جماعت احمدیہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور یہ کٹ جماعت احمدیہ کی 52 سالہ ملکی خدمات کا صلہ ہے اور اس صورت میں آج ہم جماعت احمدیہ کی خوشی میں شامل ہورہے ہیں.جماعت احمد یہ جب اپنی دوسری جوبلی منا رہی ہوگی تو اس وقت نہ معلوم کتنے ممالک جماعت کی خدمات کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے یادگاری ٹکٹیں جاری کریں گے.“ جماعت احمدیہ کے اس صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر سر بینام پوسٹ آفس نے جماعت کے تیار کردہ جوبلی کے Logo پر Ahmadiyya Muslim 100 Years 23-29 March (احمدیہ مسلم 100 سال 23 تا 29 مارچ) کے الفاظ کے ساتھ تین مختلف مہریں تیار کیں جو سرینام جنرل پوسٹ آفس اور دوسرے بڑے شہروں کے پوسٹ آفسز میں اس ہفتہ کے دوران لفافوں پر لگائی گئیں.
481 صد سالہ جوبلی کے سلسلہ میں ہونے والی تقریبات کی پریس اور الیکٹرانک میڈیا میں وسیع پیمانے پر تشہیر جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ پاکستان میں حکومت نے احمدیوں کے جشن تشکر پر قانونی پابندیاں عائد کیں اور ہر ایسے ذریعہ کو اختیار کیا گیا جس سے احمدیت کی آسمانی آواز کو دبایا جا سکے.لیکن بھلا آسمان سے برسنے والی خدا تعالیٰ کے فضلوں کی موسلا دھار بارش کو بھی کبھی انسانی طاقتیں روک سکتی ہیں؟ ایسا نہ کبھی پہلے ہوا اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے.مخالفین کی تمام تر معاندانہ کوششوں کے باوجود احمدیت کی صدائے فقیرانہ حق آشنا شش جہات میں پھیلتی چلی گئی.اللہ تعالی کی تائید و نصرت اور قبولیت کے ایسے حیرت انگیز نظارے ظاہر ہوئے اور ایسے علاقوں میں بھی احمدیت کا پیغام پریس اور میڈیا کے ذریعہ پہنچا جہاں جماعت کی کسی قسم کی کوشش کا کوئی بھی دخل نہیں تھا.اس کی تفصیلات کو چھوڑتے ہوئے جو اپنی ذات میں بہت طویل اور حد درجہ ایمان افروز ہیں، ذیل میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے فرمودہ ایک خطبہ جمعہ سے اور جلسہ سالانہ یو کے 1989ء کے موقع پر فرمودہ خطاب سے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جن سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس طرح محض خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کے اس صد سالہ جشن تشکر کو دنیا بھر کے پریس اور میڈیا میں پذیرائی عطا ہوئی.اگر چہ بعض جگہوں پر مخالفین نے جماعت کے خلاف سراسر جھوٹ اور افتراء پر مبنی مضامین بھی شائع کیے اور منفی پراپیگنڈہ بھی کیا لیکن اکثر مقامات پر بہت ہی مثبت انداز میں کوریج ہوئی اور بڑے اعزاز کے ساتھ جماعت احمدیہ کی سوسالہ خدمات اور اس کی کامیابیوں کا تذکرہ ہوا.جہاں تک معاندین کے منفی پراپیگنڈہ کا تعلق ہے تو وہ بھی جماعت کے حق میں مفید ہی ثابت ہوا اور بہت سے لوگوں میں حقیقت کو جاننے کا اشتیاق پیدا کرنے کا موجب ہوا اور کئی مقامات پر تو خود غیر مسلموں نے معاندین احمدیت کے جھوٹے پراپیگنڈہ کا منہ توڑ جواب دیا اور احمدیت کی امن پسندی اور خدمت اسلام اور خدمت انسانیت کے کاموں کو سراہا.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے جشن تشکر کی تقریبات کے اہتمام کے قریباً
482 ایک ماہ بعد 21 اپریل 1989 ء کو مسجد فضل لندن میں خطبہ جمعہ میں فرمایا : اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ صد سالہ جشن تشکر کی جور پورٹیں دنیا کے مختلف ممالک سے موصول ہورہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کی بہترین توقعات سے بہت بڑھ کر اللہ تعالی نے جماعتی تقریبات کو اپنے فضل سے نوازا اور برکتیں عطا فرمائیں.اگر چہ یہ رپورٹیں ابھی دنیا کے تقریباً ایک بٹ دس (1/10) ممالک سے ملی ہیں یعنی ایک اندازہ ہے، کم و بیش و سواں حصہ رپورٹوں کا موصول ہوا ہے اور باقی رپورٹیں کچھ بن گئی ہوں گی، کچھ رستے میں ہوں گی.لیکن تمام رپورٹوں میں بلا استثناء اس حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالی کے فضل سے ان تقریبات کو اتنی مقبولیت عطا ہوگی اور اس کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ کا پیغام تمام ملک ملک کے کونے کونے میں پہنچ جائے گا.ایک تعجب کی بات یہ ہے کہ جن جن ممالک میں ریڈیو موجود تھے یعنی ریڈیو کا نظام موجود تھا وہاں ہماری کوششوں کے بغیر ایک دم ریڈیو والوں نے رابطے پیدا کئے اور جہاں جماعتیں سمجھتی تھیں کہ ہماری آواز اس ملک کے اس حصہ میں نہیں پہنچ سکتی کیونکہ اس سے پہلے ان کا رویہ نہ صرف غیر دوستانہ تھا بلکہ بعض جگہ معاندانہ بھی تھا.تو ان کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہم حیران رہ گئے کہ وہ ریڈیو جو پہلے معاندانہ پراپیگنڈے میں خاص طور پر آگے اور نمایاں تھے انہوں نے اچانک اپنا رویہ تبدیل کیا اور خود ہم تک پہنچ کر وہ پیغام لیا جو صد سالہ جو ہلی کا میں نے اپنی آواز میں بھروایا تھا اور جماعت احمدیہ کے متعلق دوسری معلومات لے کر انہیں کثرت کے ساتھ نشر کرنا شروع کیا.اور جہاں ٹیلی ویژن تھی وہاں خلاف توقع ٹیلی ویژن والوں نے کثرت کے ساتھ جماعت کے پروگرام نشر کئے اور پھر ایک ملک کے حصے سے دوسرے ملک کے حصے کے ٹیلی ویژنوں نے ان کو پکڑا اور پھر اس کو آگے پہنچایا اور تمام ملک کے کونے کونے میں خدا تعالی کے فضل سے جہاں جہاں ٹیلی ویڑنز موجود تھے وہاں ٹیلی ویژنز کے ذریعے جماعت کا پیغام پہنچا.ہندوستان کے متعلق خود قادیان کے پہلے اندازے یہ تھے کہ اتنا بڑا ملک ہے اور تقسیم کے بعد کیونکہ تناسب کے لحاظ سے جماعت کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی ہے اس لیے ہمارا اس
483 ملک سے کوئی اثر ورسوخ نہیں ہے اور ہم دہلی سے درخواست تو کر رہے ہیں اور اسی طرح جالندھر والوں سے درخواست کر رہے ہیں لیکن ہمیں یہ توقع نہیں کہ ہم سے بھر پور تعاون ہو گا اس لیے ایک آدھ خبر میں بھی اگر ذکر آجائے تو ہم ممنون ہوں گے.یہ تمہید باندھ کر انہوں نے یہ درخواست کی کہ میں اجازت دی جائے کہ ہم لکھو کھا روپیہ خرچ کر کے بعض ٹیلی ویژنز اور بعض ریڈیو اسٹیشنز کو اس بات پر آمادہ کریں کہ اشتہار کے طور پر ہماراذکر کر دیں.میں نے ان سے کہا کہ ایک پیسہ بھی اشتہار پر خرچ نہیں کرنا.یا تو جماعت کا رسوخ ہو اور اس رسوخ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بعض ممالک کے متعلقہ شعبے تعاون کریں یا پھر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے.اشتہار بازی کے پراپیگنڈے کا میں قائل نہیں ہوں.چنانچہ ایک پیسے کی بھی میں نے ان کو اشتہار بازی کی اجازت نہیں دی.لیکن جو واقعہ گزرا ہے وہ حیرت انگیز ہے.ہندوستان کے کونے کونے سے یہی خبریں مل رہی ہیں کہ ٹیلی ویژن والے خود پہنچے اور اتنی تشہیر کی اور بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پوری تصویر دکھائی گئی اور ایسے اچھے انداز میں ذکر ہوا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت جب یہ نظارے دیکھتی تھی تو زار زار خوشی سے روتی تھی کہ کہاں ہم اور کہاں ہماری کوششیں اور کہاں یہ اللہ تعالی کے فضل.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر کو ٹیلی ویژن پر دیکھتے تھے تو دل بلیوں اچھلتے تھے اور بے اختیار ہو جاتے تھے.بچے ، بڑے، مرد، عورتیں سارے خوشی سے زور زور سے روتے تھے.کہتے ہیں ایسا نظارہ ہم نے دیکھا ہے کہ ساری زندگی میں وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی عظیم روحانی مسرتیں ہمیں نصیب ہوں گی.اور پھر ایک جگہ یہ واقعہ ہوا اس ٹیلیویژن نے دوسرے ٹیلی ویژن کو یہ اپنی فلمیں بھجوائیں.انہوں نے ان کو دکھایا.پھر انہوں نے سنٹر میں بھجوائیں انڈیا کے دہلی میں اور دہلی سنٹرل ٹیلی ویژن یا نیشنل ٹیلی ویژن نے پھر ان نظاروں کو دکھایا اور سارے ملک میں اس کا چرچا ہوا اور یہاں تک کہ بمبئی میں جہاں کی جماعت کی تعداد بہت ہی مختصر، بہت ہی چھوٹی ہے اور بہت بڑا شہر ہے.ایک عظیم الشان شہر ہے.بمبئی کے بعض حصے تو یورپ کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہروں کا مقابلہ کرتے ہیں اور بعض حصے اتنے
484 پسماندہ ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت وہاں جانوروں سے نچلی سطح پر بس رہی ہے اور بیشمار انسان ہے جو کہ سڑکوں پر پھیلا پڑا ہے.وہیں رہتا ہے، وہیں سوتا ہے، وہیں جاگتا ہے، وہیں اپنی ضروریات پوری کرتا ہے.اس پہلو سے بھی وہاں کوئی حیثیت نہیں جماعت کی جہاں دس دس پندرہ پندرہ لاکھ کے جمگھٹ میں سڑکوں پر بسنے والے وہاں جماعت کا نام ہی نہیں پہنچ سکتا، کوئی سُن ہی نہیں سکتا.ان علاقوں میں جماعت کو رسائی نہیں ہے.اور جہاں اتنی دنیا وی عظمتیں ہوں اور شانیں ہوں وہاں بھی جماعت کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی.لیکن مجھے جور پورٹ کل ملی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلسل تین دن تک ٹیلی ویژن پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تصویر اور پھر میرا پیغام اور تصویر کے ساتھ، پھر بار بار جماعت کے تذکرے، جماعت کے جو غیر معمولی کام میں بنی نوع انسان کی خدمت کے سلسلے میں، جماعت کے مقاصد کیا ہیں اور جماعت کے عقائد کا باقیوں سے فرق کیا ہے؟ کون سے اصول ہیں جن پر جماعت ہمیشہ سے قائم ہے؟ کیا کیا عظیم قربانیاں دیتی رہی ہے اور دیتی چلی جارہی ہے؟ یہ تمام باتیں بار بار دہرائی گئیں.تو یہ رپورٹیں ہمیں بتا رہی ہیں کہ یہ خدا کے فضل کے ساتھ آسمان کی تحریک ہے.انسانوں کا اس میں کوئی دخل نہیں.افریقہ کے بعض ایسے ممالک جہاں سوائے ہماری دشمنی کے اور کوئی پراپیگنڈا کرنے کی اجازت نہیں تھی، جہاں ہمارے مبلغ کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑتی تھیں.اوٹی سی بات کے اوپر ان کو جیلوں میں گھسیٹا جاتا تھا اور بہت ہی تکلیفیں دی جاتی تھیں، ایسے بھی بعض ممالک میں افریقہ میں اور اچانک وہاں کا یا پلٹ گئی ، فضا تبدیل ہو گئی.اور ٹیلی ویژن تو وہاں نہیں ہے غالباً لیکن ریڈیو اور اخبارات نے بہت نمایاں طور پر جماعت کی خبریں نشر کرنا شروع کردیں.یہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ساری دنیا میں جو تحریک چلی ہے یہ اللہ تعالی کے فضل کے نتیجے میں ہے.جماعت کی کوششوں کا اگر کوئی دخل ہے تو صرف اتنا کہ جماعت درمندانہ دعائیں کرتی رہی.سب سے پہلے تو میں آپ کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ تدابیر کو اختیار کرنا ہمارا فرض ہے، تدابیر کو حد امکان تک آگے بڑھانا اور کوشش کو اس کے
485 منتہا تک پہنچا دینا یہ ہمارا فرض ہے.لیکن تدبیروں میں سب سے اعلی تدبیر دعا ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم پر یہ نقطہ کھولا اور بار بار کھولا کہ دعا کوتد بیر سے الگ نہ کرو.دھاند بیر کا حصہ ہے اور تدبیروں میں سے سب سے اعلیٰ درجہ کی تدبیر دعا ہے.کیونکہ تدبیر کے نتیجے میں، عام تدبیر کے نتیجے میں تقدیریں نہیں بدلا کرتیں لیکن دعا ایک ایسی تدبیر ہے کہ جو تقدیروں کو تبدیل کر دیا کرتی ہے.پس اس سے زیادہ اعلی پایہ کی تدبیر ممکن نہیں ہے جس کا براه راست تقدیر الہی سے گہرا تعلق ہے.اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیشہ جماعت کو یہی نصیحت کی کہ تمام تدابیر میں دعا کی تدبیر کو سب سے زیادہ اہمیت دو اور اسلام کی عظیم الشان ترقی کا اور اسلام کے عظیم الشان غلبہ کا ہی تجزیہ پیش فرمایا کہ یہ فانی فی اللہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے اسلام کے عظیم الشان غلبہ کا معجزہ دکھایا.پس آج ہم اپنی آنکھوں کے سامنے جو یہ غیر معمولی خدا کے فضلوں اور رحمتوں کے نظارے دیکھ رہے ہیں اور یہ دیکھ رہے ہیں کہ گویا آسمان کی تقدیر ہم پر رحمتیں برسانے کے لیے جھک گئی ہے، جس طرح کوئی رحمت کی گھٹا آتی ہے اور جب وہ پانی سے بوجھل ہو جاتی ہے تو زمین کی طرف جھک جاتی ہے.بعض دفعہ یوں لگتا ہے کہ آسمان سے بادل اتر آئے ہیں اور ہمارے گھروں میں داخل ہو گئے ہیں.پس یہ وہ دور ہے جس میں ہم نے خدا کی رحمت کو اس طرح گھٹاؤں کی طرح اور بوجھل گھٹاؤں کی طرح اپنے اوپر اترتے دیکھا ہے اور ہر ملک میں جماعت احمد یہ یہی مشاہدہ کر رہی ہے اور یہی جو نظارے ہیں یہ خالصہ دعاؤں کے نتیجے میں ظاہر ہوا کرتے ہیں اور دعاؤں کی مقبولیت کا نشان ہوا کرتے ہیں.“ آپ نے فرمایا: ور کینیڈا میں جو مرکزی تقریب ہوئی جشن تشکر کے سلسلے میں وہاں ایک تو پرائم منسٹر کا پیغام بھی سنایا گیا.دوسرے بڑے بڑے لوگ حاضر ہوئے اور بڑی فراخدلی کے ساتھ جماعت کی عظمتوں کا اقرار کیا.لیکن جو سب سے زیادہ جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والی بات تھی وہ یہ تھی کہ ایک وزیر نے مڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر کو دیکھا اور آپ کی طرف
486 اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جس نے آج سے ایک سو سال پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.آج میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ شخص سچا تھا اور واقعہ اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات پوری ہو گئی.اور ایک شخص نے کہا، خالی وہ وزیر تھا یا کوئی اور نمائندہ، اس نے کہا کہ تم آج کی ایک صدی کے آخر پر تو دیکھ رہے ہو کہ کیا ہو رہا ہے دنیا میں.مگر تم اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ اگلی صدی کے آخر پر خدا تعالیٰ کے کتنے فضل تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے.ایسے واقعات ایک ملک میں نہیں ہوئے ، ملک ملک میں، دیس دیس میں، خدا کے فضل اسی طرح نازل ہوئے ہیں اور غیروں نے اللہ تعالی کے فضل اور اس کی تحریک کے تابع ، اس کے فرشتوں کی تحریک کے تابع جماعت احمدیہ کی عظمت اور اسلام کی عظمت اور سر بلندی کا اقرار کیا ہے.پس یہ ساری خبریں جب اکٹھی ہوں گی تو ایک وقت میں تو بتائی بھی نہیں جاسکتیں اور ایک وقت میں ہمارے دل برداشت نہیں کر سکتے.پتہ نہیں کتنے سال تک اس کے تذکرے اور چلتے ہیں.لیکن ابھی تو یہ آغاز ہے اور میں آپ کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے جشن کے چند دن نہیں تھے.ایک پورا سال ہم نے ان جشنوں کو منانے کا مقرر کیا ہے.ایک جشن نہیں ہے بے شمار جشن ہیں.گزشتہ سو سال کا ہر سال ایک جشن کا پیغام لے کر آیا تھا.کون سا ایسا سال ہے جس میں آپ نے اللہ کے فضلوں کے نظارے نہیں کئے.کون سا ایسا سال ہے جو شکر کے لئے اپنی طرف متوجہ نہیں کر رہا.پھر ہر سال کے مہینے تھے.ہر مہینے میں خدا کے فضل نازل ہوتے دیکھے گئے.پھر ہر مہینے کے ہفتے تھے.اور ہر ہفتے کے دن اور پھر راتیں.کوئی ایک لمحہ بھی ان دنوں ، ان راتوں، ان ہفتوں، مہینوں اور ان سالوں کا ایسا نہیں جس میں خدا تعالی نے جماعت کے اوپر اپنے احسانات اور فضلوں کی بارشیں نہ برساتی ہوں.تو ایک جشن تو نہیں ہے.یہ تو انگنت جشن ہیں جو ہم نے منانے ہیں.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 21 / اپریل 1989 ء - خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 254245) پھر جماعت احمد یہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ 1989ء کے موقع پر دوسرے روز بعد دوپہر کے خطاب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:
487 " جشن تشکر کے سلسلہ میں میں آپ کو یہ بات بتاتا ہوں کہ دنیا بھر میں جماعتوں نے بار بار مجھے پر یہ زور ڈالا اور اصرار کیا کہ بظاہر ہمارا کوئی رسوخ اتنا نہیں کہ یہاں کے ٹیلی ویژن، یہاں کے ریڈیو سٹیشن، یہاں کے اخبارات جشن تشکر میں ہماری خبروں کو شائع کریں اور نمایاں طور پر اپنے ملکوں میں پیش کریں.اس لیے آپ ہماری بات مان جائیں اور ہمیں کچھ روپیہ اشتہاروں پر خرچ کرنے دیں اور کچھ روپیہ ان ایجنسیوں کو دینے دیں جو ان کاموں میں ماہر سبھی جاتی ہیں.چنانچہ انگلستان والوں نے بھی اور باہر کی بعض دوسری بڑی بڑی جماعتوں نے، مغرب کی جماعتوں نے خصوصیت سے بہت اصرار کیا اور ہندوستان نے بھی بہت اصرار کیا کہ بعد میں یہ نہ کہنا کہ خبریں شائع نہیں ہوئیں.آپ کچھ دل کھولیں، کچھ پیسہ دیں، ہم اشتہار پر لگائیں.کچھ ان کمپنیوں کو دیں، یہ ماہر کمپنیاں ہیں.میں نے ان سے کہا کہ میں جھوٹے پراپیگنڈے کا قائل نہیں ہوں.جماعت احمدیہ کا پراپیگینڈا اگر جماعت احمد یہ میں لوگوں کی دلچسپی کے نتیجہ میں ہو تو اس میں برکت ہوگی اور مجھے تسلی ہوگی کہ خدا کی تقدیر نے یہ کام دکھائے ہیں.اگر یہ جو پروفیشنل کمپنیاں ہیں ان کی معرفت آپ یہ کام کر کے دکھائیں گے تو مجھے تو ذرہ بھی اطمینان نہیں ہوگا اور دنیا کو بھی پتہ ہوتا ہے دراصل کہ یہ کیا ہو رہا ہے.دراصل دنیا ان باتوں میں دھوکے میں نہیں آیا کرتی.اس لیے آپ اس معاملے کو خدا پر چھوڑ دیں اور لوگوں سے ملیں، درخواستیں کریں.وہ قبول کریں یا نہ کریں لیکن جتنا پراپیگنڈا دنیا میں ہونا چاہیے یہ طبعی ہونا چاہیے اور مصنوعی طور پر یہ پراپیگنڈا نہیں ہونا چاہیے.....یاد رکھیں پراپیگنڈا کی اس وقت قیمت ہے جب یہ سچا ہو ورنہ یہ 33 جھوٹ ہے اور مذہبی جماعتوں کو جھوٹا پراپیگنڈا تباہ تو کر سکتا ہے ان کو تقویت نہیں دے سکتا.“.....تو اس لیے میں نے انکار کیا اور خدا کے فضل سے جن ممالک سے کوئی بھی توقع نہیں تھی وہاں حیرت انگیز طور پر خدا کی قدرت نمائی کے نشان ظاہر ہوئے اور اتنا پراپیگنڈا ہوا ہے کہ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا.پورے پاکستان میں ہمارے لیے جشن حرام قرار دے دیا گیا تھا اور اخبارات میں اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں احمدیت کے خلاف منفی باتیں تو آرہی تھیں لیکن احمدیت کے جشن تشکر کے سلسلے میں ایک لفظ بھی تحسین کا نہیں آرہا تھا.اُدھر قادیان میں جو جشن تشکر منایا جا رہا تھا وہاں ہندوستان کا مرکزی ٹیلی ویژن کا نظام پہنچا ہوا تھا،
488 ریڈیو کا نظام پہنچا ہوا تھا.وہاں کے ممبرز پارلیمنٹ وہاں تشریف لائے ہوئے تھے.جلوس میں قادیان کے غیر احمدیوں ، سکھوں، ہندوؤں نے شرکت کی اور سارے بازار جلوس سے بھر گئے اور بعض ہندوؤں نے اپنی مٹھائی کی دُکانیں احمدیوں کے لیے کھول دیں اور ان تمام واقعات کو فلمایا گیا اور پاکستان کی طرف رُخ کر کے پاکستان کو منہ دکھایا گیا اور وہ احمدی جو وہاں جشن تشکر منانے سے محروم تھے وہ موجیں ٹوٹ رہے تھے لاہور میں اور ارد گرد کے علاقے میں بیٹھے ہوئے ہندوستان کی یہ فلمیں دیکھ کر.صرف یہی نہیں بلکہ سارے ہندوستان میں یہ فلمیں دکھائی گئیں اور مختلف ہندوستان کے حصوں میں صوبائی طور پر ٹیلی ویژن نے جو فلمیں دیں ان کو پھر مرکزی ٹیلی ویژن سٹیشن کے Hook up کے ساتھ وابستہ کیا اور نیشنل Hook up میں پھر وہ فلمیں دوبارہ دکھائی گئیں.تو اتنا حیرت انگیز پراپیگینڈا ہوا ہے اور اخبارات میں اس کثرت کے ساتھ خبریں شائع ہوئی ہیں کہ صرف ہندوستان میں ہی محفوظ تخمینہ یہ ہے کہ چالیس کروڑ سے زائد آدمیوں تک احمدیت کا پیغام پانچ چکا ہے.آپ اگر کروڑوں روپیہ بھی خرچ کرتے اشتہار بازی پر تو کبھی یہ کام نہیں کر سکتے تھے.“ آپ نے فرمایا کہ: عرب دنیا کا وہ حصہ جو جماعت احمدیہ کی مخالفت میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے.غیر ملکوں سے رائٹرز کے ذریعہ جو خبریں وہاں پہنچیں تو خود بخود ان کے ریڈیو اور ان کے ذرائع ابلاغ میں نشر ہونی شروع ہو گئیں اور اس طرح اللہ تعالی نے اپنے فضل کے ساتھ وہاں بھی احمدیت کا پیغام پہنچانے کا انتظام فرما دیا.“ الغرض کیا ایشیا اور کیا یورپ، کیا افریقہ اور کیا امریکہ اور جزائر کے ممالک ساری دنیا میں اس سال میں جماعت احمدیہ کی صد سالہ تقریبات کا چر چارہا.بعض ایسے ممالک جہاں گنتی کے چند افراد تھے وہاں بھی نصرت و قبولیت الہی کی ایسی ہوا چلی کہ وہاں کے اخبارات میں بھی وسیع پیمانے پر احمد یہ جشن تشکر اور جماعت احمدیہ کے تعارف پر مشتمل خبریں کثرت سے شائع ہوئیں.ملک وار دنیا بھر کے اخبارات و رسائل اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے صد سالہ جشن تشکر کی
489 تقریبات کی کوریج کی تفصیلات کو چھوڑتے ہوئے مختصر طور پر یہ کہنا کافی ہوگا کہ صرف چھ ماہ کے عرصہ میں ہونے والی کوریج کے مطابق ایک محتاط تخمینے کی روسے دنیا کی تقریبا ایک چوتھائی آبادی تک اس عرصہ میں احمدیت کا پیغام اور جشن تشکر کی تقریبات کی خبریں پہنچیں.وَذَالِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ صد سالہ جو بلی سال مکمل ہونے پر 23 مارچ 1990ء کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے مسجد فضل لندن میں خطبہ جمعہ میں اس سال میں نازل ہونے والے اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اور اس کی رحمت کے بیشمار نشانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: کل بائیس تاریخ کو ہمارے جشن تشکر کے سال کا آخری دن تھا اور آج اللہ تعالٰی کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کے دوسرے سال کا پہلا دن جو جمعتہ المبارک سے شروع ہورہا ہے اور ابھی چند دن تک رمضان المبارک بھی آنے والا ہے.گزشتہ رمضان مبارک میں جماعت احمدیہ نے غیر معمولی طور پر اظہار تشکر کی کامیابی کی دعائیں مانگی تھیں.اس رمضان مبارک کو اظہار تشکر کا شکر یہ ادا کرنے کا رمضان المبارک بنا دینا چاہئے کیونکہ اس کثرت کے ساتھ خدا تعالی کی رحمتیں نازل ہوئیں اور اس کثرت سے جماعت کی ادنی کوششوں کو فضل کے پھل لگے کہ اس کا بیان انسان کے لئے ممکن نہیں.ہر سطح پر جماعت کے بڑوں اور چھوٹوں نے خدا تعالٰی کی رحمتوں اور غیبی تائیدات کے نمونے دیکھے اور ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کے ایمان کو نئی تقویت اور نئی زندگی ملی.یہ تفاصیل......ساری دنیا کے ایک سو نیس ممالک پر پھیلی پڑی ہیں اور ان کا اگر بہت ہی معمولی خلاصہ بھی نکال کر پیش کرنے کی کوشش کی جائے تو جیسا کہ آپ نے گزشتہ جلسے میں دیکھا تھا کئی گھنٹوں میں بھی اس خلاصے کا حق بھی اورا نہیں ہو سکا.سال تشکر کا غیر معمولی پھل حضور رحمہ اللہ نے جشن تشکر کے سال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی خوشخبریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
490 آخر پر یہ بہت بڑی خوشخبری آپ کو دینا چاہتا ہوں.یہ بھی سب خوشخبریاں ہیں اور بڑی خوشخبری ان معنوں میں ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہر خوشخبری کے پیٹ سے بہت ہی عظیم الشان اور خوشخبریاں ملنے والی ہیں.یعنی ایسی خوشخبریاں ہیں جن کے بطن سے خوشخبریاں پیدا ہوتی ہیں.لیکن یہ جو خوشخبری ہے یہ ایک ایسا پھل ہے جو اس سال تشکر کا غیر معمولی پھل ہے.میں نے کئی دفعہ جماعت کو اس دُعا کی طرف توجہ دلائی تھی کہ میری بڑی دیر سے دلی تمنا ہے کہ سال تفکر میں ہم ایک لاکھ بیعتوں کا ٹارگٹ پورا کرلیں اور اُس کے لئے سارے ممالک کو یاد دہانی بھی کروائی گئی اور ساری جماعت نے دعائیں کیں....ابھی اس میں ساری رپورٹیں شامل نہیں کیونکہ بہت سے ایسے ممالک ہیں جو غیر معمولی محنت کر رہے تھے لیکن ان کی رپورٹ نہیں پہنچی.خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد بیعتیں ہو چکی ہیں اور یہ سال ایک عظیم....سنگ میل کی حیثیت رکھنے والا سال بن گیا ہے.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مارچ 1990ء.خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 157)
491 Friday The 10th حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے یورپ کے مختلف ممالک کے دورہ کے دوران 27 / تا خلیفہ المسیح 29 دسمبر 1984ء کو فرانس کا پہلا دورہ فرمایا.اگر چہ اس سے قبل 1982ء میں یہاں با قاعدہ طور پر جماعت کا قیام عمل میں آچکا تھا لیکن جماعت کا اپنا کوئی مشن ہاؤس یا مسجد نہ تھی.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے اس دورہ کے دوران SARCELLES کے مقام پر ایک ہوٹل LES FLANDES میں قیام فرمایا.اس وقت افراد جماعت احمد یہ فرانس کی کل تعداد ساٹھ کے قریب تھی.جماعت نے اس موقع پر پریس کے نمائندگان کو دعوت دی تا کہ اس ذریعہ سے حضرت خلیفہ اسیح کے اپنے الفاظ میں میڈیا کے توسط سے اہل فرانس تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچ سکے.لیکن ایسا ہوا کہ پریس کا کوئی بھی نمائندہ وہاں نہیں آیا.حضور رحمہ اللہ کے قیام کے دوران اس ہوٹل میں نمازوں کی ادائیگی، افراد جماعت سے ملاقاتوں اور مجالس عرفان کا سلسلہ جاری رہا.اس عرصہ میں 28 / دسمبر 1984ء کا جمعہ حضور نے پیرس میں ہی پڑھایا اور 29 / دسمبر کو , Lille Valencien تشریف لے گئے اور وہاں جماعت کے تمام افراد کو شرف ملاقات بخشا اور پھر وہاں سے لندن تشریف لے گئے.28 دسمبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ نے اپنے ایک تازہ کشف کا ذکر فرمایا جو غیر معمولی طور پر حیرت انگیز پیغام اپنے اندر رکھتا تھا.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ چند دن پہلے...کی بات ہے کہ بعض اطلاعات کے نتیجہ میں شدید بے چینی اور بے قراری تھی اور ظہر کے بعد میں ستانے کے لئے لیٹا ہوں تو میرے منہ سے جمعہ جمعہ کے الفاظ نکلے اور ساتھ ہی ایک گھڑی کے ڈائل کے اوپر جہاں دس کا ہندسہ ہے وہاں نہایت ہی روشن حروف میں دس چمکنے لگا.اور خواب نہیں تھی بلکہ جاگتے ہوئے ایک کشفی نظارہ تھا.اور وہ جو دس دکھائی دے رہا تھا باوجود اس کے کہ وہ دس کے ہندسے پر دس تھا جو گھڑی کے دس ہوتے ہیں.لیکن میرے ذہن میں وہ
492 دس تاریخ آرہی تھی کہ Friday the 10th.یہ انگریزی میں میں یہ کہہ رہا تھا.Friday the 10th.اور ویسے وہ گھڑی تھی اور گھڑی کے اوپر دس کا ہندسہ تھا.تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کون سا جمعہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے یہ روشن نشان عطا فرمانا ہے.مگر ایک دفعہ یہ واقعہ نہیں ہوا، ہر دفعہ یہ ہوا کہ جب بھی شدت کی پریشانی ہوتی ہے جماعت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مسلسل خوشخبریاں عطا فرمائیں.کی اس ضمن میں حضور نے فرمایا کہ س سے چند دن پہلے رویا میں اللہ تعالیٰ نے بار بار خوشخبریاں دکھائیں اور چار خوشخبریاں اکٹھی دکھا ئیں.جب میں اٹھا تو اس وقت زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر تھا.غموں کا ایک دن اور چار شادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي حضور رحمہ اللہ نے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: د یعنی چار خوشخبریاں دکھانے کی حکمت یہ ہے کہ ایک غم پہنچے گا تو خدا تعالیٰ چارخوشخبریاں دکھائے گا اور دشمنوں کو بہر حال ذلیل کرے گا کیونکہ اس وقت جماعت کی حالت سب سے زیادہ دنیا کی نظر میں گری ہوئی ہے.کلییہ بیچارگی کا عالم ہے اور کامل بے اختیاری ہے.یہ وقت ہے خدا کی طرف سے خوشخبریاں دکھانے کا اور یہ وقت ہے ان خوشخبریوں پر یقین کرنے کا.آج جو اپنے خدا کے دیے ہوئے وعدوں پر یقین رکھتا ہے، آج جس کے ایمان میں کوئی تزلزل نہیں ہے، وہی ہے جو خدا کے نزدیک معزز ہے.وہی ہے جس کو دنیا میں غالب کیا جائے گا اور اسے خدا کبھی نہیں چھوڑے گا.کیونکہ جو تنزل کے وقت اپنے خدا کی باتوں پر ایمان اور یقین رکھتا ہے، اس کے ایمان میں کوئی تزلزل نہیں آتا.اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس کے لئے ایسے کام دکھاتی ہے کہ دنیا ان کا تصور بھی نہیں کرسکتی....اگر آج آپ نے خدا پر اپنے ایمان کو کمزور کر دیا ، اگر آج خدا کے وعدوں پر آپ کو شک پیدا ہونے شروع ہو گئے تو کل اگر تقدیر بگڑی تو آپ اس تقدیر کو بگاڑنے والے ہوں گے.اس لئے اپنے یقین کی حفاظت کریں اور جہاں تک آپ کا بس چلتا ہے تدبیر کا بھی ہر طریق اختیار کریں.
493...اس لئے جتنا من جماعت احمدیہ کی مرکزیت پر حملہ کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہے یا حملے کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اس حد تک اس کا جماعت کی طرف سے برعکس رد عمل پیدا ہوتا چاہئے.چنانچہ میں نے جماعت کو بار ہا یہ تو جہ دلائی ہے کہ جب یہ آپ کی زندگی پر حملہ کر رہے ہیں، یہ آپ کو نیست و نابود کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور یہی منصوبے بنا رہے ہیں تو اس کا رد عمل یہ ہونا چاہیئے کہ اس قوت کے ساتھ آپ ابھریں اور بڑھیں اور پھیلیں کہ دشمن کلیہ خائب و خاسر اور نامراد ہو جائے.حسرتوں کے سوا اس کے ہاتھ کچھ نہ آئے.ایک جگہ جماعت کو دباتے ہیں تو دس جگہ آپ پھیل جائیں.ایک احمدی کو شہید کرتے ہیں تو ہزاروں لوگوں کو احمدی بنائیں.ایک ملک میں جماعت احمدیہ کی مسجدوں کو ویران کیا جاتا ہے تو ہزاروں ملکوں میں، جماعت احمد یہ مسجدیں بنائے.یہ جواب ہے ایک زندہ قوم کا.یہ جواب ہے ایک صاحب ایمان قوم کا.اس لئے میں بار بار جماعت کو تبلیغ کی طرف متوجہ کر رہا ہوں اور خدا کے فضل سے بعض ممالک میں بہت ہی اچھے نتائج پیدا ہورہے ہیں.آپ نے احباب جماعت فرانس کو تبلیغ کی طرف خصوصی توجہ دلاتے ہوئے جہاں اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ بعض احمدی اللہ کے فضل سے حرکت میں آگئے ہیں.وہاں آپ نے فرمایا کہ : دو لیکن بحیثیت جماعت، زندہ فعال جماعت کے طور پر منصوبہ بنا کر اہل فرانس کو اسلام میں داخل کرنے کے وہ آثار ابھی ظاہر نہیں ہوئے جن کی میں آپ سے توقع رکھتا ہوں.“ اسی طرح آپ نے فرمایا: ہر احمدی اپنے اوپر فرض کر لے کہ میں نے ضرور یہاں احمدیت کا پودا لگانا ہے اور صرف پاکستانیوں میں کام نہ کریں.ان کا بھی حق ہے، ان میں بھی بے شک کام کریں.لیکن کوشش یہ کریں کہ اہل فرانس سے آپ کے تعلقات ہوں اور فرانسیسیوں تک آپ پیغام پہنچائیں.“ (ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمود وہ 28 دسمبر 1984 - خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 777 تا 781)
494 سورۃ الجمعہ کی تفسیر اور Friday the 10th کی تشریح 10 مئی 1985ء کوحضرت خلیفہ امسح الرابع رحمہ اللہ نے گلاسگو ( سکاٹ لینڈ) میں جماعت کے نئے مشن ہاؤس کا افتتاح فرمایا.خطبہ جمعہ میں حضور نے سورۃ الجمعہ کی آیات 10 تا 12 کی تلاوت کی اور پھر ان کی نہایت پُر معارف تفسیر بیان فرمائی.اس خطبہ میں حضور رحمہ اللہ کے سال گزشتہ کے اس کشف کا بھی ذکر ہوا جو آپ نے فرانس میں دیکھا تھا اور جس کا ذکر آپ نے 28 دسمبر 1984 ء کے خطبہ میں فرمایا تھا.Friday the 10th کے حوالہ سے حضور نے اس کی مختلف تو جیہات و تشریحات کا بھی اس خطبہ میں ذکر فرمایا.ذیل میں اس خطبہ کے بعض حصے درج کئے جاتے ہیں.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: یوں تو ہر جمعہ بہت مبارک ہوتا ہے اور مومن کی زندگی کے لئے ایک خاص برکتوں کا دن ہے.جمعہ کے ساتھ بہت سے فضل وابستہ ہیں.بہت سی برکات جمعہ کے ساتھ وابستہ ہیں.اور آنحضرت مال کے ارشادات کے مطابق جمعہ کے دن، جمعہ کے بعد اور سورج غروب ہونے سے پہلے بعض ایسی گھڑیاں بھی آتی ہیں کہ جن کو نصیب ہو جائیں ان کے مقدر جاگ اٹھتے ہیں.ایسی گھڑیاں بھی آتی ہیں جن میں اللہ تعالی کی طرف سے غیر معمولی طور پر دعائیں مقبول ہوتی ہیں.حدیث میں جو یہ خوشخبری دی گئی ہے اس کی بنیاد بھی سورۃ جمعہ میں موجود ہے : فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللہ.یہاں اللہ کے جس فضل کا ذکر ہے اسی کی تشریح آنحضرت علی نے فرمائی ہے.اگرچہ بظاہر عام دنیا کے کاروبار اور دنیا کی منفعتیں مراد لی جاتی ہیں اور عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ فضل سے مراد تجارتوں کے منافع ہیں.لیکن ہرگز ایسا نہیں.وہ بھی اس آیت کا ایک منطوق ہے مگر بہت معمولی.اس آیت کا اصل منطوق وہی ہے جس کا ذکر آنحضرت مہ کی تفسیر میں ملتا ہے کہ جمعہ کے بعد اللہ تعالی کے خاص فضلوں کا نزول ہوتا ہے.دراصل جو فضل مراد ہیں وہی فضل اور اس کے ساتھ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ جوڑا گیا ہے کہ پھر کثرت کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرو، اس کا ذکر کرو، تاکہ تم غیر معمولی طور پر فلاح پاؤ.بہر حال جمعہ کا دن کسی پہلو سے بھی دیکھیں بہت ہی بابرکت دن ہے اور مومن کی زندگی میں
495 ہر ہفتہ ایک نئی تازگی کا پیغام لے کر آتا ہے.جماعت احمد یہ سکاٹ لینڈ کے لئے یہ جمعہ خصوصیت کے ساتھ بہت مبارک ہے کیونکہ آج ہم جس عمارت کا افتتاح کر رہے ہیں جو ہم نے خالصہ اللہ اللہ کی رضا جوئی کی خاطر بہت مدت کے انتظار کے بعد حاصل کی ہے.جماعت احمدیہ سکاٹ لینڈ میں بڑی دیر سے یہ کی محسوس ہوتی رہی کہ کوئی ایسا مرکز نہیں جہاں بیٹھ کر اپنی اجتماعی زندگی کو ترتیب دے سکیں اور اس علاقہ کو ایسی مرکزیت عطا ہو جائے جہاں جماعت اکٹھی ہو اور پھر مل کر خدا کی رضا کی خاطر، اس کے دین کی ترقی کے لئے منصوبے بنائیں اور اس مرکز کے گرد ہماری اجتماعی زندگی گھومنے لگے.حضور نے فرمایا:..جمعہ اور خوشخبریوں کی باتیں ہو رہی تھیں اس ضمن میں مجھے یاد آیا کہ یہ جمعہ اتفاق سے ایسا ہے کہ آج دس تاریخ کو ہورہا ہے.یعنی آج مئی کی دس تاریخ ہے اور جمعہ بھی ہے اور جب میں یورپ کے سفر پر تھا تو اس وقت اللہ تعالی نے مجھے ایک کشفی نظارہ دکھایا تھا کہ سامنے ایک گھڑی ہے جس پر صرف دس کا عدد بہت نمایاں اور روشن ہے اور وہ جمعہ کا دن ہے اور جس روز یہ نظارہ دیکھا وہ بھی جمعہ کا دن تھا یا ایک دن پہلے کی بات ہے.مگر بہر حال میری زبان پر یہ جاری ہوتا ہے FRIDAY THE 10TH.اس پر مجھے تعجب بھی ہوتا ہے کہ The 10th سے مراد بظاہر تو تاریخ لگتی ہے اور گھڑی پر تاریخ تو نہیں لکھی گئی وہ تو گیارہ سے پہلے دس کا جو مقام ہوتا ہے عین اسی مقام پر دس کا عدد روشن ہے جو تاریخ کے طور پر نہیں بلکہ وقت کے طور پر ہے.لیکن میں کہہ کیا رہا ہوں.اس پر چونکہ اختیار نہیں تھا یعنی باوجود اس کے کہ ذہن اس حد تک کام کر رہا تھا، اس وقت یہ پتہ تھا کہ یہ گھڑی کا ہندسہ ہے، تاریخ نہیں ہے.لیکن منہ پر جو الفاظ جاری تھے ان پر کوئی اختیار نہیں تھا.اور میں یہ کہہ رہا تھا کہ FRIDAY THE 10TH.اس وقت اللہ تعالی نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ جماعت کے لئے بہت بڑی خوشخبری عطا کی جارہی ہے.بہر حال میں نے اس کا ذکر خطبہ میں کیا تو متفرق رنگ میں اس کی تعبیریں کی جانے لگیں.اول تو خود مجھے تعجب تھا کہ اگر تاریخ مراد ہو تو پھر گھڑی پر دس کے عدد کے طور پر کیوں بنائی گئی ہے.لیکن دل میں یہ سکی
496 جلنگھ تھی کہ اللہ تعالیٰ جب بھی اس کی تعبیر ظاہر فرمائے گا اس وقت بات سمجھ میں آجائے گی.لیکن اس وقت سے لے کر اب تک جماعت کی طرف سے مختلف رنگ میں مسلسل اس کی تعبیریں ہو رہی ہیں اور بعض لوگ تو اپنی تعبیر پر ایسی بناء کرتے ہیں کہ شرطیں تک لگا دیتے ہیں اور پھر مجھے بھی لکھ دیتے ہیں....بہر حال اس کی مختلف تعبیریں جو مجھ تک پہنچی ہیں ان میں سے چند قابل ذکر میں آپ کو بتا تا ہوں.جب دورہ سے واپس آرہے تھے تو منظم میں قیام کے دوران ایک گھر میں ایک صاحب نے اپنی ایک رویا بتائی جس میں خدا تعالیٰ نے چاند کی دسویں کی خوشخبری دی ہوئی تھی تو اس نے کہا کہ جب مجھے کسی عزیز نے فون پر یہ اطلاع دی کہ اللہ تعالی نے آپ کو یہ کشفی نظارہ دکھایا ہے تو مجھے اپنی رو یا یاد گئی اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سے چاند کی دسویں تاریخ مراد ہے.نہ کہ انگریزی مہینوں کی دسویں.میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے آپ بے شک یہ مراد لیں کیونکہ خدا نے آپ کو ایک رؤیا دکھائی ہے.ہوسکتا ہے کہ اس کا تعلق اس سے ہو.لیکن جب تک خدا تعالی یہ تعبیر ظاہر نہ فرمادے اس وقت تک ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے.ایک بات بہر حال یقینی ہے کہ خدا تعالیٰ جب جماعت کے لئے خوشخبری دکھائے گا تو اتنی نمایاں اور روشن ہوگی کہ دیکھنے والے کو نظر آئے گا.اس وقت تعبیروں کا وقت نہیں رہے گا بلکہ صاف دکھائی دے گا کہ ہاں یہ بات پوری ہو گئی.پھر بعض لوگوں نے مجھے خط لکھا کہ ہم نے حساب کیا ہے کہ یہ تاریخ مئی کی دسویں بنتی ہے یعنی آج.تو میں نے کہا کہ اللہ آپ کی زبان مبارک کرے.اگر یہی دسویں ہو تو میرے لئے اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ یہ کشف جلدی پورا فرما دے.لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے تو سال نہیں بتایا صرف تاریخ ہی بتائی ہے.تو خدا تعالیٰ کرے اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ اسی مئی کی دسویں کو وہ خوشخبری کا دن بنادے.لیکن جہاں تک نظارے کا تعلق ہے میں نے جو دیکھا بعینہ وہی آپ کو کھول کر بتا دیا ہے.اس سے کیا مطلب ہے؟ اس کی تعبیر کیا ہوسکتی ہے؟ یہ سوچنے والی باتیں ہیں.لیکن تعبیر پر بناء رکھتے ہوئے کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا.اسی تعبیر کے تعلق میں کسی نے تو یہ لکھا کہ سال کا نہ ہونا ایک اندار کا پہلو بھی رکھتا ہے.دیکھئے جتنے.
497 دماغ ہیں وہ مختلف رنگ میں کام کرتے ہیں.پھر انہوں نے کہا کہ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ آپ کی واپسی پر کئی سال لگیں گے ورنہ خدا تعالیٰ جس طرح بعض اوقات بتا دیتا ہے کہ چند سالوں میں یہ واقعہ ہو گا یا فلاں سال ہوگا اس کی بجائے دن بتا دیا ہے اور سال کا اخفاء رکھ لیا ہے تو یہ طریق ہے یہ بتانے کا کہ ابھی کچھ وقت لگے گا تا کہ صدمہ نہ پہنچے.اس لئے بڑی نرمی سے آپ کو بتایا گیا ہے جس طرح کہ ایک پیار کرنے والی ماں بچے کو کوئی خبر دیتی ہے اس طرح آپ کو یہ خبر دی گئی ہے لیکن اخفا کے ساتھ.اب ایک دماغ اس طرف بھی چلا گیا.جو سب سے زیادہ دلچسپ اور عرفان کا پہلور رکھنے والی تعبیر مجھے ملی ہے.وہ لاہور کے ایک دوست کی ہے جو بڑے ذہین اور فہیم انسان ہیں اور ایسے معاملات پر غور کرتے رہتے ہیں.انہوں نے مجھے یہ لکھا کہ میں نے بہت غور کیا ہے اور میری توجہ اس طرف گئی ہے کہ یہاں نہ ظاہری تاریخ کا ذکر ہے اور نہ ظاہری جمعہ کا ذکر بلکہ سورۃ جمعہ کا ذکر ہے اور سورہ جمعہ کی دسویں آیت بتائی گئی ہے.FRIDAY انگریزی میں جمعہ کا نام ہے اور Verse The 10th ( آیت) کو بھی کہہ سکتے ہیں.اور چونکہ سورۃ جمعہ بارہ آیات پر مشتمل ہے اس لئے یہ گھڑی کے ساتھ عین مطابقت کھاتی ہے کیونکہ اس کے بھی بارہ اعداد ہوتے ہیں.اور اگر دسویں آیت دکھائی مقصود ہو تو توجہ مبذول کروانے کے لئے گھڑی کا دسواں حصہ روشن دکھایا جائے گا.تو انہوں نے کہا یہ باقاعدہ ٹیلی (telly) کر رہا ہے ورنہ گھڑی کی صورت میں تاریخ دکھانے کی کوئی سمجھ نہیں آتی ، اگر تاریخ مراد ہو، تو ایک تعبیر یہ بھی کی گئی.میں نے جب غور کیا تو اس میں مجھے کافی گہرائی نظر آتی ہے اگر چہ آپ کی طرح میری خواہش بھی یہی ہے کہ کسی معین تاریخ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی نشان ظاہر ہو اور پھر اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ ان لوگوں کے لئے بھی جو کم فہم ہیں اور ظاہری چیزوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ہدایت کو قبول کرنے کا رستہ پیدا کر دے.یہ خواہش تو میری بھی ہے اور تعبیر کا یہ پہلو بھی قابل غور ضرور ہے کیونکہ بعض دفعہ خدا تعالیٰ ایک خوشخبری کو ایک سے زیادہ رنگ میں بھی پورا کر دیتا ہے.بہر حال جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ سورۃ جمعہ کے ساتھ تو جماعت احمدیہ کا بہت گہرا تعلق ہے.اتنا گہرا تعلق ہے کہ کسی
498 اور سورت سے جماعت احمدیہ کا براہ راست اتنا گہرا تعلق نہیں ہے کیونکہ اس میں آنحضرت صمیم کی بعثت ثانیہ کا ذکر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پوری ہوئی.وَآخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ کا ذکر ہے، ان آخرین کا جو صحابہ سے نہیں ملے تھے لیکن ایک دن انہوں نے مل جانا تھا.اس مضمون کا ذکر ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں بیان فرماتے ہیں: صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا اس مصرع کی بنیاد بھی اسی سورۃ جمعہ پر ہے.چنانچہ جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ سورۃ جمعہ تو جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتی ہے.نہ صرف ایک عام تعلق بلکہ کئی رنگ میں تعلق رکھتی ہے اس لیے اگر وہاں ( کشف میں ) Friday سے سورۃ جمعہ مراد ہو اور دس سے مراد دسویں آیت ہو تو یہ کوئی بعید کی بات نہیں ہے.محض کوئی ذوقی نکتہ نہیں بلکہ ایک گہر ا عارفانہ نکتہ ہے.سورۃ جمعہ کے تعلق کو آپ دیکھیں تو اس سلسلہ میں سب سے پہلے آپ کو لفظ جمعہ پر غور کرنا ہوگا.جمعہ در اصل اجتماع یعنی اکٹھے ہونے کو کہتے ہیں.اس میں جمع کا مضمون پایا جاتا ہے.یہ وہ سورت ہے جس میں کئی قسم کی جمعیں اکٹھی ہو گئیں اور جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے جمعہ کے ساتھ فضل بھی وابستہ ہیں.اور وہ فضل کیا کیا ہیں ؟ اس کی اونی شکلیں بھی خدا تعالیٰ نے سورہ جمعہ میں بیان فرما دی ہیں اور اعلی شکلیں بھی.اور یہ سورۃ ان سارے فضلوں کو بھی جمع کرنے والی ہے.اس میں جمع کی کئی شکلیں موجود ہیں.مثلاً وابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللہ کا ایک عام معنیٰ یہ ہے کہ جب تجارت چھوڑ کر خدا کے ذکر کے لئے اکٹھے ہو تو ذکر کے بعد دوبارہ تجارتیں شروع کر دو تو تمہیں ان میں فائدہ پہنچے گا.اللہ فضل عطا فرمائے گا.اور ایک اور فضل کا بھی اس میں ذکر ہے.یہ انتہائی فضل ہے جسے فضل نبوت کہا جاتا ہے.چنانچہ بعثت ثانیہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ.یہ جو آ نحضرت علم کی بعثت ثانیہ کا ذکر ہے.فرمایا یہ اللہ کا فضل ہوگا اور
499 وہ فضل جسے چاہے گا عطا فرمائے گا اور خدا تعالیٰ عظیم فضلوں والا ہے.تو فضل کے دو کنارے بیان فرمادئیے.ایک عام فضل جو دنیا کی تجارتوں کے ذریعے دنیا کے رزق کی صورت میں انسان کو ملتا ہے.ایک وہ فضل جس کی انتہا نبوت ہے اور ان سارے فضلوں کو سورہ جمعہ نے اپنی ذات میں اکٹھا کر لیا.دونوں کا ذکر فرما دیا.پھر سورہ جمعہ کے ذریعے تمام دنیا کا اجتماع جو حضرت محمد مصطفی عالم کے جھنڈے تلے ہونا ہے،...اس کی خوشخبری بھی دے دی گئی.کیونکہ مفسرین کی بھاری اکثریت یہ تسلیم کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ دیا تھا کہ وہ تمام دنیا کے ادیان پر محمد رسول اللہ صلی اللہ کے دین کو غالب کر دے گا، یہ وعدہ مسیح اور مہدی کے زمانے میں پورا ہونا ہے اور اس سورت میں جب آنحضرت مالک کی بعثت ثانیہ کا ذکر آیا تو وہ مہدی کی شکل میں ہی آیا ہے.پس یہ سورۃ عجیب طور پر جمع کے مضمون کو جمع کر رہی ہے.مہدی کے ذریعے تمام عالم کو جمع کیا جائے گا اور وہ جو تحریک چلائے گا اس کا بھی اس سورت میں ذکر موجود ہے.اور زمانوں کو بھی جمع کر دیا جائے گا.تیرہ سو سال کے فاصلے بیچ میں حائل ہوں گے لیکن ایک عجیب واقعہ ہوگا کہ اگلا زمانہ پچھلے زمانے سے جمع ہوگا.خدا تعالیٰ کے ہر قسم کے فضل جمع ہوں گے.اس زمانے میں دنیاوی ترقیات بھی اتنی عظیم الشان ہوں گی کہ انہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے گی.رزق کی بھی ایسی فراوانی ہوگی کہ حیرت ہوگی کہ انسان کو اتنا وسیع رزق بھی مل سکتا ہے اور بعض فضل ڈھونڈنے والے اپنے فضل کے تصور کی انتہا یہی سمجھیں گے کہ بس یہ دنیا کا رزق مل گیا ہے یہی اللہ کا فضل ہے.اور کچھ اور لوگ ہوں گے جو رضائے باری تعالیٰ کو فضل سمجھیں گے اور اس طرف ابتغاء کریں گے اور دنیا کے رزق کو چھوڑ دیں گے اور اب خدا کے فضل کو اس کی رضا میں ڈھونڈیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی راہ میں کوئی روک نہیں رکھے گا.ان پر بھی بے انتہا فضل نازل فرماتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ان میں سے ایسے بھی ہوں گے جو محد مصطفی میہ کے غلام کامل کا درجہ پالیں گے اور انہیں مہدویت اور مسیحیت عطا ہوگی اور پھر خدا تعالیٰ ان کا ذکر کر کے فرماتا ہے ذلِكَ فَضْلُ الله اے فضل کے ڈھونڈنے والو! اے فضل کے متلاشیو! یہ ہوتا ہے فضل.تم کیوں اوئی اوئی باتوں پر راضی
500 ہو گئے تم کیوں دنیا کی نعمتوں کو فضل قرار دے کر اس سے تسلی پاگئے ہو.فضل کا ایک یہ بھی مفہوم ہے، ایک یہ بھی بلندی ہے.اس کی طرف بھی تو دیکھو.ذلِكَ فَضُلُ الله - اس کو کہتے ہیں اللہ کا فضل يُؤْتِيهِ مَن تشَاءُ جسے چاہتا ہے وہ عطا کرتا ہے.پس سورۃ جمعہ کا جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت ہی گہرا تعلق ہے اور اس میں ہر قسم کی خوشخبریاں عطا کر دی گئی ہیں.آپ کے ذریعے زمانے کی تقدیر بدلی جائے گی.آپ کے ذریعہ تمام دنیا کی قوموں کو ایک ہاتھ پر جمع کیا جائے گا اور ایک نئی قسم کی اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی جائے گی.اس اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی جائے گی جس کا ذکر سورۃ جمعہ میں ملتا ہے.آپ کے ذریعے مختلف زمانے اکٹھے کر دیے جائیں گے.اور انسانوں کو ہر قسم کی نعمتیں اور رحمتیں عطا کی جائیں گی.کتنی عظیم الشان سورت ہے اور کتنا اس میں ذکر ملتا ہے.لیکن ایک شرط کے ساتھ اور وہ شرط یہ ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوة مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (سورة الجمعه 10) کہ جب تمہیں جمعہ کے دن بلایا جائے ، جمعہ کے دن سے مراد اگر ظاہری جمعہ کا دن لیا جائے تو یہ بھی درست ہے، ہر ہفتہ آپ کو بلایا جاتا ہے.لیکن یہ سورت جن وسیع معانی میں جمعہ کا ذکر کر رہی ہے اگر ان معنی میں آپ اس پر غور کریں تو اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اے ایمان والو! جب خدا کی طرف سے ایک بلانے والا تمام بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی آواز دے اور جب یہ آواز دے کہ آؤ اور میرے ذریعہ زمانوں کو بھی اکٹھا ہوتے دیکھو اس وقت تجارتوں کو ترجیح نہ دو.اس کی آواز پر دنیا کے منافع کی قدر نہ کرو.اس کی اس آواز پر دنیا کے مقابل پر ان سب کو حج کر کے اس کی طرف دوڑے چلے آؤ، اس کی آواز پر لبیک کہو.اگر تم دنیا کو اس آواز کی خاطر چھوڑ دو گے اور دنیا کے منافع کی پرواہ نہیں کرو گے تو پھر ہم تمہیں خوشخبری دیتے ہیں کہ ہم تمہیں فضلوں سے محروم نہیں کریں گے.اس آواز کو قبول کرنے کے بعد تم دنیا میں پھیل جاؤ گے.جب تم اپنا فریضہ ادا کردو گے، جب تم سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دو گے پھر فرمایا فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ قُضِيَتِ الصَّلوة کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب عبادت کے تقاضے پورے
501 ہو جائیں، جب تم اپنی نیتیں پوری کر دکھاؤ گے اور لبیک کہہ دو گے.فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.پھر خدا تعالیٰ تمہیں تمام دنیا میں پھیلا دے گا، زمین کے کناروں تک تمہیں پہنچائے گا، وہاں دنیا کے لحاظ سے بھی فضل جوئی کرو گے اور دین کے لحاظ سے بھی فضل جوئی کرو گے.بظاہر تم دنیا کے کاموں کے لئے بھی نکلو گے لیکن اللہ کے ذکر کے ساتھ نکلو گے.اگر تم صناع ہو تو صناعی کے ساتھ ذکر الہی بلند کر رہے ہو گے.اگر تم تاجر ہو تو اپنی تجارتوں کے ساتھ ذکر الہی بلند کر رہے ہو گے.اگر تم ڈاکٹر ہو تو اپنی ڈاکٹری کے ساتھ ذکر الہی بلند کر رہے ہو گے.اگر تم سائنسدان ہو تو سائنس کے کاموں کے ساتھ ذکر الہی کو بلند کر رہے ہو گے.غرضیکہ تمام دنیا میں ذکر پھیلانے کا ایک ذریعہ یہ ہو گا.پس اس آیت میں کئی قسم کے وقف کا ذکر ہے.ایک وقف خاص بھی مذکور ہے کہ دنیا کے سب کام کلیہ چھوڑ کر جب آواز آئے تو اپنی ساری زندگی خدا کے حضور پیش کر دو.دوسرا وقف عام کا بھی ذکر ہے کہ یہ فیصلہ کرلو کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.دنیا کو چھوڑ کر دین کی آواز پر لٹیک کہنے کا یہ مطلب ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو شرائط بیعت ہیں ان میں یہ داخل ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.تو اس آیت سے مراد یہ ہے کہ جب خدا کے نام پر بلانے والا تمہیں عظیم جمعہ کے لئے ہلائے تو تم یہ فیصلہ کر کے اس کے حضور حاضر ہو کہ ہم دنیا کو ترک کر دیں گے اور جب بھی دین کے ساتھ مقابلہ ہو گا تو دین کو ترجیح دیں گے.فرمایا جب تم یہ عہد کر کے اس کے حضور حاضر ہو جاؤ گے پھر تمہیں اس شرط کے ساتھ اجازت مل جائے گی کہ چونکہ تم سب کچھ خدا کو دے بیٹھے ہواب تمہارا کچھ نہیں رہا.اس لئے اب تم جاؤ اور پھیلا اور دنیا کے کام بھی کر لیکن اس عزم کے ساتھ کہ دنیا کے کاموں کے ساتھ ذکر الہی کونہیں بھولنا بلکہ اسے غالب رکھنا ہے.اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللہ اللہ کے فضل کو ڈھونڈو.وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا وَابْتَغُوا کے ساتھ كَثِيرًا کا لفظ استعمال نہیں کیا.لیکن وَاذْكُرُوا اللهَ
502 کے ساتھ کھیڈا کا لفظ استعمال فرمایا.دنیا کے کام کرو مگر ذکر الہی غالب رہے.اللہ کی محبت اور پیار تمہارے دنیا کے ہر ایک کام پر چھا جائے اور اسے مغلوب کرلے.چونکہ ابتغاء فضل دنیا کے معنوں میں بھی مراد ہے اس لئے میں یہ معنی لے رہا ہوں کہ دنیا کے کاموں میں خدا کا فضل ڈھونڈ ولیکن کثرت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے ، اس کثرت کے ساتھ کہ تمہاری دنیا کی جستجو پر غالب آجائے.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں عظیم الشان فتوحات عطا فرمائے گا.اس وقت بھی یہی ہورہا ہے.اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ دونوں قسم کے وقف پورے کر رہی ہے.ایسے بھی ہزاروں لوگ ہیں جنہوں نے سب کام چھوڑ کر اپنے آپ کو کلیتہ خدمت دین کے لئے پیش کر دیا ہے اور اپنا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیا.اگر جماعت ان کو چپڑاسی لگاتی ہے تو وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اسے بھی رحمت اور فضل کے طور پر قبول کرتے ہیں.اگر جماعت انہیں مبلغ لگاتی ہے تو اس پر بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، اگر ماتحت لگاتی ہے تو تب بھی شکر کرتے ہیں، اگر حاکم اور افسر بناتی ہے تب بھی شکر کرتے ہیں.شکر اس بات پر نہیں کرتے کہ انہیں کیا بنایا گیا ہے.شکر اس بات پر کرتے ہیں کہ ہر حالت میں ان کو قبول کر لیا گیا ہے اور انہیں اس فوج میں داخل کر لیا گیا جس کا سورۃ جمعہ میں ذکر ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر خدا کے حضور حاضر ہو جاؤ.اور ان میں لکھوکھا ایسے بھی ہیں جیسا کہ آپ میں سے اکثریت یہاں ایسی ہے جو اپنے دنیا کے کاموں پر نکلے ہوئے ہیں.اپنے وطن سے ڈور سکاٹ لینڈ میں.کبھی آپ بچپن میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اللہ کے فضلوں کی تلاش میں اتنی دور نکل جائیں گے.لیکن خدا نے انتظام کر دیا.آپ جیسے کروڑوں اور لوگ ہیں جو اپنے اپنے وطنوں کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے ہیں.لیکن ان میں اور آپ میں کتنا فرق ہے.وہ دنیا کمانے کے لئے آئے اور دنیا کما کر واپس چلے جاتے ہیں.پھر آپ بظاہر دنیا کمانے کے لئے آتے ہیں مگر چونکہ آپ نے ہر جگہ ذکر الہی کو غالب رکھا ہوا ہے اور ہر جگہ آپ خود بھی ذکر الہی کرتے ہیں اور اس کو آگے پھیلاتے بھی جاتے ہیں.ذکر الہی خود بھی کرتے ہیں اور ذکر الہی کرنے والے بھی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں اور وَاذْكُرُوا اللہ کثیرا کے اس مفہوم کو آپ ادا کر رہے ہیں.پس اس قسم کے بھی واقفین ہیں اور یہی نظام ہے جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے رکھی گئی تھی اور جس
503 کے نتیجہ میں سب دنیا نے فتح ہونا ہے.پس یہ جو اشارہ ہے کہ جمعہ اور دس.یعنی Friday کے معنی اگر سورہ جمعہ کے لئے جائیں اور 10th سے مراد دسویں آیت مراد لی جائے تو اس میں ایک بہت بڑی خوشخبری یہ ہمیں ملتی ہے کہ وہ وقت بطور خاص آ گیا ہے جبکہ آپ نے دنیا کو کلیہ ترک کرنے کے فیصلے کر لینے ہیں، جب اپنے عزم دہرانے ہیں، جب اس عہد بیعت کی تجدید کرتی ہے کہ ہم ہر گز کسی قیمت پر بھی اپنی دنیا کو اپنے دین کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے.جہاں تک ہمارے نفوس کا تعلق ہے ہم سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہیں.اگر ہمیں اجازت ملتی ہے تو ہم دوسرے کام بھی کریں گے مگر اس عہد کے ساتھ کہ دوسرے کاموں پر ذکر الہی کو ہمیشہ غالب رکھیں گے.کثرت کے ساتھ ذکر کرتے چلے جائیں گے اور خدا کے فضل کی تلاش کرتے چلے جائیں گے.اب ذکر کے ساتھ جب آپ خدا کے فضل کے مضمون کو ملاتے ہیں تو فضل کا مضمون عام دنیاوی معنوں کے سوا دوسرے معنی بھی اختیار کر لیتا ہے.وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللہ کا حکم عام دنیا کے انسانوں پر بھی لگتا ہے.اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا کی چیزیں تلاش کرو، دنیا کے رزق تلاش کرو، دنیا کے عہدے تلاش کرو، دنیا کی ترقیات تلاش کرو لیکن جب خدا کے بعض بندے ذکر الہی کو ساتھ شامل کر لیتے ہیں تو وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا کے ساتھ اس فضل کا مضمون وسیع ہو جاتا ہے.اس صورت میں اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس دنیا میں ہی اپنے دین کی سعادتیں بھی ڈھونڈ لو، اسی دنیا میں اپنے بلند دینی اور روحانی مراتب بھی تلاش کرو کیونکہ تم ذکر الہی ساتھ ساتھ کرتے چلے جارہے ہو.خدا کا فضل محدود صورت میں تم پر نازل نہیں ہوگا تم بظاہر دنیا کمانے والوں میں سے بھی خدا کے ولی پیدا ہوں گے.تم بظاہر دنیا کمانے والوں میں سے عظیم الشان روحانی بندے پیدا ہوں گے.تم بظاہر دنیا کمانے والوں میں سے خدا کے ایسے ایسے پیارے پیدا ہوں گے کہ ان کو وہ ساری دنیا پر ترجیح دے گا.اپنے علاقے کے قطب وغوث اور ولی پیدا ہوں گے.اگر وہ ذکر الہی کو کثرت سے ادا کرنے کے عہد پر پورا اترتے ہیں تو ان کا فضل لامتناہی ہو جائے گا.جو فضل وہ تلاش کرتے ہیں وہ محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کی حدیں پھیل جائیں گی.دنیا پر بھی پھیل جائیں گی اور دین پر بھی پھیل جائیں گی.اس نقطہ نگاہ سے آپ
504 اللہ تعالیٰ کے اس منشاء کو پورا کرنے کی سعی کریں.منشائے الہی یہ ہے کہ آج جماعت جس دور میں داخل ہوتی ہے اس میں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ کر کثرت کے ساتھ ہمیں اپنی طاقتوں کو اور اپنے ان تمام قومی کو، جسمانی یا روحانی یا ذہنی قولی ہوں ، ان ساری طاقتوں کو جو خدا نے ہمیں عطا فرمائی ہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر وقف کر دیں.دنیا کمائیں اس شرط کے ساتھ کہ دین اس پر غالب رہے.یہ ایک خاص وقت آ گیا ہے.اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ بڑی کثرت کے ساتھ جماعت کو دنیا میں پھیلا دے گا اور دنیا کی ہر قوم کے اوپر ، دنیا کے ہر دین پر حضرت محمد مصطفی علی کی قوم اور آپ ہی کے دین کو غالب فرمادے گا.پس یہ جمعہ اس لحاظ سے بھی ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے کہ ہم آج اس جمعہ پر یہ عہد کریں گے.اس جمعہ پر یہ ارادے لے کر پھر دنیا میں پھیلیں گے.اگر خدا کا منشاء اس کشفی نظارے سے یہی ہے کہ جماعت سے مزید قربانی چاہتا ہے، جماعت احمدیہ کو اپنی مزید قربانی پیش کرنے کی ہدایت فرمارہا ہے تو ہم حاضر ہیں اس کے لئے بھی.جو ہم سے چاہتا ہے ہم حاضر ہیں ہمارا کچھ بھی اپنا نہیں.ہم اسی کی خاطر زندہ رہیں گے اور اسی کی خاطر مریں گے لیکن اپنے اس عہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے کہ جب تک تمام دنیا پر محمد مصطفی کی بادشاہی کو غالب نہ کر دیں اس وقت تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے.اب ایک ملک نہیں ہے جس کو ہم نے اسلام کے لئے فتح کرنا ہے، دو چار یا پچاس یاس ملک نہیں ہیں ، ساری دنیا میں ایک بھی ملک ایسا نہیں چھوڑنا جہاں ہم نے اسلام کو غالب کر کے نہیں دکھانا.کوئی ملک بھی ایسا نہیں رہنے دینا جس کے ہر حصہ پر اسلام کو غالب نہیں کرنا.اتنے بڑے کام کو ہم نے سر انجام دینا ہے....احمدی کو از سر نو زندہ احمدی بنانے کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے اور پھر ان سب کو تبلیغ میں جھونکنا اور پھر ان سے نئے نئے کام لینا اور پھر عظیم الشان فتوحات کی توقع رکھنا اور دعائیں کرنا کہ اللہ وہ دن ہمیں دکھا بھی دے.بہت بڑے کام پڑے ہوئے ہیں.تو آج اس افتتاح پر ان سارے امور کو مد نظر رکھ کر آپ دعائیں کریں اور یہ فیصلہ کر کے یہاں سے اٹھیں کہ سکاٹ لینڈ کو آپ نے فتح کرنا ہے.یہ درست ہے آپ مٹھی بھر ہیں.بہت تھوڑے ہیں.آپ کے مقابل پر بہت وسیع علاقہ ہے لیکن یہ کام آپ ہی کے سپرد ہے.سکاٹ لینڈ کی فتح کے لئے سکاٹ لینڈ کے احمدی نے
505 اٹھنا ہے، ہر ملک کے احمدی باشندے کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کو فتح کرے.اور یہ کام ہے اگر آپ بلند ارادے اور ہمت کے ساتھ اس کام کو شروع کر دیں اور دعاؤں سے غافل نہ ہوں تو یہ کام آسان ہو جائے گا.تخطبہ جمعہ فرموده 10 مئی 1985ء بمقام گلاسگو ( سکاٹ لینڈ ) - خطبات طاہر جلد 4 صفحہ 4457425) ایک نشان اور قوم کو انتباہ حضور رحمہ اللہ کے خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مئی 1985ء میں ایک دفعہ پھر Friday the 10th کے کشف کا ذکر ہوا.حضرت خلیفہ اسح الرائع نے اس حوالہ سے فرمایا : آج صبح تہجد کے وقت فون کی گھنٹی بجی تو پتہ چلا کہ کراچی سے فوری ٹیلی فون ہے جس میں یہ بتایا گیا کہ کراچی میں محکمہ موسمیات (جس میں بین الاقوامی ماہرین موسمیات بھی شامل ہیں) کی طرف سے ایک ایسی تنبیہ کی گئی ہے جو عام طور پر پاکستان کے جغرافیائی حالات میں نہیں کی جاتی اور اس لحاظ سے یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں کراچی کے ساحل کی طرف ایک نہایت ہی خوفناک سمندری طوفان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جمعہ کے دن صبح دس بجے وہ کراچی کے ساحلی علاقے کو Hit کرے گا.اس قسم کے سمندری طوفان مشرقی بنگال میں تو آتے رہتے ہیں اور وہ لوگ ان سے واقف بھی ہیں.ایسے طوفانوں میں لکھوکھا جانیں ضائع اور اربوں کی جائیدادیں تلف ہوتی رہتی ہیں لیکن کراچی کے ساحلی علاقوں کے لئے یہ ایک بالکل اجنبی اور انوکھا واقعہ تھا اس لئے تمام نیوی کو Alert ( الرٹ) کر دیا گیا.شہری دفاع کے تمام ادارے اور رضا کار اس طرف متوجہ ہوئے.رات کے پچھلے حصہ اور صبح کے پہلے حصہ میں ساحلی علاقوں سے آبادی کا انخلاء ہوا.خصوصا ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی سے جو بہت دور دور تک پھیلی پڑی ہے اس کے کئی Phases ہیں، اس میں لاکھوں آدمیوں کا انخلاء کروایا گیا.ڈیفنس کی نصف سے زائد آبادی اپنے مکان خالی کر گئی اور اتنی افراتفری میں یہ واقعہ ہوا کہ کسی کو اپنا سامان لے جانے کی بھی ہوش نہ تھی.یہ وہ کیفیت تھی جس میں آبادی کا انخلاء عمل میں آیا.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور پیشتر اس کے کہ یہ طوفان کراچی میں دور دور تک پھیلے ہوئے ساحلی علاقوں میں
506 تباہی مچاتا اللہ تعالی نے اس کا رخ پھیر دیا اور یہ بلائل گئی.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اس واقعہ کو ایک غیر معمولی اہمیت بھی حاصل ہو گئی.کراچی کی جماعت خاص طور پر اس لئے بھی پریشان تھی کہ اگر چہ آج یہاں جمعہ کا دن رمضان کی گیارہویں تاریخ ہے لیکن پاکستان میں جمعہ کا دن آج رمضان کی دسویں تاریخ ہے.اور اس سے پہلے ایک خطبہ میں جو میں نے گلاسگو میں دیا تھا اس میں بھی میں نے جماعت کو مطلع کیا تھا کہ بعض ایسی رو یا معلوم ہوتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے Friday The 10th کا جو کشفی نظارہ دکھایا تھا اس کا تعلق بعید نہیں کہ چاند کی راتوں سے ہو.چنانچہ اس خطبہ کے بعد اس عرصہ میں پاکستان سے ایک دوست ڈاکٹر طارق صاحب نے ایک اور عجیب اور بڑی دلچسپ رو یا لکھ کر بھجوائی.اس کا بھی اس سے تعلق معلوم ہوتا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ ایک رات میں بہت ہی پریشان ہوا اور خدا کے حضور بہت رویا اور دعائیں کیں کہ ابتلاء کے یہ دن کب کٹیں گے اور کیا ہوتا ہے؟ کچھ تو پتہ لگے.کہتے ہیں میں نے اس رات رویا میں جو نقشہ دیکھا ہے اس کی مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ یہ ہے کیا؟ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ آپ کو رویا کی تعبیریں بتا دیتا ہے اور آپ کا تعلق ہے جماعت کے معاملات سے اس لئے میں آپ کو لکھ رہا ہوں.نانچہ وہ رویا یہ تھی کہ ایک کاغذ پر ایک طرف ایک چوکھٹا بنا ہوا ہے اس کے اوپر کی طرف دس کا ہندسہ لکھا ہوا ہے اور نیچے قمر لکھا ہوا ہے اور بائیں طرف ایک لمبا چوکھٹا ہے اور اس کے اندر تاریخیں لکھی ہوئی ہیں یا ہند سے لکھے ہوئے ہیں اور اکتیس پر جا کر وہ شمار ختم ہو جاتا ہے اور اکتیس کا ہندسہ نمایاں چمک رہا ہے.انہوں نے اس کی کوئی تعبیر نہیں لکھی اور نہ ان کا ذہن اس طرف گیا مگر چونکہ Friday The 10th والے کشف سے مجھے اس کا تعلق معلوم تھا.اس لئے واضح طور پر مجھے یہ مجھ آئی کہ 31 مئی کو چاند کی دسویں تاریخ ہے اور دن جمعہ کا ہے اور اس جمعہ کے روز کوئی ایسا واقعہ رونما ہونے والا ہے جس کا تعلق اس کشف سے بھی ہے اور اس رویا سے بھی ہے.چنانچہ اس خیال سے میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو پہلے ہی متوجہ کر دیا تھاوہ نظر رکھیں کہ 10 رمضان کو کیا غیر معمولی واقعہ پیش آتا ہے.ہمارے عزیز سیفی (صاحبزادہ مرزا سفیر احمد صاحب داماد حضرت خلیفۃ ا المسیح الرابع ) خود ساری رات بیٹھے رہے اور ریڈیو چلا کر خبریں سنتے رہے لیکن عجیب واقعہ ہوا کہ جو فون ان کے نام
507 آنا تھا وہ غلطی سے میرے نام آگیا اور یہ اطلاع پہلے مجھے ملی بجائے اس کے کہ ان کو ملتی.اس واقعہ میں کئی اسباق پنہاں ہیں.ایک یہ کہ یہ تو بہر حال پختہ بات ہے کہ یہ ایک ایسا غیر معمولی واقعہ ہے جو اس علاقہ میں دسیوں سالوں میں بھی کبھی رونما نہیں ہوا اور پھر جمعہ کے دن اور رمضان المبارک کی دس تاریخ کو رونما ہوا ہے.ان حقائق کو دنیا مٹا نہیں سکتی ، کوئی ان کو غلط نہیں کرسکتا.لیکن ایک خطرہ پیدا ہوا اور ٹل گیا.خواہ وہ کتنا ہی غیر معمولی خطرہ تھا لیکن بہر حال ٹل گیا.اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یا اس کا کیا نتیجہ ہمیں نکالنا چاہئے.یہ دیکھنے والی بات ہے.میرے ذہن میں اس کے کئی نتائج آتے ہیں جن کے بارہ میں میں احباب جماعت کو مطلع کرنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ کہ اگر چہ یہ رویا اس واقعہ پر چسپاں ہوتی نظر آرہی ہے اور یہ ایک غیر معمولی بات ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہوا کرتا کہ ایک ہی دفعہ ایک بات پوری ہو.خدا تعالی کی طرف سے بعض ایسے کشوف اور الہامات ہوتے ہیں جو بار بار تکرار کے ساتھ پورے ہوتے ہیں.قرآن کریم کی بعض آیات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض نشان پیچھے پڑ جانے والے ہوتے ہیں اور وہ بار بار پورے ہوتے ہیں.پس ایک تو یہ امکان بھی ہے.اس کے علاوہ بھی اگر خدا تعالی چاہیے تو زیادہ وضاحت کے ساتھ اس نشان کو پورا فرما سکتا ہے.دوسرے جب ہم اس واقعہ پر غور کرتے ہیں تو کئی سبق ملتے ہیں.پہلا یہ کہ خدا تعالیٰ جب کسی قوم کو پکڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کی پکڑ کے رستے بہت ہیں.بسا اوقات وہ ایسے رستہ سے بھی پکڑتا ہے جس کی قوم توقع ہی نہیں کرسکتی ، وہم و گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس طرف سے بھی کوئی واقعہ رونما ہوگا.1974ء کے فسادات کے بعد قوم مختلف ابتلاؤں میں بار بار پکڑی گئی.مثلاً بلوچستان کی خشک پہاڑیوں پر غیر متوقع بارش کے نتیجہ میں سندھ میں ایک ایسا سیلاب آیا تھا جس کا آدمی وہم و گمان بھی نہیں کرسکتا کہ بلوچستان کے خشک پہاڑ سیلاب کا موجب بن جائیں گے.لیکن بلوچستان کے پہاڑوں کے سیلاب کی وجہ سے سندھ کا بہت سا علاقہ تباہ ہوا.چنانچہ اخباروں میں اس بات کی نمایاں سرخیاں لگیں.پس اللہ تعالیٰ کی جب پکڑ آتی ہے تو معلوم بھی نہیں ہوتا کیونکہ اس کی پکڑ کے مختلف رستے ہیں.وہ قادر و توانا
508 خدا ہے.وہ اپنی قدرت کے نشان دکھاتا ہے اور زمین کی ہر چیز کو جب چاہے وہ امر فرماسکتا ہے.تب وہ جگہ جو امن کا ذریعہ بھی جاتی ہے خطرہ کا موجب بن جاتی ہے.اس لئے خدا تعالیٰ جب کسی کو پکڑنے کا فیصلہ کرلے تو پھر کوئی آدمی امن میں نہیں رہ سکتا اور یہ مضمون بھی قرآن کریم کی مختلف آیات میں بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے.خدا کی تقدیر سے تم کس طرح امن میں رہ سکتے ہو.وہ تو پابند نہیں ہے.وہ جس طرح چاہے تمہیں پکڑنے کا فیصلہ کرلے تو پھر تمہارے لئے بچنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی.اس نہایت مہیب خطرہ کے ایک دم ظاہر ہونے اور پھر اس کے ٹل جانے میں ایک خوشخبری بھی ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ عذاب دینے میں خوش نہیں ہے.وہ تنبیہ فرماتا ہے اور خطرات سے متنبہ کرتا ہے اور قوم کو استغفار کا موقع دیتا ہے.اگر قوم استغفار کرے اور تو بہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے تو اللہ تعالیٰ اس بات میں راضی نہیں ہے کہ لوگوں کو بلاک کرے.اور وہ پکڑ میں ڈھیلا ہے اور نرمی کرتا ہے.یہاں تک نرمی کرتا ہے کہ بسا اوقات انبیاء بظاہر جھوٹے ہوتے دکھائے دے رہے ہوتے ہیں اور دنیا کو ان کی تضحیک اور تمسخر کا موقع مل جاتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ پھر بھی اپنی پکڑ میں نرمی اور غیر معمولی مغفرت کا سلوک فرماتا ہے.پس اگر یہ وہی نشان ہے جس کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا تو اس میں جماعت کے لئے بھی اور قوم کے لئے بھی ایک بہت ہی خوشخبری کا پہلو ہے کہ قوم کے لئے ابھی نجات کی راہ باقی ہے.مہیب خطرات کا ایک نمونہ دکھا دیا گیا ہے لیکن اگر قوم نے استغفار سے کام لیا اور توبہ کی تو ہرگز بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو بچائے اور یہی ہم بھی چاہتے ہیں اور اسی کے لئے دعائیں کرتے ہیں.اور اس سے سبق کا تیسرا پہلو یہ نکلتا ہے کہ تنبیہ موجود ہے اور نمونہ دکھا دیا گیا ہے کہ اگر تم باز نہیں آؤ گے تو پھر خدا تعالیٰ تم سے کیا سلوک فرمائے گا.اب معاملہ وہاں تک جا پہنچا ہے کہ جہاں قومی عذابوں کے ذریعہ اور بار بار سزاؤں کے ذریعہ پکڑے جاؤ گے.اگر تم تو بہ اور استغفار سے کام نہیں لو گے اور تکبر میں اسی طرح مبتلا ہو گے اور خدا تعالیٰ کے پاک بندوں سے تمسخر اور استہزاء کرنے سے باز نہیں آؤ گے تو پھر یہ ایک معمولی سانمونہ ہے جو تمہیں دکھا دیا گیا ہے.پھر آئندہ تمہارے لئے اسی قسم کا خدا کا سلوک ظاہر ہونے والا ہے.لیکن جب وہ ایک دفعہ ظاہر ہو جاتا ہے تو پھر اس کے بعد
509 کوئی روک نہیں، کوئی ہاتھ نہیں ہے جو اسے چلنے سے روک رکھے.خدا کی چلتی ہے جب چل پڑتی ہے تو پھر کوئی اسے روک نہیں سکتا.اس لئے یہ سارے نشانات یا ایسے اسباق ہیں جو اس واقعہ پر غور کرنے سے ہمیں ملتے ہیں.“ ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مئی 1985ء.خطبات طاہر جلد 4 صفحہ 490 494) Friday the 10th کے دونشان پھر 21 جون 1985 ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ نے (فرائیڈے وی ٹیتھ ) Friday the 10th کے دو نشانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: گزشتہ سال کے آخر پر سفر یورپ کے دوران اللہ تعالیٰ نے جو کشفی نظارہ دکھایا تھا جس میں جمعہ کے روز ایک ڈائل کی شکل میں 10 کا ہندسہ چمکتا ہوا اور نبض کی طرح دھڑکتا ہوا دکھایا گیا تھا اور اُس پر میں یہ کہہ رہا تھا کہ Friday the 10th - باوجود اس علم کے کہ یہ 10 وقت کا ہندسہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے تصرف کے تابع زبان سے یہی فقرہ جاری ہوا Friday the 10th.اس کی جماعت کی طرف سے تشہیر بھی کی گئی اور اندازے بھی لگائے گئے.کئی قسم کے خطوط آئے اور 10 رمئی جو جمعہ کا روز تھا اس پر جماعت لگا ہیں لگائے بیٹھی رہی لیکن اس روز کچھ نہیں ہوا اور اطلاعات کے مطابق بعض علماء نے یہ کہا کہ اب ہم 17 مئی کو اس کچھ نہ ہونے کا جشن منائیں گے.لیکن اس کے بعد بھی ایک جمعہ آنے والا تھا جو رمضان المبارک کا، پاکستان کے لحاظ سے دسویں رمضان المبارک کا جمعہ بنتا تھا.اور جیسا کہ بعض دوسرے احباب کو بھی اللہ تعالیٰ نے چاند کی 10 کی خبر دی تھی اور مجھے اطلاعیں دے چکے تھے اس لئے ہمیں اس کا انتظار تھا دیکھیں کہ اللہ تعالی اس تاریخ کو اپنی کیا محبتی دکھاتا ہے؟ چنانچہ دس کی صبح کو جو خبریں آنی شروع ہوئیں تہجد کے وقت سے اس کے متعلق میں پہلے جماعت کو اطلاع دے چکا ہوں اور گزشتہ کسی خطبہ میں میں نے یہ بتایا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ خدا کا نشان ایک رنگ میں اس روز پورا ہو گیا.لیکن بعد کی جو آنے والی اطلاعیں ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک رنگ والی بات نہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی شان کے ساتھ اللہ تعالی کی یہ بیان فرمودہ خبر پوری ہوئی.
510 اور اس کے اور بھی بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں.چنانچہ جو اطلا میں ہمیں ملی تھیں وہ تو احباب جماعت کراچی کی طرف سے اس وقت کی اطلاعیں تھیں.لیکن بعد کے اخبارات کے جو تراشے موصول ہوئے ہیں.نہ صرف یہ کہ ان سے اس خبر کی غیر معمولی اہمیت واضح ہوتی ہے اور اس واقعہ کا غیر معمولی پن بھی واضح ہوتا ہے بلکہ ایسے لوگ جو احمدیت کے شدید معاند ہیں ان کے منہ سے اللہ تعالی نے یہ اقرار کروایا کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، یہ کوئی حادثاتی بات نہیں بلکہ خدا کی طرف سے یہ ایک بڑی بھاری تنبیہ ہے.اور اس کے علاوہ پاکستان کی شمالی سرحد پر بھی ایک واقعہ رونما ہوا جس کو غیر معمولی اہمیت دی گئی اور اسے بھی ایک آنے والے خطرے کے نشان کے طور پر پیش کیا گیا اور یہ واقعہ بھی دس جمعتہ المبارک رمضان شریف ہی کو ہوا.چنانچہ جو اخبار کے تراشے آئے ہیں ان میں اس موضوع پر بڑے بڑے مضامین چھپے ہیں، شہ سرخیاں جمائی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی بہت ہی غیر معمولی اور نہایت ہی خوفناک واقعہ تھا.”جنگ لنڈن نے تو یہ خبر اس سرخی کے تابع شائع کی کہ کراچی میں طوفان کے خطرے نے افراتفری مچادی.ساحلی علاقوں کے لوگوں کی بڑی تعداد گھروں سے نکل بھاگی.ڈان' (Dawn) نے شہ سرخی جمائی Cyclone Threat “ اور اس پر ایک لمبی خبر شائع کی جو ایک صفحہ پر نہیں بلکہ دوسرے صفحہ پر بھی جاری رہی اور اسی طرح ایک مضمون شائع کیا جس کے اوپر یہ عنوان لگا تھا Panic Grips Karachi اور ان دونوں مضامین کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھوکھہا آدمی متاثر ہوئے تھے اور اپنا سب کچھ گھروں پر اسی طرح چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تمام ذرائع کو بروئے عمل لا کر حکومت کو بڑی محنت کے ساتھ ان علاقوں کی نگرانی کروانی پڑی.تمام نیوی کی کشتیاں ، پولیس کی کشتیاں جو نیول پولیس کی کشتیاں ہیں وہ سارے علاقے میں پھیل گئیں اور پولیس بھی گشت کرنے لگی لیکن اتنی Panic تھی کہ چور بھی وہاں باقی نہیں رہے.وہ بھی بھاگ گئے.ورنہ عموماً تھوڑی Panic کے وقت تو چوروں کی موجیں ہو جایا کرتی ہیں.وہ کہتے ہیں کوئی بات نہیں دیکھی جائے گی.بالکل اسی طرح گھر چھوڑ کر لوگ بھاگے ہیں، نوکر تک بھی چلے گئے اور کوئی چوری کا واقعہ نہیں ہوا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا خوف بھی طاری تھا
511 اس وقت دلوں پر اور یہ بھی پتہ چلا کہ کثرت کے ساتھ اذانیں دی جانے لگیں اور اذان دینا یہ عموم علامت ہے ہمارے ملک میں بہت بڑا خطرہ اور اس پر استغفار، ایسے موقع پر اذان دی جاتی ہے اور استغفار کی علامت ہے.اس لئے لوگ سمجھتے ہیں جب اذان دی جائے گی تو اللہ تعالی کی طرف سے جو بھی عذاب مقدر ہے وہ ٹل جائے گا.68 جماعت احمدیہ کے ایک شدید مخالف پروفیسر عبد الغفور صاحب جو جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں ان کے متعلق ” جنگ لاہور 2 رجون نے یہ سرخی جمائی کہ وہ کہتے ہیں اللہ تعالی طوفان کا رخ نہ موڑتے تو ہمارا کیا حشر ہوتا.اور اس طوفان پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں یعنی یہ جنگ ان کی طرف یہ بات منسوب کرتا ہے کہ انہوں نے لکھا ” کراچی چھوٹا پاکستان ہے لیکن لبنان اور بیروت بن رہا ہے جو مارشل لاء کے اس دور کا ثمرہ ہے.پھر انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے تحریک پاکستان کی اس لئے حمایت کی تھی کہ بھارت میں ان کے جان و مال خطرے میں تھے.انہوں نے کہا بھارت میں اب بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے لیکن صدمہ اس بات کا ہے کہ اب پاکستان میں بھی شہریوں کے جان و مال محفوظ نہیں.اور یہ وہی صاحب ہیں جن کے نزدیک جماعت احمدیہ کے جان و مال کی کوئی قدر اور کوئی قیمت نہیں ہے انسانی لگا ہوں میں، نہ خدا کی نگاہ میں اور بے دھڑک یہ لوگ تیاریاں کر رہے ہیں، کرتے رہے ہیں جماعت اسلامی کے کارندے اور فسادات میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور پچھلے جو 74 ء کے فسادات تھے ان میں تو تمام قصبات میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے احرار کے علاوہ وہ جماعت اسلامی کے کارندوں نے ادا کیا تھا اور اب جب کہ خدا کی پکڑ کو اپنے سامنے دیکھا تو اس وقت ان کو خیال آیا کہ پاکستان میں لوگوں کے جان و مال محفوظ نہیں ہیں.یہ اللہ کی تقدیر ہی بتائے گی کہ خدا کی پکڑ کس کے جان و مال کو خطرہ لاحق ہونے کے نتیجے میں آتی ہے، جو پاکستان میں عام دستور چل رہا ہے وہ تو سال ہا سال سے اسی طرح چل رہا ہے.ان کو تو خدا نے خبر نہیں دی کہ یہ دس جمعہ کو کوئی واقعہ ہونے والا ہے.جن کے جان و مال کی خدا کو قدر تھی ، جن کے جان و مال پر خدا کے پیار کی نظر تھی ان کے امام کو بتایا ہے کہ دس جمعہ کو ایک بہت بڑا خطرہ یا نشان ظاہر ہونے والا ہے جو بجلی کے رنگ میں ہوگا کیونکہ وہ چمکتا ہوا ہندسہ تھا جو بار بار دل کی طرح دھڑک رہا تھا.
512 ایک اور شدید معاند احراری اخبار ” لولاک جو جماعت احمدیہ کی مخالفت پر وقف ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت کے خلاف انتہائی گند بولتا ہے، وہ بھی یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا اور ادارتی سرخی اس نے جمائی خدائی وارنٹنگ اب یہ بھی تصرف الہی ہے کہ جماعت کے جان و مال اور عزت کی دو بڑی دشمن جماعتیں ایک جماعت اسلامی اور ایک جماعت احرار ان دونوں کے منہ سے خدا نے یہ اقرار کروادیا کہ یہ دس تاریخ کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک غیر معمولی نشان ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے ایک وارننگ ہے.اور پھر اس اداریہ میں لولاک کے مدیر لکھتے ہیں.ہمیں بار بار سوچنا چاہئے کہ ہم کہاں کہاں اور کیسے خدائے بزرگ و برتر کی نافرمانی کے مرتکب ہورہے ہیں.اہل کراچی کو آپس کی سر پھٹول اور با ہمی مخاصمت چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر سہالا نا چاہئے اور خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کا عہد کرنا چاہئے.وہ خوش قسمت ہیں کہ ایک بڑی آزمائش سے بچ گئے.یہ سمندری طوفان ان کے لئے خدائی وارننگ ہے.کام حضور نے اس مضمون کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا : یہ تو پاکستان کے جنوب میں واقع ہونے والا ایک نشان تھا.اب شمال کی خبر سنیں وہاں کی اطلاعات کے مطابق جو اخبارات میں بڑی بڑی نمایاں سرخیوں کے طور پر شائع ہوئیں اور پھر اس کے ساتھ مضامین بھی آئے.31 مئی بروز جمعہ دس رمضان المبارک کو افغانستان کے Mig21 ہوائی جہازوں نے چترال میں دروش کے مقام پر جو چترال کا دوسرا بڑا شہر ہے ایک بھر پور حملہ کیا.اسمبلیوں اور اخباروں میں خوب شور اور غوغا اور نالہ وفریاد کئے گئے.صوبہ سرحد کے اخباروں نے شہ سرخیاں جمائیں.صوبہ سرحد کے گورنر اور وزیر اعلیٰ وہاں پہنچے.یعنی یہ کوئی معمولی عام بمباری کا واقعہ نہیں تھا بلکہ غیر معمولی قومی سطح کی اہمیت کا واقعہ تھا اور اس کے بعد صدر ضیاء الحق صاحب خود وہاں پہنچے اور وہاں جا کر انہوں نے جو بیان دیا ہے اخباروں میں وہ شائع ہو چکا ہے.چنانچہ صدر ضیاء الحق صاحب کو بھی آپ جانتے ہیں کوئی جماعت کے ہمدردوں میں سے نہیں ہیں.تو حکومت کی سطح پر جو شرارت کروانے والے لوگ ہیں ان کو بھی خدا نے نشان دکھایا اور ان سے اقرار کروایا کہ دس رمضان کا جو جمعہ ہے یہ تمہارے لئے ایک تنبیہ کے طور پر آیا ہے اور
513 اس کو نظر انداز نہ کرو.انگلستان کی ٹیلی وژن جو ITV کہلاتی ہے اس نے بھی ایک خاص رنگ میں اس خبر کو دکھایا.جنرل ضیاء الحق صاحب کی تصویر بھی دکھائی اور یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے بارڈر کے نزدیک روس نے بمباری کی ہے جو غالباً افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے قریب تھی.یہ کہنے کے بعد نیوز کاسٹر نے یہ فقرہ بولا General Zia of Pakistan flew himself to examine bombed area and it was on the Friday the 31st of May اب یہ فقرہ کہنا It was on the Friday 31st of May یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے نمایاں طور پر نکلوایا اور اس دن کو غیر معمولی اہمیت دی گئی.پس جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے وہ تو پہلے ہی انتظار میں لگے ہوئے تھے، دیکھ رہے تھے اور ان کا دل چاہتا تھا کہ کچھ ظاہر ہو اور ہم اپنے دوستوں اور ان لوگوں میں جن میں تشہیر کر چکے ہیں ان کو کہ سکیں کہ دیکھو یہ خدا کی طرف سے ایک نشان تھا جو ظاہر ہو گیا.اس لئے دشمن کہہ سکتا ہے کہ یہ ان کی خوش فہمیاں تھیں.Wishful Thinking تھی.چاہتے تھے کہ کچھ ہو جائے.کچھ ہوا اور انہوں نے کہہ دیا کہ دیکھو ہو گیا، ہو گیا.لیکن ضیاء الحق صاحب تو نہیں چاہتے کہ کچھ ہو جائے.لولاک کے مدیر تو نہیں چاہتے تھے کہ کچھ ہو جائے.جماعت اسلامی کے سر براہ تو نہیں چاہتے تھے کچھ ہو جائے.ان کی تو لگا ہیں خدا نے دس مئی پر ہی مرکوز رکھیں اور وہ بھول ہی گئے کہ دس رمضان کا بھی ایک جمعہ آنے والا ہے.اگر ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات آجاتی کہ جماعت احمد یہ اسے خدا تعالیٰ کے ایک نشان کے طور پر پیش کرے گی تو شاید قیامت بھی ٹوٹ پڑتی تو وہ منہ سے کچھ نہ بولتے یا اپنے قلم سے کچھ نہ لکھتے.تو یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک واضح نشان تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے نتیجہ میں پورا بھی ہوا اور ایک رنگ میں عذاب ٹل بھی گیا.“ اسی طرح آپ نے فرمایا: دس جمعتہ المبارک رمضان شریف میں جو واقعہ رونما ہوا ہے اس کے یہ پہلو کھل کر اب سامنے آگئے ہیں.اول ان نشانوں کا ایک سلسلہ جاری ہوا ہے جو وہیں رک جانے والا نہیں اور جب میں غور کرتا
514 ہوں اس نظارے پر جو میری آنکھوں کے سامنے ابھی بھی اسی طرح روشن ہے کہ گھڑی کا دسواں ہندسہ دھڑک رہا تھا روشن الفاظ میں.روشنی ہتھیلی کا بھی نشان ہوتی ہے اور رحمت کا بھی نشان ہوا کرتی ہے.یعنی روشنی بعض دفعہ عذاب کی تجلی کا بھی نشان ہوتی ہے اور بعض دفعہ تبشیر کی تجلی کا بھی نشان ہوتی ہے.تو اس ہند سے کا دھڑکنا بتا تا ہے کہ یہ ایک دفعہ ہونے والا واقعہ نہیں ہے.اس کا آغاز دسویں جمعہ کو جو چاند کی دسویں ہوگی اس سے ہوگا.اس جمعہ کو یہ بات شروع ہو جائے گی اور پھر یہ نشان دھڑ کے گا اور بار بار رونما ہوگا.اور قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ خوشخبری ملتی ہے کہ اس لئے ہوگا تا کہ قوم میں جولوگ ہدایت پانا چاہتے ہیں، جن کے مقدر میں ہدایت ہے ان کو خدا تعالیٰ اس کا موقعہ عطا فرمادے.دوسرا ئیں اس سے یہ سمجھا ہوں کہ پاکستان کو جو خطرات درپیش ہیں ان کی نشان دہی کر دی گئی ہے کہ کہاں کہاں سے وہ خطرے ہیں.ایک پاکستان کو جنوب سے خطرہ در پیش ہوگا اور جس طرح سمندری طوفان کی صورت میں یہ تنبیہ کی گئی بعید نہیں کہ وہ خطرہ سمندر ہی کی طرف سے در پیش ہو.وہ کس شکل میں ہوگا؟ یہ ہم ابھی نہیں جانتے.جب ظاہر ہوگا تو خدا تعالیٰ کی تقدیر خود کھول کر بتادے گی.لیکن جو خطرہ جنوب سے پاکستان کو پیش آنے والا ہے وہ سمندر سے تعلق رکھنے والا خطرہ مجھے معلوم ہوتا ہے کیونکہ سمندر کی ایک غیر معمولی حرکت کے ذریعہ خدا نے اس تحیلی کو ظاہر فرمایا جو عموماً اس علاقے میں دیکھی نہیں جاتی جو جغرافیہ کی تاریخ کے لحاظ سے ایک بالکل اجنبی بات تھی.اور شمالی سرحد سے ہوائی خطرہ ہے پاکستان کو.گو آسمانی نشان کے طور پر تو دونوں ہی نشان ظاہر ہوں گے.لیکن اس کا ظاہری فضا میں بھی آسمان سے تعلق معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ خطرہ ایک ہوائی حملہ کی صورت میں ظاہر ہوا تھا.پس یہ باتیں تو ہم بہت کھل کر اب دیکھ رہے ہیں کہ یہ مراد تھی اور آنے والے وقت نے یہ بات واضح کر دی کہ یہی رنگ ہے اس پیشگوئی کا اور ابھی یہ ختم نہیں ہوتی بلکہ جاری ہوتی ہے.اس کے بعد میں جماعت کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں.بہت سے کراچی کے دوستوں نے جو خطوط لکھے ان میں اگر چہ بھاری اکثریت نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ نشان ظاہر تو ہوا مگر اس نے نقصان نہیں کیا اور ہم بہت خوش ہیں کہ لاکھوں جانیں بچ گئیں کیونکہ اندازہ یہ تھا کہ اگر یہ واقعہ پوری طرح
515 خطرہ در پیش آجا تا تومعمولی نقصان نہیں تھا بلکہ لکھو کہا جائیں تلف ہو سکتی تھیں.پچاس فٹ اونچی سمندر کی ہر تھی جو تقریبا سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کراچی کی طرف بڑھ رہی تھی اور یہ جو اخبارات میں نے دیکھتے ہیں ان میں لکھا ہے کہ بعض نے تو یہ کہا ہے کہ سو میل یا اس سے زائد اس کے پیچھے رہ گئی تھی جب رخ پلٹتا ہے.بعض نے لکھا ہے کہ صرف پچاس میل قریب آکر یعنی نصف گھنٹہ کا فرق رہ گیا تھا تو پھر وہ مڑی ہے اور جو تنبیہات کی گئیں ان میں صبح دس بجے کے وقت اس کا پہنچنا بھی بتایا گیا تھا کہ اگر یہ پہنچ جاتا تو صبح دس کے لگ بھگ اس نے کراچی کو Hit کرنا تھا.اب پچاس فٹ اونچی سمندری لہریں جو سو میل کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہوں اس نے تو کراچی کے میل بامیل تک کلیۂ صفایا کر دینا تھا.اس علاقے سے نام ونشان شہر کے مٹ جانے تھے.تو اس لئے جو سمجھ دار ہیں جو صاحب دل لوگ ہیں وہ مجھے خط لکھتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ نے فضل فرمایا اور ایک نشان پورا بھی فرما دیا، ہماری سرخروئی بھی کر دی اور بنی نوع انسان کو ایک بڑے دکھ سے بھی بچا لیا.لیکن بعض نوجوان بیچارے جو یہ حکمتیں نہیں سمجھتے یا پوری تربیت نہیں رکھتے، بہت چند ہیں گنتی کے ہنگر انہوں نے یہ لکھا کہ اللہ میاں نے جب یہاں تک پہنچادیا تھا تو آگے تک جاتے کیا تکلیف تھی.پچاس میل رہ گیا تھا.خدا کو آگے کیا حرج تھا آگے کر دیتے تو پھر ذرا اور ہوتا.ان کو اندازہ نہیں کہ دکھ کیا چیز ہے اور قومی دکھ کیسے کیسے خوفناک نتائج پیدا کرتا ہے.اور ان کو پتہ نہیں کہ اللہ رحیم و کریم ہے.نشانات ظاہر ہوتے ہیں اور ہمیشہ ہوتے رہیں گے لیکن جن کی خاطر نشان ظاہر ہوتے ہیں ان کا دل نشانات کے ظاہر ہونے سے زیادہ قوم کی ہمدردی میں مبتلا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طریق تھا جو صحابہ کی روایات سے ثابت ہے کہ بعض موقع پر جب ایک شدید معاند کی ہلاکت کی آپ نے خبر دی اور وہ دن قریب آرہا تھا تو صحابہ ساری ساری رات اٹھ کر روتے اور گریہ وزاری کرتے تھے کہ اے خدا یہ نشان ظاہر فرمادے.پکڑا جائے ، پکڑا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا کہ میں تو رات بھر یہ دعائیں کرتا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو بچالے.نہ پکڑا جائے ، نہ پکڑا جائے ، نہ پکڑا جائے اور ہدایت نصیب ہو جائے.حضور نے فرمایا:
516 غور کریں کہ یہ معمولی بات نہیں.دسمبر کے آخر پر ایک عاجز بندے کو خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ دس جمعتہ المبارک کو کچھ ہونے والا ہے.کس کے اختیار میں ہے.ہم تو ایسے بے اختیار لوگ ہیں کہ پردیس میں نکالے گئے اور کوئی اختیار نہیں ہے.وہاں کے حالات پر ہمارا کوئی اختیار نہیں.سمندر کی طاقتوں پر کوئی اختیار نہیں.لوگ ہنسنے اور مذاق اڑانے کے لئے تیار بیٹھے تھے ، بے بس تھے اور ایک لمحہ کے لئے میرے دل میں خیال آیا کہ اگر میں اس کا اعلان کر دوں تو بہت بڑی ذمہ داری ہے.اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے بعض دفعہ وہ نشانوں کو ٹال بھی دیتا ہے.جماعت پہلے ہی دکھوں میں مبتلا ہے، لوگ ہنسیں گے اور مذاق اڑائیں گے لیکن اس وقت میرے دل نے مجھے بتایا کہ یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے.خدا کی مرضی ہے وہ بتائے اور نہ پورا کرے.انبیاء کی شان کے مطابق غلاموں کو بھی وہی رنگ اختیار کرنے چاہئیں اس لئے وہ اس بات سے نہیں ڈرتے تھے کہ دنیا مذاق اڑائے گی یا نہیں اڑائے گی.کیا کہے گی ؟ بے پرواہ ہو کرنا ممکن باتیں کہہ دیا کرتے تھے اور بظاہر کوئی امید نظر نہیں آتی تھی....جو خدا نے مجھے دکھایا امانت کے طور پر میں نے جماعت کے سامنے پیش کر دیا اور جو ظاہر ہوا ہے یہ شمال سے بھی ظاہر ہونا، جنوب سے بھی، سمندر سے بھی اور ہوا سے بھی اور پھر معاندین احمدیت کا اس کو نشان اور تنبیہ قرار دے دینا، اب جو چاہیں کر لیں.اب یہ قلم سے نکلی ہوئی تحریریں اور زبان سے نکلے ہوئے کلمات اب واپس نہیں لے سکتے.اس لئے خدا کا نشان تھا جو بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا اور ہمارے دل اس کے لئے شکر اور حمد سے لبریز ہیں.مگر ساتھ میں آپ کو تنبیہ کرتا ہوں کہ دعائیں کریں اور استغفار کریں اور قوم کا برا نہ چاہیں.“ (ماخوذ از خطبه جمعه فرموده 21 جون 1985ء - خطبات طاہر جلد 4 صفحہ 551 561) Friday the 10th کے تناظر میں تاریخی اہمیت کی حامل خوشخبریاں حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 10 / اپریل 1987ء میں Friday the 10th کے حوالہ سے فرمایا: ہم جو Friday The 10th خدا تعالیٰ کی طرف سے جو خبر ملی تھی اسے خواہ مخواہ محض انداری خبر
517 بنائے ہوئے ہیں حالانکہ خدا کی طرف سے تو کوئی شرط نہیں تھی کہ یہ انداری خبر ہے اور جو چمک دکھائی گئی ہے بار بار کی وہ اس کو دونوں طرح سے سمجھا جا سکتا ہے.اندار کی بھی چمک ہوتی ہے اور خوشخبریوں کی بھی چمک ہوتی ہے.تو میرے دل میں یہ بات خدا تعالیٰ نے گاڑ دی ہے کہ جمعہ جو Friday The 10th آنے والا ہے اس میں ہی آئندہ کسی Friday The 10th میں جماعت کے لئے ویسی ہی خوشخبری بہت بڑی دکھائی جائے گی.“ حضور نے اس خطبہ جمعہ میں تبلیغ و دعوت الی اللہ کی مہم میں عطا ہونے والی بعض کامیابیوں اور خوشخبریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ایک سب سے بڑی خوشخبری ابھی آپ کو بتانے والی باقی ہے.جس کا تعلق Friday The 10th سے ہے.ایک بہت بڑے مسلمان را ہنما کہ جن کا اتنا وسیع اثر ہے کہ کروڑوں مسلمان ان کی عزت و احترام کرتے ہیں.انہوں نے کئی کتب لکھیں.بہت بڑے عالم دین، کئی زبانوں کے ماہر اور بہت بارسوخ انسان.ان سے کچھ عرصہ پہلے جمعرات کی شام کو ملاقات مقرر ہوئی تھی.لیکن یہ بھی عجیب تصرف ہے اللہ تعالیٰ کا کہ کسی وجہ سے تاخیر ہوتے ہوتے جب تک جمعہ شروع نہیں ہو گیا وہ ملاقات بھی شروع نہیں ہوتی.میں اس سلسلے میں فکر مند تھا اس نقطہ نگاہ سے کہ یکطرفہ باتیں انہوں نے احمدیت کے متعلق سنی ہوں گی اور چونکہ ان سے ملاقات اس نقطۂ نگاہ سے بڑی اہم ہے کہ بہت بڑی تعداد جو کروڑوں کی تعداد ہے مسلمانوں تک احمدیت کا پیغام پہنچانے میں ہمیں سہولت ہو جائے گی اگر ان پر نیک اثر پڑے.تو فکر مند بھی تھا، دعا بھی کی تھی اور اس مجلس میں اپنے دو احمدی دوستوں کو بھی شامل کیا تاکہ ان کی بات کا بھی اچھا اثر پڑے.جب وہ ہماری ملاقات شروع ہوئی تو عین سورج غروب ہوا جب تو اس وقت اتفاق ایسا ہوا.اتفاق نہیں بلکہ تصرف کہنا چاہئے کہ میں سات بجے سے انتظار کر رہا تھا مگر آٹھ بجے سے پہلے ملاقات نہ ہو سکی جو سورج غروب ہوا اور جمعہ کا دن شروع ہوا.ملاقات کے دوران یہ نظر آیا کہ انہوں نے جماعت کے متعلق دوسروں سے باتیں سنی ہوئی تھیں.جماعت کے متعلق کوئی علم نہیں اور ان کا رویہ بھی درمیانہ ساتھا کیونکہ شریف انسان تعلیم یافتہ اس لئے وہ بغض کا اظہار تو بہر حال نہیں
518 کر رہے تھے.لیکن ایک خشک سا جس طرح ہوتا ہے کوئی قلبی تعلق نہ ہو، کوئی دلچسپی نہ ہو.لیکن رفتہ رفتہ پھر باتیں شروع ہوئیں تفصیل سے سارے مسائل ان کے سامنے میں نے بیان کئے.جماعت کیا ہے؟ کیا کر رہی ہے؟ اور امام مہدی کا ذکر کیا، دعوی کیا ہے؟ دوسرے مسلمان کیوں مخالف ہیں؟ اور انہوں نے...اشارہ اس طرح کیا کہ دلیل بھی ہونی چاہئے.تو میں نے پھر ان کو ایک دو دلائل دیئے اور اس دوران ان کی شکل تبدیل ہونی شروع ہوئی.یعنی محبت کے واضح آثار پیدا ہونے شروع ہوئے اور دیکھتے دیکھتے یوں لگا کہ جس طرح دل پگھل جاتا ہے ایک آدمی کا اور وہ بڑے کم گو ہیں، دو باتیں انہوں نے کہیں.ایک یہ کہی کہ میں اپنی یہ خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں آنے کا موقع دیا کیونکہ کانوں سے سنی ہوئی باتیں بسا اوقات جھوٹی نکلتی ہیں.جب تک آنکھیں نہ دیکھ لیں اس وقت تک انسان کو صحیح پتہ نہیں لگ سکتا اور آج مجھے خدا نے یہ موقع دے دیا کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں اور خود پتہ کرلوں کہ آپ کیا لوگ ہیں.دوسرا ایک بڑی معنی خیز فقرہ انہوں نے کہا جس سے مجھے بہت ہی امید پیدا ہوتی ہے.انہوں نے کہا کہ ایک لمبے عرصے سے میں اسلام کا تاریخی مطالعہ کر رہا تھا آنحضرت کے زمانے سے لے کر اب تک کا اور میں نے ہر طرف نظر دوڑائی اور خوب چھان پھٹک کی ، سب تلاش کی لیکن جس چیز کی مجھے تلاش تھی مجھے ملی نہیں.آج مجھے وہ ہل گئی ہے...بیعت تو انہوں نے نہیں کی لیکن اتنا حیرت انگیز فقرہ تھا ایک کم گو، اتنے بڑے عالم اور اتنے بڑے لیڈر کے منہ سے نکلا ہوا اتنا معنی خیز ہے کہ اس وقت مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہی وہ خوشخبری تھی جو پیر کے دن....خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ Friday The 10th صرف حلال نہیں لے کے آئے گا بلکہ جمال لے کے بھی آئے گا اور احمدیت کی ترقی کے لئے انشاء اللہ نئے نئے دروازے کھولے گا“ (ماخوذ از مخطبه جمعه فرمودہ 10 را پریل 1987 خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 253 256) Friday the 10th کی پیشگوئی کا ایک اور عظیم الشان رنگ میں ظہور حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 23 فروری 1990 ء میں Friday the 10th کی پیشگوئی کے ایک اور عظیم الشان رنگ میں ظہور کو بیان فرمایا.حضور نے فرمایا:
519 گزشتہ سال ایک خطبے میں میں نے دیوار برلن کے گرنے کا ذکر کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ اس صدی کے اہم ترین واقعات میں سے ایک یہ واقعہ ہے اور بلاشبہ سال 1989ء میں ہونے والے تمام واقعات میں سب سے زیادہ اہم یہ واقعہ تھا.چنانچہ تمام دنیا کے اخبارات میں اس روز یعنی...رات کو واقعہ ہوا صبح دوسرے دن یہی شہ سرخیاں لگیں اور سب سے زیادہ اہم اس بات کو قرار دیا گیا کہ دیوار برلن گر گئی ہے.اس سلسلے میں مجھے چند دن ہوئے اسلام آباد سے نصیر احمد صاحب طارق کی ایک چٹھی موصول ہوئی جس میں انہوں نے بعض ایسی باتوں کی طرف میری توجہ مبذول کروائی جن کی طرف پہلے میرا خیال نہیں گیا تھا.چنانچہ ان کا خط پڑھ کر میں نے اس پر پوری تحقیق کروائی تو معلوم ہوا کہ جو باتیں انہوں نے لکھی تھیں وہ بالکل درست ہیں.اس دن جس دن یہ دیوار گرائی گئی ہے، سورج غروب ہو چکا تھا اور اگلے دن کی رات پڑ چکی تھی.اسلامی حساب سے گویا دن کی تاریخ سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ختم تھی اور ایک نئے دن کی رات طلوع ہوئی تھی.جہاں تک انگریزی کیلنڈر کا تعلق ہے ، نیا دن رات کے بارہ بجے شروع ہوا اور پھر وہ اگلے دن رات کے بارہ بجے تک جاری رہا.قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ دس تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا اور جتنے اخبارات میں دنیا میں یہ خبریں شائع ہوئیں، ان پر Friday the 10th عنوان لگا ہوا تھا.Date Line اس کی یہ بنتی تھی.اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جب سے خدا تعالیٰ نے کشفا مجھے یہ واقعہ دکھایا تھا، یہ وہ پہلا Friday ہے جو اسلامی مہینے کے لحاظ سے بھی اور انگریزی مہینے کے لحاظ سے بھی Friday the 10th کہلا سکتا ہے اور پوری طرح یہ دونوں تاریخیں ایک دوسرے کے ساتھ منطبق ہو گئی تھیں.تو اول تو انگریزی تاریخوں کا اسلامی تاریخوں کے ساتھ منطبق ہو جانا یہ کم کم ہوتا ہے.اور پھر یہ اس پر مزید اضافہ کہ صرف تاریخوں کا انطباق نہیں تھا بلکہ جمعہ کے دن یہ انطباق ہوا اور اسی دن یہ حیرت انگیز واقعہ بھی رونما ہوا.اس کے متعلق اخبارات نے جو مختلف خبریں لگائی ہیں، یہ اس کی تفصیل میں جانے کا تو وقت
520 نہیں لیکن ایک اخبار وطن Weekly London نے جو بیان کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگلا دن یعنی دس تاریخ شروع ہونے کے وقت در اصل دیوار برلن کے اوپر حملہ ہوا ہے.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ : ”حکومت نے اپنی سرحدیں کھولنے اور اپنے شہریوں کو مغرب کی طرف جانے کی اجازت دے دی اور پھر کیا تھا، شہریوں کا ایک سیلاب آ گیا اور نصف شب کے بعد لوگوں نے دیوار برلن پر ہلہ بول دیا.پس نصف شب کے بعد ہلہ بولنا بھی معنی رکھتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اسلامی لحاظ سے ہی وہ دس تاریخ شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ انگریزی کیلنڈر کے لحاظ سے بھی دیوار برلن پر جب ہلہ بولا گیا ہے تو دس تاریخ شروع ہو چکی تھی.اس سلسلہ میں مذہبی نقطہ نگاہ سے جو اہمیت ہے، اس کے متعلق میں کچھ باتیں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں جو جماعت احمدیہ کی تاریخ سے تعلق رکھتی ہیں.روس کے متعلق تقریبا سب احمدی جانتے ہیں، بچے بچے کو یہ علم ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی تھی کہ جماعت احمد یہ کورس میں وہ ریت کے ذروں کی طرح پھیلا دے گا اور ایک رویا میں آپ نے روس کے عصا کو اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے دیکھا اور وہ عصا بھی تھا اور بندوق کی نالیوں کی طرح اس عصا کے اندر نالیاں بھی تھیں.یہ پیشگوئیاں جماعت میں عام ہیں.یعنی ان کا علم عام ہے اور سب نظریں لگائے بیٹھے رہے کہ کب خدا تعالی ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے آثار ظاہر فرمائے گا.اس سلسلے میں حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو بار بار تحریک بھی کی.ان دنوں میں یعنی انقلاب روس کے بعد شروع کے دس پندرہ سال تک باہر کی دنیا کے لئے روس کے علاقے میں داخل ہونا بہت ہی مشکل تھا.بعد ازاں سہولتیں پیدا ہوئیں لیکن پابندیاں بھی جاری رہیں.ان دنوں میں تو بہت ہی مشکل کام تھا اور خطرناک کام تھا اس لئے با قاعدہ جماعت کی طرف سے مبلغ تو بھجوایا نہیں جا سکتا تھا یعنی اجازت لے کر اور ویزا حاصل کر کے.لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو یہ توجہ دلائی کہ کچھ ایسے لوگ نکلیں جو روس تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور اس راہ میں قربانیاں دیں.
521 اس سلسلے میں جو اہم کردار حضرت مولوی ظہور حسین صاحب نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ادا کیا وہ تاریخ میں دہرانی چاہتا ہوں تا کہ روس کے تعلق میں ابتدائی خدمت کے وہ واقعات بھی آپ کے سامنے آجائیں اور اس مجاہد اول مولوی ظہور حسین صاحب کے لئے اور ان کے لئے جو اُن کے ساتھ شامل ہوئے تھے دعا کی بھی تحریک ہو.انہوں نے روس سے واپس آنے کے بعد کچھ عرصہ تو ایسی حالت میں گزارا کہ ان کو اپنے دماغ پر کوئی کنٹرول نہیں تھا.اتنا شدید ان کو وہاں عذاب دیا گیا، ایسی تکلیفیں دی گئیں کہ اس کے نتیجے میں وہ اپنے حواس کھو بیٹھے تھے.جب ان کو ترکی کی سرحد سے پار پھینک دیا گیا تو اتفاق سے کسی نے اندازہ لگا کر کہ یہ ہندوستانی ہے، ان کو برٹش ایمیسی میں پہنچا دیا اور چونکہ وہ پاگل پن کی حالت میں بھی قادیان قادیان، بار بار کہتے تھے اس لئے کسی برٹش آفیسر کو یہ معلوم ہو گیا کہ یہ ہندوستان کے شہر قادیان کا رہنے والا ہے.چنانچہ انہوں نے جماعت سے تعلق قائم کیا اور پھر ان کو وہاں بھجوا دیا گیا.یہ وقتی دور جو بد حواسی کا تھا یہ زیادہ لمبا عرصہ نہیں چلا.لیکن وہ جو تعذیب کے نشانات تھے وہ ساری عمر بدن پر قائم رہے اور جو ہم نے بھی بچپن میں بارہ دیکھے.سارے جسم پر جھلسنے کے اور تکلیفوں کے آثار باقی رہے تھے.مولوی ظہور حسین صاحب نے بعد میں ایک بہت لمبا عرصہ جماعت احمدیہ کی مختلف حیثیتوں سے خدمت کی اور ایک کتاب ” آپ بیتی“ کے نام سے شائع کی جس میں مختصر اروس کے واقعات کا ذکر ہے.اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ جولائی 1924ء میں آپ دو دیگر مبلغین محمد امین خاں صاحب اور صاحبزادہ عبدالمجید صاحب رضی اللہ تعالی عنہ صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ روس کے سفر پر روانہ ہوئے.عبدالمجید صاحب کو تو رستے میں ایران میں ٹھہر جانا تھا کیونکہ وہ ایران کے لئے مبلغ مقرر ہوئے تھے اور محمد امین خان صاحب اور مولوی ظہور حسین صاحب کے سپرد یہ کام تھا کہ یہ..جس طرح بھی بس چلے ایران کی طرف سے روسی سرحد پار کر کے روس میں داخل ہو جائیں.مولوی ظہور حسین صاحب مشہد میں بیمار ہو گئے اور وہاں رکنا پڑا.مولوی محمد امین صاحب کچھ انتظار کے بعد اکیلے ہی سفر پر روانہ ہو گئے اور بخیریت بخارا پہنچ گئے.
522..مولوی ظہور حسین صاحب بعد میں جب اکیلے روس میں داخل ہوئے تو وہ بھی دس تاریخ تھی اور یہ دس دسمبر کا دن تھا.آپ آرتھاک (Qrthak) پہنچے لیکن جب آپ بخارا جانے کے لئے ( یہاں طے ہوا تھا کہ یہ اور محمد امین خاں صاحب ملیں گے ) ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو وہاں آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے بعد پھر ایک لمبا دور آپ کو اذیتیں دینے کا شروع ہوا.اسی حالت میں جب آپ قید تھے (چونکہ آپ کو رشین زبان نہیں آتی تھی، کوئی ساتھیوں سے رابطہ نہیں تھا ) تو آپ نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ظہور حسین ! آپ جیل میں تبلیغ نہیں کرتے.اس رویا سے وہ خدائی منشاء سمجھ گئے اور اپنے ساتھیوں سے روسی زبان سیکھنا شروع کر دی اور چونکہ کچھ مسلمان قیدی بھی ساتھ تھے اس لئے ان سے زبان بھی سیکھی اور ان کو تبلیغ بھی شروع کی.چنانچہ سب سے پہلا روس میں جو احمدی ہوا ہے وہ جیل میں ہوا ہے اور اس طرح سنت یوسفی دہرائی گئی.مولوی صاحب کو نمازوں میں منہمک دیکھتے اور جس طرح ان کی طبیعت میں غیر معمولی رفت پائی جاتی تھی ( یہ انہوں نے کتاب میں تو ذکر نہیں کیا لیکن ہم جو بچپن سے ان کو جانتے ہیں.ہمیں علم ہے کہ بہت ہی رقیق القلب تھے اور جلد جذباتی ہو جایا کرتے تھے تو نمازوں میں بھی ان کی یہی کیفیت ہوا کرتی تھی ) اس کا اور ان کی تلاوت کا ان کے ساتھیوں پر گہرا اثر ہوا اور اس کے نتیجے میں ان کو زیادہ دلچسپی پیدا ہوئی.ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ روس میں وہ شخص جو سب سے پہلے احمدی مسلمان ہوا ہے وہ عبد اللہ خان تھا.یہ عبد اللہ خان تاشقند کا رہنے والا تھا اور اپنے علاقے کا بہت بڑا اور بارسوخ انسان تھا.عبد اللہ خان کے ذریعے پھر اور قیدیوں میں بھی احمدیت میں دلچسپی پیدا ہوئی اور کئی قیدیوں نے ان کی معرفت پھر " پیٹھیں کیں.یہ واقعہ...1924ء کا ہے.اس کے بعد مولوی ظہور حسین صاحب کے ساتھ مرکز کا بھی رابطہ کچھ عرصہ کٹا رہا.پھر جب وہ واپس آئے تو اس وقت اتنی ہوش نہیں تھی کہ بتائیں کہاں کہاں احمدی ہیں اور ان سے کس طرح رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے.چنانچہ رابطہ بالکل کٹ گیا اور رابطہ کٹنے کے باوجود مولوی ظہور حسین صاحب ہمیشہ اس بات پر مصر رہے اور اس بات کے قائل رہے کہ وہاں احمد یہ جماعتیں قائم
523 ہو چکی ہیں، جو قائم ہیں اور پھیل بھی رہی ہوں گی لیکن ہمیں ان کی تفاصیل کا کوئی علم نہیں تھا.سب سے پہلے جب مجھے روس میں جماعت احمدیہ کے متعلق جو علم ہوا ہے وہ ایک روسی انسائیکلو پیڈیا کے مطالعہ سے ہوا جو انگلستان سے غالبا بشیر احمد صاحب رفیق نے یا کسی نے معلوم کر کے مجھے مطلع کیا کہ یہاں ایک روسی انسائیکلو پیڈ یا شائع ہوا ہے جس میں جماعت احمدیہ کے اوپر ایک روسی سکالر نے مقالہ لکھا ہے اور اس مقالے میں احمدیت کے متعلق کئی قسم کی باتیں درج ہیں.چنانچہ میں نے تحقیق کر کے اس مقالے کو حاصل کیا اور اس کے انگریزی اور اردو میں تراجم کروائے اور ان تراجم سے بعض بہت دلچسپ باتیں سامنے آئیں.ان میں سے ایک یہ تھی کہ روسی مقالہ نگار نے بڑی تحدی کے ساتھ یہ لکھا کہ روس میں بھی احمد یہ جماعتیں موجود ہیں لیکن ان کا تعلق اپنے مرکز سے کٹ چکا ہے.اور اس کی وجہ مقالہ نگار نے یہ بیان کی کہ ان کو غالبا اپنے مرکز سے یہ ہدایت ہے کہ روس میں رہتے ہوئے ہم سے تعلق نہ رکھو.یہ بات تو غلط ہے.غالبا انہوں نے اس بات کو چھپانے کے لئے یعنی اس پر پردہ ڈالنے کے لئے کہ روس نے مذہبی جماعتوں کو بیرونی دنیا سے تعلق رکھنے پر روکیں عائد کر رکھی ہیں یہ ایک بہانہ تراشا اور باوجود اس کے کہ یہ تسلیم کیا کہ جماعتیں موجود ہیں لیکن یہ بات غلط کہہ دی کہ مرکز نے گویا جماعتوں کو ہدایت دے رکھی ہے کہ ہم سے رابطہ نہ کرو.اب سوال یہ ہے کہ ان سے رابطہ کیسے ہونا تھا اور خدا کی تقدیر میں کیا مقدر تھا.اس بات کو بیان کرنے کے لئے آپ کو میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک رویا بتا تا ہوں.اس رویا میں حضرت مصلح موعوددؓ یہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ہمارے ملک میں حالات خطر ناک ہو چکے ہیں.اس قسم کے ہو گئے ہیں کہ مجھے وہاں سے ہجرت کرنی پڑ رہی ہے اور اس ہجرت کے دوران میری گود میں میرا ایک بچہ ہے جس کا نام طاہر احمد ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی بچہ ساتھ نہیں.اس ہجرت کے دوران میں ایک نئے ملک میں پہنچتا ہوں اور اس ملک میں داخل ہو کر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون سا ملک ہے؟ تو بتاتے ہیں کہ روس ہے.اور جب میں ان لوگوں سے گفتگو کرتا ہوں اور ان کے متعلق پوچھتا ہوں کہ وہ کون لوگ ہیں تو ایک آدمی ہلکی سی آواز میں احتیاط کی طرف
524 متوجہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اونچا نہ بولیں ہم احمدی ہیں اور یہ سارا گاؤں اور اس علاقے میں جولوگ ہیں یہ سب احمدی ہیں.لیکن ہم حالات کی مجبوری سے اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہیں.یہ رویا اسی بات پر ختم ہو گیا.اب یہ کوئی اتفاقی بات نہیں تھی کہ روس کا تعلق دوبارہ جماعت احمدیہ سے قائم ہونا میرے زمانے میں ہو.یہ سارے مقدر کے فیصلے تھے جن کے آپس میں ٹانٹے ملے ہوئے ہیں.اور پھر مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے Friday the 10th دکھایا اور Friday the 10th کو وہ حیرت انگیز انقلاب بر پا ہوئے جن کی روشنی میں روس میں اسلام کے داخل ہونے یا جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلام کے داخل ہونے کے نئے دروازے کھلیں اور نئے امکانات روشن ہوں.اور یہ بھی عجیب بات ہے اور کوئی اتفاق نہیں بلکہ مقدر تھا کہ جماعت احمدیہ کے خلفاء میں سے صرف میں ہوں جس کے ساتھ متعد دروسی مسلمان علماء اور صاحب دانش لوگوں نے ذاتی رابطہ قائم کیا ہے اور اس کے علاوہ ایک بھی خلیفہ اس سے پہلے نہیں گزرا جس کا کسی روسی رہنما سے ذاتی رابطہ ہوا ہو.ایک نہیں، دو نہیں ، تین نہیں، متعدد رابطے ہوتے اور ایسے رابطے ہوئے جن میں ہماری طرف سے کسی کوشش کا دخل نہیں.خدا تعالی نے خود اس کے سامان پیدا فرما دیئے اور جس طرح وہ سامان پیدا ہوتے ہیں، ان میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نہ ہماری کوشش کا دخل تھا، نہ اتفاقات تھے بلکہ خدا کی واضح تقدیر ان میں کار فرما دکھائی دیتی ہے.پہلے روسی عالم جو عالمی شہرت رکھتے ہیں جن کی مجھ سے ملاقات ہوئی ، وہ الحاج عبد اللہ بیف (Abdullayev) تھے.جس دن ان سے ملاقات ہوئی ، اس کے دوسرے یا دو تین دن بعد جمعہ تھا اور میں نے جمعہ میں بیان بھی کیا تھا کہ روس کے ایک بہت ہی مقتدر مسلمان تشریف لائے تھے اور ان سے ملاقات ہوئی تھی اور اس کے بعد داغستان کے علاقے کے مسلمان راہنما بھی ملے اور آذربائیجان کے علاقے کے مسلمان را ہنما بھی ملے اور اس کے علاوہ بھی متعدد ایسے اہم لوگ جو کانفرنسز میں یہاں تشریف لاتے رہے آ کے مجھ سے ملتے رہے اور پھر بیلاروس (Belarus) کے مسلمان
525 راہنماؤں میں سے ایک نے بذریعہ خط رابطہ کیا اور انہوں نے یہ بتایا کہ ان کو کسی ذریعے سے جماعت احمدیہ کا وہ کتابچہ جس میں قرآن کریم کی منتخب آیات کا روسی ترجمہ ہے ان تک پہنچا اور ان کو اس کے مطالعہ سے بے حد خوشی ہوئی کیونکہ وہ لکھتے ہیں کہ اس سے بہتر روسی زبان میں کبھی قرآن کریم کا ترجمہ نہیں کیا گیا.تو یہ جوسب رابطے پیدا ہوئے ہیں یہ سارے ایک ہی مضمون کی گڑیاں ہیں.اس لئے اگر کسی کے ذہن میں یہ وہم ہو کہ Friday the 10th کا اس دن پر اطلاق پانا کوئی اتفاقی حادثہ ہے تو اس سارے مضمون کو سننے کے بعد کوئی بہت ہی متعصب ہوگا یا طفلانہ خیال کا حامل ہوگا جو یہ اصرار کرے کہ یہ اتفاقی حادثہ تھا.اس دن اسلامی مہینے کا انگریزی مہینے کے ساتھ انطباق، اس دن جمعہ کا دن ہونا، اس دن اس انقلابی سال کا سب سے بڑا انقلابی دن ہونا جس کے متعلق ساری دنیا نے کہا کہ یہ سال ایک غیر معمولی حیثیت کا سال ہے اور تمام دوسرے اپنے ارد گرد کے سالوں سے بہت ہی زیادہ نمایاں حیثیت رکھتا ہے.اور پھر اس دن کا اس سال میں سے بھی چوٹی کی طرح ابھر آنا اور غیر معمولی حیثیت اختیار کر جانا.اور اس سے پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا یہ رویا جس کی تعبیر ظاہر ہے کہ ہجرت کا مجھے موقعہ ملے گا اور اس ہجرت کے دوران روس سے رابطہ ہوگا اور پھر ساری خلافتِ احمدیہ کی تاریخ میں ایک ہی خلیفہ کا روس کے ساتھ رابطہ ہونا، اگر یہ سارے اتفاقات ہیں تو پھر نظم وضبط کے ذریعے واقعات کا ترتیب پانا کچھ اور ہی معنی رکھتا ہو گا.در حقیقت یہ ظاہر طور پر تقدیر ہے جس نے باقاعدہ ان واقعات کو منضبط کیا ہے اور ایک با قاعدہ ترتیب دی ہے اور تعلق جوڑے ہیں.پس اس پس منظر کو بیان کرتے ہوئے جہاں میں آپ کو یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر حرکت میں آچکی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے پورے ہونے کے دن قریب آرہے ہیں، وہاں ان کی ذمہ داریاں دوبارہ یاد کراتا ہوں کہ ان قوموں سے جو روس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں اسلامی رابطے قائم کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں...66 (ماخوذ از خطبه جمعه فرموده 23 فروری 1990ء.خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 113 تا 119)
526 چیلنج مباہلہ کا پیج اور Friday the 10th حضرت خلیفتہ امسح الرابع رحمہ اللہ نے جماعت احمد یہ عالمگیر کی نمائندگی میں مگر ین و مکڈ ٹن احمدیت اور ائمہ انگفیر کو بروز جمعۃ المبارک 10 رجون 1988ء کو با قاعدہ طور پر مباہلہ کا چیلنج دیا تھا.یوں Friday The 10th کا ایک اطلاق جمعۃ المبارک 10 رجون 1988 ء پر بھی ہوتا ہے.اس مباہلہ کے حیرت انگیز اور عظیم الشان ثمرات اور اس کے نتیجہ میں عالمی سطح پر احدیت کی صداقت کو ظاہر کرنے والے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے متعد د نہایت روشن اور بین نشانات ظاہر ہوئے.اسی طرح بعض مکڈ بین کی ذلت ورسوائی اور ان کی عبرتناک ہلاکت کے واقعات بھی رونما ہوئے.اس کی کسی قدر تفصیل اس کتاب میں ائمہ التکفیر کو مباہلہ کا چیلنج کے عنوان کے تحت بیان کی گئی ہے.اسی طرح جب پاکستان میں معاندین احمدیت کی طرف سے 1997ء میں جماعت کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈہ اور تکفیر کی مہم میں ایک دفعہ پھر ابال آیا تو اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے ایک دفعہ پھر 1988ء والے مباہلہ کے چیلنج کا ایک نئے رنگ میں اعادہ کیا.یہ واقعہ بھی 10 جنوری 1997ء بروز جمعہ المبارک رونما ہوا.گویا یہ بھی Friday The 10th کا ایک نیا ظہور تھا.خود حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : آج رمضان کا پہلا دن طلوع ہونے والا ہے اور مہینے کی تاریخ کے لحاظ سے دسویں تاریخ اور جمعہ کا دن ہے.اور یہ وہ جمعہ ہے جو Friday The 10th ہے جس کے متعلق اللہ تعالی نے کشفی طور پر دکھایا تھا کہ بار بار جماعت کی تائید میں خوشخبریوں کا نشان ظاہر ہوا کرے گا.تو آج Friday The 10th رمضان کے ساتھ جڑا ہوا اُبھرا ہے.“ تخطبہ جمعہ فرمودہ 10 جنوری 1997 مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28 فروری 1997ء) الغرض مباہلہ کے چیلنج کے نتیجہ میں بھی جماعت کے حق میں اللہ تعالی کی تائید و نصرت اور دشمنوں کی ذلت و ادبار اور ان کی عبرتناک ہلاکت کے حیرت انگیز نشانات ظاہر ہوئے.اس کی کسی قدر تفصیلات بھی اس کتاب میں دوسری جگہ موجود ہیں.
527 سکھر کے اسیران راہ مولا کی آٹھ سال بعد قید سے رہائی اور Friday the 10th سے اس کا تعلق الغرض خلافت رابعہ کے دور میں اور اس کے بعد خلافتِ خامسہ کے مبارک دور میں بھی متعدد ایسے واقعات ونشانات ظاہر ہوئے جو کسی نہ کسی رنگ میں Friday the 10th کے عظیم الشان کشف میں دکھائی جانے والی روشن تحتی کے ساتھ منسلک تھے اور وہ افراد جماعت کی تقویت ایمان کا موجب ہوئے.مثل سکھر کے دو اسیران راہ مولی بھائی مکرم پروفیسر ناصر احد قریشی صاحب اور مکرم رفیع احمد قریشی صاحب جو 1984ء سے سکھر جیل میں پابند سلاسل تھے، آٹھ سال بعد 1992ء میں ان کی رہائی کو بھی حضور نے قادیان دارالامان میں اپنی Friday the 10th ( یعنی جمعتہ المبارک 10 / جنوری 1992ء) کو کی جانے والی خصوصی دعا کا اعجاز قرار دیا.حضور رحمہ اللہ کو ان اسیران کی رہائی کی خبر اس وقت ملی جب آپ قادیان سے واپسی پر دہلی کے سفر کے دوران امرتسر اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں انتظارگاہ میں تھے.جب حضور رحمہ اللہ کو یہ خوشخبری دی گئی تو آپ کا چہرہ فرط مسرت سے چمک اٹھا اور فرمایا: فرمایا: قادیان میں اس جمعہ یعنی Friday the 10th کو میں نے خاص طور پر ان کی انجازی رستگاری کے لئے بارگاہ رب العزت میں التجا کی تھی.الحمد للہ کہ خدا تعالی نے اس دعا کو شرف قبولیت بخشا اور الہام Friday the 10th کی چمکار پر تصدیق کی ایک اور مہر ثبت کردی.اسی ضمن میں جب دہلی پہنچ کر حضور نے محترم پروفیسر ناصر احمد قریشی صاحب سے فون پر بات کی تو میں جب سے قادیان آیا ہوں آپ لوگوں کے لئے خصوصیت سے دعائیں کر رہا ہوں اور پھر Friday the 10th جو قادیان میں آیا اس میں میں نے ایسی خصوصیت سے دعا کی کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ واپس نہیں آئے گی.“ تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب دوره کاریان 1991ء حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ.مرتبہ ہادی علی چوہدری صفحہ 162 (166)
528 ینا اللہ تعالی اپنے پیاروں کو دی جانے والی خوشخبریوں کوکئی کئی بار اور مختلف رنگوں میں پورا فرما تا ہے.اور ان کا ہر اظہار ہی مومنین کے قلوب کو لطیف روحانی مسرتوں سے معمور کرتا ہے.Friday the 10th اور جماعت احمدیہ فرانس جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے Friday the 10th کے مبشر پیغام پر مشتمل یہ کشف مختلف رنگ میں پورا ہو کر اپنی چمک دکھلاتا رہا لیکن اس کشف کی ایک نہایت پر شوکت اور خوبصورت تجلی وضاحت خلافت خامسہ کے عہد سعادت مہد میں جمعہ 10 اکتوبر 2008ء کو فرانس میں ہی ظاہر ہوئی.جماعت احمدیہ فرانس کی تاریخ میں جمعہ 10 اکتوبر 2008ء کا دن وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل، تاریخی اور سنگِ میل حیثیت رکھنے والا دن ہے جب Friday the 10th کی خوشخبری ایسی کے ساتھ پوری ہوئی کہ چشم بصیرت رکھنے والے منصف مزاج کے لئے اس کا انکار ممکن نہیں.یہ وہ دن ہے جب امیر المومنین حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرانس میں تعمیر ہونے والی پہلی احمد یہ مسجد مسجد مبارک کا افتتاح فرمایا.یہ جمعہ کا مبارک دن تھا.سال کا دسواں مہینہ ( یعنی ماہ اکتوبر) اور اس کی دس تاریخ تھی.نہ صرف یہ بلکہ پاکستان میں اسلامی کیلنڈر کے لحاظ سے ماہِ شوال کی بھی دس تاریخ تھی.Friday the 10th والے کشف میں جو دس کا ہندسہ بار بار روشن الفاظ میں دھڑکتا دکھایا گیا تھا اس میں یہ پیغام تھا کہ خدا کی رحمت کے نشان پر مشتمل یہ روشن حتی ایک دفعہ ہونے والا واقعہ نہیں بلکہ یہ نشان بار بار رونما ہوگا اور اپنی بار بار کی چمکار سے لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچے گا.حضرت خلیفة أسبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد مبارک فرانس کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطبہ جمعہ میں Friday the 10th کے اس نشان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: जहा 28 دسمبر 1984ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دورہ فرانس کے دوران اپنے اس کشفی نظارے کا پہلی دفعہ ذکر کیا تھا جس میں گھڑی پر دس کے ہندسے کو چمکتے
529 دیکھا تھا اور آپ کے ذہن میں اس کے ساتھ آیا تھا کہ یہ Friday the 10th کی تاریخ ہے.وقت نہیں ہے.تو آج بھی اتفاق سے یا اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ Friday the 10th ہے اور فرانس کی پہلی مسجد کا افتتاح ہو رہا ہے.خدا کرے کہ وہ برکات جو Friday the 10th کے ساتھ وابستہ ہیں، جن کے بارے میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع " کو بھی خوشخبری دی گئی تھی، اور اللہ تعالی ایک بات کو کئی رنگ میں پورا فرماتا ہے اور کئی طریقوں سے ظاہر فرماتا ہے، اللہ کرے کہ وہ اس مسجد کے ساتھ بھی وابستہ ہوں اور یہ مسجد جماعت کی ترقی کے لئے اس ملک میں ایک سنگ میل ثابت ہو.“ حضرت خلیفہ اصبح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 10 رمتی 1985ء میں Friday the 10th والے کشف کے حوالہ سے افراد جماعت کی مختلف تعبیروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا:...ایک بات بہر حال یقینی ہے کہ خدا تعالیٰ جب جماعت کے لئے خوشخبری دکھائے گا تو اتنی نمایاں اور روشن ہوگی کہ دیکھنے والے کو نظر آئے گا.اس وقت تعبیروں کا وقت نہیں رہے $6 گا بلکہ صاف دکھائی دے گا کہ ہاں یہ بات پوری ہو گئی.“ چنانچہ ہم جماعت احمدیہ فرانس کے تاریخی پس منظر میں اور بالخصوص دسمبر 1984ء سے (جب فرانس میں حضور رحمہ اللہ کو Friday the 10th والے کشف کے ذریعہ خوشخبریوں کی نوید سنائی گئی ) جمعہ المبارک 10 اکتوبر 2008ء (یعنی فرانس میں جماعت کی پہلی مسجد مسجد مبارک کے افتتاح ) تک کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو دل بے اختیار یہ گواہی دیتا ہے کہ Friday the 10 کی خوشخبری بہت نمایاں اور دشن طور پر پوری ہوگئی.1984ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرانس میں ہی یہ کشف دیکھا تھا اور 28 دسمبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں جو پیرس میں آپ نے دیا تھا اس میں اس کشف کا ذکر فرمایا.اس وقت فرانس میں احمدیوں کی تعداد کم و بیش ساٹھ افراد پر مشتمل تھی.جماعت کا اپنا کوئی مشن ہاؤس بھی نہیں تھا.اس وقت جماعت نے ایک پریس کانفرنس منعقد کرنے کی کوشش کی لیکن پریس و میڈیا نے اسے بالکل درخور اعتناء نہیں سمجھا اور ایک بھی صحافی وہاں نہیں آیا.ایک طرف یہ حالات تھے اور
530 دوسری طرف خداے حسن وما اپنے پارے بنے لینی است اراہ کوایک کشٹ کے ذریعہ الرابع خوشخبریاں عنایت فرما رہا تھا.پھر اس کشف کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ 1985ء میں جماعت احمد یہ فرانس نے Saint Prix کے علاقہ میں ایک سہ منزلہ عمارت بطور مشن ہاؤس خریدی.13 سر اکتوبر 1985ء کو حضرت خليفة أسبح الرابع رحمہ اللہ نے اس مشن ہاؤس کا باقاعدہ افتتاح فرمایا.آپ نے اس مشن ہاؤس کو بیت السلام کا نام عطا فرمایا.1996ء میں حضور رحمہ اللہ نے جماعت احمدیہ فرانس کو ایک مسجد تعمیر کرنے کے لئے تحریک فرمائی.90ء کی دہائی میں جماعت کو علاقہ کے مکینوں کی طرف سے سخت مخالفت اور کئی قسم کی دھمکیوں کا سامنا تھا.علاقہ کے میئر کی طرف سے بھی شدید مخالفت کا اظہار تھا.ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مشن ہاؤس کو جماعتی سرگرمیوں کے لئے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی.ان نامساعد حالات میں بھی جماعت احمدیہ فرانس خلافت کی رہنمائی میں کسی نہ کسی رنگ میں کام کرتی رہی.1998ء کے آخر میں علاقہ کے میئر کی طرف سے جماعت کو لکھا گیا کہ کونسل کو پارکنگ کے لئے مشن ہاؤس کی جگہ سے قریبا دس میٹر جگہ قیمتا در کار ہے.اگر چہ مشن ہاؤس کی جگہ جماعتی ضروریات کو بمشکل پور کرتی تھی اور افراد جماعت کا ہی خیال تھا کہ کونسل کو یہ جگہ فروخت نہ کی جائے.لیکن جب یہ معاملہ حضرت خلیفہ اسی الرائع کی خدمت میں برائے رہنمائی پیش ہوا تو حضور رحمہ اللہ نے فرمایا بہتر یہ ہے کہ احسان کے ساتھ خود ہی جگہ دے دیں.اللہ اپنے فضل سے آپ کو وسعتیں عطا فرمائے.“ ( بحوالہ خط دفتر وکالت تبشیر لندن محر ر و 16 دسمبر 1998ء) 2003ء میں حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عہد میں میئر علاقہ کوان کی مطلوبہ جگہ بلا معاوضہ تحفہ دیدی گئی.اللہ تعالیٰ نے اپنی قائم کردہ خلافت حقہ اسلامیہ کے فیصلے اور دعا کو قبولیت کا شرف بخشتے ہوئے حیرت انگیز طور پر جماعت کو برکتوں اور وسعتوں سے نوازا.30 جون 2003ء کو جماعت احمد یہ
531 فرانس کو مشن ہاؤس بیت السلام سے ملحقہ ایک رہائشی عمارت خریدنے کی توفیق عطا ہوئی.اور 20 اگست 2006ء کومشن ہاؤس کی زمین کے ساتھ ایک اور مکان بھی خریدا گیا.یوں 1985ء میں خریدا جانے والا مشن ہاؤس اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خلافت خامسہ کے مبارک دور میں دومزید رہائشی عمارات کے اضافہ کے ساتھ کافی وسعت اختیار کر گیا.اور حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی زیر ہدایت اس جگہ مسجد کی تعمیر کے لئے کوششوں کا آغاز ہوا.یہ کوئی آسان کام نہیں تھا.مقامی میئر اور کونسل کی طرف سے کافی مشکلات پیدا کی گئیں.پھر ایک موقع پر جب حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ فرانس تشریف لائے تو میئر کو بھی دعوت دی گئی.وہ دس منٹ کے لئے آنے کا وعدہ کر کے آئے لیکن حضرت خلیفہ اسیح کی پر جذب روحانی شخصیت نے ان کو ایسا متأثر کیا کہ انہوں نے قادیان کے جلسہ کی مناسبت سے حضور ایدہ اللہ کے فرانس سے ایم ٹی اے کے توسط سے براہ راست خطاب کو مکمل طور پر سنا اور بہت دیر تک مشن ہاؤس میں رہے.حضور ایدہ اللہ کی دعاؤں سے کونسل کے رویہ میں تبدیلی آنی شروع ہوئی.علاقہ کی کونسل اور میئر نے مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دیدی اور تمام قانونی مراحل طے کرنے کے بعد جولائی 2006ء میں مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں نقشہ جات منظور ہو کر آگئے.26 جنوری 2007ء کو مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا.مکرم عبد الماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشير لندن کو حضور ایدہ اللہ نے اس موقع پر اپنے نمائندہ کے طور پر بھجوایا.مسجد کی تعمیر کا کام کم و بیش ڈیڑھ سال تک جاری رہا.اس غرض سے افراد جماعت فرانس نے بڑی محبت اور بشاشت کے ساتھ مالی قربانی میں بھی حصہ لیا.مسجد کی تعمیر کی غرض سے پرانی عمارت کو مسمار کرنے اور ملبہ اٹھانے کا کام ملا کر تعمیر کے خرچ کا تخمینہ کم و بیش دس لاکھ یورو کا تھا.مگر افراد جماعت نے کئی ماہ تک مسلسل وقار عمل کر کے تقریبا چھ لاکھ یورو کی رقم بچائی اور تین لاکھ بیس ہزار یورو میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی.اس مسجد میں کم و بیش 450 / افراد کے لئے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے.مسجد کا گنبد اور مینار بھی ہے.8 را کتوبر 2008ء کو جب حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ اس مسجد کے افتتاح کے لئے فرانس
532 تشریف لائے اس وقت تک فرانس کے 22 شہروں میں احمدیت کا نفوذ ہو چکا تھا اور 13 مضبوط، فعال اور مستحکم جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے الجزائر، بنگلہ دیش، آئیوری کوسٹ، قموروز، کانگو، مصر، گھانا، گنی کوناکری، انڈیا، لاؤس (LAOS)، مالی، مراکش، جزیره Martinique، ماریشس، موریطانیه، نائیجر، پاکستان ری یونین آئی لینڈ، سینیگال، سیر یا، ٹوگو، کانگو ( کنشاسا)، تیونس، ترکی، مڈغاسکر، کوسووو، برطانیہ، سنگاپور، فلپائن، لکسمبرگ، فرانس اور گیانا گل 33 مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ احمدیت میں داخل ہو چکے تھے.خدا تعالیٰ کے فضل سے مختلف قوموں اور ملکوں سے تعلق رکھنے والے یہ احمدی خلافت احمدیہ کے ذریعہ وحدت کی لڑی میں پروئے ہوئے بہت مخلص اور فدائی اور خدمت سلسلہ میں مصروف ہیں.اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُس وقت (اکتوبر 2008ء میں) فرانس جماعت کی نیشنل مجلس عاملہ کے 23 ممبران میں سے صرف چار پاکستانی تھے اور 19 کا تعلق دیگر مختلف اقوام سے تھا.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے 28 دسمبر 1984ء والے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو تبلیغ کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا: تبلیغ کی طرف غیر معمولی توجہ کریں اور حقیقی خوشی مجھے جماعت فرانس کی طرف سے تب پہنچے گی کہ دیکھتے دیکھتے جماعت کی کایا پلٹ جائے.جہاں کوئی بھی وجود بظاہر احمدیت کا نظر نہیں آتا تھا وہاں ایک عظیم الشان جماعت قائم ہو جائے اور صرف فرانس کے لئے نہیں تمام دنیا میں جہاں فرانسیسی بولی جاتی ہے وہاں کے لئے فرانس میں ایک مضبوط مرکز قائم ہو.(مخطیہ جمعہ فرمودہ 28 رو سمبر 1984ء بمقام پیرس.خطبات ظاہر جلد 3 صفحہ 781) اللہ تعالی نے حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی اس خواہش کو بھی بڑی شان سے پورا فرمایا اور جماعت احمدیہ فرانس نہ صرف ملک کے اندر مسلسل ترقی کرتی رہی بلکہ فرانس مشن کی مساعی جمیلہ سے 2008 ء تک آٹھ ممالک Martinique ، French Guyana Haiti Andora Monaco Palau St Martin اور Guadeloupe میں بھی احمدیت کا نفوذ ہوا.خدا تعالیٰ کے فضل سے
533 ان ممالک میں بھی خلافت احمدیہ کے زیر ہدایت و نگرانی جماعت مسلسل ترقی پذیر ہے.1984ء میں وہ وقت تھا کہ فرانس کے پریس اور میڈیا نے خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ پریس کانفرنس کو کسی قسم کی اہمیت نہ دیتے ہوئے اسے بالکل نظر انداز کر دیا تھا لیکن 2008ء میں یہ صورت تھی کہ جس روز حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد مبارک کے افتتاح کی غرض سے فرانس تشریف لائے اسی روز حضور کی آمد سے قبل فرانس کے دو مشہور ریڈیو سٹیشن France Info اور France Blue کے نمائندے مشن ہاؤس نبیت السلام پہنچے اور مسجد کے حوالہ سے انٹرویوریکارڈ کئے.اسی طرح فرانس کے ہفتہ وار میگزین L'Express نے اپنی 9 تا 15 / اکتوبر کی اشاعت میں صفحہ 24 / پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر کے ساتھ حسب ذیل خبر شائع کی.یعنی مسجد کے افتتاح سے قبل ہی اس کی پریس میں تشہیر ہوگئی.ایک نئی مسجد فرانس میں احمدیوں کی پہلی مسجد.اس میں تین صدا افراد کی گنجائش ہے جس کا افتتاح Saint Val-Doise)Prix) میں ان کے روحانی رہنما کی موجودگی میں ہوگا.حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کا تعلق پاکستان سے ہے.اور احمدیت ایک امن پسند فرقہ ہے...اس فرقہ کے افراد پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں Persecution کا شکار ہورہے ہیں.“ 8 اکتوبر 2008ء کو ہی بعد دو پہر فرانس کے ایک اور بڑے نیشنل اخبار Le Parisienکے معروف جرنلسٹ Mr.Arnaud Baur مشن ہاؤس آئے.مسجد کی تصاویر لیں اور حضور ایدہ اللہ کی فرانس آمد اور مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے معلومات لیں اور اسلام احمدیت کے متعلق بھی مبلغ سلسلہ فرانس اور پریس سیکرٹری سے انٹرویوز لئے.10 را کتوبر 2008ء بروز جمعۃ المبارک مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کے لئے نہ صرف فرانس کے دور دراز کے علاقوں سے بلکہ ہمسایہ ممالک جرمنی بیلجیم ، انگلستان، یونان اور سپین سے بھی
534 افراد جماعت تشریف لائے.کم و بیش 40 / ا قوام و ممالک سے تعلق رکھنے والے آٹھ صد افراد اس موقع پر موجود تھے.مسجد مبارک کے افتتاح کی کوریج کے لئے ریڈیو، اخبار اور ٹی وی کے صحافی اور نمائندگان جمعہ کے روز صبح سے ہی مسجد اور مسجد کی تعمیر سے متعلق معلومات اور انٹرویوز کے لئے اپنے کیمروں وغیرہ کے ساتھ موجود تھے.انہوں نے امیر جماعت، مبلغ انچارج، سیکرٹری تبلیغ و دیگر کئی افراد جماعت کے انٹرویوز کئے.اخبارات میں سے L'Echo، L'Express Le Parisien لوکل ریڈیو Radio Englien ، ٹی وی 3 France اور 24 France( جو فرنچ کے علاوہ انگریزی اور عربی میں نشریات کرتا ہے) کے نمائندے موجود تھے.le Parisienنے دومرتبہ اخبار میں خبر دی.ایک دفعہ مسجد کی تصویر کے ساتھ اور پھر حضور انور ایدہ اللہ کی تصویر کے ساتھ جبکہ آپ مسجد کا افتتاح فرما رہے تھے.اسی طرح مقامی ریڈیو Radio Anglien نے سیکرٹری تبلیغ کا انٹرو یونشر کیا.جب حضور ایدہ اللہ نے مسجد مبارک کے بڑے داخلی دروازے کے پاس نصب افتتاح کی یادگاری تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی اس وقت چاروں طرف صحافیوں کا ہجوم تھا اور مسلسل تصاویر لی جارہی تھیں.3 France ٹی وی نے اپنی شام سات بجے کی خبروں میں افتتاح کے متعلق دومنٹ پانچ سیکنڈ کی خبر نشر کی.جبکہ 24 France نے دومنٹ 55 سیکنڈ کی انگریزی میں رپورٹنگ دیکھائی.بعد میں 24 France نے ہر چار گھنٹے بعد متعدد بار انگریزی، فریج اور عربی میں حضور ایدہ اللہ کے مسجد کا افتتاح کرتے ہوئے اور خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کے مناظر کی Flash Back دکھائیں اور خبروں میں وضاحت سے بتایا کہ احمدی قرآن مجید کو ہی اپنی مذہبی کتاب مانتے ہیں.ارکان اسلام پر یقین رکھتے اور عمل کرتے ہیں.اسی طرح احمدیوں اور غیر احمدیوں میں فرق کو واضح کرتے ہوئے بتایا که احمدی امام مہدی و مسیح موعود کو مانتے ہیں جو تمام بنی نوع انسان کو وحدت کی لڑی میں پرونے کے لئے آئے ہیں.اور یہ کہ احمدی مذہب کے نام پر جنگ اور ہر قسم کے تشدد کے خلاف ہیں اور اسلام کی
535 پر امن تصویر پیش کرتے ہیں اور محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں، پر یقین رکھتے ہیں.الغرض میڈیا نے بہت ہی مثبت رنگ میں اور ادب و احترام کے ساتھ جماعت احمدیہ کا تعارف پیش کیا.مسجد کے بارہ میں ایک ٹی وی نے کہا کہ آج ساری دنیا کے احمدی کہہ سکتے ہیں کہ آج فرانس میں Saint Prix کے علاقہ میں ہماری ایک مسجد ہے.مسجد کی یادگاری تختی کی نقاب کشائی کے وقت علاقہ کے میئر Jean-Pierre Enjalbert بھی موجود تھے.یہ وہی میئر ہیں جن کا رویہ آغاز میں جماعت کے ساتھ بہت ہی خشک بلکہ معاندانہ تھا.فرانس کے میڈیا کے علاوہ ایم ٹی اے انٹر نیشنل کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ ساری دنیا میں یہ ساری کارروائی براہ راست دکھائی جارہی تھی............حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ نے مسجد مبارک کے افتتاح کے روز خطبہ جمعہ میں فرانس میں اس مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے مخالفت اور اس کی تاریخ کا بھی مختصر ذکر فرمایا.احباب جماعت کو مسجد کی تعمیر پر مبارکباددی اور مسجد کی تعمیر کی غرض وغایت اور عبادتوں کے قیام اور تبلیغ اور اعمال صالحہ کی طرف توجہ دلائی.حضور انور ایدہ اللہ کا نہایت ہی پر معارف اور بصیرت افروز خطبہ جمعہ نہ صرف ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست ساری دنیا میں نشر ہوا بلکہ فرانس کے دو TV CHANNELSنے بھی خطبہ جمعہ کے بعض مناظر ریکارڈ کئے اور اپنی نشریات میں اس کی جھلکیاں دکھا ئیں.جمعۃ المبارک 10 / اکتوبر کو ہی مسجد مبارک کے افتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب عشائیہ کا اہتمام مسجد کے ملحقہ حصہ میں مار کی لگا کر کیا گیا تھا.اس تقریب میں علاقہ کے میئر اپنی کیبنٹ کے ممبران کے ساتھ شامل ہوئے.اسی طرح جرمنی، کینیا، آئیوری کوسٹ، ٹوگو، بورکینا فاسو، انڈیا کے
536 سفارتخانوں کے معزز نمائندگان، اخبارات و ریڈیو کے نمائندگان، یونیورسٹی کے پروفیسرز، Saint Prix کے چرچ کے پادری ، مسجد کے بہت سے ہمسائے اور سوسائٹی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے کئی ایک مہمان شامل ہوئے.اس موقع پر اس علاقہ کے میئر صاحب نے حضور انور کے خطاب سے قبل اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے بر ملا طور پر کہا کہ: " آج کا دن نہ صرف آپ لوگوں کے لئے خاص دن ہے بلکہ ہمارے لئے بھی خاص دن ہے.آپ لوگ جو ایک پر امن جماعت ہیں جب آپ اسلام کا پیغام لے کر ہمارے اس علاقہ Saint Prix میں آئے تو ہم نے آپ کو خوش آمدید نہیں کہا تھا.وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ محسوس ہوا کہ آپ پر امن جماعت ہیں.آپ نے ہمارے دل جیت لئے ہیں.اس لئے اس خوشی کے موقع پر آج ہم آپ کے ساتھ ہیں.ہم بھی آج خوش ہیں.میتر صاحب نے کہا کہ: گزشتہ 22 سال سے میں اس جماعت کو جانتا ہوں اور 22 سال کا عرصہ کسی کو جاننے کے لئے کافی ہے.آج میں خود بر ملا اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ آپ کے محبت اور امن کے پیغام نے ہمارے دل جیت لئے ہیں...میئر نے کہا کہ...آپ ملکی قوانین کا احترام کرتے ہیں اور ہمارے قانون کی پابندی کرتے ہیں.آپ نے بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد کیا تھا.میں اس میں شامل ہوا تھا.میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی جماعت حکومت کے قوانین اور اصولوں کی زیادہ پاسداری اور احترام کرتی ہے.میئر نے کہا کہ آپ نہ صرف لوگوں کو سلامی تعلیم دیتے ہیں بلکہ اس تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ انسانیت کی خدمت بھی کرتے ہیں.ہمارے ساتھ مل کر آپ نے بہت سے پراجیکٹ میں حصہ لیا ہے جس سے دوسروں کی مدد ہوتی ہے.“ اس موقع پر حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے خطاب میں اسلام کی امن وسلامتی کی خوبصورت تعلیم اور جماعت احمدیہ کی خدمت انسانیت کے حوالہ سے بہت ہی دلکش اور اثر انگیز خطاب فرمایا جس کا
537 شاملین تقریب نے کھلم کھلا اعتراف کیا.ذیل میں بعض اخبارات میں اس مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے شائع ہونے والی خبریں نمونیہ درج کی جاتی ہیں.ہفتہ وار ریجنل اخبار L'Echo نے صفحہ 9 پر پورے صفحہ کی خبر دی.اس میں خانہ کعبہ، مسجد مبارک فرانس اور حضور ایدہ اللہ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی گل چار تصویر میں شائع کیں.پہلے صفحہ کی تصویر کے ساتھ جماعت احمدیہ کی فرانس میں پہلی مسجد کے افتتاح کا جلی عنوان لگایا.اور لکھا: فرانس کے احمدی مسلمان Saint Prix میں اپنی مسجد کا افتتاح کرتے ہیں.جماعت کے عالمگیر راہنما کی موجودگی میں اس تقریب کو میڈیا نے نشر کر کے اس اسلامی دینی موومنٹ کے بارہ میں عوام کو بتایا.اور تفصیلی خبر میں لکھا: "Saint Prix میں احمدیہ موومنٹ 1985ء سے قائم ہے جہاں اس کا نیشنل سطح کا مرکز ہے.اس غیر معروف جماعت کے ممبران کی تعداد ایک ہزار ہے.اس نے پہلے ایک Villa حاصل کیا.پھر دوسرا اور پھر مسجد کی تعمیر کی اجازت.Saint Prix کے میئر Jean-Pierre Enjalbert نے کہا : "پہلے پہل ان کے بارہ میں خوف تو نہیں مگر بے یقینی اور بے اعتمادی تھی.پھر ہم نے ایک دوسرے کو جانچا.یہ جماعت ہمارے علاقہ کے ماحول پر ظاہر وباہر ہے.اس کے پاس نماز کی ادائیگی کے لئے ایک ہال تھا جو بہت چھوٹا پڑ گیا تھا لہذا ہم نے ایک مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دے دی جو تعمیر کے لحاظ سے ماحول میں رچ بس جائے.اسی طرح اس اخبار نے لکھا:...اس جماعت کے سر پر دینی لحاظ سے ایک خلیفہ ہے.(موجودہ خلیفہ پانچواں ہے) آپ خدا کے فرستادہ کے جانشین ہیں.آپ روحانی رہنما ہیں..لیکن یہ سیاسی خلیفہ
538 کم: یا خود ہی مومنوں کے کمانڈر ہونے کا دعویدار نہیں جیسے مسلمانوں نے بغداد، قرطبہ، دمشق، قاہرہ اور سلطنت عثمانیہ کے زمانہ میں دیکھا تھا جس نے علاقائی فتوحات کی تھیں....پھر اسی خبر میں ایک جماعت تنقید کا نشانہ کا عنوان لگا کر لکھا: " حمد یہ موومنٹ کا ایک خلیفہ ہے اور امسال یہ جماعت اپنی خلافت کی صد سالہ جوبلی منا رہی ہے.اس دینی جماعت کے روحانی امام گزشتہ جمعہ مسجد کے افتتاح کے لئے خود موجود تھے...اسلام میں احمد یہ خلیفہ خالہا ایسے ہی ہے جیسے بدھسٹ کے لئے دلائی لامہ“ اس خبر میں حضور ایدہ اللہ کے خطبہ کے حوالہ سے بھی بعض پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا.اسی طرح لکھا دیگر مسلمان بلحاظ مجموعی احمدیوں کو برداشت نہیں کرتے.پاکستان کی طرح سعودی عرب میں بھی یہ نا قابل قبول ہیں اور امت مسلمہ سے الگ کر دیئے گئے ہیں ( جب کہ اسلام میں ناممکن ہے کہ کسی ایک کو بھی اسلام سے باہر نکالا جائے ).پھر خلافت کے قیام کی وجہ سے احمدیت یہ یقین رکھتی ہے کہ وہ امام مہدی جس کا انتظار مسلمان دنیا کر رہی ہے وہ آچکا ہے.“ (Fabrice CAHEN)....L'Hebdo du Val-D'Oise کے اخبار La Gazette کے بدھ 15 اکتوبر 2008ء کے ایڈیشن میں بھی مسجد کے افتتاح کا ذکر شائع ہوا.68 صفحات پر مشتمل اس اخبار کے صفحہ 37 پر حسب ذیل خبر شائع ہوئی."Sait Prix احمدی مسلمان اپنی مسجد کا افتتاح کرتے ہیں اخبار نے تصویر میں دکھایا کہ مسجد افراد جماعت سے بھری ہوتی ہے اور حضور ایدہ اللہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمارہے ہیں.تصویر کے نیچے تحریر ہے: احمدی سلطان نے مسجد کا افتتاح کیا اور تفصیلی خبر میں لکھا: "Saint Prix میں احمدی مسلمانوں نے اپنی مسجد کا افتتاح کیا.جماعت کے
539 حال گیر رہنما کی موجودگی میں اس تقریب کو میڈیا نے نشر کر کے اس اسلامی دینی موومنٹ کے بارے میں عوام کو بتایا.اس کے بعد اخبار نے L'Echo میں شائع ہونے والے جماعت فرانس کے تعارف اور میئر کے بیان کا ذکر دہرایا.اور پھر لکھا: س دینی جماعت کے روحانی امام گزشتہ جمعہ مسجد کے افتتاح کے لئے خود موجود تھے.Val-d'Oise اور Francilienne کی اس چھوٹی سی جماعت کے لئے جو آپ کا وعظ سننے اور آپ کی موجودگی میں نماز پڑھنے آئی تھی آپ کی آمد ایک غیر معمولی واقعہ تھا.“ حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے 28 دسمبر 1984ء کو پیرس (فرانس) میں ہی Friday the 10th کے مبشر کشف کے حوالہ سے فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ جب جماعت کے لئے خوشخبری دکھائے گا تو اتنی نمایاں اور روشن ہوگی کہ دیکھنے والے کو نظر آئے گا.اس وقت تعبیروں کا وقت نہیں رہے گا بلکہ صاف دکھائی دے گا کہ یہ بات پوری ہو گئی.بلاشبہ جماعت کی خلافت جوبلی کے سال میں حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کے مبارک عہد خلافت میں 10 اکتوبر 2008ء کو Friday the 10th کی یہ خوشخبری اس نمایاں شان سے روشن اور درخشاں طور پر پوری ہوئی کہ نہ صرف فرانس بلکہ ساری دنیا میں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ یہ خدائی خبر بڑی صفائی سے پوری ہوتی.اور اپنوں اور غیروں نے اس کی صداقت پر شہادت دی.یقینا ہمارا خدا سچے وعدوں والا ہے.اور خلافت احمد یہ اس سے مؤید و منصور اور الہی تجلیات کی مورد ہے.* 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0 0
541 دورِ خلافت رابعہ کی بعض مالی تحریکات اللہ تعالیٰ نے عالمگیر غلبہ اسلام کی جو آسمانی مہم حضرت اقدس مسیح موعود کے سپرد فرمائی تھی اس کو انجام دینے کے لئے اموال کی بھی ضرورت تھی.سو حضور علیہ السلام نے اپنی مبارک زندگی میں سنت انبیاء کے موافق اپنے متبعین کو مالی قربانیوں کی اہمیت اور اس کی برکات سے آگاہ کرتے ہوئے ترقی اسلام اور اشاعت علم قرآن و کتب دینیہ اور دیگر مصالح اسلام کے لئے اپنے اموال پیش کرنے کی تحریک فرمائی.اسی تسلسل میں اللہ تعالی کے حکم سے آپ نے ایک عظیم الشان نظام نظام وصیت کی بنیا درکھی.آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ : یہ زمانہ جانوں کے دینے کا نہیں بلکہ مالوں کے بشرط استطاعت خرچ کرنے کا ہے." اسی طرح فرمایا: ( الحکم قادیان 10 جولائی 1903ء) یہ خدا تعالی کی سنت ہے کہ ہر ایک اہل اللہ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی ضرورت پڑتی ہے“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 156) آپ نے اپنی تصنیف لطیف فتح اسلام میں عالمگیر غلبہ اسلام کے لئے جن پانچ شاخوں کا ذکر کیا ہے اس حوالہ سے لوگوں کو اپنے سارے دل اور ساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ: "جو شخص اپنی حیثیت کے موافق کچھ ماہواری دینا چاہتا ہے وہ اس کو حق واجب اور دین لازم کی طرح سمجھ کر خود بخود ماہوار اپنی فکر سے ادا کرے اور اس فریضہ کو خالصہ اللہ نذر مقرر کر کے اس کے ادا میں مختلف یا سہل انگاری کو روانہ رکھے اور جو شخص یکشت امداد کے طور پر دینا چاہتا ہے وہ اسی طرح ادا کرے...ہاں جس کو اللہ جل شانہ توفیق اور انشراح صدر بخشے وہ علاوہ اس
542 ماہواری چندہ کے اپنی وسعت ہمت اور اندازہ مقدرت کے موافق یکمشت کے طور پر بھی مدد کر سکتا ہے.." 66 ریخ اسلام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 33,34) اور اپنی جماعت کے افراد کو، اپنے متبعین اور بیعت کنندگان کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے فرمايا: ہر ایک شخص جو اپنے تئیں بیعت طروں میں داخل سمجھتا ہے اس کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے حال سے بھی اس سلسلہ کی خدمت کرے...ہر ایک بیعت کنندہ کو بقدر وسعت مدد دینی چاہئے." کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 3) حضور علیہ السلام نے مالی قربانیوں کے لئے عمومی تحریک کے علاوہ بعض دفعہ بعض معین کاموں کے لئے بھی مالی اعانت کی تحریک فرمائی اور بعض صورتوں میں اس کے لئے کم سے کم معیار قربانی بھی مقرر فرمایا.اللہ تعالی نے آپ کو ایسے مخلصین بھی عطا فرمائے جنہوں نے آپ کی ہر بات پر لبیک ہوئے مالی قربانی کی غیر معمولی اور شاندار مثالیں قائم فرمائیں.آپ نے اپنی کتب میں مکتوبات میں اور ملفوظات میں ایسے بہت سے مخلصین اور ان کی مالی قربانیوں کا بہت ہی محبت سے ذکر فرمایا ہے.آپ کی وفات کے بعد خلفاء مسیح موعود کے ذریعہ چندوں اور مالی قربانی کا سلسلہ دن بدن وسعت پذیر ہوتا گیا اور مستحکم بنیادوں پر استوار ہوا.خلافت رابعہ کے عہد میں بھی اس پہلو سے جماعت کا قدم ہمیشہ آگے کی طرف بڑھا.دنیا بھر میں جماعت کی ترقی اور پھیلاؤ کے ساتھ جو نئے تقامنے مصالح اسلام اور ترقی اسلام کے لئے سامنے آئے ان کو پورا کرنے کے لئے افراد جماعت نے دل کھول کر اپنے اموال پیش کئے.ذیل میں ایسی بعض تحریکات کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جاتا ہے.بيوت الحمد منصوبہ الحمدمنة سپین میں سات سو سال بعد مسجد کی تعمیر کی تاریخ ساز سعادت نصیب ہونے پر حمد کے مضمون کا حق ادا
543 کرنے کی خاطر اللہ کے غریب بندوں کے لئے مکان تعمیر کرنے کے ایک اہم منصوبہ کا اعلان آپ نے 29 اکتوبر 1982ء کو فرمایا جس کا نام بیوت الحمد" رکھا اور اس کے لئے ایک فنڈ کا قیام فرمایا.احیاتے دفتر اول تحریک جدید 5 نومبر 1982ء کو تحریک جدید کے 49 ویں سال کا اعلان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: میری خواہش ہے کہ دفتر اول تا قیامت جاری رہے اور جو لوگ ایک دفعہ اسلام کی مثالی خدمت کر چکے ہیں ان کا نام قیامت تک نہ مٹنے پائے اور ان کی اولاد میں ہمیشہ ان کی طرف سے چندہ دیتی رہیں اور ایک بھی دن ایسا نہ آئے جب ہم یہ کہیں کہ اس دفتر کا ایک آدمی فوت ہو چکا ہے.خدا کے نزدیک بھی وہ زندہ ہیں اور قربانیوں کے لحاظ سے اس دنیا میں بھی ان کی زندگی کی علامتیں ہمیں نظر آتی رہیں.“ دفتر دوم تحریک جدید کو زندہ رکھنا اسی طرح آپ نے اسی خطبہ جمعہ فرمودہ 5 نومبر 1982ء میں فرمایا کہ: جو دوست فوت ہو چکے ہیں دفتر دوم کی آئندہ نسلیں ان کے نام کو زندہ رکھنے کی خاطر یہ عہد کریں کہ کوئی فوت شدہ اس لسٹ سے غائب نہ ہونے دیا جائے گا اور ان کی قربانیاں جاری رہیں گی تا کہ ہمیشہ کے لئے اللہ کے نزدیک وہ فعال شکل میں زندہ رہیں.“ حضور رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں ذیلی تنظیموں پر ذمہ داری ڈالی.دفتر اول خدام الاحمدیہ، دفتر دوم انصار اللہ اور دفتر سوم لجنہ اماء اللہ کے سپرد کیا گیا.ان کی مساعی میں اللہ تعالیٰ نے برکت ڈالی اور دفتر اول کے کھاتے بھی زندہ ہوئے.دفتر دوم کی بھی کثیر تعداد نے کھاتے زندہ کرائے اور دفتر سوم میں بھی قربانیوں میں نمایاں اضافہ ہوا.امریکہ میں پانچ نئے مراکز و مساجد کے قیام کے لئے تحریک 15 نومبر 1982ء کو حضرت خلیفہ امسح الرابع نے جماعتہائے احمد یہ امریکہ کو نئے مراکز و مساجد کی تعمیر کی طرف توجہ دینے کے لئے خصوصی پیغام دیا اور فرمایا:
544 خدا کرے آپ کو بہت جلد کم از کم پانچ مساجد اور پانچ مشن ہاؤسز اس قسم کے تعمیر کرنے کی توفیق ملے جو ایک لمبے عرصے تک ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے اہل ہوں.“ جماعت احمد یہ امریکہ کے مخلصین نے نہایت توجہ اور اخلاص اور جوش کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لیا.چنانچہ جلسہ سالانہ یو کے 1987ء کے موقع پر حضور نے یہ نوید سنائی کہ خدا کے فضل.امریکہ میں پانچ مشنز قائم کرنے کی تحریک کے جواب میں سترہ ( 17 ) مشن قائم ہو چکے ہیں.آسٹریلیا میں مسجد کی تعمیر کے لئے تحریک مسجد بیت الہدی سڈنی آسٹریلیا کی تعمیر کے لئے بعض علاقوں کی جماعتوں کو مالی تحریک فرمائی.چنانچہ جلد ہی مطلوبہ رقم کے وعدے اور وصولی ہو کر یہ مسجد تعمیر ہوئی.یورپ میں دو بڑے مراکز کا قیام 18 مئی 1984ء کو حضور نے اشاعت اسلام کے لئے ایک وسیع اور جامع پروگرام کا اعلان فرمایا اور فرمایا کہ: ان اغراض کو پورا کرنے کے لئے کئی ممالک میں بہت بڑے کمپلیکس کی ضرورت ہے.امریکہ میں پہلے ہی پانچ بڑے مراکز کی سکیم جاری ہے.دونئے مرا کز یورپ میں بنانے کا پروگرام ہے.ایک انگلستان میں بہت بڑا مرکز قائم کرنا ہے اور دوسرا جرمنی میں“.جماعت نے اس مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور خدا تعالیٰ کے فضل.اسلام آباد (ملفورڈ ) انگلستان میں اور ناصر باغ جرمنی میں یہ مراکز قائم ہوئے.دفتر چهارم تحریک جدید کا اجراء 25 اکتوبر 1985ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: دفتر سوم پر انہیں سال گزر چکے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم دفتر چهارم کا اعلان کریں.اس دفتر سے مراد یہ ہے کہ ہر نئی نسل جو بیس سال کے بعد پیدا ہو کر بڑی ہو رہی ہے...
545 ان کے لئے نئے کھانے شروع ہو جائیں اور نئے سرے سے نئی فہرستیں تیار ہوں.“ تمام دنیا کی جماعتوں نے اس آواز پر لٹیک کہا اور نہ صرف یہ کہ دفتر چہارم میں نمایاں قربانی پیش کی بلکہ دوسرے دفاتر اول، دوم، سوم میں بھی پہلے سے کہیں بڑھ کر حصہ لیا.وقف جدید کی تحریک کو عالی بنانا ย حضور نے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 دسمبر 1985ء میں پاکستان و ہندوستان میں وقف جدید کے تحت ہونے والے کاموں اور ان کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں اور جماعت میں پیدا ہونے والی مزید وسعت کے پیش نظر اور اس بنا پر کہ ہندوستان کی جماعتیں چونکہ ابھی غریب ہیں...وہاں وقف جدید کی ضرورتیں ان کے چندے کی صلاحیت کے مقابل پر بہت زیادہ ہیں اسی طرح افریقہ کی جماعتیں چونکہ بیشتر غریب ہیں.نہ وہ پوری طرح چندوں میں خود کفیل ہیں نہ وقف جدید کی طرز کا نظام وہاں جاری کرنے کے لئے یا وقف جدید کی نہج پر ان کی تعلیم و تربیت کے لئے جماعت کے پاس وہاں کوئی ایسے ذرائع مہیا ہیں کہ ملکی طور پر ان ضرورتوں کو پورا کر سکیں.27 دسمبر 1985ء کو وقف جدید کی تحریک کو پوری دنیا کے لئے وسیع کردیا اور فرمایا: ”میں اس سال وقف جدید کی مالی تحریک کو پاکستان اور ہندوستان میں محدود رکھنے کی بچائے ساری دنیا پر وسیع کرنے کا اعلان کرتا ہوں“.آپ نے فرمایا:...ساری دنیا میں جو احمدیت خدا کے فضل سے قائم ہوتی ہے اس میں سب سے بڑا کردار، سب سے نمایاں کردار پہلے ہندوستان کے احمدیوں نے ادا کیا.تو باقی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کو بھی طبعا یہ طلب ہونی چاہئے کہ ہم کیوں ان علاقوں کی خدمت سے محروم رہ جائیں جنہوں نے ایک زمانہ میں عظیم الشان قربانیاں کر کے ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا کیا ہے.اس قدرتی جذبے کا بھی تقاضا ہی ہے کہ ان تحریکوں کو ساری دنیا پر پھیلا دیا جائے.“ اس کے لئے کم سے کام مالی معیار کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: در انگلستان کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ ایک پونڈ فی آدمی سال بھر میں دینا کوئی مشکل
546 کام نہیں.اور یہ جو کم سے کم معیار ہے اس میں بچے ایک ایک پونڈ دے کر شامل ہو سکتے ہیں اور بڑے اپنے شوق سے اس سے زیادہ دے سکتے ہیں...میں امید کرتا ہوں کہ ایک پونڈ والے تو انشاء اللہ تعالی بکثرت باہر کی جماعتوں میں پیدا ہو جائیں گے.اور ایسے خاندان بھی ہو سکتے ہیں جو اپنے ہر بچے کو اس تحریک میں شامل کر لیں اور جن ملکوں میں پوٹھ کرنسی رائج نہیں ہے وہ اپنے حالات دیکھ کر تخمینہ لگا کر پونڈ کے لگ بھگ کوئی رقم مقرر کر سکتے ہیں.اب مثلاً امریکہ ہے وہ اگر دو ڈالر مقرر کرلے تو ایک پونڈ سے تو کچھ زیادہ ہی ہے لیکن وہاں کی معیشت اور اقتصادیات کے تقاضے ایسے ہیں کہ دو ڈالر بھی ان کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتے.اسی طرح...اپنے اپنے ملک کے حالات کے مطابق ایک تخمینہ لگائیں اور اس کے مطابق وہ فیصلہ کر لیں.اس میں کوشش یہ ہونی چاہئے کہ تعداد زیادہ ہو.کثرت کے ساتھ احمدی بچے، عورتیں ، بوڑھے اس میں شامل ہوں.." $6 خطبات طاہر جلد 4 صفحہ 1020 تا 1022 ) جماعت کے مخلصین نے پوری دنیا سے اس پر والہانہ لبیک کہا اور جلد ہی بہت بڑی تعداد اس میں شامل ہو گئی.دسمبر 2002ء تک خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک سو گیارہ ممالک سے اس تحریک میں شامل ہونے والوں کی تعداد تین لاکھ اسی ہزار تک پہنچ چکی تھی.اور 31 دسمبر 2002ء تک وقف جدید کی کل وصولی پندرہ لاکھ دوہزار پاؤنڈ تھی.جدید پرنٹنگ پریس کے قیام کے لئے تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جنوری 2003ء) 12 جولائی 1985ء کو اشاعت لٹریچر کی اہمیت کے پیش نظر جدید کمپیوٹر پریس کے لئے ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ کی تحریک فرمائی.سیدنا بلال فتد 14 مارچ 1986 ء کو راہ مولیٰ میں تکلیف اٹھانے والوں اور شہداء کے اہل وعیال اور پسماندگان کا خیال رکھنے کے لئے ایک مستقل فنڈ قائم کرنے کی تحریک فرمائی اور فرمایا:
547 یہ ہر گز صدقہ کی تحریک نہیں.بلکہ جو شخص اس میں حصہ لے گا وہ اس بات کو اعزاز سمجھے گا کہ مجھے جتنی خدمت کرنی چاہئے تھی اتنی نہیں کی...29 جون 1986ء کو آپ نے فرمایا کہ سیدنا بلال فنڈ سے ہی قرآن کریم کی منتخب آیات کے دنیا کی ایک سوز بانوں میں تراجم شائع کر کے راہ مولیٰ میں تکلیف اٹھانے والوں کی طرف سے بطور تحفہ دنیا کو پیش کیے جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.توسیع مکان بھارت فنڈ توسیع مکان بھارت فنڈ کے نام سے 28 مارچ 1986ء کو آپ نے ایک تحریک فرمائی.آپ نے قادیان کے مقدس مقامات کو محفوظ کرنے، اور دہلی، کانپور جیسی جگہوں پر اعلیٰ مراکز کی تعمیر اور بہشتی مقبرہ قادیان کی حفاظت و تزئین وغیرہ ضرورتوں کے لئے یہ مالی تحریک فرمائی اور فرمایا کہ اس کی بیرون ہندوستان عام تحریک نہ کی جائے اور جن لوگوں نے قربانی کرنی ہے وہ تین صورتوں کو ملحوظ رکھ کر قربانی پیش کریں.(i) ہندوستان کی جماعتیں پیش کریں.(ii) ہندوستان کی جماعتوں سے تعلق والے جو باہر چلے گئے ہیں حصہ لیں.( ii ) اگر کوئی انفرادی طور پر یہ حق جتائے کہ قادیان کا تعلق ساری دنیا سے ہے، ہمیں بھی تعلق ہے، اپنے دل کے جذبہ سے ہم مجبور ہو کر یہ حق مانگتے ہیں کہ ہمیں اس میں شامل کیا جائے.اشاعت قرآن فنڈ مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت کے لئے جلسہ سالانہ یو کے 1986 ء کے موقع پر آپ نے تحریک فرمائی.چنانچہ فوری طور پر بعض جماعتوں نے ایک زبان کے کل خرچ کا، بعض نے نصف خرچ ادا کرنے کا وعدہ کیا.اسی طرح بہت سے افراد جماعت نے اپنی طرف سے اور بعض نے اپنے خاندان کی طرف سے ایک زبان کا خرچ پیش کیا.حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جنوری 1988ء میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
548 مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت کی تحریک جو تھی اس نے ایک نئی شکل گزشتہ جلسہ سالانہ پر اختیار کر لی کہ ایک ایک شخص یا ایک ایک خاندان یا بعض صورتوں میں ایک ایک جماعت ایک پورے قرآن کریم کا ترجمہ، طباعت و اشاعت وغیرہ کا خرچ پیش کرے.یہ تحریک بھی اللہ کے فضل سے ایسی مؤثر اور ایسی بابرکت ثابت ہوئی ہے کہ اپنی ذات میں اس تحریک میں کم و بیش اتناہی روپیہ مہیا ہو گیا ہے جتنا صد سالہ جوبلی کے باہر کے وعدوں کا نصف ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے.صد سالہ جوہلی کے لئے جماعت نے غیر معمولی کوشش سے اپنے آپ کو تیار کیا تھا.اپنی جیبیں دیکھیں آئندہ پندرہ سال تک آمد کا حساب لگایا تب انہوں نے وعدے کئے تھے.اور ان سب تحریکات کے بعد یہ تحریک ہوتی ہے جبکہ بظاہر جیبیں خالی تھیں اور اس وقت اللہ تعالی نے جماعت کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ نہ صرف یہ کہ جتنے قرآن کریم کے لئے اخراجات کا مطالبہ تھا وہ سارے پورے کر دیے بلکہ اس سے آگے پیش کر دئیے.اب تو بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ وعدہ آتا ہے تو پھر ہم تلاش کرتے ہیں کہ اب کونسی نئی زبان ڈھونڈی جائے جس کے لئے یہ وعدہ ملا ہے.یہ عجیب احسان ہے خدا تعالیٰ کا.بہت ہی عظیم الشان احسان ہے یہ.الفاظ میں بیان ہو ہی نہیں سکتا اور لوگوں کو بھی خدا تعالی نے ایسا جنون، ایسا پیار عطا کر دیا ہے اس کام کے لئے کہ روح کو نئی زندگی عطا کرنے والے عجیب عجیب خطوط ملتے رہتے ہیں.“ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے دفاتر اور ہال کی تعمیر کے لئے تحریک خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 49-50) 16 جنوری 1987ء کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے دفاتر اور ہال کی تعمیر کے لئے مالی تحریک فرمائی.صد سالہ جو ہلی جشن منانے کے لئے ہر ملک میں یاد گار عمارت کے لئے تحریک 8 فروری 1987ء کو صد سالہ جو بلی جشن منانے کے لئے ہر ملک کے احمدیوں کو ایک یادگار عمارت پیش کرنے کی تحریک فرمانی اور فرمایا ہر ملک اپنے وسائل کو مد نظر رکھ کر ایک عمارت پیش کرے.اس میں وقار عمل کو بڑا عمل دخل ہونا چاہئے.کی کچھ
549 ہالینڈ کی مسجد النور کو دس گنا بڑھانے کی تحریک 21 اگست 1987 ء کے خطبہ جمعہ میں آپ نے فرمایا: ”جب ہمارا جلسہ انگلستان میں ہورہا تھا اس وقت اس خیال سے کہ اکثر احمدی جلسے پر گئے ہوں گے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض شریروں کے گروہ نے موقع پا کر جبکہ ہمارا پہرہ موجود نہیں تھا مسجد کو آگ لگانے کی کوشش کی.مسجد کا نچلا حصہ آگ سے بہت بری طرح متاثر ہوا، بہت سی قیمتی دستاویز اور کاغذات ضائع ہو گئے اور ابتداء میں جوڑ چ احدی تھے انہوں نے بڑے اخلاص سے جو اپنے ہاتھ سے بعض خصوصی چیزیں مسجد کے لئے بنائی ہوئی تھیں وہ بھی ایک قیمتی اور تاریخی سرمایہ تھا وہ بھی اکثر حصہ ضائع ہو گیا تو مسجد کو جو ظاہری نقصان ہے اس کو بھی ملحوظ رکھا جائے تو دستاویز کا نقصان اور ظاہری نقصان ملا کر یقینا اس جماعت کے لئے ایک بڑے صدمے کی بات ہے.“ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: آپ کو...میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی مسجد کو جو نقصان پہنچا ہے اس سے بہت زیادہ شاندار، بہت زیادہ وسیع مسجد اب آپ کو وہیں بنا کے دی جائے گی.اللہ کے فضل کے ساتھ اور اسی کی توفیق کے مطابق.بنقصان جتنا ہوا ہے اس سے کم سے کم دس گنا زیادہ اور جو کم سے کم ہے اس کا مطلب ہے یقینا اور بھی زیادہ کرنے کی کوشش کی جائے گی.کم سے کم دس گنا زیادہ وسیع عمارت سے دس گنا زیادہ بہتر جگہ آپ کو انشاء اللہ تعالی مہیا کر دی جائے گی.اس پر بھی میں کوئی معین پابندی نہیں لگانی چاہتا حسب توفیق جہاں جہاں بھی دنیا میں یہ خطبہ پہنچے گا دوست اپنی مرضی سے اپنے شوق سے خود اس کارخیر میں حصہ لینے کی کوشش کریں گے اور جہاں تک ضرورت کا تعلق ہے مجھے کوئی بھی فکر نہیں کہ ضرورت کہاں سے پوری ہوگی، انشاء اللہ ضرور پوری ہوگی.“ توسیع و بحالی مساجد کی تحریک خطبہ جمعہ فرموده 21 را گست 1877ء) 18 ستمبر 1987ء کو خطبہ جمعہ میں اس فنڈ کے لئے تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
550 د و همین مسجد میں گرانے میں بڑھیں گے اور اس بد بختی کی طرف مزید قدم اٹھائیں گے تو ہم مسجد میں بڑھا کر تعمیر کرنے میں ترقی کرتے چلے جائیں گے.“ مالی قربانیوں کی تحریکات پر جماعت کا والہانہ لٹمیک حضرت خلیفہ مسیح الرائع نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جنوری 1988ء میں گزشتہ چند سالوں کی مالی قربانیوں کی تحریکات اور اس پہلو سے جماعت کی بے نظیر قربانیوں کا محبت بھراذکر فرمایا.آپ نے فرمایا: سب سے زیادہ اور سب سے زیادہ دیر پا احسان جو خدا تعالیٰ اپنے بندہ پر فرماتا ہے وہ قربانی کا اجر نہیں بلکہ خود قربانی کی توفیق ہے.کیونکہ قربانی کی توفیق انسان کو اور اس کی روح کو جو دائمی عظمت عطا کرتی ہے اس سے بڑا کوئی اجر ہو ہی نہیں سکتا جس کا انسان تصور کر سکے اور ہر اجر کی بنادہ بن جاتی ہے، ہر اجر کے حصول کا ذریعہ قربانی بن جاتی ہے اور اس وقت تک خدا تعالی نے جماعت احمدیہ کو ہر میدان میں جو مختلف قربانیوں کی توفیق عطا فرمائی ہے.آغاز احمدیت سے لے کر اب تک ہر سال خدا تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے کے نتیجہ میں مذہب کا آسمان نئے رنگ میں سنوارا اور سجایا جا رہا ہے اور احمدیت کی قربانیوں کے چاند ستارے ایک نئے آسمان کو جنم دے رہے ہیں.اس لئے جب ہم کہتے ہیں کہ اے خدا! ایک نئی زمین بنا اور ایک نیا آسمان عطا فرما تو وہ نئی زمین بھی اسی طرح بنا کرتی ہے اور نیا آسمان بھی اسی طرح سجا کرتا ہے.پس سب سے زیادہ اس بات کی دعا کر یکں اور سب سے زیادہ اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ خدا تعالیٰ آپ کو مزید قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے اور پہلی قربانیوں پر خدا کے احسانات کے ذکر کی توفیق عطا فرمائے.“ در گزشتہ پانچ یا چھ سال کے عرصہ میں جماعت احمد یہ کوئی شقوں میں ( جو اس سے پہلے جماعت کے سامنے نہیں تھیں ) جتنی حیرت انگیز ، جتنی عظیم الشان قربانی کی توفیق ملی ہے یہ بذات خود خدا تعالی کی راہ میں شکر کرتے ہوئے پیچھ جانے کی طرف انسان کو متوجہ کرتی ہے، کچھ جانے کی آرزو دل میں پیدا کرتی ہے.ممکن ہے ایک آدھ قربانی کی شق میں بھول بھی گیا ہوں
551 لیکن جو اس وقت تک یاد آتی ہیں یا کسی اور نے مجھے یاد کراتی ہیں وہ یہ ہیں :.بیوت الحمد کی تحریک حریک جدید کے دفتر اول اور دوم کے کھاتوں کو زندہ کرنے کی تحریک ، جلسہ سالانہ جوبلی کے لئے متوقع مہمانوں کی آمد کے پیش نظر دیگیں پیش کرنے کی تحریک ، دونے یوروپین مراکز کے قیام کی تحریک، افریقہ ریلیف فنڈ ، امریکہ میں پانچ مراکز کے قیام کی تحریک جو بعد میں دس مراکز کے قیام کی تحریک پر منتج ہوئی اور پھر اب اس سے بھی بہت آگے بڑھ چکی ہے، جدید پریس کے قیام کی تحریک، وقف جدید کو عالمی تحریک میں تبدیل کرنا اور بیرون ہند و پاکستان کی جماعتوں کو بھی اس قربانی میں شمولیت کی دعوت دینا، تحریک جدید کے دفتر چہارم کا آغاز.اگر چہ یہ پرانی تحریک ہے لیکن یہ نئی شق آتی ہے اس میں اور نئی نسل کے بچوں کو اس سے توفیق ملی کہ وہ اس میں بھی شامل ہوں.توسیع مکان بھارت توسیع و بحالی مساجد کی تحریک یعنی وہ مساجد جو جلائی گئیں یا منہدم کی گئیں یا کسی اور رنگ میں ان کو نقصان پہنچایا گیا نہ صرف یہ کہ ان کو بحال کرتا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ توسیع دینی ہے، زیادہ وسعت کے ساتھ ، زیادہ خوبصورت ، زیادہ مفید عمارت میں تبدیل کرنا ہے، سیدنا بلال فنڈ کی تحریک، دفاع اسلام بمقابلہ تحریک شدھی.یہ بھی وہ تحریک ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جاری فرمائی تھی اور بیچ میں پھر عدم ضرورت کی وجہ سے تقریباً پچاس برس یا اس سے زائد عرصہ کا انقطاع ہوا اور نئی ضرورت کے پیش نظر نئی تحریک کی گئی.دار الیتامی کے قیام کی تحریک اور ایسی جگہوں کے مثلاً ایل سلواڈور کے بچوں کو اپنانے کی تحریک جو یتیم رہ گئے ہوں آسمانی حادثات کے نتیجہ میں مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت کی تحریک.اب یہ وہ تحریکیں ہیں جو صرف گزشتہ چند سال کے عرصہ پر پھیلی پڑی ہیں، اس عرصہ میں کی گئی ہیں.اگر عام عقلی حساب لگایا جاتا یا جماعت کی اقتصادی حالت کے پیش نظر یہ سوچا جاتا کہ جماعت اس قابل بھی ہے کہ نہیں کہ اتنے بڑے بوجھ اٹھا سکے تو انسانی عقل تو نہ اس کی اجازت دے سکتی تھی اور نہ ایسی تحریک کے کامیاب ہونے کا کوئی امکان تھا اور انسانی دل بار بار ایسی تحریکات کے لئے عام حالات میں جرات ہی نہیں رکھ سکتا اور حوصلہ نہیں پیدا ہوتا کہ ایسی جماعت کو جس پر بے شمار بوجھ پہلے ہیں اور دوسرے چندوں میں جو مستقل حیثیت رکھتے
552 ہیں اور ایسی تحریکات میں جو پہلے سے جاری ہیں اور مستقل نوعیت کی ہیں ان میں اضافے کی تو بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی ، ان سب کے ہوتے ہوئے کیسے کوئی مزید توقع رکھے اور پھر جماعت کو نئی نئی قربان گاہوں کی طرف بلائے.“ لیکن جب خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ کسی تحریک کی طرف متوجہ فرماتا ہے تو عقل کے نئے پیمانے عطا کرتا ہے اور دل کو نئے حوصلے بخشا ہے.اس وقت عام دنیا کی عقل کا حساب نہیں چلتا بلکہ عقل ایسے پرانے تاریخی زمانوں کی طرف لوٹ جاتی ہے جب اسی قسم کی ناممکن باتیں ہمیشہ ممکن کر کے دکھائی گئیں.جب بظاہر جیبیں خالی ہوتی تھیں اور خدا تعالیٰ کے نام پر تحریک کی جاتی تھی تو وہی جیبیں سونا اگلنے لگی تھیں اور پھر ان کے اندر خدا تعالٰی نئی برکتیں پیدا فرما دیتا تھا.نئی وسعتیں ان لوگوں کے اموال کو عطا ہوتی تھیں جو بظاہر خدا کی راہ میں خالی ہاتھ رہ جاتے تھے.”جب میں نے ان سب تحریکات پر نظر دوڑائی تو میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جتنا جماعت سے مانگا گیا اس سے بڑھ کر جماعت نے عطا کیا.یایوں کہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی جماعت کو کہ اس سے بڑھ کر دے اور ساری ضرورتیں ان سارے عناوین کے تحت پوری ہو گئیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ابھی بھی ایک مسلسل رو کی طرح یہ قربانیاں جاری ہیں.“ جدید پریس کی تحریک میں بھی خدا تعالی کے فضل کے ساتھ توقع سے بہت بڑھ کر جماعت کو اللہ تعالی نے مالی قربانی کی توفیق عطا فرمائی اور زائد اخراجات جو ہونے تھے اور اس وقت ہمارے ذہن میں نہیں تھے وہ پہلے ہی اپنے فضل سے پورے کر دئیے.اس وقت جو میرا تخمینہ تھا وہ یہ تھا کہ ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ میں ہم آسانی کے ساتھ ایک جدید پریس بنالیں گے اور شروع کے چند مہینوں کے اخراجات بھی اسی سے مہیا ہو جائیں گے.جب وہ پریس بنانا شروع کیا تو پتہ چلا کہ اس کے تو بہت سے ایسے لوازمات ہیں جو ڈیڑھ لاکھ سے بہت زیادہ رقم کے متقاضی تھے اور دولاکھ سے اوپر رقم، اڑھائی لاکھ کے لگ بھگ درکار تھی.لیکن جب تحریک کی گئی تو اللہ تعالی نے جماعت کو ڈیڑھ کی بجائے اڑھائی لاکھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی.“ خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان اس دنیا میں، اس زمانہ میں، اس ساری کائنات پر
553 جماعت کی قربانی کا جذبہ ہے جو خدا تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اور اسی سے اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں ، اسی سے تعظیم کردار پیدا ہوتے ہیں اور آئندہ عظیم نسلوں کی بنیاد ڈالی جاتی ہے.قربانی ہی ہے جو روحانی انقلاب برپا کیا کرتی ہے.“ اس پہلو سے جن تحریکات کا میں ذکر کر رہا ہوں ان تحریکات پر وہ لوگ جن کو خدا نے قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے وہ لوگ سب سے زیادہ اس بات کے گواہ ہیں کہ جب انہوں نے قربانی پیش کر دی تو پھر انہیں خدا نے کیسی لذت عطا کی.ہر قربانی کرنے والا جب قربانی دیتا ہے تو ایک عجیب لذت سے آشنا ہوتا ہے جس کو قربانی نہ دینے والا تصور بھی نہیں کر سکتا.“ حضور رحمہ اللہ نے اسی خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا کہ کس طرح ہر تحریک میں اللہ تعالی نے برکت ڈالی اور کئی افراد جو پہلے کسی تحریک میں شامل نہیں ہو سکے تھے وہ آج اس میں رقوم ادا کر رہے ہیں.آپ نے فرمايا: بہبوت الحمد سکیم میں بھی ابھی تک اسی طرح یہ سلسلہ جاری ہے.بہت سے دوست ہیں جو تحریک میں شامل نہیں ہو سکے تھے.اب وہ لکھ رہے ہیں کہ ہم اس میں ضرور شامل ہوں گے اور اب خدا نے توفیق بخشی ہے دل کی تمنا پوری کرنے کی توفیق مل رہی ہے.“ ر چار سالانہ کے لئے دیگوں کی تحریک تھی..بعض خط لکھنے والوں کو یاد ہے وہ لکھ دیتے ہیں کہ میری فلاں دیگ کی تحریک میں اتنا روپیہ رہ گیا تھا خدا نے اب توفیق بخشی ہے...اب ایسی جماعت دنیا میں کہاں مل سکتی ہے؟ چراغ لے کر ڈھونڈنے کی مثال بیان کی جاتی ہے.میں کہتا ہوں سورج لے کر ڈھونڈ وہ تمہیں ساری دنیا میں کہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے بڑھ کر قربانی کرنے والی اور قربانی سے محبت کرنے والی جماعت نہیں ملے گی.اور یہ سب سے بڑا احسان ہے خدا کا...دونئے یورپین مراکز کی تحریک کے متعلق بھی خدا تعالی کے فضل سے یہی سلسلہ ہے.“ افریقہ میں ریلیف فنڈ کے لئے اگر چہ جماعت کو اتنارو پیہ پیش کرنے کی توفیق نہیں لی جتنا توقع کی گئی تھی لیکن اس میں جماعت کا قصور نہیں ہے.وجہ یہ ہے کہ خدا کی تقدیر خود بخود چل رہی ہوتی ہے.ایک تحریک کی جائے اور بعض دفعہ اس تحریک کا مقصد پورا کرنے کی
554 جماعت کو توفیق نہیں مل رہی ہوتی اور خود بخود وہ تحریک نظروں سے غائب ہو جاتی ہے.افریقہ ریلیف فنڈ کے سلسلہ میں ہم نے ہر طرح سے کوشش کی کہ بھوک میں مبتلا افریقنوں کی مدد کے لئے جماعت کو اجازت ملے حکومتیں اجازت دیں، ذریعے میسر آئیں جس کے ذریعے ہم ان تک یہ چیزیں پہنچا سکیں لیکن حکومتوں نے دروازے بند کئے ہوئے تھے.انہوں نے کہا کہ ہم حکومتوں سے گفتگو کریں گے اس سلسلہ میں انفرادی طور پر تم اپنی حکومتوں کو بے شک کچھ رقم پیش کردو.کچھ رقم جماعت نے حکومتوں کو پیش بھی کی لیکن جماعت احمدیہ کو اتنی توفیق ہے ہی نہیں کہ سب دنیا کی دنیاوی ضرورتیں پوری کر سکے یا خاطر خواہ حصہ اس میں ڈال سکے.جماعت کی قربانی کو تو برکت اس لئے ملتی ہے کہ جماعت خود اپنے حاصل کردہ روپیہ کو خرچ کرتی ہے، اس میں کوئی بد دیانتی نہیں ہوتی ، ہر منصوبے میں غیر معمولی برکت ملتی ہے، وسیع پیمانے پر رابطے پیدا ہوتے ہیں اور نئی نیکیوں کی توفیق ملتی ہے.دنیا دی بھوک ہی نہیں مٹتی بلکہ اس سے روحانی بھوک بھی دنیا کی مٹتی ہے.اور جن تک جماعت احمد یہ دنیاوی احسان لے کر پہنچتی ہے اس کے پیچھے پیچھے روحانی احسان بھی خود بخود چلا آتا ہے.تو ہمیں تو اس قسم کی تربیت ہے.چنا نچہ جب میں نے دیکھا کہ افریقہ میں باوجود کوشش کے جماعت کو خود غرباء تک پہنچ کران چیزوں کی تقسیم کرنے کی یا ان کے دکھ دور کرنے کے لئے کسی تنظیم کے طور پر حصہ لینے کی اجازت نہیں مل رہی تو میں نے بھی یاد نہیں کرایا اور جماعت بھی از خود بھول گئی.جیسے ضرورت نہ رہی ہو تو خود بخود ایک چیز رفتہ رفتہ ہوجاتی ہے.اس طرح یہ تحریک سو گئی.اس لئے اس کے مقابل پر چونکہ دوسری تحریکوں میں باوجود توجہ نہ دلانے کے بھی غیر معمولی طور پر خدا تعالی نے جماعت کے دل سے قربانی کو ابال ابال کر نکالا ہے.اس سے میں سمجھتا ہوں یہ بھی خدا کی تقدیر کے تابع ہی تھا.اس میں جماعت کا کوئی قصور نہیں ہے کہ تحریک کی گئی اور اس میں جماعت پورا نہ اتری ہو.“ پانچ امریکن مراکز کے قیام کے متعلق تحریک کی گئی تھی.اس بنائے گئے.دس سے بات آگے بڑھ کر اب پندرہ کے قریب ہو چکے ہیں اور ابھی روپے کی ضرورت بھی ہے اور ابھی رو پیل بھی رہا ہے اللہ کے فضل سے...ر تحریک جدید کے دفتر چہارم کے اجراء کے ساتھ بھی خدا تعالی کے فضل سے یہ دفتر بھرنا
شروع ہو گیا ہے....555 23 تو سطوح مکان بھارت کا فنڈ بھی اسی طرح زندہ اور جاری ہے...66 توسیع و بحالی مساجد کی تحریک میں بھی اسی طرح یہ مضمون چل رہا ہے." سیدنا بلال فنڈ کے متعلق بھی یہی مضمون ہے..." وار الیتامی کی تحریک میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ہی دوست کو خدا نے تو فیق بخشی تھی کہ موجودہ جو سکیم ہے اس کے مطابق وہ پورا دار الیتامی تیار کرنے کا خرچ دے...خدا اس جماعت کو ہمیشہ زندہ رکھے اور ہمیشہ شکر کے جذبوں کو ہم اس طرح ادا کریں کہ ہماری روح ہمارا ادل، ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ خدا کے شکر میں ڈوب کر خدا کی محبت میں فنا ہو جائے." (ماخوذ از خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 5237) مسجد واشنگٹن کے لئے تحریک 7 جولائی 1989ء کو لاس اینجلس (امریکہ ) میں خطبہ جمعہ میں واشنگٹن میں ایک خوبصورت مسجد بنانے کی تحریک فرمائی جس کے اخراجات کا اندازہ پچاس لاکھ ڈالر تھا.آپ نے جماعت امریکہ کو اس سال کو مسجد واشنگٹن کا سال بنانے کی تحریک کی اور تمام دنیا کی جماعتوں سے بھی فرمایا کہ وہ بھی واشنگٹن کی مسجد کے لئے حصہ ڈالیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ خوبصورت اور وسیع مسجد مسجد بیت الرحمان کے نام سے تعمیر ہو کر خدا کے ذکر سے معمور ہے.صد سالہ جوبلی فنڈ نمبر 2 حضور نے جلسہ سالانہ یو کے 1989ء کے دوسرے روز کے خطاب میں افریقہ اور ہندوستان کی خدمت کے لئے پانچ کروڑ روپے کی مالی تحریک کا اعلان فرمایا.مشرقی یورپ میں مساجد اور مراکز کے قیام کے لئے تحریک 27 دسمبر 1996ء کو حضور نے مشرقی یورپ میں مشن ہاؤسز یعنی جماعتی مراکز کے قیام، نئی مساجد کی تعمیر کے لئے پندرہ لاکھ ڈالر کی مالی تحریک فرمائی.
556 جرمنی میں مساجد کی تعمیر 23 مئی 1997ء کو حضور نے جرمنی میں سو مساجد کی تعمیر کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: کوشش کریں کہ اس صدی کے آخر تک یعنی آخری سال تک جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک سو مساجد جرمنی میں بنائی جا چکی ہوں یا ان کی زمینیں لے لی گئی ہوں اور ان پر خواہ ایک جھونپڑا بنا کر اور مینار کا سمبل (symbol) بنادیں.“ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت جرمنی نے بہت مستعدی اور سرعت سے اس منصوبہ کے لئے قربانی کی اور کر رہی ہے.چنانچہ حضور رحمہ اللہ کی وفات تک 30 / مساجد، مشن ہاؤسز، مراکز تبلیغ کے لئے عمارات یا قطعات زمین حاصل کئے جاچکے تھے.اور خلافت خامسہ میں یہ سلسلہ بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے.بلجیم میں ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر کی تحریک 3 مئی 1998ء کو جلسہ سالانہ حجیم پر حضور نے فرمایا : س سال میں جماعتوں کو خاص طور پر نصیحت کر رہا ہوں کہ خدا کے گھروں کی طرف توجہ کرو.خلوص سے حصہ لیں، اس سے بہت برکت ملے گی.آج پنجم کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ یہاں عظیم الشان مسجد بنائی جائے...ایسی اچھی مسجد بنائیں کہ سارے بیجیم کے احمدی ڈور ڈور سے آئیں اور اپنے دوستوں کو بھی لے کر آئیں تو اس میں گنجائش ہو.مسجد کے ساتھ دفاتر بھی تعمیر ہو سکتے ہیں جہاں ہر قسم کی ضرورتیں پوری ہوں.“ اللہ تعالٰی کے فضل سے اس وقت (2019ء) میں اس مسجد کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے.تعمیر مساجد کے لئے عمومی تحریک 19 مارچ 1999ء کو خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا: یہ سال غیر معمولی اہمیت کا سال ہے.اس سال ہم نے مساجد کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے.اس کے لئے غیر معمولی عزم ہے...پس مساجد کی تعمیر کے اس منصوبہ پر سنجیدگی سے عمل
557 شروع کریں." اس عظیم منصوبہ کے تحت دنیا بھر میں کثرت سے مساجد کی تعمیر کی طرف غیر معمولی توجہ پیدا ہوئی اور متعدد مساجد تعمیر ہوئیں.مسجد بیت الفتوح لندن مسجد بیت الفتوح لندن کے لئے جب حضور نے تحریک فرمائی تو ایک ہی ہفتہ میں 3.3 ملین پاؤنڈز کے وعدے افراد جماعت نے پیش کر دئیے.حضور نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غرباء و مساکین اور یتامیٰ اور نادار افراد اور قحط اور زلازل اور قدرتی آفات یا جنگوں کے نتیجہ میں متاثرین اور مصیبت زدگان کی مدد کے لئے بھی مختلف تحریکات فرمائیں.مثلاً عید کے موقع پر غرباء کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کی تحریک (جولائی 1983ء).حبشہ کے مصیبت زدگان کے لئے مالی امداد کی تحریک ( نومبر 1984 ء ).اسیران راه مولی و شہداء احمدیت کے پسماندگان، بیوگان و یتامی کی خبر گیری کے لئے سیدنا بلال فنڈ (1986 ء ).متاثرین زلزلہ ایل سلواڈور کی امداد کے لئے تحریک (1986ء).اسیران کی فلاح و بہبود کے لئے کوشش کی تحریک (1987ء).متاثرین زلزلہ ایران کی امداد کی تحریک (1990ء).فاقہ زدگان افریقہ کی امداد کے لئے تحریک (1991 ء ).مہاجرین لائبیریا کی امداد کے لئے تحریک ( 1991 ء ).کفالت بیتائی کی تحریک (1991ء) خدمت خلق کے لئے ایک عالی تنظیم (ہیومیٹی فرسٹ) کے قیام کی تحریک (1992ء).بوسنیا کے یتیم بچوں اور صومالیہ کے قحط زدگان کی امداد کے لئے تحریک (1992ء) - مظلومین بوسنیا کی امداد کے لئے تحریک (1992ء).مظلومین روانڈا کے لئے مالی امداد کی تحریک (1994ء) - بیتامی اور بیوگان کی خدمت کی عالمی تحریک (1995ء).غریب بچیوں کی شادی کے موقع پر امداد کے لئے مریم شادی فنڈ کی تحریک (2003ء).
558 ان تحریکات اور اس کے علاوہ خدمت خلق کے لئے بعض دیگر تحریکات کا تعارف اور کسی قدر تفصیلی تذکرہ خدمت خلق کے عنوان کے تحت پیش کیا جائے گا.جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خلافت احمد یہ کے تابع ہر دور میں جماعت احمدیہ نے مالی قربانی میں مسلسل آگے قدم بڑھایا.خلافت رابعہ کے عہد میں بھی یہ عظیم روایت قائم رہی اور قربانیوں کے نئے ارفع و اعلیٰ معیار قائم ہوئے اور اس قدر مالی قربانی پیش کی جس کو احاطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا.ذیل کے کوائف سے اس کا کسی قدر اندازہ کیا جاسکتا ہے.1981ء-1982ء میں بیرون پاکستان کی صرف 38 ممالک کی جماعتوں کا بجٹ بنا تھا جبکہ 2002-2001 میں 82 ممالک کا بجٹ بنا.بعض جماعتوں کے مجموعی بجٹ آمد 22 گنا ، بعض 35 گنا، بعض 46 گنا ، بعض 80 گنا ہو گئے.اور بعض کے بنیادی چندے 40 گنا سے 200 گنا تک ہو گئے.اسی طرح چندہ تحریک جدید بیرون پاکستان میں 41 گنا اور وقف جدید بیرون میں 39 گنا اضافہ ہوا.1982ء میں 28 / ممالک میں 81 مرکزی مبلغین مصروف عمل تھے اور 31 مارچ 2002ء کو 65 ممالک میں 244 مرکزی مبلغین مصروف عمل تھے.مقامی مبلغین اور معلمین کی ایک خاصی تعداد اس کے علاوہ ہے.اور ان تمام کے اخراجات جماعتی طور پر چندوں سے ہی پورے کئے گئے.کئی ممالک جو پہلے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مرکز کی امداد پر انحصار کرتے تھے وہ خدا کے فضل سے خود کفیل ہوئے بلکہ دوسروں کی مدد کے قابل ہو گئے.مالی قربانی میں ایک نیا سنگ میل حضرت خلیفہ امسح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یو کے 1996ء کے موقع پر مالی قربانی کے میدان میں ایک نئے سنگِ میل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ خدا کے فضل و کرم کے ساتھ جماعت کا
559 عالی بجٹ ایک ارب 6 کروڑ 93 لاکھ روپے ہو چکا ہے.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ 1982ء میں جب اللہ تعالی نے مجھے منصب خلافت پر قائم فرمایا تو اس وقت جماعت احمدیہ عالمگیر کی کل مالی قربانی پانچ کروڑ پندرہ لاکھ ستانوے ہزار روپے تھی.پھر ہجرت والے سال میں یعنی 1984ء میں جماعت نے بارہ کروڑ تینتالیس لاکھ باون ہزار روپے کی قربانی پیش کی.اس پر میں نے ایک دفعہ جماعت کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم پچاس کروڑ کی حد کو کر اس کر جائیں.چنانچہ سال 93-1992 میں جماعت نے پہلی دفعہ پچاس کروڑ کی حد کو کر اس کرتے ہوئے ترتین کروڑ چورانوے لاکھ کی قربانی پیش کی.اور پھر میں نے امید ظاہر کی کہ جلد ہم اربوں کی حد میں داخل ہو جائیں.آج میں جماعت کو یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ وہ سال ہے جو ایک سنگ میل لے کر جماعت کے لئے حاضر ہوا ہے.اور آج خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ جماعت کا عالمی بجٹ ایک ارب چھ کروڑ ترانوے لاکھ روپے ہو چکا ہے.(ماخوذ از خطاب حضرت خلیفہ اسیح الرابع فرموده بر موقع جلسہ سالانہ یو کے 1996ء.دوسرے روز بعد دو پہر کا خطاب) غرضیکہ مالی قربانی کی وہ شاخ جو حضرت اقدس مسیح موعود کے دست مبارک سے لگائی گئی تھی خلافت احمدیہ کے زیر سایہ وہ بھی بہت پھولی اور پھلی اور ایک تناور درخت میں تبدیل ہوگئی جس کی ہر شاخ آگے مثمر ثمرات حسنہ اور پھلوں سے لدی ہوئی ہے.جماعت احمدیہ کے مالی نظام کا استحکام اور اس کی غیر معمولی کامیابی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی آئینہ دار اور حضرت مسیح موعود اور خلافت احمدیہ کی صداقت کا عظیم ثبوت ہے.حضرت خلیفہ امسیح الرائع نے اس پہلو سے جماعت احمدیہ میں قائم طوعی مالی نظام کا ذکر کرتے ہوئے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 1992ء میں فرمایا: جماعت احمدیہ کا جو یہ پہلو ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی صداقت کا ایک ایسا عظیم الشان ثبوت ہے کہ ساری دنیا زور مارلے، گالیاں دے یا کوششیں کرے اور منصوبے بنائے تو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی یہ نمایاں اور عظیم الشان اور امتیازی خوبی ان سے چھین نہیں سکتی.اس پیغام کو سو سال ہو چکے ہیں.سو سال میں کتنی ہی نسلیں ایک
560 دوسرے کے بعد آتی ہیں اور تھک ہار کر بیٹھ رہا کرتی ہیں اور مالی نظام تو خصوصیت کے ساتھ بہت ہی زیادہ ابتلا میں ڈالے جاتے ہیں.ابتلا ان معنوں میں کہ مالی لحاظ سے 100 سال کے اندر کام کرنے والوں کی دیانتیں بدل جاتی ہیں، ان کے اخلاص بدل جاتے ہیں، قربانی کرنے والوں کا معیار بدل جایا کرتا ہے.اور اس پہلو سے وہ مالی نظام جو خالصہ طومی تحریک پر مبنی ہو اس کے لئے ایک سو سال تک کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا اس جماعت کے بانی کی صداقت کی ایک بہت ہی عظیم الشان دلیل ہے.خاص طور پر جبکہ دنیا کے رجحان اس کے برعکس چل رہے ہوں...جماعت احمدیہ...حیرت انگیز وفا کے ساتھ اپنے اس اسلوب کو قائم رکھے ہوئے ہے کہ ہر آنے والا سال جماعت کی مالی قربانی کی روح کو کم کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے.یہ اعجاز خدا تعالی کے بھیجے ہوئے ایک سچے فرستادہ کے سوا کوئی دنیا میں دکھا نہیں سکتا.ساری دنیا کی طاقتوں کو میں کہتا ہوں کہ مل کر زور لگا کر دیکھ لیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام جیسی کوئی مالی قربانی کرنے والی جماعت کہیں ہو تو لا کر دکھا ئیں.دنیا کے سامنے وہ چہرے تو پیش کریں.وہ کون لوگ ہیں جو اس طرح اخلاص اور وفا کے ساتھ اور بڑھتی ہوئی قربانی کی روح کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنے اموال پیش کرتے چلے جاتے ہیں.“ ( خطبه جمعه فرموده 25 دسمبر 1992ء.خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 920919)
561 خدمت خلق کی بعض تحریکات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: خدا تعالٰی کے دو حکم ہیں.اول یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو.نہ اس کی ذات میں، نہ صفات میں ، نہ عبادات میں.اور دوسرے نوع انسان سے ہمدردی کرو.اور احسان سے یہ مراد نہیں کہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو، آدم زاد ہو اور خدا تعالی کی مخلوق میں کوئی بھی ہو.“ ( المحفوظات جلد 9 صفحہ 164 مطبوعہ انگلستان ایڈیشن 1985ء) اسی طرح آپ نے فرمایا: مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے کہ اگر انسان اسے چھوڑ دے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے.انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اُسی وقت تک انسان ہے جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت ، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے...یا درکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے.کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے.میں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کر و.نہیں.میں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالی کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو خواہ وہ کوئی ہو.ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور.میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں.اسی طرح فرمایا: ( ملفوظات جلد چہارم.ایڈیشن 2003، مطبوعہ انڈ یا صفحہ 216-217) نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبر دست ذریعہ ہے." ( ملفوظات جلد چہارم.ایڈیشن 2003 صفحہ 438 مطبوعہ انڈیا )
562 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں داخل ہونے والوں کے لئے جو دس شرائط بیعت بیان فرمائی ہیں ان میں بھی خاص طور پر خلق خدا کی خدمت کی طرف توجہ دلائی ہے.چنانچہ نویں شرط بیعت میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض الله مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.“ (ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 464 روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 564) چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کرام کی تعلیم وتربیت اور ان کے پاک اسوہ کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے خدمت خلق میں جماعت احمد یہ ایک طرہ امتیاز رکھتی ہے جو قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق انفرادی اور ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر جماعتی لحاظ سے بھی سرا وَ عَلَانِيَةً اپنی تمام تر استعدادوں اور صلاحیتوں کے ساتھ خالصة لوجه الله خدمت خلق کے کام سر انجام دیتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ان میں کسی قسم کا تکبر یا فخر وغرور یا دکھاوے کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا جاتا.بلکہ جس قدر خدمت خلق کا موقع ملے اسے اللہ تعالیٰ کا ایک احسان سمجھتے ہوئے ان کے سر اس کے حضور شکر گزاری کے جذبہ کے ساتھ مزید جھک جاتے ہیں.خود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے زمانہ میں خدمت خلق کی جو بھی تحریکات ہوئیں ان میں جماعت نے ہمیشہ ایک شان کے ساتھ لبیک کہا اور خدمت کے سب میدانوں میں نمایاں خدمات کی توفیق پائی.جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ہر ورق اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ اس نے ہر دور میں دکھ اٹھا کر دوسروں کو آرام پہنچایا ظلم و ستم کی کڑی دھوپ میں جل کر غریبوں کو سائبان مہیا کیا.خود تشنہ رہ کر بھی دوسروں کی پیاس بجھاتی رہی.اس پر گالیوں کے کنکر اور طنز کے تیر برسائے جاتے رہے لیکن جواب میں جماعت دعاؤں کے پھول برساتی رہی.اور يُؤْثِرُونَ عَلَی انفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر : 10) کے مصداق نہایت روشن اور تابندہ مثالیں قائم کیں.جماعت میں پہلے سے جاری خدمت خا سے جاری خدمت خلق کی با برکت تحریکات حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کے
563 بابرکت دور میں بھی نہ صرف جاری رہیں بلکہ ان کی وسعت اور تعداد میں اضافہ بھی ہوا.حضور رحمہ اللہ نے حقوق العباد کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا: حقوق اللہ اور حقوق العباد بالآخر ایک ہو جاتے ہیں.یہ ناممکن ہے کوئی شخص حقوق العباد صحیح معنوں میں ادا کرے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر اس پر نہ پڑے.ایسے بندوں کو خدا الچن لیتا ہے جو واقعہ اس کے بندوں کے حق ادا کرتے ہیں.اور یہ ناممکن ہے کہ کوئی اللہ تعالی کا ہو جائے اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا نہ کرے.“ روزنامه الفضل سالانہ نمبر 28 دسمبر 2011 ، صفحہ 15) سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 12 ستمبر 2003ء میں جماعت کی خدمت خلق کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ جماعت احمدیہ کا ہی خاصہ ہے کہ جس حد تک توفیق ہے خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور جو وسائل میسر ہیں ان کے اندر رہ کر جتنی خدمت خلق اور خدمت انسانیت ہو سکتی ہے کرتے ہیں، انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی.احباب جماعت کو جس حد تک توفیق ہے بھوک مٹانے کے لئے ، غریبوں کے علاج کے لئے تعلیمی امداد کے لئے ، غریبوں کی شادیوں کے لئے ، جماعتی نظام کے تحت مدد میں شامل ہو کر بھی عہد بیعت کو نبھاتے بھی ہیں اور نبھانا چاہئے بھی....اللہ تعالی جماعت احمد یہ کو پہلے سے بڑھ کر خدمت انسانیت کی توفیق عطا فرمائے...جماعتی سطح پر یہ خدمت انسانیت حسب توفیق ہورہی ہے مخلصین جماعت کو خدمت خلق کی غرض سے اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے، وہ بڑی بڑی رقوم بھی دیتے ہیں جن سے خدمت انسانیت کی جاتی ہے.اللہ تعالٰی کے فضل سے افریقہ میں بھی اور ربوہ اور قادیان میں بھی واقعین ڈاکٹر اور اساتذہ خدمت بجالا رہے ہیں.لیکن میں ہر احمدی ڈاکٹر، ہر احمدی ٹیچر اور ہر احمدی وکیل اور ہر وہ احمدی جو اپنے پیشے کے لحاظ سے کسی بھی رنگ میں خدمت انسانیت کر سکتا ہے، غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آسکتا ہے، ان سے یہ کہتا ہوں کہ وہ
564 ضرور غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آنے کی کوشش کریں.نتیجہ اللہ تعالیٰ آپ کے اموال و نفوس میں پہلے سے بڑھ کر برکت عطا فرمائے گا انشاء اللہ.اگر آپ سب اس نیت سے یہ خدمت سر انجام دے رہے ہوں کہ ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ ایک عہد بیعت باندھا ہے جس کو پورا کرنا ہم پر فرض ہے تو پھر آپ دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کی کس قدر بارش ہوتی ہے جس کو آپ سنبھال بھی نہیں سکیں گے.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 12 ستمبر 2003ء) چنانچہ آئیوری کوسٹ کے کسی گاؤں میں آتشزدگی سے متاثرہ افراد کی مدد کی صورت ہو، پاکستان کے پسماندہ ترین علاقہ مٹھی میں المہدی ہسپتال ہو، بورکینا فاسو، بنگلہ دیش، بوسنیا، بین ، تنزانیہ، جاپان کے زلزلہ، انڈونیشیا کی سونامی، ربوہ میں قائم ہونے والے طاہر ہومیو پیتھک ہاسپٹل اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ سمیت دنیا بھر میں قائم کی جانے والی ہو میو پیتھک کلینکس ،سری لنکا، سیرالیون، گھانا، قادیان، کینیا، گجرات (انڈیا)، مظفر آباد (پاکستان)، لائبیریا، گیمبیا، نائیجر، یوگنڈا غرض جہاں جہاں جماعت احمد یہ موجود ہے وہاں وہاں کسی نہ کسی رنگ میں افراد جماعت خدمت خلق میں کسی نہ کسی طرح ضرور مصروف ہیں.جہاں یہ خدمت خلق ہر احمدی وقار عمل کی صورت میں کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے وہاں احمدیوں میں سے خدمتِ انسانیت کے جذبہ سے سر شار بعض ڈاکٹرز اور ٹیچر ز اپنی زندگیوں کے کئی سال اور بعض اوقات پوری زندگیاں اس راہ میں وقف کر کے اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور خدمات انسانیت کی عمدہ اور اعلی مثالیں رقم کرنے میں آج بھی مصروف ہیں.نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم اس تحریک کا آغاز حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے اپنے دورہ مغربی افریقہ 1970ء کے دوران فرمایا.اس سکیم کے تحت حضور رحمہ اللہ نے مغربی افریقہ کے چھ ممالک میں طبی اور تعلیمی
565 خدمات بہم پہنچانے کا اعلان فرمایا.حضرت خلیفہ اسح الثالث رحمہ اللہ کے دور مبارک میں یہ تحریک کس طرح پروان چڑھی اور ترقی کی منازل طے کرتی رہی اس کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنی خلافت کے دوران ہونے والے پہلے مرکزی جلسہ سالانہ 1982ء کے موقع پر فرمایا: "حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ کے کارناموں میں یہ ایک انتہائی عظیم کارنامہ ہے کہ نصرت جہاں سکیم کو جاری کرنے کے بعد اس کی ایسی عمدہ رہنمائی فرمائی کہ دیکھتے دیکھتے اللہ تعالی کے فضل نے اسے برکتوں کے پھلوں سے بھر دیا اور جماعت نے بھی ایسا تعاون فرمایا کہ روح دیکھ کر عش عش کر اٹھتی ہے...اس تحریک کو جو تحریک ترین لاکھ روپے کے سرمائے سے شروع کی گئی تھی صرف اس سال کا بجٹ چار کروڑ انہٹر لاکھ روپے ہو چکا ہے.امسال خدا کے فضل سے دو لاکھ بیس ہزار افراد کو اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کے نتیجہ میں شفا عطا فرمائی اور 4,471 کامیاب آپریشن کرنے کی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو تو فیق عطا فرمائی.“ خطاب بر موقع جلسہ سالانہ 1982ء دوسرا روز) یہ بابرکت تحریک حضرت ل ا ا ا ا ل کی کہ اس تحریک کے پس پردہ جو روحانی سوچ اور فکر کار فرما تھی وہ بقول حضرت خلیفہ امسیح الرابع : جماعت احمد یہ اس کام کی نگران ہوگی اور یہ دیکھے گی کہ جو بھی نئے روابط پیدا ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی افریقہ کو ٹوٹنے کے لئے نہیں ہو گا بلکہ ہم دوستوں کے رخ پلٹانے کی کوشش کریں گے.ان زمانوں کو تبدیل کر دیں گے جب افریقہ سے دولتیں باہر کی طرف بہا کرتی تھیں.اب ہمارا مقصود یہ ہے ، یہ کوشش ہے، دعا یہ ہے اور ہماری ساری تمنائیں یہ ہیں کہ باہر کی دنیا سے دولتیں افریقہ کی طرف بہنے لگیں...افریقہ جو اپنے حقوق سے محروم کیا گیا ہے وہ دوبارہ اپنے حقوق حاصل کر لے.“ خطاب بر موقع جلسہ سالانہ 1988 ء ) اسی طرح فرمایا:
566 22 یہ وہ سوچ تھی جو جماعت کی سکیموں کے پس پردہ کار فرما تھی جس کے باعث روحانی شفا کے ساتھ ساتھ بدنی شفا کے سرچشمے بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے جاری ہو گئے.جماعت کے سکولوں کا سلسلہ بھی پھیلتا چلا گیا.جماعت کے ہسپتال اور ڈسپنسریاں قطار اندر قطار بڑھتی چلی گئیں.جماعت کے اداروں کو وہ عزت ملی کہ رومن کیتھولک عیسائی جو بظاہر مخالف تھے انہوں نے بھی اپنے بچے جماعت کے سکولوں میں بھجوانے شروع کر دیے.جماعت کے ہسپتالوں میں ایسے ایسے مریضوں کو لایا گیا جنہیں کوئی لینے کو تیار نہیں تھا.ہر طرف سے انہیں جواب مل چکا تھا اور ان میں ایڈز جیسی مہلک بیماری میں مبتلا مریض بھی شامل تھے اور انہیں جماعت کے ہسپتالوں میں معجزانہ طور پر شفاطی اور لوگ محو حیرت رہ گئے." خطاب بر موقع جلسہ سالانہ 1993ء) جماعت کے سکولوں میں جذبہ عشق مد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ فروغ حاصل ہوا کہ عیسائی بچے بھی لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کا نعرہ بلند کرتے.جماعت کے کارکنوں کو وہ عزت ملی کہ افریقہ کے بعض ممالک جہاں پولیس ہر کسی کی تلاشی لازمی لیتی تھی اگر کسی سواری پر احمد یہ لکھا ہوا ہوتا تو اسے نہ تو پولیس ، نہ ہی فوج روکتی.نصرت جہان نوسکیم خطاب بر موقع جلسہ سالانہ 1988ء) حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے دورہ مغربی افریقہ 1988ء میں گیمبیا میں قیام کے دوران اس با برکت سکیم کے دوسرے دور کے آغاز کا اعلان فرمایا.چنانچہ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 22 / جون 1988 ء میں فرمایا: خدمت کے مطالبے بڑھتے چلے جارہے ہیں اس لئے ان سارے امور میں نصرت جہان کو کا میں اعلان کرتا ہوں.ایک نئے جذبے اور ایک نئے ولولے کے ساتھ سابقہ نصرت جہاں کے کام کو مزید آگے بڑھانے کے لئے ایک نیا شعبہ نصرت جہانِ نو ان سارے امور میں غور کرے گا اور ان سارے امور کو مترتب کرے گا اور انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کو نئے میدانوں میں افریقہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے گا.
567 یہ عجیب اللہ تعالی کا تصرف ہے اور گیمبیا کی یہ خاص سعادت اور خوش نصیبی ہے کہ نصرت جہان اول کی تحریک بھی اسی ملک یعنی آپ کے ملک سے شروع ہوئی تھی اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو خدا نے یہ توفیق بخشی تھی کہ وہ گیمبیا کی سرزمین سے نصرت جہان کی اسکیم کا اعلان کریں.پس اس کے دوسرے حصے کے اعلان کے لئے بھی اللہ تعالی نے آپ کی سرزمین کو یہ اعزاز بخشا ہے.اللہ یہ اعزاز آپ کو مبارک کرے اور اس تحریک کو بھی پہلی تحریک کی طرح ہمیشہ اپنے فضلوں اور رحمت کے سایہ تلے بڑھاتا رہے.آمین.“ حضور رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ برطانیہ 1998ء کے دوسرے روز بعد دوپہر کے اجلاس میں خطاب میں فرمایا: جماعت احمدیہ کو الْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْأَحْيَانِ وَعِلْمُ الْأَبْدَانِ کی ایک دوسری تشریح پر بھی عمل پیرا ہونے کی توفیق ملی ہے اور وہ علم شفا ہے.اس فرمان نبوی کا ایک معنی یہ بھی ہے اور بہت سے علماء اسی کو اولیت دیتے ہیں کہ علم الابدان سے مراد ہے بدنوں کی شفا کا علم.پس اس پہلو سے بھی اللہ تعالی کے فضل سے جماعت احمد یہ عالمگیر کو یہ توفیق مل رہی ہے کہ بکثرت ہسپتالوں اور چھوٹے چھوٹے شفا خانوں کو قائم کریں.بڑے ہسپتالوں میں سے اگرچہ یہ کام آغاز میں نصرت جہاں سکیم کی طرف سے ہوا تھا، اس وقت سے لے کر اب تک بہت وسعت اختیار کر چکا ہے اور جو باقاعدہ بڑے بڑے ہسپتال قائم ہو چکے ہیں ان میں افریقہ کے دس ممالک میں اکتیس ہسپتالوں میں 35 ڈاکٹر ز کام کر رہے ہیں.ان ہسپتالوں میں پاکستان اور ہندوستان وغیرہ کے ہسپتال شامل نہیں، یہ وہ طبی مراکز ہیں جن کی ایک بڑی تعداد مروجہ ایلو پیتھک طریقہ علاج کو اپنائے ہوئے ہے کیونکہ اس میں تشخیص اور دوائیں تجویز کرنے میں آسانی رہتی ہے اور اسی پہلو سے بڑے ہسپتالوں کے علاوہ بکثرت چھوٹے چھوٹے ایلو پیتھک شفاخانے بھی تمام بڑے بڑے ملکوں میں قائم کئے جارہے ہیں“ 2003ء میں خدا کے فضل و کرم سے نصرت جہاں سکیم کے تحت صرف افریقہ کے 12 ممالک میں 36 رہسپتال اور کلینکس اور 8 ممالک میں 373 رسیکنڈری ہائی سکولز اور جونیئر سکولز اور نرسری سکولز کام کر رہے تھے.پاکستان اور ہندوستان وغیرہ کے ہسپتال اور جماعتی تعلیمی ادارے اس کے علاوہ ہیں.
568 نصرت جہاں سکیم کے تحت دورِ خلافت رابعہ میں قائم ہونے والے طبی ادارہ جات چنانچہ میڈیکل ادارہ جات میں درج ذیل ادارے شامل ہیں: گھانا میں احمدیہ میڈیکل سنٹر اکروفوم (اجراء 1983ء)، ہومیو کلینک بواڈی (اجراء 1991ء)، احمد یہ ہسپتال ڈبو آسے (اجراء 1994 ء ) ، طاہر ہومیو کمپلیکس بواڈی (اجراء احمدیہ 1995ء)، ہومیو کلینک ساچرے اڈو ماسی (اجراء 1996 ء)، احمدیہ ہسپتال کالیو (اجراء 1996ء) ، ہومیو کلینک کو فوریڈوا ( اجراء 1998 ء ) ، احمد یہ میڈیکل سنٹر وا ( اجراء 2000ء).نائیجیریا میں قائم کیے جانے والے ادارہ جات میں احمد یہ ہسپتال، اوچی ( اجراء 1982ء)، احمد یہ ہسپتال اجو کورو ( اجراء 1983 ء ) ، احمد یہ ہسپتال نیو بصا ( اجراء 1998 ء ) شامل ہیں.سیرالیون میں قائم ہونے والے ادارہ جات میں احمد یہ ہسپتال فری ٹاؤن ( اجراء 1995ء).لائبیریا میں قائم ہونے والے طبی ادارہ جات میں احمد یہ ہسپتال منروویا ( اجراء 1983ء).آئیوری کوسٹ میں قائم کیے جانے والے ادارہ جات میں احمدیہ کلینک آبی جان (اجراء -(,1984 بورکینا فاسو میں قائم ہونے والے ادارہ جات میں احمد یہ ہسپتال واگاڑو گورسم گاندے ( اجراء 1997 ء ) ، احمد یہ ہسپتال بو بوجلاسو ( اجراء 2002 ء ) ، احمد یہ ہسپتال پورٹونو وو ( اجراء 1999ء)، احمد یہ ہسپتال کوٹونو ( اجراء 2003ء)، گنی بساؤ میں تعمیر ہونے والا ادارہ احمد یہ میڈیکل سنٹر گنی بساؤ (اجراء 2000ء)، کانگو میں قائم ہونے والا ادارہ احمد یہ ہسپتال مسینہ کنشاسا ( اجراء 1987ء)، کینیا میں قائم ہونے والے ادارہ جات میں احمدیہ ہسپتال شیانڈا ( اجراء 1988ء)، احمدیہ کلینک نیروبی ( اجراء 1998 ء ) ، احمد یہ کلینک ممباسہ (اجراء 2000ء)، احمد یہ کلینک کسوموں ( اجراء 2001 ء ) ، احمد به کلینک نکورد (2002) - تنزانیہ میں قائم ہونے والے طبی ادارہ جات میں احمد یہ ہسپتال مورد گورو ( اجراء 1988ء)،
569 احمد یہ ہسپتال کہونڈہ (اجراء 1992 ء ).یوگنڈا میں قائم کیے جانے والے طبی ادارہ جات میں احمد یہ میڈیکل سنٹر چو تیرہ (اجراء 1984 ء ) ، احمد یہ ہسپتال امبالے ( اجراء 1990ء) شامل ہیں.نصرت جہاں سکیم کے تحت دور خلافت رابعہ میں قائم ہونے والے تعلیمی ادارہ جات خلافت رابعہ کے بابرکت دور میں نصرت جہاں آگے بڑھو اور نصرت جہانِ نوسکیم کے تحت جو تعلیمی ادارہ جات قائم کیے گئے ان میں درج ذیل شامل ہیں: سیرالیون میں قائم ہونے والے تعلیمی ادارہ جات میں احمدیہ جونیئر سیکنڈری سکول Timbowala ( اجراء 1982ء)، احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول روٹی فنک (اجراء 1983ء)، احمدیہ مسلم ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل سیکنڈری سکول مکینی ( اجراء 1984ء)، احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول کوری بانڈ و ( اجراء 1984 ء ) ، طاہر احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Kailahun ( اجراء 1985ء)، احمد یہ جو نیتر سیکنڈری سکول Sembehun ( اجراء 1990 ء ) ، احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Pepel (اجراء 1994ء) ، ناصر سینئر احمد یہ سیکنڈری سکول Kenema ( اجراء 1996ء) ، بلوم احمدیہ سینیئر سیکنڈری سکول لنگی (اجراء 2000 ء ) ، احمد یہ سینئر سیکنڈری سکول بو ( اجراء 2000ء) ، احمد یہ سینئر سیکنڈری سکول جورو ( اجراء 2000 ء ) ، احمد یہ سینئر سیکنڈری سکول فری ٹاؤن ( اجراء 2000ء) ، طاہر جونیئر سیکنڈری سکول بو ( اجراء 2003ء ) ، جاوی، سینئر سیکنڈری سکول دارو ( اجراء 2003ء)، احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Bomie Tongo ( اجراء 2003ء)، احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Mogbwemo اجراء 2003ء) ، نصرت جہاں گرلز جونیئر سیکنڈری سکول بو (اجراء 2003ء).گیمبیا کے تعلیمی ادارہ جات میں ناصر احمد یہ ہائی سکول بسے (اجراء 1983ء) ، طاہر احمد یہ مسلم سینئر سیکنڈری سکول مانسا کونکو ( اجراء 1988 ء)، شاہ تاج احمد یہ ہائی سکول منر دیا (اجراء 1996ء) شامل ہیں.
570 حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ نے اسیروں ناداروں اور غریب اور مسکین مستحقین کی امداد اور مختلف قدرتی آفات و مصائب کے مواقع پر متاثرین کی تکالیف کے ازالہ اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے متعدد تحریکات فرمائیں.جن پر افراد جماعت نے اپنے روایتی جذ بہ وجوش کے ساتھ لبيك کہتے ہوئے دامے، درمے، سخنے ہر رنگ میں خدمت خلق کی توفیق پائی.ان تمام تحریکات اور ان کی تفصیلات کا تذکرہ تو بہت طویل ہے.ذیل میں صرف چند تحریکات کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے قارئین کو خلافت احمد یہ اور جماعت احمدیہ کے خدمت خلق کے لئے بے پناہ جذبات اور مساعی کا کسی قدر اندازہ ہوسکتا ہے.بيوت المحمد سلیم سپین میں پانچ سو سال کے بہت ہی درد ناک تعطل کے بعد پہلی مسجد کا افتتاح بلاشبہ تاریخ اسلام و احمدیت کا ایک بہت ہی اہم اور غیر معمولی واقعہ تھا اور ساری دنیا میں جماعت احمد یہ اپنے امام حضرت خلیفة المسح الرابع کی سیادت میں اس عظیم الشان سعادت کے عطا ہونے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے کاتے ہوئے اس کے حضور سجدات شکر بجا لارہی تھی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع جب مسجد بشارت سپین کے افتتاح اور دورہ یورپ سے واپس ربوہ تشریف لائے تو 29 اکتوبر 1982ء کے خطبہ جمعہ میں مسجد کے شکرانہ کے طور پر غرباء کے لیے مکانات تعمیر کرنے کے ایک اہم منصوبہ کا اعلان فرمایا.یہ آپ کے بابرکت عہد خلافت کی پہلی مالی تحریک تھی.آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسا مضمون بھی سمجھایا جس کا میں اب یہاں اعلان کرنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے گھر بنانے کے شکرانہ کے طور پر خدا کے غریب ہندوں کے گھروں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.اس طرح یہ حمد کی عملی شکل ہوگی جو ہم اختیار کریں گے اور اپنے اعمال سے گواہی دیں گے کہ ہاں واقع ہ ہم اللہ کی اس رضا پر بہت راضی ہیں کہ اس نے ہمیں اپنا گھر بنانے کی توفیق بخشی.پس ہم اس کے غریب بندوں کے گھروں کی تعمیر کی طرف توجہ کر کے اس کے اس عظیم احسان کا عملی اظہار کریں گے...
571 اللہ تعالی کے شکرانے کا یہ ایک ایسا عملی پہلو تھا جو آج تک خالی پڑا تھا.اس کی طرف بھی توجہ ضروری تھی کہ خدا کے گھر بنائیں تو خدا کے غریب بندوں کے گھر بھی بنائیں تا کہ خالق کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا ہوں.“ خطبات طاہر جلد اول صفحہ 241 242 / خطبہ جمعہ 29 اکتوبر 1982ء) حضور رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں احمد یہ آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز ایسوسی ایشن کو تحریک فرمائی کہ وہ چھ ماہ کے اندر ایسے غریبانہ گھروں کا نقشہ تیار کریں جو دلکش بھی ہوں اور ہمارے ملک کے موسموں کو پیش نظر رکھ کر اچھے بھی ہوں اور نئی ایجادات کی روشنی میں ایسی ایسی تجاویز اس میں شامل کی جائیں کہ جو غریبانہ دسترس کے اندر ہوں.خطبات طاہر جلد اول صفحہ 249 / خطبہ جمعہ فرمودہ 29 /اکتوبر 1982ء) حضور نے ابتدائی طور پر اس تحریک میں اپنی طرف سے دس ہزار روپے کی رقم ادا فرمائی.( بعد ازاں اسے کئی گنا بڑھا دیا ) اسی طرح صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے دولاکھ روپے اس مد میں پیش کرتے ہوئے تحریک جدید اور وقف جدید کی انجمنوں اور ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کوتحریک فرمائی کہ وہ اپنی توفیق کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور اس مد میں وقف کریں.عام احمدیوں کے لیے پہلے سال یہ تحریک لازمی چندوں کی ادائیگی کے بعد بچت میں سے چندہ ادا کرنے کی طوعی تحریک تھی.اس عام تحریک کے نتیجے میں صرف دو ماہ کے قلیل عرصہ میں دسمبر 1982ء تک چودہ لاکھ تر اسی ہزار آٹھ سو تینتیس روپے اس تحریک میں وصول ہو چکے تھے.اور اس میں سے دولا کچھ چھپن ہزار آٹھ سو روپے کے اخراجات سے بیالیس ایسے افراد کو مدد دی گئی جن کے مکانات فوری مرمت یا ضروری تعمیر کے محتاج تھے.جلسہ سالانہ 1982ء کے دوسرے روز 27 دسمبر کو حضور رحمہ اللہ نے اس تحریک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: کچھ عرصہ پہلے سپین سے واپسی پر میرے دل میں اللہ تعالی نے بڑی شدت کے ساتھ یہ تحریک ڈالی کہ خدا کے گھر بنانے کی جو تو فیق تمہیں عطا ہوتی ہے اور خصوصیت کے ساتھ سپین
572 میں مسجد بشارت کا گھر بنانے کی جو توفیق ملی ہے اس کا بہترین شکریہ کا اظہار یہ ہے کہ خدا کے بندوں کے بھی گھر بناؤ اور وہ غریب جو اپنی ساری کوشش کے باوجود بمشکل زندہ ہیں ان کے لئے سر چھپانے کا کم از کم سامان مہیا کرنے کی کوشش کرو.چنانچہ اس سلسلے میں بہوت المحمد منصوبہ کا اعلان کیا گیا روزنامه الفضل ربوه 22 مئی 1983ء) 1983ء میں حضور انور رحمہ اللہ جب مشرق بعید کے ممالک کے دورہ کے دوران سڈنی (آسٹریلیا) میں مسجد بیت الاوّل کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد واپس تشریف لائے تو 11 / نومبر 1983ء کو مسجد اقصی ربوہ میں خطبہ جمعہ کے دوران بیوت الحمد سکیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اب مسجد آسٹریلیا کی بنیاد ڈالنے کی توفیق ملی ہے تو میں اسی تحریک کو دہرانا چاہتا ہوں.اب یہ تحریک میرے ذہن میں نسبتاً زیادہ وسعت اختیار کر چکی ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہر سال مساجد کی تعمیر کی توفیق دیتا ہی چلا جا رہا ہے اور عبادت کرنے والے بھی دن بدن جماعت احمدیہ میں بڑھ رہے ہیں اس لئے عبادت کے دوسرے پہلو کا حق بھی ساتھ ساتھ اسی طرح ادا ہوتے رہنا چاہئے.چنانچہ غربا کی ہمدردی میں جو مختلف تحریکات جماعت احمدیہ میں جاری ہیں اور ہمیشہ سے جاری ہیں ان میں ایک بیوت الحمد کا اضافہ ہو چکا ہے جس کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کی ہمدردی کی یہ تعلیم مکمل ہو جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت کا جو تصور عطا فرمایا تھا اس کا خلاصہ یہی تھا جسے آج کل کی زبان میں روٹی، کپڑا اور مکان کہتے ہیں اور یہ وہ تعلیم ہے جسے انسان نے اپنی ترقی کی انتہا پر جا کر سکتا ہے.لیکن قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ خدا نے آدم کو جب تہذیب سکھانی شروع کی تو اس کے آغاز میں پہلی تعلیم ی تھی کہ جنت کا تصور یہ ہے کہ اس میں روٹی کپڑا اور مکان مہیا ہونے چاہئیں.چنانچہ جب مکانوں کی طرف بھی جماعت احمد یہ پوری طرح توجہ کرے گی تو جنت کا وہ کم از کم تصور جو بنی نوع انسان کے حقوق سے تعلق رکھتا ہے اسے مکمل کر لے گی.اس میں اضافے ہوں گے اور ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ آنحضرت نے جو تعلیم دی ہے اس نے اس میں بہت ہی زیادہ حسن پیدا کر دیا ہے اور بہت ہی وسعت پیدا کر دی ہے.لیکن جیسا کہ تمام احباب جماعت کو علم ہے کہ ہم پر دوسری ذمہ داریاں
573 بھی کچھ کم نہیں.ان میں عبادت سے تعلق رکھنے والی بھی ہیں اور خدمت خلق کے دوسرے تقاضوں کو پورے کرنے والی بھی اتنی زیادہ ہیں کہ ہم اپنی خواہش کے مطابق فی الحال غربا کی ہمدردی میں اتنا خرچ نہیں کر سکتے جتنا کہ ہماری تمنا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری توفیق کو.انشاء اللہ بڑھاتا چلا جائے گا اور جوں جوں تو فیقی بڑھے گی ہم اس میدان میں بھی آگے بڑھتے چلے جائیں گے.میرے دل کی یہ خواہش ہے کہ ساری دنیا میں ہمدردی کرنے والوں میں سب سے زیادہ ہمدردی کا عملی اظہار جماعت احمدیہ کی طرف سے ہو اور دنیا میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ موسیٰ " کی جماعت نے بنی نوع انسان کی یہ خدمت کی اور عیسی کی جماعت نے یہ خدمت کی اور محمد مصطفی میں کی جماعت نعوذ باللہ پیچھے رہ گئی.اس لئے جہاں تک مذاہب کے مقابلہ کا تعلق ہے فَاسْتَبِقُوا الخيرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے میرے دل میں خدا تعالی نے اس معاملہ میں بے انتہا جوش پیدا کیا ہے.میں یہ چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ بنی نوع انسان کی ہمدردی میں ایسے عظیم الشان کام سر انجام دے جو اپنی وسعت کے ساتھ اپنی شدت میں بھی بڑھتے رہیں یہاں تک کہ جماعت احمد یہ ساری دنیا میں بنی نوع انسان کی سب سے زیادہ ہمدردی رکھنے والی اور ہمدردی میں عملی قدم اٹھانے والی جماعت بن جائے اور آنحضرت ﷺ کے دین کو اس پہلو سے بھی ساری دنیا کے ادیان پر غلبہ نصیب ہو جائے.“ آپ نے فرمایا: خطبات طاہر جلد دوم صفحہ 572، 573 / خطبه فرمودہ 11 نومبر 1983ء) اس سکیم کو ئیں وسعت دینا چاہتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ جلسہ جو ہلی تک ہم کم از کم ایک کروڑ روپے کی لاگت سے مکان بنا کر غربا کو مہیا کر دیں یعنی جماعت کے جو سو سال گزررہے ہیں ان کے ہر سال پر صرف ایک لاکھ روپیہ اگر ہم ڈالیں تو ایک کروڑ بن جاتا ہے اور پھر بعد میں انشاء اللہ ایک کروڑ مکانات بھی ہوں گے لیکن فی الحال ایک کروڑ روپے کی تحریک کی جاتی ہے.آپ نے فرمایا کہ: ( خطبات طاہر جلد دوم صفحه 575 / خطبہ فرمودہ 11 نومبر 1983ء)
574 ایک کروڑ مقرر کرنے میں میرے پیش نظر ایک رویا ہے جو صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلی نے گزشتہ سال اس کی تحریک کرنے کے کچھ عرصہ بعد دیکھی تھی.آپ نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک غریبانہ مکان میں ایک چارپائی پر تشریف فرما ہیں اور لگتا ہے کہ وہ مکان ہے تو غریبانہ لیکن صاف ستھرا اور نیا بنا ہوا مکان ہے.اور فرماتے ہیں ایک کروڑا اور اس کے بعد وہ رویا ختم ہو گئی...جب انہوں نے مجھے یہ خواب لکھ کر بھجوائی تو میں نے یہی تعبیر کی کہ اس کا پہلا حصہ یہ بنے گا کہ ہم ایک کروڑ روپیہ کم از کم اس تحریک پر خرچ کریں.اور دوسرا یہ ہوگا کہ جماعت احمد یہ ایک کروڑ مکانات بناتے.یہ جو دوسرا حصہ ہے اس کے متعلق میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اگلے سو سال کے جشن کے وقت انشاء اللہ پورا ہو جائے گا...یہ بہت ہی مبارک تحریک ہے.جو لوگ بھی ان مکانوں میں رہیں گے خدمت کرنے والوں کو ہمیشہ ان کی دعائیں پہنچتی رہیں گی.اس لئے اس تحریک میں کم سے کم روپیہ کے لئے میں کوئی حد مقرر نہیں کرتا...جو بھی کوئی دے سکتا ہے وہ قبول کر لیا جائے تاکہ لوگ کثرت سے اس ثواب میں شامل ہو جائیں.“ بیوت الحمد سوسائٹی کا قیام خطبات طاہر جلد دوم صفحہ 576، 577 // خطبه فرموده 11 / نومبر 1983ء) حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس تحریک با تبریک کو جو بلی منصوبہ کا حصہ بنایا کہ صدی کے آخر پر غربا کو مکانات تحفہ کے طور پر دیے جائیں اس لئے پہلے مرحلہ میں ایک سو مکانات پر مشتمل کالونی تعمیر کرنے اور 900 افراد کو جزوی طور پر امداد برائے تعمیر دینے کا ارشاد فرمایا.چونکہ اس تحریک نے با قاعده وسعت اختیار کرنا تھی اس لئے ماہرین کی رائے کے مطابق اسے باقاعدہ رجسٹرڈ کروایا گیا.مؤرخہ 18 ستمبر 1987ء کو مسجد فضل لندن میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے حضور انور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سوم کانوں کی تعمیر کے لیے جو تحریک کی تھی اس میں جماعت نے بڑی قربانی سے حصہ لیا ہے لیکن ابھی اور خرچ کی ضرورت ہے کیونکہ جزوی طور پر بہت خرچ ہوا ہے اس لئے اس تحریک میں اپنی طرف سے ایک مکان کا خرچ دینے کا وعدہ فرمایا اور تحریک فرمائی کہ جن کو استطاعت ہے وہ
575 ایک مکان کے اخراجات کا وعدہ پیش کریں.آغاز تعمیر (خلاصہ خطبہ جمعہ ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید ر بوه ستمبر 1987ء) بیوت الحمد کالونی کے لئے 20 /1ایکڑ زمین خریدی گئی اور نگران ادارہ تعمیر نے تعمیر کے کام کا آغاز کیا.چنانچہ اس walled colony پر مشتمل ایک صد کوارٹرز، پرائمری سکول، مسجد، ڈسپنسری و استقبالیہ کی تعمیر کے لیے مؤرخہ 11 نومبر 1987ء کو تقریب سنگ بنیاد منعقد کی گئی کیونکہ 11 نومبر کو ہی اس سوسائٹی کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا.اس تقریب کے مہمان خصوصی محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب مرحوم ناظر اعلیٰ و امیر مقامی تھے.سنگ بنیا درکھنے والوں میں ایک صحابی حضرت مولوی محمد حسین صاحب ( سبز پگڑی والے) بھی تھے.بعد ازاں مزید ساڑھے تین ایکڑ اراضی 20 را یکٹر سے ملحق خرید کی گئی.1988ء کے آخر تک بیوت الحمد کالونی میں 80 کوارٹرز 5 مرلہ اور 10 کوارٹر 7 / مرلہ تیار ہو گئے تھے.پھر یتیموں کی رہائش کے لئے دار الاکرام ہوٹل تعمیر کیا گیا.مسجد، پرائمری سکول، ڈسپنسری اور پختہ سڑک اور فراہمی بجلی و پانی سے آراستہ اس کالونی میں سب سے پہلے 80 عدد 5 مرلہ کوارٹرز تعمیر کیے گئے.یہ دو کمروں پر مشتمل دیگر ضروری سہولیات سے مزتین چھوٹے کوارٹرز ہیں جو چھوٹے خاندان کی ضروریات کے لئے کافی ہیں.17 مرلہ کوارٹرز 20 رتیار کئے گئے.یہ تین کمروں پر مشتمل نسبتا بڑے کوارٹرز میں جو بڑے خاندان کی ضروریات کے لئے کافی ہیں.مندرجہ بالا 100 ر کوارٹرز کی تعمیر کے بعد مستقبل کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تین منزلہ فلیٹس کی تعمیر شروع ہوئی.ان فلیٹس میں پہلے سے زیادہ سہولیات بہم پہنچائی گئی ہیں.اب تک اس طرح کے 30 رفلیٹس تعمیر ہو چکے ہیں.اس کالونی میں ایک تفریحی پارک بھی بنایا گیا جس کے دو حصے ہیں.اس پارک کی خصوصیت یہ ہے کہ اس پارک میں نصب شدہ تمام جھولے، مونوریل اور چیئر لفٹ سب مینول (manual) ہیں اور کسی قسم کا الیکٹرک نظام نصب نہیں ہے.پارک کے دونوں حصوں کو زیر زمین رستہ سے ملایا گیا ہے.
576 اس کے علاوہ ایک لیڈیز پارک بھی بنایا گیا ہے.اس پر اجیکٹ پر کل لاگت ماہ مارچ 2013 تک 8,54,92,989 روپے ہے.بیوت الحمد سوسائٹی کی کل آمد مشروط بآمد ہے.اور چندہ کے لئے تحریک کی جاتی ہے.البتہ بيوت الحمد کالونی ربوہ کے running expenses کے لئے صدر انجمن احمد یہ ربوہ گرانٹ فراہم کرتی ہے.جہاں تک جزوی امداد برائے تعمیر کا تعلق ہے تو اس کا آغاز پہلے سال سے ہی شروع ہے.اور یہ جزوی امداد کا سلسلہ جس میں مستحقین کو ان کے اپنے مکانات میں ضرورت حفظہ کے مطابق تعمیر مثلاً ایک کمرہ، باورچی خانہ، غسل خانہ، لیٹرین ، بجلی ، پانی کی مرمت و فٹنگ، چھتوں کی تبدیلی وغیرہ کے لئے امداد دی جاتی ہے.اب تک خدا تعالی کے فضل سے 778 افراد کو مبلغ 2,38,84,2641 روپے امداد دی جا چکی ہے اور امداد کا یہ سلسلہ جاری ہے.(خلاصہ رپورٹ آمدہ بیوت الحمد سوسائٹی ربوہ ) بيوت الحمد سکیم کے تحت قادیان میں تعمیرات بيوت الحمد کالونی نمبر : 1 حضرت خلیفہ امسح الرائع نے 1990ء میں بیوت احمد سکیم کے تحت قادیان میں ایک کالونی تیار کرنے کی منظوری مرحمت فرمائی اور یہ کالونی محلہ ناصر آباد کے شمال مشرق میں تعمیر کی گئی.43 / مكانات اس کالونی میں تعمیر ہو چکے ہیں.1992 ء میں جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو مسلمانوں میں بہت زیادہ اشتعال پیدا ہوا جس کے نتیجہ میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں خونی فسادات پھوٹ پڑے.بمبئی شہر بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں رہا.سینکڑوں مکانات منہدم کر دیے گئے ان کا ساز و سامان لوٹ لیا گیا.
577 ، حضرت خلیفہ امسح الرابع رحم اللہ تعالی نے سب سے زیادہ مصیبت زدگان کے لئے 37 کوارٹرز تعمیر کروانے کی ہدایت بھجوائی.چنانچہ ان کوارٹرز کے مکمل اخراجات جماعت احمدیہ کے مرکزی فنڈ سے ادا ہوتے.2001ء، 2002ء میں بھارت کے صوبہ گجرات میں زبر دست زلزلہ آیا اس میں بہت سے مکانات منہدم ہوئے یا ان کو نقصان پہنچا.اس موقع پر حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے پچیس مکانوں کی مرمت کے لیے پچیس پچیس ہزار روپے مرحمت فرمائے.بھارت کے ایسے احباب جو کہ اپنے وسائل سے اپنے مکانات تعمیر نہیں کروا سکتے انہیں مرکزی فنڈ سے تعمیر مکان کے لیے امداد و قرضہ فراہم کیا جاتا رہا.دسمبر 1992ء میں بھارت کے صوبہ بہار میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے.سینکڑوں افراد (ہندہ مسلم) کے گھر نذر آتش کر دیئے گئے.بہت سے مکانات یا تو منہدم کر دیئے گئے بالوٹ لئے گئے.یہ انتہائی خطرناک صورتحال تھی.جب یہ صورت حال حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی کے علم میں لائی گئی تو آپ نے دس کوارٹرز تعمیر کرنے کا حکم فرمایا.چنانچہ دو کالونیاں تعمیر کروائی گئیں.ایک کا نام ظاہر کالونی اور دوسری کا نام کرشن کالونی رکھا گیا.ان مکانات کی تعمیر کے مکمل اخراجات جماعت نے ادا کئے.اور سب سے زیادہ متاثرہ مسلم اور ہند و افراد کو اس میں آباد کیا گیا.یہ مکانات محض خدمت انسانیت کے جذبہ کے تحت تعمیر کیے گئے تھے اور پھر انہیں الاٹ کرتے وقت بھی ہر مذہب سے سب سے زیادہ ضرورتمندوں کا انتخاب کیا گیا تھا.اگر چہ ان کالونیوں کی تعمیر مبیوت الحمد کے نام سے نہ تھی لیکن اس کی تعمیر کے جملہ اخراجات مرکزی فنڈ سے ادا ہوئے تھے.خلاصه مواد آمده از شعبه تدوین ( تاریخ احمدیت بھارت) عید کے موقع پر غرباء کے ساتھ سکھ بانٹنے کی تحریک حضور رحمہ اللہ نے عید منانے کے انداز میں ایک غیر معمولی تبدیلی پیدا کرنے کی طرف جماعت کو توجہ دلائی.12 جولائی 1983ء کو حضور نے خطبہ عید الفطر میں فرمایا کہ جولوگ عید کی لذتوں سے
578 محروم رہتے ہیں اس کی وجہ ان کی حقیقت سے ناواقفیت ہے.عید الفطر در اصل شجر رمضان کا ایک شیریں پھل ہے.رمضان کے دو بڑے گہرے سبق ہیں.عبادت الہی اور بنی نوع انسان کے ساتھ سچی ہمدردی.پس عید کا حقیقی سرور حاصل کرنا ہے تو عبادت پر زور دیں اور دوسرے غرباء کے دکھ میں شریک ہوں اور اپنے سکھ ان کے ساتھ تقسیم کریں.اس کی عملی شکل بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: آج عید کی نماز کے بعد ضروری امور سے فارغ ہو کر اگر وہ لوگ جن کو خدا نے نس دیتا زیادہ دولت عطا فرمائی ہے زیادہ حمول کی زندگی بخشی ہے وہ کچھ تحائف لے کر غریبوں کے ہاں جائیں اور غریب بچوں کے لئے کچھ مٹھائیاں لے جائیں...بچوں کے لئے جو ٹافیاں یا چاکلیٹ آپ نے رکھے ہوئے ہیں وہ لیں اور بچوں سے کہیں آؤ بچو آج ہم ایک اور قسم کی عید مناتے ہیں.ہمارے ساتھ چلو ہم بعض غریبوں کے گھر آج دستک دیں گے.ان کو عید مبارک دیں گے.ان کے حالات دیکھیں گے اور ان کے ساتھ اپنے سکھ بانٹیں گے.اس طرح اگر آپ غریب لوگوں کے گھروں میں جائیں گے اور ان کے حالات دیکھیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بعض لوگ ایسی لڑتیں پائیں گے کہ ساری زندگی کی لذتیں ان کو اس لذت کے مقابل پر ہیچ نظر آئیں گی اور حقیر دکھائی دیں گی.کچھ ایسے بھی واپس لوٹیں گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوں گے اور وہ استغفار کر رہے ہوں گے..ان آنسوؤں میں وہ اتنی لذت پائیں گے کہ دنیا کے قہقہوں اور مسرتوں اور ڈھول ڈھمکوں اور بینڈ باجوں میں وہ لذتیں نہیں ہوں گی.ان کو بے انتہا اہدی لذتیں حاصل ہوں گی اور زائل نہ ہونے والے بے انتہا سرور ان کو عطا ہوں گے.یہ ہے وہ عید جو محمد مصطفی میل ایلیم ہے وہ عید جو در حقیقت بچے مذہب کی عید ہے.“ روزنامه الفضل ربوہ 26 جولائی 1983ء) اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے جماعت نے خوشیوں کے نئے چمن دریافت کئے اور بہت سے افراد جماعت ذاتی تجربات کے ذریعہ حضور کے فرمان کی سچائی کے گواہ بن گئے.اس تحریک کے ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے خطبہ عید الفطر 5 اپریل 1992 ء میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک دفعہ میں نے عید کے موقع پر یہ نصیحت کی تھی کہ بچی عید تو وہی ہوتی ہے جس
579 میں خوشیوں والا اپنی خوشیوں میں دوسرے کو شریک کرے اور کسی کا دکھ اس طرح ہائے کہ اس کے دکھ میں کمی واقع کرے.اس کی سچی ہمدردی محسوس کرے اور غریبوں کے ساتھ اپنی خوشیاں ملا دے.ان کی خوشیوں کا معیار بلند کر دے خواہ اس میں اپنی خوشیاں کچھ کم ہی کرنی پڑیں.اس نصیحت کو جماعت نے بہت ہی عمدہ طریقے پر قبول فرمایا اور ساری دنیا میں ہماری عید کی خوشیوں کے ساتھ یہ مضمون داخل ہوا.بہت سے لوگ بعد میں بھول گئے لیکن بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اس کو یاد رکھا ہوا ہے اور اکثر عید کے بعد مجھے خطوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جولوگ بھی اس نصیحت کو یا در کھے ہوئے ہیں اور اس پر مستقل عمل کر رہے ہیں ان کی عید عام عیدوں کے مقابل یادر پر بہت ہی زیادہ پُر لطف اور عظیم روحانی کیفیات کی حامل ہو جاتی ہے اور ہمیشہ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ جب ہمیں یہ بات یاد آتی ہے اور تلاش کر کے محلے والوں کے پاس پہنچتے ہیں، اپنی خوشیاں غریبوں کی خوشیوں میں ملانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے بچوں کے لئے کوئی تحفہ لے کر جاتے ہیں، گھر میں کوئی اچھا کھانا پہنچا دیتے ہیں تو وہ جو کیفیت ہم دیکھتے ہیں وہ ایک ایسی عظیم جزا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ہے.دنیا کی کوئی دوسری لذت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.“ ڈور کے ملکوں میں پھیلے ہوئے غریبوں میں عید کے موقع پر تخالف پہنچانے کی تحریک 1999ء میں حضور نے غربا کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کی تحریک میں ایک اضافہ کیا اور 19 جنوری 1999ء کے خطبہ عید الفطر میں فرمایا: عید کی خوشیوں کو کس طرح منایا جاتا ہے؟ اس سلسلہ میں میں نے گزشتہ سال جماعت کو نصیحت کی تھی کہ غریبوں کی عید بنائیں اور اپنی عید منائیں.جب آپ غریبوں کی عید بنائیں گے تو اللہ آپ کی عید بنادے گا اور بچی عید کی خوشی تبھی نصیب ہو گی جب آپ غریبوں کے دکھ درد میں شامل ہو جائیں اور جہاں تک خدا توفیق عطا فرماتا ہے ان کی عید بنانے کی کوشش کریں.اسی ضمن میں اس سال ایک نئی تحریک میں نے یہ کی تھی کہ عیسائی دنیا عیسائی بچوں کو اپنے کرسمس کے تھنے بھیج رہی ہے.اگر چہ ہم اس طرح تھے بنا بنا کر تو نہیں دیتے مگر اس سے بہت زیادہ بنی نوع انسان کی خدمت اس رنگ میں کر رہے ہیں کہ ہم گھر گھر جاتے ہیں اور اپنے ماحول
580 میں غریبوں کی عید بنانے کی کوشش کرتے ہیں..مگر اس دفعہ میں نے یہ نئی ہدایت کی تھی کہ ڈور کے ملکوں میں پھیلے ہوئے غریب مسلمان بچوں کے لئے جن میں سے بھاری اکثریت غیر احمدی بچوں کی ہے لیکن مسلمان ہیں، رسول اللہ ﷺ کو مانتے ہیں اور آپ ہی کے نام پر وہ عید کی خوشیوں میں شامل ہورہے ہیں ان کے لئے بھی پارسل بنا بنا کر مختلف تحفے بھیجیں، کچھ نقدی ساتھ ڈالیں تا کہ ان کو خوشی ہو کہ ہمارا بھی کوئی پرسان حال ہے اور رسول اللہ ﷺ کی خاطر ان کا پیر سان حال جماعت احمدیہ ہوگی.اس پہلو سے جو نصیحت کی تھی مجھے بے حد خوشی ہے کہ خدا تعالی کے فضل سے اس پر جماعت نے بہت عمدگی سے عمل کیا ہے اور باقاعدہ مرکز سے مشورے کے بعد اس قسم کے تحفے یا براہ راست بھجوا بھی دیئے یا ہم سے پوچھ کر اس کا متبادل طریق اختیار کیا.بہر حال یہ تحفے اب ہر جگہ تقسیم ہو چکے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ لاکھوں ایسے ہوں گے جنہوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے.“ اس کے بعد حضور نے نمونے کے طور پر مختلف ممالک کی جماعتوں کی طرف سے دیے جانے والے مخالف کی تفصیل بیان کی جس کا خلاصہ یہ ہے.1.انگلستان نے 93,300 پاؤنڈ کے مخالف تقسیم کئے.2.جرمنی نے 1250 پیکٹ البانیہ روانہ کئے.2 ہزار گھروں کے بچوں میں عیدی کی رقم تقسیم کی.کل خرچ 51 ہزار مارک ہے.3 کینیڈا میں 14,500 کینیڈین ڈالر کی نقدی اور ایک کنٹینر بوسنیا کے لئے بھجوایا.4.امریکہ نے 59000 ڈالر نقدی اور 950 ڈالر کے مخالف تقسیم کئے.5.فرانس نے 40 افراد اور 10 بچوں کے لئے تحائف بھجوائے.خطبات طاہر.عید بن صفحہ 321) اس تحریک پر فوری طوری طور پر لبیک کہتے ہوئے صرف 1999ء میں مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی طرف سے 10 ہزار مستحقین میں دس لاکھ روپے کے اخراجات سے تحائف تقسیم کئے گئے.روزنامه الفضل ربوه 12 مارچ 1999ء)
581 حبشہ کے مصیبت زدگان کے لئے امداد کی تحریک 9 نومبر 1984ء کو آپ نے حبشہ کے مصیبت زدگان کے لئے جماعت کی طرف سے امداد کی تحریک فرمائی.سیدنا بلال فنڈ الہی جماعتوں کے ساتھ ابتلا کا تعلق ایک لازمی تعلق ہے اور زندہ جماعتیں ابتلاؤں کے وقت گھبرایا نہیں کرتیں اور نہ ہی ابتلا کے ایام میں اپنے زخمیوں، اسیروں اور جان کا نذرانہ دینے والوں سے منہ موڑا کرتی ہیں.اس عظیم الشان حقیقت کے پس منظر میں سیدنا بلال فنڈ کی تحریک کا آغاز ہوا.حضور نے خطبہ جمعہ فرمودہ 14 مارچ 1986 میں اس تحریک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: الہی جماعتوں کی زندگی کی ضمانت اس بات میں ہے کہ ان کے قربانی کرنے والوں کو اپنے پسماندگان کے متعلق کوئی فکر نہر ہے اور یہ حقیقت اتنی واضح اور کھلی کھلی ہے کہ ہر ایک کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ ہم بطور جماعت زندہ ہیں.بطور جماعت کے ہمارے سب دکھ اجتماعی حیثیت رکھتے ہیں.اگر کسی جماعت میں یہ یقین پیدا ہو جائے تو اس کی قربانی کا معیار عام دنیا کی جماعتوں سے سینکڑوں گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے.“ آپ نے سیدنا بلال فنڈ میں حصہ لینے والوں کے لئے فرمایا: جو شخص اس میں حصہ لے گا وہ اس بات کو اعزاز سمجھے گا کہ مجھے جتنی خدمت کرنی چاہئے تھی اتنی نہیں کی...اس لحاظ سے سب باتیں سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے اور آج اس تحریک کا اعلان کرتا ہوں.“ اس تحریک میں حضور نے اپنی طرف سے دو ہزار پاؤنڈ دینے کا اعلان فرمایا نیز بتایا کہ انگلستان کی جماعت کے ایک دوست پہل کر گئے ہیں کہ باقی تو اس کی بابت مشورے دیتے رہے لیکن انہوں نے ایک ہزار پاؤنڈ کا چیک بھیجوا دیا.9 جون 1986 ء کو طلبہ عید الفطر میں حضرت خلیفہ انسخ الرابع رحم اللہ نے فرمایا کہ سیدنا بلال فقط
582 کی تحریک میں نے کی تھی.جماعت نے والہانہ لبیک کہا.کئی اسیران کو اس فنڈ سے امداد دی گئی مگر انہوں نے اسے واپس بلال فنڈ میں دے دیا اس لئے مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح جماعت کی محبت کا تحفہ ان کو پہنچاؤں.پھر فرمایا: قرآن کریم کی اشاعت کے پروگرام کے ساتھ ہی اللہ تعالٰی نے میرا دل کھول دیا اور ایک بہت ہی پیارا خیال میرے دل میں پیدا ہوا کہ سیدنا بلال فنڈ سے ایک سوز بانوں میں ساری دنیا کو قرآن کریم کا یہ تحفہ پیش کیا جائے اور یہ سارے اسیر اور یہ سارے راہ مولیٰ میں تکلیف اٹھانے والے لازما اس میں شامل ہو جائیں گے.ان کی طرف سے دنیا کو یہ تحفہ ہو گا.اس سے بہتر جواب ان کے اوپر مظالم کا اور الہی جماعتیں دے ہی نہیں سکتیں.“ (خطبات طاہر عید بین صفحہ 60) سیدنا بلال فنڈ سے اسیران راہ مولی اور شہداء کے پسماندگان، بیوگان و یتامیٰ کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے.El Salvador کے بتائی کے متعلق تحریک حضور رحمہ اللہ نے 17 اکتوبر 1986ء کو ایل سلواڈور میں تباہی کے نتیجہ میں ہونے والے یتیم بچوں یا ایسے بچے جو ماں باپ سے الگ ہو گئے ان کی کفالت اور تربیت کی ذمہ داری لینے کی تحریک فرمائی.اس تحریک کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ مسیح الرائع نے خطبہ جمعہ فرموده 15 جنوری 1988ء میں فرمایا: El Salvador کے بتائی کے متعلق اگرچہ جماعتی کوششوں کے باوجود ہمیں کامیابی نصیب نہیں ہو سکی کہ بحیثیت جماعت ہمیں بتائی مل جائیں لیکن بعض لوگوں نے اس تحریک میں شمولیت کی نیت کی تھی تو وہ بعض اور مقیم لے کر پالنے لگ گئے ہیں اور اس کی مجھے اطلاع مل رہی ہے.یہ بہت خوشکن رجحان ہے.ساری جماعت کو میں پھر یاد دہانی کرواتا ہوں که ضروری نہیں کہ السلواڈور کے یتیم ہوں، دنیا میں جہاں بھی یتیم ہے اس کی خدمت کرنا ایک بہت اچھا کام ہے.اگر چہ بظاہر یہ مالی قربانی کی تحریک نہیں تھی مگر عملاً ایک نئے خاندان میں
583 ایک ذمہ داری کا اضافہ کرنا ایک مالی تحریک ہی بن جاتی ہے.“ خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 49) اسیران کی خدمت کی تحریک حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے 14 دسمبر 1987ء کو مسجد فضل لندن میں نظام شفاعت پر ایک پُر مغز اور روح پرور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور بتایا کہ انسان فرشتوں کے ساتھ ان کی صفات اور کاموں میں ہم آہنگی پیدا کر کے تعلق قائم کر سکتا ہے اور پھر وہ فرشتے اس فرد کے لئے خدا کے اذن سے اس کے حضور شفاعت کرتے ہیں.خطبہ کے آخر پر فرمایا: اس پہلو پر غور کرتے ہوئے مجھے اسیران راہ مولی کا خیال آیا.بہت دعائیں کی ہیں ان کے لئے.ساری جماعت دعائیں کر رہی ہے اور بہت دلوں میں درد ہے اور ساری دنیا کی جماعت کے دلوں میں درد ہے اور ابھی تک ان کا ابتلا لمبا ہورہا ہے.مجھے اس شفاعت کے مضمون پر غور کرتے ہوئے خیال آیا کہ کیوں نہ ان کی خاطر ہم ہر دوسرے اسیر سے تعلق رکھنا شروع کر دیں.اسیران سے خواہ وہ راہ موٹی کے اسیر ہوں یا کسی قسم کے اسیر ہوں، اسیران کی بہبود کے لئے کچھ نہ کچھ کریں تا کہ خدا کے فرشتوں سے ہمارا تعلق قائم ہو جائے.ان فرشتوں سے تعلق قائم ہو جائے جن کو اسیری کے مضمون پر مامور فرمایا گیا ہے، جو اسیروں کی رستگاری کا موجب بنا کرتے ہیں.“ ( خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 834) آپ نے اس مضمون کو تفصیل سے سمجھاتے ہوئے فرمایا: جماعت احمدیہ کو اگر ساری دنیا میں اس طرف توجہ پیدا ہو اور جیل خانوں میں جولوگ جاسکتے ہیں، نظام کے تابع جو پروگرام بنائے جاسکتے ہیں وہاں اسیروں سے رابطے پیدا کئے جائیں، ان کے دکھ معلوم کئے جائیں.میں جانتا ہوں کہ سمندر میں قطرہ کے برابر کوشش ہوگی.مگر ہمارے قطرہ کے دائرے میں ہمارے مسائل تو حل ہو جائیں گے، جو ہمارا مقصد ہے وہ تو پورا ہو جائے گا.ایک اور مقصد بھی پورا ہو گا جس سے ہمارے اندر چلا پیدا ہو گی.ہماری انسانی قدریں
584 پہلے سے زیادہ چمک اٹھیں گی.لیکن نیت یہ رکھیں کہ ہم اسیروں سے براہ راست تعلق قائم کریں تا کہ ان فرشتوں کی نظر میں آجائیں جو اسیری کے کاموں پر مامور ہیں اور جس طرح ہم نے عملاً دنیا میں مشاہدہ کیا ہے کہ جس خدمت کے کام پر کوئی خاص تعلق سے اپنے دائرہ خدمت کو وسیع کرتا ہے خدا کے فرشتوں کا لازمنا اس سے تعلق قائم ہو جاتا ہے اور وہ اس کے حق میں معجزے دکھاتے ہیں.اس طرح خدا تعالی کے وہ فرشتے جو اس کام پر مامور ہیں ہمارے ان بھائیوں کے لئے اعجاز دکھائیں اور اس حد تک آپ اس مضمون کو آگے بڑھائیں کہ یہ شفاعت کے مضمون میں یہ مضمون داخل ہو جائے اور آسمان پر خدا کے فرشتے اس کے حضور شفاعت کریں کہ راہ مولیٰ میں اسیری کے دکھ اٹھانے والوں کے دن اب آسان فرما دے.اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.“ (خطبات طاہر جلد 6 ، صفحہ 835) جماعت نے اس تحریک پر بھی والہانہ لبیک کہا اور نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی جیلوں میں اسیران کی بہبود کے لئے کوششیں کی گئیں.بلڈ بینک اور آئی کلینک کا قیام اگست 1988ء میں ربوہ (پاکستان) میں جماعت کے زیر انتظام فضل عمر ہسپتال کی لیبارٹری میں بلڈ بینک کا آغاز ہوا.8 مارچ 1994ء کو مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے زیر اہتمام عطیہ خون کے لئے مستقل عمارت کا سنگ بنیا درکھا گیا جس کا افتتاح 3 اکتوبر 1994ء کو ہوا.اسی طرح ربوہ ( پاکستان) میں ہی مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے تحت ایک آئی بینک (Eye Bank) کا افتتاح ہوا.ان ہر دو مرا کز کے تحت بھی خدمت خلق کا سلسلہ جاری ہے اور مسلسل وسعت پذیر ہے.کفالت یکصد یتامیٰ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے جنوری 1991ء میں کفالت یتامیٰ کی ایک نہایت مبارک تحریک جاری فرمائی.اس تحریک کا نام کفالت یکصد یتامیٰ رکھا گیا.
585 اس تحریک میں خدا کے فضل سے مخلصین جماعت نے بشاشت قلبی کے ساتھ حصہ لیا اور دل کھول کر عطا یا پیش کئے اور اب بھی کر رہے ہیں.اگر چہ اس تحریک کا نام کفالت یکصد یتامی تھا لیکن خدا کے فضل سے اس تحریک کے تابع سینکڑوں بیتامی کی کفالت کا انتظام کیا گیا.اس کے ذریعہ نہ صرف ان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کیا جاتاہے بلکہ زیر تعلیم بچوں اور بچیوں کے تعلیمی اخراجات کو پورا کیا جاتا ہے اور ان کی دینی تربیت کی جاتی ہے.خلافت احمدیہ کے زیر سر پرستی کفالت بتائی کا یہ نظام ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور اس کا دائرہ فیض مسلسل وسعت پذیر ہے.1989ء میں سلمان رشدی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بہت سے بچے یتیم ہو گئے.حضور رحمہ اللہ نے محبت رسول میں ان کی کفالت کا اعلان فرمایا.29 جنوری 1999ء کو حضور نے افریقن ممالک خصوصاً سیرالیون کے مسلمان بیتائی اور بیوگان کی خدمت کی عالمی تحریک کی اور فرمایا یتامی کوگھروں میں پالنے کی رسم زندہ کریں.5 فروری 1999ء کو حضور نے عراق کے یتیموں اور بیواؤں کے لئے خصوصی دعاؤں اور خدمت خلق کی تحریک فرمائی.افریقہ کے فاقہ زدگان کے لئے تحریک.افریقہ ریلیف فنڈ جنوری 1991 ء میں افریقہ کے قحط زدہ علاقوں کے افراد کی امداد کے لئے دس ہزار پاؤنڈ کی مالی تحریک فرمائی.حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 1991 میں فرمایا: یں نے جب عالم اسلام کے موجودہ حالات پر غور کیا تو میری توجہ افریقہ کے ان بھوکوں کی طرف مبذول ہوئی جو کئی ملکوں کے وسیع علاقوں میں پھیلے پڑے ہیں.ایسے سینیا میں بھی، صومالیہ میں بھی، سوڈان میں بھی، چاڈ میں بھی، بہت سے ممالک میں کثرت کے ساتھ انسانیت بھوک سے مررہی ہے اور انسان کو بحیثیت انسان ان کی کوئی فکر نہیں.اگر کچھ فکر کی ہے تو اہل مغرب نے کی ہے.ان کے ہاں ایسے پروگرام میں نے دیکھے ہیں جن کے تحت ان بھوکوں، ننگوں، ان یتیموں، ان فاقہ کشوں، ان بیماری میں مبتلا سکتے پنجروں کی تصویر میں دکھائی جاتی ہیں تا کہ بنی نوع انسان کا رحم حرکت میں آئے اور ان کی خاطر لوگ کچھ قربانیاں پیش کریں.
586 لیکن تیل کی دولت سے مالا مال وہ ممالک جن کے پاس تیل کے نتیجہ میں دولتوں کے پہاڑا کھٹے ہو چکے ہیں، وہ محمد مصطفی میل کی طرف منسوب ہونے کے باوجود آپ کے پیغام کی روح کو بھلا بیٹھے ہیں اور ان کو کبھی خیال نہیں آتا کہ ہمارے ہمسائے میں بعض غریب افریقن ملک کس طرح فاقہ کشی کا شکار ہیں.سعودی عرب ہے یا عراق ہے یا دوسری مسلمان طاقتیں ہیں، کویت ہو یا بحرین ہو یا شیخڈم کی اور ریاستیں ہوں خدا تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ تک ان کو بڑی بڑی دولتوں کا مالک بنائے رکھا ہے.اور تو اور سوڈان ان کا ہمسایہ ملک ہے.وہ مسلمان بھی ہیں لیکن فاقوں کا شکار ہورہے ہیں لیکن مالدار عرب ملکوں میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہو رہی.کسی کو خیال نہیں آیا ل محمد مصطفی ﷺ کے دین کی امتیازی شان کیا ہے.جب آپ کی سیرت کی باتیں کی جائیں تو خدا کی محبت کے بعد سب سے زیادہ ذکر بنی نوع انسان کی محبت اور غریب کی محبت کا آتا ہے جو سیرت کے روشن ہیولے کی طرح ابھرتی ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حضرت محمد مصطفی مہم کا نام انسان کے ذہن میں آئے اور غریبوں کے ساتھ آپ کی ہمدردی اور ان کے ساتھ تمام عمر شفقت اور رحمت کا سلوک اچانک انسان کی نظر کو خیرہ نہ کر دے.محمد مصطفی ﷺ کی روشنی میں غریب کی ہمدردی کی روشنی شامل ہے.ایک موقع پر آنحضرت علی نے فرمایا کہ اگر تم نے مجھے تلاش کرنا ہو تو غریبوں میں تلاش کرنا.قیامت کے دن میں درویشوں میں ہوں گا ، غریبوں میں ہوں گا.اور فرمایا ان کا خیال کرنا کیونکہ تمہاری رونقیں اور تمہاری دولتیں غریبوں کی وجہ سے ہیں.ان ہی کی محنتیں ہیں جو رنگ لاتی ہیں اور پھر وہ تمہاری دولتوں میں تبدیل ہوتی ہیں.کم سے کم اتنا تو کرو کہ ان سے شفقت اور محبت اور ہمدردی کا سلوک کرو.پس حضرت محمد ملی بلا شبہ تمام کائنات میں سب سے زیادہ غریبوں کے ہمدرد تھے اور آپ کے نام کے صدقے خدا سے دوستیں پانے کے بعد اور دولتوں کے پہاڑ حاصل کرنے کے بعد اپنے ہمسایہ ملکوں میں غربت کے اتھاہ گڑھوں کی طرف دیکھنا اور دل رحم کے جذبے سے مغلوب نہ ہو جانا یہ کوئی انسانیت نہیں ہے.اگر یہ مسلمان ممالک دعا کی طرف متوجہ رہتے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی طرف متوجہ رہتے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ آج اس بڑے خوفناک ابتلا میں مبتلا نہ کئے جاتے.پس ہم اپنی غربت کے باوجود ہر نیکی کے میدان میں ان کے لئے نمونے دکھاتے
587 ہیں.اس میدان میں بھی ہم نمونے دکھائیں گے.پس دعائیں کریں اور ان کو دعاؤں کی تلقین کریں.صدقے دیں اور ان کو صدقوں کی تلقین کریں.صبر کریں اور ان کو صبر کی تلقین کریں کیونکہ قرآن کریم کی سورتوں سے پتہ چلتا ہے کہ آخری زمانے میں وہی لوگ فتح یاب ہوں گے کہ جن کے متعلق فرمایا وَتَوَاصَوْا بِالصَّيْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَر حمة البلد: 18 ) کہ وہ صبر کی تلقین صبر کے ساتھ کیا کرتے تھے یا کیا کریں گے اور رحمت کی تلقین رحمت کے ساتھ کرتے تھے.پس میں نے فیصلہ کیا ہے کہ دس ہزار پاؤنڈ جو ایک بہت معمولی قطرہ ہے جماعت کی طرف سے افریقہ کے بھوک سے فاقہ کش ممالک کے لئے پیش کروں....اور ساری جماعت بحیثیت جماعت بھی کچھ نہ کچھ صدقہ نکالے.جماعت کے ایسے فنڈ ہوتے ہیں جن میں صدقات یا زکواۃ وغیرہ کی رقمیں ہوتی ہیں.کچھ تو از منا مقامی غریبوں پر خرچ کرنی پڑتی ہیں، کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جو اس کے علاوہ بچ جاتی ہیں، وہ "قفو" کہلا سکتی ہیں.تو قرآن کریم فرماتا ہے: وَيَستَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفُو ( البقره: 220) اس عفو کا ایک یہ بھی معنی ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ان مذات میں سے بیچ سکتا ہے وہ بچاؤ اور غرباء کی خدمت پر خرچ کرو.یعنی اور علاقوں والے غرباء کی خدمت پر بھی خرچ کرو اور اسی طرح ذاتی طور پر بھی افراد جماعت خرچ کریں.اگر چہ جماعت کی ساری دولت خدا ہی کی دولت ہے اور خدا ہی کی خاطر نیک کام پر خرچ ہوتی ہے لیکن ایک یہ بھی میدان خدا ہی کی خاطر خرچ کرنے کا میدان ہے.پس میں کوئی معین تحریک نہیں کرتا مگر میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ خالصہ اس نیت کے ساتھ کہ ہمارے ان صدقات کو اللہ تعالی امن عالم کے حق میں قبول فرمائے ، مسلمانوں کے مصائب دُور کرنے کے لئے قبول فرمائے ، جتنا ممکن ہو صدقات دیں.ہماری دعائیں بھی ان دو باتوں کے لئے وقف رہیں اور ہمارے صدقے بھی جس حد تک ہمیں توفیق ہے ان نیک کاموں پر خرچ ہوں اور یہ جو سارے صدقات ہوں گے یہ خالصہ افریقہ کے فاقہ زدہ ممالک پر خرچ کئے جائیں گے.اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی آنکھیں کھولے جن کو قرآن نے کھلی کھلی نیکی کی تعلیم دی تھی لیکن اس سے یہ آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 1991ء - خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 5351)
588 لائبیریا کے مہاجرین کی امداد کے لئے تحریک لائبیریا میں خانہ جنگی کی وجہ سے ہمسایہ ممالک میں ہجرت کرنے والے مہاجرین کی امداد کے لئے تحریک کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 1991ء میں فرمایا: فریقہ میں جو غربت ہے اور جو فاقہ کشی ہے اس پر بعض دفعہ حوادث کے ذریعے تکالیف میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے.پچھلی تحریک پر جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عام حالات میں جو توقعات تھیں اس سے بہت بڑھ کر قربانی کا مظاہرہ فرمایا....لائبیریا سے چونکہ بہت سے مہاجرین خانا، نائجیر یا اور سیرالیون پہنچے تھے اور وہاں کیمپوں میں ان کی حالت بہت بری ہے اس لئے وہاں میں نے ہدایت کی تھی کہ خدام الاحمدیہ وغیرہ دوسری تنظیمیں امیر کے ماتحت منظم پروگرام بنا کر ان کی خدمت کریں.ان کی طرف سے اب مطالبے آتے ہیں کہ ہمیں یہ یہ چیزیں چاہئیں.یعنی محض روپیہ کافی نہیں ہے بلکہ بعض اجناس چاہئیں.کچھ ادویہ کی ضرورت ہے.وہ ہم انشاء اللہ مہیا کر رہے ہیں.جہاں جہاں احمدی میڈیکل ایسوسی ایشنز پہلے بھی ایسے کارخیر میں حصہ لیتی ہیں ان کو میں مطلع کرتا ہوں کہ جب دوائیوں کی فہرستیں آئیں گی تو ہم ان کو بھجوائیں گے تو وہ کوشش کریں اور اپنے طور پر بھی اندازہ لگا کر کہ اس علاقے میں کیسی کیسی بیماریاں ہوتی ہیں، جو دوائیں بھی مہیا کر سکتے ہیں وہ مہیا کریں.دوسرا وہ کہتے ہیں کپڑوں کی بہت تکلیف ہے، چھوٹے بچے عورتیں وغیرہ بہت برے حال میں ہیں.بہت گرم کپڑے نہیں چاہئیں بلکہ ٹھنڈے یا درمیانے کپڑے چاہئیں تو آپ کے گھروں میں یعنی یورپ اور امریکہ، کینیڈا وغیرہ کی جماعتوں میں جہاں ایسے زائد کپڑے ہوں وہ ضرور پیش کریں....اللہ تعالٰی جماعت کی اس قربانی کو قبول فرمائے اور ہمیں بنی نوع انسان کے دکھ بانٹنے اور ان میں سکھ پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 1991ء.خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 370 تا 371)
589 ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First) مورخہ 28 اگست 1992ء کو حضور رحمہ اللہ نے مسجد فضل لندن میں فرمودہ خطبہ جمعہ میں خدمت خلق کی ایک عالمی تنظیم قائم کرنے کی ضرورت کا اعلان فرمایا.اس کا مقصد ریڈ کر اس کی طرز پر ایک ایسی عالمی تنظیم کا قیام تھا جو بغیر رنگ و نسل کے امتیاز کے ساری دنیا کے انسانوں کی خدمت کرے اور اسے نہ صرف احمد یوں بلکہ ساری دنیا کے شریف النفس انسانوں کی مالی مدد سے چلایا جائے گا.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: تمام بڑے بڑے ملکوں میں جماعت احمدیہ کو یہ جائزہ لینا چاہئے کہ جس طرح ریڈ کر اس وغیرہ انٹرنیشنل سوسائٹیز میں اسی طرح اگر مذہبی سوسائٹیاں بھی ایک بین الاقوامی حیثیت سے پہچانی اور جانی جائیں اور اُن کا ایک مقام قائم ہو سکتا ہو تو اب وقت آگیا ہے کہ جماعت احمدیہ کو اپنی آزاد سوسائٹی بنانی چاہئے جو جماعت احمدیہ کی مرضی کے تابع خدمت کرے اور تقویٰ اور انصاف کے ساتھ خدمت کرے اور مذہب و ملت اور رنگ ونسل کے امتیاز کے بغیر خدمت کرے.اس خدمت میں شریف النفس غیروں کو بھی ساتھ شامل کرے تو جائزہ لینا چاہئے...جماعت احمدیہ کو پورے زور سے کوشش کر کے اب بین الاقوامی خدمت خلق کا ادارہ قائم کرنا چاہئے اور اس ادارے کا دائرہ کار تمام بنی نوع انسان تک عام ہو گا اور اس میں صرف احمدیوں سے چندہ نہیں لیا جائے گا بلکہ دنیا کے کسی بھی شریف النفس انسان سے جو اس ادارے میں شامل ہو کر خدمت کرنا چاہتا ہو اس کو بھی خدمت کا موقع دیا جائے گا.“ ( خطبہ جمعہ فرموده 28 را گست 1992ء ، خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 612611) چنانچہ 1993ء میں ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First) کے نام پر ایک بین الاقوامی تنظیم کا قیام عمل میں آیا.اس کو یہ نام حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کے اس ارشاد کے مطابق دیا گیا جو آپ نے قادیان کے جلسہ کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ انسانیت کو سب سے پہلے رکھیں.تنظیم اب تک 52 ممالک اور 1994ء میں یو این او کے کئی اداروں میں رجسٹرڈ ہو چکی تھی.ں تنظیم کے تحت 1993ء میں بوسنیا میں جنگ کے متاثرین کے لئے قافلے بھجوائے گئے جو اس
590 امدادی اشیاء لے کر وہاں پہنچے.جماعت نے مسلسل چار سال تک ہیومینٹی فرسٹ کے تحت خدمت خلق کی اور جماعت کی کوششوں سے ہیومینٹی فرسٹ کے ادارے کو وہ اعتبار حاصل ہوا کہ اقوام متحدہ نے بوڑھے اور بیمار لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ذمہ داری بھی ہیومینٹی فرسٹ کے سپرد کر دی کو سود دو اور البانیہ کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں متاثرین کو امداد فراہم کرنے کے لئے ہیو میشی فرسٹ کے رضا کاروں نے دن رات کام کیا اور UNHCR اور CARE جیسے عالمی اداروں کے ساتھ مل کر مہاجرین کو ان کے ممالک میں واپس پہنچانے میں بھی خصوصی کردار ادا کیا.ہیومینٹی فرسٹ کے تحت خدمات کا مختصر احوال روزنامه الفضل سالانہ نمبر 28 دسمبر 2011، صفحہ 63) 1996-1ء میں اس کے تحت آنکھوں کی بحالی کے لئے عطیات کا پروگرام شروع کیا گیا.2 مغربی افریقہ میں امدادی سامان بھیجوایا.19953ء میں Kobe میں زلزلہ کے موقع پر امداد فراہم کی.4 2000ء میں ترکی میں زلزلہ آیا اس موقع پر zmir میں امداد بھجوائی.2003-5ء میں عراق میں زلزلہ آیا.اس موقع پر ہیومینٹی فرسٹ مدد کے لئے پہنچی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت تھہ اسلامیہ احمدیہ کی زیر نگرانی تنظیم خدمت انسانیت کے مختلف میدانوں میں بہت سرعت کے ساتھ اور مضبوط قدموں سے آگے بڑھ رہی ہے.خلافت خامسہ کے مبارک عہد میں اس کے تحت دنیا کے متعدد ممالک میں خدمت انسانیت کے بہت سے پراجیکٹس نہایت کامیابی کے ساتھ جاری ہیں اور دن بدن اس کا دائرہ کار اور دائرہ اثر وسیع تر ہوتا چلا جارہا ہے.بوسنیا کے یتیم بچوں اور صومالیہ کے قحط زدگان کے لئے تحریک حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 30 را کتوبر 1992ء میں بوسنیا کے یتیم بچوں اور صومالیہ کے قحط زدگان کی امداد کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: بوسنیا کے یتیم بچوں کے متعلق میں نے تحریک کی تھی.پھر بچوں کے متعلق ہی نہیں
591 بلکہ وہاں کے جو بڑے بالغ افراد بھی چھوٹے، بڑے، مرد، عورتیں سب اجڑ کے آئے ہیں ان کی حالت انتہائی دردناک ہے اور جماعت احمد یہ عالمگیر کا فرض ہے کہ اپنی توفیق کے مطابق ضروران کی کچھ خدمت کرے.اس سلسلے میں میں نے اپنی طرف سے ایک ہزار پاؤنڈ کا وعدہ کیا ہے جو بہت معمولی ہے لیکن اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ حسب توفیق باقی جماعت کو بھی توفیقی ہے...صومالیہ کے لئے بھی یہ تحریک ہے وہاں بھی میں اپنی طرف سے ایک ہزار پاؤنڈ کا وعدہ کرتا ہوں.“ بہبود انسانی کا سال منانے کی تحریک تخطبه جمعه فرمودہ 30 اکتوبر 1992ء - خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 776) حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جنوری 1993ء میں نئے سال کے آغاز پر مبارکباد دیتے ہوئے اس سال کو انسانی بہبود کا سال منانے کی تحریک فرمائی.ذیل میں اس خطبہ کا ایک حصہ درج کیا جاتا ہے جس سے نہ صرف خلافت احمدیہ کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت اور بہبود کے لئے بے پناہ جذبہ کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ خلافت احمدیہ کی تربیت یافتہ اور خلافت حقہ اسلامیہ سے وابستہ جماعت احمدیہ کے افراد کی بنی نوع انسان سے ہمدردی اور ان کی فلاح و بہبود کے عالمی مزاج کی بھی نشاندہی ہوتی ہے.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: کل شام کا سورج غروب ہونے کے ساتھ اللہ کے فضل سے ایک نیا سال طلوع ہونے کے سامان پیدا ہوئے اور آج صبح کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ تمام عالم پر ایک نیا دن طلوع ہوا ہے.پس میں تمام دنیا کے احباب جماعت کو، چھوٹوں بڑوں کو اور مردوں اور خواتین کو نہایت محبت بھر اسلام اور مبارک باد پیش کرتا ہوں.سال نو کی مبارکباد دینے کا رواج محض ایک رواج نہیں بلکہ مبارک لفظ میں ایک دعا پائی جاتی ہے.Greetings میں تو کوئی دعا نہیں لیکن جب ہم مبارک کہتے ہیں اور مبارک ہو کے الفاظ سے کسی کو خوشی کے جذبات پہنچاتے ہیں تو اس میں در حقیقت ایک دعا ہے.پس میں بھی ان معنوں میں آپ سب کو یہ دعا دیتا ہوں کہ اللہ تعالی یہ سال آپ سب کے لئے ہر پہلو
592 سے بابرکت فرمائے اور جماعت احمدیہ کے لئے بالعموم بہت بابرکت فرمائے اور خصوصاً دعوت الی اللہ کے میدان میں جماعت کی کوششوں کو غیر معمولی پھل لگائے اور دائمی پھل لگائے اور آگے پھر پھولنے پھلنے والے صبح عطا کرتا رہے.بہر حال ایک تو جماعت کو مبارک باد دینا مقصود تھی اور ایک گل حالم کے مسلمانوں کو خواہ ان کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہو یا نہ ہوئیں دل کی گہرائی سے مبارکباد پیش کرتا ہوں.اسی طرح تمام انسانیت کے لئے میرے دل میں فلاح و بہبود کے جو جذبات ہیں اور جو نیک خواہشات ان سے وابستہ رکھتا ہوں اس پہلو سے تمام دنیا کے انسانوں کو خواہ ان کا کوئی بھی مذہب ہو، کوئی بھی رنگ ہو، کسی بھی قوم سے تعلق رکھتے ہوں، کسی مذہب کے ماننے والے ہوں، میں دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے ہے.صرف میری طرف سے ہی نہیں.میں نے مبارکباد کے اس مضمون پر جہاں تک غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس بھری دنیا میں جہاں اربوں لوگ آباد ہیں سب سے زیادہ احمدی دل ہیں جو حقیقت میں بنی نوع انسان کے بہی خواہ ہیں اور واقعۂ دل کی گہرائی سے ان کی خیر چاہتے ہیں ورنہ اکثر لوگ تو اپنے محدود دائروں سے وابستہ ہو کر رہ گئے ہیں.ایک مسلمان زیادہ سے زیادہ سوچے گا تو اسلام کی بہبود کی سوچتا ہے یا ایک پاکستانی پاکستان کی بہبود کی سوچتا ہے.انگلستان میں بسنے والا ایک انگریز انگلستان کی بہبود کی سوچتا ہے اور شاید ہی کوئی دل ایسا ہو جس کی گہرائی سے گل عالم اسلام کی خیر خواہی کی دعائیں اٹھتی ہوں.اور جہاں تک میراعلم ہے تمام احمدی جو تمام دنیا میں، مشرق و مغرب میں تہجد کی نماز کے لئے اٹھتے ہیں انہوں نے اپنا دستور بنا رکھا ہے کہ وہ نظام جماعت کے لئے یا خلیفہ وقت کے لئے ، اپنے عزیزوں اور پیاروں کے لئے جہاں دعا کرتے ہیں وہاں انسانیت کو بحیثیت انسانیت پیش نظر رکھتے ہوئے گل عالم کے انسانوں کے لئے ضرور دعا کرتے ہیں.یہ میرا ایک جائزہ ہے جو مختلف احمدیوں کے خطوط سے مترتب ہوتا ہے اور ویسے بھی اپنے دل کی کیفیت سے میں یہی اندازہ کرتا ہوں کیونکہ میرے اور جماعت کے دل کے دھڑ کنے کے انداز ایک ہیں.ایک ہی صحیح پر ہم سوچتے ہیں.ایک ہی طرز پر محسوس کرتے ہیں.اس لئے جو میری کیفیات ہیں وہ سب جماعت کی ہوں گی اور ایسا ہے بھی.کیونکہ خط لکھنے والے تو کم ہیں جو
593 لکھتے ہیں مگر جو لکھتے ہیں وہ نمونے بھیج دیتے ہیں، وہ بتا دیتے ہیں کہ فجی میں بھی ایسے احمدی بستے ہیں جیسے نائیجیریا، یا سیرالیون میں یا غانا میں یا امریکہ میں یا انگلستان میں یا جرمنی میں ، غرضیکہ احمدی خط جہاں سے بھی ملتے ہیں ان کی ادائیں ایک ہوتی ہیں.پس احمدی مزاج ایک بین الاقوامی مزاج بن چکا ہے اور انسانیت کی بھلائی چاہنا، انسانیت کی بہبود چاہنا اس بین الاقوامی مزاج کی سرشت میں داخل ہے.اس میں کوئی بناوٹ نہیں، کوئی تصنع نہیں، کوئی تکلف نہیں.جس جماعت کو یہ بین الاقوامی مزاج نصیب ہوگا اس مزاج سے از خود تمام عالم کے لئے دعائیں پھوٹیں گی.پس اللہ تعالیٰ یہ نیا سال تمام دنیا کو بحیثیت انسان مبارک کرے اور اس پہلو سے آگے چل کر میں جو تحریک کروں گا اس کا تعلق اس سال کو انسانی بہبود کا سال بنانے سے ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہر سال ہم ایک مطمح نظر اپنے سامنے رکھتے ہیں.اس سال مطمح نظریہ رکھیں کہ انسان کو انسانیت کے آداب سکھائے جائیں.“ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: ”مذہب کے اعلیٰ مقاصد میں خدا کی عبادت ہے اور خدا کی عبادت بندوں کے ساتھ حسن سلوک از خود سکھاتی ہے.جس عبادت کے نتیجہ میں انسان خدا کی مخلوق سے دور ہو جائے وہ شیطان کی عبادت تو قرار دی جا سکتی ہے، اللہ کی عبادت قرار نہیں دی جا سکتی.اس عبادت کا کیا فائدہ جس کے نتیجہ میں خالق اور مخلوق کے درمیان فرق کر دیئے جائیں اور خالق کے نام پر خلوق پر ظلم توڑے جارہے ہوں.پس اس وقت مذہبی بحثوں کا وقت نہیں ہے وہ بھی جہاں مناسب ماحول ہو چلیں گی لیکن انسانیت کو اس وقت انسان بننے کا پیغام دینے کی ضرورت ہے.انسانی قدروں کے لئے ایک عالمی سطح کا جہاد جاری کرنے کی ضرورت ہے.اس پہلو سے میں جماعت احمدیہ کو دعوت دیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کی انفرادی طور پر یا من حیث الجماعہ جماعت کی طرف سے یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک دوسروں کو بھی اس معاملہ میں عقل دے کر اور دعوت دے کر ساتھ شریک نہ کریں.ہمیں اس پیغام کو عام کرنا ہوگا اور اگر جماعت احمدیہ کی طرف سے مثلاً حکومتوں کے سربراہوں کو ، بڑے بڑے دانشوروں کو، اخباروں میں لکھنے والوں کو، جو اہل قلم لوگ
594 ہیں ان کو خطوط لکھے جائیں ان کو سارا سال اس طرف متوجہ کیا جائے اور مختلف تجاویز ان کے سامنے رکھی جائیں تو پھر یہ ایک ایسی کوشش ہے جو ہو سکتا ہے کہ بعض ایسے دلوں میں بھی تبدیلی پیدا کر دے جو دل با اختیار ہیں.جن کے پیچھے ایک قوم ہے.ان ہاتھوں میں بھی جنبش پیدا کر دیں جن کو عنان حکومت تھمائی جاتی ہے، جو ان دماغوں میں یہ تبدیلی پیدا کر دیں جن کی فکر قوم کی فکر بن جایا کرتی ہے.پس ہر پہلو سے اہل دانش، اہل قلم، اہل دل لوگوں کو جماعت احمدیہ کی طرف سے سمجھا بجھا کر محبت سے، پیار سے یہ باتیں پہنچانی ضروری ہیں اور آئندہ سارا سال دنیا کی ہر جماعت جو میرے اس پیغام کو سن رہی ہے اس میں چھوٹے بڑے سب شریک ہو جائیں اگر بچے اپنی زبان میں ایک بات لکھ سکتے ہیں تو کیوں لکھیں.بعض دفعہ بچوں کی زبان دل پر زیادہ اثر کرتی ہے اور واقعہ بڑا گہرا اثر کرتی ہے.تو بچے بھی لکھیں.جس حد تک توفیقی ہے ملکوں کے سربراہوں کو لکھیں، دانشوروں کو لکھیں، مولویوں کولکھیں.پنڈتوں کو لکھیں، پادریوں کو لکھیں اور کہیں کہ خدا کا خوف کرو.اگر اخلاق دنیا سے اٹھ گئے تو مذہب کا رہے گا کیا؟ اگر انسانیت ہی قائم نہ ہوئی تو کیا حیوانوں سے خدار شتے کرے گا.ان حیوانوں میں کیوں خدا نے نبی نہ بھیج دیتے جن سے بد تر تم ہوتے چلے جارہے ہو.اس لئے انسان کو انسانیت کے آداب سکھاؤ.جماعت احمدیہ نے ایک عالمگیر تحریک پیش کی تھی جس کا ذکر میں نے گزشتہ خطاب میں بھی کیا تھا یعنی پیشوایان مذاہب کے جلسوں کا انعقاد.یہ بہت مفید ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اب انسانیت کے نام پر ہمیں جلسے کرنے چاہیں.تحریک بہبود انسانیت کے نام پر تمام دنیا میں جلسے منعقد کرنے چاہئیں.اس میں صرف مذہب کے نمائندے نہیں آئیں گے، دہریے بھی آئیں گے.ہر قسم کے لوگ آئیں گے.ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ انسانیت ہے کیا ؟ دنیا میں انسانیت کا شرف دوبارہ قائم کئے بغیر، انسانی قدروں کو بحال کئے بغیر ہم جو عالمی انصاف کی یا عالمی امن کی باتیں کرتے ہیں وہ صرف منہ کی باتیں ہیں، ان میں کوئی بھی حقیقت نہیں ہوتی.اس سلسلہ میں بڑے دلچسپ پروگرام بنائے جا سکتے ہیں.بڑے اچھے اچھے جلسے کئے جا سکتے ہیں اور ان جلسوں میں پسماندہ قوموں کے حقوق کے اوپر بھی بحث ہو سکتی ہے لیکن یہ
595 در اصل بعد کی باتیں ہیں، پہلے میں سمجھتا ہوں کہ صرف انسانی قدروں کی بات ہونی چاہئے.انسانی قدروں کے حوالوں سے بعض دفعہ یہ بات بھی آئے گی کہ ہم ایک ملک میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایک اور ملک ہے جہاں فاقے کئے جارہے ہیں.اگر انسانی قدرمیں زندہ ہوں تو یہ نہیں ہو سکتا.انسانی قدروں کی راہ میں قومی دیوار میں حائل ہو گئی ہیں، کہیں مذہبی دیواریں حائل ہو جاتی ہیں، کہیں نظریاتی دیوار میں حائل ہو جاتی ہیں.پس ان سب مصنوعی جھوٹی دیواروں کا ٹوٹنا ضروری ہے اور وہ اندرونی دباؤ سے ٹوٹی چاہئیں.بیرونی حملے سے نہیں.اندرونی دباؤ جو انسانیت کے زندہ ہونے سے دلوں سے پیدا ہوگا اور قوم کے اندر جب وہ مجموعی طور پر زیر و بم دکھائے گا اس کے اندر اونچ نیچ ہو گی.جذبات میں بعض دفعہ کی آتی ہے بعض دفعہ زیادتی ہوتی ہے تو میری مراد یہ ہے کہ جب انسانیت کے سانس چلنے لگیں گے، جب انسانیت کا دل دھڑکنے لگے گا، جب انسانی جذبات میں تموج پیدا ہونے لگے گا تو وہ اندرونی دباؤ ہے جو تعصب کی دیواریں توڑے گا.ورنہ تعصب کی دیواریں باہر سے نہیں توڑی جاسکتیں.یہ گہر ا نفسیاتی نکتہ ہے.تعصب کی دیواروں کو جب باہر سے توڑنے کی کوشش کرو گے تو تعصب بڑھے گا.پس اندر سے سوچوں کو بدلنا پڑے گا.نظریات میں تبدیلی پیدا کرنی ہوگی.پس جماعت احمدیہ کے جتنے فکر رکھنے والے، جتنے دل رکھنے والے صاحب نظر لوگ ہیں، ان سب سے میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں اور دراصل ہر احمدی عام گفت و شنید کے ذریعہ بھی اپنے ارد گرد چھوٹے چھوٹے حسین جزیرے قائم کر سکتا ہے.ہر انسان کے اندر ایک بنیادی مادہ ہونا چاہئے جو پھیلنے کی صلاحیت ہے اور بعض پیغامات جو اپنی ذات میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.یہ پیغام بھی ان پیغاموں میں سے ایک ہے.یہ ایک ایسا پیغام ہے جو فی الحقیقت انسانی دل کی آواز ہے.انسانی فطرت سے پھوٹا ہوا پیغام ہے.پس احمدی خواه دانشور ہو یا غیر دانشور ہو، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ہوا گر وہ اپنے ماحول میں ایک زندہ پیغام کی بات کرتا ہے تو اس کا پیغام اسی طرح سنا جائے گا جیسے کہا جاتا ہے کہ: دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
596 پس زندہ پیغام کی یہ نشانی ہوتی ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آج دنیا غیر انسانی ہوتے ہوئے بھی انسانیت کے لئے ترس رہی ہے.اس کی گہری فطرت کی یہ آواز ہے کہ ہمیں اس کی ضرورت ہے.پس جب احمدی یہ آواز بلند کرے گا تو کسی دلیل کی ضرورت نہیں.یہ آواز تو دل سے اٹھے گی اور ضرور دل میں جابیٹھے گی اور پھر وہاں نشود مما پائے گی اور پھوٹے گی.پھر اپنے دائیں بائیں دوسرے غیر انسانی لوگوں کو انسان بنانے کے لئے کوشاں ہو جائے گی.( خطبہ جمعہ فرمودی یکم جنوری 1993ء.خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 141) اس سلسلہ میں اسی خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ نے متعدد ملی اقدامات بھی تجویز فرمائے اور نہ صرف افراد جماعت احمد یہ عالمگیر کی رہنمائی فرمائی بلکہ اقوام عالم اور مختلف سیاسی و مذہبی لیڈرز کو بھی نہایت اہم اور مفید مشوروں سے نوازا.پھر اسی مضمون کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے 8 جنوری 1993ء کے خطبہ جمعہ میں بھی بہبود انسانی کے لئے کام کرنے کی اہمیت اور اس کے لئے اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق تمام صلاحیتوں کو بروئے کارلانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: جب جماعت احمد یہ سب دنیا کے غم کی باتیں کرتی ہے.سب دنیا کے فکر دل سے لگا کر ان کی اصلاح کی کوشش کرتی ہے تو بہت لوگ تعجب کرتے ہیں کہ ان کی حیثیت کیا ہے، طاقت کیا ہے، یہ کیسے دنیا کے حالات بدل سکتے ہیں.اور بہت سے احمدی دانشور بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہاں سمندر میں ایک قطرہ زائد ڈالنے والی بات ہے ورنہ تو کوئی حیثیت نہیں ہے اور بعض یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ ہمیں وہ کام سہیڑنے کی ضرورت کیا ہے جس کام کی ہم میں طاقت نہیں.تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ہماری فطرت میں اگر یہ بات ہو کہ کسی کا غم محسوس کریں اور کسی کا دکھ ڈور کرنے کی کوشش کریں تو ہم مجبور ہیں.اس میں عقل کا قصہ نہیں، دل کی مجبوریوں کی بات ہے.ایک شخص جو ہمدرد ہو وہ کسی جگہ کسی کو تکلیف میں دیکھتا ہے تو طبعا اس کے دل میں ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور بے اختیار قدم اس طرف اٹھتے ہیں تا کہ اس کی تکلیف کو دور کیا جائے.ہمیں تو اس سے بہت زیادہ بڑھ کر بنی نوع انسان سے محبت ہے اس لئے کہ ہم حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام ہیں.ہم تو اس آقامحمد مصطفی ﷺ کے غلام ہیں جس نے گل حالم
597 کے اندیشے دل کو لگا رکھے تھے جن کے متعلق خدا آسمان سے بار بار گواہی دیتا تھا کہ اس دنیا کے غم میں تو اپنے آپ کو بلاک کرلے گا.پس اگر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ سے کسی کو سچا پیار ہے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ دنیا کے اندیشے دل کو نہ لگا بیٹھے.یہ اس کے لئے فطرت کا ایک طبعی تقاضا ہے، اس کے سوا کوئی طریق کار ہی میسر نہیں ہے.پس اگر احمدی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ م کی محبت میں سچا ہے تو اسے لازمتا یہ اندیشے دل کو لگانے ہوں گے بلکہ اس کے بغیر اس کا محمد رسول اللہ ﷺ سے تعلق ہی سچا ثابت نہیں ہو سکتا.پس یہ مجبوریاں ہیں.ہم نے تو یہ کام کرنا ہی کرنا ہے.ہمیں تو دنیا کی کوئی طاقت اس کام سے روک نہیں سکتی.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 8 جنوری 1993ء.خطبات ظاہر جلد 12 صفحہ 24-25) بوسنیا کے مظلوموں کے لئے امداد کی تحریک پھر 29 جنوری 1993ء کو بوسنیا کے مظلوموں کی مالی اور اخلاقی امداد کے لئے حضور نے تحریک فرمائی جس پر جماعت نے لبیک کہا اور فوری طور پر 78 ہزار پاؤنڈ سے زائد رقم پیش کی.حضور رحمہ اللہ نے اس بارہ میں 29 جنوری 1993ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: بوسنیا کی تحریک میں اس وقت تک جو Response یعنی اپیل کے جواب میں لٹھیک کہا گیا ہے وہ 78 ہزار 672 پاؤنڈ ہے مگر یہ بہت ہی کم ہے.اتنے دردناک حالات ہیں اور اتنی بڑی ضرورت ہے کہ جو جہاد کرنے والے ہیں ان کے لئے ان کے پاس نہ بوٹ ہیں، نہ گرم کپڑے ہیں.بہت ہی درد ناک حالت میں وہ دین کی خاطر یہ بڑا دردناک جہاد کر رہے ہیں.تو جماعت احمدیہ کو انفرادی طور پر یا جماعتی طور پر جسمانی لحاظ سے جہاد میں شرکت کی توفیق نہیں ہے تو مالی لحاظ سے تو کر سکتی ہے.چنانچہ ہم بڑے وسیع پیمانے پر رابطے بڑھا رہے ہیں.بعض ملکوں میں پچاس پچاس ہزار بوسنین مہاجرین ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کو کہا جاتا ہے کہ اپنی ضرورت بتاؤ تو وہ بوسنیا کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں پر خرچ کرو جو بڑی عظیم قربانیاں دے رہے ہیں.وہاں جب میں نے وفد بھیجوانے شروع کئے یعنی جماعت کو تو فیق ملی تو ایک رپورٹ آئی کہ اس میں کچھ جرمن نیک دل لوگ بھی شامل ہو گئے اور جماعت کے نمائندوں نے ٹرک لیا اور مال لے کر وہاں پہنچے تو کہتے ہیں کہ اتنے دردناک حالات تھے کہ وہ جرمن جو غیر مسلم
598 تھے ان کی چیخیں نکل گئیں.سخت سردی میں معصوم بچوں نے جن کے پاس چھوٹے بوٹ تھے انہوں نے آگے سے بوٹ کاٹ کرتا کہ پاؤں کو آگے سے اچھے نا اور پنجہ دیے نا، آدھا پاؤں باہر نکلا ہوا تھا اور کپڑے پورے نہیں تھے فاقوں کا شکار.کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ یہ اثر ہمارے دل پر اس وقت ہوا جب ہم نے کہا کہ ہمیں اور بتاؤ کہ تمہیں کیا ضرورت ہے ہم پھر آئیں گے تو انہوں نے کہا کہ پھر ہماری طرف نہ آوان مجاہدوں کی طرف جاؤ جو بڑے دردناک حالات میں پہلے لڑ رہے ہیں اور ان کی مدد کرو تو جماعت کو اس سلسلہ میں دل کھول کر آگے قدم بڑھانا چاہئے." ) خطبه جمعه فرموده 29 جنوری 1993ء - خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 95-96) چنانچہ اس کے بعد بھی انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر بھی مظلوموں کی ہر سطح پر امداد کی گئی اور خطیر رقم اس غرض سے خرچ کی گئی.ہو میو پیتھی طریق علاج کے ذریعہ خدمت خلق جماعت احمدیہ میں ہو میو پیتھی کو متعارف کرانے کا سہرا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سر ہے.آپ نے فروری 1923ء میں احمدی خواتین کو معلومات افزا لیکچر دیتے ہوئے ہو میو پیتھی کا تذکرہ فرمایا اور کئی احمدیوں کو اس طریق علاج کی طرف توجہ پیدا ہو گئی اور انہوں نے بیسیویں صدی کے چوتھے عشرہ میں پرائیویٹ کلینک بھی کھول لئے.وقف جدید کی ڈسپنسری دسمبر 1956ء میں ربوہ میں فضل عمر ہو میو پیتھک ریسرچ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا جس کے صدر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد تھے.1960ء میں آپ نے ہومیو پیتھی کی مفت ادویہ دینے کا سلسلہ شروع کیا.آغاز میں آپ نے یہ کام گھر میں جاری کیا.1968ء میں وقف جدید میں با قاعدہ ڈسپنسری کے قیام تک آپ تمام اخراجات خود برداشت کرتے تھے.وقف جدید میں آپ کے علاج سے ہزاروں مریض فیض یاب ہوئے اور آپ نے بہت سی بیماریوں کے متعلق نئے نئے تجربات کئے جن میں خدا نے آپ کو کامیابی عطا فرمائی.(اس کی کسی قدر تفصیل آپ کی کتاب ”ہو میو پیتھی یعنی علاج بالمثل میں موجود ہے)
599 ہومیو پیتھی کلاسز 1982ء میں منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد آپ رحمہ اللہ نے خدمت خلق کا یہ سلسلہ مزید وسیع کر دیا.بہت سے احمدی، غیر احمدی اور غیر مسلم آپ سے ذاتی ملاقاتوں کے دوران یا خطوط کے ذریعہ اپنی بیماریوں اور عوارض کے لئے آپ سے دعا کے ساتھ ساتھ ہومیو دوا کے لئے بھی درخواست کرتے اور اکثر و بیشتر آپ انہیں مفت اردو یہ بھی فراہم کرتے اور اس طریق پر ہزار ہا افراد نے بیماریوں سے نجات حاصل کی اور شفاء پائی.لیکن اس سلسلہ میں ایک انقلابی موڑ اس وقت آیا جب آپ نے 1994ء میں ایم ٹی اے پر ہو میو پیتھی کلاسز کا آغاز فرمایا.چنانچہ آپ نے 198 کلاسز میں نہایت سادہ زبان میں ہو میو پیتھی کے اصول وضوابط اور تجربات کا ذکر کیا اور گھروں میں بیٹھے ہوئے ہزاروں احمدی مردوزن ہو میو پیتھی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے لگے اور گھر گھر میں ہومیوڈسپنسریاں کھل گئیں اور احمدی نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرنے لگے بلکہ فیض کا یہ سلسلہ بیرونی احباب تک وسیع ہو گیا اور کثرت کے ساتھ فری ہو میو ڈسپنسریاں قائم ہونے لگیں.آپ نے ضروری دواؤں کے باکسر ( Boxes) بنوا کرکئی ممالک میں بھجوائے اور گشتی (Mobile) ڈسپنسریاں وجود میں آگئیں.آپ نے متعد د خطبات اور خطابات میں ہومیو پیتھی طریق علاج سے غیر معمولی شفا یابی کے ایمان افروز تجربات بیان فرمائے جس سے احمدیوں کو مزید تحریک ہوئی.اور بہت سے احمدی مردوزن آپ کی ہومیو پیتھی کی کلاسز سے مستفید ہونے کے باعث باقاعدہ ہو میو پیتھی کے مستند اداروں سے تعلیم حاصل کر کے ہومیو پیتھک ڈاکٹر زبن گئے اور اس طریق پر بھی خدمت خلق کا فیض عام ہوا.حضور رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یو کے 1995ء کے دوسرے روز بعد دوپہر کے خطاب میں ہو میو پیتھک طریق علاج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ہومیو پیتھک ایک باقاعدہ نظام صحت ہے جو عظیم الشان ہے اس میں خدا تعالی کے فضل سے عظیم صلاحیتیں موجود ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بہت ہی سستا علاج ہے اور ایسی ایسی امراض کا بھی علاج ہومیو پیٹھک میں کامیابی کے ساتھ مشاہدے میں آتا ہے جہاں
600 دوسرے ڈاکٹر جواب دے بیٹھتے ہیں.کہتے ہیں اب اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے.بعض ڈاکٹر کہتے ہیں اس بیماری کا ہمارے پاس علاج نہیں ہے اور روزمرہ اب یہ شواہد پہلے سے بڑھ کر ہمارے سامنے آرہے ہیں کیونکہ میں نے ایم ٹی اے کے ذریعے تمام دنیا کی جماعتوں کو ہومیو پیتھک سکھانے کا ایک پروگرام بنایا....صرف احمدی ڈاکٹر ہی نہیں غیر احمدی ایلو پیتھک ڈاکٹر بھی ایم ٹی اے ذریعے باقاعدہ ہومیو پیتھنک سیکھ رہے ہیں.باقاعدہ لیکچر سنتے اور ان سے استفادہ کرتے ہیں اور جہاں تک ہو میو پیتھ کا تعلق ہے ان میں بعض چوٹی کے ہو میو پیتھ سے جب بعض احمدیوں کا رابطہ ہوا تو انہوں نے یہ عجیب بات کہی کہ جب ہمیں پتہ لگا کہ ایم ٹی اے کے ذریعے جماعت احمدیہ کے امام دنیا کو ہومیو پیتھک سکھا رہے ہیں تو محض اس دلچپسی کی خاطر کہ دیکھیں کہ وہ کیا کہتے ہوں گے؟ ہم نے شروع کیا اور اب باقاعدہ لیکچر سنتے ہیں اور ایک ڈاکٹر نے کہا کہ یہ لیکچر سننے کے بعد اب مجھے پتہ چلا ہے کہ ہومیو پیتھی ہے کیا.اور میں تو اب کوئی ایک لیکچر میس (Miss) کر ہی نہیں سکتا.ایک اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر نے جو بہت نامور ڈاکٹر ہیں...انہوں نے کہا ہو میو پیتھک نے تو مجھے دین اسلام بھی سکھا دیا کیونکہ جب ان کے لیکچر ہو میو پیتھی کے سنے تو میں نے کہا خطبہ بھی توسن کے دیکھیں کہ خطبے میں کیا کہتے ہوں گے؟ وہ خطبے سنے تو میں نے اپنے گھر میں با قاعدہ خطبوں کو جاری کر دیا ہے.اب ہمارا سارا گھر بڑے انتہاک کے ساتھ ہر خطبہ سنتا ہے اور میں اپنے بچوں کو بتاتا ہوں کہ اگر اسلام سیکھنا ہے تو احمدیت سے سیکھو اس کے علاوہ کہیں کچھ اسلام نہیں ہے.تو دو ہی تو شفا ئیں ہیں.ایک روحانی شفا ہے، ایک بدنی شفا ہے.پس آج جماعت احمدیہ کو ان دونوں علوم پر بادشاہی عطا ہوتی ہے اور یہ بادشاہی یا روحانی سلطنت جو روحانی شفا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے یا بدنی شفا سے تعلق رکھتی ہے اب اس پر جماعت احمدیہ کو خدا تعالی نے فائز فرمایا ہے.کوئی دنیا کی طاقت اب جماعت سے یہ اعزاز نہیں چھین سکتی.جو ہمارے شاگرد اب تیار ہورہے ہیں ہو میو پیتھک میں ان کے بڑے دلچسپ تجارب مل رہے ہیں اور اب میں ان سے بھی سیکھ رہا ہوں کیونکہ علم میں یہی تو خوبی ہے علم کی چھری جب ایک دوسرے کے ساتھ چلتی ہے تو تیز تر ہوتی ہے، گند نہیں ہوا کرتی.تو جو میرے شاگرد تھے اب ان کو خدا تعالی جو نئے نئے تجارب عطا کر رہا ہے وہ مجھے بھیج رہے ہیں.اس طرح
601 شاگرد اور طالبعلم کے فاصلے مٹ گئے ہیں.ہم دونوں ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں اور حیرت انگیز طور پر شفا کے نمونے دنیا میں اس وقت ہو میو پیتھک کے ذریعے ظاہر ہورہے ہیں....یہ ایک بہت بڑی عظیم شفا کا ذریعہ ہے جس کی تائید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کشوف سے اور روحانی طور پر اللہ نے جو آپ کو علم عطا فرمایا ہے اس سے ہوتی ہے اس لئے اس میں کسی احمدی کے لئے کسی تردد کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے طاعون کے زمانے میں ایک اعلان شائع فرمایا اور فرمایا کہ مجھے ایک روحانی ذریعے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اگر طاعون کی بیماری جو جلد اور غدودوں کی بیماری ہے وہ کسی ملک میں پھیل جائے.دراصل تو غدودوں کی بیماری ہے، جلد پر بھی اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں.تو اس کو روکنے کے لئے اگر سلفر اور مرکزی کے ذریعے جلدی بیماریاں پھیلا دی جائیں تو غدود کی بیماریاں غدود کو چھوڑ کر جلد کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں اور غدودوں کو شفا مل جاتی ہے.یعنی اندر جو گلینڈ زہیں ان کو بچانے کے لئے اگر جلدی بیماریاں پھیلائی جائیں تو گلینڈ ریچ جاتے ہیں....پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی طرف سے میرے دل میں اس بات کی طرف غیر معمولی جوش پیدا کیا گیا ہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ تمام دنیا کے اطباء کو بتا دوں کہ اس میں ان کے لئے گہرے راز ہیں اور انسانی شفا کے لئے بہت مصالح ہیں جو اس میری دریافت کے اندر جو روحانی ذریعے سے ہوتی ہے مضمر ہیں.اگر اطنا، غور کریں تو ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی شفاء کے نئے نئے راز عطا ہوں گے.یہ خلاصہ ہے.الفاظ وہ نہیں ہیں.مگر (مضمون) یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا.تو اب دیکھیں کہ یہ جو نیا دور ہے اس میں جماعت احمدیہ کے بانی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے خبر دے رکھی تھی کہ ہومیو پیتھک شفاء کا تمام دنیا کی جسمانی شفا سے گہرا تعلق ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مصلح موعودؓ کے دل میں جو ہو میو پیتھک کا جذبہ پیدا کیا گیا یہ بھی ایک اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ اللہ تعالی کی تقدیر کی طرف سے باقاعدہ ایک منصوبے کے مطابق ایسا ہوا.پھر حضرت مصلح موعود کے تیرہ لڑکے تھے ان میں کسی ایک کو اگر ہومیو پیتھک کا جنون ہوا تو مجھے ہی ہوا اور مجھے ہی خدا نے چنا اس مقام کے لئے جہاں سے میں
602 تمام دنیا میں ہومیو پیتھک کے علاج کا تعارف دنیا سے کروا سکوں اور ہومیو پیتھک کی تعلیم دے سکوں.یہ ایک ایسا شفا کا نظام ہے جو بہت ہی سستا ہے اور بہت ہی موثر ہے....امر واقعہ یہ ہے کہ ہو میو پیتھک علاج اگر ایک دفعہ جاری ہو گیا تو تب آپ کو سمجھ آئے گی کہ کتنا عظیم فائدہ ہے خصوصاً غرباء کا.ایک غریب ایک بیمار کے لئے جو ڈاکٹر کو پیسے دیتا ہے وہ بعض دفعہ اس کے بچوں کی مہینوں کی خوراک کا خرچ پورا کر سکتے ہیں اور بعض دفعہ بعض مریض مجھے لکھتے ہیں کہ ہمارے لئے تو دوراہوں میں سے ایک کو اختیار کرنا ہے یا ہم چند مہینے فاقے کریں یا پھر بیماری کے ساتھ رہیں کیونکہ علاج ہمارے بس کی بات نہیں ہے.ایسے لوگوں کے لئے ہومیو پیتھک شفا ایک عظیم نعمت ہے.ایک بہار کے علاج پر ایلو پیتھک میں جو خرچ ہوتا ہے اس خرچ کی بجائے اگر ہو میو پیتھک ادویہ حاصل کی جائیں اور ہومیو پیتھک علاج کا سلیقہ آتا ہو تو ساری عمر کے سارے گھر والوں کے علاج کے لئے ایک دفعہ کی ایک ڈاکٹر کی فیس کافی ہے اور پھر......محلے ارد گرد سب کا علاج مفت بھی کیا جا سکتا ہے.پس محض ایک اہم وقت کی ضرورت ہی نہیں جس کا جسمانی شفا سے تعلق ہے بلکہ روحانی شفا سے بھی اس کا تعلق ہے کیونکہ جو مریض کسی کے ہاتھوں شفا پاتے ہیں اس کے دین میں بھی دلچسپی لینے لگتے ہیں، اس کے زیر اثر آ جاتے ہیں خصوصاً اگر مفت علاج ہو تو بہت تیزی کے ساتھ ان لوگوں کے دل میں شفا ملنے کا ذریعہ بنے والے کے لئے محبت پیدا ہو جاتی ہے.پس دعوت الی اللہ کے جو نئے میدان نفتح ہورہے ہیں، نئی نئی قوموں میں نفوذ ہو رہا ہے اس میں ہو میو پیتھک سیکھ کر چند سستی سی دوائیں اپنے ساتھ لے کر اگر سفر کریں تو ہزار بالوگوں کی شفا کا انتظام چند روپوں میں ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے.جہاں تک دواؤں کا مہیا کرنے کا تعلق ہے ہم نے تمام ضروری دوائیں جو ایک روز مرہ کے پریکٹس کرنے والے ہو میو پیتھ کے کام آ سکتی ہیں ان پر غور کر کے 234 دواؤں کا ایک سیٹ بنایا ہے اور اس کو دو مضبوط گتے کے ڈبوں میں ترتیب دے دی ہے" خطاب فرمودہ 29 جولائی 1995 ء بر موقع جلسہ سالانہ یوکے) حضور رحمہ اللہ کی ہدایات کے مطابق دوائیوں کے یہ ڈبے ایک باقاعدہ نظام کے تحت نہایت معمولی خرچ پر افراد جماعت کو مہیا کئے گئے.
603 اسی طرح جلسہ سالانہ برطانیہ 1998ء کے موقع پر دوسرے روز بعد دوپہر کے خطاب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: ”جہاں تک ہو میو پیتھک طریقہ علاج کا تعلق ہے اگر چہ یہ طریقہ مشکل ضرور ہے لیکن ایک لمبے عرصے سے میں ایم ٹی اے کے ذریعہ مسلسل لیکچر دے رہا ہوں جو تمام دنیا میں پھیل رہے ہیں اور ان لیکچرز میں اگر چہ شروع میں بہت دقت تھی کیونکہ جن کو میں مخاطب تھا ان کو اس مضمون کی الف ب بھی نہیں آتی تھی لیکن بہت محنت کرنی پڑی.سردردی دور کرنے کے لئے سر دردی اختیار کرنی پڑی.بہر حال اللہ نے فضل فرمایا اور رفتہ رفتہ لوگوں کو سمجھ آنی شروع ہوئی اور یہ طریقہ عام ہونا شروع ہوا.بالآخر وہ وقت پہنچا جبکہ بکثرت لوگوں کی توجہ اس طریقہ علاج کی طرف ہوئی کیونکہ اس میں ایک خاص بات یہ ہے جو ایلو پیتھک طریقہ علاج میں ممکن نہیں ہے کہ نہایت کم خرچ پر علاج ہو سکتا ہے اور جہاں تک ہو میو پیتھی کا اور جماعت کا تعلق ہے جماعت احمد یہ ایسا علاج تجویز کر رہی ہے جس کے اخراجات خود جماعت احمد یہ برداشت کر رہی ہے.گویا کہ بکثرت ایسی ڈسپنسریاں قائم ہو رہی ہیں کہ ان کو اپنے پہلے سے ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں، ہم طریقہ علاج بھی سمجھاتے ہیں اور مفت دوائیں بھی مہیا کرتے ہیں.یہ ایک بہت اہم کام ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے بکثرت پھیل رہا ہے.اس ضمن میں سب سے پہلے مرکز میں ہمیں ایک مرکزی شعبہ اس کام کے لئے قائم کرنا پڑا جوڈاکٹر عبدالحفیظ صاحب بھٹی اور ان کی بیگم شیریں بیگم اور ان کے بچوں کے سپرد ہے....اس کثرت سے شفاخانوں کو اور احمد یہ گھرانوں کو مفت علاج کی سہولت مہیا کر دی گئی ہے کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جب سے دنیا بنی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا.تمام عالم کی طبی ضروریات پورا کرنے کے لئے کوئی مفت جاری ہونے والا نظام کسی کے علم میں ہو تو بتائے.پس یہ بھی اللہ تعالی کے عظیم فضلوں میں سے ایک فضل ہے.اس نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اس ہدایت کے اس شعبہ پر بھی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی کہ الْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْأَدْيَانِ وَعِلْمُ الْأَبْدَانِ اسی ضمن میں حضور رحمہ اللہ نے خاص طور پر انڈونیشیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: انڈونیشیا میں اللہ تعالی کے فضل سے عبد القیوم صاحب جو انڈونیشیا جماعت کے ایک
604 بہت ہی اہم اور مخلص ممبر ہیں.ان کی ذاتی کوششوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہومیو پیتھک وہاں نافذ ہو چکی ہے.عبد القیوم صاحب نے سب سے پہلے تو خود مجھ سے یہ طریقہ علاج سمجھا اور بہت قابل آدمی ہیں، بہت اعلی تعلیم یافتہ ہیں.جب ان کو یقین ہو گیا اور خود ہماری ڈسپنسری میں جا کر وہ مثالیں بھی دیکھیں کہ کس طرح خدا تعالی شفا عطا فرماتا ہے تو پھر انہوں نے کہا کہ اب مجھے اجازت دی جائے کہ میں اسے انڈونیشیا میں پھیلاؤں.چنانچہ اس وقت تک وہ اور ان کا خاندان اور بہت سی لجنات جو ان سے تعاون کر رہی ہیں ان کی کوششوں سے 93ڈسپنسریاں انڈونیشیا میں قائم ہو چکی ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ لوگوں کا بہت تیزی سے ان کی طرف رحجان بڑھ رہا ہے.لیکن علاوہ ازیں جیسا کہ میں نے کہا تھا ئیں تو اس وقت راضی ہوں گا جب ہر احمدی گھر شفاخانہ بن جائے گا.لوگ اپنا بھی علاج کریں گے، اپنے بچوں کا بھی علاج کریں گے، ہمسایوں کا بھی علاج کریں گے اور ان کو بھی یہ طریقہ علاج سمجھائیں گے تاکہ احمدیت کا فیضی دنیا میں پھیلتا چلا جائے.(خطاب فرموده بر موقع جلسہ سالانہ کیو کے 1998ء.دوسرے روز بعد دوپہر ) حضور رحمہ اللہ کے ہو میو پیتھی سے متعلق ایم ٹی اے پر لیکچرز کے متعلق یہ ڈیمانڈ تھی کہ انہیں با قاعدہ کتابی صورت میں شائع کیا جائے.چنانچہ انہیں کتابی صورت میں ڈھالا گیا اور 1996ء میں یہ کتاب ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل" کے نام سے شائع ہوئی لیکن چونکہ یہ کتاب جلدی میں شائع کی گئی تھی اس میں بعض اغلاط راہ پاگئیں.چنانچہ جلد ہی اس کا دوسرا ایڈیشن ریویژن کے بعد شائع ہوا.اس کا انگریزی اور عربی ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے.جلسہ سالانہ کیو کے 1999ء کے موقع پر دوسرے روز بعد دوپہر کے خطاب میں حضور رحمہ اللہ نے ہومیو پیتھک کے ذریعہ خدمت خلق کے حوالہ سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: اللہ تعالی کے فضل سے ہو میو پیتھک طریقہ علاج کو بکثرت فروغ ہو رہا ہے اور کثیر تعداد میں مفت خدمت کرنے والے شفا خانے قائم کئے جارہے ہیں.37 ممالک سے موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق ایسے 406 چھوٹے بڑے شفا خانے قائم ہو چکے ہیں.اس سال ایک محتاط اندازے کے مطابق 1,61,355 افراد کا مفت علاج کیا گیا ہے.ان مریضوں میں
605 ایک بھاری تعداد غیر از جماعت اور غیر مسلم افراد کی بھی شامل ہے.یہ مفت علاج رنگ ونسل اور مذہب کے فرق سے بالارہ کر کیا جاتا ہے اور محض خلق اللہ کی بھلائی پیش نظر ہوتی ہے.مغربی ممالک میں انگلستان اور جرمنی اور افریقن ممالک میں سے گھانا نے جس منظم طریق پر اس کام کو بڑھایا ہے اور پھیلایا ہے وہ قابل تقلید ہے.انگلستان میں دوران سال چو بیس ہزار سے زائد افراد کو علاج کی سہولت مہیا کی گئی.جرمنی نے تمھیں ہزار سے زائد مریضوں کو مفت علاج مہیا کیا.مزید برآں جرمنی نے دوسرے یورپین ممالک کو بھی مفت ادویات مہیا کیں.گھانا میں بتیس ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا.چھوٹے بڑے 32 شفا خانے قائم کئے جاچکے ہیں.گھانا کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ سارے افریقن ممالک کو مفت ادویات گھانا ہی سے بھیجوائی جاتی ہیں اور مختلف افریقن ممالک کے نوجوانوں کو ہومیو پیتھک طریقہ علاج کی تربیت بھی گھانا کے زیر نگرانی دی جارہی ہے.انڈونیشیا نے حیرت انگیز طور پر بہت جلد ترقی حاصل کی ہے.اس سے پہلے انڈونیشیا میں نہ احمدیوں میں اور نہ غیر احمدیوں میں کہیں ہو میو پیتھک کا نام ونشان تک نہیں تھا.لیکن اللہ تعالیٰ قیوم صاحب کو جزائے خیر دے.انہوں نے اور ان کے عزیزوں نے خاص طور پر بہت محنت سے کام کیا ہے اور اس قدر تیزی سے ترقی کی ہے کہ اس وقت تک اللہ کے فضل سے تمام ملک میں 198 چھوٹے بڑے شفا خانے قائم ہو چکے ہیں.یہ بہت بڑی تعداد ہے.اللہ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے.“ اسی ضمن میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ صرف عام شفا کی باتیں نہیں ہیں.یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا بطور الهام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہلے سے بتا دیا گیا تھا.اور تائیدی رویا بھی ایسی دکھائی گئیں جن کی تعبیر اس کے سوا ہو نہیں سکتی کہ ہو میو پیتھک کے جو بڑے بڑے ڈبے تقسیم ہوتے ہیں جن میں ہزاروں دوائیاں لوگوں تک پہنچائی جاتی ہیں انہی کا ذکر تھا.اس کے سوا اس رڈیا کی تعبیر ممکن ہی نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کی تائید میں حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دکھائی گئی تھی.اب دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام
606 فرمایا: آج کوئی پہر رات باقی ہوگی کہ الہام ہوا: إلى أحَافِظ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ وَلِتَجْعَلَهُ آيَةٌ لِلنَّاسِ وَرَحْمَةٌ مِنَّا وَكَانَ أمرًا مَّقْضِيًّا عِندِي مُعَالَجَات....یقیناً میں ہر اس شخص کی حفاظت کروں گا جو گھر میں ہے.(اور یہ اس لئے ہے) تا کہ ہم اُسے لوگوں کے لئے نشان اور اپنی طرف سے رحمت بنا دیں اور یہ فیصلہ شدہ امر ہے.میرے پاس علاج ہیں.اب یہ آخری فقرہ کہ میرے پاس علاج ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: جس وقت مجھے یہ الہام ہوا اس وقت میں نے گھر میں پوچھا کہ تم کو بھی کوئی خواب آیا ہے کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے الہام کے ساتھ ان کو بھی کوئی مصدق خواب آ جایا کرتا ہے.انہوں نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا بکس ادویہ کا چراغ لایا ہے.چراغ نام ہے اس شخص کا جولایا ہے.) اور شیخ رحمت اللہ نے روانہ کیا ہے.جب کھولا گیا تو دیکھا کہ ہزار ہا شیشیاں اس میں دوا کی ہیں.“ اب ایک ڈبے میں ہزار ہا شیشیاں ایلو پیتھک دواؤں کی آہی نہیں سکتیں.یہ ہومیو پیتھک کا کمال ہے کہ چھوٹی چھوٹی شیشیوں کی صورت میں ہزار ہا مریضوں کے لئے دو مہیا کی جاتی ہے.فرماتے ہیں: ہزار ہا شیشیاں اس میں دوا کی ہیں.کوئی بڑی کوئی چھوٹی.تب گھر میں تعجب کیا کہ کبھی کدائیں دس بارہ شیشیاں منگوائی جاتی تھیں مگر یہ ہزار ہا شیشیاں کیوں منگوائی گئیں.“ ( ملفوظات جلد چهارم صفحه 76 ر مطبوعہ انگلستان ایڈیشن 1985 ء) ظاہر ہے کہ ہومیو پیتھک ادویہ کے جو بکس (Box) تیار کئے جارہے ہیں ان کی طرف اشارہ ہے.66 ( خطاب فرموده بر موقع جلسہ سالانہ ہو کے 1999ء دوسرے روز بعد دو پیر )
607 صفت رحمانیت کے تحت قائم ڈسپنسریاں خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اگست 2001ء میں حضور رحمہ اللہ نے ہومیوڈسپنسریوں کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: خدا تعالیٰ نے صفت رحمانیت کے تابع جو شفا کا مضمون پیدا کیا ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں ان میں ایک ہومیو پیتھی شفا کا نظام بھی ہے اور یہ الہی نظام شفا کے قریب تر ان معنوں میں ہے کہ اس کی اتنی باریکیاں ہیں کہ ان پر غور کرنے سے انسان خدا کی ہستی کالا ز من قائل ہو جاتا ہے.ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے بغیر یہ شفا کا مضمون سکھایا جاتا.بہر حال اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس مضمون پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے....ہومیو پیتھک علاج کے لئے تحقیق ہونی چاہئے پورے غور وفکر کی ضرورت ہے.اس کے دو حل ہیں.ایک تو یہ کہ جو میری کتاب ہے ہو میو پیتھی کی وہ آپ خود لے لیں اور اس میں اشارے موجود ہیں ان کو دیکھ کر خود اپنا مطالعہ کریں.سب سے بہتر علاج انسان خود کر سکتا ہے جو جانتا ہے کہ مجھے کیا بیماری ہے.لیکن جن کو یہ سلیقہ نہیں اور اکثر کو نہیں ہے، بہت مشکل کام ہے کہ ہو میو پیتھک علاج کرنے کے لئے کوئی خود کتاب سے فائدہ اٹھا سکے.اس لئے ان کے لئے دنیا بھر میں خدا تعالٰی کی رحمانیت کی مظہر ڈسپنسریاں قائم کر دی گئی ہیں جو بلا مبادلہ کام کرتی ہیں.اس کثرت سے ڈسپنسریاں قائم ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ اب دنیا میں کتنی بیشمار ڈسپنسریاں قائم ہیں جو بنی نوع انسان کا علاج کرتی ہیں مگر محض رحمانیت کے طور پر.اس کا کوئی متبادل نہیں لیتیں، مفت کی ڈسپنسریاں ہیں اور ان میں لوگ وقف ہیں....اب میں آپ کے سامنے ایک مختصر فہرست رکھتا ہوں کہ کس کثرت کے ساتھ دنیا میں احمدیت کے طفیل مفت علاج کی سہولتیں موجود ہیں.ہندوستان، جرمنی، امریکہ، کینیڈا غرضیکہ دنیا بھر کے ممالک میں یہ ڈسپنسریاں کام کر رہی ہیں.اب امراء کا فرض ہے کہ وہ احباب جماعت کو واقفیت کروائیں.اب امریکہ سے، لاس اینجلس سے جو خط آتے ہیں کہ میرا علاج کریں وہیں لاس اینجلس میں ہی ہمارے مربی موجود ہیں جو ہو میو پیتھک علاج کر سکتے ہیں.اڑیسہ سے خط ہے
608 وہاں بھی نظام جماعت مقرر ہے کوئی نہ کوئی ہو میو پیتھک ڈسپنسری موجود ہے جو بلا مبادلہ ان کی خدمت کے لئے تیار ہے.اب ربوہ میں تو کثرت سے ہیں اور ربوہ سے بھی خط آتے ہیں.عجیب بات ہے کہ ان کو یہ نہیں پتہ کہ خدا تعالی کے فضل سے وہاں ہو میو پیتھک کلینک با معاوضہ بھی موجود ہیں، بہت معاوضہ لے کر کرتے ہیں لیکن جماعت کی طرف سے مفت علاج کی اتنی سہولتیں ہیں کہ دنیا کے کسی شہر میں یہ سہولتیں نہیں ہوں گی.ملک کے امیر کا فرض ہے کہ وہ تمام جماعتوں کو مطلع کرے کہ آپ کے قریب ترین کون سی ڈسپنسری ہے جس سے آپ استفادہ کر سکتے ہیں اور اگر اس شہر میں نہیں ہے تو شہر بتائیں کہ کس جگہ جائیں کیونکہ ان کو لازما پھر وہاں جانا پڑے گا اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر موجود ہو گا جو ان کو دیکھ کر پوری تحقیق کرنے کے بعد پھر ان کے لئے علاج تجویز کر سکتا ہے.اب مختصر میں آپ کو بتا دیتا ہوں.ہندوستان میں مجموعی طور پر 170 کے لگ بھگ ڈسپنسریاں کام کر رہی ہیں جن میں قادیان میں تین، پنجاب میں چھے، ہماچل پردیش میں ایک، ہریانہ میں چار، راجستھان میں تین، آندھرا پردیش میں دوہ صوبہ جموں و کشمیر میں دس، گجرات میں ایک، یوپی میں تین، کیرالہ میں چھ، تامل ناڈو میں دو، مدراس میں دو، بنگال میں سولہ، آسام میں چار ، اڑیسہ میں دو.یہ ساری ڈسپنسریاں وہاں کام کر رہی ہیں اور مفت علاج کر رہی ہیں...جمام امراء صوبائی و ضلع یہ ذمہ داریاں اپنے اوپر ڈال لیں کہ ہر احمدی کو معلوم ہو جانا چاہئے کہ ڈسپنسریاں کہاں ہیں اور کیسے کام کر رہی ہیں.“ الفضل انٹرنیشنل 17 ستمبر 2001 صفحہ 19) حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ یو کے 2003ء کے موقع پر دوسرے روز بعد دوپہر کے خطاب میں ہومیو پیتھی کے ذریعہ خدمت خلق کے حوالہ سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو میو پیتھک طریقہ علاج کو بکثرت فروغ ہو رہا ہے اور کثیر تعداد میں مفت خدمت کرنے والے شفا خانے قائم کیے جارہے ہیں.55 ممالک سے موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق ایسے 632 چھوٹے بڑے شفا خانے قائم ہو چکے ہیں.اس سال ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ 91 ہزار افراد کا مفت علاج کیا گیا.
609...انگلستان میں دوران سال 25 ہزار سے زائد افراد کو علاج کی سہولت مہیا کی گئی.جرمنی میں 13 ہزار سے زائد مریضوں کو مفت علاج مہیا کیا.گھانا میں 23 ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا..انڈونیشیا میں بھی 328 چھوٹے بڑے شفا خانے قائم کیے جاچکے ہیں.اسی طرح احمدیہ ہومیوڈسپنسری قادیان ہے جو وقف جدید کی زیر نگرانی کام کر رہی ہے اور یہاں بھی دوران سال 50 ہزار سے زائد لوگوں کا علاج کیا گیا.اس کے علاوہ دو کیمپ ہماچل میں لگائے گئے ہیں جہاں گیارہ ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا ہے اور انہیں دو مہیا کی گئی.قادیان کے علاوہ ہندوستان میں بیس سے زائد جگہوں پر ہومیو پیتھک علاج کا انتظام موجود ہے.پھر ربوہ میں ظاہر ہومیو پیتھک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ Tahir) (Homeopathic Research Institute ہے.یہ بھی اللہ تعالی کے فضل سے ڈاکٹر وقار منظور بسرا کی زیر نگرانی بڑا اچھا کام کر رہا ہے.گزشتہ ایک سال کی رپورٹ کے مطابق یہاں کل 79 ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا ہے جن میں سے پچاس ہزار مریضوں کا تعلق ربوہ سے ہے.اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض سے غیر از جماعت مریضوں کی غیر معمولی تعداد علاج کی غرض سے آتی ہے.گزشتہ سال پندرہ ہزار غیر از جماعت مریضوں کا علاج کیا گیا اور ان میں اکثریت مزدوروں، کسانوں کی ہی ہوتی ہے لیکن بہت پڑھے لکھے اور تاجر اور اعلی افسران بھی آتے ہیں.“ خطاب فرمودہ 26 جولائی 2003 ، بر موقع جلسہ سالانہ یو کے الفضل انٹرنیشنل 11 جنوری 2013، صفحہ 11 تا 12 ) طاہر ہومیو پیتھک ہسپتال اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ وقف جدید کی چھوٹی سی ڈسپنسری سے جن فری ہو میو ڈسپنسریوں کا آغاز ہوا تھا اس کی ایک ترقی یافتہ شکل طاہر ہومیو پیتھک ہسپتال اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے جو حضور رحمہ اللہ کی اجازت اور ہدایت سے قائم ہوا اور اس میں ماہانہ ہزاروں مریضوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے.حضور رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یو کے 1995ء کے موقع پر دوسرے روز بعد دوپہر کے خطاب
610 میں اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ آپ کے لیکچرز کے مختلف زبانوں میں تراجم ہو جائیں اور ہم ہر جگہ چھوٹے چھوٹے انسٹی ٹیوٹ قائم کریں.آپ رحمہ اللہ نے باقاعدہ ہومیو پیتھک کے اساتذہ یا ڈاکٹر ز تیار کرنے کے لئے انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی ضرورت کا ذکر فرمایا تھا.چنانچہ اس خواہش کی ایک خوبصورت تعبیر طاہر ہومیو پیتھک ہسپتال اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ربوہ ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے زیر ہدایت و نگرانی نہ صرف یہ ادارہ بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہو میو پیتھی کے ذریعہ خدمت کا نظام وسیع بنیادوں پر مستحکم سے مستحکم تر ہوتے ہوئے خدمت خلق میں مصروف ہے.نصرت جہاں ہو میو پیتھک کلینک لجنہ اماءاللہ ربوہ نے حضور رحمہ اللہ کی اجازت سے ہومیو پیتھک کلینک قائم کیا جس کا باقاعدہ افتتاح 30 دسمبر 1996ء کو ہوا جہاں علاج مکمل طور پر فری ہوتا ہے.19 فروری 2003ء کو اس کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا اس وقت تک 77247 / مریض استفادہ کر چکے تھے.ان مریضوں میں سے ایک بڑی تعداد غیر از جماعت کی ہوتی ہے.( روزنامه افضل 29 مارچ 2003ء ) اس کلینک کی نئی عمارت کا افتتاح 16 اپریل 2005 ء کو ہوا.( روزنامہ الفضل 27 /اپریل (2005 اہل روانڈا کے لئے مالی تحریک 22 جولائی 1994ء کو حضور نے خطبہ جمعہ میں روانڈا ( مشرقی افریقہ) کے مظلوم عوام کے لئے جماعت کو عطیات دینے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: جہاں تک روانڈا کا تعلق ہے میں بار ہا جماعت کو نیک تحریکات کرتا ہوں اور بار با توقعات سے بڑھ بڑھ کے جماعت خدمت دین کرتی ہے، لینک کہتی ہے اور میں پھر بھی نہیں تھکتا، پھر بھی آپ کو بلاتا رہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارا کردار ہے اور کردار کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا.کسی جگہ بھی ظلم کے زخم لگے ہوں کسی جگہ بھی لوگ فلاکت زدہ ہوں اور مصیبتوں
611 میں مبتلا ہوں تو مومن کا کردار یہ ہے کہ ایسے موقع پر جو کچھ بھی اس کے بس میں جو ضرور کرتا ہے.اور کافر کا یہ کردار ہے کہ اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ کیا ہورہا ہے.قرآن کریم اس مضمون کو یوں بیان فرماتا ہے.فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَ مَا اخْرُكَ مَا الْعَقَبَةُ فَكُ رَقَبَةٍ أو إطعم في يوم ذى مَسْغَبَةٍ يَتِمَا ذَا مَقْرَبَةٍ أَوْ مِسْكِينَا ذَا مَكْرَبَةٍ (البلد : 12 تا 17) کہ اصل دین تو وہ ہے جو جفا کشی کی طرف بلانے والا ہو بلند چوٹیوں کی طرف چڑھنے کی دعوت دیتا ہو گھاٹیوں سے اور پر آنے کی طرف اشارے کر رہا ہو اور یہ ہے کیا؟ گھاٹیوں سے بلندی پر چڑھنا کس کو کہتے ہیں.اس میں ایک بات یہ بیان فرمائی کہ جب بھوک عام ہو جائے اور بظاہر تمہارے بس میں نہ ہو اس کو نپٹنا پھر بھی جو تم میں طاقت ہے تم وہ لے کر آگے بڑھ جاتے ہو اور جو یہ نہیں کرتے وہ مومن نہیں ہیں ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں.پس میں جانتا ہوں کہ ہمارا آٹے میں نمک کے برابر بھی حصہ نہیں ہو گا.ہمیں جو توفیق ہے سارے کام دوسرے بھی جاری ہیں مگر اطمینان تو ہو گا کہ ہم نے تمام بوجھوں کے باوجود اللہ تعالی کی اس دائی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے لبیک کہا ہے اور روانڈا کے مظلوم ہیں جو خصوصا زائر میں انتہائی دردناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں.Cholera پھیلا ہوا ہے.مصیبتوں میں مبتلا ہیں ان کے لئے میں اپنی طرف سے ایک ہزار پاؤنڈ کا معمولی نذرانہ پیش کر کے جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ توفیق کے مطابق دیں دوسرے جو لازمی دائمی چندے ہیں ان پر اثر نہیں ڈالنا وہ اپنی اپنی اہم ضروریات ہیں لیکن وعدوں کا انتظار نہیں کر سکتے.جہاں تک جماعت زائر کا تعلق ہے ان کو میں نصیحت کرتا ہوں جیسے میں نے پہلے کہا تھا وہ دینے کی دہا جس میں اور ذرائع میسر نہ ہوں جیسے کہ وہاں اس وقت نہیں ہیں بہت ہی موثر علاج ہے.سلفر 200“ اور مفت میں کثرت کے ساتھ بنائی جاسکتی ہے آپ کی ٹیمیں وہاں پہنچیں اور ان کو روزانہ صبح شام سلفر 200 میں کھلائیں.چند گولیاں میٹھی اور مٹھاس تو ویسے ہی ان بے چاروں کو ضرورت ہے وہ تو ایک دانہ بھی میٹھا منہ میں پہنچ جائے تو اس کو غنیمت سمجھیں گے اور اس کے علاوہ Campher ہے.اگر ہیضہ ہو چکا ہو آغاز میں 30 Campher‘ دیا جائے تو اس سے ہیضہ بڑھنے سے رک جاتا ہے پھر میں تفصیل سے پہلے بھی بتا چکا ہوں Cuprum ہے اگر پاؤں
612 میں تشیخ زیادہ ہو ہاتھ پاؤں مڑتے ہوں.اگر کھلے اسہال ہوں تو اس پر Varatrum Album دوا ہے تو اس طرح میں دواؤں کے متعلق مہینے کے متعلق خصوصیت سے پہلے روشنی ڈال چکا ہوں اور وہاں کے مسلح وہ ریکارڈ بھی کرتے ہوں گے.فوری طور پر اگر خود نہیں کر سکتے اتنی توفیق نہیں تو دوسری تنظیموں کو بتائیں اور ان کو کہیں کہ ہم آپ کو دوائیاں تیار کر دیتے ہیں.ہماری سرداری میں تم ٹیمیں تیار کرو اور فوری طور پر کثرت سے ان جگہوں میں پہنچ کر ان کے علاج کی کوشش کرو.ان کو اس درد ناک مذاب سے بچانے کی کوشش کرو.ایک بھوک اور اوپر سے ہیضہ تو بہت ہی تکلیف دہ بیماری ہے.اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور ہماری اوٹی اور بہت ی حقیر کوششوں کو قبول فرماتے ہوئے آسمان سے ان پر رحم نازل فرمائے.“ مریم شادی فنڈ خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جولائی 1994ء.الفضل انٹرنیشنل 26 را گست 1994ء) خطبہ جمعہ فرموده 21 فروری 2003 ء لندن میں حضور نے اللہ تعالیٰ کی صفت شکور اور شاکر کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: انسان پر اپنے والدین کا شکر بھی واجب ہے.انسان سمجھتا ہے کہ وہ والدین کے شکر کا حق ادا کر چکا ہے حالانکہ اس کے والدین بالخصوص ماں نے بچپن میں جس طرح اس کی پرورش کی، اس کو پالا پوسا، اسے علم سکھایا اور آداب سکھائے ، اس کی خاطر تکلیفیں برداشت کیں تو اسے بڑے ہو کر یاد بھی نہیں رہتیں.“ مزید فرمایا: ”اب اس مختصر خطبہ کے بعد میں شکر نعمت کے طور پر اپنی والدہ مرحومہ کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں.آپ غریبوں کی بہت ہمدرد تھیں اور بہت مہربان وجود تھیں.ہمیشہ انہوں نے مجھے غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرنے کی تربیت دی...اب ان کی یاد میں، ان کے احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے ، اب احسان کا بدلہ تو نہیں اتارا جا سکتا، ان کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر، میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جن کی بیٹیاں بیاہنے والی ہیں اور انہیں مدد کی ضرورت ہے، حسب توفیق میں اپنی طرف سے بھی کچھ ان کو پیش کرتا ہوں.وہ بے تکلفی سے مجھے لکھیں ان کا مناسب
613 گزارہ ہو جائے گا اور جہیز کی رسم کسی حد تک پوری ہو جائے گی.اگر میرے اندر اتنی توفیق نہ ہو تو اللہ تعالی کے فضل سے خدا تعالیٰ کی جماعت غریب نہیں ہے.بہت روپیہ ہے جماعت کے پاس.تو انشاء اللہ جماعت کے کسی فنڈ سے ان کی امداد کر دی جائے گی.“ اگلے جمعہ 28 فروری 2003ء کے خطبہ میں فرمایا: پچھلے خطبہ جمعہ میں میں نے غریب بچیوں کی شادی کے لئے تحریک کی تھی کہ شادی کے لئے کچھ رقم پیش کریں.مجھے تعجب ہوا ہے کہ جماعت نے اس طرح دل کھول کر اس قربانی میں حصہ لیا ہے کہ آسمان سے خدا تعالی کے فضلوں کی بارش ہوتی ہے...اس مد میں ایک ہفتہ کے اندر اندر نقد رقوم اور وعدوں کی صورت میں ایک لاکھ 9 ہزار پاؤنڈ سے زائد ا کٹھا ہو گیا ہے اور بعض خواتین نے اپنے زیورات پیش کر دیتے ہیں.“ مزید فرمایا: ” مجھے ذاتی طور پر تو ترڈ دکھا مگر جو کمیٹی تھی اس کام کے لئے ان کا مشورہ قبول کرتے ہوئے اس لنڈ کا نام مریم شادی فنڈ رکھ دیتا ہوں.امید ہے اب یہ فتنہ کبھی ختم نہیں ہوگا اور ہمیشہ غریب بچیوں کو عزت کے ساتھ رخصت کیا جاسکے گا.“ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس فنڈ سے سینکڑوں مستحق بچوں کی شادی کے مواقع پر امداد کی گئی اور یہ سلسلہ جاری ہے.
615 فرنچ سپیکنگ ممالک میں جماعت کی ترقی سے متعلق ایک رویا اور اس کی حیرت انگیز تعبیر حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمه الله الرابع رحمہ اللہ نے 1993ء میں فرنچ سپیکنگ ممالک میں جماعت کی ترقی اور پھیلاؤ سے متعلق ایک رؤیا دیکھی.یہ ہفتہ 17 / جولائی 1993ء کی بات ہے.حضور رحمہ اللہ جب دفتر تشریف لائے تو خاکسار راقم الحروف ( نصیر احمد قمر ) کو طلب فرمایا.( خاکسار ان دنوں حضور رحمہ اللہ کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خدمت کی توفیق پا رہا تھا.) حضور انور نے خاکسار سے فرمایا کہ آج رات بہت ہی عجیب اور معنی خیز رؤیا دیکھی ہے.اور فرمایا کہ اسے غور سے سن لیں اور پھر لکھ کر دکھا دیں.چنانچہ حضور نے وہ رویا خاکسار کو سنائی اور خاکسار نے حسب ارشاد لکھ کر حضور کی خدمت میں پیش کر دی جو ذیل میں درج کی جاتی ہے.ہفتہ 17 / جولائی 1993ء - آج رات میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک چھوٹی کشتی پر سوار دریا کے بہاؤ کے رخ جارہا ہوں.کشتی میں میں اکیلا ہی ہوں.اور ذہن میں یہ ہے کہ مجھے دریا اور سمندر کے سنگم پر پہنچتا ہے اور وہاں کسی اہم شخصیت سے ملاقات ہے.یہ معلوم نہیں کہ وہ شخصیت کون ہے.ذہن میں یہ بات بھی ہے کہ مجھ سے پہلے بھی ایک دفعہ کسی نے اس جگہ پہنچنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ جگہ جہاں دریا اور سمندر کا ملاپ ہوتا ہے بہت ہی مشکل اور خطرناک ہے.چنانچہ جب میں اس سنگم پر پہنچتا ہوں تو وہاں پانی کی لہروں کے بہت ups and downs ہیں اور کافی مشکل اور خطرناک جگہ ہے.لیکن میں گھبراتا نہیں اور بڑے اطمینان سے اس جگہ سے آگے نکل جاتا ہوں.میں نے دیکھا کہ کناروں پر بہت لوگ کھڑے ہیں جو اس سارے نظارہ کو دیکھ رہے ہیں.پہلے تو کشتی چونکہ دریا
616 کے بہاؤ کے رخ پر بہ رہی تھی اس لئے اس کی رفتار کافی تیز تھی.لیکن جب دریا اور سمندر کے اس سنگم سے کچھ آگے نکلتا ہوں تو اس کی رفتار ست ہو جاتی ہے.پھر مجھے سامنے سمندر میں ایک بڑی Boat یا چھوٹا سمندری جہاز نظر آتا ہے اور یہ احساس ہے کہ میں نے جس شخصیت سے ملنا ہے اس کے لئے مجھے اس جہاز تک پہنچنا ہے.میں دونوں ہاتھوں سے کام لیتے ہوئے چھوؤں کی طرز پر پانی کو پیچھے دھکیلتا ہوں اور اس طرح کشتی آگے بڑھتی ہے اور میں چکر کاٹ کر اس جہاز کی پچھلی جانب سے اس کے اندر داخل ہوتا ہوں.وہاں کچھ لوگ موجود ہیں.ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ آپ یہاں انتظار کریں اور پھر گویا جس شخصیت سے میں نے ملنا ہے ان سے رابطہ کے لئے وہ ٹیلی فون یا کوئی مشین لگانے کی کوشش کرتے ہیں.وہاں ایک خاتون ہے جو فرنچ زبان میں اس شخص کو جو فون کرنا چاہتا ہے کہتی ہے کہ وہ خود آ کر مشین لگا ئیں گے اور مچھلی پکڑیں گے.میں اس وقت ان سے کہتا ہوں کہ کیا وہ ( اہم شخصیت) فرنچ بولتے ہیں؟ حضور نے فرمایا یہ بہت اہم اور معنی نیز رویا ہے اور اس میں کئی لطیف اشارے پائے جاتے ہیں.حضور رحمہ اللہ نے بعد ازاں مختلف مواقع پر اس عظیم الشان اور مبشر رویا کا ذکر فرمایا اور رؤیا کی بعض مزید تفصیلات بھی بیان فرمائیں.چنانچہ جلسہ سالانہ یو کے 1994ء کے موقع پر دوسرے دن بعد دوپہر کے خطاب میں اس رویا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس رویا کا تعلق خاص طور پر ان ممالک سے ہے جہاں فرانسیسی بولی جاتی ہے.حضور نے فرمایا کہ گزشتہ سال جو وفد فرانسیسی بولنے والے افراد کا اس علاقہ سے جلسہ پر آیا تھا انہیں اس رویا کے متعلق بتاتے ہوئے میں نے بتایا تھا کہ اس رؤیا کا تعلق احمدیت کی ان علاقوں میں ترقی سے ہے اور انشاء اللہ موجودہ رفتار سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ ان علاقوں میں جماعت پھیلے گی.حضور نے فرمایا کہ اس رویا میں پہلا پیغام تو یہ ہے کہ اب دریا کے سفر ختم ہو گئے اور سمندروں کے سفر شروع کرنے کا زمانہ آ گیا ہے اور سمندر کے سفروں کے لئے بھی خدا کی عطا کردہ طاقت ہی کام
617 آئے گی اور یہ کہ خلافت کے ساتھ وہ برکتیں وابستہ ہیں جو آئندہ اسلام کی ترقی کے لئے مقدر ہو چکی ہیں.خلیفہ جدھر رخ کرے گا وہ وہی رخ ہو گا جو خدا کی رحمتوں کی ہواؤں کے چلنے کا رخ ہے.حضور نے فرمایا کہ اس ایک سال میں فرانسیسی بولنے والے ممالک میں ہمیں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بیعتیں عطا ہو چکی ہیں.ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل 19 اگست تا 25 را گست 1994، صفحه 2) پھر 1995ء کے جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر دوسرے روز کے بعد دوپہر کے خطاب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: وو دو سال پہلے اسی جلسے میں یعنی جلسہ یو کے میں میں نے آپ کو اپنی ایک رویا بتائی تھی اور اس رویا میں آپ کو بتایا تھا کہ اللہ تعالٰی نے مجھے ایک ایسی حیرت انگیز رویا دکھائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سابق میں ہمیں انگلش سپیکنگ ممالک میں، انگریزی بولنے والے ممالک میں غیر معمولی نفوذ عطا فرما یا اب فرانسیسی بولنے والے ممالک کی باری آنے والی ہے اور ان میں اللہ تعالی غیر معمولی نفوذ عطا فرمائے گا.وہ رویا بڑی دلچسپ تھی جو ایسی کہ میرے ذہن میں کسی گوشے میں بھی نہیں آسکتی تھی.رویا یہ تھی جو دو سال پہلے میں نے آپ کو بتائی اور اس سے پہلے فرنچ سپیکنگ ممالک کے جو بعض لوگ مجھے ملنے کے لئے آئے تھے میں ان کو بھی بتا چکا تھا.میں نے دیکھا کہ ایک دریا میں میں کشتی پر بیٹھا ہوا ہوں جس میں نہ کوئی پیچو ہے، نہ کوئی ملاح، نہ کوئی مددگار.اس کشتی میں میں اکیلا بیٹھا ہوا ہوں.تیزی کے ساتھ دریا کے بہاؤ پر بہتا چلا جارہا ہوں.کچھ پتہ نہیں کس طرف کا رُخ ہے.لیکن یہ یقین ہے کہ اللہ کی قدرت کے ہاتھوں میں ہوں اور ایک لمحہ بھی مجھے خوف محسوس نہیں ہوتا.وہ دریا تیزی کے ساتھ اتر رہا ہے جیسے ایک آبشار کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور وہ کشتی خود بخود اس میں بہتی چلی جارہی ہے یہاں تک کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک سمندر میں داخل ہونے والی ہے.جب میں تیزی کے ساتھ اس سمندر میں اترتا ہوں تو از خود وہ کشتی بائیں طرف ایک سمت مڑ جاتی ہے اور کچھ عرصہ کے بعد جو دریا کے بہاؤ کی حرکت تھی وہ کم ہونی شروع ہو جاتی ہے.میرے پاس نہ چٹو ہیں، نہ کوئی اور مددگار، نہ کوئی انجن میں آگے جا کر اپنے دونوں ہاتھوں سے چیو کا کام لیتا ہوں اور میں حیران ہو جاتا ہوں کہ دو ہاتھوں
618 میں بغیر اس کے کہ مجھے کوئی تکلیف ہو اتنی غیر معمولی غیبی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ جیسے موٹر بوٹ چل رہی ہو اس رفتار سے وہ کشتی اس منتہی کی طرف بڑھ رہی ہے جس کا مجھے علم نہیں کہ وہ کیا ہے.کسی منزل کی طرف جارہی ہے، مجھے علم نہیں.مگر یہ پتہ ہے کہ اللہ کی تقدیر مجھے کسی طرف پہنچا کر ایک پیغام دینا چاہتی ہے.اور ایک خاص مقصد کے لئے مجھے آگے بڑھایا جارہا ہے اور آگے جا کر وہ مقصد حل ہوگا اور مجھے معلوم ہو جائے گا کہ سفر کی وجہ کیا تھی.پھر وہ دریا سمندر میں داخل ہو جاتا ہے، پھر وہ مڑ جاتا ہے.آخر پر جا کر یہ بات نکلتی ہے کہ میں اس کشتی میں اپنے دائیں طرف ایک چھوٹے جہاز و یا بڑی موٹر بوٹ کو دیکھتا ہوں جس کے اوپر کچھ آلات بھی نصب ہیں اور جیسے سیٹلائٹ کے ذریعے پیغام پہنچایا جاتا ہے اس قسم کا سامان بھی وہاں مہیا ہوا ہوا ہے اور وہاں میرا انتظار ہورہا ہے.اس وقت تک اللہ تعالیٰ میرے دل میں یہ ڈال دیتا ہے کہ میری کسی اہم شخصیت سے ملاقات ہے.تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ بڑا آدمی جس سے ملاقات کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں بھیجا ہے وہ آچکا ہے یا آنے والا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں ہم اس کا انتظار کر رہے ہیں اور اس عرصے میں ہم ٹیلیویژن کے ذریعے یا سیٹلائٹ کے ذریعے پیغام وغیرہ پہنچانے کے لئے انتظام کر رہے ہیں.نیچے سے ان انتظامات میں مصروف ایک عورت اوپر کی باتیں سن کر اوپر آتی ہے.ایک درمیانی عمر کی عورت ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کی سیکرٹری ہے جس سے مجھے ملنا تھا.تو وہ مجھ سے فریج میں بات کرتی ہے.میں تعجب سے پوچھتا ہوں کہ آپ فرینچ سپیکنگ ہیں؟ اس نے کہا ہاں میں بھی فرینچ سپیکنگ ہوں اور جن سے ملنے کے لئے آپ کو بلایا گیا ہے وہ بھی فرنچ سپیکنگ ہیں.اور خواب ختم ہوگئی.یہ خواب پیش کر کے میں نے آپ کو بتایا کہ خدا تعالیٰ نے میرے دل کو اس رؤیا کے بعد اس یقین سے بھر دیا ہے کہ اب اگلے دور میں جماعت احمدیہ کو فریچ سپیکنگ علاقوں میں غیر معمولی کامیابیاں نصیب ہوں گی جو اتنی نمایاں طور پر زیادہ ہوں گی کہ ہر احمدی کا دل ایمان اور یقین سے لبریز ہو جائے گا کہ یہ رویا دکھانے والی ذات اللہ عالم الغیب کی ذات تھی.وہ قدیر ، قدرتوں کے مالک خدا کی ذات تھی جس نے ایک منصوبہ بنایا ہے اور اس کی کامیابی کا تمام تر انحصار خود اسی کی قدرت پر ہے.کیونکہ جو کشتی
619 چل رہی ہے مجھے پتہ ہی نہیں کیسے چل رہی ہے.کہاں جارہی ہے.خدا نے از خود مجھے بھجوایا ہے اور میری جو ہاتھوں کی کوشش ہے یہ وہ تدبیر ہے جس کو انسان نے بہر حال اختیار کرنا ہے.مگر ان کوششوں سے وہ کام تو نہیں سر انجام پاتے جو مجھے کشتی کی تیز رفتاری میں دکھائے گئے.صاف پتہ چلتا ہے کہ میں تو ایک بہانہ بنایا گیا ہوں ہاتھوں سے آگے بڑھنے کے لئے.مگر خدا کی طاقت ہے جو اس کشتی کو دھکیلے گی اور ان مقاصد کو پورا کرے گی جن کی خاطر خدا نے مجھے وہاں بھجوایا ہے.پس میں نے دو سال پہلے اعلان کیا کہ اب تیار ہو جائیں کثرت کے ساتھ فرنچ سپیکنگ یعنی فرانکوفون (Francophone) علاقوں میں اب جماعت پھیلے گی.اب میں آپ کے سامنے موازنے کے طور پر بعض اعداد و شمار رکھتا ہوں.1990ء میں فرانسیسی علاقوں میں تمام ممالک میں جہاں فرانسیسی بولی جاتی ہے احمدی ہونے والوں کی تعداد 6080 تھی.1991ء میں کم ہو کر 5054 ہو گئی.1992ء میں 5531 رہ گئی.بہت نہیں گری مگر گری ہے.اب ایک انسان اگر واقعاتی رفتار کو دیکھ کر...اندازے لگائے تو اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا کہ اس رفتار کو دیکھ کر میں یہ اعلان کروں کہ ان ممالک میں اب تیزی سے جماعت احمد یہ پھیلنے والی ہے.پس 1993ء میں جب میں نے وہ رویا دیکھی تو پہلی بار اچانک اس تعداد میں اضافہ ہوا اور 1993ء میں 36611 تعداد ہو گئی.رؤیا کے بعد 1994ء میں یہ 36 ہزار تعداد بڑھ کر ایک لاکھ 62 ہزار 227 ہوگئی اور امسال ( 1995ء) میں اللہ کی رحمتوں کے گیت گاتے ہوئے ، اس کی حمد وثنا سے لبریز ، اس کے حضور گریاں و ترساں، اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہوئے یہ اعلان کر رہا ہوں کہ امسال خدا کے فضل سے فرینچ سپیکنگ علاقوں میں احمدیت میں داخل ہونے والوں کی تعداد تین لاکھ 88 ہزار 933 ہے.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: دنیا بھر کے مخالفین اور معاندین کو میں دعوت دیتا ہوں کہ وہ سوچ کے بتا ئیں تو سہی کہ یہ کیسے واقعہ ہو گیا؟ کیسے ممکن ہے ایک عاجز بندے کے لئے ان اعداد وشمار پر نظر ڈال کر وہ بات بنادینا جو ڈیا کے
620 ذریعہ مجھے سمجھائی گئی تھی.اور کس نے وہ انقلاب برپا کیا.اب تمام دنیا کی عالمی بیعتوں میں سے قریباً نصف تک فرنچ سپیکنگ کی تعداد پہنچ گئی ہے اور دن بدن اس میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے....حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: پس آسمان کا خدا ہے جو ہمارا حامی و ناصر ہے.میں خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ وہ کشتی جسے میرے ہاتھ چلا ر ہے تھے، اللہ کی رحمت تھی جو اس کشتی کو چلارہی تھی.آسمانی طاقت تھی جو اسے آگے دھکیل رہی تھی.اور بعد میں آنے والے واقعات نے بتا دیا کہ میرے نفس کا اس میں ایک ذرہ بھر دخل نہیں تھا.خدا کی تقدیر تھی جو رحمتیں بن کر ہم پر برس رہی ہے.“ (ماخوذ از خطاب بر موقع جلسہ سالانہ یو کے 1995ء دوسرے روز بعد دوپہر کا خطاب) الغرض مذکورہ بالا رویا کے بعد اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے فریج سپیکنگ ممالک میں اپنی رحمتوں کی ایسی ہوائیں چلائیں کہ فوج در فوج لوگ احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے.اور جہاں پہلے مجموعی طور پر ہزاروں کی تعداد میں بیعت میں ہوتی تھیں وہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ حلقہ بگوش اسلام احمدیت ہونا شروع ہوئے.سینکڑوں نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور سینکڑوں مساجد بنی بنائی مع نمازیوں کے جماعت کو عطا ہوئیں.ان ممالک میں جماعت کے مشن ہاؤسز اور مبلغین و معلمین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا اور تعلیم و تربیت اور تبلیغ کی مساعی کئی چند ہوگئیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف عوام الناس میں سے سعید فطرت روحوں نے جماعت میں شمولیت اختیار کی بلکہ بہت سے چیفس اور اپنے اپنے علاقوں کے معززین اور مقامی بادشاہوں نے بھی احمدیت کو قبول کیا اور اخلاص اور فدائیت اور قربانی کی نہایت روشن مثالیں قائم کیں.مثال کے طور پر بینن میں 1996 ء تک ایک ہزار افراد جماعت احمدیہ سے وابستہ تھے اور کل آٹھ چھوٹی بڑی احمد یہ مساجد تھیں.لیکن دور خلافت رابعہ کے آخر تک یہاں جماعتوں کی تعداد چار سو ہو چکی تھی اور لاکھوں افراد جماعت احمدیہ میں شامل ہو چکے تھے.1997ء تک بیٹن میں صرف ایک مشن ہاؤس ملک کے دارالحکومت میں تھا اور 2003 ء تک نو (9) نے مشن ہاؤسز قائم ہو چکے تھے اور 21 لوکل معلمین ملک کے طول و عرض میں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے اور تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دینے
621 میں مصروف تھے.29 / مساجد تعمیر ہو چکی تھیں اور چھ زیر تعمیر تھیں اور اس وقت تک تین سو گیارہ مساجد اپنے اماموں اور مقتدیوں سمیت جماعت کو عطا ہو چکی تھیں.اسی طرح بینن کے قریبی ستر (70) بادشاہ احمدیت کے نور سے منور ہو چکے تھے.ان میں بادشاہوں کی ایسوسی ایشن کے صدر کنگ آف پارا کو اور اس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری کنگ آف آلا ڈا اور اس ایسوسی ایشن کے ایک اور اہم رکن کنگ آف داسا شامل تھے.اور ان کو حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہو چکا تھا.اور یہ احمدیت کی صداقت پر پختہ ایمان رکھنے والے اور اس کے لئے بڑی غیرت رکھنے والے تھے.ایک موقع پر کنگ آف پارا کونے بادشاہوں کی ایسوسی ایشن کی ایک مجلس بلائی اور ان کے سامنے یہ سوال رکھا کہ اگر جماعت کے خلاف بینن میں کارروائی کی گئی تو آپ کیا کریں گے؟ تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ احمدیت کے خلاف بینن میں اس وقت تک کچھ نہیں ہوسکتا جب تک ہم زندہ ہیں کیونکہ احمدیت نے ہم کو امن دیا اور ایمان دیا ہے جو کہ ہم سب کو اور ہماری عوام کو پسند ہے.کنگ آف پارا کو نے کہا کہ میں احمدیت کو اس علاقہ میں لے کر آیا ہوں اور میں اس کا ذمہ دار ہوں.انشاء اللہ العزیز میرے جیتے جی احمدیت کے لئے کوئی برا نہیں سوچ سکتا.اسی طرح ایک موقع پر انہوں نے مخالف احمدیت شر پسند ملاؤں سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی ریڈیو پر تقریر میں کہا کہ جو بھی احمدیت کے متعلق حقیقی علم اور صحیح معلومات لینا چاہتا ہے وہ مجھ سے آکر لے کیونکہ میں بڑی تحقیق اور مطالعہ کے بعد احمدی ہوا ہوں اور خود خلیفہ وقت سے مل بھی چکا ہوں اور احمدیت کی تمام سرگرمیوں سے واقف ہوں.جماعت احمدیہ بینن کا پہلا بڑا جلسہ (جو بینن کا سولہواں جلسہ تھا) 1999 ء میں ہوا.اس میں شامل احمدیوں اور مہمانوں کی تعداد پندرہ سوتھی.2000ء میں جلسہ کی حاضری پندرہ سوسے بڑھ کر چار ہزار ہوگئی.اس پر حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جلسہ بین پچاس ہزار نفوس کا ہو.اللہ تعالی کے فضل سے 2002ء میں ہونے والے اٹھارہویں جلسہ سالانہ کی حاضری حیرت انگیز طور پر پچاس ہزار نفوس سے زائد تھی اور ایک عظیم اجتماع تھا.اس میں ڈیڑھ ہزار غیر از جماعت افراد تھے.ملک کی 421 / جماعتوں سے، ٹوگو کی 26 جماعتوں سے اور نائیجر کی 14 جماعتوں سے جوق در جوق افراد اس جلسہ
میں شامل ہوئے.622 علاوہ ازیں اس جلسہ میں سٹر (70) بادشاہوں نے شرکت کی.نائیجر کے بڑے سلطان گیارہ افراد کے وفد کے ساتھ تین ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر کے اس جلسہ میں شمولیت کے لئے تشریف لائے.علاوہ ازیں نو (9) دیگر ممالک سے بھی نمائندگان آئے.اس جلسہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس جلسہ میں کنگ آف پارا کو اپنے ساتھ چودہ بادشاہوں کے جھرمٹ میں گھوڑوں پر سوار ہو کر جلسہ میں آئے.یہ ایک بہت ہی ایمان افروز اور روح پرور نظارہ تھا.اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام اور کشف کی ایک حسین تعبیر پر مشتمل تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کو بشارت دی تھی کہ...وہ تجھے بہت برکت دے گا.یہانتک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ حضور علیہ السلام اس الہام کو درج کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں.پھر بعد اس کے عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے...براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 622 - حاشیه در حاشیہ نمبر 3) یہ روح پرور وجد آفرین نظارے ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی خصوصی ٹیم نے کیمرہ میں محفوظ کئے اور یہ ہمیشہ کے لئے خدا کے وعدوں کی صداقت کا زبردست ثبوت بن کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت احمدیہ اور جماعت احمدیہ مسلمہ کی حقانیت کی گواہی دیتے رہیں گے.اللہ تعالی کے فضل سے حضور رحمہ اللہ کی فرینچ سپیکنگ ممالک میں جماعت کی ترقی کی بشارت دینے والی مذکورہ بالا رویا کے بعد ان ممالک میں جماعتی مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر، ریڈیو اسٹیشنز کے قیام، اسپتالوں اور کلینکس کے اجراء اور خدمتِ دین و خدمت انسانیت کے متعدد منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے اور خلافت احمدیہ کی زیر ہدایت و نگرانی یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے اور ان ممالک میں جماعت اپنے پرامن پیغام اور خدمت دین و خدمت انسانیت کی بدولت عوام و خواص میں یکساں مقبول ہے اور اسے نہایت عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی خدمات کا بر ملا اعتراف کیا جاتا ہے.
623 پاکیزہ، دائمی اور شیریں ثمرات کی حامل غیر معمولی برکتوں سے معمور عظیم الشان تحریک عالمی بیعت اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ خلافت حقہ کے ذریعہ دین اسلام کو تمکنت عطا فرمائے گا.چنانچہ جماعت احمدیہ مسلمہ، خدا تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت سے وابستہ مومنین کی وہ جماعت ہے جو اس الہی وعدہ کو ہر روز بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتا دیکھ رہی ہے.یہ وہ جماعت ہے جو اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے ہوئے بڑی اولوالعزمی اور جوانمردی کے ساتھ تمام مخالفانہ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خدائے بزرگ و برتر کی نصرت و تائید کے سہارے شاہراہ غلبہ اسلام پر مضبوط قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر نئے دن طلوع ہونے والا سورج جماعت احمدیہ کو پہلے سے زیادہ وسعت پذیر اور مستحکم تر دیکھتا ہے.مخالفین کی زمین تنگ ہورہی ہے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی زمین کو خدا تعالیٰ وسعت عطا فرما رہا ہے.خلفائے مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تحریکاتہی اللہ تعالی سے تائید یافتہ اور بہت ہی برکتوں کی حامل تحریکات ہیں.انہی عظیم الشان تحریکات میں سے سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی جاری فرمودہ ایک تحریک عالمی بیعت کی تحریک ہے.اللہ تعالی نے جس طرح اس تحریک کو برکت بخشی ہے وہ حیرت انگیز بھی ہے اور حد درجہ ایمان افروز بھی.اس بابرکت تحریک کے عظیم نتائج و ثمرات جہاں اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ تحریک خالصہ الہی تحریک تھی وہاں اس سے یہ
624 بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آسمان سے توحید خالق کی ہوا بہت تیزی سے چل رہی ہے اور نیک طبعوں پر کثرت سے فرشتوں کا نزول ہو رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب خدا تعالی تمام سعید فطرت لوگوں کو خواہ وہ مشرق میں آباد ہیں یا مغرب میں ایک ہاتھ پر اکٹھا کر دے گا.امیر المومنین حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یو کے 1993 ء سے ساڑھے تین ماہ قبل خاص الہی تحریک کے تحت جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کو یہ تحریک فرمانی کہ امسال جلسہ سالانہ کے موقع پر سیٹلائٹ کے ذریعہ ایک عالمی بیعت کا انعقاد ہوگا.جس میں مختلف ممالک میں سے کم از کم ایک ایک ہزار بیعت ہو گی لیکن بعض ممالک جہاں خدا تعالی خاص نظر کرے گا وہاں سے توقع ہے کہ دس دس ہمیں نہیں ہزار بیعت موصول ہوگی.انشاء اللہ.یہ بیعت اس طرح ہوگی کہ مثلاً ایک ملک میں بیعت کرنے والے افراد سیلا مٹ ڈش کے ذریعہ بیعت میں شامل ہوں گے اور یو کے میں ان کے نمائندگان جن کو اس غرض کے لئے جلسہ پر مدعو کیا جائے گا ان کی طرف سے حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر بیعت کریں گے.یہ ایسی انوکھی اور خدا کی نظروں میں پیاری بیعت ہو گی جو روئے زمین پر حاوی ہوگی.یہ ایک ایسی بیعت ہوگی جو آسمان کی بلندیوں سے ہو کر زمین کی وسعتوں پر محیط ہوگی.یہ ضرور خدا کے حضور مقبول ہوگی.پس مبارک ہوں گے وہ خوش بخت ممالک جہاں سے اتنی بیعتیں موصول ہوں گی کہ انہیں جلسہ سالانہ میں نمائندگی کا شرف ملے گا اور مبارک ہوں گے وہ سعید وفود جو بیعت کے لئے جلسہ پر ہلائے جائیں گے اور وہ خدائی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ہاتھ خدا کے پاک مسیح علیہ السلام کے خلیفہ کے ہاتھ میں دیں گے اور غلبہ اسلام کے لئے امام مہدی کی جماعت میں شامل ہوں گے.اور مبارک ہوں گے وہ وجود جو اس انفرادی نوعیت کی پہلی عالمی بیعت میں شامل ہو کر امام مہدی علیہ السلام کے معاون و مددگار بن کر دین اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں ہوں گے.پس عزم وحمد کے ساتھ دُعاؤں کے دوش پر اپنی رفتار کو تیز کریں.اپنی کوششوں کو آنکھوں کے پانی سے سیراب کریں اور بیعتوں کی تعداد کو اتنا آگے لے جائیں کہ وہ اس مبارک موقع پر مقررہ معیار پر پہنچ جائیں.آج ہی اٹھیں اور منصوبہ بندی کریں اور میدان کو سر کرنے
625 کے لئے ہر فرد جماعت کو اس میں اتار دیں.اللہ تعالی آپ کو کامیاب فرمائے.“ یہ پیغام تھا جو حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی طرف سے ماہ اپریل 1993ء میں تمام ممالک کو بذریعہ فیکس بھجوایا گیا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری فرمودہ اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے تمام دنیا کے مبلغین اور مخلصین نے اپنے آپ کو دعوت الی اللہ کے میدان میں اتار دیا.اور اخلاص اور جذبہ ایمان سے پر ہو کر حضرت اقدس مسیح موعود و امام مہدی علیہ السلام کے پیغام کی منادی کے لئے کمر بستہ ہو گئے.خدا تعالیٰ نے خلیفہ وقت کی آواز میں ایک عظیم برکت ڈالی اور احمدیت کے پیغام کی قبولیت کی ایسی تائیدی ہوائیں بڑی شان کے ساتھ ساری دنیا میں چلائیں کہ سالوں کے کام دنوں میں طے ہوئے اور خدا کے فضلوں کی ایسی بارشیں برسیں کہ جن کے بیان سے دل خدا کی حمد سے معمور ہو جاتے ہیں.پہلی عالمی بیعت کی تقریب 28 ویں جلسہ سالانہ برطانیہ کے تیسرے روز یعنی یکم اگست 1993ء کو اسلام آباد (ملفورڈ ) میں پہلی عالمی بیعت کی تقریب منعقد ہوئی جس میں 2 لاکھ 4 ہزار 308 سعید روحوں نے جماعت میں شمولیت اختیار کی.علاوہ ازیں دنیا بھر کے لاکھوں احمدیوں نے بھی خلیفہ وقت کے ہاتھ پر تجدید بیعت کی.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کی عالمی بیعت کے لئے جلسہ گاہ میں تشریف آوری سے قبل تمام حاضرین ہدایات کے مطابق ترتیب سے بیٹھ گئے تھے.تقریباً ایک بجے حضور رحمہ اللہ حضرت اقدس مسیح موعود امام الزمان و مهدی دوران علیہ السلام کا استعمال شدہ سبز رنگ کا متبرک کوٹ زیب تن کئے ہو.وئے جلسہ گاہ میں تشریف لائے.پہلی عالی بیعت کی تقریب کے موقع پر اس کے پس منظر، اہمیت اور غرض وغایت کے بیان پر مشتمل حضور تیا بصیرت افروز خطاب حضور انور نے بیعت لینے سے قبل مختصر خطاب فرمایا جس میں آپ نے اس کی اہمیت، پس منظر اور غرض وغایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
626 ”جب سے زمین و آسمان بنے ہیں کبھی کسی آنکھ نے یہ بات نہیں دیکھی کہ بیک وقت دنیا کے تمام بر اعظموں سے بکثرت ممالک اور قو میں مختلف زبانوں میں ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہوں.اور وہ شخص حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلام کا ایک ادنی غلام ہو.یہ وہ بات ہے جو تاریخ عالم میں پہلی دفعہ رونما ہورہی ہے اور آئندہ ہمیشہ یہ سلسلہ جاری رہے گا.آپ لوگ خوش نصیب ہیں جو اس عالمی بیعت میں شمولیت کے لئے یہاں موجود ہیں اور وہ بھی خوش نصیب ہیں جو مختلف ملکوں میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ یا ریڈیو کے ذریعہ اسے دیکھ یا سن رہے ہیں اور ساتھ وہ شمولیت کی سعادت پارہے ہیں.عالمی بیعت کے متعلق میں صرف مختصر آ یہ بتاؤں گا کہ جب خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ی تحریک ڈالی اس وقت بیعت کرنے والوں کی تعداد بھی دس سے بیس ہزار یا اس سے کچھ زائد ہوگی اور سال کا بہت تھوڑا عرصہ باقی تھا.اس تھوڑے عرصہ میں مجھے یہ فکر پیدا ہوئی کہ میں نے تو جماعت سے یہ توقع رکھی ہے کہ وہ سال میں کم سے کم ایک لاکھ بیعتیں کروائیں گے.تو یہ تھوڑے سے عرصہ میں کیسے ہو گا.تب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ایک تحریک اتاری اور پورا نقشہ میرے سامنے آیا کہ تمام دنیا کی جماعتوں کو نہ صرف تحریک کی جائے کہ ایک عالمی بیعت میں شمولیت کے لئے تیار ہوں بلکہ وہ ٹارگٹ بھی دے دیئے جائیں کہ فلاں فلاں جماعت کے لئے اتنا ٹارگٹ ہے.وہ ٹارگٹ بہت بڑھا کر رکھنے پڑے اور دل میں یہ خوف تھا کہ اتنے بڑے ٹارگٹ جو ظاہری لحاظ سے بالکل غیر حقیقی ہیں.ایسی بعض جگہیں تھیں جہاں گزشتہ دس سال میں سو یتھیں بھی نہیں ہوئی تھیں اور ٹارگٹ پانچ ہزار دیا گیا تھا.تو خیال تھا کہ یہ کیسے پورا ہوگا.لیکن اللہ تعالی نے دل کو تقویت دی اور سہارا دیا اور گویا یہ یقین دلایا کہ یہ میں نے تحریک چلاتی ہے.میں ذمہ دار ہوں تم دیکھو اور انتظار کرو.اس عرصہ میں ایک اور واقعہ یہ ہوا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی ایک تحریر میرے سامنے آئی جس میں آپ نے فرمایا کہ اب تک اس عاجز کے ہاتھ پر چار لاکھ نفوس بیعت کر چکے ہیں.اور اس سے چند دن پہلے مجھے خدیجہ نذیر صاحبہ نے، جو بیعت کا عالمی ریکارڈ رکھتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ آپ کی ہجرت کے بعد سے جب سے میں نے ریکارڈ رکھنا شروع
627 کیا ہے اب تک اڑھائی لاکھ پچھتیں ہو چکی ہیں.اس کوارٹر مین مارک پر آپ کو مبارکباد دیتی ہوں.تو میں نے کہا کہ اگر ڈیڑھ لاکھ اور مل جائیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ یہ ایک مشابہت کی سعادت نصیب ہو جائے گی کہ اس وقت تک میں کہہ سکتا ہوں کہ چار لاکھ بیع میں صرف خدا کے فضل سے ہجرت کے چند سالوں کی بھی ہوگئی ہیں.اس پر ٹارگٹ کو پھر تھوڑا سا اور بڑھانا پڑا.پھر مجھے خیال آیا کہ اللہ میاں سے جب مانگ ہی رہے ہیں تو لاکھ ڈیڑھ لاکھ پر ہی کیوں رہیں چلیں دولاکھ مانگتے ہیں.تو ٹارگٹ ڈیڑھ لاکھ کے دیئے.دعائیں دو لاکھ کی شروع کر دیں.اب صورت حال یہ ہے کہ خدا کے فضل سے آج سارے عالم میں اس عاجز کے ہاتھ پر دو لاکھ چار ہزار تین سو آٹھ افراد بیعت کریں گے.یہ دولاکھ سے زائد افراد وہ ہیں جو یا پہلی مرتبہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں یا پہلی مرتبہ جماعت احمدیہ مسلمہ کے دائرہ میں داخل ہو رہے ہیں.اس کے علاوہ لکھوکھہا وہ ہیں جو پہلے سے احمدی ہیں اور آج اس عظیم تاریخی موقع پر تجدید بیعت کی سعادت پائیں گے.پس تقویٰ کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے اس بیعت میں شامل ہوں.خدا کرے کہ یہ بعد میں عظیم تر اور بہت بڑی بڑی عالمگیر بیعتوں پر منتج ہو.ہر سال یہ سلسلہ پڑھتا اور پھولتا اور پھیلتا چلا جائے.یہاں تک کہ تمام دنیا اسلام کے امن کی آغوش میں آجائے.اس وقت تک جو صورت حال ظاہر ہوتی ہے وہ تعداد بیعتوں کے علاوہ یہ ہے کہ 84 ممالک سے نئے بیعت کرنے والے شامل ہورہے ہیں.115 قو میں اس بیعت میں شامل ہور ہی ہیں.احمدیت کے قیام کو 104 سال گزرے ہیں.اس لئے فی سال ایک قوم سے زائد آج اس چند مہینے کی کوششوں سے خدا کے فضل کے نتیجہ میں احمدیت میں شامل ہورہی ہوگی.تو اللہ تعالی کے یہ احسانات ہیں جن کا تذکرہ خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے.“ پھر آپ نے فرمایا: اب میں آخر پر ایک ایسی پیشگوئی کا ذکر کرتا ہوں جو آج بڑی شان کے ساتھ پوری ہو گی.رسولوں کے اعمال باب 2 آیت 1 تا 12 میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت مسیح کے حواریوں پر روح القدس نازل ہوئی اور اس کے نتیجہ میں وہ مختلف بولیاں بولنے لگے جو اس سے پہلے ان کو
628 نہیں آتی تھیں اور وہ بولیاں لوگ سنے اور سمجھنے لگے اور تعجب کرنے لگے.جہاں تک میں نے تاریخ پر نظر ڈالی ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ایسا واقعہ ہوا ہے.اس لئے غالب گمان یہ ہے کہ کوئی کشفی واقعہ ہے اور سیج اول کے دور میں نہیں بلکہ مسیح ثانی کے دور میں یہ واقعہ رونما ہونا تھا.تاریخی شہادت پیش کرنا تو عیسائیوں کا کام ہے.لیکن یہ شہادت جو ہم واقعاتی شہادت پیش کر رہے ہیں یہ تمام دنیا کے سامنے کھل کر ظاہر ہورہی ہے اور کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اگر یہ پیشگوئی تھی یا کشف تھا تو آج بڑی شان کے ساتھ یہ کشف دنیا کے سامنے حقیقت بن کر رونما ہو رہا ہے.“ حضور نے فرمایا: وہ الفاظ چند جو میں نے بچنے ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں بولنے لگے جس طرح روح نے انہیں بولنے کی طاقت بخشی...جب یہ آواز آئی تو بھیڑ لگ گئی اور لوگ دنگ ہو گئے.کیونکہ ہر ایک کو یہی سنائی دیتا تھا کہ یہ میری ہی بولی بول رہے ہیں.اور سب حیران اور متعجب ہو کر کہنے لگے دیکھو یہ بولنے والے کیا سب گلیلی نہیں؟ پھر کیونکر ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے؟...اپنی اپنی زبان میں ان سے خدا کے بڑے بڑے کاموں کا بیان سنتے ہیں.اور سب حیران ہوئے اور گھبرا کر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ کیا ہوا چا ہتا ہے؟“ پس ہم گھبرا کر یہ تو نہیں کہیں گے کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے؟ ہاں دشمن ضرور گھبرا کر یہ کہیں گے کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے؟ ہوا یہ چاہتا ہے کہ جس صدی میں ہم داخل ہوئے ہیں اس صدی میں کثرت کے ساتھ اسلام کے پھیلانے کے جو انتظامات ازل سے مقدر تھے وہ رونما ہو رہے ہیں.اور ان کے پھل ہماری آنکھوں کے سامنے آگئے ہیں اور ہمارے ہاتھوں میں ہیں اور ہم انہیں چکھیں گے اور ان کی روحانی لذت سے فیض یاب ہوں گے.پس اس دعا میں شمولیت کے وقت بھی دعائیں کرتے رہیں.اس کے بعد بھی دعائیں کرتے رہیں.اللہ تعالی اس سلسلہ کو بڑھاتا اور پھیلاتا اور تمام عالم پر محیط کرتا چلا جائے.میری یہ خواہش ہے کہ جن احباب نے اس کوشش میں حصہ لیا ہے خدا کے فضلوں
629 کے ساتھ ، دعاؤں کے ساتھ ، وہ یہ عہد کریں آج کہ ہم آئندہ سال اس سے دگنا پھل حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.وہ یہ عہد کریں اور جن کی پیٹھیں لی گئی ہیں ان کو بھی اس بات پر آمادہ کریں کہ تم اس سال کے اندر روحانی نشو نما کے جلوے دکھاؤ اور اگر زیادہ نہیں تو کم سے کم تم میں سے ہر ایک دو ضرور ہو جائے.تو یہ ایک زائد ہو گا اس کوشش سے جو خدمت کرنے والے اس سال دوبارہ شروع کریں گے.“ 71 حضور نے فرمایا: و لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا اس کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلیں، آنے والوں کی تربیت بے حد ضروری ہے.تربیت کے فقدان کے نتیجہ میں آئندہ بڑے بڑے فتنے پیدا ہو سکتے ہیں اور دین بگڑ سکتے ہیں اور وحدت تفرقہ میں تبدیل ہو سکتی ہے.ہم نے امت واحدہ بنانے کے مقصد کو حاصل کرنے کے عہد کر رکھے ہیں.یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو گل عالم میں پھیلانے کے نتیجہ میں ساری دنیا کو انتِ واحدہ بنانے کا عہد کر بیٹھے ہیں.پس اس عہد کو پورا کرنے کے لئے محض زبانی تبلیغ ضروری نہیں یا نیک اعمال کے ذریعہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچنا ضروری نہیں بلکہ زبانی تبلیغ کو تربیتی نصائح میں تبدیل کرنا اور نیک اعمال کو نیک تربیت کے لئے استعمال کرنا یہ بہت ہی ضروری حصہ ہے جو عالمی بیعت کے بعد بغیر انتظار کے فورا شروع ہو جانا چاہیے." 66 پھر اس بارہ میں حضور انور نے تفصیل سے رہنمائی دیتے ہوئے فرمایا: ور اس سلسلہ میں تمام ملکوں کے امراء جن کو خدا تعالیٰ نے سعادت بخشی ہے کہ ان کے ہاں سے لوگ شامل ہورہے ہیں وہ فوری طور پر اپنی مجالس عاملہ کی میٹنگز بلائیں.اپنے ہاں جو صائب الرائے نیک لوگ ہیں ان کو بھی شامل کریں اور ایک ٹھوس منصوبہ بنائیں جس کے نتیجہ میں یہ بہت مشکل اور وسیع کام آسان ہو جائے.اگر منصوبہ بندی صحیح کی جائے اور تقویٰ کے ساتھ، دعاؤں کے ساتھ، تو ہر مشکل کام سمٹ کر آسان ہو جایا کرتا ہے.اس لئے تین مہینے میں آپ کو ٹھوس تربیت کے لئے اس رنگ میں دیتا ہوں کہ ان تین مہینوں میں ہر علاقے، ہر جگہ کے لئے جہاں سے کثرت سے بیعتیں ہوئی ہیں مربی تیار کریں جو
630 مقامی طور پر آپ سے تربیت حاصل کر کے دین کو ان میں راسخ کریں.اور یہ سلسلہ ہر سال اسی طرح ہوا کرے.ہر جلسے کے بعد پہلے تین مہینے تربیتی کورسز کے لئے وقف کئے جائیں اور مربی پیدا کئے جائیں جو تربیت کا کام سنبھال لیں.پھر آپ لوگ اگلے سال کی تیاری شروع کریں یعنی یٹھیں کروانے کی.اس سلسلہ میں منصو بہ باند ھیں.نئی نئی قوموں پر نظر رکھیں.وہ ملک کے حصے نگاہ کے نیچے رکھیں جہاں اب تک احمدیت نفوذ نہیں پاسکی اور دیکھیں کہ کہاں کہاں خلا ہیں.ان خلاؤں کو بھرنے کے لئے تدبیریں کریں.لیکن سب سے اہم تدبیر ، سب سے زیادہ مؤثر تدبیر، سب سے زیادہ پاکیزہ تدبیر جو نیک اور دائمی پھل عطا کرتی ہے وہ دعا کی تدبیر ہے.دعائیں کریں اور انکساری اور عاجزی کے ساتھ دعائیں کریں.جو خدا نے ہمیں عطا کیا ہے وہ محض اس کا فضل ہے.ہماری کوششیں بھی خدا ہی کے فضل کے نتیجہ میں ہیں.یہ تدبیر جوذہن میں آتی یہ بھی تو اللہ ہی کی طرف سے القاء ہوتی ہے.اس لئے ہمارا کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کتنا پاکیزہ نکتہ بیان فرمایا ہے جب کہتے ہیں ے سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے.یہ دعا بھی اُسی کی عطا ہے.خدا ہمیں یہ عطا کرے اور اس دعا کے ذریعہ وہ سارے فضل عطا ہوں جو آسمان سے اترا کرتے ہیں.خدا ہماری توفیق بڑھاتے.ہمارے عزم بڑھائے.ہمیں ثبات قدم عطا کرے.ہمیں وفا عطا کرے.ہمیں وہ نور عطا کرے جو تقویٰ کا نور ہے.جس کی روشنی میں انسان کبھی بھٹک نہیں سکتا خواہ جاہل ہو یا عالم ہو، یکساں برابر ہمیشہ اس کا قدم راہ ہدایت پر پڑتا ہے اگر وہ متقی ہو.پس اللہ تعالیٰ ہمیں متقی بنے کی توفیق بخشے اور متقیوں کا امام بنائے.یعنی وہ تمام قو میں جو ہمارے ذریعہ اسلام میں داخل ہورہی ہیں وہ متقی بن جائیں تا کہ ہم متقیوں کا امام نہیں.ورنہ افرادی قوت کو بڑھانا تقویٰ کے بغیر، ایک فضول اور شیطانی مشغلہ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں.اس سے دنیا میں تفرقے بڑھتے ہیں، وحدت پیدا نہیں ہوتی.پس متقی بنانے ہیں اور متقیوں کے گروہ کو بڑھانا ہے.ڈھائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے.اس دنیا کو، اس عہد کو تقویٰ سے بھر دیں اور آئندہ آنے والی نسلیں ہمیشہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسیح موعود آپ کے غلام کے ساتھ ہم پر بھی درود اور سلام بھیجیں کہ ہم نے آپ کے
631 مقدس کام کو آگے بڑھایا اور خوابوں کو حقیقت بنا دیا اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.“ پھر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے فرمایا : اب میں عالمی بیعت کے لئے بیٹھوں گا.میرے سامنے پانچ continents یعنی بڑا عظموں کے نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں.میں ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھوں گا اور بیعت لوں گا.لوگ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ دوسرے کے ہاتھ پر رکھنا ہوتا ہے پھر بیعت کی جاتی ہے.قرآن کریم یہ بیان نہیں کرتا.قرآن کریم فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جب تو بیعت لے رہا تھا تو تیرا ہاتھ نہیں تھا جو ان کے ہاتھ پر تھا بلکہ ید اللهِ فَوْق آید تم کیونکہ تُو کامل طور پر خدا کا ہو چکا ہے یہ خدا کا ہاتھ تھا جو ان پر تھا.اس میں بیعت کی ایک حکمت بھی بیان ہوتی ہے جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.37 بیعت میں بیعت لینے والا اپنا ہاتھ اوپر رکھتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فیض رساں کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے.جو فیض پانے والا ہوتا ہے اس کا ہاتھ نیچے ہوتا ہے.فرمایا جو عطا کرتا ہے وہ ید العلیا رکھتا ہے اور یہی حکمت ہے جس کے نتیجہ میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بیعت کے وقت دوسرے ہاتھوں پر ہاتھ رکھتے تھے کیونکہ اس وقت آپ کی طرف سے فیض جاری ہوتا تھا.میں جو فیض جاری کرنے کا ذریعہ بنوں گا یہ میرا فیض نہیں، یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فیض ہے.میں تو وہ نالی بن رہا ہوں جس میں یہ روحانی پانی بہہ کر آپ تک پہنچنے والا ہے.اس لئے میرا یہ دعوی نہیں کہ میرا ہاتھ اس لئے اونچا ہے کہ میں فیض میں آپ سے اوپر ہوں.میں ایک حاجز اور حقیر انسان ہوں مگر جس کے ہاتھ کی مائندگی کر رہا ہوں اس کے ہاتھ کے متعلق خدا نے فرمایا تھا تبدا لله فَوْقَ أَيْدِيهِمْ " کہ یہ اللہ کا ہاتھ ہے جو ان پر ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بیعت عاجز بندوں کے ذریعہ کی جاتی ہے.اس پہلو سے آپ بیعت میں شامل ہوں.یہ بیعت ہے کیا ؟ اس سلسلہ میں قرآن کریم کی یہ آیت آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اللہ تعالی فرماتا ہے اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِن الْمُؤْمِنِينَ اَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبه (112)
632 - بیعت یہ ہے کہ خدا تعالٰی نے مومنوں سے ان کی جانوں کا اور ان کے اموال کا سودا کر لیا ہے.خرید لیا ہے.اور خریدنے کے بعد ان سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ہم لازما تمہیں جنت عطا کریں گے.دیا تو بہت تھوڑا ہے.عارضی جائیں اور عارضی مال چند روزہ زندگی کے کام آتی ہیں اور کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں.اس کے بدلے دائمی جنت کی عطا کا وعدہ ہے.پس بیعت کا مطلب ہے اپنے آپ کو کسی کے ہاتھ پر بیچ دیتا.اور چونکہ اللہ کے ہاتھ پر بیچا جاتا ہے اس لئے یدالله فَوْقَ ایدیھم ".بندے کے ہاتھ پر نہیں بیچا جاتا.سودا بندہ نہیں کرتا، اللہ کرتا ہے.ہاں اس کی نمائندگی بندے کرتے ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور مسیح موعود آپ کے غلام کی نمائندگی اس عاجز کو عطا ہونا میرے لئے فخر کا موجب شاید لوگوں کی نظر میں ہو، مگر میرے دل کے لحاظ سے انتہائی انکساری اور شرمندگی کا موجب ہے.مگر میں مجبور ہوں کہ خدا نے مجھے اس منصب پر مامور فرمایا ہے.اللہ میری غفلتوں سے درگزر فرمائے.میری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرمائے.ان کو ڈور کرے تاکہ میرے ساتھ ساتھ آپ سب کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوں.آپ سے بھی خدا مغفرت کا سلوک کرے.آپ کی کمزوریوں کی بھی پردہ پوشی فرمائے اور ایسے پردے ڈالے جن کے نیچے کمزوریاں ڈور ہورہی ہوں اور بدیاں نیکیوں میں تبدیل ہو رہی ہوں.یہ وہ سلسلہ ہے جو بیعت کے بعد ضرور جاری ہوتا ہے اگر بیعت بچی ہو.یہ وہ سلسلہ ہے جس کا وعدہ قرآن کریم نے کھلے لفظوں میں ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے.رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ أَمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَا (آل عمران: 194) یہ اقرار میں آپ کو یاد دلاتا ہوں جب خدا کے بندے دین حق میں داخل ہوتے ہیں.ایک منادی کی آواز کو سنتے ہیں.تو وہ کیا عرض کرتے ہیں اپنے رب سے.وہ یہ ہے ربَّنَا اننا سمِعْنَا مُنَادِيَاتِنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَا.اے ہمارے رب! ہم نے ایک منادی کرنے والے کی ندا سنی.اور وہ کہتا تھا کہ میں تمہیں اپنے رب کی طرف بلاتا ہوں.ہم اس کی بات پر ایمان لے آئے.اسے سنا اور اسے قبول کر لیا.اس کے نتیجہ میں ہم بھی مجھ پر ایک حق رکھتے ہیں اور وہ حق کیا ہے؟ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَأْتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الابرار.ہم داخل تو ہورہے ہیں اسلام میں لیکن بہت سے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ.اب جو
633 ہو چکا سو ہو چکا.تو ہم سے یہ سلوک فرما کہ جو کچھ ہم سے پہلے غلطیاں ہو چکیں تمام معاف کر دے.ایک clean sheet، صاف سختی کے ساتھ ہم تیرے دین میں داخل ہو رہے ہیں.فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفَرُ عَنا سَتاتا مگر تیری بخششوں کے باوجود ہماری کمزوریاں تو ساتھ ساتھ کچھ دیر چلیں گی جن کو دور کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے.كَفِّرْ عَنَّا سَماتِنا.خوبی ہے جو ہماری کزوریوں کو دور فرما کر ہمیں ایمان سے پوری طرح مستفیض فرما سکتا ہے.اس کے پورے فائدے پہنچا سکتا ہے."وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ " اور یہ سلسلہ ہماری اصلاح کا ہماری موت تک جاری رہے.اور اے خدا ! موت تیرے بس میں ہے.اس لئے ہمیں مرنے نہ دینا جب تک ہم نیکوں میں نہ شمار ہو جائیں.یہ ہے بیعت کرتے وقت کی دعا جس کے متعلق قرآن کریم نے ہمیں سکھایا کہ لوگ جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو قبول کیا کرتے تھے یہ ان کے دل کی صدائیں تھیں.یہ ان کی تمنائیں تھیں جو دھا بن جایا کرتی تھیں خواہ لفظوں میں ڈھلیں یا نہ ڑھیں.پس اس دعا کے ساتھ ، اس آرزو کے ساتھ بیعت میں داخل ہوں کہ ہم گناہگار ہیں.جو کچھ پہلے ہو گیا ہم خدا سے بخشش کی اُمید رکھتے ہیں اور التجا کرتے ہیں.ہم جانتے ہیں کہ اچانک ایک دن میں ایسی کا یا نہیں پلٹا کرتی کہ ناپاک، پاک ہو جائیں.پاکبازی بھی خدا کے فضل سے عطا ہوتی ہے.پس اسی سے توقع ہے کہ وہ ہماری کمزوریوں کے دُور کرنے میں ہماری مدد فرمائے گا اور ہمیں مرنے نہیں دے گا جب تک کہ خدا کے رجسٹر میں ہم نیکوں میں شمار نہ ہو جائیں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آئیے اب ہم سب مل کر بیعت کرتے ہیں.“ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ جب بیعت لینے کے لئے تشریف فرما ہوئے تو فرمایا: یہ کوٹ جو آج میں نے پہنا ہوا ہے یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوٹ ہے....چند دن ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ الہامات نظر کے سامنے آئے جن کا اس دور کے ساتھ تعلق ہے.اس میں..جھا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری.اور پھر آپ نے فرمایا کہ جو کوٹ میں نے پہنا ہوا ہے اس کشفی نظارہ میں وہ سبز رنگ کا ہے.اس سے پہلے مجھے کبھی خیال نہیں آیا تھا کہ یہ کوٹ سبز رنگ کا ہے.تو آب جو دیکھا میں نے غور سے تو یہ واقعی سبز رنگ کا ہے.اگر چہ امتداد زمانہ سے کچھ مٹ سا گیا ہے لیکن ہے
634 سبز رنگ کا.تو بعینہ اس کشف کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا تھا آج میں جو مسیح موعود نہیں ہوں، مگر مسیح موعود " کا ادنی غلام ہوں اور آپ " کا نمائندہ ہوں اس حیثیت سے آپ کی بیعت لیتا ہوں کہ مسیح موعود کی نمائندگی میں جو اس زمانہ میں محمد مصطفی صلی اللہ لیہ وعلی آلہ وسلم کی نمائندگی میں اس زمانہ کے امام بنائے گئے تھے.آج میں آپ سے عہد بیعت لیتا ہوں...66 حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے عہد بیعت کے الفاظ اردو زبان میں دہرائے اور آپ کی اتباع میں تمام اردو بولنے والوں نے یہ الفاظ بلند آواز میں اردو میں دہرائے.اس کے بعد اردو کے علاوہ دنیا کی 25 زبانوں میں عہد بیعت کے الفاظ دہرائے گئے.ان سب زبانوں کے نمائندے بھی جلسہ گاہ میں موجود تھے.ان زبانوں میں سے سات زبانوں عربی، فرانسیسی ،سپینش، جرمن، انگریزی، روسی اور بنگالی کے تراجم ساری دنیا میں سیٹلائٹ کے ذریعہ نشر ہورہے تھے.جبکہ باقی زبانوں میں تراجم کی ملی جلی با برکت آواز میں ایک گونج کی صورت میں جلسہ گاہ میں بلند ہورہی تھیں.اور بیک وقت تمام دنیا میں بھی یہ الفاظ دہرائے جا رہے تھے.بیعت کے الفاظ دہراتے ہوئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی آواز حمد باری تعالیٰ سے اس قدر بھر اگئی کہ الفاظ دہرانے مشکل ہورہے تھے اور ایسا ہی دلگد از منظر اجتماعی دعا میں بھی گل عالم میں وقوع پذیر ہوا.خلافت رابعہ میں مرکزی جلسہ سالانہ کے موقع پر ہونے والی عالمی بیعت کی دس تقریبات منعقد ہوئیں جن میں ہر سال مختلف ممالک اور مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے، مختلف زبانیں بولنے والے افراد لاکھوں کی تعداد میں اسلام احمدیت میں داخل ہوتے رہے.
635 مباہلہ کے چیلنج کا ایک نئے رنگ میں اعادہ اور اس کے نتائج و ثمرات حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے جون 1988ء میں جماعت احمدیہ کے معاندین، بمگھر بین و مکڈ بین کو مباہلہ کا ایک چیلنج دیا تھا.اس کا قدرے تفصیلی ذکر الگ سے پہلے گزر چکا ہے.لیکن پاکستان میں جہاں حکومت کی پشت پناہی میں جماعت احمدیہ کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈہ کے ساتھ ساتھ نہایت ظالمانہ کارروائیاں کی جاتی ہیں 1997ء میں پھر اس مہم میں ایک ابال آیا.حضرت خلیفہ مسیح الرائع نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جنوری 1997ء بمقام مسجد فضل لندن (یوکے) میں اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر 1988 ء والے مباہلہ کے چیلنج کا اعادہ کیا اور افراد جماعت کو خاص طور پر دشمنوں کی ذلت اور ہلاکت و بربادی کے لئے دعاؤں کی تحریک فرمائی.حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ کے آغاز میں سورۃ البقرہ کی آیات 186 و 187 کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہ وہ آیات ہیں جن کی رمضان کے تعلق میں رمضان کے آغاز پہ بار ہا تلاوت کی گئی ہے اور مضمون کو ان کے حوالے سے بیان کیا گیا.آج پھر ایک ایسا جمعہ ہے جو رمضان سے متصل ہے.یعنی آج جمعہ ہے تو کل رمضان شروع ہوگا اور یہی وہ آیات ہیں جن کے حوالے سے میں خاص طور پر اس کے آخری حصہ کے تعلق میں جماعت کو یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں.“ حضور نے فرمایا: یہ رمضان کئی پہلوؤں سے بابرکت ہے اور معلوم ہوتا ہے خاص نشان لے کر آنے والا رمضان ہے.چونکہ آج رمضان کا پہلا دن طلوع ہونے والا ہے اور مہینے کی تاریخ کے لحاظ سے دسویں تاریخ اور جمعہ کا دن ہے اور یہ وہ جمعہ ہے جو FRIDAY THE 10TH ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کشفی طور پر دکھایا تھا کہ بار بار جماعت کی تائید میں خوشخبریوں کا نشان ظاہر ہوا کرے گا.تو آج
636 FRIDAY THE 10TH رمضان کے ساتھ جڑا ہوا اُبھرا ہے.اور اس پہلو سے مجھے اس رمضان کے غیر معمولی طور پر مبارک ہونے کے لحاظ سے کوئی بھی شک نہیں.مگر ایک مزید تائیدی بات یہ ظاہر ہوئی کہ مجھے ربوہ سے ناظر صاحب اصلاح وارشاد نے لکھا کہ یہ مولوی لوگ ان سب باتوں کے متعلق جن کے متعلق آپ مباہلے میں حلفیہ انکار کر چکے ہیں کہ جماعت پر یہ جھوٹے الزامات ہیں پھر دوبارہ شور ڈالنا شروع کر چکے ہیں.اور جانتے بوجھتے کہ جماعت کی طرف سے اس پر لَعْنَةُ الله عَلَى الْكَاذبين“ کی دعا بار بار دہرائی گئی ہے پھر بھی کوئی حیا نہیں کر رہے.اور اب ایک وزیر کے بہانے جو احمدی ہے مہم شروع کی ہے.اس میں ان اعتراضات کا، سب کا نہیں تو بہتوں کا اعادہ کیا گیا ہے جن کے متعلق جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ نے اعلان کیا تھا، مباہلے کا چیلنج دیا تھا اور اس مباہلے کی صداقت کا نشان بن کر ضیاء الحق کو خدا تعالیٰ نے ایسا نیست و نابود کیا کہ اس کے وجود کا کوئی ذرہ بھی ان کے ہاتھ نہ آیا، صرف ایک ڈنچر (Denture) تھا جو مصنوعی تھا.یعنی جو اس مرنے والے کی پہچان تھی وہ مصنوعی دانت تھے اس کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ، اس کا نشان تک نہیں ملا.وہاں کی خاک اکٹھی کر کے ایک جگہ بھر دی گئی اور اس خاک میں اس یہودی ایمبسیڈر کی خاک بھی شامل تھی اس لئے کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس کس کی خاک کا پتلا بنایا گیا ہے جسے ضیاء کہا جاتا ہے اب.اور جو نشان ہے وہ صرف مصنوعی دانت ہیں اس کے متعلق ذرہ بھی کسی کو شک نہیں.پس یہ نشان خدا نے بڑی شان سے ظاہر فرمایا.اور یہ ظالم لوگ باز ہی نہیں آ رہے.اسی طرح مسلسل بے حیائیوں میں آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں.وہی ظالمانہ تحریکات جو پہلے اٹھتی رہیں.جن کارڈ کیا گیا، جن کے مؤثر ، مدلل جوابات دیئے گئے...حضور نے فرمایا: اس قوم سے دیا اٹھ گئی ہے یہاں تک کہ وہ دعوے پھر کرتے چلے جاتے ہیں کہ تمام دنیا کے علماء ان کو مرتد اور کافر، دائرہ اسلام سے باہر سمجھتے ہیں اور یہ تسلیم نہیں کرتے.حضور نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
637 دو تم لوگوں کے خلاف بھی تو باقی سب مسلمان فرقوں کے یہی دعاوی رہے ہیں تو تم بھی تسلیم کرلو چ لیکن تم کر بھی لو گے تو ہم پھر بھی نہیں کریں گے.کیونکہ اس بکو اس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم واقعتا خدا کی توحید کے منکر ہو جائیں.ان الزامات کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم واقعتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کا انکار کر دیں.ان الزامات کا مطلب یہ ہے کہ واقعتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ کا ہمسر یا ان سے بڑھ کر سمجھنے لگ جائیں.تو جو کچھ تمہارے بس میں ہے کرو.پہلے بھی میں نے یہی کہا تھا.آج بھی یہی کہتا ہوں اور یہی بات دہراتا رہوں گا.جو کچھ کرنا ہے کرو تم اپنے پیادے بڑھالاؤ، اپنے سوار نکال لاؤ، چڑھا دو ہم پر اپنی دشمنی کی فوجیں.جس طرف سے آسکتے ہو ہو لیکن ان باتوں سے احمدیت ٹل نہیں سکتی کیونکہ احمدیت کا وجود ہے یہ اور وہ ہے کلمہ توحید کی گواہی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلیہ وسلم کی رسالت اور عبدیت کی گواہی اور یہ گواہی کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور کوئی نہیں جو کبھی دنیا میں آپ کی شان کا ہمسر پیدا ہوا.نہ آئندہ کبھی ہوگا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خمیر آپ کی محبت سے اٹھا ہے، آپ کے عشق سے اٹھا ہے، آپ کی کامل غلامی سے اٹھا ہے، آپ پر فدا ہو جانے کے ساتھ اٹھا ہے وہ خمیر تو ان باتوں سے تم ہمیں اپنی گندہ دہنی سے کیسے روک سکتے ہو.نہ روک سکتے ہو.نہ کبھی روک سکو گے.“ حضور نے مزید فرمایا : 66 یہ حوالے کہ پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن یہ کہتی ہے اس پر ایمان لے آئیں، کیسی احمقانہ بات ہے کہ پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن کا آئے دن تم انکار کرتے پھرتے ہو.جب کوئی حوالہ ملتا ہے اسی کانسٹی ٹیوشن نے ہمیں آزادی ضمیر کا حق جو دیا ہے وہ تم کیوں نہیں مانتے.اس لئے جہالت کی حد ہے.ایک قوم جب فیصلے کرتی ہے ان کی مرضی کے خلاف ہو تو کہتے ہیں ہم دھرنا دیں گے، ہم سڑکوں پر بیٹھ جائیں گے، ہم کسی قیمت پہ نہیں مانیں گے.اور اس کے باوجود ہمارا حق ہے کہ ہم میں حج بھی بنائے جائیں، ہم میں وزیر بھی بنائے جائیں.ہم میں ہر عہدے کے لوگ چاہے اہل ہوں یا نہ ہوں، منتخب کر لئے جائیں.اور احمدیوں پر یہ الزام کہ چونکہ کانسٹی ٹیوشن کو نہیں مان رہے اس لئے ان کو کانسٹی ٹیوشن
638 کے لحاظ سے کوئی ذمہ داری بھی سونپینی نہیں چاہئے.کون سی کانسٹی ٹیوشن ہے جس کی تم بات کرتے ہو؟ خدا کی کانسٹیٹیوشن کے مقابل پر ساری دنیا کی کانسٹی ٹیوشنر بھی کچھ کہیں ہم پاؤں کی ٹھوکر سے اس کو ر ڈ کر دیں گے.تمہاری کانسٹی ٹیوشن ہمیں یہ منوانا چاہتی ہے کہ نعوذ باللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جھوٹے ہیں.کوئی حیا کرو.تقدس محمد رسول اللہ کا اور اس کی حفاظت کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو؟ ایسے مکروہ لوگ جن کے نزدیک تقدس کا یہ تصور ہے کہ جب تک کوئی محمد رسول اللہ کی رسالت کا انکار نہیں کرے گا ہم اسے سینے سے نہیں لگائیں گے.ہم ایسے سینے پر تھوکتے بھی نہیں.کیسی خبیثا نہ حرکت ہے.اور اسے یہ مولویت کا نام دے رہے ہیں کہ ہم مولانا ہیں.ہمیں دین کا علم ہے.اس لئے ہم اعلان کرتے ہیں کہ جب تک احمدی کانسٹی ٹیوشن کے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے اُس وقت تک ہم اس مہم کو نہیں چھوڑیں گے اور اس وقت تک کسی احمدی کو پاکستان میں زندہ رہنے کا حق نہیں ہے.“ حضور نے فرمایا: ہم تو اس خدا کی بات کا جواب دیں گے جس نے کہا کہ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِی ، جو ہماری بات کا جواب دیتا ہے.تم ہوتے کون ہو؟ تمہاری حیثیت کیا ہے؟ تم تو ذلتوں کی مار بننے والے ہو.عبرت کا نشان بنے والے ہو.اور اس تقدیر کو تم ٹال نہیں سکتے کبھی یہ میرا چیلنج ہے اسے ٹال کے دکھاؤ.پس اس رمضان کو اس پہلو سے ہم بھی فیصلہ کن بناتے ہیں تم بھی فیصلہ کن بنالو.جو جھوٹ اور بکو اس جتنی بھی تم کر سکتے ہو، کر رہے ہو اور جتنی گندہ دہنی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق تم نے کی ہے اس دور میں، میرا خیال ہے انسانی تاریخ میں کبھی کسی نبی کے خلاف کبھی خدا کے کسی بندے کے خلاف اس قسم کی بکو اس کبھی نہیں ہوئی تم نے معاملات کو آخری حد تک پہنچا دیا ہے اور اس پہلو سے اللہ تمہیں مہلت بھی بہت دے رہا ہے اور دے چکا ہے مگر تمہارے پکڑنے کے دن آئیں گے اور لازمتا آئیں گے، یہ وہ تقدیر ہے جسے تم ٹال نہیں سکتے.میں آج اس جمعہ میں اعلان کرتا ہوں کہ لازما تم پر ذلتوں کی مار پڑنے والی ہے.
639 اس تقدیر کو بدل کے دکھاؤ عب میں اس بات کو قابل قبول سمجھوں گا کہ تم سے مزید گفتگو کی جائے کسی بات پر.اب یہ سلسلے گفتگو کے کٹ چکے ہیں.ان سب بے حیائیوں پر تم قائم ہو جن سے روکنے کے لئے تمہاری منتیں کیں.تمہیں سمجھایا کہ بس کرو کافی ہو گئی ہے.اپنے ساتھ ساری قوم کو تو بر باد نہ کرو.اب آواز میں اٹھ رہی ہیں جگہ جگہ سے کہ ملک ختم ہو گیا، ملک تباہ ہو گیا.......جو قصے چلتے ہیں آئے دن فلاں یہ کھا گیا، فلاں یہ کھا گیا، فلاں کا اتنا سونا پکڑا گیا، فلاں کی یہ گندگی پکڑی گئی اور آئے دن پاکستان کے اخبار جس بے حیائی سے بھرے ہوئے ہیں کہ یہ کردار ہے قوم کا تم سمجھتے ہو کہ دنیا کو پتہ ہی کچھ نہیں ؟ تم آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہو بے شک ،مگر اگر کوئی تم میں سے یہ بہادری کرے کہ وہ کہہ دے کہ ہاں یہ قوم ایسی ہو چکی ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہو، کہتے ہو جھوٹ بولتا ہے یا جھوٹ نہیں بھی بولتا تو بتانے کی کیا ضرورت تھی.ہم گویا چھپے بیٹھے تھے ہمیں بدنام کر دیا.کون سی بات ہے جو دنیا کو پتہ نہیں ہے.سب کچھ پتہ ہے.اس لئے خوامخواہ کے جھگڑے لگا بیٹھے ہو.“ آپ نے فرمایا: ملاں ہے جس نے اس قوم کو برباد کیا ہے اور جب تک یہ زہر تمہاری جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے، تب تک تمہاری زندگی کی بقا کا کوئی سامان نہیں ہو سکتا یعنی زندگی باقی رکھنے کا.اس لئے اس زہر کو پہلے نکالو.ہر خرابی کا ذمہ دار یہ ملاں ہے اور یہ چڑھا ہوا ہے اس بناء پر کہ احمدیوں کے خلاف جو کچھ یہ کہے تم اسے سینے سے لگائے رکھتے ہو.اور اتناڈرایا ہے تمہیں کہ اگر احمدیت کے حق میں کوئی سچی بات تم کہو تو یہ تمہاری جان کھا جائے گا اور اسی خوف کی وجہ سے ان کو رفعت مل رہی ہے، عظمت مل رہی ہے جیسی بھی وہ رفعت اور عظمت ہو سکتی ہے.دراصل ذلت اور نکبت کا دوسرا نام ہے جو ان کی رفعتیں اور ان کی عظمتیں ہیں، اس سے زیادہ نہیں.پس ملاں کی جان توڑنی ہے تو اس سے احمدیت کا لقمہ چھین لو.پھر دیکھو اس کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے.اس کے سوا اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.سارے پاکستان میں ایک گلی کی اصلاح کرنے کے قابل نہیں ہے یہ.ہر موڑ پر مسجدیں دکھائی دیں گی مگر مسجد کا ساتھی بھی دیانتدار نہیں بنا سکے....وزیر اعظم صاحب جب یہ اعلان
640 کرتے ہیں کہ ساری قوم بددیانت ہو گئی ہے تو ماں کے گریبان پر کیوں نہیں ہاتھ ڈالتے.تم کیا کر رہے ہو بیٹھے ہوئے تم نے جو قیامت مچارکھی ہے کہ ہم اسلام کی حفاظت میں جانیں دے دیں گے، عصمت رسالت کے لئے ہم سب کچھ قربان کر دیں گے تو اسلام تو ذبح کر بیٹھے ہو.کس گلی میں تمہارا اسلام دکھائی دے رہا ہے.ساری قوم بددیانت ہے تم اور بھی کھا کھا کے موٹے ہوئے چلے جارہے ہو اور یہ تمہاری اسلام کی محبت ہے.اسلام کا پیچھا چھوڑو اور ملک کا پیچھا چھوڑ دو.“ فرمایا: دو...یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کو پلیدستان لکھا کرتے تھے اور جب تک ان کا دخل نہیں ہوا پاکستان، پاکستان ہی رہا ہے.اب پلیدستان بنا ہے.تو جو بد نامی کا موجب ہے اس کو پکڑتے نہیں اور جو حق کا اقرار کرتا ہے اس کے خلاف بول اٹھتے ہو.وہ لوگ جو الزام لگا رہے ہیں...وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ پلیدستان بنا دیا گیا ہے اور اس مولوی نے پلیدستان بنایا ہے جو قائد اعظم کے خلاف ، پاکستان کے خلاف جد و جہد میں صف اول پر تھا.اور احمدیت پر جھوٹا الزام کہ احمدیت پاکستان کے خلاف تھی.کشمیر کی جد و جہد میں بھی لکھا گیا کہ احدی اپنا دامن بچا گئے.حالانکہ کشمیر کی جد و جہد کا آغاز ہی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ہوا ہے اور ان کے اپنے کشمیری بچے رہنما لکھنے والے لکھ چکے ہیں کتابوں میں کہ اس آزادی کی مہم کی باگ ڈور مرزا بشیر الدین محمود احمد کے ہاتھ میں تھی.پہلی آزادی کی مہم کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں تھی ؟ جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں.کس نے سپرد کی تھی ؟ تمہارے چہیتے اقبال نے خود ریزولیوشن پیش کیا.ساری تاریخ کو مسخ کر کے ہر بات کا جھوٹ بنا دیتے ہیں.اس لئے ان کے ساتھ بحثوں کا سوال ہی نہیں.جس نے جھوٹ بولنا ہی بولنا ہے، جسے حیا کوئی نہیں ہے وہ بار بار بولتا ہے، مسلسل بولتا چلا جاتا ہے.اس کے ساتھ اب گفتگو کا کونسا سوال باقی رہ جاتا ہے.لیکن ہاں خدا کے حضور فریقین کو یہ التجا کرنی چاہئے کہ جو جھوٹا ہے اس پر لعنت ڈال.پہلے مباہلے سے یہ اس طرح گریز کرتے تھے کہ کہتے تھے کہ مباہلے کی شرطیں پوری نہیں ہور ہیں.کوئی کہتا تھا مکہ
641 میں آؤ اور وہاں جا کر آمنے سامنے سارے اکٹھے ہوں.اب سارا عالم اسلام کیسے وہاں اکٹھا ہو جائے گا اور ساری جماعت احمد یہ وہاں کیسے اکٹھی ہو جائے گی ؟ کس کس کو تم لاؤ گے؟ کون سا تمہارا اتفاق ہے؟ فضول لغو باتیں.اور مکے کی سرزمین کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ مباہلوں کے لئے تو کبھی بھی کسی ایک سرزمین کا انتخاب نہیں ہوا.وہ جو مباہلے کا چیلنج تھا وہ تو مدینے میں ہوا تھا ویسے بھی، ملے کے دور میں تو ہوا ہی نہیں تھا وہ مباہلہ.نہ ان کو اسلام کی تاریخ کا پتہ نہ شرائط کا کوئی علم.اصل بات ہے لَعْنَةُ الله عَلَى الْكَاذِيين" خدا کی لعنت پڑے جھوٹوں پر.اس کے لئے کونسی سر زمین کی ضرورت ہے.پس اس جمعہ پر میں ایک فیصلہ کن رمضان کی توقع رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کو تاکید کرتا ہوں کہ اس رمضان کو خاص طور پر ان دعاؤں کے لئے وقف کر دیں کہ اے اللہ ! اب ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ فرما کہ تو احکم الحاکمین ہے.مجھ سے بہتر کوئی فیصلہ فرمانے والا نہیں.اور چونکہ مباہلے کے نام سے ان کی جان نکلتی ہے اور کہتے ہیں کہ احمدی بھاگ رہے ہیں.بے وقوفی کی حد ہے.مباہلے کا تو میں نے چیلنج دیا تھا.ہم کیسے بھاگ رہے ہیں؟ چیلنج میں نے دیا ہے اور بھاگ میں گیا ہوں؟ وہ تو سب جگہ مشتہر پڑا ہوا ہے.اسی چیلنج کی وجہ سے تو تم احمدیوں کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کرتے رہے، شور ڈال دیا کہ انہوں نے ہمیں مباہلے کا چیلنج دے دیا ہے.اور پھر کہتے ہو کہ بھاگ گئے.قبول کر لیتے بھاگ کیسے سکتے تھے؟ ہم تو دے چکے تھے.جس کی شرکش سے تیر نکل چکا ہو واپس کیسے لے سکتا ہے؟ اور پھر جب ضیاء نے بھی ہاں نہیں کی تو میں نے جمعہ میں اعلان کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے رات رؤیا میں ایسی خبر دی ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ جو خدا تعالیٰ کے عذاب کی چکی ہے وہ چل پڑی ہے اور یہ شخص اگر اپنی بے عزتی سمجھتا ہے کہ میں مرزا طاہر احمد کو جس کو میں نے عملاً ملک سے نکال باہر پھینکا ہے.یعنی روکنے کے باوجود نکل گیا ہے، یہ مراد ہے.وہ کیا چیز ہے، اس کی حیثیت کیا ہے، میں اس کے چیلنج کا جواب کیوں دوں.میں نے کہا اگر ان صاحب کی یہ سوچ ہے تو اس کا علاج یہ بتا تا ہوں کہ آئندہ بدزبانیوں سے باز آجائے اور احمدیت کے خلاف جو اقدامات کئے ہیں ان کی سنجیدگی سے پیروی
642 نہ کرے.اگر تو بہ نہیں کرنی تو اتنا ہی کرے.یہ غالبا چند جمعے پہلے اعلان کیا تھا کہ ایسا کرلے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ مباہلے کی زد سے بچ جائے گا کیونکہ عملاً یہ اپنا سر خدا کے حضور خم کر دے گا کہ میری تو بہ ، میں اب ان باتوں میں مصر نہیں ہوں، ضد نہیں کرتا.اب تاریخیں تو مجھے یاد نہیں رہیں مگر یہ مجھے علم ہے قطعی طور پر کہ ضیاء کی ہلاکت سے کچھ عرصہ پہلے میں نے یہ اعلان اسی مسجد سے کیا تھا ، جمعہ میں کیا تھا.لیکن اس کے بعد اس نے اپنے حالات نہیں بدلے بلکہ شرارت میں بڑھتا چلا گیا.اس پر پھر وہ رات آئی جس میں مجھے خدا نے وہ چکی چلتی ہوئی بتائی اور میں نے پھر صبح دوسرے دن جمعہ تھا اس میں اعلان کیا کہ اب خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی ہے، یہ خبر مل گئی ہے آخری فیصلہ کن کہ اب اس کے دن پورے ہو چکے ہیں.اب خدا کے عذاب کی چکی سے یہ شخص بچ نہیں سکتا.اور اگلے جمعہ سے پہلے پہلے اس طرح یہ بلاک ہوا ہے کہ ہمیشہ کے لئے عبرت کا نشان بن گیا ہے.پہلا فرعون تو ایسا تھا جس کی لاش عبرت کے لئے محفوظ کر دی گئی تھی.یہ اس دور کا فرعون ایسا ہے جس کی خاک بھی نہیں بچی.صرف مصنوعی دانتوں سے وہ پہچانا جاتا ہے اور وہی عبرت کا نشان بن گئے ہیں ہمیشہ کے لئے.تو ان مولویوں کی پھر بھی آنکھیں نہیں کھلیں.اور یہ عجیب بات ہے، یہ ساری باتیں اکٹھی ہو گئی ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ سال ایک بہت غیر معمولی سال ہے، پچھلا سال بھی اس لحاظ سے غیر معمولی تھا کہ پچھلے سال بھی رمضان سے پہلے میں نے جماعت کو تحریک کی تھی کہ دعا کریں اللہ تعالی مولوی کی ذلتوں کے اب سامان شروع کرے اور اللَّهُمَّ مَرْقُهُمْ كُلَّ مُحمدي وَسَيَقُهُم تسحیقا کی دعا خصوصیت سے یاد رکھیں.اور اس رمضان میں یہ دعائیں بطور خاص توجہ اور الحاج سے کریں اور اس کے بعد وہ واقعات رونما ہوئے جن کے بعد مولوی کے سارے منصوبے 66 دھرے رہ گئے.“ حضور نے فرمایا: "...اب کی جو دعائیں ہیں اس میں یہ یاد رکھیں کہ ایک لیکھرام کو برباد کیا مگر یہ عقل والے لوگ نہیں ہیں.ایک فرعون تباہ ہوا لیکن پھر بھی انہوں نے عبرت نہ پکڑی.تو اے خدا اب ان سب فرامین
643 کی صف لپیٹ دے جو مسلسل تکبر میں اور جھوٹ میں پہلے سے بڑھ بڑھ کر چھلانگیں لگارہے ہیں اور ظلم اور بے حیائی سے باز نہیں آرہے.پس ہمارے لئے یہ سال یا اس سے اگلا سال ملا کر ان سب کو ایسا فیصلہ کن کر دے کہ یہ صدی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دشمن کی پوری ناکامی اور نامرادی کی صدی بن کر ڈوبے اور نئی صدی احمدیت کی نئی شان کا سورج لے کر ابھرے.یہ وہ دعائیں ہیں جو اس رمضان میں میں چاہتا ہوں کہ آپ بطور خاص کریں اور رمضان کے بعد بھی ہمیشہ ان دعاؤں کو اپنے پیش نظر رکھیں.لیکھرام کا میں نے ذکر کیا تھا.یہ عجیب ہے ایک اور اتفاق کہ لیکھرام بھی 1897ء میں ہی بلاک ہو کر ایک عبرت کا نشان بنا تھا اور یہ 1997 ء ہے جس میں ہم یہ بات کر رہے ہیں.یعنی 97ء کا تکرار ہے.سو سال پہلے لیکھر ام عبرت کا نشان بنا تھا اور آج سو سال کے بعد میں پھر لیکھر اموں کی ہلاکت کے لئے آپ کو دعا کرنے کی طرف متوجہ کر رہا ہوں.“ حضور نے مزید فرمایا :...انشاء اللہ یہ رمضان ہمارے لئے غیر معمولی برکتوں کا رمضان بن کر چڑھے گا اور اس کی دعائیں انشاء اللہ اس صدی کا احمدیت کے حق میں نیک انجام ظاہر کرنے میں بہت ہی غیر معمولی خدمت سر انجام دیں گی، یعنی دعائیں یہ خدمت کریں گی.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا اور آسمان سے جو تقدیر وہ ظاہر فرمائے گا احمدیت کے غلبے اور نصرت کی تقدیر ہوگی.اور جو وہ تقدیر ظاہر فرمائے گا احمدیوں کے دشمنوں کی ذلت اور نکبت اور ہلاکت کی تقدیر ہوگی.پس ہم نے جو کام کرنا ہے وہ دعائیں ہیں اور خدا تعالیٰ نے جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ میرے بندوں سے کہہ دے کہ جب بھی وہ مجھے پکارتے ہیں فَانّي قَرِيبٌ تو میں ان کے قریب ہوں.تو اللہ تعالیٰ کی قربت کا نشان بنائیں.اور حقیقت میں لیکھرام کے نشان کا تعلق بھی قربت الہی کے ساتھ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کو یہ سمجھارہے تھے کہ تو خدا سے دور ہے اور میں قریب ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان میں تیری گستاخی مجھے کسی قیمت پر برداشت نہیں ہے.آپ نے ایسے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ
644 انسان لرز اٹھتا ہے.فرماتے ہیں میں یہ برداشت کر سکتا ہوں کہ میرے بچے میرے سامنے ذبح کر دیئے جائیں.میرے عزیز ترین اقرباء اور پیارے میری آنکھوں کے سامنے بلاک کر دئیے جائیں مگر محمد رسول اللہ کی شان کے خلاف گستاخی میں برداشت نہیں کر سکتا.آج اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ کے غلام کے لئے میرے دل میں وہی محبت کا جذبہ پیدا کیا ہے.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے اور یہی میری ہمیشہ سے دعائیں رہی ہیں کہ جس طرح آپ نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ کے دفاع میں آپ پر جھوٹے الزام لگانے والوں کے مقابل پر اپنی چھاتی آگے کی تھی، خدا مجھے بھی توفیق بخشے میں مسیح موعود، محمد رسول اللہ کے غلام کے لئے اپنی چھاتی آگے کر دوں.جو تیر برسنے ہیں یہاں برسیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کا گزند نہ پہنچے.پس اس جذبے کے ساتھ میں یہ تحریک کر رہا ہوں اور جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے دراصل یہ قربت کے نشان کی بات ہے.اگر ہم اللہ کے قریب ہیں تو وہ اپنا وعدہ ہمارے حق میں ضرور پورا کرے گا.اگر یہ مخالف اللہ سے دُور ہیں تو خدا تعالیٰ ان کو ضرور لعنت کا نشانہ بنائے گا.یہ ایسا یقین ہے جو یقین کے آخری مقام تک پہنچا ہوا ہے.حق الیقین سے میں یہ بات کہہ رہا ہوں.“ آپ نے اس خطبہ جمعہ میں سو سال پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی کی طرف سے دشمن اسلام پنڈت لیکھرام کی ہلاکت کے بارہ میں عطا کی جانے والی اخبار غیبیہ کے حوالہ سے اس پیشگوئی کا پس منظر اور لیکھرام کی آپ کے بالمقابل تعلیوں اور پھر خدائی پیش خبریوں کے مطابق اس کی عبرتناک ہلاکت کا قدرے تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد فرمایا: پس ہمارا خدا وہی ہے جس نے پہلے فرعون کو ہلاک کیا اور دوسرے فرعون کو بھی ہلاک کیا.ہمارا خدا وہی ہے جو ہر لیکھرام سے نپٹنا جانتا ہے جس کے قہر کی چھری سے کسی لیکھرام کا اندرونہ بیچ نہیں سکتا.پس میں آپ سب کو ان دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور وہ اشتہار جو میری طرف سے، عالمگیر جماعت کی طرف سے ساری دنیا کے معاندین اور مگھرین اور مکڈ بین کو دیا گیا تھا، یہ مباہلہ کا کھلا کھلا چیلنج ہے.یہ میرے ہاتھ میں ہے.اس میں ہر الزام کے جواب میں جو انہوں نے احمدیت پر
645 لگایا میں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں لَعْنَةُ الله عَلَى الْكَاذِبِين تم بھی خدا کے نام پر قسم کھا کر یہ اعلان کرو کہ ہم بچے ہیں یہی احمدی ہیں، یہی ان کا عقیدہ ہے تو پھر دیکھو خدا تعالیٰ تم سے کیا سلوک کرتا ہے اور ہم سے کیا سلوک کرتا ہے.آج تقریبا دس سال ہو گئے ہیں.1988ء میں یہ اعلان کیا گیا تھا اور 1997 ء آ گیا ہے.آج تو دسواں سال لگ چکا ہے خالتا اس لحاظ سے یا بہر حال دسویں سال کا آغاز ہونے والا ہے.یہ اعلان ہے جسے آج کے FRIDAY THE 10TH پہ میں پھر دہرا دیتا ہوں، یہ میرے ہاتھ میں ہے.مولویوں کو خوب پہنچایا گیا ہے.اب جو الزام انہوں نے شائع کئے ہیں وہ اللہ کی قسم کھا کر یہ اعلان کر دیں سارے ملک میں کہ ہم مباہلہ تو نہیں کرتے لیکن لعنت ڈالتے ہیں کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہم پر لعنت ڈالے اور ہمیں برباد اور رسوا کر دے.اگر مولویوں میں ہمت ہے تو اس چیلنج کو قبول کریں.پھر دیکھیں خدا ان سے کیا حشر کرتا ہے.خدا کرے کہ ان کو یہ جہالت کی ہمت نصیب ہو جائے کہ جب وہ کثرت سے جھوٹ بول رہے ہیں تو یہ جھوٹ بھی بولیں اب.اور خدا کی لعنت کو چیلنج کر کے پھر ان باتوں کا اعلان کریں.تو میں یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی رسوائی کو ظاہر و باہر کر دے گا اور حیرت انگیز عبرت کے نشان ایک نہیں بلکہ بارہا اور کئی دکھائے گا.“ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوں خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ مورخہ 10 جنوری 1997 ، مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل لندن خلیفہ اسح رحمه 28 فروری 1997 صفحہ 95) پھر خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ر اپریل 1997ء بمقام اسلام آباد، علفورڈ (برطانیہ) میں آپ نے لیکھرام کی بابت پیشگوئی اور اس کی بلاکت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : آج کا جمعہ جو عید کے دن ہورہا ہے آج سے سو سال پہلے ایک جمعہ کی یاد دلاتا ہے جو عید ہی کے دن ہوا تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لیکھرام سے متعلق جو 1893ء میں پیشگوئی فرمائی تھی اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا وقت اس الہامی فقرے میں تھا ستَعْرِفُ يَوْمَ الْعِيدِ وَالْعِيْدُ أَقْرَبُ کہ یہ واقعہ عید کے دن رونما ہو گا جب کہ عید اس کے قریب تر ہو گی.اس کا مطلب یہ تھا کہ دو عیدیں اکٹھی ہوں گی.ایک الْعِیدُ جو خاص عید
646 ہوگی، ایک کامل عید اور دوسری عید اسی کے ساتھ جڑی ہوئی.اقترب بالکل ساتھ ہی ہوگی.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1893ء میں جو پیش گوئی فرمائی کہ آج سے چھ سال نہیں گزریں گے کر لیکھرام ایک خدا تعالٰی کے قہری عذاب کا نشانہ بن کر ایک فرشتے کے ہاتھوں ذبح ہوگا یا قتل کیا جائے گا اور یہ بھی بتایا گیا کہ اس کے منہ سے ایسی آواز نکلے گی جیسے بچھڑے کے منہ سے آواز نکلتی ہے.اس کی نشان دہی اتنی واضح فرما دی کہ وہ دن عید کا دن، ایسا دن جو عید کے قریب تر ہے اور 1897ء میں وہ جمعہ آیا جو عید کا دن تھا اور العید بن گیا.یعنی ایسا جمعہ اور ایسی عید جو دونوں اپنے اپنے مضمون کے لحاظ سے کامل ہو گئے اور دوسرے دن پھر وہ يَوْمُ الْعِید ظہور پذیر ہوا.جس کے متعلق فرمایا تھا سَتَعْرِفُ يَوْمَ الْعِيدِ “ اور ہفتے کے روز لیکھرام کے پیٹ میں ایک ایسے نوجوان نے چھری گھونپی اور صرف گھونپی نہیں بلکہ اندر پھر ایا جس سے اس کی انتڑیاں کٹ گئیں اور جو کچھ تھا وہ باہر آ گیا جس کے متعلق کوئی سمجھ نہیں آ سکی اور کچھ پتہ نہ چلا.باوجود انتہائی تحقیق کے کسی کو معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون تھا، کہاں سے آیا، کہاں چلا گیا.وہ ایک ایسے بازار میں تھا جو آریوں کا بازار تھا وہ تین منزلہ مکان تھا جس کے اوپر کی منزل پر لیکھرام بیٹھا ہوا تھا اور نیچے کی منزل پر اس کی بیوی تھی اور وہ لڑکا جس نے اس کو قتل کیا ہے وہ کچھ عرصہ پہلے اس کے پاس آیا اور اس کے ساتھ...گویا کہ آریہ ہو چکا ہو اس طرح اس کے ساتھ رہنے لگا.اور جب یہ ہفتے کا روز آیا عید کے بعد تو اس دن اس نے اس کے پیٹ میں جیسا کہ بیان کیا گیا ہے چھری گھونپی اور پھر پھیری اندر اور اس کے منہ سے بہت زور کی چیخ نکلی.اس قدر درد ناک آواز تھی کہ اس کی بیوی دوڑ کر سیڑھیوں سے ہوتی ہوئی اوپر چڑھنے لگی جن سیڑھیوں سے اس نے نیچے اترنا تھا اور نیچے سب آریوں کا بازار تھا.اس کے واویلے اور شور سے سارے متوجہ ہو گئے اور پرلی طرف اترنے کے لئے کوئی سیڑھیاں نہیں تھیں، کوئی شخص بھی جو پر لی طرف چھلانگ لگا تا وہ یقینا کٹڑے ٹکڑے ہو جاتا.پس ایسی حالت میں جب بیوی او پر پہنچی تو دیکھا کر لیکھر ام تڑپ رہا ہے زخموں سے اور اس کی انتڑیاں اور بیٹ کا اندر کا جو کچھ بھی ہے وہ باہر آچکا ہے اور مارنے والے کا کوئی نشان نہیں.نیچے بازار میں جب شور ہوا تو لوگوں نے توجہ کی.جب پوچھا گیا ان سے تو انہوں نے کہا
647 یہاں سے تو کوئی نیچے اترا ہی نہیں، نہ کوئی پر لی طرف اترا.چنانچہ اس کے متعلق کہا گیا کہ پھر اس کو آسمان نگل گیا یا آسمان کھا گیا کیونکہ زمین پر تو اس کا کوئی نشان نہیں.نہ اس کے پہلے پس منظر کا کسی کو کبھی کچھ پتہ چل سکا.حالانکہ اتنا زبردست شور ڈالا گیا تھا آریوں کی طرف سے اور دوسرے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالفین کی وجہ سے کہ یہ ناممکن تھا کہ پولیس تفتیش کرتی اور اس کا کچھ بھی نہ پتہ چلتا.نہ پہلے کا پتہ چلا.نہ بعد کا پتہ چلا.کون تھا، کہاں سے آیا، کہاں چلا گیا.یہ سارے ایک ایسے راز ہیں جو ہمیشہ راز رہیں گے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشفی نظارے میں اس فرشتے کو دیکھا تھا جو چھری ہاتھ میں لئے تھا اور لیکھرام کا پوچھ رہا تھا کیونکہ حضرت محمد رسول اللہ کی گستاخی میں اس کو یہ سزاملنی تھی.پس یہ ایک ایسا عظیم الشان نشان ہے 1897ء میں تقریبا ایک سو سال پہلے رونما ہوا.اور آج بھی عید ہی کا دن ہے اور آج بھی جمعہ ہے.پس آؤ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جس کے ہاں نشانات کی کمی نہیں پھر احمدیت کے حق میں ایسے معجزات دکھائے.کیونکہ آج ایک لیکھرام نہیں سینکڑوں ہزاروں لیکھرام پیدا ہو چکے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے محمد رسول اللہ کے عشق میں جو چیلنج دیا تھا اور اس کے عواقب کو خوب سمجھ کر قبول فرمایا تھا، جانتے تھے کہ تمام دنیا کی توجہ آپ کی طرف بطور قاتل کے ہوگی.چنانچہ آپ کے گھر کی تلاشیاں لی گئیں، ہر قسم کی تحقیق کی گئی اور ایک ادنی سا بھی کوئی سراغ ایسا نہ ملا جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس قتل کے ساتھ وابستہ کیا جاسکتا.پس یہ وہ واقعہ تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے نتیجہ میں رونما ہوا ہے.اب ہمارا ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کامل غلام کا تقاضا یہ ہے کہ اب تو سینکڑوں ہزاروں لیکھرام ہیں جو دن رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق گند سکتے اور گستاخیاں کرتے ہیں اور یہ حسن اتفاق نہیں، مقدر معلوم ہوتا ہے کہ یہی سال مباہلے کا سال بن گیا کیونکہ اس سے پہلے جب مباہلے کا میں نے چیلنج دیا ہے تو میرے وہم و گمان کے کسی گوشے میں بھی نہیں تھا کہ یہ لیکھرام کے قتل کا سال ہے اور لیکھرام کے متعلق خدا تعالیٰ کی چھری کے چلنے کا سال ہے.پس یہ ساری باتیں جو اکٹھی ہوگئی ہیں یہ بتا رہی ہیں کہ خدا کی تقدیر حرکت
648 میں آئی ہے اور آسمان ضرور کچھ نشان ظاہر کرے گا.“ الفضل انٹرنیشنل 6 جون 1997 ، صفحہ 15 حضور رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ برطانیہ 1997ء سے قبل 11 / جولائی 1997ء کے خطبہ جمعہ میں ایک دفعہ پھر اس مباہلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ جلسہ وہ جلسہ ہے جو ہمارے مباہلے کے سال کے نتیجے کو دکھانے والا جلسہ ہو گا کیونکہ اس مباہلے میں خصوصیت کے ساتھ سب احمدیت کے دشمنوں کو یہ دعوت دی گئی تھی کہ تم زور مارو، دعائیں کرو، جو کچھ بن سکتی ہے بناؤ لیکن تم احمدیت کو نا کام نہیں کر سکتے اور اگر تم سچے ہو تو ہم تمہیں وقت دیتے ہیں.دعائیں کرو، دعائیں کرواؤ، زور مارو، سب کوششیں کر لو لیکن تم دیکھنا امسال خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بہت کثرت کے ساتھ بڑھ کر جماعت احمدیہ پھیلے گی، اور بھی برکت کے آثار دکھائی دیں گے.یہ مقابلہ ہے جو اس جلسہ سالانہ پر کھل کر سامنے آجائے گا.“ الفضل انٹرنیشنل 29 اگست 1997، صفحه 5) چنانچہ جلسہ سالانہ برطانیہ 1997ء کے موقع پر دوسرے دن بعد دوپہر کے خطاب میں حضور رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے اس مباہلہ کے سال کے نہایت ہی عظیم الشان اور پر شوکت اور پر ہیبت نشانات و نتائج اور اثرات کا بہت ہی ایمان افروز اور روح پرور تذکرہ فرمایا.ذیل میں اس خطاب کے بعض حصے پیش کئے جاتے ہیں.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: الافر یہ مباہلے کا سال ہے اور مباہلے سے متعلق میں نے آپ سے گزارش کی تھی کہ جب میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مباہلے کا اشتہار جو 1897ء میں لکھا گیا وہ پڑھا اور دیگر بہت سے اشتہارات کا مطالعہ کیا تو مجھے اس مباہلے کی اس سال کے مباہلے سے بہت سی مماثلتیں دکھائی دیں.اس سے پہلے جو میں نے مباہلے کا چیلنج دیا تھا وہ بعض معتین مولویوں کے لئے تھا اور ان کی ہلاکت کے متعلق ، اُن کی ناکامی کے متعلق تھا.لیکن اکثر نے اُس بات کو اس لئے ٹال دیا کہ حاضر ہونا مشکل ہے.تم وہاں حاضر ہو، ہم وہاں حاضر ہوں، ان چکروں میں پڑ کر انہوں نے بات کو ٹلا دیا.امسال خدا تعالٰی نے رمضان المبارک یعنی جنوری میں میرے
649 دل میں بڑے زور سے ڈالا کہ اس چیلنج کو عام کردوں اور اس چیلنج کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی صداقت کا نشان بنا کر دکھاؤں.بنانا تو خدا نے ہی تھا مگر میں اپنی طرف سے کوشش کروں کہ دنیا دیکھ لے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ظاہر ہوا ہے اور اس پہلو سے میں نے مباہلے کو عام کر دیا.ایسا عام جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1897ء میں کیا تھا.پہلے آپ کی مبارک تحریر میں سے چند الفاظ پڑھ کے سناتا ہوں.19 مئی کے اشتہار میں آپ فرماتے ہیں: یہ خدا کی قدرت ہے کہ جس قدر مختالف مولویوں نے چاہا کہ ہماری جماعت کو کم کریں وہ اور بھی زیادہ ہوتی اور جس قدر لوگوں کو ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے سے روکنا چاہا وہ اور بھی داخل ہوئے یہاں تک کہ ہزار ہا تک نوبت پہنچ گئی.“ ( سو سال پہلے تھی ، اب نوبت کہاں تک پہنچی ہے.یہ میں آپ کو دکھاؤں گا.) یہاں تک کہ ہزار ہا تک نوبت پہنچ گئی.اب ہر روز سرگرمی سے یہ کارروائی ہورہی ہے اور خدا تعالیٰ اچھے پودوں کو اس طرف سے اکھاڑتا ہے اور ہمارے باغ میں لگا تا جاتا ہے.“ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں: اگر وہ فی الواقع اپنے تئیں حق پر سمجھتے ہیں اور ہمیں باطل پر اور چاہتے ہیں کہ حق کھل جائے اور باطل معدوم ہو جائے تو اس طریق کو اختیار کرلیں اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ پر اور میں اپنی جگہ پر خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کریں.ان کی طرف سے یہ ڈھا ہو کہ یا الہی ! اگر یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تیرے نزدیک جھوٹا اور کاذب اور مفتری ہے اور ہم اپنی رائے میں سچے اور حق پر اور تیرے مقبول بندے ہیں تو ایک سال تک کوئی فوق العادت امر غیب بطور نشان ہم پر ظاہر فرما اور ایک سال کے اندر ہی اس کو پورا کر دے.اور میں اس کے مقابل پر یہ دعا کروں گا کہ یا الہی اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور در حقیقت مسیح موعود ہوں تو ایک اور نشان پیشگوئی کے ذریعے سے میرے لئے ظاہر فرما اور اس کو ایک سال کے اندر پورا کری آخر پر آپ لکھتے ہیں:
650 خدا کے نیک بندے قبولیت دعا سے شناخت کئے جاتے ہیں اور ان دعاؤں کے لئے ضروری نہیں کہ بالمواجہ (یعنی آمنے سامنے) کی جائیں بلکہ چاہئے کہ فریق مخالف مجھے خاص اشتہار کے ذریعہ سے اطلاع دے کر پھر اپنے گھروں میں دعائیں کرنی شروع کر دیں.“ شهار قطعی فیصلہ کے لئے 19 مئی 1897ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 411-413) حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: جو میرا چیلنج تھا وہ بعینہ اسی مضمون کا تھا.میں نے علماء سے کہا! کہیں اکٹھے ہونے کی ضرورت نہیں ہے.ہم احمدی ساری دنیا میں اپنی اپنی جگہ اپنے گھروں میں دعائیں کریں گے تم دعاؤں میں زور لگاؤ اور جو بس چل سکتی ہے چلاؤ لیکن یہ بات یادرکھو کہ تم جھوٹے نکلو گے.ہم سچے نکلیں گے.یہ خلاصہ تھا میرے چیلنج کا....اہل پاکستان کو مخاطب ہوتے ہوئے میں نے یہ کہا تھا کہ دیکھو تمہاری بقا اور تمہاری نجات ملاں سے نجات میں وابستہ ہے.اس زہر کو اپنی جڑوں سے نکال باہر کر دیا یہ جڑیں اکھیڑ کر باہر پھینک دو پھر تمہارا ملک بچے گا اور تمہیں امن نصیب ہوگا.اگر یہ ملاں تمہارے وطن میں پلتا رہا یعنی ہمارے وطن میں پلتا رہا تو پھر اس کے مقدر میں سوائے بلاکت اور بربادی کے اور کچھ نہیں لکھا جائے گا.اور مباہلے میں یہ بات بڑی کھول کر واضح کردی کہ دیکھو یہ مباہلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکتوں کے نشان کا مباہلہ ہے.اگر خدا تعالی کی طرف سے اس سال احمدیت پر پہلے سے بڑھ کر برکتیں نہ نازل ہوئیں تو ہم یقیناً جھوٹے نکلیں گے.اگر تم پر پہلے سالوں سے بڑھ کر محوستیں نہ اتریں تو پھر بھی ہم جھوٹے نکلیں گے.اور اس کے برعکس مضمون کی صورت میں تم جھوٹے اور ہم ہے.اتنی سی بات ہے.تم مان کیوں نہیں لیتے ؟ تمہیں کہیں آنے کی ضرورت نہیں.ایک اعلان دعا ہی تو ہے جس کی طرف تمہیں بلایا جارہا ہے.دعا کرو اور پھر دیکھو کہ خدا کیا تقدیر ظاہر فرماتا ہے.اس اعلان کے نتیجے میں یہ عجیب واقعہ گزرا جس کی مجھے توقع نہیں تھی کہ خصوصیت کے ساتھ ہندوستان کے علماء نے یہ چیلنج قبول کر لیا.وہ جو پہلے کہا کرتے تھے کہ مذہبی لحاظ سے لازم ہے کہ دو فریق آمنے سامنے ہوں، وہ کہتے تھے قرآن کی یہی تعلیم ہے.اس قرآنی تعلیم سے وہ
651 ہٹ گئے، گویا اُن کے نزدیک یہ تعلیم تھی اور کھلم کھلا اخباری اشتہارات کے ذریعے میرا یہ چیلنج قبول کر لیا اور بیان کیا کہ یہ سال اب احمدیت کی ہلاکت کا سال ہوگا.علماء کا جورڈ عمل ہے وہ میں چند علماء کے اپنے الفاظ میں آپ کو سناتا ہوں.اہل سنت کے وہ رہنما جو انگلستان میں بہت نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ان میں سے ایک دوست مفتی محمد اکبر زیرک نائب امیر جماعت اہل سنت برطانیہ ہیں.وہ لکھتے ہیں: مرزا طاہر کے چیلنج کے مطابق علمائے اہل سنت قادیانیوں کی تباہی کے لئے ڈھا کرتے ہیں اور اُن کے عبرتناک انجام کے منتظر بیٹھے ہیں." آرہا ہے.قاضی عبد الخبیر سیالوی امیر تنظیم علمائے ضیاء العلوم برطانیہ نے بیان دیا.دنیا پر قادیانیت کی تباہی کے آثار بہت جلد واضح ہو جائیں گے.“..مولانا نیا ز احمد نیازی نائب ناظم تبلیغ جماعت اہل سنت برطانیہ نے کہا: مسلمانوں کی دعاؤں کے نتیجے میں قادیانیوں پر اللہ کا عذاب ہر طرف سے نظر پھر سب علماء نے مل کر ایک اعلان کیا.یہ 31 جنوری کو یوم دعا برائے نجات فتنہ قادیانیت کے طور پر منایا جائے کا اعلان تھا.سارے علماء نے تمام اہل سنت کو جو انگلستان کے تھے یا جرمنی وغیرہ کے، ان کو مخاطب کر کے کہا ہم اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور ایک دن مقرر کرتے ہیں اس دن سارے یوم دُعا منائیں.21 علماء جن کے نام درج ہیں نے مشترکہ بیان جاری کیا جو رمضان المبارک 31 / جنوری کے جمعتہ المبارک کو پورے برطانیہ اور اہل سنت والجماعت کی مساجد میں یوم دعا منانے کے متعلق تھا.اُس روز سب ائمہ نے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جرمنی بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا، ان سب ائمہ نے اپنی اپنی مساجد میں تمام تر زور مارا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت میں نہایت گندی بکو اس کی اور آخر یہ اعلان کیا کہ اب ہم اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ آج ہماری دعائیں قبول ہوں گی اور احمدیت کے لئے ذلت اور رسوائی کا دن ہوگا.
652 چنانچہ ہفت روزہ آواز انٹرنیشنل لندن نے اس وقت اس ساری کارروائی کو شائع کیا.اسی طرح اخبار جنگ لندن نے اپنی یکم فروری 1997ء کی اشاعت میں لکھا: جماعت اہل سنت برطانیہ کی پریس ریلیز کے مطابق برطانیہ بھر میں قادیانیت سے نجات کے لئے یوم دُعا منایا گیا.علماء اور مشائخ نے کہا کہ امت مسلمہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور ان کا زوال مقدر بن چکا ہے.ملک بھر میں منائے جانے والے اس یوم دعا میں 31 علماء نے خطاب کیا.حضور رحمہ اللہ نے اس خبر کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: الحمد للہ کہ اس طرح یہ پرانا جھگڑا جو مباہلے کا چلا آرہا تھا یہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر فرار اختیار کرتے تھے آخر وہ جھگڑا طے پایا اور دونوں فریق...ایک دوسرے کے مقابل پر نکلے.اس مباہلہ کے نتیجے میں بعض ایسے حیرت انگیز واقعات رونما ہونے لگے جن کے متعلق خود مجھے بھی تصور نہیں تھا.میں عمومی طور پر احمدیت کے حق میں تائید الہی کا نشان مانگ رہا تھا اور عمومی طور پر دشمنوں کی ہلاکت یا ان کی ذلت کا نشان مانگ رہا تھا.لیکن مباہلہ کے آٹھ دن کے اندر ایک ایسا معاند احمدیت بلاک ہوا جس کے متعلق سارے پاکستان میں ماتم کی صف بچھ گئی اور بہت بڑی بڑی شہ سرخیوں میں اس کی ہلاکت کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ سپاہ صحابہ کے سر پرست اعلیٰ مولانا ضیاء الرحمن فاروقی کی ہلاکت، لاہور میں ہم دھما کہ ضیاء فاروقی سمیت 30 افراد ہلاک.دھماکہ کے بعد آگ لگ گئی.نعشوں کے ٹکڑے اڑ گئے اور انسانی اعضاء دور جا گرے.متعدد گاڑیاں تباہ.ہر طرف خون ہی خون.نصف گھنٹے تک کوئی مدد کو نہیں پہنچا.یہ پہلا وہ نشان تھا مباہلے کے بعد جو اس طرح ظاہر ہوا کہ امریکہ سے مجھے بعض نوجوانوں نے ٹیکس بھیجی اور کہا کہ آج ہمارا ایمان پہلے سے بڑھ کر احمدیت پر مضبوط ہو گیا ہے کہ ہمیں وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ آپ کے مباہلے کا اثر اتنی جلدی ظاہر ہونا شروع ہوگا.لیکن خدا تعالیٰ نے یہ دکھانے کے لئے کہ ہمارا یہ تاثر کہ یہ مباہلے کا نتیجہ ہے.غلط نہیں ہے، کرا ئیڈن کے ایک دوست احمد شریف رندھاوا صاحب کو ایک رؤیا دکھائی جو اس واقعہ سے پہلے کی رویا
653 تھی.اس رویا کو آپ سنیں تو آپ حیران رہیں گے کہ کس طرح خدا تعالی نے آسمانی تائید کے ذریعے اس نشان کو ایک احمدیت کا نشان پہلے سے قرار دے رکھا تھا.وہ لکھتے ہیں کہ: ایک علاقہ جو کہ قادیان یار بوہ جیسا ہے وہاں پر اپنے دوستوں کے ساتھ ہوں.وہاں ایک طرف مکان مشرقی طور پر بنے ہوئے ہیں اور دوسری طرف مغربی ممالک کی طرح کی بلڈنگیں ہیں، گویا احمدیت دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ایک طرف مشرق کے مکان میں مشرقی طرز کے اور ایک طرف مغرب کے مکان مغربی طرز کے ہیں.یہ دونوں قسم کے علاقے آپس میں ملے ہوئے ہیں یعنی ان کے درمیان آپس میں ایک تعلق اور رابطہ بھی قائم ہے.میں کیا دیکھتا ہوں ایک مولوی جس کا رنگ کالا سیاہ ہے اور کالی داڑھی اور موچھیں ہیں، سر سے ننگا ہے اور طعنے کے طور پر یہ مصرعہ پڑھ رہا ہے جیسے کسی کو تنگ کرنے کی خاطر یا دل آزاری کے لئے پڑھا جاتا ہے جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مصرع ہے اور آپ نے ان علماء کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ دیکھو ئیں خدا کا ہوں اسے للکارنا اچھا نہیں.وہ طعن کے طور پر بار بار یہ مصرع پڑھتا ہے جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہیں، ہاتھ میں چھڑی ہے اور وہ مولوی ایک دفعہ پھر یہ شعر طعن کے طور پر پڑھتا ہے جیسا کہ وہ حضور کو للکار رہا ہو.حضور پہلے تو خاموش کھڑے رہے.پھر اپنی جگہ سے ذرا ہٹ گئے اس مولوی کو صاف طور پر دیکھنے کی خاطر.جیسا کہ اس کو ٹھیک طرح سے دیکھنا اور پہچاننا چاہتے ہیں.پھر آپ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑے رعب سے یہ دوسرا مصرعہ پڑھا ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے رو بہ زار و نزار یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب سن کر یہ جلدی سے اس کی طرف لپکتے ہیں اس کو دیکھنے اور پہچانے کی خاطر اور اس خیال سے کہ کہیں وہ شرارت میں کوئی حملہ نہ کرے.مولوی کی دل آزاری سے، کہتے ہیں، میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور اس کے
ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی.“ 654 12 فروری کو انہوں نے خط لکھا ہے اور لکھتے ہیں کہ کل ہی میں نے اخبار جنگ دیکھا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا.(اس سے پہلے ضیاء الرحمن کو انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا.یہ دیکھ کر حیران رہ گیا) کہ وہ آدمی جس کو میں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ستاتے ہوئے دیکھا تھا اس کی نعش کی تصویر موجود تھی.وہ ضیاء الرحمن فاروقی تھا.ہو بہو وہی شخص اور اسی طرح سر سے نگا تھا.“ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: ان مولویوں نے جگہ جگہ بعض احمدیوں کو ایسے دُکھ دیتے ہوئے تھے اور ایسے ایسے ظلم کئے تھے کہ خدا تعالٰی نے نمونے کے طور پر جگہ جگہ ان کو پکڑنا شروع کیا اور یہ عام مباہلے کی دُعا کے علاوہ خدا کا ایک انعام تھا جو جماعت پر نازل ہوا.ایک ان میں سے محمد نواز چک سکندر کا رہنے والا تھا.اس نے احمدیوں کے مکان ٹوٹنے اور جلانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی اور مولوی امیر کے صف اول کے مجاہدوں میں سے تھا.یہ شخص کام کے سلسلے میں پاکستان سے اُردن چلا گیا اور اپنی طرف سے احمدیوں کی زد سے باہر نکل گیا اور سمجھا کہ میں نے جو کچھ کرنا تھا کر لیا اب میرے خلاف کوئی کارروائی نہیں ( ہو سکتی ).وہاں اس کے ماتھے پر زخم ہوا اور وہ پھوڑا بنتے بنتے پورے چہرے پر پھیل گیا، آنکھوں میں کیڑے پڑ گئے، ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دیا.اب یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نشان ہے کہ ایسے نشانات کے موقع پر ہمیشہ کسی احمدی کو گواہ ٹھہراتا ہے.جیسے لیکھرام کی دفعہ ہمارے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اس موقع پر آپریشن میں ساتھ شامل تھے اور ضمناً میں یہ بھی بتادوں کہ لیکھرام کی ذلت اور خواری کا یہ حال تھا کہ انگریز ڈاکٹر نے جب پوری طرح پیٹ سی دیا اور انتڑیاں اندر کر دیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو باہر دیکھا تھا تو ایک دفعہ پھر سارے ٹانکے ٹوٹ گئے اور ساری انتڑیاں باہر جاپڑیں.تو اس طرح وہ بار بار ذلت کی ماردیکھتا رہا.میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ کوئی نہ کوئی احمدی موقع پر خدا تعالی گواہ بنا دیتا ہے اور اس موقع پر بھی یہ عجیب واقعہ ہوا کہ سب اُس
655 کے دوست اس کو چھوڑ کر چلے گئے.اس کا چہرہ ایسا منحوس تھا اور آنکھوں میں کیڑے پڑے ہوئے تھے کہ کوئی اُس کے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا.ایک احمدی دوست نصیر احمد وہاں موجود تھے، چند ہفتے انہوں نے اس کی تیمار داری کی.یہ وہی محمد نواز تھے جنہوں نے نصیر احمد کی بیوی اور بچیوں کو گاؤں سے نکلتے ہوئے اسلحہ کے زور پر دوبارہ گاؤں میں واپس کیا.یعنی نصیر مظلوم کے بچے اور بیوی گاؤں سے باہر نکل رہے تھے تو یہی وہ شخص تھا جس نے بندوق دکھا کے اُن سب کو گاؤں میں واپس کر دیا تھا اور احمدیت سے متعرف ہونے پر مجبور کیا تھا.لیکن ان سب باتوں کے باوجود نمیر نے جیسا کہ ایک احمدی کا حق ہے انسانیت دوستی کا فرض نبھایا اور اس کی خدمت کی.نواز، نصیر کی منتیں کرتا کہ مجھے نظر نہیں آتا، میں یہاں مرجاؤں گا، میرا یہ کرو، میرا وہ کرو.نصیر نے آخر اس کے اصرار پر اپنے خرچ پر اُسے پاکستان بھیجوا دیا.نصیر نے کہا کہ میں مجھے dead body کے طور پر بھیجوں گا اور تمہارے رشتے داروں کو فون کروں گا کہ تمہیں پہچان کر لے جائیں.چنانچہ جب یہ لاہور پہنچا تو اُسے کوئی پہچان نہ سکا.یہ ایئر پورٹ پر پڑا رہا.اس کے رشتے داروں نے عملہ والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایک شخص اپنا نام نواز بتاتا ہے.وہ پڑا ہے اس کو پہچان کے لے جاؤ.چنانچہ اسے چک سکندر اس حال میں لایا گیا.مولوی امیر نے سپیکر پر پورے گاؤں سے اُس کی صحت یابی کے لئے دُعا کی اپیل کی.مگر ساری دعائیں اکارت گئیں.بالآخر ایک ہفتہ کے بعد شام کے وقت وہ شخص اسی طرح کیڑوں کے زخموں کی مارکھا تا ہوا اس دنیا سے رخصت ہوا.سندھ میں ایک مولوی محمد صادق صاحب اگر ہوا کرتے تھے جو نہایت ظالم اور خبیث فطرت انسان تھے اور انہوں نے اپنا یہ مقصود بنارکھا تھا کہ احمدیوں کو قتل کریں یا قتل کروائیں اور اُن کو قتل کرنے کے لئے پیسے بھی انعام کے طور پر مقرر کیا کرتا تھا...مباہلے کے بعد بہت جلد یہ شخص اس طرح پکڑا گیا کہ 24 فروری 97ء کو قتل ہوا.لیکن عام قتل نہیں ، خود اس کے بیٹوں نے اس کو قتل کیا.اور بیٹے نے جو پولیس کے سامنے بیان دیادہ یہ تھا کہ یہ ایک ظالم اور سفاک انسان تھا، خواہ مخواہ مذہبی بنتا پھرتا تھا.ہم جانتے ہیں کہ اپنے گھر کے لئے بھی ایک بہت ہی ظالم اور کر یہ المنظر انسان تھا.چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اس کو ماریں گے.چنانچہ
656 ان بیٹوں نے اس کو پہلے زہر دیا اور یہ ایسا سخت جان تھا کہ زہر سے مر نہ سکا تو پھر انہوں نے اس کو اس زہر کی حالت میں گولیاں ماریں اور اُس کے سر پر تین گولیاں لگیں.وہ گولیاں کھا کر بھی اس نے آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی.اُس پر اس کے اپنے بیٹوں نے گردن دیا کہ اس وقت تک دم نہیں لیا جب تک اس کا دم نہ نکل گیا.اور جب پولیس آئی اور اُس نے تحقیق کی کوشش کی تو اس کے بیٹوں نے اٹھ کر جواب دیا کہ جاؤ یہاں سے بھاگ جاؤ.ایک ظالم بد بخت انسان تھا جو اپنے کیفر کردار کو پہنچا ہے.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: یہ وہ شخص ہے جس کے متعلق بہت کی گواہیاں میں نے وہاں سے منگوائی ہیں.تحریری طور پر بھی الفین احمدیت نے بھی گواہیاں دی ہیں کہ یہ شخص بے گور و کفن وہاں دفنایا یا پھینکا گیا اور اس کی لاش غلاظت کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھی.ایک ملک منظور الہی اعوان تھا جس کے متعلق آپ لوگوں نے بہت شور پہلے سے من رکھا ہوگا.یہ وہی شخص ہے جس نے مجھ پر یہ الزام لگایا تھا کہ مولوی اسلم کو میں نے اغوا کرایا ہے اور بے انتہا جھوٹا اور بے حیا انسان تھا.پہلے یہ لکھا کرتا تھا افسروں کو کہ اگر مرزا طاہر احمد اس کا قاتل ثابت نہ ہوا تو جو چاہنا میرے ساتھ کرنا.جب وہ دریافت ہوا اور اس کے اعلان شائع ہوئے کہ مرزا طاہر احمد کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.تو پھر بھی یہ حکومت کو لکھتا رہا که....اس مولوی کا سر پھر گیا ہے، اور اور باتیں بتا رہا ہے.مگر ہے یہی مرزا طاہر احمد ہی جو اس کا قاتل ہے اور اعلان پر اعلان کرتا رہا کہ اگر نہ نکلے تو مجھے جو مرضی کر دینا.بہت زیادہ بد زبانی میں بڑھ گیا تھا.اس کو اللہ تعالیٰ نے اب مباہلے کے بعد یہ سزادی کہ اس کا اپنائے پالک، کیونکہ اس کی اولاد نہیں تھی، وہی اس کا دشمن ہو گیا.اس سے اس نے بریت کا اعلان کیا.اس کا اپنا ایک بھتیجا یا بھانجا خدا تعالی کے فضل سے مخلص احمدی ہو گیا اور اسی شہر میں اس نے اپنے اس ماموں یا چھا جو بھی اس کا تھا اس کی مخالفت شروع کی.یعنی اس کے متعلق علی الاعلان کہنا شروع کیا کہ یہ جھوٹا ہے.احمدیت سچی ہے.اس پر ملک منظور بہت سیخ پا ہوا اور اس کی طرح طرح کی اذیت کے سامان کئے.پولیس کے ذریعے دوسرے ذرائع سے اس کی جان کا دشمن ہو گیا.لیکن
657 وہ مظلوم انسان حق پر قائم رہا.اس نے مجھے ایک خط لکھا جس میں تھا کہ میں اس حالت میں ہوں.اور ایک اور احمدی نے اس کے متعلق خط لکھا.حضور رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اُس خط کے بعد میں نے جو جواب لکھوایا وہ یہ تھا کہ الحمدللہ احمدیت کو ایک اور موقع احمدیت کی صداقت کا نشان ظاہر کرنے کا حاصل ہوا ہے.پس تم ہر گز اس بد بخت انسان سے نہ گھبراؤ.ایک خط اس کے نام مباہلے کے چیلنج کے طور پر لکھ دو اور کہو کہ اب جبکہ یہ چیلنج ہو چکا ہے تم اسے قبول کر لو اور دنیا دیکھ لے گی کہ تم سچے ہو کہ مرزا طاہر احمد سچا ہے؟ حضور رحمہ اللہ نے امیر صاحب ضلع سیالکوٹ کے نام اپنے خط محررہ 28 رمئی میں منظور الہی اعوان کے متعلق تحریر فرمایا تھا کہ ان لوگوں کی پکڑ کے دن قریب ہیں.یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے متعلق نہایت غلیظ زبان استعمال کیا کرتا تھا.اور کہتا تھا کہ آپ گندی جگہ میں یعنی ٹھی میں فوت ہوئے.( نعوذ باللہ ).اور بار بار یہ بکو اس کیا کرتا تھا.16 جون 1997ء کو رات کسی وقت یہ شخص پیشاب کرنے کے لئے اٹھا اور وہیں ٹائلٹ میں گرا اور مردہ حالت میں پایا گیا اور اسی تنگی حالت میں اس کی لاش کو گھسیٹ کر باہر نکالا گیا.حضور نے فرمایا:..یہ مباہلہ عالمی تھا اور ہر جگہ خدا نے کسی نہ کسی رنگ میں عظیم نشان دکھاتے ہیں.“ آئیوری کوسٹ کے امیر جماعت عبدالرشید صاحب انور..لکھتے ہیں کہ وہاں کا ایک مشہور امام تعصب میں حد سے زیادہ بڑھ گیا تھا اور مبلغین کو سختی سے منع کیا کرتا تھا کہ علاقہ چھوڑ جائیں ورنہ میں بہت بُرا حال کروں گا.(اس امام کا نام صدیق کر ا مو گو تھا.ناقل ) حکومت کی طرف سے اس کے نائب کو حج کا ٹکٹ ملا.اس ٹکٹ کو جو اس کے نائب کے لئے تھا اس نے اپنے قبضے میں کر لیا اور ابی جان لینچ کر اپنے نام کروا کر حج پر خاموشی سے روانہ ہوا.لیکن گاؤں میں روانگی سے قبل کہنے لگا کہ میں سفر پر جارہا ہوں واپسی پر اب احمدیت کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالوں گا.سلگتے میں جو آگ لگی ہے اس آگ میں یہ شخص ہجوم کے پاؤں تلے کچلا گیا.اور اپنے پاؤں کے نیچے احمدیت کو کچلنے کی بجائے وہاں ہی ہجوم کے پاؤں تلے
658 کچلا جانے کی وجہ سے مرگیا.جب اس کی موت کی خبر اس کے گاؤں پہنچی کہ سکتے میں اس کی موت اس انداز میں واقعہ ہوتی ہے تو گاؤں کے سب دوستوں نے اُس کے جنازے کا بائیکاٹ کر دیا اور کہا یہ منحوس موت ہے.کوئی آدمی تعزیت کے لئے نہ پہنچا.اس کی اپنی بیوی نے کہا کہ ایسے شخص کو ایسی ہی موت آنی چاہئے تھی اور اس طرح وہ سارے کا سارا علاقہ احمد بیت کا ایک زندہ نشان بن گیا.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: جو حج کے موقع پر مٹی میں آگ لگی ہے.مجھے یاد ہے کہ مجھ سے اس آگ کے متعلق مجلس سوال و جواب میں پوچھا گیا کہ کیا آپ کے نزدیک یہ مباہلے کا نتیجہ ہے تو جیسا کہ حق اور انصاف کا تقاضا تھا میں نے کہا مجھے بہت ہمدردی ہے اس آگ سے اور یونہی کسی مذاب کو اپنی صداقت کے طور پر پیش کرنے کا میرا شیوہ نہیں جب تک اللہ تعالیٰ اس کی تائید میں کچھ ظاہر نہ فرمائے.میرے نزدیک یہ ایک دردناک حادثہ ہے اور ہمیں ان لوگوں سے ہمدردی کرنی چاہئے.لیکن حج سے واپسی پر جو احمدیوں نے گواہیاں دیں ان میں ایک عزیزہ بچی کا محط بھی ہے...اور کچھ بڑوں کی گواہیاں بھی ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ "آگ لگنے سے ایک دن پہلے خانہ کعبہ کے کپڑے کو تھام کر ایک مولوی یہ ڈھائیں کر رہا تھا اور تمام پاکستانی مولوی اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے لگ گئے تھے.وہ دعائیں یہ کر رہا تھا کہ میں فلاں شخص مرزا طاہر احمد کے چیلنج کو قبول کرتا ہوں.اے اس خانے کے خدا اگر میں سچا 66 ہوں تو احمدیت کو بلاک کر اور اگر وہ سچے ہیں تو ہماری ہلاکت کا کوئی نشان ظاہر کر.اور اس کے بعد جو آگ لگی اس میں یہ مولوی جل کر مر گیا.“ فلپائن میں بھی آگ ہی کا ایک نظارہ دیکھا گیا.ایک مولوی حبیب زین نامی جو احمدیت کا شدید مخالف تھا اُس کے متعلق خیر الدین با روس صاحب لکھتے ہیں کہ : اس نے جب حد سے زیادہ احمدیت کے خلاف بکو اس کی تو اسی مباہلے کے کچھ عرصے کے بعد یعنی 26 را پریل 1997ء میں وہی شخص کسی ہوٹل میں جا کر ٹھہر جس ہوٹل کو آگ لگ گئی اور اس آگ لگنے کے نتیجے میں صرف ایک آدمی ہے جس نے ہوٹل سے چھلانگ لگائی اور
659 اس کی ٹانگیں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں اور وہ ٹولا پانچ وہ احمدیت کو پاؤں تلے روندنے کا دعویٰ کئے بیٹھا ہے.اور میں نہیں جانتا کہ وہ مرگیا ہے یا نہیں.لیکن اس کے ساتھ اس کی شان وشوکت، اس کے دعوے سارے ضرور مر گئے.لیکن جس رنگ میں آگ نے اس کو بلاک کیا ہے یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک نشان ہے.“ بورکینا فاسو کے متعلق ہمارے ایک مبلغ ( محمد ادریس شاہد صاحب) لکھتے ہیں کہ ایک شخص محمود باندے نے جماعت کی مخالفت میں مشن کے سامنے ڈیرہ لگالیا.مسلسل مخالفت کئے چلا جاتا تھا.جب حضور نے اس سال کو مباہلے کا سال قرار دیا اور جماعت نے ڈھائیں شروع کیں تو یہ شخص حج پر گیا اور واپس آکر بالکل خاموش ہو گیا.معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ڈاکٹروں نے اسے سختی سے اونچی آواز سے بولنے سے منع کر دیا ہے اور اس کے گلے میں کوئی بیماری ہے اور وہ ایسی تکلیف ہے کہ اب وہ بول نہیں سکتا.اگر بولے گا تو ڈاکٹروں کے نزدیک اس کا بولنا جان لیوا ثابت ہوگا." اس طرح وہاں بھی خدا تعالٰی نے اپنی قدرت کا یہ نشان اسی سال میں دکھایا.را نا حنیف احمد صاحب سانگھڑ ( سندھ.پاکستان ) لکھتے ہیں کہ : ہمارے متعلق وہاں کا ایک مولوی جو بہت ہکو اس کیا کرتا تھا اس نے یہ بات مشہور کردی کہ یہ نوجوان لڑکیاں دوسروں کے پاس احمدیت کی خاطر فروخت کرتے ہیں.(لڑکیاں لے لیں اور ان سے جو چاہیں بے حیائی کریں لیکن احمدی ہو جائیں.اب اخبارات میں اُس شخص کا نام لکھ کر یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ اس کی نوجوان لڑکی کسی غیر کے ساتھ بھاگ گئی ہے اور اس واقعہ کے بعد وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا.جو احمدی معصوم بچیوں پر تہمت لگایا کرتا تھا خود اُس کی بچی بھاگ کر اس کے لئے عبرت کا نشان بن گئی.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا یہ مباہلے کا جو چیلنج ہے.یہ چیلنج اپنی ذات میں جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل.بہت سے فوائد لے کے آیا ہے.کچھ عرصہ پہلے سری لنکا سے مجھے اطلاع ملی کہ وہاں کے مولوی بہت شرارت کر رہے
660 نہیں اور حکومت پر بھی اثر ڈال چکے ہیں اور ان کو یہ خبر دی ہے کہ احمدی ہیں جو فساد کی جڑ ہیں اور یہ ہماری دل آزاری کرتے ہیں اور دل آزاری اس طرح کرتے ہیں کہ ہماری طرح نمازیں پڑھتے ہیں، ہماری طرح عبادت کرتے ہیں اس سے ہمارا دل بہت دُکھتا ہے.اس لئے یا ان کو روک لو یا ہم ان کا کچھ کریں گے.وہ وزیر اتنا متاثر تھا اُن مولویوں کی باتوں سے کہ اُس نے ہمارے وفد پختی کی اور کہا کہ تم نے دیکھا نہیں کہ یہاں کس قدر فساد ہورہا ہے اور تم اس کی جڑ ہو.انہوں نے کہا ہم کیسے جڑ ہو گئے؟ کہ تمہاری وجہ سے ان کو طیش آتا ہے.انہوں نے کہا اگر ہم گلیوں میں پھریں ان کو پیش آئے تو ہمارا اس میں کیا قصور ہے؟ بہر حال اُن لوگوں نے جلسہ کیا اور سُنا ہے بہت بڑی تعداد میں کثرت کے ساتھ خرچ کر کے عظیم ہجوم اکٹھا کیا اور اس میں فیصلہ کیا کہ آج یہ ہجوم ہر احمدی کے گھر پر حملہ آور ہو گا اور ہر احمدی گھر کو تباہ کر دیا جائے گا.اس غرض سے انہوں نے پاکستان سے ایک گندہ بدگو مولوی بھی بلایا جس کی آخری تقریر تھی.اس تقریر میں اس نے بے انتہا احمدیت کے خلاف بکو اس کی اور جوش دلایا اور وہی باتیں اصرار سے کہیں جو مباہلے میں میں پیش کر چکا تھا کہ میں ان کا انکار کرتا ہوں یہ ساری باتیں جھوٹ ہیں.چنانچہ وہی باتیں وہ دہراتا رہا جن کو میں جھوٹ کہہ چکا تھا.اب دیکھنے اللہ تعالیٰ نے مباہلہ کو احمدیت کے حق میں کس طرح نشان بنایا کہ ان لوگوں میں سے جو غیر احمدیوں کا مجمع تھا اُن میں سے کئی نوجوانوں کے ہاتھ میں یہ مباہلے کا پمفلٹ موجود تھا اور وہ پڑھ رہے تھے اور وہ دیکھ رہے تھے کہ یہی تحریر ہے جس کا وہ انکار کر رہا ہے اور یہی تحریر ہے جس پر یہ اصرار کر رہا ہے.تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک کے بعد دوسرا اٹھنے لگا اور وہ مباہلے کا کاغذ ہاتھ میں لئے ہوئے ہلانے لگے اور کہا مولوی بس بات ختم ہو گئی تم اصرار کرتے ہو تو ابھی یہاں چیلنج کو منظور کرو.اگر تم سچے ہو تو پھر اس چیلنج کو منظور کرو اور کہو کہ ہاں میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ احمدی جھوٹے ہیں اور احمدیوں کا یہ عقیدہ ہے جو تم بیان کر رہے ہو.اس پر مولوی پر ایسی سراسیمگی طاری ہوئی کہ وہ پیچھے ہٹ گیا اور سارے جلسے میں بھگدڑ مچ گئی اور ایک دوسرے کو وہ مارنے لگے اور جو مباہلے کے نتیجے میں احمدیت کے حق میں ایک جوش اٹھ کھڑا ہوا انہوں نے مخالف کو مار مار کے جلسے سے بھونگا دیا، سارا جلسہ مثر بثر ہو گیا.پس دیکھئے اللہ تعالی
661 کے فضل سے احمدیت کے حق میں یہ مباہلے کا سال کیسے کیسے نشان پیش کر رہا ہے.“ اللہ وسایا جو جماعت کی مخالفت میں پیش پیش ہوا کرتا تھا اس پر فالج کا حملہ ہوا.صدر پاکستان لغاری نے نشتر ہسپتال میں خود اس کی عیادت کی اور خصوصی نگران مقرر کئے مگر ان کی کچھ پیش نہ گئی.یہ شخص جو احمدیت کے خلاف بہت بکو اس کیا کرتا تھا اسی مباہلے کے سال کا نشانہ بن گیا.تنزانیہ میں یہ واقعہ گزرا ہے کہ سونگیا میں ایک سنی جماعت کا مولوی شیخ چی میٹے (Chi Tete).یہ مصر سے پڑھ کر آیا اور شرارت اور فتنے میں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گیا، روزانہ گالیاں دیتا تھا.اس کے جواب میں اس کے سامنے مباہلے کا چیلنج پیش کیا گیا اور کہا کہ اب تم باز آجاؤ ورنہ اس مباہلے کی مارتم پر پڑے گی.دو دن کے اندر پولیس نے اسے ایک گھناؤنے جرم میں گرفتار کر لیا اور اس وقت وہ جیل میں ہے.(ماخوذ از خطاب حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ فرمودہ 26 جولائی 1997ء بر موقع جلسہ سالانہ کر کے ) اس سال دنیا بھر میں متعدد مقامات پر ایسے بہت سے عبرت انگیز واقعات رونما ہوئے جنہوں نے اسلام احمدیت کی صداقت اور معاندین کے جھوٹا ہونے اور ان کے خدا کی لعنت کا مورد ہونے پر گواہی دی.ذیل میں ایسے چند ایک مزید واقعات درج کئے جاتے ہیں.مکرم مرزا نصیر احمد صاحب مبلغ سری لنکا نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں اپنے خط محررہ 30 جون 1997ء میں جماعت پیالہ (Pasyala) میں معاندین جماعت پر الہی گرفت کے دو نہایت ایمان افروز واقعات کی تفصیلات بھجواتے ہوئے لکھا کہ : ایک واقعہ تو یہ ہے کہ ہمارا ایک احمدی نوجوان نصیر احمد نامی وہاں کی غیر احمدی مسجد کے پاس سے گزر رہا تھا جس کی چھت پر ایک غیر احمدی نوجوان بجلی کا کوئی کام کر رہا تھا.ہمارے احمدی نوجوان کو وہاں کھڑے اس کے ایک غیر احمدی واقف کار نے باتوں میں لگا لیا جو راستہ میں کھڑا تھا.ان دونوں کو باتوں میں مصروف پا کر اوپر والا نوجوان مشتعل ہو گیا اور اس نے بدکلامی شروع کر دی اور پھر اسی پر اکتفانہ کی بلکہ نیچے اتر آیا اور اس ہمارے احمدی نوجوان سے الجھنا چاہا.نیز اس کو کہنے لگا کہ تمہیں معلوم ہونا
662 چاہئے کہ یہاں ہم نے لکھ کر لگایا ہوا ہے کہ کوئی قادیانی یہاں سے نہ گزرے.اس پر ہمارا احمدی نوجوان وہاں سے پیچھے ہٹ آیا.جیسے ہی وہ وہاں سے لوٹا غیر احمدی لڑکا چھت پر چلا گیا اور بجلی کے کام میں مصروف ہو گیا.بجلی کی ایک تار پر سے ربڑا تارنے کے لئے اس نے اس کو دانتوں سے چبایا مگر اس میں کرنٹ تھا.چنانچہ وہ جھٹکا کھا کر فور انیچے گرا اور گرتے ہی بیہوش ہو گیا.ہمارے احمدی نوجوان نے اس کو فاصلہ سے دیکھا کہ لوگوں نے اس کو اٹھایا اور پھر ہسپتال لے گئے.دو دن وہ وہاں رہا اور اس کے بعد اب وہ واپس آگیا ہے.مگر اب وہ بالکل خاموش ہے.اس کے بعد وہ پھر نہیں بولا.دوسرا واقعہ یوں ہے کہ چند سال پیشتر پسیالہ کے بعض غیر احمدیوں نے ہماری جماعت کی لائبریری کو آگ لگا دی تھی.آگ لگانے والوں میں اس جگہ کے 65 مجرم پیشہ لوگ پیش پیش تھے.گزشتہ دنوں جماعت نے اس کی renovation کی تو کسی شخص نے اس پر نہایت ہی نازیبا الفاظ لکھ دیئے کہ یہاں خنزیر کا گوشت پکتا ہے.مذکورہ 6 افراد جو جرائم پیشہ تھے یہ ابھی گاؤں میں ہی تھے اور ہمارے احمدیوں کو دھمکیاں دیتے رہتے تھے.ان الفاظ کے لکھے جانے کے بعد ایک دو روز کے اندر اندر ہی ان سب کو پولیس پکڑ کرنے گئی کیونکہ یہ لوگ بعض اور جرائم میں پولیس کو مطلوب تھے.اب یہ سب جیل میں ہیں.اور جماعت کے احباب کا گمان ہے کہ ان لوگوں کے علاوہ اور کسی کو اس گاؤں میں جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ اس قسم کے گندے کلمات ہماری لائبریری پر لکھ سکیں.مذکورہ بالا دونوں واقعات ایک دو ہفتوں کے اندر اندر رونما ہوئے.ابوظہبی میں ایک شخص ڈاکٹر اقبال محمد خان کی عبرتناک موت بھی ایک نشان کا رنگ رکھتی ہے.یہ وہ شخص ہے جس نے جماعت کے خلاف ایک کتاب Two in One کا عربی ترجمہ کیا تھا.اس کی موت ایک گٹر میں گر کر ہوئی.مذکورہ کتاب کے عربی ترجمہ کے آخری صفحہ پر جلی حروف میں جھوٹوں پر خدا کی لعنت کے الفاظ لکھے گئے تھے.اس شخص کی گٹر میں ہلاکت اور غلاظت کے ڈھیر میں سے سول ڈیفنس والوں کا اس کی body کو نکالنا خدا کی لعنت کی ماری تو تھی.
663 مکرم نذیر احمد صاحب خادم بہاولنگر (پاکستان) سے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں اپنے خط محررہ 19 اگست 1997ء میں لکھتے ہیں کہ چک 168 مراد ضلع بہاولنگر کا ایک شخص منیر کمبوہ کچھ عرصہ پہلے جگہ جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں یہ گستاخانہ بات دہراتا رہتا تھا کہ حضور نعوذ باللہ علی خانے میں مرے.کچھ عرصہ قبل وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ کراچی گیا.کراچی سے واپسی پر راستہ میں 3 اگست 1997ء کو بہاولپور شہر کے لاری اڈہ ( بس سٹینڈ ) پر گھر آنے کے لئے بس کے انتظار میں یہ لوگ بیٹھے تھے کہ اچانک منیر کمبوہ نے کہا کہ میرے پیٹ میں تکلیف ہے.یہ کہہ کر وہ لاری اڈہ کی لیٹرین کے اندر چلا گیا.کوئی بیس پچیس منٹ کے انتظار کے بعد اس کے ساتھیوں نے گھبرا کر پہلے اسے آوازیں دیں.جب جواب نہ ملا تو زور زور سے دروازہ پیٹا.پھر بھی جواب نہ آیا تو لاری اڈہ والوں سے بات کر کے دروازہ توڑا تو دیکھا کہ منیر کمبوہ بھی خانہ کے اندر ننگ دھڑنگ مردہ حالت میں پڑا ہے.چنانچہ اس کے ساتھی اس بدبخت کی لاش اس کے گھر لائے جس سے گھر والوں میں کہرام مچ گیا اور یوں 30-32 سالہ نوجوان سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا قہری نشان عبرت بن کر خس کم جہاں پاک ہوا.سندھ کے ایک ملاں میاں حمادی کی ظالمانہ کارروائیوں کا قبل ازیں مختصر ذ کر اس کتاب میں گزر چکا ہے.اس کا ایک ساتھی ایڈووکیٹ حشمت حبیب احمدیوں کے خلاف میاں حمادی کے قائم کردہ جھوٹے مقدمات میں اس کی طرف سے پیش ہوتا تھا اور جماعت کے خلاف نہایت گندی بکواس کرتا تھا.ستمبر 1997ء کے آغاز میں اس کی بیٹی Huzaima کی پر اسرار موت کی ایک نہایت عبرتناک کہانی اخبارات میں شائع ہوئی.مکرم نذیر احمد باجوہ صاحب نے ساہیوال (پاکستان) سے لکھا: ہمارے ضلع میں ایک نہایت بد باطن شخص جو احمدیت کا سخت معاند تھا اور طرح طرح سے احمدیوں کو ستایا کرتا تھا اس نے چک 1 6/11 میں بلا وجہ احمدیوں سے لڑائی کی اور فائرنگ کر کے ایک احمدی صوفی ثناء اللہ صاحب کو شدید زخمی کر دیا اور ان کی ٹانگ بھی ضائع ہو گئی.اور بھی کئی قسم کے
664 مقدمات احمدیوں پر ناحق بنائے.وہ اپنی شرارتوں میں بہت بڑھ گیا تھا.خدا تعالیٰ کا غضب اس پر پڑا.مورخہ 12 مرا کتوبر 1997ء کو وہ اپنے رقبہ میں پہلی بنوا رہا تھا.اس کے بیٹے نے کہا کہ پلی اونچی ہے.اوپر بجلی کے تار ہیں.ٹرالی نہیں گزرے گی.اس معاند احمدیت کا نام یوسف مفکر تھا.اس کے ہاتھ میں لمبائی ناپنے کا لوہے کافیتہ تھا.اس نے فیتہ کا بٹن دبایا اور وہ فیتہ تیزی سے نکل کر اوپر گیا اور ہائی وولٹیج بجلی کی تاروں سے ٹکرایا.ایک سخت دھماکہ ہوا اور اس کو بہت سخت شاک لگا.فورا اس کے منہ، سر، داڑھی اور کپڑوں میں آگ لگ گئی.وہ بری طرح جھلس گیا اور بیہوش ہو گیا.اسے فورا ساہیوال ہسپتال لے گئے.ڈاکٹروں نے جواب دے دیا اور اسے لاہور لے گئے مگر وہ جانبر نہ ہوسکا اور نہایت ذلت کی موت مرا.یہ واقعہ چک نمبر 1-6/11 میں ہوا.حضور رحمہ اللہ نے حج کے موقع پر لگنے والی آگ کے جس واقعہ کا ذکر اپنے خطاب میں فرمایا ہے اس بارہ میں ڈیر غازیخان سے ایک کو احمدی دوست گل محمد ولد محمد رمضان طارق صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں ( گل محمد ولد محمد رمضان طارق) مورخہ 30 / اپریل 1997ء کو ایک مجلس میں موجود تھا.مکرم حاجی محمد صاحب حج سے واپسی کے بعد اپنے احباب کو وہاں کے واقعات سنار ہے تھے.انہوں نے بتایا کہ میں وہاں موجود تھا جب مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد اوچ شریف کے پیر صاحب کے مریدا کٹھے ہوئے جن کی تعداد تقریبا بارہ تھی.سب نے مل کر غلاف کعبہ کو پکڑ کر یہ بددعا کی کہ اے خدا اگر قادیانی سچے ہیں تو ہمیں اور اگر ہم بچے ہیں تو ان قادیانیوں کو تباہ برباد کر.اگلے دن ان کی اس مسلسل دعا کے نتیجہ میں منی کے خیموں میں آگ لگ گئی.بہت سے خیمے جل گئے لیکن ایک خیمہ بچ گیا جس کے بارہ میں معلوم ہوا کہ یہ احمدیوں کا خیمہ ہے جن کا تعلق ہندوستان سے تھا.ان آدمیوں کے سواسینکڑوں لوگ اور بھی وہاں موجود تھے.مکرم گل محمد صاحب نے مذکورہ حاجی صاحب سے یہ واقعہ سننے کے بعد احمدیت قبول کرنے کی سعادت پائی.مکرم جہانگیر محمد جو نیہ صاحب ایڈووکیٹ خوشاب حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں لکھتے ہیں کہ مورخہ
665 6 رمئی 1997 ء کو چوہدری محمد اشرف مارتھ SSP ضلع گوجرانوالہ جو چوہدری پرویز الہی سپیکر پنجاب اسمبلی کا بہنوئی ہے نامعلوم اشخاص کے ہاتھوں قتل ہوا.اس دور کا ایک لیکھو اپنے برے انجام کو پہنچا ہے.اور حضور کی بات بڑی شان سے نشان بن گئی ہے کہ 1997 لیکھر اموں کی ہلاکت کا سال ہے.1974ء میں اشرف مارتھ خوشاب میں SHO تھا.اس کی پشت پناہی میں احمدیوں کے خلاف جلوس نکلتے تھے.اس نے علی الاعلان کہا کہ احمدیوں کا بائیکاٹ کرو.نیز احمد یہ مسجد جلانے پر لوگوں کو اکسایا..اس نے بہت سے احمدیوں پر ناجائز مقدمات قائم کروائے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا.1986ء میں اشرف مارتھ SP سرگودھا ہوا اور کلمہ طیبہ کی مہم کے خلاف سرگرم عمل رہا.مولوی اکرم طوفانی کی پشت پناہی کر کے کئی احمدیوں پر ظلم روا رکھا.گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں اور جیلوں میں بھی ڈالا گیا جہاں سخت مارا پیٹا گیا.سرگودھا اور خوشاب کے لاتعداد احمدیوں پر اس ظالم نے بہت ظلم توڑے.عجیب قدرت کا کرشمہ ہے جس نے ہمیں ظالم لیکھو کے انجام کا نظارہ دکھایا ہے.خدا کے خلیفہ اسیح کی دعا ہے جس سے یہ عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے.حضور رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یو کے 1997ء کے موقع پر دوسرے روز بعد دوپہر کے خطاب میں پاکستان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اب میں عمومی طور پر پاکستان کے وہ حالات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اس مباہلے کے سال کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور ہر شخص جو ذراسی بھی ہوش رکھتا ہو اور انصاف رکھتا ہو وہ یقیناً کہے گا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے جو مباہلے کا چیلنج تھا وہ روز روشن کی طرح سچا ثابت ہوا ہے اور اس ملک پر مولویوں نے جو و با ڈالی ہے وہ خود ان پر آپڑی ہے اور سارا ملک اس وقت تباہی اور انتشار کا شکار ہو چکا ہے.مباہلے کے متعلق میں نے عرض کیا تھا کہ مولویوں پر یہ وبا پڑنے والی ہے وہ مارے جائیں گے.وہ ایک دوسرے کے ساتھ مخالفتیں کریں گے.وہ تشر بشر ہو جائیں گے.ان کی جمیعت کے دعوے جھوٹے نکلیں گے اور خدا تعالی کی طرف سے یہ پکڑ کا عمومی عذاب ہے جو ان پر آنے والا ہے.اب پاکستان کی خبریں سنتے.اس عرصے میں یعنی گزشتہ چند ماہ میں، مباہلے کے اعلان
666 کے بعد، قتل ہونے والے مولویوں کی تعداد طبعی موت مرنے والے مولویوں سے بڑھ گئی.55 مولوی اس عرصے میں قتل ہوئے ہیں اور صرف 41 طبعی موت مرے ہیں.اب آنکھیں نہیں ہیں ان کے پاس جو یہ دیکھ سکیں اور پہچان سکیں کہ یہ کیا ہورہا ہے.ملک سے جو امن اللہ چکا ہے اس کا حال اب یہ ہے کہ مباہلہ کے اس عرصے میں 2,644 افراد دہشتگردی اور بم کے دھماکوں سے مارے گئے ہیں.حادثوں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، گینگ ریپ (Gang Rape) جو ان کے اسلام کی نشانی بن چکا ہے وہ 292 واقعات ہوئے ہیں کہ اسلامی ملک کہلانے والے پاکستان میں جس کو مولوی پلیدستان کہا کرتے تھے واقعتا ان مولویوں نے اسے پلیدستان بنا کر چھوڑا ہے اور اس وقت اس تعداد میں گینگ ریپ ہورہے ہیں جو انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کیسی ظالمانہ اور سفاکانہ کارروائی ہے.عورتوں اور بچوں کے اغواء کی جور پورٹس درج ہوتی ہیں وہ ساری نہیں ہیں، اکثر رپورٹیں پولیس تھانے پہ جانے سے پہلے دباؤ کے نیچے واپس لے لی جاتی ہیں اور جو تھانوں میں پہنچتی ہیں وہاں مخالفین کا دباؤ پڑتا ہے اور تھانوں سے واپس کر دی جاتی ہیں.مگر 314 رپورٹیں ایسی ہیں جو بچوں اور عورتوں کے اغوا پر مشتمل ہیں.ڈکیتی کا معاملہ کلیہ ہاتھ سے نکل چکا ہے.آئے دن اس کثرت کے ساتھ ملک کی گلی گلی میں سڑک سڑک پر ڈکیتی ہورہی ہے کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اس کی جان کس ڈاکو کے ہاتھ میں ہے اور اُس کا مال و دولت کسی سڑک پر برباد ہو گا.اس سلسلے میں میں مشیر قانون خالد انور کا یہ بیان آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور یہی بیان مباہلے کی کامیابی کے حق میں بہت کافی سمجھا جانا چاہئے.ہے.اخبار ہفت روزہ Nation میں 23 تا 29 مئی کے واقعات کے متعلق یہ بیان ملتا دو گزشتہ چار سال میں مذہبی دہشت گردی میں اتنے لوگ نہیں مارے گئے جتنے کہ 97ء کے پہلے چار ماہ میں بلاک ہوئے.“ مباہلے کے بعد پہلے چار ماہ میں مذہبی دہشتگردی کے نتیجے میں مارے جانے والوں کی تعداد گزشتہ چار سال میں دہشت گردی کے نتیجے میں مارے جانے والوں سے زیادہ تھی.
667 وزیر اعظم پاکستان کا بیان ہے کہ : فرقہ واریت کا معاملہ اب ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے.“ ہفت روزہ اخبار Nation نے لکھا ہے The week that was death and devastation اس سلسلے میں وہ اس ہفتے کی تباہی اور بربادی کی داستان لکھتے ہیں.یہ تو اس ملک کا حال ہے جس نے احمدیت کو اپنے وطن سے کینسر کی طرح اکھاڑ کر باہر پھینکنے کا دعوی کیا تھا اور احمدیت کو نکال دینے کے بعد وہ سمجھے تھے کہ اب یہ ملک پاک ہو گیا ہے.جس رنگ میں یہ پاک ہوا ہے یہ آپ لوگ دیکھ سکتے ہیں.اگر اسی کا نام پاکبازی ہے، یہی اسلام ہے تو اس پاکبازی اور اس اسلام سے ہماری تو بہ.ہم غیر مسلم کہلانے والے ان کے اس اسلام سے بہت بہتر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دُنیا بھر میں اعلائے کلمتہ اللہ کر رہے ہیں اور کثرت کے ساتھ وہ لوگ جو پہلے توحید کے دشمن تھے وہ توحید کے عاشق بنتے چلے جارہے ہیں اور یہ ساری توفیق جماعت احمدیہ کو اس سال پہلے سے بہت بڑھ کر نصیب ہوئی ہے.جن لوگوں نے یہ دعویٰ کیا تھا، مساجد میں اعلان کیا تھا کہ احمدیت کی بربادی اور اپنے ایک جان ہونے کے لئے دعائیں کریں اُن کا یہ حال ہے کہ ہیلی فیکس کی جامعہ مسجد میں ہنگامہ آرائی ہوئی.کمیٹیاں بٹ گئیں.ایک دوسرے پر گالی گلوچ ہوئی.بوٹوں سمیت پولیس ان مسجدوں میں گھستی رہی اور اتنا شور پڑا مسجد میں گالی گلوچ کا کہ کہتے ہیں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی.اخباروں میں جو خبریں شائع ہوئیں ان میں لکھا ہے مسلم سٹی کمیونٹی دو دھڑوں میں بٹ گئی.اور جھگڑا کس بات کا تھا؟ یورپین کمیونٹی کی وجہ سے پچاسی ہزار پاؤنڈ کی گرانٹ ملی تھی اور یہ دونوں فریق وہ گرانٹ ہتھیانا چاہتے تھے.جس طرح پڑی پھینکی جاتی ہے شئے کو اور شمئے لڑتے ہیں اس طرح یہ لوگ اس پچاسی ہزار پاؤنڈ کے اوپر لڑتے پھرتے ہیں اور جانیں دیتے پھرتے ہیں.ایک دوسرے کو موت کی دھمکیاں دی گئیں.پولیس کی حفاظت میں نمازیں ادا کی جانے لگیں.
668 اور جہاں تک قاضی حسین احمد کے لغو دعووں کا تعلق ہے....حیدر فاروق مودودی صاحب نے لکھا ہے: قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے لئے کینسر ہیں..پس وہ لفظ جو ہمارے متعلق بولا کرتے تھے اب یہ ایک دوسرے کے متعلق صحیح طور پر بولنے لگے ہیں.حضور رحمہ اللہ نے مخالفین کی ذلت و نکبت کی مثالیں بیان کرنے کے بعد جماعت احمدیہ پر اس سال میں جو برکتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئیں ان کا بھی اجمالی طور پر ذکر فرمایا.حضور نے فرمایا: اس مباہلے کے سال جماعت احمدیہ کو جو کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں...اب میں اُن کامیابیوں کا حال آپ کے سامنے مختصر رپورٹ کے طور پر پیش کرتا ہوں...- خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس وقت تک دُنیا کے 153 ممالک میں احمدیت پھیل چکی ہے.کروشیا میں بھی امسال احمدیت کا پودا نصب ہوا ہے اور ان کے نمائندے یہاں خصوصیت کے ساتھ اس لئے تشریف لائے ہیں کہ وہ بطور پہلے احمدی اور کروشیا ملک کے نمائندے کے طور پر اس جلسے میں شرکت کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مشنوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے.جماعت جرمنی کو اللہ تعالی نے یہ خصوصیت کے ساتھ سعادت نصیب کی کہ ان کے سپر د جو مما لک لگائے گئے تھے کہ آپ نے وہاں احمدیت کا پودا نصب کرتا ہے وہاں انہوں نے غیر معمولی طور پر خدمت سر انجام دی اور بہت سے ممالک میں اب احمدیت باقاعدہ احمدی مسلم مشن کے طور پر رجسٹر ہو چکی ہے.اب یہ جرمن جماعت ہی کی کوشش تھی کہ یہ چھٹا ملک جو پہلے احمدی نہیں تھا اب خدا کے فضل سے احمدی ملک کہلا رہا ہے.اس سے پہلے جرمنی جماعت جن ممالک میں خدا کے فضل سے بڑی زور اور مضبوطی کے ساتھ احمدیت کو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے اُس میں بلغاریہ ہے، بوسنیا ہے، رومانیہ ہے، سلوانیا ہے، میسیڈونیا ( اور مقدونیا بھی اس کو کہتے ہیں) ان ممالک میں جماعت جرمنی نے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمہ وقت محنت اور کوشش کے بعد آخر احمدیت کا پودا با قاعدہ مقامی طور پر اس طرح گاڑ دیا ہے کہ وہ ایک تناور درخت بن رہا ہے اور
669 بڑی تیزی سے ان علاقوں میں اس تناور درخت کی شاخیں پھیلتی چلی جارہی ہیں....جماعت احمد یہ امریکہ کو مالی طور پر غیر معمولی کامیابیاں نصیب ہوئیں اور بہت سے امور میں وہ تمام دنیا کی جماعتوں کو پیچھے چھوڑ گیا اور ایسے ایسے بجٹ میں اضافہ ہوا ہے کہ خود ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے....جتمام دنیا میں نئی جماعتوں کے قیام کے لئے ایک پروگرام تھا.اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ نئے مقامات جن پر نئی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور پوری طرح مستعد جماعتیں قائم ہوگئی ہیں وہ 2,236 ہیں جو اس سال میں ہمیں نصیب ہوتی ہیں.آپ اندازہ کریں کہاں احمدیت کی ہلاکت کی یہ خبریں، کہاں یہ کہ احمدیت پر ذلت کی مار پڑے گی، لوگ پوچھا کریں گے کہ احمدیت کہاں گئی؟ کہاں خدا تعالیٰ کے ایسے فضل کہ نئی جماعتیں جو نصیب ہوئی ہیں وہ 2,236 ہیں.یہ نئے مقامات ہیں جہاں جماعتیں قائم ہوئیں لیکن نظام جماعت ان میں سے 1,576 میں با قاعدہ مستحکم طور پر کام کر رہا ہے...اپریل 84ء سے لے کر اب تک یعنی دور ہجرت میں پاکستان کے علاوہ جماعتوں کی تعداد میں 9,035 کا اضافہ ہوا ہے.اور سال رواں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جن ملکوں کو نمایاں خدمت کی توفیق ملی ہے ان میں پہلی مرتبہ تمام دنیا کے مقابلوں میں بھارت نمبر ایک ہے........بورکینا فاسو نمبر 2 ہے.جہاں اللہ تعالی کے فضل سے 333 مقامات پر احمدیت کا پورا نصب ہوا ہے.اور آئیوری کوسٹ تیسرے نمبر پر ہے.چہارم گیمبیا ہے جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے 231 نئی جماعتیں قائم ہوتی ہیں اور پنجم گھانا ہے......مساجد کی تعداد میں اللہ تعالی کے فضل سے نئی تعمیر ہونے والی مساجد 106 ہیں اور وہ مساجد جو بنی بنائی نمازیوں سمیت جماعت کو ملی ہیں ان کی تعداد 809 ہے.غرضیکہ امسال 915 مساجد کا اضافہ ہوا ہے.آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مساجد پر کیسے کیسے ظلم ہورہے ہیں.یہ ان مساجد کی آہیں ہیں جو ہمیں یہاں اللہ کی طرف سے باران رحمت کے طور پر نصیب ہورہی ہیں.84 ء سے لے کر اب تک ان ہجرت کے 13 سالوں میں انہوں نے پاکستان میں کئی
670 احمدی مساجد شہید کیں، کئیوں کو نمازیوں سے خالی کر دیا.یعنی شہید نہ بھی ہوئیں تو انہیں اپنی طرف سے بے رونق کر دیا.وہاں کوئی خدا کی عبادت کرنے والا نہیں جاتا کیونکہ ان مساجد پر تالے پڑے ہیں.ان سب کو اگر ہم شمار کریں تو تمام مساجد ملا کر تیس، چالیس سے زیادہ نہیں ہوں گی.اس سے بہت زیادہ ہوتیں اگر احمدی میری صبر کی تعلیم کے معاملے میں مسجد کے معاملے میں اتنے زیادہ حساس نہ ہوتے.میں اگر چہ ان کو صبر ہی کی تلقین کرتا ہوں اور یہی میرا کام ہے لیکن مسجد کو اپنے سامنے اجڑتے یا غیروں کے ہاتھ میں جاتا دیکھنا وہ برداشت نہیں کر سکتے اور اپنی جان مال سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.جماعت ان کو صبر کی تلقین کرتی رہتی ہے.وہ کہتے ہیں سر چھوڑ و اب ہم سے صبر نہیں ہوتا.ہم مسجد کو خدا کا گھر بنا کے رکھیں گے اور اس کو ویران نہیں ہونے دیں گے.یہ وجہ ہے کہ حکومت نے مسجد کے معاملے میں تمام کارندوں کو ہدایت دے رکھی ہے کہ احمدیوں کی مسجد کے زیادہ قریب نہ جانا پھر جو تمہیں خطرہ ہوگا تم اس کے ذمہ دار ہو گے.اس سے پہلے ساہیوال میں جو واقعہ گزر چکا ہے وہ بھی ان کے سامنے نشان ہے.پس یہ وجہ ہے کہ جماعت کو خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی اکثر مسجدوں پر قبضہ نصیب ہے اور جو مسجدیں ہاتھ سے نکلی ہیں وہ نہایت بے بسی کی حالت میں نکلی ہیں.پولیس فورس کے غیر معمولی اجتماع کی وجہ سے ہاتھوں سے نکلی ہیں.ان چند مساجد کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد اللہ تعالی نے 84ء سے اب تک ہمیں 5,045 نئی مساجد دنیا میں عطا کی ہیں.لیکن اللہ کی یہ شان ہے کہ محض اینٹ گارے کی مساجد عطا نہیں ہوئیں.کچھ تو ہم نے بنائیں.لیکن اکثر مساجد جن کی تعداد 4,236 ہے اپنے سارے نمازیوں سمیت احمدی ہوتی ہیں اور خدا تعالی کے فضل کے ساتھ تمام تر گاؤں جن میں وہ مساجد تھیں کلینہ احمدی ہو گئے اور اس طرح خدا تعالی نے اپنے فضلوں کی بارش آسمان سے برساتی ہے جس کا شکریہ ادا کرنے کی ہمیں توفیق مل ہی نہیں سکتی کیونکہ بارش کے کتنے قطروں کا آپ شکر یہ ادا کریں گے، یہاں تو ایک ایک قطرہ ایسا ہے جو اس کے فضل نے دریا بنا دیا ہے.حضور رحمہ اللہ نے اس سال اللہ تعالیٰ کے افضال اور اس کی طرف سے عطا ہونے والی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
671 جب میں پاکستان سے روانہ ہوا ہوں اس وقت 72 ممالک میں تبلیغی مراکز تھے اور 84ء میں ان کی تعداد 287 تھی.اب خدا کے فضل سے تبلیغی مراکز جن کو ہم مشن ہاؤس بھی کہتے ہیں اُن کی تعداد 602 ہو چکی ہے.مگر یہ مراکز بہت بڑے بڑے ہیں.اس سے پہلے ہم جن مسجدوں کو مسجدوں کے طور پر پیش کیا کرتے تھے یا جن مراکز کو مراکز کے طور پر پیش کیا کرتے تھے وہ اتنے چھوٹے تھے کہ وہ ایک ہی مسجد میں بیسیوں ایسے مراکز داخل ہو جاتے ہیں.چنانچہ جرمنی ہی میں خدا کے فضل سے اب اتنے بڑے بڑے مشن ہاؤس بن چکے ہیں کہ ان میں پرانے مشن ہاؤس کئی کونوں کھتروں میں وہ سمائے جاسکتے ہیں.افریقہ میں بھی اسی طرح نئے مراکز کا اضافہ ہوا...حضور رحمہ اللہ نے امریکہ میں بھی بعض بڑے وسیع مراکز اور مساجد کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ: اپریل 82 ء تک اُن کے تبلیغی مراکز کی تعداد آٹھ تھی اور وہ سارے مراکز چھوٹے چھوٹے تھے....اب 8 کی بجائے 35 نئے مشن ہاؤسز اور مساجد کا اضافہ ہو گیا ہے.گویا 61 سال میں تو گل 8 مساجد اور مشن ہاؤس ملے تھے اور اب ہجرت کے سالوں میں 27 نئے مشن ہاؤس اور مساجدیل چکے ہیں.......کینیڈا میں بھی اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نئے نئے مشن ہاؤس بہت وسیع جگہیں عطا ہورہی ہیں.......یورپین تبلیغی مراکز میں جو اضافہ ہوا ہے اور ہورہا ہے اللہ کے فضل کے ساتھ وہ اتنا زیادہ ہے کہ ان کی تفصیل کو میں چھوڑتا ہوں.ایشین ممالک میں جو افریقہ اور یورپ کے علاوہ ہیں ان میں بھی خدا کے فضل سے تبلیغی مراکز میں اضافہ ہورہا ہے اور جگہ جگہ نئی مساجد کی زمینیں خریدی جارہی ہیں، چودہ تبلیغی مراکز کا اضافہ ہو چکا ہے.گل ایشیا میں اس وقت 222 تبلیغی مراکز قائم ہو چکے ہیں.17 قطعات برائے زمین مساجد و تعمیر مراکز حاصل کرلئے گئے ہیں.انڈونیشا میں بھی خدا کے فضل کے ساتھ بہت بڑے بڑے تبلیغی منصوبے ہیں.......اس وقت ہمارے گل مبلغ اور معلم جو کام کررہے ہیں ان کی تعداد 962 ہے اور 13 سال
672 پہلے ان کی تعداد 366 تھی.یہ 962 مبلغین ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو چینج دے رکھا ہے.حضور رحمہ اللہ نے دعوت الی اللہ کے ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: مولویوں کی جو تعلمیاں تھیں وہ آپ نے سن لیں، یہ کہتے تھے اس مباہلے کے سال میں احمدیت کا نشان دنیا سے مٹ جائے گا.گزشتہ سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں سولہ لاکھ بیعتوں کی توفیق ملی تھی اور میں نے وہیں یہ اعلان کیا تھا کہ دعا کریں تو اگلا سال تین ملین کا سال بن جائے جو دنیا کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہوگا.کبھی دنیا کی آنکھ نے یہ نظارہ نہیں دیکھا کہ کسی ایک مذہب میں خدا تعالی کے فضل کے ساتھ تین ملین انسان ایک سال میں داخل ہورہے ہوں.آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اب تک حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی صورت میں اس وقت بیعتوں کی تعداد تیس لاکھ چار ہزار پانچ صد چوراسی (30,04,584 ) ہو چکی ہے.اب یہ مولوی چاہیں تو جس غضب کی آگ میں جلیں، جو چاہیں آہ و بکا کرلیں.جو بربادی اس مباہلے نے ان پر آسمان سے اُتاری ہے اُس بربادی کو یہ ڈور نہیں کر سکتے ، یہ ہٹا نہیں سکتے.وہ اب ان کے گلے کا پھندا بن چکی ہے.اور جو رحمتیں اور نعمتیں خدا نے اس ایک سال میں ہم پر نازل فرمائی ہیں اس میں آپ یہ نہ مجھیں کہ ان کی بد دعاؤں کی وجہ سے ہے.ان کی تو بد دعاؤں کو بھی اللہ نہیں سنتا.یہ منحوس لوگ ہیں ان کے کہنے نہ کہنے کا کوئی اثر آسمان تک نہیں پہنچتا.یہ ہماری التجائیں اور ڈھائیں ہی تھیں، ہماری عاجزانہ گڑ گڑا ہٹ تھی جو آسمان نے قبول کی اور آسمان سے یہ تیس لاکھ احمدیوں کی بارش ہوئی ہے.(ماخوذ از خطاب حضرت خلیفة اسمع الراج رحم الله فرمودہ 28 جولائی 1997ء بر موقع جلسہ سالانہ یوکے) الغرض مباہلہ کے اس سال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعت کے حق میں تائید اور نصرت کے لاتعدادنشانات ظاہر ہوئے.حضور رحمہ اللہ کا محولہ بالا خطاب ایسے بہت سے دلچسپ، حیرت انگیز اور ایمان افروز واقعات پر مستعمل ہے....
673 www.alislam.org اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اشاعت اسلام کے واسطے جو جدید ذرائع و وسائل مہیا فرماتے ہیں خلافت احمد یہ ان سب کو اس نیک مقصد کے لئے استعمال میں لاتی ہے.چنانچہwww.alislam.org کا قیام بھی اسی کوشش کا حصہ ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے بابرکت عہد خلافت میں اس ویب سائٹ کا آغاز ہوا.یہ جماعت احمدیہ کی آفیشل ویب سائٹ ہے جو جنوری 2001 ء سے انٹرنیٹ پر قائم ہے.اس ویب سائٹ کے مقاصد میں دنیا کو اسلام احمدیت کی حقیقی تعلیمات سے آگاہی بخشنا اور افراد جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے ضروری مواد کی فراہمی شامل ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت اہم، مفید اور اعلیٰ درجہ کے مواد کے لحاظ سے یہ ویب سائٹ تمام اسلامی ویب سائٹس میں منفرد وممتاز حیثیت رکھتی ہے اور لوگ بڑی کثرت کے ساتھ حقیقی اسلام کی تعلیمات سے آگاہی کے لئے اس کی طرف رجوع کر رہے ہیں.مثال کے طور پر 20 مارچ 2002ء سے 25 اپریل 2002 ء تک کے صرف ایک ماہ کے عرصہ میں 23 ملین افراد نے اس سے فائدہ اٹھایا.اس ویب سائٹ پر آڈیو حصہ میں ایم ٹی اے کی براہ راست (Live) نشریات کے علاوہ حضرت خلیفتہ ایسی ایدہ اللہ کے خطبات بھی مہیا ہیں.Ask Islam کے تحت سیدنا حضرت خلیفہ المسح الرابع رحم اللہ کے ساتھ سوالات و جوابات بھی دستیاب ہیں.زبانوں کے حصہ میں بنیادی زبان انگریزی ہے.اس کے علاوہ اپریل 2003 ء تک عربی، اردو، چینی، فرانسیسی سپینش، رشین سواحیلمی زبانوں میں بھی نہایت اہم اور مفید لٹریچر ڈالا جا چکا تھا.ماہنامہ التقویٰ ( عربی ) اور ماہنامہ ریویو آف ریجنز (انگریزی) و دیگر دنیا بھر سے مختلف
674 زبانوں میں چھپنے والے جماعتی رسائل کے علاوہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل (اردو) کا انٹرنیٹ ایڈیشن بھی اس سائٹ پر ڈالا گیا ہے.جس میں احادیث نبوی، ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام، نظمیں، خطبات جمعہ فرمودہ حضرت خلیفہ ایسی ایدہ اللہ اور آپ کے خطابات ، اہم مضامین حاصل مطالعہ، الفضل ڈائجسٹ وغیرہ ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں.اردو حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفائے کرام کی کتب، ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کی بیان فرمودہ تفاسیر اور اس کے علاوہ بھی بہت سا جماعتی لٹریچر اور نہایت مفید اور قیمتی مواد میسر ہے.قرآن کریم والے حصہ میں مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم اور اہم شخصیات والے حصہ میں حضرت چوہدری سر محد ظفر اللہ خان صاحب، نوبل انعام یافتہ احمدی مسلمان سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے علاوہ صحابہ حضرت مسیح موعود اور احمدی شہداء کی تصاویر ومختصر تعارف ڈالے گئے ہیں.اس ویب سائٹ کے ذریعہ اُن ممالک میں اور دنیا کے ان خطوں میں بھی جہاں ابھی جماعت کے سنٹر قائم نہیں ہوئے یا جماعتی تبلیغ اور اشاعت لٹریچر پر پابندیاں ہیں وہاں بھی اسلام احمدیت کا پیغام پہنچنے کا سامان ہو گیا ہے.آج اللہ کے فضل سے دنیا کی تمام اہم زبانوں میں تراجم قرآن کریم، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفائے کرام کی کتب اور خطبات و خطابات کے علاوہ مختلف موضوعات پر نہایت قیمتی علمی، تبلیغی اور تربیتی مواد تحریر اور آڈیو ویڈیو کی صورت میں دستیاب ہے اور اس میں مسلسل متعدد اضافے کیے جا رہے ہیں.خلافت حلقہ اسلامیہ احمدیہ کی دعاؤں و راہنمائی کی برکت سے آج یہ ویب سائٹ عالمگیر غلبہ اسلام کی آسمانی مہم میں شاندار کردار ادا کر رہی ہے.الحمد للہ
675 جلسہ ہاتے سالانہ جلسہ سالانہ کی بنیاد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے 1991ء میں رکھی.بعض مخصوص حالات میں سوائے چند مستثنیات کے ہر سال یہ جلسہ سالانہ مرکزی طور پر منعقد ہوتا رہا.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کے دور خلافت کا پہلا مرکزی جلسہ سالانہ ، ربوہ ( پاکستان ) میں 26 تا 28 دسمبر 1982ء کو منعقد ہوا جس میں دولاکھ بیس ہزار افراد شامل ہوئے.اس میں 27 رملکوں کے نمائندگان نے شرکت کی.اگلے سال 1983 ء کے جلسہ سالانہ میں شاملین کی تعداد قریبا پونے تین لاکھ تھی.اپریل 1984 میں حکومت پاکستان کے آرڈیننس 20 کے بعد جماعت احمدیہ پاکستان کو جلسہ سالانہ کے انعقاد کی اجازت نہیں دی گئی.حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ کی پاکستان سے انگلستان ہجرت کے بعد جماعت احمد یہ برطانیہ کا 19 واں جلسہ سالانہ معمول کے مطابق 25 ، 26 اگست 1984 ء کو Tolworth میں منعقد ہوا.حضور رحمہ اللہ نے اس جلسہ سے اختتامی خطاب فرمایا.اس جلسہ کی حاضری تین ہزار تھی.1985ء سے حضرت خلیفتہ امسیح کی برطانیہ میں موجودگی کے باعث برطانیہ کا جلسہ سالانہ ایک رنگ میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا جس میں برطانیہ کے علاوہ یورپ اور دیگر ممالک سے افراد شامل ہونے لگے.چنانچہ 5 تا 7 اپریل 1985ء کو منعقد ہونے والے جلسہ میں 48 ممالک کی نمائندگی تھی.یہ پہلا جلسہ سالانہ تھا جو جماعت کے نئے مرکز اسلام آباد(ملفورڈ ) میں منعقد ہوا.حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے دور خلافت میں جماعت احمد یہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کو قادیان اور ربوہ کے جلسوں کی مرکزی روایات کے مطابق قائم کرنے کے لئے نہ صرف اپنے خطبات و خطابات اور جلسہ کے انتظامات کے معائنہ کے موقع پر ذاتی طور پر براہ راست رہنمائی فرمائی بلکہ مسلسل اس بارہ میں افراد جماعت کی تربیت کے لئے متعدد عملی اقدامات فرمائے.
676 اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال یو کے کا جلسہ اپنے انتظامات اور معیار اور پروگراموں کے لحاظ سے بہتری اور وسعت اختیار کرتا گیا.اور اس میں شامل ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھتی رہی.چنانچہ ہجرت کے پانچ سال بعد 1989ء میں جو جماعت کا صد سالہ جشن تشکر کا سال تھا جماعت احمد یہ یوکے کے جلسہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد 14 ہزار سے زائد تھی.2001ء میں برطانیہ میں گائیوں میں 'منہ گھر ( Foot and Mouth) کی بیماری کے پھیلنے کی وجہ سے اسلام آباد میں جلسہ سالانہ کے انعقاد کی اجازت نہ ملی.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس سال 24 تا 26 اگست 2001 ء کو جرمنی کے شہر منہائم میں منعقد ہونے والے جماعت احمد یہ جرمنی کے جلسہ سالانہ کومرکزی حیثیت کا جلسہ قراردیا.اس جلسہ میں یو کے سے بھی بڑی تعداد میں افراد جماعت نے شرکت کی.اس جلسہ کی حاضری 48 ہزار سے زائد تھی.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی زندگی کے آخری جلسہ سالانہ یو کے 2002ء میں شامل ہونے والوں کی تعداد 19 ہزار سے زائد تھی.ابتدا میں جلسہ کی آڈیو/ ویڈیوریکارڈنگ کر کے اس کی کیسٹس پاکستان اور دوسرے ممالک میں پہنچائی جاتی رہیں.پھر جلسہ کے موقع پر سیٹلائٹ کے ذریعہ نشریات شروع ہوئیں تو آغاز میں صرف حضرت خلیفتہ اسیح کے خطابات اور بعد ازاں جلسہ کی مکمل کوریج نشر ہوتی رہی.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ یورپ و دنیا کے دیگر ممالک کے دورہ جات کے دوران ان کے جلسہ ہائے سالانہ میں بھی شمولیت فرماتے رہے.حضور رحمہ اللہ جس ملک کے جلسہ سالانہ میں بھی شرکت فرماتے وہ جلسہ آپ کی شمولیت کی وجہ سے غیر معمولی حیثیت اختیار کر جاتا.اس کے شرکاء کی تعداد میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوتا اور اس کے انتظامات بھی پھیل جاتے.اکثر حضور رحمہ اللہ وہاں کے جلسوں کے انتظامات کا معائنہ بھی فرماتے اور انہیں بہتر بنانے کے لئے رہنمائی فرماتے.اسی طرح اپنے خطبات و خطابات میں جلسہ کی غرض وغایت اور میزبانوں اور مہمانوں کی ذمہ داریوں سے آگاہ فرماتے.یوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے ممالک میں مرکزی روایات کے مطابق جلسہ سالانہ کے انتظامات منظم ہوئے.اور جلسہ کے
677 کارکنان اور رضا کاران کا معیار خدمت بھی دن بدن بڑھتا چلا گیا.دورِ خلافت رابعہ کے آغاز کے بعد قادیان میں منعقد ہونے والے پہلے جلسہ سالانہ 18 تا 20 دسمبر 1982ء) میں شاملین کی تعداد 3760 تھی لیکن 1991ء میں صد سالہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جب حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نفس نفیس قادیان تشریف لے گئے تو اس جلسہ کی حاضری کم و بیش 25 ہزار تھی.حضور رحمہ اللہ کے دور میں آخری جلسہ سالانہ قادیان (2002ء) کی حاضری پچاس ہزار تک پہنچ گئی تھی.خلافت رابعہ کے عہد میں کئی ممالک مثلا فجی، سپین، سوئٹزرلینڈ ، بورکینافاسو، گنی بساؤ ، مڈغاسکر وغیرہ میں ان ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ کا آغاز ہوا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس زمانہ میں جب ایک آدمی بھی آپ کی بیعت میں شامل نہ تھا یہ خبر دی تھی کہ : میں نے اپنی طرف سے تیری محبت مستعد دلوں میں ڈال دی تا کہ میری آنکھوں کے سامنے تو پرورش پاوے.عنقریب تیری مدددہ لوگ کریں گے جن کی طرف میں وحی بھیجوں گا.وہ ہر ایک ڈور کی راہ سے تیرے پاس آئیں گے اور انواع اقسام کے مخالف از قسم نقد و جنس ہر ایک راہ سے تیرے پاس لائیں گے.“ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : نزول امسح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 539-540) گرچہ تائید الہی بجائے خود ایک نشان ہوتا ہے لیکن جب قبل از وقت پیشگوئی کے رنگ میں اس کو بیان کیا جاوے تو وہ نشان نُورٌ عَلى نُور ہو جاتا ہے کیونکہ پیشگوئی کا پورا ہونا اس بات پر مہر کر گی دیتا ہے کہ وہ تائید جو ظہور میں آئی ہے وہ در حقیقت منجانب اللہ ہے، نہ کہ اتفاقی طور پر “ ( نزول اصبح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 503 505- حاشیہ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مذکورہ بالا الہامات کا ذکر کرتے ہوئے ایک بہت ہی پر معرفت نکتہ یہ بیان فرمایا کہ:
678 ہر ایک طرف سے جب کوئی انسان آتا ہے یا کسی نئے شخص کی طرف سے کوئی تحفہ آتا ہے تو وہ ایک نشان ظاہر ہوتا ہے.“ ( نزول مسح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 540) چنانچہ آپ نے اپنی تصنیف لطیف نزول مسیح میں جو 1902ء کی تصنیف ہے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا: چونکہ اس جگہ آکر بیعت کرنے والے پچاس ہزار سے کم نہیں ہوں گے اور جو روپیہ اور مخالف متفرق وقتوں میں آئے وہ دس لاکھ سے کم نہیں ہوں گے اس لئے یہ بات بالکل صحیح اور ریچ ہے کہ علاوہ ان نشانوں کے جو اس نقشہ میں لکھے گئے ہیں کم سے کم دس لاکھ اور ایسے نشان ہیں جو العام يأتون من كل تج حبيبي اور يأتيك من كل فج عمیق سے صبح ثابت ہوتے ہیں.“ ( نزول اسح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 540) پھر یہ سلسلہ صرف آپ کی حیات مبارکہ میں ہی جاری نہیں رہا بلکہ آپ کے بعد آپ کے مقدس خلفاء کے ادوار میں بھی مسلسل ترقی پذیر ہے.اور گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ میں بلاشبہ ایسے نشانوں کی تعداد اربوں تک جا پہنچتی ہے.آج بھی جس جگہ خلیفتہ اسیح موجود ہوں وہاں ڈور ڈور سے لوگ بڑی محبت اور اخلاص کے ساتھ آتے ہیں تاکہ وہ خلفائے مسیح موعود کے ذریعہ سے ان برکات کو حاصل کر سکیں جو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں آنحضرت عالم کے عظیم روحانی فرزند اور آپ کے پیارے امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ سے جاری فرمائیں.ہر وہ شخص جومرکز سلسلہ میں آتا ہے اور خلیفہ اسیح کی بابرکت صحبت اور آپ کی زیارت وملاقات سے مشرف ہوتا ہے وہ اس سچے وعدوں والے خدا کی ہستی کا ایک زندہ اور تازہ ثبوت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر ایک زندہ و تابندہ نشان ہونے کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے.پھر جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ : م اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور
679 معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں.“ جلسہ کے تمام پروگراموں میں ان اغراض و مقاصد کو پیش نظر رکھا جاتا ہے.بالخصوص جلسہ سالانہ کی روح اور جان وہ زندگی بخش کلمات ہوتے ہیں جو حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس خلیفہ کی زبانِ مبارک سے ادا ہوتے ہیں.آپ اپنے خطابات میں اللہ تعالیٰ کی آیات کی نہایت پر معارف تشریح و تفسیر بیان فرماتے ہیں اور دوران سال اللہ تعالیٰ کے ظاہر ہونے والے لاتعداد تائیدی نشانات میں سے وقت کی رعایت سے بعض کا ذکر فرماتے ہیں جس سے ایمانوں میں تازگی اور تقویت نصیب ہوتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنوں کے بارہ میں فرمایا ہے کہ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيْمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمُ يَتَوَكَّلُونَ (الانفعال: 3) کہ جب ان پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو یہ چیز انہیں ایمان میں بڑھاتی ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں.آنحضرت بلال کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کی بعثت کی ایک غرض یہ ہے کہ آپ تلاوت آیات کریں اور اس کے ذریعہ سے مومنوں کا تزکیہ فرمائیں.یہی مقصد آپ کے عظیم روحانی فرزند اور غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا بھی ہے اور یہی وہ کام ہے جسے آپ کے بعد آپ کے خلفاء عظام جاری رکھے ہوئے ہیں.چنانچہ جلسہ سالانہ کے خاص روحانی ماحول میں، جس میں شامل ہونے والا ہر شخص خدا کے ایک نشان کا مظہر ہوتا ہے، خلیفہ وقت کی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کے زندہ اور تازہ نشانات کا تذکرہ ایک عجیب سماں پیدا کرتا ہے.آپ کے بابرکت کلمات سے، آپ کی دعاؤں اور روحانی تو جہات کے فیض سے دلوں کے زنگ ڈور ہوتے ہیں.ہر قسم کی میل اور کثافت ڈھلنے لگتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے خدا کی رحمت و مغفرت آسمان سے اتر کر سینوں کو نور سے بھر رہی ہے.تطہیر قلوب اور تزکیہ نفوس کا ایک خاص نظارہ ہے جو جلسہ کے موقع پر دیکھنے میں آتا ہے.خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستہ مومنین کے دلوں میں نیکیاں بجا لانے اور نیکیوں میں مزید آگے بڑھنے کے لئے خاص تحریکات پیدا ہوتی ہیں.دلوں میں نئے ولولے، نئے جوش اور مزید قربانیوں کے نئے ارادے جنم لیتے ہیں اور جلسہ کے بعد وہ نئے وجود بن کر نکلتے ہیں.جلسہ کے موقع پر لٹھی
680 محبت و اخوت اور پُر سوز دعاؤں کے رُوح پرور نظارے ایمان ویقین اور معرفت میں ترقی کا موجب ہوتے ہیں.الغرض جماعت احمدیہ کے جلسہ ہائے سالانہ اللہ تعالیٰ کے لا تعداد نشانات کے مظہر ہوتے ہیں اور افراد جماعت کی تعلیم و تربیت اور روحانی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں.ان جلسوں میں مختلف ممالک کے مختلف رنگ ونسل کے اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد مردوزن ایک خاص روحانی ماحول میں چند دن اکٹھے گزارتے ہیں.اس دوران عالمی وحد دوران عالمی وحدت اور للہی محبت و مودت کا بہت خوبصورت اظہار ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح کے زندگی بخش خطابات میں جماعت کی عالمی ترقی اور سال بھر میں نازل ہونے والے اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی افضال اور اس کی نصرت و تائید کے نشانات کا تذکرہ ہوتا ہے جو تقویت ایمان کا موجب ہوتے ہیں.ان جلسوں میں غیر احمدی مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم سرکاری و غیر سرکاری اہم شخصیات ، ممبران پارلیمنٹ، حکومتی وزراء، قبائلی چیفس، اور بعض جگہوں پر سر بر اہان مملکت بھی شامل ہوتے ہیں یا ان کے نمائندگان ان کی طرف سے تہنیتی پیغامات لے کر حاضر ہوتے ہیں اور وہ جماعت کے امن پسندی، مذہبی رواداری، خدمت بنی نوع انسان اور بہبود انسانیت کے کاموں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں.الغرض یہ جلسے افراد جماعت احمد یہ عالمگیر کی تعلیم وتربیت، جماعت کے پھیلاؤ، اس کی وحدت اور عالی سطح پر جماعت کے تشخص کو اجاگر کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں.1992ء سے مرکزی حیثیت کے حامل جلسہ ہائے سالانہ جن میں خ اس نفس نفیس شمولیت فرماتے ہیں مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ انٹرنیشنل کے ذریعہ کل عالم میں نشر ہورہے ہیں.خلیفہ اسیح کے خطابات اور دیگر تقاریر کے تراجم بھی مختلف زبانوں میں براہ راست نشر ہوتے ہیں.یوں ملک ملک میں ، گھر گھر میں جلسوں کا سماں ہوتا ہے.کئی سالوں سے جماعت احمدیہ جرمنی کا سالانہ جلسہ بھی حضرت خلیفہ المسیح کی بابرکت شمولیت کی وجہ سے مرکزی جلسہ کا رنگ اختیار کر چکا ہے.اس میں بھی بڑی کثرت سے یورپ اور دنیا کے دوسرے
681 ممالک سے افراد شامل ہوتے ہیں اور یہ جلسہ بھی مکمل طور پر ایم ٹی اے انٹر نیشنل پر نشر ہوتا ہے.اس کے علاوہ بھی دنیا کے مختلف ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ کے اہم پروگرام اور ان کی جھلکیاں ایم ٹی اے کے ذریعہ نشر ہوتی ہیں.یوں ہر جلسہ ہی عالمی جلسہ بن کر اپنی برکتوں کا فیض وسیع پیمانے پر عام کرتا جاتا ہے.ایم ٹی اے کے ذریعہ حضور رحمہ اللہ قادیان کے جلسہ سالانہ سے براہ راست لندن سے خطاب فرماتے رہے.اسی طرح بعض ملکوں کے مقامی جلسوں کے شاملین سے بھی اپنے خطبات میں براہ راست مخاطب ہو کر پر حکمت نصائح سے نوازتے رہے.اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما یہ بشارت دی تھی کہ "بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.یہ الہام پہلی دفعہ 1965ء میں پورا ہوا جب گیمبیا کے گورنر جنرل ایف ایم سنگھاٹے نے احمدیت قبول کر کے حضرت خلیفہ امسح الثالث سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑے کا تبرک حاصل کیا.دور خلافت رابعہ میں افریقہ کے کئی ممالک کے بادشاہ احمدیت میں داخل ہوئے.ان میں سے بعض کو یو کے کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کی سعادت بھی عطا ہوئی.چنانچہ اپریل 1987ء میں نائجیریا کے تین بادشاہوں نے احمدیت قبول کی.ان میں سے دو کو جلسہ سالانہ برطانیہ پر یکم اگست 1987ء کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں کا متبرک عطا فرمایا.حضور رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ 1998ء پر فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام 1898ء کا ہے اور پورے سو سال بعد 1998ء میں بیس بادشاہ جماعت میں داخل ہو گئے.جلسہ سالانہ یو کے 2000ء پر بینن کے دو بادشاہوں نے حضور رحمہ اللہ کے مبارک ہاتھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں کا تبرک حاصل کیا.ان میں سے ایک بادشاہ وہ بھی تھے جن کے ماتحت دوسو کے قریب بادشاہ ہیں.یہ دونوں بادشاہ بعد میں جلسہ سالانہ جرمنی میں بھی شامل ہوئے.
682 2002ء کے جلسہ سالانہ بیٹن ( مغربی افریقہ منعقدہ 21 تا 23 دسمبر میں قریباً ایک سو بادشاہ شامل ہوئے جن میں کنگ آف پارا کو کی سربراہی میں ملک کے بڑے بادشاہوں کا تیس رکنی وفد گھوڑوں پر سوار ہو کر آیا.اسی طرح نائیجر کے سب سے بڑے بادشاہ سلطان آف آگادیس کا بارہ رکنی وفد اڑھائی ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے جلسہ میں شامل ہوا.پاکستان میں حکومت نے 1984ء سے احمدیوں کو جلسہ سالانہ کے انعقاد کی اجازت نہیں دی.اور نہ صرف سالانہ جلسے پر پابندی عائد کی بلکہ دیگر اجتماعات پر بھی قدغنیں لگائی گئیں.دشمن نے ہمارے مرکزی جلسم پر پابندی عائد کر کے جماعت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی سکیم سو چی تھی کیونکہ جیسا کہ حضرت خلیفہ ایسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا تھا : کرتے ہیں.تمام سالانہ جلسے جماعت کو آپس میں محبت میں باندھنے میں غیر معمولی کردار ادا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو پہلے جلسے کی اغراض بیان فرمائی تھیں ان میں سے ایک یہ اہم غرض تھی کہ ان جلسوں کے ذریعے مختلف جگہوں کے احمدی آپس میں ایک دوسرے سے ملیں گے، اس طرح مورت یعنی محبت کا رشتہ قائم ہو گا، ایک دوسرے کو سمجھیں گے، ایک دوسرے سے فائدہ اٹھائیں گے اور اس طرح ایک عالمی برادری وجود میں آنے لگے گی.پس یہ ضروری ہے کہ ہر ملک میں اسی طرح کے جلسے انہی فوائد کو لئے ہوئے جماعت کے سامنے بار بار آتے رہیں اور اس طرح ایک ملکی سطح پر جب باہمی محبت کے رشتے بنیں گے تو ان ملکوں میں جو باہر سے لوگ جاتے ہیں وہ بھی ایک عالمی برادری کا احساس پیدا کرنے میں مزید محمد ثابت ہوں گے اور ہوتے ہیں.افریقہ کے ممالک میں جب جلسے ہوتے ہیں تو افریقہ کے ارد گرد کے ممالک سے کچھ نمائندے پہنچتے ہیں.جب امریکہ میں جلسے ہوتے ہیں تو وہاں سے ارد گرد کے ممالک سے شامل ہونے والے احمدی پہنچتے ہیں.اگر چہ فاصلے وہاں بہت زیادہ ہیں مگر پھر بھی کوئی نہ کوئی دکھائی دے ہی دیتا ہے.کوئی سرینام کا نمائندہ مل جاتا ہے.کوئی گیانا کا نمائندہ بھی مل جاتا ہے.کوئی ٹرینیڈاڈ کا نمائندہ بھی مل جاتا ہے...پس اس پہلو سے جماعت کا دائرہ موڈت،
683 با ہم ایک دوسرے سے ملاقات کے سامان مہیا ہونے کے نتیجہ میں پہلے سے زیادہ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے اور پھیلتا چلا جاتا ہے." اسی طرح فرمایا: مخطبہ جمعہ فرمودہ 8 جولائی 1994ء.خطبات ظاہر جلد 13 صفحہ 494) جلسے کا نظام عالمی بھائی چارے کو تقویت دینے اور اخلاقی لحاظ سے ایک عالمی معیار پیدا کرنے اور قائم رکھنے کے لئے بہت ہی ضروری ہے اور اگر ان پاک روایات کو آپ ہمیشہ جاری رکھیں تو اس کے علاوہ آپ کو نظم وضبط کے بھی نئے سلیقے ملتے ہیں اور ہر قسم کے کاموں میں انتظامات کا ایک ایسا تجربہ نصیب ہوتا ہے جو روز مرہ کی زندگی میں آپ کے ہر طرح سے کام آسکتا ہے.اور جماعت کے کردار کی تخلیق میں بہت مدد کرتا ہے.جماعت کا ایک کردار ہے جس کا نہ کسی ملک سے تعلق ہے، نہ کسی قوم سے تعلق ہے، نہ کسی خاندان سے تعلق ہے.جماعت بحیثیت جماعت احمد یہ ایک اسلامی کردار کی حامل ہے اور یہی کردار در حقیقت آپ کا شخص بن رہا ہے اور ہنتا چلا جائے گا.یہی کردار ہے جس کے شخص کو نمایاں کرنے کے نتیجے میں ایک عالمی برادری وجود میں آئے گی اور اس کے بغیر یہ مکن نہیں ہے.پس اس کردار کی تعمیر میں اور اس کے تشخص کو نمایاں کرنے میں جماعت احمد یہ عالمگیر کے سالانہ جلسے ایک بہت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں اور جس طرح مجلس شوری ایک خاص دائرے میں خلافت کی نمائندہ اور دست و بازو بن جاتی ہے اسی طرح جلے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خلافت کے قیام اور استحکام اور اس کے فوائد کو عام طور پر جاری کرنے میں بہت ہی محمد ثابت ہوتے ہیں.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 8 جولائی 1994 ء خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 495) اللہ تعالی نے ایم ٹی اے کے ذریعہ دشمن احمدیت کی سازش کے اس پہلو سے بھی اسے ذلیل و نا مرا درکھا اور نہ صرف ایک جلسہ بلکہ آئے دن دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے جلسوں کی ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ایسی بہار آئی کہ ہر جلسے میں دنیا بھر کے احمدیوں کے لئے ممکن ہو گیا کہ وہ ان جلسوں کی رونق اور ان کی برکات سے فیضیاب ہو سکیں.بالخصوص وہ جلسہ ہائے سالانہ جن میں حضرت خلیفتہ اسے بنفس نفیس شمولیت فرماتے ہیں ان کی رونق اور برکات تو کئی چند ہو جاتی ہیں.نہ صرف یہ بلکہ کئی ممالک اور جماعتیں جب
684 حضرت خلیفہ اسی کو اپے جلوں اور اجماعت کے انعقادکی قبل ازوقت اطلاع دیتی ہیں وبعض دفعہ خلیفہ اسیح اپنے خطبات میں ان سے براہ راست مخاطب ہو کر اپنی نصائح سے نوازتے ہیں.یوں وہ مقامی جلسے اور اجتماعات بھی خلیفہ وقت کے توسط سے عالمی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں.مثال کے طور پر 6 اگست 1993ء کو جماعت احمد یہ ملائشیا اور جماعت احمد یہ روڈ ر گس آئی لینڈ کے جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہورہے تھے.اسی طرح جماعت احمد یہ کینیڈا کی دوسری مرکزی تعلیم القرآن کلاس شروع ہو رہی تھی.حضور رحمہ اللہ نے لندن میں اس روز اپنے خطبہ جمعہ میں ان تقریبات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: دنیا میں ہونے والے یہ مختلف جلسے اور اجتماعات اللہ تعالی کے فضل سے اب جماعت احمدیہ کی عالمی دلچسپیوں کا ایک ایسا مرکزی نقطہ بنتے چلے جارہے ہیں جو خلیفہ وقت کی ذات میں منعکس ہو کر مرکز بن جاتا ہے اور پھر اس کا انتشار ہوتا ہے.اس لئے اگر چہ یہ پھیلے ہوئے اجتماعات ہیں لیکن ان کو میں نے مرکزی نقطہ قرار دیا کیونکہ اس سے پہلے یہ ممکن نہیں تھا کہ میں دنیا میں ہونے والے اجتماعات میں ہر جگہ براہ راست شمولیت کر سکوں اور وہ براہ راست ساری دنیا کی عالمگیر جماعت کے دل میں اتر رہے ہوں لیکن اب خدا کے فضل سے ممکن ہو گیا ہے اور دن بدن یہ سلسلے پھیلتے چلے جائیں گے اور یہ بھی توحید ہی کا ایک کرشمہ ہے.درحقیقت یہ توحید کا وہی مضمون ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.وہ جماعت جو خالصہ اللہ ہو، جو خدائے واحد دیگانہ پر کامل ایمان رکھتی ہو، ہر دوسری چیز اس کی نظر میں خدا کی وحدت کے مقابلہ میں بیچ ہو اور بے حقیقت ہو، اس پر خدا کا فضل اس طرح نازل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اس جماعت کو بھی ایک وحدت میں تبدیل فرما دیتی ہے.اور اللہ ہی کا تعلق ہے جو ایک عالمگیر وحدت کی شکل میں رونما ہوتا ہے.ورنہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اس طرح اپنے قریب پائیں حالانکہ ہمارے درمیان ظاہری فاصلے بھی بے شمار ہیں اور بعض دوسرے فاصلے بھی بے شمار ہیں.ظاہری فاصلوں سے یہ مراد ہے کہ آج انگلستان میں جو خطبہ دیا جا رہا ہے.روڈرگس آئی لینڈ جو انتہائی جنوبی علاقہ میں واقع ہے اس کا اور ملائشیا کا آپس میں کتنا فاصلہ ہے اور ہمارے ساتھ پھر کتنا فاصلہ ہے.
685 اس طرح کینیڈا شمال اور مغرب کی انتہا میں واقع ہے.تو یہ سارے ممالک اور ان کی دلچسپیاں جو جماعت کے گرد گھوم رہی ہیں وہ ایک مرکز کی شکل میں خلیفہ وقت کی ذات میں اکٹھی ہوتی ہیں اور پھر ساری دنیا کے دلوں میں دھڑکتی ہیں.اسی لئے میں نے دل کا لفظ استعمال کیا تھا کہ یہ ساری تقریبات جماعت کے دلوں میں داخل ہوتی ہیں.پس اللہ تعالی کا بے شمار احسان ہے، اتنے فضل ہیں کہ اگر ان کا تصور کریں تو انسان خدا تعالی کے شکر سے اپنے آپ کو کلیہ عاجز محسوس کرتا ہے لیکن شکر جتنا بڑھے گا اتنے ہی فضل زیادہ نازل ہوں گے.“ (خطبہ جمعہ فرموده 16اگست 1993.خطبات طاہر جدل 12 صفحہ 591-590) 7 جنوری 1994ء کو جب ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی چوبیس گھنٹے کی نشریات کا آغاز ہوا تو اسی روز پاکستان کی بعض جماعتوں میں ان کے مقامی اجتماعات یا جلسے منعقد ہورہے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”دنیا میں جہاں بھی اجتماعات ہو رہے ہیں چھوٹی یا غریب جماعت ہو، بڑی یا مخلص جماعت ہو، کوئی بھی ہو، دنیا کے کسی خطے سے تعلق رکھتی ہو، اس کے اپنے کچھ رنگ ہیں.سب جماعتوں کی اپنی خوشبوئیں ہیں اور ان کی آوازیں بھی اپنا ایک خاص اخلاص اور پیار کا رنگ رکھتی ہیں.ان کی زبانیں بھی ایک کشش رکھتی ہیں.احمدیت کے گلدستے میں یہ سارے پھول اللہ نے سجا دیتے ہیں اور خدا کرے یہ گلدستہ بڑھتا چلا جائے.ان پھولوں کی خوشبوؤں اور رنگوں کو ہم اس عالمی پروگرام کے ذریعے سب دنیا تک پہنچاتے رہیں.اس سے ایک بین الاقوامی انتوت کی فضا پیدا ہوگی اور مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی، رابطے مضبوط تر ہوتے چلے جائیں گے اور ساری دنیا کی جماعتوں کو احساس ہوگا کہ ہم کیا ہیں.کتنی وسیع عالمگیر جماعت سے ہمارا تعلق ہے.اور ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام یاد آثار ہے گا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.( تذکرہ صفحہ 260) میں اس میں ہمیشہ "میں" کے لفظ پر زور دیتا ہوں.عام طور پر جب پڑھنے والے پڑھتے ہیں تو میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا یا کناروں پر زور دیتے ہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ”میں“ پر زور ہے.کہ دنیا سے کیا ہوتا ہے، میں پہنچاؤں گا.
686 دنیا تو مخالفت پر زور مارے گی اور تیرے ماننے والوں میں بھی اتنی توفیق کہاں ہے کہ وہ خود اپنی طاقت سے اس پیغام کو دنیا تک پہنچا سکیں.میں ہوں جو پہنچاؤں گا.اور آج دنیا میں ہم انٹرنیشنل ٹیلی ویژن کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو پہنچارہے ہیں.یہ اللہ ہے جو پہنچا رہا ہے.اس میں ہماری کوششوں کا اگر دخل ہے تو محض ہم بہا نہ بنائے گئے ہیں ورنہ حقیقت میں یہ سارے بڑے بڑے کاروبار اور بندو بست ہمارے بس کی بات نہیں تھی اور تمہیں ہے.اگر اللہ کا فضل اُٹھ جائے تو سارے پروگرام بے کار اور بے معنی اور بے حقیقت ہو کر رہ جائیں گے.ہمیں ان بارہ گھنٹوں کو خوب صورتی سے مفید چیزوں سے بھرنے کی توفیق ہی نہیں ملے گی کیونکہ بہت بڑا کام ہے.اللہ کا فضل ہی ہے جو ساتھ ساتھ نازل ہوتا رہے، مسلسل ساتھ دے اور اسی کی رحمتوں کے سائے تلے یہ پروگرام آگے بڑھیں.“ ( مخطبہ جمعہ فرمودہ 7 جنوری 1994.خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 5) 15اپریل 1997ء کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے MTA کے توسط سے از راہ شفقت جلسہ سالانہ آئیوری کوسٹ کے اختتامی اجلاس سے براہ راست خطاب فرمایا اور یہ پہلا موقع تھا کہ حضور رحمہ اللہ MTA کے توسط سے آئیوری کوسٹ کے جلسہ سالانہ میں رونق افروز ہوئے.جلسہ گاہ میں موجود تمام حاضرین ٹیلیویژن سکرین پر نظریں جمائے بیٹھے تھے کہ حضور خطاب فرمانے والے ہیں.ٹھیک سوا چار بجے حضور انور ایم ٹی اے کی سکرین پر نعرہ ہائے تکبیر کی گونج میں جلوہ افروز ہوئے.ساری جلسہ گاہ بھی نعرہ ہائے تکبیر اور امیر المومنین زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی.حضور کی جلسہ میں اس طرح تشریف آوری سے ہر احمدی یہی محسوس کر رہا تھا کہ حضور پیچ چی بنفس نفیس آئیوری کوسٹ تشریف لے آتے ہیں اور جلسہ میں شرکت فرما رہے ہیں.ہر احمدی مسرور و شاداں تھا.آئیوری کوسٹ کے افراد جماعت کے لئے یہ غیر معمولی موقع تھا.حضور رحمہ اللہ کا خطاب لگ بھگ چالیس منٹ جاری رہا جس کا فریچ ترجمہ مکرم عبد الغنی جہانگیر صاحب نے کیا.اپنے خطاب میں حضور رحمہ اللہ نے جماعت آئیوری کوسٹ کے جلسہ میں شامل ہونے والے آئمہ اور معززین کا ذکر کیا.نیز اپنے دورہ آئیوری کوسٹ کے دوران سابق صدر مملکت (Felix Houphouët-Boigny) سے ملاقات
687 کا ذکر کیا اور ان کی خداداد صلاحیتوں اور قابلیتوں پر انہیں خراج تحسین پیش کیا.نیز یہ ذکر بھی فرمایا کہ جماعت احمد یہ آئیوری کوسٹ کے اس جلسہ میں امسال 172 جماعتوں کے نمائندگان شامل ہوئے ہیں جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد صرف 20 تھی.حضور رحمہ اللہ نے دورانِ خطاب لندن میں مقیم آئیوری کوسٹ کے دو باشندگان کو مقامی زبانوں میں مختصر خطاب کے لئے کہا چنا نچہ مکرم یوسف صاحب نے یعقوبا میں خطاب کیا اور مکرم محمد و کولی بالی صاحب نے مجولا میں خطاب کیا.دونوں تقاریر کے بعد سٹوڈیو میں موجود احمدی احباب نے پُر جوش نعرے لگائے اور ایم ٹی اے کی وساطت سے آئیوری کوسٹ کے باشندے بھی ان نعروں کا جواب دیتے رہے.آخر پر حضور رحمہ اللہ نے اجتماعی دعا کروائی جس میں دنیا بھر کے ناظرین شامل ہوئے.الغرض اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے احمدیوں کی جلسہ کی محرومیوں کا اس شان سے ازالہ فرمایا کہ دل خدا کی حمد سے سرشار ہو جاتا ہے.جوں جوں نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ مستحکم سے مستحکم تر ہوتا چلا جاتا ہے اور ان کے جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہوتے ہیں ایم ٹی اے انٹر نیشنل کے توسط سے ان کے پروگرام اور جلسوں کے دلکش نظارے دنیا بھر کے احمدیوں تک پہنچتے ہیں.پاکستان میں جماعت کے معاندین نے وہاں کے احمدیوں کو جلسہ سے محروم کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا تھا.مگر خدائے ذوالجلال والاکرام نے اس صدائے فقیرانہ حق آشنا کو اس طرح شش جہت میں پھیلایا کہ جلسوں کی ایک بہار عطا فرما دی اور خلافت احمدیہ کی رہنمائی میں ان جلسوں کا فیض ہر دم بڑھتا چلا جاتا ہے جو مومنین خلافت کے ایمان کو تازگی بخشتا ہے اور معاندین کے سینوں میں حسد کی آگ کو مشتعل کرنے کا باعث ہے.
689 مبارک للهی سفر آنحضرت ﷺ کی احادیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب کوئی مومن اپنے کسی بھائی کی زیارت اور ملاقات کے لیے محض اللہ گھر سے نکلتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی معیت نصیب ہوتی ہے جو اسے بشارت دیتے ہیں کہ تیرا یہ سفر بہت مبارک ہے.(صحيح مسلم كتاب البر والصلة والآداب (الأدب) باب في فضل الحب في الله - حدیث نمبر 2567 مشكوة المصابيح كتاب الآداب) جب ایک عام مومن کے لیے یہ بشارت ہے تو امیر المومنین کے وہ اسفار جو وہ خالصہ اللہ جماعت مومنین کو شرف ملاقات وزیارت بخشنے اور اپنے بابرکت وجود کی ان کے درمیان بنفس نفیس موجودگی کا فیض عطا کرنے اور خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور اس کی سربلندی و تمکنت کے لیے اختیار فرماتے ہیں وہ سفر تو یقینا عند اللہ غیر معمولی عظمت اور شان کے حامل اور بیحد مبارک ہوں گے.اسی طرح وہ تمام مومنین مردوزن بھی جو اپنے محبوب روحانی امام کی ملاقات وزیارت کا شرف حاصل کرنے، آپ کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے، آپ کی مستجاب دعاؤں سے آپ کی مقدس صحبت میں بیٹھ کر حصہ پانے اور براہ راست آپ کے خطبات و خطابات اور مکالمات سے فیضیاب ہونے کی غرض سے ان مرا کز تک پہنچنے کے لیے جہاں امیر المومنین ورود فرما ہوں جو سفر اختیار کرتے ہیں یقینا خدا کے فرشتے حسب ارشادات نبی اکرم یہ ان سب کو بھی خدا کے فضل سے ان کے سفروں کے مبارک ہونے کی بشارتیں دیں گے اور وہ وہاں سے برکتیں سمیٹ کر لوٹیں گے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لقاء کے مرتبہ پر فائز اللہ تعالیٰ کے خاص مقربین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کتا کا مرتبہ میسر آتا ہے تو اس مرتبہ کے تموج کے اوقات میں انہی کام ضرور اس سے صادر ہوتے ہیں اور ایسے شخص کی گہری صحبت میں جو شخص ایک حصہ عمر کا بسر کرے تو ضرور کچھ نہ کچھ یہ اقتداری خوارق مشاہدہ کرے گا کیونکہ اس تموج کی حالت میں کچھ انہی صفات کارنگ
690 ظنی طور پر انسان میں آجاتا ہے یہاں تک کہ اس کا رحم خدا تعالیٰ کا رحم اور اس کا غضب خدا تعالیٰ کا غضب ہو جاتا ہے اور بسا اوقات وہ بغیر کسی دعا کے کہتا ہے کہ فلاں چیز پیدا ہو جائے تو وہ پیدا ہو جاتی ہے اور کسی پر غضب کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس پر کوئی وبال نازل ہو جاتا ہے اور کسی کو رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک مورد رحم ہو جاتا ہے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ کا کن دائمی طور پر نتیجہ مقصودہ کو بلا تخلف پیدا کرتا ہے ایسا ہی اس کا گن بھی اس تموج اور تذکی حالت میں خطا نہیں جاتا.ان اقتداری خوارق کی اصل وجہ یہی ہوتی ہے کہ یہ شخص شدت اتصال کی وجہ سے خدائے عزوجل کے رنگ سے ظلمی طور پر رنگین ہو جاتا ہے اور تجلیات الہیہ اس پر دائی قبضہ کر لیتے ہیں اور محبوب حقیقی مجب حائلہ کو درمیان سے اٹھا کر نہایت شدید قرب کی وجہ سے ہم آغوش ہو جاتا ہے اور جیسا کہ وہ خود مبارک ہے ایسا ہی اس کے اقوال و افعال و حرکات اور سکنات اور خوراک اور پوشاک اور مکان اور زمان اور اس کے جمیع لوازم میں برکت رکھ دیتا ہے.تب ہر یک چیز جو اس سے مس کرتی ہے بغیر اس کے جو یہ دعا کرے برکت پاتی ہے.اس کے مکان میں برکت ہوتی ہے.اس کے دروازوں کے آستانے برکت سے بھرے ہوتے ہیں.اس کے گھر کے دروازوں پر برکت برستی ہے جو ہر دم اس کو مشاہدہ ہوتی ہے اور اس کی خوشبو اس کو آتی ہے.جب یہ سفر کرے تو خدا تعالی معہ اپنی تمام برکتوں کے اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب یہ گھر میں آوے تو ایک دریا نور کا ساتھ لاتا ہے.غرض یہ عجیب انسان ہوتا ہے جس کی گنه بجز خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 68-69) جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کے تمام سفر ہی سفر تھے.ان کی غرض افراد جماعت سے ملاقات، ان کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ اور اشاعت اسلام و تمکنت دین ہی تھی.اور احادیث نبوی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا فرمودات اپنی تمام تر عظمتوں کے ساتھ ان لقمی سفروں پر منطبق ہوئے اور ایک عالم نے دیکھا اور یہ ایک جاری سلسلہ ہے) کہ خلفاء مسیح موعود علیہ السلام کے سفر نہایت ہی مبارک اور خدا تعالی کے بے انتہا فضلوں اور رحمتوں اور اس کی تائید و نصرت کے نشانوں سے معمور ہیں.
691 حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے پاکستان سے ہجرت سے قبل ملک کے اندر بھی بعض سفر اختیار فرمائے اور بیرون پاکستان بھی.اسی طرح انگلستان ہجرت کے بعد برطانیہ کے اندر بھی مختلف سفر کئے اور یورپ، امریکہ، کینیڈا، افریقہ، آسٹریلیا، ایشیا اور فار ایسٹ کے مختلف ممالک کے بھی سفر اختیار فرمائے.ان سفروں میں مجموعی طور پر ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد نے آپ سے ذاتی یا اجتماعی ملاقاتوں کا شرف حاصل کیا اور آپ کے پُر تاثیر خطبات و خطابات اور پر حکمت نصائح اور محبت بھری دعاؤں سے فیضیاب ہوئے اور خلیفہ وقت کی زیارت و ملاقات کی برکات کے روشن نشانات کو اپنی ذات میں اور اپنے ماحول میں جلوہ گر دیکھا اور یوں ان کے ایمانوں کو ایک نئی جلائی اور ان کی زندگیوں میں پاک روحانی تبدیلیاں ظاہر ہوئیں.ان مبارک لہی سفروں کے دوران جماعتوں کی تعلیم و تربیت، ترقی و استحکام، تبلیغ اور دعوت الی اللہ کے کاموں میں تیزی اور وسعت پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی تجاویز سمجھائیں اور آپ نے ان پر عملدرآمد کے لیے باہمی مشوروں اور غور و فکر کے بعد ٹھوس منصوبے اور لائحہ عمل جماعت کے سامنے رکھے.ان مبارک سفروں کے دوران اور ان کے بعد آپ نے اپنے خطبات و خطابات میں ایسے متعدد امور کا ذکر فرمایا.ان سفروں میں افراد جماعت کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں اور مجالس عرفان اور جماعت کی ملکی مجالس شوری کے انعقاد، مختلف شعبہ جات کی کار کردگی اور جماعت کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے جائزہ کے ساتھ انتظامی امور کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کے علاوہ غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کے ساتھ تبلیغی مجالس سوال و جواب، ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات و میڈیا کے نمائندوں کو انٹرویوز، پریس کانفرنسز، کئی ممالک میں یونیورسٹیز، اہم اداروں اور تنظیموں کی دعوت پر اسلام احمدیت کے اصل پیغام پر مشتمل نہایت فاضلانہ خطابات، نئی مساجد ومشن ہاؤسز اور تعلیمی وظبی اور رفاہی اداروں کے قیام یا ان میں توسیع کے لیے سنگ بنیاد کی تقریبات یا ان کے افتتاح ، جماعتوں کے جلسہ ہائے سالانہ کے علاوہ مختلف ممالک کے دورہ جات کے دوران استقبالیہ تقریبات میں شمولیت وغیرہ کے متعدد پروگرام ہوئے.
692 ان مواقع پر زیر تبلیغ افراد کے علاوہ مقامی اور علاقائی اور ملکی اور عالمی شہرت رکھنے والے سیاستدان، مذہبی وسیاسی و سماجی لیڈرز، حکومتوں کے وزراء، مختلف علوم کے ماہرین، صحافی، پروفیسرز، ریسرچ سکالرز، دانشور اور سوسائٹی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے متعدد ذی اثر افراد شامل ہوئے جن تک آپ نے براہ راست اسلام احمدیت کا عالمی پیغام امن و انصاف پہنچایا.ان سفروں کے دوران کئی افراد نے قبول حق کی سعادت بھی حاصل کی اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئے.اسی طرح اجتماعی بیعتوں کی تقریبات بھی ہوئیں جن میں لاکھوں افراد کو براہ راست آپ کے ہاتھ پر تجدید بیعت نصیب ہوئی.ذیل میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے دورہ جات میں سے بعض کا نہایت مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے: منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جولائی تا اکتوبر 1982ء پہلا سفر یورپ اختیار فرمایا جس میں آپ ناروے، سویڈن، ڈنمارک، جرمنی، آسٹریا، سوئٹرزلینڈ، فرانس، لکسمبرگ، ہالینڈ ، سپین اور برطانیہ تشریف لے گئے.اس سفر کے دوران سوئٹزر لینڈ میں دانشوروں کے ایک اجتماع سے انسانیت کا مستقبل کے موضوع پر خطاب بھی فرمایا.10 ستمبر 1982ء کو سپین میں کم و بیش سات سو سال بعد تعمیر ہونے والی پہلی مسجد مسجد بشارت پیدرو آباد) کا افتتاح فرمایا.اس مسجد کی افتتاحی تقریب میں 40 ممالک کے دو ہزار سے زائد افراد جماعت نے شرکت کی.کا اس طرح اس سطر کے دوران ہی آپ نے 5 اکتوبر کو لنگھم (برطایہ ) اور 7 اکتوبر کو رانیان (برطانیہ) کے مشنز کا باقاعدہ افتتاح فرمایا.8 ستمبر تا13 اکتوبر 1983, حضرت خلیفة اتبع الرابع رحمہ اللہ نے سنگا پور، ٹھی، آسٹریلیا اور مرا خلیفہ المسیح سری لنکا کا دورہ فرمایا.مشرق کی طرف سفر کرنے والے آپ پہلے خلیفہ اسیج تھے.سنگا پور میں
693 انڈونیشیا، ملائشیا اور سبا کی جماعتوں سے آئے ہوئے افراد سے ملاقاتیں ہوئیں.فجی میں آپ نے Date line کا دورہ فرمایا.19 ستمبر 1983ء کو قائم مقام وزیر اعظم نجی سے ملاقات ہوئی.اسی روز نجی براڈ کاسٹنگ سٹیشن نے آپ کا انٹرویو نشر کیا.23 ستمبر 1983ء کو فجی میں صودا کی یونیورسٹی آف ساؤتھ پیسیفک میں احمدیت اور مذاہب کے احیاء کی فلاسفی کے موضوع پر آپ نے ایک خطاب فرمایا جوRevivel of Religions کے عنوان سے شائع شدہ ہے.24 ستمبر کو حضور نے جماعت فجی کی مجلس شوری کی صدارت فرمائی.25 رستمبر کو Lautoka میں حضور نے مسجد رضوان کا سنگ بنیا درکھا.30 ستمبر کو آسٹریلیا میں جماعت کی پہلی مسجد مسجد بیت الہدی کا سنگ بنیا درکھا.15اکتوبر کو کینبرا یونیورسٹی آسٹریلیا میں Some Distinctive Features of Islam اسلام کی بعض امتیازی خصوصیات) کے موضوع پر خطاب فرمایا.11 اکتوبر کو آپ نے سری لنکا میں بدھوں کے مرکز KANDY کا وزٹ کیا......1984ء میں جنرل ضیاء کے احمدیوں کے خلاف ظالمانہ آرڈینٹس کے اجراء کے بعد آپ 29 اپریل کو ربوہ سے کاروں کے ایک قافلہ میں کراچی کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں سے KLM کی فلائٹ کے ذریعہ 30 اپریل 1984ء کو پہلے ایمسٹر ڈیم اور پھر وہاں سے لندن ورود فرما ہوئے.یہ سفر ہجرت خدا تعالیٰ کے خاص نشانوں اور غیر معمولی الہی نصرت و تائید کا آئینہ دار تھا.اللہ تعالٰی نے دشمن احمدیت کو اس کے تمام تر منصوبوں اور سازشوں میں کلیتہ ناکام و نامراد فرمایا اور آپ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں بخیر و عافیت لندن پہنچے.اس سفر ہجرت کے بعد جماعت احمد یہ مسلمہ ایک نئے اور غیر معمولی عالمی ترقیات کے دور میں داخل ہوئی.
694 ہجرت کے بعد آپ نے یورپ کے مختلف ممالک کے متعد دسفر اختیار فرمائے.بالخصوص جرمنی کو یہ سعادت ملی کہ آپ قریباً ہر سال ان کے اجتماعات اور سالانہ جلسوں میں شرکت کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور اپنے خطابات سے نوازتے تھے.آپ نے 21 سالہ دور خلافت کے دوران جرمنی کے 31 / دورہ جات فرمائے.ہزاروں افراد نے آپ سے انفرادی یا اجتماعی ملاقاتیں کیں اور براور است خلافت کی برکات سے حصہ پایا.افراد جماعت کے ساتھ اور غیروں کے ساتھ متعدد مجالس عرفان، مجالس سوال و جواب منعقد کیں.جرمن ، البانین، بوسنین، ترک، عرب اور میسیڈونین اقوام کے افراد کے ساتھ خصوصی نشستیں منعقد ہوئیں.ایک اندازہ کے مطابق جرمنی میں 150 سے زائد ایسے تبلیغی پروگرام حضور رحمہ اللہ کے ساتھ منعقد ہوئے.علاوہ ازیں ریڈیو، ٹی وی انٹرویوز، پریس کانفرنسز، دانشوروں، ججز، وکلاء، پروفیسرز، سرکاری عہدیداران، مختلف ممالک کے سفراء، قونصل جنرل اور مذہبی رہنماؤں سے مختلف مواقع پر منتہ ملاقاتیں کیں.متعدد آپ کی نگرانی و تربیت کے نتیجہ میں جماعت احمد یہ جرمنی بڑی تیزی سے اپنے اخلاص، فدائیت اور قربانی میں ترقی کرتے ہوئے ایک مضبوط، فقال اور مستحکم جماعت بنی اور اس نے یورپ کے کئی دوسرے ممالک میں جماعت کے نفوذ اور اس کے قیام و استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا.اسی طرح بلیجیم ، ہالینڈ اور فرانس بھی حضور رحمہ اللہ کئی بار تشریف لے گئے.ماہ ستمبر اکتوبر 1985ء میں حضور رحمہ اللہ نے یورپ کے بعض ممالک کا سفر اختیار فرمایا.قریباً ایک ماہ چار دن کے اس سفر میں حضور رحمہ اللہ نے پانچ نئے مراکز کا افتتاح فرمایا.سب سے ہالینڈ میں کن سپیسٹ کے مقام پر جماعت احمدیہ ہالینڈ کے دوسرے مرکز ” بیت النور“ کا اور اس کے بعد بھیجیم میں جماعت کے پہلے مشن ہاؤس 'بیت الاسلام کا افتتاح فرمایا.اس سے قبل بیلجیم میں جماعت کے پاس اپنی باقاعدہ کوئی عمارت نہیں تھی بلکہ مبلغ کا قیام کرایہ کی ایک عمارت میں تھا.اللہ تعالیٰ نے
695 برسلز میں بہت ہی کشادہ اور وسیع عمارت جماعت کو عطا فرمائی.حضور رحمہ اللہ نے ہمبرگ میں اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 1985ء میں اس کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: ہ جتنی جگہیں اللہ تعالی عطا فرما رہا ہے پرانے سب مرا کز سے اپنی گنجائش میں اور رقبے میں زیادہ ہیں.“ اس کے بعد اسی سفر کے دوران ہی حضور رحمہ اللہ نے دوسرے بڑے یورپین مرکز ناصر باغ (جرمنی) کا بھی افتتاح فرمایا.قریبا ساڑھے چھ ایکڑ رقبہ پر مشتمل یہ قطعہ زمین بھی فرینکفرٹ کی پہلی مسجد کے مقابل پر بہت وسیع ہے.ایک عرصہ تک یہاں جماعت کے جلسہ ہائے سالانہ ہوتے رہے.پھر یہ جگہ بھی چھوٹی ہو گئی.حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رستمبر 1985ء میں اس کی بعض تفصیلات کا بہت ایمان افروز تذکرہ فرمایا.اس سفر کے دوران ہی حضور رحمہ اللہ نے فرانس میں جماعت کے پہلے مشن ہاؤس کا افتتاح فرمایا.حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء میں اس مشن کے افتتاح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:...جماعت فرانس کو ایک مرکز مل گیا ہے اور امید ہے کہ انشاء اللہ تعالی اب وہاں احمدیت کا نور دن بدن زیادہ شان کے ساتھ زیادہ وسعت کے ساتھ اور جہاں تک دلوں کا تعلق ہے زیادہ گہرائی کے ساتھ ہر طرف منتشر ہونے لگے گا.یہ تو ایک مکان لیا گیا ہے بڑا اچھا اور وسیع مکان ہے.بہت کشادہ کمرے ہیں اور کچھ عرصہ تک جماعت کی آئندہ ضروریات کے لئے انشاء اللہ تعالٰی بہت حد تک کفیل رہے گا لیکن اب خیال یہ ہے کہ...ایک وسیع خطہ زمین لے کر وہاں نہایت خوبصورت اور عظیم الشان مسجد بنائی جائے ہم تو انشاء اللہ تعالی اہل فرانس کو بہر حال فتح کریں گے اور ان کے دل جیتیں گے.کیونکہ فرانس کو ایک عالمی حیثیت حاصل ہے.اس کے اثرات دنیا میں اور بھی بہت سے ملکوں اور قوموں پر پڑتے ہیں.اگر فرانس میں احمدیت کا مشن مضبوط ہو جائے تو کثرت کے ساتھ دنیا میں فرانسیسی
696 بولنے والے علاقے ہیں جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے نفوذ کی راہیں نکل آئیں گی.( خطبه جمعه فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء.خطبات طاہر جلد 4 صفحہ 832-834) حضور رحمہ اللہ کی یہ خواہش بڑی عظمت اور شان کے ساتھ پوری ہوئی.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے فرانس میں اس جگہ خوبصورت مسجد اور مشن ہاؤس موجود ہے جو اشاعت اسلام و احمدیت میں اپنا نمایاں کردار ادا کر رہا ہے.13 تا 31 دسمبر 1985ء کو حضور نے ہالینڈ، مغربی جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور فرانس کا دورہ فرمایا.اس دورہ کے دوران احباب جماعت سے ملاقات اور تبلیغ اسلام کے مختلف پروگرام ہوئے.موجودہ مساجد اور مشن ہاؤسز میں توسیع اور نئے مراکز کے لیے زمین کے حصول کے سلسلہ میں جائزے لیے گئے.اس سفر کے دوران 16 مجالس سوال وجواب منعقد ہوئیں.18 ستمبر تا 16 اکتوبر 1986ء کو حضور نے کینیڈا کا دورہ فرمایا.19 ستمبر کو CBC پر حضور کا ایک لائیو (Live) انٹرویو نشر ہوا.20 ستمبر کوٹورانٹو کینیڈا میں پہلی احمد یہ مسجد بیت الاسلام کا سنگ بنیادرکھا.20 ستمبر کی شام کو حضور نے جماعت احمد یہ کینیڈا کی شوری کے ایک خصوصی اجلاس کی صدارت فرمائی جس میں جماعتہائے احمدیہ کینیڈا اور امریکہ کے نمائندگان نے شرکت کی.اس دورہ کے دوران کار مجالس عرفان اور دو مجالس سوال و جواب ہوئیں جن میں غیر از جماعت افراد بھی شامل ہوئے.27 رستمبر کو مانٹریال میں ایک استقبالیہ تقریب ہوئی جس میں کم و بیش دوصد افراد شامل ہوئے.حضور نے ڈیڑھ گھنٹہ سے زائد وقت حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے.28 ستمبر کو سیسکاٹون میں دیگر پروگراموں کے علاوہ ایک اخبار اور ایک ٹی وی کے نمائندہ نے انٹرویو لیا.29 ستمبر کو ایک ریڈیو CJCA پر لائیو انٹرویو نشر ہوا.پریس کانفرنس ہوئی جس میں کینیڈا کے مقامی ریڈ انڈین لیڈر بھی شامل ہوئے.اسی شام ایڈمنٹن میں استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی.ٹیلیویژن (CTV) کے ایک لائیو ٹاک شو میں ایک گھنٹہ تک سوال و جواب ہوئے.ایڈمنٹن اور کیلگری کی
697 استقبالیہ تقریبات میں کثیر تعداد میں سیاسی، سماجی اور حکومتی لیڈرز، ممبران پارلیمنٹ، صوبائی وزراء، پروفیسرز، تاجر حضرات اور دیگر افراد نے شرکت کی.ایڈمنٹن میں اس موقع پر سوال وجواب کی بڑی دلچسپ مجلس بھی ہوئی.یکم اکتوبر کو کیلگری میں استقبالیہ تقریب میں خطاب فرمایا.بعد ازاں حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے.4 /اکتوبر کو وینکوور میں استقبالیہ میں شرکت فرمائی.استقبالیہ کے اختتام پر پریس کانفرنس سے بھی خطاب فرمایا.5 اکتوبر کو اخبار وینکوور Sun کی نمائندہ نے انٹرویو لیا.اسی طرح ٹی وی پر ایک لائیو انٹرویو ہوا.اس دورہ کے دوران بیعتیں بھی ہوئیں.اس دورہ کے دوران قریباً ساڑھے تین ملین افراد تک اخبارات کے ذریعہ دولاکھ افراد تک ریڈیو کے ذریعہ اور چھ لاکھ افراد تک ٹی وی کے ذریعہ اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا.حضور رحمہ اللہ نے دورہ کینیڈا سے واپسی پرلندن میں خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اکتوبر 1986ء میں اس دورہ کے بارہ میں بعض تفصیلات اور اپنے تاثرات کا ذکر فرمایا.حضور رحمہ اللہ نے جون 1987ء میں سوئٹزرلینڈ کا دورہ فرمایا.3 جون کو شام سات بجے Nova Park ہوٹل میں ایک استقبالیہ تقریب ہوئی جس میں پروفیسرز، ڈاکٹرز، ڈپلومیٹ، صحافی، وکلاء وغیرہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوئے.خطاب کے بعد مجلس سوال و جواب بھی ہوئی.اس دورہ کا ایک اہم پروگرام زیورک یونیورسٹی میں حضور کا خطاب تھا.اس خطاب کا اہتمام علم الملل (Ethnology) کے پروفیسر ڈاکٹر کارل بینکنگ نے کیا تھا.14 جون 1987 ء بروز جمعرات رات آٹھ بج کر پندہ منٹ پر Revelation, Ratinonality, Knowledge and Truth کے موضوع پر لیکچر دیا گیا.لیکچر یونیورسٹی کے Oule آڈیٹوریم میں ہوا.یہ وہی آڈیٹوریم تھا جہاں سر ونسٹن چرچل نے 9 ستمبر 1946ء کو Let Europe Arise کے موضوع پر تاریخی
698 خطاب کیا تھا.حضور کے اس لیکچر میں پروفیسرز اور طلباء کی طرف سے بہت دلچسپی کا اظہار ہوا.آڈیٹوریم کی تمام نشستیں پر ہوگئیں.یہاں تک کہ ایک دوسرے ہال میں ٹی وی سکرین اور لاؤ ڈسپیکر کے اضافی انتظامات کرنے پڑے.حضور کے ابتدائی تعارفی کلمات کے بعد جو آپ نے انگریزی میں فرمائے مکرم شیخ ناصر احمد صاحب نے جرمن زبان میں حضور کے تحریر فرمودہ مضمون کا ترجمہ پڑھ کرسنایا.اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جو اڑھائی گھنٹے تک جاری رہا.یہ لیکچر حضور کی اس معرکہ آراء کتاب کی بنیاد بنا جو بعد ازاں مذکورہ بالا عنوان سے انگریزی میں شائع ہوئی.اس کا اردو ترجمہ الہام، عقل، علم اور سچائی کے نام سے اور عربی ترجمہ الوحى العقلانيه المعرفه، والحق“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے.اسی طرح رشین زبان میں بھی اس کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.15 جون کو مجلس عرفان میں احباب جماعت کے علاوہ گزشتہ رات ہونے والے لیکچر میں شامل ہونے والے مہمانوں میں سے کئی شامل ہوئے.اس مجلس میں سٹر سے زائد مہمان تھے.میمجلس دو گھنٹے تک جاری رہی.ایک پریس کانفرنس بھی ہوئی.اخبارات میں حضور کے لیکچر اور دورہ کی وسیع کوریج ہوئی.جن اخبارات میں اس بارہ میں خبریں شامل ہوئیں ان کی کل تعداد اشاعت 22 لاکھ 63 ہزار 277 تھی.1987ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے شمالی امریکہ کا دورہ فرمایا.اگر چہ حضور کا یہ سفر نےشمالی اگرچہ زیادہ تر امریکہ کی مختلف جماعتوں کے دورہ پر مشتمل تھا تا ہم آپ دو مرتبہ کینیڈ ابھی تشریف لے گئے اور مشرقی کینیڈا اور مغربی کینیڈا کی بعض جماعتوں میں جا کر کئی قسم کی تقریبات میں شمولیت فرمائی.قریباً ڈیڑھ ماہ کے اس نہایت مصروف سفر میں مختلف مقامات پر 38 ربیعتیں ہوئیں.نیو یارک، واشنگٹن، ڈ میٹرائٹ، لاس اینجلس، سان فرانسسکو، پورٹ لینڈ، طوسان، ڈیٹن اور شکاگو کے مقامات پر 15 مجالس عرفان ہوئیں.فك ولفيا ، طوسان، لاس اینجلس، ملوا کی، ڈیٹن، نیویارک، واشنگٹن اور پورٹ لینڈ میں
699 9 پریس کانفرنسز ہوئیں.واشنگٹن اور ملوا کی میں اخبارات ، ریڈیو، ٹی وی کے نمائندگان نے انٹرویوز لئے.نیویارک، واشنگٹن، وانگبر و، فلاڈلفیا، ڈیٹن ، شکاگو، زائن، ملوا کی، ڈیٹرائٹ، لاس اینجلس اور پورٹ لینڈ کے مقامات پر استقبالیہ تقریبات منعقد ہوئیں جن میں علاقہ کی اہم سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی.ان مقامات پر خطابات کے علاوہ سوال وجواب کی مجالس بھی ہوئیں.30 ستمبر کو منعقدہ تقریب میں نیو یارک کے گورنر اور میئر نے بھی شرکت کی.اسی روز حضور نے کولمبیا یونیورسٹی نیویارک کے پروفیسرز اور طلباء سے بھی خطاب فرمایا.اللہ تعالی کے فضل سے ان سب تقریبات کے نہایت مثبت اثرات ظاہر ہوئے.بعض مشہور اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی ہوئیں.وائس آف امریکہ کے نمائندہ نے واشنگٹن مشن ہاؤس میں آکر انٹرویو کیا.انٹرویو واشنگٹن کے ٹی وی چینل 56 پر دومرتبہ نشر کیا گیا.روزنامہ جنگ اخبار ( جو پاکستان کے مختلف شہروں اور لنڈن سے شائع ہوتا ہے ) کے نامہ نگار نے بھی ایک تفصیلی انٹرویو لیا جس کا بہت چرچا ہوا.اس دورہ کے دوران حضور رحمہ اللہ نے امریکہ میں چار مساجد کا افتتاح فرمایا.1 - مسجد النصر ولنگبر و ( 7 /اکتوبر) ، 2- فلاڈلفیا کی مسجد ناصر کے افتتاح کے حوالہ سے بھی ایک تقریب میں شمولیت فرمائی (8 اکتوبر) 3 طوسان کی مسجد، 4 پورٹ لینڈ کی مسجد رضوان (30 را کتوبر) ان کے علاوہ واشنگٹن میں 9 اکتوبر 1987ء کو جماعت کے نئے مرکز اور مسجد بیت الرحمان کا سنگ بنیاد رکھا گیا.اسی طرح ڈیٹرائٹ میں 16 را کتوبر کو ایک مسجد کا سنگ بنیا درکھا اور لاس اینجلس میں 24 اکتوبر کو مسجد بیت الحمید و مشن ہاؤس کا سنگ بنیا د رکھا.13 اور 14 نومبر 1987ء کو بیت الظفر نیویارک میں حضور نے جماعت احمد یہ امریکہ کی
700 مجلس شوری کی صدارت فرمائی.1987 ء کے اس دورہ شمالی امریکہ کے دوران حضور رحمہ اللہ نے چند روز کے لیے کینیڈا کی تین جماعتوں ٹورنٹو، کیلگری اور ایڈمنٹن کا بھی دورہ فرمایا.اس دوران ٹورنٹو اور ایڈمنٹن میں تین مجالس عرفان ہوئیں.ٹورنٹو میں CBC ریڈیو کے نمائندہ نے نصف گھنٹے کا انٹرویو لیا جو 4 اکتوبر کو براڈ کاسٹ ہوا.یہ انٹرویو اوپن ہاؤس نامی پروگرام میں نشر ہوا جس کے سننے والوں کی تعداد CBC کے اندازہ کے مطابق ایک لاکھ تھی.ٹورنٹو سٹار جو کہ ٹورنٹو شہر کا معروف مقامی اخبار ہے، اس کے نمائندہ نے اڑھائی گھنٹے کا تفصیلی انٹرویو لیا.اس اخبار کی سرکولیشن سات لاکھ تھی.کیلگری میں وہاں کی سب سے بڑی اخبار کیلگری ہیرالڈ کے نمائندہ نے انٹرو یولیا جو اخبار میں نمایاں طور پر شائع ہوا.اس اخبار کی اشاعت اس وقت تین لاکھ 60 ہزار تھی.ایڈمنٹن میں مقامی اخبار ایڈ منٹن Journal کے نمائندہ نے انٹرویو لیا جو 21 نومبر کے اخبار میں شائع ہوا.اس اخبار کی سرکولیشن ساڑھے تین لاکھ تھی.ایڈمنٹن میں ہی حضور کا ایک ٹی وی انٹرویو بھی ریکارڈ ہوا.اسی طرح کینیڈا کی نیشنل مجلس عاملہ اور کینگری، ایڈ منٹن اور سیسے کاٹون کی جماعتوں کی مجالس عاملہ کے ساتھ میٹنگز میں ان کے کاموں کا جائزہ لے کر ان کی رہنمائی فرمائی.مغربی افریقہ اور مشرقی افریقہ کے مختلف ممالک کا دورہ جنوری و فروری 1988ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے مغربی افریقہ کے 6 ممالک گیمبیا، سیرالیون، لائبیریا، آئیوری کوسٹ، فانا اور نائیجیریا کا دورہ فرمایا.اس دورہ کے دوران آپ کے بصیرت افروز اور پرتاثیر خطبات اور خطابات، مجالس عرفان اور مجالس سوال و جواب وغیرہ پر مشتمل ان 6 ممالک کی 16 زبانوں میں 154 گھنٹوں پر مشتمل 111 آڈیو کیسٹس تیار ہوئیں جبکہ اتنی ہی زبانوں میں 90 گھنٹوں پر مشتمل 30 وڈیوکیسٹس تیار ہوئیں.22 جنوری 1988ء کو حضور نے گیمبیا میں نصرت جہاں سکیم کی تنظیم ٹو کی تحریک کا اعلان فرمایا اور
701 ہر پیشہ اور ہر علم میں مہارت رکھنے والے احمدیوں کو خدمت کے لئے بلایا.گیمبیا کے دورہ کے دوران حضور نے بویام، فرافینی ، انجوارا، ساباہ، سالکینی ، جارج ٹاؤن، بھنے ہنچوں اور مانسا کونکو جماعتوں کا دورہ فرمایا.اسی طرح نصرت احمد یہ ہائی سکول بانجل اور ناصر احمد یہ ہائی سکول بضے تشریف لے گئے.حضور نے یہاں طلباء اور اساتذہ سے خطاب بھی فرمایا.اسی طرح آپ نے احمد یہ اسپتال تالنڈنگ اور فرافینی اور انجوارا اور کا عور کا دورہ فرمایا.ایوان صدر میں صدر مملکت سرد اور اجوا را سے ملاقات کی.ہمسایہ ممالک سینی گال اور گنی بساؤ سے آمدہ وفود سے ملاقات کی.ایک استقبالیہ تقریب میں معززین شہر سے خطاب فرمایا.وزیر زراعت آنریبل عمر جالو حضور سے ملاقات کے لئے مشن ہاؤس آئے.حضور نے انجوارا میں نیشنل عاملہ کی میٹنگ میں خطاب فرمایا اور ہدایات سے نوازا.اس سفر کے دوران کثرت سے احباب جماعت اور غیر از جماعت معززین نے ملاقات کا شرف حاصل کیا.حضور سر ایف ایم سنگھاٹے کی قبر پر دعا کے لئے بھی تشریف لے گئے.حضور نے دو مساجد کا افتتاح فرمایا اور ایک مرکزی مسجد تالنڈنگ، ایک کلینک فرامینی اور ایک مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا.24 جنوری کو حضور سیرالیون تشریف لے گئے.حضور کا قیام سیرالیون میں 31 جنوری تک رہا.Lungi ائر پورٹ سے Hasting ائر پورٹ فری ٹاؤن تک کے لئے صدر مملکت نے اپنا ہیلی کاپٹر مہیا کیا.حضور نے صدر مملکت ڈاکٹر جوزف سعید و مومو سے ملاقات کی.احمد یہ سیکنڈری اسکول کا دورہ فرمایا.نصرت جہاں اسپتال 91 Mile کا معائنہ فرمایا.احمد یہ مشن ہاؤس Bo اور جامعہ احمدیہ کی بلنڈگ کا سنگ بنیاد رکھا.اسی طرح احمد یہ مسلم سیکنڈری سکول BO کا وزٹ فرمایا.وزیر مملکت برائے انصاف آنریبل جے بی داؤدا کی طرف سے ایک دعوت میں شرکت فرمائی جس میں علاقہ کی ممتاز شخصیات شامل ہوئیں.لجنہ اماءاللہ Bo کے سالانہ اجتماع سے خطاب فرمایا.Newton میں موجود جماعت کے زرعی سکول کا معائنہ فرمایا.اسی طرح بروک فیلڈ اور رو کو پر بھی تشریف لے گئے.احمد یہ سیکنڈری سکول Lungi کا معائنہ فرمایا اور سکول کے کمپاؤنڈ میں احمد یہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.مجموعی طور پر حضور نے چھ جماعتوں کا دورہ کیا.دو پریس کانفرنسز ہوئیں اور 15 مختلف استقبالیہ تقریبات میں شرکت فرمائی جن میں مختلف وزرا اور علاقہ کی اہم شخصیات اور علاقائی چیفس اور دیگر معززین نے شرکت کی.اس کے علاوہ کئی ایک مجالس عرفان منعقد ہوئیں.
702 29 جنوری کو حضور نے نماز جمعہ سیرالیون کے شہر B0 میں مسجد ناصر میں پڑھائی اور سیرالیون میں جامعہ احمدیہ قائم کرنے کا اعلان فرمایا.حضور رو کو پُر میں جماعت کے ابتدائی احمدی مکرم سٹی کمارا صاحب کی قبر پر دعا کے لئے بھی تشریف لے گئے.31 جنوری کو حضور نے سیرالیون سے لائبیر یا ورود فرمایا.اسی شام احباب جماعت کے ساتھ مجلس عرفان منعقد ہوئی جو رات دیر تک جاری رہی.یکم فروری کو حضور نے لائبیریا کے صدر مملکت Samuel Kayon Doe سے ایوان صدر میں ملاقات کی.بعد ازاں مشن ہاؤس میں بک شاپ اور لائبریری کا معائنہ فرمایا.ساڑھے چار بجے ہوٹل افریقہ میں پریس کانفرنس میں شرکت فرمائی.اسی شام نائب صدر مملکت Dr.Harry F.Moniba نے حضور انور سے ملاقات کی.نو بجے حضور کے اعزاز میں ایک دعوت استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں صدر مملکت کی نمائندگی میں نائب صدر نے شرکت کی.علاوہ ازیں بہت سے سول اور فوجی افسران اور مسلم تنظیموں کے نمائندے شامل ہوئے.2 فروری کو مجلس عاملہ لائبیریا کے ساتھ میٹنگ ہوئی.بعد دوپہر حضور آئیوری کوسٹ کے لئے روانہ ہوتے.آئیوری کوسٹ میں ریڈیو، ٹی وی اور اخباری نمائندوں کے ساتھ انٹرویوز ہوئے.شام کو مجلس عرفان منعقد ہوئی.4 فروری کو مجلس عاملہ مبلغین اور ڈاکٹرز کے ساتھ مشترکہ میٹنگ ہوئی.4 فروری کو ہی آئیوری کوسٹ کے پہلے صدر مملکت جناب ہونے بوانے سے ان کے محل میں ملاقات فرمائی.اس موقع پر وزیر زراعت اور وزیر منصوبہ بندی و صنعت بھی موجود تھے.5 فروری کو حضور نے آئیوری کوسٹ کے صدر مملکت سے ملاقات کی.بعد ازاں حضور اسی روز غانا میں ورود فرما ہوئے.حضور کا فانا میں قیام 5 فروری 1988ء سے 13 / فروری 1988 ء تک رہا.فانا میں حضور کی رہائش کا انتظام گورنمنٹ غانا کے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں تھا.فانا میں قیام کے دوران حضور ا کرا کے علاوہ حسب ذیل 13 مقامات پر تشریف لے گئے.کماسی.آسو کورے.فومینا.کو کوفو.
703 ٹیچمان.وا.سالٹ پانڈ.پولٹن.سویڈ رو.اسار چر.اکرافو.ابورا اور ٹیما.حضور نے اسوکورے، کو کوفو، ٹیچیمان اور سویڈ رو کے اسپتالوں کے معائنہ فرمانے کے علاوہ کو کوفو، پہچان اور سویڈ رو کے اسپتالوں میں نو تعمیر شدہ بلا کس کا افتتاح فرمایا.اسی طرح Wa میں جماعت کے قائم کردہ نصرت جہاں ٹیچرز ٹریننگ کالج اور کماسی، آسو کورے، پولٹن اور اسار چر کے سکولوں کے تعمیر شدہ بلا کس کا افتتاح فرمایا.ہر تعلیمی ادارے میں حضور نے اساتذہ و طلباء سے خطاب بھی فرمائے جن میں حصول علم کے ساتھ ساتھ نوع انسانی کی خدمت کو اپنا سطح نظر بنانے کی طرف توجہ دلائی.مذکورہ مقامات میں سے کئی جگہوں پر حضور کے اعزاز میں جماعت احمدیہ کی سماجی خدمات کے اعتراف کے طور پرغانا کے پیرا ماؤنٹ چیفس نے خصوصی دربار منعقد کئے.ان تقریبات میں پیراماؤنٹ چیفس اور حکومت کے سرکردہ افراد نے جماعت احمدیہ کی خدمات انسانیت کو خراج تحسین پیش کیا.حضور نے ان درباروں میں اپنے خطابات میں اس بات پر زور دیا کہ اگر چہ سماجی خدمات جماعت احمدیہ کے پروگراموں کا ایک لازمی حصہ ہیں مگر اس جماعت کے قیام کا اصل مقصد اس ملک کے عوام تک اُس روشنی کو پہنچانا ہے جو ہم تک بانی حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پہنچی ہے.7 فروری کو حضور نے شاہ اشائی | Otumfuo Opokuware ( جو غانا کے نیشنل ہاؤس آف چیفس کے پریذیڈنٹ بھی ہیں) ان کے محل میں ملاقات فرمائی.اسی طرح کماسی میں حضور کے اعزاز میں منعقدہ استقبالیہ تقریب میں شرکت فرمائی.11 فروری کو حضور نے نانا کے صدر مملکت J J Rawlings سے گورنمنٹ ہاؤس میں ملاقات کی.اسی روز غانا کی حکمران کونسل کے ایک ممبر Justice Daniel Annan نے حضور کی جائے رہائش پر حضور سے ملاقات کی.اکر ا میں حضور کے اعزاز میں ایک شاندار استقبالیہ دیا گیا جس میں سابق صدر مملکت ، متعد د حکومتی
704 وزراء پیراماؤنٹ چیفس اور غیر ملکی سفراء شامل ہوئے.خانا میں قیام کے دوران بہت سی مجالس عرفان اور کئی ایک مجالس سوال و جواب بھی ہوئیں.حضور نے مبلغین ، ڈاکٹرز، اساتذہ اور مجلس عاملہ غانا کے ساتھ الگ الگ میٹنگز بھی کیں.11 فروری کو حضور نے جماعت احمدیہ غانا کے 61 ویں جلسہ سالانہ سے افتتاحی خطاب فرمایا.12 / فروری کو حضور نے خطبہ جمعہ جلسہ گاہ میں ہی ارشاد فرمایا.13 فروری کو حضور غانا سے نائجیر یا تشریف لے گئے.فانا سے روانگی سے قبل حضور نے مرکزی مشن ہاؤس کی وزیٹر بک پر اپنے قلم سے حسب ذیل دعائیہ کلمات تحریر فرمائے: "May Allah give wisdom, strength and courage to serve His cause and spread the message far and wide as He deems best.May He be pleased with services and may you prosper ever more.Allah bless you and May He always be with you.Amin." 13 فروری کو نائجیر یا آمد پر حضور نے پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.14 فروری کو حضور نے Montan کے مقام پر ایک وسیع مسجد کا سنگ بنیا درکھا.15 فروری کو لیگوس میں حضور کے اعزاز میں منعقدہ استقبالیہ تقریب سے خطاب فرمایا.16 فروری کو حضور کے اعزاز میں کانو (Kano) کے ایک ہوٹل میں منعقدہ استقبالیہ تقریب سے خطاب فرمایا.20 فروری کو حضور نے نائجیریا کی نیشنل مجلس مشاورت کے اجلاس کی صدارت فرمائی.21 فروری کو حضور نے لیگوس میں مسجد طاہر کا سنگ بنیا درکھا.26 اگست تا 28 ستمبر 1988، حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے مشرقی افریقہ کا دور فرمایا.یہ کسی خلیفة المسیح کا کا مشرقی افریقہ کا پہلا دورہ تھا.اس دورہ کے دوران آپ کینیا، یوگنڈا، تنزانیہ اور
705 ماریشس تشریف لے گئے.اس دورہ کے دوران بھی استقبالیہ تقریبات پر حضور کے خطابات، پریس کانفرنسز، نئی مساجد کے افتتاح یا سنگ بنیاد، حکومت کے سربراہان ، صدور، وزراء اعظم اور مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے وزراء وسفراء سے ملاقاتوں کے علاوہ یونیورسٹیز میں لیکچر بھی ہوئے.متعدد مجالس عرفان اور غیر از جماعت افراد کے ساتھ مجالس سوال و جواب بھی ہوئیں.بعض تعلیمی و طبی اداروں کے سنگ بنیاد یا افتتاح ہوئے.نئے شفا خانوں کے قیام کا اعلان فرمایا.کئی افراد بیعت کر کے میں شامل ہوئے.پریس میڈیا کے نمائندگان نے خصوصی انٹرویو لیے.29 اگست 1988ء کو نیروبی ( کینیا) کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا.اس تقریب میں ممبران پارلیمنٹ، ہائی کورٹ کے ججز، ممتاز وکلاء، صنعت کار، ڈاکٹر ز اور دیگر معززین شہر نے شرکت کی.حضور نے اپنے خطاب میں افریقہ کے حالات کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے عاجزی اور انکساری کو اختیار کرنے اور افریقن عوام کی خدمت کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ دنیا کا مستقبل افریقہ میں ہے.حضور نے جماعت کی طرف سے شائع شدہ کیکویو زبان میں ترجمہ قرآن کریم کو بھی اس موقع پر Launch کیا اور اس کا ایک نسخہ آتربل منسٹر نیا گا کو دیا.30 اگست کو کسوموں میں Sunset ہوٹل میں استقبالیہ تقریب میں شرکت فرمائی.اس تقریب میں بھی علاقہ کے معززین بڑی تعداد میں شامل ہوئے.حضور نے حاضرین سے خطاب فرمایا اور ان کے سوالات کے جواب دیئے.31 اگست کو شیانڈا میں جماعت کی ایک نو تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح فرمایا.اس مسجد کو سولر سسٹم کے ذریعہ بجلی مہیا کی گئی تھی.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ غالبا ایسٹ افریقہ میں کسی گاؤں میں تعمیر ہونے والی مساجد میں سے یہ پہلی مسجد ہے جسے سولر سسٹم کے ذریعہ بجلی مہیا کی گئی ہے.افتتاحی تقریب میں خطاب کے دوران حضور نے اس علاقہ میں ایک ہومیو پیتھک ڈسپنسری کے کھولنے کا بھی اعلان فرمایا.
706 یکم ستمبر کو ہلٹن ہوٹل نیروبی میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اسی روز بعد از نماز مغرب و عشاء 9 مردوں اور 4 عورتوں نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی.ان تمام کا تعلق کیکویو قبیلہ سے تھا.2 ستمبر کو لجنہ سے خطاب فرمایا.3 ستمبر کو حضور نے کمپالا ( یوگنڈا) میں احمد یہ بشیر ہائی سکول کے اساتذہ وطلباء سے خطاب فرمایا.حضور نے اس میں فرمایا کہ یوگنڈا کی ترقی میں جو بات حائل ہے وہ اخلاقی انحطاط ہے.اس لئے اخلاقی قدروں کو زندہ کریں.حضور نے سکول کی عمارت میں توسیع ، سائنس لیبارٹری، ویڈیو روم اور لائبریری کے قیام نیز سکول میں ٹیکنیکل تعلیم کی سہولت مہیا کرنے کا اعلان فرمایا.4 ستمبر کو سیاٹا کے مقام پر جماعت کے پرائمری سکول کا معائنہ فرمایا اور اس جگہ مشنری ٹریننگ کالج قائم کرنے کا ارشاد فرمایا.بعد ازاں ممیکو کے مقام پر احباب کے وقار عمل کے ذریعہ تعمیر شدہ خوبصورت مسجد پہنچے جہاں ایک سکول بھی قائم ہے.حضور نے اس سکول کو بہتر بنانے اور اس جگہ ایک ڈسپنسری کے قیام کا بھی اعلان فرمایا.اس کے بعد حضور جنجہ پہنچے.حضور نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ملک وقوم کی خدمت کے میدان میں آگے آنے کی نصیحت فرمائی.اسی شام کو کریسینڈ کرین ہوٹل (Crested Crane Hotel) میں استقبالیہ تقریب ہوئی جس میں ڈسٹرکٹ ایڈ منسٹریٹر اور علاقہ کے دیگر معززین نے شرکت کی.حضور نے اس علاقہ کی تعلیمی وطبی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہر ممکن مدد مہیا کرنے کا اعلان فرمایا.حضور کے خطاب کے بعد سوال و جواب کی مجلس ہوئی جو دیر تک جاری رہی.5 ستمبر کو مسا کا تشریف لے گئے.یہاں بھی مسجد و مشن ہاؤس کا معائنہ فرمایا اور حاضرین سے خطاب فرمایا.حضور نے یوگنڈا کی اقتصادی بدحالی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ آپ لوگوں نے خود اپنے ہاتھوں سے یہ مصیبتیں اٹھائی ہیں.
707 اسی روز چو تیرہ میں تعمیر شدہ احمد یہ اسپتال کا معائنہ فرمایا اور اسے معیاری بنانے کے لئے کئی ہدایات فرمائیں.یہاں مسجد کی تعمیر کے لئے بنیادی اینٹ پر دعا کی.یہاں بھی اس موقع پر بہت سے معززین علاقہ آئے ہوئے تھے.حضور نے اس موقع پر اپنے خطاب میں لوگوں کو نصیحت کی کہ اپنے بھائیوں سے صلح آشتی سے رہیں.ان کے اموال و جان اور عزت کی حفاظت کرنا سیکھیں.خصوصیت سے جھوٹ اور چوری سے اجتناب کریں.6 ستمبر کونیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ یوگنڈا کے اجلاس کی صدارت فرمائی.اسی روز یوگنڈا کے وزیر اعظم سے ملاقات کی.بعد ازاں منسٹر آف انفارمیشن نے ملاقات کی.شام کو استقبالیہ تقریب میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے ممتاز افراد نے شرکت کی.اس موقع پر بھی خطاب میں حضور نے فرمایا کہ جولوگ خدا سے محبت کرتے ہیں ضروری ہے کہ وہ اس کی مخلوق سے بھی محبت کریں.استقبالیہ تقریب کے بعد یوگنڈا ٹیلی ویژن نے حضور کا خصوصی انٹرویو کیسٹ آف دی و یک Guest of the) (Week پروگرام کے لئے کیا.حضور نے اس میں بتایا کہ میں تمام بنی نوع انسان کی ہمدردی اپنے دل میں رکھتا ہوں.حضور نے فرمایا ہم یوگنڈا کی خدمت کا تہیہ کر چکے ہیں.اس بارہ میں تعلیمی ، طبی اور اقتصادی پہلوؤں سے پروگرام تیار کیا جارہا ہے.7 ستمبر کو یوگنڈا سے روانگی سے قبل ایئر پورٹ پر یوگنڈا کے وزیر تعلیم، وزیر صحت اور منسٹر آف سٹیٹ نے حضور سے ملاقات کی.اسی طرح پر یس کے نمائندہ نے حضور سے مختصر انٹرویو لیا.8 ستمبر کو تنزانیہ میں ورود پر ایئر پورٹ پر ایک پریس کانفرنس ہوئی.حضور کی تنزانیہ آمد اور پریس کانفرنس کی خبر بی بی سی اور جرمن ریڈیو کے سواحیلی پروگرام سے بھی نشر ہوئی.9ستمبر 1988ء کو دار السلام ( تنزانیہ) یونیورسٹی میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے تحت Islamic Concept of social life in the origin of Ahmadiyyat کے موضوع پر خطاب فرمایا.حضور رحمہ اللہ کا یہ علمی، عام فہم اور معرکتہ الآراء خطاب قریباً دو گھنٹے جاری رہا.
708 10 ستمبر کو کلمنجارو ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس ہوئی جس میں دورہ افریقہ کی غرض و غایت، افریقہ کے حالات کا تجزیہ اور افریقہ کے حالات کے مشاہدہ پر مبنی اپنے تاثرات بیان فرمائے.حضور نے فرمایا کہ افریقہ میں بھی اخلاقی قدریں بڑی تیزی سے ختم ہورہی ہیں.جب تک اخلاقی قدریں قائم نہ کی جائیں گی اس وقت تک حقیقی امن کے قیام میں کامیابی ممکن نہیں.اسی شام عشائیہ کی تقریب میں تنزانیہ کے منسٹر آف انرجی، مختلف حجز ، وکلاء، ڈاکٹرز، کمشنر آف لیبر اور کئی معززین و سرکردہ افراد نے شرکت کی.حضور نے اس موقع پر خطاب میں فرمایا کہ افریقہ کے لئے جو بات ضروری ہے وہ یہ ہے کہ افریقہ اپنی شناخت کو سمجھنے کی کوشش کرے.آج افریقہ کے ہر ملک میں ایک چھوٹا افریقہ تراشا جارہا ہے اور ملک کے تمام ذرائع ، اس کی اقتصادیات، غیر ملکی امداد اور صنعتی ترقی کے کام یہ سب کچھ اس کے ایک چھوٹے سے طبقہ کے مغربی طرز کا معیار زندگی قائم رکھنے پر خرچ ہورہے ہیں.حضور نے فرمایا کہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے دل میں اپنے لوگوں کی خدمت اور ان کی دلچسپی اور بہبودی کا جذبہ ہونا چاہئے.حضور نے مشورہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بیرونی آئیڈیالوجیز کو کی اور اپنے اندر داخل نہ ہونے دیں اور پورے وثوق اور نیک نیتی کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ اپنے لوگوں کی خدمت میں لگ جائیں اور polarization کو ختم کریں.حضور نے فرمایا کہ اگر تمام افریقن ممالک ایک ہی سمت میں سوچنا شروع کر دیں تو یہ بہت بڑی طاقت ہو سکتی ہے.14 رستمبر 1988ء کو تنزانیہ کے وزیر اعظم سے نہایت خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں ملاقات ہوئی جو قریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی.حضور نے بتایا کہ جماعت احمد یہ ایک مذہبی جماعت ہے جو بنی نوع انسان کی خدمت پر کمربستہ ہے.اس موقع پر جماعت کی طرف سے مختلف زبانوں میں شائع شدہ تراجم قرآن کریم کا تحفہ وزیر اعظم کو دیا گیا.قیام ماریشس کے دوران 18 ستمبر کو New Grove میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور ملٹری کواٹرز میں مسجد طاہر کا افتتاح فرمایا.
709 19 ستمبر 1988ء کو ماریشس کے گورنر اور اسی طرح وزیر اعظم ماریشس سے ملاقات ہوئی.حضور کی طرف سے وزیر اعظم ماریشس کو بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے مختلف زبانوں میں شائع شدہ تراجم قرآن کریم تحفہ دیے گئے.اسی شام ماریشس یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں حضور نے Islam and Evolution کے موضوع پر خطاب فرمایا.اس موقع پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر، وزیر تعلیم اور ملک کے مختلف طبقہ ہائے فکر کے ممتاز افراد موجود تھے........حضور رحمہ اللہ کے ان سفروں نے جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کی تیاری کے سلسلہ میں بہت اہم اور غیر معمولی کردار ادا کیا.جماعتوں میں ہر لحاظ سے بیداری نمایاں پاک تبدیلیوں اور اسلام احمدیت کی تبلیغ کے لیے اموال ونفوس اور اوقات کی قربانیوں کے غیر معمولی نظارے دیکھنے میں آئے اور صد سالہ جوبلی منصوبے کے پروگرام بڑی تیز رفتاری سے اپنی تکمیل کے مراحل طے کرنے لگے.اسی طرح ان سفروں کے دوران ہونے والے انٹرویوز، پریس کانفرنسوں اور دیگر تقریبات کی الیکٹرانک اور پریس میڈیا کے ذریعہ بڑی کثرت سے کوریج ہوئی اور نہ صرف ان ملکوں میں بلکہ اردگرد کے ممالک میں ڈورڈور تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا جبکہ عام حالات میں اتنے وسیع پیمانے پر پیغام اسلام کی اشاعت جماعت کی حد استطاعت سے باہر تھی.لیکن اللہ تعالی نے حضرت خلیفہ اُس کے دوروں کو اس لحاظ سے بھی بہت برکت بخشی اور ریڈیو، ٹی وی، اخبارات وغیرہ کے ذریعہ خود خلیفہ اسیح کی زبان فیض ترجمان سے نہایت مؤثر رنگ میں پیغام حق کی تشہیر ہوئی.ان دورہ جات کے دوران آپ نے خدا داد فراست سے افریقہ کے حالات کا بڑی گہری نظر سے مشاہدہ کرتے ہوئے وہاں کے مسائل و مشکلات کا جائزہ لیا.جہاں آپ نے ان ممالک میں اسلام اور احمدیت کی ترقی و استحکام کے لیے متعدد منصوبے بنائے اور بہت سے عملی اقدامات فرمائے وہاں بالعموم افریقہ کے عوام کی بہبودی کے لیے اللہ تعالی نے کئی سکیمیں آپ کے دل میں ڈالیں.ان ممالک کے دوروں کے
710 دوران وہاں کی حکومتوں کے سربراہوں نے اور عوام نے جماعت احمدیہ کی طرف سے بلا تمیز مذہب وملت وہاں کے عوام کی تعلیمی وطبی میدان میں سالہا سال کی بے لوث خدمات پر غیر معمولی طور پر محبت اور تشکر کا اظہار کیا اور حضور رحمہ اللہ کو کھلے دل اور کھلے بازوؤں سے خوش آمدید کہا.ان سفروں کے دوران حکومتی سربراہوں ، وزراء اعظم و دیگر وزراء اور مختلف امور کے ذمہ دار سیاسی و سماجی مقامی رہنماؤں اور ذی اثر شخصیات سے بھی ملاقاتیں ہوئیں.ان ملاقاتوں میں حضور رحمہ اللہ نے انہیں اپنے ملکوں کے عوام کی بھلائی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو وقف کرنے اور دیانتداری اور انصاف کے ساتھ خدمت کرنے اور اپنے سپر دامانتوں کا حق ادا کرنے کی نصائح فرمائیں.غیر معمولی مصروفیات سے معمور افریقہ کے ان ممالک کے دوروں کے دوران ہزاروں افراد سے انفرادی و اجتماعی ملاقاتوں، شدید گرمی میں لمبے سفروں اور صبح و شام بلکہ رات گئے تک نہایت اہم دینی مصروفیات اور آپ کی محنت و جانفشانی اور دلسوزی اس بے پناہ جوش و جذبہ کی عکاس ہیں جو مخلوق خدا کی ہمدردی اور بھلائی کے لیے آپ کے دل میں موجزن تھیں.اسی طرح جماعت کے زیر انتظام بہبود انسانیت کے بہت سے منصوبوں کو مزید بہتر بنانے اور ان میں ترقی اور وسعت پیدا کرنے کے لیے مختلف امور کا جائزہ لیتے ہوئے موقع پر اہم ہدایات ارشاد فرمائیں اور متعدد نئے منصوبے تشکیل دیے.ان دوروں کے نتیجہ میں بھی پریس و میڈیا میں کوریج کے ذریعے بہت وسیع پیمانے پر اسلام احمدیت کا پیغام نہایت ہی مؤثر انداز میں پہنچا اور اس طرح سے جماعت احمدیہ کی خدمات اسلام اور خدمات انسانیت سے عوام و خواص کو آگاہی ہوئی.افریقہ کے عوام کی بہبود کے لئے اہم مشورے اور نصائح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اہل اللہ کا وجود خلق اللہ کے لیے ایک رحمت ہوتا ہے." برائین احمد سہ روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 355)
711 اسی طرح آپ خدا تعالیٰ کے خاص دوستوں کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: من میں ہمدردی خلق اللہ کا مادہ بہت بڑھایا جاتا ہے اور بغیر توقع کسی اجر اور بغیر خیال کسی ثواب کے انتہائی درجہ کا جوش ان میں خلق اللہ کی بھلائی کے لیے ہوتا ہے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 336 337) ذیل میں حضرت خلیفہ امسح الرابع رحہ اللہ کے فرمودہ بعض خطبات میں سے چند اقتباسات درج کیے جاتے ہیں جو آپ کی ہمدردی بنی نوع انسان اور بالخصوص افریقہ کے عوام کی بہبودی اور اصلاح کے لیے غیر معمولی جذبہ کے عکاس ہیں.اسی طرح ان میں آپ نے افریقہ کو در پیش بعض ایسے خطرات کی نشاندہی بھی فرمائی ہے جن کو نظر انداز کرنے کا انہیں بہت نقصان ہو سکتا ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں آپ نے نہایت اہم نصائح اور مشورے بھی دیتے ہیں.حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1988ء بمقام سابا ( گیمبیا) میں فرمایا: عالمگیر جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ پہلے ہی توفیق عطا فرما رہا ہے کہ اس ملک کی جس حد تک ممکن ہے خدمت کرے.چنانچہ تعلیم کے میدان میں اور صحت کے میدان میں جماعت احمد یہ خدا تعالی کے فضل سے گیمبیا میں ایسی نمایاں خدمات سرانجام دے رہی ہے کہ یہاں کے جتنے بھی بڑے لوگ ہیں، دنیا کی نظر میں بڑے لوگ حکومت کے باشندے ہوں یا دیگر بڑے رتبے رکھتے ہوں، جن سے بھی میری ملاقات ہوتی ہے سب نے اس بات کا خصوصیت سے ذکر کیا اور اس سے وہ بے حد متاثر نظر آتے تھے.پس میں نے یہ فیصلہ کیا ہے، جب میں کہتا ہوں تو مراد میں اکیلا نہیں، میں جماعت کی نمائندگی میں بولتا ہوں.یا یہ کہنا چاہیے کہ دنیا کی عالمگیر جماعت احمدیہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس ملک کے ساتھ اپنے تعاون کو پہلے سے زیادہ بڑھائے اور خدمت کی نئی راہیں تلاش کرے اور جس حد تک ممکن ہے اس ملک کے نیک دل باشندوں کو دنیاوی لحاظ سے بھی فائدے پہنچائے.صرف مذہبی اور روحانی لحاظ سے ہی نہیں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ باقی افریقہ کے ملکوں کے دورے کے وقت بھی ایسے امور سامنے آئیں گے جبکہ دل کی گہرائی سے ان ملکوں کے باشندوں کی خدمت کے لیے بھی ارادے بلند ہوں گے اور دعا کی توفیق ملے گی کہ اللہ تعالیٰ ان کے حال بہتر کرے اور ہمیں توفیق بخشے کہ ہم ان کی خدمت میں پہلے سے زیادہ آگے
712 بڑھ جائیں.افریقہ کے ساتھ تاریخ میں، تاریخی نکتہ نگاہ سے جب دیکھا جائے تو جو سلوک ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ باہر سے بہت سی قومیں آئیں اور ترقی کے نام پر انہوں نے یہاں پر بہت سے کام کیے لیکن خلاصہ یہ تھا کہ انہوں نے افریقہ میں کمایا اور باہر کی دنیا میں یہاں کی کمائی خرچ کی.خدا تعالیٰ نے میرے دل میں بڑے زور سے یہ تحریک پیدا فرمائی ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اس تاریخ کا رخ بدل دیا جائے اور تمام عالمگیر جماعت احمد یہ دنیا میں کمائے اور افریقہ میں خرچ کرے اور دوسروں نے ، غیروں نے جو آپ کو زخم لگائے ہیں احمدیت کو خدا یہ توفیق بخشے کہ ان زخموں کے اند مال کا سامان پیدا فرمائے.غیر آپ کی دوستیں لوٹ چکے وہ تو واپس نہیں کریں گے لیکن حضرت محمد مصطفی کے بچے غلاموں یعنی جماعت احمدیہ کو یہ توفیق عطا فرمائے گا کہ ان کی ٹوٹی ہوئی دولت جماعت احمد یہ آپ کو واپس کر رہی ہوگی.“ آپ نے فرمایا: میں تمام دنیا کی احمدی جماعتوں کو سر دست پہلی ہدایت یہ کرتا ہوں کہ وہ کمر ہمت گس لیں اور افریقہ کی ہر میدان میں پہلے سے بڑھ کر محض اللہ خدمت کرنے کی تیاری شروع کریں.“ آپ نے فرمایا : "دنیا میں جس پر وفیشن سے، جس پیشے سے یا جس علمی مہارت سے تعلق رکھنے والے احمدی موجود ہیں ان سب کو اپنے اپنے حالات کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ افریقہ کی مظلوم انسانیت کی خدمت کے لیے اپنا کتنا وقت پیش کر سکتے ہیں اور کیا ان کی صلاحیتیں ہیں جنہیں وہ افریقہ کے لیے احسن رنگ میں استعمال کر سکتے ہیں.یہ تحریک روپے پیسے والی دولت سے تعلق رکھنے والی تحریک نہیں ہے بلکہ قابلیت کی دولت سے تعلق رکھنے والی تحریک ہے.پس ہر شخص ما رَزَقُهُم يُنفِقُونَ ( البقرة 4) کی آیت کے تابع اپنی اصلی قابلیتوں کو افریقہ کی خدمت میں خدا کی خاطر پیش کرنے کے لیے تیاری کرے اور اپنے کو الف سے مجھے مطلع کرے.....افریقہ کے عوام کی خدمت کے لیے جو پہلے سے تحریکیں جاری تھیں ان کے حوالہ سے آپ نے فرمایا:
713 جو پہلی تحریکیں چل رہی ہیں اس میں بھی ہمیں شدید ضرورت ہے کہ کثرت سے نئے نام آئیں.اساتذہ، ہر معیار اور ہر سطح کے اساتذہ کی ضرورت ہے.ڈاکٹرز کی ہر معیار اور ہر سطح کے ڈاکٹرز کی ضرورت ہے.خدمت کے مطالبے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اس لیے ان سارے امور میں نصرت جہان کو کا میں اعلان کرتا ہوں.ایک نئے جذبے اور ایک نئے ولولے کے ساتھ سابقہ نصرت جہاں کے کام کو مزید آگے بڑھانے کے لیے ایک نیا شعبہ نصرت جہان تو ان سارے امور میں غور کرے گا اور ان سارے امور کو مترتب کرے گا اور انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کو نئے میدانوں میں افریقہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے گا.آپ نے فرمایا: یہ مجیب اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے اور گیمبیا کی یہ خاص سعادت اور خوش نصیبی ہے کہ نصرت جہان اول کی تحریک بھی اسی ملک یعنی آپ کے ملک سے شروع ہوئی تھی اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کو خدا نے یہ توفیق بخشی تھی کہ وہ گیمبیا کی سرزمین سے نصرت جہان کی سکیم کا اعلان کریں.پس اس کے دوسرے حصے کے اعلان کے لیے بھی اللہ تعالی نے آپ کی سرزمین کو یہ اعزاز بخشا ہے.اللہ یہ اعزاز آپ کو مبارک کرے اور اس تحریک کو بھی پہیلی تحریک کی طرح ہمیشہ اپنے فضلوں اور رحمت کے سایہ تلے بڑھاتا رہے.آمین خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 6055) حضور رحمہ اللہ نے آبی جان آئیوری کوسٹ میں اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 5 فروری 1988ء میں فرمايا: اس مختصر تجربہ کے نتیجہ میں جو افریقہ میں مجھے ہوا میں زیادہ سے زیادہ اس بات کا قائل ہوتا جا رہا ہوں کہ افریقہ کو محض روحانی اور مذہبی اور اخلاقی امداد ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جماعت احمدیہ کو بہت سے دیگر شعبوں میں بھی اس مظلوم قوم یعنی افریقن قوم کے لیے ہر طرح کی خدمت کے لیے تیار اور مستعد ہو جانا چاہیے.خصوصیت کے ساتھ افریقہ کو اقتصادی رہنمائی کی ضرورت ہے.جن ممالک کا میں نے دورہ کیا ہے میں نے محسوس کیا ہے کہ باہر کی دنیا جو ان سے اقتصادی روابط رکھتی ہے وہ
714 سارے خود غرضی پر مبنی ہیں.یہ لوگ سادہ دل ہیں اور اعتماد کرنے والے ہیں اس لیے رفتہ رفتہ ان کی اقتصادی باگ ڈور، اقتصادی نظام کلیه بیرونی ہاتھوں کے قبضہ میں جاچکا ہے اور ابھی تک وہ ان مظلوموں اور غریبوں کو لوٹنے سے باز نہیں آرہے یہاں تک کہ دن بدن ان کی اقتصادی بدحالی بڑھتی چلی جارہی ہے.افریقہ کے تمام ممالک کا کم و بیش یہی حال ہے کہ ان تمام ممالک کی اکثریت زیادہ تعلیم نہیں رکھتی اور جو حصہ تعلیم پا جاتا ہے بد قسمتی سے تعلیم کے ساتھ مغربی اثر کے نیچے چلا جاتا ہے اور مغربی تہذیب اس پر ایسا قبضہ کر لیتی ہے کہ اس کی طرز زندگی بدل دیتی ہے.یہاں تک کہ بلا استثناء ہر ملک میں آپ یہ دیکھیں گے کہ مغربی تہذیب کے تابع، مغربی تہذیب کے غلام بنے ہوئے جتنے بھی لوگ ہیں ان سب کی زندگی کا انحصار اپنے ملک کی پیداوار پر نہیں بلکہ غیر ملکی پیداوار پر اس حد تک ہو چکا ہے کہ اب وہ غیر ملکوں سے اپنے تعیش اور اپنے آرام کی چیزیں منگوائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے.....ایک مذہبی جماعت کے رہنما کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس خرابی کا اس قوم کے اخلاق پر بہت برا اثر پڑنے کا خطرہ موجود ہے اور ایک مذہبی رہنما کے طور پر جماعت احمدیہ کو خصوصیت سے ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ان تمام امور میں افریقہ کی ہر طرح سے مدد کے لیے تیار ہو......مغربی تہذیب کا اور مغربی طرز زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ بڑی بڑی شاندار عمارتیں ہوں، بہت ہی قیمتی سامان سے مزین ہوں، نہایت قیمتی صوفہ سیٹ ، نہایت اعلی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تصویریں اور دیگر آرائش کی بعض چیزیں، بہترین کاریں ہوں، نئے سے نئے ماڈل ہوں، ٹیلی وژنز ہوں، ویڈیو کیسٹ ہوں، ریڈیو ہوں اور ان سب چیزوں کے ساتھ ایسے نہایت گندے اور اخلاق سوز پروگرام بھی ہوں کہ جولوگوں کی توجہ مادہ پرستی کی طرف کرتے چلے جائیں اور انہیں ایک قسم کی افیم کا عادی بنا دیں کہ ان تعنیش کی باتوں کے بغیر وہ زندہ نہ رہ سکیں.اسی طرح مغربی تہذیب آپ کے خداؤں کے ذوق میں بھی ایک نمایاں تبدیلی پیدا کر دیتی ہے.آپ کو مقامی غذاؤں کی بجائے ایک طلب پیدا ہو جاتی ہے کہ یورپ اور امریکہ کے بنے ہوئے پنیر کے ڈہے، وہاں کے بنے ہوئے چاکلیٹ، وہاں کی بنی ہوئی آئس کریمیں، وہاں کے بنے ہوئے کوکا کولا، وہاں کے بنے ہوئے بسکٹوں کے ڈبے اور ہر قسم کے دوسرے سلمان یہ
715 روز مرہ آپ کی زندگی کا حصہ بن جائیں اور جب تک آپ یہ چیزیں کھا کر نہ زندہ رہیں اس وقت تک آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ ایک جدید مزاج کے ترقی یافتہ انسان ہیں.غرضیکہ افریقہ کی ساری مارکیٹیں ایسی غذاؤں سے بھری پڑی ہیں جو باہر کے ملکوں میں پیدا ہوتی ہیں اور یہاں آکر فروخت ہو رہی ہیں.جن کو مقامی طور پر کسی جگہ بھی تیار نہیں کیا جا رہا.نہ اس کی استطاعت ہے، نہ اس کی صنعت موجود ہے.یہ چیزیں کھانی اور استعمال کرنی گناہ تو نہیں ہیں.غذائیں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں مختلف طریق پر ان کو تیار کیا گیا ہے مگر اقتصادی خود کشی ضرور ہے ان قوموں کے لیے جو یہ چیزیں خود پیدا نہیں کر سکتیں.چونکہ وہ لوگ جو ان چیزوں کو خود پیدا کرتے ہیں ان کے لیے اس بات کا کوئی خطرہ نہیں کہ ان کی دولت ہاتھوں سے نکل کر غیر ملکوں کی طرف بہنی شروع ہو جائے.اپنے ملک کی دولت اپنے ملک میں رہتی ہے.بلکہ ان چیزوں کو پیدا کرنے کے نتیجہ میں باہر سے بھی دولت کھینچنے کے مواقع میسر آجاتے ہیں.لیکن جو غریب قومیں ان کو پیدا نہیں کرتیں ان کے لیے دوہرا نقصان ہے.مذہبی طور پر حرام نہ ہونے کے باوجود قومی طور پر ان کا بے دھڑک استعمال اور حد سے زیادہ استعمال ان کے لیے ایک اقتصادی خود کشی کے مترادف ہو جاتا ہے.ان کا دوہرا نقصان یہ ہے.نمبر ایک وہ قومیں جو یہ چیزیں تیار کرتی ہیں بہت امیر ہیں اور ان کی روزمرہ کی آمد غریب قوموں کی آمد سے بعض دفعہ سو گنا زیادہ ، کہیں پچاس گنا زیادہ ، کہیں بیس گنا زائد ہے کیونکہ وہ خود یہ چیزیں تیار کرتی ہیں اس لیے اتنی بڑی آمد کے باوجود وہاں بہت سستی ملتی ہیں.غریب ملکوں کا عجیب حال ہے ان کی آمدان سے اتنی کم ہے کہ پچاس آدمی مل کے جو کماتے ہیں وہ ایک آدمی وہاں کما رہا ہوتا ہے اس کے باوجود یہاں ان کی بنی ہوئی چیزیں کئی گنا زیادہ قیمت پر وہ خرید رہے ہوتے ہیں.آپ نے فرمایا: میں ہر گز مغربی قوموں کا دشمن نہیں.میں خدا کے کسی بھی بندہ کا دشمن نہیں بلکہ خدا کے بندوں سے دشمنی کو حرام سمجھتا ہوں.البتہ میں خدا کے مظلوم بندوں سے محبت کرتا ہوں اور خدا کے غریب بندوں سے زیادہ پیار رکھتا ہوں.اس لیے غیر قوموں کی دشمنی میں ہر گز نہیں، بلکہ آپ
716 مظلوم قوموں کی محبت میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں.آپ کو اپنے طرز معیشت میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرنی ہوگی.جماعت احمد یہ ایک امن پسند جماعت ہے اور یقین رکھتی ہے کہ سچائی کو پھیلانے کے لئے امن کی فضا ضروری ہے اس لئے ہر وہ خطرہ جو کسی ملک یا کسی خطہ ارض کے امن کو خطرہ ہو وہ در حقیقت مذہب کی قدروں کے لئے بھی خطرہ بن جاتا ہے اور امن کی فضا کو جو چیز بھی مکذر کرے اور برباد کرے وہ مذہبی اقدار کے لئے بھی شدید نقصان دہ ہوتی ہے.اس لئے مستقبل کے بعض خطرات کو بھانپنے کی وجہ سے میں یہ باتیں کر رہا ہوں اور ان کے نتیجہ میں آپ کی خدمت میں کچھ مشورے رکھنا چاہتا ہوں.اس صورت حال کے نتیجہ میں جو خطرات مجھے دکھائی دے رہے ہیں وہ میں آپ کے سامنے بالکل اختصار کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں.“ آپ نے فرمایا: 3 سب سے پہلے موجودہ رجحان یعنی ایک طبقہ کا دن بدن مغربی اقدار میں رنگین ہوتے کادن اقدارمیں رنگین چلے جانا اور بھی زیادہ خطرات پیدا کرنے کا موجب بنے گا.یہ طرز زندگی بہت مہنگی ہے.غریب ملک اس طرز زندگی کو قبول کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے.ان کو خدا نے ابھی استطاعت نہیں بخشی اور آپ کی غریب حکومتیں اپنے عہدیداروں کو ، حکومت کے کارندوں کو زیادہ تنخواہیں نہیں دے سکتی اس لیے کہ ایک طرف ان کے Taste بلند ہونا شروع ہو جائیں گے.ایک طرف ان کے ذوق اونچے ہو جائیں گے.ان کی طلب بڑھ جائے گی.ٹیلی ویژن دیکھ دیکھ کر نئی نئی چیزیں بھی ان کو نظر آئیں گی کہ یہ بھی ہمارے گھر میں ہونی چاہئیں، یہ بھی ہمارے گھر میں ہونی چاہئیں.دوسری طرف ملک کی غربت ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کر سکے گی.ایسی صور تحال لازما کرپشن پر منتج ہوتی ہے اور ایسی حکومتیں پھر دن بدن زیادہ سے زیادہ کرپٹ اور رشوت ستانی کا شکار ہوتی چلی جاتی ہیں.حکومت کے ملازم ہوں یا سیاسی راہنما جو ان ملازموں کے افسر ہیں جب وہ کرپٹ ہو جاتے ہیں تو وہ صرف اپنے ملک کے باشندوں سے رشوت وصول نہیں کرتے بلکہ غیر قوموں سے رشوت وصول کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.اور پھر غیر قومیں ان کی بددیانتی کے چور دروازوں سے داخل ہو کر آپ پر حکومت کرنے لگتی ہیں.یہ ایک بہت ہی بڑا خطرہ ہے
717 جو بہت سے تو نہیں مگر بعض افریقی ممالک میں نہ صرف خطرہ ہے بلکہ واقعہ لاحق ہو چکا ہے، رونما ہو چکا ہے اور بہت سے افریقی ممالک کے سر پر ایک تلوار کی طرح لٹک رہا ہے.پس ایسی قوموں کے وہ نمائندگان جو غیر اور امیر قوموں سے اقتصادی یا تعلیمی یا معاشرتی یا فوجی معاہدے کرتے ہیں وہ اپنی بددیانتی کی وجہ سے مجبور ہو جاتے ہیں کہ قوم کے مفادات کو بیچیں اور ایسے معاہدے کریں جو ہمیشہ قوم کے مفاد کے خلاف پڑتے ہوں.چنانچہ اس طریقہ سے غیر قوموں کی غلامی کے چنگل میں دن بدن قوم زیادہ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، زیادہ مجبور اور محبوس ہوتی چلی جاتی ہے.یہ وہ خطرہ ہے جو پھر آگے خطروں کو جنم دیتا ہے.ملک کے اندر مظلوم لوگ دن بدن اپنے رہنماؤں سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور ان کی نفرت کے اظہار کے لیے اگر ان کے پاس خود کوئی ذریعہ موجود نہ ہو تو پھر غیر قوموں سے مدد مانگتے ہیں.غیر قوموں کے نظریات سے مدد مانگتے ہیں...دوسری قومیں اپنے اپنے رنگ میں ملکوں میں داخل ہونے کے لیے تیاری کیسے بیٹھی ہوتی ہیں.چنانچہ ہر طرف سے غیر قوموں کو نفوذ کے نئے نئے رستے مہیا ہو جاتے ہیں اور سارے ملک کا امن درہم برہم اور تباہ ہو جاتا ہے.“ آپ نے فرمایا:....اس تفصیل میں گئے بغیر کہ اور کیا کیا خطرات اس سے پیدا ہوتے ہیں اور جو بہت زیادہ ہیں.یعنی جو میں نے بیان کیے ہیں اس سے بہت زیادہ اور بھی ہیں.میں مختصر احتمام افریقہ کی احمدی جماعتوں کو یہ نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ ملک کو پیش آمدہ مستقبل کے خطرات سے بچانے کے لیے اپنے ملک کی محبت میں اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی خاطر وہ کثرت سے لوگوں کو نصیحت کرنی شروع کریں اور ان کے دماغوں کو روشن کرنا شروع کریں اور اپنی سیاسی قیادت سے مل کر ان کو یہ باتیں سمجھائیں اور پیار اور محبت سے تلقین کریں کہ بجائے اس کے کہ عوام الناس کی طرف سے تحریکیں اٹھیں، وہ خود سادگی کی تحریکیں حکومت کے بالا شعبوں سے شروع کریں، حکومت کے بالا خانوں سے شروع کریں اور بار بار عوام کو یقین دلائیں کہ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ قوم کا انحصار غیر قوموں پر دن بدن کم ہوتا چلا جائے اور قوم خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کی اہل ہو جائے.
718 تمام دنیا کے احمدیوں سے میں یہ اپیل کرتا ہوں کہ ان میں جتنے بھی Industrialists ہیں یا صند کاری کے واقف ہیں یا ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں کسی رنگ میں یا اور ایسے علوم پر دسترس رکھتے ہیں جو غریب ملکوں کے اقتصادی حالات کو بہتر بنانے میں مفید ثابت ہو سکتے ہیں وہ اپنے نام مجھے بھجوائیں اور کہیں کہ کیا وہ اپنے خرچ پر افریقہ کے دورے کے لیے اور جائزہ لینے کے لیے آنے پر تیار ہیں.یا صرف اپنا وقت دے سکیں گے.جماعت احمدیہ ان کے خروج مہیا کرے گی.اور وضاحت کریں کہ کس کس علم کے وہ ماہر ہیں.کونسی انڈسٹری کا تجربہ رکھتے ہیں.ان کے بعد جب میں ان کو یہاں بھیجو اؤں گا تو ان کا یہ کام نہیں ہوگا کہ اپنا سرمایہ لگائیں کیونکہ افریقہ پہلے ہی باہر کی سرمایہ کاری سے تنگ آیا بیٹھا ہے اور بہت سے لوگوں نے مدد کے بہانے ان کو لوٹا ہے.میں یہ پسند کروں گا کہ وہ اپنا Know how، اپنی علمی قابلیت قوم کی خدمت میں پیش کریں اور یہ بات پیش کریں کہ ہم آپ کے لیے صنعتیں لگوانے میں مدد دیں گے.صنعتیں آپ کی ہوں گی، فائدے آپ کے ہوں گے، ہم صرف خدمت کر کے اپنے اپنے ملکوں کو واپس چلے جائیں گے.“ خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 8175) آپ نے 12 فروری 1988ء کو خطبہ جمعہ فرمودہ بمقام سالٹ پانڈ (غانا) میں فرمایا: "میں نے افریقہ کے جن ممالک کا دورہ کیا انہیں بہت ہی بد حال پایا اور اس لحاظ سے انتہائی درد محسوس کرتا رہا اور انتہائی کسک محسوس کرتا رہا.ان کے بڑوں سے بھی اور ان کے چھوٹوں سے بھی میں نے گفتگو کی اور میں نے محسوس کیا کہ وہ خود جانتے ہیں کہ آج بھی مہذب اور عظیم الشان قومیں امداد کے بہانے اور قرضوں کے بہانے ان کو جن زمجیروں میں جکڑتی چلی جارہی ہیں ان کی آزادی سے سر دست افریقہ کو کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی.آج افریقہ اپنی سڑکوں کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے، اپنے پلوں کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے، اپنے کپڑوں تک کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے، اپنے جوتوں کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے، اپنی ٹوتھ پیسٹ کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے، اپنی آئس کریم کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے، اپنی کو کا کولا کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے.کونسی زندگی کی وہ ضرورت ہے مجھے بتائیے جس میں
719 آج افریقہ آزاد ہو چکا ہے.اس تہذہبی غلامی کا سب سے بداثر افریقہ کے ان تعلیم یافتہ لوگوں پر پڑا جن کی طرز معاشرت ایسی بن چکی تھی کہ وہ اپنے ملک کی بجائے غیر ملکوں میں اپنے کو زیادہ ترجیح دینے لگے.پس افریقہ کو ٹوٹنے والا ایک ہاتھ نہیں رہا بلکہ ایک اور ہاتھ نمودار ہوا.ایک طرف سفید ہاتھ افریقہ کولوٹ رہا تھا.دوسری طرف افریقہ کا اپنا کالا ہا تھ بھی افریقہ کو لوٹنے میں مصروف ہو گیا.اور میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت افریقہ کی تہذیبی اور تمدنی اور اقتصادی آزادی میں سب سے بڑی روک وہ دوسرا ہاتھ ہے جو افریقہ کے ملک سے تعلق رکھتا ہے.لیکن غلامی کی زنجیروں کو مستقل اور پختہ کرنے میں وہ غیر قوموں کی امداد کر رہا ہے.مجھے افریقہ کے بہت سے دانشوروں اور صاحب اقتدار دوستوں سے اس مسئلہ پر گفتگو کا موقع ملا اور حکومت کے با اختیار لوگوں سے ملنے کے بعد میرا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ وہ اپنی سر توڑ کوشش اس بات کی کر رہی ہیں کہ کس طرح افریقہ کی سیاسی آزادی کو ہی نہیں بلکہ اقتصادی اور معاشی اور تمدنی آزادی کو بھی بحال کریں.وہ عظیم الشان منصوبے اس بات کے بنارہے ہیں کہ افریقہ کی ضرورت کی چیزیں افریقہ ہی میں انڈسٹری کے ذریعہ پوری کی جائیں.وہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ سڑکوں کی بحالی کا انتظام ہو اور پل بنائے جائیں تا کہ افریقہ کے جنگلوں کے علاقے سے قیمتی اشیاء آسانی کے ساتھ شہروں کی طرف منتقل ہو سکیں.لیکن ان کی راہ میں سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ اس عالمی سرمایہ کاری کے نظام میں سرمایہ حاصل کئے بغیر اس قسم کے ترقیاتی منصوبے جاری نہیں کئے جاسکتے اور سرمایہ کاری کے لئے جب وہ مغربی قوموں سے رابطہ کرتے ہیں تو جن شرطوں پر سرمایہ کاری کے لئے وہ تیار ہوتے ہیں وہ شرطیں صرف حال ہی کو نہیں مستقبل کو بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے لئے ایک جال کی طرح کام کرتی ہیں، ایک سازش کے طور پر رونما ہورہی ہیں.“ آپ نے فرمایا: پس میں نے غور کیا تو مجھے پہلے سے بھی بڑھ کر اس بات کا یقین ہو گیا کہ افریقہ کو خود اپنی ہستی کی شناخت دوبارہ کرنی پڑے گی اور خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا اور دعاؤں کے
720 ذریعہ اللہ تعالی سے مدد مانگنی پڑے گی اس کے سوا افریقہ کی نجات کا اور کوئی چارہ نہیں.پس میں نے جب یورپ اور افریقہ کے افق پر نظر دوڑائی تو اس بات سے حیران بھی ہوا اور مطمئن بھی کہ خانا کے جو لوگ یورپ اور امریکہ میں بس رہے ہیں.ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ اگر وہ اس شعور کے ساتھ بیدار ہو جائیں، اس عزم کے ساتھ بیدار ہو جائیں کہ ہم نے اپنی قوم کی خدمت کرنی ہے تو وہ روپیہ بھی جو خود یہاں سے وہ باہر منتقل کر چکے ہیں اور وہ روپیہ بھی جو باہر انہوں نے بیٹھ کر کھایا ہے ملک میں واپس بھیجنا شروع کر دیں تو آپ کو کسی غیر قوم کی مدد کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.آپ نے فرمایا: دنیا کی جتنی قومیں میں نے دیکھیں وہ یورپ میں آکر یا امریکہ جا کر روپیہ کماتیں اور واپس اپنے ملکوں کو بھیجتیں ہیں.لیکن یہ بدنصیبی اور بد قسمتی صرف افریقہ کے حصہ میں دیکھی ہے کہ یہاں کے لوگ نہ صرف باہر کا روپیہ باہر رکھتے ہیں بلکہ خود اپنے ملک کا روپیہ بھی یہاں سے نکال کر باہر منتقل کر رہے ہیں.پس فی الحقیقت اگر آپ آزادی کی تمنا رکھتے ہیں، اگر فی الحقیقت آپ ان آزاد قوموں کی صف میں شمار ہونا چاہتے ہیں جو تاریخ پر اپنے نام ثبت کردیا کرتی ہیں تو پہلے اپنے نفسوں کو آزاد کریں.اپنے رحمانات کو آزاد کریں.اپنے آپ کو مغربی تہذیب و تمدن کے رعب سے آزاد کریں.اس کے بغیر افریقہ کی آزادی ممکن نہیں ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمام دنیا کی جماعتیں اس معاملہ میں آپ کی مدد کریں گی اور اس بارہ میں میں ان کی تفصیلی رہنمائی کروں گا کہ کس طرح افریقن کے ضمیر کو جھنجھوڑ کے بیدار کرنا ہے اور کس طرح سارے ملکوں میں یہ مہم چلانی ہے کہ جاؤ اپنے ملک کو جاؤ، وہاں کے غریبوں کے حال کو دیکھو.تمہاری آنکھیں جو یہاں کے ناچ گانوں کی مسترت میں پاگل ہوئی ہوتی ہیں اور اندھی ہو چکی ہیں.جائیں اور اپنے غریبوں کی حالت پر جا کر آنسو بہانا سیکھیں.اسی میں زندگی ہے اور اس میں آپ کا مستقبل ہے.غلامی کی یہ بھیانک رات جو صدیوں سے آپ کے ملکوں پر طاری ہے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ
721 جماعت احمد یہ اس رات سے نجات دلانے میں ہر ممکن آپ کی مدد کرے گی ، ہر لحاظ سے اس میں کوشش کرے گی.لیکن جب تک آپ کے دلوں میں رونی پیدا نہ ہواس وقت تک یہ تاریکی کی راتیں دنوں میں تبدیل نہیں ہوسکتیں.خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 8987) مغربی افریقہ کے جن 6 ممالک کا دورہ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا ان میں نائیجیر یا آخری ملک تھا.حضور رحمہ اللہ نے 19 فروری 1988ء کو اوجو کورو ( نائیجیریا) میں خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ : افریقہ کا جو تصور میں نے یہاں آنے سے پہلے قائم کیا تھا وہ یہاں آنے کے بعد ڈرامائی طور پر بدل گیا ہے اور بنیادی طور پر اس میں یکسر تبدیلی ہوگئی ہے.کیونکہ میں یہاں پر موجودرہ کر آپ کو انتہائی قریب سے دیکھ رہا ہوں اور آپ سے باتیں کر رہا ہوں اور ان مسائل سے آگاہی حاصل کر رہا ہوں جو آپ کو درپیش ہیں.“ آپ نے فرمایا کہ: میں نے افریقہ اور افریقہ کے کردار کے بارہ میں بہت سی اچھی باتیں معلوم کی ہیں.میں نے نائیجیر یا اور نائیجیرین کردار کے بارہ میں بھی بہت سی باتیں دریافت کی ہیں اور اس دریافت سے میں بہت خوش ہوں.لیکن میں نے چند غلط باتوں کا بھی مشاہدہ کیا ہے جس سے مجھے تکلیف پہنچی ہے جس کے بارہ میں مستقبل میں بہت فکر مند ہوں.“ حضور رحمہ اللہ نے افریقی لوگوں کی کشادہ ذہنی، صبر و تحمل، مختلف اور مخالف نظریات کو سننے اور برداشت کرنے اور شکر گزاری جیسے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ افریقی کردار کی خوبصورتی ہے جس کی بہر حال آپ کو حفاظت کرنی ہے.آپ نے یہ انتباہ بھی فرمایا کہ : یہ امن، یہ باہمی محبت، یہ کردار کی موافقت جو کہ مغربی افریقہ کا مشترک خاصہ ہے کم از کم جس کو میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے اب اس کو بعض غیر ملکی عناصر سے خطرات لاحق ہو گئے ہیں، بعض سیاسی قوتوں سے جو کہ مذہب کو استحصال کے لیے استعمال کرتی ہیں اور معاشرے کے گروہوں کے درمیان نفرت کے جذبات ابھارتی ہیں.وہ یہ کام محبت کے نام پر،
722 اللہ کے نام پر سچائی کے نام پر کرتے ہیں.وہ لوگوں میں بدصورتی پھیلاتے ہیں، نفرت پھیلاتے ہیں، جھوٹ کو پروان چڑھاتے ہیں.انسانی اخلاق میں بگاڑ کا مظاہرہ اب افریقہ میں شروع ہو چکا ہے.نائیجیریا میں، غانا میں، گیمبیا میں سیرالیون میں، لائبیریا میں، آئیوری کوسٹ میں ان تمام ممالک میں جہاں میں نے دورہ کیا ہے.اسی طرح رپورٹس کے ذریعہ مجھے علم ہوتارہا ہے کہ افریقہ کے مشرقی حصہ میں بھی یہی کوششیں ہو رہی ہیں.تو یہ وہ بات ہے جسے آپ کو ضرور محسوس کرنا چاہیے.لوگ دوسرے ممالک سے آکر کوشش کر رہے ہیں کہ نائیجیرین معاشرہ کے ایک حصہ کی دوسرے کے حصہ کے درمیان نفرت پیدا کر دی جائے.وہ امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں.کس لیے؟ اللہ کے نام پر ا ان کی اس احمقانہ حالت کا اندازہ لگائیے.ابھی بھی معصوم لوگ کسی اور نام کی نسبت ہمیشہ اللہ کے نام پر زیادہ گہری تو جہ دیتے ہیں.پس آپ کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے.آپ کو آپ کے کردار اور آپ کے امن کے خلاف ایک چراگاہ بنایا جا رہا ہے.اگر آپ نے ان باتوں کی اجازت دے دی تو وہ دن دور نہیں جب نائیجیرین تایچیرمین کے خلاف اسلام کے نام پر عیسائیت کے نام پر، مالکیت کے نام پر، احمدیت کے نام پر، اس کے نام پر اور اس کے نام پر جنگ کر رہا ہو گا آپ نے فرمایا: در پس ایک احمدی ہونے کے ناطے یہ عہد کریں اور احمدیوں کو ئیں پابند کرتا ہوں کہ وہ اس برائی کے خلاف جہاد کریں اور اپنے ملک کے امن کا دفاع کریں تا کہ نائیجیرین لوگوں کے در میان موافقت پروان چڑھے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقہ سے ہو.اللہ تعالی نے جو آپ کو انتہائی خوبصورت کردار عطا کیا ہے آپ کو اس کی لازماً حفاظت کرنی چاہیے.آپ کو اپنے ملک کے اندر رواداری کی حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ اتفاق کے بغیر ملک میں موافقت کی فضا کبھی پروان نہیں چڑھ سکتی.پس وہ آپ کے ایمان کے دشمن ہیں جو آپ کو نفرت کے جھنڈوں تلے جمع ہونے کے لیے بلاتے ہیں.وہ آپ کے اخلاق کے دشمن ہیں، وہ افریقی کردار کے دشمن ہیں اور وہ انسانیت کے دشمن ہیں.ان کی آواز پر کان نہ دھریں بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی آواز پر لبیک کہیں جو کہ قرآن کریم کی رُو سے محبت اور امن کے پیغامبر تھے تمام دنیا کے لیے.
723 جیسا کہ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے : وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء: 108) اے محمد ا ہم نے تجھے صرف مسلمانوں کے لیے رحمت کا سر چشمہ ہی نہیں بنا کر بھیجا بلکہ ہم نے مجھے تمام انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے.یہ آپ کے مُطاع ہیں.ان کی پیروی کریں اور اس عظیم ماضی سے رو گردانی کرنے کی خود کو قطعا اجازت نہ دیں.پس میرا آپ کو صرف یہ پیغام نہیں کہ آپ دوسرے مسلمانوں سے نفرت نہ کریں.اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بلکہ میرا آپ کو پیغام یہ ہے کہ آپ نہ تو عیسائیوں سے نفرت کریں، نہ لادین لوگوں سے نفرت کریں، نہ کسی اور انسان سے نفرت کریں.یہ میرا آپ کو پیغام ہے.آپ اللہ کی مخلوق سے کیسے نفرت کر سکتے ہیں اور دعوی یہ کر رہے ہوں کہ ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں؟ یہ ممکن نہیں ہے.یہ جھوٹ اور افتراء ہے.“ آپ نے فرمایا کہ ایک حقیقی مومن کو سچا محب وطن ہونا چاہیے....حب الوطنی ایمان کا جزو ہے.یہ رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے.....کہ تمہارا اپنے وطن سے محبت کرنا تمہارے ایمان کا حصہ ہے.آپ نے فرمایا کہ در میں نے نائیجیریا میں مشاہدہ کیا ہے کہ نائیجیرین اپنے حب الوطنی کے تصور میں الجھن کا شکار ہیں....میں نے محسوس کیا ہے کہ یہاں بہت سے لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ غیر نائیجیرین سے نفرت کرنا حقیقی محب الوطنی ہے.یعنی وہ تمام لوگ جو نائیجیرین نہیں ہیں اگر آپ ان سے نفرت کریں، اگر آپ ان پر بلند آواز سے آوازے کسیں، اگر آپ اخبارات میں ان کے بارہ میں مضامین لکھیں یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہ ان سب کو نا بیجیریا سے نکال دیا جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ شاید حقیقی محب الوطنی ہے.یہ غلط بات ہے.اس نفرت کا حب الوطنی یا کسی اچھائی سے کوئی تعلق نہیں ہے.اور بدقسمتی سے یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت کو نائیجیریا سے باہر غیر ممالک میں بھیجوا رہے ہیں.وہ سمگلنگ میں ملوث ہیں.وہ خورد برد میں
724 ملوث ہیں اور نہیں محسوس کرتے کہ یہ محب الوطنی نہیں ہے.اگر وہ سچے محب وطن ہوتے تو وہ کچھ مثبت کام نائیجیریا کی خدمت میں کرتے.یہ تو محض احمقانہ بین ہے.یہ یاد رکھیں کہ بد عنوانی اور محب الوطنی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں.یاد رکھیں مالی خورد برد اور محب الوطنی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں.یاد رکھیں سمگلنگ اور حب الوطنی ایک ساتھ نہیں چل سکتی.یادرکھیں عوامی دولت کا استعمال اور محب الوطنی اکٹھی نہیں چل سکتیں.حُب الوطنی کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ہم وطنوں اور ملک کے لیے مصروف خدمت ہوں.ملک کی دولت کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوں.نہ کہ ان کی حفاظت کے لیے جو آپ کے ملک کو لوٹتے ہیں.پس حب الوطنی کا بگڑا ہوا یہ تصور آپ کو اس قدر شدید نقصان پہنچا رہا ہے کہ آج آپ کو اس قدر نقصان نہ کوئی غیر ملک اور نہ کوئی غیر ملکی طاقت پہنچا سکتی ہے.اسے محسوس کریں اور بیدار ہو جائیں اور سمجھیں کہ آپ کے ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے.سب سے زیادہ رویوں کی کایا پلٹتے ہوئے تبدیلی لانی ہے.اس کے لیے میں خاص طور پر احمدیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور تمام نائیجیریا کے لیے نمونہ ہیں.انہیں سب سے پہلے خود ایماندار بنتا ہوگا.انہیں حکومت کی مدد میں سب سے پہلے آگے آنا ہو گا، ہر اس کام میں جو نائیجیریا میں معیار زندگی کو بہتر کرنے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے.انہیں اُن لوگوں کی صف میں کھڑا ہونا ہو گا جو نائیجیریا کی خدمت کے لیے کوشاں ہیں.ان لوگوں میں ہر گز شامل نہیں ہوتا جو ملک کو لوٹ رہے ہیں، مالی خورد برد کرتے ہیں اور دولت کو ملک سے باہر بھیجتے ہیں.بلکہ انہیں وہ لوگ بنتا ہے جو اپنے مال کی قربانی کرتے ہیں.ان کی قوت اور طاقت اپنے ملک اور اپنے ہم وطنوں کے لیے ہونی چاہیے.یہ وہ حقیقی محب الوطنی ہے جس کو اللہ پسند کرتا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ اللہ کے محبوب بن جائیں تو آپ کو سچا محب وطن بنتا ہوگا جیسا کہ اللہ آپ کو دیکھنا چاہتا ہے.الفاظ سے لوگوں کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا.لوگوں کو کام کی ضرورت ہے.بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم محب وطن ہیں.آپ کو انہیں سمجھانا چاہئے کہ حقیقی حب الوطنی کی بنیاد دو خدمتوں پر ہے.یعنی بے نفسی اور ہمدردی خلق پر.پس تمام احمدیوں کو ملک گیر مہم چلانی چاہئے کہ وہ حقیقی اور مثبت حب الوطنی کو
725 پروان چڑھائیں جو کہ آپ کے ملک کے لئے آج انتہائی ضروری ہے، اتنی ضرورت اس کو پہلے کبھی پیتھی.آپ لوگوں کو یہ احساس کرنا چاہئے کہ آپ خدا داد العاموں کے مالک لوگ ہیں اور آپ کا ملک افریقی علاقے میں خصوصی طور پر انعام یافتہ ہے.آبادی کے لحاظ سے بڑا اعظم افریقہ میں آپ کا ملک سب سے بڑا ہے.اتنی زیادہ آبادی اور کسی ملک کی نہیں ہے اور یہ بھی یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت زیادہ دولت سے نوازا ہے.یہ دولت زرعی استعداد کی بھی ہے اور معدنی وسائل کی بھی ہے.اسی طرح اللہ تعالی نے آپ کو بڑے دماغ بھی دیتے ہیں، کردار کی عظمت بھی عطا کی ہے تا کہ آپ اس خداداد صلاحیت کا درست استعمال کریں.پس آپ کے قدموں تلے معدنی وسائل مہیا ہیں تا کہ آپ ان کو اپنے ملک کی عظمت کے لئے اور اپنی مستقبل کی نسل کی عظمت کے لئے بروئے کار لا سکیں.لیکن صرف یہی نہیں بلکہ میں آپ سے توقع رکھتا ہوں کہ آپ اس سے زیادہ بلند ہوں.اگر آپ اپنے ذرائع کو مناسب طریق پر بروئے کار لائیں اور اس سے کافی دولت پیدا کریں تو آپ حیران ہوں گے کہ آپ نے بہت زیادہ دولت اور طاقت نائیجیریا میں حاصل کرلی ہے بہ نسبت غیر ملکی طاقتوں پر انحصار کرتے ہوئے.آپ اپنے دوسرے جسایہ ممالک کی مدد کر سکتے ہیں اور ان کے سر پرست بنتے ہوئے آپ ان کی جسمانی ، مادی اور روحانی مدد کر سکتے ہیں اور اسی طرح بڑا بھائی ہونے کے ناطے اپنے چھوٹے بھائیوں کی زندگی کے ہر شعبہ میں مدد کر سکتے ہیں.پس غریب ہمسایہ ممالک کے لئے آپ بڑے بھائی کا کردار ادا کریں.وہ آپ سے زیادہ غریب ہیں.میں نے ان میں سے چند ممالک دیکھتے ہیں اور میں غم کے مارے جذبات سے مغلوب ہو گیا جب میں نے سنا کہ لوگ وہاں بھوک کی تباہ کاری سے بے حال ہوتے جاتے ہیں.یہاں نائیجیریا میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ عطا کیا ہے.پس دولت کے معاملہ میں شھر، دلی کا مظاہرہ نہ کریں.نہ صرف نائیجیرین کی خاطر بلکہ افریقی لوگوں کی خاطر بھی جو آپ کے ارد گرد رہتے ہیں.اس حوالہ سے آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں تا انسانیت کی مدد کرسکیں اور اللہ کو خوش کر سکیں."
726 صد سالہ جو بلی کے سال کے بعض دورہ جات 23 مارچ 1989ء سے صد سالہ جوبلی سال کا باقاعدہ آغاز ہوا.اس سال آپ نے یورپ کے مختلف ممالک کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، گوائٹے مالا، فجی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سنگاپور، جاپان وغیرہ مختلف ممالک کا سفر اختیار فرمایا.صد سالہ جوہلی کے سلسلہ میں ان سفروں کا آغاز آئر لینڈ سے ہوا.چنانچہ 29 تا 31 / مارچ 1989ء کو آپ نے آئرلینڈ کا دورہ فرمایا.29 / مارچ کو ڈبلن میں چند اخباری نمائندوں نے آپ کا انٹرویو لیا جس میں اسلام اور عصر حاضر کے متعلق بعض سوالات پوچھے گئے.اسی طرح 30 مارچ کو بھی گالوے (Galway) میں دو اخباری نمائندوں نے انٹرو یولیا.31 مارچ کو حضور نے مشن ہاؤس میں خطبہ جمعہ کے ساتھ مشن ہاؤس کے باقاعدہ افتتاح کا اعلان فرمایا.اسی شام Great Southern ہوٹل میں منعقدہ تقریب عشائیہ میں حضور نے خطاب فرمایا جس میں کتھو لسرم (Catholicism) مسیح کی آمد ثانی ، جماعت احمدیہ کا مختصر تعارف اور تاریخ اور persecution کے حوالہ سے ذکر فرمایا.اس تقریب میں گالوے کے میئر Fintan Coogan Jar کے علاوہ 48 معززین شہر نے شرکت کی.اس موقع پر تمام مہمانوں کو صد سالہ جشن کے موقع پر حضور کے خصوصی پیغام کی کاپیاں دی گئیں.اس دورہ کے حوالہ سے ملک کے نیشنل اخبار آئرش انڈیپنڈنٹ (Irish Independant) کی 3 اپریل 1989ء کی اشاعت میں حضور کا انٹرویو لینے والے جرنلسٹ Joseph Power کی "Caliph Calls on his Sect" کے عنوان سے تفصیلی خبر شائع ہوئی.اسی طرح گالوے اور اس کے گردو نواح کے علاقوں کے لوکل اخبار Connacht Tribune میں 7 اپریل 1989 ء کی اشاعت میں David O Connel کی Muslim religious" leader opens a Galway Mission کے عنوان سے خبر شائع ہوئی.اس جرنلسٹ نے حضور کا انٹرویو لیا تھا.
727 پھر اسی سال 5 رستمبر کو Connacht Tribune کی 5 رستمبر کی اشاعت میں ایک خبر بعنوان Koran in Gaelge is Published " شائع ہوئی جس میں حضور کے دورہ کا مختصر ذکر کیا گیا.حضرت خلیفہ امس الرابع رحمہ اللہ نے 14 تا18 جون 1989ء کوجماعت احمدیہ کینیڈا کا تیسرا دورہ فرمایا.اس دورہ کی اہم تقریب حضور رحمہ اللہ کی تصنیف Murder in the name of Allah کی تقریب رونمائی اور صد سالہ جشن تشکر کی مناسبت سے ایک خصوصی عشائیہ کا اہتمام تھا.یہ تقریب 16 / جون 1989 ء کو ٹورانٹو کے ایک بڑے اور خوبصورت ہوٹل Westin Harbour Castle میں منعقد ہوئی.تقریب کا آغاز چھ بجے شام ہوا.حضور انور نے اس تقریب میں اسلام اور امن عالم کے موضوع پر خطاب فرمایا اور آخر میں کتاب کے بارہ میں سوالات کے نہایت مدلل اور بصیرت افروز جوابات دیئے.سامعین میں کینیڈا کے بڑے دانشور، پروفیسرز، یونیورسٹی کے طلباء، مختلف مذاہب کے نمائندے اور صحافی تھے.جماعت احمدیہ کینیڈا کی طرف سے حاضرین کو یہ کتاب تحفہ بھی پیش کی گئی.بعض حاضرین نے اپنی خواہش سے کتاب قیمتا بھی حاصل کی.بعض افراد نے حضور سے کتاب پر آٹو گراف بھی حاصل کئے.یہ تقریب خدا کے فضل سے نہایت کامیابی سے سوا سات بجے اختتام پذیر ہوئی.کینیڈا کے ایک بڑے اخبار The Globe and Mail کے علاوہ دوسرے کینیڈین اخبارات نے نمایاں خبریں شائع کیں.ٹیلیویژن پر بھی اس پروگرام کی جھلکیاں دکھائی گئیں.اس تقریب کے لئے کینیڈا کے وزیر خارجہ عزت مآب Joe Clark نے آٹو ا سے ایک سفیر خصوصی پیغام دے کر ٹورانٹو بھجوایا.لبرل پارٹی کے کئی وفاقی ممبران پارلیمنٹ، نیوڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر Bob Rae اور چار میئرز سمیت شہر کے مختلف طبقات کے نمائندے، دانشور، تاجر، وکلاء، جرنلسٹ وغیرہ تقریب میں شامل ہوئے.اس تاریخی تقریب میں 500 کے قریب غیر از جماعت اور غیر مسلم دوستوں سمیت كل 1500 افراد شریک ہوئے.
728 کتاب کی تقریب رونمائی ختم ہونے پر تمام مہمان دوسرے بڑے ہال میں مدعو کئے گئے جہاں جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ساڑھے سات بجے ہال میں تشریف لائے.اسٹیج پر وفاقی اور صوبائی پارلیمنٹ کے اراکین، دانشور، بعض شہروں کے میئرز، ممتاز صحافی حضور کے ساتھ تشریف فرما ہوئے جن کی تعداد ستائیں تھی.تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا.اس کے بعد پارلیمنٹ کینیڈا کے معزز ممر عزت مآب Maurizio Bevilacqua نے معزز ممبران پارلیمنٹ، دانشوروں اور ممتاز صحافیوں کا تعارف کروایا.اس کے بعد مس ساگا کی میٹر عزت مآب Hazel McCallion نے خطاب کیا.دیگر امور کے ساتھ انہوں نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں اپنے شہر میں مسجد بنانے کی بھی درخواست کی.وان شہر کے ڈپٹی میئر نے حضور رحمہ اللہ کو اپنے شہر کی چابی پیش کی.آپ نے جماعت احمدیہ کے وان شہر میں خوبصورت مسجد مسجد بیت الاسلام“ بنانے کے فیصلہ پر مسرت کا اظہار کیا.ان کے بعد بریمپٹن کے میئر نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں کینیڈا کا قومی نشان Maple Leaf پیش کیا.مارکھم شہر کی میر نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں مارکھم شہر کی فریم شدہ شہریت پیش کی.اسی طرح اور کئی معز مہمانوں نے اپنے نیک جذبات کا اظہار کیا.ان کے بعد حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک بہت ہی ولولہ انگیز خطاب فرمایا جو کینیڈا کی سرزمین پر احمدیت کی پہلی صدی کی جو بلی کا اہم ترین اور تاریخی خطاب تھا.حضور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ: در مجھے جو ایک شہر کی چابی دی گئی ہے یا کینیڈا کا قومی نشان پیش کیا گیا ہے، اس میں صرف اسی قدر تو خرچ ہوا لیکن اس کے ساتھ جو محبت لیٹی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ گرم جوشی کے جو جذبات مجھے ملے ہیں میں ان سے مغلوب ہو چکا ہوں.آپ ان جذبات محبت کا تصور بھی نہیں کر سکتے جوئیں واپس اپنی عارضی قیامگاہ، لندن اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا.
729 یہ کینیڈین مہر بانیاں، یہ فراخ دلی اور خوش ولی، کینیڈین انسان دوستی اور سب.بڑھ کر کینیڈین خاکساری جو مجھ جیسے بے خانماں رہنما کے لئے پیش کی گئیں ان سب کے لئے میر اول شکر کے جذبات سے لبریز ہے.میں تو اس وقت وہ لیڈر ہوں جسے اپنے ہی وطن میں گھر بھی نصیب نہیں.مگر میرا گھر تو ہر جگہ ہے.خصوصیت سے آج رات آپ کا سلوک دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ کینیڈا میرا وطن ثانی ہے.“ نیز فرمایا: میری دعا ہے کہ کینیڈ اساری دنیا ہو جائے اور ساری دنیا کینیڈا ہو جائے.“ حضور کے ان پر خلوص جذبات کے اظہار سے حاضرین پر ایک عجیب وجد کی سی کیفیت طاری تھی.اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ گزشتہ برس اور اس سال کے آغاز میں میں نے مشرقی اور مغربی افریقہ کے ممالک کا دورہ کیا تو میں نے انہیں بھی یہ پیغام دیا.کئی حکومتوں نے انتہائی محبت اور شفقت کا سلوک کیا یہاں تک کہ سیرالیون کے صدر صاحب نے اپنا ذاتی ہیلی کاپٹر وہاں میرے قیام کے دوران میرے لئے وقف کر دیا.اپنا ایک وزیر میرے ہمراہ کیا جو میرے ساتھ رہا.میں کسی حکومت کا نمائندہ تو نہ تھا.مگر جو کچھ ہوا وہ عام سیاسی معمول کے برعکس تھا اور محلاتی اصولوں اور قوانین کے بھی خلاف تھا.مگر یہ کیا تھا؟ یہ افریقن مہمان نوازی تھی، افریقن فراخدلی تھی اور افریقن خلوص اور محبت تھی.میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ نے باوجود موجودہ تکالیف اور تنگیوں کے ان قدروں کو قائم رکھا اور ختم نہ ہونے دیا تو آپ زندہ رہیں گے اور آپ کا مستقبل تابناک ہوگا.کتاب کی تقریب رونمائی اور عشائیہ کی تقریب مسلسل چھ گھنٹے پر مشتمل تھیں.عموما لوگ اتنی لمبی تقاریب کے عادی نہیں ہوتے لیکن یہاں ہر مہمان نہایت بقاش، خوش اور مطمئن تھا.سیاستدانوں، صحافیوں اور دانشوروں نے دل کھول کر اپنی مسرت کا اظہار کیا.وہ بعد میں حضور کے ساتھ محو گفتگو بھی رہے.جماعت کینیڈا کی تاریخ میں یہ پہلی جماعتی تقریب تھی جس میں اس کثرت سے وزراء، دارالعوام(House of Commons) کے اراکین، مختلف شہروں کے میئرز اور اعلی تعلیم یافتہ
730 طبقہ نے شرکت کی.حضور نے براہ راست انہیں اپنی روح القدس سے تائید یافتہ زبان سے اسلام کی صحیح تعلیم سے روشناس کرایا.17، 18 جون 1989ء کو تیرھواں جلسہ سالانہ کینیڈاSir John A.McDonald Secondary School سکار برو میں منعقد ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس جلسہ سالانہ کو از راه شفقت رونق بخشی اور جلسہ کے افتتاحی اور اختتامی خطابات کے علاوہ مستورات سے الگ بھی خطاب فرمایا.جون 1989ء میں امریکہ کے دورہ کے دوران حضور رحمہ اللہ نے روچیسٹر ( نیویارک اسٹیٹ) میں مسجد بیت النصیر کا افتتاح فرمایا.23 تا 25 جون بالٹی مور میں منعقدہ جماعت احمد یہ امریکہ کے جلسہ سالانہ میں شمولیت فرمائی اور خطابات سے نوازا.30 جون کو حضور نے سان فرانسسکو میں احمد یہ مشن کا رسمی افتتاح فرمایا.حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جون 1989ء بمقام پشبرگ (Pittsburgh) سان فرانسسکو (امریکہ ) میں فرمایا: جماعت احمد یہ سان فرانسسکو کے لئے یہ دن ایک خاص مبارک اور تاریخی دن ہے کیونکہ ایک لمبے عرصے کے بعد جماعت احمدیہ کو جس مشن کی ضرورت تھی وہ مشن انہیں مہیا ہوا اور آج خدا کے فضل سے اس کا رسمی طور پر افتتاح کیا جارہا ہے.جماعت احمد یہ سان فرانسسکو اگرچہ بہت دور دور تک پھیلی ہوتی ہے اور عملاً ایک جماعت نہیں بلکہ تین جماعتوں میں منقسم ہے بلکہ غالباً ایک چوتھی چھوٹی سی جماعت بھی اس کے پاس منسلک ہو چکی ہے اس لحاظ سے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ایسی جگہ کی تلاش تھا جو مختلف جماعتوں کے لئے کم و بیش برابر فاصلے پر ہو اور دوسرے ضرورت یہ تھی کہ رقبہ اتنا بڑا ہو کہ آئندہ کی ضروریات کو پوری کر سکے اور جلد ہی یہ احساس نہ پیدا ہونا شروع ہو جائے کہ ہم نے
731 چھوٹی اور تنگ جگہ لے لی اور بعد میں آنے والے ہم پر شکوے کریں.اس پہلو سے اللہ تعالٰی کا یہ سلوک ہمیشہ جماعت کے ساتھ چلا آ رہا ہے کہ کھلے اور وسیع حو صلے کے ساتھ جو جگہ بنائی جاتی ہے خدا تعالی جلد جماعت کو وسیع کر کے اس جگہ کو بھر دیتا ہے." حضور نے فرمایا: اس پہلو سے سب سے پہلے تو میں جماعت احمد یہ سان فرانسسکو کو مبارکباد کے ساتھ اس امر کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اس مشن ہاؤس کو اپنے وجود کے تقویٰ سے زینت بخشیں، اپنے دلوں کے تقویٰ سے زینت بخشیں.جب بھی یہاں آیا کریں خدا کی خاطر آیا کریں اور یہ فیصلہ کر کے آیا کریں کہ آپ کی نیکی یہاں آکر دوسرے بھائیوں کی نیکی کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت نظارہ پیش کرے گی.امر واقعہ یہ ہے کہ نیکیاں نیکیوں کے ساتھ مل کر ایک عظیم الشان قوت بن جایا کرتی ہیں.ایک شخص کی اکیلی نیکی اپنی جگہ خوبصورت ہے لیکن جب متفرق نیک لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوں تو ان کی نیکی کی اجتماعی قوت سے ایک غیر معمولی عظیم الشان روحانی قوت پیدا ہوتی ہے جس کا اثر ان کے ماحول پر بھی پڑتا ہے.ایک دوسرے پر ان کا اثر پڑتا ہے.تبھی انفرادی دعاؤں کی ایک اپنی حیثیت اور ایک اپنا مقام ہے لیکن اس کے باوجود اجتماعی دعاؤں کی جو شان اور جو شوکت ہے، یعنی روحانی معنوں میں، اس کا بعض صورتوں میں انفرادی دعاؤں سے مقابلہ نہیں ہو سکتا.پس اس مسجد کو آپ نے اپنے تقویٰ کی اجتماعی شکل سے زینت بخشتی ہے.“ اس سلسلہ میں حضور رحمہ اللہ نے ایک نہایت اہم نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: "آپ کا تھوڑا ہوتا اس راہ میں کوئی عذر نہیں کہ آپ سے اتنا عظیم الشان شہر جو سان فرانسسکو ساری دنیا میں مشہور ہے اور ساری دنیا میں ایک بہت ہی طاقتور اور با اثر شہر کے طور پر اس کے تذکرے چلتے ہیں اس میں یہ چھوٹی سی جماعت اثر پیدا کر سکے.اس راہ میں آپ کا یہ عذر کافی نہیں کہ ہم تو بہت ہی تھوڑے ہیں، ہماری تو کوئی گنتی نہیں، ہمارا تو کوئی شمار نہیں، ہم غریب لوگ ہیں، ہم میں سے اکثر باہر سے آنے والے ہیں اور اس سوسائٹی پر ہم کیا اثر انداز ہو سکتے ہیں؟
732 میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اخلاق حسنہ، وہ اخلاق جو تقوی سے پیدا ہوتے ہیں، وہ شخصیتیں جو تقویٰ کی بناء پر تعمیر پاتی ہیں، وہ لوگ جو اللہ کی محبت دل میں رکھتے ہیں اور اس محبت کے نتیجے میں خدائی وجود بن جاتے ہیں وہ یقینا با اثر اور بارسوخ وجود ہوتے ہیں.ان کی تعداد کی کمی ان کے رسوخ کی راہ میں حائل نہیں ہوا کرتی.چنانچہ...کینیڈا کے سفر میں مشرق سے مغرب تک جہاں جہاں میں گیا اللہ تعالی کے فضل سے وہاں کی جماعتوں کی یہ غیر معمولی خوبی مجھے دکھائی دی.ممبرز آف پارلیمنٹ، وہاں کے میئرز، وہاں کے ایلڈرمین (Eldermen) غرض یہ کہ جتنے مختلف قسم کے شہر کے نمائندے یا علاقوں کے نمائندے تھے جب وہ مجھ سے ملے تو انہوں نے بطور خاص اس بات کا ذکر کیا کہ ہم آپ کی جماعت کی اعلیٰ اخلاقی قدروں سے اتنا متاثر ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ جماعت نشود مما پائے ، ہم اس جماعت کے ممنون ہیں کہ اس جماعت نے ہماری سوسائٹی میں نئے رنگ بھرنے میں ایک عظیم الشان کردار ادا کرنا شروع کیا ہے.تھوڑے ہونے کے باوجود ہماری نظر ان پر تحسین کے ساتھ پڑرہی ہے اور ہم اپنے پر لازم سمجھتے ہیں کہ بحیثیت امام جماعت احمد یہ آپ کے اس دورے پر خصوصیت کے ساتھ آپ کا شکریہ ادا کریں کہ آپ نے اتنی حسین جماعت کی تعمیر میں ایک کردار ادا کیا ہے.یہ احساس کوئی معمولی احساس نہیں ہے.اس احساس کا اعتراف اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جون 1989 خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 445 450) 3 تا 6 جولائی 1989ء کو حضور نے وسطی امریکہ کے ملک گوائٹے مالا کا دورہ فرمایا اور 3 جولائی کو گوائٹے مالا میں جماعت کی پہلی مسجد بیت الاول“ کا افتتاح فرمایا.افتتاحی تقریب میں صدر مملکت کی نمائندگی میں نائب صدر مملکت اور پانچ وزراء شامل ہوئے.اسی طرح نائب وزیر داخلہ، بعض ممبران پارلیمنٹ اور علاقہ کے معززین نے شرکت کی.قریبتا پانچ صدا افراد اس میں شامل ہوئے.اسی شام مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے منعقدہ استقبالیہ تقریب میں اہم ملکی وغیر ملکی شخصیات نے شرکت کی.کئی ملکوں کے سفراء بھی شامل ہوئے.
733 4 جولائی کو حضور نے احمد یہ کلینک بیت الشافی کا سنگ بنیاد رکھا جس میں وزیر صحت بھی شامل ہوئے.اسی روز صدر مملکت سے نیشنل پیلس میں ملاقات کے دوران انہیں مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم و دیگر اسلامی کتب کا تحفہ دیا گیا.حضور کے دورے سے قبل یہاں کوئی مقامی احمدی نہ تھا.دورہ کے دوران ہی بیعتوں کے ساتھ مقامی جماعت کا قیام ہوا.حکومت کے سر براہان اور متعدد وزراء سے انفرادی ملاقات ہوئی.ریڈیو اور ٹی وی پر حضور کے انٹرویوز نشر ہوئے.پریس اور میڈیا کے ذریعہ وسیع پیمانے پر جماعت کا پیغام پہنچا.5 جولائی کو گوئٹے مالا کے وزیر خارجہ حضور انور سے ملاقات کے لئے آپ کی رہائشگاہ پر تشریف لائے اور مختلف امور پر ڈیڑھ گھنٹہ تک گفتگو کی.6 جولائی کو حضور رحمہ اللہ گوئٹے مالا سے لاس اینجلس (امریکہ) کے لئے روانہ ہوئے.7 جولائی کو حضور نے لاس اینجلس (امریکہ) میں نو تعمیر شدہ خوبصورت مسجد بیت الحمید کے افتتاح کی تقریب میں شمولیت فرمائی.حضور رحمہ اللہ نے 7 / جولائی 1989ء کو مسجد بیت الحمید لاس اینجلس (امریکہ) میں اس کے افتتاح کے حوالہ سے مساجد کی تعمیر کی غرض وغایت کے مضمون پر نہایت لطیف مضمون بیان کرتے ہوئے فرمایا: " آج میں آپ کے سامنے اس خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت نے اس دور میں جو ہمارے لئے بڑا ہی دکھوں کا دور تھا کثرت کے ساتھ مساجد بنا کر بار بار مومنوں کی خوشیوں کے سامان کئے ہیں اور ہر مسجد جو دنیا میں کہیں بنی ہے وہ ساری جماعت کی خوشیوں میں اضافے کا موجب بنی ہے خصوصاً اس دور میں، اس پس منظر کے نتیجے میں.پس وہ ساری مساجد جو افریقہ میں بنی ہیں، نا معلوم ہیں یا انڈونیشیا میں بن رہی ہیں اور نا معلوم ہیں، جو بنگلہ دیش میں بن رہی ہیں اور نا معلوم نہیں، ہندوستان میں بن رہی ہیں اور نا معلوم
734 ہیں، آج ہم ان سب مساجد کو اپنی دعاؤں میں شامل کر لیں گے اور نماز میں جو دعا کی جائے گی اس میں صرف اس مسجد کے اوپر خدا کے حضور سجدہ تشکر ادا نہ کیا جائے بلکہ اس سارے عرصے میں خدا نے جو عظیم الشان توفیق ہمیں عطا فرمائی ہے اللہ مساجد بنانے کی اس سب مضمون کو پیش نظر رکھ کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیئے.“ حضور نے فرمایا: م اس ضمن میں ایک اور مسجد کا ذکر میں ضروری سمجھتا ہوں یعنی گوئٹے مالا کی مسجد جس کا اسی رنگ میں افتتاح ہم نے چند دن پہلے کیا ہے، تین یا چار دن پہلے.گوئٹے مالا ایک ایسا ملک ہے جو خالصہ نہیں تو اکثریت شکل میں کیتھولک ہے اور اتنی بھاری تعداد کیتھولک کی ہے کہ دوسرے جو عیسائی فرقے ہیں وہ گنتی کے چند ہیں اور ان کو کوئی اپنے ملک میں عظمت حاصل نہیں.کیتھولک ہونے کے لحاظ سے میرا یہ تاثر تھا کہ یہ لوگ تعصب دکھا ئیں گے.اگر ایک مسلمان ملک میں مساجد پر پابندی ہو جائے تو لازمی بات ہے کہ جیسے کہتے ہیں دودھ کا جلا چھا چھ بھی پھونک پھونک کے پیتا ہے.مجھے یہ ڈر تھا کہ کیتھولک ملک میں تو بہت ہی زیادہ تعصب دکھایا جائے گا.لیکن میں حیران رہ گیا دیکھ کر کہ ہر منزل پر، ہر قدم پر ان لوگوں نے اتنا تعاون کیا ہے.حکومت نے بھی، وہاں کے انجینئر ز نے بھی یہاں تک کہ وہاں کے معماروں اور مزدوروں نے بھی....وہ سارے کیتھولک تھے اور حکومت نے ایسی گہری دلچسپی لی اور ایسا تعاون سے بڑھ کر کہنا چاہئے محبت کا اظہار کیا کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا وسیع حوصلہ دنیا کی کوئی حکومت دکھا سکتی ہے.مقامی طور پر وہاں ابھی ایک بھی احمدی نہیں لیکن وہاں کے پریزیڈنٹ صاحب نے میری ملاقات کے وقت بتایا کہ میری خواہش تھی کہ میں خود آ کر اس تقریب میں شامل ہوں لیکن ایک انتہائی ضروری Executive کی میٹنگ تھی اس کی وجہ سے میں نہیں آسکا تو میں نے اپنے وائس پریذیڈنٹ کو بھجوایا....اور دوسرے بعض وزراء اس میں شامل ہوئے اور مقامی لوگ جن کو بھی دعوتیں دی گئیں تھیں بڑے بڑے ہر قسم کے وہ وہاں تشریف لائے اور اس تقریب کو بہت ہی انہوں نے رونق بخشی اور جماعت کی طرف سے جب مسجد کے متعلق اور اس کے مقاصد کے متعلق مختصر اذکر کیا گیا تو بہت ہی گہرا اثر انہوں نے قبول کیا.بعد میں کچھ عرصہ
735 بیٹھے بھی.کچھ لوگ ان میں سے آکے اور بار بار اپنی محبت کا اور خوشی کا اظہار کرتے رہے.اس لئے مجھے اس ملک سے بڑی توقع پیدا ہوتی ہے کہ چونکہ انہوں نے خدا کے گھر بنانے میں غیر معمولی تعاون کیا ہے اور محبت کا اظہار کیا ہے اس لئے اللہ تعالی اسلام کے لئے ان کے دل کھولے گا اور اس کے آثار بھی ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.اتنی جلدی ، اتنی گہری دلچسپی اسلام میں لینی شروع کر دی ہے انہوں نے کہ جس کے متعلق کسی اور ملک میں مجھے ایسا تجربہ نہیں ہوا.ہر قسم کے صاحب حیثیت یا عامتہ الناس یعنی ہر قسم کے لوگ مسجد میں ہی دلچسپی نہیں لے رہے بلکہ جماعت احمدیہ کے پیغام میں دلچسپی لے رہے ہیں.چنانچہ وہاں حکومت کی طرف سے جو نمائندے ہماری دیکھ بھال کے لئے مقرر ہوئے تھے اور وہ کافی با اثر لوگ تھے ان سب نے مجھے سے چلنے سے پہلے درخواست کی کہ ہمیں اسلام میں گہری دلچسپی پیدا ہو گئی ہے اس لئے آپ ہمیں ضرور وقت دیں تا کہ ہم کچھ سوال کر سکیں.اس دلچسپی کی وجہ کیا تھی ؟ دلچسپی کی وجہ یہ تھی ہمارے ایک ساتھی نے ان سے پوچھا کہ تم متاثر نظر آرہے ہو.بتاؤ سب سے زیادہ تمہیں کس چیز نے متاثر کیا ہے؟ تو ان کے جو افسر اعلیٰ تھے انہوں نے جواب دیا کہ سب سے زیادہ ہیں آپ کی نماز نے متاثر کیا ہے، آپ کی عبادت نے متاثر کیا ہے اور ایسا گہرا اثر ہمارے دل پر ڈالا ہے....چنانچہ اس نے درخواست کی کہ میں مسلمان تو نہیں ہوں مگر مجھے نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے تو وہ مساجد جو خدا کی خاطر بنائی جاتی ہیں اور وہ عبادت جو خدا کی خاطر ادا کی جاتی ہے اس میں ایک گہرا روحانی اثر ہوا کرتا ہے اور اگر کسی قوم میں روحانیت زندہ ہو تو سب سے زیادہ اس قوم کو اپنے مذہب کی طرف مائل کرنے کا ہی ذریعہ بنتا ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ گوئٹے مالا کی مسجد بھی چونکہ خالصتہ اللہ بنائی گئی تھی اس لئے وہاں نمازیوں کا انتظام خدا تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ جلد ہی وہاں وہ مسجد جو اس لحاظ سے بہت بڑی ہے کہ صرف باہر سے آئے ہوئے دو پاکستانی احمدی وہاں ہیں.اس کے باوجود مجھے امید ہے کہ جلد ہی انشاء اللہ وہ مسجد بھی نمازیوں سے بھر جائے گی اور چھوٹی ہو جائے گی.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 7 جولائی 1989 خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 467464)
736 11 ء سے 13 / جولائی 1989 ء تک حضور نے فجی آئی لینڈ کا دورہ فرمایا.11 جولائی کو تین حکومتی وزراء نے آپ سے ملاقات کی.اسی شام صد سالہ جوبلی کے حوالہ سے منعقدہ تقریب میں مختلف مذہبی و غیر مذہبی جماعتوں کے افراد بھی شامل ہوئے.12 جولائی کو صووا (Suva) کے میئر نے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا جس میں سٹی کونسل کے ممبران شامل ہوئے.اسی طرح میڈیا کے نمائندگان سے قریبا دو گھنٹے پر مشتمل انٹرویو ہوا.12 جولائی کو ہی Scotts Hotel Suva میں حضور کے اعزاز میں منعقدہ استقبالیہ تقریب میں ملک کے چیف جسٹس، مععد و جج صاحبان، ممتاز وکلاء، سیاستدان، وزرائے مملکت، مختلف ممالک کے سفراء، چرچ لیڈرز اور میڈیکل پروفیشن سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوئے.13 جولائی کو Loutoka میں احمدیہ پرائمری سکول کے اساتذہ و طلباء سے ملاقات کی.Loutoka کے میٹر کی طرف سے استقبالیہ میں شرکت فرمائی اور اسی شام ناندی (Nandi) میں منعقدہ تقریب میں امن کے موضوع پر خطاب فرمایا اور حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے.14 جولائی 1989ء کو حضور نے آسٹریلیا میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد بیت الھدی کا افتتاح فرمایا.آپ نے اپنے خطبہ جمعہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: مسجد جس کی بنیاد آج سے تقریباً چھ سال پہلے میں نے رکھی تھی اب اللہ تعالی کے فضل اور احسان کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے.آج اللہ تعالی کے فضل سے یہ جگہ جس کا رقبہ تقریباً اٹھائیس ایکڑ ہے یہ جماعت کی جو نظر آنے والی ضروریات ہیں میرے نزدیک تو اس کے مطابق ہے.میں تو سمجھتا ہوں خدا وہ وقت جلد لائے گا کہ جماعت ہم لوگوں کے دیکھتے دیکھتے اتنی ترقی کرے گی کہ یہ مسجد اور یہ علاقہ انشاء اللہ جماعت کی ضروریات کے مطابق ثابت ہوگا.آج نہیں ، کل نہیں تو دس پندرہ بیس سال کے اندر انشاء اللہ یہ علاقہ جماعت کے لحاظ سے بارونق ہو جائے گا.“ آج حضور رحمہ اللہ کی یہ پیش خبری خدا کے فضل سے بڑی شان سے پوری ہو رہی ہے.
737 18 /ستمبر تا 21 /ستمبر 1989ء حضور نے ڈنمارک کے دورہ کے دوران 19 ستمبر کو مجلس عاملہ ڈنمارک کا انتخاب اپنی صدارت میں کروایا.اس سے قبل ایک پر معارف خطاب فرمایا.19 ستمبر کو نیشنل ٹی وی کو ایک گھنٹہ کا انٹرویو دیا.اور کوپن ہیگن کی یونیورسٹی میں Islam and Tolerance کے موضوع پر خطاب فرمایا.اور حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے.20 ستمبر کو انٹرنیشنل پیپلز کالج International People's College) (Helsinger میں اساتذہ وطلباء سے خطاب فرمایا.اسی روز ایک اخبار کو انٹرویو دیا اور استقبالیہ تقریب میں شرکت فرمائی.اس کے بعد حضور رحمہ اللہ ناروے تشریف لے گئے اور وہاں خطبہ جمعہ فرمودہ 22 ستمبر 1989ء میں سب سے پہلے جہاں صد سالہ جشنِ تشکر کے سلسلہ میں مختلف ممالک کے دوروں کے نتیجہ میں جماعت کے اندر پیدا ہونے والے ایک نئے ولولے اور نئی زندگی کا ذکر فرمایا وہاں دنیا بھر میں جماعت کے اندر ہی نہیں جماعت کے باہر بھی احمدیت کے حق میں خدا تعالیٰ کی طرف سے چلنے والی تائیدی ہواؤں کا ایمان افروز ذکر کرتے ہوئے فرمایا: مسال مجھے خدا تعالیٰ نے پھر ناروے کی جماعت میں آنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور یہ سفر خصوصیت کے ساتھ صد سالہ جوبلی کے ضمن میں منائے جانے والے جشن تشکر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اس سال مجھے خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ دنیا بھر کی بہت سی جماعتوں کے دورے کی توفیق عطا ہوئی اور ہر جگہ میں نے جماعت کے اندر ایک نیا ولولہ اور نئی زندگی پائی اور صرف جماعت ہی کے اندر نہیں بلکہ ارد گرد کے ماحول میں بھی خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے جماعت کے حق میں میلان پیدا فرمائے اور اس کے نتیجے میں کوئی ایسا سفر کسی ایک ملک کا بھی نہیں جس کے متعلق میں کامل یقین کے ساتھ یہ کہہ نہ سکوں کہ خدا تعالی کے فرشتوں نے جماعت ہی کے اندر نہیں بلکہ جماعت کے باہر بھی تائید کی ہوائیں چلائی تھیں اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہی حال اس ناروے کے دورے کا بھی ہوگا اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس سفر کے بھی انشاء اللہ بہت
738 عمدہ اور دیر پانتائج ظاہر ہوں گے.گزشتہ ممالک میں جہاں بھی سفر کی توفیق ملی وہاں سے متعدد خطوط مسلسل موصول ہورہے ہیں جن میں بتایا جارہا ہے کہ خدا کے فضل سے سفر کے اختتام کے بعد بھی لوگوں کی توجہ غیر معمولی طور پر جماعت میں بڑھتی چلی جارہی ہے اور اس کے بہت سے نیک پھل نصیب ہو رہے ہیں.“ اسی خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ نے تمام یوروپین اور مغربی ممالک میں بالعموم اور سکنڈے نیوین ممالک میں بالخصوص اسلام احمدیت کی مؤثر اور نتیجہ خیر تبلیغ کے لئے ان ممالک کے حالات کا گہری نظر سے مشاہدہ اور بصیرت افروز تجزیہ پیش کرتے ہوئے احباب جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ یہ دور اب دلائل کا دور نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر خدا نمائی کا دور ہے.مغربی دنیا میں بسنے والے احمدیوں کی رہنمائی اور یاددہانی کے لئے اس خطبہ سے بعض حصوں کا انتخاب ذیل میں پیش کیا جاتا ہے.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: اس جمعہ میں آج کے خطاب میں میں جماعت احمد یہ ناروے کو خصوصیت کے ساتھ اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ نارو چین قوموں میں سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سعید روحیں تلاش کریں اور ان پر توجہ دیں اور دعاؤں سے کام لیں کہ اللہ تعالی بکثرت اس قوم کے دل اسلام کی طرف پھیر دے.یہی میری تلقین دیگر سکنڈے نیوین ممالک کو بھی ہے کہ وہاں کی جماعتوں کو بھی اس طرف اب خصوصیت سے توجہ دینی چاہئے.اس سے پہلے اب تک ہماری جو بھی تبلیغی پالیسی رہی ہے اس کی رُو سے عموماً جماعتیں دلائل کے ذریعہ تبلیغ کرتی تھیں اور یہی طریق سکنڈے نیوین ممالک کے لئے بھی اب تک اختیار کیا جاتارہا ہے.مگر میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ دور اب دلائل کا دور نہیں رہا بلکہ اس سے بڑھ کر خدا مائی کا دور ہے.جب تک جماعت احمدیہ میں خدا رسیدہ اور خدا لما وجود پیدا نہیں ہوتے ہم ان ممالک میں کوئی روحانی انقلاب برپا نہیں کر سکتے.“ حضور رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: دلائل کے لحاظ سے ان قوموں سے بات کی جاتی ہے جو اپنے مذہب کو اچھی طرح 23
739 سمجھتے ہوں اور دلائل کی رُو سے اپنے مذہب کے عقائد پر قائم ہوں.مگر آج کی دنیا میں ایسے بہت کم لوگ ہیں.اور یورپین ممالک میں تو ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں جو دلائل کی بنیاد پر عیسائیت پر قائم ہوں.ایک پرانا طبقہ ہے جن کو ابھی تک نئے زمانے کی ہوائیں نہیں لگیں وہ عیسائیت پر اس وجہ سے قائم ہیں کہ انہوں نے اپنی وراثت میں عیسائیت کو پایا.ان کی کوشش کا اور ان کی عقلوں کا عیسائیت کے ساتھ چھٹے رہنے سے کوئی بھی تعلق نہیں.ایسے طبقے کو جب آپ دلائل کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو بالعموم یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ وہ لوگ دلائل کی بنا پر عیسائیت کے ساتھ نہیں چمٹے ہوئے اس لئے دلائل کی رُو سے ان کو الگ بھی نہیں کیا جاسکتا.ان کے اندر ضد پائی جائے گی.ان کے اندر ہٹ دھرمی پائی جائے گی.آپ بائبل کے حوالوں سے، عہد نامہ قدیم کے حوالوں سے اور عہد نامہ جدید کے حوالوں سے اور عقل کے حوالوں سے ان کو سمجھانے کی کوشش کریں تو بات کے سمجھنے کے باوجود بھی وہ ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور اکثر وہی طبقہ اس وقت عیسائیت پر مضبوطی سے قائم ہے جو عقل کو رخصت دے کر ایک ضد کے طور پر ایک مذہب کو اپنائے ہوئے ہے اور ان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ دلائل مذہب کی موجودہ شکل کو سچادکھاتے بھی ہیں یا نہیں.پس ایسے لوگوں سے تو دلائل کی بات ہو نہیں سکتی.وہ لوگ جو اس وقت بھاری اکثریت میں ہیں یعنی یورپ کا نوجوان طبقہ خصوصیت کے ساتھ سکنڈے نیویا میں نوجوان ہی نہیں بلکہ بڑی عمر کے بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو عیسائیت کے قائل ہی نہیں.کسی مذہب کے بھی قائل نہیں.خدا کی ہستی پر اگر ایمان ہے تو ایک سرسری سا ڈور کا ایمان ہے ورنہ عملاً یہ ایک دہریت کی زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں.ان قوموں میں ان حالات میں آپ عیسائیت کے خلاف یا عیسائیت کی صحیح تصویر دکھانے کے لئے سچی عیسائیت کے حق میں کیا دلائل دیں گے.جو بھی آپ دلائل دیں گے ان کی سمجھ اور دلچسپیوں سے بالاتر ہیں.وہ سمجھیں گے کہ آپ پتہ نہیں کسی زمانے کی باتیں کر رہے ہیں.اب تو دور بدل چکا ہے.ہم لوگ نئے میدانوں میں نکل آتے ہیں.نئی دلچسپیوں کی تلاش میں ہیں.ہمیں ان باتوں میں کوئی دلچپسی نہیں کہ عیسائیت کیا تھی، کیا ہے، کیا ہونی چاہئے؟ پس اس پہلو سے آپ کے دلائل
740 اکثر و بیشتر ایسے کانوں میں پڑتے ہیں جن کو ان باتوں میں بنیادی طور پر کوئی دلچسپی نہیں.“ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: م امر واقعہ یہی ہے کہ اس وقت مغربی دنیا کو تبدیل کرنے کے لئے دلائل کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خود ایک دلیل بننے کی ضرورت ہے.خود خدائما ہونے کی ضرورت ہے.آپ کے اندرا ہی صفات پائی جانی چاہئیں.آپ کے اندر وہ قوت پیدا ہونی چاہئے جو خدا سے تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ انسان کے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیتیں پیدا ہو جاتی ہیں.“ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: ان میں سے ہر ایک کے اپنے مسائل ہیں ان میں سے کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ دعا ایک طاقت ہے اور دعاؤں کے ذریعے ہی کامیاب ہو سکتے ہیں.ان کے اندر اچھی انسانیت کی جستجو ہے.ان کو یہ علم نہیں کہ اچھی انسانیت مذہب سے عطا ہوتی ہے.بلکہ اس کے برعکس یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب انسانیت کے برے نمونے پیش کرتا ہے.ایسے ایک لمبے دور سے یہ خود گزرے ہوئے ہیں.جہاں عیسائیت کے راہنماؤں نے ان کے سامنے بد اثرات چھوڑے اور جس طرح ہمارے ملک میں ملاؤں کے خلاف مذاق ہوتے ہیں ان کے متعلق دلچسپ قصے سنائے جاتے ہیں، ان کی منافقت کے بارہ میں لطائف بیان کئے جاتے ہیں.اس طرح کا ایک ایسا دور تھا جب عیسائیت کے راہنماؤں سے متعلق بھی یہی باتیں ہوتی تھیں اور بہت سے لطائف مشہور تھے کہ یہ ہمارے مذہبی راہنما ہیں، یہ ان کے اخلاق ہیں اور یہ ان کے کردار ہیں.پھر ان کے تعصبات، ان کی تنگ نظری سخت مزاجی ان سب باتوں نے مل کر اہل مغرب کو رفتہ رفتہ مذہب سے دور کرنا شروع کیا.پس ان کے ہاں جو مذہب کا تصور ہے وہ انسانیت کے مقابل پر ہے.یہ سمجھتے ہیں کہ انسانیت اور انسانی قدریں ایک چیز ہیں اور مذہب اور مذہبی قدریں اس کے مد مقابل دوسری چیز ہیں اور جتنا انسان مذہبی ہوتا چلا جائے گا اتنا اس کا کردار اجنبی اور کھوکھلا اور مصنوعی ہوتا چلا جاتا ہے اور اس میں ایسی خوبصورت کشش نہیں پائی جاتی جس کے ذریعہ انسان اس سے متاثر ہوں.تو دراصل عام انسانی قدروں کی طرف بڑھنے کے نتیجے میں
741 یہ مذہب کے اس تصور سے دُور ہوتے چلے گئے اس پہلو سے اس تجزیہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ کو مذہب کو اس رنگ میں یہاں پیش کرنا ہوگا کہ اعلیٰ اخلاقی اقدار مذہب کے ساتھ وابستہ دکھائی جائیں.ان کو معلوم ہو کہ مذہب سے مراد نہایت اعلیٰ درجہ کے انسانی اخلاق اور ضابطہ حیات ہے جو انسان کی زندگی بدل دیتا ہے.اس کے نتیجے میں انسان ایک بہتر انسان کے طور پر دنیا میں اُبھرتا ہے.یہی وہ مضمون ہے جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت رسول اکرم لال TARA WANG کی مو معجزے کے نقوش کی صورت میں بیان فرمایا.آپ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم الشان معجزہ نے جو نقوش دنیا پر قائم کئے ان میں سے پہلا یہ تھا کہ جو جہلاء تھے، جو حیوانوں کی سی زندگی بسر کر رہے تھے انہیں انسان بنایا.پھر ان انسانوں کو باخدا انسان بنایا.پھر ان با خدا انسانوں کو خدا نما انسان بنا دیا.یہ ساری منازل حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کے معجزے نے چند سالوں میں طے کروا دیں اور یہی وہ منازل ہیں جن کو طے کئے بغیر آج بھی یہ معجزہ رونما نہیں ہو سکتا.یہی وہ منازل ہیں جن کو طے کرنے کے بعد آج بھی یہ معجزہ رونما ہو سکتا ہے.پس ان قوموں کے ساتھ اپنے روابط میں اپنے نفس کے ساتھ رابطہ قائم کریں اور اپنا تجزیہ کریں اور یہ معلوم کریں کہ آپ کس حد تک اعلیٰ درجہ کے انسان بنے ہیں کیونکہ کوئی انسان صحیح معنوں میں مسلمان نہیں بن سکتا جب تک وہ پہلے اعلیٰ درجے کا انسان نہ بنے.پس پہلے اپنے آپ کو انسانیت کی اعلیٰ قدروں سے مزین کریں.اپنے آپ کو وہ حسن بخشیں کہ جو عام انسانوں کی نظر میں بھی حسن لگتا ہے.قطع نظر اس کے کہ مذہب کیا ہے یا رنگ کیا ہے یا نسل کیا ہے؟ اس حسن کے ساتھ خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑیں یا جیسا کہ میں نے پہلے ایک خطبے میں بیان کیا تھا کہ خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے نتیجے میں یہ حسن پیدا کریں.ایسی صورت میں آپ کا یہ حسن گہرا ہوگا اور دائمی ہو گا.کسی سطحی کردار سے تعلق نہیں رکھے گا.ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے گا، آپ مدد کرے گا اور آپ جوں جوں با خدا بننے شروع ہو جائیں گے خدائی تقدیر آپ کوخدانمابنا نا شروع کر دے گی.خدا نمائی کی منزل با خدا بننے کے بعد آیا کرتی ہے.خدا نمائی کی منزل میں پھر اعجاز شامل ہو جاتا ہے.دعاؤں کی قبولیت شامل ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں
742 اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی روحانی عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.“ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: حقیقت یہ ہے کہ دعا ایک ایسا اعجاز ہے جو ہر احمدی کو عطا ہوا ہے.اس میں صرف خلیفہ وقت کا امتیاز نہیں.یہ وہ اعجاز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زمانے کا ایمان زندہ کرنے کیلئے ہمیں عطا کیا ہے اور یہی معنی ہیں اس بات کے کہ لو كَانَ الْإِيمَانُ مُعَلَّقًا بِالقُرَيَالَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِّنْ هُو لا ( بخاری کتاب التفسیر حدیث نمبر 4518) که اگر ایمان ثریا تک بھی چلا گیا یعنی زمین کلیہ چھوڑ گیا تب بھی ان لوگوں میں سے وہ ایک شخص پیدا ہو گا یا بعض اشخاص پیدا ہوں گے جو ثریا سے ایمان کو کھینچ لائیں گے.پس دعاؤں کے نتیجے میں ہی ایمان شریا سے اترا کرتے ہیں اور یہ کام ایک شخص کا نہیں بلکہ رجال کا ہے اور میرے نزدیک رجال سے مراد جماعت احمدیہ کے رجال ہیں اور وہ سارے خدا پرست لوگ، خدا رسیدہ لوگ، خدائما لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق باندھتے ہیں اور سچا اخلاص کا تعلق باندھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو یہ اعجاز عطا کرتا ہے کہ ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اپنے فضل کے ساتھ ان دعاؤں کے طفیل وہ دنیا میں آسمان پر گئے ہوئے ایمان کو واپس کھینچ لاتے ہیں.پس ان قوموں کو آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے.صرف بحث و تشخیص کی ضرورت نہیں ہے.اور دعاؤں کی ضرورت سے یہ مراد نہیں کہ اپنے ہونٹوں سے سرسری دعائیں کریں یا الگ بیٹھ کر دعائیں کریں خواہ دل کی گہرائی سے دعائیں ہوں.بلکہ وہ دعائیں کریں جن کا میں نے ذکر کیا ہے جو خدا کے پایہ قبولیت میں جگہ پاتی ہیں جن کو خدا تعالیٰ نشان بنا دیا کرتا ہے.ایسی دعائیں ان قوموں کے حالات بدل سکتی ہیں اور اس کے بغیر نہیں.“ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ وہ ہتھیار ہے جس کو آج آپ کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے اور یہ ہتھیار ہر شخص کے قبضہ قدرت میں ہے.اگر وہ اسے لینا چاہے اور اپنانا چاہے.اور اگر نہ اپنانا چاہے تو کسی کے ہاتھ میں نہیں آسکتا.اس لئے آپ بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس نئے نسخہ کو آزمائیں، اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں اور خود خد الما بن جائیں.ایسی دعائیں کریں جو خدا
743 کے حضور مقبولیت کی جگہ پائیں اور اس کے نتیجہ میں آپ کے گرد و پیش ماحول میں لوگ محسوس کرنے لگیں گے کہ ہمارے اندر ایک خدا رسیدہ انسان آ گیا ہے اور آپ کی دعاؤں کی برکت کے کرشمے وہ دیکھیں اور ان کے ماحول میں جو پاک تبدیلیاں آپ کی دعاؤں کے نتیجے میں ہوں وہ انہیں مجبور کر دیں کہ وہ رستہ اختیار کر لیں جس رستے پر خدا ملتا ہے اور جس کا مشاہدہ وہ خود اپنی آنکھوں سے کر چکے ہوں.پس یہ وہ ایک طریق ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ لازما کامیاب ہوگا.اس کے ناکام ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.یہی وہ طریق ہے جو پہلے بھی کامیاب ہوا تھا.اور یہی وہ طریق ہے جو دوبارہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سمجھایا گیا اور یہی وہ طریقی ہے جس کی طرف آج میں آپ کو متوجہ کرتا ہوں.سارے سکنڈے نیویا کی مذہب سے عدم دلچسپی کا ایک ہی علاج ہے کہ یہاں آئے ہوئے احمدی باخدا انسان بن جائیں اور پھر خدا نما بن جائیں.اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 22 ستمبر 1989ء ، خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 621-629) مارچ 1990ء میں حضور رحمہ اللہ نے پہلی دفعہ پرتگال کا دورہ فرمایا.اس سفر میں آپ فرانس اور سپین بھی تشریف لے گئے.یہ صد سالہ جشن تشکر کے سال کا آخری دورہ تھا.حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 9 مارچ 1990ء میں جو پر نگال کی سرزمین پر دیا گیا اس سفر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: چونکہ یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے پر نکال ملک میں آکر جماعت احمدیہ کے مشن کا با قاعدہ افتتاح کرنے کا موقع ملا ہے اس لیے میری خواہش تھی کہ اس سفر میں ایک جمعہ بہر حال پر نگال کی زمین پر پڑھا جائے.جہاں تک اس سفر کا تعلق ہے جب سے ہم سپین کی سرزمین سے پرتگال میں داخل ہوتے ہیں اور اب جب کہ ہم جانے کے قریب ہیں اس تمام عرصے میں اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ ہم سب نے بے شمار تائیدات انہی کے نظارے دیکھے ہیں.یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں
744 احمدیت بالکل غیر معروف تھی.اگرچہ دو سال سے مکرم کرم الہی ظفر صاحب نے یہاں مشن کا آغاز کر رکھا ہے اور چند سعید روحوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی بھی توفیق ملی ہے لیکن جہاں تک ملک کے اکثر عوام کا تعلق ہے، یہاں کے دانشوروں کا تعلق ہے، یہاں کی حکومت کے نمائندگان کا تعلق ہے جماعت احمدیہ عملاً کالعدم سمجھی جاتی ہے لیکن خدا تعالی نے یہاں آنے سے پہلے ایسے حیرت انگیز انتظامات جماعت کو یہاں متعارف کروانے کے پہلے سے تجویز فرما رکھے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ سارا سفر خدا تعالی کے ہاتھوں میں اس کی انگلیوں کے درمیان چل رہا ہے.86 اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں بہت ہی کامیاب تقریبات ہوئیں.ریڈیو، ٹی وی، پریس میڈیا میں انٹرویوز ہوئے اور وسیع پیمانے پر اسلام احمدیت کا پیغام امن و محبت پہنچا.پرتگال میں ہونے والی تقریبات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: تمام پارٹیوں کے اہم نمائندے ایک ایسی دعوت میں تشریف لائے جو فارن آفیئرز ( Foreign Affairs) کی ہاؤس کمیٹی کے چیئرمین نے دی اور یہ ایک بہت ہی اہم تقریب تھی.جس میں یہاں کے فارن افیئرز کی کمیٹی کے ممبران شریک ہوئے اور مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا اور پھر اس کے بعد بعض سوالات کیے جن کے جواب دیے.اس کے بعد ان کی طرف سے پنچ دیا گیا.جس میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تمام پارٹیوں کے مائندگان شامل تھے اور وائس پریذیڈنٹ بھی تھے اور اس فارن افیئرز کمیٹی کے پریذیڈنٹ بھی تھے اور بعض سابق وزراء بھی تھے اور ان سے جب گفت و شنید ہوئی تو اندازہ ہوا کہ کس طرح اسلام کے لیے یہ جگہ پیاسی ہے اور اسلام کی تعلیم سے متاثر ہونے کے لیے بالکل تیار بیٹھی ایک اور بڑی اہم تقریب Porto میں جو یہاں کا دوسرا بڑا اہم شہر ہے اور تجارتی لحاظ سے پہلا اہم شہر ہے.وہاں کی سب سے زیادہ معزز کلب جس کے دو ہزار ممبر ہیں ان کے پریزیڈنٹ نے پہلے ہمیں رنج دیا.پھر اس کے بعد رات کو ایک ڈنر دیا جس میں شہر کے بڑے بڑے معززین اور اسسٹنٹ گورنر بھی شامل ہوئے اور بہت ہی بارونق محفل رہی.اس کے بعد
745 مجھے کلب کے ہال میں تقریر کا موقع دیا گیا.جس کا موضوع یہ تھا کہ اسلام انسان کے بنیادی حقوق کے متعلق کیا رائے رکھتا ہے.چنانچہ میں نے مختلف پہلوؤں سے اسلام کی بنیادی حقوق کی تعلیم کا ذکر کیا تو اس کے بعد جو دوست ملے ہیں انہوں نے بہت ہی خوشی اور محبت کا اظہار کیا.بلکہ ایک ممبر پارلیمنٹ Brito صاحب نے یہ اصرار کیا کہ انہیں اس کی کیسٹ مہیا کی جائے کیونکہ وہ اپنے دوستوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں.تو یہ سارے امور ایسے ہیں جن پر ہمارا کچھ بھی اختیار نہیں تھا.یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں کے اونچے طبقے تک اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کے ذریعے خدا تعالیٰ نے مہیا فرمائے اور ان ذریعوں میں سے ہمیں بھی ایک ذریعہ بنا دیا...جو Reception جماعت کی طرف سے کل یہاں دی گئی تھی اس Reception میں دنیا کے مختلف ممالک کے اور بعض بہت اہم ممالک کے سفارت کار بھی شریک ہوئے اور ان سے گفت و شنید کے دوران ان کے ممالک میں بھی تبلیغ کے نئے رستے نکلے.آپ نے فرمایا: دم گر جماعت دعاؤں میں مشغول رہے اور اللہ تعالی سے غیبی امداد طلب کرتی رہے تو ایک تقریب کئی اور تقریبات کے راستے کھول دیتی ہے اور ایک ملک میں مقبولیت کئی اور ملکوں میں مقبولیت کے سامان مہیا کر دیا کرتی ہے.اس طرح ہمارے دروازے جن نئے میدانوں میں کھلتے ہیں اور بہت سے دروازے اور میدانوں میں کھلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.صرف یہ ایک فکر لاحق ہوتی ہے کہ نئے تقاضوں کو ہم پورا کرنے کے اہل ثابت ہوں گے یا نہیں اور ان نئی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کر سکیں گے کہ نہیں.لیکن چونکہ یہ دروازوں کے کھلنے کا جو سلسلہ جاری ہوا ہے یہ بھی ہماری کوششوں سے نہیں بلکہ محض اللہ کے فضل کے ساتھ جاری ہوا ہے اس لیے میں امید رکھتا ہوں کہ وہی فضل ہمارا حامی و مددگار ہو گا اور ان نئے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں نئی جوان منتیں عطا کرے گا، نئے حوصلے بخشے گا، نیا استحکام جماعت کو عطا کرے گا اور جو جونئی زمینیں ہم اسلام کے لیے فتح کریں گے ساتھ ساتھ ان کو مستحکم کرتے چلے جائیں گے.اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق بخشے.
746 جماعت احمدیہ کے لئے، ساری عالمگیر جماعت احمدیہ کے لئے بہت سی خوشخبریاں ہیں جو ظاہر ہو چکی ہیں اور بہت سی ظاہر ہورہی ہیں اور اس جوبلی کے سال کا پھل ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کثرت سے کھا رہے ہیں کہ دشمن کے لئے سوائے حسرت اور نا کامی اور دانت پیسنے کے کچھ بھی باقی نہیں رہا.اللہ تعالٰی دشمن کے اس بڑھتے ہوئے غیظ و غضب کو ہمارے لیے مزید فضلوں کا موجب بنا دے اور اس کا جود کھ ، جو تکلیف جماعت کو پہنچی ہے، اپنے فضل سے اس کثرت سے برکتیں نازل فرمائے کہ وہ دکھ راستہ چلتے ہوئے ایک معمولی سے کانٹے کے دکھ سے بھی کم حیثیت کا دکھ رہ جائے اور خدا کے فضل ہمیں ہر آن ہر پہلو سے بڑھاتے چلے جائیں.(آمین) سپین میں قیام کے دوران بھی کئی مجالس سوال و جواب ہوئیں.ایک ریسیپشن میں دو صوبوں کے گورنر بھی تشریف لائے.اسی طرح کئی ملکوں کے سفارت کار اور دیگر سیاسی و سماجی اہم شخصیات شامل ہوئیں.حضور نے Sevilla یونیورسٹی کے عربی کے ڈیپارٹمنٹ میں اسلام کے بنیادی تعارف کے موضوع پر خطاب فرمایا جو بعد میں An Elementary Study of Islam کے نام سے شائع ہوا اور اس کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہو چکے ہیں.حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 16 مارچ 1990ء بمقام خاطبه (XATIVA) سپین میں فرمایا: ایک مسلمانوں کی قوم کی ظاہری عظمت تھی جس کے آثار باقیہ یہاں دکھائی دیتے ہیں اور ایک اسلام کی تعلیم کی عظمت ہے جو ان علاقوں سے بالکل مٹائی جا چکی ہے.پس جو روح تھی وہ تو غائب ہو گئی ہے اور جسم کے نشان اس طرح ملتے ہیں جیسے ہزاروں سال کے فرامین مصر کی ممیاں موجود ہوں.جب روح باقی نہ رہے تو جسم کی عظمت کی کوئی حقیقت نہیں رہا کرتی.پس سپین کی سرزمین در حقیقت عبرت کا ایک نشان ہے.وہ لوگ جو آج بھی بیانگ ڈبل اعلان کرتے ہیں کہ اسلامی جہاد کا معنی تلوار کا جہاد ہے اور تلوار کے زور سے علاقوں
747 کو فتح کرنا اور قوموں کو اسلام کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہی دراصل حقیقی اسلامی جہاد ہے، ان کے لیے یہ سپین کا علاقہ ہمیشہ کے لیے ایک عبرت کا نشان پیش کرتا ہے اور ان کو بیانگ ڈبل یہ بتاتا ہے، بڑے زور سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ تلوار کی عظمت کی کوئی حقیقت نہیں ہے.تلوار کی عظمتیں تلواروں کے ذریعے توڑ دی جاتی ہیں.اور حقیقی عظمت پیغام ہی کی عظمت ہے اور محبت کی عظمت ہے اور عقل اور حکمت کی عظمت ہے جو ہمیشہ باقی رہا کرتی ہے.پس آپ دیکھیں کہ وہ علاقے جو مسلمانوں نے پیغام کے ذریعے فتح کیے تھے آج تک اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ خدا اور رسول کے پیاروں کی عظمت کے گیت گا رہے ہیں.آپ انڈونیشیا چلے جائیں، آپ ملائشیا چلے جائیں، آپ چین کے ان علاقوں میں جا کر سیر کریں جہاں مسلمانوں نے پیغام پہنچا کر یعنی قرآن کریم کا پیغام پہنچا کر لوگوں کے دل اور دماغ جیتے تھے.پھر آپ روس کے ان علاقوں کی سیر کر کے دیکھیں جو تلوار سے فتح نہیں ہوئے بلکہ پیغام سے فتح ہوئے تھے.پھر آپ چینی ترکستان اور اس سے ملحقہ علاقوں کو جا کر دیکھیں، منگولیا کے علاقوں کو دیکھیں جہاں سے فاتح آئے تھے انہوں نے اسلام کی سرزمینیں فتح کی تھیں لیکن اسلام نے ان کے دل فتح کر لیے، آج تک باوجود اس کے کہ بہت ہی ناسازگار حالات رہے، باوجود اس کے کہ دہر یہ حکومتیں ان بعض علاقوں میں قائم رہیں، اسلام کا نام مٹانے سے وہ گلیہ قاصرر ہے اور غائب و خاسر رہے.....پس تلوار کی فتح تو کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتی.دراصل پیغام کی فتح ہی وہ فتح ہے جس کی قدر ہونی چاہیے اور سپین کی سرزمین کو دوبارہ پیغام کے ذریعے اسلام کے لیے جیتنا ہمارا فرض ہے اور آج یہ پیغام کی فتح ہمارے نام لکھی گئی ہے.اگر جماعت احمدیہ نے اس ذمہ داری کو ادا نہ کیا تو کوئی اور اس ذمہ داری کو ادا نہیں کر سکے گا.“ آپ نے فرمایا: کتنا دردناک عبرت کا نشان ہے ان مسلمانوں کے لیے جو آج بھی بلند آواز سے دنیا میں یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے دین کو پھیلانے کی اجازت دیتا ہے اور اسی کا نام مقدس جہاد ہے.ہر گز نہیں.اس مقدس جہاد کو تو اس طرح شکست فاش دی جا چکی
748 ہے اور سپین کی سرزمین ہمیشہ اس بات پر گواہ رہے گی کہ اگر یہ مقدس جہاد ہے تو اس مقدس جہاد کی کوئی بھی قیمت نہیں.ہاں دلوں کی فتح کا جہاد جو قرآن بتاتا ہے اس کی عظمت کے گیت تمام دنیا کے مسلمان علاقے گا رہے ہیں جہاں پیغام نے دلوں اور دماغوں کو فتح کیا تھا اور آج تک وہاں باوجود مخالفانہ کوششوں کے اسلام کے نشان نہیں مٹائے جا سکے بلکہ ایک ابھرتی ہوئی قوت کے طور پر اسلام ان علاقوں میں دوبارہ بڑی شان سے ابھر رہا ہے.پس جماعت احمدیہ نے اب وہ کام جو تلوار سے نہیں ہوسکا تھا، محبت اور پیار سے کرنا ہے.وہ دل جن میں تلوار نے نفرت کے بیچ ہوئے اور مسلمان حاکموں نے نفرت کی فصلیں کائی تھیں آج آپ نے ان دلوں کو صاف کر کے ان میں محبت کے بیج بونے ہیں اور محبت کے ذریعے سپین کی سرزمین کو دوبارہ اسلام کے لیے فتح کرنا ہے.ایک ایسی فتح کرنی ہے جو دائمی فتح ہوگی.ایک ایسی فتح کرنی ہے جو قیامت تک قائم و دائم رہے گی اور کوئی دنیا کی طاقت اس فتح کو مٹا نہیں سکے گی.اس کے لیے ہم ایک چھوٹی سی جماعت ہیں، ہمارے کندھوں پر بہت سے بوجھ ہیں.تمام دنیا میں ہم نے اسلام کی عظمت اور اسلامی تعلیم کی عظمت کے جھنڈے گاڑنے ہیں اس لیے ہر ملک کو اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالتی ہوں گی.آپ نے فرمایا: میں نے دیکھا ہے کثرت کے ساتھ یورپ میں جب خطابات کا موقع ملتا ہے یا سوال و جواب کی مجالس میں بیٹھنا پڑتا ہے تو کھلم کھلا لوگ اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے دماغ آپ کی باتوں کے قائل ہو گئے ہیں.لیکن عمل کی قوت پیدا نہیں ہوتی.عمل کی قوت دل کے قائل ہونے سے بادل کے گھائل ہونے سے پیدا ہوا کرتی ہے.پس دلوں کو تو دلوں نے گھائل کرنا ہے.دماغوں کو دماغ کی باتیں قائل کریں گی لیکن ان کے باوجود تبدیلیاں پیدا نہیں ہوں گی.یہ آپ کی محبت ہے جو دلوں پر غالب آسکتی ہے اور محبت سے بڑھ کر آپ کی دعائیں ہیں جو دلوں کو قائل کر سکتی ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی الم نے جو دل جیتے ان کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اگر میرا فضل اور میری رحمت شامل حال نہ ہوتی تو تو یہ دل نہیں جیت سکتا تھا.پس
749 آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر کسی کے لیے اخلاق کا دعویدار ہونے کا کوئی وہم و گمان بھی نہیں آسکتا.پس اگر خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ فرماتا ہے کہ تو اپنے اخلاق حسنہ کے باوجود یہ دل نہیں جیت سکتا تھا، ان کو اکٹھا نہیں کر سکتا تھا جب تک میری رحمت شامل حال نہ ہوتی.تو اس کے مقابل پر آپ کیا ہیں؟ آپ کی کیا حیثیت ہے؟ اگر چہ دلوں کو جیتنے کے لیے اخلاق حسنہ ضروری ہیں مگر صرف انہی پر انحصار نہیں کرنا.خدا کی رحمت پر انحصار کرنا ہے اور اس کے لیے آپ کو لازما دعا گو ہونا پڑے گا.اس کے لیے لازما خدا سے تعلق باندھنے ہوں گے.اور دنیا کو نظر آئے یا نہ آئے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ خدا کے بندے بن چکے ہیں.آپ خدا کے نمائندہ بن چکے ہیں.پس یہ وہ آخری میرا پیغام ہے جسے آپ کو لازماً سمجھنا چاہیے اور اس کی اہمیت کو دلنشین کرنا چاہیے.“ آپ نے فرمایا: پیغامبر کئی قسم کے ہوا کرتے ہیں.ایک زبان کے ذریعے پیغام کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور جہاں تک ان کا بس چلتا ہے منطقی دلائل کے ذریعے اپنے پیغام کی فضیلت کو لوگوں پر ثابت کرتے رہتے ہیں.مگر کتنے دل ہیں جو اس سے بدلے جاتے ہیں.دلوں کی تبدیلی حقیقت میں اس کے بعد دو مراحل سے تعلق رکھتی ہے اور یہ بات میں آپ کو اپنے وسیع تجربہ کی بنا پر کہ رہا ہوں.دوسرا مرحلہ دلوں کو اخلاق حسنہ سے جیتنے کا مرحلہ ہے.اور اس کے بغیر حقیقت میں پیغام کو قبول کرنے کے لیے کوئی قوم تیار ہو ہی نہیں سکتی.پھر بھی جب آپ اس مرحلے پر فتح حاصل کر لیں تو آپ کو کچھ کمی محسوس ہوگی.آخری فیصلہ کرنے کے لیے لوگ ڈرتے ہوئے دکھائی دیں گے.کئی دفعہ اتنے قریب آجاتے ہیں اور اتنے قریب رہتے ہیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے کہ اس کے باوجود آخری قدم کیوں نہیں اٹھا ر ہے.اس صورت میں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دعائیں ہیں جو کام کرتی ہیں اور دعاؤں کے ذریعے حیرت انگیز تبدیلیاں ہوتی ہیں.ایسے ایسے عظیم نشان ظاہر ہوتے ہیں کہ انسان کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں کہ کیسے یہ واقع ہوا.پس اس کے لیے با خدا بنا ضروری ہے.منہ کی خشک دعائیں کبھی قبول نہیں ہوسکتیں جب تک دل کی سوزش کے ساتھ ان کا تعلق نہ ہو.اس لیے دعاؤں میں سوز پیدا کریں، اپنے دل
750 میں وہ گرمی پیدا کریں جو خدا کی محبت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.اور پھر یہ محسوس کیا کریں کہ آپ خدا کے نمائندہ ہیں.خدا کے نمائندے ہونے کا احساس ایک بہت بڑا عظیم احساس ہے.اس احساس کے نتیجے میں تکبر نہیں بلکہ انکسار پیدا ہوتا ہے اور یہی اس احساس کی پہچان ہے.اس پہلو سے آپ کو خدا کا نمائندہ بنا چاہیے اور جب آپ میں یہ احساس پیدا ہو گا تو لازما نہایت تیزی کے ساتھ پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی اور آپ کو اپنے وجود کے اندر سے ایک نیا و جو د نکلتا ہوا دکھائی دے گا.آپ محسوس کریں گے کہ آپ کے اندر ایک انقلاب آچکا ہے اور اس تبدیل شدہ شخصیت میں ایک مقناطیسی طاقت پیدا ہو جائے گی.یہ وہ طاقت ہے جو دلوں کو فتح کیا کرتی ہے اور دراصل یہ خدا کی طاقت ہے جو دلوں پر غالب آیا کرتی ہے.آنحضرت میر کی ذات میں وہ خدائی طاقت پیدا ہو چکی تھی.پس جب خدا نے یہ کہا کہ خدا یہ تبدیلی کرتا ہے تو یہ مراد نہیں تھی کہ محمد رسول اللہ علی کا ایک ذریعہ الگ کام کر رہا تھا اور خدا کے ذرائع الگ کام کر رہے تھے.بلکہ آنحضرت ﷺ کی ذات میں وہ ذریعے ظاہر ہوئے.آپ کی ذات میں خدا کی طافتیں ظاہر ہوئیں اور ان کے ذریعے وہ عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوئیں جو لاکھوں دلوں کو خدا تعالیٰ نے آنا فانا تبدیل کر کے دکھا دیا.پس یہ سچین کی سرزمین کتنی ہی بھاری اور سنگلاخ زمین کیوں نہ نظر آئے ، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو نسخے پہلے کار آمد ثابت ہوئے ہیں آج بھی لازماً کارآمد ثابت ہوں گے.یہ وہ نسخے نہیں جو اپنے اثر کو چھوڑ دیا کرتے ہیں.یہ دائمی نسخے ہیں.یہ قانون قدرت سے تعلق رکھنے والے نسخے ہیں.اور جیسے قانون قدرت تبدیل نہیں ہوتا یہ نسخے جو قانون قدرت پر مبنی نسخے ہیں ان کا اثر کبھی بھی پھر زائل نہیں ہو سکتا.کبھی بھی ان نسخوں کا اثر ضائع نہیں ہو سکتا.پس آپ ان کو استعمال کر کے دیکھیں.اس رنگ میں تبلیغ کریں جیسا کہ میں نے آپ سے بیان کیا ہے.عاجزانہ دعائیں کرتے رہیں اور دل کو تبلیغ میں ڈال دیں.تبلیغ کے ہو جائیں.خدا کی نمائندگی اختیار کرنے کی کوشش کریں اور دعاؤں کے ذریعے خدا سے مدد مانگیں.پھر دیکھیں انشاء اللہ دیکھتے دیکھتے اس سرزمین کی تقدیر تبدیل ہوگی.نئی شان کے ساتھ اسلام دوبارہ اس سرزمین میں آئے گا.یہ شان تلوار کی شان نہیں ہوگی بلکہ پیغام کی شان ہوگی.یہ سرزمین کی فتح نہیں ہوگی بلکہ
751 دلوں کی فتح ہوگی جو اس سرزمین پر بستے ہیں.اور یہ فتح دائمی فتح ہوگی.پھر دنیا کی کوئی طاقت، کوئی تلوار اسلام کے نشان اس مقدس زمین سے مٹا نہیں سکے گی.خدا کرے اس کی آپ کو توفیقی ملے.خدا کرے آپ وہ تاریخی شخصیتیں بن جائیں جن کے نام کے ساتھ علاقے لکھے جائیں.جن کے نام کو آئندہ آنے والی قو میں نخروں سے یاد کریں اور کہیں یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اندلس کی زمین کو دوبارہ خدا کے لیے فتح کیا تھا.اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.“ خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 136 تا144) متی و جون 1991ء میں حضور نے سرینام، گیانا اور ٹرینیڈاڈ کا دورہ فرمایا.ان ممالک کا بھی خلیفہ اتح کا یہ پہلا دورہ تھا.خلیفة المسیح 31 مئی 1991ء کو سر بینام کے صدر مملکت اور وزیر داخلہ سے ملاقات ہوئی.2 جون 1991ء کو ریڈیورا پار پر حضور کا قریباً 40 منٹ کا لائیو خطاب نشر ہوا.3 جون 1991ء کو مقامی ٹی وی چینل STVS پر 30 منٹ کے ایک پروگرام میں جماعت احمد یہ مبایعین خلافت اور غیر مبایعین میں فرق کو تفصیل سے بیان فرمایا.( یہ انٹرویو الفضل انٹرنیشنل لندن کے شمارہ مورخہ 22 تا 28 مارچ 2013ء کے صفحات 13 تا 15 پر جماعت احمدیہ قادیان اور لاہوری جماعت میں کیا فرق ہے؟“ کے عنوان کے تحت شائع شدہ ہے.) 3 رجون کو ہی سرینام کی بین المذاہب کونسل ( IRCS) کی طرف سے منعقدہ تقریب میں مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق کے بارہ میں اسلامی تعلیم کے موضوع پر خطاب فرمایا جو بعد میں Relationship between Religion and Politics in Islam کے عنوان سے شائع ہوا.گیا ن میں قیام کے دوران بھی گیانا کے صدر مملکت اور وز یر اعظم سے ملاقاتیں ہوئیں.رجون کوٹر بینیڈاڈ کے ایک روزہ جلسہ سالانہ سے خطاب فرمایا.10 جون کو صدر مملکت ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو سے ملاقات ہوئی.11 جون کو استقبالیہ تقریب سے خطاب فرمایا.اس تقریب میں حکومتی عہد یدار، وزراء اور مختلف
752 ممالک کے سفارت کار بھی شامل ہوئے.12 جون تا 16 جون 1991، حضرت خلیفہ مسیح الرابع حمداللہ نے نئے مال کا دوسرا دورہ فرمایا./ 13 جون کو Mixco شہر کے میئر اور کونسلرز نے حضور سے ملاقات کی.اسی روز نائب صدر مملکت اور صدر مملکت سے صدارتی محل میں ملاقات کی.بیت الشافی کلینک گوئٹے مالا کا افتتاح اور حضور رحمہ اللہ کا خطاب حضور رحمہ اللہ نے اسی روز بعد دو پہر گوئٹے مالا میں پہلے احمد یہ میڈیکل کلینک بیت الشافی کا افتتاح فرمایا.اس تقریب میں وزیر صحت Mr Migual Angel اور نمائندہ نائب صدر مملکت Mr Dvarto Ortiz نیز احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن امریکہ کے بعض ڈاکٹرز اور دیگر سر کردہ شخصیات نے شمولیت کی.پریس اور میڈیا کے نمائندگان بھی موجود تھے.کلینک کے افتتاح کے موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: 23 ہ ہمارے لیے ایک اہم موقع ہے کیونکہ ہم آپ کے پیارے ملک میں جسے میں بھی اپنا ملک سمجھتا ہوں، اپنا پہلا ہیلتھ کلینک کھول رہے ہیں.کیونکہ ملکوں کے ساتھ وابستگی کا میر انظریہ دوسرے لوگوں سے ذرا مختلف ہے.میں ہر ملک سے وابستہ رہنا چاہتا ہوں.کیونکہ میں انسانیت سے پیار کرتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ میں انسانیت کا ہوں.اس لیے یہ وابستگی کسی محدود حلقہ یا تنگ نظری پر منحصر نہیں ہونی چاہیے ورنہ یہ حالت ایک بہت خطرناک عالمگیر تصادم میں تبدیل ہوسکتی ہے.اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم انسان کو انسانیت سے وابستگی کا شعور سکھائیں.یعنی ہر جگہ سے وابستگی کا شعور.ہم ہی چیز پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کا صحت کے کا ساتھ ایک بہت گہراتعلق ہے.جب بھی ہم صحت کے بارے میں بات کرتے ہیں یا سنتے ہیں تو عمو نا خیال غریبوں اور لاچاروں کی طرف جاتا ہے.جیسا کہ ابھی عزت مآب وزیر صحت صاحب نے بھی بیان کیا ہے.ہر ملک کے غریب صحت کے معاملہ میں مدد کے محتاج ہیں حتی کہ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ
753 ممالک میں بھی خواہ امریکہ ہو یا انگلستان ان میں ایسی پسماندہ جگہیں ہے جہاں انسانیت ادئی ترین حالت میں پائی جاتی ہے.ہر گلی نظر انداز اور مدد کی محتاج.پس جب صحت کی بات ہوتی ہے تو اسے غریبوں کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے.لیکن میرے نزدیک امیروں اور لوگوں کے لیڈرز کو بھی صحت کی بہت ضرورت ہے ذہنی صحت ، نہ کہ جسمانی صحت یعنی ان کے فکری انداز کی صحت.اگر غریب بیمار ہوں تو وہ اپنا دکھ آپ سہ سکتے ہیں.اور ان کا یہ دکھ انہیں تک محدو درہتا ہے.لیکن جب بڑے لوگوں کی سوچیں بہار پڑتی ہیں اور جب لوگوں کے لیڈرز مثلا عالی لیڈرز ہمار ہوتے ہیں تو پھر سب دنیا کو بہار کر دیتے ہیں اور زندہ رہنے کے قابل نہیں چھوڑتے.پس ان کی بحالی صحت کے لیے ان کی مدد نسبتاً زیادہ ضروری ہے.یہی وجہ ہے کہ میں ان معاملات کو ہمیشہ جوڑتا ہوں.یہی بات دوسرے تمام انسانی معاملات پر صادق آتی ہے.مثلاً جب ایک صنعت کار ذہنی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو ملک کی پوری صنعت متاثر ہوتی ہے.جب ایک کامیاب تاجر ذہنی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو ملک کی ساری اقتصادی حالت متاثر ہوتی ہے.آپ کو بے اعتدالیاں نظر آنے لگتی ہیں.اور ذہنی صحت ہے کیا چیز؟ یہ توازن کا معاملہ ہے.تو جب ایک انسان دماغی طور پر توازن کھو بیٹھتا ہے تو وہی بے اعتدالیاں اس کے عملی میدان میں منتقل ہو جاتی ہیں.اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ملک کے سیاستدان ذہنی طور پر صحت مند ہوں اور اقتصادی ماہرین ذہنی طور پر صحت مند ہوں اور سب سے بڑھ کر مذہبی رہنماؤں کے لیے لازمی ہے کہ وہ ذہنی لحاظ سے صحت مند ہوں اور ہر لحاظ سے متوازن.ورنہ وہ نہ صرف اس دنیا کی تباہی کا موجب بنیں گے بلکہ اخروی زندگی کو بھی تباہ و برباد کر دیں گے.اس لیے ایسے توازن کو کھو بیٹھنے والے مذہبی رہنماؤں کے زیر اثر ہونا دوہرا خطرہ مول لینا ہے.صحت کے اس وسیع تر نظریہ کے مطابق میں اور تمام عالمگیر جماعت احمد یہ پوری دنیا کی زندگی کے ہر شعبہ میں صحت کی بہتری کے لیے کوشش کر رہے ہیں.جسمانی صحت اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے.لیکن ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ غریب لوگوں کی جسمانی صحت بہتر نہیں کی جاسکتی جب تک کہ وہ صحت بہتر نہ کی جائے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.وہ بنیادی طور پر صحت مند
754 لیڈر شپ سے محروم ہیں.جب لیڈر شپ انہیں وہ کچھ مہیا نہیں کرتی جس کی انہیں ضرورت ہے تو وہ ایک قسم کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جو ان کی زندگی کے ہر شعبہ پر اثر انداز ہوتی ہے.لیکن میں اس ذکر کو مختصر کرتے ہوئے صحت کے موضوع کی طرف کو ٹتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ ہر آدمی کے لیے پہلے اپنی صحت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے.نہ صرف جسمانی صحت بلکہ وہ صحت جس کا میں نے ذکر کیا یعنی ذہنی صحت، اور یہ عمل ہر ایک کی اپنی ہی ذات سے شروع ہوتا ہے.اگر میں بحیثیت مذہبی رہنما اپنی ہی صحت کا خیال نہیں رکھ سکتا تو دوسرے لوگوں کی صحت کی دیکھ بھال کیسے کر سکتا ہوں.پس انسانیت کے نام میرا یہ پیغام ہے کہ بس ! اب ہمیں اپنی اندرونی حالت کی طرف متوجہ ہونا چاہیے.دوسروں پر تنقید کافی ہو چکی وہ ہم ہمیشہ ہی کرتے ہیں.یہ بہت ہی آسان اور معمولی بات ہے.لیکن اپنے آپ پر تنقید کرنا بہت ہی زیادہ ضروری ہے.اپنی زندگی کے نظریات کی اصلاح کرنا، اپنی نیتوں کو جانچنا اور اپنے ہی نفس کے خلاف یہ جنگ ہم میں سے اکثر ہار چکے ہیں.یہ جنگ نیتوں سے شروع ہوتی ہے.نیتیں ہمیشہ ہر ایک کے دل اور دماغ سے پھوٹتی ہیں.لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ جس کی نیت کچھ کرنے کی ہے وہی اس نیت کی حقیقی بنیادی وجوہات سے سب سے کم باخبر ہوتا ہے.لوگ دوسروں کو بتلاتے ہیں کہ تمہاری نیتیں یہ تھیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہتے ہیں کہ نہیں میری نیتیں اچھی تھیں.لیکن اس رویے میں کوئی بنیادی غلطی ہے.مثلاً اگر ہم جنگوں کی بات کریں تو ہرلڑنے والا ملک جنگ میں بہترین نیتیں لے کر داخل ہوتا ہے.اگر ہم انسان کے انسان کے ساتھ جھگڑوں کی بات کریں یا عدالتوں میں جا کر دیکھیں تو یہی نظر آتا ہے کہ ہر انسان اپنے آپ کو معصوم اور بہترین نیتوں کا حامل سمجھتا ہے.آخر انسان کسی غلطی میں مبتلا ہے.بہر حال کہیں نہ کہیں خرابی ضرور ہے.ذرا عراق اور ایران کی جنگ پر غور کریں.یہ مسلسل آٹھ سال لڑی جاتی رہی.دونوں ایک دوسرے کو ہرانے کی بہترین کوشش کرتے رہے.لیکن بہترین کا مطلب ہر ایک کے لیے مختلف تھا.دوسروں کو ہلاک کرنا اچھا تھا.لیکن مارا جانا برا تھا.جب کوئی ایرانی سپاہی کسی عراقی مسلمان کے ہاتھوں مارا جاتا ( اور میں آپ کو یاد کراتا ہوں کہ دونوں مسلمان ہیں) تو ایرانی نقطہ نظر کے
755 مطابق وہ شہید اور جنتی تھا.لیکن عراقی مارنے والے کے خیال اور ایمان کے مطابق اس نے اس کوسیدھا واصل جہنم کیا اور کوئی اسے روک نہ سکا.اور اسی طرح اس کا برعکس بھی صحیح تھا.دونوں ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کی نیتوں نے سب چیزوں کو ایک دوسرے کے لیے بالکل مختلف بنا دیا تھا.لیکن یہ صرف مسلمانوں کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کا مشترکہ مسئلہ ہے.جب آپ عیسائی سیاستدانوں کی طرف توجہ کریں تو وہ بھی اسی طرح عمل کرتے نظر آتے ہیں.اسی طرح عراق و ایران جنگ کے بارہ میں میں آپ کو یاد کراتا ہوں کہ امریکہ مسلسل آٹھ سال عراق کی مکمل پشت پناہی کرتا رہا.یہی صدام حسین جو بعد میں امریکن نظریے کے مطابق دنیا کا سب سے بڑے شریر آدمی کے طور پر ظاہر ہوا امریکہ کی طرف سے اسے مکمل حمایت حاصل رہی.مغربی طاقتوں نے ہی اسے خطرناک زہریلی گیس بنائی سکھائی.ایرانیوں کی ہلاکت کے لیے عراق کو مسلسل نہایت خطرناک اور مہلک ہتھیار مہیا کیے جاتے رہے اور دنیا کے کسی سیاستدان کے کان پر جوں تک نہ رینگی.عراق نے ایران کے قریبا تیسرے حصے پر قبضہ کر لیا لیکن کوئی بھی حرکت میں نہ آیا.لیکن جب عراق کی امریکہ کے ایک دوست ملک کی طرف توجہ پھری تو ہر چیز یکدم مکمل طور پر بدل گئی.چنانچہ یہی میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے نہ عیسائیوں کا بلکہ یہ تمام بنی نوع انسان کا مسئلہ ہے.انسان صحت مند نہیں.آج کے انسان کی صحت میں کچھ بنیادی خرابی ضرور ہے.مذہب بھی اس معاملہ میں مستی انہیں (جیسا کہ میں پہلے ہی اقرار کر چکا ہوں) ہم بھی عموماً صحت مند نہیں.مذہبی رہنما ایک دوسرے کے بارے میں غلط رویہ رکھتے ہیں جو کہ اللہ والوں کا نہیں.غیر اللہ والا رویہ رکھتے ہوئے کوئی اللہ والا کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ میری سمجھ سے باہر ہے.اللہ کے نام پر کوئی دوسروں سے نفرت کی تعلیم کیسے دے سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کی مخلوق سے نفرت اور خالق سے پیار ہو؟ میں یہ سادہ سا فارمولہ نہیں سمجھ سکتا.میں تو یہ جانتا ہوں کہ جب میں کسی فن سے پیار کرتا ہوں تو فنکار سے بھی پیار کرتا ہوں.جب میں موسیقی سے پیار کرتا ہوں تو موسیقار سے بھی پیار کرتا ہوں.یہاں سے یہ عمل شروع ہوتا ہے.موسیقار سے دلچسپی لگاؤ اس کی موسیقی سے شروع ہوتا ہے، نہ کہ موسیقار سے موسیقی کی
756 طرف.بہاؤ ہمیشہ فن سے فنکار کی طرف ہوتا ہے نہ کہ فنکار سے فن کی طرف.ہم اپنے خدا کو اس کی مخلوق سے ہی پہچانتے ہیں.یہی ایک راستہ اس تک پہنچنے کا کھلا ہے.بیک وقت ہم خالق سے پیار اور اس کی مخلوق سے نفرت کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ ایک سادہ سا مسئلہ میری سمجھ سے باہر ہے.میری زندگی کا یہی مقصد ہے اور یہی میں لوگوں کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ خدا کے لیے پہلے اپنے آپ کو صحت مند بنا ئیں.آپ پہلے دیانتدار بنیں اور سادگی اختیار کریں.اور اپنی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کریں.جب آپ مذہبی اختلافات کے نام پر نفرت کرنی شروع کرتے ہیں تو خدا کو کھو بیٹھتے ہیں.تو پھر آپ کس کی طرف سے لڑ رہے ہیں ؟ اب تو خدا تمہارے ساتھ نہیں رہا.جیسے ہی تم نے اس کے نام پر نفرت کا سوچا وہ تمہارا نہ رہا.پس اپنے جوش کو بھول جائیں کیونکہ اب آپ خدا کے نام پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہے.کیونکہ وہ پہلے ہی آپ کے خلاف ہو چکا ہے.میں آپ کا مزید وقت نہیں لینا چاہتا.میں اس خطاب کو اب ختم کرنا چاہتا ہوں.لیکن آخر پر مجھے یہ اجازت دیں کہ میں آپ کو دعوت دوں کہ ہمارے ساتھ مل کر ذہنی بیماریوں کے خلاف، بدصورتیوں کے خلاف اور انسان میں پاگل پن کے خلاف جہاد کریں.جو بھی ہمارا مذہب ہو اور جس ملک سے بھی ہماری وابستگی ہو ہمیں اپنے آپ کو یہ سکھانا شروع کرنا ہوگا کہ ہم انسانیت، تہذیب اور Common Sense والے ہیں، اور ہمیں اپنے زندگی کے رویہ کو درست کرنا چاہئے.صرف اور صرف اس کے بعد ہم غریب لوگوں کی صحت کے معیار کو بہتر بنانے کے قابل ہوں گے.اور صرف اس کے بعد ہم دنیا میں قحط کو شکست دینے کے قابل بنیں گے.یہ خوراک کی کمی کا مسئلہ نہیں.یہ انسان میں اخلاق کی کمی کا مسئلہ ہے.آپ کو علم ہو گا کہ کھرب ہا ڈالرز عراق اور کچھ حد تک کویت میں زندگی کو ختم کرنے پر صرف کیا گیا.میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ اگر اس کھرب با ڈالرز میں سے صرف چار ارب ڈالرز براعظم افریقہ، جو پچھلے کئی سالوں سے قحط اور بھوک سے مر رہا ہے، پر خرچ کیا جاتا تو سارے افریقہ سے بھوک کا نام ونشان مٹ جاتا.امریکہ جو دنیا کا امیر ترین ملک ہے اسے جنگی اخراجات کے لیے ارب ہا ڈالرز، صرف جاپان نے نو (9) ارب ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے اور کویت اور سعودی عرب اس جنگ کے
757 اخراجات کا بڑا حصہ ادا کریں گے.اگر انہیں خدا کا خوف ہوتا اور انہوں نے اپنی بے انتہا دولت میں سے ایک معمولی سا حصہ بھی افریقہ کے مصیبت زدہ غریب انسانوں پر خرچ کیا ہوتا تو یہ جنگ شاید نہ ہوتی، کیونکہ جب ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کرنا بھول جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرنا ارادة بھول جاتا ہے.انسان کی مصیبت زدہ حالت کی آخری وجہ ہر جگہ یہی ہے.اگر انسان صحت مند ہو جائے تو میں دوبارہ کہتا ہوں کہ دنیا میں کوئی مصیبت باقی نہ رہے.خدا تعالیٰ نے ہمیں پہلے ہی سے اتنی کافی اشیائے ضروری اور پوشیدہ طاقتیں مہیا کر دی ہیں کہ انسان اپنے رہنے کے لیے ہیں وہ جنت بنا سکتا ہے اگر اس کا رویہ جنتی بن جائے.پس ہم ہمیشہ غریب یا تیسری دنیا کے ملکوں کے غرباء کی صحت کے معیار کو بہتر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑا کام ہے اور بہت بڑا چیلنج ہے.ہم ایک چھوٹی سی جماعت ہیں اور محدود وسائل رکھتے ہیں.ہم یہ کام صرف اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے کرتے ہیں تا جب خدا کے روبرو پیش ہوں تو کم از کم اتنا کہ سکیں کہ آخر ہم نے غرباء کے لیے کچھ تو کیا لیکن یہ مسئلہ ہماری طاقت سے بہت بالا ہے.تمام بنی نوع انسان آپ، آپ سب مل کر آج انسان میں سے ایک بہتر انسان بنائیں اور مل کر ان سب چیلنجوں کا مقابلہ کریں.ان چیلنجوں کا مقابلہ صرف سچائی اور عاجزی سے ہوسکتا ہے نہ کہ کسی اور چیز سے.خدا آپ کو اپنے فضل سے نوازے.“ گوئٹے مالا میں استقبالیہ تقریب میں حضور کا خطاب اسی شام ہوٹل Camino Real میں مکرم الیاس چوہدری صاحب کی طرف سے حضور رحمہ اللہ کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا گیا جس میں ملک کی مستعد راہم شخصیات کے علاوہ پریس کے نمائندگان بھی موجود تھے.حضور رحمہ اللہ نے اس موقع پر حاضرین سے انگریزی زبان میں جو خطاب فرمایا اس کے بعض اہم نکات درج ذیل ہیں.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: ”جب کوئی کسی ملک میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد وہاں سے روانہ ہونے لگتا ہے تو اس ملک یا اس کے لوگوں کے بارہ میں چند اچھی اور خوش کن باتیں کہنا جو اس سفر کی اچھی یادیں پیچھے
758 چھوڑ جائیں ایک عام دستور بن چکا ہے.لیکن یہ طریق ایک مذہبی راہنما کے لیے اتنی آسان بات نہیں جسے دوسروں کو خوش کرنے کی شدید خواہش کے ساتھ ساتھ بہر حال سچی بات کہنا ہوتی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.تہذیب اگرچہ دین کا ہی حصہ ہے اور کوئی مذہب کے بغیر سچا ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا لیکن ایک حد کے بعد تہذیب اور سچائی میں سے کسی ایک کو چنا پڑتا ہے اور کوئی سچا اور ٹھوس مشورہ جھوٹی خوش آمدوں پر مبنی نہیں ہو سکتا.سب سے پہلے آپ کو بہر حال درست بات کہنا ہو گی.اگر اپنے بارے میں آپ میرے خیالات جاننا چاہیں تو وہ یہ ہیں کہ میں نے آپ کو بہت خوش مزاج لوگ پایا.لیکن آپ کو بہت بڑی مشکلات درپیش ہیں ،ایسی مشکلات جن کا آپ سامنا نہیں کر پار ہے.ہر چیز جو نظر آتی ہے اچھی نہیں اور ابھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو آنکھ سے اوجھل ہیں.لیکن اس بات کو مختصر کرتے ہوئے میں کچھ تجاویز دینا چاہتا ہوں.گزشتہ دورہ کے مشاہدہ کی طرح اس بار بھی میں نے گوئٹے مالن لوگوں کو بہت اچھا، فراخ دل اور بیچ سے پیار کرنے والا پایا.لیکن وہ ابھی تک اپنا شخص نہیں پا سکے.صدیوں کی کوشش کے باوجود ان میں ابھی تک ایک قوم جیسی بھیجتی پیدا نہیں ہوسکی.یہاں پر مختلف قسم کے گروہ اب تک اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ان کا شخص ہی غالب آئے.آپ ایک شخصی قوم کی بجائے کئی مختلف شخصیتوں، نسلوں، مذہبوں اور امیر و غریب کی تفریق میں بٹی ہوئی ایک قوم ہیں.آپ کو اتنی زیادہ مشکلات درپیش ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ آپ کو اس سے بھی زیادہ ظلم کی طرف لے جائیں جو آپ میں سے بہت سے کمزوروں پر ہو چکے ہیں.یہی بات میں اپنے پیارے دوست سابق وزیر داخلہ Mr.Carlos Morales سے بیان کر رہا تھا اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ اس بات پر مجھ سے متفق ہوں گے.پس اس کا کیا جواب ہے؟ ہم اس انتشار میں سچائی کیسے پاسکتے ہیں؟ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایک سطحی نصیحت آپ کے کام نہ آئے گی، نہ ہی لوگوں کے دل و دماغ بدلنے میں کامیاب
759 ہوگی.میں ایک نہایت کمزور انسان ہوں جسے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جائے گی.ایک مختصر نشست پوری قوم کی تاریخ کا رُخ موڑنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی.لیکن میں آپ کو تہ دل سے ایک چھوٹا سا مشورہ دینا چاہتا ہوں.یہ پیغام اگر آپ آگے پھیلاتے چلے جائیں تو حالات بدل سکتے ہیں.میرا پیغام یہ ہے جو میں کامل یقین اور اپنے وسیع تر تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ آپ کو صرف خدا کا پیار ہی بچا سکتا ہے.صرف یہی ایک قوت ہے جو آپ کو ایک بنانے کی طاقت رکھتی ہے اور معاشرہ کا ایک شخص واپس لاسکتی ہے.اگر آپ خدا سے سچا پیار کریں تو آہستہ آہستہ، دن بدن زیادہ خدا والے بنتے چلے جائیں گے اور ایسے انسان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ مخلوق خدا پر ظلم کرے.ناممکن ہے کہ وہ ان برتریوں کی بنا پر فخر کریں اور تکبر سے کام لیں جو انہیں بد قسمت غریب معاشرہ کے لوگوں پر حاصل ہے.خدا کا پیار عاجزی پیدا کرتا ہے.خدا کا پیار نفسانی لذتوں کے حصول کی خواہش کو کم کرتا ہے.خدا کی محبت نفسانی ہیجانوں کو قناعت میں تبدیل کر دیتی ہے اور یہ متبادل قدریں ہیں.مادہ پرست دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دراصل قدروں کا تبادلہ ہے.ہمارے آباء واجداد گوغریب تھے مگر ان کے پاس امن و قناعت تھا جس کے بدلہ میں آج کی نوجوان نسل نے گھٹیا اور وقتی هیجان، Pop Music اور ان سب چیزوں کو اپنایا ہے، جو آپ کو وقتی طور پر لذت دینے کے بعد احساس محرومی اور بے چینی کی حالت میں چھوڑ جاتے ہیں.آپ گھٹیا ہیجانوں کا پیچھا کرتے ہوئے کبھی بھی دائمی خوشیاں حاصل نہیں کر سکتے.میں اس بات کو مزید آگے لے جاسکتا ہوں.مثلا کلاسیکل موسیقی میں ہمیشہ آپ کو گہرے پیغام ملیں گے.کلاسیکل موسیقی میں ایسا سر پایا جاتا ہے جولوگوں کے دلوں کے اندرونی سرور سے مل کر ایک گہری مطابقت پیدا کرتا ہے.مگر اب ایسا نہیں.Pop Music کا پیغام بے چینی اور بدامنی کا پیغام ہے اور اس کا مقصد انسان کی بدترین حالتوں اور حیوانات کے جذبوں کو ابھارنا ہے جو قناعت پیدا نہیں کرتے.اگر آپ Pop Music سے پیار کرنے والی نسل کو قریب سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ کس قدر بے چین اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہیں.وہ نہیں جانتے کہ کدھر جا رہے ہیں.نہ ہی انہیں یہ معلوم ہے
760 کہ وہ کامل سکون کہاں سے حاصل کریں جس کی تلاش میں وہ دیوانہ وار بھاگ رہے ہیں لیکن جو ان سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے.آپ کے حالات پر ہی میرا تجزیہ ہے.میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ پہلے ہی کافی تاخیر ہو چکی ہے.اگر میں آپ کے سامنے وہ سب امور رکھوں جو میری نظر میں ہیں تو یہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوگا کیونکہ کئی حقیقتیں بہت بھیانک اور پریشان کن ہیں.آپ شاید ایسی حقیقتیں سنا بھی پسند نہ کریں.خاص طور پر ایک ایسے مہمان کی زبان سے جو چند دن آپ کا مہمان رہا اور جس سے آپ نے بہت حسن سلوک کا معاملہ کیا.میں دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ میری تربیت، میرا ضمیر اور میرا ذاتی رجحان یہی ہے کہ اپنے میزبان کے لیے کوئی ناشائستہ الفاظ استعمال نہ کروں، خاص طور پر ایسے میزبان کے متعلق جس نے مجھے اپنے حسن سلوک سے گرویدہ کر لیا ہو.لیکن میرے دل میں جو آپ کا، آپ کے مستقبل کا اور انسانیت کا احترام اور قدر ہے وہ مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں آپ کو یہ پیغام دوں کہ جو کچھ یہاں جو رہا ہے وہ سب ٹھیک نہیں.یہاں بعض بہت پریشان کن واقعات ہوتے رہے ہیں اور ہور ہے ہیں.صرف سطحی طور پر امن و امان کی حالت دکھائی دیتی ہے.اندر ہی اندر حالات بگڑ رہے ہیں.پس خدا کی محبت کے پیغام کو پھیلائیں مگر ایک فرق کو ہمیشہ مد نظر رکھیں جس کے بعد کو نظر میں اپنے اس خطاب کو ختم کروں گا اور وہ یہ کہ مذہب کی محبت کو خدا کی محبت میں مدغم نہ کریں.یہ دونوں چیزیں ہمیشہ یکساں نہیں ہوتیں.بسا اوقات مذہب کی محبت پاگل پن، نفرت اور تفرقہ پیدا کردیتی ہے جبکہ خدا کی محبت کبھی ایسا نہیں کرتی.ہم بظاہر سمجھتے ہیں کہ مذہبی لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں مگر یہ درست نہیں.یہ لوگ وہ ہیں جو مذہب سے پیار کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ کون خدا ہے؟ اور کس کی طرف ہے؟ وہ تعصب کی بنیاد پر مذہب سے پیار کرتے ہیں کیونکہ وہ انہیں قدروں کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں.وہ اپنے مذہب کو سچائی کے بدلہ میں بھی تبدیل کرنا نہیں چاہتے خواہ انہیں باہر سچائی نظر آتی ہو.خصوصاً جدید دور میں مذہب سے پیار نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے.یہ لوگوں کے درمیان فاصلوں کو بڑھاتا ہے اور خدا کی محبت کو نفرت میں تبدیل کرتا ہے اور لوگوں میں یہ
761 ہیجان پیدا کرتا ہے کہ وہ دوسرے انسانوں سے نفرت کریں.میں آپ کو مذہب سے محبت کی طرف دعوت نہیں دے رہا.خدا سے پیار کریں یہی سب سے محفوظ راستہ ہے.جب آپ خدا سے سچا پیار کریں گے تو پھر خدا خود آپ کی کسی مذہب کی طرف راہنمائی کرے گا.پس آپ کو اس کی پیروی پیار کے ساتھ کرنی چاہیے، نہ کہ جبر کے ساتھ.پس آج کی دنیا کا ہر جگہ یہی معمہ ہے.مسلم دنیا کا بھی اور عیسائی دنیا کا بھی کہ مذہب سب سے زیادہ اہمیت حاصل کر گیا ہے اور خدا اور انسان کے درمیان روک بن گیا ہے.میں آپ کو مذہب کی طرف دعوت نہیں دے رہا، نہ اپنے نہ کسی اور کے.بلکہ پہلے سبق کے طور پر آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ خدا کی طرف رجوع کریں.یہ مشکل بات نہیں بلکہ یہ بہت ہی خوش آئند اور رفعتیں عطا کرنے والی بات ہے.جب آپ کوئی خوشی محسوس کرتے ہیں تو بعض اوقات سوچتے ہوں گے یہ خوشی اور اس کو محسوس کرنے کی صلاحیت، سیکھنے کی صلاحیت، جاننے کی صلاحیت، سمجھنے کی صلاحیت آپ کی پیداوار نہیں بلکہ یہ کوئی بالا ہستی ہے جس نے آپ میں ضمیر پیدا کیا ہے اور حواس خمسہ عطا کئے ہیں.اور کوئی ارتقائی نظریہ بھی یہ نہیں سمجھا سکتا کہ یہ حواس خمسہ کیسے پیدا ہوئے ؟ اور یہ پیغام کس طرح برقی جنبشوں میں تبدیل ہوتے ہیں؟ اور پھر وہ ایسی چیزوں سے سمجھے جاتے ہیں جن کو ہم جانتے ہیں، نہ چھو سکتے ہیں.پس آپ ان سب چیزوں کی گہرائیوں میں اتریں اور ان پر مزید غور کریں تو یہ آپ کو خدا کی طرف لے جائیں گے.آپ تب ہی خدا کے شکر گزار بن سکتے ہیں جب آپ اس کی مخلوق سے بے حد محبت کرنے والے ہوں.آپ میں سے جو خدا سے پیار کرنا سیکھ لیں گے وہی لوگوں کو سلامتی اور نجات کی طرف لے کر جا سکیں گے.اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو مادہ پرستی آپ کو نہیں بچا سکے گی.یہی میری خواہش اور یہی میری دعا ہے.اس کے ساتھ میں آپ سے اجازت چاہوں گا.واقعہ میں گوئٹے مالن لوگوں کو پسند کرتا ہوں.میں نے کافی عرصہ ان حسین یادوں سے گزارا جو اپنے گزشتہ دورہ میں یہاں سے لے کر گیا تھا.اب بھی میں آپ کی دوستی اور گرم جوشی کی حسین یادیں لے کر واپس لوٹوں گا.
762 آج کے زمانہ میں حیرت انگیز طریق پر خوشی کے ساتھ زندگی بسر کرنا آپ کی ایک نمایاں صفت ہے.یہ جاننے کے باوجود کہ میں ایک بالکل مختلف مذہب سے تعلق رکھتا ہوں اور اپنے عقائد پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوں اس کے باوجود میرے ساتھ پر خلوص، مہر بانی اور مفاہمت کے ساتھ پیش آنا گوئٹے مالن کی یہ صفت مجھے بہت پیاری ہے.پس میں اپنے ساتھ مزید یا دیں لے کر واپس جاؤں گا اور آپ کے لیے دعائیں کروں گا.اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ میرے اس پیغام کو سنجیدگی سے لیں گے.خدا کی طرف کو نہیں اور دوسروں کی بھی خدا کی طرف رہنمائی کریں.اللہ تعالی آپ کو اپنے فضلوں سے نوازے.(آمین) 14 جون کو نماز جمعہ کے بعد بیعت کی تقریب ہوئی.14 جون کو ہی احمدی ڈاکٹرز کے ساتھ ایک ملاقات کی جس میں ڈاکٹر امتیاز احمد چوہدری صاحب صدر احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن امریکہ کے علاوہ امریکہ سے آنے والے ڈاکٹرز اور انچارج میڈیکل کلینک گوئٹے مالا ڈاکٹر جمال الدین ضیاء صاحب نے شرکت کی.اسی طرح سپین سے آئے ہوئے ڈاکٹر عطا الہی منصور صاحب بھی اس میں شامل ہوئے.حضور نے اس میٹنگ میں متعدد اہم نصائح فرمائیں.حضور نے فرمایا کہ لاطینی امریکہ میں ہومیو پیتھک علاج کو رائج کرنا چاہئے.اسی طرح حفظ ما تقدم کے لئے عام طبی ہدایات پر مبنی پمفلٹ کی اشاعت اور تقسیم بہت مفید ہو سکتی ہے.15 جون کو مجلس عاملہ گوئٹے مالا کی میٹنگ بلائی جس میں دیگر ممالک سے آئے ہوئے عہدیداران بھی شامل ہوئے.16 جون کو حضور نے انڈین چیفس کے ایک گروپ سے ملاقات فرمائی اور مختصر خطاب فرمایا.اور اسی روز میکسیکو کے لئے روانہ ہو گئے.ذیل میں اس اہم خطاب کے بعض نکات پیش کئے جاتے ہیں.گوئٹے مالن قدیم انڈین باشندوں سے بصیرت افروز خطاب اور ایک اہم پیغام Mr Diego Molina گوئٹے مالا کے ایک مشہور صحافی ، فوٹوگرافر اور ایک مقامی رسالہ گوئٹے مالا فاسال کے ایڈیٹر ہیں، ان کی متعدد مضامین پر مشتمل خوبصورت تصویری کتب تمام لاطینی امریکہ میں مشہور
763 ہیں.انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع حمہ اللہ تعالی کے دورہ گوئٹے مالا 1991 ء کے دوران آپ سے تفصیلی ملاقات کی اور حضور انور کی خواہش کے پیش نظر اپنے تعلقات کی بناء پر گوئٹے مالا کے قدیم باشندوں کے پندرہ نمائندوں سے ملاقات کا انتظام کیا.جب یہ مہمان حضور کی قیام گاہ پر اپنے مخصوص لباس میں تشریف لائے تو حضور پر نور بنفس نفیس ان کے استقبال کے لیے اپنی قیامگاہ سے باہر تشریف لائے جہاں ان کا آپ سے تعارف کروایا گیا.اس موقع پر سپینش زبان میں Mr Diego Molina اور مکرم ڈاکٹر عطاء الہی منصور صاحب نے اور مقامی زبان میں مسٹر استینسالاؤ نے مترجم کے فرائض سر انجام دیے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب ہو کر فرمایا : میں آپ سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں.اللہ تعالٰی آپ کو اپنے فضلوں سے نوازے.نیز آپ کو شہ دل سے خوش آمدید کہتا ہوں اور یہاں آنے پر نہ صرف آپ کا شکر گزار ہوں بلکہ M T Diego Molina صاحب کا بھی جنہوں نے میری خواہش کے مطابق اس ملاقات کا انتظام کیا.میں نے آپ کے بارہ میں بہت کچھ پڑھا ہے اور نہ صرف گوئٹے مالا بلکہ وسطی اور جنوبی امریکہ کے تمام قدیم باشندوں کی تہذیب اور تاریخ سے بھی بخوبی واقف ہوں اس لئے میرے سامنے دوبارہ ان چیزوں کے بیان کی ضرورت نہیں جو میں پہلے سے جانتا ہوں.میں اس وقت آپ سے اپنے علم کے مطابق کچھ کہنا چاہتا ہوں.میرا تعلق اسلام کی اس مذہبی جماعت سے ہے جو بعض امور میں عام مسلمانوں سے ذرا مختلف ہے.اسلام وہ مذہب ہے جو دنیا میں چودہ سو سال پہلے ظاہر ہوا، جس کے بانی کا نام محمد تھا.انہوں نے تعلیم نہیں دی کہ آپ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء مثلاً حضرت موسی علیہ السلام یا حضرت عیسی علیہ السلام جھوٹے تھے بلکہ آپ نے ان کو سچا قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ خدا ہی کی طرف سے آئے تھے اس لیے ان سب کی عزت لازم ہے.نیز آپ ﷺ نے یہ تعلیم دی کہ خدا تعالی سب دنیا کا ہے اور قدیم زمانوں سے ہی دنیا کے سب لوگوں پر ظاہر ہوتا رہا ہے.اسلام کی اس تعلیم کے نتیجہ میں مجھے دنیا کی کئی پرانی تہذیبوں
764 کے افراد سے ملنے کا شوق پیدا ہوا اور یہ معلوم کرنا میری اہم دلچسپیوں میں سے ہے.کیا واقعہ دنیا کی ہر قوم پر وہی ایک خدا ظاہر ہوتا رہا؟ اس وجہ سے میں اب تک شمالی امریکہ اور کینیڈا کے قدیم باشندوں اور ان کے رہنماؤں سے مل چکا ہوں.اسی طرح آسٹریلیا کے قدیم باشندوں سے بھی گہرے تعلقات رکھتا ہوں.اور ان کے رہنماؤں کو بھی اچھی طرح سے جانتا ہوں.اسی طرح جب میں نیوزی لینڈ گیا تو وہاں Maori قوم کے رہنماؤں سے بھی ملا جن سے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں اور وہ بھی مجھے لندن ملنے آئے.چنانچہ نہ صرف قرآن کریم کی تعلیم کی وجہ سے بلکہ ان گہرے اور وسیع تعلقات کی بنا پر میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ خدا جو دنیا کے سب لوگوں پر ظاہر ہوتار ہاوہ ایک ہی خدا ہے.اس کے ساتھ میں نے ان وجوہات کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ اپنے وقت میں دنیا کے ترقی یافتہ ترین لوگوں کی یہ عظیم تہذ یہیں آخر کیوں ختم ہو کر ماضی کا حصہ بن گئیں؟ چنانچہ میری تحقیق نے اس کا حل مجھ پر یہ کھولا کہ بالخصوص جنوبی امریکہ کے لوگ ابتدا میں ایک خدا پر ایمان رکھتے تھے مگر امارت آجانے اور رسم و رواج میں پڑنے کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ انہوں نے بت پرستی شروع کر دی اور عام انسانوں کو ہیرو بنانا اور پھر خدائی تصور دینا شروع ہو گئے.تب خدا نے ان میں بار بار اپنے نذیر بھیجے.لیکن جب انہوں نے ان کی کچھ نہ سنی تو خدا تعالیٰ نے انہیں تباہ و برباد کر دیا اور دنیا میں ہر جگہ یہی ہوتا رہا ہے.میں یہاں آپ کو ایک پیغام دینے آیا ہوں اور آپ کو سمجھانے کی خاطر ا سے بہت سادہ اور صاف لفظوں میں بیان کرنا چاہتا ہوں.ان سب قدیم قوموں میں جن کو میں پہلے سے جانتا ہوں اور آپ کے درمیان ایک مشابہت ہے.شمالی امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے قدیم باشندے بھی زمین کو مقدس قرار دیتے ہیں.ان سب کے لیے زمین ہی اہم ترین چیز ہے.سب ایک ہی مصیبت کا نشانہ ہیں اور وہ یہ کہ ان کی زمین ان سے چھٹتی چلی جارہی ہے اور وہ اپنی زمینوں سے باہر دھکیلے جارہے ہیں.انہیں ایسے لگتا ہے جیسے ان کی ماں ان سے چھینی جارہی ہے.میں نے ان سب کو اسی مصیبت میں مبتلا پایا ہے.مگر اس کا جواب بغاوت ہے نہ اس قوم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا جو ان سے یہ
765 سلوک کر رہی ہے.ان کے ساتھ کامیابی سے لڑائی کرنانا ممکن ہے کیونکہ یہ آپ کی مزید بربادی کا باعث ہوگا اور آپ کو مستبقل کی بجائے مزید ماضی کی طرف دھکیل دے گا.یہ میراوہ ایک اہم پیغام ہے جو میں دیتا رہا ہوں اور آپ کو بھی دینا چاہتا ہوں.لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو کرنا کیا چاہیے؟ آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ آپ صرف اپنے ان خیالات کی وجہ سے پسماندہ سمجھے جاتے ہیں جو اپنی زمین سے متعلق آپ رکھتے ہیں.آپ سب پرانی تہذیبوں کے کا شکار لوگ ہیں.جو بھی زمین پیدا کرتی ہے بس اسی پر آپ کا انحصار ہے.اس لیے اپنی بقا کے لیے دن بدن آپ کو بڑی زمینیں درکار ہوتی ہیں اور یہ پیداوار بڑھانے والی بات نہیں.جدید دنیا پیداوار بڑھانے والوں کی دنیا ہے اور یہی قدیم اور جدید دنیا کو تقسیم کرنے والی چیز ہے.پس جدید دنیا کا حصہ بننے کے لیے آپ کو پیداوار بڑھانے کے طریق سیکھنے ہوں گے.جدید دنیا کا انسان یہ کہتے ہوئے آپ سے زمین چھینتا ہے کہ آپ زمینیں ضائع کر رہے ہیں.آپ کو علم ہی نہیں کہ زمین کا بہتر استعمال کیسے کیا جائے.اس لیے براہ مہربانی ہمارے لیے کچھ اور زمین چھوڑ دو تا کہ ہم اس کی کاشت سے زیادہ بہتر فائدہ اٹھا سکیں.پچھلی کئی صدیوں سے یہی کچھ ہوتا چلا آرہا ہے.جدید دور کے انسان کے ہاتھ میں یہی ایک ہتھیار ہے جس کے زور سے وہ آپ کو باہر دھکیل دیتا ہے اور جس کا استعمال وہ عقلاً جائز اور منصفانہ سمجھتا ہے.اس لیے آپ کو میرا پیغام یہ ہے کہ آپ زمین کے بہتر استعمال میں جدید دنیا کے انسان سے مقابلہ کریں اور اپنی ہزاروں سال پرانی سستیوں والی زندگی کی عادت کو ترک کریں.حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں اور جدید دنیا کے انسان کو یہ بتادیں کہ ہم زمین کا بہتر استعمال جانتے ہیں اور اب تمہارے پاس ہم سے زمین چھینے کے لیے کوئی بھی وجہ باقی نہیں رہی.میں آپ کو مذاہب کے اختلاف کی بحث میں نہیں لانا چاہتا اور نہ ہی ان کے فرقوں کی تعریف کی بحث میں پڑنا چاہتا ہوں.اگر میں آپ کو ان تفریقوں کے سمجھنے کی امید کے ساتھ ان میں پڑنے کی دعوت دوں تو یہ بڑی بیوقوفی ہوگی اور آپ پر ظلم ہوگا.
766 اس لیے میں ایک بالکل مختلف بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ مذاہب صرف نظریاتی سطح پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں کہ خدا کیا چیز ہے؟ اور اس کی صفات کیا ہیں؟ وغیرہ لیکن اخلاقی سطح پر ان میں کوئی فرق نہیں.اس لیے جب آپ اخلاق پر غور کریں تو دنیا کے ہر مذہب کو تسلیم کر لیں اور اس کے لیے کسی بحث میں نہ پڑیں.آپ کے عقائد بہت سادہ ہیں اس لیے آپ کی زندگی بھی سادہ ہونی چاہیے.آپ کو شراب، ناچ گانے اور چھوٹے بڑے جرائم چھوڑ دینے چاہئیں اور یہ عہد کر لینا چاہیے کہ انسانوں کی بجائے صرف خدا سے مانگیں گے اور ساتھ یہ عہد بھی کرنا ہوگا کہ آپ اپنے وقار کو بہر حال قائم کر کے رہیں گے.اگر آپ اس مشورہ پر عمل کریں گے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ بڑھیں گے.پھولیں گے ، پھلیں گے اور بہت دور تک جاسکیں گے.لیکن اگر آپ رز کریں گے تو آہ اپنے اور ان لوگوں کے درمیانی فاصلہ کو کبھی کم نہیں کر سکیں گے جو زمانہ کے لحاظ سے پہلے ہی آپ سے بہت آگے اور ترقی یافتہ ہیں اور دن بدن آپ زیادہ پیچھے ہٹتے چلے جائیں گے.اس لیے آپ کا جدید دنیا میں داخل ہونے کے لیے پہلا قدم اخلاق سے از سر نو مسلح ہونا ہے.میں اپنے خطاب کو ایک اور بات کہہ کر ختم کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ جب غریب لوگ اپنی حالت کو امارت میں بدلنا چاہتے ہیں تو وہ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے آپ پر راحتیں اور آسائش حرام کر لیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وقتی طور پر ان قربانیوں کے نتیجہ میں وہ بڑھنا اور پھیلنا شروع کریں گے اور اس طرح وہ اپنے بچوں کے لیے ایک شاندار مستقبل اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں.یہ وہ قربانی ہے جو آپ سب سے اس وقت درکار ہے.آپ اپنے پر یہ معمولی راحتیں حرام کریں اور عارضی لذات کو چھوڑ دیں.یعنی شراب، منشیات، جرائم اور اسی قسم کی دوسری چیزیں.اس کے ساتھ مستقل مزاجی اختیار کریں.کچھ عرصہ کے لیے زاہدانہ زندگی اختیار کریں اور اپنی تعمیر کو کریں.یہی آپ کا واحد سہارا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اور پیغام کا کوئی مطلب ہے.یہی میرا ایمان ہے اور یہی میں آپ سے بھی کہنا چاہتا ہوں.“
767 28 تا 30 جون 1991ء حضور رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ امریکہ میں شمولیت فرمائی.30 جون تا 9 جولائی 1991 ، حضور رحمہ اللہ نے کینیڈا کا چوتھا دورہ فرمایا.اس دوران دیگر پروگراموں کے علاوہ آپ نے جماعت احمد یہ کینیڈا کے پندرھویں جلسہ سالانہ میں شرکت فرمائی اور 15 جولائی کو افتتاحی خطاب فرمایا.خطاب کے بعد تقریب عشائیہ میں تقریبا تین سو افراد شامل ہوئے.ان میں اکثر غیر مسلم معززین اور زیر تبلیغ افراد تھے.کھانے کے بعد ایک گھنٹہ تک دلچسپ اور مجلس سوال و جواب ہوئی.1991ء کا ایک اہم سفر حضور رحمہ اللہ کا سفر قادیان تھا.قریباً 44 سال کے بعد پہلی دفعہ خلیفتہ استح قادیان میں ورود فرما ہوئے اور صد سالہ جلسہ قادیان میں شرکت فرمائی.اس جلسہ کی حاضری کم و بیش 25 ہزار تھی.حضور کے جلسہ سے خطابات سیٹلائٹ رابطہ کے ذریعہ پہلی دفعہ قادیان سے براہ راست نشر ہوئے اور دنیا کے متعدد ممالک میں انہیں سنا گیا.کثرت سے پریس، ٹی وی ، میڈیا انٹرویوز ہوئے.بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری افراد سے ملاقاتیں ہوئیں.ہندوستان میں تبلیغ اور دعوت الی اللہ اور جماعتی ترقی کی بہت سی نئی راہیں نکلیں.قادیان میں مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے تعمیر کو اور تزئین اور مہمانوں کے لیے وسیع و عریض گیسٹ ہاؤسز اور متعدد جماعتی عمارات کا قیام عمل میں آیا.یہ سفر نہ صرف قادیان اور ہندوستان بلکہ عالمگیر جماعت احمدیہ کے لیے بہت سی برکتوں کا باعث ہوا اور اس کے بعد اشاعت اسلام کی راہیں تمام دنیا میں کشادہ سے کشادہ تر ہوتی چلی گئیں.( اس سفر کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب دورة قادیان 1991ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع ، مرتبہ بادی علی چوہدری ، شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن)
768 14 تا 24 را کتوبر 1992ء حضور رحمہ اللہ نے کینیڈا کا پانچواں دورہ فرمایا.اس دورہ کے دوران حضور نے کینیڈا اور بڑا عظم امریکہ کی جماعت کی سب سے بڑی مسجد مسجد بیت الاسلام“ کا افتتاح فرمایا اور جلسہ سالانہ کینیڈا میں شمولیت فرمائی.1993ء میں ناروے کے دورہ کے دوران 24 جون کو حضور نارتھ کیپ (ناروے) تشریف لے گئے.یہ وہ مقام ہے جہاں قریباً 6 ماہ دن کی روشنی اور 6 ماہ رات رہتی ہے.25 رجون کو آپ نے اسی مقام پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.دسمبر 1993ء میں حضور نے ماریشس کے دورہ کے دوران جماعت کو جلد ہی ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی روزانہ 24 گھنٹے کی نشریات کے آغاز کی نوید سنائی.23 جون تا 6 جولائی 1994، حضور رحمہ اللہ نے جماعت احمدیہ کینیڈا کا چھٹا دورہ فرمایا.اس دوران دیگر پروگراموں کے علاوہ خصوصیت سے حضور نے جلسہ سالانہ کے موقع پر مستورات سے خطاب فرمایا اور اسی طرح اختتامی خطاب فرمایا جس میں امن عالم کو موضوع بنایا.آپ نے فرمایا کہ آج دنیا میں اچھے اخلاق اور تقویٰ کا فقدان ہے اور جب تک دنیا اس طرف نہیں لوٹتی امن کا قیام ممکن نہیں.14 اکتوبر 1994ء کو حضور نے مسجد بیت الرحمان سلور سپرنگ واشنگٹن (امریکہ ) اور ایم ٹی اے ارتھ اسٹیشن امریکہ کا افتتاح فرمایا.23 اکتوبر 1994ء کو مسجد صادق شکا گو(امریکہ) کی ری کنسٹرکشن پر افتتاح فرمایا.اس کے بعد بھی حضور نے 1996ء اور 1997 میں امریکہ اور کینیڈا کا اور پھر 1998ء میں امریکہ کا دورہ فرمایا اور ان کے جلسہ سالانہ اور مستعد واہم پروگراموں میں شمولیت فرمائی.
769 تا حمہ اللہ 20 جون تا 11 جولائی 2000 ، حضرت خلیفہ امسح الرابع رحمہ اللہ نے انڈونیشیا کا دورہ فرمایا.یہ کسی بھی خلیفہ مسیح کا انڈونیشیا کا پہلا دورہ تھا.اس دورہ میں ہزار ہا احمد یوں کو اپنے امام سے براہ راست ذاتی ملاقات اور زیارت کا شرف حاصل ہوا.سینکڑوں افراد اس دورہ کے دوران بیعتیں کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے.سفر کے دوران اجتماعی بیعت کی کئی تقاریب ہوئیں.بعض جماعتی عمارات اور مساجد کے سنگ بنیادر کھے گئے یا افتتاح ہوئے.21 جون کو ملک کی نیشنل اسمبلی کے چیئر مین جناب امین الرئیس صاحب سے پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی.اس موقع پر ان کے دو نائین بھی موجود تھے.چیئر مین اسمبلی نے ملک کو در پیش مختلف مسائل کا ذکر کر کے ان کے حل کے لیے رہنمائی اور دعا کی درخواست کی.حضور نے انہیں بتایا کہ کس طرح وہ ان مشکلات سے نکل سکتے ہیں.اس ملاقات کی خبر انڈونیشیا کے نیشنل اخبار میں تصویر کے ساتھ شائع ہوئی اور نیشنل ٹی وی نے اپنی خبروں میں اسے کور (cover) کیا.انڈونیشیا کی تاریخ میں پہلی بار خلیفتہ اسیح کی تصویر ٹی وی پر دیکھی گئی اور آواز سنی گئی.اس روز جماعت کی مجلس عاملہ کے ساتھ میٹنگ میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جماعت انڈونیشیا کے لمبے صبر اور حوصلہ اور دعاؤں کے بعد آج وہ وقت آیا ہے کہ خلیفہ اسے اس میں موجود ہے.حضور نے فرمایا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نئی صدی کے اختتام سے قبل انڈونیشیا سب سے بڑا احمدی مسلم ملک ہوگا.انشاء اللہ.22 جون کو لوگ پکارتا (Yog Yakarta میں ایک استقبالیہ تقریب ہوئی جس میں علاقہ کے معززین، پروفیسر ز ، ڈاکٹرز اور دیگر سر کردہ افراد شامل ہوئے.24 جون کو قبل دو پہر حضور رحمہ اللہ نے Gadjah Mada یونیورسٹی میں Find دوپہر "To again The Prophetic Version of Religion: The New paradigm of Islamic Thought in the Globalization Era کے موضوع پر انگریزی زبان میں خطاب فرمایا جو ایم ٹی اے پر براہ راست نشر ہوا.
770 اس کے بعد بڑے سنجیدہ ماحول میں سوال و جواب کی ایک مجلس ہوئی جو قریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی.اس تقریب میں چھ صد افراد موجود تھے.25 جون کو حضور Cirebon تشریف لے گئے جہاں ایک عمارت مبارک بال کا افتتاح فرمایا.اس کے بعد Manislor تشریف لے گئے.یہ گاؤں تمام کا تمام احمدی افراد پر مشتمل ہے.26 جون کو حضور نے Wanasigra میں SMU ہائی سکول اور الواحد بلڈنگ کا سنگ بنیا درکھا.28 جون کو صدارتی محل میں صدر مملکت انڈونیشیا مکرم عبد الرحمان واحد صاحب سے ملاقات ہوئی.ملاقات کے بعد صدارتی محل کے پریس روم میں پریس کانفرنس ہوئی.29 جون کو ریجنٹ ہوٹل میں Interfaith Dialogue کے تحت ایک پروگرام میں حضور رحمہ اللہ نے Islam and the Prospect" Muslim Indonesian of Muslim Revival; Considering Existential Problems in the 21st Century کے موضوع پر خطاب فرمایا.اس تقریب میں کم و بیش ایک سومہمان موجود تھے جن میں علاقہ کی ممتاز شخصیات اور متعد د دانشور شامل تھے.خطاب کے بعد حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے گئے.یکم جولائی کو حضور نے جلسہ سالانہ انڈونیشیا کے موقع پر خواتین سے خطاب فرمایا.2 جولائی کو جلسہ کے اختتامی اجلاس سے خطاب فرمایا.اس سے قبل اجتماعی بیعت ہوئی.اس موقع پر 1754 / افراد بیعت کر کے میں شامل ہوئے.یہ دورہ انڈونیشیا کے دوران ہونے والی تیسری اجتماعی بیعت تھی.اسی شام دوٹی وی چینلر نے الگ الگ حضور سے انٹرو یولیا.4 جولائی کو پاڈانگ میں Sedona ہوٹل میں علاقہ کے معززین اور پڑھے لکھے طبقہ کے ساتھ ڈنر اور مجلس سوال و جواب ہوئی.6 جولائی کو جکارتہ میں ہوٹل Sari Pan Pacific میں ایک تقریب میں حضور نے ہومیو پیتھی کے موضوع پر خطاب فرمایا.
771 اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دورہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد اور غیر معمولی دورہ تھا جو بیشمار برکات اور اللہ تعالی کی تائید و نصرت کے نشانوں پر مشتمل تھا.
773 مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ (MTA) انٹرنیشنل اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہامنا یہ فرمایا تھا کہ : میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.تذکرہ مجموعہ الہامات کشوف ورڈ یا صفحہ 260 ایڈیشن چہارم.مطبوعہ 2004ء) یہ الہام ایک غیر معمولی عظمت اور شوکت رکھنے والا الہام ہے.اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں تکمیل اشاعت با اشاعت ہدایت اور دین اسلام کو تمام ادیان پر حجت و برہان اور آسمانی و زمینی نشانات کے ذریعہ غالب کرنے کی جو عظیم الشان مہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد فرمائی تھی یہ الہام نہ صرف اس مہم کی کامیابی کی بشارت پر مشتمل ہے بلکہ اس کے اندر مسیح محمدی علیہ السلام کی تبلیغ کو روکنے اور اس آسمانی آواز کو دبانے کے لئے معاندین کی طرف سے ہر قسم کے مکر و فریب اور سازشیں اور منصوبے کرنے اور انتہائی مخالفت کا مضمون بھی مضمر ہے.اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کو ناکام و نامراد کرنے کے لئے معاندین کی تدبیریں بظاہر اتنی قوی اور مضبوط ہوں گی کہ کسی انسان کے لئے ان کا مقابلہ ممکن نہیں ہو گا.لیکن خدائے قادر و مقتدر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ بشارت دیتا ہے کہ وہ خود دشمن کی تدبیروں کو پامال کرے گا.اس کے بدار ا دوں میں اسے نامرادر کھے گا.جیسا کہ فرمایا میں، تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.لفظ میں میں اللہ تعالی کی قدرت و طاقت، اس کی عزت و جبروت اور اس کی جانب سے ایسے وسائل و ذرائع کے مہیا ہونے کا مضمون بھی شامل ہے جو خاص اس کی عطا ہو.چنانچہ جماعت احمدیہ کی ایک سو سال سے زائد عرصہ کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ پر پابندی لگانے یا اسے محدود کرنے یا اس مقدس آواز کو دبانے کی کوئی کوشش معاندین احمدیت کی طرف سے کی گئی اللہ تعالٰی نے اسے محض اپنے فضل سے
774 کلیہ ناکام و نامراد فرمایا اور اپنی قائم کردہ خلافت کے ساتھ کئے گئے وعدہ وَلَيُبَدِّلَنَّ لَهُمْ دينهم " کو بڑی شان سے پورا فرمایا.1934ء میں احرار نے قادیان پر ہلہ بولا اور اس دعوی کے ساتھ حملہ آور ہوئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز کو گویا قادیان میں دفن کر دیا جائے گا لیکن وہ خدا جس نے فرمایا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اس نے اپنے مقرر کردہ خلیفہ کے ذریعہ تحریک جدید جیسی نہایت مبارک سکیم کا آغاز فرمایا اور مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ دیکھتے ہی دیکھتے اس الہی سکیم کے تحت ہندوستان سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئی.ایسی ہی ایک نہایت مکروہ اور ناپاک اور نہایت ظالمانہ کوشش 50 سال کے بعد 1984ء میں پاکستان میں اُس وقت کے فوجی آمر نے اپنی تمام تر فوجی اور سیاسی طاقت کے بل بوتے پر احمدیت کے خلاف آرڈیننس 20 کو جاری کر کے کی.اس کا خیال تھا کہ اس آرڈینس کی خلاف ورزی پر وہ خلافت پر ہاتھ ڈال کر اسے جماعت سے الگ کر دے گا.اس کے نتیجہ میں جماعت اور خلافت کا رابطہ منقطع ہو جائے گا اور جماعت احمدیہ کی مرکزیت یعنی خلافت ختم ہو جائے گی اور یوں یہ جماعت دیکھتے ہی دیکھتے پارہ پارہ ہو جائے گی.اس نے کھلم کھلا اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ ( بقول اُس کے) احمدیت کے کینسر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے اس کے منصوبوں کو اپنی قدرت کاملہ سے اس طرح پارہ پارہ کیا کہ خود اس فوجی آمر کا وجود بھی عبرت کا ایک نشان بنا اور وہ اور اس کا مکر وفریب جل کر خاکستر ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے خلافت کی حفاظت فرمائی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع بخیر و عافیت ہجرت کر کے انگلستان تشریف لے آئے.اس وقت جماعت کے مخالف مولویوں نے خوشی کے شادیانے بجائے اور تمسخر اور استہزاء سے کام لیتے ہوئے اخبارات میں مرزا طاہر احمد کے.فرار ہونے کی شہ سرخیاں لگائیں اور یہ سمجھا کہ پاکستان کے احمدی حکومتی مشینری اور حکومت کی سر پرستی میں مخالفین احمدیت مولویوں کی طرف سے ہونے والے مظالم سے تنگ آکر ارتداد اختیار کر لیں گے لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا.
775 خلیفہ وقت اور جماعت کے درمیان رابطے کا ایک نہایت اہم اور مرکزی حیثیت کا حامل ذریعہ وہ خطبات جمعہ اور خطابات ہوتے ہیں جو خلیفہ وقت ارشاد فرماتے ہیں.پاکستان میں رہتے ہوئے اس آرڈینس کی موجودگی میں خلیفہ وقت کے لئے خطبات و خطابات دینا ممکن نہیں تھا.سو اللہ تعالٰی کے راذن سے آپ نے وہاں سے ہجرت فرمائی.اور بیرونِ پاکستان سے خطبات جمعہ و دیگر خطابات و فرائض منصبی کی آزادانہ ادائیگی کا ایک سلسلہ شروع ہوا.حضور رحمہ اللہ نے جنرل ضیاء کے اس آرڈینس کے جواب میں اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 رمنی 1984ء میں جماعت کے سامنے جو پروگرام رکھا تھا اس کا ایک اہم حصہ لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ سمعی و بصری ذرائع کے متعلق بھی تھا.خلیفہ وقت کے خطبات و خطابات کی اہمیت اور جماعت کا فرض حضور رحمہ اللہ کی ہدایت پر انگلستان میں آپ کے زیر نگرانی آپ کے فرمودہ خطبات و خطابات کو فوری طور پر آڈیو کیسٹس پر ریکارڈ کر کے اس کی کا پہیاں پاکستان اور دیگر تمام ان ممالک تک بھجوانے کا ایک نہایت مستحکم اور وسیع نظام قائم ہوا جس کے تحت پھر ہر ملک کے اندر جماعتوں تک اس کی کا پہیاں کر کے پہنچائی جاتیں تا کہ افراد جماعت براہ راست خلیفہ اسح کی آواز میں آپ کے براہ فرمودات اور نصائح اور ہدایات کو سنیں.کیونکہ خلیفہ اُسی اور جماعت احمدیہ کے درمیان جو محبت اور اخلاص اور فدائیت کا تعلق ہے اس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں ملتی اور جب خلیفہ اسیح کی اپنی آواز میں کوئی پیغام افراد جماعت تک پہنچتا ہے تو اس کا غیر معمولی اثر پیدا ہوتا ہے.مردہ دلوں میں جان پڑ جاتی ہے اور خدمت دین اور اطاعت اور قربانیوں کے نئے ولولے بیدار ہوتے ہیں.اس سلسلہ میں آپ نے متفرق مواقع پر خلیفہ وقت کے خطبات کی اہمیت کو افراد جماعت کے سامنے رکھا اور کیسٹس کے نظام کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لئے اور خطبات کے انگریزی و دیگر زبانوں میں تراجم کر کے ان کی کیسٹس تیار کرنے کے لئے متعدد عملی اقدامات فرمائے اور اس نظام کی نگرانی اور بہتری کے لئے مسلسل ہدایات ارشاد فرماتے رہے.آپ نے ایک موقع پر اس کوشش
776 کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: م اس کوشش کی وجہ یہ تھی کہ میرا تجربہ ہے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے جو بات کوئی دوسرا پہنچاتا ہے اس کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا براہ راست خلیفہ وقت سے کوئی بات سنی جائے.میرا اپنا زندگی کا لمبا عرصہ دوسرے خلفاء کے تابع ان کی ہدایات کے مطابق چلنے کی کوشش میں صرف ہوا ہے.اور میں جانتا ہوں کہ کوئی پیغام پہنچائے فلاں خطبہ میں خلیفہ نے یہ بات کی تھی اور خطبہ میں خود حاضر ہو کر وہ بات سننا ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے..66 ( خطبہ جمعہ 8 جنوری 1993ء.خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 20) حضور رحمہ اللہ نے لاس اینجلس (امریکہ) میں اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 23 / اکتوبر 1987ء میں فرمایا: اگر چہ کیسٹ کا نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ دو تین سالوں میں کافی مضبوط ہو چکا ہے اور تقویت پاچکا ہے لیکن جب بھی میں نے تفصیلی جائزہ لیا ہے تو بہت سے خلا ضرور دکھائی دیتے ہیں اور یہ کہنا درست نہیں کہ کسی ملک کی ہر جماعت میں باقاعدگی سے کیسٹس پہنچ رہے ہیں اور اس جماعت کے ہر فرد تک ان کی رسائی ہے یا ہر فرد کو ان تک رسائی ہے.یہ نظام بھی ابھی نامکمل ہے کہ سنائی کیسے جائے.اگر اکٹھا جماعت کو کیش سنانے کا انتظام نہ ہو جس میں خطبات ہوں یا خصوصی پیغامات ہوں تو بسا اوقات بہت سے خاندان ایسے رہ جاتے ہیں جو اپنے طور پر تو سن ہی نہیں سکتے.علاوہ ازیں بھی اگر جمعہ پر بھی یہ انتظام کیا جائے تو آپ جانتے ہیں کہ جن ملکوں میں آپ بس رہے ہیں یہاں بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو جمعہ پر حاضر ہی نہیں ہو سکتی اور کچھ جو جمعہ پر آتے ہیں مرد یا خواتین ان کے بچے ضروری نہیں کہ ساتھ آسکیں.اس لئے خلا کے احتمالات زیادہ ہیں یہ نسبت اس کے کہ یہ یقین کیا جائے کہ سب تک پیغام پہنچ رہے ہیں.اس لئے ایسے اہم مضامین جن کا جماعت کی تربیت کے ساتھ یا ان کے بچوں کے مستقبل کے ساتھ گہرا تعلق ہو ان کو زیادہ احتیاط کے ساتھ زیادہ محنت کے ساتھ احباب جماعت تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے.اس لئے جہاں اجتماعی انتظامات ہیں ان میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کتنے دوست تشریف لا سکے.جو تشریف لائے ان سے مل کے یہ طے کرنا چاہئے کہ
777 آپ اپنے بچوں کو کس طرح سنائیں گے.جو نہیں آسکے ان تک پہنچانے کا انتظام اگر یہ ان خطبات کے علاوہ عموما بھی جماعت ایسا انتظام کرے اور اس توجہ کے ساتھ یہ انتظام کرے تو اس سے بالعموم ساری دنیا کی جماعت کو بہت سے فوائد پہنچیں گے.“ آپ نے مزید فرمایا : 66 ”خطبات ایک ایسا ذریعہ ہے جن کے ذریعے ساری دنیا میں خواہ کسی ملک سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ہوں ان میں بیجھتی اور یکسوئی پیدا ہو سکتی ہے.جماعت احمدیہ کے مقاصد میں ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو عالمی بنایا جائے ، تمام عالم کے دوسرے مذاہب پر اس کو غالب کیا جائے اور ایک اسلامی مزاج ساری دنیا میں پیدا کیا جائے.اس ایک مزاج کو پیدا کرنے کے لئے خلافت سے ساری جماعتوں کی وابستگی سب سے بڑا ذریعہ ہے جو دنیا میں کہ ں کسی اور مذہبی جماعت کو اس طرح حاصل نہیں اور پھر ہر ہفتے ایک ہی قسم کے مزاج کو دنیا میں پیدا کرنے کی خاطر ایک ہی خطبہ کو ہر جگہ پھیلانا اور ایسے خطبے کو پھیلانا جس کا سننے والا یہ سمجھتا ہو کہ میرا اس بیان کرنے والے سے ایک ایسا گہرا روحانی تعلق ہے کہ جو باتیں بھی کہی جارہی ہیں میں عہد کر چکا ہوں کہ میں انہیں توجہ سے سنوں گا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.یہ بات بھی دنیا میں کسی اور مذہبی نظام کو حاصل نہیں.اس لئے اگر اس دنیا کی وحدت کسی جماعت سے وابستہ ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہی ہے لیکن جماعت احمدیہ کو خدا تعالٰی نے جو نظام مہیا فرما دیا ہے، جو انتظامات مکمل کر دئیے ہیں اگر خود یہ جماعت اس سے استفادہ نہ کرے تو پھر دنیا کی وحدت تو در کنار اپنی وحدت کو بھی برقرار نہیں رکھ سکے گی اور میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ بسا اوقات اس کمی کی وجہ سے مختلف جماعتوں کے مزاج مختلف ہونے لگتے ہیں.جہاں باقاعدگی سے خطبات پہنچانے کا انتظام نہیں وہاں کئی قسم کے ایسے خیالات کئی قسم کے ایسے تو ہمات دلوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کا ساتھ ساتھ علاج نہیں ہو رہا ہوتا اور وہاں مختلف مزاج میں جماعتیں پرورش پارہی ہوتی ہیں، دنیا کی دوسری جماعتوں سے فرق کے ساتھ ان کی تربیت ہورہی ہوتی ہے.اس لئے بالعموم ابھی یہ بہت ضروری ہے اور خصوصا ایسی جگہ جیسے لاس اینجلس ہے،
778 بہت پھیلی ہوئی جماعتیں ہیں، گھروں کے درمیان فاصلے بہت ہیں، شہر بہت بڑا ہے، بداثرات بہت زیادہ ہیں اور ایک مسجد اگر بنا بھی دی جائے تو تب بھی اس مسجد تک سب کی رسائی عملا ممکن نہیں ہے.تو ایسی جماعتوں میں تو خصوصیت کے ساتھ یہ انتظام ضروری ہے کہ مرکز سے ان کا رابطہ مکمل رہے اور ہر بڑے چھوٹے تک خلیفہ وقت کی آواز میں وہ باتیں پہنچیں جن پر عمل کرنا وقت کے تقاضوں کے لحاظ سے خصوصیت سے بہت ضروری ہے." ( خطبہ جمعہ فرموده 23 را کتوبر 1987 خطبات طاہر جلد طاہر 6 صفحہ 685684) خلیفہ وقت کی آواز میں اُس کے پیغام کو افراد جماعت تک پہنچانا کیوں اہم ہے؟ اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا: عہدیداران جماعت کے ساتھ جماعت بڑے احترام کا تعلق رکھتی ہے اور بعض صورتوں میں امراء سے بڑی محبت بھی کرتی ہے.لیکن یہ خیال کر لینا کہ خلیفہ وقت اور جماعت کے درمیان جو محبت کا تعلق ہے بعینہ وہی چیز ہر عہدیدار اور جماعت کے درمیان ہے، یہ غلط ہے.اکثر صورتوں میں تو یہ عش عشیر بھی نہیں ہے.یہ ایک ایسا نظام ہے دنیا میں جس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے.کوئی دنیا میں مذہبی ہو یا غیر مذہبی لیڈر ایسا نہیں جیسا کہ خلیفہ صبح ، جماعت احمدیہ کے اندر جو خلیفہ ہے وہ اور اس کے متبعین کے ساتھ یا اس جماعت کے ساتھ جس نے اس کو قبول کیا خلیفہ کے طور پر ان کے درمیان جو تعلق ہے.تعلق بے مثال ہے.اس کی کوئی نظیر دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی..." خطبہ جمعہ فرموده 11 / مارچ 1988ء - خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 169) چنانچہ جماعت احمدیہ کے ہر شخص تک ہر تحریک خلیفہ وقت کی آواز میں پہنچانے کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: یعنی آواز سے مراد یہ ہے کہ جس طرح وہ پہنچانا چاہتا ہے.سننے والا خواہ ترجمہ بھی سن رہا ہو اس کو پتہ ہو کہ یہی باتیں تھیں جو خلیفہ وقت نے جماعت کے سامنے پیش کی تھیں.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 11 مارچ 1988ء خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 170) پہلے تو صرف آڈیو کیسٹس کے ذریعہ خلیفہ وقت کے خطبات و خطابات تمام دنیا کے احمدیوں تک
779 پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی.پھر ویڈیو کیسٹس بیچ میں شامل ہو گئیں.لیکن بے حد محنت کے باوجود، بہت ہی جانکاہی کے ساتھ کام کرنے کے باوجود بہت ہی معمولی اور کم حصہ جماعت کا تھا جس تک یہ آواز پہنچ سکی.خلیفہ وقت کی آواز میں فوری طور پر اور بر اور است خطبہ سننے کے نظام میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کے آغاز پر اس صدی کا پہلا خطبہ جمعہ جو 24 مارچ 1989ء کو حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے مسجد فضل انگلستان میں ارشاد فرمایا وہ بذریعہ فون ماریشس اور جرمنی کی بعض جماعتوں نے براہ راست سنا.فون کے ذریعہ خلیفہ وقت کے خطبات سننے کا یہ سلسلہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا گیا اور برطانیہ کی گیارہ جماعتوں کے علاوہ چوبیس دوسرے ممالک اس سے فیضیاب ہونے لگے جن میں پاکستان، ہندوستان، نیوزی لینڈ، فجی، سنگا پور، جاپان، کوریا، انڈونیشیاء ماریشس، گھانا، ساؤتھ افریقہ، عمان ، سپین، فرانس، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، آئر لینڈ، جرمنی ، بلیجیم سویڈن، کینیڈا، امریکہ اور تنزانیہ شامل ہیں.میں اُس دور میں جلسہ سالانہ برطانیہ سے حضور کے خطابات بھی بذریعہ فون سنے گئے.اس سفر کا ایک اہم سنگ میل دسمبر 1991 ء میں ہونے والا جلسہ سالانہ قادیان تھا جس تقسیم ہند ( 1947ء) کے 44 سال بعد خلیفتہ اسیح کا قادیان میں ورود مسعود ہوا.اس تاریخی اور تاریخ ساز جلسہ سالانہ کو بذریعہ سیٹلائٹ فون پر براہ راست سنوایا گیا.یہ جماعت کی تاریخ میں بذریعہ سیٹلائٹ پیش کی جانے والی پہلی نشریات تھیں.وہ آواز جو سو سال قبل قادیان سے اٹھی تھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نمائندگی میں آپ کے خلیفہ رابع کو اسی سرزمین سے ایک نئی شان سے دنیا تک پہنچانے کی سعادت ملی اور الہام میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا کی ایک اور محبتی دنیا پر ظاہر ہوئی.اس کے بعد تو یہ راہیں بڑی تیزی سے کشادہ سے کشادہ تر ہوتی چلی گئیں.ایم ٹی اے کا سفر - منزل بہ منزل 31 جنوری 1992ء سے ایم ٹی اے کا باقاعدہ آغاز ہوا اور مواصلاتی سیارے کے ذریعہ آپ کا فرمودہ خطبہ جمعہ براہ راست بر اعظم یورپ میں دیکھا اور سنا گیا اور ہر جمعہ کے مبارک روز یہ سلسلہ
780 با قاعدہ جاری رہا.مارچ 1992ء میں رمضان المبارک کے درس القرآن بذریعہ سیٹلائٹ نشر کیے گئے.اس رمضان المبارک کی اجتماعی دعا میں ایم ٹی اے کے ذریعہ پہلی مرتبہ یورپ بھر کے احباب جماعت شامل ہوئے.3 ا پریل 1992ء کوحضرت خلیفہ اس الرابع رحمہ اللہ محرم محرم حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ کی کی وفات پر جماعت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی کی نماز جنازہ براہ راست اسلام آباد ( ملفورڈ.برطانیہ ) سے ایم ٹی اے پر نشر کی گئی اور حضور رحمہ اللہ کی زیر ہدایت مقامی امام کی اقتدا میں مختلف مقامات پر بیک وقت حضرت بیگم صاحبہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی.اپریل 1992ء میں حضور نے خطبہ عید الفطر ارشاد فرمایا جو بذریعہ سیٹلائٹ ایم ٹی اے پر نشر ہونے والا پہلا خطبہ عید تھا.پھر جون 1992ء میں حضور کا خطبہ عید الاضحیہ بھی یورپ بھر میں ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست نشر کیا گیا.31 جولائی تا02 راگست 1992ء جلسہ سالانہ برطانیہ پہلی مرتبہ ایم ٹی اے کی زینت بنا اور کے علاوہ بر اعظم ایشیا میں بھی حضور رحمہ اللہ کے جلسہ کے تمام خطابات براہ راست دکھائے گئے.پاکستان میں 1984 ء سے احمدیوں کے جو سالانہ جلسے حکومت کی طرف سے بند کر دئیے گئے تھے اس جلسہ سے ایم ٹی اے کے ذریعہ ان جلسوں کا اجراء ایک نئے رنگ اور نئی شان سے ہوا.ایم ٹی اے یورپ - کے ذریعہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے متعدد ممالک میں گھر گھر جلسہ کا ماحول پیدا ہو گیا.21 اگست 1992ء کو حضور کے خطبات جمعہ سیٹلائٹ کے ذریعہ چار بر اعظموں یعنی یورپ، ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا میں نشر ہونا شروع ہوئے.16 اکتوبر 1992ء کو مسجد بیت الاسلام ٹورانٹو کینیڈا کی افتتاحی تقریب براہ راست پہلی مرتبہ تین بر اعظموں میں نشر کی گئی.
781 دسمبر 1992ء میں حضور کے جلسہ سالانہ قادیان سے افتتاحی اور اختتامی خطابات لندن سے براہ راست نشر کیے گئے.30 جولائی تا یکم اگست 1993ء جلسہ سالانہ برطانیہ سے حضور رحمہ اللہ کے خطابات ایم ٹی اے پر براہ راست نشر کئے گئے.اس عالمی جلسہ پر تاریخ عالم کا ایک اور انقلاب انگیز اور تاریخ ساز واقعہ رونما ہوا.یعنی ایم ٹی اے کے ذریعہ پہلی عالمی بیعت کی تقریب منعقد ہوئی جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی دو لاکھ سے زائد سعید روحیں شامل ہوئیں.31 دسمبر 1993ء کو حضور نے جلسہ سالانہ قادیان سے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ ماریشس کی سرزمین سے خطاب فرمایا اور خطبہ جمعہ کے ذریعہ اس کا افتتاح فرمایا.اس خطبہ جمعہ میں آپ نے جماعت کو خوشخبری دی کہ 7 جنوری 1994 ء سے ہفتہ میں ساتوں دن بارہ گھنٹے ایم ٹی اے کی نشریات ہوا کریں گی.آپ نے فرمایا : جب ہم نے سیٹلائٹ کے ذریعہ سب دنیا سے رابطے کا آغاز کیا تو جمعہ کا ایک گھنٹہ یا کچھ زائد وقت یا کچھ جلسوں اور اجتماعات کے موقع پر ایک دو گھنٹے زائد ملا کرتے تھے.احباب جماعت عالمگیر کی طرف سے بار بار اس خواہش کا اظہار ہوتا تھا کہ سیٹلائٹ اب ایک ہفتہ انتظار نہیں ہوتا.کوشش کریں کہ خواہ کچھ بھی خرچ کرنا پڑے، روزانہ یہ پروگرام جاری ہو.آج میں نئے سال کے تحفہ کے طور پر ماریشس کی سرزمین سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ سے ایشیا کے لئے جاپان سے لے کر افریقہ تک اور اس علاقہ میں بے اعظم آسٹریلیا بھی شامل ہے، ہفتہ میں ایک گھنٹہ کی بجائے ہفتہ میں ساتوں دن بارہ گھنٹے روزانہ پروگرام چلا کرے گا...آئندہ تمام ایشیا کی جماعتیں، تمام افریقہ کی جماعتیں اور خدا کے فضل سے شمالی افریقہ کی جماعتیں بھی...اور آسٹریلیا بھی روزانہ بارہ گھنٹے کا پروگرام سن سکیں گے اور دیکھ سکیں گے.جہاں تک یورپ کا تعلق ہے سر دست ہم نے روزانہ ساڑھے تین گھنٹے کا وقت حاصل کر لیا ہے...انشاء اللہ تعالی اب یورپ میں بھی اور ساتھ تعلق رکھنے والے حصہ میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے یقینا ساڑھے تین گھنٹے
782 روزانہ کا پروگرام سنا یا جایا کرے گا.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 21 دسمبر 1993ء - خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 1006-1007) ایم ٹی اے کی روزانہ نشریات کا آغاز 7 جنوری 1994 ء وہ مبارک دن ہے جب حضور کے خطبہ جمعہ سے ایم ٹی اے کی روزانہ نشریات کا آغاز ہوا.اسی روز ایم ٹی اے کی اپنی پہلی براڈ کاسٹ وین (van) کا افتتاح بھی عمل میں آیا.اسی روز حضور کے ساتھ ملاقات پروگرام بھی شروع ہوا.ابتدا میں چند روز ملاقات کا پروگرام عمومی بات چیت پر مشتمل رہا جس میں حضور نے متعدد ایمان افروز واقعات بیان فرمائے اور پھر روزانہ کی یہ ملاقات کئی مختلف سلسلوں میں تقسیم ہوگئی.حضور نے اپنے 7 جنوری 1994ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: الحمد للہ کہ آج وہ جمعہ کا دن آیا جس کی بہت دیر سے دل میں تمنا تھی اور ایک مدت سے انتظار تھا کہ آج خدا کے فضل کے ساتھ انٹر نیشنل احمدیہ مسلم ٹیلی ویژن کا با قاعدہ آغاز ہورہا ہے.وہ جو جمعہ کا خطبہ پہلے ہر جمعہ سنایا جاتا تھا وہ اگر چہ اسی ٹیلی ویژن کے ذریعہ تھا لیکن یہ سروس روز مرہ کے طور پر ابھی جاری نہیں ہوئی تھی.الحمدللہ کہ جو شخبری میں نے ماریشس کی سرزمین سے دی تھی آج انگلستان کی سرزمین سے یہ اعلان کرنے کی توفیق مل رہی ہے.آج سے با قاعدہ مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کی روزانہ سروس کا آغاز ہوچکا ہے.یورپ میں ساڑھے تین گھنٹے یا تین گھنٹے روزانہ اور باقی ایشیا افریقہ وغیرہ میں روزانہ بارہ گھنٹے کا پروگرام چلا کرے گا.جو کچھ بھی اس کے نتیجہ میں پیدا ہوگا مجھے امید ہے کہ بابرکت ہوگا اور جماعت کی تربیت ہی کے لئے نہیں بلکہ سب دنیا کے لئے بھی ٹیلی ویژن کے ذریعہ تربیت کے ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا.کبھی دنیا میں ٹیلی ویژن کو ان اعلیٰ مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا گیا جن اصلی مقاصد کے لئے اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو ایک ٹیلی ویژن کے نئے دور کے آغاز کی تو فیق مل رہی ہے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 7 جنوری 1994ء.خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 2-1 )
783 جولائی 1994 ء کا جلسہ سالانہ یو کے وہ پہلا جلسہ سالانہ تھا جو اپنی مکمل صورت میں براہِ راست ایم ٹی اے انٹر نیشنل پر نشر کیا گیا.اس جلسہ کے آخر پر تاریخ احمدیت میں ایک اور نہایت ایمان افروز اور غیر معمولی عظمت کا حامل واقعہ رونما ہوا.حضور رحمہ اللہ نے اختتامی دعا کے بعد چند ملکوں کے نام گنوائے جو ایم ٹی اے کے ذریعہ جلسہ میں شامل تھے.اس پر ان ملکوں سے جن کے نام نہیں لئے گئے تھے فون موصول ہونے لگے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ شامل ہیں.ایم ٹی اے کے فون پر پیغامات کا تانتا بندھ گیا.جب حضور موفون کرنے والوں کے پیغامات بتائے جاتے تو آپ اس کا ذکر فرماتے.یہ بہت ہی رُوح پرور نظارہ تھا.آپ نے اس وجد آفرین نظارہ کو دیکھ کر فرمایا: اتورگر 33 ی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعجاز ہے جو آج ظاہر ہو رہا ہے." حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اگست 1994ء میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جلسہ سالانہ UK اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ ایک غیر معمولی شان کا جلسہ ثابت ہوا.اللہ کے فضلوں کو ہم ہمیشہ برستاد یکھتے ہیں لیکن ان فضلوں میں بھی بعض دفعہ اچانک یوں لگتا ہے جیسے غیر معمولی تیزی پیدا ہو گئی ہے اور توقع سے بڑھ کر اللہ کے فضلوں کی برسات ہوتی ہے.جلسہ سالانہ جس صورتحال میں اختتام پذیر ہوا اس میں کسی انسانی حکمت اور کسی منصوبہ بندی کا کوئی ادنی سا بھی دخل نہیں تھا.لوگوں نے بعد میں مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا؟ میں نے کہا مجھے تو لگتا تھا کہ اچھا نک بارش شروع ہو گئی ہے حالانکہ بارش پہلے بھی ہورہی تھی لیکن بعض دفعہ بارش میں بھی اس قدر زور پیدا ہو جاتا ہے کہ لگتا ہے اب بارش شروع ہوئی ہے.یہ خدا تعالی نے دشمن کو جماعت احمدیہ کے عالی اجتماع کا ایک نظارہ دیکھانا تھا اور بتانا تھا کہ اس وقت ایک ہی امت واحدہ ہے جو حقیقت میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کا حق اہے وہ جماعت احمدیہ ہے جو خلافت کے ذریعہ ایک ہاتھ پر اس طرح اکٹھی ہو گئی ہے کہ ایک جسم کے ٹکڑوں کی طرح ساری دنیا کی جماعت بن چکی ہے.“ اسی طرح فرمایا: خطبہ جمعہ فرموده 5 را گست 1994ء.خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 572) اللہ تعالٰی نے اس ظاہری اور روحانی رشتے کو ملا کر عالمی طور پر ٹیلی ویژن کے ذریعہ
784 ایک ایسا نیا نظام قائم کر دیا ہے کہ خلافت احمدیہ کو قیامت تک مستحکم کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا ہے.اس لئے اب یہ خیال بھلادیں دل سے کہ خلافت رابعہ آگئی اور بعد میں پھر وہی کچھ ہوگا جو پہلے ہو چکا ہے.یہ بالکل واضح جھوٹ ہے.اگر کوئی یہ غلط امید میں لگائے بیٹھا ہے تو وہ نامر اور رہے گا.ان امیدوں کا پھل کبھی نہیں دیکھے گا.کیونکہ خلافت رابعہ میں تو اجتماعیت کا آغاز ہوا ہے، اختتام کے اعلان نہیں ہو رہے.یہ بتایا جارہا ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو خلافت دی گئی ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیحکومت کو قیامت تک جاری کرنے کے لئے دی گئی ہے اور اس لئے یہ وہم دل سے نکال دو کہ خلافت رابعہ آخری دور ہے.خلافت رابعہ آئندہ آنے والے حالات کے لئے جو آسمان سے تقدیریں رونما ہورہی ہیں ان کے لئے ایک پیش خیمہ بن گئی ہے.“ تخطبه جمعه فرموده 5 را گست 1994 خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 587 ) 14 / اکتوبر 1994ء کو ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ایک اور سنگ میل کا ظہور ہوا جب حضور رحمہ اللہ نے مسجد بیت الرحمان امریکہ کا افتتاح فرمایا اور اس کے ساتھ ہی ایم ٹی اے کے واشنگٹن آرتھ سٹیشن (Earth Station) کا افتتاح فرمایا.یکم اگست 1995 ء سے ایم ٹی اے کا پروگرام تین گھنٹے سے بڑھ کر پانچ گھنٹے روزانہ ہو گیا.ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی روزانہ چوبیس گھنٹے کی نشریات کا آغاز یکم اپریل 1996ء کو ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی چوبیس گھنٹے کی نشریات کا آغاز ہوا.اس موقع پر منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ تعالی نے جو یہ وعدہ فرمایا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا، دیکھو کس شان سے پورا فرمایا ہے...یہ نظام خدا نے ہمیں عطا فرمایا ہے اور اس الہام کی برکت ہے نہ کہ ہماری کوئی شوخی..ہم اپنی عاجزانہ کوششیں جو اس راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی توفیق عطا ہوتا ہی خدا کا بڑا انعام ہے...یہ سارے کارو بار اللہ کی تقدیر کے کاروبار ہیں.لِيُظْهِرَهُ عَلَى اللائن کلیه کا وعدہ ہے جو اللہ نے حضرت محمد رسول اللہ سے فرمایا اور فرمایا کہ
785 ایسا کاروبار جو تیرے ہاتھ سے جاری ہو رہا ہے خدا ہی اس کا نگران ہے.خدا ہی اس کا ولی ہے.خدا ہی وکیل ہے جو تمام طاقتیں رکھتا ہے.ہر بات کی قدرت رکھتا ہے.وہ کارساز ہے.وہی ہے جو یہ کام بنائے گا اور یہ آخری اٹل وعدہ ہے جو ہر گز مٹایا نہیں جا سکتا.لِيُظهِرة على الدين كله تا کہ محمد رسول اللہ اور آپ کے پیغام کو تمام دنیا کے ادیان پر غالب کردے.“ آپ نے اس تاریخ ساز اور روح پرور خطاب میں یہ وجد آفرین اعلان بھی فرمایا تھا کہ : آج کے بعد انشاء اللہ ہمیشہ پہلے سے بڑھ کر روشن کردن ایم ٹی اے پر نمودار ہوگا.“ یہ بشارت جس پر شوکت انداز میں پوری ہو رہی ہے آج ایک عالم اس کا گواہ ہے.اللہ تعالی کے فضل اور رحم کے ساتھ خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے زیر نگرانی اور اس کے فیض سے ایم ٹی اے انٹرنیشنل بڑے مستحکم قدموں کے ساتھ اور بڑی عزت اور وقار کے ساتھ کامیابیوں کی منزلیں طے کرتے ہوئے مسلسل وسعت پذیر ہے.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جنوری 1993ء میں فرمایا تھا: ر ٹیلی ویژن کے ذریعہ دنیا سے جو یہ رابطے ہو رہے ہیں اس کے نتیجہ میں یہ نظام ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے کیونکہ پہلے کبھی جماعت کو اس وسیع پیمانے پر براہ راست وقت کے خلیفہ کی آواز میں اس کی صورت دیکھتے ہوئے نصیحتیں سننے کا موقع نہیں ملا کرتا تھا.ربوہ سے تقریباً سو دو سو میل کے فاصلہ پر ایسے لوگ بھی تھے جو بوڑھے ہو گئے لیکن کبھی کسی خلیفہ کو دیکھا ہی نہیں تھا اور ہزارہا کی تعداد میں اور بڑی کثرت کے ساتھ ایسی ایسی جماعتیں ہیں کہ جہاں عملا ناممکن تھا کہ کبھی کوئی خلیفہ جاسکے.کیونکہ اگر وہ تیز رفتاری کے ساتھ بھیٹ (jet) رفتار کے حساب سے بھی گھومے تو جماعتیں اس تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں کہ ناممکن ہے کہ ایک شخص اپنی زندگی میں تمام جماعتوں میں پہنچ کر کچھ ٹھہر کر ہر شخص سے متعارف ہو سکے لیکن اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ گھر گھر میں زیارتوں کے انتظام ہورہے ہیں اور جماعتوں میں بڑھتی ہوئی تعداد میں خدا کے فضل سے براہ راست باتیں سننے اور صورت دیکھنے کے مواقع میسر آرہے ہیں.“ اسی طرح آپ نے فرمایا: خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جنوری 1993ء.خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 88)
786 و میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ زمانہ میں خلافت کا جماعت سے تعلق اسی ٹیلی ویژن کے رابطہ سے ہی زیادہ تر ہو سکے گا اور یہ رابطہ شروع میں دو طرفہ ہو جائے گا.یعنی جہاں سے کوئی خلیفہ خطاب کر رہا ہو گا ساری دنیا کی جماعتوں کی مختلف جگہوں سے جھلکیاں بھی اس کے سامنے مختلف ٹیلی ویڑنز پر دکھائی جارہی ہوں گی اور وہ دیکھ رہا ہو گا کہ کہاں کیا ہورہا ہے.باقی یہ مکس (mix) کرنے والے ماہرین جو ہیں بہت حد تک ان کے اختیار میں ہے کہ کس منظر کو زیادہ نمایاں کر کے دکھا ئیں.لیکن یہ مکن تو ہو ہی چکا ہے جب اس کی مالی توفیق ملے گی تو اس طرح شروع ہو جائے گا.تو آئندہ کا ایک نقشہ تو یہ ہے کہ اس طرح ملاقاتیں ہوا کریں گی.دوسرا یہ کہ ہر احمدی کے کانوں میں براہ راست خلیفہ وقت کی آواز پہنچے اور اس کی آنکھیں اس کو دیکھ رہی ہوں.پھر دل میں یہ بھی طمانیت ہو کہ وہ بھی مجھے دیکھ سکتا ہے، یہ ایک عجیب کیفیت ہے جو آئندہ دور سے تعلق رکھنے والی ہے.ہم جو ان دوادوار کے سنگم پر ہیں ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم نے وہ وقت بھی دیکھتے ہیں جبکہ ہر شخص نہ صرف خلیفہ وقت سے ملاقات کرتا ہے بلکہ حق رکھتا ہے کہ جس کو توفیق ملتی ہے جب چاہے اپنے بچوں کو ساتھ لے کر آ کر بے تکلف ملاتا ہے اور بہت سے ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں توفیق نہیں ، ہم کیا کر سکتے ہیں.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نیا نظام جاری کر دیا ہے اور جماعت اس وقت گو یا عملاً دو ادوار میں بٹی ہوئی ہے.ایک حصہ وہ ہے جو ابھی تک پچھلے دور سے لطف اندوز ہورہا ہے، ایک حصہ ہے جو مستقبل میں آنے والا حصہ ہے اس کے مستقبل کا ابھی سے آغاز ہو چکا ہے.اس پہلو سے بڑے پُر لطف دن ہیں.(خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جنوری 1993ء.خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 90) چنانچہ 21 جون 1996ء کو اس نادر نظام نے ایک اور خوبصورت موڑ لیا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے سفر کینیڈا کے دوران ایم ٹی اے پر دو طرفہ رابطوں کا آغاز ہوا.کینیڈا سے حضور کے خطبہ کی براہ راست تصاویر انگلستان میں پہنچ رہی تھیں اور لندن کی تصاویر کینیڈا پہنچ رہی تھیں اور ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعہ تمام دنیا کے احمدی ان تصاویر کو بیک وقت دیکھ رہے تھے.حضور رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
787 گزشتہ ایک موقع پر میں نے جماعت سے یہ گزارش کی تھی کہ میں امید کرتا ہوں کہ وہ دن آئیں گے جب ہم دو طرفہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے.پس آج کے مبارک جمعہ سے اس دن کا آغاز ہورہا ہے.اس وقت انگلستان میں مختلف مراکز میں بیٹھے ہوئے احمدی ہمیں دیکھ رہے ہیں اور ان کی تصاویر یہاں پہنچ رہی ہیں اور بیک وقت ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں...یہ دراصل ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو ایک پہلو سے تو بارہا پوری ہو چکی.اب ایک نئے پہلو سے بھی پوری ہورہی ہے.حضرت امام جعفر صادق سے مروی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.بہت بڑے بزرگ، بہت پایہ کے امام تھے اور عارف باللہ تھے...آپ نے فرمایا : ہمارے امام القائم کے زمانہ میں یعنی حضرت مسیح موعود مہدی معہود کے زمانہ میں مشرق میں رہنے والا مومن مغرب میں رہنے والے اپنے دینی بھائی کو دیکھ سکے گا.اسی طرح مغرب میں بیٹھا ہوا مومن اپنے مشرق میں مقیم بھائی کو دیکھ سکے گا.“ ( بحار الانوار جلد 52 صفحہ 391) آپ نے فرمایا: یہ آغاز ہے.آگے انشاء اللہ ایسے دن آئیں گے کہ مشرق و مغرب کی جماعتیں ٹیلی ویژن کے اعلی انتظامات کے ذریعہ بیک وقت ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گی.ایک ایسا عالمی جلسہ ہوگا جس کی کوئی نظیر کبھی دنیا میں پیش نہیں کی جاسکتی ہے، نہ کی جاسکے گی.اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اتنے ہیں اور اتنے برس رہے ہیں کہ بارش کے قطروں کی طرح ان کا شمار ممکن نہیں رہا.“ الافضل انٹرنیشنل 9 را گست 1997ء) یکم اپریل 1996 ء سے شروع ہونے والی چوبیس گھنٹے کی نشریات سے مشرق وسطی کے بعض ممالک اور افریقہ اور مشرق بعید کے ممالک محروم تھے.7 جولائی 1996 ء سے گلوبل ہیم کے ذریعہ ان ممالک تک بھی ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی نشریات پہنچانے کا انتظام ہو گیا.اس سلسلہ میں محمود ہال مسجد فضل لندن میں ایک نہایت مبارک تقریب منعقد ہوئی جس میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی موجودگی میں افریقن احباب، بچوں، نوجوانوں اور مستورات نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید پر
788 مشتمل گیت گائے اور اس دن کے لئے تیار کردہ خصوصی پروگرام دکھائے گئے.1999ء میں ایم ٹی اے ایک نئے دور میں داخل ہوا.جلسہ سالانہ یو کے 1999ء کے موقع پر اس کی تفاصیل بیان کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یم ٹی اے نئے دور میں داخل ہو چکی ہے.یورپ، شرق اوسط اور ایشیا کے علاقوں کے لئے ڈیجیٹل نشریات کا آغاز ہو چکا ہے.اللہ کے فضل سے امسال یورپ، شرق اوسط اور ایشیا کے علاقوں کے لئے یورپ کے سب سے زیادہ مقبول سیٹلائٹ ہاٹ برڈ فور ( Hotbird) پر ایم ٹی اے کا ڈ کھیل چھیل شروع کیا جا چکا ہے.....ان ڈیجیٹل کی نشریات کے آغاز سے ہم دنیا بھر میں بہت سے ایسے ناظرین تک پہنچ رہے ہیں جن تک پہلے رسائی ممکن نہ تھی.اس طرح تبلیغ کے لئے رستے کھل رہے ہیں.....سابقہ مروجہ سیٹلائٹس کے ذریعہ ایم ٹی اے کی نشریات ساؤتھ پیسیفک کے بعض علاقوں میں نہیں پہنچ سکتی تھیں.ناممکن تھا کہ ان تک ہمارے ایم ٹی اے کے پروگرام براہِ راست پہنچ سکیں کیونکہ زمین کا جو curve ہے وہ حائل ہو جایا کرتا تھا.کئی اونچے پہاڑی سلسلے تھے جو حائل ہو جایا کرتے تھے.......امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساؤتھ پیفک کے تمام ممالک جن میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فجی، جاپان وغیرہ شامل ہیں ایم ٹی اے کی دسترس میں آگئے ہیں.......اب ہم سو فیصدی اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے پانچوں بز اعظم ایم ٹی اے کا پروگرام بر اور است دیکھ سکتے ہیں.الحمد لله ثم الحمد لله " خطاب دوسرا روز جلسہ سالانہ یو کے فرمودہ 31 جولائی 1999ء) اگر چہ ہاٹ برڈ پر ڈیجیٹل نشریات 1999ء میں شروع ہوئیں لیکن اس سے قبل ایم ٹی اے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یکم اپریل 1996ء کوشمالی امریکہ میں ایم ٹی اے دنیا میں پہلا ڈائریکٹ ٹو ہوم (DTH) چینل تھا جس پر ڈیجیٹل سسٹم پر نشریات شروع کی گئیں.اس غرض سے حضرت خلیفتہ اسح الرابع کی ہدایت ورہنمائی میں کینیڈا کی ایک کمپنی سے خصوصی آرڈر پر سیٹلائٹ ریسیور بنوائے گئے کیونکہ اس وقت دنیا میں ڈیجیٹل ڈائریکٹ ٹو ہوم ریسیور دستیاب ہی نہیں تھے.جمعہ 7 ستمبر 2001ء کو ایم ٹی اے کی نشریات یوکے کے B SKY B پلیٹ فارم پر شروع
789 کی گئیں.اس کا اعلان حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 7 ستمبر 2001ء میں فرمایا.یہ عجیب اتفاق ہے کہ 37 سال قبل 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے احمدیوں کو پاکستان میں آئینی و قانونی اغراض کے لئے ناٹ مسلم قرار دیا تھا اور 37 سال بعد مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ B SKYB پر آنے کی وجہ سے ایک نئے دور میں داخل ہورہا تھا.8 رستمبر 2001ء کو روزنامہ جنگ لندن کے پہلے صفحے پر اشتہار اس عنوان سے شائع ہوا: ایم ٹی اے کی تاریخ میں ایک نیا سنگ میل.یادر ہے کہ اُس وقت SKY پلیٹ فارم پر ایم ٹی اے پہلا اردو چینل، پہلا اسلامی چینل اور پہلا مذہبی چینل تھا.ایم ٹی اے کی نشریات کی وسعت اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے استفادہ اور ہر لحاظ سے اس کے معیار کو بہترسے بہترین اور بلند ے بلند تر کرنے کا سلسلہ یہیں رک نہیں گیا بلکہ اللہ تعال کی تائید و نصرت کے ساتھ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی زیر ہدایت و نگرانی اس میں مسلسل ترقی کا عمل جاری ہے.اور اس کا دائرہ فیض بڑی تیزی سے وسعت پذیر ہے.احمدیت کا دشمن تو خلیفہ اسی اور افراد جماعت کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کا خواہاں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعہ تمام فاصلوں کو سمیٹ کر ایسی محبتوں اور قربتوں سے نوازا کہ خلیفتہ اسیح سے روزانہ ملاقات کے سامان پیدا فرما دئیے.حضرت خلیفہ امسح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ ایم ٹی اے کے بعض سلسلہ وار پروگرام قبل ازیں یہ ذکر گزر چکا ہے کہ 7 جنوری 1994ء کو ایم ٹی اے کی روزانہ کی نشریات کے آغاز کے ساتھ ہی حضور رحمہ اللہ کے ساتھ ملاقات کا ایک پروگرام شروع ہوا.بعد میں روزانہ کی یہ ملاقات جو
790 کم و بیش ایک گھنٹہ کے وقت پر مشتمل ہوتی تھی کئی مختلف سلسلوں میں تقسیم ہو گئی.ان مقبول سلسلوں میں سے بعض کا ذکر درج ذیل ہے.اعتراضات کے جوابات: 18 جنوری 1994ء سے آپ نے معاندین کے اعتراضات کے جواب دینے کا سلسلہ شروع فرمایا جس میں اسلام اور احمدیت پر کئے گئے اعتراضات کے منہ توڑ مدلل جواب دے کر مخالفوں کے منہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیے اور شیروں کی طرح جماعت کا دفاع فرما کر ساری جماعت کو اس کے گر سکھا گئے.یہ گل 37 ر پروگرام ہیں.انگریزی ملاقات : 5 فروری 1994ء کو انگریزی دان دوستوں کے ساتھ سٹوڈیو ملاقات کے پروگرام کا آغاز فرمایا جس میں مختلف قومیتوں کے افراد کو شمولیت کا شرف عطا فرمایا.ان میں سے بہت سے پروگرام غیر مسلموں کے ساتھ بھی ہوئے جن کے ہر قسم کے سوالات کے کافی وشافی جوابات دیئے گئے.گل 150 ر پروگرام ہوئے.اردو ملاقات : 19 فروری 1994ء کو اردو دان دوستوں کے ساتھ سٹوڈیو میں عمومی سوال و جواب کا پروگرام شروع فرمایا جس میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے مضمون کو اس گہرائی سے بیان فرمایا کہ ہر سنے والا یہی محسوس کرتا کہ اسی کے حسب حال جواب بیان کیا جا رہا ہے.گل 160 / پروگرام ہوئے.ہو میو پیتھی کلاس : 23 / مارچ 1994ء کو آپ نے اپنی ہو میو پیتھی کی شہرہ عالم کلاس کا آغاز فرمایا اور روحانی علاج کے ساتھ ساتھ جسمانی علاج کے سامان بھی پیدا فرما دیے.ایم ٹی اے کے ذریعہ اس سادہ اور سستے طریق علاج کو آپ نے دنیا بھر میں رائج فرمایا اور ہر رنگ ونسل اور ہر قوم و مذہب کے افراد نے اس سے استفادہ کرتے ہوئے معجزانہ شفا کے نمونے دیکھے.گل 198 ر پروگرام ہوئے.
791 ترجمة القرآن کلاس : 15 جولائی 1994ء کو آپ نے ترجمہ القرآن کلاس کا آغاز فرمایا.اس پہلی کلاس کے ساتھ ہی آپ نے ایم ٹی اے کے نئے سٹوڈیو کا افتتاح بھی فرمایا.اس عالمگیر کلاس کے ذریعہ آپ نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے شاگردوں کو عشق قرآن اور فہم قرآن کے اسلوب سکھائے.آپ کی یہ کلاس قرآنی علوم و عرفان کا ایک چشمہ فیض ہے جو جاری وساری ہے.گل 1305 پروگرام ریکارڈ ہوتے.لِقَاء مَعَ الْعَرَب : 17 جولائی 1994ء کو اہل عرب کے لئے لقاء مَعَ العَرب کا پروگرام شروع کیا گیا.جس کے ذریعہ صرف اہل عرب ہی نہیں بلکہ ہر قوم کی تسکین کے سامان کئے اور بڑی فصاحت و بلاغت سے از روئے قرآن وحد بیت عربوں کو انہیں کی زبان میں درست معنے بھی سمجھائے.گل 472 پروگرام ہوئے.اردو کلاس: 21 جولائی 1994 ء سے آپ نے اردو زبان سکھانے کے لئے اردو کلاس کا اجراء فرمایا تا کہ سب قوموں کے لوگ اردو سیکھ کر ایک ہاتھ پر جمع ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زبان پر بھی جمع ہو جائیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا خود مطالعہ کر کے علم و عرفان کے اس خزانے سے مستفیض ہو سکیں.اردوزبان پر آپ کا یہ بہت بڑا احسان ہے.گل 460/ پروگرام ہوئے.بچوں کی کلاس : 23 جولائی 1994ء کو آپ نے بچوں کے ساتھ کلاس شروع فرمائی.آپ بچوں سے بے! محبت کرتے تھے اور ہمہ وقت ان کی تربیت کا خیال آپ کو رہتا تھا.اس عالمی کلاس کے ذریعہ باتوں باتوں میں آپ نے تربیت کے وہ نکات بیان فرمائے اور وہ گر سکھائے جس نے دنیا بھر کے احمدی بچوں کو اللہ تعالی اور خلافت احمدیہ کے بہت قریب کر دیا.گل 300 پروگرام ہوئے.اس کے علاوہ :
792 فریج ملاقات کا آغاز 13 / جولائی 1997 ء سے ہوا.اس پروگرام میں فرنچ بولنے والے افراد شامل ہوتے.اور حضور رحمہ اللہ کے انگریزی میں بیان فرمودہ جوابات کا فریج ترجمہ پیش کیا جانتا.ایسے گل 209 پروگرام ریکارڈ ہوئے....⭑ بنگلہ ملاقات کا آغاز 19 اکتوبر 1999ء سے ہوا.جس میں بنگلہ بولنے والے افراد شامل ہوتے اور حضور کے ساتھ سوال و جواب کی مجلس ہوتی.اور حضور کے جوابات کا بنگلہ ترجمہ پیش کیا جاتا.ایسے 128 / پروگرام ہوئے.اسی طرح جرمن ملاقات کا آغاز 6 / نومبر 1999ء سے ہوا.جس میں جرمن بولنے والے افراد شامل ہوتے اور حضور ان کے سوالات کے جو جوابات انگریزی زبان میں ارشاد فرماتے ان کا جرمن زبان میں ترجمہ پیش کیا جاتا.ایسے گل 130 پروگرام ریکارڈ ہوئے.لجنہ ملاقات کا پروگرام 24 /اکتوبر 1999ء سے شروع ہوا اور 130 پروگرام ہوئے.اطفال ملاقات کا آغاز 3 رنومبر 1999 ء سے ہوا اور کل 45 پروگرام ریکارڈ ہوئے.الفضل انٹرنیشنل 25 جولائی تا 17 اگست 2003، صفحہ 24-25) خطبات جمعہ، خطبات عیدین، جلسہ ہائے سالانہ اور اجتماعات اور دیگر اہم تقاریب وغیرہ کے موقع پر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کے خطابات کے علاوہ صرف مذکورہ بالا پروگرام ہی کم و بیش 2724 گھنٹوں کی ریکارڈنگ پر مشتمل تھے.اور ان میں سے ہر ایک پروگرام علم و عرفان اور حکمت کے موتیوں سے مرضع اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کا آئینہ دار تھا.احمدیت کی صداقت کا عالمی گواہ الغرض مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ (MTA) انٹرنیشنل ایک عظیم نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو عطا کی ہے.یہ وہ واحد مسلم ٹی وی چینل ہے جو ساری دنیا میں روزانہ چوبیس
793 گھنٹے اسلام کی سچی اور حقیقی تعلیمات کو پیش کرتا ہے.رحمتہ للعالمین حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر رب العالمین کی طرف سے نازل ہونے والی تعلیم کے فیض سے اس ٹی وی چینل کی نشریات عالمی نشریات ہیں اور اس کے پروگرام عالی پروگرام ہیں.یہاں سے وہی دین اسلام پیش کیا جاتا ہے جو عالی دین ہے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے ہدایت اور رحمت کا باعث ہے.ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے سارے پروگرام غیر جانبدار، کامل عدل و انصاف اور سچائی و راستی پر مبنی ہیں.ان میں کسی قسم کے تصنع اور بناوٹ یا جھوٹ یا مداہنت کی کوئی آمیزش نہیں.ہم کہہ سکتے ہیں کہ نور محمدی کے فیض سے MTA نہ مشرقی ہے نہ مغربی بلکہ یہ ابدی صداقتوں کو پھیلانے والا اور فطرت انسانی کو اپیل کرنے والا ایک عالمی چینل ہے.گل عالم کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لئے ایم ٹی اے کو عظیم الشان خدمت کی سعادت حاصل ہے.عالمگیر جماعت احمدیہ مسلمہ کے امام خلیفہ اسیح کے تمام خطبات، خطابات، درس القرآن، مجالس سوال و جواب سب کے سب عالمی حیثیت رکھتے ہیں اور تمام دنیا آپ کی مخاطب ہوتی ہے.عالمی خطبہ جمعہ، عالمی جلسہ سالانہ ، عالمی بیعت ، عالمی سجدہ تشکر ، عالمی نعرے، عالمی دعائیں، عالمی درس القرآن، عالمی مجالس عرفان، غرضیکہ ہر چیز میں عالمی وحدت کے نظارے ایم ٹی اے پر دیکھنے میں آتے ہیں اور خلافت احمد یہ حقیقی معنوں میں گل عالم کے سعید فطرت مسلمانوں کے دلوں پر حکمرانی کر رہی ہے.ساری دنیا کے احمدی باوجو د رنگ و نسل اور زبانوں کے اختلاف کے ایک ہی رنگ میں، جو رنگ تقویٰ ہے، نشو نما پا رہے ہیں اور باوجود ظاہری طور پر ہزار ہا میل کی مسافتوں کے ان کے دل وحدت ایمانی سے اس طرح مربوط ہیں گویا بنیان مرصوص ہوں.سارے عالم اسلام میں کوئی اور جماعت ایسی نہیں جو حقیقت میں عالمی جماعت کہلا سکے.نہ ان کا کوئی عالمی امام ہے، نہ ان کی فکر و نظر میں وحدت ہے اور نہ عملی طور پر اتفاق و اتحاد.بلکہ ان کی کیفیت اُن پراگندہ ومنتشر بھیڑوں کی سی ہے جن کا کوئی نگران نہ ہو اور خونخوار بھیڑیے جب چاہیں اور جس کو چاہیں چیر پھاڑ کر رکھ دیں.یوں تو کہنے کو دنیا بھر میں پچاس سے زائد مسلم حکومتیں موجود ہیں اور ان میں سے بعض بہت وسیع خزانوں اور مادی وسائل کی مالک ہیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی عالمگیر مسلم ٹیلی ویژن چینل قائم کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی.اگر چہ ان ممالک میں بیسیوں ٹی وی چینل جاری ہیں لیکن کوئی ایک بھی نہیں جسے
794 فی الواقعہ مسلم ٹی وی کہا جاسکے.اگر یہ سعادت حاصل ہوتی ہے تو دنیوی لحاظ سے ایک نہایت کمزور اور غریب جماعت کو جس کے پاس نہ تو کوئی معدنی خزائن ہیں، نہ تیل کی دولت، نہ حکومت اور اقتدار.لیکن وہ اس خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے جو زمین و آسمان کے تمام خزانوں کا مالک ہے.اور اس نے اس جماعت کو اس لئے قائم فرمایا ہے کہ تاساری نوع انسانی کو دین محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر جمع کر کے امتِ واحدہ میں تبدیل کرے.سو اس نے محض اپنے فضل سے اور اپنی تقدیر خاص سے عالمگیر مسلم ٹیلی ویژن کے اجراء کی توفیق اس جماعت کو عطا فرمائی اور ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا.قرآن و حدیث میں اور اُمت مسلمہ کے صلحاء و بزرگان کی پیشگوئیوں میں بڑی صراحت سے ایسے اشارے موجود ہیں کہ مسیح موعود و امام مہدی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ ایسے سامان مہیا فرمائے گا جن سے کام لے کر وہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کریں گے.مثلاً بحار الانوار میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ : ایک منادی آسمان سے آواز دے گا جسے ایک نوجوان لڑکی پردے میں رہتے ہوئے بھی سنے گی اور اہل مشرق و مغرب بھی سنیں گے.“ (بحار الانوار جلد 52 صفحہ 285 راز ملامحمد باقر مجلسی.دارا احیاء التراث العربی بیروت) حضرت امام باقر ( وفات 114 ھ ) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے امام قائم جب مبعوث ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے گروہ کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی کو بڑھا دے گا یہاں تک کہ یوں محسوس ہوگا کہ امام قائم اور ان کے درمیان فاصلہ ایک برید ( یعنی ایک سٹیشن کے برابر رہ گیا ہے.چنانچہ جب وہ امام ان سے بات کریں گے تو وہ انہیں سنیں گے اور ساتھ دیکھیں گے جبکہ امام اپنی جگہ ہی ٹھہرا رہے گا.“ بحار الانوار جلد 52 صفحہ 236) حضرت امام جعفر صادق (وفات 148ھ) کی پیشگوئیوں میں یہ بھی ذکر ہے کہ مومن جو امام قائم کے زمانہ میں مشرق میں ہو گا اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جو مغرب میں ہو گا.اور اسی طرح جو مغرب میں ہو گا وہ اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جو مشرق میں ہوگا.(بحار الانوار جلد 52 صفحہ 391)
795 حضرت شاہ رفیع الدین صاحب نے تحریر فرمایا کہ بیعت کے وقت آسمان سے ان الفاظ میں آواز آئے گی یہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہے اس کی آواز سنو، اس کی اطاعت کرو اور یہ آواز اس جگہ کے تمام خاص و عام سنیں گے.“ (قیامت نامہ صفحہ نمبر 4، شاہ رفیع الدین - مطبع مجتبائی دہلی) یہ اور اس قسم کی اور بہت سی پیشگوئیاں ہیں جو اسلامی لٹریچر میں موجود ہیں.اس کے علاوہ انجیل میں بھی مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے وقت وحدت اقوام اور آسمانی پیغام کی عالمی اشاعت کا تذکرہ موجود ہے.ان پیشگوئیوں میں آواز کے آسمان سے اترنے اور یکساں طور پر سب لوگوں کو پہنچنے اور اہل مشرق و مغرب کا اپنی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھنے کا جو تذکرہ ہے اس میں اس عالمی مواصلاتی نظام کی طرف بلیغ اشارہ ہے جو آج کی دنیا میں سیٹلائٹ کمیونیکیشن ، فون، فیکس، انٹر نیٹ اور ٹیلی ویژن وغیرہ کی صورت میں معروف و مشہور ہے.پھر یہی نہیں کہ امام مہدی علیہ السلام کو ایسے وسائل مہیا ہونے کی پیشگوئیاں پہلے بزرگان نے کیں بلکہ خود حضرت اقدس مسیح موعود اور الامام المہدی علیہ السلام کو بھی الہامات اور رؤیا و کشوف میں ایسی خبریں دی گئیں.8 دسمبر 1902ء کو مسجد مبارک قادیان میں حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے عصر کی نماز سے قبل اپنے اصحاب کو ایک رؤیا سنائی جس میں ذکر فرمایا کہ : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ہوا میں تیر رہا ہوں اور ایک گڑھا ہے مثل دائرے کے گول.اور اس قدر بڑا ہے جیسے یہاں سے نواب صاحب کا گھر اور میں اس پر ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر تیر رہا ہوں.سید محمد احسن صاحب کنارے پر تھے.میں نے ان کو بلا کر کہا کہ دیکھ لیجئے کہ عیسی علیہ السلام تو پانی پر چلتے تھے اور میں ہوا پر تیر رہا ہوں.اور میرے خدا کا فضل اُن سے بڑھ کر مجھ پر ہے.حامد علی میرے ساتھ ہے اور اس گڑھے پر ہم نے کئی پھیرے کئے.نہ ہاتھ ، نہ پاؤں ہلانے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی سے ادھر ادھر تیر رہے ہیں.( ملفوظات جلد دوم.ایڈیشن 2003 صفحہ 569-572 مطبوعہ ربوہ )
796 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کشف کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:.اس کشف میں جہاں یہ اشارہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے جب کہا کہ میں پانی پر چل رہا ہوں تو در حقیقت آپ نے اپنا ایک کشف ہی بیان فرمایا تھا.لوگوں نے بعد میں بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنا دیا اور اس کشف کا مطلب یہ تھا کہ میری قوم کسی زمانے میں بہت بڑی بحری طاقت حاصل کرے گی.وہاں اس کشف میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ آئندہ ہوائی جہازوں کا زور زیادہ ہو جائے گا..روزنامه الفضل قادیان 3 جون 1944ء) اس زمانہ میں ہوا میں تیرنے کے یہ معنی بھی ظاہر ہوتے ہیں کہ مسیح موعود کو ہواؤں پر غلبہ دیا جائے گا اور ان فضائی ذرائع سے وہ پیچ ناصری کی قوم پر غالب آئیں گے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے ہواؤں میں اڑنے اور تیرنے کے مضمون کو حمد اور شکر کے ساتھ باندھ کر یوں بیان فرمایا: اسلام کی ترقی کی راہ پر آگے بڑھتے رہیں.آپ جو کل چل رہے تھے، آج دوڑ رہے ہیں.آپ جو آج دوڑ رہے ہیں ان کو فضا میں اڑنا بھی نصیب ہوا ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اب یہ فیصلہ ہے کہ مسیح محمدی کے لئے آسمان کی فضائیں مسحر کی جائیں گی اور ان تمام مراتب میں جو آسمانی سفروں سے تعلق رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں کو سب دنیا کی دوسری قوموں اور انسانوں پر ایک برتری عطا ہوگی.پس یہ آسمانی سفر کا آغاز ہوا ہے.یہ ایم ٹی اے کی لہریں جو تمام دنیا میں آسمان سے اترقی ہیں یہ اس سفر کا آغاز ہے.ابھی بہت کچھ ہے جو آگے آنے والا ہے.اگلی صدیاں جو کچھ دیکھیں گی آپ یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کتنی بڑی عظمتوں کی بنا ڈالی جا چکی ہے.پس اللہ کے فضلوں کا شکر ادا کرتے ہوئے آگے بڑھیں.گانا الفضل انٹر نیشنل 4 جولائی تا 10 / جولائی 1997 مٹور 4) حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی سو سال قبل کی یہ رویا آپ کے مقدس خلیفہ رابع کے مبارک دور
797 میں بڑی شان کے ساتھ ایم ٹی اے کے ذریعہ پوری ہوئی.ہوا کے دوش پر آپ کی شبیہ مبارک اور آپ کا مقدس پیغام ڈش انٹینا کے ذریعہ ساری زمین پر نازل ہو رہا ہے اور گویا کسشش جہات اس آواز سے گونج رہی ہیں کہ اسْمَعُوا صَوْتَ السَّمَاء جَاءَ الْمَسِيحَ جَاءَ الْمَسِيح نیز بشنو از زمیں آمد امام کامگار کوئی کہہ سکتا ہے کہ اور بھی بعض ٹی وی چینلر ایسے ہیں جن پر ”اسلامی“ پروگرام نشر ہوتے ہیں.لیکن قطع نظر اس کے کہ وہ کس حد تک اسلامی ہیں، اور وہ اسلام کے کسی خاص محدود فرقہ کے نقطہ نظر کو ہی پیش کرنے والے ہیں.اصل بات جو نہایت اہم ہے وہ یہ ہے کہ الہی نوشتوں اور بزرگان سلف کی پیشگوئیوں میں ایسے ذرائع کا خاص طور پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے مہیا ہونے کا ذکر ہے اور مقصد یہ ہے کہ تا وہ ان سے کام لے کر اسلام کی عالمگیر تبلیغ کی مہم چلائیں.آج رُوئے زمین پر مسیح موعود اور الامام المہدی ہونے کا مدعی صرف ایک ہی وجود ہے.یعنی حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام.آپ ہی کے متعلق یہ وعدہ ہے کہ آپ دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کریں گے " اور حکم و عدل بن کر اختلافات کو دور کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے.پھر یہ صرف آپ ہی کا وجود گرامی ہے جس نے ان سب ایجادات کے متعلق یہ دعویٰ کیا کہ یہ سب سامان خدا تعالیٰ نے میرے لئے مہیا فرماتے ہیں اور آپ نے بڑی تحدی کے ساتھ اور قوی دلائل کے ساتھ ان باتوں کو اپنی صداقت کے ثبوت میں بطور نشان پیش فرمایا.مثلاً آپ فرماتے ہیں: قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے اور احادیث صحیحہ اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک نئی سواری پیدا ہوگی جس سے اونٹ بیکار ہو جائیں گے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے " وَإِذَا الْعِشَارُ عُظِلت اور حدیث صحیح میں ہے وَلَيُتركن الْقِلَاصُ فَلا يُسعى عليها.اس طرح نہروں کا نکالے جانا، چھاپے خانوں کی کثرت اور اشاعت کتب کے ذریعوں کا عام ہونا اسی قسم کے بہت سے نشان ہیں جو اس زمانے سے مخصوص تھے اور وہ پورے ہو گئے ہیں“.(الحكم 17 ستمبر 1904ء)
798 اسی طرح آپ فرماتے ہیں: وإذَا النُّفُوسُ زُوجَت بھی میرے ہی لئے ہے...پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالی نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دیتے ہیں.چنانچہ مطبع کے سامان، کاغذ کی کثرت، ڈاکخانوں، تار، ریل اور دخانی جہازوں کے ذریعہ کل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے.اور پھر نت نئی ایجادیں اس جمع کو اور بڑھا رہی ہیں.کیونکہ اسباب تبلیغ جمع ہورہے ہیں.اب فونوگراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں.اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے.اخباروں اور رسالوں کا اجراء.غرض اس قدر سامان تبلیغ کے جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں ہم کو نہیں ملتی.( الحکم 20 نومبر 1902ء) نیز فرمایا: حمد یہ زمانہ اس قسم کا آیا ہے کہ اللہ تعالی نے ایسے وسائل پیدا کر دیتے ہیں کہ دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور وَاذَا النُّفُوسُ زُوجَت کی پیشگوئی پوری ہو گئی.اب سب مذاہب میدان میں نکل آئے ہیں اور یہ ضروری امر ہے کہ ان کا مقابلہ ہو اور ان میں ایک ہی سچا ہوگا اور غالب آئے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا: ( حکم 31 اکتوبر 1902ء) میری بڑی آرزو ہے کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میں میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑ کی ہو کہ ہر ایک سے ہر ایک وقت واسطہ ورابطہ ر ہے." 66 (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ ) مادی اور ظاہری طور پر تو اس خواہش کے پورا ہونے کی کوئی صورت ممکن نہیں کہ ایک مکان کے گرد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں بلکہ اربوں احمدیوں کے مکانات ہوں اور ہر ایک گھر میں اس کی کھڑ کی کھلے.مگر اُس خدا نے جس نے خود ایک پاک دل میں یہ خواہش پیدا کی تھی اسے ایم ٹی اے کی شکل میں ممکن کر دکھایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک ایسا مکان میسر آگیا ہے جس کے
799 چاروں طرف احمدی بستے ہیں اور آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نمائندگی میں آپ کے خلیفہ کا ہر گھر سے ہر ایک وقت واسط در ابطہ ممکن ہے.صرف ٹیلی ویژن کی کھڑکی کھولنے کی ضرورت ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی عربی تصنیف مخطبہ الہامیہ میں فرماتے ہیں: نزول کے لفظ میں جو حدیثوں میں آیا ہے یہ اشارہ ہے کہ مسیح کے زمانہ میں امر اور نصرت انسان کے ہاتھ کے وسیلہ کے بغیر اور مجاہدین کے جہاد کے بغیر آسمان سے نازل ہوگی اور مدیروں کی تدبیر کے بغیر تمام چیزیں اوپر سے نیچے آئیں گی.گویا مسیح بارش کی طرح فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھ کر آسمان سے اترے گا.انسانی تدبیروں اور دنیاوی حیلوں کے بازوؤں پر اس کا ہاتھ نہ ہو گا اور اس کی دعوت اور محبت زمین میں چاروں طرف بہت جلد پھیل جائے گی اس بجلی کی طرح جو ایک سمت میں ظاہر ہو کر ایک دم میں سب طرف چمک جاتی ہے.یہی حال اس زمانہ میں واقع ہوگا.پس سن لے جس کو دوکان دیئے گئے ہیں.اور نور کی اشاعت کے لئے صور پھونکا جائے گا اور سلیم طبیعتیں ہدایت پانے کے لئے پکاریں گی.اس وقت مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب کے فرقے خدا کے حکم سے جمع ہو جائیں گے.پس اس وقت دل جاگ جائیں گے...اور لوگ آسمانی کشش سے جو زمین کی آمیزش سے پاک ہوگی کھینچے جائیں گے.“ ( مخطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 283-286) حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 19 فروری 1993ء میں اس اقتباس کا رحمه / ذکر کرتے ہوئے فرمایا: پس یا درکھیں جو کچھ اب رونما ہورہا ہے اور بہت بڑھ کر آئندہ بھی رونما ہونے والا ہے یہ انسانی حیلوں اور چالا کیوں کے نتیجہ میں ہر گز نہیں ہے.یہ خدا کی تقدیر تھی جو آسمان سے بارش کی طرح نازل ہو رہی ہے.ٹیلی ویژن کے نظام کے ذریعہ آوازوں اور تصویروں کے پھیلنے کا کیسا خوبصورت نقشہ ہے جو خطبہ الہامیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے جاری ہوا ہے...پس یہ جو خدا کے فضل سے سعید روحیں مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب کی اس ذریعہ سے جو بجلی کی سرعت کے ساتھ ساری دنیا میں پھیلتا ہے جمع ہورہے ہیں، یہ المی نوشتوں کی باتیں ہیں.قرآن کریم کی پیشگوئیاں ہیں جو پوری ہورہی ہیں.یہ عجیب زمانہ ہے کہ زمانہ بھی جمع ہو رہا ہے اور یہ زمانہ گذشتہ
800 زمانوں سے بھی جمع ہو رہا ہے اور جمعوں کے ذریعہ اس عالمی جمع کا عالمی انتظام فرمایا گیا ہے.“ خطبہ جمعہ فرموده 19 / فروری 1993ء.خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 152-153) پس مسلم ٹیلیویژن احمدیہ (MTA) انٹرنیشنل کا جماعت احمدیہ کو عطا ہونا خدا تعالٰی کا ایک خاص احسان ہے اور اس کی خاص تقدیر ہے.دنیا کو امت واحدہ بنانے کا کام خلافت احمدیہ کے سپرد ہے ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعہ عالمگیر جماعت احمدیہ کی خلافت سے اور خلیفہ وقت کی جماعت سے محبت نہایت نمایاں ہو کر دنیا کے سامنے ابھری اور ساری دنیا کو امت واحدہ بنانے کا عمل ایک نہایت خوبصورت انداز میں آشکار ہوا.اس کے برعکس وہ معاندین جو جماعت کو پارہ پارہ کرنے کے مکروہ خواب دیکھ رہے تھے وہ دن بدن ذلت و نکبت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے گئے اور ان کی تقشت وافتراق کی حالتیں عبرت کی مثال بنتی چلی گئیں.امر واقعہ یہ ہے کہ آج دنیا کو امت واحدہ بنانے کا کام خلافت احمدیہ کے سپرد ہے اور اس کے لئے اللہ تعالی نے خلافت احمدیہ کو اپنے فضل خاص سے جو وسائل اور ذرائع عطا فرمائے ہیں ان میں ایم ٹی اے انٹرنیشنل کا ایک نہایت اہم اور کلیدی کردار ہے.جس کے ذریعہ سے خلیفہ وقت کی آواز بیک وقت اور براہ راست ساری دنیا کے احمدیوں تک پہنچتی ہے.اور وہ ایک آسمانی امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک ہی ہاتھ پر جمع ہوتے ہوئے وحدت کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں.اس پہلو سے خلیفہ وقت کے خطبات و خطابات کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مئی 1991ء میں فرمایا: 33...آپ اپنی نسلوں کو خطبات با قاعدہ سنوایا کریں یا پڑھایا کریں یا سمجھایا کریں کیونکہ خلیفہ وقت کے یہ خطبات جو اس دور میں دیئے جا رہے ہیں یہ دنیا میں اللہ تعالی کی طرف سے ظاہر ہونے والی نئی ایجادات کے سہارے بیک وقت ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں اور ساری دنیا کی جماعتیں ان کو براہِ راست سنتی اور فائدہ اٹھاتی اور ایک قوم بن رہی ہیں اور امت واحدہ بنانے کے سامان پیدا ہور ہے ہیں.اس لئے خواہ فجی کے احمدی ہوں یا سرینام کے
801 احمدی ہوں، ماریشس کے ہوں یا چین جاپان کے ہوں، روس کے ہوں یا امریکہ کے سب اگر خلیفہ وقت کی نصیحتوں کو براہ راست سنیں گے تو سب کی تربیت ایک رنگ میں ہوگی.وہ سارے ایک قوم بن جائیں گے خواہ ظاہری طور پر ان کی قوموں کا فرق ہی کیوں نہ ہو.ان کے رنگ چہروں کے لحاظ سے، جلدوں کے لحاظ سے الگ الگ ہوں گے مگر دل کا ایک ہی رنگ ہو گا.ان کے چلیے اپنے ناک نقشے کے لحاظ سے تو الگ الگ ہوں گے لیکن روح کا حلیہ ایک ہی ہوگا.وہ ایسے روحانی وجود نہیں گے جو خدا کی نگاہ میں مقبول ٹھہریں گے کیونکہ وہ قرآن کریم کی روشنی میں تربیت پارہے ہوں گے اور قرآن کے نور سے حصہ لے رہے ہوں گے.) خطبه جمعه فرموده 31 مئی 1991ء - خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 471) اسی طرح حضرت خلیفہ مسیح الرابع حمہ اللہ.تخلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک اور موقع پر فرمایا : پیش انٹینا کے ذریعہ کل عالم میں جو خطبات نشر ہورہے ہیں اور مشرق و مغرب کے احمدی بیک وقت جمعہ کے خطبہ سے استفادہ کر رہے ہیں یہ دراصل اس مضمون کا حصہ ہے جس کو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے بار بار اس طرح بیان فرمایا کہ ساری دنیا کو ملت واحده یا بنت واحده بنانے کا جو کام خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد فرمایا ہے اس کا وقت قریب آرہا ہے اور مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے پچیس تمیں سال حد مقرر فرمائی تھی.اس مدت میں ابھی کچھ عرصہ باقی ہے اور ہم بڑے نمایاں طور پر ان آثار کو روشن ہوتا دیکھ رہے ہیں اور ڈش انٹینا کے ذریعہ جو عالمی ملت واحدہ کی تعمیر کا پروگرام چل رہا ہے یہ تو حید ہی کا حصہ ہے.اس کا توحید سے گہرا تعلق ہے.پس جب بھی کوئی ایسی اچھی خبریں ملتی ہیں کہ دنیا کے مختلف کونوں میں احمدی ان خطبات کو دیکھ کر اور سن کر ایک وحدت کی لڑی میں پروئے ہوئے محسوس کرتے ہیں اور اس عالی مواصلاتی نظام کے ذریعہ سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کو ایک کرنے کا بڑا ہی عمدہ موقع اپنے فضل سے میسر فرمایا ہے تو اس سے دل حمد سے بھر جاتا ہے.یہ ایک عالی درخت ہے.ایک بین الاقوامی شجر کے طور پر یہ سلسلہ پھیلتا چلا جا رہا ہے اور اللہ کے فضل سے بہت ہی نیک پھل لگ رہے ہیں.اس کثرت سے مجھے ڈور ڈور سے خط آتے ہیں کہ ان خطبات کے نتیجہ میں ہمارے اندر اسلام زندہ ہو گیا ہے.جذبے بیدار ہو رہے ہیں.نمازیں پھر شروع کر دی ہیں....
802 انواع و اقسام کے مختلف رنگوں اور خوشبوؤں کے اتنے پھل لگ رہے ہیں کہ دل حمد سے بھر جاتا ہے.پس یاد رکھیں کہ آپ کی وحدت خلافت سے وابستہ ہے اور امت واحدہ بنانے کا کام خلافت احمدیہ کے سپرد ہے اور کسی کو نصیب نہیں ہو سکتا.میں خدا کی قسم کھا کر اس مسجد میں اعلان کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ علیم کی غلام امت واحدہ بنانے کا کام خدا تعالیٰ نے اس دور میں خلافت احمدیہ کے سپرد کیا ہے.جو اس سے تعلق کالے گاوہ امت واحدہ سے اپنا تعلق توڑے گا.اس کی کوئی کوشش خواہ نیکی کے نام پر ہی کیوں نہ ہو کبھی کامیاب نہیں ہوگی.پس خدا کے واضح اعجازی نشانوں کے ذریعہ جو بات ثابت ہو چکی ہے اس کو دیکھ کر آپ اپنی آنکھیں بند کر کے کہاں جائیں گے.اس سے مضبوطی سے چمٹ جائیں اور اس میں کوئی خطرہ نہیں.اس وفا کے اندر آپ کی خدا سے وفا، حضرت محمد مصطفی علیم سے وفا ہے، حضرت مسیح موعود سے وفا ہے کیونکہ خلیفہ اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.آپ سے بہت بڑھ کر اپنے گناہوں کو جانتا ہے، اپنی عاجزی کو جانتا ہے، مگر جانتا ہے کہ جس منصب پر وہ فائز کیا گیا ہے اللہ تعالی اس منصب میں غیرت رکھتا ہے.اس مضمون کو سمجھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس شعر کا مزید عرفان حاصل ہوتا ہے کہ اے آنکہ سُوئے من بد و بدی بعد تبر از باغبان بترس که من شارخ معمرم ( در همین فارسی 106) کہ اے بیوقوف مو جو میری طرف تبر لے کر حملہ آور ہو رہا ہے، جان لے کہ یہ شاخ جو میری شاخ ہے یہ معمر، عمر دار ہے اور باغبان اس کو برداشت نہیں کرے گا.پس خلافت احمدیہ...وہ معمر شارخ ہے جس کو اللہ تعالی نے تو حید کے پھل لگانے کے لئے سبز و شاداب کر کے دنیا میں دوبارہ قائم کرتا ہے.اس پر اگر آپ بری نیت سے حملہ کریں گئے، اس پر اگر آپ بد ظنی سے کام لیں گے تو اپنے آپ کو بلاک کرلیں گے.کیونکہ خدا ہے جو اس کی پشت پناہی پر کھڑا ہے اور وہ کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ خلافت کو دوبارہ دنیا سے مٹے دے یہاں تک کہ وہ اپنے ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرلے کہ دنیا میں ایک ہی دین ہو اور وہ دین
803 اسلام ہو اور تو حید ساری دنیا پر چھا جائے اور حضرت محمد مصطفی آخری اور دائمی نہی کے طور پر دنیا کو قبول ہو جائیں.اللہ کرے ایسا ہی ہو.آمین ( خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جولائی 1993.خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 532547)...........
سوانحی خاکہ حضرت مرزا طاہر احمد خليفة المسیح الرابع رحمه الله تعالى اور عہد خلافت رابعہ کے بعض اہم واقعات کی سن وار تفصیل ✰✰✰
807 رض حضرت امام مہدی آخر الزمان کے پوتے، سیدنا حضرت مصلح موعود و حضرت سیده مریم النساء ام طاہر کے فرزند ارجمند صاحبزادہ مرزا طاہر احمد 18 دسمبر 1928ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.قادیان میں ابتدائی تعلیم کے بعد 1944ء میں میٹرک کیا اور گورنمنٹ کالج سے ایف ایس سی کی.بی اے کے بعد 1953ء میں جامعہ احمدیہ کی تعلیم مکمل کی.1955ء سے 1957ء تک سکول آف اور یئنٹل سٹڈیز میں حصول تعلیم کے لئے انگلستان میں قیام فرمایا.لندن سے واپسی کے بعد ناظم وقف جدید، صدر مجلس خدام الاحمدیہ مجلس انصار اللہ، ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن اور کئی دیگر اہم جماعتی عہدوں پر خدمات بجالاتے رہے.8 اور 9 جون 1982ء کی درمیانی شب سیدنا حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ أسبح الثالث کے وصال کے بعد 10 جون 1982ء کو مسجد مبارک ربوہ میں خلافت رابعہ کے انتخاب کے وقت منشائے انہی کے مطابق آپ مسند خلافت پر متم متمکن ہوئے.قبل از خلافت آپ کی ولادت 18 دسمبر 1928ء کو قادیان میں ہوئی.ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی $1944 5 مارچ: آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ اتم طاہر کا وصال ہوا مارچ: الفضل کیلئے پہلا مضمون ”میری امی ( حضرت ام طاہر ) لکھا 10 اپریل: نظام وصیت میں شمولیت فرمائی آپ کا وصیت نمبر 7547 ر ہے متی: آپ نے زندگی وقف کی ٹی آئی ہائی سکول قادیان سے میٹرک کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے FSc اور BA پرائیویٹ پاس کیا.*1947 تقسیم ہند کے وقت پناہ گزینوں کی خدمت اور حفاظت مرکز سلسلہ قادیان میں حصہ لیا
808 *1949 19 ستمبر : حضرت مصلح موعودؓ کے ہمراہ مستقل رہائش کے لئے ربوہ میں آمد ہوئی.7دسمبر : جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا *1953 4 فروری: قائدر بوہ کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے جامعہ احمدیہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کی ,1954 28 اگست: جامعہ احمدیہ میں شاہد کے لئے مقالہ بعنوان "النبوة فى الامة تحریر کیا *1955 حضرت مصلح موعود کی معیت میں یورپ کا سفر اختیار کیا 1957, 1955 لندن میں School of Oriental Studies میں تعلیم حاصل کرتے رہے آئرلینڈ کا سفر اختیار کیا *1956 *1957 14 اکتوبر : حصول تعلیم کے بعد لندن سے ربوہ واپس تشریف لائے 5 11 دسمبر: 5 دسمبر کو آپ کا نکاح حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ ( بنت صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب) سے ہوا.19 دسمبر کو تقریب شادی منعقد ہوئی اور 11 دسمبر کو ولیمہ ہوا.27 دسمبر : حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک ” وقف جدید کا اعلان فرمایا جس کے نامز د ارکان میں آپ کا نام بھی شامل تھا
809 آپ نے اس حوالہ سے ذکر کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: 1957ء کا سال میری زندگی میں ایک لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسی سال مجھے دو طرح سے نئی زندگی میں داخل ہونے کا موقعہ ملا.ایک تو میری ازدواجی زندگی کا آغاز 1957ء کے آخر پر دسمبر کے مہینے میں ہوا اور دوسرے اسی سال کے آخر پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے وقف جدید کی تحریک کا آغاز فرمایا اور مجھے وقف جدید کی مجلس کا سب سے پہلا ممبر مقرر فرمایا اور اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک مجھے وقف جدید میں خدمت کا موقع ملا.اس لحاظ سے میری باقاعدہ جماعتی خدمت کا آغاز 1957ء میں ہوا.(خطبہ جمعہ فرموده 4 جنوری 1991ء بمقام مسجد فضل الندن ) *1958 13 جنوری: وقف جدید بورڈ کے ممبر بنے 12 دسمبر : آپ وقف جدید کے ناظم مقرر ہوئے *1959 14 اکتوبر: خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی عاملہ میں پہلی دفعہ بطور مہتم مقامی شامل ہوئے.اس سے قبل آپ قائدر بوہ تھے 121اکتوبر : ناظم شعبہ تعلیم وقف جدید کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے دسمبر : فضل عمر ہومیو پیتھک ریسرچ ایسوسی ایشن کا قیام ہوا اور آپ کا بطور صدر تقرر ہوا *1960 نومبر 1959ء 147 را کتوبر 1960ء: مہتم مقامی ربوہ کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے نومبر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے نائب صدر مقرر ہوئے 1960ء کے جلسہ سالانہ پر 27 دسمبر کو آپنے پہلی تقریر وقف جدید کی اہمیت“ کے موضوع پر کی.اسی سال آپ کی پہلی کتاب ”مذہب کے نام پر خون کی اشاعت ہوئی.
810 قریبا اسی سال آپ نے ہومیو پیتھی کی مفت ادویات دینے کا سلسلہ شروع فرمایا.یہ سلسلہ 1968 ء تک جاری رہا جب دفتر وقف جدید میں باقاعدہ ڈسپنسری قائم ہوئی *1961 *1962 1961ء: افتاء کمیٹی کے ممبر بنے مرکزی جلسہ سالانہ کے موقع پر ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی کے موضوع پر خطاب فرمایا ,1963 نومبر 1963ء تا اکتوبر 1966ء نائب صدر خدام الاحمدیہ ہونے کے ساتھ ساتھ مہتم صحت جسمانی بھی رہے *1964 مرکزی جلسہ سالانہ ربوہ پر مصلح موعود سے متعلق پیشگوئی“ کے موضوع پر خطاب فرمایا *1966 11 فروری: ڈھا کہ میں احمدیہ مسجد کا سنگ بنیادرکھا نومبر 1966ء تا کتوبر 1969ء: صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے *1967 23 فروری تا 7 مارچ: مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کا دورہ کیا *1968 26 دسمبر 1968ء جلسہ سالانہ پر مسجد مبارک ربوہ میں عالمگیر زبانوں کے اجلاس کی صدارت فرمائی مرکزی جلسہ سالانہ بوہ کے موقع پر احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟“ کے موضوع پر خطاب فرمایا
811 *1969 مرکزی جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر اسلام اور سوشلزم“ کے موضوع پر خطاب $1970 یکم جنوری 1970ء: بطور ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن تقرر ہوا مرکزی جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر حضرت مصلح موعود کی خدمت قرآن کے موضوع پر خطاب +1972 مرکزی جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر حقیقت نماز کے موضوع پر خطاب *1973 حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے صد سالہ جوبلی منصوبہ کا اعلان فرمایا.اس غرض سے بنائی گئی کمیٹی کے آپ بھی ممبر تھے مرکزی جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفتہ الرسول سے وابستہ ہے“ کے موضوع پر خطاب فرمایا 1974 اگست 1974ء: حضرت خلیفہ امسح الثالث کی قیادت میں قومی اسمبلی پاکستان میں پیش ہونے والے وفد میں شمولیت اختیار کی مرکزی جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر اسلام کا بطل جلیل“ کے موضوع پر خطاب فرمایا *1975 دسمبر 1975: آپ کی کتاب ”سوانح فضل عمر“ جلد اول کی اشاعت ہوئی خَيْلٌ لِلرَحْمَان مرکزیہ کے صدر کے طور پر تقرر ہوا *1976 مرکزی جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر قیام نماز کے موضوع پر خطاب فرمایا
812 *1977 مرکزی جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر فلسفہ حج کے موضوع پر خطاب فرمایا $1978 10 مارچ 1978ء : جامعہ احمدیہ میں سیمینار بعنوان "امریکہ کے اجلاس کی صدارت فرمائی جولائی: امریکہ و کینیڈا اور جرمنی کا دورہ کیا.مرکزی جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر فضائل قرآن کریم کے موضوع پر خطاب فرمایا $1979 یکم جنوری 1979 ء : صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے طور پر خدمات سرانجام دیں 20 فروری: مسجد مبارک ربوہ میں جلسہ یوم مصلح موعود کی صدارت فرمائی 5 مئی: آپ کا بطور قائم مقام وکیل الصبغیر تحریک جدید تقرر ہوا 27 مئی مسجد مبارک ربوہ میں جلسہ یوم خلافت کی صدارت فرمائی 26 اگست تا 3 ستمبر : حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشاد پر راولپنڈی، پشاور، بازید خیل، اچینی پایاں، نوشہرہ، مردان، کوہاٹ، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کیا مرکزی جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر غزوات میں آنحضرت بی کا تعلق عظیم کے موضوع پر خطاب فرمایا.اسی موضوع پر 1980ء اور 1981ء کے جلسوں پر بھی خطاب فرمایا $1980 17 تا 23 جنوری : حضرت خلیفہ اسح الثالث کی ربوہ سے عدم موجودگی میں امیر مقامی بنے 6 مارچ: مسجد مبارک ربوہ میں جلسہ پیشگوئی مصلح موعود کی صدارت فرمائی مارچ : مسجد مبارک ربوہ میں یوم سیح موعود کے جلسہ کی صدارت فرمائی حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے آپ کو مجلس طلباء سابق جامعہ احمدیہ کا صدر مقرر فرمایا.30 مارچ کو آپ نے اس کے سالانہ اجلاس کی صدارت فرمائی
813 15 تا 17 جولائی : رمضان المبارک میں مسجد مبارک ربوہ میں پہلی دفعہ درس القرآن دیا.آپ نے سورۃ فاتحہ تا سورۃ آل عمران رکوع 9 ر تک درس دیا 31اکتوبر: اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے پہلے روز حضرت خلیفہ لمسیح الثالث" کے خطاب کا انگریزی ترجمہ براہِ راست 18 رسامعین تک پہنچانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا.یہ منصوبہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی مالی سر پرستی اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی نگرانی میں ہوا.اس کے بعد دسمبر میں جلسہ سالانہ پر دوزبانوں انگریزی اور انڈونیشین میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے خطابات کارواں ترجمہ نشر ہوا.اس کی نگرانی بھی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے فرمائی.اسی سال احمدیہ آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز ایسوسی ایشن اور احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے سرپرست کے طور پر آپ کی تقرری ہوئی خلافت ثالثہ میں آپ ایک لمبا عرصہ نائب افسر جلسہ سالانہ رہے +1981 23 مارچ 1981ء : مسجد مبارک میں یوم مسیح موعود کے جلسہ کی صدارت فرمائی 28 مارچ: مجلس انصار اللہ ربوہ کے دوسرے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب فرمایا 97 جولائی : رمضان میں مسجد مبارک ربوہ میں درس القرآن دیتے رہے 126اکتوبر: سالانہ کنونشن احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے اختتامی اجلاس سے خطاب فرمایا *1982 27 جنوری 1982 ء :احمد بی سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن لاہور کی سالانہ تقریب سے خطاب فرمایا 12 مئی: آل ربوہ کبڈی ٹورنامنٹ کی افتتاحی تقریب کی صدارت فرمائی 27 مئی: مسجد مبارک ربوہ میں جلسہ یوم خلافت کی صدارت فرمائی جون : حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی آخری بیماری کے سلسلہ میں اسلام آباد روانہ ہوئے اور حضور کی میت کے ساتھ 9 جون کو ربوہ واپس تشریف لائے 10 جون : آپ قدرت ثانیہ کے مظہر رابع کے طور پر مسند خلافت پر متمکن ہوئے
814 خلافت رابعہ کا بابرکت دور 10 جون 1982: بعد نماز ظہر مسجد مبارک ربوہ میں مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس ہوا اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع منتخب ہوئے.آپ نے مختصر خطاب کے بعد عام بیعت لی جس میں 25 ہزار احمدیوں نے شرکت کی.قصر خلافت میں حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے آپ کو آلیس اللهُ بِكَافٍ عَبدہ کی وہ انگوٹھی پہنائی جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تیار کروائی تھی اور آپ کے زیر استعمال تھی.خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد نے بیعت کی.بعد نماز عصر بہشتی مقبرہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی نماز جنازہ پڑھائی اور دعا کروائی.11 جون : حضور نے دور خلافت کا پہلا خطبہ جمعہ مسجد اقصیٰ ربوہ میں ارشاد فرمایا اور جماعت کو تلقین کی کہ وہ محض رسمی قرار دادیں پاس نہ کریں بلکہ نیکی اور تقویٰ کے چراغ روشن کرنے کا عہد کریں 11 جون : آپ نے اپنی جگہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کو صدر مجلس انصار اللہ مرکز یہ مقرر فرمایا 13 جون : حضور کا احباب جماعت کے نام پہلا پیغام الفضل میں شائع ہوا جو عالم اسلام، امت محمدیہ اور اہل فلسطین کے لئے دعا کی تحریک پر مشتمل تھا 16 تا 20 جون : دور خلافت رابعہ میں کسی ملک کا سب سے پہلے منعقد ہونے والا جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ انڈونیشیا کا تھا جس کی حاضری تین ہزار تھی 18 جون: خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عظیم الشان اطاعت کے نمونہ پر ان کے لئے خاص دعاؤں کی تحریک.ظالم انسانوں کی دسترس سے عالم اسلام کے محفوظ رہنے کے لئے دردمندانہ دعاؤں کی تحریک 22 جون : عالم انسانیت کے لئے دعا کی تحریک 23 جون : رمضان المبارک کے آغاز پر سورۃ فاتحہ کے درس سے قرآن کریم کے درس کا آغاز فرمایا 9 جولائی مختلف مقدمات میں ماخوذ احمدیوں کے لئے دعاؤں کی تحریک 9 جولائی : جماعت احمدیہ کی طرف سے لیگوس ( نائیجیریا) کے ایک ہوٹل کو قرآن کریم انگریزی
815 ترجمہ کے 300 نسخے بطور عطیہ دینے گئے 9 تا 16 جولائی : مجلس خدام الاحمدیہ اوسلو( ناروے) کی پہلی تربیتی کلاس منعقد ہوئی 15 جولائی: کورین زبان میں احمدیہ لٹریچر کی اشاعت کا آغاز ایک فولڈر سے ہوا.یہ فولڈر 15 ہزار کی تعداد میں شائع ہوا 17 تا 21 جولائی : رمضان المبارک کے آخری پانچ دن حضور نے مسجد مبارک ربوہ میں درس حدیث ارشاد فرمایا 19 جولائی : جھوٹ کے خلاف جہاد کی تحریک 21 جولائی: حضور نے درس القرآن کے اختتام پر آخری تین سورتوں کا درس ارشاد فرمایا اور دعا کروائی 22 جولائی: جاپان میں ناصر باؤلنگ ٹورنامنٹ کا انعقاد ہوا.جماعت احمد یہ جاپان کی تاریخ میں پہلی بار نماز عید دو مقامات ( نا گویا اور ٹوکیو ) میں ادا کی گئی 23 جولائی: حضور نے تحریک جدید کے تحت مبلغین کے اعزاز میں منعقدہ ایک دعوت سے خطاب فرمایا.حضور اس دعوت میں سائیکل پر تشریف لائے 27 جولائی تا 10 اگست: سترھویں فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کا حضور نے افتتاح فرمایا.2095 طلبا و طالبات اس میں شریک ہوئے 28 جولائی تا 12 اکتوبر : حضور کا سفر یورپ 29-28 جولائی: حضور کی ربوہ سے لاہور روانگی اور پھر لاہور سے بذریعہ طیارہ کراچی میں آمد، لجنہ کراچی سے خطاب فرمایا 30 جولائی : حضور کراچی سے یورپ کے لئے روانہ ہوئے 30 جولائی تا یکم اگست: ٹوکیو میں یوم تبلیغ منایا گیا.سات ہزار کی تعداد میں لٹریچر تقسیم کیا گیا 31 جولائی: حضور کی ناروے میں آمد یکم اگست : اوسلو ( ناروے) میں حضور نے احباب جماعت سے خطاب فرمایا
816 3 اگست: ناروے میں مجلس خدام الاحمدیہ کے ساتھ حضور کی پکنک 5 اگست : حضور نے اوسلو میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.بیرون پاکستان بحیثیت خلیفہ اسیح آپ کی یہ پہلی پر یس کا نفرنس تھی 6 اگست : ہر ملک میں شوریٰ کا نظام قائم کرنے کی تحریک 8 اگست : حضور گوٹن برگ سویڈن کے لئے روانہ ہوئے 8 اگست : حضور نے گوٹن برگ میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.شام کو سویڈن کی پہلی مجلس شوری کی صدارت فرمائی 10 اگست: حضور کوپن ہیگن ڈنمارک پہنچے 11 اگست: ڈنمارک کی پہلی مجلس شوری کی صدارت فرمائی.شوریٰ کے اختتام پر حضور نے افراد جماعت سے بیعت لی 12 اگست : حضور نے کوپن ہیگن میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.ایک اخبار کو انٹرویو دیا.ڈینش دانشوروں سے ملاقات فرمائی 13 اگست: حضور ہمبرگ جرمنی کے لئے روانہ ہوئے 16 اگست: همبرگ (جرمنی) میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا 18 اگست: فرینکفرٹ کے میئر نے حضور سے ملاقات کی 19 اگست: حضور نے فرینکفرٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا 22 اگست: جماعت جرمنی کی پہلی مجلس شوری کی صدارت فرمائی 25 اگست: حضور آسٹریا پہنچے 27 اگست: زیورک سوئٹزرلینڈ آمد ہوئی 27 تا 28 اگست : سوئٹزرلینڈ میں جلسہ سالانہ کا آغاز ہوا 29 اگست سوئٹزرلینڈ کی پہلی مجلس شوری کی صدارت فرمائی
817 30 اگست: زیورک میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اسی روز حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا گیا 31 اگست : سوئٹزرلینڈ کے دانشوروں سے انسانیت کا مستقبل کے موضوع پر خطاب فرمایا یکم ستمبر : زیورک سے جنیوا تشریف لے گئے 2 ستمبر : فرانس پہنچے اور پھر لکسمبرگ کے لئے روانہ ہوئے 3 ستمبر : حضور کی جرمنی میں آمد 86 4 ستمبر : حضور ہیگ (ہالینڈ) پہنچے اور پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اس دورہ کے دوران حضور نے ہالینڈ کی پہلی مجلس مشاورت کی صدارت فرمائی 6 ستمبر : آپ ایمسٹرڈیم سے ملاگا (سپین) پہنچے 10 ستمبر : حضور نے مسجد بشارت پید رو آبا د سپین کا افتتاح فرمایا اور افتتاح کے بعد بیعت لی.پیدرو آباد اور ربوہ کو Sister Cities قرار دینے کا اعلان، اس تقریب میں 40 ممالک کے 2 رہزار سے زیادہ احباب کی شرکت سپین میں 750 سال بعد پہلی بار مسجد کی تعمیر ہوئی اور یہ عظیم الشان سعادت جماعت احمدیہ کے حصہ میں آئی 11 و12 ستمبر : جماعت احمدیہ سپین کی پہلی مجلس شوری کی صدارت فرمائی.اس شوری میں دنیا بھر سے مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے لئے تشریف لانے والے وفود بھی شامل ہوئے.15 ستمبر : حضور ہالینڈ اور پھر لندن پہنچے 22 ستمبر : حضور کی مشہور مستشرق نگری واٹ سے سکاٹ لینڈ میں ملاقات ہوئی 24 ستمبر : گلاسگو میں آمد ہوئی ستمبر : حکومت گیمبیا نے مسجد تعمیر کرنے کے لئے جماعت کو 4 کنال زمین دی 15 کتوبر : حضور نے بینھم مشن برطانیہ کا افتتاح فرمایا 17اکتوبر : حضور نے کرائیڈن مشن برطانیہ کا افتتاح فرمایا
818 18اکتوبر: نجی میں جلسہ سالانہ کا آغاز ہوا 111 اکتوبر : حضور شفر یورپ سے واپس کراچی پہنچے 112 اکتوبر: لاہور اور پھر ربوہ تشریف لائے 112اکتوبر: جماعت احمدیہ کی طرف سے آئیوری کوسٹ کے صدر کو احمد یہ لٹریچر کا تحفہ دیا گیا 14 اکتوبر : انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹکٹس و انجینئرز کے دوسرے سالانہ کنونشن - حضور کا خطاب 15 تا 17 اکتوبر : خلافت رابعہ میں مجلس خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ ( مرکزیہ ) کا پہلا اجتماع.حضور نے افتتاحی اور اختتامی خطابات فرمائے 15 تا 17 اکتوبر : خلافت رابعہ میں مجلس خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ (بھارت) کا پہلا اجتماع.حضور کا اجتماع کے لئے روح پرور پیغام 16 اکتوبر : حضور نے اجتماع لجنہ سے خطاب کرتے ہوئے تبلیغ کا عالمگیر منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت فرمائی 18 اکتوبر : احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے تیسرے سالانہ اجلاس سے حضور کا خطاب.طلبا کو غیر ملکی زبانیں سیکھنے کی تلقین فرمائی (خصوصا سپینش، اٹالین اور پر چنگیزی).سہ پہر کو عصرانہ سے بھی خطاب فرمایا.سپینش سیکھنے اور سپین میں وقف عارضی کرنے کی تحریک ( یہی تحریک 21 نومبر 1982ء کو دوبارہ فرمائی) 23 اکتوبر : چوٹی کے زبان دان پیدا کرنے کی تحریک اور اس کے لئے جامعہ احمدیہ کو خصوصی توجہ کرنے کی تحریک علماء کو دینی وتربیتی موضوعات پر مختلف قسم کی کیسٹس تیار کرنے کی تحریک 124 اکتوبر محرم کے ایام میں کثرت سے درود شریف پڑھنے کی تحریک 29 اکتوبر : حضور نے مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے شکرانہ کے طور پر غرباء کے لئے مکانات کی تحریک کرتے ہوئے بیوت الحمد سکیم کا اعلان فرمایا.یہ خلافت رابعہ کی سب سے پہلی مالی تحریک تھی.حضور نے کم قیمت کے مکان کا نقشہ تیار کرنے کے لئے احمدی انجینئر زمیں مقابلے کا اعلان کیا یکم نومبر : حضور کے ارشاد کی تعمیل میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے جرمن اور فریج زبان سکھانے
819 کے لئے کلاسیں شروع کیں.13 نومبر سے سپینش کلاس بھی شروع ہو گئی 5 نومبر : حضور نے تحریک جدید کے دفتر اول اور دفتر دوم کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی تحریک فرمائی.ریٹائرمنٹ کے بعد احباب کو خصوصی وقف کی تحریک تحریک جدید دفتر سوم کی ذمہ داری حضور نے لجنہ اماءاللہ کے سپرد کی 5 نومبر : احمد یہ مشن لندن میں جدید ترین کمپیوٹر کی تنصیب ہوئی 5 تا 7 نومبر : مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے پچیسویں سالانہ اجتماع سے حضور نے خطاب فرمایا.حضور نے صد سالہ جوبلی تک 100 ملکوں میں جماعت قائم کرنے کا اعلان فرمایا 6 نومبر : مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی طرف سے عشائیہ میں حضور نے خطاب فرمایا 11 نومبر: صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے حضور کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ سے حضور نے خطاب فرمایا 12 نومبر : حضور نے جماعت کے باہمی جھگڑے ختم کرنے کے لئے جہاد شروع کرنے کی تحریک فرمائی 19 نومبر : نمازوں کی حفاظت کرنے کی تحریک 19 نومبر : مسجد احمد یہ پالگھاٹ( کیرالہ.انڈیا) کا افتتاح ہوا 21 نومبر لجنہ اماءاللہ پاکستان کے استقبالیہ سے حضور کا خطاب.حضور نے سپین میں واقفین عارضی کے لئے تحریک فرمائی 23 نومبر : ناگویا ( جاپان) میں یوم تبلیغ منایا گیا.اس موقع پر 3850 تبلیغی فولڈر جاپانی اور 11 / انگریزی زبان میں اشتہارات تقسیم کئے گئے 25 نومبر: امراء اضلاع پنجاب کی طرف سے حضور کے اعزاز میں استقبالیہ سے حضور کا خطاب نومبر : مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی نیشنل قیادت کا قیام.عبداللہ و اکس باؤ زر صاحب قائد مقرر ہوئے 2 دسمبر: تحریک جدید کی طرف سے استقبالیہ میں حضور کا خطاب.حضور نے مستشرقین کے اعتراضات کے جواب دینے کے لئے Tracking اور Monitoring سٹیشن قائم کرنے اور اس کام کے لئے زندگیاں وقف کر کے علمی خدمات پیش کرنے کی تحریک فرمائی.انگریزی اور دوسری زبانوں میں جماعتی لٹریچر کی اشاعت کی تحریک
820 15 دسمبر : حضور نے جماعت احمدیہ امریکہ کو امریکہ میں پانچ مساجد امشن ہاؤسز بنانے کی تحریک فرمائی.اس مقصد کے لئے 25 لاکھ روپے کا مطالبہ فرمایا 18 تا 20 دسمبر : قادیان میں عہد خلافت رابعہ کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.حضور نے اس کے لئے اپنا روح پرور پیغام بھجوایا 25 دسمبر : حضور نے مرکزی مجلس صحت قائم فرمائی 26 - 28 دسمبر: عہد خلافت رابعہ کا پہلا جلسہ سالانہ ربوہ.حضور نے افتتاحی خطاب بعنوان نور مصطفوی اور نار بو لہبی اور اختتامی خطاب بعنوان "عدل" ارشاد فرمایا.آخری دن سخت بارش میں جلسہ کی کارروائی جاری رہی.گل حاضری 2 لاکھ 20 ہزار تھی.27 رممالک کے نمائندے شامل ہوئے 26 دسمبر : مغربی ساحل امریکہ کا دوسرا جلسہ سالانہ - حضور کاریکارڈ شدہ پیغام سنایا گیا 27 دسمبر : حضور نے خواتین سے خطاب میں پردہ کی پابندی کی طرف توجہ دلائی.دوسرے دن کے خطاب میں حضور نے بتایا کہ 28 / ممالک میں ہمارے مرکزی مشن موجود ہیں اور ان میں 391 مبلغین کام کر رہے ہیں.9 ممالک میں 24 رنئی مساجد مرکزی اخراجات سے تعمیر ہوئیں.8 ممالک میں نئے مشن ہاؤسز بنے.دنیا بھر میں احمدی رسائل کی تعداد 25 رتھی 27 دسمبر : حضور نے افضل اور ریویو آف رینجرز کی اشاعت کم از کم 10 ہزار کرنے کی تحریک فرمائی 30 دسمبر : ربوہ میں ممالک بیرون کی مجلس شوری حضور کی زیر صدارت سرائے فضل عمر میں منعقد ہوئی جس میں 24 ممالک کے نمائندگان شامل ہوئے جرمنی میں لجنہ اماء اللہ کی نیشنل مجلس عاملہ کا قیام عمل میں آیا اور پہلی صدر منور عبد اللہ صاحبہ منتخب ہوئیں +1983 13 جنوری: سپین کے صدر نے مسجد بشارت سپین کے افتتاح پر مکرم کرم الہی ظفر صاحب ( مبلغ سلسلہ سپین) کو مبارکباد کا خط بھیجا 13 تا 19 جنوری: حضور کا سفر لاہور.راستہ میں شیخو پورہ میں مجلس سوال و جواب.لاہور میں 15
821 ہزار سے زائد مہمانوں سے گفتگو 15 جنوری : ہلٹن ہوٹل لاہور میں حضور کے اعزاز میں استقبالیہ.حضور کا خطاب 20 جنوری: حضور کے ارشاد پر قادیان میں ایک پریس کمیٹی تشکیل دی گئی 28 جنوری: دعوت الی اللہ کی منظم تحریک کا آغاز.ہر احمدی کو داعی الی اللہ بنے کی تحریک 9 فروری علمی مجاہدے کی تحریک 11 فروری: مجلس خدام الاحمدیہ حیدر آباد (انڈیا) نے حضور کے ارشاد پر کیسٹس لائبریری کا قیام کیا جس کا افتتاح صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے کیا 11 فروری تا یکم مارچ: حضور ” کا دورہ سندھ و کراچی 11 فروری: ربوہ سے لاہور روانگی 12 فروری: لاہور سے کراچی آمد اور مجلس عرفان 13 فروری: جماعت کراچی اور ذیلی تنظیموں کی مجالس اور انجینیئر ز ایسوسی ایشن کے مشترکہ اجلاس سے حضور کا خطاب 14 فروری کراچی میں لجنہ اماءاللہ کے ساتھ حضور کی مجلس سوال وجواب 17 فروری : مولوی محمد اسلم قریشی معر اچکے ضلع سیالکوٹ سے لاپتہ ہو گیا.اس کے قتل کا جھوٹا الزام جماعت احمدیہ اور حضرت خلیفتہ اسیح الرائع پر لگایا گیا.اور اس الزام کی آڑ میں پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کا ایک طوفان کھڑا کیا گیا.یہ مولوی 1988ء میں ایران سے ظاہر ہو گیا.اس کی غیر موجودگی میں کئی علماء نے حلفیہ بیان دیئے کہ جماعت احمدیہ کے سر براہ نے اسے قتل کروایا 19 تا 25 فروری: حضور کراچی سے ناصر آباد سندھ تشریف لے گئے 26 فروری: حضور ناصر آباد سے کراچی تشریف لے گئے یکم مارچ : حضور کی کراچی سے لاہور اور پھر ربوہ آمد 7 مارچ: صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولوی محمد دین صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ کی
822 وفات.آپ نے 1907ء میں خدمت دین کے لئے زندگی وقف کی تھی 7 تا 14 مارچ: جاپان کے چوتھے بڑے جزیرہ شکو کو میں احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا 11 تا 13 مارچ: نواں گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ.حضور نے انعامات تقسیم فرمائے 17 مارچ: جماعت بھدرک (بھارت) کی طرف سے صدر بھارت گیانی ذیل سنگھ کو احمد یہ لٹریچر کا تحفہ پیش کیا گیا 22 تا25 مارچ: سولہواں آل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ منعقد ہوا.حضور نے انعامات تقسیم فرمائے.32 رٹیموں نے شرکت کی 23 مارچ جاپان ٹائمز میں حضرت مسیح موعود اور خلفاء کی تصاویر کے ساتھ جماعت کا تفصیلی تعارف شائع ہوا 25 مارچ: سودی مالی نظام کورڈ کر کے دینی مالی نظام کو رائج کرنے کی تحریک کی مارچ: قبر مسیح کے بارہ میں جاپان مشن نے 60 ہزار کی تعداد میں اشتہار شائع کیا مارچ کیمرون میں الحاج حمزہ سنیالو کے ذریعہ جماعت کا پودا لگا یکم تا3 اپریل: جماعت کی چونسٹھویں (64) مجلس مشاورت ربوہ میں منعقد ہوئی.حضور نے افتتاحی خطاب میں تجارت اور صنعت کے منصوبے شروع کرنے اور بوہ کو ماڈل شہر بنانے کی تحریک فرمائی 8اپریل: لیہ میں ایک احمدی کی قبر اکھیڑ دی گئی 11 اپریل: حضور نے دار الضیافت (ربوہ) کے جدید بلاک کی بالائی منزل کے تعمیری کام کا افتتاح فرمایا 13 اپریل: برطانیہ میں یوم دعوت الی اللہ منعقد کیا گیا.60 مقامات پر 18 ہزار پمفلٹس کی تقسیم ہوئی 13 تا 15 اپریل: ربوہ میں آل پاکستان احمد یہ کبڈی ٹورنامنٹ.حضور نے انعامات تقسیم فرمائے 16 اپریل: صدر جماعت لاڑکانہ ماسٹر عبدالحکیم ابڑو صاحب کو شہید کیا گیا 16 اپریل: سوئٹزرلینڈ میں پہلا یوم دعوت الی اللہ.نو ہزار اشتہارات تقسیم کئے گئے 20 اپریل: حضور نے کینیڈا میں نئے مشن اور مساجد بنانے کے لئے جماعت کینیڈا کو چھ لاکھ ڈالرز جمع کرنے کی تحریک فرمائی
823 22 اپریل: میڈرڈ (سپین) میں پہلا پبلک جلسہ منعقد کیا گیا.70 را فراد کی شرکت 122 اپریل تا 5 مئی: مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی انتیسویں (29) سالانہ تربیتی کلاس منعقد ہوئی.حضور نے افتتاحی و اختتامی خطاب فرمایا.593 مجالس سے 997 / غدام کی شمولیت اپریل : تیونس کے عبادہ بر بوش صاحب نے ڈنمارک مشن میں بیعت کی اور یوں تیونس میں جماعت احمدیہ کا پودا لگا آکسفورڈ (برطانیہ) میں احمدیہ مشن کا قیام 2 مئی: جماعت کنڈور ( صوبہ آندھرا پردیش.انڈیا) میں مسجد احمد یہ کا سنگ بنیا درکھا گیا 11 تا 17 مئی: جاپان سے ایک وفد دعوت الی اللہ کے لئے جنوبی کوریا گیا 13 -15 مئی: کل کلم ( کیرالہ.انڈیا میں مجلس خدام الاحمدیہ کیرالہ کے پہلے سالانہ اجتماع کا انعقاد ہوا 20 مئی: کیرنگ (صوبہ اڑیسہ) میں لجنہ وناصرات کے پہلے صوبائی اجتماع کا انعقاد ہوا 25 مئی: قادیان (بھارت) میں مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کے دفتر ایوان خدمت کا سنگ بنیاد صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلی قادیان نے رکھا 25 مئی: حضرت حکیم محمد دین صاحب کی وفات 28 29 مئی: حیدر آباد میں مجالس خدام الاحمدیہ صوبہ آندھرا کے دوسرے سالانہ اجتماع پر حضور کا پیغام موصول ہوا متی : خانامیں ایک لمبے عرصے سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کی سی کیفیت تھی.چنانچہ حضور نے دعا کی درخواست پر 40 روز دعائیں کرنے کا ارشاد فرمایا جس کے بعد دعاؤں کی ہی برکت سے سارے خانا میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا فانا میں پہلے احمد یہ ٹیچر ٹریننگ کالج کا افتتاح ہوا 8 تا 11 جون : آل ربوہ فٹ بال ٹورنامنٹ منعقد ہوا.11 جون کو حضور نے منتخب کھلاڑیوں کے مابین نمائشی میچ ملاحظه فرمایا
824 13 جون : حضور نے رمضان میں مسجد مبارک ( ربوہ ) میں درس القرآن کا آغا ز فرمایا 21 جون : حضور نے احمدی سائنسدانوں اور انجینیئر ز کے نام ایک پیغام میں فرمایا کہ وہ مفید ایجادات کر کے عام آدمی کی مشکلات دور کریں 22 جون : سوئٹزرلینڈ میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد مسجد محمود کی تعمیر پر بیس (20) سال پورے ہونے پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا.حضور نے پیغام بھیجا 22 جون : امریکہ کو مالی قربانی میں اضافہ کی تلقین اور ہر چندہ دہندہ کو کم از کم 3800 رڈالر کا وعدہ کرنے کی تحریک 24 جون : رمضان میں خصوصیت کے ساتھ بکثرت دعاؤں کی تحریک 11 جولائی: حضور نے مسجد مبارک میں درس قرآن کے آخر پر قرآن کریم کی آخری تین سورتوں کا درس دیا اور دعا کروائی 12 جولائی: حضور نے عید کا مزا لینے کے لئے غریبوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کی تحریک فرمائی 16 جولائی: حضور نے گیسٹ ہاؤس مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان سرائے خدمت کی دوسری منزل کا سنگ بنیادرکھا 17 تا 31 جولائی: اٹھارویں (18) تعلیم القرآن کلاس کا انعقاد.حضور نے افتتاحی و اختتامی خطاب فرمایا.طلبا و طالبات کی مجموعی تعداد 3076 رتھی 18 جولائی: غانا میں ملک کی زرعی ترقی کے لئے جماعت کی طرف سے ایک ایگریکلچر پراجیکٹ شروع کیا گیا.اس کے مینجر حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب تھے.اس فارم میں گندم کاشت کرنے کا کامیاب تجربہ کیا گیا 27 جولائی: حضور نے لوکل انجمن احمد یہ ربوہ کے نئے دفاتر کا افتتاح فرمایا 30 تا 31 جولائی : جلسہ سالانہ کینیڈا کے لئے پیغام میں تحریک کہ اپنے ملک میں مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر کریں
825 جولائی : قادیان سے گورمکھی ترجمہ قرآن کی اشاعت ہوتی 8 اگست: مکرم ڈاکٹر مظفر احمد صاحب کی ڈیٹرائٹ امریکہ میں شہادت.ڈیٹرائٹ میں مسجد کو جلادیا گیا اگست: آئرلینڈ میں جماعت کے قیام کے حوالہ سے جائزہ لینے کے لئے یو کے سے مولانا نسیم باجوہ صاحب اور ہدایت اللہ بنگوی صاحب پر مشتمل ایک وفد بھجوایا گیا 19 اگست: دورہ آسٹریلیا کی کامیابی کے لئے دعا کی تریک 21 اگست: دار القضاء ( ربوہ) کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد حضور نے رکھا.حضور کے قائم کردہ نئے ادارے ادارہ تعمیر کے تحت تعمیر کی جانے والی یہ پہلی عمارت تھی 22 اگست تا 13 اکتوبر : حضور کا دورہ مشرق بعید و آسٹریلیا.بیرونی ممالک کے دورے سے قبل حضور نے کراچی اور سندھ کا دورہ فرمایا 22 اگست: حضور کی ربوہ سے روانگی اور لاہور آمد 23 اگست: حضور کی کراچی آمد 23 اگست: صدر بھارت گیانی ذیل سنگھ کی حیدر آباد تشریف آوری پر ایک جماعتی وفد نے ان سے ملاقات کی اور تفسیر صغیر اور دیگر اسلامی لٹریچر بطور تحفہ دیا.اس تقریب کو ٹیلی ویژن پر بھی دکھایا گیا 27 اگست: مسجد طاہر ( چک ایمر چھ کشمیر ) کا افتتاح عمل میں آیا 27 تا 28 اگست: سوئٹزرلینڈ کا پہلا جلسہ سالانہ زیورک میں منعقد ہوا یکم ستمبر : حضور کراچی سے ناصر آباد تشریف لے گئے 3 ستمبر : حضور ناصر آباد سے کراچی واپس پہنچے 8 ستمبر : حضور کی کراچی سے روانگی اور سنگا پور آمد 9 ستمبر : حضور نے سنگا پور میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس سے قبل ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا و ستمبر : مجلس انصار اللہ ناروے کا پہلا سالانہ اجتماع 10 ستمبر : حضور نے سنگا پور میں پہلی مجلس شوری کی صدارت فرمائی جس میں سنگاپور کی جماعت
826 کے علاوہ انڈونیشیا، ملائشیا اور سبا کے نمائندگان بھی شامل ہوئے 16 ستمبر : حضور کی فجی میں آمد اور ناندی ایئر پورٹ پر پریس کانفرنس سے خطاب 17 ستمبر : حضور نے نجی سے خطبہ عید الاضحی ارشاد فرمایا.بعدد پھر حضور کا خطاب اور مجلس سوال و جواب 18 ستمبر : حضور ناندی سے صودا تشریف لے گئے.مسجد فضل عمر صووا (Suva) کا رسمی افتتاح فرمایا 18 ستمبر : عید الاضحی کے دن اوکاڑہ (پاکستان) میں شیخ ناصر احمد صاحب کو شہید کر دیا گیا 19 ستمبر : حضور نے فجی کے قائمقام وزیر اعظم سے ملاقات کی، ریڈیو نجی نے انگریزی اور اردو میں حضور کے دو (2) انٹرویوریکارڈ کئے.20 ستمبر : صودا میں جماعت احمدیہ فی کی مجلس شوری کی صدارت فرمائی 21 ستمبر : حضور صودا سے لمباسہ ( فی ) تشریف لے گئے 22 ستمبر : حضور فجی کے جزیرہ تاویونی تشریف لے گئے اور Date Line کا دورہ کیا پھر قریب کے ایک قصبے سوموسومو کے ایک سکول میں خطاب فرمایا 23 ستمبر : حضور نے صودا ( فجی) کی یونیورسٹی آف ساؤتھ پیسیفک میں احمدیت اور مذاہب کے احیاء کی فلاسفی کے موضوع پر خطاب فرمایا جو بعد میں Rivival of Religion کے نام سے انگریزی میں شائع ہوا اور اس کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے 24 ستمبر : حضور نے مسجد فضل عمرصودا ( فجی ) میں مجلس مشاورت کی صدارت فرمائی 25 ستمبر : حضور نے لٹو کا نجی ) میں مسجد رضوان کا سنگ بنیادرکھا 25 ستمبر : حضور کی آسٹریلیا آمد 27 ستمبر : حضور نے آسٹریلیا میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا 30 ستمبر : حضور نے براعظم آسٹریلیا کی سب سے پہلی احمد یہ مسجد بیت الہدی کا سنگ بنیادرکھا اور انگریزی میں خطاب فرمایا.اس تقریب میں حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود
827 نے بھی خاص طور پر شرکت فرمائی 30 ستمبر : غرناطہ (سپین) میں پہلا پبلک جلسہ غرناطہ یونیورسٹی میں ہوا 13 اکتوبر : جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی پہلی مجلس مشاورت حضور کے زیر صدارت ہوئی جس میں مرکز سے 2 رنمائندوں کے علاوہ انڈونیشیا اور مٹی سے ایک ایک نمائندہ نے شرکت کی.اس موقع پر حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود " بھی شامل ہوئے رقم 15اکتوبر : نیشنل یونیورسٹی کینبرا (آسٹریلیا) سے بعنوان ”اسلام کی امتیازی خصوصیات حضور کا خطاب.یہ خطاب بعد میں Some Distinctive Features of Islam کے نام سے شائع ہوا.اس کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی طبع ہوئے 16اکتوبر : حضور نے آسٹریلیا میں افراد جماعت سے خطاب فرمایا.آسٹریلین کونسل آف چرچز کے نمائندہ کو انٹر ویودیا 18اکتوبر : حضور کولمبو ( سری لنکا) پہنچے 19اکتوبر : حضور نے سری لنکا کی پہلی مجلس شوری کی صدارت کولمبو میں فرمائی 11 اکتوبر : حضور نے سری لنکا میں بدھوں کے مرکز Kandy کا دورہ کیا 12 تا 15 اکتوبر : مولانا فضل الہی انوری صاحب سابق امیر جماعت نائجیر یانے بہن کا پانچ روزہ دورہ کیا جس میں انہوں نے افراد جماعت کے علاوہ کئی سرکاری اور مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور انہیں جماعت کا تعارف کروایا 13 اکتوبر : کولمبو کے دورہ کے بعد حضور کراچی پہنچے 114 کتوبر : حضور کی لاہور آمد جہاں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.وہاں سے شام کور بوہ پہنچے.114 اکتوبر : کثرت سے تسبیح وتحمید اور استغفار پر زور دینے کی تحریک 118اکتوبر: فجی کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا 20 اکتوبر: انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹس اینڈ انجنیئر ز کے سالانہ کنونشن سے حضور ” کا خطاب
828 21 تا 23 اکتوبر : مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کا انتالیسواں سالانہ اجتماع.حضور نے افتتاحی اور اختتامی خطاب فرمایا.اختتامی تقریر براہ راست لجنہ میں بھی سنی گئی 121 اکتوبر : دنیا کو ہلاکت کے گڑھے سے بچانے کے لئے دعا کی تحریک 22 اکتوبر : حضور نے لجنہ اماء اللہ اور اطفال الاحمدیہ کے اجتماع سے خطاب فرمایا.احمدی خواتین کو عورتوں کے بارہ میں غیروں کے اعتراضات کے جواب تیار کرنے کی تحریک 129 اکتوبر : مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے استقبالیہ سے حضور کا خطاب 31 اکتوبر: جماعت احمدیہ سپین کا پہلا جلسہ سالانہ 510 افراد کی شرکت جن میں سے 1475 غیر از جماعت تھے اکتوبر : آسٹریلیا میں مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام 4 تا 5 نومبر : مجلس خدام الاحمدیہ ملائشیا کا پہلا سالانہ اجتماع 4 نومبر : جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے عارضی بستر بنانے کی تحریک 10 نومبر: صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے استقبالیہ سے حضور کا خطاب 11 نومبر: حضور نے بیوت الحمد منصوبہ کے لئے ایک کروڑ روپے کی تحریک فرمائی 14 نومبر لجنہ اماءاللہ کی طرف سے استقبالیہ سے حضور کا خطاب 17 نومبر: مسجد حمد بھونیشور ( صوبہ اٹریسہ ) کا افتتاح صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے کیا 24 نومبر: امرائے اضلاع پنجاب کی جانب سے حضور ” کو استقبالیہ دیا گیا یکم دسمبر : آل مہارشٹرا احمد یہ مسلم کانفرنس کے موقع پر حضور کا خصوصی پیغام 16 دسمبر : بدرسوم کے خلاف جہاد کی تحریک 18 تا 20 دسمبر : جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضور ” کا خصوصی پیغام 26 تا 28 دسمبر: جلسہ سالانہ ربوہ کا انعقاد.حاضری پونے تین لاکھ.بیرون پاکستان کے 18 ممالک سے 87 نمائندوں نے شرکت کی.جلسہ کے موقع پر پہلی مرتبہ مجلس خدام الاحمدیہ کے
829 تحت مقابلہ مجالس بیرون میں اول آنے والی مجلس مغربی جرمنی کے قائد صاحب کو حضور نے انعام دیا دوسرے دن کی تقریر میں حضور نے فرمایا کہ دنیا کے 38 ممالک میں 240 رمشن کام کر رہے ہیں.31 رنئی مساجد کی تعمیر ہوئی اختتامی خطاب میں عدل کے موضوع پر حضور نے سلسلہ وار خطاب کا دوسرا حصہ ارشاد فرمایا 27 دسمبر: افریقی ممالک کے قحط کی مصیبت سے نجات پانے کے لئے دعا کی تحریک دسمبر : عائلی معاملات سے متعلق فقہ احمد یہ حنفیہ ( پرسنل لاء) کی اشاعت ہوئی دوران سال حضور کی طرف سے اہل خانا کے لئے ہو میو پیتھی دواؤں کا عطیہ بھجوایا گیا +1984 4 جنوری: جماعت بینن کے کئی افراد کو پولیس نے احمدیت کی بنا پر گرفتار کیا.14 جنوری کو ان کی رہائی ہوئی 6 جنوری: عرب بھائیوں کے لئے متضرعانہ دعاؤں کی تحریک 13 تا 15 جنوری: آل کیرالہ احمدیہ کا نفرنس منعقد ہوئی.اس کے لئے حضور نے پیغام بھجوایا 3 فروری : یہود کے مسجد اقصی فلسطین کو بم سے اڑانے کی خبر پر حضور نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ ان شعائر اللہ کی حفاظت کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہے 8 فروری : جلسہ سالانہ کے لئے مزید 500 / دیگوں کی تحریک 5 تا 24 فروری: حضور کا دورہ کراچی وسندھ فروری: روزنامه الفضل ربوہ کی اشاعت 7 ہزار سے بڑھا کر 20-15 ہزار کرنے کی تحریک 9 مارچ: دعا اللهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلما كثيرا...کثرت سے پڑھنے کی تحریک 15 مارچ: حضور نے گلشن احمد نرسری (ربوہ) کا افتتاح فرمایا 15 مارچ: قادیان کے مضافات میں توسیع تبلیغ کے لئے مالی تعاون کی تحریک 18 مارچ: مجلس انصاراللہ بنگال کا پہلا سالانہ اجتماع اور سالانہ جلسہ منعقد ہوا
830 30 مارچ: ریٹائرڈ ا حباب کو خدمت دین کے لئے زندگی وقف کرنے کی تحریک 16اپریل مخالفین کے شر سے بچنے کے لئے سات خصوصی دعاؤں کی تحریک 10 اپریل: محراب پور ضلع نواب شاہ (پاکستان) میں عبد الحمید صاحب کی شہادت 13 تا 23 اپریل: مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی تیسویں سالانہ تربیتی کلاس.نامساعد حالات کی وجہ سے اسے مختصر کر دیا گیا.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا.حضور " کا سفر ہجرت سے قبل کسی جماعتی تقریب سے یہ آخری خطاب تھا 20 اپریل: جھنگ میں احمدیہ مسجدنذر آتش کردی گئی.باگڑ سرگانہ ضلع ملتان میں احمدیہ مسجد کو مار کر دیا گیا 126 اپریل: احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن بھارت کا قیام عمل میں آیا 26 را پریل : صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت احمدیوں پر شعائر اسلامی کے استعمال اور تبلیغ پر پابندی لگادی گئی.اس آرڈی نینس کا مقصد امام جماعت احمد یہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کوگرفتار کرنا تھا تا کہ ان کا جماعت احمدیہ سے رابطہ منقطع کر دیا جائے اور مرکز سلسلہ ربوہ کو برباد کر دیا جائے.چنانچہ اس آرڈیننس کے بعد بہت سے احباب کی گرفتاریاں ہوئیں اور مقدمات بنائے گئے 27 اپریل: مسجد مبارک ربوہ میں نماز مغرب کے بعد حضور نے احباب سے خطاب فرمایا 128 اپریل: مسجد مبارک ربوہ میں نماز عشاء کے بعد حضور نے احباب سے خطاب فرمایا 29اپریل: حضور کی ہجرت.ربوہ سے روانگی 30 اپریل : حضور ایمسٹرڈیم اور پھر لندن پہنچ گئے.اور یوں داغ ہجرت کے الہام کا ایک نئی شان سے ظہور ہوا 3 مئی: قریشی عبد الرحمان صاحب کی سکھر ( پاکستان ) میں شہادت 4 مئی: حضور نے ہجرت کے بعد مسجد فضل لندن میں پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.مَنْ أَنْصَارِی اِلَى الله کی تحریک
831 4 مئی: حضور نے پاکستان کے احمدیوں کے نام اپنے دست مبارک سے ایک پُر شوکت محبت بھرا اور جذبات سے پر پیغام تحریر فرمایا 8 -10 مئی : خدام الاحمدیہ جرمنی کی پہلی مجلس شوری 18 مئی: حضور نے یورپ کی جماعتوں کو برطانیہ اور جرمنی میں دو نئے اور وسیع مشن ہاؤسز تعمیر کرنے کے لئے مالی تحریک فرمائی.29 مئی کو حضور نے اس تحریک کو عام کرنے کا اعلان فرمایا چنانچہ جرمنی میں ناصر باغ اور انگلستان میں اسلام آباد کی زمینیں لی گئیں 20 مئی: ٹرینیڈاڈ میں لجنہ اماء اللہ کا پہلا سالانہ اجتماع 27 مئی: تنزانیہ میں مشنری ٹریننگ کالج کا افتتاح ہوا 16 جون : ڈاکٹر عبد القادر صاحب کی فیصل آباد ( پاکستان ) میں شہادت 25 جون : صدر عمومی ربوه حکیم خورشید احمد صاحب، ناظر امور عامہ چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ اور چار دوسرے احمدیوں کی ایک جھوٹے مقدمہ میں گرفتاری 3 ستمبر کولاہور ہائی کورٹ سے ان کی ضمانت ہوئی 16 جون : زائر میں صدیق احمد منور صاحب نے باقاعدہ مشن قائم کیا 29 جون : حضور نے امریکہ و یورپ کے مراکز کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی 15 جولائی : اینٹی احمد یہ آرڈینس XX کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں بعض احمدیوں کی پیش کردہ درخواستیں رڈ کر دی گئیں 20 جولائی: حضور نے حکومت پاکستان کے مبینہ قرطاس ابیض (وائٹ پیپر) جس میں جماعت احمدیہ پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے، کے جواب میں خطبات کا سلسلہ شروع فرمایا جو 17 مئی 85ء تک جاری رہا.بعد میں یہ خطبات زهق الباطل" کے نام سے کتابی شکل میں اردو اور عربی میں شائع ہوئے 26 جولائی: علاقہ وارنگل میں توسیع تبلیغ کے لئے حضور نے ہندوستان کی جماعتوں کو تحریک فرمانی 27 تا 29 جولائی: مجالس خدام الاحمدیہ یورپ کا برطانیہ میں پہلا سالانہ اجتماع.11 ممالک سے 800 / خدام واطفال نے شرکت کی.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا
832 25، 26 اگست: پہلا جلسہ سالانہ برطانیہ جس میں حضور نے ہجرت کے بعد شرکت فرمائی اور اختتامی خطاب فرمایا.اس جلسہ کی حاضری تین ہزار تھی 30 اگست: دہلی میں جماعتی وفد نے وزیر اعظم ہند اور مختلف سفراء سے ملاقات میں پاکستانی احمدیوں پر مظالم اور انسانی حقوق سے محرومی کے بارہ میں تشویش کا اظہار کیا 8 ستمبر : اسلام آباد ( ملفورڈ ) کی زمین خریدی گئی 118 اکتوبر : احمد آباد (صوبہ گجرات.انڈیا) میں جماعت کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا 121 اکتوبر : جماعت اثر پردیش کی اٹھارہویں سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں حضور کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا 26 اکتوبر : ساہیوال کی احمد یہ مسجد پر ایک دینی مدرسہ کے طلبا نے کلمہ طیبہ مٹانے کے لئے حملہ کیا 11 مراحمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا 26 تا 28 اکتوبر: مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کا سالانہ اجتماع منعقد ہو جس پر حضور کا خصوصی پیغام موصول ہوا 9 نومبر : افریقہ کے قحط زدہ علاقوں کے لئے مالی امداد کی تحریک 11 نومبر : حفظ قرآن کی تحریک 12 دسمبر : حکومت نے ضیاء الاسلام پریس ربوہ کو تین ماہ کے لئے سر بمہر کر دیا اور روزنامہ الفضل کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا حکومت کی طرف سے جلسہ سالانہ اور ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے 1984ء سے یہ تقریبات منعقد نہیں ہور ہیں 18 تا 20 دسمبر : جلسہ سالانہ قادیان منعقد ہوا جس کے لئے حضور نے بصیرت افروز پیغام بھجویا حضور کی ہجرت کے بعد منی سے دسمبر 84 ء تک 4881 ربیعتیں ہوئیں بینن میںCotonou میں جماعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لکڑی کی ایک مسجد بنائی گئی
833 جرمنی میں پہلے امیر جماعت عبداللہ Wagishauser صاحب مقرر ہوئے مجلس انصار الله جرمنی کا پہلا سالانہ اجتماع کولون میں منعقد ہوا *1985 یکم جنوری : ناروے کے ایک ریڈیوسٹیشن سے جماعت احمدیہ کا پروگرام ہفتہ میں دو دن ایک گھنٹہ کے لئے اردو، انگریزی اور سکنڈے نیوین زبانوں میں نشر ہوا 24 جنوری: دایہ ضلع ہزارہ (پاکستان) کے ایک احمدی کو اعتکاف کے جرم میں ایک سال قید کی سزا سنائی گئی 8 فروری: روزنامہ الفضل ربوہ کی بندش کی وجہ سے لندن سے ہفت روزہ ”النصر“ کا اجراء ہوا 9 تا 10 فروری: مجلس خدام الاحمدیہ اڑیسہ کا دو روزہ سالانہ اجتماع منعقد ہوا.اس کے لئے حضور نے از راہ شفقت اپنا پیغام بھیجوایا فروری: روانڈا اور برونڈی میں عبد الوہاب صاحب کے ذریعہ احمدیت کا پودا لگا مارچ روز نامہ الفضل“ کی بندش کے دوران اطلاعات پہنچانے کے لئے مارچ 1985ء سے اکتوبر 1988 ء تک جماعتی رسائل ماہنامہ خالد، انصار الله، مصباح اور تحریک جدید کے ضمیمہ جات کی اشاعت ہوتی 3 مارچ: حضور نے ہندوستان میں تبلیغ کے منصوبہ کو پورا کرنے کے لئے اشاعت فنڈ کا قیام فرمایا 15 مارچ: مكرم انعام الرحمان صاحب کی سکھر میں شہادت 19 مارچ : مانسہرہ کے ایک احمدی کو السلام علیکم کہنے کے جرم میں چھ ماہ قید اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا ہوئی 26 مارچ: بانسرہ میں آل بنگال مجلس انصار اللہ کا پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا 27 مارچ: بانسرہ میں آل بنگال مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا 5 تا 7 اپریل اسلام آباد (ملفورڈ یوکے) میں جماعت احمد یہ یو کے کا بیسواں جلسہ سالانہ منعقد
834 ہوا.48 ممالک سے احمدیوں نے شرکت کی.اسلام آباد میں یہ پہلا جلسہ تھا جوحضور" کی موجودگی کی وجہ سے مرکزی جلسہ قرار پایا.گل حاضری 7 ہزار تھی.جماعتی ترقیات کے حوالہ سے حضور نے فرمایا کہ امسال 28 مساجد تعمیر ہوئیں.اختتامی خطاب میں حضور نے قرطاس ابیض کے جواب کے تسلسل میں عرفان ختم نبوت“ کے موضوع پر خطاب فرمایا 7 اپریل: امیر ضلع نواب شاہ چوہدری عبدالرزاق صاحب کو بھر یا روڈ نواب شاہ میں شہید کر دیا گیا 23 اپریل: حضرت صوفی غلام محمد صاحب ناظر اعلی ثانی کی وفات 7 مئی: سکھر میں احمد یہ مسجد پر بم پھینکا گیا.سات احمدیوں کو گرفتار کیا گیا.قریشی ناصر احمد صاحب اور ان کے بھائی رفیع احمد صاحب کو سزائے موت سنائی گئی 10 مئی: حضور نے گلاسگو ( سکاٹ لینڈ ) میں نئے مشن کا افتتاح فرمایا 18 مئی: مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کا 26 میل کا پیدل سفر کا پہلا مقابلہ.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا 24 مئی : جماعت احمدیہ کے خلاف عالمی سازشوں کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک 31 مئی: کراچی میں سمندری طوفان کا شدید خطرہ پیدا ہوا تاہم یہ خطرہ ٹل گیا.اس روز Friday the 10th تھا.( یہ دراصل حضور نے ایک کشفی نظارہ دیکھا تھا.اس نشان یعنی Friday the 10th کا متعدد بار ظہور ہوا.جب مشرقی اور مغربی جرمنی کو دیوار برلن گرا کر ملا دیا گیا تو وہ دن بھی Friday the 10th تھا.Friday the 10th کے نشانات کے ظہور کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے ) مئی: اوسلو (ناروے) میں احمدیہ مسجد کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی 7 جون : دنیا بھر میں احمدیوں کو پاکستان کی سلامتی کے لئے جہاد اور دعاؤں کی تحریک 9 جون: آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر صاحب کی حیدر آباد (پاکستان) میں شہادت 16 جون : خصوصی فوجی عدالت نے ساہیوال کیس میں محمد الیاس منیر صاحب ( مربی سلسلہ ) اور رانا نعیم الدین صاحب کو سزائے موت اور باقی چار اسیران کو سات سال قید کی سزا سنائی جون: طوالو میں افتخار احمد ایاز صاحب کے ذریعہ پہلی بیعت حاصل ہوئی جس کے ذریعہ وہاں
جماعت کا قیام عمل میں آیا 835 6 تا 7 جولائی: مجلس انصار اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع پر حضور کا اختتامی خطاب 12 جولائی نستعلیق کتابت کے کمپیوٹر کے لئے کمپوزنگ کے ماہرین کو وقف کی تحریک 13 جولائی: لجنہ اماء اللہ برطانیہ نے میراتھن واک کروائی.300 سے زائد حاضری اور حضور کا شام کو لجنہ سے خطاب 29 جولائی : پٹوں عاقل ضلع سکھر میں چوہدری محمود احمد صاحب کی شہادت 10 اگست: قریشی محمد اسلم صاحب ( مربی سلسلہ ) کی ٹرینیڈاڈ میں شہادت 12 اگست: دو افراد پر مشتمل واقفین عارضی کا پہلا وفد لندن سے آئرلینڈ کے لئے روانہ ہوا جنہوں نے ڈبلن اور گالوے میں مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دورے کئے جس کے نتیجہ میں کئی اخبارات میں انٹرویو شائع ہوئے 15 اگست: برطانیہ میں طالبات کی Summer کلاس سے حضور کا خطاب 22 تا 24 اگست: دوسرا یورپین سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا.اس موقع پر پہلی بار خیمے نصب کئے گئے 29 اگست: بیلجیم میں مشن ہاؤس کی عمارت خریدی گئی یکم رستمبر : حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی وفات 11 ستمبر تا 15 اکتوبر : حضور گادورہ یورپ 11 ستمبر : حضور بیلجیم تشریف لے گئے 13 ستمبر : حضور نے بیت النورین سپیٹ (ہالینڈ) کا افتتاح فرمایا 14 ستمبر : حضور نے ہالینڈ میں ایک پریس کا نفرنس سے خطاب فرمایا اور دی ہیگ تشریف لے گئے 15 ستمبر : حضور نے تیجیم کے مشن ہاؤس بیت السلام کا افتتاح فرمایا 17 ستمبر : حضور نے کولون میں مسجد بیت النصر کا افتتاح فرمایا
836 19 ستمبر : حضور نے ہمبرگ میں پریس کانفرنس منعقد کی 21 ستمبر : حضور نے برلن میں پریس کانفرنس منعقد کی.بعد ازاں دیوار برلن کا معائنہ فرمایا 22 ستمبر : حضور نے گروس گیر اؤ میں ناصر باغ کا افتتاح فرمایا 25 ستمبر : حضور کا میونخ میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا 26 ستمبر : حضور نے زیورک میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا جہاں سوئٹزرلینڈ کے سب سے بڑے اخبار کے نمائندہ نے بھی شرکت کی.اسی روز حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام ایک ہوٹل میں کیا گیا 28 ستمبر : حضور سوئٹزرلینڈ سے اٹلی کے دورہ پر تشریف لے گئے 113 اکتوبر : فرانس میں نئے مرکز بیت السلام کا حضور نے افتتاح فرمایا 15 اکتوبر : حضور کی دورہ یورپ سے لندن واپسی 125 اکتوبر : حضور نے تحریک جدید دفتر چہارم کا اجراء فرمایا اکتوبر : آسٹریلیا میں پہلی مرتبہ تربیتی کلاس کا انعقاد ہوا 8 تا22 نومبر: قیام نماز اور اس کی حکمتوں کے متعلق خطبات.بچوں کو نماز با ترجمہ سکھانے کے لئے والدین کو تحریک.ذیلی تنظیموں کو ہر ماہ مجلس عاملہ کا اجلاس قیام نماز پر غور کرنے کے لئے منعقد کرنے کی تحریک 15 نومبر : اسیران راہ مولا کے لئے دعاؤں کی تحریک 22 نومبر: اللہ کی دوستی اور محبت کے لئے نوافل کی ادائیگی میں آگے بڑھنے کی تحریک 26 نومبر: حضور نے کینیڈا کی دو ٹیلیویژن کمپنیوں کے لئے انٹرویوریکارڈ کرائے 18 تا 20 دسمبر: جلسہ سالانہ قادیان منعقد ہوا.اس کے لئے حضور نے پیغام بھجوایا جس کا عنوان تھا: ایک ہو جائیں اور نیک ہو جائیں، آپ رحمتہ للعالمین کے غلام ہیں.آپ کے سینوں سے رحمت کے چشمے پھوٹنے چاہئیں“
837 20 دسمبر : ( پاکستان میں جلسہ کی اجازت نہ ملنے پر 26 دسمبر 1985ء کو رب اعلیٰ کے حضور یوم احتجاج منانے کی تحریک 27 دسمبر: حضور نے وقف جدید کی تحریک کو عالمی کرنے کا اعلان فرمایا.سندھی احمدی زمینداروں کو سندھ میں وقف عارضی کرنے کی تحریک آئرلینڈ میں جماعت کا قیام ہوا تھائی لینڈ میں جماعت کا قیام ہوا ٹونگا جزیرہ میں واقفین عارضی کا پہلا وفد گیا جن کی مساعی سے دو افراد نے بیعت کی *1986 3 جنوری: حضور نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ جماعت نے برازیل میں باقاعدہ مشن کے قیام کے لئے جگہ خرید لی ہے 12 جنوری: ڈاکٹر عبد السلام صاحب علی گڑھ یونیورسٹی تشریف لے گئے.آپ کی ساٹھویں سالگرہ پر رسالہ تہذیب اخلاق“ کے عبد السلام نمبر کا اجراء ہوا.ڈیپارٹمنٹ آف بایوٹیکنالوجی اور سنٹر فار پروموشن آف سائنس کا افتتاح ہوا.دوران تقریب پروفیسر سلام صاحب کے نام پر کئی ایوارڈز کے جاری کرنے کا اعلان ہوا 5 فروری : پوپ جان پال دو سم کے مدراس ( انڈیا ) تشریف لانے کے موقع پر جماعت کی طرف سے انگریزی اور تامل زبان میں دو بڑے Wall Posters تیار کئے گئے اور اس کے ذریعہ پاپائے روم کا خیر مقدم کے زیر عنوان قرآنی آیات و انجیل کے حوالہ جات پیش کئے گئے 14 فروری: رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا...الخ کی دعا کثرت سے پڑھنے کی تحریک 19 فروری: چوہدری مقبول احمد صاحب کی پنوں عاقل سکھر میں شہادت 20 فروری: وزیر اعظم بھارت اندرا گاندھی کو جماعتی لٹریچر کا تحفہ دیا گیا 21 فروری: قیامت کے نمونے دیکھنے کے لئے نمازیں پڑھنے اور خدا کے حضور گریہ وزاری کا شور
838 مچانے کی تحریک 23 فروری : پیشگوئی مصلح موعود کے 100 سال پورے ہونے پر محمود ہال لندن میں ایک عظیم الشان جلسہ کا انعقاد ہوا جس میں حضور نے خطاب فرمایا 3 مارچ: شمالی برطانیہ کا پہلا مصلح موعود ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ ہوا 14 مارچ : سیدنا بلال فنڈ کا قیام 15 مارچ: جنوبی برطانیہ کی مجالس خدام الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا 28 مارچ: قادیان میں مقامات مقدسہ کی رینوویشن اور تعمیر مشن دیلی کے لئے توسیع مکان بھارت فنڈ کی مالی تحریک کا اعلان حضور نے فرمایا 12 تا 13 اپریل: آل کیرالہ احمدیہ مسلم پینتیسویں سالانہ کانفرنس پینگاڈی میں منعقد ہوئی.تقاریر اور مقابلہ جات کے علاوہ حضور کا پیغام بھی سنایا گیا اور پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا 18 اپریل: مرزا منور بیگ صاحب کی لاہور میں شہادت 29 اپریل: اقوام متحدہ نے اینٹی قادیانی آرڈینینس کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا 8 تا 10 مئی: لجنہ اماءاللہ جرمنی کا پہلا نیشنل اجتماع منعقد ہوا 8 10 مئی: مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع کے موقع پر مجلس شوری منعقد ہوئی 9 مئی طلباء اور نوجوان نسلوں کے لئے دعا کی تحریک ومئی: کوئٹہ میں احمد یہ مسجد پر حملہ ہوا اور مسجد سیل (Seal) کر دی گئی، کئی احمدیوں کی گرفتاری 11 مئی: سکھر میں سید قمر الحق صاحب اور خالد سلیمان صاحب کی شہادت 10 مئی: حضور نے گلاسگو میں سکاٹ لینڈ کے نئے احمد یہ مشن کا افتتاح فرمایا 9 جون : صدسالہ جو بلی کے موقع پر دنیا کی 25 رزبانوں میں قرآن کے مکمل تراجم اور 100 رزبانوں میں منتخب آیات کے تراجم شائع کرنے کا اعلان 9 جون: عید الفطر کے دن مردان میں پہلی احمدی خاتون رخسانہ صاحبہ کی شہادت
839 28 جون : جلسہ سالانہ 1986ء پر جماعت انگلستان کو مہمانوں کے لئے گھر پیش کرنے کی تحریک 9 جولائی: حیدر آباد میں بابو عبد الغفار صاحب کی شہادت 25 تا 27 جولائی: جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ.حاضری 5800 تھی.50 رممالک کے نمائندگان کی شرکت حضور کی دوسرے دن کی تقریر کے مطابق اس سال 206 رنئی مساجد اور مراکز نماز کا قیام عمل میں آیا.108 ممالک میں احمدیت قائم ہو چکی تھی.41 ممالک میں 182 مبلغین کام کر رہے تھے.مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کی اشاعت کی تحریک جلسہ سالانہ کے موقع پر اختتامی خطاب حضور نے مرتد کی سزا قتل کے موضوع پر ارشاد فرمایا 8 اگست: حضور نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مربوط جلسوں کو دوبارہ شروع کرنے کی تحریک فرمائی.اسلام اور بانی اسلام پر اعتراضات کے جوابات پوری دنیا میں شائع کرنے کی تحریک 15 اگست: اسلام کی حقیقی محبت حاصل کرنے کے لئے نمازوں میں زیادہ وقت گزارنے اور توجہ دینے کی تحریک 17 اگست : عید الاضحی کے دن مردان میں 90 ر احمدیوں کو گرفتار کیا گیا.احمد یہ مسجد کو مسمار کر دیا گیا، قیمتی سامان کولوٹ لیا گیا 22 اگست: حضور نے ہندوستان میں نئی چلائی جانے والی تحریک شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا 29 اگست: حضور کا دورہ ناروے 18 ستمبر تا 6 اکتوبر : حضور کا دورہ کینیڈا 20 ستمبر : حضور نے مس ساگا ( کینیڈا) میں پہلی احمد یہ مسجد بیت الاسلام کا سنگ بنیا درکھا 20 ستمبر : حضور نے جماعت کینیڈا اور امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی شوری کے اجلاس کی صدارت فرمائی جس میں تربیت اور تبلیغ کے حوالہ سے ہدایات سے نوازا 27 ستمبر : مانٹریال میں حضور کے اعزاز میں استقبالیہ کا انعقاد ہوا
840 28 ستمبر بیسکاٹون میں ایک اخبار اور ٹی وی کے نمائندہ نے حضور کا انٹرو یولیا 29 ستمبر : ایڈمنٹن میں حضور نے CJCA ریڈیو پر لائیو انٹرویو دیا.بعد ازاں پریس کانفرنس.سے خطاب فرمایا.شام کو جماعت کی طرف سے استقبالیہ میں شرکت فرمائی.رات کو حضور نے CTV پر لائیو انٹرویو دیا ย 30 ستمبر : حضور نے انسانیت کے مستقبل“ کے عنوان پر ایک لیکچر دیا یکم اکتوبر : حضور نے کیلگری کے ایک ہوٹل میں ایک استقبالیہ سے خطاب فرمایا جس کے بعد سوالوں کے جواب دیتے 14اکتوبر : وینکوور میں حضور نے ایک استقبالیہ تقریب میں خطاب فرمایا جس کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.شام کو احباب جماعت کے ساتھ مجلس عرفان منعقد کی 15 اکتوبر : حضور نے Vancouver Sun اخبار کے نمائندہ کو تفصیلی انٹرویو دیا اور ٹی وی پر ایک لائیو انٹرویو دیا 8 19اکتوبر : مجلس انصار اللہ بھارت کا سالانہ اجتماع قادیان میں منعقد ہوا.حضور نے اس موقع کے لئے خصوصی پیغام عطا فر مایا 10 تا 12 اکتوبر: مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کا سالانہ اجتماع قادیان میں منعقد ہوا.اجتماع پر مجلس شوریٰ بھی منعقد ہوئی اور حضور کا پیغام موصول ہوا 17 اکتوبر: ایل سلواڈور میں زلزلہ زدگان خصوصا یتامیٰ کی امداد اور کفالت کی تحریک 17 اکتوبر : کالیکٹ کیرالہ (انڈیا) میں مسجد احمدیہ کا افتتاح صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے کیا اکتوبر : حضور نے جرمنی، تعمیم اور ہالینڈ کا دورہ فرمایا 24 تا 26 اکتوبر : یورپ کی مجالس خدام الاحمدیہ کے تیسرے یورپین اجتماع کے موقع پر حضور کا اختتامی خطاب 2 نومبر : امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے عالمی سطح پر جہاد کی تحریک
841 28 نومبر : پاکستانی احمدیوں کو پاکستان کے خلاف ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لئے جہاد کی تحریک 18 تا20 دسمبر: جلسہ سالانہ قادیان کے انعقاد پر حضور" کا خصوصی پیغام پڑھا گیا 19 دسمبر : بچوں سے پہلے ماں باپ کی تربیت کا کام ذیلی تنظیموں کو سر انجام دینے کی تحریک کی *1987 2 جنوری: کوئٹہ اور ساہیوال کی جماعتوں کا ذکر کر کے اسیران کے لئے دعا کی تحریک 7 جنوری: لجنہ اماءاللہ بھارت کے لئے النصرت لائبریری کا سنگ بنیاد رکھا گیا 9 جنوری: سو سے زائد زبانوں میں تراجم قرآن اور دیگر لٹریچر کی اشاعت کی تحریک 16 جنوری: لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے دفاتر کی تعمیر کے لئے لجنات، انجمنوں اور مردوں کو 26 لاکھ روپے کی تحریک 16 جنوری: صد سالہ جوبلی منصوبہ میں نئے برسر روزگار احمدیوں کو شامل ہونے کی تحریک 30 جنوری تحریک کہ صد سالہ جوہلی سے پہلے ہر خاندان مزید ایک خاندان کو جماعت میں داخل کرے 6 فروری: صد سالہ جو بلی کے موقع پر ہر ملک میں ایک یادگار عمارت بنانے کی تحریک.جنوبی امریکہ کے ممالک میں تبلیغ کے لئے تحریک جدید کو خصوصی توجہ کرنے کی تحریک 25 فروری: غلام ظہیر صاحب کی سوہاوہ ( جہلم) میں شہادت 27 مارچ: اللهمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَ حُبّ مَن يُحِبُّكَ وَ الْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حبَّكَ اللهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ اَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسي وَ مَالِي وَأَهْلِي وَ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ یاد کرنے اور بکثرت ورد کرنے کی تحریک 13اپریل : وقف ٹو کی تحریک کا اعلان 6 اپریل : دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ کی روشنی میں لندن میں کمپیوٹرائز ڈ پریس کا افتتاح ہوا انہی ایام میں نائیجیریا میں تین بادشاہوں نے احمدیت قبول کی 6 مئی: حضرت صاحبزادی نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی وفات بعمر 83 سال ہوئی
842 یکم جون : حضور کے دورہ یورپ کا آغاز 3 جون : حضور نے سوئٹر لینڈ میں Nova Park ہوٹل میں استقبالیہ تقریب میں خطاب فرمایا.بعد ازاں مجلس سوال و جواب بھی ہوئی 14 جون : سوئٹزرلینڈ کی ایک یونیورسٹی میں حضور کا لیکچر بعنوان “الہام ، عقل، علم اور سچائی ہوا.یہ لیکچر بعد میں ایک عظیم الشان کتاب Revelation Rationality knowledge and Truth کے نام سے شائع ہوا.اسی طرح اردو، عربی، جرمن اور رشین میں بھی اس کے تراجم شائع ہوئے 10 جولائی: واقفین نو کی تربیت کی تحریک 30 جولائی: جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر جلسہ سے قبل پہلی مرتبہ تبلیغ سیمینار کا انعقاد ہوا 31 جولائی تا 2 اگست: جلسہ سالانہ برطانیہ کا انعقاد.حاضری 7 ہزار دوسرے دن کے خطاب میں حضور نے فرمایا کہ دنیا کے 114 ممالک میں احمدیت قائم ہو چکی ہے.6 رنئے ممالک کانگو، پاپوانیوگنی ، فن لینڈ، آئس لینڈ ، پرتگال اور Nauru ہیں.258 رنٹی جماعتوں اور 136 مساجد کا قیام عمل میں آیا.جس میں 73 تعمیر ہو چکی ہیں اور 63 زیر تعمیر ہیں.یورپ میں 10 ر اور امریکہ میں 11 / مرا کز قائم ہو چکے ہیں.43 / ممالک میں 208 رمبلغین کام کر رہے ہیں.حضور نے نائجیریا کے دو بادشاہوں کو جلسہ پر حضرت مسیح موعود کے کپڑے کا تبرک عطا فرمایا خواتین سے خطاب میں حضور نے اسلام میں عورت کا مقام“ کے موضوع پر خطاب فرمایا.اختتامی خطاب عدل کے موضوع پر ارشاد فرمایا 3 تا 4 اگست: اسلام آباد (ملفورڈ.یوکے) میں عالمی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی 17اگست: دنیاوی وجاہت کے حامل افراد کو مساجد کی صفائی کے لئے ایک ایک دن وقف کرنے کی تحریک 21 اگست: حضور نے بیت النور (ہالینڈ) کو جلانے کی کوشش پر تبصرہ کرتے ہوئے ہالینڈ کے دورہ کے دوران فرمایا کہ موجودہ عمارت سے دس گنا بڑی عمارت بنائی جائے گی.اس کے لئے مالی
قربانی کی تحریک 843 ستمبر تا نومبر: حضور نے امریکہ اور کینیڈا کا دوماہ کا دورہ فرمایا 18 ستمبر: بنگلہ دیش کے مظالم کا ذکر کر کے نئی تحریکات.مساجد کی تعمیر منہدم شدہ مساجد کی بحالی اور وسعت کے لئے مالی قربانی کی تحریک.بیوت الحمد سکیم میں نئے منصوبے 29 ستمبر : حضور کی کینیڈا آمد ہوئی اور اسی روز مجلس عرفان منعقد کی 30 ستمبر : مجلس عاملہ کینیڈا کے ساتھ حضور نے ایک خصوصی میٹنگ منعقد کی حضور نے ٹورانٹو سٹار اور سی بی سی ریڈیو کے نمائندوں کو انٹرویو دیا.شام کو مجلس عرفان منعقد ہوئی 30 ستمبر : حضور نے Columbia University میں Department of South Asian Studies سے خطاب فرمایا 7 تا 18اکتوبر: مجلس انصار اللہ بھارت کا سالانہ اجتماع قادیان میں منعقد ہوا.اس موقع پر حضور " کا روح پرور پیغام بھی موصول ہوا 7 اکتوبر : حضور نے واشنگٹن میں ایک استقبالیہ تقریب میں شرکت فرمائی.کولمبیا کے میئر نے اس دن کو مرزا طاہر احمد کا دن قرار دیا 17اکتوبر: زیر حضور نے Willingboro میں نئی مسجد مسجد النصر کا افتتاح فرمایا 8 اکتوبر : حضور نے Philadelphia میں نئی مسجد مسجد ناصر اور اس سے ملحقہ مشن کا افتتاح فرمایا 9 اکتوبر : حضور نے واشنگٹن میں جماعت کے نئے مرکز اور مسجد بیت الرحمان کا سنگ بنیا درکھا 9 تا 11 اکتوبر لجنہ اماء اللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کے سالانہ اجتماعات قادیان میں منعقد ہوئے جس کے لئے حضور کا پیغام موصول ہوا 10 اکتوبر Sinclair Community College میں حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ منعقد ہوا 11 اکتوبر : شکاگو (امریکہ) کے میئر کی حضور سے ملاقات ہوئی
844 115 اکتوبر : حضور نے ڈیٹائٹ (امریکہ) کے علاقہ ٹرائے ( Troy) میں مسجد اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا 21 اکتوبر : حضور نے مسجد یوسف تو سان (Tuscan) ایریزونا کا افتتاح فرمایا 22 اکتوبر : حضور نے لاس اینجلس (امریکہ) کے علاقہ Hawthorne میں مسجد بیت السلام کا سنگ بنیا درکھا 24 اکتوبر : حضور نے لاس اینجلس (امریکہ) کی مسجد بیت الحمید کا سنگ بنیا درکھا 30 اکتوبر : حضور نے پورٹ لینڈ (امریکہ) میں مسجد رضوان کا افتتاح فرمایا 7 نومبر : حضور نے ویسٹرن کینیڈا کی تین جماعتوں کی مجالس عاملہ کے ساتھ میٹنگ منعقد کی 11 نومبر: اسیرانِ راہ مولا کی خاطر ساری دنیا میں اسیران کی بہبودی کی تحریک 11 نومبر : ”بيوت الحمد کالونی ربوہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا 13 تا 14 نومبر: بیت الظفر ( نیو یارک.امریکہ) میں حضور نے جماعت امریکہ کی مجلس شوری کی صدارت فرمائی 6 دسمبر: تعلیم الاسلام انسٹی ٹیوٹ ناصر آباد صوبہ کشمیر کے سنگ بنیاد کی تقریب عمل میں آئی 13 دسمبر : ملاوی میں جماعت کے پہلے مبلغ مقبول احمد ذبیح صاحب پہنچے 18 تا 20 دسمبر: جلسہ سالانہ قادیان منعقد ہوا جس کے لئے حضور کا خصوصی پیغام موصول ہوا دوران سال برطانیہ کے سیکنڈری سکولوں میں حضرت خلیفہ امسیح الرائج کی شخصیت اور ارشادات نصاب میں شامل کئے گئے حضور کے ارشاد پر کہ کثرت سے سیرت النبی سلام کے جلسے منعقد کئے جائیں اور سیرت کے مختلف پہلوؤں پر مضامین لکھے جائیں، انصار اللہ قادیان نے اس سال بارہ کتابچے شائع کرنے کا منصوبہ بنایا.بھوٹان انڈیا بارڈر پر پہلی احمد یہ مسجد جے گاؤں شہر میں تعمیر ہوئی
845 *1988 یکم جنوری: حضور نے یورپین ممالک کے احمدیوں کو جمعہ پڑھنے کی خاص تحریک فرمائی خواہ نوکری سے چھٹی لینی پڑے یا استعفیٰ دینا پڑے 8 جنوری: نماز جمعہ کی ادائیگی کی طرف غیر معمولی توجہ کی تحریک 8 جنوری: شورت (کشمیر ) میں طاہر لائبریری کا قیام عمل میں آیا جنوری فروری: حضور نے مغربی افریقہ کے ممالک ) گیمبیا، سیرالیون، لائبیریا آئیوری کوسٹ ، فانا اور نائیجیریا) کا دورہ فرمایا 22 جنوری: حضور نے گیمبیا میں نصرت جہاں سکیم کی تنظیم نو کی تحریک کا اعلان فرمایا اور ہر پیشہ اور ہر علم میں مہارت رکھنے والے احمدیوں کو خدمت کے لئے بلایا.اس دورہ کے دوران حضور نے دو مساجد کا افتتاح فرمایا.ایک مسجد کلینک اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیادرکھا 24 جنوری: حضور سیرالیون پہنچے جہاں چھ (6) جماعتوں کا دورہ کیا، صدر مملکت سے ملاقات کی، دو پریس کانفرنسز کیں، پندرہ مختلف استقبالیہ تقاریب اور مجلس عرفان منعقد ہوئیں 29 جنوری: حضور نے نماز جمعہ سیرالیون کے شہر بو (Bo) میں مسجد ناصر میں پڑھائی اور حضور نے سیرالیون میں جامعہ احمدیہ قائم کرنے کا اعلان فرمایا یکم فروری: حضور نے لائبیریا کے صدر مملکت سے ملاقات کی 5 فروری: حضور نے آئیوری کوسٹ کے صدر مملکت سے ملاقات کی.خطبہ جمعہ آئیوری کوسٹ کے دار الحکومت آبی جان میں ارشاد فرمایا.5 فروری کو ہی حضور خانا پہنچے.وی آئی پی لاؤنج میں ریڈیو فانا کے نمائندہ کوانٹرویودیا 7 فروری: حضور نے شاہ انشانٹی سے ان کے محل میں ملاقات کی 11 فروری: حضور نے نانا کے صدر مملکت سے ملاقات کی اسی روز حضورا کرافو میں پہلے نائین احمدی چیف مہدی آپا مرحوم کی قبر پر دعا کے لئے تشریف لے گئے.
846 فرمایا 11 فروری کو ہی حضور نے جماعت احمد یہ غانا کے 61 ویں جلسہ سالانہ کے موقع پر افتتاحی خطاب 12 فروری: حضور نے جلسہ گاہ میں ہی خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں اہل افریقہ کو یقین دلایا کہ غلامی کی وہ طویل رات جو اہل افریقہ پر صدیوں سے طاری ہے اس کے مٹانے کے لئے میں وعدہ کرتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اس کو مٹانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی 13 فروری: حضور نائجیر یا تشریف لے گئے 13 تا 14 فروری: مجلس خدام الاحمدیہ اڈریسہ (انڈیا) کا سالانہ اجتماع کو تالبر کوٹ میں منعقد ہوا.حضور کا روح پرور پیغام بھی موصول ہوا 13 فروری: حضور کی نائجیر یا آمد اور پریس کانفرنس سے خطاب 14 فروری: حضور نے Monatan میں ایک وسیع مسجد کا سنگ بنیا درکھا 15 فروری Lagos ( نائجیریا) میں حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب سے خطاب 16 فروری:Kano ( نائجیریا) کے ایک ہوٹل میں حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی 18 فروری: صدر بھارت آر ٹکٹ رمن کو ہندی ترجمہ قرآن کا تحفہ دیا گیا 20 فروری: حضور نے نائجیر یا میں مجلس شوری کی صدارت فرمائی جس کے دوران مولوی عبدالرشید احمدا گبولا صاحب امیر و مشنری انچارج نائجیر یا مقرر ہوئے 21 فروری: حضور نے Lagos ( نائجیریا) میں مسجد طاہر کا سنگ بنیا درکھا 27 فروری: وانی یمیلم کیرالہ (انڈیا) میں احمدیہ مسجد کا افتتاح ہوا 6 مارچ کو چین کیرالہ (انڈیا) میں دار التبلیغ کا افتتاح صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے کیا 11 مارچ : صد سالہ جوہلی کے سلسلہ میں ہر ملک میں نمائش گاہ تعمیر کرنے کی تحریک جس میں زیادہ کام وقار عمل سے کیا جائے
847 یکم اپریل: احمدیہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز کے مرکزی دفتر کار بوہ میں افتتاح ہوا 8 اپریل: حضور نے گلاسگو میں احمد یہ مسجد کی نئی عمارت کا افتتاح فرمایا 19اپریل: امیر جماعت شام منیر الحصنی صاحب کی وفات.آپ شام کے پہلے احمدی تھے.1927ء میں بیعت کی تھی 10 اپریل: راولپنڈی میں اوجڑی کیمپ میں دھماکے سے خوفناک تباہی ہوئی.جماعت کی طرف سے جسمانی اور مالی امداد.مرکزی جماعت کی طرف سے ہمدردی کا پیغام بھیجا گیا اور ایک لاکھ روپے کی امداد کی گئی 13 اپریل: ربوہ میں جماعت کے تعلیمی ادارہ نصرت جہاں اکیڈمی کا افتتاح عمل میں آیا اپریل: عبد العزیز نہیں صاحب مبلغ سلسلہ نے ٹونگا کا دورہ کیا جس کے نتیجہ میں وہاں جماعت کا با قاعدہ قیام عمل میں آیا 5 مئی گورنر بہار (بھارت) کو احمد یہ لٹریچر کا تحفہ دیا گیا 18 مئی اٹک (پاکستان) کے ایک احمدی کو شادی کارڈ پر بسم اللہ لکھنے کے جرم میں چھ ماہ قید کی سزا 27 مئی تا 10 جون : حضور کا معاندین احمدیت کو انتباہ کرنے کا سلسلہ خطبات جس کے آخر پر 3 ر اور 10 جون کو جماعت احمد یہ عالمگیر کی نمائندگی میں معاندین احمدیت کو مباہلہ کا چیلنج دیا مئی: لندن سے ماہوار عربی رسالہ " التقویٰ کا اجراء ہوا 17 جون : قیام عبادت کی طرف خصوصی توجہ کی تحریک 10 جولائی: نام نہاد مولوی اسلم قریشی ( جو 17 فروری 1983ء کو سیالکوٹ سے لاپتہ ہو گیا تھا اور معاندین نے اس کے قتل کا ڈرامہ رچا کر حضور پر اس کے قتل کا الزام لگایا تھا) اچانک روپوشی ختم کر کے ایران سے لاہور آنمودار ہوا.پولیس نے پریس کے سامنے اسے پیش کیا.ٹی وی پر بھی اسے دکھایا گیا.حضور کے مباہلہ کے چیلنج کے ٹھیک ایک ماہ بعد یہ عظیم الشان نشان ظاہر ہوا
848 17 جولائی: احمد یہ مسجد دہلی (انڈیا) کا سنگ بنیا درکھا گیا 22 تا 24 جولائی: اسلام آباد (علفورڈ) میں منعقدہ جلسہ سالانہ برطانیہ میں 55 ممالک سے 5119 را فراد کی شرکت.افتتاحی خطاب میں حضور نے مباہلہ کے چیلنج اور اسلم قریشی کے برآمد ہونے کا ذکر کیا.دوسرے دن کے خطاب میں بتایا کہ جماعت احمد یہ اب 117 ممالک میں قائم ہو چکی ہے.نئے ممالک میں ٹونگا، ساؤتھ کوریا، مالدیپ، گیون، سالو من آئی لینڈ تھے.اس سال 107 / نئی مساجد کا اضافہ ہے جن میں 38 مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور 69 زیر تعمیر ہیں.175 رنئے مراکز کا قیام ہوا، 4 رنئی زبانوں میں ترجمہ قرآن شائع ہوا ، تحریک وقف نو میں 655 بچے پیش کئے گئے، 625 مرکزی مبلغین میدان عمل میں مصروف تھے.بیعتیں گزشتہ سال سے تین گنا زیادہ ہوئیں پاکستان میں احمدیوں کی گرفتاری کا جائزہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ 125 احمدیوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر ، 588 کو کلمہ کا بیج لگانے پر ، 178 کو تقسیم لٹریچر پر، 1321 کو مساجد پر کلمہ طیبہ لکھنے پر، 204 کو اذان دینے پر، 162 کو شعائر دینی اختیار کرنے پر اور 214 کو متفرق الزامات میں قید کر لیا گیا.گزشتہ 4 سالوں میں 1421 راحمدیوں پر مقدمے بنائے گئے حضور نے آخری روز عدل کے موضوع پر خطاب فرمایا 25 تا 26 جولائی : جلسہ سالانہ برطانیہ کے بعد اسلام آباد میں عالمی مجلس شوری منعقد ہوئی جس میں 45 ممالک کے 258 رنمائندگان نے شرکت کی جولائی: ربوہ سمیت ملک بھر میں متعدد مقامات پر بیسیوں احمدیوں کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے امام جماعت احمدیہ کی طرف سے مباہلہ کے اعلان پر مشتمل لٹریچر تقسیم کیا ہے 14 اگست سپینش سیاحوں کی میزبانی کے لئے خدمات پیش کرنے کی تحریک 12 اگست: حضور نے ایک رؤیا کی بنا پر معاندین خصوصا صدر جنرل ضیاء الحق کو متنبہ فرمایا 15 اگست : آئرلینڈ میں پہلے احمدی مبلغ مکرم رشید احمد ارشد صاحب پہنچے 17 اگست: صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق بہاولپور کے قریب فضائی حادثہ میں ہلاک ہو گیا.اس کا طیارہ
849 تین گھنے جلتا رہا اس ماہ میں نیا بالن کا جسم مکمل طور پر خاکستر ہو گیا اور صرف اس کا مصنوعی را پر محفو دار ہا 26 / اگست تا 28 ستمبر : حضور نے مشرقی افریقہ کا دورہ فرمایا.کسی بھی خلیفہ اسیح کا مشرقی افریقہ کا یہ پہلا دورہ تھا کو 29 اگست: نیروبی ( کینیا) کے Inter Continental Hotel میں حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ سے حضور کا خطاب.اسی موقع پر کیکویو زبان میں ترجمہ قرآن کریم کو بھی Launch کیا گیا 30 اگست: کسوموں ( کینیا) میں Sunset ہوٹل میں ایک استقبالیہ تقریب سے حضور نے خطاب فرمایا اور مجلس سوال و جواب منعقد کی 31 اگست: حضور نے شیانڈا ( کینیا) میں نئی مسجد کا افتتاح فرمایا.نیز مشن ہاؤس اور مدرسہ کا سنگ بنیا درکھا اگست: مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا نے اپنا پہلا نیشنل سہ روزہ اجتماع منعقد کیا یکم ستمبر : حضور نے ہلٹن ہوٹل ( کینیا) میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا اور احمد یہ قبرستان میں وہاں مدفون صحابہ حضرت مسیح موعود کی قبروں پر دعا کی 2 ستمبر : نیروبی میں حضور نے لجنہ اماءاللہ سے خطاب فرمایا 3 ستمبر : حضور کی یوگنڈا آمد کمپالا میں احمد یہ بشیر ہائی سکول کے اساتذہ وطلباء سے خطاب 4 ستمبر : سیاٹا کے مقام پر جماعت کے سکول کا معائنہ جنجہ میں درود اور حاضرین سے خطاب Crested Crane Hotel میں استقبالیہ تقریب میں خطاب..بعد ازاں مجلس سوال و جواب 5 ستمبر : مسا کا اور جو تیرہ کا وزٹ 6 ستمبر : حضور نے نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ یوگنڈا کے اجلاس کی صدارت فرمائی.اسی روز یوگنڈا کے وزیر اعظم سے اور منسٹر آف انفارمیشن سے ملاقات کی.شام کو کمپالا ( یوگنڈا) میں ایک
850 استقبالیہ تقریب سے خطاب فرمایا.استقبالیہ تقریب کے بعد یوگنڈا ٹیلی ویژن کے نمائندہ نے گیسٹ آف دی و یک Guest of the Week) پروگرام کے لئے خصوصی انٹرویو کیا 7 ستمبر : یوگنڈا سے روانگی سے قبل ائیر پورٹ پر یوگنڈا کے وزیر تعلیم ، وزیر صحت اور منسٹر آف سٹیٹ نے حضور سے ملاقات کی.پریس کے نمائندہ نے بھی انٹرو یولیا 9 ستمبر : حضور نے دار السلام یونیورسٹی ( تنزانیہ) سے خطاب فرمایا 10 ستمبر : حضور نے دار السلام ( تنزانیہ) کلمنجارو ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اسی شام تقریب عشائیہ میں خطاب فرمایا جس میں منسٹرز ، حجز ، وکلاء، ڈاکٹرز اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے کئی معززین نے شرکت کی 10 ستمبر : ربوہ میں عالمی معیار کے سوئمنگ پول کا افتتاح ہوا 11 ستمبر : ڈ چکوٹ ضلع فیصل آباد (پاکستان) میں مسجد احمدیہ سے معاندین نے کلمہ مٹایا 12 ستمبر : حضور نے مورو گورو ( تنزانیہ) میں احمد یہ ڈسپنسری کا افتتاح فرمایا.شام کو کسنو وا کے مقام پر نئے احمد یہ ہسپتال کا سنگ بنیا درکھا 13 ستمبر : حضور نے ڈوڈوما( تنزانیہ ) میں مسجد بیت الحمید کا افتتاح فرمایا 14 ستمبر : حضور نے وزیر اعظم تنزانیہ سے ملاقات کی.رات کو احباب سے الوداعی خطاب فرمایا 18 ستمبر : حضور نے New Grove ( ماریشس ) میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور ملٹری کوارٹرز میں مسجد طاہر کا افتتاح فرمایا 19 ستمبر : حضور نے ماریشس کے گورنر جنرل اور وزیر اعظم سے ملاقات کی.پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.شام کو ماریشس یونیورسٹی میں Islam and Evolution کے موضوع پر خطاب فرمایا 19 ستمبر : چک 88 - ج ب ضلع فیصل آباد میں 9 احمدیوں کی گرفتاری.16 نومبر 92ء کو انہیں 33 سال قید اور جرمانہ کی سزا سنائی گئی.
851 7 تا 19اکتوبر : اسلام آباد (ملفورڈ.یوکے) میں پانچواں یورپین اجتماع خدام الاحمدیہ منعقد ہوا.551 / خدام نے شرکت کی.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا.19 تا 20 اکتوبر: مجلس انصار اللہ بھارت کا سالانہ اجتماع قادیان میں منعقد ہوا جس پر حضور نے اپنا روح پرور پیغام بھجوایا 21 23 اکتوبر: مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کا سالانہ اجتماع قادیان میں منعقد ہوا.اس موقع پر حضور" کا پیغام موصول ہوا 22 تا 23 اکتوبر لجنہ اماءاللہ بھارت کا سالانہ اجتماع قادیان میں منعقد ہوا.حضور کا پیغام سنایا گیا 12 تا 13 نومبر : مجلس انصار اللہ کا پہلا یورپین اجتماع برطانیہ میں منعقد ہوا.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا 28 نومبر : روزنامه الفضل ربوہ سے 3 سال 11 ماه 9 دن بعد پابندی کا خاتمہ.اس شمارہ میں حضور کا خصوصی پیغام شامل اشاعت تھا 30 نومبر : اسلام آباد(پاکستان) میں 6 احمدیوں پر ایک شادی کارڈ پر بسم اللہ لکھنے کے جرم میں مقدمہ درج کیا گیا 2 دسمبر : جمہوری حکومت کے آغاز پر اہل پاکستان کو مبارک باد اور جماعت کو تسبیح و تحمید کی تحریک 3 دسمبر: وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو نے فوجی عدالتوں میں موت کی سزا پانے والوں کے لئے رعائتیں کیں.اسیران راہ موٹی ساہیوال کی موت کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوگئی 13 دسمبر : روزنامہ الفضل کے ایڈیٹر اور پبلشر کے خلاف اس دور کا پہلا مقدمہ جبکہ 31 دسمبر کو دوسرا مقدمہ دائر کیا گیا 18 تا 20 دسمبر: جلسہ سالانہ قادیان منعقد ہوا.اس جلسہ پر حضور نے پیغام دیا کہ کاش میں بھی آج آپ میں موجود ہوتا اور اپنی محبت بھری نظروں سے آپ کی پیشانیوں کو چومتا.وہ مذہب کوئی مذہب نہیں جو انسان اور انسان کے درمیان نفرت کے الا و جلاتا ہے.اور وہ توحید کوئی توحید نہیں جو
852 بندگان خدا کے درمیان تفریق کرتی ہو اور دلوں کو پھاڑتی ہو احمد یہ مشن ہنسلو کے ترجمان رسالہ النور“ کا اجرا ہوا کوریا میں جماعت کا باقاعدہ قیام اور Ujeongbu میں مشن ہاؤس کا حصول کورین زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت ہوئی *1989 10 جنوری: حضرت مولوی عطا محمد صاحب صحابی حضرت مسیح موعود کی وفات ہوئی 14 جنوری: دس افریقن ممالک کے کامیاب دورہ کے بعد پین افریقن احمد یہ ایسوسی ایشن کی طرف سے حضور ” کو استقبالیہ دیا گیا 14 جنوری: گوئٹے مالا میں پہلے مبلغ اقبال احمد حجم صاحب کا تقرر ہوا 26 جنوری: آئرلینڈ میں پہلے مشن ہاؤس کی عمارت خریدی گئی 28 جنوری: مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے تحت پہلا یوم والدین منایا گیا.193 سراطفال نے ت کی.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا 3 فروری: افغان قوم اور عرب دنیا کے لئے دعا کی تحریک.علماء کے لئے دعا کی تحریک 6 فروری: گوئٹے مالا کی پہلی مسجد کا سنگ بنیادرکھا گیا 14 تا 16 فروری: حضور کا دورہ جرمنی 24 فروری: حضور نے سلمان رشدی کی کتاب "Satanic Verses" کو اسلام کے خلاف گہری سازش قرار دیا اور اس کا جواب دینے کی تحریک فرمائی.احمدی نوجوانوں کو کثرت سے شعبہ صحافت سے منسلک ہونے کی تحریک 26 فروری: لندن میں جلسہ پیشگوئی مصلح موعودؓ سے حضور" کا خطاب فروری: حضور کی منظوری سے کفالت یکصد یتامی اسکیم جاری کی گئی 9 مارچ : سیالکوٹ کے ممتاز احمدی وکیل خواجہ سرفراز احمد صاحب پر مولوی اسلم قریشی (جو
853 1988 ء میں گمشدگی کے بعد برآمد ہوا تھا) نے حملہ کیا 17 مارچ : حضور نے جماعت احمدیہ کی پہلی صدی کا آخری خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور فتح کی بشارت دیتے ہوئے پہلی صدی کے قربانیاں دینے والے بزرگوں کے حالات جمع کرنے کی تلقین فرمائی.احمدی خاندانوں کو اپنی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک 20 مارچ: حضور نے لندن کے انٹرنیشنل پریس سنٹر میں ایک عظیم الشان پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.یہ جگہ لڈکیٹ (Ludgate) کے قریب ہے 22 مارچ: صد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ میں حضور کا ایک انٹرویو بی بی سی لندن پر نشر ہوا 22 تا 26 مارچ: قادیان دار الامان میں صد سالہ جشن تشکر کی تقریبات منعقد ہوئیں.ان میں 22 مارچ کو نفلی روزہ رکھا گیا اور جماعتی نظام کے تحت صدقات کا اہتمام کیا گیا.23 مارچ کو قادیان کے بازاروں میں جلوس نکلا جو کلمہ طیبہ اور درود شریف پڑھتے ہوئے جلسہ گاہ پہنچا جہاں جلسہ یوم مسیح موعود منعقد کیا گیا.اس کے علاوہ جماعتی عمارات اور احمدی گھروں میں چراغاں کا اہتمام ہوا.قادیان میں آرائشی گیٹ اور بینر ز بھی لگائے گئے.بھارتی میڈیا کی کئی ٹیمیں یہ تاریخی پروگرام ریکارڈ کرنے قادیان آئیں 23 مارچ: جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کا آغاز ہوا.صد سالہ جشن تشکر کی تقریبات 23 مارچ سے شروع ہو کر سارا سال جاری رہیں حضور نے مسجد فضل لندن کے سامنے لوائے احمدیت لہرایا اور دعا کرائی.صد سالہ جشن تشکر کے حوالے سے ساری دنیا میں احمدی احباب نے خصوصی پروگرامز کا اہتمام کیا.البتہ حکومت پاکستان نے احمدیوں کے جشن منانے پر پابندی لگا دی.ربوہ میں 23 مرتا25 مارچ چراغاں کرنے، مٹھائی اور کھانا تقسیم کرنے، پوسٹر لگانے پر پابندی لگا دی گئی.اس قانون کو سختی سے نافذ کیا گیا اور کئی احمدیوں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں.احمدیت کی اس نئی صدی کے پہلے سال (23 مارچ 89 تا 23 مارچ 90ء) ایک لاکھ بیعتیں ہوئیں 23 مارچ: دیوگھر صوبہ بہار (انڈیا) میں جماعت کا قیام عمل میں آیا
854 24 مارچ: حضور نے احمدیت کی دوسری صدی کا پہلا خطبہ جمعہ اسلام آباد (ملفورڈ.یوکے) میں ارشاد فرمایا جو ماریشس اور جرمنی میں بھی بذریعہ ٹیلی فون سنا گیا.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا.حضور نے خطبہ میں اپنی رؤیا کے حوالہ سے بتایا کہ نئی صدی کے آغاز پر خدا تعالیٰ نے مجھے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کا تحفہ دیا ہے 29 مارچ تا یکم اپریل: حضور کا دورہ آئر لینڈ.یہ جماعت کی دوسری صدی کا پہلا سفر تھا.29 مارچ کو حضور نے پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا 30 مارچ : گالوے (Galway) میں دو اخباری نمائندوں نے حضور کا انٹرو یولیا 31 مارچ: حضور نے آئر لینڈ مشن ہاؤس میں خطبہ جمعہ کے ساتھ اس کا باقاعدہ افتتاح فرمایا.اسی روز شام کو حضور کے اعزاز میں ایک خصوصی عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں کئی غیر از جماعت معززین نے شرکت کی.مارچ : بارٹلے پول (برطانیہ) میں انگریز احمدیوں کے لئے پہلے ریجنل فورم کا انعقاد ہوا.55 رانگریزوں نے شرکت کی 2 اپریل : حضور L.B.C ریڈیو کے سٹوڈیو میں تشریف لے گئے اور ایک یہودی اور عیسائی لیڈر کے ساتھ Live گفتگو میں شرکت فرمائی 18اپریل: روزنامہ الفضل، خالد تشخیذ الاذہان اور مصباح کے ایڈیٹرز، پرنٹرز اور پبلشرز پر مقدمات قائم کئے گئے 10 اپریل: چک 563 گ ب ضلع فیصل آباد میں احمد یہ مسجد، لائبریری اور دو دکانیں نذر آتش کردی گئیں 12 اپریل: نکانہ صاحب ضلع شیخو پورہ میں 17 احمدی گھروں پر حملے ہوئے.6 رگھر مکمل جلا دئیے گئے.5 احمدی زخمی ہوئے.احمد یہ مسجد منہدم کر دی گئی 15 اپریل: نواب شاہ میں احمدیہ مسجد کو آگ لگادی گئی
855 123 اپریل: جاپان میں یوم تبلیغ منایا گیا.5500 اشتہارات کی تقسیم 10 تا 24 مئی: حضور کا دورہ یورپ 12 تا 14 مئی: جلسہ سالانہ جرمنی کا انعقاد.19 ممالک سے 9 ہزار مردوزن نے شرکت کی.حضور نے افتتاحی اور اختتامی خطاب فرمایا.جرمنی میں سو مساجد کے قیام کی تحریک فرمائی 12 تا 14 مئی: سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ آل اڑیسہ کے لئے حضور نے اپنا پیغام بھجوایا 14 مئی: سکرنڈ میں ڈاکٹر منور احمد صاحب کی شہادت 15 مئی: حضور نے جرمنی میں جشن تشکر کے سلسلہ میں کھیلیں ملاحظہ فرمائیں اور انعامات تقسیم فرمائے 17 مئی: حضور کے اعزاز میں زیورک سٹی کونسل کی طرف سے استقبالیہ دیا گیا.دوپہر کو حضور نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا.شام کو یورک یونیورسٹی میں لیکچر دیا 17 مئی : چک 46 شمالی سرگودھا کی احمد یہ مسجد سے پولیس نے کلمہ مٹادیا 18 مئی: حضور زیورک سے برلن تشریف لے گئے.اس کے بعد جنیوا میں صدسالہ ڈنر کی تقریب میں شرکت کی اور مجلس عرفان منعقد کی 20 مئی: حضور نے زیورک میں کونسل آف چرچز کی طرف سے دیئے گئے عصرانہ میں شرکت فرمائی 21 مئی: حضور نے فرانس میں نمائشی بال کا افتتاح فرمایا اور احباب سے خطاب فرمایا 27 29 مئی برطانیہ کی دسویں مجلس شوری.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا.43 جماعتوں کے 114 / نمائندوں کی شرکت 28 مئی کیرالہ (بھارت) میں احمدیوں اور مخالفین کے مابین اجتماعی طور پر مباہلہ کی دعا کی گئی.دونوں طرف سے مردوں، خواتین اور بچوں نے شرکت کی 2 جون : سیرالیون کی مفلوک الحالی دور ہونے کے لئے خصوصی دعاؤں کی تحریک.پاکستانی بھائیوں کو دشمنوں کے شر اور شرارت سے محفوظ رہنے کے لئے دعاؤں کی تحریک 4 جون : خوشاب میں ایک احمدی کو دکان پر کلمہ لکھنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا
856 8 جون: جماعت کے صد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ میں حکومت سیرالیون نے یادگاری ٹکٹ جاری کیا 12 جون : دار الذکر لاہور میں پولیس نے کلمہ طیبہ پر کٹڑی کے تختے لگادئیے 14 جون: حضور کینیڈا کے دورہ پر تشریف لے گئے 15 جون : چونڈہ (سیالکوٹ) میں ایک احمدی کے مکان سے کلمہ مٹایا گیا 16 جون : حضور کی کتاب Murder in the Name of Allah کی تقریب رونمائی کینیڈا میں ہوئی جس میں وفاقی وزراء نے بھی شرکت کی.حضور نے اس تقریب میں اسلام اور امن عالم کے موضوع پر خطاب فرمایا ای روز حضور نے صد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ میں ایک عشائیہ سے خطاب فرمایا 17 تا 18 جون : جلسہ سالانہ کینیڈا پر حضور نے افتتاحی اور اختتامی خطاب کے علاوہ لجنہ سے بھی خطاب فرمایا.حاضری 2000 را فراد 21 جون : سرگودھا کے ایک احمدی کو قرآنی آیات لکھنے پر دو سال قید کی سزا ہوئی 23 جون : مردان میں چار احمدیوں کو گرفتار کیا گیا 23 تا 25 جون: جلسہ سالانہ امریکہ منعقد ہوا.حضور نے افتتاحی اور اختتامی خطاب فرمایا 24 جون کو لجنہ سے خطاب فرمایا 30 جون : حضور نے سان فرانسسکو (امریکہ) میں احمد یہ مشن کا افتتاح فرمایا احمد پیشن 3 تا 6 جولائی: حضور کا دورہ گوئٹے مالا کسی بھی خلیفہ اسیح کا اس خطے کا یہ پہلا دورہ تھا 3 جولائی: حضور نے گوئٹے مالا کی پہلی مسجد بیت الاول کا افتتاح فرمایا.اس کے اور مشن ہاؤس کی تعمیر کے تمام اخراجات چوہدری محمد الیاس صاحب آف کینیڈا نے اسیران ساہیوال کی طرف سے ادا کئے.اس کے بعد حضور نے پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اسی روز شام کو حضور کے اعزازہ میں ایک خصوصی ڈنر کا اہتمام کیا گیا جس میں کئی معزز شخصیات نے شرکت کی 4 جولائی: حضور انٹنگو ا ( Antigua) تشریف لے گئے اور شام کو صدر مملکت سے ملاقات کی.اسی
857 روز بیت الشافی کلینک کا سنگ بنیا د رکھا جس کی تقریب میں وزیر صحت گوئٹے مالا نے بھی شمولیت کی 5 جولائی : گوئٹے مالا کے وزیر صحت اور وزیر خارجہ نے حضور سے ملاقات کی 6 جولائی گوئٹے مالا میں پریس کانفرنس سے حضور نے خطاب کیا جس کے بعد لاس اینجلس (امریکہ) تشریف لے گئے.حضور کی واپسی سے قبل گوئٹے مالا پولیس کی طرف سے حضور کی سیکیورٹی پر مامور چیف نے بیعت کی 7 جولائی : لاس اینجلس (امریکہ) کی مسجد بیت الحمید کا افتتاح فرمایا.نیز واشنگٹن کی مسجد احمدیہ کی تعمیر میں حصہ لینے کی تحریک فرماتی 11 جولائی: حضور فجی کے دورہ پر ناندی پہنچے.اسی روز وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی.شام کو صد سالہ جوبلی کے حوالہ سے منعقدہ تقریب میں شمولیت فرمائی جس میں مختلف مذہبی و غیر مذہبی جماعتوں کے افراد شامل ہوئے 12 جولائی: حضور نے مجلس شوری فجی کی صدارت فرمائی.صودا کے میئر کی طرف سے حضور کے اعزاز میں استقبالیہ دعوت میں شمولیت.نیز پر یس کا نفرنس سے خطاب.رات کو استقبالیہ تقریب سے خطاب فرمایا جس میں ملک کے چیف جسٹس، وزرائے مملکت مختلف ممالک کے سفراء اور متعدد اہم سیاسی و سماجی رہنما شامل ہوئے 12 جولائی: چک 37 جنوبی ضلع سرگودھا میں مسجد پر کلمہ لکھنے کے جرم میں تین احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا 13 جولائی: حضور نے لٹوکا (نجی) میں احمدیہ پرائمری سکول کے اساتذہ و طلباء سے ملاقات اور احباب سے خطاب.لٹوکا کے میئر کی طرف سے استقبالیہ تقریب میں شرکت.اسی شام ناندی میں منعقدہ تقریب میں امن کے موضوع پر خطاب.بعد ازاں حاضرین کے ساتھ مجلس سوال وجواب 14 جولائی: حضور نے آسٹریلیا کی پہلی مسجد بیت الہدی کا افتتاح فرمایا 15 جولائی: فیرو آئی لینڈ ز میں پہلی مرتبہ احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا
858 16 جولائی : چک سکندر (ضلع گجرات) میں احمدیوں پر شدید مظالم.تین احمدیوں کی شہادت.احمدیوں کے 100 کے قریب گھر جلا دئیے گئے.13 احمدی گرفتار کئے گئے 25 جولائی : کھاریاں میں احمدیہ مسجد اور امیر جماعت کے گھر سے کلمہ مٹایا گیا 26 جولائی : چک 164 جنوبی ضلع سرگودھا میں پانچ احدیوں کی گرفتاری ہوئی 2 اگست : ڈاکٹر عبدالقدیر جدران صاحب ضلع نواب شاہ کی شہادت 3 اگست خلیج کے بحران اور عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لئے خصوصی دعاؤں کی تحریک 11 تا 13 اگست: جلسہ سالانہ برطانیہ.اس جوہلی جلسہ میں شرکت کے لئے کئی حکومتوں نے نمائندے بھجوائے.120 ممالک کے پرچم لہرائے گئے.64 ممالک سے 14 ہزار احباب تشریف لائے.6 رزبانوں میں کارروائی کا ترجمہ ہوا.حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا.حضور نے خطابات فرمائے.دوسرے دن کی تقریر میں حضور نے بتایا کہ گزشتہ سالوں میں 1308 رنئی جماعتیں قائم ہوئیں.211 مساجد خدا کے حضور پیش کرنے کی توفیق ملی.201 ربنی بنائی مساجد میں.1984 تا1989ء پاکستان میں احمدیوں پر مقدمات کی تفصیل مسلمان ظاہر کرنے پر 151 کلمہ کا بیج لگانے پر کلمہ لکھنے کے جرم میں 364 اذان اور نماز کے جرم میں تقسیم لٹریچر 226 مباہلہ کا پمفلٹ تقسیم کرنے پر السلام علیکم کہنے پر 48 599 178 170 ان 5 رسالوں میں 118 / مساجد سے کلمہ مٹایا گیا.19 مساجد سر بمہر کر دی گئیں.9 مساجد گرائی گئیں.18 / مساجد کو آگ لگائی گئی.25 احمدی شہید ہوئے.19 / احمدیوں کی قبریں اکھیڑی گئیں 12 /اگست کو افریقہ اور ہندوستان کے لئے پانچ کروڑ روپے کی مالی تحریک.پاکستان کے حالات جلد تر تبدیل ہونے کے لئے دعا کی تریک
859 اختتامی خطاب میں حضور نے اپنے دوروں کی تفصیل بیان فرمائی 14 تا 15 اگست: جلسہ سالانہ برطانیہ کے اگلے روز انٹر نیشنل مجلس شوریٰ منعقد ہوئی جس میں 64 ممالک کے 284 رنمائندے شریک ہوئے 127 اگست: مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے تحت پہلاسر ظفر اللہ ٹیبل ٹینس اور فضل عمر والی بال ٹورنامنٹ کا انعقاد 15 تا 17 ستمبر : اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی - 3300 /خدام، 200 راطفال کی شرکت.حضور کے خطابات 16 ستمبر : بورے والا ضلع وہاڑی کے دو احمدیوں کے گھر سے کلمہ مٹایا گیا 18 ستمبر : حضور جرمنی سے ڈنمارک کے دورہ کے لئے روانہ ہوئے 19 ستمبر : حضور نے مجلس عاملہ ڈنمارک کا انتخاب کروایا.انتخاب سے قبل حضور نے احباب جماعت سے خطاب فرمایا اسی روز حضور نے پریس کانفرنس سے بھی خطاب فرمایا اور ایک ریڈیو چینل کے علاوہ نیشنل ٹی وی کے لئے ایک گھنٹہ کا انٹرویو دیا.شام کو کوپن ہیگن یونیورسٹی میں Islam and Tolrance کے موضوع پر خطاب فرمایا 20 ستمبر : حضور نے انٹر نیشنل پیپلز کالج ( ڈنمارک) میں خطاب فرمایا جہاں 21 رممالک کے طلباء و اساتذہ موجود تھے.اسی روز شام کو جماعت ڈنمارک کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایک ہوٹل میں استقبالیہ دیا گیا جس میں کئی معزز مہمانوں نے شرکت کی 22 ستمبر : ناروے میں خطبہ جمعہ میں صد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ میں مختلف ممالک کے دورہ کے نتیجہ میں جماعت کے اندر پیدا ہونے والی بیداری اور احمدیت کے حق میں خدا تعالیٰ کی طرف چلنے والی تائیدی ہواؤں کا تفصیل سے ذکر فرمایا.اسی طرح یورپین اور مغربی ممالک میں بالعموم اور سکنڈے نیوین ممالک میں بالخصوص اسلام احمدیت کی مؤثر اور نتیجہ خیر تبلیغ کے لئے گرانقدر ہدایات
860 ارشاد فرمائیں 24 ستمبر : احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن کا احیاء ہوا.ڈاکٹر سعود الحسن نوری صاحب کو صدر مقرر کیا گیا 28 ستمبر : ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب کو نواب شاہ میں شہید کر دیا گیا 16اکتوبر : منڈی بہاؤالدین میں قبر کے کتبہ پر کلمہ لکھنے کے جرم میں دو احمد یوں کی گرفتاری 13 تا 15 اکتوبر لجنہ اماءاللہ بھارت کا سالانہ اجتماع قادیان میں منعقد ہوا.اس موقع پر حضور کا روح پرور پیغام پڑھ کر سنایا گیا 18 اکتوبر: صد سالہ جوبلی کی تقریبات کے سلسلہ میں بریڈ فورڈ جماعت کے زیر انتظام Bankfield Hotel میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد ہوا جس میں علاقہ کے معززین کو حضور کے ساتھ سوال و جواب کی مجلس کے لئے مدعو کیا گیا جس کی لوکل میڈیا میں بھی کثرت سے تشہیر ہوئی 119 اکتوبر : کھاریاں کی پرانی مسجد سیل (seal) کردی گئی 21 تا 22 اکتوبر: ممبئی (انڈیا) میں صد سالہ جشن تشکر کا نفرنس منعقد ہوئی.کثرت سے میڈیا میں اس کی تشہیر ہوئی.اس موقع پر حضور کا خصوصی پیغام بھی سنایا گیا.اس کے ساتھ ہی احمد یہ مشن ہاؤس میں ایک مستقل نمائش کا افتتاح صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے کیا 125اکتوبر : مفتی سلسلہ حضرت ملک سیف الرحمان صاحب کا کینیڈا میں انتقال ہوا.ان کی تدفین ربوہ میں ہوئی یکم نومبر : پولیس نے ربوہ کے دو مقامات سے کلمہ مٹایا 3 نومبر : حضور نے ذیلی تنظیموں کے نظام میں تبدیلی کرتے ہوئے ہر ملک میں صدارت کے قیام کا اعلان فرمایا 6 نومبر : مخالفین نے چک سکندر (پاکستان) کے بے گھر احمدیوں کا سامان نیلام کر دیا 10 نومبر : مشرقی برلن اور مغربی برلن کو جدا کرنے والی دیوار برلن گرادی گئی.اس طرح Friday the 10th کی پیشگوئی ایک بار پھر پوری ہوئی
861 16 نومبر : کوٹ نواب شاہ ضلع منڈی بہاؤالدین کی مسجد سے کلمہ کی تختی استار دی گئی 20 نومبر: خوشاب کے ایک احمدی کو شادی کارڈ پر بسم اللہ لکھنے کے جرم میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی 20 نومبر : چک سکندر ضلع گجرات کے احمدی مردوزن کو معاندین احمدیت کی طرف سے الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ اپنے عقائد سے توبہ کرلیں ورنہ قتل کر دیا جائے گا 24 نومبر: بہاولپور کے 8 راحمدیوں کی فری میڈیکل کیمپ لگانے پر گرفتاری اور مقدمہ درج کر لیا گیا 24 نومبر : حضور نے پانچ بنیادی اخلاق اپنانے کی تحریک فرمائی.سچائی، نرم زبان، وسعت حوصلہ، ہمدردی خلق اور عزم و ہمت یکم دسمبر: واقفین کو کو کم از کم تین زبانیں ( مقامی زبان، اردو اور عربی ) سکھانے کی تحریک 15 دسمبر : تمام احمدی اہالیان ربوہ کے خلاف 298C کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا 2018 دسمبر: جلسہ سالانہ قادیان منعقد ہوا اور حضور کا اس جلسہ کے لئے خصوصی پیغام سنایا گیا جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر تقسیم ملک کے بعد پہلی مرتبہ مجلس شوری کا انعقاد مسجد اقصی قادیان میں ہوا جس کی صدارت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلی و امیر مقامی قادیان نے کی $1990 8 تا 10 جنوری کوڈ یا تھور کیرلہ میں (28 رمئی 1989 ء کو) ہونے والے مباہلہ کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ پر ہونے والی بیشمار برکات اور مخالفین پر وارد ہونے والی لعنتوں کے نشانات کی ترویج کی غرض سے جلسہ عام منعقد کیا گیا 14 جنوری: کیرالہ کے تین اضلاع کی صد سالہ جشن تشکر کا نفرنس منعقد ہوئی.اس موقع پر حضور کا پیغام موصول ہوا جس میں کیرلہ کی جماعتوں کو مساجد کی تعمیر کی طرف توجہ دلائی گئی 17 جنوری: قاضی بشیر احمد صاحب کھوکھر کی شیخو پورہ میں شہادت 26 جنوری: میلا پالم تامل ناڈو ( انڈیا ) میں احمد یہ دار التبلیغ کا افتتاح کیا گیا 27 تا 28 جنوری: مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی مجلس شوری منعقد ہوئی
862 22 فروری کو ڈنگلور (Kodangallur) (انڈیا) میں جماعت کا قیام.یہ وہ تاریخی مقام ہے جہاں حضرت مسیح ناصری کے مشہور حواری تھوما آئے اور پہلی صدی ہجری میں صحابی رسول مالک بن دینار نے پہلی مسجد تعمیر کی 23 فروری: ملتان کے ایک احمدی انجینئر کو نماز پڑھنے اور کلمہ کا بیج لگانے پر ایک سال قید کی سزا ہوئی 24 فروری : حضور نے کوئین الزبتھ ثانی سنٹر لندن میں لیکچر دیا جو بعد میں Islam's Response to Contemporary Issues کے نام سے انگریزی میں شائع ہوا.(اس کے اردو، عربی اور دیگر کئی زبانوں میں تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں ) مارچ میں بورکینا فاسو میں جلسہ سالانہ کا آغاز ہوا 3 تا 8 مارچ: حضور کا دورہ پرتگال 5 مارچ: حضور نے پر لگال میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا 8 مارچ: حضور نے پرتگال میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا 9 مارچ: پر نگال کی سرزمین پر خطبہ جمعہ میں دورہ کی بعض تفصیلات کا تذکرہ 10 مارچ : حضور نے سپین میں پریس کا نفرنس سے خطاب فرمایا اور سپینش حاضرین کے ساتھ مجلس سوال وجواب ہوئی.رات کو قرطبہ میں جماعت کے استقبالیہ میں شرکت فرمائی 11 مارچ: قرطبہ کی پولیس کے آئی جی اور گورنر نے حضور سے ملاقات کی 12 مارچ: حضور نے اشبیلیہ یونیورسٹی میں بعنوان دین کی بنیادی تعلیمات کا فلسفہ خطاب فرمایا جو بعد میں An Elementary Study of Islam کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا 16 مارچ: سپین میں خاطبہ (xativa) کے مقام پر خطبہ جمعہ مین سپین کے حالات کا تجزیہ اور کامیاب تبلیغ کے لئے زریں ہدایات 23 تا 25 مارچ: شوری پر پُر معارف ہدایات میں حضور نے تحریک فرمائی کہ غرباء کی شادیوں پر خرچ کریں اور اسراف نہ کریں
863 3 اپریل: تلونڈی موسیٰ خان ضلع گوجرانولہ میں 11 احمدیوں کو 2,2 سال قید بامشقت اور 5,5 ہزار روپے جرمانہ کی سزاسنائی گئی 129 اپریل: شیوا کاشی صوبہ تامل ناڈو (انڈیا) میں مسجد احمدیہ کے لئے تنصیب سنگ بنیاد کی تقریب عمل میں آئی 30 جون : مبشر احمد صاحب تیما پور، کرناٹک ( بھارت) کی شہادت 30 جون : حضور نے کینیڈا کے چوتھے دورہ کا آغاز فرمایا جون: ایران میں زلزلہ سے پھیلنے والی تباہی اور ہندوستان کے مصیبت زدگان کے لئے امدادی رقوم بھجوانے کی تحریک 5 تا 7 جولائی : کینیڈا کا پندرھواں جلسہ سالانہ اور حضور کے خطابات 27تا29 جولائی: برطانیہ کا پچیسواں جلسہ سالانہ.47 / ممالک سے 8 رہزار افراد کی شرکت افتتاحی خطاب میں حضور نے احمدیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کا تفصیل سے ذکر فرمایا دوسرے دن کے خطاب میں فرمایا کہ اب تک 125 ممالک میں احمدیت قائم ہو چکی ہے.سال رواں میں 248 رنئی مساجد تعمیر ہوئیں.41 زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے شائع ہو چکے ہیں.اختتامی خطاب میں حضور نے دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں خصوصا روس کے حالات پر روشنی ڈالی 3 اگست: عراق پر امریکی حملہ کے تناظر میں حضور نے خصوصی دعاؤں کی تحریک فرمائی اور خطبات کا ایک سلسلہ جاری فرمایا جو 15 مارچ 91 ء تک جاری رہا.یہ سلسلہ بعد میں خلیج کا بحران اور نظام جہان نو“ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوا.(اس کے انگریزی اور عربی میں تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں) 20 را گست: حکومت پاکستان کی طرف سے ضیاء الاسلام پریس ربوہ اور روز نامہ الفضل پر بندش عائد کی گئی 7 9 ستمبر : مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا 11 واں سالانہ اجتماع.حضور نے اس اجتماع میں شرکت فرمائی
864 19 ستمبر : صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود کی وفات ہوئی 21 تا 23 ستمبر : مجلس انصارالله یو کے کا اجتماع حضور نے خطاب فرمایا 25 تا 27 ستمبر : مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی پہلی سپورٹس ریلی منعقد ہوئی ستمبر : مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سہ ماہی رسالہ نور الدین کا اجراء 6 تا 7 اکتوبر : مجلس خدام الاحمدیہ زائرے کا پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا 19 تا 21 اکتوبر لجنہ اماءاللہ بھارت کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا.اس اجتماع کے لئے حضور نے اپنا پیغام بھجوایا یکم نومبر: پولینڈ مشن کا احیاء حامد کریم محمود صاحب مربی سلسلہ کے ذریعہ ہوا.یہ مشن 1935ء میں جاری ہوا تھا 1119 نومبر: مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ پاکستان کے اجتماعات شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل دفعہ 144 نافذ کر کے اجازت نامے منسوخ کر دیے گئے جب کہ ہزاروں افرادر بوہ پہنچ چکے تھے 16 نومبر : نصیر احمد علوی صاحب کی دوڑ ( نواب شاہ ) میں شہادت 30 نومبر : حضور نے عبادت میں لذت پیدا کرنے کے لئے سورۃ فاتحہ کی روشنی میں خطبات کا سلسلہ شروع کیا جو 2 راگست 91 ء تک جاری رہا.بعد میں یہ خطبات ذوق عبادت اور آداب دعا کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے 26 تا 28 دسمبر : جلسہ سالانہ قادیان منعقد ہوا.اس پر حضور نے اپنے خصوصی پیغام میں صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان 1991ء میں بنفس نفیس شریک ہونے کے لئے احباب جماعت کو دعا کی تحریک فرمائی 28 دسمبر : قادیان میں بیوت الحمد کالونی کا سنگ بنیا درکھا گیا $1991 4 جنوری: وقف جدید میں شامل ہونے والوں کی تعداد اور معلمین کی تعداد بڑھانے کی تحریک 11 جنوری خلیج کے بحران کے سلسلہ میں خصوصی دعاؤں کی تحریک
865 18 جنوری: افریقہ کے فاقہ زدہ ممالک کے لئے امداد کی تحریک.امن عالم کے قیام اور مسلمانوں کے مصائب کے دور ہونے اور سچ کی فتح کے لئے دعاؤں کی تحریک جنوری: کفالت یتامی کی تحریک.کفالت یکصد یتامی کمیٹی کا قیام یکم مارچ : کامیابی کے حصول کے لئے لا مذہب سیاست چھوڑ کر دینی سیاست کے اصول اپنانے کی تحریک یکم مارچ : غیر ملکوں پر انحصار ختم کرنے ، علوم وفنون میں ترقی کرنے اور نیتوں کو صاف کر کے انسانیت کو زندہ کرنے کی تحریک 13 اپریل: مسجد بیت الشکور ( گراس گیراؤ.ناصر باغ ) جرمنی کا سنگ بنیادرکھا 126 اپریل: لائبیریا کے مہاجرین کے لئے امداد کی تحریک 10 تا 12 مئی : 12 واں سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی، حضور کے خطابات، حاضری 4500 تھی 10 مئی: دفتر خدام الاحمدیہ ( پاکستان ) ایوان خدمت کے لئے مالی تحریک 10 مئی: عثمان آباد ( انڈیا ) میں تعمیر ہونے والی مسجد کا افتتاح صاحبزادہ مرزا اوسیم احمد صاحب نے کیا 21 مئی: ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ نے ٹاؤن کمیٹی ربوہ کی حدود میں احمدیوں کے ہر قسم کے اجتماعات پر دو ماہ کے لئے پابندی لگادی 25 مئی: قادیان میں پہلی مرتبہ روٹی مشین نصیب کی گئی 29 مئی ضلع نلگنڈہ (انڈیا) میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا 31 مئی : جماعتوں کو خطبات خلیفہ اسیح کی آواز میں سنانے کے لئے زبردست تحریک متی و جون: حضور نے سرینام، گیانا اور ٹرینیڈاڈ کا دورہ فرمایا.یہ کسی بھی خلیفتہ اسیح کا ان ممالک کا پہلا دورہ تھا 31 مئی: حضور کی سرینام کے صدر مملکت اور وزیر داخلہ سے ملاقات ہوئی
866 2 جون : حضور نے ریڈیورا پار پر 40 منٹ کا خطاب فرمایا جولائیو نشر ہوا 3 جون : مقامی ٹی وی چینل STVS پر آدھے گھنٹے کے لئے حضور نے جماعت احمد یہ مبایعین اور غیر مبایعین میں فرق تفصیل سے بیان فرمایا اسی روز سر بینام کی بین المذاہب کونسل کی طرف سے منعقدہ تقریب میں مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق کے بارہ میں اسلامی تعلیم کے موضوع پر خطاب فرمایا.بعد ازاں مجلس سوال و جواب ہوئی.بعد میں یہ خطاب Relationship between Religion and Politics in islam کے عنوان سے شائع ہوا 8 جون: قادیان میں احمد یہ شفاخانہ کی از سر نوتشکیل.افتتاح صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے کیا 9 جون: ٹرینیڈاڈ کے ایک روزہ جلسہ سالانہ سے حضور نے خطاب فرمایا 10 جون : صدر مملکت ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو نے حضور سے ملاقات کی 11 جون : حضور نے ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو میں استقبالیہ تقریب سے خطاب فرمایا جس میں کئی حکومتی عہدیدار، وزراء اور مختلف ممالک سے سفارت کار بھی شامل ہوئے 12 تا 16 جون: حضور کا گوئٹے مالا کا دوسرا دورہ 13 جون : حضور نے مسکو ( Mixco) شہر کے میئر کے علاوہ صدر اور نائب صدر مملکت سے ملاقات کی.اسی روز احمد یہ کلینک بیت الشافی کا افتتاح فرمایا.شام کو حضور نے ایک اعزازی عشائیہ میں شرکت فرمائی جس میں سر کردہ اہم شخصیات کے علاوہ پریس کے نمائندگان بھی شامل ہوئے 15 جون : مجلس عاملہ گوئٹے مالا سے حضور نے میٹنگ منعقد کی جس میں دیگر ممالک سے آنے والے عہدیداران نے بھی شرکت کی 16 جون : حضور نے گوئٹے مالئن قدیم انڈین باشندوں کے چیفس کے ایک گروپ سے ملاقات کی اور مختصر خطاب فرمایا جس کے بعد آپ میکسیکو تشریف لے گئے 28 تا 30 جون : جلسہ سالانہ امریکہ پر حضور کے خطابات
867 30 جون تا 9 جولائی: حضور کا دورہ کینیڈا.جلسہ سالانہ کینیڈا سے خطابات جون: طوالو میں جماعت کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی 5 جولائی: فرانس میں مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا 12 جولائی : حضور نے خطبہ جمعہ میں یہ نظریہ پیش فرمایا کہ فرعون سمندر میں ڈوب کر مرا نہیں تھا.بعد میں روحانیت سے عاری لاش نما زندگی گزاری 26 - 28 جولائی: جلسہ سالانہ برطانیہ.8 ہزار سے زائد حاضری.دوسرے دن کے خطاب میں حضور نے فرمایا کہ 126 ممالک میں جماعت قائم ہو چکی ہے.اس سال 86 / مساجد تعمیر ہوئیں.76 بنی بنائی مساجد میں 35 ممالک میں 85 اخبارات ورسائل 17 مرزبانوں میں شائع ہو رہے تھے.تراجم قرآن کریم کی تعداد 44 ہو چکی.3 ممالک کے پریسوں نے کام شروع کر دیا اختتامی خطاب میں حضور نے افراد جماعت پر ہونے والے انعامات اور دشمنوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے واقعات بیان فرمائے.دعا سے قبل اسیران راہ مولی کے متعلق حضور کی تازہ نظم مجو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے“ پڑھی گئی 11 ستمبر : حضور نے ڈنمارک کا مختصر ایک روزہ دورہ کیا جس میں پریس کا نفرنس منعقد کرنے کے علاوہ احباب جماعت سے ملاقات کی 16 تا 17 اکتوبر : مجلس انصار اللہ بھارت کے سالانہ اجتماع پر حضور کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا 18 تا 20 اکتوبر : مجلس خدام الاحمدیہ ولجنہ اماءاللہ بھارت کے سالانہ اجتماعات پر حضور کے روح پرور پیغامات سنائے گئے 18 اکتوبر : حضور نے روس میں دعوت الی اللہ کے لئے وقف عارضی کرنے کی تحریک فرمانی 125 اکتوبر : حضور نے اس دعا کی تحریک کی کہ میری زندگی میں ایک کروڑ افراد احمدی ہو جائیں 13 دسمبر: ہر ملک میں ایک مرکز دعوت الی اللہ کے قیام کی تحریک جس میں تمام ضروری لٹریچر اور لائبریری موجود ہو
868 15 دسمبر: صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت فرمانے کے لئے حضور لندن سے انڈیا کے لئے روانہ ہوتے 16 دسمبر : حضور دہلی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہنچے جہاں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلی قادیان اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ ربوہ نے دیگر احباب کے ساتھ حضور کا استقبال کیا 17 دسمبر : حضور نے دہلی کے تاریخی مقامات کی سیر فرمائی جن میں سکندرہ، فتح پور سیکری اور آگرہ شامل تھے.نیز شہنشاہ اکبر اور مغلیہ خاندان کی قبروں پر حضور نے دعا کی.حضرت سلیم الدین کے مزار بر حضور نے دعا کی 18 دسمبر : حضور نے تغلق آباد کا قلعہ، قطب مینار کی سیر کی اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی کے مزار پر دعا کی.امام ضامن کی قبر پر بھی حضور نے دعا کی 19 دسمبر : حضور دہلی سے امرتسر کے لئے بذریعہ ٹرین شان پنجاب روانہ ہوئے.امرتسر سے حضور شام 4 بجے میلہ ٹرین پر قادیان کے لئے روانہ ہوئے.شام 7 بجے حضور قادیان پہنچے 20 دسمبر 44 سال بعد مسجد اقصی قادیان میں خلیفہ مسیح نے خطبہ جمعہ دیا 21 دسمبر: قادیان میں حضور کے اعزاز میں درویشان قادیان ، ہر سہ انجمنوں، ذیلی تنظیموں اور احباب جماعت کی طرف سے استقبالیہ دیا گیا 22 دسمبر : حضور نے جلسہ سالانہ قادیان کے انتظامات کا معائنہ فرمایا 26 تا 28 دسمبر سووال ( 100 ) جلسہ سالانہ قادیان.حضور نے افتتاح فرمایا.جلسہ کی کل حاضری 22 رہزار 29 دسمبر : مجلس شوریٰ بھارت منعقد ہوئی جس کی صدارت حضور نے فرمائی.اس میں ہندوستان کی 97 جماعتوں کے نمائندگان نے شرکت کی 30 دسمبر : پاکستان سے آئے ہوئے ناظران اور وکلاء کے ساتھ حضور ” کی ملاقات ہوئی.شام کو حضور کی طرف سے غیر ملکی مہمانوں کے لئے استقبالیہ دیا گیا
869 31 دسمبر: پاکستان سے آئے ہوئے مبلغین، جامعہ احمدیہ کے اساتذہ اور طلباء نیز من وقف جدید نے حضور سے ملاقات کی معلمين اسی سال حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی سوانح مصنفہ آئن ایڈم سن "A Man of God" کی اشاعت ہوئی اسی سال پولینڈ جماعت کو پہلی بار انٹرنیشنل بک فیئر میں حصہ لینے کا موقع ملا *1992 یکم جنوری: جلسہ سالانہ قادیان کے تمام کارکنان کو حضور نے شرف ملاقات بخشا.شام کو حضور نے ہندوستان کے تمام مبلغین معلمین اور مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ اور طلباء کو شرف ملاقات بخشا 3 جنوری: کشمیر اور پاکستان کے لئے خصوصی دعاؤں کی تحریک 4 جنوری: قادیان سے دہلی کے لئے روانگی ہوئی 6 جنوری: حضور نے سنڈے ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو دیا 7 جنوری: حضور نے بعض جماعتی عہد یدار ان کے ساتھ میٹنگ کی.اس کے بعد انڈین ایکسپریس کے نمائندہ نے حضور کا انٹرویولیا 10 جنوری: حضور بذریعہ جہاز دہلی سے قادیان کے لئے روانہ ہوئے جہاں آپ نے جمعہ پڑھایا 13 جنوری: مرکزی عہدیداران سے میٹنگز کے علاوہ حضور نے درویشان قادیان کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں ایک یاد گار گروپ فوٹو بنوائی 13 جنوری : اسیران راه مولی سکھر مکرم قریشی ناصر احمد صاحب اور مکرم قریشی رفیع احد صاحب ( دونوں بھائی ) سات سال کی اسیری کے بعد باعزت بری ہوئے 14 جنوری: حضور قادیان سے بذریعہ امرتسر دہلی کے لئے روانہ ہوئے.امرتسر میں حضور نے اخبار جیت کے نمائندہ کو انٹرویو دیا 16 جنوری: دہلی سے لندن کے لئے روانگی ہوئی
870 17 جنوری: تمام دنیا کے صنعت کاروں اور صاحب حیثیت افراد کو قادیان میں صنعتیں لگانے کی تحریک 17 جنوری: قادیان میں جائیدادیں خریدنے کی تحریک 31 جنوری: حضور کا خطبہ جمعہ پہلی دفعہ مواصلاتی سیارہ کے ذریعہ براعظم یورپ میں دیکھا اور سنا گیا مارچ : حضور کے رمضان المبارک کے درس القرآن بذریعہ سیلا مٹ نشر کئے گئے سیٹلائٹ 3 اپریل : حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی 29 رمضان جمعتہ الوداع کو بعمر 54 سال لندن میں وفات ہوئی.4 را پر میل کو حضور نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور احمد یہ قبرستان لندن میں امامعاً تدفین ہوئی.نماز جنازہ یورپ کے بیشتر ممالک میں ٹیلی کاسٹ کی گئی 5 اپریل : عورتوں سے حسن سلوک کرنے کی تحریک 18 اپریل: شادی کارڈ پر بسم اللہ لکھنے کے جرم میں ربوہ کے پانچ احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اپریل تحریک جدید میں وکالت وقف ٹو کا قیام ہوا اپریل: حضور کا خطبہ عید الفطر بذریعہ سیٹلائٹ ایم ٹی اے پر نشر ہوا و مئی: جماعت جرمنی نے اپنی پہلی کسر صلیب کانفرنس کا انعقاد فرینکفورٹ میں کیا 11 تا 12 مئی: پورٹ بلیئر ( انڈیمان) میں جماعت کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی ن مراٹھی، گجراتی اور تامل ترجمہ قرآن کو ایک خصوصی تقریب میں Launch کیا گیا جس میں گورنر مہاراشٹر نے شرکت کی 5 جون بسپین اور روس میں دوبارہ وقف عارضی کرنے کی تحریک جون : حضور کا خطبہ عید الاضحیہ بھی یورپ بھر میں ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست نشر ہوا 15 جولائی: مضافات قادیان میں مسجد احمد یہ بھام کی تعمیر نو کا سنگ بنیا در کھا گیا 17 جولائی کو گدلی (انڈیا) میں مسجد کی تعمیر کے لئے سنگ بنیادر رکھنے کی تقریب عمل میں آئی 31 جولائی تا 2 اگست: ستائیسواں جلسہ سالانہ برطانیہ حضور نے دوسرے دن کے خطاب میں فرمایا کہ جماعت 130 ممالک میں قائم ہو چکی
871 ہے.4 نے ممالک ہیں.ان میں بحر الکاہل کے دو جزائر نیز لیتھوانیا اور بیلورشی شامل ہیں.اس سال 307 رنئی مساجد تعمیر ہوئیں.573 رنئی جگہوں پر جماعت قائم ہوئی.افریقہ کے 18 ممالک میں 157 امرا کز قائم ہیں جب کہ پوری دنیا میں 712 با ضابطہ مراکز کام کر رہے ہیں.احمدیوں کے خلاف پاکستان میں 3308 / مقدمات درج کئے جاچکے ہیں اختتامی خطاب میں حضور نے تحریک پاکستان میں جماعت کی خدمات کا ذکر کیا اور ملکی حالات بہتر بنانے کے لئے فوج اور سیاستدانوں کو مشورے دیے یہ جلسہ پہلی بار مواصلاتی سیارے کے ذریعہ پاکستان سمیت متعدد ممالک میں دیکھا گیا.اس جلسہ سے ایم ٹی اے کے ذریعہ جلسوں کا اجراء غیر معمولی عظمت اور شان رکھنے والا واقعہ تھا 21 اگست: حضور کے خطبات جمعہ سیٹلائٹ کے ذریعہ چار براعظموں یعنی یورپ، ایشا، افریقہ اور آسٹریلیا میں براہ راست نشر ہونا شروع ہوئے 28 اگست : حضور نے جماعت احمدیہ کے زیر انتظام خدمت خلق کی عالمی تنظیم (Humanity First) قائم کرنے کا اعلان فرمایا.جس کی باقاعدہ بنیاد 1993ء میں رکھی گئی 18 ستمبر : زیورخ ( سوئٹزر لینڈ) کے ایک ہوٹل میں حضور کو ایک استقبالیہ دیا گیا.اسی روز حضور نے ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کا افتتاح فرمایا 21 19 ستمبر : حضور نے مجلس انصار اللہ سوئٹر لینڈ کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب فرمایا 20 ستمبر : حضور نے لجنہ اماء اللہ سوئٹر لینڈ کے اجتماع سے اختتامی خطاب فرمایا.نیر مجلس خدام الاحمدیہ سوئٹزرلینڈ کے اجتماع پر انعامات تقسیم کئے 21 ستمبر : حضور کی خدمت میں جنیوا کے معززین کے ساتھ عشائیہ دیا گیا.اس موقع پر ایک ریڈیو انٹرویو بھی حضور نے دیا 23 ستمبر : ربوہ میں ضعفاء کے لئے ادارہ بیت الکرامہ کا افتتاح ہوا 12اکتوبر : سابق روسی ریاستوں میں خدمت کے لئے مختلف شعبوں کے ماہر احمدیوں کو جانے کی تحریک
872 14 240 اکتوبر : حضور کا دورہ کینیڈا 117 اکتوبر : حضور نے ٹورانٹو (کینیڈا) کی مرکزی مسجد بیت الاسلام‘ کا افتتاح فرمایا.یہ تقریب سیٹلائٹ کے ذریعہ دنیا بھر میں نشر کی گئی 16 تا 18 اکتوبر : قادیان میں مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا جس میں حضور کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا 16 تا18اکتوبر : کینیڈا کا 16 واں جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں حاضری 8 ہزار تھی 122 اکتوبر : جلسہ سالانہ کینیڈا کے کارکنان کے ساتھ حضور کا عشائیہ اور خطاب 130اکتوبر : کینیڈا کے شہر مسی ساگا میں مسجد کے لئے عطیات دینے کی تحریک اکتوبر لجنہ اماء اللہ بھارت کے سالانہ اجتماع پر حضور نے پیغام ارسال فرمایا 6 نومبر: احمدیوں کو بوسنیا میں جاری جہاد میں حصہ لینے کے لئے تیار رہنے کی تحریک 8 نومبر : ہندوستان میں یوم تبلیغ منایا گیا 4 دسمبر : معاندین نے راجشاہی (بنگلہ دیش) کی نو تعمیر شدہ احمدیہ مسجد پر حملہ کیا، مسجد منہدم کر دی اور لوٹ مار کی گئی 11 دسمبر : حضور نے خطبہ جمعہ میں ہندوستان میں موجود مغلیہ دور کی تعمیر شدہ بابری مسجد کی شہادت پر دلی دکھ کا اظہار فرمایا 16 دسمبر : محمد اشرف صاحب آف جلہن ضلع گوجرانوالہ کی شہادت ہوئی 26 تا 28 دسمبر : جلسہ سالانہ قادیان.لندن میں قادیان کے لئے پہلی بار جلسہ کا انعقاد ہوا.اس موقع پر حضور نے افتتاحی اور اختتامی خطابات فرمائے جلسه پیشوایان مذاہب دوباره زور و شور سے منعقد کرنے کی تحریک اسی سال طوالو میں پہلی مسجد اور مربی ہاؤس کی تعمیر ہوئی اسی سال پولینڈ کے دارالحکومت میں مرکز کے لئے جگہ خریدی گئی
873 *1993 یکم جنوری تحریک بہبود انسانیت.1993ء کے سال کو انسانیت کے سال کے طور پر منانے کی تحریک میثاق مدینہ کو دنیا میں رائج کرنے کی تحریک.حکومتوں کے سربراہوں ، دانشوروں اور اہل قلم کو خطوط کے ذریعہ بہبود انسانیت کی طرف متوجہ کرنے کی تحریک 8 جنوری: اپنی اولاد کو امام وقت کے خطبات سے جوڑنے کی تحریک 8 جنوری: برصغیر کے سیاست دانوں کو سیاست کی اصلاح کرنے اور مذہبی اصولوں کو اپنانے کی تحریک 15 جنوری: عالم اسلام کے لئے دعا کی تحریک.اپنے ممالک کے خیالات کی اصلاح کرنے کی تحریک 22 جنوری: تمام احمدیوں کو ظلم کے خلاف حق کی آواز جرآت کے ساتھ بلند کرنے کی تحریک.تمام ممالک کے سربراہوں سے رابطے کر کے ان کو سچائی اور تقویٰ کی راہ پر بلانے کی کوشش کرنے کی تحریک 29 جنوری: بوسنیا کے آفت زدہ لوگوں کی امداد کے لئے جاری فنڈ میں دل کھول کر آگے قدم بڑھانے کی تحریک 19 فروری: بوسنین خاندانوں سے مواخات قائم کرنے کی تحریک 27 فروری: حضور نے مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ (MTA) پر براہ راست درس القرآن کا سلسلہ شروع فرمایا.( درس القرآن کی تکمیل پر حضور کے اردو ترجمۃ القرآن کی اشاعت ہوئی) 2 مارچ: غریب بچیوں کی شادیوں میں حصہ لینے کی تحریک 8 مارچ: پلکھنڈی صوبہ بنگال (انڈیا) میں مسجد کا افتتاح عمل میں آیا 14 مارچ : احمدی نوجوانوں کی ریسرچ ٹیمیں بنانے کی تحریک 26 مارچ : احباب جماعت کر ہر بری عادت کے بدلے ایک اچھی عادت اپنانے کی تحریک مارچ : قدرت کے نظاروں پر مبنی فلموں کے بنانے اور ان کی لائبریریاں قائم کرنے کی تحریک یکم اپریل: مجلس انصار الله جرمنی کے ترجمان سہ ماہی الناصر کا آغاز ہوا 19 اپریل : جماعتی نظام کی حفاظت کے لئے جان و مال کی قربانی دینے کی تحریک
874 13 اپریل: مسجد بیت الشکور ( گراس گیراؤ.ناصر باغ ) جرمنی کا افتتاح 16 اپریل: سیٹلائٹ کے ذریعہ نشر ہونے والا پہلا خطبہ نکاح جو پوری دنیا میں دیکھا اور سنا گیا.یہ نکاح حضور ” کی بیٹی یاسمین رحمان مونا کا تھا.اپنے گھروں اور معاشروں کو جنت کا نمونہ بنانے ย کی تحریک 130 اپریل: جماعتی پروگراموں میں مہم کے طور پر نیک بزرگوں کے تذکرے 14 مئی: احمدیوں کو ہر ملک میں رزق حلال کے حق میں جہاد کرنے کی تحریک 28 مئی: حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی وفات بعمر 97 سال ہوئی 28 30 مئی: مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے 14 ویں سالانہ اجتماع کے موقع پر حضور کے خطابات.4 ہزار بوسنین شریک ہوئے.کسی ذیلی تنظیم کا پہلا اجتماع تھا جو سیٹلائیٹ کے ذریعہ نشر ہوا.حاضری 8 ہزار تھی 31 مئی: انٹرنیشنل طاہر کبڈی ٹورنامنٹ جرمنی میں منعقد ہوا.تقسیم انعامات اور حضور کا خطاب سیٹلائٹ کے ذریعہ نشر ہوا 16 جون تا 6 جولائی: حضور کا سفر ناروے وسویڈن 18 جون : حضور ناروے کے اس مقام پر پہنچے جہاں 6 ماہ دن کی روشنی اور 6 ماہ رات رہتی ہے.پر حضور نے Borguind مقام پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا 24, 25 جون : حضور 24 جون کو قطب شمالی کے قریب ترین علاقہ نارتھ کیپ تشریف لے گئے جو کرہ ارض کا بلند ترین مقام ہے.حضور نے قافلہ کے ساتھ تاریخ میں پہلی دفعہ مغرب وعشاء اور پھر اگلے دن ساری نمازیں باجماعت یہاں ادا کیں.25 جون کو حضور نے اس جگہ جمعہ پڑھایا.اور باقی مازیں ادا کیں.اس طرح وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ دجال کے زمانہ میں جہاں دن غیر معمولی طور پر لیے ہوں گے وہاں وقت کا اندازہ کر کے نمازیں ادا کرنا.حضور نے اس خطبہ میں شامل ہونے والوں کے نام بھی بیان فرمائے
875 25 تا 27 جون : جلسہ سالانہ امریکہ کے موقع پر ان کو سیاہ فام مظلوموں تک پہنچنے کی تحریک 2 جولائی : ذیلی تنظیموں کو عربی زبان سکھانے کے لئے منصوبہ بندی کرنے کی تحریک 4 تا 5 جولائی : مسجد احمد یہ سری نگر میں جماعت کشمیر نے صوبائی مجلس شوری کا انعقاد کیا جس میں حضور کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا 8 جولائی : ناچارم کے علاقہ میں جماعت سکندرہ آباد ( انڈیا ) کی مسجد کا سنگ بنیا درکھا گیا Z 8 جولائی: المہدی ہسپتال مٹھی تھر پارکر ( سندھ) کا سنگ بنیاد رکھا گیا 30 جولائی تا یکم اگست: جماعت برطانیہ کا 28 واں جلسہ سالانہ.8 رزبانوں میں رواں ترجمہ بھی نشر کیا گیا جلسہ کے دوسرے روز کی تقریر میں حضور نے فرمایا کہ جماعت احمد یہ دنیا کے 135 ممالک میں قائم ہو چکی ہے.5 رنئے ممالک ہنگری، کولمبیا، ازبکستان، یوکرین اور تاتارستان ہیں.امسال 112 رنئی مساجد تعمیر ہوئیں اور 206 ربنی بنائی ملیں.60 ممالک میں 465 رمشن قائم ہیں.56 ممالک میں 286 /مرکزی اور 18 ممالک میں 458 / مقامی مبلغین موجود ہیں.تفسیر کبیر کی پہلی جلد کا عربی ترجمہ شائع ہوا.حضور نے ریویو آف رینجرز کی اشاعت 10 ہزار کرنے کے لئے ایک ہزار پاؤنڈ دینے کا اعلان کرتے ہوئے 40 ارحمدیوں کو ہزار ہزار پاؤنڈ دینے کی تحریک کی.خواتین کے جلسہ کی تقریر میں حضور نے احمدی خواتین کے تعلق باللہ کے واقعات سنائے.اختتامی خطاب میں حضور نے بہبود انسانی کے متعلق دینی تعلیم کی وضاحت فرمائی 30 جولائی : الفضل انٹرنیشنل کا پہلا نمونے کا پرچہ جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر شائع ہوا یکم اگست: جلسهہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر پہلی عالمی بیعت کی تقریب ہوئی.اس موقع پر 184 ممالک کی 115 ر اقوام کے 2 لاکھ 4 ہزار 308 افراد نے بیعت کی سعادت حاصل کی.اس تاریخی موقع پر حضور نے سیدنا حضرت مسیح موعود کا کوٹ زیب تن کیا ہوا تھا جان و مال کی قربانی دے کر اللہ کی توحید کی حفاظت کرنے کی تحریک
876 13 اگست: بزرگ پرستی سے بچنے کی تحریک کیونکہ یہ آئندہ نسلوں کی تباہی کا موجب بن سکتی ہے 22 اگست: بالسوصوبہ کشمیر میں نئی احمد یہ مسجد کی سنگ بنیاد کی تقریب منعقد ہوئی 10 ستمبر : کیرلہ (انڈیا) میں مسجد Tirur کا افتتاح ہوا 10 تا 12 ستمبر : جماعت احمدیہ جرمنی کا 18 واں جلسہ سالانہ.حضور کے خطابات.11 ستمبر کو جلسہ کے دوسرے دن 1496 / افراد نے بیعت کی 17 ستمبر : نو مبایعین کی خصوصی تربیت پر توجہ دینے کی تحریک 25 ستمبر لجنہ اماء اللہ کینیا کا پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا 18 اکتوبر : حضور نے قطب شمالی میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد کے لئے مالی تحریک فرمائی 23 تا 24 اکتوبر لجنہ اماءاللہ صوبہ پنجاب (انڈیا) کا پہلا دوروزہ سالانہ اجتماع منعقد ہوا 12 نومبر تکنو صو به آندھرا ( انڈیا ) میں نئی مسجد کا افتتاح ہوا 17 دسمبر : بنگلہ دیش کی مستعد، بہادر اور قربانی کرنے والی جماعت کے لئے دعاؤں کی تحریک 24 تا 26 دسمبر : جلسہ سالانہ قادیان.حضور نے ماریشس سے ایم ٹی اے کے ذریعہ افتتاحی اور اختتامی خطابات ارشاد فرمائے دسمبر : حضور کا دورہ ماریشس.صدر اور وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی اسی سال شمالی امریکہ میں سیٹلائٹ کے ذریعہ حضور کے خطبات کی باقاعدہ Transmission کا آغاز ہوا میامی فلوریڈا (امریکہ) میں جماعت احمدیہ امریکہ نے ایک لاکھ 60 ہزار ڈالر کی مالیت سے ایک عمارت خریدی جماعت احمد یہ کوریا کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں 50 افراد نے شرکت کی
877 *1994 7 جنوری : ایم ٹی اے کی باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوا.یورپ میں روزانہ 3 گھنٹے اور ایشیا اور افریقہ میں 12 گھنٹے کا پروگرام نشر ہونے لگا 7 جنوری : لندن سے ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل کا اجراء ہوا.حضرت مسیح موعود کے الہام ”دیکھو میرے دوستو اخبار شائع ہو گیا“ کے اعداد پورے 1994 ربنتے ہیں 14 جنوری: مجالس کو ذکر الہی سے سجانے کی تحریک 23 جنوری: حضور نے MTA کے ذریعہ احمدیت پر کئے جانے والے اعتراضات کے جواب کا سلسلہ شروع فرمایا جو کئی ماہ تک جاری رہا یکم فروری: حضرت شیخ مسعود الرحمان صاحب صحابی حضرت مسیح موعود کی وفات رض 2 فروری را ناریاض احمد صاحب کی لاہور میں شہادت 6 فروری: قادیان میں حضرت سیدہ ام طاہر کے مکان کی ازسر نو تعمیر کے سلسلہ میں سنگ بنیاد کی تقریب عمل میں آئی 7 فروری: احمد نصر اللہ صاحب کی لاہور میں شہادت 7 فروری : الفضل کے ایڈیٹر، پبلشر و مینیجر، پرنٹر، ایڈیٹر ماہنامہ انصار اللہ اور پبلشر انصار اللہ کی گرفتاری 2 فروری کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیشی ہوئی.8 مارچ کو رہائی ہوئی 9 فروری : ربوہ میں خدام الاحمدیہ کے تحت آل پاکستان احمدی سالانہ کھیلیں جاری تھیں کہ 10 فروری کو حکومت نے پابندی لگادی 12 فروری: فضل عمر ہسپتال ربوہ میں نئے شعبوں C.C.UI.C.U اور ریڈیالوجی کا افتتاح ہوا 23 فروری : نشان کسوف و خسوف کے 100 سال پورا ہونے پر خصوصی دعائیں.حضور نے 25 / فروری کو اس موضوع پر خطبہ ارشاد فرمایا.اس موقع پر چراغاں اور جلسہ کرنے پر پٹو کی شہر سے 9 را فراد کی گرفتاریاں، ربوہ سے 24 /خدام کی گرفتاری اور 24 /فروری کو ربوہ سے مزید 14 رخدام
گرفتار کئے گئے 878 7 مارچ کسوف و خسوف کے موقع پر جلسہ کرنے کے جرم میں پٹو کی میں 5 رمزید احمدیوں کی گرفتاری ہوئی 9 مارچ: ریذیڈنٹ مجسٹریٹ ربوہ نے شہر میں کسوف و خسوف کی تقریبات پر پابندی لگادی 23 مارچ: حضور نے MTA پر لیکچروں سے ہو میو پیتھی کلاسز کا آغاز فرمایا.200 / ہومیو پیتھی کلاسز کے بعد ان سے انتخاب کر کئے ہو میو پیتھی یعنی علاج بالمثل نامی کتاب کی اشاعت ہوئی.جس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.(اس کتاب کا انگریزی اور عربی ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے ) 25 مارچ: فرانسیسی زبان سیکھنے کی تحریک نیز فریج زبان کے ساتھ امام وقت کی زبان اردو سیکھنے کی تحریک 26 مارچ کسوف و خسوف اور طاعون کے نشان دیکھ کر ایمان لانے والے لوگوں کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو تحریک کہ ان بزرگوں کے حالات کوائف مقامی جماعت کے عہدیداروں کی تصدیق کے ساتھ براہ راست حضور کی خدمت میں بھجوائیں 9 اپریل: فانا میں احمد یہ ہومیو پیتھک کلینک کا اجراء ہوا یکم اپریل: فجی میں کسوف و خسوف کے سو سال پورے ہونے پر تقریب منعقد ہوئی 9 اپریل : شب قدر ( پشاور ) میں ریاض احمد صاحب کو دردناک طریق پر شہید کیا گیا اور ڈاکٹر عبد الرشید خان صاحب کو شدید زخمی کیا گیا 15 اپریل: گوجرانوالہ میں 27 احمدیوں کو گرفتار کر لیا گیا 2 مئی: گلشن لطیف کراچی میں احمدیوں پر حملہ ہوا.10 احمدی زخمی، 11 راحمدی گھرانوں کو ان کے مکانوں سے نکال دیا گیا 4 مئی : بنگلہ دیش میں آنے والے طوفان کے لئے دعا کی تحریک.وہاں کی جماعت بالخصوص خدام کو ہمت اور حوصلے سے امدادی کارروائی کی تلقین
879 6 مئی : اعلیٰ اخلاق کے ذریعہ نسل پرستی کے خلاف بھر پور جدو جہد کرنے کی تحریک 6 مئی بلکی اور علاقائی سطحوں پر اصلاحی کمیٹیاں بنا کر کام کرنے کی تحریک 13 مئی: حافظ قدرت اللہ صاحب سابق مربی بالینڈ اور انڈونیشیا کی لندن میں وفات 25 مئی: حضور نے جرمنی میں فضل عمر فٹ بال ٹورنامنٹ، ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ اور طاہر کبڈی ٹورنامنٹ کا افتتاح فرمایا 27 تا 29 مئی: خدام الاحمدیہ جرمنی کا 15 واں اجتماع.حاضری 7 ہزار تھی.حضور نے خطابات فرمات 6 جون: حضور نے شہد پر منتظم تحقیق کی تحریک فرمائی.یہی تحریک حضور نے 17 اکتوبر 1995ء اور 31 مارچ 2000ء کو بھی کی 21 جون : حضرت مولوی محمد حسین صاحب ( سبز پگڑی والے ) صحابی حضرت مسیح موعود کی وفات بعمر 101 رسال 23 جون تا 6 جولائی: حضور کا چھٹا دورہ کینیڈا 24 جون : سکنڈے نیوین ممالک کی تینوں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات سویڈن میں منعقد ہوئے یکم تا 3 جولائی : کینیڈا کے اٹھارویں جلسہ سالانہ پر حضور کے خطابات 21 جولائی: ربوہ میں مجلس خدام الاحمدیہ کے تحت مرکز عطیہ خون کے افتتاح کی تقریب منعقد ہوئی 22 جولائی: روانڈا ( افریقہ) کے مظلومین کی امداد کے لئے تحریک 27 جولائی : چار اسیران راه مولی ساہیوال مکرم رانا نعیم الدین صاحب، مکرم عبد القدیر صاحب، مکرم محمد حاذق رفیق صاحب، مکرم محمد شار صاحب کے لندن پہنچنے پر حضور کی طرف سے شاندار استقبال کیا گیا 29 تا 31 جولائی : برطانیہ کا 29 واں جلسہ سالانہ.حاضری 11 ہزار تھی.حضور نے افتتاحی خطاب میں بتایا کہ 122 / احمدیوں کے خلاف توہین رسالت کے مقدمات درج کئے گئے ہیں
880 دوسرے دن عورتوں سے خطاب میں حضور نے احمدی خواتین کے صبر اور استقامت کے واقعات بیان کئے دوسرے دن بعد دوپہر کے خطاب میں جماعتی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ 142 / ممالک میں قائم ہو چکی ہے.7 نئے ممالک البانیہ، رومانیہ، بلغاریہ، چاڈ، کیپ وردے، قازقستان اور Norfolk Island.امسال 110 رنئی مساجد تعمیر ہوئیں اور 572 مساجد ائمہ سمیت ملیں.اس وقت دنیا میں کل 208 جماعتی مشن ہاؤسز ہیں آخری دن دوسری عالمی بیعت کی تقریب کا انعقاد ہوا.60 رزبانوں میں بیعت کے الفاظ جلسہ گاہ میں دہرائے گئے جلسہ کے اختتامی خطاب میں حضور نے کسوف و خسوف کے نشان پر روشنی ڈالی.دعا سے قبل حضور نے اسیران راہ مولی کو بلا کر گلے لگایا.یہ پہلا جلسہ سالانہ تھا جو اپنی مکمل صورت میں براہِ راست ایم ٹی اے انٹر نیشنل پر نشر کیا گیا یکم اگست: جلسہ سالانہ برطانیہ کے بعد انٹرنیشنل مجلس شوریٰ کا انعقاد ہوا 16 اگست: احمدی احباب کو مختلف دواؤں پر تحقیق کرنے کی تحریک اور اپنے منتخب کردہ پروگرام سے حضور ” کو مطلع رکھنے کی ہدایت تا کہ عالمی پیمانے پر اس تحقیقی کام کو منظم کیا جائے 19 اگست: نو مبایعین کے لئے سارا سال جاری رہنے والی درسگاہوں کی تحریک اور اس کام کے لئے صاحب علم مردوزن کو وقف عارضی کی تحریک 23 اگست : ایم ٹی اے پر حضور سے ملاقات کاLive پروگرام سلیم سے پہلی دفعہ نشر کیا گیا 26 تا 28 اگست: جلسہ سالانہ جرمنی پر حضور کے خطابات کل حاضری 23 رہزار 559 رتھی اختتامی خطاب میں حضور نے جماعت پر لگائے جانے والے الزامات پڑھ کر سنائے اور ان کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے جھوٹوں پر خدا کی لعنت ڈالی 30 اگست: مکرم وسیم احمد صاحب بٹ اور مکرم حفیظ احمد صاحب بٹ کی فیصل آباد میں شہادت
881 15 ستمبر: ایم ٹی اے کے لئے متنوع ، دلچسپ اور مفید پروگرام تیار کرنے کی تحریک 15 ستمبر : احمدیہ مسجد راولپنڈی مسمار کر دی گئی 19 اکتوبر: پروفیسر ڈاکٹر نسیم بابر صاحب کی اسلام آباد میں شہادت 14 اکتوبر : حضور نے امریکہ میں مسجد بیت الرحمان (واشنگٹن) اور ایم ٹی اے ارتھ سٹیشن کا افتتاح فرمایا 14 تا 16 اکتوبر : 24 واں جلسہ سالانہ امریکہ حضور کی شرکت اور خطابات 18 اکتوبر : حضور نے Willingboro امریکہ میں نئی مسجد اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیادرکھا 123 اکتوبر : حضور نے مسجد صادق شکاگو (امریکہ) کا افتتاح فرمایا 128 اکتوبر : مکرم عبد الرحمان باجوہ صاحب کی کراچی میں شہادت 130 اکتوبر : مکرم دلشاد حسین کبھی صاحب کی لاڑکانہ میں شہادت 10 نومبر: مکرم سلیم احمد صاحب پال کی کراچی میں شہادت 6 دسمبر : کینسر پر ریسرچ کی تحریک 16 دسمبر: ایم ٹی اے کے لئے متنوع دلچسپ اور مفید پروگرام تیار کرنے کی تحریک 19 دسمبر : مکرم انور حسین صاحب ابڑو کولاڑکانہ میں شہید کر دیا گیا 26 تا 28 دسمبر: جلسہ سالانہ قادیان.حضور نے لندن سے ایم ٹی اے کے ذریعہ افتتاحی اور اختتامی خطاب فرمائے.حضور کا مخالفین کو چیلنج کہ نئی صدی سے قبل نزول عیسی کی پیشگوئی پوری کرنے والے کو ایک کروڑ رو پید انعام دیا جائے گا دسمبر کوٹ مومن ضلع سرگودھا میں 4 احمدیوں کی قبر میں مسمار کر دی گئیں اسی سال ابی جان آئیوری کوسٹ میں نصرت جہاں پریس کا قیام عمل میں آیا دوران سال شکاگو (امریکہ) میں ایک عمارت ( بورین سنٹر 85 ہزار ڈالرز مالیت سے خریدی گئی 1994ء میں کسوف و خسوف کی عظیم الشان پیشگوئی پوری ہونے پر ایک سو سال گزر جانے کے حوالہ سے تمام دنیا کی جماعتوں میں تقریبات منعقد کی گئیں
882 نیپال میں جماعت کی باقاعدہ رجسٹریشن عمل میں آئی *1995 3 جنوری: احمدی سائنسدانوں کو تحریک کہ اپنے اپنے مضامین میں ڈوب کر قدرت کی کارفرمائی کے نشانات دیکھا کریں 14 جنوری: فضل عمر ہسپتال ربوہ کے شعبہ ریڈیالوجی کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا 17 جنوری : جاپان کے شہر کو بے میں زلزلہ آیا جس سے 25 فروری تک 5400 راموات ہوئیں.جماعت احمد یہ جاپان کو زلزلہ زدگان کی غیر معمولی خدمت کی توفیق ملی.حضور نے ایم ٹی اے کے ذریعہ کارکنان کو براہ راست ہدایات دیں اور MTA کے ذریعہ احباب جماعت کو جاپانی عوام کی خدمات سے آگاہی عطافرماتے رہے 4 فروری: جاپان میں آنے والے زلزلہ کے لئے دعا کی تحریک 22 جنوری: سندربن (انڈیا) میں احمدیہ مسجد کا سنگ بنیا در کھا گیا 27 جنوری :Zoological Life یعنی حیواناتی زندگی کے ادوار پر تحقیق کرنے کے لئے احمدی سائنسدانوں کو تحریک 22 فروری: واقفین کو میں سے بہت گہرے محققین تیار کئے جانے کی تحریک 24 فروری: حضور نے برطانیہ میں مسجد بیت الفتوح کی تعمیر کے لئے 5 ملین پاؤنڈ کی مالی تحریک کا اعلان فرمایا 24 فروری: تمام دنیا میں احمدی مساجد کی توسیع کی تحریک 17 مارچ : مجلس انصار اللہ پاکستان نے مٹھی تھر پارکر (سندھ) میں المہدی ہسپتال تعمیر کر کے وقف جدید پاکستان کے سپرد کر دیا 31 مارچ: نظام شوری کے چارٹر کو ان تمام زبانوں میں، جہاں مجلس شوری قائم ہے، شائع کرنے کی تحریک.
883 17اپریل: حضور نے خطبہ جمعہ میں ایم ٹی اے کے ذریعہ پاپوانیوگنی کی مسجد کے افتتاح کا اعلان فرمایا 123 اپریل : نکانہ ضلع شیخوپورہ کے ایک احمدی کو شادی کارڈ پر بسم اللہ وغیرہ لکھنے کے جرم میں چھ سال قید اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دے دی گئی 28 اپریل: جزیرہ لکل انڈیمان ( انڈیا ) میں مسجد بیت التوحید کا افتتاح ہوا 3 مئی : مبارک احمد صاحب شرما کو شکار پور سندھ میں شہید کر دیا گیا 24 جون : بچوں کو تحریک کہ اپنے بزرگان کے حالات سے پوری طرح واقف ہونا چاہئے.والدین کو تحریک کہ اپنے بچوں کو خاندان کے بزرگوں کے حالات سناتے رہیں 27 جولائی : لندن میں انٹرنیشنل تبلیغ سیمینار 28 تا 30 جولائی : برطانیہ کا 30 واں جلسہ سالانہ 65 ممالک سے 13 ہزار سے زائد افراد کی شرکت سابق سوویت یونین کا وفد بھی شریک ہوا.حضور کے افتتاحی خطاب کے دوران متعد د قوموں نے حضور کے ارشاد پر کھڑے ہو کر گواہی دی کہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں پوری ہو گئیں.10 زبانوں میں ترجمہ کا انتظام تھا.رات کو انٹرنیشنل نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا دوسرے دن مستورات سے خطاب میں حضور نے پردہ کی حقیقی روح قائم رکھنے پر زور دیا حضور نے دوسرے دن بعد دوپہر کے خطاب میں فرمایا کہ احمدیت 148 ممالک میں قائم ہو چکی ہے.7 نئے ممالک یہ ہیں: کمبوڈیا، لاؤس، جمیکا، ایکوٹوریل گئی، ویت نام، مقدونیہ، گریناڈا.اس سال 762 / مساجد کا اضافہ ہوا.جن میں سے 691 / مساجد بنی بنائی ملیں.10 ممالک میں 30 ہسپتال قائم ہیں.234 رہو میو پیتھی دواؤں کے سیٹ متعدد ممالک میں بھجوائے گئے.افریقہ میں 666 / افریقن چیفس اور 693 ر امام احمدی ہوئے 30 جولائی: تیسری عالمی بیعت کی تقریب ہوئی.بیعت کے الفاظ جلسہ گاہ میں 35 رزبانوں میں دہرائے گئے اختتامی خطاب میں حضور نے بعض انداری نشانات کا ذکر فرمایا
884 30 جولائی : گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ میں احمدیہ مسجد کی تعمیر روک دی گئی اور دو احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جولائی: برطانیہ میں با قاعدہ فری ہومیو پیتھی ڈسپنسری کا قیام عمل میں آیا یکم اگست: ایم ٹی اے کا پروگرام تین گھنٹے سے بڑھ کر پانچ گھنٹے روزانہ ہو گیا 11 اگست: چک 84 ج ب سرشمیر روڈ فیصل آباد میں احمد یہ مسجد سے کلمہ طیبہ مٹادیا گیا 12 تا 14 اگست: مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے زیر اہتمام پہلی صنعتی نمائش.13 اضلاع کے 60 ر خدام نے شرکت کی 18 اگست جماعت کے تیزی سے پھیلنے اور مالی تقاضے بڑھنے کے باعث جماعت کو مالی تحریک میں بڑھنے کی تحریک 31 اگست: واته ضلع مانسہرہ کے دو احمدیوں کو نماز ادا کرنے کے جرم میں ایک ایک سال قید اور پانچ پانچ سوروپے جرمانہ کی سزا سنادی گئی 10 ستمبر : کوڈالی کیرالہ (انڈیا) میں احمدیہ مسجد کی سنگ بنیاد کی تقریب منعقد ہوئی 2016 ستمبر : حضور کا دورہ جرمنی 8 تا 10 ستمبر : جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر حضور کے خطابات 17 ستمبر : جرمنی میں ایم ٹی اے کے نئے دفاتر کا افتتاح حضور نے فرمایا 29 ستمبر : لکھنو میں جماعت کا قیام احمدیہ مسجد اور مشن کے افتتاح کے ذریعہ سے ہوا 10 نومبر: اپنے اپنے خاندان خاص طور پر خاندان کے ابتدائی بزرگوں اور خاندان میں احمدیت آنے کے بارہ میں واقعات و حالات مرکز کی تصدیق کے ساتھ مرتب کرنے کی تحریک 18 نومبر : سابق مربی سلسلہ مشرقی و مغربی افریقہ مولانامحمد منور صاحب کی وفات 24 دسمبر : چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر ضلع شیخوپورہ کی وفات 26 تا 28 دسمبر: جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر لندن سے حضور کا افتتاحی اور اختتامی خطاب
885 26 دسمبر : پاکستان اور بھارت کے احمدیوں کو خصوصا اور دنیا کے دیگر احمدیوں کو عموما دنیا کو انسانیت کی طرف بلانے کی ایک عالمی جدو جہد شروع کرنے کی تحریک مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی نے یہ سال وقار عمل کے سال کے طور پر منایا.4024 روقار عمل ہوئے بھوٹان کے اندر ایک مشن اور نماز سینٹر قائم کیا گیا *1996 6 جنوری: جرمنی میں پہلا یوم تبلیغ 36 رلائبریریوں میں احمد یہ لٹریچر رکھوایا گیا 12 جنوری: حضرت چوہدری نبی بخش صاحب آف بھینی بانگر صحابی حضرت مسیح موعود کی وفات بعمر 112 رسال 12 جنوری: ایبٹ آباد میں احمدیوں کی مارپیٹ کی گئی.مسجد سیل (Seal) کر دی گئی.ایک احمدی کی گرفتاری ہوئی 29 جنوری : نصرانی فرقہ اور ان کے پرانے لٹریچر کے بارہ میں تحقیق کرنے کی تحریک 29 جنوری: صاف دل اور انصاف پسند مستشرقین کے لئے دعا کی تحریک 12 فروری: مخلص عرب احمدی اور حضور کے پروگرام "لقاء مع العرب کے مترجم حلمی الشافعی صاحب کا انتقال 26 فروری: احمدیوں کو مصر کی قدیم تاریخ کی تحقیق میں عملی طور پر حصہ لینے کی تحریک 9 تا 10 مارچ: مجلس خدام الاحمدیہ بر طانیہ کا ایک خصوصی اجتماع ہوا.حضور کے ارشاد کے ماتحت اس میں صرف وہ خدام شامل ہوئے جو باقاعدہ اجتماع میں شامل نہیں ہوئے تھے.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا 19 مارچ: ربوہ کے ہر گھر کو تین پھلدار پودے لگانے کی تحریک 26 مارچ کراچی میں دو احمدی خواتین پر حملہ کیا گیا.ایک خاتون کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا 31 مارچ: حضور کا دورہ برمنگھم مارچ: گوکھوال ضلع فیصل آباد میں دو احمدیوں کی قبروں کو نقصان پہنچایا گیا.کتے توڑ دیے گئے شوری ربوہ 1996ء: ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعہ جماعتوں کو زبان سکھانے کی کلاسیں شروع
886 کرنے کی تحریک گئی یکم اپریل : ایم ٹی اے کی 24 گھنٹے کی نشریات کا آغاز ہوا.حضور نے اس موقع پر براہ راست خطاب فرمایا 2 اپریل: احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور کے 4احمدیوں کو دو دو سال قید اور پانچ پانچ ہزار روپیہ جرمانہ کی سزاسنائی 16اپریل : حضور نے ایم ٹی اے کے ذریعہ کینیڈا کی مجلس شوری سے خطاب فرمایا 19 اپریل: جماعت احمد یہ جرمنی کی مجلس شوری کے موقع پر حضور نے ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست پیغام بھجوایا 3 مئی: اپنے معاشرہ اور تہذیب کو جھوٹ سے پاک کرنے کی مہم جاری کرنے کی تحریک 3 مئی: گندی فلموں خصوصا ہندوستانی فلموں کے زہر قاتل سے بچنے کی تحریک.پاکستان کی جماعتوں کو تحریک کہ جائزے لیں جہاں جہاں یہ گندگی ہے ان کو سمجھا کر منتیں کر کے ان کو بچانے کی کوشش کریں 13 مئی: حضور نے ایم ٹی اے کے رضا کاروں کے اعزاز میں دعوت طعام دی اور خطاب فرمایا 16 مئی: بوسنین اور البانین کے لئے دعا کی تحریک.جھوٹے خداؤں کے ہاتھوں تکلیف اٹھانے والوں کے لئے دعاؤں کی تحریک مئی، جون: حضور کا دورہ تحکیم ، جرمنی اور ہالینڈ 18 مئی: حضور نے بیلجیم کی مجلس شوری سے افتتاحی خطاب فرمایا 24 تا 26 مئی: مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا 17 واں سالانہ اجتماع.حضور کے خطابات 29 مئی: حضور نے مسجد مبارک ہیگ (ہالینڈ) کے توسیعی منصوبہ کا سنگ بنیادرکھا 31 مئی تا2 جون : ہالینڈ کا 17 واں جلسہ سالانہ.حضور کے خطابات یکم جون : حضور نے ہالینڈ کی لجنہ اماءاللہ سے خطاب فرمایا 2 جون : اسلامی اصول کی فلاسفی کے 100 سال پورے ہونے پر جماعت احمدیہ برطانیہ نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا
887 8 تا 9 جون : جماعت احمدیہ برطانیہ کی 17 ویں مجلس شوری.70 / جماعتوں سے 164 /نمائندگان کی شرکت.حضور نے مجلس عرفان منعقد کی اور اختتامی خطاب فرمایا 14 جون : امراء اضلاع کو امارت کے گہرے تقاضے پورے کرنے کی تحریک 17 جون تا 6 جولائی: حضور کا دورہ امریکہ و کینیڈا 20 تا 22 جون: کینیڈا کا 20 واں جلسہ سالانہ.حاضری 6 ہزار تھی.حضور کے خطابات.21 جون کو ایم ٹی اے پر لندن اور کینیڈا کا دو طرفہ رابطہ قائم ہوا.دونوں مقامات کی تصاویر دکھائی گئیں.کینیڈا سے لگنے والے نعروں کا جواب محمود ہال لندن سے دیا جاتارہا.حضور نے اردو کلاس لندن کے بچوں سے باتیں کی 28 تا 30 جون : امریکہ کا 48 واں جلسہ سالانہ.حضور کے خطابات.حاضری 7 ہزار.تینوں دن لندن اور واشنگٹن کے دو طرفہ رابطے قائم رہے 5 جولائی : ایم ٹی اے کی نشریات گلوبل ہیم کے ذریعہ کل عالم میں دیکھی جانے لگیں 21 جولائی: علی پور چٹھہ ضلع گوجرانوالہ میں چھ (6) احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا 26 تا 28 جولائی برطانیہ کا 31 واں جلسہ سالانہ 67 ممالک سے 13 ہزار سے زائد احمدیوں کی شرکت 26 جولائی کو افتتاحی خطاب کے علاوہ حضور نے مجلس عرفان بھی منعقد فرمائی دوسرے دن کی تقریر میں حضور نے فرمایا کہ جماعت دنیا کے 152 ر ممالک میں قائم ہے.چار نئے ممالک یہ ہیں: ایلسلو یڈور، کرغیر دستان، سلووینیا اور بوسنیا.117 رنئی مساجد تعمیر ہوئیں اور 86 زیر تعمیر ہیں.اس وقت 891 مرکزی مبلغین کام کر رہے ہیں.10 ممالک میں 31 احمد یہ ہسپتال کام کر رہے تھے جلسہ پر حضور کی کتاب ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل کی پہلی جلد منظر عام پر آئی.A man of God کا اردو ترجمہ شائع ہوا جماعت کا بجٹ ایک ارب سے اوپر نکل گیا
888 28 جولائی : چوتھی عالمی بیعت کی تقریب منعقد ہوئی.حضور نے فرمایا کہ عالمی بیعت کے اختتام پر نعروں کی بجائے سجدہ شکر ادا کیا جائے گا.حضور نے اختتامی خطاب سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر فرمایا 2 اگست: لالیاں ضلع جھنگ میں 12 احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا 12 اگست: مولانا کرم الہی ظفر صاحب مربی سپین و پرتگال کی غرناطہ میں وفات 20 اگست تا 5 ستمبر : حضور کا دورہ یورپ 23 تا 25 اگست: جلسہ سالانہ جرمنی.21 ہزار افراد کی شرکت.حضور کے خطابات.اختتامی خطاب حضور نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر فرمایا.جلسہ کی کارروائی کا 10 رزبانوں میں رواں ترجمہ ہوتا رہا 2 ستمبر : گول بازار ( ربوہ) کی مسجد المہدی میں بم دھماکہ ہوا.13 افراد زخمی ہوئے 6 ستمبر : ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز (AACP) کا پہلا کنونشن ہوا 6 تا 8 ستمبر : انصار اللہ برطانیہ کا 14 واں سالانہ اجتماع.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا 20 ستمبر : بددیانتی کے خلاف مستعد ہونے کی تحریک 20 تا 22 ستمبر : خدام الاحمدیہ برطانیہ کا 24 واں سالانہ اجتماع.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا.28 ستمبر : بوسنیا میں باقاعدہ مشن کا قیام عمل میں آیا یکم اکتوبر : امیر جماعت یو کے مکرم آفتاب احمد خان صاحب کی وفات.حضور نے حضرت مسیح موعود کا یہ الہام آپ پر چسپاں کیا ہمارا بھائی اس دنیا سے چل دیا 7 24 اکتوبر : حضور کا دورہ یورپ 17اکتوبر : حضور کی ہالینڈ آمد 18اکتوبر : حضور کی گوٹن برگ ( سویڈن ) اور پھر اوسلو (ناروے) میں آمد 10 اکتوبر : حضور کے اعزاز میں ناروے میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی.اس کے شرکاء
889 ناروے کے چنیدہ اور اہم لوگ تھے 2 تا 3 نومبر لجنہ اماء اللہ برطانیہ کا سالانہ اجتماع.1094 الجنات اور 791 ر ناصرات کی شمولیت.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا.9 10 نومبر : جلسہ سالانہ فرانس میں حضور نے پہلی بار شرکت فرمائی اور افتتاحی اور اختتامی خطابات ارشاد فرمائے 8 نومبر: چک چٹھہ ضلع حافظ آباد میں میاں محمد صادق صاحب کی شہادت ہوئی 21 نومبر: ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی لندن میں وفات.25 نومبر کو بہشتی مقبرہ (ربوہ) میں تدفین ہوئی.حضور نے 22 رنومبر کے خطبہ میں ان کا ذکر خیر فرمایا 26 نومبر تا 5 دسمبر : حضور کا دورہ ڈنمارک اور سویڈن 27 نومبر : حضور کی کوپن ہیگن (ڈنمارک) آمد اور مجلس عرفان کا انعقاد 15 دسمبر لجنہ اماءاللہ ربوہ کے تحت ہومیو پیتھک کلینک کا اجراء.اس کا باقاعدہ افتتاح 30 دسمبر کو ہوا 24 دسمبر : نیو یارک (امریکہ) میں اسلامی اصول کی فلاسفی کے سلسلہ میں خصوصی تقریب کا انعقاد.جماعت احمدیہ کے علاوہ پانچ مذاہب کے نمائندگان نے تقاریر کیں 26 تا 28 دسمبر: جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر لندن سے حضور کے افتتاحی اور اختتامی خطابات.20 رممالک سے 5 ہزار سے زائد احمدیوں کی شرکت 27 دسمبر : مشرقی یورپ کے ممالک میں مساجد اور مراکز کے لئے 15 لاکھ ڈالر کی مالی تحریک دسمبر : اسلامی اصول کی فلاسفی" کے موضوع پر خلافت لائبریری ربوہ میں نمائش منعقد کی گئی یہ سال اسلامی اصول کی فلاسفی کی صد سالہ جوبلی کے طور پر منایا گیا.دنیا بھر میں تقریبات ہوئیں.اس کتاب کے 30 سے زائد زبانوں میں تراجم شائع ہوئے اس سال نیپال میں پہلا جلسہ پیشوایان مذاہب منعقد ہوا اس سال نار و تسکین زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت ہوئی
890 *1997 6 جنوری: جاوا( انڈونیشیا) میں اسلامی اصول کی فلاسفی کے سلسلہ میں شاندار جلسہ.ایک ہزار افراد کی شمولیت 10 جنوری : ہر احمدی گھر میں ڈش انٹینا لگانے کی تحریک 10 جنوری کو ڈالی (صوبہ کرالہ انڈیا) میں نئی مسجد کا افتتاح عمل میں آیا 10 جنوری: حضور کی طرف سے مخالفین کو یہ چیلنج دیا گیا کہ دعا کریں جو جھوٹا ہے خدا کی اس پر لعنت ہو 11 جنوری: حضور نے رمضان میں عالمی درس القرآن کا آغاز فرمایا اور سوائے جمعہ کے سارا ہفتہ روزانہ ڈیڑھ گھنٹہ درس دیتے رہے 15 فروری: مسجد طاہر منگل باغباناں قادیان کا افتتاح ہوا 19 فروری: چیلا کرہ کیرالہ (انڈیا) میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا 23 فروری: مولانا نذیر احمد مبشر صاحب سابق مربی سلسلہ غانا کی وفات بعمر 87 رسال 17 مارچ : آسٹریلیا میں بریسین کے مقام پر دوسرے مرکز کا قیام عمل میں آیا 21 تا 22 مارچ: حضور کے ارشاد پر مجلس انصار اللہ برطانیہ کا خصوصی اجتماع ہوا جس میں نو مبایعین انصار، دوران سال عمر کے اعتبار سے انصار اللہ میں شامل ہونے والے انصار اور ان انصار نے شرکت کی جو کئی سال سے اجتماعات میں شرکت سے محروم تھے.کل حاضری 350 تھی حضور نے اختتامی خطاب فرمایا 24 مارچ: مجلس انصار اللہ بھارت کے مرکزی دفتر ایوان انصار کا سنگ بنیاد صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلی قادیان نے رکھا 29 30 مارچ: بورکینا فاسو کا 8 واں جلسہ سالانہ حاضری 1600 ر.حضور نے ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست خطاب فرمایا 4 تا 5 اپریل: آئیوری کوسٹ کا 16 واں جلسہ سالانہ.172 / جماعتوں کے نمائندے شامل
891 ہوئے.حضور نے ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست خطاب فرمایا اپریل: چک 32 جنوبی ضلع سرگودھا میں آٹھ احمدیوں کی گرفتاری.احمد یہ مسجد سر بمہر کی گئی یکم تا5 مئی: حضور کا دورہ ہالینڈ 2 تا 4 مئی جلسہ سالانہ ہالینڈ سے حضور کا خطاب مئی تو میں کشمیر میں لئی مسجد کا سنگ بنیا د ر کھا گیا 22 مئی: حضرت سیدہ مہر آیا حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی وفات 22 23 تا25 مئی: اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی پر حضور کے خطابات.افتتاحی خطاب میں حضور نے فرمایا کہ حضرت سیدہ مہر آپا کی طرف سے جرمنی کی 100 مساجد سکیم میں 3 لاکھ جرمن مارک پیش کئے جائیں گے.( بعد میں یہ رقم 5 لاکھ جرمن مارک کر دی گئی) نیز اپنی طرف سے 50 ہزار مارک بعد میں ڈیڑھ لاکھ مارک) دینے کا اعلان فرمایا.26 مئی : پٹو کی شہر میں دو احمدیوں کو دکان میں آیت قرآنی لکھنے پر گرفتار کر لیا گیا جو 75 ردن قصور جیل میں رہے.ان کی تبلیغ سے جیل میں 17 ربیع ھیں ہوئیں 30 مئی: غرباء اور مساکین کی خدمت کرنے کی خاص تحریک متی : بنگلہ دیش میں طوفان سے بہت تباہی آئی مجلس خدام الاحمدیہ نے خدمت خلق کے عمدہ نمونے پیش کئے 20 تا 22 جون : جلسہ سالانہ امریکہ.حضور کے خطابات براہ راست نشر کئے گئے 20 جون : چوہدری حقیق احمد صاحب باجوہ کی وہاڑی میں شہادت 23 جون تا 4 جولائی: حضور کا دورہ کینیڈا 27 29 جون : جلسہ سالانہ کینیڈا پر حضور کے خطابات جون : ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کہ گزشتہ 2 سال میں 17 احمدیوں کو قتل کیا گیا مگر کسی ایک مجرم کو بھی سزا نہیں دی گئی
892 4 جولائی: حضور نے خطبہ جمعہ بمقام ٹورانٹو ( کینیڈا) میں تحریک فرمائی کہ نئی صدی کے آغاز سے پہلے ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے اور روزانہ تلاوت قرآن کریم ہوتی ہو 18 جولائی: مسجد نصرت جہاں (ڈنمارک) کی تعمیر کی 30 رسالہ تقریب منائی گئی 25 تا 27 جولائی: جماعت برطانیہ کے 32 ویں جلسہ سالانہ میں 13 ہزار افراد کی شرکت.حضور نے افتتاحی خطاب میں 1897 ء کے واقعات خصوصا لیکھرام کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا عورتوں سے خطاب میں خواتین کی خدمات کا ذکر فرمایا جماعتی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ 153 ممالک میں جماعت احمدیہ قائم ہو چکی ہے.نیا ملک کروشیا ہے.اس سال 106 رنئی مساجد بنائی گئیں.ان کے علاوہ 20 مساجد زیر تعمیر ہیں..97 ممالک میں 602 رمشن ہاؤسز قائم ہیں.962 ر مربیان کام کر رہے ہیں.حضور کی ہومیو پیتھی کتاب انڈیکس کے ساتھ شائع ہوئی 27 جولائی: جلسہ سالانہ کے آخری دن ساتویں عالمی بیعت کی تقریب منعقد ہوئی.اس جلسہ پر نجی اور طوالو کے وزرائے اعظم نے پیغامات بھیجے 31 جولائی: حضور نے ایم ٹی اے کے ذریعہ تین نکاحوں کا Live اعلان فرمایا.ان میں سے ایک حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کی بیٹی کا تھا 15 تا 17 اگست: جلسہ سالانہ جرمنی.حضور کے خطابات.حاضری 22 ہزار سے زائد تھی.جلسہ پر پہلی بار بوسنین ، الباتین اور عرب احباب کے الگ الگ شامیانوں میں پروگرام منعقد ہوئے اور حضور کے ساتھ سوال و جواب کی مجالس ہوئیں 15 اگست: تھائی لینڈ کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا 30 اکتوبر : ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ڈھو نیکی ضلع گوجرانوالہ کی شہادت 16 نومبر : چوہدری عبد اللطیف صاحب (جرمنی کے پہلے باقاعدہ مبلغ) کی ہمبرگ میں وفات بعمر 85 رسال 10 دسمبر : حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلی و امیر مقامی کی وفات بعمر 86 رسال.
893 آپ 26 ربرس ناظر اعلیٰ رہے.ان کی جگہ حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کو ناظر اعلی و امیر مقامی مقرر فرمایا.آپ منصب خلافت پر متمکن ہونے تک اس ذمہ داری پر فائز رہے 19 تا 22 نومبر : ٹریسٹ (اٹلی) میں عبد السلام یادگاری کا نفرنس کا انعقاد ہوا.حضور نے اس کے لئے خصوصی پیغام بھیجا 12 دسمبر : مکرم مظفر احمد صاحب شرما کی شکار پور سندھ میں دردناک شہادت 18 تا 20 دسمبر: جلسہ سالانہ قادیان پر حضور کے لندن سے افتتاحی اور اختتامی خطابات.25 ممالک سے 6408 افراد کی جلسہ میں شمولیت 1600 رنو مبایعین شامل ہوئے 18 تا 20 دسمبر : جلسہ سالانہ خانامیں 40 ہزار افراد کی حاضری.نیز صدر مملکت کی شمولیت جماعت احمدیہ امریکہ نے پہلا Capital Hill Dinner منعقد کیا جس میں تین کانگرس مین اور چھ سٹاف کے ممبران نے شرکت کی $1998 2 جنوری: حضور نے وقف جدید کے نئے سال کے اعلان کے ساتھ ہدایت فرمائی کہ ہر جماعت میں سیکرٹری وقف جدید برائے نو مبایعین کا تقرر کیا جائے.تحریک ”وقف جدید میں شاملین کی تعداد بڑھانے کی تحریک 8 فروری مکرم میاں محمد اکبر اقبال صاحب کی یوگنڈا میں شہادت 20 تا 22 مارچ: گنی بساؤ کا پہلا سہ روزہ جلسہ سالانہ - 86 رجماعتوں کے 2 رہزار افراد کی شرکت.بیت النصر کا افتتاح.یہ گنی بساؤ میں جماعت کی پہلی تعمیر کردہ مسجد تھی.11 مارچ: وقف ٹولینگوئج انسٹی ٹیوٹ دار الرحمت وسطی ربوہ کا افتتاح ہوا 5 اپریل حجیم میں پہلے سیمینار دعوت الی اللہ کا انعقاد 11 تا 13 اپریل: ہالینڈ کا 19 واں جلسہ سالانہ.حضور کے خطابات کل حاضری 753 تھی یکم تا 3 مئی جلسہ سالانہ بیجیم میں پہلی مرتبہ حضور کی شرکت.نیز پہلی مرتبہ سہ روزہ جلسہ سالانہ
894 منعقد ہوا.حضور نے علیم میں ایک وسیع مسجد بنانے کی مھر یک فرمائی یکم 8 مئی: صحبت صالحین اختیار کرنے کی تحریک 3 مئی: انٹینا لگانے اور حضور کے خطبہ کو براہِ راست سننے کی تحریک 14 16 مئی: حضور کا دورہ جرمنی 15 تا 17 مئی: مجلس انصار الله جرمنی کا 18 واں سالانہ اجتماع.حضور کے خطابات 1900 را نصار، 70 رنو مبایعین اور 1400 زائرین نے شرکت کی 17 مئی : داڑھی رکھنے کی تحریک 18 مئی: جماعت کے معروف شاعر عبید اللہ علیم صاحب کی وفات 22 تا 24 مئی: مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے 19 ویں سالانہ اجتماع پر حضور" کے خطابات.کل حاضری 10 ہزار 22 مئی: توفیق کے مطابق مالی قربانی نہ کرنے والوں کو پُر زور الفاظ میں مالی قربانی کرنے کی تحریک 29 مئی: پاکستان کے اقتصادی حالات کی بہتری کے لئے پاکستانی احمدیوں کو بیرونی بینکوں سے اپنے اثاثے پاکستان منتقل کرنے کی تحریک.ایٹمی تابکاری سے بچنے کے لئے ادویہ کی تجویز اور دعاؤں کی تحریک 5 جون ایلومینیم کے برتنوں کا استعمال چھوڑنے کی تحریک 12 جون : پاکستانی حکومت کو قیمتی مشورے اور ملک کے لئے دعا کی تحریک 19 جون: درس القرآن MTA سے استفادہ کرنے کی تحریک 24 جون : جماعت امریکہ نے Rayburn House Office Building (Capitol Hill) میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا جس میں کانگریس کے 8 ممبران نے شرکت کی 26 تا 28 جون: جلسہ سالانہ امریکہ پر حضور کے خطابات.اختتامی خطاب میں حضور نے امریکہ کو تنبیہ فرمائی کہ اگر اس نے اپنے طرز سیاست میں تبدیلی نہ کی تو وہ خدا کے غضب کا شکار ہوگا یکم جولائی: حضور نے سان ہوزے (امریکہ ) میں بیت البصیر کا افتتاح فرمایا
895 7 جولائی : مکرم ایوب اعظم صاحب کی واہ کینٹ ( پاکستان ) میں شہادت 31 جولائی تا 2 اگست : جماعت احمدیہ برطانیہ کا 33 واں جلسہ سالانہ کل حاضری 18 ہزار.وزیر اعظم برطانیہ اور فجی نے پیغامات بھیجے یکم اگست: خواتین سے خطاب میں حضور نے احمدی خواتین کی تاریخی خدمات کا تذکرہ فرمایا.احمدی عورتوں کو غریب گھروں میں جا کر وقار عمل کرنے اور ان کو رہنے سہنے کے ڈھنگ سکھانے کی تحریک دوسرے دن بعد دوپہر کے خطاب میں فرمایا کہ امسال نکاراگوا میں احمدیت قائم ہوئی ہے.قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمه، تفسیر کبیر جلد 3 کا عربی ترجمہ، حضور کی نئی کتاب Revelation Rationality Knowledge and Truth کی اشاعت ہوئی.انڈونیشیا میں 93 ر ہومیوڈسپنسریاں قائم ہیں.تحریک وقف نو میں 17981 بچے شامل ہو چکے ہیں.1093 مبلغین 67 ممالک میں مصروف عمل ہیں.اس سال 118 مساجد تعمیر ہوتی ہیں 2 اگست: جلسہ سالانہ کے موقع پر چھٹی عالی بیعت منعقد ہوئی اختتامی خطاب میں حضور نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مضمون بیان فرمایا اور دعا کی تحریک کی کہ میری زندگی میں 10 سر کروڑ نئے احمدی ہو جائیں 14اگست: وہاڑی میں ملک نصیر احمد صاحب کی شہادت 7 اگست: انتظامی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے سرخ کتاب رکھنے کی تحریک 14 اگست: جماعت ساونت واثری صوبہ مہاراشٹر (انڈیا) کے دار التبلیغ کا افتتاح ہوا 19 تا 31 اگست: حضور کا دورہ جرمنی 21 تا 23 اگست: جماعت جرمنی کا 23 واں جلسہ سالانہ کل حاضری 23396 رتھی.حضور نے خطبہ جمعہ میں ایثار اور خلفاء کے ادب کا مضمون بیان فرمایا لجنہ سے خطاب میں حضور نے قناعت کا مضمون بیان فرمایا.اختتامی خطاب میں حضور نے فرقان کے مضمون پر روشنی ڈالی
896 26 اگست: نوکوٹ سندھ کی احمد یہ مسجد نذر آتش کردی گئی 28 اگست تا 18 ستمبر : خطبات کا سلسلہ جن میں امانتوں کا حق ادا کرنے کی تحریک 13 ستمبر : مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کی لائبریری مخزن علم کا افتتاح ہوا 14 ستمبر : احمدی سائنسدانوں اور ماہرین کو علم الترب“ پر ریسرچ کرنے کی تحریک 110اکتوبر : نواب شاہ میں مکرم ماسٹر نذیر احمد صاحب بگھیو کی شہادت 10 تا 12 اکتوبر لجنہ اماء اللہ برطانیہ کا 28 واں سالانہ اجتماع.حضور نے اختتامی خطاب فرمایا.حاضری 1200 تھی 10 تا 11 اکتوبر: جماعت احمد یہ مڈغاسکر کا پہلا جلسہ سالانہ 130 اکتوبر مکرم چوہدری عبدالرشید شریف صاحب کی لاہور میں شہادت 30 اکتوبر: مسجد مبارک (ہالینڈ) کی توسیع کے بعد افتتاح ہوا 7 نومبر: حضور کی تصنیف Revelation Rationality Knowledge and Truth کے لئے انٹرنیشنل ٹریڈ فیئر غانا میں خصوصی تقریب 8 نومبر : قادیان میں جدید ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس کا نام نور ہسپتال رکھا گیا 18 نومبر : پنجاب اسمبلی (پاکستان) نے ربوہ کا نام بدلنے کی قرار داد منظور کر لی اور پہلے نواں قادیان اور بعد میں ” چناب نگر کا نام منظور کر لیا 25 نومبر: جرمنی میں سو مساجد سکیم کے تحت پہلی مسجد بیت الحمد ( فلش ) کا سنگ بنیاد 5 تا 7 دسمبر : جلسہ سالانہ قادیان پر 22 ممالک کے 16 ہزار افراد کی شرکت.حضور کے افتتاحی اور اختتامی خطابات لندن سے براہ راست نشر ہوئے 11 دسمبر: اسیران راہِ مولا کے لئے دعاؤں کی تحریک 15 دسمبر: جماعت احمدیہ سویڈن کے زیر اہتمام بین المذاہب سمپوزیم کا انعقاد 18 دسمبر: جماعت کو ڈالی صوبہ کیرالہ (انڈیا) میں دو منزلہ مسجد کا افتتاح
897 19 دسمبر : نو نہ مئی کشمیر میں مسجد کا افتتاح ہوا 25 دسمبر : امیر مسلم ممالک کو غریب ملکوں کے بچوں کے لئے دولت مختص کرنے کی تحریک 31 دسمبر : سید الاستغفار پڑھنے کی تحریک 1891ء میں حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا تھا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے ( آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحه (342) یہ الہام کئی بار پورا ہوا.1998ء میں ایک نئی شان کے ساتھ اس کا ظہور ہوا جب افریقہ کے بیس روایتی بادشاہ احمدیت میں داخل ہوئے 1998ء میں قادیان میں جامعتہ المبشرین کی دو منزلہ بلڈنگ کی تعمیر ہوئی *1999 یکم جنوری : فضول خرچی اور اسراف سے بچنے اور ہر رمضان میں خیرات کی عام مہم چلانے کی تحریک 19 جنوری: غریبوں کے ساتھ عید منانے کو منظم رنگ دینے کی تحریک 29 جنوری: سیرالیون کے مسلمان بیتائی اور بیوگان کی خدمت کی عالمی تحریک.انفرادی طور پر براہ راست گھر میں یتیم کی پرورش کرنے کی تحریک 5 فروری: اہل عراق کے بچوں اور یتیموں اور بیواؤں کے لئے خصوصی دعاؤں کی تحریک 24 فروری: حضور نے 305 گھنٹے کی کلاسز میں ترجمہ القرآن کا دور مکمل کر دیا 8 مارچ: مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے زیر اہتمام عطیہ خون کے لئے مستقل عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا.3 را کتوبر کو اس عمارت کا افتتاح ہوا.یہ عمارت ایوان محمود کے احاطہ میں تعمیر کی گئی 12 مارچ کثرت سے استغفار اور درود شریف پڑھنے کی تحریک 19 مارچ: ناروے کی مسجد بیت النصر کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس میں 1700 نمازیوں کی گنجائش ہوگی 19 مارچ: دین کی ترقی کے لئے مساجد کی تعمیر کا منصوبہ.تمام ملکوں کو متوجہ ہونے کی تحریک 19 مارچ: الفضل کے سابق ایڈ میٹر اور مبلغ سلسلہ افریقہ مولانا سیم سیفی صاحب کی وفات
898 20 مارچ: مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی مرکزی لائبریری صبش لائبریری کا افتتاح 26 مارچ: ہر قسم کے ظاہری و مخفی شرک کے خلاف جہاد کی تحریک 28 مارچ: افریقہ، بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر غریب ممالک کے لئے اپنی قربانیوں کی رقوم بھیجوانے کی تحریک 28 مارچ مسجد بیت الفتوح کی مجوزہ جگہ پر حضور نے نماز عید الاضحیٰ پڑھائی جس میں 8500 احمدیوں نے شرکت کی مارچ : خلافت رابعہ کے بارہ میں خلافت لائبریری میں نمائش کا انعقاد ہوا 3 تا 5 اپریل: جلسہ سالانہ ہالینڈ پر حضور کے تینوں دن خطابات 14 اپریل: جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن (ربوہ) کی بنیاد رکھی گئی 5اپریل: کینیڈا کی مسجد کے ساتھ رہائشی کالونی پیس ولیج (Peace Village) کی تعمیر کا آغاز ہوا 14 اپریل: خاندان حضرت مسیح موعود کے پہلے فرد صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی شہادت 23 اپریل : حضور نے راہ مولیٰ میں جان دینے والے احمدیوں کے حالات پر مشتمل سلسلہ خطبات شروع کیا جو 23 جولائی تک جاری رہا 130 اپریل: حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ پاکستان اور دیگر تین احمدی ایک جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کر لئے گئے.10 مئی کو رہائی ہوتی 7 مئی: بیت القیوم فرینکفرٹ میں جماعت جرمنی کی پہلی مرکزی لائبریری کا افتتاح ہوا ومتی مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ عمر سلیم بٹ صاحب کی چونڈہ میں شہادت 12 تا 24 مئی: حضور کا دورہ جرمنی 14 تا 16 مئی: مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا 20 واں سالانہ اجتماع.حاضری 10 ہزار.حضور کی شرکت اور خطابات 21 تا 23 مئی: لجنہ اماءاللہ جرمنی کا 24 واں سالانہ اجتماع.حاضری 10 ہزار.حضور کے خطابات
899 21 مئی راہ مولیٰ میں جان فدا کرنے والوں کے لواحقین کو جماعتی ریکارڈ کے لئے تفصیلات بھیجوانے کی تحریک 23 مئی: براز لویاری پوره کشمیر میں جماعت کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد 26 مئی: مختلف قومیتوں کے لوگوں سے حضرت مسیح موعود کا کلام پڑھوانے کی تحریک 29 مئی مختلف ممالک کے باشندوں کی آواز میں پڑھے ہوئے حضرت مسیح موعود کے کلام کی کیسٹیں بھیجوانے کی تحریک 10 تا 13 جون : جرمنی میں عالمی میلہ کتب میں جماعت نے کامیاب سٹال لگایا 27 جون بینن میں پہلے احمدی ڈاکٹر وحید صاحب کی آمد 29 جولائی برطانیہ میں انٹرنیشنل تربیتی سیمینار منعقد ہوا.31 ممالک کے 210 رمردوں اور 66 عورتوں نے شرکت کی 30 جولائی تا یکم اگست: جماعت احمدیہ برطانیہ کا 34 واں جلسہ سالانہ گل حاضری 21 رہزار.حضور نے افتتاحی خطاب میں حضرت مسیح موعود کے 1899ء کے الہامات پڑھ کر سنائے.لجنہ سے خطاب میں حضور نے چغل خوری ، غیبت اور بدظنی سے بچنے کی پر زور تلقین فرمائی دوسرے دن بعد دوپہر کے خطاب میں حضور نے فرمایا کہ 158 ممالک میں احمدیت قائم ہو چکی ہے.14 نئے ممالک میں چیک ری پبلک، گوداری ،پبلک، ایکواڈور اور لیسوتھو شامل ہیں.53 رزبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.جن میں سے 9 راس سال شائع ہوئے ہیں.37 رممالک میں 406 رہو میو شفا خانے ہیں.امسال 223 رنئی مساجد تعمیر ہوئیں.67 ممالک میں 1197 مرکزی مبلغین ہیں.1984ء میں ان کی تعداد 366 رتھی.اختتامی خطاب میں حضور نے صحابہ حضرت مسیح موعود کی روایات کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود کی سیرت بیان فرمائی.آپ نے حضرت مسیح موعود کی ایک گھڑی دکھائی جو مرمت کے بعد چل رہی تھی.اختتامی دعا سے قبل حضور نے اپنی نظم "دیار مغرب سے جانے والو سنوائی اور خواتین کی مارکی
900 میں فرمایا کہ اب میری کوئی خواہش باقی نہیں رہی.اب نفس مطمئنہ کے ساتھ خدا کے حضور حاضر ہونے کی تمنا ہے.حضور نے فرمایا کہ جلسہ میں نعرے نہ لگائے جائیں چنانچہ دھیمی آواز میں اللہ اکبر اور تسبیح وتحمید کی جاتی رہی.جلسہ پر تین سربراہان مملکت وزیر اعظم برطانیہ، صدر آئیوری کوسٹ اور صدر غانانے پیغامات بھیجے جو پڑھ کر سنائے گئے یکم اگست: جلسہ سالانہ کے تیسرے دن ساتویں عالمی بیعت کی تقریب منعقد ہوئی.جلسہ گاہ میں 25 مرزبانوں میں بیعت کے الفاظ کا ترجمہ دہرایا گیا.بیعت کے بعد سجدہ شکر ادا کیا گیا جولائی : بهندی رسالہ راہ ایمان کی اشاعت شروع ہوئی 2 اگست: انٹرنیشنل شوری اسلام آباد میں منعقد ہوئی 11 اگست: سورج گرہن کے موقع پر حضور نے پہلی بارلندن میں نماز کسوف پڑھائی 14 اگست: بینن میں پہلے احمد یہ میڈیکل سینٹر کا اجراء ہوا 27 اگست : فیصل آباد میں احمدیہ مسجد بیت الامان میں احمدیوں کو نماز سے روک دیا گیا اور مسجد سر بمہر کر دی گئی 31 اگست: مسجد ناصر سویڈن کی تعمیر نو کے سنگ بنیاد کی تقریب 3 ستمبر : مسجد حبیب ( کیل.جرمنی) کی تعمیر کے لئے پلاٹ خریدا گیا 10 ستمبر : حضور انور نے بیماری کی وجہ سے دو ہفتوں کے تعطل کے بعد Friday the 10th کو خطبہ ارشاد فرمایا ستم Humanity First کے تحت برطانیہ میں خدمت خلق شین فوڈ کے 582 ر پیکٹ بھجوائے گئے 11اکتوبر: بین میں پہلا احمد یہ میڈیکل کیمپ لگایا گیا 18اکتوبر: کھلنا ( بنگلہ دیش) میں احمد یہ مسجد میں بم دھما کہ ہوا.سات احمدی شہید ہو گئے 19 اکتوبر : حضور نے مسجد بیت الفتوح مورڈن (لندن) کا سنگ بنیاد رکھا 3 نومبر : حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ المعروف چھوٹی آپا حرم حضرت مصلح موعود کی 81 سال کی
901 عمر میں وفات.آپ 39 رسال تک صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ پاکستان رہیں 15 نومبر : سنتوش نگر حیدر آباد صوبہ آندھرا میں مسجد احمدیہ کی تعمیر ہوئی 19 نومبر: نماز تہجد اور نوافل میں حضرت مسیح موعود کی الہامی دعا سُبحَانَ الله وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ الله العَظِيمِ اللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ پڑھنے کی تحریک.یہی تحریک حضور نے 26 اکتوبر 2001ء کو بھی فرمائی.20 نومبر : احمدیوں کو نئے ملینیم کے پروگرام کے طور پر دعوت الی اللہ کرنے کی تحریک.اور دنیا کے 1/10 حصہ تک احمدی لٹریچر پہنچانے کا منصوبہ 5 تا 7 دسمبر : جلسہ سالانہ قادیان پر 27 ممالک سے 21 ہزار افراد کی شرکت.حضور نے لندن سے اختتامی خطاب فرمایا.15 دسمبر: حویلی لکھا (اوکاڑہ ) میں ایک مشتعل ہجوم نے امیر صاحب ضلع کا گھر اور کلینک نذر آتش کر دیا $2000 9 جنوری: جرمنی میں 100 مساجد سکیم کے تحت پہلی مسجد بیت الحمد ( وپلش ) کا افتتاح 14 جنوری: خدمت دین کے لئے روحانی جہاد میں کثرت سے حصہ لینے کی تحریک 15 جنوری لجنہ اماءاللہ کینیڈا کے مرکزی دفتر بیت مریم واقع پیس ویلج کا افتتاح 18 جنوری: فیصل آباد کے احمدی سرجن ڈاکٹر شمس الحق طیب صاحب کی شہادت 23 جنوری کمبلہ کا ڈ کیرالہ (انڈیا) میں نے تبلیغی مرکز کا افتتاح جنوری: قادیان سے شائع ہونے والا رسالہ مشکوۃ دوماہی سے ماہانہ ہو گیا 4 فروری : جماعت احمدیہ کو پاک زبان استعمال کرنے کی مہم چلانے کی تحریک 5 تا 13 فروری: دہلی کے عالمی بک فیئر میں جماعت احمدیہ کی طرف سے سٹال لگایا گیا 3 مارچ : امراء کو تحریک کہ غرباء کی بستیوں میں جا کر اُن پر کچھ خرچ کریں 15 مارچ: خلافت لائبریری کے نئے توسیعی منصوبہ کا سنگ بنیا در کھا گیا
902 23 مارچ : قادیان میں مجلس خدام الاحمدیہ کے دفتر ایوان طاہر کا افتتاح صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلی قادیان اور منسٹر آف پنجاب تعلقات عامہ نے کیا 23 مارچ : مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی طرف سے طاہر ہومیو پیتھک کلینک اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام ہوا 24 مارچ : خطبہ الہامیہ کے 100 رسال پورے ہونے کے حوالہ سے خطبہ جمعہ میں تفصیلی ذکر 2 تا 4 اپریل: کرنال ہریانہ (انڈیا) میں تربیتی کیمپ اور پہلا سالانہ اجتماع 15 اپریل: مسجد بیت العزیز Riedstadt (جرمنی) کی تعمیر کے لئے پلاٹ خریدا گیا 15 اپریل لدھیانہ (بھارت) میں مکرم مولانا عبد الرحیم صاحب کی شہادت 21 تا 23 اپریل : جلسہ سالانہ ہالینڈ میں حضور کی شرکت.اختتامی خطاب میں حضور نے ایک بڑی مسجد تعمیر کرنے کی تحریک فرمائی.مجموعی حاضری 1160 تھی 129 اپریل: خانا میں تبلیغ سینٹر کا افتتاح 5 تا 7 مئی : جرمنی میں اطفال الاحمدیہ کی پہلی سپورٹس ریلی کا انعقاد 20 مئی میشوار صو بہ کشمیر میں احمدیہ مسجد کا سنگ بنیاد 24 مئی: ری پبلک آف آئس لینڈ میں احمدیت کی اشاعت کے لئے لندن سے ایک وفد روانہ ہوا 2 تا 4 جون : جلسہ سالانہ تیمیم پر حضور کے خطابات 5 جون : جرمنی میں سو مساجد کی سکیم کے تحت حضور نے پہلی مسجد کا معائنہ فرمایا 8 جون: چوہدری عبد اللطیف صاحب اٹھوال کی چک بیورو( شیخو پورہ) میں شہادت 20 جون تا 11 جولائی: حضور نے انڈونیشیا کا دورہ فرمایا.کسی بھی خلیفہ اسیح کا انڈونیشیا کا یہ پہلا دورہ تھا 21 جون : انڈونیشیا کی نیشنل اسمبلی کے چیئر مین جناب امین الرئیس صاحب سے پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات 21 جون : مجلس عاملہ انڈونیشیا کی حضور کے ساتھ میٹنگ.حضور رحمہ اللہ نے اس میٹنگ میں فرمایا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ (جماعت کی) نئی صدی کے اختتام سے قبل انڈونیشیا سب سے بڑا
903 احمدی مسلم ملک ہوگا.انشاء اللہ.24 جون : حضور نے Gadjah Mada University کی دعوت پر ایک انٹرنیشنل سیمینار سے خطاب فرمایا 25 جون : حضور Cirebon تشریف لے گئے جہاں ایک عمارت مبارک بال کا افتتاح فرمایا.اس کے بعد Manislor تشریف لے گئے 26 جون : حضور نے Wanasigra میں SMU ہائی سکول اور الواحد بلڈنگ کا سنگ بنیادرکھا 28 جون: صدارتی محل میں صدر مملکت انڈونیشیا مکرم عبد الرحمان واحد صاحب سے ملاقات ہوئی.بعد ازاں صدارتی محل کے پریس روم میں پریس کانفرنس ہوئی 29 جون : حضور کو Indonesian Muslim Interfaith Dialouge کے تحت ایک پروگرام میں خطاب کرنے کی دعوت دی گئی.حضور رحمہ اللہ نے Islam and the" Prospect of Muslim Revival; Considering Existential "Problems in the 21st Century کے موضوع پر خطاب فرمایا.خطاب کے بعد حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے گئے 7 30 جون تا 2 جولائی جلسہ سالانہ انڈونیشیا پر حضور کے خطابات اجتماعی بیعت 16 ہزار 707 را فراد کی جلسہ میں شرکت 2 جولائی: انڈونیشیا جیسا خلوص و پیار اپنے اندر پیدا کرنے کی دوسرے ملکوں کو تحریک.جماعت انڈونیشیا کو تحریک کہ انفاق فی سبیل اللہ میں مثال بنیں اور کوشش کریں کہ آئندہ 25 رسال میں جماعت انڈونیشیا 2 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ ہو جائے 4 جولائی: ہاڑانگ میں Sedona ہوٹل میں علاقہ کے معززین کے ساتھ ڈنر اور مجلس سوال و جواب ہوئی.6 جولائی: ہومیو پیتھی کے حوالہ Sari Pan Pacific Hotel, Jakarta میں
حضور ” کا لیکچر 904 27 جولائی: برطانیہ میں 13 واں انٹرنیشنل تبلیغ سیمینار 28 تا 30 جولائی: برطانیہ کا 35 واں جلسہ سالانہ کل حاضری 23407 ررہی.77 ممالک کے وفود شامل ہوئے.632 غیر از جماعت مہمان شامل ہوئے.وزیر اعظم برطانیہ، صدر بورکینا فاسو، صدر تنزانیه، گورنر جنرل طوالو اور صدر گنی بساؤ 5 ممالک کے سربراہوں نے جلسہ کے موقع پر خصوصی پیغامات بھیجے.28 جولائی: حضور نے جلسہ سالانہ کے افتتاحی خطاب میں حضرت مسیح موعود کے 1900ء کے الہامات اور دعائیں بیان فرمائیں 29 جولائی: حضور نے دوسرے دن کے خطاب میں فرمایا کہ احمدیت 170 ممالک میں قائم ہو چکی ہے.براعظم افریقہ کے تمام 54 ممالک میں جماعت قائم ہے.امسال 12 رنے ممالک میں جماعت قائم ہوئی جو یہ ہیں سنٹرل افریقن ری پبلک، ساؤ تو مے سیشلز ، سوازی لینڈ ، بوٹسوانا، نمیبیا، ویسٹرن صحارا ، جہوتی ، اریٹیریا، کوسووو، منا کو، انڈورا.حضور نے جلسہ پر بیٹن کے دو بادشاہوں کو حضرت مسیح موعود کے کپڑے کا تبرک عطا فرمایا 30 جولائی: جلسہ سالانہ برطانیہ کے آخری دن آٹھویں عالمی بیعت ہوئی.اختتامی خطاب میں حضور نے رجسٹر روایات صحابہ کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت بیان فرمائی 31 جولائی : انٹرنیشنل مجلس شوری اسلام آباد میں منعقد ہوئی 7 اگست: جامع مسجد اوفن باخ (جرمنی) کی تعمیر کے لیے پلاٹ خریدا گیا 11 تا 12 اگست: جان الیگزنڈر ڈوئی کے شہر زائن (امریکہ) میں جماعت کی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا جوڈوٹی کی ہلاکت کے نشان کے سلسلہ میں تھی 13 اگست: کاواشیری (انڈیا) میں نئی مسجد کا افتتاح ہوا
905 25 تا 27 اگست: جلسه سالانہ جرمنی کے موقع پر حضور کے خطابات 31 اگست: حضور نے جرمنی میں ایک مسجد کا افتتاح کیا جبکہ ایک کا سنگ بنیا در رکھا 2 ستمبر : برطانیہ میں مدرسہ حفظ القرآن کا قیام جو Distance Leaming کے ذریعہ کام کرتا ہے 121 اکتوبر : گولارچی ضلع بدین کی احد یہ مسجد پر مخالفین کی طرف سے قبضہ کر لیا گیا 22 اکتوبر : مجلس خدام الاحمد یہ تھیم کے زیر اہتمام بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد 127اکتوبر تا 5 نومبر: بورکینا فاسو کے انٹرنیشنل میلہ میں جماعت کی طرف سے سٹال لگائے گئے 10: نومبر : تخت ہزارہ میں پانچ احمدیوں کی شہادت ہوئی اور احمد یہ مسجد نذر آتش کر دی گئی 16 تا 18 نومبر : جلسہ سالانہ قادیان منعقد ہوا.21 رممالک سے 35 ہزار افراد نے شمولیت کی.اس موقع پر صوبہ بنگال اور آسام سے قادیان کے لئے سپیشل ٹرینیں بھی چلیں 8 دسمبر : حضور نے بیماری کی وجہ سے قریباً دو ماہ کے بعد خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا 15 دسمبر: ایک رؤیا کی بنا پر حضور نے رشتہ ناطہ اور بے روزگاری پر خصوصی توجہ دینے کا اعلان فرمایا 22 دسمبر : خاتمہ بالخیر ہونے کی دعا کی تحریک جماعت امریکہ نے 2000 Messiah کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقادزائن میں کیا *2001 حضور نے تحریک فرمائی کہ 21 ویں صدی عیسوی میں دنیا کی 1/10 آبادی تک احمدیت کا پیغام پہنچا دیں 7 جنوری: چار بڑ اعظموں میں خدمات سر انجام دینے والے مبلغ سلسلہ مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب لاہور میں بعمر 79 سال وفات پاگئے 19 جنوری: امراء کو تحریک کہ ذیلی تنظیموں انصار الله لجنہ اماء اللہ وغیرہ کے ذریعہ بھی رشتہ ناطہ کے کام کی کوشش کریں 26 جنورى: اللَّهُم مَرْفَهُم كُلّ مُتري....کی دعا کثرت سے پڑھنے کی تحریک
906 26 جنوری: گجرات بھارت میں زلزلہ آیا.جماعت کی طرف سے 35 لاکھ روپے کی امداد کی گئی اور طبی امداد کے لئے ایک طبی و فد روانہ ہوا جنوری: جماعت احمدیہ کی آفیشل ویب سائٹ www.alislam.org کا قیام ہوا 6 فروری دیرینہ خادم سلسلہ اور استاذ جامعہ احمد یہ ربوہ قریشی نور الحق تنویر صاحب کی وفات 16 فروری: حضور ” کی طرف سے بیت الفتوح کے لئے دوبارہ پانچ ملین پاؤنڈ چندہ کی تحریک (دسواں حصہ اپنی طرف سے دینے کا اعلان) 9 مارچ: حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل سے اطاعت اور جاں نثاری کے سبق سیکھنے کی تحریک 13 مارچ : ایم ٹی اے کی ڈیجیٹل نشریات کا آغاز 18 مارچ : ہارٹ فورڈ شائر ریجن برطانیہ کا پہلا یوم پیشوایان مذاہب منایا گیا 23 مارچ: دفتر خدام الاحمدیہ قادیان ایوان طاہر کا افتتاح 23 مارچ: خلافت لائبریری (ربوہ) کے نئے توسیعی منصوبہ کا افتتاح - 250 را فراد کے بیٹھنے اور 70 ہزار کتب رکھنے کی گنجائش ہے 30 مارچ: بیت السبوح (جرمنی) کا افتتاح 6 اپریل: حضور نے صفات باری تعالیٰ پر خطبات کا سلسلہ شروع فرمایا جو آپ کی وفات تک جاری رہا.20 اپریل: مسجد سمیع ( ہنوور) کے لئے پلاٹ خریدا گیا 9 مئی : قدیم خادم سلسلہ اور مبلغ افریقہ، امریکہ اور یورپ مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کی 90 رسال کی عمر میں امریکہ میں وفات 12 مئی : چونڈہ ضلع سیالکوٹ کی احمد یہ مسجد مسمار کر دی گئی 17 مئی: قادیان میں لجنہ اماء اللہ بھارت کے دفاتر کا سنگ بنیاد رکھا گیا 8 جون: آئیوری کوسٹ میں بو آ کے مقام پر مسجد کا افتتاح ہوا 22 جون : نماز تہجد کی عادت ڈالنے اور اس میں استغفار کرنے کی تحریک
907 22 جون : انڈونیشیا میں مکرم پا پوحسن صاحب جماعت سمی ایلن کی شہادت 23 جون : وولٹا ریجن فانا میں مسجد اور مشن ہاؤس کا افتتاح 13 تا 15 جولائی: واقفین ٹو پاکستان کا پہلا سالانہ اجتماع.نویں دسویں کلاس کے 324 بچوں نے شرکت کی 23 جولائی کو دھری ارلیوٹ ضلع راجوری صوبہ کشمیر میں احمد یہ مسجد کا سنگ بنیاد 28 جولائی : فیصل آباد میں شیخ نذیر احمد صاحب کی شہادت 12 اگست: ناصر آباد کشمیر میں مسجد نور کے سنگ بنیاد کی تقریب 18 تا 19 اگست: چنئی میں مجلس انصار اللہ تامل ناڈو کا پہلا صوبائی اجتماع 19 اگست: حضور نے بیجیم کے شہر ہاسلٹ میں مسجد بیت الرحیم اور مشن ہاؤس کا افتتاح فرمایا 24 تا 26 اگست: انٹرنیشنل جلسہ سالانہ برطانیہ کی بجائے جرمنی میں منعقد ہوا جس میں 50 ہزار حاضری تھی.حضور نے خطابات فرمائے.صدر جرمنی اور صدر مملکت نانا نے پیغامات بھجوائے.افریقن بادشاہوں نے شرکت کی دوسرے دن کے خطاب میں حضور نے فرمایا کہ 174 ممالک میں جماعت قائم ہو چکی ہے.4 نئے ممالک جن میں جماعت کا نفوذ ہوا یہ ہیں قبرص، وینزویلا، مالٹا، آذربائیجان.54 زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہو چکے ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی کے 49 زبانوں میں تراجم طبع ہو چکے ہیں.35 رزبانوں میں کتب اور فولڈ ز تیار کئے گئے عرب، جرمن، بلقان اور ترک اقوام کے الگ الگ جلسوں میں 4 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی 26 اگست: جلسہ کے آخری دن نویں عالمی بیعت منعقد ہوئی.بیعت سے قبل کینیڈا، امریکہ، ربوہ اور قادیان سے براہ راست آڈیو پیغامات نشر کئے گئے.ربوہ میں ایوان محمود میں ایک بڑی تقریب میں اجتماعی بیعت کی گئی.اختتامی خطاب میں حضور نے رجسٹر روایات کی مدد سے حضرت مسیح موعود کی سیرت بیان فرمائی
908 26 اگست: سید والا شیخوپورہ میں احمدیہ مسجد نذر آتش کردی گئی اور لوٹ مار کی گئی 7 ستمبر : ایم ٹی اے کی نشریات سکائی ڈیجیٹل سسٹم پر شروع ہو گئیں 13 تا 14 ستمبر : سنڈ ووال نیواں (پاکستان) میں نور احمد صاحب اور طاہر احمد صاحب کی شہادت 14 ستمبر: بیت العلیم ( وز برگ.جرمنی) کی تعمیر کے لئے پلاٹ خریدا گیا 14 تا 16 ستمبر : جلسہ سالانہ ماریشس پر صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب تشریف لے گئے.حاضری 2500 رتھی.5 تا 7 اکتوبر : تنزانیہ کے صوبہ کوسٹ کا سالانہ جلسہ نیز مسجد اور مشن ہاؤس کا افتتاح ہوا 5 نومبر : نیروبی ( کینیا ) میں احمدیہ مشن ہاؤس اور ہوسٹل جامعہ احمدیہ کا افتتاح 8 10 نومبر: جلسہ سالانہ قادیان منعقد ہوا.اس موقع پر حیدر آباد سے خصوصی ٹرین قادیان کے لئے چلی و نومبر : سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا کی دعا سفرسے پہلے اور راستے میں ضرور پڑھنے کی تحریک 15 نومبر لجنہ اماءاللہ پاکستان کے گیسٹ ہاؤس کا سنگ بنیا درکھا گیا 23 تا 25 نومبر: اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے تحت سپین میں منعقدہ انٹر نیشنل کانفرنس میں جماعت کی نمائندگی نومبر ببینن ( مغربی افریقہ) کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے اعزاز میں یادگاری ٹکٹ شائع کیا 29 30 دسمبر: مجلس انصار اللہ پاکستان کی پہلی سلان علی ریلی.26 اضلاع کی 105 مجالس کے 250 رانصار کی شرکت حضور نے ایک رویا کی بنا پر تمام ممالک میں تعلیمی بورڈ قائم کئے جانے کی تحریک فرمائی ناروے کی تمام لائبریریوں میں حضرت مسیح موعود کی کتاب مسیح ہندوستان میں اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی کتاب "Christianity a Journey from Facts to Fictions رکھوائی گئیں
909 تنزانیہ میں پانچ نئے ہومیو پیتھک کلینکس کا قیام ہوا بینن میں مجلس انصار اللہ کا قیام نیپال کی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت ہوئی *2002 10 جنوری : غلام مصطفی محسن صاحب آف پیر محل کو شہید کر دیا گیا 13 جنوری: معروف شاعر و صحافی ایڈیٹر ہفت روزہ لاہور ثاقب زیروی صاحب کی وفات بعمر 84 رسال 23 جنوری: جماعت احمد یہ سویڈن کی طرف سے بین المذاہب سمپوزیم کا انعقاد 27 جنوری: رامنا گوڑم ضلع وارنگل آندھرا (انڈیا) میں جماعت احمدیہ کی مسجد بدر کا افتتاح 31 جنوری لجنہ اماء اللہ بھارت کے دفتر بیت النصرت قادیان کی افتتاحی تقریب 31 جنوری: وانڈ زورتھ میوزیم لندن میں مسجد فضل لندن کی تاریخی حیثیت“ کے عنوان پر معلوماتی نمائش کا انعقاد 10 فروری: جماعت آڈروڈ ضلع ویسٹ گوداوری (انڈیا) میں مسجد کا افتتاح و 11 فروری: اسلام آباد ( للفورڈ.یوکے) کی ایک تقریب میں بشپ آف گلڈ فورڈ(Guildford) نے شرکت کی 12 فروری: مسجد المهدی (Usingen) جرمنی کی تعمیر کے لئے پلاٹ خریدا گیا 14 فروری: آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر مائیکل انتھونی ڈمٹ کو حضور کی کتاب Revelation Rationality Knowledge and Truth کا تحفہ دیا گیا 19 فروری: چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب صدر صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی وفات بعمر 83 رسال 21 فروری: جامعہ احمد یہ جونیئر سیکشن کے ہوسٹل نمبر 2 / ( نور ہاسٹل ) کا سنگ بنیاد 6 تا 10 مارچ: بینن میں حضور کی ہدایت پر پہلا احمد یہ فٹ بال ٹورنامنٹ 12 مارچ: لٹکو کیلا ( تنزانیہ) میں ربوہ نام گاؤں اور نئی مسجد کا افتتاح
910 21 مارچ: مسجد یادگار ( ربوہ ) کی توسیع و تزئین کا افتتاح 12 اپریل: ممبئی (بھارت) میں سینئر کانگرس لیڈر ششل کمار شندے اور ممبر پارلیمنٹ شولا پور کو احمد یہ لٹریچر کا تحفہ دیا گیا 14 اپریل: چاوا گھاٹ کیرالہ (انڈیا) میں مسجد کا افتتاح 21 اپریل: وزیر اعلیٰ مہاراشٹر (بھارت) ولاس راؤ دیش مکھ کو احمدی لٹریچر کا تحفہ دیا گیا 128 اپریل: دار السلام تنزانیہ میں یوم تبلیغ کے موقع پر ایک لاکھ افراد تک پیغام احمدیت پہنچایا گیا 10 مئی بندیال کالونی کوٹلی آزاد کشمیر میں احمدیہ مسجد کی تعمیر روک دی گئی 10 مئی: مسجد نور الدین ( ڈار مشکڈٹ.جرمنی) کا سنگ بنیاد 15 مئی: دیوتل سرکل و یو درگ کرناٹک (انڈیا) میں مسجد کا افتتاح ہوا 16 جون: احاطہ جامعہ احمدیہ ( ربوہ) سینئر سیکشن میں محمود ہاسٹل کا سنگ بنیاد رکھا گیا 23 جون : آسنور کے متصل منڈ ویل باس (انڈیا) میں آسنور کی پانچویں مسجد کا سنگ بنیادرکھا گیا 30 جون : احمد یہ مسجد مومن منزل سعید آباد کا سنگ بنیاد صاحبزادہ مرزا اوسیم احمد صاحب نے رکھا 7 جولائی: پہلے انگریز واقف زندگی بشیر احمد آرچرڈ صاحب مربی سلسلہ کی لندن میں بعمر 83 رسال وفات 19 جولائی : بیت السبوح فرینکفرٹ (جرمنی) میں جرمنی کی مرکزی لائبریری کا افتتاح 23 جولائی: امیر جماعت امریکہ اور عالمی شہرت کے حامل ماہر اقتصادیات حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی امریکہ میں بعمر 89 سال وفات 26 تا 28 جولائی: جماعت احمد یہ برطانیہ ک36 واں جلسہ سالانہ.حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی زندگی کا یہ آخری جلسہ تھا.حضور نے بیماری کے باوجود جلسہ کے تمام پروگراموں میں حسب معمول شرکت فرمائی اور بیٹھ کر مختصر خطاب فرمائے.کل حاضری 19400 تھی.خطبہ جمعہ سے حضور نے افتتاح فرمایا
911 دوسرے دن مستورات سے خطاب بعنوان میاں بیوی کے حقوق و فرائض فرمایا دوسرے روز بعد دوپہر کے خطاب میں افضال الہی اور جماعتی ترقیات کا بیان.175 ممالک میں جماعت قائم ہے.175 رنئی مساجد جماعت کو تعمیر کرنے کی توفیق ملی ہے.138 رمشن ہاؤسز ایک سال میں عطا ہوئے 28 جولائی: جلسہ سالانہ کے تیسرے روز دسویں عالمی بیعت اختتامی خطاب بعنوان سیرت حضرت مسیح موعود وزیر اعظم برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے سربراہوں کے پیغامات اور وزراء وممبران پارلیمنٹ سمیت مقتدر شخصیات کے خطابات.جلسہ پر پہلی بار ایف ایم ریڈیو پر جلسہ کی کارروائی نشر ہوئی یکم ستمبر : مقصود احمد صاحب آف فیصل آباد کی شہادت یکم ستمبر : جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن ( ربوہ ) میں تدریس کا آغاز اور محترم ناظر صاحب اعلی کا دعائیہ تقریب سے خطاب 21 ستمبر : دارالانوار قادیان میں جدید گیسٹ ہاؤس کے سامنے ایک اور گیسٹ ہاؤس کی بنیاد رکھی گئی 22 ستمبر : جماعت احمد یہ آئر لینڈ کا پہلا جلسہ سالانہ.170 / افراد نے شرکت کی 28 -29 ستمبر : جلسہ سالانہ تنزانیہ کے موقع پر ملک کے وزیر اعظم کی پہلی مرتبہ شرکت 3اکتوبر: روزنامه الفضل ربوہ انٹرنیٹ پر جانا شروع ہوا جانا 114 اکتوبر: لندن کے ایک ہسپتال میں ماہر امراض قلب امریکی ڈاکٹر جینکٹر نے حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی انجیو پلاسٹی کی 130اکتوبر: لندن کے ایک ہسپتال میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا خون کی نالی کھولنے کا کامیاب آپریشن ہوا.دنیا بھر میں خلیفہ وقت کے لئے دعائیں، نوافل اور صدقات کا سلسلہ.روزنامہ الفضل اور ایم ٹی اے پر صحت کے بارہ میں خصوصی پلین نشر کئے گئے 7 نومبر : حضرت خلیفہ اسیح الرابع خون کی نالی کے کامیاب آپریشن کے بعد ہسپتال سے گھر تشریف
لے آتے 912 9 نومبر بر : حضرت خلیفہ امسح الرابع کی طرف سے جماعت احمد یہ عالمگیر کے نام محبت بھرا پیغام.یہ آپ کا آخری پیغام تھا جو 13 نومبر کے روز نامہ الفضل ربوہ میں شائع ہوا 14 نومبر : عبدالوحید صاحب کریم نگر فیصل آباد کی شہادت 15 نومبر: ڈاکٹر رشید احمد صاحب آف رحیم یار خان کی شہادت 9 دسمبر : مسجد بشیر Bensheim (جرمنی) کی تعمیر کے لئے پلاٹ خریدا گیا 21 دسمبر : قریشی محمد افضل صاحب مربی سلسلہ کی وفات بعمر 88 رسال 23 دسمبر: سید میر مسعود احمد صاحب مربی سلسلہ کی وفات بعمر 75 سال 26 تا 28 دسمبر : جلسہ سالانہ قادیان کا انعقاد.اس جلسہ کی حاضری 50 رہزار تھی $2003 13 جنوری: افریقہ سے باہر کے احمدیوں کو کثرت سے افریقہ کے ممالک کے دورے کرنے اور نو احمدیوں سے ملنے کی تحریک 19 جنوری: سیدنا حضرت مسیح موعود نے جنوری 1903ء میں جہلم کا سفر فرمایا.جنوری 2003ء میں سوسال مکمل ہونے پر اس سفر کی یاد میں جماعت احمدیہ جہلم نے ایک عظیم الشان جلسہ کا انعقاد کیا 2 فروری: جماعت کے معروف عالم اور محقق مؤلف اصحاب احمد ملک صلاح الدین صاحب کی لدھیانہ میں وفات بعمر 91 سال 20 فروری: فضل عمر ہسپتال ربوہ میں بیگم زبیدہ بانی ونگ کا افتتاح 20 فروری: ہانگ کانگ میں جماعت کی رجسٹریشن ہوئی 21 فروری: حضور نے مریم شادی فنڈ کی تحریک جاری فرمائی 25 فروری: امیر ضلع راجن پور میاں محمد اقبال صاحب کی شہادت 25 فروری: مسجد احمدی زیر ضلع فیروز پور صوبہ پنجاب (انڈیا) کے افتتاح کی تقریب عمل میں آئی
913 یکم ماروتی بوسنیا میں پہلے جماعتی مرکز بیت السلام کا قیام 13 مارچ: منارة امسح اور بیت الدعا کے سنگ بنیاد پر سو سال مکمل ہونے پر مسجد اقصی قادیان میں جلسہ منعقد ہوا 14 اپریل: عراقی عوام کی مالی امداد کی تحریک 18 اپریل: حضور نے اپنے عہد سعادت کا آخری خطبہ جمعہ صفات الہیہ میں سے صفت خبیر پر ارشاد فرمایا اور اسی روز مجلس عرفان میں بھی رونق افروز ہوئے.آپ نے آخری نماز جو مسجد فضل لندن میں پڑھائی وہ نماز عشاء تھی 19 اپریل: لندن کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے نو بجے حضور اپنی رہائش گاہ پر کروڑوں دلوں کو اشکبار چھوڑ کر حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے اپنے مولی حقیقی کے پاس حاضر ہو گئے.آپ کی وفات کا اعلان حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ وامیر مقامی ربوہ (پاکستان) کی طرف سے ایم ٹی اے پر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے پڑھ کر سنایا.تمام انتظامات حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کی ہدایات کے مطابق کئے جاتے رہے.رات 11 بجے حضور کے جسد اطہر کو 9 را فراد پر مشتمل ٹیم نے غسل دیا.حضور" کا جسد اطہر آخری دیدار کے لئے محمود ہال میں رکھا گیا.ہزار بامتحاق نے آخری بار آپ کا دیدار کیا.یہ سلسلہ 22 اپریل تک جاری رہا 2اپریل: نماز مغرب وعشاء کے بعد مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس مجد فضل لندن میں منعقد ہوا.حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب سلمه ربۂ خلیفتہ اسیح الخامس منتخب ہوئے.موقع پر موجود 11 ہزار افراد جماعت نے اور کل عالم کے احمدیوں نے ایم ٹی اے کی وساطت سے آپ کے ہاتھ پر براہ راست بیعت کی سعادت حاصل کی 23 اپریل: حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نے ملفورڈ اسلام آباد ( یو کے ) میں خطاب عام کے خلیفہ بعد بیعت لی.پھر حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں 30 ہزار احمدیوں نے شرکت کی.بعد ازاں اسلام آباد (ملفورڈ یوکے) میں حضور کی تدفین کے بعد قبر پر دعا کروائی