Language: UR
سلسلہ احمدیہ ۱۹۶۵ء جلد سوم ۱۹۸۲ء مرتبہ
شکریہ احباب اس کتاب کی تالیف کے سلسلہ میں خاکسار سے بہت سے احباب نے مخلصانہ تعاون فرمایا جن کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے.اس کتاب کی بنیا د مکرم مبشر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ اور مکرم انور اقبال ثاقب صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی گرانقدر تحقیق پر ہے.ان دونوں احباب نے دن رات تحقیق کی اور خاکسار نے ان کی محنت کو الفاظ میں ڈھال دیا.
۵۰ مضمون تحریک جدید دفتر سوئم کا اجراء فہرست مضامین سلسلہ احمد یہ جلد سوم صفحہ مضمون حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پہلا دورہ یورپ مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلانے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ ۶۸ ۷۲ 4 ۷۵ ۷۹ ۹۰ ۱۰۲ ۱۰۲ ۱۰۵ 1+4 ۱۱۶ ١١٩ ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۱ تفسیر کی اشاعت کا آغاز بیت اللہ کے مقاصد پر خطبات حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پہلا دورہ ۱۴ ۱۹ کی تحریک فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام خلافت لائبریری مغربی افریقہ حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات، تقاریر اور نائیجیریا کا دورہ غانا کا دورہ ۲۵ ۲۶ کتب کی اشاعت مقالہ جات تبلیغی مراکز کا منصوبہ بند ہونے والے تبلیغی مراکز کے متعلق ۳۰ آئیوری کوسٹ میں ورود مسعود دورہ لائبیریا گیمبیا کا دورہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا اصولی ارشاد سیرالیون کا دورہ مستقبل قریب میں نئے تبلیغی مراکز کا منصوبہ مجلس نصرت جہاں کا قیام احباب جماعت کو تفسیر صغیر سے استفادہ کرنے کی نصیحت تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی تحریک وقف جدید میں دفتر اطفال کا اجراء ۳۲ ۳۳ ۴۲ پاکستان واپسی اورر بوہ میں استقبال پاکستان میں نصرت جہاں سکیم کا اعلان مجلس نصرت جہاں کے انتظامی ڈھانچے کا قیام رسومات اور بدعات کے خلاف جہاد کا اعلان ۴۷ مجلس نصرت جہاں کا قیام
غانا سیرالیون گیمبیا نائیجیریا مضمون ii صفحه ۱۲۸ ۱۳۱ مضمون حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا گھوڑے سے گرنے کا واقعہ ۱۳۴ ۱۳۵ مخالفین کے ارادے پاکستان دوحصوں میں تقسیم ہوتا ہے مجلس نصرت جہاں کے تحت قائم ہونے حديقة المبشرین کا قیام صفحہ 17.۱۶۲ = ۱۶۴ ۱۷۳ والے ابتدائی تعلیمی ادارے غانا نائیجیر یا سیرالیون لائبیریا گیمبیا ۱۳۶ مجلس صحت کا قیام مسجد اقصیٰ کا افتتاح ۱۳۷ پاکستان میں تعلیمی ادارے قومیائے جاتے ۱۳۸ ہیں ۱۷۶ ۱۸۳ ۱۸۵ ۱۳۸ جماعت احمدیہ کے خلاف سرگرمیوں میں تیزی ۱۸۵ ۱۳۹ آئین میں ختم نبوت کا حلف نامہ ۱۸۵ افریقن پریس میں نصرت جہاں سکیم کا چرچا کشمیر اسمبلی میں جماعت احمدیہ کے خلاف ۱۹۵ مخالفین سلسلہ سازش تیار کرتے ہیں ۱۴۲ قرارداد ۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلس شوریٰ ۱۹۷۰ء کے الیکشن اور مولویوں کی ناکامی ۱۴۴ ۱۹۷۳ء پاکستان کے مستقبل کے متعلق ابھرتے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا دورہ یورپ ۲۱۹۷۳ ۲۱۱ ہوئے خدشات اور جماعت احمدیہ کا فیصلہ ۱۴۴ مخالفین جماعت کا غیظ وغضب مولوی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں بھٹو صاحب کا انتخابات سے قبل موقف ۱۵۱ ۱۵۴ جماعت کی صد سالہ جوبلی کا منصوبہ عالم اسلام کو اتحاد عمل کی دعوت صد سالہ جو بلی کے منصوبہ کے لیے دعاؤں کی تحریک ۲۱۴ ۲۱۸ ۲۱۹ جماعت کی مخالفت میں تیزی آتی ہے ۱۵۵ مرکز گریز رحجانات کے بارے میں نصیحت ۲۲۳ مخالفین کی خوش فہمیاں ۱۵۶ جماعت احمدیہ کے خلاف تیار ہونے والی ۱۹۷۰ء کے انتخابات ۱۵۷ ایک بین الاقوامی سازش ۲۲۶
صفحہ ۳۲۹ ٣٣١ ۳۳۱ ۳۳۵ ۳۴۷ ۳۵۹ ۳۸۵ ۴۰۳ ۴۲۰ ۴۳۸ ۴۵۷ ۴۵۸ ۴۶۹ ۴۸۶ ۴۹۰ ۵۰۸ iii مضمون لاہور کی اسلامی سر براہی کانفرنس صفحہ ۲۳۶ مضمون قومی اسمبلی کی خاص کمیٹی میں کاروائی رابطہ عالم اسلامی میں تیار ہونے والی سازش ۲۴۶ حضرت خلیفتہ امسیح الثالث اسمبلی میں مخالفین جماعت کے ارادے ظاہر ہوتے ۲۶۵ محضر نامہ پڑھتے ہیں قومی اسمبلی اور صدرانجمن احمدیہ کے درمیان مزید خط و کتابت ۱۵اگست کو کاروائی شروع ہوتی ہے آئینہ صداقت اور انوار خلافت کے ۲۶۶ ۲۶۸ ۲۷۱ ہیں احباب جماعت کو صبر سے کام لینے کی تلقین ۲۹ مئی کا واقعہ فسادات کا آغاز صمدانی ٹریبیونل کی کاروائی شروع ہوتی ہے ۲۷۹ حوالہ جات پر اعتراض ۶ راگست کی کارروائی ۲۸۱ کیم سے پندرہ جون تک کے حالات وزیر اعظم کا انکشاف کہ ان حالات کے پیچھے ے راگست کی کارروائی ۸/اگست کی کارروائی بیرونی ہاتھ کارفرما ہے ۲۹۲ پندرہ جون سے تیس جون تک کے حالات ۲۹۴ ۹ راگست کی کارروائی پاکستان کی قومی اسمبلی پر مشتمل ایک سپیشل ۱۰ راگست کی کارروائی کمیٹی قائم ہوتی ہے جماعت احمدیہ کی طرف سے کارروائی کو صحیح وزیراعظم ایک بار پھر بیرونی ہاتھ کی طرف خطوط پر لانے کی ایک اور کوشش کارروائی کا دوبارہ آغاز اور صمدانی ٹربیونل کی رپورٹ کا حکومت کو پیش کیا جانا ۳۱۱ ۳۱۶ اشارہ کرتے ہیں جماعت احمدیہ کا محضر نامہ یکم جولائی سے پندرہ جولائی تک کے حالات ۳۲۰ ۲۱ /اگست کی کارروائی افراد جماعت پر سرگودھا ریلوے اسٹیشن پرفائرنگ ۳۲۴ ۲۲ راگست کی کارروائی ۲۳ اگست کی کارروائی ۱۷ جولائی کو کاروائی شروع کرنے کی اطلاع کارروائی کا آخری دن اور صدرانجمن احمدیہ کا جواب ۳۲۸ چند اہم نکات کا اعادہ
صفحہ ۵۸۹ ۵۹۸ iv مضمون (۱) غلط حوالے صفحہ مضمون ۵۰۹ حضرت عیسی کی صلیب سے نجات پرلندن (۲) کارروائی کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟ ۵۱۱ میں کانفرنس (۳) غیر متعلقہ سولات قومی اسمبلی کا فیصلہ ۵۱۲ تعلیمی منصوبہ کا اعلان ۵۱۷ احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا قیام احمدیہ بحیثیت ادارہ پاکستان کی قومی اسمبلی کا انجام ۵۳۲ دورہ یورپ، افریقہ و شمالی امریکہ ۶۱۲ ربوہ کی زمین کا کچھ حصہ قومیا یا جانا ۵۳۵ کو احباب جماعت کو اپنے اموال کی حفاظت کی ۶۱۳ نواب محمد احمد قصوری کا قتل انجام بلند ایوانوں کا جنرل ضیاء کا دور حکومت شروع ہوتا ہے ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں اپیل سپریم کورٹ کا فیصلہ اور پھانسی پاکستان پر اس قرارداد کا کیا اثر پڑا یوگینڈا میں جماعت احمدیہ پر پابندی ۵۴۰ ۵۴۰ ۵۵۵ نصیحت اوسلو(ناروے) میں مشن ہاؤس اور مسجد کا افتتاح پانچ سوسال بعد سپین میں مسجد کا سنگ بنیاد ۵۵۶ خلافت ثالثہ کے دوران بعض ممالک میں ۵۶۳ ۵۶۸ ۵۷۰ ہونے والی تبلیغی سرگرمیاں سیرالیون مڈغاسکر میں تبلیغی مساعی کا آغاز زائرے میں احمدیت ۶۱۵ ۶۲۴ ۶۲۷ ۶۳۰ ۶۳۰ ۶۳۲ ۶۳۴ ۶۳۹ ۶۴۳ لوگینڈا میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت دورہ یورپ ۱۹۷۵ء دورہ امریکہ و کینیڈا ۱۹۷۶ء ۵۷۲ ۵۷۶ ۵۸۰ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی وفات ۵۸۷ زیمبیا میں مشن کا قیام کینیڈا میں جماعت اور مشن کا قیام کینیا گیمبیا نائیجیریا جاپان میں مشن کا احیاءنو
مضمون صفحہ ۶۷۳ ۶۷۴ ۶۷۵ ۶۷۷ ۶۷۹ ۶۸۰ ۶۸۰ ۶۸۴ ۶۸۵ ۶۸۶ YAZ ۶۸۸ ۶۸۹ ۶۹۰ ۶۹۲ ۶۹۳ 2.9 ۷۱۲ سپین سنگاپور سری لنکا سویڈن ڈنمارک ناروے جرمنی پولینڈ یوگوسلاویہ آئیوری کوسٹ ٹرینیڈاڈ لبنان فلسطین فجی گیانا دور خلافت ثالثہ میں جماعت احمد یہ بھارت کی سرگرمیاں وفات حضرت خلیفہ المسح الثالث ربوہ میں جنازہ کی تیاری V مضمون بینن میں جماعت کا آغاز برکینا فاسو میں تبلیغ کی کوششیں جنوبی افریقہ میں احمدیت کی مخالفت صفحہ ۶۴۷ ۶۴۸ ۶۵۱ ۶۵۳ ۶۵۷ ۶۶۰ ۶۶۲ ۶۶۶ ۶۶۸ ۶۶۹ ۶۷۰ ۶۷۲ ۶۷۲ لائبیریا تنزانیہ روانڈا یوگینڈا گی آنا ماریشس کوموروز میں جماعت کا قیام غانا سوئٹزرلینڈ انڈونیشیا ملائیشیا سوڈان امریکہ ہالینڈ سکاٹ لینڈ
صفحه مضمون vi مضمون صفحہ ۷۱۳ 1 ۱۷ NI ۳۱ اجلاس مجلس انتخاب خلافت انڈیکس اسماء مقامات کتابیات
1 بدالله الحالي اہم جلد دوئم کے آخر پر ذکر چکے ہیں کہ تمام عالمگیر جماعت احمدیہ نے حضرت خلیفة اصبح الثالث کے دست مبارک پر بیعت کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی خوف کی حالت امن سے تبدیل کر دی گئی.اب خلافت ثالثہ کا بابرکت دور شروع ہورہا تھا اور دنیا ایک بار پھر یہ نظارہ دیکھ رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے دین کو تمنت عطا کرتا ہے.خلافت ثالثہ کے آغاز ہی میں تحریک جدید کے دفتر سوئم کا آغاز کیا گیا.ہم اس ذکر کے ساتھ ہی اس جلد کا آغاز کرتے ہیں.تحریک جدید دفتر سوئم کا اجراء جیسا کہ حصہ اول میں یہ ذکر آچکا ہے ، حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کا آغاز فرمایا تھا.جب اس تحریک کا اعلان کیا گیا تھا اس وقت یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یہ تحریک محدود سالوں کے لئے کی جارہی ہے.گو کہ وقت کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی مدت میں اضافہ کا اعلان فرمایا تھا.پہلے یہ تحریک تین سال کے لئے کی گئی تھی.پھر اس کو دس سال کے لئے بڑھا دیا گیا.اور جب یہ دس سال ختم ہوئے تو حضور نے اس بابت اعلان فرمایا کہ اب جو اس تحریک میں حصہ لینا وو چاہیں گے اس کی صورت کیا ہو گی.چنانچہ ۱۹ مئی ۱۹۴۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا:....ان لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں آئندہ اس میں شامل ہونے کی خواہش پیدا ہو.ایک سکیم کا فیصلہ کیا ہے اور آج میں اس کا اعلان کرتا ہوں تا وہ لوگ جو اب تک شامل نہیں ہو سکے.اگر اب ان کے دل میں شوق پیدا ہو تو وہ اس میں حصہ لے سکیں.شروع زمانہ میں یہ ایک اکٹھا کام تھا.اس لئے ایک وقت مقرر کر دیا جاتا تھا کہ جو لوگ اس میں شامل ہونا چاہیں وہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک وعدے کر سکتے ہیں.لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور اس میں حصہ لینا چاہے تو کس طرح لے سکتا ہے.اس میں
2 شک نہیں کہ سلسلہ کی اشاعت کے لئے ایک مستقل فنڈ کا قیام ایک ایسی بات ہے کہ جس میں حصہ لینے کی خواہش ہمیشہ ہی دلوں میں پیدا ہوتی رہے گی.اس لئے ایسے لوگوں کے شامل ہونے کی بھی کوئی صورت ضرور ہونی چاہئے.(۱) اسی خطبہ میں حضور نے فرمایا کہ پہلے کوئی بھی شخص سال میں پانچ روپیہ چندہ ادا کر کے اس تحریک میں شامل ہوسکتا تھا لیکن اب اس میں شامل ہونے والوں کو سال میں اپنی ایک ماہ کی آمد کے برابر چندہ پیش کرنا ہوگا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ۱۹۵۳ء میں با قاعدہ طور پر اس تحریک کومستقل کرنے کا اعلان فرمایا.حضور نے ۲۷ نومبر ۱۹۵۳ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: آج میں حسب دستور سابق تحریک جدید کے وعدوں کے لئے جماعت میں تحریک کرنا چاہتا ہوں.پہلے دفتر کے لوگوں کے لئے بھی کہ جن کے لئے ابتداء تین سالوں کی تحریک کی گئی اور ان تین سالوں کو بعض لوگ ایک ہی سال سمجھتے رہے.پھر وہ تحریک دس سال تک ممتد کی گئی.پھر اس کے لئے ۱۹ سال کی حد لگائی گئی.اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ ۱۹ سال بھی پورے ہو جاتے ہیں.اس اثنا میں تحریک جدید کے کام کو وسیع کرنے کے بعد خدا تعالیٰ نے میرا ذہن اس طرف پھیرا کہ تمہارے منہ سے جو عر صے بیان کروائے گئے تھے.وہ محض کمزور لوگوں کو ہمت دلوانے کے لئے تھے ورنہ حقیقت جس کام کے لئے تو نے جماعت کو بلایا تھا.وہ ایمان کا ایک جزو ہے.اور ایمان کو کسی حالت میں اور کسی وقت بھی معطل نہیں کیا جا سکتا اور اسے کسی صورت میں ترک نہیں کیا جاسکتا.(۲) اس طرح ۱۹۳۴ ء سے لے کر ۱۹۴۴ ء تک جنہوں نے تحریک جدید کے لئے مالی قربانیاں کیں وہ تحریک کے دفتر اول میں شامل ہوئے اور جنہوں نے اس کے بعد اس اپنی مالی قربانیاں پیش کیں انہیں دفتر دوئم میں شامل کیا گیا.لیکن اس کے بعد ایک طویل عرصہ یہ صورت حال یونہی رہی اور حضرت مصلح موعود کے دور میں کسی نئے دفتر کا اعلان نہیں فرمایا گیا.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دور خلافت کا اعلان ہوا تو حضور نے ۲۲ اپریل ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کے آغاز اور اس تحریک سے حاصل ہونے والی برکات کا ذکر کر کے فرمایا:
3 ” جیسا کہ میں بتا چکا ہوں دفتر اول میں شریک ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار تھی اور دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کی تعداد قریباً بیس ہزار تک پہنچ چکی ہے.بہر حال دفتر اول کے مقابلہ میں یہ بہت بڑی تعداد ہے.اگر دس سال کے بعد ایک اور دفتر کھولا جاتا تو ۱۹۵۴ء میں دفتر سوئم کا اجراء ہونا چاہئے تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت یا ارادہ کی وجہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۵۴ء میں دفتر سوم کا اجر انہیں فرمایا.۱۹۶۴ء میں دفتر دوم کے بیس سال پورے ہو جاتے ہیں.اس وقت حضرت مصلح موعوددؓ بیمار تھے اور غالباً بیماری کی وجہ سے ہی حضور کو اس طرف توجہ نہیں ہوئی کیونکہ امام کی بیماری کے ساتھ ایک حد تک نظام بھی بیمار ہو جاتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ تحریک جدید کی طرف سے بھی حضور کی خدمت میں اس کے متعلق لکھا نہیں گیا.میں چاہتا ہوں کہ اب دفتر سوم کا اجراء کر دیا جائے لیکن اس کا اجراء یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے شمار کیا جائے گا کیونکہ تحریک جدید کا سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے.اس طرح یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۶ء تک ایک سال بنے گا میں اس لئے ایسا کر رہا ہوں تا کہ دفتر سوم بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف منسوب ہو اور چونکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کے اعلان کی توفیق دے رہا ہے اس لئے میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے بھی اپنے فضل سے ثواب عطا کرے گا اور اپنی رضا کی راہیں مجھ پر کھولے گا.پس میں چاہتا ہوں کہ دفتر سوم کا اجراء یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے ہو.دوران سال نومبر کے بعد جو نئے لوگ تحریک جدید کے دفتر دوم میں شامل ہوئے ہیں ان سب کو دفتر سوم میں منتقل کر دینا چاہئے اور تمام جماعتوں کو ایک با قاعدہ مہم کے ذریعہ نوجوانوں ، نئے احمدیوں اور نئے کمانے والوں کو دفتر سوم میں شمولیت کے لئے تیار کرنا چاہئے.دوست جانتے ہیں کہ یہاں ہر سال خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھتی ہے اور نئے احمدی ہوتے ہیں وہاں ہزاروں احمدی بھی ایسے بھی ہوتے ہیں جو نئے نئے کمانا شروع کرتے ہیں یہ ہماری نئی پود ہے اور ان کی تعداد کافی ہے کیونکہ بچے جوان ہوتے ہیں تعلیم پاتے ہیں اور پھر کما نا شروع کرتے ہیں اور باہر سے بھی ہزاروں کمانے والے احمدیت میں
4 شامل ہورہے ہیں.اس طرح ہمیں کافی تعداد میں ایسے احمدی مل سکتے ہیں جو دفتر سوم میں شامل ہوں.ہمارا یہ کام ہے کہ ہم ان کو اس طرف متوجہ کریں تا کہ وہ عملاً دفتر سوم میں شامل ہو جائیں.سو یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے دفتر سوم کا اجراء کیا جاتا ہے.تحریک جدید کو چاہئے کہ وہ فوراً اس طرف توجہ دے اور اس کو منظم کرنے کی کوشش کرے.(۳) دفتر سوم کے اجراء کے اعلان کے بعد حضور نے ۲۸ / اکتوبر ۱۹۶۶ء کے تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان فرمایا.اس خطبہ جمعہ کے آغاز میں حضور نے فرمایا: " آج میں تحریک جدید کے سال نو کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.مالی قربانیوں کے لحاظ سے تحریک جدید کے اس وقت تین حصے ہیں اور وہ تین دفتر کہلاتے ہیں.دفتر اول ، دفتر دوم، اور دفتر سوم.دفتر اول کا بتیسواں سال جارہا ہے، دفتر دوم کا بائیسواں سال جا رہا ہے اور دفتر سوم کا پہلا سال جا رہا ہے.تحریک جدید کے بہت سے مطالبات ہیں.جن کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۱۹۳۴ء میں پانچ چھ خطبات دیئے.اگر آپ ان خطبات کا مطالعہ کریں تو آپ جان لیں گے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں ایک نہایت ہی اہم اور دور رس سکیم تھی.جس کی اہمیت بتاتے ہوئے بھی حضور نے غالباً دو یا اس سے زائد خطبات دیئے تھے.میں نے گزشتہ دنوں ان خطبات کو دوبارہ پڑھا اور ان پر غور کیا تو میری توجہ اس طرف گئی کہ تمام مطالبات جو تحریک جدید کے ضمن میں اس سکیم کے ماتحت آپ نے جماعت احمدیہ سے کئے ہیں وہ سارے کے سارے قرآنِ کریم کے پیش کردہ مطالبہ جہاد کی مختلف شقیں ہیں اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے.اے وہ لو گو جو دعویٰ کرتے ہو کہ ہم خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس تعلیم پر جو آنحضرت دنیا کی طرف لائے ہیں.ایمان لاتے ہیں.آؤ میں ایسی تجارت کی نشاندہی کروں کہ اگر تم یہ سودا اپنے رب سے کر لو.تو تم اس عذاب الیم سے بچ جاؤ گے جوان لوگوں کے لئے مقدر ہے جو اس قسم کا سودا اور اس قسم کی تجارت اپنے پیدا کرنے والے سے نہیں کرتے.(۴) حضور نے اس نئے سال کے اعلان کے موقع پر تحریک فرمائی کہ دفتر سوم کے وعدے بھی کم از کم ایک لاکھ روپے ہونے چاہئیں.
5 حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۹۷ء میں تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان کرتے ہوئے تحریک جدید کے آغاز میں قربانیاں کرنے والوں کے ذکر کے بعد فرمایا: اس وقت جماعت نے جو قربانیاں دیں اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرے.بہت سے ہیں جنہوں نے قربانیاں دیں وہ اس جہاں سے رخصت ہو چکے ہیں لیکن ہماری مالی قربانیوں کی رفتار اتنی نہیں رہی جتنی کہ ہماری ضرورتوں کے بڑھنے کی رفتار تھی.“ ( خطبات ناصر جلد اول صفحه ۹۴۴-۹۴۵) حضور نے فرمایا کہ ۱۹۵۳ء میں دفتر اول کا چندہ ۲۴۶۰۰۰ روپے تھا اور دفتر دوم کا چندہ ۱۱۰۰۰۰ تھا اور میزان ۵۶۰۰۰ ۳ روپے تھا جبکہ ۱۹۶۰ء میں دفتر اول کی آمد گر کر ۱۸۳۰۰۰ روپے رہ گئی کیونکہ اس دوران اس میں شامل بہت سے افراد فوت ہو گئے تھے اور اس سال دفتر دوم کی آمد بڑھ کر ۷۲۰۰۰ اروپے ہوگئی اور اس کا میزان ۵۵۰۰۰ ۳ روپے بنتا ہے.اور ۱۹۶۷ء میں دفتر اول کی آمد ۱۲۰۰۰۰ روپے رہ گئی اور دفتر دوم کی آمد ۲۳۸۰۰۰ ہو گئی.اور اس سال ان دونوں کا میزان ۳۲۸۰۰۰ روپے بنتا ہے.حضور نے فرمایا کہ ۱۹۷۰ ء کے جو اعداد و شمار بیان کئے گئے ہیں وہ مدوں کے نہیں بلکہ اصل آمد کے ہیں اور ابھی وصولی کے کچھ مہینے باقی ہیں.پاکستان سے باہر کے ممالک کی مالی قربانی کے بارے میں حضور نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا نہ کرتا کہ آپ کی غفلت اور سستی پر پردہ ڈال دے تو ہمارے سارے کام رک جاتے اس لئے کہ اس عرصہ میں بیرون پاکستان میں اتنی مضبوط جماعتیں پیدا ہو گئیں کہ ان میں بہت سی اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئیں اور بہت سی ایسی تھیں جنہوں نے بیرون پاکستان مشنز کو امداد دینی شروع کر دی اور اس کے نتیجہ میں ہمارے کام میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ترقی کی طرف ہمارا قدم بڑھتا چلا گیا.لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ خوش ہو جائیں کہ ہمیں اب زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت نہیں.اسکے معنے تو یہ ہیں کہ جیسے فکر پیدا ہوئی ہے کہ ہم نے غفلت اور سنتی دکھائی.اور وہ انعامات جو ہمیں ملنے چاہئیں تھے وہ ہمیں نہیں ملے اور دوسروں نے ہمارے ہاتھ سے چھین لئے.اگر ہمیں وہ مل جاتے اور بیرونِ پاکستان کے
6 بھائی بھی اللہ تعالیٰ کے ان انعامات میں شریک ہوتے تو ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات تھی.لیکن ہوا یہ کہ ان کو تو اللہ تعالیٰ نے بڑے انعامات سے نواز الیکن اس کے مقابلہ میں جو انعامات ہمیں ملنے چاہئیں تھے ہمیں نہیں ملے.(۵) خواہ تحریک جدید کا چندہ ہو یا مالی قربانیوں کا کوئی اور میدان ہو، اس میں جہاں یہ بات مدنظر رکھنی ضروری ہے کہ ایک مد میں کل کتنی قربانی پیش کی جارہی ہے اور چندہ دینے والوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے ، وہاں یہ بات بھی مد نظر رہنی چاہئے کہ اس مد میں مالی قربانی پیش کرے والے مجموعی طور پر اپنی حیثیت کے مطابق مالی قربانی پیش کر رہے ہیں کہ نہیں.چنانچہ جب دفتر سوئم کے آغاز کو کچھ سال گزر گئے تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس امر کی توجہ دلاتے ہوئے ۱۹۶۸ء میں حضور نے ارشاد فرمایا: سال رواں کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ دفتر اول (جس کی ابتداء پر ۳۴ سال گزر چکے ہیں ) کا وعدہ سال رواں کا ایک لاکھ پچپن ہزار روپیہ ہے اور دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کے وعدے تین لاکھ چون ہزار ہیں اور دفتر سوم میں شامل ہونے والوں کے وعدے اکتالیس ہزار ہیں.اگر مختلف دفاتر میں شامل ہونے والوں کی اوسط فی کس آمد نکالی جائے تو دفتر اول کے مجاہدین کی اوسط ۶۴ روپے بنتی ہے.بہت سے احباب اس سے بہت زیادہ دیتے ہوں گے اور جو غریب ہیں وہ اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق ہی تحریک جدید میں حصہ لیتے ہوں گے.لیکن اوسط ان کی ۶۴ روپے فی کس بنتی ہے.اس کے مقابلہ میں دفتر دوم کے مجاہدین کے تحریک جدید کے چندہ کی اوسط انیس روپے بنتی ہے اور ۶۴ روپے کے اوسط کے مقابلہ میں یہ بہت کم ہے.دونوں دفاتر کی اوسط میں بڑا فرق ہے.دفتر سوم کے مجاہدین مال کی اوسط چودہ روپے فی کس بنتی ہے.اس میں اور دفتر دوم کی اوسط میں فرق تو ہے لیکن زیادہ فرق نہیں خصوصاً جب یہ بات ہمارے مد نظر رہے کہ اس میں شامل ہونے والے بہت سے بچے بھی ہیں جنہوں نے ابھی کمانا شروع نہیں کیا.ان کے والدین ان کی طرف سے کچھ چندہ تحریک جدید میں ادا کر دیتے ہیں اور جو کمانے والے ہیں وہ اپنی کمائی کی عمر کے ابتدائی دور میں سے گزر رہے ہیں.....
7 لیکن میں نے سوچا اور غور کیا اور مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ ۱۹ روپے اوسط بہت کم ہے.اور آئندہ سال جو یکم نومبر سے شروع ہو رہا ہے جماعت کے انصار کو ( دفتر دوم کی ذمہ داری آج میں انصار پر ڈالتا ہوں ) جماعتی نظام کی مدد کرتے ہوئے ( آزادانہ طور پر نہیں ) یہ کوشش کرنی چاہئے کہ دفتر دوم کے معیار کو بلند کریں اور اس کی اوسط انیس روپے سے بڑھا کر میں روپے فی کس پر لے آئیں..دفتر سوم کے متعلق میرا تاثر یہ ہے کہ اگر چہ ان کے حالات کے لحاظ سے چودہ اور انیس کا زیادہ فرق نہیں لیکن اس دفتر میں شامل ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے یہ ابھی تک تین ہزار تک پہنچے ہیں لیکن ہم باور نہیں کر سکتے کہ ہماری آئندہ نسل زیادہ ہونے کی بجائے تعداد میں پہلوں سے کم ہوگئی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو وعدہ دیا تھا کہ میں ان کے نفوس میں برکت ڈالوں گا اس وعدہ کو وہ سچے وعدوں والا پورا کر رہا ہے اور ہماری آئندہ نسل میں غیر معمولی برکت ڈال رہا ہے.دفتر سوم والوں کا عمر کے لحاظ سے جو گروپ بنتا ہے یعنی اس عمر کے احمدی بچے اور اس زمانہ میں نئے احمدی ہونے والے.ان میں سے جس نسبت سے افراد کو تحریک جدید میں شامل ہونا چاہئے اس نسبت سے یہ تعداد تین ہزار سے بڑھنی چاہئے.اگلے سال کے لئے میں یہ امید کرتا ہوں کہ جماعت کوشش کر کے اس تعداد کو تین ہزار سے پانچ ہزار تک لے جائے گی اور ان کی اوسط چودہ سے اونچی کر کے بیس تک لے جائے گی.‘ (۶) دفتر سوئم کے آغاز پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے پاکستان سے باہر کی جماعتوں کی مالی قربانیوں کا خاص طور پر ذکر فرمایا تھا.اور اب بیرونِ پاکستان میں مختلف ممالک کی جماعتوں کی مالی قربانی کا معیار بلند ہو رہا تھا.ہم یہاں پر خلافت ثالثہ کے دوران مختلف ممالک کی مالی قربانیوں کے مختصر اعداد و شمار پیش کرتے ہیں.مالی سال ۱۹۶۶ ء.۱۹۶۷ء سے لے کر مالی سال ۱۹۸۴ء - ۱۹۸۵ ء تک تحریک جدید میں پاکستان سے باہر جس جماعت کو سب سے زیادہ مالی قربانی کی توفیق ملی وہ جماعت احمدیہ انڈونیشیا تھی.پاکستانی روپے کے مطابق اس دوران جماعت احمد یہ انڈونیشیا نے ایک کروڑ چودہ لاکھ سے زائد کی رقم تحریک جدید کے لئے پیش کی.اس کے بعد جماعت احمد یہ
8 ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ان سالوں کے دوران تمیں لاکھ پچاس ہزار روپے کے مساوی رقم تحریک جدید میں پیش کی.ان سالوں میں جماعت احمد یہ جرمنی نے ۲۸ لاکھ روپے، جماعت احمدیہ یو کے نے کے الاکھ روپے، جماعت احمدیہ کینیڈا نے ۱۴ لاکھ روپے ساٹھ ہزار روپے کے مساوی رقوم تحریک جدید کے لئے پیش کیں.اب بر اعظم افریقہ کی جماعتیں بھی مالی قربانی کے میدان میں آگے بڑھ رہی تھیں مالی سال ۱۹۶۶-۱۹۶۷ ء سے لے کر مالی سال ۱۹۸۴ - ۱۹۸۵ء افریقہ کے ممالک میں سے یوگینڈا نے سب سے زیادہ یعنی 9 لاکھ روپے ۶۴ ہزار روپے اور جماعت احمد یہ غانا نے ۶ لاکھ ۶۲ ہزار روپے کے مساوی رقم تحریک جدید میں پیش کی ، اس کے بعد نائیجیر یانے ۶ لاکھ ۳۵ ہزار روپے، ماریشس نے ۳ لاکھ ۷۷ ہزار اور سیرالیون نے ۲ لاکھ ۲۸ ہزار روپے کے مساوی چندے تحریک جدید میں پیش کئے.اسی طرح اس مدت کے دوران چندہ عام میں جماعت احمد یہ انڈونیشیا سب سے آگے رہی اور اس جماعت نے ان سالوں کے دوران ۴ کروڑ ۹۹لاکھ روپے کے مساوی رقم پیش کی.جبکہ اس مدت میں جماعت احمد یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ایک کروڑ ۹۵ لاکھ، جماعت احمد یہ یو کے نے ایک کروڑ ۲۶ لاکھ اور جماعت احمدیہ کینیڈا نے ۴۸ لاکھ روپے اور جماعت احمد یہ نبی نے ۴۵ لاکھ روپے کے مساوی رقوم کی مالی قربانی پیش کی.اس دوران افریقہ کی جماعتوں میں سے چندہ عام کی مد میں سب سے زیادہ نائیجیریا کی جماعت نے قربانی پیش کی جو کہ ایک کروڑ ۱۶ لاکھ روپے کی تھی اور ان سالوں میں غانا نے ۸۴ لاکھ روپے، سیرالیون نے ۲۴لاکھ روپے اور ماریشس نے 19 لاکھ روپے کے مساوی رقوم پیش کیں.چندہ وصیت میں بھی سب سے زیادہ جماعت احمدیہ انڈونیشیا اور پھر جماعت یو کے اور پھر جماعت امریکہ نے مالی قربانی پیش کی.ایک بار پھر واضح کر دیں کہ ان ممالک میں پاکستان کو شامل نہیں کیا گیا.والمصلى (۱) الفضل ۲۸ مئی ۱۹۴۴ ء ص ۱ (۲) روزنامه اصلح ۱۱۴ار دسمبر ۱۹۵۳ ء ص ۲ (۳) خطبات ناصر جلد اول ۲۲۸.۲۲۹ (۴) خطبات ناصر جلد اول ص ۴۳۸ و ۴۳۹ (۵) الفضل ۳ / نومبر ۱۹۶۷ ص ۲ تا ۴ (۶) الفضل ۲ نومبر ۱۹۶۸ء
9 مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلانے کی تحریک ۷ اردیسمبر ارد مہبر ۱۹۹۵ء کے خطبہ جمعہ پر حضرت طلیقہ اسح الثائف نے سورۃ الدھر کی بیآیات تلاوت فرمائیں: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمُ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيْرًا فَوَقْهُمُ اللهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقُهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوْرًا ) (الدهر ۹ تا ۱۲) ترجمہ : اور وہ کھانے کو ،اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے ہمسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں.ہم تمہیں محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کھلا رہے ہیں ، ہم ہرگز نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ کوئی شکریہ.اور یقیناً ہم اپنے رب کی طرف سے ( آنے والے ) ایک تیوری چڑھائے ہوئے سخت دن کا خوف رکھتے ہیں.پس اللہ نے انہیں اس دن کے شر سے بچالیا اور انہیں تازگی اور لطف عطا کئے.ان آیات کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ” ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے اس حکم کو سن کر ہمارے نیک بندے ہماری رضا کے متلاشی بندے، ہمارے قرب کے خواہاں بندے اس طرح عمل کرتے ہیں.وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلى حُبّہ کہ وہ ہماری محبت کی خاطر اور ہماری خوشنودی کے حصول کے لئے کھانا کھلاتے ہیں کس کو ؟ مسکین کو یتیم کو اسیر کو.عربی زبان میں مسکین کے معنی ہیں ایسا شخص جس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ وہ بخوبی گزارا کر سکے اور اس کا گھرانہ اس روپے سے پرورش پاسکے.اور یتیم کے معنی ہیں ایسا شخص جس کا والد یا مربی نہ ہو اور ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا.اور اسیر کے لفظی معنی تو قیدی کے ہیں لیکن اس کے یہ معنی بھی کئے جاسکتے ہیں وہ شخص جو
10 اپنے حالات سے مجبور ہو کر بطور قیدی کے ہو جائے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن لوگوں کو پوری غذا میسر نہیں اور ان کو ضرورت ہے کہ ان کی مدد کی جائے.جس کے بغیر وہ اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے.ان لوگوں کو ہمارے رار بندے کھانا کھلاتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہوئے ان کے دل کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں.اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ کہ ہم خدا کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے اور اس کی عنایات کو حاصل کرنے کے لئے تمہیں کھانا کھلا رہے ہیں اور لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا ہم اس نیت سے تمہیں نہیں کھلا رہے کہ کبھی تم ہمیں اس کا بدلہ دو اور نہ یہ کہ تم ہماراشکر یہ ادا کر و.ہم تم سے کچھ نہیں چاہتے نہ بدلہ چاہتے ہیں نہ ہی شکریہ کے خواہاں ہیں.ہم محض یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا رب ہم سے خوش ہو جاۓ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبَّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں اس دن سے جس میں ڈر کے مارے تیوریاں چڑھی ہوئی ہوں گی.اور لوگوں کو گھبراہٹ لاحق ہوگی.( یہ دن قیامت کا ہے اور کبھی ایسا دن اس دنیا میں بھی آجاتا ہے) کہ کہیں ہم بھی اس دن خدا کے عذاب اور اس کے قہر کے مورد نہ بن جائیں.اس لئے ہم یہ نیک کام بجالا رہے ہیں.“ ( خطبات ناصر جلد اول ص ۴۶، ۴۷) یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب کسی قوم میں غرباء کی خبر گیری بالکل نہ کی جائے اور ان کے حالات کو بد سے بدتر ہونے دیا جائے اور بھوک ان کے گھروں میں ڈیرے ڈال لے اور ان کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہ ہوں تو یہ حالات اس قوم کو ایک خونی انقلاب کی طرف لے جاتے ہیں جس میں بسا اوقات متمول طبقہ کو بھیا نک انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس قوم کا سابقہ نظام ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جاتا ہے.حضور نے اس تاریخی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: بھوک کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی طرف جب تو میں توجہ نہیں دیتیں تو ان قوموں میں بڑے بڑے انقلاب برپا ہو جاتے ہیں.جیسے کہ روس میں ریوولیوشن (انقلاب) اور دوسرے بہت سے ممالک میں انقلاب اسی لئے برپا ہوئے کہ وہاں اکثر
11 لوگوں کی زندگی کی ضروریات خصوصاً کھانے کا خیال نہیں رکھا گیا.اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں اور ان آیات سے مستنبط ہوتا ہے کہ اس دنیا میں جب بھائی بھائی کا خیال نہیں رکھتا.اور ایک قوم کی اکثریت اس مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے تو اس قوم میں ایک دن انقلاب کا بھی چڑھ آتا ہے.جس میں بہت سے بڑے اور امیر لوگ چھوٹے اور غریب کر دیئے جاتے ہیں.وہ دن ان کے پچھتانے کا ہوتا ہے.جس قوم کے ہر فرد کو اس کی ضروریات میسر آتی رہیں اور ان کے دل مطمئن اور تسلی یافتہ ہوں.اس قوم میں اس قسم کے انقلاب بپا نہیں ہوا کرتے.انقلابات اور ریوولیوشنز انہی ملکوں اور قوموں میں ہوتی ہیں.جن کے ایک بڑے حصے کو دھتکارا جاتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا.“ ( خطبات ناصر جلد اول ص ۴۷) حضور نے اس خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ کوئی احمدی بھوکا نہیں سونا چاہیئے.حضور نے فرمایا ” میرا یہ احساس ہے کہ جماعت کو اس حکم کی طرف پوری توجہ نہیں ہے.کوئی احمدی رات کو بھوکا نہیں سونا چاہئے.سب سے پہلے یہ ذمہ داری افراد پر عائد ہوتی ہے اس کے بعد جماعتی تنظیم اور حکومت کی باری آتی ہے کیونکہ سب سے پہلے یہ ذمہ داری اس ماحول پر پڑتی ہے جس ماحول میں وہ محتاج اپنی زندگی کے دن گزار رہا ہے.پھر ہماری جماعت کی تنظیم کے مطابق بڑے شہروں میں پریذیڈنٹ ہیں، امراء ہیں پھر شہر مختلف محلوں اور حلقوں میں تقسیم ہوتے ہیں جن میں ہمارے کارکن مقرر ہوتے ہیں.اتنے کارکنان کی موجودگی میں آپ میں سے ہر احمدی رات کو اس اطمینان کے ساتھ سوتا ہے کہ اس کا کوئی بھائی آج بھو کا نہیں سورہا.یا وہ بغیر سوچے سمجھے یہ تصور کر لیتا ہے کہ اس کے سب بھائیوں نے کھانا کھا لیا ہوگا.جہاں تک میرا احساس ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں پوری طرح محاسبہ نہیں کیا جاتا.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جماعت پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اور شاید ہی کوئی ایسے محتاج دوست ہوں جن کی غذائی ضروریات پوری نہ کی جاتی ہوں لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر ایک احمدی بھی ایسا ہے جس کی غذائی ضروریات پورا کرنے میں ہم غفلت برت رہے ہوں تو ہمیں بحیثیت جماعت خدا تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا.“
12 ( خطبات ناصر جلد اول ص ۴۹) حضور کا یہ خطبہ جمعہ ۱۹۶۵ء کا ہے.۱۹۶۵ء اور ۱۹۶۶ ء میں بھارت کے مختلف علاقوں میں قحط سالی کی کیفیت پیدا ہوئی اور خاص طور پر بہار کے علاقہ میں شدید قحط کے حالات پیدا ہوئے.کہا جاتا ہے کہ اس قحط میں دس پندرہ لاکھ افراد اپنے زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ۱۹۶۷ء میں پاکستان کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا اور ملک کو فوری ضرورت کے ماتحت امریکہ، چین اور کینیڈا سے غلہ منگوانا پڑا.اس موقع پر حزب اختلاف کی طرف سے حکومت پر نکتہ چینیوں کا سلسلہ شروع ہوا.ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے جو فرمایا اسے روز نامہ امروز نے ان الفاظ میں شائع کیا: ” انہوں نے کہا کہ نکتہ چینی بحران کو حل کرنے میں مدد کرنے کی بجائے الجھاتی ہے.کسی بھی قومی بحران کی صورت میں تمام شہریوں کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کو مطعون الله کرنے اور ملزم ٹھہرانے کے بجائے بحران کو دور کرنے کی مثبت تدابیر اختیار کریں.انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو چونکہ سرور کائنات ﷺ کی حیات طیبہ کو مسلمانوں کے لئے مشعل راہ بنانا تھا اس لئے ان کی زندگی میں وہ تمام واقعات ملتے ہیں جو مسلمانوں کو بعد میں پیش آ سکتے تھے.ان میں قحط کا واقعہ بھی موجود ہے.مکہ میں قحط پڑا تو رسول اکرم ﷺ نے ایثار پر زور دیا جس کے نتیجے میں کفار کو کھانا میسر آنے لگا.نبی اکرم ﷺ کے فرمودات کی روشنی میں مسلمان آج بھی رات کو اطمینان کر کے سوئیں کہ ہمسایہ بھوکا تو نہیں سورہا تو مسئلے کی شدت کم ہوسکتی ہے.انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے ہی موقعوں کے لئے فرمایا تھا کہ ایک کا کھانا دو کے لئے اور دو کا تین کے لئے کافی ہونا چاہئے.اور جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک کا کھانا دو کے لئے اور دو کا چار کے لئے اور چار کا آٹھ کے لئے کافی ہونا چاہئے تو ان کا اشارہ متمول طبقے کی جانب تھا.مرزا صاحب نے حزب مخالف کے رویے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اگر مقصد لوگوں کا پیٹ بھرنا ہے تو پھر حکومت سے تعاون ضروری ہے.انہوں نے کہا مخالف عناصر تعاون کی بجائے نکتہ چینی کی راہ اختیار کر کے ثابت کر رہے ہیں کہ غذائی قلت کے مسئلے پر قابو پانا ان کا
13 مقصد نہیں بلکہ اس کی آڑ میں اقتدار پر قبضہ کرنا ان کا مطلوب و مقصود ہے.نمائندہ امروز نے مرزا ناصر احمد سے پوچھا.سیاسی حلقوں کا یہ تاثر کہاں تک درست ہے کہ جماعت احمد یہ چونکہ ہر حکومت کی غیر مشروط اطاعت کرتی ہے اس لئے ملکی سیاست میں اس کا کوئی رول نہیں ہے.مرزا صاحب نے جواب دیا جماعت احمدیہ کو عملی سیاست سے بلا شبہ کم دلچسپی ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ وہ ہر حکومت کی غیر مشروط اطاعت کرتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جماعت قانون کی حکمرانی کی اطاعت کرتی ہے کیونکہ وہ بجھتی ہے کہ جب تک کسی ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی اس میں نہ تو معاشرتی ضبط ونظم پیدا ہوسکتا ہے اور نہ انفرادی سطح پر اطمینانِ قلب نصیب ہوسکتا ہے،مرزا صاحب نے کہا کہ اگر قانون حزب مخالف کے وجود کی اجازت دیتا ہو تو اس کے قیام میں بھی کوئی مضائقہ نہیں لیکن اختلاف کا اظہار تعمیری انداز میں ہونا چاہئے.انہوں نے کہا کہ مارشل لاء کے نفاذ پر جب حزب مخالف کی تمام توپوں نے چپ سادھ لی تھی تو ہمیں حکومت سے کچھ اختلاف تھے ہم نے مناسب طریقے سے ان کا اظہار کر دیا.انہوں نے کہا کہ جن حلقوں کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست میں جماعت احمدیہ کا رول نہیں.ظاہر ہے وہ حزب مخالف سے تعلق رکھتے ہیں.اس لئے میں ان سے یہی کہوں گا انہیں اول تو خوش ہونا چاہئے کہ ہم ان کے مقابلے میں نہیں ہیں اور یوں بھی انہیں ہماری فکر نہیں ہونی چاہئے...انہوں نے ایک واقعہ سنایا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ جماعت حکومت کے ہر اقدام کی اندھا دھند حمایت نہیں کرتی روزنامه امروز ۳۰ جنوری ۱۹۶۷ء ص ۹) حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی اس تحریک کی روشنی میں جماعت میں ہر سال مستحقین میں وسیع پیمانے پر گندم تقسیم کی جاتی ہے اور زکوۃ کی رقم سے بھی مستحقین کی وسیع بنیادوں پر مد کی جاتی ہے.جماعت کے کارکنان کو تو ویسے ہی تمام اہل خانہ کے لئے گندم کے اخراجات ادا کئے جاتے ہیں.
14 فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام جماعت احمدیہ پر اجتماعی طور پر اور لاکھوں احباب جماعت پر انفرادی طور پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بے شمار احسانات تھے اور ہیں.اور آپ کے بابرکت وجود میں موعود فرزند کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان پیشگوئیاں پوری ہوئیں.خود اللہ تعالیٰ نے آپ کے وجود کو رحمت کا ایک نشان قرار دیا تھا.آپ کی یاد ایسی یاد نہیں تھی جو آپ کی وفات کے ساتھ دلوں سے محو ہو جاتی.جس طرح آپ کے وجود میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں پوری ہوئیں اور جس طرح آپ کے باون سالہ دورِ خلافت میں جماعت ترقیات کی منازل طے کرتی چلی گئی ، اس کا تقاضا تھا کہ اس کے شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کی جائے.چنانچہ حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بے مثال کارناموں اور عظیم الشان احسانوں کی یادگار کے طور پر ۲۵لاکھ روپے کا ایک فنڈ قائم کیا جائے اور اس رقم سے ایسے کام کئے جائیں جن سے حضرت مصلح موعودؓ کو خاص دلچسپی تھی.۱۹۶۵ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جو خلافت ثالثہ کا پہلا جلسہ سالانہ تھا، آپ نے حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کی اجازت سے اس فنڈ کا اعلان ۱۹/ دسمبر ۱۹۶۵ء کو فرمایا اور احباب جماعت سے اس فنڈ میں حصہ لینے کی تحریک کی.آغاز میں جماعت سے پچیس لاکھ روپے کے عطیات کی اپیل کی گئی.(1) حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جلسہ سالانہ ۱۹۶۵ء پر خطاب کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ اس فنڈ سے جو فاؤنڈیشن قائم کی جائے گی اس کا نام فضل عمر فاؤنڈیشن ہو گا.آپ نے ارشاد فرمایا کہ جماعت دیگر مالی قربانیوں کے علاوہ اس چندے میں بھی حصہ لیں اور اس دعا کے ساتھ رقوم پیش کریں کہ اس فاؤنڈیشن کے اچھے نتائج نکلیں اور اللہ تعالیٰ ان کا ثواب حضرت مصلح موعود کو بھی پہنچائے اور ہمیں بھی پہنچائے.آپ نے یہ خوش خبری سنائی کہ کل اس فنڈ کے قیام کا اعلان ہوا ہے اور ایک دن میں احباب نے پندرہ لاکھ کے وعدے لکھوا دیئے ہیں اور یہ امید ظاہر فرمائی کہ وعدوں کی
15 مقدار پچیس لاکھ سے کہیں زیادہ پہنچ جائے گی.آپ نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے جو جائیداد بنائی تھی اس کے متعلق حضور کی نیت یہی تھی کہ اس سے دینی کام جاری کئے جائیں اور اپنے بچوں کو بھی حضور نے فرمایا کہ میں تمہیں دنیوی فکروں سے اس لئے آزاد کرنا چاہتا ہوں کہ تا تم اپنے اوقات کو دین کی خدمت میں لگائے رکھو.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ کے بچوں نے یہ طے کیا کہ وہ حضور کی اس جائیداد میں سے انشاء اللہ ایک لاکھ روپیہ اس فنڈ میں دیں گے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ارشاد فرمایا کہ میں ایک کمیٹی مقرر کروں گا جو یہ غور کرے گی کہ اس فنڈ کی رقم کو کس طرح خرچ کرنا ہے.اس کے ساتھ آپ نے دو ممکنہ مقاصد بیان فرمائے جن کے لئے اس فنڈ کی رقم کو خرچ کیا جاسکتا ہے.ایک مقصد تو پاکستان اور بیرونِ پاکستان میں کام کرنے کے لئے مبلغین اور معلمین تیار کرنے کا کام ہے.اور دوسرے ذہین بچوں کی تعلیم کے لئے اس فنڈ سے انتظام کیا جائے.ہمارے بعض بچوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے دماغ عطا فرمائے ہیں کہ ان کی پوری تربیت اور تعلیم کا انتظام ہو جائے تو بہت جلد دنیوی لحاظ سے چوٹی کے دماغوں میں شمار ہونے والے ہو سکتے ہیں.جلسہ سالانہ پر اس اعلان کے ساتھ فضل عمر فاؤنڈیشن کا آغاز ہوا.وعدہ کرنے والوں کو تین سالوں میں یہ چندہ ادا کرنا تھا.حکومت پاکستان نے یہ رعایت دی کہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی آمد انکم ٹیکس سے مستفی ہو گی اور اس میں چندہ دینے والوں کو انکم ٹیکس میں رعایت ملے گی (۲).حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اس کے پہلے صدر مقرر ہوئے.کرنل عطاء اللہ صاحب نے نائب صدر اور مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے سیکریٹری کے فرائض سنبھالے.مندرجہ بالا احباب سمیت اس کے کل دس ڈائریکٹر ز مقرر کئے گئے.فاؤنڈیشن نے فیصلہ کیا کہ چندوں سے حاصل ہونے والی رقوم کو محفوظ جگہ پر انوسٹ (Invest) کیا جائے گا اور حاصل ہونے والے منافع کو معین کردہ مقاصد کی تکمیل کے لئے خرچ کیا جائے گا.فاؤنڈیشن کے مقاصد کے تعین کے لئے ربوہ میں ” مجلس مقاصد“ کا اجلاس ہوا جس میں ڈویژنل امراء کے علاوہ دیگر صائب الرائے احباب کو بھی مدعو کیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے دعا کے ذریعہ اس کی کارروائی کا آغاز فرمایا.ڈیڑھ صد کے قریب تجاویز کو ان پانچ اقسام کے تحت مرتب کیا گیا: (۱) علمی تحقیقاتی کام (۲) تبلیغی جد و جہد (۳) تعلیمی جدوجہد (۴) اقتصادی جد و جهد (۵) متفرق
16 ایک سب کمیٹی نے ان تجاویز پر غور کر کے ایک پروگرام مرتب کیا.اس پروگرام میں قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبے شامل تھے.قلیل المیعاد پروگرام کے تحت فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضرت مصلح موعود کے تمام خطبات، تقاریر اور ملفوظات کو مرتب کر کے شائع کرنے کا انتظام کرنا تھا، حضرت مصلح موعودؓ کی سوانح حیات مرتب کر کے شائع کرنا تھی اور چونکہ حضرت مصلح موعود کی بہت خواہش تھی کہ عمدہ رسائل اور کتب تحقیق کر کے لکھے جائیں.چنانچہ فاؤنڈیشن نے فیصلہ کیا کہ اعلیٰ معیار کے علمی مقالے لکھوائے جائیں اور ان کو انعام بھی دیئے جائیں.حضرت مصلح موعود کی شدید خواہش تھی کہ مرکز میں ایک معیاری اور جامع لائبریری بنائی جائے.آپ کی اس خواہش کے پیش نظر فضل عمر فاؤنڈیشن نے فیصلہ کیا کہ ربوہ میں ایک ایسی لائبریری کی عمارت تعمیر کی جائے جس میں پچاس ہزار کتب رکھنے کی جگہ ہو.دوسرا طویل المیعاد منصوبہ یہ بنایا گیا کہ اگر کسی جگہ پر تحریک جدید محسوس کرے کہ یہاں پر مشن ہاؤس بننا چاہئے اور مالی وسائل موجود نہ ہوں یا کسی زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ کرنے کے لئے مالی معاونت درکار ہو تو فضل عمر فاؤنڈیشن ان مقاصد کے لئے مالی معاونت کرے گی.(۳) اس فاؤنڈیشن کے متعلق بعض لوگوں نے اس قسم کی باتیں شروع کر دیں اور لوگوں کے دلوں میں و ہم پیدا کرنے کی کوشش کی کہ شاید فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام ایک بدعت ہے جو مستحسن اور درست نہیں ہے.اس کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۶۶ء کی مجلس شوری سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تو یہ خیال کرنا کہ عمل کے میدان میں وہ ہمیں غلبہ اسلام اور اسلام کے استحکام کے لئے نئی نئی تدبیریں نہیں سکھائے گا.یہ اتنی غیر معقول بات ہے کہ اگر ذرا بھی سوچ اور فکر سے کام لیا جائے.تو طبیعت اس کو قبول کرنے کے لئے ہر گز تیار نہیں ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعوی فرمایا تو آپ نے خدمتِ اسلام کے لئے نئی نئی تدابیر نکالیں اور انہیں اختیار کیا.اس پر بعض لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا کہ آپ اسلام کی اشاعت ، خدمت اور اس کی مضبوطی کے لئے جونئی تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہ بدعت میں شامل ہیں اور مردود ہیں..66 اس کے بعد آپ نے تفصیلی دلائل بیان فرمائے کہ یہ وہم یہ اعتراض محض باطل ہے.آپ نے
17 ایک دوست کی خواب کا ذکر فرمایا جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے ارشاد فرمایا تھا کہ حضرت خلیفتر ایج الثالث کو یہ پیغام پہنچا دیا جائے کہ فضل عمر فاؤنڈیشن سے مینارہ ضرور بنایا جائے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ مینارہ کی تعبیر ایسے شخص کی ہوتی ہے جو اسلام کی طرف دعوت دینے والا ہو.اور اس کا مطلب یہ تھا کہ فضل عمر فاؤنڈیشن سے جید عالم ضرور پیدا کئے جائیں اور اس سے بے تو جہی نہ برتی جائے.اس خطاب کے آخر میں آپ نے فرمایا: ”اب میں اس نورانی چہرہ کا واسطہ دے کر آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ رقوم اس فاؤنڈیشن میں داخل کریں تا وہ کام جو ہمارے پیارے امام کو محبوب تھے ان میں ہم اور زیادہ وسعت پیدا کرسکیں.(۴) حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا منشاء مبارک تھا کہ فضل عمر فاؤنڈیشن جلد اپنا دفتر قائم کرے.چنانچه صدرانجمن احمد یہ ربوہ کے احاطے میں دفتر کی تعمیر شروع کی گئی ، جس کا افتتاح حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۵ جنوری ۱۹۶۷ء کو فرمایا.وعدوں کا حصول اور انکی وصولی سب سے پہلے توجہ کا تقاضا کرتی تھی.چنانچہ نائب صدر کرنل عطاء اللہ صاحب اور سیکریٹری شیخ مبارک احمد صاحب نے پہلے سال کے دوران پاکستان کے مختلف اضلاع کا دورہ کر کے احباب کو اس چندے میں وعدے کرنے کی تحریک کی.اور بعد میں ۱۹۶۹ء میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے اس غرض کے لئے انگلستان کا دورہ بھی کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث از راه شفقت چندوں کی ادائیگی کی خود بھی نگرانی فرماتے تھے.چنانچہ ۱۹۶۸ء کی مجلس مشاورت میں حضور نے امراء جماعت کو فرداً فرداً ان کی جماعتوں کی طرف بقایا جات کی طرف توجہ دلائی اور بروقت ادائیگی کے لئے انتہائی کوشش کا ارشاد فرمایا.اور فرمایا کہ بعض جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے اس طرف بالکل توجہ نہیں دی (۵).آغاز میں ۲۵ لاکھ روپے کی رقم کے لئے تحریک کی گئی تھی.مگر بعد میں یہ وعدہ جات ۳۷لاکھ روپے سے تجاوز کر گئے.عطایا کی ادائیگی کی میعاد ۱۹۶۹ء کے آخر میں ختم ہوگئی اور مدت کے اختتام تک ہبہ کی گئی جائداد سمیت کل تینتیس لاکھ چوراسی ہزار کا چندہ وصول کیا گیا.پاکستان کے علاوہ اٹھا ئیں اور ممالک سے احمدی احباب نے اس تحریک میں چندے دیئے.اگر چہ آغاز میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اس امید کا
18 اظہار فرمایا تھا کہ بیرونِ پاکستان جماعتیں ۱۵ لاکھ روپے کے قریب رقوم جمع کرلیں گی مگر مناسب تحریک نہ ہونے کے باعث یہ ہدف حاصل نہ کیا جا سکا اور بیرونِ پاکستان کی وصولی آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب رہی.سب سے زیادہ انگلستان کی جماعت نے حصہ لیا.اور لندن کے بچوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.دوسرے نمبر پر بھارت کی جماعت تھی.اور ماریشس کی جماعت نے اپنے وعدے سے بڑھ کر ادا ئیگی کی.افریقہ کی جماعتوں میں کینیا کی ادا ئیگی سب سے زیادہ تھی.بعد میں اس تحریک میں موصول کردہ چندے کی کل رقوم اس جائیداد کو شامل کر کے جو کہ پیش کی گئی تھی ساڑھے سینتیس لاکھ روپے تک پہنچ گئی.فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے ابتدائی وسائل کا جمع ہو جانا ،خلافت ثالثہ کے ابتدائی شیریں ثمرات میں سے ایک تھا.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ۱۹۷۰ء کے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا فضل عمر فاؤنڈیشن کا افتتاح ۱۹۶۵ء کے جلسے میں کیا گیا تھا.اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا.ایک بات اس وقت تو میں نے ظاہر نہیں کی اب بتا دیتا ہوں.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلافت کے مقام پر کھڑے کئے گئے تو سارے مخالف اندھوں نے کہا.ایک بچے کو بٹھا دیا ہے اس نے کیا کام سنبھالنا ہے.پھر وہی بچہ جب الہی تقدیر کے مطابق جب ۶۵ ء میں ہم سے جدا ہوا تو کہنے لگے بڑا ذہین ، بڑا صاحب فراست، بڑا عالم ، بڑا مد بر، بڑا انتظم جماعت سے علیحدہ ہو گیا، اب دیکھنا ان کا کیا حشر ہوتا ہے.۱۴ ء میں وہ نا قابل اعتنا بچہ تھا اور ۶۵ء میں وہ ایک ایسا بت بن گیا تھا ( غیروں کی نگاہ میں ہماری نگاہ میں نہیں) کہ وہ خیال کرتے تھے کہ اب وہ بت نہیں ہے تو جماعت ختم ہو جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے عمل سے اور اپنی رحمتوں کے جلوے دکھا کر جماعت کو کہا کہ ۱۴ء کا بچہ بھی میری انگلیوں میں ہتھیار بن کر اُٹھایا گیا تھا اور ۶۵ء میں بھی وہ میرا پیارا تھا جس کو میں نے اپنے پاس بلا لیا.پھر میں نے ایک اور ذرہ نا چیز کو پکڑا ، وہ بھی میری انگلیوں میں ہے.۱۹۱۴ء میں بھی تو تم ایک کو نا اہل کہتے رہے تھے ۱۹۶۵ء میں بھی کہہ لو.کوئی فرق نہیں پڑتا.ان لوگوں کو دکھانے کے لئے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ذہن میں یہ تجویز پیج
19 کے طور پر آئی اور اعلان ہوا.‘ (۶) پھر آپ نے فرمایا: فضل عمر فاؤنڈیشن اس خیال کے اوپر اللہ تعالیٰ کا ایک تازیانہ تھا جو کہتے تھے کہ اب جماعت مر جائے گی.خدا نے کہا کہ جماعت اتنی قربانیاں دے رہی ہے آؤ تمہیں ایک نظارہ دکھاؤں.‘ (۶) جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ فاؤنڈیشن کے چندے کی رقم سے سرمایہ کاری کی گئی تھی تا کہ حاصل شدہ منافع سے وہ کام سرانجام دیئے جائیں جن سے حضرت مصلح موعودؓ کو خاص دلچسپی تھی.ایک سال منافع تو حاصل ہوا لیکن کوئی ایسا مناسب منصوبہ نہ بنایا جاسکا جس پر یہ رقم لگائی جاسکتی تو ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے یہ اصولی ہدایت فرمائی: اور اب کچھ عرصہ سے روپیہ پڑا ہوا ہے اور انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کہاں خرچ کریں.جماعت نے تو وہ روپیہ قربانی کر کے دیا ہے اور رکھ چھوڑنے کے لئے نہیں دیا بلکہ اس لئے دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے دین اور اس کی مخلوق کو اس سے فائدہ پہنچے.دو چار تجاویز زیر غور تھیں.لیکن غور کے بعد انہیں رد کرنا پڑا.اور دو ایک تجاویز اب زیر غور ہیں.امید ہے انشاء اللہ یہ روپیہ پڑا نہیں رہے گا بلکہ اسے برکت کے دھاروں میں چالو کر دیا جائے (2)626 اب ہم ان کاموں کا مختصر جائزہ لیں گے جو فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت کئے گئے.لیکن اس جائزے میں ہم صرف فاؤنڈیشن کی مساعی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ جماعت کی تاریخ میں ان کاموں کی اہمیت اور ان کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے ارشادات کا مختصر جائزہ بھی لیں گے.خلافت لائبریری اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تو آپ نے مسلمانوں کو ایک علمی جہاد کی طرف بلایا تا کہ پیار اور دلائل کے ساتھ دنیا کو اسلام کی طرف بلایا جائے اور اُن
20 اعتراضات کا جواب دیا جائے جو ہر طرف سے اسلام پر کئے جارہے تھے.ظاہر ہے کہ اس عظیم الشان کام کیلئے وسیع پیمانے پر کتب کی ضرورت ایک لازمی بات تھی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک ایسے علم دوست گھرانے میں پیدا کیا ، جس نے نسلاً بعد نسل ہزاروں کتب کا ایک ذخیرہ قادیان میں جمع کیا تھا.اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا مرزا عطا محمد صاحب کے زمانے میں جب رام گڑھی سکھوں نے دھوکا سے شب خون مار کر قادیان پر قبضہ کیا تو اس خاندانی کتب خانے کو بہت نقصان پہنچا اور بہت سی کتب چاک کر دی گئیں.صرف قرآنِ مجید کے پانچ سو نسخے جلائے گئے (۸) لیکن اس عظیم نقصان کے باوجود خاندانی کتب خانے کا ایک حصہ محفوظ رہا جو ہزار ہا کتب پر مشتمل تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن سے مطالعہ کا اس قدر شوق تھا کہ آپ کے والد اس خوف سے آپ کو منع فرماتے تھے کہ کہیں آپ کی نظر پر اثر نہ پڑے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ہندوستان پر عیسائیت کی یلغار شروع ہو چکی تھی اور ہر طرف مذہبی مناظروں کا میدان گرم تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر وقت مذہبی کتب کے مطالعہ میں منہمک رہتے تھے.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر تو جہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا.“ (روحانی خزائن جلد ۱۳ ص ۱۸۱ حاشیہ) اسی طرح حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کتابوں کا بہت شوق تھا.آپ نے بے تحا شار و پیہ خرچ کر کے کتب کا ایک خزانہ جمع فرمایا تھا.آپ کو خود بھی مطالعہ کا شوق تھا اور دوسرے ضرورت مند بھی آپ کے کتب خانے سے استفادہ کرتے تھے..جب آپ ہجرت کر کے قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شروع میں ، جبکہ ابھی خود آپ کو بھی معلوم نہیں تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منشاء یہ ہے کہ اب آپ قادیان میں ہی مستقل سکونت رکھیں ، آپ کو اپنا کتب خانہ بھیرہ سے قادیان منتقل کرنے کا ارشاد فرمایا.ایک اندازے کے مطابق آپ کے کتب خانے میں ہیں تمہیں ہزار کتب موجود تھیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ، ایک دشمن اسلام نے کتاب امہات المؤمنین شائع کی.اس کتاب میں آنحضرت ﷺ کو او باشانہ انداز میں گالیاں دی گئی تھیں اور آپ کے
21 متعلق توہین آمیز اور گندے الفاظ استعمال کئے گئے تھے.اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ اس کی کتاب کے جواب میں صحیح رد عمل یہ ہے کہ اس کا اور اس جیسی دوسری کتب کا جواب لکھا جائے.اور ان کے اعتراضات کا جواب دینے والے اور ان کے جواب میں کتب لکھنے والے کے لئے آپ نے دس ضروری شرائط بیان فرمائیں.اور آپ کی تحریر فرمودہ شرائط میں سے آٹھویں شرط یہ تھی کہ آٹھویں شرط تحریری یا تقریری مباحثات کیلئے مباحث یا مؤلف کے پاس ان کثیر التعداد کتابوں کا جمع ہونا ہے جو نہایت معتبر اور مسلم الصحت ہیں جن سے چالاک اور مفتری انسان کا منہ بند کیا جا تا اور اس کے افترا کی قلعی کھولی جاتی ہے.“ اور اس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کتب خانے کا ذکر بھی فرمایا.(۹) جماعت احمدیہ کے قیام کے ساتھ ایک عظیم قلمی اور علمی جہاد کا آغاز ہوا.اور وسیع لائبریریاں اس عظیم کام کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہیں.چنانچہ باوجود نہایت محدود مالی وسائل کے مختلف جماعتی اداروں نے اپنی اپنی لائبریریاں بنائیں.قادیان میں رسالہ ریویو آف ریلیجنز ، حضرت مصلح موعود کی قائم کردہ انجمن تفخیذ الاذہان ، مدرسہ احمدیہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور تعلیم الاسلام کالج اور فضل عمر فاؤنڈیشن نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق لائبریریاں قائم کی تھیں اور خواتین کے لئے امتہائی لائبریری بھی کام کر رہی تھی.اس کے علاوہ مختلف بزرگان نے بھی اپنی ذاتی لائبریریوں کی صورت میں کتابوں کا خزانہ جمع کیا.خود حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے ذاتی کتب خانے میں ہزاروں کتب موجود تھیں.دسمبر ۱۹۱۶ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتب کا بیش بہا خزانہ صدر انجمن احمدیہ کے نام وقف کر دیا.صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کتب خانہ، ریویو اور تشخیذ الاذہان کی لائبریریوں کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے کتب خانے سے مدغم کر کے صادق لائبریری کے نام سے ایک مرکزی لائبریری قائم کی اور حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب اس کے لائبریرین مقرر ہوئے.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو کتابوں اور مطالعہ کا شوق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ورثہ میں ملا تھا.جنوری ۱۹۳۲ء میں
22 حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی لائبریری کی ڈیڑھ ہزار کتب بھی مرکزی لائبریری میں شامل کر دی گئیں اور لائبریری کو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے دیوان خانے میں منتقل کر دیا گیا.بہت سے غیر از جماعت احباب جب قادیان دیکھنے آتے تو ایک چھوٹے سے قصبہ میں اتنی وسیع لائبریری دیکھ کر حیران رہ جاتے.جب ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کا مرحلہ آیا تو قادیان کی جدائی کا زخم اُٹھانا پڑا.تمام تر کوششوں کے باوجود حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتب میں سے تقریباً چھ ہزار جو کہ حضور کے کتب خانے کا دو تہائی حصہ تھا پاکستان پہنچائی گئیں.حضور نے اپنے صاحبزادوں کو ان کتب کی با حفاظت منتقلی کے متعلق خاص ہدایات دی تھیں اورفرمایا تھا کہ یہی تو ہماری اصل جائیداد ہے اور حضرت خلیفۃ اسیح الاول" کے وسیع کتب خانے سے فقط ساڑھے چار ہزار کتب پاکستان منتقل کی جا سکیں.اس وقت پورے پنجاب میں فسادات کی آگ بھڑک رہی تھی اور ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم تھا.ان کتابوں کو لکڑیوں کی پیٹیوں میں بھر کر سرحد پر لایا جاتا اور وہاں سے کچھ کارکنان ان کو لاہور لے آتے.یہ کتب لاہور سے پہلے چنیوٹ اور پھر ربوہ منتقل کی گئیں.اُس پر آشوب دور میں جب درویشان قادیان محصوری کی حالت میں دن گزار رہے تھے ، کتب کی حفاظت کا مناسب انتظام نہ ہوسکا اور اس لائبریری کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو گیا.جب ربوہ آباد ہوا اور نئے مرکز میں مختلف ادارے قائم ہونے لگے تو ایک وسیع لائبریری کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جانے لگی.۱۹۵۲ء کی مجلس شوریٰ میں حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کے لئے ایک وسیع لائبریری کی اہمیت اور اس کے انتظام اور لائبریرین کے فرائض پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے احباب جماعت اور صدر انجمن احمدیہ کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.حضور نے فرمایا: دو لائبریری کے متعلق میرے نزدیک سلسلہ نے بہت بڑی غفلت برتی ہے.لائبریری ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی تبلیغی جماعت اس کے بغیر کام نہیں کر سکتی.جہاں تک میں سمجھتا ہوں جب سے میری خلافت شروع ہوئی ہے.کسی بڑے دفتر کے چپڑاسیوں پر جور تم خرچ ہو چکی ہے اتنی رقم لا بریری کے لئے انجمن نے خرچ نہیں کی.ایک دو چپڑاسیوں کی رقم ہی جمع کر لو تو تمہیں فوراً پتا لگ جائے گا کہ اس بارہ میں کتنی بڑی غفلت اور کوتاہی سے کام لیا
23 گیا ہے، حالانکہ یہ اتنی اہم چیز ہے کہ ہمارے سارے کام اس سے وابستہ ہیں.تبلیغ اسلام، مخالفوں کے اعتراضات کے جواب، تربیت.یہ سب کام لائبریری ہی سے تعلق رکھتے ہیں.اس وقت تک جتنا کام ہو رہا ہے یا تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی لائبریری سے ہو رہا ہے.اور یا پھر میری لائبریری سے ہو رہا ہے....لیکن وہ جماعت جو ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کے کام کے لئے کھڑی ہوئی ہے.اس کے علوم کی بنیاد کسی دوسرے شخص کی لائبریری پر ہونا عقل کے بالکل خلاف ہے.ہمارے پاس تو اتنی مکمل لائبریری ہونی چاہئے کہ جس قسم کی مکمل مذہبی لائبریری کسی دوسری جگہ نہ ہو.مگر ہمارا خانہ اس بارہ میں بالکل خالی ہے.‘ (10) اس کے بعد حضور نے لائبریرین کے کام کے دائرہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لائبریرین کے معنے محض کتابوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مختلف مضامین کی کتابوں سے واقف ہو.اور جب اس سے پوچھا جائے کہ فلاں فلاں مضمون پر کون کون سی کتابیں دیکھنی چاہئیں.تو وہ فوراً ان کتابوں کے نام بتا سکے.اور چاہئے کہ لائبریری میں ہرفن کے جاننے والے آدمی ہونے چاہئیں.ان کا کام یہ ہو کہ وہ کتابیں پڑھتے رہیں اور خلاصے نکالتے رہیں.اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب لوگوں کو ان حوالوں کی ضرورت ہوگی ، وہ خلاصہ سے فوراً ضروری باتیں اخذ کر لیں گے.حضور نے مثالیں دے کر واضح فرمایا کہ جب ایک تحقیق کرنے والا کسی موضوع پر تحقیق کرے گا تو وہ اس تحقیق سے متعلقہ مختلف موضوعات کے ماہرین کے پاس جائے گا اور یہ ماہرین اپنے اپنے مضمون کے حوالے سے اس کو ان کتب کا بتادیں گے جہاں سے اسے ضروری مواد مل سکتا ہے.اور اس طرح کتاب لکھنے والا آسانی سے کتاب لکھ سکتا ہے.گویا لڑنے والا حصہ اور ہوگا اور گولہ بارود تیار کرنے والا حصہ اور ہوگا.کیا تم نے کوئی سپاہی ایسا دیکھا ہے جسے لڑائی پر جانے کا حکم ملے تو وہ کارتوس بنانا شروع کر دے.کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کسی کو مدرس مقرر کیا گیا ہو تو ساتھ ہی اسے یہ کہا گیا ہو کہ اب جغرافیہ پر ایسی کتاب لکھ دو جو پڑھانے کے کام آسکے.ہمیشہ اصل کام والا حصہ اور ہوتا ہے اور تعاونی حصہ الگ ہوتا ہے.مگر ہمارے ہاں چونکہ اس کا خیال نہیں رکھا جاتا اس لئے ہمارا علم ترقی نہیں کرتا.حضور نے ارشاد فرمایا کہ اگر ہمارے پاس ایک لا کھ کتاب ہو تو ہمارے
24 پاس پچاس آدمی لائبریرین ہونا چاہئے.جن میں سے کچھ نئی کتابوں کو پڑھنے میں لگا ر ہے.کچھ پرانی کتابوں کے خلاصے تیار کرنے میں لگا رہے.کچھ ایسے ہوں جو طلباء کے لئے نئی نئی کتابوں کے ضروری مضامین الگ کرتے جائیں.(۱۱) حضرت مصلح موعودؓ کے ان ارشادات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی شدید خواہش تھی کہ جماعت کی اپنی معیاری لائبریری ہو جو فقط ایک عام لائبریری نہ ہو بلکہ ایک تحقیقاتی ادارے کی طرز پر کام کرے کیونکہ اس سے تبلیغ اسلام کے بہت سے اہم کام وابستہ ہیں.موجودہ دور میں کتابوں کے ساتھ کسی بھی لائبریری کے لئے ایک معیاری عمارت بھی نہایت ضروری ہوتی ہے.چنانچہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضور کے اس ارشاد کے احترام میں ربوہ میں لائبریری کی ایک عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا.جب اس پر اجیکٹ پر کام ہو رہا تھا تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: لائبریریوں کے متعلق میں ایک اور بات بھی کہہ دیتا ہوں اور وہ یہ کہ لائبریریوں کی طرف جماعت کو توجہ نہیں.جہاں توجہ پیدا ہوتی ہے وہاں غلط توجہ پیدا ہو جاتی ہے.لائبریری کا مقصد یہ ہے کہ ایسی کتابیں رکھی جائیں جو کتاب بینی کے روحانی شوق کو پورا کرنے والی ہوں."روحانی" کے لفظ کا اضافہ میں جان بوجھ کر کر رہا ہوں.کتاب بینی کا شوق پورا کرنے کے لئے لوگ عمرو عیار کی عیاریاں بھی پڑھتے ہیں اور حمید و فریدی کے ناولوں کا مطالعہ بھی کرتے ہیں حالانکہ وہ بالکل بے معنی ہیں.گو وہ بڑی کثرت سے بک رہے ہیں لیکن وہ انسان کی روحانی پیاس نہیں بجھاتے اور لائبریری کا مقصد روحانی پیاس کے بجھانے کا سامان پیدا کرنا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم لائبریریوں کے قیام کی طرف توجہ نہیں کریں گے تو ہماری روحانی پیاس نہیں مجھے گی اور ہمارے اندر روحانی کمزوری پیدا ہو جائے گی.‘(۱۲) اب تک مرکزی لائبریری پرائیویٹ سیکریٹری کے دفتر کے تین کمروں میں محدود تھی.فضل عمر فاؤنڈیشن نے ایک جاذب نظر عمارت تیار کر کے صدر انجمن احمد یہ کے حوالے کی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس کا افتتاح ۳/ اکتوبر ۱۹۷۱ء کو فرمایا.تقریب افتتاح سے خطاب فرماتے
25 ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے فرمایا کہ جس منصوبے کو ہم نے بڑا سمجھا تھا آج ہماری آنکھ اسے چھوٹا پا رہی ہے.ہمیں تو لائبریری کی ایک ایسی عمارت کی ضرورت ہے جس میں کم و بیش پانچ لاکھ کتابیں رکھی جائیں.یہ ضرورت کا احساس ہے وقت آنے پر اس کے پورا کرنے کا سامان اللہ تعالیٰ خودفرمائے گا.آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم ایک ماڈل لائبریری ہے جس میں بڑے سے بڑے کتب خانے کا نچوڑ ہے.لائبریریوں کے قیام کی غرض مومنوں کے نزدیک صرف یہ ہونی چاہئے کہ دنیا میں قرآن کریم کے علوم پھیلیں اور محفوظ ہوں.قرآن کریم کی تفسیر کے لئے جو کتب لکھی جائیں یا جو کتب تفسیر میں محمد ہوں وہ سب ہماری لائبریری میں موجود ہونی چاہئیں.پھر رسول کریم ﷺ کے تمام ارشادات ہیں جو احادیث کے رنگ میں موجود ہیں وہ بھی قرآنِ کریم کی تفسیر پر مشتمل ہیں، اس طرح امت کے دوسرے مقربینِ الہی بھی جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں قرآن کے سیکھنے اور سکھانے میں صرف کیں جو کتب لکھیں وہ قرآن ہی کی تفسیر ہیں.اس لئے وہ بھی فيها كتب قيمة میں شامل ہیں اور ہماری لائبریری میں موجود ہونی چاہئیں.(۱۳) حضرت مصلح موعود کے خطبات، تقاریر اور کتب کی اشاعت حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے باون سالہ دور خلافت میں حضور نے جو خطبات ارشاد فرمائے ، جو تقاریر کیں اور جو کتب آپ نے تحریر فرمائیں وہ ایک ایسا علمی خزانہ ہے جسے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کرنا نہایت ضروری تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن نے اس اہم فریضہ پر کام شروع کیا.پہلی جلد خطبات عید الفطر پر مشتمل تھی جو کہ ۱۹۷۰ء کے جلسہ سالانہ پر شائع کی گئی.خطبات عید الاضحیٰ کی جلد ۱۹۷۵ء میں اور حضور کے بیان فرمودہ خطبات نکاح کی جلد ۱۹۷۹ء میں منظر عام پر آئی.اس کے بعد کچھ نقار بر تو شائع ہوئیں لیکن عملاً یہ کام ایک طویل عرصہ تک ملتوی رہا.پھر جب مکرم ناصر احمد شمس صاحب ۱۹۹۲ء میں سیکریٹری فضل عمر فاؤنڈیشن مقرر ہوئے تو اس اہم کام کو از سر نو شروع کیا گیا اور ۲۰۱۰ ء تک حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات کی ۱۸ جلدیں طبع ہو چکی ہیں ، جن میں ۱۹۳۷ء تک حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات شامل ہیں.اور حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف فرمودہ کتب کی ۲۲ جلدیں طبع ہو چکی ہیں، ان ۲۲ جلدوں میں حضرت مصلح موعودؓ کی ۱۹۵۲ء تک کی تصانیف شامل ہیں.
26 اس کے علاوہ ۱۷ دیگر کتب شائع ہوئی ہیں جبکہ خطابات شوری کی تدوین واشاعت کا کام بھی جاری ہے.یہ خطبات اور تصانیف جماعت احمدیہ بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک عظیم علمی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں.اسی طرح قیام کے معا بعد ہی فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضرت مصلح موعود کی سوانح حیات پر کام شروع کیا.ابتدا میں یہ کام مکرم و محترم ملک سیف الرحمن صاحب کے سپرد کیا گیا.مکرم ومحترم ملک سیف الرحمن صاحب نے مواد جمع کرنا شروع کیا اور ۱۹۷۰ ء تک تقریباً ایک ہزار صفحات کا مسودہ تیار ہو چکا تھا.اور ایک بورڈ آف ایڈیٹرز اس کا جائزہ لے رہا تھا.اس کے بعد فاؤنڈیشن نے یہ کام حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے سپرد کیا.آپ پر بہت سے جماعتی کاموں کے بوجھ تھے.اس لئے اس مسودہ کو حتمی شکل دینے میں زیادہ وقت لگا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء کو جلسہ سالانہ کی تقریر میں فرمایا: پھر حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات کی تیاری گو ۶۶.۶۷ ء سے شروع ہے لیکن اب ۷۲ ، ختم ہو رہا ہے مگر ابھی تک وہ آخری شکل میں ہمارے سامنے نہیں آئی پہلے ملک سیف الرحمن صاحب نے ایک مسودہ ایک کمیٹی کے مشورہ کے ساتھ تیار کیا.پھر فاؤنڈیشن نے کہا نہیں یہ بھی درست نہیں.اب یہ کام میاں طاہر احمد صاحب کے سپرد ہے کہ وہ اس کو از سر نو لکھیں یا ملک سیف الرحمن صاحب کے تیار کردہ مسودہ کی اصلاح کریں یا جیسے بھی مناسب ہو.بہر حال یہ کتاب اب تک چھپ جانی چاہئے تھی لیکن اب تک نہیں چھپ سکی.(۱۴) ۱۹۷۵ء میں سوانح فضل عمر کی پہلی جلد شائع ہو کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی.یہ کتاب جماعت کے لٹریچر میں ایک قیمتی اضافہ تھی.اس کی پہلی جلد ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی.دوسری جلد بھی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے تصنیف فرمائی.پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب خلافت پر سرفراز فرمایا تو مکرم عبدالباسط شاہد صاحب مربی سلسلہ نے اس کام کو مکمل کیا.مقالہ جات حضرت مصلح موعودؓ کی شدید خواہش تھی اور آپ نے جماعت کو بار بار اس طرف توجہ بھی دلائی
27 کہ جماعت میں تحقیق کی طرف رحجان پیدا ہو اور ایسی کتب اور مضامین شائع کئے جائیں جن کی بنیاد گہری تحقیق پر ہو.آپ کی اس خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے فضل عمر فاؤنڈیشن نے تحقیقی مقالہ جات لکھوانے اور ان میں سے معیاری مقالہ جات کو انعامات دینے کا ایک پروگرام بنایا.چنانچہ پہلے سال اس سکیم کے تحت ۳۷ مقالے وصول ہوئے.۱۲ / جنوری ۱۹۶۸ء کو جلسہ سالانہ سے خطاب فرماتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اُس وقت تک موصول ہونے والے مقالوں کی تعداد پر ان الفاظ میں اظہارِ خوشنودی فرمایا: وو یہ تعداد بڑی خوشکن ہے.شکر ہے کہ جنہیں اہل قلم بننا چاہئے وہ اہل قلم بنے کی طرف متوجہ ہورہے ہیں.(۱۵) اس کے بعد موصول ہونے والے مقالوں کی تعداد میں کمی آتی گئی.اور یہ تعداد گر کر ایک سال میں دو تین مقالہ جات تک رہ گئی.اور پھر اس میں مزید کمی آئی اور ۱۹۹۶ ء اور ۲۰۰۶ء کے درمیان صرف ۳ مقالے لکھے گئے.( تاہم ذیلی تنظیموں کے تحت مقالہ جات لکھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے) چونکہ جماعت احمدیہ کے لئے تحقیق اور تصنیف کا کام ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اس لئے اس صورتِ حال میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے احباب جماعت کو بار بار اس طرف توجہ دلائی کہ وہ تحقیق اور تصنیف کی طرف توجہ دیں.چنانچہ آپ نے ۱۹۷۰ ء کے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: علمی اور تحقیقاتی تصانیف کا مقابلہ ہر سال ہوتا ہے..زیادہ دوستوں کو اس طرف دو توجہ کرنا چاہئے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت دوست صرف اس خیال سے اس میں حصہ لیتے ہیں کہ شاید ہمیں انعام مل جائے.ایک ہزار روپیہ انعام کا لالچ نہ کریں.جو اس طرف متوجہ ہوں گے ان کا علم بہت بڑھے گا.کئی ہزار احمدی بی اے ہے یعنی بی اے یا بی اے سے اوپر جس کی تعلیم ہے مثلاً ایم اے یا ڈاکٹر وغیرہ یا جو اس سے زیادہ تعلیم سمجھی جاتی ہے ، ان کو توجہ کرنی چاہئے.انعام ملے یا نہ ملے تحقیق کے بعد بڑی محنت سے راتوں کو جاگ کر اور کتب پڑھ کر مقالہ لکھنا یہ خود ایک انعام ہے.(۱۶) ۱۹۷۲ء کے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: وو علاوہ ازیں انعامی مضامین لکھوانے کا پروگرام تھا جو فی نفسہ بڑا ہی اہم نہایت ضروری
28 اور بڑا ہی مفید پروگرام ہے.لیکن نہ جماعت کے دوستوں نے اس کی طرف پوری توجہ دی اور نہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے منتظمین نے جماعت کو کما حقہ توجہ دلائی.چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال ایسا بھی آیا کہ اس میں ایک مقالہ بھی معیاری نہیں تھا.اور عملا کسی سال میں بھی پانچ دس سے زیادہ مقالے نہیں آئے...اس سے پہلے ۱۹۶۹ء میں جو چند مقالے آئے تھے ان کے انعام کا فضل عمر فاؤنڈیشن نے اب تین سال کے بعد اعلان کیا ہے.ظاہر ہے یہ بھی ایک انتظامی خرابی ہے.جس کام کا نتیجہ جلد تر ممکن تھا اتنا جلد نہ نکلے تو اس میں حصہ لینے والوں کو کوئی خاص دلچسپی نہیں رہتی.“ (۱۷) ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں آپ نے مقالوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا لیکن بہت کم ہمارے نوجوانوں نے اس طرف توجہ کی.اور بہت کم انعام انہوں نے حاصل کیا.انعام تو کوئی غرض نہیں.یہ تو ہم نے ایک راہ نکالی تھی کہ ہمارا تعلیم یافتہ نوجوان وہ دین کا سپاہی اس سرحد پر بھی لڑنے کی تیاری کرے گا کہ جو دوسروں کے اعتراضات اسلام پر ہیں اور خدا اور رسول کے متعلق وہ نا سمجھی کی باتیں کرتے رہتے ہیں ان کے جوابات مختلف مضامین کے ماتحت وہ نوجوان دے گا.لیکن اس طرف ہماری جماعت بہت کم توجہ کر رہی ہے....اُس نے کہا ہے کہ میں نے جماعت احمدیہ کے ذہن کو ساری دنیا پر غالب آنے کے لئے بنایا اگر جماعت احمدیہ کا ذہن علمی میدان میں ساری دنیا پر غالب آنے کے لئے کوشش ہی نہ کرے تو وہ ناشکرے کہلائیں گے.وہ جاہل نہیں کہلائیں گے.وہ نا اہل نہیں کہلائیں گے وہ ناشکرے کہلائیں گے.کہ خدا نے ایک طاقت انہیں دی لیکن اس سے انہوں نے فائدہ نہیں اُٹھایا.ہزاروں نو جوان.دس اور پانچ مقالے دیگر آپ اس ذمہ داری سے عہدہ برآنہیں ہو سکتے.میں تو حیران ہوں.ہمارے پاس ہر مضمون کے متعلق پانچ سو مقالے آنے چاہئے تھے.جو متحن بنتے اُن کو بھی پتہ لگے کہ احمدیوں کے دماغ کس طرح علم کی رفعتوں پر پرواز کرتے ہیں.بہر حال اس طرف توجہ نہیں دی گئی.اس طرف توجہ کرنی چاہئے بڑی ضروری بات ہے.‘ (۱۸) فضل عمر فاؤنڈیشن کے آغاز سے لے کر ۲۰۱۰ ء تک کل ۱۲۹ مقالے وصول ہوئے ہیں جن میں
29 29 سے ۳۷ کو انعام دیا گیا ہے.(۱) الفضل ۲۴؍ دسمبر ۱۹۶۵ء ص ۲ (۲) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۶ء ص ۱۶۶ (۳) رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن.مرتبہ سیکر یٹری فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ ص ۱ تا ۱۶ (۴) الفضل سے مئی ۱۹۶۶، ص ۱ تا ۳ (۵) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۸ ص ۱۳۵ - ۱۴۲ (۲) خطاب حضرت خلیفہ اسیح الثالث، جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء (۷) خطاب حضرت خلیفة مسح الثالث"، جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۳ء (۸) روحانی خزائن جلد ۳ ص ۱۶۵ (۹) روحانی خزائن جلد ۱۳ ص ۳۷۴-۳۷۵ (۱۰) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ ص ۹ - ۱۰ (11) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ ص ۱۱ تا ۱۵ (۱۲) خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الثالث"، جلسہ سالانہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۸، مطبوعہ (۱۳) الفضل ۹ را کتوبر ۱۹۷۱ ء ص ۵،۱ (۱۴) تقر بر حضرت خلیفتہ امسیح الثالث، جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء تقریرحضرت امتحانات جبله سالانه ۲ (۱۵) تقریر حضرت خلیفہ امسیح الثالث، جلسه سالانه ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء (۱۲) تقریر حضرت خلیفہ مسیح الثالث، جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء ۱۹۷۲ء (۱۷) تقریر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۲۷؍ دسمبر ۱۷۲ (۱۸) تقریر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۳ء
30 تبلیغی مراکز کا منصوبہ بند ہونے والے مراکز کے متعلق حضور کا اصولی ارشاد بہت سے ممالک ایسے تھے جہاں پر حضرت مصلح موعودؓ کے مبارک دور میں مبلغ بھجوا کر تبلیغ کا آغاز کیا گیا لیکن قانونی مجبوریوں یا اس ملک میں پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے کچھ ہی عرصہ بعد یہاں پر یہ کام جاری نہیں رہ سکا.لیکن جماعت احمد یہ اپنے اس فرض سے غافل نہیں رہ سکتی کہ خدمت کا جو کام حضرت مصلح موعودؓ نے شروع فرمایا تھا ، جب بھی موقع ملے اس کو پھر سے شروع کریں.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۶۵ء کے جلسہ سالانہ میں ان کے متعلق ارشاد فرمایا: دنیا کی مختلف اقوام میں جو مختلف انقلابات برپا ہوئے ان کے نتیجہ میں ہمیں نو جگہوں پر اپنے تبلیغی مراکز کو بند کرنا پڑا.اور جو ملک جن میں تبلیغی مراکز بند کئے گئے ہیں، فرانس، ہنگری، جزائر سلی، اٹلی ، روس، ایران، جاپان ، مسقط اور مصر ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان جگہوں پر احمدی نہیں.ان سب جگہوں پر احمدی موجود ہیں لیکن ہمارے با قاعدہ تبلیغی مراکز وہاں موجود نہیں.ہمارے مشنری اور مبلغ وہاں نہیں.اس وقت جو سب سے پہلا کام میں نے اور آپ نے کرنا ہے.اور جس کے بغیر ہمیں چین نہیں آنا چاہئے.وہ یہ ہے کہ وہ تمام مراکز جو کسی نہ کسی وقت حضرت مصلح موعودؓ نے کھولے تھے.لیکن بعد میں کسی مجبوری کی وجہ سے انہیں بند کرنا پڑا جتنی جلدی ہو سکے اور جب بھی ممکن ہوا نہیں دوبارہ کھولا جائے.“ مستقبل قریب میں نے تبلیغی مراکز کا منصوبہ اسی طرح ۱۹۶۵ء کے جلسہ سالانہ کی ۲۱ دسمبر کی تقریر میں حضور نے مستقبل قریب میں نئے تبلیغی مرا کز کھولنے کا منصو بہ بیان فرمایا.حضور نے ارشاد فرمایا: پھر جن جن ممالک میں نئے مشن کھولنے کی ضرورت ہے، وہاں نئے مشن کھول دیئے جائیں.اس وقت تک جو مطالبات مختلف جگہوں سے آئے ہیں.ان کے مطابق سات
31 ایسے ممالک ہیں ( گوغور کے بعد ان میں کچھ اور ممالک کا بھی اضافہ ہو جائیگا.جہاں فوری طور پر تبلیغی مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے یعنی ہمیں یہاں سے مبلغ بھجوا کر تبلیغ کا کام جاری کرنا چاہئے کیونکہ وہاں کی آبادی کا اسلام کی طرف رحجان ہے.ان سات ممالک کے نام یہ ہیں : ا.جاپان -۲ فلپائن - آسٹریلیا -۴ جنوبی افریقہ ۵- کانگو ۶.وسطی افریقہ ے.ٹو گولینڈ یہ سات ممالک ایسے ہیں جہاں ہمیں وہاں کے حالات کے تقاضا کے مطابق جلد سے جلد مشن کھولنے چاہئیں.اور مشن کھولنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے.ان میں سے ایک تو مبلغین اور مربی ہیں یعنی ہمیں مبلغ مشنری مربی اور واعظ درکار ہیں.اگر میرے پاس مبلغ اور مربی نہ ہوں تو میں وہاں کس کو بھجواؤں گا.آپ مجھ سے کس بات کی توقع رکھتے ہیں.کیا میں آسمان سے فرشتے منگواؤں یا غیر احمدیوں کو نوکر رکھوں.صاف ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا.اس کام کے لئے احمدی بچوں کو آگے آنا پڑے گا اور آپ کو اپنے بچے پیش کرنے پڑیں گے ورنہ یہ کام نہیں ہوسکتا.پھر بچوں کے وقف میں ہمیں انتظار کرنا پڑے گا.انہیں ایک وقت تک ہمیں تعلیم دلانی پڑے گی.اور پھر کہیں جا کر وہ اس قابل ہوں گے کہ انہیں باہر بھجوایا جائے.اور ہم زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتے.نہ ہمیں انتظار کرنا چاہئے.اس کی ایک ہی تدبیر ہے کہ بچوں کے تیار ہونے تک کا جو وقفہ ہے.اس کیلئے ایسے دوست آگے آئیں جو اپنے کاموں سے ریٹائر ہو چکے ہیں.یا ریٹائر ہونے والے ہیں.یا ریٹائر ہو سکتے ہیں.“
32 احباب جماعت کو تفسیر صغیر سے استفادہ کرنے کی نصیحت یوں تو بہت سے مترجمین نے بڑی محبت اور محنت سے قرآنِ کریم کے تراجم کئے ہیں لیکن تفسیر صغیر کا ایک نمایاں مقام ہے.ایک تو یہ صرف ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس میں بہت مختصر ، آسان فہم اور جامع تفسیر بھی ہے.اور دوسرے یہ کہ اس کو اس عظیم الشان وجود نے تحریر کیا ہے جس کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے بتادیا تھا کہ اس کے ذریعہ کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہوگا.چنانچہ ۱۹۶۸ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ان الفاظ میں احباب جماعت کو اس نعمت سے استفادہ کرنے کی نصیحت فرمائی: پھر تفسیر صغیر ہے.یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کی ہوئی قرآن کریم کی تفسیر ہے جو علوم کا سر چشمہ اور تمام انوار کا سورج ہے.مجھے پر یہ اثر ہے کہ بہت سے نوجوان اس تفسیر کی یا اس ترجمہ کی جس کے ساتھ تفسیری نوٹ ہیں، اہمیت نہیں سمجھتے.میں بہت سے پڑھے لکھے دوستوں کو جو جماعت میں شامل نہیں یہ بھجواتا رہتا ہوں.جس کے ہاتھ میں بھی یہ تفسیری نوٹ گئے ہیں جو تفسیر صغیر کے نام سے شائع ہوئے ہیں اس نے اتنا اثر لیا ہے کہ آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.لیکن رمضان کے درس کے موقع پر مسجد میں جو قرآن ہاتھوں میں پکڑے ہوتے ہیں ان کی اکثریت تفسیر صغیر کی نہیں ہوتی بلکہ دوسرے مطبعوں کے شائع کردہ قرآن کریم ہوتے ہیں.جماعت کو خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہیئے.اگر ہم قرآن کریم کے علوم صحیح طور پر سیکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اور نوجوان اس سے محبت کرنے لگیں.اور ان کے دل کا شدید تعلق قرآن کریم کے نور سے ہو جائے تو ہر نو جوان بچے کے باپ یا گارڈین کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ میں تفسیر صغیر کو دیکھے اور اگر نہ دیکھے تو اس کا انتظام کرے.“ تقریر جلسه سالانه ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء)
33 تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی تحریک قرآن کریم وہ عظیم نعمت ہے جو مسلمانوں کو عطا کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ بھی فرمایا.حضرت عثمان سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے سب سے افضل وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے (۱) اور حضرت مسیح موعود کو الہام بتایا گیا تھا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ (۲) یعنی تمام خیر قرآن میں ہے.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کی صداقت اور عظمت کا کامل عرفان عطا ہوا تھا.آپ فرماتے ہیں:.وو لاکھوں مقدسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کی اتباع سے برکاتِ الہی دل پر نازل ہوتی ہیں اور ایک عجیب پیوند مولا کریم سے ہو جاتا ہے.خدائے تعالیٰ کے انوار اور الہام ان کے دلوں پر اترتے ہیں اور معارف اور نکات ان کے منہ سے نکلتے ہیں.ایک قوی تو کل ان کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبت الہی جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی جاتی ہے.(۳) حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنی خلافت کے آغاز میں ہی یہ بات محسوس فرمائی اور آپ نے ایک خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ قرآنِ کریم سیکھنے سکھانے اور اس کا عرفان حاصل کرنے کے لحاظ سے جماعت میں کمزوری اور ضعف پیدا ہو رہا ہے.اور بہت سی جماعتوں میں تربیتی نقطہ نگاہ سے کافی کمزوری پیدا ہوگئی ہے.آپ نے فرمایا: ”...اس کے نتیجہ میں جماعت کی تربیت والا پہلو ہمیں بھولا رہا.جماعت نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی.تربیت کے سلسلہ میں اس غفلت کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں.قرآن کریم کے انوار کو پھیلانے کی ذمہ داری ہمارے سپر دتھی.ہم نے اس سے غفلت برتی اور اس کے نتیجہ میں ہماری روحانی ترقی بہت پیچھے جا پڑی لیکن جب ہم قرآن کریم سے غافل ہوئے تو قرآنِ کریم کی برکتیں بھی ہم سے جاتی رہیں.ہم ان سے محروم ہو گئے اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ قرآن کریم کی برکتیں تو ہمیں تبھی مل سکتی ہیں جب
34 ہم قرآنِ کریم سے غافل نہ ہوں.ہم اسے ہر وقت اپنے سامنے رکھنے والے ہوں.اپنی زندگی میں اسے مشعلِ راہ بنانے والے ہوں.اگر ایسا ہو تو پھر قرآن کریم کی برکتیں ہمیں حاصل ہوں گی.اگر ہم ایک چشمہ پر بیٹھے ہوں لیکن اس چشمہ کی طرف ہماری پیٹھ ہو اور ہمارا منہ ریگستان کی طرف ہو تو ہم اس چشمہ سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.(۴) اسی خطبہ میں حضور نے بعض مثالیں بیان کر کے فرمایا کہ بہت سی جماعتوں میں سستی پیدا ہوئی ہے لیکن وہ مردہ نہیں ہیں.ان کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ ان کے اندر غفلت پیدا ہو گئی ہے.حضور نے اس بات کی ضرورت محسوس فرمائی کہ اب جماعت میں قرآنِ کریم کی تعلیم اور تربیت کے لئے ایک نظام جاری کیا جائے.چنانچہ آپ نے ۱۸ / مارچ ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں ایک نئی تحریک کا اعلان فرمایا.اس سے قبل منگل کے روز حضور کے پیٹ میں کچھ تکلیف تھی.اس رات حضور کو اسہال شروع ہو گئے جس کی وجہ سے نقاہت اور جسم میں درد کی شکایت پیدا ہوگئی.جمعرات کو کافی افاقہ تھا.چونکہ گزشتہ کچھ روز کا کام جمع ہو گیا تھا، اس کی وجہ سے آپ کی طبیعت میں پریشانی کا احساس تھا.حضور رات کو ساڑھے بارہ بجے تک ڈاک ملاحظہ فرماتے رہے.اور آپ نے جماعت کی ترقی اور احباب جماعت کے لئے بہت دعائیں کیں.صبح جب آپ کی آنکھ کھلی تو آپ کی زبان پر پنجابی کا یہ فقرہ تھا اینا دیواں گا کہ تو رج جاویں گا“ یعنی میں تمہیں اتنا دوں گا کہ تم سیر ہو جاؤ گے.حضور نے خطبہ جمعہ میں یہ الہام سنا کر فرمایا کہ ” خلیفہ وقت کی سیری تو اس وقت ہو سکتی ہے جب جماعت بھی سیر ہو.اس لئے میں نے سمجھا کہ اس فقرہ میں جماعت کے لئے بھی بڑی بشارت پائی جاتی ہے.سو میں نے یہ فقرہ دوستوں کو بھی سنا دیا ہے.تاوہ اسے سن کر خوش بھی ہوں اور ان کے دل حمد سے بھی بھر جائیں.اور انہیں یہ بھی احساس ہو جائے کہ انہیں اس رب سے جو ان سے اتنا پیار کرتا ہے کتنا پیار کرنا چاہئے.(۵) اس کے بعد حضور نے تحریک فرمائی کہ احباب جماعت جن کو توفیق ملےسال میں دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ دین کی خدمت کے لئے وقف کریں.اس دوران انہیں جماعت کے کاموں کے لئے جس جس جگہ بھجوایا جائے وہاں وہ اپنے خرچ پر جائیں.اور جو کام ان کے سپرد کیا جائے انہیں بجا
35 لانے کی کوشش کریں.اپنے عرصہ وقف کے دوران جو کام ان سے لئے جائیں گے ان میں سے ایک بڑا کام قرآن کریم ناظرہ اور قرآنِ کریم با ترجمہ پڑھانا اور مقامی جماعت کی تربیت کرنا ہوگا.حضور نے فرمایا کہ ملازم پیشہ احباب کو ہر سال کچھ عرصہ رخصت کا حق ملتا ہے وہ اپنے لئے رخصت لینے کی بجائے اسے اپنے رب کے لئے خرچ کریں.اسی طرح کا لجوں اور سکولوں کے اساتذہ اور کالجوں کے سمجھدار طلباء بھی اپنی رخصتوں کے ایام اس منصوبہ کے ماتحت کام کرنے کے لئے پیش کریں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ارشاد فرمایا کہ یہ کام بڑا اہم اور ضروری ہے اور اس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سی جماعتوں کے ایک حصہ میں ایک حد تک کمزوری پیدا ہوگئی.اور اس کمزوری کو جلد از جلد دور کرنا ہمارا پہلا فرض ہے.اگر ہم تبلیغ کے ذریعہ نئے احمدی تو پیدا کرتے چلے جائیں لیکن تربیت میں بے توجہی کے نتیجہ میں پہلے احمدیوں کو کمزور ہونے دیں تو ہماری طاقت اتنی نہیں بڑھ سکتی جتنی اس صورت میں بڑھ سکتی ہے کہ پیدائشی احمدی، پرانے اور نو احمدی بھی اپنے اخلاص میں ایک اعلیٰ مقام پر فائز ہوں.(1) حضور کی ہدایات کے تحت تحریک وقف عارضی نے کام شروع کیا اور مکرم ومحترم مولانا ابوالعطاء & صاحب جالندھری نائب ناظر اصلاح و ارشاد اس کے انچارج مقرر ہوئے.بہت سے سعادت مند دوستوں نے اپنے آپ کو عارضی وقف کے لئے پیش کیا.وقف عارضی کا پہلا وفد یکم مئی ۱۹۶۶ء کور بوہ سے روانہ ہوا اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اسے دعاؤں کے ساتھ رخصت فرمایا.اس میں شامل ہونے والے خوش نصیب مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب اور مکرم قریشی فضل الحق صاحب تھے.(۱) اس تحریک کے ابتدائی دو ماہ میں کئی سو احباب اپنے آپ کو وقف عارضی کے لئے پیش کر چکے تھے.انہیں پروگرام کے تحت مختلف مقامات پر بھجوایا جاتا.حضور کی منظوری سے جگہ کا تعین ہوتا اور حضور ہی وفد کا امیر مقرر فرماتے.مئی ۱۹۶۶ء میں پندرہ افراد کو مختلف مقامات پر بھجوایا گیا.ان احباب نے ان جماعتوں میں تربیتی اور تبلیغی فرائض سر انجام دیئے اور احباب جماعت کو قرآنِ کریم پڑھانے کا اہتمام کیا.(۷) قرآنی علوم کو عام کرنے کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ احباب ایک مختصر وقت کے لئے مرکز آئیں اور قرآن کریم کا علم حاصل کریں.اس غرض کے لئے ۱۹۶۴ء سے ربوہ میں فضل عمر درس
36 القرآن کلاس جاری تھی.پہلی کلاس میں شرکاء کی تعدا د صرف ۷۳ تھی.اور ۱۹۶۵ء میں پہلی مرتبہ خواتین اس کلاس میں شریک ہوئیں اور کل شرکاء کی تعداد ۱۲۰ تھی.وقف عارضی کے اعلان کے بعد پہلی تعلیم القرآن کلاس اگست ۱۹۲۶ء میں منعقد ہوئی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.قرآن مجید میں بے شمار برکات ہیں.ان برکات کو مختلف طریقوں سے حاصل اور ان سے فیض یاب ہوا جاتا ہے.قرآن مجید سے سب سے بڑی برکت جو حاصل کی جاسکتی ہے وہ اسپر عمل کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آنحضرت کو تمام بنی نوع انسان کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے.آپ اسوہ حسنہ اسی لئے ہیں کہ آپ نے قرآنِ مجید پر عمل کر کے دکھایا.(۸) اس کے بعد حضور نے ارشاد فرمایا کہ تعلیم القرآن کلاس جو ہر سال مرکز میں منعقد ہوتی ہے قرآن مجید سیکھنے اور سکھانے کی ایک کوشش ہے تا قرآن پر کما حقہ عمل کرنا آسان ہو سکے.جو احباب اس کلاس میں شامل ہوتے ہیں انہیں بتایا جاتا ہے کہ حقیقی اور کامیاب زندگی وہی ہے جو قرآن کریم کے نور میں گزاری جائے.اس کے بغیر دنیا میں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے.یہ غرض جبھی پوری ہو سکتی ہے کہ تعلیم القرآن کلاس تمام جماعتوں کی نمائندہ جماعت ہو.امسال کلاس میں جولوگ شریک ہوئے ہیں وہ مغربی پاکستان کی جماعتہائے احمدیہ میں سے دس فیصد جماعتوں کی بھی تو نمائندگی نہیں کر رہے.اس جماعت کو صیح معنوں میں تمام جماعتوں کی نمائندہ جماعت بنانے کے لئے ضروری ہے که آئنده سال نظارت اصلاح و ارشاد کئی ماہ قبل ہی کوشش شروع کر دے کہ کلاس میں ہر ضلع کی جماعت ہائے احمدیہ کی نمائندگی ہو.حضور نے کلاس میں ایسے طریق پر تعلیم دینے پر زور دیا جس سے نسبتاً زیادہ پڑھے لکھے اور نسبتاً کم پڑھے لکھے طلبہ یکساں طور پر فائدہ اُٹھا سکیں.(۸) حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۰ء کی جلسہ سالانہ کی تقریر میں ارشاد فرمایا:.کچھ جماعتیں رپورٹیں بھجوا رہی ہیں، کچھ ست ہیں.ہفتہ قرآن مجید بھی منایا گیا جس سے کافی فائدہ ہوا.تعلیم القرآن کلاس منعقد کی گئی جس میں صرف پانچ سو تیرہ طلبہ اور طالبات شریک ہوئیں.میں نے امرائے اضلاع کو کہا تھا کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے.شاید وو
37 میں نے امرائے اضلاع کی میٹنگ میں کہا ہو.اب میں جماعت کے سامنے ان کو ذمہ دار قرار دیتا ہوں.اس کلاس میں باقاعدہ سکیم کے ماتحت نمائندے آنے چاہئیں مثلاً چاہے آپ شروع میں دس قریب قریب کی جماعتوں کا ایک نمائندہ بھیجیں اور وہ وہاں جا کر کام کرے.اول تو یہ ہے کہ ہر گاؤں کا آئے.یہ ٹھیک ہے کہ اس کے نتیجہ میں ایک ہزار مرد آئے گا.اس دفعہ کل تعداد پانچ سو سے اوپر تھی.مردسوا دوسو کے قریب تھے اور لڑکیاں زیادہ تھیں.وہ آپ سے آگے بڑھ رہی ہیں اور یہ شرم کی بات ہے کہ مردوں سے لڑکیاں آگے بڑھ جائیں.بہر حال آگے بڑھ رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اور اللہ تعالیٰ سے بشارات پا کر جماعت احمدیہ میں نظام وصیت جاری فرمایا تھا.اس نظام سے وابستہ افراد کے لئے نہ صرف یہ لازم تھا کہ وہ اپنی جائیداد اور آمد کا دسواں حصہ خدمت اسلام کے لئے پیش کریں بلکہ ان کے لئے یہ بھی لازم تھا وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں اور دنیا کی محبت چھوڑ کر صرف خدا کے ہو جائیں.اور اس نظام کے تحت جو عظیم الشان کام ہونے تھے ان میں سے ایک اہم ترین کام اشاعت علم قرآن اور اشاعت کتب دینیہ کا کام بھی تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت میں تحریر فرماتے ہیں:.اور یہ مالی آمدنی ایک بادیانت اور اہل علم انجمن کے سپر در ہے گی.اور وہ باہمی مشورہ سے ترقی اسلام اور اشاعت علم قرآن و کتب دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لئے حسب ہدایت مذکورہ بالا خرچ کریں گے.‘(۹) یہ ظاہر ہے کہ نظام وصیت اور اشاعت علم قرآن کا گہراتعلق ہے.اور اس ناطے سے اس نظام سے وابستہ افراد پر اشاعت علم قرآن کی دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ۵ اگست ۱۹۶۶ ء کے خطبہ جمعہ میں وقف عارضی اور تعلیم القرآن کی تحریکوں کو موصیان کی تنظیموں سے ملحق کرنے کا اعلان فرمایا.اس خطبہ جمعہ کے آغاز پر آپ نے جماعت کو یہ خوش خبری سنائی.آپ نے فرمایا:." کوئی پانچ ہفتہ کی بات ہے ابھی میں ربوہ سے باہرگھوڑا گلی کی طرف نہیں گیا تھا.ایک دن جب میری آنکھ کھلی تو میں بہت دعاؤں میں مصروف تھا.اس وقت عالم بیداری میں
38 میں نے دیکھا کہ جس طرح بجلی چمکتی ہے اور زمین کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشن کر دیتی ہے.اسی طرح ایک نور ظاہر ہوا اور اس نے زمین کو ایک کنارے سے لیکر دوسرے کنارے تک ڈھانپ لیا.پھر میں نے دیکھا کہ اس نور کا ایک حصہ جیسے جمع ہو رہا ہے.پھر اس نے الفاظ کا جامہ پہنا اور ایک پر شوکت آواز فضا میں گونجی جو اس نور سے ہی بنی ہوئی تھی.اور وہ ہی تھی بُشرى لَكُم “ یہ ایک بڑی بشارت تھی لیکن اس کا ظاہر کرنا ضروری نہ تھا.ہاں دل میں ایک خلش تھی اور خواہش تھی کہ جس نور کو میں نے زمین کو ڈھانپتے ہوئے دیکھا ہے.جس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک زمین کو منور کر دیا ہے.اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مجھے سمجھائے.چنانچہ وہ ہمارا خدا جو بڑا ہی فضل کر نیوالا اور رحم کرنے والا ہے اس نے خود اس کی تعبیر اس طرح سمجھائی کہ گزشتہ پیر کے دن میں ظہر کی نماز پڑہا رہا تھا.اور تیسری رکعت کے قیام میں تھا.تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے.اور اس وقت مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ جونور میں نے اس دن دیکھا تھا وہ قرآن کا نور ہے جو تعلیم القرآن کی سکیم اور عارضی وقف کی سکیم کے ماتحت دنیا میں پھیلایا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ اس مہم میں برکت ڈالے گا.اور انوار قرآن اسی طرح زمین پر محیط ہو جائیں گے جس طرح اس نور کو زمین پر محیط ہوتے ہوئے دیکھا ہے.(۱۰) اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ بہشتی مقبرہ کے متعلق بتایا تھا کہ انزل فيها كلُّ رحمة یعنی اس قبرستان میں ہر قسم کی رحمت کو نازل کیا گیا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے الہام میں بتایا تھا الخير كله في القرآن یعنی ساری بھلائیاں قرآن کریم میں ہیں.تو انزل فيها كل رحمة کا مطلب ہے کہ اس بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے وہ لوگ ہوں گے جو قرآنِ کریم کی تمام برکتوں کے وارث ہوں گے.اس کے بعد حضور نے فرمایا.وو ” اس سے ظاہر ہے کہ موصی صاحبان کا ایک بڑا گہرا اور دائمی تعلق قرآن کریم ،
39 قرآن کریم کے سیکھنے ، قرآن کریم کے نور سے منور ہونے ، قرآن کریم کی برکات سے مستفیض ہونے اور قرآن کریم کے فضلوں کا وارث بننے سے ہے.اسی طرح قرآن کریم کے انوار کی اشاعت کی ذمہ داری بھی ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے.کیونکہ قرآن کریم کی بعض برکات ایسی بھی ہیں جن کا تعلق اشاعت قرآن سے ہے.....پس چونکہ وصیت کا یا نظام وصیت کا یا موصی صاحبان کا ، قرآن کریم کی تعلیم ، اس کے سیکھنے اور اس کے سکھانے سے ایک گہرا تعلق ہے.اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تعلیم قرآن اور وقف عارضی کی تحریکوں کو موصی صاحبان کی تنظیم کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور یہ سارے کام ان کے سپرد کئے جائیں.اس لئے آج میں موصی صاحبان کی تنظیم کا.خدا کے نام کے ساتھ اور اس کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے اجراء کرتا ہوں.تمام ایسی جماعتوں میں جہاں موصی صاحبان پائے جاتے ہیں اُن کی ایک مجلس قائم ہونی چاہئے.یہ مجلس باہمی مشورے کے ساتھ اپنے صدر کا انتخاب کرے.منتخب صدر جماعتی نظام میں سیکریٹری وصایا ہوگا....اور اس صدر کے ذمہ علاوہ وصیتیں کرانے کے یہ کام بھی ہوگا کہ وہ گاہے بگا ہے مرکز کی ہدایت کے مطابق وصیت کرنے والوں کے اجلاس بلائے.اس اجلاس میں وہ ایک دوسرے کو ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں جو ایک موصی کی ذمہ داریاں ہیں.یعنی اس شخص کی ذمہ داریاں جس کے متعلق اللہ تعالے کی بشارت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا کے سارے فضلوں اور اس کی ساری رحمتوں اور اس کی ساری نعمتوں کا وہ وارث ہے.اور وہ صدر ان کو یاد دلاتا رہے کہ تمام خیر چونکہ قرآن میں ہی ہے اس لئے وہ قرآنِ کریم کے نور سے پورا حصہ لینے کی کوشش کریں اور ان کو بتایا جائے کہ قرآن کریم کے انوار کی اشاعت کرنا ہر موصی کا بحیثیت فرد اور اب موصیوں کی مجلس کا بحیثیت مجلس پہلا اور آخری فرض ہے.(10) حضور نے اس خطبہ میں فرمایا کہ مجھے ہر سال وقف عارضی میں کم از کم پانچ ہزار واقفین چاہئیں ، اس کے بغیر ہم صحیح رنگ میں جماعت کی تربیت نہیں کر سکتے.اور اس خطبہ کے آخر میں فرمایا:
40 وو پس جیسا کہ نور اس نظارہ سے جسے میں نے ساری دنیا میں پھیلتے دیکھا ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کامیاب اشاعت اور اسلام کے غلبہ کے متعلق قرآن کریم میں اور نبی کریم ﷺ کی وحی اور ارشادات میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں جو خوش خبریاں اور بشارتیں پائی جاتی ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے.اس لئے میں پھر اپنے دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم پر واجب ہے کہ ہر احمدی مرد اور ہر احمدی عورت ، ہر احمدی بچہ، ہر احمدی جوان اور ہر احمدی بوڑھا پہلے اپنے دل کو نور قرآن سے منور کرے.قرآن سیکھے ، قرآن پڑھے اور قرآن کے معارف سے اپنا سینہ ودل بھرلے اور معمور کر لے.ایک نور مجسم بن جائے.قرآن کریم میں ایسا محو ہو جائے.قرآنِ کریم میں ایسا گم ہو جائے.قرآنِ کریم میں ایسا فنا ہو جائے کہ دیکھنے والوں کو اس کے وجود میں قرآن کریم کا ہی نور نظر آئے.اور پھر ایک معلم اور استاد کی حیثیت سے تمام دنیا کے سینوں کو انوار قرآنی سے منور کرنے میں ہمہ تن مشغول ہو جائے.اے خدا! تو اپنے فضل سے ایسا ہی کر کہ تیرے فضل کے بغیر ایسا ممکن نہیں.(۱۰) اللہ تعالیٰ کے فضل سے احباب جماعت نے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی تحریک پر لبیک کہا اور ۱۹۶۷.۱۹۶۸ ء کے سال کے دوران پاکستان میں وقف عارضی کرنے والوں کی تعداد ۵۰۷۴ تک پہنچ گئی.اور ان احباب نے ۳۳۰۲ وفود کی صورت میں ۱۰۱۴ جماعتوں میں جا کر مرکزی ہدایت کے مطابق تعلیم و تربیت کا کام کیا.پاکستان کے اضلاع میں سے ضلع تھر پارکر کے سب سے زیادہ احباب نے وقف عارضی کی تحریک میں حصہ لیا.بیرونِ پاکستان سے انگلستان ، تنزانیہ اور ماریشس میں اس تحریک کا خوشکن آغاز ہوا.اس تحریک کے تحت وقف عارضی کرنے والوں نے جہاں مختلف جماعتوں میں جا کر تعلیم و تربیت کا کام کیا، وہاں انہیں خود اپنی اصلاح کا خدا داد موقع بھی میسر آیا.(۱۱) ریکارڈ کے مطابق اب تک ۱۹۹۶ ء میں اس تحریک کے تحت وقف کرنے والے واقفین کی تعداد سب سے زیادہ تھی جو کہ ۶۷۰۰ سے تجاوز کرگئی تھی.پھر ۲۰۰۳ء میں یہ تعداد کم ہوکر ۸۶۴ ہوگئی تھی.اس پر حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ نے احباب کو اس تحریک کی طرف تو جہ دلائی.اس کے نتیجے میں ۲۰۰۶ء میں یہ تعداد پانچ ہزار سے زائد رہی.۲۰۰۸ء میں نظارت تعلیم القرآن کو چار ہزار
41 تین سو سے زائد فارم موصول ہوئے.ان میں سے ۱۸۱۷ وفود تر تیب دیئے گئے.اب تک ایک لاکھ سے زائد احمدی احباب اور خواتین اس بابرکت تحریک میں حصہ لے چکے ہیں.اور یہ عمل قابل ذکر ہے کہ ان میں خواتین کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے.اور بعض سالوں میں تو وقف کرنے والی خواتین کی تعداد ، وقف کرنے والے مردوں سے بھی زیادہ رہی.(۱۲) شروع سے مکرم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری وقف عارضی کے انچارج کی حیثیت سے فرائض ادا کر رہے تھے ، پھر ۱۹۶۹ء میں اسے باقاعدہ نظارت کی شکل دے دی گئی اور آپ ہی پہلے ناظر اصلاح وارشاد برائے تعلیم القرآن مقرر ہوئے اور ۱۹۷۷ ء میں اپنی وفات تک آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ فرائض ادا کرتے رہے.۱۹۷۰ء میں تعلیم القرآن کے حوالہ سے ۱۱۷ جماعتوں کے کوائف جمع کئے گئے.ان کی رو سے ان میں تقریباً ۶۳ فیصد مرد و زن قرآنِ کریم ناظرہ پڑھنا جانتے تھے اور تقریباً ۸ فیصد قرآنِ کریم کا ترجمہ جانتے تھے.(۱۳) وو ۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء کی جلسہ سالانہ کی تقریر میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے فرمایا: تعلیم القرآن بذریعہ موصیان کا جہاں تک تعلق ہے ہمارے کام کا یہ حصہ بہت کمزور ہے.صرف ۲۴ مجالس کی طرف سے رپورٹیں موصول ہوئی ہیں.موصی صاحبان پر تو ہم بڑا حسن ظن رکھتے ہیں، ان کو زیادہ توجہ کے ساتھ ، زیادہ تندہی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نباہنا چاہیئے.حضرت خلیفتہ امیج الثالث نے موصیان اور مجلس موصیان کے سپر د جوتعلیم القرآن کا عظیم الشان کام کیا تھا.وہ اپنے اندر بہت سی برکات رکھتا ہے.لیکن افسوس کہ اب تک اس پر کما حقہ عمل نہیں ہوسکا.(۱) صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن (۲) تذکرہ، ایڈیشن ۲۰۰۴ ء ص ۷۰ (۳) سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ ص۷۹ (۴) الفضل ۲ نومبر ۱۹۶۶ء ص ۴ (۵) لفضل ۲۳ مارچ ۱۹۶۶ ء ص ۲ - ۳ (۶) الفضل ۴ رمئی ۱۹۶۶ ء ص ۱ (۷) الفضل ۳/ جون ١٩٦٦ء ص۸ (۸) الفضل ۲ / اگست ۱۹۶۶ ء ص ۱، ۸ (۹) روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۱۹ (۱۰) الفضل ۱۰ / اگست ۱۹۶۶ ء ص ۲ - ۳- ۴ (۱۱)
42 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۸ ء ص ۱۵۸ (۱۲) ریکار ڈ نظارت وقف عارضی تعلیم القرآن (۱۳) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۰ ص ۴۳
43 وقف جدید میں دفتر اطفال کا اجراء جیسا کہ پہلے ذکر آپکا ہے کہ حضرت طلیقہ مسیح الثانی نے ۱۹۵۷ء میں وقف جدید کا آغاز فرمایا تھا.اس کے معاً بعد حضرت مصلح موعود کی علالت نے شدت اختیار کر لی اور شروع میں اس تنظیم کی ترقی کی رفتار سست رہی اور پہلے چار سال میں بجٹ بڑھنے کی بجائے کم ہوتا گیا اس کے بعد وقف جدید کے چندہ میں تدریجاً اضافہ ہونا شروع ہوا (۱).۶۴ - ۶۵ء کے مالی سال میں بجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپے تھا اور عملاً وصولی ایک لاکھ اٹھارہ ہزار روپے ہوئی.۶۵.۲۶ ء کے مالی سال میں بجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپے تھا لیکن وصولی ایک لاکھ چھتیس ہزار روپے ہوئی.اس طرح اگر چہ وقف جدید کے چندے میں اضافہ ہو رہا تھا مگر کام کی اہمیت ، اس سے زیادہ مالی قربانی کا تقاضا کرتی تھی.ابتدا میں چند معلمین کے ساتھ اس کام کا آغاز کیا گیا تھا ، حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خواہش تھی کہ اس تحریک کے تحت ہزاروں معلمین کام کریں اور اس کا دائرہ کار صرف پاکستان تک محدود نہ رہے بلکہ دوسرے ممالک کے واقفین بھی اس مبارک تحریک میں شامل ہوں.لیکن ۱۹۶۶ ء تک صورت حال یہ تھی کہ صرف ۶۴ معلمین مختلف جماعتوں میں کام کر رہے تھے اور سترہ زیر تعلیم تھے.جبکہ اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ ہر جماعت میں کم از کم ایک معلم مقرر کیا جائے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے وقف عارضی کا آغاز کیا اور اس کے تحت مختلف جماعتوں میں وفود بھجوائے گئے تو ان میں سے ساٹھ ستر فیصد وفود نے یہ رپورٹ دی کہ ان جماعتوں میں ایک معلم ضرور بھجوانا چاہئے اور جماعتوں کی طرف سے بھی اس بات کا اظہار ہوا کہ جب تک اسے کوئی معلم نہ دیا جائے وہ اپنے فرائض کو کما حقہ ادا نہیں کر سکتی.ان ضروریات کے پیش نظر حضور ” نے ۷ اکتوبر ۱۹۶۶ ء کے خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی کہ وقف جدید کے معلمین کی جونئی کلاس شروع ہوگی اس میں کم از کم سو واقفین شامل ہونے چاہئیں.اور فرمایا کہ ہر سال اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ریٹائر ہوتی ہے اگر پنشن یافتہ اساتذہ اپنی بقیہ عمر وقف جدید کے تحت وقف کر دیں تو ہمیں زیادہ اچھے اور تجربہ کار واقفین مل سکتے ہیں بشرطیکہ وہ خلوص نیت رکھنے
44 والے ہوں ، اپنے اندر قربانی کا مادہ رکھنے والے ہوں، دنیا کی محبت ان کے دلوں میں سرد ہو چکی ہو اور ایک باپ کی طرح تربیت کرنے والے ہوں.وقف جدید کے لئے مالی قربانی کی تحریک کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ وہ دوست جنہوں نے ابھی تک وقف جدید کی مالی تحریک میں حصہ نہیں لیا انہیں اس تحریک کی اہمیت ذہن نشین کرنی چاہئے اور اس میں شامل ہونا چاہئے.اور احمدی بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے فرمایا:.تیسرے میں آج احمدی بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں ) سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا صلى الله اور اس کے رسول ﷺ کے بچو! اٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پُر کر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو جو اس تحریک کے کام میں واقع ہوگئی ہے......اگر خدا تعالیٰ احمدی بچوں کو توفیق دے تو جماعت احمدیہ کے بچے وقف جدید کا سارا بوجھ اُٹھالیں لیکن چونکہ سال کا بڑا حصہ گزرچکا ہے اور مجھے ابھی اطفال الاحمدیہ کے صحیح اعداد و شمار بھی معلوم نہیں اس لئے میں نے سوچا کہ آج میں اطفال الاحمدیہ سے صرف یہ اپیل کروں کہ اس تحریک میں جتنے روپے کی ضرورت تھی اس میں تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں جو کی رہ گئی ہے اس کا بار تم اُٹھا لواور پچاس ہزار روپیہ اس تحریک کے لئے جمع کرو (۲) حضور نے ارشاد فرمایا کہ احمدی لڑکے اور احمدی لڑکیاں اس تحریک میں ہر ماہ آٹھ آٹھ آنہ ( یعنی نصف روپیہ ) چندہ دیں.جن خاندانوں کی مالی حیثیت اس کے قابل نہ ہو ایسے گھرانوں کے سارے بہن بھائی مل کر آٹھ آنہ ماہوار چندہ دے سکتے ہیں.اس تحریک کے تربیتی پہلؤوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا:.غرض ایک بچہ جب اٹھنی دے رہا ہوگا یا جب بعض خاندانوں کے سب بچے باہم مل کر ایک اٹھنی ماہوار وقف جدید میں دے رہے ہوں گے تو یہ ایک لحاظ سے ان کی تربیت ہوگی.اس طرح ہم ان کے ذہن میں یہ بات بھی راسخ کر رہے ہوں گے کہ جب خدا تعالیٰ کسی کو
45 مال دیتا ہے تو وہ مال جو اس کی عطا ہے بشاشت سے اسی کی طرف لوٹا دینا اور اس کے بدلہ میں ثواب اور اس کی رضا حاصل کرنا اس سے زیادہ اچھا سودا دنیا میں اور کوئی نہیں.پس اے احمدیت کے عزیز بچو! اٹھو اور اپنے ماں باپ کے پیچھے پڑ جاؤ اور ان سے کہو کہ ہمیں مفت میں ثواب مل رہا ہے.آپ ہمیں اس سے کیوں محروم کر رہے ہیں.آپ ایک اٹھنی ماہوار ہمیں دے دیں کہ ہم اس فوج میں شامل ہو جائیں.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور قربانی اور ایثار اور فدائیت اور صدق وصفا کے ذریعہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے گی.(۲) ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۶ ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.اسی طرح بچوں کو مالی تحریکوں کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہئے.اس میں شک نہیں کہ بعض خاندان اپنے بچوں کی طرف سے بھی چندہ وقف جدید یا چندہ تحریک جدید لکھواتے ہیں اور بعض خاندان ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں کو تحریک کرتے رہتے ہیں اور ہماری طرف سے جو جیب خرچ تمہیں ملتا ہے اس میں سے تم خدا تعالیٰ کی راہ میں بھی کچھ دیا کرو لیکن عام طور پر اس طرف ابھی توجہ نہیں کی جاتی.میں نے اس سلسلہ میں حال ہی میں اپنے بچوں سے اپیل کی ہے کہ وہ وقف جدید کا بوجھ اُٹھا ئیں اور ہر بچہ کم از کم اٹھنی ماہوار وقف جدید میں دے.چونکہ اس وقت وقف جدید کے سال کا اختتام ہے.اس لئے میں نے سالِ رواں میں پچاس ہزار روپی لڑکوں اور لڑکیوں پر مقرر کیا ہے.میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ پچاس ہزار روپیہ کی رقم جمع کریں تا ہم وقف جدید کے کام کو پھیلا سکیں اور اسے وسعت دے سکیں.اگر تمام احمدی بچے جو آپ کی گودوں میں پلتے ہیں.تمام احمدی بچے جن کی تربیت کی ذمہ داری آپ پر ہے، اس طرف متوجہ ہوں.اگر آپ ان کی ذہنی تربیت اس رنگ میں کردیں کہ وہ کم از کم اٹھنی ماہوار خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف جدید کے کاموں کے لئے خود جماعت کو پیش کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ وقف جدید کا سارا بجٹ ان بچوں کے چندوں سے پورا ہوسکتا ہے.لیکن اس طرف پوری توجہ کی ضرورت ہے اور بچوں کے
46 ذہنوں میں اس کام کی اہمیت بٹھانے کی ضرورت ہے اور بچوں کے ذہنوں میں آپ وقف جدید کی اہمیت بٹھا نہیں سکتیں جب خود آپ کے ذہن میں وقف جدید کی اہمیت نہ بیٹھی ہو.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیماری سے کچھ ہی عرصہ قبل وقف جدید کی تحریک کو شروع کیا تھا.اور پھر بوجہ بیماری حضورا اپنی زندگی میں اس طرف زیادہ ذاتی توجہ نہیں دے سکے.جیسے حضور نے تحریک جدید کی طرف توجہ فرمائی....اور جس طرح حضور نے تحریک جدید کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بعد اسے تحریک جدید انجمن احمدیہ کے سپرد کیا اسی طرح اس تحریک کو بھی حضور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بعد وقف جدید انجمن احمدیہ کے سپر د کرتے اور جیسا کہ تحریک جدید کے سلسلہ میں ہوا آپ بطور خلیفہ عام نگرانی اس کی کرتے رہتے ( عام نگرانی خلیفہ کے فرائض میں سے ہے اور حضور تفاصیل میں گئے بغیر اس کی نگرانی فرماتے رہے لیکن جیسا کہ تحریک جدید کے شروع میں یہ دستور تھا کہ حضور اس کے متعلق چھوٹے چھوٹے فیصلے بھی خود ہی فرمایا کرتے تھے.وقف جدید کے سلسلہ میں اپنی بیماری کی وجہ سے حضور ایسا نہ کر سکے ) لیکن چونکہ وقف جدید شروع میں ہی حضور کی ذاتی نگرانی اور توجہ سے محروم ہوگئی اس لئے اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ جو عظیم کام اس تحریک نے کرنا تھا وہ پورانہیں ہوسکا.“ جب حضور نے یہ تحریک فرمائی تو سال ختم ہونے میں چند ماہ رہ گئے تھے.اس سال کے دوران ۶۳۱۷ اطفال و ناصرات نے اس میں حصہ لیا اور ۳۳۶۵ روپے کا چندہ وصول ہوا.۱۹۶۷ء میں یورپ کے سفر پر جانے سے قبل حضور نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: وو ” جو ذمہ داری میں نے وقف جدید کے سلسلہ میں احمدی بچوں پر ڈالی تھی جماعت کے احمدی بچوں میں سے ابھی ۲۰ فیصدی بمشکل ایسے ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا ہے اور اس کی ادائیگی کی کوشش کر رہے ہیں باقی اسی فیصدی بچے جماعت کے ایسے ہیں کہ جو اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھ رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں اس کی ادائیگی کی طرف بھی متوجہ نہیں ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کے اسی فیصدی باپ اور جماعت کی اسی فیصدی مائیں ایسی ہیں جنہیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کے لئے خدا کی رضا
47 کی جنت کو کس طرح پیدا کرنا ہے.(۳) ۱۹۶۷ء کے سال کے دوران اس تحریک میں چندہ دینے والے بچوں کی تعداد بڑھ کر ۱۷۵۵۸ ہوگئی اور ان سے وصول ہونے والا چندہ بھی بڑھ کر ۱۷۵۳۱ روپے ہو گیا.۱۹۶۸ء میں اس تحریک میں شامل ہونے والے بچوں کی تعداد گر کر ۹۵۵۳ رہی لیکن چندہ بڑھ کر ۷ ۷ ۱۹۳ روپے ہو گیا.اس طرح احمدی بچوں اور بچیوں کو دین کی مالی خدمت کا ایک موقع ملا.اس بابرکت تحریک سے جہاں ایک طرف پورے ملک میں پھیلی ہوئی جماعتوں میں معلمین بھجوانے کے لئے مالی وسائل میسر آئے وہاں دوسری طرف بچوں کو بھی چھوٹی عمر سے دین کی مالی خدمت کرنے کی عادت پڑنے لگی.(۱) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۶ ، ص ۲۳۲ تا ۷ ۲۳ (۲) الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۶ ء ص ۴ (۳) الفضل ۱۸؍ جولائی ۱۹۶۷ ص ۲، ۳
48 رسومات اور بدعات کے خلاف جہاد کا اعلان اسلام انسان کو تمام بے فائدہ اور لغور سومات سے آزاد کر کے اس کے دل پر عشق خدا کی حکومت قائم کرتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ بد رسومات کی قیود سے آزاد نہیں کر پاتا تو پھر نہ صرف وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم سے کما حقہ فائدہ نہیں اُٹھا سکتا بلکہ طرح طرح کی دنیاوی مشکلات و مصائب میں بھی مبتلاء ہو جاتا ہے.اور وہ معاشرہ جو رسومات اور بدعات میں مبتلا ہو وہ اسلامی معاشرہ بننے کی طرف قدم نہیں اُٹھا سکتا.ان خدشات کی طرف بار بار توجہ دلانی پڑتی ہے.ورنہ الہی جماعت سے وابستہ افراد بھی معاشرے کے زیر اثر اس رو میں بہہ سکتے ہیں.حضرت خلیفہ المسح الثالث نے 9 ستمبر ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت کو تو جہ دلائی کہ جوشخص رسوم و بدعات کو نہیں چھوڑتا اس کا ایمان کبھی پختہ نہیں ہو سکتا.اور نہ ہی وہ تقویت اسلام کے لئے پوری قربانیاں دے سکتا ہے.آپ نے آیت کریمہ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ (۱) کی تفسیر بیان کرنے کے بعد فرمایا: پس بد رسوم اور ایمانِ کامل اکٹھے نہیں ہو سکتے.اس وقت مجھے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.اسلام کی اشاعت اور نبی کریم ﷺ کی عظمت اور جلال کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے جس قسم کی قربانی اور جس حد تک قربانی دینا ضروری ہے.جوشخص رسوم کے بندھنوں میں بندھا ہوا ہے وہ اس حد تک قربانی نہیں دے سکتا.بعض لوگ ہماری جماعت میں بھی ہیں جو مثلاً اپنی لڑکی کی شادی کرتے وقت خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے سادہ طریق کو چھوڑ کر اپنی خاندانی رسوم کے مطابق اسراف کی راہ اختیار کرتے ہیں.اس کے نتیجہ میں وہ مقروض ہو جاتے ہیں.پھر مجھے لکھتے ہیں کہ میں بہت مقروض ہو گیا ہوں.مہربانی کر کے میرے چندہ کی شرح کم کر دی جائے کیونکہ اب میں مجبوراً 1/16 کی بجاۓ1/32 یا 1/50 یا 1/64 ادا کر سکتا ہوں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے انہیں فرمایا تھا کہ تم رسوم کو چھوڑ دو اور بدعات کو ترک کر دو.مگر انہوں نے رسوم کو نہ چھوڑا خدا تعالیٰ کی ناراضگی
49 بھی مول لی اور قرض میں بھی مبتلاء ہو گئے....میں نظارت اصلاح و ارشاد کو اسطرف متوجہ کرتا ہوں کہ جتنی رسوم اور بدعات ہمارے ملک کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں ان کو اکٹھا کیا جائے اور اس کی نگرانی کی جائے کہ ہمارے احمدی بھائی ان تمام رسوم اور بدعات سے بچتے رہیں.اس وقت میں مختصر ابتا رہا ہوں کہ جو شخص رسوم اور بدعات کو نہیں چھوڑ تا جس طرح اس کا ایمان پختہ نہیں اسی طرح وہ نبی کریم ﷺ کی مدد اور اسلام کی تقویت کے لئے وہ قربانیاں بھی نہیں دے سکتا جن قربانیوں کا اسلام اس سے مطالبہ کرتا ہے.(۲) پھر یورپ کے دورے پر جانے سے قبل حضور نے ۲۳ جون ۱۹۶۷ء کے خطبہ جمعہ میں ارشادفرمایا:.توحید کے قیام میں ایک بڑی روک بدعت اور رسم ہے.یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر بدعت اور ہر بد رسم شرک کی ایک راہ ہے.اور کوئی شخص جو تو حید خالص پر قائم ہونا چاہے وہ توحید خالص پر قائم نہیں ہوسکتا جب تک وہ تمام بدعتوں اور تمام بد رسوم کو مٹا نہ دے.ہمارے معاشرہ میں خاص طور پر اور دنیا کے مسلمانوں میں عام طور پر بیسیوں سینکڑوں شاید ہزاروں بدر میں داخل ہو چکی ہیں.احمدی گھرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام بد رسوم کو جڑ سے اکھیڑ کے اپنے گھروں سے باہر پھینک دیں.چونکہ بد رسوم کا مسلم معاشرہ میں داخلہ زیادہ تر عورتوں کی راہ سے ہوتا ہے.اس لئے آج میری پہلی مخاطب میری بہنیں ہی ہیں.گو عام طور پر تمام احباب جماعت اور افراد جماعت مرد ہوں یا عورتیں وہ میرے مخاطب ہیں.(۳) اس کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اشتہار پڑھ کر سنایا جو آپ نے ۱۸۸۵ء میں اشتہار بغرض تبلیغ و انذار کے نام سے شائع فرمایا تھا.اور اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بدعات اور بد رسومات کے خلاف تلقین فرمائی تھی.اس خطبہ کے آخر میں حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے ارشاد فرمایا: پس آج اس مختصر سے خطبہ میں ہر احمدی کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور جماعت احمدیہ میں اس پاکیزگی کو قائم کرنے کے لئے جس پاکیزگی
50 کے قیام کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے، ہر بدعت اور بد رسم کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے.اور اپنے گھروں کو پاک کرنے کے لئے شیطانی وسوسوں کی سب راہوں کو اپنے گھروں پر بند کر دیں گے.دعاؤں کے ذریعہ اور کوشش کے ذریعہ اور جدوجہد کے ذریعہ.‘(۳) (۱) الاعراف: ۱۵۸ (۲) الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۶۶، ص ۵ (۳) الفضل ۲ جولائی ۱۹۶۷ ص ۳
51 حضرت خلیفة المسح الثالث کا پہلا دورہ یورپ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے برصغیر سے باہر کی جماعتیں بھی تیزی سے ترقی کر رہی تھیں اور ان کی تربیت اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ خلیفہ وقت ان میں رونق افروز ہوں اور ان کی براہ راست راہنمائی فرمائیں.۱۹۲۴ ء میں حضرت خلیفہ انسخ الثانی کا دورہ یورپ خلیفہ وقت کا بر صغیر سے باہر کا پہلا دورہ تھا.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ۱۹۵۵ء میں یورپ تشریف لے گئے اور اس موقع پرلندن میں جماعت احمدیہ کے مبلغین کی ایک اہم کا نفرنس بھی منعقد ہوئی اور بہت سے نومسلموں نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور حضورڑ نے براہ راست یورپ کے مشنوں کی راہنمائی بھی فرمائی.لیکن اس دورہ کے دوران بیماری کی وجہ سے حضور کی طبیعت بہت خراب تھی.اب جب خلافت ثالثہ کا با برکت آغاز ہوا تو اس بات کی ضرورت بشدت محسوس کی جارہی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث یورپ کا دورہ فرمائیں تا کہ وہاں پر تبلیغ کے کام میں ایک نئی وسعت پیدا ہو.۱۹۶۷ء میں ڈنمارک میں جماعت کی پہلی مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کے قریب تھی.وہاں کے دوستوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضرت خلیفہ اُسیح الثالث اپنے دست مبارک سے اس خانہ خدا کا افتتاح فرما ئیں.ابھی یہ تجویز زیر غور تھی کہ یورپ کے باقی مشنوں نے بھی درخواست کی حضور ان ممالک میں بھی تشریف لائیں.اب تک انگلستان میں ایک بڑی جماعت پیدا ہو چکی تھی ،انہوں نے بھی درخواست کی حضور انگلستان کو بھی اپنے دورے میں شامل فرمائیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بعض احباب کو دعا اور استخارہ کے لئے لکھا.ان کو اس بارے میں بہت سی مبشر خوا ہیں آ ئیں اور حضور کو اور بعض دوستوں کو ایسی بھی خواہیں آئیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ واپسی میں شاید راستے میں کچھ تکلیف ہو.حضور نے ۲۳ جون ۱۹۶۷ء کے خطبہ جمعہ میں ان خوابوں کا ذکر کر کے فرمایا وو وہ قادر و توانا جو وقت سے پہلے اس تکلیف کے متعلق اطلاع دے سکتا ہے وہ اگر چاہے تو ان تکالیف کو دور بھی کر سکتا ہے اور اسی سے نصرت اور امداد کے ہم طالب
52 ہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ تمام دوست اس سفر کے متعلق دعائیں کریں اور خدا تعالیٰ سے خیر کے طالب ہوں.اگر یہ سفر مقدر ہو تو اسلام کی اشاعت اور غلبہ کے لئے خیر و برکت کے سامان پیدا ہوں.خدا جانتا ہے کہ سیر و سیاحت کی کوئی خواہش دل میں نہیں ، نہ کوئی اور ذاتی غرض اس سے متعلق ہے.دل میں صرف ایک ہی تڑپ ہے اور وہ یہ کہ میرے رب کی عظمت اور جلال کو یہ تو میں بھی پہچانے لگیں جو سینکڑوں سال سے کفر اور شرک کے اندھیروں میں بھٹکتی پھر رہی ہیں اور انسانیت کے محسن اعظم محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت ان کے دلوں میں قائم ہو جائے.(۱) حضور نے ۶ / جولائی ۱۹۶۷ء کو یورپ کے لئے روانہ ہونا تھا.۴ جولائی کو آپ نے ربوہ وو میں لجنہ اماءاللہ کے ہال میں احمدی مستورات سے خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا:..میرا یہ سفر بڑا ہی اہم ہے.میں اہلِ یورپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے لئے اب تباہی سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے خدا کو پہچانیں اور حضرت صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ کی ٹھنڈی چھاؤں تلے جمع ہو جائیں.آپ یہ بھی دعا کریں کہ ان باتوں کو میں احسن طریق پر وہاں پیش کر سکوں تا بیچنے والے بچ جائیں اور جو تباہ ہونے والے ہوں وہ دوسروں کے لئے عبرت بنیں اور دنیا کو پتہ چل جائے کہ ایک زندہ اور قادر مطلق خدا موجود ہے.ہر چیز اس کے علم میں ہے.دنیا اور انسان کی ہمدردی کی خاطر وہ وقوع سے قبل یہ باتیں بتادیتا ہے تا لوگ اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے غضب سے بچ جائیں.آپ یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری زبان میں اثر پیدا کرے تا ان کے دل صداقت کو قبول کریں اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کی بجائے رحمت کو پانے والے ہوں.(۲) روانگی سے ایک روز قبل ہزاروں احمدی مسجد مبارک ربوہ میں جمع تھے.حضور نے خلافت کے ساتھ دلی وابستگی اور اطاعت کی اہمیت نیز اس کی عظیم الشان برکات کا اختصار سے ذکر کرنے کے بعد اس امر پر روشنی ڈالی کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندہ کو منصب خلافت پر فائز کرتا ہے.ایک طرف اس کے دل میں اپنے متبعین کے لئے ہمدردی و غمخواری کا بے پناہ جذ بہ پیدا کر دیتا ہے.جس کے تحت وہ ہر دم
53 ان کے لئے دردمندانہ دعاؤں میں لگا رہتا ہے.دوسری طرف بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی کا شدید جذ بہ اس کے دل کو ہمیشہ گداز رکھتا ہے.وہ بنی نوع انسان کی بے راہ روی اور غفلت کو دیکھ دیکھ کر اندر ہی اندر گھل رہا ہوتا ہے کہ نوع انسان کا کیا بنے گا.پھر آپ نے فرمایا ہمدردی نوع انسان کے اس شدید جذ بہ کے ماتحت ہی میں یورپ کا سفر اختیار کر رہا ہوں.جو کل صبح شروع ہونے والا ہے.میرا یہ جذبہ مجھے مجبور کر رہا ہے کہ میں یورپ کے لوگوں تک وہ بات پہنچاؤں جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کو دی اور دنیا کا ایک بڑا حصہ اب تک اس سے غفلت اور لا پرواہی برت رہا ہے اور یکسر بے خبری کی حالت میں ہے.خطاب کے بعد حضور نے دعا کروائی اور پھر مسجد مبارک میں موجود ہزاروں افراد سے مصافحہ فرمایا.اس کے بعد نماز عشا ء ادا کی گئی.ے جولائی ۱۹۶۷ء کی صبح کو حضرت خلیفتہ امسیح الثالث بذریعہ ریل گاڑی ربوہ سے کراچی روانہ ہوئے.اسٹیشن پر حضور کی آمد سے ربوہ اور دیگر شہروں سے آئے ہوئے ہزاروں احباب جمع تھے اور اس سفر کی کامیابی کے لئے دعاؤں میں مشغول تھے.ساڑے نو بجے حضور قصر خلافت سے روانہ ہوئے اور بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی عیادت کے لئے ان کی کوٹھی البشری تشریف لے گئے.اور پھر وہاں سے دعا کے لئے بہشتی مقبرہ گئے اور وہاں پر حضرت ام المؤمنین، حضرت مصلح موعودؓ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور دیگر بزرگان کی قبروں پر دعا کی اور اس کے بعد اسٹیشن تشریف لے آئے.وہاں پر ایک انتظام کے تحت ہزاروں احباب قطاروں میں کھڑے حضور کی آمد کے منتظر تھے.حضور کو دیکھتے ہی ان احباب نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر، اسلام زندہ باد اور حضرت امیر المؤمنین زندہ باد کے پُر جوش نعرے لگائے.اس کے بعد جن کو گزشتہ روز موقع نہیں ملا تھا ان لوگوں نے شرف مصافحہ حاصل کیا.پیچھے کھڑے ہوئے احباب کے لئے حضور کی زیارت کرنا ممکن نہیں تھا اس لئے حضور از راہ شفقت ایک کرسی پر کھڑے ہو گئے تا کہ تمام مشتاقان دیدار آپ کی زیارت کر سکیں.اور اس دوران آپ زیر لب دعاؤں میں مشغول رہے.جب یہ اطلاع ملی کہ گاڑی ربوہ کے قریب ترین اسٹیشن پر پہنچ گئی ہے تو حضور نے ہاتھ اُٹھا کر زیر لب دعا کروائی.جب گاڑی ربوہ کے اسٹیشن پر پہنچی تو آپ اپنے قافلہ کے ہمراہ گاڑی پر سوار ہوئے.جب گاڑی نے چلنا شروع
54 کیا تو ایک بار پھر فضا نعروں سے گونج اٹھی.اس وقت احباب پر ایک وارفتگی کا عالم طاری تھا.بعض احباب بلند آواز سے دعائیں پڑھ رہے تھے اور بعض نوجوان بچوں کی طرح بلک بلک کر رور ہے تھے.جب تک گاڑی پلیٹ فارم پر گزرتی رہی ، حضرت خلیفہ اسیح الثالث دروازے پر کھڑے ہاتھ ہلا ہلا کر ا حباب کے سلام کا جواب دیتے رہے.(۳) حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مرکز سے اپنی عدم موجودگی میں حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو امیر مقامی اور مکرم مولانا ابو العطاء صاحب کو مسجد مبارک ربوہ میں امام الصلوۃ مقرر فرمایا تھا.اور انتہائی ضروری اور فوری معاملات پر غور کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر فرمائی تھی جس میں ناظر اعلیٰ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب، قائم مقام وکیل اعلیٰ مکرم میر داؤ داحمد صاحب ( بطور کنویز )، امیر مقامی و ناظر امور عامه حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب، صدر مجلس خدام الاحمدیہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، قائم مقام صدر انصار اللہ مکرم مولانا ابو العطاء صاحب شامل تھے.(۴) کراچی تک راستے میں بہت سے احباب چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر حضور کی زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے.حضور نے از راہ شفقت ان سے ملاقات فرمائی اور یہ سلسلہ رات کو بھی جاری رہا.حضور نے ان احباب کو مختلف نصائح فرمائیں اور خصوصیت سے قرآن کریم کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی.حضور بروز جمعہ ے جولائی کی دو پہر کو کراچی پہنچے.آپ نے جمعہ کی نماز احمدیہ ہال میگزین لین میں پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں اپنے دورہ یورپ کی غرض و غایت کو واضح فرمایا.نماز جمعہ کے بعد آپ نے مجلس انصاراللہ کراچی کے اجتماع کا افتتاح فرمایا اور اپنی تقریر میں قرآنِ کریم کے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے پر زور دیا.(۵) یورپ کے اس دورے میں حضور کا پہلا قیام فرینکفورٹ ( جرمنی ) میں تھا.آپ ۸ جولائی ۱۹۶۷ء کو کراچی سے پی آئی اے کے بوئینگ جہاز پر روانہ ہوئے.جہاز کچھ دیر کے لئے تہران رکا.وہاں پر جماعت کے چند احباب نے حضور سے شرف مصافحہ حاصل کیا.پھر جہاز ماسکو سے ہوتا ہوا سہ پہر تین بج کر پچاس منٹ پر فرینکفورٹ پہنچا.(۲) فرینکفورٹ میں جماعت کا مشن ایک عرصہ سے کام کر رہا تھا.۱۹۵۹ء میں یہاں پر جماعت
55 نے اپنی مسجد اور مشن ہاؤس بھی تعمیر کئے تھے.۱۹۶۷ء میں جرمنی میں فرینکفورٹ کے علاوہ نیورمبرگ اور ہمبرگ میں بھی جماعت کے مشن کام کر رہے تھے.جب حضرت خلیفۃ اسیح الثالث فرینکفورٹ پہنچے تو ہوائی اڈے پر یہاں کی جماعت مکرم فضل الہی انوری صاحب مبلغ فرینکفورٹ کی قیادت میں استقبال کے لئے موجود تھی (۷).یہاں پر حضور نے دو روز کے لئے قیام فرمانا تھا.9 جولائی کو حضور نے ایک نہایت مصروف دن گزارا.حضور نے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے احباب سے ملاقات کی.اور تین احباب نے بیعت کی.سہ پہر کو حضور نے ایک استقبالیہ میں شرکت فرمائی.اس میں معززین شہر، مقامی جماعت کے افراد، کچھ ایرانی مسلمانوں اور جرمنی کی دوسری جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی.اس میں شہر کی انتظامیہ کے صدر روڈولف ٹیفس صاحب (Rudolf Tefs)، شہر کی عدلیہ کے ایک حج ،شہر کے نائب میئر اور پادری صاحبان اور شہر کی دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی.اس استقبالیہ میں حضور نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ فرینکفورٹ میں میری پہلی آمد نہیں ہے.جب میں آکسفورڈ میں پڑھتا تھا اُسوقت بھی میں یہاں آیا تھا.آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا الله کہ صرف اسلام ہی کا خدا زندہ خدا ہے.اور صرف محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے زندہ رسول ہیں.اور آنحضرت ﷺ کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ خدا کے مظہر اور زندہ نشان ہیں اور میں ان کے نمائندے اور جانشین کی حیثیت سے دعوت مقابلہ دیتا ہوں کہ اگر کسی عیسائی کو بھی دعوی ہے کہ اس کا خدا زندہ خدا ہے تو وہ میرے ساتھ قبولیتِ دعا میں مقابلہ کرے اور اگر وہ جیت جائے تو ایک گرانقدر انعام حاصل کرے.اس استقبالیہ میں شرکاء شام تک ٹھہرے رہے اور حضور سے اسلام کے بارے میں مختلف سوالات پوچھتے رہے.مقامی اخبارات نے حضور کی آمد کی خبر کو آپ کے تعارف کے ساتھ شائع کیا.(۸) ۱۰ جولائی کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث فرینکفورٹ سے سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورک تشریف لے گئے.یہاں پر جماعت کا مشن ۱۹۴۸ء سے قائم ہے.حضور کے دورہ کے وقت زیورک میں مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب جماعت کے مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے.اور ۱۹۶۳ء میں یہاں پر جماعت کی مسجد کا افتتاح بھی ہوا تھا.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث ہوائی اڈہ پر پہنچے تو مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کی قیادت میں احباب جماعت جن میں یہاں کے مقامی مسلمان
56 بھی شامل تھے اور پریس شعبہ کے افسر اعلیٰ نے حضور کا استقبال کیا.یہاں پر ایک انٹر ویو دینے کے بعد حضور مسجد محمود تشریف لے گئے.رات کو حضور نے ایک استقبالیہ میں شرکت فرمائی اس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی معزز شخصیات نے شرکت کی.حضور نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا اسلام صلح و آشتی کا مذہب ہے.وہ صلح کو قائم کرتا ہے اور امن کی فضا پیدا کرتا ہے.استقبالیہ میں دیگر معززین کے علاوہ سوئٹزر لینڈ کی مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور سات ممالک کے سفارتی نمائندے بھی شامل ہوئے.یہاں کے ریڈیو اور ٹی وی پر حضور کا انٹرویو نشر کیا گیا.ٹی وی کے نمائندے نے سوال کیا کہ آپ دنیا پر کس طرح غلبہ حاصل کریں گے؟ اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جواب دیا کہ دلوں کو فتح کر کے.اس پر اس نے بے ساختہ کہا کہ میں اس جواب کو اپنی رپورٹ میں ضرور شامل کروں گا.حضور زیورک سے انٹر لائن اور برن تشریف لے گئے اور وہاں پر ایک رات قیام کے بعد واپس زیورک تشریف لے آئے (۱۰۹).زیورک میں ہی ایک روز صبح کے تین بجے حضور کی زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام جاری ہوا مبارک و مبارک و کل امر يجعل فيه(۱۱) اس دورہ میں حضور کو رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا اور صبح سب سے پہلے بیدار ہو کر کام شروع کر دیتے.اتنی مصروفیات کے باوجود حضور ہر وقت شگفتہ مزاج رہتے تھے.مکرم چوہدری محمد علی صاحب جو اس دورہ کے دوران بطور پرائیویٹ سیکریٹری حضور کے ہمراہ تھے بیان کرتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے دورہ کے دوران حضور رات کے بارہ بجے تک مختلف احباب کے ساتھ مجلس میں بیٹھتے تھے.ہماری خواہش تھی کہ حضور آرام فرما ئیں اور نیند پوری کر لیں.اتنے میں حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کا پیغام آیا کہ حضور سے عرض کریں کہ بارہ بج گئے ہیں.چوہدری محمد علی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ حضور بارہ بج گئے ہیں.حضور نے برجستہ فرمایا:.” آپ کے بارہ بجے ہوں گے ہمارے تو نہیں بجے.“ ۱۴ جولائی کو حضور زیورک سے ہالینڈ کے شہر بیگ تشریف لے گئے.اسی روز حضور نے ہیگ کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھائی اور انگریزی میں خطبہ ارشاد فرمایا.اس خطبہ میں حضور نے اس مضمون پر روشنی ڈالی کہ سورۃ فاتحہ میں جو صفات الہی بیان ہوئی ہیں وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی
57 رضا کے حصول میں ہمارے لئے مد ثابت ہوتی ہیں.نماز جمعہ کے بعد حضور نے احباب جماعت کے ساتھ کھانا تناول فرمایا.اسی روز حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا جس میں ہالینڈ کے تقریباً سارے بڑے اخبارات اور خبر رساں ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہوئے.اور ریڈیو ہیگ کی ایک ٹیم نے بھی اس میں شرکت کی اور حضور کا انٹرو یولیا جواسی روزنشر کیا گیا.۱۵ / جولائی کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں احباب جماعت کے علاوہ شہر کے دیگر معززین نے بھی شرکت کی.ان میں شہر کی علمی شخصیات ، پروفیسر صاحبان ، یورپ میں صوفی تحریک کے لیڈر مشرف خان صاحب، ہالینڈ میں بدھوں کے لیڈر مسٹر بلوس ما ، ہالینڈ میں رہنے والے دس ہزار ترکوں کے امام مسٹرا کتو دان، رجسٹرار عالمی عدالت انصاف اور کویت اور انڈونیشیا کے سفارت کاروں کے علاوہ متعدد نمائندگان پریس اور ریڈیو نے شرکت کی.(۱۲، ۱۳) ۱۶ جولائی کو حضرت خلیفہ امیج الثالث ہیگ کا دورہ مکمل کر کے واپس جرمنی پہنچے.اب آپ کا قیام ہمبرگ میں تھا.جرمن اور پاکستانی احمدی ہوائی اڈے پر اپنے امام کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھے.ہمبرگ میں جماعت کے مبلغ مکرم عبد اللطیف صاحب نے حضور کا استقبال کیا.اور جب حضور باہر تشریف لائے تو احباب جماعت نے اللہ اکبر، اسلام زندہ باد اور حضرت خلیفہ اسیح زندہ باد کے نعرے لگائے.شام کو ہمبرگ جماعت کی طرف سے حضور کے اعزاز میں استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا تھا.اس میں احمدی احباب کے علاوہ بہت سے غیر احمدی حضرات نے بھی شرکت کی.پہلے مکرم عبداللطیف صاحب نے جماعت احمدیہ اور حضور کا تعارف کرایا اور پھر جرمن احمدی مکرم عبد الغفور صاحب نے سپاسنامہ پیش کیا.استقبالیہ کے بعد انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا.کئی جرمن احمدی دور دراز کا سفر کر کے حضور کی زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے.مقامی ٹی وی نے اس استقبالیہ پر ایک رپورٹ نشر کی اور اس کے علاوہ ریڈیو پر بھی حضور کی آمد کی خبر نشر کی گئی.۷ار جولائی کو صوبائی حکومت کی طرف سے حضور کے اعزاز میں دعوتِ استقبالیہ دی گئی.اس میں حکومت کے نمائندوں کے علاوہ دیگر معززین شہر نے بھی شرکت کی.اسی شام کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اٹلانٹک ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس میں شرکت فرمائی.اس میں ملک کے بڑے اخبارات کے نمائندوں مختلف خبر رساں ایجنسیوں کے نمائندوں کے علاوہ کچھ ریڈیو سٹیشنوں کے نامہ نگاروں نے بھی شرکت
58 کی.مقامی جماعت نے رات کا کھانا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ساتھ کھایا.عشاء کی نماز کے بعد مقامی جماعت کے احباب نے حضور سے شرف ملاقات حاصل کیا.ہمبرگ میں قیام کے دوران ایک جرمن خاتون اور ایک عرب دوست بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.۱۹ / جولائی کی شام کو حضور ہسپانیہ ایکسپریس میں کوپن ہیگن کے لئے روانہ ہو گئے.(۱۵،۱۴،۱۳) حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ہمبرگ سے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کو ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:.”یہاں بے حد مصروفیت رہتی ہے الحمد للہ الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ اس نے اپنی بے پایاں رحمت اور محبت سے بڑی کامیابی کے سامان پیدا کر دیئے.صرف ہیمبرگ کے علاقہ میں ٹیلی ویژن پر اندازاً ساٹھ ستر لاکھ دیکھنے والے احمدیت سے متعارف ہوئے.اس کے علاوہ سوئٹزر لینڈ میں وہاں کے ٹیلی ویژن پر لاکھوں آدمی احمدیت سے متعارف ہوئے.ہیمبرگ کے صوبہ میں صرف چار روزانہ اخبار ہیں.تین صبح شائع ہوتے ہیں اور ایک شام.ہر چہار اخباروں نے توجہ کھینچنے والی بڑی تصاویر شائع کر کے خبریں شائع کیں.جن میں یہ خبر بھی تھی کہ اگر وہ اپنے زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم نہ کریں گے تو تباہ ہو جائیں گے.نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے روز بازار میں جاتے تو سارا بازار کام چھوڑ چھاڑ ہماری طرف متوجہ ہو جا تا.....پریس کانفرنس ہر مقام پر کامیاب رہی.ہالینڈ والے ڈرتے تھے کہ کہیں اسرائیل کے متعلق سوال ایسے رنگ میں نہ کئے جائیں جن سے نقصان ہو کیونکہ اسلام دشمنی زوروں پر ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسا رعب ڈالا کہ وہ اس قسم کے سوال کی جرات ہی نہ کر سکیں.ہیمبرگ میں پریس کا نفرنس تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کی تھی.ہر قسم کے دلچسپ سوالات کئے گئے اور تسلی بخش جوابات اللہ تعالیٰ نے دلوائے.پیشگوئیوں کا سمجھنا ان کے لئے مشکل ہے آسان نہیں.ایک اخبار نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے.اس قدر دلچسپی لی کہ دیکھنے والے حیران تھے اور خدا کا ایک بندہ اپنے رب کی حمد سے معمور فالحمد للہ.ربوہ اور اہل ربوہ اہلِ پاکستان کے لئے دل اداس ہے اور دعا گو.دعاؤں کی بہت ضرورت ہے.دعا کی درخواست کے ساتھ سب کی خدمت میں سلام.بچوں کو پیار “
59 حضرت خلیفۃ اسبح الثالث نے قائم مقام وکیل اعلی مکرم سید داؤد احمد صاحب کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:.دو ہر پریس کانفرنس میں نمائندگان پر فرشتوں کا رعب مشاہدہ کیا.فالحمد لله الذی له ملک السموات والارض Warning دے دی گئی اور چھپ بھی گئی.اتمام حجت ہو گیا ہے.مگر مغرب کی تاریکی میں ان باتوں کا سمجھنا ان اقوام کے لئے آسان نہیں.اللہ تعالیٰ رحم کرے.بے حد مصروفیت میں جسمانی اور دماغی کوفت کا بھی احساس نہیں.دل خدا کی حمد سے لبریز اور احباب جماعت کی دعاؤں کی ضرورت کا احساس بیدار_وعليه التوكل وله الحمد.سب کو سلام.تمام احباب جماعت کو دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا سلام پہنچا دیں.دعا کی درخواست کے ساتھ.‘ (۱۶) ۲۰ جولائی ۱۹۶۷ء کوحضرت خلیفہ لمسیح الثالث بخیر و عافیت ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن پہنچ گئے.ریلوے اسٹیشن پر مقامی مبلغین اور اسکینڈے نیویا کے احمدی احباب نے حضور کا پر تپاک خیر مقدم کیا.یہاں پر مکرم سید کمال یوسف صاحب بطور مبلغ کام کر رہے تھے.اور حضور نے اس دورے میں ڈنمارک میں بہنے والی پہلی مسجد کا افتاح کرنا تھا.اپنی آمد کے اگلے روز مورخہ ۲۱ جولائی کو بروز جمعہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ڈنمارک کی پہلی مسجد کا افتتاح فرمایا.اس تقریب میں یورپ میں اسلام کے مبلغین اور احمدی احباب کے علاوہ، غیر ملکی سفراء، ڈنمارک کی نمایاں شخصیات اور معزز شہریوں نے شرکت کی.اس موقع پر حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.ریڈیو اور ٹی وی کے نمائندوں نے حضور کا خصوصی انٹرویو ریکارڈ کیا.اس مسجد کا نام حضرت ام المؤمنین کے نام پر مسجد نصرت جہاں رکھا گیا تھا.اور احمدی خواتین نے اس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا.ریڈیو اور ٹی وی نے اس موقع پر حضور کے انٹرویو ریکارڈ کئے.یہ مسجد یورپ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے تعمیر ہونے والی چھٹی مسجد تھی.(۱۷) ۲۲ جولائی ۱۹۶۷ء کو حضور نے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے نام اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا.کل بعد نماز جمعہ مسجد کا افتتاح مختصر تقریر اور دعاؤں کے ساتھ ہوا.افتتاح بہت
60 کامیاب تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سے.نمازی تو صرف تین صد سے اوپر تھے مگر زائرین سے سارا احاطہ بھرا ہوا تھا.سینکڑوں کھڑے نظر آ رہے تھے......میرا خیال ہے کہ سینکڑوں نے چائے میں بھی شمولیت اختیار کی.کھانے میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر برکت ڈالی کہ پھر بھی کچھ بچے ہی گیا.صرف ایک شخص تھا جس نے کچھ نہیں کھایا یعنی خاکسار کیونکہ پریس انٹرویو میں پوری توجہ سے نمائندگان سے مخاطب تھا.یہ پہلی جگہ ہے جہاں اخباروں نے اسلام کے، ہمارے خلاف بھی لکھا ہے.یعنی خدا کی زمین میں کھاد بھی پڑ گئی ہے، آسمانی پانی سے بھی حصہ ملا ہے.امید ہے اور دعا کہ فصل اچھی ہوگی.الحمد للہ.ریڈیو ٹیلی ویژن نے افتتاح کی خبریں نشر کی ہیں.اور بہت سے اخباروں نے بڑی بڑی تصاویر کے ساتھ نوٹ دیئے ہیں حق میں بھی اور خلاف بھی.زائرین کل سے آئے چلے جا رہے ہیں اور آتے رہیں گے.امید ہے.اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے.وله الحمد.بے حد دعائیں کرتی رہیں اور کرواتی رہیں.(۱۱) مکرم امیر صاحب مقامی ، صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے تار کے جواب میں حضور نے بذریعہ تاریہ پیغام بھجوایا:.”...مسجد نصرت جہاں کا افتتاح بلا شبہ ہماری تاریخ کا ایک عظیم واقعہ ہے.لیکن ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اب ہم پر اور بھی زیادہ گراں بہا ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اور وہ یہ کہ آئندہ ہمیں اور بہت سی مسجد میں تعمیر کرنا ہیں اور اپنے حقیقی احمدی ہونے کا ثبوت دینا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.( الفضل ۲ اگست ۱۹۶۷ء ص ۸) جب ذرائع ابلاغ میں اس مسجد کی تعمیر کا وسیع پیمانے پر چرچا ہوا تو عیسائی چرچ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا.چنانچہ ڈینیش مشنری سوسائٹی کے سیکریٹری نے عیسائی علماء کے ساتھ تبادلہ خیالات کی غرض سے حضور سے ایک ملاقات کی.اس وفد نے حضور سے مختلف سوالات کرنے شروع کئے اور یہ سوال بھی کیا کہ جماعت احمدیہ اور اہل تشیع اور اہلِ سنت کے تعلقات کیسے ہیں.اور پھر یہ سوال کیا کہ مستقبل میں احمدیت کے عیسائیت سے تعلقات کیسے ہوں گے؟ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ موجودہ عیسائیت اور اسلام میں بہت زیادہ فرق ہے.لیکن ایک عیسائی اور مسلمان میں
61 انسانیت ایک جیسی ہے.ہمیں آپس میں بیٹھ کر تبادلہ خیالات کرنا چاہئے.اس موقع پر جب عیسائی پادریوں نے دیکھا کہ حضور کے جوابات کا حاضرین پر غیر معمولی اثر ہو رہا ہے تو انہوں نے غیر مناسب رنگ میں اعتراضات کرنے شروع کر دیئے.اس پر ڈینش احمدی مکرم عبد السلام میڈیسن صاحب جوش میں آگئے.مگر حضور نے ان کو صبر کی تلقین کی اور بڑے حکیمانہ انداز میں اپنے جوابات کو جاری رکھا.ملاقات کے آخر میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے تمام عیسائی علماء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک چینج کا انگریزی ترجمہ پیش کر کے فرمایا کہ یہ دعوت اب بھی کھلی ہے.ہمیں خوشی ہو گی اگر عیسائیت کی سچائی اور اسلام کی صداقت کا فیصلہ کرنے کے لئے عیسائی حضرات اس دعوت کو قبول کریں.حضور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جس چیلنج کو اس موقع پر دہرایا وہ یہ تھا.توریت اور انجیل قرآن کا کیا مقابلہ کریں گی.اگر صرف قرآن شریف کی پہلی سورۃ کے ساتھ ہی مقابلہ کرنا چاہیں یعنی سورہ فاتحہ کے ساتھ جو فقط سات آیتیں ہیں اور جس ترتیب انسب اور ترکیب محکم اور نظام فطرتی سے اس سورۃ میں صد ہا حقائق اور معارف ا دینیہ اور روحانی حکمتیں درج ہیں ان کو موسیٰ کی کتاب یا یسوع کے چند ورق انجیل سے نکالنا چاہیں تو گوساری عمر کوشش کریں تب بھی یہ کوشش لا حاصل ہوگی.اور یہ بات لاف و گزاف نہیں بلکہ واقعی اور حقیقی یہی بات ہے کہ توریت اور انجیل کو علوم حکمیہ میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ بھی مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں.ہم کیا کریں اور کیونکر فیصلہ ہو پادری صاحبان ہماری کوئی بات بھی نہیں مانتے.اگر وہ اپنی توریت یا انجیل کو معارف اور حقائق کے بیان کرنے اور خواص کلامِ الوہیت ظاہر کرنے میں کامل سمجھتے ہیں تو ہم بطور انعام پانچسو روپیہ نقدان کو دینے کے لئے تیار ہیں.اگر وہ اپنی کل ضخیم کتابوں میں سے جو ستر کے قریب ہوں گی وہ حقائق اور معارف شریعت اور مرتب اور منتظم در بر حکمت و جواہر معرفت اور خواص کلام الوہیت دکھلا سکیں جوسورۃ فاتحہ میں سے ہم پیش کریں گے...“ پھر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ چیلنج بھی دہرایا کہ جو اصول اور تعلیمیں قرآن کریم کی ہیں وہ سراسر حکمت اور معرفت سے بھری ہوئی ہیں.منکرین قرآن کریم کو چاہئے کہ دو تین بڑے بڑے اعتراضات سوچ لیں جو ان کے نزدیک قرآنِ کریم پر وارد ہوتے
62 ہوں اور ان کو بطور نمونہ پیش کریں اور پھر حقیقت حال کو آزما لیں.اگر بعد تحقیق یہ بڑے بڑے اعتراضات ہی غلط نکلے تو چھوٹے چھوٹے اعتراضات ساتھ ہی نابود ہو جائیں گے.اور یہ اعتراضات اور ان کے جوابات ایک رسالہ میں شائع کئے جائیں گے.اس کے بعد کسی ثالث کی رائے یا خود فریق مخالف کے حلف پر فیصلہ کیا جائے گا.لیکن شرط یہ ہے کہ فریق مخالف نامی علماء میں سے ہو اور اپنی مذہبی کتب کا علم بھی رکھتا ہو.(۱۸) ۲۵ جولائی کو میئر نے اہالیان شہر کی طرف سے حضور کے اعزاز میں اسقبالیہ دعوت دی.اور میئر صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں اپنے ساتھیوں اور شہریوں کی طرف سے اس بات کا اظہار کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے شہر کو مسجد کی تعمیر کے لئے منتخب کیا گیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جوابی تقریر میں فرمایا کہ ہم بھی آپ لوگوں کے تعاون اور رواداری جو آپ نے مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں دکھائی ممنون ہیں.ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ مسلمان ایک بہترین اور مثالی شہری ہوا کرتا ہے.اس کے علاوہ یہ امر بھی ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ ہم ہر ملک کے مروجہ قانون کی پیروی کریں.(۱۹) حضرت خلیفۃ المسح الثالث کو احباب جماعت سے ایسا تعلق تھا کہ ان کی تکلیف آپ کو بے چین کر دیتی تھی.مکرم چوہدری محمد علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ڈنمارک میں ایک روز میں نے دیکھا کہ حضور رات کو پونے چار بجے ٹہل رہے تھے.میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ حضور کیا بات ہے؟ کچھ دیر کندھے سے پکڑے رکھا اور ٹہلتے رہے جیسے دعا کر رہے ہوں پھر فرمایا کہ ایک عورت کا خط آیا کرتا تھا کہ اس کی بچی بیمار ہے.آج کی ڈاک میں اس کا خط نہیں آیا پتا نہیں اس کا کیا حال ہے؟ ڈنمارک کے کامیاب دورہ کے بعد حضور ۲۶ / جولائی کو کوپن ہیگن سے لندن کے لئے روانہ ہوئے.جب لندن میں حضور طیارہ سے باہر تشریف لائے تو وہاں پر موجود احباب جماعت نے حضور کا پر تپاک خیر مقدم کیا.ہوائی اڈہ سے حضور Queens Building تشریف لے آئے جہاں تمام احباب نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے شرف مصافحہ حاصل کیا.اس موقع پر پریس کے نمائندگان نے حضور کا مختصر انٹرویو لیا.انٹرویو کے بعد حضور ۶۳ مروز روڈ پر مشن ہاؤس تشریف لے گئے.اور یہاں پر مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھائیں.اگلے روز صبح دس بجے انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ
63 شروع ہوا.نماز ظہر اور عصر کی ادائیگی کے بعد حضور آکسفورڈ تشریف لے گئے.حضور نے اس تعلیمی درس گاہ کی سیر فرمائی جس میں آپ نے تعلیم حاصل کی تھی.اگلے روز خطبہ جمعہ میں آپ نے ارشاد فرمایا:.انشاء اللہ تعالے میں اپنے بھائیوں سے لمبی گفتگو تو جلسہ سالانہ کی تقریب پر جو یہاں ہوگی کروں گا.آج میں آپ لوگوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ زمانہ جس میں ہم رہ رہے ہیں نہایت تاریک زمانہ ہے.یہ بر اعظم اور اس کا یہ جزیرہ جس میں آپ اور دیگر پاکستانی رہائش پذیر ہیں روحانی طور پر تاریک بر اعظم ہے.اگر خدا تعالیٰ کا ایک فرستادہ دنیا کو یہ نہ بتاتا کہ وو اس زمانہ کا حصن حصین میں ہی ہوں.“ اور جس کی آمد سے دنیا کا یہ مضبوط قلعہ شیطان کے وساوس سے بچنے کی وجہ سے قہر الہی سے محفوظ رہا تو یہ دنیا آج مر چکی ہوتی.خدا تعالیٰ نے جو بندوں سے پیار کرنے والا ہے.اس دنیا کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے اپنے ایک بندے کو اس کی طرف مبعوث فرمایا اور اس دنیا کو ایک حصن حصین ، ایک قلعہ بنادیا جس میں تمام دنیا کو پناہ مل سکتی ہے.“ خطبہ جمعہ کے اختتام پر حضور نے فرمایا ” جہاں یہ زمانہ بڑا نازک ہے وہاں خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے بھی دروازے کھلے ہیں.بڑا بد بخت ہے وہ شخص جس کو دونوں دروازوں کا علم ہو مگر وہ اچھے دروازہ کو منتخب نہ کرے.آپ دنیا کے استاد بنائے گئے ہیں دعا کریں کہ اپنی غفلت کے نتیجہ میں دنیا کے شاگرد نہ بن جائیں.(۲۰) ۲۸ جولائی کو وائڈز ورتھ میں حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا گیا.تقریب میں یہاں کے میئر نے حضرت خلیفتہ امیج الثالث کا تعارف کرایا.تقریب میں ایک رکن پارلیمنٹ اور حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بھی تقاریر کیں.حضور نے اس موقع پر بصیرت افروز خطاب فرمایا.اس خطاب میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندانی پس منظر اور آپ کی بعثت کا پس منظر بیان فرمایا.پھر حضور نے عالمی تبدیلیوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سی
64 عظیم الشان پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا جو اپنے وقت پر پورا ہو کر عظیم نشان بن گئیں.ان پیشگوئیوں میں عالمی جنگوں کی پیشگوئی بھی شامل تھی.پھر حضور نے فرمایا :.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تیسری جنگ کی بھی خبر دی ہے جو پہلی دونوں جنگوں سے زیادہ تباہ کن ہو گی.دونوں مخالف گروہ اس طرح اچانک طور پر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے کہ ہر شخص دم بخودرہ جائے گا.آسمان سے موت اور تباہی کی بارش ہوگی اور خوفناک شعلے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے.نئی تہذیب کا قصر عظیم زمین پر آ رہے گا دونوں متحارب گروہ یعنی روس اور اس کے ساتھی اور امریکہ اور اس کے دوست ہر دو تباہ ہو جائیں گے ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی ان کی تہذیب و ثقافت بر باد اور ان کا نظام درہم برہم ہو جائے گا.بچ رہنے والے حیرت اور استعجاب سے دم بخود اور ششدر رہ جائیں گے.روس کے باشندے نسبتاً جلد اس تباہی سے نجات پائیں گے اور بڑی وضاحت سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اس ملک کی آبادی پھر جلد ہی بڑھ جائے گی اور وہ اپنے خالق کی طرف رجوع کریں گے اور ان میں کثرت سے اسلام پھیلے گا اور وہ قوم جو زمین سے خدا کا نام اور آسمان سے اس کا وجود مٹانے کی شیخیاں بگھار رہی ہے ، وہی قوم اپنی گمراہی کو جان لے گی اور حلقہ بگوش اسلام ہو کر اللہ تعالیٰ کی توحید پر پختگی سے قائم ہو جائے گی.شاید آپ اسے ایک افسانہ سمجھیں مگر وہ جو اس تیسری عالمگیر تباہی سے بچ نکلیں گے اور زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں اور اس قادر و توانا کی باتیں ہمیشہ پوری ہی ہوتی ہیں.کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی.پس تیسری عالمگیر تباہی کی انتہاء اسلام کے عالمگیر غلبہ اور اقتدار کی ابتداء ہوگی اور اس کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ اسلام ساری دنیا میں پھیلنا شروع ہوگا اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیں گے اور یہ جان لیں گے کہ صرف اسلام ہی سچا مذہب ہے اور یہ کہ انسان کی نجات صرف محمد رسول اللہ کے پیغام کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے.“ پھر حضور نے فرمایا کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی ہے جو کہ تو بہ استغفار سے ٹل بھی سکتی ہے.اگر
65 انسان اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور اپنے اطوار درست کر لے تو وہ خدا کے عذاب سے بچ بھی سکتا ہے.اس کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر شوکت حوالے پڑھ کر سنائے جن میں حضور نے دنیا کو انذار فرمایا تھا اور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پر شوکت تحریر سنائی: اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا، میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں، وہ واحد و یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا، مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھائے گا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے تحت سب کو جمع کروں، پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے، نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے، مگر خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ ایک مردہ ہے نہ زندہ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۶۹) حضور ۲۹ جولائی کو حضور ایک تقریب میں شرکت کے لئے ساؤتھ ہال تشریف لے گئے.آپ نے وہاں پر احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ جو اس علاقہ میں رہتے ہیں جہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہزاروں دوست رہتے ہیں.آپ کو ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ جس سے ثابت ہو جائے کہ اسلام دوسروں سے نفرت و حقارت کو نا پسند کرتا ہے.دنیا نمونہ کی محتاج ہے.اسی صورت میں آپ اسلام کے سب سے بڑے مبلغ ٹھہریں گے.اگر آپ اس تعلیم کے مطابق عمل کریں گے تو پھر ہی حقیقی احمدی کہلائیں گے.(۲۱) ۳۰ جولائی کو وانڈ زورتھ ہال میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی صدارت میں جماعت احمدیہ انگلستان کا چوتھا جلسہ سالانہ شروع ہوا.اس میں ایک ہزار کے قریب افراد شریک ہوئے.آپ نے اپنے افتتاحی خطاب میں حضرت مصلح موعودؓ کے وصال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.
66 آپ سب جانتے ہیں کہ ۸ / نومبر ۱۹۶۵ء کو جماعت پر کیا قیامت گزری.وہ جو ہمارا پیارا تھا.جس نے ۵۲ سال ہماری تربیت کی تھی.ہمارے لئے دکھ اُٹھانے والا ، ہماری خاطر راتوں کو جاگنے والا ، جس نے ہمارے لئے ہر قسم کی جانی و مالی قربانیاں دی تھیں.جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے رنگ میں ہم میں قائم کیا تھا.وہ الہی منشاء کے مطابق اپنے محبوب اللہ کے پاس بلا لیا گیا.اور جماعت کے ہر فرد نے یہ سمجھا کہ ہمارے سہارے ٹوٹ گئے ہیں.اور ہر دل نے یہ بھی یقین کر لیا کہ ایک اللہ تعالیٰ کا سہارا نہیں ٹوٹا اور نہیں ٹوٹ سکتا.پھر حضور نے فرمایا:.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال سے قبل مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ کسی معاملہ میں سارا خاندان یک جہتی کا مظاہرہ کرے گا.اس خواب کی کسی حد تک تعبیر مجھے معلوم ہو گئی تھی لیکن پوری تعبیر اس وقت معلوم ہوئی جب انتخاب خلافت ہوا.انتخاب سے قبل خاندان مسیح موعود کے جو ممبر انتخاب میں حسب قواعد حصہ لے سکتے تھے ان سب نے فیصلہ کیا کہ ہم انتخاب کے وقت آخر میں سب سے پیچھے بیٹھیں گے اور خدا تعالیٰ ساری جماعت میں سے جس کو بھی خلیفہ بنائے گا اسے متفقہ طور پر قبول کر لیں گے اور اس کی پوری اطاعت کریں گے.پھر انتخاب کا وقت آیا میں اپنی کیفیت میں تھا.بعض باتوں کا مجھے علم بھی نہیں ہوا.جب انتخاب ہو گیا اور کسی شخص نے مجھے آ کر کہا کہ اٹھئے آپ کا انتخاب ہو گیا ہے تو پھر مجھے علم ہوا.یہ کوئی معمولی چیز نہیں.ایک آدمی جسے اس وقت جماعت کوئی بہت بڑا بزرگ یا عالم یا بڑا آدمی نہ بجھتی تھی خدا تعالیٰ نے اسے اٹھایا اور کرسی خلافت پر بٹھا دیا.اگر بندوں کے اختیار میں ہوتا تو جماعت جسے بزرگ سمجھتی اسے بٹھا دیتی لیکن خدا نے کہا کہ آج تمہاری نہیں چلے گی بلکہ میں ایک شخص کو جو تمہاری نظر میں کمتر اور نا کارہ ہے اٹھاؤں گا.یہ اسی کی طاقت ہے نہ کسی انسان کی.خلیفہ وقت کی طاقت کا راز یہ ہے کہ وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ اس کی اپنی کوئی طاقت نہیں.خلیفہ وقت کے علم کا راز یہ ہے کہ وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ
67 میرا اپنا ذاتی کوئی علم نہیں.(۲۲) جلسہ کے بعد احباب جماعت نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی.۳۱ جولائی کی صبح کو حضرت خلیفہ امسیح الثالث گلاسکو کے لئے روانہ ہو گئے.راستے میں حضور نے رات کو سکاچ کارنر میں قیام فرمایا.اگلے روز آپ نے اپنا ایک تازہ رؤیا سنایا اور اس رؤیا کو آپ نے ۱۴اگست کے خطبہ جمعہ میں ان الفاظ میں بیان کیا:.” میری ایک رؤیا کا تعلق اسلام کی ترقی سے ہے.میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھڑے ہیں.ایک شخص جس کا نام خالد ہے کہتا ہے کہ آپ نام رکھ دیں.لیکن یہ یاد نہیں رہا کہ وہ کسی بچے کا نام رکھوانا چاہتا ہے یا کسی بڑے کا یا اپنا نام بدلوانا چاہتا ہے.میں نے کہا کہ میں طارق نام رکھتا ہوں.پھر میں نے کہا کہ طارق نام ہی نہیں دعا بھی ہے.اور یہ دعا بہت کرنی چاہئے.اس خواب کی مجھے یہ تفہیم ہوئی ہے کہ طارق رات کے وقت آنے والے کو کہتے ہیں.رات کا وقت ملائکہ کا نزول بھی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کو صبح صادق کے ظہور سے تعبیر کیا ہے.اور طارق کے معنی روشن اور صبح کے وقت طلوع ہونے والے ستارے کے بھی ہیں.اور یہ ستارہ اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ رات گزرگئی ہے اور دن چڑھنے والا ہے.پس اس خواب کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی اقوام جو بظاہر مہذب کہلاتی ہیں لیکن در حقیقت انتہائی غیر مہذب اور گندی زندگی بسر کر رہی ہیں اور بظاہر اسلام کی طرف ان کی توجہ من نظر نہیں آرہی.دعا کے ذریعہ ممکن ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائیں.عقلی دلائل یہ سنے کو تیار نہیں ان کو تو دعا ہی خدا تعالیٰ کی طرف لاسکتی ہے.(۲۳) اور اگلے روز شام کو آپ گلاسکو پہنچے.آپ نے گلاسکو میں قیام کے دوران احباب جماعت سے ملاقات کے علاوہ ایک استقبالیہ میں شرکت کی اور پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اور آپ یہاں سے ایڈنبرا بھی تشریف لے گئے.اب حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کی وطن واپسی کا وقت قریب آ رہا تھا.تقریباً ڈیڑھ ماہ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد آپ ۲۱ راگست ۱۹۶۷ء کو واپس کراچی پہنچے.اس روز مطلع ابر آلود تھا مگر بہت
68 سے احباب اپنے آقا کے استقبال کے لئے ایئر پورٹ پر چشم براہ تھے.مقامی جماعت کے عہد یداران اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد نے جہاز تک جا کر حضور کا استقبال کیا.باہر بہت سے احمدی حضور کے استقبال کے لئے دو رویہ کھڑے ہوئے تھے.حضور نے احباب سے مصافحہ فرمایا.اگلے روز حضور نے بہت سے احباب سے ملاقات کی اور ایک پریس کانفرنس میں بھی شرکت فرمائی.خدام الاحمدیہ کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خطاب فرمایا.اس میں آپ نے دورہ یورپ کے دوران خدا تعالیٰ کی تائید کے متعدد واقعات بیان فرمائے.آپ نے جماعت خصوصاً نوجوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور وہ اپنے آپ کو اس کا اہل بنائیں کہ آئندہ جو بوجھ ان پر پڑنے والا ہے وہ اسے اٹھاسکیں.(۲۴) ۲۵/ اگست ۱۹۶۷ء کو حضور ریل گاڑی کے ذریعہ بخیر و عافیت ربوہ پہنچے.پاکستان کے مختلف شہروں سے ہزاروں احباب حضور کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر منتظر تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ریل گاڑی سے اترنے کے بعد اسٹیشن کے برآمدے میں تشریف لے آئے.اور حاضرین سے ایک مختصر خطاب فرمایا.احباب پر ایک وجد کی کیفیت طاری تھی اور وہ دیر تک پر جوش نعرے لگاتے رہے.(۲۵) اس طرح اللہ تعالی کے فضل سے حضرت خلیفہ المسح الثالث کا ملک سے باہر پہلا دورہ نہایت کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا.(۱) الفضل ۲ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۱ ، ۲ (۲) الفضل ۱۱ار جولائی ۱۹۶۷ ء ص ، ۴ (۳) الفضل ۸ / جولائی ۱۹۶۷ ص۱، ۸ (۴) رجسٹر ریزولیشن صدر انجمن احمد ی ر بوه (۵) الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۶۷ ء ص آخر (1) الفضل اار جولائی ۱۹۶۷ ص۱ ( ۷ ) الفضل ۲۶ اگست ۱۹۶۷ ء ص ۴، ۵ (۸) الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۳، ۴ (۹) الفضل ۲۰ / جولائی ۱۹۶۷ء ص ۳ (۱۰) الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۶۷ ص ۳ (۱۱) افضل ۳۰ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۲ (۱۲) الفضل ۱۸ ؍ جولائی ۱۹۶۷ ص ۱ (۱۳) الفضل ۲۶ / اگست ۱۹۶۷ء ص ۵ - ۶ (۱۴) الفضل ۱۹ار جولائی ۱۹۶۷ ء ص ۱ (۱۵) الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۱
69 (۱۶) الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۱ (۱۷) الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۱ (۱۸) الفضل ۲ / اگست ۱۹۶۷ ء ص ۳، ۴ (۱۹) الفضل ۳ /اگست ۱۹۶۷ء ص ۳ (۲۰) الفضل ۱۶ اگست ۱۹۶۷ء ص ۳ تا ۵ (۲۱) الفضل ۸ /اگست ۱۹۶۷ء ص آخر (۲۲) الفضل ۹ را گست ۱۹۶۷ء ص ۱، آخر (۲۳) الفضل ۱۶ اگست ۱۹۶۷ ص ۲، ۳ (۲۴) الفضل ۳۱ / اگست ۱۹۶۷ء ص ۴ (۲۵) الفضل ۲۶ / اگست ۱۹۶۷ء ص او آخر
70 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر کی اشاعت کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں اور ارشادات میں قرآن کریم کی تفسیر کے وہ نکات بیان فرمائے ہیں جو کہ اس دور میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے.لیکن یہ خزانہ پچاسی (۸۵) سے زائد کتب میں بکھرا ہوا ہے.اس سے استفادہ کرنے کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ ان تفسیری حوالوں کو آیت وارا کٹھا کر کے شائع کیا جائے تاکہ تحقیق کا شوق رکھنے والوں اور تغییر کا مطالعہ کرنے والے اس طرح اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشاد کے تحت اس کو مرتب کرنے کا کام شروع کیا گیا.اور اس میں سب سے نمایاں خدمت کرنے کی توفیق مکرم محترم مولانا سلطان احمد صاحب پیر کوئی کولی.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اردو، عربی اور فارسی کتب میں سے بنیادی مسودہ مکمل کر کے حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی خدمت میں پیش کیا.پھر حضور کے ارشاد کے مطابق، اس کی تدوین و ترتیب اور عربی اور فارسی عبارات کے اردو ترجمہ کا کام مکرم و محترم مولانا ابو میر نور الحق صاحب کے سپر د ہوا.آپ نے پہلی سے آخری جلد تک کا یہ کام بہت انہماک سے مکمل فرمایا اور اس عظیم کام میں آپ کی اعانت مکرم مولوی محمد صدیق صاحب، مکرم ملک مبارک احمد صاحب، مکرم چوہدری رشید الدین صاحب اور مکرم سلطان احمد شاہد صاحب نے کی.چنانچہ ۱۹۶۹ء میں اس کی پہلی جلد شائع ہوگئی.یہ پہلی جلد سورۃ فاتحہ کی تفسیر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں اور ارشادات کے بارے میں تھی.اس کی یہ بھی اہمیت تھی کہ سورۃ فاتحہ قرآن کریم کے معارف اور علوم کا خلاصہ ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۶۹ء کے جلسہ سالانہ میں اس کی اشاعت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.پس اس سال کے دوران ایک تو قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ مع تفسیری نوٹس شائع ہوا ہے.دوسرے سورۃ فاتحہ کی وہ تفسیر جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف
71 کتب اور تقاریر میں بیان فرمایا ہے.اسے اکٹھا کر کے یکجا طور پر کتابی شکل میں ادارۃ المصنفین کی طرف سے تفسیر سورۃ فاتحہ کے نام سے شائع کیا گیا ہے.یہ مضمون جو کتابی شکل میں اکٹھا ہوا ہے اسے میں نے اس وقت تک تین چار دفعہ پڑھ لیا ہے.جن دوسرے صاحب علم اور صاحب فراست اور صاحب محبتا للاسلام نے اسے پڑھا ہے ان پر بھی اسی طرح اکٹھی شکل میں خاص اثر ہوا ہے.اور یہ سورۃ فاتحہ کی بڑی ہی عجیب تفسیر ہے.اس تفسیر کو پڑھ کر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے اس چیلنج کا صحیح پتا چلتا ہے جو آپ نے پادریوں کو دیا.جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ کے نزدیک بھی تو ریت ایک الہامی کتاب ہے پھر اس الہامی کتاب کی موجودگی میں قرآن کریم کی کی کیا ضرورت تھی.اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم کی تو بات چھوڑو.سورۃ فاتحہ میں جو روحانی اور اخلاقی علوم بیان ہوئے ہیں اور اسرار بتائے گئے ہیں اگر تم اس سورۃ کے اسرار روحانی کے مقابلے میں اپنی ساری الہامی کتب سے جو ۷۲ کے قریب ہیں.....ایسے ہی ان سے ملتے جلتے مضامین نکال کر ہمیں دکھا دو تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارے پاس بھی کچھ ہے.لیکن عیسائیت کے عمل نے دنیا پر یہ ظاہر کیا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے مقابلے میں ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے.میں جب یورپ کے دورے پر گیا تو میں نے وہاں کے پادریوں کے سامنے اس چیلنج کو دہرایا.جب میں اس چیلنج کو دہرا ہی رہا تھا تو دراصل اس وقت مجھے ایک خیال آیا اور میں نے سوچا کہ اگر یہ پادری کہیں کہ اچھا ہم مقابلہ کرتے ہیں کہاں ہے سورۃ فاتحہ کی وہ تفسیر تو میں کہوں گا کہ مختلف کتابوں میں وہ بکھری ہوئی ہے.ذراسی بات پر مجھے شرمندہ ہونا پڑے گا.پس اس وقت میں نے ارادہ کیا کہ اسے اکٹھا کر کے ضرور شائع کر دینا ہے.اور یہ تو اس چیلنج کے لحاظ سے پہلی جلد ہے اسکے بعد اب سورۃ فاتحہ کی تفسیر کی اور جلد میں آئیں گی.خلفائے احمدیت نے سورۃ فاتحہ کی جو تفسیر کی ہے وہ اپنی جگہ بڑی حسین ہے.اللہ تعالیٰ کی عطا ہے انسان کا اپنا تو کچھ نہیں اور یہ بھی سورۃ فاتحہ کے مضامین کی شاید دو یا تین جلدیں بن
72 جائیں.لیکن اب بھی ہم اس مقام پر آگئے ہیں کہ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ کہاں ہے وہ تفسیر جس کا چیلنج دیا گیا ہے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیان فرمودہ یہ تفسیری مجموعہ اس کے ہاتھ میں دے دیں گے.اور اسے کہیں گے کہ یہ ہیں ان سات آیات کے حسین بیانات جو اسرار روحانی اور دقائق اخلاقی پر مشتمل ہیں.....ابھی میں نے اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور فلسفہ پر جو خطبات دیئے تھے.جس وقت میں یہ خطبات دے چکا تو مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ احمدی تو مذہب سے دلچپسی رکھتے ہیں اور ان خطبات میں جو مختلف مذہبی پہلو بیان ہوئے ہیں جنکی بنیاد پر آگے اقتصادی اصول بیان کئے گئے ہیں وہ بڑے شوق سے پڑھیں گے اور بڑی لذت محسوس کریں گے لیکن دوسرے لوگ خصوصاً غیر مسلم جو ہیں ان کو تو مذہب یا اسلام یا قرآن سے دلچسپی نہیں وہ شاید بور یعنی اکتا جائیں اسلئے ان سارے خطبات کا خلاصہ بیان کر دینا چاہئے جس میں صرف اصول بتا دیئے جائیں اس کی حکمتیں اور وہ روحانی بنیاد جن کے اوپر ان کو قائم کیا گیا ہے اس کو چھوڑ دیا جائے اور جو تعلیم ہے اور جو اس کا فلسفہ ہے وہ بیان کر دیا جائے اور یہ دراصل خلاصہ ہو گا ان خطبات کا.چنانچہ میں اس وقت بہت دعا کر رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ جو کچھ تم نے ان چودہ خطبات میں بیان کیا ہے یہ سارا مضمون سورۃ فاتحہ میں پایا جاتا ہے.تم سورۃ فاتحہ کی اقتصادی تفسیر بیان کر دینا تو ان خطبات کا خلاصہ آ جائے گا.چنانچہ مجھے بڑا لطف آیا.لیکن ابھی تک مجھے موقع نہیں ملا کچھ دوسرے کام کچھ دوسرے نئے مضامین ضرورت جماعت کے لئے سامنے آجاتے ہیں.اس واسطے انسان سلسلہ وار مضمون بیان نہیں کرسکتا........بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر چھپ چکی ہے.بڑی لطیف تفسیر ہے.اسے پڑھ کر بڑا مزا آتا ہے.اور جتنی دفعہ پڑھیں نئے سے نئے مضامین سوجھتے رہتے ہیں.میرے تو بہت سے خطبات کی بنیاد وہی Ideas یعنی نظریات ہوتے ہیں جو وہاں بکھرے ہوئے ہیں.ان میں سے کسی نہ کسی پر میں اپنے مضمون کی بنیاد رکھ دیا کرتا ہوں.یعنی وہاں سے ایک خیال لے لیا اور اسے پھیلایا اور وہ خطبہ تیار ہو جاتا ہے.یہ صیح
73 ہے کہ ہر آدمی اتنی وسعتیں حاصل نہیں کر سکتا.علم کا ملنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے.وہی معلم حقیقی ہے.غرض یہ ہے بڑی لطیف تفسیر.دوستوں کو چاہئے کہ اسے ضرور خریدیں میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم ہر نوجوان کو سورۃ فاتحہ کی تفسیر اپنی بغل میں رکھنی چاہئے کیونکہ قرآنی مضامین کا اجمال سورۃ فاتحہ ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ قرآن عظیم سورۃ فاتحہ کے اجمال کی تفسیر بیان کر رہا ہے.پس یہ مضامین جب آجائیں گے تو یہ Outlines سامنے آجائیں گی.اسلئے یہ تفسیر ہر عاقل بالغ پڑھے لکھے نوجوان کے ہاتھ میں ہر وقت رہنی چاہئے بلکہ میں تو کہوں گا کہ سرہانے رکھی رہنی چاہئے.میرے تو سر ہانے پڑی رہتی ہے.جب دو چار دس پندرہ بیس منٹ کا وقت مجھے ملتا ہے تو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنی شروع کر دیتا ہوں اور وہ وقت ضیاع سے بچ جاتا ہے اور میں اس وقت میں ایک لذت اور سرور حاصل کرتا ہوں.غرض میں چاہتا ہوں آپ بھی اس سے محروم نہ رہیں.(۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر کو مرتب کرنے کا عظیم کام جاری رہا اور کئی سالوں کی کاوشوں کے بعد یہ تفسیر آٹھ جلدوں میں مکمل ہوئی جسے بعد میں چار جلدوں میں شائع کیا گیا.(۱) ) خطاب جلسہ سالانہ حضرت خلیفہ امسح الثالث ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء
74 بیت اللہ کے مقاصد پر خطبات ۱۹۶۷ء میں اللہ تعالی کے خاص منشاء کے تحت حضرت خلیفہ المسح الثالث نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقاصد پر پر معارف خطبات کا ایک سلسلہ شروع فرمایا.اس کی ابتدا کے متعلق حضور نے ۱۹۶۹ ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پتہ نہیں ایک سیکنڈ کے کتنے حصہ میں دماغ میں ایسی اہر پیدا کی کہ یہ سارا مضمون دماغ میں آ گیا.جوں جوں میں خطبات دیتا گیا آہستہ آہستہ یہ مضمون میرے سامنے آتا چلا گیا.اس مجموعہ کا بار بار پڑھنا ضروری ہے کیونکہ جیسا کہ اس مضمون سے عیاں ہے اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی تعمیر بہت سے مقاصد کے لئے کروائی تھی.جن میں سے تئیس کا ذکر ان آیات میں ہے جن پر میں نے یہ خطبات دیئے تھے.اور نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ سے ان مقاصد کا حصول ممکن ہوا اور تین سو سال تک یہ اغراض پوری ہوتی رہیں.پھر تنزل کا ایک زمانہ آیا اور اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے آسمان پر پھر سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرے گا اور وہ تمام مقاصد اسلام کے ذریعہ نوع انسان کو حاصل ہوں گے جن مقاصد کے لئے بیت اللہ کی تعمیر از سرنو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ کرائی گئی.“ اس سلسلہ کے پہلے خطبہ میں حضور نے سورۃ آل عمران اور سورۃ البقرۃ کی وہ آیات تلاوت فرمائیں جن میں تعمیر بیت اللہ کا ذکر ہے.حضور نے ان آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:.وو پہلی غرض وُضِعَ لِلنَّاسِ میں بیان ہوئی ہے، دوسری مبرا میں ، تیسرے ھدی لِلْعَلَمِينَ میں ایک مقصد بیان ہوا ہے، چوتھے ایتٌ بَيِّنت ، پانچویں مَّقَامُ ابرهِيْمَ ، چھٹے مَنْ دَخَلَهُ كَانَ مِنَّا ، ساتویں وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَن اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ، آٹھویں جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ، نویسِ وَآمَنَّا، دسویں وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرهِمَ مُصَلَّى ، گیارھواں مقصد طَهِّرَا بَیتی میں بیان
75 کیا گیا ہے، بارھواں مقصد للظ آبفین کے لفظ میں ہے، تیرھواں مقصد وَالْعَكِفِينَ کے لفظ میں بیان ہوا ہے، چودھواں مقصد و الرسيعِ السُّجُودِ کے اندر بیان کیا گیا ہے، پندرھواں مقصد رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا مِنا میں بیان ہوا ہے، سولہواں مقصد و ارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ میں بیان کیا گیا ہے.سترھواں مقصد رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا میں بیان ہوا ہے، اٹھارھواں مقصد السمیع کے اندر بیان ہوا ہے، انیسواں مقصد العلیم کے اندر بیان ہوا ہے، بیسواں مقصد وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ میں بیان ہوا ہے، اکیسواں مقصد وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا میں بیان ہوا ہے، بائیسواں مقصد وَتُبْ عَلَيْنَا میں بیان 66 ہوا ہے، اور تئیسواں مقصد رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ میں بیان کیا گیا ہے.“ خطبات کے ایک سلسلہ کے بعد ۱۶ جون ۱۹۶۷ء کو حضور نے تئیسویں مقصد کے بارے میں خطبہ ارشاد فرمایا حضور نے آیت کريم رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة: ۳۰) پڑھی اور فرمایا تعمیر بیت اللہ کی تئیسویں غرض اس آیت میں بیان ہوئی ہے.اور اس میں بتایا گیا تھا کہ ایک ایسا نبی مبعوث کیا جائے گا جو قیامت تک زندہ رہے گا اور اپنے فیوض کے ذریعہ اور افاضہ روحانی کی وجہ سے اس پر کبھی موت وارد نہیں ہوگی ، ہمیشہ کی زندگی اس کو عطا کی جائے گی اور اسے ایک ایسی شریعت دی جائے گی جو ہمیشہ رہنے والی ہوگی ہمنسوخ نہیں ہوگی کیونکہ وہ الکتاب (ایک کامل اور مکمل شریعت) ہوگی اور ایک ایسی امت پیدا کی جائے گی جو بصیرت پر قائم ہوگی، حکمت اسے سمجھائی جائے گی اور دلائل اسے عطا کیے جائیں گے اور زندہ خدا اور زندہ نبی اور زندہ شریعت اسے عطا کی جائے گی.پھر حضور نے فرمایا یہ مقصد بی نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پورا ہوا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس خطبہ جمعہ کے آخر میں فرمایا: غرض یہ تئیس مقاصد ہیں جن کا تعلق بیت اللہ کی از سر نو تعمیر سے ہے اور اس کے بیان کی ضرورت یہ پڑی کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑے زور کے ساتھ مجھے اس طرف متوجہ کیا کہ موجودہ نسل کا جو تیسری نسل احمدیت کی کہلا سکتی ہے صحیح تربیت پانا غلبہ اسلام کے لیے اشد ضروری ہے یعنی احمدیوں میں سے وہ جو ۲۵ سال کی عمر کے اندر اندر ہیں یا جن کو احمدیت میں داخل ہوئے ابھی
76 پندرہ سال نہیں گزرے.اس گروہ کی اگر صحیح تربیت نہ کی گئی تو ان مقاصد کے حصول میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی جن مقاصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جرى الله فی حلل الانبیاء کی شکل میں دنیا کی طرف مبعوث فرمایا اور جن مقاصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے.پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری تو جہ اس طرف پھیری کہ اس گروہ کی تربیت کے لیے جو طریق اختیار کرنے چاہئیں ان کا بیان ان آیات میں ہے جن کے اوپر میں خطبات دیتارہا ہوں.اور اگر ان مقاصد و چی طور پر مجھ لیا جائے اور ان کے حصول کی کوشش کی جائے تو خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ہماری یہ پود صحیح رنگ میں تربیت حاصل کر کے وہ ذمہ داریاں نباہ سکے گی جو ذمہ داریاں عنقریب ان کے کندھوں پر پڑنے والی ہیں کیونکہ میری توجہ کو اس طرف پھیرا گیا تھا کہ آئندہ بیس پچیس سال اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے بڑے ہی اہم اور انقلابی ہیں اور اسلام کے غلبہ کے بڑے سامان اس زمانہ میں پیدا کئے جائیں گے اور دنیا کثرت سے اسلام میں داخل ہوگی یا اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہوگی.اس وقت اسی کثرت کے ساتھ ان میں مربی اور معلم چاہئیں ہوں گے.وہ معلم اور مربی جماعت کہاں سے لائے گی اگر آج اس کی فکر نہ کی گئی.اس لیے اس کی فکر کرو اور ان مقاصد کو سامنے رکھو جو ان آیات میں بیان ہوئے ہیں.اور ان مقاصد کے حصول کے لئے جس رنگ کی تربیت کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ کے کلامِ پاک کی روشنی میں اسی قسم کی تربیت اپنے نو جوانوں کو دو.تاجب وقت آئے تو بڑی کثرت سے ان میں سے اسلام کے لیے بطور مربی اور معلم کے زندگیاں وقف کرنے والے موجود ہوں تا وہ مقصد پورا ہو جائے کہ تمام بنی نوع انسان کو علی دین واحد جمع کر دیا جائے گا.ان خطبات کے دوران ایک بزرگ نے مجھے لکھا کہ آپ کے جو خطبات ہورہے ہیں ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام سے بھی ہے جو تذکرہ کے صفحہ ۸۰۱ ( مطبوعه ۱۹۵۶ء) پر درج ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں: "جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت الہی کا مسئلہ سمجھتا ہے ، وہ بڑا عظمند ہے کیونکہ اس کو اسرار ملکوتی سے حصہ ہے.( تذکرۃ ص ۱۴۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
77 تعمیر بیت اللہ کے تئمیں عظیم الشان مقاصد ص ۱۳۷،۵،۴ تا ۱۳۹)
78 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پہلا دورہ مغربی افریقہ جب بر صغیر کی حدود سے باہر احمدیت کی تبلیغ کا آغاز ہوا تو مغربی افریقہ ان خطوں میں سے تھا جہاں کے لوگوں نے اپنی سعادت کا ثبوت دیتے ہوئے بڑی تعداد میں حق کو قبول کرنا شروع کیا اور یہاں پر بڑی بڑی جماعتیں قائم ہونے لگیں.اب تک مغربی افریقہ کے چند احمدی احباب مرکز آکر خلیفہ وقت کی زیارت کر چکے تھے اور بعض نے یہاں پر رہ کر کچھ سال دینی تعلیم بھی حاصل کی تھی لیکن ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی خلیفہ نے افریقہ کا دورہ نہیں کیا تھا.یہاں کے احمدیوں کی تربیت اور ان کا اخلاص اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ خلیفہ وقت افریقہ کا دورہ کریں اور ان کی روحانی اولا د کو ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو.پہلے ۱۹۶۹ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دورہ مغربی افریقہ کا پروگرام بنایا گیامگر بعض وجوہات کی بنا پر اس سال یہ دورہ نہیں ہو سکا.اس القوام سے وہاں کے احمدی احباب کو بہت صدمہ ہوا.وہاں کے ایک احمدی بزرگ نے حضرت خلیفۃ ایج الثالث کی خدمت میں تحریر کیا کہ مجھے ساری عمر سے یہ حسرت تھی کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی زیارت ہو جائے لیکن ان کا وصال ہو گیا اور میں انکی زیارت نہ کر سکا.ان سے مل کر برکت نہ حاصل کر سکا.اب خلافت ثالثہ میں یہ امید بندھی تھی کہ یہ موقع ملے گا اور میں آپ سے ملاقات کروں گا لیکن اب اس ایک سال کے التواء سے دل میں یہ وسوسہ اُٹھتا ہے کہ کہیں میں اس دوران دنیا سے رخصت نہ ہو جاؤں اور یہ حسرت میرے دل میں ہی رہے کہ جماعت احمدیہ کے امام کی زیارت کرسکوں.(۱) اللہ تعالیٰ نے مغربی افریقہ کے احمدیوں کی دعائیں سنیں اور ۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مغربی افریقہ کے دورہ پر جانے کا فیصلہ فرمایا.اور اس پروگرام میں نائیجیریا ، غانا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، گیمبیا اور سیرالیون کا دورہ شامل تھا.۳/ اپریل ۱۹۷۰ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے میں انشاء اللہ تعالیٰ کل صبح مغربی افریقہ کے دورہ پر روانہ ہوں گا.ربوہ اور آپ دوستوں کی اس عارضی جدائی سے
79 طبیعت میں اداسی بھی ہے.اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر خوشی بھی ہے کہ وہ محض اپنی رحمت سے یہ توفیق عطا کر رہا ہے کہ ان اقوام کے پاس جا کر جو صدیوں سے مظلوم رہی ہیں اور جو صدیوں سے حضرت نبی اکرم ﷺ کے ایک عظیم روحانی فرزند مہدی معہود کی انتظار میں رہی ہیں اور جن میں سے استثنائی افراد کے علاوہ کسی کو بھی حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی زیارت نصیب نہیں ہوئی.پھر ان کے دلوں میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ آپ کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ان تک پہنچے.اور اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد ﷺ کے نام پر ان کو ہدایت کی طرف اور ان کو رشد کی طرف اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف بلائے اور وہ خـلـيـفـة مـن خـلـفــائـہ کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں اور ان کی طبیعتیں ایک حد تک سیری محسوس کریں.چنانچہ صدیوں کے انتظار کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاہا تو انہیں یہ موقع نصیب ہوگا.دعا ہے کہ یہاں میری موجودگی میں بھی آپ ہمیشہ ثبات قدم پر مضبوطی سے قائم رہیں.اور اللہ تعالیٰ کے دامن کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور میری غیر حاضری میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کے لئے صدق و ثبات اور وفا کے سامان اور صدق و ثبات اور وفا اور محبت کی فضا پیدا کرتا رہے.اور ہمارا ان ممالک کی طرف جانا ان کے ثبات قدم کا موجب بنے اور جذ بہ وفا میں شدت کا موجب ثابت ہو اور وہ قومیں محبت الہی میں اور بھی آگے بڑھیں.اور وہ جو ابھی تک اندھیروں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں انہیں بھی روشنی کی وہ کرن نظر آ جائے جو اسلام کی شاہراہ کو منور کر رہی ہے اور بنی نوع انسان کو اس طرف بلا رہی ہے.(۱) اس کے بعد حضور نے ارشاد فر مایا کہ محبت اور پیار سے اپنے دن گزار ہیں اور صدقہ اور دعاؤں کے ساتھ میری مدد کریں.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے ۴ را پریل کو فجر کے بعد ر بوہ سے روانہ ہونا تھا.ایک روز پہلے مغرب کی نماز کے وقت اہل ربوہ ہزاروں کی تعداد میں مسجد مبارک میں جمع ہو گئے.ان کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی احباب حضور کو الوداع کہنے کے لئے آئے ہوئے تھے.نماز کے بعد حضور محراب میں ایک کرسی پر رونق افروز ہوئے.تلاوت کے بعد کچھ دوستوں نے نظمیں سنائیں اور مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب نے حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی رقم فرمودہ تحریک دعا
80 پڑھ کر سنائی.اس کے بعد حضور نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا :.اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اپنی رحمت کے سایہ میں رکھے.انشاء اللہ تعالیٰ میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے سب کو دعاؤں میں یا درکھوں گا.آپ سے بھی درخواست ہے کہ آپ مجھے بھی اور میرے ہمسفر ساتھیوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.دعا تو ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم ہو اور محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت اقوامِ عالم کے دلوں میں بیٹھے اور اسلام دنیا میں غالب آئے.خدا کرے کہ ہم اپنی زندگیوں میں ہی یہ نظارہ دیکھ لیں کہ فی الواقعہ اسلام دنیا میں غالب آ گیا ہے.“ ان مختصر ارشادات کے بعد حضور نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے.ساتھ ہی مسجد میں موجود ہزاروں احباب کے ہاتھ دعا کے لئے اُٹھ گئے.یہ اجتماعی دعا ایک خاص شان کی حامل تھی.احباب نے اس قدر درد و الحاح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگیں کہ دیر تک مسجد ہچکیوں اور سسکیوں سے گونجتی رہی.دعا کے بعد حضور کی زیر ہدایت مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے نعرے لگوائے.صبح کو فجر کی نماز کے بعد احباب کثیر تعداد میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کو الوداع کہنے کے لئے دورویہ کھڑے تھے.سوا چھ بجے حضور گاڑی میں سوار ہونے کے لئے قصر خلافت سے باہر تشریف لائے.روانہ ہونے سے قبل حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب اور مکرم حضرت عبدالرحمن صاحب فاضل سے معانقہ فرمایا اور پھر قافلہ کے ہمراہ لاہور کے لئے روانہ ہوئے.اس موقع پر جماعت احمدیہ کی طرف سے بکروں کی قربانی کی گئی.(۲) لا ہور میں حضور کا قیام مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب کی کوٹھی پر تھا.لاہور کے علاوہ قریب کے اضلاع کے احباب بھی اپنے امام کو الوداع کہنے کے لئے آئے ہوئے تھے.وہاں پر حضور نے مختصر خطاب کرتے ہوئے موجودہ زمانے کے حالات بیان کرنے کے بعد احباب کو ان ایام میں خصوصیت سے دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلائی.اور فرمایا کہ ہمارا ہتھیار دعا ہی ہے.ہمیں چاہئے کہ ہم اسلام کی فتح اور اس کے غلبہ کے لئے دعائیں کرنے میں لگے رہیں.اور اپنے اس فرض میں کبھی کو تاہی نہ کریں.اس کے بعد حضور نے دعا کرائی.دعا کے بعد حضور لاہور کے ایئر پورٹ تشریف لے گئے.وہاں پر حضور نے دوستوں سے مصافحہ فرمایا.اس خیال سے کہ ہم وقت کی تنگی کے باعث مصافحے سے
81 محروم نہ رہ جائیں لوگ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے.حضور آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے احباب سے مصافحہ فرما رہے تھے.جب ہجوم بہت بڑھ گیا اور حضور کے لئے آگے بڑھنا ممکن نہ رہا تو آپ نے فرمایا کہ میں یہیں کھڑا رہوں گا جب تک احباب گزرنے کے لئے راستہ نہ بنا دیں.یہ ارشادسن کر سب قطاروں میں کھڑے ہو گئے اور حضور ان کے درمیان سے گزرتے ہوئے کمرہ انتظار میں تشریف لے گئے.یہاں پر کھڑے ہو کر حضور نے ایک بار پھر دعا کروائی.اور ساڑھے دس بجے کے قریب جہاز کراچی کے لئے روانہ ہو گیا.کراچی پہنچنے کے بعد آپ مکرم چوہدری محمد خالد صاحب ابن حضرت چوہدری محمد شریف صاحب کی کوٹھی پر پہنچے اور ظہر اور عصر کی نمازوں کے بعد آپ دیر تک احباب میں تشریف فرما ر ہے.آپ نے فرمایا کہ آجکل بد قسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی کفر بازی کا بازارگرم ہے.میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس کے نتیجے میں ہماری نوجوان نسل اسلام سے نعوذ باللہ متنفر نہ ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے حضرت سید ولد آدم حضرت محمد ﷺ کی زبانِ مبارک سے تو یہ نکلوایا کہ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ یعنی میں تمہارے جیسا انسان ہوں اور اس طرح بنی نوع انسان کا شرف اور عزت قائم فرمائی.جب تک انسانی عزت قائم نہیں ہوتی.دنیا سے فساد دور نہیں ہوسکتا.مغرب کے وقت حضور احمد یہ ہال تشریف لے گئے.پہلے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کی گئیں.پھر حضور نے نصف گھنٹہ تک اپنے دورہ افریقہ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اور اس کے بعد اجتماعی دعا ہوئی.اگلے روز ساڑھے سات بجے حضور زیورک کے لئے روانہ ہو گئے.تہران وقت کے مطابق سوا نو بجے ہوائی جہاز کچھ دیر کے لئے تہران کے ایئر پورٹ پر رکا.یہاں پر موجود احمدی باہر پھولوں کے ہار لئے منتظر تھے.وہ شیشے سے حضور کو دیکھ سکتے تھے لیکن ایئر پورٹ کے قواعد انہیں لاؤنج میں آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے.مقامی احمدیوں کی طرف سے کوشش بھی کی گئی تھی کہ انہیں اندر آنے کی اجازت مل جائے لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے احباب کی بے تابی کو ملاحظہ فرمایا تو خود ڈیوٹی آفیسر کو مسکرا کر فرمایا کہ یہ لوگ مجھے ملنا چاہتے ہیں کیا یہ اندر آ سکتے ہیں.اس پر ڈیوٹی آفیسر نے ایک نظر حضور کی طرف دیکھا اور پھر خوشی اور بشاشت سے کہا کہ یہ سب لوگ اندر آ سکتے ہیں.اس طرح تہران کے احمدیوں نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا تہران سے جہاز استنبول کے لئے روانہ ہوا اور پھر وہاں سے جنیوا کے
82 لئے سفر شروع ہوا.پھر جہاز کے کیپٹن نے اعلان کیا کہ جنیوا میں شدید برفباری ہو رہی ہے اور عنقریب موسم ٹھیک ہونے کا کوئی امکان نہیں اس لئے جہاز لندن جائے گا اور وہاں سے جنیوا آنے کا بندو بست کیا جائیگا.باقی مسافر تو اس خبر سے بہت پریشان ہوئے حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بہتری مقصود ہوگی.جہازلندن پہنچا.وہاں پر حضور کی موجودگی کی خبر پا کر لندن میں جماعت کے مبلغ مکرم بشیر احمد رفیق صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.ایک گھنٹے کے بعد ایک فلائٹ پر زیورک پہنچنے کا انتظام کیا گیا.پہلے تو سوئٹزر لینڈ کی جماعت جنیوا میں حضور کے استقبال کے لئے منتظر تھی.پروگرام میں تبدیلی کی خبر ملنے پر ان میں سے کچھ دوست جن میں مکرم مشتاق احمد باجوہ صاحب ، حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور مکرم ا تالو کیوی صاحب ( جنہوں نے کچھ ہی عرصہ قبل اسپرانٹو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا تھا) بھی شامل تھے ، استقبال کے لئے زیورک پہنچے.یہاں پر کھانا کھانے کے بعد اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادئیگی کے بعد حضور دیر تک احباب میں تشریف فرمار ہے.(۳) نائیجیریا کا دورہ زیورک پہنچ کر پروگرام میں کچھ تبدیلی کی گئی اور حضور وہاں سے براہِ راست نائیجیر یا روانہ ہونے کی بجائے زیورک سے فرینکفورٹ تشریف لے گئے.اور وہاں سے ۱۱ را پریل ۱۹۷۰ء کو لفت ہانزا کے جہاز پر نائیجیریا کے دارالحکومت لیگوس روانہ ہوئے.جہاز برف پوش پہاڑوں سے گزرتا ہوا جنیوا اور زیورک کے اوپر سے پرواز کرتا ہوا صحراء اعظم کے اوپر پہنچا.حضور کو اپنے اہلِ قافلہ کا اتنا خیال رہتا تھا کہ جب جہاز صحراء اعظم کے اوپر سے گزر رہا تھا تو آپ اپنی سیٹ چھوڑ کر دوسرے احباب کے پاس آگئے اور ان سے مختلف باتیں کرنے لگے.ساتھ کی سیٹوں پر بچے بیٹھے تھے ، آپ نے اپنے ساتھیوں سے دریافت فرمایا کہ ان سے بھی بے تکلفی ہوئی ہے کہ نہیں اور پھر جھک کر ایک ننھے منے بچے کو پیار فرمایا.بالآخر ساڑھے چھ گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد جہاز لیگوس کے ایئر پورٹ پر اترا.(۴) یہ پہلا موقع تھا کہ خلیفہ اسیح افریقہ کے کسی شہر میں تشریف لا رہے تھے.اور یہ سعادت نائیجیریا کے شہر لیگوس کے حصے میں آئی تھی.ار ا پریل ۱۹۷۰ء کو سہ پہر چار بج کر دس منٹ پر جہاز لیگوس کے
83 ہوائی اڈے پر اترا.نائیجیریا کی مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ایک ہزار احمدی احباب حضور کے استقبال کے لئے ایئر پورٹ پر موجود تھے.حضور کی آمد پر اللہ اکبر، اسلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد اور حضرت امیر المؤمنین زندہ باد کے نعرے لگائے گئے.دیر تک فضا نعروں کی آواز سے گونجتی رہی.استقبال کرنے والے اپنے امام کی آمد پر خوشی سے جھوم رہے تھے.اور مرد و خواتین ترنم کے ساتھ اهلا وسهلا و مرحبا پڑھ رہے تھے.سب لوگ کھلے ہوئے چہرے اور ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ حضور کا استقبال کر رہے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نائیجیریا کی یوروبا زبان میں فرمایا ” میں آپ سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں.دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے اس جملے کوسن کر حاضرین پر وجد کی ایک کیفیت طاری ہو گئی اور ایک بار پھر فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھی (۵).حضور کا استقبال کرنے والوں میں بہت سے غیر احمدی دوست بھی شامل تھے.اور غیر ملکی سفراء میں سے سوڈان کے سفیر بھی حضور کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے.جب حضور کا قافلہ ہوٹل پر پہنچا تو وہاں پر بھی احباب جماعت اور احمد یہ سکولوں کے بچے دورویہ کھڑے اهلا و سهلا و مرحبا کا ہدیہ پیش کر رہے تھے.حضور کی آمد کے مناظر نائیجیریا کے ٹی وی پر بھی دکھائے گئے (۷،۶).حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنی آمد پر مختلف اخباروں کے نمائندوں کے سوالات کے جواب دیئے.آپ نے سب مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے امن اور محبت کا پیغام دیا.آپ کی آمد کی خبر شائع کرتے ہوئے نائیجیریا کے اخبار سنڈے ٹائمنز نے لکھا:.عالمگیر احمد یہ مسلم جماعت کے سر براہ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے کل لیگوس میں فرمایا کہ انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے نفرت کرے.وہ نائیجیریا کے خیر سگالی دورے پر اپنی آمد کے موقع پر اخباری نمائندوں سے باتیں کر رہے تھے.مسلمان لیڈر نے جو آج کل مغربی افریقہ کے ممالک کا دورہ کر رہے ہیں کہا کہ تمام انسان برابر ہیں اور ایک انسان اور دوسرے انسان میں کوئی فرق نہیں.اگر دنیا اس بات کو سمجھ لے تو اسے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے.حضرت احمد نے تمام انسانوں سے خواہ مسلمان، غیر مسلم یا بت پرست ہوں اپیل کی کہ
84 66 انہیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہئے.‘ (۸) اسی روز نائیجیریا کے مسلمانوں کی تنظیم ، نائیجیرین مسلم کونسل اور جماعت احمد یہ نائیجیریا کی طرف سے مشترکہ طور پر حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا..اس میں مختلف مسلمان تنظیموں کے نمائندگان، یونیورسٹی کے پروفیسران ، اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اور سوڈان، پاکستان، گنی اور شام کے سفیروں نے بھی شرکت کی.(۹) ۱۲ / اپریل کو نائیجیریا کے ایک مخلص احمدی اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے جج مکرم جسٹس عبدالرحیم بکری صاحب نے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا.عبدالرحیم بکری صاحب نائیجیر یا جماعت کے پریذیڈنٹ مکرم جناب ایس.او.بکری صاحب کے صاحبزادے تھے.اس استقبالیہ میں کثیر تعداد میں نائیجیریا کی اہم شخصیات نے شرکت کی.اس استقبالیہ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث لیگوس سے ساٹھ میل کے فاصلے پر ایک شہر ایجو بو اوڈے تشریف لے گئے وہاں پر آپ نے جماعت احمدیہ کی ایک نئی مسجد کا افتتاح فرمانا تھا.جب قافلہ ایجو بو اوڈے سے بیس میل دور ایک مقام شگا مو پر پہنچا تو وہاں پر بہت سے احمدی احباب کا روں پر حضور کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے.ان احباب نے اهلا و سهلا و مرحبا اور نعروں سے حضور کا والہانہ استقبال کیا.چائے کے بعد حضور نے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.پھر آپ مسجد کے صحن میں تشریف لے گئے جہاں پر ۵ ہزار کے قریب احمدی اور غیر احمدی احباب اور خواتین تشریف رکھتے تھے.پہلے حضور نے مسجد کے افتتاح کی یادگاری تختی نصب فرمائی اور پھر انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.میں آپ اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے توفیق دی کہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو جو یہاں رہتے ہیں آکر ملوں.میں تہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے یہ موقع پیدا کیا کہ آپ سے ملوں.آپ سے مل کر میرا دل خوشی کے جذبات سے لبریز ہے.ہم نبی اکرم ﷺ اور آپ کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب یکساں ہیں اور ہمیں موقع دیا کہ اس مساوات کو تسلیم کریں...
85 الحمد لله آپ کا ملک عظیم ملک ہے.اس کا عظیم مستقبل ہے.آپ احمدیوں کا بھی عظیم مستقبل ہے.آپ سے جو وعدے کئے گئے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے.آپ انتہائی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکیں.آئیے ہم الحمد لله رب العلمین کہیں، رب العلمین کہیں، الحمد للہ رب العلمین کہیں.اور آئیے اس پر درود و سلام بھیجیں جس نے کہا انما انا بشر مثلکم.آئیے ہم کہیں صلی اللہ علیہ وسلم، صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم.ہمارے کندھوں پر عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ہے.آیئے انسانوں کو محبت اور امن کے ساتھ اکٹھا کر دیں.تمام انسان یکساں ہیں بھائی ہیں.تمام انسان ہمارے خالق کے عاجز بندے ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ انسان زندہ رہے.“ خطاب کے بعد حضور کا تعارف محترمہ فاطمہ علی صاحبہ سے کرایا گیا.یہ وہ مخلص خاتون تھیں جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے ایک خطیر رقم دے کر عمارت جماعت کو عطیہ کے طور پر پیش کی تھی حضور نے ان کے لئے دعا کی.حضور نے نائیجیریا کے شہر اباد ان کے دورہ پر بھی جانا تھا مگر موسم کی وجہ سے اس بات کے امکانات پیدا ہورہے تھے کہ شاید حضور وہاں تشریف نہ لے جاسکیں.اس خدشہ کی وجہ سے ابادان کے احمدیوں کا اضطراب بڑھ رہا تھا.تقریب کے اختتام پر حضور نے اعلان فرمایا کہ ہم ابادان بھی جائیں گے.وہاں پر ابادان کے چند احمدی بھی موجود تھے ، اس خوش خبری کو سن کر انہوں نے والہانہ انداز میں خوشی کا اظہار کیا.تقریب کے بعد حضور نے بہت سے احباب سے مصافحہ اور معانقہ فرمایا.(۱۲،۱۱،۱۰) ۱۳ را پریل ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نائیجیریا کے صدر عزت مآب یعقو بو گوون صاحب سے ان کی رہائش گاہ پر ملنے تشریف لے گئے.مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، مشنری انچارج نائیجیر یا مکرم فضل الہی انوری صاحب لیگوس کی جماعت کے پریذیڈنٹ مکرم بکری صاحب، مکرم چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب اور اس سفر میں حضور کے پرائیویٹ سیکریٹری مکرم چوہدری محمد علی صاحب بھی اس ملاقات میں حضور کے ہمراہ تھے.صدر مملکت نہایت ادب سے حضور سے ملے.حضور نے فرمایا کہ آپ لوگ بہت نازک مرحلے سے گزرے ہیں.آپ لوگوں نے جس تحمل اور یقین سے ان نازک حالات میں ملک کی خدمت کی ہے وہ قابل ستائش ہے.اب جب کہ جنگ
86 ختم ہو چکی ہے اور نائیجیر یا کو اللہ تعالیٰ نے امن کی نعمت سے نوازا ہے آپ کی کوشش ہونی چاہئے کہ کسی قسم کی تختی پیدا نہ ہو اور محبت اور ملاطفت سے جنوبی حصہ کے لوگوں کے دل بھی فتح کریں کیونکہ اصل فتح یہی ہے.طاقت کے استعمال سے لوگ تباہ تو ہو سکتے ہیں جیتے نہیں جا سکتے.ایٹم بم سے ایک دل بھی بدلا نہیں جاسکتا.صدر مملکت نائیجیریا نے جواب دیا کہ ہماری بھی یہی کوشش ہے.نائیجریا میں مذہبی تنظیموں کے برادرانہ تعلقات ہیں ورنہ اس سلسلے میں ملک کے باہر جو پروپیگنڈا مذہبی جذبات کو بھڑ کانے کے لئے کیا جا رہا تھا، اگر لوگ اس کی طرف توجہ کر لیتے اور اس سے متاثر ہوتے تو ہماری مشکلات بہت بڑھ جاتیں.صدر یعقو بو گوون نے نائیجیریا میں جماعت احمدیہ کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ جماعت نے نائیجیریا کی اخلاقی روحانی، جسمانی اور ذہنی ترقی میں قابل قدر کردار ادا کیا ہے.روحانی خدمات کے علاوہ آپ نے تعلیمی میدان میں بھی جو کارنامے سرانجام دیئے ہیں وہ قابل تحسین اور ستائش ہیں.نائیجیریا کے عوام کے بہبود اور عزائم کی تکمیل کے سلسلے میں آپ نے پوری شمولیت کی ہے.صدر صاحب نے حضور سے آئندہ پروگرام کے متعلق دریافت کیا.حضور نے فرمایا کہ آج ابادان جانا ہے اور وہاں پر Intellectuals اور یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب کرنا ہے.جب صدر نائیجیریا نے جماعت کی خدمات کا ذکر کیا تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ اپنے محدود ذرائع کا خیال رکھتے ہوئے ہم نے یہ حقیر سی خدمت کی ہے.اس پر صدر یعقو بو گوون نے کہا کہ لیکن یہ خدمت بے غرض خدمت ہے اور ہمارے دل میں اس کا بہت احترام ہے.اگر کوئی ملک کروڑوں پونڈ بھی ہم پر خرچ کرتا اور اس میں کوئی ذاتی غرض پنہاں ہوتی تو ہر گز ہمارے دلوں میں یہ احترام نہ ہوتا.آخر میں صدر یعقو بو گوون نے حضور سے کہا کہ آپ ہمارے ملک کے لئے دعا کریں کہ ہماری مشکلیں آسان ہو جائیں.ہم اور ہمارے بعد آنے والے حاکم ہمیشہ ملک اور قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار ر ہیں اور درخواست کی کہ اسی وقت با قاعدہ دعا کروا دیں.صدر نے عیسائی طرز پر گھٹنے ٹیک کر دعا کرنی چاہی تو حضور نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور فرمایا کہ بیٹھے ہوئے دعا کرتے ہیں.حضور نے لمبی دعا کروائی.رخصت ہوتے ہوئے صدر حضور سے بغل گیر ہوئے اور حضور نے ان کی گردن پر بوسہ دیا اور صدر نائیجیریا کو پاکستانی دستکاری کا ایک نمونے کا تحفہ دیا.(۱۵۴۰۳) اس ملاقات کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثالث اور حضرت بیگم صاحبہ کے ہمراہ ابادان کے لئے
87 روانہ ہوئے.ابادان نائیجیریا کا ایک بڑا شہر ہے اور یہاں پر ایک مضبوط جماعت تھی اور جماعت کی مسجد بھی موجود تھی.اباد ان کے احمدی شہر سے باہر حضور کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے.حضور سیدھے ماپو ہال تشریف لے گئے جہاں حضور نے لیکچر دینا تھا.ایک ہزار افراد سے زائد افراد حضور کا لیکچر سننے کے لئے آئے ہوئے تھے.صرف پانچ سو افراد کے بیٹھنے کا انتظام تھا.سینکڑوں افراد نے گیلریوں میں اور ہال کے باہر کھڑے ہو کر لیکچر سنا.شرکاء میں دانشوروں ، یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان اور طلباء کی ایک بڑی تعداد شامل تھی.حضور نے لیکچر کے آغاز میں فرمایا کہ میں آپ سے بیان نہیں کر سکتا کہ آج مجھے آپ سے مل کر کتنی خوشی ہو رہی ہے.مغربی افریقہ خاص طور پر نائیجیریا میں آکر میرے ذہن میں آج سے پچاس سال قبل کی وہ یادیں تازہ ہو گئی ہیں، جب میں دس گیارہ سال کا تھا اور اس وقت جماعت احمدیہ کے پہلے مبلغ نے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا.اس دور میں سفر کرنا بہت مشکل اور راستے بہت طویل ہوتے تھے.ایک تنہا شخص کا یہاں آکر سکول اور مساجد بنانے کا معرکہ بہت رومانوی لگا کرتا تھا.جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس کے بعد ہماری طرف سے بہت سے لوگ یہاں آئے اور آپ کے درمیان رہ کر کام کیا.ہمارے روابط بڑھتے گئے ، ہم ایک دوسرے کو زیادہ سمجھنے لگے اور باہمی اعتماد میں اضافہ ہوا.حضور نے لیکچر کے اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے فرمایا کہ آپ کا تابناک مستقبل آپ کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اور آج میں جو باتیں کہوں گا وہ نوجوانوں کے دلوں پر زیادہ اثر کریں گی.میں آپ کے سامنے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ علم کا حصول کتنا ضروری ہے اور اسلام نے اس کے لئے کیا طریقہ بیان کیا ہے.خواہ وہ قدرتی سائنس کا علم ہو یا سوشل سائنس کا علم ہو.یا تاریخ یا ادب ہو یا جیسا کہ مجھے امید ہے ، جب آپ مذہبی سائنس کا علم حاصل کریں.علم حاصل کرنا دنیا بھر کے نوجوانوں کا فطرتی حق ہے.لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دراصل صداقت ہی علم ہے اور اسلام نے اس کے حصول کا ایک طریقہ بیان کیا ہے.اور میں آپ سے یہ کہوں گا کہ خود تجربہ کر کے دیکھیں اور آزمائیں کہ علم حاصل کرنے کے لئے یہی راستہ بہترین راستہ ہے اور یہ اسلامی طریقہ دعا کا طریقہ ہے.اب یہ بیان کروں گا کہ دعا سے کیا مراد ہے اور میں اس بات کی تلقین کیوں کر رہا ہوں کہ آپ ور تحقیق کے دوران اسے آزمائیں.میرا نظریہ یہ ہے کہ دعا کے ذریعہ سے ہی علم کے اپنی
88 دروازے کھلتے ہیں.بہت سے سائنسدان اور موجد اس کی گواہی دیتے آئے ہیں.مگر آپ اس بات کی نشاندہی کریں گے کہ بہت سے سائنسدان ایسے بھی ہیں جو خدا پر ایمان لانے یا دعا کرنے سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے.یہ صحیح ہے کہ اس طرح کے سائنسدان بھی ہیں مگر انہیں بھی عظیم الشان غیب کے دروازے پر دستک دینی پڑتی ہے اور اس سے درخواست کرنی پڑتی ہے کہ ان پر کچھ بھید کھولے جائیں.یہ عمل ایک ایمان لانے والے سائنسدان کی دعا سے بہت مختلف نہیں ہوتا.ایمان لانے والے اور ایمان نہ لانے والے دونوں غیب سے مدد کے طلبگار ہوتے ہیں اور دونوں کو یہ مددملتی ہے.جو ایمان نہیں لاتا وہ نہیں جانتا کہ وہ بھی دعا مانگ رہا ہے ، نہ وہ یہ جانتا ہے کہ وہ کس سے دعا مانگ رہا ہے اور نہ یہ کہ کون اس کی دعا کو قبول کر رہا ہے.جبکہ ایک ایمان لانے والا ایک لمبے تجربے کی بنیاد پر جانتا ہے کہ وہ دعا کر رہا ہے اور وہ اپنے رب سے دعا مانگ رہا ہے جو اس کے لئے علم اور دریافتوں کے دروازے کھولتا ہے.اس طرح دونوں ہی دعا مانگتے ہیں لیکن ان دونوں کی دعا میں بہت فرق ہے اور میں اسی فرق کو مجھنے کی دعوت دے رہا ہوں.فرق یہ ہے کہ اگر آپ علم اور اعتماد کے ساتھ دعا مانگیں تو اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ یہ دعا قبول ہوگی.حضور نے قرآن کریم کی دعوت فکر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیں بار بار اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ہم زمین و آسمان پر غور کریں اور علم کی کنجی تجسس ہے.حضور نے نائیجیریا کے طلبا کو نصیحت فرمائی کہ ایشیا اور افریقہ کے طلباء کو اپنی موجودہ پسماندگی سے بددل نہیں ہونا چاہئے.دریافت کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا.میرا پیغام یہ ہے کہ کمر ہمت کس کو ماضی کی دریافتوں سے ابھی بہت زیادہ تمہارے لئے باقی پڑا ہے.حضور نے فرمایا کہ میری اس اپیل پر کہ دعا کے ذریعہ علم کا حصول کیا جائے سنجیدگی سے غور کریں.زمین و آسمان کا رب اس کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے جو پورا ایمان نہیں رکھتا.وہ آپ کی طرف متوجہ ہو گا اور آپ کی دعاؤں کا جواب دے گا.حضور نے ارشاد فرمایا کہ آپ ایک اور کام بھی کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ علم کے حصول کے لئے اپنے سفر کو صرف اپنے مخصوص میدان تک محدود رکھنے کے رجحان سے بچیں.یہ رجحان جدید علم اور تعلیم کا خاصہ بن چکا ہے.ایک مخصوص علم میں مہارت پیدا کرنا ناگزیر بھی ہے اور فائدہ مند بھی علم کی ہر شاخ میں ایسی بے انتہا باتیں ہیں جن کا علم ہونا چاہئے اور مسلسل علم کی نئی شاخیں پیدا ہوتی چلی جارہی
89 ہیں.اور کوئی بھی اپنی کاوشوں کا علم ایک دوشاخوں سے زیادہ میں جاری نہیں رکھ سکتا.اس کے باوجود میں یہ محسوس کرتا ہوں اس رجحان کو روکنے کے لئے کچھ نہ کچھ کیا جاسکتا ہے اور اس کو روکنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے.ایک صحیح رویہ اپنانے سے زمین آسمان کا فرق پڑ سکتا ہے.اور میں اس رجحان کی تلقین کر رہا ہوں کہ آپ اپنے پیشہ کے علاوہ بھی دوسرے علوم کے بارے میں بھی تجسس رکھیں.یہ رویہ آپ کی مدد کرے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو مجموعی طور پر دیکھ سکیں.اور اس کی خوبصورتی ، اس کی عظمت اور اس کی مقصدیت کو سمجھ سکیں.(۱۶) ملکی اخبارات میں اس علمی لیکچر کی خبر شائع ہوئی.ڈیلی ٹائمنز نے ۱۵ را پریل ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں اس سرخی کے ساتھ اس لیکچر کا خلاصہ شائع کیا Teach Religion To All- Faith Leader ۱۴ را پریل کو حضور نے بذریعہ ہوائی جہاز لیگوس سے کا نو جانا تھا.کا نو میں ایک مضبوط جماعت قائم تھی اور یہاں پر مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کی نگرانی میں جماعت کا ایک میڈیکل سینٹر کامیابی کے ساتھ اہلِ کا نو کی طبی خدمت سرانجام دے رہا تھا.اور حضور نے اس کلینک کی نئی عمارت کا افتتاح فرمانا تھا.صبح دس بجے کا نو کے لئے روانگی تھی.حضور اہل قافلہ کے ہمراہ ایئر پورٹ تشریف لے گئے.مگر وہاں پر اعلان کیا گیا کہ چونکہ کا نو میں موسم خراب ہے اور وہاں پر Visibility بہت کم ہے اس لئے پرواز منسوخ کر دی گئی ہے.حضور نے فرمایا کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں.اُسی کی خاطر گھر سے روانہ ہوئے تھے.وہ جہاں چاہے لے جائے.حضور کے اس دورہ سے قبل بھی مغربی افریقہ میں جماعت کے بہت سے تعلیمی اور طبی ادارے اہل افریقہ کی خدمات سرانجام دے رہے تھے.اور اللہ تعالیٰ ان کی کاوشوں میں غیر معمولی برکت دے رہا تھا.لیکن اب حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اس بات کی ضرورت محسوس فرمائی کہ اس کام میں جلد وسعت پیدا کی جائے.اس بابرکت کام کا آغاز نایجیریا سے کیا گیا.۱۵ اپریل ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفة أصبح الثالث" نے شام پانچ بجے فیڈرل پیلس ہوٹل میں مقامی جماعت کے نمائندگان کو چائے پر مد عوفر مایا.اس موقع پر حضور نے نائیجیر یا جماعت کے دوستوں سے مشورہ طلب فرمایا کہ آئندہ پانچ سے سات سال کے عرصہ کے دوران ایک منصوبے کے تحت یہاں پر سکول اور میڈیکل سینٹر کھولے جائیں.
90 حضور نے ارشاد فرمایا کہ مختلف مقامات پر کم از کم سولہ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سکول کھولنے چاہئیں جن کا خرچ مقامی جماعت کو برداشت کرنا چاہئے.اسی طرح چار نئے میڈیکل سینٹر بھی کھلنے چاہئیں.حضور نے اس وقت اس منصوبے کا نام پروجیکٹ لیپ فارورڈ (Project Leap Forward) رکھا.حضرت خلیفة اصبح الثالث نے نائیجیریا کا نقشہ سامنے رکھ کر بعض مقامات کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ Tentative طور پر ان مقامات کو بھی زیر تجویز رکھا جائے.حضور نے سات نائیجیرین احباب کی ایک کمیٹی قائم فرمائی جو اس مقصد کے لئے ایک جامع منصوبہ تیار کرے.ممبران کمیٹی کا تعلق نائیجیریا کے مختلف مقامات سے تھا.اس کمیٹی کے کنو نیز مکرم و محترم جسٹس عبدالرحیم بکری صاحب تھے، الحاج الیاس صاحب اس کمیٹی کے سیکریٹری تھے ،اس کے دیگر پانچ ممبران مکرم آر.اے.بساری صاحب (Busari) از اجیبو اوڈے، مکرم فنشو صاحب (H.K.A.Funsho) از کانو، مکرم عبدالعزیز بیر و (Habiru) صاحب از کانو اور مکرم الحاج اے.اے.ابیولا صاحب (Abiola) از Abeokuta تھے.حضور نے اس منصوبہ کے لئے یہ ہدف دیا کہ اگلے پانچ سے سات سال کے دوران لڑکیوں کے لئے چھ اور لڑکوں کے لئے دس نئے سکول کھولے جائیں اور چار نئے میڈ یکل سینٹر قائم کئے جائیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ہدایت فرمائی کہ یہ کمیٹی اپنی رپورٹ دو ماہ کے اندر مکمل کرے لیکن ہر دو ہفتے کے بعد اپنی کارگزاری کی رپورٹ حضور کی خدمت میں بھجواتی رہے اور ارشاد فرمایا کہ کمیٹی نے تعلیمی اور طبی اداروں کے مقامات کا تعین کر کے اس کی رپورٹ حضور کا دورہ مغربی افریقہ ختم ہونے سے قبل ہی حضور کی خدمت میں بھجوا دے.اس کمیٹی کے سپر دسکیم کا تیار کر نا تھا حضور نے ارشاد فرمایا کہ جب یہ منصوبہ تیار ہو جائے تو امیر جماعت احمد یہ اس پر عملدرآمد کی عمومی نگرانی کریں گے اور پریذیڈنٹ جماعت اس کی براہ راست نگرانی کریں گے.اس طرح منصوبہ بندی کا کام اور احباب کے سپر د تھا اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا کام اور حضرات کے سپر دتھا.(۱۷) عشاء کی نماز کے بعد حضور نے نائیجیریا کے ایک بزرگ اور مجد د حضرت عثمان فود یو کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نائیجیریا میں اپنے وقت کے مجدد تھے.عین اس وقت میں ہندوستان میں سید احمد شہید بھی مجدد تھے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں کئی مجدد ہو سکتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ حضرت عثمان فود یو کے متعلق کچھ کتب نائیجیریا سے مل گئی تھیں اور مزید کتب
91 بھیجوانے کا ارشادفرمایا.نیز فرمایا کہ ہم اس موضوع پر تحقیق کروا ر ہے ہیں.(۱۸) ۱۶ / اپریل کو نائیجیریا کی مختلف جماعتوں کے نمائندگان نے حضور سے ملاقات کی.حضور نے ان سے جماعت کے تعلیمی اور طبی اداروں کو وسعت دینے کے بارے میں مشورہ فرمایا.اسی روز حضور نے ایک پریس کانفرنس میں اخباری نمائندوں سے گفتگو فرمائی.دورانِ گفتگو حضور نے انسانی شرف اور اقتصادی مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اسلام کی تعلیم کو پیش فرمایا.پر یس کا نفرنس میں اخباری نمائندوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی.۱۷ اپریل کو حضور نے مسلم ٹیچرز ٹریننگ کالج لیگوس نماز جمعہ پڑھائی اور ہزاروں احمدیوں نے حضور کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کی.حضور نے ایک پُر معارف خطبہ ارشاد فرمایا.نماز جمعہ کے بعد مقامی یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.اس دورہ کے دوران حضور نے نائیجیریا میں نئے سکول اور میڈیکل سینٹر کھولنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا.ابھی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی کہ نائیجیریا کے پریس میں خدمت خلق کے اس منصوبے کا تذکرہ شروع ہو گیا.نیو نائیجیرین (New Nigerian) نے اپنی ۲۱ / اپریل ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں حضور کی غا ناروانگی کا ذکر کر کے لکھا.” حضرت احمد خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ احمدیہ تحریک جنگ کے بعد تعمیری مساعی میں نائیجیریا کی ہرممکن مدد کرے گی.انہوں نے کہا یہ جماعت امید رکھتی ہے کہ وہ سولہ سکول کھولے گی.جن میں سے چار ہائی سکول ہوں گے.دس سکول لڑکیوں کے لئے بنائے جائیں گے اور باقی چھ لڑکوں کے لئے ہوں گے.جماعت کے سربراہ نے فرمایا کہ ان کی جماعت اس ملک میں میڈیکل سینٹر ز بھی کھولے گی اور ان میں کام کرنے کے لئے ڈاکٹروں کو بھی بھجوایا جائے گا.“ لیگوس کے اخبار سنڈے پوسٹ (Sunday Post) کی ۱۹ار اپریل ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں لکھا: ریہ مسلم مشن نے جنگ کے بعد تعمیر نو میں حصہ لینے کے لئے ملک کے مختلف حصوں احمدیہ میں میڈیکل سینٹر زکھولنے کے انتظامات مکمل کر لئے ہیں.عالمگیر احمد یہ مسلم جماعت کے سر براہ نے غانا جانے سے قبل اخبار نویسوں سے گفتگو
92 کرتے ہوئے فرمایا کہ قابل ڈاکٹروں اور سرجری کے ماہرین کو پاکستان سے ان ہسپتالوں کو چلانے کے لئے بھجوایا جائے گا....حضرت احمد نے مزید اعلان کیا کہ ملک کی شمال مغربی سٹیٹ میں چار سکول کھولنے کے لئے وہ اور وہاں کے ملٹری گورنر کمشنر عثمان فاروق انتظامات کر رہے ہیں.“ مارنگ پوسٹ (Morning Post) نے ۷ارا پریل ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں لکھا:.”اگلے پانچ سے سات سال کے دوران نائیجیریا کی احمدیہ مسلم جماعت سولہ مزید سکول اور چار نئے میڈیکل سینٹر کھولے گی.دس سکول لڑکیوں کے لئے اور باقی سکول لڑکوں کے لئے ہوں گے.یہ جماعت اس بات کا منصوبہ بھی بنارہی ہے کہ مغربی افریقہ میں اپنار یڈ یوٹیشن بنایا جائے جس کے ذریعہ مغربی افریقہ میں تعلیم پھیلانے اور امن سے رہنے کی تلقین کی جائے.کل ایک پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ انہوں نے اس مقصد کے لئے منصوبہ بندی کرنے کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے.“ ڈیلی ٹائمنر ( نائیجریا ) نے اپنی ۱۷ راپریل ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں لکھا.عالمگیر جماعت احمدیہ کے سربراہ حضرت حافظ مرزا ناصراحمد،خلیفہ امسح الثالث نے کل لیگوس میں فرمایا کہ یہ صرف اسلام ہی ہے جس نے اب تک انسانیت کو در پیش اقتصادی مشکلات کو حل کرنے میں مدد دی ہے.انہوں نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام برداشت محبت اور دوسروں کے جذبات کا احترام کرنے کا سبق دیتا ہے.حضرت احمد کل فیڈرل پیلس ہوٹل ، وکٹوریہ آئی لینڈ میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے ایک کمیٹی قائم کی ہے جو اگلے پانچ سال کے دوران نائیجیریا میں سولہ سکینڈری سکول اور چار میڈیکل سینٹر کھولنے کے امکانات کا جائزہ لے گی.
93 انہوں نے یہ ارادہ بھی ظاہر کیا کہ نائیجیریا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے ایک ریڈ یوٹیشن بھی کھولا جائے گا.“ غانا کا دورہ ۱۸ ۱ پر میل کو حضرت خلیفتہ اسیج الثالث اللہ تعالی کے فضل سے نائیجیریا کا کامیاب دورہ پکھل کر کے نانا کے دارالحکومت اکرا کے لئے روانہ ہوئے.جہاز گیارہ بجے اکرا کے ایئر پورٹ پر پہنچا.اکرا کے ایئر پورٹ کی چھت پر ، بالکونیوں پر اور میدان میں ہر طرف سفید لباس میں ملبوس احمدیوں کا ہجوم نظر آرہا تھا جو اپنے امام کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے.حضور نے جہاز کی کھڑکی سے ہی ہاتھ ہلا کر اس بے تابانہ استقبال کا جواب دیا.ایک اندازے کے مطابق دس ہزار احمدی یہاں پر موجود تھے.آج ان کے لئے عید کا دن تھا.استقبال کرنے والوں کی خوشی کا یہ عالم تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ ہر طرف مسکراہٹیں ہی مسکراہٹیں بکھری ہوئی ہیں.حضور جہاز سے باہر تشریف لائے تو مکرم مولا نا عطاء اللہ کلیم صاحب امیر جماعت احمدیہ غانا مکرم عبد الوہاب صاحب آدم مشنری هیچیمان، مکرم مرزا لطف الرحمن صاحب اور مکرم مولوی غلام نبی صاحب مبلغ کماسی نے حضور کا استقبال کیا.حضور کا استقبال کرنے والوں میں غانا کے وزیر برائے ٹرانسپورٹ اور مواصلات Haroona Esseku جو کہ احمدی تھے، غانا کے وزیر مملکت مکرم بی.کے.آدما(B.K.Adama) اعلیٰ حکام اور دیگر ممتاز شخصیات آئی ہوئی تھیں.مختلف اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نمائندے بھی موجود تھے.مختلف Circuits کے احمدی احباب نے اس موقع پر اپنے لئے مختلف یونیفارم منتخب کئے تھے اور وہ ان میں ملبوس اپنی جماعتوں کے بینروں کے تلے منظم انداز میں کھڑے تھے.مختلف احباب نے حضور سے شرف مصافحہ حاصل کیا اور ریڈیو اور ٹی وی کے نمائندوں نے حضور کا انٹرویو لیا.غانا میں رواج ہے کہ جب کوئی چیف نکلتا ہے تو ایک شخص اس کے اوپر چھتری کا سایہ رکھتا ہے اور یہ اس شخص کے لئے بھی ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے.اس موقع پر ملک کے وزیر آدما صاحب نے خود درخواست کی کہ انہیں موقع دیا جائے کہ وہ حضور کے لئے چھتری پکڑیں اور جب حضور وہاں کے مقامی احمدیوں سے ملتے رہے تو وہ مسلسل بڑی سی روایتی چھتری پکڑ کر ساتھ چلتے رہے.جب حضور ایئر پورٹ سے باہر تشریف لائے تو ہزاروں
94 احمدیوں نے بے پناہ جوش عقیدت سے حضور کا استقبال کیا.تاحد نظر احمدی بھائی اور بہنیں ہاتھ ہلا ہلا کر حضور کی خدمت میں السلام علیکم و رحمۃ اللہ عرض کر رہے تھے اور اللہ اکبر، اسلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد اور حضرت امیر المؤمنین زندہ باد کے نعرے لگائے جارہے تھے.احمدی احباب کی طرف سے مسرت و شادمانی کے والہانہ اظہار پر حضور نے اللہ تعالیٰ کی حمد بجالاتے ہوئے خوشی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ آج کا دن بحمد اللہ شادمانیوں اور مسرتوں کا دن ہے.(۱۹) اگرا میں حضرت خلیفہ امسح الثالث کا قیام ایمبیسیڈرہوٹل میں تھا.اسی شام کو حضور بہت سے احباب جماعت کے ہمراہ ایک جلوس کی صورت میں مشن ہاؤس کے احاطے میں تشریف لے گئے.یہاں پر اس وقت تک احباب کی تعداد دس ہزار سے بھی تجاوز کر چکی تھی.حاضرین میں غیر از جماعت دوست اور کچھ غیر ملکی سفراء بھی شامل تھے.وہاں پر موجود احمدی احباب بار بار والہانہ انداز میں اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے.یہاں پر پروگرام کے مطابق حضور نے جماعت کی ایک نئی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنا تھا.یہ نئی مسجد جماعت Osu State میں جماعت کے مشن ہاؤس کے ساتھ بنی تھی.اپنے دست مبارک سے سنگ بنیا د نصب فرمانے سے قبل حضور نے اسلامی معاشرہ میں مساجد کی اہمیت اور تعلیم و تربیت کے لحاظ سے ان کے نہایت اہم کردار پر روشنی ڈالی.تقریر کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں کرتے ہوئے مسجد کا سنگ بنیاد نصب فرمایا.آپ کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر نے ایک پتھر نصب کیا.پھر بعض مسلمان ممالک کے سفراء نے ، غانا کے امیر و مشنری انچارج مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب، جماعت غانا کے پریذیڈنٹ مکرم محمد آرتھر صاحب نے اور ٹیچیمان میں جماعت کے مبلغ مکرم عبد الوہاب آدم صاحب اور حضور کے ہمسفر ساتھیوں نے مشترکہ طور پر سنگ بنیاد نصب کئے.اس دوران حضور انور اور وہاں پر موجود ہزاروں احمدی دعاؤں میں مشغول رہے.(۲۱،۲۰، ۲۲) اس تقریب میں پاکستان کے سفیر مکرم علی ارشاد صاحب اور مالی کے سفیر مکرم محمود صاحب بھی شامل ہوئے.(۱۹) ۱۹ / اپریل کو حضور نے افراد جماعت سے فرداً فرداً ملاقات فرمائی اور شام کو ایک استقبالیہ میں شرکت فرمائی جس میں وزراہ مملکت، غیر ملکی سفراء اور دیگر معززین بھی شریک ہوئے.اس موقع پر
95 حضور مختلف مہمانوں سے گفتگو فرماتے رہے.اسی شام کو ریڈیو کے نمائندے نے حضور کا انٹرویو کیا جو بعد میں ریڈیو پر نشر ہوا.اس روز اشانٹی ریجن کی جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب نے چند احباب کے ہمراہ حضور سے ملاقات کی اور غانا کے ایک وزیر مسٹر بی.کے.آدما نے بھی حضور سے ملاقات کی.(۲۲) ۱/۲۰ پریل کو حضور نے نانا کے صدر مملکت برگیڈیئر افریفا سے ملاقات کی.ملک کے نائب صدر بھی اس ملاقات میں شامل تھے.رخصت کے وقت حضور نے دعا فرمائی.اور صدر مملکت کو پاکستان کی صنعت کا ایک نمونہ تحفہ دیا.اس کے بعد حضور کماسی روانہ ہو گئے جو غانا کا دوسرا بڑا شہر اور اشانٹی ریجن کا صدر مقام ہے.یہاں پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مضبوط جماعت قائم تھی اور اس وقت جماعت اس ریجن میں تین سکینڈری سکول بھی چلا رہی تھی.کماسی شہر سے پندرہ میل دور سے ہی وہ احمدی احباب نظر آنے لگ گئے تھے جو حضور کے استقبال کے لئے شہر سے باہر آ کر کھڑے ہوئے تھے.جوں جوں شہر قریب آتا گیا ان احباب کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا جو حضور کے استقبال کے لئے حاضر تھے اور پر جوش نعرے لگا ر ہے تھے.(۲۲، ۲۳، ۲۴) ۲۱ اپریل کو حضور نے کماسی میں انتہائی مصروف دن گزارا صبح کے وقت حضور احمد یہ سیکنڈری سکول ماسی کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے.حضور نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ محض محنت کرنا نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا.کیونکہ خواہ کتنی ہی محنت کی جائے اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ محنت اکارت چلی جائے.ضروری ہے کہ انسان خدا کے آستانہ پر جھکے اور دعائیں کرتا جائے.اس کے نتیجے میں خدا رجوع برحمت ہوگا اور محنت ٹھکانے لگے گی.اور توقع سے کہیں بڑھ کر نتیجہ حاصل ہو گا.حقیقی کامیابی کے لئے کامل محنت اور کامل دعا دونوں کا اتحاد ضروری ہے.سکول کا معائنہ کرنے کے بعد حضور نے کماسی میں جماعت کے نئے مشن ہاؤس کا افتتاح فرمایا.مشن ہاؤس تک ایک میل کے راستے پر ہزاروں لوگ کھڑے ہوکر اهلا و سهلا و مرحبا کہہ رہے تھے.ایک اندازے کے مطابق اس موقع پر تقریبا دس ہزار کے قریب احباب حضور کے دیدار کے لئے آئے تھے.افتتاح کی تقریب میں بہت سے قبائل کے چیفس اور پیرا ماؤنٹ چیفس بھی آئے ہوئے تھے.تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے اہل غانا کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ اسلام
96 کی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر حقیقی معنوں میں کامیاب زندگی بسر کریں.آپ نے واضح فرمایا کہ اسلام کی تعلیم پر کما حقہ عمل کرنے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ انہیں قبولیت دعا کا شیریں پھل ملے گا اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا ایک زندہ تعلق قائم ہو جائے گا.اس کے بعد حضور نے دو گھنٹے مختلف احباب سے ملاقات فرمائی.اسی روز حضور نے سائنس اور ٹیکنا لوجی کی کماسی یو نیورسٹی تشریف لے جا کر طالب علموں ، دانشوروں اور اہل علم حضرات سے خطاب فرمایا.تقریباً ایک ہزار افراد اس موقع پر موجود تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ تدریسی کتابوں کے علم کا بہاؤ رک جاتا ہے،اس میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے اور یہ انسانی استعمال کے قابل نہیں رہتا.مگر جب کلاس روم میں حاصل کیا گیا علم ہمارے ذہنوں میں جڑ پکڑ لیتا ہے اور ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے تب یہ ایک خالص حقیقی اور فائدہ مند چیز میں تبدیل ہوتا ہے.سچا اور حقیقی علم تب پیدا ہوتا ہے جب ایک طرف ہم حقیقت کا حقیقی علم حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کے خالق سے قرب کا تعلق پیدا کرتا ہے.اس طرح ہم علم کے ماخذ تک پہنچتے ہیں اور اس سے قریبی تعلق پیدا کرتے ہیں.تب ہی ہم ایک حقیقی سائنسدان اور عالم کہلا سکتے ہیں.حضور نے انسانی تدبیر پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں انسانی کوشش کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ہمارے پاس تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سچی اور مسلسل کوشش کرنا ہمارا فرض ہے.اپنی کوششوں کو اپنی دعاؤں کے ساتھ ملائیں اور اور پھر اپنے ارد گرد کی دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ نے ہمارے ارد گرد موجود اشیاء کو پیدا کیا اور پھر انسان کے فائدہ کے لئے ان میں بے شمار خواص رکھے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان غور وفکر کر کے علم اور کوشش کے ذریعہ ان خواص کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرے.جہالت اس استعمال کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے اور اگر عقل سے کام نہ لیا جائے تو یہ رجحان علم کو ختم کر دیتا ہے اور جمود کو جنم دیتا ہے.ہمیں بہر حال تمام عمر کے لئے طالب علم اور محقق بن کر رہنا ہوگا.حضور نے دوبارہ دعا اور تدبیر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ صحیح سمت میں محنت کرنا دعا کا ایک اہم جزو ہے اور اسی طرح خدا کے رحم اور عنایت کو جذب کرنے والی دعا محنت کا ایک جزو ہے.اس طرح دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں.یہ دونوں ایک ہی تصویر کے دورخ ہیں اور دونوں پر زور دینا ضروری ہے.بدقسمتی سے دنیا اس صداقت کو
97 فراموش کر چکی ہے.اور اس وجہ سے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے.یہ رجحان که انسانی کوشش کو دعا سے علیحدہ کر دیا جائے یا دعا کو انسانی کوششوں سے الگ کر دیا جائے اب ایٹمی ہتھیاروں سے زیادہ بڑا خطرہ بن چکا ہے.معرفت الہی سے عاری علم ایک بے مقصد چیز اور بنی نوع انسان کے لئے خطرہ ہے (۲۵).حضور کے خطاب کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا.حاضرین کی طرف سے جن میں طلباء کی ایک بڑی تعداد شامل تھی بہت سے سوالات کئے گئے.ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ شیطان کو کیوں پیدا کیا گیا ہے.اس کے جواب میں حضور برجستہ ارشاد فرمایا تا کہ آپ کی ایمانی قوت کو آزمایا جا سکے (۲۶).ایک صاحب نے دریافت فرمایا کہ آپ اپنے متعلق کچھ بتا ئیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ I am the humblest of the - humble حضور کا یہ لیکچر خاص طور پر طلباء کو ایک عزم اور حوصلہ کے ساتھ علم کے سفر میں آگے بڑھنے کا پیغام دیتا تھا.اور غانا کے پریس نے خاص طور پر لیکچر کے اس پیغام کو سرخیوں کے ساتھ شائع کیا.غانین ٹائمنر نے ۲۳ را پریل ۱۹۷۰ء کو یہ خبر اس سرخی کے ساتھ شائع کی : Prepare for the future students told ڈیلی گرافک (Daily Graphic) نے ۲۳ اپریل کو اس لیکچر کی خبر اس سرخی کے ساتھ شائع کی : Prepare For The Task Ahead-Khalifatul Masih III کماسی کی لجنہ نے حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی حرم حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا.اس میں تقریباً تین ہزار کے قریب خواتین نے شرکت کی.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نے تمام بہنوں سے مصافحہ فرمایا اور ان سے ملنے پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا.(۲۷) اگلے روز ۲۲ اپریل ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کماسی سے مہمان کے لئے روانہ ہو گئے.ٹیچیمان کماسی سے شمال کی طرف ۷۴ میل کے فاصلے پر واقعہ ہے.اور اس وقت مکرم عبدالوہاب بن آدم صاحب وہاں پر جماعت کے مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے اور ٹیچیمان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مضبوط اور فعال جماعت قائم تھی.پہلے وقت کی کمی کے باعث ٹیچیمان جانے کا پروگرام
98 منسوخ ہو چکا تھا مگر پھر اس پروگرام کو برقرار رکھا گیا.کچھ خدام نے شہر سے دس میل باہر آ کر حضور کا استقبال کیا.جب قافلہ شہر میں داخل ہوا تو سڑکوں کے دونوں طرف بہت سے احمدی اپنے امام کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھے.یہاں پر حضور کی رہائش کا انتظام ایک احمدی دوست کے و تعمیر شدہ مکان میں تھا.حضور اس مکان میں تشریف لے گئے.حضور نے فرمایا کہ میں احباب اور بہنوں سے مل کر بہت خوش ہوں.فرمایا کہ یہ ایک روحانی تجربہ تھا.آج تو میں بھی ضبط نہ کر سکا.یہاں مشروبات پینے کے بعد حضور اس شہر میں جماعت کی نئی مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لے گئے.مقامی پیرا ماؤنٹ چیف صاحب اور دیگر چیف صاحبان بھی اپنی روایتی چھتریوں کے نیچے کھڑے حضور کے استقبال کے لئے موجود تھے.اور ان کے علاوہ ہزاروں احمدی اس با برکت تقریب میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے.جب حضور کار سے اتر کر سٹیج کی طرف آئے تو فضا اسلامی نعروں سے گونج رہی تھی.سٹیج پر پہنچ کر حضور نے سب حاضرین کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کا تحفہ دیا.حضور کے تشریف رکھنے کے بعد مکرم مولا نا بشارت احمد بشیر صاحب نے تلاوتِ قرآن کریم کی اور پھر چند خدام نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی منظوم کلام پڑھ کر سنایا.اس کے بعد مکرم عبدالوہاب بن آدم صاحب نے حضور کی خدمت میں استقبالیہ ایڈریس پیش کیا.جو تحریری صورت میں بھی حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا.حضور کے خطاب سے قبل علاقے کے پیراماؤنٹ چیف صاحب نے حضور کو اپنے علاقے میں خوش آمدید کہا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ میں آپ کے بے ساختہ اظہارِ محبت سے بہت متاثر ہوا ہوں اور میری توجہ آج سے اسی سال پہلے کی طرف مبذول ہوگئی.جب ایک تنہا آواز اٹھی تھی.تمام دنیا اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے جمع ہو گئی لیکن وہ آواز خاموش نہ کی جاسکی کیونکہ اللہ تعالیٰ اس آواز کی پشت پر مدد کے لئے کھڑا تھا.آج میں نے محسوس کیا کہ آج کی ہر آواز اس آواز کی صدائے بازگشت ہے جس نے بنی نوع انسان کو اپنے خالق کی طرف بلایا تھا.حضور نے فرمایا کہ حمد عربی ﷺ نے اپنے آپ کو انسانوں میں سے ایک انسان قرار دے کر انسانیت کا مقام کتنا بلند کر دیا ہے.میرا دل جذبات سے لبریز ہے اور میری روح آپ کے لئے اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہے.میری دعا ہے کہ آپ خود اپنے مقام کو پہچانے کی توفیق پائیں اور کسی انسان کے سامنے جھکنے کی بجائے ہمیشہ خدائے واحد کے سامنے جھکتے رہیں.میں ہمیشہ آپ کو
99 اپنی دعاؤں میں یا درکھتا ہوں اور آئندہ بھی ہمیشہ یادرکھوں گا.تقریر کے بعد آپ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے ہمراہ اُس جگہ تشریف لے گئے جہاں چیف صاحبان موجود تھے وہاں آپ نے چیف صاحبان سے مصافحہ کیا اور ان کے عصا برداروں سے بھی مصافحہ کیا.اس کے بعد آپ نئی مسجد کی طرف تشریف لے گئے.جہاں پر افتتاحی تختی نصب کی جانی تھی وہاں پر سیمنٹ لگانے کا کام ہور ہا تھا.بعض احباب سیمنٹ لگانے والے کو جلد کام مکمل کرنے کا کہہ رہے تھے.حضور نے فرمایا کہ تسلی سے کام ختم کر لیں اور اتنی دیر حضور وہاں پر کھڑے دعائیں کرتے رہے.اس مسجد کی افتتاحی تختی نصب فرمانے کے بعد آپ نے اجتمائی دعا کروائی اور مشن ہاؤس کی عمارت کا سنگ بنیا درکھا.اس کے بعد آپ نے اسی مقام پر لجنہ کے ریجنل سینٹر کی بنیاد رکھی.پھر نئی مسجد میں ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کی گئیں.اور پھر مردوں نے حضور سے اور عورتوں نے حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.پھر حضور اس مکان پر تشریف لے گئے جہاں حضور کے لئے انتظام کیا گیا تھا اور فرمایا I am moved like anything اور مکرم عبد الوہاب صاحب کے حسنِ انتظام اور جماعت کے نظم وضبط پر اظہارِخوشنودی فرمایا.(۲۸) سہ پہر کوحضور واپس کماسی تشریف لے آئے.کماسی میں حضور کا قیام سٹی ہوٹل میں تھا.اسی شام کو حضور نے اشانٹی ریجن کی جماعت کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ میں شرکت فرمائی.اس تقریب میں احباب جماعت کے علاوہ پیراماؤنٹ چیف صاحبان ، چیئر مین کماسی سٹی کونسل ہمبران پارلیمنٹ، یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان اور دیگر معززین شہر بھی شریک ہوئے.مختلف احباب نے حضور سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے علاوہ مختلف موضوعات پر حضور سے گفتگو بھی کی.باوجود اس کے کہ حضور سفر کی وجہ سے تھکے ہوئے تھے ہر ایک سے حسب حال گفتگو فرماتے اور کبھی ہلکے سے مزاح سے اپنے مخاطب کو مسکرانے پر مجبور کر دیتے.یونیورسٹی کے چیئر مین صاحب A.A.Kyere Mantang نے حضور سے عرض کی کہ جماعت احمد یہ اہلِ غانا کی بہت خدمت کر رہی ہے.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا: 'By nature, heart and religion we are servants' یعنی ہم فطرتی تقلبی اور مذہبی طور پر خادم واقعہ ہوئے ہیں.
100 کئی پیرا ماؤنٹ چیف اور چیف صاحبان نے حضور سے ملاقات کی.ایک پیرا ماؤنٹ چیف اور ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ ہمارے علاقے میں ایک ہسپتال کھولا جائے جس میں ماہر ڈاکٹر موجود ہوں.حضور نے فرمایا کہ میں پاکستان سے بعض ایسے ڈاکٹروں کو جو ماہر ہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر رہ کر خدمت کر چکے ہیں کہوں گا کہ اب غانا میں آ کر خدمت کریں اور فرمایا کہ ان کی درخواست پر غور کیا جائے گا اور امیر صاحب غانا مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب کو فرمایا کہ ڈاکٹر ہم بھجوائیں گے باقی انتظامات کے متعلق غانا کی جماعت کی ذمہ داری ہے.حضور استقبالیہ میں ساڑھے سات بجے تک تشریف فرما رہے.اس کے بعد حضور مع حضرت بیگم صاحبہ مغرب اور عشاء کی نماز کے لئے تشریف لے گئے.نماز مغرب وعشاء احمد یہ سکول کماسی کے وسیع احاطے میں ادا کی گئیں.ہزاروں احمدیوں نے اپنے امام کی اقتداء میں نماز ادا کی.نماز کے بعد وا کی جماعت کے اڑھائی سو دوستوں کے وفد نے حضور سے شرف ملاقات حاصل کیا.یہ جگہ کماسی سے بھی پونے تین سو میل کے فاصلے پر واقعہ ہے اور یہاں پر ہزاروں احباب کی مخلص جماعت قائم ہے.جب حضور ان سے ملاقات کے لئے ہال میں داخل ہوئے تو وا کے وفد نے وہ قصیدہ پڑھنا شروع کیا جو ہجرت کے موقع پر آنحضرت ﷺ کی آمد پر مدینہ کی لڑکیوں نے پڑھا تھا.یہ منظر اتنا روح پرور تھا کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور پڑھنے والوں کی آواز بھی گلو گیر ہو گئی.حضور نے خطاب شروع کرنے سے قبل دریافت فرمایا کہ آپ میں سے عربی کون جانتا ہے تو نصف کے قریب دوست کھڑے ہو گئے.پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ آپ میں سے انگریزی کون کون جانتا ہے تو اس پر صرف دس احباب کھڑے ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ان احباب سے عربی زبان میں خطاب فرمایا.معلم مومن صاحب نے جو کہ وا کے ابتدائی احمد یوں میں سے تھے اس خطاب کا ترجمہ کیا.اس کے بعد ملاقات شروع ہوئی تو پہلے دوست جو ملاقات کے لئے آئے وہ بے اختیار حضور سے لپٹ گئے.حضور نے ان سے معانقہ فرمایا.اس کے بعد تمام احباب نے حضور سے مصافحہ اور معانقہ کا شرف حاصل کیا.وا کی مستورات نے حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.(۲۹)
101 اگلے روز حضور کماسی سے واپس اکر ا تشریف لے آئے.روانگی سے قبل حضور نے کماسی کے کلچرل سینٹ کا معائنہ فرمایا اور راستے میں مسجد نیر تشریف لے گئے اور یہاں لمبی دعا کروائی.۲۴ را پریل کو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث اکرا سے سالٹ پانڈ کے لئے روانہ ہوئے.سالٹ پانڈ ا کرا سے تقریباً ۷۵ میل کے فاصلے پر ہے.اس شہر کو جماعت کی تاریخ میں یہ اہمیت حاصل ہے کہ غانا میں احمدیت کے سب سے پہلے مبلغ حضرت مولا نا عبدالرحیم نیر صاحب ۱۹۲۱ء میں سالٹ پانڈ میں ہی وارد ہوئے تھے اور اس شہر سے ہی انہوں نے غانا میں احمدیت کی تبلیغ کا آغاز کیا تھا.اس وقت سے اسی شہر میں جماعت احمد یہ غانا کا مرکزی مشن قائم تھا.حضرت مولا نا عبدالرحیم نیر صاحب نے جس چھوٹے سے شہر میں مقیم رہ کر تبلیغ کا آغاز کیا تھا اب وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مشن ہاؤس اور جامع مسجد تیر ہو چکی تھی اور ایک نہایت مضبوط اور فعال جماعت قائم تھی.جب ۲۴ اپریل کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث سالٹ پانڈ پہنچے تو تقریبا بارہ ہزار احمدیوں نے اهلا و سهلا و مرحبا کہہ کر حضور کا استقبال کیا.احمدی بہنیں سفید رومال ہلاتی ہوئیں اور اللہ اکبر اللہ اکبر کہتی ہو ئیں سخت دھوپ میں حضور کی کار کے ساتھ دوڑتی چلی جارہی تھیں.احمدی احباب کے علاوہ پیرا ماؤنٹ چیف صاحبان ، چرچ کے نمائندگان اور دیگر معززین شہر بھی استقبال میں شامل تھے.تقریباً ساڑھے گیارہ بجے قافلہ مشن ہاؤس پہنچا.ساتھ ہی سفید گنبدوں والی مسجد نظر آ رہی تھی جسے مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے تعمیر کرایا تھا اور یہاں سے وہ مکان بھی نظر آ رہا تھا جہاں سے ابتدا میں مکرم مولا نا عبد الرحیم نیر صاحب نے غانا میں دعوت الی اللہ کا آغاز کیا تھا.مکان کیا تھا ایک شیڈ سا تھا جس کی عمارت خستہ ہو چکی تھی اور اس پرٹین کی زنگ آلود چھت تھی.یہ منظر ابتدائی مبلغین کی قربانیوں کی یاد دلا رہا تھا.مشن ہاؤس کے ساتھ ہی مشنری ٹریننگ کالج بھی موجود تھا.اس وقت مکرم عبد الحکیم جوزا صاحب اس کے پرنسپل کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے.جب نماز جمعہ کا وقت ہوا تو حضور اقدس بمعہ حضرت بیگم صاحبہ ساحل کے قریب اس میدان میں تشریف لے گئے جہاں پر جماعت کے جلسے منعقد ہوتے ہیں.یہاں پر حضور کی آمد پر ایک استقبالیہ کا انعقاد کیا گیا تھا.غانا کی جماعت کے نیشنل پریذیڈنٹ صاحب نے حضور کی آمد پر استقبالیہ تقریر کی.اس کے بعد نماز جمعہ کا وقت ہوا تو حضور نے انگریزی زبان میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا ، جس کا ترجمہ مکرم عبدالوہاب
102 بن آدم صاحب کر رہے تھے.حضور نے فرمایا کہ پہلی بار آپ میں سے اکثر کو یہ موقع ملا ہے کہ آپ مجھ سے دعائیں لیں اور خلافت کی برکات سے بالمشافہ حصہ پائیں.اگر چہ میں تو آپ کے لئے ہر روز دعا کرتا ہوں.جب میں یہاں آیا اور میں نے تقدس کا نور آپ کی پیشانیوں پر چمکتا ہوا دیکھا تو میرے جذبات نے ایسا جوش مارا جسے بیان کرنا ممکن نہیں.میں نے سوچنا شروع کیا کہ یہ ایک تنہا اکیلی آواز تھی جو آج سے اسی سال پہلے قادیان سے بلند ہوئی.وہ آواز اپنے نفس کو بلند کرنے کے لئے نہیں اُٹھائی گئی تھی.وہ آواز اللہ کے جلال کو ظاہر کرنے کے لئے اُٹھائی گئی تھی جو بڑی طاقتوں والا ہے.وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت اور مقام کو ظاہر کرنے کے لئے اُٹھائی گئی تھی.جب وہ آواز بلند ہوئی تو ساری دنیا اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے کھڑی ہو گئی لیکن انسان کی متحدہ سازش اور طاقت اس آواز کو خاموش نہ کر سکی.جب میں نے آپ کو اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمد کے ترانے گاتے دیکھا اور سنا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ وہی آواز ہے جو آپ کے مونہوں سے صدائے بازگشت کی طرح ٹکرا کر بلند ہورہی ہے.اس کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کی اہمیت بیان فرمائی.نماز جمعہ و عصر کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نبی اکرم ﷺ کی شان میں ایک پر اثر تقریر فرمائی.اس کے بعد وہاں پر موجود احباب نے حضور سے شرف مصافحہ حاصل کیا.اس تقریب کے بعد حضور سالٹ پانڈ کے مشن ہاؤس تشریف لے آئے.جب حضور اندر تشریف فرما ہوئے تو باہر سے احمدی بچیوں کی آواز آرہی تھی جو طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا کا قصیدہ گارہی تھیں.حضور نے اس موقع پر فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ غانا کے لئے ایک ریز روفنڈ قائم کر دیا جائے جو میں ہزارسی ڈی (CD) کا ہو.اس کے لئے سو ایسے احمدی چاہئیں جو سوسوسی ڈی دے سکیں.اس پر ایک احمدی دوست مکرم الحاج حسن عطا صاحب نے اسی وقت اپنی طرف سے عطیہ پیش کیا.شام کو حضور واپس اکر ا کے لئے روانہ ہوئے اور راستے میں حضور نے ایک مسجد کا سنگ بنیادرکھا.(۳۰) اگلے روز ۲۵ /۱ اپریل کو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ایمبسڈر ہوٹل کے وسیع ہال میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اس میں پندرہ کے قریب اخبارات اور ریڈیو کے نمائندگان نے شرکت کی.حضور نے تشریف لانے کے بعد فرمایا کہ آپ کی زبان بہت میٹھی ہے میں نے اس کے کچھ
103 الفاظ سیکھ لئے ہیں.پھر حضور نے وہ الفاظ دہرائے.یہ سن کر سب حاضرین بہت محظوظ ہوئے.حضور پر یس کا نفرنس میں بھی تکلف کے ماحول کو پسند نہیں فرماتے تھے اور اخباری نمائندگان سے بھی اس طرح گھل مل کر بات کرتے تھے کہ پریس کانفرنس بھی ایک زندہ دل، مہذب اور علمی محفل کا رنگ اختیار کر لیتی تھی.حضور نے اس کا نفرنس میں فرمایا کہ اسلام اس ملک اور دیگر ممالک کے لئے بنی نوع انسان کی بحیثیت انسان ہمسری اور برابری کا پیغام لایا ہے اور ہم اس پیغام کے نقیب اور علمبردار ہیں.ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ کمیونزم صرف انسانی ضروریات (Needs) کا سوال اُٹھاتا ہے لیکن Needs کی تعریف نہیں کرتا.اسلام کہتا ہے رب العالمین نے جس قدر صلاحیتیں ہمارے اندر پیدا کیں ان کی پوری نشو و نما کے لئے مادی اسباب بھی پیدا کئے.اس لئے ہر انسان کا حق ہے کہ اسے وہ تمام سہولتیں ملیں جن سے اس کی صلاحیتوں کی مکمل نشو و نما ہو سکے.اسلام کم سے کم پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ زیادہ سے زیادہ کے حصول پر زور دیتا ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ ہم کسی ذاتی غرض کے لئے نہیں آئے.خدمت کے لئے آئے ہیں اگر آپ لوگ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال کریں تو بعید نہیں آپ کو اللہ تعالی امریکہ اور یورپ کا استاد بنادے.آپ کسی سے کم نہیں ہیں.میرا ارادہ ہو رہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ انگلستان یا سکاٹ لینڈ میں افریقہ کے احمدیوں میں سے ایک مبلغ بھجوا دوں.ایک اخباری نمائندے نے سوال کیا کہ آپ کا ہم لوگوں کے نام کیا پیغام ہے.آپ نے اس کے جواب میں فرمایا : Let humans learn to love humans اور فرمایا کہ میں ایک پیغام اپنی جماعت کے لئے بھی چھوڑ کر جارہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے ایک حد تک اپنے ملک غانا کی خدمت کی ہے.میری خواہش اور دعا ہے کہ اور خدمت کریں اور سکول اور کالج اور میڈیکل سینٹر کھولیں اور اپنے دل کی کھڑکیاں کھول دیں تاکہ اللہ تعالی اندر داخل ہو سکے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک بنایا ہے.میری دعا ہے کہ آپ اپنے خالق کے محبوب بندے بن جائیں.پر یس کا نفرنس کے بعد ہوٹل کے اسی ہال میں جماعت احمد یہ غانا کی مجلس عاملہ کی میٹنگ ہوئی.اس میں حضور نے فرمایا کہ میں نے سوچا ہے کہ میں ایک ریز روفنڈ قائم کردوں تا کہ آپ کی ترقی کی
104 رفتار رکنے نہ پائے.یہ ریز روفنڈ ایسا ہو جو ہمارے ان اخراجات کو برداشت کر لے جو Current یا معمولی نہ ہوں.حضور نے فرمایا کہ میں نے نائیجیریا کی جماعتوں سے پوچھا کہ ایک سکیم کے لئے ایک لاکھ پونڈ کی ضرورت ہے کیا آپ یہ خرچ برداشت کر لیں گے.انہوں نے کہا کہ ہم یہ خرچ برداشت کرلیں گے.حضور نے دوسکیموں کی تفصیل بتاتے ہوئے فرمایا کہ ہر شخص کا یہ حق ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم اس تک پہنچے اور دوسری سکیم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ایک ریز روفنڈ قائم کیا جائے اور اس کی مدد کے لئے انگلستان اور امریکہ کی جماعتیں ایک ریز روفنڈ قائم کریں جو کم از کم بیس ہزار پونڈ کا ہو.اسی قسم کے ریز روفنڈ نائیجیریا، غانا اور سیرالیون میں قائم ہوں گے اور اس فنڈ کا Nusrat Jahan Reserve fund for the new projects in Ghanart (۳۱) اسی موقع پر حضور نے مغربی افریقہ میں ریڈ یوٹیشن بنانے کے منصوبہ کا ذکر بھی فرمایا.پھر حضور نے جماعت احمدیہ کے نئے عہد یداروں کا اعلان کیا اور فرمایا کہ میں پرانے عہد یداروں کے کام کی قدر کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.پھر حضور نے سبکدوش ہونے والے پریذیڈنٹ جماعت کو انگوٹھی پہنائی اور ان سے معانقہ فرمایا اور ان کو از راہ شفقت بوسہ دیا.حاضر احباب نے اس خوش قسمتی پر ان کو مبارکباد دی.اس موقع پر حضور نے احباب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.”دیکھو دنیا کی کوئی قوم اور جماعت ترقی نہیں کیا کرتی جب تک وہ اپنے سابق عہدیداروں کی عزت اور تعظیم نہ کرے.....پس دنیا میں ترقی کرنے اور دنیا کے وقار اور عزت حاصل کرنے والی قوم کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو اہل ہو اس کو عہد یدار بنائیں اور جب یہ عہد یدار بدلے تو اس کی اسی طرح عزت اور تکریم کریں جس طرح اس کی عہد یدار ہونے کی حیثیت میں کرتے تھے.کسی عربی شاعر نے کہا کہ ہم سرداروں کی قوم ہیں اور میرے پیچھے سرداروں کا ایک Queue لگا ہوا ہے.جب ہماری قوم کا ایک سردار اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو پچھلا ایک قدم آگے بڑھ کر اس کی جگہ لے لیتا ہے اور وہ سردار بن جاتا ہے کیونکہ وہ سرداروں کی قوم ہے.جماعت احمد یہ بھی سرداروں کی قوم ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو سرداری کے لئے اور قیادت کے لئے دنیا میں پیدا کیا ہے.(۳۲)
105 ۲۶ اپریل کی شب حضور نے اکرا کی جماعت سے رات نو بجے سے گیارہ بجے تک ملاقات فرمائی اور اگلے روز حضور آئیوری کوسٹ روانہ ہونے کے لئے ایئر پورٹ تشریف لے گئے.وی آئی پی (VIP) لاؤنج میں مکرم مولا نا عطاء اللہ کلیم صاحب امیر جماعت احمد یہ غانا مجلس عاملہ سمیت حضور کو رخصت کرنے کے لئے حاضر تھے.وزیر برائے پارلیمانی امور مکرم بی کے آدما صاحب جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی تھے اور مکرم مہاما صاحب (Mohama) وز یرزراعت بھی حضور کو رخصت کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے.ان کے علاوہ احمدی بھائی اور بہنیں کثیر تعداد میں حضور کو رخصت کرنے کے لئے ایئر پورٹ پر موجود تھے.جب حضور جہاز کی سیڑھیوں پر چڑھ رہے تھے تو احباب نے پر جوش نعرے لگا کر حضور کو رخصت کیا.اس طرح حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کا نانا کا تاریخ ساز دورہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.(۳۳) آئیوری کوسٹ میں ورود مسعود غانا کے دورے کے بعد آئیوری کوسٹ کے مختصر دورے کا پروگرام تھا.اس ملک میں ایک مختصر جماعت قائم تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۱/۲۷اپریل ۱۹۷۰ء کو دو پہر بارہ بجے اکراسے آئیوری کوسٹ کے دارالحکومت ابی جان پہنچے.محترم قریشی محمد افضل صاحب امیر و مشنری انچارج کے ہمراہ احباب جماعت استقبال کے لئے موجود تھے.ایئر پورٹ پر پریس اور ٹی وی کے نمائندگان کو انٹرویو دینے کے بعد حضور اپنے جائے قیام تشریف لے گئے اور نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد مسجد احمد یہ میں احمدی احباب سے خطاب فرمایا.۲۸ ۱ اپریل کو حضور نے قائم مقام صدر آئیوری کوسٹ سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات فرمائی اور اسی روز شام کو حضور نے پھر مسجد احمدیہ میں خطاب فرمایا.۲۹ اپریل کو حضور بمع قافلہ لائبیریا کے لئے روانہ ہو گئے.(۳۵،۳۴) دورہ لائبیریا آئیوری کوسٹ کے دورہ کے بعد حضرت خلیفہ اصبح الثالث لائبیریا کے مختصر دورہ پر دارالحکومت رو یا پہنچے.رابرٹس فیلڈ کے ہوائی اڈے پر لائبیریا کے امیر جماعت اور مشنری مکرم امین اللہ صاحب
106 سالک، جماعت احمدیہ کے احباب نے اور دیگر مسلم اور غیر مسلم زعماء نے حضور کا استقبال کیا.ایک مسلمان گورنر مکرم فافانی کمار (Fafani Kumare) اور صدر مملکت کا نمائندہ بھی استقبال کے لئے موجود تھا.حضور نے ایئر پورٹ پر ریڈیو اور ٹی وی کے نمائندگان اور مختلف اخبارات سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو انٹر ویو دیا.اور اس کے بعد حضور نے اپنے استقبال کے لئے آئے ہوئے مسلمان گورنر صاحب اور ان کے نائب کو مخاطب کر کے فرمایا ” مذہب دل کا معاملہ ہے.جب تک دل نہ جیتے جائیں مذہب قبول نہیں کیا جا سکتا.یہ کام وحشیانہ طاقت کے استعمال سے نہیں ہوسکتا.اس کے لئے محبت اور ہمدردی اور خدمت کی ضرورت ہے.شام کو حضور کی آمد کے مناظر ملکی ٹی وی پر بھی دکھائے گئے.ہوائی اڈے سے حضور ہوٹل انٹر کانٹینینٹل تشریف لے گئے جہاں حضور کی رہائش کا انتظام تھا.اسی شام کو حضور نے لائبیریا کے صدر جناب طب مین سے ملاقات فرمائی.اس ملاقات میں حضور کے ہمراہ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، مکرم امین اللہ سالک صاحب امیر و مشنری انچارج لائبیریا ، مکرم چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب، مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب، مکرم مولوی عبد الکریم صاحب اور مکرم چوہدری محمد علی صاحب بھی شامل تھے.ملاقات کے دوران ملک کے وزیر خارجہ بھی موجود تھے.صدر مملکت نے حضور کی آمد پر مسرت کا اظہار کیا.گفتگو کے دوران صدر نے جماعت کے امیر صاحب مکرم امین اللہ سالک صاحب کے متعلق کہا کہ آپ کے مشنری بہت Forceful ہیں.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا He is forceful without using force اس برجستہ جواب پر صدر ٹب مین بہت محظوظ ہوئے.پھر جماعت احمدیہ لائبیریا کی طرف سے دیئے گئے عشائیہ میں شامل ہوئے جس میں لائبیریا کے نائب صدر ، چیف جسٹس صاحب ،سپیکر پارلیمنٹ اور مختلف ممالک کے سفیر شامل ہوئے.۳۰ را پریل کو صبح حضور نے مختلف احباب سے انفرادی ملاقاتیں فرمائیں.مختلف غیر احمدی احباب جن میں لبنان کے سفیر بھی شامل تھے.حضور سمندر کے کنارے سیر پر تشریف لے گئے.تیسرے پہر حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا اور سوالات کے جوابات دیئے.اس پر یس کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اسلام دنیا پر غالب آکر رہے گا اور کوئی
107 دنیاوی طاقت اس خدائی تقدیر کی راہ میں روک نہیں بن سکتی.آپ نے فرمایا کہ مغربی افریقہ کے ممالک میں جماعتیں قائم کرنے سے ہمارا کوئی ذاتی مقصد نہیں.ہم ان ممالک سے ایک پائی باہر نہیں لے کر جاتے.جو آمد ہوتی ہے انہی ممالک کی بہبود پر خرچ ہوتی ہے.ہم مدارس اور طبی مراکز کھولتے ہیں جن سے ان ممالک کے باشندے ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں.اس موقع پر حضور نے فرمایا کہ جماعت لائبیریا کے دارالحکومت منر دو یا میں ایک میڈیکل سینٹر اور ایک سکول کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے.ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ ہماری جماعت کا بحیثیت جماعت سیاست سے کوئی تعلق نہیں.ہماری جماعت کا یہ اصول ہے کہ حکومت وقت کی اور قانون کی اطاعت کی جائے.ہم تو مذہبی جماعت ہیں.اس سفر میں کانو ( نائیجیریا) میں متعین جماعت کے مشنری ڈاکٹر مکرم ضیاء الدین صاحب بیمار ہو گئے.ان کو سانس کی تکلیف ہو گئی.حضور نے از راہ شفقت ان کو ہدایت فرمائی کہ بستر سے باہر نہ نکلیں اور خود دن میں کئی مرتبہ ان کے کمرے میں جا کر ان کی عیادت فرماتے رہے اور پر یس کا نفرنس کے بعد بھی خود جا کر ان کی عیادت فرمائی.پریس کانفرنس کے بعد حضور نے اسی کمرہ میں جماعت کے عہد یداران کی ایک میٹنگ میں شرکت فرمائی.حضور نے اس میٹنگ میں جماعتی عہد یداروں کو تبلیغی ، تعلیمی اور طبی کام کی توسیع اور ترقی کے بارے میں ہدایات دیں اور جس منصوبہ کے تحت کام کرنا تھا اس کی تفاصیل پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ اصل مقصد تو خدمت ہونا چاہئے.جماعت احمدیہ کے عہد یداران نے اپنی مشکلات حضور کے سامنے رکھیں.حضور نے اس پر مد کا وعدہ فرمایا اور فرمایا کہ انشاء اللہ ہمارا قدم آگے ہی بڑھے گا.اسی رات کو صدر لائبیریا نے حضور کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا.اس میں تقریر کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا: " آج ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس زمانے کے روحانی بادشاہ ہمارے درمیان تشریف فرما ہیں.آپ کی تشریف آوری ہمارے لئے باعث عزت ہے.آپ ایک عظیم روحانی شخصیت ہیں.آپ کو قرب الہی حاصل ہے.میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں.“ اس موقع پر حضور نے بھی ایک مختصر تقریر فرمائی اور معز ز میزبان کا شکریہ ادا کیا اور اہل لائبیریا کو
دعاؤں سے نوازا.(۳۷،۳۶،۳۴) 108 گیمبیا کا دورہ یکم مئی کی دو پہیر کوحضرت خلیہ اسج الثاث گیمبیا جانے کے لئے رابرٹس فیلڈ کے ہوائی اڈے پر پہنچے اور دو بجے کے قریب احباب جماعت کی دعاؤں کے درمیان حضور نایجیرین ایئر ویز کے جہاز پر گیمبیا کے دارالحکومت باتھرسٹ جانے کے لئے روانہ ہوئے.جہاز جب یونڈم (Yondum) ایئر پورٹ پہنچا تو مکرم مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب مشنری انچارج و امیر جماعت احمد یہ گیمبیا، سابق گورنر جنرل مکرم الحاج ایف.ایم.سنگھاٹے اور حکومت کے کمشنر لیبر نے حضور کا استقبال کیا.تقریباً دوصد احمدی بھائی اور بہنیں حضور کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے.لاؤنج میں سرکاری خبر رساں ایجنسی کے انچارج نے حضور کا انٹرو یولیا.حضور سے ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ آپ کس چیز سے دلچسپی رکھتے ہیں.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ مجھے عام انسانوں کی پروگریس اور بہتری سے دلچسپی ہے.اور ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میرے یہاں آنے کا مقصد آپ لوگوں سے ملاقات کرنا ہے اور میں یہاں آکر محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنے ہی گھر میں ہوں.حضور نے اپنے دورہ گیمبیا کے ابتدائی دنوں میں از راہ شفقت مکرم الحاج ایف.ایم سنگھاٹے کے گھر میں قیام پذیر رہے.اگلے روز ۲ مئی کو حضور نے ملک کے صدر داؤد کے جوارا سے ملاقات کی.صدر گیمبیا نے حضور سے جماعت احمدیہ کے مستقبل کے پروگراموں کے بارے میں استفسار کیا تو حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے فرمایا کہ ہم انشاء اللہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر یہاں کے عوام کی خدمت کریں گے.ہماری اس میں کوئی ذاتی غرض نہیں.حضور نے صدر مملکت کو قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کا تحفہ دیا اسی شام کو سابق گورنر جنرل مکرم سنگھائے صاحب نے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا.جس میں صدر گیمبیا کے علاوہ مختلف وزراء اور سفراء نے شرکت کی.ہر مہمان کا حضور سے تعارف کرایا گیا اور آپ نے مختلف احباب سے گفتگو فرمائی.شام کو حضور نے ایک میٹنگ طلب فرمائی جس
109 میں امیر صاحب گیمبیا، سنگھاٹے صاحب ، مسٹر ٹی بی فون صاحب اور مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب نے شرکت کی.اس میٹنگ میں جائزہ لیا گیا کہ اس ملک کی کس طرح خدمت کی جاسکتی ہے.مسٹر ٹی بی فون نے عرض کی کہ یہاں پر مسلمان بچوں کے لئے کوئی سکول نہیں اور اس سے احمدی بچے بھی بہت متاثر ہوتے ہیں.سنگھاٹے صاحب نے بھی تائید کی کہ یہاں پر سکول کھولنا ضروری ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ اگر ہم سات سال میں پانچ سکول کھول لیں تو ایک دن یو نیورسٹی بنانی پڑے گی.حضور نے مکرم ڈاکٹر سعید صاحب کو میڈیکل سینٹر کھولنے کے منصوبے کا جائزہ لینے کا ارشاد فرمایا.نیز ارشاد فرمایا کہ یہاں پر آنکھوں کا ماہر ڈاکٹر آنا چاہئے.مکرم سنگھائے صاحب نے عرض کی کہ یہاں کے لوگوں کو مشنری بنے کی تربیت دی جائے.اس پر حضور نے فرمایا کہ یہاں سے بچے ربوہ بھیجیں جو وہاں جا کر دینی تعلیم حاصل کریں.اور پھر غانا کے مبلغ مکرم عبدالوہاب بن آدم صاحب کا ذکر کر کے ان کے کام کی تعریف فرمائی اور فرمایا کہ ہمارے لئے تو عربی اور اس کے بعد اردو زبان سیکھنا ضروری ہیں.ایک نئی سکیم پر انشاء اللہ عمل درآمد ہونے والا ہے جس کے تحت لوگوں کو عربی اور اردوزبانوں سے روشناس کرایا جائے گا.اور ارشاد فرمایا کہ قاعدہ میسر نا القرآن پڑھایا کریں اس سے بھی اردو آ جاتی ہے.مئی کو حضور نے مقامی احباب سے خطاب فرمایا.اور اسی شام کو حضور نے باتھرسٹ کے مضافات میں جماعت کے نصرت سیکینڈری سکول کا سنگ بنیا درکھا اور رات کو جماعت کی مجلس عاملہ کی طرف سے حضور کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا گیا.۴ مئی کو حضور سیر کے لئے شہر سے بتیس میل تک باہر گئے اور راستے میں مقامی لوگوں کی جھونپڑیاں بھی ملاحظہ فرمائیں.شام کو جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب کے گھر پر چائے کے لئے تشریف لے گئے.اس رات حضور نے ملک کے وزیر تعلیم اور وزیر صحت کو رات کے کھانے پر مدعو فر مایا.مکرم سنگھائے صاحب اور پریذیڈنٹ صاحب جماعت بھی اس دعوت اور میں شریک تھے.اگلے روز ۵ مئی کو حضور گیمبیا سے سیرالیون کے لئے روانہ ہو گئے.(۳۸) سیرالیون کا دورہ حضور کے دورہ افریقہ کے آخر پر سیرالیون کے دورے کا پروگرام تھا.باقی ممالک کی طرح سیرالیون کے احمدی بھی بے تابی سے اپنے امام کی آمد کا انتظار کر رہے تھے.یہاں کے اخبارات میں
110 بھی فروری سے ہی حضور کی متوقع آمد کی خبریں شائع ہونی شروع ہوگئی تھیں (۳۹) اور حضور کی آمد کے دن بھی اخبارات نے بڑی سرخیوں کے ساتھ ذکر کیا کہ آج حضرت خلیفہ اسیح الثالث سیرالیون تشریف لا رہے ہیں.اخبار Unity کی سرخی تھی (۴۰) Messiah Due Today اخبار ڈیلی میل (Daily Mail) نے حضور کی آمد سے ایک روز قبل خبر اس عنوان سے شائع کی (۴۱) Great Religious Leader Arrives Freetown Today جس وقت حضور کا جہاز لنگی (Lungi) کے ایئر پورٹ پر پہنچا.احمدی احباب اور خواتین رو مال ہلا کر استقبال کر رہے تھے.یہ ایئر پورٹ جزیرہ نما پر واقعہ ہے.کاریں فیری پر جب ساحل پر پہنچیں تو پر مختلف جماعتیں اپنے علیحدہ علیحدہ لباس میں حضور کے استقبال کے لئے موجود تھیں.حضور کی کارنعرہ تکبیر اللہ اکبر اور حضرت امیر المؤمنین کے نعروں میں آگے بڑھ رہی تھی.جگہ جگہ مختلف گروہ عربی زبان میں دعائیہ ترانے گا رہے تھے.بہت سے احمدی مرد و خواتین بے ساختہ حضور کی گاڑی کے ساتھ دوڑ رہے تھے.اور ان مناظر پر رواں تبصرہ ساتھ کے ساتھ ریڈیو پر نشر ہورہا تھا.ایئر پورٹ سے حضور سٹیٹ گیسٹ ہاؤس تشریف لے گئے.حضور کے سر درد ہورہی تھی اس لئے حضور آرام کے لئے اپنے کمرے میں تشریف لے گئے.لیکن یہاں پر بھی کئی احباب جمع ہو گئے کہ حضور انہیں کھڑکی سے اپنی زیارت کرا دیں.ان کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے حضور نیچے تشریف لے گئے اور ان احباب سے مصافحہ کیا اور ان کے نام اور نام کے مطالب معلوم کئے.ایک احمدی نے بتایا کہ ان کے نام کا مطلب ہے کہ یہ جنگ اور وہ جنگ‘ اس پر حضور نے فرمایا کہ اب آپ احمدی ہیں اس لئے اب آپ کا نام ہے نہ یہ جنگ نہ وہ جنگ یعنی عبد السلام.شام کو حضور نے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اس میں ریڈیو، ٹی وی اور مختلف اخبارات کے نمایندگان شامل تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پریس کانفرنس کے آغاز پر فرمایا کہ میں سیرالیون آنے سے پہلے نائیجیریا، غانا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا اور گیمبیا کا دورہ
111 کر چکا ہوں.مجھے اہل افریقہ بہت پسند آئے ہیں.ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہے اور دلوں میں سادگی اور محبت ہے.میں نے اس دورے کو نہایت خوش کن اور آرام دہ پایا ہے.حضور سے ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ کی تشریف آوری کا مقصد کیا ہے؟ حضور نے مسکرا کر جواب دیا ” آپ لوگوں سے ملاقات.نیز مختلف ممالک کے سربراہان سے مشورہ کہ جماعت احمد یہ ان ممالک کے باشندوں کی کس رنگ میں بہتر خدمت کر سکتی ہے.ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ یہاں لوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں تو احمدی ہاتھ باندھ کر کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ حضور نے فرمایا کہ یہ فقہی اختلاف ہے.ان ممالک میں حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کی فقہ پر تعامل ہے.ہمارے ہاں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کی فقہ پر عمل ہوتا ہے.چاروں ائمہ فقہ کا باہم اختلاف ہے.لیکن اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ فقہ میں اختلاف جائز ہے.بہر حال یہ اختلاف فروعی ہے بنیادی نہیں.ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں پہلے دوسروں سے مشورہ کرتا ہوں، خود سوچتا ہوں پھر اللہ تعالیٰ کے حضور انشراح صدر اور رہنمائی کے لئے دعا کرتا ہوں تب کسی نتیجہ پر پہنچتا ہوں.پریس کانفرنس کے بعد ریڈیو سیرالیون کے نمائندے نے علیحدہ انٹرویو کے لئے درخواست کی.حضور نے اجازت مرحمت فرمائی تو اس نے بہت سے سوالات کئے.نمائندہ ریڈیو نے سوال کیا کہ مذہب کا مستقبل کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ مذہب کا مستقبل بہت ہی شاندار ہے.محبت ہمیشہ نفرت پر غالب آیا کرتی ہے.مذہب محبت سکھاتا ہے اور محبت پر قائم ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہماری محبت ساری دنیا پر غالب آکر رہے گی.شام کو حضور رات گئے تک مجلس عرفان میں تشریف فرمار ہے جس میں شریک سیرالیون کے احمدی پروانوں کی طرح حضور کے گرد جمع تھے.(۲۲) اگلے روز حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے سیرالیون کے قائم مقام گورنر جنرل بنجا تیجان سی ( Banja Tejan Sie) سے ملاقات فرمائی.قائمقام گورنر جنرل نے حضور کا استقبال کرتے ہوئے کہا It is a blessing your coming here‘.اس ملاقات میں حضور کے ہمراہ مکرم و محترم مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری امیر و مشنری انچارج سیرالیون مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ، احمدی پیرا ماؤنٹ چیف مکرم ناصرالدین گمانگا صاحب ، کرم محمد نذیر صاحب اور مکرم چوہدری محمدعلی صاحب شامل تھے.قائمقام گورنر جنرل
112 صاحب نے کہا کہ جماعت احمد یہ سیرالیون میں قابل تعریف کام کر رہی ہے.اور جماعت نے جو سکول جاری کئے ہیں ان میں قابل تعریف کام ہو رہا ہے.اور انہوں نے احمدی پیراماؤنٹ چیف مکرم گما نگا صاحب کی بہت تعریف کی.حضور نے فرمایا کہ حکومت قوم کے لئے بمنزلہ باپ ہوتی ہے.اس کا فرض ہے کہ بچوں کا خیال رکھے.نئی نسل کا حق ہے کہ اسے اچھی تعلیم دی جائے اور اس کی ذہنی صلاحیتیں اجاگر کی جائیں.گفتگو کے دوران قائم مقام گورنر جنرل نے کہا کہ اب تو آپ پر کام کا بوجھ بہت ہوگا.اس پر حضور نے فرمایا دیگر مصروفیات کے علاوہ صرف خطوط کی اوسط جن کو میں پڑھتا ہوں تین سو سے ایک ہزار روزانہ کی ہے.بعض دفعہ ساری ساری رات احباب کے لئے دعا کرتا ہوں.پہلے آٹھ گھنٹے روزانہ سوتا تھا اب صرف اڑھائی گھنٹے کی روزانہ اوسط ہے.اللہ تعالی طاقت دے دیتا ہے.حضور نے اسلام کے اقتصادی نظام کا کمیونسٹ نظام سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کمیونزم تو صرف ہر شخص کو اس کی ضروریات مہیا کرنے کا وعدہ کرتا ہے لیکن ضروریات کی تعریف نہیں کرتا.اسلام کہتا ہے کہ ہر شخص کو اس کی تمام جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں کی پوری نشوو نما کا پوراحق ہے اور یہ اس پر احسان نہیں اس کا بلکہ اس کا حق ہے اور اسلام یہ حکومت پر پابندی لگاتا ہے کہ وہ اس حق کی حفاظت کرے اور ایسے ذرائع مہیا کرے جس سے ہر فرد کی پوری صلاحیتوں کی پوری نشو و نما ہو.اس پر گورنر جنرل نے کہا کہ اس مسئلہ پر میں نے نہ کبھی اس طرح سوچا اور نہ کبھی کسی نے اس انداز سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی.پھر سیرالیون میں طبی مراکز قائم کرنے کے متعلق گفتگو ہوئی حضور نے فرمایا کہ یہ کام قربانی اور ایثار کے بغیر انجام پذیر نہیں ہوسکتا.یہ ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی.اس کے بعد حضور نے وزیر اعظم سیرالیون سے ملاقات فرمائی.وزیراعظم نے سیرالیون میں جماعت کی خدمات کی تعریف کی.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ ہم تو بحیثیت مسلمان یہ خدمت کر رہے ہیں.ہم اپنے آپ کو شکریے کا ہر گز حقدار نہیں سمجھتے.شام کو حضور نے ایک دعوت استقبالیہ میں شرکت فرمائی.اس دعوت میں احباب جماعت کے علاوہ ملک کے وزیر خارجہ، وزیر زراعت مختلف چیف صاحبان اور سفراء نے شرکت کی.رات کو مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد حضور رات گئے تک احباب کے درمیان مجلس میں تشریف فرما رہے.(۴۳)
113 ے رمئی کو حضور احمد یہ سکینڈری سکول فری ٹاؤن کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے اور طلباء سے خطاب فرمایا.حضور نے دیگر نصائح کے علاوہ فرمایا کہ اب آپ کے خلاف امتیازی سلوک برقرار نہیں رکھا جا سکتا.اگر آپ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں تو یقیناً آپ کامیاب ہوں گے اور دنیا کی لیڈری آپ کے ہاتھ میں ہوگی.تب ان لوگوں سے جنہوں نے آپ لوگوں کو صدیوں اپنے ظلم و تشدد کا نشانہ بنائے رکھا آپ کہہ سکیں گے کہ تم ہمارے ملک کو Exploit کرنے آئے تھے لیکن ہم محبت سکھانے آئے ہیں کیونکہ اسلام کسی سے نفرت نہیں سکھاتا.محبت اور ہمدردی سکھاتا ہے.اگر آپ کو علم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کتنی محبت کرتا ہے، اگر آپ اپنی ذمہ داریاں سمجھ لیں اور ان کے مناسب حال محنت کریں تو آپ ایک دن دنیا کے رہبر بن جائیں گے.افریقہ کی نئی نسل کے کندھوں پر بہت عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ہے.میری دعا ہے کہ آپ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوں.شام کو فری ٹاؤن کے اکابرین اور معززین حضور سے ملاقات کیلئے آئے ، جن میں تین پیراماؤنٹ چیف صاحبان بھی شامل تھے.رات کو آٹھ بجے حضور نے ایک عشائیہ میں شرکت فرمائی جو قائم مقام گورنر جنرل صاحب کی جانب سے دیا گیا تھا.(۴۴) ۸ رمئی کو جمعہ کے روز حضور نے فری ٹاؤن کے علاقہ لیسٹر (Leister) میں ایک نئی مسجد، مسجد نذیر علی کا افتتاح فرمایا.حضور نے مسجد کا دروازہ کھول کر مسجد کا افتتاح فرمایا اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس کا ساتھ ساتھ کر یول (Creole) زبان میں ترجمہ کیا جارہا تھا.حضور نے فرمایا کہ میں آپ میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں.آپ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوفرمایا I shall give you a large party of Islam.حضور نے فرمایا کہ آپ کو یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جماعت احمد یہ کوئی کلب نہیں.ایک کلب یا ایسوسی ایشن اور ایک الہی جماعت میں بہت فرق ہوتا ہے.کسی کلب یا ایسوسی ایشن کی بنیاد باہمی خیر سگالی اور افہام و تفہیم پر ہوتی ہے.اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت اللہ تعالیٰ سے طاقت حاصل کرتی ہے.ہمارے قادر و توانا خدا نے یہ جماعت ایک خاص مقصد کے لئے قائم فرمائی ہے اور سید نا حضرت مہدی علیہ السلام کو ایک خاص مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے.وہ مقصد
114 یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا عرفان حاصل ہو.اس کے بعد حضور نے مساجد کے فلسفہ پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ یہ خدائے واحد کا گھر ہے.جو شخص خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہے، وہ مسلمان ہو یا نہ ہوا سے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے طریق پر فریضہ عبادت ادا کر سکے.اسکے بعد حضور نے دعا کروائی.(۴۵) شام کو سیرالیون میں مسلمانوں کی تنظیم مسلم کانگرس کی طرف سے حضور کے اعزاز میں دعوتِ استقبالیہ دی گئی.جب حضور اس تقریب میں شرکت کے لئے ہال میں داخل ہوئے تو ہر طرف سے اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے بلند ہوئے.تقریب کے آغاز میں مکرم ایم ایس مصطفے پر یذیڈنٹ مسلم کانگرس اور سابق نائب وزیر اعظم سیرالیون نے ایک جذباتی تقریر کی اور پھر مسلم کانگریس کے عبداللہ کول صاحب نے تقریر کی.اس کے بعد حضور نے خطاب فرمایا.حضور نے تقریر کے آغاز میں فرمایا کہ میں یہ محسوس کرتا ہوں جیسے میں اپنے بھائیوں کے درمیان بیٹھا ہوں.میں مسلم کانگریس کے مقررین کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ابھی تقاریر فرمائی ہیں.میں خود کو اس تعریف کے قابل نہیں سمجھتا جو انہوں نے کی ہے.میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب محمد رسول اللہ ﷺ کا ادنی اور حقیر غلام ہوں.آپ نے فرمایا کہ کماسی میں ایک عیسائی دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے.اس نے آپ سے یہاں آتے وقت کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے کیونکہ میں اس کے ادنی ترین خادموں میں سے ہوں.آپ نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ اسلام کا خدا ایک زندہ اور فعال خدا ہے.آپ نے سائنسی مثالوں سے واضح کیا کہ انسانی علم اور خدا کا علم برابر نہیں ہو سکتے.قرآنِ کریم کو اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین بھی قرار دیا ہے اور کتاب مکنون بھی قرار دیا ہے.بظاہر یہ ایک متضاد بیان ہے مگر اس میں کوئی تضاد نہیں.کتاب مبین ہر شخص کی سمجھ کے مطابق اس کے لئے ہدایت کا منبع ہے.کتاب مکنون اس لئے کہ یہ نئے نئے مسائل کا حل بتاتی ہے جو اپنے وقت سے پہلے نظروں سے اوجھل تھے.حضور نے بڑے جلال سے اعلان فرمایا کہ میں آپ سب کو پوری قوت سے بتادینا چاہتا ہوں کہ اسلام کے غلبے کا حسین دن طلوع ہو چکا ہے.دنیا کی کوئی طاقت اس حقیقت کو ٹال نہیں سکتی.یہ تقریر اتنی پر اثر تھی کہ اس کے بعد کئی احباب ایک دوسرے سے چمٹ گئے اور آنکھیں پر نم تھیں.لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد
115 دے رہے تھے.ایک امام صاحب نے احمدی مبلغ کے سامنے اظہار کیا کہ میرے سارے شکوک دور ہو گئے ہیں.اس تقریب کی خبر ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات میں نمایاں طور پر نشر اور شائع کی گئی.باوجود سارے دن کی مصروفیات کے حضور رات کو دیر تک احمدی احباب کے درمیان مجلس میں تشریف فرما ہو کر گفتگو فرماتے رہے.حضور نے فرمایا کہ پاکستان کے ایک اخبار جسارت نے لکھا ہے کہ ہمارے دورہ مغربی افریقہ میں بھی کوئی راز ہے.پھر فرمایا کہ راز یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ اور حضور کے روحانی فرزند جلیل حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی شان کے جلوے دیکھے جائیں.(۴۶) ۹رمئی ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث فری ٹاؤن سے ۱۶۷ میل کے فاصلہ پر بو کے علاقہ میں تشریف لے گئے.تقریباً سات گھنٹے کا سفر کر کے حضور بو پہنچے.بو اور قریب کے علاقوں سے تین چار ہزار کے قریب احباب اور خواتین اس موقع پر جمع تھے.حضور کا استقبال پُر جوش نعروں سے کیا گیا.اس روز گرمی اور شدید جس کی وجہ سے سب کا لباس پسینے سے شرابور ہو رہا تھا.لیکن موسم کی تکلیف کے باوجود حضور نے تقریباً دو گھنٹے تمام احباب سے مصافحہ فرمایا اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نے بھی خواتین سے مصافحہ فرمایا.حضور رات گئے تک احباب کے ساتھ مجلس میں تشریف فرما رہے.اور سابق امیر جماعت احمد یہ سیرالیون مکرم مولا نا بشارت احمد بشیر صاحب سے مشورہ فرمایا اور نقشے پر نشاندہی فرمائی کہ کہاں کہاں پر جماعت کے سکول اور میڈیکل سینٹر موجود ہیں تاکہ نئے ادارے کھولنے کے بارے میں منصوبہ بندی کی جاسکے.اگلے روز حضور نے نماز فجر سکول کے ہال میں ادا کی اور پھر بو میں جماعت کی ایک نئی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.اس سے پہلے بو میں مشن ہاؤس سے ملحق ایک مسجد موجود ہے.اس موقع پر حضور نے مساجد کے متعلق اسلامی تعلیمات اور فلسفہ پر مختصر خطاب فرمایا.شام کو حضور کے اعزاز میں بو کے ٹاؤن ہال میں ایک تقریب منعقد کی گئی.اس میں حضور سٹیج پر جانے کی بجائے احباب میں گھل مل کر ان سے گفتگو فرماتے رہے (۴۷).۱۱ رمئی کو حضور نے احمد یہ سکینڈری سکول بو کا معائنہ فرمایا.حضور نے معائنہ کے بعد طلباء میں انعامات تقسیم فرمائے اور اسلامیات میں اول آنے والے طالب علم کو سکول کے انعام کے علاوہ اپنی طرف سے بھی گرانقدر انعام عطا فر مایا.طلباء سے مختصر خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ آپ کا مستقبل نہایت درخشندہ اور تابناک ہے لیکن یہ پھل قسمت کے درخت سے ٹوٹ کر خود بخود تمہاری جھولیوں میں نہیں گرے گا
116 بلکہ شدید محنت سے تمہیں اس عظیم الشان مقصد کو حاصل کرنا پڑے گا.اسی شام کو جماعت احمد یہ سیرالیون کی طرف سے ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا.اس موقع پر جماعت سیرالیون کے پریذیڈنٹ مکرم چیف گمانگا صاحب نے جماعت سیرالیون کی طرف سے ایڈریس پیش کیا.اس کے جواب میں حضور نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کی آخری اور دائمی فتح اور غلبہ کے لئے آئے لیکن دنیا نے اس آسمانی نور کو بجھانے کے لئے کمرکس لی محمد رسول اللہ ﷺ کے یہ روحانی فرزند طفل حسین کی طرح اللہ تعالیٰ کی گود میں تھا.دنیا کی ساری طاقت اور قوت اس آواز کو خاموش کرنے کی کوشش میں لگ گئی.لیکن یہ آسمانی آواز خاموش نہ کی جا سکی.وہ آواز دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی.اس کے بعد حضور نے انسانیت کو درپیش اہم مسائل کا ذکر فرمایا.یہ مسائل انسانی برابری کا مسئلہ، دولت کی منصفانہ اور دانشمندانہ تقسیم کا مسئلہ اور تعلق باللہ کا مسئلہ ہے.پھر حضور نے بیان فرمایا کہ اسلام ان مسائل کے کیا کیا حل پیش کرتا ہے.مکرم الحاج بونگے صاحب مینڈے زبان میں اور مکرم بنگو را صاحب ثمنی زبان میں حضور کی تقریر کا ترجمہ کر رہے تھے.تقریر کے بعد حضور مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی کے مزار پر دعا کے لئے تشریف لے گئے.مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی اس ملک کے ابتدائی مبلغین میں سے تھے اور انہوں نے یہیں پر وفات پائی تھی.یہ قبر ایک پر فضا مقام پر ہے.آپ نے انتہائی غربت اور بے کسی کی حالت میں یہاں پر تبلیغ کے کام کا آغاز فرمایا تھا.حضور کے دورہ کے وقت اس علاقہ کے ایک پرانے احمدی پاروجر ز صاحب زندہ موجود تھے جنہوں نے مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی کی آمد کا وقت دیکھا ہوا تھا.وہ بیان کرتے تھے کہ جس دن آپ بو میں تشریف لائے تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا.مقامی علماء نے بہت مخالفت کی اور اعلان کیا کہ ان کو رہائش کے لئے کوئی جگہ نہ دی جائے اور ان کا بائیکاٹ کر دیا جائے.کسی نے رات کو انہیں ٹھہرنے کے لئے جگہ نہ دی.بالآخر انہوں نے اپنے ساتھی کو جو ان کی کتابیں اُٹھا کر ساتھ پھرا کرتا تھا کہا کہ چلو Bush میں چلتے ہیں.چنانچہ وہ آبادی سے باہر جنگل میں ایک درخت کے نیچے پھہر گئے.پارو جرز کہتے ہیں مجھے لوگوں کی اس حرکت پر بہت طیش آیا اور میں ان کے پاس چلا آیا.مولانا نذیر احمد صاحب علی زمین پر لیٹے ہوئے تھے.آدھی رات کو جب آپ تہجد کے لئے اُٹھے تو ان کو دمہ کا شدید دورہ پڑ گیا اور یہ دورہ اتنا شدید تھا کہ مجھے لگتا تھا کہ یہ اُن کا آخری وقت ہے.چنانچہ میں نے ان
117 کی تیمارداری کی اور لوگوں کی بدسلوکی پر معذرت کی.اس پر مولانا نذیر احمد صاحب علی نے بڑے یقین کے ساتھ فرمایا.روجر ز صاحب مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے اور میری بات یا درکھو کہ یہاں احمدیت پھیلے گی اور ابھی آپ زندہ ہوں گے کہ لوگ آپ کے پاس آکر منتیں کیا کریں گے.جسے آپ پسند کریں گے رکھیں گے اور جسے چاہیں گے انکار کر دیں گے.پاروجرز آبدیدہ ہو کر بیان کرتے تھے کہ یہ زمانہ میں نے دیکھ لیا.میں احمد یہ سکول کے بورڈ آف گورنرز کا رکن ہوں.بڑے بڑے لوگوں کی سفارش لے کر طلباء احمد یہ سکول میں داخلہ کے لئے آتے ہیں اور بعض دفعہ جگہ نہ ہونے کے باعث انکار کرنا پڑتا ہے.۱۲ مئی کو حضور گوا پس فری ٹاؤن تشریف لے آئے.اس روز حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے قائم مقام گورنر جنرل صاحب کو عشائیہ پر مدعو فرمایا.اس میں ان کے علاوہ سیرالیون کے اعلیٰ حکام مختلف ممالک کے سفراء ، نامور مسلمان زعماء اور چرچ کے قائدین بھی شامل ہوئے.اگلے روز حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اس میں صحافیوں نے مختلف موضوعات پر سوالات کئے.جیسا کہ بعد میں ذکر آئے گا گیمبیا میں قیام کے دوران حضور کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے القا کے نتیجہ میں تحریک پیدا ہوئی تھی کہ جماعت ان چھ ممالک میں طبی اور تعلیمی خدمات کے لئے ایک لاکھ پونڈ کی رقم خرچ کرے، اللہ تعالیٰ اس میں بہت برکت ڈالے گا.چنانچہ حضور نے اس پر یس کا نفرنس میں اس منصوبہ کے خدو خال بیان فرمائے.اور اگلے روز فری ٹاؤن کے اخبار UNITY نے اس منصوبہ کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشادات شائع کئے اور کہا کہ سیرالیون بھی اس منصوبہ سے فائدہ اُٹھائے گا.(۴۸) ۱۳ مئی کو حضرت خلیفہ اسی کا یہ پہلا دور وافریقہ کامیابی اور کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.دورہ کے اختتام پر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے سیرالیون کے امیر ومشنری انچارج مکرم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب کی نوٹ بک پر تحریر فرمایا محبت.ہمدردری غمخواری اور خدمت ہمارا مشن ہے اسی میں ہماری کامیابی ہے اور اسی غرض سے ہم پیدا کئے گئے ہیں.مذکورہ صفات سے ان مظلوموں کے دل جیتیں.اللہ کی رحمت کا قومی ہاتھ آپ کا سہارا بنے.آمین.“ (۴۹)
118 افریقہ کے پہلے دورہ کے اختتام کے بعد حضور ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم کے لئے روانہ ہوئے.سیرالیون کے مبلغین کرام ، عہدیداران جماعت ، دیگر احباب اور اعلیٰ سرکاری حکام نے حضور کو الوداع کیا.یہ دورہ تاریخ احمدیت میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے.اس کے بہت بابرکت نتائج نکلے اور افریقہ میں جماعت کی تبلیغی تعلیمی اور طبی خدمات ایک نئے دور میں داخل ہوئیں.(۱) الفضل ۹ ر ا پریل ۱۹۷۰ ء ص ۳، ۴ (۲) الفضل ۷ را پریل ۱۹۷۰ء ص اول و آخر (۳) الفضل ۱۴ / اپریل ۱۹۷۰ء ص ۷ (۴) الفضل ۲۵ / اپریل ۱۹۷۰ ص ۳ (۵) الفضل ۲۵ / اپریل ۱۹۷۰ ص ۳ (۶) الفضل ۱۵ اراپریل ۱۹۷۰ ص ۱ (2) The Sunday Times (Nigeria), 12 April (^) IN 192+1519 (9)The Truth, April 17,1970p8 (۱۰) الفضل ۱۶ اپریل ۱۹۷۰ ص ۱ (۱۱) الفضل ۲۶ ر ا پریل ۱۹۷۰ ء ص ۳ (۱۲)The Truth, April 24 ,1970 p1 ( ۱۳ )الفضل ۱۷ارا پریل ۱۹۷۰ ص ۱ Morning Post(Nigeria) 14 April 1970(14) New Nigerian, 15 April 1970 (I) (۱۶) مسودہ تقریر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ریکارڈ وکالت تبشیر ربوه (۱۷) ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ خلیفة (۱۸) الفضل مئی ۱۹۷۰ء ص ۳ (۱۹)1 The Guidance,May& July 1970p (۲۰) الفضل ۲۱ /اپریل ۱۹۷۰ ص ۱ (۲۱) الفضل ۱/۲۲اپریل ۱۹۷۰ ص ۱ (۲۲) افضل ۹ رجون ۱۹۷۰ ص ۱۲ و ۱۳ (۲۳) الفضل ۲۴ اپریل ۱۹۷۰ ص ۱ (۲۴) الفضل ۲۵ را پریل ۱۹۷۰ ص ۱ ۱ (۲۵)The Guidance, May July 1970 p3 (۲۶) الفضل ۱۶ مئی ۱۹۷۰ ء ص ۳ (۲۷) الفضل ۲۵ / اپریل ۱۹۷۰ ص ص اول و آخر (۲۸) الفضل ۷ ارمئی ۱۹۷۰ ص ۳ تا ۵ (۲۹) الفضل ۱۹ مئی ۱۹۷۰ء ص ۳، ۴ (۳۰) الفضل ۲۲ مئی ۱۹۷۰ ء ص ۳ تا ۵ (۳۱) الفضل ۲۳ رمئی ۱۹۷۰ء ص ۳ تا ۵ (۳۲) الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۰ ص ۹ (۳۳) الفضل ۲۴ مئی ۱۹۷۰ ص ۳ (۳۴) الفضل ۹ر جون ۱۹۷۰ء ص ۱۲، ۱۳ (۳۵) یکم مئی ۱۹۷۰ ء ص ۱ (۳۶) الفضل ۵ رمئی ۱۹۷۰ ء ص ۱ (۳۷) الفضل ۲۶ مئی ۱۹۷۰ء ص ۳ تا ۵ (۳۸) الفضل ۲۷ رمئی ۱۹۷۰ ء ص ۲ تا ۴ (۳۹)Daily Times, 19 Feb 1970 P1
119 (40 Daily Mail, May 5 1970 p4(۴۱)Unity, May 5 1970 P(۴۲) الفضل ۲۸ مئی ۱۹۷۰ء ص ۵ و ۶ (۴۳) الفضل ۲۹ رمئی ۱۹۷۰ ص ۳، ۴ (۴۴) الفضل ۳۰ مئی ۱۹۷۰ ص ۳ تا ۵ (۴۵) الفضل ۳۱ مئی ۱۹۷۰ء ص ۳، ۴ (۴۶) الفضل ۲ جون ۱۹۷۰ ء ص ۳ تا ۵ (۴۷) الفضل ۴ رجون ۱۹۷۰ء ص ۳ تا ۵ (۴۸)1970 14 UNITY, May (۴۹) تحریری روایت مکرم مولا ناصدیق گورداسپوری صاحب
120 مجلس نصرت جہاں کا قیام حضرت خلیفہ المسح الثالث کا پہلا دورہ افریقہ بہت کی وجوہ کی بناپر نہایت اہم تھا ور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بہت سے بابرکت اور تاریخ ساز نتائج نکلے.ایک تو یہ پہلا موقع تھا کہ خلیفہ وقت نے اس بر اعظم کا دورہ کیا اور وہاں کے احمدیوں نے اور دوسرے احباب نے حضور سے ملاقات کی اور برکت حاصل کی.اور حضور نے براہ راست حالات کا جائزہ لیا اور وہاں پر اسلام کی تبلیغ کے لئے مبلغین اور مقامی جماعتوں کی راہ نمائی فرمائی ، خلیفہ وقت کی موجودگی ان ممالک کے احمدیوں کی تربیت کا سبب بنی اور حضور نے طبی اور تعلیمی میدان میں اہل افریقہ کی خدمت کی ضرورت کا از خود جائزہ لیا اور آپ کے ارشادات کے ماتحت اس اہم کام کے لئے منصوبہ بندی کے کام کا آغاز کیا گیا.جیسا کہ پہلے یہ ذکر آچکا ہے کئی سالوں سے یہاں پر جماعت احمد یہ طبی اور تعلیمی خدمات سرانجام دے رہی تھی لیکن اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اس مہم کو وسعت دی جائے.چنانچہ حضور نے نائیجیریا میں ایک کمیٹی قائم فرمائی تھی کہ وہ حضور کی ہدایات کی روشنی میں نئے طبی اور تعلیمی ادارے کھولنے کے لئے منصوبہ بنائے.اسی طرح غانا ، گیمبیا اور سیرالیون میں بھی حضور نے مختلف احباب سے مشورہ فرمایا اور مختلف سربراہان مملکت سے ملاقاتوں کے دوران بھی جماعت کی طبی اور تعلیمی خدمات پر گفتگو ہوئی اور ان سربراہان نے جماعت کی خدمات پر شکر یہ کا اظہار کیا.اور بہت سے غیر از جماعت معززین نے بھی درخواست کی کہ جماعت احمدیہ ان کے علاقوں میں بھی میڈیکل سینٹر اور سکول کھولے.جماعت احمد یہ ہر میدان میں خدمت کے جذبے سے کام کرتی ہے لیکن جماعت کے محدود مالی وسائل ہیں.احمدیوں کی اکثریت غربا پر مشتمل ہے جو اپنی قلیل آمد میں سے مسلسل مالی قربانی کرتے ہیں اور نئے میڈیکل سینٹر اور سکول کھولنے کے لئے کافی سرمایہ کی ضرورت تھی.جب حضور گیمبیا کے دورہ پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے دل میں ڈالا گیا کہ اب وقت ہے کہ ان ممالک میں کم از کم ایک لاکھ پونڈ خرچ کئے جائیں ، اللہ تعالیٰ ان
121 میں بہت برکت ڈالے گا.چنانچہ حضرت خلیفہ اتبع التالق فرماتے ہیں.مننا وو گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے (میرے اپنے پروگرام نہیں رہنے دیئے بلکہ ) بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ یہ وقت ہے کہ تم کم سے کم ایک لاکھ پاؤنڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا اور بہت بڑے اور اچھے نتا ئج نکلیں گے.خیر میں بڑا خوش ہوا پہلے اپنا پروگرام اور منصوبہ تھا اب اللہ تعالیٰ نے منصوبہ بنا دیا.گیمبیا چھوٹا سا ملک ہے میرے آنے کے بعد مولویوں نے بڑی مخالفت شروع کر دی ہے اور میں بہت خوش ہوں کیونکہ اس آگ میں سے تو ہم نے بہر حال گزرنا ہے.ہمارے لئے یہ پیشگوئی ہے کہ آگ تمہارے لئے ضرور جلائی جائے گی جو الہام ہے نہ کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے.اس میں دو پیشگوئیاں ہیں ایک یہ کہ تمہیں راکھ کرنے کے لئے آگ جلائی جائے گی اور دوسری یہ کہ وہ آگ تمہیں راکھ نہیں کر سکے گی بلکہ فائدہ پہنچانے والی ہوگی.‘(۱) حضرت خلیفہ امسیح الثالث افریقہ کا دورہ مکمل فرما کر انگلستان پہنچے اور پھر وہاں آٹھ روز قیام فرمانے کے بعد پین تشریف لے گئے اور وہاں ایک ہفتہ قیام پذیر رہے اور پھر لندن واپس تشریف لے آئے.حضور نے انگلستان میں قیام کے دوران جماعت کی طبی اور تعلیمی خدمات کو آگے بڑھانے کے لئے کام شروع فرما دیا.آپ نے لندن میں احباب جماعت سے ذکر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ ماء معلوم ہوا ہے کہ ان چھ افریقی ممالک میں تم کم از کم ایک لاکھ پونڈ خرچ کرو.حضور نے تحریک فرمائی کہ دوسو ایسے احباب سامنے آئیں جو دوسو، دوسو پونڈ فی کس اس تحریک میں چندہ دیں اور دوسو مخلصین ایک ایک سو پونڈ چندہ دیں اور جو باقی ہیں وہ ۳۶ پونڈ فی کس ادا کریں.اس رقم کی مکمل ادائیگی تین سال میں ہونی تھی.حضور نے بچوں کو بھی تحریک فرمائی کہ وہ اس با برکت تحریک میں اپنی استعداد کے مطابق حصہ لیں.ان کو یہ تحریک کی گئی کہ وہ تین سال میں ایک پونڈ ماہوار کے حساب سے چندہ دیں لیکن اس میں سے بارہ پونڈ فوری طور پر ادا کریں.حضور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ پیشتر اس کے کہ حضور انگلستان سے روانہ ہوں اس مد میں دس ہزار پونڈ کی رقم جمع ہو جانی چاہئے.پھر حضور نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ یہ للہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ ہم یہ رقم خرچ کریں اور ہسپتالوں اور
122 لمولوں کے لئے جتنے ڈاکٹر اور ٹیچر چاہیں وہاں مہیا کریں.آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ یہ رقم آئے گی یا نہیں یا آئے گی تو کیسے آئے گی.یہ مجھے یقین ہے کہ ضرور آئے گی.اور نہ یہ خوف ہے کہ کام کرنے کے لئے آدمی ملیں گے یا نہیں ملیں گے.یہ ضرور ملیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ کام کرو.خدا کہتا ہے تو یہ اس کا کام ہے لیکن جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی فکر ہونی چاہیئے وہ یہ ہے کہ محض خدا کے حضور قربانی دے دینا کسی کام نہیں آتا جب تک اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول نہ کر لے.لاکھوں لاکھ قربانیاں حضرت آدم سے اس وقت تک رد کی گئیں ، جن کا ذکر مختلف احادیث میں موجود ہے.پس مجھے یہ فکر ہے اور آپ کو بھی یہ فکر کرنی چاہئے.اس لئے دعائیں کرو اور کرتے رہو کہ اے خدا ہم تیرے عاجز بندے تیرے حضور یہ حقیر قربانیاں پیش کر رہے ہیں تو اپنے فضل اور رحم سے ان قربانیوں کو قبول فرما اور تو ہمیں اپنی رضا کی جنت میں داخل فرما سعی مشکور ہو ہماری وہ سعی نہ ہو جو ہمارے منہ پر مار دی جائے.حضور نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرے انگلستان سے رخصت ہونے سے قبل ہی دس ہزار پونڈ کی رقم جمع ہو جانی چاہئے.وقت کی کمی کے باعث جماعت کے مبلغ امام صاحب مسجد فضل لنڈن نے عرض کی کہ ابھی یہ رقم جمع نہیں ہوئی.اگر کچھ وقت مل جائے تو میں دورہ کر کے تحریک کروں گا.اس پر حضور ہنس پڑے اور فرمایا کہ ایک دن کی مہلت بھی نہیں دوں گا اور رقم جمع ہو جائے گی.اور فرمایا کہ میں بھی دعا کرتا ہوں اور آپ بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ ہماری اس قربانی کو قبول فرمائے.جمعہ میں جب پہلی مرتبہ مسجد میں اعلان کیا گیا تو اسی وقت سترہ ہزار پونڈ کے وعدے ہو گئے.مکرم حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے عرض کی کہ بہت سے لوگ جنہوں نے لندن کے باہر سے آنا تھا وہ اس لئے نہیں آسکے کہ یہ کام کا دن تھا.اتوار کو بہت سے نئے لوگ شامل ہوں گے ،اس لئے آپ اتوار کو خطاب فرمائیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اتوار کے روز بھی خطاب فرمایا اور مزید دس ہزار پونڈ کے وعدے ہو گئے.جب حضور پین سے واپس لندن پہنچے تو ساڑھے دس ہزار پونڈ کی رقم عملاً جمع ہو چکی تھی.اور جب حضرت خلیفہ امسیح الثالث پاکستان واپس تشریف لے گئے تو برطانیہ کی جماعت کی طرف سے چالیس ہزار پونڈ کے وعدے کئے جاچکے تھے.(۲) دوسرا اہم مسئلہ اس تحریک کے لئے وقف کرنے والوں کی ضرورت کا تھا.بعض احمدی ڈاکٹر
123 انگلستان میں پریکٹس کر رہے تھے.حضور نے انہیں ارشاد فرمایا کہ مجھے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.تم اخلاص، محبت اور ہمدردی سے میری آواز پر لبیک کہو.لیکن اگر تم رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش نہیں کرو گے تو میں تمہیں حکم کروں گا اور میر احکم بہر حال ماننا پڑے گا.کیونکہ حکم عدولی تو وہی کرے گا جو احمدیت کو چھوڑنے کو تیار ہوگا.اور جو احمدیت سے نکل جائے اس کی نہ مجھے ضرورت ہے اور نہ میرے اللہ کو.اس پر بہت سے احباب نے اخلاص سے اپنی خدمات پیش کیں.(۳) پاکستان واپسی اور ربوہ میں استقبال حضرت خلیفہ المسیح الثالث اس تاریخی دورہ کے اختتام پر لندن سے کراچی پہنچے اور لاہور سے ہوتے ہوئے ۸ / جون ۱۹۷۰ء کو بخیر و عافیت ربوہ واپس پہنچے.گوا بھی مرکز میں با قاعدہ طور پر اس سکیم کا اعلان نہیں ہوا تھا لیکن جو ڈاکٹر صاحبان حضور سے ملاقات کے لیے آتے حضور انہیں وقف کر کے افریقہ جانے کی تلقین فرماتے.جب حضور لاہور کے ایئر پورٹ پہنچے تو ان کے استقبال کے لیے مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب اور آپ کے صاحبزادے مکرم سید تا ثیر مجتبی صاحب بھی حاضر تھے.حضور نے ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر ارشاد فرمایا وہاں افریقہ میں آپ کی ضرورت ہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس کے بعد مکرم ڈاکٹر غلام مجتبی صاحب ۱۹۷۱ء میں وقف کر کے غا نا گئے اور ایک طویل عرصہ وہاں پر خدمت کی اور پھر آپ کے بعد مکرم ڈاکٹر تاثیر مجتبی صاحب نے بھی غانا میں ایک طویل عرصہ خدمت کی توفیق پائی.چونکہ پاکستان بالخصوص پنجاب میں جون کا مہینہ شدید گرمی کا مہینہ ہوتا ہے.اس لئے جب حضور کراچی پہنچے اور ابھی وہاں سے ربوہ پہنچنا تھا تو حضور نے احباب جماعت کی تکلیف کا احساس کرتے ہوئے کراچی سے امیر صاحب مقامی مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو فون پر یہ پیغام بھجوایا کہ چونکہ شدید گرمی کا موسم ہے اور دھوپ بھی آجکل بہت تیز ہے اس لئے استقبال کے وقت احباب کو سڑکوں کے کنارے دھوپ میں نہ کھڑا ہونے دیا جائے.دوسری طرف بڑی تعداد میں دوست حضور کے استقبال کی سعادت حاصل کرنے کے لئے جمع ہورہے تھے اور تمام راستوں پر شامیانے لگواناممکن نہ تھا، اس لئے مکرم امیر صاحب مقامی کی ہدایت کے مطابق یہ کام کیا گیا کہ آٹھ مقامات پر بڑے
124 بڑے شامیانے لگوا دئیے گئے اور دوستوں کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ ان شامیانوں کے نیچے یا درختوں کے سایہ میں کھڑے ہوں تا کہ دھوپ کی شدت سے محفوظ رہ سکیں.اس روز ربوہ کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا.نہ صرف ربوہ بلکہ اردگرد کے اضلاع سے ہزاروں احباب حضور کے استقبال کے لئے جمع تھے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی گاڑی ربوہ کی حدود میں داخل ہوئی تو فضا پُر جوش نعروں سے گونج اُٹھی.حضور کی گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی اور دوست اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے.آخر گاڑی مسجد مبارک کے قریب اس جگہ پر آکر رکی.یہاں پر سب سے پہلے امیر مقامی مکرم صاحبزادہ مرزا امنصور احمد صاحب نے حضور کو پھولوں کا ہار پہنایا اور پھر باقی بزرگان اور جماعتی عہدیداران نے حضور کا استقبال کیا اور شرف مصافحہ حاصل کیا.(۴) پاکستان میں نصرت جہاں سکیم کا اعلان اپنی آمد کے بعد ۱۲ جون ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مسجد مبارک میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور اسی خطبہ میں پاکستان میں نصرت جہاں سکیم کے لئے تحریک فرمائی.حضور نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق پاکستان کے لئے ایک سکیم بنائی ہے.اور فرمایا کہ پاکستان میں فارن ایکھینچ کی تنگی رہتی ہے اور ہمیں باہر بھیجنے کے لئے روپیہ نہیں ملتا.ہمیں یہاں پر قربانیاں دینی پڑیں گی اور خدا ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ روپیہ بھجوانے کے لئے انشاء اللہ سہولت پیدا ہو جائے گی.حضور نے تحریک فرمائی کہ مجھے پاکستان میں دوسوا ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو اس سکیم میں پانچ ہزار روپیہ فی کس دیں.اور ہر وعدہ کنندہ اس میں سے دو ہزار روپے نومبر تک ادا کر دے.اور باقی تین ہزار روپیہ اگلے تین سال میں ادا کر دیے جائیں.اور دوسو ایسے خلصین کی ضرورت ہے جو دو دو ہزار روپیہ ادا کرنے کا وعدہ کریں اور اس میں سے ایک ہزار روپیہ نومبر تک ادا کر دیں اور دو ہزار ایسے دوست سامنے آئیں جو پانچ پانچ سو روپیہ ادا کریں اور اس میں سے دوسوروپیہ نومبر تک پیش کر دیں.اور باقی رقم تین سال میں ادا کریں.اور جو اس سے کم دینا چاہیں تو ان سے وعدہ نہیں لیا جائے گا وہ جتنا چندہ ادا کر سکتے ہیں اس مد میں جمع کرا دیں.(۵)
125 مجلس نصرت جہاں کے انتظامی ڈھانچے کا قیام مجلس نصرت جہاں کے مقاصد صرف چندہ جمع کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتے تھے.اس کے لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ بڑی تعداد میں ڈاکٹر صاحبان اور اساتذہ آگے آکر اپنی زندگیاں وقف کے لئے پیش کریں اور مغربی افریقہ جا کر وہاں کے لوگوں کی بے لوث خدمت کریں.اور ان اہم امور کو چلانے کے لئے ایک انتظامی ڈھانچے کی بھی شدید ضرورت تھی جو مستقل بنیادوں پر مغربی افریقہ میں جماعت کے طبی اور تعلیمی اداروں کو چلائے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے تقریباً دوماہ کے بعد نائب وکیل المال مکرم سمیع اللہ سیال صاحب کو ارشادفرمایا کہ جو چندے اب تک ہمارے پاس آئے ہیں ان کا ریکارڈ ہم آپ کو دیتے ہیں.آئندہ سے آپ نصرت جہاں ریز روفنڈ کے انچارج ہوں گے.اس کے بعد مکرم سمیع اللہ سیال صاحب نے نصرت جہاں ریز روفنڈ کے سیکریٹری کی حیثیت سے کام شروع کیا.کچھ عرصہ بعد مکرم چوہدری عبد الشکور صاحب سابق مبلغ لائبیریا بھی ان کے ساتھ اس کام میں شامل ہو گئے.اور تقریباً ایک سال کے بعد ریز روفنڈ کا کام مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان کے سپرد ہو گیا.(۶) پاکستان میں اس سکیم کے لئے وعدہ جات اور چندہ کے حصول کا کام تیزی سے شروع ہو گیا.اور ۷ار جولائی ۱۹۷۰ ء تک پاکستان کی جماعتوں سے ہیں لاکھ کے وعدے وصول ہو چکے تھے اور اس قلیل مدت میں مرکز میں اڑھائی لاکھ روپیہ نقد وصول ہو چکا تھا.(۷) مجلس نصرت جہاں کا قیام مغربی افریقہ میں نئے میڈیکل سینٹر اور سکول کھولنے اور ان کو چلانے کے لئے مجلس نصرت جہاں کے نام سے ایک نئی مجلس قائم کی گئی.مکرم مولا نا محمد اسماعیل منیر صاحب کو اس مجلس کا پہلا سیکر یٹری مقرر کیا گیا.اور حضور نے ارشاد فرمایا کہ وکیل التبشیر مجلس نصرت جہاں کی کمیٹی کے صدر ہوں گے اور مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے اس کے پہلے صدر کی حیثیت سے کام شروع کیا.جماعت کے سینئر مبلغ مکرم مولا نانسیم سیفی صاحب اس کے نائب صدر مقرر کیے گئے اور مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر، مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب اس کمیٹی کے ممبران مقرر ہوئے.پہلے مجلس نصرت جہاں کا دفتر وکالت تبشیر میں تھا اور یکم اکتوبر
126 ۱۹۷۰ء کو جلس نصرت جہاں کا دفتر دفتر پرائیویٹ سیکر یٹری میں منتقل کر دیا گیا.اپنے ابتدائی سالوں میں یہ مجلس براہ راست حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی زیر نگرانی کام کرتی رہی.جولائی ۱۹۷۰ ء تک انچاس (۴۹) اسا تذہ اور گیارہ (۱۱) ڈاکٹروں نے اس سکیم کے تحت وقف کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کی تھیں.مگر اور بہت سے اساتذہ اور ڈاکٹروں کی ضرورت تھی.اس سکیم کے اجراء کے وقت ہی حضور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ مغربی افریقہ کے ان چھ ممالک میں جماعت کو میں میڈیکل سینٹر قائم کرنے چاہئیں اور ان کو چلانے کے لئے تھیں ڈاکٹروں کی ضرورت تھی.اساتذہ کی ضرورت کے متعلق بھی یہ تخمینہ لگایا گیا تھا کہ سر دست ستر اسی ایم اے، ایم ایس سی اساتذہ اور میں چالیس بی اے، بی ایس سی ٹرینڈ اساتذہ درکار ہوں گے.ایک ڈاکٹر ز کمیٹی بھی قائم کی گئی مکرم کرنل ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب اس کے صدر اور مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اس کے سیکریٹری مقرر ہوئے.اس سکیم میں حضور کے ارشاد کے تحت پہلی ترجیح میڈیکل سینٹروں کا قیام اور دوسری ترجیح سکولوں کا قیام رکھی گئی.لیکن حضور کا منشاء یہ تھا کہ بالآخر دونوں میدانوں میں متوازی ترقی ہو.جیسا کہ حضور نے ۲۶ جون کے خطبہ جمعہ میں گیمبیا کے حوالے سے ارشاد فرمایا : اور میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر گیمبیا میں مثلاً چار ہیلتھ سینٹر کھل جائیں تو ہم وہاں ہر سال ایک نیا ہائی سکول کھول سکتے ہیں.ہم نے ان دونوں میدانوں میں متوازی طور پر بڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے لیکن وہاں پہلے طبی امداد کے مراکز کھلنے چاہئیں.دوست اپنے نام پیش کریں اور محمد اسمعیل صاحب منیر جو متعلقہ کمیٹی کے سیکرٹری مقرر کیے گئے ہیں وہ مطلوبہ کوائف کے متعلق اخبار میں اعلان کرائیں اور بار بار اعلان کرا ئیں.میرے خیال میں ہمارے احمدی ڈاکٹروں کی ایک مجلس بھی ہے اس کی میٹنگ بھی بلائیں اور پھر انہی کے سپر د کر دیں کہ سب کے کوائف کو مد نظر رکھ کر منتخب کریں کہ کون زیادہ موزوں ہے؟ (۸) یہ بات بھی بہت اہم تھی کہ جو ڈاکٹر وہاں جائیں انہیں احساس دلایا جائے کہ وہ ایک عام ڈاکٹر کی حیثیت سے وہاں نہیں جار ہے بلکہ جماعت احمدیہ کے مشنری ڈاکٹر کی حیثیت سے وہاں جارہے ہیں اور انہیں اس کے لئے مطلوبہ اعلیٰ معیار حاصل کرنا ہو گا.۳۰ اگست ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے احمدی ڈاکٹروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا جو مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ
127 ڈاکٹر بڑا مخلص ہونا چاہئے اور بڑا دعا گو ہونا چاہئے کیونکہ اس وقت ہمارا عیسائیوں سے سخت مقابلہ ہے وہ بہت پیسہ خرچ کرتے ہیں.جو چیز بڑی ضروری ہے وہ اخلاص ہے اور عادتِ دعا ہے اس کے بغیر تو ہمارا ڈاکٹر وہاں کام نہیں کر سکتا.اگر ڈاکٹر میں اخلاص نہیں ہوگا، تو وہ ہمارے لیے پرابلم بن جائے گا اگر وہ دعا گو نہیں ہوگا تو وہ اپنے مریض کے لیے پرابلم بن جائے گا.حضور نے ارشاد فرمایا کہ اس سکیم کے تحت ڈاکٹر صاحبان کے لیے ضروری نہیں کہ وہ پوری زندگی کے لیے وقف کریں.انہیں اختیار ہوگا کہ تین سے چھ سال کے لیے وقف کریں اور اگر چھ سال کے لیے وقف کریں تو یہ بہتر ہے اور عمومی طور پر اگر ساری عمر کا وقف کریں تو زیادہ موجب ثواب ہے.اور جماعت کے نئے میڈیکل سینٹروں کے لیے حضور نے یہ اصولی ہدایت دی کہ ایسی کوئی سکیم نہ بنائیں کہ ہمارے کندھے اس کا بوجھ نہ برداشت نہ کر سکیں.اور اس ضمن میں کا عور ( گیمبیا) میں کام کرنے کیلئے مکرم ڈاکٹر سعید صاحب کا ذکر فرمایا کہ انہیں کلینک کی ابتدا کے لیے پانچ سو پونڈ دیئے گئے تھے اور بعد میں جب کلینک نے ترقی کی تو اس کو وسعت دے دی گئی تھی.حضور نے فرمایا کہ ہمارے میڈیکل سینٹر کا جو ڈاکٹر ہے لوگ اسے مبلغ بھی سمجھتے ہیں.اس لیے آپ کو وہاں جانے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں اچھی طرح پڑھنی ہوں گی.مغربی افریقہ کے جن چھ ممالک میں مجلس نصرت جہاں نے کام کرنا تھا، انہیں بھی مرکز کی طرف سے یہ ہدایت بھجوائی گئی کہ وہ طبی ادارے اور سکول قائم کرنے کے لئے اپنے ممالک میں سکیمیں تیار کر کے مرکز بھجوائیں.اور یہ بھی مسئلہ تھا کہ جو چندہ اس سکیم کے لئے جمع ہو گا اسے کس طرح استعمال کیا جائے.ابھی چندہ جمع کرنے کا کام شروع ہوا تھا اور پوری رقم بھی جمع نہیں ہوئی تھی.اور یہ بات بھی ظاہر تھی کہ اگر جماعت کو تسلسل کے ساتھ ان چھ ممالک میں ہسپتال اور سکول کھولنے ہیں تو ہر سال خاطر خواہ رقم نئے اداروں کے قیام اور تعمیر پر خرچ کرنی پڑے گی.اور مجلس نصرت جہاں کا چندہ کوئی مستقل چندہ تو نہیں تھا.تین سال کے بعد اس میں وصولی ختم ہو جانی تھی.اس سے کچھ سال قبل فضل عمر فاؤنڈیشن کا چندہ بھی محدود مدت کے لئے جمع کیا گیا تھا.اور فضل عمر فاؤنڈیشن کے مقاصد کی تکمیل کے لئے اس رقم کو کاروبار میں لگا دیا گیا تھا اور جو آمد ہوتی تھی اسے مختلف پراجیکٹوں پر خرچ کیا جاتا تھا.جب نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کا چندہ جمع ہونا شروع ہوا تو بہت سے بزرگان نے
128 حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کو مشورہ دیا کہ اگر اس رقم کو براہِ راست نئے ہسپتال اور اسکول بنانے کے لئے استعمال کیا گیا تو یہ رقم تو ختم ہو جائے گی ، پھر اس کے بعد کام کیسے چلایا جائے گا.اس لئے مناسب یہی ہے کہ اس رقم کو کاروبار پر لگا دیا جائے اور جو آمد ہو وہ ہسپتالوں اور سکولوں پر خرچ کی جائے.مگر حضور نے جواب دیا کہ میں تو اس ہستی سے کاروبار کروں گا جو بے حساب عطا کرتی ہے.اور اس رقم کو براہِ راست نئے منصوبوں پر لگانا شروع کر دیا.اللہ تعالیٰ نے اس فیصلہ میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ باوجود جماعت کے ہسپتالوں میں غریبوں کی ایک بڑی تعداد کا مفت علاج کیا جاتا تھا اور یہ ہسپتال زیادہ تر غریب علاقوں میں قائم کئے گئے تھے مگر پھر بھی دور دور سے صاحب حیثیت لوگ بھی ان ہسپتالوں کی شہرت سن کر علاج کے لئے آنے لگے اور یہ لوگ آمد کا ذریعہ بن گئے.یہ آمد ا نہی ممالک کے غربا پر اور انہی ممالک میں قائم کردہ سکولوں پر اور نئے ہسپتالوں کو بنانے اور ان کو وسعت دینے اور نئی طبی سہولیات مہیا کرنے پر اور دیگر کاموں پر خرچ کی جانے لگی.۱۹۷۰ ء کے وسط میں اس سکیم کا آغاز ہوا تھا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ دسمبر ۱۹۷۲ ء تک نئے منصوبوں اور ریز روفنڈ میں موجود مالی وسائل کی پوزیشن کیا تھی.اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے ۱۹۷۲ء کے جلسہ سالانہ میں ارشاد فرمایا: ۱۹۷۰ء میں میں نے مغربی افریقہ کا دورہ کیا.میں گیمبیا میں تھا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ کہا گہا کہ کم از کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں اشاعت اسلام کی مہم کو تیز کرنے کے لیے خرچ کرو.میں بڑا خوش ہوا.اور اللہ تعالیٰ کی بڑی حمد کی.اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گیا کہ اس نے بڑی مہربانی کی ہے..اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرما کر ہم پر کیا کیا فضل نازل فرمائے.مخلصین پاکستان اس وقت تک نصرت جہاں ریزروفنڈ میں ستائیس لاکھ ہیں ہزار تین سونوے روپے کے وعدے کر چکے ہیں.جب کہ بیرونِ پاکستان وعدے پاکستانی سکہ میں اکتیس لاکھ بیس ہزار آٹھ سوروپے ہیں.یعنی بیرونی ممالک مجموعی طور پر پاکستان سے آگے نکل گئے ہیں.اس رقم میں ابھی وہ زائد وعدے جو انگلستان میں دوستوں نے کیے ہیں وہ شامل نہیں.اس طرح کل وعدے ۵۸ لاکھ سے اوپر جاچکے ہیں.میں نے
129 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت کے پیش نظر ۵۱ لاکھ کی خواہش کی تھی.مگر اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بڑی ہمت عطا فرمائی.دوستوں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا چنانچہ ا۵ لاکھ کی بجائے ۵۸ لاکھ کے وعدے ہو چکے ہیں.اس تحریک میں حصہ لینے والے ۳۲۸۲ پاکستان سے اور بیرونی ممالک میں حصہ لینے والے ۲۰۱۱ دوست ہیں.پندرہ دسمبر ۱۹۷۲ ء تک وصولی کا نقشہ حسب ذیل ہے.پاکستان میں ۱۷۷۸۸۳۴ روپے یعنی قریباً اٹھارہ لاکھ روپیہ وصول ہو چکا ہے بیرون پاکستان میں پندرہ لاکھ روپیہ جمع ہو چکے ہیں.اندرونِ اور بیرونِ پاکستان کی مجموعی رقم جو وصول ہو چکی ہے ۳۲۶۷۴۴۸ روپے بنتی ہے.ابھی وصولی کا زمانہ ختم نہیں ہوا.جتنی رقم فضل عمر فاؤنڈیشن میں جماعت نے دی تھی.اس سے زاید رقم جمع ہو چکی ہے یعنی فضل عمر فاؤنڈیشن کی جو نقد رقم وصول ہوئی تھی وہ ۳۰۷۷۵۸۰ روپے تھی.جب کہ نصرت جہاں ریز روفنڈ کی وصولی ۳۲لاکھ سے زیادہ ہے.الحمد للہ علی ذلک.سورۃ فاطر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَبَ اللهِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُوْرَةٌ لِيُوَفِّيَهُمُ أَجُوْرَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورُ (فاطر: ۳۱،۳۰) اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ مومن خدائی راہ میں اپنے اموال خرچ کر کے گویا اللہ تعالیٰ سے ایسی تجارت کرتے ہیں جن میں نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بہت زیادہ نفع بھی دیتا ہے.چنانچہ جماعت نے جو رقم دی وہ بھی گو اللہ تعالیٰ سے تجارت کے مترادف ہے.لیکن جب وہ رقم ہمارے پاس آئی تو میں نے سوچا کہ اس رقم سے بندوں سے تجارت کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے تجارت کی جائے.یعنی انفرادی حیثیت میں بھی وہ ایک تجارت ہے.قرآن کریم نے بھی اس کا نام تجارت رکھا ہے.اور یہ ایک ایسی تجارت ہے جس میں پیسے کے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے.نفع کی بعض شکلیں ہیں جن کا ضائع ہونے کا تو کوئی خطرہ نہیں لیکن جن کے جائز ہونے کا کوئی سوال
130 نہیں ہے.لیکن جو تجارت ہے اس میں دونوں چیزیں ساتھ لگی ہوئی ہیں.اس میں نفع بھی ملتا ہے اور بعض دفعہ نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے.پیسے بھی ضائع ہو جاتے ہیں.یعنی سرمایہ بھی جاتا رہتا ہے.لیکن روحانی دنیا میں انسان اللہ تعالیٰ سے ایسی تجارت کرتا ہے جس میں لَنْ تَبُورَ کی رو سے گھاٹا نہیں پڑتا.جس میں پیسے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا اس کے علاوہ جو عام نفع ہے وہ بھی ملتا ہے.پس فرمایا لِيُوَفِّيَهُمْ أَجُورَهُمْ یعنی عام معمول کے مطابق جو نفع ہوتا ہے وہ بھی تمہیں اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا.لیکن وہ اسی پر بس نہیں کرے گا.دنیا میں dividend دینے والی جو کمپنیاں ہیں وہ کوئی پانچ فیصدی کوئی آٹھ فیصدی کوئی دس فیصدی کوئی بارہ فیصدی یا زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصدی نفع دینے کا اعلان کرتی ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے فرمایا.یہ بھی میں دوں گا.اس کے علاوہ جو بندوں کا معمول نہیں اور جو نفع دینے کا میرا معمول ہے وہ بھی میں دوں گا.اگر تمہارا اخلاص غیر معمولی اخلاص ہوگا تو میری طرف سے تمہارے اموال میں غیر معمولی زیادتی بھی ہوگی.میں تمہیں بہت زیادہ مال دوں گا.پس اس آیت کا میرے دماغ پر اثر تھا.چنانچہ جب یہ رقمیں جمع ہونی شروع ہوئیں تو ایک موقع پر مکرم و محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے میرے پاس آکر بڑے اخلاص سے اور بڑے پیار سے اور بڑے اصرار کے ساتھ یہ کہا کہ آپ کے پاس نصرت جہاں ریز روفنڈ کی جو رقم آرہی ہے.یہ آپ خرچ کر دیں گے تو سرمایہ کم ہو جائے گا.اس واسطے جس طرح ہم نے فضل عمر فاؤنڈیشن میں کیا ہے اسی طرح آپ بھی کریں.فضل عمر فاؤنڈیشن کو نفع مند کاموں پر پیسے لگانے کا کافی تجربہ ہو چکا ہے.اگر آپ چاہیں تو ہماری خدمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.جمع شدہ رقم تجارت پر لگا دیں.اس سے جو فائدہ حاصل ہو اس کو اپنی سکیم پر خرچ کریں.اسی طرح مکرم کرنل عطاء اللہ خان صاحب جو فاؤنڈیشن کے وائس چیئر مین ہیں انہوں نے بھی مجھے یہ مشورہ دیا.میں نے کہا کہ چوہدری صاحب مکرم ! جن کمپنیوں میں آپ یہ رقم لگائیں گے ، وہ مجھے آٹھ فیصد یا دس فیصد یا بارہ فیصد یا زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصد نفع دیں گی.میں نے بھی ایک تجارت سوچی ہے.جس کے ساتھ میں تجارت کرنا چاہتا ہوں وہ مجھے سو فیصدی سے بھی زیادہ نفع دے گا.
131 چنانچہ میں نے اپنے رب کریم پر پورا بھروسہ رکھتے ہوئے وہ تمام سرمایہ جو آپ کی طرف سے میرے ہاتھ میں دیا گیا تھا ” نصرت جہاں سکیم پر خرچ کر دیا اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے میں خرچ کرتا گیا.یہاں سے ڈاکٹر بھیجے.جن میں سے اکثر بیوی بچوں سمیت بھجوائے گئے تا کہ ان کا وہاں دل لگا رہے اور وہ ٹھیک طرح سے کام کر سکیں.ایک ڈاکٹر اور ان کے خاندان پر صرف کرائے کے طور پر دس دس پندرہ پندرہ ہزار روپے خرچ آئے.اس کے علاوہ سکول ٹیچر بھجوائے گئے جن میں سے بعض کے بیوی بچے بھی ساتھ بھجوائے گئے جو سامان ہم ان کو باہر سے بھجوا سکتے تھے وہ بھی بھجوایا یعنی کچھ یہاں سے کچھ غیر ملکوں نے دیا ہوا ہے.وہ سب ان کو بھجوایا گیا.اس عرصہ میں ایک لمحہ کے لیے بھی میرے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ میں پیسے خرچ کر رہا ہوں.ختم ہو جائیں گے تو اور پیسے کہاں سے آئیں گے.چنانچہ ہر ہفتے خرچ کی جور پورٹیں میرے پاس آتی ہیں میں ان کو ایک دن دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری توجہ اس طرف پھیری گئی کہ پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو تسلی دلانے کے لیے دس لاکھ روپے کا ریز رو بنا دیا ہے الحمد للہ اور میرا کوئی خرچ ایسا نہیں جو میرے اصل سرمائے کو دس لاکھ سے نیچے لے آئے.ثم الحمد للہ اور اسی طرح غیر ممالک میں میرا کوئی ایسا خرچ نہیں جو میرے اس ریز رو کو وہاں کے لحاظ سے پندرہ ہزار پونڈ سے نیچے لے آئے.یعنی اگر کسی ایک مہینے میں یا دو مہینے میں ایک لاکھ روپیہ بھی خرچ کیا اور فی الواقعہ خرچ کیا ہے مثلاً قرآنِ کریم خریدے گئے یا دوسرے اخراجات کرنے پڑے تب بھی اگر دس لاکھ سے رقم ایک ہزار روپے کم ہو گئی تو بڑی جلدی ہی دس لاکھ سے اوپر چلی گئی.ایک تو یہ چیز ہے جو میرے مشاہدہ میں آئی.اللہ تعالیٰ اس طرح فضل کرنے والا ہے چنانچہ میں اور بھی دلیر ہو گیا.چنانچہ میں نے خرچ کیا اور خدا کے نام پر اور اس کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کے لیے دل کھول کر خرچ کیا.ہم نے وہاں جو طبی مراکز اور تعلیمی ادارے کھولے ( زیادہ تر طبی مراکز تھے ) ان سے اللہ تعالیٰ نے پتہ ہے کیا نفع دیا؟ ہم نے ان کے اجرا پر اپنے سرمایہ سے ۱۶ اور ۱۵ لاکھ کے درمیان خرچ کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس رقم پر ان اداروں کی بدولت ہمیں پینتیس لاکھ سولہ ہزار چھ سو پینتیس روپے نفع دیا.الحمد للہ
132 فضل عمر فاؤنڈیشن نے اپنا سرمایہ دنیا کی تجارت میں لگایا اور دنیا کے معمول کے مطابق ان کو سات سال میں ۸لاکھ روپیہ نفع ملا.اور ہم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک تجارت کی اور اس پر کامل بھروسہ کیا اور اس کی مخلوق کی خدمت میں پیسے کے لحاظ سے کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی اور نہ ہمارے دل میں کوئی خوف پیدا ہوا.چنانچہ وہ جوسارے خزانوں کا مالک ہے اس نے صرف پندرہ مہینے کی کوشش میں (سات سال نہیں ) ۳۵ لاکھ سے زائد ہمیں نفع عطا فرمایا.ہمارا سرمایہ بھی محفوظ ہو گیا اور خدمت کے کام بھی جاری ہو گئے.ہم نے پھر یہ نفع اپنے پاس تو نہیں رکھنا تھا.چنانچہ ہم نے ۳۵ لاکھ میں سے ۳۰ لاکھ کی رقم وہاں کے اداروں (طبی مراکز اور تعلیمی اداروں ) پر خرچ کر دی.اس وقت ۱۶ ہیلتھ سینٹر مغربی افریقہ کے چار ملکوں میں کام کر رہے ہیں.اور گیارہ ہائر سکینڈری سکولز یعنی انٹر میڈیٹ کا لجز کام کر رہے ہیں.ان کے اوپر ہم نے ایک لاکھ روپیہ خرچ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ۳۵لاکھ کا نفع پہنچایا.جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا پورا سرمایہ محفوظ ہے.تمہیں لاکھ روپے ان ممالک میں آپ نے خرچ کیے اور نفع میں سے ۵ لاکھ سے زیادہ آپ کے پاس محفوظ ہے اور اس پر کوئی زیادہ رصہ بھی نہیں گزرا.صرف پندرہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا ہے.پس فرق ہے جو تجارت میں رونما ہوا.اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا اور بڑا پیار کرنے والا ہے.ہمیں اس کا شکر کرنا چاہئے.‘‘ (۹) اب ہم ملک وار جائزہ لیتے ہیں کہ نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے شروع ہونے کے بعد ابتدائی سالوں میں مختلف ممالک میں کس طرح جماعت کی طبی اور تعلیمی خدمات میں تیزی سے اضافہ ہوا.غانا اس سکیم کے اجراء سے قبل غانا میں جماعت کا کوئی طبی ادارہ موجود نہیں تھا.لیکن حالات کا تقاضا تھا کہ یہاں پر خدمت کے میدان میں تیزی سے قدم آگے بڑھایا جائے.جب حضور کے ارشاد پر احمدی ڈاکٹروں نے وقف کرنا شروع کیا تو صرف نوجوان اس تحریک میں حصہ نہیں لے رہے تھے بلکہ بڑی عمر کے ڈاکٹر صاحبان بھی احمدیت کی خاطر افریقہ جانے کے لئے تیار تھے.ان خوش نصیبوں میں
133 مکرم بر گیڈیئر ڈاکٹر غلام احمد صاحب بھی تھے.آپ مجلس نصرت جہاں کے تحت افریقہ جانے والے پہلے ڈاکٹر تھے.انہوں نے غانا کے گاؤں کو کوفو میں جا کر ڈیرہ لگایا اور یہاں پر جماعت کا ہسپتال کھولنے کے لئے انتھک محنت کا آغاز کیا.پہلے انہیں اکرامیں ہسپتال کھولنے کے لیے بھجوایا گیا تھا مگر جب ڈاکٹر صاحب نے غانا جا کر حالات کا جائزہ لیا تو حضور کی خدمت میں تحریر کیا کہ اکرا کی بجائے کسی اور مقام پر ہسپتال کھولنا مناسب ہو گا.انہوں نے جب ارد گرد کے علاقہ میں جائزہ لے کر رپورٹ بھجوائی تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ امیر صاحب سے مشورہ کر کے جس مناسب جگہ کا انتخاب ہو وہاں کام شروع کر دیں.یہاں پر ہسپتال کی تعمیر کے لئے مقامی پیرا ماؤنٹ چیف صاحب نے ایک قطعہ زمین کا عطیہ دیا تھا اور عارضی طور پر ہسپتال کھولنے کے لیے ایک عمارت بھی مہیا کی تھی.ابتدائی انتظامات مکمل ہونے پر یکم نومبر ۱۹۷۰ء کو اس ہسپتال کا افتتاح کیا گیا.تقریب میں تین پیرا ماؤنٹ چیف صاحبان ، اعلیٰ سرکاری افسران اور دیگر اہم شخصیات کے علاوہ تقریباً تین ہزار افراد نے شرکت کی.جلد ہی دور دور سے مریض اس ہسپتال میں علاج کرانے کے لئے آنے لگے.اس سکیم کے آغاز میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث "خود ڈاکٹروں کی راہنمائی فرماتے تھے.اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر اخراجات پر قابو نہ پایا جائے تو رفاہ عامہ کے کسی کام کو چلانا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے.چنانچہ ابتدائی دور میں کو کوفو سے آنے والی ایک رپورٹ پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ اخراجات زیادہ ہور ہے ہیں.جبکہ اسقدر زیادہ اخراجات نہ کرنے کی صورت میں بھی کام چل سکتا ہے.اس لیے اس معاملہ میں احتیاط برتیں اور حتی المقدور کفایت وقناعت سے کام کرنے کی کوشش کریں.غانا میں جماعت کا دوسرا ہسپتال آسوکورے کے مقام پر بنایا گیا.یہ گاؤں غانا کے اشانٹی ریجن میں واقع ہے.یہاں پر ہسپتال قائم کرنے کی سعادت مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب کے حصہ میں آئی.ہسپتال کے لیے ایک نئی تیار شدہ عمارت دو سال کے لیے جماعت کو مفت فراہم کی گئی.اس عمارت میں ہسپتال کا آؤٹ ڈور اور وارڈ اور آپریشن تھیٹر قائم کیے گئے.اس سے قبل اس گاؤں میں ایک بڑی جماعت قائم تھی اور سکینڈری سکول بھی موجود تھا.۱۹۷۱ء میں ہی جب اس ہسپتال کا افتتاح ہوا اور مختلف جماعتوں سے احباب اس میں شرکت کے لیے آئے ، اعلیٰ سرکاری حکام اور ممبرانِ پارلیمنٹ بھی تقریب میں شامل ہوئے.اس موقع پر ریڈیو اور اخبارات کے نمائندے بھی شامل
134 ہوئے.اس طرح یہاں پر جماعت کی طبی خدمات کا آغاز ہوا.اور مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب کو اور آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے مکرم ڈاکٹر تاثیر مجتبی صاحب کو ایک طویل عرصہ یہاں پر خدمات بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی.اور یہ ہسپتال سرجری کے حوالے سے خاص شہرت حاصل کر گیا.نہ صرف غانا سے بلکہ دوسرے ممالک سے بھی لوگ یہاں پر آپریشن کرانے کے لیے آنے لگے.مکرم ڈاکٹر غلام مجتبی صاحب نے یہاں پر ایک مسجد بھی تعمیر فرمائی جس کا ذکر حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۱۹۷۲ء کے جلسہ سالانہ میں ۲۷ دسمبر کی تقریر میں فرمایا تھا.غانا میں تیسرا ہسپتال سویڈ رو کے شہر میں قائم ہوا.یہ شہر نانا کے سینٹرل ریجن میں واقع ہے.اس کا افتتاح ۱۸ نومبر ۱۹۷۱ء کو پاکستان کے سفیر مکرم ایس.اے.سعید صاحب نے کیا.تقریب کی صدارت مکرم محاما نانی صاحب نائب وزیر زراعت نے کی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی تھے.با قاعدہ افتتاح سے کچھ ماہ قبل یہ ہسپتال کام شروع کر چکا تھا.اس ہسپتال کے بانی ڈاکٹر مکرم ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب تھے.اس ہسپتال کو بھی اپنے آغاز کے اگلے سال مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.یہاں پر کیتھولک پادری ہسپتال کی مخالفت کر رہے تھے.ایک بنگالی ہندو میڈیکل ڈائریکٹر نے ہسپتال کے آپریشن تھیٹر کے معیار پر سخت تنقیدی رپورٹ لکھی جس کے نتیجے میں وزارت صحت نے ہسپتال بند کرنے اور اجازت نامہ منسوخ کرنے کا حکم جاری کیا مگر پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ رکاوٹیں دور ہو گئیں اور یہ ہسپتال دوبارہ جاری ہوگیا اور اب تک یہ ادارہ اہل خانا کی خدمت کر رہا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے فیصلہ فرمایا تھا کہ جماعت کا ایک ہسپتال غانا کے شہر ٹیچیمان میں بھی کھولا جائے گا.یہاں پر دو عیسائی مشنوں کے ہسپتال بھی موجود تھے.لیکن اس شہر کی مرکزی پوزیشن کی وجہ سے حضور نے یہاں پر جماعتی ہسپتال کھولنے کا فیصلہ فرمایا.بعض احباب کا خیال تھا کہ یہاں عیسائی مشنوں کی طرف سے دباؤ پڑے گا اور حکومت اس ہسپتال کو روک لے گی.جس سے جماعت کی سبکی ہو سکتی ہے.اور بعض احباب نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ اس کی بجائے کسی اور جگہ پر ہسپتال کھولنا مناسب ہوگا.لیکن حضور نے یہیں پر ہسپتال کھولنے کا فیصلہ فرمایا اور یہاں کے لئے مکرم ڈاکٹر بشیر احمد خان صاحب کو بھجوایا گیا.پہلے یہاں کے عیسائی ہیلتھ آفیسر نے جماعت کے حق میں اچھی رپورٹ دی مگر پھر یہ صاحب رخصت پر چلے گئے اور ان کی جگہ جو افسر مقرر ہوئے وہ بہت
135 متعصب تھے، انہوں نے زور دیا کہ جماعت احمدیہ کو یہ ہسپتال نہ کھولنے دیا جائے ، اس کے علاوہ بعض عیسائی ڈاکٹروں نے بھی مخالفت شروع کی اور معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا.غانا جماعت کی طرف سے حضور کی خدمت میں لکھا گیا کہ یہ رکاوٹ پیدا ہورہی ہے.حضور نے انہیں تسلی دی گھبراتے کیوں ہو اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.اور حکومت نے بھی کہا کہ فی الحال یہ ڈاکٹر پریکٹس شروع کر سکتا ہے.مکرم ڈاکٹر صاحب کے حسن کارکردگی سے ہر سطح کے آدمی پر اچھا اثر ہوا اور بالآخر حکومت نے با قاعدہ ہیلتھ سینٹر کے اجراء کی اجازت دے دی اور ۲۶ ستمبر ۱۹۷۱ء کو باضابطہ طور پر افتتاحی تقریب منعقد ہوئی.اس ہسپتال کے افتتاح میں احمدی احباب کے علاوہ بہت سے غیر از جماعت احباب نے بھی شرکت کی، ان میں ٹیچیمان کے پیرا ماؤنٹ چیف اور ملک کے وزیر برائے سماجی بہبود بھی شامل تھے (۱۰).یہ ہسپتال اب تک ٹیچیمان کے علاقہ کی خدمت کر رہا ہے.سیرالیون سیرالیون میں نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت پہلا میڈیکل سینٹر جورو (Joru) کے مقام پر کھلا.یہ گاؤں کی نیما (Kenema) ڈسٹرکٹ میں ہے.اس کا آغاز ۵ جون ۱۹۷۱ء کو ہوا.اور اس کو شروع کرنے کی سعادت مکرم ڈاکٹر محمد اسلم جہانگیری کے حصے میں آئی.اس روز پورے گاؤں میں میلے کا سا سماں تھا اور وہاں لوگ اپنی روایتی طرز کے مطابق ہر طرف ٹولیوں میں ناچ رہے تھے اور اپنے روایتی ساز بجا رہے تھے.اخباری نمائندے اور فوٹو گرافر بھی پہنچے ہوئے تھے.میڈیکل سینٹر کا افتتاح ملک کے وزیر صحت نے کیا.تقریب کی صدارت سیرالیون کے نیشنل پریذیڈنٹ مکرم چیف گمانگا صاحب نے کی.جورو کے میڈیکل سینٹر کو ایک ایسی عمارت میں شروع کیا گیا تھا جو علاقہ کے لوگوں نے دوسال کے لیے پیش کی تھی.اور دس ایکٹر کی اراضی بھی نئی عمارت کی تعمیر کے لیے تحفہ کے طور پر دی گئی تھی.اور اس کے قیام کے سلسلہ میں علاقہ کے پیرا ماؤنٹ چیف صاحب نے بھر پور تعاون کیا تھا.لیکن یہ میڈیکل سینٹر نا مناسب جگہ کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکا.اس لیے اسے چند سالوں کے بعد بند کر دیا گیا.سیرالیون میں جماعت کا ایک اور ہسپتال بو آجے بو کے مقام پر قائم کیا گیا.یہاں پر محترم ڈاکٹر
136 امتیاز احمد صاحب کو بھجوایا گیا.آپ ایک ماہر سرجن ہیں.انہوں نے ۴ جون ۱۹۷۱ء کو یہاں پر کام شروع کیا لیکن کلینک کا باضابطہ افتتاح ۳ جولائی کو عمل میں آیا.افتتاح کی تقریب میں ممبرانِ پارلیمنٹ اور پیرا ماؤنٹ چیف صاحبان اور دوسرے احباب کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی.اس کا افتتاح ملک کے وزیر صحت سی پی فورے نے فرمایا.ریڈیو اور اخبارات نے اس افتتاح کی خبر کو خاص اہمیت دی.چار کمروں کے ایک گھر میں کلینک شروع کیا گیا تھا.ایک کمرے میں آپریشن تھیٹر تھا، باقی دو کمرے بھی مریضوں کے لئے استعمال ہوتے تھے.ایک کمرے میں ڈاکٹر صاحب کی رہائش تھی.یہ سلسلہ چارسال تک چلتا رہا.اس دوران ہسپتال کی وسیع و عریض عمارت مکمل ہوئی اور اگست ۱۹۷۵ء کو ہسپتال نئی عمارت میں منتقل ہو گیا.اس ہسپتال کے بانی ڈاکٹر مکرم ڈاکٹر امتیاز احمد صاحب اتوار کے روز ایک گاؤں Blama میں بھی کلینک چلاتے رہے.یہ ہسپتال مارچ ۱۹۹۴ء میں سیرالیون میں خانہ جنگی کے دوران بند ہو گیا اور پھر اسے جاری نہیں کیا جاسکا.(۱۱) سیرالیون میں جماعت کا تیسرا ہسپتال روکو پور (ضلع کامبیا ) کے مقام پر قائم کیا گیا.یہاں پر پہلے ڈاکٹر مکرم سردار محمد حسن صاحب تھے.اس کا افتتاح ۴ دسمبر ۱۹۷۱ء کو ہوا.یہاں کے ممبر پارلیمنٹ اور دوسری با اثر سیاسی شخصیات نے پہلے تو بہت تعاون کا وعدہ کیا مگر پھر تعاون سے گریز کرنا شروع کر دیا.ایک بوسیدہ عمارت جماعت کو ڈسپنسری کے لیے کرائے پر ملی.اس پر جماعت نے رقم خرچ کر کے اسے قابلِ استعمال بنایا.اپنی زمین خرید کر عمارت بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تو اس کی راہ میں یوں روڑے اٹکائے گئے کہ ایک ایسی زمین جماعت کو پیش کی گئی جو بالکل غیر ہموار تھی اور اس پر اگر عمارت تعمیر کی جاتی تو بہت زیادہ خرچ پڑتا تھا.جماعت یہاں پر زمین لے کر سکول بنانا چاہتی تھی.ایک شخص نے جماعت کو زمین بیچنے کی حامی بھری.اس پر یہاں کی بااثر شخصیت نے مقدمہ کر دیا اور صاف کہنا شروع کیا کہ جاؤ اپنے خدا سے زمین لو.مگر ان رکاوٹوں کے باوجو دلوگ بڑی تعداد میں مکرم ڈاکٹر حسن صاحب کی شہرت سن کر آنے لگے اور انہیں علاقے میں فرشتہ کے نام سے پکارا جانے لگا.۱۹۷۳ء کے آخر میں ہسپتال کی نئی عمارت کی تعمیر شروع کی گئی.یہ میڈیکل سینٹر ابھی تک کام کر رہا ہے.سیرالیون میں جماعت کا چوتھا ہسپتال مسنگبی (Masingbi) کے مقام پر کھولا گیا.اس میڈیکل سینٹر نے ۱۹۷۲ء میں کام شروع کیا.اور یہاں کے پہلے ڈاکٹر مکرم ڈاکٹر طاہر محمود صاحب اور
137 آپ کی اہلیہ مکرمہ ڈاکٹر کوثر تسنیم صاحبہ تھیں.اس ہسپتال نے جلد ترقی کی.ابتداء میں حکومت نے ایک ڈسپنسری کی عمارت جماعت کو کلینک شروع کرنے کے لئے دی تھی اور ڈاکٹر صاحب کی رہائش کا مکان کرائے پر لیا گیا تھا.۱۹۷۵ء میں ہسپتال نئی تعمیر شدہ عمارت میں منتقل ہو گیا اور مریضوں کو انڈور کی سہولت میسر آئی.مکرمہ ڈاکٹر کوٹر تسنیم صاحبہ نے یہاں پر میٹرنٹی کلینک قائم کیا جس نے یہاں کی عورتوں کی بہت خدمت کی.سیرالیون میں جماعت کے طبی ادارے غریب علاقوں میں کھولے گئے تھے.اور یہاں کے اکثر لوگ علاج کے معمولی اخراجات ادا کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تھے.مشن اور جماعت کے مالی وسائل بھی بہت محدود تھے اور زیادہ مالی بوجھ کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے.ان حالات سے قدرے پریشان ہو کر سیرالیون سے ایک وقف ڈاکٹر صاحب نے حضور کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ یہاں پر خدمت کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے چونکہ حکومت کو اپنی ڈسپنسریوں پر کام کرنے کے لئے ڈاکٹر نہیں ملتے تو حکومت سے بات چیت کر کے وقف ڈاکٹر صاحبان ان ڈسپنسریوں میں ملازمت شروع کر دیں.اور بعض مقامات کا ذکر کر کے عرض کیا کہ چونکہ یہاں پر جماعت کے میڈ یکل سینٹرز کے قریب ہی گورنمنٹ کی ڈسپنسریاں ہیں.اس لیے حکومت سے بات چیت کی جاسکتی ہے کہ جہاں پر جماعت کا ہسپتال ہو حکومت وہاں کی بجائے کہیں اور پر ڈسپنسری کی سہولت مہیا کرے.چونکہ جماعت کے پیش نظر خدمت کے وہ اعلیٰ مقاصد ہوتے ہیں جو حکومت کے تحت کام کرنے سے پورے نہیں ہو سکتے.اس لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے انہیں تحریر فرمایا: وو آپ خدمت کیلئے گئے ہیں.اور شیطان کا کام ہے وسوسے پیدا کرتا ہے.لاحول اور استغفار بہت کریں.آمد کم ہو تو بھی فرق نہیں پڑتا.خدمت پوری ہونی چاہیے.پیار اور اخوت کے جذبہ کے تحت آپ خدمت کریں گے تو دوسری سب ڈسپنسریاں نا کام ہو جائینگی اور آپ ہی کامیاب ہونگے.اس لئے ادھر ادھر کے خیالات میں نہ پڑیں اور وقف کی روح کو سمجھیں اور کام کئے جائیں.دولت بھی انشاء اللہ دے گا مگر وہ اصل مقصد نہیں.حکومت کی نوکری نہیں کرنی ، آپ نے نہ کسی اور نے.“
گیمبیا 138 نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے اجراء سے قبل ہی ۱۹۶۸ء میں یہاں پر کاعور (Kaur) کے مقام پر جماعت کا کلینک کام کر رہا تھا.اور اس کلینک کو مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب چلا رہے تھے.مکرم ڈاکٹر صاحب نے مقامی طور پر قرض لے کر یہ کلینک شروع کیا تھا.اور ابتدائی طور پر اس نے تین کچے کمروں میں کام شروع کیا تھا.اور جب حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ کا دورہ فرمایا تو یہ کلینک اتنی بچت کر چکا تھا کہ اس سے اہلِ گیمبیا کے لئے ایک سکینڈری سکول شروع کیا جا سکے.جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے ۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ کا تاریخی دورہ فرمایا تو کیمیا میں قیام کے دوران حضور نے یہاں کے وزیر صحت اور وزیر تعلیم سے بھی ملاقات فرمائی.اور حضور نے خود بھی یہاں کے حالات کا جائزہ لیا.اس دورہ میں حضور نے فیصلہ فرمایا کہ یہاں کے دارالحکومت باتھرسٹ ( موجودہ بانجل) میں ایک ٹی بی کلینک اور ایک ڈینٹل کلینک قائم کیا جائے.حضور کے ارشاد کے تحت مکرم ڈاکٹر انوار احمد خان صاحب نے ڈاڈر کے ٹی ٹی سینیٹوریم میں ٹریننگ حاصل کی اور زندگی وقف کر دی.Picton Street باتھرسٹ میں ایک چھوٹی سی عمارت کرائے پر حاصل کر کے اگست ۱۹۷۱ء میں نصرت جہاں ٹی بی اینڈ میڈیکل سینٹر کا آغاز کیا گیا.اسی سال جرمنی کے مشن کے توسط سے یہاں پر ایکس رے پلانٹ اور لیبارٹری کا سامان بھی پہنچ گیا.اس ہسپتال نے جلد ترقی کی اور آخر کار اس کی اپنی وسیع عمارت تعمیر کی گئی اور یہ ادارہ اب تک اہل گیمبیا کی خدمت کر رہا ہے.۱۹۸۲ء میں جب اس کی نئی عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی تو ملک کے صدر داؤد کے جوارا صاحب نے اس کا افتتاح کیا.اس طرح ۱۹۷۱ ء میں باتھرسٹ میں ایک ڈینٹل سرجری بھی قائم کی گئی.اور طبی خدمت کی جماعتی تاریخ میں یہ پہلی ڈینٹل سرجری تھی.اور یہ ادارہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک وہاں کے لوگوں کی خدمت کر رہی ہے.گیمبیا میں جماعت کا چوتھا طبی ادارہ انجوارا میں مکرم ڈاکٹر محمد حفیظ خان صاحب نے ۱۹۷۲ء میں کھولا.اور جلد ہی ایک عمارت خرید کر اس میں انڈور بھی شروع کر دیا.یہ جگہ سینیگال کی سرحد کے
139 قریب ہے.اس لئے اس سنٹر میں سینیگال سے مریض بھی آنے لگے.اس کے علاوہ مکرم ڈاکٹر محمد حفیظ خان صاحب اس سنٹر کے ارد گرد مختلف سب سینٹر بھی چلاتے رہے.یہ میڈیکل سینٹر ۱۹۸۴ء میں بند کر دیا گیا.جماعت نے گیمبیا میں اپنا اگلا میڈیکل سینٹر بصے کے مقام پر قائم کیا.یہ جگہ گیمبیا کے انتہائی شمال میں ہے.اور اس ہسپتال کے بانی ڈاکٹر مکرم طاہر احمد صاحب تھے.پہلے گیمبیا کی حکومت نے اس عذر کے تحت یہاں پر جماعت کو میڈیکل سینٹر کھولنے کی اجازت نہ دی کہ یہاں پر حکومت خود کمل ہسپتال بنانے کا ارادہ رکھتی ہے.لیکن بعد میں حکومت کو Contract پر بیرونِ ملک سے ڈاکٹر نہ مل سکے اور جو جرمن ڈاکٹر صاحب وہاں پر کام کر رہے تھے ان کے معاہدے کی مدت بھی ختم ہو رہی تھی.اس صورتِ حال میں جب حکومت سے دوبارہ رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بغیر کسی حیل و حجت کے جماعت کو وہاں پر میڈیکل سینٹر کھولنے کی اجازت دے دی.یہ میڈیکل سینٹر ۱۹۹۷ء میں بند کر دیا گیا لیکن ۲۰۰۴ ء میں اسے پھر سے جاری کیا گیا.نائیجیریا نائیجیریا میں نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے اجراء سے قبل کا نو اور اپاپا ( لیگوس) میں جماعت کے میڈیکل سینٹر کام کر رہے تھے.اب حضور نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس سکیم کے تحت نائیجیریا میں جماعت کے مزید کلینک کھولے جائیں.ایک کلینک اجیبو اوڈے کے مقام پر کھولا گیا.اور اس سکیم کے تحت نائیجیریا جانے والے سب سے پہلے ڈاکٹر ، مکرم عبد الرحمن بھٹہ صاحب تھے جنہوں نے اکارے کے کلینک کا آغاز کیا.جلد ہی اس کی نئی عمارت پر کام شروع ہو گیا.اور ۱۹۷۲ء میں مکرم عبدالرحیم بکری صاحب نے اس کی عمارت کا سنگ بنیا د رکھا.یہ کلینک ۱۹۷۴ء میں بند کر دیا گیا.ایک نیا کلینک بکورو کے مقام پر تھا.یہ مقام پلیٹوسٹیٹ کے صدر مقام جوس سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھا.۱۹۷۲ ء میں اس کی ابتدا مکرم ڈاکٹر قاضی منور احمد صاحب نے کرایہ کی عمارت میں کی.عمارت کے اگلے کمرے بطور کلینک استعمال کیے گئے اور عقبی حصہ بطور رہائش استعمال ہوتا تھا.عمارت بوسیدہ اور نامکمل تھی.
140 ۱۹۷۲ء میں جماعت کا ایک نیا میڈیکل سینٹرا کارے کے قصبہ میں کھولا گیا.یہاں کے لیے مکرم ڈاکٹر عزیز چوہدری صاحب کو مقرر کیا گیا.اس قصبہ میں اکثریت کیتھولک عیسائیوں کی تھی.اور یہاں پر پہلے کیتھولک ہسپتال ہوتا تھا جو ایک سال قبل حکومت نے لے لیا تھا.جب یہاں پر کلینک شروع کیا گیا تھا تو مخالفت بھی شروع ہو گئی اور اکثر با اثر شخصیات نے تعاون نہیں کیا.مکرم ڈاکٹر عزیز چوہدری صاحب نے اپنی ابتدائی رپورٹوں میں ہی لکھا کہ یہ جگہ نئے میڈکل سینٹر کے لیے موزوں نہیں ہے.کچھ عرصہ بعد اس میڈیکل سینٹر کو بند کر دیا گیا.مجلس نصرت جہاں کے تحت قائم ہونے والے ابتدائی تعلیمی ادارے جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ جماعت احمدیہ مغربی افریقہ میں پرائمری اور سکینڈری سکولوں کے ذریعہ اہل افریقہ کی خدمت کر رہی تھی.لیکن اب حضور کے ارادے کے تحت اس کام میں ایک نئی تیزی اور ولولہ سے کام شروع کیا گیا.اب ہم ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے ابتدائی سالوں میں کس طرح جماعت احمدیہ نے مغربی افریقہ میں نے تعلیمی ادارے قائم کرنے شروع کیے.سب سے پہلے ہم غانا میں ہونے والی پیش رفت پر ایک نظر ڈالتے ہیں.غانا نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے اجراء سے قبل بھی غانا میں جماعت کے تعلیمی ادارے قائم تھے.اور ۱۹۵۰ ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کے تحت کماسی کے مقام پر جماعت کے سیکنڈری سکول کا قیام عمل میں آیا تھا.جو در بدرجہ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا.۱۹۷۰ء میں غانا میں وا کے مقام پر ایک سکول شروع کیا گیا.اس کی عمارت ۱۹۷۳ء میں بنائی گئی.اس سکول کے آغاز میں مکرم شکیل احمد صاحب منیر اور مکرم خلیل الرحمن صاحب فردوسی نے بڑی محنت سے اس ادارے کی خدمت کی.یکم ستمبر ۱۹۸۲ ء میں اسی ادارے میں نصرت جہاں احمد یہ ٹیچر ٹریننگ کالج معرض وجود میں آیا.غانا میں نصرت جہاں سکیم کے تحت کھلنے والا پہلا تعلیمی ادارہ تعلیم الاسلام احمد یہ کمرشل سیکنڈری سکول فومینہ تھا.اس کے پہلے پر نسپل مکرم کمال الدین خان صاحب تھے جو اکتو بر ۱۹۷۰ء میں غانا پہنچے اور ایک کمیونٹی سنٹر میں عارضی طور پر اس سکول نے کام شروع کیا.۱۹۷۴ء میں اس سکول کی مستقل
141 عمارت کی تعمیر شروع ہوئی.اس کے بعد تعلیم الاسلام احمد یہ سیکنڈری ووکیشنل سکول اسار چر کا قیام عمل میں آیا.اسار چر وہ جگہ ہے جہاں پر چیف مہدی آپا نے اس ملک میں سب سے پہلے احمدی ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا.پہلے سکول کے لئے زمین حاصل کی گئی اور پھر دسمبر ۱۹۷۱ء میں امیر جماعت احمد یہ غانا مکرم مولانا بشارت احمد بشیر صاحب نے اس کا سنگ بنیاد رکھا اور اکتوبر ۱۹۷۲ء کو اس کا افتتاح ہوا.ابتدا میں سکول کو کرائے کی عمارت میں شروع کیا گیا تھا اور کافی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا لیکن وقت کے ساتھ سکول ترقی کرتا گیا.سکول کے پہلے پر نیل مکرم نصیر احمد چوہدری صاحب تھے.اس سکول کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفہ المسیح الخامس) نے سکول کے پرنسپل کے طور پر اکتوبر ۱۹۷۹ ء سے لے کر جون ۱۹۸۳ء تک خدمات سرانجام دیتے رہے.نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت جماعت نے غانا میں ایک سکول گو ما پوٹسن کے مقام پر بھی قائم کیا.جب اس سکول کا آغاز کیا گیا تو گاؤں میں کوئی ایسی عمارت نہیں تھی جس میں سکول کا آغاز کیا جا سکے.چنانچہ یہاں کے احمدیوں اور دیگر احباب سے چندہ جمع کر کے تعمیراتی سامان خریدا گیا اور وقار عمل کر کے ایک بلاک تعمیر کیا گیا جس میں سکول کا اجراء ہوا.پھر جلد ہی سکول میں ہاسٹل کا آغاز بھی کر دیا گیا.۱۹۷۱ء میں ایک سکینڈری سکول سلاگا کے مقام پر کھولا گیا اور مکرم چوہدری محمد شریف صاحب نے اس سکول کا آغاز کیا.اس سکول کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفتہ اسیح الخامس نے یہاں پر پرنسپل کے طور پر خدمات سرانجام دیں.۱۹۷۲ء میں غانا میں نصرت جہاں سکیم کے تحت ایک اور سکینڈری سکول آسوکورے میں کھولا گیا اور مکرم مبارک احمد صاحب اس کے پہلے پر نسپل مقرر ہوئے.نائیجیریا نائیجیریا میں جماعت احمدیہ نے اپنی تعلیمی خدمات کا آغاز ۱۹۲۲ء میں کیا تھا.فروری ۱۹۷۰ء میں مکرم رفیق احمد ثاقب صاحب نے کا نو میں جماعت کے کلینک کی پرانی عمارت میں ایک سیکنڈری سکول کا آغا ز کیا.زمین حاصل کرنے کے بعد اس سکول کی مستقل عمارت کا سنگ بنیا دفروری ۱۹۷۴ء
142 میں رکھا گیا.نائیجیریا میں ایک اور سکینڈری سکول مارچ ۱۹۷۱ء میں Gusau میں جاری کیا گیا جو سکوٹوسٹیٹ میں واقع ہے.اس سکول میں کلاسوں کا اجراء کا نو کے سکول کے اساتذہ کے تعاون سے کیا گیا تھا.پھر مرکز کی طرف سے مکرم اسمعیل وسیم صاحب کو اس سکول کا پرنسپل مقرر کیا گیا.اور اس کی مستقل عمارت کا سنگ بنیاد مارچ ۱۹۷۲ ء میں رکھا گیا.پھر موجودہ نائیجیر سٹیٹ میں منا (Minna) میں نصرت جہاں سکیم کا ایک اور سکول جاری ہوا.جب مارچ ۱۹۷۱ء میں احتشام نبی صاحب ، مکرم احمد منیر صاحب اور آپ کی اہلیہ وقف عارضی کے طور پر یہ سکول چلا رہے تھے.اس کا باقاعدہ افتتاح اس کے پہلے پرنسپل مکرم محمد یعقوب صاحب کے چارج سنبھالنے کے بعد جولائی ۱۹۷۱ء میں ہوا.۱۹۷۳ء میں نایجیریا میں جماعت کے دو سکول جو کہ گساؤ اور منا میں واقع تھے حکومت نے میشلا ئز کر لئے.ان میں کام کرنے والوں کو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی ہدایت تھی کہ انہی سکولوں میں کام کرتے رہیں.سیرالیون نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے آغاز سے قبل بھی جماعت احمد یہ سیرالیون میں تعلیمی اداروں کے ذریعہ اہل سیرالیون کی خدمت کر رہی تھی.اس سکیم کے اجراء کے بعد چند سال میں جماعت نے یہاں پر مزید تعلیمی اداروں کا آغاز کیا.۱۹۷۱ء میں روکو پور میں ایک جونیئر سکینڈری سکول کا آغاز کیا گیا.۱۹۷۳ء میں احمد یہ جونیئر سکینڈری سکول مسنگھی کا اجراء ہوا.اور ۱۹۷۴ء میں ٹمبو ڈو اور ۱۹۷۵ء میں کہالا میں احمد یہ جو نیئر سکینڈری سکول شروع کیے گئے.اس کے بعد نے تعلیمی اداروں کا سلسلہ جاری رہا.اور اس کے وقت جہاں تک تعداد کا تعلق ہے تو جماعت احمدیہ کے سب سے زیادہ تعلیمی ادارے سیرالیون کے ملک میں موجود ہیں.لائبیریا نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت اس ملک میں سب سے پہلا احمد یہ جونیئر ہائی سکول سانوے کے مقام پر قائم کیا گیا.
گیمبیا 143 گیمبیا میں نصرت جہاں سکیم کے تحت پہلا سکول بائبل کے مقام پر قائم کیا.اپنے دورے کے دوران حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس ادارے کا سنگ بنیا درکھا تھا.افریقن پریس میں نصرت جہاں سکیم کا چرچا جب حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے اس سکیم کا آغا ز فرمایا تو مغربی افریقہ کے اخبارات میں اس کے متعلق خبریں بار بار شائع ہونا شروع ہوئیں.نائیجیریا کے اخبار Post نے اس سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع کی Ahmadis start campaign abroad اور لکھا کہ پاکستان اور برطانیہ کے مسلمانوں نے ایک مہم شروع کی ہے جس میں وہ مغربی افریقہ میں اپنے بھائیوں کو ایک نئی سکیم کے تحت چندہ دے رہے ہیں.اس سکیم کا نام ” لیپ فارورڈ ہے.جماعت احمدیہ کے سربراہ نے حال میں ہی مغربی افریقہ کے دورہ کے دوران اس سکیم کا اعلان کیا تھا.اس دورے میں انہوں نے نائیجیریا، غانا، آئیوری کوسٹ ،لائبیریا ، گیمبیا اور سیرالیون کا دورہ کیا.نائیجیرین احمدیہ مسلم مشن کے مشنری انچارج نے لیگوس میں یہ انکشاف کیا کہ اس سکیم کے تحت مغربی افریقہ کے ان ممالک میں تھیں ہائر سکول اور پندرہ کلینک قائم کیے جائیں گے....(۱۲) نائیجیریا کے ایک اور اخبار ڈیلی ٹائمنر (Daily Times) نے اس سکیم کے اجراء کی خبر اس سرخی کے ساتھ شائع کی 'Moslims to build schools, clinics' اس اخبار نے لکھا کہ ” پاکستان اور برطانیہ کے احمدی مسلمان مغربی افریقہ میں لیپ فارورڈ سکیم کے تحت تمہیں ہائر سکول اور پندرہ کلینک کھولنے کا ارادہ کر رہے ہیں.اس امر کا اعلان عالمگیر جماعت احمدیہ کے سربراہ نے حال ہی میں نائیجیریا اور مغربی افریقہ کے دیگر ممالک کے دورہ کے دوران کیا ہے.(۱۳) مختلف ممالک کے سربراہان بھی جماعت کی اس مساعی کو سراہ رہے تھے.چنانچہ فری ٹاؤن،
144 سیرالیون کے اخبار The Nation نے ملک کے سربراہ کا یہ بیان شائع کیا.اس کا عنوان تھا: *President Stevens praises Ahmadiyya Mission' وو صدر ڈاکٹر سائیکا سٹیونز Dr.Saika Stevens نے کل کہا کہ سیرالیون جماعتِ احمدیہ کے اچھے کاموں کی قدر کرتا ہے.انہوں نے کہا کہ مشن نے ملک کی بعض بہت بڑی ضروریات پوری کی ہیں.....(۱۴) جب بو آ جے بو (سیرالیون ) میں جماعت کے میڈیکل سینٹر کا افتتاح ہوا تو سیرالیون کے اخبار ڈیلی میل (Daily Mail) نے ملک کے وزیر صحت کے بیان پر مشتمل یہ سرخی شائع کی: 'Foray Thanks Mission for Boajibu Clinic' اور اس خبر میں لکھا کہ وزیر صحت نے اس امر پر دلچسپی کا اظہار کیا کہ جماعت نے جورو، روکو پور اور مسنگھی کے مقامات پر بھی ایسے پراجیکٹ شروع کیے ہیں اور یہ انکشاف کیا کہ ان کی وزارت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس مہم میں جماعت کو ہر قسم کی مدد مہیا کی جائے گی.(۱۵) سیرالیون کے اخبار Unity نے نصرت جہاں سکیم کے تحت ملک میں طبی ادارے کھولنے کے منصوبے کی خبر اس عنوان کے تحت شائع کی: (1) Ahmadiyya mission plans four new health centres' مغربی افریقہ میں عیسائی مشنوں کے بہت سے سکول تھے اور ان میں لڑکیوں کے لیے رائج یونیفارم ان کی روایات کے مطابق سکرٹ ہوتی تھی اور حکومت کے سکولوں میں بھی اسی کا رواج تھا.جماعت نے جب وا (Wa) ، غانا میں سکول قائم کیا تو اس میں اسلامی روایات کے مطابق یونیفارم رائج کیا.یہ قدم اخبارات کی دلچسپی کا باعث بن گیا.اخبار غانین ٹائمنر ( Ghanian Times) نے اس یو نیفارم کے متعلق تفصیلی خبر بمع اس یو نیفارم میں ملبوس طالبات کی تصویر کے شائع کی اور اس خبر کی سرخی تھی 'New fashion for Ahmadiyya girls' اور اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اس خیال کی بنیاد Beauty and modesty پر ہے.
145 اسی طرح جب غانا میں صحت کا ہفتہ منایا گیا تو اخبار Pioneer نے اس موضوع پر ایک ادار یہ لکھا.اور اس اداریہ کا عنوان تھا، Asokore Example ، آسوکورے وہ جگہ تھی جہاں پر جماعت نے نیا ہسپتال قائم کیا تھا.اور اس اداریے میں اس اخبار نے لکھا : غانا کی احمد یہ جماعت شاباش کی مستحق ہے کہ انہوں نے قومی جدوجہد میں بھر پور عملی حصہ لیا ہے.آسو کورے ہسپتال کی مثال اس سمت کی طرف نشاندہی کرتی ہے جس طرف ملک میں موجود مذہبی تنظیموں کو ، اگر ملک میں ان کی موجودگی کے کوئی معنی ہیں ، چلنا چاہیے.(۱۷) (1) خطبات ناصر جلد ۳ ص ۱۲۴ (۲) الفضل ۲۰ جون ۱۹۷۰ ص ۳ و ۴ (۳) خطبات ناصر جلد ۳ ص ۱۲۸.۱۲۹ (۴) الفضل ۱۲ جون ۱۹۷۰ ء ص اول و آخر (۵) خطبات ناصر جلد ۳ ص ۱۳۸ (۲) روایت مکرم سمیع اللہ سیال صاحب (2) الفضل ۷ ار جولائی ۱۹۷۰ ص ۱ (۸) خطبات ناصر جلد ۳ ص ۱۷۸ (۹) مسودہ خطاب حضرت خلیفہ المسیح الثالث جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء (۱۰) الفضل اار جولائی ۱۹۷۱ ء ص ۱ (۱۱) الفضل اار فروری ۱۹۷۲ء Post,July 20, 1970 (Ir) Daily Times, July 18, 1970 (Ir) The Nation (Free Town) 14 June 1973 (IM) Daily Mail (Sierra Leone) July 6, 1971 (10) Unity May 8,1971p 8 (۱۶) The Pioneer, April 3, 1973 p2 (14)
146 مخالفین سلسلہ سازش تیار کرتے ہیں جب بھی کوئی الہی سلسلہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کرتا ہے، یہ صورتِ حال اس کے مخالفین کے لیے نا قابل برداشت ہو جاتی ہے.اور وہ ایک نئے غیظ و غضب کے ساتھ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں اور اس کو مٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں.اور دوسری طرف یہ مخالفت اس الہی جماعت کے قدم ڈگمگانے کی بجائے اس کو اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کا وارث بناتی ہے اور وہ پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے آگے بڑھنا شروع کرتے ہیں.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ الہی جماعتوں کی ترقی مخالفت بڑھانے کا باعث بنتی ہے اور یہ مخالفت مزید ترقیات کے سامان پیدا کرتی ہے.اس طرح یہ دونوں عمل ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں.یوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک عرصہ سے مغربی افریقہ میں جماعت ترقی کر رہی تھی.اور یہاں کی جماعتیں رفتہ رفتہ مستحکم ہورہی تھیں.لیکن ۱۹۷۰ ء میں جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے مغربی افریقہ کا دورہ کیا تو وہاں کی جماعتوں کا اخلاص، ان کی تنظیم، ان کا جوش روح پرور مناظر پیش کر رہے تھے.نہ صرف وہاں کے احمدیوں نے اپنے امام کا والہانہ استقبال کیا بلکہ ان ممالک کے سربراہان نے ان کے وزراء نے اور غیر از جماعت شرفاء نے بھی اپنے اپنے رنگ میں اپنی محبت کا اظہار کیا.وہاں کا پر لیس وہاں کے ریڈیو اور ٹی وی نے بھی جماعتی تقریبات کی خبروں کو ایک خاص اہمیت کے ساتھ شائع اور نشر کیا.یہ مناظر دیکھ کر جہاں احمدی اپنے رب کا شکر ادا کر رہے تھے ، وہاں پر یہ خبریں جماعت کے مخالف گروہوں پر بجلی بن کر برس رہی تھیں.وہ اب تک یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ یہ ایک حقیر معمولی گروہ ہے جسے ہم برصغیر کی حدود میں ہی کچل کر رکھ دیں گے.لیکن اب خدا تعالیٰ کی تقدیر انہیں یہ مناظر دکھا رہی تھی کہ یہ جماعت افریقہ کے دور دراز ممالک میں بھی تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے.جیسا کہ پہلے بھی جماعت کی تاریخ میں ہو چکا تھا، اب یہ لازمی بات تھی کہ جماعت احمدیہ کے معاندین اب کوئی نیا ز ہر یلا وار کریں گے تاکہ بزعم خود وہ جماعت کی ترقی کو روک سکیں.اس دورہ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ جماعت اسلامی پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف
147 ایک سازش تیار کر رہی ہے.جیسا کہ پہلے یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ ۱۹۵۳ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف جو یورش بر پا کی گئی تھی اس میں جماعت اسلامی نے بھر پور حصہ لیا تھا.اور ہم یہ ذکر بھی کر چکے ہیں کہ ۱۹۵۳ء میں جن مذہبی گروہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات بر پا کیسے تھے،اس وقت کے وزیر اعظم نے خود پارلیمنٹ میں یہ کہا تھا کہ بیرونی ہاتھ ان عناصر کی پشت پناہی کر رہا تھا.جب حضور نے ۱۰ اگست ۱۹۷۰ء کو ربوہ میں احمدی ڈاکٹروں سے خطاب کیا تو اس میں جماعت کو اس سازش سے مطلع کرتے ہوئے فرمایا: " ہماری اس سکیم کا اس وقت تک جو مخالفانہ ردعمل ہوا ہے وہ بہت دلچسپ ہے اور آپ سن کر خوش ہوں گے اس وقت میری ایک Source سے یہ رپورٹ ہے.البتہ کئی طرف سے رپورٹ آئے تو میں اسے پختہ سمجھتا ہوں بہر حال ایک Source کی رپورٹ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے یہ ریزولیشن پاس کیا ہے کہ ویسٹ افریقہ میں احمدیت اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ وہاں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس واسطے پاکستان میں ان کو کچل دو تا کہ وہاں کی سرگرمیوں پر اس کا اثر پڑے اور جماعت کمزور ہو جائے.بالفاظ دیگر جو ہمارا حملہ وہاں عیسائیت اور شرک کے خلاف ہے اسے کمزور کرنے کے لیے لوگ یہاں سکیم سوچ رہے ہیں.ویسے وہ تلوار اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کسی مخالف کو نہیں دی جو جماعت کی گردن کو کاٹ سکے ، ان اطلاعات سے یہ ظاہر تھا کہ مغربی افریقہ میں جماعت کی غیر معمولی ترقی بہت سے حلقوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہے.اور وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر پاکستان میں جماعت کو کچل دیا جائے یا خاطر خواہ نقصان پہنچایا جائے تو پھر جماعت کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ افریقہ میں اپنی تبلیغ اور دیگر سرگرمیوں کو پہلے کی طرح جاری رکھ سکے.جیسا کہ ہم پہلے یہ ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کے بابرکت دور خلافت میں اکثر مخالفین اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ حضرت مصلح موعود کے بعد کوئی شخص اس کامیابی کے ساتھ جماعت کی قیادت نہیں کر سکے گا اور یوں جماعت کا شیرازہ جلد بکھر جائے گا.اس لیے ہم جائزہ لے چکے ہیں کہ ۱۹۴۷ء کے بعد جماعت کے خلاف بہت منظم شورش برپا کی گئی ، حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ حملہ کروایا گیا اور اندرونی فتنہ پیدا کر کے جماعت کے
148 اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جب حضرت مصلح موعود کی بیماری میں اضافہ ہوا تو پھر یہ سلسلہ کچھ سالوں کے لیے رک گیا.اب مخالفین یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ جماعت کے موجودہ امام کے بعد بغیر کسی کوشش کے ان کے مقاصد خود بخود حاصل ہو جائیں گے.لیکن جب خلافت ثالثہ کا مبارک آغاز ہوا تو وقت کے ساتھ ان کی خام خیالیوں کا تانا بانا ٹوٹنے لگا.جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر رہی تھی.حضور کا دورہ افریقہ اور پھر مجلس نصرت جہاں کے آغاز نے ان مخالفین کے غیظ و غضب میں اضافہ کر دیا اور اب وہ پہلے سے بھی زیادہ زہر یلے وار کی تیاری کر رہے تھے.۱۹۵۳ء کے ابتلاء کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب جماعت کے خلاف کوئی سازش تیار کی جاتی ہے تو بسا اوقات سامنے آنے والے چہرے اور ہوتے ہیں اور پس پردہ سازشیں تیار کرنے والے ہاتھ اور ہوتے ہیں.۱۹۷۰ء کے الیکشن اور مولویوں کی ناکامی پہلے کی طرح اب بھی پاکستان کی نام نہاد مذہبی جماعتیں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک شورش بر پا کرنے کے لیے پر تول رہی تھیں.یہ ۱۹۷۰ء کا سال تھا.صدر ایوب خان کے دس سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہو چکا تھا اور ملک میں مارشل لاء لگا ہوا تھا اور پورے ملک میں انتخابات کی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں.ہمیشہ کی طرح مذہبی جماعتیں کہلانے والی سیاسی پارٹیوں کو یہ توقع تھی کہ ان کو اس الیکشن میں بہت بڑی کامیابی ملے گی، جس کے بعد ان کے اقتدار کا سورج طلوع ہوگا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے بعد جماعت احمدیہ کی ترقی کو روک دینا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا.جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ جماعت اسلامی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کو اتنا نقصان پہنچا دو کہ اس کے اثر کی وجہ سے ان کی عالمی تبلیغ رک جائے.پاکستان کے مستقبل کے متعلق ابھرتے ہوئے خدشات اور جماعت احمدیہ کا فیصلہ اُس وقت مشرقی پاکستان میں سیاسی صورت حال بڑی حد تک واضح تھی.وہاں پر عوامی لیگ سیاسی منظر پر مکمل طور پر حاوی نظر آ رہی تھی.اور یہ نظر آرہا تھا کہ صوبائی خود مختاری کے نام پر مشرقی پاکستان میں یہ جماعت اکثر سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی.دوسری طرف
149 مغربی پاکستان میں صورتِ حال یہ تھی کہ تقریباً دس جماعتیں میدان میں اتری ہوئی تھیں اور کوئی جماعت اتنی مضبوط نظر نہیں آ رہی تھی کہ یہاں کے سیاسی منظر پر واضح برتری حاصل کر سکے.اس صورتِ حال میں دو بڑے خدشات نظر آ رہے تھے.ایک تو یہ کہ اس سیاسی خلا میں نام نہاد مذہبی جماعتیں کوئی بڑی کامیابی حاصل کر لیں اور اپنے زعم میں انہیں بڑی کامیابی کی کافی امید بھی تھی.علاوہ اس حقیقت کے کہ یہ مذہبی پارٹیاں جماعت احمدیہ کی شدید مخالف تھیں.ان کے نظریات ایسے تھے کہ وہ پاکستان کی سالمیت اور اہلِ پاکستان کی آزادی کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ تھے.دوسری طرف یہ خطرہ بھی تھا کہ مغربی پاکستان میں دس کی دس جماعتیں کچھ سیٹیں حاصل کر جائیں اور کوئی بھی اس قابل نہ ہو کہ مستحکم حکومت بنا سکے اور اس طرح ایک سیاسی ابتری اور عدم استحکام کی صورت پیدا ہو جائے.اور یہ صورت کسی بھی ملک کے استحکام کے لیے زہر کا درجہ رکھتی ہے.یہ امر پاکستان کے احمدیوں کے لیے دُہری پریشانی کا باعث تھا.ایک تو یہ کہ آنحضرت کی مبارک تعلیم کے مطابق احمدی جس ملک کا باشندہ ہو اس کا سب سے زیادہ وفا دار اور خیر خواہ ہوتا ہے اور جب پاکستان کو نقصان پہنچتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ دکھ پاکستانی احمد یوں کو ہی ہوتا ہے.دوسرے یہ کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مرکز تھا اور اسی مرکز سے پوری دنیا میں اسلام کی عالمگیر تبلیغ کی مہم چلائی جا رہی تھی.اگر اس ملک میں افراتفری اور طوائف الملو کی کے حالات پیدا ہو جاتے تو اس سانحہ کے جماعت کی مساعی پر منفی اثرات مرتب ہوتے.ایک محب وطن شہری کی حیثیت سے احمدیوں کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آئندہ الیکشن میں کس جماعت کو ووٹ دینے ہیں.اس مرحلے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے جماعت سے رابطہ کیا اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اجازت سے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ان سے ملاقات کے لیے گئے.بھٹو صاحب نے اپنی انتخابی مہم کے متعلق بات شروع کی ، انہیں یہ امید تھی کہ ان کی انتخابی مہم کے لیے جماعت کوئی مالی مدد کرے گی لیکن اس کے جواب میں انہیں بتایا گیا کہ یہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ جماعت احمد یہ ایک مذہبی جماعت ہے اور وہ اس طرح ایک سیاسی پارٹی کی مدد نہیں کر سکتی.بھٹو صاحب نے اگلے روز ٹی وی پر ہونے والی اپنی تقریر کا ذکر بھی کیا.دورانِ گفتگو بھٹو صاحب کو ایک پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا پڑا اور پیپلز پارٹی کے
150 ایک لیڈر ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے انتخابی مہم کا خاکہ اور ان امیدواروں کی فہرست دکھائی جن کو پیپلز پارٹی نے ٹکٹ دیا تھا.جب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے یہ فہرست ملاحظہ فرمائی تو ان میں سے اکثریت کمیونسٹ حضرات کی تھی.جب بھٹو صاحب واپس آئے تو آپ نے انہیں کہا کہ اگر یہ کمیونسٹ حضرات بھٹو صاحب کی مقبولیت کی آڑ میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہو جائے گا.اگر تو وہ کمیونسٹوں کا قبضہ چاہتے ہیں تو اس لسٹ کو برقرار رکھیں ورنہ اسے تبدیل کر دیں.بھٹو صاحب نے پارٹی کے سینیئر لیڈروں کی میٹنگ طلب کی اور پھر یہ اعلان کیا کہ یہ لسٹ حتمی نہیں ہے.بالآخر جونٹی لسٹ بنائی گئی اس میں کمیونسٹ حضرات کی تعداد کافی کم تھی (۱۷).اس دوران ملک کی انتخابی مہم میں تیزی آتی جارہی تھی.اور بہت سے پہلوؤں سے حالات مخدوش نظر آ رہے تھے.جماعت احمد یہ ایک مذہبی جماعت ہے اور سیاسی عزائم نہیں رکھتی.لیکن پاکستان کے احمدی محبّ وطن شہری ہیں اور انہیں دیانتداری سے آئندہ انتخابات میں اپنی رائے کے متعلق کوئی فیصلہ کرنا تھا.یہ فیصلہ کس طرح اور کن بنیادوں پر کیا گیا.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مئی ۱۹۷۳ء میں منعقد وو ہونے والی ہنگامی مجلس شوری میں جس کا تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا ان الفاظ میں روشنی ڈالی...لیکن مغربی پاکستان میں صورت اس کے بالکل برعکس تھی.اگر خدانخواستہ یہاں دس پارٹیوں کے ایک جیسے ارکانِ اسمبلی منتخب ہو جاتے تو گویا مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کے ۱۴۰ ارکان میں سے ۱۴.۱۴ ارکان ہر ایک کے حصہ میں آتے یا اگر تھوڑا بہت فرق بھی ہوتا تو کوئی پارٹی پندرہ اور کوئی بیس کی تعداد میں کامیاب ہوتی کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہوتی تو ان حالات میں مغربی پاکستان بھی باقی نہ ہوتا.یہ حصہ ملک بھی ختم ہو چکا ہوتا کیونکہ اکثریتی پارٹی کے علاوہ جو پارٹیاں کامیاب ہوئیں (ایک تو بالکل ناکام ہوئی ان کے منصوبے اور ان کی سوچ جس نہج پر ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ پاکستان کو مضبوط ہونے کی بجائے کمزور دیکھنا چاہتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں یعنی غدار ہیں اور یہ میں اس لئے نہیں کہ سکتا کہ میرے پاس ایسے ذرائع نہیں کہ میں پوری تحقیق کروں لیکن میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی جو پالیسی ہے اور ان کے جو پلیٹ فارم ہیں وہ پاکستان کو مضبوط و مستحکم کرنے والے نہیں
151 ، پاکستان کو کمزور اور بے بس کرنے والے ہیں....چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ڈالا کہ اگر مغربی پاکستان میں کوئی ایک پارٹی مضبوط بن کر ابھرے گی اور اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرے گی تو مغربی پاکستان کی حکومت مستحکم ہوگی ورنہ اگر ایک پارٹی نے اکثریت حاصل نہ کی تو حکومت مستحکم نہیں ہوگی.“(۲) اس کے بعد حضور نے اس وقت مغربی پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتوں کا تجزیہ بیان فرمایا.اور فرمایا کہ اس وقت مسلم لیگ تین جماعتوں میں تقسیم ہو چکی تھی.ایک مسلم لیگ قیوم گروپ تھا.اس کے سر براہ خان عبد القیوم خان بڑے مخلص اور محب وطن را ہنما تھے لیکن یہ پارٹی کمزور ہو چکی تھی اور اس کی قیادت میں بھی اختلافات پیدا ہو چکے تھے.اور کسی سمجھ دار آدمی کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ اس پارٹی میں یہ ہمت نہیں کہ وہ پاکستان کی مضبوطی اور استحکام کا باعث بنے.اور ایک مسلم لیگ کونسل مسلم لیگ تھی جس کے سربراہ دولتانہ صاحب تھے.انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ کوئی قادیانی ہماری مسلم لیگ کا ممبر بھی نہیں بن سکتا.حالانکہ اس وقت بھی کچھ احمدی ان کی پارٹی کے ممبر تھے اور انہوں نے اس پر احتجاج کیا تو دولتانہ صاحب نے تقریر کے اس حصے کا انکار کر دیا لیکن اس کا ریکارڈ موجود تھا جو ان کو سنا دیا گیا جس پر وہ کوئی جواب نہ دے سکے.اس پر جو احمدی کونسل مسلم لیگ کے ممبر تھے انہوں نے دولتانہ صاحب کو ایک تحریری نوٹس دیا کہ وہ سات دن کے اندر اس بیان کی تردید کریں ورنہ وہ ان کی پارٹی کو چھوڑ دیں گے.اس نوٹس پر بہت سے غیر از جماعت دوستوں نے بھی دستخط کر دیئے.اور دولتانہ صاحب کی پارٹی کے ایک لیڈر نے بھی جماعت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ دولتانہ صاحب سے اس بیان کے برعکس اعلان کروا دیں گے.لیکن دولتانہ صاحب نے اپنے ساتھیوں کے مشوروں کا جواب یہ دیا کہ اپنا استعفیٰ پیش کر دیا اور ان ساتھیوں سے خوشامد میں کرا کے دوبارہ کرسی صدارت پر بیٹھ گئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلس مشاورت میں ممتاز دولتانہ صاحب کے متعلق فرمایا: وہ میرے بھی دوست رہے ہیں اس لئے جتنا میں ان کو جانتا ہوں اتنا شاید ہی کوئی اور جانتا ہو.ہم بچپن کی عمر سے دوست رہے ہیں انہوں نے دوستی کا تعلق توڑ دیا لیکن ہم نے تو نہیں تو ڑا.ان کے لئے دوستانہ خیر خواہی کا جذبہ آج بھی اسی طرح موجود ہے جس
152 طرح پہلے تھا.اگر وہ ناراض ہیں اور ہماری خیر خواہی نہیں چاہتے تو نہ ہی کسی سے زبر دستی تو خیر خواہی نہیں کی جاسکتی اور نہ اس کے مطلب کے کام کئے جاسکتے ہیں.(۳) دولتانہ صاحب کا مذکورہ بالا بیان اس لیے بھی زیادہ خدشات کو جنم دے رہا تھا کہ وہ ۱۹۵۳ء میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور انہوں نے جماعت کے خلاف فسادات کی آگ کو عملاً ہوا دی تھی اور اس کو تاہ بینی کی وجہ سے آخر کار انہیں پنجاب کی وزارت اعلی سے مستعفی ہونا پڑا تھا.اس کا تفصیلی ذکر پہلے آچکا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا تھا.حضور نے فرمایا کہ کنونشن مسلم لیگ جو کہ سابق صدر ایوب خان صاحب کی پارٹی تھی ، اس نے بھی گومگو کی کیفیت اختیار کی اس لیے جماعت نے ان کو بھی چھوڑ دیا.پھر حضور نے مذہبی سیاسی جماعتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا: باقی کچھ علماء کی سیاسی جماعتیں تھیں مثلاً ایک جماعت اسلامی تھی.اکثر احمدی دوستوں کو شاید یہ علم نہیں کہ یہ جماعت احمدیوں کے خلاف انتہائی شدید بغض رکھتی ہے یہاں تک کہ اگر ان کو موقع ملے تو ہماری بوٹیاں نوچنے سے بھی گریز نہ کریں مگر اس کے باوجود انہوں نے الیکشن کے دنوں میں اپنی جماعت کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ احمدیوں کے ساتھ پیار سے باتیں کریں ان کو ناراض نہ کریں کیونکہ اگر یہ ہمارے پیچھے پڑ گئے تو ہمیں بہت تنگ کریں گے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان کو احمدیوں سے شدید بغض اور عناد ہے اس لئے خود تو ہمارے خلاف پوشیدہ طور پر سازشوں میں مصروف رہے لیکن دوسری جماعتوں کو جو تھیں تو مذہبی لیکن بظاہر سیاسی لیبل لگا کر میدان انتخاب میں اتریں تھیں یعنی جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام ، ان کو اکسا کر لوگوں نے ہماری مخالفت میں لگا دیا وہ ہمارے خلاف اعلانیہ بڑے بلند بانگ دعوی کرتے نہ تھکتے تھے اور کہتے تھے ہم احمد یوں کو مٹادیں گے.پھر آخر میں جب جماعت اسلامی نے دیکھا کہ ان کی ریا کارانہ پالیسی نے جماعت احمد یہ پر کچھ بھی اثر نہیں کیا تو وہ بھی کھلم کھلا ہماری مخالفت پر اتر آئے.اب آپ میں سے ہر دوست سمجھ سکتا ہے کہ جماعت احمدیہ نے ان مخالف اور معاند پارٹیوں کو تو ووٹ نہیں دینے تھے.(۳)
153.حضور نے کچھ اور سیاسی پارٹیوں کا تجزیہ کرنے کے بعد فرمایا کہ ان حالات میں صرف ایک پارٹی رہ جاتی تھی جسے ووٹ دیئے جاسکتے تھے اور وہ پاکستان پیپلز پارٹی تھی.حضور نے الیکشن کے وقت اس پارٹی کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ۷۰ء میں اس پارٹی کی حالت یہ تھی کہ بحیثیت پارٹی کامیاب ہونے کے لیے نہ اسے پورا علم حاصل تھا اور نہ کوئی تجربہ اور نئی پارٹی ہونے کی وجہ سے ابھی یہ عوام میں مقبولیت بھی حاصل نہیں کر پائی تھی.اس کی اپنی کوئی روایات بھی نہیں تھیں حالانکہ ہر سیاسی پارٹی کی کچھ روایات ہوتی ہیں جو اس کی کامیابی میں ممد و معاون بنتی ہیں.حضور نے فرمایا کہ چونکہ ہمیں خدا تعالیٰ کا یہ منشا معلوم ہوتا تھا کہ کسی ایک پارٹی کو مستحکم بنایا جائے.چنانچہ ہم نے اپنی عقل خداداد سے پاکستان کی سیاست کا جائزہ لیا تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی ہی ایک ایسی پارٹی ہے جسے کثرت کے ساتھ ووٹ دینا ملکی مفاد کے عین مطابق ہے.حضور نے ۱۹۷۰ء کے الیکشن سے قبل کے وقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس پارٹی کے اکثر ارکان ہم سے مشورہ لیتے تھے.انہوں نے ہم سے بہت مشورے لیے گو وہ مشورے لیتے ہوئے ڈرتے بھی تھے اور سمجھتے بھی تھے کہ ان کے بغیر کوئی چارہ کار بھی نہیں.(۴) اس طرح مغربی پاکستان میں احمدیوں نے اکثر جگہوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی حمایت شروع کر دی.لیکن یہ حمایت ہر جگہ پر پاکستان پیپلز پارٹی تک محدود نہیں تھی.بلکہ کئی جگہوں پر احمدیوں نے دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کی بھی حمایت کی.بعض سیٹوں پر احمد یوں نے مسلم لیگ قیوم گروپ کو ووٹ دیئے.کچھ سیٹوں پر کنونشن مسلم لیگ کے ایسے امیدوار کھڑے تھے جن کے احمدیوں سے دوستانہ سے تعلقات تھے.جماعت نے ان سیٹوں پر ان کو ووٹ دیئے.صوبائی اسمبلیوں کی چارسیٹوں پر بھی احمدیوں نے وعدہ کیا تھا کہ کنونشن مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے لیکن جب ان کو قومی اسمبلی کے انتخابات میں شکست ہو گئی تو انہوں نے خود ہی احمد یوں کو لکھ دیا کہ اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ہم آپ کو اس وعدے سے آزاد کرتے ہیں.بعض سیٹوں پر احمدیوں نے ایسے آزاد امیدواروں کی حمایت بھی کی جو طبعاً شریف تھے اور احمدیوں سے تعلقات رکھتے تھے.اور تو اور ایک سیٹ پر کنونشنل مسلم لیگ کے ایسے امیدوار کھڑے تھے جن کا اس پارٹی سے کوئی دیرینہ تعلق نہیں تھا مگر اس پارٹی نے مناسب امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ٹکٹ دے دیا.ان صاحب کے احمدیوں سے
154 دیرینہ تعلقات تھے.احمدیوں نے عرض کی کہ ان کو ووٹ دینے کی اجازت دی جائے.چنانچہ ان کو یہ اجازت دی گئی (۵).لیکن مجموعی صورت حال یہ تھی کہ باقی جماعتوں کی نسبت پاکستان پیپلز پارٹی پیچھے پڑ کر ا کثر سیٹوں پر احمدیوں کی حمایت حاصل کر رہی تھی.اور دوسری طرف ۱۹۷۰ ء کے الیکشن میں کسی ایک جماعت کی مدد کرنا جماعت احمدیہ کے لیے اپنی ذات میں ایک بہت نازک مسئلہ تھا.کیونکہ جماعت احمد یہ ایک مذہبی جماعت ہے اور ایسے معاملات اس کے نزدیک اپنے اصل مقاصد کی نسبت بہت کم اہمیت رکھتے تھے لیکن ملکی حالات کا تقاضا تھا کہ مغربی پاکستان میں کسی ایک پارٹی کو مضبوط شکل میں ابھرنا چاہیے ورنہ ملک کے لیے اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے.اور بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ خدشات سو فیصد صحیح تھے لیکن پیپلز پارٹی والوں کو یہ بات بھی محسوس ہورہی تھی کہ احمدی ہر جگہ پر ان کی حمایت کیوں نہیں کر رہے.چنانچہ ان کے چوٹی کے راہنماؤں میں سے ایک نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں عرض کی کہ اگر آپ ہماری اتنی مدد کر رہے ہیں تو مکمل مدد کیوں نہیں کرتے.یعنی تمام حلقہ ہائے انتخاب میں ان کی حمایت کیوں نہیں کرتے.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے ۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلس شوریٰ میں فرمایا: وو یہ ان کو احساس تھا کہ ہم کلینہ ان کی مدد نہیں کر رہے کیونکہ الحاق کی صورت نہیں ہے.دراصل ہم ان سے الحاق کر ہی نہیں سکتے تھے.ہمیں دنیا کے اقتدار اور مال و دولت کی ذرہ بھر پرواہ نہیں ہے اس لئے جب میں اپنے آپ کو ایک مذہبی جماعت کہتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا ہے اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم میرے ساتھ محبت اور پیار کا غیر منقطع رشتہ قائم کرو گے تو دین اور دنیا کے سارے انعامات تمہیں دے دوں گا.ہم اس حقیقت زندگی کو بھول کر اور خدا تعالیٰ کے انعامات کو چھوڑ کر کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے ساتھ دنیوی الحاق کیسے کر سکتے ہیں ہم ان کے زرخرید غلام تو نہیں ، ہم غلام ہیں اور اس کا پورے زور سے اعلان بھی کرتے ہیں لیکن ہم صرف اس عظیم ہستی کے غلام ہیں جو واحد و یگانہ ہے.دنیا کے ساتھ ہمارے دنیوی تعلقات ہیں، پیار کے تعلقات ہیں، بطور خادم کے بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کے تعلقات ہیں غم خوار اور ہمدرد کی حیثیت میں
155 ان کی ہمدردی کرنے کے تعلقات ہیں.اس لحاظ سے گویا ہر فرد بشر کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں.(1) مخالفین جماعت کا غیظ و غضب جب جماعت احمدیہ نے ملک کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات میں ووٹ اور حمایت کے لیے مندرجہ بالا فیصلہ کیا تو جماعت اسلامی اور دوسری نام نہاد مذہبی جماعتوں کی پریشانی میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا.وہ اس امر کو اپنی فرضی کامیابی کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھ رہے تھے.انہیں یہ بات کسی طرح نہیں بھا رہی تھی کہ احمدی کسی رنگ میں بھی آئندہ انتخابات میں حصہ لیں.دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بسنے والے احمدی ملک کے محب وطن شہری ہیں.وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اپنے شہری ہونے کے دوسرے حقوق ادا کرتے ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ عمومی طور پر احمدی سیاست میں اس لیے نہیں حصہ لیتے کہ ان کے سامنے اور اعلیٰ مقاصد ہیں اور وہ اپنی توانائی کو ان ادنی کاموں پر خرچ نہیں کرتے.لیکن یہ ان کا فیصلہ ہے.قانونی اور اخلاقی طور پر احمدی اس بات کا مکمل حق رکھتے ہیں کہ وہ جب چاہیں قانون کے مطابق ملک کی سیاست اور انتخابات میں جس طرح پسند کریں حصہ لیں.کسی اور گروہ یا جماعت کا یہ حق نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ملک کی ٹھیکہ دار سمجھتے ہوئے اس پر اعتراض کرے.بہر حال اب مولوی خیالات کے اخبارات اور رسائل اس بات پر اپنے غیظ و غضب کا اظہار کر رہے تھے کہ احمدی اپنے بنیادی شہری حقوق کے مطابق اس انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں.ان کا خیال تھا کہ یہ حق صرف انہیں حاصل ہے کہ وہ انتخابی مہم میں حصہ لیں اور اس پر ہر طرح سے اثر انداز ہوں بلکہ اس مہم کی آڑ میں جس طرح دل چاہے جماعت احمد یہ پر حملہ کریں اور یہ اعلان کریں کہ وہ اقتدار میں آکر احمدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیں گے.لیکن اگر احمدی اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے اس کا جواب دیں یا ملکی مفادات کے تحفظ کی خاطر کسی طرح انتخابی عمل میں حصہ لیں تو اس پر وہ آگ بگولہ ہو جاتے تھے.مولوی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ رسالہ چٹان جماعت کی مخالفت میں پہلے بھی پیش پیش رہ چکا تھا.
156 اس انتخابی مہم میں یہ رسالہ مودودی صاحب کی جماعت اسلامی کی حمایت کر رہا تھا اور اس کے مدیر یہ اعلان کر رہے تھے ، " ہم جیسے لاکھوں اشخاص مولانا مودودی سے متاثر ہیں اور صرف اس لئے متاثر ہیں کہ وہ قرآن کی دعوت دیتے ، انبیاء سے عشق پر ابھارتے اور معاشرہ کو عہد صحابہ کا نمونہ بنانا چاہتے ہیں (۷).اور یہ رسالہ اس بات پر مسلسل اپنے صفحات سیاہ کر رہا تھا کہ احمدی اس مرتبہ انتخابی عمل میں حصہ کیوں لے رہے ہیں (۸).وہ یہ واویلا تو کر رہے تھے کہ احمدی پیپلز پارٹی کی مددکر رہے ہیں لیکن ساتھ کے ساتھ یہ الزام بھی لگا رہے تھے کہ جمعیت العلماء اسلام، جو کہ جماعت کی مخالفت میں پیش پیش رہی تھی ، کے جلسے بھی احمدیوں کی مدد سے منعقد کیے جارہے ہیں.اور یہ دعویٰ بار بار کیا جا رہا تھا کہ یہ جماعت اور ان کے لیڈر مثلاً مفتی محمود صاحب قادیانیوں سے مدد حاصل کر رہے ہیں.اس سے وہ دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے.ایک تو یہ کہ ان الزامات سے خوفزدہ ہو کر جمعیت العلماء اسلام اور ان کے قائدین پہلے سے زیادہ بڑھ کر جماعت احمدیہ کی مخالفت میں جوش و خروش کا مظاہرہ کریں گے اور اس طرح جماعت احمدیہ کو نقصان پہنچے گا.اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ چونکہ یہ جماعت انتخابات میں جماعت اسلامی کے مد مقابل کی حیثیت رکھتی تھی اس طرح ان الزامات سے اس حریف کو نقصان پہنچے گا.ان الزامات کی زبان ملاحظہ ہو.مفتی محمود صاحب کی پارٹی جمعیت العلماء اسلام نے آئین شریعت کا نفرنس منعقد کی تو اس پر چٹان نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا’ قادیانی جماعت نے آئین شریعت کا نفرنس کے انعقاد پر دس ہزار روپیہ دیا تھا.غلام غوث ہزاروی اور مفتی محمود کس استاد کے آلہ کار ہیں.اس مضمون میں مضمون نگار نے انکشاف کیا جمعیت العلماء کے دونوں بزرگ ان دنوں ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں.انھیں قادیانی گوارا ہیں، کمیونسٹ عزیز ہیں لیکن مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور آغا شورش کا شمیری کے خلاف جوز ہر ان کے دل میں بیٹھ چکا ہے وہ نکلنا مشکل.غلام غوث اور مفتی محمود پلکوں سے جاروب کشی کرتے ہوئے مبشر حسن کے گھر جاتے ہیں.ان کے جلسوں اور جلوسوں کی رونق سرنے ہوتے ، وہی انھیں اچھال رہے ہیں اور ان کی بدولت وہ اچھال چھ کا ہو گئے ہیں.آئین شریعت کا نفرنس میں جو سبیلیں لگی تھیں ، وہ سرخوں کی تھیں یا پھر ایک سبیل کے لیے قادیانی جماعت نے چندہ دیا تھا.راستہ بھر جھنڈے
157 بھی سرخوں یا پہیوں کے لہرا رہے تھے.جمعیت کا ایک بھی جھنڈا کسی کونے یا نکڑ میں نہیں تھا.(۸) رسالہ چٹان تو یہاں تک لکھ رہا تھا کہ جمعیت العلماء اسلام مرزائیوں کا بغل بچہ ہے.(۹) اس الزام پر جمعیت العلماء اسلام نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جھوٹی خبریں شائع کرنے اور ائمہ کرام پر بہتان تراشی کرنے کے الزام میں چٹان رسالہ پر مقدمہ چلایا جائے.اس کے جواب میں چٹان نے یہ بیان داغا : وو جمعیت میں داخل ہونے کے بعد ہر ایرا غیرا مولا نا ہو جاتا ہے.شاید اس قسم کے مولا نالعنة اللہ علی الکاذبین سے مستثنیٰ ہیں؟...رہا آئمہ کرام کا سوال تو ان کے حدود اربعہ سے مطلع کیجئے.ہم شکر گزار ہوں گے ، ہم نے تو جمعیت میں آئمہ کرام کی شکل نہیں دیکھی.یہ جنس اس کباڑ خانے میں کہاں ہے؟ (10) جواب میں جمعیت العلماء اسلام والے کس طرح پیچھے رہ جاتے.انہوں نے اپنے جریدہ ترجمانِ اسلام میں الزام لگایا کہ مرزائیوں نے چٹان کے اس مضمون پر، جس میں مفتی محمود صاحب اور ان کی پارٹی پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے قادیانیوں سے مالی مدد لی ہے، بہت مسرت کا اظہار کیا اور اس خوشی میں چٹان کے مدیر شورش کا شمیری صاحب کو نذرانہ پیش کرنے کے لیے ان کے رسالے کو اشتہارات سے نوازا.اس الزام پر تلملا کر شورش کا شمیری صاحب نے تحریر فرمایا کہ ”...ہم ان کوڑھ مغزوں سے نہیں الجھنا چاہتے.مفتی محمود اور غلام غوث اب اس قابل نہیں رہے کہ انھیں منہ لگایا جائے.ہم ان سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی قرنِ اول میں حلقہ بگوشان رسول شرک سے کرتے تھے.....مولانا کو یہ بھی معلوم ہے کہ ان کی جماعت کے جولوگ میرے خلاف اپنی خاندانی زبان استعمال کر رہے ہیں مثلاً مشتے نمونہ از خروارے، جانباز مرزا اور ضیاء القاسمی اپنے اعمال کی رو سے اس قابل ہیں کہ اسلامی حکومت ہو تو انہیں فوراً سنگسار کر دیا جائے.“ (۱۱) جماعت اسلامی کا جریدہ ایشیا بھی اس مہم میں پوری سرگرمی سے حصہ لے رہا تھا.اس نے
158 ۹ راگست ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں جہاں یہ الزام لگایا کہ جماعت احمد یہ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ہو چکا ہے، وہاں یہ دعوی بھی کیا کہ اب منکرین ختم نبوت اور نام نہاد محافظین ختم نبوت بھی ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں اور اب جماعت احمدیہ اور جمعیت العلماء اسلام بھی ایک صف میں کھڑے ہیں.اسی مضمون میں یہ تجزیہ بھی شائع کیا گیا کہ بائیں بازو کی جماعتیں پانچ فیصد ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکیں گی (۱۲).اس جریدے میں یہ دعوی بھی کیا جا رہا تھا کہ اب تو خود پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو بھی نا امید ہو چکے ہیں کہ ان کی پارٹی کوئی خاطر خواہ کارکردگی دکھا سکے گی اور ان انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتوں کے لیے کوئی خطرہ بن سکے گی.اور اب پیپلز پارٹی کے کارکن انتخابی عمل میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے.(۱۳) جماعت کی مخالفت میں پیش پیش رہنے والی اور مذہبی جماعتوں کے نام سے موسوم ہونے والی پارٹیوں کی باتوں میں سے اگر نصف بھی صحیح تسلیم کر لی جائیں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان سب کو قادیانیوں نے خریدا ہوا تھا اور ان میں سے بہت سے مکہ کے مشرکین کی طرح قابل نفرت ہیں بلکہ بعض تو اس قابل ہیں کہ انہیں سنگسار کر دیا جائے.ایک دوسرے کے متعلق تو ان کی یہ آراء تھیں لیکن اس کے باوجود اس بات پر لال پیلے ہو رہے تھے کہ احمدی انتخابی عمل میں کیوں حصہ لے رہے ہیں.ایک دوسرے کو ان الزامات سے نوازنے کے بعد چند برسوں کے بعد ان پارٹیوں نے ایک اتحاد بھی بنالیا اور اس میں یہ سب پارٹیاں مفتی محمود صاحب کی صدارت میں ایک انتخابی اتحاد کا حصہ بھی بن گئیں.اور کچھ عرصہ قبل یہ الزام تراشی ہو رہی تھی کہ مفتی محمود صاحب قادیانیوں سے مالی مدد لے رہے ہیں.بھٹو صاحب کا انتخابات سے قبل موقف اس قسم کے سوالات پیپلز پارٹی کے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو صاحب سے بھی کیا جارہا تھا کہ کیا پیپلز پارٹی کا جماعت احمدیہ سے کوئی معاہدہ ہے یا کیا وہ اقتدار میں آکر قادیا نیوں کو غیر مسلم قرار دیں گے.اور بھٹو صاحب محتاط انداز میں ان سوالات کا جواب دے رہے تھے.جولائی ۱۹۷۰ء میں انتخابی مہم کے دوران ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا پیپلز پارٹی عوام کے اس مطالبہ کی حمایت کرے گی کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.اس کے جواب میں بھٹو صاحب نے کہا.
159 یہ انتہائی نازک مسئلہ ہے جس پر ملک میں پہلے بھی خون خرابہ ہو چکا ہے اور مارشل لاء لگ چکا ہے اور موجودہ حالات میں اگر اس مسئلہ کو ہوا دی گئی تو مزید خون خرابہ ہونے کا خدشہ ہے.ہماری پالیسی یہ ہے کہ ملک میں سوشلسٹ نظام رائج کریں.جس میں ہندو عیسائی وغیرہ تمام طبقوں کے عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے.یہ قطعاً غلط ہے کہ قادیانی فرقہ کی ہم حمایت کر رہے ہیں.ہماری جماعت ترقی پسند ہے جس میں اس قسم کے مسئلوں کے لیے کوئی جگہ نہیں.(۱۴) پھر اس کے ایک ہفتہ کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور احمدی فرقہ کے درمیان کوئی خفیہ سمجھوتہ نہیں ہوا تا ہم انتخاب میں کسی طبقہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.(۱۵) جماعت کی مخالفت میں تیزی آتی ہے تمام تر کوششوں کے باوجود وہ جماعتیں جو مذہبی جماعتیں کہلاتی تھیں آپس میں اتحاد نہیں کر پارہی تھیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھیں.اس پر مستزاد یہ کہ انہیں یہ بات بری طرح چبھ رہی تھی کہ اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے بہت سے احمدی انتخابی عمل میں حصہ کیوں لے رہے ہیں.ان کے نزدیک اگر احمدی اپنے شہری حقوق کے مطابق اس عمل میں حصہ لیں تو یہ ایک بہت بڑا جرم تھا.وہ اپنے علاوہ باقیوں کو ملک کا دوسرے درجہ کا شہری سمجھتے تھے.اب وہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی پر حملے کر رہے تھے تا کہ اس طرح ایک طبقہ کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں.چنانچہ جماعت احمدیہ کے اشد مخالف جریدے چٹان نے انتخابات سے دو ہفتہ قبل ۲۳ نومبر کے شمارے کے سرورق پر ایک تصویر شائع کی جس میں پیپلز پارٹی کے چیئر مین بھٹو صاحب کو ایک پرندے کی صورت میں دکھایا گیا تھا.اس کے ایک پر کے او پرلکھا تھا مرزائیت اور دوسرے پر کے اوپرلکھا تھا کمیونزم.اس شمارے کے آغاز میں ہی یہ واویلہ کیا گیا تھا کہ جس دن سے گول میز کانفرنس ختم ہوئی ہے ہم اس دن سے چلا رہے ہیں بھٹو نے اس بر عظیم کی سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ مرزائیوں کو سیاسی پناہ دے کر اپنا دست و باز و بنایا اور انتخابی میدان میں مسلمانوں کے علی الرغم لا کھڑا کیا.
160 بھٹو مسلمانوں کی اسلام سے شیفتگی کونئی پود کے سینے سے نکال رہا ہے اور جن شخصیتوں پر مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا انحصار رہا ہے، ان کی عقیدت نئی نسل سے ختم کرنا چاہتا ہے.(۱۲) بعض اخبارات میں یہ خبریں شائع کی جارہی تھیں کہ پیپلز پارٹی کے بہت سے اہم کارکنان اسے چھوڑ رہے ہیں اور ان میں سے بعض کے یہ بیان بھی شائع کئے جاتے تھے کہ ہم پیپلز پارٹی کو اس لئے چھوڑ رہے ہیں کیونکہ اس نے جماعت احمدیہ سے اتحاد کر لیا ہے (۱۷).یہ شور وغل ان کی اپنی ذہنی بوکھلاہٹ کی عکاسی کر رہا تھا ورنہ جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ جماعت احمدیہ کا کسی سے سیاسی اتحاد ہو ہی نہیں سکتا.البتہ بعض مخصوص حالات میں اپنے ملک کے مفادات کی حفاظت کے لیے پاکستانی احمدیوں نے اپنا قانونی حق استعمال کیا تھا اور اس پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے.مخالفین کی خوش فہمیاں جماعت کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کو آخر تک بہت سی امیدیں تھیں کہ انتخابات میں انہی کا پلہ بھاری رہے گا.کونسل مسلم لیگ کے نائب صدر نے ایک جلسہ میں یہ دعویٰ کیا کہ اگر پیپلز پارٹی کا کوئی امید وار زرضمانت بچانے میں کامیاب ہو گیا تو وہ عملی سیاست سے مستعفی ہو جائیں گے (۱۸) اور اس کے لیڈر یہ اعلان کر رہے تھے کہ وہ اقتدار میں آکر جدا گانہ انتخابات کا نظام لائیں گے یعنی مذہبی اقلیتوں کو انتخابات میں عام نشستوں سے بھی کھڑا ہونے کی اجازت نہیں ہوگی ، ان کی نشستیں علیحدہ ہوں گی تا کہ وہ ملکی سیاست کے دھارے سے علیحدہ ہی رہیں.(۱۹) الیکشن میں ایک ماہ سے بھی کم رہ گیا تھا اور جماعت احمدیہ کی اشد مخالف جماعت ، جمعیت العلماء پاکستان کو یہ امیدیں لگی ہوئی تھیں کہ وہ اپنی روحانیت کے بل بوتے پر پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں گے.چنانچہ ان کے صدر خواجہ قمر الدین سیالوی نے ایک جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم روحانیت کے بل بوتے پر انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے.اور یہ روحانیت ہمیں ورثہ میں ملی ہے.اور مزید کہا کہ ہماری جماعت ایسا اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتی ہے جو خلافت راشدہ کا نمونہ ہو (۱۹).( شاید اپنی روحانیت پر انحصار کا یہ نتیجہ تھا کہ اس جماعت کو انتخابات میں شدید نا کامی کا سامنا کرنا پڑا) جماعت اسلامی بھی ایک بہت بڑی کامیابی کے خواب دیکھ رہی تھی.چنانچہ اس کے لیڈر جلسوں میں دعوے کر رہے تھے کہ
161 پیپلز پارٹی ملک کی بدلتی ہوئی صورت حال میں اب نا قابل ذکر ہو چکی ہے.اور ان کی کسی بھی سیٹ پر کامیابی مشکوک ہے.اور آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی یقیناً برسر اقتدار آ جائے گی.(۲۰) جماعت اسلامی کو مشرقی پاکستان میں بھی خاطر خواہ کامیابی کی امیدیں تھیں.بعد میں جب حمود الرحمن کمیشن کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ عوامی لیگ کے قائد مجیب الرحمن صاحب نے اس وقت جماعت اسلامی اور دولتانہ صاحب کی کونسل لیگ کو انتخابی مفاہمت کی پیشکش کی تھی جس کی رو سے کچھ سیٹوں پر ان جماعتوں کے امیدواروں کے مقابل پر عوامی لیگ ان جماعتوں کے امیدواروں کے مقابل پر اپنے امیدوار نہ کھڑے کرنے کے لیے تیار تھی.لیکن ان جماعتوں نے یہ پیشکش اس بنیاد پر مستر د کر دی کہ عوامی لیگ انہیں جتنی نشستیں دینے کے لیے تیار تھی جماعت اسلامی اور دولتانہ صاحب کی کونسل لیگ کو اس سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی امید تھی.لیکن آخر نتیجہ یہ نکلا کہ یہ جماعتیں مشرقی پاکستان سے ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکیں.(۲۱) یہ خیال کہ مغربی پاکستان میں مذہبی جماعتیں کہلانے والی سیاسی پارٹیاں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکیں گی صرف ان جماعتوں تک محدود نہیں تھا.بلکہ دوسرے حلقے بھی اس رائے کا اظہار کر رہے تھے کہ گو جماعت اسلامی مغربی پاکستان میں اکثریت تو حاصل نہیں کر سکے گی لیکن مغربی پاکستان کے ایک چوتھائی سے زیادہ ووٹر جماعت اسلامی کے حق میں ووٹ دیں گے.اخبار نوائے وقت نے انتخابات سے چند روز قبل ایک جائزہ شائع کیا جس کے مطابق ۳۷ فیصد ووٹر پیپلز پارٹی کے حق میں تھے.۲۸ فیصد ووٹر جماعت اسلامی کے حق میں اور ۲۶ فیصد دولتانہ صاحب کی کونسل مسلم لیگ کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے تھے.ایسی صورت میں جبکہ کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل نہ ہو رہی ہوا یسی جماعتیں بھی بہت اہمیت حاصل کر جاتی ہیں جنہوں نے تقریباً ایک چوتھائی ووٹ حاصل کیے ہوں.(۲۲) ۱۹۷۰ء کے انتخابات بہر حال ان قیاس آرائیوں کے درمیان عام انتخابات کا دن آ گیا.ے دسمبر کی رات کو ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی.کچھ نتائج بھی سامنے آنے شروع ہوئے.ووٹنگ شروع ہوتے ہی تین باتیں بہت
162 واضح نظر آ رہی تھیں.پہلی تو یہ کہ عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی تقریباً تمام نشستیں حاصل کر رہی تھی.مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو اکثر نشستوں پر برتری حاصل ہورہی تھی.اور نام نہاد مذہبی جماعتوں کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا.ان کے متعلق تمام اندازے غلط ثابت ہو رہے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کے قائد مودودی صاحب کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کی پارٹی کو اتنی مکمل شکست سے دو چار ہونا پڑا ہے.ابھی نصف نشستوں کے نتائج سامنے آئے تھے کہ مودودی صاحب نے اپنی پارٹی کے کارکنان سے اپیل کی کہ پولنگ کے موقع پر جہاں جہاں بھی بے ایمانیاں یا بے قاعد گیاں ہوئی ہیں وہاں سے شہادتیں حاصل کر کے جلد از جلد جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر بھجوائی جائیں تا کہ حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے (۲۳).لیکن جلد ہی ان پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی کہ ان کی پارٹی کی شکست کی وجہ کوئی بے قاعدگی یا بے ایمانی نہیں بلکہ لوگوں کی حمایت سے محروم ہونا ہے.اس لیے جلد ہی تحقیقات کا مطالبہ ترک کر دیا گیا.پورے ملک میں تین سونشستوں پر انتخابات ہوئے تھے.ان میں سے ۱۶۰ پر عوامی لیگ نے کامیابی حاصل کی.ان تمام امیدواروں کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا.مشرقی پاکستان کی نشستوں میں سے صرف دو ایسی تھیں جن پر عوامی لیگ کے امیدوار کامیاب نہیں ہوئے.مغربی پاکستان کی ۱۳۸ نشستوں میں سے ۸۱ پر پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی.پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا.جماعت اسلامی کو صرف چار نشستوں پر اور جمعیت العلماء اسلام ، جمعیت العلماء پاکستان اور کونسل مسلم لیگ کو سات سات نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی.ان سیاسی پارٹیوں کے لیے جو مذہبی جماعتیں کہلاتی ہیں اور جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں یہ نتائج بہت ہی مایوس کن تھے.ایک تو یہ کہ ان کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کے تمام دعووں کے برعکس یہ ظاہر ہو گیا تھا کہ یہ پارٹیاں پاکستان کے عوام کی حمایت سے محروم ہیں.مغربی پاکستان میں بھی جماعت اسلامی کو صرف ۴ فیصد ووٹ مل سکے.اور سیاسی غلبہ اور اقتدار حاصل کرنے کا ایک اور موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا.اور یہ بات ان کے غیظ و غضب میں اضافہ کر رہی تھی کہ احمدی اکثر نشستوں پر جس پارٹی کی حمایت کر رہی تھی اس نے مغربی پاکستان میں اکثر نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے.اور چند احمدی بھی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہوئے تھے.
163 جماعت احمدیہ کے لیے تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ ایک سیاسی جماعت نے کامیابی حاصل کی ہے لیکن جماعت کی مخالف مذہبی جماعتوں کا نظریہ تھا کہ مذہبی مقاصد سیاسی تسلط کے بغیر حاصل نہیں کیے جاسکتے.انتخابات میں خفت اُٹھانے کے بعد چٹان میں شورش کا شمیری کا یہ اداریہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس وقت جماعت اسلامی کا حامی طبقہ کن خیالات میں غلطاں تھا.اس اداریہ کا عنوان تھا اپنی غلطیوں سے عبرت پکڑو.اس میں شورش کا شمیری صاحب نے لکھا: اگر واقعہ محض یہ ہوتا کہ انتخاب میں رجعت پسندوں کو شکست ہو گئی ہے اور ان کی جگہ ترقی پسند آ گئے ہیں یا کلاہ کامیابی کاسہ لیسوں کے سر سے اتار کر انقلابیوں کے سر پر رکھ دی گئی ہے تو ہم کھلے دل سے خیر مقدم کرتے لیکن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جولوگ پنجاب اور سندھ سے منتخب ہوئے ہیں.ان کی واضح اکثریت (۹۰ فیصد ) ان افراد پر مشتمل ہے جو خلتاً انقلاب پسند نہیں اور نہ ان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ اپنی بڑی بڑی جاگیروں اور اپنے شاندار ماضی کے باعث غرباء کے ہمدرد ہو سکتے اور اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں....دو گروہوں نے پیپلز پارٹی کے الیکشن کو منظم کیا.اولاً وہ عناصر جنہیں حادثاتی سوشلسٹ کہہ لیجئے اس عنصر نے اپنے صبح شام اس غرض سے وقف کر دیے، ان میں آرگنا ئز روہ لوگ تھے وہ اپنی جیت صرف اس میں سمجھتے تھے کہ سوشلزم کا لفظ رواج پا رہا ہے، اور پرانی قدریں ٹوٹ رہی ہیں.یہ لوگ بالطبع مذہب سے متنفر ہیں.ان کے علاوہ جن دو فرقوں نے پیپلز پارٹی کی پشت پناہی کی ان میں ایک فرقہ تو مسلمانوں کا فرقہ ہی نہیں اور وہ مسلمانوں سے انتقام لے رہا ہے وہ ہے قادیانی ! جس تندہی سے قادیانی امت کی عورتوں مردوں اور بچوں نے پیپلز پارٹی کے لیے کام کیا ، اس کی مثال نہیں ملتی.لاہور میں میاں طفیل محمد اور جاوید اقبال کے خلاف قادیانی ہر چیز داؤ پر لگائے بیٹھے تھے.پسرور کا وہ حلقہ جہاں سے کوثر نیازی چنا گیا ہے تمام تر مرزائیوں کے ہاتھ میں تھا.وہ کوثر نیازی کو ووٹ نہیں دے رہے تھے بغض کو ٹ دے رہے تھے.وہ ہر اس شخص سے انتقام لے رہے تھے جو اسلام کے نام پر کھڑا اور ان کا مذہباً مخالف تھا.انھیں کسی حال میں بھی کسی جمعیت العلماء ، میاں ممتاز دولتانہ،
164 نوابزادہ نصر اللہ خان اور ابوالاعلیٰ مودودی کا امید وار گوارا نہ تھا...(۲۴) اس اقتباس سے یہ بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین ان انتخابی نتائج پر پیچ و تاب کھا رہے تھے.پیپلز پارٹی کی جیت جماعت احمدیہ کے لیے تو کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی تھی لیکن انتخابات میں شکست نام نہاد مذہبی پارٹیوں کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی.یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شورش کا شمیری صاحب کے نزدیک اگر احمدی ان سیاسی لیڈروں کی قانونی مخالفت کریں یا انہیں ووٹ نہ دیں جو جماعت احمدیہ کے خلاف بیان بازی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے اور یہ اعلان کر رہے تھے کہ وہ اقتدار میں آکر احمدیوں کو ان کے بنیادی شہری حقوق سے بھی محروم کر دیں گے تو یہ بھی ایک بہت بری بات تھی.گویا احمدیوں پر یہ فرض تھا کہ اپنے مخالفین کی مدد کرتے تاکہ وہ اقتدار میں آکر ان کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیتے.حضرت خلیفۃ اسح الثالث" کا گھوڑے سے گرنے کا واقعہ آنحضرت ﷺ کی سنت کی اتباع میں حضرت خلیفہ لمسیح الثالث کو گھوڑوں سے بہت محبت تھی اور آپ نے قصر خلافت کے احاطے میں اپنے خرچ پر گھوڑے پال رکھے تھے.گو آپ نے بعد میں یہ گھوڑے صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے نام کر دیئے لیکن اپنی زندگی میں ان کے تمام اخراجات آپ ہی اُٹھاتے رہے.اور ان گھوڑوں پر ربوہ کے بہت سے احباب اور بچے سواری کرتے تھے اور آپ کو بھی جب فرصت ملتی تو آپ وہاں تشریف لاتے اور گھوڑ سواری فرماتے.۲۱ جنوری ۱۹۷۱ء کی صبح کو آپ گھوڑ سواری کے لیے آئے اور ایک گھوڑی پر سواری شروع کی.کچھ دیر کے بعد گھوڑی بدک کر دوڑ پڑی اور سواری کے راستے سے کچھ فاصلہ پر اینٹوں کا ایک ڈھیر پڑا تھا گھوڑی اس ڈھیر کی طرف دوڑی اور وہاں پر پہنچ کر اچانک رکی.جب گھوڑا دوڑ تا دوڑتا اچانک رکے تو عموماً سوار کے لیے اپنے آپ کو سمبھالنا مشکل ہوتا ہے.جب گھوڑی اچانک رکی تو آپ گھوڑے سے گر پڑے گھوڑوں کے سائس اللہ داد صاحب نے حضور کو گرنے سے بچانے کے لیے آپ کی کمر میں ہاتھ ڈالا لیکن حضور اینٹوں کے ڈھیر پر گر پڑے.اور آپ کی کمر پر چوٹ آئی.آپ کی کمر اور گردن کے عضلات میں شدید درد شروع ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے رات تک درد میں افاقہ تھا لیکن کروٹ
165 بدلنے پر درد ہوتا تھا.مگر اگلے روز پھر درد میں اضافہ ہو گیا.ایکسرے پر ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر تو نہیں تھا لیکن بعض مقامات پر ہڈی دب گئی تھی.درد کو رفع کرنے کے لیے عضلات میں بھی انجکشن دیئے گئے.مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کے علاوہ مکرم پروفیسر مسعود احمد صاحب اور ڈاکٹر کرنل محمود الحسن صاحب حضور کی خدمت کی سعادت حاصل کرتے رہے.کمر پر چوٹ کی وجہ سے ایک عرصہ تک حضور نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہیں لا سکے کیونکہ کمر کی تکلیف کی وجہ سے آپ کے لیے جھکنا ممکن نہیں تھا.آپ ۱۶ اکتو بر ۱۹۷۱ء کونماز جمعہ کیلئے مسجد اقضی ربوہ میں تشریف لائے اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.خطبہ کے بعد حضور نے مکرم مولا نا ابو العطاء صاحب کو نماز پڑھانے کا ارشاد فرمایا.اس وقت تک کمر کی تکلیف کو تو آرام تھا مگر لمبا عرصہ لیٹا رہنے کی وجہ سے گھٹنوں میں تکلیف شروع ہوگئی تھی اور حضور کے لیے ابھی بھی قعدہ میں بیٹھنا ممکن نہیں تھا.مکرم بشیر احمد خان رفیق صاحب پرائیویٹ سیکر ٹری تحریر کرتے ہیں: دو سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی عام طبیعت ماشاء اللہ ٹھیک ہے لیکن گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے اور لمبا عرصہ لیٹے رہنے کی وجہ سے جو کھچاؤ اعضاء میں پیدا ہو گیا تھا اُس میں پوری طرح افاقہ نہیں ہوا اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ التحیات کی حالت میں ابھی بسہولت نہیں بیٹھ سکتے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اور احباب جماعت دعا کر رہے ہیں.چنانچہ مورخہ ۷ ۲ اور ۲۸ جون کی درمیانی رات کو گھوڑ انگلی میں رات کے دو بجے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑے زور کے ساتھ ایک شعر کے الفاظ سنے اور نیم بیداری کی صورت میں ان الفاظ کو ایک دیوار پر خوبصورتی سے منقش صورت میں بھی دیکھا.شعر تو پوری طرح حضور کو یاد نہیں رہ سکا لیکن جو حصہ اُس کا یا درہ گیا وہ یہ ہے.دامن رحمت حق تیری اذیت اُڑا کر لے گئی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور تمام اذیتیں دور کر دے آمین یا رب العالمین.“ (۱) الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۷۱ ص ۱ (۲) الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۷۱ ص ۱ (۳) الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۷۱ ص ۱ (۴) الفضل ۱۰ مارچ
166 ۱۹۷۱ء ص ۱ ( ۵ ) الفضل ۱۷ اکتوبرص ۱ (۶) الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۷۱ء
167 مخالفین کے ارادے ان سیاسی پارٹیوں کو ۱۹۴۷ء میں بھی ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا.جب انہیں شکست ہوئی تھی اور مسلم لیگ مرکز میں تمام مسلم نشستوں پر کامیاب ہو گئی تھی.اور ان کو اس بات کا بھی غم تھا کہ جماعت احمدیہ نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا اور مسلم لیگ کو انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی.انہوں نے ایک مرتبہ پھر سیاسی منظر پر اپنی جگہ بنانے کے لیے اور احمدیوں سے انتقام لینے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا تھا کہ احمدیوں کے خلاف ایک زہریلی مہم چلائی جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ خون خرابہ ہو اور پھر ان فسادات کی آڑ میں اپنے مطالبات منظور کرائے جائیں.اور اس آڑ میں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ بحال کی جائے.اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے مسلم لیگ کے ہی ایک ایسے طبقہ کو اپنے ساتھ ملالیا تھا جو جماعت احمدیہ کا مخالف تھا یا اپنی سیاسی اغراض کے لیے جماعت احمدیہ کے خلاف مہم میں شامل ہونا چاہتا تھا.اس مرتبہ بھی انہوں نے جلد ہی یہ اعلان کر دیا کہ قادیانیوں کو وہم ہو گیا ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آیا ہے وہ انہیں مسلمانوں کا جزو بنالیں گے.انہیں بہر حال ایک اقلیت بن کر رہنا پڑے گا.اور یہ دھمکی چٹان کے اسی شمارے میں شائع بھی کر دی گئی (۲۵).تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرا رہی تھی.جماعت احمدیہ کے خلاف ایک بار پھر سازش تیار کی جارہی تھی.مگر اب جماعت احمدیہ کا عالمی پھیلاؤ پہلے کی نسبت کافی بڑھ چکا تھا اور اسی نسبت سے اس نئی سازش کا دائرہ بھی وسیع تر کیا جارہا تھا.جب ۱۹۵۳ء کے فسادات بر پا کرنے کی تیاری ہو رہی تھی اس وقت حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پاکستان کے وزیر خارجہ تھے اور شروع ہی سے مخالفین نے آپ کی ذات کو نشانہ بنایا تھا اور آپ کی برطرفی کا مطالبہ ان کے بڑے مطالبات میں سے ایک تھا.اور اب جبکہ جماعت احمدیہ کے خلاف ایک اور فسادات کی تیاری کی جارہی تھی اس وقت حضرت مسیح موعود کے پوتے اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے صاحبزادے مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ملک کی مرکزی کابینہ میں صدر کے اقتصادی مشیر تھے.۱۵ ستمبر ۱۹۷۱ء کو جب کہ ملک ایک آتش فشاں کے دہانے پر
168 کھڑا تھا، مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اسلام آباد کے سیکریٹریٹ میں صبح کو اپنے معمول کے مطابق مرکزی سیکریٹریٹ آئے اور سوا آٹھ بجے آپ لفٹ میں اپنے دفتر جارہے تھے.جس وقت لفٹ کا دروازہ بند ہو رہا تھا اس وقت کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ایک فورمین اسلم قریشی بھی لفٹ میں سوار ہو گیا.اور اس وقت کسی نے اس شخص کو سوار ہونے سے نہیں روکا.جب لفٹ کا دروازہ بند ہوا تو اس وقت اسلم قریشی نے چاقو نکالا اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے پیٹ پر وار کیا.وہ دوسر اوار کرنے لگا تھا کہ لفٹ والے اور دفتر کے ایک اور ملازم نے اسے پکڑ لیا.اس پر اسلم قریشی نے صاحبزادہ صاحب پر پھر بھر پور وار کرنے کی کوشش کی اور گالیاں نکالنی شروع کر دیں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں.لفٹ چلانے والے نے لفٹ کا دروازہ کھول دیا اور صاحبزادہ صاحب کو سہارا دے کر نکالا گیا.پہلے اسلام آباد پولی کلینک لے جا کر ابتدائی طبی امداد دی گئی اور پھر سی ایم ایچ لے جایا گیا.یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب روز نامہ امروز نے یہ خبر شائع کی تو ساتھ اس عنوان کے تحت بھی کچھ سطور لکھیں ” اسلم قریشی کا ماضی بے داغ ہے اور اس کے نیچے لکھا کہ جب اس کو جاننے والوں کو اس حملہ کا علم ہوا تو انہیں بہت حیرت ہوئی کیونکہ اس سے قبل اسلم قریشی کسی لڑائی جھگڑے میں ملوث نہیں رہا اور لوگ اس کی سنجیدگی ، متانت اور شرافت کے قائل تھے اور وہ کسی فرقہ پرست جماعت کا رکن بھی نہیں ہے (۲۸،۲۷،۲۶).یہ ایک معمول کی بات ہے کہ جب کوئی کسی احمدی پر اس قسم کا حملہ کرتا ہے تو ایک طبقہ مفسدوں کی حمایت پر کمر بستہ ہو جاتا ہے.جیسا کہ ہم جائزہ لے چکے ہیں کہ جب حضرت مصلح موعوددؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو سیشن عدالت نے سزا سناتے ہوئے مجرم کی کچھ مدح سرائی بھی کی تھی.اب اسلم قریشی کے متعلق بھی پریس کا ایک حصہ اس قسم کا رویہ اپنائے ہوئے تھا.یہ صاحب کتنے شریف الطبع تھے ہم اس کا جائزہ ۱۹۸۴ ء کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لیں گے.اس وقت یہ لکھنا ہی کافی ہے یہ صاحب تمام عمر نہایت سنجیدگی سے ملک میں صرف فتنہ وفساد پیدا کرنے کے لئے کمر بستہ رہے تھے.اتفاق سے جب یہ واقعہ ہوا تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث اسلام آباد ہی میں تشریف رکھتے تھے.حضور کی خدمت میں مکرم مولا نا سلطان محمود انور صاحب نے یہ اطلاع پہنچائی.حضور اس وقت تیار ہو کرسی ایم ایچ ہسپتال تشریف لے آئے جہاں پر مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا علاج ہو رہا تھا.اس وقت اس ہسپتال کے انچارج ایک احمدی ڈاکٹر صاحب تھے، انہوں نے حضور کے لیے ایک
169 کمرہ تیار کروا کر حضور سے وہاں پر تشریف لے جانے کی درخواست کی لیکن حضور نے فرمایا کہ میں یہی انتظار کروں گا اور ایمر جنسی کے باہر لان میں کھڑے ہو کر مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی صحت کے متعلق اطلاع کا انتظار کرتے رہے.پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے پاکستان میں انتخابات کے بعد انتقال اقتدار کی بجائے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کا افسوسناک آغاز ہو گیا.اور پھر ۱۹۷۱ ء میں پاکستان اور ہندوستان کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان پاکستان سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا.واقعات کا یہ تسلسل اس خطے کے مسلمانوں کے لیے بہت تکلیف دہ تھا.لیکن چونکہ اس کا براہِ راست جماعت احمدیہ کی تاریخ سے تعلق نہیں اس لیے ہم ان واقعات کی تفصیل میں نہیں جائیں گے.البتہ ہم اس سانحے کے متعلق حضرت خلیفہ اسح الثالث کے چند ارشادات پیش کریں گے.جنگ ختم ہونے کے بعد پہلے خطبہ جمعہ میں حضور نے سورۃ النصر کی تلاوت کر کے ارشاد فرمایا.اس سورۃ میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مصیبت کے وقت اور پریشانی کے وقت جو دراصل انسان کے اپنے گناہ اور اپنی کوتاہی اور بدعملی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے، انسان اللہ تعالیٰ سے قوت حاصل کئے بغیر اس پریشانی اور تکلیف اور دکھ سے نجات نہیں حاصل کر سکتا.استغفار کے معنے یہ ہیں ( کیونکہ یہ غَفَرَ سے ہے ) کہ اللہ تعالیٰ سے حفاظت طلب کرنا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں مانگنا کہ جو فساد اور رخنہ کسی رنگ میں پیدا ہو گیا ہے وہ اسے دور کرے اور اصلاح امرکرے....اگر آج ہم اپنے اوپر اس قسم کی موت وارد کر لیں اگر ہم خدا تعالیٰ کے پیار میں کھوئے جائیں اگر ہم اپنے وجود پر فنا کی آندھیاں چلا کر خدا تعالیٰ کی صفات سے حصہ لینے لگیں تو دنیا کی کون سی طاقت ہے جو ہمیں مار سکے.دنیا کی کوئی طاقت خدا تعالیٰ کے پیاروں کو نیست و نابود اور ہلاک نہیں کر سکتی.اس لئے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.
170 گو آج دنیا ہمیں طعنے دے رہی ہے اور ہمیں تضحیک کا نشانہ بنا رہی ہے مگر ہم ان چیزوں کی اس لئے پرواہ نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بشارت دی ہے کہ غلبہ اسلام کا سورج طلوع ہو چکا ہے.کالی دیوی کی کالی بدلیاں اگر سامنے آجائیں تو وقتی اور عارضی طور پر روشنی تو دور ہو سکتی ہے لیکن وہ غلبہ اسلام کی راہ میں ہمیشہ کے لئے روک نہیں بن سکتیں.لوگ کہتے ہیں کہ مسلم بنگال واپس کیسے آئے گا ؟ میں کہتا ہوں تم مسلم بنگال کی بات کر رہے ہو ہم تو غیر مسلم دنیا کو بھی اسلام کی طرف لانے والے ہیں اور یہ وعدہ الہی ایک دن پورا ہوکر رہے گا...“ (۲۹) اگر کوئی سانحہ ہو تو مومن صرف افسوس کر کے خاموش نہیں ہو جا تا بلکہ مومنوں کے گروہ کا کام ہے کہ وہ اس سانحے کی وجوہات کا تجزیہ کرے اور یہ دیکھے کہ کن وجوہات کے باعث یہ سانحہ پیش آیا ہے تاکہ آئندہ کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی جاسکے.۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلس شوری میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۷۱ء کی جنگ میں پاکستان کی افواج کی شکست کی وجوہات کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا.یہ ایک بہت گہرا اور خطرناک منصوبہ تھا جسے میرا خیال ہے کہ عام انتخابات سے بھی بہت پہلے تیار کر لیا گیا تھا کیونکہ اس منصوبہ کو کامیاب کرنے کے لئے بھارتی فوج نے جو تیاریاں کیں ان کے بعض حصے ایسے تھے جن کو بروئے کار لانے کے لئے ایک لمبی مدت درکار تھی اور اس کے لئے بڑی تیاری کی ضرورت تھی مثلاً مشرقی پاکستان دریاؤں اور نالوں کی سرزمین ہے وہاں آمد و رفت اور نقل و حمل کے لئے دریاؤں کی نسبت ریل اور سڑک بہت کم استعمال ہوتی ہے.چنانچہ چند دن کی جنگ میں بھارتی فوج نے غالباً ۱۶۰ پل بنائے.اگر بھارت ۶۰ اپل بنانے میں کامیاب نہ ہوتا تو آج مشرقی پاکستان کا وہ حال نہ ہوتا جو اے ء کی شکست کے بعد ہوا.پس یہ ایک حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج کی نقل و حرکت بغیر پلوں کے ہو ہی نہیں سکتی تھی اور اتنے بڑے پیمانے پر چند ہفتوں کے اندر سوڈیڑھ سو پلوں کو تیار کر دینا قبل از وقت اور بہت زبر دست تیاری کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا...
171 مگر مسلمان جن کو اپنے وطنِ عزیز کی بقا اور سلامتی کے لئے تیاری کرنا چاہئے تھی انہوں نے نہ صرف حالات حاضرہ کے تقاضوں کو نظر انداز کیا بلکہ قرآنِ کریم کی اس بے نظیر تعلیم کو بھی فراموش کر دیا وَ لَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَدُّوا لَهُ عُدَّةً (التوبة : ٤٦) یعنی اگر تم جنگ کے لئے نکلنے کا پختہ ارادہ رکھتے تو اس کے لئے کوئی تیاری بھی کرتے.گویا ہر منصوبہ کے لئے تیاری کرنا ضروری ہے ورنہ صرف یہ کہ دینا کہ ہم یہ کام کرنے کے لئے تو تیار ہیں لیکن ہمیں فلاں مجبوری ہے اور ہمارے راستہ میں فلاں روک ہے دراصل قرون اولی کی اسلامی رویات اور قرآنی تعلیم کونہ سمجھنے کی دلیل ہے....پس جب خدا تعالیٰ کوئی منصوبہ بناتا ہے تو اس کے ماننے والوں کو اس کے بروئے کار لانے کے لئے پوری تیاری کرنی پڑتی ہے.ہم اس حقیقت کو بھول گئے لیکن اسلام کے مخالف نے بڑی لمبی تیاری کی اور وہ اپنے منصوبہ میں کامیاب ہو گیا.اگر بھارتی فوج پل بنانے کی اہلیت نہ رکھتی تو مشرقی پاکستان کا وہ حال نہ ہوتا جو دسمبر اے ء میں ہوا.ہمیں یہ بات سوچنی چاہئے تھی اور یہ بڑی واضح بات تھی کہ بغیر پل بنانے کے دشمن مشرقی پاکستان میں کامیاب نہیں ہو سکتا.اس لئے ہمیں پہلے سے تیار ہونا چاہئے تھا کہ ہم ان کو پل نہیں بنانے دیں گے لیکن جب پل بن گئے اور جب ان پلوں پر سے بھارتی فوج تخریب کار، شرپسند اور غنڈے اپنے ساز وسامان کے ساتھ مشرقی پاکستان میں گھس گئے تو پھر کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے پل بنا لئے تھے اس لئے وہ کامیاب ہو گئے.اصل بات یہ نہیں اصل بات یہ ہے کہ تمہارے دماغ میں بہت پہلے سے یہ بات آنی چاہئے تھی کہ دشمن پل بنانے کی کوشش کرے گا اور ہم اسے پل نہیں بنانے دیں گے.یہ اس وقت کی حکومت کی سخت غلطی تھی (اب تو حکومت بدل گئی ہے ) انہوں نے ان چیزوں کو نہیں سوچا.میں نے بعض افسروں کو بہت پہلے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہمارے لئے وہاں کے پانی بڑے اہم ہیں تمہیں ان کی حفاظت کا انتظام کرنا چاہئے لیکن انہوں نے سمجھا کہ میں تو ایک Layman یعنی ایک عام آدمی ہوں مجھے ان چیزوں سے کیا واسطہ اور کیا علم ہوسکتا ہے.چنانچہ انہوں نے اپنے علم اور تجربہ کے غرور میں ملک کو دوٹکڑے کروا دیا.‘ (۳۰)
172 اب ہم مختصراً حضور اقدس کے اس ارشاد کا جائزہ لیتے ہیں.اس وقت سقوط ڈھا کہ پر ایک تحقیقاتی کمیشن بھی قائم کیا گیا تھا.جو کہ حمود الرحمن کمیشن کے نام سے معروف ہے.اس وقت تو اس کی رپورٹ خفیہ رکھی گئی تھی لیکن بہت عرصہ بعد یہ رپورٹ شائع کر دی گئی.ہم اس رپورٹ کا تجزیہ بھی دیکھتے ہیں.بنگال کی زمین کو چار دریاؤں نے چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے.اور ان دریاؤں کے درمیان بہت سے چھوٹے دریا اور آبی راستے موجود ہیں.یہ جال اس طرح بچھا ہوا ہے کہ کوئی فوج ان کو حملہ آور کے حملہ کے وقت اپنے دفاع کے لئے استعمال کر سکتا ہے لیکن اس مقصد کے لئے تیاری ضروری ہے.اور جب مدِ مقابل افواج ان آبی راستوں کو عبور کرنے کی کوشش کر رہی ہوں تو اس عمل کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ دفاعی فوج کے پاس مناسب تو پخانہ اور ایئر فورس موجود ہو تا کہ مد مقابل فوج کو یہ رکاوٹ عبور نہ کرنے دی جائے.لیکن پاکستان کی طرف سے مشرقی پاکستان کے دفاع کا روایتی منصوبہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا.یعنی اگر مشرقی پاکستان پر حملہ کیا گیا تو مغربی پاکستان کے محاذ پر پاکستان کی افواج اتنا دباؤ ڈال دیں گی کہ مد مقابل افواج کی مشرقی محاذ پر کامیابی برا بر ہو جائے گی اور ایک عرصہ سے مشرقی پاکستان کے دفاع کی کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی.جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ بالکل نا قابل عمل منصوبہ تھا.اور مشرقی پاکستان میں جو تیاری کی گئی تھی اس کے متعلق حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے یہ تبصرہ کیا.یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ جہاں تک مشرقی پاکستان میں آرمی کی تیاری کا تعلق ہے، یہ فوج ہر طرف سے حملہ آور بھارت کی آٹھ ڈویژن فوج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی خاص طور پر جبکہ بھارتی فوج کو آرمر اور ایسی ایئر فورس کی مدد حاصل ہو جو دن میں دوسومر تبہ حملہ آور ہورہی ہو.“ جہاں تک ایئر فورس ، آرمر اور آرٹیلری ( جو کہ آبی راستوں کی حفاظت کے لئے بھی ضروری تھی ) کی تیاری کے تعلق ہے اس کے متعلق حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں لکھا ہے 'Even after the increase of the manpower to 3 divisions, the armour and artillery and air strength
173 remained grossly under strength)ric یعنی افواج میں اضافہ کے باوجود اور اس کو تین ڈویژن تک بڑھانے کے باوجود آرمر، آرٹیلری اور ایئر فورس کی قوت ضرورت سے بہت کم تھی.اور نتیجہ یہ تھا کہ جب جنگ شروع ہوئی تو شروع میں ہی مشرقی پاکستان میں ایئر فورس کی رن وے اڑا دی گئی.اور اس جنگ میں مشرقی محاذ میں جنگ کے دوران ایئر فورس اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل ہی نہیں تھی.اور جب ۱۹۷۴ء میں تمام جنگی قیدی بھارت کی قید سے واپس آگئے اور وہ جنرل بھی پاکستان واپس آگئے جو مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے ذمہ دار تھے تو حمود الرحمن کمیشن نے حکومت کے کہنے پر اپنی تحقیقات کو مکمل کیا.جنرل نیازی مشرقی پاکستان میں پاکستان کی آرمی کی قیادت کر رہے تھے ان پر الزامات کا خلاصہ نکالتے ہوئے اس کمیشن نے یہ اہم تبصرہ کیا: 'That he was guilty of criminal negligence in not including in his operational plan instruction no 3 of 1971, issued on the 15th of July 1971, any clear directive for a planned withdrawl of forces behind natural river obstacles to face the Indian onslaught and to defend what may be described as the Dacca triangle for the purpose of keeping east Pakistan by giving up non vital territory.)rr( ترجمہ : وہ ( یعنی جنرل نیازی ) اس مجرمانہ غلطی کے قصوروار تھے کہ انہوں نے اپنے آپریشنل پلان کی ہدایت نمبر ۱۹۷۱،۳ء میں ، جس کو ۱۵ جولائی ۱۹۷۱ء کو جاری کیا گیا تھا، ایسی واضح ہدایت نہیں دی کہ فوج، بھارتی یلغار کا سامنا کرتے ہوئے ،ایک منصوبہ بندی کے تحت پیچھے بہتیں اور دریاؤں کی قدرتی روک کے عقب میں آکر اس علاقہ کو جسے ڈھا کہ مثلث کہا جا سکتا ہے کا دفاع کرتیں اور غیر اہم علاقہ کو ترک کر کے مشرقی پاکستان کو بچالیا جاتا.“
174 حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے اس نتیجہ میں اسی بات کا ذکر کیا گیا ہے جس کا ذکر حضور نے فرمایا تھا یعنی مشرقی پاکستان کے دفاع میں دریاؤں کی ایک خاص اہمیت تھی جس کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پاکستانی فوج مشرقی پاکستان کا دفاع بھی نہیں کرسکی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان جو اسلام کے نام پر اکٹھے ہوئے تھے، ایک خون ریز انقلاب کے بعد ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور مضطر بانہ دعائیں کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے منذر الہام ہوئے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی اس خطے کے مسلمانوں نے اس سانحے سے سبق حاصل نہیں کیا اور ابھی مزید تکلیف دہ واقعات مقدر ہیں.اور ان کا علاج صرف دعا اور استغفار سے ہو سکتا ہے.چنانچہ آپ نے ۱۹۷۲ء کی مجلس شوری سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ایک بڑا عظیم انقلاب، بڑا دکھ دہ انقلاب ، راتوں کی نیند حرام کر دینے والا انقلاب آ گیا.ایسا انقلاب آگیا کہ ابھی تک ہمارے دلوں سے خون بہہ رہا ہے.یہ لوگوں کی اپنی بدقسمتی ہے، اپنی نالائقی ہے ، اپنے گناہوں کا نتیجہ ہے، اپنی غفلتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے لیکن بہر حال ایک قسم کا دکھ دہ انقلاب ہے جو سارے ملک میں آ گیا ہے یعنی ہمارے ملک کا نصف حصہ ہم سے کٹ گیا ہے.ہمیں اس کٹے ہوئے حصہ کا احساس ہے کئی ڈاکٹر بھی میرے سامنے بیٹھے ہیں انہیں معلوم ہے کہ بعض لوگ جن کی مثلاً حادثہ میں ٹانگ کٹ جاتی ہے ریل کے نیچے آگئے یا موٹر کے نیچے آگئے یا کوئی اور حادثہ پیش آ گیا تو زخم کی وجہ سے ٹانگ کاٹنی پڑتی ہے.ٹانگ کٹ جاتی ہے لیکن اس فرد کے دماغ میں اپنی ٹانگ کا احساس باقی رہتا ہے.کئی دفعہ بے خیالی میں وہاں وہ کھجلی کرنے لگتا ہے.یہ تو ایک چھوٹا سا حادثہ ہوتا ہے.یہاں تو ایک عظیم حادثہ، ایک دکھ دہ حادثہ رونما ہو گیا.اور اس کی وجہ سے ملک کا نصف حصہ جاتا رہا.لیکن اگر دنیا میں کوئی یہ خیال کرے کہ ہمیں اپنے جسم کے اس حصہ کا احساس باقی نہیں رہے گا تو وہ احمق ہے.پاکستان اور یہاں کے رہنے والوں پر بے حد ظلم ہوالیکن بہر حال یہ ظلم تو رونما ہو گیا.گزشتہ سال جو کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا ہے اس کو تقریباً تیرہ ماہ ہو گئے ہیں.اُس وقت مجھے بڑی فکر تھی اور میں نے
175 بڑی دعائیں کیں.فروری کی ہیں تاریخ سے پہلے میری طبیعت پر کچھ ایسا اثر تھا کہ ملک خصوصاً مشرقی پاکستان کے لئے میں نے بہت دعائیں کیں تو غالباً ۲۴ یا ۲۵ فروری کی شب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم مجھے دیا گیا وہ یہ تھا واعلموا ان الله شديد العقاب.اس پر میں کانپ اُٹھا.اس زمانے میں بنگالی دوست خصوصاً مولوی محمد صاحب مجھے ملتے رہتے تھے.میں نے کہا کہ میں تو بڑا پریشان ہو گیا ہوں کیونکہ دعا تو میں اپنی بھلائی کے لیے کر رہا تھا اور جواب مجھے یہ ملا ہے.خیر میں نے اپنی طرف سے دعا ئیں زیادہ کرنی شروع کیں اور پھر فروری کے آخر یا یکم مارچ کی تاریخ تھی کہ میری زبان پر یہ جاری ہوا قل ما يعبؤ بكم ربى لولادعا وكم تو اس کا بھی طبیعت پر اثر تھا کہ یہ لوگ جب تک خدا کی طرف نہیں آئیں گے اور دعا نہیں کریں گے عذاب میں مبتلا ہوں گے پھر اس کے بعد غالباً طوفان آیا.اس عرصہ میں پھر میں نے ان کو بتایا کہ میری طبیعت پر اثر ہے کہ یہ کافی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے...“ پھر حضور نے فرمایا ” میں نے پہلے بھی غالباً ایک خطبہ میں کہا تھا کہ یہ تو عارضی چیز ہے.میرا اور آپ کا نقطہ نگاہ یہ تو نہیں کہ بنگلہ چلا گیا اور جو بنگلہ اب کہلاتا ہے یعنی مشرقی پاکستان وہ ہم سے کٹ گیا اور نہ جانے کیا ہو گیا.ہمارے سپر دتو اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہے کہ مشرقی پاکستان ہی نہیں ہمیں تو افریقہ کے سارے ممالک امریکہ میں بسنے والوں یعنی شمالی اور جنوبی امریکہ میں بسنے والوں اور یورپ میں بسنے والوں اور جزائر میں رہائش رکھنے والوں کو امت واحدہ یعنی ایک قوم بنا دینا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اسی کی رحمت سے ایک ملک بن جائیں گے انشاء اللہ.یہ تو عارضی جدائی ہے لیکن یہ عارضی جدائی بھی ہمارے لئے دکھوں کا باعث ہے خوشی کا باعث نہیں ہے اور ہماری یہ حالت دعاؤں کی محتاج ہے جو واقعہ ہو گیا اور پاکستان میں جو انقلاب آگیا ہے یہ ہماری دعاؤں کا محتاج ہے اور یہ اس بات کا محتاج ہے کہ ہم مشرقی پاکستان کے استحکام کے لیے قربانیاں دیں اپنے جذبات کی بھی ، اپنے اموال کی بھی اور اپنے اوقات کی بھی.پس دوست ہر وقت بیدار ر ہیں اور یہاں دشمن کو کامیاب
176 نہ ہونے دیں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے.سات آٹھ دن ہوئے میں نے مغربی پاکستان کے متعلق بھی ایک بڑی منذ رخواب دیکھی ہے لیکن منذ ر خوا ہیں اس لئے دکھائی جاتی ہیں کہ انسان دعا اور صدقہ کے ذریعہ اس شر سے محفوظ رہ سکے..‘ (۳۳) پاکستان کو اتنا بڑا سانحہ پیش آیا تھا اور جماعت کے معاندین اس مرحلہ پر بھی ملکی مفادات کی کوئی پرواہ لئے بغیر جماعت احمدیہ کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف تھے.انہیں اس بات کی بھی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ ان حرکات کی وجہ سے رہے سہے ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے.یہ گروہ جس ملک میں بھی ہوگا اس ملک کی سا لمیت اور امن کے لئے ایک مسلسل خطرے کی حیثیت رکھے گا.اس موقع پر ۳۱ دسمبر ۱۹۷۱ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ارشاد فرمایا: ” مجھے یہ اطلاعیں آرہی ہیں کہ بعض مقامات پر پوسٹرز کے ذریعہ اور بعض جگہ تقاریر اور گفتگو کے ذریعہ پھر سے جماعت احمدیہ کو تکلیف پہنچانے کے لئے سخت کلامی اور افتراپردازی سے کام لیا جانے لگا ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کی فطرت ( جماعتیں بھی اپنی ایک فطرت رکھا کرتی ہیں ) کا تعلق ہے، انسانی آنکھ نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ ہم نے کسی کی گالی کے مقابلہ پر گالی نہیں دی اور اس وقت بھی جب کہ ہم کو دکھ دیا گیا کبھی کسی کو دکھ پہنچانے کے متعلق سوچا تک نہیں.اس لئے کہ ہم تو خود کو خیر امت کا ایک حصہ سمجھتے ہیں جس کا قیام اللہ تعالیٰ کی قدرت سے عمل میں آیا ہے اور جس کی بقا اس لئے ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا میں بھلائی کا وہ سمندر جو حضرت محمد ﷺ کی ذات میں پیدا کیا گیا ہے، اس سے نکلنے والی نہریں ادھر اُدھر ساری دنیا میں پھیلیں اور بنی نوع انسان کی بھلائی کا انتظام ہو.موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان انتہائی نازک دور میں سے گزر رہا ہے اور ہماری بقا ہم سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کر رہی ہے ایسے وقت میں بعض لوگوں کا اس طرح گند کو اچھالنا اور اس رنگ میں اپنے اندرونہ کو ظاہر کرنا ہم سمجھتے ہیں کہ ) یہ ہمارے ساتھ دشمنی نہیں بلکہ اپنے ملک کے ساتھ دشمنی ہے.اللہ تعالیٰ ایسے ذہن کو فراست کا کچھ نور عطا فرمائے اور وہ حقائق کو دیکھنے لگے اور وہ اپنے اور اپنی قوم کے نقصان کے در پے نہ ہو....پس آپ نے اشتعال میں نہیں آنا کیونکہ اس وقت ہمارا ملک بڑے ہی نازک دور میں سے گزر رہا ہے.
177 ہمارے دلوں میں اپنے ملک کے لئے جو محبت ہے یہ وہی محبت ہے جس پر حضرت خاتم الانبیا محمد مصطفی ﷺ نے یہ مہر لگائی ہے حب الوطن من الايمان یعنی وطن کی محبت ایمان کا ایک جزو ہے.یہ وہ صادق محبت ہے.یہ وہ گناہوں سے پاک محبت ہے ، یہ وہ دکھ دینے کے خیالات سے مظہر محبت ہے.یہ وہ محبت ہے جو آنحضرت ﷺ کی سنت کی اقتدا اور آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں ہمارے دلوں میں پیدا کی گئی ہے اور یہی وہ محبت ہے جو ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ اگر ہمیں اپنی جانیں بھی دینی پڑیں تو ہم دریغ نہیں کریں گے لیکن اپنے ملک کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے.(۳۴) A Man of God, by lain Adamson, George Shepherd Publishers, page 92-95(1) (۲) رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ ۱۹۷۳ء ص ۱۱- ۱۲ (۳) رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ ۱۹۷۳ء ص ۱۶ (۴) رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ ۱۹۷۳ء ص ۱۸ تا ۲۱ (۵) رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ ۱۹۷۳ ص ۳۰-۳۱ (۶) رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ ۱۹۷۳ ص ۲۹ ( ۷ ) چٹان ۱۰ اگست ۱۹۷۰، ص ۶ (۸) چٹان ۲۰ / جولائی ۱۹۷۰ ء ص ۴، ۶ (۹) چٹان ۷ ار اگست ۱۹۷۰ء ص ۴ (۱۰) چٹان ۲۷ جولائی ۱۹۷۰ ء ص ۶ (۱۱) چٹان ۰ اسراگست ۱۹۷۰ ص ۵ (۱۲) ایشیا و راگست ۱۹۷۰ء (۱۳) ایشیا ۱۸ / اکتوبر ۱۹۷۰ ص ۱ (۱۴) نوائے وقت ۲۹ جولائی ۱۹۷۰ ء ص ۱ (۱۵) مشرق ۱۵ جولائی ۱۹۷۰ ء (۱۶) چٹان ۲۳ نومبر ۱۹۷۰ ء ص ۳(۱۷) امروز - ۲/اکتوبر ۱۹۷۰ ء ص آخر (۱۸) نوائے وقت ۱۸ نومبر ۱۹۷۰ ء ص ۴ (۱۹) نوائے وقت ۱۷/ نومبر ۱۹۷۰ ء ص ۴ (۲۰) نوائے وقت ۱۹ نومبر ۱۹۷۰ء ص ۷ The Report of Hamoodur Rehman commission of inquiry into 1971 (M) 75 war,published by Vanguard ,page (۲۲) نوائے وقت ۳ دسمبر ۱۹۷۰ ء ص ۱ (۲۳) نوائے وقت ۸ / دسمبر ۱۹۷۰ ء ص ۱ (۲۴) چٹان ۲۱ دسمبر ۱۹۷۰ ء ص ۳ (۲۵) چٹان ۲۱ دسمبر ۱۹۷۰ ء ص ۱۳ (۲۶) امروز ۱۶ ستمبر ۱۹۷۱ ص ۱ (۲۷) مساوات ۶ ار ستمبر ۱۹۷۱ ء ص ۱ (۲۸) الفضل ۷ ار ستمبر ۱۹۷۱ ص ۱ (۲۹) خطبات ناصر جلد ۳ ص ۵۴۳ تا ۵۴۶ (۲۹) خطبات ناصر جلد ۳ ص ۷ ۵۴ تا ۵۵۲ (۳۰) رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ ۱۹۷۳ء ص ۹ تا ۱۱ The report of Hamoodur Rahman Commission, p519(۳۱) The report of Hamoodur Rahman Commission, p 405 & 406(۳۲) (۳۳) رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمد یہ ۱۹۷۲ء ص ۱۳ تا ۱۵
178 (۳۴) خطبات ناصر جلد نمبر ۳ ص ۷ ۵۴ تا ۵۵۲
179 حدیقۃ المبشرین کا قیام حدیقہ المبشرین کے قیام کے بارے میں حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے ۱۹۷۲ء کے جلسہ سالانہ میں ارشاد فرمایا:.وو..کچھ اصلاح طلب امور اپنے مبلغین کے متعلق جب میرے علم میں آئے تو میں نے سوچا کہ اس وقت شاہدین کے جو دو گروہ بن گئے ہیں یعنی ایک صدرانجمن کے مربی اور دوسرے تحریک جدید کے مبلغ ، یہ صورت درست نہیں ہے.جب سارے شاہد ہیں اور سارے الا ماشاء اللہ قربانی دینے والے اور فدائی ہیں تو پھر مربی اور مبلغ کا امتیاز نہیں ہونا چاہئے.اس فرق کو دور کرنے کی بہتر صورت یہی تھی کہ یہ سب ایک ہی انتظام کے ماتحت رہیں.چنانچہ اس کے لئے جو ابتدائی انتظام کیا اس کا نام پول (pool) رکھا گیا.یہ ایک انگریزی لفظ ہے اور یہ کچھ اچھا نہیں لگتا تھا.لیکن اور کوئی موزوں لفظ ملتا نہیں تھا.اسلئے اسے اختیار کر لیا گیا.پھر اس کا نام حدیقتہ المبشرین رکھا گیا.یہ نام بڑا اچھا لگتا ہے.گویا یہ ایک ایسا باغ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں شاہدین ( مربیان و مبلغین ) کی صورت میں خوبصورت درخت عطا فرمائے ہیں.اس مشتر کہ انتظام کا اصول یہ بنایا ہے کہ پہلے قاعدے کے مطابق جامعہ احمدیہ سے فارغ ہونے والے شاہدین کی تقسیم تعداد کے لحاظ سے تو ہو جائے گی کیونکہ انجمن اور تحریک دونوں نے ان کا خرچ برداشت کرنا ہوتا ہے.مثلاً اگر جامعہ احمدیہ سے الٹ کے شاہد بن کر نکلے ہیں.تو پانچ انجمن کے حصہ میں اور چھ تحریک کے حصہ میں آئیں گے.یا کسی سال پانچ تحریک کے حصہ میں آئے ہیں اور چھ انجمن کے حصہ میں آتے ہیں.تو اسی نسبت سے ان کو گزارہ دینے کے لحاظ سے دونوں کی ذمہ داری ہوگی.لیکن یہ کہ زید تحریک کا ہے اور بکر انجمن کا ہے یہ نہیں ہوگا.تحریک کو اسکی ضرورت کے مطابق جو بھی اچھے اور تجربہ کار مبلغ ہوں گے جن کا ہمیں بھی تجربہ ہوگا کہ وہ باہر کام کر سکتے ہیں دے دیئے جائیں گے.ورنہ یہ ایک لحاظ سے ظلم ہے گو ہم ان پر ایک لحاظ سے غصہ بھی ہوتے
180 ہیں.لیکن دراصل ظالم تو ہم ہی بنتے ہیں کیونکہ ہمارا ایک بچہ آج جامعہ احمدیہ سے پاس ہوتا ہے تو کل اسے ٹکٹ دے کر کہتے ہیں نائیجیریا میں جا کر تبلیغ کرو.حالانکہ تبلیغ کرنے کا اسے ابھی کوئی تجربہ نہیں ہوتا.صحیح مبلغ کی روح ابھی اس کے اندر پیدا ہی نہیں ہوئی.قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت اور اس کی صفات کے عرفان کے متعلق جو تعلیم دی ہے اس کو اس نے کما حقہ حاصل ہی نہیں کیا.اس کے متعلق اس کا علم کتابوں تک محدود ہے.اس کو دعاؤں کے ذریعہ عملی میدان میں کام کرنے کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی صفات کا عملی مشاہدہ کرنے کا موقع نہیں ملا.اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت اور عرفان پختہ نہیں ہوا.مگر اسے ہم اٹھا کر بیرونی ملکوں میں بھجوا دیتے ہیں.جہاں وہ ٹھوکر کھاتا ہے.بعض دفعہ ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیاں کر جاتا ہے.جن سے جماعت کو نقصان پہنچتا ہے.مثلاً غانا میں ہمارے ایک مبلغ نے یہ غلطی کی کہ گورنمنٹ کا ایک انسپکٹر معائنہ کرنے کے لئے آیا تو اس نے کہ دیا کہ یہ کالا آدمی ہے.میں اس کے ساتھ بیٹھ کر چائے کس طرح پیوں.میری اس سے ہتک ہو جائے گی.تم تو ان کی خدمت کے لئے گئے ہو......یہ زیب نہیں دیتا کہ جب ان کو خدمت کا موقع ملے اور وہ افریقہ میں جائیں تو یہ کہہ دیں کہ کالے آدمی کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے میں ہماری بے عزتی ہے.لیکن اس بیچارے کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ ہم اس کی تربیت کئے بغیر ، اسکو مانجھے بغیر ، اسکو پالش کئے بغیر وہاں بھیج دیا.میں مانتا ہوں یہ ہیرے ہیں لیکن لوگ جب کان سے ہیرا نکالتے ہیں تو اسے کب فروخت کے لئے بھیجتے ہیں.......چنانچہ پہلے آپ ان کو کاٹتے ہیں ، ان کے مختلف زاویے بناتے ہیں ، پھر پالش کرتے ہیں اور پھر وہ بازاروں میں بکنے کے لئے جاتا ہے.جو آدمی وقف کرتا ہے وہ ہیرا ہے.اس میں کوئی کلام نہیں ہے.لیکن وہ جس وقت کان سے نکلتا ہے یعنی جامعہ احمد یہ پاس کرتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو ہیرے کی طرح کٹ بھی کریں اور پالش بھی کریں پھر ہم ان کو کہیں کہ جاؤ اور دنیا کو بتاؤ کہ خدائے قادر و توانا نے اپنے محبوب محمد کے مہدی معہود کو بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کے لئے یہ ہیرے جواہرات عطا فر مائے ہیں.
181 اس انتظام کے ماتحت میں نے ایک ریفریشر کورس بھی جاری کیا ہے.کیونکہ علم تو ہر آن بڑھ رہا ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب روحانی خزائن ہیں ، جب ہم ان کو پڑھتے ہیں تو کوئی نہ کوئی نئی بات سامنے آجاتی ہے.اس لحاظ سے مبلغین کے لئے ریفریشر کورس ضروری ہے.نئی چیزیں سامنے آتی ہیں.مختلف جگہوں سے ہمارے مبلغین بعض نئی سے نئی معلومات بھجواتے رہتے ہیں.جو ہمارے مبلغین کو مجموعی طور پر معلوم ہونی چاہئیں.اس واسطے ریفریشر کورس کا بھی انتظام کیا گیا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ شاہدین جامعہ احمدیہ سے پڑھ کر آ جاتے تھے اور انہوں نے سلسلہ کی صرف وہ کتب پڑھی ہوتی تھیں جو ان کے کورس میں ہوتی تھیں.حالانکہ ایک مبلغ کو تو ساری کتابیں کم از کم ۳ دفعہ پڑھی ہونی چاہئیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو احمدی میری کتب کو تین دفعہ نہیں پڑھتا مجھے اس کے ایمان کے متعلق خطرہ رہتا ہے.پس جس نے دوسروں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ہے اس نے اگر خود تین دفعہ ساری کتب نہ پڑھی ہوں تو وہ دوسروں کے اندر کس طرح ایمان پیدا کر سکتا ہے؟ غرض ریفریشر کورس میں ہم اس 66 طرف بھی بہت زور دیتے ہیں.“ اگست ۱۹۷۰ء میں احاطہ قصر خلافت میں دفتر حدیقہ المبشرین کا قیام ہوا جس میں مربیان کے جملہ کوائف کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے.اس ادارے کے پہلے سیکرٹری مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مقرر ہوئے.۱۹۹۷ء میں حدیقہ المبشرین وکالت دیوان تحریک جدید کے ساتھ منسلک ہو گیا.
182 مجلس صحت کا قیام ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ایک صحت مند مومن اللہ تعالیٰ کا زیادہ محبوب ہوتا ہے.اور اگر انسان کی صحت خراب ہوتو وہ بہت سی نیکیوں سے محروم رہ سکتا ہے.دوسری طرف جدید دور میں بہت سی ایسی تفریحات لوگوں کو مہیا ہوگئی ہیں جو کہ نہ صرف انسان کی اخلاقی حالت کے لئے بلکہ اس کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے بھی مضر ہیں.لیکن محض ان سے روکنا سودمند نہیں ہوسکتا جب تک ان کو متبادل صحت مند تفریح مہیا نہ کی جائے.جماعت احمدیہ میں ہمیشہ کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے تا کہ ایک صحت مند معاشرہ جنم لے.لیکن بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر اب اس کام کو زیادہ منظم انداز میں کرنے کی ضرورت تھی.مارچ ۱۹۷۲ء میں حضور تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی سالانہ کھیلوں کی اختتامی تقریب میں تشریف لائے.اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: ” اسلام ہمیں قوی اور امین دیکھنا چاہتا ہے( سورۃ القصص ) یعنی جسمانی لحاظ سے ہم مضبوط جسم کے مالک ہوں اور اخلاقی لحاظ سے ہم نہایت اعلیٰ کردار کے حامل ہوں.جسم انسانی کی مضبوطی ایک حد تک اخلاق پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.اس لئے اسلام جسمانی ورزش کو بھی ضروری قرار دیتا ہے تاکہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی ان نعمتوں اور انعامات کے حقیقی رنگ میں ہم امین بن سکیں جو امانت کے رنگ میں ہمیں عطا ہوئی ہیں.حضور نے فرمایا اس سلسلے میں اہل ربوہ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منظم ہوکر ورزش جسمانی کا اہتمام کریں تا کہ خدا کی نظر میں بھی وہ قومی اور امین بنیں اور اپنے وطن کی حفاظت اور استحکام کے لئے بھی خوش اسلوبی کے ساتھ فرائض سرانجام دے سکیں.اس لئے آج میں سارے ربوہ کو ایک مجلس میں منسلک کرنے کا اعلان کرتا ہوں اس مجلس کا نام مجلس صحت ہوگا.اس کے جملہ انتظامات آپ لوگوں نے خود سرانجام دینے ہیں.اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی جائے گی.جس میں دو دو نمائندے تعلیم الاسلام کا لج تعلیم الاسلام ہائی سکول اور جامعہ احمدیہ کے
183 طلباء میں سے لئے جائیں گے.دو خدام الاحمدیہ کے اور دو انصار اللہ کے نمائندے بھی اس میں شامل ہوں گے.ان کے علاوہ ایک اس کمیٹی کا صدر بھی ہوگا.ربوہ کے تمام باشندوں کے لئے کھیلوں اور ورزش جسمانی کا انتظام کرنا اور اس کے لئے گراؤنڈز مہیا کرنا بھی اسی کمیٹی کی ذمہ داری ہوگی.اسے ہر ماہ کسی نہ کسی کھیل کا ٹورنا منٹ ضرور منعقد کرانا چاہیئے تا کہ سب کی دلچسپی قائم رہے.جب ٹورنامنٹ ہوں گے تو باہر سے مہمان بھی آئیں گے اس لئے میز بانی کے فرائض بھی یہی کمیٹی سرنجام دے گی.اور یہ نہیں ہو گا کہ بعض لوگ از خود ہمارے علم میں لائے بغیر کھیلوں کا انتظام شروع کر دیں اور پھر یہ توقع بھی رکھیں کہ ہم ان کی مدد کریں.(۱) اسی خطاب میں حضور نے اخلاق و کردار کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے ملک کو گزشتہ جنگ میں جو ذلت دیکھنا پڑی ہے وہ بھی اخلاق کے بنیادی تقاضوں یعنی امانت و دیانت، وقت کی قدر و قیمت اور محنت کے فقدان کا ہی نتیجہ ہے.ہمارے ملک میں بد دیانتی اور رشوت عام ہے.وقت کی قدر و قیمت کا احساس بہت کم ہے.ہمارے نو جوان گیئیں مارنے میں یعنی فضول اور بے مقصد باتوں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں اور محنت سے جی چراتے ہیں.حالانکہ دیانت اور محنت ہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو قوم کی اصل دولت ہوتی ہیں.اور انہیں اختیار کئے بغیر ہم کبھی قوی اور امین نہیں بن سکتے.(۱) ۳ مارچ ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں بھی حضور نے اسی موضوع پر روشنی ڈالی.حضور نے فرمایا: انبیاء علیہم السلام قوی بھی ہوتے ہیں اور امین بھی اور پھرا نبیاء میں سب سے زیادہ قوی اور سب سے زیادہ امین حضرت محمد رسول اللہ ہے تھے.اسی لئے ہمیں اسوہ نبوی کی پیروی کی طرف توجہ دلائی گئی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی سختی سے تلقین کی گئی ہے.پس ہر وہ شخص جو خود کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہے، اسے قوی بھی ہونا چاہئے اور امین بھی.قوی کے معنی صرف یہی نہیں ہوتے کہ کوئی آدمی زیادہ بوجھ اُٹھالے.قوی کے معنی دراصل یہ ہوتے ہیں کہ آدمی ہر اُس ذمہ داری کو حسن و خوبی سے ادا کر سکے جس کے اُٹھانے
184 کی اسے تلقین کی گئی اور جس کے نباہنے کی اسے تعلیم دی گئی ہے.غرض صرف ویٹ لفٹنگ یعنی مادی بوجھ اُٹھانے کے معنی میں قومی کا لفظ استعمال نہیں ہوتا مثلاً قوت برداشت ہے.جس آدمی میں قوت برداشت ہوتی ہے وہ بھی قوی ہوتا ہے.پھر عزم ہے یہ بھی دراصل اسی قوت کی جھلک ہوتی ہے.پس انبیاء علیہم السلام کے سچے متبع قوی بھی ہوتے ہیں اور امین بھی.یعنی وہ ہر قسم کی قوت کو ترقی دیتے ہیں اس کی نشو و نما کرتے ہیں اور اس طرح اپنے دائرہ میں ایک حسین ترین وجود بن جاتے ہیں.جہاں تک امانت کا تعلق ہے یہ تو دنیانے انبیاء علیہم السلام سے سیکھی ہے اور خیانت اسوہ نبی سے دوری کا نام ہے.آج پاکستان کو جو ذلت دیکھنی پڑی ہے ،اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ امین نہ ہونا ہے یعنی امانت کا فقدان اور خیانت میں اتنی وسعت کہ تصور میں بھی نہیں آسکتی.اگر یہ حال نہ ہوتا تو ہمیں آج یہ دکھ برداشت نہ کرنا پڑتا.ورزش کے لئے باسکٹ بال کھیلنا ہی ضروری نہیں ہے.سب سے اچھی اور سب سے زیادہ آسانی سے کی جانے والی ورزش تو سیر ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت بھی ہے.اس لئے ربوہ کے دوست روزانہ سیر کے لئے چاروں طرف نکل جایا کریں.میں جب آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا تو ہمارا Balliol کالج Active ہونے کے لحاظ سے ایک خاص مقام رکھتا تھا.میں نے دیکھا کہ جس طرف بھی سیر کو جائیں، اگر سو طلباء راستے میں سیر کرتے ہوئے ملے ہیں تو ان میں سے پچاس سے زیادہ Balliol کالج کے ہوتے تھے، غرض وہ بڑا Active کالج ہوتا تھا.وہ سویا نہیں رہتا تھا یعنی ” پوستی کا لج نہیں تھا بلکہ ہر چیز میں آگے تھا.پس سیر ایک بڑی اچھی ورزش ہے اور اس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مختلف نظارے سامنے آتے ہیں.شہر کے اندر رہتے ہوئے جو چیزیں نظر نہیں آتیں وہ باہر نکل کر نظر آجاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کی جتنی صفات اس کائنات میں جلوہ گر ہیں ہمیں ان کو دیکھنا چاہئے اور ان کے متعلق غور کرنا چاہئے اور ان سے لذت حاصل کرنی چاہئے اور ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے.(۲)
185 پھر حضور نے ارشاد فرمایا ربوہ میں جو Open Spaces موجود ہیں انہیں دیکھ کر شرم آتی ہے.وہ جگہیں آبادی کا حصہ معلوم نہیں ہوتیں اور یہ بڑی شرم کی بات ہے.تمام Open Spaces کو کھیل کے میدان بننا چاہئے.(۲) حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے ارشاد کے تحت مجلس صحت کا قیام عمل میں آیا اور ورزش اور کھیلوں میں دلچسپی میں اضافہ ہونے لگا.مکرم چوہدری بشیر احمد خان صاحب کو اس مجلس کا پہلا صدر مقرر کیا گیا.حضور نے خود بہت سی ورزشوں کی طرف توجہ دلائی اور ہر عمر کے لوگوں نے اس تحریک میں بھر پور حصہ لیا.جیسا کہ حضور نے توجہ دلائی تھی کہ سیر ایک بہت اچھی تفریح اور ورزش ہے.مجلس صحت کے تحت سیر کے مقابلے منعقد کئے گئے اور اس میں شرکت کرنے والوں نے اپنے مشاہدات قلمبند بھی کئے.اس پر حضور نے خدام الاحمدیہ کی ۱۹۷۳ء کی سالانہ تربیتی کلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ちゃ دو ” یہاں مجلس صحت کے زیر انتظام تین سیروں کے مقابلے ہو چکے ہیں اور مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے جو اطفال ہیں ( پندرہ سے چھوٹی عمر کے بچے ) وہ اس میں بڑے شوق سے حصہ لیتے ہیں.اور بعض کے تو مضمون بھی بڑے اچھے ہوتے ہیں.گو آٹھویں جماعت والے طالب علم کی لکھائی ایسی ہی ہوگی جیسے آٹھویں جماعت کے طالب علم کی لکھائی ہونی چاہئے لیکن مشاہدہ والا حصہ بڑا پیارا ہوتا ہے.(۳) اسی طرح حضور نے احباب جماعت کو سائیکلنگ کی طرف توجہ دلائی.سائیکلنگ ایک اچھی ورزش بھی ہے اور عملی زندگی کے لئے نہایت کا رآمد بھی.دوستوں نے بالخصوص نوجوانوں نے اس طرف بہت توجہ کی.اور خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر خدام دور دور کے شہروں سے حتی کہ ایک ہزار میل کے فاصلے سے بھی سائیکل سفر کر کے آتے اور خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شامل ہوتے.اور بہت سے نوجوانوں نے سائیکلنگ میں اتنی مہارت پیدا کی کہ وہ ملکی سطح پر مقابلوں میں شریک ہوئے اور کامیابی حاصل کی.حضور نے ۱۹۷۳ء کے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.انسانی جسم پر بنیادی طور پر دو قسم کے بوجھ پڑتے ہیں.ایک وہ بوجھ ہے جو براہ راست
186 اس کے جسمانی اور ذہنی قومی پر پڑتا ہے اور ایک وہ بوجھ ہے جو بالواسطہ اس کے جسمانی اور ذہنی قومی پر پڑتا ہے.اس کے لئے جو تربیت جماعت اپنے ان پیارے بچوں کو دینا چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے جسمانی قومی اپنی نشو و نما کے کمال کو اس رنگ میں پہنچائیں کہ دوسری ذمہ داریاں نبھانے کے بوجھ کو برداشت کر سکیں.ان میں سے ایک طریق جو ماضی قریب میں جاری کیا گیا ہے وہ سائیکل کا استعمال ہے.میں نے جب ابتداء یہ تحریک کی تو مختصراً یہ اشارہ کیا تھا کہ اپنی صحتوں کو برقرار رکھنے کے لئے سائیکل کی طرف متوجہ ہوں.کیونکہ آج کی سائنس اور علمی تحقیق نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ سائیکل چلانے سے عام صحت بھی اچھی ہوتی ہے اور انسانی جسم کو دل کی بیماریوں سے کافی حد تک حفاظت مل جاتی ہے.اس وقت بعض عمر رسیدہ سائنسدان یا ڈاکٹر جن کو دل کی تکلیف تھی.خود سائیکل چلاتے ہیں تا کہ دوائی کے علاوہ سائیکل کا چلانا ان کے دل کی بیماریوں کو دور کرنے کا باعث بنے.سائیکل چلانے میں صرف یہی فائدہ نہیں اور بھی ہزاروں فوائد ہیں.مثلاً آپ میں سے بہتوں کو اپنے گھر کے کام کاج کے لئے یا خریداری کے لئے بازار جانا پڑتا ہے.اگر آپ کے پاس سائیکل ہو تو آپ اپنا بہت سا قیمتی وقت بچا سکیں گے.اور وہ بشارت آپ کے وجود میں بھی پوری ہوگی جو مہدی معہود کو ان الفاظ میں دی گئی تھی کہ تو ایک شیخ ( بزرگ ) مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا“.پس ہمیں خاص طور پر اپنے اوقات کو معمور رکھنے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور دوسرے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے تا کہ وہ برکات ہمارے وجود میں بھی پوری ہوں.(۴) موطا امام مالک میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ گھوڑوں کی پیشانی سے قیامت تک کے لئے خیر وابستہ ہے.اور اسی باب میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ہی ایک اور حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے خود مدینہ میں گھوڑوں کی دوڑ کا اہتمام فرمایا اور اس میں تربیت یافتہ اور دوسرے گھوڑوں کے علیحدہ علیحدہ مقابلے ہوئے.(۵) حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے احباب جماعت کو گھوڑے پالنے اور گھوڑ سواری میں دلچسپی لینے کی تلقین فرمائی.حضور نے ربوہ میں گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ کا آغاز فرمایا جس میں مختلف اضلاع سے احمدی الله
187 گھوڑ سوار شرکت کرتے اور حضور خود تشریف لا کر ان کی حوصلہ افزائی فرماتے.قصر خلافت کے احاطے میں حضور نے گھوڑے پالے تھے جن کا خرچ حضور خود ادا فرماتے تھے.شام کے وقت حضور یہاں پر تشریف لاتے اور جب تک گھوڑے سے گرنے کا واقعہ نہیں ہوا حضور خود بھی سواری فرماتے اور بہت پیار سے گھوڑوں کا جائزہ لیتے اور انہیں پیار کرتے.دوسرے احباب بھی وہاں پر سواری کرتے.بہت سے بچے بھی اس وقت وہاں پر موجود ہوتے اور یہ نو آموز سوار بھی وہاں پر سواری کا شوق پورا کرتے.حضور اس بات کا بہت خیال فرماتے تھے کہ گھوڑ سواری اس فن کے اصولوں کے مطابق کی جائے.مجھے یاد ہے کہ ایک بار جبکہ میری عمر دس سال کے قریب ہوگی کہ گھوڑے پر چڑھتے ہوئے میں گھوڑے کے پیچھے سے گزر کر سوار ہونے کے لئے گیا.جبکہ اصول یہ ہے کہ ہمیشہ گھوڑے کے سامنے سے گزرنا چاہئے.حضور نے ارشاد فرمایا کہ واپس آؤ اور گھوڑے کے سامنے سے ہو کر جاؤ.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو عرب گھوڑوں سے بہت پیار تھا.آپ اس نسل کی خوبصورتی کو بہت پسند فرماتے تھے.حضور نے ۱۹۷۵ ء کے گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: گھوڑوں کے سلسلہ میں قرآن کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذکر میں ایک بنیادی حقیقت یہ بتائی ہے کہ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي کہ میں ( سلیمان ) الخیر سے اس لئے محبت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ یہ اچھی مخلوق یہ خیر مجھے اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتی ہے.“ پھر آپ نے فرمایا کہ ہم گھوڑے سے اس لئے پیار کرتے ہیں کہ قرآنِ عظیم نے ان سے پیار کرنے کی تلقین کی ہے.اور پہلے انبیاء کا نمونہ بھی ہمارے سامنے ہے اور خود حضرت نبی اکرم کا نمونہ بھی ہمارے سامنے ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ نے دیکھا کہ آنحضرت اپنے گھوڑے کے جسم کو چادر سے صاف کر رہے تھے اور اس سے بڑا پیار کر رہے تھے.صحابہ وہ لوگ تھے جو آنحضرت ﷺ پر جان دینے والے تھے.اس موقع پر وہ آگے بڑھے پر اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم یہ کام کرتے ہیں آپ کیوں تکلیف فرما رہے ہیں.آپ نے
188 فرمایا نہیں ! میں خود ہی یہ کام کروں گا.کیونکہ میرے خدا نے مجھے فرمایا ہے کہ تم یہ کام کرو.حضور نے اس ٹورنامنٹ کی ترقی کے متعلق فرمایا.” جیسا کہ ابھی رپورٹ میں بتایا گیا ہے، اس ٹورنامنٹ میں کچھ ترقی تو ہوئی ہے لیکن اتنی نہیں ہوئی جتنی ہماری خواہش ہے.صرف ۳۳ جماعتوں کے گھوڑے یہاں پہنچے ہیں.حالانکہ ہماری جماعتوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ہے.ہر جماعت میں کم از کم ایک گھوڑا تو ہونا چاہئے خواہ دیسی ٹیر ہی کیوں نہ ہو.یہ بھی بڑی کام آتی ہے.۲۰ میل کی دوڑ میں اس ٹیر نے زبان حال سے ہماری طرف منہ موڑ کر بڑی شان سے کہا تھا کہ تم مجھے ٹیرٹیر کہا کرتے تھے مگر دیکھو آج میں عرب گھوڑوں اور حاجی بشیر کے تھا رو بریڈ کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل آئی ہوں.اس میں بھی ایک برکت ہے اور یہ بڑا کام آتی ہے اور یہ آگے اس لئے نکل آئی کہ جو لوگ ٹیریں رکھنے والے ہیں وہ اپنی ضرورت کے لئے رکھتے ہیں ،شان کے لئے تو نہیں رکھتے.اس لئے ان کی ضرورت ان کو مجبور کرتی ہے کہ روزانہ نہیں تو ہر دوسرے دن اس پر ۲۵.۳۰ میل کا سفر کریں اس لئے اس کو چلنے کی عادت ہے اور وہ دوڑ کر تھکی نہیں.مگر جن کو عادت نہیں تھی وہ تھک گئیں.‘(1) اسی طرح ربوہ میں ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ کے نام سے باسکٹ کا ایک ٹورنامنٹ شروع کیا گیا جس میں ملک کی چوٹی کی ٹیمیں شرکت کرتیں.حضور بھی اس میں شرکت فرماتے بلکہ جہاں پر کھلاڑی ٹھہرے ہوتے ، آپ وہاں تشریف لے جاتے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے.اور طاہر کبڈی ٹورنامنٹ کے نام سے کبڈی کا ایک ٹورنامنٹ بھی منعقد ہوتا جس میں ملک کی اچھی اچھی ٹیمیں شرکت کرتیں اور لوگ اس دیسی کھیل سے محظوظ ہوتے.(1) الفضل سے مارچ ۱۹۷۲ ص ۱ و ۲ (۲) خطبات ناصر جلد ۴ ص ۶۹ تا ۷۹ (۳) مشعل راہ حصہ دوم شائع کرده مجلس خدام لا احمد یہ ص ۳۷۵ (۴) مشعل راہ حصہ دوم شائع کرده مجلس خدام لا احمد ی ص ۳۸۲ تا ۳۸۳
189 (۵) موطا امام مالک، کتاب الجہاد (۲) الفضل ۸ / مارچ ۱۹۷۵ء
190 مسجد اقصیٰ کا افتتاح ربوہ میں ایک عرصہ سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ یہاں پر ایک جامع مسجد تعمیر کی جائے.قیامِ ربوہ سے اب تک مسجد مبارک میں ہی جمعہ اور عید کی نماز میں ادا کی جاتی تھیں.لیکن وقت کے ساتھ مسجد مبارک میں جگہ کی تنگی بڑھتی جارہی تھی خاص طور پر جلسہ اور اجتماعات کے مواقع پر ایک بڑی مسجد کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی تھی.خلافت ثانیہ کے آخری سالوں کے دوران مجلس مشاورت میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا اور حضور کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ احباب جماعت کو اس امر کی تحریک کی جائے کہ ربوہ کی جامع مسجد کے لئے مطلوبہ رقم عطایا کے ذریعہ جمع کی جائے.کچھ احباب نے اس مد میں رقوم بھجوانی شروع کیں لیکن اس دوران ایک مخلص احمدی نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اس امر کی گزارش کی کہ وہ اس مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات پیش کرنا چاہتے ہیں.اور یہ درخواست کی کہ ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے.حضور نے از راہ شفقت اس کی اجازت مرحمت فرمائی.(۱) صدرا انجمن احمدیہ نے جامع مسجد کی تعمیر کے لئے پانچ افراد ی کمیٹی مقر رکی.اس کمیٹی کی سفارش پر مکرم محترم شیخ مبارک احمد صاحب کو کمیٹی کا سیکریٹری مقرر کیا گیا.اکتوبر ۱۹۶۶ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور ۱۹۷۳ء میں اس کی تعمیر مکمل ہو گئی.حضرت خلیفہ امسیح الثالث خود اس مسجد کی تعمیر کے مختلف مراحل میں دلچسپی لیتے رہے.حضور نے درجنوں مرتبہ آکر تعمیر کا جائزہ لیا.اور اس بات کی نگرانی فرمائی کہ اس تعمیر میں افادیت کا پہلو بہر حال مقدم رہے اور اخراجات میں کسی قسم کا ضیاع نہ ہو.افتتاح سے ایک روز قبل حضور نے خود تمام انتظامات کا معائنہ فرمایا.اس مسجد کا نقشہ چوہدری عبد الرشید صاحب، سابق پروفیسر انجینئر نگ یو نیورسٹی لاہور نے تیار کیا اور مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب اور دیگر انجینئر ز صاحبان نگرانی اور مشورہ کے لئے ربوہ تشریف لا کر خدمات سرانجام دیتے رہے.(۲) ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء کو حضور نے ایک خطبہ جمعہ کے ساتھ مسجد کا افتتاح فرمایا.جمعہ میں اہالیانِ ربوہ
191 کے علاوہ باہر سے آئے ہوئے دوستوں نے بھی شرکت کی.حضور نے خطبہ کے آغاز میں سورۃ البقرہ کی وہ آیات تلاوت فرمائیں جن میں خانہ کعبہ کی تعمیر کا ذکر ہے اور فرمایا کہ اس دنیا میں اصل مساجد تو تین ہی ہیں یعنی خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ، جنہیں حضرت محمد مصطفے ﷺ کے طفیل برکت دی گئی.باقی سب مساجد تو ان مساجد کی ظل ہیں اور انہی کی وجہ سے برکت حاصل کرتی ہیں ہم نے جو یہ مسجد بنائی ہے یہ بھی ان مساجد کی ہی ظل ہے اور اس کے دروازے قرآنِ کریم کے منشاء کے مطابق ہر موحد کیلئے کھلے ہیں.خدا کرے کہ یہ مسجد بھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا مورد بنی رہے اور نمازیوں کی دعاؤں سے آبادر ہے اور جن لوگوں نے اس کی تعمیر میں کسی نہ کسی رنگ میں حصہ لیا ہے یا اس کے لئے دعائیں کی ہیں خدا تعالیٰ ان کی سعی کو قبول فرمائے اور انہیں اپنی رحمتوں سے نوازے.(۲) یہ مسجد اب تک جماعت احمدیہ کی سب سے بڑی مسجد ہے.(۱) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۵، ص ۱۵ (۲) الفضل ۲ / اپریل ۱۹۷۲ء ص ۱و۲
192 پاکستان میں تعلیمی ادارے قومیائے جاتے ہیں ۱۹۷۲ء میں پاکستان کی حکومت نے ملک کے تمام تعلیمی ادارے اپنی تحویل میں لینے کا اعلان کر دیا.اس کے ساتھ جماعت احمدیہ کے تعلیمی ادارے میں حکومتی تحویل میں لے لئے گئے.تعلیم الاسلام کالج جیسے ادارے جنہیں محنت اور مسلسل قربانیوں کی روایات کے ساتھ چلایا گیا تھا ، جماعتی انتظام سے نکل کر حکومتی انتظام کے ماتحت چلے گئے.لیکن اس کے بعد یہی ہوا کہ ان تعلیمی اداروں کا معیار نیچے گرتا چلا گیا.جن تعلیمی اداروں میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی اعلی مثالیں قائم ہوتی تھیں، اب و ہاں نہ کو ئی تعلیمی معیار رہا اور نہ ہی کھیلوں جیسی سرگرمیوں کا کوئی معیار برقرار رہ سکا.جماعت احمدیہ کے خلاف سرگرمیوں میں تیزی آتی ہے آئین میں ختم نبوت کا حلف نامہ ۱۹۷۱ ء کی جنگ کے نتیجہ میں پاکستان دولخت ہو گیا.صدر یحیی خان نے استعفیٰ دے دیا اور بھٹو صاحب نے ملک کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر کی حیثیت سے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا.اب ملک کے آئین کی تشکیل کا مسئلہ در پیش تھا.مستقل آئین کی تشکیل میں تو کچھ وقت لگنا تھا ، اس دوران ملکی انتظامات چلانے کے لیے قومی اسمبلی نے ایک عبوری آئین کی منظوری دی اور مستقل آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک ۲۵ رکنی کمیٹی بنائی گئی ، اس کمیٹی کے سربراہ وزیر قانون محمودعلی قصوری صاحب تھے.لیکن کچھ عرصہ بعد محمود علی قصوری صاحب نے اختلافات کی وجہ سے وزارت اور اس کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب نے اس کمیٹی کی صدارت سنبھال لی.کمیٹی میں اپوزیشن کے کئی ایسے اراکین شامل تھے جو جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش رہے تھے.جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد صاحب، جمعیت العلماء اسلام کے قائد مفتی محمود صاحب،
193 جمعیت العلماء پاکستان کے شاہ احمد نورانی صاحب اس کے ممبر تھے.ان کے علاوہ میاں ممتاز دولتانہ صاحب اور سردار شوکت حیات صاحب بھی اس کے ممبر تھے.دولتانہ صاحب کس طرح جماعتِ احمدیہ کی مخالفت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے تھے ۱۹۵۳ء کے فسادات کے بیان میں اس کا ذکر تفصیل سے آچکا ہے.اور جب حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وفاقی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے ، اس وقت سردار شوکت حیات صاحب بھی دولتانہ صاحب کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو اس عہدے سے ہٹا دیا جائے.بعد میں سامنے آنے والے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مرحلہ پر جب کہ یہ کمیٹی آئین کی تشکیل کا کام کر رہی تھی ان دنوں میں بھٹو صاحب اپنے سیاسی مخالفین جماعت اسلامی کے ساتھ گفت و شنید کر رہے تھے.واللہ اعلم کہاں تک یہ بات درست ہے لیکن صحافی مصطفے صادق جو روز نامہ وفاق کے ایڈیٹر بھی رہے ہیں، کے مطابق پہلے پنجاب کے گورنر غلام مصطفے کھر نے ان کے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اندراشترا کی اور قادیانی خطرہ بنے ہوئے ہیں اور ان سے انہیں خطرہ ہے اور یہ کہ قادیانی ان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں.یہ بات تو خلاف عقل ہے کہ امن پسند احمدیوں سے کسی کو خطرہ تھا.حقیقت یہ تھی کہ اپنی سیاسی ساکھ بڑھانے اور قائم رکھنے کے لئے اور اپنے سیاسی دشمنوں کو رام کرنے کے لئے احمدیوں کے جائز حقوق غصب کرنے کی تمہید باندھی جا رہی تھی.اس کے مطابق مصطفے صادق صاحب کے ہی مطابق بھٹو صاحب اور مودودی صاحب کی ملاقات ہوئی.اس میں بھٹو صاحب نے مودودی صاحب سے تعاون کی اپیل کی اور یہ اپیل بھی کی کہ مودودی صاحب قادیانیوں اور کمیونسٹوں کی سرگرمیوں بلکہ بقول ان کے سازشوں کے بارے میں ذکر ہوا تو بھٹو صاحب نے ان سے کہا کہ وہ اس معاملے میں ان سے تعاون کریں.پھر اس ملاقات کے بعد بھٹو صاحب اور مودودی صاحب مطمئن نظر آتے تھے اور کھر صاحب بھی بہت مسرور تھے کہ جس سیاسی بحران نے ان کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں اس کا حل اب نکل آئے گا.تو اس طرح ایک بار پھر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے جماعت احمدیہ پر مظالم کا سلسلہ شروع کیا جارہا تھا (۳) یہ بیان تو مصطفے صادق صاحب کا ہے.جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے جو کہ بھٹو صاحب کی
194 کابینہ کے ایک اہم رکن تھے، اس بات کی بابت استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تو مشکل ہے کہ بھٹو صاحب نے مصطفے صادق صاحب سے رابطہ کیا ہو کیونکہ وہ انہیں اس قابلیت کا آدمی نہیں سمجھتے تھے لیکن یہ عین ممکن ہے کہ مودودی صاحب سے رابطہ کیا گیا ہو اور کھر صاحب کو کہا گیا ہو کہ ان سے رابطہ کریں.لیکن اس کے ساتھ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت بھٹو صاحب کو احمد یوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا.جب ہم نے مذکورہ بالا واقعہ کے بارے میں پروفیسر غفور صاحب سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں تھی.اور عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب نے بھی اس بابت سوال پر یہی کہا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں ہے.( نوٹ : اس کتاب کے بعض حصوں کے لئے ہم نے اس وقت کی بعض اہم سیاسی شخصیات سے انٹرویو لئے.ان میں مکرم ڈاکٹر مبشر حسن صاحب، جو بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل رہے، مکرم عبدالحفیظ صاحب پیرزادہ جو بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر رہے اور ۱۹۷۴ ء کے وقت وزیر قانون تھے، مکرم صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب جو کہ ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی کے سپیکر تھے، مکرم پروفیسر غفور احمد صاحب جو کہ قومی اسمبلی کے ممبر اور جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل تھے ، سابق جج پنجاب ہائی کورٹ مکرم جسٹس صمدانی صاحب جنہیں ۱۹۷۴ء میں انکوائری ٹریبونل میں مقرر کیا گیا تھا اور مکرم ٹی ایچ ہاشمی صاحب جو کہ پاکستان کے سیکریٹری اوقاف تھے اور ۱۹۷۴ء میں رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں حکومت پاکستان کے نمایندے کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے اور مکرم معراج محمد خان صاحب جو کہ ایک زمانے میں بھٹو صاحب کے خاص رفیق اور ان کی کابینہ میں بھی رہے، شامل ہیں.ان انٹرویوز کا تحریری اور آڈیو یا ویڈیو ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے.سوائے مکرم عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب کے انٹرویو کے جنہوں نے اگلے روز ریکارڈ کروانے کا فرمایا اور پھر معذرت کر لی.اکثر انٹرویوز لینے والی ٹیم میں خاکسار کے علاوہ م مظفر احمد صاحب ڈوگر مربی سلسلہ اور مرزا عدیل احمد صاحب شامل تھے ) کمیٹی نے کام شروع کیا اور لمبی بحث و تمحیث کے بعد ۱۲ را پریل ۱۹۷۳ء کو قومی اسمبلی نے نئے آئین کی منظوری دے دی.بھٹو صاحب کے دور میں وفاقی وزیر اور ان کے قریبی معتمد مکرم رفیع رضا صاحب اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ آئین کی منظوری سے چند روز قبل تک اپوزیشن راہنماؤں
195 نے اس عمل کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ وہ پارلیمانی نظام چاہتے ہیں لیکن وزیر اعظم کی آمریت نہیں چاہتے.بھٹو صاحب نے غلام مصطفیٰ کھر صاحب کے ذریعہ اپوزیشن کی جماعتوں خاص طور پر جماعت اسلامی سے رابطہ کیا اور ان سب نے آئین کی حمایت کا اعلان کر دیا.(Zulfikar Ali Bhutto and Pakistan 1967-1977, published by Oxford University Press Karachi 1997 page 178) جیسا کہ دستور ہے اس آئین میں بھی مختلف عہدوں کے لئے حلف نامے شامل تھے جنہیں اُٹھا کر کوئی شخص ان عہدوں پر کام شروع کر سکتا ہے.اس آئین میں صدر اور وزیر اعظم کے لیے جو حلف نامے تجویز کئے گئے تھے ان کے الفاظ سے یہ بات ظاہر ہو جاتی تھی کہ یہ حلف نامے تجویز کرنے والوں نے اپنی طرف سے یہ کوشش کی ہے کہ احمدیوں کو نشانہ بنایا جائے اور کہیں کوئی احمدی ان عہدوں پر مقرر نہ ہو سکے.یہ علیحدہ بات ہے کہ جماعت احمدیہ کو سیاسی عہدوں کی بندر بانٹ سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن ان حلف ناموں کو تجویز کرنے والوں نے اپنی دانست میں احمدیوں کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی تھی.صدر اور وزیر اعظم دونوں کے حلف ناموں میں یہ الفاظ شامل تھے | do solemnly swear that I am a Muslim and believe in the unity and oneness of Almighty Allah, the books of Allah, the Holy Quran being the last of them, the prophethood of Muhammad (peace be upon him) as the last of the prophets and that there can be no prophet after him, the day of judgement, and all the requirement and teachings of the Holy Quran..........That I will strive to preserve the Islamic Ideology which is the basis for the creation of Pakistan.اس سے پہلے بھی ملک میں دو آئین رائج ہوئے تھے اور ان میں بھی صدر اور وزیر اعظم کے لئے
196 حلف نامے مقرر کئے گئے تھے.لیکن ان میں مذہبی عقائد کے متعلق کوئی ایسی عبارات شامل نہیں کی گئی ۱۹۵۶ء کے آئین میں صدر کے حلف نامے کے الفاظ یہ تھے...................do solemnly swear that I will faithfully discharge the duties of the office of President of Pakistan according to law, that I will bear true faith and allegiance to Pakistan, that I will preserve protect and defend the constitution, and that I will do right to all manner of people according to law without fear or favour, affection or ill-wil.اسی طرح ایوب خان صاحب کے دور میں جو آئین بنایا گیا تھا اس کے حلف ناموں میں بھی مذہبی عقائد کا کوئی ذکر نہیں تھا.یہ پہلی مرتبہ تھا کہ پاکستان کے آئین میں اس قسم کا حلف نامہ شامل کیا گیا تھا.ڈاکٹر مبشر حسن صاحب اس وقت بھٹو صاحب کی کابینہ کے ایک اہم رکن تھے اور وہ اس وقت اس کمیٹی کے رکن بھی مقرر ہوئے تھے جس نے آئین بنانے کا کام کیا تھا.ان سے جب ہم نے یہ سوال کیا کہ حلف ناموں میں ختم نبوت کا حلف نامہ ڈالنے کی کیا وجہ تھی تو ان کا کہنا تھا کہ گو کہ اس کارروائی کے دوران انہوں نے اس کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ وہاں جس طرح بحث ہوتی تھی وہ وقت کو ضائع کرنا تھا کیونکہ آئین نے جس طرح بنا تھا وہ تو اسی طرح بنا لیکن اس کی واضح وجہ یہی تھی کہ بھٹو صاحب کی پہلی کوشش یہ تھی کہ آئین منظور ہو اور پھر یہ خواہش تھی کہ متفقہ آئین منظور ہو.اس غرض کے لئے انہیں مذہبی عناصر کو جو Concessions دینے پڑے ان میں یہ بھی شامل تھا.اور جب ہم نے عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب سے جو کہ آئین بنانے والی کمیٹی کے سربراہ تھے اس بابت سوال پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو صدر کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ وہ مسلمان ہو لیکن جب آئین کا سارا ڈھانچہ بنا اور یہ واضح ہوا کہ سارے اختیارات تو وزیر اعظم کے پاس ہوں گے تو مذہبی جماعتوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ وزیر اعظم کے لئے بھی مسلمان ہونا ضروری قرار دیا جائے
197 اور اس عہدہ کے لئے ختم نبوت کا حلف نامہ اُٹھانا بھی ضروری ہو.جب ہم نے پروفیسر غفور صاحب جو اس وقت جماعت اسلامی کے سیکریٹری تھے اور آئین تیار کرنے والی کمیٹی کے رکن تھے، یہ سوال کیا کہ ان حلف ناموں میں ختم نبوت کا حلف نامہ شامل کرنے کی تجویز کس طرف سے آئی تھی جبکہ پہلے جو آئین بنے تھے ان میں اس کا ذکر نہیں تھا؟ تو ان کا جواب تھا کہ پاکستان کے سابقہ آئینوں کو تو میں نے نہیں پڑھا لیکن ۱۹۷۳ء کا آئین بنتے وقت عدلیہ کی آزادی اور صوبائی خود مختاری کے مسئلے پر تو بحث ہوئی تھی لیکن اس حلف نامے کے موضوع پر تو کوئی بحث ہوئی ہی نہیں تھی.اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی جماعتوں نے ان حلف ناموں میں ختم نبوت کا حلف نامہ شامل کرنے کے لئے کوئی خاص دباؤ نہیں ڈالا تھا.بلکہ ان کی شمولیت ایک خاص ماسٹر پلان کا حصہ تھی جس کے باقی اجزاء بعد میں ظاہر ہوتے گئے.لیکن اس بات نے مجھے بہت مایوس کیا کہ ایک صاحب جو نہ صرف آئین ساز اسمبلی کے رکن تھے بلکہ آئین کو مرتب کرنے والی کمیٹی کے ایک اہم رکن بھی تھے اور ایک پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی تھے انہوں نے آئین سازی کے عمل کے دوران پرانے آئین کو پڑھا بھی نہیں تھا.آئین میں ایک دلچسپ تضاد یہ بھی تھا کہ آئین کی رو سے وزراء ہمبرانِ اسمبلی وسینٹ اور سپیکر اور ڈپٹی سپیکرز کے لئے یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ مسلمان ہوں یعنی ایک غیر مسلم بھی یہ عہدے حاصل کر سکتا تھا اور غیر مسلم وزراء بنتے رہے ہیں اور اسمبلی کے ممبر بنتے رہے ہیں.لیکن ان کے حلف نامے میں یہ عبارت شامل تھی That I will strive to preserve the Islamic Ideology which is the basis for the creation of Pakistan یعنی اگر ایک غیر مسلم ان عہدوں پر فائز ہو جائے تو وہ یہ حلف اُٹھائے گا کہ وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود نظریہ اسلامی کی حفاظت کے لئے کوشاں رہے گا.ہم نے پروفیسر غفور صاحب سے یہ سوال کیا کہ ایک غیر مسلم یہ حلف کیسے اُٹھا سکتا ہے کہ وہ اسلامک آئیڈیالوجی کے تحفظ کے لئے کوشاں رہے گا.تو پہلے انہوں نے آئین کی کاپی میں متعلقہ حصہ پڑھا اور پھر کہا کہ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ میں مسلمان ہوں.یہ آئیڈیا لوجی کے نقطہ نظر سے ہے.
198 جب آئین میں یہ لکھا ہے کہ ملک میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں بنے گا تو غیر مسلم کوبھی یہ حلف اُٹھانا پڑے گا.بہر حال یہ واضح تھا کہ اب احمدیوں کے خلاف ایک سازش تیار کی جارہی ہے.اس مرحلہ کے متعلق حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے ۱۹۸۵ء میں فرمایا: ”...۱۹۷۴ء کے واقعات کی بنیاد دراصل پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے آئین میں رکھ دی گئی تھی.چنانچہ آئین میں بعض فقرات یا دفعات شامل کر دی گئی تھیں تا کہ اس کے نتیجہ میں ذہن اس طرف متوجہ رہیں اور جماعت احمدیہ کو باقی پاکستانی شہریوں سے ایک الگ اور نسبتا ادنی حیثیت دی جائے.میں نے ۱۹۷۳ء کے آئین کے نفاذ کے وقت اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں عرض کیا اور آپ کو اس وقت توجہ دلائی.بعد ازاں جس طرح بھی ہو سکا جماعت مختلف سطح پر اس مخالفانہ رویہ کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن ان کوششوں کے دوران یہ احساس بڑی شدت سے پیدا ہوا کہ یہ صرف یہاں کی حکومت نہیں کروارہی بلکہ یہ ایک لمبے منصوبے کی کڑی ہے اور اس معاملہ نے آگے بڑھنا ہے.بہر حال ۱۹۷۴ء میں ہمارے خدشات پوری طرح کھل کر سامنے آگئے.“ ( خطبات طاہر جلد ۴ ص ۵۴) لیکن بہت سے تکلیف دہ واقعات سے گزر کر ملک کو ایک دستور مل رہا تھا.جماعت احمدیہ نے اس موقع پر کوئی مسلہ نہیں پیدا کیا بلکہ مکی مفادات کی خاطر اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ بالآ خر ملک کو ایک دستور مل گیا ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.گزشتہ ربع صدی میں پاکستان کو بہت سی پریشانیوں میں سے گزرنا پڑا.قیام پاکستان کے ایک سال بعد بانی پاکستان قائد اعظم کی وفات ہو گئی.ان کے ذہن میں پاکستان کے لئے جو دستور تھاوہ قوم کو نہ دے سکے.پھر ملک کو بعض دوسری پریشانیوں کا منہ دیکھنا پڑا.پھر مارشل لاء لگا جس کے متعلق بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی ذمہ داری فوج پر ہے اور یہ بات ایک حد تک درست بھی ہے لیکن اس کی اصل ذمہ داری تو ان لوگوں پر عاید ہوتی ہے جنہوں نے اس قسم کے حالات پیدا کر دیئے کہ فوج کو مارشل لاءلگا نا پڑا.بہر حال مارشل لاء کا زمانہ
199 بھی پریشانیوں پر منتج ہوا.اس کی تفصیل میں جانے کا نہ یہ وقت ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے.مارشل لاء کے زمانہ میں بھی کچھ قوانین تو ہوتے ہیں جن کے تحت حکومت کی جاتی ہے.تاہم ان قوانین کو قوم کا دستور نہ کہا جاتا ہے نہ سمجھا جاتا ہے اور نہ حقیقت ایسا ہوتا ہے.اس لحاظ سے قوم گویا دستور کے میدان میں پچھلے پچھپیں سال بھٹکتی رہی ہے چنانچہ ایک لمبے عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ قوم کو ایک دستورمل گیا.ہم خوش ہیں اور ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہیں کہ ہماری اس سرزمین کو جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے منتخب فرمایا ہے اس میں بسنے والی اس عظیم قوم کو اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ وہ اپنے لئے ایک دستور بنائے.‘(۲) ۱۹۷۳ء کے آئین میں جو حلف نامے تجویز کئے گئے تھے ان میں عقائد کا تذکرہ اور ختم نبوت کا حلف مولویوں اور مولوی ذہنیت رکھنے والوں کو خوش کرنے کے لئے رکھا گیا تھا.اور پیپلز پارٹی کے قائدین بڑے فخر سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے ملک کو ایک اسلامی آئین دیا ہے.چنانچہ پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر افتخار تاری صاحب نے آئین کی منظوری کے بعد بڑے فخر سے یہ بیان دیا.نیا آئین اسلامی ہے کہ اس میں پارلیمنٹ کی بالا دستی کے باوجود اسلامی مشاورتی کونسل کو سپریم حیثیت دی گئی ہے.ہمارے مخالفین بالعموم اور جماعت اسلامی والے بالخصوص پیپلز پارٹی پر یہ الزام لگاتے رہے کہ یہ مرزائی فرقہ کے قائدین کی ہدایات اور اشاروں پر چلتی ہے اور موجودہ حکومت کو ربوہ سے حکم آتے ہیں.اگر یہ الزام درست ہوتا تو آئین میں اسلامی قوانین کو کیسے اپنایا جا سکتا تھا.نیز اس آئین میں محمد مصطفے ﷺ کے نبی آخر الزمان کو بنیاد بنا کر ان شکوک و شبہات کو قطعی طور پر دور کر دیا گیا جن کی آڑ میں پیپلز پارٹی کو ہدف تنقید بنایا جاتا تھا.“ (روز نامہ امروز ۲۱ را پریل ۱۹۷۳ ص۲) چونکہ پیپلز پارٹی اور خود بھٹو صاحب پر مخالفین کی جانب سے مذہب سے بیزار ہونے کا الزام تھا، اس لئے یہ بھی ممکن ہے اس الزام کا رد کرنے کے لئے اور مخالفین کو خوش کرنے اور ان سے ممکنہ طور پر پیش آنے والے خطرات کا سد باب کرنے کے لئے پیپلز پارٹی نے اس قدم پر رضا مندی ظاہر کی ہو.لیکن تعصب اور تنگ نظری کے دوزخ میں جتنا مرضی ڈالو اس میں سے ھل من مزید کی صدائیں بلند
200 ہوتی رہتی ہیں.ایک کے بعد دوسرا نا معقول مطالبہ سامنے آتا رہتا ہے.اور اگر قوم کی تیرہ بختی سے حکومت ان کے آگے جھکنے کا راستہ اپنا لے تو پھر یہ عفریت معاشرے کی تمام عمدہ قدروں کو نگل جاتا ہے.بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی کے دیگر قائدین کی یہ بھول تھی کہ وہ اس طرح تنگ نظر گروہ کو خوش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.یا جیسا کہ ہم بعد میں اس امر کا جائزہ لیں گے اگر یہ سب کچھ کسی بیرونی ہاتھ کو خوش کرنے کے لئے کیا جا رہا تھا تو یہ خیال محض خوش فہمی تھی کہ یہ بیرونی ہاتھ اسی پر اکتفا کرے گا اور پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا.آئین کو بنے ابھی ایک ماہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ نئے مطالبے شروع ہو گئے.یہ مطالبات اسلام کے نام پر کئے جارہے تھے لیکن ان میں سے اکثر اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس تھے.ہم صرف ایک مثال پیش کرتے ہیں تا کہ اندازہ ہو سکے کہ اس گروہ کے خیالات اسلام اور اسلامی ممالک کے لئے کتنا بڑا خطرہ بن سکتے ہیں اور ان میں معقولیت نام کی کسی چیز کا نام ونشان بھی نہیں پایا جاتا.ماہنامہ الحق کے اپریل مئی کے شمارے میں آئین کے حوالے سے ان مطالبات کی فہرست شائع ہوئی جو اسمبلی کے اندر اور باہر نام نہاد مذہبی جماعتوں کی طرف سے کئے جارہے تھے.اس رسالے میں قومی اسمبلی میں مسودہ دستور کی اسلامی ترمیمات کا کیا حشر ہوا“ کے نام سے ایک طویل مضمون شائع ہوا.اس میں مضمون نگار نے یہ اعتراضات کئے کہ اس آئین کو صحیح اسلامی رنگ دینے کے لئے جو تبدیلیاں ضروری تھیں وہ منظور نہیں کی گئیں.یہ صاحب تحریر فرماتے ہیں: لیکن ہماری نگاہیں اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے مغربی تہذیب سے مستعار بنیادی حقوق کے تصورات پر ٹھہرتی ہیں.اور مغربی تہذیب سے مرعوب ہوکر بنیادی حقوق کے نام سے آئین کی رہی سہی اسلامیت بھی ختم ہو جاتی ہے.مثلاً موجودہ بنیادی حقوق میں جنس ( مرد، عورت)، اور مذہب کی تمیز کئے بغیر ہر قسم کی ملازمتوں میں مساوات یہاں تک کہ وہ عدالت کا چیف جسٹس بھی بن سکے کلیدی مناسب بھی سنبھال سکے، عام مجالس اور مقامات میں داخلہ اور مردوزن کا اختلاط، تقریر وتحریر کی آزادی کے نام پر اخلاقی اور مذہبی اقدار سے بھی آزادی ہر شخص جو چاہے مذہب اختیار کرے، مسلم اور غیر مسلم (اہل ذمہ) مردوزن سب کو تمام شعبہ ہائے حیات میں ایک لاٹھی سے ہانکنا، اس طرح کی بہت سی مثالیں اسلام
201 کے عطا کردہ حقوق کی نفی کرتی ہیں.اور آگے چل کر اسلامی قانون کی کئی اہم دفعات اور تقاضوں کے نفاذ کے لئے سد راہ بن سکتی ہیں.مثلاً ا.کوئی مسلمان اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکتا.۲.اسلامی مملکت میں ارتداد اور اس کی تبلیغ کی اجازت نہیں دی جا سکتی.۳.غیر مسلموں پر ٹیکس جزیہ لگانے کی گنجائش ہے.غلامی کے بارہ میں مخصوص حالات میں گنجائش ہے.۵.عورت حدود اور قصاص جیسے معاملات میں حج نہیں ہوسکتی..نہ اس کی قضا کئی ایسے امور میں معتبر ہے.نہ حدود اور قصاص میں اس کی شہادت معتبر ہے.۸.نہ وہ اسلامی سٹیٹ کی سربراہ بن سکتی ہے.۹.نہ کھلے بندوں مردوں کی تفریح گاہوں اور مخلوط اجتماعات میں آجا سکتی ہے.۱۰.دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے.۱۱.غیر مسلم اور ذمی قاضی اور حج نہیں بن سکتا.۱۲.نہ وہ اسلامی آئین سازی کرنے والے اداروں مقننہ یا دستور ساز اداروں کا رکن بن سکتا ہے بالخصوص جب اسمبلی کو اس بات کا پابند کیا گیا ہو کہ وہ کتاب وسنت کے مطابق قانون سازی کرے اس لئے اسلام ملازمتوں اور انتخابی عہدوں میں امتیاز ناگزیر سمجھتا ہے.جبکہ موجودہ بنیادی حقوق غیر مسلم اقوام ( جو مرتدین کو بھی شامل ہے ) کو نہ صرف صدارت ، وزارت عدلیہ کی سربراہی ، افواج اسلامی کی کمان تک عطا کرنے پر بھی قدغن نہیں لگاتے.۱۴.اسلام کی نگاہ میں کلیدی مناسب پر فائز ہونا تو بڑی بات ہے کسی غیر مسلم شہری کی مسلمانوں کے خلاف شہادت بھی معتبر نہیں.‘(۳) گویا ان علماء کے نزدیک صحیح اسلامی نظام تبھی آسکتا تھا جب غلامی کی مشروط اجازت ہو، اسلام نے غلامی کے ختم کرنے کی ابتدا کی تھی.عورتوں کو نہ صرف کلیدی عہدوں پر نہ لگایا جائے بلکہ وہ پبلک تفریحی مقامات پر بھی نہیں جاسکتیں.اور اگر چہ یہ مولوی حضرات جس سے مذہبی اختلاف ہو گا اس کے خلاف تو زہر اگلیں گے لیکن جس کو یہ غیر مسلم سمجھیں گے اسے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی کہ وہ ان کو دلائل سے جواب دے.غیر مسلم کو نہ صرف کسی کلیدی عہدے پر مقرر نہیں کیا جائے گا بلکہ کسی مسلمان کے خلاف اس کی گواہی بھی قبول نہیں کی جائے گی.یہ لغو خیالات نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں بلکہ ان کا اسلام کی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں.
202 (۱) قومی ڈائجسٹ جون ۱۹۸۴ ص ۳۷-۳۸(۲) الفضل ۱۲ جون ۱۹۷۳ء (۳) ماہنامہ الحق اپریل مئی ۱۹۷۳ ء ص ۳ تا ۵ کشمیر اسمبلی میں جماعت احمدیہ کے خلاف قرارداد آئین میں شامل کئے گئے حلف ناموں سے یہ ظاہر ہوجاتا تھا کہ سیاستدانوں کا ایک طبقہ، آئین اور قانون میں ایسی تبدیلیاں کرنا چاہتا ہے جن کے نتیجے میں نہ صرف کہ اپنی دانست میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے بلکہ احمدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش کی جائے.اور چونکہ الیکشن میں ان جماعتوں کو مکمل شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جن کو عرف عام میں مذہبی جماعتیں کہا جاتا ہے، اس لئے انہیں نئی سیاسی زندگی پانے کے لئے کسی ایسے مسئلہ کو چھیڑنے کی ضرورت تھی جس کی آڑ میں وہ اپنے سیاسی مردے میں کچھ جان پیدا کر سکیں.اور جیسا کہ ہم ۱۹۵۳ء کی شورش کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھ چکے ہیں کہ ان پارٹیوں کو صرف اپنے سیاسی مفادات سے غرض ہوتی ہے.ان حرکات سے ملک وقوم کو کتنا نقصان پہنچے گا، یہ لوگ اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے.ابھی پاکستان کے آئین کو اسمبلی سے منظور ہوئے ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس سازش کے آثار مزید واضح ہو کر نظر آنے لگے.اس مرتبہ یہ فتنہ کشمیر اسمبلی میں سر اُٹھا رہا تھا.اس وقت سردار عبد القیوم صاحب کشمیر کے صدر تھے اور سردار قیوم صاحب ایک عرصہ سے جماعت احمدیہ کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لے رہے تھے.کشمیر کی اسمبلی ۲۵ اراکین پر مشتمل تھی.ان میں سے 11 اراکین کا تعلق حزب اختلاف سے تھا اور ۲۹ اپریل ۱۹۷۳ء کو ان اراکین نے کسی وجہ سے اسمبلی کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا.اس بائیکاٹ کے دوران حکومتی گروہ کے ایک رکن اسمبلی میجر ایوب صاحب نے ایک قرار داد پیش کی جس کے متعلق روزنامہ مشرق نے یہ خبر شائع کی: آزاد کشمیر اسمبلی نے ایک قرار داد منظور کی ہے جس میں حکومت آزاد کشمیر سے سفارش کی گئی ہے کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا جائے.ریاست میں جو قادیانی رہائش پذیر ہیں ان کی با قاعدہ رجسٹریشن کی جائے اور انہیں اقلیت قرار دینے کے بعد ان کی تعداد کے مطابق مختلف شعبوں میں ان کی نمائندگی کا یقین کرایا جائے.قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ریاست
203 میں قادیانیت کی تبلیغ ممنوع ہوگی.یہ قرارداد اسمبلی کے رکن میجر محمد ایوب نے پیش کی تھی.قرار داد کی ایک شق ایوان نے ہفتہ کے روز بحث کے بعد ایک ترمیم کے ذریعہ خارج کردی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست میں قادیانیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا جائے.میجر ایوب نے قرار داد پیش کرتے ہوئے آئین پاکستان میں مندرج صدر مملکت اور وزیر اعظم کا حلف نامہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ آئین میں ان عہدیداروں کے لئے مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس کے مطابق یہ حلف نامہ تجویز کیا گیا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ حلف اُٹھانے والا یہ اقرار کرتا ہے کہ اس کا ایمان ہے کہ محمد مصطفے ﷺ اللہ تعالی کے نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی ہے ( سہو کتابت معلوم ہوتی ہے.اصل میں کوئی نبی نہیں ہے کہ الفاظ کہے گئے ہوں گے ) میجر ایوب نے کہا کہ اصولی طور پر آئین کی اس دستاویز کی رو سے وہ لوگ خود بخود غیر مسلم ہو گئے جو رسول اکرم ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتے اور چونکہ آزاد کشمیر اسمبلی اس سے قبل یہ قرارداد منظور کر چکی ہے اور اس کی روشنی میں قانون سازی بھی کی گئی ہے کہ ریاست میں اسلامی قوانین نافذ کئے جائیں گے اس لئے لازم ہے کہ اس معاملہ میں شریعت کے مطابق واضح احکامات جاری کئے جائیں.ایوان کے ایک رکن نے قرارداد کی تائید کرتے ہوئے پاکستان کی بعض عدالتوں کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا جن میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے.(۱) گو کہ یہ قرار داد حکومت سے سفارش کے طور پر تھی اور قانون سازی نہیں تھی لیکن یہ بہر حال واضح نظر آ رہا تھا کہ جماعت کے مخالفین کے عزائم کیا ہیں.وہ چاہتے تھے کہ احمدیوں کو آئینی طور پر ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.اور جیسا کہ ہم ۱۹۵۳ء کے حالات بیان کرتے ہوئے مخالفین جماعت کا بیان نقل کر چکے ہیں کہ انہیں یہ امید تھی کہ اگر احمدیوں کو قانونی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے تو یہ چیز کم از کم پاکستان میں احمدیت کو ختم کرنے کے لئے کافی ہوگی.پہلے اس قدم کی تمہید کے طور پر آئین میں صدر اور وزیر اعظم کے لئے ختم نبوت کا حلف اُٹھانا ضروری قرار دیا گیا.اور پاکستان کے آئین میں ان حلف ناموں کو بنیاد بنا کر آزاد کشمیر کی اسمبلی میں سفارش کے طور پر یہ قرارداد منظور کرائی گئی تا کہ اسے بنیاد بنا کر پاکستان میں بھی اس قسم کا قانون بنانے کی کوششیں کی جاسکیں.لیکن
204 کشمیر اسمبلی میں بھی جو قرار داد پیش کی گئی اس کا سرسری مطالعہ بھی اس بات کو واضح کر دیتا ہے قانونی طور پر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا بھی ان کا آخری مقصد نہیں تھا بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ احمدیوں کو ہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے.مثلاً یہ تجویز کیا گیا تھا کہ احمدیوں کی رجسٹریشن کی جائے اور انہیں آبادی کے تناسب سے مختلف شعبوں میں ملازمتیں دی جائیں.حالانکہ کشمیر یا پاکستان میں ایسا کوئی قانون تھا ہی نہیں کہ کسی مذہبی گروہ کو خواہ وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں ہو ، آبادی کے تناسب سے ملازمتیں دی جائیں گی.یہ شوشہ چھوڑنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ احمدی میرٹ کی بنیاد پر اپنا حق حاصل نہ کر سکیں.اور ان پر ایسا معاشی اور اقتصادی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ارتداد کا راستہ اختیار کریں.گو کہ منظوری کے وقت یہ حصہ حذف کر دیا گیا لیکن جو قرار داد میجر ایوب صاحب کی طرف سے پیش کی گئی اس میں یہ شق بھی شامل تھی کہ ریاست میں احمدیوں کے داخلے پر پابندی لگائی جائے.تو اصل ارادے یہی تھے کہ احمدیوں کو ان کے تمام حقوق سے محروم کر دیا جائے ورنہ ریاست میں ہندو، عیسائی اور یہودی تو داخل ہو سکتے تھے لیکن احمدی مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی لگانے کی تجویز کی جارہی تھی.گویا یہ ان خدمات کا صلہ دیا جارہا تھا جو احمدیوں نے اہلِ کشمیر کی مدد کے لئے سر انجام دی تھیں.اس قرارداد میں ایک اہم سفارش یہ تھی کہ ریاست میں احمدیوں کی تبلیغ پر مکمل پابندی لگائی جائے.یہ بات قابل مذمت ہونے کے ساتھ قابل فہم بھی تھی کیونکہ مخالفین جماعت دلائل کے میدان میں احمدیوں کا مقابلہ کرنے سے کتراتے ہیں اور ان کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ انہیں تو ہر قسم کا زہر اگلنے کی اجازت ہو بلکہ اس غرض کے لئے ہر قسم کی سہولت مہیا کی جائے مگر احمد یوں پر پابندی ہونی چاہئے کہ وہ اس کا جواب نہ دے سکیں.یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ کشمیر میں عیسائیت یا دوسرے مذاہب کی تبلیغ پر کوئی پابندی لگانے کی سفارش نہیں کی گئی تھی صرف احمدیت کی تبلیغ پر پابندی لگانے پر زور تھا.احمدیوں کی تبلیغ پر پابندی لگانے پر اصرار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ گروہ احمدیوں کے دلائل سے خائف رہتا ہے.پاکستان کے اکثر بڑے اخباروں میں یہ خبر ایک خاص معنی خیز انداز میں شائع کی جارہی تھی.ایک تو جب نوائے وقت ، امروز اور پاکستان ٹائمز میں یہ خبر شائع کی گئی تو یہ شائع نہیں کیا کہ ابھی اس کے مطابق قانون سازی نہیں کی گئی اور یہ قرار داد ایک سفارش کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ یہ لکھا گیا کہ
205 کشمیر میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے.دوسرے ان تینوں اخباروں میں یہ لکھا گیا کہ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے (۵،۴،۳) جس سے یہ تاثر دیا جار ہا تھا کہ اسمبلی کے تمام اراکین نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت اپوزیشن اسمبلی میں موجود ہی نہیں تھی.اور خدا جانے یہ بات صحیح تھی کہ غلط مگر بعض حکومتی اراکین نے بھی احمدیوں کے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ انہوں نے بھی اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا.جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ممکن ہے کہ اس وقت بعض حکومتی اراکین بھی اسمبلی میں موجود نہیں تھے جب کسی وجہ سے عجلت میں یہ قرارداد منظور کرائی گئی.(۵) یہ بات بھی قابل غور تھی کہ وہ اخبارات جو کہ پاکستان کی حکومت کے اپنے اخبارات تھے یعنی امروز اور پاکستان ٹائمز، وہ بھی اس قرارداد کے متعلق صحیح حقائق پیش کرنے کی بجائے بات کو توڑ موڑ کر پیش کر رہے تھے.حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کا ایک ہی مقصد ہوسکتا تھا اور وہ یہ کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کو ہوا دی جائے.جماعت کی مخالف پارٹیوں کو تو گذشتہ انتخابات میں مکمل شکست کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ جماعت احمدیہ کے خلاف شورش پیدا کر کے اپنی سیاست کے مردے میں جان ڈالیں لیکن اب اس بات کے آثار واضح نظر آ رہے تھے کہ حکومت میں شامل کم از کم ایک طبقہ اب جماعت احمدیہ کے خلاف سازش میں شریک ہو رہا ہے.اور کچھ سرکاری افسران بھی اس رو میں بہہ چکے تھے.اور اسی طرح ایک شورش بر پا کرنے کی کوشش ہو رہی تھی جس طرح ہیں سال قبل ۱۹۵۳ء میں برپا کرنے کی کوشش کی گئی تھی.ہمیں پچیس سال قبل بھی ان نام نہاد مذہبی جماعتوں کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انتخابات میں وہ جماعت کامیاب ہوئی نا اور تھی جسے جماعت احمدیہ کی حمایت حاصل تھی اور ان نام نہاد سیاسی جماعتوں نے سیاسی زندگی حاصل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک شورش بر پا کی تھی اور برسر اقتدار پارٹی کا ایک حصہ اپنے مفادات کیلئے مولویوں کی تحریک کی پشت پناہی کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا اور وہ اخبارات جماعت کے خلاف زہرا گلنے لگے تھے جنہیں حکومت پنجاب کی مالی سر پرستی حاصل تھی.اور اب بھی اس بات کے آثار نظر آرہے تھے کہ تاریخ دہرائی جارہی ہے.بہت جلد پاکستان میں یہ بیان بازی شروع کر دی گئی کہ اب پاکستان میں ایسی قانون سازی
206 کرنی چاہئے جس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد صاحب نے کہا کہ آزاد کشمیر کی حکومت کا فیصلہ بالکل صحیح اور حقیقت کے مطابق ہے اور حکومت پاکستان کو اس کی پیروی کرنی چاہئے (۶).جمعیت العلماء پاکستان کی طرف سے بھی یہ قدم اُٹھانے پر صدر آزاد کشمیر کو مبارکباد دی گئی اور اس جماعت کے صدر شاہ احمد نورانی صاحب نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دے.اس کے علاوہ مختلف مساجد میں خطیبوں نے بھی اس قرارداد کا خیر مقدم کر کے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دے (۸۷).آزاد کشمیر کی حکومت کو یہ مبارکبادیں صرف ملک کے اندر سے نہیں موصول ہورہی تھیں بلکہ جلد ہی جماعت کے مخالف جریدوں نے یہ خبر شائع کی کہ رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکریٹری نے تار کے ذریعہ مکہ معظمہ سے پاکستان کے صدر بھٹو کو آزاد کشمیر کی اسمبلی کی اس قرار داد پر مبارکباد کی تار دی ہے.یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ تار آزاد کشمیر کے صدر کو نہیں بلکہ پاکستان کے وزیر اعظم کو بھجوائی گئی تھی.رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل نے دنیا کے مسلمان ممالک سے اپیل کی کہ وہ اپنے ممالک میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیں اور مسلمان فرقوں میں اس گمراہ فرقہ کو اپنا شر پھیلانے کی اجازت نہ دی جائے.(۹) جب احمدیوں نے یہ خبریں پڑھیں تو لازماً انہیں بہت تشویش ہوئی.اور ان کی طبیعتوں میں غم و قصہ پیدا ہوا.فطرتی بات ہے کہ ایسے موقع پر احمدی احباب اپنے امام کی طرف دیکھتے ہیں اور انہی سے راہنمائی کی درخواست کرتے ہیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۴ رمئی ۱۹۷۳ء کور بوہ میں اس قرارداد پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور احباب جماعت کو بعض اصولی ہدایات سے نوازا.اس وقت احمدیوں کے دلوں میں جس قسم کے جذبات پیدا ہورہے تھے اس کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ارشاد فرمایا: غرض جس احمدی دوست نے بھی یہ خبر پڑھی اس کی طبیعت میں شدید غم وغصہ پیدا ہوا.چنانچہ دوستوں نے مجھے فون کیسے، میرے پاس آدمی بھیجوائے ، خطوط آئے ، تاریں آئیں.احباب نے خطوط اور تاروں وغیرہ کے ذریعہ اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر خدمت کے لیے پیش کیا کہ اگر قربانی کی ضرورت ہو تو ہم قربانی دینے کے لیے تیار
207 ہیں.چنانچہ میں نے تمام دوستوں کو جنہوں نے خطوط اور تاروں کے ذریعہ مخلصانہ جذبات کا اظہار کیا اور ان کو بھی جو میرے پاس آئے یہی سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل وفراست عطا فرمائی ہے اور عزت اور احترام کا مقام بخشا ہے.پس عقل وفراست اور عزت واحترام کا یہ مقام جو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں مرحمت فرمایا ہے، یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم پورے اور صحیح حالات کا علم حاصل کیے بغیر منہ سے کچھ نہ کہیں.اس قرارداد کے الفاظ کیا ہیں.قرارداد پاس کرنے والوں میں کون کون شامل ہے.یہ خبر اخباروں میں نمایاں طور پر کیوں آئی سوائے پاکستان ٹائمنر کے جس نے پانچویں صفحے پر شائع کی لیکن چوکٹھا بنا کر گویا اس نے بھی اس کو نمایاں کر دیا.جب تک اس کے متعلق ہمیں علی وجہ البصیرت کوئی علم نہ ہو اس وقت تک ہم اس پر کوئی تنقید نہیں کر سکتے.میں نے دوستوں سے کہا ، ہم حقیقت حال کا پتہ کریں گے اور پھر اس کے متعلق بات کریں گے.‘ (۱۰) حضور نے اس خطبہ جمعہ میں اس قرارداد کے پاس ہونے کے صحیح حالات بیان فرمائے اور جس طرح اخبارات نے اس خبر کو شائع کیا اس کا تجزیہ بیان فرمایا.حضور نے کشمیر اسمبلی کی قرارداد کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا.پس اگر نو یا بارہ آدمیوں نے اس قسم کی قرارداد پاس کر دی تو خدا کی قائم کردہ جماعت پر اس کا کیا اثر ہوسکتا ہے.اس کے نتیجہ میں جو خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں وہ یہ نہیں کہ جماعتِ احمد یہ غیر مسلم بن جائے گی.جس جماعت کو اللہ تعالیٰ مسلمان کہے اسے کوئی ناسمجھ انسان غیر مسلم قرار دے تو کیا فرق پڑتا ہے.اس لیے ہمیں اس کا فکر نہیں ہمیں فکر ہے تو اس بات کا کہ اگر یہ خرابی خدانخواستہ انتہاء تک پہنچ گئی تو اس قسم کے فتنہ وفساد کے نتیجے میں پاکستان قائم نہیں رہے گا.اس لیے ہماری دعائیں ہیں ہماری کوششیں ہیں اور ہمارے اندر حب الوطنی کا یہ جذبہ موجزن ہے کہ کسی قسم کا کوئی بھی فتنہ نہ اُٹھے کہ جس سے خود پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے.آخر فتنہ وفساد یہی ہے نا کہ کچھ سرکٹیں گے، کچھ لوگ زخمی ہوں گے.کون ہوں گے کیا ہوگا، یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لیکن جب اس قسم کا فساد ہوگا تو دنیا میں ہماری ناک کٹے گی ، ہر جگہ پاکستان کی بدنامی ہوگی.(۱۱)
208 حضور نے فرمایا کہ اب جماعت اسلامی اور جماعت احمدیہ کی مخالف جماعتیں حکومت کو دھمکیاں دے رہی ہیں کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے تو ۱۹۵۳ء جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے.دراصل یہ لوگ ۱۹۵۳ء کا نام لے کر اپنے نفسوں کو دھوکہ دے رہے ہیں.ان لوگوں کو اس وقت اتنی ذلت اٹھانی پڑی تھی کہ اگر وہ ذرا بھی سوجھ بوجھ سے کام لیتے تو ۵۳ ء کا نام بھی نہ لیتے مگر جماعت احمدیہ نے اس فساد فی الملک میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے عظیم نشان دیکھے.اللہ تعالیٰ کی رحمت نے جماعت کو بڑی ترقی عطا فرمائی اس لیے ہمارے حق میں ۵۳ ء بڑا مبارک زمانہ ہے.جس میں جماعت بڑی تیزی سے ترقی اور رفعتوں میں کہیں سے کہیں جا پہنچی.حضور نے بیان فرمایا کہ ایسے بھی احمدی ہیں جو ۱۹۵۳ء میں احمدیوں کے گھروں کو آگ لگانے کے لیے نکلا کرتے تھے مگر بعد میں حق کو پہچان کر خود احمدی ہو گئے.حضور نے خطبہ جمعہ کے آخر میں فرمایا: صلى الله ” میرا خیال ہے کہ میں نے ایک احمدی کا جو صحیح مقام ہے وہ آپ کو سمجھا دیا ہے.آپ دعا کریں اور اس مقام پر مضبوطی سے قائم رہیں کیونکہ ہمارے لئے جو وعدے ہیں اور ہمیں جو بشارتیں ملی ہیں وہ اس شرط کے ساتھ ملی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں جس مقام پر سرفراز فرمایا ہے اس کو بھولنا نہیں اور اس کو بھولنا نہیں اور اسکو چھوڑ نا نہیں.خدا تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا ہے.آنحضرت ﷺ سے پیار کرتے رہنا ہے.اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھنا.بے لوث خدمت میں آگے رہنا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے اور جب دنیا پیار کو کلی طور پر قبول کرنے سے انکار کر دے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو یاد رکھنا کہ "اُٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں (۱۲) یہ ایک عجیب بات ہے کہ جب ہم نے جماعت اسلامی کے لیڈر پروفیسر غفور صاحب سے انٹرویو کے دوران آزاد کشمیر اسمبلی کی اس قرارداد کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس کا علم نہیں اور یہ بھی کہا کہ ۱۹۷۳ء میں تو قادیانیوں کے بارے میں کوئی Issue نہیں تھا.جب انہیں میاں طفیل محمد صاحب امیر جماعت اسلامی کے بیان کا حوالہ دیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے یاد
209 نہیں ہے.اور پھر دہرایا کہ ۱۹۷۳ء میں تو قادیانیوں کے بارے میں کوئی Dispute نہیں تھا.(۱) مشرق یکم مئی ۱۹۷۳ ء ص ۶ (۲) نوائے وقت ۳۰ / اپریل ۱۹۷۳ ص ۱ (۳) پاکستان ٹائمنر ۳۰ اپریل ۱۹۷۳ء (۴) امروز ۳۰ / اپریل ۱۹۷۳ ء ص ۱ (۵) آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصرہ از حضرت امام جماعت احمدیہ، ناشر نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوه ص ۴ (۶) نوائے وقت ۳ رمئی ۱۹۷۳ء ص ۱ (۷) نوائے وقت ۱۶ مئی ۱۹۷۳ ء ص ۲ (۸) نوائے وقت ۵ رمئی ۱۹۷۳ ء ص آخر (۹) المنبر ۶ جولائی ۱۹۷۳ ص ۱۴ و ۱۵ (۱۰) آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصرہ از حضرت امام جماعت احمدیہ، ناشر نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوه ص ۲ و ۳ (۱۱) آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرار داد پر تبصرہ از حضرت امام جماعت احمدیہ، ناشر نظارت اشاعت لٹریچر وتصنیف صدرانجمن احمدیہ پاکستان ربوه ص ۴ و ۵ (۱۲) آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصرہ از حضرت امام جماعت احمدیہ ، ناشر نظارت اشاعت لٹریچر وتصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوه ص ۱۶
210 ۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلس شوری اب تک ہم یہ جائزہ لیتے رہے ہیں کہ ۱۹۷۳ ء کے پہلے تین ماہ کے اختتام تک اس بات کے آثار نظر آرہے تھے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین پہلے کی طرح ایک بار پھر جماعت احمدیہ کے خلاف سازش تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.لیکن بہت سے حقائق ابھی منظرِ عام پر نہیں آئے تھے.احباب جماعت کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ ۱۹۵۳ء کی نسبت بہت زیادہ وسیع پیمانہ پر یہ سازش تیار کی جارہی تھی.۱۹۷۳ء کی مجلس مشاورت حسب معمول ۰ ۳مارچ تا یکم اپریل ۱۹۷۳ء منعقد ہوئی تھی سراب ایسے حالات پیدا ہو رہے تھے جن سے جماعت کو آگاہ کرنا ضروری تھا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے خصوصی ارشاد پر ۲۷ مئی ۱۹۷۳ء کو مجلس مشاروت کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا.حسب قواعد اس میں جملہ نمائندگان مجلس مشاورت ۱۹۷۳ء کو مدعو کیا گیا کیونکہ قواعد کے مطابق کسی مجلس شوری کا نمائندہ پورے سال کے لئے نمائندہ ہوتا ہے.جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے حضور نے ۱۹۷۰ ء کے انتخابات کے وقت ملک کی صورت حال اور انتخابات میں جماعت احمدیہ کے فیصلے کی حکمت کا تفصیلی تجز یہ فرمایا.چونکہ اس وقت تک یہ بات ظاہر ہو چکی تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک گروہ با وجود اس حقیقت کے کہ انتخابات کے مرحلہ پر احمدیوں نے ان کی مدد کی تھی اور وہ خود درخواست کر کے احمدیوں کی مدد طلب کر رہے تھے ،اب جماعت کی مخالفت میں سرگرم نظر آرہے تھے.وہ اقتدار میں آکر سمجھتے تھے کہ اب انہیں اس غریب مزاج گروہ کی کیا ضرورت ہے بلکہ اب احمدیوں کی مخالفت کر کے وہ مولویوں کی آنکھوں کا تارہ بن سکتے ہیں.دنیاوی نگاہ سے دیکھا جائے تو ان کا تجز یہ غلط بھی نہیں تھا لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھ پارہے تھے کہ اس غریب جماعت کا ایک مولا ہے جو ان کی حفاظت کر رہا ہے.حضور نے اس مجلس شوری سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پیپلز پارٹی کے منتخب اراکین کے تین گروپ ہیں.پہلا گروہ وہ ہے کہ جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا ہے وہ جماعت احمدیہ کے دشمن چلے آرہے ہیں.اور اب جب کہ وہ اسمبلیوں کے ممبر اور حق و انصاف کے امین ہیں ہنوز ہمارے بڑے سخت مخالف اور معاند ہیں.اور
211 جماعت احمدیہ نے صرف ملک کے استحکام کی خاطر انتخابات میں ان لوگوں کی مدد بھی کی تھی.دوسرا گروہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کے اندر کسی قسم کا مذہبی تعصب نہیں.وہ انتخاب سے پہلے بھی ہمارے دوست تھے اور اب بھی ہیں تاہم یہ دوستی اسی قسم کی دوستی ہے جودنیا میں دنیا کی خاطر پیدا ہوتی ہے.یہ اس قسم کی دوستی نہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے تو تمہارے لئے عزت اور شرف کا سامان آسمانوں سے نازل کیا تھا اور تم اس سے بے اعتنائی برت رہے ہو.پیپلز پارٹی کا ایک تیسرا گروہ بھی ہے اور اس کی شاید اکثریت ہے.یہ گروہ نیوٹرل ہے یعنی نہ ہمارے ساتھ اس کی کوئی دوستی ہے اور نہ ہمارے ساتھ اس کی کوئی دشمنی ہے.چونکہ پارٹی میں اس گروہ کی اکثریت ہے اور دنیا میں بالعموم نیوٹرل کی اکثریت ہوا کرتی ہے اس لئے اگر پیپلز پارٹی کی قیادت ان کو صحیح راستہ بتادے گی تو وہ صحیح راستہ پر چل پڑیں گے اگر ان کو غلط راستہ پر ڈال دیں گے تو غلط راستہ پر چل پڑیں گے.حضور نے ان تین گروہوں کا تجزیہ کرنے کے بعد فرمایا.”...پھر چونکہ ہم نے کوئی سودا بازی نہیں کی تھی کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا اس لئے اگر پیپلز پارٹی کا وہ معاند گروہ (جس کا میں پہلے تجزیہ کر آیا ہوں اور جو پندرہ بیس فیصد سے زیادہ نہیں) اگر احمدیت مردہ باد کا نعرہ لگائے تو کسی احمدی دوست کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پیپلز پارٹی کا ہم سے کوئی معاہدہ تھا جس کی انہوں نے کوئی خلاف ورزی کی ہے.ہمارا ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے ہم نے ان کے ساتھ کوئی سودا بازی نہیں کی.اگر وہ ہمارے ساتھ کوئی زیادتی کریں تو ہمیں دکھ ہو گا ، گلہ شکوہ اور غصہ نہیں آئے گا کیونکہ سودا بازی کا مطلب یہ ہے کہ جس سے ہم سودا بازی کر رہے ہیں وہ ہمیں غلام سمجھ کر یا مال سمجھ کر مارکیٹ میں لے جائے اور یہ تو ہم ایک لمحہ کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس معاند گروہ کی طرف سے ہمیں آوازیں پہنچتی رہتی ہیں کہ ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے لیکن ہم پیپلز پارٹی کو بحیثیت مجموعی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے.میں آج کی بات کر رہا ہوں کل کا مجھے پتہ نہیں کیا ہوگا.نہ ہمیں اس بات کا کوئی حق ہے کیونکہ ہم نے ان کے ساتھ کوئی سودا ہی نہیں کیا.ہم نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اس شرط کے ساتھ کہ صرف وہی ہمارے دوست نہیں ہوں گے اور بھی ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ ہم نے
212 کوئی الحاق تو نہیں کیا تھا.ہم نے تو دوسری پارٹیوں کے بعض امیدواروں کو بھی ووٹ دیئے تھے اب ان کی مرضی ہے کہ وہ دوستی کے حق کو نبا ہیں یا نہ نہا ہیں.ہمیں تعلیم دینے والے نے یہ فرمایا ہے کہ تم نے خود دوستی نہیں توڑنی لیکن ہمیں خدا نے یہ اختیار تو نہیں دیا کہ دوسروں کو مجبور کریں کہ ضرور دوستی قائم رکھی جائے.دوستی کا تعلق ضرور ہے لیکن ہم ان کو خدا نہیں سمجھتے نہ دا تا سمجھتے ہیں.ان دا تا کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے.دوست یہ یاد رکھیں پھر میں کہتا ہوں کہ یادرکھیں ہمارے لئے ایک ہی دروازہ ہے جس کی دہلیز پر ہم کھڑے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا دروازہ ہے خدا کی رحمت کے دروازے کے مقابلہ میں ان دروازوں کی حیثیت ہی کیا ہے اور ہم نے ان کی طرف منہ کیوں کرنا ہے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی ہمارا محافظ اور Saviour ہے تو وہ بڑا ہی نالائق اور بیوقوف ہے، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی سے ہم نے دولت لینی ہے یا کسی سے ہم نے اثر و رسوخ حاصل کرنا ہے تو اس سے زیادہ ناسمجھ اور کوئی نہیں ہم تو ایک ہی ہستی کے در پر جا پڑے ہیں اور اپنے اس مقام عجز اور فروتنی پر خوش ہیں اور مطمئن ہیں اور راضی ہیں...بعض لوگوں نے ( یہی جو پیپلز پارٹی میں ہمارا معانداور مخالف گروپ ہے اس میں سے بعض نے ) یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ ہمارے بہت سر چڑھ گئے ہیں سفارشیں لے کر آ جاتے ہیں.سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی سفارشیں مانیں گے اس قسم کی باتیں سننے آئیں.اگر چہ ہم اس بات کا پیپلز پارٹی کو بحیثیت جماعت الزام نہیں دیتے کیونکہ اس قسم کی باتیں کرنے والا ان کی پارٹی کا چھوٹا سا حصہ ہے لیکن میں نے سوچا کہ اگر اس چھوٹے سے حصہ کی طرف سے بھی اس قسم کی آواز نکلتی ہے تو ان سے بالکل تعلق نہیں رکھنا چاہئے.چنانچہ میاں طاہر احمد صاحب بہت سارے کام کرتے تھے ان کو میں نے بلا کر مزاحاً کہا کہ اب آپ اپنے آپ کو Under House Arrest سمجھیں آپ نے باہر بالکل جانا ہی نہیں.یہ ( پیپلز پارٹی والے ) اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں کیا ہم ان کے محتاج ہیں.ہم اگر کسی کے محتاج ہیں تو خدائے قادر و توانا کے محتاج ہیں.خدا کرے کہ ہماری یہ احتیاج ہمیشہ قائم رہے عمل کے لحاظ سے بھی اور اعتقاد کے لحاظ سے بھی اور ایمان کے لحاظ سے بھی.غرض وہی خدائے قادر و
213 توانا ہے جو ہماری ہر ایک احتیاج کو پورا کرنے والا ہے.دنیا نے ہماری ضرورتوں کو کیا پورا کرنا ہے اور ہم نے ان سے کیا مانگنا ہے.غرض میاں طاہر احمد صاحب کو میں نے روک دیا کہ آپ باہر جائیں ہی نہ ہمیں ضرورت ہی کوئی نہیں تا ہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کے پندرہ بیس فیصد لوگ اس قسم کی باتیں کریں تو ہم نے پارٹی سے ناراض ہو جانا ہے.ان پندرہ بیس فیصد لوگوں سے بھی اگر کہیں اتفاقاً ملاقات ہو جائے تو کیا وہ حسنِ اخلاق جو اسلام نے ہمیں سکھائے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان اخلاق کا ہماری زندگیوں میں دوبارہ احیاء فرمایا ہے.وہ ہم چھوڑ دیں گے؟ نہیں ہرگز نہیں ! ہم اسی طرح بشاشت اور مسکراتے چہروں کے ساتھ ان سے ملیں گے اور ان کی نالائقیوں کا ہم ان کے سامنے اظہار بھی نہیں کریں گے.‘(۱) پھر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے موجودہ حالات پر منطبق ہونے والے قرآن کریم کے بعض احکامات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات بیان فرمائے اور ان کی روشنی میں جماعتِ احمدیہ کی اہم ذمہ داریاں اور ان سے عہدہ برآ ہونے کا صحیح طریق بیان فرمایا اور فرمایا کہ ہمیں اجتماعی زندگی میں فساد سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور فساد کرنے والوں کو قرآنِ کریم سخت انتباہ کرتا ہے البتہ خود حفاظتی میں تو گولی چلانا بھی جرم نہیں ہے.حضور نے اس ضمن میں ۱۹۴۷ء کے پُر آشوب دور کا ذکر فرمایا جب ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم تھا اور افراتفری پھیل گئی تھی.لیکن اس دور میں بھی احمدیوں نے دلیری سے حالات کا مقابلہ کیا تھا.پھر حضور نے حال میں ہی منظرِ عام پر آنے والی آزاد کشمیر اسمبلی کی قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا.” میں نے اپنے اس خطبہ میں جس میں میں نے آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصرہ کیا ہے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے هو سمكم المسلمین کہ کر خود ہمارا نام مسلمان رکھا ہے اور پھر اسی آیہ کریمہ میں اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ میں نے تمہارا نام مسلمان کیوں رکھا ہے.دوست اس آیت کو پیش نظر رکھیں اور اسے بار بار پڑھتے رہیں اور اس حقیقت کو یاد رکھیں کہ ہمیں خدائے قادر و توانا نے مسلمان کا نام دیا ہے.جس آدمی کو خدا نے مسلمان کا نام دیا ہوا سے خدا کی مخلوق میں سے کوئی یا ساری مخلوق مل کر بھی غیر مسلم کیسے قرار دے سکتی
214 ہے.البتہ اس قسم کے اعلان کرنے پر تو کوئی پابندی نہیں اور نہ خود ہی اپنے اسلام کا ڈھنڈورا پیٹنے کا کوئی فائدہ ہے.اسلام کا فائدہ تو تب ہے جب کہ انسان خدا کی نگاہ میں بھی مسلمان ہو کیونکہ اسلام کوئی شہر کی شیشی تو نہیں کہ اسے آپ گھر لے جائیں گے اور بوقت ضرورت استعمال کر لیں گے یا یہ کوئی ریشم کے نرم و نفیس کپڑے تو نہیں جسے آپ اپنی عورتوں کو پہنا دیں گے اور وہ ان سے خوشی اور فخر محسوس کریں گی.اسلام تو ایک ایسی حقیقت ہے جس کی معرفت کا راز صرف اسی شخص پر کھلتا ہے جو خدا کا ہو کر خدا کی نگاہ میں حقیقی مسلمان ٹھہرتا ہے.خدائی ٹھیکیداروں کی طرف سے کسی کو مسلمان بنانے یا نہ بنانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا.......پس یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں سراسر بے ہودہ ہیں ان سے ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں لیکن ہم نے تدبیر ضرور کرنی ہے اور وہ ہم انشاء اللہ کریں گے.(۲) جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس بات کے آثار واضح نظر آ رہے تھے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف ایک گہرا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے لیکن ابھی تک جماعتی عہد یداران میں سے ایک بڑی تعداد کو بھی اس کی تفصیلات کا علم نہیں تھا.لیکن اب یہ ضروری تھا کہ کم از کم جماعت احمدیہ کے ذمہ دار افراد کو اس منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے.اس تمہید کے بعد حضور نے نمائندگان مجلس مشاورت کو آگاہ فرمایا کہ اب جماعت احمدیہ کے خلاف تین خطر ناک منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں.اور ان منصوبوں سے محفوظ رہنے کی حکیمانہ نصائح سے نوازا.حضور نے فرمایا کہ پہلا منصوبہ،جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے دو مبارک رویا میں دی تھی ، وہ دوسیاسی جماعتوں نے مل کر بنایا ہے.اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں امام جماعت اور بہت سے افراد جماعت کو قتل کر دیا جائے.حضور نے فرمایا کہ انہی رویا میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس منصوبے کو نا کام کر دے گا اور انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا.اور فرمایا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ ہمیں کامیابی کی بہت بشارتیں دی گئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریاں بھول جائیں.ہم نے جو تد بیر کرنی ہے اور بیداری کا نمونہ دکھانا ہے اور اپنے مخالف اور معاند کے سامنے یک جہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہے اور اس دنیا سے استغناء کے جو مظاہرے دنیا کو دکھانے ہیں وہ آسمان سے فرشتوں نے آکر نہیں دکھانے یہ تو ہمارا کام
215 ہے کہ ہم حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے کما حقہ تدبیر کریں.بیداری اور چوکسی ، اتحاد اور اتفاق کا ایسا شاندار مظاہرہ کریں کہ ہمارے مخالفین کو ہمارے خلاف کچھ کہنے یا کرنے کی جرات نہ ہو.‘ (۳) حضور نے دوسرے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: دوسرا منصوبہ بھی نہایت ہی خبیثا نہ منصوبہ ہے.اس کے متعلق بھی دیر سے خبریں مل رہی تھیں.جن لوگوں نے اس قسم کا منصوبہ بنایا ہے انہوں نے دراصل احباب جماعت کو پہچانا نہیں کہ وہ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں.اس منصوبہ کے دو حصے ہیں.ایک یہ ہے کہ دنیوی عزت و وجاہت یا شان و شوکت یا مال وزر کے بل بوتے پر وہ احباب جماعت کے سروں کو اپنے سامنے جھکا دیں.وہ بزعم خود جماعت کو اتنا تنگ کریں کہ دوست ان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جا ئیں.ایسے لوگ جو اس قسم کے منصوبے بناتے ہیں کتنے نالائق اور بیوقوف ہیں.وہ سمجھتے نہیں کہ ہم تو صرف ایک آستانہ پر جھکتے ہیں.وہ دیکھتے نہیں کہ ایک ہی در ہے جس پر ہمارا سر جھکتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا در ہے.....یہ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں.جماعت احمدیہ اور اس کے افراد انہیں کیا وقعت دیتے ہیں.سیاسی پارٹیوں کے نام پر باہر سے پیسے کھا کر وہ ہم پر رعب جماتے ہیں کہ وہ یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے.(۴) حضور نے مخالفین کے تیسرے منصوبے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا: تیسرا منصوبہ ربوہ میں منافقین کے ذریعہ ایک متوازی جماعت قائم کرنے سے متعلق ہے.خدا تعالیٰ نے ایسا تصرف فرمایا کہ مجھ تک ان کی بات پہنچ گئی.ہمارے مخالفین کچھ منافقوں کو ساتھ ملا کر ربوہ میں ہی ان کا مرکز بنا کر ایک متوازی جماعت قائم کر کے جماعت احمدیہ کو دو حصوں میں بانٹ دینا چاہتے ہیں تا کہ اس طرح جماعت احمدیہ کی طاقت ٹوٹ جائے مگر وہ اس بات کو سمجھتے نہیں کہ منافق کا سر تو اس لئے بچا ہوا ہے کہ خدا کہتا ہے کہ نہیں! میں اس کو سزا دوں گا.تمہاری سزا سے زیادہ سخت سزا دوں گا.تم خدا کے مقابلہ پر منافق کی بھلا کیا حفاظت کرسکو گے.منافقت آج کا روگ نہیں یہ تو بہت پرانا روگ ہے.جماعت احمد یہ بڑے بڑے مشکل
216 مراحل سے گزری ہے اور ہر مرحلے پر بڑے بڑے منافقوں سے اس کا پالا پڑا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی ابتداء میں جماعت احمدیہ کو منافقوں کے سب سے بڑے فتنہ کا مقابلہ کرنا پڑا.وہ ایک ایسا فتنہ تھا کہ اس کے بعد کے فتنے اس کا عشر عشیر بھی نہیں تھے.اس وقت منافقین نے یہ اعلان کیا تھا کہ جماعت کا ۹۵ فیصد حصہ ان کے ساتھ ہے اور صرف ۵ فیصد خلافت سے وابستہ ہے.جماعت کے اندر نفاق کا اس سے بڑا منصوبہ اور کون سا ہوگا.مگر جماعت احمدیہ نے اپنے اولوالعزم امام کی راہنمائی میں اپنی تاریخ کے اس سب سے بڑے فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور منافقین کو اپنے اندر سے اس طرح نکال باہر کیا جس طرح دودھ میں اگر مکھی پڑ جائے تو لوگ اس کو نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں.چنانچہ جب کبھی ایسے حالات پیدا ہوئے جماعت نے نفاق کے گند کو باہر نکال پھینک دیا اور ہم نے اپنے آپ کو مسل مصفی کی طرح پاک وصاف پایا.پس اگر اب بھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ منافقوں کو شہ دے کر یا ان کو چند لاکھ روپے دے کر ، جماعت احمدیہ کے مقابلہ میں ایک نئی تنظیم کھڑی کر کے اور ان کو بعض عمارتوں پر قبضہ دلا کر جماعت احمدیہ کو ناکام بنادیں گے تو یہ ان کی بھول ہے.عمارتیں کیا چیز ہوتی ہیں.پتھر کے بنے ہوئے مکانوں کی حیثیت کیا ہے ان سے بڑھ کر خوبصورت اور پختہ مکانوں کو تو ہم تقسیم ملک کے وقت قادیان میں چھوڑ آئے ہوئے تھے.(۵) حضور نے اس ہنگامی مجلس مشاورت میں مخالفین کے یہ تین منصوبے بیان کرنے کے بعد فرمایا: غرض مخالفین اور معاندین نے ان دنوں ہمارے خلاف جو منصوبے بنائے ہیں ان کے متعلق میں نے احباب کو مختصر بتا دیا ہے تا کہ وہ باخبر رہیں اور حسنِ عمل پر زور دیں.تاہم اپنے اعمالِ صالح پر فخر بھی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جو ظاہر میں عملِ صالح سمجھا جاتا ہے انسانی آنکھ بعض دفعہ اس کے اندر کے کیڑے کو نہیں دیکھ سکتی.چنانچہ ایسا عمل انجام کار رد کر دیا جاتا ہے.وہ عند اللہ قبول نہیں ہوتا.ہمیں تو صرف ایک چیز کا پتہ ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں بتانے کے لائق ہے.آپ فرماتے ہیں.
217 پھر حضور نے فرمایا : وو لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگاہ میں بار احباب یاد رکھیں کہ جہاں تک دشمن کا تعلق ہے درشن کو کبھی حقیر نہیں مجھنا چاہئے.اس واسطے دشمن کو چونکہ کبھی حقیر نہیں سمجھنا چاہئے ہمیں لا پرواہ نہیں ہونا چاہئے لیکن جہاں تک ہمارے انجام کا تعلق ہے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.ہم لا پرواہ تو نہیں ہوں گے.ہم قربانیاں تو دیں گے اور دیتے چلے جائیں گے.کام تو ہم کریں گے اور اپنی تدبیر کو انتہا ء تک پہنچائیں گے.اپنے عمل کو حسن و احسان سے مزین کر کے خدا کے حضور پیش کریں گے اور خدا سے یہ کہیں گے.اے خدا! تو اسے اپنے فضل سے قبول فرما لیکن اپنے اوپر فخر نہیں کریں گے.“ (1) اس خطاب کے بعد حضور نے لمبی پُر سوز دعا کروائی جس کے بعد مجلس مشاورت کا یہ غیر معمولی اجلاس اختتام پذیر ہوا.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے وہ پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشاں تھی اور ان کا امام انہیں آئندہ پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کر رہا تھا اور وہ اپنے رب کے حضور دعاؤں میں مشغول تھے اور مخالفین جماعت پہلے سے بھی زیادہ زہریلا وار کرنے کی تیاری کر رہے تھے.(۱) رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ مئی ۱۹۷۳ ص ۴۱ تا ۴۳ (۲) رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ مئی ۱۹۷۳ ص ۱۰۸ ۱۰۹ (۳) رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ مئی ۱۹۷۳ ء ص ۱۱۱ تا ۱۱۲ (۴) رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ مئی ۱۹۷۳ ء ص ۱۱۶ - ۱۱۷ (۵) رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ ئی ۱۹۷۳ ص ۱۱۷- ۱۱۸ (1) رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ مئی ۱۹۷۳ ص ۱۲۳ - ۱۲۵
218 حضرت خلیفہ اصسیح الثالث کا دورہ یورپ - ۱۹۷۳ ء اء افق پر جماعت احمدیہ کے خلاف اُٹھائے جانے والے طوفان کے آثار دکھائی دے رہے تھے اور واضح نظر آرہا تھا کہ مخالفین اب جماعت کے خلاف ایک گہری سازش کا تانا بانا بن رہے ہیں.لیکن جماعت احمد یہ اپنے کام میں مشغول تھی اور خدمت اسلام کے کام کونئی وسعت کے ساتھ سرانجام دینے کے لئے منصوبہ بندی کی جارہی تھی.۱۹۷۳ء میں حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا دورہ یورپ بھی اس عظیم سلسلہ کی ایک کڑی ہے.حضور نے اس دورے کے دوران انگلستان، ہالینڈ، جرمنی ،سوئٹزر لینڈ ، اٹلی ،سویڈن اور ڈنمارک کا دورہ فرمایا.روانگی سے ایک روز قبل حضور نے مسجد مبارک میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سفر اس غرض کے لئے کیا جا رہا ہے کہ یورپ میں تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآنِ کریم کے کام کو وسیع کرنے کا جائزہ لیا جائے اور وہاں پر اشاعت اسلام کے لئے جماعت کا ایک پریس قائم کرنے کی کوشش کی جائے () حضور نے اس دورہ میں اپنے ہمراہ جانے والے احباب کو جو ہدایات دیں ان میں سب سے اہم ہدایت یہ تھی کہ ” سب سے ضروری یہ بات ہے کہ ہر وقت دعاؤں میں مشغول رہیں اور اللہ کے فضل کو جذب کریں.(۲) اس دورہ کے پہلے مرحلے پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۱۴ جولائی کولندن پہنچے.راستے میں آپ نے ایمسٹر ڈیم ہالینڈ میں مختصر قیام کیا.حضور نے لندن پہنچنے پر وہاں پر موجود صحافیوں سے مختصر گفتگو فرمائی.حضور نے فرمایا کہ نو جوانوں کو چاہئے کہ اپنے آپ کو آنے ولی ذمہ داریوں کے لئے تیار کریں.انہیں غور وفکر اور مشاہدے کی عادت ڈالنی چاہیے.اور سب سے اعلیٰ یونیورسٹی تو یہی ہے کہ انسان مشاہدے کی عادت ڈالے.حضور لمبے سفر کی وجہ سے تکان اور ضعف محسوس کر رہے تھے لیکن آپ کی شگفتگی اسی طرح برقرار تھی.وہاں پر موجود چند نو جوانوں کے لمبے لمبے بال تھے ، حضور نے مسکرا کر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ لندن میں حجاموں کا قحط پڑ گیا ہے.اس پر سب کھل کھلا کر ہنس پڑے.(۳)
219 حضور نے لندن میں احباب جماعت سے ملاقات فرمائی اور ۱۶ / جولائی کو لیک ڈسٹرکٹ کے لئے روانہ ہو گئے اور ۳۰ جولائی تک وہاں قیام فرمایا.قریب کی جماعتوں نے حضور سے شرف ملاقات حاصل کیا.یہاں پر قیام کے دوران حضور نے یارک پوسٹ اینڈ آرگس کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ میری زندگی کا مشن یہ ہے کہ قرآن کریم کو جس میں تمام علوم کے خزانے بھرے ہوئے ہیں دنیا بھر میں ہر فرد بشر کے ہاتھوں میں پہنچا دوں.حیرت کی بات ہے کہ وہ مسیح جس کی تعلیم ایک محدود اور مخصوص قوم کے لئے نازل ہوئی تھی، اس کے ماننے والوں نے تو اس کی کتاب کو کروڑوں کی تعداد میں چھپوا کر ہوٹلوں کے کمرے کمرے میں اسے رکھوا دیا.لیکن کتنے درد کی بات ہے کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد عربی ﷺ پر نازل ہونے والے علم و معرفت کے خزانے یعنی قرآن کریم کو مسلمانوں نے دوسروں تک پہنچانا تو در کنار ، اپنوں کے ستر فیصد گھرانے بھی اس نعمت سے محروم رہے.ان میں سے جن لوگوں کے پاس یہ خزانہ پہنچا.اکثر نے اسے تعویذ کے طور پر رکھ لیا یا طاق کی زینت بنا دیا.پس میری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ قرآنِ کریم کو کروڑوں کی تعداد میں شائع کر کے نہ صرف ہر مسلمان بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں تک بھی پہنچا دوں (۴).۳۰ جولائی کو حضور واپس لندن تشریف لے آئے.حضور نے یہاں پر قرآن مجید کی طباعت و اشاعت اور جلد سازی کے متعلق بعض ماہرین سے مشورہ فرمایا.(۵) ۱۴ اگست کو حضور آکسفورڈ تشریف لے گئے.حضور آکسفورڈ کے Balliol کالج میں زیر تعلیم رہے تھے اور اس وقت حضور کے بڑے صاحبزادے مکرم مرزا انس احمد صاحب آکسفورڈ میں زیر تعلیم تھے.حضور نے یہاں پر Fox on Bix نام کے ایک پرانے چائے خانے میں چائے نوش فرمائی.یہ چائے خانہ ۱۷۶۴ء سے قائم ہے.حضور Balliol کالج بھی تشریف لے گئے.لندن میں قیام کے دوران مکرم طاہر نفیس صاحب نے حضور کی خدمت میں قرآن کریم کی وسیع پیمانے پر اشاعت کے منصوبے کے متعلق ایک رپورٹ پیش کی جسے حضور نے پسند فرمایا.اور حضور نے اس معاملے پر دیگر احباب سے بھی مشورہ فرمایا.ایک اور دوست نے حضور کی خدمت میں قرآن کریم کی جلد سازی کے متعلق رپورٹ پیش کی (۷۶).حضور نے اس دورہ کے دوران یہ اظہار فرمایا کہ مجھے لٹریچر کی طباعت کی فکر نہ تھی.اس کی تقسیم اور اشاعت کی فکر تھی.نشر واشاعت والوں نے بعض کتب
220 تین ہزار کی تعداد میں چھپوائیں جو پانچ سال تک تقسیم نہ ہوسکیں.اب ایک احمدی جوان تربیت حاصل کر چکا ہے.جس کے نتیجہ میں اس نئی سکیم کے تحت ایک رسالہ جو ایک لاکھ کی تعداد میں طبع کیا گیا تھا نوجوانوں نے اس کے نوے ہزار نسخے پندرہ دنوں کے اندر اندر تقسیم کر دئیے.اپنے تو اپنے مخالفین کی طرف سے بھی مزید فراہمی کا مطالبہ ہونے لگا.(۸) حضور نے انگلستان کے دورے کے دوران احباب جماعت کو صحت مند تفریحوں میں حصہ لینے کی تلقین فرمائی.اور فرمایا کہ تمام اطفال اور ۲۵ سال سے کم عمر خدام غلیل خریدیں اور اپنے پاس رکھیں.اور فرمایا کہ نہ صرف اطفال بلکہ خدام اور انصار بھی اپنے پاس سائیکل رکھیں.حضور نے فرمایا کہ میں نے پاکستان میں لجنہ کو کہا ہے کہ وہ سائیکل خریدیں.دنیا کے موجودہ حالات کے پیش نظر ضروری ہے کہ ہماری ماؤں اور بہنوں اور بیٹیوں میں کامل خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کیا جائے.ورنہ غلبہ اسلام کی جدو جہد میں ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.فرمایا کہ ہماری سکیم یہ ہے کہ ناصرات پوری طرح با پردہ سائیکل پر نکلیں گی.شروع میں ان کے عزیزوں میں سے مردرضا کاروں کو ان کے ساتھ بھیجیں گے تاوہ ان کی حفاظت کے فرائض ادا کریں.(۹) ۲۰ اگست ۱۹۷۳ء کو حضور لندن سے ہیگ تشریف لے گئے.اور آپ ۲۲ /اگست کو ہیگ سے بخیر وعافیت جرمنی کے شہر فرینکفورٹ پہنچ گئے.۲۴ / اگست ۱۹۷۳ء کو حضور زیورک (سوئٹزر لینڈ) تشریف لے گئے.سوئٹزر لینڈ کے بعد حضور ڈنمارک تشریف لے گئے.اس دورہ کے دوران حضور نے اٹلی کا بھی مختصر دورہ فرمایا.ان ممالک کے دورہ کے دوران حضور نے وہاں کی جماعتوں سے ملاقات فرمائی ہمشنوں کا معائنہ فرمایا اور تبلیغی مساعی کی راہنمائی فرمانے کے علاوہ پریس کانفرنسوں سے خطاب فرمایا.اس کامیاب دورہ کے بعد حضور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ۲۶ اکتوبر کو واپس مرکز سلسلہ ربوہ تشریف لے آئے.احباب جماعت نے حضور کا والہانہ استقبال کیا اور حضور کی آمد کے ساتھ ربوہ کی حقیقی رونقیں بحال ہو گئیں.(1) الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۳ ء ص اول و آخر (۲) الفضل ۲۰ / جولائی ۱۹۷۳ ء ص ۱ (۳) الفضل ۲۰ / جولائی ۱۹۷۳ ء ص آخر (۴) الفضل ۹ / اگست ۱۹۷۳ ص ۲ (۵) الفضل ۲۸ / اگست ۱۹۷۳ ص ۲ (۶) الفضل ۲۸/ اگست ۱۹۷۳ء ص ۲ (۷) الفضل ۹ر ستمبر ۱۹۷۳ ء ص ۲ (۸) الفضل ۳ / اگست ۱۹۷۳ء ص ۱ (۹) الفضل ۲۵ / اگست ۱۹۷۳ء ص ۲
221 جماعت کی صد سالہ جوبلی کا منصوبہ ا جب ہم نے کی جلد دوئم کا آغاز کیا تو جماعت احمدیہ کی تاریخ کے پچاس سال پورے ہورہے تھے.اب وہ وقت قریب آرہا تھا جب جماعت احمد یہ اپنی پہلی صدی کا سفر پورا کر کے دوسری صدی میں داخل ہو گی.۱۹۷۳ء میں جماعت کی پہلی صدی مکمل ہونے میں ۱۶ برس رہ گئے تھے.۱۹۵۸ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا: دو ۱۰۰ سال کی جو بلی بڑی جو بلی ہوتی ہے جب جماعت کو وہ دن دیکھنے کا موقع ملے تو اس کا فرض ہے کہ وہ یہ جوبلی منائے...اس وقت جماعت کا فرض ہوگا کہ ایک عظیم الشان جوبلی منائے.(۱) حضرت مصلح موعودؓ نے سورۃ فجر کی تفسیر کرتے ہوئے سورۃ فجر میں پوشیدہ بعض پیشگوئیوں کا جائزہ بیان فرمایا.حضور تحریر فرماتے ہیں: پھر فرماتا ہے وَ الَّيْلِ إِذَا يَسْرِ اس حصہ آیت میں پھر ایک اور صدی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دس تاریک راتوں کے بعد کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے معاً بعد اسلام کی ترقی نہ ہوگی.وہ فجر تو ان کے بعد ظاہر ہو جائے گی ،شعاع نور نظر آ جائیگی اور لوگوں کی امید میں بندھ جائیں گی مگر ابھی رات نہ جائے گی.بلکہ ایک صدی کا ابھی وقفہ ہو گا.اب اگر ۱۸۹۰ء کو فجر لے لو تو یہ صدی ۱۹۹۰ ء تک چلتی ہے.آجکل ۱۹۴۵ ء ہے اس لحاظ سے چھیالیس سال ابھی اس لیل میں باقی رہتے ہیں.اگر ہجری سال کے لو اور ا۱۲۷ کو تاریک راتوں کا آخری سال قرار د ید و تو یہ صدی ۱۳۷۱ میں ختم ہوتی ہے.گویا اس لحاظ سے لیل کے ختم ہونے میں صرف ۸ سال باقی رہتے ہیں.اور اگر صدی کا سر مراد لو اور ۱۴۰۰ ہجری میں اس لیل کا اختتام سمجھو تو اس میں ۳۷ سال باقی رہتے ہیں.یہ تین مدتیں ہیں جو مختلف جہتوں سے پیدا ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان میں سے کون سی جہت حقیقی ہے اور کون سی غیر حقیقی.یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں جہتیں ہی حقیقی ہوں...“(۲)
222 یہ امر قابل ذکر ہے کہ ۱۹۸۹ء میں تو جماعت کے قیام کو سو سال مکمل ہو رہے تھے اور اس طرح ۱۹۹۰ء کا سال جماعت کی دوسری صدی کا پہلا سال تھا اور ہم بعد میں جائزہ لیں گے کہ کس طرح یہ صرف جماعت کی نئی صدی کا آغاز ہی نہیں تھا بلکہ جماعت کی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی.اور حضور نے جو دوسری جہت کا ذکر فرمایا تو اس کے مطابق ۱۹۴۵ء میں اس نئے دور کے آغاز میں ابھی آٹھ سال باقی تھے اور گویا اس حساب سے ۱۹۵۳ء بھی جماعت کی تاریخ کا ایک اہم سال تھا.جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ ۱۹۵۳ء میں جماعت کے مخالفین نے جماعت کے خلاف ایک منظم شورش بر پا کی مگر یہ سازش ناکام ہو گئی.لیکن اس کے ساتھ جماعت کی مخالفت ایک نئے دور میں داخل ہوئی اور اسی طرح جماعت کی ترقی کی تاریخ بھی ایک نئے دور میں داخل ہوئی.اور ایک تیسری جہت حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بیان فرمائی تھی کہ ۱۹۴۵ ء کے ۳۷ سال کے بعد جماعت کی تاریخ کا ایک اور اہم سنگ میل آئے گا.یہ ۳۷ سال ۱۹۸۲ء میں پورے ہوتے تھے.اور ۱۹۸۲ء میں خلافتِ رابعہ کا آغاز ہوا اور جماعت احمد یہ ایک نئے دور میں داخل ہوئی.اب ہم ۱۹۷۳ء کے سال کا ذکر کر رہے ہیں.ہم جائزہ لے چکے ہیں کہ کس طرح اس امر کے آثار نظر آ رہے تھے کہ جماعت کے خلاف ایک سازش تیار کی جارہی ہے، حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کو تیز تر کرنے کے لیے ایک عظیم الشان منصوبہ پیش فرمایا.حضور نے اس کا اعلان ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ کے اختتامی خطاب میں فرمایا: حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ کی یہ خواہش تھی کہ جماعت صد سالہ جشن منائے ، یعنی وہ لوگ جن کو سوواں سال دیکھنا نصیب ہو وہ صد سالہ جشن منائیں اور میں بھی اپنی اسی خواہش کا اظہار کرتا ہوں کہ صد سالہ جشن منایا جائے.اس کے لئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے.اور میں نے بڑی دعاؤں کے بعد اور بڑے غور کے بعد تاریخ احمدیت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگلے چند سال جو صدی پورا ہونے سے قبل باقی رہ گئے ہیں وہ ہمارے لئے بڑی ہی اہمیت کے مالک ہیں.اس عرصہ میں ہماری طرف سے اس قدر کوشش اور اللہ کے حضور اس قدر دعائیں ہونی چاہئیں کہ اس کی رحمتیں ہماری تدابیر کو کامیاب کرنے والی بن
223 جائیں اور پھر جب ہم یہ صدی ختم کریں اور صد سالہ جشن منائیں تو اس وقت دنیا کے حالات ایسے ہوں جیسا کہ ہماری خواہش ہے کہ ایک صدی گزرنے کے بعد ہونے چاہئیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ یہ جماعت اس کے حضور قربانیاں پیش کر کے غلبہ اسلام کے ایسے سامان پیدا کردے.‘(۳) حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے صد سالہ جشن کی روح بیان کرتے ہوئے فرمایا: پس حمد اور عزم یہ دو لفظ ہیں جن کا انتہائی مظاہرہ انشاء اللہ تعالیٰ ۱۹۸۹ء میں ہماری طرف سے کیا جائے گا وبالله توفیق اور اس حمد اور عزم کے عظیم مظاہرے کے لئے قرآن کریم کی عین ہدایت کے مطابق ہم نے تیاری کرنی ہے،اشاعت اسلام کے پروگرام بنانے ہیں، خدا کی راہ میں قربانیاں دینی ہیں نئی نئی سکیمیں سوچنی ہیں.(۴) اس تحریک کی روح بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ ” میری طبیعت کا میلان سو سالہ جشن منانے کی طرف اتنا نہیں جتنا و دسری صدی کے استقبال کی طرف میرا میلان ہے.“ اس کے بعد حضور نے تفصیل سے ظہور مہدی کی عظمت بیان فرمائی اور اسلام کی تبلیغ کی روح ان الفاظ میں بیان فرمائی: جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں ہندوستان میں پادریوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہندوستان میں دیکھنے کو کوئی مسلمان باقی نہیں رہے گا.انہوں نے یہ بھی کہا کہ افریقہ ہماری جھولی میں پڑا ہے.پھر انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلمان ممالک کو ہم فتح کرتے ہوئے خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا خانہ کعبہ پر لہرائیں گے.یہ وہ اعلانات تھے جو اس زمانے میں عیسائی پادریوں کی طرف سے کئے گئے تھے.اور اس زمانہ میں کوئی عالم کوئی پڑھا لکھا ان کے مقابلہ میں آواز اٹھانے والا تاریخ انسانی نے کوئی نہ دیکھ پایا.پھر اس وقت خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والا اور حضرت نبی اکرم ﷺ کی محبت میں مست ایک انسان پیدا ہوا.اور اس کا نام مسیح (علیہ السلام ) بھی رکھا گیا اور اس کا نام منصور بھی رکھا گیا اور اس کا نام محمد بھی رکھا گیا اور اس کا نام احمد بھی رکھا گیا اور اس کا نام محمود بھی رکھا گیا اور اس کا نام مہدی بھی رکھا گیا.اور وہ مسیح اور مہدی خدا تعالیٰ کی طرف سے نوع انسانی کی بھلائی کے لئے اور قرآنِ کریم کی عظمت کو دنیا میں قائم رکھنے کے لئے کھڑا ہوا اور اس نے ساری دنیا کی
224 دولتوں کو اور اس ساری دنیاوی طاقتوں کو اور ان سارے دنیوی اثر و رسوخ اور اقتدار کو للکارا.انہوں نے لوگوں کو کہا تم دنیا کے مال و دولت کی وجہ سے اور دنیا کی جاہ وحشمت کے برتے اور سیاسی اقتدار کی وجہ سے اور ان ہتھیاروں کی وجہ سے جو تم نے ایجاد کئے ہیں یہ سمجھتے ہو کہ تم اسلام کو مغلوب کر لو گے.لیکن انہوں نے کہا مہدی کو خدا نے ایک زبر دست روحانی ہتھیار دیا ہے اس لئے اسلام کو ایٹم بموں کی ضرورت نہیں ہے.نہ تو پوں کی ضررورت ہے اور نہ رائفلوں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اور حضرت نبی اکرم صلى الله کے اسوہ حسنہ میں وہ حسن کے جلوے رکھے ہیں وہ احسان کی طاقتیں رکھی ہیں کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم تمہارے دلوں کو خدا تعالیٰ اور اس کے محبوب محمد ﷺ کیلئے جیت نہ شانه لیں.“ حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے اس عظیم الشان منصوبہ کے خدوخال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اشاعت اسلام اور تعلیم و تربیت کے کام کو تیز تر کرنے کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں مراکز قائم کیے جائیں گے جہاں سے ان کے تحت علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کی جائے گی.حضور نے فرمایا کہ یہ مراکز کسی ایک ملک کے لیے مرکز نہیں بنیں گے بلکہ بہت سے ممالک کے لیے ایک مرکز ہوگا.حضور نے فرمایا کہ تین مراکز مغربی افریقہ اور تین مراکز مشرقی افریقہ میں قائم کیے جائیں گے.اسی طرح کیتھولک عیسائیت کا مرکز ہونے کی وجہ سے اٹلی کی ایک اہمیت ہے ، اور دنیا کے ایک بڑے علاقے میں فرانسیسی بولی جاتی ہے اس لیے فرانس بھی ایک نمایاں اہمیت کا حامل ہے، چنانچہ ان ممالک میں بھی تبلیغی مراکز قائم کیے جائیں گے.اسی طرح بر اعظم امریکہ میں ایک مرکز کینیڈا میں اور تین مراکز جنوبی امریکہ میں بھی قائم کر نیکی ضرورت ہے.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر کی اشاعت کی اشد ضرورت ہے.اس ضمن میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خاص طور پر فرانسیسی، روی ، چینی ، اٹالین سپینش ، ہا ؤ سا اور فارسی زبان کا ذکر فرمایا.اور حضور نے اس منصوبہ کا تیسرا حصہ یہ بیان فرمایا کہ چونکہ آنحضرت ﷺ کی بعثت تمام دنیا کے لیے تھی اس لیے ایک سو زبانوں میں جماعت کا لٹریچر شائع کرنا اور اس کی تقسیم کا انتظام کرنا ضروری ہے.اور اس غرض کے لیے دو ورقہ
225 اشتہارات کی اشاعت کی طرف بھی توجہ دلائی.حضور نے فرمایا کہ دنیا کے حالات ایسے ہیں کہ کبھی کچھ ہوتا ہے اور کبھی کچھ ہوتا ہے، اس لیے ہمیں ایک جگہ پر اچھے پر لیس پر انحصار نہیں کرنا چاہئے.اس لئے ہمیں پاکستان میں اعلیٰ مرکزی پیمانے کے پریس کے علاوہ دنیا کے کسی اور دو مقامات پر جو اس کام کے لیے مناسب ہوں وہاں دو اچھے پریس لگانے چاہئیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کے سپر د ایک اہم کام یہ ہوا تھا کہ ساری دنیا کے انسانوں کو امت واحدہ بنایا جائے.دنیا کو امت واحدہ بنانے کے لیے تدابیر کرنی چاہئیں اور دعائیں بھی کرنی چاہئیں.حضور نے فرمایا کہ جو تدابیر اس وقت تک میرے ذہن میں آچکی ہیں ان میں ٹیلیفون، ٹیلیکس اور ریڈیو کلب کے ذریعہ مختلف جماعتوں کے درمیان آپس میں رابطہ کا منصوبہ ہے.اس کے علاوہ بین الاقوامی قلمی دوستی کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ سے بھی ہزاروں ایک دوسرے سے خط و کتابت کر سکتے ہیں.اور پھر مرکز سلسلہ میں جلسہ سالانہ پر اقوام عالم کے وفود کی شرکت کا جو نظام جاری ہوا ہے اسے مضبوط کیا جائے.عالم اسلام کو اتحاد عمل کی دعوت حضور نے صد سالہ منصوبے کا پانچواں حصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا.اور اس منصوبہ کی آخری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ امت محمدیہ فرقے فرقے میں بٹ گئی ہے..لیکن جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے اور زبان سے اقرار کا تعلق ہے ہم سب خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لانے والے ہیں.ہم محمد ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں.ہم لا اله الا الله محمد رسول اللہ کہنے والے ہیں.محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین مانتے ہیں.ہر فرقہ خاتم النبیین کے معنے مختلف کر جائے گا لیکن کوئی شخص کھڑے ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین نہیں مانتا.خاتم النبین کے عقیدہ میں ہم سب متحد ہیں....یہ ہمارا مشتر کہ عقیدہ ہے.ہم قرآنِ کریم کو ایک کامل اور مکمل کتاب مانتے ہیں.یہی ہمارے سب فرقوں کا عقیدہ ہے.تمام فرقے قرآنِ کریم کو قیامت تک کے لئے ہدایت نامہ سمجھتے ہیں.
226 پس اس سولہ سال کے عرصہ میں ہم اسلام کے تمام فرقوں کو بڑی شدت کے ساتھ، نہایت عاجزی کے ساتھ ، بڑے پیار کے ساتھ ، بڑی ہمدردی کے ساتھ اور غم خواری کے ساتھ یہ پیغام دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے کہ جن باتوں میں ہم متحد ہیں ان میں اتحاد عمل بھی کرو اور اسلام سے باہر کی دنیا میں توحید خالص کے پھیلانے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی عظمت کو منوانے اور قرآنِ کریم کی شان کے اظہار کے لئے اکٹھے ہو کر کوشش کرو اور باہر جا کر آپس میں نہ لڑو تا کہ اسلام کو فائدہ پہنچے.پھر اللہ تعالیٰ جن کے ذریعہ زیادہ کام لے گا یا جو دوسروں کو زیادہ قائل کرلیں گے یا جن سے ان کو زیادہ فیض پہنچے گا وہ نمایاں ہو کر سامنے آجائیں گے.اس لئے نتیجہ خدا پر چھوڑ دو.پس اتحاد عمل کرو، ان بنیادی اصولوں پر جن میں ہمارا عقیدہ ایک ہے.پس یہ پیغام ہے اس منصوبہ کا جو آج میں ساری دنیا کو دے رہا ہوں.‘ (۵) اس عظیم الشان منصو بہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس بات کی ضرورت تھی کہ دعاؤں کے علاوہ پوری دنیا کے احمدی اللہ تعالیٰ کے حضور بڑے پیمانے پر مالی قربانی پیش کریں.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اسی تقریر میں اعلان فرمایا: پس آج میں اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے اڑھائی کروڑ روپے کی اپیل کرتا ہوں لیکن میں اپنے رب کریم پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے آج ہی یہ اعلان بھی کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سولہ سالوں میں ہمارے اس منصوبہ کے لیے پانچ کروڑ روپے کا انتظام کر دے گا.(۶) صد سالہ جو بلی کے منصوبہ کے لیے دعاؤں کی تحریک الہی جماعتوں کے منصوبے دنیاوی منصوبوں سے بالکل علیحدہ شان رکھتے ہیں.ان میں اصل روح اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل کرنا ہوتی ہے اور اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اس کی مدد کے لیے عاجزانہ دعائیں کی جائیں.اگر یہ پہلو نظر انداز کر دیا جائے تو الہی جماعتوں کے منصوبوں کی روح ختم ہو جاتی ہے.چنانچہ حضور نے جب صد سالہ جوبلی کے منصوبہ کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ہی جماعت کو دعاؤں کی تحریک بھی فرمائی.اس روحانی پروگرام کا خلاصہ یہ تھا
227 ہر شخص روزانہ سات بار سورۃ فاتحہ پڑھے.ربنا افرغ علينا صبرا و ثبت اقدامنا وانصرنا على القوم الكفرين اور اللهم انا نجعلك في نحورهم و نعوذ بک من شرور هم کی دعائیں روزانہ گیارہ گیارہ مرتبہ پڑھی جائیں.اور استغفر الله ربى من كل ذنب و اتوب اليه اور سبحان الله و بحمده سبحان الله العظيم اللهم صل على محمد و ال محمد کاور دروزانت تنیس تنیس مرتبہ کیا جائے.روزانہ عشاء یا ظہر کی نماز کے بعد دو نفل ادا کیے جائیں اور ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھا جائے.اس اہم تحریک کے لیے حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے ۱۰ جنوری ۱۹۷۴ء کو احباب جماعت کے نام ایک پیغام تحریر فرمایا جو کہ ۱۲ جنوری کو روزنامه الفضل میں شائع ہوا.اس پیغام میں حضور نے تحریر فرمایا.” میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت ہائے بیرون کی تربیت اور اشاعت اسلام کے کام کو تیز سے تیز تر کرنے اور غلبہ اسلام کے دن کو قریب سے قریب تر لانے کی ایک مہم کا آغاز کرتے ہوئے ایک بہت بڑے منصوبے کا اعلان کیا تھا.اس میں میں نے مخلصین جماعت سے آئندہ سولہ سال میں اس عظیم منصوبہ کی تکمیل کیلئے اڑھائی کروڑ روپیہ جمع کرنے کی اپیل کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ انشاء اللہ یہ رقم پانچ کروڑ تک پہنچ جائیگی.اس اعلان کے ذریعہ میں مخلصین جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اس سلسلہ میں دوست تین باتیں یا درکھیں ا.صد سالہ جشن فنڈ کے وعدہ جات مجھے مجلس مشاورت سے پہلے بھجوا دئیے جائیں.ب.وعدہ جات کو بھجواتے ہوئے صرف موجودہ آمد ہی کو مد نظر نہ رکھا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اسی کے بھروسے پر آئندہ سولہ سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ آپ پر جو بے انتہاء فضل اور رحمتیں نازل فرمائے گا.اور آپ کی آمدنیوں میں آپ کی امید سے کہیں بڑھ کر برکتیں دے گا انہیں بھی مد نظر رکھ کر وعدہ بھجوایا جائے...‘(۷)
228 ابھی اس اعلان پر ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس فنڈ میں تین کروڑ تمہیں لاکھ کے وعدہ جات موصول ہو چکے تھے.اور ابھی بہت سی جماعتوں کے وعدے موصول نہیں ہوئے تھے.(۸) حضور نے جماعت کو یہ ہدف دیا تھا کہ مارچ کے آخر میں منعقد ہونے والی مجلس مشاورت سے قبل احباب جماعت پانچ کروڑ کے وعدے پیش کریں.جب ۱۹۷۴ء کی مجلس مشاورت کا افتتاحی اجلاس شروع ہوا تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس مجلس مشاورت کے افتتاحی اجلاس میں صد سالہ جوبلی کے منصوبہ کے اہم خدو خال بیان فرمائے.حضور کا یہ خطاب اس عظیم اور طویل المیعاد منصوبہ کے لئے ایک لائحہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے.ایک بڑا کام اس منصوبہ کے لئے مالی وسائل کی فراہمی کا تھا.حضور نے سب سے پہلے ابھی تک موصول ہونے والے وعدوں کا تجزیہ بیان فرمایا.جلسہ سالانہ سے لے کر اس وقت تک کا جو زمانہ ہے وہ وعدوں کی وصولی کے لئے مقرر کیا گیا تھا.کچھ وصولی بھی ہوئی ہے لیکن زیادہ تر یہ وعدے لینے کا زمانہ تھا.ابھی جمعہ کے خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ یہ وعدے نو کروڑ بیس لاکھ کے قریب پہنچ گئے ہیں.گویا جمعہ کی نماز کے وقت تک نو کروڑ بیس لاکھ وعدوں کا اندراج ہو چکا تھا.اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بیرون پاکستان میں قریباً پچاس ممالک میں ہمارے احمدی بستے ہیں.جہاں سے ہم توقع کرتے تھے کہ اس منصوبہ کے لئے وعدے آئیں گے.مجھے ابھی ایک دوست جن کے سپرد میں نے یہ کام رضا کارانہ طور پر کیا ہوا ہے.انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ بیرونِ پاکستان کی میں جماعتوں سے وعدے وصول ہونے باقی ہیں.اس کے با وجود بیرونِ پاکستان کے وعدے چار کروڑ بارہ لاکھ سنتالیس ہزار چارسو ستاون ( ۴۱۲۴۷۴۵۷) روپے پر مشتمل ہیں اور اندرونِ پاکستان کے وعدے اس وقت تک پانچ کروڑ بیالیس لاکھ تین ہزار ایک سو باون ( ۵۴۲۰۳۱۵۲) روپے تک پہنچ چکے ہیں.(۹) وعدوں کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ عطایا کی اپیل کے لئے جو مشورے کئے گئے تھے وہ اپنے طور پر تھے اور دعاؤں کے نتیجے میں جو میرے ذہن میں منصوبے آئے تھے وہ اپنے طور پر تھے.لیکن ان کا آپس میں تضاد بن رہا تھا.کیونکہ اڑھائی کروڑ کی اپیل کی گئی تھی اور ضرورت اس سے بہت زیادہ کی بن رہی تھی.اس لئے یہ اللہ تعالیٰ نے سبق دیا ہے کہ جتنی تمہاری ضرورت ہوگی وہ ملتا جائے
229 گا.چنانچہ اڑھائی کروڑ کی اپیل پر ساڑھے نو کروڑ سے زیادہ کے وعدے وصول ہو چکے ہیں.افریقہ اور یورپ میں تبلیغی مراکز کی حکمت عملی کے متعلق حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے فرمایا: ” جو باتیں میں نے بیان کی تھیں ان کی شق نمبر ا یہ ہے کہ دنیا کے ریجن یعنی علاقوں کو Continent کے مختلف حصوں کو تقسیم کر کے کئی ممالک کا ایک مرکز بنا دیا جائے.وہ مرکزی مشن ہاؤس ایک ایسا مرکز ہو جہاں دو یا تین یا چار ممالک کو جن کی زبان مشتر کہ ہوا کٹھا کر دیا جائے.بعض ممالک ایسے ہیں جو نئے بنے ہیں جہاں فرانسیسی حکومت قابض رہی ہے ایسے ملکوں کو اکٹھا کر کے ایک مرکز بنا دیا جائے جس میں فرانسیسی بولنے والے مبلغین کو لگایا جائے اور اسی طرح انگریزی بولنے والے ملک میں انگریزی جاننے والوں کو.ویسے کم ممالک انگریزی بولتے ہیں........اس وقت جو بات ذہن میں آئی ہے اس کے بعد مشورہ اور مزید غور کے بعد اس میں مزید تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں لیکن اگر نقشہ ذہن میں ہو تبھی انسان غور کر سکتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ مغربی افریقہ میں تین مراکز قائم کئے جائیں گے.اور ہر مرکز میں مختلف ممالک ہوں گے.اس طرح ہم مغربی افریقہ میں کام کو پھیلا سکیں گے.اسی طرح مشرقی افریقہ میں حسب ضرورت مختلف علاقے بنا کر مراکز قائم کریں گے.‘ (۹) یورپ کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اگلے پندرہ سال میں اٹلی ، فرانس ، سپین ، ناروے اور سویڈن میں اپنے مضبوط مراکز یعنی مساجد اور مشن ہاؤس بنانے کی ضرورت ہے.اسی طرح انگلستان کے متعلق تین سے پانچ نئے مبلغ اور تین جگہوں پر مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کی ضرورت ہے.امریکہ کے متعلق حضور نے فرمایا کہ وہاں سیاہ فام اور سفید فام دونوں آبادیوں میں تبلیغ کرنی پڑے گی اور اس مہم کے لئے نئے مبلغ بھجوانے پڑیں گے اور نئے مشن ہاؤس بنانے پڑیں گے اور پھر نسلی تعصب دور کر کے ان دونوں آبادیوں کا آپس میں ملاپ کرایا جائے گا.کینیڈا میں وہاں جا کر آباد ہونے والوں کی ایک جماعت قائم ہے مگر وہاں با قاعدہ مشن ہاؤس مسجد اور مبلغ موجود نہیں ہے.حضور نے فرمایا اسی طرح جنوبی امریکہ میں دو جگہوں پر جماعت کے مراکز موجود ہیں لیکن برازیل اور ارجنٹائن میں مراکز موجود نہیں ہیں.جنوبی امریکہ میں بھی دو مضبوط مراکز کی ضرورت ہے.
230 قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ چھ زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم ہو چکے ہیں.فرانسیسی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے لیکن اشاعت کا کام باقی ہے.اس کے علاوہ اس منصوبہ کے تحت روسی ، چینی ، اٹالین ، سپینش ، ہاؤسا، یوگوسلاوین اور انڈونیشین زبان میں تراجم کی اشاعت کی جائے گی.اس کی علاوہ سواحیلی کے ترجمہ کے علاوہ مشرقی افریقہ کی اور دوزبانوں میں اور ہا ؤ سا کے علاوہ مغربی افریقہ کی دو اور زبانوں میں تراجم کی اشاعت کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ عربی زبان میں تفسیر کی اشاعت کی اشد ضرورت ہے.پھر حضور نے عربی اور فارسی میں تفسیر کی اشاعت کے منصوبے کا منصوبہ بیان فرمایا.صد سالہ جو بلی منصوبہ کا ایک اہم حصہ سوز بانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم کی اشاعت کا پروگرام بھی تھا.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے فرمایا کہ یوں تو دنیا میں کئی سوز بانیں بولی جاتی ہیں لیکن جو کمیٹی بنے گی وہ غور کر کے ان میں سو نسبتاً آسان زبانوں کا انتخاب کرے گی.حضور نے ارشاد فرمایا کہ جب میں شوری کے لئے نوٹس لے رہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ سورۃ فاتحہ قرآن کریم کا خلاصہ ہے.اگر اس کا ترجمہ، کچھ تفسیری نوٹس کے ساتھ دنیا کی ہر زبان میں شائع کر دیا جائے تو ہر زبان بولنے والے کے ہاتھ میں قرآن کریم کا خلاصہ پہنچ جائے گا.حضور نے اس مسئلہ پر راہنمائی فرمائی کہ سوز بانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم کی جو اشاعت کرنی ہے، اس کے لئے پہلے بنیادی تعلیم کی شکل متعین کر کے اس کا مسودہ اردو میں تیار کرنا ہے پھر ان کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا.پھر مختلف ممالک کی ضرورت کے مطابق اس میں تبدیلی کرنی پڑے گی.پھر حضور نے اپنے پر لیس لگانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس کے فوائد بیان فرمائے.مرکز گریز رہ جحانات کے بارے میں نصیحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۹۷۳ ء تک جماعت دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل چکی تھی.جب بھی دنیا کی مختلف اقوام حق کو قبول کر کے الہی سلسلہ میں داخل ہو رہی ہوں تو اس کے ساتھ کچھ نئے مسائل بھی سامنے آتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ نظام خلافت قائم ہے اور ایسے مواقع پر خلیفہ وقت جماعت کی راہنمائی کرتا ہے تا کہ جماعت اللہ تعالیٰ اور آنحضرت
231 صلى الله کے بتائے ہوئے راستے پر قائم رہے.اور اب اس نے عظیم الشان منصوبہ کے ساتھ یہ بھی نظر آرہا تھا کہ آنے والے وقت میں نئے لوگ جوق در جوق حقیقی اسلام کو قبول کر کے احمدیت میں داخل ہوں گے اس لئے حضور نے یہ محسوس فرمایا کہ بعض مرکز گریز رجحانات کی اصلاح کی ضرورت ہے.” اس وقت بحیثیت مجموعی دنیا کی جو حالت نظر آتی ہے اس سے ایک اور مسئلہ ہمارے لئے سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کچھ ملک مدت ہوگئی آزاد ہو گئے اور انہوں نے دنیا میں طاقت حاصل کر لی اس وقت وہ اپنی حفاظت کی خاطر ( دنیا پر احسان کی خاطر نہیں اور نہ دنیا سے پیار کے نتیجہ میں ) اور خود اپنے مفاد کے لئے بین الاقوامی ذہنیت یعنی انٹرنیشلزم کا پر چار کرتے ہیں.کچھ ملک جو نئے نئے آزاد ہوئے ہیں وہ چونکہ نئے نئے آزاد ہوئے ہیں ان کے نزدیک انٹر نیشلزم سے مراد کالونیلزم بن جاتا ہے البتہ کالونیز کی شکل مختلف ہوتی ہے.ان کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ انٹرنیشلزم کا مطلب یہ ہے کہ گویا بہت سے ممالک کو اکٹھا کر کے ان کی Exploitation یعنی ان کا استحصال کیا جائے یا ان کی دولت سے ان کو محروم کرنے کی سعی ناپسندیدہ کی جائے.اب مثلاً جب میں افریقہ کے دورہ پر گیا تو غانا میں مجھے پتا لگا کہ ایک دو آدمی ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ A Ghanian for Ghana غانا کو جو عالم ہے اور جسے جماعت احمدیہ نے تیار کیا ہے ہمارے ملک میں اس کو انچارج ہونا چاہئے.مجھے پتہ لگا تو میں نے ان کو سمجھایا ان کو میری بات سمجھ آگئی اور ان میں سے بعض رو پڑے.میں نے کہا کہ تم کیا باتیں کرتے ہو تم کہتے ہو AGhanian for Ghana اور میں یہ کہتا ہوں A Ghanian for England چونکہ انگلستان نے تم پر ظلم کیا تھا اس لئے میں تو انگلستان میں تمہارے غانین کو مبلغ بنا کر بھیجوں گا.اسلام اور احمدیت تو اس نہج پر سوچتی اور منصوبے بنارہی ہے اور تم اس راہ پر سوچ رہے ہو جو کہ غلط ہے.پھر میں نے عبدالوہاب بن آدم کو جو غانا کا بڑا اخلص نو جوان ہے اور جامعہ احمدیہ کا فارغ التحصیل شاہد ہے حسب وعدہ انگلستان کا مبلغ بنا کر بھیج دیا.پھر میری یہ خواہش تھی کہ ہمارا غانا کا کوئی احمدی ہیڈ ماسٹر ہو تو اس کو ربوہ کے سکول کا ہیڈ ماسٹر لگا دوں کیونکہ جب تک آپ عملاً
232 اس پیار اور اس بین الاقوامی ذہنیت کا مظاہرہ نہیں کریں گے محض کوئی زبانی دعوئی ان کی تسلی کا موجب نہیں بن سکتا.بہر حال ہم نے اس Mischief اور شرارت کے اس تصور کو دور کرنا ہے کہ جی ہم کیوں مرکز کے ماتحت رہیں.یہ ذہنیت اب بھی پیدا ہوسکتی ہے.پہلے زمانہ میں جب کہ خلافت ختم ہوگئی تھی لیکن بادشاہت اپنے آپ کو خلافت کہتی تھی تو اسی طرح چین آزاد ہو گیا.مصر آزاد ہو گیا.نئی حکومتیں بن گئیں اور مسلمان بٹ گئے اور ان کا باہمی اتحاد ختم ہو گیا.یہ تو ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہیں ہونے دینا.انشاء اللہ تعالیٰ اور یہ بات تبھی ہو سکتی ہے کہ میں آپ اور ہم سب دوسرے ملکوں کے رہنے والوں کو اپنے گلوں سے لگا ئیں اور ان سے اتنا پیار کریں کہ وہ بھول جائیں کہ ہم دو ملکوں کے رہنے والے ہیں.پس نیشلزم اور انٹرنیشلزم میں ایسی تفریق کرنا کہ ہمارے کام میں روک بھی نہ بنے اور ان کے ذہنوں کی تسلی بھی ہو جائے یہ ضروری ہے.یہاں جلسہ سالانہ پر جو افریقی وفود آئے تھے ان کو میں نے بڑا سمجھایا.میں نے انہیں کہا کہ جہاں تک تمہارے دنیوی معاملات کا تعلق ہے مثلاً غانا کے سیرالیون کے یا نائیجیریا کے تم بیشک اپنے اپنے outlook میں نیشلسٹ بنے رہو.زمانہ آپ ہی تمہیں ایک حد تک انٹر نیشنل بنالے گا.لیکن جہاں تک مذہب کا اور احمدیت کا اور اسلام کا تعلق ہے تمہیں اپنے اندر بین الاقوامی ذہنیت پیدا کرنی پڑے گی کیونکہ خلافت سے کٹ کر تمہاری حالت ایک کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہو جائے گی.میں نے اب اپنے مبلغین کو بھی سمجھانا شروع کیا ہے کہ اس نہج پر کام کرو.مقامی باشندوں کو سکولوں اور کالجوں اور ہسپتالوں کے انتظام میں شامل کرو.اصل میں تو ہمارے مبلغ کی تربیت ایسی ہونی چاہئے کہ وہ اپنی مرضی کا کام کروائے اور ان کے ذہنوں میں یہ احساس پیدا کرے کہ جو وہ چاہتے ہیں وہی ہوگا تا کہ کوئی خرابی پیدا نہ ہو اور یہ کام آسانی سے ہوسکتا ہے اور ہم ساری عمر ایسا کرتے چلے آئے ہیں......لیکن جہاں تک مذہبی عقائد کا سوال ہے ان کو بہر حال خلیفہ وقت کے فیصلوں اور جماعتی نظام کی پابندی کرنی پڑے گی.تو میں نے ان لوگوں سے کہا کہ ٹھیک ہے کہ تم اپنے
233 د نیوی معاملات میں نیشلسٹ بنے رہو جب تک کہ دنیا تمہیں اس کی اجازت دے.ان کے ملکوں پر دباؤ پڑ رہے ہیں لیکن جہاں تک مذہب کا سوال ہے اور احمدیت کا سوال ہے اور مرکزیت کا سوال ہے اور خلافت کا سوال ہے تمہیں بہر حال اپنے اندر بین الاقوامی ذہنیت پیدا کرنی پڑے گی ورنہ تم ترقی نہیں کر سکتے.غرض یہ ایک بڑا اہم سوال ہے اور ہماری جماعت کو اس کے متعلق غور کر کے ان Barriers اور ان روکوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ جماعت ایک برادری بن جائے اور مہدی معہود کا جو امت واحدہ بنانے کا منصب ہے اس کے راستہ میں یہ چیز روک نہ بنے.‘(۹) جماعت احمدیہ کے خلاف تیار ہونے والی ایک بین الاقوامی سازش پھر حضور نے مجوزہ ریڈیو کلب قلمی دوستی کے منصوبے اور جماعت کے اپنے ریڈ یوٹیشن کے منصوبے کی تفصیلات بیان فرما ئیں.جب بھی الہی جماعت ترقی کی طرف قدم بڑھاتی ہے اور دین کی خدمت کے لئے نئے منصوبے بناتی ہے تو یہ امر مخالفانہ قوتوں کو غصہ دلانے کا باعث بنتی ہے اور پہلے بھی زیادہ زہریلا وار کرنے کی سازش تیار کرتے ہیں.اب جماعت ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی تو اس کے ساتھ یہ اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ جماعت کے مخالفین بھی ایک منصوبہ تیار کر رہے ہیں.حضور نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کے علاوہ ایک اور چیز ہے جو منصوبے کے اندر آپ ہی گھس رہی ہے.اس وقت تک ہماری مخالفت ملکی مخالفت تھی یا مقامی مخالفت تھی.یعنی کہیں تو یہ تھا کہ مثلاً ہندوستان میں ایک صوبے میں بڑی مخالفت ہے تو دوسرے میں نہیں ہے.دیوبند کا جو علاقہ ہے اس کے ارد گرد کے گاؤں میں زیادہ مخالفت ہے اور دوسو میل پرے ہٹ جاؤ تو اتنی مخالفت نہیں.یا مثلاً مصر میں مخالفت ہے تو سعودی عرب میں نہیں.سعودی عرب میں ہے تو کویت میں نہیں یا شام میں نہیں.ان ملکوں میں ہے تو یورپ میں نہیں.یورپ میں ہے تو افریقہ کے براعظم میں نہیں یا اس کے مختلف علاقوں میں نہیں.مخالفت پھیلی ہوئی تھی.کہیں ہے
234 کہیں نہیں.لیکن اب اس جلسہ کے بعد ہمارے سامنے بین الاقوامی اتحاد کے ساتھ مخالفت آگئی ہے.میں نے خدا کا شکر کیا ہمیں تو اس وقت پتہ نہیں تھا کہ اس کی کیا شکل بن رہی ہے لیکن میں نے کہا کہ کہ ہمارے لئے اس کی ضرورت ہوگی.اللہ تعالیٰ نے اس کا انتظام کر دیا اور ہمیں بشارتیں بھی دیں جیسا کہ ایک بشارت میں نے ابھی بتائی ہے اور بھی بشارتیں بھی ہوئیں.اس کے ساتھ ہی بعض اور چیزیں سامنے آئیں ہیں.ایک چیز یہ سامنے آئی ہے جو کہ بڑی افسوسناک ہے اور بڑا صدمہ ہوتا ہے کہ ایک اسلامی ملک نے جو اپنے آپ کو اسلام کا چیمپین سمجھتا ہے ہالینڈ کے شدید کٹر مخالفین اور دشمنانِ اسلام کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے یہ پراپیگینڈا کرنا شروع کیا ہے کہ جماعت احمد یہ اسلام کی نمائندہ نہیں ہے اس لئے اپنے سکولوں اور اپنے چرچز میں ان کی تقریریں نہ کروایا کرو (وہاں کلیساؤں میں بھی ہماری تقریریں ہوتی ہیں) اور نہ اپنے سکول کے بچوں کو ان کی مساجد میں بھیجو.ان کو تو مسلمان بھی کا فر کہتے ہیں یہ کہاں کے اسلام کے نمائندے ہیں.غرض اسلام کا جو اپنے آپ کو بہت ہمدرد اور بڑا دوست اور چیمپیئن سمجھنے والا ملک ہے اس نے شدید دشمنانِ اسلام سے مل کر یہ منصو بہ بنایا ہے.ایک تو یہ چیز سامنے آئی ہے.دوسرے یہ چیز سامنے آئی ہے کہ مکہ سے ایک رسالہ نکلتا ہے ” دی مسلم ورلڈ لیگ اس میں ہمارے خلاف تین مضمون لکھے گئے ہیں.یہ رسالہ ہمیں ولایت سے بھجوایا گیا ہے.ایک مضمون لکھا ہے ابوحسن علی ندوی صاحب نے اور ایک مضمون لکھا ہے ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے اور ایک مضمون جماعت احمدیہ کے خلاف لکھا ہے شیخ محمد الخضر حسین صاحب نے اور تینوں میں سے کسی ایک نے بھی اس شرافت کا مظاہرہ نہیں کیا کہ مضمون لکھنے سے پہلے ہم سے تبادلہ خیال کر لیتے.یہ تو انسان کا حق ہے کہ اگر کسی کی طرف بات منسوب کرنی ہو تو پہلے اس سے جا کر بات تو کرنی چاہئے...پس ہمارا اعتراض اول یہ ہے کہ اگر تو تم خود کوعلماء سمجھتے ہو تو جماعت احمدیہ کے علماء سے تبادلہ خیال کرو اور پھر اگر تمہیں سمجھ نہ آئے اور نا مجھی کی باتیں لکھو گے تو تو تم پر یہ اعتراض نہیں ہو گا کہ تم نے تبادلہ خیال کے بغیر یہ مضامین لکھے اور اگر تم اپنے آپ کو کسی جماعت کا لیڈر اور امام سمجھتے ہو تو جماعت احمدیہ کے امام سے جا کر باتیں کرو اور پھر اگر اس کے بعد جو
235 کچھ لکھو گے اگر شرارت سے لکھو گے تو تم ذمہ دار ہو گے اگر نا سمجھی سے لکھو گے تو تم ذمہ دار ہو گے لیکن یہ اعتراض تم پر نہیں آئے گا کہ تبادلہ خیال نہیں کیا بات سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور یوں ہی بات منسوب کر دی.مثلاً ان میں سے کسی نے لکھ دیا ( یہاں بھی اعتراض کرتے ہیں) کہ یہ انگریز کا لگایا ہوا پودا ہے.یہ اعتراض اصل میں اہلِ حدیث نے شروع کیا تھا اور اس کی ایک وجہ تھی وہ یہ کہ عرب اور مکہ و مدینہ کا یہ دنیوی حاکم یعنی سعودی خاندان وہ خاندان ہے کہ جو انگریز کا لگایا ہوا پودا ہے.انگریزوں نے ان کی خاطر جنگ کی انہوں نے خلافت ترکیہ کو مٹانے کے لئے ان کو خلافت ترکیہ کے خلاف کھڑا کیا.ان سے جنگیں لڑیں ان کو شکستیں دیں اور پھر ان کو یہاں اختیار ملا.اس واسطے اہل حدیث کے دماغ میں ہمیشہ یک کھلبلی رہتی ہے کہ ہم پر یہ اعتراض ہو جائے گا کہ تم انگریز کا لگایا ہوا پودا ہو اس لئے وہ ہم پر اعتراض کر دیتے ہیں....میں اس وقت مخالفت کی بات کر رہا ہوں.اب ہماری مخالفت بین الاقوامی اتحاد کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ہے اور افق اسلام پر جو حالات جنگ احزاب کے موقع پر ابھرے تھے کہ اہل کتاب اور مشرکین نے گٹھ جوڑ کر کے مدینہ پر حملہ کیا تھا اور اسلام کو مٹانے کی کوشش کی تھی.اسلام کی اس نشاۃ ثانیہ پھر وہی حالات پیدا ہو گئے ہیں.چنانچہ ظاہری علوم رکھنے والے اہل قرآن اور اسلام کے دشمن اہل کتاب اور انسانیت اور مذہب کے دشمن اہلِ الحاد یہ تینوں طاقتیں اکٹھی ہو کر نشاۃ ثانیہ کو مغلوب کرنے کے لئے افق اسلام پر ابھری ہیں.جو وعدہ اس وقت مسلمانوں کو دیا گیا تھا میں سمجھتا ہوں انہی آیتوں میں ہمارے لئے بھی وعدہ ہے کہ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ( القمر : ۴۶) تم جمع تو ہو گئے ہو تم مختلف متضاد طاقتیں ہو جو اسلام کو مغلوب کرنے کے لئے اکٹھی ہو کر سامنے آگئی ہولیکن سَيُهْزَهُ الْجَمْعُ تمہارا اتحاد تمہیں کامیابی کی طرف نہیں لے جائے گا بلکہ تم پیٹھ پھیر کر بھاگ جاؤ گے اور نا کام ہو گے انشاء اللہ تعالیٰ.اس لئے کہ زمین کے سینہ سے پٹرول کی شکل میں جو دولت باہر نکلی ہے اور ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہو وہ اس دولت کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو ایک مسلمان مخلص دل کے قربانی اور ایثار کے سرچشمہ سے نکلتی ہے اور جو
236 اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو جذب کرتی ہے.کیا تیل کے چشموں سے حاصل کی ہوئی دولت ایک مومن ایثار پیشہ کے دل کے چشمہ سے نکلی ہوئی دولت کا کبھی مقابلہ کر سکتی ہے؟ جب سے آدم پیدا ہوئے اس وقت سے لے کر قیامت تک ایسا کبھی نہیں ہوگا.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہر مذہب کے ماننے والوں کے سامنے رکھا گیا تھا جب وہ مذہب دنیا میں آئے اس لئے فکر کی کوئی بات نہیں......آج اتنا انقلاب اور اتنی بڑی تبدیلی آگئی ہے کہ یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ جب تک سب لوگ جمع نہ ہوں، جب تک اہل قرآن جو صرف ظاہری اسلام پر کار بند ہیں وہ اور اہلِ کتاب جو دشمنانِ اسلام ہیں اور اہلِ الحاد جو مذہب کے بھی شدید مخالف ہیں یہ تین زبردست طاقتیں اکٹھی نہیں ہوں گی احمدیت کو مٹایا نہیں جاسکتا.کتنا بڑا انقلاب بپا ہو گیا ہے خدا کے فضل سے.اس مقابلہ میں ہماری کوششیں تو ہیں ہی نہیں......الحاد کے متعلق جو میں نے کہا ہے میں اس کی بھی مثال بتا دیتا ہوں.ہمیں یہ علم ہوا ہے کہ روس نے جو کہ مذہب کا دشمن ہے اس نے ڈنمارک کے غیر احمد یوں میں سے ایک گروہ کو کہا کہ تم احمدیوں کے مقابلہ میں ان کی مخالفت کرنے کے لئے اپنی ایک مسجد اور مشن ہاؤس بناؤ اور سارے پیسے ہم دیں گے.تم تو مذہب کے ہی دشمن ہو.تم مسلمانوں کی مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کے لئے کس طرح تیار ہو گئے.“ حضور نے فرمایا کہ اس منصوبہ پر غور کرنے کے لیے مجلس مشاورت میں بڑی سب کمیٹی کی بجائے بارہ دوستوں پر مشتمل سب کمیٹی بنائی جائے جو دوسری سب کمیٹیوں کی طرح اس منصوبے پر غور کرے اور اپنی رپورٹ مجلس مشاروت میں پیش کرے.(۹) 66 حضور کے اس خطاب سے یہ صاف ظاہر تھا کہ ایک بار پھر جماعت کی ترقی پر طیش کھا کر جماعت کے مخالفین جماعت کے خلاف ایک سازش تیار کر رہے ہیں اور اس مرتبہ یہ سازش بہت بڑے پیمانے پر تیار کی جارہی ہے اور مختلف ممالک مختلف وجوہات کی بنا پر اس منصوبہ کی اعانت کریں گے.اور عرب ممالک میں تیل سے ملنے والی دولت کو جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال کیا جائے گا.ہم اپنے وقت پر اس بات کا جائزہ پیش کریں گے کس طرح وقت کے ساتھ یہ تمام باتیں حرف بحرف درست
237 ثابت ہوئیں.اور یہ جلس مشاورت مارچ ۱۹۷۴ء میں منعقد ہوئی تھی اور جیسا کہ ہم جائزہ لیں گے کہ فروری ۱۹۷۴ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کا نفرنس منعقد ہوئی تھی اور جماعت کو یہ اطلاع موصول ہوئی تھی کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ کے خلاف لٹریچر تقسیم کیا گیا تھا.اور پوری دنیا نے اپنے وقت پر یہ دیکھا کہ یہ محض خدشات نہیں تھے بلکہ ایک وسیع پیمانے پر جماعت احمدیہ کے خلاف ایک سازش تیار کی جارہی تھی.حسب روایت حضور کے افتتاحی خطاب کے بعد سب کمیٹیوں کی تشکیل کی گئی اور صد سالہ جو بلی منصوبہ کے لئے جو سٹینڈ نگ سب کمیٹی بنی وہ بارہ افراد پر مشتمل تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مکرم و محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر کو اس کا صدر اور مکرم و محترم چوہدری حمید اللہ صاحب کو سیکر یٹری مقرر فرمایا.اس سب کمیٹی نے دورانِ شوری دو اجلاسات منعقد کئے اور پھر مشاورت میں یہ رپورٹ پیش کی کہ سب کمیٹی یہ محسوس کرتی ہے کہ اس عظیم الشان منصوبہ کی تفصیلات طے کرنے سے قبل بہت سی معلومات اکٹھی کرنے اور اس سب کمیٹی کے مختلف اجلاسات منعقد کرنے کی ضررورت ہے تا ہم حضور کے بیان فرمودہ شقوں میں سے مندرجہ ذیل شقوں پر فوری عمل درآمد شروع کرنے کی پیش کش کی جاتی ہے.۱) کینیڈا میں ایک مضبوط تبلیغی اور تربیتی مرکز کا قیام.اس سفارش پر حضور نے ارشاد فرمایا: اس کے علاوہ سویڈن اور ناروے میں بھی ایسے مراکز قائم کئے جائیں.۲) مرکز سلسلہ میں سر دست عربی ، فرانسیسی اور سپینش سکھانے کا انتظام کیا جائے.) سورۃ فاتحہ کی مختصر تفسیر مع متقن جو کہ آٹھ دس صفحات پر مشتمل ہوان ۲۲ زبانوں میں شائع کی جائے.عربی ، فارسی، جاپانی، چینی، روسی، جرمن، سپینش ، فرانسیسی ، ڈچ، ٹرکش، اٹالین ، ڈینش، یونانی، سواحیلی ، ہاؤسا، یوروبا، ویتنامی، انڈونیشین ، ملائی، ہندی، بنگلہ اور یوگوسلاویا کی زبان میں.زبان سکھانے اور سورۃ فاتحہ اور اس کی مختصر تفسیر کے منصوبے کو حضور نے منظور فرمایا.اس کے ساتھ یہ تجویز بھی تھی مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب، مکرم مولا نا ملک سیف الرحمن صاحب اور مکرم میر محمود احمد ناصر صاحب اس کا مسودہ تیار کر کے حضور کی خدمت میں پیش کریں.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں.
238 م) کمیٹی نے مرکز میں ۵ لاکھ افراد کے لئے ایک سٹیڈیم کی تعمیر کی سفارش پیش کی اور تجویز دی کہ مستورات کے لئے ایک علیحدہ سٹیڈیم کی تعمیر کی جائے.) یہ تجویز دی گئی کہ مختلف ممالک میں بین الاقوامی سطح پر تبلیغی خط و کتابت کی جائے اور یہ کام ذیلی تنظیموں کے سپرد کیا جائے.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ سوچ کر فیصلہ کروں گا.سٹینڈنگ کمیٹی نے صد سالہ جوبلی منانے کے پروگرام، دنیا کے مختلف ممالک میں مراکز کے قیام ، اور مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور تفسیر کے لئے تین سب کمیٹیوں کے قیام کی تجویز دی.یہ تجویز پیش کی کہ انتظامی امور کے لئے ایک دفتر قائم کیا جائے اور چندوں کی وصولی کے لئے دوسرا دفتر قائم کیا جائے.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا ”ہر دو کے لئے ایک ہی دفتر ہوگا.“ یه سفارش پیش کی گئی کہ اندرونِ پاکستان اور بیرونِ پاکستان ہر جماعت میں ایک سیکر یٹری صد سالہ جوبلی فنڈ مقرر کیا جائے.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا ” حسب ضرورت مجھ سے ہدایت لی جائے ۹) سٹینڈنگ کمیٹی نے نے تجویز پیش کی کہ فنڈ کی رقوم کی سرمایہ کاری اور حفاظت اور مالی امور کے بارے میں چار مجوزہ احباب سے مشورہ لیا جائے.۱۰) سٹینڈنگ کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ یہ نہایت ضروری ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں غلبہ اسلام کے لئے بیعتوں کے ٹارگٹ مقرر کئے جائیں.تا جوبلی کے وقت دنیا کا کوئی ملک احمدیت سے خالی نہ ہو اور کم از کم چند ممالک میں اسلام کا مکمل غلبہ ہو چکا ہو.جن ممالک میں اسوقت جماعت قائم نہیں ہے ان کے متعلق تبلیغی کوششوں کی ترجیحی ترتیب قائم کی جائے.بیعتوں کے ٹارگٹس کی تعیین میں حضرت مصلح موعود کی اس تاکیدی ہدایت کو ملحوظ نظر رکھا جائے کہ ہر بالغ احمدی سال میں کم از کم ایک اور شخص کو احمدی بنائے.کمیٹی اس عزم کا اظہار کرتی ہے ان مقاصد کو لوظ نظر رکھتے ہوئے تفصیلی منصوبہ تیار کیا جائے کہ کن کن اقدامات اور ذرئع کو اختیار کرنے سے یہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں.۱۱) یہ طے پایا کہ سٹینڈ نگ کمیٹی پندرہ روزہ اجلاس کرے گی ۱۲) حضور کے بیان فرمودہ اغراض منصوبہ بندی کو مد نظر رکھتے ہوئے سٹینڈنگ کمیٹی ایک
239 سوالنامہ ترتیب دے گی جسے حضور کی منظوری کے بعد تجاویز حاصل کرنے کے لئے مختلف جماعتوں اور تجربہ کا ر ا حباب کو بھجوایا جائے گا.مجلس مشاورت میں مختلف احباب کے مشورے سننے کے بعد حضرت خلیفہ المسح الثالث نے فرمایا.ر پورٹ اچھی ہے.اس کے اوپر رائے لینے کی ضرورت نہیں.کیونکہ اس کے بعض پہلو مزید وضاحت طلب ہیں.بعض پہلو ایسے ہیں جن کے متعلق مجھے مزید ہدایتیں دینی ہیں.وہ انشاء اللہ میں دیکھ لوں گا.“ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی راہنمائی میں اس سٹینڈنگ کمیٹی کی مختلف سب کمیٹیوں نے کام شروع کیا.اس عظیم منصوبہ کا ایک اہم حصہ قرآن کریم کے تراجم کرانے کا کام بھی تھا.سب سے پہلے تو وکالت تبشیر کے ساتھ مل کر یہ جائزہ لیا کہ اب تک جماعت احمدیہ نے کن کن زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم کا کام مکمل کر لیا ہے یا اس وقت زیر تکمیل ہے.چنانچہ اس وقت تک صورت حال یہ تھی.1) انڈونیشین میں ترجمہ قرآن اور حواشی کا کام مکمل ہو چکا تھا.پہلے دس پاروں پر مشتمل پہلی جلد شائع ہو چکی تھی اور دوسری اور تیسری جلد کی طباعت بھی شروع تھی.۲) سواحیلی زبان میں ترجمہ کا دوسرا ایڈیشن انٹروڈکشن کے ساتھ شائع ہورہاتھا.یوگینڈا کی ایک اہم زبان لوگینڈا میں ترجمہ اور نظر ثانی کا کام مکمل ہو چکا تھا اور مسودہ پریس میں طباعت کے لئے بھیجا جا چکا تھا.۴) فرانسیسی زبان میں ترجمہ مع انٹروڈکشن مکمل تھا اور طباعت کے لئے آرڈر دے دیا گیا تھا.۵) ڈینش زبان میں ترجمہ مع انٹروڈیکشن شائع ہو چکا تھا.) جرمن زبان میں ترجمہ کے دوایڈیشن شائع ہو چکے تھے اور تیسرا ایڈیشن شائع ہو رہا تھا.ے ان کے علاوہ روسی ، اٹالین اور سپینش میں تراجم ہو چکے تھے لیکن ان کی ابھی نظر ثانی نہیں ہوئی تھی.سب کمیٹی نے سفارش کی کہ ان زبانوں کے علاوہ چینی ، فارسی.ترکی ، یونانی ، پرتگالی ، ھاؤسا، ہندی ، بنگالی، پشتو ، تامل، تلینگو ، گجراتی اور سندھی زبانوں میں فوری طور پر ترجمہ ہونا چاہیئے اور بنیادی
240 لٹریچر بھی مہیا ہونا چاہئے.اردو ، فارسی اور عربی تفسیر کے بارے میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ اس کام کو فوری طور پر شروع کیا جائے.اور ان کے لئے مرکزی نمونہ تفسیر کا وہ ہے جو کہ انگریزی میں شائع ہو چکا ہے.جماعت کے پریسوں کے قیام کے بارے میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ انڈونیشیا، نجی، بنگلہ دیش، ماریشس ، تنزانیہ ، غانا ، نائیجیریا ، ڈنمارک، جرمنی، کینیڈا میں ایک ایک اور بھارت میں دو چھوٹے پریس قائم کئے جائیں اور انگلستان، پاکستان ، امریکہ اور سیرالیون میں بڑے پریس قائم کئے جائیں.جوبلی منصوبہ کا ایک اہم حصہ یکصد زبانوں میں بنیادی لٹریچر کی اشاعت تھا.سٹینڈنگ کمیٹی نے اس بابت فیصلہ کیا کہ پہلے ۲۵ زبانوں میں بنیادی لٹریچر کی اشاعت کی جائے اور اس مقصد کے لئے چینی ، روسی، سپینش ، اٹالین، پرتگالی، یونانی ، سویڈش، نارویجین ، یوگوسلاویا کی زبان ، ترکی، ویتنامی، فیلیپینو ، ہندی، مالا باری، گجراتی، تامل، تلینگو ، سینهالیز ، ہندی، مالا باری، گجراتی، فارسی ،سندھی، پشتو، بنگالی عربی ، ہاؤسا اور سواحیلی زبانوں کا انتخاب کیا گیا.اور یہ تجویز دی گئی کہ پہلے یہ لٹریچر اردو میں تیار کیا جائے گا پھر اس کا ترجمہ مختلف زبانوں میں کیا جائے گا.جماعت کی عالمی تبلیغی مہم کے لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ مختلف زبانوں کے ماہرین تیار کئے جائیں.سٹینڈنگ کمیٹی نے سفارش کی کہ ہر زبان میں دو دو ماہرین تیار کئے جائیں.حضور کے ارشاد کے ماتحت مختلف ممالک کے لئے ایک مرکز قائم کرنے کے لئے مختلف ممالک کے گروہ تشکیل دیئے گئے.مغربی افریقہ کے ممالک کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا.ایک تو وہ ممالک جہاں پر انگریزی بولی جاتی ہے اور ان میں سے زیادہ تر ممالک برطانیہ کے زیر تسلط رہے تھے.ان میں نائیجیریا، غانا ،سیرالیون ، گیمبیا اور کیمرون شامل تھے اور ان کے مرکزی مشن کے قیام کے لئے نائیجیریا کا نام تجویز کیا گیا.دوسرا گروہ وہ تھا جہاں فرانسیسی بولی جاتی تھی اور یہ ممالک فرانس کے زیر تسلط رہے تھے.ان میں اپروولٹا، گنی ، آئیوری کوسٹ ، سینیگال، ڈھومی اور ٹوگو شامل تھے.اس گروہ میں آئیوری کوسٹ میں مرکز بنانے کی تجویز دی گئی.اور مغربی افریقہ کے ممالک کا تیسرا گروہ ان ممالک پر مشتمل تھا جو کہ عرب معاشرے کے زیر اثر تھا.ان ممالک میں چاڈ ، مالی ، ماریطانیہ اور نائیجر
241 شامل تھے.ان کے لئے مرکز چاڈ میں بنانے کی تجویز دی گئی.اس کمیٹی نے تجویز کیا کہ مشرقی افریقہ میں تین مراکز قائم کیے جائیں.مشرقی افریقہ کو جن حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ان میں سے ایک حصہ ایتھوپیا اور صومالیہ پرمشتمل تھا مگر ان ممالک میں اس وقت بھی جماعت کا مشن کھولنے کے راستے میں مشکلات حائل تھیں.دوسرا حصہ کینیا، یوگینڈا، تنزانیہ، زیمبیا اور زائر پر مشتمل رکھا گیا.اور تیسرا حصہ ماریشس اور مڈغاسکر پر مشتمل تھا.ان میں سے ماریشس میں پہلے ہی سے مشن موجود تھا ، سفارش کی گئی کہ مڈغاسکر میں بھی مشن کھولا جائے.برطانیہ کو چار حصوں یعنی انگلستان، ویلز ، سکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ میں تقسیم کیا گیا.انگلستان میں تو پہلے ہی لندن میں مشن ہاؤس موجود تھا.سٹینڈنگ کمیٹی نے ویلز ، سکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ میں بھی تبلیغی مراکز کھولنے کی سفارش کی.اس کے علاوہ شمالی اور وسطی انگلستان میں بھی مشن ہاؤس کھولنے کی سفارش کی گئی.سٹینڈنگ کمیٹی نے یہ تجویز دی کہ جرائد میں خاص طور پر ریویو آف ریجنز کی طرف خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے.اس میں بین الاقوامی دلچسپیوں کے مضامین لکھے جائیں.اور اس کی اشاعت کو دس ہزار تک پہنچایا جائے.شروع میں دنیا کی مختلف لائبریریوں میں تعلیمی اداروں میں اور دنیا کی مختلف اہم شخصیات کو یہ رسالہ مفت بھجوایا جائے.اسی طرح جماعت کے دوسرے اخبارات اور جرائد میں بھی مختلف ممالک کے بارے مضامین شائع کئے جائیں.سٹینڈنگ کمیٹی نے مسلمانوں میں اتحاد عمل کے قیام اور تکفیر کی گرم بازاری کو روکنے کے لئے یہ اصولی سفارش تیار کی کہ غیر از جماعت علماء کو قرآن شریف کی اشاعت اور سیرت طیبہ کی اشاعت کے میدان میں تعاون کرنے یا مخالفت نہ کرنے کی پیشکش کی جائے.لیکن اس کے ساتھ یہ امر بھی سامنے آیا کہ موجودہ حالات میں پاکستان میں اس تجویز پر عملدرآمد کا ماحول نہیں اور کوئی بھی تعاون کرنے کو تیار نہیں البتہ انڈو نیشیا اور افریقہ میں خصوصیت سے یہ تحریک چلائی جائے.نیشلزم اور انٹر نیشلزم میں صحیح توازن پیدا کرنے کے لئے کہ مرکز سلسلہ سے مختلف بزرگانِ سلسلہ پاکستان سے باہر ممالک کے دوروں پر جائیں.اسی طرح جلسہ سالانہ کے علاوہ دوسری جماعتی تقریبات میں بھی دوسرے ممالک سے وفود کی آمد کا سلسلہ بھی بین الاقوامی اخوت کے لئے مفید ہوگا.
242 اسی طرح دنیا بھر کے ممالک سے احمدی طلباء کا مرکز سلسلہ میں تعلیم کے لئے آنا بہت ضروری ہے.اور اس کے انتظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے.اسی طرح یہ تجویز کیا گیا کہ دوسرے ممالک میں اثر رکھنے والے احباب یہ کوشش کر سکتے ہیں کہ مختلف موضوعات پر لیکچر دینے کے لئے پاکستان کے مختلف بزرگ احمدیوں کو مدعو کیا جائے.اور صحافت سے تعلق رکھنے والے مختلف پاکستانی احباب باہر کے پریس سے تعلق استوار کرنے کے لئے ایک خاص پروگرام کے تحت دورے کریں.اس کے علاوہ سٹینڈنگ کمیٹی نے اس عظیم منصوبہ کی مختلف تفصیلات کے متعلق منصوبہ بندی کی اور بار بار اجلاسات کر کے تجاویز مرتب کیں اور ان تجاویز پر حضور سے راہنمائی حاصل کی.(۱) لفضل ۱۶ جنوری ۱۹۵۸ء (۲) تفسیر کبیر جلد ۸ ص ۵۲۸ (۳) حیات ناصر مصنفہ محمود مجیب اصغرص ۵۵۶-۵۵۷ (۴) حیات ناصر مصنفہ محمود مجیب اصغرص ۵۵۸-۵۵۹ (۵) حیات ناصر مصنف محمود مجیب اصغرص ۵۵۸ تا ۵۶۷ (۶) حیات ناصر مصنفہ محمود مجیب اصغرص ۵۶۷
243 (۷) الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۷۴ء ص ۱ (۸) الفضل ۵ فروری ۱۹۷۴ء ص ۱ (۹) مجلس مشاورت ۱۹۷۴ ص ۳ تا ۴۵
244 لاہور کی اسلامی سربراہی کا نفرنس جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں صد سالہ جو بلی کے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے مسلمانوں کے تمام فرقوں کو اتحاد عمل کی دعوت دی تھی اور فرمایا تھا کہ تمام فرقوں کو دنیا میں قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کی عظمت کے اظہار کے لیے کام کرنا چاہئے.اس سے قبل ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے عالم اسلام کے اتحاد پر زور دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ پس حکومت وقت یا دوسری اقوام عالم جن کا تعلق اسلام سے ہے ان کا یہ کام ہے ( ہر فردا گر اپنے طور پر اس قسم کے منصوبے بنائے تو فائدہ کی بجائے نقصان ہوا کرتا ہے ) کہ وہ سر جوڑیں اور منصوبے بنا ئیں اور پھر ہر اسلامی ملک کی ذمہ داریوں کی تعیین کریں مثلاً کہیں کہ فلاں ملک اس مہم اور مجاہدے میں یہ یہ خدمات اور قربانیاں پیش کرے یا اس قسم کا ایثار اور قربانی سامنے آنی چاہئے.جب سارے اسلامی ممالک کسی منصوبے کے ماتحت اسلام کے دشمن کو جو اپنے ہزار اختلافات کے باوجود اکٹھا ہو گیا ہے اس کے منصوبوں کو نا کام بنانے کے لئے ایک جدو جہد، ایک عظیم جہاد اور مجاہدے کا اعلان کریں گے پھر دیکھیں گے کہ کون اس میدان میں آگے نکلتا ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک اور ایک ہزار کی نسبت سے آگے نکل جائیں گے بلکہ ہم دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ آگے نکلنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.“ ( خطبات ناصر جلد پنجم ص ۲۶۲) اور اسی خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا تھا پاکستان کی حکومت ملک کی خاطر جو بھی قربانی مانگے گی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی سب سے بڑھ کر قربانیاں پیش کریں گے.اس پس منظر میں جب کہ جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت کی ایک مہم چلائی جارہی تھی ، حضرت خلیفتہ امسیح الثالث پوری دنیا کے مسلمانوں کو محبت کا پیغام دے رہے تھے، مشترکہ طور پر اسلام کی خاطر قربانیاں کرنے کی دعوت دے رہے تھے.فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی.اور
245 مسلمان ممالک کے سربراہان نے اس کانفرنس میں شرکت کرنی تھی.اس کا نفرنس سے بہت سی توقعات وابستہ کی جارہی تھیں کہ اس میں عالم اسلام کے اتحاد اور ترقی کے لیے منصوبے بنائے جائیں گے، فیصلے کئے جائیں گے.مگریہ کا نفرنس ایک خاص پس منظر میں ہورہی تھی.بھٹو صاحب ایک ذہین سیاستدان تھے، ان کی خواہش تھی کہ بین الاقوامی سطح پر ایک نمایاں مقام حاصل ہو.وہ صرف عزائم ہی نہیں صلاحیتیں بھی رکھتے تھے.وہ تیسری دنیا کا لیڈر بننے کی کوشش بھی کرتے رہے.مگر اس منظر پر پہلے پنڈت جواہر لال نہرو اور پھر ان کی صاحبزادی اور بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی قد آور شخصیتیں حاوی تھیں.بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوانے کا ایک راستہ یہ تھا کہ وہ عالم اسلام کے ایک لیڈر کے طور پر نمایاں ہو کر سامنے آئیں.اس سلسلے میں انہیں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل کی پوری حمایت حاصل تھی.ان کا مشترکہ خواب یہ تھا کہ بھٹو صاحب اسلامی دنیا کے سیاسی لیڈر اور سعودی عرب کے بادشاہ عالم اسلام کے روحانی لیڈر اور خلیفہ کے طور پر سامنے آئیں.شروع میں تو شاہ فیصل کو عالم اسلام میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں تھا.مگر ان کے پاس دولت کی ریل پیل تھی اور سعودی عرب کے فرمانروا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے متولی بھی تھے اور ہر مسلمان کا دل ان مقدس مقامات کی محبت سے لبریز تھا.مغربی طاقتوں کا مفاد بھی اس میں تھا کہ کسی طرح شاہ فیصل کو دنیائے اسلام کا روحانی پیشوا بنا دیا جائے تا کہ اس طرح مشرق وسطی میں مغرب کے مفادات محفوظ کر دیئے جائیں.اور یہ سب کچھ اس طرح دبے پاؤں کیا جائے کہ سادہ لوح مسلمانوں کو اس کی خبر بھی نہ ہو.یعنی اعلانات تو سعودی عرب کے لاؤڈ سپیکروں سے کئے جارہے ہوں اور ان کا مائیکروفون مغرب کے ہاتھ میں ہو.یہ بات پڑھنے والوں کے لئے کسی اچھنبے کا باعث نہیں ہونی چاہئے.بڑی طاقتیں اپنے مقاصد کے لئے اس قسم کے کھیل کھیلتی رہتی ہیں اور یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ مغربی طاقتیں اپنے مقاصد کے لئے اس قسم کا کھیل شروع کریں.پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکومت نے اسی طرح کی کوشش کی تھی.پہلی جنگ عظیم کے دوران ترکی کی سلطنت عثمانیہ جرمنی کا ساتھ دے رہی تھی اور ہندوستان کے بہت سے مسلمان ترکی کی خلافت عثمانیہ سے ہمدردی رکھتے تھے.یہ چیز انگریز حکمرانوں کو پریشان کر رہی تھی.چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ایک ایسے شخص کو بطور خلیفہ کے لئے کھڑا کیا جائے جو سلطنت برطانیہ کے ساتھ تعلق اور ہمدردی رکھتا ہو تو یہ ان کے لئے
246 بہت مفید ہوگا.اس کے لئے انہیں یہ خیال آیا کہ جو حکمران اس وقت حجاز پر حکومت کر رہا ہے اور ان کے ہاتھ میں بھی ہے اسے اس کام کے لئے کھڑا کیا جائے.اس وقت حجاز پر شریف مکہ شریف حسین کی حکومت تھی اور اس وقت اس کے انگریز حکومت سے قریبی تعلقات بھی تھے.اور چونکہ حجاز میں مکہ اور مدینہ واقع ہیں اس لئے حجاز سے وابستہ ہر چیز کے لئے ان کے دل میں ایک نرم گوشہ پیدا ہونا قدرتی بات تھی.چنانچہ انڈیا آفس کے ایک افسر کر یو Crewe نے ۱۳ را پریل ۱۹۱۵ء کو حکام بالا کو جو رپورٹ بھجوائی اس میں لکھا : "...میں نہیں سمجھتا کہ استنبول پر قبضہ ہو جانے کے بعد شریف مکہ حسین سے متعلق ہماری پالیسی کی وجہ سے ہمیں کوئی پریشانی ہوگی.ہمیں چاہئے کہ کہ ہم اسے ترکی کی غلامی سے نجات دینے کے لئے ہمارے بس میں جو کچھ ہے وہ کریں.لیکن اس سلسلے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے اور کسی کو یہ پتہ نہ چلے کہ ہم اسے مقام خلافت پر بٹھانا چاہتے ہیں.ہندوستان میں آج کل پان اسلام ازم کی جو تحریک چلی ہوئی ہے اس کا منبع اور مرکز استنبول ہے.یہاں کے اسلام پسند عناصر اس بات کو قطعی پسند نہیں کریں گے کہ خلافت عثمانیوں کے ہاتھ سے نکل جائے.لیکن شریف مکہ یا کوئی اور عرب سنی لیڈرا اپنے آپ کو عثمانیوں سے آزاد کر کے خلافت جیسے متبرک عنوان کو حاصل کر لے تو مسلمان رائے عامہ اور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بھی ان کا ساتھ دینے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں رہ جائے گا....لیکن اس کے باوجود میرا خیال یہ ہے کہ آئندہ مسئلہ خلافت کی بنا پر مسلمانوں میں پھوٹ پڑ سکتی ہے.در حقیقت دیکھا جائے تو اس پھوٹ میں ہمارا سراسر فائدہ ہی ہے.“ ( بحوالہ تحریک خلافت تحریر ڈاکٹر میم کمال او کے، باسفورس یو نیورسٹی استنبول، ترجمہ ڈاکٹر نثار احمد اسرار.سنگ میل پبلیکیشنز لاہور ۱۹۹۱ء - ص ۶۲ و ۶۳) جیسا کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا جب شریف حسین نے سلطنت عثمانیہ سے بغاوت کی تو ہندوستان کے مسلمانوں میں اس کے خلاف شدید رد عمل ظاہر کیا.اس وقت حجاز پر شریف مکہ کی اور نجد کے علاقہ پر سعودی خاندان کی حکومت تھی.جب شریف مکہ نے یہودیوں کے فلسطین میں آباد ہونے کے خلاف رد عمل دکھایا تو برطانوی حکومت نے ان سے اپنی حمایت کا ہاتھ کھینچ لیا اور سعودی خاندان نے حجاز پر بھی
قبضہ کر لیا.247 ایک عرصہ سے تو جماعت احمدیہ کے مخالف علماء اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو اور جماعت احمدیہ کی خلافت کو برطانوی استعمار نے اپنے مقاصد کے لئے کھڑا کیا تھا.لیکن یہ انکشافات تو خود غیر احمدی مسلمانوں میں سے محققین نے کیے ہیں کہ اصل میں تو مغربی قوتوں کا یہ ارادہ تھا کہ سنی عرب لیڈروں میں سے کسی کو جوان کے ہاتھ میں ہو عالم اسلام کا خلیفہ بنا کر اپنے مقاصد کئے جائیں.عالم اسلام میں ایک وقت میں دو خلفاء تو نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ میں تو خلافت قائم تھی.اور یہ بات اس گروہ کو کسی طرح بھی برداشت نہ تھی جو شاہ فیصل کو عالم اسلام کا خلیفہ بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے.اس کے علاوہ یہ مسئلہ بھی تھا کہ مختلف ممالک میں مختلف فقہی گروہوں کی پیروی کرنے والے مسلمان اکثریت میں تھے.سعودی عرب کے بادشاہ وہابی تھے جبکہ انڈونیشیا کے اکثر مسلمان شافعی، افریقہ کے اکثر مسلمان مالکی اور کئی دوسرے مسلمان ممالک میں حنفی مسلمانوں کی اکثریت تھی.اسلئے اس بات کا امکان تھا کہ دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء سعودی حکمرانوں سے رشوت لیتے ہوئے اور ان کی قیادت قبول کرتے ہوئے ہچکچائیں.لیکن اگر یہ مدد مدارس اور مساجد کے نام پر دی جاتی تو ظاہر تھا کہ کم رد عمل ہوتا اور اگر اس امداد کو جماعت احمدیہ کی مخالفت کے ساتھ مشروط کر دیا جاتا تو دوسرے مسلک کے علماء کو یہ پیشکش قبول کرنے میں کوئی عذر نہ ہوتا، کیونکہ وہ تو پہلے ہی جماعت کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھے تھے.اس طریق پر دنیا بھر کے مسلمان سعودی اثر کے نیچے آجاتے اور کوئی خاص ردعمل بھی پیدا نہ ہوتا.اب جب کہ لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کا آغاز قریب آرہا تھا اور یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ اس کا نفرنس کے موقع پر جماعت احمدیہ کے خلاف ایک باقاعدہ مہم کا آغاز ہونے والا ہے.اس ضمن میں جماعت کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے وزیر خارجہ پاکستان عزیز احمد صاحب کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا.لیکن وزیر خارجہ نے اس سے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ ہرگز اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اس موقع کو جماعت احمدیہ کے خلاف مہم چلانے کے لیے استعمال کیا جائے بلکہ اس موقع پر مذہبی پروپیگنڈا پرسختی سے پابندی ہوگی اور اس
248 نازک موقع پر کوئی سیاسی شوشہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی.پھر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھٹو صاحب کے سامنے بھی کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے خدشات کا اظہار کیا.اس پر بھٹو صاحب نے بھی یقین دلایا کہ جماعت احمدیہ کے خلاف کسی قسم کا پرو پیگنڈ نہیں کیا جائے گا.لیکن اس بات کے شواہد بھی سامنے آرہے تھے کہ یہ سب زبانی جمع خرچ کی جارہی ہے.ناقابل تردید ثبوت سامنے آرہے تھے اور وہ پمفلٹ بھی مل چکے تھے جنہیں جماعت اسلامی نے چھپوایا تھا اور انہیں اس موقع پر مندوبین میں وسیع پیمانے پر تقسیم کرنے کا پروگرام تھا.اور ان ارادوں کو مکمل طور پر خفیہ رکھنے کے لیے کوئی خاص کوشش بھی نہیں کی جارہی تھی.جماعت کے مخالف جرائد بھی شاہ فیصل کو عالم اسلام کا خلیفہ بنانے کا پروپیگنڈا کر رہے تھے.اور اس کے ساتھ جماعت احمدیہ کے خلاف زہر بھی اگلا جار ہا تھا.مثلاً رسالہ چٹان میں کانفرنس کے بعد یہ اطلاع شائع ہوئی کہ شاہ فیصل نے افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے خزانوں کے منہ کھول دیئے ہیں اور ان کی کاوشوں کے نتیجے میں عیسائی مشنری اور قادیانی مراکز میں شگاف پڑنے لگے ہیں.اور یہ بھی لکھا گیا کہ افریقہ کے صحراؤں میں توحید کی جو صدائیں گونج رہی ہیں اور اس ظلمت کدے میں قرآن وسنت کی جو روشنی پھیل رہی ہے اس کا سہرا در اصل شاہ فیصل کے سر پر ہے.اور اگر شاہ فیصل کی کوششوں کی یہی رفتار رہی تو آئندہ دس سال میں افریقہ اسلام کا گہوارہ بن جائے گا.اور اس ساری مدح سرائی کا ماحصل یہ تھا کہ اس کے آخر میں لکھا گیا کہ یوگینڈا کے مرد آہن عیدی امین مبارکباد کے مستحق ہیں.جو لا ہور میں منعقد ہونے والی اسلامی ملکوں کی سربراہ کا نفرنس میں یہ تجویز پیش کرنے والے ہیں کہ شاہ فیصل کو عالم اسلام کا لیڈر تسلیم کیا جائے ہمیں امید ہے کہ تمام مسلم را ہنما اس تجویز کی حمایت کریں گے.اور شاہ فیصل کو متفقہ طور پر اسلامی دنیا کا راہنما تسلیم کر کے اتحاد اسلامی کی داغ بیل ڈالیں گے.ہم اس موقعہ پر پاکستان کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کی خدمت میں یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ تمام فرقوں کے علماء پر مشتمل ایک وفد تشکیل دیں جو اسلامی کانفرنس کے علماء
249 موقعہ پر مسلم سر برا ہوں خصوصاً شاہ فیصل، معمر القذافی اور عیدی امین سے ملاقات کر کے قادیانیوں کے بارے میں یادداشت پیش کریں.اور انہیں بتائیں کہ قادیانیت اسلام اور مسلمانوں کے لئے صیہونیت سے کم خطر ناک نہیں ہے.اور اس کے سد باب کے لئے تمام اسلامی ملکوں کو مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے.“ غانا سے موصول ہونے والی اس تحریر کے نیچے چٹان کے مدیر نے لکھا: ” اسلامی کانفرنس کے بعد خط ملا لیکن شاہ فیصل کو عالم اسلام کا لیڈر بنانے کی تحریک سے چٹان متفق ہے بلکہ بہت پہلے سے اس کا داعی ہے.“ ( چٹان ۴ مارچ ۱۹۷۴ء ص ۱۴ و ۱۵ ) نہ صرف یہ بلکہ ایسے اشتہارات جرائد میں شائع کروائے جا رہے تھے جن میں شاہ فیصل کو قائد ملت اسلامیہ کا خطاب دیا گیا تھا.( چٹان ۲۵ فروری ۱۹۷۴ء) یہ پرا پیگنڈا کچھ اس انداز سے کیا جارہا تھا کہ خلفاء راشدین کی عظمت کا بھی کچھ دھیان نہیں کیا جارہا تھا.اسی جریدے نے شاہ فیصل اور دیگر سربراہان مملکت کی لاہور آمد کی منظر کشی پر جو رپورٹ شائع کی اس میں کچھ اس طرز میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے کہ اس رپورٹ کی ایک سرخی یہ تھی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی اسی طرح سیکیورٹی کا انتظام کر لیتے تو آج تاریخ یقیناً مختلف 66 ہوتی.“ اور اس کے ساتھ شاہ فیصل کی تصویر شائع کی ہوئی تھی اور نیچے یہ سرخی تھی.شاہ فیصل کے آتے ہی ساری فضا احترام کے سانچے میں ڈھل گئی گویا یہ کہا جا رہا تھا کہ جس عمدہ طریق پر بھٹو صاحب اور ان کی ٹیم نے سیکیورٹی کا انتظام کیا ہے نعوذ باللہ ایسے عمدہ طریق پر انتظامات کرنے کی توفیق تو خلفاء راشدین کو بھی نہیں ہوئی تھی.لیکن جس طرح چند سال بعد بھٹو صاحب کا تختہ الٹا گیا اس سے اس کی حقیقت خوب ظاہر ہو جاتی ہے.اور اسی رپورٹ میں چٹان نے لکھا کہ جب شاہ فیصل ایئر پورٹ پر اترے تو ان کی آمد نے ایئر پورٹ کی فضا کو ایک عجیب تقدس دے دیا تھا.اور ان کی چال میں ایک وقار اور تمکنت تھی اور چہرے پر نور کا ایک ہالہ بھی تھا.چٹان ۱۱ مارچ ۱۹۷۴ ء ص ۱۵ و ۱۶) اس مدح سرائی کا مقصد کیا تھا اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ
250 پاکستان اس کانفرنس کا سپانسر تو تھا ہی کیونکہ یہ کانفرنس پاکستان میں ہی ہو رہی تھی لیکن اس کے ساتھ سعودی بادشاہ شاہ فیصل بھی اس کا نفرنس کے Co-sponsor تھے.کا نفرنس شروع ہوئی تو تمام خدشات درست ثابت ہوئے.بھٹو صاحب نے ہدایت دی کہ جب بیرونی ممالک کے سربراہان اور مندوبین آئیں تو ان کے ساتھ کسی احمدی فوجی افسر کی ڈیوٹی نہ لگائی جائے.لیکن راز زیادہ دیر تک راز نہ رہ سکا.افریقہ سے آئے ہوئے ایک وزیر اعظم کو جب جماعت کے خلاف دستاویزات دی گئیں تو انہوں نے یہ پلندہ اپنے ایک احمدی دوست کو تھما دیا.یہ دستاویزات کیا تھیں جماعت احمدیہ کے خلاف جھوٹے الزامات اور زہر افشانیوں کا ایک طومار تھا.اس میں جماعت اور خلیفہ وقت کے خلاف جی بھر کے زہرا گلا گیا تھا.(A Man of God, by lan Adamson, George Shepherd Publishers, Great Britian P.96-100) مخالفین اس موقع کو جماعت احمدیہ کی مخالفت کی آگ بھڑ کانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے اور ساتھ ساتھ یہ شور مچارہے تھے کہ حکومت کو چاہئے کہ ایسا انتظام کرے کہ قادیانی اس کا نفرنس پر اثر انداز نہ ہوسکیں.بلکہ اس بات پر شور بھی مچارہے تھے کہ یہ کیا ظلم ہوا کہ ایک قادیانی فرم کو اس کا نفرنس کی میزبانی کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس بات کا بھی اظہار کیا کہ یہ بات رب العالمین کے حضور معتوب ہونے کی نشانی ہے.اس فرم سے مراد ان کی شیزان کی کمپنی تھی.(المنبر یکم فروری ۱۹۷۴ ء ص ۶) بہر حال سر براہی کانفرنس شروع ہوئی اور اس کا اختتام ہوا.پس پردہ اس میں کیا کیا کچھ ہوا تھا.اس کا اندازہ بعد میں منظرِ عام پر آنے والے واقعات سے بخوبی ہو جاتا ہے.لیکن اس کا نفرنس کے دوران اور بعد میں بھی بہت سے جرائد جس قسم کا پراپیگنڈا کرتے دکھائی دیئے اس کا اندازہ ان چند مثالوں سے ہو جاتا ہے.رسالہ المنبر نے شاہ فیصل کی مدح سرائی کرتے ہوئے لکھا.سعودی عرب کے فرمانروا.خادم الحرمین شاہ فیصل ہیں.موقعہ تفصیل کا نہیں ، فیصل معظم کی صحرائی زندگی، اس دور میں اپنے عظیم المرتبت مجاہد فی سبیل اللہ تو حید الہی میں قابلِ
251 رشک مقام پر فائز اور دینی بصیرت میں ممتاز شخصیت ، سلطان عبد العزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ رحمةً واسعہ کی تربیت اور جہاد اور اس کے تقاضوں کی تکمیل سے لے کر شاہ فیصل کے لقب سے ملقب ہونے اور اس کے بعد....اس عظیم فرمانروا نے خداداد بصیرت دینی حمیت ، سیاسی دانش اسلامی اخوت اور ایثار اور قربانی کے جو نقوش عہد حاضر میں ثبت فرمائے ہیں اور ان سے ان کی شخصیت کا جو نکھار اپنوں و بیگانوں نے مشاہدہ کیا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ یورپ اور پورا مغرب اس عظیم المرتبت قائد کے تیوروں سے سہما ہوا ہے اور عالم اسلام ان کی شخصیت پر اظہار فخر و مباہات کر رہا ہے.“ اور اس کے ساتھ ہی اس جریدہ نے یہ بھی لکھا کہ حکومت کو یہ انتظام کرنا چاہئے کہ قادیانیوں کا سایہ بھی اس کا نفرنس پر نہ پڑے.حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ خود جماعت احمدیہ کے مخالفین اس موقع کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے تھے.یہ ہمیشہ سے اس گروہ کا طریق رہا ہے کہ جب خود کوئی حرکت کرنی ہو تو یہ شور مچا دیتے ہیں کہ قادیانی یہ سازش کر رہے ہیں.(المنبر یکم تا ۸ فروری ۱۹۷۴ء) اسی جریدہ نے کانفرنس کے بعد اس بات پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا کہ جب شاہ فیصل شاہی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے آئے تھے تو انہوں نے پہلے دو رکعت تحیتہ المسجد نماز ادا کی تھی اور اس کے بعد جب انہوں نے طویل اور رقت سے بھری ہوئی دعا کی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے اور انہوں نے ان آنسوؤں کو پونچھا تھا.اور لاکھوں لوگوں نے اس منظر کوئی وی پر دیکھا تھا اور اس سے ان پر بہت اثر ہوا تھا.لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جب دوبارہ یہ مناظر ٹی وی پر دکھائے گئے تو رفت پیدا ہونے والا اور آنسو پونچھنے والا منظر کاٹ دیا گیا جس پر سب کو بہت صدمہ ہوا.اور اس جریدہ نے بہت اصرار سے لکھا کہ یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت کیا گیا ہے تا کہ اسلامی ذوق ابھر نہ سکے.( المنبر ۱ تا ۸ مارچ ۱۹۷۴ء) پھراسی جریدے نے اسلامی سربراہی کانفرنس کے اختتام پر لکھا کہ پہلے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ شاہ فیصل کا نفرنس کے موقع پر شاہی مسجد لاہور میں جمعہ پڑھائیں لیکن پھر ایک طبقہ کی طرف سے یہ مسئلہ اُٹھایا گیا کہ چونکہ شاہ فیصل وہابی عقیدہ کے ہیں اس لئے ان کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی.پھر اس مسئلہ پر مختلف لوگوں کی طرف سے تاریں دی گئیں.جب یہ چیز شاہ فیصل کے علم میں آئی تو انہوں نے
252 جمعہ پڑھانے سے انکار کر دیا.پھر اس جریدے نے احمدیوں کے خلاف یہ لکھ کر زہرا گلا کہ یہ سب کچھ احمدیوں اور کمیونسٹوں کی سازش کی وجہ سے ہوا ہے.(المنبر ۲۹ مارچ ۱۹۷۴ء) یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑتے.اگر شاہ فیصل اس وجہ سے شاہی مسجد میں نماز نہیں پڑھا سکے تو اس سے احمدیوں کا کیا تعلق.انہیں تو کوئی شاہی مسجد میں نماز پڑھنے بھی نہیں دیتا کجا یہ کہ وہ کسی بادشاہ کو وہاں پر نماز پڑھانے سے روکیں.یہ تلملاہٹ صرف اس بات تک محدود نہیں تھی کہ شاہ فیصل شاہی مسجد لاہور میں نماز جمعہ نہیں پڑھا سکے بلکہ یہ بھی لکھا جارہا تھا کہ یوگینڈا کے صدر امین نے اپنے اعلان کے مطابق اس کا نفرنس پر شاہ فیصل کو عالم اسلام کا خلیفہ بنانے کی تجویز رکھی تھی لیکن اس پر کما حقہ توجہ نہیں دی گئی.جیسا کہ المنبر نے لکھا.پچھلے سال سے یہ صدا سنائی دے رہی تھی کہ افریقہ کے مرد مجاہد جنرل عیدی امین حفظہ اللہ نے حج کے موقع پر ایک اخباری ملاقات میں یہ کہا تھا کہ عالم اسلام اپنے مسائل کا اگر کوئی حل چاہتا ہے تو اس کا آغاز اس بات سے ہوگا کہ عالم اسلام اپنا کوئی راہنما منتخب کرے اور پوری اسلامی دنیا کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہو اور اس کام کے اہل میری نظروں میں امام الحرمین ، خادم الحرمین پاسبانِ حرمین والی مملکت سعودی عرب جلالتہ الملک فیصل معظم بن عبد العزیز آل سعود ید اللہ و حفظہ کی شخصیت ہے کیونکہ ان کی مومنانہ بصیرت اور عمیق نظر پوری دنیا کے مسائل پر احاطہ کئے ہوئے ہے اور پھر جنرل عیدی امین نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ پاکستان میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا جانا چاہئے اور یہ کہ میں اس کا نفرنس میں مسلم علمائے دین کے سامنے یہ تجویز رکھوں گا.اس کے بعد انہوں نے کئی مرتبہ مختلف مواقع پر اس بات کا اظہار بھی کیا اور پھر اس کا نفرنس میں اور بہتر اور مفید تجاویز کے علاوہ اسے بھی پیش کیا گیا مگر ہمیں حیرت اور دکھ ہے کہ ان کی اس معقول بات پر کسی کو توجہ دینے کی توفیق نصیب نہ ہوئی اور یہ ممکن بھی کیسے تھا کہ جس کانفرنس پر یہودیوں ،کمیونسٹوں اور قادیانیوں کا سایہ اول تا آخر ہو کوئی ایسی بات کیونکر عمل
253 کا قالب اختیار کرسکتی ہے جو اسلامیانِ عالم کی بھلائی کی ہو.“ (المنبر ۲۹ مارچ ۱۹۷۴ ، صفحہ آخر ) اس رطب و یابس سے ظاہر ہے کہ جو بھی ہاتھ شاہ فیصل کو عالم اسلام کا خلیفہ بنانے کے لئے زور لگا رہے تھے انہیں ابھی اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی.اور وہ اس مقصد کے لئے ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے خلاف لوگوں کے ذہن میں زہر گھول رہے تھے تا کہ اس نفرت کو آڑ بنا کر اپنے مقاصد حاصل کئے جاسکیں.اور لوگوں کو یہ باور کرایا جا سکے کہ اگر عالم اسلام ایک خلیفہ کے ہاتھ پر جمع نہیں ہو پارہا تو یقیناً یہ قادیانیوں کی سازش ہے.یہ ایک دو جریدوں سے چند مثالیں دی گئی ہیں.جن کو پڑھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس سازش کا رخ کس طرف تھا اور اس کے پیچھے کیا مقاصد تھے.ہم نے اس اہم مرحلہ کے بارے میں دوسری طرف کا نقطہ نظر معلوم کرنے کی کوشش بھی کی.چنانچہ جب اس امر کا ذکر ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے انٹرویو کے دوران کیا اور ان سے سوال پوچھا کہ یہ کس طرح ہوا کہ اسلامی سربراہی کا نفرنس کے موقع پر جماعت احمدیہ کے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ یہ عزیز احمد یا ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے یہ جان کر کیا گیا تھا.میرا خیال ہے کہ وہ اسے روک نہیں سکتے تھے.چونکہ بھٹو صاحب پاکستان کی تاریخ کے ایک مضبوط وزیر اعظم سمجھے جاتے ہیں اس لئے ہمارے لئے یہ بات تعجب انگیز تھی.چنانچہ ہم نے پھر ان سے یہ سوال کیا ? They were helpless ( وہ مجبور تھے؟).اس پر مبشر حسن صاحب نے پھر واضح طور پر کہا دو.Yes, They were helpless ہاں وہ مجبور تھے ).اس پر میں نے دریافت کیا کہ وہ کون سے ہاتھ تھے؟ اس پر ان کا جواب تھا وہ خفیہ ہاتھ جن کا پتہ ہی نہیں چلتا.گورنمنٹ کو پتہ ہی نہیں چلا.“ اور پھر انہوں نے اس بات کا اعادہ ان الفاظ میں کیا P.M.knew he was helpless ( وزیر اعظم کو پتہ تھا کہ وہ مجبور ہے ).
254 اس کے بعد مبشر حسن صاحب نے کہا کہ انہوں نے اگست ۱۹۷۴ء میں وزیر اعظم بھٹو صاحب کو خط لکھا تھا جس میں ملک میں موجود مختلف حالات کا ذکر کر کے کہا تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کا نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں نکلے گا.بھٹو صاحب نے اس خط کا جواب نہیں دیا لیکن اس پر انہوں نے لکھا کہ جو کچھ مبشر نے کہا وہ سچ ہے اور پھر تین آدمیوں کو اس خط کی نقول بھجوا دیں.ایک اور بات کا ذکر کرنا ہوگا کہ بنگلہ دیش کے علاوہ چھ نئے ممالک پہلی مرتبہ اس کا نفرنس میں شامل تھے اور ان سب ممالک کا تعلق افریقہ سے تھا.اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان چھ میں سے تین ممالک یوگینڈا، گیمبیا اور گنی بساؤ تھے.بعد میں ان تین ممالک میں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں حکومتوں نے انتہائی اقدامات اُٹھائے.اس کا نفرنس میں ایک ہی غیر سرکاری تنظیم کا وفد شامل تھا اور یہ تنظیم رابطہ عالم اسلامی تھی.اور اس کے سیکریٹری جنرل قزاز صاحب اس کے وفد کی قیادت کر رہے تھے.صرف ڈیڑھ ماہ کے بعد اس تنظیم نے ایک کا نفرنس مکہ مکرمہ میں منعقد کی اور اس میں یہ قرار داد منظور کی گئی کہ مسلمان ملکوں میں جماعتِ احمدیہ کو غیر مسلم قرار دے دینا چاہئے.اور ان پر پابندیاں لگادینی چاہئیں.اور جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں جب آزاد کشمیر اسمبلی نے جماعت احمدیہ کے خلاف قرار داد منظور کی تو قزاز صاحب نے بھٹو صاحب کو مبارکباد کا پیغام بھجوایا تھا اور لکھا تھا کہ یہ قرارداد اسلامی ممالک کے لئے قابل تقلید ہے.اس کانفرنس پر کانفرنس کے سیکریٹری جنرل کے فرائض محمد حسن التہامی صاحب نے سنبھالے تھے.ان سے قبل یہ فرائض ملیشیا کے تنکو عبدالرحمن سرانجام دے رہے تھے.اور جب ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت احمدیہ کے خلاف قرار داد منظور کی تو اس سے چند روز قبل یہ صاحب پاکستان پہنچ گئے تھے اور اس قرارداد کے بعد فوراً ہی انہوں نے اس قرارداد کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ اب باقی اسلامی ممالک کو بھی اس قرار داد کی پیروی کرنی چاہیئے.رابطہ عالم اسلامی میں تیار ہونے والی سازش ۱۹۶۱ ء میں حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی او اس کا مرکزی دفتر بھی مکہ مکرمہ میں بنایا گیا.اس کے مقاصد یہ مقرر کئے گئے تھے.اسلام کا پیغام دنیا
255 بھر میں پھیلایا جائے.ایک بہتر سوسائٹی کے قیام کے لیے کوششیں کی جائیں، مسلم امہ میں تفرقہ دور کیا جائے.ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو عالم اسلام کی ایک لیگ قائم کرنے میں حائل ہیں.وغیرہ.لیکن عملاً اس تنظیم سے تفرقہ اور فساد پیدا کرنے کا کام لیا گیا.یہ تنظیم سعودی فرمانرواؤں کے زیر اثر کام کرتی ہے.لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کا نفرنس کے اختتام کے صرف ڈیڑھ ماہ کے بعد اس کا ایک اجلاس مکہ مکرمہ میں منعقد کیا گیا.اس میں مختلف مسلمان ممالک کے وفود نے شرکت کی.اس میں ایک سب کمیٹی میں جماعت احمدیہ کے متعلق بھی کئی تجاویز پیش کی گئیں.اس کمیٹی کا نام کمیٹی برائے Cults and Ideologies تھا.اس کے چیئر مین مکہ مکرمہ کی ام القری یونیورسٹی میں اسلامی قانون کے Associate پروفیسر مجاہد الصواف تھے.اس کمیٹی کے سپر د بہائیت ، فری میسن تنظیم صیہونیت اور جماعت احمدیہ کے متعلق تجاویز تیار کرنے کا کام تھا.اس کمیٹی میں سب سے زیادہ زور وشور سے بحث اس وقت ہوئی جب اجلاس میں جماعت احمدیہ کے متعلق تجاویز پر تبادلہ خیالات ہوا.اور اس بات پر اظہار تشویش کیا گیا کہ پاکستان کی بیوروکریسی ،ملٹری اور سیاست میں احمدیوں کا اثر و رسوخ بہت بڑھ گیا ہے.اور یہ ذکر بھی آیا کہ اگر احمدی غیر مسلم بن کر رہیں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ احمدی افریقہ اور دوسری جگہوں پر اپنے آپ کو عالم اسلام کی ایک اصلاحی تنظیم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور اس بات پر اظہار تشویش کیا گیا کہ قادیانیوں نے حیفا میں اسرائیلی سرپرستی میں اپنا مشن قائم کیا ہے اور اسے چلا رہے ہیں.( یہ تاریخی حقائق کے بالکل خلاف تھا.کہا بیر، حیفا میں جماعت اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے قائم تھی.اور دوسرے لاکھوں مسلمانوں کی طرح انہوں نے اس وقت بے انتہا تکالیف اٹھائی تھیں جب وہاں پر یہودی تسلط قائم کیا جا رہا تھا.اور اس وقت حیفا میں صرف احمدی ہی نہیں رہ رہے تھے بلکہ دوسرے بہت سے مسلمان بھی رہ رہے تھے.) بہر حال خوب جھوٹ بول کر مندوبین کو جماعت کے خلاف بھڑ کا یا گیا.تمام تگ ودو کے بعد جماعت احمدیہ کے متعلق تجاویز پیش کی گئیں.اور یہ تجویز کیا گیا کہ تمام عالم اسلام کو قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں سے مطلع کیا جائے کیونکہ قادیانی مسلمانوں کی سیکیورٹی کے لیے بالخصوص مشرق اوسط جیسے حساس علاقہ میں ان کے لیے سنگین خطرہ ہیں.کیونکہ قادیانی جہاد کو منسوخ سمجھتے ہیں اور ان کو
256 برطانوی استعمار نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کیا تھا.اور یہ لوگ صیہونیت اور برطانوی استعمار کو مضبوط کر رہے ہیں.اور قادیانی ان طریقوں سے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں.یہ اپنی عبادتگا ہیں تعمیر کر رہے ہیں جہاں سے یہ اپنے عقائد کی تبلیغ کر رہے ہیں.اور اپنی خلاف اسلام سرگرمیوں کو مضبوط کرنے کے لیے سکول اور یتیم خانے تعمیر کر رہے ہیں.اور قرآن کریم کے تحریف شدہ تراجم دنیا کی زبانوں میں شائع کر رہے ہیں.اور اس کام کے لیے انہیں اسلام کے دشمن مدد مہیا کر رہے ہیں.جماعت احمدیہ کے متعلق یہ فلمی منظر کشی کرنے کے بعد کمیٹی نے یہ تجاویز پیش کیں.۱) تمام اسلامی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ قادیانی معابد ،مدارس ، یتیم خانوں اور ودسرے تمام مقامات میں جہاں وہ اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہیں ان کا محاسبہ کریں ۲) ان کے پھیلائے ہوئے جال سے بچنے کے لیے اس گروہ کے کفر کا اعلان کیا جائے.۳) قادیانیوں سے مکمل عدم تعاون اور مکمل اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی بائیکاٹ کیا جائے.ان سے شادی سے اجتناب کیا جائے اور ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے.۴) کانفرنس تمام اسلامی ملکوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے اور ان کی املاک کو مسلمان تنظیموں کے حوالے کیا جائے.اور قادیانیوں کو سرکاری ملازمتوں میں نہ لیا جائے.۵) قادیانیوں کے شائع کیے گئے تحریف شدہ تراجم قرآن مجید کی نقول شائع کی جائیں.اور ان تراجم کی اشاعت پر پابندی لگائی جائے.جب یہ تجاویز کمیٹی کے سامنے آئیں تو مختلف تنظیموں کے مندوبین نے ان سے اتفاق کیا اور اس قرارداد پر دستخط کر دیے.پاکستان کے سیکریٹری اوقاف ٹی ایچ ہاشمی صاحب نے بھی اس قرار داد پر دستخط کئے لیکن اتنا اختلاف کیا کہ انہیں ان تجاویز کے مذہبی حصہ سے اتفاق ہے لیکن انہیں اس تجویز سے اتفاق نہیں کہ قادیانیوں کو ملازمتوں میں لینے پر پابندی لگائی جائے.اس کی جگہ انہیں غیر مسلم قرار دینا کافی ہوگا.اس پر کمیٹی کے صدر جناب ڈاکٹر مجاہد الصواف نے کہا کہ علماء کے فتوے کے پیش نظر سعودی حکومت نے ایک شاہی فرمان کے ذریعہ اس بات پر پابندی لگادی ہے کہ قادیانی سعودی عرب میں داخل ہوں یا انہیں یہاں پر ملازمت دی جائے.اس طرح یہ قرار داد منظور کر لی گئی.
257 اب یہ صورت حال ظاہر و باہر تھی کہ جماعت احمدیہ کے خلاف ایک ایسی سازش تیار کی جارہی ہے جو کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہوگی بلکہ اس کا جال بہت سے ممالک میں پھیلا ہوگا.اور اب پاکستانی حکومت بھی اس بات کا تہیہ کئے بیٹھی ہے کہ آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور اس طرح ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جائے.اور اس قرارداد کے متن سے یہ بات بالکل عیاں تھی کہ مقصد صرف یہ نہیں کہ دستوری طور پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے بلکہ جو بھی یہ سازش کر رہا تھا وہ احمدیوں کی تبلیغ سے خائف تھا اور اس کی یہ کوشش تھی کہ جماعت کی تبلیغ کو ہر قیمت پر روکا جائے.اور یہ ارادے واضح طور پر نظر آرہے تھے کہ احمدیوں کو ان کے بنیادی کے حقوق سے محروم کرکےاپنے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جائے.یہاں یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے اس قرارداد پر پاکستان کے ایک فیڈرل سیکریٹری نے دستخط کئے تھے جب کہ ابھی ملک میں احمدیوں کے خلاف فسادات کا نام و نشان بھی نہیں تھا.جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک فیڈرل سیکر یٹری حکومت کی رضامندی کے بغیر ایسی قرار داد پر دستخط کر دے تو ان کا جواب تھا کہ ہاں یہ گورنمنٹ سے پوچھے بغیر نہیں ہوسکتا.جب ان سے پھر یہ سوال کیا گیا کہ اس کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ یہ پلان فسادات کے شروع ہونے سے پہلے ہی بن چکا تھا کہ احمدیوں کو پاکستان میں غیر مسلم قرار دیا جائے.اس کے جواب میں انہوں نے کہا.پلان بن نہیں چکا تھا.بس جس حد تک ہوا، اُس حد تک ہوا.اب اس کی جو "That is a different matter - Execution لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ ایک فیڈرل سیکریٹری ایسی قرارداد پر ملک سے باہر جا کر دستخط کر آتا ہے کہ جس پر عمل کے نتیجہ میں ملک کی آبادی کے ایک حصہ کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا عمل شروع ہو جانا تھا، لازمی بات ہے کہ ملک کی کا بینہ کوکم از کم اس بات کا نوٹس تو لینا چاہئے تھا.جب ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا کا بینہ میں اس قرارداد پر کوئی بات ہوئی تھی تو ان کا جواب تھا کہ نہیں کا بینہ میں اس پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی.یہ امر قابل ذکر ہے کہ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ میں سعودی حکومت کی سر پرستی میں کام کرتی ہے
258 اور اس کو مالی وسائل بھی سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے مہیا کئے جاتے ہیں.اور جب کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کے ایک وفاقی سیکریٹری نے صرف اس بات کی مخالفت کی کہ احمدیوں کی ملازمتوں پر پابندی لگانا مناسب نہ ہوگا تو سعودی عرب کے مندوب ڈاکٹر مجاہد الصواف نے برملا کہا کہ سعودی عرب میں تو علماء کے فتوے کی بنا پر شاہی فرمان جاری ہو چکا ہے کہ قادیانیوں کو سعودی عرب میں ملازمتیں نہ دی جائیں.اور ساری الزام تراشیوں کا مرکز یہ تھا کہ قادیانیوں کو برطانوی استعمار نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کیا اور استعمال کیا اور دوسرا بڑا الزام یہ لگایا جا رہا تھا کہ قادیانی جہاد ( یعنی جہاد بال ) کے قائل نہیں ہیں.اس پس منظر میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ جن فرمانرواؤں کی طرف سے یہ الزامات لگائے جارہے تھے، تاریخ کیا بتاتی ہے کہ ان کے تاج برطانیہ کے ساتھ کیسے تعلقات رہے اور انہوں نے گزشتہ ایک صدی میں کس کس سے جہاد اور قتال کیا.اس کے لیے ہمیں نوے برس پہلے کی تاریخ کا مختصر سا جائزہ لینا پڑے گا.پہلی جنگ عظیم کے دوران حجاز سمیت موجودہ سعودی عرب کا علاقہ بھی سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے.اور سلطنت عثمانیہ جرمنی کا ساتھ دے رہی تھی.اس سلطنت کو کمزور کرنے کے لیے برطانیہ اور اس کے ساتھی کوششیں کر رہے تھے کہ کسی طرح عرب ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے خلاف کھڑے ہو جائیں.اس وقت نجد کے علاقے پر سعودی خاندان اور حجاز پر شریف مکہ کی حکومت تھی.برطانیہ کے ایجنٹوں نے شریف مکہ سے تو روابط بڑھائے اور اپنے ایجنٹ لارنس کو استعمال کر کے شریف مکہ سے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرائی.لیکن اس کے ساتھ ان کے ایجنٹ سعودی خاندان سے بھی مستقل رابطے رکھ رہے تھے.سب سے پہلے یہ رابطہ کیپٹن ولیم شیکسپیئر کے ذریعہ ہوا جو کویت میں برطانیہ کے پولیٹکل ایجنٹ تھے انہوں نے ۱۹۱۰ء میں نجد کے فرمانروا عبد العزیز بن عبد الرحمن ابن سعود سے ملاقات کی اور دونوں میں دوستی اور ملاقاتوں کا آغاز ہوا.ولیم شیکسپیئر نے ابن سعود کو برطانیہ کی حمایت کے لیے آمادہ کیا.اور برطانیہ کو ان کی مدد کی ضرورت اس لیے تھی تا کہ انہیں دوسری مسلمان حکومتوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا جا سکے.۱۹۱۵ ء میں سعودی خاندان اور سلطنت برطانیہ کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس میں سعودی ریاست کو سلطنت برطانیہ کی ایک Protectorate کی حیثیت حاصل ہوگئی.برطانیہ کی نمائندگی پرسی کوکس (Percy Cox) کر رہے تھے.اس معاہدے کی اول
259 شرط میں درج تھا کہ سعودی فرمانروا اپنا جانشین نامزد کریں گے لیکن کسی ایسے شخص کو جانشین نامزد نہیں کیا جائے گا جو کسی طرح بھی برطانوی سلطنت کی مخالفت کرتا ہو.اور معاہدے میں یہ درج تھا کہ اگر سعودی ریاست پر کسی نے حملہ کیا تو برطانیہ جس حد تک اور جس طرح مناسب سمجھے گا ان کی مدد کرے گا.ابن سعود کا خاندان کسی اور قوم یا طاقت کے ساتھ کوئی خط و کتابت یا معاہدہ نہیں کرے گا.اور اگر کوئی اور حکومت ان سے رابطہ کرے گی تو اس کی اطلاع فوری طور پر برطانیہ کو دی جائے گی.اور سعودی خاندان اپنے علاقے میں کسی اور ملک کو مراعات نہیں دے گا.اس معاہدے کا فائدہ یہ ہوا کہ ابن سعود کے خاندان کو سلطنت برطانیہ سے پانچ ہزار پاؤنڈ کی مدد اور ہتھیار ملنے لگے اور پھر برطانوی سلطنت کی خواہش کے مطابق سعودی خاندان نے اپنے ہمسائے میں ابن رشید کی حکومت سے جنگ شروع کی اور انہیں شکست دی.جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں اس وقت حجاز پر جس میں مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ بھی ہیں، شریف مکہ کی حکومت تھی.ابن سعود سمجھتے تھے کہ وہ اس علاقہ پر قبضہ کر سکتے ہیں لیکن شریف مکہ کو برطانوی حکومت کی حمایت حاصل تھی اور وہ برطانوی حکومت سے کثیر مالی مدد بھی پاتے تھے.ابن سعود نے برطانوی حکام کے سامنے اس بات کا اظہار بھی کیا تھا.لیکن ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے شریف مکہ اور برطانیہ کے تعلقات پر برا اثر ڈالا.شریف مکہ فلسطین میں یہودیوں کی بڑھتی ہوئی آمد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور وہ مستقبل میں بالفور اعلانیہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کو دیکھ رہے تھے.پہلی جنگ عظیم کے بعد ۱۹۲۱ء میں مشہور برطانوی ایجنٹ لارنس ایک معاہدے کا مسودہ لے کر شریف مکہ کے پاس آئے.اس میں شریف مکہ کے لیے بہت سی مالی اور فوجی مدد کا عہد تھا اور انہیں اس مدد کی اشد ضرورت بھی تھی لیکن ایک شرط یہ بھی تھی کہ شریف مکہ فلسطین میں برطانوی مینڈیٹ کو تسلیم کر لیں.اس کا نتیجہ یہ نظر آ رہا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا عمل دخل بڑھتا جائے گا.شریف مکہ نے اس بات پر اصرار کیا کہ برطانیہ فلسطین کے بارے میں اپنے وہ وعدے پورے کرے جو اس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران کیے تھے.لارنس نے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ فلسطین کے مسئلہ سے ان کا تعلق نہیں.لیکن انہوں نے اس بات کو گوارہ نہ کیا کہ اس طرز پر فلسطین کے مفادات کا سودا کیا جائے.ان کے اس اصرار نے انگریز حکومت کو ان کے خلاف کر دیا.اب عبد
260 العزیز محسوس کرتے تھے کہ ان کے لیے میدان خالی ہے.اب وہ حجاز پر قبضہ کر کے وہ اپنی سلطنت کو مزید وسیع کر سکتے تھے.۱۹۲۴ء میں انہوں نے حجاز پر حملہ کر دیا.جب طائف پر قبضہ ہوا تو سعودی افواج نے کافی قتل وغارت کی.شریف مکہ نے مدد کے لیے بار بار برطانوی سلطنت سے اپیل کی لیکن سب بے سود.اس اختلاف کے بعد اب برطانوی حکومت ان کی مدد کے لیے تیار نہیں تھی.ان کی افواج عبد العزیز کی افواج کے سامنے شکست کھاتی گئیں.اس طرح موجودہ سعودی عرب وجود میں آیا.اس ابتدائی تاریخ کے جائزے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شروع ہی سے سعودی فرمانرواؤں اور برطانوی حکومت کے قریبی تعلقات تھے.انہوں نے اپنی ریاست کے لیے یہ درجہ قبول کیا تھا کہ اسے برطانوی حکومت کی Protectorate کا درجہ حاصل ہو.اور یہاں تک معاہدہ کیا کہ کسی ایسے شخص کو ولی عہد نہیں مقرر کیا جائے گا جو برطانوی حکومت کے خلاف ہو.اورسعودی حکومت کسی اور حکومت سے خط و کتابت تک نہیں کرے گی اور کسی اور ملک کو اپنی زمین پر مراعات نہیں دے گی.اور وہ سالہا سال برطانوی حکومت سے مالی مدد اور اسلحہ لیتے رہے اور اس کے ساتھ انہوں نے کبھی بھی کسی غیر مسلم حکومت سے کوئی جنگ یا جہاد نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مسلمان حکومتوں سے جنگ کرتے رہے اور ایسا برطانوی حکومت کے منشا کو پورا کرنے کے لیے بھی کیا گیا.اور جب حجاز کے حکمران نے اس وجہ سے برطانیہ سے معاہدہ کرنے سے انکار کیا کہ اس کی شرائط میں برطانیہ کا فلسطین پر مینڈیٹ تسلیم کرنا پڑتا تھا اور اس سے لازماً یہودیوں کو اس بات کا موقع مل جاتا تھا کہ وہ فلسطین میں قدم جمائیں.اور بعد میں عملاً ایسا ہی ہوا.تو عبد العزیز نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شریف مکہ کی ریاست پر حملہ کیا اور ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا.اس کے بعد کی تاریخ بھی اس ابتدائی تاریخ سے مختلف نہیں.لیکن اس معروف تاریخ کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں The Brirtian and Saudia Arabia 1925-1939, The Imperial Oasis by Clive Leatherdale 372 page The Kingdom by Robert Lacey, 168.188 یہ امر قابل حیرت ہے کہ اس تاریخی پس منظر کے باوجود سعودی حکومت کا اصرار تھا کہ قادیانیوں کو برطانوی استعمار نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کیا تھا اور قادیانی برطانیہ کے مقاصد کے لیے کام
261 کرتے ہیں اور جہاد کے منکر ہیں.اس تاریخی پس منظر کے ساتھ تو ان کی طرف سے یہ الزامات مضحکہ خیز لگتے ہیں.حقیقت تو یہ ہے کہ خود الزام لگانے والی حکومت کو برطانوی سلطنت نے کھڑا کیا تھا اور حجاز پر قبضہ کرنے کے بعد سعودی حکومت قانونی طور پر سلطنت برطانیہ کی Protectorate کی حیثیت سے چلتی رہی تھی اور ان کی مدد کے ساتھ اور ان کی خواہش کے مطابق مسلمانوں ہی سے جنگ کرتے رہے تھے.ایک دوسری بات قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ رابطہ عالم اسلامی میں بحث کے دوران سعودی مندوب مجاہد الصواف نے جو کہ سب کمیٹی کی صدارت بھی کر رہے تھے یہ دلیل بھی پیش کی کہ سعودی عرب کے علماء نے تو یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ قادیانیوں کو سرکاری ملازمتوں میں نہ لیا جائے اور اس کی پیروی میں سعودی حکومت نے فرمان بھی جاری کر دیا ہے.تو اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایسا تو ہونا ہی چاہئے تھا.کیونکہ جماعت احمدیہ کے قیام سے صدیوں پہلے ہی بہت سے صلحاء امت نے یہ پیشگوئی کر رکھی تھی کہ جب مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا تو علماء ہرگز ان کی تائید نہیں کریں گے بلکہ اس کے سخت مخالف ہوں گے.اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت محی الدین ابن عربی علماء کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: پس وہ اپنے کینوں کو اکٹھا کرتے ہیں.اور وہ لوگوں کی طرف جھکی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں اور اپنے ہونٹوں کو ذکر کرتے ہوئے ہلاتے ہیں تا کہ دیکھنے والا یہ سمجھے کہ وہ ذکر کر رہے ہیں.اور وہ عجمی زبان میں کلام کرتے اور استہزاء کرتے ہیں.اور نفس کی رعونت ان پر غالب آجاتی ہے.اور ان کے دل بھیڑیوں کے دلوں کی طرح ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی طرف نہیں دیکھے گا.اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی ضرورت نہیں.وہ لوگوں کے لئے بھیڑ کی جلد پہنتے ہیں وہ ظاہری ست اور پوشیدہ دشمن ہیں.پس اللہ ان کو واپس لوٹا دے گا.اور ان کو ان کی پیشانیوں کے بالوں کی طرف سے پکڑ کر اس کی طرف لے جائے گا جس میں ان کی خوش بختی ہے.اور جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو اس کے شدید ترین دشمن اس زمانہ کے علماء ہوں گے.ان کے پاس کوئی حکومت باقی نہیں رہے گی اور نہ ہی انہیں عام لوگوں پر کوئی فضیلت
262 ہوگی.اور نہ ہی ان کے پاس فیصلہ کرنے کا علم تھوڑا ہی ہوگا.اور اس امام کے وجود سے تمام عالم سے اختلافات اُٹھا دئیے جائیں گے.اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ اس کے ہاتھ میں تلوار ہوگی.فقہاء اس کے قتل کا فتویٰ دیں گے اور لیکن خدا تعالیٰ اس کو تلوار کے ساتھ غلبہ نصیب کرے گا.الفتوحات مکیہ مصنفہ حضرت محی الدین ابن عربی، المجلد الثالث، ناشر دار صادر بیروت صفحه ۳۳۶) (جماعت احمدیہ کے مسلک کے مطابق تلوار سے مراد خدا تعالیٰ کے جلالی نشانوں اور برہانِ قاطعہ کی تلوار ہی ہوسکتی ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے الہامات اور رویا سے ظاہر ہوتا ہے.) حضرت مجددالف ثانی " تحریر فرماتے ہیں: پس ہمارے پیغمبر ﷺ کی سنت آپ سے پہلی سنتوں کی ناسخ ہے.اور حضرت عیسی نزول کے بعد اسی شریعت کی متابعت کریں گے.کیونکہ اس شریعت کا نسخ جائز نہیں ہے.قریب ہوگا کہ علماء ظواہر اس کے اجتہادات کا بار یکی اور پوشیدگی کی وجہ سے انکار کریں اور کتاب وسنت کا مخالف سمجھیں.“ ( مکتوبات امام ربانی، حضرت مجددالف ثانی ، حصہ ششم دفتر دویم، باہتمام حافظ محمد رؤف مجددی ص ۱۳ و ۱۴) شیعہ کتب میں بھی یہی بیان ہوتا آیا ہے کہ علماء ظاہر کا طبقہ مہدی علیہ السلام کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگا.چنانچہ الصراط السوى فى احوال المهدی میں حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کے متعلق لکھا ہے: ” جب تک ان میں حالت منتظرہ پہلے سے پیدا نہ ہو گی ہرگز اطاعت و اتباع میں سبقت نہ کر سکیں گے.بلکہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے.بلکہ مثل شیطان شک وشبہ کر کے اپنے قیاسات باطل رکیکہ سے اس کی حجت کا انکار کریں گے.بلکہ اس کے مقابلہ کو تیار اور عداوت اور دشمنی پر آمادہ ہو جائیں گے اور ہر طرح سے اس کو اور اس کے معتقدین کو اذیت پہنچانے کی کوشش کریں گے.علماء اس کے قتل کے فتوے دیں گے.اور بعض اہل دول اس
263 کے قتل کے لیے فوجیں بھیجیں گے اور یہ تمام نام کے مسلمان ہی ہوں گے.“ الصراط السویٰ فی احوال المہدی مصنفہ مولوی سید محمد سبطین السرسوی، ناشر مینجر البرہان بکڈ پولا ہور ، صفحہ ۵۰۷) اس دور میں اہل حدیث کے عالم نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب آثار القیامہ فی نجح الکرامہ میں تحریر کرتے ہیں.” جب مہدی علیہ السلام احیاء سنت اور امانت بدعت پر مقاتلہ فرمائیں گے تو علماء وقت جو کہ فقہاء کی تقلید کرتے ہیں اور اپنے بزرگوں اور آباء واجداد کی پیروی کے خوگر ہوں گے کہیں گے کہ یہ شخص ہمارے دین وملت پر خانہ برانداز ہے اور مخالفت کریں گے اور اپنی عادت کے موافق اس کی تکفیر تضلیل کا فیصلہ کریں گے.“ آثار القيامة في حج الكرامہ مصنفہ نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہان بھو پال صفحہ ۳۶۳) تو ان مختلف فرقوں کے لٹریچر سے یہی ثابت ہے کہ ان کا ہمیشہ سے یہی نظریہ رہا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کے وقت اس وقت کے علماء ان کی مخالفت بلکہ قتل پر کمر بستہ ہوں گے.ہماری تحقیق کے مطابق تو کبھی کسی فرقہ نے اس بات کا اعلان کیا ہی نہیں کہ جب امام مہدی کا ظہور ہوگا تو اس وقت کے علماء ان کی تائید اور حمایت کریں گے.بلکہ مختلف ائمہ احادیث نے جب قرب قیامت کی علامات کے بارے میں احادیث جمع کیں تو ان میں اس وقت کے نام نہاد علماء کے بارے جس قسم کی احادیث بیان ہوئی ہیں ان کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں.چنانچہ کنز العمال فی سنن الا قوال والافعال میں کتاب القیامۃ میں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے تَكُونُ فِي أُمَّتَى قَزَعَةٌ فَيَصِيرُ النَّاسُ إِلَى عُلَمَاءِ هِمْ فَإِذَا هُمْ قِرَدَةً وَ خَنَازِيرُ یعنی میری امت پر ایسا وقت آئے گا کہ لوگ اپنے علماء کی طرف جائیں گے اور دیکھیں
264 گے کہ ان کی جگہ بند ر اور سور بیٹھے ہوں گے.یہ دوا حادیث بھی پیش ہیں (کنز العمال في سنن الاقوال والا فعال تالیف علامہ علا والدين على المنتقى الجزء الثالث عشر، ناشر دار الكتب العلمیہ، بیروت لبنان - ص ۱۲۴) عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی علم کو اس طرح نہیں اُٹھائے گا کہ بندوں سے اسے نکال لے لیکن اسے اُٹھائے گا علماء کے اُٹھانے کے ساتھ یہاں تک کہ جب کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے ان سے مسائل پوچھیں گے.وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے.خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے.“ و, ( متفق علیہ.مشکوۃ شریف مترجم ، ناشر مکتبہ رحمانیہ اردو بازار.لاہور ص ۶۵) حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قریب ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے نہیں باقی رہے گا اسلام مگر نام اس کا اور نہ باقی رہے گا قرآن مگر رسم اس کی.ان کی مسجد میں آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی.ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.ان سے فتنہ نکلے گا اور ان میں ہی لوٹ جائے گا.رواه البیھقی فی شعب الایمان - مشکوۃ شریف مترجم، جلد اول، ناشر مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور ص ۷۶) جیسا کہ پہلے ہم ذکر کر چکے ہیں پاکستان کی طرف سے اوقاف کے فیڈرل سیکریٹری تجبل ہاشمی صاحب نے رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد پر دستخط کئے تھے.اور ہم نے اس کتاب کی تالیف کے دوران ان کا انٹرویو بھی لیا.اور جب ان سے اس بابت یہ سوال کیا گیا تو ان کا کہنا یہ تھا: ” میرے لحاظ سے کسی کو کہ دینا کہ یہ مسلمان ہے یا نہیں مسلمان.یہ میں سمجھتا ہوں.میں تو کسی کو نہیں کہہ سکتا کہ وہ میرے سے بہتر مسلمان ہے یا نہیں مسلمان ہے.“ پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ” کوئی کسی کو نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسلمان ہے کہ نہیں ہے
265 اس کے باوجود یہ امر قابل توجہ ہے کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کو حکومت نے نہیں کہا تھا کہ وہ اس قرار داد پر دستخط کریں.اس کے باوجود جبکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ کسی شخص کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ یہ کہے کہ دوسرا شخص مسلمان ہے یا نہیں پھر بھی انہوں نے اس قرار داد پر دستخط کر دیئے.اور اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رابطہ عالم اسلامی کی اور اس کی قرار دادوں کی کوئی اہمیت بھی نہیں تھی پھر بھی انہوں نے پاکستان کے داخلی معاملہ پر بیرونِ ملک جا کر اس بحث میں حصہ لیا اور ایک ایسی قرار داد پر دستخط بھی کر دیئے جس کے مطابق پاکستان کی آبادی کے ایک حصہ کا اقتصادی اور معاشی بائیکاٹ بھی کیا جانا تھا.البتہ ان کا یہ کہنا تھا کہ سعودی حکومت کے پاس پیسہ تھا اور وہ اس کے بل بوتے پر ایسی کا نفرنسیں کراتے تھے یا کتابیں لکھوا کر اور انہیں خرید کر یا پھر ویسے ہی علماء کی مدد بھی کرتے تھے.پھر ان سے دریافت کیا گیا کہ اس کمیٹی میں احمدیوں پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ وہ جہاد کے قائل نہیں.اس پر ان کا جواب یہ تھا کہ بھائی جہاد کسے کہتے ہیں.آج تک کسی نے جہاد کی Definition کی ہے.اگر جہاد کا مطلب یہی ہے کہ تلوار اٹھانا تو وہ کن حالات میں اُٹھائی جائے.جہاد کے تو اور بھی بڑے مطلب ہیں.جب ان سے پوچھا گیا کہ وہاں کون سب سے زیادہ اس قرارداد کو دلچسپی لے رہا تھا تو ان کا جواب تھا کہ سعودی سب سے زیادہ اس قرار داد کو منظور کرانے میں دلچسپی لے رہے تھے.پھر رابطہ کے اس اجلاس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ اس وقت احمدی پاکستان کی سول سروس میں اور ملٹری میں بہت نمایاں پوزیشن حاصل کرتے جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت احمدی ایسی نمایاں پوزیشن پر موجود ہی نہیں تھے.جب ان سے کہا گیا کہ اس وقت تو احمدی ایسی کسی نمایاں پوزیشن پر موجود ہی نہیں تھے.تو ان کا بے ساختہ جواب یہ تھا کہ ایم ایم احمد تو تھے.پہلی بات تو یہ ہے کہ ایم ایم احمد اس قرار داد کے وقت پاکستان میں موجود نہیں تھے بلکہ ورلڈ بینک میں جاچکے تھے.دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی احمدی اپنی صلاحیت کی بنا پر کوئی پوزیشن حاصل کرتا ہے تو یہ اس کا حق ہے.اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے.اب سابق وفاقی وزیر بشر حسن صاحب کا یہ کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک فیڈرل سیکریٹری حکومت کی مرضی کے خلاف ایسی قرارداد پر دستخط کر آئے اور تجمل ہاشمی صاحب کا یہ کہنا تھا کہ حکومت نے انہیں نہیں کہا تھا کہ اس قرارداد پر دستخط کرو.اب پڑھنے والے خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سا
266 جواب حقیقت کے قریب تر ہو سکتا ہے.جماعت کے مخالفین کی طرف سے رابطہ عالم اسلامی کی اس قرارداد کا حوالہ بار بار دیا گیا ہے.۱۹۷۴ء میں جب جماعت کے خلاف قرار دادیں پیش کی گئیں تو بھی اس فیصلہ کو امت مسلمہ کے مشترکہ فیصلہ کے طور پر پیش کیا گیا.اور اس کے بعد بھی اب تک ہر سطح پر اس قرارداد کا حوالہ دیا جاتا ہے.اور اس قرارداد پر دستخط کرنے والا پاکستانی مندوب خود اقرار کرتا ہے کہ اس قرارداد کے مندرجات سے تو مجھے اتفاق ہی نہیں تھا.میں نے تو ویسے ہی اس پر دستخط کر دیے تھے.اس وقت سعودی حکومت کے پاس مدد دینے کے لئے پیسے تھے اور اس وقت وہ مختلف ذرائع سے مدد کیا کرتے تھے.اب پڑھنے والے خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس قرارداد کی اصل حقیقت کیا ہے.اس باب کے آخر میں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ اس تنظیم رابطہ عالم اسلامی کا آغاز کیسے ہوا اور اس کا بالواسطہ طور پر جماعت احمدیہ کی تاریخ سے کیا تعلق تھا ؟ موتمر عالم اسلامی کا پہلا اجلاس ۱۹۲۶ء میں ہوا.ایک سال قبل ہی سلطان عبد العزیز ابن سعود نے جو کہ پہلے صرف نجد پر حکمران تھے ، حجاز پر قبضہ کیا تھا.اس سے قبل حجاز پر شریف مکہ کیق حکمرانی تھی.سلطان عبدالعزیز ابن سعود وہابی مسلک سے تعلق رکھتے تھے.جب حجاز پر ان کا قبضہ ہوا تو پوری دنیا کی طرح ہندوستان میں یہ خبریں پہنچیں کہ حجاز میں ان کے حملہ کے نتیجہ میں بہت خون ریزی کی گئی ہے اور صحابہ کی بہت سے قبروں کے نشانات اور بعض مزاروں پر سے گنبدوں کو منہدم کیا گیا ہے کیونکہ وہابی مسلک کے تحت ان چیزوں کو بدعت سمجھا جاتا ہے.ان خبروں نے ہندوستان میں بھی بے چینی کی لہر پیدا کر دی.لیکن عبدالعزیز ابن سعود اوران کے حامیوں کی طرف سے ان خبروں کو مبالغہ آمیز قرار دیا گیا.مولوی شبیر عثمانی صاحب جو جماعتِ احمدیہ کے اشد ترین مخالفین میں سے تھے ان کی سوانح حیات حیات عثمانی میں لکھا ہے: لیکن ابن سعود حنبلی مذہب کے تھے.عبد الوہاب نجدی کے ہم مشرب تھے کہ وہ بھی حنبلی تھا، انہوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی خدمت کا چارج لیتے ہی تاثر حجاز کو منہدم کرا دیا.صحابہ کے تمام پختہ مزارات کو پیوست زمین کر دیا، قبروں کا نام ونشان نہ چھوڑا.البتہ کچی قبریں نشانی کے طور پر رہنے دیں.ترکوں نے تقریباً تمام متبرک اور محترم شخصیتوں کی قبروں پر قبے بنوا دئے تھے ، اور ان پر ان کے نام بھی کندہ کرا دئے تھے لیکن سب کو
267 صاف کرا دیا گیا.جنگ احد بالخصوص امیر حمزہ رضی اللہ عنہم کی قبریں ہموار حالت میں ہیں جو میں نے اپنی آنکھوں سے ۱۹۶۵ء میں دیکھی ہیں.اب چاروں طرف صرف پتھروں کے ٹکڑوں رکھے ہوئے ہیں.جنت البقیع میں بھی مزارات کا یہی حال ہے.ان کا نظریہ یہ تھا کہ اسلام کے فرزند یہاں آ کر قبروں کو سجدہ کرتے ہیں.لہذا ان ماثر کو ہی اڑا دیا.ایسا کرنے سے دنیائے اسلام میں ہیجان پھیل گیا اور مشرق سے لے کر مغرب تک اضطراب اور جوش و غضب کی لہر دوڑ گئی.احتجاج کیا گیا.جس کے نتیجے میں سلطان ابن سعود نے ممالک اسلامیہ سے تبادلہ خیالات کے لئے ایک مؤتمر ( اجتماع ) منعقد کی.جس میں ہندوستان ، کابل، مصر، شام، حجاز ، روس وغیرہ کے علماء کو دعوت دی گئی.“ (حیات عثمانی، مصنفہ پروفیسرمحمد انوارالحسن شیر کوئی، ناشر مکتبہ دارالعلوم کراچی ص ۲۳۷) ان حالات میں خلافت کمیٹی کی طرف سے جو تار سلطان ابن سعود کو بھجوایا گیا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ حجاز کے متعلق معاملات کے بارے میں ایک عالمی موتمر اسلامی منعقد کی جائے اس کے متعلق خود مولانامحمد علی جو ہر تحریر کرتے ہیں کہ اس کے جواب میں سلطان ابن سعود کا تار ملا کہ آپ کا تار ملا.آپ کے اور مسلمانان ہند کے صحیح خیالات کا شکریہ...آخری فیصلہ تمام دنیائے اسلام کے ہاتھ میں ہے.“ ( مولا نا محمد علی آب بیتی اور فکری مقالات مرتبہ سید شاه محمد قادری ناشر تخلیقات ص۲۲۸) مئی ۱۹۲۶ء میں ہندوستان سے ایک وفد مکہ مکرمہ روانہ ہوا تا کہ وہاں پر سلطان عبد العزیز ابن سعود کی صدارت میں منعقد ہونے والی موتمر عالم اسلامی میں شرکت کر سکے.اس وفد کی صدارت سید سلمان ندوی کر رہے تھے اور اس کے ممبران میں مولانا محمد علی جوہر ،مولانا شوکت علی صاحب، مولوی شبیر عثمانی مفتی کفایت اللہ، عبد الحلیم ، احمد سعید ، شعیب قریشی ،محمد عرفان ، ظفر علی خان صاحب وغیرہ شامل تھے.یہ وفد ہندوستان سے روانہ ہوا اور حجاز پہنچا.بہت سے لوگ جن میں مولا نا محمد علی جو ہر بھی شامل تھے یہ امید رکھتے تھے کہ ابن سعود نے حجاز پر قبضہ تو کر لیا ہے لیکن وہ اس مقدس خطے اپنی موروثی بادشاہت قائم کرنے کی بجائے یہاں پر تمام عالم اسلام کے مشورے سے ایک علیحدہ نظام حکومت قائم کریں گے اور سلطان عبد العزیز ابن سعود نے اپنی ایک تار میں بھی اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ حجاز کے
268 خطے میں تمام عالم اسلام کے مشورے سے ہی ایک نظام حکومت قائم کیا جائے گا.لیکن وہاں پہنچ کر جو آثار دیکھے تو یہ سب امید میں دم توڑنے لگیں.سلطان عبد العزیز ابن سعود بھی حجاز پر اپنی موروثی ملوکیت قائم کر رہے تھے.چنانچہ وہاں پہنچ کر کیا ہوا اس کے متعلق رئیس احمد جعفری اپنی کتاب ”سیرت محمد علی میں تحریر کرتے ہیں : ” جب محمد علی آمادہ ہوئے تو یہ تجویز ہوئی کہ ایک وفد بھی خلافت کمیٹی کی طرف سے حجاز بھیجا جائے وہ موتمر اسلام میں شرکت کرے اور خلافت کمیٹی کا نظریہ پیش کرے اور سلطان ابن سعود کو ان کے مواعید یاد دلائے.مولانا سید سلمان ندوی صدر وفد مقرر ہوئے.مسٹر شعیب قریشی سیکریٹری اور علی برادران ممبر، اس طرح یہ وفد موتمر میں شرکت کے لئے حجاز مقدس روانہ ہو گیا.محمد علی کی صحت یہیں سے خراب تھی ، وہاں پہنچے تو آب و ہوا کی نا موافقت کی وجہ سے علیل ہو گئے ، اور بائیں حصہ جسم پر خفیف سا فالج کا حملہ بھی ہوالیکن وہ ان چیزوں کو خاطر میں نہیں لائے اور اپنا کام برابر پورے استقلال سے جاری رکھا.موتمر میں عالم اسلام کے اکثر نمائندے شریک ہوئے تھے،خود سلطان ابن سعود نے موتمر کا افتتاح کیا تھا.اکثر نمائندے جلالتہ الملک کے جلال و جبروت سے متاثر و مرعوب تھے لیکن محمد علی کا ایک حق گو وجود ایسا تھا خدم و حشم ، جاہ و جلال، عظمت و جبروت کسی چیز سے بھی متاثر نہیں ہوا.اس نے وہیں موتمر میں سلطان ابن سعود سے پورے آزادانہ لہجہ میں تخاطب کیا کہ یہ ملوکیت کیسی ؟ اسلام میں تو شخصیت کی بیخ کنی کی گئی.شوری اور جمہوریت کو تفوق حاصل ہے.تم کتاب وسنت کے تمسک کے مدعی ہو ، پھر یہ قیصر و کسری کی پیروی کیوں؟ محمد علی کے اس آوازہ حق نے تمام لوگوں کو چونکا دیا اور یہ احساس پیدا کر دیا کہ ابھی عالم اسلام حق گو اور حق پرست شخصیتوں سے خالی نہیں ہے.گو آج صحابہ کرام کا وجود گرامی ہمارے درمیان نہیں، پھر بھی ایسی ہستیاں ابھی موجود ہیں جو حق کے لئے سارے عالم سلام سے دشمنی مول لے سکتی ہیں اور کسی شاہ وشہر یار کو خاطر میں نہیں لاتیں.....سب سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ خلافت کمیٹی کی پالیسی.ہدایات اور نصب العین
269 سے جن لوگوں کو کامل اتفاق تھا ، جن کی صدارت اور جن کی تائید سے یہ خبریں پاس ہوئی تھیں اور ابن سعود کو بھیجی گئی تھیں، انہوں نے نہایت شد و مد سے اختلاف کیا.ملوکیت کی حمایت کی اور وعدہ خلافیوں پر پردہ ڈالنا چاہا.“ سیرت محمد علی حصہ اول و دوم، مصنفہ رئیس احمد جعفری، ناشر کتاب منزل لا ہورص ۴۴۸ تا ۴۵۰) مولا نا محمد علی جو ہر صاحب نے جن خیالات کا بھی اظہار کیا ہو یہ ظاہر ہے کہ موتمر عالم اسلامی کے پہلے اجلاس میں کم از کم ہندوستان کا جو وفد شریک ہوا اس میں شبیر عثمانی صاحب ،ظفر علی خان صاحب اور سلمان ندوی صاحب جیسے افراد موجود تھے جو کہ جماعت احمدیہ کے شدید مخالف تھے اور ان میں سے کئی ایسے تھے جو کہ سلطان عبد العزیز کی مخالفت کرتے گئے تھے اور پھر وہاں جا کر انہوں نے اپنا موقف بدل لیا تھا.یہ واقعات ۱۹۲۶ء کے ہیں اور یہ سال جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سال لندن میں مسجد فضل لندن کا افتتاح ہوا تھا.اور یہ مغربی دنیا میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد تھی.جب اس کے افتتاح کا معاملہ پیش ہوا تو یہ فیصلہ ہوا کہ عراق کے بادشاہ کے چھوٹے بھائی امیر زید جو اس وقت آکسفورڈ میں تعلیم پا رہے تھے یا عراق کے بادشاہ شاہ فیصل جو اس وقت انگلستان کے دورہ پر تھے، سے اس مسجد کا افتتاح کرایا جائے.اس کے لئے شاہ فیصل کو خط بھی لکھا گیا لیکن ان کی طرف سے کوئی تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا تو پھر سلطان عبد العزیز ابن سعود کو تا ردی گئی کہ وہ اپنے کسی صاحبزادے کو اس بات کے لئے مقرر کریں کہ وہ مسجد فضل لندن کا افتتاح کریں.اور ان کے انگریز دوست نے بھی انہیں لندن سے تار دی کہ آپ اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر ہر دلعزیزی حاصل کر سکتے ہیں.چنانچہ امام مسجد لندن حضرت مولا نا عبد الرحیم در دصاحب کی با قاعدہ درخواست پر انہوں نے نے بذریعہ تار جواب دیا کہ ہم اس درخواست کو قبول کرتے ہیں اور ہمارا بیٹا فیصل ستمبر میں لندن کے لئے جدہ سے روانہ ہو گا.۲۳ ستمبر ۱۹۲۶ء کو شاہ حجاز کے صاحبزادے امیر فیصل انگلستان پہنچے اور امام مسجد لندن کی سرکردگی میں ان کا پر تپاک خیر مقدم کیا گیا اور تمام اخبارات میں بھی یہ خبریں شائع ہو گئی کہ وہ لندن کی نئی مسجد کا افتتاح کریں گے.امیر فیصل کا قیام بطور سرکاری مہمان ہائیڈ پارک ہوٹل میں تھا.لیکن جلد ہی ایسے آثار ظا ہر ہونا شروع ہو گئے کہ امیر فیصل کسی وجہ سے
270 مسجد کے افتتاح یا جماعت کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ میں شرکت کرنے سے متردد ہیں.۲۹؎ ستمبر کی رات کو جماعت کی طرف سے ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا جانا تھا اور یہ پروگرام ان کی رضا مندی سے رکھا گیا تھا اور ۱/۳ اکتوبر کو مسجد کا افتتاح کیا جانا تھا.لیکن امام مسجد لندن کو مسٹر جارڈن جو کہ جدہ میں برطانوی کونسل تھے کا پیغام ملا کہ وہ انہیں ملیں.ملاقات پر ان کو بتایا گیا کہ ۲۹؍ ستمبر کی تاریخ اس استقبالیہ کے لئے مناسب نہیں کیونکہ اسی تاریخ کو حکومت برطانیہ کی طرف سے بھی دعوت ہے لیکن جب حضرت مولانا عبد الرحیم در ڈ صاحب نے اس بات کی نشاندہی فرمائی کہ حکومت کی طرف سے دعوت دو پہر کو ہے اور جماعت کی طرف سے استقبالیہ رات کو ہے لیکن برطانوی افسران اس بات پر مصر رہے کہ یہ دعوت ۲۹ ستمبر کو نہیں ہونی چاہئے بلکہ مسجد کے افتتاح کے بعد ۶ / اکتوبر کو ہونی چاہئے.یہ بات بہت معنی خیز تھی کہ دعوت قبول تو سعودی فرمانروانے کی تھی لیکن اس پروگرام میں ردو بدل کا اختیار اب برطانوی حکومت کے پاس آچکا تھا.اور سعودی شہزادے اور ان کا وفد محض خاموش تھا.اور دوسری طرف اخبارات میں خبریں چھپ رہی تھیں کہ امیر فیصل اس نئی مسجد کا افتتاح کریں گے.لیکن اب اس بات کے آثار واضح ہو رہے تھے کہ امیر فیصل اب مسجد کا افتتاح نہیں کریں گے.۲۸ ستمبر کو حضرت مولانا عبد الرحیم در دصاحب کو ایک با اثر شخصیت کی طرف سے خط ملا کہ امیر فیصل اس افتتاح میں شریک نہیں ہو سکیں گے اور وجہ یہ بتائی گئی کہ سلطان عبد العزیز کی طرف سے کوئی تار ملا ہے جس کی وجہ سے یہ رکاوٹ پیدا ہوئی ہے اور یہ بھی کہا کہ اس کی وجہ ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے کی جانے والی مخالفت ہے لیکن اس کے بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ خبر پہنچانے والے صاحب خود بھی اصل وجہ سے بے خبر ہیں.لیکن وہ صاحب یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ مسجد کے افتتاح کی تقریب ملتوی کر دی جائے.لیکن حضرت مولانا عبد الرحیم در دصاحب کا خیال یہی تھا کہ مسجد کا افتتاح بہر حال مقرر کردہ تاریخ پر کیا جائے.حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھی صورت حال لکھ کر راہنمائی کے لئے درخواست کی گئی تو حضور نے بھی اسی خیال کے مطابق حکم دیا کہ افتتاح کی تیاری رکھی جائے.پھر حجاز کے وزیر خارجہ خود حضرت درد صاحب سے ملے اور کہا کہ ہمیں اس صورت حال کا بہت افسوس ہے.اصل میں سلطان عبد العزیز کی طرف سے یہ تار ملا تھا کہ تم اپنی ذمہ داری پر اس مسجد کا افتتاح کر سکتے ہو اور وہاں کے مسلمانوں سے بھی مشورہ کر لینا اور ہم نے سلطان کے حکم کی
271 وضاحت کے لئے تار دی ہے اگر مثبت جواب آیا تو ہم اس تقریب میں بڑی خوشی سے شامل ہوں گے.لیکن آخر تک حجاز سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا.اور حضور سے لی گئی اجازت کے مطابق شیخ عبد القادر صاحب نے مسجد کا افتتاح کیا.اس وقت جو بھی حالات سامنے نظر آ رہے تھے اس کے مطابق کوششیں کی جا رہی تھیں لیکن اس رکاوٹ کے پیچھے بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت کام کر رہی تھی.چونکہ ایک عرصہ کے بعد جب امیر فیصل نے سعودی مملکت کے فرمانروا کی حیثیت سے جماعت کے مخالف ایک عالمی نفرت انگیز مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ وہ اُس مسجد کا افتتاح کر سکیں جس کو بعد میں جماعت کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت ملنی تھی.تاریخ مسجد فضل لندن مصنفہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب، ناشر مینیجر بکڈ پوتالیف واشاعت قادیان ص ۴۵ تا ۶۰) انگلستان کے اس دورہ کے دوران امیر فیصل نے مسجد کا افتتاح تو نہیں کیا لیکن وہ دوسرے معاملات میں مصروف رہے.اس وقت تو یہ حقائق پوری طرح سامنے نہیں آئے تھے لیکن اب یہ معروف حقائق بن چکے ہیں کہ ان دنوں امیر فیصل سلطنت برطانیہ کے عہد یداروں سے مذاکرات کر رہے تھے.اور ان مذاکرات کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ برطانیہ حجاز پر ان کے والد کی بادشاہت کو قبول کر لے.اور کچھ عرصہ کے بعد ان مذاکرات کا نتیجہ بھی سامنے آ گیا اور مئی ۱۹۲۷ء میں باقاعدہ طور پر Treaty of Jeddah پر دستخط ہوئے جس کے نتیجہ میں حجاز اور نجد کے علاقہ پر سعودی خاندان کی حکومت تسلیم کر لی گئی.لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ پہلی مرتبہ جن افسران نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ امیر فیصل جماعت احمدیہ کی تقریب میں شامل نہیں ہوں گے وہ سعودی حکومت کے کوئی عہد یدار نہیں تھے بلکہ برطانوی سفارتکار تھے اور اس وقت امیر فیصل برطانوی عہدیداروں سے مذاکرات کر رہے تھے.اور ان مذاکرات کی کامیابی برطانوی حکومت کی خوشنودی پر منحصر تھی.The late King Faisal, his life, personality and methods of) Government by Mariane Alireza P8 یہ مضمون انٹرنیٹ پر موجود ہے) یہ سوال بار بار اٹھایا گیا ہے کہ آخر میں امیر فیصل نے مسجد فضل کا افتتاح کیوں نہیں کیا جب کہ وہ اپنے ملک سے اس ارادہ سے چلے تھے کہ اس افتتاح کی تقریب میں حصہ لیں.جیسا کہ ایک مرحلہ پر
272 تاثر دیا گیا تھا اگر یہ باور کیا جائے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے دباؤ کی وجہ سے ایسا کیا گیا تھا تو اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کیونکہ ہندوستان کے مسلمان کسی طرح اس پوزیشن میں تھے ہی نہیں کہ سعودی مملکت پر کسی قسم کا دباؤ ڈال سکیں اور تاریخی طور پر اس قسم کا کوئی خاطر خواہ بیان یا ثبوت بھی نہیں ملتا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسا دباؤ پیدا کیا گیا تھا.ان کے کئی قائدین سلطان عبد العزیز کے خلاف بیان دیتے ہوئے ہندوستان سے گئے تھے اور حجاز مقدس پہنچ کر ان سے اتنا مرعوب ہوئے تھے کہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے واپس آئے تھے.اور یہ بھی باور نہیں کیا جاسکتا کہ انگلستان کے مسلمانوں کی طرف سے ایسی صورت حال پیدا کی گئی تھی کیونکہ اس وقت انگلستان میں مسلمان برائے نام تعداد میں موجود تھے اور ان کی ایک بڑی تعداد نے خود اس تقریب میں شمولیت کی تھی.اس وقت سعودی مملکت خفیہ طور پر سلطنت برطانیہ سے جس قسم کے مذاکرات کر رہی تھی اس کے لئے یہ بہت ضروری تھا کہ کسی طرح سلطنت برطانیہ کی ناراضگی نہ مول لی جائے.بہر حال امیر فیصل نے جو کہ بعد میں سعودی مملکت کے فرمانروا بھی بنے اس دورہ میں مسجد فضل کا افتتاح تو نہیں کیا لیکن انہوں نے مغربی طاقتوں کی طرف بالخصوص سلطنت برطانیہ کے بارے میں جس طرح دوستانہ رویہ ظاہر کیا اس نے بہت سے لوگوں کو حیران کیا اور اس کے متعلق مسلمان قائدین نے آواز میں بلند کرنی شروع کیں.چنانچہ مولانا محمد علی جوہر نے امیر فیصل کے اس دورہ کے بارے میں یہ الفاظ لکھے.الفاظ کافی سخت ہیں ہم اس کی تصدیق یا تردید کی بحث میں پڑے بغیر اس لئے درج کر رہے ہیں کہ تا کہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اس وقت اس دورہ کا عام مسلمان قائدین میں کیار مل تھا.مولانا محمد علی جو ہر موتمر عالم اسلامی کے اجلاس کے انجام اور امیر فیصل کے دورہ کے بارے میں لکھتے ہیں : جو حشر جمہوریت کی تعریف اور مقدس مقامات کے احترام کا ہوا وہ ایک عالم جانتا ہے.جو حشر موتمر عالم اسلام کا کیا جا رہا ہے اس کے متعلق جلد کچھ عرض کروں گا.شرف عدنان بے اول موتمر کے صدر کا تار جو علامہ سید سلمان ندوی نائب صدر موتمر کے نام موصول ہوا وہ آپ کے سامنے ہے.پڑھئے اور سلطان ابن سعود کے ایفائے عہد کا لطف اُٹھائیے.یہ ہے وہ تمسک بالکتب والسنتہ جو ہدم مقابر ماثر اور مزار رسول اکرم (روحی فداه)
273 کے قرب وجوار تک کو اندھیرے میں ہی چھوڑنے سے ہی ثابت ہوتا ہے یا پھر شاہ انگلستان اور ملکہ ہالینڈ ہاتھوں سے صلیبی تمغہ اپنے نائب اور صاحبزادے کے سینے پرلٹکوانے سے اور اس کی تصویران حسین چھوکریوں کے ساتھ کھنچوانے جولندن میں نیم عریانی کے لباس کی اپنے خوبصورت اور ڈھلے ہوئے جسموں پر نمائش کر کے دکان میں آنے والوں کو خریداری پر آمادہ کرتی ہیں.یہ صاحبزادے کس کے لئے یہ نیم عریاں لباس خریدنے گئے تھے.یہ آج تک معلوم نہ ہوا ،مگر شاید لباس کے خریدار نہ ہوں.......(آگے کچھ زیادہ سخت الفاظ حذف کر دیئے گئے ہیں).غرض جو کچھ ہو ہے ” فعل فیصل اور تمسک بالکتب و السنة ہمدرد ۱۳ نومبر ۱۹۲۷ء بحوالہ مولانامحمد علی جو ہر آپ بیتی اور فکری مقالات مرتبه سید شاہ محمد قادری ص ۸۲۸ مخالفین جماعت کے ارادے ظاہر ہوتے ہیں اب یہ بات ظاہر و باہر ہوتی جا رہی تھی کہ جماعت کے مخالفین ایک بار پھر جماعت احمدیہ کے خلاف ایک بڑے منصوبے پر عملدرآمد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں.اور ۱۹۵۳ء میں تو جماعت کی مخالف شورش کا دائرہ بڑی حد تک صوبہ پنجاب تک محدود تھا مگر اب ۱۹۷۴ء میں جبکہ جماعت احمدیہ پہلے کی نسبت دنیا بھر میں بہت زیادہ ترقی کر چکی تھی، اب مخالفین کی کوشش تھی کہ پوری دنیا میں جماعت احمدیہ کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا جائے.مگر چونکہ ابھی بھی پوری دنیا کی جماعتوں میں پاکستان کی جماعت سب سے زیادہ اہم تھی اور جماعت کا مرکز بھی پاکستان میں تھا اس لیے سب سے زیادہ زہریلا وار ہیں پر کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں تا کہ یہاں پر احمدیت پر ایساوار کیا جائے تاکہ جماعت کا عالمی تبلیغی جہاد اس سے بری طرح متاثر ہو.چنانچہ ۱۹۷۴ء کے آغاز میں جماعت مخالف رسائل میں یہ اشتہارات چھپنے لگے کہ قادیانیت کی مخالفت کے لیے قادیانی محاسبہ کمیٹی قائم کی گئی ہے.اور اس کے لیے چندہ جمع کرنے کی اپیل کی گئی.ہفت روزہ چٹان ۲۸ /جنوری ۱۹۷۴ء ص ۱۵)
274 اس کو تو شاید معمول کی بات سمجھا جاتا لیکن اس کے ساتھ یہ اعلانات چھپنے لگے کہ مرکزی قادیانی کمیٹی کو ایک ہزار نو جوانوں کی ضرورت ہے.اور کالج کے طلبا خاص طور پر اس طرف توجہ کریں.( ہفت روزہ چٹان ۲۷ رمئی ۱۹۷۴ء ص ۱۷) اور اس کے ساتھ جماعت کے مخالف جریدے عوام الناس کو احمدیت کے خلاف بھڑ کانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا ر ہے تھے.اور یہ سب کچھ کس انداز میں کیا جارہا تھا اس کا اندازہ اس مثال سے لگایا جا سکتا ہے.جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے آنحضرت کی سنت کی روشنی میں احباب جماعت کو تلقین فرمائی تھی کہ وہ گھڑ سواری میں دلچسپی لیں.اور پھر صد سالہ جو بلی کے لیے چندہ کی تحریک کی گئی.اس پر المنبر نے ۸ مارچ ۱۹۷۴ء کی اشاعت کے سرورق پر یہ اعلان جلی حروف میں شائع کیا.”ربوہ میں دس ہزار انعامی گھوڑوں کی فوج....اور..نو کروڑ روپیہ کے فنڈ...کی فراہمی..کن مقاصد کیلئے؟...مزید برآں..قادیانی سیاست کا رخ...اب کس جانب ہے؟..اور ہم مسلمان کیا سوچ رہے ہیں؟...کیا کر رہے ہیں؟....کیا کرنا چاہتے ہیں؟....اور...ہمیں کیا کرنا چاہئے؟“ شروع ہی سے جماعت کے مخالفین کا یہ طریق رہا ہے کہ جب وہ ملک میں کوئی شورش یا فساد برپا کرنے کی تیاریاں کر رہے ہوں تو یہ واویلا شروع کر دیتے ہیں کہ قادیانی ملک میں فساد پھیلانے کی تیاریاں کر رہے ہیں.ورنہ اس دور میں کوئی دس ہزار گھوڑوں کی فوج پال کر کیا کر سکتا ہے ، اس کا جواب کسی سے پوشیدہ نہیں.جنہوں نے فسادات بر پا کرنے ہوں یا بغاوت کا ماحول پیدا کرنا ہو وہ گھوڑے پالنے کا تردد نہیں کرتے.یہ بات واضح تھی کہ اب جماعت کے خلاف شورش کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور اس مرتبہ تعلیمی ادروں کے طلبا کو بھی اس فساد میں ملوث کیا جائے گا.احباب جماعت کو صبر سے کام لینے کی تلقین جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ۱۹۷۴ ء تک جماعت کے خلاف تیار کی جانے والی عالمی
275 سازش کے آثار افق پر واضح نظر آرہے تھے.اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلس شوریٰ میں تفصیل سے بیان فرما چکے تھے کہ جماعت کے مخالفین اب کس طرح کی سازش تیار کر رہے ہیں.اس پس منظر میں حضور نے ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ اس دنیا میں انبیاء اور مامورین کا آنا دنیا کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے ہوتا ہے.اس لیے منکرین پر گرفت فوراً نہیں ہوتی تا کہ ان میں سے زیادہ سے زیادہ لوگ ہدایت پا جائیں اور جب عذاب آئے بھی تو سب کے سب ہلاک نہیں ہوتے ، جو باقی رہ جاتے ہیں ان میں سے بہت سے ہدایت پا کر دین کی تقویت کا باعث بن جاتے ہیں اور اس طرح ایمان لانے والوں کی تربیت کی جاتی ہے اور امتحان لیا جاتا ہے.پھر حضور نے جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا: ” ہماری جماعت اس وقت مہدی اور مسیح علیہ السلام کی جماعت ہے اور وہ احمدی جو یہ سمجھتا ہے کہ ہمیں دکھ نہیں دئے جائیں گے، ہم پر مصیبتیں نازل نہیں کی جائیں گی.ہماری ہلاکت کے سامان نہیں کئے جائیں گے ہمیں ذلیل کرنے کی کوششیں نہیں کی جائیں گی اور آرام (کے) ساتھ ہم آخری غلبہ کو حاصل کر لیں گے وہ غلطی خوردہ ہے اس نے اس سنت کو نہیں پہچانا جو آدم سے لے کر آج تک انسان نے خدا تعالیٰ کی سنت پائی.ہمارا کام ہے دعائیں کرنا.اللہ تعالیٰ کا یہ کام ہے کہ جس وقت وہ مناسب سمجھے اس وقت وہ اپنے عزیز ہونے کا اپنے قہار ہونے کا جلوہ دکھائے اور کچھ کو ہلاک کر دے اور بہتوں کی ہدایت کے سامان پیدا کر دے..پس ہمارا کام اپنے لئے یہ دعا کرنا ہے کہ جو ہمیں دوسروں کے لیے دعائیں کرنے کے لیے تعلیم دی گئی ہے کہیں ہم اس کو بھول نہ جائیں.ہمارا کام غصہ کرنا نہیں.ہمارا کام غصہ پینا ہے ہمارا کام انتقام اور بدلہ لینا نہیں ہمارا کام معاف کرنا ہے ہمارا کام دعائیں کرنا ہے ان کے لئے جو ہمارے اشد ترین مخالف ہیں کیونکہ وہ پہچانتے نہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں.“ پھر احباب کو ہر حالت میں غصہ کے ردعمل سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:......مجھے جو فکر رہتی ہے وہ یہ ہے کہ احباب جماعت میں نئے آئے ہوئے بھی وو
276 ہیں.ان کو کہیں اپنے مخالف کے خلاف اس قسم کا غصہ نہ آئے جس کی اجازت ہمیں ہمارے رب نے نہیں دی.خدا تعالیٰ نے کہا ہے میری خاطر تم ظلم سہو میں آسمانی فرشتوں کو بھیجوں گا تا کہ تمہاری حفاظت کریں.اب ظاہر ہے اور موٹی عقل کا آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ اگر کسی فرد پر کوئی دوسرا فر دحملہ آور ہو اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کو اپنے دفاع کے لیے ان دو چار ہتھیاروں میں سے جو میسر ہیں کسی ایک ہتھیار کے منتخب کرنے کا موقع ہو تو عقل کہتی ہے کہ اس کے نزدیک جو سب سے زیادہ مضبوط اور موثر ہتھیار ہو گا وہ اسے منتخب کرے گا تو اگر ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ ایک مومن کی عقل کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ اگر دنیا کے سارے دلائل بھی ہمارے پاس ہوں اور ان کے ساتھ ہم اپنے مخالف کا مقابلہ کریں تو ہماری اس تدبیر میں وہ قوت اور طاقت نہیں جو ان فرشتوں کی تدبیر میں ہے جنہیں اللہ تعالیٰ آسمان سے بھیجے اور کہے کہ میرے بندوں کی حفاظت کرو اور اس کی خاطر مخالفین سے لڑو.پس جب یہ بات ہے تو ہماری عقل کہتی ہے کہ ہمیں کمزور ہتھیار سے اپنے مخالف کا مقابلہ نہیں کرنا چاہئے.جب ہمیں ایک مضبوط ہتھیار بھی میسر آ سکتا ہے اور آ رہا ہے تو ہمارے خدا نے ہمیں یہ کہا کہ تمہارا کام ہے دعائیں کرنا اور میرا کام ہے تم سے قربانیاں لینا تاکہ تم میرے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بن جاؤ اور تمہاری اجتماعی زندگی کی حفاظت کرنا.خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور اس کے بعد ہمیں اپنے غصے نہیں نکالنے چاہئیں.تمہارا کام ہے دعائیں کرو گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو جہاں کہیں تمہیں کوئی تکلیف دینے والا ہے وہاں خود سوچو کہ کوئی ایسی صورت نہیں ہوسکتی کہ ہم اس کی کسی تکلیف کو دور کر کے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ماننے والے ہوں.(۱) ۲۹ مئی کا واقعہ جب خلیفہ وقت کسی بھی معاملہ میں کوئی ہدایت فرما ئیں تو بیعت کرنے والوں کا کام ہے کہ اس ارشاد کو غور سے سن کر اس پر بڑی احتیاط سے عمل کریں.اگر پوری جماعت میں سے ایک گروہ بھی خواہ
277 وہ گروہ چھوٹا سا گروہ ہی کیوں نہ ہو اس ہدایت پر عمل پیرا ہونے پر کوتا ہی کا مظاہرہ کرے تو اس کے سنگین نتائج نکلتے ہیں.حضور اقدس نے ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ ہمارا کام غصہ کرنا نہیں بلکہ غصہ کو ضبط کرنا ہے.اور اس خطبہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے جو فکر رہتی ہے وہ یہ ہے کہ احباب جماعت میں نئے آئے ہوئے بھی ہیں.ان کو کہیں اپنے مخالف کے خلاف غصہ نہ آجائے.جہاں ہمیں کوئی تکلیف دے رہا ہو وہاں ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم اس کی کوئی تکلیف کیسے دور کر سکتے ہیں.(۲) اس خطبہ جمعہ سے چند روز قبل ۲۲ مئی ۱۹۷۴ء کونشتر میڈیکل کالج کا ایک گروپ چناب ایکسپریس پر ٹرپ پر جاتے ہوئے ربوہ سے گزرا.اور ان طلباء نے ربوہ کے پلیٹ فارم پر مرزائیت ٹھاہ کے نعرے لگائے اور پٹڑی سے پتھر اٹھا کر پلیٹ فارم پر موجود لوگوں پر اور قریب والی بال کھیلنے والے لڑکوں پر چلائے (۳).اس طرح اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی لیکن اس وقت کسی تصادم کی نوبت نہیں آئی.جب بعد میں اس واقعہ پر ٹریبونل قائم کیا گیا تو یہ شواہد سامنے آئے کہ مئی ۱۹۷۴ء میں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء نے سیر کے لئے راولپنڈی، مری اور سوات جانے کا پروگرام بنایا.پہلے یہی پروگرام تھا کہ کالج کی طالبات اور کچھ اساتذہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اس سیر میں شامل ہوں گے.اور پروگرام یہ تھا کہ یہ طلباء ریل گاڑی خیبر میل کے ذریعہ جائیں گے.یہ امر مد نظر رہے کہ گاڑی خیبر میل ربوہ سے نہیں گزرتی تھی.لیکن ریلوے حکام نے ان کی بوگی خیبر میل کے ساتھ لگانے کی بجاۓ چناب ایکسپریس کے ساتھ لگانے کا فیصلہ کیا جو کہ ربوہ سے ہوکر گزرتی تھی.درخواست یہ کی گئی تھی کہ ان طلباء کو دو بوگیاں مہیا کی جائیں اور پہلے پروگرام یہ تھا کہ یہ گروپ سیر کے لئے ۱۸ مئی ۱۹۷۴ء کو سیر کے لئے روانہ ہو گا.لیکن جب ۱۸ مئی کو نشر میڈیکل کالج کے طلباء اور طالبات اور ان کے کچھ اساتذہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ۱۸ مئی کو ملتان کے ریلوے سٹیشن پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کے لئے دو نہیں بلکہ ایک بوگی مخصوص کی گئی ہے.اور یہ بوگی اتنے بڑے گروپ کے لئے ناکافی تھی.حالانکہ ریزرویشن کے بارے میں یہ معلومات تو بہت پہلے مل جاتی ہیں لیکن ہوا یہ کہ اس گروپ کو یہ پتہ سٹیشن پہنچ کر چلا کہ ان کے لئے دو نہیں بلکہ ایک بوگی مخصوص کی گئی ہے.چنانچہ اس پروگرام کو کچھ دن
278 کے لئے ملتوی کر دیا گیا.اور پھر ریلوے حکام نے یہی فیصلہ کیا کہ صرف ایک ہی ہوگی مہیا کی جاسکتی ہے اور پھر اس درخواست پر کہ یہ بوگی خیبر میل کے ساتھ لگائی جائے یہی فیصلہ برقرار رکھا کہ یہ بوگی چناب ایکسپریس کے ساتھ لگائی جائے.چنانچہ جگہ کی قلت کی وجہ سے یہی فیصلہ کیا گیا کہ اب صرف طلباء جائیں گے اور طالبات ، اساتذہ اور ان کے اہلِ خانہ اس پروگرام میں شامل نہیں ہوں گے.ٹریبونل نے انہیں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ۲۲ مئی کو جب یہ طلباء ریلوے سٹیشن سے گزرے تو کسی نے انہیں جماعت کے اخبار روزنامہ الفضل کی کاپی پیش کی.ان طلباء نے احمدیت کے خلاف نعرے لگائے.اس رپورٹ میں درج شواہد کے مطابق ان میں سے بعض طلباء نے اپنے کپڑے اتار دئیے اور ان کے جسم پر صرف زیر جامہ ہی رہ گئے اور انہوں نے اس عریاں حالت میں رقص کرنا شروع کیا اور ربوہ کے لوگوں سے حوروں کا مطالبہ کیا.لیکن اس اشتعال انگیزی کے باوجود کوئی ہنگامہ نہیں ہوا اور گاڑی ربوہ سے نکل گئی.یہاں پر دو باتیں قابل ذکر ہیں کہ ایک تو یہ کہ اگر یہ طلباء اپنی درخواست کے مطابق خیبر میل سے جاتے تو یہ گروپ ربوہ سے نہ گزرتے اور اگر ان کے ساتھ ان کے کالج کے اساتذہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ اور کالج کی طالبات بھی ہوتیں تو یہ طلباء اس طرز پر اشتعال انگیزی نہ کر سکتے.اور یہ ایک حکومتی محکمہ کا فیصلہ تھا کہ انہیں چناب ایکسپریس سے بھجوایا جائے.اور دو بوگیاں بھی ریلوے نے مہیا نہیں کیں جن کی وجہ سے ایسی صورت پیدا ہوئی کہ صرف لڑکے ہی اس گروپ میں شامل ہو سکے.۲۲ رمئی کے واقعہ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے وہ خطبہ ارشاد فرمایا جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں اور احباب جماعت کو ارشاد فرمایا کہ کسی طرح بھی اشتعال میں نہیں آنا اور صبر کا دامن پکڑے رکھنا ہے.اور حضور کا یہ ارشاد صرف خطبہ جمعہ تک محدود نہیں تھا بلکہ حضور اس امر کی اس کے بعد بھی بار بار تلقین فرماتے رہے کہ ہر حال میں صبر کا دامن پکڑے رکھنا ہے.چنانچہ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد ابن مکرم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب جو حضور کے بھتیجے ہیں بیان کرتے ہیں کہ میں نے ۲۲ رمئی ۱۹۷۴ء کے بعد گھر میں بھی اور ڈیوٹی دیتے ہوئے یہ بات بار بار حضور سے صبر کی تلقین سنی.مجھے الفاظ یاد نہیں ہیں لیکن حضور نے یہ بار بار فرمایا تھا کہ ہم نے ہر صورت میں صبر سے کام لینا ہے اور کوئی سختی نہیں کرنی.اور یہ بات میرے ذہن میں حضور کی یہ ہدایت اتنی پختگی سے گھر کر چکی تھی کہ ۲۹ مئی کو
279 جب نشتر میڈیکل کالج کے یہ طلباء واپسی پر پھر ربوہ سے گزر رہے تھے تو میں نے ربوہ کے کچھ نوجوانوں کوٹیشن جاتے ہوئے دیکھا اور مجھے احساس ہوا کہ انہوں نے حضور کی ہدایت کو سمجھا نہیں اور میں ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا کہ حضور نے ان طلباء کو مارنے سے منع کیا ہے لیکن ایک کے علاوہ باقی نے میری بات پر پوری طرح تو جہ نہیں دی.جب یہ طلباء ۲۹ مئی کو واپس ربوہ سے گزرے تو ربوہ کے کچھ جو شیلے نو جوان سٹیشن پر جمع ہو گئے اور نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کو ان کی غیر مہذبانہ زیادتیوں کا سبق سکھانے کے لئے ان سے الجھ پڑے.ان نوجوانوں کا یہ فعل یقیناً جماعت احمدیہ کی تعلیمات اور ملکی قانون کے خلاف تھا.اور اس کے علاوہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی واضح ہدایات کے بھی خلاف تھا.لیکن وقت گزرنے کے ساتھ کچھ عقل کا مظاہرہ بھی ہونے لگا اور گاڑی چلنے سے قبل ربوہ کے نو جوانوں نے نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کو قریب واقعہ رحمت بازار سے مشروب منگوا کر پلایا.اور ربوہ کے بعض لڑکے جو کہ حضور کی ہدایات سے واقف تھے نشتر میڈیکل کالج کے طلباء پر گر کر انہیں مارنے والوں کی ضربوں سے بچانے لگے (۴) اور اس واقعہ کی وجہ سے دو گھنٹے ٹرین وہاں پر رکی رہی.اور جب سٹیشن ماسٹر صاحب نے جو کہ احمدی تھے گاڑی کو چلانے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ گاڑی کا ویکیوم نکل گیا ہے اور گاڑی چل نہیں سکتی اور پھر اس کو ٹھیک کرنے میں بھی دیر لگی.فسادات کا آغاز جیسا کہ اس صورتِ حال میں ہونا ہی تھا چند دنوں میں ہی منظم طریق پر پورے ملک میں فسادات کی آگ بھڑکا دی گئی بلکہ اسی روز ہی مولویوں نے پورے ملک میں فسادات کی آگ بھڑ کانے کی کوششیں شروع کر دیں.یہ نا خوشگوار واقعہ تو بہر حال ہوا تھا اور جیسا کہ ہم بعد میں اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشادات پیش کریں گے.لیکن اس واقعہ کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جار ہا تھا اور ایک منظم طریق کے ذریعہ اس کی تشہیر کی جارہی تھی اور اس کو بنیاد بنا کر پورے ملک میں فسادات بر پاکئے جا رہے تھے.یہ حقیقت ہے کہ اس واقعہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا.کسی مضروب کی ہڈی نہیں ٹوٹی تھی.کسی مضروب کی چوٹ کو قانون کی رو سے Grievious injury
280 نہیں کہا جاسکتا تھا.لیکن فسادات کو ہوا دینے کے لئے ایک طرف تو بعض اخبارات اور جرائد لکھ رہے تھے کہ نشتر میڈیکل کالج کے کئی طلباء کی حالت نازک تھی اور دوسری طرف یہی جرائد لکھ رہے تھے کہ جب یہ طلباء لائلپور پہنچے تو ان کو پلیٹ فارم پر ابتدائی طبی امداد دی گئی.اور سرکاری اہلکاروں نے انہیں کہا کہ وہ لائلپور کے ہسپتال میں آکر علاج کروا سکتے ہیں تو ان طلباء نے کہا کہ وہ ملتان میں اپنے ہسپتال جا کر علاج کرائیں گے (۵).یہ کہنے والے طب کے پیشہ سے منسلک تھے اور یقیناً جانتے تھے کہ شدید زخمی کے لیے علاج میں چار گھنٹے بلکہ اس سے بھی زیادہ کی یہ تاخیر جان لیوا بھی ہوسکتی ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے لائلپور کے ہسپتال میں علاج کے لیے جانا پسند نہیں کیا حالانکہ یہ ہسپتال ریلوے سٹیشن کے بالکل قریب واقعہ ہے.اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان طلباء میں سے کوئی بھی شدید زخمی نہیں تھا.ان میں سے علاج کے لیے کوئی لائلپور کے ہسپتال تو نہیں گیا لیکن اسی وقت ان میں سے کچھ زخمی طلباء لائلپور کے تعلیمی اداروں میں پہنچ گئے اور وہاں طلباء کو جلوس نکالنے پر آمادہ کرنا شروع کر دیا.اخبارات اور رسائل میں جو خبریں آرہی تھیں ان میں بھی عجیب تضاد پایا جارہا تھا.مثلاً جماعت کے اشد مخالف جریدے چٹان نے جو خبر شائع کی اس میں لکھا کہ ربوہ ٹیشن پر پانچ چھ سو گرانڈیل قادیانیوں نے نشتر کالج کے طلباء پر حملہ کیا.بلکہ اپنی سرخی میں لکھا کہ ” نشتر میڈیکل کالج کے ایک سو طلباء پر ربوہ میں قادیانی کتوں کا حملہ (۵).دوسری طرف اخبار نوائے وقت نے اسی واقعہ کی رپورٹ کرتے ہوئے لکھا کہ حملہ کرنے والے قادیانیوں کی تعداد پانچ ہزار تھی.اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رپورٹنگ حقائق پر بنیا درکھنے کی بجائے اندازوں اور مبالغوں کی بنا پر کی جارہی تھی.(۶) اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ایس پی اور ڈی آئی جی پولیس ربوہ پہنچ گئے (۸۷).اسی رات ربوہ میں پولیس نے گرفتاریاں شروع کر دیں اور ستر سے زائد احباب کو گرفتار کیا گیا.کئی ایسے نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا جو اس واقعہ میں ملوث تھے لیکن کئی اور ایسے راہ چلتے احباب کو بھی گرفتار کر لیا گیا جن کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا.مقصد صرف گنتی کو پورا کرنا تھا.ایک مرحلہ پر پولیس والے تعلیم الاسلام کالج پہنچ گئے اور پرنسپل صاحب سے کہا کہ ہمیں یہاں حکومت کی طرف سے سو ڈیڑھ سولڑ کا گرفتار کرنے کا حکم ہے.پرنسپل صاحب نے کہا کہ جس وقت یہ واقعہ ہوا کالج کے جوطلبا کا لج میں موجود تھے، وہ
281 بے قصور ہیں انہیں کس جرم کی بنا پر آپ کے حوالے کیا جائے.لیکن وہ مصر رہے اور کالج کے لڑکوں کو ہراساں کیا گیا ہاسٹل کا گھیراؤ کر لیا گیا.لیکن پھر کالج سے وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کا ارادہ ترک کر دیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث سٹیشن کے واقعہ کے وقت ربوہ سے باہر اپنے فارم نصرت آباد تشریف لے گئے تھے ، آپ اسی روز واپس ربوہ تشریف لے آئے.یہاں ایک اور بات کا ذکر بے جانہ ہوگا.ہم سے انٹرویو میں صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے کہا کہ میں نے کابینہ کے سامنے حنیف رامے سے پوچھا کہ واپسی پر نشتر کے طلباء کی بوگی دوسرے راستے سے بھی آسکتی تھی.پھر انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب نے کہا کہ مجھے اب تک پتا نہیں چلا کہ رامے کس کے ساتھ ہے.بعد میں رسالہ چٹان کے ایڈیٹر شورش کا شمیری صاحب نے تحقیقاتی ٹریبونل کے رو برو بیان دیا کہ جب ۲۹ مئی کو ربوہ کے سٹیشن پر واقعہ ہوا ہے اس رات وزیر اعظم بھٹو کے سیکریٹری مسٹر افضل سعید نے فون کیا کہ بعض بیرونی طاقتیں پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہیں ہم سب کو چاہئے کہ ہم داخلی امن برقرار رکھیں.اور اس کے ساتھ یہ الزام بھی لگایا کہ قادیانی وزیر اعظم کو قتل کرنے کی سازش کرتے رہے ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ فسادات سے فائدہ اُٹھا کر ملک میں اپنا اقتدار قائم کر لیں.(امروز یکم اگست ۱۹۷۴ ص اول و آخر ) شروع ہی سے اس بات کے آثار ظاہر ہو گئے تھے کہ ایک ملک گیر فسادات شروع کئے جارہے ہیں اور جس فتنہ کی تمہید کچھ سالوں سے باندھی جا رہی تھی اس کی آگ کو منظم طور پر اور حکومت کی آشیر باد کے ساتھ بھڑکایا جا رہا ہے.حضور نے چند احباب کو پرائیویٹ سیکریٹری کے دفتر میں طلب فرمایا اور حضور کی نگرانی میں ایک سیل نے مرکز میں کام شروع کر دیا.ہر طرف سے فسادات کی اور احمدیوں پر ان کے گھروں ، مساجدوں اور دوکانوں پر حملہ کی خبریں آرہی تھیں.جو اطلاع ملتی پہلے حضور اقدس اسے خود ملاحظہ فرماتے اور پھر قصر خلافت میں ایک گروپ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کی زیر نگرانی کام کر رہا تھا، وہ اس اطلاع کے مطابق متاثرہ احمدی دوستوں کی مدد کے لئے اقدامات اُٹھائے جاتے اور ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے رضا کار روانہ کیے جاتے.اس کام کے لیے ضلع سرگودھا سے تعلق رکھنے والے رضا کا ر خدمات سرانجام دے رہے تھے.اس دور میں شہر سے باہر فون ملانا بھی ایک نہایت مشکل امر تھا.پہلے کال بک کرائی جاتی اور پھر گھنٹوں اس کے ملنے یا نہ ملنے کا
282 انتظار کرنا پڑتا اور اس سے بڑھ کر مسئلہ یہ تھا کہ مرکز سلسلہ کی تمام فون کالیس ریکارڈ کر کے ان کے ریکارڈ کو حکومت کے حوالے کیا جا رہا تھا.اس لیے جماعتوں سے رابطہ کی یہی صورت تھی کہ ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے آدمی بھجوائے جائیں.مرکز میں کام کرنے والا یہ سیل اس بات کا اہتمام کر رہا تھا کہ ہر واقعہ کی اطلاع وزیر اعظم اور دیگر حکومتی عہد یداروں کو با قاعدگی سے دی جائے.اس سیل میں مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب، مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ناظر صاحب امور عامہ، مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ، مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کام کر رہے تھے.جب ان فسادات کا آغاز ہوا تو کام کا دباؤ اتنا تھا کہ حضور اقدس اور ان کے ساتھ کام کرنے والے رفقاء کو کچھ راتیں چند لمحے بھی سونے کا وقت نہیں مل سکا اور کچھ روز مسلسل جاگ کر کام کرنا پڑا.بیرونِ پاکستان کی جماعتوں کو بھی حالات سے مطلع رکھنا ضروری تھا اور یہ بھی ضروری تھا کہ احمدیوں پر ہونے والے مظالم سے عالمی پریس اندھیرے میں نہ رہے.حکومت پاکستان اور جماعت کے مخالف حلقوں کی یہ بھر پور کوشش تھی کہ پوری دنیا کو اندھیرے میں رکھا جائے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے لندن مشن کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ پوری دنیا کی جماعتوں کو پاکستان میں ہونے والے واقعات سے باخبر رکھے.چنانچہ فسادات کے دوران ہفتہ میں دومرتبہ پاکستان سے لندن اطلاعات بھجوائی جاتی تھیں.لندن سے تمام جماعتوں کو حالات سے مطلع رکھا جاتا.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے لندن میں ایک پریس کا نفرنس بلوائی.اس پریس کانفرنس میں عالمی پریس کے نمائندے شریک ہوئے.اس طرح حقیقت حال عالمی پریس تک پہنچ گئی.یہ بات پاکستان کے سفارت خانہ کو سیخ پا کرنے کے لئے کافی تھی.پاکستان کے سفارت خانہ کے ایک افسر نےلندن مشن کے انچارج کو ملاقات کے لیے بلایا اور اس بات پر بہت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ سلسلہ فوراً بند ہونا چاہئے.انہیں جواب دیا گیا کہ پاکستان میں احمدیوں پر مظالم کا سلسلہ بند کر دیا جائے تو یہ سلسلہ بھی بند کر دیا جائے گا.(۹) اگلے روز ہی پنجاب کے مختلف مقامات پر فسادات کی آگ بھڑک اُٹھی.اور ۳۰ مئی کو چنیوٹ، چک جھمرہ، لائلپور، گوجرہ، مانانوالا ، شورکوٹ ، خانیوال، ملتان، بہاولپور، صادق آباد ضلع ساہیوال، ڈنگا، راولپنڈی، اسلام آباد، کوہاٹ ، ڈیرہ اسماعیل خان اور سرگودہا میں فسادات ہوئے جن
283 کے دوران احمدیوں کے گھروں اور دوکانوں پر حملے ہوئے اور انہیں نذر آتش کیا گیا اور لوٹا گیا.ان کی مساجد کو نقصان پہنچایا گیا.ان پر پتھراؤ کیا گیا.ان کی کاروباری املاک کو آگ لگائی گئی تعلیمی اداروں میں احمدی طلباء کی املاک اور کتب کو نذر آتش کیا گیا ، احمدیوں کو مختلف مقامات پر زد وکوب کیا گیا بعض مقامات پر مفسدین نے جماعتی لائبریری کی دیگر کتب کے علاوہ قرآن کریم کے بہت سے نسخے بھی شہید کئے.جب احمدیوں پر حملے ہو رہے تھے تو پولیس خاموش تماشائی بنی رہی لیکن مزید ظلم یہ کیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور سرگودہا میں مفسدین کو قابو کرنے کی بجائے کچھ احمد یوں کو گرفتار کر لیا.سٹیشن والے واقعہ کے اگلے دن ہی پنجاب اسمبلی میں اس پر بحث شروع ہوگئی.اور اس بحث میں حکومتی پارٹی کے اراکین جماعت کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ ہم ناموس رسالت پر اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے.حالانکہ یہاں پر ناموسِ رسالت کا کوئی سوال نہیں تھا ، ایک بلوہ کے واقعہ پر بات ہو رہی تھی.یہ بات قابل غور ہے کہ ایک بلوہ کا واقعہ ہوا تھا.یقیناً حکومت کا حق تھا کہ وہ قصور وار افراد کے خلاف قانونی کاروائی کرتی لیکن اس کا مذہبی عقائد سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی دنیا میں ایسا کہیں ہوتا ہے کہ اگر کوئی قانون شکنی کا مرتکب ہو تو اسمبلی میں اس کے مذہبی خیالات پر زور وشور سے بحث شروع ہو جائے.حکومتی پارٹی کے اراکین اس مسئلہ کو مذہبی رنگ دینے میں پیش پیش تھے.پیپلز پارٹی کے ایک رکن اسمبلی نے صاف الفاظ میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا.اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ احمدی بہت سے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں.پیپلز پارٹی کا نعرہ تھا، اسلام ہمارا مذہب ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے.ایک حکومتی رکن اسمبلی ، سابق کرکٹر کیپٹن حفیظ کاردار صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہمارا تو منشور ہی یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے.اس کے بعد ایک اور رکن اسمبلی نے کہا کہ ہمارے منشور میں سوشلزم بھی شامل ہے اس پر ایوان میں شور مچ گیا کہ غیر متعلقہ بات شروع کر دی گئی ہے، موضوع پر بات کی جائے.وزیر اعلیٰ ، حنیف رامے صاحب نے بھی ختم نبوت پر ایمان کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ اپنے آپ کو اپنے خاندان کو اور اپنی جائیداد کو ناموس رسالت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں.اس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ ۱۹۵۳ء میں مارشل لاء کی مثال قائم ہوئی تھی اور اب بعض قوتیں مارشل لاء لگانا چاہتی ہیں لیکن جمہوریت کا کارواں چلتا رہے گا.پھر وزیر اعلیٰ نے اس بات کا اعلان کیا
284 کہ جسٹس صمدانی کو ربوہ ٹیشن کے واقعہ کی تحقیقات کے لئے مقرر کیا جارہا ہے (۱۰).پنجاب اسمبلی میں حکمران پیپلز پارٹی کے اراکین جو رویہ دکھا رہے تھے اور جس قسم کے بیانات دے رہے تھے اس کا ذکر ہم کر چکے ہیں.یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس دور میں پیپلز پارٹی کا کوئی رکن اسمبلی وزیر اعظم بھٹو صاحب کے منشاء کے بغیر اس نوعیت کی بیان بازی کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا.اس پس منظر میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس مئی کے خطبہ جمعہ کے آغاز میں سورۃ محمد کی یہ آیت تلاوت فرمائی.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ وَاَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ * وَاللهُ مَعَكُمُ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ (محمد ۳۶،۳۴) ترجمہ : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو.تم ہی غالب آنے والے ہو اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہیں تمہارے اعمال ( کا بدلہ ) کم نہیں دے گا.ان آیات کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: امت مسلمہ کو ان آیات میں ان بنیادی صداقتوں سے متعارف کرایا گیا ہے.ایک تو یہ کہ اگر امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے عملاً باہر نکلنے کی کوشش کرے تو ان کے اعمال کا موعود نتیجہ نہیں نکلے گا اور ان کے اعمال باطل ہو جائیں گے اور دوسرے یہ کہ دنیا جتنا چاہے زور لگالے وہ امت مسلمہ پر ، اگر وہ امت اسلام پر حقیقی معنی میں قائم ہو کبھی غالب نہیں آسکتی.علو اور غلبہ امت مسلمہ کے ہی مقدر میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے فرمایا وَ اللهُ مَعَكُمُ کہ ان کا ایک حقیقی تعلق اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے...پھر حضور نے فرمایا: 66 ہمیں سختی سے اس بات کی تاکید کی گئی تھی کہ گالیوں کا جواب دعاؤں سے دینا اور جب کسی کی طرف سے دکھ دیا جائے تو اس کا جواب اس رنگ میں ہو کہ اس کے لئے سکھ کا
285 سامان پیدا کیا جائے.اسی لئے پچھلے جمعہ کے موقع پر بھی میں نے ایک رنگ میں جماعت کو خصوصاً جماعت کے نوجوانوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ یہ تمہارا مقام ہے اسے سمجھو اور کسی کے لئے دکھ کا باعث نہ بنواور دنگا فساد میں شامل نہ ہو اور جو کچھ خدا نے تمہیں دیا ہے وہ تمہارے لیے تسکین کا بھی باعث ہے، ترقیات کا بھی باعث ہے.وہ ہے صبر اور دعا کے ساتھ اپنی اپنی زندگی کے لمحات گزارنا.صبر اور دعا کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات گزار و مگر اہلِ ربوہ میں سے چند ایک نے اس نصیحت کو غور سے سنا نہیں اور اس پر عمل نہیں کیا اور جو فساد کے حالات جان بوجھ کر اور جیسا کہ قرائن بتاتے ہیں بڑی سوچی کبھی سکیم اور منصوبہ کے ماتحت بنائے گئے تھے اس کو سمجھے بغیر جوش میں آکر وہ فساد کی کیفیت جس کے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی مخالفت کی اس تدبیر کو کامیاب بنانے میں حصہ دار بن گئے اور فساد کا موجب ہوئے.۲۹ مئی کوٹیشن پر یہ واقعہ ہوا.اس وقت اس واقعہ کی دو شکلیں دنیا کے سامنے آتی ہیں.ایک وہ جو انتہائی غلط اور باطل شکل ہے مثلاً ایک روز نامہ نے لکھا کہ پانچ ہزار نے حملہ کر دیا.مثلاً یہ کہ سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت ایسا کیا گیا وغیرہ وغیرہ.یہ بالکل غلط ہے اس میں شک نہیں لیکن دوسری شکل یہ ہے کہ کچھ آدمیوں نے بہر حال اپنے مقام سے گر کر اور خدا اور رسول کی اطاعت کو چھوڑتے ہوئے فساد کا جو منصو بہ دشمنوں کی طرف سے بنایا گیا تھا اسے کامیاب کرنے میں شامل ہو گئے.اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور چونکہ ایسا ہوا اور اگر دشمن کو آپ کے دس آدمی ایک ہزار نظر آتے ہیں تو اس سے آپ کی برات نہیں ہوتی یہ تو اللہ تعالیٰ کی شان ہے لیکن آپ کی براءت اس سے نہیں ہوتی جتنے بھی اس جھگڑے میں شامل ہوئے.انہوں نے غلطی کی اور سوائے نفرت اور مذمت کے اظہار کے ان کے اس فعل کے خلاف ہم کچھ نہیں کر سکتے نہ امام جماعت احمدیہ اور نہ جماعت احمد یہ.اس لئے انہوں نے تو غلطی کی اور چونکہ وہ دشمن کی سوچی سمجھی تدبیر تھی اور ایک نہایت بھیا نک منصوبہ ملک کو خراب اور تباہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اب اس میں آپ کا ایک حصہ شامل ہو گیا اور اب ملک کے ایک حصہ میں آگ لگی ہوئی ہے اور اس آگ کو اس رنگ میں ہوا دی جا رہی
286 ہے کہ یہ شدت اختیار کرے گی.یہ آگ جہاں لگی ہے وہاں ۱۹۵۳ ء کی آگ سے زیادہ شدید طور پر لگی ہوئی ہے.اُس وقت حکومت وقت زیادہ تدبر اور زیادہ انصاف سے کام لے رہی تھی.اس وقت جو رپورٹیں آ رہی ہیں اگر وہ درست ہیں تو ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت وقت نہ تدبر سے کام لے رہی ہے نہ انصاف سے کام لے رہی ہے....میں حقیقت بیان کرنے کے لیے یہ کہتا ہوں ورنہ میرا یہ کام نہیں تھا کہ میں یہ بتاؤں کہ ان کو کیا کرنا چاہئے.جو سیاستدان ہیں ان کو اپنا مفاد خود سمجھنا چاہئے.اگر نہیں سمجھیں گے تو دنیا میں حکومتیں آتی بھی ہیں جاتی بھی ہیں.میری اس سے کوئی غرض نہیں میں تو مذہبی آدمی ہوں.نصیحت کرنا میرا کام ہے ان کو بھی ایک رنگ میں نصیحت کر دی سمجھنا نہ سمجھنا ان کا کام ہے لیکن اصل چیز میں آپ کے سامنے اول یہ لانا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے بھی غلطی کی غلطی کی ہے اور ہمیں اس چیز کو تسلیم کرنا چاہئے.دوسرے یہ کہ صرف انہوں نے غلطی نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنی ناسمجھی کے نتیجہ میں دشمن کے ایک سوچے سمجھے منصو بہ میں شمولیت کی اور جماعت کے لیے بھی پریشانی کے سامان پیدا کرنے کے موجب بنے اور ملک کے لیے بھی کمزوری کا سامان پیدا کرنے کے موجب بنے.میں سمجھتا ہوں اور میں انہیں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کم از کم دس ہزار مرتبہ استغفار کریں اور تو بہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگیں.جو بھی اس معاملہ میں شامل ہوئے ہیں.مجھے ان کا علم نہیں لیکن جو بھی شامل ہوئے ہیں وہ کم از کم دس ہزار مرتبہ استغفار کریں اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکیں اور اپنی بھلائی کے لئے اور خود کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچانے کے لئے دس ہزار مرتبہ اس سے معافی مانگیں اور اس کے حضور عاجزانہ جھکے رہیں جب تک اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہ کر دے.“ ( خطبات ناصر جلد ۵ ص ۵۳۴ تا ۵۳۶ ) ۳۱ رمئی کو بھی حکومت نے حالات کو قابو پانے کے لیے کوئی خاص قدم نہیں اُٹھایا.خاص طور پر صوبہ پنجاب میں مولوی لوگوں کو احمدیوں پر ، ان کے گھروں ، ان کی مساجد اور ان کی دوکانوں پر حملے کرنے کے لیے لوگوں کو اکسا ر ہے تھے.جن مقامات کا ذکر آچکا ہے ان میں تو فسادات جاری تھے.
287 ان کے علاوہ اس روز ماموں کانجن ، کمالیہ، بھیرہ، دنیا پور ، عارفوالہ، بہاولنگر ، خانپور ضلع رحیم یارخان، سانگرہ، سانگلہ ہل، حافظ آباد، مرید کے، گوجرانوالہ، منڈی بہاؤالدین، مری، کیمبل پور اور مظفر آباد بھی فسادات کی لپیٹ میں آگئے.اسی روز ان فسادات نے پنجاب کی حدود سے نکل کر دوسرے صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.چنانچہ صوبہ سندھ میں سکھر میں اور سرحد میں پشاور میں بھی فسادات شروع ہو گئے.احمدیوں پر ہر طرح کے وحشیانہ مظالم کئے جارہے تھے.ان پر ارتداد کے لیے دباؤ ڈالا جار ہا تھا لیکن حکومت اگر کچھ کر رہی تھی تو احمدیوں کو ہی گرفتار کر رہی تھی تا کہ ان کی قوت دافعت دم توڑ دے.اس روز بھی مفسدین پر گرفت کرنے کی بجائے گوجرانوالہ میں ان بارہ خدام کو گرفتار کر لیا گیا جو اپنی مسجد کی حفاظت کے لیے ڈیوٹی دے رہے تھے.اور کیمبلپور میں احمدیوں کو پولیس نے حکم دیا کہ وہ اپنے گھروں تک محد و در ہیں.وزیر اعلیٰ پنجاب نے ۳۰ مئی کو پنجاب اسمبلی میں یہ اعلان کیا کہ ربوہ کے واقعہ کی ہائی کورٹ کے جج سے تحقیقات کرائی جائیں گی.اور انہوں نے اسمبلی کو مطلع کیا کہ ربوہ سے اسے افراد کوگرفتار کیا جا چکا ہے اور جرم ثابت ہونے پر سخت سزادی جائے گی.(۱۱) صمدانی ٹریبیونل کی کاروائی شروع ہوتی ہے ہائی کورٹ کے جج جسٹس صمدانی نے جنہیں اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے مقرر کیا گیا تھا اسی روز لاہور میں ابتدائی کام شروع کر دیا.یہاں ایک امر قابل ذکر ہے کہ ایک عدالتی کمیشن ۱۹۵۳ء میں بھی قائم کیا گیا تھا لیکن اس کے سپرد یہ کام تھا کہ وہ ۱۹۵۳ء کے فسادات کے تمام پہلوؤں پر تحقیق کر کے رپورٹ مرتب کرے اور اس کے دائرہ کار میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم پر تحقیق کرنا بھی آتا تھا اور احمدی پر ہونے والے مظالم کے متعلق تحقیق کر کے اس کے بارے میں بھی مواد بھی رپورٹ میں شامل کیا گیا تھا.لیکن جب کمیشن کے سپر دصرف یہ کام تھا کہ وہ ربوہ کے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ پر تحقیق کرے.حالانکہ جب اس کمیشن نے کام شروع کیا تو پورے ملک میں احمدیوں پر ہر قسم کے مظالم کئے جارہے تھے.ان کی املاک کو لوٹا جا رہا تھا ان کے گھروں کو نذر آتش کیا جار ہا تھا ، ان کو شہید کیا جا رہا تھا لیکن ان سب واقعات پر کبھی تحقیقات نہیں کی گئیں ان کے بارے میں حقائق کبھی قوم کے
288 سامنے نہیں لائے گئے.جب جسٹس صمدانی سے یہ سوال کیا گیا کہ ان کے کمیشن کا کام صرف سٹیشن والے واقعہ تک محدود کیوں رکھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو گورنمنٹ کا کام تھا.جو کام گورنمنٹ نے کیا ہے میں اس کے متعلق جوابدہ نہیں ہوں.جو کچھ میں نے کیا ہے اس کے متعلق اگر سوال پوچھیں تو جواب دے سکوں گا.جب صدائی ٹریبونل میں گواہوں کے پیش ہونے کا عمل شروع ہوا تو یہ بات جلد ہی سامنے آگئی کہ ایک طبقہ اس واقعہ کی تفصیلات کو بہت مبالغہ کر کے اور اس میں جھوٹ ملا کر پیش کر رہا ہے تا کہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ واقعہ خود احمدیوں نے ہی کرایا تھا تا کہ ملک گیر فسادات شروع کرائے جاسکیں اور اس کی آڑ میں احمدی پاکستان کی حکومت پر قبضہ کر سکیں.حقائق کا ادنی سا بھی علم رکھنے والا اس الزام کو مضحکہ خیز ہی سمجھے گا لیکن اس وقت ٹربیونل میں یہ الزام بڑے شد و مد سے پیش کیا جا رہا تھا ( مشرق ۲۲ جون ۱۹۷۴ ص۱).ایک گواہ تو اس حد تک آگے چلے گئے کہ انہوں نے ٹریبونل کے رو برو جماعتِ احمدیہ پر یہ الزام لگا دیا کہ کہ یہ فسادات احمدیوں نے خود ہی شروع کرائے ہیں تا کہ ملک میں بدامنی پھیل جائے اور اس سے فائدہ اُٹھا کر احمدی جرنیل اقتدار پر قبضہ کر لیں اور ساتھ یہ شوشہ چھوڑا کہ جنرل ٹکا خان صاحب کے بعد جو کہ اس وقت پاکستانی بری افواج کے سربراہ تھے چار سینئر جرنیل قادیانی ہیں.یہ بات بھی بالکل خلاف واقعہ تھی اور اگر ٹریبونل چاہتا تو اس دعوی کو آسانی سے چیک کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا.اور ایک طرف تو یہ سٹوڈنٹ لیڈر یہ الزام لگا رہے تھے اور دوسری طرف یہ اعتراف بھی کر رہے تھے کہ جس جلسے سے میں نے خطاب کیا تھا اس میں مقررین نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت نہ قرار دیا گیا تو پنجاب کے کسی تعلیمی ادارے میں طلباء کو داخل نہیں ہونے دیا جائے گا.(مشرق ۲۰ جون ۱۹۷۴ء ص ۱ ) اس وقت جو ملک میں حالات پیدا کئے جارہے تھے ان میں کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ آخر وہ کون سے سینئر جرنیل ہیں جو کہ عقیدہ کے اعتبار سے احمدی ہیں.نہ یہ سوال عدالت میں کیا گیا اور نہ ان اخبارات میں جہاں ان الزامات کو سرخیوں کے ساتھ صفحہ اول پر شائع کیا جارہا تھا یہ سوال اٹھایا گیا.حقیقت یہ ہے کہ جب احمدیت کے مخالف کسی خلاف قانون سرگرمی کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں تو وہ یہ واویلا شروع کر دیتے ہیں کہ احمدی اس بات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں.اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب چندسال
289 کے بعد ایک جرنیل نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کا تعلق جماعت احمدیہ سے نہیں تھا بلکہ ان کا شمار احمدیت کے اشد ترین مخالفین میں سے ہوتا تھا.جب ہم نے جسٹس صمدانی صاحب سے اس الزام کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جہاں تک مجھے یاد ہے اس بات پر کوئی توجہ نہیں کی گئی تھی.جسٹس صدانی صاحب کی یہ بات تو درست ہے کہ اس بات پر شاید ٹریبونل نے کوئی توجہ نہیں کی تھی لیکن یہ جھوٹے الزامات لگا کر اور انہیں نمایاں کر کے شائع کر کے ملک میں احمدیوں کے خلاف فسادات تو بھڑکائے جارہے تھے.ایک اور صاحب نے تو ایک روز ٹریبیونل کے روبرو یہ بیان بھی دیا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ اعلان کیا تھا کہ خدام الاحمدیہ اسلام کی فوج ہے اور ہم بہت جلد اقتدار میں آنے والے ہیں (مشرق ۲۷ جون ۱۹۷۴ء ص ۱).اس قسم کے رویہ کے متعلق ہمارے ساتھ انٹرویو میں جسٹس صمدانی صاحب نے فرمایا کہ چند گواہوں کی کوشش تھی کہ ٹربیونل کو احمدیوں کے خلاف متعصب کر دیا جائے لیکن میں متعصب نہیں ہوا.حکومت کی طرف سے اس موقع پر فرقہ وارانہ خبروں کی اشاعت پر پابندی لگائی گئی اور جب صوبائی اسمبلی میں اس قدم کے خلاف تحاریک التوا پیش ہوئیں تو سپیکر نے انہیں خلاف ضابطہ قرار دے دیا.لیکن بڑی احتیاط سے یہ خبریں بھی نہیں شائع کی جارہی تھیں کہ ملک بھر میں احمدیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور کئی احمدیوں کو وحشیانہ انداز میں شہید کیا جا رہا ہے.تمام اخبارات نے اس معاملہ میں ایک مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی ہوئی تھی.(۱۲) یکم سے پندرہ جون تک کے حالات یکم جون تک حکومت اور قانون نافذ کرنے والوں کا رویہ واضح ہو کر سامنے آچکا تھا.اور اب مفسدین محسوس کر رہے تھے کہ انہیں کھلی چھٹی ہے.اس روز ۴۱ مقامات پر فسادات ہوئے سکھر اور پشاور کے علاوہ باقی سب شہر اور قصبے صوبہ پنجاب کے تھے.یوں تو پورے صوبے میں فسادات کی آگ لگی ہوئی تھی لیکن اس روز سب سے بڑا سانحہ گوجرانوالہ میں پیش آیا.یہاں پر سول لائن اور سیٹلائٹ ٹاؤن کے علاوہ باقی سب علاقوں میں احمدیوں کے مکانوں اور دوکانوں کو نذر آتش کیا گیا.بلوائیوں نے پہلے محمد افضل صاحب اور پھر ان کے بیٹے محمد اشرف صاحب کو بڑے درد ناک انداز میں شہید کیا.
290 پہلے محمد اشرف صاحب کے پیٹ میں چھرے مارے گئے جس سے انتڑیاں باہر آگئیں اور پھر اینٹوں سے سر کوٹا گیا.جب دم توڑتے ہوئے محمد اشرف نے پانی مانگا تو کسی ظالم نے منہ میں ریت ڈال دی.جب نوجوان بیٹے کو اس طرح قتل کر دیا گیا تو باپ کو کہا کہ تم اب بھی ایمان لے آؤ اور مرزا غلام احمد قادیانی کو گندی گالیاں دو.انہوں نے جواب دیا کہ کیا تم مجھے اپنے بیٹے سے بھی کمزور ایمان کا سمجھتے ہو.اس پر ان کو بھی اسی طرح شہید کر دیا گیا.پھر دو پہر کے وقت سعید احمد خان صاحب ، ان کے خسر چوہدری منظور احمد صاحب اور چوہدری منظور احمد صاحب کے بیٹے چوہدری محمود احمد صاحب کو شہید کر دیا گیا.جب سعید احمد خان صاحب کو شہید کرنے کے لیے جلوس آیا تو ان کے ساتھ پولیس بھی تھی.سعید احمد خان صاحب نے تھانیدار کو کہا کہ وہ بلوائیوں کو روکیں مگر سب بے سود جب وہ واپس جانے کے لیے مڑے تو تھانیدار نے اشارہ کیا اور جلوس آپ پر ٹوٹ پڑا اور پتھروں اور ڈنڈوں سے آپ کو شہید کر دیا.ان کے علاوہ قریشی احمد علی صاحب کو بھی سفاکانہ انداز میں شہید کر دیا گیا.گوجرانوالہ میں بہت سے مواقع پر پولیس بلوائیوں کو روکنے کی بجائے ان کا ساتھ دے رہی تھی.یکم جون کو مندرجہ بالا مقامات پر سارا دن احمدیوں کے خلاف جلوس نکلتے رہے،اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں اور لوگوں کو احمدیوں کی قتل و غارت پر اکسایا گیا.پہلے کی طرح اس روز بھی مفسدین کی بڑی توجہ احمدیوں کی دوکانوں کی طرف رہی.اس کے پیچھے احمدیوں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ لوٹ مار کر کے خود فائدہ اُٹھانے کا جذبہ بھی کارفرما تھا.سانگلہ ہل ، وزیر آباد اور ڈسکہ میں احمدیوں کی فیکٹریوں کو آگ لگائی گئی اور یہاں سے کثیر مقدار میں سامان لوٹا گیا.اس کے علاوہ احمدیوں کے مکانوں پر اور ان کی مساجد پر حملے کئے گئے.ایک طرف تو یکم جون کو احمدیوں کو بے دردی سے شہید کیا جارہا تھا اور ملک کے کئی مقامات پر احمدیوں کے گھروں، مساجد، دوکانوں اور فیکٹریوں کو لوٹا جا رہا تھا اور ان کو آگ لگائی جارہی تھی، اور دوسری طرف اسی روز قومی اسمبلی میں بھی سٹیشن کے واقعہ کی بازگشت سنائی دی.لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ احمدیوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں.قومی اسمبلی میں اپوزیشن کچھ Credit لینے کے لیے بیتاب تھی.چوہدری ظہور الہی جو مسلم لیگ سے اسمبلی کے ممبر تھے وہ ٹیشن کے واقعہ پر تحریک التوا پیش کرنا چاہتے تھے.سپیکر کا اصرار تھا کہ یہ معاملہ صوبائی حکومت سے تعلق رکھتا
291 ہے اور اس پر تحقیق کے لیے حج مقرر کیا جا چکا ہے، اس لیے ممبران قومی اسمبلی اپنی تقریر کوصرف قانونی نکات تک محدود رکھیں.اور چوہدری ظہور الہی صاحب سٹیشن پر ہونے والا واقعہ اپنی طرز پر پورا کا پورا قومی اسمبلی کو سنانے پر مصر تھے، زیادہ تر وقت اسی بحث میں گزر گیا.لیکن چند قابل ذکر امور یہ تھے کہ پچھلے دو روز سے لائلپور میں احمدیوں کے مکانوں کو آگ لگائی جارہی تھی.جب قومی اسمبلی میں بحث نے طول پکڑا تو ایک ممبر نے کہا کہ اپوزیشن والے اس مسئلہ کو ہوا دے کر ملک میں افراتفری پیدا کرنا چاہتے ہیں.اور وزیر قانون نے کہا کہ لائلپور میں مکان کس نے جلائے تھے؟ اس میں اشارہ تھا کہ لائلپور میں احمدیوں کے مکان جلانے کے پیچھے اپوزیشن کی کچھ جماعتیں ملوث تھیں.اس پر چوہدری ظہور الہبی صاحب غصے سے بھڑک اٹھے.ایک ممبر اسمبلی مولوی غلام غوث ہزاروی نے اس بات پر زور دیا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو گرفتار کرنا ضروری ہے.اور ایک رکن اسمبلی احمد رضا قصوری صاحب نے ، جو احمدیت کے خلاف مختلف جگہوں پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے تھے، نے یہ ایک جملہ کہا کہ ٹیشن پر یہ واقعہ انٹیلی جنس نے کرایا ہے.الغرض یہ دوڑ لگی ہوئی تھی کہ کسی طرح احمدیت کی مخالفت میں کچھ بیان بازی کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کیے جائیں.(۱۳) جب ہم فسادات کے آغاز سے لے کر پندرہ جون تک فسادات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ختم ہونے کی بجائے ان کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور حکومت بھی ان پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہی تھی.حکومت کا رویہ کیا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۳ جون کو حکومت کے ریو نیومنسٹر رانا اقبال احمد صاحب نے گوجرانوالہ کے بار روم میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ احمدیوں کا جو نقصان ہوا ہے وہ انکی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے.جب جلوس آیا تو افضل صاحب نے پستول دکھایا تو عوام نے مشتعل ہو کر انہیں قتل کر دیا.اگر احمدی مزاحمت نہ کرتے تو کوئی خاص نقصان نہ ہوتا.پھر انہوں نے کچھ احمدیوں کا نام لے کر کہا کہ وہ مجھ سے سختی سے پیش آئے اور پھر وزیر صاحب نے فرمایا کہ علماء نے بہت تعاون کیا ہے اور ان کا رویہ معقول تھا.کوئی بھی صاحب شعور شخص اگر وزیر صاحب کے ارشاد کا سرسری تجز یہ بھی کرے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ با وجود اس کے کہ کتنے ہی احمدی گوجرانوالہ میں شہید کر دیئے گئے تھے لیکن وزیر صاحب فرما رہے تھے کہ احمدی غلطی کر رہے ہیں وہ اگر اپنی املاک کا دفاع نہ کریں اور جلوسوں کولوٹ مار کی خواہش پوری کرنے
292 دیں تو احمدیوں کی جان بچ جائے گی.گویا ان کی حکومت میں اپنی املاک کا جائز دفاع کرنا بھی ایک نا قابل معافی جرم تھا.اور حکومت کا کام صرف مظلوموں پر اعتراض کرنا تھا.اور ۱۹۷۴ء کے فسادات میں کتنے ہی احمدی اس حالت میں شہید کر دیئے گئے کہ ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے ایک چھڑی بھی نہیں تھی.ان نہایت قابل وزیر صاحب نے اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا کہ ان کی شہادت کس وجہ سے ہوئی.پندرہ جون تک پاکستان کے ۱۲۰ شہروں اور قصبوں میں فسادات کا آغاز ہو چکا تھا.ان میں اکثر مقامات صوبہ پنجاب سے تعلق رکھتے تھے لیکن پاکستان کے باقی صوبوں اور شمالی علاقہ جات کے کچھ مقامات میں فسادات کی آگ بھڑکنی شروع ہو چکی تھی.احمدیوں کو دھمکیاں دے کر ارتداد پر آمادہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں.ان کو مارا پیٹا جا رہا تھا.ان کے گھروں پر حملے ہو رہے تھے، پتھراؤ کیا جا رہا تھا ، سامان لوٹا جا رہا تھا اور ان سترہ دنوں میں کئی مقامات پر احمدیوں کے ۲۷۰ مکانات کو نذر آتش کیا گیا یا انہیں لوٹا گیا.احمدیوں کی دوکانیں اور فیکٹریاں بھی خاص طور پر شورش کرنے والوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں.پندرہ جون تک احمدیوں کی ۳۴۰ دوکانوں کولوٹ ماریا آتشزدگی کا نشانہ بنایا گیا اور چھ فیکٹریوں کو تاخت و تاراج کیا گیا.دیگر کاروباری مراکز کا نقصان اس کے علاوہ تھا.فسادات کے ابتدائی سترہ دنوں میں احمدیوں کی ۲۵ مساجد کو شہید کیا گیا اور تین پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آشیر باد سے قبضہ کر لیا گیا.۲۰ مقامات پر جماعت کی قائم کردہ چھوٹی چھوٹی لائبریریوں کو آگ لگا دی گئی اور قرآن کریم کے کئی نسخے شہید کر دیئے گئے.کئی جگہوں پر پولیس نے فسادات پر قابو پانے کی بجائے ان احمدیوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا جو اپنے مکانات کی حفاظت کر رہے تھے.پندرہ جون تک ربوہ کے اسیران سمیت ۱۰۸ احمدیوں کو گر فتار کیا جا چکا تھا.بہت سے شہروں میں مولوی لوگوں کو اکسا رہے تھے کہ وہ احمدیوں کا بائیکاٹ کریں اور ان کو ضروریات زندگی بھی نہ فروخت کریں.ربوہ کے اردگرد کے دیہات کو بھی بھڑکا یا جارہا تھا کہ وہ ربوہ تک ضروریات زندگی نہ پہنچا ئیں.اب تک ۲۱ احمدی جامِ شہادت نوش کر چکے تھے اور 9 کے متعلق یہ علم نہیں تھا کہ وہ زندہ ہیں یا انہیں بھی شہید کیا جا چکا ہے.دس شہداء کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا اور ساہیوال، ٹوپی اور بالا کوٹ ، کوئٹہ، حافظ آباد، ٹیکسلا، پشاور اور ایبٹ آباد کے احمدی بھی شہادت کے مقام پر سرفراز ہو چکے تھے.( تفصیلات کے لئے دیکھئے شہدائے احمدیت ناشر طاہر فاؤنڈیشن ربوہ )
293 ۲ جون کو گوجرانوالہ میں مکرم بشیر احمد صاحب اور منیر احمد صاحب، غلام قادر صاحب اور چوہدری عنایت اللہ صاحب نے شہادت پائی.۴ رجون کو مکرم محمد الیاس عارف صاحب نے ٹیکسلا میں اور ۸ / جون کو مکرم نقاب شاہ مہمند صاحب کو پشاور میں شہید کیا گیا.پھر 9 جون کو ٹوپی میں غلام سرور صاحب اور ان کے بھتیجے اسرار احمد خان صاحب کو شہید کر دیا گیا.9 جون کو ہی کوئٹہ میں مکرم سید مولود احمد بخاری صاحب کو شہید کیا گیا.11 جون کو مکرم محمد فخر الدین بھٹی صاحب کو ایبٹ آباد میں اور اسی تاریخ کو مکرم محمد زمان خان صاحب مکرم مبارک احمد خان صاحب کو بالا کوٹ میں شہید ہونے کی سعادت حاصل ہوئی.ایبٹ آباد میں مکرم محمد فخر الدین صاحب کو جس انداز میں شہید کیا گیا وہ اتنا بہیمانہ تھا کہ جس کے پڑھنے سے مشرکین مکہ کے کیے گئے مظالم کی یاد تازہ ہو جاتی ہے.ان کو شہید کرنے کے بعد بھی ہجوم ان کی لاش پر گولیاں برساتا رہا یعش کے ناک کان کاٹ کر مثلہ کیا گیا.اور خنجروں سے وار کر کے نعش کی بے حرمتی کی گئی.بھٹی صاحب کے گھر کا سارا سامان نکال کر اسے نذر آتش کیا گیا اور اس الاؤ میں ان کی لاش کو پھینک دیا گیا.شر پسند جلتی ہوئی آگ میں بھی نعش پرسنگ باری کرتے رہے.ختم نبوت اور ناموس رسالت کے نام پر تحریک چلانے والوں کی اخلاقی حالت کا یہ عالم تھا.ان فسادات کے آغاز میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا مختصر ذکر کرنے کے بعد ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ان دنوں میں ملک کی قومی اسمبلی میں اس مسئلہ پر کیا بحث کی جارہی تھی.۳ جون ۱۹۷۴ء کو ایک بار پھر سٹیشن کے واقعہ پر قومی اسمبلی میں بحث شروع ہوگئی.وقفہ سے کچھ دیر پہلے جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد صاحب نے کہا کہ باوجود اس کے کہ اس واقعہ کا تعلق صوبائی حکومت سے ہے لیکن یہ ایک قومی اہمیت کا مسئلہ ہے اس لئے اس پر قومی اسمبلی میں بحث ہونی چاہئے اور یہ بھی کہا کہ اس واقعہ کا تعلق مذہب سے ہے.اس کے بعد جمعیت العلماءاسلام کے مفتی محمود صاحب کچھ نکات بیان کرنے کے لیے کھڑے ہوئے.انہوں نے کہا کہ ربوہ میں جو واقعہ ہوا ہے وہ ایک جارحانہ کاروائی ہے جو مرزائی فرقہ کے لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف کی ہے اور یہ ایک قومی مسئلہ ہے.انہوں نے زور دے کر کہا یہ پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ ہے.اور دعویٰ کیا کہ ہم ایوان کے سامنے ثابت کریں گے کہ یہ ایک منصوبہ تھا اور ایک پروگرام تھا اور اتفاقی حادثہ نہیں تھا.
294 ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ سٹیشن پر ہونے والا واقعہ جماعتی تعلیمات کے اور قانون کے خلاف تھا.لیکن یہ واقعہ جس میں کسی شخص کی جان نہیں گئی، کسی مضروب کی ہڈی نہیں ٹوٹی ، جو ایک قصبہ تک محدود تھا، تو مفتی محمود صاحب کے نزدیک پاکستان کی سالمیت کے لیے ایک بڑا خطرہ تھا اور ایک بھیانک جارحیت تھی.لیکن اس روز تک پاکستان کے کئی مقامات پر احمدیوں کے خلاف فسادات شروع ہو چکے تھے اور انہیں ہر طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا جارہا تھا.اور کئی احمد یوں کو ملک کے مختلف مقامات پر ظالمانہ طریق پر شہید کیا جا چکا تھا.یہ بات مفتی صاحب کے نزدیک نہ تو ملک کی سا لمیت کے لیے خطرہ تھی اور نہ ہی اس سے کسی قسم کی جارحیت کی بو آتی تھی.اور نہ ہی دیگر ممبران اسمبلی کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ احمدیوں پر ہونے والے ان مظالم پر دو حرف ہی کہہ دیتے.وقفہ کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تقریر کے لیے کھڑے ہوئے.انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے مہذب لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم میں برداشت ختم کیوں ہو گئی ہے.کیا ہم اپنے مسائل کو مہذب طریق سے حل نہیں کر سکتے.جب بھی ہمارا ایک مسئلہ ختم ہوتا ہے ہم ایک اور مسئلہ تلاش کر لیتے ہیں تا کہ ہم آپس میں لڑ سکیں.پھر کہا کہ یہ مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں.یہ مسئلہ تقسیم ہند سے پہلے سے موجود تھا.یہ وہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے تقسیم ہند کے بعد لاہور میں پہلا مشہور مارشل لاء لگا تھا.مجھے کوئی حیرت نہیں کہ اس معاملہ کا آغاز کیوں ہوا ہے جب ہم ایک مسئلہ حل کر لیتے ہیں تو ہم ایک دوسرا مسئلہ پیدا کرتے ہیں.پھر انہوں نے اپوزیشن اراکین کے بعض نکات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس سے انکار نہیں کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے.بے شک یہ ایک قومی مسئلہ ہے.ہم کہتے ہیں کہ غالب امکان ہے کہ یہ ایک منصوبہ کے تحت کیا گیا ہے.اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس مسئلہ کو حل کرنا چاہئے لیکن یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے.اور نہ ہی ہم نے اسے پیدا کیا ہے.پھر انہوں نے کہا کہ اس پر بحث بھی ہونی چاہئے لیکن اس وقت جب خون بہنا بند ہو جائے ، اور ملک میں امن کا راج ہو، پھر ہمیں ٹھنڈے دماغ سے اور معتدل انداز میں اس پر بات کرنی چاہیئے اور چاہئے کہ ہم اس بارے میں کسی فیصلہ پر پہنچیں.اس کے بعد وزیر اعظم نے اپوزیشن جماعتوں پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ایک عرصہ سے اس مسئلہ کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے تھے اور موقع کی تلاش میں تھے کہ وہ انہیں کوئی موقع ملے کیونکہ انہیں
295 دوسرے مواقع پر حکومت کے مقابل پر زک اُٹھانی پڑی ہے.پھر انہوں نے کہا کہ آئین کی منظوری اپوزیشن ممبران نے بھی دی تھی اور اس کے آرٹیکل ۱۰۶ (۱۳) میں اقلیت کی وضاحت کی گئی ہے.۱۹۷۳ء کا آئین جو بھٹو صاحب کی حکومت کا ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے.اور جس پر اکثر اپوزیشن کے اراکین نے بھی دستخط کیے تھے.اس کے آرٹیکل ۱۰۶ (۱۳) میں صوبائی اسمبلی میں مذہبی اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کا ذکر ہے.اور ان مذہبی اقلیتوں کے نام بھی لکھے ہیں.اور آئین میں یہ اقلیتیں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ اور پارسی لکھی گئی ہیں.بھٹو صاحب یہ نکتہ بیان کر رہے تھے کہ جب آئین منظور ہوا تھا تو اپوزیشن کے اکثر علماء، جن میں مفتی محمود صاحب بھی شامل تھے اس پر دستخط کیے تھے بلکہ اس کی منظوری پر مفتی صاحب نے ہی دعا کرائی تھی.اس آئین کو بنانے کے لیے اسمبلی نے جو کمیٹی تشکیل دی تھی، مفتی محمود صاحب اس کے ممبر بھی تھے اور اس وقت انہوں نے مختلف نکات اٹھائے تھے لیکن یہ نکتہ نہیں اٹھایا تھا کہ احمدی غیر مسلم اقلیت ہیں ان کا نام بھی آئین کی اس شق میں غیر مسلم اقلیتوں میں درج ہونا چاہئے.اس مرحلہ پر یہ کاروائی ایک گرا ہوا انداز اختیار کر گئی.اس مرحلہ پر رکن اسمبلی احمد رضا قصوری نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ نو اراکین نے آئین پر دستخط نہیں کیے تھے.( دراصل تین اراکین نے اس آئین کی منظوری کے وقت ووٹ نہیں دیا تھا.یہ تین اراکین شاہ احمد نورانی صاحب ، محمود علی قصوری صاحب اور احمد رضا قصوری صاحب تھے ) (۱۴).اس پر وز یر اعظم غصہ میں آگئے اور کہا You keep quiet.I have had enough of you.absolute poison.I will not tolerate your nuisance ترجمہ : خاموش رہو.میں تمہیں کافی برداشت کر چکا ہوں.مکمل زہر.میں تمہاری بد تمیزی برداشت نہیں کروں گا.اس پر تلخی بڑھی اور احمد رضا قصوری صاحب نے وزیر اعظم کو بند رکہا.پھر پیکر نے مداخلت کی اور وزیر اعظم نے پھر تقریر شروع کی.اس کے بعد وزیر اعظم نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے آئین میں صدر اور وزیر اعظم کے حلف میں ختم نبوت کے عقیدہ کا حلف داخل کیا ہے اور کہا کہ اس طرح ہم نے واضح کیا ہے کہ
296 پاکستانی قوم ختم نبوت پر ایمان لاتی ہے اور یہ کہ ہمارے نبی کے بعد اب کوئی اور نبی نہیں ہوسکتا.اور پھر وز یر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں عدالتی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہئے.(۱۵) اس روز جب قومی اسمبلی میں کوئی شخص یہ کہنے کو تیار نہیں تھا کہ گوجرانوالہ میں اتنے احمدی شہید کر دیئے گئے ہیں.پاکستان میں کتنے ہی مقامات پر احمدیوں کو ہر طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا جارہا ہے.ملک کے وزیر اعظم بھی اگر کوئی بات کر رہے تھے تو بہت عمومی انداز میں کہ ہمیں ایک دوسرے سے لڑنا نہیں چاہئے ، ملک میں پہلے ہی بہت سے مسائل ہیں اور جو پورے ملک میں احمدیوں پر جو مظالم ہو رہے تھے ان پر وہ کھل کر کچھ نہیں کہہ رہے تھے.آج ملک کے سب سے بالا منتخب اداروں میں بھی کوئی احمدیوں پر ہونے والے مظالم پر ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ یہ سب سمجھ رہے تھے کہ یہ تو ایک لا چار اور کمزور سا گروہ ہے اس کے متعلق آواز بلند کر کے ہم اپنا سیاسی مستقبل کیوں خطرہ میں ڈالیں.لیکن ملک کی تاریخ کے سب سے مضبوط وزیر اعظم کو اندازہ نہیں تھا کہ آج کی بحث میں ان کے منہ سے ایک ایسا جملہ نکل گیا ہے جو کچھ برس بعد ان کے خلاف قتل کے مقدمہ میں دلیل کے طور پر پیش کیا جائے گا.بھٹو صاحب نے احمد رضا قصوری صاحب کو کہا تھا کہ میں تمہارا Nuisance برداشت نہیں کر سکتا.کچھ سال بعد جب بھٹو صاحب پر یہ مقدمہ چل رہا تھا کہ انہوں نے احمد رضا قصوری صاحب پر قاتلانہ حملہ کرایا، جس میں ان کے والد قتل ہو گئے تو یہی جملہ ان کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کیا گیا کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ اب قصوری صاحب کو برداشت نہیں کر سکتے.چنانچہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ بھٹو صاحب احمد رضا صاحب کو راستہ سے ہٹانا چاہتے تھے.(۱۲) اگلے روز بھی قومی اسمبلی میں اس موضوع پر مختصر سی گفتگو ہوئی.اور مفتی محمود صاحب نے سٹیشن والے واقعہ کے متعلق کہا: ”...آج میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ مرزا ناصر کو بھی تحقیقات میں شامل کر لیا گیا ہے.ہم یہ جانتے ہیں کہ ربوہ میں کوئی واقعہ ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا.لہذا اسکو گرفتار کر لیا جائے.(۱۷) اس روز قومی اسمبلی میں ربوہ کے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ کے بارے میں سات تحاریک التوا
297 پیش کی گئیں اور اپوزیشن نے کہا کہ وزیر اعظم نے ان حالات کا سارا الزام ہم پر لگا دیا ہے اور ہم جواب دینا چاہتے ہیں.لیکن سپیکر نے اس دن ان پر بحث کی اجازت نہیں دی.اس پر اپوزیشن کے اراکین نے واک آؤٹ کیا اور نکلتے ہوئے ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے.۵ جون کے اخبارات میں یہ خبریں شائع ہونے لگ گئیں کہ حکومت قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے اور اس بارے میں سرکاری فیصلہ کا جلد اعلان کر دیا جائے گا.(۱۸) ور جون کو لاہور میں کل پاکستان علماء و مشائخ کونسل منعقد ہوئی اور اس میں مطالبہ پیش کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر انہیں کلیدی اسامیوں سے برطرف کیا جائے اور ربوہ کی زمین ضبط کر لی جائے ورنہ ۱۴ جون سے ملک گیر ہڑتال کر دی جائے گی.(۱۹) اس کتاب کی تالیف کے دوران جب ہم نے پروفیسر غفور احمد صاحب سے انٹرویو کیا اور یہ دریافت کیا کہ کیا یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ کسی گروہ کے متعلق یہ مطالبہ کیا جائے کہ اس سے تعلق رکھنے والے کلیدی آسامی پر فائز نہیں ہونے چاہئیں.اس پر پہلے انہوں نے جواب دیا کہ آئین میں تو صرف صدر اور وزیر اعظم کے عہدہ کے لئے پابندی ہے دوسرے تمام عہدوں پر قادیانیوں سمیت کوئی بھی مقرر ہو سکتا ہے.جب ہم نے انہیں پھر یاد دلایا کہ یہ مطالبہ اس وقت کی اپوزیشن کی طرف سے کیا گیا تھا جس کے وہ خودر کن تھے تو اس پر انہوں نے فرمایا.ہوگا.میں نے آپ کو بتایا ناں کہ اس ساری چیز کو اس کے بیک گراؤنڈ میں دیکھیں.قادیانیوں کو بھی اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ وہ اس ملک کے شہری ہیں تو کیا بات ہے کہ ملک کی ایک بہت بڑی Majority کے جذبات ان کے خلاف ہیں.کوئی نہ کوئی وجہ تو اس کی ہوگی.پھر کہنے لگے کہ اسکی وجہ میں نے آپ کو یہ بتائی ہے کہ جب آپ اپنے اثر کو ناجائز استعمال کریں گے تو اس سے دوسرے Hurt ہوں گے.اور پھر اس کی یہ مثال دی کہ سر ظفر اللہ کی لوگ Respect کرتے تھے کہ انہوں نے پاکستان کو Preach کیا لیکن انہوں نے میرٹ کی بجائے تعلقات پر بہت بھرتیاں کیں.جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیبنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے اور جگہ بھی کر سکتے تھے.“ پروفیسر غفور احمد صاحب کا یہ بیان بہت دلچسپ ہے.اول تو یہی بات محل نظر ہے کہ ملک کی
298 اکثریت احمدیوں کے خلاف ہے.لیکن اگر ان کا نظریہ تسلیم کر لیا جائے تو پھر صورت حال یہ بنے گی کہ اگر کسی ملک کی اکثریت کسی اقلیت کے خلاف ہو جائے تو ہمیں لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ قصور اس اقلیت کا ہی ہے اور اس لئے ان پر ہر ظلم روا ہے.مثلاً اگر انتہا پسند ہندوؤں کے زیر اثر ہندوستان کی اکثریت وہاں کے مسلمانوں کے خلاف ہو جائے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انتہا پسند ہندوستان میں بہت ووٹ بھی لیتے رہے ہیں اور ان کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا تھا.بلکہ جماعت اسلامی یا پاکستان کی دوسری مذہبی پارٹیوں کو تو کبھی اتنی کامیابی نہیں ملی جتنی ہندو انتہا پسند پارٹیوں کو ہندوستان میں ملتی رہی ہے.تو اس صورت میں اگر یہ اکثریت میں ہوتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف قدم اُٹھا ئیں تو کیا پھر پروفیسر غفور صاحب یہ نتیجہ نکالیں گے کہ قصورضرور ہندوستان کے مسلمانوں کا ہی ہے.مگر یہ نظریہ انصاف کے مطابق نہیں ہوگا.بلکہ اس اندھے تعصب کی بجائے یہ دیکھنا چاہئے کہ جن پر الزام لگایا جا رہا ہے.ان پر لگائے جانے والے الزاموں کی حقیقت کیا ہے.یا پھر ہم یہ مثال لے سکتے ہیں کہ اگر کسی مغربی ملک میں وہاں کی اکثریت وہاں کے مسلمانوں سے ناروا سلوک کرے اور ان کے خلاف جذبات کو خواہ مخواہ ہوا دی جائے تو کیا لا زماً اس سے نتیجہ یہ نکلے گا قصور وار مسلمان ہی تھے.کوئی بھی صاحب عقل اس فلسفہ کو تسلیم نہیں کر سکتا.ان کا دوسرا الزام بھی بہت دلچسپ ہے اور وہ یہ کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے تعلقات کی بنا پر بھرتیاں کیں.اس سوال کے پس منظر میں یہ الزام بھی مضحکہ خیز ہے.سوال تو یہ تھا کہ ۹ جون ۱۹۷۴ء کو اپوزیشن نے جس میں پروفیسر غفور صاحب کی پارٹی بھی شامل تھی یہ مطالبہ کیوں کیا کہ احمد یوں کو کلیدی آسامیوں سے برطرف کر دیا جائے تو اس کے جواب میں اس مطالبہ کی وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ اس مطالبہ سے کوئی چھپیں سال پہلے ایک احمدی وزیر نے تعلقات کی بنا پر غلط بھرتیاں کی تھیں اس لئے ۱۹۷۴ء میں یہ مطالبہ پیش کرنا پڑا.اور یہ الزام بھی غلط ہے کیونکہ اس وقت ۱۹۵۳ ء کی عدالتی تحقیقات کے دوران جماعت اسلامی نے بھی اپنا بیان اور موقف پیش کیا تھا اور اس تحریری موقف میں بھی یہ الزام لگایا تھا کہ احمدیوں نے آزادی کے بعد اپنے آپ کو حکومتی اداروں میں بالخصوص ایئر فورس ، آرمی ،سفارت خانوں میں ، مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں مستحکم کر لیا تھا.اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ وزارت خارجہ میں تو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ تھے لیکن آرمی، ایئر فورس ، صو بائی حکومتوں اور
299 مرکزی حکومت کے سربراہ تو احمدی نہیں تھے.یہ کس طرح ممکن ہوا کہ احمدی ان میں ناجائز تصرف حاصل کرتے گئے.اور اگر وزارت خارجہ میں بھی ایسا ہوا تھا تو جماعت اسلامی نے اس کا ثبوت کیا پیش کیا تھا ؟ جماعت اسلامی اس کا کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکی تھی.وہ کون سے لوگ تھے جن کو سفارت خانوں میں ناجائز طور پر بھرتی کیا گیا تھا؟ جماعت اسلامی تحقیقاتی عدالت میں کوئی ایک نام بھی پیش کرنے سے قاصر رہی تھی.اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا تھا کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے تعلقات کی بنا پر بھرتیاں کی تھیں.کوئی ایک مثال نہیں پیش کی گئی تھی.اس لئے کہ اس بات کا کوئی ثبوت تھا ہی نہیں یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے.جنرل ضیاء کے دور میں پروفیسر غفور صاحب نے بھی وزارت قبول کی تھی.اس وقت ان کے پاس موقع تھا کہ اس وقت احمدیوں کی مثالیں پیش کرتے جنہیں دوسروں کا حق مار کر میرٹ کے خلاف ملازمتیں دی گئی تھیں.لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے کیونکہ احمدیوں کو تو کئی دہائیوں سے ان کے جائز حقوق سے بھی محروم کیا گیا ، ان کو میرٹ کے خلاف ملازمتیں دینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.یہ لوگ نہ ۱۹۵۳ء میں اس بات کا کوئی ثبوت پیش کر سکے، نہ ۱۹۷۴ء میں اس الزام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے کوئی مثال پیش کر سکے اور نہ آج تک اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے کوئی معقول ثبوت پیش کیا گیا ہے.نصف صدی سے زائد عرصہ بیت گیا بغیر ثبوت کے ایک بات ہی دہرائی جا رہی ہے کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے پچاس سال پہلے کچھ احمدیوں کونا جائز طور پر وزارت خارجہ میں بھرتی کر لیا تھا.اس دوران Associated Press نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے انٹرویو لیا.اس انٹرویو میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ ان فسادات کے پیچھے حکومت پاکستان کا ہاتھ کارفرما ہے.آپ نے فرمایا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں تباہ و برباد نہیں کر سکتی.دنیا کے پچاس ممالک میں احمدیت موجود ہے.اگر پاکستان میں احمدی ختم بھی کر دیئے جائیں تو باقی دنیا میں موجود رہیں گے.(۲۰) جماعت کے مخالف مولویوں نے ۱۴ جون ۱۹۷۴ ء کو ایک ملک گیر ہڑتال کی اپیل کی ملکی اخبارات میں مختلف تجارتی تنظیموں اور مجلس تحفظ ختم نبوت اور دوسری تنظیموں کی طرف سے اعلانات شائع ہورہے تھے کہ قادیانیوں کا مکمل سماجی اور معاشی بائیکاٹ کیا جائے.ان سے کسی قسم کے مراسم نہ رکھے جائیں اور نہ ہی کسی قسم کا لین دین کیا جائے.اور ملک کا ایک حصہ اس مہم میں حصہ بھی لے رہا
300 تھا.اس مرحلہ پر حکومت وقت کے جو اعلانات شائع ہو رہے تھے ان کی روش کا اندازہ ان مثالوں سے ہو جاتا ہے.۱۲ جون کو وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے صاحب نے بیان دیا کہ حکومت قادیانیت کے مسئلہ کا مستقل حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے.یہ امر قابل توجہ ہے کہ جماعت احمدیہ اور دیگر فرقوں کا مذہبی اختلاف ایک مذہبی معاملہ ہے لیکن حنیف رامے صاحب یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ یہ حکومت کا کام ہے مذہبی اختلافات کے معاملات کا مستقل حل تلاش کرے.اس کے ساتھ رامے صاحب نے شورش بر پا کرنے والوں کو یہ خوش خبری سنائی کہ امیر جماعت احمدیہ کو شامل تحقیق کر لیا گیا ہے.اور پھر اعلان کیا کہ ہمارے اور عامۃ المسلمین کے جذبات اور عقائد ایک ہیں اور پھر یہ خوش خبری سنائی کہ صوبہ پنجاب میں مکمل امن و امان قائم ہے اور پھر مولویوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ امن قائم کرنے کا کام اکیلے حکومت وقت نہیں کر سکتی تھی عوام کے شعور ، اخبارات اور علماء کے تعاون سے کام ممکن ہوا ہے.(۲۱) جیسا کہ ہم پہلے ہی جائزہ لے چکے ہیں کہ جس وقت رامے صاحب نے یہ بیان دیا اس وقت پورے صوبے میں احمدیوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی ، ان کے گھر اور املاک کو آگیں لگائی جا رہی تھیں اور لوٹا جارہا تھا لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب کو صوبے میں امن و امان نظر آرہا تھا.مولویوں کا گروہ پورے ملک میں لوگوں کو اکسا رہا تھا کہ وہ احمدیوں کا خون بہائیں اور وزیر اعلیٰ صاحب ان کے کردار کو سراہ رہے تھے.اخبارات احمدیوں کی قتل و غارت اور ان پر ہونے والے مظالم کا مکمل بائیکاٹ کیسے بیٹھے تھے اور ان میں روزانہ جماعت کے خلاف جذبات بھڑ کانے والا مواد شائع ہوتا تھا اور اپیلیں شائع ہو رہی تھیں کہ احمدیوں کا مکمل بائیکاٹ کر دو، ان سے روز مرہ کا لین دین بھی نہ کر ولیکن پنجاب کے وزیر اعلی اخبارات کی تعریف کر رہے تھے کہ انہوں نے امن قائم کرنے کے لیے مثالی تعاون کیا ہے.وزیر اعظم کا انکشاف کہ ان حالات کے پیچھے بیرونی ہاتھ کار فرما ہے ۱۳ / جون ۱۹۷۴ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ایک نشری تقریر کی اور اس میں کہا کہ جو شخص ختم نبوت پر ایمان نہیں لاتا وہ مسلمان نہیں ہے.اور کہا کہ بجٹ کا اجلاس ختم ہوتے ہی
301 جولائی کے آغاز میں یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا اور ۹۰ سالہ اس مسئلہ کو اکثریت کی خواہش اور عقیدہ کے مطابق حل کیا جائے گا اور اس سلسلہ میں وہ اپنا کردار ادا کریں گے.لیکن کسی کو امن عامہ کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی.انہوں نے کہا کہ وہ ایک مضبوط اعصاب کے سیاستدان ہیں اور وہ جو فیصلہ کریں گے انہیں اس پر فخر ہو گا.بھٹو صاحب نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ الیکشن میں قادیانیوں نے انہیں ووٹ دیئے تھے لیکن انہیں قادیانیوں نے خریدا نہیں اور نہ وہ ان کے محتاج ہیں.اور انہیں شیعہ سنی اور دوسرے فرقہ کے لوگوں نے بھی ووٹ دیئے تھے.(۲۲) لیکن اس سب باتوں کے ساتھ وزیر اعظم نے اس بات کا بھی برملا اظہار کیا کہ نہ صرف وہ بلکہ کئی دوسرے لوگ بھی یہ بات دیکھ رہے ہیں کہ ان حالات کے بھی پیچھے غیر ملکی ہاتھ کارفرما ہے.اور یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ایک طرف بھارت نے ایٹمی دھما کہ کیا ، دوسری طرف افغانستان کے صدر سرکاری مہمان کی حیثیت سے ماسکو پہنچ گئے.اور پاکستان میں یہ مسئلہ اُٹھا دیا گیا.ربوہ کا واقعہ ان واقعات سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا.اور کہا کہ یہ پاکستان کی سالمیت اور وحدت کے لیے خطرہ ہے.(۲۳، ۲۴) یہ امر قابل توجہ ہے کہ اگر چہ حکومت مذہبی جماعتیں ، اپوزیشن کی جماعتیں اور مولویوں کا گروہ سب جماعت کے خلاف شورش سے اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لیے اس شورش کو ہوا دے رہے تھے اور اس کا رنامہ کا سہرا اپنے سر باندھنے کے لیے کوشاں تھے لیکن یہ سب جانتے تھے کہ اس شورش کی باگیں ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ملک سے باہر ہیں اور کوئی بیرونی ہاتھ اس بساط پر مہروں کو حرکت دے رہا تھا.اور بھٹو صاحب جیسا ذہین سیاستدان یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ اس راستہ میں کئی ممکنہ خطرات بھی تھے.۱۴ جون کو خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے احباب جماعت کو ان الفاظ میں استغفار کی طرف توجہ دلائی: ” پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے لیے استغفار ہے اس لئے تم اٹھتے بیٹھتے ہر وقت خدا سے مدد مانگو.پچھلے جمعہ کے دن پریشانی تھی لیکن بشاشت بھی تھی اور گھبراہٹ کا کوئی اثر نہیں تھا لیکن بہر حال ہمارے کئی بھائیوں کو تکلیف پہنچ رہی تھی جس کی وجہ سے ہمارے لئے پریشانی تھی.میں نے نماز میں کئی دفعہ سوائے خدا تعالیٰ کی حمد
302 کے اور اس کی صفات دہرانے کے اور کچھ نہیں مانگا.میں نے خدا سے عرض کیا کہ خدایا تو مجھ سے بہتر جانتا ہے کہ ایک احمدی کو کیا چاہئے اے خدا ! جو تیرے علم میں بہتر ہے وہ ہمارے ہر احمدی بھائی کو دے دے.میں کیا مانگوں میرا تو علم بھی محدود ہے میرے پاس جو خبریں آرہی ہیں وہ بھی محدود ہیں اور کسی کے لیے ہم نے بد دعا نہیں کرنی ہاں یا درکھو بالکل نہیں کرنی.خدا تعالیٰ نے ہمیں دعائیں کرنے کے لیے اور معاف کرنے کے لیے پیدا کیا ہے.اس نے ہمیں نوع انسان کا دل جیتنے کے لیے پیدا کیا ہے.اس لئے ہم نے کسی کو نہ دکھ پہنچانا ہے اور نہ ہی کسی کے لیے بد دعا کرنی ہے.آپ نے ہر ایک کے لیے خیر مانگنی ہے.یا درکھو ہماری جماعت ہر ایک انسان کے دکھوں کو دور کرنے کے لیے پیدا کی گئی ہے.لیکن اپنے اس مقام پر کھڑے ہونے کے لیے اور روحانی رفعتوں کے حصول کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے اور سوتے جاگتے اس طرح دعائیں کی جائیں کہ آپ کی خواہیں بھی استغفار سے معمور ہو جائیں.‘ (۲۵) پندرہ جون سے تمہیں جون تک کے حالات جون کے آخری دو ہفتہ میں بھی جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ کی آگ بھڑ کانے کی مہم پورے زور وشور سے جاری رہی.اور اب یہ فتنہ پرور اس بات کے لیے بھر پور کاوشیں کر رہے تھے کہ کسی طرح احمدیوں کا معاشی ، معاشرتی اور کاروباری بائیکاٹ اتنا مکمل کیا جائے کہ اس کے دباؤ کے تحت ان کے لیے جینا ناممکن بنادیا جائے اور وہ اپنے عقائد کو ترک کرنے پر مجبور ہو جائیں.ہم اس مرحلہ پر پڑھنے والوں کو یہ یاد دلاتے جائیں کہ جیسا کہ ہم ۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلس شوری کے ذکر میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اس وقت یہ فرمایا تھا کہ مخالفین یہ منصوبہ بنارہے ہیں کہ احمدیوں پر اتنا معاشی اور اقتصادی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوجائیں.اور ۱۹۷۴ء میں ہی مکہ مکرمہ میں جو رابطہ عالم اسلامی کا جو اجلاس ہوا تھا اس میں بھی یہ قرارداد منظور کی گئی تھی کہ احمدیوں کا معاشی اور اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے اور ان کو سرکاری ملازمتوں میں نہ لیا جائے.اور اب فسادات شروع ہونے کے بعد ان مقاصد کے حصول کے لئے ہر طرح کا ناجائز ذریعہ استعمال کیا جارہا تھا.
303 سرگودھا کی دوکانوں پر جلی حروف میں یہ اعلان لکھ کر لگایا گیا تھا کہ یہاں سے مرزائیوں کو سودا نہیں ملے گا.بعض اوقات جو احمدی گھروں سے باہر نکلتے تو ڈیوٹی پر مامور کچھ لڑکے ان سے استہزاء کرتے ، ان پر موبل آئل پھینکتے.ان فتنہ پردازوں کی حالت اتنی پست ہو چکی تھی کہ ۱۸ / جون کو چنیوٹ میں ایک دس سالہ احمدی لڑکا جب گھر سے باہر نکلا تو اس کے کپڑوں کو آگ لگا دی گئی.لیکن خدا نے اس کی جان بچالی.گوجر خان میں ایک بیمار احمدی دوائی لینے کے لیے نکلا تو پورے شہر میں اسے کسی نے دوائی بھی فروخت نہ کی.یہ لوگ احمدیوں کو تکلیف دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں کھونا چاہتے تھے خواہ اس کے لیے کتنی ہی پستی میں کیوں نہ گرنا پڑے.ان کے مظالم سے زندہ تو زندہ فوت شدہ بھی محفوظ نہ تھے.۲۲ جون کو خوشاب میں ایک احمدی کی قبر کو اکھیڑ کر اس کی بے حرمتی کی گئی.یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ انہیں فسادات کے دوران ضلع خوشاب میں قائد آباد کے مقام پر ایک بہت بڑا جلوس نکال کر احمدیوں کی چھ دوکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا ، لائبریری جلائی گئی اور احمدیوں کو ز دوکوب کیا گیا.اس ضلع میں بعض احمدیوں کے مکانوں کو آگ لگائی گئی اور بعض پر نشانات لگائے گئے کہ ان کو نذر آتش کرنا ہے لیکن پھر مفسدین کو کامیابی نہیں ہوئی.اسی ضلع میں ۱۷ جون ۱۹۷۴ء کو ایک گاؤں چک ۳۹ ڈی بی میں ایک بڑے جلوس نے محاصرہ کر لیا اور احمدیوں کو مرتد ہونے کے لئے الٹی میٹم دیا.احمدیوں کی فصلیں تباہ کی گئیں.اسی ضلع میں اکتوبر کے مہینے میں روڈہ کے مقام پر احمدیوں کی مسجد کو شہید کر دیا گیا.اور پھگلہ صوبہ سرحد میں دو غیر احمدی احباب کا صرف اس وجہ سے بائیکاٹ کر دیا گیا کہ انہوں نے ایک احمدی کی تدفین میں شرکت کی تھی.۲۶ جون کو فتح گڑھ میں ایک احمدی کی تدفین زبردستی رکوا دی گئی.ڈسکہ میں ایک احمدی کی چھ ماہ کی بچی فوت ہوگئی.جب تدفین کا وقت آ گیا تو سات آٹھ سوا فراد کا جلوس اسے روکنے کے لیے پہنچ گیا.سرکاری افسران سے مدد طلب کی گئی تو انہوں نے کسی مدد سے انکار کر دیا.ناچار بچی کو جماعت کی مسجد کے صحن میں ہی دفن کیا گیا.جب پاکستان میں ہر طرف وحشت و بربریت رقص کر رہی تھی تو اس پس منظر میں اخبارات احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا تو ذکر تک نہیں کر رہے تھے البتہ یہ سرخیاں بڑے فخر سے شائع کر رہے تھے کہ علماء کی اپیل پر احمدیوں کا مکمل سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ شروع ہو گیا ہے.چنانچہ ۶ ارجون کو یہ خبر نوائے وقت کے صفحہ اول کی زینت بنی کہ تحریک ختم نبوت کی اپیل پر آج مسلمانوں نے قادیانیوں کا مکمل سماجی اور سوشل بائیکاٹ
304 شروع کر دیا ہے اور یہ کہ قادیانیوں کے ریسٹورانٹ پر گاہکوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی.اس مرحلہ پر پاکستان کے کچھ سیاسی لیڈر دوسرے ممالک کے سربراہان سے بھی اپیلیں کر رہے تھے کہ وہ قادیانیت کو کچلنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں.چنانچہ جماعت اسلامی کے امیر طفیل محمد صاحب نے سعودی عرب کے شاہ فیصل کو ایک تار کے ذریعہ اپیل کی کہ پاکستان میں جو فتنہ قادیانیت نے سراٹھا رکھا ہے، اس کو کچلنے کے لیے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں.انہوں نے مزید لکھا کہ جس طرح رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اسی طرح پاکستان میں بھی ہونا چاہئے اور لکھا کہ میں حرمین شریفین کے خادم ہونے کے ناطے سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ اس مسئلہ میں اپنا اثر و رسوخ اور دوسرے ذرائع استعمال کریں.(۲۶) یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی جماعت احمدیہ کے خلاف ایسی شورش بر پا کی گئی تو اس کے بہت سے کرتا دھرتا افراد کی پرورش بیرونی ہاتھ کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں دوسرے ممالک کو اس ملک کے داخلی معاملات میں دخل دینے کا موقع مل جاتا ہے اور پھر یہ منحوس چکر چلتا رہتا ہے اور اس ملک کی پالیسیوں کی باگ ڈور بیرونی عناصر کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے.اور بعد میں پاکستان میں جو حالات رونما ہوئے وہ اس بات کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں.خادم حرمین شریفین یا کسی اور بیرونی سر براہ مملکت کا یہ کام نہیں کہ پاکستان یا کسی اور ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے.لیکن یہ حکومت وقت کا کام بھی ہے کہ وہ اس چیز کا نوٹس لے اور یہ نوبت نہ آنے دے کہ کسی بیرونی ہاتھ کو ملک میں مداخلت کا موقع ملے.جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے یہ سوال کیا کہ کیا میاں طفیل محمد کا یہ بیان غیر ملکی سربراہ کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دینے کے مترادف نہیں ہے.تو اس موقع پر جو سوال جواب ہوئے وہ یہ تھے.ڈاکٹر مبشر حسن صاحب ممکن ہے کہ انہوں نے وہ ان کے کہنے پر ہی کیا ہو کہ تم یہ demand کرو.سلطان : کس کے کہنے پر ڈاکٹر مبشر حسن صاحب : باہر والوں کے سلطان : شاہ فیصل کے کہنے پر
305 ڈاکٹر مبشر حسن صاحب : ہاں سلطان : اچھا ڈاکٹر مبشر حسن صاحب : ان کے یا کسی اور کے.جہاں سے بھی انہیں پیسے آتے تھے سلطان : میاں طفیل محمد کو جماعت اسلامی کو پیسے ملتے تھے مبشر حسن : ہاں ہاں سلطان: ان کے کہنے پر انہوں نے کہا OK تم یہ کرو ڈاکٹر مبشر حسن صاحب: ہاں تم یہ demand کرو بھئی ہم کر دیں گے.خود بخود ہم نے تو نہیں کیا.demand ہورہی تھی بھائی عوام سے.“ جب ہم نے عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب سے سوال کیا کہ میاں طفیل محمد صاحب کا یہ بیان غیر ملکی مداخلت کو دعوت دینے کے مترادف نہیں تھا تو انہوں نے کہا: "Jamat e Islami always did it, JUI always did it, JUP always did it" جماعت اسلامی ہمیشہ یہی کرتی تھی، جمعیت علماء اسلام ہمیشہ یہی کرتی تھی، جمعیت علمائے پاکستان ہمیشہ یہی کرتی تھی.حضرت خلیفۃ اسبح الثالث نے ۲۱ جون ۱۹۷۴ ء کے خطبہ جمعہ میں احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم کا ذکر کر کے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کو اور آپ کے صحابہ کو شعب ابی طالب میں جو تکالیف پہنچائی گئیں وہ بہت زیادہ تھیں.اور پھر آپ کا مکی دور تکالیف کا دور تھا.ان کی محبت کا تقاضا ہے کہ اگر دسیوں برس تک بھی ہمیں تکالیف اُٹھانی پڑیں تو ہم اس پیار کے نتیجہ میں دنیا پر ثابت کر دیں کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں اور محمد عے کے ساتھ پیار کرتے ہیں جوع کی حالت بھی ان کی وفا کو کمزور نہیں کرتی.وہ اسی طرح عشق میں مست رہتے ہیں جس طرح پیٹ بھر کر کھانے والا شخص مست رہتا ہے.ان دنوں جماعت کے خلاف حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ بڑے زور شور سے کیا جا رہا تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.حضور نے اس نامعقول مطالبہ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا بھر میں ایک شخص کا مذہب وہی سمجھا جاتا ہے جس کی طرف وہ خود اپنے آپ کو
306 منسوب کرتا ہو.حضور نے اس ضمن میں چین جیسے کمیونسٹ مذہب کی مثال دی.اور اس ضمن میں ان کے قائد چیئر مین ماؤ کے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنائے.اور فرمایا کہ کسی حکومت کا یہ حق نہیں کہ وہ فیصلہ کرے کہ کسی شہری کا مذہب کیا ہے.اور یو این او کے انسانی حقوق کے منشور کا حوالہ دیا جس پر پاکستان نے دستخط کیے ہوئے ہیں.اور پھر اس مضمون پر پاکستان کے آئین کا تجزیہ کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا: آخر میں میں اپنے دستور کو لیتا ہوں ہمارا موجودہ دستور جو عوامی دستور ہے، جو پاکستان کا دستور ہے.وہ دستور جس پر ہمارے وزیر اعظم صاحب کو بڑا فخر ہے، وہ دستور جو ان کے اعلان کے مطابق دنیا میں پاکستان کے بلند مقام کو قائم کرنے والا اور اس کی عزت اور احترام میں اضافہ کا موجب ہے، یہ دستور ہمیں کیا بتا تا ہے؟ اس دستور کی بیسویں دفعہ یہ ہے (a) Every Citizen shall have the right to profess, practice and propagate his religion and (b) every religious denomination and every sect thereof shall have the right to maintain and manage its religious institution.اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو ہمارا یہ دستور جو ہمارے لیے باعث فخر ہے یہ ضمانت دیتا ہے کہ جو اس کا مذہب ہو اور جس مذہب کا وہ خود اپنے لئے فیصلہ کرے وہ اس کا مذہب ہے.( بھٹو صاحب یا مفتی محمود صاحب یا مودودی صاحب نہیں بلکہ ) جس مطلب کے متعلق وہ فیصلہ کرے وہی اس کا مذہب ہے اور وہ اس کا زبانی اعلان کرسکتا ہے.یہ دستور ا سے حق دیتا ہے کہ وہ یہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں کہ نہیں اور اگر وہ یہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں تو یہ آئین جس پر پیپلز پارٹی کو بھی فخر ہے ( اور ہمیں بھی فخر ہے اس لئے یہ دفعہ اس میں آگئی ہے ) یہ دستور کہتا ہے کہ ہر شہری کا یہ حق ہے کہ وہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں یا مسلمانوں کے اندر میں وہابی ہوں یا اہلِ حدیث ہوں یا اہلِ
307 قرآن ہوں یا بریلوی ہوں ( وغیرہ وغیرہ تہتر فرقے ہیں ) یا احمدی ہوں تو یہ ہے مذہبی آزادی....پس ہزار ادب کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ یہ عقل کی بات ہم حکومت کے کان تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ جس کا تمہیں انسانی فطرت نے اور سرشت نے حق نہیں دیا جس کا تمہیں حکومتوں کے عمل نے حق نہیں دیا، جس کا تمہیں یو این او کے Human Rights نے (جس پر تمہارے دستخط ہیں) حق نہیں دیا، چین جیسی عظیم سلطنت جو مسلمان نہ ہونے کے باوجود اعلان کرتی ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کوئی شخص Profess کچھ کر رہا ہو اور اس کی طرف منسوب کچھ اور کر دیا جائے.میں کہتا ہوں میں مسلمان ہوں، کون ہے دنیا میں جو یہ کہے گا کہ تم مسلمان نہیں ہو.یہ کیسی نا معقول بات ہے.یہ ایسی نا معقول بات ہے کہ جو لوگ دہر یہ تھے انہیں بھی سمجھ آگئی.پس تم وہ بات کیوں کرتے ہو جس کا تمہیں تمہارے اس دستور نے حق نہیں دیا..(۲۷) ایک طرف تو جماعت احمدیہ کے متعلق حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارادے اچھے نہیں معلوم ہورہے تھے اور دوسری طرف ملک میں احمدیوں پر ہر قسم کا ظلم کیا جا رہا تھا تا کہ وہ اس دباؤ کے تحت اپنے عقائد ترک کر دیں.لیکن جب ابتلاؤں کی شدت اپنی انتہا پر پہنچی ہو تو ایک عارف باللہ یہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ان مشکلات کے ساتھ اللہ کی نصرت آرہی ہے.چنانچہ ۲۸ جون کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا.ہمارا زمانہ خوش رہنے مسکراتے رہنے اور خوشی سے اچھلنے کا زمانہ ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے کہ اس زمانہ میں نبی اکرم ﷺ کا جھنڈا دنیا کے ہر ملک میں گاڑا جائے گا.اور دنیا میں بسنے والے ہر انسان کے دل کی دھڑکنوں میں محمد علیہ کی محبت اور پیار دھڑ کنے لگے گا.اس لئے مسکراؤ!.مجھے یہ خیال اس لئے آیا کہ بعض چہروں پر میں نے مسکراہٹ نہیں دیکھی.ہمارے تو ہننے کے دن ہیں.نبی اکرم ﷺ کی فتح اور غلبہ کی جسے بشارت ملی ہو وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھ کر دل گرفتہ نہیں ہوا کرتا اور جو دروازے ہمارے لیے کھولے گئے ہیں وہ
308 آسمانوں کے دروازے ہیں.‘ (۲۸) جماعت احمدیہ کی مخالفت اتنی اندھی ہو چکی تھی کہ ان فسادات کے دوران ایک گیارہ برس کے احمدی بچے کو بھی ہیجبکہ نامی گاؤں سے گرفتار کر لیا گیا.پولیس اس بچے کو گرفتار کرنے کے لئے آئی تو سپاہی ہتھکڑی لگانے لگے.بچے کی عمر اتنی چھوٹی تھی کہ ہتھکڑی لگائی گئی تو وہ باز و سے نکل گئی.اس پر پولیس والے نے صرف بازو سے پکڑ کر گرفتار کرنے پر اکتفا کیا.البتہ اتنی مہربانی کی کہ اس بچے کو اپنے بھائیوں سمیت جیل میں اس احاطے میں رکھا گیا جہاں پر ربوہ سے گرفتار ہونے والے اسیران کو رکھا گیا تھا.اس احاطے میں سات کو ٹھریاں تھیں.اسیران کو شام چار بجے کو ٹھریوں میں بند کر دیا جاتا اور صبح چار بجے وہاں سے نکال دیا جاتا.ان کا وقت یا تو دعاؤں میں گزرتا یا پھر دل بہلانے کو کوئی کھیل کھیلنے لگ جاتے.مغرب عشاء کے وقت جب ہر کوٹھری سے اذان دی جاتی تو جیل کی فضاء اذانوں سے گونج اُٹھتی.جیل میں کھانا اتنا ہی غیر معیاری دیا جاتا جتنا پاکستان کی جیلوں میں دیا جاتا ہے.صبح کے وقت گڑ اور چنے ملتے اور شام کو بد مزہ دال روٹی ملتی.گرمی کے دن تھے اور جیل میں پنکھا تک موجود نہیں تھا البتہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے وہاں پر پنکھے لگانے کا انتظام فرما دیا تھا.اسی افراد کے لئے ایک لیٹرین تھی جس کی دن میں صرف ایک مرتبہ صفائی ہوتی تھی.اور اگر کوٹھریوں میں جانے کے بعد بارہ گھنٹے کے دوران اگر کسی کو قضائے حاجت کی ضرورت محسوس ہوتی تو اسے لیٹرین میں جانے کی اجازت بھی نہیں ہوتی تھی اور اس کے لیے نا قابل بیان صورت پیدا ہو جاتی تھی.جب یہ گیارہ سالہ بچہ اپنے رشتہ داروں سمیت رہا ہوا تو اس کے والد ملک ولی محمد صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثالث کیساتھ ملاقات کرنے گئے مگر اس بچے کو اپنے ساتھ نہ لے کر گئے لیکن حضور نے ارشاد فرمایا کہ اس بچے کو بھی ملاقات کے لئے لاؤ.جب یہ بچہ حضور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو حضور نے گلے لگا کر پیار کیا اور پرائیویٹ سیکریٹری کو ارشاد فرمایا کہ انکی تصویریں بنانے کا انتظام کیا جائے.یہ بچہ اب تک تاریخ احمدیت کا سب سے کم عمر اسیر ہے.قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا موجب ہوگی کہ یہ اسیر مبشر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ اس کتاب کے مؤلفین میں سے ایک ہیں.پاکستان کی قومی اسمبلی پر مشتمل ایک سپیشل کمیٹی قائم ہوتی ہے
309 پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ جب قومی اسمبلی بجٹ کے معاملات سے فارغ ہوگی ، قادیانی مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا تا کہ اس دیرینہ مسئلہ کا کوئی حل نکالا جائے.۳۰ جون ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی میں بجٹ کی کارروائی ختم ہوئی ، اس موقع پر وزیر اعظم بھی ایوان میں موجود تھے.اس مرحلہ پر اپوزیشن کے ممبران نے ایک قرارداد پیش کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیرو کاروں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.اس پر وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب نے کہا کہ حکومت اصولی طور پر اس قرارداد کی مخالفت نہیں کرتی بلکہ اس کا خیر مقدم کرتی ہے.وزیر قانون نے تجویز دی کہ کارروائی کو دو گھنٹے کے لیے ملتوی کر دیا جائے تاکہ حکومت اپوزیشن کے مشورہ کے ساتھ کوئی قرارداد تیار کر سکے یہ تجویز منظور کر لی گئی.ان دو گھنٹوں میں سپیکر کے کمرہ میں ایک میٹنگ ہوئی.جس میں وزیر قانون پیرزادہ صاحب، سیکریٹری قانون محمد افضل چیمہ صاحب، پنجاب کے وزیر اعلیٰ حنیف رامے صاحب اور اپوزیشن کے ممبران میں سے مفتی محمود صاحب، شیر باز مزاری ،صاحب، شاہ احمد نورانی صاحب، غلام فاروق صاحب اور سردار شوکت حیات صاحب نے شرکت کی.اپوزیشن کے ممبران نے یہ واضح کیا کہ وہ ہر قیمت پر اپنی قرار داد کو ایوان میں پیش کریں گے.اس وقفہ میں مشورہ کے بعد ایوان کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا.اس میں وزیر قانون نے قرار داد پیش کی کہ ایک سپیشل کمیٹی قائم کی جائے جو ایوان کے تمام اراکین پر مشتمل ہو.اور سپیکر اسمبلی اس کے چیئر مین کے فرائض ادا کریں.اس کمیٹی کے سپر دمندرجہ ذیل تین کام ہوں گے.۱) اسلام میں اس شخص کی کیا حیثیت ہے جو حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی نہ مانتا ہو.۲) ایک مقررہ وقت میں ممبران کمیٹی سے قرارداد میں اور تجاویز وصول کرنا اور ان پر غور کرنا.غور کرنے ، گواہوں کا بیان سننے اور دستاویزات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس مسئلہ کے متعلق تجاویز مرتب کرنا.اس کے ساتھ وزیر قانون نے کہا کہ اس کمیٹی کی کارروائی بند کمرہ میں (In Camera ) ہوگی.ایوان نے متفقہ طور پر یہ قرار داد منظور کر لی.اس کے بعد اپوزیشن کے ۲۲ اراکین کے دستخطوں کے ساتھ ایک قرار داد پیش کی گئی.ایوان میں اس قرار داد کو شاہ احمد نورانی صاحب نے پیش کیا اس پر
310 مختلف پارٹیوں کے اراکین کے دستخط تھے.اس قرارداد کے الفاظ تہذیب سے کلیۂ عاری تھے.اس قرارداد کے الفاظ تھے چونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے حضرت محمد ﷺ کے بعد جو اللہ کے آخری نبی ہیں نبوت کا دعویٰ کیا.اور چونکہ اس کا جھوٹا دعویٰ نبوت، قرآنِ کریم کی بعض آیات میں تحریف کی سازش اور جہاد کو ساقط کر دینے کی کوشش ، اسلام کے مسلمات سے بغاوت کے مترادف ہے.اور چونکہ وہ سامراج کی پیداوار ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے.چونکہ پوری امت مسلمہ کا اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیرو کار خواہ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہوں یا اسے کسی اور شکل میں اپنا ذہبی پیشوا یا مصلح مانتے ہوں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں.چونکہ اس کے پیروکار خواہ انہیں کسی نام سے پکارا جاتا ہو.وہ دھوکہ دہی سے مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ بن کر اور اس طرح ان سے گھل مل کر اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں.چونکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی تنظیموں کی ایک کا نفرنس میں جو ۶ تا ۱۰ را پریل مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہوئی ، جس میں دنیا بھر کی ۱۴۰ مسلم تنظیموں اور انجمنوں نے شرکت کی اس میں کامل اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ قادیانیت جس کے پیرو کار دھوکہ دہی سے اپنے آپ کو اسلام کا ایک فرقہ کہتے ہیں.دراصل اس فرقہ کا مقصد اسلام اور مسلم دنیا کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرنا ہے اس لئے اب یہ اسمبلی اعلان کرتی ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار خواہ انہیں کسی نام سے پکارا جا تا ہو مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تا کہ اس اعلان کو دستور میں ضروری ترامیم کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جا سکے اور یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے ان کے جائز حقوق کا تحفظ کیا جا سکے.“
311 وزیر قانون نے اس قرارداد میں جو انہوں نے پیش کی تھی اور اپوزیشن کی پیش کردہ قرارداد میں مشتر کہ امور کی نشاندہی کی.ایوان نے اس قرارداد کو بھی سپیشل کمیٹی میں پیش کرنے کی منظوری دے دی.(۲۹ تا ۳۱) اب یہ بات قابل توجہ ہے کہ ابھی اس موضوع پر اسمبلی کی با قاعدہ کارروائی شروع ہی نہیں ہوئی اور ابھی جماعت احمدیہ کا موقف سنا ہی نہیں گیا تو اپوزیشن ایک مشتر کہ قرارداد پیش کرتی ہے کہ احمدیوں کو آئین میں غیر مسلم قرار دیا جائے اور حکومت یہ کہتی ہے کہ ہم اس قرارداد کا خیر مقدم کرتے ہیں.تو باقی رہ کیا گیا.اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ابھی کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی کہ اصل میں فیصلہ ہو چکا تھا اور بعد میں جو کچھ کا رروائی کے نام پر ہو اوہ محض ایک ڈھونگ تھا.جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے اس بارے میں سوال کیا.تو ان کا جواب تھا کہ مجھے صحیح تو معلوم نہیں لیکن یہ ہوا ہوگا کہ جب قرار داد پیش ہوئی ہوگی تو پیرزادہ صاحب بھٹو صاحب کے پاس گئے ہوں گے کہ یہ قرار داد ہے اب کیا Attitude لیں.تو بھٹو صاحب نے کہا ہوگا کہ پیش ہونے دو.مخالفت نہ کرو.تو اب انہیں یہ سمجھ میں نہیں آئی کہ کیا الفاظ استعمال کریں.تا کہ یہ کہہ بھی دیں اور ان الفاظ میں نہ کہیں اب تو پکڑے گئے.اور پھر جب ہم نے یہ بات دہرائی کہ یہ واقعہ تو ۳۰ جون کا ہے تو ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے کہا.”ہاں بالکل بیوقوف تھا لاء منسٹر.اگر وہ بھٹو صاحب کا ساتھی ہوتا تو اس طرح انہیں expose نہ کرتا.“ جب انہیں کہا گیا کہ یہ تو انصاف سے بعید ہے کہ ایک فرقہ کا موقف سنے بغیر آپ فیصلہ سنا دیں.اس پر ان کا جواب تھا نیت تو ہو گئی تھی.“ جب ہم نے یہ سوال اس وقت کے سپیکر صاحب صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے پوچھا کہ ۲۰ جون کو جب اپوزیشن نے یہ قرارداد پیش کی تو حکومت نے کہا کہ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس وقت تک فیصلہ ہو چکا تھا تو ان کا جواب تھا: در نہیں وہ اس سے پہلے جائیں ناں رابطہ عالم اسلامی کی طرف“
312 اس پر ہم نے کہا مطلب یہ کہ اسوقت Decide ہو چکا تھا اس پر صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے کہا: " Decide نہیں مطلب یہ ہے کہ They were planning like that Decision اور ہوتا ہے planning اور ہوتی ہے.“ 66 اب قارئین یہ بات صاف صاف دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت کے قومی اسمبلی کے سپیکر صاحب کے نزدیک جس وقت رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں جماعت احمدیہ کے خلاف قرار داد منظور کی گئی اسی وقت اس چیز کا منصوبہ بن چکا تھا کہ پاکستان کے آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا ہے.اب یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ ڈیڑھ ماہ میں ربوہ کے سٹیشن پر واقعہ بھی ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں ملک گیر فسادات بھی شروع ہو جائیں، جس کے نتیجہ میں یہ مطالبہ پورے زور و شور سے پیش کیا جائے کہ آئین میں ترمیم کر کے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.پڑھنے والے یہ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہمیں لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ ان فسادات کو بھی ایک پلان کے تحت شروع کرایا گیا تھا.اگلے روز یکم جولائی کو اس سپیشل کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا اور یہ اجلاس ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا.اس اجلاس میں یہ منظور کیا گیا کہ اس کمیٹی کی تمام کارروائی بصیغہ راز رکھی جائے گی.اور سوائے سرکاری اعلامیہ کے اس بارے میں کوئی خبر شائع نہیں کی جائے گی.اور یہ بھی قرار پایا کہ یہ کمیٹی پانچ جولائی تک تجاویز کو وصول کرے گی.اور اس کا اگلا اجلاس ۳/ جولائی کو ہوگا جس میں مزید قواعد وضوابط طے کیے جائیں گے.(۳۲، ۳۳) یہ امر قابل توجہ ہے کہ آغاز سے ہی بڑے زور وشور سے اس بات کا اہتمام کیا جارہا تھا کہ تمام کارروائی کو خفیہ رکھا جائے اور کسی کو کان وکان خبر نہ ہو کہ کارروائی کے دوران کیا ہوا.حالانکہ اس کمیٹی میں ملک کے دفاعی رازوں پر تو بات نہیں ہونی تھی کہ اس کو خفیہ رکھنے کی ضرورت ہو.اس کے دوران تو جماعت کی طرف سے اور جماعت کے مذہبی مخالفین کی طرف سے مذہبی دلائل پیش ہونے تھے اور دلائل کا یہ تبادلہ کوئی نوے سال سے جاری تھا.یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ایسا اس لیے کیا جارہا تھا تا کہ امن عامہ کی حالت خراب نہ ہو کیونکہ جہاں جہاں فسادات کی آگ بھڑکائی جا رہی تھی ،ایسے
313 اکثر مقامات پر تو قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تو خاموش تماشائی بن کر کھڑے تھے یا پھر مفسدین کی اعانت کر رہے تھے.لیکن جب وزیر اعظم بھٹو صاحب نے اس مسئلہ پر ۳ جون کو ایوان میں تقریر کی تو اس بات کا اشارہ دیا کہ اس ضمن میں کارروائی In Camera کی جاسکتی ہے.جب وزیر قانون نے تمام ایوان کو پیشل کمیٹی میں تبدیل کر کے کارروائی شروع کرنے کی تجویز پیش کی تو ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ کارروائی In Camera ہوگی.تمام ایوان کا سپیشل کمیٹی کے طور پر اجلاس شروع ہوا تو پھر یہ قانون منظور کیا گیا کہ کارروائی In Camera ہوگی.آخر وزیر اعظم سے لے کر نیچے تک سب کو رس میں اس بات کا ورد کیوں کر رہے تھے کہ کارروائی خفیہ ہو اور سرکاری اعلان کے علاوہ اس پر کوئی بات پبلک میں نہ آئے.یہ اس لیے تھا کہ نوے سال کا تجربہ انہیں یہ بات تو سکھا چکا تھا کہ وہ دلائل میں جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے.ورنہ جماعت نے جن پر ہر قسم کے مظالم ہو رہے تھے کبھی اس بات کا مطالبہ پیش ہی نہیں کیا تھا کہ اس کا رروائی کو منظر عام پر نہ لایا جائے.تین جولائی کو کارروائی پھر سے شروع ہوئی اور مزید قواعد بنائے گئے اور ایک بار پھر In Camera یعنی خفیہ کارروائی کے اصول کا سختی سے اعادہ کیا گیا.منظورشدہ قواعد میں قاعدہ نمبر ۳ یہ تھا.Secret Sittings The sittings of the committee shall be held in camera and no strangers shall be permitted to be present at the sittings except the secretary and secretary Ministry of law and parliamentary affairs, and such officers and staff as the chairman may direct.یعنی کمیٹی کے اجلاسات خفیہ ہوں گے اور سوائے سیکریٹری اور سیکریٹری وزارت قانون اور پارلیمانی امور اور ان افسران کے علاوہ جن کی بابت صاحب صدر ہدایت جاری کریں کوئی شخص ان اجلاسات کو ملاحظہ نہیں کر سکے گا.ویسے تو اپوزیشن اور حکومت کے اراکین ہر معاملہ میں ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتے تھے لیکن اس معاملہ میں اپوزیشن کی طرف سے بھی یہ نقطہ اعتراض نہیں اُٹھایا گیا کہ اس قدر خفیہ کارروائی کی ضرروت کیا ہے.انہیں بھی یہی منظور تھا کہ اس کا رروائی کو منظر عام پر نہ لایا جائے.(۳۴)
314 اس اجلاس میں بارہ رکنی ایک راہبر کمیٹی (Steering Committee) بھی قائم کی گئی جس میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کے اراکین شامل تھے.بعد میں اس میں مزید اراکین کا اضافہ کر دیا گیا.اور یہ طے پایا کہ ۶ / جولائی کی صبح کو راہبر کمیٹی کا اجلاس ہو اور اسی شام کو پوری قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی کا اجلاس ہو.وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب اس راہبر کمیٹی کے کنو میز مقرر ہوئے.اور یہ فیصلہ ہوا کہ ۶ / جولائی کی صبح کو اس راہبر کمیٹی کا اجلاس ہوگا اور شام کو پورے ایوان پر مشتمل سپیشل کمیٹی کا اجلاس ہوگا.یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ۱۴ جولائی ۱۹۷۴ء کو ناظر اعلی صدرانجمن احمد یہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے قومی اسمبلی کی کمیٹی کے صدر کو لکھا کہ A delegation of the Ahmadiyya Movement in Islam comprising of the following members may kindly be allowed to present material with regard to our belief in Khatme Nabbuwat -finality of the prophethood of the Holy Prophet Muhammad may peace and blessing of Allah be on Him and to depose as witnesses (1) Maulana Abul Ata (2) Sheikh Muhammad Ahmad Mazhar (3) Mirza Tahir Ahmad (4) Maulvi Dost Muhammad.یعنی جماعت کی طرف سے چار اراکین نامزد کئے گئے جو کہ اس موقع پر جماعت کے وفد کے اراکین کی حیثیت سے جماعت کا موقف پیش کرنے کے لئے جائیں گے.یہ چار اراکین مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب ، مکرم شیخ محمد احمد مظہر صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور مکرم مولوی دوست محمد شاہد صاحب تھے.جولائی ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی کے سیکریٹری کی طرف سے جواب موصول ہوا The special committee has permitted you to file a
315 written statement of your views and produce documents etc in support thereof.The committee has also agreed to hear your delegation provided it is headed by chief of your Jammat.Oral statement or speech will not be allowed and only the written statement may be read before the committee.After hearing the statement and examining the documents the committee will put question to the chief of the jamaat.Please file your statement along with documents etc with the secretory National Assembly by six p.m.on Eleventh July.یعنی اس ٹیلیگرام میں کہا گیا تھا کہ پیشل کمیٹی جماعت کی طرف سے تحریری بیان کو قبول کرے گی اور اس کے ساتھ دوسری دستاویزات بھیجی جاسکتی ہیں.جماعت کے وفد کا موقف اس شرط پر سنا جائے گا کہ اس کی قیادت جماعت کے امام کر رہے ہوں.کمیٹی کے سامنے تحریری بیان پڑھا جائے گا زبانی بیان یا تقریر کی اجازت نہیں ہو گی.اس بیان کے بعد سپیشل کمیٹی جماعت کے سر براہ سے سوالات کرے گی.براہ مہربانی اپنا بیان شام چھ بجے اار جولائی تک جمع کرا دیں.اب یہ عجیب صورت حال پیدا کی جارہی تھی کہ جماعت کا وفد اس کمیٹی کے سامنے پیش ہونا تھا تو یہ اختیار بھی جماعت کو ہی تھا کہ وہ جسے پسند کرے اس وفد کارکن یا سر براہ مقرر کرے لیکن یہاں پر قومی اسمبلی کی کمیٹی بیٹھی یہ فیصلہ بھی کر رہی تھی کی کہ جماعت کے وفد میں کسے شامل ہونا چاہئے.لیکن اس اندھیر نگری میں عقل کو کون پوچھتا تھا.چنانچہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۴ء کو ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے سیکریٹری صاحب قومی اسمبلی کو ایک خط تحریر فرمایا جس کے آخر میں آپ نے لکھا "I find it very strange that you propose to appoint the head of delegation.I think the delegation being ours the
316 choice as to who should lead it should also be ours." یعنی یہ بات میرے لئے حیرت کا باعث ہے کہ آپ ہمارے وفد کا سر براہ مقرر کر رہے ہیں.اگر یہ وفد ہمارا وفد ہے تو یہ فیصلہ بھی ہمارا ہونا چاہئے کہ اس کی قیادت کون کرے گا ؟ لیکن یہ عقل کی بات منظور نہیں کی گئی.چنانچہ یہ تحریری موقف ایک محضر نامہ کی صورت میں تیار کیا گیا اور کرم محمد شفیق قیصر مرحوم صاحب اس محضر نامہ کی ایک کاپی مکرم مجیب الرحمن صاحب کے پاس لے کر آئے کہ وہ اسے داخل کرائیں.چنانچہ مکرم مجیب الرحمان صاحب نے یہ کاپی قومی اسمبلی کے سیکریٹری جنرل الیاس صاحب کے حوالے کی.انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اسمبلی کی کارروائی شروع ہونے سے قبل تمام ممبران اسمبلی کو اس کی ایک ایک کاپی دی جائے.چنانچہ مجیب الرحمن صاحب نے فون پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے اس بابت عرض کیا.چنانچہ دو تین دن کے اندر مکرم شفیق قیصر صاحب ایک گاڑی میں اس کی شائع کردہ مطلوبہ کا پیاں لے کر آگئے.ابھی اس کی جلد میں گیلی تھیں کہ یہ کاپیاں سیکریٹری اسمبلی کے حوالہ کی گئیں (۳۵).اس محضر نامے کے ساتھ کچھ Annexures بھی اجازت لے کر جمع کرائے گئے تھے.ان کی فہرست یہ ہے: (1) An extract from 'the Anatomy of liberty' by William O.Douglas (2) We are Muslims by Hazrat Khalifa tul Masih Third (3) Press release by Mr.Joshua Fazaluddin (۴) فتاوی تکفیر (۵) مقربانِ الہی کی سرخروئی از مولوی دوست محمد شاہد صاحب (۶) القول المبین از مولانا ابوالعطاء (۷) خاتم الانبیاء (۸) مقام ختم نبوت از حضرت طریقہ اسیح الثالث
(۹) ہم مسلمان ہیں (۱۰) ہمارا موقف 317 (11) عظیم روحانی تجلیات از حضرت خلیفه امسیح الثالث (۱۲) حضرت بانی سلسلہ پر تحریف قرآن کے بہتان کی تردید (۱۳) مودودی شه پاره پندرہ جولائی کو وزیر قانون نے ایک پریس کانفرنس میں ان کمیٹیوں کی کارگزاری بیان کی.انہوں نے پریس کو بتایا کہ راہبر کمیٹی میں حکومتی اراکین کے علاوہ جماعت اسلامی ، جمعیت العلماء اسلام اور جمعیت العلماء پاکستان کے اراکین اسمبلی بھی شامل ہیں.لاہور اور ر بوہ دونوں کی جماعتوں کو کہا گیا تھا کہ وہ اپنا تحریری موقف جمع کرائیں.ربوہ کی جماعت کی طرف سے ۱۹۸ صفحات پر مشتمل ایک کاپی موصول ہوئی ہے اور انہیں کہا گیا ہے کہ وہ ۱۵ جولائی تک اس کی ۲۵۰ کا پیاں جمع کرائیں.اور دونوں جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ان پر اپنی جماعتوں کے سربراہوں کے دستخط کرائیں.مختلف افراد کی طرف سے ۵۱۴ تحریری آراء موصول ہوئی ہیں جن میں سے ۲۶۸ قادیانیوں کے خلاف اور ۲۴۶ قادیانیوں کے حق میں ہیں.اس کے علاہ مختلف تنظیموں کی طرف سے تحریری آراء موصول ہوئی ہیں.ان میں سے ۱۱ قادیانیوں کے خلاف اور ۴ قادیانیوں کے حق میں اور ایک غیر جانبدار ہے.پیرزادہ صاحب نے کہا کہ مختلف حکومتوں کی امداد یافتہ تنظیموں کی طرف سے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اظہارِ خیال کرنے کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں.لیکن ابھی ان کی مدد کی ضرورت نہیں ہے.یہ ایک دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور سابقہ حکومتیں اسے حل نہیں کر سکی تھیں.راہبر کمیٹی نے اپنی تجاویز پیشل کمیٹی میں بھجوائی تھیں اور سپیشل کمیٹی نے انہیں منظور کر لیا ہے.دونوں جماعتوں کے وفود کے موقف کو سنا جائے اور ان وفود میں ان جماعتوں کے سربراہان کو بھی شامل ہونا چاہئے.اس کے بعد سپیشل کمیٹی کے اراکین اٹارنی جنرل کی وساطت سے ان وفود سے سوالات کر سکتے ہیں.(۳۶) جیسا کہ ابھی ہم نے ذکر کیا ہے کہ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ قومی اسمبلی کے اراکین اٹارنی جنرل صاحب کی وساطت سے سوال کریں گے یعنی وہ سوال لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کو دیں گے اور اٹارنی جنرل
318 صاحب وفد سے سوال کریں گے.بیٹی بختیار صاحب نے اپنی عمر کے آخری سالوں میں ۷۴ کی کارروائی کے متعلق ایک انٹرویو دیا اور اس میں یہ دعوی کیا کہ یہ اس لئے کیا گیا تھا کہ احمدیوں کو خیال تھا کہ اگر مولوی ہم سے سوال کریں گے تو ہماری بے عزتی کریں گے اس لئے جے اے رحیم نے یہ تجویز دی کہ سولات اٹارنی جنرل کی وساطت سے پوچھے جائیں.( تحریک ختم نبوت جلد سوم، مصنفہ اللہ وسایا صاحب، ناشر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ، حضوری باغ روڈ ملتان ، جون ۱۹۹۵ ء ص ۸۷۲ ان کے اس بیان سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس وقت احمدیوں کے جذبات کا اس قدر خیال رکھ رہی تھی کہ انہیں اس بات کی بھی بہت پر واہ تھی کہ کہیں احمدیوں کی بے عزتی بھی نہ ہو جائے.حالانکہ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ احمدیوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا جارہا تھا اورحکومت فسادات کو روکنے کی بجائے خود احمدیوں کو مورد الزام ٹھہرا رہی تھی.اس بیان کا سقم اس بات سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ یحییٰ بختیار صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ احمدی اس بات سے پریشان تھے کہ مولوی ان کی بے عزتی کریں گے اور اس صورتِ حال میں جے اے رحیم صاحب نے یہ تجویز دی کہ اٹارنی جنرل صاحب سوالات کریں.مگر یہ بیان دیتے ہوئے بیچی بختیار صاحب ایک بات چیک کرنا بھول گئے تھے.جے اے رحیم صاحب کو ۳ جولائی ۱۹۷۴ء کو وزیر اعظم بھٹو صاحب نے برطرف کر دیا تھا کیونکہ بقول ان کے، جے اے رحیم صاحب کا طرز عمل پارٹی ڈسپلن کے خلاف تھا (مشرق ۴ جولائی ۱۹۷۴ ص۱).اور ظاہر ہے کہ یہ شدید اختلافات ایک رات پہلے نہیں شروع ہوئے تھے ان کا سلسلہ کافی پہلے سے چل رہا تھا.قومی اسمبلی کی کارروائی اس سے بہت بعد شروع ہوئی تھی.اور اس کارروائی کے خدو خال تو سٹیرنگ کمیٹی میں طے ہوئے تھے اور اس کا قیام ۳ جولائی کو ہی عمل میں آیا تھا.اور یہ فیصلہ کہ حضور جماعت کے وفد کی قیادت فرمائیں گے بھی اس تاریخ کے بعد کا ہے.بلکہ جے اے رحیم کے استعفیٰ کے وقت تک تو ابھی یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا تھا کہ جماعت کا وفد قو می اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں اپنا موقف پیش کرے گا.چنانچہ جب یہ وقت آیا تو جے اے رحیم صاحب اس پوزیشن میں تھے ہی نہیں کہ کسی طرح اس قسم کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے.لیکن بہر حال جب ہم نے اس وقت قومی اسمبلی کے سپیکر مکرم صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب
319 سے انٹرو یولیا تو انہوں نے اس کے بارے میں ایک بالکل مختلف واقعہ بتایا.گو کہ ہمارے خیال میں یہ فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا کہ سوالات اٹارنی جنرل صاحب کی وساطت سے کئے جائیں گے لیکن ایک اور واقعہ ہوا جس کے بعد حکومت نے اس بات کا مصمم ارادہ کر لیا کہ اگر مولوی حضرات کو براہ راست سوالات کرنے کا زیادہ موقع نہ ہی دیا جائے تو حکومت کے لئے بہتر ہوگا.صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب کا کہنا تھا کہ کارروائی کے آغاز میں ہی مفتی محمود صاحب نے اٹھ کر براہ راست حضرت خلیفۃ امسیح الثالث" سے سوال کر لیا.اور پوچھا کہ آپ نے اس لفظ کی یہ Interpretation کیوں کی ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ اس لفظ کی اتنی Interpretations ہو چکی ہیں.ہم نے اس کی یہ Interpretation لی ہے.اور ہماری Interpretattion درست ہے.صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب کہتے ہیں کہ اس پر مفتی محمود صاحب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا.کہتے ہیں کہ اسی روز میں نے بھٹو صاحب کو اپنے چیمبر سے فون کیا اور کہا کہ آپ کے لیڈر آف اپوزیشن کا یہ حال ہے کہ انہیں ایک سوال پر ہی صفر کر دیا گیا ہے.اس پر بھٹو صاحب نے کہا کہ پھر آپ کیا مشورہ دیتے ہیں.اس پر میں نے کہا کہ جرح اٹارنی جنرل ہی کرے اور اس کے ساتھ پانچ سات افراد کی کمیٹی اعانت کے لئے بنا دی جائے.ان کی گواہی سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا مولوی حضرات کو بے عزتی سے بچانے کے لئے کیا گیا تھا.اور اسی انٹرویو میں صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے ہم سے بیان کیا کہ آدھے گھنٹے پہلے ہی سوال آجاتے تھے.تو بسا اوقات بیچی بختیار صاحب سوال پڑھ کر اس کی نامعقولیت پر غصہ میں آ جاتے اور کہتے یہ کس.....(آگے ایک گالی ہے) نے بھیجا ہے اور اسے پھاڑ دیتے.یاد رہے کہ یہ روایت بیان کرنے والے صاحب اسمبلی کے سپیکر تھے اور اس سپیشل کمیٹی کی صدارت کر رہے تھے.وزیر اعظم ایک بار پھر بیرونی ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جب راہبر کمیٹی اپنا کام ختم کر کے تجاویز سپیشل کمیٹی کو بھجوا رہی تھی تو انہی دنوں میں ۱۲ جولائی ۱۹۷۴ء کو وزیر اعظم نے مینگورہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا اور اس تقریر میں انہوں نے ملک
320 میں جاری فسادات کے بارے میں اپنا تجزیہ بھی ملک کے عوام کے سامنے رکھا.۱۳ / جولائی ۱۹۷۴ء کو ملک کے مشہور اخبار ڈان (Dawn) نے اس حصہ کے متعلق جور پورٹنگ شائع کی وہ نقل کی جاتی ہے "The Prime Minister said that Ahmadiyya issue was a link in the chain of international consipiracy, aided by unpatriotic elements in the country.He explained that on May 18 India exploded its nuclear device, on may 22 the first incident at Rabwah ocurred and when that proved a flop another incident ocurred at Rabwah on May 29.......He reminded his audience that he had informed the nation in his june 13 address that this agitation was an international consipiracy." وو ترجمہ: وزیر اعظم نے کہا کہ احمد یہ ایشو ایک بین الاقوامی سازش کی زنجیر کی ایک کڑی ہے.اور ملک کے اندر غیر محب وطن طبقہ اس کی اعانت کر رہا ہے.انہوں نے وضاحت کی کہ ۱۸ رمئی کو بھارت نے ایٹمی دھما کہ کیا اور ۲۲ رمئی کو ربوہ میں پہلا واقعہ ہوتا ہے.لیکن جب یہ کوشش ناکام ہو گئی تو ۲۹ رمئی کو دوسرا واقعہ ہوتا ہے...(اس کے بعد بھٹو صاحب نے ملک کے ایک اپوزیشن سیاستدان اور افغانستان کی حکومت کے مابین تعلقات کے متعلق اور بھارت کے کچھ سیاستدانوں کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ تفصیلات بیان کیں ) انہوں نے سننے والوں کو یاد دلایا کہ انہوں نے اپنے ۱۳ رجون کے خطاب میں قوم کو بتا دیا تھا کہ یہ شورش ایک بین الاقوامی سازش ہے.پھر ۱۳ / جولائی ۱۹۷۴ء کو بٹ خیلہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو صاحب
321 نے کہا کہ بھارت کے ایٹمی دھماکہ کے فوری بعد قادیانیوں کے مسئلہ پر ہنگامے اور نیپ کے لیڈر خان عبدالولی خان کی بیرون ملک سرگرمیاں یہ ملک کی سالمیت کے خلاف سازش ہے اور کہا کہ حکومت قادیانیوں کے مسئلہ کو خاطر خواہ طریق پر حل کرے گی.اس جلسہ میں ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگایا گیا تو بھٹو صاحب بھی اس نعرے میں شامل ہوئے.(مشرق ۱۴ جولائی ۱۹۷۴ ص۱) بھٹو صاحب کے ان بیانات سے مندرجہ ذیل باتیں بالکل ظاہر و باہر ہیں.بھٹو صاحب کے نزدیک جماعت احمدیہ کے خلاف یہ فسادات اور ان کے غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ ایک بین الاقوامی سازش تھی اور اس سازش کو غیر ملکی عناصر کے ایماء پر چلایا جا رہا تھا.(۲) اس سازش سے پاکستان کی سا لمیت کو خطرہ تھا.۳) ملک کے اندر ایک غیر محب وطن طبقہ اس سازش کی مدد کر رہا تھا.پہلے ۲۲ مئی ۱۹۷۴ء کور بوہ کے سٹیشن کے واقعہ کو ایک سازش کے تحت کرایا گیا.۵) جب ۲۲ مئی کو ایسے حالات پیدا نہ ہو سکے کہ ملک گیر فسادات بھڑکائے جاسکیں تو ۲۹ مئی ۱۹۷۴ ء کو اسی سازش کے تحت ملک دشمن عناصر نے دوسرا واقعہ کرایا اور اس کے نتیجہ میں ملک گیر فسادات کی آگ بھڑ کائی گئی.سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ سازش کون کر رہا تھا.یہ بات تو خلاف عقل ہے کہ جماعت احمدیہ نے خود اپنے خلاف ایسی سازش کی جس کے نتیجہ میں پورے ملک میں کئی احمدیوں کو شہید کر دیا گیا اور احمد یوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ، انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا اور ان کے خلاف قانون سازی کی گئی.اور یہ بات تو غیر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ۲۲ رمئی ۱۹۷۴ء کا واقعہ تو احمد یوں نے نہیں کرایا تھا اور وزیر اعظم نے بر ملا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ۲۲ رمئی کا واقعہ بھی سازش کرنے والوں نے ہی کرایا تھا.یقیناً جماعت احمدیہ کے مخالفین ہی یہ سازشیں تیار کر رہے تھے اور اس کے ذریعہ وہ ملک کو نقصان پہنچا رہے تھے.اور سامنے نظر آنے والے جماعت مخالف عناصر تو اس بساط کے بے جان مہرے ہی تھے جنہیں کچھ اور ہاتھ حرکت دے رہے تھے اور جیسا کہ اس وقت کے ممتاز سیاستدانوں کے بیان سے ظاہر ہے کہ انہیں کچھ دے دلا کر یہ کام کرایا جا رہا تھا.لیکن خود بھٹو
322 صاحب کی حکومت کیا کر رہی تھی ؟ بجائے اس کے کہ ملک کے خلاف اس سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ، وہ مفسدین کی اعانت کر رہی تھی.قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے تھے اور ابھی سے حکومتی حلقوں کے بیانات اس بات کو صاف طور پر ظاہر کر رہے تھے کہ وہ مفسدین کے مطالبات تسلیم کر کے اس نام نہاد خدمت کا سہرا اپنے سر پر باندھنے کا ارادہ رکھتے ہیں.یہ بات کوئی معمولی بات نہیں.فسادات کے دوران ملک کے وزیر اعظم نے ایک سے زائد مرتبہ الزام لگایا تھا کہ ان فسادات کے پیچھے اور یہ حالات پیدا کرنے کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ کام کر رہا ہے.آخر کونسا بیرونی ہاتھ یہ کام کر رہا تھا.ہم نے جب پروفیسر غفور صاحب سے یہ سوال کیا کہ یہ کونسا بیرونی ہاتھ ہو سکتا ہے جس نے یہ فسادات کرائے تو ہمیں اس بات پر حیرت ہوئی کہ انہوں نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ یہ کسی بیرونی ہاتھ کی کارستانی تھی.ان کا جواب یہ تھا: ” دیکھئے وہ ملک کے پرائم منسٹر تھے.یہ بات اپنے علم کے بنا پر کہی ہوگی.اگر آپ نے تقریر پڑھی تھی.تو اس وقت جو لوگ موجود تھے ان سے پوچھ سکتے تھے کہ کونسا بیرونی ہاتھ ہے.آج بھی کہا جاتا ہے ناں کہ کوئی بیرونی ہاتھ تھا.حکومت کہتی ہے کہ بیرونی ہاتھ ہے.تو ظاہر بات ہے کہ ملک کا وزیر اعظم ایک بات کر رہا تھا کہ بیرونی ہاتھ تھا.اپنے علم کی بنا پر کہہ رہا ہو گا.کون بیرونی ہاتھ ہے یہ وہی بتا سکتے ہیں“ یہ بڑی دلچسپ بات ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کے پوچھنے کا سوال ہے تو اس وقت احمدیوں پر تو پورے ملک میں مظالم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے تھے.ان کے پوچھنے پر تو وزیر اعظم کا جواب دینے کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے.لیکن یہ مسئلہ ایک طویل عرصہ قومی اسمبلی میں بھی زیر بحث رہا.اور دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے اچھی طرح چھان بین کر کے یہ قدم اُٹھایا تھا تو حیرت کی بات ہے کہ کسی کو اسمبلی میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ وزیر اعظم صاحب سے یا حکومت سے یہ پوچھے کہ یہ کونسا بیرونی ہاتھ ہے جس نے ملک میں یہ فسادات بر پاکئے ہیں.اس طرح پروفیسر غفور صاحب نے اس بات کی تعیین تو نہیں کی کہ وہ کون سے بیرونی ہاتھ تھے لیکن یہ ضرور اعتراف کیا کہ بھٹو صاحب نے کسی علم کی بنا پر یہ بات کہی تھی.اور جب ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے یہ سوال کیا کہ وہ کونسا بیرونی ہاتھ تھا، کونسا غیر ملکی ہاتھ
323 تھا جس کا ذکر بھٹو صاحب کر رہے تھے تو ان کا جواب تھا مسٹر بھٹو جو تھے بہت ہی زیرک آدمی تھے.اگر ان سے Privately پوچھتے تو کہہ دیتے.سعودی عرب.“ اس کے جواب میں ہم نے دریافت کیا "You think he meant it was Saudi Arab that was causing the riots وو یعنی کیا آپ کا مطلب ہے کہ ان کی مراد تھی کہ سعودی عرب یہ فسادات کرا رہا تھا؟ اس پر ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے کہا "He did'nt say so یعنی انہوں نے یہ کہا نہیں.اس پر ہم نے پھر استفسار کیا "But of course he meant somebody" یعنی ،مگر یقیناً کوئی تو ہو گا جس کا وہ ذکر کر رہے تھے.اس پر انہوں نے پھر ایک نہایت محتاط جواب دیا “Yes, if I know Mr.Bhutto’ ہاں اگر میں مسٹر بھٹو کو جانتا ہوں.اب صورت حال یہی بنتی ہے کہ یا تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اس وقت کی کا بینہ کو پرواہ ہی نہیں تھی کہ بیرونی ہاتھ ملک میں کیا کیا کارستانی دکھا جاتے ہیں اور کا بینہ کے اہم اراکین نے بھی وزیر اعظم سے یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ کون سے غیر ملکی ہاتھ ہیں جو پاکستان کے اندرونی معاملات میں اتنی مداخلت کر رہے ہیں کہ ان کے اشارے پر ملک گیر فسادات بھی شروع ہو جاتے ہیں.یا پھر کا بینہ محض ایک ناکارہ عضو کی طرح تھی کہ جسے اس اہم معاملہ میں اعتماد میں ہی نہیں لیا گیا تھا اور عام جلسوں میں اس بات کا تذکرہ بر ملا کیا جا رہا تھا.پھر ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے دریافت کیا کہ جب یہ سب کچھ کوئی بیرونی ہاتھ کرا رہا تھا اور یہ سب کچھ ملک کی وحدت اور سا لمیت کے لئے بھی خطرہ تھا تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ اس کے مطالبات متفقہ طور پر تسلیم بھی کر لئے گئے تو کیا اس بات سے اُس غیر ملکی ہاتھ کے منصوبے کو تقویت نہیں پہنچی.تو اس پر ان کا جواب تھا:
324 "Actually he always thought (در اصل ان کا ہمیشہ یہ خیال ہوتا تھا) کہ وہ کچھ بھی کر لیں اس پر قابو پالیں گے.“ جب ہم نے عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب سے جو ۱۹۷۴ء میں وزیر قانون تھے یہ سوال کیا کہ بھٹو صاحب کا اشارہ کن بیرونی عناصر کی طرف تھا جنہوں نے یہ سازش تیار کی تھی.تو پہلے انہوں نے یہ سوال کیا کہ آپ نے یہ سوال اور کس سے پوچھا ہے.اس کا جواب ملنے کے بعد انہوں نے دریافت کیا کہ آپ لوگوں کے خلاف پہلے یہاں پر ایکشن ہوا تھا یا سعودی عرب میں.اس کا جواب ملنے پر وہ محض سر کو اثبات میں جنبش دے کر خاموش ہو گئے.یہ عجیب بات نظر آتی ہے کہ اس پس منظر میں کا بینہ کے اراکین نے یا قومی اسمبلی کے کسی حکومتی یا اپوزیشن رکن نے یہ سوال نہیں اُٹھایا آخر وہ کون سا بیرونی ہاتھ ہے جو کہ ملک میں یہ فسادات بر پا کر رہا ہے.ہم یہاں پر پڑھنے والوں کو یہ یاد دلاتے جائیں کہ ہم حصہ دوئم میں اس بات کا تفصیلی جائزہ لے چکے ہیں کہ ۱۹۵۳ ء کے فسادات کے دوران ذمہ دار افسران نے بھی غیر ملکی ہاتھ کی طرف اشارہ کیا تھا اور فسادات کے بعد پارلیمنٹ میں بجٹ تقریر کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب نے بھی ۵۳ء میں احمدیوں کے خلاف فسادات کے پیچھے بیرونی ہاتھ کی طرف اشارہ کیا تھا لیکن جیسا کہ اوپر دی گئی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب بیرونی ہاتھ کی طرف اشارہ تو کر دیتے ہیں جو کہ کچھ عرصہ کے بعد پاکستان میں احمدیوں کے خلاف مہم چلا دیتا ہے.لیکن کوئی اس بیرونی ہاتھ کی تعین نہیں کرتا.جن سیاستدانوں سے ہم نے سوال کئے انہوں نے اپنے جواب کو جہاں تک سازش کا سلسلہ واضح نظر آتا تھا، وہاں تک محدود رکھا.لیکن دنیا کی تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ اصل محرک قو تیں اور ہوتی ہیں اور سامنے کوئی اور دکھائی دے رہا ہوتا ہے اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں.یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر آئندہ آنے والی نسلوں کے محققین بہت کچھ لکھیں گے لیکن ہم بات کو وہیں تک ختم کرتے ہیں جہاں تک ہماری تحقیق ہمیں لے کر گئی ہے.ہر پڑھنے والا اپنے ذہن کے مطابق نتیجہ نکال سکتا ہے.
325 جماعت احمدیہ کا محضر نامہ اس مرحلہ پر مناسب ہوگا کہ جماعت احمد یہ کے محضر نامہ کا مختصر جائزہ لیا جائے.یہ محضر نامہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی ہدایات کے تحت تیار کیا گیا تھا اور ایک ٹیم نے اس کی تیاری پر کام کیا تھا.ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب ، حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر اور حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب شامل تھے.اور جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے اسے پیشل کمیٹی کے مطالعہ کے لیے بھجوایا گیا تھا اور اس میں بہت سے بنیادی اہمیت کے حامل اور متنازعہ امور پر جماعت احمدیہ کا موقف بیان کیا گیا تھا.اس کے پہلے باب میں قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی مذکورہ قرار دادوں پر ایک نظر ڈال کر یہ اصولی سوال اُٹھایا گیا تھا کہ آیا دنیا کی کوئی اسمبلی بھی فی ذاتہ اس بات کی مجاز ہے کہ اول : کسی شخص کا یہ بنیادی حق چھین سکے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو.دوم : یابند ہی امور میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ کسی جماعت یا فرقے یا فرد کا کیا مذہب ہے؟ پھر اس محضر نامہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے اس اہم سوال کا جواب یہ دیا گیا تھا ” ہم ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں دیتے ہیں.ہمارے نزدیک رنگ ونسل اور جغرافیائی اور قومی تقسیمات سے قطع مسیح نظر ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو اور دنیا میں کوئی انسان یا انجمن یا اسمبلی اسے اس بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتے.اقوام متحدہ کے دستور العمل میں جہاں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے وہاں ہر انسان کا یہ حق بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو.اسی طرح پاکستان کے دستور اساسی میں بھی دفعہ نمبر ۲۰ کے تحت ہر پاکستانی کا یہ بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو.اس لئے یہ امر اصولاً طے
326 ہونا چاہئے کہ کیا یہ کمیٹی پاکستان کے دستور اساسی کی رو سے زیر نظر قرارداد پر بحث کی مجاز بھی ہے یا نہیں؟“ اگر قوم یا اسمبلی اس راستہ پر چل نکلے تو اس کے نتیجہ میں کیا کیا ممکنہ خطرات پیدا ہو سکتے ہیں، ان کا مختصر جائزہ لے کر یہ انتباہ کیا گیا.” ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا صورتیں عقلاً ، قابل قبول نہیں ہوسکتیں اور بشمول پاکستان دنیا کے مختلف ممالک میں ان گنت فسادات اور خرابیوں کی راہ کھولنے کا موجب ہو جائیں گی.کوئی قومی اسمبلی اس لئے بھی ایسے سوالات پر بحث کی مجاز قرار نہیں دی جاسکتی کہ کسی بھی قومی اسمبلی کے ممبران کے بارے میں یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ وہ مذہبی امور پر فیصلے کے اہل بھی ہیں کہ نہیں؟ دنیا کی اکثر اسمبلیوں کے ممبران سیاسی منشور لے کر رائے دہندگان کے پاس جاتے ہیں اور ان کا انتخاب سیاسی اہلیت کی بناء پر ہی کیا جاتا ہے.خود پاکستان میں بھی ممبران کی بھاری اکثریت سیاسی منشور کی بناء اور علماء کے فتوے کے علی الرغم منتخب کی گئی ہے.پس ایسی اسمبلی کو یہ حق کیسے حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ کسی فرقہ کے متعلق یہ فیصلہ کرے کہ فلاں عقیدہ کی رو سے فلاں شخص مسلمان رہ سکتا ہے کہ نہیں؟ اگر کسی اسمبلی کی اکثریت کو محض اس بناء پر کسی فرقہ یا جماعت کے مذہب کا فیصلہ کرنے کا مجاز قرار دیا جائے کہ وہ ملک کی اکثریت کی نمائندہ ہے تو یہ موقف بھی نہ عقلاً قابل قبول ہے نه فطرتا نہ مذہباً.اس قسم کے امور خود جمہوری اصولوں کے مطابق ہی دنیا بھر میں جمہوریت کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دئیے جاتے ہیں.اسی طرح تاریخ مذہب کی رو سے کسی عہد کی اکثریت کا یہ حق کبھی تسلیم نہیں کیا گیا کہ وہ کسی کے مذہب کے متعلق کوئی فیصلہ دے.اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے تو نعوذ باللہ دنیا کے تمام انبیاء علیہم السلام اور ان کی جماعتوں کے متعلق ان کے عہد کی اکثریت کے فیصلے قبول کرنے پڑیں گے.ظاہر ہے کہ یہ ظالمانہ تصور ہے جسے دنیا کے ہر مذہب کا پیروکار بلا توقف ٹھکرا دے گا.“ چونکہ اپوزیشن کی پیش کردہ قرارداد میں رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد کو اپنی قرارداد کی بنیاد بنا کر
327 پیش کیا گیا تھا اور اپوزیشن کی قرارداد میں بھی جماعت احمدیہ پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے تھے اس لئے اس محضر نامے میں ان دونوں قرار دادوں میں شامل الزامات کی تردید پر مشتمل مواد بھی شامل کیا گیا تھا.اس کے بعد اس محضر نامہ میں مندرجہ ذیل عناوین پر جماعت احمدیہ کا موقف بیان کیا گیا.مسلمان کی تعریف اور جماعت احمدیہ کا موقف ، مقام خاتم النبین ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عارفانہ تحریرات ، ذات باری کا عرفان از افادات حضرت بانی ، قرآنِ کریم اعلیٰ اور ارفع شان حضرت بانی کی نظر میں، شانِ خاتم الانبیاء ﷺے بانی کی نگاہ میں ، آیت خاتم النبیین کی تفسیر، انکارِ جہاد کے الزام کی حقیقت ،بعض دیگر الزامات کا جائزہ ،معزز ارکانِ اسمبلی کی خدمت میں ایک اہم گزارش.اراکین اسمبلی کے نام اہم گزارش کے باب میں مختلف حوالے دے کر لکھا گیا تھا کہ مذہب کے نام پر پاکستان کے مسلمانوں کو باہم لڑانے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کی ایک دیرینہ سازش چل رہی ہے.اس پس منظر میں پاکستان کے گزشتہ دور اور موجودہ پیدا شدہ صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ اگر چہ موجودہ مرحلہ پر صرف جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے پر زور ڈالا جا رہا ہے مگر دشمنان پاکستان کی دیرینہ سکیم کے تحت امت مسلمہ کے دوسرے فرقوں کے خلاف بھی فتنوں کا دروازہ کھل چکا ہے اس محضر نامہ کے آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ پر در دانتباہ درج کیا گیا میں نصحنا للہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بدزبانی کر نا طریق شرافت نہیں ہے.اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی.لیکن اگر مجھے آپ لوگ کا ذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بد دعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں پھر اگر میں کا ذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی.اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ وزاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی
328 ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں...کوئی زمین پر مر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے.میری روح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی.مجھے خدا سے ابراہیمی نسبت ہے.کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں.میں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں...اے خدا!! تو اس امت پر رحم کر.آمین ( ضمیمہ اربعین نمبر ۴ صفحہ ۵ تاے.روحانی خزائن جلد ۱۷ ص ۴۷۱ تا ۴۷۳) اس وقت پورے ملک میں جماعت احمدیہ کے خلاف پورے زور وشور سے ایک مہم چلائی جارہی تھی اور احمدیوں پر ہر طرف سے ہر قسم کے الزامات کی بارش کی جارہی تھی.اس محضر نامہ میں اس قسم کے کئی اعتراضات کے جوابات بھی دیئے گئے تھے تا کہ پڑھنے والوں پر ان اعتراضات کی حقیقت آشکار ہو.یکم جولائی سے پندرہ جولائی تک کے حالات ایک طرف تو ان کمیٹیوں میں کارروائی ان خطوط پر جاری تھی اور دوسری طرف ملک میں احمدیوں کی مخالفت اپنے عروج پر تھی.اور یہ سب کچھ علی الاعلان ہورہا تھا.یہاں تک کہ اخبارات میں طالب علم لیڈروں کے بیانات شائع ہو رہے تھے کہ نہ صرف کسی قادیانی طالب علم کو تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا بلکہ جن قادیانی طالب علموں نے امتحان دینا ہے انہیں اس بات کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی کہ وہ امتحانات دے سکیں.اور یہ بیانات شائع ہورہے تھے کہ اہل پیغام میں سے کچھ لوگ کچھ گول مول اعلانات شائع کر کے اپنے کاروبار کو بائیکاٹ کی زد سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں.مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کے اعلانات کو صرف اس وقت قبول کیا جائے گا جب وہ اپنے اعلانات میں واضح طور پر مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر اور کاذب کہیں ورنہ ان کے کاروبار کا بائیکاٹ جاری رکھا جائے.اور اس کے ساتھ یہ مضحکہ خیز اپیل بھی کی جارہی تھی کہ عوام پر امن رہیں.گویا ان لوگوں کے نزدیک یہ اعلانات ملک میں امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لیے تھے.(۳۷) یکم جولائی سے پندرہ جولائی ۱۹۷۴ ء تک کے عرصہ میں بھی ملک میں احمدیوں پر ہر قسم کے مظالم جاری رہے.اس دوران مخالفین احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کو شدید تر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا
329 زور لگا رہے تھے تا کہ اس طرح احمدیوں پر دباؤ ڈال کر انہیں عقائد کی تبدیلی پر مجبور کیا جاسکے.بہت سے شہروں میں غنڈے مقرر کیے گئے تھے کہ وہ احمدیوں کو روز مرہ کی اشیاء بھی نہ خریدنے دیں اور جہاں کوئی احمدی باہر نظر آئے تو تو اس کے ساتھ توہین آمیز رویہ روا رکھا جاتا.کئی مقامات پر احمد یوں کا منہ کالا کر کے انہیں سڑکوں پر پھرایا گیا اور یہ پولیس کے سامنے ہوا اور پولیس تماشہ دیکھتی رہی.احمدیوں کی دوکانوں کے باہر بھی غنڈے مقرر کر دیئے جاتے جولوگوں کو احمدیوں کی دوکانوں سے خریداری کرنے سے روکتے.سرگودھا، دیپالپور اور بھیرہ میں احمدیوں کے مکانوں کے اردگرد محاصرہ کی صورت پیدا ہوگئی.اور ۱۳ جولائی کو تخت ہزارہ میں احمدیوں کے بارہ مکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا.بائیکاٹ کی صورت کو شدید تر بنانے کے لیے یہ بھی کیا گیا کہ بھنگیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ احمد یوں کے مکانات کی صفائی نہ کریں اور بعض مقامات پر ڈاکٹروں نے احمدی مریضوں کا علاج کرنے سے بھی انکار کر دیا.لائلپور اور بوریوالہ میں بعض صنعتوں کے مالکان نے احمدیوں کو ملازمت سے فارغ کر دیا.ڈسکہ میں احمدیوں کے کارخانے کے ملازمین کو وہاں پر کام کرنے سے روک دیا گیا، جس کے نتیجے میں یہ کارخانہ بند کرنا پڑا.دیہات میں احمدیوں کی زندگی کو اجیرن کرنے کے لیے یہ بھی کیا گیا کہ احمدیوں کو کنویں سے پانی نہیں لینے دیا جاتا اور چکی والوں کو مجبور کیا گیا کہ احمدیوں کو آٹا پیس کر نہ دیا جائے.احمدیوں کو تکلیف دینے کے لیے ان کی مساجد میں غلاظت پھینکی جاتی.اور پاکپتن میں جماعت کی مسجد پر قبضہ کر لیا گیا.ان کی سنگدلی سے مردہ بھی محفوظ نہیں تھے.جولائی کو خوشاب میں ایک احمدی کی قبر کھود کر نعش کی بے حرمتی کی گئی اور کوٹلی اور گوجرانوالہ میں احمدیوں کی تدفین روک دی گئی.لائلپور میں اب مخالفین علی الاعلان یہ کہتے پھرتے تھے کہ پندرہ جولائی کے بعد ربوہ کے علاوہ کہیں پر احمدی نظر نہ آئے.نصیرہ ضلع گجرات میں یہ اعلان کیے گئے جو احمدی اپنے عقائد کو نہیں چھوڑے گا اس کے گھروں کو جلا دیا جائے گا.۲ / جولائی کو ایک احمدی سیٹھی مقبول احمد صاحب کو ان کے مکان پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا.لاہور کی انجینیئر نگ یو نیورسٹی میں احمدی طالب علم امتحان دینے گئے تو ان کے کمرہ کے اندر پٹرول چھڑک کر آگ لگادی گئی.انہیں اپنی جانیں بچا کر وہاں سے نکلنا پڑا.(۳۸) کراچی میں جماعت اسلامی کے بعض لوگوں نے کچھ اور مولویوں کے ساتھ مل کر ایک سازش تیار کی کہ کسی طرح لوگوں کے جذبات کو احمدیوں کے خلاف بھڑ کا یا جائے.انہوں نے دستگیر کالونی
330 کراچی کے ایک پرائمری پاس مولوی جس کا نام ابراہیم تھا کو چھپا دیا اور اس کے ساتھ یہ شور مچادیا کہ قادیانیوں نے ہمارے عالم دین کو اغوا کر لیا ہے.یہ خبر اخباروں میں شائع کی گئی اور اس کے ساتھ عوام میں اسے مشتہر کر کے اشتعال پھیلایا گیا.جلوس نکلنے شروع ہوئے کہ اگر قادیانیوں نے ہمارے مولانا کو آزاد نہ کیا تو ان کے گھروں اور دوکانوں کو نذر آتش کر دیا جائے گا.اور اس کے ساتھ احمدیوں کے گھروں اور دوکانوں کی نشاندہی کے لئے ان پر سرخ روشنائی سے گول دائرہ بنا کر اس کے اندر کراس کا نشان لگا دیا گیا.مقامی ایس ایچ او نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان جلوسوں کو منتشر کیا.مخالفین کے جوش کو ٹھنڈا کرنے کے لئے پولیس نے پانچ احمد یوں کو اس نام نہا داغوا کے الزام میں گرفتار کر لیا.مولوی لوگ حوالات میں آکر پولیس سے کہتے کہ ان کی پٹائی کرو.ابھی یہ نامعقول سلسلہ جاری تھا کہ پولیس نے چھاپے مار کر ۱۲ / اگست کو علاقہ شیر شاہ کے مکان سے ان چھپے ہوئے مولوی کو برآمد کر کے گرفتار کر لیا.اور پھر جا کر گرفتار مظلوم احمدیوں کی رہائی عمل میں آئی.(۳۹) پورے ملک میں احمدیوں کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلا کرلوگوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑ کا یا جا رہا تھا.یہاں تک کہ یہ خبریں مشہور ہونے لگیں کہ ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ میں بہت سے طالب علموں کی زبانیں اور دوسرے اعضاء کاٹے گئے تھے.لیکن جب جسٹس صمدانی کی تحقیقات کی خبریں اخبارات میں شائع ہونے لگیں تو اس قسم کی خبر کا کوئی نام ونشان بھی نہیں تھا.اس پر جسٹس صمدانی کو اس مضمون کے خطوط ملنے لگے کہ یہ خبریں شائع کیوں نہیں ہونے دی جار ہیں کہ نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کی زبانیں اور دوسرے اعضاء کاٹے گئے تھے.اس صورتِ حال میں جسٹس صمدانی کو دورانِ تحقیق ہی اس بات کا اعلان کرنا پڑا کہ حقیقت حال یہ ہے کہ ایسی کوئی شہادت سرے سے ریکارڈ پر آئی ہی نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ کسی طالب علم کی زبان کاٹی گئی یا کسی کے جسم کا کوئی عضو الگ کیا گیا یا مستقل طور پر نا کارہ کیا گیا.فاضل جج نے کہا کہ میڈیکل رپورٹوں سے بھی یہ افواہیں غلط ثابت ہوتی ہیں اس لیے ان کی تردید ضروری تھی.(۴۰) جس وقت سٹیشن کا واقعہ ہوا، اس وقت جوخبریں اخبارات میں شائع کی جارہی تھیں وہ یہ تھیں :.چٹان نے لکھا: اتنا زخمی کیا گیا کہ ڈیڑھ درجن طلباء ہلکان ہو گئے.ان کے زخموں کو دیکھنا مشکل
331 تھا........جس قد رطلباء زخمی ہوئے ہیں ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی.(۴۱) نوائے وقت نے ۳۰ مئی ۱۹۷۴ ء کی اشاعت میں خبر شائع کی تھی کہ ۳۰ طلباء شدید زخمی ہوئے ہیں.اسی اخبار نے یکم جون کو یہ خبر شائع کی تھی کہ ۱۲ طلباء شدید زخمی ہوئے ہیں.اخبار مشرق نے ۳۰ رمئی ۱۹۷۴ء کوخبر شائع کی تھی کہ ۴ طلباء کی حالت نازک ہے.اور امروز نے ۳۰ مئی لکھا تھا کہ ۲ کی حالت نازک ہے.ان خبروں کا آپس میں فرق ظاہر کر رہا ہے کہ بغیر مناسب تحقیق کے خبریں شائع کی جارہی تھیں.اور جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ نشتر میڈیکل کالج کے ان طلباء نے لائلپور میں اپنا علاج کرانا پسند نہیں کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم ملتان جا کر اپنے تدریسی ہسپتال میں علاج کرائیں گے.حالانکہ اگر ان طلباء کی حالت اتنی ہی نازک تھی تو یہ خو دطب کے پیشہ سے منسلک تھے اور جانتے تھے کہ علاج میں تاخیر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے.بہر حال ملتان میں ان کے تدریسی ہسپتال جا کر علاج شروع ہوا.اور جو ڈاکٹر ان کے علاج میں شریک تھے انہوں نے ٹریبیونل کے سامنے ان زخمی طلباء کے زخموں کے متعلق گواہیاں دیں.ان ڈاکٹروں کے نام ڈاکٹر محمد زبیر اور ڈاکٹر محمد اقبال تھے.ان میں سے کچھ طلباء یقیناً زخمی تھے اور ان میں سے کچھ کو داخل بھی کیا گیا تھا.لیکن زخموں کی نوعیت کتنی شدید تھی اس کا اندازہ ان ڈاکٹروں کی گواہی سے ہونے والے ان انکشافات سے بخوبی ہو جاتا ہے.ڈاکٹر محمد زبیر صاحب نے گواہی دی ۱) ۲۹ مئی ۱۹۷۴ء کو جب زخمی طلباء کو ہسپتال لایا گیا تو ان کو ایمر جنسی کی بجائے براہِ راست وارڈ میں لے جایا گیا.میں نے ان کا معائنہ کیا اور ان میں سے ایک طالب علم آفتاب احمد کو کسی حد تک Serious کہا جاسکتا ہے.میں ان کی حالت کے متعلق یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس کے سر پر ضرب لگی تھی اور وہ اس وقت بے ہوش تھا.اور باقی مضروب پوری طرح ہوش میں تھے.باقی آٹھ طلباء کی حالت کو Grievious نہیں کہا جاسکتا.۲ اس ایک Serious طالب علم آفتاب احمد صاحب کو بھی ۷ روز کے بعد ۸ /جون کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا.ان کا سر کا ایکسرے کیا گیا تھا اور وہ بھی ٹھیک نکلا تھا اور کوئی
فریکچر نہیں تھا.332 ۳) ڈاکٹر محمد زبیر صاحب نے کسی اور مریض کے ایکسرے کی ضرورت محسوس نہیں کی.(۴) کسی طالب علم کو خون لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئی.نشتر ہسپتال کے Casuality Medical Officer ڈاکٹر اقبال احمد صاحب نے یہ گواہی دی 1) میں نے چار زخمی طلباء کا شعبہ حادثات میں معائنہ کیا، جن میں سے کوئی بھی شدید زخمی نہیں تھا.۲) ان میں سے کسی کو بھی خون نہیں لگانا پڑا ) ایک طالب علم کی آنکھ کے ارد گرد نیلا داغ نمودار ہوا تھا، ایکس رے کرایا گیا تو وہ ٹھیک نکلا کوئی فریکچر نہیں تھا.ان ڈاکٹر صاحبان نے بیان کیا کہ داخل ہونے والے طلباء میں سے بعض ایسے بھی تھے جو ڈسچارج ہونے کا انتظار کیے بغیر خود ہی ہسپتال سے چلے گئے تھے.ی تھی ان شدید زخمیوں کی نازک حالت کی حقیقت جس کے متعلق پورے ملک میں افواہیں اڑائی جارہی تھیں کہ زبانیں اور اعضاء کاٹ دیئے گئے اور اخبارات بھی لکھ رہے تھے کہ ان میں سے کئی کی حالت نازک ہے.اور سچ یہ تھا کہ کسی ایک کے بھی زخم اس نوعیت کے نہیں تھے کہ انہیں Grievious Injury کہا جا سکے.کوئی جان ضائع نہیں ہوئی کسی کی ہڈی فریکچر نہیں ہوئی کسی کو خون نہیں لگا نا پڑا.صرف دو کے ایکسرے کرانے کی ضرورت پڑی اور وہ بھی ٹھیک تھے.افراد جماعت پر سرگودھا ریلوے اسٹیشن پر فائرنگ ان دو ہفتوں کے حالات مکمل کرنے سے قبل ایک اہم واقعہ درج کرناضروری ہے.اس واقعہ کو پڑھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ اُس وقت احمدیوں پر کس قسم کے مظالم روا ر کھے جا رہے تھے.مکرم و محترم ہادی علی چوہدری صاحب نے جو کہ اس واقعہ کے چشم دید گواہ تھے.اس واقعہ کو تحریر فرمایا ہے.آپ لکھتے ہیں:.مورخہ ۱۶ / جولائی کو سرگودھا ریلوے اسٹیشن پر احمدیوں کے قافلہ پر فائرنگ کی گئی اور دس نہتے
333 احمد یوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا.جس روز فائرنگ ہوئی، اس سے ایک دو روز قبل ربوہ سے جو دوست اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لئے سرگودھا جیل گئے تھے ان کو ملاقات کے بعد راستہ میں زدوکوب کیا گیا.اس واقعہ کے پیش نظر صد ر صاحب عمومی نے ۱۶ / جولائی کو ملاقات کے لئے جانے والے دوستوں کو منظم طریق پر جانے کی ہدایت فرمائی اور مکرم محمد احمد صاحب لائبریرین تعلیم الاسلام کالج ربوہ (حال جرمنی ) کوامیر قافلہ بنایا.اس قافلہ کے چالیس سے زائد افراد میں خاکسار اور خاکسار کے نانامحترم ماسٹر راجہ ضیاء الدین ارشد شہید شامل تھے.خاکسار کے ماموں مکرم نعیم احمد صاحب ظفر اور خاکسار کے بڑے بھائی اشرف علی صاحب بھی جیل میں تھے.ہم دونوں ان سے ملاقات کی غرض سے گئے تھے.۱۶ جولائی کی شام کو جب ملاقات کے بعد ربوہ واپسی کے لئے اسٹیشن پہنچے تو ابھی گاڑی کی آمد میں کچھ دیر تھی.ہم سب اکٹھے تیسرے درجہ کے ٹکٹ گھر میں انتظار کرنے لگے.یہ ٹکٹ گھراسٹیشن کی عمارت کے ساتھ مگر اس کے جنگلے سے باہر تھا.جب ٹکٹوں والی کھڑ کی کھلی تو اکثر لوگ ٹکٹ لینے کے لئے قطار میں لگ گئے.بعض نے جب ٹکٹ لے لئے اور مختار احمد صاحب آف فیکٹری ایریا کی باری آئی تو ٹکٹ دینے والے نے کہا: ربوہ کے ٹکٹ ختم ہو گئے ہیں ، آپ لالیاں یا چنیوٹ کا ٹکٹ لے لیں، ویسے پتہ وو نہیں آپ لوگوں نے ربوہ پہنچنا بھی ہے یا نہیں.“ تھوڑی دیر میں ہم سب چنیوٹ وغیرہ کی ٹکٹیں لے چکے تھے.گاڑی کا وقت بھی قریب تھا چنانچہ دو دو چار چار افراد باتیں کرتے ہوئے اسٹیشن کی بائیں جانب جنگلے کے ایک دروازے سے پہلے پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم پر جانے کے لئے درمیانے پل کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگے.جب کچھ لوگ سیڑھیوں پر تھے اور کچھ پل پر اور کچھ پل سے دوسرے پلیٹ فارم کی سیڑھیوں پر اتر رہے تھے کہ اچانک پہلے پلیٹ فارم پر پولیس کے کمرہ کے سامنے سے چند غنڈوں نے سیٹرھیوں سے اترنے والوں پر فائرنگ شروع کی.پولیس کے تین چارسپاہی ان حملہ آوروں کی پشت پر کھڑے تھے.اس فائرنگ سے ابتدا ہی میں ہمارے دس لوگ زخمی ہو گئے اور ان میں سے دو تین دوسرے پلیٹ فارم پرگر
334 بھی گئے.باقی زخمی پلیٹ فارم سے نیچے عقب میں گاڑی کی پٹری پر یا پلیٹ فارم پر ستونوں اور پل کی اوٹ میں ہو گئے.جب فائرنگ شروع ہوئی تو خاکسار اس وقت سیڑھیاں چڑھ کر پل کے شروع میں تھا اور اس سارے منظر کو دیکھ رہا تھا.اس وقت ایک دیوانگی کے عالم میں خاکسار اور دو تین اور دوستوں نے بھاگ کر زخمیوں تک پہنچنے اور گرے ہوؤں کو گھسیٹ کر ادھر ادھر چھپانے کی کوشش کی.انہی لمحات میں ایک دو غنڈوں کو دونوں پلیٹ فارموں کی درمیانی پڑی کو پھلانگ کر ہاتھوں میں ہا کی اور خنجر لئے ادھر آتے دیکھا تو ہم نے فوراً پلیٹ فارم سے اتر کر پٹڑی سے پتھر اٹھا کر انہیں تاک کر مارے.ہمارے پتھر انہیں کاری لگے اور وہ واپس بھاگ گئے.ان حملہ آوروں میں سے جو اس پلیٹ فارم پر آتا وہ ہمارے پتھروں کا نشانہ بنتا اور پسپا ہو جاتا.اس سارے وقت گولیاں مارنے والے مجاہد ہم پر گولیاں برساتے رہے جو ہمارے عقب میں کھڑی مال گاڑی پر لگ لگ کر آواز میں کرتی رہیں.ہم موت سے بے خبر ایک دیوانگی کے علم میں ان پر پتھر برساتے رہے.اس اثنا میں ریاض صاحب کوگرنے کی وجہ سے گھٹنے پر چوٹ آگئی.کچھ دیر بعد راشد حسین صاحب کے سینے میں بھی گولی لگ گئی.اب ہم دو تھے جنہوں نے اس وقت تک ان میں سے ایک ایک پر پتھر برسائے جب تک کہ وہ بھاگ نہ گئے.اس وقت اگر یہ دفاع نہ ہوسکتا تو وہ یقیناً اس پلیٹ فارم پر آکر ہمارے زخمیوں کو شہید کر دیتے.بہر حال جب گولیوں کی آواز ختم ہوئی تو ایک سناٹا چھا گیا.ہم بھی اور بعض دوسرے دوست بھی فوراً ہی پلیٹ فارم پر آگئے اور زخمیوں کو سنبھالنے لگے.اسی اثنا میں گاڑی بھی آگئی.ہم زخمیوں کو سہارے دے کر اس میں چڑھانے لگے کہ اچانک ریلوے پولیس والے آگئے اور ہمیں رپورٹ لکھوانے پر زور دینے لگے.امیر قافلہ محمد احمد صاحب دو تین گولیاں لگنے کی وجہ سے زخمی تھے.چنانچہ خاکسار پولیس والوں سے نپٹ رہا تھا.ہم بضد تھے کہ گاڑی فوراً چلائیں تا کہ ربوہ جا کر زخمیوں کا علاج شروع ہو، رپورٹ ہم گاڑی کے اندر ہی لکھا دیں گے.وہ مصر تھے کہ پہلے وقوعہ پر رپورٹ درج ہوگی پھر گاڑی چلے گی.ایک بے بسی کا عالم تھا.اتنے میں سرگودھا کا ایک پولیس انسپکٹر عبدالکریم نامی بھی آگیا.اس نے سفید شلوار قمیص پہن رکھی تھی اور ہیئت اور فطرت کا خالص چودھویں صدی کا مولوی تھا.وہ بھی پولیس
335 والوں کے ساتھ مل کر اصرار کرنے لگا کہ رپورٹ پہلے لکھواؤ.اس وقت صرف خاکسار تھا جو اُن سے بحث کر رہا تھا.اس تکرار کے دوران اچانک ایک جیپ پلیٹ فارم پر آکر رکی.جس میں سے سفید پتلون شرٹ میں افسرانہ شان سے ایک شخص اترا.اس نے ایک لمحے میں صورتحال کا اندازہ کیا اور خاکسار سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ فکر نہ کرو ، ہم یہاں سرگودھا میں ہی انہیں فوری طبی امداد دیں گے.اس غرض کے لئے دو ایمبولینسیں پہنچ رہی ہیں.اس نے بتایا کہ وہ یہاں کا کمشنر ہے اور ہر قسم کے انتظامات ہو چکے ہیں.اس کی شرافت اور بردباری قابل تعریف تھی.اتنے میں دو ایمبولینسیں پلیٹ فارم پر پہنچ گئیں.اس وقت تک بکھرے ہوئے بہت سے احمدی دوست یہاں جمع ہو چکے تھے.ہم سب نے ایمبولینس والوں کے ساتھ فوری طور زخمیوں کو گاڑی سے اُتارا اور ایمبولینس میں سوار کیا.کمشنر صاحب نے خاکسار کو بھی زخمیوں کے ساتھ ایمبولینس میں جانے کا کہا.چنانچہ ہم سب ہسپتال چلے گئے.جہاں فوری طور پر زخمیوں کو خون دیا گیا اور مرہم پٹی وغیرہ کی گئی.خاکسار کو زخمیوں کے ساتھ ہسپتال میں ہی رکھا گیا.ہسپتال کے باہر اور ہمارے زخمیوں کے وارڈ کے باہر کمشنر سرگودھا کی طرف سے پولیس کا کڑا پہرہ لگا دیا تھا اور ہماری حفاظت کا خاص خیال رکھا گیا.بعد میں معلوم ہوا کہ ہسپتال کے CMO احمدی تھے.بہر حال اسی وقت ہر زخمی کے زخموں کا اندازہ بھی کیا گیا اور اس کے مطابق ان کے علاج بھی معتین کئے گئے.ان میں خاکسار کے نانا مکرم ماسٹر ضیاءالدین ارشد صاحب کی حالت تشویشناک تھی کیونکہ گولی ان کے کان کے اوپر لگی تھی اور دماغ میں داخل ہو گئی تھی.ایک اور غریبانہ ہیئت کے نوجوان تھے جو سیالکوٹ کے کسی گاؤں سے اپنے کسی عزیز سے ملنے آئے تھے.ان کے پیٹ میں گولی لگی تھی جو چند انتڑیوں کو کاٹتی ہوئی معدے میں جاڑ کی تھی.ان کا آپریشن پہلی رات ہی کیا گیا اور گولی نکال کے انتڑیاں سی دی گئیں اور وہ جلد صحت یاب ہو گئے.را شد حسین صاحب جنہیں دفاع کرتے ہوئے سینے میں گولی لگی تھی.ان کی حالت بھی ٹھیک نہ تھی کیونکہ گولی سینے سے پھیپھڑوں میں سے ہوتی ہوئی ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ آکر ٹھہر گئی تھی.اس وجہ سے وہ نکالی نہ جاسکتی تھی.پھیپھڑوں کی حد تک تو ان کا علاج ہو گیا.مگر گولی ان کے اندر ہی رہی
336 جو بعد میں جرمنی جا کر نکلوائی گئی.اسی طرح مختلف لوگوں کو جو گولیاں لگیں وہ نکال دی گئیں اور علاج کر دیئے گئے.خاکسار کے نانا کولا ہو وغیرہ بھی لے جایا گیا مگران کے سرے گولی کا نکلنا نامکن رہا.جس کی وجہ سے وہ تین ماہ بعد فضل عمر ہسپتال میں وفات پا کر شہدائے احمدیت میں داخل ہو گئے.بعد میں چند روز کے بعد ہمیں سرگودھا ملزموں کی شناخت کے لئے اور وقوعہ کی رپورٹ کے لئے طلب کیا گیا.شناخت پریڈ میں وہ تمام غنڈے موجود تھے جو ہمارے قافلوں پر زیادتی کرتے تھے اور ان میں سے ایک دورہ بھی تھے جو فائرنگ میں شامل تھے اور خاکسار انہیں پہچانتا تھا.چنانچہ خاکسار نے مجسٹریٹ کو ان کی نشاندہی بھی کی.مگر جس طرح ایک پلان تھا ہماری شناخت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور نتیجہ یہ نکالا گیا کہ کوئی ملزم بھی پہچانا نہیں گیا.اسی طرح وقوعہ کی تفصیلات کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا.اس کے بعد پھر دو دفعہ ہمیں حاضری پر عدالت میں بلایا گیا.مگر معلوم ہوا کہ فیصلہ وہی ہوتارہا جو صاحب اقتدار لوگ چاہتے تھے.“ اس واقعہ میں زخمی ہونے والے دیگر دوستوں کے نام یہ ہیں: ۱.مکرم لطف الرحمن صاحب ( ٹھیکیدار پہاڑی ) دار النصر ربوہ مکرم حاکم علی صاحب فیکٹری اسیر یار بوہ مکرم میاں عبدالسلام صاحب زرگر ربوہ ۴.مکرم ڈاکٹر عبدالغفور صاحب سرگودھا مکرم ملک فتح محمد صاحب ریلوے روڈ ر بوہ مکرم ہدایت اللہ چٹھہ صاحب ربوہ ۷ ارجولائی کو کارروائی شروع کرنے کی اطلاع اور صدرانجمن احمد سیہ کا جواب حکومت کی طرف سے جس عجیب رویہ کا اظہار کیا جارہا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۶ جولائی ۱۹۷۴ء کی شام کوقومی اسمبلی کے سیکریٹری صاحب کا فون ربوہ آیا کہ جماعت کا وفد، امام جماعت احمدیہ کی سربراہی میں اسلام آباد آجائے.کل سے قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کارروائی کا
337 آغاز کرے گی.یہ بات پیش نظر رہے کہ اس وقت ربوہ سے اسلام آباد جانے میں تقریباً چھ گھنٹے لگتے تھے اور اس وقت راستے میں امن و امان کی صورتِ حال نہایت مخدوش تھی.راستے میں سرگودھا تھا جہاں ایک ہی روز قبل احمدیوں کو بے دردی سے نشانہ بنایا گیا تھا.اور اس امر کی تحریری اطلاع کوئی نہیں دی گئی تھی صرف زبانی اطلاع دی گئی تھی.ان حالات میں صدر انجمن احمد یہ یہ مناسب نہیں سمجھتی تھی کہ حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں درخواست کرے کہ وہ اسلام آباد تشریف لے جائیں.چنانچہ فون پر سیکریٹری صاحب کو اس بات سے مطلع کر دیا گیا اور سٹیرنگ کمیٹی کے سر براہ کو خط لکھ کر اطلاع دی گئی کہ ان حالات میں صدر انجمن احمدیہ حضرت خلیفتہ امیج کو یہ مشورہ دینے کی ذمہ داری نہیں لے سکتی کہ وہ آج ہی اسلام آباد روانہ ہو جائیں.اور ان سے یہ مطالبہ کیا کہ با قاعدہ تحریری نوٹس بھجوایا جائے.راستے کے لئے حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ملٹری اسکورٹ مہیا کرے.اس کارروائی کے آغاز کی معین تاریخ کو خفیہ رکھا جائے.ہمارے پندرہ مسلح محافظ ساتھ ہوں گے.اور آخر میں لکھا کہ ہم آپ کے جواب کے منتظر رہیں گے.اس کا جواب ۱۷ جولائی ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی کے سیکریٹری اسلم اسد اللہ خان صاحب کی طرف سے یہ موصول ہوا کہ نئی تاریخ ۲۲ / جولائی رکھی گئی ہے اور اسے خفیہ رکھا جائے گا.اسکورٹ مہیا کیا جائے گا لیکن پندرہ مسلح محافظ ساتھ رکھنے کے بارے میں اجازت اس لئے نہیں دی جاسکتی کہ راستے میں مختلف اضلاع کے مجسٹریٹ نے اپنے اضلاع میں اسلحہ لے کر جانے پر پابندی لگائی ہوگی اور قومی اسمبلی میں اسلحہ لے کر آنے کی اجازت نہیں ہوتی.اور حکومت کا یہ ارادہ کہ ۱۷ جولائی ۱۹۷۴ء کو کارروائی شروع کر دی جائے اس لئے بھی عجیب تھا کہ ۱۸ جولائی کو صدائی ٹریبونل کے سامنے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا بیان قلمبند کیا گیا.یہ کارروائی بند کمرے میں ہوئی لیکن بعد میں اخبارات کو اس بیان کے مندرجات چھاپنے کی اجازت دے دی گئی.حضور کے بیان کے علاوہ کئی سرکاری افسران کے بیانات بھی بند کمرے میں ہوئے تھے.۲۰ جولائی ۱۹۷۴ء جسٹس صدانی نے ربوہ کا دورہ کیا اور ریلوے سٹیشن کا معائنہ کرنے کے علاوہ جماعتی دفاتر اور بہشتی مقبرہ بھی گئے.(مشرق ۱۹ جولائی ۱۹۷۴ء ص ۲۱،۱ جولائی ۱۹۷۴ ص۱)
338 قومی اسمبلی کی خاص کمیٹی میں کارروائی جیسا کہ پہلے ذکر آپکا ہے کہ راہبر کمیٹی کے بعد یہ معاملہ قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں پیش ہونا تھا اور اس کمیٹی کی صورت ی تھی کہ پوری قومی اسمبلی کو ہی سپیشل کمیٹی میں تبدیل کر دیا گیا تھا.اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ جماعت مبایعین اور غیر مبایعین دونوں کے وفود اس کمیٹی میں آئیں اور ان پر سوالات کیسے جائیں.صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے لکھا گیا کہ ہم اس بات میں آزاد ہیں جن ممبران پر مشتمل وفد چاہیں مقرر کر میں کہ وہ اس کمیٹی میں اپنا موقف بیان کرے لیکن حکومت کی طرف اصرار تھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث لازماً اس وفد میں شامل ہوں.اس صورت حال میں پانچ اراکین پر مشتمل وفد تشکیل دیا گیا جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب، حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب شامل تھے.اس اہم کاروائی کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے سب سے زیادہ دعاؤں سے ہی تیاری کی تھی.خلافت لائبریری سے کچھ کتب منگوائی گئیں اور حضرت قاضی محمد یوسف صاحب مرحوم کے کتب خانہ کی کتب بھی منگوائی گئیں.لیکن حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی ہدایت تھی کہ حضور کی اجازت کے بغیر یہ کتب کسی کو نہ دی جائیں.وفد کے بقیہ اراکین میٹنگ کر کے اس مقصد کے لیے بڑی محنت سے تیاری کر رہے تھے اور جو اعتراضات عموماً کیے جاتے ہیں ، ان کے جوابات بھی تیار کیے گئے.چند میٹنگز میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث بھی شامل ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس بات کا اظہار بار ہا فرمایا کہاس کا روائی کے دوران نہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ کیا اور کس طرح جواب دینا ہے بلکہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کب اس کا جواب دینا ہے؟ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جب کارروائی میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانا ہوتا تو حالات کے پیش نظر اس کا اعلان نہیں کیا جاتا تھا اور جس روز جانا ہوتا اس روز صبح کے وقت حضور ارشاد فرماتے اور پھر قافلہ روانہ ہوتا.اسلام آباد میں حضور کا قیام ونگ کمانڈ رشفیق صاحب کے مکان میں ہوتا تھا.اس کا رروائی کے آغاز سے قبل حضور کو اس کے بارے میں تشویش تھی.اس فکرمندی کی حالت
339 میں حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا : وَسِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ یعنی اپنے مکان کو وسیع کر ، ہم استہزاء کرنے والوں کے لیے کافی ہیں.اس پر آشوب دور میں اللہ تعالیٰ یہ خوش خبری عطا فرمارہا تھا کہ آج حکومت، طاقت اور اکثریت کے نشہ میں یہ لوگ جماعت کو ایک قابل استہزاء گر وہ سمجھ رہے ہیں.لیکن ان سے اللہ تعالیٰ خود نمٹ لے گا.جماعت احمدیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی ترقیات کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے.کوئی بھی غیر جانب دار شخص اگر بعد میں ظاہر ہونے والے واقعات کا جائزہ لے اور اس مختصر کتاب میں بھی ہم اس بات کا جائزہ پیش کریں گے کہ جن لوگوں نے بدنیتی سے اس کارروائی کو شروع کیا اور پھر بزعم خود احمدیوں کو کافر قرار دیا یا کسی رنگ میں بھی استہزاء کی کوشش کی حقیقت یہ ہے کہ صرف خدا کا ہاتھ تھا جس نے ان پر پکڑ کی اور ان کو دنیا کے لئے ایک عبرت کا سامان بنادیا.یہ کی دنیاوی کوش کا نتیجہ ہیں تھا بلکہ خدا ان کی شرارتوں کے لئے کافی تھا.اس کے علاوہ ۱۹۷۴ء کے پر آشوب دور میں حضرت خلیفة أسبح الثالث کو الہام ہوا فَدَمْـدَم عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوَّاهَا ( تب ان کے گناہ کے سبب ان کے رب نے ان پر پے در پے ضر میں لگائیں اور اس ( بستی ) کو ہموار کر دیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث اسمبلی میں محضر نامہ پڑھتے ہیں ۲۲ اور ۲۳ جولائی ۱۹۷۴ء کو حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے پوری قومی اسمبلی پر مشتمل خاص کمیٹی میں جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیا جانے والا محضر نامہ خود پڑھ کر سنایا.اور اس کے بعد کارروائی کچھ دنوں کے لیے ملتوی کر دی گئی.جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ اس محضر نامہ کے آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پر شوکت تحریر درج کی گئی تھی.اور جب حضور نے کمیٹی میں یہ حوالہ پڑھ کر سنایا تو اس کا ایک خاص اثر ہوا.اور بعد میں ایک ممبر اسمبلی نے اپنے ایک احمدی دوست کیساتھ حیرت سے ذکر کیا کہ مرزا صاحب نے بڑے جلال سے یہ حوالہ پڑھ کر سنایا ہے.اور جیسا کہ بعد میں ذکر آ ئے گا اس کا رروائی کے آخر میں ممبران قومی اسمبلی کے اصرار پر یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ اس حوالہ کو
340 درج کرنے کا مقصد کیا ہے؟ (۴۲، ۴۳) قومی اسمبلی اور صدر انجمن احمدیہ کے درمیان مزید خط و کتابت ۲۲ جولائی ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی کے سیکریٹری نے ناظر صاحب اعلیٰ کے نام ایک خط لکھا.جس میں کچھ حوالے بھجوانے کا کہا گیا تھا.یہ خط جو کہ در اصل سیکریٹری صاحب قومی اسمبلی نے مولوی ظفر انصاری ایم این اے کے ایک خط پر کارروائی کرتے ہوئے لکھا تھا.اس خط سے یہ بخوبی ظاہر ہو جاتا تھا کہ خود قومی اسمبلی کو بھی نہیں معلوم کہ اس نے یہ کارروائی کس سمت میں کرنی ہے.اس خط میں لکھا گیا تھا جماعت احمد یہ اس میمورنڈم کی کاپی بھجوائے جو کہ تقسیم ہند کے موقع پر جماعتِ احمدیہ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا.اور پروفیسر سپیٹ (Spate) جن کی خدمات حضرت مصلح موعود نے اس کمیشن میں کچھ امور پیش کرنے کے لئے حاصل کی تھیں، ان کے نوٹس اور تجاویز بھی کمیشن کو بھجوائی جائیں.اس کے علاوہ الفضل کے کچھ شماروں اور دیــویــو آف ریــلیـجـنـز کے تمام شمارے بھجوانے کا بھی لکھا گیا تھا.اب موضوع تو یہ تھا کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں سمجھتا ،اس کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس موضوع کے متعلق سوالات ہوں.یا پھر اگر جماعت احمدیہ کے محضر نامہ کے متعلق سوالات ہوتے تو بات کم از کم سمجھ میں بھی آتی مگر اس فرمائش سے تو لگتا تھا کہ اس کارروائی کے کرتا دھرتا افراد کا ذہن کہیں اور ہی جارہا تھا.لیکن ان کو صدرانجمن احمدیہ کی جانب سے یہ جواب دیا گیا کہ یہ میمورنڈم اور پروفیسر سپیٹ کی تجاویز تو حکومت کے پاس ہی ہوں گی کیونکہ ان کو مسلم لیگ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا.اور یہ حقیقت بھی تھی کیونکہ یہ سب کا غذات حکومت کی تحویل میں تھے اور جنرل ضیاء الحق صاحب کے دور میں ان کو شائع بھی کر دیا گیا تھا.اب جو بھی سوالات اٹھنے تھے ان کے جوابات کے لئے حوالہ جات کی ضرورت ہوئی تھی تا کہ صحیح اور مناسب حوالہ جات کے ساتھ جوابات پیشل کمیٹی کے سامنے آئیں.اب یہ کسی جرم کی تفتیش تو نہیں ہو رہی تھی کہ پہلے سے سوال بتا دینا مناسب نہ ہوتا.عقائد کے متعلق ہی کارروائی ہوئی تھی.چنانچہ جماعت کی طرف سے یہی مطالبہ کیا گیا کہ جو سوالات پیشل کمیٹی میں ہونے ہیں وہ اگر ہمیں مہیا کر دیئے جائیں تا کہ متعلقہ حوالہ جات بھی سوالات کے ساتھ پیش کئے جاسکیں کیونکہ وہاں پر جماعت
341 کے وفد کے پاس نوے سال پر پھیلا ہوا لٹریچر تو مہیا نہیں ہونا تھا.بہر حال ۲۵ جولائی ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی کے دفتر کی طرف سے ایڈیشنل ناظر اعلیٰ کو جواب موصول ہوا کہ سٹیرنگ کمیٹی نے اس پر غور کر کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سوالات قبل از وقت مہیا نہیں کئے جا سکتے البتہ اگر کسی سوال کی تیاری کے لئے وقت درکار ہوا تو وہ دے دیا جائے گا.اس خط سے یہ بھی اندازہ ہوتا تھا کہ قومی اسمبلی اور اس کے عملہ نے اس اہم کارروائی کی کوئی خاص تیاری نہیں کی ہوئی کیونکہ اس خط کے آغاز میں اور اس کے بعد بھی یہ لکھا ہوا تھا کہ اس موضوع پر انجمن احمدیہ کے ہیڈ سے زبانی بات ہوئی تھی اور اس خط سے یہ تاثر ملتا تھا کہ لکھنے والے کے ذہن میں ہے کہ جماعت کے وفد کی قیادت انجمن کے سر براہ کر رہے ہیں.حالانکہ ناظر اعلیٰ یا صدر صدرانجمن احمدیہ سے اس موضوع پر کوئی زبانی بات ہوئی ہی نہیں تھی اور نہ ہی صدر صد را مجمن احمد یہ ا وفد کی قیادت کر رہے تھے.اس وفد کی قیادت تو حکومت کے اصرار کی وجہ سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث فرما رہے تھے.چنانچہ اس بات کو واضح کرنے کے لئے ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مکرم مرزا خورشید احمد صاحب نے نیشنل اسمبلی کے سیکریٹری کو لکھا کہ اس وفد کی قیادت صدر انجمن احمدیہ کے سربراہ نہیں کر رہے بلکہ حضرت امام جماعت احمد یہ کر رہے ہیں.صدر انجمن احمد یہ کے سربراہ تو اس کے صدر کہلاتے ہیں.اب یہ ایک اہم قانونی غلطی تھی جس کو دور کر دیا گیا تھا لیکن آفرین ہے قومی اسمبلی کی ذہانت پر کہ اس کا بھی ایک غلط مطلب سمجھ کر دوران کا رروائی اس پر اعتراض کر دیا.وہ اعتراض بھی کیا خوب اعتراض تھا، ہم اس کا جائزہ بعد میں لیں گے.قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں محضر نامہ پڑھے جانے کے بعد ۲۴ / جولائی کو ایڈیشنل ناظر اعلیٰ صد را مجمن احمد یہ مکرم مرزا خورشید احمد صاحب نے قومی اسمبلی کے سیکر یٹری صاحب کے نام لکھا کہ قومی اسمبلی میں اس وقت دو موشن پیش کئے گئے ہیں جن میں سے ایک شاہ احمد نورانی صاحب کی طرف سے اور دوسری وزیر قانون عبد الحفیظ صاحب کی طرف سے پیش کی گئی ہے.اگر اس مرحلہ پر کوئی اور موشن بھی ایوان کے سامنے پیش ہوئی ہے جس میں کچھ نئے نکات ہوں تو اس کے متعلق بھی ہمیں مطلع کر دیا جائے تا کہ ہم ان کے متعلق بھی اپنا نقطہ نظر پیش کر سکیں.اس کے جواب میں ۲۵ جولائی کو قومی اسمبلی کے سیکریٹری صاحب نے لکھا کہ قومی اسمبلی کی سٹیرنگ کمیٹی نے آپ کے اس خط کا جائزہ ۲۵ جولائی کے اجلاس میں لیا اور یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو ان دوسرے Motions سے ابھی مطلع نہیں کیا جاسکتا.اگر
342 بعد میں اس کی ضرورت ہوئی تو آپ کو اس سے مطلع کر دیا جائے گا.اسمبلی کی خاص کمیٹی میں سوالات کا سلسلہ تو ۵ اگست سے شروع ہونا تھا لیکن اس دوران پورے ملک میں احمدیوں کے خلاف پر تشددمہم کا سلسلہ جاری تھا اور حکومت اس کو روکنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کر رہی تھی.جگہ جگہ احمدیوں پر اپنے عقائد سے منحرف ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا.احمدیوں کا بائیکاٹ جاری تھا بہت سے مقامات پر احمدیوں کے گھروں اور دوکانوں پر حملے کر کے ان کے ساز و سامان کو نذر آتش کیا جارہا تھا.بائیکاٹ اتنی مکروہ شکل اختیار کر گیا تھا کہ بعض جگہوں پر بچوں کے لیے دودھ لینا بھی ناممکن بنایا جارہا تھا.خانیوال میں چکیوں نے احمدیوں کا آٹا پینے سے بھی انکار کر دیا.۲۸ / جولائی کو بھوپال والا میں احمدیوں کی مسجد جلا دی گئی.ایک جگہ پر حجام احمدیوں کی حجامت تک نہیں بنارہے تھے.احمدی باہر سے ایک حجام لے کر آئے تو فسادیوں نے اس کا منہ کالا کر کے اسے ذلیل کیا.یہ بات معمول بن چکی تھی کہ بس میں جہاں احمدی ملے اسے زدوکوب کیا جائے.۳ اگست کو بھیرہ میں احمدی ایک فوت ہونے والی خاتون کی تدفین احمدیہ قبرستان میں کر رہے تھے کہ فسادیوں نے وہاں حملہ کر کے تدفین کو روکنے کی کوشش کی.۴ /اگست کو اوکاڑہ میں اعلان کیا گیا کہ ہم احمدیوں کو پاکستان میں نہیں رہنے دیں گے.اس سے قبل بھی اوکاڑہ میں مخالفت کا انداز یہ تھا کہ احمدیوں کی دوکانوں کا اور کاروباروں کا بائیکاٹ کیا جائے.نہ ان سے کسی کو چیز لینے دی جائے اور نہ ان کو کہیں سے سودا سلف لینے دیا جائے.احمدیوں کی دوکانوں کے باہر ملاں بیٹھ کر اس بات کی نگرانی کرتے رہتے کہ کوئی ان سے سودا نہ خرید لے.پھر دماغ کا یہ خلل اس حد تک پہنچ گیا کہ جو غیر احمدی عورتیں کسی احمدی کی دوکان سے کپڑا خریدنے لگتیں تو ان کو کہا جاتا کہ اگر تم نے ان سے کپڑا خریدا تو تمہارا نکاح ٹوٹ جائے گا.جس کسی بیچاری نے یہ غلطی کی اس سے سر عام تو بہ کرائی گئی اور بعض کے نکاح دوبارہ پڑھائے گئے.اوکاڑہ میں مخالفین فسادات کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش تھے ان میں سے کئی اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کی گرفت میں آئے.کوئی پاگل ہوا.کوئی اب تک سڑکوں پر بھیک مانگ رہا ہے اور کبھی کسی احمدی کے پاس آکر بھیک کا طلب گار ہوتا ہے.کسی کی اولا دخدا تعالیٰ کے قہر کا نشانہ بنی.میرک ضلع اوکاڑہ میں تو مخالفین کا غیظ و غضب اس حد تک بڑھا کہ انہوں نے پہلے احمدیوں کے گھروں کے آگے چھاپے لگا کر انہیں اندر محصور کر دیا.جب پولیس نے آکر چھاپے اتروائے تو مخالفین نے اینٹوں
343 کی چنوائی کر کے احمدیوں کے دروازے بند کر دیئے اور ملاں لوگ طرح طرح کی دھمکیاں دیتے رہتے.کوئی احمدی بازار میں نکلتا تو اس کے پیچھے اوباش مخالفین لگ جاتے.اس ضلع کے احمدی صبر و استقامت سے ان مظالم کو برداشت کرتے رہے.ایک مولوی ایک احمدی کے گھر پر آیا اور خاتونِ خانہ سے کہنے لگا کہ مسلمان ہو جاؤ ورنہ رات کو مکینوں سمیت گھر کو آگ لگا دیں گے.اس بہادر خاتون نے کہا کہ میں اور بچے اس وقت گھر میں ہیں تم رات کی بجائے ابھی آگ لگا دو.یہ سن کر ملاں گالیاں دینے لگا.غلام محمد صاحب اوکاڑہ شہر سے جا کر ایک گاؤں کے پرائمری سکول میں پڑھاتے تھے.ان کو راستہ میں ایک شخص نے کلہاڑی مار کر شہید کر دیا.قاتل کو کچھ عرصہ گرفتاری کے بعد رہا کر دیا گیا.اس پس منظر میں جب ۲۸ / جولائی کو وزیر اعلیٰ ساہیوال آئے تو احمدیوں کے ایک وفد نے ان سے ملنے کی درخواست کی تو انہوں نے ملنے سے انکار کر دیا.دوبارہ درخواست پر انہوں نے کہا کہ لاہور آ کر ملیں.جب یہ لوگ لاہور گئے تو وہاں بھی وزیر اعلیٰ نے ملنے سے انکار کر دیا.۵ راگست کو کارروائی شروع ہوتی ہے اب ہم اس کا روائی کا جائزہ لیں گے جو پوری قومی اسمبلی پر مشتمل پیشل کمیٹی میں ہوئی.اور اس میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث پر کئی روز تک سوالات کا سلسلہ چلا.یہ جائزہ قدرے تفصیل سے لیا جائے گا.جیسا کہ جلد ہی پڑھنے والے اندازہ لگالیں گے کہ اکثر سوالات تو بچگانہ تھے لیکن پھر بھی اس کارروائی کی ایک اہمیت ہے.وہ اس لئے کہ اس کے بعد دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک سیاسی اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک گروہ کے مذہب کا کیا نام ہونا چاہئے.اور اس لئے بھی کہ یہ ایک بین الاقوامی سازش کا ایک اہم حصہ تھا.اس کے علاوہ مخالفین جماعت کی طرف سے بار ہا اس کا رروائی کے متعلق غلط بیانی سے کام لے کر اپنے کار ہائے نمایاں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہر ایک نے اپنے سر پر سہرا باندھنے کی کوشش کی ہے کہ یہ اصل میں میں ہی تھا جس کی ذہانت کی وجہ سے یہ فیصلہ سنایا گیا.سوالات اور ان کی حقیقت جب بیان کی جائے گی تو پڑھنے والوں کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ ذہانت یا یوں کہنا چاہئے کہ اس کے فقدان کا عالم کیا تھا.اور اس کا رروائی میں وہی گھسے پٹے سوالات کئے گئے تھے جو کہ عموماً جماعت کے مخالفین کی طرف سے کئے جاتے تھے.جب ان کا جواب درج کیا
344 جائے گا تو پڑھنے والے ان کی حقیقت کے متعلق خود اپنی رائے قائم کر سکیں گے.۵ اگست کے روز جب کارروائی شروع ہوئی تو آغاز میں سپیکر اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی صاحب نے کہا کہ اس وقت اٹارنی جنرل چیمبر میں مولانا ظفر احمد انصاری صاحب سے مشورہ کر رہے ہیں اور ان کے آنے پر چند منٹ میں ہم کارروائی کا آغاز کریں گے.پھر سپیکر اسمبلی نے اعلان کیا کہ کارروائی کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ جس نے سوال کرنا ہے وہ اپنا سوال لکھ کر دے گا اور اٹارنی جنرل یہ سوال جماعت کے وفد سے کریں گے.کارروائی کے آغاز پر اٹارنی جنرل بیٹی بختیار صاحب نے حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کو حلف اُٹھانے کے لئے کہا.حضرت صاحب کے حلف اُٹھانے کے بعد اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ آپ نے ان سوالات کے جواب دینے ہیں جو پوچھے جائیں گے اور اگر آپ کسی سوال کا جواب دینا پسند نہ کریں تو آپ انکار کر سکتے ہیں.لیکن اس انکار سے سپیشل کمیٹی کوئی نتیجہ اخذ کر سکتی ہے جو آپ کے حق میں اور آپ کے خلاف بھی ہوسکتا ہے.اور اگر آپ کسی سوال کا فوراً جواب نہ دینا پسند کریں تو آپ اس کے لیے وقت مانگ سکتے ہیں.پیشتر اس کے کہ ہم ان سوالات کا جائزہ لیں جو پوچھے گئے اور ان جوابات کو دیکھیں جو دئیے گئے یہ امر پیش نظر رہے کہ اس پیشل کمیٹی کے سپرد یہ کام تھا کہ یہ فیصلہ کرے کہ اسلام میں ان لوگوں کی کیا حیثیت ہے جو رسول کریم ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتے.اور ان کے سپر داس مسئلہ کے متعلق آراء جمع کرنا اور اس مسئلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تجاویز تیار کرنا تھا.یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ خواہ کسی کمیٹی کی تحقیقاتی کارروائی ہو یا کوئی عدالتی کارروائی ہو اور سوال پوچھے جائیں تو یہ سوالات پیش نظر مسئلہ کے بارے میں ہونے چاہئیں یا کم از کم ان سوالات کا اس مسئلہ کے متعلق تجاویز مرتب کرنے سے کوئی واضح تعلق ہونا چاہئے یا کم از کم سوالات کی اکثریت کا تعلق اس مسئلہ سے ہونا چاہئے.اگر کوئی ایک غیر متعلقہ سوال بھی پوچھے تو یہ بھی قابل اعتراض ہے کجا یہ کہ کوئی کئی روز غیر متعلقہ سوالات پوچھتا جائے.کارروائی کے آغاز سے یہ امر ظاہر تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب غیر متعلقہ سوالات میں وقت ضائع کر رہے ہیں اور اصل موضوع پر آنے سے کترا رہے ہیں.ان کا پہلا سوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں تھا.اگر یہ پیش نظر رہے کہ یہ کیٹی کس مسئلہ پر غور کر ہی تھی تو یہی ذہن میں آتا
345 ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کیا تھے یا حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی شان میں آپ نے کیا فرمایا.لیکن اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کب اور کہاں پیدا ہوئے ، آپ کا خاندانی پس منظر کیا تھا ، آپ کی تعلیم کیا تھی اور آپ نے کب اور کہاں وفات پائی.اس کے جواب میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث" نے فرمایا کہ اسکا تحریری جواب جمع کرا دیا جائے گا.اٹارنی جنرل صاحب نے شکریہ ادا کیا اور موضوع تبدیل کیا.پھر حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے دریافت کیا "You are the grandson of Mirza Ghulam Ahmad ?” اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے فرمایا ”ہاں“.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے ان کے حالات زندگی دریافت کئے گئے.پھر یہ تفصیلات دریافت کرتے رہے کہ کیا آپ خلیفہ مسیح، امام جماعت احمد یہ اور امیر المومنین تینوں منصبوں پر فائز ہیں.جب اس کا جواب اثبات میں دیا گیا تو یہ سوال کیا گیا کہ آپ ان مختلف عہدوں کے تحت کیا کام کرتے ہیں اور یہ مختلف عہدے کن اختیارات کے حامل ہیں.اس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ مختلف عہدے نہیں بلکہ امام جماعت احمدیہ، خلیفہ اسی اور امیر المومنین کے الفاظ ایک ہی شخص کے متعلق استعمال ہوتے ہیں.اس کے بعد انہوں نے دریافت کیا کہ کیا مختلف اشخاص یہ تینوں عہدے رکھ سکتے ہیں.اس کا جواب نفی میں دیا گیا.اس تمہید کے بعد اب امید کی جارہی تھی کہ سوالات کا سلسلہ زیر بحث موضوع کی طرف آئے گا لیکن جو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس تھا.اس کے بعد وہ اس تفصیلی بحث میں الجھ گئے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں احمدیوں کی تعداد کیا تھی؟ اور اب یہ تعداد کتنی ہے؟ انہوں نے دریافت کیا کہ ۱۹۲۱ء میں ہندوستان میں احمدیوں کی تعداد کیا تھی ؟ ۱۹۳۶ء میں یہ تعداد کتنی ہو گئی تھی؟ اور اب پاکستان میں احمدیوں کی تعداد کتنی ہے؟ انگریز حکومت کی مردم شماری کے مطابق یہ تعداد کتنی تھی ؟ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کے مطابق یہ تعداد کتنی تھی ؟ اور دونوں میں فرق کیوں ہے؟ یہ کارروائی پڑھتے ہوئے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ صاحب موصوف یا ان کو سوال دینے والے کیا بحث ہلے بیٹھے تھے.ان کی یہ بحث اس لیے بھی زیادہ نا معقول معلوم ہو رہی تھی کہ شروع میں ہی حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے فرما دیا تھا کہ ہمارے پاس بیعت کنندگان کا کوئی صحیح ریکارڈ موجود نہیں ہے.اور مذکورہ معاملہ کا احمدیوں کی تعداد سے کوئی تعلق نہیں تھا.اگر
346 پاکستان میں صرف پانچ یا چھ احمدی تھے اور ان کا عقیدہ اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا تو ان کی تعداد کی بنا پر ان کو غیر مسلم نہیں قرار دیا جا سکتا.اگر بالفرض پاکستان میں چھ سات کروڑ احمدی بھی تھے مگر ان کا عقیدہ غلط تھا تو اپنی زیادہ تعداد کی بنا پر وہ راسخ العقیدہ نہیں بن سکتے تھے.اور نہ ہی ان کی تعداد سے ان کے مذہبی اظہار کے بنیادی حق پر کوئی فرق پڑتا تھا.وقفہ سے کچھ دیر قبل یہ تاثر ابھر نا شروع ہوا کہ شاید اب زیر بحث معاملہ کے متعلق سوالات شروع ہوں.انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے خطبہ جمعہ کا حوالہ دیا جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے آئین کے آرٹیکل ۱۸ اور ۲۰ میں مذہبی آزادی کی ضمانت کا حوالہ دیا تھا.اور یہ سوال اٹھایا کہ اگر پارلیمنٹ چاہے تو دو تہائی کی اکثریت سے ان شقوں کو تبدیل کر سکتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے.کچھ مجھ نہیں آتی کہ وہ کیا نتیجہ نکالنے کی کوشش کر رہے تھے.ہر ملک کے آئین میں پارلیمنٹ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگر مطلوبہ تعداد میں اراکین اس کے حق میں رائے دیں تو ملک کے آئین میں تبدیلی کر سکتے ہیں.لیکن آئین کی ہر شق اور ہونے والی ہر ترمیم کو بعض مسلمہ بنیادی انسانی حقوق کے متصادم نہیں ہونا چاہئے خاص طور پر اگر اسی آئین میں ان حقوق کی ضمانت دی گئی ہو.مثلاً جس زمانہ میں جنوبی افریقہ کے آئین میں مقامی باشندوں کو ان کے حقوق نہیں دیئے گئے تو آخر کار پوری دنیا نے ان کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور یہ عذر قابل قبول نہیں سمجھا جاتا تھا کہ ان کے آئین میں ایسا ہی لکھا ہوا تھا.اور اگر کسی ملک کی پارلیمنٹ ایسی کوئی آئینی ترمیم کر بھی دے جو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو تو اسے قبول نہیں کیا جاتا بلکہ بسا اوقات تو عدالت ہی اسے ختم کر دیتی ہے اور اندرونی دباؤ کے علاوہ پوری دنیا کی طرف سے ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ اس کو ختم کریں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس بات کا اظہار فرمایا کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اسکو ہمیں مسلمان کہنا پڑے گا.اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ ان کے ذہن میں اس بارے میں کچھ پیچیدگیاں ہیں.وہ یہ بحث لے بیٹھے کہ آپ نے کہا ہے کہ قانون کی رو سے ہر فرد اور فرقہ کا مذہب وہی ہونا چاہئے جس کی طرف وہ اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے.اس پر بیٹی بختیار صاحب یہ دور کی ا کوڑی لائے کہ اگر ایک مسلمان طالب علم ڈاؤ میڈیکل کالج میں اقلیتوں کی سیٹ پر داخلے کے لیے اپنے آپ کو ہندو ظاہر کرتا ہے تو کیا اسے قبول کرنا چاہئے.اٹارنی جنرل صاحب یہاں بھی ایک غیر
347 متعلقہ موازنہ پیش کر رہے تھے.یہ مثال ہے کہ ایک طالب علم اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن داخلہ کے لیے جعلی اندراج کرتا ہے تا کہ اس جھوٹ سے ناجائز فائدہ اُٹھا سکے اور دوسری طرف ایک فرقہ ہے جو نوے سال سے دنیا کے بیسیوں ممالک میں اپنے آپ کو مسلمان کہتا رہا ہے اور ان کے عقائد اچھی طرح سے مشتہر ہیں کہ وہ ہمیشہ سے اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں مسلمان کہتے ہیں مسلمان لکھتے ہیں اور اچانک ایک ملک کی اسمبلی زبردستی ان کی مرضی کے خلاف یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آج سے وہ قانون کی نظر میں مسلمان نہیں ہوں گے.دونوں مثالوں میں کوئی قدر مشترک نہیں.بہر حال کا رروائی میں ہونے والے سوالات زیر بحث موضوع کے قریب بھی نہیں آئے تھے کہ کارروائی مختصر وقفہ کیلئے رکی.وقفہ کے بعد کارروائی شروع ہوئی.اٹارنی جنرل صاحب نے سوالات کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا.ان سوالات کی طرز کا لب لباب یہ تھا کہ کسی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مذہبی معاملات میں مداخلت کرے یا اگر کوئی فرد یا گروہ اپنے آپ کو ایک مذہب کی طرف منسوب کرتا ہے تو حکومت کو یہ اختیار ہے کہ اس امر کا تجزیہ کرے کہ وہ اس مذہب کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ نہیں.اس لا یعنی بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ ایسی مثالیں پیش کر رہے تھے جو یا تو غیر متعلقہ تھیں یا ایسی فرضی مثالیں تھیں جن کو سامنے رکھ کر کوئی نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا.مثلاً انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں آنحضرت ﷺ پر ایمان نہیں لاتا لیکن وہ اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو کیا اسے مسلمان سمجھا جائے گا.اب یہ ایک فرضی مثال تھی جب کہ ایسا کوئی مسلمان فرقہ موجود ہی نہیں جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا ہو اور یہ بھی کہتا ہو کہ ہم آنحضرت ﷺ پر ایمان بھی نہیں لاتے.اور ایسی فرضی اور انتہائی قسم کی مثال پر کوئی نتیجہ نہیں قائم کیا جاسکتا.پھر وہ یہ مثال لے بیٹھے کہ سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ میں صرف مسلمان جا سکتے ہیں لیکن اگر کوئی یہودی اپنے فارم پر اپنا مذہب مسلمان لکھے اور اس بنا پر وہاں پر داخل ہو کر جاسوسی کرنے کی کوشش کرے تو کیا وہاں کی حکومت اسے گرفتار کرنے کی مجاز نہیں ہوگی.اس پر حضور نے یہ مختصر اور جامع جواب دیا کہ اسے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے کے الزام میں نہیں بلکہ ایک ملک میں جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا جائے
348 گا.اور یہ حقیقت تو سب دیکھ سکتے ہیں کہ اس مثال میں کسی مذہب کی طرف منسوب ہونا اتنا اہم نہیں ، ایسے شخص پر تو جاسوسی کا الزام لگتا ہے.یہاں پر یچی بختیار صاحب کو اپنی مثال کے بودا ہونے پر کا احساس ہوا تو انہوں نے فوراً بات تبدیل کی اور کہا کہ فرض کریں کہ ایک عیسائی صحافی ہے اور وہ تجسس کی خاطر مکہ اور مدینہ دیکھنا چاہتا ہے اور فارم غلط اندراج (False declaration) کرتا ہے پر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے تو کیا وہاں کی حکومت اسے روک نہیں سکتی.اس پر حضور نے جواب دیا کہ اسے تو False declaration کرنے کی بنا پر گرفتار کیا جائے گا، غیر مسلم ہونے کی بنا پر گرفتار نہیں کیا جائے گا.اب یہ مثال بھی زیر بحث معاملہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتی تھی.ایک شخص کسی اور مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے اور اس نے کبھی اسلام قبول ہی نہیں کیا.وہ کسی مقصد کی خاطر غلط بیان دیتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان لکھتا ہے.اس شخص سے کوئی بھی معاملہ کیا جائے لیکن دوسری طرف بالکل اور صورتِ حال ہے.ایک فرقہ ہے وہ اپنے آپ کو ہمیشہ سے مسلمان کہتا رہا ہے اور اس نے کبھی بھی اپنے آپ کو کسی اور مذہب کی طرف منسوب نہیں کیا.ایک سیاسی اسمبلی ایک روز یہ فیصلہ سنانے بیٹھ جاتی ہے کہ اسے اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا کوئی حق نہیں.یہ دونوں بالکل مختلف نوعیت کی مثالیں ہیں.پھر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش شروع کی کہ بنیادی حقوق پر بھی حکومت قدغن لگا سکتی ہے.اس سلسلہ میں انہوں نے یہ معرکۃ الآراء مثال پیش کی کہ لیور برادرز کمپنی ہکس نام کا صابن بناتی ہے.اگر کوئی اور کمپنی اس نام سے صابن بنانے لگ جائے تو حکومت اسے رو کے گی.یہ بھی ایک نہایت غیر متعلقہ اور لایعنی مثال تھی.صنعتی مصنوعات کے متعلق Patent کرانے کا قانون موجود ہے.اور اگر ایک کمپنی چاہے تو اپنی قابل فروخت مصنوعات کو اس قانون کے تحت Patent کرا سکتی ہے اور اس کے بعد کوئی اور کمپنی ان ناموں سے منسوب مصنوعات فروخت نہیں کر سکتی.اسلام یا کوئی اور مذہب قابلِ فروخت آئیٹم تو نہیں کہ کوئی اور گروہ یہ نام استعمال نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی ایک فرقہ نے یہ نام Patent کرا کے اس کے استعمال کی اجارہ داری حاصل کی ہے.چنانچہ حضور نے اٹارنی جنرل صاحب پر واضح فرمایا کہ لیور برادرز کے پاس تو اس نام کو استعمال کرنے کی Monoply ہے.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا فرض کریں کہ جہاں تک عقیدہ کا
349 تعلق ہے کسی کے پاس اس کی Monoply نہیں ہے لیکن میں ابھی اس موضوع کی طرف نہیں آیا.حقیقت یہ ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب اس موضوع کی طرف آنا ہی نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی اس کی طرف انہوں نے آنے کی کبھی کوشش کی.اس موقع پر حضور نے یہ مثال بیان فرمائی کہ اگر ایک گروہ کہے کہ عیسائیت کا نام صرف وہی گروہ استعمال کر سکتا ہے اور دوسرے گروہ یا فرقے یہ نام استعمال نہیں کر سکتے.یقیناً لکس صابن کی فروخت کی بجائے یہ مثال زیر بحث موضوع کے مطابق تھی.اس پر اٹارنی جنرل صاحب کافی جزبز ہوئے اور کہنے لگے کہ I am not anticipating any thing please.I am just dealing with the restriction of the human rights.ایک بار پھر یہ ظاہر ہورہا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب اصل موضوع کی طرف آنے کی بجائے ادھر اُدھر کی باتوں پر وقت ضائع کر رہے ہیں.ان کی پیشکر دہ مثالیں اس قدر دور از حقیقت اور موضوع سے ہٹ کر تھیں کہ حضور کو سوال کر کے کوشش کرنی پڑتی تھی کہ اصل بات واضح ہو اور سوال و جواب کا سلسلہ اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آئے.اور اٹارنی جنرل صاحب غلط سوال کر کے خود الجھن میں پھنس جاتے تھے.اب تک جماعت کے مخالفین پر یہ امر واضح ہو چکا تھا کہ یہ بحث ان کی توقعات کے مطابق نہیں جارہی اور جماعت احمدیہ پر گرفت کرنے کا موقع نہیں پار ہے.چنانچہ شاہ احمد نورانی صاحب نے سپیکر اسمبلی کو کہا کہ جو سوال کیے جاتے ہیں یہ الٹا اٹارنی جنرل صاحب سے سوال کر کے ٹال دیتے ہیں.یہ طریق غلط ہے انہیں پابند کیا جائے کہ یہ جواب پورا دیں.اس پر سپیکر اسمبلی نے کہا کہ He has got his own methods ان کا اپنا طریقہ ہے.اس مرحلہ پر چھ بجے شام تک کے لیے کارروائی ملتوی کر دی گئی.چھ بجے شام کارروائی پھر شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل صاحب نے موضوع کی طرف آنے کی بجائے ایک بار پھر یہ سوال چھیڑ دیا کہ پاکستان میں احمدیوں کی تعداد کیا ہے.اس پر آخر کا ر حضور نے فرمایا کہ میں کوئی بھی عدد وثوق سے نہیں کہہ سکتا.مختلف لوگوں نے جو پاکستان میں احمدیوں کی تعداد بیان کی ہے وہ صرف اندازے
350 ہیں اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا.اگر پانچ آدمیوں پر بھی ظلم کیا جائے تو وہ بھی اتنا ہی برا ہوگا.اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی گفتگو کا رخ ایک اور طرف پھیرا.اگر چہ بظاہر ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ احمدیوں کو آئین میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے بلکہ ابھی بحث اپنے اصل موضوع پر بھی نہیں آئی تھی.لیکن بیٹی بختیار صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دی کہ اگر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے تو اس سے ان کے حقوق پر کوئی فرق نہیں پڑے گا.اول تو یہ بات ہی لا یعنی تھی کہ ایک فرقہ اپنے آپ کو ایک مذہب کی طرف منسوب کرتا ہے اور ایک سیاسی سمبلی یہ فیصلہ کردیتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے آپ کو اس مذہب کی طرف منسوب نہیں کر سکتا.اور اس کے ساتھ آپ کے آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہر شخص اپنے مذہب کو Profess کرسکتا ہے.اور پھر یہ بھی اصرار کیا جا رہا ہے کہ اس سے آپ کا کوئی حق متاثر بھی نہیں ہوگا.لیکن اس کے بعد انہوں نے جو تفصیلی دلائل بیان کئے وقت نے ان دلائل کو غلط ثابت کیا.ان کا کہنا تھا کہ غیر مسلم قرار دینے کے بعد احمدیوں کے حقوق محفوظ ہو جائیں گے اور میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اگر آپ کو غیر مسلم نہ قرار دیا گیا تو آپ کے حقوق محفوظ رہتے ہیں کہ نہیں.ایک ملک کی پارلیمنٹ میں اٹارنی جنرل کے منہ سے یہ جملہ اس ملک کے آئین کی ہی تو ہین تھی یعنی اگر کوئی فرقہ اپنے عقیدہ کے مطابق ایک مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو پارلیمنٹ میں اٹارنی جنرل صاحب فرمارہے تھے کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان کے حقوق محفوظ رہیں گے کہ نہیں.اگر ایسا ہی ہے تو پھر ملک میں آئین اور قانون کا فائدہ ہی کیا ہے.پھر اس آئین میں مذہبی آزادی بلکہ کسی قسم کی آزادی کا ذکر ہی فضول ہے.یہ عجیب نا معقولیت تھی کہ ایک ملک کا اٹارنی جنرل ملک کی قانون ساز اسمبلی میں یہ کہ رہا ہے کہ اگر آپ نے نمیر کے مطابق اپنے مذہب کا اعلان کیا تو آپ کے حقوق کی کوئی ضمانت حکومت نہیں دے سکتی لیکن اگر آپ نے جھوٹ بولا اور اپنے ضمیر کے خلاف کسی اور نام سے اپنے مذہب کو منسوب کیا تو پھر ہم آپ کے حقوق کی حفاظت کریں گے.پھر اس کے بعد انہوں نے تسلی دلائی کہ غیر مسلم قرار دئیے جانے کے بعد بھی آپ اپنے مذہب کو profess, practice اور propagate کر سکتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جب بھی ایک ملک یا ایک معاشرے میں مذہبی تنگ نظری کا سفر شروع ہو جائے تو یہ معاشرہ گرتے گرتے ایک مقام پر رکتا
351 نہیں بلکہ تنگ نظری کی کھائی میں گرتا ہی چلا جاتا ہے.جب تک کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے واپسی کا سفر شروع نہ کرے.پاکستان بھی تنگ نظری کی کھائی میں گرتا چلا گیا.اور ۱۹۸۴ء کے آرڈینینس میں جماعت سے اپنا مذہب profess, practice اور propagate کرنے کے حقوق چھینے کی کوشش بھی کی گئی اور یہ تعصب صرف جماعت احمد یہ تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.اور اس وقت سے اب تک کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کے حقوق محفوظ نہیں رہے.جب اٹارنی جنرل صاحب نے اس بات پر زوردیا کہ اگر آپ کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے تو اس سے آپ کے حقوق محفوظ ہو جائیں گے.اس پر حضور نے واضح طور پر فرمایا Then we do not want our rights to be protecetd.یعنی اس صورت میں ہم نہیں چاہتے کہ اس طرح ہمارے حقوق محفوظ کئے جائیں.اس دوٹوک جواب کے بعد یحیی بختیار صاحب کے سوالات کی ڈولتی ہوئی ناؤ نے کسی اور سمت کا رخ کیا.پھر اٹارنی جنرل صاحب نے سوالات پوچھے کہ کیا احمدی مرزا صاحب کو نبی سمجھتے ہیں.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے یہ پر معارف جواب دیا کہ نہیں ہم انہیں امتی نبی سمجھتے ہیں.اور فرمایا کہ نبی ہونے اور امتی نبی ہونے میں بہت فرق ہے.جب اٹارنی جنرل صاحب نے وضاحت کرنے کے لیے کہا تو اس پر حضور نے فرمایا.امتی نبی کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص نبی اکرم ﷺ کے عشق و محبت میں اپنی...زندگی گزار رہا ہے.اس کو ہم امتی کہیں گے.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ.....میری اتباع کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کو پاؤ گے.امتی کے معنی یہ ہیں کہ حضرت بانی احمد یہ نبی اکرم علی کے کامل متبع تھے.اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی روحانی برکت اور فیض نبی اکرم ﷺ کی اتباع کے بغیر حاصل ہو نہیں سکتا.“ اس کے بعد یہ بات شروع ہوئی کہ احمدیوں کے نزدیک جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرے اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے اور کفر کے کیا کیا مطالب ہو سکتے ہیں، شرعی اور غیر شرعی نبی میں کیا
352 فرق ہوتا ہے.اب یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ اب سارا دن گزار کر شاید اٹارنی جنرل صاحب موضوع پر آئیں اور کچھ علمی اور پر معرفت باتیں سننے کو ملیں.لیکن چند منٹ ہی گزرے تھے کہ بیٹی بختیار صاحب اچانک بغیر کسی تمہید کے پٹڑی سے اترے اور ایسا اترے کہ بہت دور نکل گئے.انہوں نے اچانک سوال کیا آپ اپنے لیے تو تواضع پسند کرتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے تواضع نہیں ظاہر کرتے اور اس الزام کے حق میں اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی طرف سے جو دلیل پیش فرمائی وہ یہ تھی کہ آپ نے یہ تقاضا کیا تھا کہ آپ کے نام جو خط آئے وہ امام جماعت احمدیہ کے نام آئے اور جب کہ آپ نے اپنے انگریزی میں لکھے گئے ضمیمہ میں مودودی صاحب کا نام مسٹر مودودی لکھا ہے جب کہ ان کے پیروکار انہیں مولانا مودودی کہتے ہیں.ان کا اصرار تھا کہ اس طرح مودودی صاحب کی تحقیر ہوتی ہے.جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں حکومت کی طرف سے ایک خط ملا جس میں حضرت خلیفہ امسیح کا ذکر کرنا تھا لیکن قومی اسمبلی کے سیکریٹری نے ان کے لئے انجمن احمد یہ کے ہیڈ کے الفاظ استعمال کئے.حقیقت یہ ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کا صدر صرف جماعت کی اس تنظیم کا سر براہ ہوتا ہے اور وہ امام جماعت احمد یہ نہیں ہوتا.یہ بات نہ صرف احمد یوں میں بلکہ غیر احمد یوں میں بھی معروف ہے.اس غلطی کی ضروری تصحیح کی گئی تھی اور وہ تصیح بھی حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی طرف سے نہیں بلکہ ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مرزا خورشید احمد صاحب کی طرف سے بھجوائی گئی تھی لیکن اٹارنی جنرل صاحب با وجود وکیل ہونے کے اس موٹی بات کو سمجھنے سے بھی قاصر تھے اور اس غلطی کو بنیاد بنا کر ایک لایعنی اور غیر متعلقہ اعتراض کر رہے تھے.اس کے جواب میں حضرت صاحب نے مذکورہ وضاحت بیان فرمائی اور کہا کہ میں اپنے لیے کسی ادب کا مطالبہ نہیں کرتا.آپ مجھے مسٹر بھی نہ کہیں.میرا نام مرزا ناصر احمد ہے، آپ مجھے خالی ناصر کہیں.جہاں تک اٹارنی جنرل صاحب کی دوسری بات کا تعلق تھا تو اس کی شانِ نزول یہ تھی کہ جماعتِ احمدیہ کے محضر نامہ کے ضمیمہ میں مودودی صاحب کا نام انگریزی میں مسٹر مودودی کر کے لکھا ہوا تھا.اسی ضمیمہ میں مسٹر مودودی کے الفاظ سے پانچ لفظ پہلے مسٹر بھٹو کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے.حضور نے فرمایا کہ جو چیز میں نہیں سمجھ سکا وہ یہ ہے کہ اسی جگہ پانچ لفظ پہلے مسٹر بھٹو سے تو تحقیر ظاہر نہیں ہوتی
353 اور مسٹر مودودی سے تحقیر ظاہر ہوتی ہے.یہ بات میں نہیں سمجھ سکا تحقیر کا کوئی پہلو نہیں نکلتا.لیکن اٹارنی جنرل صاحب اسی بات کو دہراتے رہے کہ اس طرح مودودی صاحب کے بارے میں تو اضع کا رویہ نہیں دکھایا گیا.انہوں نے ایسی کج بحثی کا مظاہرہ کیا کہ خود سپیکر اسمبلی کو کہنا پڑا کہ یہ مناظرہ ختم کر کے وہ معین سوال کریں.یعنی اٹارنی جنرل صاحب یا اسمبلی کو تو یہ اختیار ہے کہ وہ جس کے متعلق پسند کریں اسے غیر مسلم کہہ دیں لیکن اگر انگریزی میں مودودی صاحب کو مسٹر مودودی کر کے لکھا جائے اور ان کو مولا نا نہ کہا جائے تو یہ ایسی تحقیر ہے کہ اس کا سوال خود اسمبلی میں اٹھایا جائے جب کہ بحث کا مقصد یہ ہو کہ ختم نبوت کو نہ ماننے والوں کا اسلام میں کیا مقام ہے اور سوال یہ اٹھایا جائے کہ مودودی صاحب مسٹر ہیں یا مولانا ہیں.ابھی یحیی بختیار صاحب اس جنجال سے باہر نہیں نکلے تھے کہ انہوں نے اپنے دلائل کی زنبیل میں سے ایک اور دلیل باہر نکالی.اور کہا کہ انگلستان میں جماعت احمدیہ نے ایک ریزولیشن پاس کیا ہے جس میں Non Ahmadiyya Pakistani کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں.مطلب یہ تھا کہ غیر احمدیوں کو مسلمان نہیں کہا گیا.اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ خبر وہاں کے اخباروں میں آئی ہے آپ بے شک Verify کر لیں.اور کہا کہ اس کی ایک کاپی حضور کو دی جائے.مغرب کی نماز کے بعد حضرت صاحب نے وضاحت کے لیے کہا کہ اس کا پی پر تو کسی اخبار کا نام نہیں ، یہ کس اخبار کا حوالہ ہے.تو اٹارنی جنرل صاحب کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ کس اخبار میں خبر آئی تھی جس کا وہ حوالہ دے رہے تھے، انہوں نے صرف یہ کہہ کر اپنی جان چھڑائی کہ یہ مجھے ڈائرکٹ ملا ہے.میں معلوم کروں گا کہ کس اخبار میں خبر آئی تھی.اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے کارروائی سے قبل کوئی سنجیدہ تیاری نہیں کی تھی.معلوم ہوتا ہے کہ ممبران اسمبلی خاص طور پر جماعت کے مخالفین کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا.بحث ان کی امیدوں کے برعکس جارہی تھی.وہ غالباً اس امید میں مبتلا تھے کہ جماعت کا وفد خدانخواستہ ایک ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہو گا اور ان کے ہر نا معقول تبصرہ کو تسلیم کرے گا اور اس پس منظر میں جب کہ ملک میں احمدیوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی ، جماعت کا وفد ان سے رحم کے لیے درخواست کرے گا.مگر ایسا نہیں ہو رہا تھا.اٹارنی جنرل صاحب ممبرانِ اسمبلی کے دیئے ہوئے جو
354 سوال کرتے تو ان میں سے اکثر غیر متعلقہ اور خام سوال ہوتے اور جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث سوال کر کے کسی اصطلاح یا سوال کے کسی مبہم پہلو کی وضاحت کرتے تو ان سوالات سے ہی یہ واضح ہو جاتا کہ یہ سوالات پختہ ذہن سے نہیں کئے گئے.جب ۵ /اگست کی کارروائی ختم ہوئی اور حضرت خلیفة امسیح الثالث جماعتی وفد کے دیگر اراکین کے ہمراہ جب ہال سے تشریف لے گئے تو ممبرانِ اسمبلی کا غیظ و غضب دیکھنے والا تھا.اس وقت ان کے بغض کا لاوا پھٹ پڑا.ایک ممبر میاں عطاء اللہ صاحب نے بات شروع کی اور کہا I have another point some of the witnesses who were here, for instances, Mirza Tahir, they were unnecessarily...........اس جملہ کی اٹھان سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے متعلق کچھ زہر اگلنا چاہتے ہیں لیکن ان کا تبصرہ سپیکر کے Just a minute کہنے سے ادھورا ہی رہ گیا.اس کے فوراً بعد شاہ احمد نورانی صاحب نے جھٹ اعتراض کیا: وو وہ لوگ ہنستے بھی ہیں.باتیں بھی کرتے ہیں اس طرف دیکھ کر مذاق بھی کرتے ہیں اور سر بھی ہلاتے ہیں.آپ ان کو بھی چیک فرما ئیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر جماعت کے وفد کی طرف سے کوئی نا مناسب رویہ ظاہر ہوتا تو یہ کارروائی سپیکر کے زیر صدارت ہو رہی تھی اور وہ اسی وقت اس کا نوٹس لے سکتے تھے اور اٹارنی جنرل صاحب جو سوالات کر رہے تھے اس پر اعتراض کر سکتے تھے لیکن ساری کارروائی میں ایک مرتبہ بھی انہوں نے ایسا نہیں کیا.اصل میں نورانی صاحب اور ان جیسے دوسرے احباب کو یہ بات کھٹک رہی تھی کہ وہ اس خیال سے آئے تھے کہ آج ان کی فتح کا دن ہے اور خدانخواستہ جماعت احمدیہ کا وفد اس سیاسی اسمبلی میں ایک مجرم کی طرح پیش ہوگا لیکن جو کچھ ہورہا تھاوہ ان کی تو قعات کے بالکل برعکس تھا.لیکن کارروائی کے دوران جماعت کا وفد حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی اعانت کر رہا تھا اور اس عمل میں ظاہر ہے آپس میں بات بھی کرنی پڑتی ہے اور اس عمل میں چہرے پر کچھ تاثرات بھی آتے ہیں.اور اسمبلی میں مسکرانا اور سر کو ہلانا کوئی جرم تو نہیں کہ اس کو دیکھ کر نورانی صاحب طیش میں آگئے.آخر
355 اسمبلیوں میں انسان شامل ہوتے ہیں کوئی مجسمے تو اسمبلیوں کی زینت نہیں بنتے.یہ واویلا صرف نورانی صاحب تک محدود نہیں تھا.ایک اور مر عبدالعزیز بھٹی صاحب نے بھی کھڑے ہو کر کہا کہ گواہ یعنی حضرت خلیفہ اسیح الثالث سوال کو Avoid کرتے ہیں اور تکرار کرتے ہیں.چیئر کا یعنی پیکر صاحب کا فرض ہے کہ انہیں اس بات سے روکا جائے.جہاں تک تکرار کا سوال ہے تو اس کا جواب پہلے آچکا ہے کہ اگر سوال دہرایا جائے گا تو اس کا جواب بھی دہرایا جائے گا.سپیکر صاحب نے انہیں جواب دیا کہ اگر اٹارنی جنرل صاحب یہ بات محسوس کریں کہ سوالات کے جواب نہیں دیئے جار ہے تو وہ چیئر سے اس بات کی بابت استدعا کر سکتے ہیں.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ ان کے لئے ضروری ہی نہیں ہے کہ وہ سوال کا جواب دیں.لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب نے سپیکر صاحب سے کبھی یہ استدعا کی ہی نہیں کہ ان کے سوال کا جواب نہیں دیا جارہا کیونکہ جوابات تو مل رہے تھے لیکن سننے کی ہمت نہیں ہورہی تھی.عبدالعزیز صاحب نے کہا: "The conduct of the witness is not coming before the house as to how he is behaving......وو یہ تبصرہ غالباً اسی ذہنی الجھن کی غمازی کر رہا تھا کہ ہم تو امید لگا کر بیٹھے تھے کہ یہ مجرم کی طرح پیش ہوں گے اور یہ الٹ معاملہ ہو رہا ہے ہمیں ہی خفت اٹھانی پڑ رہی ہے.اس کے بعد مولا بخش سومر و اور اتالیق شاہ صاحب نے بھی یہی اعتراض کیا کہ جوابات Evasive دیئے جا رہے ہیں.جب تک وہ ایک سوال کا جواب نہ دے دیں دوسری بحث میں نہ پڑا جائے.ان سے رور عایت نہ کی جائے.اس پر سپیکر صاحب نے جواب دیا کہ اس معاملے میں اسی وقت ہی مداخلت کی جائے گی جب اٹارنی جنرل صاحب اس بارے میں استدعا کریں گے.آئینہ صداقت اور انوار خلافت کے حوالہ جات پر اعتراض اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں کئی روز یہ اعتراض بار بار پیش کیا گیا کہ جماعت کی بعض کتب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہ ماننے والوں کے متعلق کفر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یا انہیں کافر کہا گیا
356 ہے.اس اعتراض کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ آپ کی بعض تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرنے والوں کے متعلق کفر کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اس لئے ، اب قومی اسمبلی کا یہ حق ہے کہ وہ احمد یوں کو آئین میں ترمیم کر کے غیر مسلم قرار دے دے.چونکہ یہ اعتراض بار بار پیش کیا گیا.اس لئے مناسب ہوگا کہ اس جگہ یہ ذکر ایک جگہ پر کر دیا جائے.اور یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہ اعتراض ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت میں بھی کیا گیا تھا.سب سے پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کفر کے لغوی معنی کیا ہیں.اس کے اصل معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں.رات کو بھی کافر کہا جاتا ہے.کاشتکار چونکہ زمین کے اندر بیج چھپاتا ہے اس لیے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے.کفر کے معنی نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے بھی ہیں.اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، شریعت یا نبوت کا انکار ہے.(مفردات امام راغب) مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرنے والوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی تحریروں کے بعض حوالے درج ذیل ہیں.اگر سرسری نظر سے دیکھا جائے تو ان میں تضاد دکھائی دے گا لیکن اگر احادیث نبویہ ﷺ کی روشنی میں اس مفہوم کو سمجھا جائے تو یہ در حقیقت تضاد نہیں.ان میں وہ حوالہ جات بھی شامل ہیں جن پر اعتراض کیا جاتا ہے اور ان کے حوالے اس کارروائی کے دوران بھی پیش کئے گئے تھے.الله حضرت مسیح موعود علیہ السلام تریاق القلوب میں تحریر فرماتے ہیں کیونکہ ابتدا سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوے کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کا فریا دجال نہیں ہوسکتا.ہاں ضال اور جادہ صواب سے منحرف ضرور ہوگا.اور میں اس کا نام بے ایمان نہیں رکھتا.ہاں میں ایسے سب لوگوں کو ضال اور جادہ صدق وصواب سے دور سمجھتا ہوں جو اُن سچائیوں سے انکار کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے پر کھولی ہیں.میں بلا شبہ ایسے ہر ایک آدمی کو ضلالت کی آلودگی سے مبتلا سمجھتا ہوں جو حق اور راستی سے منحرف ہے.لیکن میں کسی کلمہ گو کا نام کا فرنہیں رکھتا جب تک وہ میری تکفیر اور تکذیب کر کے اپنے تئیں خود کافر نہ بنا لیوے.سو اس معاملہ میں ہمیشہ سے سبقت میرے مخالفوں کی طرف سے ہے کہ انہوں نے مجھ کو کافر کہا.میرے لئے فتویٰ طیار کیا.میں نے سبقت کر
357 کے ان کے لئے کوئی فتوی طیار نہیں کیا.اور اس بات کا وہ خود اقرار کر سکتے ہیں کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمان ہوں تو مجھ کو کافر بنانے سے رسول اللہ ﷺ کا فتویٰ ان پر یہی ہے کہ وہ خود کافر ہیں.سو میں ان کو کافر نہیں کہتا.بلکہ وہ مجھ کو کافر کہہ کر خود فتویٰ نبوی کے نیچے آتے ہیں.“ (۴۴) تریاق القلوب میں اسی عبارت کے نیچے حاشیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.یہ نکتہ یا درکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعوے کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکامِ جدیدہ لاتے ہیں.لیکن صاحب الشریعت کے ماسوا جس قدر اہم اور محدث ہیں گو وہ کیسی ہی جناب الہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ الہیہ سے سرفراز ہوں.ان کے انکار سے کوئی کا فرنہیں بن جاتا.ہاں بدقسمت منکر جو ان مقربانِ الہی کا انکار کرتا ہے وہ اپنے انکار کی شامت سے دن بدن سخت دل ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ نور ایمان اس کے اندر سے مفقود ہو جاتا ہے اور یہی احادیث نبویہ سے مستنبط ہوتا ہے کہ انکار اولیاء اور ان سے دشمنی رکھنا اول انسان کو غفلت اور دنیا پرستی میں ڈالتا ہے اور پھر اعمال حسنہ اور افعال صدق اور اخلاص کی ان سے توفیق چھین لیتا ہے.(۴۴) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ آپ نے تریاق القلوب میں تحریرفرمایا ہے کہ آپ کے انکار سے کوئی شخص کا فرنہیں بنتا علاوہ ان لوگوں کے جو آپ کی تکفیر کر کے کافر بن جائیں.لیکن عبد الحکیم خان کے نام مکتوب میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ہر شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے.اس بیان اور پہلی کتابوں کے بیان میں تناقض ہے.اس کا جواب آپ نے حقیقۃ الوحی میں یہ تحریر فرمایا: یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھیراتے ہیں حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے.........جو کھلے کھلے طور پر خدا کے کلام کی تکذیب کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ہزارہا
358 نشان دیکھ کر جو زمین اور آسمان میں ظاہر ہوئے پھر بھی میری تکذیب سے باز نہیں آتے.وہ خود اس بات کا اقرار رکھتے ہیں کہ اگر میں مفتری نہیں اور مومن ہوں.تو اس صورت میں وہ میری تکذیب اور تکفیر کے بعد کافر ہوئے.اور مجھے کافر ٹھیرا کر اپنے کفر پر مہر لگا دی.یہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا کا فر ہو جاتا ہے...‘(۴۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں:...کیونکہ کا فر کا لفظ مومن کے مقابل پر ہے اور کفر دو قسم پر ہے ( اول ) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت ﷺ کو خدا کا رسول نہیں مانتا ( دوم ) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اسکو با وجود تمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے.پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے کا فر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں کیونکہ جو شخص با وجود شناخت کر لینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا وہ بموجب نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا اور اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اول قسم کفر یا دوسری قسم کفر کی نسبت اتمام محبت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا.اور جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مکذب اور منکر ہے تو گوشریعت نے (جس کی بناء ظاہر پر ہے ) اس کا نام بھی کا فر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اسکو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں پھر بھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا قابل مواخذہ نہیں ہو گا.ہاں ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ ہم اُسکی نسبت نجات کا حکم دیں اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اس میں دخل نہیں اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں.یہ علم محض خدا تعالیٰ کو ہے کہ اس کے نزدیک با وجود دلائل عقلیہ اور نقلیہ اور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں کے کس پر ابھی تک اتمام حجت نہیں ہوا.ہمیں دعوے سے کہنا نہیں چاہئے کہ فلاں شخص پر اتمام حجت نہیں ہوا ہمیں کسی کے باطن کا علم نہیں ہے.....‘(۴۶)
359 اسی مضمون کے متعلق حضرت مصلح موعوداً اپنی تصنیف آئینہ صداقت میں تحریر فرماتے ہیں ” میرا عقیدہ ہے کہ کفر در حقیقت خدا تعالیٰ کے انکار کی وجہ سے ہوتا ہے اور جب بھی کوئی وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی نازل ہو کہ اس کا ماننا لوگوں کے لئے حجت ہو.اسکا انکار کفر ہے اور چونکہ وحی کو انسان تب ہی مان سکتا ہے کہ جب وحی لانے والے پر ایمان لائے.اس لئے وحی لانے والے پر ایمان بھی ضروری ہے.اور جو نہ مانے وہ کافر ہے.اس وجہ سے نہیں کہ وہ زید یا بکر کو نہیں مانتا.بلکہ اس وجہ سے کہ اس کے نہ ماننے کے نتیجہ میں اسے خدا تعالیٰ کے کلام کا بھی انکار کرنا پڑے گا....اور چونکہ میرے نزدیک ایسی وجی جس کا ماننا تمام بنی نوع انسان پر فرض کیا گیا ہے حضرت مسیح موعود پر ہوئی ہے اس لئے میرے نزدیک بموجب تعلیم قرآن کریم کے ان کے نہ ماننے والے کافر ہیں خواہ وہ باقی سب صداقتوں کو مانتے ہوں.(۴۷) سرسری نظر سے ان حوالہ جات کو پڑھنے سے ایک ناواقف شخص شاید یہ نتیجہ نکالے کہ ان حوالہ جات میں تضاد ہے کہ ایک جگہ لکھا ہے کہ ایسا شخص کافر ہے اور ایک اور جگہ پر لکھا ہے کہ ایسا شخص کافر نہیں ہے.لیکن در حقیقت یہاں پر کوئی تضاد نہیں.اس قسم کے مضامین احادیث نبویہ ﷺ میں بھی بیان ہوئے ہیں.مثلاً صحیح مسلم کی کتاب الایمان میں روایات ہیں کہ جو اپنے آپ کو کسی کا بیٹا کہے اور وہ جانتا ہو کہ وہ اسکا بیٹا نہیں ہے اس نے کفر کیا (باب من ادعی الی غیر ابیہ) اور ایک اور روایت میں ہے کہ جو اپنے باپ سے بیزار ہوا وہ کافر ہو گیا ( باب بیان حال ايمان من رغب عن ابيه) اسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں دو چیزیں ہیں جو کفر ہیں.ایک نسب پر طعن کرنا اور دوسرے میت پر چلا کر رونا اطلاق اسم الكفر على طعن في النسب والنياحة).اسی طرح ارشاد نبوی ہے کہ جس نے کہا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش پڑی اس نے کفر کیا بیان کفر من قال مطرنا بالنوع) پھر ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ آدمی اور شرک اور کفر کے درمیان نماز کا ترک کرنا ہی ہے اور اس پر امام مسلم نے باب ہی یہ باندھا ہے بیان اطلاق اسما ء لكفر على من ترک الصلواة يعنی جس نے نماز ترک کی اس پر کفر کے نام کے اطلاق کا بیان.اسی طرح سنن ابوداؤد میں
360 حدیث بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کریم کے بارے میں جھگڑا کرنا کفر ہے باب ٣٩١ نهى عن الجدال في القرآن - جامع ترمذی ابواب الطہارۃ میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کاہن کے پاس گیا اس نے اس کا جو محمد ﷺ پر نازل ہوا انکار کیا باب ما جاء في كراهية اتيان الحائض جامع ترندی میں حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا.(باب في كراهية الحلف بغیر اللہ).اسی طرح ترندی میں بیان ہوا ہے کہ جس کو کوئی عطا دی گئی اور اس نے تعریف کی تو اس نے شکر کیا اور جس نے چھپایا اس نے کفر کیا.باب ما جاء في المتشبع بما لم يعطه).اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ظالم کے ساتھ چلا کہ اس کی تائید کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے تو وہ شخص اسلام سے نکل گیا (مشکوۃ شريف بـاب الظلم ) ان احادیث میں بہت سے امور ایسے بیان ہوئے ہیں جن کا مرتکب جب تک کہ ان کو ترک نہیں کرتا وہ بموجب ارشادِ نبوی کفر کرتا ہے.لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں جو لوگ ان افعال کے مرتکب ہوتے تھے اس وقت کیا قانون کی رو سے وہ غیر مسلم شمار ہوتے تھے کہ نہیں.مثلاً اس وقت کے اسلامی قانون کے مطابق مسلمانوں سے زکوۃ وصول کی جاتی تھی اور غیر مسلموں سے جزیہ وصول کیا جا تا تھا.اور زمانہ نبوی میں ایسے لوگ موجود تھے جو نماز ادا نہیں کرتے تھے یا میت پر شیخ کر نوحہ کرتے تھے یا اپنے باپوں سے بیزار تھے، یا غلطی سے غیر اللہ کی قسم کھا جاتے تھے تو کیا ایسے لوگوں کو اس وقت کے قانون کی رو سے غیر مسلم شمار کر کے ان سے جزیہ وصول کیا جا تا تھا، یا ان پر ممانعت تھی کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہ سکیں یا ان پر ممانعت تھی کہ وہ مسجد میں آکر مسلمانوں کے ساتھ نماز ادا کر سکیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناً ایسا نہیں تھا ان پر اس قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی.ان افعال کے مرتکب جب تک کہ اپنے افعال سے تو بہ کر کے انہیں ترک نہ کر دیں کفر تو کرتے تھے لیکن یہ ان کا اور خدا تعالیٰ کے درمیان معاملہ تھا.گو ان احادیث کی رو سے ان افعال کے مرتکب افراد خدا کی نظر میں دائرہ اسلام سے تو خارج ہو جاتے تھے لیکن ملتِ اسلامیہ میں شامل رہتے تھے.اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے خود اس امر کو اچھی طرح واضح فرمایا ہے.آپ نے فرمایا جس نے ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ بنایا اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان
361 ہے جس کے لئے اللہ اور رسول کی امان ہے پس تم اللہ کے ساتھ اس کی دی ہوئی امان میں بے وفائی نہ کرو.“ (صحیح بخاری ، کتاب الصلوة ـ باب ۲۶۹) اور اس سے اگلی حدیث میں ہے کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا، ہماری طرح نماز پڑھی ہمارے قبلہ کو اپنایا، ہمارا ذبیحہ کھایا تو ان کا خون ہمارے لئے حرام ہے اور ان کا حساب لینا اللہ تعالیٰ پر ہے.اس مضمون کی احادیث دوسری معتبر کتب احادیث میں بھی بیان ہوئی ہیں مثلاً سنن ابو داؤد کتاب الجہاد میں اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جس نے لا اله الا الله محمد رسول اللہ پڑھا، ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ بنایا، ہمارا ذبیحہ کھایا اور ہماری نماز پڑھی اس کا خون ہم پر حرام ہے، جو مسلمانوں کا حق ہے وہ ان کا حق ہے اور ان پر وہ حق ہے جو مسلمانوں پر ہے.ان احادیث سے یہ صاف طور پر ظاہر ہے کہ قانونی طور پر جو مذکورہ بالا معیار پر پورا اترے وہ مسلمان شمار ہوگا اور اس کو عرف عام میں مسلمان ہی کہا جائے گا اور وہ ملت اسلامیہ کا ہی حصہ سمجھا جائے گا اور ان کے باقی اعمال کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے.اگر چہ پہلے بیان شدہ احادیث میں بہت سے ایسے اشخاص کے متعلق کہا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے اعمال کے نتیجے میں کفر کیا ہے.یہ امر قرآن کریم کے الفاظ کی معروف ترین لغت مفردات امام راغب میں بھی بیان ہوا ہے.مفردات امام راغب میں لفظ اسلام کی وضاحت میں لکھا ہے کہ شرعاً اسلام کی دو قسمیں ہیں.اگر کوئی شخص زبان سے اقرار کر لے.دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کی جان مال عزت محفوظ ہو جاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے.اور دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ دلی اعتقاد بھی ہو اور عملاً اس کے تقاضوں کو پورا بھی کرے.لیکن جماعت احمدیہ کا یہی مسلک رہا ہے جو شخص ان قسم کی صورتوں میں ، احادیث نبویہ کی روشنی میں جن کی چند مثالیں اوپر دی گئی ہیں ، غلط افعال یا عقائد کی وجہ سے، دائرہ اسلام سے خارج بھی ہو لیکن وہ کلمہ پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو تو بھی اسے عرف عام میں مسلمان ہی کہا جائے گا اور وہ ملتِ اسلامیہ میں ہی شمار ہو گا اور قانون کی رو سے اسے مسلمان ہی سمجھا جائے گا.اس کا حساب اللہ تعالیٰ لے گا.حکومتوں یا انسانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ اس سے یہ حق چھینیں.ورنہ تو یہ بھی ماننا پڑے گا جو شخص تین جمعے عمد اترک کرے وہ قانون کی رو سے مسلمان نہیں ہے اور اپنے آپ کو مسلمان نہیں
362 کہہ سکتا، جومیت پر چیخ کر روئے وہ قانون کی رو سے مسلمان نہیں ہے اور اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا، جو نماز ترک کرے وہ قانون کی رو سے مسلمان نہیں ہے اور اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا ، جو غیر اللہ کی قسم کھائے وہ قانون کی رو سے مسلمان نہیں ہے اور اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہ سکتا.ظاہر ہے مندرجہ بالا صورت محض فتنہ کا دروازہ کھولنے والی بات ہوگی اور زمانہ نبوی ﷺ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.اسی طرح جماعت کے لٹریچر میں جن چند جگہوں کے حوالے ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت میں بھی دیئے گئے تھے اور اب بھی دیئے جا رہے تھے کہ ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کو کفر لکھا گیا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کو دائرہ اسلام سے نکلنے کا مترادف لکھا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہیں یا انہیں یہ حق نہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہیں.اس کی وضاحت بار ہا جماعتی لٹریچر میں دی گئی ہے.جب ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت میں جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص مرزا غلام احمد صاحب کے دعاوی پر غور کرنے کے بعد اس دیانتدارانہ نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ یہ دعاوی غلط ہیں تو کیا ایسا شخص مسلمان رہے گا ؟ تو اس پر حضور نے جواب دیا کہ ہاں عمومی طور پر اس کو مسلمان ہی سمجھا جائے گا.اور اسی کا روائی کے دوران جب جماعت اسلامی کے وکیل چوہدری نذیر احمد صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے سوال کیا : ” کیا آپ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں جو آپ نے کتاب آئینہ صداقت کے پہلے باب میں صفحہ ۳۵ پر ظاہر کیا تھا.یعنی یہ کہ تمام وہ مسلمان جنہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کی بیعت نہیں کی خواہ انہوں نے مرزا صاحب کا نام بھی نہ سنا ہو وہ کا فر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں.اس کے جواب میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے فرمایا: یہ بات خود اس بیان سے ظاہر ہے کہ میں ان لوگوں کو جو میرے ذہن میں ہیں مسلمان سمجھتا ہوں.پس جب میں کافر کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے ذہن میں دوسری قسم کے کافر ہوتے ہیں جن کی میں پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں یعنی وہ جو ملت سے خارج
363 نہیں.جب میں کہتا ہوں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ نظریہ ہوتا ہے جس کا اظہار کتاب مفردات راغب کے صفحہ ۲۴۰ پر کیا گیا ہے.جہاں اسلام کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں.ایک دون الایمان اور دوسرے فوق الایمان.دون الایمان میں وہ مسلمان شامل ہیں جن کے اسلام کا درجہ ایمان سے کم ہے.فوق الایمان میں ایسے مسلمانوں کا ذکر ہے جو ایمان میں اس درجہ ممتاز ہوتے ہیں کہ وہ معمولی ایمان سے بلند تر ہوتے ہیں.اس لئے میں نے جب یہ کہا تھا کہ بعض لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ مسلمان تھے جو فوق الایمان کی تعریف کے ماتحت آتے ہیں.مشکوۃ میں بھی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جوشخص کسی ظالم کی مدد کرتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.“ ( تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمد یہ کابیان، ناشراحم یه کتابستان حیدر آباد ص ۲۰،۱۹) اور اس کا رروائی کے دوران ۶ / اگست کو جب حضرت خلیفۃ اسیح الثالث سے سوال کیا گیا کہ ایسی صورت میں اگر کسی شخص کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا ہے تو کیا پھر بھی مسلمان ہوگا.اس پر حضور نے فرمایا کہ ہاں وہ ملت اسلامیہ کا فرد ہو گا.اور وہ بعض جہت سے مسلمان ہے اور بعض جہت سے کافر ہے.اور کے راگست کو جب دو پہر کے سیشن کی کارروائی ہوئی ہے تو اس میں حضرت خلیفہ امسح الثالث نے اس موقع پر بھی یہ فرمایا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے اب تک دو مختلف گروہ پیدا ہوتے رہے ہیں ایک وہ مخلصین جنہوں نے اسلام کو اچھی طرح قبول کیا اور ان لوگوں نے رضا کارانہ طور پر اپنی مرضی اور اختیار سے اپنی گردنیں خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کر دیں.اپنے اخلاق کے مطابق خدا کی راہ میں قربانی کرنے والا اور تمام احکامات پر عمل کرنے والا یہ ایک گروہ ہے.اس کے ساتھ ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو اس مقام کا نہیں ہے.حضور نے حدیث کا حوالہ دے کر فرمایا کہ رسول کریم ہ کے زمانہ سے بعض گناہوں کے متعلق کفر کا لفظ استعمال ہوتا تھا اور ساتھ ہی ان کو مسلمان بھی کہا جاتا تھا.اور حضور نے یہ آیت کریمہ پڑھی: قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا (الحجرات : ۱۵)
364 یعنی اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں یا ہم نے اطاعت کر لی ہے.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا کہ کیا احمدیوں میں بھی اس قسم کے مسلمان ہیں؟ اس پر حضور نے جواب دیا کہ احمدیوں میں بھی ایک ایسا گروہ ہے جو کہ مخلص ہے اور دوسرا گروہ بھی ہے.اس پر پھر اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا کہ پھر وہ بھی کا فر ہوئے اس حد تک.اس پر حضور نے جواب دیا ” اس حد تک وہ بھی کافر ہوئے.“ اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا کہ اگر ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنی طرف سے نیک نیتی سے انکار کرتا ہے تو اس کی کیا حیثیت ہے؟ اس پر حضور نے فرمایا یہ دوسری Category ہے.وہ گنہ گار ہے.اٹارنی جنرل صاحب نے پھر سوال کیا کہ وہ شخص کسی Category میں کافر ہے؟ اس پر حضور نے فرمایا ” جس طرح نماز نہ پڑھنے والا.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا ” بس اتنا ہے کہ یہ مسلمان رہتا ہے.“ اس پر حضور نے پھر فرمایا کہ یہ مسلمان رہتا ہے اس واسطے میں نے اس کی وضاحت کی ہے.“ اس وضاحت کے بعد بھی اٹارنی جنرل صاحب یہ گفتگو چلاتے رہے اور ان لوگوں کے متعلق سوال کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اتمام حجت کے بعد نبی نہیں مانتے.اس پر حضور نے پھر جواب دیا کہ جو شخص حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو نبی نہیں مانتا اور اپنے آپ کو ) آنحضرت وو کی طرف منسوب کرتا ہے اس کو غیر مسلم کہہ ہی نہیں سکتے.“ یہ حصہ بہت اہم تھا اور اس میں بہت سے ضروری نکات سے استفادہ کیا جانا چاہئے تھا لیکن افسوس حضور جو عربی کا حوالہ پڑھتے تھے اس پر ریکارڈ لکھنے والے صرف.” عربی“ لکھنے پر ہی اکتفا کرتے تھے.ورنہ حضور کے یہ ارشادات زیادہ تفصیل کے ساتھ سامنے آتے.اور ان سے استفادہ کیا جاتا.اور یہ بات صرف احمدیوں کے لٹریچر تک محدود نہیں کہ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جن پر ایک لحاظ سے کفر کا لفظ تو آتا ہے لیکن وہ پھر بھی ملت اسلامیہ میں ہی رہتے ہیں اور ان کو عرف عام میں مسلمان ہی کہا جاتا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اس کا رروائی کے دوران پرانے علماء میں سے مشہور علامہ ابن تیمیہ کا حوالہ دیا.وہ اپنی تصنیف کتاب الایمان میں لکھتے ہیں:
365 وو..فَقَالَتِ الْعُلَمَاءُ فِي تَفْسِيرِ الْفُسُوقِ هَاهُنَا هِيَ الْمَعَاصِي قَالُوا فَلَمَّا كَانَ الظُّلْمُ ظُلُمَيْنِ وَالْفِسْقُ فِسْقَيْنِ كَذَالِكَ الْكُفْرُ كُفْرَانِ اَحَدُهُمَا يَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّةِ وَالْآخَرُ لَا يَنْقُلُ عَن الْمِلَّةِ (كتاب الايمان ،تصنيف احمد ابن تیمیه ، ناشر مطبع الانصاری، دهلی ص ۷۱ ۱) یعنی جس طرح ظلم دو قسم کا ہوتا ہے، فسق دو قسم کا ہوتا ہے کفر بھی دو قسم کا ہوتا ہے.ایک کفر ملت سے نکالنے کا باعث بنتا ہے اور دوسرا کفر ملت سے نکالنے کا باعث نہیں بنتا.اس کے علاوہ ، اس دور میں جماعت کے اشد مخالف مولوی شبیر عثمانی صاحب کا کہنا تھا:.......حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے كُفْرٌ دُونَ كُفْرِ کے الفاظ بعینم مروی نہیں ہیں بلکہ ان سے وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ“ کی تفسیر میں آئی اَلْكُفْرُ لَا يَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّةِ منقول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کفر چھوٹا بڑا ہوتا ہے، بڑا کفر تو ملت سے ہی نکال دیتا ہے جب کہ چھوٹا ملت سے نہیں نکالتا، معلوم ہوا کہ کفر کے انواع و مراتب ہیں....(کشف الباری عما فی صحیح البخاری جلد دوم ، افادات شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ناشر مکتبہ فاروقیہ کراچی ص ۲۰۰) اب ہم اس فلسفہ کا جائزہ لیتے ہیں چونکہ احمدیوں کی بعض تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کو کفر قرار دیا گیا ہے، اس لئے انہیں آئین میں غیر مسلم قرار دینا چاہئے.تو پھر ہمیں یہ اصول تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس فرقہ کی تحریروں میں دوسرے فرقہ کے لوگوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو اسے آئین میں تبدیلی کر کے غیر مسلم قرار دینا چاہئے.اس اصول کے مضمرات کا جائزہ لینے کے لیے ہم دیکھتے ہیں کہ صدیوں سے مختلف فرقہ کے علماء دوسرے فرقوں کے متعلق اور ان کے ایمان کے بارے میں کیا فتاویٰ دیتے رہے ہیں.حنفیوں کی کتاب عرفان شریعت میں لکھا ہے کہ غیر مقلدین کی بدعت بہت وجہ سے کفر تک پہنچی ہوئی ہے کیونکہ وہ اجماع تقلید اور قیاس کے منکر ہیں اور بقول ان کے انہوں نے انبیاء کی شان میں گستاخی کی ہے.اور اسی کتاب میں یہ فتویٰ ہے کہ حنفیوں کی نماز غیر مقلدین کے پیچھے درست نہیں اور وجوہات میں سے یہ وجوہات بھی لکھی ہیں کہ اگر کٹورہ پانی
366 میں چھ ماشہ پیشاب پڑ جائے تو وہ اسے پاک سمجھتے ہیں.اسی طرح شافعی اگر فرائض و شرائط حنفی کی رعایت نہ رکھیں تو ان کے پیچھے بھی نماز درست نہیں (۴۸).خدا تعالیٰ کے مامور کی تکذیب و تکفیر تو ایک طرف رہی ان علماء کا تو یہ مسلک تھا کہ اگر کوئی علماء کو برا بھلا کہے اور سب وشتم کرے تو یہ نہ صرف بد ترین اور فسق ہے اور ان کلمات کا کلمات کفر ہونے کا اندیشہ ہے.اور اگر ایک شخص مؤذن کو برا بھلا کہے کہ وہ اذان کیوں دیتا ہے یہ کلمات کفر ہوں گے.اور اگر کوئی شخص منکر حدیث ہوتو یہ کفر ہے اور تجدید ایمان اور تجدید نکاح ضروری ہے، نہ صرف یہ بلکہ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ جہنم دائی نہیں ہے تو اس کلمہ پر بھی کفر کا اندیشہ ہے (۴۹).بعض علماء تو اس طرف گئے ہیں کہ قرآن شریف مخلوق ہے یا اگر یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رویت محال ہے تو یہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں کا فر کہنا چاہئے (۵۰).دیوبندی مسلک کی کتاب عزیز الفتاویٰ میں لکھا ہے اگر نکاح ثانی کو معیوب سمجھا جائے تو اس سے کفر کا اندیشہ ہے.اور یہ بھی لکھا کہ ایک مرد صالح کو ڈانٹنے اور ذلیل کرنے سے آدمی فاسق اور بے دین ہو جاتا ہے (۴۸).اسی طرح دیو بندیوں کی طرف سے ان کے نمایاں عالم رشید احمد گنگوہی صاحب نے فتویٰ دیا تھا کہ شیعہ حضرات جو تعزیہ نکالتے ہیں وہ بت ہے اور تعزیہ پرستی کفر ہے، جب ایک شخص نے ان سے میلاد میں شرکت کرنے والوں کے متعلق جو یہ مانتے ہیں کہ رسول اللہ حاضر ہوتے ہیں اور بریلوی عالم احمد رضا خان صاحب کے بعض معتقدات کا ذکر کر کے ان کے متعلق سوال کیا تو رشید احمد گنگوہی صاحب نے جواب دیا جو شخص اللہ جل شانہ کے سوا عالم غیب کسی دوسرے کو ثابت کرے اور اللہ تعالیٰ کے برابر کسی دوسرے کا علم جانے وہ بے شک کا فر ہے اس کی امامت اور اس سے میل جول محبت مودت سب حرام ہیں.روافض کے متعلق سوال کیا گیا تو گنگوہی صاحب نے فتویٰ دیا کہ علماء میں سے بعض نے ان کے متعلق کا فر کا حکم دیا ہے اور بعض نے ان کو مرتد قرار دیا ہے (۵۱).فرنگی محل کے عالم مولوی عبدالحی صاحب نے فتوے دیئے کہ بعض شیعہ فرقے کا فر ہیں (۵۲).حسام الحرمين على منحر الكفر والمین جو کہ بریلوی قائد احمد رضا خان صاحب کی تصنیف ہے اس میں لکھا ہے کہ وو ہر وہ شخص کہ دعوی اسلام کے ساتھ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہو یقیناً کافر ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنے اور اس کی جنازے کی نماز پڑھنے اور اس کے ساتھ شادی
367 بیاہ کرنے اور اس کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے اور اس کے پاس بیٹھنے اور اس سے بات چیت کرنے اور تمام معاملات میں اس کا حکم وہی ہے جو مرتدوں کا حکم ہے.(۵۳) اور کفر کے یہ فتووں کا سلسلہ ایک صدی پہلے شروع نہیں ہوا بلکہ صدیوں سے یہ عالم چلا آرہا ہے.مثلاً فتاوی عالمگیری میں مختلف ماخذ کے حوالہ سے مختلف صورتیں درج ہیں جن میں ایک شخص پر کفر کا فتوی لگتا ہے.صرف چند مثالیں پیش خدمت ہیں.اس میں لکھا ہے کہ اگر کسی نے اپنے ایمان میں شک کیا اور کہا میں ایماندار ہوں انشاء اللہ تو وہ کافر ہے.جس شخص نے قرآن یعنی کلام اللہ کی نسبت کہا کہ اللہ کا کلام مخلوق ہے تو وہ کافر ہے.اگر کسی نے ایمان کو مخلوق کہا تو وہ کافر ہے.اگر کسی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ انصاف کے واسطے بیٹھا ہے یا کھڑا ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی.اور اگر کہا کہ میرا آسمان پر خدا اور زمین پر فلاں تو اس کی تکفیر کی جائے گی.اگر کسی سے کہا گیا کہ بہت نہ کھایا کر خدا تجھے دوست نہیں رکھے گا اور اس نے کہا میں تو کھاؤں گا خواہ مجھے دوست رکھے یا دشمن تو اس کو کافر کہا جائے گا.اور اسی طرح اگر کہا کہ بہت مت ہنس یا بہت مت سویا بہت مت کھا اور اس نے کہا کہ اتنا کھاؤں گا اور اتنا ہنسوں گا اور اتنا سوؤں گا جتنا میرا جی چاہے تو اس کی تکفیر کی جائے.اگر کسی سے کہا گیا کہ خداے تعالیٰ نے چار بیویاں حلال کی ہیں اور وہ کہے کہ میں اس حکم کو پسند نہیں کرتا تو یہ کفر ہے.اگر کسی نے امامت ابوبکر سے انکار کیا تو وہ کافر ہے.اور اگر کسی نے خلافت حضرت عمر سے انکار کیا تو وہ بھی اصح قول کے مطابق کا فر ہے.اگر کسی نے کہا کہ کہ کاش حضرت آدم گیہوں نہ کھاتے تو ہم لوگ شقی نہ ہوتے تو اس کی تکفیر کی جائے.ایک نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اگر گواہ حاضر نہ ہوئے اور اس نے کہا خدا اور فرشتوں کو گواہ کیا تو اس کی تکفیر کی جائے گی.اور اگر کسی نے رمضان کی آمد کے وقت کہا بھاری مہینہ آیا تو یہ کفر ہے.اگر ایک شخص مجلس علم سے آتا ہے اور کسی نے کہا کہ تو بت خانہ سے آتا ہے تو یہ کفر ہے.اگر کسی نے کہا کہ مجھے جیب میں روپیہ چاہئے میں علم کو کیا کروں تو تکفیر کیا جائے گا.اگر کسی نے فقیر کو مال حرام میں سے کچھ دے کر ثواب کی امید رکھی تو اس کی تکفیر کی جائے گی.اور اگر فقیر نے یہ بات جان کر دینے والے کو دعا دی اور دینے والے نے اس پر آمین کہی تو کافر ہوا (۵۴).اس دور میں تو علماء نے تکفیر کے دائرہ کو اور بھی وسیع کر دیا ہے.چنانچہ ۱۹۷۸ء میں جمعیت العلماء پاکستان کے ایک لیڈر مفتی مختار احمد گجراتی نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ
368 دیکھنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا تھا (۵۵).اور اس پارٹی کے اراکین اسمبلی کے اس اجلاس میں بھی موجود تھے.بلکہ جمعیت العلماء پاکستان کے قائد شاہ احمد نورانی صاحب نے تو جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے قرارداد پیش بھی کی تھی.تو اگر یہ اصول تسلیم کیا جائے کہ جس فرقہ کی تحریر میں دوسرے فرقہ یا کسی گروہ کے متعلق کفر کا فتویٰ موجود ہے تو اسے آئین میں ترمیم کر کے قانونی طور پر غیر مسلم قرار دینا چاہئے تو پھر اس زد سے کوئی فرقہ نہیں بچ سکے گا.اور پاکستان کے آئین کے مطابق یہاں پر صرف غیر مسلم اکثریت ہی بس رہی ہوگی.۶ راگست کی کارروائی ۶ راگست کو اسمبلی کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی.ابھی جماعت کا وفد اسمبلی میں نہیں آیا تھا.مگر معلوم ہو رہا تھا کہ آج کچھ حوالے پیش کر کے جماعت کے وفد کو لا جواب کرنے کی کوشش کی جائے گی.سپیکر صاحب نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی سہولت کے لئے کتابیں سامنے ہی رکھ دی جائیں.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ وہ موجود ہیں.سپیکر صاحب نے پھر تاکید کی کہ اٹارنی جنرل صاحب کے آس پاس Least Disturbance ہونی چاہئے.ان کے ارد گرد کوئی سرگوشی نہیں ہونی چاہئے.یہ اہتمام غالباً اس لئے کیا جارہا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب پوری یکسوئی سے سوال کر سکیں.اس سے قبل کہ حضور وفد کے ہمراہ ہال میں تشریف لاتے ایک ممبر جہانگیر علی صاحب نے سپیکر صاحبزادہ فاروق علی صاحب سے کہا a Mr.Chairman interpretation of document or writting is not the job of witness.I would therefore request that the witness should not be allowed to interpret; it is the job of the presiding officer or the judge.یعنی وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک تحریر یا دستاویز سے استدلال کرنا گواہ کا کام نہیں ہوتا.یہ کاروائی
369 کے چیئر مین یا جوں کا کام ہوتا ہے.لہذا گواہوں کو یعنی جماعت کے وفد کو اس بات سے روکا جائے کہ وہ استدلال کریں.جہانگیر علی صاحب کی طرف سے یہ ایک لا یعنی فرمائش تھی.سوالات کرنے والوں کی طرف سے جماعت کی تعلیمات پر اعتراض کیے جارہے تھے اور سیاق و سباق اور پس منظر سے الگ کر کے جماعتی تحریرات کے حوالے پیش کیے جا رہے تھے.لیکن ان صاحب کے نزدیک جماعتی وفد کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہئے تھی کہ وہ ان کے متعلق جماعتی موقف کے مطابق استدلال پیش کرے.اگر سپیشل کمیٹی میں جماعتی وفد کو بلانے کا مقصد صرف یہی تھا کہ وہ ممبرانِ اسمبلی کے غیر متعلقہ سوالات سنے ان کے تبصرے سنے لیکن ان کے جواب میں اپنا استدلال نہ پیش کرے تو اس لغو عمل کو کوئی بھی ذی ہوش قبول نہیں کر سکتا.اس کے جواب میں سپیکر صاحب نے صرف یہ کہا کہ حج تو آپ ہی لوگ ہیں اور اٹارنی جنرل صاحب جب چاہیں اس ضمن میں درخواست کر سکتے ہیں.کچھ دیر کے بعد جماعت کا وفد داخل ہوا.سپیکر صاحب نے اظہار کیا کہ سوالات کا یہ سلسلہ دو تین دن جاری رہ سکتا ہے پوری کارروائی کے لئے حلف ہو چکا ہے یعنی نئے سرے سے گواہ سے حلف لینے کی ضرورت نہیں.اس کارروائی کے آغاز میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے گزشتہ روز کی بحث کے تسلسل میں سلف صالحین کے حوالے سے یہ بات فرمائی کہ کفر دو قسم کا ہے ایک کفر وہ ہے جو ملتِ اسلامیہ سے نکالنے کا باعث ہوگا اور دوسراوہ جو ملت اسلامیہ سے باہر نکالنے کا باعث نہیں ہوگا.اور یہ بھی فرمایا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ کبھی نہیں کہا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے.اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے وہی پرانے اعتراضات دہرائے جو عموماً جماعت کے مخالفین کی طرف سے کیے جاتے ہیں.یعنی احمدی غیر احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے ، ان سے شادیاں نہیں کرتے.ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے قائد اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا.اب ذرا تصور کریں کہ یہ کارروائی ۱۹۷۴ ء کے فسادات کے دوران ہو رہی تھی جبکہ خود اخبارات لکھ رہے تھے کہ علماء کی تحریک کے نتیجہ میں پاکستان بھر میں احمدیوں کا بائیکاٹ شروع ہو گیا ہے اور ان دنوں میں احمدیوں کا جنازہ پڑھنا تو دور کی بات ہے، احمدیوں کی تدفین میں بھی رکاوٹیں ڈالی جا رہی تھیں بعض مقامات پر احمدیوں کی قبروں کو اکھیڑ کر ان کی نعشوں کی بے حرمتی کی جا رہی
370 تھی.جگہ جگہ احمدیوں کو شہید کیا جارہا تھا اور حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تماشائی بنے کھڑے تھے.لیکن اسمبلی میں اعتراض احمدیوں پر ہورہا تھا کہ وہ غیر احمدیوں کے جنازے کیوں نہیں پڑھتے اور ان سے شادیاں کیوں نہیں کرتے.یہ سوال تو پہلے غیر احمدی مسلمانوں سے ہونا چاہئے تھا.کیا وہ احمدیوں کا جنازہ پڑھتے ہیں؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے تو اس اعتراض کا حق انہیں نہیں ہو سکتا کہ احمدی غیر احمدیوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھتے.بلکہ جب ۱۹۵۳ء میں تحقیقاتی عدالت میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی پر سوالات کئے گئے تو سوالات کرنے والوں میں ایک مولا نا میکش بھی تھے.انہوں نے حضور سے سوال کیا عام مسلمان تو احمدیوں کا اس لئے جنازہ نہیں پڑھتے کہ وہ احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں.آپ بتائیں کہ احمدی جو غیر احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے اس کی اس کے علاوہ کیا وجہ ہے جس کا آپ قبل ازیں اظہار کر چکے ہیں.“ 66 ( تحقیقاتی عدالت میں امام جماعت احمدیہ کا بیان.ناشر احمد یہ کتابستان سندھ ،ص ۳۹) اب ایک عدالتی کارروائی میں کتنا واضح اقرار ہیں کہ مولانا جن کی نمائندگی کر رہے ہیں وہ احمدیوں کو نہ مسلمان سمجھتے ہیں اور نہ ان کا جنازہ پڑھتے ہیں ،مگر اس کے باوجود مولانا کا یہ خیال تھا کہ ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ احمدیوں کو سرزنش فرمائیں کہ وہ غیر احمدیوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھتے.اور اسلام کے باقی فرقوں سے وابستہ اراکین جو یہ اعتراضات احمدیت پر کر رہے تھے ان کا حال یہ تھا کہ ہر فرقہ کے لوگوں نے دوسرے فرقوں پر وہ وہ اعتراضات کیے تھے اور ایسے فتوے لگائے تھے کہ خدا کی پناہ.اس مرحلہ پر یہ ضروری تھا کہ ان کوکسی قد رآئینہ دکھایا جائے.چنانچہ جب یہ بحث کچھ دیر چلی تو حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے غیر احمدی علماء کا ایک فتویٰ پڑھ کر سنایا.اس فتویٰ سے صرف ہندوستان کے علماء نے ہی نہیں بلکہ بلا د عرب کے بہت سے علماء نے بھی اتفاق کیا تھا.حضور نے اس کے یہ الفاظ پڑھ کر سنائے: وہابیہ دیو بند یہ اپنی تمام عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء حتی کہ حضرت سید الاولین والآخرین لہ کی اور خاص ذات باری تعالیٰ شانہ کی اہانت اور ہتک کرنے کی وجہ سے قطعاً مرتد و کافر ہیں اور ان کا ارتداد کفر میں سخت سخت سخت درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جوان
371 66 مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہی جیسا مرتد و کافر ہے اور جو اس شک کرنے والے کے کفر میں شک کرے وہ بھی مرتد و کافر ہے.مسلمانوں کو چاہئے کہ ان سے بالکل محترز و مجتنب رہیں.ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ اپنی مسجدوں میں انہیں گھنے دیں.نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ان کی شادی غمی میں شریک ہوں اور نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں.یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں، مریں تو گاڑ نے تو پنے میں شرکت نہ کریں.مسلمانوں کے قبرستان میں کہیں جگہ نہ دیں غرض ان سے بالکل احتیاط واجتناب رکھیں....“ ابھی یہ باغ و بہار قسم کا فتویٰ جاری تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ یہ تو محضر نامہ میں بھی شامل ہے اس لیے اسے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے.اس سے ان کی بے چینی ظاہر ہوتی تھی.اس پر حضور نے فرمایا کہ مجھے یہاں پر دہرانے کی اجازت دی جائے کیونکہ اگر سوال دہرایا جائے گا تو جواب بھی دہرایا جائے گا.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.اس پر حضور نے اس فتوے کا باقی حصہ پڑھ کر سنایا.پس دیو بند یہ سخت سخت اشد مرتد و کافر ہیں.ایسے کہ جو ان کو کافر نہ کہے خود کافر ہو جائے گا.اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو اولاد ہوگی وہ حرامی ہو گی.اور از روئے شریعت ترکہ نہ پائے گی.“ حضور نے فرمایا کہ اس اشتہار میں جن علماء کے نام ہیں، ان میں چند ایک یہ ہیں سید جماعت علی شاہ، حامد رضا خان صاحب قادری غوری رضوی بریلوی، محمد کرم دین محمد جمیل احمد وغیرہ بہت سے علماء کے نام ہیں.ایک رخ یہ بھی ہے تصویر کا.ان کے بچوں کے متعلق بھی وہی فتویٰ ہے جس کے متعلق آپ مجھ سے وضاحت کروانا چاہتے ہیں.اور یہ اس سے کہیں زیادہ سخت ہے.یہ بہت سارے حوالے ہیں.میں ساروں کو چھوڑتا ہوں تا کہ وقت ضائع نہ ہو.اہلِ حدیث کے پیچھے نماز نہ پڑھیں تو اس کے متعلق بریلوی ائمہ ہمیں غیر مبہم الفاظ میں خبر دار کرتے ہیں کہ وہابیہ وغیرہ مقلدین زمانہ بالا تفاق علماء حرمین شریفین کا فرمرتد ہیں ایسے کہ
372 جوان کے اقوال لغویہ پر اطلاع پا کر کافر نہ مانے یا شک کرے وہ کافر ہے.ان کے پیچھے نماز ہوتی ہی نہیں.ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام ہے.ان کی بیویاں نکاح سے نکل گئیں.ان کا نکاح کسی مسلمان کا فریا مرتد سے نہیں ہو سکتا.اس کے ساتھ میل جول ، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سلام کلام سب حرام ہیں.ان کے مفصل احکام کتاب مستطاب حسام الحرمین شریف میں موجود ہیں.یہ اہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر ہورہا ہے.باقی اس کے حوالے میں چھوڑتا ہوں.بریلوی کے متعلق جہاں تک نماز پڑھنے کا تعلق ہے دیوبندی علماء یہ شرعی حکم ہمیں سناتے ہیں : ” جو شخص اللہ جل شانہ کے سواعلم غیب کسی دوسرے کا ثابت کرے اور اللہ تعالیٰ کے برابر کسی دوسرے کا علم جانے وہ بے شک کا فر ہے.اس کی اعانت اس سے میل جول محبت و 66 موقت سب حرام ہیں.یه فتوی رشیدیہ میں رشید احمد صاحب گنگوہی کا ہے جو ان کے مرشد ہیں.میں ایک ایک فتوے کو صرف بتا رہا ہوں تا کہ معاملہ صاف کر سکوں.پر ویزیوں اور چکڑالویوں کے متعلق نماز پڑھنے کے سلسلہ میں یہ فتویٰ ہے چکڑالویت حضور سرور کائنات علیہ التسلیمات کے منصب و مقام اور آپ کی تشریعی حیثیت کے منکر اور آپ کی افادیت مبارکہ کی جانی دشمن.رسول کریم کے کھلے باغیوں نے رسول کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کر دیا ہے.جانتے ہو باغی کی سزا کیا ہے صرف گولی.“ شیعہ حضرات کے متعلق کہ ان کے پیچھے نماز ہوتی ہے یا نہیں بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے.ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خاص زنا ہے.معاذ اللہ مرد رافضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الہی ہے.اگر مردسنی اور عورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی نکاح ہر گز نہ ہو گا محض زنا ہوگا.اولا د ولد الزنا ہوگی.باپ کا ترکہ نہ پائے گی اگر چہ اولا د بھی سنی ہو کہ شرعاً ولد الزنا کا باپ کوئی نہیں.عورت نہ
373 ترکہ کی مستحق ہوگی نہ مہر کی کہ زانیہ کے لیے مہر نہیں.رافضی اپنے کسی قریب حتی کہ باپ بیٹے ماں بیٹی کا ترکہ نہیں پاسکتا.سنی تو سنی کسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی.یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصلاً کچھ حق نہیں.ان کے مرد عورت عالم جاہل کسی سے میل جول ، سلام کلام سخت کبیرہ اشد حرام.جو ان کے ملعون عقیدہ پر آگاہ ہو کر بھی انہیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے....کافربے دین ہے اور اس کے لئے بھی یہی سب احکام ہیں جو ان کے لئے مذکور ہوئے.مسلمان پر فرض ہے کہ اس فتو علی کو بگوش ہوش سنیں اور اس پر عمل کر کے بچے پکے سنی بنیں.“ فتوی مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خان بحوالہ رسالہ ردالرافضہ) یہ اس میں آگیا ہے.یہاں یہ سوال نہیں کہ احمدی ، وہابیوں ، دیوبندیوں وغیرہ کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے یا ان کی شادیوں کو کیوں مکروہ سمجھا جاتا ہے.اس سے کہیں زیادہ فتویٰ موجود ہے.ہمیں ساروں کو اکٹھا لے کر کوئی فیصلہ کرنا چاہئے.“ حضور نے یہ صرف چند مثالیں ممبران قومی اسمبلی کی خدمت میں پیش کی تھیں ورنہ یہ فتاوی تو سینکڑوں ہزاروں ہیں اور مختلف فرقوں نے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے ہوئے ہیں.چند اور مثالیں پیش کی جاتی ہیں.سرور غریزی فتاوی عزیزی میں لکھا ہے کہ جب مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی سے ایک سوال پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: بلاشبہ فرقہ امامیہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت سے منکر ہیں اور کتب فقہ میں مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت سے جس نے انکار کیا تو وہ اجماع قطعی کا منکر ہوا اور وہ کافر ہو گیا...“ لکھنوص ۴۴۰) (سرور غریزی.فتاوی عزیزی جلد اول.اردو ترجمہ، باہتمام محمد فخر الدین فخر المطابع فقہ کی کتاب عرفانِ شریعت میں لکھا ہے اور فتاوی عالمگیری کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ وو جو شخص امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قیاس کو حق نہ مانے وہ کافر ہے.“
374 عرفان شریعت - حصہ سوم ص ۷۵ اب تک ممبرانِ اسمبلی اٹارنی جنرل صاحب کے ذریعہ جو سوالات کر رہے تھے ان کی طرز یہ جارہی تھی کہ چونکہ احمدی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ، ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے ، ان کی عورتیں ان کے مردوں سے شادی نہیں کرتیں، اس لیے یہ خود اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں ،لہذا دوسرے مسلمان اگر ان کو غیر مسلم قرار دے دیں تو کچھ مضائقہ نہیں.لیکن جب حضور نے غیر احمدی جید علماء کی طرف سے دیئے گئے صرف چند فتاویٰ پڑھ کر سنائے تو یہ واضح ہو گیا کہ وہ ایک دوسرے کے متعلق کیا خیالات رکھتے ہیں.نماز پڑھنا یا جنازہ پڑھنا تو درکنار انہوں نے تو یہ بھی لکھا ہوا تھا نہ صرف دوسرے فرقہ کافر ہیں بلکہ اگر ان سے شادی کر لی جائے تو اولا د ولد الزنا ہو گی.اگر اسی امر کو معیار بنا کر آئین میں غیر مسلم بنانے کا عمل شروع کیا جائے تو تمام فرقے غیر مسلم قرار دے دیئے جائیں گے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا کوئی شخص دیکھنے کو بھی نہ ملے گا جسے آئینی طور پر مسلمان کہا جاسکے.جنازہ کے متعلق حضور نے فرمایا کہ یہ فرض کفایہ ہے.اگر کہیں پر جنازہ پڑھنے والا کوئی مسلمان نہ ہو تو احمدیوں کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ ضرور اس غیر احمدی مسلمان کا جنازہ پڑھیں.بلکہ ایک مرتبہ جب ڈنمارک میں ایک مسلمان عورت کے جنازہ کی صورت میں ایسا نہیں کیا گیا تو اس پر حضور نے اس جماعت پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا.جب یہ حوالے پڑھے گئے تو جواثر اٹارنی جنرل صاحب اپنے سوالات سے قائم کرنا چاہتے تھے وہ زائل ہو گیا.لیکن انہوں نے پھر مطلوبہ تاثر کو قائم کرنے کے لیے یہ ذکر چھیڑا کہ احمدی غیر احمدی بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھتے.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے انہیں یاد دلایا کہ کئی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ ایک احمدی بچہ کی تدفین کی گئی اور غیر احمدیوں نے اس بنا پر کہ یہ ایک احمدی بچہ تھا اس کی قبر اکھیڑ کر لاش کو باہر نکلوایا.اور یہ یاد دلایا کہ انہی دنوں میں فسادات کے دوران گوجرانوالہ میں ایک احمدی بچے کی تدفین کو روکا گیا اور قائد آباد میں ایک احمدی کی قبر اکھیڑ کر اس کی لاش کو قبر سے باہر نکالا گیا.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے سوال اٹھایا کہ حالیہ دنوں میں احمدیوں کے مکانوں اور دوکانوں کو جلایا گیا، انہیں لوٹا گیا زخمی کیا گیا ان کے خلاف کس نے آواز اٹھائیں اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے مختصراً اتنا کہا کہ ان کو کوئی Defend نہیں کرتا.یہ اس سوال کا جواب نہیں تھا
375 چنانچہ حضور نے پھر اپنا سوال دہرایا کہ ان کے خلاف کس نے آواز اُٹھائی.اٹارنی جنرل صاحب کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا.وہ صرف اتنا فرما سکے کہ ” نہیں بالکل ٹھیک ہے.“ یہاں ذرا رک کر ایک اور پہلو سے اس الزام کا جائزہ لیتے ہیں کہ احمدی غیر احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے.بعض فرقے ایسے بھی ہیں کہ جو یہ تو کہتے ہیں کہ اپنے مذہبی مخالف کا جنازہ تو پڑھ لو مگر کس طرح؟ یہ بات تو واضح ہے کہ کوئی بھی فرقہ غیر مسلم کا جنازہ نہیں پڑھتا.اس لئے نیچے درج کئے گئے حوالے کا اطلاق اس مسلمان کے نماز جنازہ پر ہی ہوسکتا ہے جو اس فرقہ کے برعکس عقائد رکھتا ہو.چنانچہ شیعہ فقہ کی کتاب فروع کافی کی کتاب الجنائز میں لکھا ہے کہ علی بن ابراہیم سے روایت ہے کہ اگر حق سے انکار کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھو تو یہ دعا کرو اگر وہ حق سے انکار کرنے والا ہے تو اس کے لئے کہہ کہ اے اللہ اس کے پیٹ کو آگ سے بھر دے اور اسکی قبر کو بھی.اور اس پر سانپ اور بچھو مسلط کر دے.اور یہ ابو جعفر نے بنوامیہ کی ایک بدکار عورت کے لئے کہا جس کی نماز جنازہ اس کے باپ نے ادا کی.اور یہ بھی کہا کہ شیطان کو اس کا ساتھی بنادے.محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ اس کے لئے کہا کہ اس کی قبر میں سانپ اور بچھو بھر دے.تو اس نے کہا کہ سانپ اس کو کاٹے گا اور بچھوا سے ڈسے گا.اور شیطان اس کے ساتھ اس کی قبر کا ساتھی ہو گا...“ 66 فروع کافی.کتاب الجنائز - باب الصلوۃ علی الناصب ،ص ۹۹) اس کے بعد بھی یہ عبارت اسی طرز پر جاری رہتی ہے.اگر اپنے مخالف عقیدہ رکھنے والے مسلمان کا جنازہ پڑھ کر یہی دعا خدا سے مانگنی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ نماز جنازہ پڑھنے کا تکلف نہ ہی کیا جائے.اس پس منظر میں احمدیوں پر یہ اعتراض کسی طور پر معقولیت کا پہلو نہیں رکھتا.یہاں ذرا رک کر جائزہ لیتے ہیں کہ اس پیشل کمیٹی کے سپرد یہ کام تھا کہ یہ فیصلہ کرے کہ جو ختم نبوت کا منکر ہے اس کا اسلام میں کیا Status ہے.بحث کا دوسرا دن جا رہا تھا اور سوالات اپنے موضوع کو چھو کر بھی نہیں گزر رہے تھے.احمدیوں کی تعداد کتنی ہے؟ احمدی غیر احمدیوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھتے ، ان کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ ان سے شادیاں کیوں نہیں کرتے ؟ جب انہیں غیر احمدی علماء کے فتاویٰ سنائے گئے جس میں یہاں تک لکھا تھا کہ دوسرے فرقہ کے لوگ نہ صرف
376 غیر مسلم بلکہ مرتد ہیں.ان سے سلام بھی نہیں کیا جاسکتا.اگر ان سے شادی کر کے اولا د ہوتو وہ ولد الزنا ہوگی.تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا.جب یہ راگ الاپا گیا کہ احمدی غیر احمدی بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھتے تو انہیں یاد دلایا گیا کہ انہی دنوں میں احمدیوں کو شہید کیا جا رہا ہے ، ان کی قبریں اکھیڑی جا رہی ہیں ، ان کی تدفین میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں، ان کے مکانات اور دوکانیں اور فیکٹریاں نذر آتش کی جارہی ہیں، آخر یہ تو بتائیں کہ ان کے خلاف آواز کس نے اُٹھائی اور آخر کیوں نہیں اُٹھائی؟ حکومت نے تو ان کے دفاع کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ بہت سے مقامات پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مفسدین کی اعانت کر رہے تھے اور احمدیوں کو ہی گرفتار کر رہے تھے.کیا حکومت کا فرض نہیں تھا کہ ان مظالم کو رو کے یا کم از کم ان کے خلاف آواز ہی اُٹھائے.لیکن اٹارنی جنرل صاحب کے پاس اتنے سادہ سوال کا جواب بھی نہیں تھا.اور جواب دیا بھی تو کیا کہ نہیں بالکل ٹھیک ہے اور بس.یہ ذکر دلچسپی کا باعث ہوگا کہ جب اٹارنی جنرل صاحب نے علماء کے یہ فتاویٰ سنے جن میں نہ صرف ایک دوسرے کو مرتد اور کافر ٹھہرایا گیا تھا بلکہ اس امر کی بھی سختی سے وضاحت کی گئی تھی کہ ان لوگوں سے سلام کرنا بھی ممنوع ہے اور اگر آدمی ان کے کفر پر شک بھی کرے تو خود کا فر ہو جاتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کی قوت استدلال رخصت ہوگئی کیونکہ ان علماء کے دفاع میں انہوں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ کسی ایک نے فتوے دیے الیکشن کے زور میں.یا کسی ایک نے "Who take it seriously اس غیر مربوط وضاحت سے یہ لگتا ہے کہ ان کا خیال تھا کہ یہ فتوے صرف الیکشن کے دوران دیئے گئے تھے.حالانکہ اس قسم کے فتاویٰ کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہو جاتا ہے جب ابھی الیکشنوں کا نام ونشان بھی نہیں تھا.جب حضور نے اس بات کی نشاندہی فرمائی تو اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا ” میں تو مثال دے رہا ہوں.“ پہلے یہ طے ہو چکا تھا کہ جو بھی سوال کرنے ہوں وہ یا تو پہلے اٹارنی جنرل یا سوالات کیلئے بنائی گئی کمیٹی کے سپرد کئے جائیں گے یا پھر دوران کا رروائی کا غذ پر لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کے حوالہ
377 کئے جائیں گے تاکہ وہ یہ سوال کریں لیکن اس مرحلہ پر جماعت کے مخالف مذہبی جماعتوں کے لیے یہ صورتِ حال برداشت سے باہر ہورہی تھی کیونکہ کارروائی کی نسج ان کی امیدوں کے برعکس جارہی تھی.وہ یہ سوال اُٹھا رہے تھے کہ احمدی غیر احمدیوں کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھتے یا ان سے شادیاں کیوں نہیں کرتے لیکن اب ایسے حوالے سامنے پیش کئے جارہے تھے جن سے یہ واضح طور پر یہ معلوم ہو جاتا تھا کہ اعتراض کرنے والے ممبران اسمبلی جن مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے تھے ان کے علماء نے ایک دوسرے کو کافر مرتد اور بے دین قرار دیا ہے.اور ان کے ساتھ نکاح کرنے یا ان کے پیچھے نماز پڑھنے یا ان کا جنازہ پڑھنے سے سختی سے منع کیا تھا.سب سے پہلے جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور صاحب کھڑے ہوئے اور یہ اعتراض کیا کہ یہ ( یعنی جماعت کا وفد ) سوالات کو Avoid کرتے ہیں اور Side Track کرتے ہیں.جب کوئی سوال پوچھا جاتا ہے تو بہت سے پوائنٹ (Point) بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں.یہاں بات قابلِ غور ہے کہ جب کوئی سوال اُٹھتا تھا تو جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث اپنا موقف بیان فرماتے تھے.کسی ایک مقام پر بھی غیر متعلقہ بات نہیں پیش کی گئی تھی.اگر یہ سوال اُٹھایا جائے اور بار بار اٹھایا جائے کہ احمدی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے ، ان کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھتے احمدی لڑکیاں غیر احمدی لڑکوں سے شادی کیوں نہیں کرتیں.تو اگر اس کے جواب میں غیر احمدی علماء کے فتاویٰ جو ان فرقوں سے تعلق رکھتے تھے جن سے تعلق رکھنے والے ممبران یہ اعتراضات اٹھا رہے تھے ، پیش کیے جائیں جنہوں نے دوسرے فرقوں کو مسلمان سمجھنے پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا ہے ان کے ساتھ شادی کرنا تو در کنار ان سے سلام کرنے کو بھی ممنوع قرار دیا ہے، ان کی نماز جنازہ میں شرکت کو قطعاً حرام قرار دیا ہے، دوسرے فرقہ سے شادی کو زنا قرار دیا ہے، کوئی بھی ذی ہوش اس بیان کو غیر متعلقہ نہیں قرار دے سکتا.سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس پس منظر میں احمدیوں پر اعتراض ایک بے معنی بات نظر آتی ہے.موضوع کے مطابق حوالہ جات پیش کئے جارہے تھے.ان کو کسی طرح بھی Avoid کرنا اور Side Track کرنا نہیں کہا جا سکتا.یہ تلملاہٹ اس لئے ظاہر ہورہی تھی کہ ان علماء کو اور دوسرے ممبران کو آئینہ دیکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی.ہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اصل موضوع سے گریز کیا جا رہا تھا.جب کہ ممبران محضر نامہ پڑھ چکے تھے تو یہ ہمت کیوں
378 نہیں ہو رہی تھی کہ زیر بحث موضوع کے متعلق سوالات کیے جائیں.اٹارنی جنرل صاحب اور ممبرانِ اسمبلی خود اصل موضوع کو Avoid اور Side track کر رہے تھے.اس کے بعد انہوں نے اپنی بات کے حق میں کوئی دلیل پیش کرنے کی بجائے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے ڈنمارک کا جو واقعہ بیان کیا ہے وہ بالکل غلط ہے.کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا اور اس کے حق میں وہ یہ دلیل لائے کہ ڈنمارک میں احمدیوں کی نسبت دوسرے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے.اب یہ سوچنے والی بات ہے کہ نہ یہ بیان کیا گیا تھا اور نہ ہی انہوں نے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ یہ واقعہ کب ہوا تھا، کہاں پر ہوا تھا یا اس کی دیگر تفصیلات کیا تھیں.یہ سب کچھ جانے بغیر وہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ یہ واقعہ ہوا ہی نہیں تھا.کیا ڈنمارک میں ہونے والا ہر واقعہ ان کے علم میں آتا تھا.اور یہ بھی کوئی دلیل نہیں کہ ڈنمارک میں غیر احمدی مسلمانوں کی تعداد احمدیوں سے زیادہ ہے.ڈنمارک میں اب بھی احمدیوں اور غیر احمد یوں مسلمانوں دونوں کی تعداد بہت کم ہے اور کئی مقامات پر ان میں سے کوئی بھی نہیں رہتا اور ایسا واقعہ ہونا کسی طور پر بھی ناممکن نہیں کہلا سکتا.اس پر اٹارنی جنرل نے پروفیسر غفور صاحب کی اس بات سے اتفاق کیا کہ ان کے سوالات کو Avoid کیا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مرحلہ پر اس وفد کو کچھ کہنے سے روکا گیا تو انہیں یہ عذرمل جائے گا کہ اسمبلی نے ان کو صحیح طرح سنا ہی نہیں.ایک اور ممبر مولوی نعمت اللہ صاحب نے یہ سوال اُٹھایا کہ اس بات کا صحیح جواب نہیں دیا گیا کہ چوہدری ظفر اللہ خان نے قائد اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا.یہ بات بھی قابلِ حیرت ہے کہ آج مولویوں کے گروہ کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا جارہا تھا کہ کتنا بڑا ظلم ہوگیا کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے قائد اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا.انہی مولویوں نے تو قائد اعظم کو کافر اعظم کا نام دیا تھا اور جب عدالتی تحقیقات میں ان سے اس بابت سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ آج تک اپنے خیالات پر قائم ہیں (۵۶).اس اسمبلی میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے چند ممبران بھی موجود تھے.کیا وہ بھول گئے تھے کہ ان کے راہبر اور ان کی پارٹی کے بانی نے کس دھڑلے سے لکھا تھا مگر افسوس کہ لیگ کے قائد اعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرز فکر رکھتا ہو اور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتا ہو.یہ لوگ مسلمان کے معنی و مفہوم اور اس کی مخصوص حیثیت کو بالکل نہیں جانتے.‘‘ (۵۷)
379 گویا قائد اعظم کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مسلمان لفظ کا مفہوم ہے کیا.اور اب ان کو یہ فکر بہت تھی کہ قائد اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا گیا.اور یہ امر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ احمدیوں پر یہ اعتراض کہ انہوں نے شبیر عثمانی صاحب کی اقتداء میں قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں نہیں ادا کی اور یہ امر کس طرح فراموش کیا جا سکتا ہے کہ شبیر عثمانی صاحب نے نہ صرف یہ اعلان کیا تھا کہ احمدی مرتد ہیں بلکہ اس وجہ سے احمدیوں کے واجب القتل ہونے کا تحریری فتویٰ بھی دیا تھا اور اس امر کا ذکر ۱۹۵۳ء میں فسادات پر ہونے والی عدالتی تحقیقات کی رپورٹ میں بھی ہے.لیکن شبیر عثمانی صاحب پر کوئی اعتراض نہیں اگر اعتراض ہے تو احمد یوں پر ہے جنہوں نے ان کی اقتدا میں نماز جنازہ نہیں پڑھی.مفتی محمود صاحب نے کہا کہ ” جناب والا جب تکفیر کے مسئلہ کا ذکر ہوا جنازے کی نماز کا ذکر ہو رہا تھا وہاں Categories نہیں تھیں.اس وقت بھی انہوں نے مختلف عبارتیں پڑھیں مسلمان کروڑوں کے درمیان تکفیر کا مسئلہ تھا اور ساری عبارتیں پڑھی گئیں.جناب والا متعلقہ بات نہیں تھی.جناب والا بالکل غیر متعلقہ بات تھی...“ ایک اور مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب نے کہا کہ انہوں نے علماء کے بارے میں جھوٹے الزامات لگائے ہیں.یعنی یہ کفر کے فتاویٰ علماء نے نہیں دیئے تھے.حقیقت یہ ہے کہ یہ فتاویٰ محضر نامہ میں بھی شامل تھے اور ان کے ساتھ مکمل حوالے بھی دے دیئے گئے تھے.اگر کوئی حوالہ غلط تھا تو ممبران جو حج بن کر بیٹھے تھے یہ سوال اُٹھا سکتے تھے لیکن کس طرح اُٹھاتے اس طرح کے فتوے دینا تو علماء کا معمول تھا.اس موقع پر ایک ممبر عبدالحمید جتوئی صاحب نے کہا کہ ہم کل سے جج بنے بیٹھے ہیں کہ ہم فیصلہ کریں.میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے دوست تو اس طرح ہیں جیسے کسی نان ایڈووکیٹ کو ہائی کورٹ کا جج بنا دیا جائے...اور ہم سے فیصلہ کی امید کی جاتی ہے.اس پر سپیکر نے کہا کہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے.اس پر پھر عبد الحمید جتوئی صاحب نے کہا کہ آپ اس آدمی کو فیصلہ کا حق دیتے ہیں جس کو قانون کا ہی نہیں پتا.اس اظہارِ رائے سے اندازہ ہوتا تھا کہ جس طرز پر کارروائی جاری تھی اس پر اندر سے خود کئی ممبران کا ضمیر مطمئن نہیں تھا.اور غیر احمدی علماء کے فتاویٰ جو پڑھے گئے تھے ان سے کئی ممبران کے دل پر کیا اثر تھا اس کا اندازہ ایک اور ممبر چوہدری غلام رسول تارڑ صاحب کے اس تبصرہ سے ہوتا ہے جو
380 انہوں نے سپیکر اسمبلی کو مخاطب کر کے کیا.انہوں نے کہا....جو حوالے مرزا صاحب نے یہاں پڑھے ہیں ان کی تردید جو علماء دین نے کی ہوئی ہے وہ کسی ممبر یا وہ مولانا صاحب کے پاس ہو تو ان کی بابت چونکہ تردید کرنی چاہئے.اگر تردید ہے تو یہاں جو بیان ہوا ہے اس کا اثر کوئی اچھا نہ ہوگا اس لیے میں گزارش کروں گا کہ عزیز بھٹی صاحب کے پاس ہو تو وہ ان کو بھیجیں.اس پر عزیز بھٹی صاحب نے کہا کہ مجھے مفتی محمود صاحب نے لکھ کر دیا ہے کہ تردید ہوئی تھی......اور جب بھی اٹارنی جنرل صاحب مناسب موقع سمجھیں تو پوچھ لیں.“ یہ فتوے تو علماء کئی صدیوں سے ایک دوسرے کے مسلک اور دوسرے فرقوں کے خلاف دیتے آرہے تھے.اگر ان کو تسلیم کر کے پاکستان کے آئین میں ترمیم کی جاتی تو پاکستان میں مسلمان دیکھنے کو نہ ملتا.یہ کوئی ایک مثال تو نہیں تھی کہ تردید ہو جاتی.ایسے فتوے تو سینکڑوں کی تعداد میں موجود تھے.حقیقت یہ ہے کہ آخر تک اٹارنی جنرل صاحب نے اس تردید کو منظر عام پر لانے کی ضرورت محسوس نہ کی جو مفتی محمود صاحب کے سینے میں ہی دفن رہی.اس کے بعد شام چھ بجے تک جو کارروائی ہوئی اس کے متعلق جیسا کہ بعد میں سپیکر صاحب نے کہا کہ جنرل اگزامینیشن ختم ہو گیا تھا اور حوالہ جات دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا.یہ ایک نہایت اہم مرحلہ کا آغاز ہو رہا تھا.لیکن اس مرحلہ پر پہنچ کر اٹارنی جنرل صاحب نے جو سوالات کیے یا یوں کہنا چاہئے کہ ممبران میں سے جو جماعت کے مخالف مولوی حضرات تھے انہوں نے جو سوالات انہیں لکھ کر دیئے تا کہ وہ یہ سوالات حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے سامنے رکھیں ، ان کے حوالہ جات میں عجیب افراتفری کا عالم تھا.جماعت احمدیہ کو تو یہ علم نہیں تھا کہ کیا سوالات کیے جائیں گے.دوسرا فریق سوالات کر رہا تھا.یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ اگر سوال کرنے والا کسی کتاب کا حوالہ پیش کرے تو یہ اس کا فرض ہے کہ وہ کتاب کا صحیح نام ، مصنف کا نام صفحہ نمبر اور مطبع خانہ کا نام سن اشاعت وغیرہ بتائے تا کہ جواب دینے والا اصل حوالہ دیکھ کر جواب دے.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب اور ان کی اعانت کرنے والے مولوی حضرات نے اس تاریخی کارروائی کے لیے بنیادی تیاری کا تکلف بھی نہیں کیا تھا.بعض مرتبہ تو متعلقہ بحث کے لیے ان کے پاس بنیادی معلومات بھی نہیں مہیا ہوتی تھیں.پہلے تو جب حضور نے آیت کریمہ کا یہ ٹکڑا پڑھا لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ (البقرة :۲۸۲) تو
381 اٹارنی جنرل صاحب کو یہ مغالطہ ہو گیا کہ یہ صرف شرعی نبیوں کے بارے میں ہے.حالانکہ آیت میں کہیں پر صرف شرعی نبیوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ سورۃ بقرۃ میں اس مضمون کی جو دوسری آیت یعنی آیت نمبر ۱۳۷ ہے اس میں اس مضمون کے بیان سے قبل حضرت اسحق ، حضرت اسماعیل اور حضرت یعقوب جیسے غیر شرعی نبیوں کا ذکر بھی ہے.بہر حال پھر بحث شروع ہوئی کہ کون ملتِ اسلامیہ میں رہتا ہے اور کون اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے کسی ممبر کی طرف سے کیا گیا سوال اُٹھایا کہ ” مرزا غلام احمد صاحب نے عبد الحکیم کو جو پہلے مرزا غلام احمد کا مرید تھا.پھر اس سے شدید اختلاف کیا.یا اس کی حیثیت نبوی ماننے سے انکار کیا تو مرزا غلام احمد نے اسے مرتد قرار دیا؟ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۶۳).اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے نے سطحی معلومات بھی حاصل کیے بغیر حوالہ دے کر سوال کر دیا تھا.حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد الحکیم نے اس عقیدہ کا اظہار کیا تھا کہ نجات کے لیے آنحضرت پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے.جب کہ جماعت احمدیہ کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ حضرت محمد صلى الله مصطفے ﷺ پر ایمان لائے بغیر نہ تو نجات حاصل ہو سکتی ہے اور نہ کوئی روحانی مدارج حاصل ہو سکتے ہیں.چونکہ اس کا یہ عقیدہ جماعت احمدیہ کے بنیادی عقیدہ سے ہی مختلف تھا اس لیے حضرت مسیح موعود نے اس کا اخراج فرمایا تھا.اور اس معاملہ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی ماننے یا نہ ماننے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا.اور حقیقۃ الوحی کے جس مقام کا حوالہ دیا جار ہا تھا وہاں پر عبد الحکیم کے اخراج کا ذکر وو نہیں تھا ایک بالکل اور مضمون بیان ہورہا تھا.البتہ عبدالحکیم کو لکھے گئے ایک خط کا ذکر تھا.اسی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عبد الحکیم کے ارتداد کی جو وجہ تحریر فرمائی تھی وہ بیتھی : وہ امر لکھنے کے لائق ہے جس کی وجہ سے عبد الحکیم خان ہماری جماعت سے علیحدہ ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ نجات اخروی حاصل کرنے کیلئے آنحضرتی پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر ایک جو خدا کو واحد لاشریک جانتا ہے( گوآنحضرت کا مکذب ہے) وہ نجات پائے گا.(روحانی خزائن جلد ۲۲ ص ۱۱۲) پھر بات آگے چلی تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ایک تحریر کا حوالہ دے کر بیان فرمایا کہ ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بیان کیا کہ ایک مقتدر عالم جو حال ہی میں کافی سوچ بچار کر کے حال ہی صلى الله
382 میں ہجرت کر کے پاکستان آیا ہے ان سے ان وائس چانسلر صاحب نے ایک فرقہ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ان میں سے جو غالی ہیں وہ واجب القتل ہیں اور جو غالی نہیں ہیں وہ واجب التعزیر ہیں.ایک اور فرقہ کے متعلق دریافت کیا جس میں کروڑ پتی تاجر بہت ہیں تو ان کے متعلق ان مولوی صاحب نے فتویٰ دیا کہ وہ سب واجب القتل ہیں.یہی عالم جو ۳۲،۳۰ علماء کے گروہ کا کرتا دھرتا تھے.انہوں نے اسلامی نظام کا ایک مجوزہ دستور تیار کیا ہے اور اس میں یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ہر فرقہ کو تسلیم کر لیا جائے سوائے ایک کے جس کو اسلام سے خارج سمجھا جائے.وہ واجب القتل ہیں مگر اس وقت علی الاعلان کہنے کی بات نہیں.موقع آئے گا تو دیکھا جائے گا.انہی میں سے ایک دوسرے عالم نے بیان کیا کہ اس وقت ہم نے ایک فرقہ سے جہاد فی سبیل اللہ کے کام کا آغاز کیا ہے اس میں کامیابی کے بعد انشاء اللہ دوسرے فرقوں کی خبر لی جائے گی.یہاں ہم یہ وضاحت کرتے چلے جائیں کہ حضور نے اس موقع پر ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کی کتاب ”اقبال اور ملا“ کا حوالہ دیا تھا.یہ کتاب بزم اقبال، کلب روڈ لاہور کے تحت شائع ہوئی تھی.اس کا کچھ متعلقہ حصہ درج کیا جاتا ہے.ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اس کتاب کے صفحہ ۶۸.۲۹ پر لکھتے ہیں: تقسیم ملک میں بڑے بڑے اقتدار پسند اور کج اندیش ملا تو ادھر ہی رہ گئے لیکن پاکستان کے شدید مخالفوں میں سے دو چار پاکستان پر قبضہ کرنے کے لئے ادھر آگئے.کوئی شیخ الاسلام کا خواب دیکھنے لگا اور کوئی دینی آمریت کا.دنیا میں دوسرے مذاہب نے بڑی بڑی تنظیمات تبلیغ کے لئے قائم کر رکھی ہیں جہاں لاکھوں انسان جان و مال کی قربانی سے بودے مذہب کو بھی مضبوط کر دیتے ہیں.ملا کو کبھی تبلیغ کی توفیق نہیں ہوئی.اسے مومنوں کو کا فر بنانے سے فرصت نہیں.فلاں کے پیچھے نماز پڑھو تو کا فریا بیوی کو طلاق ، فلاں فرقہ واجب القتل ، فلاں فرقہ واجب التعزیر.پاکستان کی ایک یو نیورسٹی کے وائس چانسلر نے مجھ سے حال ہی میں بیان کیا کہ ایک ملائے اعظم اور عالم مقتدر سے جو کچھ عرصہ ہوا بہت تذبذب اور سوچ بچار کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے ہیں میں نے ایک اسلامی فرقے کے متعلق دریافت کیا.انہوں نے فتویٰ دیا کہ ان میں جو غالی ہیں وہ واجب القتل ہیں اور جو غالی نہیں وہ واجب التعزیر ہیں.ایک اور فرقے -
383 کے متعلق پوچھا جس میں کروڑ پتی تاجر بہت ہیں.فرمایا وہ سب واجب القتل ہیں.یہی عالم ان تہیں بنتیں علماء میں پیش پیش اور کرتا دھرتا تھے جنہوں نے اپنے اسلامی مجوزہ دستور میں یہ لازمی قرار دیا کہ ہر اسلامی فرقہ کو تسلیم کر لیا جائے سوائے ایک کے جس کو اسلام سے خارج سمجھا جائے.ہیں تو وہ بھی واجب القتل ، مگر اس وقت علی الاعلان کہنے کی بات نہیں.موقع آئے گا تو دیکھا جائے گا.انہیں میں سے ایک دوسرے سر براہ عالم دین نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے جہاد فی سبیل اللہ ایک فرقہ کے خلاف شروع کیا ہے.اس میں کامیابی کے بعد انشاء اللہ دوسروں کی خبر لی جائے گی.“ واضح رہے کہ مصنف کوئی احمدی نہیں تھا بلکہ کتاب کا سرسری مطالعہ ہی یہ واضح کر دیتا ہے کہ مصنف جماعت احمدیہ کے عقائد سے شدید اختلاف رکھتا تھا لیکن ملا کے عزائم کوئی ایسے ڈھکے چھپے نہیں تھے کہ ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کو اس کی خبر ہی نہ ہو.جس طرح اب وطن عزیز میں مسلمانوں کے واجب القتل قرار دے کر خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور جس طرح تنگ نظر طبقہ ہر ذریعہ استعمال کر کے ملک کے کسی نہ کسی حصہ پر اپنا تسلط جمانا چاہ رہا ہے اس سے یہ صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ خیالات محض وہم نہیں تھے.اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے کہا ” مرزا غلام احمد نے آئینہ صداقت میں.یہ ان کی تصنیف ہے؟ اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تصنیف کا نام آئینہ صداقت نہیں ہے تو پھر یچی بختیار صاحب نے کچھ بے یقینی کے عالم میں کہا کہ پھر مرزا بشیر الدین کی ہوگی.یہ عجیب غیر ذمہ داری ہے کہ آپ خود ایک کتاب کا حوالہ پیش کر رہے ہیں اور اس کے مصنف کا نام تک آپ کو معلوم نہیں اور کبھی ایک نام لیتے ہیں اور کبھی دوسرا نام لیتے ہیں اور یقین سے کہہ نہیں سکتے کہ کس کی لکھی ہوئی کتاب ہے.اس طرح سے تو کوئی سنجیدہ کارروائی یا بحث نہیں ہو سکتی اور نہ اس قسم کے انداز کو کوئی قابل توجہ سمجھ سکتا ہے.پھر انہوں نے کسی کتاب نهج معلا کا حوالہ دیا جس کا انہیں خود علم نہیں تھا کہ کس کی لکھی ہوئی ہے اور یقیناً کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورخلفاء کی تحریر کردہ کتب میں اس نام کی کوئی کتاب نہیں.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے دریافت فرمایا کہ یہ کس کی لکھی ہوئی ہے تو اٹارنی جنرل صاحب
384 نے اس کے جواب میں بجائے مصنف کا نام بتانے کے، کہا ” سوال کرنے والے نے کہا ہے کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہے اور یہ کتاب جو ہے...‘اس کے بعد اور بات شروع ہوگئی اور حضرت خلیفہ اسیح نے واضح فرمایا کہ یہ کتاب (جس کے مصنف کا نام بھی بتایا نہیں جا رہا تھا ) ہمارے لیے اتھارٹی نہیں ہو سکتی.اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دو کتب کے حوالہ جات پیش کیے تا کہ اپنی طرف سے ایک مضبوط دلیل پیش کی جائے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب تحفہ گولڑویہ کے صفحہ ۳۸۲ کے حاشیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے پھر دوسرے فرقوں کو جو دعوئی اسلام کرتے ہیں بالکل ترک کرنا پڑے گا.“ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تحفہ گولڑویہ کے تو ۳۸۲ صفحات ہی نہیں ہیں.البتہ اس کتاب کے ایک مقام پر جو اس قسم کا فقرہ آتا ہے وہاں پر یہ بحث ہی نہیں ہو رہی کہ کس کو مسلمان کہلانے کا حق ہے کہ نہیں وہاں تو یہ مضمون بیان ہورہا ہے کہ احمدیوں کا امام احمد یوں میں ہی سے ہونا چاہئے.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکذبین کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے.یہاں پر یہ دلچسپ بات قابل ذکر ہے کہ جب ہم نے صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے انٹرویو کیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹی بختیار صاحب نے کتابیں پڑھ کر سوال کئے تھے.اور اس ضمن میں انہوں نے خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب تحفہ گولڑویہ کا نام لیا کہ بیٹی بختیار صاحب نے اس کتاب کو پڑھ کر سوال اٹھائے تھے.اس سوالات کرنے والوں کی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک کتاب کا ہی نام لیا جا رہا ہے کہ اس کو پڑھ کر سوال کئے گئے تھے اور اس کا جو ایک ہی حوالہ پڑھا گیا وہ بھی غلط نکلا.پھر اس کے بعد یہ دلیل لائے کہ حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۱۸۵ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ " کفر کی دو قسمیں ہیں ایک آنحضرت سے انکار دوسرے مسیح موعود سے انکار.دونوں کا نتیجہ و ماحصل ایک ہے.یہاں پر اٹارنی جنرل صاحب صحیح الفاظ پڑھنے کی بجائے کوئی اور الفاظ پڑھ رہے تھے اور یہ دیانتدارانہ طریق نہیں تھا.وہ نہ صرف عبارت صحیح نہیں پڑھ رہے تھے بلکہ نامکمل پڑھ رہے تھے.جب اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ " کیا یہ درست ہے کہ مرزا غلام احمد نے اپنی 66
385 66 کسی تحریر میں یہ کہا ہے کہ کفر کی دو قسمیں ہیں ایک آنحضرت کا انکار اور دوسرے مسیح موعود کا انکار.دونوں کا نتیجہ و ماحصل ایک ہے.چونکہ اٹارنی جنرل صاحب معین الفاظ نہیں پڑھ رہے تھے اور عبارت مکمل بھی نہیں پڑھ رہے تھے اس لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا.اس پر انہوں نے حوالہ پڑھا حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۸۵.اس پر حضور نے فرمایا ” جوالفاظ اصل تھے چھوڑ گئے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ کسی کتاب میں نہیں لکھا.اس پر اٹارنی جنرل صاحب بس اتنا ہی کہہ سکے ”وہ تو verify کرلیں گے.“ اور پھر یہ عجیب و غریب جملہ ادا فرمایا: ” پوزیشن clarify کرنی ہے.یہ پڑھیں یا وہ پڑھیں.“ اب پڑھنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کوئی معقول جواب نہیں تھا.یہ اعتراض کرنے والے کا کام ہوتا ہے کہ وہ اصل حوالہ اور صحیح عبارت پیش کرے نہ کہ اعتراض کرنے کے بعد حوالہ تلاش کرتا رہے.یا غلط حوالہ پکڑے جانے پر یہ کہے کہ اس سے فرق کیا پڑتا ہے.اس طرح تو کوئی معقول گفتگو نہیں ہوسکتی.اب ان کے حوالہ جات کی غلطیاں ایک عجیب و غریب صورت حال اختیار کر چکی تھی.اگر اخبار کا حوالہ پیش کیا جارہا تھا تو پیش کرنے والے کو علم نہیں تھا کہ کس اخبار کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کا حوالہ اس کتاب سے دیا جا رہا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر نہیں فرمائی تھی.ایسی نامعلوم کتابوں کے حوالے پیش کئے جا رہے تھے جن کے متعلق خود انہیں معلوم نہیں تھا کہ لکھی کس نے تھی.حضرت مسیح موعود کی کتب کے حوالہ جات بمعہ صفحہ نمبر پیش کئے گئے تو نہ صرف ان صفحات پر یہ عبارت موجود نہیں تھی بلکہ وہاں پر کسی اور موضوع کا ذکر ہورہا تھا.یا پھر مسیح الفاظ پڑھنے کی بجائے بدل کر الفاظ پڑھے جا رہے تھے.پہلے تو انہیں نرمی سے یہ بتایا گیا تھا کہ ان حوالہ جات کو چیک کر کے جواب دیا جائے گا لیکن اس مرحلہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا.جب کارروائی شروع ہوئی تھی تو سپیکر صاحب نے اسی وقت کہا تھا کہ کتب اٹارنی جنرل صاحب کے قریب کر دی جائیں تا کہ وہ حوالہ اٹارنی جنرل صاحب گواہوں کو یعنی جماعت احمدیہ کے وفد کے اراکین کو دکھا سکیں.لیکن یہاں یہ ہورہا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک حوالہ بھی دکھانے کی زحمت نہیں کر رہے تھے.اس مرحلہ پر شام کی کارروائی میں وقفہ کا اعلان ہوا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب سپیکر صاحبزادہ
386 فاروق صاحب بھی بیچی بختیار صاحب اور ان کی ٹیم کی تیاری کے اس عالم سے تنگ آچکے تھے.جب حضرت خلیفۃ اسیح الثالث جماعت کے وفد کے ہمراہ ہال سے تشریف لے گئے تو سپیکر صاحب نے کہا The honourable members may keep sitting پھر انہوں نے ان کتب کو قرینے سے لگانے کے متعلق ہدایات دیں جن کے حوالے پیش کیے جا رہے تھے.اور لائبریرین کو اس کے قریب کرسیاں رکھنے کی ہدایت دی.اور حوالہ جات میں نشانیاں رکھنے کی ہدایت دی.اور کہا کہ جن لوگوں نے مخصوص حوالہ جات دیئے ہیں باقاعدہ کتابوں میں نشان لگا کر رکھیں اور اگر گواہ کسی چیز سے انکار کریں تو کتاب فوراً پیش کی جائے اور پھر ان الفاظ میں سپیکر صاحب نے اظہارِ برہمی کیا.یہ طریقہ کار بالکل غلط ہے کہ ایک حوالہ کو تلاش کرنے میں آدھا گھنٹہ لگتا ہے.میں کل سے کہہ رہا ہوں کہ کتابیں اس طرح رکھیں یعنی چار پانچ کرسیاں ساتھ رکھ دیں.جن ممبر صاحبان نے حوالہ جات تلاش کرنے ہیں ان کرسیوں پر بیٹھ کر تلاش کر سکتے ہیں اور وہ حضرات جنہوں نے حوالہ جات دینے ہیں ادھر آ کر بیٹھیں لہذا وہ کتا بیں Ready ہونی چاہئیں تا کہ اٹارنی جنرل کو کوئی تکلیف نہ ہو اور ٹائم ضائع نہ ہو.“ ابھی سپیکر صاحب کے یہ الفاظ ختم ہی ہوئے تھے کہ مفتی محمود صاحب نے جو عذر پیش کیا وہ بھی خوب تھا.انہوں نے یہ دقیق نکتہ بیان فرمایا: ” جناب والا ان کا یہ ہے کہ جلد مختلف ہوتے ہیں.ہم صفحہ اور لکھتے ہیں اور کتا.ہمارے پاس دوسری آجاتی ہے.“ جو لوگ کتابوں کو دیکھنے سے کچھ بھی تعارف رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک کتاب کے کئی ایڈیشن چھپتے ہیں، حوالہ دینے والے کا فرض یہ ہے کہ وہ حوالہ دیتے ہوئے ایڈیشن کا نمبر اور سن ،اس کے پر لیں اور ناشر کا نام وغیرہ بتائے اور جس ایڈیشن سے صفحہ نمبر نوٹ کر کے بیان کرے اسی ایڈیشن کی کتاب کا رروائی کے دوران پیش کرے.اسی طرح کتابوں کے مجموعہ کی اشاعت کی صورت میں مختلف ایڈیشنوں میں مختلف جلد نمبر ہو سکتے ہیں.اگر ایک ایڈیشن سے حوالہ کا صفحہ نمبر نوٹ کیا جائے گا اور کتاب دوسرے ایڈیشن کی نکال لی جائے تو پھر ظاہر ہے کہ پیش کردہ عبارت اس طرح نہیں ملے
387 گی.اور پھر اصل الفاظ پیش کرنے کی بجائے الفاظ بدل کر پیش کیے جائیں گے اور کسی اور ایڈیشن میں مطلوبہ صفحہ پڑھ کر وہ عبارت ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ جد و جہد لا حاصل ہی رہے گی.یا پھر محض ایک مخالف کی کتاب سے جماعت کی کتاب کا فرضی حوالہ نقل کر کے پیش کر دیا جائے تو پھر خفت تو اُٹھانی پڑے گی.ایسے بزرجمہروں کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے.مفتی محمود صاحب کے تبصرے سے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ شاید انہیں کتابوں کو دیکھنے کا زیادہ تجربہ نہیں ہے.لیکن شاید سپیکر صاحب مفتی محمود صاحب کا دقیق نکتہ سمجھ نہیں پائے تھے.انہوں نے کہا.” حوالہ جات شروع ہو چکے ہیں.جنرل ایگزامینیشن ختم ہو چکا ہے.تقریباً زیادہ بات حوالہ جات کی شروع ہو چکی ہے.دو تین حوالہ جات نہیں ملے.......(بائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے ).ادھر چار پانچ کرسیاں رکھ دیں اور جتنے انہوں نے حوالہ جات دیئے ہیں Flag کردیں.یہ دو تین ایڈیشن ہیں آپ اپنے حوالہ جات کو ٹھیک کر کے رکھ دیں.وہ اگر یہ کہیں تو ان کو کہیں کہ آپ کی یہ کتاب ہے.“ اس مرحلہ پر مولوی غلام غوث ہزاروی کو خیال آیا کہ وہ بھی کوئی نکتہ بیان فرما ئیں.چنانچہ وہ کہنے لگے : جناب والا میں ایک چیز کے متعلق عرض کروں کہ ہم حوالہ جات اس وقت تیار رکھیں جب ہمیں اٹارنی جنرل کی طرف سے علم ہو کہ وہ کون سے سوالات کریں گے....یہ نکتہ بھی خوب تھا.مولوی غلام غوث ہزاروی صاحب جیسے ممبران سوالات حوالہ جات سمیت پیش کر رہے تھے اور چند حوالے ابھی ابھی پیش کئے گئے تھے اور وہ بھی غلط نکلے.جس نے سوال کیا تھا وہ حوالہ نکال کر اپنے پاس رکھ سکتا تھا تا کہ عند الطلب پیش کر سکے یا پھر کتاب سے نکال کر اٹارنی جنرل کو دے سکتا تھا تا کہ جماعت کے وفد کو دکھایا جاسکے.اس کے بعد شاہ احمد نورانی صاحب نے خفت مٹانے کی کوشش کی اور سپیکر صاحب کو کہا کہ انہوں نے یعنی حضور نے حقیقۃ الوحی والے حوالے کا انکار کیا ہے جب کہ یہ حوالہ یہاں پر موجود ہے اور سپیکر صاحب کو کہا کہ آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں.آفرین ہے نورانی صاحب پر.معلوم ہوتا ہے کہ وہ کارروائی کے دوران ذہنی طور پر غیر حاضر تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا تھا کہ اصل الفاظ چھوڑ دیئے گئے ہیں یعنی معین عبارت نہیں پڑھی گئی اور اس کا علاج بہت آسان تھا اور وہ یہ کہ اصل عبارت
388 پڑھ دی جاتی اور بس.مگر ایسا نہیں کیا گیا.اور جو الفاظ اٹارنی جنرل صاحب نے پڑھے تھے وہ معین الفاظ اس کتاب میں موجود نہیں ہیں.صحیح طریق تو یہی ہے کہ حوالہ کی معین عبارت پڑھی جائے.کتاب سامنے موجود تھی ، سادہ سی بات تھی کتاب اُٹھاتے اور معین عبارت پڑھ دیتے.مغرب کی نماز کے بعد جب کارروائی شروع ہوئی تو حقیقۃ الوحی کے اسی حوالہ سے بات شروع ہوئی جس کا حوالہ وقفہ سے پہلے دیا جا رہا تھا.لیکن اٹارنی جنرل صاحب اب بھی پرانی غلطی پر مصر تھے.انہوں نے ایک بار پھر معین عبارت پڑھنے کی بجائے اپنی طرف سے اس کا خلاصہ پڑھا البتہ اس مرتبہ یہ نہیں کہا کہ یہ حقیقۃ الوحی کے اس صفحہ پر لکھا ہے بلکہ یہ کہنے پر اکتفا کی کہ کسی تحریر میں لکھا ہے.اٹارنی جنرل صاحب نے کہا: کیا یہ درست ہے کہ مرزا غلام احمد نے اپنی کسی تحریر میں لکھا ہے کہ کفر کی دو قسمیں 66 ہیں.ایک آنحضرت ﷺ سے انکار اور دوسرا مسیح موعود سے انکار “ حضور نے ان کی غلطی سے صرف نظر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے آگے کی عبارت خود اس کا مطلب واضح کر دیتی کیونکہ آگے لکھا ہے کہ جو باوجود اتمام حجت کے اس کو جھوٹا جانتا ہے.حالانکہ خدا اور رسول نے اس کے ماننے کی تاکید کی ہے.کیونکہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے.کچھ دیر بعد پھر اٹارنی جنرل صاحب نے ایک عجیب رخ اختیار کر لیا.اور یہ بحث اٹھا دی کہ جماعت احمدیہ کا کلمہ کیا ہے ، یہ کوئی خفیہ امر نہیں.جماعت کا وسیع لٹریچر بیسیوں زبانوں میں دنیا کے سو سے زائد ممالک میں اچھی طرح معروف ہے.ہر کتاب میں ، ہر تحریر میں کوئی ایک صدی سے یہی لکھا ہوا ملے گا کہ جماعت احمدیہ کا کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ ہے.دنیا بھر کے دوسو کے قریب ممالک میں کسی احمدی بچے سے بھی پوچھ لیں تو وہ یہی جواب دے گا کہ ہمارا کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ ہے.لیکن اس کارروائی میں اٹارنی جنرل صاحب ایک تصویر اٹھالائے جو کہ نائیجیریا کے ایک شہرا جیبو اوڈے میں جماعت کی مسجد کی تھی.اس کے اوپر کوفی رسم الخط میں کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا.اور اس رسم الخط میں محمد کی پہلی میم کو لمبا کر کے لکھا گیا تھا.اور اس کو دکھا کر اٹارنی جنرل صاحب یہ باور کروانے کی کوشش فرما رہے تھے یہ محمد رسول اللہ نہیں لکھا تھا بلکہ احمد رسول اللہ لکھا تھا.یعنی کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ احمدیوں کا تو کلمہ ہی مسلمانوں سے علیحدہ ہے.حضور نے اس امر پر گفتگو
389 کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا کلمہ اگر دوسرا تھا تو ہر جگہ پر دوسرا ہونا چاہئے تھا، یہ یمکن نہیں تھا کہ ہمارا کلمہ دوسرا تھا اور یہ صرف ایک جگہ پر لکھا ہے، باقی مقامات پر وہ کلمہ تحریرلکھا ہے جس پر ہمارا ایمان نہیں تھا.یہ الزام ہی بچگانہ تھا اور اٹارنی جنرل صاحب خود بھی اس سوال کو کر کے ایک مخمصے میں پھنس گئے تھے.آغاز میں ہی انہوں نے کچھ بے یقینی سے کہا کہ یہ Impression پڑتا ہے کہ احمد رسول اللہ لکھا ہے.May be it is محمد رسول اللہ.کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کہہ رہے تھے انہیں تو خود یقین نہیں تھا کہ یہ الزام معقول بھی ہے کہ نہیں.حضور نے فرمایا کہ ہماری سینکڑوں مساجد دنیا کے مختلف ممالک میں ہیں ان میں سے صرف ایک مسجد کو منتخب کر کے شور مچایا گیا ہے کہ ان کا کلمہ مختلف ہے.اٹارنی جنرل صاحب کبھی یہ کہتے تھے کہ مجھے یہ احمد رسول اللہ لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے اور کبھی یہ کہتے کہ ” نہیں نہیں میں کہہ رہا ہوں محمد ﷺ کو اس طریقہ سے..”میم کو نیچے سے اٹھایا گیا ہے ، میم موٹا ہے، پھر ہو سکتا ہے محمد ے ہو.اس مرحلہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ اس لفظ کی دوسری میم پر تشدید نظر آرہی ہے ، احمد کے اوپر تشدید کہاں ہوتی ہے.اب بیچارے اٹارنی جنرل صاحب کسی کے کہنے پر یہ نا معقول سوال تو اُٹھا چکے تھے لیکن اب اس تشدید کا کیا کرتے جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ یہ حمد لکھا ہوا ہے احمد ہو ہی نہیں سکتا.انہوں نے عاجز آ کر کہا میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ یہ Verify کر دیں کہ یہ صرف لا اله الا الله محمد رسول اللہ لکھا ہے.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ ” ہے ہی یہی ، ہم نے ہوش بھی نہ سنبھالا تھا کہ سے ہمیں سکھایا گیا ، آج اعتراض ہو گیا عجیب بات ہے.اس مثال سے یہ بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں جو سوالات اُٹھائے جا رہے تھے وہ عقل سلیم سے عاری تھے ورنہ یہ تشدید اس وقت بھی موجود تھی جب کہ یہ نامعقول سوال اُٹھانے کی تیاری کی جارہی تھی.اس کے بعد پھر انہی پرانے سوالات پر بات شروع ہوئی کہ احمدیوں نے خود اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ کیا کہ نہیں یا پھر قومی اسمبلی کو ایسا فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ نہیں.جب بات آگے چلتی اور سوالات کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے سوالات کیے جاتے تو ان کا سقم خود ہی ظاہر ہو جاتا.اب اٹارنی جنرل صاحب نے رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد کو دلیل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی.اس سے پہلے وہ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ احمدیوں نے خود اپنے آپ کو باقی مسلمانوں نے
390 سے علیحدہ کیا ہے.جب رابطہ کی قرارداد کی بات شروع ہوئی تو حضور نے انہیں یاد دلایا کہ اس قرار داد میں تو یہ لکھا ہے کہ قادیانی سارے مسلمانوں والے کام کرتے ہیں.اور ساتھ یہ کہا گیا کہ اندر سے کافر ہیں.اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل نے زچ آ کر کہا کہ ” میں Reasoning میں نہیں جا رہا.اس پر حضور نے فرمایا، ” تو میں Reasoning کے بغیر بات نہیں کر رہا.اب کون سا ہوشمند ہو گا جو کہ یہ کہے گا کہ جب اس قسم کی کارروائی جاری ہو تو Reasoning میں نہیں جانا چاہئے.ظاہر ہے جماعتِ احمدیہ پر اعتراضات کئے جا رہے تھے اور مختلف علمی بحثیں اُٹھانے کی کوشش کی جا رہی تھی ، یہ بات تو Reasoning کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی.اگر اٹارنی جنرل صاحب اور ممبرانِ اسمبلی Reasoning میں نہیں جانا چاہتے تھے تو پھر یہ کارروائی نہیں محض ڈرامہ کیا جارہا تھا.لیکن بعد کی کارروائی سے یہی واضح ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سوالات کرنے والی ٹیم Reasoning کا طریقہ کار نہیں اپنانا چاہتی تھی.اس سے پہلے بھی یہ ذکر آپکا ہے کہ خود اسپیکر سمبلی نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ جو حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں، ان کو ڈھونڈنے میں آدھا آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے.لیکن اب بھی یہی حال تھا کہ یا تو حوالے صحیح پیش ہی نہیں ہوتے تھے یا جب ان پر بات شروع ہوتی تو یہ صاف نظر آ جاتا کہ یا تو اس حوالہ کا سیاق و سباق بھی پڑھنے کی کوشش نہیں کی گئی یا پھر اس سوال کو اُٹھانے والوں میں یہ مضمون سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں پائی جاتی تھی.چند مثالیں پیش ہیں.بحث کے دوران اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا کہ الفضل ۲۶ رجنوری ۱۹۱۵ء کا حوالہ ہے مرزا بشیر الدین محمود کا ہے " مسیح موعود کو احمد نبی اللہ تسلیم نہ کرنا.آپ کو امتی قرار دینا.امتی سمجھنا.گویا آنحضرت ﷺ سید المرسلین خاتم النبیین ہیں کو امتی قرار دینا امتوں میں داخل کرنا کفر عظیم ہے.کفر در کفر.اس حوالہ کو پڑھتے یا یوں کہنا چاہئے کہ ایجاد کرتے ہوئے اٹارنی جنرل صاحب کو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ ساری عبارت مہمل ہے اس کا مطلب ہی کچھ نہیں بنتا.بہر حال اس کے جواب میں حضور نے اس بات کی نشاندہی فرمائی کہ یہ فقرہ تو بظاہر ٹوٹا پھوٹا لگتا ہے.لیکن یحییٰ بختیار صاحب پھر بھی نہیں سمجھ پائے اور کہا کہ میں پھر پڑھ دیتا ہوں.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ میں چیک کروں گا.یہ بھی ظاہر ہوتا ہے وہ کہ اس حوالہ کے متعلق کچھ گومگو کی کیفیت میں رہے.کبھی یہ حوالہ ۲۶ تاریخ کا بن جاتا
391 اور کبھی ۲۹ جنوری کا.اس کا ذکر تو بعد میں آئے گا لیکن ریکارڈ کی خاطر یہاں یہ بتاتے چلیں کہ اس روز کی الفضل کی اشاعت میں یہ یا اس سے ملتی جلتی کوئی عبارت موجود نہیں.یہ سوال کر نیوالوں کی ذہنی اختراع تھی.اٹارنی جنرل صاحب نے ایک سوال یہ اٹھایا کہ صفحہ ۳۴۴ پر آئینہ کمالات اسلام ہے تو اس میں ہے کہ جو شخص نبوت کا دعوی کرے گا.وہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا احترام کرے.نیز یہ بھی کہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر وحی نازل ہوئی ہے وہ ایک امت بنائے جو اس کو نبی مجھتی ہو اور اس کی کتاب کو کتاب الہی جانتی ہو.“ ابھی انہوں نے یہ حوالہ پڑھنا ہی شروع کیا تھا اور جو شخص کے الفاظ ہی پڑھے تھے کہ حضور نے یہ اہم سوال اُٹھایا کہ اس کی ضمیر کس طرف جاتی ہے.اشارہ واضح تھا لیکن آفرین ہے کہ سنے والوں کو سمجھ نہیں آیا.یہ حوالہ پڑھنے کے بعد پاکستان کی قابل اسمبلی میں نہایت قابل اٹارنی جنرل صاحب نے یہ اہم سوال اُٹھایا کہ تو یہ Reference آنحضرت کی طرف ہے یا ان کے اپنے سے مراد ہے؟ اب ہم پورا حوالہ پیش کرتے ہیں : اور یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ دجال اول نبوت کا دعوی کر دیگا پھر خدائی کا.اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں کہ چند روز نبوت کا دعوی کر کے پھر خدا بنے کا دعوی کر دیگا تو یہ معنی صریح باطل ہیں کیونکہ جو شخص نبوت کا دعوی کر یگا اس دعویٰ میں ضرور ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرے اور نیز یہ بھی کہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر وحی نازل ہوتی ہے.اور نیز خلق اللہ کو وہ کلام سناوے جو اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ایک امت بناوے جو اس کو نبی سمجھتی اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہے.اب سمجھنا چاہئے کہ ایسا دعوی کر نیوالا اسی امت کے رو برو خدائی کا دعویٰ کیونکر کر سکتا ہے کیونکہ وہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ تو بڑا مفتری ہے پہلے تو خدائے تعالیٰ کا اقرار کرتا تھا اور خدا تعالیٰ کا کلام ہم کو سناتا تھا
392 اور اب اس سے انکار ہے اور اب آپ خدا بنتا ہے...صحیح معنے یہی ہیں کہ نبوت کے دعویٰ سے مراد دخل در امور نبوت اور خدائی کے دعویٰ سے مراد دخل در امور خدائی ہے جیسا کہ آجکل عیسائیوں سے یہ حرکات ظہور میں آرہی ہیں.ایک فرقہ ان میں سے انجیل کو ایسا تو ڑ مروڑ رہا ہے کہ گویا وہ نبی ہے اور اسپر آیتیں نازل ہو رہی ہیں.اور ایک فرقہ خدائی کے کاموں میں اس قدر دخل دے رہا ہے کہ گویا وہ خدائی کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہتا ہے.(۵۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تو یہ لوگ ایمان نہیں لائے تھے لیکن اس حوالہ کا ایک حصہ پڑھ کر بغیر سوچے سمجھے یہ سوال اٹھانا کہ کیا اس کی ضمیر آنحضرت ﷺ کی طرف جاتی ہے؟ اور پھر اس سوال کود ہرانا یا پرلے درجہ کی بے عقلی ہے یا ایک ایسی خوفناک گستاخی کہ کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.ایک بات تو ظاہر ہے کہ ان سوالات کو پیش کرنے سے قبل کوئی خاص تیاری نہیں کی گئی تھی.ان احادیث میں ایک اہم پیشگوئی بیان ہوئی ہے اور بعد میں رونما ہونے والے واقعات اس عظیم پیشگوئی کی واضح تصدیق کرتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس پیشگوئی کی ایک لطیف تشریح بیان فرما رہے ہیں لیکن پاکستان کے ممبران اسمبلی میں سے اس سوال کو اُٹھانے والے سمجھے بھی تو کیا سمجھے.ان احادیث نبویہ ﷺ میں اور مذکورہ عبارت میں ایک لطیف مضمون بیان کیا گیا ہے جو اس دور میں اعجازی طور پر پورا ہوکر آنحضرت ﷺ کا ایک زندہ نشان بن چکا ہے.لیکن یہ علمی مضمون پاکستان کی قابل قومی اسمبلی میں سوالات مہیا کرنے والوں کی عقل سے بالا تر تھا.اس کے بعد کچھ دیر تک اٹارنی جنرل صاحب نے یہ بحث اُٹھائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ شرعی نبوت کا تھا یا غیر شرعی نبوت کا تھا.اس معاملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی اور تحریرات بالکل واضح ہیں.آپ کا دعوئی امتی نبی کا تھا.آپ نے بار ہا واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان فرمایا تھا کہ اب آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی شریعت اور آپ کے احکامات کا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں ہوسکتا اور اب جو بھی کوئی روحانی مدارج حاصل کرے گا وہ آنحضرت ﷺ کی اتباع اور فیض سے ہی حاصل کر سکتا ہے.اس بات کو بحث بلکہ کبھی بھٹی کا موضوع بنانا ایک لایعنی بات تھی.اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس موضوع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پڑھ کر
393 66 سنائیں جس سے اُٹھائے گئے اعتراضات باطل ہو جاتے تھے.ابھی بحث جاری تھی کہ اٹارنی جنرل صاحب یا ان کو سوالات مہیا کرنے والے قابل احباب اپنی طرف سے ایک برہان قاطع یہ لائے کہ ” میں آپ کی کوٹیشن...سناتا ہوں شریعت اسلام میں جو نبی کے معنی ہیں.اس کے معنی ہے.اگر مرزا غلام احمد اگر مجازی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہے.That is shariat as you say “ اب ذرا ملاحظہ ہوا ٹارنی جنرل صاحب اپنی طرف سے یہ حوالہ پڑھ رہے ہیں اور ان جملوں کی ٹوٹی پھوٹی ساخت ہی بتا رہی تھی کہ حوالہ مسیح نہیں پڑھا جارہا اور معین الفاظ نہیں پڑھے جا رہے عقل کی بات ہے کہ جماعت کی کسی تحریرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام صرف مرزا غلام احمد کر کے نہیں لکھا جا سکتا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ارشاد فرمایا ” یہ کہاں کا حوالہ ہے؟“.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے لب کشائی فرمائی ” شریعت نبوت صفحہ ۱۷۲‘.ایک منٹ میں یہ ان کا دوسرا کارنامہ تھا.اس نام کی جماعت کی کوئی تصنیف نہیں تھی.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا یہ سچ مچ بناوٹی ہے.پیشتر اس کے کہ بیٹی بختیار صاحب حوالہ جات پیش کرنے کے میدان میں کچھ اور جو ہر دکھاتے کہ سپیکر صاحب نے انہیں اس مخمصے سے نجات دلائی اور کہا کہ کل کا رروائی جاری رہے گی اب وفد جا سکتا ہے.کل دس بجے کارروائی شروع ہوگی.یعنی سپیکر صاحب نے تو یہ متنبہ کیا تھا کہ آپ کو حوالے وقت پر نہیں ملتے اور آدھا آدھا گھنٹہ حوالہ ڈھونڈ نے میں لگ جاتا ہے اور اس کے بعد سوال اُٹھانے والوں نے یہ اصلاح کی کہ ان کتابوں کے حوالے پیش کرنے شروع کر دیئے جو بھی لکھی ہی نہیں گئیں تھیں.اس افراتفری کے عالم میں 4 اگست کی کارروائی ختم ہوئی.ے راگست کی کارروائی جب ۷ /اگست کی کارروائی شروع ہوئی تو بات ان حوالہ جات سے شروع ہوئی تھی جو گزشتہ روز پڑھے گئے تھے.سوالات کرتے ہوئے جو حوالہ جات پیش کیے جارہے تھے یا یوں کہنا مناسب ہو گا کہ جن کو پیش کرنے کی کوشش کی جارہی تھی وہ عجیب افراتفری کا شکار تھے.اٹارنی جنرل صاحب نے حضور سے کہا کہ جو حوالے میں نے کل پڑھے تھے آپ نے ان کی تصدیق کر لی ہے؟ اس پر
394 حضرت خلیفہ امیج الثالث نے فرمایا ” ایک ایک کو لے لیتے ہیں جو ۲۹ جنوری ۱۹۱۵ء کا آچکا ہے یہ پڑھ کر سنا دیجئے.میں Verify کر دیتا ہوں.اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا کہ کل جو آخر میں پڑھا تھا وہ پہلے پڑھتا ہوں.ایک روز پہلے انہوں نے ایک حوالہ پیش کیا تھا اور کتاب کا نام ” شریعتِ نبوت“ بیان فرمایا تھا.آج اس حوالہ کی عبارت کتاب کا نام اور صفحہ نمبر سب نیا جنم لے چکے تھے.اب انہوں نے یہ عبارت پڑھی ” اسلامی شریعت نبی کے جو معنی کرتی ہے.اسکے معنی سے حضرت مرزا غلام احمد ہرگز مجازی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں.(حقیقۃ النبوت صفحہ ۱۷۴).اب اس بحث سے ان کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حقیقی نبی لکھا گیا ہے اس لیے اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے صاحب شریعت ہونے کا دعویٰ کیا ہے.کیونکہ جب ایک روز قبل یہ حوالہ پیش کیا گیا تھا تو اس وقت شرعی اور غیر شرعی انبیاء کا تذکرہ چل رہا تھا.پہلی تو یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام، حضرت سلیمان ، حضرت ایوب ، حضرت یعقوب اور بہت سے دوسرے انبیاء شریعت نہیں لائے تھے تو کیا یہ سب حقیقی نبی نہیں تھے، کیا ان کو غیر حقیقی انبیاء کہہ کر ان کی شان میں گستاخی کی جائے گی.یا اگر کسی بھی لحاظ سے یہ کہا جائے کہ یہ حقیقی انبیاء ھے تو اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ ان کو شرعی نبی سمجھا جا رہا ہے؟ اور اسی کتاب میں جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تصنیف ہے اس بات کی وضاحت بار بار کی گئی ہے.اس کا صرف ایک حوالہ پیش ہے..پس حضرت مسیح موعود نے بھی عوام کو سمجھانے کے لئے انہی کی فرض کردہ حقیقت کو تسلیم کر کے انہیں سمجھایا ہے کہ میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ کوئی شریعت جدیدہ لایا ہوں.بلکہ ان معنوں کی رو سے میں مجازی نبی ہوں.یعنی شریعت لانے والے نبیوں سے ایک رنگ میں مشابہت رکھتا ہوں.گو شریعت لانے والا نبی نہیں ہوں.کیونکہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی جدید شریعت نہیں.اور یہی مضمون اس کتاب میں بیسیوں جگہ پر بیان ہوا ہے.اس کے بعد ۲۹ جنوری یا ۲۶ / جنوری کے اُس پر اسرار حوالہ کا ذکر شروع ہوا جس کی فرضی ٹوٹی پھوٹی عبارت ایک روز قبل پڑھی گئی تھی.اگست کی کارروائی میں یہ حوالہ ۲۹ جنوری ۱۹۱۵ء کا بنا ہوا تھا.اٹارنی جنرل صاحب نے ایک مرتبہ پھر اس حوالے کی عبارت دہرائی.حضور نے فرمایا کہ اس روز تو الفضل شائع ہی نہیں ہوا تھا.اصولاً تو سوال پیش کرنے والوں کے پاس حوالہ یا ثبوت ہونا
395 چاہئے تھا.لیکن اب ان کے لیے عجیب صورت حال پیدا ہوئی تھی کہ جس روز کے الفضل کا وہ حوالہ اس طمطراق سے پیش کر رہے تھے ، اس روز تو الفضل شائع ہی نہیں ہوا تھا.کیونکہ اس دور میں الفضل روزانہ شائع نہیں ہوتا تھا.اب اپنی خفت کو چھپانے کے لیے اٹارنی جنرل صاحب نے ایک اور ذہنی قلا بازی کھائی اور فرمایا کہ ۱۹ ر جنوری میں یا کسی اور شمارہ میں یہ چھپا ہوگا.ان کی یہ عجیب وغریب دلیل پڑھ کر تو ہنسی آتی ہے.یہ صاحب قومی اسمبلی کی ایک اہم کمیٹی میں ایک حوالہ پیش کر رہے تھے اور دوروز میں ایک سے زائد مرتبہ پیش کر چکے تھے.اور علماء کی ایک ٹیم اس کام میں ان کی اعانت کر رہی تھی.اور اس حوالہ کی بنا پر وہ اپنے زعم میں جماعت احمدیہ کے خلاف کیس مضبوط کر رہے تھے اور ابھی انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ حوالہ کس تاریخ کا تھا.اس پر حضور نے واضح الفاظ میں فرمایا ” نہیں نہیں ، یہ کسی Issue میں نہیں ہے.کسی حوالہ میں نہیں ہے.یہ بنایا گیا ہے.اس پر پاکستان کی قابل قومی اسمبلی کے نمائندہ نے جو کچھ کہا اس سے ان کی ذہنی اور علمی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے.انہوں نے فرمایا: اس لئے آپ کو اخبار معلوم ہونا چاہئے.“ یعنی حوالہ اٹارنی جنرل صاحب پیش فرما رہے ہیں اور جماعت احمد یہ پر اعتراض اٹھانے کے لیے پیش فرما رہے ہیں اور ان کو بتایا جاتا ہے کہ جس روز کی اشاعت کا وہ حوالہ پیش کر رہے ہیں ،اس روز تو الفضل شائع ہی نہیں ہوا تھا.اور یہ عبارت الفضل میں شائع ہی نہیں ہوئی.اور اٹارنی جنرل صاحب بجائے حوالہ پیش کرنے کے جماعت کے وفد سے فرمائش کر رہے ہیں کہ آپ کو اخبار معلوم ہونا چاہئے.معلوم ہوتا ہے کہ اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل صاحب کے ہاتھوں سے ہوش کا دامن بھی چھوٹ رہا تھا.حضور نے فرمایا وو..یہ فائل پڑا ہے نکال دیں.“ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ بات ختم کی.اب انہوں نے حوالہ جات کے علم سے باہر نکل کر علم تاریخ کا رخ کیا.اور اپنی دلیل کے طور پر ایک انگریزی جریدہ کا طویل حوالہ پڑھنا شروع کیا.جریدہ کا نام Impact تھا اور یہ ۲۷ جون ۱۹۷۴ء کا حوالہ تھا.ابھی یہ بھی واضح نہیں ہوا تھا کہ وہ کیا فرمانا چاہ رہے ہیں کہ حضور نے اس جریدہ کی اس تحریر کے متعلق ان سے استفسار فرمایا Who is
396 ?the writer یعنی اس تحریر کو لکھنے والا کون ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کمال قول سدید سے فرمایا.really do not know یعنی حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے.حضور نے اگلا سوال یہ فرمایا? What is the standing of this publication یعنی اس اشاعت یا جریدہ کی حیثیت کیا ہے؟ یعنی کیا یہ کوئی معیاری جریدہ ہے یا کوئی غیر معیاری جریدہ ہے.اس کی حیثیت ایسی ہے بھی کہ نہیں کہ اس کے لکھے کو ایک دلیل کے طور پر پیش کیا جائے.چونکہ یہ ایک غیر معروف نام تھا اس لیے اس سوال کی ضرورت پیش آئی.اس سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب ایک بار پھر نہایت بے نفسی سے فرما یا May be nothing at all Sir یعنی جناب شاید اس کی وقعت کچھ بھی نہیں ہے.خیر اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے دریافت فرمایا: Have we any thing to do with this یعنی کیا ہمارا اس تحریر سے کوئی تعلق ہے؟ اس کا جواب یہ موصول ہوا Nothing I do not say you have any thing to......d0 یعنی کوئی نہیں ، میں یہ نہیں کہ رہا کہ آپ کا اس سے کوئی تعلق ہے.اب یہ ایک عجیب مضحکہ خیز منظر تھا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان پوری قو می اسمبلی پر مشتمل پیشل کمیٹی میں ایک جریدہ کی ایک تحریر بطور دلیل کے پیش کر رہا ہے اور اسے یہ بھی علم نہیں کہ یہ تحر یکھی کس کی ہوئی ہے، اسے یہ بھی خبر نہیں کہ اس جریدہ کی کوئی حیثیت بھی ہے کہ نہیں.بہر حال انہوں نے حوالہ پڑھنے کا شوق جاری رکھا اور ایک طویل اقتباس پڑھا.اس کی تحریر اور ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر بہکتے چلے جانا ہی بتا رہا تھا کہ یہ ایک غیر معیاری تحریر ہے.لیکن اس کا لب لباب یہ تھا کہ احمدیوں نے خود اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ کیا ہے اور بعض وہ اعتراضات دہرائے جن کا جواب پہلے ہی گزر چکا ہے.لیکن جس حصہ کو اٹارنی جنرل صاحب نے بہت زور دے کر پڑھا اس میں دواعتراضات تھے جن کا مختصراً ذکر کرنا مناسب ہوگا.ایک اعتراض تو اس تحریر میں یہ کیا گیا تھا کہ جب پنجاب کے باؤنڈری کمیشن میں پاکستان کا مقدمہ پیش ہو رہا تھا تو At the time of independance and demarcation of boundries the Qadianis submitted a representation as a
397 group seperate from Muslims.This had the effect of decreasing the proportion of the Muslims population in some marginal areas in the Punjab and on consequent award Gurdaspur was given to India to enable her to have link with Kashmir.یعنی آزادی کے وقت جب سرحدوں کے خطوط کھینچے جارہے تھے ، اس وقت قادیانیوں نے مسلمانوں سے ایک علیحدہ گروہ کے طور پر اپنا موقف پیش کیا.اور اس کے نتیجہ میں پنجاب کے بعض سرحدی علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد کم ہوگئی اور بعد میں گورداسپور کو بھارت کو دے دیا گیا اور اس طرح وہ اس قابل ہو گیا کہ وہ کشمیر سے رابطہ پیدا کر سکے.ہم پہلے اُس دور کا جائزہ لے چکے ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ یہ الزام بالکل غلط تھا.احمدیوں نے مسلم لیگ کی اعانت کے لیے اپنا میمورنڈم پیش کیا تھا.مسلم لیگ نے خود اپنے وقت میں سے جماعت کو اپنا موقف پیش کرنے کا کہا تھا.اور احمدیوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کا حصہ قرار دے کر کے استدعا کی تھی کہ گورداسپور کا ضلع پاکستان کے ساتھ شامل کیا جائے.سکھوں نے اپنا موقف پیش کیا تھا کہ ہمارے مقدس مقامات جن اضلاع میں ہیں ان کو بھارت میں شامل کیا جائے کیونکہ ہم بھارت میں شامل ہونا چاہتے ہیں.اس کے جواب میں جماعت احمدیہ نے یہ میمورنڈم پیش کیا تھا کہ قادیان میں ہمارے مقدس مقامات ہیں اور ہم مسلمان ہیں اور پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں.اور قائد اعظم نے مسلم لیگ کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا انتخاب کیا تھا.اور جتنی جدوجہد کی تھی حضرت چوہدری صاحب اور جماعت احمدیہ نے کی تھی ورنہ پنجاب کی مسلم لیگ تو فقط ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہی تھی.یہ سب تفصیلات تو پہلے ہی گزر چکی ہیں.لیکن یہاں ذکر ضروری ہے کہ خود حکومت پاکستان نے یہ سب کارروائی مع جماعت کے میمورنڈم کے ۱۹۸۳ء میں حرف بحرف شائع کی.اور یہ دور جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف جنرل ضیاء صاحب کے دور صدارت کا تھا.اس کتاب کا نام The partition of the Punjab ہے اور اس کی پہلی جلد میں جماعت کا میمورنڈم حرف بحرف نقل کیا گیا ہے.اس کے چند حوالے پیش خدمت
398 ہیں.قادیان کے بارے میں اس کا پہلا نقطہ ہی یہ تھا It is the living centre of the world wide Ahmadiyya movement in Islam.پھر لکھا ہے The Headquarters of the Ahmadiyya Community, an important religious section of Muslims having branches all over the world, is situated in the district of Gurdaspur.احمد یہ جماعت کا مرکز ، جو کہ مسلمانوں کا ایک اہم حصہ ہیں، اور ان کی شاخیں پوری دنیا میں ہیں ضلع گورداسپور میں ہے.اس میمورنڈم کے آغاز میں ہی یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ نے قطعاًاپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ گروہ کے طور پر پیش نہیں کیا تھا بلکہ اپنے آپ کو مسلمانوں کے حصہ کے طور پر پیش کیا تھا اور اس وقت مسلم لیگ نے قطعاً اس کی تردید نہیں کی تھی.اس وقت کانگرس کی طرف سے یہ موقف پیش کیا جا رہا تھا کہ گو بعض اضلاع میں مسلمان اکثریت میں ہیں مگر یہاں پر ہندوؤں اور سکھوں کے پاس جائیداد زیادہ ہے اس لیے ان اضلاع کو ہندوستان میں شامل کرنا چاہئے.اس کے متعلق جماعت احمدیہ نے اپنے میمورنڈم میں یہ موقف بیان کیا If the idea of Pakistan was to give Muslims a chance to make up their losses in political and economic life and if this idea of division (which has been accepted by the British Government and the congress) is legitimate, then any attempt to partition the Muslims areas on the basis of property or superior economic status is to nullify the very idea of Pakistan, and will have to be rejected as fundamentally wrong.
399 اب کتنا صاف ظاہر ہے کہ جماعت احمد یہ تو ہر طرح مسلم لیگ کے موقف کی تائید کر رہی ہے.اور جب اس کمیشن کے ایک حج جسٹس تیج سنگھ صاحب نے سوال پوچھا What is the position of the Ahmadiyya community as regards Islam احمد یہ جماعت کا اسلام سے کیا تعلق ہے یا ان کی مسلمان ہونے کے بارے میں کیا پوزیشن ہے؟ تو اس پر جماعت احمدیہ کے نمائندہ مکرم شیخ بشیر احمد صاحب نے اس کا جو جواب دیا اس کا پہلا جملہ یہ تھا They claim to be Mussalmans first and Mussalmans last.They are part of Islam.ہیں.یعنی وہ شروع سے لے کر آخر تک مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ اسلام کا حصہ ان چند مثالوں سے یہ صاف نظر آتا ہے کہ یہ الزام بالکل غلط ہے کہ باؤنڈری کمیشن میں احمدیوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ گروہ کے طور پر پیش کیا تھا.اور دلچسپ بات یہ ہے کہ باؤنڈری کمیشن کی کارروائی کا مکمل ریکارڈ تو حکومت پاکستان کی اپنی تحویل میں تھا اور بعد میں جب حکومت پاکستان نے یہ کارروائی شائع کی تو یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہو گئی کہ ۱۹۷۴ء کی کارروائی میں اٹارنی جنرل صاحب نے ایک انگریزی جریدہ کے حوالہ سے جو الزام لگایا تھا وہ بالکل غلط تھا.اور انہیں اس بات کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی کہ وہ اس مسئلہ پر ایک غیر معروف انگریزی جریدہ کا حوالہ پیش کریں، اصل کارروائی تو ان کی حکومت کی اپنی تحویل میں تھی جس کا سرسری مطالعہ ہی اس بات کو ظاہر کر دیتا کہ یہ الزام غلط ہے.یا تو اٹارنی جنرل صاحب اور ان کی ٹیم قومی اسمبلی اور قوم کو غلط حقائق پیش کر کے عمداً دھوکہ دے رہے تھے یا پھر انہیں حقائق کی کچھ خبر نہ تھی اور شاید اس سے کوئی دلچسپی بھی نہیں تھی.ایک اور دلچسپ بات تو یہاں درج کرنی مناسب ہوگی وہ یہ ہے کہ جب ہم نے صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے انٹرویو کیا تو انہوں نے کہا کہ باؤنڈری کمیشن میں چوہدری ظفر اللہ خان
400 صاحب سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں.تو چوہدری صاحب نے کہا کہ باقی مسلمان ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے قادیانی کہتے ہیں اور گورداسپور اسی لئے گیا تھا.یہاں ہم بڑے ادب سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب یہ تمام کارروائی شائع ہو چکی ہے اور ایک ایک لفظ شائع ہوا ہے.اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں تھا اور یہ سوال حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے ہونا ہی کیوں تھا.وہ تو مسلم لیگ کا کیس پیش کر رہے تھے.جماعت احمدیہ کی طرف سے مسلم لیگ کے ایماء پر تو شیخ بشیر احمد صاحب پیش ہوئے تھے اور ان سے اس قسم کا سوال جسٹس تیجا سنگھ صاحب نے کیا تھا اور اس کا جو جواب انہوں نے دیا تھا وہ ہم نقل کر چکے ہیں.اس مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کا رروائی کے دوران ارباب حل و عقدان موضوعات کے متعلق بنیادی حقائق سے بھی بے خبر تھے، جن کے متعلق سوالات کئے جا رہے تھے.اور یہ صورت حال اس لئے بھی زیادہ افسوسناک ہو جاتی ہے کہ یہ ریکار ڈ حکومت کی تحویل میں تھا اور کسی نے حقائق جاننے کی کوشش بھی نہیں کی.اس لئے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ صرف غیر سنجیدہ انداز میں سوالات کئے جارہے تھے.اب ہم اُس دوسرے الزام کا جائزہ لیتے ہیں جو Impact کے اس شمارے میں جماعت پر لگایا گیا تھا.اور وہ یہ تھا: Many allege a Qadiani role in the breakup of Pakistan.Suggestion to this effect were made even in Bangladesh of column correspondence the observer.Given this background the recent eruption of widespread disturbance should come as no surprise but it is deplorable too.یعنی اٹارنی جنرل صاحب جس جریدہ کی بیساکھیوں کا سہارا لے کر جماعت احمدیہ کے خلاف یہ الزامات پڑھ رہے تھے، اس کے مطابق بہت سے لوگوں کے مطابق چند سال پہلے پاکستان ٹوٹا تھا اور مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تھا تو اس کی ذمہ دار بھی
401 احمدی تھے.اور اس پس منظر میں اگر احمدیوں کے خلاف موجودہ فسادات شروع ہو گئے ہیں تو یہ بات قابلِ حیرت نہیں ، اگر چہ قابل مذمت ضرور ہے.ہم یقیناً اس بات سے متفق ہیں کہ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ اور پاکستان کا دولخت ہو جانا ایک بہت بڑا سانحہ تھا.اور جو گروہ بھی اس کا ذمہ دار تھا اس کو سزا ملنی چاہئے تھی.لیکن ہم ایک بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب سانحہ ہو چکا تھا تو اس کے معا بعد ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی تھی.اور اٹارنی جنرل صاحب اسی پارٹی کی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے اور اسمبلی کی اکثریت کا تعلق بھی اس پارٹی سے تھا.جیسا کہ توقع تھی حکومت نے ۱۲۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو جب کہ ابھی مشرقی پاکستان میں شکست کو ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا ایک کمیشن قائم کیا تا کہ وہ اس سانحہ کے ذمہ دار افراد کا تعین کرے.اس کمیشن کی سربراہی پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس حمود الرحمن صاحب کر رہے تھے.حمود الرحمن صاحب کا تعلق بنگال سے تھا.پنجاب اور سندھ کے چیف جسٹس صاحبان اس کمیشن کے ممبر تھے اور عسکری پہلوؤں کے بارے میں مدد دینے کے لیے مکرم لیفٹینٹ جنرل الطاف قادر صاحب مقرر کئے گئے.اس کمیشن نے تمام واقعات کی تحقیق کر کے ۸ / جولائی ۱۹۷۲ء کو اپنی رپورٹ حکومت کے حوالے کر دی تھی.یعنی اسمبلی کی اس کمیٹی کے کام شروع کرنے سے دو سال قبل حکومت کے پاس یہ رپورٹ پہنچ چکی تھی کہ سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار کون تھا.اور اٹارنی جنرل صاحب جس حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے وہ بخوبی جانتی تھی کہ مجرم کون کون تھا.مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر حکومت نے یہ رپورٹ شائع نہیں کی اور ۱۹۷۴ء میں یہ رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی تھی.اور چند دہائیوں بعد یہ رپورٹ جو کہ خفیہ رکھی گئی تھی پاکستان کی حکومت کی مستعدی کے باعث بھارت پہنچ گئی اور وہاں شائع ہوگئی اور اس کے بعد پھر حکومت پاکستان بھی اس رپورٹ کو منظر عام پر لے آئی.اب ہم رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اس میں یہ لکھا ہے کہ احمدی اس ملک کو دولخت کرنے کے ذمہ دار تھے؟ ہر گز نہیں.اس رپورٹ میں کہیں جماعت احمدیہ پر یہ مضحکہ خیز الزام نہیں لگایا گیا.اس رپورٹ میں اس سانحہ کا سب سے زیادہ ذمہ دار اس وقت کی حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کے سربراہ جنرل یحیی خان صاحب اور ان کے ساتھی جرنیلوں کو قرار دیا تھا.اور یہ سفارش کی تھی ان پر
402 مقدمہ چلایا جائے.اور اس رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ پاکستان کی افواج کی ہائی کمان نہ حالات کا صحیح تجزیہ کر پارہی تھی اور نہ انہیں صحیح طرح ملک کو درپیش خطرات کا کوئی اندازہ تھا اور نہ افواج جنگ کرنے کے لیے کسی طور پر تیار تھیں.مالی بدعنوانی کے الزامات اور غیر آئینی طریقوں سے اقتدار حاصل کرنے کے شواہد سامنے آئے تھے.دورانِ جنگ مجرمانہ غفلت کی نشاندہی کی گئی.آپریشن کے دوران مشرقی پاکستان میں قتل و غارت اور دیگر مظالم کی نشاندہی کی گئی.اور حکومت سے کمیشن نے یہ بھی کہا کہ ان امور پر تفصیلی تحقیقات بلکہ کھلا مقدمہ چلایا جائے اور قصور وار افراد کو سزا دی جائے.اور اس کمیشن نے اس رپورٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین پر بھی تنقید کی تھی کہ انہوں نے کیوں اسمبلی کے اجلاس سے بائیکاٹ کیا اور کہا کہ وہ مغربی پاکستان سے کسی کو ڈھا کہ میں اسمبلی کے اجلاس میں شامل نہیں ہونے دیں گے.اور اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین نے اُدھر تم ادھر ہم کا نعرہ کیوں لگایا تھا.ان عوامل کی وجہ سے آئینی طریقوں کے راستے بند ہو گئے اور حالات بگڑتے گئے.یہ رپورٹ حکومت کے حوالے کی گئی لیکن حکومت نے اس رپورٹ کو خفیہ رکھا اور عوام کوان حقائق سے لاعلم رکھا.اور اس رپورٹ کی سفارشات کے مطابق ذمہ دار افراد کے خلاف مقدمات بھی نہیں چلائے گئے اور نہ ہی انہیں کوئی سزا دی گئی.بلکہ اس رپورٹ میں جن افراد کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا کہ انہوں نے اقتدار حاصل کرنے اور اسے دوام بخشنے کے لیے غیر قانونی ذرائع اختیار کیے اور رشوت ستانی سے بھی کام لیا ، ان میں سے ایک کو پیپلز پارٹی کی حکومت نے فوج کا نیا سر براہ مقرر کر دیا.جیسا کہ کمیشن نے پہلے سفارش کی تھی جب وہ جرنیل جو جنگی قیدی بنے ہوئے تھے ملک واپس آگئے تو حکومت نے اس کمیشن کو دوبارہ کام شروع کرنے کا کہا تا کہ ان سے تحقیقات کر کے رپورٹ کے نامکمل حصہ کو مکمل کیا جائے.چنانچہ جب باقی جرنیل قید سے ملک واپس آگئے تو اس کمیشن کا دوبارہ احیاء کیا گیا کہ تا کہ تحقیقات مکمل کر لی جائیں.یہ حکم ۲۵ مئی ۱۹۷۴ء کو جاری ہوتا ہے اور چند روز بعد ہی جماعت کے خلاف فسادات شروع ہو جاتے ہیں یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ شروع کرا دیے جاتے ہیں.اور اسمبلی کی اس پیشل کمیٹی کی کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل صاحب اس جریدہ کے حوالے سے یہ الزام سامنے لا رہے ہیں کہ ملک کو دولخت کرنے کی ذمہ داری احمدیوں پر عاید ہوتی ہے
403 اور یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف یہ فسادات شروع ہوئے ہیں.جب کہ ارباب حکومت جانتے تھے کہ یہ الزام جھوٹا ہے.وہ صرف لا یعنی الزامات عائد کر کے دھوکا دینے کی کوشش کر رہے تھے.اور حقائق پاکستان کے عوام سے پوشیدہ رکھے جارہے تھے.ہاں جہاں تک جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے جنرل یعنی جنرل افتخار جنجوعہ صاحب کا تعلق تھا تو یہ پاکستان کی تاریخ کے واحد جنرل تھے جنہوں نے دوران جنگ جامِ شہادت نوش کیا اور کسی جرنیل کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی اور اس رپورٹ سے یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس جنگ کے دوران ان میں سے اکثر اس سعادت کے لیے مشتاق بھی نہیں تھے.اور حمود الرحمن رپورٹ میں جہاں باقی اکثر جرنیلوں پر شدید تنقید کی گئی ہے اور انہیں مجرم قرار دیا گیا ہے وہاں جنرل افتخار جنجوعہ شہید کے متعلق اس رپورٹ میں A capable and bold commander کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں.اور کسی جرنیل کے متعلق یہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے.ہاں ان کی کارکردگی کا بھی ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں بھی بعض امور کی نشاندہی کی گئی ہے.لیکن فرق دیکھیں کہ باقی جرنیلوں پر یہ تنقید کی گئی کہ وہ لڑنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے انہوں نے موجود وسائل کا بھی صحیح استعمال نہیں کیا، وہ قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کر سکے.وہ مرکزی کمان کو بھی غیر ضروری طور پر سیاہ تصویر دکھاتے رہے، اپنے فرائض چھوڑ کر چلے گئے وہاں جنرل جنجوعہ شہید پر یہ تبصرہ کیا گیا کہ انہیں جس علاقہ پر قبضہ کرنے کا کہا گیا تھا وہ اس سے زیادہ علاقہ پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں تھے اور جی ایچ کیو کو چاہئے تھا کہ انہیں اس سے روکتا اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بجائے علاقہ دشمن کے حوالہ کرنے کے دشمن کے علاقہ پر قبضہ کیا تھا.فرق صاف ظاہر ہے.(۵۹) اس حب الوطنی کا صلہ احمدیوں کو یہ دیا گیا کہ قومی اسمبلی میں یہ الزام لگایا گیا کہ ملک کو دولخت کرنے کے ذمہ دار احمدی تھے.جب کہ اس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بھی جسے خود حکومت نے قائم کیا تھا اس الزام کو صرف ایک تیسرے درجہ کا جھوٹ ہی قرار دیا جا سکتا ہے.اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے دو ایسے اعتراضات کیے جو ایک طویل عرصہ سے مخالف مولویوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں.اور وہ یہ کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود نے اپنی بعض تحریروں میں حضرت عیسی اور حضرت حسین کی توہین کی ہے.اور اس نام نہاد الزام کو ثابت کرنے کے لیے وہ
404 توڑ مروڑ کر یا سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے بعض تحریروں کے حوالے پیش کرتے ہیں.ہم یہاں پر ان دو مقدس ہستیوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند تحریروں کے اقتباسات پیش کرتے ہیں، جس سے اس الزام کی قلعی کھل جاتی ہے.اور زیادہ بحث کی گنجائش ہی نہیں رہتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک اشتہار میں تحریر فرمایا:.اس بات کو ناظرین یا د رکھیں کہ عیسائی مذہب کے ذکر میں ہمیں اسی طرز سے کلام کرنا ضروری تھا جیسا کہ وہ ہمارے مقابل پر کرتے ہیں.عیسائی لوگ در حقیقت ہمارے اس عیسی علیہ السلام کو نہیں مانتے جو اپنے تئیں صرف بندہ اور نبی کہتے تھے اور پہلے نبیوں کو راستباز جانتے تھے اور آنے والے نبی حضرت محمدمصطفے ﷺ پر سچے دل سے ایمان رکھتے تھے اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں پیشگوئی کی تھی بلکہ ایک شخص یسوع نام کو مانتے ہیں جس کا قرآن میں ذکر نہیں اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے خدائی کا دعوی کیا اور پہلے نبیوں کو بٹمار وغیرہ ناموں سے یاد کرتا تھا.یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص ہمارے نبی ﷺ کا سخت مکذب تھا اور اس نے یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد سب جھوٹے ہی آئیں گے.سو آپ لوگ خوب جانتے ہیں، کہ قرآن شریف نے ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے ہمیں تعلیم نہیں دی...‘ (۶۰) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف تحفہ قیصریہ میں تحریر فرماتے ہیں:.” اس نے مجھے اس بات پر بھی اطلاع دی ہے کہ در حقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے.اور ان میں سے ہے جو خدا برگزیدہ لوگ ہیں.اور ان میں سے ہے جنکو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا.اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے.لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے.ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کا ملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں.“ (۶۱) اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا بلکہ مسیح تو مسیح میں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں.کیونکہ پانچوں ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں.نہ صرف اسی قدر بلکہ میں تو حضرت مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں کو بھی
405 مقدسہ سمجھتا ہوں.کیونکہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں.(۶۲) ان حوالوں سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح نظر آتی ہے کہ یہ الزام بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسی کی توہین کی ہے یا آپ کے احترام کا خیال نہیں رکھا.اور حضرت حسین کے بلند مقام کے متعلق حضرت مسیح موعود کا فتویٰ ہے:....ہم اعتقاد رکھتے ہیں.کہ یزید ایک نا پاک طبع دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا.اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے.وہ معنے اس میں موجود نہ تھے.....دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا.مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا.اور بلا شبہ ان برگزیدوں سے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے.اور اپنی محبت سے مامور کر دیتا ہے.اور بلا شبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے.اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کا تقویٰ اور محبت اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے..اور ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتدا کرنے والے ہیں.جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے.اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے.اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے.جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوب صورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے ان کی قدر مگر وہی جو انہی میں سے ہے.کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.یہی وجہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی تھی.کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.(۶۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر تو ہم نے دیکھ لی کہ یزید کو ہم مومن نہیں کہہ سکتے.اور اس کے برعکس جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے والے علماء کے خیالات کی ایک مثال پیش ہے.دیوبند کے مشہور مولوی رشید احمد گنگوہی صاحب سے جب پوچھا گیا کہ یزید کوکافر کہنا اور لعن کرنا جائز ہے یا نہیں تو انہوں نے فتوی دیا کہ جب تک کسی کا کفر پر مرنا تحقیق نہ ہو جائے اس پر لعنت کرنا نہیں چاہئے ، جو علماء اس میں تر دور کھتے ہیں کہ اول میں وہ مومن تھا اس کے بعد اُن افعال کا وہ مستحل تھا یا نہ تھا اور ثابت ہوا یا نہ ہوا تحقیق نہیں ہوا (۶۴).البتہ بعض شیعہ کتب جو حضرت حسینؓ کی شان بیان کرتے
406 ہوئے بعض نامناسب باتیں تحریر ہیں جماعت احمد یہ ان سے اتفاق نہیں کرتی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا رد بھی فرمایا ہے.مثلاً بعض شیعہ کتب میں تو یہ بھی لکھا ہے حضرت حسینؓ کی ت سے کئی ہزار برس قبل حضرت آدم نے جب عرفات میں دعا کی تو پنجتن کا واسطہ دیا اور جب یہ واسطہ دیتے ہوئے حضرت حسین کا نام لیا تو آپ کے آنسونکل آئے.شب معراج کے دوران خود آنحضرت ﷺ نے حضرت حسین کا گریہ فرمایا ، جب حضرت نوح کا سفینہ کربلا کے اوپر سے گزر رہا تھا تو اسے جھٹکا لگا اور حضرت نوح روئے، بساط سلیمانی جب کر بلا کے اوپر سے گزری تو اسے چکر آگیا.قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَكَذَلِكَ نُرِى إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوْقِنِينَ (الانعام: ۷۶) یعنی ” اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ( کی حقیقت ) دکھاتے رہے تا کہ (وہ) مزید یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے.اس کی تفسیر میں شیعہ کتب میں لکھا ہے کہ جب اس دوران حضرت ابراہیم نے حضرت حسین کی شبیہ دیکھی تو گریہ شروع کر دیا.اور جب عیسی نے حواریوں کے درمیان کربلا کا ذکر کیا اور سب رونے لگے اور حضرت موسیٰ جب کوہ طور پر گئے تو حضرت حسین کی وجہ سے بار بار روئے (۶۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریروں میں اور اشعار میں اس قسم کے عقائد کا کما حقہ ردفرمایا ہے.جب اٹارنی جنرل صاحب کے اعتراض کے جواب میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے حضرت امام حسین کی شان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ تحریر پڑھنی شروع کی جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے تو یہ صورت حال ان ممبران کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئی جو ان خیالات میں غرق تھے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اس کو بغیر کسی بحث کے قبول کر لیا جائے گا.سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی عبد العزیز کھڑے ہوئے.وہ اس وقت تو خاموش بیٹھے رہے جب کچھ نا مکمل حوالوں کو پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی حضرت امام حسین کی تو ہین کی گئی لیکن جب حضرت امام حسین کی شان میں حوالے پڑھے گئے تو انہوں نے فوراً یہ ہیمل اعتراض کیا کہ اگر مرزا صاحب جو حوالہ پڑھ رہے ہیں اگر وہ کہیں شائع ہوا ہے تو وہ پڑھ سکتے ہیں.لیکن اگر خالی یہاں بیٹھ کر اس سوال کے جواب میں وہ کچھ پڑھنا چاہتے ہیں تو شاید قواعد کی رو سے اس کی اجازت نہیں ہے.شاید سپیکر صاحب بھی اس اعتراض کا سر پیر سمجھ نہیں پائے اور انہوں نے ممبر صاحب کو کہا کہ وہ بعد میں اٹارنی جنرل
407 صاحب سے اس بابت بات کر سکتے ہیں.اٹارنی جنرل صاحب بھی اس جواب سے کچھ خوش معلوم نہیں ہوتے تھے انہوں نے کہا کہ ” قاعدہ یہ ہے کہ ایک گواہ زبانی گواہی دیتا ہے وہ کسی سوال کے جواب میں پہلے سے تیار شدہ تحریر نہیں پڑھ سکتا.“ اب یہ ایک عجیب اعتراض تھا کہ وہ نامکمل حوالے پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں نعوذ باللہ حضرت حسین کی توہین کی ہے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حضرت امام حسین کی شان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ پڑھنا شروع کیا تو یہ عجیب نکتہ اٹھایا گیا کہ گواہ تحریر نہیں پڑھ سکتا.اب اس موضوع پر جب بحث ہو رہی ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس ضمن میں حوالہ نہیں پڑھا جاسکتا تو اور کیا کیا جاسکتا ہے.اس پر حضرت خلیفۃ اصبح الثالث نے فرمایا I can quote the quotation یعنی کہ میں ایک تحریر کا حوالہ پڑھ سکتا ہوں.بہر کیف اس مرحلہ پر سپیکر صاحب نے مداخلت کی اور کہا کہ آپ کسی تحریر سے اپنی یاداشت کو تازہ کر سکتے ہیں.پھر جا کر یہ حوالہ مکمل پڑھا گیا.اب یہ ایک عجیب اعتراض تھا جو ایک ایسے ممبر کی طرف سے کیا گیا تھا جو خود وکیل تھا.یہ ٹھیک ہے کہ عدالت میں ایک گواہ ایک تیار شدہ Statement نہیں پڑھ سکتا لیکن یہ ایک حوالہ تھا.جب جماعت کی طرف ایک غلط بات منسوب کی جارہی تھی اور اس الزام کی تائید میں نامکمل یا غلط حوالے پڑھے جا رہے تھے تو جماعت احمدیہ کا وفدا اپنے صحیح عقائد کو ظاہر کرنے کے لیے متعلقہ حوالہ کیوں نہیں پڑھ سکتا ؟ اس روز کی کارروائی کی دو اہم باتیں قابل ذکر ہیں.شام کو ایک بار پھر سوالات اٹھانے والی ٹیم کو ان حوالہ جات کو پیش کرنے میں دشواری پیش آنے لگی جن کو وہ خود بطور دلیل پیش کر رہے تھے.وہ جو حوالہ جات تیار کر کے آئے تھے وہ وقت پر مل نہیں رہے تھے.سپیکر صاحب نے ایک مرتبہ پھر ہدایت دی کہ جو حوالہ اٹارنی جنرل صاحب پڑھ رہے ہوں اس کے متعلقہ صفحہ پر متعلقہ عبارت کو Underline کر کے ان کے آگے رکھا جائے.اغلباً خفت کو کم کرنے کے لیے شاہ احمد نورانی صاحب نے یہ مہمل سی وضاحت پیش کی :.” میرے خیال میں تھوڑی سی Misunderstanding ہوئی ہے.آپ اس پر غور
408 فرمالیں کہ انہوں نے جو یہاں کتابیں رکھی ہوئی ہیں یہ وہ ہیں جور بوہ کی چھپی ہوئی ہیں اور ان پر نشان لگا ہوا ہے.جن کتابوں میں سے حوالے دیئے گئے ہیں وہ ان کی اپنی ذاتی ہیں.“ اب یہ عجیب وضاحت تھی.سوال کرنے والے جن کتابوں سے حوالے پیش کر رہے تھے وہ انہوں نے خود تو شائع نہیں کی تھیں.وہ بھی تو جماعت کی شائع کی ہوئی تھیں.اور وہ ان کو بھی کارروائی کے دوران پیش کر سکتے تھے.اب سپیکر صاحب نے جواب دیا The books are available for last two days وو یعنی دو دن سے یہ کتابیں یہاں پر دستیاب ہیں.اور ظاہر ہے کہ جب دو دن سے یہ کتب وہاں پر موجود تھیں.جس کتاب کی جس جگہ سے حوالہ پیش کرنا مقصود تھا اس پر نشان لگا کر پیش کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا.اس پر نورانی صاحب فرمانے لگے ” چھاپے خانے کا فرق ہوتا ہے.اب ظاہر ہے کہ اگر ایک ایڈیشن کا حوالہ دیا جائے گا اور دوسرے ایڈیشن کی کتاب ڈھونڈ کر اس صفحہ پر حوالہ ڈھونڈا جائے گا تو اس خفت کو تو بھگتنا پڑے گا.اس لئے حوالہ دیتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ حوالہ کس ایڈیشن سے نوٹ کیا گیا ہے اور سامنے کون سا ایڈیشن پڑھا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا حوالہ دیتے ہوئے تو یہ مشکل ہوتی ہی نہیں چاہئے تھی کیونکہ جب روحانی خزائن کے نام سے کتب کا مجموعہ شائع ہوا تو اس میں پہلے ایڈیشن کے صفحات بھی ایک طرف لکھے ہوئے ہوتے تھے.لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ مختلف ایڈیشن کا معاملہ نہیں تھا حوالے ویسے ہی غلط پیش کئے جارہے تھے.اور یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ اتنے غلط حوالے پیش کرنے کی نوبت کیسے آئی.سپیکر صاحب کی جھنجلا ہٹ جاری تھی وہ کہنے لگے You should check it up یعنی آپ کو چاہئے کہ اسے چیک کریں.اس مرحلہ پر سپیکر نے اعلان کیا کہ اب تک کے لیے اتنا ہی کافی ہے.ہم چھ بجے دوبارہ کارروائی شروع کریں گے.جب حضور انور اراکین وفد کے ہمراہ ہال سے تشریف لے گئے تو سپیکر نے اراکین اسمبلی کو رکنے کا کہا.اور ایک بار پھر حوالہ جات کو نہ ملنے کے مسئلہ پر بات شروع کی.ابھی
409 انہوں نے جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے کہا.66 ایڈیشن جو پڑھے ہیں اس میں اور حوالہ جات ہیں اور وہاں کچھ اور ہیں ان میں نہیں ہیں.“ جیسا کہ پہلے وضاحت کی جاچکی ہے یہ بالکل بودا عذر تھا.اب سپیکر صاحب کا پیمانہ صبر لبریز ہورہا تھا.انہوں نے کہا: "It takes about ten fifteen minutes to dig out a reference.وو اور پھر کہا: یعنی ایک حوالہ تلاش کرنے میں تقریباً دس پندرہ منٹ لگ جاتے ہیں "Now after the adjournment those members who have given references in thier questions should arrange the referenced books properly.The change of edition is no excuse وو یعنی اب وقفہ کے بعد وہ ممبران جنہوں نے اپنے سوالات میں حوالے دیئے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ جس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے اس کا انتظام کر کے رکھیں.ایڈیشن کی تبدیلی کوئی عذر نہیں ہے.اور پھر کہا اگر آپ نے اپنا کام دکھانا ہے تو وہ حوالہ جات تلاش کر کے دیں.یہ نہیں کہ تلاش کرنے میں آدھا گھنٹہ لگ جائے.Or you say یہ Reference نہیں Reference نہیں ہے.یہ غلط دیا ہے.کتاب نہیں ہے.یہ Exist نہیں کرتا.“ اب سپیکر صاحب کا غصہ صاف نظر آرہا تھا کہ اس اہم کارروائی میں ابھی تک سوال کرنے والے صحیح طریق پر حوالے تک پیش نہیں کر پار ہے.اور اسی کشمکش میں وقت ضائع ہو رہا تھا.اور جب ایک ممبر نے کہا کہ جو اس کام سے واقف ہیں یہ ان کا فرض ہے.اس پر سپیکر صاحب نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ نہیں یہ سب کا فرض ہے.
410 یہ کارروائی ان ممبران کی امیدوں کے بالکل بر عکس جا رہی ہے.اس کا اندازہ اس سیشن کے آخری تبصرہ سے لگایا جاسکتا ہے.یہ تبصرہ ممبر اسمبلی عبد الحمید جتوئی صاحب کا تھا انہوں نے کہا: ” دوسرے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ اٹارنی جنرل صاحب جب ان سے سوالات پوچھتے ہیں.تو یہ پہلے سے ان کے پاس لکھا ہوا موجود ہوتا ہے.میرا اندازہ ہے یہ سوالات Leak out ہوئے ہیں.یہ کیسے ہوئے ہیں یہ آپ خود اندازہ لگائیں....اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہاؤس کے ممبران میں سے یا کہیں سے ایسا ہوتا ہے.کون کرتا ہے وہ آپ بہتر جانتے ہیں.حقیقت یہ تھی کہ جو اعتراضات ممبران کمیٹی کی طرف سے بالخصوص جماعت کے مخالفین کی طرف سے پیش کیے جارہے تھے ، وہ وہی تھے جو تقریباً ایک صدی سے جماعت احمدیہ پر کیے جا رہے تھے.اور اس وقت سے ہی ان کا تسلی بخش جواب دیا جارہا تھا.اور ان کا جواب ممبرانِ وفد نے پہلے سے ہی تیار کیا ہوا تھا.نئی بات یہ تھی کہ جتنے غلط حوالے اب پیش کیے جارہے تھے ، شاید ہی پہلے مسلسل اتنے غلط حوالے پیش کیے گئے ہوں.پھر جب اس روز کی کارروائی ختم ہو رہی تھی تو ایک رکن حکیم سردار محمد صاحب نے اس امر کی نشاندہی کی کہ اس سب کمیٹی کے سامنے اصل سوال تو یہ تھا کہ جو نبی اکرم ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتا اس کی اسلام میں حیثیت کیا ہے؟ اور اس نکتے کو ابھی تک چھوا بھی نہیں گیا.اب یہ بڑی اہم چیز کی نشاندہی کی جارہی تھی.یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ دوروز کی طویل بحث کے بعد ابھی تک اصل موضوع پر بات شروع بھی نہیں ہوئی تھی.اور اس کے جواب میں سپیکر صاحب نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ ایسا نہیں اور نہ کسی اور ممبر نے یہ کہا کہ نہیں ہم تو مقرر کردہ موضوع کے متعلق بحث کرتے رہے ہیں.سپیکر صاحب نے مختصراً یہ کہا کہ It will be taken up.It will be taken up at the proper time یعنی یہ اس بات کا عتراف تھا کہ طویل کارروائی ہو چکی ہے لیکن ابھی تک اصل موضوع پر بات شروع بھی نہیں ہوئی تھی اور سپیکر صاحب فرما رہے تھے کہ جب صحیح وقت آئے گا تو اس موضوع پر بات شروع ہوگی.اس سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ قومی اسمبلی پر مشتمل پیشل کمیٹی اصل موضوع پر بحث کے
411 معاملے میں خود کو پر اعتماد نہیں محسوس کر رہے تھے.اب اسمبلی میں ان ممبران کی پریشانی بڑھ چکی تھی جو جماعت سے بغض رکھتے تھے.کارروائی ان کی امیدوں کے برعکس جارہی تھی.ان کی نفسیاتی الجھن یتھی کہ وہ اعتراض تو کر بیٹھتے تھے لیکن جب جواب شروع ہوتا تو انہیں اپنی خفت سامنے نظر آرہی ہوتی تھی.چنانچہ کا روائی کے اختتام کے قریب جب حضور اور جماعت کا وفد باہر جا چکا تھا مولوی ظفر احمد انصاری صاحب نے سپیکر سے درخواست کی ” جناب والا میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے جو تحریری بیان دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے اسکی حوصلہ افزائی نہ کی جائے.یہ محضر نامے میں کافی طویل جواب دے چکے ہیں.اس لئے جہاں تک ہو سکے ہم ان کو Discourage کریں تا کہ یہ لامتناہی سلسلہ ختم ہو جائے.اب اس کی ضرورت نہیں.“ ان الفاظ پر زیادہ تبصرہ کی ضرورت نہیں.جماعت احمدیہ نے ایک مختصر سا محضر نامہ پیش کیا تھا، اسے کسی طرح بھی طویل نہیں کہا جا سکتا.۵ اگست کو کارروائی شروع ہوتی ہے اور ۷ /اگست کو مولوی صاحب کو خیال آنے لگ جاتے ہیں کہ یہ تو بہت طویل ہو گئی ہے.حالانکہ اس کے بعد بھی کئی روز کارروائی جاری رہی.اصل بات تو یہ تھی کہ وہ جوابات سے خفت محسوس کر رہے تھے اور اپنی جان چھڑانا چاہتے تھے.لیکن اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ گواہ زیادہ سے زیادہ بولے کیونکہ جتنا وہ زیادہ بولے گا اتنا ہی اس کے بیان میں Contradiction آئے گی.ان کی خوش فہمی کس حد تک بجا تھی.میرا نہیں خیال کہ اس کا رروائی کو پڑھنے والے کو اس بارے میں خود فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری پیش آئے گی.۸ /اگست کی کارروائی اگست کو کارروائی شروع ہونے سے قبل سپیکر صاحب نے اس عندیہ کا اظہار کیا کہ یہ کارروائی ۱۳ اگست تک چلے گی اور ۱۴ / اگست کو قومی اسمبلی کی نئی عمارت کا سنگ بنیادرکھنے کا پروگرام ہے.ہم پہلے یہ ذکر کر چکے ہیں کہ پہلے پیکر صاحب نے کہا تھا کہ یہ سلسلہ دو تین دن جاری رہ سکتا ہے لیکن اب یہ کہا گیا تھا کہ یہ کارروائی ۱۳ اگست تک جاری رہے گی.اس کے بعد عملاً یہ کارروائی اس سے بھی
412 آگے تک جاری رہی.اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ سوال کرنے والے جانتے تھے کہ انہیں اب تک عملاً کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن وہ محسوس کرتے تھے کہ اگر یہ کارروائی اور زیادہ جاری رہے تو انہیں مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں.اگلے روز جب کارروائی شروع ہوئی تو حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس اعتراض کا جواب دینا شروع کیا جو ایک روز قبل کیا گیا تھا.اور یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کشف پر کیا گیا تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ دکھایا گیا تھا کہ حضرت محمد ، حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ ، حضرت حسین اور حضرت فاطمہ تشریف لائے ہیں.(اور ان میں سے کسی ایک نے اور حضرت مسیح موعود نے تحریر فرمایا تھا کہ یاد پڑتا ہے) حضرت فاطمہ نے مادر مہربان کی طرح آپ کا سر اپنی ران پر رکھا.اس کے بعد ایک کتاب آپ کو دی گئی اور آپ کو بتایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی نے تالیف کیا ہے اور اب علی وہ تفسیر تجھے دیتا ہے.اور اس مبارک کشف سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریرفرمایا کہ افاضہ انوارالہی میں محبت اہل بیت کو بھی عظیم دخل ہے.اور جو شخص حضرتِ احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے.وہ انہی طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے.اب اگر اس پاکیزہ بیان اور با برکت کشف سے کوئی غلط اور قابل اعتراض مطلب اخذ کرتا ہے تو سوائے اس کے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مخالف تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ اہلِ بیت کی محبت سے اس کا کوئی دور کا تعلق نہیں بلکہ اس کا یہ اعتراض صرف اس کے گندے ذہن کی عکاسی کرتا ہے.حضرت فاطمہ کو یا آنحضرت ﷺ کو اگر رویا میں دیکھا جائے تو یہ نہایت ہی بابرکت رؤیا ہے.اس روز یعنی ۱۸ اگست کو جب کمیٹی کی کارروائی کا آغاز ہوا تو حضور نے علم التعبیر کا ذکر فرمایا اور بعض حوالے سنائے مثلاً اس میں سے ایک رؤیا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کا تھا.اس میں آپ نے دیکھا تھا کہ حضرت عائشہ نے آپ کو اپنے سینے کے ساتھ لگایا ہے اور آپ نے حضرت ام المومنین کا دودھ پیا ہے.اور حضرت رسول کریم ﷺے مخاطب ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ یقیناً ہمارا بیٹا ہے.(۶۶) پھر آپ نے اشرف علی تھانوی صاحب کا ایک شائع شدہ خواب سنایا جس میں انہوں نے کہا تھا
413 کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت فاطمہ نے انہیں اپنے ساتھ چمٹایا اور وہ اچھے ہو گئے.حضور نے اس کے علاوہ بعض اور مثالیں پڑھ کر سنائیں.اب اٹارنی جنرل صاحب نے جو یہ دیکھا کہ جو تاثر وہ پیدا کرنا چاہتے تھے اس سے تو الٹ نتیجہ برآمد ہو رہا ہے.تو انہوں نے اس موضوع کو بدلنے کے لیے گفتگو کا رخ وحی کے موضوع کی طرف کیا اور کہا کہ وحی تو صرف نبیوں کو ہوتی ہے.اب وہ ایک اور غلط بات کہہ گئے تھے.قرآنِ کریم میں شہد کی مکھی کو بھی وحی ہونے کا ذکر ملتا ہے.جب حضور نے اس بات کی نشاندہی فرمائی کہ وحی تو شہد کی مکھی کو بھی ہوتی ہے اور اس ضمن میں سورۃ نحل کی آیت پڑھنی شروع کی تو اٹارنی جنرل صاحب نے قطع کلامی کر کے ایک اور سوال کرنے کی کوشش کی تو اس پر حضور نے انہیں یاد دلایا کہ ” میں قرآن کریم کی آیت پڑھ رہا ہوں.لیکن وہ پھر ھی نہ سمجھ کہ یہ مناسب نہیں کہ قرآن کریم کی آیت پڑھی جارہی ہو اور کوئی شخص بیچ میں اپنی بات شروع کر دے.اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں اس واسطے Clarification پوچھ رہا ہوں.اس پر حضور نے واضح کرنے کے لیے قرآن کریم کی وہ آیت پڑھی جس میں حضرت موسی کی والدہ کو وحی ہونے کا ذکر ہے.اور اٹارنی جنرل صاحب کے پاس ان ٹھوس دلائل کا کوئی جواب نہیں تھا.اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اشعار پر اعتراض کیا تھا.اس کے بعد حضور نے ان کا صحیح مطلب بیان فرمایا.پھر نبی اور محدث کی اصطلاحات پر بات ہوئی.اس کا رروائی کے دوران یہ صورت حال بار بار سامنے آرہی تھی کہ سوال پیش کرتے ہوئے حضرت صحیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ بغیر سیاق وسباق کے پڑھ کر کوئی اعتراض اٹھانے کی کوشش کی جاتی لیکن جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث تمام حوالہ پڑھتے تو اعتراض خود بخود ہی ختم ہو جاتا.کچھ سوال کرنے والوں کی علمی حالت بھی دگر گوں تھی.اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال اُٹھا دیا کہ کیا حضرت عیسی علیہ السلام شرعی نبی تھے.حالانکہ یہ بات تو بچوں کو بھی معلوم ہے کہ حضرت عیسی کوئی نئی شریعت نہیں لے کر آئے تھے.اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل صاحب نے جو معین جملہ کہا وہ یہ تھا و, مرزا صاحب میں آپ سے یہ عرض کر رہا تھا کہ حضرت عیسی امتی نبی نہیں تھے کیونکہ
اس کی اپنی شریعت آگئی.“ 414 اب اس اسمبلی اور اٹارنی جنرل صاحب کی دینی معاملات میں یہ علمی حالت تھی کہ ان قابل حضرات کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ حضرت عیسی شرعی نبی نہیں تھے بلکہ حضرت موسیٰ کی شریعت کی پیروی کرتے تھے.اور اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو اس قابل سمجھتے تھے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ کون مسلمان ہے اور کون مسلمان نہیں ہے.اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف پڑھ کر اعتراض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا.یہ کشف ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ہی تحریر کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف کتاب البریہ میں تحریر فرماتے ہیں :.” میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں اور میرا اپنا کوئی ارادہ اور کوئی خیال اور کوئی عمل نہیں رہا اور میں ایک سوراخ دار برتن کی طرح ہو گیا ہوں.یا اس شے کی طرح جسے کسی دوسری شے نے اپنی بغل میں دبا لیا ہو اور اسے اپنے اندر بالکل مخفی کر لیا ہو یہاں تک کہ اس کا کوئی نام ونشان باقی نہ رہ گیا ہو.اس اثناء میں میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی روح مجھ پر محیط ہو گئی اور میرے جسم پر مستولی ہو کر اپنے وجود میں مجھے پنہاں کر لیا.یہاں تک کہ میرا کوئی ذرہ بھی باقی نہ رہا اور میں نے اپنے جسم کو دیکھا تو میرے اعضاء اس کے اعضاء اور میری آنکھ اس کی آنکھ اور میرے کان اس کے کان اور میری زبان اس کی زبان بن گئی تھی.میرے رب نے مجھے پکڑا اور ایسا پکڑا کہ میں بالکل اس میں محو ہو گیا اور میں نے دیکھا کہ اس کی قدرت اور قوت مجھ میں جوش مارتی اور اس کی الوہیت مجھ میں موجزن ہے.حضرت عزت کے خیمے میرے دل کے چاروں طرف لگائے گئے اور سلطان جبروت نے میرے نفس کو پیس ڈالا.سونہ تو میں میں ہی رہا اور نہ میری کوئی تمنا ہی باقی رہی....(۶۷) اس پر معرفت کشف کا بیان تو جاری رہتا ہے لیکن اتنی ہی عبارت کا مطالعہ ہی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ اس کشف میں فنا فی اللہ ہونے کا ذکر ہے ، اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھوئے جانے کا ذکر
415 ہے، اس کشف کی تعبیر کرتے ہوئے خدائی کا دعویٰ تو اس سے کسی طرح بھی نہیں نکالا جاسکتا.اور یہ حقیقت کس طرح نظر انداز کی جاسکتی ہے کہ خواب اور کشف تعبیر طلب ہوتے ہیں.اور جب آئینہ کمالات اسلام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کشف بیان فرمایا تو خود یہ امر بھی تحریر فرما دیا کہ اس کشف سے وہ عقیدہ مراد نہیں ہے جو وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والوں کا مذہب ہے اور نہ وہ مطلب نکلتا ہے جو حلولی عقائد رکھنے والوں کا مذہب ہے بلکہ اس میں وہی مضمون بیان ہوا ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ایک بندہ نوافل کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے.(صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب التواضع) جب اس اجلاس کی کارروائی ختم ہو رہی تھی تو پھر اٹارنی جنرل صاحب نے ایک حوالہ پڑھنے کی کوشش فرمائی.یہ سمجھ تو بعد میں آئی کہ وہ اعتراض کیا کر رہے ہیں لیکن پہلے ہی انہوں نے خود ہی اعلان کیا کہ انہیں صحیح طرح معلوم نہیں کہ یہ حوالہ کہاں کا ہے.ابھی انہوں نے کچھ نامکمل سے جملے ہی پڑھے تھے جن سے صرف یہی سمجھ آتا تھا کہ اس حوالہ میں ان کے مطابق خوبصورت عورت کے الفاظ آتے تھے.“ کہ حضور نے فرمایا کہ ہمارے علم میں ایسا حوالہ نہیں ہے.اس سے اٹارنی جنرل صاحب کچھ اور گڑ بڑا گئے اور کہا کہ 66 نہیں اس واسطے explanation ضروری ہے.“ حضور نے فرمایا وو نہیں چیک کریں گے ناں.“ اس پر اٹارنی جنرل صاحب کچھ اور ڈگمگا گئے اور کہا اگر یہ چیز ہی نہیں تو میں آپ سے سوال نہیں پوچھوں گا.“ اس پر حضور نے فرمایا ” ہمارے علم میں کوئی نہیں لیکن میں نے آپ کو بتایا کہ یہ نہ تسلیم کرنے کے قابل ہے.نہ تردید کرنے
416 کے قابل.چیک کروں گا.“ پھر اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا ” میں نے پڑھا نہیں چیک کر کے پڑھ کر سنادوں گا.“ اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے یہ جملہ فرمایا:.66 خوبصورت عورت ہے.“ اب یہ عجیب صورت حال تھی کہ وہ حوالہ پڑھنے کی کوشش فرمارہے تھے اور علماء کی ایک ٹیم اس کارِ خیر میں ان کی اعانت کر رہی تھی اور ” خوبصورت عورت کے الفاظ پر ہی سوئی اٹک گئی تھی.اگلی عبارت برآمد ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی.چنانچہ حضور نے فرمایا: 66 ہاں ہاں خوبصورت عورت ہے.“ یعنی یہ کہ اب آگے بھی پڑھو.لیکن یہ حوصلہ افزائی بھی کارآمد ثابت نہ ہوئی اور بجائے حوالہ پڑھنے کے اٹارنی جنرل صاحب نے الٹا حضور سے دریافت فرمایا: ” آپ کے علم میں یہ چیز نہیں ہے؟“ اب یہ عجیب هونق حرکت تھی.سوال اٹارنی جنرل صاحب کر رہے تھے اور حوالہ دینا ان کا کام تھا اور وہ الٹا حضور سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کے علم میں یہ چیز ہے کہ نہیں.اس پر حضور نے فرمایا.” نہ ہمارے علم میں کوئی چیز ہے ، نہ ہمارے بزرگوں کے علم میں ہے.دیکھنا یہ ہے کہ کس نے یہ حوالہ بنایا ہے.“ وو اس کے بعد لکھا ہے کہ کچھ دیر وقفہ رہا.اور پھر اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا اس عرصہ میں اگر وہ مجھے مل جائے.“ کارروائی ختم ہو گئی لیکن اٹارنی جنرل صاحب کو یہ حوالہ نہ مل سکا.خیر اس مرحلم پر پیکر صاحب ان کی گلو خاصی کے لیے آئے اور اعلان کیا کہ اب وقفہ ہوتا ہے.اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث وفد کے ہمراہ ہال سے تشریف لے گئے.سوا بارہ بجے اجلاس کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی.ابھی جماعت کا وفد ہال میں نہیں آیا تھا.سب سے پہلے تو سپیکر صاحب نے ارشاد فرمایا کہ دروازہ بند کر دیں.سب سے پہلے تو مولوی شاہ احمد نورانی صاحب بولے کہ پہلے ان سے ( یعنی جماعت کے وفد سے ) معین جواب لیا جائے.اس کے
417 بعد تشریح و غیرہ کریں لیکن تحریری بیان نہ ہو.سپیکر صاحب نے انہیں تسلی دلائی تو پھر مفتی محمود صاحب نے اپنے شکوے شروع کئے.ان کا پس منظر یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات اور کشوف اور رویا پر اعتراضات اُٹھائے گئے تھے.ان کے جوابات دیتے ہوئے حضرت خلیفہ ایسیح الثالث نے احادیث سے بعض بزرگان کی تحریروں سے اور بعض غیر از جماعت احباب کی تحریروں سے کئی مثالیں سنائی دی تھیں کہ اس طرح کے کشف اور رویا تو بہت سے بزرگوں کو ہوتے رہے ہیں اور ان کی تعبیر کی جاتی ہے.اب عقل کی رو سے جائزہ لیا جائے تو اس طرح کے جواب پر کوئی اعتراض نہیں اُٹھتا بلکہ ہر صاحب شعور اس علمی جواب کی قدر کرے گا.مگر عقل اور شعور اس کمیٹی میں ایک جنسِ نایاب کی حیثیت رکھتی تھی.مفتی صاحب کا اصرار یہ تھا کہ حضور کو روکا جائے کہ جب اس طرح کا کوئی اعتراض ہو تو وہ کوئی اور مثال پیش نہ کریں.بھلا کیوں نہ کریں مفتی صاحب نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی.مفتی محمود صاحب نے جو فرمایا وہ یہ تھا : ” جناب والا کل بھی یہ بات ہوئی تھی کہ وہ جواب لکھ کر لاتے ہیں اور پڑھ دیتے ہیں.جب کسی بات کے متعلق سوال ہوتا ہے تو یہ اسی وقت سوال کر دیتے ہیں.کشف کے متعلق سوال آیا تو وہ کشف کے مقابلے میں پانچ چھ مثالیں دے دیتے ہیں کہ فلاں نے یہ دیکھا اور ان کے جرم سے ہمارا جرم کم ہو جاتا ہے.تو میں یہ کہتا ہوں کہ وہ کوئی مثال نہ دیں.ایک سوال پوچھا جاتا ہے تو اس کا جواب آجاتا ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح نہ کریں.“ اب صرف اس جملہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ عجیب صورت حال نظر آتی ہے کہ مفتی صاحب یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس کمیٹی میں جماعت احمدیہ پر ہر طرح کے اعتراضات تو کیے جائیں خواہ اس کے لیے جعلی اور خود ساختہ حوالے ہی کیوں نہ پیش کرنے پڑیں لیکن جماعت احمدیہ کی طرف سے کوئی خاطر خواہ دفاع نہ ہو.یہ ان کی طبع نازک پر بہت گراں گزرتا تھا.وہ شاید یہ امید لگائے بیٹھے تھے ان کے سوال کا کوئی جواب دیا ہی نہیں جائے گا.اس کے جواب میں سپیکر صاحب نے یہ تبصرہ کیا کہ بہت سی غیر متعلقہ باتیں آرہی ہیں.اب یہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر غیر متعلقہ باتیں کیوں آ رہی تھیں؟ وجہ ی تھی کہ کارروائی کو تیسرا دن گزر رہا تھا اور کمیٹی سوال پر سوال کئے جارہی تھی لیکن ابھی تک اس موضوع
418 پر سوال شروع ہی نہیں ہوئے تھے جس کے لیے اس کمیٹی کو قائم کیا گیا تھا.پھر نورانی صاحب نے فرمایا: ”Explanation قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہونی چاہئے.یہ جملہ پڑھ کر تو احساس ہوتا ہے کہ شاید نورانی صاحب ابھی ابھی گہری نیند سے بیدار ہوئے تھے.حقیقت یہ ہے کہ اب تک کمیٹی نے بیسیوں سوالات اور تبصرے لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کو دیئے تھے لیکن کسی ایک میں بھی کسی آیت کریمہ یا حدیث شریف کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا گیا تھا.البتہ جو جوابات حضور نے دیئے تھے اور جو جوابات اس کے بعد بھی دیئے گئے ان میں سے بہت سے جوابات میں قرآنی آیات اور احادیث کو بطور دلیل کے پیش کیا گیا تھا.پھر ایک اور ممبر محمد حنیف خان صاحب نے یہ گلہ کیا ”وہ question کرنا شروع کر دیتا ہے.سب اپنے گلے شکوے کر رہے تھے لیکن سب سے عجیب پوزیشن اٹارنی جنرل صاحب کی تھی.بیشتر سوالات تو مولوی حضرات لکھ کر دیتے تھے لیکن انہیں اٹارنی جنرل صاحب کو پڑھنا ہوتا تھا.اور اگر سوال لا یعنی ہو یا حوالہ ہی غلط ہو تو خفت بھی انہیں اٹھانی پڑتی تھی.اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب اس صورت حال سے عاجز آ رہے تھے.چنانچہ اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا : "Sir, if I may respectfully submit, explanations are different, you may or may not accept, but I would request the honourable members not to supply me loose balls." وو یعنی میں بڑے ادب سے عرض کروں گا کہ تشریحات تو مختلف ہوسکتی ہیں لیکن ممبران مجھے کمز ور سوالات مہیا نہ کریں.اب اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے؟ صرف یہی کہ خود سوالات کرنے والا اس بات کا شکوہ کر رہا ہے کہ اسے کمزور سوالات مہیا کئے جا رہے ہیں.اس پر سپیکر صاحب نے پھر ممبران سے صحیح طرح حوالہ جات پیش کرنے کی درخواست کی.پھر ایک اور ممبر اسمبلی سردار مولا بخش سومر وصاحب نے کہا کہ کوئی جواب پانچ یا دس منٹ سے زیادہ کا نہیں ہونا چاہئے اور جب کتب یہاں پر موجود ہیں تو انہیں اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ بعد میں اپنی کتب سے پڑھ کر جواب دیں گے.سومرو صاحب کی یادداشت کچھ زیادہ مضبوط نہیں تھی.وہ بھول گئے تھے کہ پہلے روز ہی اٹارنی جنرل صاحب
419 نے حضور سے کہا تھا کہ اگر وہ کسی سوال کا جواب دینے کے لیے وقت لینا چاہیں تو کمیٹی سے اس کا وقت لے سکتے ہیں.اس پر سپیکر صاحب نے سومرو صاحب کو یاد دلایا کہ سوال سوال میں فرق ہوتا ہے.بعض سوالات کے جواب میں وضاحتیں ہوتی ہیں اور بعض سوالات کا جواب تحقیق کے بعد دینا ہوتا ہے.ویسے یہ کوئی ایسا دقیق نکتہ نہیں تھا کہ اس کو دریافت کرنے کے لیے سومر وصاحب کو سپیکر صاحب کی مدد کی ضرورت ہوتی.یہ بات کا رروائی کے سرسری مطالعہ ہی سے نظر آ جاتی ہے کہ دس میں سے آٹھ سوالات کا جواب تو صرف ایک دومنٹ میں نہایت اختصار سے دیا گیا تھا اور شاید ہی اب تک کی کارروائی میں کسی سوال کا جواب دس منٹ کا ہو.پھر عبد العزیز بھٹی صاحب نے کہا کہ جہاں جواب Irrelevant ہو وہاں سپیکر صاحب اپنا اختیار استعمال کر کے اس کو بند کریں.مولوی ظفر انصاری صاحب نے اصرار کیا کہ انہیں لکھی ہوئی چیز پڑھنے کا زیادہ موقع نہ دیا جائے.احمد رضا قصوری صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ گواہ بعض جوابات کو بار باردہرا رہا ہے اور بعض کتابوں کے حوالے بھی بار بار دہرائے جا رہے ہیں.ہم یہاں اس لیے نہیں بیٹھے کہ ہمیں بتایا جائے کہ احمد یہ عقائد کیا ہیں اور نہ ہی وہ ہمیں تبلیغ کر رہے ہیں.اب یہ اعتراض معقولیت سے قطعاً عاری تھا کیونکہ حقیقت یہ نہیں تھی کہ کچھ جوابات دہرائے جارہے تھے بلکہ حقیقت یہ تھی کہ اٹارنی جنرل صاحب بعض سوالات کو بار بار دہرا ر ہے تھے اور ظاہر ہے کہ جب کوئی سوال دہرایا جائے گا تو جواب دینے والے کو جواب بھی دہرانا پڑے گا.یہ حقیقت اتنی واضح تھی کہ خود وفاقی وزیر عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب کو بھی اس کی نشاندہی کرنی پڑی کہ اٹارنی جنرل صاحب کو بعض سوالات اس لیے دہرانے پڑتے ہیں تا کہ جوابات میں تضاد پیدا ہو.اس کے بعد جماعت احمدیہ کا وفد داخل ہوا.اب جو کارروائی شروع ہوئی تو جوابات میں تو کیا تضاد پیدا ہونا تھا ، خدا جانے کیا ہوا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے جلد جلد کچھ بے ربط سوالات کرنے شروع کیے.پہلے انہوں نے ایک حوالہ پڑھ کر یہ سوال اُٹھایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں میں حضرت مریم کا کیا مقام بیان ہوا ہے ابھی اس پر تین چارمنٹ ہی گزرے ہوں گے اور ابھی اس مسئلہ پر بات صحیح سے شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے اچانک یہ سوال اُٹھا دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو ملعون لکھا ہے.ابھی لائبریرین کو حوالہ پکڑانے کا کہا ہی تھا کہ انہوں نے کہا کہ میں دو چارا کٹھے پڑھ دیتا ہوں اور فورا ہی اس مسئلہ پر آگئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ
420 السلام نے رشید احمد گنگوہی کو شیطان گمراہ اور ملعون لکھا ہے.ابھی اس کا جواب نہیں آیا تھا کہ سپیکر صاحب نے کہا کہ میں یہ تجویز دوں گا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک وقت میں ایک سوال کریں.لیکن وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے.انہوں نے کہا کہ یہ سب ایک ہی طرح کے سوالات ہیں اور ایک اور سوال کیا کہ بانی نے سعد اللہ لدھیانوی کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کئے ہیں.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ ہم یہ حوالہ جات چیک کر کے جواب دیں گے.اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے کچھ اور حوالہ جات پڑھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریروں میں مخالفین کے متعلق سخت الفاظ استعمال کیے ہیں.اس کے جواب میں بھی حضور نے فرمایا کہ یہ سب حوالہ جات نوٹ کر دئیے جائیں ان کے جوابات اکٹھے دیئے جائیں گے.اس اعتراض کو پر کھتے ہوئے اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ جن لوگوں کا نام لے کر یہ اعتراض کیا جارہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق سخت الفاظ استعمال کیے ہیں، خود ان مخالفین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کیا الفاظ استعمال کئے تھے.پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی مثال لے لیں.انہوں نے اپنی کتاب چشتیائی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لکھا تھا الغرض اکثر الہامات ان کے تو کاذب ہونے کی وجہ سے انکو مفتری علی اللہ قرار دیتے ہیں اور بعض الہامات گو کہ فی نفسها صحت رکھتے ہیں مثل آیت قرآنیہ ملہمہ کی مگر ان سے الٹا نتیجہ نکالنے کے باعث سے ان پر پوری جہالت کا دھبہ لگاتے ہیں اور معہد اتلبیس ابلیس ہونے میں بھی کوئی شک نہیں رہتا.پھر وہ اسی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ تین اقسام کے ہیں ' (۱) الہامات کا ذبہ جن کے کاذب ہونے پر وہ خود ہی گواہ ہیں (۲) الہامات کا ذبہ جن کو بوجہ نہ پورا نکلنے انکے کا ذب سمجھا گیا ہے (۳) الہامات صیاد یہ جن کا ابن صیاد کے الہام کی طرح اگر سر ہے تو پاؤں نہیں اگر پاؤں ہیں تو سر نہیں....(۴) الہامات شیطانیہ انسیہ جن کو کسی آدمی پڑھے ہوئے نے اس کے قلب میں ڈالدیا ہے (۵) الہامت شیطانیہ جنیہ (۶) الہامات شیطانیہ معنویہ..“ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ بدزبانی کی ” قادیانی صاحب نے اس مقام پر بڑی چالا کی اور دجل سے کام لیا.(۶۸) اور پھر پیر گولڑوی صاحب نے اپنی کتاب چشتیائی میں یہ فارسی شعر درج کیا
421 ز میں نفرت کند از تو فلک گرید بر احوالت ملک لعنت کناں نزد خدا بر آسماں بینی یعنی زمین تجھ سے نفرت کرتی ہے اور آسمان تیرے حال پر روتا ہے.تو دیکھتا ہے کہ خدا کے نزد یک آسمان پر فرشتے تجھ پر لعنت کرتے ہیں.(۶۹) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف اعجاز احمدی (ضمیہ نزول المسیح) میں یہ عربی شعر یہ ان صاحب کے متعلق تحریر فرمایا.الا أَيُّهَا اللَّعَانُ مَا لَكَ تَهْجُرُ 28 وَتَلْعَنُ مَنْ هُوَ مُرْسَلٌ وَّ مُوَقِّرُ یعنی اے لعنت کرنے والے تجھے کیا ہو گیا ہے کہ بیہودہ بک رہا ہے.اور تو اسپر لعنت کر رہا ہے جو خدا کا فرستادہ اور خدا کا طرف سے عزت یافتہ ہے.(۷۰) اور اٹارنی جنرل صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کو اعتراض کیلئے پیش فرما رہے تھے حالانکہ اس شعر کے الفاظ ہی ظاہر کر دیتے ہیں کہ یہ پیر گولڑوی کی سخت بیانی کے جواب میں ہے.اب ہر صاحب عقل دیکھ سکتا ہے کہ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مامور من اللہ مانتے ہیں اور ان کے الہامات کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ مانتے ہیں.اور پیر گولڑوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے الہامات کے متعلق اتنی بدزبانی کر رہے ہیں اور یہ جھوٹی تعلی کر رہے ہیں کہ آسمان کے فرشتے نعوذ باللہ آپ پر لعنت کر رہے ہیں تو مذہب کے مسلمہ اصولوں کے مطابق ایسا مکذب اور مکفر اگر ملعون نہیں کہلائے گا تو کیا احمدی اسے ولی اللہ سمجھیں گے؟ اٹارنی جنرل صاحب نے یہ اعتراض تو اُٹھا دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض بد زبانی کرنے والے معاندین کے متعلق ملعون کے الفاظ استعمال کئے ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے تھے اگر لعنت کا لفظ استعمال کرنا فی ذاتہ قابل اعتراض ہے تو ان کا یہ اعتراض دوسرے انبیاء پر ، قرآن کریم پر اور نبی اکرم ﷺ کی مقدس ذات پر بھی ہوتا ہے.قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ (الــمـائـدة : ٧٩) یعنی جن لوگوں نے بنی اسرائیل میں سے کفر کیا وہ داؤد کی زبان سے لعنت ڈالے گئے اور عیسی
422 ابن مریم کی زبان سے بھی.اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا فرماتا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور لوگوں کی لعنت ہے.(ال عمران: ۸۸) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے قبر کی زیارت کے لیے جانے والی عورتوں پر لعنت کی ( بعد میں اس بابت رخصت دے دی گئی تھی ) ( جامع تــرمــذى ابواب الجنائز ) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی زبان سے اس شخص پر لعنت کی جو حلقہ کے بیچ بیٹھے (جامع ترمذی.باب ما جاء في كراهية القعود وسط الحلقة) اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر نے بیان فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو زندہ جانور کو باندھ کر اس پر نشانہ بازی کرے (صحیح مسلم کتاب الصيد و الذبائح ) بہر حال جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ حضور نے فرمایا تھا کہ یہ حوالے نوٹ کرا دیے جائیں، چیک کر کے جواب دیا جائے گا.سوال اُٹھانے والوں کو محضر نامے کے مطالعہ سے ہی یہ اندازہ ہو جانا چاہئے تھا کہ یہ سوال کرنا انہیں مہنگا پڑے گا.عقلمندی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ سوال اُٹھایا ہی نہ جا تا.اور اگر اس کو اُٹھا ہی دیا گیا تھا تو اس کے جواب کے لئے اصرار نہ کیا جاتا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب بظاہر سخت الفاظ استعمال کئے ہیں، تو وہ مخالفین کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی بد زبانی کے جواب میں مناسب اور جائز سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں لیکن یہ غلطی بھی کر دی گئی.ہم کچھ دیر کے لیے واقعات کے تسلسل کو نظر انداز کر کے ۱۹ اگست کو شام چھ بجے شروع ہونے والی کا رروائی کا جائزہ لیتے ہیں.جب چھ بجے کارروائی شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل صاحب نے از خود دریافت کیا کہ چند ھوالے سنائے گئے تھے جو چند بزرگوں کے متعلق توہین آمیز جملے تھے ان کا مطلب کیا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا بات کرنے کا ایک خاص دھیما انداز تھا.آپ نے آہستگی سے بات شروع فرمائی اور فرمایا: جی...وہ جو حوالہ جس میں سخت زبان استعمال کی گئی تھی.جس کی طرف آپ نے مجھے توجہ دلائی تھی وہ تاریخ کا ایک ورق ہے جس پر تقریباً ستر سال گزرچکے ہیں اور تاریخی واقعات کی صحت کو سمجھنے کے لیے وہ تاریخ کا ماحول سامنے ہونا ضروری ہے ورنہ اس کی سمجھ نہیں آسکے گی.‘ کچھ تمہید کے بعد حضور نے مثالیں دینا شروع کیں اور ابھی پہلی مثال ہی دی تھی جس میں بریلویوں نے ایک اور فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کو خبیث اور ان سے نکاح کو زنا اور ایسی شادی سے ہونے والی اولا دکو ولد الزنا
423 قرار دیا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کی آنکھیں کچھ کھلیں کہ وہ کیا غلطی کر بیٹھے ہیں حالانکہ ابھی تو اس بدزبانی کا ذکر شروع ہی نہیں ہوا تھا جو ان کے بزرگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کی تھی.اب انہوں نے اس جواب کو روکنے یا کم از کم مختصر کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کئے اور کہا کہ میرا سوال تو سادہ تھا میں نے تو تین بزرگوں کا نام لے کر دریافت کیا تھا کہ ان کے متعلق مرزا صاحب نے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں.آپ ان فتووں کا ذکر کر رہے ہیں کہ سینیوں نے شیعوں کو کیا کہا ہے اور شیعوں نے سنیوں کو کیا کہا ہے.ان کا کیا جواز ہے.حضور نے اس کے جواب میں ابھی یہی فرمایا تھا کہ ” آپ کا مطلب یہ ہے...“ تو معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کو احساس ہوا کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں.سوال تو وہ کر چکے تھے.جواب کو روکنا انکے دائرہ اختیار میں نہیں تھا.انہوں نے بات بدل کر کہا کہ ”ی مختصر ہو.میں نہیں آپ کو روکتا.نہ مجھے اختیار ہے نہ میں آپ کو روک سکتا ہوں.صرف یہ ہے کہ Proceedings لمبی ہوگئی ہیں.آپ پر بھی Strain ہے.اسمبلی پر بھی Strain ہے.اس لئے میں مودبانہ عرض کروں گا کہ اگر آپ اس کو اس چیز کے لیے Confine کریں.اس کاBackground ہمیں مل گیا ہے.آپ نے پوری تفصیل سے بتایا ہے..." 66 بہر حال تیر تو اب کمان سے نکل چکا تھا.حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے فرمایا ” اگر میں یہ سمجھوں کہ اس پس منظر کو سامنے لاتے ہوئے کہ میں اس مختصر سوال کا مختصر جواب نہیں دے سکتا تو پھر میرے لیے کیا ہدایت ہے آپ کی؟“ اب یہاں پر اٹارنی جنرل صاحب بے بس تھے.انہوں نے بے چارگی سے کہا جیسے آپ کی مرضی، میں نے Request کی تھی.اس پر حضور نے فرمایا کہ میں نے سینکڑوں میں سے صرف چند مثالیں لی ہیں اور دوسرا حوالہ پڑھنا شروع کیا.اب تو مولوی حضرات کو بھی نظر آرہا تھا کہ ان کے اعتراض کی کیا گت بن رہی ہے.چنانچہ قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے مولوی غلام غوث ہزاروی صاحب نے سپیکر صاحب سے اپیل کی کہ گواہ کو روکا جائے کہ وہ دوسروں کی گالیاں کیوں پیش کر رہے ہیں.لیکن اس وقت سپیکر صاحب ان کی مدد کو نہیں آ رہے تھے چنانچہ سپیکر صاحب نے انکو تنبیہ کی "This is a question.This can only come through the
424 attorney general.Yes the witness can reply.He should continue.What he was replying.” دو یعنی یہ ایک سوال ہے اور یہ صرف اٹارنی جنرل صاحب کی وساطت سے کیا جاسکتا ہے.جی.گواہ جواب دے سکتا ہے انہیں وہ جواب جاری رکھنا چاہئے جو وہ دے رہے تھے.اس کے بعد حضور نے وہ حوالے سنائے جن میں سوال کرنے والوں کے کچھ بزرگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں بدزبانی کی انتہا کر دی تھی.گندی سے گندی گالی دے کر کے دل دُکھائے گئے تھے.شاید ہی کوئی جھوٹا الزام ہو جو آپ کی ذات اقدس پر ان لوگوں نے نہیں لگایا.اٹارنی جنرل صاحب نے سعد اللہ لدھیانوی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر پر اعتراض کیا تھا.حضور نے شاعر مشرق اقبال کے کچھ اشعار سنائے جو انہوں نے ایف اے میں سعد اللہ لدھیانوی کے متعلق کہے تھے.وہ اشعار یہ تھے واه سعدی دیکھ لی گندہ دہانی آپ کی خوب ہو گی مہتروں میں قدر دانی آپ کی بیت سعدی آپ کی بیت الخلاء سے کم نہیں ہے پسند خاکروباں شعر خوانی آپ کی گوہر بے راہ جھڑے ہیں آپ کے منہ سے سبھی جان سے تنگ آ گئی ہے مہترانی آپ کی قوم عیسائی کے بھائی بن گئے پگڑی بدل واہ کیا اسلام پر ہے مہر بانی آپ کی (۷۱) پھر آپ نے پیر گولڑوی صاحب کی کتاب چشتیائی کا حوالہ سنایا جس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ایک فارسی شعر میں لکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جوفرشتے ہیں وہ تجھ پر لعنت کر رہے ہیں.اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر لکھا تھا جس کا مطلب یہ تھا تم پر آسمانی لعنت ہو.پھر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ اعتراض کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ
425 السلام نے رشید احمد گنگوہی کے متعلق سخت الفاظ استعمال کئے ہیں.اس کے جواب میں حضور نے حوالہ دیا کہ اشاعۃ السنہ میں رشید احمد گنگوہی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہاں تک بدزبانی کی تھی کہ آپ کو اہل ھوا اور گمراہ اور دجال تک کہا تب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق وہ سخت الفاظ استعمال کئے.اٹارنی جنرل صاحب نے یہ اعتراض کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخالفین کے متعلق ذریتہ البغایا کے الفاظ لکھے ہیں اور یہ اصرار کیا تھا کہ اس کا مطلب ولد الحرام کے ہی ہوتے ہیں.حضور نے لغوی تحقیق بیان فرمائی کہ اس کا مطلب سرکش انسان کے ہوتے ہیں اور ہمارے لٹریچر میں اس کا یہی مطلب لیا گیا ہے.ابھی حضور کا جواب جاری تھا کہ سپیکر صاحب نے وقفہ کا اعلان کیا.اس کے بعد ہم کارروائی کے تسلسل کے حساب سے ہی جاری رکھتے ہیں.اس کے بعد پھر اٹارنی جنرل صاحب نے وہی پرانا سوال بار بار دہرایا.مثلاً ایک موقع پر انہوں نے پوچھا: ” جو اللہ اور رسول ﷺ پر ایمان لاتا ہے ان کو مانتا ہے.اور مرزا غلام احمد صاحب کو نبی نہیں مانتا.پھر بھی مسلمان رہ سکتا ہے." اس پر حضور نے جواب میں فرمایا 66 غیر مسلم نہیں ہے.گنہ گار ہے وہ.“ اٹارنی جنرل صاحب بیچارے عجیب مخمصے میں مبتلا تھے.وہ علمی بحثوں میں پڑنا چاہتے تھے اور اس کارروائی کی نوعیت کا تقاضا بھی یہی تھا لیکن ان کی طبیعت کو اس کام سے کوئی مناسبت نہیں تھی.اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس بات پر بحث اٹھائی کہ اتمام حجت کا کیا مطلب ہے.حضور نے عربی زبان کی رُو سے اس کا مطلب بیان فرمایا.اب اٹارنی جنرل صاحب نے ایک لغت نور اللغات کا حوالہ پیش کیا.آغاز میں ہی حضور نے فرمایا کہ یہ تو کوئی معیاری لغت نہیں ہے اور حضور نے معیاری لغت کی مثال کے طور پر منجد ، مفردات امام راغب اور اقرب کے نام بھی لیے ہیں.بہر حال صاحب موصوف نے اپنی چنیدہ لغت سے اس کا مطلب پڑھنا شروع کیا.تو حضور نے نشاندہی فرمائی کہ اس کی تو ، اردو بھی ٹھیک نہیں یہ معیاری لغت کہاں سے ہو گئی.اس کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا کہ آپ کوئی معیاری ڈکشنری لے آئیں اس میں دیکھ لیں
426 گے.اس کے بعد انہوں نے اس کے معنی کے متعلق اپنی تحقیق بیان کرنے کا سلسلہ جاری رکھا.اور ان کے بے ربط جملوں کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ وہ لغت کے مطالعہ کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ اتمام حجت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سمجھانے والا مطمئن ہو گیا ہے کہ میں نے سمجھا دیا ہے.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا This is rediculous.اٹارنی جنرل صاحب تو اٹارنی جنرل اسمبلی میں موجود مولوی حضرات کی علمی حالت بھی ایسی تھی کہ جب وقفہ ہوا اور جماعت کا وفد ہال سے چلا گیا تو مولوی غلام رسول ہزاروی صاحب سپیکر صاحب سے فخریہ انداز میں کہنے لگے: ” جناب چیئر مین میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مرزا صاحب آج خوب پھنسے ہیں.اس لیے اتمام حجت کے معنی جو وہ کر رہے ہیں جن کو دنیا تسلیم نہیں کرتی....“ اس جملے سے بیچارے مولوی صاحب کی بچگانہ خوشی ظاہر ہوتی ہے.وہ اس خیال میں تھے کہ آج اللہ اللہ کر کے تیسرے دن ہمیں بھی کوئی خوشی ملی ہے.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ سپیکر صاحب ان کی خوش فہمی میں شریک نہیں تھے کیونکہ اس کے جواب میں انہوں نے کہا.” مولانا صاحب پھر یہ بحث کی بات ہے.ضابطہ کی بات ہے.یہ جو آپ تقریر کر رہے ہیں یہ وقت پھر بعد میں آپ کی تقریر سے کاٹا جائے گا.اس لیے میں کہتا ہوں کہ یہ بعد میں کریں گے.“ مولوی ہزاروی صاحب نے پھر کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن مداخلت کے باعث کہہ نہ سکے.بہر حال ان کی جو بھی خوش فہمی تھی جلد رفع ہو گئی کیونکہ وقفہ کے بعد کا رروائی شروع ہوئی تو ایسا تصرف ہوا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جن الفاظ کے لغوی معانی کے متعلق بات ہوئی تھی ان پر مختصر تحقیق کے بیان سے بات شروع فرمائی.حضور نے حجت اور اتمام حجت کے الفاظ کے متعلق قرآن کریم سے مثالیں دیں، مفردات امام راغب اور لسان العرب جیسی عظیم لغات سے ان الفاظ کے مطالب بیان فرمائے ، امام زہری کے اقوال پڑھ کر سنائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر سے اس کے بارے میں اقتباس پڑھا.اس خفت کے بعد اٹارنی جنرل صاحب یا ان کی مدد کرنے والوں نے کسی لغت کا حوالہ دینے کی کوشش نہیں کی.
427 پھر حضور نے فرمایا کہ آپ نے ایک کتاب کلمۃ الفصل سے حوالہ دیا ہے اور اسے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی طرف منسوب کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کلمۃ الفصل حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی کتاب ہے ہی نہیں بلکہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کتاب ہے.پھر حضور نے وہ پورا حوالہ پڑھ کر سنایا جس سے کیا گیا اعتراض خود بخودہی رفع ہو جاتا تھا.بہر حال وقفہ تک انہی امور پر بحث ہوتی رہی جن پر پہلے بھی کئی مرتبہ بات ہو چکی تھی.اس روز کی کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل صاحب نے یہ بحث بھی اُٹھانے کی کوشش کی کہ تقسیم ہند کے وقت احمدیوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ ایک فریق کے طور پر پیش کیا تھا.اس کا خاطر خواہ جواب.حصہ دوئم میں ۱۹۴۷ء کے حالات بیان کرتے ہوئے گزر چکا ہے.اس لئے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں.حضور نے افضل کا ایک حوالہ پڑھ کر سنایا.اٹارنی جنرل صاحب یا تو غلط حوالہ پیش کرتے یانا مکمل عبارت پڑھ کر یا تبدیل شدہ عبارت پڑھ کر ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے.لیکن جب پورا اقتباس پڑھا جاتا تو یہ اثر ویسے ہی زائل ہو جاتا.اور اس مرتبہ بھی یہی ہوا.اس کے بعد یحی بختیار صاحب نے یہ بحث اُٹھائی کہ آپ کے مطابق آنحضرت ﷺ کے بعد بھی نبی آ سکتا ہے.اس پر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ وضاحت فرمائی کہ نبی نہیں صرف امتی نبی آسکتا ہے.اٹارنی جنرل صاحب نے پھر دو سوال اُٹھائے.ایک تو یہ کہ آپ کے نزدیک کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ بھی کوئی نبی آسکتا ہے اور دوسرا یہ کہ کیا پھر آپ کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری نبی ہوں گے؟ پہلے سوال کے متعلق تو حضور کا اصولی جواب یہ تھا کہ اب وہ امتی نبی آسکتا ہے جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے خوشخبری دی ہو.اور جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو یہ سوال ہی بنیادی طور پر غلط ہے اور اس کی بنیاد یہ غلط تصور ہے کہ آخری ہونا اپنی ذات میں کوئی فضیلت کی بات ہے.حالانکہ زمانی طور پر آخری ہونا کسی طور پر کوئی فضیلت کا پہلو نہیں رکھتا.البتہ یہ بات ایک عظیم الشان فضیلت کے بعد ہے کہ اب جو بھی ماموریا مصلح یا نبی آئے گا وہ آنحضرت ﷺ کی اتباع اور محبت کے نتیجہ میں یہ مقام پائے گا اور آپ کے تمام احکامات اور تعلیمات کی پیروی کرے گا.اور جماعت احمدیہ کا یہی عقیدہ ہے.اصل میں وہ یہ اعتراض اٹھانا چاہتے تھے کہ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آخری نبی مانتے ہیں.
428 اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ تمام فرقوں کے مطابق مسیح موعود نے آنحضرت کے بعد آنا ہے تو کیا ان فرقوں کے نزدیک آخری نبی نہیں بن جائے گا.اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا.اور حضور نے شاہ محمد اسمعیل شہید صاحب کا حوالہ بھی دیا جنہوں نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان مع تذکیر الاخوان میں لکھا تھا اس شہنشاہ کی تو یہ شان ہے ایک آن میں ایک حکم کن سے چاہے تو کروڑوں نبی اور ولی اور جن اور فرشتہ جبرئیل اور محمد ﷺ کے برابر پیدا کر ڈالے.(۷۲) اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال اُٹھایا کہ ایک اور سوال پوچھتا ہوں.روز قیامت سارے نبی اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوں گے.آخری نبی کون شمار ہوگا.حضرت محمد ﷺ یا مسیح یا عیسی 66 علیہ السلام " اس پر حضور نے یہ پر معرفت جواب دیا کہ " حضرت محمد اللہ سب سے پہلے نبی بھی ہیں اور سب سے آخری نبی بھی ہیں.“ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا آخری نبی وہی ہو جائیں گے.“ اس پر حضور نے فرمایا: ”بالکل.“ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے پھر یہ بحث اُٹھائی کہ اب اور نبی آسکتے ہیں اور آخری نبی کون ہوگا.اور سپیکر صاحب نے بھی اصرار کیا کہ اس سوال کا جواب نہیں آیا.اس پر حضور نے پھر فرمایا کہ امت محمدیہ میں وہ اشخاص جن کی بزرگی پر شک نہیں کیا جاسکتا، جب وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو محمد ﷺ جیسے کروڑوں پیدا کر سکتا ہے تو ان کے لئے یہ بات خاموشی سے قبول کر لی جاتی ہے تو وہ بات ہمارے لئے بحث کا موضوع کس طرح بن سکتی ہے.اور فرمایا کہ جس امتی نبی کی بشارت دی گئی تھی اس کا اپنا کوئی وجود نہیں.اور اس نے آنحضرت ﷺ کے مقاصد کے لئے اپنے نفس پر کامل موت وارد کی ہے.اس لئے اس کو آخری نبی نہیں کہا جاسکتا.حضور نے ان کی توجہ اس امر کی طرف بھی مبذول کرائی کہ رسول کریم ﷺ نہ صرف انبیاء کا آخر ہیں بلکہ اول بھی ہیں.جیسا کہ آنحضرت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اس وقت سے اللہ
429 تعالیٰ کا بندہ اور خاتم النبین ہوں جب کہ ابھی آدم مٹی میں تھے.(۷۳) بہر حال جب ۸ / اگست کی کارروائی ختم ہوئی تو کم از کم دو ممبران یعنی مولا بخش سومرو اور میاں عطاء اللہ خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ آج اٹارنی جنرل صاحب نے اچھی بحث کی ہے.لیکن حقیقت کا اظہارا گلے روز کیسے ہوتا ہے اس کا ہم جائزہ ابھی لیتے ہیں.۹ راگست کی کارروائی اب جو ۹ / اگست کی کارروائی شروع ہوئی تو ممبران کی ایک اور گھبراہٹ سامنے آئی.احمد رضا قصوری صاحب نے سپیکر صاحب سے درخواست کی کہ جب احمدیوں کا وفد ہال سے چلا جاتا ہے تو ہم آپس میں بات کرتے ہیں.اگر یہ ریکار ڈ کل کلاں کسی کے ہاتھ لگ گیا تو اس پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے.اس لئے میری درخواست ہے کہ جب ایسا ہو رہا ہو تو پلگ نکال دیا جائے.اس کے کچھ دیر بعد ایک اور ممبر چوہدری جہانگیر صاحب نے اپنی اس پریشانی کا اظہار کیا.”مسٹر چیئر مین میں یہ گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ Delegation کے ممبرز Brief Cases اور Bags لے کر اندر آ جاتے ہیں.کہیں ایسا نہ ہو کہ جناب والا یہ ہاؤس کی کارروائی کوٹیپ ریکارڈ کر رہے ہوں.اس کے متعلق ذرا تسلی کر لیجئے “ اس کے بعد جب سوالات شروع ہوئے تو اٹارنی جنرل صاحب نے ایک بار پھر وہی پرانے سوالات دہرانے شروع کیے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے؟ یا امتی نبی تھے؟ کیا آپ کے بعد بھی کوئی نبی آ سکتا ہے؟ پھر آخری نبی کسے کہا جائے گا؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان سوالات کے جواب میں انہیں جماعت احمدیہ کا موقف بتادیا گیا تھا پھر انہیں بار بارد ہرانے سے ان کا مقصد کیا تھا ؟ ان سوالات کے جواب میں حضور نے فرمایا: ” ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جس مہدی اور مسیح کا امت محمد یہ تیرہ سو سال سے انتظار کر رہی تھی، وہ آچکا ہے.“ الله اور آنحضرت ﷺ کے جاری فیضان کے بارے میں آپ نے فرمایا: دو میں اس بات کا اعلان کر دیتا ہوں کہ ہمارے نزدیک اب خدا تعالیٰ کے انعامات کے
430 سب دروازے اتباع محمد ﷺ کے بغیر بند ہیں.اب میں نے چونکہ اعلان کر دیا ہے اس لئے براہ راست مجھ سے سوال کریں.پھر اٹارنی جنرل صاحب نے خاتم النبین ﷺ کی مختلف تفاسیر کے بارے میں سوال کیا.اس پر حضور نے جواب دیا: ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ خاتم النبین ہیں.اس معنی میں بھی کہ آپ سے قبل جس قدر انبیاء گزرے ہیں ان کی ساری روحانی تجلیات مجموعی طور پر محمد ﷺ کی روحانی تجلیات سے حصہ لینے والی اور ان سے کم تھیں.پہلے بھی اور آئیندہ بھی.کوئی شخص روحانی بزرگی اور روحانی عزت کے چھوٹے سے چھوٹے مقام کو بھی حاصل نہیں کر سکتا سوائے نبی اکرم ﷺ کے فیض سے حصہ لینے کے.یہ ہمارا عقیدہ ہے.“ اس مرحلہ پر ایک بار پھر بیٹی بختیار صاحب نے یہ اعتراض اٹھانے کی کوشش کی کہ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آخری نبی مانتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا: ” میں نے ابھی عرض کی کہ امت محمدیہ شروع سے لے کر تیرہ سو سال تک نبی (اکرم ) ﷺ کو خاتم النبین مانتے ہوئے ایک ایسے مسیح کا انتظار کرتی رہی جس کو مسلم کی حدیث میں خود آنحضرت ﷺ نے بار بار نبی اللہ کہا اور وہ خاتم النبین پر بھی ایمان رکھتے تھے.اس واسطے میرے نزدیک کوئی الجھن نہیں ہے.ساری امت....وہ سمجھتی رہی ایک مسیح آئے گا جو نبی اللہ ہوگا.اور میں نے ابھی بتایا ہے کہ امت کے سلف صالحین کی سینکڑوں عبارتیں یہاں بتائی جاسکتی ہیں جو آنے والے کا مقام ظاہر کر رہی ہیں....تیرہ سوسال تک امت محمدیہ نبی کا انتظار کرتی رہی اور تمام سلف صالحین اس بات پر متفق تھے.“ اس کے بعد انہوں نے کچھ حوالے تصدیق کے لئے نوٹ کرائے.اور پھر اپنی طرف سے اٹارنی جنرل صاحب نے یہ کہا کہ احمدیوں کے علاوہ باقی فرقے یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا اور احمدی کہتے ہیں کہ امتی نبی آسکتا ہے.اس پر حضور نے پھر اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ تیرہ سو سال تک امت محمد یہ ایک مسیح نبی اللہ کا انتظار کرتی رہی ہے.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ وہ تو پہلے ہی نبی بن چکے ہیں.حالانکہ یہاں نئے اور
431 پرانے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہوسکتا تو پھر وہ بھی نہیں ہو سکتا جسے پہلے ہی نبوت ملی ہو.اس کے جواب میں حضور نے یہ پر معرفت نکته بیان فرمایا کہ حضرت عیسی علیہ السلام شریعت موسویہ کو جاری کرنے کے لئے دنیا میں آئے تھے.اس پر یحییٰ بختیار صاحب نے جو کچھ فرمایا وہ انہیں کا حصہ ہے.انہوں نے کہا: 66 ”مرزا صاحب ان کی اتھارٹی change ہوگئی.“ حضرت خلیفہ امسیح الثالث فرما رہے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام تو صرف حضرت موسیٰ کی پیروی اور تورات کی پیروی میں بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے جیسا کہ انجیل میں ان کے بہت سے اقوال سے ثابت ہے اور سب سے بڑھ کر قرآن کریم میں ان کے متعلق یہ ارشاد موجود ہے وَرَسُولًا إلى بَنِي إِسْرَاعِيْلَ (ال عمران : (۴۹) یعنی حضرت عیسی بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے اور یہ خبر ان کی والدہ کو ان کی پیدائش سے قبل اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی اور کسی آیت میں یہ نہیں آتا کہ ان کو کسی اور قوم کی طرف مبعوث کیا جانا مقدر تھا.لیکن اب قومی اسمبلی میں اٹارنی جنرل صاحب یہ اعلان فرما رہے تھے کہ اب ان کی اتھارٹی change ہوگئی ہے.گویا ان کے نزدیک قومی اسمبلی صرف یہی اختیار نہیں رکھتی تھی کہ کون مسلمان ہے کہ اور کون نہیں بلکہ یہ اختیار بھی رکھتی تھی کہ کس نبی کا دائرہ کار کیا ہے.اٹارنی جنرل صاحب نے اس نکتے کی وضاحت نہیں فرمائی کہ جو بات قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے وہ کس طرح تبدیل ہوگئی اور کس نے اسے تبدیل کر دیا.اس مرحلہ پر کچھ دیر کے لئے یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ شاید اب یہ کارروائی اپنے اصل موضوع کی طرف آجائے اور وہ موضوع یہ مقرر ہوا تھا کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتا اس کا اسلام میں کیا status ہے.اور اس مرحلہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بڑے جامع انداز میں یہ بیان فرمایا تھا کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی کیا ہیں اور آنحضرت ﷺ کا اعلی اور ارفع مقام کیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ کیا تھا.اور جب حضور نے یہ لطیف نکتہ صلى الله بیان فرمایا کہ تیرہ سو سال سے امت احمد یہ ایک ایسے مسیح کی منتظر رہی جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے نبی کا لفظ بیان فرمایا تھا اور وہ پھر بھی آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کے قائل تھے تو پھر اب اٹارنی جنرل صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ اصل موضوع کے بارے میں سوالات اُٹھاتے اور بحث ایک ٹھوس
432 رنگ اختیار کرتی.لیکن جیسا کہ ہم جائزہ لیں گے کہ ایک بار پھر اٹارنی جنرل صاحب اصل موضوع سے کترا کے نکل گئے.اور ایک بار پھر یہ واضح ہور ہا تھا کہ ارباب حل و عقد کا یہ ارادہ ہی نہیں کہ وہ اس بحث کو اپنے اصل موضوع پر آنے دیں.یہاں پر ایک سوال لا زما پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ اس موضوع سے کترا کیوں رہے تھے.اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل تیرہ سو سال تک امت محمدیہ کے کتنے ہی بزرگ گزرے ہیں جو اس عقیدہ کا برملا اظہار کرتے رہے کہ خاتم النبین کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی امتی نبی بھی نہیں آسکتا.آنحضرت کے بعد شرعی نبی کوئی نہیں آسکتا لیکن آپ کی غلامی میں اور آپ کی اطاعت کا جوا اُٹھا کر امتی نبی ضرور آ سکتا ہے.ہم اس کی صرف چند مثالیں یہاں پر پیش کرتے ہیں.سب سے بڑھ کر یہ کہ صحیح مسلم میں کتاب الفتن کی ایک ہی حدیث میں رسول کریم ﷺ نے آنے والے مسیح کو چار مرتبہ نبی اللہ کا نام دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ نبی دجال کے فتنہ کا سد باب کرے گا.اس حدیث کے راوی حضرت نواس بن سمعان ہیں.اس کے علاوہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں گا.قولوا خاتم النبيين ، ولا تقولوا لا نبي بعده “ یعنی ( آپ ﷺ کو خاتم النبیین تو کہو لیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو ( الدر المنثور فی التفسير الماثور، مصنفہ جلال الدین السیوطی ، الجزء الخامس، دار الکتب العلمیہ.بیروت ص ۳۸۶) حضرت مغیرہ بن شعبہ کے سامنے ایک آدمی نے یوں درود پڑھاصلى الله على مـحـمـد خاتم الانبياء لا نبی بعدہ یعنی اللہ محمد ﷺ خاتم الانبیاء پر سلامتی نازل کرے.آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.اس پر حضرت مغیرہ بن شعبہ نے فرمایا جب تو نے خاتم الانبیاء کہا تھا تو یہ تیرے لئے کافی تھا.ہم یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسی ظہور فرمائیں گے جب آپ ظہور فرمائیں گے تو وہ پہلے بھی ہوں گے اور بعد بھی ہوں گے.(الدر المنثور في التفسير الماثور ، مصنفه جلال الدين السيوطي ،الجزء الخامس، دار الكتب العلميه - بيروت ص ٣٨٦)
433 حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اپنی تصنیف قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین میں درود شریف کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں وَ قَدْ قَضَيْتَ اَنْ لَّا شَرُعَ بَعْدِى فَصَلَّ عَلَيَّ وَعَلَى آلِى بِأَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ مَرْتَبَةَ نَبوَّةٍ عِندَكَ وَ اِنْ لَّمْ يَشْرَعُوا فَكَانَ مِنْ كَمَالِ رَسُولِ اللَّهِ اللهِ أَنْ الْحَقَ آلَهُ بِالْأَنْبِيَاءِ فِي الْمَرْتَبَةِ “ ترجمہ: اور یقیناً تو نے فیصلہ کر دیا ہے کہ میرے بعد شریعت نہیں ہوگی.پس تو مجھ پر اور میری آل پر سلام بھیج ان معنوں میں کہ اپنے حضور انہیں نبوت کا مرتبہ عطا کر.اگر چہ الله وہ شریعت لانے والے نہ ہوں.پس یہ رسول اللہ ﷺ کا کمال ہے کہ آپ نے اپنی آل کو نبیوں کے ساتھ ملا دیا.قرة العينين فى تفضيل الشيخين مصنفه حضرت شاه ولی الله دهلوى ، المكتبة السلفيه - شيش محل روڈ لاهور ص ۳۲۰) اب دیکھتے ہیں کہ حدیث نبوی لا نبی بعدی کی تشریح میں علماء سلف کیا فرماتے رہے ہیں.مشہور عالم ملاعلی قاری تحریر فرماتے ہیں : دد بعض علماء آنحضرت ﷺ کے قول لا نبی بعدی کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب عیسی ابن مریم نازل ہوں گے تو وہ اس امت کے حکام میں سے ایک ہوں گے.اور وہ شریعت محمدیہ کی طرف بلائیں گے.اور کوئی اور نبی نازل نہیں ہو گا.میں کہتا ہوں کہ یہ اس بات کی نفی نہیں ہے کہ کوئی نبی پیدا ہو جائے اور وہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے والا ہو.آپکی شریعت کے احکام کے بیان میں اگر چہ اس کی طرف وحی بھی ہوتی ہو جس طرح رسول کریم ﷺ کے اس قول میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے علاوہ چارہ نہ ہوتا.آنحضرت ﷺ کی مراد اس سے یہ ہے کہ اگر وہ نبوت اور رسالت کے وصف کے ساتھ بھی آئیں تو انہیں میری پیروی کرنی ہوگی.(من مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح للعلامة الفاضل والفهامة الكامل المرحوم برحمة ربه الباري على بن سلطان محمد القارى الجزء الخامس ص ۵۶۴)
434 حضرت مجددالف ثانی اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: پس حصول کمالات نبوت مرتا بعان را بطریق تبعیت و وراثت بعد از بعثت خاتم الرسل علیہ وعلی آلہ وعلى جميع الانبياء والرسل الصلوات والتحیات منافی خاتمیت نیست ترجمہ: خاتم الرسل کی بعثت کے بعد کامل تابعداروں کو اتباع اور وراثت کے طریق سے کمالات نبوت کا حاصل ہونا خاتمیت کے منافی نہیں.( مکتوبات امام ربانی حضرت مجددالف ثانی، باہتمام محمد سعیداحمد نقشبندی ص ۱۴۱) علامہ شہاب الدین تو ر پیشی جو ساتویں صدی کے بزرگ تھے تحریر فرماتے ہیں: اگر سوال کیا جاوے کہ حدیث نواس بن سمعان میں بعد وصف دجال اور اس کے ہلاک ہونے کے آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کی بابت فرمایا يفتح باب الدار کہ وہ انصاف کا دروازہ کھولیں گے.کمافی اصل الحدیث اور اسی حدیث میں حضرت عیسی کو نبی اللہ کہا.اور دوسری جگہ فرمایا فیر غب نبی اللہ اس پر حضرت عیسی کی نبوت ثابت ہوتی ہے اور تم اس سے نفی نبوت کرتے ہو.جواب یہ ہے کہ ہم وہی شریعت کی نفی کرتے ہیں نہ الہام الہی کی اور ہم آخر زمانے میں یعنی آنحضرت ﷺ کے حکم نبوت کی نفی کرتے ہیں نہ اسم نبوت کی (عقائد مجدديه المسمى به الصراط السوى ترجمہ عقائد تور پیشی مصنفہ علامہ شہاب الدین تو ریشی ناشر اللہ والے کی قومی دوکان ص ۲۲۴) ملاعلی قاری اپنی کتاب الموضوعات الکبیر میں تحریر کرتے ہیں.لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ وَ صَارَ نَبِيًّا ، لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِيًّا لَكَانَا مِنْ أَتْبَاعِهِ عَلَيْهِ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ كَعِيْسَى وَالْخِضْرِ وَالْيَاسَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ فَلَا يُنَاقِضُ قَوْلُهُ تَعَالَى وَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذِ الْمَعْنى أنه لا ياتي نبي بعده ينسخ ملته ولم يكن من امته 66 ترجمہ : اگر ابراہیم زندہ رہتے اور نبی بن جاتے اور اسی طرح اگر ( حضرت ) عمر بھی نبی بن جاتے تو وہ دونوں حضرت عیسی".حضرت خضر اور حضرت الیاس کی طرح
435 آنحضرت ﷺ کے تابع ہوتے.پس یہ اللہ تعالیٰ کے قول وَ خَاتَمَ النَّبِيِّين کے مخالف نہیں ہے.اس کے معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کے دین کو منسوخ کرے اور آپ کا امتی نہ ہو.“ الموضوعات الکبیر مصنفہ ملاعلی قاری ناشر نور محمد اصبح المطابع آرام باغ کراچی ص ۱۰۰) امام عبدالوہاب شعرانی تحریر کرتے ہیں الله اعْلَمُ اَنَّ النُّبُوَّةَ لَمْ تَرْتَفِعُ مُطْلَقًا بَعْدَ مُحَمَّدٍ عَل وَ إِنَّمَا ارْتَفَعَ نُبُوَّةً التَّشْرِيع فَقَط فَقَوْلُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلَ بَعْدِي أَى مَا ثَمَّ مَنْ يَّشْرَعُ بَعْدِي شَرِيْعَةً خَاصَّةً “ جان او مطلق نبوت بند نہیں ہوئی.صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے.آنحضرت ﷺ کے قول لــانـبـي بـعـدى ولا رسول بعدی سے یہ مراد ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص 66 شریعت خاصہ کے ساتھ نہیں آئے گا.“ (اليواقيت والجواهر في بيان عقائد الاكابر الجزء الاول ناشر داراحياء التراث العربي موسسة التاريخ العربي بيروت ص ۳۷۴) حضرت محی الدین ابن عربی تحریر فرماتے ہیں....عیسى عَلَيْهِ السَّلامُ يَنزِلُ فِيْنَا حَكَمًا مُقْسِطًا عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَلَا نَشُكُ قَطعًا أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ وَ نَبيُّهُ وَ هُوَ يَنزِلُ فَلَهُ عَلَيْهِ السَّلامُ مَرْتَبَةُ النُّبُوَّةِ بِلا شَكّ عِنْدَ اللَّهِ وَمَا لَهُ مَرْتَبَةُ التَّشْرِيعِ عِنْدَ نُزُولِهِ فَعَلِمْنَا بِقَوْلِهِ الا الله أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَ لَا رَسُوْلَ وَ أَنَّ النُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ وَالرَّسَالَةَ إِنَّمَا يَريدُ بِهِمَا التَّشْرِيعُ...یعنی حضرت عیسی علیہ السلام ہم میں نزول فرمائیں گے اس حال میں کہ وہ حکم و عدل ہوں گے.وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے.اور ہمیں آپ کے نبی ہونے پر قطعاً کوئی شک و شبہ نہیں اور جب وہ نازل ہوں گے تو اللہ کے نزدیک یقیناً نبوت کا مرتبہ پائیں گے 66
436 اور نزول کے وقت وہ شرعی نبی نہیں ہوں گے.اور ہمیں آنحضرت ﷺ کے قول لا نبی بعدی و لا رسول کا یہ مطلب سمجھایا گیا ہے کہ یقیناً رسالت منقطع ہو چکی ہے.اس سے مراد شریعت ہے....الفتوحات المكية المجلد الاول.ناشر دار صادر بیروت ،ص ۵۴۵) 66 پھر اسی کتاب میں ایک اور مقام پر حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں.صلى الله فَإِنَّ النُّبُوَّةَ الَّتِي قَدِ انْقَطَعَتْ بِوُجُودِ رَسُولِ اللَّهِ لا إِنَّمَا هِيَ النُّبُوةُ التَّشْرِيع لَا مُقَامُهَا فَلا شَرُعَ يَكُونُ نَاسِخًا لِشَرْعِهِ عَل وَلَا يَزِيدُ فِي حُكْمِهِ شَرُعًا آخَرَ وَ هذَا مَعْنى قَوْلِهِ الا الله أَنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلا رَسُولَ بَعْدِى وَلَا نَبِيَّ أَيْ لَا نَبِيَّ بَعْدِي يَكُونُ عَلَى شَرْعٍ يُخَالِفُ شُرُعِيُ بَلْ إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَتِى.“ ترجمہ: وہ نبوت جو رسول کریم ﷺ کے آنے سے منقطع ہوگئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت.پس اب کوئی شرع نہ ہوگی جو آنحضرت ﷺ کی شرع کی ناسخ ہو اور نہ آپ کی شریعت میں کوئی نیا حکم بڑھانے والی شرع ہوگی اور یہی معنی رسول کریم کے اس قول کے ہیں کہ نبوت اور رسالت منقطع ہوگئی ہے.پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا نہ نبی.یعنی مراد آنحضرت ﷺ کے اس فرمان کی یہ ہے کہ اب کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو میری شریعت کے مخالف شریعت پر ہو بلکہ جب ( کوئی نبی ) ہوگا تو وہ میری شریعت کے تحت ہوگا.ص (الفتوحات المكيه ، المجلد الثانی ،ناشر دار صادر بیروت اور یہ عقیدہ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد امتی نبی ہو سکتا ہے صرف سلف صالحین تک محدود نہیں تھا بلکہ اس دور کے علماء بھی بڑی تعداد میں یہ عقیدہ رکھتے رہے.چنانچہ بانی دارالعلوم دیو بند ، کرم مولا نا محمد قاسم نانوتوی صاحب اپنی تصنیف تحذیر الناس میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:.قبل عرض جواب یہ گزارش ہے کہ اول معنی خاتم النبین معلوم کرنے چاہئیں تا کہ فہیم
437 جواب میں کچھ دقت نہ ہو سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولکن رسول الله و خاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے.ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارانہ ہوگی...عرض پرداز ہوں کہ اطلاق خاتم اس بات کو متقضی ہے کہ تمام انبیاء کا سلسلہ نبوت آپ پرختم ہوتا ہے جیسا انبیاء گزشتہ کا وصف نبوت میں حسب تقریر مذکور اس لفظ میں آپکی طرف محتاج ہونا ثابت ہوتا ہے اور آپ کا اس وصف میں کسی کی طرف محتاج ہونا انبیاء گزشتہ ہوں یا کوئی اور.اسی طرح اگر فرض کیجئے آپ کے زمانے میں بھی اس زمین میں یا کسی اور زمین میں یا آسمان میں کوئی اور نبی ہو تو وہ بھی اس وصف نبوت میں آپ ہی کا محتاج ہوگا اور اس کا سلسلہ نبوت بہر طور پر آپ پر مختم ہو گا.......بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے.“ (تحذیرالناس، مصنفہ مولانا قاسم نانوتوی صاحب، قاری پریس دیو بندص ۳) اسی طرح نواب صدیق حسن خان صاحب نے تحریر کیا ہے کہ ” حديث لا وحی بعد موتی بے اصل ہے ہاں لا نبی بعدی آیا ہے.اس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لائے گا.“ اقتراب الساعة، مطبع مفید عام آگرہ،مصنفہ نواب صدیق حسن خان ص ۱۶۲) ان کتابوں میں بھی جو لکھی ہی جماعت کی مخالفت میں گئی تھیں اور جن میں جماعت احمدیہ کے خلاف جی بھر کر زہر اگلا گیا تھا، اس بات کا برملا اظہار کیا گیا تھا کہ امت مسلمہ کے سلف صالحین کی ایک بڑی تعداد یہ عقیدہ رکھتی رہی ہے کہ گو کہ آنحضرت ﷺ کے بعد شرعی نبی نہیں آسکتا لیکن آنحضرت ﷺ کی اتباع میں ایک شخص کو نبوت کا مقام مل سکتا ہے چنانچہ ایک کتاب " مرزائیت نئے زاویوں سے میں مصنف لکھتا ہے : الله
438 ” اب رہی یہ بحث کہ صوفیاء کرام نے نبوت کے معنی میں یہ توسیع کیوں فرمائی کہ اس کا اطلاق اولیاء پر بھی ہو سکے.تو یہ ایک لطیف بحث ہے.ہماری تحقیق یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری صوفیاء کے اس تصور پر عائد ہوتی ہے جو انہوں نے نبوت سے متعلق قائم کیا.انہوں نے یہ سمجھا کہ کمالات نبوت ایسی چیز ہے جو سعی اور کوشش سے حاصل ہوسکتی ہے.زہد وریاضت اور اللہ کی خوشنودی کے حصول میں جدو جہد انسان کو اس حد تک پہنچا دیتی ہے کہ اس کا آئینہ دل اتنا مجلا اور شفاف ہو جائے کہ غیب کے انوار و تجلیات کی جھلک اس پر منعکس ہو.ان کا دل مہبط وحی قرار پائے.اور اس کے کان طرح طرح کی آوازیں سنیں.یعنی مقام نبوت یا محدثیت اور بالفعل نبوت کا حصول یہ دو مختلف چیزیں نہیں.مقام نبوت سے مراد عمل وفکر کی وہ صلاحیتیں ہیں جو بشریت کی معراج ہیں.ان تک رسائی کے دروازے امت محمد یہ پر بلا شبہ کھلے ہیں.شوق عبودیت اور ذوق عبادت شرط ہے.جو بات ختم نبوت کی تصریحات کے بعد ہماری دسترس سے باہر ہے.وہ نبوت کا حصول ہے کہ اس کا تعلق یکسر اللہ تعالیٰ کے انتخاب سے ہے.یعنی یہ اس پر موقوف ہیکہ اس کی نگاہِ کرم اس عہدہ جلیلہ کے لئے اپنے کسی بندے کو چن لے.جس میں نبوت کی صلاحیتیں پہلے سے موجود ہوں اور جو مقامِ نبوت پر پہلے سے فائز ہو.اب چونکہ نامزدگی کا یہ سلسلہ بند ہے.اس لئے کوئی شخص ان معنوں میں تو نبی ہر گز نہیں ہو سکتا کہ اس کا ماننا دوسروں کے لئے ضروری ہو اور اس کے الہامات دوسروں پر شرعاً حجت ہوں.البتہ مقامِ نبوت یا نبوت کی صلاحیتیں اب بھی حاصل ہوسکتی ہیں.نبوت کے اس تصور سے چونکہ نبوت مصطلحہ اور ولایت کے اس مقام میں بجز نامزدگی کے اور کوئی بنیادی فرق نہیں رہتا.اس لئے وہ حق بجانب ہیں کہ اس کو بھی ایک طرح کی نبوت قرار دیں کہ دونوں فطرت و حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.“ (مرزائیت نئے زاویوں سے مصنفہ محمد حنیف ندوی ص ۷۵-۷۶) اب ان چند مثالوں سے ظاہر ہے کہ پہلی صدی سے لے کر موجودہ دور تک سلف صالحین اور بعد کے علماء کی ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل رہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد آنحضرت ے کی غلامی میں امتی نبی آنے کا دروازہ بند نہیں ہوا اور خاتم النبيين كے الفاظ کا قطعاً یہ مطلب
439 نہیں کہ آپ کے بعد اب کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکتا.اب پوری قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی کے سپر دتو یہ کام ہوا تھا کہ یہ تعین کرے کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں سمجھتا اس کا اسلام میں کیا Status ہے.اب اگر وہ یہ بحث شروع کرتے تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ کاروائی اپنے موضوع پر آگئی ہے.جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا تھا کہ پرانے بزرگوں اور بعد کے علماء نے اتنے تواتر سے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد امتی نبی کا مقام حاصل کرنا مقام خاتم النبین کے منافی نہیں ہے کہ ان حوالوں کو پڑھنے میں کئی دن درکار ہوں گے.تو چاہئے تو یہ تھا کہ قومی اسمبلی بھی مشتاق ہوتی کہ ہاں ہمیں بھی وہ حوالے سنائیں ورنہ ہم ابھی تک تو یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو کسی قسم کی نبوت کے دروازے کو کھلا ہوا سمجھے وہ فوراً دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.سوالات اُٹھانے والے اپنی اس کمزوری کو جانتے تھے.عقل کا تقاضا یہ تھا کہ اگر اس بنیاد پر کسی کو غیر مسلم کہا جاتا تو اس کا فر گری کے عمل کی زد میں سلف صالحین کی ایک بڑی تعداد آجاتی.چنانچہ اس صورت حال میں ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ آخر کیوں ایک بار پھر اٹارنی جنرل صاحب نے موضوع سے گریز کیا اور دوسرے موضوع پر سوالات شروع کر دئیے.بہر حال اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی طرف سے ایک دلیل پیش فرمائی.اس دلیل کی حالت ملاحظہ ہو.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر کو پڑھا: ”..اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسی اور حضرت عیسی اور حضرت محمد مصطفے ﷺ پر اپنا کلام نازل کیا تھا.(۷۴) یہ حوالہ پڑھ کر یحییٰ بختیار صاحب نے حضور سے کہا: یہ آپ دیکھ لیجئے.“ یہ پڑھتے ہوئے آدمی سوچتا ہے کہ آخر اس پر وہ کیا اعتراض کریں گے.انہوں نے یہ حوالہ دکھاتے ہی کہا وو اب مرزا صاحب.اس پر ذرا کچھ روشنی ڈالیں کہ جب مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے اوپر نازل ہوتی
440 ہے.ایک نبی ہونے کی حیثیت سے بول رہے ہیں کہ مجھ پر جو وحی نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسی ، حضرت عیسی اور حضرت محمد مصطفے صلحم پر اپنا کلام نازل کیا تھا.یہ ان تینوں سے علیحدہ نبی ہو کر اپنے کلام کا ذکر کر رہے ہیں.“ یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ اس حوالہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ امتی نبی ہونے کا نہیں تھا اور نہ آپ کا دعوی یہ تھا کہ آپ نے جو کچھ پایا ہے وہ آنحضرت ﷺ کے فیض سے پایا ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حوالہ پر یہ اعتراض کسی طور سے نہیں اُٹھ سکتا یہاں صرف منبع وحی کا ذکر ہے.اٹارنی جنرل صاحب کا مطلب کیا یہ تھا کہ امتی نبی کو یہ کہنا چاہئے کہ مجھ پر کسی اور خدا کی وحی اترتی ہے اور اس خدا کی وحی نہیں اترتی جس نے گزشتہ انبیاء سے کلام کیا تھا.اٹارنی جنرل صاحب کا یہ استنباط ان پاس دلائل کے فقدان کا ثبوت تو ہو سکتا ہے لیکن اسے کوئی سنجیدہ استنباط نہیں کہا جاسکتا.سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کتاب کے اسی صفحہ پر اس نام نہاد اعتراض کی مکمل تردید ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.“ بیٹی بختیار صاحب کو حضور نے اس عبارت کا مطلب سمجھانا شروع کیا مگر وہ بار بار یہ اصرار کر رہے تھے کہ اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک مختلف نبی کی حیثیت سے وحی آئی ہے.حالانکہ اگر مذکورہ عبارت مکمل پڑھی جائے تو یہ عبارت تو صاف صاف یہ اعلان کر رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود کو امتی نبی کا مقام آنحضرت ﷺ کی اقتداء کی برکت سے ملا تھا.اور آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے.مگر اٹارنی جنرل صاحب کو اپنے استدلال پر اتنا یقین تھا کہ وہ اپنی بات پر مصر تھے اور یہاں تک کہہ گئے The words are quite simple and plane یعنی یہ الفاظ تو بالکل واضح ہیں.بات تو ٹھیک تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ تو بالکل واضح
441 تھے لیکن اٹارنی جنرل صاحب اور انہیں سوالات مہیا کرنے والوں کا ذہن کج روی کا شکار تھا.ابھی یہ بحث کسی نتیجہ کے قریب نہیں پہنچی تھی کہ اٹارنی جنرل صاحب نے موضوع تبدیل کیا اور یہ اعتراض پیش کیا کہ احمدیوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ رکھا ہے.حالانکہ احمدیوں نے تو ہمیشہ مظالم کا نشانہ بننے کے باوجود مسلمانوں کے مفادات کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں.یہ اعتراض اس لئے بھی بے بنیاد تھا.عالم اسلام میں بہت سے فرقوں نے بہت سے پہلوؤں سے اپنا علیحدہ تشخص برقرار رکھا ہے.بلکہ بہت سے علماء نے دوسرے فرقوں کے متعلق یہ فتاوی دیئے تھے کہ ان کے ساتھ شادی بیاہ، مودت تو ایک طرف رہی عام معاشی تعلقات بھی حرام ہیں.اور اس سلسلہ میں انہوں نے بہت سے الفضل کے حوالے بھی نوٹ کرائے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ یہ حوالے نوٹ کر لئے جائیں ان کو چیک کر کے جواب دیا جائے گا.اس کے بعد یہ گھسا پٹا اعتراض دہرایا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریز گورنمنٹ کی اطاعت اور ان سے تعاون کا حکم دیا تھا.اول تو اس اعتراض کا اس مسئلہ سے کیا تعلق تھا کہ جس پر غور کرنے کے لیے یہ کمیٹی کام کر رہی تھی.زیر غور مسئلہ تو یہ تھا کہ جوشخص حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی صلى الله نہیں مانتا اس کا اسلام میں کیا Status ہے اور یہ سوال کیا جارہا ہے کہ آج سے کئی دہائیاں قبل جب برصغیر میں انگریزوں کی حکومت قائم تھی تو کیا احمدی اس حکومت کی اطاعت کرتے تھے یا نہیں.کوئی بھی صاحب شعور دیکھ سکتا ہے کہ غیر متعلقہ امور پر سوالات کر کے محض اصل موضوع سے کنارہ کیا جارہا تھا.اور یہ سوال قیام پاکستان کے بعد سے اب تک کیا جارہا ہے.اگر ایک منٹ کے لیے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ جس گروہ نے انگریز حکومت کی اطاعت کی تھی اسے دائرہ اسلام سے خارج کر دینا چاہئے.یا اگر کوئی گروہ اس وقت انگریزوں کی حکومت سے تعاون کر رہا تھا تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ اس نے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے علیحدہ رکھا ہے.تو پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس وقت کون کون سے گروہ انگریز حکومت کی اطاعت کر رہے تھے اور ان سے تعاون کر رہے تھے.یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہئے کہ انگریزوں کی حکومت قائم ہونے سے قبل ہندوستان ایک طوائف الملو کی کے خوفناک دور سے گزر رہا تھا.مغل سلطنت تو اب لال قلعہ کی حدود تک محدود ہو چکی تھی.اور اس دورِ خرابی میں ہندوستان میں بالعموم اور بالخصوص پنجاب میں خاص طور پر مسلمانوں کے حقوق بری طرح پامال کیے جارہے تھے.اور
442 پنجاب میں تو سکھوں کی حکومت میں مسلمانوں پر وہ وحشیانہ مظالم کئے گئے تھے کہ جن کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ان کی مذہبی آزادی مکمل طور پر سلب کی جا چکی تھی.اس دور میں جب کہ ابھی پورے ہندوستان پر انگریزوں کا غلبہ نہیں ہوا تھا ، اس وقت ان علاقوں کے لوگوں کے خیالات کیا تھے جہاں پر ابھی مقامی راجہ مہاراجہ حکومت کر رہے تھے.اسکے متعلق مسلمانوں کے مشہور لیڈر سرسید احمد خان صاحب لکھتے ہیں....ہماری گورنمنٹ کی عملداری دفعہ ہندوستان میں نہیں آئی تھی بلکہ رفتہ رفتہ ہوئی تھی جس کی ابتداء ۱۷۵۷ء کے وقت سراج الدولہ کے پلاسی پر شکست کھانے سے شمار ہوتی ہے.اس زمانے سے چند روز پیشتر تک تمام رعایا اور رئیسوں کے دل ہماری گورنمنٹ کی طرف کھینچتے تھے اور ہماری گورنمنٹ اور اس کے حکام متعہد کے اخلاق اور اوصاف اور رحم اور استحکام عہود اور رعایا پروری اور امن و آسائش سن سن کر جو عملداریاں ہندو اور مسلمانوں کی ہماری گورنمنٹ کے ہمسائے میں تھیں وہ خواہش رکھتی تھیں اس بات کی کہ ہماری گورنمنٹ کے سایہ میں ہوں.(۷۵) اس زمانہ کے حالات کے گواہ، مسلمانوں کے لیڈر اور عظیم خیر خواہ سرسید احمد خان صاحب لکھ رہے ہیں جب کہ خود ہندوستان کے لوگوں کی ، جن میں مسلمان اور ہندو دونوں شامل تھے یہ خواہش تھی کہ وہ انگریزوں کی حکومت کے تحت آجائیں.اس دور میں جب کہ پنجاب اور اس کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں انگریزوں کی نہیں بلکہ سکھوں کی حکومت قائم تھی.مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں تو پھر بھی مسلمانوں کی کچھ اشک شوئی ہوئی ورنہ باقی سکھ فرمانرواؤں کے دور میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو اس بری طرح پامال کیا گیا کہ بعض مسلمان قائدین نے ان کے خلاف اعلانِ جہاد کر دیا.جن میں ایک نمایاں نام سید احمد شہید صاحب اور مولوی اسماعیل شہید کا ہے.سید احمد شہید کا فتویٰ تھا: سرکار انگریز گومنکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے.ہم ان کے ملک میں اعلانیہ وعظ کہتے اور ترویج کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی.بلکہ اگر ہم پر کوئی زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا
443 دینے کو تیار ہے.ہمارا اصل کام اشاعت توحید الہی اور احیائے سنن سید المرسلین ہے.سو ہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں.پھر ہم سرکار انگریز پر کس سبب سے جہاد کریں اور خلاف اصول مذہب طرفین کا خون بلا سبب گرادیں.(۷۶) تو سید احمد شہید صاحب کے نزدیک اس دور میں انگریز حکومت کے خلاف جہاد کرنا خلاف اصول مذہب اسلام تھا.اسی دور میں مولوی اسماعیل شہید صاحب نے سکھوں سے جہاد کرنے کے لیے لوگوں کو ترغیب دی اور لشکر ترتیب دیئے.انہوں نے یہ واضح اعلان کیا کہ ” جو مسلمان سرکار انگریز کی امان میں رہتے ہیں ہندوستان میں جہاد نہیں کر سکتے.(۷۷) جب انگریزوں کی حکومت ہندوستان میں مستحکم ہوگئی تو علماء نے اس کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی چنانچہ جماعت احمدیہ کے ایک اشد مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تحریر کرتے ہیں : ” بناء علیہ اہل اسلام ہندوستان کے لئے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت و بغاوت حرام ہے.(۷۸) پھر تحریر کرتے ہیں : اس امن و آزادی عام و حسن انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہلحدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں اور جہاں کہیں وہ رہیں یا جائیں (عرب میں خواہ روم میں خواہ اور کہیں ) کسی اور ریاست کا محکوم ور عایا ہونا نہیں چاہتے.‘(۷۹) جب ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے سیاسی مفادات کی حفاظت کے لیے مسلم لیگ قائم کی تو اس کے اغراض و مقاصد بھی طے کیے گئے.ان میں سے پہلا مقصد یہ تھا : To promote among Indian Muslims feelings of loyalty towards the British Government, and to remove any misconception that may arise as to the intentions of the government with regard to any of its measures.
444 ہندوستان کے مسلمانوں میں برٹش گورنمنٹ کی بابت وفاداری کے احساس کو بڑھانا اور گورنمنٹ کے کسی قدم کے بارے میں اگر کوئی غلط فہمی پیدا ہو تو اسے دور کرنا.(۸۰) اور جب پنجاب میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے بنیادی اغراض و مقاصد طے کیے گئے.ان چار مقاصد میں سے ایک یہ تھا: مسلمانوں کے درمیان برٹش گورنمنٹ کی نسبت سچی وفاداری کا خیال قائم رکھنا اور بڑھانا.(۸۱) واضح رہے کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلانے کی مستحق تھی تو وہ مسلم لیگ تھی اور اس کے اغراض و مقاصد میں انگریزوں کی حکومت کے بارے میں کن نظریات کا اظہار کیا گیا تھا یہ مندرجہ بالا حوالے سے واضح ہے.اور جب وائسرائے ہند لارڈ منٹو کی خدمت میں پنجاب مسلم لیگ نے ایڈریس پیش کیا تو اس میں ان الفاظ میں مسلم لیگ کی پالیسی کا اعادہ کیا گیا ” ہماری جماعت انگریزی تاج سے مستقل محبت وفاداری رکھتی ہے.....ہم اس موقع کو زور کے ساتھ یہ عرض کیے بغیر گزر جانے دینا نہیں چاہتے کہ بعض انقلاب پسندوں نے جوا نارکزم کا رویہ اختیار کیا ہے.اس سے نہ صرف مسلمانانِ پنجاب کو بلکہ کل ہندوستان کی اسلامی جماعت کو دلی نفرت ہے.(۸۲) اور ۱۹۱۱ء میں پنجاب مسلم لیگ نے جو ایڈریس لارڈ ہارڈنگ وائسرائے ہند کو پیش کیا اس میں یہ اقرار کیا : گزشتہ چند سال میں ہندوستان کا پولیٹیکل مطلع اس صوبہ میں سڈیشن اور بے چینی کے بادلوں سے مکدر ہو رہا تھا.مسلمانوں نے کبھی ایک لمحہ کے لیے اپنی برٹش گورنمنٹ کی مستحکم عقیدت میں پس و پیش نہیں کیا.(۸۳) اور ۱۹۱۲ء میں جب پنجاب مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا تو اس کے خطبہ صدارت کا آغاز برٹش گورنمنٹ کی گوناں گوں برکات کے ذکر سے ہوا.(۸۴) اگر یہی کلیہ تسلیم کر لیا جائے کہ جن مسلمانوں نے ہندوستان میں انگریز حکومت سے تعاون کیا یا
445 تعاون کا اعلان کیا انہیں ملت اسلامیہ سے علیحدہ متصور کرنا چاہئے تو اس نامعقول کلیہ کی زد میں سرسید احمد خان ، سید احمد شہید ، مولوی اسماعیل شہید، غیر احمدی علماء اور پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کے تمام مسلمان لیڈر آجائیں گے.نہ صرف یہ بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے متعلق بھی یہی کہنا پڑے گا کہ انہیں ملت اسلامیہ سے علیحدہ سمجھنا چاہئے.لیکن ماضی کے ان حقائق پر نظر ڈالے بغیر مخالفین جماعت مسلسل یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ نے انگریز حکومت سے تعاون کیوں کیا ؟ بلکہ جب ہم نے صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے انٹرویو کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انگریز حکومت سے تعاون کے بارے میں جو جوابات دیئے گئے تھے ممبرانِ اسمبلی کی ان سے تسلی نہیں ہوئی تھی.ہم نے جو حوالے درج کئے ہیں ان کے مطابق تو یہ سوال اُٹھتا ہی نہیں ہے کجا یہ کہ اس پر تسلی ہونے یا نہ ہونے کی بحث کی جائے.ور اگست کے دن کے آخری حصہ کی کارروائی کا کچھ حصہ تو پہلے ہی بیان ہو چکا ہے.اور اس روز کے آخری اجلاس کا بیشتر حصہ بھی اس امر پر بحث کرتے ہوئے گزرا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخالفین کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کئے ہیں کہ نہیں.اس دن کی کارروائی کے آخر میں اٹارنی جنرل صاحب نے اکمل صاحب کے ایک شعر کا سہارا لے کر یہ اعتراض اٹھانے کی کوشش کی کہ جماعت احمدیہ کے عقائد کے مطابق نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام آنحضرت علی سے زیادہ بلند ہے.یہ بھی ایک پرانا اعتراض ہے اور اس کا جواب جماعت کے لٹریچر میں بار ہا بڑی تفصیل سے آچکا ہے.لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ وہ یہ اعتراض اٹھانا چاہتے تھے کہ جماعت احمد یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام آنحضرت ﷺ سے زیادہ سمجھتی ہے.اور اس کی تائید میں حضرت مسیح موعود کا کوئی الہام یاتحریر نہیں پیش کی گئی ، خلفاء میں سے کسی کی تحریر یا قول پیش نہیں کر سکے پیش کیا بھی تو کیا اکمل صاحب کا ایک شعر.اب اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ اسلام کے عقائد کیا ہیں تو کیا قرونِ اولیٰ کے کسی شاعر کا شعر پیش کیا جائے گایا یہ مناسب ہو گا کہ کسی قرآنی آیت یا حدیث شریف کا حوالہ پیش کیا جائے.اس خلاف عقل طرز استدلال کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے اس اعتراض کی تائید میں حضرت مسیح موعود کی کوئی تحریر یا الہام ڈھونڈ ہی نہیں سکتے تھے.وہاں تو ہر جگہ اس بات کا اعلان ہے کہ الله حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیثیت آنحضرت ﷺ کے ایک روحانی فرزند اور خادم کی ہے.
446 اس دن کی کارروائی کے اختتام پر جو کچھ ہوا اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اب تک جو جماعت احمدیہ کی طرف سے مختلف فرقوں کے علماء کے حوالے پیش کئے گئے تھے کہ کس طرح مختلف فرقوں نے دوسرے فرقوں کو کافر کہا ہے، اس سے مولوی حضرات کے کیمپ میں کافی بے چینی پیدا ہوئی تھی.اور ایسا ہونا لازمی تھا.کیونکہ ان کی ایک کوشش تھی کہ کسی طرح یہ ثابت کریں کہ احمدی تو غیر احمدی مسلمانوں کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے اور اس لئے اب ہمیں یہ حق ہے کہ ہم آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیں.لیکن اب تک یہ ہوا تھا کہ کثرت سے مختلف فرقوں کے علماء کے فتاویٰ پیش کئے گئے تھے جن میں انہوں نے ایک دوسرے کو کا فرقرار دیا تھا تو عقل یہ تقاضا کرتی تھی کہ پھر تو ان تمام فرقوں کو غیر مسلم قرار دے دینا چاہئے.چنانچہ اس بگڑتی ہوئی صورتِ حال کو سنبھالنے کے لئے نورانی صاحب نے کہا کہ جو فتوے جماعت کے وفد نے یہاں پر سنائے ہیں.ان کی Original کتابیں یہاں پیش کرنی چاہئیں.اس کے بغیر ان کا بیان مکمل نہیں ہونا چاہئے.اس پر حضور نے فرمایا کہ وہ کل یہاں پر رکھدئیے جائیں یا لائبریری میں رکھ دیئے جائیں.اب یہ صورت حال بھی نورانی صاحب کے لئے ناقابل قبول تھی کیونکہ اس طرح ان فتووں کی نمائش ہی لگ جانی تھی.اس پر کچھ دیر بعد نورانی صاحب نے ایک اور نکتہ اٹھایا اور وہ یہ تھا کہ جو کفر کے فتووں کے حوالے جماعت کا وفد پیش کرے وہ اس صورت میں قبول کئے جائیں جب کہ دیو بند یا فرنگی محل وغیرہ کے Original اصل مہروں والے فتوے پیش کئے جائیں ورنہ اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ وفد نے گواہی غلط دی ہے.اب یہ ایک بالکل بچگانہ فرمائش تھی.جماعت احمدیہ نے مختلف فرقوں کی معروف کتب سے حوالے پیش کئے تھے اور کہیں نہیں کہا تھا کہ ہم دیو بند، فرنگی محل یا ملتان کے کسی مدرسہ کے Original مہر والے فتووں سے پڑھ رہے ہیں.اور یہ فتوے جماعت احمدیہ کے پاس کیوں ہونے تھے.یہ فتوے تو ان مولوی حضرات یا ان کے مدرسوں کے پاس ہی ہونے تھے.ہاں اگر کسی کو شک تھا کہ کتب کے حوالے غلط دیئے گئے تھے تو وہ متعلقہ کتاب دیکھنے کا مطالبہ پیش کر سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا جار ہا تھا کیونکہ یہ سب فتاوی صحیح تھے.اگر یہی کلیہ تسلیم کیا جاتا تو جماعت احمد یہ بھی یہ مطالبہ کر سکتی تھی کہ ہمارا بھی صرف وہی حوالہ صحیح سمجھا جائے گا جس پر جماعت کی مجلس افتاء کی مہر ہو، جماعت کی کسی کتاب میں درج کوئی فتوی ہم تسلیم نہیں کریں گے.ابھی اس پر بحث چل رہی تھی کہ پیکر صاحب
447 نے کارروائی لکھنے والوں کو جانے کا کہا.۱۰ راگست کی کارروائی اس روز کی صبح کی کارروائی کے دوران زیادہ تر پرانے حوالوں پر ہی بات ہوئی.ان کو چیک کر کے اسمبلی میں ان کی صحیح اور مکمل عبارت سنائی گئی.بعض حوالے ایسے بھی تھے جو غلط دیئے گئے تھے.ایک بار پھر بحث اس نقطہ کی طرف واپس آگئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر میں جب حقیقی مسلمان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو اس سے کیا مطلب لیا جائے.یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف آئینہ کمالات اسلام کا ایک حوالہ پیش نظر تھا جس کا حوالہ محضر نامہ میں بھی دیا گیا تھا.اٹارنی جنرل صاحب نے جب یہ سوال کیا اور کہا کہ جب اس قسم کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے یہ تاثر پڑتا ہے کہ جو غیر احمدی ہیں وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اصل میں مسلمان نہیں ہیں.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ اس کا جواب محضر نامہ میں آچکا ہے لیکن چونکہ سوال دہرایا گیا ہے اس لئے میں اس کا جواب دہرانا چاہتا ہوں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف لطیف آئینہ کمالات اسلام کا حوالہ پڑھ کر سنایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر میں جب اصطلاح حقیقی مسلمان کی استعمال ہوتی ہے تو اس کا کیا مطلب لینا چاہئے.یہ عبارت غور سے پڑھنی چاہئے.کیونکہ اس مرحلہ پر جو کارروائی ہوئی مختلف اسمبلی ممبران اس کو توڑ موڑ کر اور غلط اضافوں کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے اور اپنے بیانات کی زینت بناتے رہے تا کہ یہ ثابت کریں کہ اگر اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تو اس کے ذمہ دار احمدی خود ہیں کیونکہ انہوں نے اس کارروائی کے دوران یہ موقف پیش کیا تھا کہ ہم اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے.بہر حال حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حضرت مسیح موعود عیہ السلام کا جو حوالہ پڑھا وہ یہ تھا : دو اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بلى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَرَبَّةٍ وَلَا خَوْفٌ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے
448 اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے.مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے.اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو در حقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالص اللہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد تو فیق سے وابستہ ہیں بجالا وے مگر ایسے ذوق وشوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے....اب آیات مد وحہ بالا پر ایک نظر غور ڈالنے سے ہر ایک سلیم العقل سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہوسکتی ہے کہ جب اس کا وجود معہ اپنے تمام باطنی و ظاہری قوی کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی راہ میں وقف ہو جاوے اور جو امانتیں اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اس معطی حقیقی کو واپس دی جائیں اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اس کی حقیقت کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے یعنی شخص مدعی اسلام یہ بات ثابت کر دیوے کہ اس کے ہاتھ اور پیر اور دل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اور اس کا غضب اور اس کا رحم اور اس کا حلم اور اس کا علم اور اس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اس کا آرام اور سرور اور جو کچھ اس کا سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے یہاں تک کہ اس کی نیات اور اس کے دل کے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اس شخص کے تابع ہوتے ہیں.غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدق قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے وہ اس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گیا ہے اور تمام اعضاء اور قوی الہی خدمت پر ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں.
449 اور ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات بھی صاف اور بدیہی طور پر ظاہر ہورہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقت اسلام ہے دو قسم پر ہے.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جائے.اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے اور اس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضا و قدر کے امور بدل و جان قبول کئے جائیں اور نہایت نیستی اور تذلیل سے ان سب حکموں اور حدوں اور قانونوں اور تقدیروں کو بارادت تام سر پر اُٹھا لیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اس کی ملکوت اور سلطنت کے علو مر تبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اس کے آلاء اور نعماء کے پہچاننے کے لئے ایک قومی رہبر ہیں بخوبی معلوم کر لی جائیں....ابھی حضور نے یہ حوالہ یہیں تک ہی پڑھا تھا کہ مولوی غلام غوث ہزاروی صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا.وہ سپیکر صاحب سے کہنے لگے کہ جناب یہ محضر نامے کے صفحات پڑھ رہے ہیں.یہ ہم نے پڑھ لئے ہیں.اسلام کی یہ تعریف مرزا صاحب نے اپنے تقدس کو ظاہر کرنے کے لئے کی ہے.پڑھنے والے اس بات کو خود ہی پرکھ سکتے ہیں کہ اس جواب کو شروع کرنے سے پہلے ہی حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے یہ فرما دیا تھا کہ اس سوال کا جواب تو محضر نامہ میں آچکا ہے لیکن چونکہ سوال دہرایا گیا ہے اس لئے میں اس کے جواب کو دہرانا چاہوں گا.سوال کرنے والوں کی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس کرنے کو وہی گھسے پٹے سوالات تھے جنہیں وہ مسلسل دہرائے جا رہے تھے اور یہ سوال کتنے ہی عرصہ سے کئے جا رہے تھے.نیا سوال کوئی بھی نہیں تھا.لیکن جب جواب سنایا جاتا تھا تو وہ ان سے برداشت نہیں ہوتا تھا.جب اس کے متعلق ایک بار پھر سوال کیا گیا کہ کیا یہ والہ محضر نامے میں ہے تو اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ پہلے دن یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ اگر سوال کو دہرایا جائے گا تو جواب بھی دہرایا جائے گا.اس کے بعد اس حوالے پر سوالات کرتے ہوئے اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کر کے جو بحث اُٹھائی وہ بی تھی.انہوں نے حضور سے سوال کیا کہ اس وقت آپ کے نزدیک کتنے لوگ اس Definition کے مطابق حقیقی مسلمان ہوں گے.اب یہ ایک عجیب بچگانہ سوال تھا.
450 مندرجہ بالا حوالے میں حقیقی مسلمان کی جو علامات درج کی گئی ہیں یہ زیادہ تر دل کے پوشیدہ خیالات سے تعلق رکھتی ہیں.ان کا صحیح علم تو صرف خدائے علیم کو ہی ہوسکتا ہے لیکن پہلے تو پاکستان کی اسمبلی یہ فیصلہ کرنے بیٹھی تھی کہ کون مسلمان ہے؟ اور اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کا خیال تھا کہ حکومت ایک مردم شماری بھی کرائے جس میں لوگوں کے دلوں کی نیتوں کا حساب بھی ملحوظ نظر رکھا جائے.بہر حال حضور نے وضاحت فرمائی کہ میر اعلم بہر حال حاوی نہیں لیکن اس وقت میرے خیال میں ہزاروں میں ہوں گے اور لاکھوں کروڑوں پہلے گزر چکے ہوں گے.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے سوال فرمایا کہ آپ کے نقطہ نظر کے مطابق کیا سب احمدی اس تعریف کے اندر آ جاتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ نہیں آسکتے.اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا حوالہ کے مطابق ، جس میں حقیقی مسلمان کی یہ علامات لکھی گئی ہیں، یہ بات چل رہی تھی.اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا کہ کیا غیر احمد یوں میں کوئی اس معیار کا حقیقی مسلمان ہے آپ کے عقیدے کے مطابق.اس پر حضور نے فرمایا: ”میرے عقیدے کے مطابق.ہاں یہ بڑا واضح سوال ہے.میرے عقیدے کے مطابق اس تعریف کے لحاظ سے میرے علم میں غیر احمدی حقیقی مسلمان نہیں.کوئی غیر احمدی ملتِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والا اس معیار کا کوئی نہیں.“ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے سپیکر صاحب سے کہا: Sir, I have spent one hour to get the answer.We may adjourn for tea break.جناب والا یہ جواب حاصل کرنے کے لئے میں نے ایک گھنٹہ صرف کیا ہے.ہم اب چائے کا وقفہ کر سکتے ہیں.ہم ذرا تفصیل سے اس سوال اور اس جواب کا جائزہ لیں گے.کیونکہ بہت سے اسمبلی ممبران نے بار بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ جب حضرت خلیفتہ اسیح الثالث سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ غیر احمدیوں کو کیا سمجھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم انہیں مسلمان نہیں سمجھتے ہیں، کا فرسمجھتے ہیں ، جہنمی سمجھتے ہیں.اور جب انہوں نے یہ کہ دیا تو ہم مجبور ہو گئے کہ انہیں بھی کافر کہیں.یہ بات یا اس سے ملتی جلتی بات تو پوری
451 کارروائی میں شروع سے لے کر آخر تک ، الف سے لے کر لیے تک نہیں پائی جاتی.بلکہ سوالات کرنے والے نامکمل حوالے اور جزوی تصویر سامنے رکھ کر کئی دن یہ کوشش کرتے رہے تھے کہ حضور ایسی کوئی بات فرمائیں جو موجب اعتراض ہو.ہر مبر کو کارروائی کی کاپی ملتی تھی کہ وہ اپنی تسلی کر سکتا ہے بلکہ حکومت کے پاس تو اس کا رروائی کا آڈیوریکارڈ بھی ہونا چاہئے.یہ ممبران تو حکومت سے مطالبہ بھی کر سکتے ہیں کہ اس آڈیو ریکارڈ کو منظر عام پر لایا جائے.ہاں یہ مندرجہ بالا حصہ دس اگست ۱۹۷۴ ء کی کارروائی میں ہے.اور اسی کو موڑ تو ڑ کر یہ بیچارے ممبران اپنے اس فیصلے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں.پیشتر اس کے کہ ان میں سے کچھ اہم ممبران اسمبلی کے بیانات درج کریں ، پڑھنے والا اس سوال اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے اس جواب میں یہ باتیں تو واضح طور پر دیکھ سکتا ہے.(۱) سوال یہ تھا ہی نہیں کہ آپ غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھتے ہیں کہ نہیں ؟ سوال یہ تھا کہ اگر حقیقی مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ وہ شخص جو اپنی تمام خواہشوں، ارادوں عملی اور ایمانی قوتوں کو خدا کے لئے وقف کر دے یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہو جائے.اور وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اس کی سلطنت کے علومرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہیں بخوبی معلوم کر لے.وہ خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی مخلوق کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا ہو اور اپنے تمام وجود کو حوالہ بخدا کر دے.اس کے تمام جذبات مٹ جائیں.وہ خدا کی خاطر ہر بے عزتی کو قبول کرنے کے لئے مستعد ہو اور ہزاروں موتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور سب نفسانی تعلقات توڑ دے تو یہ مقام کن کو حاصل ہوسکتا ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ سوال کرنے والے کو عقل کا استعمال کر کے یہ سوچنا چاہئے کہ اگر خدا کی طرف سے ایک مامور آئے اور ایک شخص یا ایک طبقہ اس مامور کا انکار کر دے بلکہ اس کی تکذیب کرے اور پھر بھی اگر وہ ان مدارج عالیہ کو حاصل کر سکتا ہے تو یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اس مامور کی بعثت کا مقصد کیا رہ جاتا ہے.اس سے خدا کے فعل پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اس نے مامور کیوں مبعوث کیا ؟ جب کہ اس کے بغیر ہی تمام مدارج حاصل کئے جاسکتے تھے.(۲) جب حضور سے بیٹی بختیار صاحب نے سوال کیا کہ کیا تمام احمدی اس تعریف کے مطابق حقیقی مسلمان ہیں تو حضور نے اس کا جواب نفی میں دیا.اس تعریف کی رو سے تو حضور نے تمام
452 احمدیوں کو بھی اس مقام کا حامل قرار نہیں دیا.ظاہر ہے کہ حضور کسی احمدی کو کا فرقرار نہیں دے سکتے.غیر احمدیوں کے بارے میں بھی یہ بات اسی تناظر میں دیکھنی چاہئے.(۳) حضور کا جو جواب ہے اس میں کہیں بھی غیر احمدیوں کو کافر یا غیر مسلم نہیں کہا گیا.بلکہ الفاظ تو یہ تھے ” غیر احمدی ملت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والا اس معیار کا کوئی نہیں، اس میں ہرگز کافر نہیں کہا گیا.بلکہ اس میں تو واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ غیر احمدی بھی ملت اسلامیہ سے تعلق رکھتے ہیں.اس ایک جملہ میں ہی کئے جانے والے اعتراض کا کافی جواب موجود ہے.البتہ حضور نے یہ فرمایا تھا یہ معیار جو بیان کیا جا رہا ہے، اس معیار کا کوئی غیر احمدی میرے علم میں نہیں ہے.اور اس معیار کا ذکر پہلے ہم کر چکے ہیں کہ ایسے شخص میں اسلام کی حقیقی روح پیدا ہوگی جب یہ شخص خدا کی راہ میں اپنا تمام وجود سونپ دے اور اپنے تمام وجود کو خدا کی راہ میں سونپ دے.اور اس کے تمام اعضاء اور نیات خدا کے لئے ہو جائیں.اور وہ نیستی کے ساتھ خدا کے تمام احکام دل و جان سے قبول کرے.اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی کے لئے اپنی زندگی وقف کر دے اور دوسروں کو راحت پہنچانے کے لئے خود دکھ گوارا کر لے.اور وہ اپنا تمام وجود مع اپنی تمام خواہشوں اور قوتوں کے حوالہ بخدا کر دے اور اس کے تمام جذبات مٹ جائیں وہ خدا کے جلال کو ظاہر کرنے کے لئے ہر بے عزتی اور ذلت کو برداشت کرنے کے لئے مستعد ہو.اس درجہ کا فرمانبردار ہو کہ خدا کے لئے اس کا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو کاٹ سکے.اور اس سے تعلق کا ثبوت دینے کے لئے اپنے تمام نفسانی تعلقات توڑ L یہ تھا معیار جس کا ذکر کیا جا رہا تھا.اور ظاہر ہے کہ اگر ایک فرقہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ایک مامور مبعوث کیا ہے تو اس کے انکار بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کی تکفیر کے بعد بھی کیا کوئی یہ اعلیٰ مرتبہ پاسکتا ہے جس کا مذکورہ بالا حوالہ میں ذکر ہے تو پھر اس سے خدا کے فعل پر اعتراض اٹھتا ہے کہ آخر اس مامور کی بعثت کی ضرورت کیا تھی جبکہ اس کے بغیر بلکہ اس کی تکفیر کرنے کے بعد بھی تمام اعلیٰ مراتب حاصل کئے جاسکتے ہیں.اور حضور نے اپنے جواب میں فرمایا تھا کہ ملت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے غیر احمدیوں میں سے میرے علم کے مطابق اس معیار کا کوئی نہیں ہے.یا پھر مندرجہ بالا معیار کا ذکر تھا.غیر احمدی مسلمانوں کے کافر کہنے کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ ان کو ملت اسلامیہ سے تعلق
453 رکھنے والا کہا گیا تھا.مخالفین جماعت کی طرف سے بھی قومی اسمبلی کی تحریف شدہ کا رروائی شائع کی گئی ہے.یہ شائع شدہ کارروائی بہت مختصر ہے.چونکہ اکثر حصہ کو مولوی حضرات شائع کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکتے تھے.مگر جو حصہ شائع بھی کیا گیا ہے اس میں جگہ جگہ تحریف کی گئی ہے.مندرجہ بالا حصہ شائع کرتے ہوئے ان مولوی حضرات نے اپنی طرف سے یہ ہوشیاری کی ہے کہ آئینہ کمالات اسلام کے حوالے کا وہ حصہ نہیں شائع کیا جو حضور نے اس وقت پڑھا تھا.لیکن یہ جملہ اس تحریف شدہ اشاعت میں بھی اس طرح لکھا گیا ہے میرے عقیدے کے مطابق اس لحاظ سے کوئی غیر احمدی ملت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والا اس معیار کا نہیں.“ تاریخی قومی دستاویز ۱۹۷۴ ء، ترتیب و تدوین اللہ وسایا ، ناشر عالمی مجلس ختم نبوت، حضوری باغ روڈ ملتان.جنوری ۱۹۹۷ ء ص ۱۵۳) اگر چہ جیسا کہ اصل سے موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ اس جملہ میں بھی تحریف کی گئی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ اس معیار کی جو تعریف بیان کی گئی تھی وہ درج نہیں کی لیکن پھر بھی یہ تحریف شدہ جملہ اس بات کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ اس جملہ میں غیر احمدی مسلمانوں کوملت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والا بیان کیا گیا تھا، غیر مسلم ہر گز نہیں کہا گیا تھا.اور اللہ وسایا صاحب نے ایک اور کتاب تحریک ختم نبوت بھی لکھی ہے.اس کے حصہ سوئم میں اٹارنی جنرل صاحب یحییٰ بختیار صاحب کا ایک انٹرویو بھی شائع کیا گیا ہے.اس میں بیچی بختیار صاحب خود کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے حقیقی مسلمان کی لمبی تعریف بیان کی جو کہ گیارہ بارہ صفحات کی تھی اور پھر یہ بات کہی کہ کوئی غیر احمدی حقیقی مسلمان نہیں ہوسکتا.اس انٹرویو میں بھی بیچی بختیار صاحب نے اپنے نام نہاد کارناموں کا بہت ذکر کیا ہے اور ان کے انٹرویو میں بہت سی غلط بیانیاں بھی ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ تو یہ کہہ رہے تھے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حقیقی مسلمان کی نہایت طویل تعریف بیان کی تھی.اس کا ذکر تو اللہ وسایا صاحب کی شائع کی گئی کارروائی میں موجود نہیں.اللہ وسایا صاحب نے تو جو کارروائی شائع کی ہے اس میں تو اس کا نام و نشان نہیں ملتا.خود انہی
454 کی ایک اور کتاب یہ ثابت کر رہی ہے کہ اللہ وسایا صاحب نے تحریف شدہ کارروائی شائع کی تھی.اور پھر حضور کا جملہ صرف یہ تھا کہ میرے علم میں کوئی غیر احمدی اس معیار کا نہیں ہے.اور کیا معیار پیش نظر تھا اس کا ذکر ہم کر چکے ہیں.(تحریک ختم نبوت ، جلد سوئم ، مصنفہ اللہ وسایا، ناشر عالمی مجلس ختم نبوت ملتان ص ۸۷۴) ایک اور امر قابل ذکر ہے کہ بیٹی بختیار صاحب کے انٹرویو میں بھی حقیقی مسلمان کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، مسلمان کے نہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ پچیس سال سے پاکستان کی قومی اسمبلی کے اہم ممبران کا رروائی کے اس حصہ کے متعلق کیا پر مغز نکات بیان فرما رہے ہیں.ہم ذکر کر چکے ہیں کہ دوسری طرف کا نقطہ نظر معلوم کرنے کے لئے ہم نے بعض ایسی اہم شخصیات کا انٹرویو بھی کیا جو اس موقع پر موجود تھیں اور انہوں نے بھی کارروائی کے اس مرحلہ کے متعلق کچھ نہ کچھ بیان فرمایا.یہ اس لئے ضروری تھا کہ ہم ان معزز اراکین اسمبلی سے براہ راست مل کر اس کے متعلق ان کی رائے ریکارڈ کر لیں تا کہ کوئی واسطہ بیچ میں نہ ہو اور اس بات کو چونکہ بہت شہرت دی گئی ہے اس لئے کسی غلطی کا امکان ختم ہو جائے.ڈاکٹر مبشر حسن صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ اس وقت قومی اسمبلی میں موجود تھے.ڈاکٹر صاحب پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں سے ہیں.اس وقت کا بینہ کے ایک اہم رکن تھے.بعد میں وہ پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی رہے.انہوں نے ہم سے انٹرویو کے دوران جو بیان کیا وہ ہم لفظ بلفظ نقل کر دیتے ہیں.ڈاکٹر مبشر حسن صاحب فرماتے ہیں: مبشر حسن صاحب: "...لیکن وہ جو ریزولیشن تھا ایک اور بات جو ہے وہ مجھے اس کا بڑا قفلق ہے.اور اس ریزولیشن کے پاس ہونے میں اس بات نے بہت کردار ادا کیا.وہ یہ ہے کہ آپ کو علم ہے کہ مسٹر بھٹو نے کہا تھا کہ میں ایسا Solution دوں گا اور خاموش ہو جاؤ.انہوں نے پارلیمنٹ کی ایک House meeting in private sitting ، پرائیویٹ سٹنگ private sitting اسے کہتے ہیں جہاں جو پارلیمنٹ کا ممبر نہ ہوا سے بھی بلایا جا سکے.اور وہاں پر ناصر احمد صاحب اور طاہر احمد صاحب گئے.بیٹی بختیار صاحب نے ان سے سوالات کئے.ایک سوال کے جواب میں بیٹی بختیار نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ جو احمدی نہیں ہیں مسلمان ، انہیں مسلمان سمجھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں.“
455 سلطان : آپ اس موقع پر موجود تھے؟ مبشر حسن صاحب: ” میں موجود تھا.اس فقرے پر جب یہ فقرہ انہوں نے کہا کہ ہم باقیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے.تو سارے ہاؤس میں او او او.اس طرح کی آوازیں بلند ہوئیں.اچھا جی اے سانوں مسلمان نہیں سمجھدے That turned the vote اس چیز نے ووٹ کو تبدیل کر دیا.جو بات ڈاکٹر صاحب نے بیان فرمائی ہے وہ پوری کاروائی میں نہیں پائی جاتی.جو جواب ہم نے لفظ بلفظ نقل کر دیا ہے اس جملہ میں تو اس الزام کی تردید پائی جاتی ہے.اس میں تو غیر احمدیوں کو ملت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والا بیان کیا گیا.اور جب ہم نے قومی اسمبلی کے سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے انٹرویو کیا تو ان کا کہنا یہ تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال پوچھا تھا کہ آپ بھی مسلمان ہیں ہم بھی مسلمان ہیں.آپ بھی اللہ اور رسول کو مانتے ہیں.ہم بھی اللہ اور رسول کو مانتے ہیں لیکن یہ بتائیں آپ کہ آپ اپنے آپ کو راسخ العقیدہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ باقی جو مسلمان ہیں آپ ان کو بھی راسخ العقیدہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ نہیں ؟ صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے کہا کہ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ ہم باقیوں کو مسلمان سمجھتے ہیں مسلمان جانتے ہیں لیکن راسخ العقیدہ مسلمان نہیں سمجھتے.یہاں ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر ایک فرقہ اپنے عقائد کو میچ سمجھ رہا ہو تو وہ اس کے خلاف عقائد رکھنے والے فرقہ کو راسخ العقیدہ کیسے کہہ سکتا ہے.اگر کسی بھی فرقہ سے پوچھا جائے تو یہی کہے گا کہ ہمارے نزدیک ہم راسخ العقیدہ ہیں اور دوسرے نہیں ہیں.پھر ہم نے پروفیسر غفور احمد صاحب سے ملاقات کی اور ان کا انٹرویو لیا.جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ پروفیسر غفور صاحب اس وقت قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر تھے اور جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل بھی تھے.اور انہوں نے ہمارے سوال کئے بغیر خود ہی اس جواب کا ذکر کیا اور ان کے نزدیک بھی اصل بات یہی تھی کہ اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم نہیں کہا تھا بلکہ احمدیوں نے غیر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا.پہلے تو یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے بشیر الدین صاحب آئے تھے لیکن اس پر ہم نے انہیں یاد دلایا کہ حضرت
456 خلیفہ المسیح الثانی نہیں بلکہ حضرت مرزا ناصر احمد قومی اسمبلی میں جماعت کے وفد کی قیادت کر رہے تھے.پھر پروفیسر غفور صاحب نے کہا کہ جماعت احمد یہ مبائعین کی طرف سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور غیر مبائعین کی طرف سے ان کا وفد قومی اسمبلی پیش ہوئے تو انٹرویو میں اس سوال کے بارے میں پروفیسر غفور صاحب کے معین الفاظ یہ تھے : جی مرزا ناصر احمد صاحب اور لاہوری فرقہ کے لوگ بھی آئے تھے.اور دونوں کے ساتھ گفتگو ہوئی تھی.اور گفتگو اس طرح ہوئی تھی یحییٰ بختیار کے Through.....پھر یہ بات بھی کہی کہ مرزا غلام احمد کو جو نہیں مانے گاوہ مسلمان نہیں اور دونوں نے کہا کہ وہ جہنم میں جائے جائیں گے.یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کو جہنم سے نکال دے.لیکن وہ جہنمی ہیں.یہ بات نہیں ہے کہ ہم کا فر کہہ رہے ہیں قادیانیوں کو.اصل بات یہ ہے کہ وہ سارے مسلمانوں کو کافر کہہ رہے ہیں.ہر وہ آدمی جو مرزا غلام احمد پر ایمان نہیں لاتا وہ ان کے نزدیک کافر ہے.اور وہ جہنمی ہے اور یہی بات دونوں نے کہی.“ پڑھنے والے خود دیکھ سکتے ہیں کہ جماعت کے وفد نے تو غیر احمدیوں کو مسلمان کہا تھا اور اس بات کو اس وقت اسمبلی کے سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں اور پروفیسر غفور صاحب نے بالکل خلاف واقعہ جواب منسوب کیا ہے.بلکہ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے جواب میں کچھ اور اضافہ جات بھی کئے ہیں یعنی دونوں وفود نے یہ کہا کہ ہم غیر احمد یوں کو نہ صرف غیر مسلم بلکہ جہنمی بھی سمجھتے ہیں.یہ جواب نہ جماعت احمد یہ مبایعین کے وفد نے دیا تھا اور نہ ہی غیر مبایعین کے وفد نے یہ جواب دیا تھا.اس کا پوری کا رروائی میں کوئی ذکر نہیں بلکہ اس کے بالکل برعکس جواب دیا گیا تھا.نہ کسی کے جہنم میں جانے کا ذکر تھا اور نہ کسی کے جہنم سے باہر آنے کا ذکر تھا.یہاں پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا کہ ایک بچے نے جب اپنی کوئی خواب گھر میں بیان کرنی ہوتی تھی تو یہ کہنے کی بجائے کہ میں نے یہ خواب دیکھی یہ کہتا تھا کہ میں نے ایک خواب سوچی.تو ان ممبرانِ اسمبلی نے یہ جواب سنے نہیں تھے بلکہ سوچے تھے.اس پر ہم نے ان کی خدمت میں پھر عرض کی کہ میں نے یہ کارروائی پڑھی ہے.یہ سوال تو کئی دن چلا تھا.اور اصل میں تو سوال کچھ اور تھا.جب اتنا اختلاف ہے تو پھر کیا اس کارروائی کو ظاہر کر دینا
457 مناسب نہ ہوگا.اس پر انہوں نے جواب دیا کہ آپ مطالبہ کریں ہم اس مطالبہ کی حمایت کریں گے.اس پر ہم نے اپنے سوال کی طرف واپس آتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ بات پہلے بھی پڑھی تھی.لیکن جب کاروائی پڑھی تو اس میں یہ بات as such نہیں تھی.اس پر پروفیسر غفور صاحب نے فرمایا کارروائی پڑھ کہاں سے لی آپ نے.مجھے اس بات پر حیرت ہے.مجھے available نہیں.میں ممبر رہا ہوں قومی اسمبلی کا.سینٹ کا.“ اس پر ہم نے انہیں یاد دلایا کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین نے تو اس کو شائع بھی کر دیا ہے.(اگر چہ مخالفین نے یہ کارروائی مسخ کر کے اور تبدیل کر کے شائع کی ہے اور ہماری تحقیق کا ماخذ یہ تحریف شدہ اشاعت نہیں تھی.) اس پر پروفیسر غفور صاحب نے فرمایا کہ شائع کی ہوگی پر وہ Authentic نہیں ہے.اس پر ہم نے پھر سوال دہرایا کہ کیا آپ کے نزدیک مخالفین نے جو اشاعت کی ہے وہ Authentic نہیں ہے.اس پر انہوں نے اپنے اسی موقف کا اعادہ کیا.بہت سے سیاستدانوں کی طرف سے جماعت کی طرف جو جواب منسوب کیا گیا اس کے متعلق فیض کے الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے اور یہ بھی مد نظر رہنا چاہئے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ خلیفہ وقت سے ایسا سوال کیا گیا ہو اور امامِ جماعت احمدیہ نے مذکورہ جواب دیا ہو.جب ۱۹۵۳ء کے فسادات کے بعد تحقیقاتی عدالت قائم ہوئی اور اس نے کارروائی شروع کی تو ۱۳ جنوری ۱۹۵۴ء کی کارروائی میں تحقیقاتی عدالت کی کارروائی میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے سوال کیا گیا: اگر کوئی شخص مرزا غلام احمد صاحب کے دعاوی پر واجبی غور کرنے کے بعد دیانتداری سے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ آپ کا دعویٰ غلط تھا تو کیا پھر بھی وہ مسلمان رہے گا ؟“ اس پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے فرمایا.جی ہاں عام اصطلاح میں وہ پھر بھی مسلمان سمجھا جائے گا.“
458 پھر ۱۴ جنوری کی کارروائی میں یہ سوال ایک اور رنگ میں کیا گیا.تحقیقاتی عدالت جو کیانی اور منیر پر مشتمل تھی ، نے دریافت کیا." ” کیا ایک سچے نبی کا انکار کفر نہیں ؟“ مقصد یہ تھا کہ جب آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سچا نبی سجھتے ہیں تو پھر کیا ان کا انکار کرنے والوں کا کفر کہیں گے؟ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا: 66 ”ہاں یہ کفر ہے.لیکن کفر دو قسم کا ہوتا ہے.ایک وہ جس سے کوئی ملت سے خارج ہو جاتا ہے.دوسرا وہ جس سے وہ ملت سے خارج نہیں ہوتا.کلمہ طیبہ کا انکار پہلی قسم کا کفر ہے.دوسری قسم کا کفر اس سے کم درجہ کی بد عقیدیوں سے پیدا ہوتا ہے.“ اور ہم پہلے ہی یہ بیان کر چکے ہیں کہ احادیث میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے والے، اور اپنے باپ سے بیزار ہونے والے ،نسب پر طعن کرنے والے، میت پر چلا کر رونے والے ، ترک نماز کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانے والے کو کافر اور ان کے اعمال کو کفر کہا گیا ہے.لیکن یہ اس قسم کا کفر ہے جس سے ایک شخص ملت سے خارج نہیں ہوتا.اور اس کے بعد مولوی حضرات نے بھی حضرت خلیفہ امسیح الثانی سے اسی قسم کے سوالات کئے تھے اور حضور نے مذکورہ بالا اصول کی بنیاد پر ہی ان کے جوابات دیئے تھے.اور اس بات پر پروفیسر غفور احمد صاحب کو تو بالکل اعتراض نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ خود ان کی جماعت کے بانی اور ان کے قائد مودودی صاحب نے تو اس بات پر بہت برہمگی کا اظہار کیا تھا کہ مسلم لیگ ہر آدمی کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہے اپنی جماعت کا رکن بنا لیتی ہے.ان کے نزدیک ہر مسلمان کو حقیقی مسلمان سمجھ لینا بڑی بنیادی غلطی تھی.چنانچہ وہ اپنی کتاب مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش د سوئم میں لکھتے ہیں.ایک قوم کے تمام افراد کو محض اس وجہ سے کہ وہ نسلاً مسلمان ہیں حقیقی معنی میں مسلمان فرض کر لینا اور یہ امید رکھنا کہ ان کے اجتماع سے جو کام بھی ہوگا اسلامی اصول پر ہوگا پہلی
459 اور بنیادی غلطی ہے.یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں، نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں، نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے.باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس اسلام کا نام ملتا چلا آرہا ہے اس لیے یہ مسلمان ہیں.“ ( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم مصنفہ ابولاعلیٰ مودودی ، ناشر دفتر ترجمان القرآن.در الاسلام.جمالپور متصل پٹھانکوٹ.بار سوئم دو ہزار ) تو یہ بات واضح ہے کہ مودودی صاحب کے نزدیک ایک ہزار میں سے ۹۹۹ مسلمان کہلانے والے حقیقی مسلمان نہیں تھے.یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بیٹی بختیار صاحب نے کہا کہ حضور نے فرمایا کہ ہم دوسرے فرقوں کو حقیقی مسلمان نہیں سمجھتے.مبشر حسن صاحب نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے.صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ ہم باقی مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں لیکن راسخ العقیدہ نہیں سمجھتے.پروفیسر غفور احمد صاحب نے کہا کہ یہ کہا تھا کہ ہم غیر احمدیوں کو کافر اور دوزخی سمجھتے ہیں.ان سب حضرات کا باہمی اختلاف بہت واضح ہے اور ایک کا بیان دوسرے کے بیان کو غلط ثابت کر رہا ہے.اور حقیقت کیا تھی وہ ہم بیان کر چکے ہیں.اور یہ بات تو مختلف اسلامی فرقوں کے لٹریچر میں عام ہے کہ صحیح اور حقیقی مسلمان صرف ہمارا ہی فرقہ ہے.جیسا کہ کتاب کشف الباری عما فی صحیح البخاری میں لکھا ہے فرق اسلامیہ ان کو کہتے ہیں جو مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کرتے ہیں خواہ گمراہ ہوں یا صحیح راستے پر ہوں ، معتزلہ ،خوارج، مرجنه ، کرامیہ، جہمیہ وغیرہ سب کے سب علی التشکیک فرق ضالہ ہیں، صحیح اسلامی فرقہ اهل السنة والجماعة “ ہے جو ومـا انـا عليه و اصحابی“ کے مطابق ہے، یہ لقب بھی اسی ارشاد نبوی سے ماخوذ ہے.“ ( کشف الباری عمانی صحیح البخاری جلد اول ، افادات شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی، ناشر مکتبہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی ص ۵۵۸)
460 اس کے بعد چائے کا وقفہ ہوا اور جب سوا بارہ بجے دوبارہ اجلاس شروع ہوا اور ابھی جماعت کا وفد ہال میں نہیں آیا تھا کہ سپیکر صاحب نے ممبران اسمبلی کو مخاطب کر کے ایک نیا انکشاف کیا.ان کے الفاظ یہ تھے I will just draw the attention of the honourable memebers that we have decided certain things about the programme.I want to tell the honourble memebers that the attorney general needs at least a week to prepare what he has done in six days.It takes at least a week for preperation.We also need a week for the preperation of our record.Only then we can supply to the honourable memebers the copies of the record.Without which we cannot proceed further.....So today will be the last day.Rather this meeting will be the last for the cross cross But the examination.examination will continue.The date will be fixed and will be announced.یعنی اٹارنی جنرل صاحب فرما رہے تھے کہ ہم نے ابھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب ان اجلاسات کو تقریباً ایک ہفتہ کے لیے ملتوی کر دیا جائے کیونکہ اٹارنی جنرل صاحب نے جو کچھ ان چھ دنوں میں کیا ہے اس کے پیش نظر وہ تیاری کر سکیں.اور ریکارڈ تیار کیا جاسکے تا کہ مزید پیش رفت ہو سکے.آج اس کا رروائی کا آخری دن ہوگا اور یہ اجلاس آخری اجلاس ہوگا.نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کر دیا جائے گا.اور سوالات کا سلسلہ جاری رہے گا.اب اس مرحلہ پر ہم اس حیران کن پیش رفت کا جائزہ لیتے ہیں.اسمبلی نے سٹیرنگ کمیٹی قائم کی
461 تھی اور اس کمیٹی کا لائحہ عمل بھی طے کیا تھا.باوجود جماعت کے مطالبہ کے جماعت کو مطلع نہیں کیا گیا تھا کہ کیا سوال کیے جائیں گے.اور ظاہر ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کے علم میں تھا کہ وہ کیا سوالات پوچھیں گے.اور چھ روز سے مسلسل سوالات کا سلسلہ جاری تھا ابھی اس موضوع پر سوالات شروع بھی نہیں ہوئے تھے جن پر تحقیق کرنے کے لیے پوری اسمبلی پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی تھی اور اٹارنی جنرل صاحب یہ فرمارہے تھے کہ انہیں مزید سوالات کی تیاری کے لیے چھ دن درکار ہیں.یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اس معرکۃ الآراء اسمبلی کے اٹارنی جنرل صاحب اور ان کی اعانت کرنے والے علماء نے متعلقہ موضوع پر کیا ایک بھی سوال نہیں تیار کیا تھا کہ متعلقہ معاملہ پر سوال کئے بغیر ہی ان کے سوالات ختم ہو گئے.حالانکہ انہیں تیاری کے لیے خاطر خواہ وقت پہلے ہی مل چکا تھا.اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ قدم اتنا اچانک کیوں اُٹھایا گیا.نہ جماعت کے وفد نے درخواست کی کہ ہمیں تیاری کے لیے کوئی وقت درکار ہے نہ ممبرانِ اسمبلی کو پہلے کوئی عندیہ دیا گیا کہ یہ کارروائی کچھ دنوں کے لئے معطل ہونے والی ہے اور چائے کا وقفہ ہوا اور پھر یہ اعلان کر دیا گیا کہ اب کچھ دنوں کا وقفہ کیا جاتا ہے اور پہلے سے یہ وقفہ پروگرام میں شامل نہیں تھا.اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس سے پہلے جو چائے کا وقفہ ہوا تھا وہ اٹارنی جنرل صاحب کی درخواست پر کیا گیا تھا.غیر متعلقہ ہی سہی جو سوالات کئے گئے تھے وہ کوئی نئے سوالات نہیں تھے.کوئی جماعت کے جوابات سے اتفاق کرے یا نہ کرے یہ بالکل علیحدہ بات ہے لیکن یہ سوالات گزشتہ اسی نوے سال سے کئے جارہے تھے اور جماعت کے مخالفین کا لٹریچر ان سوالات سے بھرا ہوا تھا اور جماعت کا لٹریچر ان کے جوابات سے بھرا ہوا تھا.حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی طالب علم کو جماعت کی اور جماعت کے مخالفین کی چند کتابیں ایک دن کے لیے دے دی جائیں تو وہ ان سے بہتر سوالات تیار کر سکتا ہے.اس پس منظر میں یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ کارروائی مخالفین کی امیدوں کے مطابق نہیں جا رہی تھی اور وہ خود اپنی کار کردگی سے مطمئن نہیں تھے.اب جبکہ وہ اپنے سوالات کا نتیجہ دیکھ چکے تھے انہیں اب مزید تیاری کے لئے کچھ وقت کی اشد ضرورت تھی.اور جب وقفہ کے بعد سوا بارہ بجے کارروائی کا دوبارہ آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل صاحب کے سوالات کے آغاز ہی سے یہ بات واضح ہوگئی کہ واقعی انہیں اور ان کے معاونین کو کچھ وقفہ کی ضرورت
462 تھی.وہ اعتراض یہ اُٹھا رہے تھے کہ احمدیوں نے ہمیشہ خود کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھا ہے.اور اس کی دلیل یہ پیش کر رہے تھے کہ ہر مذہب کے لوگوں نے اپنا علیحدہ کیلنڈر بنایا ہے.عیسائیوں کا اپنا، مسلمانوں کا اپنا اور ہندوؤں اور پارسیوں کے اپنے اپنے کیلنڈر ہیں، اسی طرح احمد یوں نے بھی اپنا علیحدہ کیلنڈر بنایا ہوا ہے.گویا تان اس بات پر ٹوٹ رہی تھی کہ اس طرح احمد یوں نے اسلام سے اپنا علیحدہ مذہب بنایا ہوا ہے.بہت سے پیدائشی احمدی بھی یہ اعتراض پڑھ کر دم بخودرہ گئے ہوں گے، اس لیے وضاحت ضروری ہے.معروف اسلامی ہجری کیلنڈر تو قمری حساب سے رائج ہے.اور مسلمانوں میں سمسی کیلنڈر کے لیے عیسوی کیلنڈر استعمال ہوتا ہے جو کہ حضرت عیسی کی پیدائش کے سال سے شروع ہوتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک ایسا سمسی کیلنڈر تیار کروایا جو کہ رسولِ کریم ﷺ کی ہجرت کے سال سے شروع ہوتا تھا.اور جنوری فروری مارچ وغیرہ نام کی بجائے نئے نام رکھے گئے جو اس ماہ میں ہونے والے ایسے اہم واقعات کی نسبت سے رکھے گئے جو رسولِ کریم ﷺ کی زندگی میں ہوئے.مثلاً جنوری کا نام صلح اس نسبت سے رکھا گیا کہ اس ماہ میں صلح حدیبیہ کا واقعہ ہوا تھا، فروری کا نام تبلیغ اس وجہ سے رکھا گیا کہ اس ماہ میں آنحضرت ﷺ نے بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے تھے.گویا اگر کوئی آنحضرت ﷺ کی محبت میں یہ کہے کہ شمسی کیلنڈر کو حضرت عیسی کی پیدائش کی بجائے رسول کریم ﷺ کی ہجرت سے شروع کرنا چاہئے.اور مہینوں کے نام آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ کے واقعات پر رکھنے چاہئیں تو اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ یہ شخص یا یہ جماعت اپنے آپ کو اسلام سے علیحدہ کر رہی ہے اور اسے دائرہ اسلام سے خارج کر دینا چاہئے.کوئی ذی ہوش اس لغو سوچ کی حمایت نہیں کر سکتا.اس کے علاوہ اگر کیلنڈر دیکھ کر کسی کے مذہب کا فیصلہ کرنا ہے تو پھر عالم اسلام میں تو سب سے زیادہ عیسوی کیلنڈر مستعمل ہے تو کیا ان سب مسلمانوں کو عیسائی سمجھا جائے گا.پھر یہ اعتراض اُٹھایا گیا کہ احمدیوں نے مسنون درود کی بجائے اپنا علیحدہ درود بنایا ہوا ہے اور اس میں احمد کا نام شامل کیا گیا ہے.اس الزام کی لمبی چوڑی تردید کی ضرورت نہیں.دنیا کے ایک سونوے سے زیادہ ممالک میں احمدی موجود ہیں ان میں سے کسی سے بھی دریافت کیا جا سکتا ہے کہ وہ نماز میں کون سا درود پڑھتا ہے اور جماعت کے لٹریچر میں ہزاروں جگہ پر درود کی عبارت درج ہے کہیں سے
463 پڑھ کر اپنی تسلی کی جاسکتی ہے.اس سیشن میں باقی سوالات بھی اسی نوعیت کے تھے کہ احمدیوں نے خود ہی ہمیشہ سے اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھا ہے.اور اس کی نام نہاد برہانِ قاطع کے طور پر اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کی اس تقریر کا ایک حوالہ پیش کیا جو حضور نے ۱۹۲۴ء میں لندن میں ویمبلے کا نفرنس کے موقع پر تحریر فرمائی تھی اور وہاں پر اس کا انگریزی ترجمہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے پڑھ کر سنایا تھا.جو جملہ اٹارنی جنرل صاحب نے وہاں پر پڑھا وہ ملا حظہ ہو Ahmadis to form a seperate from the outside Mussalmans جمله پر سرسری نظر ہی بتا دیتی ہے کہ یہ فقرہ ہی درست نہیں ہے، اس حوالے نے کیا درست ہونا ہے.اس کا کوئی مطلب ہی نہیں بنتا.اور حضور نے اسی وقت اس امر کی نشاندہی فرما دی.اٹارنی جنرل صاحب اور ان کی ٹیم نے اپنی سابقہ غلطیوں سے کوئی سبق نہیں حاصل کیا تھا.یہ تقریر انگریزی میں بھی Ahmadiyya Movement کے نام سے شائع ہوئی ہے اور اس پوری تقریر میں اس قسم کا کوئی جملہ موجود نہیں.اس تقریر میں تو حضرت مصلح موعودؓ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ مسیح موعود کسی نئے مذہب کے لانے والے نہ تھے بلکہ آپ اسلام کی خدمت کرنے اس کو نئی زندگی دینے اس کی اشاعت کرنے اور بنی آدم کو اسلام کی معرفت خدا کی طرف لے جانے کے لئے بھیجے گئے تھے.“ اس میں تو اٹارنی جنرل صاحب کے لگائے گئے الزام سے بالکل بر عکس مضمون بیان ہوا تھا.جب وقت ختم ہوا تو جماعت کے وفد پر اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ اب کارروائی کچھ دنوں کے لیے روکی جارہی ہے.اور سپیکر صاحب نے اعلان کیا کہ اب کچھ دنوں کے لیے کارروائی روکی جا رہی ہے کیونکہ اٹارنی جنرل صاحب بھی مشقت سے گزرے ہیں اور وفد کے اراکین بھی مشقت سے گزرے ہیں.اسی گفتگو کے دوران اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا: It is a strain on me also.....you are well acquainted
464 with Islamic Law I am not.یہ ( کارروائی ) مجھ پر بھی بوجھ ہے...آپ اسلامی قانون سے بخوبی واقف ہیں اور میں نہیں ہوں.جماعت کے وفد کے رخصت ہوتے وقت سپیکر صاحب نے شکریہ ادا کیا اور تلقین کی کہ اس کارروائی کو ظاہر نہ کیا جائے.اس وقت بعض ممبرانِ اسمبلی اس بات کا اعلان بھی کر رہے تھے کہ حضور سے جو سوال ہونے ہوں ان کی اطلاع جماعت کو پہلے ہی سے ہوتی ہے.اور راولپنڈی کے ایک ممبر قومی اسمبلی عبد العزیز بھٹی صاحب جو وکیل بھی تھے نے اس کا ذکر ایک احمدی وکیل مکرم مجیب الرحمن صاحب سے کیا اور وجہ یہ بیان کی کہ مرزا صاحب یوں جواب دیتے ہیں جیسے انہیں سوال کا پہلے سے ہی علم ہو.مکرم مجیب صاحب نے اس کا جواب یہ دیا کہ جماعت کی سوسالہ تاریخ میں جو اعتراضات بارہا کئے جاچکے ہیں اور جن کا جواب بارہا دیا جا چکا ہے ان کے بارے میں آپ کا یہ خیال کیوں ہے کہ خلیفہ وقت کو ان کا جواب معلوم نہیں ہو گا.آپ مجھے کوئی ایسا سوال بتا ئیں جو جماعت کی تاریخ میں پہلے نہ کیا گیا ہو اور آپ نے پہلی مرتبہ کیا ہو.(۸۵) پہلے تو جب جماعت کا وفد ہال سے چلا جاتا تھا تو ممبران اسمبلی جو گفتگو کرتے تھے وہ اسمبلی کے رپورٹرز تحریر کرتے رہتے تھے لیکن وقفہ سے پہلے کچھ اجلاسات کے اختتام پر جب جماعت کا وفد چلا جا تا تھا تو ر پورٹرز کو بھی بھجوا دیا جا تا تھا اور یہ بات چیت تحریر نہیں کی جاسکتی تھی.اس طرح سپیشل کمیٹی کی کارروائی میں وقفہ ہو گیا.اٹارنی جنرل صاحب کو تیاری کے لیے اس وقفہ کی ضرورت تھی.اور جماعت احمدیہ کا امام اپنی جماعت کو کس تیاری کے لیے توجہ دلا رہا تھا اس کا اندازہ اس خطبہ جمعہ سے ہوتا ہے جو حضور نے اس دوران ۱۶ اگست ۱۹۷۴ء کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں ارشاد فرمایا تھا.حضور نے ارشاد فرمایا : ” یہ ابتلاؤں کا زمانہ، دعاؤں کا زمانہ ہے اور سخت گھڑیوں ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت اور پیار کے اظہار کا لطف آتا ہے.ہماری بڑی نسل کو بھی اور ہماری نوجوان نسل اور اطفال کو بھی ، مرد وزن ہر دو کو یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ
465 کے محبوب مہدی کے ذریعہ غلبہ اسلام کا جو منصوبہ بنایا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت نا کام نہیں کر سکتی.اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے منصوبوں کو زمینی تدبیریں نا کام نہیں کیا کرتیں.پس غلبہ اسلام کا یہ منصوبہ تو انشاء اللہ پورا ہوکر رہے گا.جیسا کہ کہا گیا ہے اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا اور جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے نوع انسانی کے دل جماعت احمدیہ کی حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں حضرت محمد رسول اللہ کے لیے فتح کیے جائیں گے اور نوع انسانی کو حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں رب کریم کے قدموں میں جمع کر دیا جائے گا.یہ بشارتیں اور یہ خوش خبریاں تو انشاء اللہ پوری ہو کر رہیں گی.ایک ذرہ بھر بھی ان میں شک نہیں البتہ جس چیز میں شک کیا جاسکتا ہے اور جس کے نتیجہ میں ڈر پیدا ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جو ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے اس کمزور جماعت کے کندھوں پر ڈالی ہیں اپنی بساط کے مطابق وہ ذمہ داریاں ادا کی جارہی ہیں یا نہیں؟ پس جماعت اپنے کام میں لگی رہے.یعنی تدبیر کے ساتھ ، دعاؤں کے ساتھ غلبہ اسلام کے جہاد میں خود کو مصروف رکھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دیتی چلی جائے.وہ خدا جو ساری قدرتوں کا مالک اور جو اپنے امر پر غالب ہے.اس نے جو کہا ہے وہ ضرور پورا ہوگا.خدا کرے ہماری زندگیوں میں ہماری کوششوں کو مقبولیت حاصل ہو اور غلبہ اسلام کے وعدے پورے ہوں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.“ (۸۶) پاکستان کے لیے دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: ” ہمارے ملک کی اکثریت اور بہت بڑی اکثریت نہایت شریف ہے.وہ کسی کو دیکھ پہنچانے کے لیے تیار نہیں لیکن ملک ملک کی عادتیں ہوتی ہیں.کسی جگہ شریف آدمی مقابلہ کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور کسی جگہ شریف آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میری شرافت کا تقاضا ہے کہ خاموش رہوں.جن لوگوں نے یہاں تکلیف کے سامان پیدا کیے ہیں وہ دو چار ہزار یا پانچ دس ہزار سے زیادہ نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ ان کو بھی ہدایت نصیب ہو.ہمارے دل میں تو کسی کی دشمنی نہیں ہے لیکن آج ملک کو بھی آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے.اس لئے احباب جماعت جہاں غلبہ اسلام کے لیے دعائیں کریں وہاں پاکستان جو
466 ہمارا پیارا اور محبوب ملک ہے.اپنے اس وطن کے لیے بھی بہت دعائیں کریں.(۸۷) جماعت احمدیہ کی طرف سے کارروائی کو صحیح خطوط پر لانے کی ایک اور کوشش اب تک کی کارروائی کو پڑھ کر یہ اندازہ تو بخوبی ہو جاتا ہے کہ کارروائی میں اُٹھائے جانے والے سوالات میں اکثر تو معقولیت سے ہی عاری تھے.اصل موضوع سے گریز کر کے غیر متعلقہ سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا.اکثر سوالات کا نہ موضوع سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ سوالات جماعت کی طرف سے پیش کئے جانے والے محضر نامے پر کئے جارہے ہیں.ایک کے بعد دوسرا پیش کردہ حوالہ غلط نکل رہا تھا.اس پس منظر میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک اور کوشش کی گئی کہ کسی طرح یہ کارروائی صحیح خطوط پر شروع کی جا سکے.چنانچہ پندرہ اگست کو ناظر اعلیٰ مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے قومی اسمبلی کے سیکر یٹری کولکھا کہ اس موضوع پر کارروائی کی جا رہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ پیشل کمیٹی کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی خواہش مند ہوگی.اس کے لئے ہماری رائے ہے کہ تحریری سوال پہلے سے بھیج دیئے جائیں اور ان کے تحریری جوابات جماعت کی طرف سے بھجوائے جائیں اور اگر یہ طریقہ کار پہلے سے اختیار کر لیا جاتا تو ایوان کا بہت سا وقت بچ سکتا تھا اس خط کے آخر میں لکھا گیا تھا After all it is not a criminal proceeding or an an accused ordinary legal cross examination of indvidual or a party.The committee is studying a very serious matter involving religious beliefs of millions of people.It is a grave moment not only in the history of Pakistan but also in the history of Islam.I would therefore be grateful if you please convey our request to the steering committee.I am sure the committee, realising the gravity and
467 seriousness of the issue would grant our request.۲۰ اگست کو کارروائی تو شروع ہو گئی لیکن اس خط کا جواب ۲۳ / اگست کو موصول ہوا کہ یہ خط ایوان میں پڑھا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ پیشل کمیٹی پرانے طریقہ کار پر ہی کام کرتی رہے.بہر حال یہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک کوشش تھی کہ اس کا رروائی میں کئے جانے والے سوالات کوئی سنجیدہ رنگ اختیار کریں مگر افسوس قومی اسمبلی نے اس کوشش کو بھی کامیاب نہیں ہونے دیا.کارروائی دوبارہ شروع ہوتی ہے اور صمدانی ٹریبونل کی رپورٹ حکومت کو پیش کی جاتی ہے ۲۰ / اگست کو دوبارہ اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی شروع ہوئی.لیکن اس روز ایک اور اہم واقعہ ہوا جس پر سے اس وقت کی حکومت نے یا بعد میں آنے والی حکومتوں نے پردہ راز نہیں اُ ٹھایا.اس روز صمدانی ٹریبونل نے اپنی رپورٹ پنجاب کی صوبائی حکومت کو پیش کر دی.جسٹس صدانی نے یہ رپورٹ پنجاب کے وزیر اعلی محمد حنیف رامے صاحب کو ان کے دفتر میں پیش کی.وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ جسٹس صمدانی نے بڑی محنت سے یہ رپورٹ مرتب کی ہے اور اب صوبائی حکومت اس پر غور کرے گی اور اسے اپنی سفارشات کے ساتھ وفاقی حکومت کو بھیج دے گی.(مشرق ۲۱ / اگست ۱۹۷۴ء صا) ۲۳ /اگست کو وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے صاحب نے یہ رپورٹ وزیر اعظم بھٹو صاحب کو پیش کر دی.اور یہ بھی کہا کہ اس رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے گا اور کہا کہ وزیر اعظم اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ قومی اسمبلی کی خاص کمیٹی اس رپورٹ سے استفادہ کرے گی.( مشرق ۲۴ /اگست ۱۹۷۴ ء ص۱) لیکن یہ امر قابل ذکر بھی ہے اور قابل افسوس بھی کہ اس رپورٹ کو کبھی شائع نہیں کیا گیا.جس کی بظاہر وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اس رپورٹ کے کم از کم بعض حصے ایسے تھے جن کو شائع کرنے کو وہ ہاتھ پسند نہیں کرتے تھے جو ملک میں یہ فسادات بر پا کرا رہے تھے.جسٹس صدانی نے ، جنہوں نے ربوہ کے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ پر یہ تحقیقات کی تھیں، اس بات پر مایوسی کا اظہار ان الفاظ میں کیا.وہ اپنی
468 خود نوشت’ جائزہ میں اس ٹریبونل کی رپورٹ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں.اس انکوائری سے متعلق مجھے دو باتیں اور بھی لکھنی ہیں تا کہ عوام میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہو جائیں.پہلی بات تو یہ کہ انکوائری اس لئے کروائی گئی کہ عوام میں جو شد یدر ردعمل تھا وہ دور ہو.لیکن جب انکوائری مکمل ہوگئی اور حکومت پنجاب کو رپورٹ دے دی گئی تو وہ رپورٹ عوام کے لئے شائع نہیں کی گئی.کیوں؟ کیا عوام کو انکوائری کا نتیجہ جاننے کا حق نہیں ہے جبکہ انکوائری کروائی ہی عوام کی تسلی کے لئے گئی تھی ؟....حکومت کو یہ جان لینا چاہیے کہ ایسی انکوائریز کی رپورٹ جو عوام کی اطلاع کے لئے کروائی گئی ہیں نہ چھا پنا غلط ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ عوام کی طرف سے بھی ایسا کوئی مطالبہ نہیں ہے.میری رائے میں تو مطالبہ ہو یا نہ ہو،حکومت کو اپنا فرض پورا کرنا چاہیے سبھی عوام کو بھی معلوم ہو گا کہ ایسی 66 رپورٹیں چھپنی چاہئیں.“ (<• جائزہ مصنفہ خواجہ محمد احمد صدانی، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور ۲۰۰۴ ص ۶۹ و جب ہم نے جسٹس صدرانی صاحب سے دریافت کیا کہ اس انکوائری سے کیا نتیجہ نکلا تھا تو انہوں جو جواب دیا وہ بغیر کسی تصدیق یا تردید کے یا بغیر کسی اتفاق یا اختلاف کے حرف بحرف درج کیا جاتا ہے، انہوں نے کہا.Conclude یہ کیا گیا تھا کہ دیکھیں ہر معاشرے میں شریف لوگ بھی ہوتے ہیں غنڈے بھی ہوتے ہیں.احمدیوں میں بھی غنڈے ہیں.تو انہوں نے چونکہ ،نشتر میڈیکل کالج کے لڑکوں نے جاتے ہوئے بد تمیزی کی تھی اس لئے انہوں نے یہ organize کیا کہ اس بد تمیزی کا بدلہ لیا جائے.تو چند غنڈوں نے بدلہ لیا اس میں جماعت احمد یہ یا امیر جماعت احمد یہ کا کوئی تعلق نہیں.اس میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے.“ یہ بات ہمیں اپنے ایک انٹرویو میں جسٹس صمدانی صاحب نے بتائی.ٹریبونل کی مکمل رپورٹ کے مندرجات کیا تھے؟ کیونکہ حکومت نے اس رپورٹ کو شائع نہیں کیا اس لئے ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے.
469 ربوہ کے جولڑ کے سٹیشن کے واقعہ میں شامل تھے انہوں نے بلاشبہ غلطی کی لیکن اگر یہ لڑ کے غنڈے تھے تو کیسے غنڈے تھے کہ کم از کم ڈیڑھ دو سو غنڈے دو گھنٹے کے قریب نشتر میڈیکل کالج کے لڑکوں کی پٹائی کرتے رہے اور کسی مضروب کی ہڈی تک نہ ٹوٹی اور نہ ہی کسی کو ایسی چوٹ آئی جسے ضرب شدید کہا جا سکے.بہر حال جسٹس صمدانی صاحب کی بات سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ ان کی تحقیقات کے مطابق اس واقعہ سے جماعت احمد یہ یا امام جماعت احمدیہ کا کوئی تعلق نہیں تھا.اور اغلباً اس رپورٹ کو اس نتیجہ کی وجہ ہی سے شائع نہیں کیا گیا کیونکہ ان دنوں ہر طرف یہ راگ الاپا جا رہا تھا کہ یہ واقعہ جماعت احمدیہ اور امام جماعت احمدیہ نے ایک گہری سازش کے تحت کرایا ہے.اور جب ہم نے دریافت کیا کہ اس ٹریبونل کے رو برو ۱۲۰ مقامات کی فہرست پیش کی گئی تھی جہاں پر فسادات ہوئے تھے تو صمدانی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ تو مجھے یاد نہیں کہ لسٹ پیش ہوئی کہ نہیں لیکن اس واقعہ کے بعد فسادات کا کوئی جواز نہیں تھا.قومی اسمبلی کی کارروائی کے آغاز میں اٹارنی جنرل صاحب نے حضور سے کہا کہ آپ نے کچھ سوالات کے جوابات ابھی دینے ہیں.یعنی پہلے جن حوالہ جات کو پیش کر کے اعتراضات اٹھائے گئے تھے ان میں سے کچھ کو چیک کر کے جواب دینا ابھی باقی تھا.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ جوابات میرے پاس ہیں.اور ان کے جوابات دینے شروع کیے.پہلا حوالہ الفضل ۳ جولائی ۱۹۵۲ء کا تھا کہ اس میں لکھا تھا کہ ہم کامیاب ہوں گے اور دشمن ہمارے سامنے ابو جہل کی طرح پیش ہوں گے.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ اس پر چہ کو دیکھا گیا اور اس میں لفظی طور پر یا معنوی طور پر اس قسم کا کوئی جملہ نہیں موجود.ظاہر ہے کہ یہ وہ آغاز نہیں تھا جس کی خواہش اٹارنی جنرل صاحب یا ان کی ٹیم یا اسمبلی کے اراکین رکھتے تھے.ان کے زاویہ سے بسم اللہ ہی غلط ہو رہی تھی.اٹارنی جنرل صاحب ذرا بڑ بڑا کر بولے.مرزا صاحب! آپ نے غور سے دیکھا ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب کی حیرت پر حیرت ہے.یہ کوئی پہلا حوالہ تو نہیں تھا جو کہ غلط پیش کیا گیا تھا.لیکن آفرین ہے اٹارنی جنرل صاحب پر کہ اس کے بعد وہ فرمانے لگے کہ بعض دفعہ سال کی غلطی بھی ہو جاتی ہے ہوسکتا ہے جہاں ۱۹۵۲ ہے وہ ۱۹۵۱ ء ہو.بعض دفعہ ۱۲ کی جگہ ۱۳ ہو جاتا ہے.اب یہ عجیب صورت حال تھی کہ ایک حوالہ پیش کر کے جماعت احمدیہ پر الزامات لگائے جا رہے ہیں اور وہ حوالہ بیان کردہ
470 تاریخ کے الفضل میں موجود نہیں.اور اٹارنی جنرل صاحب جماعت کے وفد سے یہ فرمائش کر رہے ہیں کہ کسی اور الفضل میں سے یہ حوالہ کسی طرح ڈھونڈ کر اسمبلی کی خدمت میں پیش کیا جائے.جو سوال کر رہا ہے یہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ متعلقہ حوالہ نکال کر اپنے سوال میں وزن پیدا کرے نہ کہ اسکا جس پر اعتراض کیا جارہا ہے.بہر حال حضور نے اس کے جواب میں نرمی سے فرمایا کہ اس ایک حوالہ کے لیے الفضل کی ساری فائل دیکھنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے.پھر ضمیمہ تحفہ گولڑویہ کی ایک عبارت پیش کی گئی تھی کہ ” دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا (۸۸) اور اس پر یہ اعتراض اُٹھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ گویا یہ کہا گیا ہے کہ باقی مسلمان فرقوں کو اسلام کی طرف منسوب نہیں ہونا چاہئے.حضور نے اس حوالہ کا سیاق وسباق پڑھا جس میں بالکل ایک اور مضمون بیان ہو رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کرتا ہے اور آپ کو کافر کہتا ہے وہ اس قابل نہیں کہ احمدی اس کے پیچھے نماز پڑھیں.اور اب احمدیوں کا امام احمدیوں میں ہی سے ہونا چاہئے.یہاں اس بات کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا کہ کسی فرقہ کو اسلام کی طرف منسوب ہونے یا اسلام کا دعوی کرنے کا حق ہے کہ نہیں.اور اس ساری عبارت پر وہ اعتراض اُٹھ ہی نہیں سکتا جو اُٹھانے کی کوشش کی گئی تھی.پھر اسی طرح حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف انوار اسلام کی ایک عبارت کا پورا سیاق وسباق پڑھ کر سنایا.پہلے ایک اجلاس میں اٹارنی جنرل صاحب نے ۱۳ نومبر ۱۹۴۶ء کا ایک حوالہ پڑھ کر سنایا تھا کہ تقسیم ہند سے معاقبل حضرت مصلح موعود نے فرمایا تھا کہ تم ایک پارسی لے آؤ میں اس کے مقابلہ میں دودو احمدی پیش کرتا جاؤں گا.اور اپنی طرف سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احمدی اپنے آپ کو خود مسلمانوں سے علیحدہ مذہب سے وابستہ سمجھتے ہیں اور اشارہ یہ کیا جارہا تھا کہ بالخصوص تقسیم ہند سے قبل کے نازک دور میں جب ہندوستان کے مسلمان پاکستان کے لیے جد و جہد کر رہے تھے اس وقت احمدی اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ گروہ ظاہر کر رہے تھے.اگر چہ جو عبارت پیش کی جا رہی تھی اس میں صرف یہ ذکر تھا کہ ملک میں احمدیوں کی تعداد پارسیوں سے زیادہ ہے اور اگر پارسیوں کی رائے لی جا رہی ہے تو احمدیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس حوالہ کا سارا سیاق و سباق پڑھ کر سنایا.یہ حوالہ ۱۹۴۶ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے سفرِ
471 دہلی کے متعلق ہے.اس سفر کا مقصد کیا اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ گروہ کے طور پر پیش کرنا تھا یا مسلم لیگ کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا تھا، اس کا اندازہ اس بیان کے ان حصوں سے بخوبی ہو جاتا ہے.حضور نے فرمایا: ” میں نے قادیان سے اپنے بعض نمائندے اس غرض کے لئے بھجوائے کہ وہ نواب چھتاری سے تفصیلی گفتگو کر لیں.اور انہیں ہدایت کی کہ وہ لیگ کے نمائندوں سے بھی ملیں.اور ان پر یہ امر واضح کر دیں کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ لیگ کے مقاصد کے خلاف کوئی کام کریں.اگر یہ تحریک لیگ کے مخالف ہو تو ہمیں بتا دیا جائے.ہم اس کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں.اور اگر مخالف نہ ہو تو ہم شروع کر دیں.اس پر لیگ کے بعض نمائندوں نے تسلیم کیا کہ یہ تحریک ہمارے لئے مفید ہو گی.بالکل با موقع ہوگی اور ہم یہ سمجھیں گے کہ اس ذریعہ سے ہماری مدد کی گئی ہے.“ اور یہ تحریک کیا تھی؟ یہ تحریک یہ تھی حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں:...اگر لیگ کے ساتھ حکومت کا ٹکراؤ ہوا تو ہم اس کو مسلمان قوم کے ساتھ ٹکراؤ سمجھیں گے.اور جو جنگ ہوگی اس میں ہم بھی لیگ کے ساتھ شامل ہوں گے.یہ سوچ کر میں نے یہ چاہا.کہ ایسے لوگ جو اثر رکھنے والے ہوں.خواہ اپنی ذاتی حیثیت کی وجہ سے اور خواہ قومی حیثیت کی وجہ سے، ان کو جمع کیا جائے.دوسرے میں نے یہ مناسب سمجھا.کہ کانگرس پر بھی اس حقیقت کو واضح کر دیا جائے کہ وہ اس غلطی میں مبتلا نہ رہے کہ مسلمانوں کو پھاڑ پھاڑ کر وہ ہندوستان پر حکومت کر سکے گی.اس طرح نیشنلسٹ خیالات رکھنے والوں پر بھی یہ واضح کر دیا جائے کہ وہ کانگرس کے ایسے حصوں کو سنبھال کر رکھیں.‘ (۸۹) کیا یہ حوالہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جماعت احمد یہ اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھ کر ان کے مقاصد کے خلاف کام کر رہی تھی یا وہ مسلمانوں کے مفادات کی خاطر حکومت پر یہ واضح کر رہی تھی کہ اگر مسلم لیگ اور حکومت میں جنگ ہوئی تو ہم مسلم لیگ کے ساتھ ہوں گے.اور اس حوالہ سے یہ بات صاف نظر آجاتی ہے کہ احمدیوں نے انگریز حکومت پر یہ واضح کر دیا تھا کہ انگریز حکومت مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کا خیال چھوڑ دے اور اگر اس امر کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت اور ہندوستان کے
472 مسلمانوں میں انتہائی ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوئی تو احمدی بہر حال مسلمانوں کا ساتھ دیں گے.مندرجہ بالا حوالہ کی روشنی میں اس کا جواب ظاہر ہے.اسمبلی میں اس عبارت کے ایک جملے کا حوالہ دے کر جھوٹا اعتراض اٹھانے کی بھونڈی کوشش کی گئی تھی.اس حوالہ میں تو بالکل بر عکس مضمون بیان ہوا تھا.اسی طرح حضور نے بعض اور حوالوں پر اُٹھائے گئے اعتراضات کے جوابات بیان فرمائے اور جب ان حوالوں کو مکمل طور پر پڑھا جاتا تو کسی مزید وضاحت کی ضرورت ہی نہ رہتی، یہ واضح ہو جاتا کہ اعتراض غلط تھا.گزشتہ اجلاسات میں یہ اعتراض بھی اُٹھایا گیا تھا کہ جماعت کے لٹریچر میں ان لوگوں کے لیے سخت لفظ استعمال کئے گئے ہیں جنہوں نے ۱۸۵۷ء میں ہندوستان میں انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی.یہ جنگ ان فوجیوں نے شروع کی تھی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں تنخواہ دار ملازم تھے.اور ۱۹۴۷ء میں آزادی کے بعد سے اس جنگ کو جنگ آزادی کا نام دے کر اس میں شریک سپاہیوں کو مجاہد کے طور پر پیش کیا گیا ہے.قطع نظر اس بحث کے جماعت کے لٹریچر میں ان کے متعلق کیا لکھا ہے اور ۱۸۵۷ء کی جنگ کی حقیقت کیا تھی، یہ دیکھناضروری ہے کہ وہ اہم مسلمان لیڈر جو اس دور کے گواہ تھے اور اس دور کے مسلمانوں کا برا بھلا آج کے لوگوں کی نسبت زیادہ اچھی طرح سمجھتے تھے ، وہ اس جنگ کے متعلق کیا خیالات رکھتے تھے.کیا وہ سمجھتے تھے کہ اس جنگ میں شریک مسلمانوں کے ہمدرد تھے یا ان کے خیال میں اس جنگ میں شرکت کرنے والوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا تھا.حضور نے ان خطوط پر جواب دیا.اور اس دور کے مشہور مسلمان قائدین کے کچھ حوالہ جات سنائے.ان میں سے کچھ پیش ہیں.سرسید احمد خان صاحب اپنی کتاب اسباب بغاوتِ ہند میں تحریر کرتے ہیں.غور کرنا چاہیے کہ اس زمانہ میں جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کیا ایسے بداطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خوری اور تماش بینی اور ناچ اور رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا.بھلا یہ کیونکر پیشوا اور مقتدا جہاد کے گنے جاسکتے تھے.اس ہنگامے میں کوئی بھی بات مذہب کے مطابق نہیں ہوئی.سب جانتے ہیں کہ سرکاری خزانہ اور اسباب جو امانت تھا اس میں خیانت کرنا.ملازمین کی نمک حرامی کرنی مذہب کی رو سے درست نہ تھی.صریح ظاہر ہے کہ
473 بے گناہوں کا قتل علی الخصوص عورتوں اور بچوں اور بڑھوں کا مذہب کے بموجب گناہ تھا...پھر یہ بات بھی مفسدوں کی حرامزدگیوں میں سے ایک حرامزدگی تھی نہ واقعہ میں جہاد (۹۰) خواجہ حسن نظامی صاحب نے بہادر شاہ ظفر کے مقدمہ کی روئیداد شائع کی ہے.حضور نے اس روئیداد میں سے بہادر شاہ ظفر کا ایک بیان پڑھ کر سنایا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اس وقت بہادرشاہ ظفر بھی جسے بادشاہ بنایا گیا تھا ، سپاہیوں کے ہاتھ میں ایک بے بس مہرے کی حیثیت رکھتا تھا.خواجہ حسن نظامی نے اس جنگ کے متعلق لکھا ہے.غدر ۱۸۵۷ء میں جس قسم کے ناجائز واقعات پیش آئے اسلام نے کہیں بھی ان کی اجازت نہیں دی.تیرہ سو برس سے آج تک تاریخ ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں کرتی کہ اسلام کی اجازت سے اس قسم کی کوئی حرکت کی گئی ہو جیسی غدر ۵۷ء میں پیش آئی.“ (۹۱) اور خود اس جنگ کے دوران کئی مولوی صاحبان مسجد میں یہ بحث کرتے رہے تھے کہ یہ جنگ ہرگز جہاد نہیں ہے.اور کچھ مغل شہزادے ایسے بھی تھے جو ان سپاہیوں کو جو انگریز عورتوں اور بچوں کو قتل کر رہے تھے یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسلام میں بچوں اور عورتوں کو قتل کرنا منع ہے.لیکن یہ لوگ ان کو بھی قتل کرنے پر آمادہ ہوئے تو ان منع کرنے والوں کو وہاں سے فرار ہونا پڑا.(۹۲) جماعت کے ایک اشد مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ، جماعت کے ایک اور مخالف مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کے متعلق تحریر کرتے ہیں.وو مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے اصل معنی جہاد کے لحاظ سے بغاوت ۱۸۵۷ء کو شرعی جہاد نہیں سمجھا بلکہ اس کو بے ایمانی و عہد شکنی عناد خیال کر کے اس میں شمولیت اور اس کی معاونت کو معصیت قرار دیا.‘ (۹۳) بہر حال ۱۸۵۷ء کی جنگ کے متعلق جواب ختم ہوا تو حضور نے بعض اور پیش کردہ حوالوں کی حقیقت بیان فرمانی شروع کی.اٹارنی جنرل صاحب نے ایک حوالہ سیرت الا بدال کے صفحہ ۱۹۳ کا پیش کیا تھا.حضور نے قومی اسمبلی کے علم میں یہ اضافہ فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس
474 تصنیف کے صرف ۱۶ صفحات ہیں.اور سوال کرنے والے کا تبحر علمی ملاحظہ ہو کہ اس کے صفحہ نمبر ۱۹۳ کو پیش کر کے اس پر اعتراض بھی کر دیا.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے شرمندگی کم کرنے کے لیے کہا کہ کسی اور Volume کا ہوگا.اس پر حضور نے واضح فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو روحانی خزائن کے نام سے اکٹھا شائع کیا گیا ہے اس میں بھی یہ کتاب صفحہ نمبر ۱۴۴ پر ختم ہو جاتی ہے.اس کے جواب میں یحییٰ بختیار صاحب حیرت سے یہی دہراتے رہے کہ کیا وہ حوالہ ہے ہی نہیں.اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے ان غلط حوالوں پر کوئی وضاحت پیش کرنا مناسب نہیں سمجھا مگر قاضی اکمل صاحب کے اس شعر پر طویل سوال و جواب کیے.پھر انہوں نے اپنی توجہ خطبہ الہامیہ کی طرف کی.اور یہاں بھی وہی غلطی دہرائی جواب تک کمیٹی کی طرف سے کیے جانے والے سوالات کا خاصہ رہی تھی.صلى الله اٹارنی جنرل صاحب نے خطبہ الہامیہ کا حوالہ پڑھنے کی کوشش شروع کی لیکن آغاز میں ہی کچھ گڑ بڑا گئے.انہیں یقین نہیں تھا کہ صفحہ نمبر کون سا ہے.انہوں نے ایک کی بجائے دو صفحہ نمبر پڑھے.پھر حوالے کے معین الفاظ پڑھنے کی کوشش ترک کی اور صرف عمومی طور پر یہ کہا کہ خطبہ الہامیہ میں مرزا صاحب نے کہا ہے کہ اسلام ابتدائی حالت میں ہلال کے چاند کی طرح تھا اور مرزا صاحب نے اپنے دور کو چودہویں کا چاند قرار دیا ہے.اعتراض کا لب لباب یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گویا نعوذ باللہ اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ سے افضل قرار دیا ہے.ابھی اس پر بات جاری تھی کہ سپیکر صاحب نے یہ کہہ کر وقفے کا اعلان کیا کہ شام کے اجلاس میں حضور کو اس کا حوالہ دکھا دیا جائے.وقفہ ہوا اور ختم ہوا.وقفہ کے بعد حضور نے فرمایا کہ ہم نے خطبہ الہامیہ کا جو صفحہ نمبر بتایا گیا تھا اس پر اور اس کے آگے پیچھے بھی دو تین صفحات کو چیک کیا ہے مگر یہاں پر تو کوئی ایسی عبارت موجود نہیں.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے فخر سے کہا کہ ہمیں مل گیا ہے.اور مولوی ظفر احمد صاحب انصاری سے کہا کہ آپ سنا دیں.مولوی صاحب شروع ہوئے کہ مرزا بشیر الدین نے ذکر کیا ہے، الفضل قادیان یکم جنوری ۱۹۱۶ء...ایک بار پھر نا قابلِ فہم صورت حال در پیش تھی کہ حوالہ خطبہ الہامیہ کا تھا اور اس کی جگہ الفضل کے ایک شمارے سے عبارت پڑھی جارہی تھی جہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر یا تقریر کو Quote ہی نہیں کیا جارہا تھا.حضور نے فرمایا کہ بات تو خطبہ الہامیہ
475 کی ہو رہی تھی.مگر مولوی صاحب اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں پائے اور الفضل کی عبارت پڑھنی شروع کی.حضور نے اس پر فرمایا کہ ہم اسے چیک کریں گے اور فرمایا..نہیں خطبہ الہامیہ اصل کتاب ہے.اس میں سے سنادیں.ہاں اس میں سے سنا دیں بس.“ شاید بہت سے پڑھنے والوں کو قومی اسمبلی کے اس انداز استدلال کا کچھ بھی سمجھ نہ آ رہا ہو اس لیے وضاحت ضروری ہے.مولوی صاحب آسمبلی میں الفضل کے جس شمارے سے بزعم خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تقریر کا حوالہ پڑھ رہے تھے (۹۴).اس شمارے میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تقریر کا خلاصہ درج ہے مگر اس میں خطبہ الہامیہ یا ہلال اور بدر کی تمثیل کا ذکر ہی نہیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا خطاب تو اس خوش خبری کے بارہ میں تھا کہ پارہ اول کا انگریزی ترجمہ تیار ہو گیا ہے.وہ جو حوالہ پڑھ رہے تھے وہ حضرت غلام رسول راجیکی صاحب کی پنجابی تقریر کا ترجمہ تھا اور اس جگہ پر بھی خطبہ الہامیہ کا نام تک درج نہیں تھا.مولوی صاحب نے خطبہ الہامیہ کا حوالہ پڑھنے میں یہ کہہ کر تردد کیا کہ یہ بہت لمبا ہے.بہر حال حضور کے اصرار پر مولوی صاحب نے خطبہ الہامیہ سے عبارت پڑھنے کی کوشش از سر نو شروع کی.اور جو حوالہ پڑھا وہ ملاحظہ ہو اسلام ہلال کی طرح شروع ہوا اور مقدر تھا کہ انجام کار آخر زمانہ میں بدر ہو جائے خدا تعالیٰ کے حکم سے پس خدا تعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ اسلام اس صدی میں بدر کی شکل اختیار کرے جو شمار کی رو سے بدر کی طرح مشابہ ہو.پس انہی معنوں کی طرف اشارہ ہے خدا تعالیٰ کے قول میں کہ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ.پس اس امر میں باریک نظر سے غور کر 66 اور غافلوں میں سے نہ ہو.“ (۹۵) حضور نے اسی قت ارشاد فرمایا کہ یہ جو حوالہ ابھی سنایا گیا ہے اس میں اسلام کا ذکر ہے نبی اکرم ﷺ یابانی سلسلہ کا ذکر نہیں.“ یہ بات بالکل واضح تھی اس لیے اٹھایا گیا اعتراض بالکل رفع ہو جاتا تھا.کیا قومی اسمبلی کے ممبران کے نزدیک اگر اسلام ترقی کرتا چلا جائے تو یہ بات رسول کریم ﷺ کی شان کو کم کرنے والی
476 تھی.اور جب اسلام ترقی کرتا ہے تو یہ رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ ہی کا کارنامہ ہے.کیا ان کے نزدیک یہی مناسب تھا کہ نعوذ باللہ اسلام ترقی نہ کرے بلکہ اسے زوال ہو.کوئی بھی ذی ہوش اس سوچ کو قبول نہیں کر سکتا.اس حوالہ کو کوئی صاحب فہم یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں رسول کریم ﷺ کی تو ہین کی گئی ہے.اب صورت حال یہ تھی کہ وقفہ اس لیے کیا گیا تھا کہ پیشل کمیٹی تازہ دم ہوکر نئے ثبوتوں کے ساتھ جماعت پر وزنی اعتراضات اٹھانے کی کوشش کرے گی.اور ابھی تک جو خفت اٹھانی پڑی تھی اس کا ازالہ ہوگا.لیکن عملاً یہ ہوا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اس کا آغاز اس طرز پر فرمایا کہ بہت سے حوالے جو انہوں نے اب تک پیش کئے تھے جن پر ان کے اعتراضات کا دارو مدار تھا ان کی حقیقت کھولنی شروع فرمائی.اکثر حوالے تو سرے سے ہی غلط تھے.متعلقہ جگہ وہ عبارت ہی موجود نہ تھی.یا ایک آدھا جملہ سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تھا.جب پورے حوالے پڑھے گئے تو ان مقامات پر تو بالکل بر عکس مضمون بیان ہورہا تھا ، جس سے اس اعتراض کی ویسے ہی تردید ہو جاتی تھی.سوالات کسی نے بھی لکھ کر دئیے ہوں، حوالہ کسی نے بھی نکالا ہو، بیچارے اٹارنی جنرل صاحب کو یہ سوالات پیش کرنے پڑتے تھے اور جب ان کا جواب ملتا تو خفت بھی سب سے زیادہ ان کے حصہ میں آتی تھی.اب تک تو ان کا رد عمل حیرانی یا زیادہ سے زیادہ بوکھلاہٹ کا تھا لیکن اس تازہ صورتِ حال نے ان کے رویہ میں چڑ چڑا پن بھی پیدا کر دیا تھا.انہوں نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں پیش کی کہ ملک کی قومی اسمبلی پر مشتمل پیشل کمیٹی میں مسلسل غلط حوالے کیوں پیش کئے جارہے تھے.آخر اتنی متواتر غلطیوں کا جواز کیا تھا؟ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ جب حضور نے اور دو حوالوں کی نشاندہی فرمائی کہ جو مکتوبات احمدیہ کے ایک صفحہ اور الفضل کے ایک شمارے کی عبارت پر اعتراض اٹھائے گئے تھے تو اس صفحہ اور اس شمارے میں اس قسم کی عبارات نہیں ملیں ، تو اس پر اٹارنی جنرل صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا.وہ کہنے لگے کہ اگر آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ وہاں نہیں ہے تو ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد ایسی عبارت ملی تو بڑا برا Inference ہوگا.اور پھر انہوں نے جو کہا وہ ان کے اپنے ہی الفاظ میں درج کرنا مناسب ہوگا ”....کیونکہ یہ presume کیا جاتا ہے کہ احمدیت کے بارے میں جتنی بھی
477 چیزیں ہیں وہ آپ کے علم میں ضرور ہوں گی.“ اس مرحلہ پر ان کے اس جملہ کا تجزیہ ضروری ہے.جماعت نے پہلے سپیشل کمیٹی سے درخواست کی تھی کہ جو سوالات کیے جانے ہیں وہ پہلے سے بتادئے جائیں تا کہ جماعت کے لٹریچر سے متعلقہ حوالہ جات نکال کر، پوری تحقیق کر کے ان کے جوابات کمیٹی کو دیئے جائیں.لیکن کمیٹی اس خیال میں تھی کہ وہ کوئی بہت حیران کن سوالات پیش کرے گی.جب وہ سوالات تو پیش کیے گئے جو مولوی ممبران اسمبلی نے لکھ کر دئے اور اٹارنی جنرل صاحب نے ان کو حضور کے سامنے رکھا تو جماعت نے تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ بہت سے پیش کردہ حوالے تو سرے سے غلط تھے یا پوری عبارت نہیں پیش کی گئی تھی.اب کوئی بھی شخص جماعت کے پورے لٹریچر کا تمام اخبارات کا تمام حوالوں کا حافظ نہیں ہوسکتا.یہ تو حوالہ پیش کرنے والے کا فرض ہوتا ہے کہ وہ صحیح صفحہ صحیح عبارت صحیح ایڈیشن پیش کرے.اور اٹارنی جنرل صاحب بلکہ پوری قومی اسمبلی اس معاملہ میں مکمل طور پر نا کام ہوئی تھی تو اس کا الزام جماعت کے وفد کو دینا بالکل خلاف عقل تھا.اور جہاں تک برے Inference کا تعلق ہے تو یہ اس وقت ہونا چاہئے تھا جب کہ خود اٹارنی جنرل صاحب کے پیش کردہ حوالے غلط ثابت ہو رہے تھے.اور رہی یہ بات کہ گزشتہ نوے برس کے دوران دنیا کے بیسیوں ممالک میں جماعت کا جو جریدہ اور جو کتاب چھپی تھی.یا کسی احمدی شاعر نے اگر کوئی شعر کہا تھا یا کسی جماعت نے کوئی قرار داد پاس کی تھی ، یہ تمام باتیں خلیفہ وقت کے ذہن میں ہر وقت مستحضر ہونی چاہئیں ، اٹارنی جنرل صاحب کی اس بات کو کوئی بھی صاحب عقل تسلیم نہیں کر سکتا.زیادہ سے زیادہ یہ حسن ظن کیا جاسکتا ہے کہ اس کارروائی کے دوران ان کو جو نا کامی ہو رہی تھی اس نے وقتی طور پر ان کی قوت فیصلہ کو مفلوج کر دیا تھا.حضور نے اس کا یہ اصولی جواب دیا کہ وو ” یہ Inference میرے نزدیک درست نہیں ہے.اس لئے میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ لاکھوں صفحوں کی کتب جن کی اشاعت تقریباً نوے سال پر پھیلی ہوئی ہے، میں اس کا حافظ ہوں اور ہر حوالہ مجھے یاد ہے.“ پھر آپ نے فرمایا و لیکن جب میں یہ کہتا ہوں کہ میرے علم میں نہیں ہے تو آپ کو یقین رکھنا چاہئے کہ
478 میرے علم میں نہیں ہے.“ بہر حال یہ اس کا اثر تھا یا کوئی اور وجہ تھی پیکر صاحب نے اس اجلاس کے دوران اٹارنی جنرل صاحب کو اصرار سے یہ کہا کہ وہ اس کا رروائی کو اب مختصر کرنے کی کوشش کریں.اس پس منظر میں سپیکر صاحب اٹارنی جنرل صاحب کی ہمدردی میں اس سے زیادہ اور کیا کر سکتے تھے.اٹارنی جنرل صاحب یا ان کی ٹیم کی ذہنی کیفیت کچھ بھی تھی لیکن جب ملک کی قومی اسمبلی میں ایک غلط حوالہ پیش کر کے جماعت احمدیہ پر غلط اعتراض کیا جار ہا ہو تو جماعت احمدیہ کے وفد کا یہ فرض تھا کہ وہ ان کا مکمل جواب دے.اٹارنی جنرل صاحب نے ایک احمدی کی کتاب کا حوالہ دے کر اعتراض اُٹھایا تھا کہ اس میں جو درود دیا گیا ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام بھی شامل ہے.حضور نے فرمایا کہ ہم نے اس کتاب کے تمام ایڈیشن دیکھ لئے ہیں.درود کی جو عبارت یہاں پڑھ کر سنائی گئی تھی وہ اس کے کسی ایڈیشن میں سرے سے موجود ہی نہیں.ابھی اٹارنی جنرل صاحب اس تازہ صدمہ سے سنبھل نہیں پائے تھے کہ انہیں ایک اور صدمہ سے دو چار ہونا پڑا.بیٹی بختیار صاحب نے ایک کتاب کے انگریزی ترجمہ کا حوالہ پیش کیا تھا.حضور نے اس کا اصل اردو کا حوالہ پیش کیا تو یہ اعتراض خود بخود ہی باطل ہو گیا.اٹارنی جنرل صاحب نے ترجمہ پر اصرار کرنا چاہا تو سپیکر صاحب نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی When the original is available translation is of no use جب اصل کتاب موجود ہے تو پھر ترجمہ کی کوئی اہمیت نہیں.۲۱ اگست کی کارروائی جب ۲۱ / اگست کی کارروائی شروع ہوئی تو سپیکر صاحب نے ممبرانِ اسمبلی کو مطلع کیا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلی صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کو اس سپیشل کمیٹی کی بحث کی روئیداد کی کاپی مہیا کی جائے.سپیکر نے کہا کہ میں نے اس کا جواب انکار میں دیا ہے.ممبرانِ اسمبلی نے اس بات کی متفقہ تائید کی کہ اس کارروائی کی نقول جماعت احمدیہ کو بالکل نہیں دینی چاہئے.حضرت صاحبزادہ
479 مرز امنصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ نے یہ خط ۱۵ اگست ۱۹۷۴ء کو تحریرفرمایا تھا، اس سے قبل کارروائی کے آغاز پر ۶ / اگست ۱۹۷۴ء کو ایڈیشنل ناظر اعلی مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی طرف سے بھی ایک خط قومی اسمبلی کے سیکریٹری کو لکھا گیا تھا کہ اس کا رروائی کی ریکارڈنگ جماعت احمدیہ کو مہیا کی جائے اس خط میں یہ یقین دلایا گیا تھا کہ اگر یہ ریکارڈنگ مہیا کر دی جائے تو صد را مجمن احمد یہ بھی اس کے مندرجات کو ظا ہر نہیں کرے گی.اب تک جس نہج پر کاروائی چلی تھی اس کو پیش نظر رکھا جائے تو ممبران اسمبلی کے اس انکار کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں.پھر یہ تجویز سامنے رکھی گئی کہ جماعت احمدیہ کے وفد کو سوالات سے پہلے مطلع کر دیا جائے تا کہ وہ اس کا تحریری جواب جمع کرا سکیں.اٹارنی جنرل صاحب نے اس کی مخالفت کی.اور پوری پیشل کمیٹی نے اٹارنی جنرل صاحب کی رائے کی متفقہ تائید کی.یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب ہم نے صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے دریافت کیا کہ جب جماعت کی طرف سے یہ درخواست کی گئی کہ ہمیں سوالات سے پہلے سے مطلع کر دیا جائے تو اس کو منظور نہیں کیا گیا تھا تو اس کی وجہ کیا تھی.اس کے جواب میں سابق سپیکر صاحب نے فرمایا کہ میرے سامنے اس قسم کی کوئی بات نہیں آئی تھی.ریکارڈ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سٹیرنگ کمیٹی کو اور پھر سپیشل کمیٹی کو یہ درخواست کی گئی تھی لیکن اسے منظور نہیں کیا گیا تھا.اور سپیکر صاحب نے ایوان میں بھی اس درخواست کا ذکر کیا تھا.اس کے بعد مولوی ظفر انصاری صاحب نے بھی ایک تجویز پیش فرمائی.اور وہ تجویز یہ تھی جناب والا میں ایک چیز یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بعض ممبران بار بار یہ کہتے ہیں کہ بہت دیر ہو رہی ہے.دیرہ یقیناً ہو رہی ہے لیکن جب ہم نے ایک دفعہ یہ کام شروع کر دیا تو پھر اسے کسی ایسے مرحلہ پر چھوڑنا بہت غلط ہو گا اور مقصد کے لئے مضر ہوگا.میرے ذہن میں ایک تجویز یہ ہے کہ ہم کسی موضوع پر چار پانچ Questions ایک دفعہ پڑھ دیں.ان سے اگر یہ کہہ دیں کہ وہ اسے Admit کرتے ہیں یا نہیں کرتے.کوئی Explaination نہ لیں.اگر وہ Admit نہیں کرتے ہم کوشش کریں گے کہ ہم 66 Original Produce کریں.یہ بات مد نظر رہے کہ مولوی ظفر انصاری صاحب سوالات تیار کرنے کے لئے اٹارنی جنرل
480 صاحب کے دست راست کا کام کر رہے تھے.یہ تجویز پیش کیوں کی گئی اس کی وجہ ظاہر ہے.جو سوالات کئے جارہے تھے ان میں پیش کردہ حوالے اگر کبھی قسمت سے ٹھیک ہو جاتے تھے تو جب پوری عبارت پیش کی جاتی تھی تو یہ صاف نظر آجاتا تھا کہ اس عبارت پر تو یہ اعتراض ہو ہی نہیں سکتا تھا.نامکمل حوالہ پیش کر کے جو تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہوتی تھی وہ ناکام ہو جاتی تھی.اس لئے اب بار بار کی خفت سے بچنے کے لئے مولوی صاحب نے یہ حل تجویز فرمایا تھا کہ جماعت ہر حوالے کے جواب میں صرف یہ کہے کہ یہ حوالہ صحیح ہے یا غلط.اور اس کا سیاق وسباق بھی سامنے نہ رکھے.اس تجویز کے جواب میں سپیکر صاحب نے کہا ”اگر original produce کریں تو بڑا easy ہوگا.جب آپ حوالہ دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم دیکھیں گے.verify کریں گے.“ اب یہ بڑی معقول تجویز تھی کہ اگر اصل حوالہ اسی وقت پیش کر دیا جائے تو پھر اتنی دیر اور تلاش کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی.لیکن مولوی ظفر انصاری صاحب اس طرف آنا ہی نہیں چاہتے تھے.انہوں نے اس کے جواب میں اپنی سابقہ بات ہی دہرائی اور صرف یہ اضافہ کیا کہ اگر وفد چاہے تو explaination کے لئے سپلیمنٹری وقت لے سکتا ہے.ممبران اسمبلی اس کارروائی کے افشا ہونے سے اس قدر خوف زدہ تھے کہ اس مرحلہ پر ایک ممبر نے کہا کہ وہ دروازہ کھلا رہتا ہے اور وہاں پر کوئی Constantly سنتا رہتا ہے.پیکر صاحب نے ہدایت دی کہ یہ معلوم کر کے بتائیں کہ یہ شخص کون ہے، یہ طریقہ کا ر غلط ہے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث جماعت احمدیہ کے وفد کے اراکین کے ہمراہ تشریف لائے تو ابتدا میں ہی حضور نے فرمایا کہ کل مجھ پر جو الزام لگایا گیا تھا (یعنی بعض ممبران نے یہ الزام لگایا تھا کہ جو حوالہ ان کی تائید میں ہو وہ یہ نکال کر لے آتے ہیں اور جو ان کے خلاف جائے اس کو ٹالتے رہتے ہیں ).ابھی حضور نے اپنا جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے جملہ کاٹ کر کہا کہ ” نہیں مرزا صاحب میں نے کوئی الزام نہیں لگایا تھا.“ لیکن حضور نے فرمایا.د نہیں میری بات سن لیں.اس لیے سوالوں کے متعلق جو حوالے چاہئیں اسے معزز
481 اراکین جو چاہیں خود تلاش کریں.ہمیں آپ صرف یہ پوچھیں کہ یہ حوالہ ہے اس کا مطلب کیا ہے.ہم پر یہ بوجھ نہ ڈالیں کہ آپ کے لئے ہم حوالے تلاش کریں.“ ایک روز پہلے تو اٹارنی جنرل صاحب کے رویہ کی تلخی کا عالم کچھ اور تھا لیکن اس روز وہ کچھ معذرت خواہانہ رویہ ظاہر کر رہے تھے.انہوں نے کہا کہ نہیں اگر آپ یہ کہیں گے کہ آپ کے علم میں نہیں تو وہ کافی ہے.اور کہا کہ بعض دفعہ اخبار کی تاریخ کی غلطی ہو جاتی ہے مثلاً ۲۱ کی جگہ ۳۱ ہو جاتا ہے یا سال کا فرق ہو جاتا ہے.اس پر حضور نے فرمایا: نہیں میں نے تو صرف یہ عرض کی ہے کہ میں نے اپنی طرف سے نہایت دیانتداری کے ساتھ اس بات کو تسلیم کر لیا تھا کہ ہم اس کو تلاش کریں گے لیکن جس کا بدلہ مجھے یہ دیا گیا کہ بڑا نا مناسب اعتراض مجھ پر کر دیا گیا تو اس واسطے میں صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ جو بوجھ آپ کا ہے وہ آپ اُٹھا ئیں اور جو ہمارا ہے وہ ہم اُٹھانے کی کوشش کریں گے.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ میں آپ کی دیانت پر شک نہیں کرتا ہوں اور پھر کہا کہ کل جو اعتراض اُٹھایا گیا تھا وہ Clarify ہو گیا ہے.اس کے بعد جو کارروائی شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل صاحب زیادہ تر انہی اعتراضات کو دہرا رہے تھے جو اس کمیٹی کے سامنے پہلے بھی پیش ہو چکے تھے.ایک بوسیدہ یہ اعتراض بھی پیش کیا کہ آپ کامشن اسرائیل میں ہے.حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میں احمدی اس وقت سے موجود ہیں جب کہ ابھی اسرائیل وجود میں ہی نہیں آیا تھا اور احمدیوں کی تعداد تو وہاں پر بہت کم ہے، باقی فرقوں کے مسلمان احمدیوں کی نسبت بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں.وہاں احمدیوں کی بھی مسجد ہے اور غیر احمدی مسلمانوں کی بھی بہت سی مساجد ہیں.اس بات پر کسی طرح کوئی اعتراض اُٹھ ہی نہیں سکتا.احمدی تو اپنی غریبانہ آمد میں سے چندہ دے کر اپنا خرچہ چلاتے ہیں اور اس سے تبلیغ کا کام بھی کیا جاتا ہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسرائیل کی فوج میں مسلمان فوجی بھی شامل ہیں اور اسرائیلی فوج بعض مسلمان اماموں کو کچھ رقم بھی دیتی ہے کہ تا کہ وہ مرنے والے مسلمان افراد کی آخری رسومات ادا کریں.اس بات کا ذکر 2008 International Religious Freedom Report میں بھی موجود ہے جو کہ Bureau of Democracy, Human Rights, and Labor نے
482 ۲۰۰۸ ء میں شائع کی ہے.ایک اور نیا نکتہ جو اٹارنی جنرل صاحب نے منکشف فرمایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دہلی کا سفر کیا تو انہوں نے پولیس کی حفاظت کا مطالبہ کیوں کیا ؟ پھر خود ہی بیچی بختیار صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور کہا کہ Everybody has right وہ میں نہیں کہہ رہا.اس پر حضور نے فرمایا کہ ہماری کتابوں میں ہے کہ پولیس سے Protection نہیں مانگی تھی.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ پولیس نے خود ہی کیا ہوگا.پولیس کی Protection میں وہ تقریر کیا کرتے تھے.اٹارنی جنرل صاحب کا ذہنی انتشار نہ جانے اور کیا کرشمے دکھاتا کہ سپیکر صاحب نے کہا کہ مغرب کی نماز کے لیے وقفہ ہوتا ہے.یہاں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کے اس سوال کی حقیقت کیا ہے.اول تو اگر یہ بات سچ بھی ہوتی تو یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ایک شخص ایسی حالت میں جب کہ امن عامہ کو خطرہ ہو، پولیس کو حفاظت کے لیے کہے تو اس میں قابل اعتراض بات کون سی ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۱ ء میں دہلی کا سفر کیا تو اس وقت مخالفت کا یہ عالم تھا کہ جس گھر میں حضور رہائش فرما تھے اس پر قتل کی نیت سے مسلسل بلوائیوں نے حملے کیے تھے.اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مباحثہ کے لیے جامع مسجد دہلی تشریف لے جا رہے تھے تو راستے میں حملہ کرنے کے لیے کچھ لوگ بندوقوں سمیت تیار تھے مگر خود ہی بگھی والوں نے راستہ تبدیل کر لیا.یہ اعتراض اٹھانے والے یہ بھول گئے کہ جب آنحضرت یہ طائف کے سفر سے واپس تشریف لائے تو آپ مکہ میں داخل ہونے سے قبل حرا کے مقام پر رک گئے اور آپ نے مکہ کے ایک مشرک رئیس مطعم بن عدی کو پیغام بھجوایا کہ کیا میں تمہارے پڑوس میں داخل ہوسکتا ہوں.اس پر مطعم بن عدی نے خود بھی ہتھیار پہنے اور اپنے بیٹوں صلى الله کو بھی مسلح کر کے بیت الحرام کے قریب کھڑے ہو گئے اور یہ اعلان کیا کہ میں نے محمد ( ﷺ ) کو پناہ دی ہے.اور آنحضرت ﷺ خانہ کعبہ میں تشریف لائے اور حجر اسود کو بوسہ دیا اور دو رکعت نماز پڑھی.(۹۶) اور اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال کرتے ہوئے کئی تاریخی حقائق بھی غلط بیان فرمائے تھے.حقیقت یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پولیس کو اپنی حفاظت کے لیے کہا ہی نہیں تھا بلکہ
483 غیر احمدی علماء کوفرمایا تھا کہ وہ اس مناظرے کے لیے موقع کی مناسبت سے پولیس کا انتظام کر لیں.اور یہ بات بھی غلط ہے کہ اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پولیس کی حفاظت میں کوئی تقریر کی تھی.عملاً اس موقع پر کوئی تقریر ہوئی ہی نہیں تھی.اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف بارہ خدام کے ساتھ جامع مسجد تشریف لے گئے تھے اور وہاں پر پانچ ہزار مخالفین کا مجمع تھا جنہوں نے پتھر اُٹھا رکھے تھے اور خون خوار آنکھوں سے اس مبارک گروہ کو دیکھ رہے تھے.ایسے موقع پر صرف اللہ تعالیٰ کی خاص حفاظت ہی تھی جو اپنے مامور کی حفاظت کر رہی تھی ورنہ ایسے خطرناک مواقع پر پولیس کے چند سپاہی بھی کیا کر سکتے ہیں.مخالف علماء نے مناظرہ کرنے کی بجائے وہاں سے چلے جانا مناسب سمجھا تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ علماء خدا کی قسم کھالیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مادی جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں تو ان علماء نے یہ جرات بھی نہیں کی تھی.مغرب کے وقفہ کے بعد جب کہ ابھی جماعت کا وفد ہال میں نہیں آیا تھا تو سپیکر اسمبلی اس بات پر اظہار ناراضگی کرتے رہے کہ ممبر ان اکثر غیر حاضر رہتے ہیں.سپیکر صاحب نے کہا کہ ممبران نو بجے کے بعد ایک ایک کر کے ہاتھ میں بستہ لے کر کھسکنا شروع ہو جاتے ہیں.اس کے بعد جو کارروائی شروع ہوئی تو ایک سوال اس حوالہ سے بھی آیا کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک حدیث کا کیا مقام ہے اور کیا جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو حدیث سے زیادہ وقعت دیتی ہے.جب حضور نے اس کا واضح جواب دینا شروع کیا تو اٹارنی جنرل صاحب نے ایک مرحلہ پر کہا کہ مجھے تو ممبرانِ اسمبلی کی طرف سے جو سوال آئے اس کو پیش کرنا پڑتا ہے.اٹارنی جنرل صاحب نے ایک مرحلہ پر یہ اعتراض بھی اُٹھانے کی کوشش کی کہ جماعت احمد یہ کے عقائد کے مطابق نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کا مقام احادیث نبویہ سے زیادہ ہے.اس کے رد کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد ہی کافی تھا آپ فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنی درجہ کی حدیث ہو اس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں.‘ (۹۷) اس اجلاس میں ان سوالات اور جوابات کا تکرار ہوتا رہا جن پر پہلے بھی بات ہو چکی تھی.ایک
484 موقع پر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال اُٹھایا کہ جہاد کے مسئلہ کو چھوڑ کر وہ کون ساخزا نہ تھا جو ۱۳۰۰ سال سے مسلمانوں کو نہیں ملا تھا اور مرزا صاحب نے سامنے لا کر رکھ دیا؟ اول تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف جہاد کے مسئلہ پر ہی مسلمانوں میں رائج غلط خیالات کی اصلاح نہیں فرمائی تھی بلکہ اور بہت سے پہلو تھے جن پر آپ کی مبارک آمد کے ساتھ غلط خیالات کی دھند چھٹنے لگی.بہر حال حضور نے قرآنی آیات پڑھ کر فرمایا کہ قرآن کریم جہاں ایک کھلی کتاب ہے وہاں یہ کتاب مکنون بھی ہے.پھر حضور نے مختلف پرانے بزرگوں کی مثالیں پڑھ کر سنائیں کہ جن پر ان کے دور کے لوگوں نے اس وجہ سے کفر کے فتوے لگائے کہ آپ وہ باتیں کرتے ہیں جو آپ سے پہلے بزرگوں نے نہیں کیں.حضور نے فرمایا کہ اس دور کے تمام مسائل کا حل بھی قرآنِ کریم میں موجود ہے.اور فرمایا کہ میں اپنی ذات کے متعلق بات کرنا پسند نہیں کرتا لیکن مجبوری ہے اور پھر بیان فرمایا کہ ۱۹۷۳ء کے دورہ یورپ کے دوران میں نے ایک پریس کانفرنس میں ذکر کیا تھا کہ کمیونزم جوحل آج پیش کر رہا ہے اس سے کہیں زیادہ بہتر علاج قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.مزید فرمایا کہ کون سے مخفی خزانے تھے جو اس Age میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ ظاہر ہوئے.چنانچہ ان کے مطابق میں یہ کہوں گا کہ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ پہلی ساری کتب پر مجھے عبور ہے.اگر کسی صاحب کو عبور ہو کہ وہ آج کے مسائل حل کرنے کے لیے پہلی کتب میں سے مواد نکال دیں تو میں سمجھوں گا کہ وہ ٹھیک ہیں.جب اس موضوع پر بات چلی تو اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا کہ کوئی اور مثال دی جائے جو حضرت بانی نے نکتہ بیان کیا ہو اور پہلے علماء نے نہ بیان کیا ہو.اس پر حضور نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر کی مثال دی.اور اس کی کچھ تفصیلات بیان فرمائیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر کے وہ نکات بیان فرمائے تھے کو پہلے کسی عالم نے بیان نہیں کئے تھے.اور اس ضمن میں حضور نے بیان فرمایا کہ کس طرح حضور نے ڈنمارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کو دہرایا تھا کہ عیسائی اپنی مقدس کتب میں وہ خوبیاں نکال کر دکھائیں جو سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں.پھر اٹارنی جنرل صاحب اس موضوع پر سوال کرتے رہے کہ قرآن کریم سے نیا استدلال کوئی غیر نبی بھی کر سکتا ہے.یقیناً تاریخ اسلام میں بہت سے ایسے علماء ربانی گزرے ہیں جنہوں نے قرآنِ کریم سے استدلال کر کے لوگوں کی ہدایت کا سامان کیا ہے انہیں الہامات بھی ہوتے تھے لیکن یہ خدا کی مرضی ہے کہ کب اس کی حکمتِ
485 کاملہ اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ دنیا کی اصلاح اور دنیا کو قرآنِ کریم کے نور سے منور کرنے کے لئے نبی کو آنا چاہئے اور کب یہ کہ وہ دین اسلام کی تجدید کے لئے مجددین کو دنیا میں بھیجتا ہے.یہ ایسی بات نہیں ہے کہ دنیا کی کوئی اسمبلی اور وہ بھی پاکستان کی اسمبلی اس بات کا فیصلہ کرے کہ دنیا میں نبی آنا چاہئے یا مجدد کا ظہور ہونا چاہئے.اس کے بعد ایک بار پھر جہاد کے موضوع پر سوالات شروع ہوئے.حضور نے فرمایا کہ جہاد کبیر تو جاری ہے لیکن مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جہاد صغیر کی شرائط پوری نہیں ہوئیں.ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ اگر جہاد صغیر کی شرائط پوری ہوں تو احمدی بھی باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر لڑیں گے.ابھی یہ موضوع جاری تھا کہ ۲۱ اگست کی کارروائی ختم ہوئی.۲۲ اگست کی کارروائی ۲۲ / اگست کو بھی اسی موضوع پر گفتگو جاری رہی کہ جہاد بال کا زمانہ اس وقت نہیں ہے.کب تک یہ جہاد ملتوی رہے گا.ایسا کیوں ہے؟ وغیرہ وغیرہ.زیادہ تر پرانے سوالات ہی دہرائے جار ہے تھے.صرف ایک حدیث اس ساری بحث کا فیصلہ کر دیتی ہے.اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے مسیح موعود کی آمد کی نشانیاں بیان فرمائیں اور دیگر نشانیوں کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے ایک نشانی يَضَعُ الحَرْب کی بھی بیان فرمائی ہے یعنی مسیح موعود کی آمد کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہوگا کہ وہ جنگوں کا خاتمہ کرے گا.(۹۸) یہ اعتراض بھی جماعت احمدیہ کے خلاف بڑے زور وشور سے پیش کیا جاتا ہے کہ جماعت احمد یہ جہاد کی قائل نہیں اور یہ ایک اہم رکن اسلام کا ہے اور یہ جماعت اس کی منکر ہے.دیگر اعتراضات کی طرح یہ اعتراض بھی معقولیت سے قطعاً عاری ہے.اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جماعت احمدیہ قطعاً جہاد کی منکر نہیں ہے بلکہ قرآن کریم اور نبی اکرم ﷺ کے بیان کردہ معیار کے مطابق پوری دنیا میں حقیقی معنوں میں جماعت احمدیہ ہی پوری دنیا میں جہاد کر رہی ہے جب کہ جماعت احمد یہ پر الزام لگانے والے اس اہم فرض سے مسلسل غفلت برت رہے ہیں.لیکن یہ بحث اٹھانے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جہاد کہتے کسے ہیں.قرآن کریم نے اس کے بارے میں کیا تعلیم دی ہے
486 آنحضرت ﷺ نے اس کے بارے میں کیا راہنمائی فرمائی ہے.یہ باتیں سمجھے بغیر تو یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کون جہاد کا منکر ہے اور کون جہاد کا منکر نہیں ہے.سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ جہاد کا حکم کب نازل ہوا اور آنحضرت ﷺ نے اپنے عمل سے اس کی کیا تشریح فرمائی.یہ امر قابل ذکر ہے کہ جہاد کا حکم آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ کے مکی دور میں نازل ہو چکا تھا.اللہ تعالیٰ سورۃ فرقان میں ارشاد فرماتا ہے.فَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: ۵۳) یعنی کافروں کی پیروی نہ کر اور اس کے ذریعہ ان سے ایک بڑا جہاد کر.اور مفسرین اس آیت کریمہ میں اس آیت سے یہی مطلب لیتے رہے ہیں کہ اس میں قرآنِ کریم کے ذریعہ جہاد کرنے کا حکم ہے.چنانچہ تفسیر کی مشہور کتاب فتح البیان میں یہی لکھا ہوا ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جہاد سے صرف یہی مراد تھی کہ قتال کیا جائے اور جنگ کی جائے تو ناممکن تھا کہ اس حکم کے بعد رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کی زندگی میں ہی بلا تو قف قتال اور جنگ شروع نہ کر دیتے.جب کہ اس وقت مسلمانوں کی مذہبی آزادی بھی ہر طرح ساب کی جارہی تھی.لیکن ایسا نہیں ہوا اور جب قرآنِ کریم میں قتال کی مشروط اجازت مدنی زندگی میں نازل ہوئی تو مسلمانوں کو اپنے دفاع میں انتہائی مجبوری کی حالت میں تلوار اُٹھانی پڑی.پھر مکہ میں نازل ہونے والی ہونے والی سورتوں میں جہاد کرنے والوں کا ذکر بھی مل جاتا ہے.چنانچہ سورۃ نحل جو کہ مکہ میں نازل ہوئی تھی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَهَدُوْا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمُ (النحل: (۱) ترجمہ: پھر تیرا رب یقیناً ان لوگوں کو جنہوں نے ہجرت کی بعد اس کے کہ وہ فتنہ میں مبتلا کئے گئے پھر انہوں نے جہاد کیا اور صبر کیا تو یقیناً تیرا رب اس کے بعد بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.یہ تو مکی زندگی میں نازل ہونے والی آیت ہے.اس وقت بھی مسلمان جہاد کا عظیم فرض ادا کر رہے تھے.اگر چہ باوجود سخت آزمائشوں کے قتال نہیں کیا جارہا تھا.جبکہ اس وقت مسلمان جہاں پر رہ
487 رہے تھے وہاں پر مشرکین کی حکومت تھی.پھر قرآنِ کریم سے ہی یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ جہاد مال سے بھی کیا جاتا ہے.جیسا کہ سورۃ الانفال میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَجَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ...(الانفال: ۷۳) یعنی انہوں نے اموال اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا.اس آیت کریمہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ جہاد مال سے بھی کیا جاتا ہے.پھر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ رسول کریم ﷺ کے اس ضمن میں کیا ارشادات ہیں.آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے ماتحت مجاہد کسے کہتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ» یعنی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے.(جامع ترمذی ابواب فضائل الجھا د) پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا.جَاهِدُوا الْمُشْرِكِيْنَ بِاَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَ الْسِنَتِكُمْ یعنی مشرکین سے اپنے اموال سے اپنی جانوں سے اور اپنی زبانوں سے جہاد کرو.پھر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں:.سنن ابی داود باب كراهية ترك الغزو) إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِهَادِ كَلِمَةَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانِ جَائِرٍ “ یعنی ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد کی ایک سب سے عظیم مقسم ہے (جامع ترمذی باب افضل الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر) ان ارشادات نبویہ سے یہ بات ظاہر ہے کہ جہاد صرف جنگ کرنے کو یا تلوار اُٹھانے کو نہیں کہتے.اس کے بہت وسیع معانی ہیں.اور ان وسیع معانی کو محض قتال تک محدود کر دینا محض ایک نادانی ہے بلکہ رسول کریم ﷺ نے قتال کو جہاد صغیر قرار دیا ہے.چنانچہ ایک غزوہ سے واپسی پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا " رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ “ یعنی ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آرہے ہیں.(رد المختار على الدر المختار ، كتاب الجهاد ) اور جہاں تک قتال کا تعلق ہے یہ دیکھنا چاہئے کہ شریعت نے اس کے لئے جو شرائط مقرر کی ہیں
488 وہ پوری ہورہی ہیں کہ نہیں.وہ علماء بھی جو جماعت کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے ہیں، انہوں نے بھی اپنی تحریرات میں یہ شرائط بڑی تفصیل سے بیان کی ہیں.اور جب ۲۲ اگست کو جہاد کے مسئلہ پر بات شروع ہوئی اور اس موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ احمدیوں کے نزدیک قبال کی شرائط کیا ہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ ابھی ہم فلسفیانہ بات کر رہے ہیں.ہمیں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ قبال کی شرائط کے بارے میں ہمارے بھائیوں کا کیا فتویٰ ہے.پھر آپ نے فرمایا میں مثال کے طور اہلِ حدیث کا فتویٰ بیان کرتا ہوں.اور پھر آپ نے اہلِ حدیث کے مشہور عالم نذیرحسین صاحب دہلوی کا فتویٰ سنایا جو انہوں نے انگریز کے دور حکومت میں ہی دیا تھا.ہم فتاویٰ نذیری سے ہی یہ فتویٰ نقل کر دیتے ہیں.”.....مگر جہاد کی کئی شرطیں ہیں جب تک وہ نہ پائی جائیں جہاد نہ ہوگا.اول یہ کہ مسلمانوں کا کوئی امام وقت وسردار ہو.دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں ایک نبی کا انبیاء سابقین سے قصہ بیان فرمایا ہے کہ ان کی امت نے کہا کہ ہمارا کوئی سردار اور امام وقت ہو تو ہم جہاد کریں.الم ترالی الملا من بنى اسرائيل من بعد موسى اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا نقاتل في سبيل الله.الآیة.اس سے معلوم ہوا کہ جہاد بغیر امام کے نہیں کیونکہ اگر بغیر امام کے جہاد ہوتا تو ان کو یہ کہنے کی حاجت نہ ہوتى كما لا یخفی اور شرائع من قبلنا جب تک اس کی ممانعت ہماری شرع میں نہ ہو، حجت ہے.کما لا يخفى على المعاصر بالاصول.اور حدیث میں آیا ہے کہ امام ڈھال ہے، اس کے پیچھے ہو کر لڑنا چاہئے اور اس کے ذریعہ سے بچنا چاہئے.عن ابی صلى الله هريرة قال قال رسول الله علم انما الامام جنة يقاتل من ورائه و يتقى به الحدیث رواہ البخاری و مسلم.اس سے صراحتا یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جہاد امام کے پیچھے ہو کر کرنا چاہئے بغیر امام کے نہیں.دوسری شرط کہ اسباب لڑائی کا مثل ہتھیار وغیرہ کے مہیا ہو جس سے کفار کا مقابلہ کیا جاوے.فرمایا اللہ تعالى نے واعدوا لهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخيل ترهبون به عدو الله و عدوكم واخرين من دونهم الاية ( ترجمہ ) اور سامان
489 تیار کرو ان کی لڑائی کے لئے جو کچھ ہو سکے تم سے، ہتھیار اور گھوڑے پالنے سے اس سے ڈراؤ اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمنوں کو........یعنی قوت کے معنی ہتھیار اور سامانِ لڑائی کے ہیں.اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے يا ايها الذين امنوا خذوا حذركم فانفروا ثباتا او انفروا جميعا (ترجمہ) اے ایمان والو! اپنا بچاؤ پکڑو، پھر کوچ کرو جدا جدا فوج یا سب اکٹھے......یعنی حذر سے مراد لڑائی ہے.مثلاً ہتھیار وغیرہ کا مہیا ہونا ضروری ہے اور حدیثوں سے بھی اس کی تاکید معلوم ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ بغیر ہتھیار کے کیا کرے گا.تیسری شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی قلعہ یا ملک جائے امن ہو کہ ان کا ماویٰ و ملجا ہو چنانچہ قرآن کے لفظ من قوة کی تفسیر عکرمہ نے قلعہ کی ہے.قــال عــکــرمـة القُوَّةُ الْحُصُونُ انتهى ما فى المعالم التنزيل للبغوی اور حضرت ﷺ نے جب تک مدینہ میں ہجرت نہ کی اور مدینہ جائے پناہ نہ ہوا جہاد فرض نہ ہوا، یہ صراحہ دلالت کرتا ہے کہ جائے امن ہونا بہت ضروری ہے.چوتھی شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر اتنا ہو کہ کفار کے مقابلہ میں مقابلہ کر سکتا ہو یعنی کفار کے لشکر سے آدھے سے کم نہ ہو....(فتاوی نذیریہ جلد سوم ص ۲۸۲.۲۸۴) اب اس فتویٰ سے ظاہر ہے کہ جہاد امامِ وقت کے حکم اور اس کی اتباع کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا.اور اب اگر امام الزمان قتال سے روک رہا ہو تو پھر اس کو جہاد نہیں قرار دیا جا سکتا.دراصل یہ اعتراض تو احمدیوں پر ہوہی نہیں سکتا.اس ضمن میں ان کے عقائد تو بہت واضح ہیں.اگر الزام آتا ہے تو ان فرقوں پر آتا ہے جن کے عقائد تو یہ تھے کہ قتال فرض ہے اور سو سال انگریز نے ان پر حکومت کی اور وہ محض ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے.بلکہ لاکھوں کی تعداد میں انگریز کی فوج میں شامل ہو کر ان کی طرف سے لڑتے رہے بلکہ اس مقصد کے لئے مسلمانوں پر بھی گولیاں چلاتے رہے اور جب انگریز یہاں سے رخصت ہو گیا تو انہیں یاد آیا کہ انگریز سے لڑنا بہت ضروری تھا اور احمدیوں پر اعتراض شروع کر دیا کہ وہ جہاد کے قائل نہیں.اب جماعت اسلامی کی مثال لے لیں.ان کی طرف سے یہ اعتراض بارہا کیا گیا کہ احمدی جہاد
490 یعنی قتال کے قائل نہیں ہیں.انگریز ابھی ہندوستان پر حکمران تھا کہ جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی جاچکی تھی.اور جماعت اسلامی کا اعلان ہی یہ تھا کہ وہ ملک میں حکومت الہیہ قائم کرنے کے لئے کھڑی ہوئی ہے.اور جب اسی دور میں ان کے بانی مودودی صاحب نے اپنے لائحہ عمل کا اعلان کیا تو اس کے الفاظ یہ تھے:.” جماعت کا ابتدائی پروگرام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک طرف اس میں شامل ہونے والے افراد اپنے نفس اور اپنی زندگی کا تزکیہ کریں اور دوسری طرف جماعت سے باہر جولوگ ہوں (خواہ وہ غیر مسلم ہوں یا ایسے مسلمان ہوں جو اپنے دینی فرائض اور دینی نصب العین سے غافل ہیں ) ان کو بالعموم حاکمیت غیر اللہ کا انکار کرنے اور حاکمیت رب العالمین کو تسلیم کرنے کی دعوت دیں.اس دعوت کی راہ میں جب تک کوئی قوت حائل نہ ہو، ان کو چھیڑ چھاڑ کی ضرورت نہیں.اور جب کوئی قوت حائل ہو، خواہ کوئی قوت ہو، تو ان کو اس کے علی الرغم اپنے عقیدہ کی تبلیغ کرنی ہوگی.اور اس تبلیغ میں جو مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہوگا." (مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم صفحہ آخر ) پڑھنے والے خود دیکھ سکتے ہیں کہ جب انگریز حکومت ہندوستان میں موجود تھی اس وقت تک جماعت اسلامی کا مسلک یہی تھا کہ اگر تو تبلیغ کی راہ میں کوئی قوت حائل نہیں تو کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ تک نہیں کرنی.اور اگر قوت حائل بھی ہو تو اس کو تبلیغ کرو اور بس.یہ واضح طور پر اس بات کی ہدایت ہے کہ تم نے قتال نہیں کرنا.جب اس موضوع پر بات آگے بڑھی تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تعلیمات پیش فرمائی ہیں کہ یہ نظریہ جس کا عیسائی مناداس زور وشور سے پر چار کر رہے ہیں کہ اسلام تلوار اور جبر کے زور سے پھیلا ہے سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے.اور اسلام نے تو ہر طرح کے مظالم کا سامنا کر کے پی تعلیم دی ہے کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ یعنی دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر نہیں ہے.اور جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے وہ اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں.کیونکہ اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں.اور یہ خیال بھی لغو ہے کہ اب ایسا کوئی مہدی یا مسیح آئے گا جوتلوار چلا کر لوگوں کو اسلام کی طرف بلائے گا.
491 اس کے دوران حضور نے فرمایا کہ یہ تصور ہی احمقانہ ہے کہ جبر کے ساتھ عقائد تبدیل کئے جائیں.اب معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب اس بات سے خوش نہ تھے کہ بحث اس روش کی طرف جائے چنانچہ انہوں نے کہا:.وہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.“ لیکن اس کے بعد وہ ایک مخمصے میں پڑ گئے.ایک طرف تو وہ یہ کہہ بیٹھے تھے کہ جبر کے ذریعہ عقائد بدلنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور دوسری طرف وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعلیم پر اعتراض بھی کرنا چاہتے تھے کہ مہدی اور مسیح کے ظہور کے ساتھ اسلام اپنی حقانیت اور دلائل کے ساتھ پھیلے گا نہ کہ کسی جنگ کے نتیجے میں.اب اس مرحلہ پر جو گفتگو ہوئی وہ پیش کی جاتی ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے فرمایا کہ مسلمانوں میں جو خونی مہدی کا انتظار ہے وہ ایک ایسے وجود کا انتظار ہے جو کہ امن کا انتظار کئے بغیر جہاد کا اعلان کر دے گا.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا: ایک یہ مطلب نہیں لیا جاتا.بعض مسلمانوں کا یہ خیال ہے.میری سمجھ کے مطابق جب مہدی آئے گا تو اسلام پھیل جائے گا.جہاد کفار کے خلاف ہوتا ہے اس لئے ضرورت 66 نہیں رہے گی جہاد کی.“ اب اٹارنی جنرل صاحب اس بات کی نفی کر رہے تھے جو انہوں نے چند لمحوں پہلے کی تھی.ان کی بات کا صرف یہی مطلب لیا جا سکتا تھا کہ اسلام کو اپنے پھیلنے کے لئے قتال کی ضرورت ہے اور جب مہدی کے زمانہ میں اسلام پھیل جائے گا تو ایسے جہاد کی ضرورت نہیں رہے گی.اس پر حضور نے فرمایا: وہی پھر کہ اسلام کو ضرورت ہے اپنی اشاعت کے لئے.“ وو اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا: نہیں میں تلوار کی بات نہیں کر رہا...کہ جب مہدی آئے گا تو اسلام پھیل جائے گا“ اس پر حضور نے بات کو واضح کرنے کے لئے پھر سوال دہرایا.کس طرح پھیلے گا.وہاں پر لکھا ہوا ہے.“ اب اٹارنی جنرل صاحب بے بس تھے انہوں نے چاروناچار ان الفاظ میں اعتراف کیا.
492 تلوار کے ساتھ اس پر حضور نے ایک بار پھر ان کے موقف کی بوالجھی واضح کرنے کے لئے فرمایا " ” جبر کے ساتھ وہاں یہ لکھا ہوا ہے.“ ی بختیار صاحب نے اب جان چھڑانے کے لئے جماعت کے موقف کا ذکر شروع کیا اور کہا " نہیں آپ کا concept یہ ہے کہ جبر کے ساتھ نہیں ہوگا پیار سے ہوگا.“ یقیناً جماعت احمدیہ کا موقف یہی ہے.اور جماعت اس موقف کو سختی سے رد کرتی ہے کہ دین کی اشاعت میں جنگ یا جبر کا کوئی دخل ہونا چاہئے.یہ قرآن کریم کی تعلیم اور رسول کریم ﷺ کے عظیم اسوہ کے خلاف ہے.جماعت کے اکثر مخالفین یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا تلوار کا بڑا گہرا تعلق ہے.اس اسمبلی میں جماعت اسلامی کی نمائندگی بھی موجود تھی.ان کے بانی اور قائد کی زبان میں ان کے خیالات درج کرتے ہیں.وہ اپنی کتاب الجہاد فی الاسلام میں تحریر کرتے ہیں لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی.د, 66 انا لله وانا اليه راجعون.کسی دھڑلے سے مودود وی صاحب فتویٰ دے رہے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا وعظ اور آپ کی تلقین نا کام ہو گئے.جماعت احمدیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ خیال ہی فاسد ہے کہ رسول کریم ﷺ کا وعظ اور آپ کی تلقین نا کام ہو گئے.دنیا کے کسی اسلحہ کسی قوت میں وہ تا ثیروہ برکت وہ اثر نہیں جو کہ آنحضرت ﷺ کے ارشادات گرامی میں ہے.اگر دنیا فتح ہوسکتی ہے تو آپ کے وعظ و تلقین کے اثر اور ان کی برکات سے ہی ہو سکتی ہے.لیکن بہر حال مودودی صاحب کو کہ وہ پرکھنے حق ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھیں لیکن ان کی صحت کو پر کھنے کے لئے ہم قرآن کریم ﷺ کو معیار بناتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَذَكَّرُ إِن نَّفَعَتِ الذِكرى“ (الاعلى: ١٠) ترجمہ: پس نصیحت کر نصیحت بہر حال فائدہ دیتی ہے.لیکن مودودی صاحب مصر ہیں کہ نعوذ باللہ رسول کریم ﷺ کی نصیحت ناکام ہوگئی.پھر اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.
493 66 فَذَكِّرُ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكَّر ترجمہ: پس بکثرت نصیحت کر.تو محض ایک بار بار نصیحت کرنے والا ہے 66 لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرٍ » تو ان پر داروغہ نہیں ہے.66 قرآن کریم تو یہ کہتا ہے لیکن مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ نصیحت ناکام ہی ثابت ہوئی.بہر حال مودودی صاحب مضمون کو آگے چلا کر لکھتے ہیں کہ جب تلوار ہاتھ میں لی گئی تو تمام موروثی امتیازات کا خاتمہ ہوا.اخلاقی قوانین نافذ ہوئے.لوگوں کی طبیعتوں سے بدی اور شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا،طبیعتوں کے فاسد مادے خود بخود نکل گئے.حق کا نور عیاں ہوا.تلوار کے یہ معجزے بیان کر کے پھر مودودی صاحب یہ بھیانک نتیجہ نکالتے ہیں: پس جس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بناتا ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا کوئی حصہ نہیں ہے.حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تبلیغ اور تلوار دونوں کا حصہ ہے جس طرح ہر تہذیب کے قیام میں ہوتا ہے تبلیغ کا کام تخم ریزی ہے اور تلوار کا کام قلبہ رانی.پہلے تلوار زمین کو نرم کرتی ہے تا کہ اس میں بیج کو پرورش کرنے کی قابلیت پیدا ہو جائے.پھر تبلیغ بیج ڈال کر آبپاشی کرتی ہے تا کہ وہ پھل حاصل ہو جو اس باغبانی کا مقصود حقیقی ہے.“ ( الجہاد فی الاسلام ، مصنفہ ابواعلیٰ مودودی صاحب، ناشر ادارہ ترجمان القرآن دسمبر ۲۰۰۷ ص ۱۷۴ (۱۷۵ مودودی صاحب یہ خوفناک عقیدہ پیش کر رہے ہیں کہ کسی کو تبلیغ کرنے سے قبل اس پر تلوار چلانا ضروری ہے تاکہ زمین خوب نرم ہو جائے پھر تبلیغ کچھ فائدہ دے گی ورنہ تبلیغ کا بیج ضائع ہونے کا اندیشہ ہے.اسی قسم کے خیالات نے دشمنانِ اسلام کو موقع دیا ہے کہ وہ اسلام کی امن پسند تعلیمات پر حملہ کر سکیں اور نہ ان خیالات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں.یہ اعتراض بار بار ہوا تھا اور اب بھی ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس وقت ہندوستان کی انگریز حکومت کی اطاعت کرنے اور قانون کی پیروی کرنے کا ارشاد کیوں فرمایا.پہلے یہ
494 دیکھنا چاہئے کہ اس وقت کے باقی مسلمان فرقوں اور سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں کا اور مسلمانوں کا بالعموم کیا موقف تھا.کیا وہ اس وقت یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کی انگریز حکومت سے بغاوت کرنا ان کے مفاد میں ہے یا وہ یہ سمجھتے تھے اس حکومت سے تعاون کرنا اور قانون کی حدود میں رہنا ان کے مفاد ات کی حفاظت کے لیے ضروری ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیسا کہ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ صرف ایک سیاسی جماعت تھی جسے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت کہا جا سکتا تھا اور وہ مسلم لیگ تھی.اس کے طے کردہ اغراض و مقاصد پڑھ لیں تو بات واضح ہو جاتی ہے.ان میں سے پہلا مقصد ہی یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریز حکومت سے وفاداری کے خیالات میں اضافہ کیا جائے اور انہیں قائم رکھا جائے.اس کا حوالہ ہم پہلے ہی درج کر چکے ہیں.اب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمارا مفاد اسی میں ہے کہ ہم حکومت سے تعاون کریں اور وفاداری کا رویہ دکھائیں بلکہ جیسا کہ پہلے حوالے گزر چکے ہیں وہ تو حکومت سے پرزور مطالبات کر رہے تھے کہ باغیانہ طرز دکھانے والوں کو طاقت کے ذریعہ دبائے اور ان کے جلسوں میں یہ اعلان ہوتا تھا کہ ہم نے تو کبھی حکومت سے مستحکم عقیدت میں کبھی پس و پیش کیا ہی نہیں.اس پس منظر میں یہ اعتراض ہی نا معقول ہے کہ جماعت احمدیہ نے انگریز حکومت سے تعاون کیوں کیا ؟ اور ان کی تعریف کیوں کی ؟ سوال تو یہ اُٹھنا چاہئے کہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں نے خود مسلم لیگ نے ، ان کے بڑے بڑے علماء نے انگریز حکومت سے وفاداری کا بار بار اعلان کیوں کیا ؟ اس لیے کہ ان کے آنے سے قبل خاص طور پر اس علاقہ میں جواب پاکستان ہے مسلمان بہت پسی ہوئی حالت میں زندگی گزار رہے تھے اور ان کی مذہبی آزادی بالکل سلب کی جا چکی تھی اور انگریزوں کی مستحکم حکومت قائم ہونا ان کے حقوق کی بحالی کا باعث بنا تھا.ہندوستان کے مسلمانوں کی غالب اکثریت کو انگریزوں سے جہاد کا خیال ۱۹۴۷ء کے بعد آیا تھا جب انگریز برصغیر سے رخصت ہو چکا تھا.اس سے قبل تو ہندوستان کے لاکھوں مسلمان اور ہندوستان کے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھی، پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے موقع پر فوج میں بھرتی ہو کر انگریزوں کی فوج میں شامل ہو کر ان کی طرف سے جنگ کرنے کے لیے جاتے تھے.بہر حال اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ وقفہ ہوا اور وقفہ کے بعد دوبارہ اسی موضوع پر گفتگو
495 شروع ہوئی.اور پرانے حوالوں کی تکرار کے ساتھ مغرب کی نماز کے لیے ہونے والے وقفہ تک جاری رہی.پھر ساڑھے آٹھ بجے دوبارہ کارروائی شروع ہوئی.اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حوالے پڑھ کر سنائے کہ کس طرح جب کسی سمت سے اسلام پرحملہ ہوا تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک فتح نصیب جرنیل کی طرح اسلام کا کامیاب دفاع کیا.اور حضور نے تفصیل سے بیان فرمایا کہ تاریخ میں جب بھی مسلمانوں کے حقوق کی خاطر آواز اُٹھانے اور جد وجہد کرنے کا وقت آیا تو جماعت احمدیہ ہمیشہ صف اول میں کھڑے ہو کر قربانیاں دیتی رہی تھی.ابھی حضور یہ واقعات مرحلہ وار بیان فرمارہے تھے اور ابھی مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے لیے مسلمانوں کی خدمات کا ذکر ہونا تھا کہ اس روز کی کارروائی کا وقت ختم ہوا.۲۳ اگست کی کارروائی اس روز کا رروائی شروع ہوئی اور ابھی حضور اقدس ہال میں تشریف نہیں لائے تھے کہ ممبرانِ اسمبلی نے اپنے کچھ دکھڑے رونے شروع کئے.ایک ممبر اسمبلی صاحبزادہ صفی اللہ صاحب نے یہ شکوہ کیا کہ پہلے یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مرزا ناصر احمد لکھا ہوا بیان نہیں پڑھیں گے سوائے اس کے کہ وہ مرزا غلام احمد یا مرزا بشیر الدین کا ہو لیکن وہ کل ایک کاغذ سے پڑھ رہے تھے اور یہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ یہ حوالہ کس کا ہے؟ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک چھوٹا سا سوال کرتے ہیں اور یہ جواب میں ساری تاریخ اپنی صفائی کے لیے پیش کر دیتے ہیں.جہاں تک صفی اللہ صاحب کی پہلی بات کا تعلق ہے تو شاید انہیں بعض باتیں سمجھنے میں دشواری پیش آ رہی ہو.اور دوسری بات بھی عجیب ہے.اعتراض جماعت احمدیہ پر ہورہے تھے.کچھ اعتراضات ایسے تھے کہ ان کا صحیح تاریخی پس منظر پیش کرناضروری تھا.کوئی بھی صاحب عقل اس بات کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا کہ بہت سی تحریروں اور واقعات کو سمجھنے کے لیے ان کے صحیح پس منظر کا جاننا ضروری ہے.اصل مسئلہ یہ تھا کہ اعتراض تو پیش کیے جارہے تھے لیکن جوابات سننے کی ہمت نہیں تھی.ایک اور ممبر ملک سلیمان نے کہا کہ کارروائی کی جو کا پی دی گئی ہے اس پر Ahmadiya issue لکھا ہوا ہے، جب کہ یہ احمدی ایشو نہیں بلکہ قادیانی ایشو ہے.یہ ہم نے فیصلہ نہیں کیا کہ یہ احمدی ایشو ہے.اور شاہ احمد نورانی صاحب نے اس کی تائید کی.گویا یہ بھی پاکستان کی قومی اسمبلی کا حق تھا کہ وہ ایک مذہبی جماعت کا نام اس کی مرضی کے خلاف
496 تبدیل کر دیں.لیکن اس وقت سپیکر صاحب نے اس خلاف عقل اعتراض پر کوئی توجہ نہیں دی.جب کارروائی شروع ہوئی تو حضور نے قدرے تفصیل سے یہ تفاصیل بیان کرنی شروع کیں کہ جب ہندوستان کی آزادی کے دن قریب آ رہے تھے تو کس طرح حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور جماعتِ احمدیہ نے ہمیشہ مسلمانوں میں اتحاد کی کوششیں کیں اور ان کے مفادات کے لیے بے لوث خدمات سرانجام دیں.جب یہ ذکر آگے بڑھتا ہوا فرقان بٹالین کے ذکر تک پہنچا تو یہ صاف نظر آرہا تھا کہ سوالات کرنے والوں نے جو تاثرات قائم کرنے کی کوشش کی تھی وہ اس ٹھوس بیان کے آگے دھواں دھواں ہو کر غائب ہو رہے تھے.اس لیے اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ آپ سے یہ سوال نہیں کیا گیا.اس طرح باہر کی باتیں آجائیں گی.حضور نے اس پر فرمایا کہ ٹھیک ہے میں یہ بیان بند کر دیتا ہوں.لیکن حقیقت یہ تھی کہ جماعت احمدیہ پر جس قسم کے اعتراضات کیے گئے تھے ان کے پیشِ نظر یہ تفصیلات بیان کرنا ضروری تھیں.پھر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے موقف کی وضاحت کے لیے ان کا بیان کرنا ضروری ہے تو آپ بیان کر دیں.اس پر حضور نے اہلِ کشمیر کے لیے جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمات کا خلاصہ بیان فرمایا.اس کے بعد جو سوالات شروع ہوئے تو وہ انہی سوالات کا تکرار تھا جو پہلے بھی کئی دفعہ ہو چکے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب اس موہوم امید پر انہیں دہرا رہے تھے کہ شاید جوابات میں کوئی قابل گرفت بات مل جائے.ایک سوال یہ دہرایا گیا کہ باؤنڈری کمیشن کے سامنے جماعت نے اپنا میمورنڈم کیوں پیش کیا؟ اس کا کچھ جواب پہلے ہی آچکا ہے کہ ایسا مسلم لیگ کی مرضی سے ان کے کیس کی تائید کرنے کے لئے کیا گیا تھا.ایک سوال یہ کیا گیا کہ ۱۹۷۴ ء کے فسادات کے دوران حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے بین الاقوامی تنظیموں سے یہ اپیل کیوں کی تھی کہ وہ پاکستان میں جا کر دیکھیں کہ احمدیوں پر کیا مظالم ہورہے ہیں.اب جب کہ اس کا رروائی پر کئی دہائیاں گزر چکی ہیں یہ سمجھنا زیادہ آسان ہے کہ یہ سوال بھی خلاف عقل تھا.خواہ وہ پارٹی ہو جس سے اٹارنی جنرل صاحب وابستہ تھے یا وہاں پر موجود دوسری سیاسی پارٹیاں ہوں ان سب نے بارہا بین الاقوامی تنظیموں سے یہ اپیل کی کہ وہ پاکستان میں آکر دیکھیں کہ وہاں ان پر کیا کیا مظالم ہو رہے ہیں.کئی اہم مواقع پر بین الاقوامی مبصرین منگوائے گئے ہیں.کئی مرتبہ ملک کے اندرونی مذاکرات میں بیرونی گروہوں کی اعانت لی گئی ہے.یہ
497 ایک لمبی اور تکلیف دہ تاریخ ہے اور یہ حقائق معروف ہیں.جب ہم یہ الفاظ لکھ رہے ہیں اسی پیپلز پارٹی نے جس کی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل صاحب سوالات کر رہے تھے ، اقوام متحدہ سے اپیل کی ہوئی ہے کہ وہ اس کی چیئر پرسن اور ملک کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو صاحبہ کے قتل کی تحقیقات کرے حالانکہ اس وقت ملک میں پیپلز پارٹی کی ہی حکومت ہے.پھر یہ فرسودہ اور بالکل غلط الزام دہرانے کی کوشش کی گئی کہ جماعت احمدیہ کے عقائد کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درجہ نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کے برابر ہے.اور پھر یہ سوالات شروع ہو گئے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مقام نبوت یکلخت ملا تھا یا تدریجی طور پر ملا تھا.ان تمام سوالات کا زیر بحث معاملہ سے کوئی تعلق نہیں تھا.اب یہ ظاہر تھا کہ سوال کرنے والے محض وقت گزار رہے تھے اور ان کے پاس کرنے کو اب کوئی ٹھوس سوال نہیں تھا.اس مرحلہ پر وقفہ ہوا اور نو بجے کے بعد جب کا رروائی شروع ہوئی تو جماعت کے وفد کے آنے سے پہلے ایک ممبر عبد الحمید جتوئی صاحب نے اکتا کر کہا، یہ کب تک چلے گا.“ پیکر صاحب بھی کچھ جھنجلا چکے تھے ، وہ کہنے لگے کہ جب تک آپ چلا ئیں گے.اور پھر چھ ممبران کا تعین ہوا جو ابھی مزید سوالات پوچھنا چاہتے تھے.شاہ احمد نورانی صاحب نے کہا کہ ابھی دو چار روز اور چلا لیں.اس پر سپیکر صاحب نے اصرار کیا کہ نہیں اب اس کو ختم کیا جائے.اور یہ دو چار روز اور نہیں چلے گا یہ تمی بات ہے.پھر جو کچھ انہوں نے کہا وہ من و عن درج ہے:..کچھ موضوعات انگلی اسمبلی کے لیے بھی چھوڑ دیں جو آپ کے Successor ہیں.انہوں نے بھی کچھ فیصلے کرنے ہیں.یہ تو نہیں کہ آپ نے قیامت تک کے تمام فیصلے کر دینے ہیں.ابھی آگے اسمبلیاں بھی رہیں گی..اس پر عبدالحمید جتوئی صاحب نے لقمہ دیا کہ قیامت میں ایک صدی باقی رہتی ہے.سپیکر صاحب نے اس کے جواب میں کہا: ایک صدی کے معاملات کا فیصلہ بھی تو یہ اسمبلی نہیں کر سکتی.“ اس مرحلہ پر حضور ہال میں تشریف لائے اور ان کی آپس کی نوک جھونک ختم ہوئی.اٹارنی جنرل صاحب نے آغاز میں ان حوالوں کا ذکر کر کے جو وقفہ سے پہلے پیش ہوئے تھے اور جن کو چیک کرنا تھا،
498 کہا کہ آپ نے کچھ جوابات دینے تھے.اس پر حضور نے جواب دیا کہ میں دس منٹ میں کیا کر سکتا تھا اور اس وقت کتاب نہیں تھی.اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ انکشاف فرمایا کہ اب انہیں بتایا گیا ہے کہ جو حوالہ دیا گیا تھا اس کا Page غلط ہے.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا : 66 ” Page غلط ہے تو میں کیسے ڈھونڈوں گا.“ اس کے جواب میں بیٹی بختیار صاحب نے یہ دقیق نکتہ بیان فرمایا کہ بعض دفعہ Page ٹھیک ہوتا ہے کتاب غلط ہوتی ہے.پتہ نہیں لگتا.اس لئے بڑی مشکل ہوتی ہے...“ اب تک حوالہ جات کے معاملہ میں جو غلطیاں ان سے ہو چکی تھیں اس پس منظر میں اس پر تبصرہ کی ضرورت نہیں.پھر ان کی گفتگو کا سلسلہ کچھ بے ربط سا ہو گیا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ آپ غدر ۱۸۵۷ء کی جنگ کو جہاد نہیں سمجھتے ، اس میں بہت سے بچوں کو اور عورتوں کو مارا گیا تھا لیکن ۱۹۴۷ء میں آزادی کے وقت بھی تو بہت سے بچوں اور عورتوں کو فسادات کے دوران مارا گیا تھا.یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اس منطق سے کیا نتیجہ نکالنے کی کوشش کر رہے تھے.اور اب ان کے سوالات مفروضوں کی طرف نکل رہے تھے کہ اگر یہ ہو جائے تو کیا ہوگا اور اگر اس طرح ہو تو کیا ہو گا.اس پر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ اگر“ کے ساتھ بات نہ کریں.اگر“ کے ساتھ تو قیامت تک مسئلہ حل نہیں ہوسکتا.جو واقعہ ہے یا جو تعلیم ہے اس کے متعلق میں بات کرنا چاہتا ہوں.ایک مرحلہ پر سپیکر صاحب نے اٹارنی جنرل صاحب کو کہا کہ وہ اگلا سوال کریں.گواہ سوال کا جواب دینے کو تیار نہیں ہے.اٹارنی جنرل صاحب نے سوال دہرانا چاہا لیکن سپیکر صاحب نے اس کی اجازت نہیں دی.بات آگے چلی تو اٹارنی جنرل صاحب نے چشمہ معرفت کا ایک حوالہ پڑھنے کی کوشش کی اور پھر خود ہی کہا کہ یہ حوالہ تو غلط ہے.اب سپیکر صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا.انہوں نے کہا کہ میں اٹارنی جنرل صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ باقی حوالہ جات گواہ کو دے دیں تا کہ کل اس کا جواب آجائے.چنانچہ چاروناچار انہوں نے حوالوں کی فہرست لکھوانی شروع کی.ابھی حوالہ کی عبارت نہیں پڑھی جا رہی تھی.جب فہرست لکھوا دی گئی تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ پہلے ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ جس مضمون کے متعلق حوالہ دیا گیا ہے اس صفحہ پر اس مضمون کا ذکر ہے کہ نہیں.اس کے جواب میں اٹارنی جنرل
499 صاحب نے فرمایا، ” مجھے تو ملتے نہیں حضور نے فرمایا.نہیں ٹھیک ہے اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا ” تو آپ چیک کر لیں اس کو یہ بات قابل ملاحظہ ہے کہ اتنے روز کی بحث کے بعد جب کارروائی اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی تو سوالات کرنے والے قابل حضرات کے وکیل کو متعلقہ حوالے بھی نہیں مل رہے تھے.اور بعض اوقات تو یہ تاثر ملنے لگتا تھا کہ شاید ان کے ذہن میں ہے کہ یہ بھی جماعت احمدیہ کے وفد کی ذمہ داری ہے کہ ان کے کام کے حوالے تلاش کر کے ان کی خدمت میں پیش کرے تا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی بسہولت اپنے اعتراضات کو پیش کر سکے.کارروائی کا آخری دن کارروائی اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی اور اب تک اصل موضوع یعنی ختم نبوت پر سوالات شروع ہی نہیں ہوئے تھے.شاید کسی ذہن میں یہ امید ہو کہ آخری دن تو موضوع پر بات ہوگی لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا.ممبران اسمبلی آخری روز بھی یہ ہمت نہیں کر سکے کہ ادھر اُدھر کی باتوں کو چھوڑ کر اُس موضوع پر بحث کریں جس کا تعین خود انہوں نے کیا تھا.پہلے حضور اقدس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ فارسی اشعار پڑھ کر ان کا مطلب بیان فرمایا.ان اشعار پر پہلے اعتراض کیا گیا تھا.اس کے بعد حضور نے اس اعتراض کا جواب شروع فرمایا جو اس بات پر کیا گیا تھا کہ فروری ۱۸۹۹ ء کو جب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عدالت کے کہنے پر ایک نوٹس پر دستخط فرمائے کہ آئندہ سے میں کسی کی موت کی پیشگوئی شائع نہیں کروں گا.اور یہ ایک نبی کی شان کے مطابق نہیں ہے.اس واقعہ کا پس منظر یہ تھا کہ انگریز حکومت کے ایک پولیس افسر نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کولکھا کہ ایک گزشتہ مقدمہ میں مرزا غلام احمد کو سابق ڈپٹی کمشنر ڈگلس صاحب نے یہ کہا تھا کہ وہ آئندہ سے ایسی پیشگوئیاں شائع نہ کریں جس سے نقض امن کا اندیشہ ہو لیکن اب انہوں نے اس کی خلاف ورزی شروع کر دی ہے.اور اس کی تائید میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے بھی ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی کہ مجھے خطرہ ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار مجھے نقصان پہنچائیں گے.اور آخر میں عدالت نے مولوی محمد حسین بٹالوی کی اشتعال انگیز تحریروں کو بھی دیکھا.اور مقدمہ کے آخر
500 میں محمد حسین بٹالوی صاحب کو فہمائش کی گئی کہ وہ آئندہ تکفیر اور بدزبانی سے باز رہیں.مقدمہ کے آخر میں عدالت نے فریقین سے ایک تحریر پر دستخط کرائے کہ آئندہ کوئی فریق اپنے مخالف کی نسبت موت وغیرہ کسی دل آزار مضمون کی پیشگوئی نہ کرے.کوئی کسی کو کافر اور دجال اور مفتری نہ کہے.بدگوئیوں اور گالیوں سے مجتنب رہیں.اس اعتراض کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ اس واقعہ سے بہت قبل ۱۸۸۶ء میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس طریق کا اعلان فرما چکے تھے کہ وہ کسی کی موت کی پیشگوئی اس وقت تک شائع نہیں فرماتے تھے جب تک اس شخص کی طرف سے اس بابت اصرار نہ ہو.اور اس کے ثبوت کے طور پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار کی عبارت پیش فرمائی.اور اگر آپ نے عدالت میں اس تحریر پر دستخط فرمائے تو یہ آپ کے طریق کے مطابق ہی تھا.پھر اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں کے متعلق کچھ سوالات اُٹھائے اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو دعوت مباہلہ اور عبد اللہ آتھم اور محمدی بیگم کی پیشگوئیوں کے متعلق تفاصیل بیان فرما ئیں.اس کے بعد بیٹی بختیار صاحب نے تاریخ احمدیت کے متعلق یہ انکشاف فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے احمدیت قبول نہیں کی تھی.گویا انہیں آپ کی ۱۹۳۰ء میں ہونے والی بیعت کی اطلاع اب تک موصول نہیں ہوئی تھی اور یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی بیعت کا مسئلہ ختم نبوت سے کیا تعلق تھا ؟ پھر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال اُٹھایا کہ احمدیوں نے کہا تھا کہ مذہباً ترکوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور اٹارنی جنرل صاحب نے کوئی حوالہ پڑھ کر غلطیوں میں اضافہ کرنے کی کوشش تو نہیں کی البتہ یہ ضرور کہا کہ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ یہ کہا گیا تھا کہ ہم ترکی کے سلطان کو مذہباً خلیفہ نہیں مانتے.اب یہ بات ظاہر ہے کہ پہلی اور دوسری بات میں زمین آسمان کا فرق ہے.اور صاف ظاہر ہے احمدی خلافت احمدیہ سے وابستہ ہیں اور وہ ترکی کے سلطان کو خلیفہ کیوں ماننے لگے.اور تو اور پاکستان میں غیر احمدی مسلمانوں سے پوچھ لیں کہ ان میں سے کتنے ترکی کے سلطان کو خلیفہ راشد سمجھتے ہیں ، ایسا آدمی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا.اور پھر یہ سوال اٹھایا کہ جب پہلی جنگ عظیم کے دوران
501 بغداد پر انگریزوں کا قبضہ ہوا ہے تو قادیان میں چراغاں جلائے گئے تھے کہ نہیں.یہ اعتراض بھی بار بار کیا جاتا ہے کہ جب پہلی جنگ عظیم میں انگریز افواج نے بغداد پر قبضہ کیا تو قادیان میں چراغاں کیا گیا تھا.پہلی بات یہ ہے کہ چراغاں بغداد کی فتح پر نہیں ہوا تھا بلکہ جب اتحادیوں نے جرمنی کو شکست دی ہے اور پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا ہے اس وقت ہوا تھا.بغداد پر قبضہ مارچ ۱۹۱۷ ء میں اور پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ۱۹۱۸ ء کے آخر میں ہوا تھا.اور صرف قادیان میں نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں کئی مقامات پر یہ چراغاں کیا گیا تھا.لیکن یہ اعتراض اٹھانے والے اپنی دانست میں بہت بڑا اعتراض اُٹھاتے ہیں.جب ہم نے انٹرویو کے دوران صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے اس سوال کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے یہ سوال یا د ہے اور یہ سوال کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ احمدیوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ رکھا ہے.اور مسلم دنیا کے ساتھ منسلک نہیں ہوتے تھے.اس لئے اس کے Downfall کو Welcome کیا.پہلی بات یہ ہے کہ جب جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تو ترکی کی سلطنت عثمانیہ کو پہلے ہی شکست ہو چکی تھی اور اس موقع پر ترکی کی شکست پر نہیں بلکہ جرمنی کی شکست پر جشن منایا گیا تھا.اور اگر ہم یہ معیار تسلیم کر لیں کہ پہلی جنگ عظیم میں جس کی ہمدردیاں انگریزوں کے ساتھ تھیں وہ اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھنا چاہتا تھا.اور یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کو قانونِ پاکستان میں غیر مسلم قرار دینے کی ایک وجہ بن سکتا ہے.تو ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں میں سے کس کس کی ہمدردیاں انگریزوں کے ساتھ تھیں.پھر اسی کلیہ کی رو سے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان کے متعلق بھی یہی خیالات روار کھے جائیں.جب ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو مسلمانان برصغیر کا رد عمل کیا تھا، اس کا اندازہ اس مواد سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ پنجاب یونیورسٹی کی ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان نے ایک کتاب میں جمع کیا ہے.جب پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو پنجاب کی Legislative Council نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی.اس کونسل میں مسلمان ، ہندو اور سکھ نمائندگان شامل تھے.اس قرار داد میں یہ درج تھا کہ ہم ایمپائر کے بادشاہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہیں اور یہ یقین دلاتے ہیں کہ ایمپائر کے دشمنوں کے خلاف جو بھی مدد درکار ہوگی یہ صوبہ اس کو فراہم کر دیگا.
502 A Book of Readings on the History of the Punjab 1799-1947 by Imran Ali Malik, Published by Research Society of the Punjab 1985 p321 جہاں تک مسلمانوں کے علیحدہ رد عمل کا تعلق ہے تو اس کتاب میں اس کے متعلق پہلی خبر درج ہے.جب پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو لاہور میں مسلمانوں کا ایک جلسہ منعقد ہوا اور منتظمین کی طرف سے اس جلسہ کی غرض یہ بیان کی گئی کہ ملکہ معظم جارج پنجم دام اقبالہ کے حضور میں مسلمانان لا ہور و پنجاب کی طرف سے اظہارِ وفاداری و عقیدت کیا جائے اور پروردگار عالم کی درگاہ میں سرکار انگلشیہ کی فتح و نصرت کے واسطے دعا کی جائے.نیز مسلمانانِ پنجاب کی طرف سے گورنمنٹ کو یقین دلایا جاوے کہ مسلمانوں کا ہر فرد و بشر سر کارِ عالیہ کی ہر قسم کی امداد و خدمت کے واسطے تیار ہے.“ اس میں ایک قرارداد پیش کی گئی.اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ : مسلمانان لاہور کا یہ عام جلسہ جو بسر پرستی انجمن اسلامیہ پنجاب لا ہور منعقد کیا گیا ہے.مسلمانانِ پنجاب کی طرف سے اپنی گورنمنٹ اور حضور شہنشاہ معظم کی خدمت میں ایک غیر متزلزل مکمل وفادار ہے.اور عقیدت شعاری کا اظہار کرتا ہے.اور سلطنت کی حفاظت میں اپنی خدمت اور تمام ذرائع پیش کرتا ہے.“ اور اس قرارداد کی حمایت میں بہت سے معززین نے تقاریر کیں جن میں سے ایک نام ڈاکٹر اقبال صاحب بار ایٹ لاء کا بھی تھا.اس کے بعد مولوی غلام اللہ صاحب کی طرف سے دوسرا ریزولیشن یہ پیش کیا گیا کہ ہم سب مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ سرکار کی فتح و نصرت کے لئے دعائیں مانگیں.چنانچہ یہ قرارداد بھی منظور کی گئی کہ تمام مساجد میں سرکار کی فتح ونصرت کے لئے دعائیں مانگی جائیں.اس کے علاوہ بہت سے علماء نے بھی اس موقع پر مختلف جلسوں سے خطاب کئے.مذکورہ کتاب میں اس کی مثالیں درج ہیں.ایک مولوی صاحب ، مولوی نظر حسین صاحب نے گوجرانوالہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سلطنت برطانیہ نے محض حقوق اور انصاف کی طرف داری کے لئے اس جنگ میں حصہ لیا ہے.چونکہ ہر مسلمان پر انصاف کی حمایت فرض ہے اس لیے ہم کو اپنے
503 بادشاہ اور گورنمنٹ کی امداد اور جان نثاری لازمی ہے.ان مولوی صاحب نے پر جوش آواز میں اعلان کیا کہ اگر گورنمنٹ عالیہ قبول کرے تو وہ سب سے پہلے بطور والنٹیئر میدانِ جنگ میں جانے کے لئے تیار ہیں.اور دیگر حاضرین نے بھی پر جوش الفاظ میں اپنے جان و مال گورنمنٹ کی خدمت میں شار کرنے کی آمادگی ظاہر کی.A Book of Readings on the History of the Punjab 1799-1947 by Imran Ali Malik, Published by Research Society of the Punjab 1985 p328-329 اس وقت یہ افواہیں گرم تھیں کہ شاید تر کی جرمنی کا اتحادی بن کر برطانیہ کے خلاف میدان جنگ میں کود پڑے.اس پس منظر میں ۱۶ رستمبر ۱۹۱۴ء کو انجمن اسلامیہ پنجاب کا ایک پبلک جلسہ لاہور میں منعقد ہوا اس میں دیگر قرار دادوں کے علاوہ یہ قرارداد بھی منظور کی گئی کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ اس جنگ میں مدبران ترکی اس جنگ میں بے تعلقی کا مسلک اختیار کئے رہیں گے.اور ایک اور قرار دادیہ بھی منظور کی گئی کہ اگر ٹر کی خدانخواستہ اس جنگ میں دشمن کے ساتھ ہو جائے تو بھی مسلمانانِ ہند تاج 66 برطانیہ کے ساتھ اپنے مستقیم وفاشعاروں اور مستقل اطاعت گزاری پر قائم رہیں گے.“ اور یہ دعائیہ قرار بھی منظور ہوئی کہ یہ جلسہ قادر مطلق سے دعا کرتا ہے کہ وہ ٹرکی کوسب سے بڑی سلطنتِ اسلامی زمانہ حال کے خلاف جنگ میں آنے سے باز رکھے.“ A Book of Readings on the History of the Punjab 1799-1947 by Imran Ali Malik, Published by Research Society of the Punjab 1985 p330-331 لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کی تمام خواہشات کے برعکس اکتوبر ۱۹۱۴ء میں ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ نے جرمنی اور آسٹریا کی حمایت میں جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا.دوسری طرف برطانیہ، فرانس اور روس تھے اور بعد میں اٹلی اور امریکہ بھی ان اتحادیوں کے ساتھ مل گئے.چونکہ اس دور میں ترکی کی سلطنت عثمانیہ مسلمانوں کی سب سے بڑی سلطنت تھی اور اس کے بادشاہ خلیفہ کہلاتے تھے، ان وجوہات کی بنا پر عموماً مسلمانوں میں اس سلطنت کے ساتھ اور ان کے بادشاہ کے ساتھ عمومی
504 ہمدردی پائی جاتی تھی.لیکن جب ترکی نے برطانیہ کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کیا تو مسلمانوں کا ردعمل کیا تھا اس کا اندازہ ان مثالوں سے ہوتا ہے.مولانا محمد علی جوہر کے اخبار کامریڈ نے لکھا کہ انہیں ترکی سے ہمدردی ہے اور اس طرح ترکی کا برطانیہ کے مقابلے پر آنا تکلیف دہ بھی ہے لیکن پھر واضح الفاظ میں مسلمانوں کے بارے میں لکھا کہ ان کے جذبات کچھ بھی ہوں اس معاملے میں ان کا راستہ سیدھا سادا ہے.انہیں اپنے ملک اور اپنے بادشاہ کے بارے میں اپنے فرائض کے بارے میں ذرہ بھر شبہ نہیں ہے.ہم ایک سے زیادہ مرتبہ بغیر کسی جھجک کے یہ اظہار کر چکے ہیں کہ ترکی اور برطانیہ کی جنگ کی صورت میں ہندوستان کے مسلمانوں کا رویہ کیا ہو گا.اس کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کے نقطہ نظر کا تعلق ہے ، چونکہ وہ ہنر مجسٹی کنگ ایمپر رکے وفادار اور امن پسند رعایا ہیں ہمیں اعتماد ہے کہ مزید کسی یقین دہانی کی ضرورت نہیں ہے.ان کے جذبات پر بہت بوجھ ہے لیکن وہ یہ بات نہیں بھول سکتے کہ وہ ہندوستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا اور بہت ذمہ دار حصہ ہیں اور تاج برطانیہ کی رعایا ہیں.اس بحران میں ترکی کا معاملہ کچھ بھی ہو ہندوستان کے مسلمان اس بات سے بخوبی 66 آگاہ ہیں کہ یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے.“ The Indian Muslims, A documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli p12 پھر مولانا محمد علی جوہر نے کامریڈ کی ایک اشاعت میں پہلی جنگ عظیم کے حالات کا تجزیہ کر کے لکھا کہ اگر ان حالات میں برطانوی گورنمنٹ ہمیں سیلف گورنمنٹ بھی دے دے تو ہم نہایت عاجزی سے اس کو لینے سے انکار کر دیں گے کہ یہ اس کا وقت نہیں ہے.مراعات کا مطالبہ اور ان کو تسلیم کرنے کا وقت امن کا زمانہ ہے.ہم روس کے پولش نہیں ہیں ہمیں کسی رشوت کی ضرورت نہیں ہے.The Indian Muslims, A documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli p38 اگر ہم صرف پنجاب کی ہی مثال لیں تو یہاں پر لاہور ، جہلم اور ملتان اور دیگر مقامات پر بڑے
505 بڑے جلسے ہوئے اور مسلمانوں سمیت اہل پنجاب نے ایک طرف تو اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ تر کی جنگ میں شامل ہو گیا ہے اور دوسری طرف انگریز حکومت کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا.اس کے علاوہ حکومت کی جنگی مہمات کے لئے کثیر قرضہ بھی جمع کیا گیا.یہ قرضہ دینے والوں میں اہم شخصیات کے علاوہ عام لوگ بھی شامل تھے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب جنگ اپنے آخری سال میں داخل ہو چکی تھی تو کلکتہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ۳۰؍ دسمبر ۱۹۱۷ ء سے لے کر یکم جنوری ۱۹۱۸ ء تک منعقد ہوا.اس اجلاس میں جو پہلی قرار داد منظور کی گئی وہ بیتھی: The All India Muslim League notes with deep satisfaction the steadfast loyalty of the the Muslim community to the British Crown during the present crisis through which the Empire is passing, and it assures the Government that it may continue to rely upon the loyal support of the Mussalmans and prays that this assurance may be conveyed to H.M.the King Emperor.یعنی آل انڈیا مسلم لیگ اس بات پر اظہار اطمینان کرتی ہے کہ مسلمان اس بحران کے دوران جس میں سے ایمپائر گزر رہی ہے ثابت قدمی کے ساتھ تاج برطانیہ کے وفادار رہے ہیں.اور وہ گورنمنٹ کو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی وفادارانہ حمایت پر انحصار جاری رکھ سکتی ہے.اور اس بات کی درخواست کرتی ہے کہ یہ یقین دہانی شاہ معظم تک پہنچادی جائے.اور ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ جب یہ قرار داد منظور کی گئی تو دیگر عمائدین مسلم لیگ کے علاوہ قائد اعظم محمد علی جناح بھی بمبئی مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے اجلاس میں موجود تھے.
506 The Indian Muslims, A documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli p145,149 اور پھرستمبر ۱۹۱۸ء میں راجہ صاحب محمود آباد کی صدارت میں مسلم لیگ کا ایک اجلاس بمبئی میں منعقد ہوا.اور ریکارڈ سے یہ بات ظاہر ہے کہ اس اجلاس میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح موجود تھے.اس اجلاس میں پہلی قرار داد جو متفقہ طور پر منظور کی گئی وہ سیتھی.The All India Muslim League tenders its most loyal homage to his majesty The King Emperor and assures the Government of the steadfast and continued loyalty of the Muslim community of India throughout the present crisis.آل انڈیا مسلم لیگ شاہ معظم کی خدمت میں نہایت وفادارانہ تعظیم پیش کرتی ہے.اور حکومت کو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اس بحران میں ثابت قدمی کے ساتھ اپنی وفاداری جاری رکھیں گے.The Indian Muslims, A documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli p184,189 ان اجلاسات میں حکومت کے کئی فیصلوں سے اظہار اختلاف بھی کیا گیا اور حکومت کے بعض فیصلوں پر تنقید بھی کی گئی لیکن مذکورہ بالا قراردادوں سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس جنگ عظیم کے دوران مسلم لیگ کی یہ پالیسی ہرگز نہیں تھی کہ مسلمانوں میں بغاوت کے خیالات پیدا کئے جائیں یا کسی بھی رنگ میں جنگ کے معاملے میں انگریز حکومت سے عدم تعاون کیا جائے.مندرجات بہت واضح ہیں کسی تشریح کی ضرورت نہیں ہے.اس وقت قوم کے قائدین نے قوم کے مفادات میں اسی راہ کو سب سے زیادہ مناسب سمجھا تھا.اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ قائد اعظم جیسے دور اندیش سیاستدانوں کی ذہانت تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک پر امن بالغ نظر اور حقیقت پسندانہ روش پر چلایا.اور کسی قسم کے فتنہ فساد میں ڈال کر ان کو ابتلاؤں میں مبتلا نہیں کیا.
507 یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعد میں جب پہلی جنگ عظیم کے دوران مہتمم دارالعلوم دیو بند محمد احمد صاحب کو یہ خبر ملی کہ مکہ میں ترکی کے حامیوں نے میٹنگ کی ہے اور انکی ملاقات انور پاشا سے ہوئی ہے اور انہوں نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ ہندوستان میں بغاوت کو اُبھارا جائے اور اس میٹنگ میں ان کے مدرسہ کے ایک استادمحمود حسن بھی موجود تھے تو مہتم دارالعلوم دیو بند نے یہ تفصیلات انگریز حکومت کو بھجوا دیں.The Indian Muslims, A documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli p53 بعد میں جب محمود حسن واپس ہندوستان آرہے تھے تو اس مخبری کی بنا پر شریف حسین والی مکہ نے انگریزوں کے ایماء پر انہیں گرفتار کر لیا اور انہیں انگریزوں کے حوالے کر دیا اور انگریزوں نے انہیں مالٹا بھجوا دیا.دوسری طرف مسلم لیگ کے اکابرین کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ محمود حسن صاحب کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے.وہ اس مخبری سے لاعلم تھے چنانچہ انہوں نے جنوری ۱۹۱۸ء کے اجلاس میں اس بات کا اظہار کیا کہ یہ شخص اس قسم کا آدمی نہیں ہے کہ حکومت کے خلاف کسی سرگرمی میں حصہ لے.The Indian Muslims, A documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli p113 اور اس جنگ میں لاکھوں ہندوستانی مسلمان سپاہی انگریزوں کی فوج میں بھرتی ہو کر ان کی طرف سے لڑ رہے تھے.اب کیا اس صورت میں ہندوستان کے مسلمان اس فوج کی شکست یا اپنے بھائیوں کے گرفتار ہونے یا ہلاک ہونے کے خواہشمند رہتے.لیکن اس ضمن میں دو باتیں قابل توجہ ہیں.ایک تو یہ کہ اس جنگ میں ہندوستان کے غیر از جماعت مسلمانوں کی ہمدردیاں کس کے ساتھ تھیں اور دوسرے یہ کہ انگریزوں نے بغداد اور دوسرے عرب علاقوں پر قبضہ کن کے تعاون سے کیا تھا.جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو تاریخ کے سرسری مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے اس جنگ میں ہندوستان کے مسلمان پوری طرح سے برطانیہ کا ساتھ دے رہے تھے.اور ان میں سے لاکھوں نے تو فوج میں بھرتی ہو کر برطانیہ کی طرف سے جنگ میں حصہ بھی لیا تھا.اگر ہم صرف پنجاب کا ہی جائزہ لیں تو اس صوبہ کے مسلمانوں نے لاہور سمیت صوبہ کے شہروں میں بڑے بڑے جلسے
508 منعقد کیے تھے جن میں انگریز حکومت سے وفاداری کا اعادہ کیا تھا اور ان کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگی تھیں.مثلاً ایک بڑا جلسہ ۱۲ / اگست ۱۹۱۴ ء کو لاہور میں منعقد ہوا تھا اور اس کی رپورٹ کے مطابق اس میں مسلمانانِ پنجاب کی طرف سے اظہار وفاداری اور عقیدت کیا گیا اور سر کار انگلشیہ کی فتح اور نصرت کے لیے دعائیں مانگی گئیں.اور یہ ریزولیشن منظور کیا گیا جس میں حکومت کو پنجاب کے مسلمانوں کی طرف سے ” غیر متزلزل وفاداری اور عقیدت شعاری کا یقین دلایا گیا اور سلطنت کی حفاظت کے لیے اپنے تمام ذرائع اور خدمات کو پیش کیا گیا.اس ریزولیشن کی بھر پور تائید میں تقریر کرنے والوں میں ایک نمایاں نام علامہ اقبال کا بھی تھا.اور تو اور مولوی حضرات مساجد میں جلسے کر رہے تھے اور یہ اظہار کر رہے تھے کہ ہم پر اپنے بادشاہ اور گورنمنٹ انگلشیہ کی وفاداری لازمی ہے بلکہ بعض علماء نے تو یہ بھی اعلان کیا کہ اگر حکومت منظور کرے تو وہ سب سے پہلے بطور رضا کار میدانِ جنگ میں جانے کو تیار ہیں.اس وقت جبکہ ابھی ترکی جنگ میں شامل نہیں ہوا تھا مسلمانوں کی تنظیمیں یہ قرار دادیں منظور کر رہی تھیں کہ ترکی غیر جانبدار رہے.لیکن جب ترکی نے جرمنی کے ساتھ مل کر جنگ میں شمولیت کا اعلان کر دیا تو مسلمانوں نے جلسے کر کے اس بات کا واضح اعلان کر دیا کہ اس سے ہندوستان کے مسلمانوں کی وفاداری پر کوئی فرق نہیں پڑتا.علاوہ ازیں مسلم لیگ کی طرف سے بھی وائسرائے کو وفاداری کاریزولیشن بھجوایا گیا اور اس کے جواب میں وائسرائے نے تار دیا کہ ہمیں ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ ہم تمام حالات میں ہندوستان کے مسلمانوں کی وفاداری پر بھروسہ کر سکتے ہیں.(۹۹) یہ سب حقائق حکومت پاکستان کے ماتحت اداروں کی شائع کردہ کتب میں بھی موجود ہیں.اس پس منظر کی موجودگی میں یہ اعتراض کہ قادیان میں چراغاں ہوا تھا کہ نہیں ایک مضحکہ خیز اعتراض ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت کی ہمدردیاں انگریز حکومت کے ساتھ تھیں اور اس جنگ میں مسلم لیگ بھی انگریز حکومت کی حمایت کر رہی تھی اور مسلمانوں کو حکومت کا وفادار رہنے کی تلقین کر رہی تھی.دیو بند کے مہتم انگریزوں کو مخبری بھی کر رہے تھے.مسلمان بڑی تعداد میں فوج میں شامل ہو کر ترکی کی فوج کے خلاف لڑ رہے تھے اور ان پر گولیاں چلا رہے تھے.اور ہندوستان کے بہت سے مسلمان اس جنگ میں سلطنت برطانیہ کی طرف سے لڑتے ہوئے مارے بھی گئے.اگر قادیان میں چراغاں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احمدی اپنے آپ کو امت مسلمہ سے علیحدہ رکھنا
509 چاہتے تھے تو پھر ان ناقابل تردید شواہد سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کے تمام مسلمان، ہندوستان کے علماء اور مسلم لیگ، یہ سب اپنے آپ کو امت مسلمہ سے علیحدہ رکھنا چاہتے تھے.ایک مرحلہ پر جب کہ اٹارنی جنرل صاحب نے یہ کہا کہ جو Annexures دیئے جارہے ہیں وہ بھی پرنٹ ہو کر ممبران کو دیئے جا رہے ہیں.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ ہمیں کیوں اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے ہمیں بھی تو کارروائی کی ایک کاپی ملنی چاہئے.لیکن اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ نہیں یہ تو Secret ہے اور پھر اصرار پر اس موضوع کو ٹال گئے.ایک وقفہ سے پہلے حضور نے سپیکر صاحب سے کہا کہ اگر اجازت ہو تو میرے وفد کے اور اراکین بھی کچھ سوالات کے جوابات دے دیں.اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں.جب وقفہ کے بعد کارروائی دوبارہ شروع ہوئی اور ابھی حضور ہال میں تشریف نہیں لائے تھے کہ رکن اسمبلی احمد رضا خان قصوری صاحب نے سپیکر کو مخاطب کر کے کہا کہ آج جب وہ وقفہ کے دوران اپنے گھر جارہے تھے.تو ایک جیپ سے ان پر فائرنگ کی گئی ہے.گو وہ یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھے کہ ان پر یہ قاتلانہ حملہ کرنے والا کون تھا؟ اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اس کی ایف آئی آر تھانے میں درج کرادی ہے.لیکن ان دنوں کے اخبارات میں اس کا ذکر کوئی نہیں ہے.یہ بات قابل غور ہے کہ اس کے بعد ان پر ایک اور قاتلانہ حملہ بھی فی الحقیقت ہوا تھا اور اس قاتلانہ حملہ میں ان کے والد نواب محمد احمد خان صاحب گولیاں لگنے سے جان بحق ہو گئے تھے.اور اس کا الزام اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب پر لگایا گیا تھا اور جب ان کا تختہ الٹنے کے بعد ان پر اس کا مقدمہ چلایا گیا تو انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی.اور اس کے بعد انہیں پھانسی دے دی گئی.اس بات کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے کہ جب پہلے دن اسمبلی میں جماعت احمدیہ کے خلاف ہونے والے فسادات پر بحث ہوئی تو وزیر اعظم کے منہ سے ایسا جملہ نکلا تھا جو انکے خلاف اس مقدمہ قتل کے دوران بار بار پیش کیا گیا.اور جب جماعت احمدیہ کا وفد آخری روز سوالات کا جواب دے رہا تھا تو ایک ایسے شخص نے یہ دعوی کیا کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے، جس کو قتل کروانے کی کوشش کے الزام میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو سزائے موت دی گئی.جب کارروائی شروع ہوئی تو کچھ پرانے حوالوں پر بات کرنے کے بعد مولوی ظفر احمد انصاری
510 صاحب نے اس الزام کے متعلق سوالات شروع کیسے کہ نعوذ باللہ احمدیوں نے قرآنِ کریم میں تحریف کی ہے.اس کے ساتھ یہ بات بھی سامنے آئی کہ چیئر مین کمیٹی اور اٹارنی جنرل اس بات پر کچھ زیادہ آمادہ نہیں دکھائی دیتے تھے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے حضور اقدس کے علاوہ اور کوئی ممبر وفد کسی سوال کا جواب دے.بیشتر اس کے کہ تحریف قرآن مجید کے متعلق سوالات شروع ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے کچھ اصولی باتیں بیان فرمائیں.حضور نے قرآنی تفسیر کے سات معیار بیان فرمائے.آپ نے پہلا معیار یہ بیان فرمایا کہ چونکہ قرآن کریم میں کوئی تضاد نہیں اس لیے قرآن کریم کی کسی آیت کی کوئی ایسی تفسیر نہیں کی جاسکتی جو کہ کسی اور آیت کے مخالف ہو.دوسرا معیار آنحضرت کی وہ صحیح احادیث ہیں جن میں قرآنی آیات کی تفسیر بیان کی گئی ہے اور تیسرا معیار یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ نے جو تفسیر کی ہے اسے ترجیح اس لیے دینی پڑے گی کیونکہ صحابہ کو کی صحبت سے ایک لمبا عرصہ فیض اٹھانے کا موقع ملا تھا.اسی طرح چوتھا معیار یہ ہے کہ سلف صالحین نے جو تفسیر بیان کی ہے اسے بھی ہم قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے.پانچواں معیار عربی لغت ہے.اور یہ مد نظر رہے کہ بعض دفعہ ایک لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں.چھٹا معیار یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قول و فعل میں کوئی تضاد ممکن نہیں ہے.اگر کوئی تفسیر ایسی کی جارہی ہے جو کہ خدا تعالیٰ کے اس فعل کے مخالف ہے جو سائنس کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوا ہے تو یہ تفسیر رد کرنے کے قابل ہے.اور ایک اصول حضور نے یہ بیان فرمایا کہ ہر نئے زمانے میں نئے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے اور قرآنِ کریم ان نئے مسائل کے حل کے لیے بھی راہنمائی کرتا ہے.اس لیے ہم یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کریم کے جتنے مطالب تھے سب سامنے آگئے ہیں اور اب کوئی اور نئے مطالب سامنے نہیں آئیں گے.حضور کے اس لطیف بیان کے بعد مولوی ظفر احمد صاحب انصاری نے تحریف پر سوالات شروع کیے.اور پہلا سوال یہ کیا کہ : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام میں سورۃ حج کی آیت ۵۳ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِي..الخ اور کہا کہ جو کتاب جماعت احمدیہ نے شائع کی ہے اس میں قَبلِک کا لفظ نہیں ہے.اب یہ نا معقول اعتراض ہے اسے سہو کتابت تو کہا جاسکتا ہے لیکن کسی طرح تحریف نہیں کہا جا سکتا.جماعت احمدیہ کی طرف سے سوسے زائد مرتبہ قرآن کریم شائع کیا گیا ہے اور
511 ان میں سے کسی میں بھی یہ آیت بغیر قبلی کے لفظ کے موجود نہیں.اور ازالہ اوہام جب روحانی خزائن کے نام سے شائع کی گئی تو اس میں بھی یہ آیت درست موجود ہے،حضور نے ان امور کی نشاندہی فرمائی.اور خود غیر احمدیوں کے شائع کردہ قرآن کریم کے کئی نسخوں میں سہو کتابت کئی جگہ پر پائی جاتی ہے.پھر دوبارہ اس موضوع پر سوالات شروع ہوئے تو ظفر احمد انصاری صاحب نے یہ بیان کرنا شروع کیا کہ مرزا بشیر الدین محمود صاحب کا جو انگریزی ترجمہ قرآن ہے.Commentary کے ساتھ.ابھی وہ بات مکمل نہیں کر پائے تھے کہ حضور نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا کوئی انگریزی ترجمہ قرآن موجود نہیں ہے.لیکن مولوی صاحب یہ بات دہرانے کے باوجود بات سمجھ نہیں پائے اور کہنے لگے کہ انہوں نے ترجمہ کیا ہے And they have firm faith in what is yet to come ان کی مراد یہ تھی کہ سورۃ بقرۃ کی پانچویں آیت کے آخری حصہ وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے جو کہ غلط ہے.گویا ان کے نزدیک آخرہ کے لفظ کا ترجمہ صرف آخرت ہی ہوسکتا ہے.عربی لغت کے اعتبار سے یہ اعتراض بے بنیاد ہے کیونکہ اخر کا لفظ اول کے مقابل پر استعمال ہوتا ہے.اور آخرت کے علاوہ اس آیت میں سیاق و سباق کے لحاظ سے اس کا مطلب بعد میں ظاہر ہونے والے واقعات بھی ہو سکتے ہیں.اس کے بعد مولوی ظفر انصاری صاحب نے کچھ مثالیں دے کر یہ اعتراض اٹھایا کہ مرزا صاحب نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہیں قرآنی آیات الہام ہوئی ہیں.اس سے وہ دونتائج نکال رہے تھے ایک تو یہ کہ یہ ٹھیک نہیں کہ قرآنی آیات امت میں کسی کو الہام ہوں اور دوسرے اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ جو آیات آنحضرت ﷺ کی شان میں تھیں بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے انہیں اپنے اوپر چسپاں کیا ہے.اس اعتراض سے یہی تاثر ملتا ہے کہ معترض کو اسلامی لٹریچر پر کچھ زیادہ دسترس نہیں ہے.کیونکہ تاریخ اسلام ان مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ امت کے مختلف اولیاء کو قرآنی آیات الہام ہوئیں.تو اس طرح یہ اعتراض ان سب عظیم اولیاء پر بھی اُٹھتا ہے.اگر وہاں پر موجود مخالفین کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ یہ اعتراض اٹھا کر انہوں نے کوئی بڑا تیر مارا ہے تو یہ خوش فہمی جلد دور ہوگئی.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ ” جہاں تک آیات قرآنی بطور
512 وحی کے امت پر نازل ہونے کا تعلق ہے، ہمارا امت مسلمہ کا لٹریچر اس سے بھرا پڑا ہے.اس کے بعد حضور نے اس کی مثالیں دینے کا سلسلہ شروع کیا.حضور نے پہلی مثال حضرت سید عبد القادر جیلانی کی دی.اس کے بعد حضور نے عبداللہ غزنوی صاحب کی مثالیں دینی شروع کیں کہ انہیں بھی بہت سی قرآنی آیات الہام ہوئی تھیں.چونکہ ابتداء ہی سے یہ واضح ہوتا جارہا تھا کہ یہ ایک بے وزن اعتراض کیا گیا ہے، اس لیے سپیکر صاحب نے یہی مناسب سمجھا کہ اس جواب کو کسی طرح مختصر کیا جائے.انہوں نے دریافت کیا کہ So the answer is اس پر حضور نے یہ اصولی موقف بیان فرمایا میں Accept کرتا ہوں.امت مسلمہ کے اصول کے مطابق Accepted ہے قرآن کریم کی آیات امت پر نازل ہو سکتی ہیں.“ اس پر سپیکر صاحب نے کہا کہ سوال کا جواب دے دیا گیا ہے اگلا سوال کریں.لیکن حضور نے فرمایا کہ وہ کچھ مثالیں اور پڑھنا چاہتے ہیں.سپیکر صاحب نے اتفاق کیا اور اس پر حضور نے عبداللہ غزنوی صاحب کو ہونے والے مزید الہامات پڑھے جو قر آنی آیات پر مشتمل تھے.اور یہ بات صرف حضرت سید عبد القادر جیلانی یا عبداللہ غزنوی صاحب تک محدود نہیں تھی بلکہ اسلامی تاریخ میں ایسے بہت سے اولیاء گزرے ہیں جنہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی ہے.مثلاً علم حدیث کے مشہور امام حضرت احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ انہیں نہ صرف وحی ہوئی بلکہ وحی لانے والا جبرئیل تھا (الشفاء بتـعـريـف حـقـوق الـمصطفى تاليف عياض بن موسیٰ ناشر عبد التواب ص (۱۳) اب مولوی ظفر انصاری صاحب کی گلو خلاصی کے لیے اٹارنی جنرل صاحب سامنے آئے اور یہ غیر متعلقہ سوال کر کے موضوع بدلنے کی کوشش کی کہ الہام اور وحی میں کیا فرق ہے.اس سوال کی بنیاد یہ ہے کہ بہت سے علماء نے یہ غلط نہی پھیلائی ہے کہ وحی تو صرف نبی کو ہو سکتی ہے اور رسولِ کریم ﷺ کے بعد کسی کو وحی نہیں ہو سکتی.حالانکہ قرآن کریم کے مطابق تو شہد کی مکھی کو بھی اللہ تعالیٰ وحی کرتا ہے اور حضرت موسی کی والدہ
513 کو بھی وہی ہوئی تھی.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے تفصیل سے یہ مضمون سمجھانا شروع کیا.اور فرمایا کہ ہم نے وسیع مواد جمع کیا ہے جس کے مطابق امت کے بہت سے سلف صالحین نے یہ دعویٰ کیا یہ کہ انہیں وحی کے اعزاز سے نوازا گیا ہے.اور پھر حضور نے فرمایا کہ اب تو ایک اخبار میں یہ فتویٰ بھی چھپ گیا ہے کہ کسی مسلمان کو سچی خواب بھی نہیں آسکتی.اس قسم کی باتوں سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے.لیکن اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال دہرایا کہ مرزا صاحب کو الہام ہوتا تھا یا وحی ہوتی تھی.حضور نے اس کا جواب ایک خاص انداز سے دیا آپ نے فرمایا کہ اس کا جواب میں دوں یا صحیح مسلم میں درج آنحضرت ﷺ کی حدیث شریف دے.اور پھر آپ نے حضرت نواس بن سمعان کی وہ حدیث بیان فرمائی جو کہ صحیح مسلم کتاب الفتن باب الذکر الدجال میں مذکور ہے.اس حدیث میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ آخر زمانہ میں مبعوث ہونے والے حضرت عیسی کو وحی کرے گا کہ میں نے ایسے لوگ بر پا کیے ہیں کہ کسی کو ان سے جنگ کی طاقت نہیں اس لیے تم میرے بندوں کو پہاڑ کی طرف لے جاؤ.اب اس سے یہ واضح ہو گیا کہ خود آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ آپ ﷺ کے بعد مسیح موعود کو وحی ہوگی اور قرآن کریم تو یہ کہہ رہا ہے کہ شہد کی مکھی کو بھی وحی ہوتی ہے.اور صرف حضرت سید عبدالقادر جیلانی اور عبد اللہ غزنوی صاحب ہی نہیں امت مسلمہ کے اولیاء نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہیں قرآنی آیات وحی ہوئیں ہیں.مثلاً حضرت محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں تحریر کیا ہے کہ انہیں یہ آیت قُلْ اَمَنَّا بِاللَّهِ وَ مَا اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ إِسْمَعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَ عِیسٰی...نازل ہوئی اور پھر لکھتے ہیں کہ اس آیت کو میرے لیے ہر علم کی کنجی بنایا گیا اور میں نے جان لیا کہ میں ان تمام انبیاء کا مجموعہ ہوں جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے (۱۰۰).تذکرۃ الاولیاء میں درج ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک کو آیت اَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولا الہام ہوئی.تو اب یہ حق کس کو حاصل ہے کہ یہ کہے کہ اب کسی کو وحی نہیں ہو سکتی.لیکن مولوی ظفر انصاری صاحب کا خیال تھا کہ انہیں یہ حق حاصل ہے.انہوں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ شہد کی مکھی کو بھی وحی ہوتی ہے لیکن اب اصطلاح شریعت میں اس کے خاص معنی متعین ہو گئے ہیں.یہ بھی ایک خوب نکتہ تھا یعنی قرآن کریم ایک لفظ
514 کے واضح طور پر کئی مطالب بیان کر رہا ہے اور مولوی حضرات مصر ہیں کہ نہیں اب ہماری شریعت میں اس کے ایک خاص معنی متعین ہو گئے ہیں.اور اب یہی چلیں گے.اس کے بعد انہوں نے لغت کا سہارا لے کر اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کی.اور یہ کوشش خود اتنی بے وزن تھی کہ انہوں نے عربی میں قرآنی اصطلاح کا مطلب بیان کرنے کے لیے اردو کی لغت فرہنگ آصفیہ کا حوالہ پیش کر دیا.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ اردو کی ضرورت نہیں بہت سے الفاظ عربی میں ایک معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اردو میں دوسرے معنی میں استعمال ہوتے ہیں.قرآنی الفاظ کی سب سے معتبر لغت مفردات امام راغب میں وحی کا مطلب ان الفاظ سے بیان ہونا شروع ہوتا ہے.الوحی کے اصل معنی اشارہ شریعہ کے ہیں.اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہونے کی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو ” امروجی“ کہا جاتا ہے.اور المنجد میں وحی کا مطلب یہ لکھا ہے، لکھا ہوا ، پیغام ، الہام ، الهام کردہ چیز ، انبیاء کی وحی ، رمز، اشارہ.لفظ وحی ان سب پر اطلاق پاتا ہے اور خود قرآن کریم میں وحی کا لفظ اشارہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے.اب سپیکر صاحب نے مولوی صاحب کو اس مخمصے سے نکالنے کے لیے کہا مولانا پہلے آپ اپنے Subject کے Question پوچھ لیں."Come back to your own subject لیکن مولوی صاحب اشارہ سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے.انہوں نے پھر لمبی چوڑی بے جوڑ بحث شروع کر دی.کبھی وہ وحی اور الہام کی بحث میں پڑتے اور کبھی یہ کہتے کہ ہم صرف قرآن کریم کو مانتے ہیں اور قادیانی اس کے علاوہ مرزا صاحب کے الہامات کو بھی مانتے ہیں.سپیکر صاحب نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی وہ ایسے سوال کو دہرا رہے ہیں جو پہلے ہی ہو چکا ہے لیکن وہ مصر تھے کہ میں Duplicate سوال کروں گا.آخر انہوں نے پھر ایک سوال شروع کیا اور اپنی طرف سے حوالہ پڑھنا شروع کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے دریافت فرمایا کہ یہ حوالہ کہاں کا ہے.اس پر انہوں نے الفضل کا حوالہ دیا.اس پر حضور نے فرمایا کہ آپ کے ہاتھ میں تو الفضل کا کوئی شمارہ ہے ہی نہیں.آپ ایک کتاب سے یہ حوالہ پڑھ رہے ہیں اور یہاں پر یہ تجربہ پہلے بھی ہو چکا ہے کہ حوالہ در حوالہ پڑھا جاتا ہے اور وہ غلط نکلتا ہے.اس پر مولوی صاحب نے اعتراف کیا کہ وہ سلسلہ کے مخالف
515 الیاس برنی صاحب کی کتاب سے یہ حوالہ پڑھ کر سنا رہے ہیں.سپیکر صاحب نے کہا کہ آپ کا سوال کیا ہے.اس پر بڑی مشکل سے مولوی ظفر انصاری صاحب کے ذہن سے یہ سوال برآمد ہوا کہ جو کہ در حقیقت سوال تھا ہی نہیں اور وہ یہ تھا کہ قرآن جو ہمارے پاس ہے یہ کمل ہے اور اس پر ایمان لانا اور اس کی اتباع کرنا کافی ہے.اس پر حضور نے قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کر فرمایا ” یہ قرآن کریم جو میں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے، اس کو گواہ بنا کر میں اعلان کرتا ہوں.سوائے اس قرآن کے ہمارے لئے کوئی کتاب نہیں.“ اس پر مولوی صاحب نے موضوع بدلا اور اس اعتراض پر آگئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق صحابہ کا لفظ کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ پھر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مصرعہ پر اعتراض کیا بع یہی ہیں پنجتن جن پر بنا ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وحی کے ذریعہ بتادیا گیا تھا کہ ان کے آباء کی نسل کائی جائے گی اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نسل چلے گی.اس سے زیادہ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے.اس کے بعد ظفر انصاری صاحب کچھ اور ایسے اعتراضات پیش کرتے رہے جو کہ ایک عرصہ سے جماعت احمدیہ کے مخالفین کر رہے تھے.مثلاً یہ کہ کیا احمدی حج کا مقام اپنے جلسہ سالانہ کو دیتے ہیں، اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ احمدیوں کے نزدیک حج ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے.پھر یہ عجیب اعتراض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بیت الذکر اور بیت الفکر کے متعلق یہ الہام ہوا تھا کہ جو اس میں داخل ہوگا وہ امن میں آجائے گا.جب کہ مسلمانوں کے نزدیک مکہ مکرمہ امن کا مقام ہے اور یہ مقام مکہ مکرمہ کو حاصل ہے.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ رسول کریم کی بعثت صرف اس لیے تھی کہ صرف ایک چھوٹی سی جگہ کو امن کا مقام بنا دیا جائے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ مکہ تو صرف ایک Symbol ہے اور وہ ایک نمونہ ہے اور ہمیں حکم ہے کہ جگہ جگہ وہ مقامات بناؤ جہاں پر داخل ہونے والے امن میں آجائیں.لیکن اب یہ تھا کہ جب حضور اس کا جواب دے دیتے تو سپیکر صاحب فوراً اگلا سوال پوچھنے کا کہتے اور مجبوراً مولوی صاحب کو آگے چلنا پڑتا.جب اٹارنی جنرل صاحب کی جگہ مولوی صاحب کو سوالات کے لیے سامنے لایا گیا تو وجہ یہ
516 بیان کی گئی تھی کہ اٹارنی جنرل صاحب چونکہ عربی صحیح نہیں بول سکتے اس لیے کچھ سوالات مولوی صاحب پیش کریں گے.لیکن حقیقت یہ تھی کہ مولوی صاحب اکثر سوالات وہ کر رہے تھے جن میں عربی بولنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی.مشہور ہے کہ مخالفین کو یہ شک ہو گیا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب سوالات سے جماعت کو مطلع کر دیتے ہیں، اسی لئے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث فوراً سوال کا جواب دے دیتے ہیں.اس لیے اپنی طرف سے مخالفین نے یہ چال چلی تھی کہ اب ان میں سے کوئی براہِ راست یہ سوالات کرے.لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جو سوالات اب کیے جارہے تھے ان میں سے اکثر کے متعلق لکھا ہوا مواد جماعت کے وفد کے پاس موجود تھا اس لیے مولوی صاحب کو پاؤں جمانے کا موقع بھی نہیں میسر آ رہا تھا.اس مرحلہ پر سپیکر صاحب نے جماعت کے وفد کو کہا کہ وہ کمیٹی روم میں دس منٹ انتظار کریں اور کارروائی لکھنے والوں کو بھی باہر جانے کا کہا.اس دوران کارروائی لکھی نہیں گئی.اس لیے خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس دوران کیا بات ہوئی.جب دس منٹ کے بعد کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو مولوی ظفر انصاری صاحب نے ایک مختصر سوال یہ کیا کہ دمشق اور قادیان میں کیا مماثلت ہے.اور اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے اس کا رروائی کا آخری سوال کیا.انہوں نے کہا کہ مرزا صاحب میں آپ کی توجہ محضر نامے کے صفحہ ۱۸۹ کی طرف دلاتا ہوں.(اصل میں یہ حوالہ صفحہ ۱۸۷ پر تھا.آخر تک اٹارنی جنرل صاحب نے غلط حوالہ پڑھنے کا ریکارڈ قائم رکھا.اور اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ بعض ممبران محسوس کر رہے ہیں کہ اس کی Relevance کیا ہے.پھر انہوں نے محضر نامے کے آخر پر درج حضرت مسیح موعود کی پر شوکت تحریر کا شروع کا حصہ پڑھا جو یہ تھا ”اے لو گوتم یقیناً سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لیے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا.....“ یہ حصہ پڑھ کر اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا کہ یہ کوئی دھمکی ہے یا اپیل ہے.اس کی
517 Relevance کیا ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ یہ دھمکی نہیں یہ خواہش بھی نہیں.صرف یہ کہا گیا ہے کہ تمھارے اور میرے درمیان اختلاف ہے اسے خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو.میرا یہ عقیدہ ہے کہ جب تم اسے خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو گے تو میری دعائیں قبول ہوں گی اور تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی اور جس مقصد غلبہ اسلام کے لیے مجھے کھڑا کیا گیا ہے وہ پورا ہوگا اور اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا.اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے یہ کہا کہ اب ان کے سوالات ختم ہو گئے ہیں.اور حضور سے کہا کہ آپ کسی سوال کے متعلق کچھ اور کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ ” ان گیارہ دنوں کے دوران تقریباً ۶۰ گھنٹے مجھ پر جرح کی گئی ہے.اس دوران میرے دماغ کی یہ کیفیت ہے کہ نہ دن کا مجھے پتہ ہے اور نہ رات کا پتہ ہے.ہم نے اور بھی کئی کام کرنے ہوتے ہیں.عبادت کرنی ہے.دعائیں کرنی ہیں.اس وقت میرے دماغ ایسے سوالات جن کے متعلق مجھے کچھ کہنا ہے حاضر نہیں ہیں.صرف ایک بات آپ کی اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر دل کی گہرائیاں چیر کر میں آپ کو دکھا سکوں تو وہاں میرے اور میری جماعت کے دل میں اللہ تعالیٰ (جیسا کہ اسلام نے اسے پیش کیا دنیا کے سامنے ) اور حضرت محمد ﷺ کی محبت اور عشق کے سوا کچھ نہیں پایا جاتا.شکریہ.“ اس کے بعد ایک بار پھر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ اب ان کے پاس اور کوئی سوال نہیں ہے.اور سپیکر صاحب نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے صبر و تحمل سے کارروائی میں حصہ لیا.اور ایک بار پھر بڑے اصرار سے کہا کہ اس کا رروائی کو خفیہ رکھنا چاہئے.اور اس طرح یہ تاریخی کارروائی ختم ہوئی.چند اہم نکات کا اعادہ پڑھنے والے اس کا رروائی کا خلاصہ پڑھ چکے ہیں.یہ کاروائی اپنی مثال آپ ہی ہے.آئندہ آنے والے وقت میں اس کے متعلق بہت کچھ لکھا اور کہا جائے گا.ہم ساتھ کے ساتھ اہم امور کے
518 متعلق اپنا نقطہ نظر بھی بیان کرتے آئے ہیں.لیکن مناسب ہوگا کہ کچھ اہم نکات کا خلاصہ ایک بار پھر پیش کر دیں.(۱) غلط حوالے یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ اس تواتر کے ساتھ یحیی بختیار صاحب نے یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انہیں سوالات مہیا کرنے والے ممبران اور علماء نے اتنے غلط حوالے کس طرح مہیا کئے.علماء اور وکلاء کی ایک لمبی چوڑی ٹیم دن رات کام کر رہی تھی.ان کو لائبریرین اور عملہ بھی مہیا تھا.اور انہیں تیاری کے لئے کافی وقت بھی دیا گیا تھا.جماعت احمدیہ کے وفد کو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کیا سوال کیا جائے گا جبکہ سوال کرنے والے اپنی مرضی سے سوالات کرتے تھے.پھر بھی مسلسل ان کے پیش کردہ حوالے غلط نکلتے رہے اور یہ عمل اتنے دن بغیر کسی وقفہ کے جاری رہا.اگر سوالات میں پیش کئے گئے حوالے اس طرح غلط نکل رہے ہوں تو سوالات کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی.نہ معلوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا تصرف تھا کہ آخر تک یہ لوگ اس بنیادی نقص کو دور ہی نہ کر سکے.جب ہم نے اس بارے میں ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے سوال کیا تو انہوں نے کمال قولِ سدید سے جواب دیا یہ ہوا ہی کرتے ہیں دن رات ہوتا ہے.بیٹی بختیار بیوقوف آدمی تھا.بالکل جاہل.اور اس کو تو جو کسی نے لکھ کر دے دیا اس نے وہ کہہ دیا.“ جب یہ سوال اس اضافہ کے ساتھ دہرایا گیا جب ان کو عملہ اور دیگر سہولیات بھی میسر تھیں تو پھر بار بار یہ غلطیاں کیوں ہوئیں تو اس پر جو سوال و جواب ہوئے وہ درج کئے جاتے ہیں.ڈاکٹر مبشر حسن صاحب: ارے بابا ! وہ کا روائی ساری Fictitious ( بناوٹی ) تھی.سلطان : وہ اسمبلی کی کارروائی ساری fictitious تھی؟ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب : فیصلہ پہلے سے ہوا ہوا تھا کہ کیا کرنا ہے.سلطان :So there was no need to bother کٹر مبشر حسن صاحب :No need to bother ہم نے یہ سوال پروفیسر غفور صاحب کے سامنے بھی رکھا کہ اس کارروائی کے دوران جب
519 سوالات پیش کئے جا رہے تھے تو ان میں پیش کردہ حوالے اس تواتر سے غلط کیوں ہو رہے تھے.تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے خیال میں یہ سوالات قادیانیوں کی کتابوں پر Base کر کے کئے گئے تھے اور ان دونوں ( یعنی دونوں وفود نے) میں سے کسی نے بھی اسے چیلنج نہیں کیا.اور پھر یہ ذکر شروع کر دیا کہ احمدیوں نے ہی روز اول سے اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھا ہے.جب یہ بات ختم ہوئی تو میں نے پھر یہ غلط حوالوں کے بارے میں عرض کی.اس پر انہوں نے کہا ” میں نے بتایا آپ کو کہ ریفرنسز (References) کو کبھی چیلنج نہیں کیا کسی نے...“ ہم نے حیران ہو کر پھر یہ سوال دہرایا کہ کیا سپیکر نے حوالہ جات کے بارے میں تنبیہ نہیں کی تھی.اس پر انہوں نے پھر کہا بالکل نہیں.میں بتارہا ہوں کہ Original کتابیں وہاں موجود تھیں...“ پھر سہ بارہ سوال پر بھی انہوں نے انکار کیا کہ کوئی حوالہ غلط نہیں نکلا.ہم نے ساری کارروائی کا جائزہ لے لیا.اور اس میں حوالوں کی جو حالت تھی اس کا بھی تفصیلی جائزہ لیا.اب ہم پروفیسر غفور صاحب کے اس دعوی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں تین صورتوں میں سے ایک کو تسلیم کرنا پڑتا ہے ۱) ایک تو یہ کہ پروفیسر غفور صاحب ساری کارروائی سے غیر حاضر رہے.لیکن یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کارروائی میں انکی شرکت کا ثبوت بہر حال موجود ہے.۲) یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ وہ جسمانی طور پر تو وہاں پر موجود تھے لیکن ذہنی طور پر وہاں سے مکمل طور پر غیر حاضر تھے.۳) تیسری صورت یہی ہو سکتی ہے کہ پہلے تو یہ کوشش کی گئی کہ جماعت احمدیہ کے وفد سے یہ بات نکلوائی جائے کہ احمدی باقی فرقوں کو غیر مسلم سمجھتے ہیں لیکن جب اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو کارروائی کو شائع ہونے سے روک دیا گیا اور اس غلط بیانی سے کام لیا گیا کہ دراصل احمدیوں نے باقی فرقوں کو غیر مسلم کہا تھا اس لئے ہم اس بات پر مجبور ہوئے کہ انہیں غیر مسلم قرار دیں.اور پاکستانی قوم کو دھوکا دیا گیا اور انہیں مسلسل جھوٹ سنایا گیا.یعنی آخر میں وہی بات آجاتی ہے جو مبشر حسن صاحب نے فرمائی تھی کہ اس قوم کا کوئی حق نہیں.اس قوم کا بس یہی حق ہے کہ وہ غلامی کرے.ہم اس کا ذکر کچھ ٹھہر کر
520 کریں گے.ہم نے یہ سوال صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے دریافت کیا کہ قومی اسمبلی کی کارروائی میں پیش کئے گئے بہت سے حوالہ جات غلط کیوں تھے.اس پر انہوں نے کہا اصل میں تو Responsibility یکی بختیار کی تھی ناں.جرح اس نے کرنی تھی.سوال اس نے پوچھنا تھا.اگر اس کو Proper Assisstance ملتی تو یہ نہ ہوتا.‘ پھر اس پر انہوں نے یہ اضافہ کیا اور یحییٰ بختیار لیتا بھی نہیں تھا.یہ بھی مصیبت ہے...“ (۲) کارروائی کو خفیہ کیوں رکھا گیا ؟ اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اگر اس وقت حالات کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کر بھی لیا گیا تھا کہ اس کارروائی کو بند کمرے میں کیا جائے تو بعد میں اس کو منظر عام پر کیوں نہیں لایا گیا جبکہ اس فیصلہ کے بعد بھٹو صاحب نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد اس کا رروائی کو منظر عام پر لایا جائے گا اور بہت سے ممبران قومی اسمبلی اس کو اپنے کارنامے کے طور پر بھی بیان کرتے رہے تو ان کو تو بھی خواہش ہونی چاہئے تھی کہ اس کارنامے کو دنیا کے سامنے لایا جائے.لیکن نہ ایسا کیا گیا اور جماعت احمدیہ کے علاوہ کسی اور گروہ نے اس کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ بھی نہیں کیا.جب ہم نے یہ سوال ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے کیا کہ پھر یہ کارروائی بعد میں شائع کیوں نہ کی گئی تو ان کا جواب یہ تھا.ڈاکٹر مبشر حسن صاحب: (مسکراتے ہوئے ) اگر کرنی ہوتی تو خفیہ کیوں ہوتی.سلطان : تو مطلب قوم کا حق تو ہے ناں کہ وہ جانے اندر کیا ہوا.ڈاکٹر مبشرحسن صاحب : قوم کا کوئی حق نہیں.قوم کا حق ہے غلامی میں رہنا اور حکم بجالا نا.اس کا رروائی کو خفیہ کیوں رکھا گیا اس کے بارے میں ۱۹۸۵ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے فرمایا: ۱۹۷۴ میں حکومت نے اپنے فیصلے کے دوران جماعت کو موقع تو دیا اور چودہ دن قومی اسمبلی میں سوال و جواب ہوتے رہے.جماعت نے اپنا موقف تحریری طور پر بھی پیش
521 کیا لیکن ساتھ ہی چونکہ وہ بڑی ہوشیار اور چالاک حکومت تھی اس نے قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران ہی یہ محسوس کر لیا تھا کہ اگر یہ باتیں عام ہوگئیں اور سوال و جواب پر مشتمل اسمبلی کی کارروائی اور اس کی جملہ روئیداد دنیا کے سامنے پیش کر دی گئی تو حکومت کا مقصد حل نہیں ہو سکے گا بلکہ برعکس نتیجہ نکل سکتا ہے..چنانچہ اس وقت کی حکومت نے اس خطرہ کی پیش بندی اس طرح کی کہ جماعت کو قانوناً اور حکماً پابند کیا گیا کہ قومی اسمبلی میں جو بھی کارروائی ہو رہی ہے اس کا کوئی نوٹ یا کوئی ریکارڈنگ اپنے پاس نہیں رکھیں گے اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ حکومت اس کارروائی کو دنیا 66 میں ظاہر نہیں ہونے دے گی.“ (خطبات طاہر جلد ۴ ص۵۶) (۳) غیر متعلقہ سولات جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ راہبر کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پوری قومی اسمبلی پر مشتمل ایک سپیشل کمیٹی سپیکر کی صدارت میں کارروائی شروع کرے گی اور یہ فیصلہ کرے گی کہ جو شخص آنحضرت کو آخری نبی نہیں مانتا اس کا اسلام میں Status کیا ہے؟ لیکن ساری کارروائی سے گزر جائیں اس موضوع پر سوالات ہوئے ہی نہیں.اب اس بات کا کہ احمدیوں کی آبادی پاکستان میں کتنی ہے، پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر قادیان میں چراغاں ہوا تھا کہ نہیں.باؤنڈری کمیشن میں جماعت کا موقف کیا تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے بیعت کی تھی کہ نہیں.اب ان جیسے سوالات کے زیر بحث موضوع سے کوئی تعلق بنتا ہی نہیں.یہ تو پوچھا ہی نہیں گیا کہ جماعت احمدیہ کے ختم نبوت کے متعلق کیا عقائد ہیں.یا اگر کوئی شخص آنحضرت صلى الله کے بعد امتی نبی کی آمد کا قائل ہے تو کیا اس بنا پر اس شخص کو غیر مسلم کہا جا سکتا ہے کہ نہیں ؟ ساری کارروائی غیر متعلقہ سوالات اور غلط حوالوں کے گردگھومتی رہی تھی.آخر یہ سوال تو لازماًاُ ٹھتا ہے کہ اصل موضوع سے گریز کیوں کیا گیا؟ اس کی بظاہر وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ جب جماعت احمدیہ کے محضر نامے کو دیکھا گیا اور مولوی حضرات کے پیش کردہ موقف بھی پڑھے گئے تو فیصلہ یہی کیا گیا کہ اصل موضوع کو نہ چھیڑنے میں ہی ہماری عافیت ہے اور تو کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی.چنانچہ اتنے
522 دن بند دروازوں کے پیچھے غیر متعلقہ سوالات میں وقت ضائع کر کے خفت سے بچا گیا اور پھر اس کارروائی کو شائع بھی نہیں ہونے دیا کہ اس کارروائی کو چلانے والوں کی علمی قابلیت کا راز فاش نہ ہو جائے.اگر اصل موضوع پر بھی سوالات کا سلسلہ چلتا اور کچھ غیر متعلقہ سوالات بھی ہو جاتے تو یہ بات پھر بھی کچھ قابل درگزر ہوتی.لیکن یہاں تو عملاً یہ ہوا کہ ساری کارروائی ہی غیر متعلقہ موضوعات پر ہوتی رہی.ہم نے جب اس بابت پروفیسر غفور صاحب سے سوال کیا تو پہلے تو وہ سوال کو سمجھ نہیں پائے اور ہم سے دریافت کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہے کہ یہ سوالات کئے گئے.جب ہم نے غیر متعلقہ سوالات کی مثالیں دے کر سوال کو واضح کیا تو ان کا جواب تھا.' یہ Relevant چیزیں نہیں ہیں.Relevant چیزیں بالکل دوسری ہیں.Relevant چیزیں وہی ہیں کہ قادیانیوں کا Status کیا ہے؟ ان کی پوزیشن کیا ہے؟ ختم نبوت کے معاملے میں ان کا اپنا عقیدہ کیا ہے؟ یہی چیزیں Relevant تھیں.اسی پر بحث ہوئی ہے ساری.“ ان کے جواب سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک جن سوالات کا ہم نے حوالہ دیا تھا وہ ان کے نزدیک بھی متعلقہ سوالات نہیں تھے.جب کہ یہ سوالات بار بار اس کارروائی کے دوران کئے گئے تھے.لیکن پڑھنے والے خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا یہ کہنا درست نہیں کہ Relevant موضوعات پر ساری بحث ہوئی تھی.ہم اس ساری بحث کو بیان کر چکے ہیں.ان میں سے اکثر سوالات تو مقررہ موضوع سے دور کا تعلق بھی نہیں رکھتے.البتہ جب یہ سوال ہوا کہ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام کیا سمجھتے ہیں تو یہ گمان ہوتا تھا کہ شاید یہ بحث اپنے اصل موضوع پر آ جائے مگر افسوس ایک بار پھر غیر متعلقہ سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا.اصل موضوع تو یہ تھا کہ جو شخص آنحضرت کو آخری نبی نہیں سمجھتا، اس کا اسلام میں Status کیا ہے.ہم نے انٹرویو میں مکرر پروفیسر غفور صاحب سے سوال کیا کہ کارروائی میں غیر متعلقہ سوالات کیوں کئے گئے.اس پر پھر ان کا جواب وو ” وہ سارے سوال Relevant ہی تھے.“ اب پڑھنے والے اس کے متعلق خود اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں.
523 جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے یہ سوال کیا کہ کیا وجہ تھی کہ ساری کارروائی میں غیر متعلقہ سوالات پوچھے گئے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا: وو I do not know.یہ تو ان سے پوچھیں یہ وکیل ہیں ( یہ بات انہوں نے مرزا عدیل احمد صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہی تھی جو وکیل ہیں اور اس انٹرویو میں شامل تھے ) 66 Cross Examination میں کیا کیا Relevant ہے.“ اس طرح انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا.(۱) خطبات ناصر جلد پنجم، ۵۲۵ تا ۵۲۹ (۲) خطبات ناصر جلد پنجم ۵۲۹ تا ۵۳۰ (۳) روایت مکرم پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب ( آپ نے یہ واقعہ خود دیکھا تھا) (۴) روایت طارق محمود جاوید صاحب ( آپ اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں ) (۵) چٹان ۴ جون ۱۹۷۴ ص ۳ (۶) روزنامہ نوائے وقت، ۳۰ مئی ۱۹۷۴ ص ۱ (۷) روزنامه مشرق ۳۰ مئی ۱۹۷۴ ص ۳ (۸)19745 30 Dawn, May) تحریر مکرم بیشی رفیق صاحب سابق مشنری انچارج لندن مشن بنام مکرم وکیل اعلی صاحب Pakistan Times, 31 May 1974, last page(1*) (۱۱) نوائے وقت ۳۱ مئی ۱۹۷۴ ص ۱ (۱۲) نوائے وقت ۴ جون ۱۹۷۴ ص ۱ The National Assembly of Pakistan Debates, official report, Third seesion (Ir) of 1974, 1st june p78-91 (۱۴) نوائے وقت ، ۱ اپریل ۱۹۷۳ ص ۱ The National Assembly of Pakistan, Debates Official Report 3rd june (۱۵) 1974p 121_131 (۱۶) سزا یافتہ سیاستدان ، مصنفه مرتضی انجم ، ناشر دار الشعور لاہور ، ص۱۲۱ The National Assembly of Paksitan, Debates, Offical Report, 4th June, 1974 p171-172 (12) (۱۸) نوائے وقت ۵ جون ۱۹۷۴ ص ۱ (۱۹) نوائے وقت ۱۰ جون ۱۹۷۴ ص ۱ The Plain Dealer,June 9,1974(۲۰) (۲۱) نوائے وقت ۱۳ جون ۱۹۷۴ ص ۱ (۲۳) (۲۲) نوائے وقت ۱۴ جون ۱۹۷۴ ص ۱ (۲۴) Dawn, 14 June 1974p1 (۲۵) خطبات ناصر ، جلد پنجم ۵۵۷،۵۵۶ (۲۶) نوائے وقت ۱۷ جون ۱۹۷۴ ص اول و آخر (۲۷) خطبات ناصر جلد پنجم ص ۷۱ ۵ تا ۷۴ ۵ (۲۸) خطبات ناصر جلد پنجم ص ۵۷۵
524 (۲۹) نوائے وقت یکم جولائی ۱۹۷۴ ص ۱ (۳۰)Dawn,1st July 1974p1 Pakistan Times July 2, 1974p1(r) Pakistan Times, 1st Juyl 1974p1 (MI) Pakistan Times, July 4 1974p1(r) Dawn July 2, 1974p1(rm) (۳۵) روایت مکرم مجیب الرحمن صاحب (۳۶)Dawn 15th July 1974p1) نوائے وقت کیم جولائی ۱۹۷۴ ص ۲ (۳۸) روز نامچه مرتبه افضال ربانی ص ۵۹ تا ۸۳ (۳۹) روایت مکرم محمود احمد ور پورٹ از جماعت احمدیہ کراچی (۴۰) نوائے وقت ا جولائی ۱۹۷۴ ص ۱ (۴۱) چٹان ۳ جون ۱۹۷۴ (۴۲) روایت مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ (۴۳) نوائے وقت ۲۴ جوالا کی ۱۹۷۴ ص ا ص ۵ (۴۴) روحانی خزائن جلد ۱۵ ص ۴۳۲ - ۴۳۳ (۴۵) روحانی خزائن جلد ۲۲ ص ۱۶۷ - ۱۶۸ (۴۶) روحانی خزائن جلد ۲۲ ص ۱۸۶،۱۸۵ (۴۷) انوار العلوم جلد ۶ ص ۱۱۲ (۲۸) عرفان شریعت مرتبہ مولوی محمد عرفان علی صاحب النا شرسنی دارالاشاعت علویہ رضویہ ڈجکوٹ روڈ لائلپورص ے سے (۴۹) فتاوی عثمانی از مفتی محمد تقی عثمانی، ناشر مکتبه معارف القرآن کراچی ص ۷۲ تا ۸۱ (۵۰) فتاوی عزیزی از مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، ناشر سعید کمپنی کراچی ص ۳۶۲ (۵۱) فتاوی رشید یه از رشید احمد گنگوہی ص ۶۲ ۶۳ (۵۲) مجموعته الفتاوی از مولوی عبدالحی فرنگی محلی ناشر سعید کمپنی کراچی ص ۲۴ (۵۳) حسام الحرمين على منحر الكفر والمین ص ۹۵ (۵۴) فتاوی هندیه ترجمه فتاوی عالمگیر یہ جلد سوم ترجمه سید امیر علی ناشر سراج الدین اینڈ سنز لاہور ص ۷۶ ۵ تا ۵۹۹ (۵۵) امروز ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۸ ص ۱ (۵۶) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ ص ۱۱ (۵۷) مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم مصنفہ ابواعلیٰ مودودی صاحب ص۳۰ (۵۸) روحانی خزائن جلد ۵ ص ۳۴۴- ۳۴۵ Hammodur Rahman commission Report, Published by Vanguard company, P214.215(۵۹) (۶۰) مجموعه اشتہارات جلد ا ص ۵۸۸ ، اشتہار ۱۵۵۰ (۶۱) تحفہ قیصریه روحانی خزائن جلد ۱۲ ص ۲۷۲ ۲۷۳ (۶۲) کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ ص ۱۷ و ۱۸ (۶۳) فتاوی مسیح موعود ص ۲۳۶ ۲۳۷ (۶۴) فتاوی رشید یه کامل مبوب، مصنفه رشید احمد گنگوہی ، ناشر محمد سعید اینڈ سنز، ص۳۵۰ (۶۵) حیات چهارده معصومین مولفه سید ذیشان حیدر جوادی ص ۳۲۳-۳۲۶ (۶۶) قلائد الجواہر ، تالیف محمد بن یحی التاد فی النیلی مطبع شركة مساهمة مصریہ ص ۵۷ (۱۷) روحانی خزائن جلد ۳ ص ۱۰۳ - ۱۰۴ (۶۸) سیف چشتیائی مصنفہ پیر مہر علی گولڑوی ، ص ۳۶،۳۵، ۳۷، ۴۳ (۶۹) چشتیائی مصنفہ مہر علی شاہ صاحب، ہمدرد سٹیم پریس راولپنڈی ، ص ۳۴۵ (۷۰) روحانی خزائن جلد ۱۹ ص ۱۶۵ (۷۱) یہ پوری نظم کتاب اقبال اور احمدیت مصنفہ شیخ عبدالماجد کے صفحہ ۲۶۲.۲۶۳ پر درج ہے (۷۲) مجموعه تقویۃ الایمان مع تذکیر الاخوان مولفہ علامہ شاہ محمد اسمعیل رحمۃ اللہ علیہ، ناشر نورمحمد اصح المطابع و کارخانه تجارت کتب آرام باغ کراچی ص ۳۷ (۷۳) مسند امام احمد بن حنبل ، مسند عرباض بن ساریہ ، جلد ۴ ص ۱۲۷
525 (۷۴) روحانی خزائن جلد ۱۸ ص ۲۱۰ (۷۵) مقالات سرسید حصہ نہم ص ۵۴ - ۵۵ (۷۶) سوانح احمدی ، مولفہ مولوی محمدجعفر تھانیسری ، صوفی پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ کمپنی منڈی بہاؤالدین صاے (۷۷) مقالات سرسید حصہ نہم ص ۵۷ (۷۸) اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۱۰ اکتوبر نومبرص ۲۸۷ (۷۹) اشاعۃ السنہ جلد نمبر ۱۰ اکتوبر نومبر اکتوبر نومبرص ۲۹۳ Indian Muslims, A political History, 1858-1947, by Ram Gopal, Book Traders (^*) Lahore, p102 A Book of readings on the The History of The Punjab, compiled by Ikram Ali (^) Malik, published by Research Society of Pakistan, 2nd impression 1985, P268 A Book of readings on the The History of The Punjab, compiled by Ikram Ali (^r) Malik, published by Research Society of Pakistan, 2nd impression 1985p 272 A Book of readings on the The History of The Punjab, compiled by Ikram Ali (AM) Malik, published by Research Society of Pakistan ,2nd impression 1985p287 A Book of readings on the The History of The Punjab, compiled by Ikram (^M) Ali Malik, published by Research Society of Pakistan, 2nd impression 1985p291 (۸۵) روایت مجیب الرحمن ایڈووکیٹ صاحب (۸۶) خطبات ناصر جلد ۵ ص ۶۱۵ - ۶۱۶ (۸۷) خطبات ناصر جلد ۵ ص ۶۲۰ (۸۸) روحانی خزائن جلد ۷ اص ۶۴ (۸۹) الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۴۶ (۹۰) مقالات سرسید حصہ نہم ص ۵۷ - ۵۸ (۹۱) مقدمہ بہادر شاہ ظفر مصنفہ خواجہ حسن نظامی صاحب، اسلام اور مسلمین، دیباچہ مقدمہ کتاب (۹۲) مقدمه بہادر شاہ ظفرص ۱۳۲ (۹۳) اشاعۃ السنہ اکتوبر نومبر ۱۸۸۳ء ص ۲۸۸ (۹۴) انوار العلوم جلد ۸ ص ۳۹۴ (۹۵) روحانی خزائن جلد ۱۶ ص ۲۷۵-۲۷۶ (۹۶) طبقات ابن سعد جلد اول، ناشر دار الاشاعت کراچی ۲۰۰۳ ص ۲۰۶،۲۰۵ (۹۷) روحانی خزائن جلد ۱۹ ص ۲۱۲ (۹۸) سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن فتنه الدجال و خروج عیسی ابن مریم و خروج یا جوج و ماجوج The Book of Readings on The History of The Punjab 1799-1947, by Ikram (99) Ali, published by Rsearch Society of Pakistan, University of The Punjab Lahore, April 1985, Page328_338 ۳۵۰ (۱۰۰) فتوحات مکیہ، الجزء الثالث مطبع دار الكتب العربيه الكبرى ،ص.
526 قومی اسمبلی کا فیصلہ اسمبلی میں کارروائی شروع ہونے سے قبل یہ تو واضح نظر آرہا تھا کہ حکومت اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے جماعت احمدیہ کو آئین میں غیر مسلم قرار دینے کا پکا ارادہ کر چکی ہے.پیپلز پارٹی کے قائد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب اور ان کی پارٹی غیر مذہبی رجحانات کے لیے شہرت رکھتی تھی اور ان کے سیاسی مخالفین اس بات کو ان کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے استعمال کرتے تھے.اور اب بھٹو صاحب یہ سمجھتے تھے کہ احمدیوں کے خلاف فیصلہ کر کے وہ مذہبی حلقوں میں بھی مقبولیت حاصل کر لیں گے اور ان کے مخالفین کے ہاتھ میں ان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے یہ ہتھیار نہیں رہے گا اور اس طرح ان کی پوزیشن بہت مستحکم ہو جائے گی.اپوزیشن میں بہت سی نام نہاد مذہبی جماعتیں موجود تھیں وہ تو ایک عرصہ سے اس بات کے لیے تگ و دو کر رہی تھیں کہ کسی طرح احمد یوں کو نقصان پہنچایا جائے اور آئین میں ایسی ترامیم کی جائیں جن کے نتیجے میں احمدیوں کے بنیادی حقوق بھی محفوظ نہ رہیں.قومی اسمبلی میں موجود تمام گروہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دے کر اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کر سکتے ہیں.۲۰ / اگست کو جسٹس صمدانی نے ربوہ کے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ پر اپنی تحقیقات وزیراعلیٰ پنجاب کے سپرد کیں اور وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ اب صوبائی حکومت اس پر غور کر کے اسے وفاقی حکومت کی طرف بھجوائے گی تا کہ اسے قومی اسمبلی کی اس خاص کمیٹی میں پیش کیا جا سکے جو کہ قادیانی مسئلہ پر غور کر رہی ہے (۱).اس رپورٹ سے کوئی اتفاق کرتا یا اختلاف کرتا یہ الگ بات ہوتی لیکن اس رپورٹ کو بھی اس سارے تنازعہ کی دوسری باتوں کی طرح خفیہ رکھا گیا.جسٹس صدانی صاحب نے عرصہ بعد جب اپنی یادداشتیں لکھیں تو اس کتاب میں اس رپورٹ کے حوالے سے لکھا اس انکوائری سے متعلق مجھے دو باتیں اور بھی لکھنی ہیں تا کہ عوام میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہو جائیں.پہلی بات تو یہ کہ انکوائری اس لیے کرائی گئی کہ عوام میں جو شدید رد عمل تھا وہ دور ہو لیکن جب انکوائری مکمل ہو گئی اور حکومت پنجاب کو رپورٹ دے دی گئی تو وہ
527 رپورٹ عوام کے لیے شائع نہیں کی گئی.کیوں؟ کیا عوام کو انکوائری کا نتیجہ جاننے کا حق نہیں ہے جبکہ انکوائری کروائی ہی عوام کی تسلی کے لیے تھی.رپورٹ کے شائع نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں جو سب سے بڑی غلط فہمی ہے اور یہ میری دوسری بات ہے ) وہ یہ ہے کہ میں نے احمدیوں کو کافر قرار دیا ہے جبکہ جن سوالوں پر مجھ سے انکوائری کرائی گئی تھی ان میں یہ سوال شامل ہی نہیں تھا.سو میں نے اپنی رپورٹ میں یہ نہیں لکھا کہ احمدی کا فر ہیں یا نہیں.(۲) ۲۴ اگست کو وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کوثر نیازی صاحب نے بیان دیا کہ قادیانی مسئلہ کے بارے میں قومی اسمبلی جو فیصلہ کرے گی اس کے حل سے ملک کا وقار مزید بلند ہوگا اور اس فیصلہ میں ختم نبوت کو جو اسلام کی اساس ہے مکمل آئینی تحفظ حاصل ہو جائے گا(۳).ہم اس بات کا تفصیلی جائزہ لے چکے ہیں کہ اسمبلی کی کارروائی کے دوران ممبرانِ اسمبلی اصل موضوع پر سوالات کرنے کی ہمت بھی نہ کر سکے تھے اور اتنے روز محض ادھر اُدھر کے سوالات کی تکرار میں وقت ضائع کیا گیا تھا.لیکن جماعت کے مخالف علماء اس بات پر بہت اطمینان کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ قومی اسمبلی میں ہونے والی کارروائی سے مطمئن ہیں.چنانچہ ۲۶ اگست کو جمعیت العلماء اسلام کے قائد مولوی مفتی محمود صاحب نے یہ بیان دیا کہ وہ اسمبلی میں ہونے والی کارروائی سے مطمئن ہیں.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان مولوی حضرات کی مرضی بھی یہ تھی کہ اصل موضوع پر سوالات کی نوبت نہ آئے.اسی روز پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر کوثر نیازی صاحب نے بیان دیا کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے سوا کوئی دوسرا نظام نافذ نہیں کیا جا سکتا.اور یہ دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت نے سب سے زیادہ اسلام کی خدمت کی ہے (۴).جماعت کے وفد پر سوالات ختم ہونے کے بعد کچھ دن کے لیے جماعت احمد یہ غیر مبایعین کے وفد پر سوالات ہوئے.اور ۳۰ / اگست کو قومی اسمبلی پر مشتمل پیشل کمیٹی نے پھر اجلاس کر کے اس مسئلہ پر غور کیا یا کم از کم ظاہر کیا کہ اس پر غور کیا جا رہا ہے کیونکہ فیصلہ تو اس کارروائی کے آغاز سے قبل ہی ہو چکا تھا (۵).جماعت کے مخالف مولوی حضرات جلسہ کر کے یہ اعلان کر رہے تھے کہ یہ آخری موقع ہے کہ مرزائیت کے فتنہ کو حل کر دیا جائے.چنانچہ ۲ ستمبر کو لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا.اس میں مودودی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرزائیت کے فتنے کو ختم کرنے کا یہ آخری موقع ہے.اگر ہم نے اسے کھو دیا تو ممکن ہے کہ یہ فتنہ ہمیں لے ڈوبے.نورانی صاحب نے کہا کہ اگر یہ فیصلہ ہماری مرضی کے
528 مطابق نہ ہوا تو مسلمان اسے قبول نہیں کریں گے.عبدالستار نیازی صاحب جو کہ ۱۹۵۳ء کے فسادات میں داڑھی منڈوا کر بھاگے تھے، نے اس جلسہ میں کہا کہ اگر یہ مسئلہ مسلمانوں کے عقائد کے مطابق حل نہ کیا گیا تو مسلمان اسے خود حل کر لیں گے.مودودی صاحب ابھی سے احمدیوں کے بارے میں نئے مطالبات کر رہے تھے.ان میں سے ایک مطالبہ یہ تھا کہ احمدی افراد کوکلیدی اسامیوں سے علیحدہ کیا جائے.پاسپورٹ میں ان کے مذہب کا علیحدہ اندراج کیا جائے.ووٹرلسٹ میں ان کا اندراج علیحدہ کیا جائے.شناختی کارڈوں میں بھی احمدیوں کے متعلق علیحدہ اندراج کیا جائے.ربوہ کی زمین جن شرائط پر دی گئی تھی ان کو تبدیل کیا جائے.ان سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ احمدیوں کو آئین میں غیر مسلم قرار دے کر بھی ان انتہاء پسند مولویوں کی تسلی نہیں ہوگی بلکہ احمدیوں کو تمام بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی کوششیں کی جائیں گی.اور اس کی بنیاد پر اپنی سیاسی دوکان چمکائی جائے گی (۷۶).ایک طرف تو قومی اسمبلی کے اراکین اور سپیکر صاحب اس بات کو بار بار یقینی بنانے کے لیے تاکید کر رہے تھے کہ اس کارروائی کو خفیہ رکھا جائے اور اسمبلی کے باہر اس بات کا تذکرہ تک نہ ہو کہ اندر کیا کارروائی ہوئی تھی اور دوسری طرف اسمبلی کے بعض مولوی حضرات اپنی کارکردگی پر جھوٹی تعلیاں کر رہے تھے.چنانچہ ان ہی دنوں میں نورانی صاحب نے سرگودھا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرزا ناصر احمد ہمارے سوالات سے اس قدر بوکھلا اُٹھے کہ وہ یہ کہتے سنے گئے کہ میں تنگ آچکا ہوں.سوالات کا یہ سلسلہ کب ختم ہو گا.ان کی یہ ڈینگ کس قدر دور از حقیقت ہے اس کا اندازہ کارروائی کے اس خلاصہ سے ہی ہو جاتا ہے جو ہم نے درج کیا ہے.یہ سب مولوی حضرات اس قسم کی ڈینگیں تو مارتے رہے لیکن کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ یہ مطالبہ کرے کہ کارروائی کو شائع کیا جائے تاکہ دنیا بھی دیکھے کہ انہوں نے کیسی فتح پائی تھی.یہ مطالبہ ہمیشہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ہی کیا گیا ہے.اسی جلسہ میں نورانی صاحب نے ایک طرف تو یہ کہا کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دے کر ان کے جان و مال کی حفاظت کی جائے اور دوسری طرف یہ بھی کہا مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو ختم کرنے کے لیے یہ پودا کاشت کیا گیا تھا لیکن اب یہ وقت آ گیا ہے کہ اس فتنہ کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے اور یہ بھی کہا کہ قادیانیوں سے بائیکاٹ جائز ہے (۸).اور جماعت اسلامی کی طلباء تنظیم واضح الفاظ میں حکومت کو یہ دھمکی دے رہی تھی کہ اگر اس معاملہ میں ان کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ دیا گیا تو حکومت
529 کے لیے عوام کے غیظ و غضب سے بچنا مشکل ہو جائے گا.اور یہ دھمکیاں کوئی خفیہ انداز میں نہیں دی جا رہی تھیں بلکہ اخبارات میں شائع ہورہی تھیں.(۹) ۴ ستمبر کو اسلامی سیکریٹریٹ کے سیکریٹری جنرل حسن التہامی صاحب پاکستان آئے.انہوں نے بیان دیا کہ میں مختلف اسلامی ممالک میں رابطہ قائم کرنے کے لیے اسلامی ممالک کا دورہ کر رہا ہوں.اور کہا کہ میں ایک نہایت اہم مشن پر پاکستان آیا ہوں.جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ وزیر اعظم بھٹو سے کس مسئلہ پر بات کریں گے تو انہوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں بتا سکتے.(۱۰) یہ اعلان ہو چکا تھا کہ قومی اسمبلی کے رستمبر کو فیصلہ کرے گی.ستمبر کا دن آیا.یہ دن پاکستان میں یوم دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے.اگر کوئی صاحب عقل ہوتا تو یہ دن اس بات کو سوچنے کے لیے ایک موقع تھا کہ پاکستان کے احمدیوں نے اپنے ملک کے دفاع کے لیے کیا قربانیاں دی تھیں.جب احمدی جنرل میدان جنگ میں اترے تھے تو انہوں نے بزدلی نہیں دکھائی تھی بلکہ جنرل اختر حسین ، لیفٹنٹ جنرل افتخار جنجوعہ شہید اور میجر جنرل عبد العلی ملک جیسے احمدی جرنیلوں کے کارنامے ایسے نہیں جنہیں فراموش کیا جاسکے.جب جماعت احمد یہ تقسیم برصغیر کے وقت داغ ہجرت کے بعد شدید بحران سے گزر رہی تھی اس وقت بھی پاکستانی احمدیوں نے رضا کارانہ طور پر ملک کے دفاع میں حصہ لیا تھا.خود ایک احمدی جنرل کے متعلق بھٹو صاحب کے خیالات کیا تھے؟ اس کا اندازہ ان کے اس تبصرے سے ہو جاتا ہے جو انہوں نے جیل میں اس وقت کیا تھا جب انہیں سزائے موت سنائی جا چکی تھی.کرنل رفیع صاحب جو اس وقت جیل میں ڈیوٹی پر تھے بھٹو صاحب کی ایک گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں: پھر کہنے لگے کہ جنرل اختر ملک کو کشمیر کے چھمب جوڑیاں محاذ پر نہ روک دیا جاتا تو وہ کشمیر میں ہندوستانی افواج کو تمہیں نہیں کر دیتے مگر ایوب خان تو اپنے چہیتے جنرل یحیی خان کو ہیرو بنانا چاہتے تھے.۱۹۶۵ء کی جنگ کے اس تذکرے کے دوران بھٹو صاحب نے جنرل اختر ملک کی بے حد تعریف کی.کہنے لگے اختر ملک ایک با کمال جنرل تھا.وہ ایک اعلیٰ درجہ کا سالار تھا.وہ بڑا بہادر اور دل گردے کا مالک تھا اور فن سپاہ گری کو خوب سمجھتا تھا.اس جیسا جنرل پاکستانی فوج نے ابھی تک پیدا نہیں کیا.پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے
530 باقی سب تو جنرل رانی ہیں.“ (۱۱) لیکن توازن اور فراست ایسی اجناس نہیں تھی جو کہ اس دور کے صاحبانِ اقتدار کو میسر ہوں.اب تو ہر طرف جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت کی آندھیاں چلائی جارہی تھیں.ہر طرف سے یہ آواز میں اُٹھ رہی تھیں کہ انہیں مارو، ان کے گھروں کو جلاؤ ، ان کا بائیکاٹ کرو، ان کو بنیادی حقوق سے محروم کر دو.ہر سیاستدان یہ سوچ رہا تھا کہ وہ اس مسئلہ پر بیان بازی کر کے کس طرح سیاسی مقاصد حاصل کر سکتا ہے.ایک روایت ہے کہ یوم دفاع کے دن وزیر اعظم ملک کے عوام کے نام ایک پیغام دیتے ہیں.اس روز وزیر اعظم بھٹو صاحب نے جو پیغام دیا اس میں انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کو مختلف النوع خطرات درپیش ہیں.بیرونی اشارے پر تخریبی کارروائیاں ہورہی ہیں.ملک میں بعض سیاسی گروپ علاقہ پرستی کو ہوا دے رہے ہیں.اور انتہا پسند فرقہ پرست گروہ ہمارے دفاع کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں (۱۲) بہت خوب! ملک کے دفاع پر آپ خود اقرار کر رہے ہیں کہ انتہا پسند فرقے ملک کے دفاع کے لیے خطرہ بن چکے ہیں.مگر جب ملک کو یہ خطرہ لاحق تھا تو آپ کیا کر رہے تھے؟ آپ ان کے مطالبات تسلیم کر کے ان کو تقویت دے رہے تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ احمدی تو ایک چھوٹا سا گروہ ہے اگر ان کے حقوق تلف بھی کر لیے گئے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ تو اپنا بدلہ لینے کی بھی طاقت نہیں رکھتے.اس سے ہم سیاسی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.یہ بات صحیح بھی تھی لیکن ایک بات پاکستان کے سیاستدان بھول رہے تھے ایک خدا بھی ہے جو احمد یوں پر ہونے والے ہر ظلم کا بدلہ لینے پر قادر ہے.اور تب سے اب تک اس ملک کی تاریخ عبرت کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے.بہر حال فیصلے کے اعلان سے ایک روز پہلے اخبارات میں یہ فخریہ خبریں شائع ہونی شروع ہو گئیں کہ سواد اعظم کی خواہشات کے مطابق قادیانی مسئلہ کا قابل قبول حل تلاش کر لیا گیا ہے.(۱۳) 4 ستمبر کو جمعہ کا روز تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خطبہ میں فرمایا..جو شخص یہ کہے کہ میں دنیا کی طاقتوں سے مرعوب ہو گیا.دوسرے لفظوں میں وہ یہ اعلان کر رہا ہے کہ میرا خدا کے ساتھ واسطہ کوئی نہیں..ورنہ آدم سے لے کر معرفت حاصل کرنے والوں نے خدا تعالیٰ کے پیار کے سمندر اپنے دلوں اور سینوں میں موجزن کئے اور سوائے خدا تعالیٰ کی خشیت کے اور کوئی خوف اور خشیت تھی ہی نہیں ان کے دلوں میں.یہ
531 جو خشیت اللہ ہے یہ غیر اللہ کے خوف کو مٹادیتی ہے.اللہ سے یہ ڈر کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے وہ ہر دوسرے کے خوف کو دل سے نکال دیتا ہے......شاید سات آٹھ سال گزر گئے غالباً ۱۹۶۶ - ۱۹۶۷ کی بات ہے ایک موقع پر مجھے حاکم وقت سے ملنا تھا تو مجھے بڑے زور سے اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ ءَ اَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ اَمِ اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ.اور یہ میرے لئے عنوان تھا.ہدایت تھی کہ اس رنگ میں جا کر باتیں کرنی ہیں.پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کمزوری سے بچانے کے لیے وقت سے پہلے ہی راہ بتادی (خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۶۲۴، ۶۲۵) 66 اس خطبہ کے آخر میں حضور نے فرمایا پس یہ دنیا جس میں دنیا کے لوگ بستے ہیں ایک اور دنیا ہے اور وہ دنیا جس میں احمدی بستے ہیں وہ ایک اور ہی دنیا ہے اور احمدیوں کا فرض ہے کہ اپنے نفسانی جذبات کو بالکل فتا کر دیں اور کسی صورت میں اور کسی حال میں غصہ اور طیش میں نہ آئیں اور نفس بے قابو ہوکر وہ جوش نہ دکھلائیں جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینا ہے بلکہ تواضع اور انکسار کی انتہاء کو پہنچ جائیں اور اپنی پیشانیاں ہمیشہ خدا تعالیٰ کے حضور زمین پر رکھے رہیں.“ (۱۴) عام خیال تھا کہ ۷ ستمبر کو قو می اسمبلی احمدیوں کے متعلق فیصلہ کرے گی.حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ ان کی تمام کوششوں اور مخالفت کے باوجود اس فیصلہ کا یا اس جیسے دیگر فیصلوں کا جماعت پر اگر کوئی نتیجہ مرتب ہوا تو وہ یہی تھا کہ جماعت پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرنے لگ گئی.لیکن اصل حقیقت یہ تھی کہ یہ فیصلہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کیا جار ہا تھا اور ایک منفی فیصلے نے پاکستان کے لیے نہ ختم ہونے والی مصیبتوں کے دروازے کھول دیئے.بہر حال ۷ ستمبر کا دن آیا.دو پہر کو ساڑھے چار بجے اسمبلی کی کارروائی شروع کی گئی.تلاوت کے بعد سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لئے کہا : (الف) کہ پاکستان کے آئین میں حسب ذیل ترمیم کی جائے (اوّل) دفعہ ۱۰۶ (۳) میں قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت کے اشخاص (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ) کا ذکر کیا جائے.
532 ( دوم ) دفعہ ۱۰۶ میں ایک نئی شق کے ذریعے غیر مسلم کی تعریف درج کی جائے.مذکورہ بالا سفارشات کے نفاذ کے لیے خصوصی کمیٹی کی طرف سے متفقہ طور پر منظور شدہ مسودہ قانون منسلک ہے.صلى الله (ف) کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵ الف میں حسب ذیل تشریح درج کی جائے تشریح: کوئی مسلمان جو آئین کی دفعہ ۲۶۰ کی شق نمبر ۳ کی تشریحات کے مطابق حضرت محمد ﷺ کے خاتم النبین ہونے کے تصور کے خلاف عقیدہ رکھے یا عمل یا تبلیغ کرے وہ دفعہ ہذا کے تحت مستوجب سزا ہو گا.(ج) که متعلقہ قوانین مثلاً قومی رجسٹریشن ایکٹ ۱۹۷۳ ء اور انتخابی فہرستوں کے قواعد ۱۹۷۴ء میں قانونی اور ضابطہ کی ترمیمات کی جائیں.(د) کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں کے جان، مال، آزادی ، عزت اور بنیادی حقوق کا پوری طرح تحفظ اور دفاع کیا جائے.وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ نے قرارداد کے الفاظ پڑھنے شروع کیے تھے کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب ایوان میں داخل ہوئے.اور اس وقت ایوان کے ممبران نے ڈیسک بجا کروز یر اعظم کا والہانہ استقبال کیا.لیکن اس موقع پر احمد رضا قصوری صاحب نے مداخلت کی اور کہا کہ اس آئینی ترمیم میں یہ الفاظ شامل کئے جائیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیرو کار خواہ وہ کسی نام سے جانے جاتے ہوں قانون اور آئین کے حوالے سے غیر مسلم ہیں.لیکن وزیر قانون نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ کمیٹی میں اس ترمیم کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا اور اب جب اس ترمیم کی شقوں پر رائے شماری کی گئی تو انہیں بھی ایوان میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا.احمد رضا قصوری صاحب اپنی ترمیم ایوان کے سامنے پیش کرنے پر مصر تھے.وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بھی اسے خلاف ضابطہ قرار دیا.سپیکر نے ایوان سے رائے لی کہ کیا احمد رضا قصوری صاحب کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ اس ترمیم میں اپنی ترمیم پیش کر سکیں تو ہر طرف سے نہیں نہیں کی آوازیں بلند ہونے لگیں.اس پر سپیکر صاحب نے کہا کہ وہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے.احمد رضا قصوری صاحب نے کہا کہ وہ واک آؤٹ کر رہے ہیں کیونکہ انہیں ( یعنی احمدیوں کو ) غیر مسلم نہیں قرار دیا جارہا.رائے شماری سے
533 پہلے وزیر اعظم نے تقریر کرتے ہوئے اسے متفقہ قومی فیصلہ قرار دیا.اور کہا کہ یہ نوے سالہ پرانا مسئلہ تھا جس کا مستقل حل تلاش کر لیا گیا ہے.اور کہا کہ میں اس سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتا.پھر انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے.اور اگر کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے جو مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہوتا تو اس سے پاکستان کی بنیاد پر ضرب پڑتی پھر انہوں نے کہا کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ اب یہ باب ختم ہو جائے گا.کل شاید ہمیں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑے لیکن اب تک پاکستان کو در پیش آنے والے مسائل میں یہ سب سے زیادہ سنگیں مسئلہ تھا.لیکن ایک بات بھٹو صاحب بھی محسوس کر رہے تھے.قومی اسمبلی نے اتنا بڑا کارنامہ سرنجام دیا تھا لیکن اس کی کارروائی خفیہ رکھی گئی تھی.آخر کیوں؟ سب کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ قومی اسمبلی کی کارروائی میں کیا ہوا تھا.بھٹو صاحب نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کی یہ کارروائی خفیہ ہوئی ہے.اگر یہ کارروائی خفیہ نہ ہوتی تو ممبران اس یکسوئی سے اظہارِ خیال نہ کر سکتے.لیکن کوئی بھی چیز ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہتی.یہ کا روائی بھی ایک روز منظر عام پر آئے گی لیکن ابھی کچھ اضافی وقت لگے گا، جس کے بعد یہ کارروائی منظر عام پر لائی جائے گی.میں یہ نہیں کہتا کہ ہم اس ریکارڈ کو دفن کر دیں گے.ہر گز نہیں یہ خیال ایک غیر حقیقی خیال ہوگا.اگر ہم بھٹو صاحب کی اس بات کا تجزیہ کریں تو وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اگر یہ کارروائی خفیہ انداز میں نہ کی جاتی تو ممبران اس طرح یکسوئی سے آزادانہ اظہارِ خیال نہ کر سکتے.جبکہ ہم اس حقیقت کا جائزہ لے چکے ہیں کہ ممبران کے سوالات میں اگر کوئی چیز نمایاں تھی تو وہ پراگندہ خیالی تھی.اتنے دن سوالات کرنے کے باوجود وہ اصل موضوع سے صرف کتراتے ہی رہے.اور اگر یکسوئی کا یہی طریق ہے کہ کارروائی خفیہ ہو اور ممبران کی آزادانہ اظہار رائے کا بھی یہی طریق ہے تو پھر تو اسمبلی کی ہر کارروائی خفیہ ہونی چاہئے.بھٹو صاحب نے یہ تو کہا کہ وہ ایک دن اس کا رروائی کو منظرِ عام پر لے آئیں گے مگر اس کے بعد وہ کئی سال برسر اقتدار رہے لیکن انہوں نے اس کارروائی کو منظر عام پر لانے کا قدم کبھی نہیں اُٹھایا.یہ سوال ہر صاحب شعورضرور اٹھائے گا کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا؟ سپیکر کے کہنے پر مولوی مفتی محمود صاحب نے مختصر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کی پارٹی اس ترمیم کی مکمل حمایت کرتے ہیں.اور متفقہ طور پر یہ ترمیم منظور کر لی گئی.کچھ ہی دیر بعد یہ بل سینٹ میں پیش کیا گیا اور وہاں پر متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا.اور وہاں پر تالیاں بجا کر اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا
534 گیا.اس روز معلوم ہوتا تھا کہ پاکستان کے تمام سیاسی حلقے تالیاں پیٹ رہے تھے، ڈیسک بجا رہے تھے، مٹھائیاں تقسیم ہو رہی تھیں چراغاں کیا جا رہا تھا.اور بیچارے یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ احمدیوں کی قسمت کا فیصلہ کر رہے تھے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنی اور ملک کی قسمت پر مہر لگارہے تھے.مولوی خوش تھے کہ ہم نے ایک تیر مارا ہے اور حکومتی پارٹیاں اس بات پر خوشیاں منا رہی تھیں کہ ہم نے اپنی سیاسی پوزیشن اور مضبوط کر لی ہے.جلد ہی جو تبصرے آنے لگے تو اس سے بھی یہی معلوم ہوتا تھا کہ وقتی طور پر بھٹو صاحب کے حصہ میں بہت سی داد و تحسین آئی ہے.مجلس عمل برائے ختم نبوت کے مولوی محمد یوسف بنوری صاحب نے ایک پر یس کا نفرنس میں اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا.صدر ورلڈ فیڈ ریشن آف اسلامک مشنز سید عبد القادر نے وزیر اعظم کو مبارکباد کی تار بھجوائی اور کہا کہ پوری دنیا کے مسلمان اس فیصلہ کا خیر مقدم کر رہے ہیں اور جس طرح آپ نے اس معاملہ کو طے کیا ہے اس کو سراہتے ہیں ، شاہ احمد نورانی صاحب صدر جمعیت العلماء پاکستان نے کہا کہ یہ مسلمانوں کے لیے عظیم فتح ہے اور انہوں نے اس کے لیے انتھک کوششیں کی ہیں، ایئر مارشل اصغر خان صدر تحریک استقلال نے کہا یہ ایک عظیم کامیابی ہے، جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور صاحب نے کہا کہ وہ اس فیصلہ سے مکمل طور پر مطمئن ہیں صدر مجلس علماء پاکستان نے وزیر اعظم کو مبارکباد دی اور کہا کہ یہ اس صدی کی سب سے اچھی خبر ہے، جمعیت العلماء اسلام کے قائد مفتی محمود صاحب نے کہا کہ یہ فیصلہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا(۱۵).ان کے بہت سے دیرینہ مخالف بھی ان پر پھول نچھاور کر رہے تھے.مثلاً ایڈیٹر چٹان شورش کا شمیری صاحب نے کہا کہ اس فیصلہ پر ملت اسلامیہ ہی نہیں خود اسلام وزیر اعظم کا ممنون ہے (۱۲).اسلامک کانفرنس کے سیکریٹری حسن التہامی صاحب نے جو کہ پاکستان میں موجود تھے بیان دیا کہ اب پاکستان صحیح معنوں میں ایک اسلامی ملک بن گیا ہے.اور کہا کہ اس فیصلہ کی نقول دوسرے اسلامی ممالک کو بھی بھجوائی جائیں گی اور امید ہے کہ یہ ممالک بھی اس فیصلہ کی پیروی کریں گے.اور اب اخبارات میں یہ خبریں شائع کی جارہی تھیں کہ اب قادیانیوں کو تمام کلیدی آسامیوں سے ہٹا دیا جائے گا.پنجاب کے وزیر اعلیٰ حنیف رامے صاحب نے یہ فخریہ بیان دیا کہ ہماری حکومت نے صحیح معنوں میں علماء سے بھی زیادہ اسلام کی خدمت کی ہے.مجلس ختم نبوت کی مجلس عمل نے بیان جاری کیا کہ اس فیصلہ سے صحیح معنوں
535 میں قومی اتحاد کی بنیاد پڑی ہے اور ان کے صدر نے کہا کہ امید ہے کہ اب اکثر قادیانی مسلمانوں کی تبلیغ کے نتیجہ میں اسلام قبول کرلیں گے.(۱۷) یہ تھے اس وقت مختلف لوگوں کے خیالات لیکن پھر کیا ہوا.کیا اس فیصلہ کے بعد قومی اتحاد قائم ہوا؟ ہرگز نہیں بلکہ پاکستان کا معاشرہ ہر پہلو سے اس بری طرح تقسیم ہوا کہ جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا.کیا ملک میں اسلامی معاشرہ قائم ہوا؟ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا بلکہ قتل و غارت اور دہشتگردی کا وہ طوفان امڈا کہ خدا کی پناہ.اور کیا یہ علماء جواب بھٹو صاحب کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہے تھے ، ان کے وفادار رہے؟ نہیں یہ مولوی طبقہ کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتا.جلد ہی انہوں نے بھٹو صاحب کے خلاف ایک مہم چلائی اور ان کے خلاف، ان کے اہلِ خانہ کے خلاف ان کے آباء کے خلاف ملک بھر میں وہ گندہ دہنی کا طوفان اُٹھایا کہ شاید ہی کوئی گالی ہو جو نہ دی گئی ہو.۷ ستمبر کو بھٹو صاحب اپنے آپ کو بہت مضبوط محسوس کر رہے تھے.لیکن کیا اس نے انہیں کوئی فائدہ دیا؟ جلد ہی ان کے خلاف ایک ملک گیر تحریک چلی اور پھر ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا.ان پر احمد رضا قصوری صاحب پر قاتلانہ حملہ کرانے اور ان کے والد کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا اور انہیں پھانسی کی سزا دی گئی.اگر یہ فیصلہ خدا کی نظر میں مقبول تھا تو اس کے کچھ آثار بھی تو نظر آنے چاہیئے تھے.ہمیں اس کے بعد کی تاریخ میں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے.کیا اس فیصلہ سے جماعت احمدیہ کی ترقی رک گئی؟ بالکل نہیں جماعت احمد یہ پہلے سے بہت زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرتی چلی گئی.جو نقصان ہوا ملک کا اور اس فیصلے کو کرنے والوں کا ہوا.بہت سے تجزیہ نگاروں نے اس فیصلہ کا تجزیہ کیا ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے.ان میں سے کچھ مثالیں پیش ہیں.موسیٰ خان جلال زئی اپنی کتاب The Sunni-Shia Conflict in Pakistan میں لکھتے ہیں.صورتِ حال اس وقت تبدیل ہوگئی جب پنجاب حکومت نے ۱۹۵۱ء میں مرکزی حکومت کے خلاف مذہبی پتے کھیلنے کا فیصلہ کیا.مؤخر الذکر ثابت قدم رہی اور احمدیوں کے خلاف فسادات کو روکنے کے لیے فوج کو طلب کر لیا گیا.دو دہائیوں کے بعد بھٹو صاحب نے احمدیوں کی مخالفت کا پتہ کھیلنے کا فیصلہ کیا.شاید یہ اس لیے کیا گیا کہ پاکستان اسلامی
536 ممالک کی قیادت کرنے والے ممالک کے گروہ میں بیٹھنے کے قابل ہو جائے.‘ (۱۸) ایما ڈنکن (Emma Duncan) اپنی کتاب Breaking The Curfew میں بھٹو صاحب کا ذکر کرتے ہوئی لکھتی ہیں غالباً احمدیوں پر ان کا حملہ بھی اس نیت سے کیا گیا تھا تاکہ وہ قدامت پسند مذہبی حلقوں میں مقبولیت حاصل کر سکیں......مگر ۱۹۷۴ میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ بھی شاید ان حلقوں میں سستی مقبولیت حاصل کرنے کا طریق تھا جو کہ ان کو نا پسند کرتے تھے.اس کے باجود بھٹو صاحب کی پالیسی اور اخلاقیات حملے کی زد میں رہے.(۱۹) اس فیصلہ کے بعد پہلا جمعہ ۱۳ ستمبر کو تھا.قدرتاً احباب جماعت حضرت خلیفہ المسح الثالث کی زبان مبارک سے یہ ہدایت سننا چاہتے تھے کہ اس فیصلہ پر احمدیوں کا کیا ردعمل ہونا چاہئے؟ حضور نے خطبہ جمعہ کے آغاز میں فرمایا کہ اس وقت تو یہ تبصرہ ہے کہ No Comments ، یعنی کوئی تبصرہ نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر تبصرہ سے قبل بڑے غور اور تدبر کی ضرورت ہے اور مشورے کی ضرورت ہے.اس پر مشورے اور غور کرنے کے بعد میں بتاؤں گا کہ جو پاس ہوا ہے وہ اپنے اندر کتنے پہلو لئے ہوئے تھا.کیا بات صحیح ہے کیا بات صحیح نہیں ہے.حضور نے فرمایا کہ حقیقت کو ابھرنے دیں.حقیقت کو Unfold ہونے دیں.اس کے بعد حضور نے تفصیل سے بیان فرمایا کہ اس فیصلہ پر کسی احمدی کے ردعمل میں ظلم اور فساد کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہئے.(۲۰) اس کے بعد حضور نے مختلف خطبات اور تقاریر میں بیان فرمایا کہ اس فیصلہ پر جماعت احمدیہ کا رد عمل کیا ہونا چاہئے.جب جلسہ سالانہ کا وقت آیا تو ایک عجیب سماں تھا.حکومت نے پہلی مرتبہ فیڈرل سیکیورٹی فورس کے جوان ربوہ کے جلسہ پر بھجوائے تھے.حضور نے افتتاحی خطاب کے آغاز میں فرمایا ”..لوگوں کی طرف سے بہت سی افواہیں پھیلائی گئیں.ایک افواہ یہ تھی کہ مستورات کا جلسہ نہیں ہوگا.حالانکہ مستورات کا جلسہ ہو رہا ہے ہماری احمدی بہنیں کافی تعداد میں پہنچ چکی ہیں لیکن بعض علاقوں سے بہت کم مستورات اس جلسہ میں شامل ہو رہی ہیں.ایک یہ
537 افواہ بھی بعض جگہوں پر پھیلائی گئی کہ ربوہ کے مسافروں کو راستہ میں بہت تنگ کیا جارہا ہے گویا کہ ان کے نزدیک ہمارے ملک میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے.اس لئے بعض جگہوں سے لاریوں نے چلنے سے انکار کیا.بعض جگہوں پر احمدی تذبذب میں پڑ گئے حالانکہ یہاں حکومت ہے اور ان کا بڑا اچھا انتظام ہے.اس جلسہ پر یہاں بھی دوستوں کو پہلی بار گیلریوں کے اوپر حکومت کے باوردی نمائندے نظر آرہے ہیں جو بڑے خوبصورت لگ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو اپنی ذمہ داریوں کے نباہنے کی توفیق عطا کرے.(۲۱) اس موقع پر جب جماعت احمدیہ کے مخالفین بڑے طمطراق سے یہ دعوے کر رہے تھے کہ اب ہم اس جماعت کو ختم کر دیں گے.حضور نے یہ پیشگوئی فرمائی:...جنہوں نے علی الاعلان کہا کہ وہ زمین سے خدا کے نام کو اور آسمانوں سے اس کے وجود کو مٹا دیں گے.خدا نے ہمیں کہا تم ان کے لئے بھی دعائیں کرو.اس لئے ہم ان کی ہدایت کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ خدا کے حقیقی پیار سے محروم ہیں.دنیا کی یہ عارضی ترقیات تو کوئی معنی نہیں رکھتیں.انسان نے پہلی دفعہ تو یہ ترقی نہیں کی.اصطلاحاً بڑے بڑے فراعنہ دنیا میں پیدا ہوئے اور ان میں ایک وہ بھی تھا جس کا نام بھی فرعون تھا.جس کی حکومت بڑی شاندار اور مہذب کہلاتی تھی.دنیا میں اس نے بڑا رعب قائم کیا مگر کہاں گئے وہ لوگ ؟ اور کہاں گئیں سرمایہ دارانہ حکومتیں؟ ایک وقت میں سرمایہ دار دنیا پر چھائے ہوئے تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ انسان کے اوپر سوائے سرمایہ داری کے اور کوئی چیز حکومت نہیں کر سکتی.وہ پیچھے چلے گئے.دوسرے نمبر پر کمیونزم آ گیا.یہ بھی پیچھے چلا جائے گا.صدیوں کی بات نہیں.درجنوں سالوں کی بات ہے کہ اشترا کی نظام بھی پیچھے چلا جائے گا اور پھر دوسری طاقتیں آگے آجائینگی اور ایک وقت میں وہ بھی پیچھے چلی جائیں گی.پھر خدا اور اس کا نام لینے والی جماعت ، حضرت محمد مصطفے ﷺ کی طرف منسوب ہونے والی جماعت ، قرآن کریم کے احکام کا سکہ دنیا میں قائم کرنے والی جماعت ، اسلام کا جھنڈا دنیا کے گھر گھر میں گاڑنے والی جماعت آگے آئیگی اور پھر اس دنیا میں اخروی جنت سے ملتی جلتی ایک جنت پیدا ہوگی اور ہر انسان کی خوشی کے سامان پیدا کئے
538 جائیں گے اور تلخیاں دور کر دی جائیں گی.‘ (۲۲) جہاں تک عالمی منظر پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق اس پیشگوئی کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۷۲ کی مجلس شوری سے خطاب کرتے ہوئے بھی یہ تجزیہ بیان فرمایا تھا کہ اشتراکیت ناکام ہو چکی ہے.انہوں نے انسانیت کی خدمت کی آواز تو بلند کی لیکن وہ ابھی تک ایسا کوئی نظام روس میں قائم نہیں کر سکے جس میں انہوں نے روس کے مفادات قربان کر کے دنیا کے ممالک کی بھلائی کی کوشش کی گئی ہو.وہ دوسرے ممالک کو Dictate کرنا چاہتے ہیں کہ جو ہم کہتے ہیں تم وہ مانو.اور خود روس کے مشرقی اور مغربی حصے کی ترقی میں بہت فرق ہے.حضور نے اپنا مشاہدہ بیان فرمایا کہ جب حضور ۱۹۶۷ء میں یورپ کے دورہ پر جاتے ہوئے کچھ دیر کے لئے ماسکو کے ایئر پورٹ پر رکے تو یہ دیکھا کہ وہاں ایک مردنی اور پژمردگی چھائی ہوئی ہے، غذائی قلت کے آثار صاف نظر آرہے تھے.کوئی بشاشت نہیں تھی کوئی مسکراہٹ نہیں تھی.انہوں نے اپنے ملک میں جو کام کیا وہ تو کیا لیکن وہ جو نہیں کر سکے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں میں بشاشت نہیں پیدا کر سکے.اس کے ساتھ ہی حضور نے ارشاد فرمایا کہ چین ایک بڑی قوت بن کر ابھر رہا ہے.اور چینیوں نے جو نظام اپنے لئے منتخب کیا ہے اس میں وہ زیادہ سمجھداری اور عقلمندی سے آگے بڑھ رہے ہیں.(۲۳).آئندہ چند دہائیوں میں دنیا کی آنکھ نے مشاہدہ کیا کہ یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی.جیسا کہ حضور نے فرمایا تھا کمیونزم کی نا کامیاں سب کے سامنے آگئیں اور سوویت یونین بکھر کر رہ گیا اور مشرقی یورپ سے بھی کمیونزم کا نظام ختم ہو گیا.اور اس کے برعکس چین کے نظام نے بر وقت اپنے اندر کچھ تبدیلیاں پیدا کر لیں اور چین ایک بڑی صنعتی قوت کے طور پر سامنے آیا.اس کے بعد بہت سے خطبات میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جماعت کی راہنمائی فرمائی کہ پاکستان کے آئین میں اس ترمیم پر جماعت احمدیہ کا ردعمل کیا ہونا چاہئے اور ان کا کچھ ذکر ۱۹۷۵ء کے دور کے ذکر میں آئے گا.لیکن جب ہم ان تمام خطبات اور تقاریر کو پڑھتے ہیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ردعمل کا حتمی اعلان حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے ۱۹۷۵ء کے جلسہ سالانہ کے افتتاحی خطاب کے دوران کیا تھا.جب یہ جلسہ شروع ہوا اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث سٹیج پر تشریف لے آئے تو حسب سابق مشہور احمدی شاعر مکرم ثاقب زیروی صاحب اپنی نظم
539 ترنم سے سنانے کے لئے آئے.خاکسار کو خود بھی یہ لمحے یاد ہیں.نظم کا شروع ہونا تھا کہ ایک سماں بندھ گیا.اس نظم کا پہلا شعر تھا : وہ جو گر دی تھی جمی ہوئی وہ جبیں سے ہم نے اتار دی شب غم اگر چہ طویل تھی شب غم بھی ہنس کے گزار دی اس نظم کے کچھ اور اشعار یہ تھے بھلا کیوں بقائے دوام کو نہ ہو ناز ان کے وجود پر وہ جنہوں نے جاں سے عزیز شے بھی ترے حبیب پر واردی وہی ٹھہرے موردِ کفر بھی جنہیں دین جان سے عزیز تھا وہی خار بن کر کھٹک رہے ہیں جنہوں نے فصل بہار دی میرے زخم جس میں نہاں رہے مرا درد جس میں چھپا رہا میرے چارہ گر تیرا شکر یہ وہ قبا بھی تو نے اتار دی جب حضور نے ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۵ء کو جلسہ سالانہ کے افتتاحی اجلاس سے اپنا روح پرور خطاب شروع فرمایا تو آپ نے آنحضرت ﷺ کی مختلف دعائیں پڑھیں اور یہ ارشاد فرمایا کہ دوست آمین کہتے ہوئے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو ہمارے حق میں بھی جو آپ کی امت میں سے ہیں قبول کرے.چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث یہ دعائیں پڑھتے گئے اور جلسہ سالانہ کے حاضرین جو کہ تعداد میں لاکھ سے زائد تھے آمین کہتے رہے.ان مبارک دعاؤں میں سے جو آخری دعا حضور نے اس جلسہ سالانہ کے موقع پر پڑھی اس کا آخری حصہ یہ تھا...وَانْصُرْنِي عَلَى مَنْ ظَلَمَنِي وَ أَرِنِي فِيْهِ ثَأْرِى وَ أَقِرَّ بِذَلِكَ عَيْنِي اور حضور نے اس کا یہ ترجمہ پڑھا :...اور جو مجھ پر ظلم کرے اس کے خلاف تو میری مددفر ما اور جو بدلہ تو اس سے لے وہ مجھے بھی دکھا دے اور اس طرح میری آنکھ کو ٹھنڈک عطا فرما.“ اور وہاں پر موجود احباب نے آنحضرت ﷺ کی اس دعا پر آمین کہی.جیسا کہ جماعت کی تاریخ کا معروف واقعہ ہے کہ جب مارٹن کلارک نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قتل کا منصوبہ بنانے
540 کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت نے یہ نشان دکھایا کہ انہی کے سکھلائے ہوئے آدمی نے ان کی سازش کا راز افشا کر دیا تو مقدمہ خارج کرتے ہوئے حج ڈگلس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو ان پر مقدمہ کر سکتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں نے اپنا مقدمہ آسمان پر دائر کر دیا ہے.۱۹۷۴ء کے دوران جماعت احمد یہ پر جو مظالم کئے گئے اور جس طرح ایک خلاف اسلام، خلاف عقل اور خلاف آئین فیصلہ کر کے اپنے زعم میں جماعت احمد یہ پر ضرب لگائی گئی ، اس کا بیان تو گزر چکا ہے.ہم یہ ذکر کر چکے ہیں کہ ان اقدامات سے بھٹو صاحب اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے اور اس وقت بظاہر یہ لگ بھی رہا تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی گئے ہیں.وہ سیاسی طور پر اتنے مضبوط کبھی بھی نہیں تھے جتنا اس وقت نظر آ رہے تھے.ان کے مخالف بھی جن میں مولوی گروہ کی ایک بڑی تعداد شامل تھی ان کے اس فیصلے کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی.وہ صرف پاکستان کے مقبول وزیر اعظم ہی نہیں تھے، عالمی سطح پر بھی ان کا طوطی بول رہا تھا.دوسرے مسلمان ممالک سے بھی واہ واہ کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں.اس پس منظر میں کوئی کہ سکتا تھا کہ اگر جماعت احمدیہ پر کوئی ظلم ہو گیا ہے تو یہ ایک کمزور سی جماعت ہے ان کی کون سنے گا ؟ کون ان کا بدلہ لے گا؟ یہ کمزور گروہ اپنے مقدمے کو کہاں لے کر جائے گا ؟ لیکن ۲۶ دسمبر ۱۹۷۵ء کی صبح کو یہ مقدمہ آسمان پر دائر کر دیا گیا تھا.بھٹو صاحب جیسے مقبول ، ذہین اور منجھے ہوئے سیاستدان کا اقتدار سے رخصت ہونا اور پھر ایک تکلیف دہ اسیری سے گزرنا اور پھر قتل کے الزام میں ان کو پھانسی کی سزاملنا، یہ سب ایسے واقعات ہیں جن پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اس کا بہت کچھ تجزیہ کیا گیا ہے اور آئندہ بھی کیا جائے گا.لیکن جب بھی کوئی روحانی آنکھ سے ان واقعات کا تجزیہ کرے گا تو اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۵ء کو کی جانے والی دعا ایک مقدمہ تھی جو رب العالمین کے حضور دائر کیا گیا تھا اور چند سالوں کے بعد دنیا کی آنکھ نے فیصلہ بھی مشاہدہ کر لیا.اس فیصلہ کرنے والوں کا انجام کیا ہوا اور ملک اور قوم کو اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑا اس کا جائزہ ہم مختلف مرحلوں پر لیتے رہیں گے.لیکن پیپلز پارٹی اور قومی اسمبلی میں شریک دوسری جماعتوں کے لیڈر اس وقت سے اب تک فخریہ بیان بازی کرتے آئے ہیں کہ ہم نے ۱۹۷۴ء میں یہ فیصلہ کر کے بڑا تیر مارا تھا.گو کہ اب
541 کچھ آواز میں اس طرح کی بھی سننے میں آرہی ہیں کہ اس کے ساتھ ملک میں تنگ نظری اور مذہبی دہشت گردی کا ایک نیا باب کھل گیا تھا.جماعت کے مخالف بیان بازی اصول اور سچائی سے کتنا خالی ہوتی ہے.اس کا اندازہ اس ایک مثال سے ہوسکتا ہے.اکتوبر ۱۹۷۵ء میں پاکستان کے وزیر مملکت برائے ریلوے میاں عطاء اللہ صاحب نے یہ بیان داغا کہ ہم نے تو اس فیصلہ کے ذریعہ ۹۰ سالہ مسئلہ حل کر دیا ہے لیکن قادیانی سازش کر رہے ہیں کہ کسی طرح یہ آئین منسوخ ہو جائے اور اس کا طریقہ یہ استعمال کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی سے باغی ہونے والے کچھ اراکین کو وہ مالی مدد دے رہے ہیں.اس ضمن میں انہوں نے خاص طور پر پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور گورنر غلام مصطفے کھر صاحب کا نام لیا کہ وہ قادیانیوں سے رشوت لے رہے ہیں اور صوبائی خود مختاری کا نعرہ لگا رہے ہیں وزیر موصوف نے بڑے اعتماد سے یہ دعویٰ کیا کہ حکومت کے پاس اس بات کے معین ثبوت موجود ہیں جو جلد منظر عام پر لائے جائیں گے.اس کے ساتھ انہوں نے علم تاریخ پر طبع آزمائی کرتے ہوئے یہ الزام بھی لگایا کہ قادیانی تو شروع سے ہی قیام پاکستان کے مخالف تھے.(۲۴) اس سنسنی خیز انکشاف کو میں سال گزر گئے لیکن اب تک یہ الزام لگانے والوں کو توفیق نہ ہوئی کہ کوئی ثبوت سامنے لاتے.جس طرح انہیں با وجود وعدہ کرنے کے یہ ہمت نہیں ہوئی کہ اسمبلی کی کارروائی کو منظر عام پر لاتے اس طرح یہ نام نہاد ثبوت بھی سامنے نہ آسکا.لیکن ان کے جھوٹ کی قلعی خدا نے اس طرح کھول دی کہ غلام مصطفے کھر صاحب کو ، جو ان کے مطابق احمدیوں سے رشوت لے کر ملک کے اور پیپلز پارٹی کے خلاف سازشیں کر رہے تھے، ان کو دوبارہ نہ صرف پیپلز پارٹی میں قبول کیا گیا بلکہ وفاقی وزیر بھی بنادیا گیا.بحیثیت ادارہ پاکستان کی قومی اسمبلی کا انجام جماعت احمدیہ کا یہ موقف تھا کہ کسی ملک کی اسمبلی کا یہ کام نہیں کہ وہ لوگوں کے مذہبی امور کا فیصلہ کرے.لیکن جماعت احمدیہ کے انتباہ کے باوجود قومی اسمبلی نے اس مسئلہ پر کارروائی کا آغاز کیا اور ممبرانِ اسمبلی نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے بزعم خود مفتی بنتے ہوئے خدا کے
542 مامور پر ایمان لانے والوں پر کفر کا فتویٰ بھی لگایا.یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں ایک سال قبل ہی نیا آئین نافذ ہوا تھا اور جمہوریت کی بحالی اور نئے سیاسی نظام سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں.اور جماعت کا وفد اس سپیشل کمیٹی میں سوالات کے جوابات دے رہا تھا تو انہی دنوں میں بڑی امیدوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی نئی عمارت کی بنیا د رکھی گئی تھی.لیکن اس کے بعد کیا ہوا ؟ جیسا کہ ہم بعد میں ذکر کریں گے کہ نئے انتخابات ہوئے اور دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے فسادات شروع ہو گئے اور پھر ملک پر ایک طویل مارشل لاء مسلط کر دیا گیا.اور اس دوران آئین معطل رہا.پھر آئین بحال ہونے کا وقت آیا تو ایک کے بعد دوسری اسمبلی ٹوٹتی رہی اور اس ادارہ کا وہ حشر ہوا کہ صاحبزادہ فاروق صاحب جو کہ اس کارروائی کے دوران قومی اسمبلی کے سپیکر تھے انہوں نے یہ بیان دیا کہ موجودہ پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کا سنگ بنیا درکھوا نا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی اور یہ میرا ایک ناقابل معافی جرم تھا.انہوں نے کہا کہ اگر انہیں اندازہ ہوتا کہ اس اسمبلی کی حیثیت صفر ہو جائے گی اور عوام کی رائے خود اس اسمبلی میں بیٹھنے والوں کے ذریعہ ختم کر دی جائے گی تو وہ اس غلطی کا ارتکاب کبھی نہ کرتے.یہ تھا اس ادارے کا انجام جس نے احمدیوں پر کفر کا فتو ی لگایا تھا.(۲۵) یہ فیصلہ دنیا کی تاریخ میں ایک انوکھا فیصلہ تھا کہ ایک ملک کی سیاسی اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کسی فرقہ کا مذہب کیا ہونا چاہئے.اس وقت بھی پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی ایک تاریخ تھی جس سے بھٹو صاحب بخوبی واقف تھے.اور بھٹو صاحب خود بھی برملا اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ ان واقعات کے پیچھے بیرونی ہاتھ ملوث ہے.ظاہر ہے کہ جب کسی بیرونی ہاتھ کی خواہش کے مطابق ایسے اقدامات کئے جائیں تو اس سے ملک کو نقصان ہی پہنچ سکتا ہے.جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے یہ سوال کیا کہ اگر ایسا تھا کہ یہ سب کچھ کوئی بیرونی ہاتھ کر رہا تھا.اور یہ ساری سازش پاکستان کی سا لمیت اور وحدت کے لئے خطرہ تھی پھر کیوں ان کے مطالبات تسلیم کر لئے گئے اور وہ بھی متفقہ طور پر.کیا اس سے بیرونی ہاتھ کے شروع کئے گئے کام کو تقویت نہیں ملی.اس کے جواب میں ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے کہا وو ” Actually he always thought (اصل میں ان کا ہمیشہ خیال ہوتا تھا)
543 کہ وہ کچھ بھی کر لیں اس پر قابو پالیں گے.‘“ بھٹو صاحب کا یہ خیال درست ثابت ہوایا یہ ان کی سب سے بڑی بھول تھی اس کا جائزہ ہم بعد میں لیں گے.اس فیصلہ کے بعد احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا ایک سلسلہ شروع کر دیا گیا.جماعت نے ربوہ کی جو اراضی لیز پر لی تھی ، اس میں سے دریا کے ساتھ ملحقہ اراضی پر حکومت نے زبر دستی قبضہ کر کے ایک کالونی بنانی شروع کر دی.اس کالونی کا نام مسلم کالونی رکھا گیا.اور اس میں پلاٹ لینے کے لئے ایک ہی شرط تھی اور وہ یہ کہ اس پر آباد ہونے والا احمدی نہ ہو.ویسے تو یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ ربوہ کھلا شہر نہیں ہے مگر اب حکومت جماعت کے مخالفین کے ساتھ مل کر ربوہ میں ایک ایسی کالونی آباد کر رہی تھی جو کہ کھلی کالونی نہیں تھی.جس میں جگہ لینے کے لئے احمدیوں کے لئے دروازے بند تھے.ربوہ میں شہر کے نمائندگان کی ٹاؤن کمیٹی کو بے دخل کر دیا گیا اور اس کمیٹی پر حکومت نے ایڈ منسٹریٹر مقرر کر دیا.جماعت کی طرف سے شائع ہونے والے جرائد کے لئے مشکلات پیدا کی گئیں حتی کہ لجنہ اماءاللہ کے شائع کئے گئے ایک پمفلٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مصرعہ ” یہی ہیں پنجتن جن پر بناء ہے“ شائع ہوا تو اسی پر سیکریٹری لجنہ ، کاتب محمد ارشد صاحب اور سید عبدالحی صاحب پر مقدمہ قائم کر دیا گیا.سید عبدالحی صاحب اور محمد ارشد صاحب کو کئی روز حوالات میں رکھا گیا اور ان پر مقدمہ کئی ماہ جاری رہا.(۱) مشرق ۲۱ اگست ۱۹۷۴ ص ۱ (۲) جائزہ ، مصنفہ جسٹس صمدانی ، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز ص ۷۰،۶۹ (۳) مشرق ۲۵ / اگست ۱۹۷۴ء ص ۱ (۴) مشرق ۲۷ / اگست ۱۹۷۴ء ص ۱ (۵) مشرق ۳۱ راگست ۱۹۷۴ء ص ۱ (1) نوائے وقت ۲ ستمبر ۱۹۷۴ ء ص آخر (۷) امروز ۴ رستمبر ۱۹۷۴ ء ص ۱ (۸) نوائے وقت یکم ستمبر ۱۹۷۴ ء ص ۱ (۹) نوائے وقت ۲ ستمبر ۱۹۷۴ ء ص ۲ (۱۰) مشرق ۵ رستمبر ۱۹۷۴ ء ص ۱ (۱۱) بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن ، مصنفہ کرنل رفیع الدین، ناشر جنگ پبلیکیشنز، ص۶۶ ( ۱۲ ) امروز ۶ ستمبر ۱۹۷۴ ء ص ۱ (۱۳) نوائے وقت ۶ ستمبر ۱۹۷۴ ء ص ۱ (۱۴) خطبات ناصر جلد ۵ ص ۶۲۴-۶۳۰،۶۲۵ ۱۵ () ڈان ۹ رستمبر ۱۹۷۴ ء ص اول و آخر (۱۶) نوائے وقت ۸ /ستمبر ۱۹۷۴ ء ص ۱ (۱۷) نوائے وقت ۹ ستمبر ۱۹۷۴ ء ص ۱ The Sunni Shia Conflict In Pakistan, by Musa Khan Jalalzai, published by (IA) Book Traders, 1998, page 235
544 Breaking The Curfew, By Emma Duncan, published by Arrow books, page 222-223 (14) (۲۰) خطبات ناصر جلد پنجم ص ۶۳۱ تا ۶۴۱ (۲۱) الفضل ۷ ار ا پریل ۱۹۷۶ء ص ۲ (۲۲) لفضل ۱۷ار اپریل ۱۹۷۶ء ص ۶ (۲۳) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲ ص ۵ تا ۹ (۲۴) پاکستان ٹائمنر، ۱۴ اکتوبر ۱۹۷۵ء(۲۵) روز نامه ایکسپریس، ۲۵ جنوری ۲۰۰۸ ء ص ۱
545 ربوہ کی زمین کا کچھ حصہ قومیایا جانا ربوہ کی زمین صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے حکومت پنجاب سے خریدی تھی.زمین کا سودا 9966 ہوتے ہوئے با قاعدہ شرائط طے ہوئی تھیں.ان میں ایک شرط یہ تھی کہ زمین احمدیہ کالونی جس کا نام ربوہ “ ہوگا بنانے کے لئے صدر انجمن کو فروخت کی جارہی ہے.مورخہ 1949-11-30 کواس معاہدہ پر حکومت اور انجمن کی طرف سے دستخط کئے گئے.ربوہ کی ٹاؤن پلاننگ کا نقشہ باقاعدہ منظور ہوا.اس پلاننگ کے تحت پلاٹ بنا کر احمدیوں کو 99 سالہ پٹہ پر دیئے گئے.حکومت پنجاب نے مورخہ 22 نومبر 1975ء کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا کہ گورنر پنجاب نے ربوہ میں کم آمدنی کے لوگوں کے لئے 156ایکڑ پر محیط رقبہ پر ہاؤسنگ سکیم کی منظوری دی ہے.اس سکیم کے محل وقوع کو ظاہر کرنے کے لئے نوٹیفیکیشن میں صرف یہ درج کیا گیا کہ اس مطلوبہ زمین کے مشرق میں ریلوے لائن جنوب میں دریا شمال میں ربوہ کی آبادی اور مغرب میں سٹرک ہے.اس پہلے نوٹیفیکیشن کے بعد Land Acquisition Collector سرگودھا کی طرف سے ایک اور نوٹیفیکیشن مورخہ 11 دسمبر 1975 ء کو جاری کیا گیا جس میں زمین کی تفصیل خسرہ نمبر وغیرہ کے حساب سے دے کر متاثرہ لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے معاوضہ کے مطالبہ جات جمع کرا دیں.مورخہ 23 دسمبر 1975ء کو ایک اور نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جو کہ 27 دسمبر کو شائع ہوا کہ DC جھنگ نے فیصلہ کیا ہے کہ زمین فوری طور پر درکار ہے اس لئے Acquistion of Land - 1973 Housing) Act) کی دفعہ 13 کے تحت کولیکٹر Housing and Physical Planning سرکل لائلپور کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ وہ فی الفور اس زمین کو اپنے قبضہ میں لے لے.یہ امر مد نظر رہے کہ حکومت یہ زمین 1973 Acquistion of Land (Housing) Act کے تحت Acquire کر رہی تھی.اس لئے اس قانون کی تمام شقوں کا اطلاق اس Acquistion پر بھی ہوتا ہے.اس لئے جو عدالت میں رئیس (Writs) دائر کی گئیں وہ بھی اس قانون کو مد نظر رکھ کر
546 کی گئیں.نوٹیفیکیشن جاری ہو گئے تو 1976 ء کے اوائل میں ہائیکورٹ میں ان کے خلاف 3 عددWrit Petitions دائر کی گئیں.ان رٹ پٹیشن کو درج ذیل صورت میں تقسیم کیا گیا.صدر انجمن احمدیہ پاکستان اور بعض پٹہ گیر برخلاف پنجاب گورنمنٹ، 2-DC جھنگ :1 3-Land Acquistion Collector Sargodha, Housing and Physical Planning Circle.Lyellpur رٹ نمبر 575/1976 :2 پٹہ گیروں کی جانب سے برخلاف صوبہ پنجاب ، 2.سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ ڈیپارٹمنٹ سول سیکٹریٹ 3-DC جھنگ 4 کولیکٹر ہاؤسنگ اینڈ فزیکل ڈیپارٹمنٹ سرکل لائلپور، 5.ایڈ منسٹریٹر ٹاؤن کمیٹی ربوہ.6.صدر انجمن احمد یہ پاکستان رٹ نمبر 606/1976 :3 پٹہ گیروں کی جانب سے برخلاف صوبہ پنجاب،2-DC جھنگ ،3.کولیکٹر ہاؤسنگ اینڈ فزیکل ڈیپارٹمنٹ سرکل لائلپور، 4.صدر انجمن احمد یہ پاکستان، 5 مجلس تحفظ ختم نبوت.رٹ نمبر 942/1976 صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے خلاف پٹہ گیروں کی جانب سے رٹ اس لئے کی گئیں تھیں کیونکہ انجمن نے پٹہ گیروں کو پلاٹ دیئے تھے اس لئے انجمن کو فریق بنانا ضروری تھا.ہے: :1 ان رٹوں میں جماعت کی طرف سے جو قانونی نقاط اٹھائے گئے ہیں ان کا خلاصہ ذیل میں درج ایک ٹاؤن پلاننگ حکومت کی طرف سے ربوہ کی منظور شدہ تھی اس کو نہ تو منسوخ کیا گیا اور نہ ہی ی معطل کیا گیا بلکہ اس پر حکومت نے ایک اور ٹاؤن پلاننگ بنادی.حکومت کے پاس اس چیز کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے کہ ایک سکیم جو حکومت کی منظور شدہ :2 ہو اس پر نظر ثانی کرے یا اس کا از سرنو جائزہ لے.:3 نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے قانونی لوازمات کو پورا نہیں کیا گیا.
547 :4 اصل ربوہ کی سکیم بھی اسی مقصد یعنی کم آمدنی والوں کے لئے تھی اس پر ایک اور سکیم کم آمدنی والے لوگوں کے لئے بنائی گئی اور کم آمدنی والے لوگوں کو ہی ان کے حق سے محروم کیا گیا.:5 Land Acquistion Collector (Housing and Physical Planning) نے زمین کا قبضہ حاصل نہ کیا ہے اور نہ جولوگ قابض ہیں ان کو نوٹس دیئے گئے ہیں.ہمارے وکیل کی بار بار کی درخواست کے باوجود کہ Acquistion کی کارروائی اور :6 Notices کی مسل ہمیں دکھائی جائے لیکن نہیں دکھائی گئی.:7 قریب ہی صنعتی شہر چنیوٹ میں کافی خالی زمین موجود ہے وہاں آسانی سے کم آمدنی والوں کے لئے کالونی بنائی جاسکتی ہے.اس بنیاد لینے کی وجہ یہ تھی کہ عام طور کم آمدنی والوں کی کالونیاں ایسی جگہوں پر بنائی جاتی ہے جو صنعتی علاقوں کے پاس ہوں.:8 اس سکیم کے تحت زمین کم آمدنی والوں کے لئے لی جارہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 10 مرلہ کے پلاٹوں کے مالکان سے زمین لے کر ایک کنال کے پلاٹ الاٹ کئے جار ہے ہیں.جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سکیم بد نیتی پر مشتمل ہے.-1 رٹ 575/1976 میں جو مزید بنیادیں لی گئی ہیں وہ ذیل میں درج ہیں: ربوہ میں زمین Acquire کرنے کی تجویز احتجاج کرنے والوں کی طرف سے اس غلط بنیاد پر دی گئی تھی کہ ربوہ ایک بندشہر ہے اسے کھلا شہر قراردیا جائے.رٹ کے واقعات تحریر کرتے ہوئے پس منظر میں ربوہ ریلوے اسٹیشن کے واقعہ کا ذکر کیا گیا اور سارے پاکستان میں فسادات کا بھی ذکر کیا گیا تھا.یہاں احتجاج کرنے والوں سے وہ فسادی لوگ مراد ہیں.2.اس امر سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کا کتنا اثر مقامی انتظامیہ پر تھا کہ ربوہ میونسپل کمیٹی کی حدود میں دفعہ 144 گا کر ہر قسم کی تعمیر پر پابندی لگائی گئی تھی.اخبارات میں بیان چھپا ہے کہ یہ زمین صرف مسلمانوں کے لئے لی جارہی ہے یعنی ان مسلمانوں کے لئے جو قانون کی نظر میں مسلمان ہیں یعنی جو قانون کی نظر میں مسلمان نہیں ہیں ان کے -3
548 لئے نہیں لی جارہی.یہ صرف بیان ہی نہیں تھا بلکہ آج تک گزشتہ 33 سالوں میں جتنی بھی نیلامی کے اشتہار آئے ہیں ان میں یہ شرط ہوتی ہے کہ صرف مسلمان ہی درخواست دے سکتے ہیں.-4 یہ بات کہ زمین کا قبضہ حکومت نے لے لیا ہے بھی غلط ہے کیونکہ Petitioner نمبر 2 تا 22 ابھی بھی اپنے پلاٹوں پر قابض ہیں.( جن پٹہ گیروں کی طرف سے رٹ کی گئی ہے ) حکومت کا کوئی افسر بھی اس قانون کی دفعہ 6 اور 7 میں دیئے ہوئے لوازمات کے بغیر کسی _5 جائیداد پر قبضہ نہیں کرسکتا.-6 1973 The Aquisition of Land (Housing) Act کے مطابق پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ حکومت کی کسی منظور شدہ سکیم کیلئے ہونی چاہیئے لیکن بظاہر اس قانون کے تحت کوئی سکیم ہی بنائی نہیں گئی.جس کے تحت سارا کام ہو.-7 ربوہ کی زمین کی موجودہ بازاری مالیت 25 ہزار روپے کنال سے کم نہیں ہے.اس قانون کی دفعہ 9 کے مطابق زیادہ سے زیادہ جو معاوضہ Acquire کی گئی زمین کا دیا جا سکتا ہے وہ 20 ہزار روپے کنال ہے.جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقتنہ کا یہ منشاء نہیں ہے کہ غریب لوگوں کے ایسے قیمتی پلاٹ لے کر اپنی مرضی کے لوگوں کو الاٹ کر کے نوازا جائے.آئین اسمبلی ، حکومت یا اس کے کسی افسر کو لامتناہی اختیارات نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی جائیداد کا انتخاب اس جائیداد کی بازاری قیمت سے کم میں کریں.اس وجہ سے قانون کی دفعہ 11 آئین -9 پاکستان کے خلاف ہے.ربوہ ٹاؤن سکیم کے تحت بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کوئی شہری رہائشی پلاٹ انڈیا میں چھوڑے ہوئے رہائشی پلاٹوں کے بدلہ میں نہیں لیا.10.گرین بیلٹ ربوہ کے رہائشیوں کے فائدہ کے لئے رکھی گئی تھیں جو کہ صرف پلاننگ میں درج مقاصد کے لئے ہی استعمال ہو سکتی ہیں.کوئی پٹہ گیر انجمن کی اجازت کے بغیر کوئی پلاٹ کسی اور کو منتقل نہیں کر سکتا.اور نہ ہی کوئی پٹہ گیر (Lease Holder) انجمن کے قواعد کے خلاف کوئی تعمیر کر سکتا ہے.
549 درج بالا بنیادوں کی بناء انجمن اور اس کے پٹہ گیروں نے ان نوٹیفیکیشنز کو چیلنج کیا تھا.04-03-1976 کو انجمن اور دوسرے پیٹیشنر ز کو عدالت عالیہ لاہور کی طرف سے حکم امتناعی (Stay Order) درج ذیل الفاظ میں مل گیا: Status quo shall be maintained meanwhile, that is to say, the petitioners, who claims to be in possession, shall not be dispossessed.لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکم امتناعی کے باوجود حکومت نے مسلم کالونی کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ جاری رکھی اس کے خلاف عدالت عالیہ لاہور میں Contempt of Court کی درخواست بھی دی گئی.حکومت کے متعلقہ افسران کو بھی حکم امتناعی کی نقول ارسال کی گئی لیکن یہ سب بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہی رہا اور حکومت نے Acquire کی گئی زمین کے اکثر حصہ پر کالونی تعمیر کر لی.اب ان رٹوں کی سماعت مکمل ہو کر مسل فیصلہ کے لئے محفوظ ہے.لیکن جو دو حج سماعت کر رہے تھے ان میں سے ایک حج PCO حج ہونے کی وجہ سے آج کل کام نہیں کر رہا.اصولاً تو ایک رٹ کا فیصلہ دو تین ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال میں آجانا چاہیئے کیونکہ اس میں کوئی شہادت وغیرہ تو لینی نہیں ہوتی صرف قانون کی تشریح کرنی ہوتی ہے.لیکن جماعت احمدیہ کے ساتھ ہی یہ خاص سلوک ہے کہ اس اور اس کی طرح اور رٹوں کے فیصلے آج تقریباً 33 سال گزرنے کے باجود نہ ہو سکے.
550 نواب محمد احمد قصوری کا قتل ۱۰ اور ۱۱.نومبر ۱۹۷۴ ء کی درمیانی رات کو احمد رضا قصوری صاحب اپنے والد نواب محمد احمد صاحب کے ہمراہ اپنی کار میں ایک شادی سے ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقعہ اپنے گھر واپس آ رہے تھے.وہ کار کو ڈرائیو کر رہے تھے اور نواب محمد احمد صاحب ان کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے تھے.ان کی والدہ اور ان کی بہن پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے.جب وہ شاہ جمال.شادمان کے چوک ( Round about) پر پہنچے تو ان کی گاڑی پر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی.احمد رضا قصوری صاحب کو تو کوئی گولی نہیں لگی لیکن ان کے والد گولیوں کی زد میں آگئے اور گاڑی کا فرش خون سے بھر گیا.وہ اسی گاڑی کو لے کر یوسی ایچ ہسپتال پہنچے لیکن ان کے والد جانبر نہ ہو سکے.ان کے سر پر ایک سے زیادہ گولیاں لگی تھیں.واقعہ کی اطلاع ملنے پر پولیس افسران جب ہسپتال پہنچے تو احمد رضا قصوری صاحب نے ایف آئی آر میں یہ درج کرانے پر اصرار کیا کہ میں اپوزیشن کا ممبر قومی اسمبلی ہوں اور مجھے وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں دھمکی دی تھی کہ میں اب تمہیں برداشت نہیں کر سکتا.قصوری صاحب نے وزیر اعظم کا نام ایف آئی آر میں درج کرانے پر اصرار کیا.بھٹو صاحب اس وقت اقتدار میں تھے تحقیقات بے نتیجہ رہیں اور احمد رضا قصوری صاحب ایک بار پھر بھٹو صاحب کی پارٹی میں شامل ہو گئے.بلکہ ان کی تعریف میں خطوط بھی لکھتے رہے.اور جب ۱۹۷۷ء کا الیکشن آیا تو وہ پی پی پی کے ٹکٹ کے لئے درخواست گزار بھی ہوئے مگر انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا.انجام بلند ایوانوں کا بھٹو صاحب احمدیوں کے خلاف آئین میں ترمیم سے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے یہ کوئی مفروضہ نہیں.یہ ایک حقیقت ہے جس کا اقرار خود ان کے قریبی رفقاء اور وہ وزراء جو اس کام میں ان کے ساتھ رہے تھے وہ بھی کرتے ہیں.بھٹو صاحب کی کابینہ کے وزیر برائے اطلاعات اور نشریات کوثر نیازی صاحب تحریر کرتے ہیں:.
551 ۱۵ ستمبر کی خنک رات تھی (جماعت احمدیہ کے خلاف آئینی ترمیم سے ستمبر کو منظور کی گئی تھی.ناقل ) وزیر اعظم بھٹو نے فرائض منصبی نمٹانے کے بعد عبد الحفیظ پیرزادہ، رفیع رضا اور مجھے ڈنر کے لئے اپنی قیام گاہ پر روکا ہوا تھا.وہ حسب معمول تھوڑ اسا بھنا ہوا قیمہ پلیٹ میں رکھے بیٹھے تھے.بے تاثر چہرے کے ساتھ ہم تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے بولے.یوم تشکر جس انداز میں منایا گیا، اس کا حکومت کو کیا فائدہ ہوا؟“ وہ احمدیوں سے متعلق آئینی ترمیم کا حوالہ دے رہے تھے جس کی خوشی میں پاکستان بھر میں یوم تشکر منایا گیا تھا بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ آئین میں اس ترمیم کا جو کریڈٹ حکومت کو ملنا چاہئے تھاوہ انہیں نہیں ملا، ان کو شکایت تھی کہ......” مولوی لوگ زبر دستی اس کا سہرا اپنے سر باندھ رہے ہیں جس کے لئے ہمیں لوگوں کو اصل صورت حال بتانا چاہئے.“ لوگ اصل صورت حال جانتے ہیں جناب حفیظ نے اپنی روایتی اکٹر فوں کا مظاہرہ کیا.” مولویوں کے کتنے آدمی اسمبلیوں میں ہیں؟ عوام انہیں خوب جانتے ہیں ، وہ ان کے کھوکھلے دعووں کے فریب میں نہیں آئیں گے.میرے خیال میں حکومت کو پورا کریڈٹ ملا ہے.” آپ کا کیا خیال ہے مولانا وزیر اعظم بھٹو نے نیم وا آنکھوں اور دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے سوال کیا....جب انہوں نے مجھ سے میرا خیال پوچھا تو ان کے ذہن میں در حقیقت صرف کریڈٹ کی بات نہ تھی معاملہ حقیقتاً کچھ اور تھا.ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا کر میں نے محتاط انداز میں بولنا شروع کیا.یہ درست ہے کہ علماء اس کا سہرا اپنے سر باندھ رہے ہیں کیونکہ وہ ایک مدت سے یہ ہم چلا رہے تھے.ان کی طرف سے قربانیاں بھی دی گئیں لیکن فیصلہ تو بہر حال آپ کی حکومت نے کیا ہے.اب جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں.آپ انتخابات کے نقطہ نظر سے سوچ رہے ہیں...اس اقدام سے مذہبی حلقوں میں آپ کی مقبولیت یقیناً بڑھی
552 ہے.لیکن انتخابات کے نتائج کبھی ان حلقوں میں مرتب نہیں ہوتے.سیاسی فیصلہ ہمیشہ سوادِ 66 اعظم کا ہوتا ہے..‘“......۱۵ ستمبر کی اس رات جب بھٹو صاحب نے مجھ سے میرا خیال پوچھا تو میں نے اس وقت کی ملکی جذباتی فضا کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی انہیں پھر انتخابات کے انعقاد کا مشورہ دیا.مسٹر بھٹو احمدی مسئلہ پر قومی اسمبلی کا فیصلہ کرانے کے بعد انتخابات کے نقطہ نظر ہی سے سوچ رہے تھے.(۱) ہم اس مرحلہ پر ٹھہر کر جائزہ لیتے ہیں کہ ۱۹۷۴ء میں آئینی ترمیم کرنے کے بعد حکمران سیاستدان کسی نفسیات سے حالات کا جائزہ لے رہے تھے.کچھ روز پہلے ہی آئین میں ایک انوکھی ترمیم کی گئی تھی.جس کے نتیجہ میں اسمبلی نے بزعم خود یہ اختیار لے لیا تھا کہ وہ یہ تعین کرے کہ کس گروہ کا مذہب کیا ہو.اس ترمیم کے نتیجہ میں بہت سے بھیانک مضمرات سامنے آسکتے تھے اور ملک میں تنگ نظری اور مذہبی تعصب کا ایک نیا باب کھل سکتا تھا.مستقبل میں بہت سے آئینی اور قانونی مسائل سر اُٹھا سکتے تھے.اور ایسا ہوا بھی اور یہ عمل اب تک جاری ہے.انہی غلطیوں کی وجہ سے ملک ایک تاریک گڑھے میں گرتا جا رہا ہے.ملک کا امن و امان برباد ہو چکا ہے.لیکن اس وقت کے حکمرانوں کو اگر کوئی فکر لاحق تھی تو صرف یہ کہ ان کے ووٹوں پر کیا اثر پڑے گا.اس نام نہاد کارنامے کا کریڈٹ کسے کتنامل رہا ہے.یہ فیصلہ اچھا تھا کہ برا، اس بحث کو تو رہنے دیں لیکن اس کا ملک پر بھی تو کوئی اچھا برا اثر پڑنا تھا.ان بالا ایوانوں میں یہ سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کر رہا تھا.اتنی دور کی کون سوچتا اور ملک کی فکر کس کو تھی.یو نین کونسل کے امیدواروں کی طرح صرف یہ فکر کی جارہی تھی کہ او ہو کہیں مخالف اس کا سہرا اپنے سر نہ باندھ لے.دور بینی کے دعووں کے باجود ان کی دور کی نظر کمزور ہو چکی تھی.اور کوثر نیازی صاحب کو یہ تو یا درہ گیا کہ اس رات بھٹو صاحب کی پلیٹ میں بھنا ہوا قیمہ پڑا ہوا تھا لیکن یہ ذکر انہوں نے نہیں کیا کہ ان فسادات میں کتنی بے رحمی سے احمدیوں کو شہید کیا گیا تھا.باپوں نے بیٹے کو شہید ہوتے دیکھا.بے بس بیٹیوں نے باپوں کو ظلم کی بھینٹ چڑھتے دیکھا.اور انہیں تنہا اپنے باپ کی لاش اُٹھانی پڑی.ان کے گھروں اور دوکانوں کو نذر آتش کیا گیا..مریضوں کو دوائیاں بھی نہ مل سکیں.معصوم بچے مر گئے تو تدفین بھی نہ ہونے دی.سوشل اور اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا.لیکن یادر ہا تو
553 کیا ؟ کہ بھٹو صاحب کی پلیٹ میں قیمہ پڑا ہوا تھا اور کوثر نیازی صاحب کو تو قیمے کی مقدار بھی یادرہ گئی.اس محفل کی روئیداد سن کر تو بہادر شاہ ظفر کے دربار کی حالت یاد آ جاتی ہے جس کا نقشہ کتاب بزمِ آخر میں کھینچا گیا ہے.اس میں یہ ذکر تو نہیں ملتا کہ اس دربار میں قوم اور ملک یا دہلی کے مستقبل کی بات بھی ہوتی تھی البتہ بہادر شاہ ظفر کے دستر خوان کی لمبی فہرست بڑے اہتمام سے لکھی گئی ہے.ایسی بزم بالآخر ” بزم آخر ہی ثابت ہوتی ہے.حکومت کے ایوانوں میں تو یہ گفتگو ہورہی تھی کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اور آئین میں یہ ترمیم کر کے وہ کتنے ووٹ حاصل کر سکتے ہیں اور دوسری طرف جماعت احمد یہ کا ردعمل کیا تھا، اس کا اظہار حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس گفتگو سے صرف دوروز قبل پہلے خطبہ جمعہ میں ان الفاظ میں فرمایا تھا: باقی جہاں تک کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا سوال ہے یہ تو میں شروع سے کہ رہا ہوں اس قرار داد سے بھی بہت پہلے سے کہتا چلا آیا ہوں کہ جس شخص نے اپنا اسلام لاہور کی مال ( روڈ) سے خریدا ہو، وہ تو ضائع ہو جائے گا لیکن میں اور تم جنہیں خدا خودا اپنے منہ سے کہتا ہے کہ تم (مومن ) مسلمان ہو تو پھر ہمیں کیا فکر ہے.دنیا جو مرضی کہتی رہے تمہیں فکر ہی کوئی نہیں..“ ( خطبات ناصر جلد پنجم ص ۶۴۱) بہت سی وجوہات پر ۱۹۷۴ء میں قبل از وقت انتخابات تو نہیں کرائے گئے مگر ۱۹۷۷ء میں وقت سے کچھ عرصہ قبل انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا.انتخابات کا اعلان کرنے سے قبل بھٹو صاحب نے کچھ زرعی اصطلاحات نافذ کرنے کا فیصلہ کیا.نہری اراضی کے لئے زیادہ سے زیادہ ملکیت کی حد ۱۵۰ ایکڑ سے کم کر کے 100 ایکڑ اور بارانی اراضی کی زرعی زمین کے لئے زیادہ سے زیادہ ملکیت کی حد ۱۳۰۰ یکڑ سے کم کر کے ۲۰۰ ایکٹر کر دی گئی.ان کے ایک قریبی معتمد اور وفاقی وزیر اور ان کی انتخابی مہم کے نگران رفیع رضا صاحب لکھتے ہیں."ZAB(Zulfikar Ali Bhutto)thought this would surprise the leftist in the PPP; having outflanked the rightist parties on the Qadiani issue, he now wanted to do the same to the left."
554 ترجمہ: ذوالفقار علی بھٹو کا خیال تھا کہ یہ قدم پی پی پی میں بائیں بازو کے لوگوں کو حیران کر دے گا وہ قادیانی مسئلہ پر دائیں بازو کی جماعتوں کو مات دے چکے تھے اب وہ بائیں بازو کو بھی مات دینا چاہتے تھے.(۲) با وجود تمام تجربہ اور ذہانت کے بھٹو صاحب اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں پارہے تھے کہ خواہ وہ زرعی اصطلاحات کا معاملہ ہو یا آئین میں مذہبی ترمیمات کا قضیہ ہو، ایسے فیصلوں کے ملک پر قوم پر اور سیاسی عمل پر دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں اور یہ سب معاملات پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا چاہئے.اگر صرف یہ سوچ کر یہ اقدامات کئے جائیں کہ اب اس کے ذریعہ میں دائیں بازو کو مات دے دوں یا اب اس کے ذریعہ میں بائیں باز وکو پچھاڑ دوں گا تو یہ تو بہت سطحی سوچ ہوگی اور نہ صرف ملک کے لئے بلکہ فیصلہ کرنے والوں کے حق میں بھی اس کے بہت خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا.جب الیکشن کا سال آیا بھٹو صاحب نے ۷ / مارچ کو قومی اسمبلی کا انتخاب کرانے کا فیصلہ کیا.اور سے پہلے وفاقی وزراء میں سے عبد الحفیظ پیرزادہ اور رفیع رضا صاحب اور امریکہ کے سفیر بایوروڈ(Byroade) کو اس فیصلہ سے مطلع کیا.ایک اہم ملکی معاملہ میں سب سے پہلے ایک غیر ملکی سفیر کو اعتماد میں لیا جا رہا تھا جب کہ خودان کے اکثر وزراء اس فیصلہ سے بے خبر تھے.(۳) ے جنوری ۱۹۷۷ء کو وزیر اعظم بھٹو نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک طویل تقریر کی.اس میں پہلے انہوں نے اپنے دور اقتدار کی کامیابیوں کا ذکر کیا.اسلام کے لئے اپنی خدمات کا ذکر کیا اور ۱۹۷۳ء کے آئین کی تشکیل کے کارنامے کا ذکر کیا.انہوں نے اپنی اقتصادی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈرامائی انداز میں ایک بوتل نکالی کہ پاکستان میں ڈھوڈک کے مقام پر تیل دریافت ہوا ہے اور اپوزیشن کے لیڈر مفتی محمود صاحب کو سونگھائی کہ یہ تیل ہے.پھر انہوں نے انتخابات کی نئی تاریخ کا اعلان کیا.اس کے علاوہ اپنے دور اقتدار کو مزید مشرف بہ اسلام کرنے کے لئے انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ اب سے جمعہ کے روز تعطیل ہوگی.اور کہا کہ اتوار کی تعطیل ایک غیر اسلامی چیز تھی جس کی اصلاح کر دی گئی ہے اور پھر فخریہ انداز میں کہا کہ یہ فرض بھی ہم گنہگاروں نے انجام دیا ہے.(1) بھٹو صاحب کو ذاتی طور پر مذہب سے تو کم ہی دلچسپی تھی لیکن عموماً یہ رجحان ضعیف الاعتقادی
555 کی طرف بھی لے جاتا ہے.چنانچہ اب جو انتخابات کا اعلان ہوا تو بھٹو صاحب نے نجومیوں اور دست شناسوں کی طرف رجوع کیا.ان کے ایک صوبائی وزیر انتخابات کی تاریخ کے سعد ہونے کی سند لینے کے لئے سری لنکا دوڑے دوڑے گئے تاکہ وہاں کے نجومیوں کی رائے لی جاسکے.اور جب ان نجومیوں نے اس کے حق میں رائے دی تو انتخابات کا اعلان کیا گیا.پھر بھٹو صاحب نے اپنے ہاتھ کی لکیروں کا عکس ایک دست شناس کو بھجوایا.اس وقت اپوزیشن بٹی ہوئی تھی اور اس میں کوئی جان نظر نہیں آرہی تھی.لیکن جلد ہی اپوزیشن کی نو جماعتوں نے اتحاد کا اعلان کیا اور اقتدار میں آکر نظام مصطفے نافذ کرنے کا اعلان کیا.اور اس کے ساتھ ہی بھٹو صاحب کے خلاف ایک منظم اور جاندار انتخابی مہم شروع ہو گئی.دوسری طرف بہت سے لیڈروں نے جو پہلے کسی زمانے میں بھٹو صاحب کے سخت مخالف رہ چکے تھے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے حصول کے لئے بزعم خود اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شمولیت کے اعلانات کرنا شروع کر دیئے.یہ علیحدہ بات ہے کہ بھٹو صاحب کے وزیر رفیع رضا صاحب کے مطابق اگر ان دعووں کی تعداد جمع کر دی جاتی تو پاکستان کی آبادی سے دوگنی نکلتی.لیکن بھٹو صاحب اس صورت حال میں بہت خوش تھے.جب انتخابات کے لئے پارٹی کے منشور کی تیاری کا مرحلہ آیا تو رفیع رضا صاحب بیان کرتے ہیں کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے خود اصرار کیا کہ حکومت کے کارنامے بیان کرتے ہوئے منشور میں یہ حصہ ضرور شامل کیا جائے نوے سالہ قدیم قادیانی مسئلہ کو خوش اسلوبی سے طے کر دیا.دستور میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص حضرت محمد مصطقے م و قطعی اور غیر مشروط طور پر آخری نبی نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں.“ (۲۶۵) بھٹو صاحب نے بھی ایک بھر پور انتخابی مہم شروع کی.پہلے جو ہوا تھا وہ تو ہوا تھا لیکن اس مہم کے دوران بھی بھٹو صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق گستاخانہ کلمات استعمال کئے.انہوں نے قومی اتحاد کے لیڈروں کے متعلق یہ بیان دیا: وو.....اگر الیکشن جیتنے کے لئے ان لوگوں کو مرزا غلام احمد قادیانی کی قبر پر بھی جانا
556 پڑا تو یہ دریغ نہیں کریں گے (۴) یہ نہ صرف ایک مامور من اللہ کی شان میں گستاخی تھی بلکہ سیاست کے اعتبار سے بھی تیسرے درجہ کی بیان بازی تھی.بہر حال اپنے بھیجے ہوئے مامورین کی شان میں گستاخی کا بدلہ خود خدا تعالیٰ لیتا ہے.بھٹو صاحب نے تو اپنی دانست میں احمدیوں کے خلاف آئین میں ترمیم کر کے مذہبی حلقوں کو مکمل طور پر لا جواب کر دیا تھا لیکن اب تمام مخالف جماعتیں قومی اتحاد کے نام سے اتحاد بنا کر ان کے خلاف صف آراء تھیں اور ان کا نعرہ تھا کہ وہ پاکستان میں نظام مصطفے نافذ کریں گے.اور مولویوں کا گروہ بھٹو صاحب کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم تھا.مقررہ تاریخوں کو انتخابات ہوئے.نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے ۱۳۶ اور مخالف قومی اتحاد نے صرف ۳۶ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی.اپوزیشن نے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلیوں کا الزام لگایا اور نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.اور اس کے ساتھ صوبائی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا.جو کہ کامیاب رہا اور بہت کم لوگ صوبائی انتخابات میں ووٹ ڈالنے آئے.اپوزیشن وزیر اعظم کے مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھی.یہ ہم تیز تر ہوتی گئی.بھٹو صاحب کے اکثر پرانے رفقاء انہیں چھوڑ چکے تھے یا پھر بھٹو صاحب نے خود ہی انہیں اپنے غضب کا نشانہ بنا کر اپنے سے علیحدہ کر دیا تھا.باوجود ایک طاقت ور اور قد آور شخصیت ہونے کے اس وقت وہ تنہا اور بے بس نظر آرہے تھے.ان کے پرانے رفیق اور سابق وفاقی وزیررفیع رضا صاحب لکھتے ہیں: ” پی پی پی کے ابتدائی گروہ میں سے اب صرف ممتاز بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھے اور اس کی وجوہات بھی خاندانی تھیں.میں اور ممتاز اس بات پر تبصرہ کیا کرتے تھے کہ کس طرح اس وقت بھٹو صاحب نے اپنی ایجنسیوں کی بجائے ہمارے سے رجوع کیا ہے اگر چہ میں اس وقت وزیر نہیں تھا.گو بد قسمتی سے اس وقت تک بہت کچھ بگڑ چکا تھا.وہ بالکل بے بس نظر آتے تھے.ان کے پاس کہنے کو کوئی نئی بات نہیں تھی.ان کے پاس کرنے کو کچھ نیا نہ تھا.وہ پی پی پی کے پرانے دوستوں اور ساتھیوں کو کھو چکے تھے.پبلک اور پارٹی کا جو کچھ بھی بچا تھا ان کی مددکو نہیں آ رہا تھا.اور اب انہیں احساس ہو گیا ہو گا کہ وہ طاقت پر
557 بہت زیادہ انحصار کرتے رہے تھے.حقیقت یہ ہے کہ ممتاز نے کچھ مہینے پہلے یہ پیشگوئی کی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو جس سمت میں جارہے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فوج ان کا تختہ الٹ دے گی.“ اس وقت پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل مبشر حسن صاحب تھے.وہ پہلے بھی تحریری طور پر بھٹو صاحب کو متنبہ کر چکے تھے کہ اس رویہ کا انجام اچھا نہ ہو گا.وہ اس صورت حال میں بالکل دل برداشتہ ہو چکے تھے.انہوں نے بھی مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا لیکن اس سے پہلے انہوں نے کئی گھنٹے وزیر اعظم سے ملاقات کی.اس کے کچھ دنوں بعد بھٹو صاحب نے رفیع رضا صاحب کو اس ملاقات کی تفصیلات بتا ئیں تو بھٹو صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.انہوں نے کہا کہ مبشر نے الزام لگایا ہے کہ ان کے رشتہ دار اور ملازم بد عنوانیاں کر رہے ہیں اور اصرار کیا کہ وہ فون اُٹھا کر متعلقہ شعبہ سے اس کی تصدیق کریں.بھٹو صاحب نے کہا مبشر کا یہ الزام غلط تھا.مبشر حسن صاحب نے بھٹو صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ارد گرد در باریوں اور بیورو کریسی کے افراد سے نجات حاصل کریں.اور مذہبی جماعتیں جس نظام مصطفے ﷺ کا مطالبہ کر رہی ہیں اسے تسلیم نہ کریں.اور یہ مطالبہ کیا کہ پارٹی کو اس کی اصلی حالت میں واپس لایا جائے اور اس بحران سے نمٹنے کے لئے بنیادی تبدیلیاں کی جائیں.بھٹو صاحب نے کہا کہ اس بحران میں یہ تبدیلیاں کرنا ممکن نہیں ہے.پھر بھٹو صاحب نے دکھ سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ پی پی پی میں ان کے پرانے ساتھی انہیں چھوڑ چکے ہیں.بہتر ہوتا کہ بھٹو صاحب اگر یہ سوال اپنے آپ سے پوچھتے.(۷) اس صورتِ حال میں بھٹو صاحب کو یہی سوجھی کہ ایک مرتبہ پھر مولویوں کو خوش کر کے اپنے خلاف بر پا اس شورش کو ٹھنڈا کریں.چنانچہ انہوں نے ۱۸ اپریل ۱۹۷۷ء کو ایک پریس کانفرنس میں ملک میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا.اور ابتدائی اقدامات کے طور پر ملک میں شراب کے استعمال پر، قمار بازی پر اور نائٹ کلبوں پر پابندی لگادی اور اعلان کیا کہ ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل کے دوبارہ احیاء کا اعلان کیا اور مودودی صاحب مفتی محمود صاحب، شاہ احمد نورانی صاحب اور احتشام الحق تھانوی صاحب کو کونسل میں شامل کرنے کا اعلان کیا.اور یہ یقین دلایا کہ اس کونسل کی سفارشات کو چھ ماہ کے اندر منظور کر لیا جائے گا.اب وہ مخالف مولویوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر اپنے اقتدار کی طوالت
558 کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے.لیکن وہ ایک بات بالکل سمجھ نہیں پارہے تھے کہ مولوی کو اس بات سے کم ہی دلچسپی ہوتی ہے کہ ملک میں اسلامی آئین ہے کہ غیر اسلامی آئین ہے.چھٹی جمعہ کو ہو رہی ہے یا اتوار کو ہورہی ہے.نائٹ کلب کھلے ہیں یا در پردہ کام کر رہے ہیں.جیسا کہ ہم گزشتہ جلد میں واضح کر چکے ہیں انہیں صرف اور صرف حصول اقتدار سے غرض ہوتی ہے.بھٹو صاحب کے خلاف تحریک کی شدت میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی اور ملک کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی تھی.جب نئی قومی اسمبلی نے کام شروع کیا تو ۲۸ را پریل ۱۹۷۷ء کو بھٹو صاحب نے اس سے خطاب کیا.انہوں نے اس تقریر میں الزام لگایا کہ ان کی حکومت کے خلاف اور پاکستان کے خلاف بیرونی ہاتھ سازش کر رہے ہیں.انہوں نے کہا کہ یہ ہاتھی ہیں جو کہ ملک کے خلاف سازش کر رہے ہیں.ان ہاتھیوں کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے انہیں یاد ہے کہ ویت نام کے مسئلہ میں ، چین سے تعلقات قائم کرنے میں ہم نے ان کی مرضی کے خلاف کام کیا تھا.ہم نے عرب ممالک کو فوجی مدد دی تھی.اس کا بدلہ لینے کے لئے ان ہاتھیوں نے اس حکومت کے خلاف تحریک چلوانے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہایا ہے.یہاں تک کہ کراچی میں ڈالر کی قیمت گر کر چھ سات روپے فی ڈالر تک آگئی.اس بیرونی ہاتھ نے ملک کو مفلوج کرنے اور پہیہ جام کرنے کے لئے تخریب کاروں کو تربیت دی.انہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں میں پاکستان کے استحکام کا ستون ہوں.ہاتھیوں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ پاکستان میں اسلامی سربراہی کا نفرنس ہوئی ، ہم نے یونان اور ترکی کے تنازعہ کوختم کرانے کی کوشش کی.کوریا نے اپنا تنازعہ حل کرنے کے لئے پاکستان سے رجوع کیا.پاکستان نے فرانس سے ایٹمی ری پر اسسنگ پلانٹ لینے کا معاہدہ کیا.انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کو نقصان پہنچا تو متحدہ عرب امارات ، عمان اور سعودی عرب جیسے مسلم ممالک کی پیٹھ میں چھرا گھونپا جائے گا.اس تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ یہ تحریک ، یہ سیاسی ایجی ٹیشن بیرونی ہاتھ کی کارگزاری ہے.بھٹو صاحب نے اس الزام کو اپنی کتاب If I am assasinated میں دہرایا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ قومی اتحاد میں شامل اکثر جماعتوں کو اس سازش کا کم از کم پورا علم نہیں تھا.خاکسارتحریک کو اس کا علم نہیں تھاNDP کو اس کا پورا علم نہیں تھا.جو جماعت پوری طرح اس سازش میں رابطہ بنی ہوئی تھی وہ جماعت اسلامی تھی.اور اس جرم کو چھپانے کے لئے اب جماعتِ اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد
559 امریکہ پر تنقید کرتے رہتے ہیں تا کہ پاکستان کے سادہ لوح لوگوں سے حقائق کو پوشیدہ رکھا جاسکے.بھٹو صاحب لکھتے ہیں کہ اس اپوزیشن نے میری حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے الیکشن سے قبل بیرونی طاقت سے ۲۵ کروڑ اور الیکشن کے بعد ۵ کروڑ لئے تھے.(۸) یہاں پر طبعاً ایک سوال اُٹھتا ہے.اور وہ یہ کہ تین سال قبل ۱۹۷۴ء میں جب احمدیوں کے خلاف تحریک چل رہی تھی.ان کا خون بہایا جارہا تھا، ان کی املاک نذر آتش کی جارہی تھیں، ان کا بائیکاٹ کر کے ان کا جینا دو بھر کیا جا رہا تھا اس وقت آپ نے برملا کہا تھا کہ نہ صرف آپ بلکہ دوسرے بھی یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس کے پیچھے ایک بیرونی ہاتھ کام کر رہا ہے.مگر آپ نے نہ قوم کو یہ بتایا کہ وہ ہاتھ کون سا تھا اور نہ ہی اس کی سازش کے رد کرنے کے لئے کوئی مؤثر قدم اٹھایا بلکہ اس کی سازش کا حصہ بن گئے اور آئین میں ترمیم کر کے احمدیوں کی مذہبی آزادی غصب کر لی.آج قومی اسمبلی کے سامنے آپ یہ کہنے پر مجبور تھے کہ ایک بیرونی ہاتھ آپ کی حکومت کے خلاف سازش کر رہا ہے.ملک کے استحکام کے خلاف سازش کر رہا ہے اور یہ بیرونی ہاتھ دوسرے مسلمان ممالک کے لئے بھی خطرہ بن سکتا ہے.اگر بر وقت اس بیرونی ہاتھ کو روک دیا جا تا اور اسے کھل کر کھیلنے کا موقع نہ دیا جا تا تو یہ نوبت نہ آتی.بھٹوصاحب نے فوج کی مدد لینی چاہی کہ کسی طرح گولی چلا کر اس شورش کو ختم کیا جائے اور ملک کے تین شہروں کا نظم ونسق بھی فوج نے سنبھال مگر جلد ہی جرنیلوں کے بدلتے ہوئے تیور ان کو نظر آگئے.کچھ عرب ممالک نے بیچ میں آکر مفاہمت کی کوشش کی مگر بے سود.عین اس وقت جب کہ پورا ملک ایک بحران کی لپیٹ میں تھا بھٹو صاحب نے کچھ عرب ممالک کا دورہ کیا.اپوزیشن کے قومی اتحاد نے مئی ۱۹۷۷ ء میں اپنے مطالبات پیش کئے جس میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ نئے انتخابات کے نتیجہ میں جو صوبائی اور قومی اسمبلیاں وجود میں آئی تھیں ان کو تحلیل کیا جائے.مذاکرات کا لمبا دور شروع ہوا.۴ / جولائی کی رات کو مذاکرات کامیابی کے قریب پہنچتے لگ رہے تھے.بہت سی تگ و دو کے بعد قومی اتحاد نے حتمی مطالبات سامنے رکھ دیئے تھے اور بھٹو صاحب نے تھکا دینے والے مذاکرات سے گزر کر آخر اس رات کو اپنے وزراء کو مطلع کر دیا تھا کہ وہ اب اس مفاہمت پر دستخط کر دیں گے.وزیر اعظم کا یہ فیصلہ سن کر اور اس پر بات کر کے ان کے کچھ وزرا ءرات
560 کے ڈیڑھ بجے اپنے گھروں کو واپس گئے.اور اسی رات فوج نے ملک میں مارشل لا لگا دیا.یہ مارشل لاء فوج کے چیف آف سٹاف جنرل ضیاء الحق صاحب کے حکم پر لگایا گیا تھا.یہ وہی جنرل ضیاء الحق صاحب تھے جنہیں کئی ایسے جرنیلوں کی موجودگی میں جو ان سے سینیئر تھے بھٹو صاحب نے چیف آف سٹاف مقرر کیا تھا.یہ وہی جنرل ضیاء الحق صاحب تھے جنہوں نے اس وقت جب بھٹو صاحب کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک چل رہی تھی تو انہوں نے بھٹو صاحب کے عرب ممالک کے دورہ پر روانہ ہونے سے قبل کہا تھا کہ بھٹو صاحب کی حکومت سے وفاداری قائد اعظم کے ارشاد کے مطابق ان کا ایک اہم اور واضح فرض ہے.(۹) یہ وہی جنرل ضیاء صاحب تھے کہ جب جرنیلوں کے ساتھ میٹنگ میں بھٹو صاحب کے ایک وزیر نے بحران کے ممکنہ حل بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک راستہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فوج اقتدار سنبھال لے اور بعد میں انتخابات کرائے.تو جنرل ضیاء صاحب نے فوراً کھڑے ہو کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر جھک کر کہا تھا "No Sir, we have no such intention, we are the right arm of the government.We are loyal and we will remain loyal." نہیں سر ، ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہم حکومت کا دایاں بازو ہیں.ہم وفا دار ہیں اور وفادار رہیں گے.(۱۰) اور کچھ ہی عرصہ بعد انہیں جنرل ضیاء صاحب نے ان کا تختہ الٹ کر انہیں قید کر دیا اور پھر تختہ دار تک پہنچادیا.باقی رہے نام اللہ کا.جنرل ضیاء کا دور حکومت شروع ہوتا ہے بھٹو صاحب کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اپنی پہلی نشری تقریر میں پاکستان کے عوام کو یقین دلایا کہ وہ نوے دن کے اندر اندر ملک میں نئے انتخابات کرا کے رخصت ہو جائیں گے.اور اس آپریشن کا نام انہوں نے آپریشن فیئر پلے رکھا.بھٹو صاحب کو کچھ ہفتہ نظر بند رکھ کر ۲۸ جولائی
561 ۱۹۷۷ء کو رہا کر دیا گیا.ابتداء میں ضیاء صاحب نے بھٹو صاحب کے مخالف کوئی خاص جذبات ظاہر نہیں کئے بلکہ ان کے متعلق کچھ تعریفی کلمات بھی کہے.اگست کے شروع میں جب بھٹو صاحب لاہور گئے تو لوگوں کے عظیم ہجوم نے ان کا استقبال کیا.لوگوں کی اتنی بڑی تعداد انہیں ایئر پورٹ پر الوداع کہنے آئی تھی کہ عملاً ایئر پورٹ پر ان کی پارٹی کے کارکنوں کا قبضہ ہو گیا تھا.یہ سب کچھ ظاہر کر رہا تھا کہ اب تک ان کی مقبولیت بڑی حد تک قائم ہے.جلد ہی کچھ ایسے آثار ظاہر ہونے لگے کہ ضیاء حکومت کے کچھ اور ارادے بھی ہیں.بھٹو صاحب نے فیڈرل سیکیورٹی فورس کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی.ان کے مخالفین کا کہنا تھا کہ یہ ان کی ذاتی پولیس کے طور پر کام کرتی تھی.اس تنظیم کے سر براہ مسعود محمود کو گرفتار کر لیا گیا.۵ ستمبر ۱۹۷۷ء کو بھٹو صاحب کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا.اس بار گرفتار کرنے والوں کے تیور بگڑے ہوئے تھے.گرفتار کرنے والوں نے ان پرشین گنیں تانی ہوئی تھیں.فوج کے کمانڈوان کی بیٹیوں کے کمروں میں داخل ہو گئے.ملازموں کو مارا پیٹا گیا.پورے گھر کوالٹ پلٹ دیا گیا.۱۳ ستمبر کو انہیں جسٹس صمدانی کے سامنے پیش کیا گیا.ان پر احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد کے قتل کا الزام تھا.آج بھٹو صاحب اسی حج کے سامنے پیش ہو رہے تھے ، جس حج کو کچھ سال قبل انہوں نے ربوہ ٹیشن کے واقعہ کی تحقیق کے لئے مقرر کیا تھا.جسٹس صمدانی نے بھٹو صاحب کی درخواست ضمانت منظور کر لی مگر انہیں کچھ روز کے بعد ایک بار پھر مارشل لاء قواعد کے تحت گرفتار کر لیا گیا.مارشل لاء حکام کے مطابق بھٹو صاحب پر قتل کے الزام کی بنیاد ی تھی کہ جب ۵/ جولائی ۱۹۷۷ء کو ، یعنی جس روز مارشل لاء لگایا گیا تو فیڈرل سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود صاحب کو بھی گرفتار کر لیا گیا.جب فوج نے انہیں گرفتار کر کے اپنی تحویل میں رکھا تو پھر ” ضمیر کے بوجھ “ سے مجبور ہو کر ۱۴ اگست ۱۹۷۷ء کو انہوں نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء صاحب کو خط لکھا جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے انہیں ہدایت دی تھی کہ احمد رضا قصوری صاحب کو قتل کرایا جائے.اور پھر ان کی ہدایت پر فیڈرل سیکیورٹی فورس کے کارندوں سے لاہور میں احمد رضا قصوری صاحب پر قاتلانہ حملہ کرایا گیا ، جس میں ان کے والد نواب محمد احمد قتل ہو گئے مگر احمد رضا قصوری صاحب بچ گئے.پھر مسعود محمود صاحب نے اسلام آباد کے ایک
562 مجسٹریٹ کے رو برو بھی یہ بیان دیا.پھرے استمبر ۱۹۷۷ء کو مسعود محمود نے وعدہ معاف گواہ بننے کی درخواست بھی دے دی.(۱۱) ۱۱ / اکتوبر ۱۹۷۷ء کو لاہور ہائی کورٹ میں بھٹو صاحب کا مقدمہ شروع ہوا.لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق صاحب اس بینچ کی صدارت کر رہے تھے اور ان کے علاوہ چار اور حج بھی اس بینچ میں تھے جن میں سے ایک جسٹس آفتاب بھی تھے.جسٹس آفتاب جماعت اسلامی سے روابط رکھتے تھے.جن جج صاحب نے بھٹو صاحب کی ضمانت کی درخواست منظور کی تھی انہیں اس بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا.بھٹو صاحب پر فرد جرم لگائی گئی اور انہوں نے Plead کیا کہ وہ not guilty ہیں.اس پر کارروائی شروع ہوئی.پہلے احمد رضا قصوری صاحب نے کئی دن گواہی دی کہ ان کے بھٹو صاحب سے اختلافات کیسے شروع ہوئے اور کس طرح بھٹو صاحب نے ان کو قومی اسمبلی میں دھمکی دی.انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی میں دوبارہ شامل ہو گئے اور ان کو تعریفی خطوط بھی لکھتے رہے کیونکہ وہ اپنی جان بچانا چاہتے تھے.پھر مسعود محمودصاحب نے نو دن میں اپنی گواہی مکمل کی.انہوں نے دعوی کیا کہ بھٹو صاحب نے انہیں مجبور کیا تھا کہ وہ ڈائر یکٹر انٹیلی جنس فیڈرل سیکیورٹی فورس کو حکم دیں کہ وہ اپنے کارندوں کے ذریعہ احمد رضا قصوری صاحب کو قتل کرائیں.اس کے بعد فیڈرل سیکیورٹی فورس کے دیگر کارندوں کے بیانات قلمبند کئے گئے.بھٹو صاحب کے وکیل کو شکایت تھی کہ جج صاحبان کی تمام پابندیاں ان کے لئے اور ان کے مددگار وکلاء کے لئے ہیں.بھٹو صاحب اس دوران بیمار ہو گئے انہیں ملیر یا اور انفلوائنزا ہو گیا تھا.تین دن کے توقف کے بعد ان کے بغیر ہی کا رروائی جاری رہی.دوبارہ کا رروائی شروع ہوئی تو ایک مرحلہ پر بھٹو صاحب اور حج صاحبان میں تلخ کلامی ہو گئی.بھٹو صاحب نے اس دوران کہا کہ وہ جج صاحبان کا توہین آمیز رویہ کافی برداشت کر چکے ہیں.چیف جسٹس مولوی مشتاق صاحب نے پولیس کو کہا کہ اس شخص کو لے جاؤ جب تک اس کے ہوش و حواس بجا نہ ہو جائیں.۱۸ دسمبر کو بھٹو صاحب نے درخواست دی کہ ان کے مقدمہ کو کسی اور بینچ کی طرف منتقل کیا جائے.لیکن یہ درخواست مسترد کر دی گئی.اب تلخی اتنی بڑھ گئی تھی کہ بھٹو صاحب کے وکیل اعوان صاحب نے عدالت کو مخاطب کر کے کہا کہ ان کے موکل نے ان کا وکالت نامہ منسوخ کر دیا ہے اور اپنے آپ کو عدالت کی کارروائی سے
563 لاتعلق کر لیا ہے.اس سے عدالت کے غصہ میں اضافہ ہو گیا.بھٹو صاحب کی طرف سے گواہوں پر جرح بھی بند کر دی گئی.لیکن بھٹو صاحب کے پاس ایک موقع آنا تھا جب انہیں اپنے دفاع میں بولنے کا موقع ملنا تھا.یعنی جب عدالت میں ان کا بیان لیا جانے کا وقت آئے گا.جب ۲۴ /جنوری ۱۹۷۸ء کو بھٹو صاحب کے بیان کا پہلا دن آیا اور بھٹو صاحب کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کمرہ عدالت میں حج اور وکلاء تو موجود تھے لیکن سامعین موجود نہیں تھے.کورٹ روم خالی تھا.انہیں استفسار پر بتایا گیا کہ اب سے مقدمہ کی کارروائی In Camera ہوگی.اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کارروائی دن کی روشنی میں ہوگی اور اب جب کہ بھٹو صاحب کے جواب کا وقت آیا تو فیصلہ کیا گیا کہ کارروائی خفیہ ہوگی.بھٹو صاحب نے اس پر شدید احتجاج کیا.انہوں نے کہا کہ نہ صرف انصاف ہونا چاہئے بلکہ یہ نظر بھی آنا چاہئے کہ انصاف ہو رہا ہے.انہوں نے کہا کہ آپ اسے انصاف کہتے ہیں.آپ اسے مقدمہ چلانا کہتے ہیں.یہ بھی بھول جائیں کہ میں ملک کا صدر اور وزیر اعظم رہا ہوں.اسے بھی بھول جائیں کہ میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا سر براہ ہوں.ان سب چیزوں کو بھول جائیں لیکن میں پاکستان کا شہری تو ہوں اور میں قتل کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہوں.ایک عام آدمی کو بھی انصاف کے حصول سے نہیں روکا جاتا.بھٹو صاحب کو اس بات پر بہت اعتراض تھا کہ جب کہ ان کے خلاف پیش ہونے والے گواہوں کے بیان کو سر عام سنا گیا اور ان کے بیانات کی پوری طرح تشہیر ہوئی لیکن جب اس بات کی باری آئی کہ وہ جواب دیں تو خفیہ کاروائی شروع ہو گئی.انہوں اس بات کا تذکرہ اپنی کتاب ۱۴۱ am assassinated میں بھی کیا ہے.وہ لکھتے ہیں "When I protested on the conversion of my trial for murder from open proceeding to in camera trial for my defence somehow I could not make clear to judges the differences between publicity and justice.I was demanding a public trial because the concept
564 of justice is inextricably intertwined with an open trial, especially if it involves capital punishment.........The last and final messenger of God dispensed justice in an open mosque and not as a cloistered virtue." وو جب میں نے اس بات پر احتجاج کیا کہ جب میرے دفاع کا وقت آیا تو کیوں میرے مقدمہ کو ایک کھلی کا رروائی سے ایک خفیہ کارروائی میں تبدیل کر دیا گیا ہے تو میں جوں پر یہ بات واضح نہ کر سکا کہ تشہیر اور انصاف میں کیا فرق ہے.میں اس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ سرِ عام کارروائی ہو کیونکہ کھلی کارروائی اور انصاف ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں خاص طور پر جب ایک قتل کے مقدمہ کی کارروائی کی جارہی ہو.....خدا کے آخری پیغمبر ﷺ بھی مسجد میں سر عام انصاف فرمایا کرتے تھے.یہ کام کسی خفیہ گوشے میں نہیں کیا جاتا تھا.بھٹو صاحب کے دلائل وزنی ہیں.واقعی اگر انصاف ہو رہا ہے تو سب کو نظر آنا چاہئے کہ انصاف ہو رہا ہے.خفیہ کارروائی یا جیسا کہ خود بھٹو صاحب نے الفاظ استعمال کئے ہیں IN CAMERA کارروائی سے تو یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جار ہے.لیکن اس کتاب میں In Camera کے الفاظ پہلے بھی کہیں آئے ہیں.کچھ برس پہلے بھٹو صاحب نے خود ہی قومی اسمبلی میں ایک کارروائی کے متعلق اعلان کیا تھا کہ وہ In Camera ہوگی.یعنی جب پوری قومی اسمبلی نے جماعت کے وفد کا موقف سنا تھا.یہ کارروائی تو بڑے اہتمام سے In Camera اور خفیہ کی گئی تھی اور اس کے بعد قرار داد منظور کی گئی تھی کہ احمد یوں کو آئین میں غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے.بھٹو صاحب نے فیصلہ کے بعد تقریر کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا تھا کہ اس کارروائی کو منظر عام پر لایا جائے گا.لیکن تین سال گزر گئے ایسا نہیں کیا گیا.پھر اگر بھٹو صاحب کا کلیہ تسلیم کر لیا جائے تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ۱۹۷۴ء میں انصاف کے کم از کم تقاضے پورے ہو گئے تھے.آج انہی کے الفاظ ان کو ملزم کر رہے تھے.اور دوسری طرف جماعت کے مخالفین کو کھلی چھٹی تھی
565 کہ وہ اخبارات میں اعلان کریں کہ ہم نے یہ کارنامہ سرانجام دیا، ہم نے وہ کارنامہ کیا.لیکن جماعتِ احمدیہ کو کاروائی کے دوران بھی اس کارروائی کی کاپی بھی نہیں مہیا کی گئی تھی تاکہ وہ اگلے روز کے جوابات سہولت سے تیار کر سکیں.جبکہ اسمبلی ممبران کو روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کی کاپی مہیا کی جارہی تھی.آج خدا کی قدرت خود بھٹو صاحب کے منہ سے نکلوا رہی تھی کہ In Camera کارروائی سے تو انصاف کے کم از کم تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے.ہائی کورٹ کا فیصلہ بہر حال اب فیصلہ کا وقت قریب آرہا تھا.ہائی کورٹ نے ۱۸ مارچ ۱۹۷۷ء کو فیصلہ سنانا تھا.فیصلہ سے قبل بھاری پیمانے پر پیپلز پارٹی کے کارکنان کی گرفتاریاں شروع ہو چکی تھی.بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر پولیس گشت کر رہی تھی.فیصلہ سنایا گیا فیصلہ متفقہ تھا.ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو سزائے موت سنائی.اور سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے لئے صرف سات روز دیئے گئے تھے.تفصیلی فیصلہ جسٹس آفتاب نے لکھا تھا جو جماعت اسلامی کے ہمدرد سمجھے جاتے تھے.اس تفصیلی فیصلہ کا ایک متنازع حصہ جس پر بھٹو صاحب کو بھی بہت اعتراض تھا اس میں بھٹو صاحب کے بارے میں یہ تبصرہ کیا گیا تھا."It is, as is clear from the oath of the Prime Minister as prescribed in the constituition, a constituitional requirement that the Prime Minister of Pakistan must be a Muslim and a believer inter alia in the total requirement and teachings of the Holy Quran and the sunnah.He could not be a Muslim only in name who may flout with impunity his oath without caring for ugly consequences........وو
566 یعنی آئین میں وزیر اعظم کے لئے مقرر کردہ حلف نامے سے یہ واضح ہے کہ وزیر اعظم کو مسلمان ہونا چاہئے اور اسے قرآن اور سنت کے تمام تقاضوں اور تعلیمات پر یقین رکھنا چاہئے.نہ کہ ایسا شخص جو کہ صرف نام کا مسلمان ہو اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر اپنے حلف کی توہین کرتا پھرے....(۳) جب ۱۹۷۳ء کے آئین میں یہ عجیب قسم کے حلف نامے رکھے گئے تو گزشتہ دساتیر کی نسبت ان کو مختلف اس لئے رکھا گیا تھا کہ کہیں کوئی احمدی ان عہدوں پر مقرر نہ ہو سکے اور اس طرح مولویوں کو اور ان کے پیچھے کام کرنے والے ہاتھوں کو خوش کیا گیا تھا لیکن اب انہیں حلف ناموں کی بنیاد پر اس آئین کے بنانے والے کے خلاف فیصلہ سنایا جا رہا تھا.سپریم کورٹ میں اپیل جیسا کہ توقع تھی بھٹو صاحب نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کی.اب ان کے کیس کی پیروی کرنے والے وکلاء کی قیادت سابق اٹارنی جنرل بیٹی بختیار کر رہے تھے.وہی بیچی بختیار جنہوں نے قومی اسمبلی میں اٹارنی جنرل کی حیثیت سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے سوالات کئے تھے.وہ آج بھٹو صاحب کی سزائے موت کے خلاف اپیل کے لئے سپریم کورٹ میں پیش ہورہے تھے.بیچی بختیار صاحب کی اعانت وکلاء کی ایک ٹیم کر رہی تھی ، جس میں ملک کے سابق وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب بھی شامل تھے.جب ۱۹۷۴ء کا واقعہ ہوا تو پیرزادہ صاحب اس سٹیرنگ کمیٹی کے سربراہ بھی بنے تھے جس نے قومی اسمبلی میں کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور ملک کے وزیر قانون کی حیثیت سے ۱۹۷۴ ء کی آئینی ترمیم میں ان کا بہت کچھ عمل دخل تھا.پہلے تو یہ امید تھی کہ فیصلہ چھ سات ہفتوں میں ہو جائے گا مگر پھر یہ کارروائی دس ماہ چلی.اس دوران ضیاء صاحب کی مارشل لاء حکومت اپنے پاؤں مضبوطی سے گاڑتی گئی.انتخابات کرانے کا منصوبہ کھٹائی میں ڈال دیا گیا ۱۶ رمئی کو بھٹو صاحب کو کوٹ لکھپت جیل لاہور سے راولپنڈی جیل منتقل کیا گیا.پھانسی کی سزا پانے تک بھٹو صاحب یہیں پر رہے.کرنل رفیع صاحب یہاں پر ڈیوٹی پر تھے، انہوں نے اپنی کتاب
567 میں اس دور میں بھٹو صاحب کی گفتگو کا خلاصہ درج کیا ہے.اس میں وہ لکھتے ہیں :.احمدیہ مسئلہ : یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی دفعہ کچھ نہ کچھ کہا.ایک دفعہ کہنے لگئے رفیع یہ لوگ چاہتے تھے کہ ہم پاکستان میں ان کو وہ رتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے.یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے.ایک بار انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے.ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع کیا احمدی آجکل یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بددعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھری میں پڑا ہوا ہوں.ایک صلى الله مرتبہ کہنے لگے کہ بھئی اگر ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ تو حضرت محمد مصطفی علوم آخری نبی ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے ہی اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں.پھر کہنے لگے میں تو بڑا گناہ گار ہوں اور کیا معلوم میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کر جائے اور اللہ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کر دے.‘ (۲۰) اپیل کا آغاز ۲۰ مئی ۱۹۷۸ء کو ہوا.پہلے دن کی معروضات کے اختتام پر یچی بختیار صاحب نے کہا کہ میری اپیل کی بنیاد یہ ہے کہ یہ مقدمہ جھوٹا ہے، گھڑا ہوا ہے اور سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا ہے اور یہ بھٹو صاحب کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش ہے.اور انہیں ایک منتخب وزیر اعظم ہوتے ہوئے اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا تا کہ انہیں سیاسی طور پر اور جسمانی طور پر ختم کر دیا جائے.ان کے اس آغاز نے عدالت میں ایک کھلبلی مچادی.ایک بار پھر بیرونی ہاتھ کا تذکرہ کیا جارہا تھا.اس کے ساتھ سپریم کورٹ میں ایک طویل کا رروائی کا آغاز ہوا.جس میں دونوں طرف سے دلائل کا تبادلہ ہوا.ہم اس تمام تذکرے کو چھوڑ کر آخر میں ایک اہم حصہ کی طرف آتے ہیں.یعنی جس روز بھٹو صاحب کے وکلاء نے ان کی طرف سے دلائل نہیں دیئے تھے بلکہ خود بھٹو صاحب نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنی معروضات پیش کیں.یہ اٹھارہ دسمبر ۱۹۷۸ء کا دن تھا.جس کمرہ میں اس مقدمہ کی سماعت ہوئی تھی وہ آج کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.بھٹو صاحب جب کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو ان کے حامی احتراماً کھڑے ہو گئے.بھٹو صاحب ایک خوش لباس شخص تھے.آج بھی وہ ایک نفیس سوٹ میں
568 ملبوس تھے.لیکن یہ سوٹ ان پر ڈھیلا لگ رہا تھا.اسیری کے دنوں میں ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی تھی اور ان کا وزن خطرناک حد تک گر چکا تھا.پہلے کچھ دیر بیٹی بختیار صاحب نے اپنے دلائل کو مکمل کیا.پھر بھٹو صاحب اپنی معروضات پیش کرنے کے لئے کھڑے ہوئے.بھٹو صاحب قابل شخص تھے.اس سے کوئی انکار نہیں.وہ ایک نہایت عمدہ مقرر بھی تھے.سپریم کورٹ میں ان کی تقریر جو ان کی آخری تقریر ثابت ہوئی پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے.یہ تقریر چار روز جاری رہی.سینکڑوں مصنفوں ، قانون دانوں اور محققین نے اپنے طور پر اس کا جائزہ لیا ہے.ہم بھی اس کے چند پہلوں کا جائزہ پیش کریں گے.پہلے روز بھٹو صاحب نے اپنے اس دفاع کا خلاصہ پیش کیا جو انہوں نے آئیندہ آنے والے دنوں میں پیش کرنا تھا.بولتے بولتے ان کا رنگ زرد ہو جاتا تھا اور ان کے ماتھے پر پسینہ آجاتا تھا.انہوں نے اس بات کی شکایت کی کہ جیل میں ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا ہے.یہ ذکر شروع کرنے سے پہلے انہوں نے کہا کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ میں موت کی کوٹھری میں بند ہوں جس کا رقبہ ۷ × ۱۰ فٹ ہے.میں غیر ملکی افراد کے سامنے اس حقیقت کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جو مجھ پر بیت چکی ہے.میں اپنے جسم پر نشانات یا ایسی چیزیں لوگوں کے سامنے دکھانا پسند نہیں کروں گا.کوٹ لکھپت جیل میں کئی روز ان کے ساتھ کی کوٹھریوں میں پاگلوں کو رکھا گیا جن کی چیچنیں انہیں سونے نہیں دیتی تھیں.راولپنڈی میں مجھے پریشان کرنے کے لئے یہ ترکیب نکالی گئی کہ کوٹھری کی چھت پر پتھر پھینکے جاتے تھے جن کا شور مجھے سونے نہیں دینے دیتا.اور گزشتہ رات بھی مجھے سونے نہیں دیا گیا.یہ مصائب بیان کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے.پہلے روز کی کارروائی کے اختتام پر بھٹو صاحب نے کہا کہ اگلے روز وہ بات کا آغاز نام کے مسلمان کے مسئلہ سے کریں گے اور کہا کہ میں ان پیرا گرافس کا حوالہ دوں گا جو اس موضوع پر ٹرائل کورٹ نے اپنے فیصلے پر شامل کئے ہیں.جو پیراگراف ۲۰۹ سے ۲۱۵ تک محیط ہیں.دوسرے روز ان کے بیان میں پہلے دن سے زیادہ روانی تھی.اس روز وہ خرابی صحت اور رنگت کے زرد ہو جانے کے باجود روانی سے اپنا بیان دے رہے تھے.ایک مرحلہ پر ان کے وکیل نے ان کے کان میں کہا کہ اب انہیں رک جانا چاہئے تو انہوں نے کہا کہ میں تھکا ہوا ہوں لیکن مجھے اپنا بیان
569 جاری رکھنا ہے.اس دن انہوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے اس حصہ پر شدید تنقید کی ، جس میں انہیں نام کا مسلمان کہا گیا تھا.فیصلہ کے اس حصہ نے انہیں اتنا شدید صدمہ پہنچایا تھا کہ انہیں یہ حصہ زبانی یاد تھا.جب اس دوران ان کے وکیل نے انہیں پیرا گراف کا نمبر بتانا چاہا تو انہوں نے بے صبری سے کہا کہ میں ان پیراگرافوں کو جانتا ہوں.انہوں نے اس بیان کے آغاز پر مذہب کی تاریخ پر روشنی ڈالنا چاہا لیکن چیف جسٹس صاحب نے کہا یہ سب کچھ بہت دلچسپ ہے لیکن آپ براہ راست متعلقہ موضوع پر آجائیں.(۱۳) انہوں نے اپنا بیان شروع کرتے ہوئے کہا: ایک اسلامی ملک میں ایک کلمہ گو کے بجز کے لئے یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہوگا کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے.میرے خیال میں یہ اسلامی تمدن کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ ایک مسلم صدر، ایک مسلم راہنما ایک وزیر اعظم جسے مسلمان قوم نے منتخب کیا ہو، ایک دن وہ اپنے آپ کو اس حیثیت میں پائے کہ وہ یہ کہے کہ وہ مسلمان ہے.یہ ایک ہراساں کر دینے والا ہی مسئلہ نہیں ہے.بلکہ ایک کربناک معاملہ بھی ہے.یورلارڈ شپس ! یہ مسئلہ کیسے کھڑا ہوا؟ آخر کس طرح؟ یہ مسئلہ اصطلاحا عوام کے انقلاب یا کسی تحریک کے نتیجے میں کھڑا نہیں کیا گیا جو اس کے خلاف چلائی گئی ہو کہ وہ شخص مسلمان نہیں ہے.یہ ایک آئیوری ٹاور سے آیا ہے.اسے بطور ایک رائے کے ایک فرد نے دیا ہے.اب یہ دوسری بات ہے کہ وہ خود خواہ کتنے ہی اعلیٰ عہدے پر کیوں نہ ہولیکن دراصل اسے اس معاملے میں دخل دینے کا کوئی استحقاق نہیں ہے.جو امور اس کی سماعت کے دائرے میں آتے ہیں ان میں یہ معاملہ قطعی طور پر شامل نہیں.نہ ہی یہ ایسا موضوع ہے کہ جس پر وہ اپنا موقف بیان کر سکے.کسی فرد کسی ادارے اور اس عدالتی بینچ کا یہ حق نہیں بنتا کہ وہ ایک ایسے معاملے پر اپنی رائے دے.جس پر رائے دینے کا اسے کوئی جائز حق حاصل نہیں.چونکہ انسان اور خدا کے درمیان کوئی بیچ کا واسطہ نہیں ہے.اس لئے یہاں معاشرے میں غلطیاں ہوتی ہیں.سماج میں سماجی برائیاں جنم لیتی ہیں.اور ان کی سزا اسی دنیا میں ہی دی جاتی ہے.جیسے چوری غنڈہ گردی زنا وغیرہ.لیکن خدا کے خلاف بھی انسان جرم کرتے
570 ہیں.جن کا اسلام میں ذکر موجود ہے لیکن ان گناہوں کا تصفیہ اللہ اور انسان کا معاملہ ہے اور اس کا فیصلہ خدا خود روز حشر کرے گا......مائی لارڈ! جیسا کہ میں اس سے پہلے کہہ چکا ہوں کہ ایک مسلمان کے لئے کافی ہے کہ وہ کلمے میں ایمان رکھتا ہو کلمہ پڑھتا ہو.اس حد تک بات کی جاسکتی ہے کہ جب ابوسفیان مسلمان ہوئے اور انہوں نے کلمہ پڑھا تو رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ نے سوچا کہ اس کی اسلام کی دشمنی اتنی شدید تھی کہ شاید ابوسفیان نے اسلام کو محض اوپری اور زبانی سطح پر قبول کیا ہو.لیکن رسول اللہ علی نے اس سے اختلاف کیا اور فرمایا کہ جونہی اس نے ایک بار کلمہ پڑھ لیا تو وہ مسلمان ہو گئے (IM) لاہور ہائی کورٹ کے ان ریمارکس نے بھٹو صاحب کو اتنا شدید صدمہ پہنچایا تھا کہ سلمان تاثیر صاحب جو بعد میں گورنر پنجاب بھی بنے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس مرحلہ پر ان کی آواز سسکیوں میں ڈوب گئی.(۱۵) بھٹو صاحب نے اس بات پر کہ انہیں کورٹ نے نام کا مسلمان کہا ہے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وو یہ اصلی صورت حال ہے جب آپ مجھ پر الزام لگاتے ہیں تو مجھے ذلیل نہیں کرتے بلکہ آپ پاکستان کے عوام کو ذلیل کرتے ہیں.جب مجھے نام کا مسلمان کہا جاتا ہے تو دراصل ان عوام کو یہ الزام دیا جاتا ہے کہ وہ اچھے مسلمان نہیں بلکہ نام کے مسلمان ہیں.....مائی لارڈ! آپ میری جگہ نہیں کھڑے ہیں آپ نہیں جانتے ان ریمارکس نے مجھے کتنا دکھ پہنچایا ہے.اس کے مقابلے میں تو میں پھانسی کو ترجیح دوں گا.اس الزام کے بدلے میں پھانسی کے پھندے کو قبول کروں گا.‘ (۱۶) بھٹو صاحب کا یہ بیان بہت سی وجوہات کی بنا پر بہت اہم ہے.ان کے دلائل واقعی وزنی ہیں.یہ دلائل اتنے زور دار تھے اور انہیں اس خوبصورتی سے پیش کیا گیا تھا کہ پاکستان کی عدالت عظمی کے ایک معزز حج جسٹس صفدر شاہ نے ان دلائل کے درمیان ہی کہہ دیا کہ ہم فی الوقت آپ کو اپنی یہ رائے
571 بتا سکتے ہیں کہ ہمارے نزدیک لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے یہ پیراگراف غیر متعلقہ ہیں.(۱۷) لیکن یہ ایک قانونی مسئلہ ہے.یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے تار ماضی قریب اور ماضی بعید کے بہت سے تاریخی واقعات کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں.اور اس کتاب کے پڑھنے والے کو شاید یہ محسوس ہورہا ہو کہ اس جیسے دلائل کا تذکرہ چند سال پہلے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے گزر چکا ہے لیکن اس وقت یہ دلائل کسی اور طرف سے پیش کئے جارہے تھے اور اب جو ملزم بن کے کھڑے تھے اس وقت وہ اپنے زعم میں منصف بنے ہوئے تھے.بھٹو صاحب ایک قد آور شخصیت تھے اور ایسی قد آور شخصیات کے اہم بیانات ہوا میں گم نہیں ہو جاتے.تاریخ ان کا بار بار تجزیہ کرتی ہے.بھٹو صاحب کا یہ بیان واقعی بہت اہم ہے.ہم اس کے ایک ایک جملے کا تجزیہ کریں گے.بھٹو صاحب نے ، اس وقت جب وہ اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے.یہ کہا کہ ایک مسلمان کہلانے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ کلمہ پڑھتا ہو اور یہ بھی کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ اس کی نیت پر شک کرے.تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر ۱۹۷۴ء میں بھٹو صاحب اور ان کی حکومت نے یہ قدم کیوں اُٹھایا کہ ایک سیاسی اسمبلی کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ ایک جماعت ، ایک فرقہ مسلمان ہے یا نہیں.اور یہ جماعت ایک کلمہ گو جماعت ہے.اسمبلی کئی روز کھڑکیاں دروازے بند کر کے غیر متعلقہ کا روائی میں الجھی رہی اور اصل موضوع پر بات کا خاطر خواہ آغاز بھی نہیں کر سکی.اور اگر ہر کلمہ گو قانون کی رو سے مسلمان ہے اور کسی کو اس نیت پر شک کرنے کا حق نہیں تو پھر ۱۹۷۴ء میں آئین میں ترمیم کر کے ایک سیاسی اسمبلی نے یہ فیصلہ کیوں کیا اب پاکستان میں قانون کی رو سے لاکھوں کلمہ گو مسلمان شمار نہیں ہوں گے.ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بڑا زور دے کر یہ بات کہی کہ کسی فرد کسی ادارے یا عدالتی بینچ کا یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی شخص کو کہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے اور یہ بھی کہا اور بالکل درست کہا کہ مذہب خدا اور انسان کے درمیان معاملہ ہے.کسی انسان کو اس میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہے.ہم کچھ دیر کے لئے ۱۹۷۴ء کی طرف واپس جاتے ہیں جب جماعت احمدیہ کی طرف سے قومی اسمبلی کے تمام اراکین کو اور حکومت کو ایک محضر نامہ بھجوایا گیا جس میں جماعت احمدیہ کا موقف بیان ہوا تھا کہ قومی اسمبلی کو نہ یہ اختیار ہے اور نہ اسے یہ زیب دیتا ہے کہ وہ کسی جماعت یا کسی شخص کے مذہب کے بارے
572 میں یہ فیصلہ کرے.لیکن جماعت احمدیہ کا یہ موقف نظر انداز کر دیا گیا.آج آپ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ کسی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کرے تو پھر ۱۹۷۴ء میں آپ کی حکومت کا وہ فیصلہ کسی طور پر میچ نہیں کہلا سکتا.لیکن بھٹو صاحب اپنے سابق عمل اور موجودہ بیان میں تضاد یکھ نہیں پارہے تھے.اسی نکتہ پر اپنا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے اپنی خدمات گنوائیں اور ان میں اسلام کی یہ خدمت بھی گنوائی کہ ان کے دور میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر نوے سالہ پرانا مسئلہ حل کیا گیا تھا.بھٹو صاحب نے عدالت میں اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ مجھے نام کا مسلمان قرار دیا گیا.حقیقت یہ ہے کہ جناب والا اگر آپ نام کے مسلمان کے مسئلے پر جاتے ہیں تو پھر میں ایک ایسا شہری ہوں جس کا کوئی ملک نہیں.کیونکہ یہ شہریت دستور میں ایک مسلمان یا اقلیتوں کو فراہم کی گئی ہے.یہ شہریت اس جانور کو نہیں دی جاسکتی جو نام کا مسلمان ہو.میں نہیں جانتا اور کتنے لوگوں کو اس درجہ بندی میں شامل کر کے انہیں بے ملک بنا دیا جائے گا اور اگر ہم بے ملک لوگ بنادیئے گئے تو ہم کہاں جائیں گے.(۱۸) بہت خوب.بہت مؤثر انداز بیان ہے بہت مضبوط دلائل ہیں.لیکن یہاں پر ایک سوال اُٹھتا ہے.وہ جماعت جو کہ کلمہ گو ہے اور اور اس کا عقیدہ ہے کہ وہ مسلمان ہے.اور وہ کسی اور مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی.ایک روز دوسو کے قریب سیاستدان بیٹھتے ہیں اور یہ مضحکہ خیز فیصلہ کرتے ہیں کہ اب سے قانون کی رو سے یہ جماعت مسلمان نہیں ہے.بھٹو صاحب کہتے ہیں کہ اس ملک کے آئین میں شہریت کے حقوق یا مسلمان کے لئے ہیں یا پھر غیر مسلم کے لئے تو پھر کیا ۱۹۷۴ء کا فیصلہ کرنے سے پہلے انہوں نے سوچا تھا کہ یہ جماعت اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں سمجھتی ایسا کہنا یا سمجھنا اس کے ضمیر کے خلاف ہے، اس کے بنیادی عقیدہ کے خلاف ہے تو پھر اس کی شہریت کے حقوق کا کیا بنے گا.ایک نامعقول فیصلے نے خود آپ کے بیان کردہ معیار کے مطابق ان کو شہریت کے حقوق سے محروم کر دیا.۱۹۷۴ء میں اسمبلی کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے جماعت احمدیہ نے ایک محضر نامہ میں اپنا موقف بیان کیا تھا.اور اس میں کرتا دھرتا افرادکو ان الفاظ میں متنبہ کیا تھا ” ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا صورتیں عقلاً قابل قبول نہیں ہوسکتیں اور بشمول پاکستان دنیا
573 کے مختلف ممالک میں ان گنت فسادات اور خرابیوں کی راہ کھولنے کا موجب ہو جائیں گی.(۱۹) اور یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا.جو آگ ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف بھڑ کائی گئی تھی، اس وقت کے وزیر اعظم کا آشیانہ بھی بالآخر ان کے شعلوں کی نذر ہو گیا.دوسرے روز کے بعد بھی بھٹو صاحب کا بیان دو روز مزید جاری رہا.۲۱ دسمبر کو بھٹو صاحب نے سپریم کورٹ میں اپنا بیان ختم کیا.ان دنوں میں بھٹو صاحب اس نازک وقت میں اپنی پارٹی کی کارکردگی سے بھی مایوس ہوتے جا رہے تھے.ان کی جیل میں متعین کرنل رفیع صاحب تحریر کرتے ہیں.دو لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا بھٹو صاحب کچھ مایوس سے ہوتے گئے.اوائل ۱۹۷۹ء میں وہ اپنی پارٹی سے جو امیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ بر نہیں آرہی تھیں.ایک دن وہ کچھ مایوسی کے عالم میں مجھ سے کہنے لگے کہ وہ حرامزادے کدھر ہیں جو کہا کرتے تھے کہ ہم اپنی گردنیں کٹوا دیں گے ( اپنی انگشت شہادت گردن کی ایک طرف سے دوسری طرف کھینچتے ہوئے) میرے خیال میں وہ دن ایسے تھے (فروری مارچ ۱۹۷۹ء) جب بھٹو صاحب اپنی پارٹی سے مایوس ہوتے جارہے تھے.(۲۱) سپریم کورٹ کا فیصلہ اور پھانسی سپریم کورٹ کی کارروائی ختم ہوئی تو فیصلہ کا انتظار شروع ہوا.جو کئی ہفتہ تک طول کھینچ گیا.بالآخر ۶ فروری ۱۹۷۹ء کو صبح گیارہ بجے کورٹ فیصلہ سنانے کے لئے جمع ہوئی.سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل مستر د کر دی تھی.اور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا تھا.فیصلہ متفقہ نہیں تھا.چار ججوں نے پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، ان کے نام جسٹس انوار الحق (چیف جسٹس جسٹس نسیم حسن شاہ ، جسٹس اکرم اور جسٹس چوہان تھے.اور تین جوں یعنی جسٹس صفدر شاہ ،جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس حلیم نے فیصلہ سے اختلاف کیا تھا.بھٹو صاحب نے تحمل سے جیل میں فیصلہ کی خبر سنی.ان کے وکلاء نے ریویو پیٹیشن داخل کی لیکن یہ بھی مسترد ہو گئی.بیرونی دنیا کے بہت سے
574 لیڈروں نے رحم کی اپیلیں کیں لیکن ان کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا.اور پریس کو بتایا گیا کہ صدر پاکستان جنرل ضیاء نے کیس میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے.بھٹو صاحب کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کو سزائے موت دے دی جائے گی.لیکن فیصلہ کیا گیا کہ ۳ اور ۴ را پریل کی درمیانی شب کو بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی جائے گی.فیصلہ آنے کے بعد جیل کے حکام کا رویہ بھٹو صاحب سے بہت بدل گیا تھا اور وہ بار بار اس بات کی شکایت کرتے تھے کہ وہ ان سے بے عزتی کا برتاؤ کر رہے ہیں.جب انہیں بتایا گیا کہ آج ان کا آخری دن ہے اور اب انہیں پھانسی دے دی جائے گی اور وہ اب اپنی وصیت لکھ سکتے ہیں تو انہوں نے ڈیوٹی پر متعین کرنل رفیع صاحب سے پوچھا کہ رفیع یہ کیا کھیل ہے.اس پر رفیع صاحب نے انہیں بتایا کہ جناب آج آخری حکم مل گیا ہے آج انہیں پھانسی دے دی جائے گی.رفیع صاحب ان لمحوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں."مسٹر بھٹو میں پہلی مرتبہ میں نے وحشت کے آثار دیکھے.انہوں نے اونچی آواز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا.بس ختم ؟ بس ختم.میں نے جواب میں کہا جی جناب.بھٹو صاحب کی آنکھیں وحشت اور اندرونی گھبراہٹ سے جیسے پھٹ گئیں ہوں.ان کے چہرے پر پیلا ہٹ اور خشکی آگئی جو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی.میں اس حالت کو صحیح بیان نہیں کر سکتا.انہوں نے کہا کس وقت ؟‘ اور پھر کہا کس وقت اور پھر کہا آج؟ میں نے اپنے ہاتھوں کی سات انگلیاں ان کے سامنے کیں....انہوں نے کہا سات دن بعد.میں نے ان کے نزدیک ہو کر سرگوشی میں بتایا.جناب انہوں نے کہا آج رات سات گھنٹوں بعد.میں نے اپنا سر ہلاتے ہوئے ہاں میں جواب دیا.بھٹو صاحب جب پنڈی جیل میں لائے گئے اس وقت سے وہ مضبوط اور سخت چٹان بنے ہوئے تھے لیکن اس موقع پر وہ بالکل تحلیل ہوتے دکھائے دے رہے تھے...“(۲۲) انہوں نے خود کلامی کے انداز میں کہا ” میرے وکلاء نے اس کیس کو خراب کیا ہے.بیچی
575 میری پھانسی کا ذمہ دار ہے.وہ مجھے غلط بتا تارہا.اس نے اس کا ستیا ناس کیا ہے.اس نے ہمیشہ سبز باغ دکھائے.پھر کہنے لگے میری پارٹی کو مردہ بھٹو کی ضرورت تھی زندہ بھٹو کی نہیں.(۱۳) ہم جیسا کہ ذکر کر چکے ہیں کہ بیٹی بختیار صاحب کو اور اس مقدمہ میں ان کے معاون وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب کو بھٹو صاحب کا بہت اعتماد حاصل تھا.بیٹی بختیار صاحب نے بحیثیت اٹارنی جنرل ۱۹۷۴ء میں جب قومی اسمبلی میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث پر کئی روز سوالات کئے تھے اور وہ خود بھی اپنے اس کام کو اپنا ایک اہم کارنامہ خیال کرتے تھے.اور اسی طرح عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب اس سٹیرنگ کمیٹی کے چیئر مین تھے جس نے اس مسئلہ کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے متعلق قواعد طے کئے تھے.جب بھٹو صاحب کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھی تو ضیاء حکومت نے ان کے خلاف ایک قرطاس ابیض (White Paper) شائع کیا تو انہوں نے جیل سے اس کے جواب میں ایک کتاب If I am assassinated تحریر کی.اس میں انہوں نے ۱۹۷۴ء میں بیچی بختیار صاحب کی کارکردگی کے متعلق لکھا As Attorney General of Pakistan he rendered yeoman service to successfully piloting the sensitive Ahmadi issue in Parliament یعنی انہوں نے ( یحیی بختیار صاحب نے ) بحیثیت اٹارنی جنرل نے پارلیمنٹ میں احمدیوں کے حساس مسئلہ کے بارے میں کارروائی کے دوران اہم اور کامیاب خدمات سرانجام دیں.خدا کی قدرت کے کچھ عرصہ بعد بھٹو صاحب انہی یحییٰ بختیار صاحب کو اپنی پھانسی کی سزا کا ذمہ دار بتارہے تھے اور کہہ رہے تھے انہوں نے اس مقدمہ کا ستیا ناس کر دیا.جیل کے عملہ نے پھانسی کی تیاریاں شروع کیں.زائد حفاظتی اقدامات کے علاوہ ایک زائد یہ بھی تیاری کی جارہی تھی کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کے ایک فوٹوگرافر کا انتظام کیا گیا.اس کا کام کیا تھا اس کے متعلق وہاں ڈیوٹی پر متعین کرنل رفیع صاحب لکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ کیا گیا ایک فوٹو گرافر جو ایک انٹیلی جنس ایجنسی سے تھا ، اپنے سامان کے ساتھ تین اپریل
576 شام پانچ بجے جیل میں رپورٹ کرے گا.وہ بھٹو صاحب کی لاش کے فوٹو لے گا( تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان کے ختنے ہوئے تھے یا نہیں ؟ ) ( مجھے سرکاری طور پر بتایا گیا تھا کہ مسٹر بھٹو کی ماں ہندو عورت تھی جو ان کے والد نے زبردستی اپنالی تھی اور مسٹر بھٹوکا پیدائشی نام نتا رام تھا اور غالباً ان کے ختنے نہیں کرائے گئے تھے ) پھانسی اور غسل کے بعد اس فوٹوگرافر نے بھٹو صاحب کے جسم کے درمیانی حصہ کے نزدیکی فوٹو لئے تھے.پڑھنے والوں کے لئے میں بتادوں کہ بھٹو صاحب کا اسلامی طریقہ سے با قاعدہ ختنہ ہوا تھا.‘(۲۵) بھٹو صاحب کا کسی سے لاکھ اختلاف ہو لیکن اس وقت کا یہ قدم سوائے بیہودگی کے اور کچھ نہیں تھا اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے.اس سے صرف حکم جاری کرنے والوں کی نیچ ذہنیت کا اندازہ ہوسکتا ہے.جب ریاست اور حکومت اس بحث میں الجھ جائے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں تو اس کا انجام اس قسم کی نا معقول اور قابل نفرت حرکات پر ہی ہوتا ہے کہ ایک مردہ آدمی کی نعش کو برہنہ کر کے یہ دیکھا جائے کہ اس کے ختنے ہوئے تھے کہ نہیں.گویا اس کے مسلمان ہونے کی ایک ہی دلیل رہ گئی کہ اس کے ختنے ہوئے تھے کہ نہیں.بھٹو صاحب نے اپنی وصیت لکھی لیکن پھر اسے جلا دیا اور کہا کہ وہ اپنے خیالات کو مجتمع نہیں کر پا رہے.جب پھانسی کا وقت آیا تو وہ کئی روز کی بھوک ہڑتال کی وجہ سے اور اس مرحلہ کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکے تھے.ان کا رنگ زرد ہو چکا تھا.وہ اس قابل نہیں تھے کہ خود چل کر پھانسی کی جگہ تک جا سکیں.انہیں پہلے اُٹھایا گیا اور پھر سٹریچر پر لٹایا گیا وہ پھانسی گھاٹ تک بالکل بغیر حرکت کے رہے.پھانسی دینے والے تارا مسیح نے ان کے چہرے پر ماسک چڑھا دیا اور ان کے ہاتھ پشت پر باندھ دیئے گئے.اس کی تکلیف کی وجہ سے ان کے منہ سے صرف یہ نکلا کہ ” یہ مجھے “.رات کے دو بیج کر چار منٹ پر لیور د بادیا گیا اور ان کا جسم ایک جھٹکے کے ساتھ پھانسی کے کنویں میں گر پڑا.پاکستان میں اور مسلمان ممالک میں بہت سے سیاستدان سیاست کے میدان میں سرگرم ہیں.بہت مرتبہ انہیں اس قسم کے سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر وہ مذہبی جذبات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کریں یا پھر احمدیوں کے خلاف تحریک کا حصہ بن کر ان پر ظلم کا دروازہ کھول کر ملا سے تعاون کریں تو اس سے ان کو بہت سیاسی فائدہ ہوگا.اور کم از کم ملا طبقہ تو ان کا
577 حامی ہو جائے گا.اگر مذہبی اور اخلاقی پہلو کو ایک طرف بھی رکھا جائے اور سیاسی حقائق پر توجہ مرکوز رکھی جائے تو کم از کم ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ بھٹو صاحب کے حالات کا بغور مطالعہ کریں.خود ان حقائق کا جائزہ لیں.بھٹو صاحب کوئی معمولی سیاستدان نہیں تھے.وہ بہت ذہین آدمی تھے.طویل سیاسی تجربہ رکھتے تھے.ان کی مثبت خدمات سے بھی انکار نہیں.وہ ملک میں مقبول ترین لیڈروں میں سے تھے.اس بات سے بھی انکار نہیں کہ آج جب کہ ان کی موت کو قریباً تمیں سال گزر چکے ہیں ان کے نام پر ووٹ دیئے جاتے ہیں.لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو صاحب نے سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے آئین میں ترمیم کی اور جماعت احمدیہ کے بنیادی حقوق کی بھی پروا نہیں کی گئی، انہیں بری طرح پامال کیا گیا.اس کا نتیجہ کیا نکلا کیا ملا خوش ہو گیا.کچھ ہی سالوں میں ان کے خلاف اس طبقہ نے ایک ایسی مہم چلائی کہ کوئی گالی ہوگی جو کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو نہ دی گئی.بالآخر ان کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا.اور قتل کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا.بھٹو صاحب نے جیل میں اپنی کتاب میں لکھا کہ جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتیں بیرونِ پاکستان ہاتھوں سے مددلیکر ان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں.پھر انہیں پھانسی چڑھا دیا گیا.پھر نا معلوم حالات میں ان کے دونوں بیٹے قتل کر دیئے گئے اور پھر ان کی بیٹی اور سیاسی وارث ملک کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو انہیں مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کر دیا.آخر اس فیصلہ سے بھٹو صاحب کو کیا ملا؟ یہ ایک تاریخی سبق ہے کہ ملا کبھی کسی کا نہیں ہوتا.اور نہ مذہبی مسائل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے کوئی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں.سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ ان تاریخی حقائق کا بار بار مطالعہ کریں.خود ان کا جائزہ لیں.۱۹۷۴ء کے حالات قلمبند کرتے ہوئے ہم نے اس وقت کے سیاسی قائدین کے انٹرویو بھی لئے تھے.ان میں سے ایک انٹر ویو معراج محمد خان صاحب کا بھی تھا.یہ صاحب ایک وقت میں بھٹو صاحب کے قریبی سیاسی رفیق تھے.بھٹو صاحب نے ایک مرتبہ ان کو اپنا سیاسی جانشین بھی قرار دیا تھا.وہ بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر بھی رہے.لیکن پھر بھٹو صاحب کے ان سے اختلافات ہو گئے اور بھٹو صاحب نے ان کو انتقاماً جیل میں ڈال دیا.جب یہ انٹرویو ختم ہوا تو انہوں نے آخری بات یہ کہی اور یہ بات انہوں نے اس انٹرویو میں بہت مرتبہ کہی تھی کہ آپ جہاں دوسری باتیں لکھیں یہ ضرور لکھیں کہ وہ بہت ذہین آدمی تھے
578 ، بہت جفاکش تھے ، وہ بہت بڑے آدمی تھے.لیکن ایک اور بات جو انہوں نے اس انٹرویو میں ایک سے زائد مرتبہ کہی وہ یہ تھی کہ جب کوئی بڑا آدمی غلطی کرتا ہے تو وہ بھی بہت بڑی ہوتی ہے.ہم نے ان کی خواہش کے مطابق معراج صاحب کی یہ بات درج کر دی ہے لیکن ایک اور بات کا اضافہ کر دیں کہ جب کوئی بڑا آدمی ایسی غلطی کرتا ہے تو بسا اوقات پوری قوم کو اس کی غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے.مسلمان سیاستدانوں کو چاہئے کہ تاریخی حقائق سے سبق حاصل کریں.اور ان غلطیوں کو نہ دہرائیں جن کو کر کے بھٹو صاحب اور دولتانہ صاحب جیسے سیاستدانوں نے اپنے سیاسی زندگی یا خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا.جو سیاستدان ہیں وہ صرف سیاست کریں، مذہب کے ٹھیکیدار بننے کی کوشش نہ کریں.پاکستان پر اس قرارداد کا کیا اثر پڑا جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے سوال کیا کہ آپ کے نزدیک اس قرار داد اور آئینی ترمیم کا ملک اور قوم پر کیا اثر پڑا ؟ تو ان کا جواب تھا ” بہت بُرا اثر پڑا.نہایت بُرا اور دور رس.“ جب اس سوال کو دوسرے الفاظ میں دہرایا گیا تو ان کا جواب تھا ' آپ دیکھ تو رہے ہیں گورنمنٹ کا کیا حشر ہوا.ان کی پارٹی کا کیا حشر ہوا.اس سے بُرا ہوسکتا تھا؟“ جب ہم نے صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے سوال کیا کہ اس قرارداد کا ملک پر کیا اثر پڑا تو ان کا یہ کہنا تھا کہ کوئی اثر نہیں پڑا نہ اچھانہ برا نہ ملک پر کوئی اثر پڑا اور نہ احمدیوں پر کوئی اثر پڑا.عبد الحفیظ پیزادہ صاحب نے اس سوال کے جواب فرمایا کہ اس قسم کے فیصلوں کا کبھی ملک پر اچھا اثر نہیں پڑتا.جب یہ سوال پروفیسر غفور صاحب سے کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک تو یہ فیصلہ نہایت مناسب ہوا.اور قادیانیوں کی پوزیشن بھی ایک مرتبہ آئین میں متعین ہو گئی.(1) اور لائن کٹ گئی، مصنفہ کوثر نیازی، جنگ پبلیکیشنز فروری ۱۹۸۷ء ص ۱۵ تا ۱۸ Zulfikar Ali Bhutto and Pakistan1967-1977,by Rafi Raza,published by (۲)
579 OXFORD University Press 1997p317 Zulfikar Ali Bhutto and Pakistan 1967-1977, by Rafi Raza, published by (r) OXFORD University Press 1997p318 (۴) اور لائن کٹ گئی ، مصنفہ کوثر نیازی، جنگ پبلیکیشنز فروری ۱۹۸۷ ، ص ۴۰ Zulfikar Ali Bhutto and Pakistan1967-1977,by Rafi Raza,published by (۵) OXFORD University Press 1997p295 (۶) نوائے وقت ۸ / جنوری ۱۹۷۷ ء ص ۱ Zulfikar Ali Bhutto and Pakistan1967-1977,by Rafi Raza,published by (۷) OXFORD University Press 1997p345,346 If I am assasinated, by ZA Bhutto, published by Classic Lahore,p170 (^) If I am assasinated, by ZA Bhutto, published by Classic Lahore, p149 (4) (۱۰) اور لائن کٹ گئی ، مصنفہ کوثر نیازی، جنگ پبلیکیشنز فروری ۱۹۸۷ء ص ۱۳۴ Bhutto Trial Documents, compiled by Syed Afzal Haider, National Comission (II) on History and Culture,p27 If I am assassinated, By ZA Bhutto, published by Classic Lahore, p193&194 (Ir) Bhutto Trial and Execution, by Victoria Schofield, Published by Classic Mall (Ir) Lahore,169-183 (۱۴) ذوالفقارعلی بھٹو، ولادت سے شہادت تک، مصنفہ سجاد علی بخاری نا شرفکشن ہاؤس ۱۹۹۴ ص ۲۵۶ تا ۲۶۲ (۱۵) ذوالفقار علی بھٹو بچپن سے تختہ دار تک، مصنفہ سلمان تاثیر ، ناشر سلمان تاثیر نومبر ۱۹۸۸ء، ص ۲۰۱ (۱۶) ذوالفقار علی بھٹو، ولادت سے شہادت تک، مصنفہ سجاد علی بخاری ناشر فکشن ہاؤس ۱۹۹۴ ص ۲۵۹ - ۲۶۰ The Pakistan Times, Dec.20 1978, p5 (12) (۱۸) ذوالفقار علی بھٹو، ولادت سے شہادت تک، مصنفہ سجاد بخاری ناشر فکشن ہاؤس ۱۹۹۴ء ۲۶۳ (۱۹) محضر نامہ، ناشر اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ،ص ۵ (۲۰) بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن، مصنفہ کرنل رفیع الدین، ناشر احمد پبلیکیشنز لاہور جولائی ۲۰۰۷، ص ۶۷ (۲۱) بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن ، مصنفہ کرنل رفیع الدین، ناشر احمد پبلیکیشنز لاہور جولائی ۲۰۰۷ء، ص ۷۵ (۲۲) بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن ، مصنفہ کرنل رفیع الدین، ناشر احمد پبلیکیشنز، لاہور جولائی ۲۰۰۷ ء ص ۱۱۸.۱۱۹ (۲۳) بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن ، مصنفہ کرنل رفیع الدین، ناشر احمد پبلیکیشنز لاہور جولائی ۲۰۰۷ء ،ص۱۲۰ If I am assasinated, by Z.A.Bhutto, Published by Classic Lahore, p91 (rm)
580 (۲۵) بھٹو کے آخری ۲۳ ۳ دن، مصنفہ کرنل رفیع الدین، ناشر احمد پبلیکیشنز لاہور جولائی ۲۰۰۷ء، ص ۹۳ (۲۶) روزنامه مساوات ۲۶ / جنوری ۱۹۷۷ ء ص ۳
581 یوگینڈا میں جماعت احمدیہ پر پابندی جیسا کہ پہلے ہم اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف بنائی جانے والی سازش کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں تھا.یہ آثار شروع ہی سے ظاہر تھے کہ دوسرے ممالک تک اس فتنہ کو پھیلایا جائے گا.رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد میں واضح طور پر ذکر تھا کہ تمام مسلمان ممالک جماعت احمدیہ پر پابندیاں لگائیں اور احمدیوں کو سرکاری ملازمتوں سے برطرف کیا جائے.اور جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے احمدیوں کے بارے میں آئین میں ترمیم کی تو اس وقت اسلامک سیکریٹریٹ کے سیکریٹری تہامی صاحب نے فوراً یہ بیان دیا تھا کہ دوسرے اسلامی ممالک کو بھی پاکستان کی پیروی کرنی چاہیئے اور یہ کہ اس فیصلہ کی نقول بھجوائی جائیں گی.آثار صاف ظاہر تھے کہ اب دوسرے ممالک میں بھی اس سازش کا جال پھیلایا جائے گا.اس غرض کے لئے جس ملک کا انتخاب کیا گیا وہ مشرقی افریقہ کا ملک یوگینڈا تھا.اس وقت یوگینڈا میں صدر عیدی امین کی حکومت تھی.مناسب ہوگا کہ اگر ہم اس مرحلہ پر عیدی امین صاحب کا مختصر پس منظر بیان کر دیں.وہ ۱۹۲۰ء کی دہائی میں پیدا ہوئے.ان کی پیدائش کے بعد ان کے باپ نے ان کی والدہ اور ان سے اپنے بچوں سے علیحدگی اختیار کر لی تھی.وہ باقاعدگی سے ابتدائی تعلیم حاصل نہیں کر سکے.البتہ ۱۹۴۱ء میں وہ ایک اسلامی مدرسہ میں کچھ دیر داخل رہے اور پھر وہ کچھ چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے رہے.۱۹۴۶ء میں عیدی امین صاحب برطانوی فوج میں بحیثیت معاون باور چی بھرتی ہوئے.اور پھر سپاہی کی حیثیت سے خدمات سرنجام دینے لگے.انہوں نے برطانوی فوج کے لئے کینیا اور صومالیہ میں بھی خدمات سرانجام دیں.اس وقت کینیا میں آزادی کی تحریک ماؤ اؤ چل رہی تھی.عیدی امین نے ان کی بغاوت کے خلاف برطانوی فوج میں خدمات سرانجام دیں اور پھر انہیں پہلے کارپورل اور پھر سارجنٹ کے عہدہ پر ترقی دے دی گئی.۱۹۵۴ء میں انہیں برطانوی فوج میں وارنٹ آفیسر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی.ان دنوں میں مشرقی افریقہ میں مقامی افریقن شہری اسی عہدے تک ترقی پاسکتے تھے.۱۹۶۱ء میں برطانوی فوج میں دو یوگینڈن افراد کو لیفٹینٹ کے عہدے پر ترقی دی گئی
582 تھی.عیدی امین ان میں سے ایک تھے.یوگینڈا کے آزاد ہونے پر انہوں نے فوج میں ترقی کے زینے طے کرنے شروع کئے.اور ۱۹۶۴ء میں انہیں یوگینڈا کی آرمی کا ڈپٹی کمانڈر بنادیا گیا.جب ملک کے وزیر اعظم نے ایک سیاسی بحران میں نیا آئین نافذ کر کے ملک کے صدر کو برطرف کیا تو اس کے ساتھ عیدی امین کو کرنل کے عہدے پر ترقی دے کر آرمی کا کمانڈر بنا دیا گیا.اس وقت عیدی امین نے صدر کے محل پر حملہ کی قیادت کی.شروع میں تو وزیر اعظم اوبوٹے (Obote) اور عیدی امین کے تعلقات ٹھیک رہے لیکن پھر دونوں کے درمیان اختلافات رونما ہو گئے اور ۲۵ جنوری ۱۹۷۱ء کوعیدی امین نے وزیر اعظم کا تختہ الٹ دیا اور ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا.عیدی امین نے اقتدار میں آکر اعلان کیا کہ فوجی حکومت صرف نگران حکومت کے طور پر رہے گی اور جلد ملک میں انتخابات کرائے جائیں گے.لیکن جلد ہی انہوں نے ملک کے صدر کمانڈر انچیف اور ایئر فورس کے چیف آف سٹاف کے عہدے سنبھال لئے.عدالتی نظام کے اوپر فوجی عدالتیں قائم کر دی گئیں.وہ کچھ قبائل کو اپنا دشمن سمجھتے تھے.انہوں نے فوج میں موجود ان قبائل کے افراد کا قتل عام شروع کرا دیا.چنانچہ ۱۹۷۲ء کے آغاز تک لانگو اور آچولی قبائل کے پانچ ہزار فوجیوں کو بیرکوں میں قتل کرایا جا چکا تھا.اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا رہا.جس کے متعلق انہیں شبہ ہوتا کہ وہ ان کا مخالف ہے اسے قتل کرا دیا جاتا.یوگینڈا میں بہت سے ایشین باشندے ایک لمبے عرصہ سے بلکہ کچھ نسلوں سے آباد تھے.ان میں سے ہزاروں کے پاس وہاں کی شہریت بھی تھی.ان میں سے بہت سے بڑے بڑے کاروباروں اور صنعتوں کے مالک تھے.عیدی امین صاحب نے ۱۹۷۲ء میں ان کو ملک بدر کر دیا اور ان کی املاک کو ضبط کر لیا گیا.اس حکم کی وجہ سے جماعت کے کئی پاکستانی مبلغین کو بھی یوگینڈا سے نکلنا پڑا.صرف کمپالا کے سکول کے دو اسا تذہ مکرم چوہدری محمود احمد (بیٹی) صاحب اور مکرم منیر احمد منیب صاحب کو سکول میں کام کرنے کی اجازت ملی.اس کے بعد ملک کی اقتصادی حالت دگر گوں ہو گئی.عیدی امین صاحب نے تمام مسلمان تنظیموں کو ایک مسلم سپریم کونسل میں ضم کر کے تمام تنظیموں کو اس کے تحت رجسٹر ہونے کی ہدایت دی.فروری ۱۹۷۴ء میں عیدی امین صاحب نے لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کا نفرنس میں شرکت کی اور ایسے بیانات دیئے کہ شاہ فیصل کو عالم اسلام کا خلیفہ بنالینا چاہئے.وہ سعودی عرب سے مالی مدد بھی لے رہے تھے.درمیان میں امداد کا یہ سلسلہ معطل بھی کیا گیا تھا.اس کا نفرنس میں جو وفد
583 یوگینڈا کی نمائندگی کے لئے شامل ہوا، اس میں مسلم سپریم کونسل کے چیئر مین حاجی سلیمان، یوگینڈا کے چیف قاضی شیخ عبدالرزاق موٹو وو (Matovu) ، جو کہ پاکستان کے ایک دینی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے بھی شامل تھے.لوگینڈا میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت لوگینڈا یوگینڈا کے سب سے بڑے قبلے، بوگانڈا کی زبان ہے.اب تک اس زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ شائع نہیں ہوا تھا.اگر چہ بوگانڈا قبیلہ کے خاطر خواہ لوگوں کی تعداد مسلمان تھی.اس کاوش کی ابتدا ۱۹۶۵ء میں ہوئی جب یوگینڈا میں مبلغ سلسلہ مکرم عبد الکریم شر ما صاحب نے کچھ مقامی احباب کے تعاون کے ساتھ کچھ سپاروں کا ترجمہ کیا.ان مقامی احباب میں مکرم ابراہیم سنفو ما صاحب قابل ذکر تھے.لیکن چونکہ انہیں لوگینڈا پر مکمل عبور حاصل نہیں تھا اس لئے یہ خدشہ تھا کہ اس میں کچھ سقم نہ رہ گئے ہوں.پھر پانچ سپاروں کا ترجمہ شائع ہوا اس کام میں ان دو ا حباب کے علاوہ مکرم زکریا کزیٹو صاحب ، سلیمان مولومبا (Mulumba) صاحب اور مکرم سلیمان مو آنجے صاحب (Mwanje) بھی شامل ہو گئے تھے.پھر یوگینڈا کے مقامی احمدی مکرم ذکر یا کز نیٹو صاحب نے لوگینڈ ا زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کے لئے محنت شروع کی.انہوں نے سواحیلی اور انگریزی کے تراجم سامنے رکھ کر تین چار سال میں ترجمہ کا کام مکمل کر کے مرکز سے اس کی اشاعت کے لئے درخواست کی.قرآن کریم کا ترجمہ ایک نازک کام ہے جس کے لئے بہت احتیاط کرنا ضروری ہے.چنانچہ مرکز نے مکرم جلال الدین قمر صاحب کی صدارت میں ایک بورڈ قائم کیا.اس بورڈ میں زکریا کزیٹو صاحب کے علاوہ مکرم سلمان مو آنجے صاحب اور مکرم حاجی ابراہیم سینفو ما(Senfuma) صاحب بھی شامل تھے.مکرم جلال الدین صاحب قمر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبان دانی کا خاص ملکہ عطا ہوا تھا.وہ لوگینڈا اور عربی اور سواحیلی پر بھی عبور رکھتے تھے.ان احباب کے علاوہ حسب ضرورت بہت سے غیر از جماعت احباب سے بھی مشورہ کیا جاتا تھا.برسوں کی عرقریزی کے بعد یہ ترجمہ مکمل ہوا اور ۱۹۷۴ء میں اسے شائع کیا گیا.اس ترجمہ کی اشاعت جماعت کے مخالفین کو بہت گراں گزری.وہ پہلے ہی اس بات پر بہت برافروختہ تھے کہ جماعت احمد یہ اپنے آپ کو مسلم سپریم کونسل کے ماتحت کیوں نہیں لے کر آتی.جب پہلے پہلے مسلم سپریم کونسل وجود
584 میں آئی تو اس نے جماعت احمدیہ کی مخالفت میں کوئی سرگرمی نہیں دکھائی تھی.بلکہ یہ نمایاں احمدیوں کو اپنی تقریبات میں مدعو بھی کرتے تھے.بلکہ جب ان کی آئین ساز کمیٹی بنی تو اس کے صدر خود جماعت کے مبلغ جلال الدین قمر صاحب ہی تھے.لیکن پھر مسلم سپریم کونسل کا رویہ بھی بدلنے لگا.انہوں نے جماعت کے مشن کو کہا کہ وہ اپنے آپ کو مسلم سپریم کونسل کے تحت رجسٹر کرا ئیں.لیکن جماعت احمدیہ نے اصولی طور پر اس سے انکار کر دیا.۲۳ مارچ ۱۹۷۵ء کو عیدی امین صاحب عید میلادالنبی کی ایک غیر سرکاری تقریب میں شرکت کر رہے تھے.کچھ احمدی بھی اس تقریب میں شامل تھے.انہوں نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور یہ اعلان پڑھا کہ وہ یوگینڈا میں جماعت احمدیہ پر پابندی لگا رہے ہیں.جب وہ یہ اعلان پڑھ رہے تھے تو وہ جماعت احمدیہ کا نام بھی بدقت پڑھ پائے تھے.اور یہ نام پڑھنے میں انہیں تیسری کوشش میں کامیابی ہوئی تھی.اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ اعلان کسی اور کے ایماء پر کیا جارہا ہے ورنہ صدر تو جماعت سے اتنا بھی واقف نہ تھے کہ نام بھی صحیح پڑھ پاتے.اس اعلان میں عیدی امین صاحب نے یہ بھی کہا کہ احمدیوں نے قرآن کریم کا ترجمہ اضافوں کے ساتھ شائع کیا ہے اور جنہوں نے یہ نسخے خریدے ہیں وہ انہیں مسلم سپریم کونسل کے پاس جمع کرائیں تا کہ انہیں نذر آتش کر دیا جائے.اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ احمدی برطانیہ اور امریکہ کے اشاروں پر یہ سب کام کر رہے ہیں.یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ خود عیدی امین صاحب ایک طویل عرصہ برطانوی فوج میں ملازم رہے تھے اور اس کی طرف سے مشرقی افریقہ میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کی کاوشوں کا بھی حصہ رہے تھے.تمام ذرائع ابلاغ میں یہ خبر شائع ہوگئی لیکن سرکاری گزٹ میں اس خبر کو ۱۹۷۶ ء کے اواخر میں شائع کیا گیا.شام کو مکرم چوہدری محمود صاحب ، منیر احمد منیب انصاری صاحب، زکریا کریٹو صاحب اور سلمان مو آنجے صاحب مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک فوجی افسر کیپٹن موسیٰ صاحب آگئے اور تلخ کلامی شروع کر دی.لیکن ان احباب نے ان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا.صبح کو مسلم سپریم کونسل کی طرف سے شیخ کالیسا (Kalisa) صاحب جو کہ سعودی عرب سے تعلیم حاصل کر کے آئے تھے کئی لوگوں کے ساتھ جماعت کی مسجد واقعہ وانڈے گیا ، کمپالہ آئے اور وہاں پر موجود احباب جماعت سے کہا کہ حکومت کے فیصلے کے مطابق یہ مسجد اب مسلم سپریم کونسل کی ملکیت ہے.اور وہ احمدی جو کمپالہ میں
585 جماعت کے سکول ، بشیر ہائی سکول کے بورڈ آف گورنر کے ممبر تھے انہیں ہدایت دی کہ ان کا اب سکول سے کوئی تعلق نہیں.یہ امر قابل ذکر ہے کہ سکول کے بورڈ آف گورنر کے چیئر مین سلیمان مو آنجے صاحب تھے.ان حالات میں انہیں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تار موصول ہوئی کہ وہ سکول کی خدمت کرتے رہیں.جبکہ بظاہر ایسا ممکن نظر نہیں آتا تھا.لیکن پھر یکلخت یہ خبر موصول ہوئی کہ مسلم سپریم کونسل نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سلیمان مو آنجے صاحب بدستور سکول کے بورڈ آف گورنرز کے چیئر مین رہیں گے.اس کا پس منظر یہ تھا کہ سکول کو اپنی تحویل میں لیتے ہی کچھ مالی بدعنوانی کے واقعات ہوئے تو مسلم سپریم کونسل کے اعلیٰ عہدیداران نے یہی مناسب سمجھا کہ سلیمان مو آنجے صاحب بدستور اس عہدے پر برقرارر ہیں.جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ عیدی امین صاحب نے اعلان کیا تھا کہ شاہ فیصل کو عالم اسلام کا خلیفہ منتخب کر لیا جائے.ابھی جماعت احمدیہ کے خلاف یہ قدم اُٹھائے دو دن ہی گزرے تھے کہ شاہ فیصل کو ان کے بھتیجے نے گولی مار کر قتل کر دیا.لیکن جماعت احمدیہ پر پابندی لگنے کے کچھ ہی عرصہ کے بعد عیدی امین کی حکومت کو سعودی عرب سے دوبارہ امداد ملنے لگی.حکومت کے فیصلہ کے ساتھ ہی یوگینڈا میں تمام مشن ہاؤس، جن میں کمپالا ، مسا کا اور جنجا کے مشن ہاؤس بھی شامل تھے اور کمپالا میں جماعت کا سکول جماعت کے مخالفین یعنی مسلم سپریم کونسل نے اپنی تحویل میں لے لئے.اور جماعت احمدیہ کے لئے وہاں پر اپنی تبلیغی و تربیتی کام کھلم کھلا جاری رکھنا ممکن نہ رہا.پابندیوں کا یہ حال تھا کہ اگر جنجا میں کسی احمدی نے جمعہ پڑھنا ہوتا تو وہ کمپالا جاتا جہاں سلیمان مو آنجے صاحب کے گھر پر جمعہ پڑھا جاتا تھا.مختلف دیہات میں احمدی کسی کے گھر میں یا کسی درخت کے نیچے نماز جمعہ ادا کرتے.انہی دنوں میں ایک بار عیدی امین صاحب سعودی عرب گئے ہوئے تھے کہ ان کے پیچھے سے ایک ابتدائی احمدی شیخ زید صاحب کا انتقال ہو گیا.مخالفین نے ان کی تدفین میں رکاوٹیں ڈالنی شروع کیں.عیدی امین صاحب ان کو جانتے تھے.کسی طرح ان کو اطلاع ہو گئی.اب ان کی شخصیت ایک اور رنگ میں ظاہر ہوئی.انہوں نے ریڈیو پر براہ راست خطاب کیا اور مولویوں کو خوب برا بھلا کہا.اور اپنا فون نمبر پڑھ کر کہا کہ جس احمدی کو کوئی مولوی تنگ کرے وہ مجھے فون کرے.یہ حالات دیکھ کر مولویوں کا جوش کچھ ٹھنڈا ہوا.عیدی امین صاحب کے دور کے آخری دنوں میں جب یوگینڈا کے مکرم محمد علی کا ئرے صاحب
586 جامعہ احمدیہ سے تعلیم مکمل کر کے یوگینڈا پہنچے تو انہوں نے پوشیدہ طور پر مختلف مقامات پر احمدی احباب سے روابط شروع کئے.ان کی آمد کے کچھ ماہ ہی بعد عیدی امین کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا ، وقت کے ساتھ عیدی امین صاحب کی ذہنی حالت عجیب رخ اختیار کر رہی تھی.اپنے ملک میں تو انہوں نے قتل و غارت اور مظالم کا بازار گرم کیا ہوا تھا لیکن وہ اپنے آپ کو خود بہت سے خطابات سے نوازتے چلے جارہے تھے.انہوں نے اپنے آپ کو یوگینڈا کا تاحیات صدر مقرر کرنے کے علاوہ اپنے آپ کو فیلڈ مارشل بھی مقرر کیا.پھر گھر بیٹھے خود کو Conquerer of the British Empire یعنی فاتح سلطنت برطانیہ سے نوازا.اس کے علاوہ انہوں نے اپنے ملک کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری حاصل کی اور اپنے آپ کو ڈاکٹر بھی کہلوانے لگے.پھر انہوں نے خود کوشاہ سکاٹ لینڈ کا خطاب بھی عطا کیا.ملک میں مظالم کی یہ حالت ہوگئی کہ خود ان کے وزراء بھی ملک سے بھاگ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے لگے.جب لندن میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی صلیب سے نجات پر کا نفرنس ہوئی تو اس میں بمشکل تمام یوگینڈا کے تین احمدی احباب بھی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے.ان دنوں یوگینڈا اسے باہر جانے کے لئے اجازت لینی پڑتی تھی اور فارن ایکسچینج کا مسئلہ اس کے علاوہ تھا.جب ان احباب کی حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے ملاقات ہوئی تو حضور نے فرمایا کہ عیدی امین کے لئے مشکلات کا آغاز ہو رہا ہے.جبکہ دوسری طرف یہ یوگینڈین احمدی یوگینڈا سے رخصت ہوئے تھے تو اس وقت تک عیدی امین کی حکومت کے ختم ہونے کے کچھ امکانات نہیں تھے.لیکن جلد ہی حالات نے ایک اور رخ اختیار کر لیا.۱۹۷۹ء میں جب ان کے نائب صدر ایک حادثہ میں زخمی ہو گئے تو نائب صدر کی حامی افواج نے بغاوت کر دی.عیدی امین نے تنزانیہ پر الزام لگایا کہ اس نے یوگینڈا پر حملہ کیا ہے اور اس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا.جنگ شروع ہوئی تو ان کی افواج پسپا ہوتی گئیں اور بالآخر انہیں ملک سے فرار ہونا پڑا.معزول ہونے کے بعد وہ سعودی عرب میں رہنے لگے اور وہاں کی حکومت ان کے اخراجات کی کفالت کرنے لگی.ان کے معزول ہونے کے معاً بعد جماعت کو اپنی ضبط شدہ مساجد مشن ہاؤس اور سکول واپس مل گئے.ان تفصیلات کا بیش قیمت حصہ مکرم سلیمان مو آنجے صاحب ، مکرم محمد علی کا ٹرے صاحب ، مکرم
587 چوہدری محمود احمد صاحب اور مکرم منیر احمد منیب انصاری صاحب نے مہیا کیا ہے) دورہ یورپ ۱۹۷۵ء ۱۹۷۵ء میں حضرت خلیفہ انبیع الثالٹ کی طبیعت ناساز رو رہی تھی.اگر چہ سال کے وسط تک طبیعت میں افاقہ تھا لیکن حضور کی صحت ابھی پوری طرح بحال نہیں ہوئی تھی.طبی مشورہ بھی تھا اور احباب جماعت کی درخواست بھی یہ تھی کہ حضور بیرونِ ملک تشریف لے جا کر تشخیص اور علاج کرائیں.چنانچہ ۵ / اگست ۱۹۷۵ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث صبح نماز فجر کے بعد ربوہ سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے.اسی روز پونے گیارہ بجے آپ بذریعہ ہوائی جہاز کراچی کے لیے روانہ ہو گئے اور اسی روز رات کو اڑھائی بجے حضورلندن کے لیے روانہ ہو گئے.پاکستان سے روانگی سے قبل حضور نے احباب جماعت کو جو پیغام دیا ، اس میں حضور نے تحریر فرمایا: ” ہمارے رب کریم نے جو ذمہ داریاں ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالی ہیں اور ان فرائض کی ادائیگی پر جن بشارتوں کا وعدہ کیا ہے وہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم کامل اطاعت کے ساتھ پورے جذبہ ایثار کے ساتھ ، ساری شرائط کے ساتھ عمل صالح کے ہر پہلو کو حسین بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کا نمونہ پورے اندرونی اتحاد کے ساتھ اور بنی نوع انسان کی کامل ہمدردری اور خیر خواہی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے والے ہوں.یادرکھیں کہ ہم کسی کے بھی دشمن نہیں.سب کے لئے ہی دعائیں کرنے والے ہیں ،سب کے لئے ہی اپنے رب کریم سے خیر کے طالب ہیں اور پورا بھروسہ رکھتے ہیں کہ ہمارا محبوب خدا دنیا کی نجات کے سامان پیدا کرے گا اور نوع انسانی اس کے قدموں میں اکٹھی ہو جائے گی اور امت واحدہ بن جائیگی.ہر دل میں محمد رسول اللہ ﷺ کا پیار موجزن ہو جائے گا.پس آپس میں بھی پیار اور اتحاد سے رہیں اور نوع انسانی کے لئے بھی دعائیں کرتے
588 رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دکھوں کو حقیقی سکھ میں بدل دے.جہاں آپ میرے لئے اور جماعت کے لیے دعائیں کر رہے ہوں گے وہاں اپنے عزیز وطن کے لئے بھی دعائیں کریں کہ خوشحالی، استحکام اور ترقیات کے سامان پیدا ہوں.“ جہاز اڑھائی گھنٹے کے لئے ایمسٹر ڈم میں رکا اور پھر وہاں سے روانہ ہو کر لندن پہنچا.لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ میں انگلستان کے مشنری انچارج مکرم بشیر احمد رفیق صاحب اور دیگر احباب جماعت نے حضور کا استقبال کیا.ایئر پورٹ سے روانہ ہو کر قافلہ ۱۶ گرین ہال روڈ پر واقع مشن ہاؤس پہنچا.حضور کی طبیعت کے پیش نظر ابھی باقاعدہ مجالس عرفان اور ملاقاتوں کا سلسلہ تو شروع نہیں ہوا تھا لیکن پھر بھی احباب ذوق و شوق سے مشن ہاؤس اور مسجد میں آتے تاکہ حضور کی زیارت کر سکیں اور اگر ممکن ہو تو حضور کے ارشادات سے مستفید ہوں.ڈاکٹری ہدایت کے مطابق حضور مشن ہاؤس کے سامنے لان میں چہل قدمی فرماتے اور بہت سے احباب بھی حضور کے ساتھ شامل ہو جاتے.۸ /اگست کو حضور نے مسجد فضل لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.حضور نے اپنی صحت کے متعلق تفصیلات بیان کرنے کے بعد احباب کو دعاؤں کی طرف توجہ دلائی.اس کے بعد حضور نے احباب کو پاکستان اور اہل پاکستان کی ترقی کے لئے دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلائی.حضور نے فرمایا کہ اس وقت ہمارے ملک پاکستان کو بھی ہماری دعاؤں کی بہت ضرورت ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لیے دعائیں کرنا ہماری ذمہ داری ہے.تیسرے حضور نے تمام بنی نوع انسان کے لئے دعائیں کرنے کی تحریک فرمائی.حضور نے فرمایا کہ ہماری جماعتی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ دنیا میں توحید خالص قائم کی جائے اور نوع انسان کے دلوں میں محمد ﷺ کی محبت پیدا کی جائے.حضور ان دنوں میں مشن ہاؤس کے دفتر میں تشریف لاتے اور ضروری ڈاک ملاحظہ فرماتے اور برطانیہ کے مشنری انچارج صاحب کو تبلیغ کے متعلق ضروری ہدایات سے نوازتے.بہت سے دنوں میں رات کے کھانے کے بعد حضور احمدی احباب کے ساتھ مجلس میں تشریف فرما رہتے اور ان سے گفتگو فرماتے.حضور ڈاکٹری مشورہ کے مطابق لندن سے باہر بھی تشریف لے جا کر چہل قدمی فرماتے.مکرم ڈاکٹر منظور حسین صاحب اور مکرم ڈاکٹر داؤ د احمد صاحب نے 9 راگست کو تفصیل سے حضور کا طبی معائنہ کیا اور دوسرے ماہر ڈاکٹر صاحبان سے بھی مشورہ فرمایا.طبی
589 معائنوں میں پراسٹیٹ کی حالت تسلی بخش پائی گئی لیکن پیشاب میں گلوکوز اور انفیکشن کی موجودگی پہلے کی طرح برقرار رہی.Intravenous Pyelography کا ٹسٹ ہوا تو گردوں کی حالت تسلی بخش پائی گئی.۱۵ راگست ۱۹۷۵ ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے سورہ زمر کی کچھ آیات تلاوت فرما کے ایک لطیف خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا کہ خدائی جماعتوں کے لئے ان کا خدا کافی ہے.خدا تعالیٰ کے علاوہ جن دوسرے وجودوں سے بالعموم ڈرایا اور جن کا خوف دلایا جاتا ہے ان کا دائرہ اقتدار بہت محدود اور عارضی ہے اور ان سے کوئی توقع رکھنا یا ان پر بھروسہ کرنا محض بیکار ہے.وہ خود محتاج ہیں وہ کسی کو کیا دے سکتے ہیں.اسی طرح جو خدا کی نگاہ میں ہدایت یافتہ ہے دنیا کی کوئی طاقت یاد نیا کا کوئی فتولی اسے ہدایت سے محروم نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ غالب ہے اور بدلہ لینے پر قادر ہے.اس لئے وہ اپنے ہدایت یافتہ حقیقی بندوں کو اپنی تائید و نصرت کا مورد بنا کر ان کے ذریعہ حق کو غلبہ عطا فرماتا ہے اور اطاعت سے نکلنے والے نافرمانوں اور ظلم کو اپنا شیوہ بنانے والوں پر اپنا قہر نازل کرتا ہے.اب لندن میں سالانہ جلسہ کا وقت قریب آ رہا تھا.نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپ، امریکہ اور افریقہ کے بعض احباب بھی اس میں شرکت کے لیے تشریف لا رہے تھے.۲۴ / اگست ۱۹۷۵ ء کو جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہوا.اپنی افتتاحی خطاب میں حضور نے فرمایا کہ وہ اکیلی آواز جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آج سے ۸۵ سال قبل بلند ہوئی تھی ، اس کی گونج آج دنیا کے کونے کونے میں سنی جا رہی ہے اور دنیا بھر سے سعید روحیں اس پر لبیک کہتے ہوئے تو حید کی طرف کچھی چلی آرہی ہیں.اس انقلاب کے متعلق ایک خاص بات یاد دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ انقلاب نرمی ، دعاؤں اور اخلاق کے ذریعہ رونما ہوا ہے اور آئندہ بھی اسی طرح اس میں وسعت پیدا ہوگی.اس لئے احباب جماعت کو چاہئے کہ وہ نرمی اور اخلاق کا مظاہرہ کرنے اور دعاؤں سے کام لینے میں کبھی بھی سست نہ ہوں.یہ جلسہ دوروز کا تھا اور اس کے اختتامی خطاب میں حضور نے تفصیل سے ان فضلوں کا ذکر فرمایا جو مجلس نصرت جہاں کے اجراء کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمائے اور تفصیلات بیان فرمائیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے احمدی ڈاکٹروں کی حقیر مساعی میں خارق عادت برکت ڈال دی.جلسہ سالانہ کے
590 بعد حضور نے مختلف ممالک اور برطانیہ کے مختلف مقامات سے آئے ہوئے دوستوں سے ملاقات فرمائی.حضور جلسہ کے بعد اپنی علالت کے باوجود با قاعدگی سے ڈاک ملاحظہ فرماتے رہے.اور اس کے ساتھ ماہر یورولوجسٹ ڈاکٹر صاحبان سے مشورہ کا سلسلہ بھی جاری تھا.اور مختلف ٹسٹ بھی کئے جا رہے تھے.رات کو حضور بسا اوقات احباب جماعت کے ساتھ تشریف فرما ہوتے اور ان سے گفتگو فرماتے.شام کو چہل قدمی کرتے تو بہت سے دوست اس وقت حضور کے ساتھ شامل ہو جاتے.اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بعض اور ممالک سے مبلغین سلسلہ بھی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.سویڈن سے مکرم کمال یوسف صاحب اور نائیجیریا سے مکرم منصور احمد خان صاحب بھی لندن میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور نے انہیں ہدایات سے نوازا.حضور کے لندن میں قیام کے دوران رمضان کے مبارک ایام آئے اور عید الفطر کا موقع بھی آیا.عید پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے احباب جماعت کو یہ پیغام بھجوایا.تمام احمدی بھائیوں اور بہنوں کو میری طرف سے السلام علیکم اور عید مبارک.میری صحت اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل اچھی ہے اور کسی قسم کی کوئی تکلیف باقی نہیں ہے.الحمد للہ علی ذالک.“ لندن میں عید کی نماز میں دو ہزار کے قریب احباب جماعت نے شرکت فرمائی.حضور نے خطبہ عید میں احباب جماعت کو تحریک فرمائی کہ وہ اسلام کے پیغام کو کناف عالم میں پھیلانے کے لئے نئے عزم و ہمت کے ساتھ اپنی کمریں کس لیں.(۱ تا ۱۶) (۱) الفضل ۶ اگست ۱۹۷۵ء ص ۱ (۲) الفضل ۱۵ اگست ۱۹۷۵ ص ۱ (۳) الفضل ۱۸ اگست ۱۹۷۵ ء ص ۱ (۴) الفضل ۲۰ اگست ص ۲ (۵) الفضل ۲۱ اگست ۱۹۷۵ ء ص ۱ (۶) الفضل ۲۲ اگست ۱۹۷۵ء ص ۱ (۷) الفضل ۲۳ اگست ۱۹۷۵ ء ص ۲ (۸) الفضل ۲۶ اگست ۱۹۷۵ء ص ۲ (۹) الفضل یکم ستمبر ۱۹۷۵ ء ص ۱
591 (۱۰) الفضل ۲ ستمبر ۱۹۷۵ء ص ۱ (۱۱) الفضل ۴ ستمبر ۱۹۷۵ ء ص ۲ (۱۲) الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۷۵ء ص ۱ (۱۳) الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۷۵ء ص ۱ (۱۴) الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۷۵ ء ص ۱ (۱۵) الفضل ۱۹اکتوبر ۱۹۷۵ء ص ۱ (۱۲) الفضل ۱۰ اکتوبر ۱۹۷۵ ص ۱ دورہ امریکہ و کینیڈا.۱۹۷۶ء ۱۹۷۶ ء کا سال امریکہ اور کینیڈا کی جماعتوں کی تاریخ میں اس لئے بہت اہمیت رکھتا ہے کہ یہ وہ پہلا سال تھا جس میں خلیفہ وقت نے اس خطے کا دورہ فرمایا.۲۱ ؍جولائی ۱۹۷۶ ء کو حضور اس دورہ کے لئے ربوہ سے روانہ ہوئے.اور اسی روز حضور کراچی سے روانہ ہو کر لندن پہنچ گئے.۲۳ جولائی کو حضور نے خطبہ جمعہ مسجد فضل لندن میں ارشادفرمایا اور ۲۴ جولائی کوحضور واشنگٹن پہنچ گئے.ڈلاس کے ہوائی اڈے پر تین صد احمدی احباب نے حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کا استقبال کیا.جماعتِ احمد یہ امریکہ کے لیے یہ ایک تاریخی موقع تھا.بہت سے مقامی نومسلم احباب پر اس وقت رقت طاری تھی اور حضور ان احباب سے مل کر بہت مسرور تھے.۳۰ جولائی کو حضور نے مسجد فضل واشنگٹن میں انگریزی میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.اس خطبہ کا اکثر حصہ دعاؤں پر مشتمل تھا اور آخر میں حضور نے یہ دعا کی ”اے ہمارے رب ! تیری راہ میں جو بھی سختیاں اور آزمائشیں ہم پر آئیں ان کی برداشت کی قوت اور طاقت ہمیں بخش اور سختیوں اور آزمائشوں کے میدان میں ہمیں ثبات قدم عطا کر ، ہمارے پاؤں میں لغزش نہ آئے اور اپنے اور اسلام کے دشمن کے خلاف ہماری مددکر اور ہماری کامیابیوں کے سامان تو خود اپنے فضل سے پیدا کر دے.‘ (۱) واشنگٹن میں حضور کے قیام کے یہ دن نہایت مصروف دن تھے.حضور کا قیام مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے مکان میں تھا.بہت سے احباب نے حضور سے ملاقات کی.امریکہ کی مختلف جماعتوں کے امراء اور دیگر عہدیداران جماعت نے حضور سے ملاقات کی اور حضور نے مختلف جماعتی امور میں انہیں ہدایات دیں.حضور نے امریکہ کی مختلف جماعتوں کے امراء کا اجلاس طلب
592 فرمایا.اس اجلاس میں تبلیغ اسلام کے متعلق منصوبے پیش کئے گئے.حضور نے اس امر کی نشاندہی فرمائی کہ اس پر عملدرآمد کے لیے اس بات کی بنیادی اہمیت ہے کہ ان پر کتنے اخراجات ہوں گے اور اس کے لئے کتنی مدت درکار ہوگی.اور ان منصوبوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا.اس کے بعد حضور نے امریکہ کی مختلف جماعتوں کے چندوں کی تفاصیل دریافت فرمائیں اور چندوں کی وصولی کے نظام میں بعض خامیوں کی نشاندہی فرما کر ہدایات دیں.اس اجلاس میں ایک تجویز یہ پیش کی گئی تھی کہ امریکہ سے جنوبی امریکہ کے ممالک اور کیوبا اور میکسیکو میں تبلیغ کی جائے.اس بارہ میں آراء سننے کے بعد حضور نے ارشاد فرمایا کہ جنوبی امریکہ میں تبلیغ آپ لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے پہلے شمالی امریکہ میں اپنے آپ کو منظم کریں.اور تمام آمد پیدا کرنے والے احباب سے حسب شرح چندہ وصول کر کے اپنے آپ کو مضبوط کریں.اور جہاں بھی تین یا تین سے زیادہ احباب موجود ہوں وہاں انہیں جماعت کی صورت میں منظم کیا جائے.امریکہ میں پریس قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور یہ بھی تجویز کیا گیا کہ اس کے لئے ایک احمدی کو ٹریننگ دلائی جائے.اس پر رپورٹ تیار کرنے کے لئے حضور نے ایک کمیٹی قائم فرمائی اور فرمایا کہ مجوزہ پریس کا اکنامک یونٹ ہونا ضروری ہے.کتابوں کی اشاعت کے متعلق حضور نے دو احباب کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ یہ جائزہ لیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کون سی کتب کا انگریزی ترجمہ ہونا ضروری ہے.اور فرمایا کہ مستورات سے بھی مشورہ لیا جائے.اور فرمایا کہ قرآنِ کریم اور مختصر تفسیر کے کم از کم پچاس ہزار نسخے شائع کر کے اس ملک میں جلد از جلد تقسیم ہونے چاہئیں.نئی مساجد کی تعمیر کی تجویز کے متعلق حضور نے ارشاد فرمایا کہ مساجد ہماری جماعتی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ان کی تعمیر کے لئے مقامی طور پر رقم مہیا ہونی چاہئے.جماعت کی تربیت کی تجویز پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ یہاں کے احمدیوں سے رابطہ کر کے انہیں فعال احمدی بنایا جائے اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ عہد یداروں اور احباب جماعت کے درمیان ذاتی رابطہ نہ ہو.۲۷ جولائی کو حضور نے دو صحافیوں کو انٹرویو دیا.ان میں سے ایک Miss Lavonia Perryman تھیں جو ریڈیو کی نمائندہ تھیں.دوسرے Mr.John Novotnay تھے.جب حضور سے سوال کیا گیا کہ اسلام کے پاس عیسائیت سے بڑھ کر کیا ہے جو انسان کے لئے پیش کی گئی ہے.جب کہ عیسائی بھی یہ دعوی کرتے ہیں کہ عیسائیت قبول کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے
593 سے خدا سے زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ عیسائی پادری میرے اس دعوے کو چیلنج کریں کہ اسلام پر عمل کرنے سے خدا سے زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے.میں انہیں اسلام کے اس امتیازی فرق اور اس کی افضلیت کا تازہ بتازہ ثبوت دینے کو تیار ہوں.واشنگٹن میں قیام کے دوران ایک واقعہ پیش آیا جس کے ایک حصہ کا ذکر حضور نے بعد میں ایک خطبہ جمعہ میں بھی فرمایا.جب حضور یہاں سے واپس جانے کے لئے ہال میں کھڑے ہوئے تو ایک سیاہ فام امریکن خاتون جو پہلے دور کھڑی تھی دوڑ کر حضور کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی اور حضور کو ایک خط دے کر کہنے لگی کہ مجھے اس کا جواب آج ہی چاہئے.دوسرے احمدی احباب کو اس سے سخت تشویش ہوئی لیکن حضور نے نہایت اطمینان اور سکون سے فرمایا کہ یہاں سے آ کر جواب لے جانا اور خط پڑھے بغیر جیب میں ڈال لیا.جب مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے گھر پر آکر خط کھولا تو یہ ایک داؤد نامی شخص کی طرف سے تھا جو پہلے احمدی تھا پھر اس کو بعض خلاف سلسلہ حرکات کی وجہ سے نظام جماعت سے علیحدہ کر دیا گیا تھا.اس نے لکھا تھا کہ امریکہ کے دورہ کے دوران آپ پر قاتلانہ حملہ کا پروگرام بن چکا ہے جس کا مجھے علم ہے.مگر اس کی تفصیلات میں اس صورت میں بتا سکتا ہوں اگر آپ کینیڈا میں مجھے ملاقات کا وقت دیں اور جواب اس عورت کے ہاتھ ارسال کر دیں.یہ خط ٹرینیڈاڈ سے تحریر کیا گیا تھا کیونکہ یہ شخص اب امریکہ سے ٹرینیڈاڈ منتقل ہو چکا تھا.حضور نے خط پڑھ کرامیر جماعت مکرم مولانامحمد صدیق گورداسپوری صاحب اور نیشنل پریذیڈنٹ مکرم رشید احمد صاحب کو طلب فرمایا اور مناسب کارروائی کی ہدایت فرمائی اور اس کے ساتھ ہی تمام تقریبات کو حسب پروگرام جاری رکھنے کا ارشاد فرمایا.جماعت کی طرف سے حکومتی ادارے کو اس امر سے مطلع کر دیا گیا اور اس کے ساتھ حفاظت کے انتظامات مزید سخت کر دئیے گئے.اگلے روز یہ عورت حضور کی آمد پر پھر مشن ہاؤس آ گئی لیکن اس کو وہاں سے رخصت کر دیا گیا.جب حضور نیو یارک تشریف لے گئے تو اس گروہ کے کچھ لوگ ہوٹل پہنچ گئے اور حضور سے ملنا چاہا لیکن انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی.جب حضور ٹورونٹو کینیڈا کے ایئر پورٹ پر پہنچے تو ایک شخص آکر حضور کے پیچھے کھڑا ہو گیا.سب سے پہلے حضور کی بیگم صاحبه سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو اس امر کا خیال آیا کہ یہ وہی شخص ہوسکتا ہے جس کی طرف سے وہ خط ملا تھا.آپ کے متوجہ کرنے پر اس شخص کو وہاں سے رخصت کر دیا گیا.یہ ٹورونٹو کے ایک ہوٹل میں
594 ٹھہرا ہوا تھا.پولیس کو مطلع کیا گیا تو پولیس نے اس کو تلاش کر کے اسے وارننگ دی کہ اگر اس نے احمدیوں کی کسی تقریب میں شرکت کرنے کی کوشش کی یا اس جگہ کے قریب گیا جہاں پر امام جماعت احمد یہ ٹھہرے ہوئے ہیں تو اسے گرفتار کر لیا جائے گا.اس کے بعد یہ شخص کہیں نظر نہیں آیا.(۲) واشنگٹن میں چند روز قیام کے بعد حضرت خلیفہ اصبح الثالث" ۳۰ جولائی کو ڈیٹن پہنچ گئے.سٹی کمشنر نے حضور کا خیر مقدم کیا اور شہر کی چابی پیش کی.اور مڈویسٹ اور لیک ریجن کے تین صدا حباب نے حضور کا استقبال کیا.ڈیٹین میں حضور کی آمد وہاں کے مقامی نو مسلم احباب کے لئے خاص طور پر خوشی کا باعث تھی اور حضور سے ملتے ہوئے ان احباب پر ایک خاص رفت کی کیفیت طاری تھی.بہت سے غیر مسلم احباب نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.ڈیٹن میں وہاں ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات نے حضور کے انٹرویو لئے.ملاقاتوں اور انٹرویو میں یہ سوال عموماً حضور سے پوچھا جاتا کہ آپ اہل امریکہ کو کس طرح مسلمان کریں گے.اس کا جواب حضور یہی دیتے کہ محبت پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ لوگوں کے دل اسلام کے لئے جیتے جائیں گے.ڈیٹن کی جماعت نے حضور کی آمد پر استقبالیہ کی تقریب کا اہتمام کیا جس میں دیگر احباب کے علاوہ ڈیٹن کے میئر اور مہران کانگرس نے بھی شرکت کی.حضور کے ڈیٹن میں قیام کے دوران امیر مڈویسٹ ریجن مکرم مظفر احمد صاحب ظفر اور دیگر احباب کا اخلاص اپنی ذات میں ایک نشان تھا.۴ راگست کو حضور ڈیٹن سے بذریعہ ہوائی جہاز نیو یارک تشریف لے گئے.نیو یارک اور قریب کی دوسری جماعتوں کے سینکڑوں احباب نے حضور کا استقبال کیا.ان دنوں میں پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے پاکستان کے بہت لوگوں کو مشکلات کا سامنا تھا.حضور کو اس بابت بہت تشویش تھی.حضور نے نیو یارک سے پیغام بھجوایا کہ سیلاب کے موجودہ ایام میں احمدی احباب کو خاص طور پر بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت اور پاکستان کا حافظ و ناصر ہو اور انہیں ہر طرح کی آفات سے محفوظ رکھے.۵/اگست کو حضور نے نیو یارک میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اس میں مختلف اخبارات ، نیوز ایجنسیوں اور ٹیلی وژن کے نمائندگان نے شرکت کی.اس پر یس کا نفرنس میں بھی حضور سے یہ سوال خاص طور پر کیا گیا کہ آپ کی یہاں پر آمد کا مقصد کیا ہے؟ حضور نے مسلمانوں کا اولین مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ دنیا کی صحیح سمت میں راہنمائی کرے.سو جو چیز مجھے یہاں لائی
595 ہے وہ یہ ہے کہ میں اہل امریکہ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس زمانہ میں نوع انسان نے اپنے مقصد کو فراموش کر دیا ہے اور وہ سراسر بے مقصد زندگی بسر کر رہے ہیں.اس کی مثال بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اس زمانہ میں انسان نے اپنی عقل کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے.حضور نے مثالوں سے عقل کی نارسائی کو واضح فرمایا اور بیان فرمایا انسان کو اللہ تعالیٰ کے سہارے کی کیوں ضرورت ہے اور اسے کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے.اسی روز حضور نے نیو یارک کی جماعت کی طرف سے دیئے جانے والے استقبالیہ میں شرکت فرمائی جس میں اقوام متحدہ میں متعین مختلف ممالک کے سفارتی نمائندگان نے بھی شرکت کی.حضور نیو یارک سے میڈیسن ( نیو جرسی ) تشریف لے گئے.یہاں پر حضور نے ۶ راگست ۱۹۷۶ء کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جماعتوں کے سالانہ کنونشن کا افتتاح فرمایا.کنونشن کے با قاعدہ افتتاح سے قبل شہر کے میئر نے حضور کو خوش آمدید کہا.اپنے افتتاحی خطاب میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے خلافت احمدیہ کے مقام کی اہمیت واضح فرمائی اور احباب کو نصیحت فرمائی کہ وہ خلافت کی مضبوط رسی کو تھامے رکھیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفے ﷺ کے لائے ہوئے پیغام کی اشاعت کے لئے کوشاں رہیں.اس کنونشن کے اختتامی خطاب میں حضور نے نئی نسل کی تربیت کے ایک جامع منصوبہ کا اعلان فرمایا اور نوع انسانی کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے امریکی احمد یوں کو ان کی اہم اور عظیم ذمہ داری کی توجہ دلائی.۸/ اگست ۱۹۷۵ء کو حضور واشنگٹن سے کینیڈا کے شہر ٹورونٹو تشریف لے گئے.تقریباً چارصد احباب نے حضور کے استقبال کی سعادت حاصل کی.یہ پہلا موقع تھا خلیفہ وقت کینیڈا کے ملک کا دورہ فرما رہے تھے.کینیڈا پہنچنے کے اگلے روز ہی حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اور اس کے بعد حضور کی زیر صدارت کینیڈا کے مختلف امراء کی میٹنگ منعقد ہوئی.حضور کی خدمت میں مختلف جماعتی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی گئی.اور یہ صورت حال بھی حضور کی خدمت میں پیش کی گئی کہ کینیڈا میں کوئی باقاعدہ مبلغ مشن ہاؤس اور مسجد نہ ہونے کی وجہ سے منظم بنیادوں پر کام نہیں ہو رہا.مسجد کی بابت حضور نے ارشاد فرمایا کہ موجودہ مرحلہ میں ہم کو مسجد کی تعمیر پر زیادہ رقم نہیں خرچ کرنی چاہئے بلکہ افادیت کو مد نظر رکھ کر ایسی مسجد تعمیر کرنی چاہیے جس سے ضرورت پوری ہو سکے.اس مرحلہ پر ایک دوست نے عرض کی کہ آجکل چرچ کی عمارتیں فروخت ہو رہی ہیں اور سستے داموں مل
596 جاتی ہیں.ہم بھی ایسی کوئی عمارت خرید کر اسے مسجد میں تبدیل کر سکتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا ہرگز نہیں ، ہم اپنی مسجد آپ بنا ئیں گے.ہم یہ الزام نہیں لینا چاہتے کہ ہم نے عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو مساجد میں تبدیل کر دیا ہے.حضور نے شرح کے ساتھ چندوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی.اور فرمایا کہ یہ درست نہیں کہ لوگ تھوڑی بہت رقم ادا کر کے سمجھ لیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے.جماعتی تنظیم کے سلسلہ میں حضور نے فرمایا کہ اتحاد تنظیم اور یکجہتی کے بغیر کوئی تنظیم قائم نہیں ہو سکتی اور ہو بھی جائے تو خاطر خواہ طریق پر چل نہیں سکتی لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ سرے سے کوئی اختلاف رونما ہی نہ ہو.اس بارہ میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر وہ اختلاف جس سے بہتری کے سامان پیدا ہوتے ہیں وہ اسلامی اختلاف ہے اور رحمت و برکت کا موجب ہے.برخلاف اس کے جس اختلاف کے نتیجے میں بہتری کے سامان پیدا نہ ہوں بلکہ تنظیم میں خلل پڑنے لگے اور فرائض کی ادائیگی میں پہلو تہی کا رحجان پنپنے لگے تو ایسا اختلاف سراسر غیر اسلامی ہے.اس روز حضور نے احباب جماعت سے ملاقات فرمائی اور کمیونٹی سنٹر کے لئے مجوزہ زمین کا معائنہ بھی فرمایا.اور جماعت احمدیہ کی طرف سے دیئے جانے والے استقبالیہ میں شرکت فرمائی.کینیڈا میں حضور کا قیام اار اگست تک رہا جس کے بعد حضور پھر واشنگٹن تشریف لے آئے.اور پھر ۱۵ اگست کو حضور امریکہ سے لندن تشریف لے آئے.۱۸ / اگست کو حضور لندن سے گوٹن برگ سویڈن روانہ ہو گئے.۲۰/ اگست کو حضور نے سویڈن میں بننے والی مسجد کا افتتاح فرمایا.مختلف ممالک سے آئے ہوئے چھ صد احباب نے اس مبارک تقریب میں شرکت کی.یہ پہلی مسجد تھی جو صد سالہ جوبلی منصوبہ کے تحت تعمیر ہوئی تھی.حضور نے خطبہ جمعہ میں اعلان فرمایا کہ دراصل مساجد تو اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں ہماری حیثیت تو محض نگران کی ہے.ہماری مساجد کے دروازے ان تمام لوگوں کے لئے کھلے ہیں جو خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں.حضور نے احباب جماعت کو تلقین فرمائی کہ وہ اس مسجد کو حتی الوسع صاف رکھیں تاکہ لوگ پوری دلجمعی اور اطمینان کے ساتھ اس میں خدا کی عبادت کر سکیں.اس تقریب سے قبل سویڈن ریڈیو کے نمایندوں نے حضور سے انٹرویو لیا.اور حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.ابھی اس مسجد کے افتتاح کو چند دن ہی گزرے تھے کہ کچھ یوگوسلاوین احباب بیعت کر کے میں داخل ہوئے.
597 سویڈن کے بعد حضور پہلے ناروے اور پھر ڈنمارک تشریف لے گئے.اور یکم ستمبر کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث ڈنمارک سے مغربی جرمنی تشریف لے گئے.مغربی جرمنی میں حضور پہلے ہمبرگ اور پھر فرانکفورٹ تشریف لے گئے.ستمبر کو حضور سوئٹزر لینڈ تشریف لے گئے.زیورچ میں سوئس ریڈیو نے عید کے موقع کے لئے حضور کا پیغام ریکارڈ کیا.۱۲ ستمبر کو حضور سوئٹزر لینڈ سے ہالینڈ تشریف لے آئے.ہالینڈ میں کچھ ڈچ ، سورینامی اور انڈونیشین احباب نے بیعت کی.۱۴ ستمبر کو حضور ہالینڈ سے واپس لندن تشریف لے آئے.جب اس سال عید الفطر کا مبارک موقع آیا تو حضورلندن میں تشریف رکھتے تھے.حضور نے عید کے موقع پر خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ خدا کا اپنے بندوں پر رجوع برحمت ہونا ہی اصل عید ہے کیونکہ اس کے پیار کے حصول سے بڑھ کر اور کوئی خوشی نہیں.حضور نے فرمایا کہ اس آخری زمانہ میں اسلام کے عالمی غلبہ کی صورت میں ایک عظیم الشان عید ہمارے لئے مقدر ہے.اس تاریخی دورہ کومکمل کر کے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۱۲۰ اکتوبر کو واپس مرکز سلسلہ ربوہ تشریف لے آئے.
598 (۱) خطبات ناصر جلد ششم ص ۵۰۶ (۲) تحریری روایت مکرم مولانامحمد صدیق گورداسپوری صاحب
599 حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی وفات حضرت سیدہ نواب مبارکه بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے ایک بابرکت وجود تھیں.آپ کی پیدائش ۲ مارچ ۱۸۹۷ کو ہوئی آپ کی پیدائش سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام بتایا گیا تھا تنشا فی الحلیة یعنی زیورات میں پرورش پائے گی.اس سے معلوم ہوتا تھا کہ لڑکی کی پیدائش ہوگی اور یہ لڑکی نہ کم عمری میں فوت ہوگی اور نہ تنگی دیکھے گی.پھر ۱۹۰۱ء میں آپ کے متعلق الہام ہوا ” نواب مبارکہ بیگم (۱) ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ” میں نے خواب میں دیکھا کہ مبارکہ سلمہا اللہ پنجابی زبان میں بول رہی ہے کہ مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے ایہہ مصیبت پائی.(۲) آپ کو بچپن ہی سے رویا صالحہ دکھائے جاتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میری یہ بچی بہت خواہیں دیکھتی ہے اور اکثر وہ خوا ہیں بچی نکلتی ہیں.آپ نے قاعدہ حضرت پیر منظور محمد صاحب سے پڑھا.حضرت پیر منظور صاحب نے قاعدہ میسر نا القرآن آپ کو اور اپنی ایک بیٹی کو پڑھانے کے لئے ایجاد کیا تھا.آپ بچپن ہی سے بہت ذہین و فہیم تھیں اور جلد ہی قرآن کریم روانی سے پڑھنے لگیں.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے آپ کو پہلے تین پاروں کا ترجمہ پڑھایا اور باقی ترجمہ آپ نے حضرت خلیفہ اول سے پڑھا.اس کے علاوہ آپ نے فارسی اور عربی کی بعض کتب پڑھیں.اور شادی کے بعد آپ نے انگریزی کی بھی کچھ تعلیم حاصل کی اور انگریزی کتب بھی آپ کے زیر مطالعہ رہتی تھی (۴).حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت نواب محمد علی خان صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک زندگی میں آخری سال میں ہوا.۱۷/فروری ۱۹۰۸ء کو حضرت مولانا نورالدین صاحب نے خطبہ نکاح پڑھا اور فرمایا کہ ایک وقت تھا جب کہ حضرت نواب صاحب موصوف کے مورث اعلیٰ صدر جہاں کو ایک بادشاہ نے اپنی لڑکی نکاح میں دی تھی.اور وہ بزرگ بہت ہی خوش قسمت تھا.مگر ہمارے دوست نواب محمد علی خان صاحب اس سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے نکاح میں ایک نبی اللہ کی لڑکی آئی ہے.(۳)
600 آپ کا شفیق وجود جماعت احمدیہ کے لئے بہت سی برکات رکھتا تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت اعلیٰ پائے کا ادبی ذوق عطا فرمایا تھا.آپ کا مجموعہ کلام در عدن آپ کی ادبی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر آپ کی تقاریر اور مضامین جماعت کے علمی سرمایہ کا ایک اہم حصہ ہیں.حضرت نواب محمد علی خان صاحب کا انتقال ۱۹۴۷ء میں ہو گیا تھا.آپ نے اس صدمہ کو بلند حوصلہ کے ساتھ برداشت کیا.۱۹۷۶ء میں ہی آپ کی طبیعت بہت زیادہ کمزور رہنے لگی تھی.ایک طویل علالت کے بعد آپ ۲ ۲ اور ۲۳ مئی ۱۹۷۷ء کی درمیانی شب اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئیں.اگلے روز حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے بہشتی مقبرہ کے احاطے میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور ہزاروں احباب نے اس جلیل القدر ہستی کی نماز جنازہ میں شرکت کی.۱۰ رجون ۱۹۷۷ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خطبہ جمعہ میں آپ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ہمارے لئے دوصد مے اوپر نیچے آئے پہلے حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ ہماری محتر مہ پھوپھی جان کی وفات ہوئی اور پھر چند دن کے بعد محترم ابوالعطاء صاحب کی وفات ہوئی.آپ سب مرد و زن اور چھوٹے بڑے اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہم بت پرست نہیں ہیں.ہم خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لاتے ہیں.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے متعلق آپ نے فرمایا کہ آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میری یہ بچی بہت خواہیں دیکھتی ہے اور کثرت سے یہ خواہیں بچی نکلتی ہیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کا ایک جلوہ ہے کہ ایک بچی جس پر ابھی شاید نمازیں بھی فرض نہیں ہوئی تھیں اللہ تعالیٰ کا اس سے یہ سلوک ہے کہ اسے کثرت سے اپنی قدرت کے نظارے دکھاتا ہے.پھر ساری عمر اللہ تعالیٰ نے آپ سے پیار اور محبت اور فضل اور رحمت کا سلوک کیا اور انہوں نے کبھی بھی اسے اپنی کسی خوبی کا نتیجہ نہیں سمجھا بلکہ دل میں یہی خیال پیدا ہوا کہ یہ خدا کی عطاء ہے.میں ہر دو کی بات کر رہا ہوں یعنی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور ابوالعطاء صاحب کے متعلق ان کے روئیں روئیں سے یہ آواز نکلی لا فخر (۵) (۱) تذکره ص ۳۳۸ (۲) تذکره ص ۲۷۷ (۳) مصباح دسمبر ۲۸ جنوری ۱۹۷۹ ء ص ۲۶ (۴) اخبار بدر ۲۷ فروری ۱۹۰۸ ء ص ۲ (۵) الفضل ۲۹ جون ۱۹۷۷ ء ص ۲، ۳
601 حضرت عیسی کی صلیب سے نجات پر لندن میں کانفرنس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے قبل مسلمان اور عیسائی دونوں اس عقیدہ میں مبتلا تھے کہ حضرت عیسی اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے.اور عیسائیت نے اس خیال کی بنیاد پر کہ حضرت عیسی صلیب پر ان کے گناہوں کے کفارہ کے لئے وفات پاگئے اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر آسمان پر تشریف لے گئے اور پھر اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے، اپنے مشرکانہ عقائد کو دنیا بھر میں پھیلایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس عقیدہ کی بنیاد پرحملہ فرمایا اور روشن دلائل سے ثابت فرمایا کہ حضرت عیسی کی صلیب پر وفات ہوئی ہی نہیں تھی اور نہ ہی وہ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے تھے.ان دلائل سے کفارہ کے عقیدہ کا بطلان خود بخود ہو جاتا ہے.اپنی وفات سے ایک روز قبل نماز عصر سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیح کے مسئلہ پر ہی تقریر فرمائی.اور یہ کسی مجلس میں آپ کی آخری تقریر تھی.موقع یہ تھا کہ مولوی ابراہیم سیالکوٹی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ وہ بعض مسائل پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھی عرض کی کہ پاس ادب سے گفتگو کریں گے.اس ضمن میں کسی دوست نے یہ عرض کی کہ وہ اس بات کے قائل نہیں کہ حضرت عیسی کو سولی پر لٹکایا گیا تھا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسئلہ وفات مسیح پر ایک مختصر تقریر کی.اس کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: افسوس ہے ان نام کے مسلمانوں پر کہ اپنی ناک کاٹنے کے واسطے آپ ہی دشمن کے ہاتھ میں چھری دیتے ہیں.یاد رکھو کہ اگر خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہوتا اور قرآن وحدیث میں حقیقتاً یہی امر اس نے بیان کیا ہوتا کہ واقعہ میں حضرت مسیح زندہ ہیں اور وہ مع جسم عصری آسمان پر بیٹھے ہیں اور یہ عقیدہ بھی حضرت مسیح کے بن باپ پیدا ہونے کی طرح خدا تعالیٰ کے نزدیک سچا عقیدہ ہوتا تو ضرور تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھی کوئی نہ کوئی نظیر پیش کر کے قوم نصاری کو اس امر کے حضرت مسیح کی خدائی کی دلیل پکڑنے سے بند اور لا جواب کر دیتا.مگر خدا تعالیٰ کے اس امر کی دلیل پیش نہ کرنے سے صاف عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر گز ہر گز یہ
602 منشاء نہیں جو تم محض افتراء سے خدا تعالیٰ کے کلام پر تھوپ رہے ہو بلکہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ نے محض موت ہی کے معنوں کے واسطے وضع کیا ہے اور یہی حقیقت اور اصل حال ہے.دیکھو ہر ایک خصوصیت جو کہیں کسی خاص شخص کے متعلق پیدا کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا ضرور جواب دیا ہے مگر کیا وجہ اتنی بڑی خصوصیت کا کوئی جواب نہیں دیا.خصوصیت ہی ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے شرک پیدا ہوتا ہے.(۱) وو حضرت بھائی عبد الرحمن قادیانی صاحب یہ تقریر قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں یہ حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی میں آپ کی آخری تقریر ہے جو آپ نے بڑے زور اور خاص جوش سے فرمائی.دورانِ تقریر آپ کا چہرہ اس قدر روشن اور درخشاں ہو گیا تھا کہ نظر اُٹھا کر دیکھا بھی نہیں جاتا تھا.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تقریر میں ایک خاص اثر اور جذب تھا.رعب، ہیبت اور جلال اپنے کمال عروج پر تھا.بعض خاص خاص تحریکات اور موقعوں پر حضرت اقدس کی شان دیکھنے میں آئی ہوگی جو آج کے دن تھی.اس تقریر کے بعد آپ نے کوئی تقریر نہیں فرمائی.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بہت سی کتب میں اس اہم موضوع پر دلائل بیان فرمائے اور خاص طور پر اپنی تصنیف ” مسیح ہندوستان میں میں اس موضوع پر بہت وسیع بنیادوں پر قائم تحقیق بیان فرمائی ہے.آپ نے اناجیل سے بھی دلائل بیان فرمائے ، تاریخی کتب اور طب کی پرانی کتب سے بھی دلائل دیئے.تاریخی کتب کے حوالے بھی درج کئے ، انساب کے علم سے بھی ثبوت مہیا فرمائے اور عقلی پہلو سے بھی عیسائیت کے عقائد کا بطلان واضح فرمایا.یہ مسئلہ مذہبی دنیا میں ایک بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.وقت گزرنے کے ساتھ جن دلائل کو آپ نے بیان فرمایا تھا ان کی صداقت اور بھی واضح ہوکر سامنے آتی رہی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فیصلہ فرمایا کہ ۱۹۷۸ ء میں اس موضوع پرلندن میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جائے.حضور اس کا نفرنس میں شرکت کے لئے ۸ رمئی ۱۹۷۸ء کور بوہ سے روانہ ہوئے.حضور نے روانگی سے قبل بعد نماز عصر احباب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا نفرنس کا وہاں پر چر چا شروع ہو گیا ہے.چرچ کی طرف سے اس پر اظہار ناپسندیدگی کیا گیا ہے.اور ہمارے
603 لندن مشن کو دھمکیوں پر مشتمل خطوط بھی موصول ہو رہے ہیں لیکن بہر حال ہمیں جو ہدایت قرآن کریم نے دی ہے وہ تو یہی ہے کہ فلا تخشوهم واخشونی یعنی تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ صرف مجھ سے ڈرو.چنانچہ اس کے مطابق ہم ان دھمکیوں سے نہیں ڈرتے اور ہماری فطرت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناکامی کا خمیر ہی نہیں ہے.پھر حضور نے فرمایا کفن مسیح کی تحقیق کے بارے میں ماہ مئی میں عیسائیوں نے جس کا نفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا تھا اسے غالباً ہماری اس کا نفرنس کی وجہ سے ہی اب ملتوی کر کے ماہ اگست پر ڈال دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اس کفن کے بارے میں کچھ تحریر نہیں فرمایا اور حضور نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی.اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح کے صلیب پر نہ مرنے اور زندہ اتارے جانے کے متعلق اتنی واضح شہادتیں اور زبردست ثبوت موجود ہیں کہ اگر عیسائی دنیا کا ایک حصہ اسے بناوٹی بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو بھی دنیا اب ان کے چکر میں نہیں آسکتی اور نہ ہی ہم اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں (۲).۲ رجون ۱۹۷۸ء کو اس کا نفرنس کا افتتاح ہوا.کئی ہفتہ پہلے ہی تمام سیٹوں کی ریز ویشن ہو چکی تھی.افتتاح کے وقت ہی ان جگہوں پر بھی جگہ خالی نہیں رہی جہاں ٹی وی کے ذریعہ کارروائی دکھائی جارہی تھی.کانفرنس کے آغاز پر امام مسجد لندن مکرم بشیر احمد رفیق صاحب نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے احباب کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم سب یہاں پر سچ کی تلاش میں اور خدا کی منشا کو پورا کرنے کے لئے آئے ہیں.یہاں پر ان عقائد کا پوسٹ مارٹم کرنا مقصود نہیں جن کی ترویج چرچ کی طرف سے کی جاتی ہے بلکہ ہمارا مقصد حقیقی مسیح کو تلاش کرنا ہے.اس کے بعد حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے کانفرنس کا با قاعدہ افتتاح فرمایا.اس کے بعد ہندوستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ پروفیسر ایف ایم حسنین نے اپنا مضمون پڑھنا تھا.آپ بہت سی کتب کے مصنف ہیں اور ۱۹۵۴ء سے لے کر ۱۹۸۳ ء تک کشمیر میں, State Archives Archeology Research, Museum کے ڈائریکٹر رہے.اپنی طرز کے آدمی تھے بہت سے سادھووں اور فقیروں کے پاس بھی جا کر رہتے رہے.اس کا نفرنس میں وہ بعض نا مساعد حالات کی وجہ سے لندن نہ پہنچ سکے اس لئے ان کا مقالہ ایئر مارشل ظفر چوہدری صاحب نے پڑھ کر سنایا.یہ مقالہ محلہ خانیار سرینگر میں یوز آسف کے مقبرہ کے بارے میں تھا.اور اس مقالہ میں
604 یوز آسف کے کشمیر میں آنے کے بارے میں تاریخی روایات بیان کی گئی تھیں.اس کے بعد ایک جرمن محقق Mr.Andreas Faber Kaiser جواب پین میں رہائش رکھتے تھے اپنا مقالہ پڑھنے کے لئے تشریف لائے.یہ صاحب مشہور کتاب Jesus died in Kashmir کے مصنف ہیں.آپ کے مقالہ کا عنوان تھا Jesus did not die on the cross یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی.اس مقالے میں انہوں نے اس بات کے ثبوت بیان کئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات صلیب پر یا اس کے نتیجے میں ملنے والے زخموں کے نتیجہ میں نہیں ہوئی اور وہ ان سے شفایاب ہو گئے تھے.پھر انہوں نے ٹیورن میں رکھے ہوئے اس کفن کی تفصیلات بیان کیں جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وہ کپڑا ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو واقعہ صلیب کے بعد رکھا گیا تھا.اس روز کی کارروائی کا آخری مقالہ Dr.Ladislav Filip کا تھا.آپ کا تعلق چیکو سلاویکیا سے تھا.آپ نے فلسطین کے باہر حضرت عیسی کی زندگی کے بارے میں ایک نیا نقطہ نظر کے موضوع پر لیکچر دیا.انہوں نے آغاز میں ہی کہا کہ حضرت عیسی کے زندگی کے بارے میں معقولیت پسند مورخین نے کم ہی کام کیا ہے.اس کے بعد انہوں نے مختلف تاریخی روایات بیان کیں جن میں واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی اور مختلف علاقوں کی طرف سفر کا اشارہ ملتا ہے.اس لیکچر کے بعد سوال جواب ہوئے اور پھر پہلے روز کی کارروائی ختم ہوئی.دوسرے روز جب کارروائی شروع ہوئی تو آڈیٹوریم پورا بھرا ہوا تھا اور باقی سامعین دوسرے ہالوں میں ٹی وی پر کارروائی دیکھ رہے تھے یا اس عمارت کے دوسرے حصوں میں لاؤڈ سپیکر پر کاروائی سن رہے تھے.اس روز کا پہلا لیکچر ڈنمارک کے مکرم عبد السلام میڈیسن صاحب کا تھا.انہوں نے اس مسئلہ کے متعلق قرآنی آیات پیش کیں اور ان سے استدلال بیان کیا.اس کے بعد کا نفرنس کے کنویز مکرم بشیر احمد رفیق صاحب امام مسجد لندن کا لیکچر تھا.انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں پائے جانے والے مختلف نظریات کا ذکر کیا اور پھرانا جیل کے مختلف حوالہ جات سے ثابت کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی.اس کے بعد حضرت چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب اپنا مقالہ پڑھنے کے لئے تشریف لائے.آپ کے مقالہ کا موضوع تھا
605 حضرت عیسی نبی یا خدا‘.آپ نے بائیل کے حوالہ جات سے واضح فرمایا کہ حضرت عیسی کا مقام اور آپ کا دعویٰ ایک نبی ہونے کا تھا جو بنی اسرائیل کے لئے مبعوث ہوئے تھے.اور آپ نے کبھی بھی خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا.اور بائیبل میں خدا کے بیٹے ہونے کا محاورہ کئی نیک لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے.اور حضرت عیسیٰ کی تعلیمات میں تثلیث کا نام ونشان تک نہیں ملتا.دو پہر کے وقفہ کے بعد صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا لیکچر شروع ہوا.اس کا موضوع تھا ” بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑیں.آپ نے اپنے لیکچر کی بنیاد حضرت عیسی کے اس قول پر رکھی کہ ” میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.( متی باب ۱۵).اس کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے مختلف محققین کی تحقیق کا نچوڑ بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل کے دس گم شده قبائل دراصل کشمیر، افغانستان اور تبت میں آباد ہوئے تھے اور حضرت عیسی نے اپنے وعدہ کے مطابق ان کی طرف سفر کیا اور ان کو خدا تعالیٰ کی طرف بلایا.اس کے بعد مکرم شیخ عبدالقادر صاحب نے اپنا مقالہ پڑھا.آپ نے عیسائیت پر تحقیق کے میدان میں اپنا ایک مقام پیدا کیا تھا.آپ کے مقالہ کا موضوع تھا واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی“.اس مقالہ میں آپ نے اناجیل اور Apocrypha اور دوسری تاریخی کتب کے بہت سے حوالے پیش کئے جن میں واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کا سراغ ملتا ہے.اس کے بعد اس کا نفرنس کے کنو میز اور امام مسجد لندن مکرم بشیر احمد رفیق صاحب نے ایک قرار داد پیش کی جسے حاضرین نے منظور کیا.اس قرارداد میں بھارت کی حکومت سے درخواست کی گئی کہ محلہ خانیار سری نگر میں واقعہ مقبرہ کو مذہبی تاریخی عمارت کا درجہ دیا جائے اور اس کے بعد دلچسپ سوال و جواب کا سلسلہ چلا.کانفرنس کا تیسرا روز ایک خاص تاریخی اہمیت کا حامل تھا.اس روز انیس ممالک اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پندرہ سو شر کا ء نے کانفرنس کی کارروائی میں شرکت کی.یہ کارروائی حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے خطاب پر مشتمل تھی.حضور نے اپنے خطاب کا آغاز اللہ تعالی کی وحدانیت کے ذکر سے فرمایا.اس کے بعد نجات اور عدل اور رحم کے مضمون پر روشنی ڈالی.پھر حضور نے حضرت عیسی علیہ السلام کی صلیب کی لعنتی موت سے نجات پر پُر معرفت خطاب شروع فرمایا اور مختلف دلائل بیان فرمائے.اور ہجرت مسیح علیہ السلام کے متعلق پیشگوئی بیان فرمائی.اس کا نفرنس کے دوران بہت سے محققین نے اپنے مقالوں
606 میں Turin Shroud پر ہونے والی تحقیق بیان کی تھی.اس کے متعلق حضور نے ارشاد فرمایا کہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ کی تحقیق میں اس کپڑے کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے.یہ کپڑا جسے حضرت عیسی کا کفن کہا جاتا ہے اصلی ہے یا جعلی ہے اس کا فیصلہ عیسائی دنیا نے کرنا ہے.اگر یہ جعلی ہے تو یہ سوال اُٹھے گا کہ اب تک عیسائی دنیا اسے اتنی اہمیت کیوں دیتی رہی ہے.اور اس کے جعلی ہونے سے ان دلائل پر کوئی فرق نہیں پڑتا جنہیں ہم پیش کرتے ہیں.اور اس کی حیثیت ایک گمشدہ کڑی کی نہیں ہے.اس کے بعد حضور نے بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان قبائل میں حضرت عیسی کی آمد کا مقصد ان کے ذہنوں کو اسلام کے لئے تیار کرنا تھا.اس تاریخی خطاب کے آخر میں حضور نے فرمایا کہ میں آپ کو حضرت محمد مصطفے ﷺ کی پیروی کی طرف دعوت دیتا ہوں.اس دنیا کی جھوٹی خوشیوں کا مقابلہ خدا تعالیٰ کی محبت سے نہیں ہوسکتا.مختلف چرچ بھی اس کانفرنس کا جائزہ لے رہے تھے.برطانیہ کے کیتھولک چرچ کے سر براہ کارڈینل ہیوم نے بیان دیا تھا کہ وہ اس کا نفرنس میں شرکت کے لئے ایک مبصر بھجوا رہے ہیں.اور پولینڈ کے کیتھولک چرچ نے بھی اس میں شرکت کے لئے اپنے دونمائندے بھجوائے تھے.برٹش کونسل آف چرچز نے اس کانفرنس سے پانچ روز قبل بیان جاری کیا تھا کہ وہ اس بات کے متمنی ہیں کہ احمدی مسلمان اور عیسائی آپس میں خدا تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں مشتر کہ خیالات پر اور حضرت عیسٹی کی اہمیت کے بارے میں ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کریں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تبادلہ خیالات پانچ مقامات پر یعنی لندن ، روم، ایک مغربی افریقہ کے دار الحکومت، وسطی ایشیا کے ایک دارالحکومت اور امریکہ میں کسی مقام پر ہونا چاہئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ایک خطبہ جمعہ میں اس کا نفرنس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.غرض اس رنگ کا پروپیگنڈا اور اشاعت وہاں ہوئی کہ انگلستان کے چرچ کو کچھ پریشانی سی لاحق ہو گئی.چنانچہ انہوں نے کانفرنس سے تقریباً دس دن پہلے اپنی طرف سے ایک ریلیز ایک خبر اخبارات کو بھجوائی اور اس کے نیچے یہ نوٹ دیا کہ اسے فلاں تاریخ سے پہلے شائع نہ کیا جائے.غالباً ۰ ۳ مئی یا یکم جون کی تاریخ تھی اور وہ ریلیز ہمارے مشن کو بھی بھجوا دی.میں نے اس کا جواب تیار کیا.کانفرنس میں میں نے بھی ایک چھوٹا سا مضمون
607 گند پڑھا تھا.اپنے مضمون کے بعد میں نے ان کی ریلیز پڑھ کر سنوا دی اور پھر اس کا جواب خود میں نے پڑھ کر سنایا.ایک تو ان کا خط تھا اور ایک ان کی ریلیز تھی.وہ دو علیحدہ علیحدہ کاغذوں پر تھے اور یہی دستور ہے.خط میں لکھا تھا کہ ہم Open Dialogue کرنا چاہتے ہیں یعنی کھلی بات چیت ہو.ہر ایک کو پتہ ہو کہ کیا تبادلہ خیال ہوا ہے.اور اسی خط کے اندر کے حصے میں تھا کہ unpublicised dialogue ہونی چاہئے یعنی ایسا تبادلہ خیال جس کی اشاعت نہ ہو.open اور unpublicised تو ویسے ہی متضاد چیزیں ہو گئیں.میں نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ یہ تو ساری دنیا کے ساتھ تعلق رکھنے والا معاملہ ہے اس کی اشاعت ہونی چاہئے اور صرف انگلستان میں ہی کیوں؟ میں نے دنیا کے مختلف حصوں کے نام لے کر کہا کہ ہم ہر جگہ تبادلہ خیالات کرنے کو تیار ہیں اور صرف انگلستان کی کونسل آف چرچز سے ہی کیوں ، ہم کیتھولکس سے بھی تبادلہ خیال کرنے کو تیار ہیں.دنیا کو پتہ لگنا چاہئے کہ وہ عقائد جو غلط طور پر حضرت مسیح کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے اور وہ واقعات جو حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے.میں نے اس کا وہاں اعلان کیا اور یہ اخباروں میں بھی آگیا اور پھر انہی صاحب کو جن کے دستخط سے کونسل آف چرچز کی طرف سے دعوت نامہ ملا تھا وہاں کے مشنری انچارج عزیز بشیر رفیق صاحب کی طرف سے خط گیا کہ ہمارے امام نے آپ کا دعوت نامہ قبول کر لیا ہے اور وہ اس قسم کی بحث یا تبادلہ خیال کا انتظام کریں گے لیکن بڑا لمبا عرصہ گزر گیا اس کا کوئی جواب نہیں آیا.کانفرنس کے آخری دن ۴ / جون کو میں نے یہ اعلان کیا تھا پھر ان کو ایک یاد دہانی کروائی گئی اور اس یاددہانی کا جواب دس پندرہ دن کے بعد ایک اور دستخط سے یہ آیا کہ ان صاحب نے جن کے دستخط سے یہ دعوت نامہ آیا تھا مجھے یہ کہا کہ میں ان کی طرف سے آپ کو یہ جواب لکھ دوں کہ چونکہ انہیں اسلام کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں اس لئے آپ نے جو پوائنٹس جو نکات اٹھائے ہیں ان کے متعلق جب تک وہ ان پادریوں سے مشورہ نہ کرلیں جو اسلام کے متعلق معلومات رکھتے ہیں اس وقت تک وہ جواب نہیں دے سکتے ان سے مشورہ کرنے کے بعد وہ جواب دیں گے.
608 اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں جماعت پھیلی ہوئی ہے.ساری دنیا میں ہمارے جو مبلغ ہیں انہیں میں نے لکھا کہ چونکہ دعوت کے جواب میں میں نے کیتھولکس کو بھی شامل کیا ہے اس لئے آپ بڑے پیار کے ساتھ انہیں تبادلہ خیال کے لئے بلائیں.اپنے جواب میں بھی میں نے لکھا تھا کہ پیار کے ساتھ اور امن قائم رکھتے ہوئے اس قسم کے تبادلہ خیالات ہونے چاہئیں.چنانچہ کیتھولکس بشپس کو بھی دنیا کے مختلف حصوں میں لکھا گیا اور ان کا رد عمل یہ تھا کہ اکثر نے جواب ہی نہیں دیا.جنہوں نے جواب دیا ان میں ایک جاپان کے کیتھولک بشپ ہیں، ایک برلن کے کیتھولک بشپ ہیں اور بعض اور ہیں جن کے علاقوں کے نام مجھے یاد نہیں.انہوں نے صاف طور پر یہ لکھ دیا کہ مسیح کی خدائی پر ہمارا پختہ عقیدہ ہے اسلئے ہم اس معاملہ پر آپ سے کسی قسم کی بات کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں.(۳) اسی خطبہ جمعہ میں حضور نے اپنے خطاب کی تیاری کے متعلق فرمایا : اس کا نفرنس میں سب سے آخر میں میں نے بولنا تھا.اور میرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ سوائے دعا کے اور میں کچھ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اگر اس کو ایک کتاب کہیں تو کتاب کے بہت سے باب ہوتے ہیں اور مجھ سے پہلے کسی نہ کسی مقرر نے ان ابواب کے عنوان کے ماتحت چھوٹے سے چھوٹے مضمون کو بھی تفصیل سے بیان کر دیا تھا....چنانچہ ایک دن ایک منٹ میں خدا تعالیٰ نے دماغ کھول دیا.پہلے میں فرینکفرٹ میں قریباً بیس بائیس دن رہا تھا وہاں بھی دماغ کھل نہیں رہا تھا.میں نوٹ لکھتا تھا لکھواتا تھا لیکن تسلی نہیں ہوتی تھی آخر جب خدائے عزیز وکریم کا فضل نازل ہوا اور میں نے مضمون مسلسل لکھوانا شروع کر دیا اور خدا نے بڑا فضل کیا کہ وہ ایسا مضمون ہو گیا جس قسم کا میں خدا کے فضل سے امید رکھتا تھا کہ مجھے عطا ہو جائے گا.اس سلسلہ میں ایک بات خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ہی کفن مسیح کے متعلق عیسائی دنیا میں بحث چل پڑی تھی.ویسے تو یہ دیر سے کفن دکھا رہے ہیں لیکن انیسوی صدی میں بھی انہوں نے دو تین دفعہ اس کی زیارت کروائی اور ستر ستر اسی اسی لاکھ آدمی ہر زیارت پر وہاں گئے اور انہوں نے زیارت کی اور اخباروں میں اس کا چرچا ہوا.سب کچھ ہوا لیکن حضرت مسیح موعود
609 علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائی عقائد کے متعلق اتنا مواد اکٹھا کرنے کے باوجود کہ یہ عقائد مسیح کی شان کے خلاف ہیں....آپ نے کفن مسیح کا کہیں نام بھی نہیں لیا.میں فرینکفرٹ میں ہی تھا کہ خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالا کہ اس کو بالکل اہمیت نہیں دینی.آج کل اسے بہت اہمیت دی جارہی ہے اور ہمارے بعض مضمون نگاروں نے بھی وہاں دی لیکن میری آخر میں باری تھی.میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ جہاں تک Shroud of Turin یعنی اس کفن مسیح کا تعلق ہے جو انہوں نے ٹیورن میں رکھا ہوا ہے ہمارے نزدیک اسے کوئی اہمیت نہیں دینی چاہئے اس لئے اگر یہ محفوظ نہ رہتا اور مرور زمانہ اس کی یاد بھی انسان کے دماغ سے مٹا دیتا تب بھی ان دلائل پر جو ہمارے پاس موجود ہیں کوئی اثر نہ پڑتا.(۴) اس کا نفرنس میں شرکت کے لئے مختلف ممالک سے بہت سے مبلغین کرام تشریف لائے ہوئے تھے.کانفرنس کے بعد یورپ ، افریقہ اور امریکہ سے آئے ہوئے ان مبلغین کرام کی ایک کانفرنس مورخہ ۸ / جون کو منعقد ہوئی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے گیارہ بجے سے دو بجے تک ان سے خطاب فرمایا.جلد ہی اس کانفرنس پر متوقع رد عمل سامنے آنے لگا.اس پر حضور نے انگلستان کے احباب جماعت کے سامنے ارشاد فرمایا کہ لندن کا نفرنس نے سب سے بڑا کام یہ کیا ہے اس نے عیسائی دنیا کو غصہ دلا دیا ہے.پہلے یہ لوگ بڑے آرام سے بیٹھے ہوئے تھے اور سمجھتے تھے کہ کوئی آدمی ان پر غالب نہیں آسکتا.ان کے ساتھ کوئی بات نہیں کر سکتا.چیلنج تو ان کو ۱۹۶۷ء میں بھی دیا گیا تھا لیکن یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ خاموش رہیں تو ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں.لیکن اب وہ بات نہیں رہی.خود انگریز اپنے چرچ سے کہہ رہے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے تمہارا چیلنج قبول کر لیا ہے تو تم بھی ان کی دعوت قبول کر لو.(۵) حضور نے اس دورہ کے دوران ڈنمارک ، مغربی جرمنی سویڈن اور ناروے کا دورہ فرمایا.اس کے ساتھ مغربی افریقہ کا دورہ بھی ہونا تھا مگر بعض نامساعد حالات کی وجہ سے یہ دورہ منسوخ کرنا پڑا.
610 (۱) ملفوظات جلد پنجم ص ۶۹۴، ۲۹۷ (۲) الفضل ۱۰ مئی ۱۹۷۸ء ص ۱ (۳) خطبات ناصر جلد ہفتم ص ۴۱۵.۴۱۶ (۴) خطبات ناصر جلد ہفتم ص ۴۲۲ - ۴۲۳ (۵) الفضل ۵ جولائی ۱۹۶۵۶۱۹۷۸
611 تعلیمی منصوبہ کا اعلان حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے ۱۹۷۹ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت احمدیہ کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک منصوبہ کا اعلان فرمایا.اس موقع پر آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.اصل چیز یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے متعلق جو پیش خبریاں دیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے آپ نے فرمایا: خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.بڑا عظیم الہام ہے بڑی عظیم پیشگوئی ہے....میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ اگلے دس سال کے بعد آنے والے سو سال میں جس صدی کو میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں ہمیں ایک ہزار سائنسدان اور محقق چاہئیں اور یہ جو اس سے پہلے دس سال ہیں اس میں ایک سوسائنسدان اور محقق چاہئیں.....اب ہم اسی سلسلہ میں جو دوسرا بڑا ہی اہم پہلو ہے اسے لیتے ہیں وہ ذہن رسا ہے جو ماں کی گود میں خدا تعالیٰ کی رحمت سے آتا ہے.پیدائش کے وقت.ضائع کر دیا جاتا ہے یا سنبھال لیا جاتا ہے.میں نے پہلے بھی کہا اب بھی کہنے لگا ہوں اور کہتا رہوں گا کہ اصل بات تو یہ ہے کہ کوئی ذہین بچہ خواہ وہ افریقہ کے جنگلات میں پیدا ہو یا نیو یارک کے محلات میں.وہ ماسکو میں پیدا ہو یا خانہ کعبہ کے علاقہ میں پیدا ہو.کوئی ذہین بچہ (جو ذہن خدا کی عطا ہے ) ضائع نہیں ہونا چاہئے اور نوع انسانی کو اس بچے کو اس کے ذہن کو سنبھالنا چاہئے.یہ بنیادی حقیقت اور اصول ہے جو اسلام نے ہمیں بتایا اور جسے اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.لیکن جماعت احمد یہ اس بنیادی اصول کو عملاً آج قائم نہیں کر سکتی.یہ بھی ایک حقیقت
612 ہے.جتنا ہم سے ہو سکتا ہے ہم کرتے ہیں.ایک وقت میں ہم سے یہ ہوا کہ جب ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام کالج کی بنیاد پڑی.....مجھے پرنسپل مقرر کر دیا گیا.جب میں نے قرآن کریم حفظ کیا اور مولوی فاضل پاس کیا تو میں نے انگریزی تعلیم شروع کر دی.پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی.پھر آکسفورڈ چلا گیا.جب واپس آیا تو حضرت صاحب کو خیال تھا کہ شاید میں عربی بھول گیا ہوں گا، دینی تعلیم بھول گیا ہوں گا.مجھے جامعہ احمدیہ میں استاد لگا دیا.پھر میں نے از سر نو تیاری کی، پڑھا اور پڑھایا اور ۱۹۳۸ء کے آخر سے لے کر ۱۹۴۴ء تک جامعہ احمدیہ میں ایک استاد کی حیثیت سے پھر پرنسپل کی حیثیت سے میں نے کام کیا.پھر ۱۹۴۴ء میں جب کالج بنا تو مجھے جامعہ احمدیہ سے نکال کر ( میں واقف زندگی ہوں میں یہ واقعہ بتا رہا ہوں ہر قدم پر ہر حکم میں نے بشاشت سے قبول کیا.میں نے اپنی زندگی وقف کی تھی خدمت کے لئے اپنے آرام کے لئے نہیں کی تھی ) کہا گیا کہ تم کالج کے پرنسپل لگ جاؤ.خیر میں بن گیا پرنسپل.ایک ہدایت جو مجھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دی، وہ یہ تھی کہ کالج ہم نے اس پسماندہ ملک کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے جاری کیا ہے تبلیغ کے لئے جاری نہیں کیا.اس کے لئے ہمارے دوسرے محکمے ہیں.اس واسطے اس کالج میں ہر عقیدہ کا لڑکا جو غریب اور ذہین ہے اس کو اگر تمہاری طاقت ہے اور جس حد تک تمہاری طاقت ہے تم نے پڑھانا ہے.یہ چیز میرے دماغ میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اچھی طرح داخل کر دی تھی.اللہ جانتا ہے ولا فخر ہماری جماعت کا مزاج ہے بے لوث خدمت کرنا اور ہر احمدی کا بھی یہی مزاج ہے.یونیورسٹی کا قاعدہ یہ ہے کہ ایک پرنسپل کل تعداد طلباء کی جو ہے اس کی دس فیصدی کو نصف فیس معاف کر سکتا ہے اور بس.یعنی اگر چار سولڑ کا ہو تو صرف ۴۰ لڑکوں کی آدھی فیس معاف کر سکتا ہے اس سے زیادہ کی نہیں کر سکتا.مجھے جو حکم تھا وہ یہ تھا کہ ذہین بچے کو پڑھا سکتے ہو تو پڑھاؤ.سچی بات یہ ہے کہ کسی سے نہیں پوچھا میں نے کہ یونیورسٹی کا قاعدہ میں توڑنے لگا ہوں تو ڑوں یا نہ توڑوں.میں نے یہ سوچا جب میرا امام حضرت مصلح موعود یہ کہہ رہا ہے کہ
613 جس حد تک پڑھا سکتے ہو پڑھاؤ تو میں پڑھاتا جاتا ہوں.میں نے سو میں سے پچاس لڑکوں کی فیس معاف کر دی.چارسو میں سے چالیس کی نہیں سو میں سے پچاس کی یعنی دس فیصد کی بجائے پچاس فیصد کی معاف کر دی جن میں سے آگے پچاس فیصد وہ طلبہ تھے جن کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں تھا.مجھے کہا گیا تھا کہ یہ تعلیم کا ادارہ ہے تبلیغ کا ادارہ نہیں ہے.جو غریب لڑکا ذہین بچہ آیا میرے پاس اس کو میں نے داخل کیا.نہ صرف اس کی فیس معاف کی.اس کے کھانے کا انتظام کیا.بعض دفعہ اس کے کپڑوں کا انتظام کیا.اس کے علاج کا انتظام کیا......اب میں نے پچھلے دنوں میں سوچا کہ اگر کوئی غریب ہے تو وہ بی اے بھی پاس نہیں کر سکتا.اس کو تو میں نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا.استغفار کی اور آج میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ جماعت احمد یہ ذہین بچے کو پرائمری سے سنبھالے گی.پانچویں جماعت کا جب امتحان دے گا (بورڈ کا ) اور ذہین ہوگا اور غریب ہوگا تو اس کو جماعت سنبھال لے گی.لے کے پالے گی نہیں سنبھال لے گی....اس کے بعد حضور نے فرمایا: 66 تو آپ میری مدد کریں دعاؤں کے ساتھ.دو دعاؤں سے آپ میری مدد کریں.ایک یہ کہ یہ سکیم جو ہے اس کا اجراء جماعت اور قوم کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو (۲) اور اس سے بھی اہم دعا یہ کریں اپنے رب سے کہ اے خدا! مرزا ناصر احمد کی یہ خواہش ہے کہ اگلے سو سال میں ایک ہزار انتہائی غیر معمولی ذہین سائنسدان جماعت احمدیہ کو ملیں تو اس خواہش کو پورا کر اور اس خواہش کے لئے جو وہ دعائیں کریں ان کو بھی قبول کر اور جو ہم کریں ، انہیں بھی قبول کر.....ہمارے سیکھنے کا بڑا اعلم ہے پھیلا ہوا اس دنیا اور کائنات میں.بہر حال یہ کتابوں کے ذکر کے ساتھ علم کا ذکر آیا اور علم کے ذکر کے ساتھ اس وعدہ اور بشارت کا ذکر آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ محمد ﷺ کی عظمت اور شان پہنچاننے والوں کے علوم اور تحقیق میں برکت ڈالی جائے گی اور وہ اپنے میدان میں اس جگہ پہنچیں گے کہ دوسروں کا منہ بند کرنے والے ہوں گے.اس کا ایک پہلو آ گیا سامنے کل
614 کو ایک دوسرا آجائے گا پھر تیسرا آ جائے گا.دروازہ کھل گیا اب آگے ہی آگے چلیں گے.انشاء اللہ تعالی (1) حضور کے اس اعلان کے بعد مارچ ۱۹۸۰ء میں جب جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت کا اجلاس ہوا تو اس میں ایک سب کمیٹی اس غرض کے لئے قائم کی گئی تھی کہ یہ جائزہ لے کہ جماعت احمدیہ کی نئی نسل میں تعلیم کا معیار کہیں پہلے کی نسبت گر تو نہیں رہا.اور اگر یہ معیار گر رہا ہے تو اسے بڑھانے کے لئے کیا ذرائع استعمال کئے جاسکتے ہیں.اس سب کمیٹی نے یہ عملی اقدامات کئے کہ جب تک طلباء اور طالبات کے بارہ میں ہر قسم کے تعلیمی کوائف نہ منگوائے جائیں اس وقت تک اس پر کما حقہ غور نہیں ہو سکتا.چنانچہ ضروری کوائف کے تعین کے بعد انہیں طبع کروا کر مختلف جماعتوں کو بھجوائے گئے.اور حضور کی ہدایت کے مطابق تمام امراء شہر ضلع کا ایک اجلاس مرکز میں منعقد کیا گیا تا کہ کوائف جمع کرنے کے طریقہ کار کو واضح کیا جائے اور اس بارے میں ان سے ضروری مشورہ کیا جائے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ارشاد فرمایا تھا کہ مشوروں میں طلباء کو شامل کیوں نہیں کیا جاتا.چنانچہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے موقع پر آئے ہوئے کالجوں اور یو نیورسٹی کے طلباء سے بھی مشورے کئے گئے.ان اقدامات کے نتیجہ میں جو صورت حال سامنے آئی اس کی روشنی میں کمیٹی نے جس کی صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کر رہے تھے یہ رپورٹ مجلس مشاورت میں پیش کی کہ یہ مفروضه درست نہیں کہ احمدی طلباء اور طالبات کا معیار تعلیم گر رہا ہے.تاہم تعلیمی معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش جاری رہنی چاہئے.اور نظارت تعلیم کو چاہئے کہ وہ طلباء کی راہنمائی کے لئے ایک Cell قائم کرے، جس میں مختلف تعلیمی اداروں کے بارے میں معلومات مہیا ہوں.نظارت تعلیم ، احمد یہ سٹودنٹس ایسوسی ایشن کے تعاون سے ایسی Coaching کلاسز جاری کریں جن میں ہوشیار طلباء کمزور طلباء کی اعانت کریں.اس کمیٹی نے سفارش پیش کی کہ مختلف شہروں کے طلباء حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے ہیں.اس پروگرام کو وسیع تر کرنا چاہئے تا کہ طلباء حضور سے براہ راست راہنمائی حاصل کریں.نظارت تعلیم ایسے احمدی صنعت کاروں اور ماہرین فن کے کوائف بھی حاصل کرے جو طلباء کو عملی تجر بہ مہیا کرنے میں کوئی مدد کر سکتے ہوں.یہ بھی سفارش کی گئی کہ ربوہ کی خلافت لائبریری میں مختلف موضوعات سے تعلق رکھنے والی کتب موجود
615 ہونی چاہئیں تا کہ رخصت کے ایام میں ربوہ آنے والے طلباء ان سے استفادہ کر سکیں.اس کمیٹی نے طلباء کی اس خواہش سے بھی اتفاق کیا کہ سال میں ایک مرتبہ مرکز سلسلہ میں احمدی طلباء کا اجتماع منعقد کیا جائے جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث طلباء سے خطاب فرما ئیں اور بے تکلف گفتگو کا موقع عنایت فرمائیں.اس رپورٹ پر مختلف احباب کی آراء سننے کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے فرمایا....دوسرے یہ کہ جب یہ کمیٹی بنائی تھی اس کے بعد بہت کچھ ہم آگے نکل گئے.مثلاً جلسہ سالانہ پر میں نے وظائف کا اعلان کیا.ایک کمیٹی بھی بنائی انہوں نے سمجھا ہی نہیں وہ سمجھے یہ انعامی وظائف ہیں.گذشتہ جلسہ سالانہ پر میں نے کسی انعامی وظیفے کا اعلان نہیں کیا.میں نے یہ اعلان کیا تھا جو ہمارے لڑکے مستحق ہیں.یعنی طالب علم اور اللہ تعالیٰ نے جوان کا یہ حق قائم کیا ہے کہ ذہن دے کے ہمیں کہا کہ اس کی نشو و نما کرو.ان کو بغیر نشو ونما کے نہیں چھوڑا جائے گا.ان کی مختلف شکلیں بنتی ہیں.وہ وظیفہ ہے یا ادا ئیگی حقوق طلبہ اس کا نام رکھنا چاہئے وظائف بھی نہیں.ایک گھرانہ ہے اس میں ایک بڑا ذہین بچہ پیدا ہوا وہ گھرانہ سارا خرچ نہیں برداشت کر سکتا اعلی تعلیم کا.بیس فیصد خرچ برداشت کرسکتا ہے.وہ میں فیصد اس کو ضرور خرچ کرنا پڑے گا.اس کے بعد وہ جماعت کے پاس آئے اور کہے کہ اسی (۸۰) فیصد میں نہیں خرچ کر سکتا.یہ مجھے دے دیا جائے..میں نے یہ سوچا کہ ہمارے صوفی بشارت الرحمن صاحب اور نظارت تعلیم جتنا مرضی زور لگا لیں طلبہ کے اتنے پتے نہیں حاصل کر سکتے جس طرح اس سکیم سے مہیا ہو جائیں گے.پھر بھی کچھ رہ جائیں گے کیونکہ آپ سب کو اطلاع نہیں دیتے اور اس کے مطابق میں نے یہ اعلان کیا پہلے اس ایریا میں اعلان تھا اب ساری جماعت کو میں کہتا ہوں کہ ہر وہ بچہ اس سال امتحان میں پاس ہو وہ مجھے خط لکھے.ہر بچہ پہلی جماعت سے لے کے کنڈرگارٹن سے لے کے پی ایچ ڈی تک ہر بچہ جو امتحان پاس کرتا ہے وہ اس سال مجھے خط لکھے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہر اس بچے کے لئے خاص طور پر دعا کروں گا.“ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ پانچویں اور مڈل جماعت کے بورڈ کے امتحان میں جو احمدی بچہ
616 پہلی تین سو میں سے اور میٹرک ، انٹر میڈیٹ اور بی اے اور بی ایس سی کے امتحانات میں جو پہلی دوسو میں اور ایم اے ، ایم ایس سی ، میڈیکل اور انجینیئر نگ میں سے جو پہلی میں میں سے پوزیشن لے گا اسے حضور کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر کی ایک جلد یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب اپنے دستخطوں سے مرحمت فرمائیں گے.(۲) اس کے بعد حضور نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ جو احمدی طلباء یونیورسٹی اور بورڈ کے امتحانات میں پہلی تین پوزشنوں میں سے کوئی پوزیشن حاصل کریں گے انہیں حضور کی طرف سے میڈل دیا جائے گا.حضور نے ۱۵ اگست ۱۹۸۰ ء کو مسجد فضل لندن میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تعلیمی منصوبہ دوسال کے لئے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش سے شروع کیا گیا ہے.آپ نے فرمایا میں نے اس بات پر بہت سوچا ہے کہ خدا تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ایک ذہین بچہ ہے.ذہن رسا سے بہتر کوئی چیز نہیں.ایسے ذہن کے لئے اگر ایک ملین روپیہ بھی دینا پڑے تو دیں.ہم نے یہ کوشش کرنی ہے کہ ہر ذہین بچے کو سنبھالا جائے اور جینیئس کو ہر قیمت پر سنبھالنا ہے.ہم نے اس منصوبہ کے ذریعہ اسلام کو غالب کرنا ہے.کوئی بچہ ایسا نہیں ہونا چاہئے جو میٹرک سے پہلے تعلیم چھوڑ دے.ہم آدھا پیٹ بھر کر تو زندگی گزار سکتے ہیں مگر بچوں کو تعلیم ضرور دلوائیں گے.حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ علم کے میدان میں آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے اور یہ یاد رکھا جائے کہ اللہ کی مدد کے بغیر کوئی شخص علم حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا.اور اس کے لئے دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی فضلوں کے دروازے کھٹکھٹاؤ اور یاد رکھو کہ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ جو یہ دروازہ کھٹکھٹائے گا اس کے لئے یہ دروازہ کھولا جائے گا.حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اقتباس میں سے ایک فقرہ لیا.یہ فقرہ تھا فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے“ حضور نے فرمایا کہ اس سے یہ مراد ہے کہ تحقیق کے میدان میں احمدیوں کو اللہ تعالیٰ کے افضال حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے اور تحقیق کی راہوں پر اس طرح چلیں کہ نوع انسانی کے خادم بنیں.حضور نے فرمایا کہ جب تک قرآنی ہدایت کے مطابق علمی تحقیق میں آگے نہیں بڑھو گے اس وقت تک تم دنیا کے معلم نہیں بن سکو گے.اس لئے یہ منصوبہ خدا تعالیٰ کے اذن سے شروع کیا گیا
617 ہے.پھر فرمایا یہ زمانہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے اور غلبہ اسلام کے لئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں انتہائی قربانیاں دے کر آگے بڑھنا ہے اور ان قربانیوں کے میدان میں ایک علم کا میدان بھی ہے.(۳) پھر اسی دورہ کے دوران حضور نے نائیجیریا کے شہر لیگوس میں مسجد کے افتتاح کے بعد خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تک ہم اسلام سے نفرت کرنے والے لوگوں کو تعلیم کے میدان میں شکست نہ دے دیں گے ہم اسلام کو نہیں پھیلا سکتے.پھر حضور نے نائیجیریا کے شہر الا رو میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمدیہ غافلوں کی جماعت نہیں ہے.یہ سکالروں، پڑھے لکھوں کی جماعت ہے.ہم کو ہمارے خدا نے بتایا ہے کہ ہم اس کے قریب ہوں اور اس کی ذات کا عرفان حاصل کریں.اللہ تعالی ساری دنیا کا علم رکھتا ہے اور دنیا کے تمام علوم کیمسٹری،حساب فزکس، فلکیات وغیرہ اس کی صفات کے مظہر ہیں اور جتنا زیادہ آپ ان علوم کو حاصل کرتے چلے جائیں گے اتنا زیادہ آپ خدا کی صفات کا علم حاصل کر سکیں گے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ آپ اس کی صفات کا علم حاصل کریں اور دنیا کی ہر سائنس پڑھیں.(۳) اس طرح حضرت خلیفہ امسیح الثالث جماعت میں تعلیمی منصوبہ کا آغاز فرمایا.اس منصوبہ کے تحت حوصلہ افزائی کے لئے حضور کی طرف سے طلباء کو انعامات اور میڈل بھی دئے گئے.حضور کی راہنمائی میں کثیر تعداد میں طلباء کو تعلیمی وظائف دیئے گئے.اور جماعت میں ایک نئی آگاہی پیدا ہوئی کہ انہیں خدمت اسلام کے لئے تعلیم اور تحقیق کے میدان میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے.(۱) الفضل ۲۵ فروری ۱۹۸۰ ص ۲ تا ۶ (۲) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۸۰ء ص ۱۸۲.۱۹۰ (۳) خالد نومبر، دسمبر ۱۹۸۰ء ص ۵۴ تا ۵۹
618 احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا قیام جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت طلیقہ اسیح الثالث کی شدید خواہش تھی کہ احمدی طلباء تعلیم کے میدان میں پوری دنیا سے آگے نکل جائیں اور اپنے اندر اسلامی اخلاق پیدا کر کے اسلام کی خدمت کریں.اور اس طرح جماعت کی نئی پود اسلام کی خدمت کے لئے کما حقہ تیار ہو سکے.ظاہر ہے کہ اس کے لئے طلباء کی تعلیم وتربیت اور تنظیم پر خاص توجہ دینے کی ضرورت تھی.احمدی طلباء کی تنظیم احمد یہ سٹودنٹس ایسوی ایشن کا قیام بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی تھی.اس کی تنظیم رفتہ رفتہ شروع ہوئی اور حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو اس کا پہلا سر پرست مقرر فرمایا.ابتدائی دنوں میں پنجاب یونیورسٹی لاہور اور لاہور کے دیگر کالجوں کے احمدی طلباء نے اس تنظیم کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دیں.مکرم منور نعیم صاحب اس ایسوسی ایشن کے پہلے صدر تھے.اور آپ کے بعد مکرم چوہدری کریم الدین صاحب نے احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے صدر کے فرائض سرانجام دیئے.اور جلد ہی لاہور کے علاوہ فیصل آباد اور دوسرے شہروں میں اس ایسوسی ایشن کی شاخیں قائم ہوگئیں.اس تنظیم کا ایک اہم سنگ میل پہلا سالانہ کنونشن تھا جونومبر ۱۹۸۰ء میں ربوہ میں منعقد ہوا اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس کنونشن سے خطاب فرمایا.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث خطاب فرماتے تو یہ محض ایک رسمی خطاب نہیں ہوتا تھا بلکہ اس میں ایک بے تکلف گفتگو کا رنگ پایا جاتا تھا اور اس موقع پر موجود طلباء کو انتہائی ادب سے بیٹھے ہوتے تھے لیکن یہی محسوس کرتے تھے جیسے وہ اپنے ایک دوست کی مجلس میں موجود ہیں.حضور نے اس خطاب کو بھی رسمی انداز میں شروع کرنے کی بجائے ایک لطیف انداز میں شروع فرمایا.حضور نے فرمایا:.قرآنِ کریم نے اس عظیم کائنات Universe کے متعلق جو بنیادی حقائق ہمارے سامنے رکھے ہیں ان میں سے ایک بہت ہی اہم بنیادی حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کی، کہ یہ منتشر اجزا کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک منطقی مجموعہ ہے.یعنی ہر چیز کا، کائنات کی ہر چیز کا، میں کہہ رہا ہوں کائنات کی ہر چیز کا دوسرے کے ساتھ ایک تعلق ہے اور یہ اصول توازن پر
619 قائم کیا گیا ہے وَضَعَ الْمِیزَانَ ( الرحمن :).ابھی جو تلاوت ہوئی ہے اس کے اندر یہ آ گیا ہے.اتنا عظیم مضمون اس چھوٹی سی آیت میں یا آیت کے ٹکڑہ میں بیان ہوا وَ ضَعَ الْمِیزَانَ کہ 66 آپس میں توازن قائم کیا گیا ہے..اس کے بعد حضور نے کائنات میں اور شخش میں پائے جانے والے توازن کو بیان فرمایا اور پھر حضور نے نئی تحقیقات کی روشنی میں انسان کے جسم میں پائے جانے والے بعض عجائب کا ذکر فرمایا.اب اگر ایک نا واقف اس خطاب کا مطالعہ کرے تو شروع میں شاید یہ خیال کرے کہ ایک ایسوسی ایشن کے پہلے کنونشن سے خطاب کے آغاز میں یہ امور بیان کرنے سے کیا حاصل ہوسکتا ہے.لیکن جولوگ حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کے خطابات سنتے رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس معارف کو بیان کر کے جب ہر علمی ذوق رکھنے والے شخص کی توجہ کما حقہ اس طرف مرکوز ہو جاتی تھی تو حضور حاضرین کو اس خطاب کے اصل مقصد کی طرف توجہ دلاتے تھے.چنانچہ یہ معارف بیان کرنے کے بعد حضور نے فرمایا دوسری حقیقت یہ پتہ چلی ہمیں قرآن کریم سے کہ انسان کا، جو ریسرچ پروگرام ہے انسانیت کا تحقیق کا میدان جو وہ نہ ختم ہونے والا ہے.اس واسطے آپ کے سامنے ہر نسل کے سامنے تحقیق کے دروازے کھلے ہیں.....اور تیسری حقیقت اس زمانے کی یہ ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ احمدی طالب علم اس میدان 66 میں سب سے آگے نکلیں.“ اسی خطاب میں حضور نے فرمایا کہ کہ تعلیمی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وہ متوازن غذا ئیں استعمال کریں اور اس ضمن میں حضور خاص طور پر سویا بین اور اس سے حاصل شدہ سویا سینتھین کی افادیت پر تحقیق بیان فرمائی کہ کس طرح اس کے استعمال کرنے سے ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے.اس خطاب کے آخر میں حضور نے دعا کروائی.دعا اسی کنونشن کے موقع پر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی طرف سے دئے گئے عصرانے میں شرکت فرمائی.اس موقع پر بھی حضور نے خطاب کیا اور اس کے آغاز میں حضور نے فرمایا
620 بہترین نتیجہ اس وقت نکلتا ہے جب انسان تد بیر کو اپنی انتہا تک پہنچائے اور دعا کو اپنی انتہا تک پہنچائے.جہاں تک آپ کا سوال ہے طلبہ کا ، تدبیر کرنا بڑی حد تک آپ کا کام ہے.تھوڑا سا میرا حصہ بیچ میں آ گیا کہ میں نے آپ کو یہ مشورہ دیا کہ سویا سیتھین کھایا کریں.جہاں تک دعا کا سوال ہے، میں تقریباً ہر نماز میں طلباء اور طالبات کے لئے دعا کرتا ہوں.اور آپ کا فرض ہے کہ جس حد تک ممکن ہو آپ دعا کریں.“ ایک عارف باللہ کا کام ہے کہ وہ ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی خشیت کو مد نظر رکھے اور اسی سے کامیابی کا طالب ہو اور دعا میں لگا رہے اور صرف اپنی تدبیر پر ناز نہ کرے.اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضور نے کچھ مثالیں بیان فرمائیں.حضور نے فرمایا:..اور یہ ایک حقیقت ہے کہ دیتا اللہ تعالیٰ ہی ہے.بڑے بڑے ذہین بچے ٹوٹتے ٹکڑے ہوتے میں نے دیکھے ہیں.ہمارے ساتھ گورنمنٹ کالج میں گوجرانوالہ کا ایک ذہین غیر احمدی لڑکا داخل ہوا.وہ چوٹی کے نمبر پندرہ میں پوزیشن بھی ان میں غالبا تھا اور بڑا اس کو ناز تھا اپنے علم اور اپنے دماغ پر.اور کہتا تھا میں بس چھلانگیں مارتا ہوا....آئی سی الیس میں پہنچ جاؤں گا.سخت متعصب گھرانے کا وہ بچہ، فرسٹ ایئر میں میں جب داخل ہوا ہوں وہ بھی داخل ہوا.تو وہ ذرا پہلے آ کے انتظار کرتا تھا....اور نہایت فضول گالیوں سے ہمیں خوش آمدید کہتا تھا.یعنی میں تو اسے خوش آمدید ہی کہتا ہوں کسی کے گالی دینے سے تو کچھ نہیں بنتا...ہمارے پیریڈ کچھ مضامین مختلف تھے خالی ہو جاتے اکٹھے تو ڈھونڈ ڈھانڈ کے اور وہاں پاس آ کے کھڑا ہو جاتا اور گالیاں نکالنی شروع کر دیتا.اور امتحان سے پہلے انٹرمیڈیٹ کے اللہ تعالیٰ نے اسے پاگل کر دیا.دماغ خراب ہو گیا اس کا.پاگل خانے چلا گیا....یہ جو عقل دیتا ہے لے بھی سکتا ہے.یہ عقل لنڈے بازار میں تو نہیں ملتی کہ جا کے آپ خرید لائیں بوری بھر کے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ذہن رسا عطا کرتا ہے انسان کو.اور اسے یہ طاقت بھی ہے کہ اگر غصے میں آئے اور سمجھے کہ سزا اس فرد کی یہ ہے کہ اس سے ذہن واپس لے لیا جائے.واپس لے لیتا ہے.اور یہ تو غیر احمدی پر غصہ تھا نا.ایک احمدی پر غصہ ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے نکالا.خوف کا مقام ہے.ایک اسی طرح بڑا ذہین
621 احمدی بچہ ہمارے ٹی آئی کالج میں داخل ہوا.جب کالج لا ہور میں تھا.اس کے والد کو میں ذاتی طور پر بھی جانتا تھا میرے اس کے ساتھ تعلقات تھے اور بڑے پیار سے میں نے داخل کیا، اسے رکھا.مہینے دو مہینے کے بعد اس کا والد آیا اور کہنے لگا میرے کچھ رشتہ دار غیر مبائع ہیں وہ میرے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ تمہارا بچہ اتنا ذہین اور یہ تو آئی سی ایس اور Superior Services میں جانے والا دماغ اور یہ کیا ظلم کیا تم نے اپنے خاندان پر اور ہمارے پر اور اس بچے پر کہ اسے تعلیم الاسلام کا لج میں داخل کر دیا اور جب وہ انٹرویو میں جہاں بھی جائے گا کہے گا میں تعلیم الاسلام کالج کا پڑھا ہوا ہوں.اس کو نمبر نہیں دیں گے فیل کر دیں گے.اس کی مائیگریشن کراؤ گورنمنٹ کالج لاہور میں.میں نے اسے آرام سے سمجھایا...دیکھو خدا تعالیٰ کو جماعت احمدیہ کے لئے بڑے غیرت ہے.تو یہ اس کو ناراض کرنے والی بات نہ کرو.اور آرام سے سمجھایا، میرے ساتھ تعلقات بھی تھے.وہ چلا گیا.پندرہ دن بعد پھر آ گیا پھر وہ اس کے انہی غیر مبائع دوستوں نے کہا کہ یہ تم نے کیا حرکت کی ہے.پھر میں نے سمجھایا پھر وہ چلا گیا.پھر دس پندرہ دن کے بعد آیا اور اس وقت اس کی حالت ایسی تھی کہ کہ میں سمجھا کہ اگر میں نے دستخط نہ کئے تو اس کو ابتلاء آ جائے گا.میں نے کہا ادھر لاؤ فارم.فارم اس کے ہاتھ میں تھا پر کیا ہوا.میں دستخط تو کر دیتا ہوں لیکن میں تمہیں یہ بھی بتا تا ہوں کہ یہ لڑکا ایف اے پاس نہیں کرے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے لئے بڑی غیرت ہے.خیر میں نے دستخط کئے وہ گیا.اس کے اتنے نمبر تھے گورنمنٹ کالج والوں نے اسی وقت اس کو داخل کر لیا.پانچ سال کے بعد ایک دن ڈاک میں میرے نام خط.اور شروع یہاں سے ہوا کہ شاید آپ کو یاد نہ رہا ہو میں اپنا تعارف کروادوں آپ سے.میں وہ نوجوان ہوں جس کے فارم پر دستخط ہوئے آپ نے کہا تھا یہ لڑکا ایف اے نہیں کر سکے گا.انٹر میڈیٹ نہیں کر سکے گا.میں آج تک انٹر میڈیٹ پاس نہیں کر سکا.پھر وہ کوئی تجارت 66 میں گیا.اس کے والد بھی بیچارے فوت ہو گئے.یہ پرانی بات ہے ۵۳ ء سے پہلے کی.“ پھر آخر میں حضور نے فرمایا: وو ” اس واسطے وہ ایک در ہے بس اور کسی جگہ جانا ہی نہیں چاہئے.اس در کو کھٹکھٹا ئیں مل
622 66 جائے گا تمہیں.خدا کرے آپ اس حقیقت کو سمجھیں اور اس سے فائدہ اُٹھا ئیں.“ ابتداء میں احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے جن عملی خدمات سے آغا ز کیا ان میں اپنی تنظیم سازی کے علاوہ طلباء کے لئے فری کو چنگ کلاسز کا اجراء بھی تھا.ان کلاسز میں طلباء ہی دوسرے طلباء کو پڑھاتے اور ان کی تعلیم میں ان کی مدد کرتے.ان کلاسز کا اجراء ربوہ میں کیا گیا.اور ربوہ سے باہر سے بھی طلباء آکر ان سے استفادہ کرتے.یہ کلاسز ایف ایس سی کے طلباء کے لئے لگائی جا رہی تھیں.اور جولائی ۱۹۸۰ ء تک ایسی تین کلاسز لگائی جا چکی تھیں.جب تیسری کلاس کا افتتاح ہوا تو اس سے خطاب کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے سرپرست حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے فرمایا کہ احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے قیام کا مقصد احمدی طلباء کے کردار کی تعمیر اور اسلامی اخلاق حسنہ کا قیام ہے.تاکہ ان میں خدمت قربانی اور ایثار کا جذبہ پیدا کیا جائے جو کہ جدید تہذیب کے کسی بھی سطح اخلاق سے بہت اعلیٰ اور بلند ہے.اس موقع پر محترم صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ اس طرح کی کلاسز کا اجراءر بوہ سے باہر دوسرے شہروں میں بھی کیا جائے.(۱) اس کے علاوہ اس ایسوسی ایشن کی سرگرمیاں زیادہ تر آپس کے تعلقات بڑھانے اور نئے طلباء کی راہنمائی تک محدود تھیں.جب ۱۹۸۱ء میں اس ایسوسی ایشن کا دوسرا کنونشن ہوا تو اس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا:.پہلی بات تو اللہ تعالیٰ کی حمد ہے.جب سے تعلیمی منصوبہ جاری ہوا ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو علم میں بات آئی ہے اس میں پہلے سے زیادہ برکتیں نظر آتی ہیں کہ اس وقت ہمارے ستائیس طلباء اور طالبات یہ جو ہم نے تین تمغے ہم نے فرسٹ ، سیکنڈ اور تھرڈ کے لئے ہم نے رکھے ہیں ان کے مستحق قرار پا چکے ہیں.اور یہ صرف پاکستان کی تصویر ہے.انشاء اللہ تعالیٰ اگر انسان خدا کا شکر گزار بندہ بنے تو برکتیں ہر آن بڑھتی چلی جاتی ہیں لَبِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم:۸) جب میں نے یہ منصوبہ جاری کیا تو ذہن میں صرف یہ نہیں تھا کہ اچھے طالب علم پیدا ہوں.ذہن میں یہ تھا کہ اچھے ایسے طالب علم پیدا ہوں جو سلسلہ عالیہ احمدیہ کی اس رنگ میں خدمت کرنے والے ہوں جس رنگ میں کہ خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم خدمت
623 کریں.مثلاً ڈاکٹر ز فزیشن اور سر جن میری مراد ہے.کیونکہ جو پی ایچ ڈی کر لیتے ہیں وہ بھی ڈاکٹر کہلاتے ہیں میں ان کی بات اس وقت نہیں کر رہا، اچھے نکلیں اور جو ہم مظلوم اور پسماندہ دنیا کی خدمت کی کوشش کر رہے ہیں، مثلاً افریقن ممالک میں وہاں جا کے وہ خدمت کریں...“ پھر حضور نے مرکز کی ضروریات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.تو ضرورت بڑھتی چلی جارہی ہے.پھر خدمت کا جو مرکز ہے اسکی ضروریات جہاں تک تعلیمی Excellence جو مہارت اور ہنر اور حسن اور نور ہے علم کے میدان میں ،سب سے زیادہ ہمیں اس کی یہاں ضرورت ہے کیونکہ یہ مرکز ہے ہمارا.مثلاً ہمارا ہسپتال ہے ہمارے ہسپتال میں اب بھی ہماری کمزوریوں کے باوجود دور دور سے علاج کے لئے بھی اور آپریشن کے لئے بھی آجاتے ہیں.دنیا کا بہترین احمدی ڈاکٹر یہاں آنا چاہئے.اور اس کا ہر لحاظ سے بڑا اثر ہے کیونکہ تلوار کے زور سے تو نہ اسلام پہلے پھیلا نہ اب پھیلانا ہے ہم نے.محبت اور پیار اور اسلامی اخلاق جو ہیں وہ اثر کرتے ہیں قریب لاتے ہیں.یہ جو ارے ہیں یہ تبلیغی ادارے نہیں لیکن یہ ادارے احمدیت کے قریب لانے کا موجب بن جاتے ہیں، واسطہ بن جاتے ہیں.پھر حضور نے مرکز میں انتظامی امور کے لئے درکار واقفین کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا دوسرے یہاں کا جو نظام ہے اس کے لئے آرٹس سائڈ (Arts Side) کے اچھے ذہین، یہ نہیں جو سات دفعہ بی اے میں فیل ہو جائے ، وہ آجائے میرے پاس کہ جماعت کو بڑی ضرورت ہے اور مجھے رکھ لیں یہاں نائب ناظر.تو وہ پھر میں سات دفعہ فیل کرنے والا نظام قائم کر دوں نا.مجھے ایسا نظام چاہئے جو ایک دفعہ بھی فیل نہ ہو.تو جو وقف کی روح کے ساتھ ایم اے آرٹس سائڈ کے اوپر یا اچھے بڑے ٹاپ کے دماغ وہ یہاں 66 آئیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھوکا نہیں مارے گا.“ با وجود بے پناہ مصروفیات کے حضور کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ براہ راست طلباء سے رابطہ رکھیں اور طلباء بھی اپنی محبت کی وجہ سے حضور کے ارشادات سے براہ راست مستفید ہونے کے لئے مشتاق
624 رہتے تھے.چنانچہ اس خطاب میں فرمایا:.ایک چیز جو میں نے اب شروع کی تھی کہ میرا آپ کے ساتھ ملاپ زیادہ رہنا چاہئے.اس کے لئے میں نے یہ سوچا ہے (میاں طاہر احمد صاحب نوٹ کریں ) کہ سال میں چار دفعہ میں آپ کو چائے کی دعوت پر بلاؤں گا.....اور ہفتے میں کون سا دن Suit کرے گا.مجھے جمعہ نہیں Suit کرتا.جمعہ میرا پرائیویٹ دن ہے.اس میں میں تلاوت زیادہ کرتا ہوں.اس میں مجھے دعائیں بڑی کرنی پڑتی ہیں.سب سے زیادہ بوجھ کا کام اس دن ہوتا ہے جو چھٹی کا دن سمجھا جاتا ہے.کیونکہ جمعہ کا خطبہ کوئی مذاق تو نہیں نا.مولوی صاحب کی طرح میں نے گالیاں تو نہیں دے دینی کھڑے ہو کے.میں تو کچھ یعنی قرآن میں سے کچھ نکال کر پیش کرنا ہے.اور میں نہیں نکال سکتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے نہ سمجھائے.پھر بڑی دعا کرتا ہوں.بڑے نشان دیکھتا ہوں خدا تعالیٰ کے اس میدان میں.“ یہاں حضور نے ان غیر احمدی مولوی صاحب کا ذکر فرمایا تھا جن کو حکومت نے ریلوے سٹیشن کی زمین میں مسجد بنا کر امام مقرر کیا تھا.معلوم نہیں کہ نماز پڑھاتے تھے کہ نہیں لیکن وہ لاؤڈ سپیکر پر احمدیوں کو گالیاں دینے پر ہر وقت ضرور مستعد رہتے تھے.اور جب سونے کا وقت ہوتا تو بعض اوقات ٹیپ ریکارڈر کولا وڈسپیکر کے سامنے رکھ کر اہل ربوہ کی نیندیں حرام کرنے کا جہاد سرانجام دیتے.بہت کم دوسرے مولویوں نے مسجد کو گالی گلوچ کے لئے اس طرح استعمال کیا ہو گا.) باقی شہروں کی طرح کراچی کے احمدی طلبہ نے بھی احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی تنظیم کا کام شروع کیا.اور اپنا ایک مجلہ الناصر کے نام سے جاری کیا.اور ان کے اجلاسات بھی منعقد ہونے شروع ہوئے.مکرم الطاف قدیر صاحب نے ان کاوشوں میں نمایاں کردار ادا کیا.یہ اس تنظیم کا آغاز تھا بعد میں رفتہ رفتہ پاکستان کے باہر بھی احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی تنظیم کے کام کا آغاز ہوا.
625 (۱) الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۸۰ ء ص۱
626 دورہ یورپ، افریقہ شمالی امریکہ.۱۹۸۰ء ۱۹۸۰ءکا سال جماعتی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے.اس سال حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے بیرونی ممالک کا آخری دورہ فرمایا اور سپین کی مسجد کا سنگ بنیا درکھا گیا.یہ دورہ تین بر اعظموں اور تیرہ ممالک پر محیط تھا.اس کے دوران حضور نے مغربی جرمنی ، سوئٹزر لینڈ، آسٹریا، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، ہالینڈ، سپین، نائیجیریا، غانا، کینیڈا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور انگلستان کا دورہ فرمایا.حضور ۲۹ / جون ۱۹۸۰ء کور بوہ سے روانہ ہوئے.اس دورہ کا آغاز مغربی جرمنی سے ہوا اور حضور نے اس ملک میں تبلیغی مساعی کے کام کا جائزہ لیا اور راہنمائی فرمائی اور احباب جماعت نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.حضور کا قیام فرینکفرٹ میں تھا.یہاں پر حضور نے ایک پر لیس کا نفرنس میں بھی شرکت فرمائی.اس کے دوران حضور نے فرمایا کہ قرآنی تعلیم پر عمل پیرا ہونے سے بین الاقوامی محبت اور اخوت کی فضا قائم ہوسکتی ہے اور اس ضمن میں متعدد قرآنی آیات پیش کیں.اس پر ایک صحافی نے کہا کہ ایسی ہی اعلیٰ تعلیم عیسائیت بھی پیش کرتی ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے سے محبت اور باہمی خیر خواہی کی فضا قائم ہوسکتی ہے.حضور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس میں شک نہیں کہ ہر مذہب نے اخلاق پر زور دیا ہے.میں جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسلام نے بین الاقوامی سطح پر امن و آشتی اور انسانی حقوق کی جو تعلیم دی ہے وہ کسی اور مذہب نے نہیں دی.حضور نے بائیبل کا جرمن ترجمہ اس صحافی کو دیتے ہوئے کہا کہ باہمی محبت و اخوت ،شرف انسانی کے قیام اور انسانی حقوق کے احترام کے متعلق جو متعدد آیات قرآنی میں نے پڑھ کر سنائی ہیں اگر ان کا چوتھا حصہ بھی آپ بائیبل سے نکال کر دکھا دیں تو میں آپ کی بات مان لوں گا.صحافی مذکور نے ایسی کوئی آیت نکالنے سے معذوری ظاہر کی.اس کے بعد حضور نے بائیبل کی بعض آیات پڑھ کر سنا ئیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ بائیل کی ہدایت تمام بنی نوع انسان کے لئے نہیں تھی اور یہ کہ وہ انسان انسان میں تفریق کرتی ہے.اس کا نفرنس میں متعدد اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کے نمایندے شریک ہوئے تھے اور یہ تقریباً تین گھنٹے جاری رہی اور شرکاء کیا تاثر لے کر لوٹے اس کا اندازہ وہاں کے ایک با اثر اخبار
627 Frankfurter Rundschau کی اس سرخی سے ہوسکتا ہے جو اس نے کانفرنس کی خبر کے اوپر لگائی اور وہ سرخی تھی، " محبت کا سفیر.اسی طرح ایک اور اخبار نے صفحہ اول پر حضور کی تصویر کے نیچے یہ عبارت درج کی محبت کا سمندر.جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا ناصر احمد.احباب جماعت کو اپنے اموال کی حفاظت کی نصیحت اللہ تعالیٰ مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا (فرقان : ۶۸ ) - یعنی ” اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ اس کے درمیان اعتدال ہوتا ہے.اور سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد خداوندی ہے کہ اِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيطِيْنِ وَكَانَ الشَّيْطَنُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (بنی اسرائیل : ۲۸) یعنی یقینا فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے.یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ فضول خرچی کے نتیجہ میں آدمی نہ صرف خود تباہ ہوتا ہے بلکہ جس قوم میں یہ بدعت موجود ہو وہ قوم بھی طرح طرح کے مصائب میں مبتلا ہو جاتی ہے.فرینکفرٹ میں اپنے قیام کے دوران حضور نے وہاں پر ان احمدیوں سے ملاقات کی جو پاکستان سے نقل مکانی کر کے یہاں پر کام کر رہے تھے.حضور نے ان سے ملاقات کر کے ان کی تعلیمی استعدادوں کا جائزہ لیا اور ان سے سوال کیا کہ وہ کتنے عرصہ سے مغربی جرمنی میں قیام پذیر ہیں.اور اس امر کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد حضور نے ان سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنے محنت سے کمائے ہوئے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے اپنا مستقبل بنانے اور اس طرح دنیا کے نئے علاقوں میں قرآنِ کریم کا پیغام پہنچانے کی تلقین فرمائی.حضور نے فرمایا میں جب پہلے یہاں آیا تھا تو میں نے آپ کو وارنگ دی تھی کہ آپ اپنے پیسے کی حفاظت کریں.اسلام حلال ذرائع سے کمائے ہوئے مال کو خرچ کرنے سے منع نہیں کرتا ، وہ نا واجب خرچ سے منع کرتا ہے.جن حالات میں سے آپ لوگ گزر رہے ہیں.ان کے پیش نظر آپ لوگوں کے لئے اپنے کمائے ہوئے مال کی حفاظت بدرجہ اولیٰ ضروری ہے.حضور نے انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ سرمایہ جمع کر کے دنیا کے بعض دوسرے ملکوں میں جا کر وہاں تجارت کر کے یا بہت سستے داموں میں ملنے والی زرعی زمینیں خرید کر اور زرعی فارم قائم کر کے اپنا
628 مستقبل بھی بنا سکتے ہیں اور وہاں پر قرآن کی اشاعت کر کے وہاں کے لوگوں کے لئے ہدایت کا سامان بھی بن سکتے ہیں.(۱) جرمنی کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثالث سوئٹزر لینڈ تشریف لے گئے.یہاں پر حضور نے اس ملک میں تبلیغی مساعی کا جائزہ لے کر راہنمائی فرمائی اور مختلف احباب نے شرف ملاقات حاصل کیا.یہاں پر حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا اور مقامی جماعت اور زیورک کے میئر نے حضور کے اعزاز میں استقبالیہ دیا.چار روز کے بعد حضور سوئٹزر لینڈ سے واپس جرمنی تشریف لے آئے.اور اس مرحلہ پر ہیمبرگ بھی تشریف لے گئے.پھر اس کے بعد دورہ ڈنمارک کا آغاز ہوا.حضور نے یہاں پر ایک استقبالیہ کی تقریب میں شرکت فرمائی اور اس موقع پر مجلس سوال و جواب بھی منعقد ہوئی.۲۴ جولائی ۱۹۸۰ ء کو حضور نے احباب جماعت سے خطاب فرمایا.حضور نے خطاب کے آغاز میں ایک احمدی کا مقام بیان کیا اور فرمایا کہ ان سب باتوں کو پیش نظر رکھے بغیر اور ان پر غور کئے بغیر ایک احمدی کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق نہیں مل سکتی.حضور نے ڈنمارک کے احمدی احباب کو ایک اہم بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یورپین قوموں کے افراد خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی آگ کی طرف بھاگے جا رہے ہیں اور آپ ہیں کہ آرام سے بیٹھے ہیں اور انہیں بچانے کی فکر نہیں کرتے.یہاں آکر چند ہزار کرونے (ڈنمارک کی کرنسی ) کمانا تو کوئی کام نہیں.اصل کام تو ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی آگ سے بچانا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل تو بارش کی طرح برس رہے ہیں اور ہمیں بیدار کر رہے ہیں کہ ہم آگے بڑھیں اور ان لوگوں کو اس آگ سے بچائیں جو ان کے چاروں طرف بھڑک رہی ہے لیکن آپ کے دلوں کی حالت اور عمل کی کیفیت ایسی نہیں جس سے آپ کے پوری طرح بیدار ہونے کا ثبوت مل سکے.ہمارے جو لوگ دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں میرے نزدیک ان کی حالت کسی نہ کسی حد تک قابل اصلاح ہے.ان پر ماحول کا اثر ہورہا ہے گو انہیں اس کا پریہ نہیں.ڈنمارک کے بعد حضور کے دورہ سویڈن کا آغاز ہوا.اس دورہ کے دوران حضور کا قیام گوٹن برگ میں تھا.حضور نے سویڈن میں اپنے سہ روزہ قیام کے دوران ایک استقبالیہ میں شرکت فرمائی ، جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی.احباب جماعت سے ملاقات کے علاوہ
629 مختلف اخباری نمائندگان سے بھی ملاقات فرمائی.وہاں کے مشہور اخبار Arbetet کے نمائندگان نے انٹرویو کے دوران بعض مسلمان ممالک میں رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہاں کے بعض لیڈروں کے پُر تشد د نظریات کا ذکر کیا.اور دریافت کیا کہ ان کا طرز عمل کہاں تک اسلام کے مطابق ہے.حضور نے فرمایا تمام مذہبی لیڈروں کا میرے دل میں احترام ہے لیکن خود اسلامی تعلیم کی رو سے تشدد خواہ کسی شکل میں ہو، میں اس کے خلاف ہوں.امن کسی صورت میں برباد نہیں ہونا چاہئے.ہمیشہ قائم رہنے والی کامیابی پر امن طریقوں سے ہی حاصل ہوتی ہے اس لئے اسلام نے اس کو برقرار رکھنے اور اس میں کوئی رخنہ نہ ڈالنے پر بہت زور دیا ہے.میں تو تشدد کا جواب تشدد سے نہ دینے کا قائل ہوں.کیونکہ اگر ہر حالت میں تشدد کا جواب تشدد سے دینے کو ضروری اور لازمی سمجھا جائے تو تشدد کا چکر کبھی ختم نہیں ہوگا.یہی وجہ ہے کہ جب آج سے چند سال قبل احمد یوں کے خلاف تشدد ہوا تو میں نے احمدیوں کو صبر سے کام لینے کی تلقین کی اور انہیں جواباً کسی قسم کا تشدد اختیار نہیں کرنے دیا.اوسلو(ناروے) میں مشن ہاؤس اور مسجد کا افتتاح اس دورہ کے دوران ایک اور اہم واقعہ اوسلو (ناروے) میں مشن ہاؤس اور مسجد کا افتتاح بھی تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے یہ افتتاح یکم اگست ۱۹۸۰ء کو فرمایا.اس روز پہلے ایک طویل پریس کا نفرنس منعقد ہوئی.پھر نماز جمعہ کے ذریعہ افتتاح عمل میں آیا.حضور نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے.اور یہ ان تمام لوگوں کے لئے کھلی ہے جو داخل ہو کر خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہیں.یہ جماعت احمدیہ کی ناروے میں پہلی اورسکینڈے نیویا میں تیسری مسجد تھی.اس مسجد کا نام حضرت خلیفہ اسی الاول کے نام پر مسجد نور رکھا گیا.حضور نے ناروے کے عہدیداروں کو ہدایات دیں کہ وہ ست خدام کو چست بنا ئیں.اور جماعت کے مالی نظام کے متعلق بھی ہدایات سے نوازا.اور ارشاد فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ بیرونی مشنوں اور جماعتوں میں باقاعدہ آڈٹ کا نظام رائج کیا جائے.پہلے وہ یہاں آکر ڈبل انٹری سسٹم متعارف کرائیں اور پھر وہ وقفہ وقفہ سے یورپ کے تمام مشنوں کا آؤٹ کر کے حساب تیار کریں.
630 جہاں ایک جماعت میں اکثر مخلصین ہوتے ہیں وہاں چند لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا طرز عمل جماعتی معیار کے مطابق نہیں ہوتا.حضور نے ناروے میں خطاب کرتے ہوئے ان معدودے چند ا حباب کو جن کا طرز عمل قابل اصلاح تھا انتباہ فرمایا کہ ایک بات اور بتا دوں اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ اپنے مہدی اور اس کی جماعت کے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے.تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.وہ شدید العقاب بھی ہے.اس کی پکڑ بڑی سخت ہے.لیکن وہ خود کہتا ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ (الاعراف : ۱۵۸) یعنی میری رحمت ہر ایک چیز پر حاوی ہے.پس اس کی رحمت سے حصہ لینا چاہئے نہ کہ اس کے غضب سے.‘ (۳،۲) ناروے کے بعد حضور نے ہالینڈ کا دوروز کا دورہ فرمایا.ہالینڈ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد حضور برطانیہ تشریف لے آئے.برطانیہ میں آکر حضور نے ایک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.اس میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ یورپ میں ہم اسلام کی جو تبلیغ کر رہے ہیں اس میں ایک رکاوٹ ایسی ہے جو اب تک دور نہیں ہوسکی ہے.وہ رکاوٹ یہ ہے کہ ہمارے اور یورپین قوموں کے درمیان ایک Barrier حائل ہے جو دونوں کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتی.اس بیرئر کو ہم نے اب تک نہیں تو ڑا ہے.تبلیغ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمارے قریب آئیں.وہ قریب نہیں آسکتے جب تک درمیان میں حائل Barrier نہ ٹوٹے.اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے اس Barrier کو توڑنے کا منصوبہ القاء کیا ہے.اس منصوبے کا تعلق اس اسلامی ادارہ سے ہے جسے عید گاہ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے.اس کے بعد حضور نے اس منصوبہ کی تفصیلات بیان فرمائیں کہ شہر سے باہر زمین کے بڑے قطعات لئے جائیں.اس غیر مستقف قطعہ میں نماز پڑھی جا سکے اور اس میں درخت لگائے جائیں.یہاں احمدی بھی جا کر پکنک منائیں اور دوسروں کے بچوں کو بھی پکنک منانے کے لئے مدعو کیا جائے تاکہ وہ بھی ہمارے بچوں کے ساتھ مل کر پکنک منائیں.اس طرح ہمارے بچوں اور دوسروں کے بچوں اور خود بڑوں کے درمیان میل ملاپ بڑھے گا.اور دونوں کے درمیان وہ Barrier جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ ہم سے دور دور رہتے ہیں ٹوٹنا شروع ہوگا.
631 رمضان کے بعد حضور نے عید الفطر بھی لندن میں منائی.لندن میں اس قیام کے دوران حضور نے ایک پر ہجوم پریس کا نفرنس سے خطاب فرمایا.اور اسلام کے خلاف پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا مؤثر انداز میں رد فر مایا.رپورٹروں کی یہ کوشش معلوم ہوتی تھی کہ دنیا کے موجودہ حالات میں اس انداز سے سوالات اُٹھائے جائیں جن سے یہ ثابت ہو کہ اسلام ایک امن پسند مذہب نہیں ہے.ایک رپورٹر نے یہ سوال کیا کہ احمدیہ فرقہ اور باقی مسلمانوں کے نقطہ نظر میں اختلاف پایا جاتا ہے.مشرق وسطی کے مسلمان ممالک میں باہم جنگ شروع ہوتی نظر آتی ہے.آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے.حضور نے فرمایا کہ میرا یہ طریق نہیں کہ میں اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کے متعلق کچھ کہوں لیکن آپ کے سوال نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں عیسائیت کا ذکر بیچ میں لاؤں.یہ آپ کو معلوم ہے کہ ماضی قریب میں دو عالمی جنگیں لڑی جاچکی ہیں.میں پوچھتا ہوں یہ جنگیں کن قوموں کے درمیان لڑی گئیں ؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان جنگوں میں عیسائی عیسائیوں کے خلاف لڑتے رہے.اس کے باوجود یہ کوئی نہیں کہتا کہ ان جنگوں میں عیسائیت عیسائیت کے خلاف نبرد آزما تھی.کسی نے ان ہولناک جنگوں کا الزام عیسائیت پر نہیں دھرا.اگر کسی مسلمان کا عمل اسلامی تعلیم کے خلاف ہو تو پھر اس کا الزام اسلام پر کیوں؟ کسی مسلمان لیڈر کا طرز عمل اپنی جگہ ہے اور اسلام کی پُر امن تعلیم اپنی جگہ.ایک اور رپورٹر نے بعض غیر احمدیوں کی طرف سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا ذکر کر کے اسلام کی پُر امن تعلیم کی اہمیت کو کم کرنا چاہا.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا ایک زمانہ تھا پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو کافر قرار دیا گیا تھا اور اب انہیں کوئی کافر نہیں کہتا اور وہ عیسائی شمار ہوتے ہیں.اگر ہمارے ساتھ بھی ایسا ماجرا گزرا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں.ایسا دنیا میں ہوتا ہی آیا ہے.بھٹو ایک ہوشیار انسان تھا اس نے اعلان یہ کیا کہ احمدی آئین یا قانون کی اغراض کے تحت غیر مسلم شمار ہوں گے.کسی اور غرض کا اس نے ذکر نہیں کیا.پھر حضور نے قرآنی آیت سے استدلال کر ے ثابت کیا کہ کوئی کسی کو جو نہیں سکتا کہ پنے آپ کو مسلمان بجھنے کے باوجودخود کو غیرمسلم ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۱۷ اگست ۱۹۸۰ء کو لندن سے براستہ ایمسٹرڈم (ہالینڈ) افریقہ کے دورے کے پہلے مرحلے پر نائیجیریا کے لئے روانہ ہوئے.راستہ میں حضور کچھ دیر کے لئے ایمسٹر ڈم (ہالینڈ) کے ایئر پورٹ پر رکے اور وہاں کے وزیر اعظم Mr.A VAN AGT بھی امریکہ
632 سے واپسی کے موقع پر ایئر پورٹ پر موجود تھے.جب انہیں ایئر پورٹ پر حضور کی موجودگی کا علم ہوا تو انہوں نے پیغام بھجوایا کہ انہوں نے ابھی ایک پریس کا نفرنس کرنی ہے جس کے بعد وہ خود حضور کے پاس آکر ملاقات کریں گے.چنانچہ تھوڑی دیر میں ہی وہ اپنے عملہ سمیت وی آئی پی لاؤنج کے اس حصہ میں آئے جہاں پر حضرت خلیفتہ امسیح الثالث تشریف فرماتھے اور حضور سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جب حضور اگلی مرتبہ ہالینڈ تشریف لائیں تو ان سے ضرور ملاقات کریں.نائیجیریا میں حضور کا پہلا قیام لیگوس میں تھا.ایئر پورٹ پر ہزاروں احباب نے حضور کا استقبال کیا.حضور نے ایئر پورٹ پر ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب فرمایا.اس موقع پر مغربی افریقہ کے ان ممالک سے بھی احمدی احباب حضور سے ملاقات کے لئے نائیجیر یا آگئے تھے جن کا ملک حضور کے اس دورہ کے پروگرام میں شامل نہیں تھا.حضور نے اس دورہ کے چھ روز انتہائی مصروفیت میں گزارے.جماعتی عہد یداران، احباب جماعت سے ملاقاتوں کے علاوہ حضور نے اموسان ، اجیبو اوڈے، ابادان اور الا رو کا دورہ فرمایا.تین مساجد کا افتتاح اس مبارک موقع پر کیا گیا اور حضور نے مبلغین، اساتذہ اور ڈاکٹر صاحبان کے علیحدہ اجلاسات کی صدارت فرما کر ان کی راہنمائی فرمائی.حضور نے اپنی آمد کے اگلے روز جماعت احمدیہ نائیجیریا کی مجلس عاملہ کے ساتھ میٹنگ کی.اور اس کے آغاز میں ہی حضور نے وہاں کے نیشنل پریذیڈنٹ مکرم عبدالعزیز ابیولا صاحب سے دریافت فرمایا کہ ۱۹۷۰ء میں حضور کے گزشتہ دورہ کی نسبت اب نائیجیریا میں تبلیغ کے حالات کیسے ہیں.اس پر عبدالعزیز صاحب نے رپورٹ پیش فرمائی کہ اس وقت کی نسبت اب حالات بہتر ہیں.حضور نے مزید سکول کھولنے کے منصوبے کے خدو خال بیان فرمائے.اور فرمایا کہ ہم نے بلا تفریق و امتیاز سب کی خدمت کرنی ہے اور یہ سمجھ کر کرنی ہے کہ یہ ان کا حق ہے.اور مجلس عاملہ کے اراکین کو مخاطب کر کے فرمایا تمہیں سارے مسلمانوں اور اس ملک کے تمام دوسرے لوگوں کو اسلام کی صحیح تعلیم سے آگاہ کرنا ہے.اگر وہ اس بات سے ناراض ہوتے ہیں تو ہونے دو.اگر تمہارا خدا ناراض نہیں تو پھر تمہیں کسی فکر کی ضرورت نہیں.بینن سے جماعت کے ایک وفد نے صدر جماعت احمدیہ بین الحاج راجی صاحب کی قیادت میں حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.حضور نے ان کے ساتھ افریقہ کے ان علاقوں میں تبلیغ کے مواقع پر گفتگو فرمائی.اسی روز حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اپنے دورہ کے تیسرے روز حضور
633 نے اوگون سٹیٹ میں اموسون اور اجیبو اوڈے میں ہسپتالوں کا معائنہ فرمایا اور پھر ابادان تشریف لے جا کر وہاں پر مسجد کا افتتاح فرمایا.ہزاروں احباب نے ابادان میں حضور کا استقبال کیا.حضور نے یہاں پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے جماعت احمدیہ میں داخل ہو کر ایک بہت بڑی ذمہ داری اُ ٹھائی ہے.پھر حضور نے نائیجیریا کے احمدی احباب کو تلقین فرمائی کہ وہ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں اور تفسیر کا مطالعہ کریں.حضور نے فرمایا کہ تم میں سے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائے.اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری تعلیم کی شرح دوسروں کے مقابلہ میں بہت بڑھ جائے گی اور تمہیں ایک ایسا امتیاز حاصل ہو گا جو پوری قوم کے لئے باعث فخر ہو گا.حضور نے واپس لیگوس تشریف لا کر مرکزی احمد یہ مسجد کی سہ منزلہ عمارت کا افتتاح فرمایا.حضور اپنے دورہ کے پانچویں روز ۲۲ اگست کو الا رو کے قصبہ تشریف لے گئے اور وہاں پر مسجد کا افتتاح فرمایا.اور الا رو جاتے ہوئے حضور نے راستہ میں ڈیڑھ ہزار اطفال اور ناصرات کی تربیتی کلاس کا معائنہ فرمایا.الارو میں جماعت کا مشنری ٹرینینگ سکول قائم ہے.یہاں پر حضور نے ایک احمدیہ ہال کا سنگ بنیاد بھی رکھا.۲۴ /اگست کو حضور نائیجیریا سے نانا کے لئے روانہ ہو گئے.جب حضور کا طیارہ غانا کے دارالحکومت اکرا پہنچا تو ہزاروں افراد حضور کے استقبال کے لئے چشم براہ تھے.ہوائی اڈے کی چھتیں گیلریاں ہیں ان سب میں لا تعدا دلوگ کھڑے تھے اور اپنے سفید رو مال ہلا ہلا کر اظہار مسرت کر رہے تھے.اور جب طیارے نے زمین کو چھوا تو ان احباب کا تلاطم بڑھتا گیا.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے غانا کے صدر ڈاکٹر ہلا لیمان سے ملاقات کرنے کے بعد اوسو اسٹیٹ میں مسجد کا افتتاح فرمانا تھا.جب افتتاح کا وقت آیا تو موسلا دھار بارش شروع ہو گئی.دس ہزار افراد نے اس بارش میں بھیگتے ہوئے حضور کا خطاب سنا.سٹیج کا شامیانہ بھی اس میں روک نہ بن سکا.ایک شخص حضور کے اوپر چھتری تانے کھڑا تھا.حضور نے اسے بھی ایک طرف کر دیا اور اسی کیفیت میں خطاب فرمایا.اور خطاب کے آغاز میں ہی فرمایا کہ بارش ہمارے کام میں روک نہیں بن سکتی ، یہ تو کئی رنگ میں ہمیں فائدہ پہنچانے کے لئے برس رہی ہے.حضور نے اس چھ روزہ دورہ کے دوران دو دن کماسی میں قیام فرمایا.کماسی میں قریباً دس ہزار افراد نے حضور کا خطاب سنا.حضور کی آمد پر کماسی کے احباب کا جوش و خروش قابل دید تھا.اس دوران حضور نے کوکوفو کے ہسپتال کی مستقل
634 عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور واپسی پر جماعت کے ایک اور ہسپتال سویڈ رو کا معائنہ فرمایا.غانا کے دورے کے آخری روز حضور سالٹ پانڈ تشریف لے گئے.اگر چہ راستے میں بہت سی بستیوں کے لوگ حضور کے استقبال کے لئے کھڑے تھے.لیکن جب قافلہ سالٹ پانڈ کے قریب پہنچا تو راستے کے دونوں طرف ہزاروں لوگ حضور کے انتظار میں چشم براہ تھے.اور جب حضور کا قافلہ ان کے پاس سے گزرتا تو وہ رومال ہلا کر خوشی کا اظہار کرتے اور فلک شگاف نعرے بلند کرتے.حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور غانا کے احمدیوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.اور انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنی نمازوں میں اپنے ملک کی ترقی کے لئے درد دل سے دعائیں کریں.سالٹ پانڈ سے واپسی پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اسار چر کے سکول کا معائنہ فرمایا جس کے پرنسپل مکرم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب تھے.حضور نے اس سکول کی نوتعمیر شدہ عمارت کی یادگاری سختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کرائی.پھر حضور اکرافو نامی قصبہ تشریف لے گئے یہاں حضور نے حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحب کے ذریعہ سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے والے غانین احمدی الحاجی مہدی آپا کی قبر پر دعا کی.اور پھر وہاں سے واپس آکر کچھ دیر کے لئے اسار چر میں مکرم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کے مکان پر کچھ دیر کے لئے آرام فرمایا اور چائے نوش فرمائی.اور پھر رات کو واپس اکر ا تشریف لے آئے.غانا سے واپسی سے قبل حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے صدر غانا کی خواہش پر ان سے دوسری ملاقات فرمائی.غانا سے دورہ کے بعد حضور دوبارہ لندن تشریف لائے اور وہاں سے کینیڈا کے لئے روانہ ہوئے.اس دورہ میں پہلا قیام کینیڈا کے شہر ٹورونٹو میں تھا.جب حضور ٹورونٹو پہنچے تو وہاں پر کینیڈا جماعت کے نیشنل پریذیڈنٹ خلیفہ عبد العزیز صاحب اور مبلغ انچارج مکرم منصور احمد بشیر صاحب اور دیگر احباب جماعت نے حضور کا استقبال کیا.اگلے روز حضور نے نماز جمعہ پڑھائی اور دینی تربیت کے موضوع پر ایک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا مجھے چارسال بعد یہاں آنے کا اتفاق ہوا ہے.اور جو بات میں نے محسوس کی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کی جماعت میں اخلاص تو ہے لیکن تربیت کا فقدان ہے.یہ امر میرے لئے تکلیف کا باعث ہوا ہے.جب میں ۱۹۷۶ء میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو میرا خیال تھا کہ چونکہ آپ کے ہاں کوئی مربی نہیں ہے اس لئے خاطر خواہ تربیت نہیں ہو سکی.اس کے بعد
635 مربی بھجوایا گیا.میں نے محسوس کیا ہے کہ چار سال گزرنے اور مربی موجود ہونے کے باوجود تربیت میں کوئی فرق نہیں.حضور نے احمدیوں کو ان کا مقام یاد دلا کر فرمایا کہ اپنی نسلوں کو لعنت خداوندی سے بچانے کی فکر کریں اور ان کی اسلامی رنگ میں تربیت کریں.ورنہ آئندہ نسلیں آپ پر لعنت بھیجیں گی کہ ہمارے والدین نے ہمیں اردو نہ پڑھا کر ہمیں روحانیت کے سرچشمہ سے محروم کر دیا.اگر آپ اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت نہیں کریں گے، انہیں دین نہیں سکھائیں گے اور انہیں یہاں کے رنگ میں رنگین ہونے دیں گے تو خدا تعالیٰ آپ کو اور آپ کی اولا دوں کو دھتکار دے گا.وہ اور قوموں کو آگے لے آئے گا جو اعمالِ صالحہ بجالانے والی ہوں گی اور دین کی خدمت کرنے والی اور اسلام کا عملی نمونہ پیش کرنے والی ہوں گی.حضور نے نہایت پر زور الفاظ میں خبر دار کرتے ہوئے فرمایا اگر ایسے لوگوں نے اپنی اصلاح نہ کی اور مجھے سب کو جماعت سے خارج کرنا پڑا تو میں ایسا کرنے سے ذرا نہیں ہچکچاؤں گا.خدا میں ہو کر زندگی گزاریں ورنہ آپ کا مستقبل مجھے بہت تاریک نظر آ رہا ہے.آپ لوگوں کی حالت پر رات میری طبیعت میں بہت غصہ تھا.نصف شب کے بعد جب میں بیدار ہوا غصہ جا چکا تھا اور اس کی جگہ پیار نے لے لی تھی.میں نے بہت دعائیں کی.خدا تعالیٰ میری دعائیں قبول فرمائے اور آپ کی زندگیوں میں انقلاب آئے.آپ میں اور دوسروں میں نمایاں فرق نظر آنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر قرآن سورۃ کہف تک چھپ چکی ہے اسے منگوائیں اور پڑھیں.اگر اصل منبع سے آپ کا تعلق قائم نہیں ہے تو آپ خشک ٹہنی کی طرح ہو جائیں گے.اگر خدا میں ہو کر زندگی گزارنا نہیں چاہتے تو جہاں جی چاہے چلے جائیں احمدیت میں نہ رہیں.حضور نے ٹورونٹو میں احباب جماعت سے ملاقات فرمائی ،ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا اور جماعت احمد یہ ٹورونٹو کی طرف سے دی گئی ایک استقبالیہ دعوت میں بھی شمولیت فرمائی ، ٹورنٹو کے بعد حضور کیلگری تشریف لے گئے.حضور نے یہاں پر احباب جماعت اور مختلف غیر از جماعت احباب سے ملاقات فرمائی اور ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب فرمایا.کیلگری کی جماعت نے کینیڈا کے دور افتادہ علاقوں میں بھی قرآن مجید کی اشاعت کے لئے قابل قدر مساعی کی تھی.حضور نے اس کاوش پر ان کی تعریف فرمائی اور اظہار خوشنودی کے لئے کیلگری کی جماعت کو حضرت
636 مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر فرمودہ سورۃ فاتحہ کی ایک جلد اپنے دستخطوں کے ساتھ مرحمت فرمائی اور اس پرتحریرفرمایا اللہ تعالی آپ کو اشاعت تراجم قرآن کی مزید توفیق دیتا چلا جائے.“ ۱۱ ستمبر کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کیلگری سے امریکہ کے شہر سان فرانسسکو روانہ ہو گئے.سان فرنسسکو میں حضور نے چار روز قیام فرمایا.یہاں پر خطبہ جمعہ میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ احمدیت ہمارے کندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری ڈالتی ہے اور اس ذمہ داری کو کما حقہ ادا کرنا ہمارا ایک اہم بنیادی فرض ہے.آپ نے فرمایا یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جب تک ہم مغربی قوموں کے سامنے اسلام کا عملی نمونہ پیش نہیں کریں گے اس وقت تک ہم انہیں اسلام کی طرف مائل نہیں کر سکیں گے.یہاں کے لوگ اگر متاثر ہوں گے تو عملی نمونہ سے ہوں گے نہ کہ محض زبانی پیش کئے جانے والے دلائل سے.حضور نے فرمایا کہ اس ذمہ داری سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مغربی تہذیب سے بکلی کنارہ کش رہتے ہوئے اسلام کو ساری دنیا میں پھیلانے میں کوشاں رہیں.آج تہذیب کے معنی اباحتی زندگی گزارنا ہیں.حالانکہ بے قید زندگی گزار کر حرام کے بچے جننا تو تہذیب نہیں ہے.ہمارا کام ان لوگوں کو جو حیوان کی سی زندگی گزار رہے ہیں.دوبارہ انسانی زندگی کے قابل بنانا ہے.آج خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص مغربی تہذیب سے بکلی مجتنب رہتے ہوئے اسلام پر کما حقہ عمل پیرا ہو.سان فرانسسکو کے بعد حضور واشنگٹن تشریف لے گئے.واشنگٹن میں حضور نے مبلغین اور امریکہ کے صدر ان جماعت کے ایک اجلاس کی صدارت فرمائی.مختلف صدرانِ جماعت نے اپنے علاقوں میں تبلیغی مساعی کی رپورٹ حضور کی خدمت میں پیش کی.اور مالی امور کے متعلق بھی حضور کی خدمت میں ایک رپورٹ پیش کی گئی.حضور نے مختلف امور کے بارے میں جماعت احمدیہ امریکہ کی راہنمائی فرمائی.حضور نے یہاں بھی عید گاہ والے منصوبے کے خدو خال بیان فرمائے.حضور نے فرمایا کہ میں نے ۱۹۷۶ء میں آپ لوگوں کو ملک کے مختلف علاقوں میں کمیونٹی سینٹر قائم کرنے کی غرض سے زمینیں خریدنے کی ہدایت کی تھی لیکن آپ نے میری اس ہدایت پر عمل نہیں کیا.میں نے اس سکیم میں بعض تبدیلیاں کی ہیں.ان میں سے ایک اہم تبدیلی یہ ہے کہ آپ کمیونٹی سینٹر بنانے کی بجائے مختلف علاقوں میں عید گاہیں بنانے کا پروگرام
637 بنا ئیں.جسے عید گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جائے اور دیگر تربیتی مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جائے.اس احاطہ کو اپنے اجتماعات اور پکنک وغیرہ کے لئے استعمال کیا جائے.چھٹیوں کے دوران کئی احمدی گھرانے وہاں جائیں اور ساتھ اپنے بچوں کو بھی لے جائیں.اس طرح تفریح بھی ہوگی اور ان کی تربیت بھی ہو جائے گی.حضور نے فرمایا کہ ہماری تبلیغ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ ہمارے قریب نہیں آتے اور نہ ہم ان کے قریب ہوتے ہیں.ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیواری حائل ہے.جب تک یہ دیوار نہیں ہٹے گی ہم انہیں اسلام کے قریب لانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے.حضور نے فرمایا کہ بعض زمینیں بہت سستی مل جاتی ہیں.دراصل ہم دو قسم کی ضروریات کے تحت زمینیں خریدنا چاہتے ہیں.ایک فوری ضرورت کے تحت اور دوسرے ہیں تمہیں سال کے بعد پیدا ہونے والی ضرورتوں کے پیش نظر.میں ہرسٹیسٹ میں ایسی زمینیں خریدنا چاہتا ہوں حتی کہ ایسی سٹیسٹ میں بھی جہاں فی الحال کوئی احمدی بھی نہیں ہے.اشاعت لٹریچر کے ضمن میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ احمدیت کے تعارف اور بعثت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر دنیا کی ہر معروف زبان میں فولڈر شائع کرنے چاہئیں.اور یہ ہدایت فرمائی کہ ہر Age Group کے لئے علیحدہ لٹریچر ہونا چاہئے.تا کہ ہر عمر کے لوگ اپنی عقل اور شعور کے مطابق اس سے استفادہ کر سکیں.حضور نے اپنے قیام کے دوران احباب جماعت سے خطاب فرمایا.اس خطاب میں حضور نے آنحضرت ﷺ کی بعثت کے مقاصد بیان فرمائے.اور احباب جماعت کو ارشاد فرمایا کہ اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ ودسرے تمہاری تقلید کریں اور ایسا نہ بنو کہ تم دوسروں کی تقلید کرو.حضور نے مغربی تہذیب کے بداثرات سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا اس ملک کی معاشرتی فضا اور یہاں کے تمدنی ماحول کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے.یادرکھوا گر تم نے یہاں کے تمدنی ماحول کا اثر قبول کیا اور بے راہ روی میں بہہ گئے تو تم اپنے آپ کو لا کھ مہذب سمجھو تم خدا کی نگاہ میں گر جاؤ گے.حضور نے امریکہ کے احمدیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ خدا تعالیٰ تو اپنے فضل بارش کی طرح نازل کر رہا ہے اور وہ اسلام کو غالب کرتا چلا آرہا ہے اور اب اسلام کی آخری فتح کو قریب سے قریب تر لا رہا ہے.لیکن تمہارے لئے غور طلب بات یہ ہے کہ جب تک تم سچے مسلمان نہیں بنتے تم اسلام کی آخری فتح میں حصہ دار نہیں بن سکتے.تم اپنے دلوں کو ٹو لو اور سوچو کہ تم اسلام کی آخری فتح
638 میں حصہ دار بننے کے لئے کیا کر رہے ہو.خدا تعالیٰ تو انہی پر اپنے فضلوں کی بارش کرے گا جو اچھا نمونہ پیش کریں گے.امریکہ میں مقیم پاکستانی احمدیوں کو مخاطب کر کے حضور نے فرمایا تم یہاں کے لوگوں کے لئے نمونہ بنو.برانمونہ پیش نہ کرو.سوچو اور غور کرو.اور پھر امریکی احمد یوں کو مخاطب کر کے فرمایا تم بھی اپنے ہم وطنوں کے لئے نمونہ بنے کی کوشش کرو.واشنگٹن میں آٹھ روز قیام کے بعد حضور امریکہ سے واپس لندن تشریف لے گئے.انگلستان میں حضور کے قیام کے دوران ایک اور اہم تاریخی واقعہ یہ تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے انگلستان میں پانچ نئے مراکز تبلیغ کا افتتاح فرمایا.مسجد فضل لندن کے افتتاح کو پچپن برس گزر چکے تھے.اس دوران انگلستان میں کسی نئے مشن ہاؤس کا آغا ز نہیں ہوا تھا.لیکن اس سال حضور کی بابرکت آمد کے موقع پر مانچسٹر، ہڈرزفیلڈ، بریڈ فورڈ ، ساؤتھ ہال اور برمنگھم میں نئے مشن ہاؤسز کا افتتاح عمل میں آیا.پانچ سو سال بعد سپین میں مسجد کا سنگ بنیاد اس دورہ کے تقریباً آخر میں سپین میں جماعت کی پہلی مسجد کا تاریخی سنگ بنیا درکھا گیا.سپین وہ ملک ہے جہاں کے مسلمانوں نے صدیوں تک حکومت کی وہاں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسلام کو قبول کیا.لیکن جب وہاں مسلمان بادشاہوں کا زوال ہوا اور عیسائی بادشاہوں کی حکومت قائم ہوئی تو وہاں سے جبر کے ذریعہ اسلام کو مٹایا گیا.پھر کئی سو برس تک وہاں پر مسلمانوں کا نام ونشان مٹادیا گیا.مذہبی رواداری کے فقدان کا یہ عالم تھا کہ کسی دوسرے مذہب کے پیرو کارکو وہاں پر تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں تھی.جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ مکرم ومحترم کرم الہی ظفر صاحب نے بہت نامساعد حالات میں وہاں پر تبلیغ کو جاری رکھا.لیکن سپین میں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ملتی تھی.آخر کار ملک میں ان قوانین کو نرم کیا گیا تو مسجد کا سنگ بنیا در رکھنے کی اجازت ملی.اس تاریخی مسجد کی تعمیر کے لئے پید رو آباد کے قصبے کا انتخاب کیا گیا جو سے کچھ فاصلے پر ہے.اس سنگ بنیاد کے لئے 9 را کتوبر ۱۹۸۰ء کے دن کا انتخاب کیا گیا.حضور کا قیام قرطبہ کے ہوٹل Meila میں تھا.افتتاح والے روز حضور نے سب کو ارشاد فرما دیا تھا کہ یہ وقت میں دعاؤں میں گزارنا چاہتا ہوں.اور اس
639 احتمال کی وجہ سے حضور بہت دعا کر رہے تھے کہ آخر وقت میں مسجد کے سنگ بنیاد میں کوئی روک نہ ڈال دی جائے.جب حضور سنگ بنیاد کی تقریب میں تشریف لے جانے کے لئے باہر تشریف لائے تو حضور نے ارشاد فرمایا ” آج عید ہے.پید رو آباد میں مختلف ممالک سے آئے ہوئے احمدی احباب کے علاوہ ہزاروں مقامی احباب تقریب میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.جس پتھر کو سنگ بنیاد کے طور پر نصب کیا جانا تھا حضور نے اس پر اپنا دایاں ہاتھ اس کے اوپر رکھا.اس ہاتھ میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی.حضور نے ارشاد فرمایا ” یہ حضرت بانی سلسلہ کی انگوٹھی ہے اس سے میں برکت لوں گا.اس کے بعد حضور نے مختلف قرآنی دعائیں اور آیات پڑھیں اور یہ دعا ربنا تقبل منا انك انت السميع العلیم بھی بار بار پر سوز انداز میں پڑھی اور ان دعاؤں کے ساتھ حضور نے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.اس کے بعد حضرت منصورہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اور پھر مکرم کرم الہی صاحب ظفر مبلغ سلسلہ پین نے سنگ بنیاد رکھا.پھر مختلف مبلغین سلسلہ نے پتھر رکھنے کی سعادت حاصل کی.اس کے بعد حضور کے ارشاد کے تحت قصبہ کی سب سے معمر خاتون نے سنگ بنیاد رکھا اور سب سے کم سن بچے نے پتھر کو ہاتھ لگایا جس کو بنیاد میں رکھا گیا.قصبہ کے مقامی احباب نے اس پر خوش ہو کر تالیاں بجائیں.سپینش احمدی احباب میں سے مکرم عبد الکریم صاحب بائنا اور Jose Lope صاحب نے سنگ بنیا د رکھا.اس ساری تقریب میں حضور بار بار لا اله الا الله لا اله الله محمد رسول الله اور لا اله الا انت سبحانک ، اني كنت من الظلمین کاور دفرماتے رہے.اور تمام احباب جماعت بھی ان کلمات کو ساتھ دہراتے رہے.سنگ بنیاد کے رکھنے کے بعد حضور نے سٹیج پر تشریف لا کر مختصر خطاب فرمایا اور فرمایا کہ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسجد کے دو بنیادی مقاصد ہیں اول خدائے واحد کی عبادت کرنا دوم تمام بنی نوع انسان میں مساوات قائم کرنا.اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ سب انسان برابر ہیں.مرد عورت میں کوئی فرق نہیں.امیر غریب عالم جاہل بحیثیت انسان سب برابر ہیں.پید رو آباد میں بسنے والے اور ہزاروں میل دور پاکستان میں رہنے والے میں کوئی فرق نہیں.“ حضور نے فرمایا کہ اسلام عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے.اسلام سکھاتا ہے کہ محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں.اس کے بعد آپ نے مقامی احباب کو دعائیں دیں.پھر حضور نے پریس کے نمایندگان کے سوالات کے
640 جوابات دیئے.ایک سوال یہ تھا کہ آپ نے مسجد کے لئے پید رو آباد کا انتخاب کیوں کیا.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے خود اس کا انتخاب فرمایا ہے.ریڈیو اور ٹی وی نے اس تقریب کی خبر کو نمایاں کر کے نشر کیا.اور اخبارات میں یہ خبر نمایاں کر کے شائع کی گئی.اگلے روز جمعہ تھا حضور نے پیدرو آباد جا کر جمعہ کی نماز پڑھائی.۱۱/ اکتوبر کو حضور سپین سے لندن تشریف لے گئے.(۵،۴) تین براعظموں کے اس تاریخی دورہ کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۱۲۶ اکتوبر ۱۹۸۰ء کو واپس ربوہ تشریف لے آئے.(۱) الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۸۰ء ص ۲ (۲) الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۸۰ ص ۲ (٣) الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۸۰ ص ۲ (۴) الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۸۰ء ص ۱ (۵) لفضل ۱۱ نومبر ۱۹۸۰ ص ۲
641 خلافت ثالثہ کے دوران بعض ممالک میں ہونے والی تبلیغی سرگرمیاں خلافت ثالثہ کے دوران دنیا بھر میں تبلیغ اور تربیت کا کام بھر پور انداز میں جاری تھا.ہم ان میں سے بعض ممالک کا جائزہ پہلے لے چکے ہیں.بعض ممالک میں ہونے والی تبلیغی سرگرمیوں کا خلاصہ ہم یہاں درج کرتے ہیں.سیرالیون حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعد ۱۹۶۶ء میں جماعت احمد یہ سیرالیون کی جو پہلی مجلس مشاورت منعقد ہوئی اس میں ملک بھر سے ۱۵۰ جماعتوں کے نمائندگان نے شرکت کی.اس میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی وفات پر تعزیت اور تجدید بیعت کی قرادادیں منظور کی گئیں.(۶) جماعت احمد یہ سیرالیون کا ۱۹۶۶ ء کا جلسہ ایک خاص اہمیت رکھتا تھا.یہ خلافت ثالثہ کے دور کا پہلا جلسہ تھا.اس جلسہ سے تقریر کرتے ہوئے ایک غیر از جماعت مہمان نے کہا کہ مجھے اب تک وہ دن خوب یاد ہے جب سب سے پہلے احمدی مبلغ سیرالیون میں آئے تھے انہوں نے بہت تکالیف اُٹھا کر اپنے کام کو جاری رکھا جس کے نتیجہ میں آج تمام ملک میں احمدیت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.اس جلسہ میں گیمبیا سے بھی ایک وفد نے شرکت کی (۱) تبلیغی مساعی کے ساتھ سیرالیون میں جماعت احمدیہ کی تعلیمی خدمات بھی آگے بڑھ رہی تھیں.چند کمروں میں شروع ہونے والا احمد یہ مسلم سکینڈری سکول بو (80) اب ملک کا ایک معروف تعلیمی ادارہ بن چکا تھا.۱۹۶۳ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب اس کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اس کے بعد اس سکول میں مہیا کی جانے والی سہولیات میں اضافہ ہوتا رہا (۲).اسی سال حکومت کی طرف سے جماعت کو بو آجے بو میں ایک سکول کھولنے کی اجازت دی گئی.اس مقام پر سکول کھولنے کے راستے میں بہت وقتیں پیش آئیں تھیں.کیونکہ وہاں پر عیسائی مشنری حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہاں پر احمدیوں کی بجائے عیسائی مشنریوں کو سکول کھولنے کی اجازت دی جائے.اور ۱۹۶۶ ء کے دوران ہی فریج گنی کی سرحد کے قریب ایک پرائمری سکول کھولا گیا.سیرالیون میں مبلغین کی تعلیم کے لئے ہر سال ریفر شر کورس کا
642 اہتمام کیا جاتا تھا اور بڑی عمر کے احباب کے لئے عربی کلاس کا اہتمام کیا جا تا.جماعت کا جماعت کی طرف سے ماہنامہ افریقہ کر لینٹ بھی شائع کیا جا رہا تھا.۱۹۶۶ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تحریک کے تحت وقف عارضی کا آغاز کیا گیا اور چند افراد نے اس بابرکت تحریک کے تحت خدمات سرانجام دیں.اس سال جماعت نے غریبانہ انداز میں دو مزید مقامات پر پرائمری سکول کھولے.ان میں سے ایک کیلا ہوں کے ضلع میں با ہیما گاؤں میں تھا اور دوسرا گنی کی سرحد پر مدینہ ثانیہ نامی گاؤں میں تھا (۷۳).جماعت کی خدمات ایسی تھیں کہ حکومتی حلقے بھی اس کا اعتراف کرتے تھے.۱۹۶۷ء کے دوران سیرالیون میں ایک اور سکینڈری سکول کھولا گیا جس کے بعد یہاں پر جماعت کے سکولوں کی تعداد چار ہو گئی.چنانچہ ۱۹۶۹ء کے جلسہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیرالیون کے گورنر جنرل بنجا تیجانسی صاحب نے جماعت کا شکریہ ادا کیا اور حکومت کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ جماعت احمدیہ نے اسلامی تعلیم کو عام کر کے اسے عوام تک پہنچانے کے لئے اہم خدمات سرانجام دی ہیں.مبلغین کا جذبہ ایثار اور ادائے فرض اس جماعت کا اہم وصف ہے (۴).ملک کے وزیر اعظم ڈاکٹر سید کا سٹیونس ( Siaka Stevens) نے جب فری ٹاؤن میں جماعت کے سکول کا دورہ کیا تو اپنے خطاب میں کہا کہ احمدیہ مشن نے جس طرح اس ملک کی شاندار اور بے لوث خدمت کی ہے اور تعلیم اور مشنری میدان میں جو نمایاں کام کیا ہے اس کو سیرالیون کی تاریخ لکھنے والے مورخ ہرگز فراموش نہیں کر سکتے (۵).ابھی یہ دور شروع نہیں ہوا تھا کہ سیرالیون سے طلباء مرکز سلسلہ آکر دینی تعلیم حاصل کریں لیکن دینی تعلیم کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ۱۹۶۵ء میں مكرم وكيل التبشیر صاحب کے و درہ افریقہ کے دوران یہ فیصلہ ہوا تھا کہ غانا میں مشنری ٹرینگ کالج کا اجراء کیا جائے.چنانچہ اس میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے۱۹۶۶ء میں سیرالیون سے چار طلباء کا گروہ غانا کے لئے روانہ ہوا.(۷) جوں جوں وقت کے ساتھ سیرالیون میں نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آرہا تھا اور سعید روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق مل رہی تھی اس کے ساتھ ساتھ نئی مساجد کی ضرورت بھی بڑھ رہی تھی.چنانچہ ۱۹۶۹ ء کے دوران ۳ مساجد کی تعمیر ہوئی.اس ملک میں جماعت کی بڑھتی ہوئی ترقی اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ اب احباب جماعت پہلے سے زیادہ بڑھ کر قربانیوں کا مظاہرہ کریں.چنانچہ جب
643 1949ء میں سیرالیون جماعت کی سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی تو اس پر حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنے پیغام میں فرمایا :.جماعت ہائے احمد یہ سیرالیون کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ عظیم الشان مقاصد اور فتوحات عظیم الشان قربانیاں چاہتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اسلام کی فتح اور غلبہ کے جو وعدے فرمائے ہیں، ان کے مطابق اسلام کی فتح اور غلبہ کے دن قریب ہیں.اس لئے اس راہ میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت حاصل کرنے کیلئے دعائیں کرو کہ اس کی مدد اور تائید کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا.(۸) ۱۹۶۹ ء تک سیرالیون میں جماعت احمدیہ کی سکولوں کی مجموعی تعداد ۲۴ ہو چکی تھی.ان میں پرائمری، مڈل اور سکینڈری سکول شامل تھے.(۹) مکرم مولانامحمد صدیق گورداسپوری صاحب نے پہلے جولائی ۱۹۶۸ء سے لے کر ۱۹۷۲ ء تک سیرالیون میں امیر ومشنری انچارج کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی.پھر ۱۹۷۹ء سے لے کر ۱۹۸۴ء تک آپ نے سیرالیون میں خدمات سر انجام دیں.جب سیرالیون جانے سے قبل مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب حضور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ سیرالیون کے موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے برکت اُٹھالی ہے اور سیرالیون مشن اب باہر کی مدد کا طالب ہو رہا ہے.نصرت جہاں کے بعض ڈاکٹر ز کو گیمبیا سے رقم منگوا کر الاؤنس دیا گیا ہے جو افسوسناک ہے.لہذا جماعت کو چالیس روزوں کا چلہ کرائیں اور ہر پانچ روز کے بعد ایک روزہ رکھوائیں اور اپنے گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی مانگیں.پھر فرمایا کہ کام کریں اور لوگوں سے محبت اور پیار سے پیش آئیں.اللہ تعالی مدد فرمائے گا.چنانچہ سیرالیون کے احباب جماعت کو بذریعہ سرکلر اس ارشاد کی اطلاع دی گئی اور جلد سیرالیون کی جماعت میں برکت کے آثار پیدا ہونے شروع ہوئے اور مشن ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا.(1) الفضل ۳ مارچ ۱۹۶۶ ص ۳ (۲) الفضل ۱۶/ نومبر ۱۹۶۶، ص ۵ (۳) الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ ص ۳ و ۴ (۴) الفضل ۲۲ فروری ۱۹۶۹ء ص ۸ (۵) الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۶۹ ء ص ۳ (۶) الفضل ۶ جنوری ۱۹۶۶ء ص ۳ (۷) الفضل ۸ رمئی ۱۹۶۶ء (۸) الفضل ۱۵ / اپریل ۱۹۶۹ء ص ۴ (۹) الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء ص ۴
644 مڈغاسکر میں تبلیغی مساعی کا آغاز بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں ابتداء میں جماعت مشن تو نہ قائم کر سکی لیکن اس کے قریب کے ممالک سے وفود نے جا کر تبلیغی مساعی کا آغاز کیا اور اس طرح یہاں پر جماعت احمدیہ کا پودا لگا.مڈغاسکر بھی ایک ایسا ہی ملک ہے.مڈغاسکر مشرقی افریقہ میں واقعہ ہے اور یہاں پر احمدیت کا تعارف ماریشس کے ذریعہ ہوا.ماریشس سے وقتا فوقتا مڈغاسکر لٹریچر بھجوایا گیا.۱۹۷۳ء میں مکرم قریشی محمد اسلم صاحب نے وہاں کا دورہ کیا اور آپ کے ہمراہ ماریشس کے ایک احمدی دوست صالح یوسف اچھا صاحب بھی تھے.قریشی اسلم صاحب جلد واپس آگئے لیکن اچھا صاحب اٹھارہ روز وہاں رہے اور تبلیغ کا کام کرتے رہے.اس کے بعد مکرم صالح محمد خان صاحب مربی سلسلہ نے ۱۹۷۶ء میں وہاں کا دورہ کیا.وہاں کے ابتدائی احمد یوں میں مکرم حمادی صاحب، رفیقی اسماعیل صاحب ،عبدالمومن صاحب، Mr Albert Alfred Totozafy اور Mr.Mady Agoudo شامل ہیں.زائرے میں احمدیت زائرے کے ایک حصہ میں سواحیلی بولی اور سمجھی جاتی ہے.جب جماعت کا لٹریچر سواحیلی میں شائع ہوا تو یہ زائرے بھی پہنچا.زائرے کے شمالی صوبے کیسا نسانی (Kisansani) کی سرحد یوگینڈا سے اور دو مشرقی صوبوں با کاوو (Bukavu) اور کیلا نگا (Kitanga) کی سرحد تنزانیہ سے ملتی ہے اور سب سے پہلے انہی صوبوں میں احمدیت کا تعارف پہنچا.اس ملک میں سب سے پہلے احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت مشرقی صوبہ کے مکرم ابراہیم کانکو(Kankoo) صاحب کے حصہ میں آئی.اسی طرح کینا گا (Kinaga) کے یوسف صاحب نے بھی اس دور میں بیعت کی.۱۹۷۰ ء تک زائرے کے مختلف علاقوں میں کچھ لوگ احمدیت قبول کر چکے تھے اور ان کے ذریعہ بھی احمدیت کا پیغام پھیلنے لگا تھا.اسی عرصہ میں کیوو (Kivu) کے علاقے میں بھی احمدیت کا پودا لگا.مغربی کسائی میں کے علاقے میں احمدیت کو متعارف کراونے میں مکرم عثمان بابن بانٹو نے خصوصی کوششیں کیں اور ۱۹۷۶ء میں آپ کے ذریعہ ۸۱ افراد کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.
645 نومبر ۱۹۷۵ء میں مقامی احمدیوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں ایک مبلغ بھیجوانے کی درخواست کی.جس کے بعد مکرم مولا نا محمد منور صاحب ۱۹۷۷ء میں یوگینڈا سے ملحقہ صوبے ہوٹ زائرے (Haut Zaire) پہنچے.زیمبیا میں مشن کا قیام ۱۹۵۸ء میں محترم مولانا محمد منور صاحب زیمبیا میں مشن کے قیام کا جائزہ لینے کے لئے زیمبیا گئے اور دو ماہ وہاں قیام کیا.اس وقت وہاں پر کچھ ایشیائی احمدی موجود تھے اور ان کی خواہش تھی کہ زیمبیا میں مشن کھولا جائے.۱۹۷۰ ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث" جب مغربی افریقہ سے واپس تشریف لا رہے تھے تو زیمبیا کے وزیر صحت اور برطانیہ میں زیمبیا کے سفیر نے آپ سے ملاقات کی.اور حضور نے اس خواہش کا اظہار فر مایا کہ ہم زیمبیا میں اپنا مشن کھولنا چاہتے ہیں.چنانچہ زیمبیا کے لئے پہلے مبلغ مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب مقرر ہوئے.جب آپ حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے الوداعی ملاقات کرنے کے لئے آئے تو حضور نے اپنے دست مبارک سے یہ نوٹ لکھا: اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور توفیق دے کہ وہ جس رنگ اور جس شکل میں ایک احمدی مجاہد کو دیکھنا چاہتا ہے اس رنگ اور شکل میں وہ آپ کو ہمیشہ پائے.(۱) آپ ۱/۱۴ کتوبر کو زیمبیا کے دارالحکومت پہنچے.انہیں ویزا کے لئے بہت سی مشکلات پیش آئیں مگر پھر وزٹ ویزامل گیا.زیمبیا پہنچنے کے تیسرے روز اتفاقاً ان کی ملاقات دی ٹائمنز آف زیمبیا کے ایک نمائندے سے ہوئی.اس کو جب معلوم ہوا کہ آپ یہاں پر اسلام کی تبلیغ کے لئے آئے ہیں تو اس نے اسی وقت آپ کو اپنے دفتر لے جا کر انٹر ویولیا جو اگلے روز کے اخبار میں شائع ہوا.اور اسی روز آپ کو ایک شخص ملا جس نے کسی اور ملک میں جماعت کا فرانسیسی لڑ پچر پڑھا تھا اس نے اسی وقت بیعت کر کے احمدیت قبول کر لی.ان کا نام محمد اور لیس تھا اور وہ بعد میں ربوہ بھی تشریف لائے.کچھ عرصہ کے بعد شیخ نصیر الدین احمد صاحب ان کے گھر میں ہی منتقل ہو گئے.اور میں صاحب کی تبلیغ سے کچھ عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا.مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب نے بڑی تگ و دو سے اس ملک میں جماعت کی رجسٹریشن
646 کروائی لیکن ویزا کی مدت میں توسیع نہ ہوسکی اور انہیں تنزانیہ آنا پڑا.پھر حکومت نے ان کے ویزے میں توسیع کر دی اور وہ دوبارہ زیمبیا آگئے.اور لوسا کا میں ایک نہایت سستی جگہ کرایہ پر لے کر مشن کا کام شروع کیا.بدقسمتی سے کچھ مسلمانوں کا یہ طریق ہوتا ہے کہ وہ ہر موقع پر جماعت احمدیہ کے خلاف زہر اگل کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں.اسی دور میں ساؤتھ افریقہ کے مسلمانوں کے مشہور عالم اور مناد احمد دیدات (Ahmad Deedat) یہاں کے دورے پر آئے.ان کے آنے سے قبل زیمبیا میں مقیم گجراتیوں نے بہت بڑے بڑے اشتہار شائع کرنے شروع کئے اور بعض نے یہ افواہیں اڑانی شروع کیں کہ وہ یہاں پر آکر احمدیت کے خلاف پر چار کریں گے.جب احمد دیدات صاحب زیمبیا آئے تو مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب نے ان سے ملاقات کی اور ان سے ان افواہوں کا ذکر کئے بغیر اسلام کی پر امن تعلیم اور جماعت کے خلاف اڑائی جانے والی جھوٹی افواہوں کا ذکر کیا.اس پر احمد دیدات صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور اپنے دورے کے دوران کسی اختلافی مسئلہ کو ہوا دینے کی کوشش نہیں کی.بلکہ واقعہ صلیب کا ذکر بھی آیا تو صرف یہ کہا کہ قرآن کی رو سے حضرت عیسی کو قتل کیا گیا اور نہ ان کو صلیب دی گئی تھی.(۲) (۱) الفضل یکم نومبر ۱۹۸۱ ، ص ۵ (۲) الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۸۱، ص ۵٫۴ کینیڈا میں جماعت اور مشن کا قیام ۱۹۵۶ ء.۱۹۵۷ء میں بعض احمدیوں نے کینیڈا کے شہر ٹورونٹو میں سکونت اختیار کی.۱۹۶۱ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلی تحریک جدید نے مکرم عبد القادر رضیغم صاحب مبلغ امریکہ کے ہمراہ مشن کے قیام کا جائزہ لینے کی غرض سے کینیڈا کا دورہ کیا.دسمبر ۱۹۶۴ء میں ڈیٹن کے مبلغ عبدالحمید صاحب نے وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد مرکز کو لکھا کہ ٹورونٹو اور مانٹریال میں احمدی موجود ہیں اور یہاں جماعت کا قیام عمل میں آ سکتا ہے.چنانچہ مکرم میاں عطاء اللہ صاحب اس جماعت کے پہلے پریذیڈنٹ مقرر ہوئے.اس وقت یہ جماعت مبلغ انچارج امریکہ کی نگرانی میں
647 کام کر رہی تھی.۱۹۲۶ ء میں اونٹاریو کے صوبے میں جماعت قانونی طور پر رجسٹر ہوگئی.۱۹۲۷ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مکرم طاہر احمد بخاری صاحب کو کینیڈا کی جماعت کا پریذیڈنٹ مقرر فرمایا اور بعد میں انہیں نیشنل پریذیڈنٹ مقرر کیا گیا.۱۹۶۹ء میں مکرم خلیفہ عبد العزیز صاحب کو نیشنل پریذیڈنٹ مقرر کیا.پہلے کینیڈین احمدی مسٹر جان وارڈ (John Ward) تھے جنہوں نے ۱۹۶۹ء میں بیعت کی.۱۹۷۵ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر و وکیل اعلیٰ نے کینیڈا کا دورہ کیا.۱۹۷۶ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے کینیڈا کا دورہ فرمایا.یہ پہلا موقع تھا کہ کسی خلیفہ وقت نے کینیڈا کا دورہ کیا ہو.اس کا ذکر علیحدہ کیا گیا ہے.کینیڈا میں پہلے مبلغ سلسلہ مکرم منصور احمد بشیر صاحب تھے.آپ نے ۱۹۷۷ء میں ٹورونٹو میں ایک کرایہ کے اپارٹمنٹ میں کام شروع کیا.کینیڈا میں احمدی احباب دور دراز مقامات پر بکھرے ہوئے تھے.آپ نے ایک ساحل سے لے کر دوسرے ساحل تک دورے کر کے احمدیوں سے رابطے قائم کئے.اس سے قبل مشرقی کینیڈا میں چھ جماعتیں قائم تھیں.آپ کے مغربی کینیڈا کے دورہ کے بعد وہاں پر مزید چار جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.مشن ہاؤس میں ایک چھوٹی لائبریری قائم کی گئی اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ہفتہ وار کلاسز کا آغاز کیا گیا.اس وقت جماعت کا ہفتہ وار گزٹ احمد یہ گزٹ بھی نکل رہا تھا.لٹریچر کی تقسیم اور لیکچرز کا انتظام کیا گیا اور نمائشوں میں بک سٹال لگائے گئے.جماعت احمدیہ کینیڈا کا پہلا سالا نہ کنونشن ۲۴ ۲۵ دسمبر ۱۹۷۷ء کی تاریخوں میں ہوا.جس میں پانچ سو احباب نے شرکت کی.۱۹۷۸ء میں کیلگری میں ایک دو منزلہ مکان لے کر اسے مشن ہاؤس بنایا گیا.۱۹۷۸ء میں مکرم منصور احمد بشیر صاحب نے صوبہ نواسکوشیا کا دورہ کر کے وہاں کی جماعتوں کو منظم کیا.۱۹۷۹ء میں جماعت کیلگری نے وسیع پیمانے پر جلسہ پیشوایان مذاہب منعقد کیا گیا اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت فرمائی.کینیڈا ایک وسیع ملک ہے اس لئے بہت سے احباب کے لیے سالانہ کنونشن میں شرکت مشکل ہوتی تھی اس لئے کینیڈا کے مختلف ریجنز میں ریجنل کانفرنسز کا سلسلہ شروع کیا گیا.۱۹۷۹ء میں سسکاٹون شہر میں ایک عمارت خرید کر اسے مشن ہاؤس بنایا گیا.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اس کا نام الرحمت رکھا.۱۹۸۰ء میں جماعت احمد یہ کینیڈا نے وسیع پیمانے پر قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ قرآن کی تقسیم کی سعادت حاصل
648 کی.۱۹۸۰ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے دوسری مرتبہ کینیڈا کا دورہ فرمایا.اسی سال مکرم منیر الدین شمس صاحب نے مکرم منصور احمد بشیر صاحب سے چارج لے کر کینیڈا کے مشنری کے طور پر کام شروع کیا.مکرم منیر الدین شمس صاحب نے کینیڈا آنے کے بعد ملک میں ٹیلی وژن پر جماعت کے متعلق پروگرام شروع کئے.۱۹۸۲ء میں مانٹریال میں بھی ایک عمارت لے کر اسے مشن ہاؤس بنایا گیا.كينيا یوں تو ایک عرصہ سے مشرقی افریقہ میں جماعتیں قائم تھیں.لیکن ان میں سے اکثر بر صغیر سے گئے ہوئے احمدیوں کی تھی.اور مقامی آبادی کے لوگ بہت کم تھے.جب یہ ملک آزاد ہوئے تو ایشیائی باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے یہاں سے نقل مکانی شروع کر دی.اور یہاں کی جماعتوں میں ضعف پیدا ہونا شروع ہوا.اور یہ امر خاص طور پر کینیا میں قابل تشویش تھا.اس صورت حال کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۶۹ء کے جلسہ سالا نہ میں فرمایا :.مشرقی افریقہ میں پاکستانی ہندوستانی لوگ...بہت کثرت سے آباد تھے اور انہی میں سے بیعتیں ہوئیں اور انہیں میں سے جماعتیں بنیں.اور مشرقی افریقہ مثلاً کینیا کے علاقے میں تو شاید ہی کوئی مقامی باشندہ احمدی ہوا ہو.لیکن بڑی مضبوط جماعتیں تھیں بڑے چندے دیتی تھیں.بڑی قربانی کرنے والی تھیں.لوگوں کے سامنے مشرقی افریقہ کے نام سے تو مشرقی افریقہ کی جماعت متعارف تھی لیکن ان میں کوئی مقامی آدمی تھا ہی نہیں یا نہ ہونے کے برابر تھا.اب جب وہاں سے لوگ بھاگنے شروع ہوئے حکومت بدل گئی.پس جماعت ختم ہونی شروع ہو گئی.چنانچہ دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ ایک ملک جس میں اتنی کثرت سے احمدی پائے جاتے تھے اور ان کا اتنا چندہ ہوتا تھا.یکدم جماعت کے سامنے یہ چیز آجائے گی کہ وہاں نہ ہمارے آدمی رہے نہ ان کا چندہ رہا.جماعت ہی ختم ہو گئی.چنانچہ میرا آپ کے سامنے اس بات کو بیان کرنے کا یہ پہلا موقع ہے.بہت دعائیں کریں.مجھے اللہ تعالیٰ نے دعائیں کرنے کی توفیق دی.اصل میں تو وہی ہے جو دعاؤں کو بھی سنتا ہے اور بغیر دعاؤں کے بھی ہمارے کام کرتا ہے.ہمارا کیا کام کرتا
649 ہے.اسی کے سارے کام ہیں.مشرقی افریقہ میں ان دنوں مقامی افریقنوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی توجہ پیدا ہو گئی ہے....بعض جگہ تو گاؤں کے گاؤں احمدی ہوئے ہیں.تنزانیہ میں زیادہ ہیں.یوگینڈا میں اس سے کم اور کینیا میں اس سے کم لیکن کینیا میں اب حالات ایسے پیدا ہورہے ہیں کہ ساحل سمندر پر غالباً مقامی لوگوں کی جماعتیں پیدا ہو جائیں گی.آپ دعائیں کرتے رہیں.“ خلافت ثالثہ میں دیگر طریقوں کے ساتھ زراعتی میلوں میں جماعت کے لٹریچر کے سٹال لگانے کے طریق کو بھی تبلیغ کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا.یہ میلے نیروبی ،کسومو، ایلڈوریٹ اور ممباسہ میں منعقد ہورہے تھے.افریقہ کے باقی ممالک کی طرح کینیا بھی عیسائی منادوں کی سرگرمیوں سے اپنا حصہ لے رہا تھا جو اپنے اپنے طریق سے عیسائیت کی تبلیغ کے لئے کاوشیں کر رہے تھے.جولائی ۱۹۶۸ء میں ایک پادری اورل را برٹس (Oral Roberts) کینیا آئے اور معجزہ نمائی کا دعویٰ پیش کیا.ذرائع ابلاغ پر اس کا خوب چرچا ہوا.جماعت کے مبلغ مکرم عبد الکریم شر ما صاحب نے انہیں دعا کے ذریعہ نشان نمائی کی دعوت دی.لیکن اس کے جواب میں پادری صاحب نے خاموشی اختیار کر لی.نیشن (Nation) جیسے قومی جریدے نے بھی پادری صاحب پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس دعوت کو قبول کریں لیکن انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہم اس دعوت کو قبول نہیں کر سکتے.لامو(Lamu) کینیا کے ایک ساحلی مقام پر واقعہ ہے.کینیا میں سب سے پہلے اسلام یہاں پر پہنچا تھا.۱۹۶۸ء میں مکرم بشیر احمد اختر صاحب مشنری انچارج مکرم عبدالکریم شر ما صاحب کی ہدایت پر تبلیغ کے لئے گئے.وہاں پر موجود عرب شیوخ کی طرف سے آپ کی شدید مخالفت کی گئی اور سرکاری حکام نے آپ کو وہاں سے جانے کے لئے کہا.آپ تو وہاں سے آگئے لیکن اس مقام پر احمدیت کا بیج بو دیا گیا.اور سب سے پہلے بیعت کرنے والے پولیس کے ایک اہلکار تھے.کینیا میں تبلیغی مساعی صرف شہروں تک محدود نہ رہی بلکہ دیہات میں بھی جماعت احمدیہ کی تبلیغی کاوشیں رنگ لانے لگیں.اور خلافت ثالثہ کے دوران مختلف دیہات میں غریبانہ رنگ میں مساجد کی تعمیر بھی ہوئی.چنانچہ ۱۹۷۰ ء میں اسمبو (Asembo) اور کیسا (Kisa) کے مقام پر مساجد تعمیر
650 ہوئیں.۱۹۷۱ ء میں ٹاویٹا (Taveta) اور امبالے (Mbale) ( یہ والا امبالے کینیا کے مغربی صوبہ میں ہے.ایک اور امبالے یوگینڈا میں واقع ہے ) کے مقامات پر مساجد تعمیر ہوئیں.۱۹۷۵ء میں مشرقی یوگینڈا میں شینگا (Shibinga) کیتو بو (Kitobo) چیومبو (Chibombo) اور نزوئیا(Nzoia) کے مقامات پر اور West Ugenya کے مقامات پر مساجد قائم ہوئیں.اس کے علاوہ امبالے (MumiasMutoma (Male اور مازو مالوے Mazumalume کے مقامات پر نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.مختلف اوقات میں کینیا کے امراء جماعت کینیا کے مختلف علاقوں میں تبلیغی اور تربیتی دورے کرتے اور ان مواقع پر خلافت ثالثہ کے دوران بھی کینیا میں جماعتی لٹریچر شائع کیا گیا اور اس کے ذریعہ اس ملک میں تبلیغ کی گئی.سواحیلی Luo اور Lua زبانوں میں ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ تقسیم کئے جاتے.مختلف مقامات پر لیکچر ہوتے جن میں غیر از جماعت احباب بھی خاطر خواہ تعداد میں شرکت کرتے.(۱) اللہ تعالیٰ نے مکرم جمیل الرحمن رفیق صاحب امیر ومشنری انچارج کینیا کو سواحیلی زبان پر ملکہ عطا فرمایا تھا.چنانچہ انہوں نے اس زبان میں بہت سی کتب کا ترجمہ کیا اور تبلیغی نقطہ نگاہ سے بہت سے کتابچوں کی تصنیف کی.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف’ایک غلطی کا ازالہ ، حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف ”اسلام اور دیگر مذاہب.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ”اسلامی اصول کی فلاسفی منتخب احادیث منتخب قرآنی آیات، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منتخب تحریروں، احادیث کے مجموعہ حدیقۃ الصالحین اور الوصیت کا سواحیلی میں ترجمہ کیا.یہ تراجم خلافت ثالثہ اور رابعہ میں مختلف اوقات میں شائع ہوئے.۱۹۷۰ء کی دہائی کے آغاز پر ممباسہ میں ماریشس سے تعلق رکھنے والے مبلغ سلسلہ مکرم احمد شمشیر سو کیہ صاحب متعین تھے اور بڑی تند ہی سے کام کر رہے تھے.(۲)
(1) الفضل ۲۷اکتوبر ۱۹۷۱ ء ص ۳ (۲) الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۷۰ ص ۳ گیمبیا 651 خلافت ثالثہ میں بھی اس ملک میں جماعت کی ترقی کا سفر جاری رہا.اور اس کے ساتھ ساتھ مخالفت بھی ہوتی رہی.۱۰ مئی ۱۹۶۹ ء کو گیمبیا کے ایک گاؤں مصر میں مبلغ سلسلہ مکرم داؤد احمد حنیف صاحب اور گیمبیا کے ایک احمدی سیا کا سایا نگ (Siakan sayang) صاحب کے ذریعہ جماعت کا قیام عمل میں آیا لیکن مقامی چیف اور ڈسٹرکٹ چیف نے شدید مخالفت شروع کر دی.اور وہاں پر ایک نواحمدی مکرم حمزہ صاحب کا ایک عربی مدرسہ بھی تھا اسے مخالفین نے مسمار کر دیا اور احمدیوں سے ان کی زمینیں بھی چھین لی گئیں.کچھ کمزور ایمان والے اس کے نتیجے میں پیچھے ہٹ گئے لیکن ان میں سے کئی ثابت قدم رہے.ان میں مکرم ابوبکر نیا بالی صاحب اور مکرم محمد فاطی صاحب قابل ذکر ہیں.آہستہ آہستہ مخالفت کا دور ختم ہو گیا اور جہاں پر وہ مدرسہ گرایا گیا تھا وہاں جماعت نے ایک مسجد بنائی.۱۹۶۳ء میں ہی گیمبیا کے انتہائی شمال میں بصے کے قصبے میں بیعتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا.جون ۱۹۶۹ ء میں حکومت نے گیمبیا میں تیسرے مبلغ کے ویزے کی منظوری دی تو مکرم اقبال احمد غضنفر صاحب گیمبیا پہنچے اور آپ کو بصے میں جماعت کا مبلغ مقرر کیا گیا.غیر احمدی امام نے جماعت کی مخالفت تیز کر دی اور لوگوں کو احمدیوں کی مجلس میں آنے سے روکنا شروع کر دیا اور حکام کو یہ تاثر دیا کہ احمدیوں کی وجہ سے نقض امن کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے.حالانکہ وہ خود فساد کو بھڑ کانے کی کوششوں میں مصروف تھا.آہستہ آہستہ وہاں پر جماعت کی مخالفت کم ہوگئی اور ۱۹۷۴ء میں جماعت نے اس قصبے میں ایک میڈیکل سینٹر اور ۱۹۸۲ء میں ایک سکول قائم کیا.سب سے پہلے مرکز آنے والے اور امامِ وقت کی زیارت کا اعزاز حاصل کرنے والے احمدی مکرم تیجان بابو کرفون ( Tijan Baboucarfoon) صاحب تھے.۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے دورہ گیمبیا کا ذکر علیحدہ جگہ پر کیا گیا ہے.مکرم مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب گیمبیا میں جماعت کے پہلے مبلغ تھے..آپ گیمبیا کے
652 امیر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دے رہے تھے.۱۹۷۳ء میں آپ مرکز واپس تشریف لے آئے اور مکرم بشیر الدین عبید اللہ صاحب نے گیمبیا مشن کا چارج لیا.مکرم بشیر الدین عبید اللہ صاحب کا گیمبیا میں قیام مختصر تھا لیکن آپ کے وہاں پر قیام کا ایک اہم واقعہ گیمبیا میں جلسہ سالانہ کی روایت کا آغاز ہے.جماعت احمد یہ گیمبیا کا پہلا جلسہ سالانہ مارچ ۱۹۷۵ء میں فیرا فینی کے مقام پر ہوا.مارچ ۱۹۷۵ء میں مکرم بشیر الدین عبید اللہ صاحب بیمار ہو جانے کی وجہ سے لندن چلے گئے اور آپ کے بعد مولوی عبدالشکور صاحب گیمبیا آئے اور امیر اور مشنری انچارج کے طور پر کام شروع کیا.جنوری ۱۹۷۶ ء میں اس وقت کے وہ صاحب جنہیں سعودی عرب نے خانہ کعبہ میں امام مقرر کر رکھا تھا گیمبیا کی حکومت کی دعوت پر گیمبیا آئے.جب وہ گیمبیا سے جانے والے تھے تو انہوں نے بانجل میں ائمہ مساجد سے ایک میٹنگ کی اور اس میں جماعت احمدیہ کے خلاف بہت زہرا گلا.انہوں نے کہا کہ احمدی کا فر ہیں اور ان کے انگریزوں اور اسرائیل سے خفیہ تعلقات ہیں.ان کے اس بیان کو گیمبیا کے سرکاری ریڈیو میں نمایاں کر کے نشر کیا گیا.جماعت احمدیہ کے وفد نے قائم مقام صدر سے مل کر اس پر احتجاج کیا.اس پر قائم مقام صدر نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ علماء کو بلا کر سمجھا دیں گے کہ وہ اشتعال انگیزی سے اجتناب کریں.جماعت احمدیہ کے وفد نے کہا کہ وہ ریڈیو پر ہی اس کا جواب دینا چاہتے ہیں.اس پر قائم مقام صدر نے کہا کہ جماعت ریڈیو پر جواب دینے پر اصرار نہ کرے البتہ وہ اس بیان کا جواب شائع کر سکتے ہیں.اس پر جماعت احمدیہ نے ایک پمفلٹ شائع کیا جس کا نام تھاAhmadis are Muslims.بظاہر یہ ایک چھوٹا سا واقعہ نظر آتا تھا لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ایک عالمی سازش کا جال بنا جار ہا تھا.۱۹۷۸ء میں مکرم عبد الشکور ساحب پاکستان واپس تشریف لے آئے اور مکرم داؤد احمد حنیف صاحب جماعت احمد یہ گیمبیا کے امیر مقرر ہوئے.۱۹۷۹ ء میں گیمبیا کے مشن کے زیر اہتمام ایک رسالہ اسلام کے نام سے جاری ہوا.خلافت ثالثہ میں گیمبیا میں ذیلی تنظیموں کا نظام بھی قائم کیا گیا.اکتوبر ۱۹۷۹ء میں لجنہ اماءاللہ کا قیام عمل میں آیا اور مکرمہ بشری حنیف صاحبہ اہلیہ داؤ د احمد حنیف صاحب لجنہ گیمبیا کی پہلی صدر مقرر ہوئیں.۱۹۷۹ء میں ہی انصار اللہ گیمبیا قائم ہوئی اور مکرم عبد القادر جکنی صاحب اس کے پہلے ناظم
653 اعلیٰ مقرر ہوئے.۱۹۸۱ء میں مجلس خدام الاحمد یہ گیمبیا کا قیام عمل میں آیا اور مکرم لامین جوار ا صاحب اس کے پہلے نیشنل قائد مقرر ہوئے.جارج ٹاؤن میں ۱۹۷۸ء میں ایک مشن ہاؤس اور ۱۹۸۱ء میں مسجد تعمیر ہوئی.نائیجیریا ۱۹۶۶ء میں نائیجیریا اور مغربی افریقہ کی جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ نائیجیریا میں منعقد ہونے والی ایک کا نفرنس تھی جس میں مغربی افریقہ کے مشنری انچارج صاحبان نے شرکت کی.یہ کا نفرنس لیگوس میں منعقد ہوئی.اور اس میں متعلقہ مشنوں کی ترقی کے حوالے سے بہت سی اہم تجاویز تیار کی گئیں.خلافت ثالثہ کے آغاز میں نائیجیریا کے مشنری صاحبان نے ایک نئے عزم سے مختلف علاقوں کے دورے شروع کئے اور اس کے نتیجے میں تیز رفتاری سے بیعتیں شروع ہوئیں.مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب نے چار سال نائیجیریا میں بطور امیر و مشنری انچارج فرائض انجام دیئے.۱۹۶۸ء میں آپ واپس ربوہ تشریف لے آئے.اور مکرم فضل الہی انوری صاحب نے آپ کی جگہ یہ فرائض ادا کرنے شروع کئے.۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دورہ نائیجیریا کا ذکر علیحدہ کیا گیا ہے.اس دورہ کے نتیجہ میں نائیجیریا کی جماعت کو بڑی برکات حاصل ہوئیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دور میں نائیجیریا کی جماعت نے حکومت نائیجیریا سے یہ درخواست کی کہ کیتھولک چرچ کو ایک سو پچاس مشنریوں کے ویزے کا کوٹہ دیتے ہیں ہم بھی ایک سو پچاس مشنریوں کے ویزے کا کوٹہ لیں گے.اس کے متعلق حضور نے ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء کے جلسہ سالا نہ کی تقریر میں فرمایا:.تحریک جدید کے ہمارے کل چونسٹھ مبلغ کام کر رہے ہیں اور نائیجیریا کی جماعت نے وہاں کی حکومت کو یہ درخواست بھیج دی ہے کہ آپ کیتھولکس کو ایک سو پچاس کا کوٹہ دیتے ہیں ہم بھی ایک سو پچاس کا کوٹہ لیں گے.یہ سوچا ہی نہیں کہ ہمیں کسی پریشانی میں ڈال دیں گے.لیکن اگر ہم دعا کریں اور بے حد عاجزانہ دعائیں کریں اور تدبیر کریں اور جو حضرت
654 مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب پڑھتے رہتے ہیں وہ اپنے آپ کو وقف کریں.آج اگر پچاس کی ضرورت ہے تو پچاس احمدیوں کو قربانی کے میدان میں نکلنا چاہئے.اگر ڈیڑھ سو کی ضرورت ہے تو ڈیڑھ سو کونکلنا چاہئے.یہ وقت پھر ہاتھ نہیں آئے گا.“ اب سے قبل تک جماعت احمدیہ تعلیمی میدان میں خدمت کر رہی تھی لیکن یہ خدمت پرائمری سکولوں کے قیام تک محدود تھی.لیکن اب تک سیکنڈری سکول کھولنے میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی تھی.۱۹۷۰ء میں جماعت نے کا نو میں ایک سیکنڈری سکول کھولا.اس سے پہلے کا نو میں جماعت کا ہسپتال موجود تھا.اس کے بعد ۱۹۷۱ء میں جماعت نے نائیجیریا میں مزید دو سیکنڈری سکول کھولے.یہ سکول گوساؤ اور رمنا کے مقامات پر تھے.ان سکولوں نے کچھ عرصہ کام کیا پھر انہیں بند کرنا پڑا.بہت سے مقامات ایسے تھے جہاں پر باقاعدہ تبلیغ کے لئے کوئی احمدی مبلغ تو نہیں پہنچا لیکن وہاں کے لوگوں کو خود احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہوئی.ابادان کے نواح میں الا باٹا (llabata) بھی ایک ایسی ہی جگہ تھی.یہاں کے رؤساء نے خود جماعت کی طرف پیغام بھجوایا کہ انہیں بتایا جائے کہ احمدیت کیا ہے؟ ان کے معززین کا ایک وفد آیا اور سوال و جواب کی ایک طویل نشست کے بعد انہوں نے بیعت کر لی اور اس طرح اس جگہ پر جماعت کا قیام عمل میں آیا.اسی طرح اجیبو اوڈے کے نواح میں اموساں کے مقام پر ایک گاؤں کے لوگوں نے جماعت کو ایک وسیع قطعہ زمین پیش کیا کہ وہاں کوئی درسگاہ قائم کی جائے.جماعت کا وفد وہاں پہنچا اور وہاں کے کچھ لوگوں کو احمدیت سے دلچسپی پیدا ہوئی اور سوال و جواب کے بعد بیعتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور وہاں پر جماعت قائم ہوگئی.اسی طرح جب حضرت خلیفۃ اسیح الثالث" کے دورہ کا ملک میں چرچا ہوا تو اس سے بھی بہت سے مقامات پر لوگوں کو احمدیت سے دلچسپی پیدا ہوئی اور اس کے نتیجہ میں جہاں پہلے چند ایک احمدی موجود تھے وہاں با قاعدہ جماعتیں قائم ہوگئیں.اس عمل کے نتیجے میں اکیروں، اوشو گبو اور تجبگو کے قصبوں میں بھی احمدیت کو وسعت عطا ہوئی.(۱) خلافت ثالثہ کے دوران جماعت احمدیہ نائیجیریا کی ذیلی تنظیموں نے بھی نئی مستعدی سے کام شروع کیا.یوں تو ۱۹۵۰ء سے خدام الاحمدیہ نائیجیریا میں قائم تھی اور اسکے پہلے قائد الحاج عبدالوحید فلاویو (Flawiyo) صاحب تھے.لیکن ایک لمبا عرصہ تک نائیجیریا میں خدام الاحمدیہ صرف چند
655 جماعتوں تک محدود رہی.۱۹۷۲ء میں مکرم اجمل شاہد صاحب نے اس تنظیم کو ملکی سطح پر مستحکم کیا.۱۹۷۲ء میں ہی خدام الاحمدیہ نائیجیریا کا پہلا اجتماع ابادان میں منعقد ہوا.اسی طرح کسی حد تک کہیں کہیں مجالس انصار اللہ حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب کے زمانے میں ہی قائم ہوگئی تھیں لیکن ملکی سطح پر اس مجلس کی باقاعدہ تشکیل ۱۹۷۳ء میں ہوئی.اور الحاج ابو بکر ابو ڈو گے کوکوئی ( ldogbe Kokoyi) صاحب مجلس انصار اللہ نائیجیریا کے پہلے زعیم اعلیٰ مقرر ہوئے.اسی طرح اسی دور میں لجنہ اماءاللہ میں نئی روح پیدا ہوئی اور ۱۹۷۶ء میں لجنہ نائیجیریا کا پہلا ملکی اجتماع منعقد ہوا.نائیجیریا میں جماعت کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے تحت مساجد کی تعمیر کا کام بھی جاری تھا.چنانچہ ۱۹۷۸ء کے دوران یہاں پر جماعت احمدیہ کی تین مساجد تعمیر کی گئیں.اور اسی سال یہاں پر دومشن ہاؤس بھی تعمیر ہوئے.۱۹۷۸ء میں نائیجیریا کی جماعت نے یورو با زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کیا جو کہ بہت مقبول ہوا.اب جماعت کی دینی تربیت کے تقاضے بہت بڑھ گئے تھے.اور صرف مرکز آ کر تعلیم پا کر واپس جانے والے اس بڑھتے ہوئے بوجھ کو سنبھال نہیں سکتے تھے.اس لئے نائیجیریا میں جماعت کا ایک مشنری ٹرینگ کالج کھولنے کا فیصلہ کیا گیا.یہ کالج الا رو کے مقام پر کھولا گیا اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس کے قیام کے متعلق فرمایا :.دو الا رو کے مقام پر احمد یہ مشنری ٹریننگ کالج کا اجراء کیا گیا ہے.اب وہاں ضرورت بہت بڑھ گئی ہے اور یہاں سے اتنے آدمی ہم جامعہ احمدیہ کے بھجوا نہیں سکتے ، اس میں بہت ساری روکیں ہیں.کچھ ہماری ہیں.ہمارے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں جوخرچ کریں.اس واسطے ایک غانا میں ٹریننگ کالج ہے اور وہاں مختلف ملکوں کے احمدی آجاتے تھے.پھر اب ان کے آپس میں بھی فارن ایچینج کی مشکلیں ہیں.تو دوسرا ٹریننگ کا لج نائیجیر یا میں کھل گیا ہے.“ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۸۲ ء تک مکرم محمد اجمل شاہد صاحب نے جماعت احمدیہ نائیجیریا کے امیر اور مشنری انچارج کے فرائض سر انجام دیئے.خلافت ثالثہ کے دوران نائیجریا کے مختلف علاقوں میں جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.جس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں.اوگبا گی کا قصبہ اونڈو (Ondo) سٹیٹ میں واقعہ ہے.یہاں پر جماعت کا تعارف ہوا مگر اس وقت مقامی لوگوں نے جماعت کے خلاف طرح طرح کی افواہیں پھیلانی اور مخالفت کرنی شروع کی.مگر ۱۹۶۹ء تک یہاں
656 کے کئی احباب جماعت میں داخل ہو چکے تھے.اور ایک مقامی مبلغ مکرم ذکریا صاحب کو یہاں مقرر کیا گیا.اودیری (Oweri) مشرقی نائیجیریا کا ایک شہر اور ایمو (Imo) سٹیٹ کا صدر مقام ہے.یہاں پر جماعت کا تعارف مکرم حاجی تیجانیا آکو بو(Tijania Akubuo) کے ذریعہ سے ہوا.یہاں کے محمدا کا بگا صاحب کو مبلغ کے طور پر تیار کرنے کے لئے لیگوس بھجوایا گیا.لیکن پھر نائیجیریا میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور ان سرگرمیوں میں تعطل پیدا ہو گیا.اس کے بعد یہاں پر جماعت کا احیاء نومکرم علی انوحوا (Onvoha) کے ذریعہ ہوا.کا ڈونا(Kadona) شہر کا ڈونا سٹیٹ کا صدر مقام ہے.یہاں پر جماعت کا آغاز ۱۹۶۷ء میں ، ان لوگوں کے ذریعہ ہوا جو کام کاج کے سلسلہ میں نقل مکانی کر کے آباد ہوئے تھے.پہلی جماعتی میٹنگ میں صرف پانچ احباب شامل ہوئے تھے.اور ۱۹۸۱ء میں یہاں پر نئے مشن ہاؤس اور مسجد کا سنگ بنیادرکھا گیا.جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر اب لیگوس میں جگہ کم ہو چکی تھی.چنانچہ ۱۹۷۲ء میں شہر سے ۲۷ کلومیٹر دور جو کورو (Ojokoro) کے مقام پر زمین حاصل کی گئی.جماعتی دفاتر کی تعمیر کے علاوہ احمدی احباب کو بھی تحریک کی گئی یہاں پر زمین لے کر مکان بنائیں.کالا بار (Calabar) کراس ریور (Cross River) سٹیٹ کا صدر مقام ہے.یہاں پر خانہ جنگی کے دوران ایک مسجد ویران ہو گئی تھی جس پر عیسائیوں نے قبضہ کر کے اسے چرچ میں تبدیل کر دیا تھا.ایک مسلمان نے اس کی بازیابی اور اسے دوبارہ آباد کرنے کے لئے مختلف تنظیموں سے رابطہ کیا تھا.سوائے جماعت احمدیہ کے کسی نے ان کی مدد کرنے کی حامی نہ بھری.اور جماعت کا وفد یہاں پہنچا.اس طرح ان لوگوں کا جماعت سے تعارف ہوا اور ان میں سے کئی لوگوں نے بیعت کی اور یہاں جماعت کا قیام عمل میں آیا.باؤچی سٹیٹ میں جماعت کا قیام ۱۹۷۶ء میں ان لوگوں کے ذریعہ ہوا جو ملا زمت کے سلسلہ میں یہاں پر آکر آباد ہوئے تھے لیکن یہاں پر تبلیغ پر پابندی تھی اس لئے یہاں پر جماعت کی ترقی
657 نسبتاً آہستہ رہی.خلافت ثالثہ کے دوران بہت سے نائیجیرین احباب نے ربوہ آکر جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی اور جماعت کے مبلغ کی حیثیت سے خدمات کا آغا ز کیا.(1) الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۷۱ ص ۳ و ۴
658 جاپان میں مشن کا احیاءنو جاپان میں مشن کے قیام کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.لیکن اس کے بعد اس ملک میں ایک لمبا عرصہ تبلیغی سرگرمیوں میں تعطل رہا.تمبر ۱۹۲۹ء میں مکرم عبدالحمید صاحب بطور مبلغ جاپان تشریف لے گئے.آپ نے ۱۸ سال کی عمر میں براہینِ احمدیہ کے مطالعہ کے بعد احمدیت قبول کی تھی.پہلے فوج میں ملازمت کی اور پھر ۱۹۶۰ء میں فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی وقف کر دی اور انگلستان اور امریکہ میں بھی بطور مبلغ خدمات سرانجام دیں.جاپان پہنچ کر پہلے ایک ہوٹل میں قیام کیا اور اور ایک سکول میں داخلہ لے کر زبان سیکھنی شروع کی.پھر ایک کرایہ کا مکان لے کر کام شروع کیا.آپ نے جماعت کا بنیادی لٹریچر کثرت سے تقسیم کیا.اور ڈکشنری اور جاپانی زبان کے اساتذہ کی مدد سے مسیح کی بعثت ثانی کے عنوان سے ایک فولڈر شائع کیا اور کثرت سے تقسیم کیا.آپ نے پریس سے رابطہ کیا اور اخبارات نکان توشی اور جاپان ٹائمز میں مضامین شائع کئے جو سوال و جواب کا رنگ اختیار کر لیتے اور رابطے کا ذریعہ بن جاتے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس مشن کے احیاء نو کے بارے میں ۱۹۶۹ء کے جلسہ سالانہ میں فرمایا: پس جاپان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشن قائم ہو گیا ہے اور وہ پیشگوئی جس کا ذکر قرآنِ کریم میں تھا ذوالقرنین کے بیان کے مطابق اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ایک اور جلوہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں دکھایا ہے.میں نے بتایا تھا کہ اس کے لئے فنڈ کی میں علیحدہ تحریک کروں گا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک بغیر کسی تحریک کے گیارہ ہزار سے زائد کی رقم جمع ہو چکی ہے اور اس میں سے انداز پانچ ہزار روپیہ خرچ ہوا ہے.اور اس واسطے میں یہ تحریک نہیں کروں گا کہ آپ ابھی اس میں کچھ دیں.میں یہ تحریک کروں گا کہ آپ یکم مئی کے بعد جب سال رواں کی مختلف مالی ذمہ داریاں ادا کر چکیں.تو اس وقت جتنا خوشی اور بشاشت سے دوسرے چندوں پر اثر ڈالے بغیر آپ جاپان مشن میں دے سکتے ہوں دے دیں.66
659 فرمایا:.اور اسی تقریر میں حضور نے جاپانی معاشرے میں مذہب کے متعلق رویے کا ذکر کرتے ہوئے اس میدان میں ہمیں بڑی جدو جہد کرنی پڑے گی کیونکہ ان کے اندر یہ عادت پڑ گئی ہے کہ ایک ہی شخص کیتھولک کلب کا بھی ممبر ہے اور بدھ کلب کا بھی ممبر ہے اور مختلف مذاہب کے چرچ اور عبادت گاہوں کو وہ کلب سمجھتے ہیں اور وہاں جتنی کلمبیں ہیں وہ ان کے ممبر بن جاتے ہیں.بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو ایک مذہب کی رسومات پر عمل کرتے ہیں اور جب وہی بڑا ہو کر مرتا ہے تو اسے دفنانے کے لئے دوسرے مذہب کی رسومات پر عمل کرتے ہیں....تو ان کو اس صراط مستقیم پر لانا یعنی کلبوں سے نکال کر مذہب میں داخل کرنا.چونکہ وہ لوگ مذاہب کو کلب سمجھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف مذاہب کی ذہنیت اور ان کا فلسفہ اور اس فلسفہ کے متعلق تقاریران کے نزدیک ایسی ہیں جیسی کسی کلب میں مختلف تقاریر ہوتی ہیں.اس فلسفہ کو مغلوب کرنے کے لئے اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے کسی اور فلسفہ کی ضرورت نہیں اور نہ وہ ہمیں مفید ہوسکتی ہے.شاید میں نے پچھلے سال بھی دوستوں کو متوجہ کیا تھا کہ وہاں جماعت کو ترقی حاصل کرنے کے لئے نشانِ آسمانی اور تائیدات سماوی کی ضرورت ہے.اب ہمیں ایسے بے نفس انسان چاہئیں جن پر ایک نظر پڑنے سے اگلا دیکھنے والا انسان اثر قبول کئے بغیر نہ رہ سکے.“ اکتوبر ۱۹۷۰ء میں جاپان کے شہر کیوتو میں مذاہب اور امن کے موضوع پر ایک کا نفرنس منعقد ہوئی.اس موقع پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس کانفرنس میں قرآنِ کریم کی روشنی میں امن کے بنیادی اصولوں پر خطاب فرمایا.کانفرنس میں مکرم عبدالحمید صاحب نے جماعت احمدیہ کی نمائندگی کی اور حقوق انسانی کی سب کمیٹی میں آپ نے حصہ لیا اور تقاریر کیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ ء کو جلسہ سالانہ کی تقریر میں اس کا نفرنس کے بارے میں ارشادفرمایا:.وو...جاپان میں ایک عالمگیر مذہبی کا نفرنس منعقد ہوئی ، اس میں جماعت احمد یہ کو بھی
660 مدعو کیا گیا اور وہاں جماعت کے نمائندے نے شرکت کی.دوسرے مسلم ممالک یا مسلم مجالس کے نمائندے وہاں آئے تھے.وہ اتنے متاثر ہوئے کہ بلا استثناء سب نے آکر ہمارے نمائندے کی تعریف کی اور اس موقف سے بہت متاثر ہوئے جو اس نے لیا جو اسلام کا سچا موقف اور نبی اکرم ﷺ کی سچی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حقیقی پیغام ہے.الحمد للہ علی ذلک.اس میں مکرم و محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل ہوئے تھے.بظاہر جماعت کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں، ویسے جماعت کے نمائندے کی حیثیت سے ہی میں کہوں گا.بظاہر میں نے اس لئے کہا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو جو بھی ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس برکت کے طفیل سے ملا ہے جو محمد ﷺ سے آپ نے لی اور آپ کی امت کو آپ نے دی.“ مکرم عبدالحمید صاحب کی کاوشوں کے نتیجہ میں آپ کے قیام کے دوران تمہیں افراد نے احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت حاصل کی.فروری ۱۹۷۵ء میں مکرم عطاء المجیب راشد صاحب جاپان تشریف لے آئے اور بطور مبلغ کام شروع کیا اور مکرم عبد الحمید صاحب واپس مرکز تشریف لے آئے.آپ کے دور میں جاپان میں مستقل دار التبلیغ قائم ہوا.آپ نے بھی جاپان میں آمد کے بعد سب سے پہلے زبان سیکھنے کی طرف توجہ کی اور سکول میں داخلہ لیا.آمد کے کچھ عرصہ کے بعد ہی آپ کا ایک انٹرویوٹی وی پر نشر ہوا اور اس طرح تبلیغ کا ایک موقع پیدا ہو گیا.مکرم عطاء الجیب راشد صاحب نے انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ تبلیغ کا کام جاری رکھا.۱۹۷۷ء میں جاپان میں اسلامی لٹریچر کی ایک نمائش منعقد کی گئی.۱۹۷۹ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث" نے جلسہ سالانہ کی ۲۷ دسمبر کی تقریر میں فرمایا: جاپان میں بھی مشن بڑا Active ہو گیا ہے.اور وہاں انہوں نے رسالے شائع کرنے شروع کر دیئے ہیں.جلسے کرتے ہیں اخباروں میں خطوط لکھتے ہیں...جب عیسائی یا دوسرا کوئی مذہب والا ان سے تنگ آجاتا ہے تو پھر وہ اخبار کو کہتا ہے کہ اب یہ سلسلہ بند کر دو.”امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ اس کا ترجمہ ہو چکا ہے جاپانی میں.“
661 ۱۹۸۱ء میں جماعت احمد یہ جاپان کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا.۱۹۸۱ء میں ہی جاپان کی جماعت نے اپنا ایک سہ ماہی رسالہ شائع کرنا شروع کیا.۱۹۷۹ء میں مکرم مغفور احمد منیب صاحب کو بھی بطور مبلغ جاپان بھجوایا گیا اور آپ نے یوکوہاما کے شہر میں دوسرے مشن کا آغاز کیا.یہ شہر ٹوکیو کے قریب ہی ہے.جب مکرم عطاء المجیب راشد صاحب جاپان آئے تو اس وقت ٹوکیو کے مغربی حصہ میں سیتا گایا وارڈ میں جماعت کا مشن ایک کرائے کے کمرے میں تھا.جب حالات نے بڑی جگہ کا تقاضا کیا تو مئی ۱۹۷۸ء میں ٹوکیو کے مشرقی حصہ میں ایدوگا و اوارڈ میں مشن منتقل کر دیا گیا.۱۹۸۱ء میں وکیل اعلیٰ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے دورہ جاپان کا منصو بہ بنا تو اس موقع پر مبلغ جاپان مکرم عطاء المجیب راشد صاحب نے تجویز دی کہ جاعت کا مشن ٹوکیو سے باہر کسی زیادہ موزوں مقام پر منتقل کیا جاسکتا ہے.اور اس سلسلہ میں ناگویا شہر کا نام بھی تجویز کیا.مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی آمد پر ایک مکان پسند کیا گیا.لیکن جب اس کی منظوری آئی تو معلوم ہوا کہ یہ مکان تو اب فروخت ہو چکا ہے.چنانچہ پھر ایک اور مکان کا انتخاب کیا گیا.اور جماعت نے یکمشت رقم ادا کر کے اس مکان میں اپنا مشن ہاؤس قائم کر دیا.(۱) (۱) افضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۱۹ ص ۱۳۹-۴۱ (۲) خطاب حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۷ ۲ دسمبر ۱۹۶۹ء
662 بینن میں جماعت کا آغاز بینن میں جماعت کا تعارف ۱۹۶۷ء میں ہوا.بینن کے ایک باشندے مکرم سیکر و داؤد صاحب (Sikirou Dauda) ملازمت کے سلسلہ میں نائیجیریا میں مقیم تھے.انہوں نے ۱۹۶۵ء میں احمدیت قبول کر لی.ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اپنے ہم وطنوں کو حق کا پیغام پہنچائیں.چنانچہ مشنری انچارج مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب نے ایک وفد تشکیل دیا جس میں مرکزی مبلغ مکرم محمد بشیر شاد صاحب، دولوکل معلمین اور مکرم سیکر و داؤ د صاحب شامل تھے.یہ وفد ایک ہفتہ کے دورہ پر بینن پہنچا اور وہاں پر اجتماعی اور انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچایا.حکومت کے افسران اور مسلمان لیڈروں نے کافی تعاون کیا اور جامع مسجد میں بھی احمدیت کا تعارف کرانے کا موقع دیا.اس دورہ کے دوران ایک تاجر اور سیکنڈری سکول کے چار طلباء نے بیعت کی.بیعت کرنے والے تاجر کا نام الحاجی راجی بصیر و ( Radji Basiru) صاحب تھا.۱۹۶۹ء میں مکرم سیکر و داؤد صاحب نے ملازمت ترک کر دی اور وطن آکر تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے.آپ کی تحریک پر مختلف اوقات پر چار نائیجیرین مبلغین نے بین آکر گرانقدر خدمات سرانجام دیں.ان میں سے سب سے پہلے مکرم الحاج محمد توحید شیکونی (Tohid Shekoni) صاحب تھے.یہ صاحب اگست ۱۹۷۲ء میں بینن پہنچے اور ۱۹۷۳ ء تک بینن میں کام کیا اور آپ نے یہاں پر احمدیوں کی علیحدہ نماز اور جمعہ شروع کرایا.دوسرے مبلغ برادر بن صالح تھے.آپ نے ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۵ء تک ایک سال ببینن میں کام کیا.الحاج الو وا صاحب نے اس ملک میں ۱۹۷۶ء سے ۱۹۷۷ء تک یہاں پر خدمت کی توفیق پائی.آپ نے باوجود پیرانہ سالی کے اس ملک میں تبلیغ کا کام جاری رکھا.چوتھے مبلغ مکرم عبد العزیز تاج الدین صاحب تھے آپ ۱۹۷۸ء میں یہاں آئے اور آپ نے چار سال یہاں پر خدمت کی توفیق پائی.بین میں تبلیغ کا ایک اچھا ذریعہ اہل بین کا نائیجیر یا میں آنا جانا تھا.جب یہاں کے رہنے والے نایجیر یا آتے تو ان میں سے بعض کا نایجیریا کے احمدیوں سے رابطہ ہو جاتا اور اس طرح تبلیغ کا راستہ کھل جاتا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۱۹۷۹ء کے جلسہ سالانہ میں دوسرے روز کے خطاب میں بینن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
663 وہی لوگ جب ادھر آتے ہیں نائیجیر یا تو ان کا ملاپ ہوتا ہے ہمارے مشن سے.وہ ہماری باتیں سنتے ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں.لے جاتے ہیں.گھر جاتے ہیں.اپنے علماء سے باتیں کرتے ہیں.ان کو بتاتے ہیں مسئلے مسائل کہ یہ ایک جماعت ہے جو یہ باتیں پیش کر رہی ہے.اس طرح ان کو تبلیغ ہوتی ہے.وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا ہے کہ بغیر کسی مبلغ اور مشن کے ایک مخلص اور فعال جماعت اللہ تعالیٰ نے ہمیں دے دی.اس سال ببینن کے جلسہ سالانہ پر سینکڑوں افراد جمع ہوئے.چھوٹی جماعت ہے، نئی نئی بنی ہے اور مشن ہاؤس کی تعمیر انہوں نے شروع کر دی ہے.جس کے اخراجات وہ خود ا کٹھے کر رہے ہیں.“ بینن میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد پور تو نو دو میں بنی.اس مسجد کا سنگ بنیاد امیر صاحب جماعت احمدیہ نائیجیر یا مکرم اجمل شاہد صاحب نے مورخہ ۲۷ /جنوری ۱۹۷۴ء کو رکھا.اور اگست ۱۹۷۴ء کو اس کا افتتاح ہوا.اور پھر اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا مشن ہاؤس بھی بنا دیا گیا.اب اس جماعت کی ترقی اس بات کا تقاضا کر رہی تھی کہ یہاں پر ایک مرکزی مبلغ مقرر کیا جائے.چنانچہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشاد پر آئیوری کوسٹ سے مکرم احمد شمشیر سوکیا صاحب یہاں آئے.آپ کی آمد کے بعد بین کی جماعت ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوئی.بیٹن میں فرانسیسی بولی اور سمجھی جاتی ہے اور سو کیا صاحب کو فرانسیسی پر عبور تھا اس لئے آپ کو تبلیغ میں بہت سہولت تھی.نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور جماعت کا لٹریچر شائع کیا گیا.برکینا فاسو میں تبلیغ کی کوششیں برکینا فاسو جو کہ پہلے اپر وولٹا کہلاتا تھا مغربی افریقہ کا ملک ہے.یہ پہلے فرانسیسی کالونی تھی اور ۱۹۶۰ء میں اسے آزادی ملی.اس کی اکثریت ارواح پرست (Animist) ہے اور مسلمان بھی خاطر خواہ تعداد میں آباد ہیں.غانا اور برکینا فاسو کے درمیان ہمیشہ سے قریبی روابط رہے ہیں اور برکینا فاسو میں احمدیت کا تعارف بھی غانا کے ذریعہ پہنچا.شمالی غانا میں ایک قصبہ وا نام کا ہے.یہاں پر ایک عالم اور تاجر الحاج معلم صالح نام کے تھے.جنہوں نے اپنے کچھ دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ احمدیت قبول کر لی.ان کی بہت شدید مخالفت کی گئی.دوسرے مسلمانوں اور عیسائیوں نے ان کا
664 بائیکاٹ کیا ان پر مقدمات قائم کئے اور ان میں سے کئی کو جلا وطن کیا گیا.ان پر قاتلانہ حملے کئے گئے.الحاج معلم صالح کے بعض شاگر دا پر وولٹا ( برکینا فاسو) کے تھے.انہوں نے احمدیت قبول کی اور اس طرح وا کے ذریعہ احمدیت کا پیغام اس ملک میں پہنچا لیکن یہاں پر کوئی باقاعدہ تنظیم قائم نہ ہو سکی.ستمبر ۱۹۵۳ء میں غانا کے مبلغ مکرم مولانا نذیر احمد مبشر صاحب نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ دریائے وولٹا کے بالائی حصہ میں جو فرانسیسی علاقہ ہے، اس میں دو مقامات پر احمدیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے.اور ایک جگہ کے احمدی جو اپنے علاقے کے شاہی خاندان سے ہیں ان کو فرانسیسی حکومت نے غیر احمدیوں کی مخالفت کی وجہ سے نکال دیا تھا لیکن پھر وا کے الحاج معلم صالح نے بہت کوششیں کر کے انہیں وہاں پھر آباد کر وا دیا.اپر وولٹا اور وا میں تجارتی تعلقات تو تھے ، اس طرح دوا کی جماعت کی وساطت سے اپر وولٹا کے احمدیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی ہو جاتا.یہاں کے غیر احمدی احباب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب بڑے شوق سے خریدتے.مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کی کتاب القول الصریح فی ظهور المهدی واسیح بھی اپروولٹا کے عربی دان مسلمانوں میں بہت مقبول ہوئی.اپر وولٹا کے کچھ احمدی احباب وا کی سالانہ کا نفرنس میں بھی شامل ہوتے.جب ۱۹۶۷ء میں مغربی افریقہ کے مبلغین کی کانفرنس لائبیریا میں منعقد ہوئی تو اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اپروولٹا ( برکینا فاسو ) میں تبلیغ کا کام اب آئیوری کوسٹ کی جماعت کے سپرد کیا جائے.بظاہر اس کی ایک وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ یہ دونوں ممالک Francophone ہیں یعنی ان میں دوسری زبان کے طور پر فرانسیسی زبان مستعمل ہے.اور یہ کام آئیوری کوسٹ کے امیر ومشنری انچارج مکرم قریشی محمد افضل صاحب کے سپر د ہوا.انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ یہ فیصلہ کیا کہ ایک مبلغ برکینا فاسو بھجوایا جائے اور اس کے لئے اپنے ایک شاگر دعبدالحمید صاحب کا انتخاب کیا جو بر کینافاسو کے باشندے تھے.عربی، فرانسیسی اور مقامی زبانیں بول سکتے تھے.اور ابی جان میں سالہا سال مکرم قریشی محمد افضل صاحب کے زیر تربیت رہ چکے تھے.چنانچہ عبدالحمید صاحب ایک اور فدائی سمیت برکینا فاسو پہنچے اور ملک کے دوسرے بڑے شہر بو بوجلاسو میں ایک مکان کرایہ پر لے کر کام کا آغاز کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء کو اپنے جلسہ سالانہ کی تقریر میں
665 ارشاد فرمایا: ا پر وولٹا فرنچ مغربی افریقہ میں ایک نیا مشن کھولا جارہا ہے.اس کے اخراجات مغربی افریقہ کے مشن برداشت کریں گے.فی الحال آئیوری کوسٹ سے ایک لوکل مبلغ وہاں بھیجا 66 جا رہا ہے." ۱۹۶۹ء میں یہ اطلاع ملی کہ برکینا فاسو میں پانچ سو احمد یوں کا ایک اجلاس ہوا ہے جس میں یہ درخواست کی گئی ہے کہ یہاں کے لئے ایک مرکزی مبلغ بھجوایا جائے.چنانچہ اس درخواست پر حضور نے یہاں کے لئے حکیم محمد ابراہیم صاحب سابق مبلغ مشرقی افریقہ کا انتخاب کیا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر انہیں وہاں نہیں بھجوایا جا سکا.اسی سال غانا کی جماعت کے امیر مکرم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب نے دوسرے ممالک کے ساتھ برکینا فاسو کا بھی دورہ کیا.اور بو بوجلاسو کے علاوہ ایک اور مقام کوئیں (Konngy) کا بھی دورہ کیا.اس جگہ پر احمدیوں کی ایک مسجد بھی تھی.۱۹۷۲ء میں برکینا فاسو کی جماعت کے لئے مشکلات پیدا ہو گئیں اور محکم تعلیم نے کسی غلط فہمی کی بنا پر مشن کو یکسر بند کرنے کا حکم دیا.لیکن چونکہ مقامی پولیس حقیقت سے زیادہ واقف تھی اس لئے انہوں نے کہا کہ صرف مشن کا سائن بورڈ اتار دو.اس مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ مقامی مسلمانوں کی ایک تنظیم یونین کلچرل مسلمان جماعت کی مخالفت کر رہی تھی.اس طرح برکینا فاسو میں خدمت کے کام کا آغاز تو کر دیا گیا لیکن یہاں بڑی ترقی شروع ہو نا خلافت رابعہ کے دور میں مقدر تھا.جنوبی افریقہ میں احمدیت کی مخالفت اس دور میں جنوبی افریقہ میں رنگ ونسل کی بنیاد پر ظلم تو ایک عام سی بات تھی.اور وقتاً فوقتاً احمدیوں کو تختہ مشق بنایا گیا.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ثابت قدم رہے.صرف احمدی ہونے کی وجہ سے مکرم بدر الدین جعفر صاحب کی اتنی مخالفت ہوئی کہ انہیں اپنا ریسٹورانٹ بند کرنا پڑا.مخالفت اتنی شدت اختیار کر گئی کہ ایک نوجوان مکرم آرمین صالح صاحب نے احمدیت قبول کی تو ان کے والدین نے گھر سے نکال دیا.جماعت کے صدر مکرم ہاشم ابراہیم صاحب پر کلہاڑی سے حملہ کیا گیا جو کہ ایک ملانے کیا تھا لیکن یہ قاتلانہ حملہ ناکام رہا.متعد د احمد یوں کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا.۱۹۸۲ء
666 میں احمدی تراویح ادا کر رہے تھے تو ان پر پتھراؤ کیا گیا.جنوبی افریقہ میں مشن ہاؤس اور مسجد کی تعمیر کا آغاز ۱۹۷۰ء میں ہوا.اور اس کا سنگ بنیاد مکرمہ عائشہ پٹ صاحبہ نے رکھا.آپ جنوبی افریقہ کی جماعت کی ایک بہت مخلص خاتون تھیں.۱۹۵۹ء میں مکرم ہاشم ابراہیم صاحب کو جماعت احمد یہ جنوبی افریقہ کا صدر مقرر کیا گیا تھا.آپ ۱۹۸۵ء میں اپنی وفات تک اس عہدہ پر کام کرتے رہے.لائبیریا گو کہ لائبیریا میں جماعت کی ترقی مغربی افریقہ کے بعض اور ممالک کی طرح تیز نہیں تھی لیکن اس کی ترقی کا سفر بھی آہستہ آہستہ جاری تھا.لائبیریا میں دو ماہ کے لئے مکرم عبد القادر جکنی (Jikni) صاحب کو بھی خدمت کی توفیق ملی.اس وقت آپ گیمبیا میں جماعت کی مقامی مبلغ کے طور پر خدمات بجالا رہے تھے.اسی طرح غانا کے مکرم جبریل سعید صاحب نے بھی کچھ عرصہ کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ کر لائبیریا کے مختلف علاقوں میں جا کر احمدیت کا پیغام پہنچایا.اسی طرح مکرم سنوسی سیسے ( Senusi Sesay) صاحب سیرالیون کے باشندے تھے.لائبیریا کے مشنری انچارج مکرم مبارک احمد ساقی صاحب کی خواہش پر مکرم مشنری انچارج سیرالیون کی وساطت سے آپ نے نقل مکانی کی اور لائبیریا آکر یہاں کی کیپ ماؤنٹ کاؤنٹی کے ایک گاؤں لارگو میں رہائش اختیار کر لی.یہاں آپ نے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینی شروع کی اور پھر یہاں پر دینی تعلیم کا اجراء کیا.یہ گاؤں دار الحکومت منروویا سے تقریباً ۹۰ میل دور ہے.پہلے جماعت کی کوشش تھی کہ مشن کے لئے حکومت زمین مہیا کر دے لیکن حکومت کی طرف سے یہ عندیا دیا گیا کہ اس غرض کے لئے جماعت کو زمین خریدنی پڑے گی.چنانچہ زمین کی خرید کے لئے کوششیں شروع کی گئیں اور فروری ۱۹۶۷ء میں منروویا میں ایک مکان کو خریدا گیا.۱۹۶۹ء میں اس زمین پر مبلغ کی رہائش کی تعمیر مکمل ہوئی.۲۶ تا ۲۸ جولائی ۱۹۶۷ء کو مغربی افریقہ کے مبلغین کی ایک کانفرنس منروویا (لائبیریا) میں منعقد ہوئی.اس میں نائیجیریا سے مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب اور غانا سے مکرم عطاء اللہ حکیم صاحب ، سیرالیون سے مکرم بشارت احمد بشیر صاحب اور گیمبیا سے مکرم
667 چوہدری محمد شریف صاحب اور آئیوری کوسٹ سے مکرم قریشی محمد افضل صاحب نے اس میں شرکت کی.اس کے پہلے اجلاس میں منروویا کی دونوں مساجد کے ائمہ اور پریذیڈنٹ مسلم کانگرس اور پریذیڈنٹ مسلم کمیونٹی لائبیریا نے بھی شرکت کی.ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات میں اس کانفرنس کی خبریں شائع اور نشر ہو کر تبلیغ کا ذریعہ بنتی رہیں.لائبیریا میں ابھی تک جلسہ سالانہ کی روایت کا آغاز نہیں ہوا تھا.اس ضمن میں ایک کوشش ۱۹۶۷ء میں ہوئی.یہ ایک روزہ تقریب پیگ وے کے مقام پر منعقد کی گئی.نومبر ۱۹۶۹ء میں مکرم امین اللہ سالک صاحب نے مکرم مبارک احمد ساقی صاحب سے امیر و مشنری انچارج لائبیریا کا چارج لیا.۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے لائبیریا کا دورہ فرمایا جس کا ذکر علیحدہ کیا گیا ہے.جنوری ۱۹۷۴ء میں لائبیریا میں جماعت احمدیہ کے پہلے سکول کا آغاز کیا گیا.یہ سکول سانو یا (Sanoyea) کے قصبہ میں بنایا گیا تھا.اور حکومت نے یہاں پر جماعت کو سوا یکٹر زمین الاٹ کی تھی.یہ سکول مجلس نصرت جہاں کے تحت کھولا گیا تھا اور مکرم سردار رفیق احمد صاحب اس کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے تھے.پھر حکومت کے دوسکول اس علاقہ میں کھولے گئے.وہاں کی انتظامیہ کے بعض افسران نے کہا کہ ہم نے یہ سکول آپ کے مقابلہ کے لئے بنائے ہیں ،اس پر جماعت کے سکول کے پرنسپل صاحب نے کہا کہ ہم آپ سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں.اس سکول میں طلباء کی تعداد زیادہ نہیں تھی.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں تجویز پیش کی گئی کہ اس سکول کو بند کر دیا جائے لیکن حضور نے اسے منظور نہیں فرمایا (۱).۱۹۷۴ء میں مکرم امین اللہ سالک صاحب کی جگہ مکرم رشید الدین صاحب کو لائبیریا کی جماعت کا امیر ومشنری انچارج مقرر کیا گیا.اور ۱۹۷۶ ء میں جب مکرم رشید الدین صاحب مرکز واپس آئے تو مکرم عطاء الکریم شاہد صاحب کو یہاں کا امیر و مبلغ انچارج مقرر کیا گیا.Sanoyea میں سکول کے بننے کے بعد وہاں کے گردو پیش میں بیعتوں کا سلسلہ شروع ہوا.۱۹۷۹ء میں لائبیریا میں افریقی اتحاد کی تنظیم کا اجلاس ہوا.اس موقع پر جماعت احمدیہ نے شرکاء کو جماعت کا لٹریچر پیش کرنے کے لئے خاص پروگرام مرتب کیا اور مرکز کی ہدایت کے مطابق غانا سے مکرم عبد الوہاب آدم صاحب بھی لائبیریا تشریف لے گئے.اس موقع پر سینکڑوں شرکاء تک احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا.جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے لندن میں واقعہ صلیب کے موضوع پر ایک
668 کا نفرنس منعقد کی گئی تھی.اس موقع پر برٹش کونسل آف چرچز نے جماعت احمدیہ کو ایک مذاکرہ کی دعوت دی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس دعوت کو قبول فرماتے ہوئے بذریعہ خط انہیں اس بات کی اطلاع بھی کر دی تھی.لیکن اس کے بعد چرچ نے مکمل خاموشی اختیار کر لی تھی.مارچ ۱۹۷۹ء میں Anglican Church کے سربراہ ڈونالڈ کوجن( Donald Coggan) لائبیریا کے دورہ پر آئے تو مکرم عطاء الکریم صاحب نے ان سے ملاقات کر کے ان سے تحریری درخواست پیش کی کہ وہ اس مذاکرہ کے انعقاد کے سلسلہ میں ضروری کارروائی کریں گے.اس بات کی لائبیریا کے اخبارات میں خوب تشہیر ہوئی.وہاں کے ایک اخبار Scope نے سرخی لگائی Arch Bishop Gets Unusual Present ۱۹۸۰ء میں مکرم عطاء الکریم صاحب مرکز سلسلہ واپس تشریف لائے اور آپ کی جگہ مکرم عبدالشکور صاحب امیر و مشنری انچارج مقرر ہوئے.اکتوبر ۱۹۸۱ ء میں دولائبیرین دوست مشنری ٹرینگ کالج غانا سے تعلیم حاصل کر کے واپس وطن پہنچے.یہ دو دوست مکرم علی ساما صاحب اور مکرم محمود بن بشیر صاحب تھے.۱۹۸۱ء میں اس ملک میں ہفتہ وار پبلک لیکچرز کا آغاز کیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے لائبیریا میں بھی ایک ہسپتال کے قیام کی منظوری عطا فرمائی تھی.دو ڈاکٹر اس ملک میں پہنچے بھی مگر رجسٹریشن نہ ہو سکنے کے باعث اور کلینک کی منظوری نہ ملنے کے باعث یہاں پر اس کام کا آغا ز خلافت ثالثہ میں نہ ہو سکا.(۱) ریکارڈ وکالت تبشیر تنزانیہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ مشرقی افریقہ کا مشن تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا.موجودہ تنزانیہ اس وقت ٹانگا نیکا کہلاتا تھا.اس وقت ٹانگا ریجن میں مقامی مبلغ مکرم ابو طالب کام کر رہے تھے.۱۹۶۶ء میں یہاں پر ایک مسجد اور دار التبلیغ کی بنیاد رکھی گئی.مشنری انچارج مکرم چوہدری عنایت اللہ احمدی صاحب نے اس کا سنگ بنیا درکھا.اپریل ۱۹۶۶ء میں اس مسجد اور دار التبلیغ کی تعمیر مکمل ہوگئی.
669 ۱۹۶۵ء میں ایبری (Ibiri) کے مقام پر نئی جماعت قائم ہوئی.تنزانیہ میں موروگورو کے مقام پر مسجد اور دار التبلیغ کی بنیاد رکھی گئی.مکرم جمیل الرحمن رفیق صاحب نے ۱۹۶۷ء میں تعمیر کے کام کا آغاز کیا.۱۹۶۸ء میں مشن ہاؤس اور پھر اگست ۱۹۷۰ ء میں مسجد کی تعمیر کا کام مکمل ہوا.۱۹۶۶ء میں تنزانیہ میں غیر احمدی مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرف سے جماعت کی شدید مخالفت کا سلسلہ شروع کیا گیا.ان کی طرف سے جماعت کے خلاف کثیر تعداد میں لٹریچر شائع کیا گیا اور جماعت کے مشن کی طرف سے اس کا جواب شائع کیا گیا.آخر مخالفت کا زور ٹوٹ گیا.۱۹۶۶ء کے دوران جماعت کی طرف سے بکو با موانزہ اور انیچی میں تبلیغی مراکز قائم کئے گئے اور ان میں مبلغین کو مقرر کیا گیا.اس ملک کی جماعت کا پہلا جلسہ جسے اس وقت سالانہ کا نفرنس کہا جا تا تھا ۱۹۶۱ء میں دارالسلام کے مقام پر ہوا تھا.لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ معطل ہو گیا.مکرم جمیل الرحمن صاحب رفیق نے ۱۹۶۸ء میں امیر جماعت کے طور پر خدمات شروع کیں تو اسی سال دار السلام کے مقام پر جلسہ کا دوبارہ آغاز کرایا.اس کے بعد ہر سال مختلف مقامات یہ جلسہ منعقد ہوتا رہا.امبیا (Mbeya) میں ۱۹۷۲ء میں ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں آیا.۱۹۷۲ء میں مکرم مولوی محمد منور صاحب مرکز واپس تشریف لائے.آپ کے بعد کچھ ماہ کے لئے مکرم عبد الباسط صاحب نے مبلغ انچارج کے فرائض ادا کئے اور پھر مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب نے تنزانیہ کے مبلغ انچارج کی حیثیت سے فرائض ادا کرنے شروع کئے.۱۹۷۲ء میں دارلحکومت دار السلام کے علاوہ بکوبا، موروگورو، ٹمبورہ ، چوہے اور اروشا کے مقامات پر مبلغین اور معلمین کام کر رہے تھے.۱۹۷۵ء میں ایک نیا مشن سونگیا (Songea) کے مقام پر شروع کیا گیا اور یہاں پر ملک رفیق احمد صاحب کو مبلغ مقرر کیا گیا.یہ ضلع ملاوی اور موزنبیق دونوں ممالک سے ملتا ہے.ملک رفیق صاحب نے جانفشانی سے وہاں پر کام شروع کیا.انفرادی ملاقاتیں شروع کیں اور عیسائیوں سے مباحثات کئے.احباب جماعت کے وفود کے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں تبلیغی دورے کئے.لٹریچر فروخت اور تقسیم کیا گیا.جلد ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں پر مخلصین کی ایک جماعت قائم ہوگئی.شہر کی حدود میں ایک قطعہ زمین حاصل کئے گئے جس پر اب مشن ہاؤس اور مسجد تعمیر ہو چکے ہیں.۱۹۷۵ء میں تنزانیہ کے مشنری انچارج مکرم عبدالکریم شر ما صاحب کی تقرری نیروبی میں کر دی گئی اور
670 مکرم جمیل الرحمن رفیق صاحب نے تنزانیہ مشن کے انچارج کی حیثیت سے کام شروع کر دیا.۱۹۷۸ء میں تنزانیہ میں دومشن ہاؤس تعمیر ہوئے.نے ނ دنیا بھر میں جماعت کی یہ روایت رہی ہے کہ جب بھی اسلام پر کوئی اعتراض کیا گیا ہے احمدیوں سے پہلے بڑھ کر اس کا جواب دیا ہے.چنانچہ ۱۹۷۸ء میں جب ایک پادری HP Anglars نے ایک کتاب اولاد ابراہیم کے نام سے لکھی جس میں اسلام اور آنحضرت ﷺ پر بہت گند اچھالا گیا.اس کے جواب میں مکرم جمیل الرحمن رفیق صاحب نے Mwana Mkuuwa Ibrahimu لکھ کر شائع کی.اس کتاب کی اشاعت کا خرچ ایک غیر احمدی دوست سالم صاحب اور ایک احمدی دوست ابو بکر صاحب نے ادا کیا.یہ کتاب بہت کثیر تعداد میں فروخت ہوئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پادری کی لکھی ہوئی کتاب دوکانوں سے اٹھالی گئی.بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کتاب عیسائی مشنریوں نے کونگو بھجوادی تھی.تنزانیہ کے جنوب میں مکرم مولوی عبدالوہاب صاحب نے نیوالا میں نیامشن قائم کیا.اور یہاں پر آہستہ آہستہ بیعتوں کا سلسلہ شروع ہوا.ایک مسجد پہلے سے موجود تھی اور چار نئی مساجد بنائی گئیں اور چار نئی جماعتیں قائم ہوئیں.۱۹۷۹ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت خلیفہ امسح الثالث نے فرمایا : وو تنزانیہ میں ایک نئے مشن کا قیام عمل میں آچکا ہے.ایک مقامی مبلغ عیسی احمدی وہاں متعین کئے گئے ہیں.اب وہاں تنزانیہ میں مشنوں کی تعداد دس ہوگئی ہے.تین نئی مساجد اس سال تعمیر ہوئی ہیں.“ (۱) تنزانیہ کے مختلف علاقوں میں بھی جب جماعت احمدیہ کا نفوذ شروع ہوتا تو وہاں پر نہ صرف احمدیت کی مخالفت شروع ہو جاتی بلکہ نواحمدیوں پر تشدد کا آغا ز بھی کر دیا جاتا.اس کی ایک مثال ٹاویٹا کی جماعت کی ہے.یہاں پر احمدیت کا پیغام خلافت ثانیہ میں ہی پہنچ گیا تھا.یہاں کے ایک باشندے جمعہ علی صاحب نے عبد الکریم شر ما صاحب مربی سلسلہ کی وساطت سے بیعت کی.اور ان کے ساتھ دوسرے احباب نے بھی بیعت کی.اس کے بعد ان کے آبائی قصبہ میں ان پر مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا گیا.ان کو اور ان کے بچوں کو مارا پیٹا گیا.ان کا بائیکاٹ کیا گیا.ان کی بیویوں کو ز بر دستی
671 ان سے علیحدہ کر دیا گیا.احمدیوں نے تہیہ کیا کہ وہ اپنی مسجد تعمیر کریں گے.چنانچہ کیٹو بو (Kitobo) اور کینوگو (Kitogho) کے قصبوں میں دو چھوٹی اور کچی مساجد تعمیر کی گئیں.لیکن مخالفین جب وہاں سے گزرتے تو نماز پڑھنے والے احمدیوں پر پتھر پھینکتے.خلافت ثالثہ کے دوران اس علاقہ کے پہلے احمدی جمعه علی صاحب نے اپنے صاحبزادے مکرم عبد اللہ حسین جمعہ صاحب کو وقف کر دیا اور انہوں نے ربوہ آکر دینی تعلیم حاصل کی.وہ اب کینیا میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں.خلافت ثالثہ کے دوران کیتو بو (Kitobo) اور ایلڈورو (Eldoro) کے مقامات پر پختہ مساجد تعمیر کی گئیں.ابتدا میں اس علاقہ میں مکرم مولا نا عیسی صاحب اور مکرم بشیر اختر صاحب نے یہاں کے ریجنل مشنری کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے.خلافت ثالثہ کے دوران تنزانیہ کے بہت سے دیہات میں بھی چھوٹی چھوٹی مساجد تعمیر ہوئیں.۱۹۷۴ء میں Muheza اور Machame کے مقام پر ، ۱۹۷۵ء میں Iringa کے مقام پر، ۱۹۷۷ ء میں Mtama کے مقام پر، ۱۹۷۸ء میں Namtumbo کے مقام پر ،۱۹۷۹ء میں Mahuta اور Newala کے مقامات پر ۱۹۸۰ ء میں Ndutumi اور Chikole کے مقامات پر اور ۱۹۸۱ء میں Mpwahia اور Songea کے مقامات پر مساجد تعمیر کی گئیں.(۲) (۱) خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء (۲) تحریری روایت مکرم جمیل الرحمن رفیق صاحب روانڈا روانڈا مشرقی افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے.آزادی سے پہلے یہ ملک تیجیم کے ماتحت تھا.اور پھر ۱۹۶۲ ء تک یہ ملک برونڈی کے ساتھ رہا اور پھر علیحدہ ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا.۱۹۷۹ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روانڈا میں جماعت قائم ہوگئی ہے.(۱) (۱) خطاب حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء
672 یوگینڈا ۱۹۶۶ء کے دوران مغربی یوگینڈا کے شہر مساکا (Masaka) میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی.خلافت ثالثہ کے دوران جماعت احمد یہ یوگینڈا کے دو اہم واقعات لوگینڈ از بان میں قرآنِ مجید کے ترجمہ کی اشاعت اور عیدی امین کے زمانے میں جماعت احمدیہ پر لگائی جانے والی پابندی تھی.ان واقعات کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.جب عیدی امین کے زوال کے بعد جماعت احمدیہ کے افراد نے ایک بار پھر آزادانہ کام شروع کیا تو آہستہ آہستہ جماعتی سرگرمیوں کا آغاز ہوا.خلافت ثالثہ کے دوران یوگینڈا کے متعدد ا حباب جامعہ احمد یہ ربوہ سے تعلیم حاصل کر کے واپس یوگینڈا آئے اور عملی میدان میں اپنی خدمات کا آغاز کیا.ان میں سے پہلے مکرم محمد علی کا ئرے صاحب تھے جنہوں نے ۱۹۷۹ء میں یوگینڈا میں اپنی عملی خدمات کا آغاز کیا.اس دور میں ججہ کی جماعت سب سے بڑی جماعت تھی.اور جماعتیں زیادہ تر ملک کے جنوبی حصہ میں قائم تھیں.اور ملک کے دارالحکومت کمپالا میں بھی جماعت کی ایک مسجد مشن ہاؤس، اور سکینڈری سکول قائم تھے.ملک کے مغرب میں مسا کا میں بھی جماعت کا مشن ہاؤس اور مسجد موجود تھے.خلافت ثالثہ کے دوران مکرم صوفی محمد الحق صاحب، مکرم چوہدری محمود احمد صاحب، مکرم راجہ نصیر احمد صاحب نے بطور مبلغ خدمات کی توفیق پائی.گی آنا ۱۹۶۹ء میں برٹش گی آنا میں ایک مسجد کی تعمیر ہوئی اور دوسری مسجد کے لئے پلاٹ خریدا گیا.اور ڈچ گی آنا میں اسی سال میں ایک سکول کا اجراء کیا گیا.(۱) (۱) خطاب جلسہ سالانہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث ۲۷ دسمبر ۱۹۹۹ء ماریشس خلافت ثالثہ کے آغاز میں مکرم مولا نا محد اسماعیل منیر صاحب کو بطور مبلغ ماریشس بھجوایا گیا ان کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا.
673 اللہ تعالیٰ نے ماریشس میں انقلاب پیدا کیا.ہمارے مبلغ اسماعیل منیر جو بڑے مخلص کارکن ہیں لیکن جسمانی لحاظ سے بڑے کمزور ہیں.چوبیس گھنٹے کام کرنے والے ہیں اور صحیح وقف کی روح ان کے اندر ہے.دوست ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.ابھی وہاں پہنچ نہیں تھے.یہاں سے روانہ ہو گئے تھے.اس وقت مجھے رؤیا میں ایک نظارہ دکھایا گیا اور اس کی صحیح تعبیر اس وقت میرے ذہن میں نہیں آئی تھی.میرے ذہن میں اس وقت دو تعبیریں آئیں کہ یا تو یوں ہوگا یا یہ دوسری شکل اختیار کرے گا.اگر پہلی تعبیر ہوتی تو اس میں اندار کا پہلو بڑا نمایاں تھا.اور دوسری تعبیر میں تبشیر کا پہلو نمایاں تھا.اور اس بات کا پتہ لگنا تھا ان کے وہاں پہنچنے پر کہ اس کی اصل تعبیر کیا ہے.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان دنوں میں بہت دعائیں کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ اس رؤیا کے انذاری پہلو سے ہمیں محفوظ رکھے.جس وقت وہ وہاں پہنچ گئے تو انذاری پہلو کا واقع ہونا ناممکن بن گیا.تب مجھے سمجھ آئی کہ اس رؤیا کی وہی تعبیر صحیح تھی جو تبشیری رنگ اپنے اندر رکھتی ہے.میں نے انہیں اس وقت لکھ دیا تھا کہ میں نے یہ رویا دیکھی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ واقعہ اس طرح ہوگا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مطابق وہاں کچھ تبدیلیاں کرنی شروع کی ہیں.وہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی فعال ہے.بڑے پیسے خرچ کرتی ہے..خود کفیل ہے.ان کے اخلاص اور مستعدی کا آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ شاید یہاں بھی لوگ اس کی جرات نہ کر سکیں.کنکریٹ یعنی سیمنٹ اور لوہے کی چھت جو ایک خاص قسم کی ہوتی ہے.اس کے نیچے ایک عارضی چھت بنائی جاتی ہے.پھر اس کے اوپر سلیب ڈالا جاتا ہے.وہاں کے مشن ہاؤس پر اس قسم کا چھت وہاں کے احمدیوں نے وقار عمل کے ذریعہ سے ڈالا اور مزدوری پر ایک پیسہ بھی ضائع نہیں کیا.“ تریولے میں جماعت کی مرکزی مسجد روز بل سے ۱۶ میل دور واقع تھی.یہاں پر ایک اور مسجد کا سنگ بنیاد کافی عرصہ پہلے رکھا گیا تھا لیکن تعمیر نہیں ہوئی تھی.۱۹۷۱ء میں اس مسجد کی تعمیر دوبارہ شروع ہوئی اور احباب جماعت نے وقار عمل کے ذریعہ اس کی تعمیر میں حصہ لیا.(۱) ماریشس سے مڈغاسکر میں بھی تبلیغی مساعی ہو رہی تھی.۱۹۷۱ ء میں بھی یہاں سے ایک دوست کو
674 مڈغاسکر میں تبلیغ کا جائزہ لینے کے لئے مڈغاسکر روانہ کیا گیا.۱۹۷۱ء میں ماریشس میں دعوۃ الامیر کا خلاصہ فرنچ میں شائع کیا گیا.یہاں پر خدام الاحمدیہ کے ٹریننگ کیمپ اور خدام اور لجنہ کے اجلاسات کے ذریعہ بھی احباب جماعت کی تربیت کا کام جاری تھا.(۲) ۱۹۷۴ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرار داد منظور کی تو ماریشس کے جماعت مخالف عنصر نے بھی کوشش کی کہ اس نا معقولیت میں وہ پاکستان کی پیروی کریں.چنانچہ یہاں پر جماعت کے ایک پرانے مخالف عبد الرزاق محمد صاحب تھے.ان کے بیٹے ماریشس کی قومی اسمبلی کے ممبر تھے.انہوں نے جماعت احمدیہ کا مسئلہ زیر بحث لانے کے لئے موشن اسمبلی میں بھیج دیا.فوری طور پر جماعت کے ایک وفد نے ملک کے وزیر اعظم Sir Sewsagar Ramgolam سے ملاقات کی اور مخالفین کے ارادوں سے آگاہ کیا.انہوں نے یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ماریشس میں ہر مذہب سے وابستہ افراد کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے.وزیر اعظم صاحب نے یوسف محمد صاحب کو طلب کیا اور انہیں کہا کہ وہ یہ موشن واپس لے لیں.چونکہ مخالفین جماعت ایک لمبے تجربے کی بنا پر جانتے ہیں کہ اس قسم کی شرارتوں میں ان کی دال تبھی گلتی ہے جب کہ حکومت ان کے ساتھ ہو اس لئے انہوں نے اس میں عافیت سمجھی کہ اپنی موشن واپس لے لیں اور یوں یہ وقتی جوش ختم ہو گیا.(۳) خلافت ثالثہ کے دوران جب لندن میں واقعہ صلیب پر کانفرنس ہوئی تو مرکز کی ہدایت کے مطابق ماریشس کے مشن نے ماریشس کے کیتھولک چرچ کو دوستانہ تبادلہ خیالات کی دعوت دی لیکن اس چرچ نے تحریری طور پر معذرت کر لی کہ چونکہ کفارہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اس لئے ہم اس پر کسی قسم کا تبادلہ خیالات کرنے کو تیار نہیں.خلافت ثالثہ کے دوران نماز کا فرانسیسی ترجمہ بھی شائع کیا گیا.اس کے علاوہ اس مشن نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف فتح اسلام، پیکچر سیالکوٹ اور چشمہ میسی کے فرانسیسی تراجم شائع کئے گئے.اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے لیکچر امن کا پیغام کا فرانسیسی ترجمہ بھی شائع کیا گیا.۱۹۸۰ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی ہدایت کی روشنی میں جماعت احمد یہ ماریشس کو وکالت تبشیر کا یہ ارشاد موصول ہوا کہ مسیح و مہدی آگیا ہے“ کے عنوان سے ایک فولڈر تیار کیا جائے.چنانچہ یہ
675 فولڈر تیار کر کے ایک دن میں ہی ۷۵ ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا گیا.تقسیم کرنے والوں کو بعض مقامات پر بدسلوکی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن یہ کام جاری رکھا گیا.اسی طرح ماریشس میں پروجیکٹر کے ذریعہ سلائیڈ ز دکھا کر احمدیت کی تبلیغ کی جاتی تھی.ماریشس میں تقریباً ہر گاؤں میں حکومت نے سوشل سینٹر بنائے ہیں.ان میں بھی جماعت احمدیہ کی عالمگیر سرگرمیوں کے بارے میں سلائیڈ ز دکھائی گئیں.حضرت خلیفة اصسیح الثالث کے دورِ خلافت میں زائچلی (Gently)، کاتغ بورن Quartreborn)، پورٹ لائیں (Port Louis) اور تریولے(Trivlet) کے مقامات پر مساجد تعمیر ہوئیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دورِ خلافت میں ہی روز ہل کے قریب تریفلے (Trefle) کے مقام پر ایک ایکڑ زمین خریدی جہاں پر جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوتا ہے.(۳) (۱) الفضل ۱ جولائی ۱۹۷۱ ص ۵ (۲) الفضل ۱۹ ستمبر ۱۹۷۱ء (۳) تحریری روایت مکرم صدیق احمد منور صاحب سابق مربی انچارج ماریشس.کوموروز (Comoros) میں جماعت کا قیام اس ملک کے باشندوں میں سب سے پہلے احمدی ہونے کا اعزاز مکرم سعید عمر درویش صاحب کو حاصل ہوا.آپ پیشہ کے لحاظ سے گلوکار اور موسیقار تھے.وہ اسی سلسلہ میں ماریشس آئے ہوئے تھے.ایک دن وہ روز بل میں اپنے ہوٹل کا راستہ بھول گئے.اور ایک احمدی ٹیلر ماسٹر صاحب کی دوکان پر آگئے.وہ ان سے بہت اخلاق سے ملے اور انہیں مشن ہاؤس لے آئے.یہاں ان کی ملاقات ماریشس میں مبلغ سلسلہ مکرم صدیق احمد منور صاحب سے ہوئی.یوں ان صاحب کو احمدیت سے تعارف حاصل ہوا.جو بعد میں ان کی بیعت کا باعث بنا.پھرا پریل ۱۹۸۰ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اجازت سے مکرم صدیق منور صاحب اور ماریشس کے ایک مخلص احمدی دوست مکرم یوسف اچھا صاحب ماریشس سے کوموروز کے دارالحکومت مورونی(Moroni) پہنچے اور یہاں پر مختلف لوگوں سے جن میں حکومتی عہد یدار بھی شامل تھے رابطہ کیا.آپ ملک کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے لئے ان کے دفتر میں انتظار کر رہے تھے کہ دو پولیس
676 افسران داخل ہوئے اور کہا کہ ہمیں حکم ہوا ہے کہ فوراً آپ کو پولیس کمشنر کے دفتر میں لے کر جاؤں.کمشنر صاحب کافی درشتگی سے پیش آئے.اور پوچھا کہ یہاں کس غرض سے آئے ہو.انہیں بتایا گیا کہ یہاں آنے کی غرض کچھ دوستوں سے ملاقات کرنا تھا.ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ نے یہاں پر کوئی لٹریچر بھی تقسیم کیا ہے.انہیں بتایا گیا کہ کچھ احباب کے کہنے پر انہیں کچھ لٹریچر بھی دیا گیا ہے.اس پر پولیس کمشنر صاحب نے دراز سے ” اسلامی اصول کی فلاسفی“ کے عربی ترجمہ کی ایک کاپی نکالی اور کہا کہ کیا یہ کام کرنے آئے ہو.یہ کاپی ایک عربی دان مسلمان کو دی گئی تھی.پھر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس اور کتا بیں بھی ہیں.اس پر انہیں بتایا گیا کہ ہمارے ہوٹل کے کمرے میں اور کتب بھی موجود ہیں.چنانچہ پولیس ہوٹل میں گئی اور ان تمام کتب کو اپنے قبضہ میں لے لیا.ہوٹل سے جب دوبارہ یہ لوگ دفتر پہنچے تو پولیس کمشنر وہاں پر نہیں تھا.اور یوں پونا گھنٹہ اس دفتر میں تبلیغ کا موقع مل گیا.اس دوران اس دفتر کے لوگ جماعت کی کتب پڑھتے رہے.پولیس کمشنر صاحب اس وقت ملک کے مفتی اعظم سے مشورہ کرنے گئے تھے.انہوں نے واپس آکر کہا کہ وہ اب جا سکتے ہیں اور وزیر خارجہ سے مل سکتے ہیں.جب ان سے دریافت کیا گیا کہ جو کتب ضبط کی گئی ہیں تو انہیں بتایا گیا کہ جب تک مفتی اعظم اس کی منظوری نہ دیں گے یہ کتب واپس نہیں ہوں گی.جب وزیر خارجہ سے ملے تو انہوں نے کہا کہ چونکہ یہاں پر تمام مسلمان شافعی ہیں اس لئے حکومت نہیں چاہتی کہ یہاں پر اور کوئی فرقہ جنم ہے.دورہ کے دوسرے مرحلہ میں یہ وفد Anjouan پہنچے.یہاں پر ایک غیر احمدی مسلمان نے اپنے ہاں ٹھہرانے پر اصرار کیا.کوموروز کے پہلے احمدی سعید عمر درویش صاحب بھی یہاں کے رہنے والے تھے انہوں نے مختلف احباب کو اپنے گھر پر بلانا شروع کیا جن کے ساتھ تبلیغی مجالس شروع ہوئیں.تبلیغ کے ساتھ احمدی احباب کی تربیت کا کام بھی شروع کیا گیا اور سعید عمر درویش صاحب کو یہاں کی جماعت کا صدر مقرر کیا گیا.ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ دو پولیس افسر پھر آگئے اور انہیں وزیر اعظم کی تار دکھائی کہ ماریشس سے آنے والے ان دو مسافروں کو آج دو پہر ان سے ملنے کے لئے Moroni پہنچ جانا چاہئے.جہاز سے Moroni پہنچ کر سب سے پہلے انہوں نے اپنی سیٹیں ریزرو کرالیں.پھر وزیر اعظم کے دفتر میں گئے تو چیف آف پروٹوکول نے ان سے ملاقات کی اور ان سے
677 آنے کا مقصد دریافت کیا.انہیں مختصر جواب دیا گیا اور کہا گیا کہ ہمیں افسوس ہے کہ حکومت کو ہمارے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے ہمارا مقصد سوائے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے اور کچھ نہیں ہے.اور انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ ہم واپسی کی سیٹیں بک کرا چکے ہیں.اس پر انہوں نے کہا کہ پھر تو کوئی مشکل باقی نہیں رہتی.جب واپسی پر یہ دونوں احباب ایئر پورٹ پہنچے تو کمشنر پولیس نے ان کو ان کی کتب واپس کیں.اور پھر یہ وفد اس قیام کے بعد ماریشس روانہ ہو گیا.اس دورہ کے دوران بارہ افراد نے جماعت میں شمولیت اختیار کی اور ان کے ساتھ یہاں پر احمدیوں کی تعداد پچاس کے قریب ہوگئی.غانا ۱۹۶۶ء میں غا نا میں سالٹ پانڈ کے مقام پر مشنری ٹرینگ کالج کھولا گیا.اور اس میں اب تک مغربی افریقہ کے مختلف ممالک کے طلباء دینی تعلیم پاتے رہے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء کو جلسہ کی تقریر میں ارشاد فرمایا:.اسی طرح وہاں ایک مشنری ٹریننگ کالج بھی کھولا گیا ہے جہاں ہم مبلغین تیار کر رہے ہیں اور اس کالج میں نائیجیریا، غانا، سیرالیون، گیمبیا اور لائبیریا کے طلباء تربیت حاصل کر رہے ہیں.اس کالج کا منصوبہ تو خلافت ثانیہ میں ہی ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے دورہ افریقہ کے موقع پر ہی بنالیا گیا تھا لیکن اس کا اجراء خلافت ثالثہ میں ہوا.اس کے پہلے پرنسپل کے طور پر مکرم مولا نا محمد صدیق شاہد گورداسپوری صاحب کو بھجوایا گیا.اس کالج کا افتتاح مورخہ ۲۱ مارچ ۱۹۶۶ ء کو عمل میں آیا.اس کا افتتاح امیر و مبلغ انچارج مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب نے دعا اور طلباء کو نصائح سے کیا.ابتدائی طلباء کی تعداد ۱۴ تھی جو مغربی افریقہ کے مختلف ممالک سے آئے تھے.ابتداء میں مکرم مولا نا محمد صدیق گورداسپوری صاحب ہی سارے مضامین پڑھاتے تھے اور ان کے علاوہ مکرم مولا نا عطاء اللہ کلیم صاحب بھی طلباء کو پڑھاتے.پھر مکرم جبریل سعید صاحب بھی اساتذہ میں شامل ہوئے.پھر جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشاد پر مکرم مولا نا محمد صدیق گورداسپوری صاحب سیرالیون بطور امیر و مبلغ انچارج تشریف لے گئے تو مکرم عبد الوہاب آدم صاحب نے غانا کے مشنری ٹرینگ
678 کالج کے پرنسپل کے فرائض سنبھالے.۱۹۶۶ ء کے سال میں ہی غانا میں جماعت کے پانچ پرائمری سکولوں نے کام شروع کیا.اس دور میں غانا کی جماعت کا ماہانہ جریدہ دی گائیڈنس با قاعدگی سے شائع ہورہا تھا.پھر ۱۹۶۷ء میں غانا میں جماعت کے تین نئے مڈل سکولوں نے کام شروع کیا.اس اضافہ کے ساتھ غانا میں جماعت کے پرائمری اور مڈل سکولوں کی تعدا د انتیس ہوگئی.۱۹۷۰ء میں مکرم بشارت احمد بشیر صاحب نے مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب سے غانا کے امیر و مشنری انچارج کا چارج لیا اور مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب مرکز تشریف لے آئے.مکرم مولونا عطاء اللہ کلیم صاحب کو ۱۹۵۱ء سے لے کر ۱۹۷۵ ء تک مختلف اوقات میں تقریباً 19 سال تک غانا میں خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا.جب آپ آخری مرتبہ غانا سے واپس آئے تو مکرم عبدالوہاب آدم صاحب نے آپ سے غانا کے امیر ومشنری انچارج کے فرائض سنبھالے.۱۹۷۰ء کی دہائی میں جماعت احمد یہ غانا تبلیغ کے لئے کیا طریقہ کار اپنا ہی تھی ، اس کے متعلق مکرم عبدالشکور صاحب جو اس وقت غانا میں مبلغ تھے بیان کرتے ہیں کہ غا نا میں ہر فرقہ اور مذہب کو تبلیغ کی اجازت تھی اور سلسلہ کے مبلغین تبلیغ کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے.غانا میں تبلیغی جلسہ بہت کامیاب رہتے تھے اور ان کے ساتھ سوال و جواب کی مجالس کافی لمبی چلتی تھیں.غانا میں بہت سے مقامات پر مستحکم جماعتیں قائم تھیں لیکن بہت سے علاقے ایسے تھے کہ جہاں پر احمدی نہ ہونے کے برابر تھے.مکرم بشارت احمد بشیر صاحب نے ۱۹۷۱ء میں ایسے علاقوں میں خصوصی طور پر شمالی غانا میں تبلیغی وفود بھجوائے اور ایسا پروگرام مرتب کیا کہ یہ وفود بڑے قصبوں میں مختصر قیام کی بجائے پندرہ دن یا مہینہ بھر قیام کرتے.اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ میں برکت ڈالی اور ایسے بڑے قصبوں میں دس کے قریب نئی جماعتیں قائم ہوئیں.۱۹۷۰ء کی دہائی میں دوسرے مغربی افریقہ کے ممالک کی طرف نصرت جہاں کی سیکیم پر زور و شور سے کام ہورہا تھا لیکن حضرت خلیفتہ امیج الثالث کی ہدایت تھی کہ سکولوں اور ہسپتالوں پر توجہ کے باعث تبلیغ میں سستی پیدا نہ ہو.(۴) شاہ اشانٹی کے انتقال کے بعد جب نئے شاہ اشانٹی کی تخت نشینی ہوئی تو اس موقع پر جماعت احمدیہ کے وفد نے ان کی خدمت میں قرآن کریم کا تحفہ پیش کیا.غانا کے مروجہ قوانین کے مطابق بھتیجا
679 جائیداد کا وارث قرار پاتا ہے اور بیوی بیٹیوں کو محروم رہنا پڑتا ہے.غانا کے احمدی احباب اپنی وصیت میں اسلامی تعلیمات کو محوظ نظر رکھتے تھے اور اس پر ان کی وفات کے بعد ان کے کئی غیر از جماعت رشتہ دار ہنگامہ کھڑا کر دیتے تھے.ایسی ایک صورت میں غانا کی عدالت نے امیر جماعت احمدیہ کو عدالت میں طلب کیا تا کہ وہ عدالت کو اسلامی نظام وصیت کے خدوخال سے مطلع کریں.چنانچہ مکرم بشارت احمد صاحب بشیر نے پہلے عدالت کو تحریری طور پر اسلامی نظام وصیت کے متعلق ایک تحریر بھجوائی جسے متعلقہ وکلاء میں تقسیم کیا گیا اور پھر آپ نے عدالت میں پیش ہو کر اس موضوع پر خطاب کیا اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا.جولائی ۱۹۷۱ ء تک حضرت خلیفتہ امیج الثالث کی تحریک کے مطابق غانا میں چار ہسپتال کھل چکے تھے لیکن ان کے قیام میں بعض اوقات با اثر عیسائی احباب کی طرف سے رکاوٹ کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا.ان میں کام کرنے والے ڈاکٹر صاحبان نہ صرف کہ علاج سے اہلِ غانا کی خدمت کر رہے تھے بلکہ اپنے مخصوص فرائض کے علاوہ تبلیغی خدمات میں بھی بھر پور حصہ لیتے تھے.مثلاً ڈاکٹر غلام احمد صاحب اور ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب اپنے علاقوں میں سیرت النبی ﷺ کے جلسے منعقد کراتے.اس دور میں غانا میں نصرت جہاں سکیم کے تحت تبلیغ کی مہم جاری تھی.۱۹۷۱ء میں چند ماہ کے دوران ۶ انٹی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.نو مبایعین کی تربیت کے لئے چار نئے مراکز کھولے گئے.اپر رینج میں سوالا (Swala) میں اچھی خاصی جماعت بن گئی.مسجد کی زمین کے لئے قطعہ زمین حاصل کیا گیا تو پادری حضرات مخالفت پر اتر آئے مگر چیف نے مطلوبہ قطعہ جماعت کو دینے کا فیصلہ کیا.(۱) جب بھی کسی ملک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو ترقی مل رہی ہو تو اس کے ساتھ مساجد کی ضرورت بھی خود بخود بڑھ جاتی ہے.مساجد تبلیغ اور تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں.چنانچہ جوں جوں غانا میں جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھ رہا تھا یہاں کی جماعت بڑی ہمت سے مساجد کی تعمیر کی طرف توجہ دے رہی تھی.چنانچہ صرف ۱۹۷۸ء کے سال کے دوران غانا میں ۱۵ مساجد تعمیر کی گئیں.ان میں سے تین بڑی مساجد تھیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اس سال کے جلسہ سالانہ میں اس پر اظہار خوشنودی فرمایا اور فرمایا کہ ان میں سے کسی جماعت نے مسجد کی تعمیر کے لئے غانا کے مرکز سے بھی کوئی مدد نہیں لی.
680 ۱۹۷۷ء میں احمدیہ مسلم سیکنڈری سکول کماسی کی سلور جوبلی منائی گئی.پاکستان سے اس سکول کے پرانے اساتذہ مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب اور مکرم پروفیسر سعود احمد خان صاحب نے ان تقریبات میں شرکت کی.اب غانا میں ملکی جلسہ سالانہ کی روایت مستحکم ہو چکی تھی.۱۹۷۶ء میں غانا کا پچاسواں جلسہ سالانہ سالٹ پانڈ میں منعقد کیا گیا.اس ایک سال کے دوران ہی غانا میں چھ نئی مساجد تعمیر کی گئی تھیں.(۴) ۱۹۷۷ء میں غانا میں جماعت نے دوسرا پر لیس ناصر پر لیس کے نام سے قائم کیا (۲).جماعت کا تیار کردہ انگریزی ترجمہ قرآن تو ایک عرصہ سے شائع ہو رہا تھا.افریقہ کے بہت سے ممالک میں انگریزی وسیع پیمانے پر بولی پڑھی اور سمجھی جاتی ہے.اس لئے اس ترجمہ کی افریقہ میں بھی بہت مانگ رہتی تھی.اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے.غانا مشن نے ۱۹۷۹ء میں غانا میں دس ہزار کی تعداد میں انگریزی ترجمہ قرآن کی اشاعت کی.۱۹۸۲ء میں اکرامیں جماعت کے نئے مشن ہاؤس کا افتتاح عمل میں آیا.(۳) (۱) افضل ۱۶ جولائی ۱۹۷۱ ص ۳(۲) ریکارڈ وکالت تبشیر (۳) الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۸۲ ص ۱ (۴) حضرت خلیفۃالمسیح الثالث کا جلسہ سالانہ ۱۹۷۶ ء سے دوسرے روز کا خطاب (۴) تحریری روایت مکرم عبدالشکور صاحب سوئٹزر لینڈ سوئٹزر لینڈ میں تبلیغی مساعی میں صرف وہاں کے باشندوں کو ہی تبلیغ نہیں کی جارہی تھی بلکہ ان احباب کو بھی باقاعدہ تبلیغ کی جارہی تھی جو مختلف مقامات سے نقل مکانی کر کے یہاں پر آباد ہو گئے تھے.ان میں عرب ترک اور الجیریا کے احباب بھی شامل تھے.اور ملک سے باہر بھی یورپ کے مختلف ممالک میں یہاں سے لٹریچر بھجوایا جارہا تھا.چنانچہ دونو جوانوں نے آسٹریا سے لٹریچر طلب کیا اور پھر مطالعہ کے بعد بیعت کر لی.(۱) ستمبر ۱۹۷۱ء میں سوئٹزر لینڈ میں ہفتہ تبلیغ منانے کا اہتمام کیا گیا.سویڈن سے مکرم سید کمال یوسف صاحب مبلغ سلسلہ اور مکرم شعیب موسیٰ صاحب بھی اس سعادت میں شامل ہوئے.اور اس
681 دوران خاص طور پر یوگوسلاویا کے باشندوں میں کامیابی حاصل ہوئی اور چالیس یوگوسلاوین باشندوں نے بیعت کی.(۱) الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۷۱ء ص ۳ انڈونیشیا انڈونیشیا کی جماعت ان جماعتوں میں سے ہے جو خلافت ثانیہ کے بابرکت دور میں اچھی طرح مستحکم ہو گئی تھیں.خلافت ثالثہ کے دوران بھی اس جماعت کی ترقی کا سفر جاری رہا.حضور نے ۱۹۶۹ء کے جلسہ سالانہ کے دوران اپنے خطاب میں فرمایا : انڈونیشیا میں تو خدا کے فضل سے اتنی بڑی جماعتیں ہیں کہ وہ آپ کے مقابلے میں کھڑی ہو سکتی ہیں.اپنی کثرت تعداد اور کثرت ایثار اور قربانی کے لحاظ سے.وہ بڑی قربانی دینے والی جماعتیں ہیں.دعاؤں میں مشغول رہنے کی کثرت کے ساتھ بے نفسی کے مظاہروں کی کثرت کے ساتھ ، ہر لحاظ سے آپ کے مقابلے میں ہیں.“ 1999ء میں جماعت احمد یہ الہ ونیشیا کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفہ امسح الالف نے اپنے پیغام میں تحریر فرمایا.اسلام کی فتح کے دن خدا کے فضل سے قریب ہیں مگر یہ ہم سے ایک عظیم قربانی چاہتے ہیں.نفوس کی قربانی، اموال کی قربانی ، اولاد کی قربانی ، اوقات کی قربانی ، ذاتی مفادات کی قربانی، عادات کی قربانی ، اکرام کی قربانی.پس اسلام کی فتح کے دن کو قریب لانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہو اور ہر طرح سرگرم عمل.سستی اور غفلت چھوڑ دو تبلیغ کر و تبلیغ کر تبلیغ کرو.اپنی زبان سے، اپنے عمل سے.اپنے اخلاق سے اور اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کر کے.دعاؤں کے ساتھ ساتھ باہم متفق اور متحد ہو کر اس جہاد میں شریک رہو.(۲) انڈو نیشیا میں جلسہ سالا نہ وہاں کے احمدیوں کی تربیت کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے.۱۹۴۹ء سے یہاں پر جلسہ سالانہ منعقد ہورہا ہے.۱۹۷۱ء میں بھی یہ جلسہ تاسک ملایا میں منعقد کیا گیا.اس موقع پر
682 خدام الاحمدیہ کا ایک اجتماع بھی منعقد کیا گیا اور ایک ہال میں علیحدہ تبلیغی جلسہ بھی منعقد ہوا.اس تبلیغی جلسہ میں ہی دو ہزار کے قریب احباب نے شرکت کی.(۱) انڈونیشیا میں بھی مخالفین اخلاق سے گری ہوئی حرکات کے ذریعہ جماعت کی پر امن سرگرمیوں کو روکنے کی کوششیں کرتے رہتے تھے.چنانچہ جب ۱۹۷۸ء میں جماعت کی طرف سے ایک تربیتی کلاس کا اہتمام کیا گیا.یہ کلاس ایک گاؤں گسلا دا (Gislada) میں منعقد کی جا رہی تھی.یہ چھوٹا سا گاؤں سارا احمدی تھا.مخالفین کو جب اس کی خبر ہوئی تو بعض غیر احمدیوں نے تو تعاون کیا اور کچھ مخالفین نے بائیکاٹ کی مہم چلائی اور جس سڑک سے احمدیوں نے آنا تھا اس پر کیلیں اور دوسری تکلیف دہ اشیاء ڈال دیں.انڈونیشیا کی جماعت اشاعت لٹریچر سے بھی تبلیغ کا کام وسیع پیمانے پر کر رہی تھی.چنانچہ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کے تیار کردہ منصوبہ کے تحت ۱۹۷۸ء میں کتاب ” احمدیت کیا ہے اور اس کا ماننا کیوں ضروری ہے اور انڈونیشیا کی جماعت کے جریدے سینار اسلام کو وسیع پیمانے پر شائع کیا گیا.۱۹۷۸ء میں سراویلا اور مشرقی جاوا میں گریسک (Gresik) کے مقام پر جماعتیں قائم ہوئیں اور اسی سال جزیره ما دوره ( Madura) میں نیا مشن کھولا گیا.۱۹۷۹ء میں ایک مخلص احمدی خاتون مکرمہ ایبود رمہ صاحبہ نے بانڈ ونگ شہر میں ایک قطعہ زمین اس غرض کے لئے جماعت کو ہبہ کیا کہ اس پر ایک مسجد تعمیر کی جائے.اور پھر اپنے خرچ پر یہ سجد تعمیر بھی کرائی.اور دفاتر کی تعمیر کے لئے زمین کا عطیہ بھی دیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۷۸ء کے جلسہ سالانہ میں اعلان فرمایا کہ اس سال انڈونیشیا میں تین مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور اسی سال انڈونیشیا میں ایک مشن ہاؤس کی تعمیر بھی ہوئی.اسی طرح ۱۹۷۹ ء میں جماعت نے شہر کو نیگان Kuningan میں کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا جس سے ہزاروں افراد نے فائدہ اُٹھایا.(۳) انڈونیشیا میں جماعت احمدیہ کی طرف سے با قاعدگی سے مختلف مقامات پر سیرت النبی کے جلسے منعقد کئے جاتے.ان تقاریب میں غیر از جماعت احباب بھی شرکت کرتے.(۴) ۱۹۸۱ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر نے انڈونیشیا کا دورہ فرمایا.
683 ۱۹۸۲ء میں جماعت احمد یہ انڈونیشیا کے ایک مخلص کارکن اور قادیان آکر دینی تعلیم حاصل کرنے والے ابتدائی انڈونیشین مکرم عبد الواحد صاحب انتقال کر گئے.آپ کے انتقال سے قبل آپ کے صاحبزادے مکرم عبد الباسط صاحب مبلغ بن کر اپنی خدمات کا آغاز کر چکے تھے.(۵) اس دور میں انڈونیشیا میں ۱۵۰ جماعتیں قائم تھیں اور ۱۲۷ مساجد موجود تھیں.اور اس ملک میں سات مرکزی مبلغ ، آٹھ مقامی مبلغین اور بارہ معلمین اور ۷۶ اسا تذہ کام کر رہے تھے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ انڈونیشیا نے جاپان میں ایک مرکز کا خرچ بھی اُٹھایا تھا.اسی طرح بانڈ ونگ شہر میں ایک مقامی احمدی عورت نے ایک بڑی مسجد تعمیر کروائی تھی.اور مانسلور نامی گاؤں میں جلسہ سالانہ کے لئے ایک بڑا ہال تعمیر کیا گیا تھا.خلافت ثالثہ کے دوران جو مختلف مبلغین انڈونیشیا تشریف لے گئے انہیں تحریر کے ذریعہ بھی اس جہاد میں حصہ لینے کی توفیق ملتی رہی.مکرم محمود احمد چیمہ صاحب کو خلافت ثالثہ کے دوران ۱۹۶۹ء کے بعد انڈونیشیا میں کام کرنے کی توفیق ملی.آپ نے چھوٹے کتا بچوں اور کتب کی صورت میں لٹر پر تحریر کیا.ان کی تعداد ۱۳ تھی.ان میں تین مسائل وفات مسیح، ختم نبوت ، صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ،امام مہدی کے آنے کی خوشخبری ، حضرت مرزا غلام احمد امام مہدی علیہ السلام کے معجزات، سیرت امام مہدی علیہ السلام ، سوانح حیات حضرت خلیفۃ ابیح الا ول رضی اللہ تعالی عنہ، سوانح حیات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سوانح حیات حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ شامل ہیں.(۷) (۱)الفضل ۱۸اکتوبر ۱۹۷۱ء ص ۴۱۳ (۲) تحریک جدید جنوری ۱۹۶۹ ء ص ۸ (۳) الفضل ۸ اگست ۱۹۷۹ ص ۶ (۴) الفضل ۱۴ جون ۱۹۷۹ء ص ۳ (۵) افضل ۱۸ را پریل ۱۹۸۲ اس ۵ (۶) تقریر جلسہ سالانہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ۲ دسمبر ۱۹۶۹ء (۷) تحریری روایت مکرم محمود احمد چیمہ صاحب ملائیشیا
684 ملائیشیا میں سبا میں جماعت کا مشن کام کر رہا تھا اور مولوی بشارت احمد امروہی صاحب اس کے انچارج کے طور پر کام کر رہے تھے.یہاں پر انفرادی ملاقاتوں اور روابط کے ذریعہ تبلیغ کا کام جاری تھا.اور ملک کی لائبریریوں کو با قاعدگی سے ریویو آف ریلیجنز بھجوایا جاتا.سوڈان سوڈان میں باقاعدہ مشن قائم کرنے کی اجازت تو نہیں ہے لیکن سوڈان میں احمدیت کا پیغام خلافت ثانیہ میں ہی پہنچ گیا تھا.اس وقت سوڈان بھی بلاد غربیہ کے مبلغ کے ماتحت تھا.جب مولانا جلال الدین شمس صاحب مصر اور فلسطین کے مبلغ انچارج تھے تو ایک سوڈانی عالم محد عثمان صاحب مصر تشریف لائے اور شمس صاحب سے تبادلہ خیالات کے بعد انہوں نے احمدیت قبول کر لی.واپس جا کر انہوں نے وہاں پر احمدیت کی تبلیغ بھی کی.متحدہ ہندوستان سے بھی کچھ لوگ بسلسلہ روزگار سوڈان پہنچے اور وہ بھی زبانی اور لٹریچر کے ذریعہ تبلیغ کرتے رہے.سوڈان میں مشن کھولنے اور باہر سے وہاں پر مبلغ بھجوانے کی راہ میں تو بہت سی رکاوٹیں حائل تھیں لیکن ایک سوڈانی ابراہیم عباس فضل اللہ حصول تعلیم کے لئے ربوہ تشریف لائے.آپ ۱۹۴۱ء میں خود احمدی ہوئے تھے.ربوہ میں تین سالہ کورس مکمل کر کے ۱۹۵۳ء میں واپس سوڈان تشریف لے گئے اور حسب توفیق تبلیغ کا کام شروع کیا لیکن عمر نے وفا نہیں کی اور جلد ہی آپ کی وفات ہوگئی.اسی طرح دسمبر ۱۹۵۰ء میں سوڈان سے ایک اور طالب علم رضوان عبد اللہ دینی تعلیم کے حصول کے لئے ربوہ آئے لیکن دریائے چناب میں نہاتے ہوئے ڈوب کر آپ کا انتقال ہو گیا.اور آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے خصوصی ارشاد پر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کیا گیا.بیسویں صدی کے پہلے نصف میں جنوبی سوڈان میں عیسائیت کا پرچار پورے زور وشور سے جاری تھا.اور انگریزوں کی عملداری میں اس حصہ میں مسلمان علماء کا داخلہ بھی بند تھا.جب مولانا نذیر احمد مبشر صاحب مبلغ سیرالیون سوڈان گئے تو وہاں پر ایسے نمایاں مسلمانوں نے جو افریقہ کے دوسرے ممالک میں عیسائیت کے مقابلہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات دیکھ چکے تھے انہیں ملے اور اس بات کا اظہار کیا کہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی خدمت میں یہ پیغام بھجوایا جائے کہ حضور سوڈان کی طرف بھی
685 اپنے مبلغین بھجوائیں.اور مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے بھی اس رپورٹ کے ساتھ ایک درد بھری اپیل احمدیوں کو کی کہ وہ اپنی اولادوں اور جائیدادوں کو وقف کریں تا کہ تبلیغ کا کام بغیر کسی روک کے آگے بڑھتا ر ہے.اسی دور میں ایک سوڈانی احمدی دوست مکرم محمد عثمان سنی صاحب بھی سوڈان میں اپنے طور پر تبلیغی کاوشوں میں مصروف تھے.اور ان کے دائرہ تبلیغ میں سوڈان کی دینی مدارس کے طلباء اور اساتذہ بھی شامل تھے جو ان سے سلسلہ کی کتابیں لے کر مطالعہ کرتے تھے.(۱تا۳) (۱) الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۳۰ ء (۲) الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۳۰ء ص ۲ (۳) الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۴۵ ، ص ۴ و ۵ امریکہ ۱۹۶۹ ء میں امریکہ میں جماعتی ضروریات کے لئے تحریک جدید نے ایک پریس خریدا.۱۹۷۰ء کی دہائی کے آغاز پر جماعت کے مبلغین مختلف جگہوں پر چرچوں اور تعلیمی اداروں میں جا کر لیکچر دیتے جو یہاں پر جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا ایک اہم حصہ تھا.یہاں پر چھوٹے اشتہار اور پمفلٹ چھپوا کر وسیع تعداد میں تقسیم کئے گئے.(۲) امریکہ میں سالانہ جلسہ کو وسیع پیمانے پر تبلیغ کے لئے استعمال کیا جا تا رہا ہے.چنانچہ ۱۹۷۱ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جو واشنگٹن میں منعقد ہوا، کے موقع پر ایک منظم مہم کی صورت میں چالیس ہزار افراد کو تبلیغی فولڈر تقسیم کئے.(۱) امریکہ کے لوگوں کو حقیقی اسلام سے روشناس کرانے کے لئے جس وسیع پیمانے پر لٹر پچر کی ضرورت ہے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے ۱۹۷۶ء کے جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کے خطاب میں فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح در دصاحب مرحوم نے لکھی ہے غالباً ۱۹۰۴ء
686 تک کی ہے، کچھ حصہ رہ گیا ہے.امریکہ والوں نے شور مچایا ہوا تھا اور کہتے تھے اسکو مکمل کر کے ہمیں دیں.بڑی عجیب کتاب ہے.وہ داستانِ حیات ، وہ فدائیت کے واقعات.ایک ایک لحظہ خدا کی یاد میں اور محمد ﷺ کے عشق میں جس نے گزارا ہے.اس کی زندگی کے حالات امریکنوں پر بھی اثر انداز ہیں، اس گندے ماحول میں پرورش یافتہ لوگوں پر بھی.پس یہ ان کا مطالبہ ہے.بچوں کے متعلق میں نے خطبہ میں اعلان کیا تھا کہ میرا اندازہ ہے کہ ہمیں ایک ہزار کتاب امریکہ اور یورپ کے بچوں کے لئے تیار کرنی پڑے گی.انکی اپنی اپنی عمر کے لحاظ سے.چھوٹی عمر پھر بڑی عمر پھر بڑی عمر.تا کہ ان کو پتہ تو لگے اسلام کہتا کیا ہے.اسلام کی تعلیم کیا ہے.انکو پتہ تو لگے خدا تعالیٰ کی ہستی کتنی عظیم اور جلالت شان والی ہے اور انکو پتہ تو لگے جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کی چودہ سو سال سے حضرت ﷺ کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک.انہوں نے پھر اس معرفت کے بعد کس طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی ہر چیز قربان کر دی.“ (۱) الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۷۱ ص ۴ (۲) الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۷۰ ء ص ۵ ہالینڈ ۱۹۷۰ء کی دہائی کے آغاز پر ہالینڈ کے مشن کے انچارج مکرم عبد الحکیم اکمل صاحب تھے.اس دور میں مشن ہاؤس میں غیر مسلم سکالرز کے لیکچر بار بار کروائے گئے.جس کی وجہ سے آنے والے احباب کو جماعت سے تعارف حاصل ہوتا اور جماعت کے مبلغ ان کو تبلیغ بھی کرتے (۱).اس کے علاوہ مکرم عبد الحکیم صاحب نے متعدد لیکچر دیئے.ان میں سے بعض لیکچر گر جاؤں ،سکولوں اور سوسائٹیوں میں دیئے گئے تھے.اور متعدد افراد وفد کی صورت میں مشن ہاؤس آتے اور ان کو تبلیغ کی جاتی.جب غیروں سے مقابلہ ہوتا تو غیر احمدی مسلمان بھی احمدی مبلغ سے رابطہ کرنا پسند کرتے.ایک بار بہائیوں نے بین المذاہب کا نفرنس منعقد کی.ایک ترک امام صاحب کو بھی مدعو کیا گیا لیکن انہوں نے موقع کی نزاکت کے اعتبار سے جماعت کے مبلغ کو فون کیا کہ آپ اس کا نفرنس میں ضرور ہوں ورنہ اگر اسلام
687 کی طرف سے مناسب رنگ میں نمائندگی نہ ہوئی تو بہت خفت ہو گی.چنانچہ اس کا نفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی جماعت احمدیہ کے مبلغ کو سونپی گئی.اللہ تعالیٰ نے ایسی راہنمائی فرمائی کہ انہوں نے دورانِ گفتگو بہائی حضرات سے دریافت کیا کہ آپ میں سے کسی نے خود اپنے مذہب کے بانی کی کتاب القدس پڑھی یا دیکھی ہے تو ان میں سے صرف ایک نے کہا کہ میں نے اس کا ایک غیر مستند ترجمہ پڑھا ہے.جب دریافت کیا گیا کہ کیا اس کا کوئی مستند ترجمہ بھی ہے تو وہ بولے کہ ابھی تک تو نہیں ہوا.جب پوچھا کہ کیا آپ کے پاس القدس کتاب موجود بھی ہے تو بہائی حضرات نے اس کا جواب بھی نفی میں دیا.اس پر مکرم عبد الحکیم الکل صاحب نے انہیں مولوی ابو العطاء صاحب کا کیا ہوا ترجمہ دکھا کر کہا کہ کیا وجہ ہے کہ اتنی سی کتاب کا ترجمہ اتنے سالوں میں نہیں ہوسکا.آپ کو چاہئے کہ اپنے منتظمین سے اس کتاب کا مطالبہ کریں لیکن میں یہ بتا دیتا ہوں کہ آپ کو یہ کتاب نہیں ملے گی کیونکہ اس کے پڑھنے ہی سے آپ کو اس مذہب کے بانی کے صحیح خیالات کا پتہ چلے گا.اس گفتگو کا حاضرین پر ایک خاص اثر ہوا.واپسی پر ترک امام صاحب نے اور ان کے ساتھیوں نے بڑے جوش سے انہیں کہا کہ آپ نے ہماری عزت رکھ لی ہے.(۲) ہالینڈ میں باقاعدگی کے ساتھ بچوں کی کلاس کا اہتمام کیا جاتا اور اس کلاس میں بعض غیر از جماعت بچے بھی شامل ہوتے.لٹریچر کے لئے مختلف ممالک سے خطوط موصول ہوتے جنہیں حسب خواہش لٹریچر بھجوایا جاتا.یہاں پر آئے ہوئے ترک مراکشی اور ایرانی مسلمان جماعت کے مشن سے رابطہ کرتے.ان میں سے بعض نے بیعت بھی کی.(۳) (1) الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۰ ء ص ۴٫۳ (۲) الفضل ۳۰ اکتوبر ۱۹۷۰ ص ۳و۴ (۳) الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۷۰ ص ۳ و ۴ سکاٹ لینڈ حضرت خلیق اسبح الالف نے نے ۲ جنوری ۱۹۶۷ء کی جلسہ سالانہ کی تقریر میں ارشادفرمایا.سکاٹ لینڈ میں نیا مشن کھولا گیا ہے جہاں بشیر احمد آرچرڈ صاحب کام کر رہے ہیں.یہ بڑے مخلص انگریز واقف زندگی ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو بھی ان پر رشک آتا ہے.
688 بڑے ہی فدائی.بڑے ہی قربانی دینے والے اور ایثار پیشہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر احمدیت اور اسلام کی خدمت کرنے والے نوجوان ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کے ساتھ ہو.“ جماعت احمد یہ گلاسکو کا با قاعدہ آغاز ۱۹۶۳ ء یا ۱۹۶۴ء میں ہوا جب مکرم منور احمد صاحب جماعت کے صدر مقرر کئے گئے.۱۹۶۴ء میں مکرم ایوب احمد خان صاحب یہاں کے صدر جماعت مقرر ہوئے.اور انہوں نے اپنا ایک فلیٹ جماعتی ضروریات کے لئے استعمال کرنے کے لئے دیا.اسی فلیٹ میں احباب جماعت جمعہ اور عیدین پڑھتے رہے اور یہیں پر اجلاسات منعقد ہوتے رہے.مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب ۱۹۶۶ء میں سکاٹ لینڈ میں مبلغ مقرر ہوئے تو آپ کا قیام بھی اسی فلیٹ میں تھا.مکرم بشیر احمد آرچر ڈ صاحب نے ۱۹۸۳ ء تک یہاں پر بطور مبلغ خدمات سرنجام دیں.۱۹۶۷ء کے دورہ کے دوران حضرت خلیفہ اسیح الثالث اسی فلیٹ میں تشریف لائے اور اور اس دورہ کے دوران جماعت کو اپنا فلیٹ خریدنے کا ارشاد بھی فرمایا.اس کے چند سال کے بعد حضرت چوہدری ظفر اللہ خان ساحب نے ایک فلیٹ خرید کر جماعت کو پیش کیا اور پھر یہ فلیٹ جماعتی مرکز کے طور پر استعمال ہونے لگا.سپین سپین میں خلافت ثالثہ کے دوران بھی مکرم کرم الہی ظفر صاحب خدمات سرانجام دے رہے تھے.۱۹۶۹ء کے جلسہ کے خطاب میں آپ کی خدمات کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ارشاد فرمایا:.ا بھی مجھے چند ہفتے ہوئے سپین کے مبلغ کا خط آیا.وہاں ہمارے مبلغ کی یہ حالت ہے کہ جماعت کی طرف سے اسے کوئی گزارہ نہیں ملتا.اسکے ساتھ معاہدہ ہی یہی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انتہائی قربانی کرنے والے کچھ نوجوان نکالے تھے.اور ان سے کہا تھا کہ ہم تمہیں ایک دھیلا نہیں دیں گے.جاؤ، کماؤ اور تبلیغ کرو.وہ اس قسم کے مبلغین میں سے ہیں.شخص دن کے وقت ایک عام بازار کی نکڑ پر کھڑا ہو کر چھابڑی میں عطر بیچتا ہے.ایک دنیا دار کی نگاہ میں ایک چھابڑی فروش سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت
689 نہیں ہونی چاہئے.جس طرح اور لاکھوں کروڑوں چھابڑی فروش دنیا کی گلیوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں اس طرح ظاہری طور پر یہ بھی ہیں.لیکن اس کے چہرے پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ اس قسم کا عزت و احترام کا غلاف چڑھایا ہے کہ جنرل فرانکو کے ساتھیوں میں سے ایک شخص ان کو ملنے کے لئے آیا اور اس نے اپنی پارٹی...کے بلیٹن میں ایک مضمون لکھا اور اس نے بڑی اچھی باتیں لکھیں.علاوہ اور باتوں کے اس نے ایک بات یہ کھی کہ اس مادی دنیا میں کہ انسان اپنے منہ تک مادیت کے گند میں پھنسا ہوا ہے.لیکن ایک ایسے راہب انسان سے ملنا میرے لئے بڑی عزت افزائی کا موجب ہے.....اس قسم کے متقی پرہیز گار بے نفس دعاؤں میں مشغول رہنے والے اور مادی قوتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے والے خدا کا نام بلند کرنے اور محمد ﷺ کی محبت دلوں میں پیدا کرنے والے ہمیں جاپان میں اس قسم کے مبلغ چاہئیں.(1) سپین میں تبلیغ کے لئے ایک اہم ضرورت یہ تھی کہ سپینش زبان میں اسلامی لٹریچر مہیا کیا جائے.چنا نچہ اس غرض کے لئے منظم انداز میں کام کیا جارہا تھا.چنانچہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں حضور نے ارشاد فرمایا.اسلامی اصول کی فلاسفی اسپینش زبان میں پہلی دفعہ زیر طبع ہے انشاء اللہ دو ہزار کی تعداد میں شائع ہو جائے گی.اسی طرح "کشتی نوح مسیح ہندوستان میں بھی سپینش زبان میں زیر طبع ہیں.حضرت مصلح موعود کی کتب میں سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو تحریک جدید نے ساتویں مرتبہ شائع کیا ہے.اسلام کا اقتصادی نظام سپینش زبان میں دو ہزار کی تعداد میں...شائع کیا ہے.“ (۱) خطاب حضرت خلیفہ مسیح الثالث ۲۷دسمبر ۱۹۶۹ء سنگاپور جب ۱۹۷۰ ء کی دہائی کا آغاز ہوا تو سنگا پور میں مکرم محمد عثمان چینی صاحب بطور مبلغ کام کر رہے تھے.آپ ۱۹۶۶ ء سے اس ملک میں کام کر رہے تھے اور آپ نے وہاں پر فروری ۱۹۷۰ ء تک کام کیا.اس قیام کے دوران آپ نے کچھ ماہ کے لئے ملائیشیا میں بھی کام کیا.سنگا پور میں لوگوں کو بالعموم
690 مذہب کی طرف کم توجہ ہوتی ہے اور یہ چیز بھی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ تھی.یہاں پرمشن کی طرف سے چینی اور انگریزی میں لٹریچر تقسیم کیا گیا.اس میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا چینی ترجمہ بھی شامل تھا.اور اس کے علاوہ عثمان چینی صاحب نے احمدیت کے تعارف پر چینی زبان میں کتاب لکھی جو پانچ ہزار کی تعداد میں تقسیم کی گئی.مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے ملائی زبان میں تین کتابیں لکھی تھیں جو سنگا پور ملائیشیا اور انڈو نیشیا میں تقسیم کی گئیں.یہاں پر مسلمانوں کی بہبود کے لئے ایک تنظیم قائم تھی اور اس کے صدر مکرم ابراہیم ما صاحب تھے.وہ جماعت احمدیہ کی بر ملا تعریف کرتے تھے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے تھے کہ وہ تبلیغی مساعی میں جماعت احمدیہ سے تعاون کریں تحقیق کے بعد یہ صاحب وفات مسیح کے قائل بھی ہو گئے تھے اور اپنے مضامین میں اس کا بر ملا اظہار بھی کر دیا تھا.(۱) (1) الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۷۰ ء ص ۵ سری لنکا ایک عرصہ سے سری لنکا میں مرکزی نمائندہ موجود ہیں تھا.جس کی وجہ سے جماعت کے کئی افراد میں کچھ کمزوریوں کے آثار پیدا ہو گئے تھے.چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے ارشاد پر وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر تحریک جدید مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے ۱۹۷۳ء میں یہاں کا دورہ کیا.مکرم مسعود احمد جہلمی صاحب آپ کے ہمراہ تھے.اس دورہ کے ساتھ جماعت احمد یہ سری لنکا کی از سرنو شیرازہ بندی ہوئی.سری لنکا میں دو بڑی جماعتیں تھیں ایک تو دار الحکومت کولمبو کی جماعت تھی اور دوسری کولمبو کے ایئر پورٹ کے قریب واقعہ نگومبو کی جماعت تھی.اس دورہ کے دوران ان جماعتوں میں ذیلی تنظیموں کے انتخابات کرائے گئے.(۱) مکرم عبد القادر صاحب نے ۱۹۷۳ ء تک جماعت احمد یہ سری لنکا کے پریذیڈنٹ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں.ان کے بعد مکرم ایم حسن صاحب نے یہ فرائض ادا کرنے شروع کئے.۱۹۷۴ء میں نامبولا وا پاسیالا Nambulawa Pasyala میں ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کی گئی.اس کی زمین ایک احمدی نے عطیہ کے طور پر دی تھی.مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب نے دوسری مرتبہ اگست ۱۹۷۶ ء سے لے کر مارچ ۱۹۷۷ ء تک
691 سری لنکا میں بطور مبلغ خدمات کی توفیق پائی.مکرم مولوی محمد عمر صاحب نے ۱۹۷۸ء میں تین ماہ کے لئے یہاں پر خدمات کی توفیق پائی.ان کی آمد کے بعد جماعت احمد یہ سری لنکا کا جلسہ سالا نہ بھی منعقد ہوا.جب اس کی خبر اخبار میں چھپی تو فوراً مخالفین میں اشتعال پھیلنا شروع ہو گیا.سب ایک بار پھر سر جوڑ کے بیٹھے کہ کس طرح احمدیت کو ختم کیا جائے.چنانچہ ایک جلسہ کا اہتمام کیا گیا.یہ جلسہ نیگومبو میں جماعت کی مسجد کے سامنے منعقد کیا گیا.پروگرام یہ تھا کہ جلسہ کے بعد ہجوم جماعت کی مسجد پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لے گا.جلسہ میں سری لنکا کے ایک مسلمان وزیر صاحب، رابطہ عالم اسلامی کے نمائندے اور سری لنکا سے باہر سے آئے ہوئے مخالفین بھی شامل تھے.احمدیوں کے خلاف شدید اشتعال پھیلایا گیا تھا.احمدیوں کی جانوں کو شدید خطرہ تھا.چنانچہ وہ اپنے گھروں سے ایک محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے تھے.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جب جلسہ شروع ہوا تو شدید بارش شروع ہوگئی.اور جلسہ درہم برہم ہو گیا.اسی رات کو احمدیوں کے بعض مکانوں کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی.لیکن ہمسایوں اور پولیس کی مداخلت کی وجہ سے یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہو سکا.اسی طرح ایک روز رات کو ایک بجے غیر احمدیوں کی بڑی مسجد میں اذان دی گئی اور ایک ہجوم جمع ہو کر احمدیوں کی مسجد کی طرف بڑھنے لگا.احمدیوں کی مسجد یہاں سے قریب ہی ہے.لیکن ابھی مفسدین کا یہ گروہ جماعت کی مسجد کے قریب نہیں پہنچ پایا تھا کہ پولیس کا ایک دستہ وہاں سے گزرا اور انہوں نے صورت حال کو بھانپ کر کہا کہ اگر یہ گروہ منتشر نہ ہوا تو وہ فائر کھول دیں گے.یہ سن کر اس ہجوم کا جذ بہ جہا د سر د ہوا اور وہ منتشر ہو گئے.مکرم محمد سعید انصاری صاحب نے ۱۹۸۰ء میں چھ ماہ کے لئے سری لنکا میں خدمات سرانجام دیں.اس وقت یہاں پر کولمبو اور نیمبو کے علاوہ پول نروا، پسیالا اور پتکم میں جماعتیں قائم تھیں.یہاں پر ایک مختصر جماعت قائم تھی.سری لنکا میں اس وقت احمدیوں کی تعداد دوسو اور تین سو کے درمیان تھی.۱۹۷۸ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا."سری لنکا میں ۱۹۲۰ ء میں اس وقت کے حالات اور جماعت کی تعداد کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر ہوئی تھی.اب اسکی جگہ جماعت بڑی ہوگئی حالات بہتر ہو گئے.تین منزلہ عمارت تعمیر کی گئی ہے.اور اسمیں ایک منزل غالباً پوری ایک مسجد کی ہوگی.اور اس کے
692 علاوہ دار المطالعہ اور لائبیریری کا قیام بھی عمل میں آیا ہے." حضرت خلیفۃ اصبح الثالث کے ارشاد پر جنوبی ہندوستان کے مولوی محمد عمر صاحب ہر سال سری لنکا کا دورہ کرتے.اور ان کے دوروں سے اس جماعت کو بہت فائدہ پہنچا.۱۹۷۹ء میں سری لنکا کی جماعت کے دوسرے سالانہ جلسہ کے موقع پر حضرت خلیفہ امسح الثالث نے اپنے پیغام میں فرمایا....ایسے وقت میں ایسے استادوں کی ضرورت ہوگی جو يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا کے تحت افواج کی صورت میں نئے داخل ہونے والوں کو دین کی تعلیم دے سکیں اور ان کے دلوں میں حضرت محمد مصطفے ﷺ کی تعلیم کی حقیقی روح پیدا کر سکیں.اور ایسے استاد اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک ہم قرآنی علوم و معارف سے بہرہ ور نہ ہوں.اور اس زمانہ میں قرآنی علوم اور معارف سیکھنے کا ایک ہی ذریعہ اور وہ یہ کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں...‘ (۲) ۱۹۷۹ء میں نیگومبو جماعت کے صدر عشاء کی نماز پڑھ کر واپس جارہے تھے کہ مخالفین کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا.سری لنکا کی زمین پر یہ پہلے شہید تھے.قاتلوں پر مقدمہ چلا پر تمام مجرمین بری کر دیئے گئے.دنیا کی عدالت سے تو بچ گئے مگر خدا کی گرفت نے انہیں اپنی پکڑ میں لیا.(۱) تحریک جدید جولائی ۱۹۷۳ء ص ۵ تا ۱۰ (۲) تحریک جدید دسمبر ۱۹۷۹ ، ص ۷ سویڈن سویڈن میں کچھ یوگوسلاوین احمدی احباب بھی تھے جو کہ ایک مرتبہ ناراض ہو گئے اور ابتلاء میں آکرمشن میں آنا بند کر دیا.خلافت ثالثہ کے دوران سویڈن میں جن مبلغین کو خدمت کا موقع ملاءان میں مکرم منیر الدین احمد صاحب بھی تھے.جب وہ جانے سے قبل حضرت خلیفہ امسیح الثالث سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ وہاں جا کر ان یوگوسلاوین احباب کو واپس
693 لانا ہے.چنانچہ جب منیر الدین احمد صاحب سویڈن پہنچے تو انہوں نے ان میں سے ایک شعیب صاحب کو فون کیا کہ میں حضور کا پیغام لے کر آیا ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں.انہوں نے کہا کہ میں خود آ کر آپ سے ملوں گا لیکن پھر وہ نہ آئے.ناراضگی کی وجہ سے وہ مشن ہاؤس میں آتے ہوئے ہچکچاتے تھے.اس دوران منیر الدین احمد صاحب مسجد کی زمین کی خرید کے لئے ناروے گئے اور وہاں برف پر پھسل کر ہڈی ٹوٹ گئی.سویڈن آکر ہسپتال میں داخل ہونا پڑا.شعیب صاحب عیادت کے لئے ہسپتال آئے مگر اس دوران منیر الدین احمد صاحب ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر جاچکے تھے.چنانچہ انہیں عیادت کے لئے مشن ہاؤس آنا پڑا.اس موقع پر دوسرے دوست بھی موجود تھے.چنانچہ حضور کا پیغام انہیں پہنچا دیا گیا کہ تمام یوگوسلاوین دوستوں کو لے کر مسجد میں آؤ.اس کے بعد ناراض یوگوسلاوین احباب پھر سے مسجد آنے لگے.اس طرح حضور کی شفقت ان احباب کو ابتلاء سے نکالنے کا وسیلہ بن گئی.(۱) سویڈن میں تبلیغ کا طریقہ عموماً یہ ہوتا کہ سکولوں اور کالجز میں اسلام کے بارے میں لیکچر دئیے جاتے اور اپنی مسجد میں بھی لیکچر کا انتظام کیا جاتا تبلیغ کی بنیاد یہی ہے کہ خدا سے وفا کا تعلق رکھا جائے اور اسی پر توکل کیا جائے.چنانچہ مکرم حامد کریم صاحب جنہیں سویڈن میں بطور مبلغ خدمت کا موقع ملا ہے بیان کرتے ہیں کہ سویڈن کے ۱۹۸۰ء کے دورہ کے دوران یہ الفاظ حضور کی زبان سے بار بار سنے اپنے خدا سے کبھی بے وفائی نہیں کرنی.(۲) پہلے سویڈن کا مشن ڈنمارک کے مشن کے حصہ کے طور پر کام کر رہا تھا لیکن خلافت ثالثہ میں اس نے علیحدہ مشن کے طور پر کام کرنا شروع کیا.ستمبر ۱۹۷۰ء میں مکرم کمال یوسف صاحب، جنہیں پہلے بھی ایک لمبا عرصہ سے سکینڈے نیوین ممالک میں خدمات کی توفیق مل رہی تھی ، یہاں آئے اور کام شروع کیا.آپ نے پہلے زبان میں مہارت حاصل کرنے کے لئے ایک سکول میں داخلہ لیا.اور پھر کام شروع کیا.خلافت ثالثہ کے دوران سویڈن میں ذیلی تنظیموں کا قیام بھی عمل میں آیا.چنانچہ شروع میں سویڈن اور ناروے کی مجالس انصار اللہ اکٹھی بنیں.اور سویڈن میں پہلے زعیم اعلیٰ مکرم ڈاکٹر عبدالرؤف خان صاحب مقرر ہوئے.خلافت ثانیہ کے دوران بھی سکینڈے نیویا کے ممالک میں مجلس
694 خدام الاحمدیہ نے کام شروع کر دیا تھا.۱۹۶۱ء میں مالمو ( سویڈن ) میں سکینڈے نیویا کے خدام کی سالانہ کا نفرنس ہوئی اور اس موقع پر قائد مجلس خدام الاحمدیہ کے طور پر مکرم مدحت ابراہیم بیگووچ کا انتخاب ہوا.سویڈن میں مجلس خدام الاحمدیہ کا با ضابطہ آغاز ۱۹۶۷ء میں ہوا اور قائد کے طور پر ایک سویڈش نو مسلم Ghulam Ahmad Christer Stahl جو کہ سٹاک ہولم کے باشندے تھے مقرر ہوئے.۱۹۷۷ء میں خدام الاحمدیہ سویڈن کا پہلا اجتماع گوٹن برگ میں منعقد ہوا.یہ سویڈن اور ناروے کا مشترکہ اجتماع تھا.سویڈن میں لجنہ اماءاللہ کا قیام ۱۹۷۶ء کو عمل میں آیا اور مکرمہ ڈاکٹر قانتہ صادقہ صاحبہ لجنہ سویڈن کی پہلی صدر مقرر ہوئیں.انہوں نے ۱۹۸۱ ء تک اس فرض کو نبھایا اور ان کے ساتھ مکرمہ بشری احمد صاحبہ نے نیشنل صدر کے فرائض ادا کئے.خلافت ثالثہ کے دوران مکرم سید کمال یوسف صاحب، مکرم منیر الدین احمد صاحب، مکرم حامد کریم صاحب، مکرم سمیع اللہ زاہد صاحب اور مکرم میر عبدالقدیر صاحب نے بطور مبلغ خدمات سرانجام دیں.(۱) تحریری روایت مکرم منیر الدین احمد صاحب (۲) روایت مکرم حامد کریم صاحب ڈنمارک اس ملک میں پہلا ملکی جلسہ سالانہ ۱۹۷۵ء میں ہوا.ڈنمارک کی ایک چھوٹی جماعت ہے اسی نسبت سے اس پہلے جلسہ سالانہ میں تقریباً سو مرد و خواتین شامل ہوئے.جلسہ سالانہ سے ایک دن پہلے مجلس خدام الاحمدیہ کا اجتماع منعقد ہوا.اس سے قبل ۱۹۷۱ء میں خدام الاحمدیہ کا پہلا اجتماع منعقد ہو چکا تھا.اس کے بعد کئی سال یہاں پر کوئی جلسہ منعقد نہیں ہوسکا.اس کے بعد دوسرا جلسہ ۱۹۸۳ء میں منعقد کیا گیا.ابتداء میں سیکنڈے نیویا کی جماعتوں کا مشتر کہ رسالہ ایکٹو اسلام اور یہ رسالہ ڈینش ، سویڈش اور نارویجین میں شائع ہوتا تھا.یہ رسالہ ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۹ ء تک شائع ہوتارہا بعد میں اسے بند کرنا پڑا.پھر نومبر ۱۹۷۷ء سے اس کا دوبارہ اجراء ہوا اور یہ با قاعدگی سے شائع ہونا شروع ہوا.ڈنمارک میں مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام ۱۹۷۵ء میں عمل میں آیا.مئی ۱۹۸۱ء میں مجلس انصاراللہ ڈنمارک کے پہلے زعیم اعلیٰ کا انتخاب عمل میں آیا اور مکرم سوین ہنسن صاحب پہلے زعیم اعلیٰ منتخب
695 ہوئے.سکینڈے نیوین ممالک میں سب سے پہلے ڈنمارک میں لجنہ اماءاللہ کا قیام عمل میں آیا یہاں پر لجنہ کا پہلا اجلاس ۱۹۶۸ء میں منعقد ہوا جس میں سات لجنات نے شرکت کی.۱۹۷۰ء میں پہلی مرتبہ یہاں پر صدر لجنہ کا انتخاب عمل میں آیا اور ڈینش خاتون مکرمہ محترمہ عائشہ صاحبہ نے صدر لجنہ ڈنمارک کے فرائض سنبھالے.خلافت ثالثہ کے دوران مکرم کمال یوسف صاحب ، مکرم میر مسعود احمد صاحب ،مکرم سید جواد علی شاہ صاحب اور مکرم منصور احمد مبشر صاحب نے بطور مبلغ ڈنمارک میں خدمات سرانجام دیں.ناروے خلافت ثالثہ کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکرم سید کمال یوسف صاحب کو بطور مبلغ نمایاں خدمات کی توفیق ملی.اور مقامی احمدی مکرم نور احمد بوستاد صاحب مبلغین کے شانہ بشانہ نمایاں خدمات سرانجام دیتے رہے.آپ ناروے میں آنریری مبلغ کے طور پر کام کرتے رہے.جب مکرم سید کمال یوسف صاحب کچھ سالوں کے لئے ڈنمارک چلے گئے تو آپ سیکریٹری ناروے مشن کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے.آپ سکولوں میں جا کر اسلام کے متعلق لیکچر بھی دیتے رہے.یہاں پر خدام الاحمدیہ کا آغاز ۱۹۷۴ء میں ہوا اور تنویر احمد ڈار صاحب پہلے قائد مقرر ہوئے.ناروے میں لجنہ اماءاللہ کا قیام مارچ ۱۹۷۵ء میں عمل میں آیا اور پہلی صدر مکر مہ قانتہ مبشر صاحبہ نامزد ہوئیں.ملکی مجلس انصاراللہ کا قیام ۱۹۸۱ء میں ہوا اور مکرم سید محمود احمد شاہ صاحب اس کے پہلے زعیمِ اعلیٰ مقرر ہوئے.اسی طرح یہاں پر اطفال الاحمدیہ کا قیام ۱۹۸۱ء میں ہوا.ناروے میں پہلی مجلس شوری ۱۹۸۲ء میں ہوئی اور اس کے بعد اس اہم جماعتی روایت کا سلسلہ با قاعدگی سے جاری رہا.جرمنی خلافت ثالثہ کے دوران مندرجہ ذیل مبلغین کو جرمنی میں بطور خدمات کی توفیق ملی.مکرم فضل الہی انوری صاحب ۱۹۶۴ ء تا ۱۹۶۷ء ، بشیر احمد شمس صاحب ۱۹۶۶ ء تا ۱۹۶۹ء، قاضی نعیم الدین صاحب ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۴ء مکرم فضل الہی انوری صاحب دوبارہ ۱۹۷۲ ء تا ۱۹۷۷ء، مکرم منصور احمد عمر صاحب ۱۹۷۴ء تا ۱۹۷۵ء، مکرم حیدر علی ظفر صاحب ۱۹۷۴ء تا ۱۹۷۸ء، مکرم مشتاق احمد باجوہ
696 صاحب ۱۹۷۵ ء تا ۱۹۷۷ء، مکرم نواب منصور احمد خان صاحب ۱۹۷۶ء تا ۱۹۸۳ء، مکرم لئیق احمد منیر صاحب ۱۹۷۸ء تا ۱۹۸۲ء.خلافت ثالثہ کے با برکت دور کے دوران جرمنی میں ذیلی تنظیموں کا قیام بھی عمل میں آیا.۱۹۷۰ء میں جرمنی میں فرینکفرٹ کے مقام پر پہلی مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا اور مکرم خالد قریشی صاحب اس کے قائد مقرر ہوئے.اس میں ۱۸ خدام شامل تھے.اکتوبر ۱۹۷۳ء میں فرینکفرٹ میں لجنہ کی پہلی تنظیم قائم ہوئی ، جس کی صدر قامتہ صاحبہ مقرر ہوئیں.یہ خاتون سویڈش تھیں اور انہوں نے خود اسلام قبول کیا تھا.دوسری صدر مکرمہ بیگم صاحبہ ہدایت اللہ ہو بش صاحب مقرر ہوئیں.ان خاتون کا تعلق ماریشس سے تھا اور ان کی شادی مکرم ہدایت اللہ ہو بش صاحب سے ہوئی تھی.ان دونوں خواتین نے لجنہ جرمنی کی تربیت اور تنظیم میں نمایاں کردار ادا کیا.۱۹۸۲ء میں لجنہ جرمنی کی نیشنل عاملہ کا قیام عمل میں آیا.۱۹۷۵ء میں فرینکفرٹ میں مجلس انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا.اور ۱۹۷۶ء میں ہیمبرگ میں بھی مجلس انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے اپنے دورِ خلافت کے دوران ۱۹۶۷ء، ۱۹۷۰ء، ۱۹۷۳ء، ۱۹۷۶ ء اور ۱۹۸۰ء میں جرمنی کا دورہ فرمایا.ان دوروں کا ذکر علیحدہ کیا جا چکا ہے.جرمنی میں تبلیغ کا کام انفرادی تبلیغ کے علاوہ، چرچز اور سکولوں میں سیمینارز اور لیکچروں کے ذریعہ اور ریڈیو پر تقاریر کے ذریعہ جاری تھا.جب فرینکفرٹ میں جماعت اور مسجد کے قیام کے دس سال مکمل ہونے پر ۱۹۶۹ء میں تقریبات منائی گئیں.تو سفارتی نمایندوں کے علاوہ شہر کے میئر نے بھی اس میں شرکت کی.اور اخبارات کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی اس تقریب کا چرچا ہوا.۱۹۷۱ء میں جرمنی کی جماعت کا پہلا جلسہ سالا نہ ہوا.اور مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا پہلا اجتماع ۱۹۷۳ء میں منعقد کیا گیا.جب مکرم فضل الہی انوری صاحب جرمنی میں بطور مبلغ پہنچے تو انہوں نے ایک سرکلر تیار کر کے قریب کے سکولوں کالجوں اور چرچوں میں بھجوا دیا جس کا مضمون تھا ہم جو اسلام کی نمائندہ تنظیم ہیں ہم اسلام سے تعلق رکھنے والے کسی بھی مضمون پر تقریر کرنے کے لئے اپنے خرچ پر آپ کے پاس آسکتے ہیں.اگر کوئی سکول یا ادارہ ہمارے پاس آکر اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہے تو ہم اس کا
697 خوشی سے استقبال کریں گے.اس سرکلر کا یہ اثر ہوا کہ کثرت سے سکولوں، کالجوں اور چرچوں کی طرف سے پیغام ملنے لگے کہ ہمارے پاس آکر تقریر کر و یا فلاں تاریخ کو ہمارا یہ گروپ آپ کے پاس آئے گا.ہر عمر کے لوگوں کے سوالات مختلف ہوتے لیکن ایک سوال بڑی اور چھوٹی عمر کے لوگوں کی طرف سے یکساں کیا جاتا تھا وہ یہ تھا کہ اسلام میں سو رکھانا کیوں حرام ہے؟ یہ سوال ایک بچے نے کیا جو اپنے پادری استاد کے ساتھ طلباء کے ایک گروہ میں آیا ہوا تھا تو مکرم انوری صاحب نے جواب دیا کہ مسلمان تو سو ر اس لئے نہیں کھاتے کیونکہ قرآنِ کریم میں اس کو کھانے سے منع کیا گیا ہے لیکن یہ سوال آپ کو اپنے ٹیچر سے کرنا چاہئے کہ عیسائی سؤر کیوں کھاتے ہیں جبکہ بائیل میں اس کا کھانا حرام قرار دیا گیا ہے.بائیل کی کتاب احبار کے باب گیارہ میں لکھا ہے ” اور سو رکو کیونکہ اس کے پاؤں الگ اور چرے ہوئے ہیں پر وہ جگالی نہیں کرتا.وہ بھی تمہارے لئے ناپاک ہے.تم ان کا گوشت نہ کھانا اور ان کی لاشوں کو نہ چھونا.وہ تمہارے لئے ناپاک ہیں.“ یہ سننا تھا کہ سارے بچے اپنے پادری ٹیچر کا منہ دیکھنے لگے اور وہ یوں خاموش کھڑے تھے جیسے اچانک کسی صدمہ سے دو چار ہو گئے ہوں.اس کی خاموشی سے بچے سمجھ گئے کہ ان کے پاس اس کا جواب نہیں ہے.اسی طرح ایک مرتبہ ایک چرچ سے وابستہ بڑی عمر کے لوگوں کا ایک گروہ اپنے پادری کے ہمراہ مسجد میں آیا اور ایک شخص نے یہی سوال کر دیا کہ قرآن مجید میں سو ر کھانا حرام کیوں ہے؟ اس پر مولانا انوری صاحب نے کہا کہ قرآن مجید نے تو سو رکوکھانا حرام نہیں قرار دیا.سو رکھانا تو بائیبل نے حرام قرار دیا ہے.قرآن نے تو بائیبل کے اس حکم کی توثیق کی ہے.یہ سننا تھا کہ حاضرین پر سناٹا چھا گیا.اس خاموشی کو خود انوری صاحب نے توڑا اور کہا کہ دیکھیں دو بڑی مذہبی کتب نے سور کو حرام قرار دیا ہے اس کی ضرور کوئی وجہ ہوگی.ہمیں اس کی وجہ مل کر تلاش کرنی ہو گی.جہاں تک اہلِ اسلام کا تعلق ہے، ہماری تحقیق ہے کہ اس جانور میں کچھ ایسی اخلاقی حالتیں ہیں جو سخت معیوب ہیں اور خوراک کا انسان کی اخلاقی حالت پر اثر پڑتا ہے اس لئے اس کا کھانا حرام ہے تا کہ وہ اخلاقی کمزوریاں انسان میں پیدا نہ ہو جائیں.اسی طرح شہر سے باہر سے بھی لیکچرز کی دعوت ملتی تھی.چنانچہ ایک ایسے ہی لیکچر پر ایک قصبہ اوفن برگ کے چرچ میں بھی مدعو کیا گیا.جب لیکچر کے دوران انوری صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد
698 پر حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی کی پیشگوئیوں کو چسپاں کیا.یہ سب کچھ حاضرین کے لئے حیران لن تھا.ان میں سے ایک نوجوان نے اُٹھ کر سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کی جماعت کے بانی کے وجود میں مسیح کی آمد ثانی ہو چکی ہے اور وہ بھی آج سے اسی سال پہلے ظاہر ہو کر فوت بھی ہو چکے ہیں.یہ ایک اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے اور ہمیں کانوں کان خبر نہیں ہوئی.ہمیں تو بتلایا گیا تھا کہ جب مسیح آئیں گے تو دنیا میں شور مچ جائے گا.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسیح آکر چلے بھی جائیں اور ہمیں خبر بھی نہ ہو.انہیں جواب دیا گیا کہ آپ نے انجیل نہیں پڑھی.حضرت مسیح نے کہا ہے کہ میری آمد چور کی مانند ہوگی.جیسے چور رات کو آتا ہے اور اپنا کام کر کے چلا جاتا ہے اور گھر والوں کوخبر تک نہیں ہوتی اسی طرح میرا دوبارہ آنا ہوگا.متی کی انجیل کے باب ۴۲ میں ہے، ” پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے تمہارا خداوند کس دن آئے گا.لیکن یہ جان رکھو کہ اگر گھر کے مالک کو معلوم ہوتا کہ چور رات کے کون سے پہر آئے گا تو جاگتا رہتا اور اپنے گھر میں نقب نہ لگانے دیتا.اس لئے تم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تم کو گمان بھی نہ ہوگا ابن آدم آجائے گا.دوسرے اگر آپ نے پہلے یہ خبر نہیں سنی تھی تو میں آج جو آپ کو بتلا رہا ہوں.یہ جواب سن کر حاضرین عش عش کر اُٹھے اور ایک خوشگوار فضا پیدا ہوگئی.خلافت ثالثہ کے دوران فرینکفرٹ مشن ہاؤس میں سلسلہ کی کتب کی نمائش کا مستقل انتظام بھی کیا گیا.۱۹۷۴ء کے بعد بہت سے پاکستانی احمدی احباب نے جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کی.اور اس طرح بہت سے پاکستانی احمدی جرمنی میں آباد ہو گئے.جوں جوں ان کی آمد بڑھنی شروع ہوئی اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ ان تمام دوستوں کو کسی نہ کسی حلقہ سے وابستہ کیا جائے تاکہ یہ با قاعدہ نظام جماعت کا حصہ بن کر رہیں.چنانچہ اس قسم کا پہلا حلقہ اوفن باغ (Offenbach) میں بنایا گیا تھا.جماعتی عہد یداروں کا انتخاب کیا گیا اور چندے کے وعدے لکھوائے گئے.پھر یہ سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا.شروع میں نئے آنے والے پاکستانی احمدی زیادہ تر فرینکفورٹ میں یا اس کے قریب آباد ہوئے تھے.اب جماعت کے مبلغین نے ان کی تربیت کے لئے منظم کوششوں کا آغاز کیا.جن جرمن احباب نے اسلام کو قبول کیا ان میں ایسے بھی شامل تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہنمائی کے نتیجہ میں یہ سعادت حاصل کی.ان نو مسلم احباب میں ایک ہدایت اللہ ہو بش صاحب بھی تھے.وہ نو جوانی میں ایک آزاد منش زندگی بسر کر رہے تھے اور اس حالت میں آپ نے
699 مراکش کا سفر بھی اختیار کیا.اس طرزِ زندگی سے آپ کی صحت پر بہت برا اثر پڑ رہا تھا.ایک دن اچانک آپ کو احساس ہوا کہ آپ کا وجود کسی غیر مرئی طاقت کے قبضہ میں آ گیا ہے.اور آپ کے اندر سے یہ دعا نکلی ”اے خدا مجھے پاک کر دے.اس بات سے آپ کو سکون محسوس ہوا گو کہ آپ اب بھی اپنے آپ کو مصائب میں گھرا ہوا محسوس کرتے تھے.پھر آپ پین چلے گئے اور وہاں کچھ دن ہسپتال میں اور جیل میں رہ کر آپ کو اپنے وطن بھجوادیا گیا.اب ان کی عمر ۲۵ سال ہو چکی تھی.آپ نے ذہنی سکون کی تلاش میں یوگا کی ورزشیں شروع کر دیں.ایک دن آپ اپنی والدہ کے گھر میں اپنے بستر بیٹھے ہوئے ایک ہندوطرز پر منقش کپڑے کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ انہیں اپنے کندھے کے اوپر سے روشنی نکل کر کتابوں کی الماری کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دی.وہ روشنی ایک کتاب پر آکر رک گئی.انہوں نے جب اُٹھ کر اس کتاب کو نکالا تو یہ قرآن کریم کا جرمن ترجمہ تھا جو کہ ان کے چانے کسی موقع پر انہیں تحفہ میں دیا تھا اور وہ اسے اب تک فراموش کر چکے تھے.اس سے ہو بش صاحب کو یقین ہو گیا کہ خدا اس کتاب کی وساطت سے بول رہا ہے.پھر ان کا جماعت کی مسجد نور سے رابطہ ہوا اور ۱۹۷۰ء میں انہوں نے بیعت کر کے باقاعدہ اسلام قبول کر لیا.(۱) جرمنی جیسے ملک میں جو باقی مغربی ممالک کی طرح مادیت کا شکار ہو تبلیغ کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ تبلیغ کرنے والا ایک عزم صمیم کے ساتھ یہاں پر اسلام کی تبلیغ کرے.چنانچہ جب مکرم حیدر علی صاحب ظفر اور مکرم ملک منصور احمد عمر صاحب جرمنی کے لئے روانہ ہوئے تو حضور نے انہیں ارشاد فرمایا که خدمت دین اور تبلیغ کے میدان میں طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلا کر کام کرنا ہے.(۱) تحریری روایت مکرم فضل الہی انوری صاحب پولینڈ ہم کتاب کے حصہ دوئم میں ذکر کر چکے ہیں کہ کس طرح پولینڈ میں تبلیغ کا کام شروع ہوا اور پھر اس میں حالات کی وجہ سے ایک طویل عرصہ کا نتطل آگیا.خلافت ثالثہ کے دوران یہاں لٹریچر کے ذریعہ جماعت کی تبلیغ دوبارہ پہنچی.یہاں پر ایک معزز عیسائی خاندان کے فرد مکرم طر زک صاحب کو سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ نے پادری بننے کے لئے ایک
700 عیسائی ادارے میں داخلہ لیا اور دوران تعلیم دیگر مذاہب کا مطالعہ جاری رکھا.اس دوران آپ کو احمد یہ مسلم مشن یو کے کی طرف سے شائع ہونے والا رسالہ دی مسلم ہیرلڈ کا ایک شمارہ ملا.لنڈن مشن کے مبلغ انچارج مکرم بشیر احمد رفیق صاحب سے خط و کتابت شروع ہوئی.اور آپ نے بشیر احمد رفیق صاحب کو پولینڈ آنے کی دعوت دی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اجازت سے آپ ۱۹۷۶ء میں پولینڈ گئے اور اس موقع پر طہ زک صاحب نے بیعت فارم پر کیا اور آپ نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کر دی.۱۹۷۶ء کے جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کے خطاب میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے فرمایا: اس وقت مسلمانوں میں سب سے زیادہ مظلوم اور اپنے حالات کے ظلم کی وجہ سے بھی اسلام سے دور وہ ممالک ہیں جہاں اشتراکیت یعنی کمیونزم آگیا.وہاں یہ حال ہے کہ کمیونسٹ یوگوسلاویہ کے سینکڑوں خاندان احمدی ہوگئے ہیں.سینکڑوں خاندان ! اور یہ حال ہے کہ اس وقت ہنگری کے ایک احمدی یہاں موجود ہیں.اور وارسا پولینڈ کے امام جو پچھلے سال احمدی ہوئے تھے وہ بھی جلسہ سالانہ پر تشریف لائے ہوئے ہیں.“ ۱۹۷۷ء میں طہ زک صاحب نے ربوہ کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی.اور آپ کا رابطہ سویڈن میں گوٹن برگ مشن سے رہا.بعد ازاں زک صاحب نے مبلغ انچارج سویڈن کو پولینڈ کے دورہ کی دعوت دی اور اس موقع پر لیو بن (Lublin) کی کیتھولک یو نیورسٹی میں مبلغ انچارج سویڈن کی تقریر بھی ہوئی.اور دو مقامی اخبارات نے ان کے انٹرویو بھی شائع کئے.۱۹۷۸ء کے جلسہ سالانہ کے درمیان والے دن کے خطاب میں حضرت خلیفہ امسح الثالث نے ارشاد فرمایا : وو.نئی جماعت قائم ہوئی ہے پولینڈ میں.اور وہاں جماعت احمدیہ کے عقائد اور تعارف پر اس وقت تک پولش زبان میں دو پمفلٹ چھپ چکے ہیں...“ یوگوسلاویہ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں یوگوسلاویہ میں تبلیغ کے لئے مکرم مولوی محمد الدین صاحب گئے
701 تھے.لیکن پھر دوسری جنگ عظیم اور یوگوسلاویہ کی حکومت کی پالیسیوں کے باعث یہاں پر تبلیغ کا کام جاری نہیں رہ سکا اور نہ ہی احمدیوں کی تربیت اور ان سے رابطے کا کام جاری رہ سکا.ایک لمبے عرصہ کے تعطل کے بعد اگست ۱۹۷۰ء میں مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب مبلغ انچارج سوئٹزر لینڈ نے ایک ہفتہ کے لئے یوگوسلاویہ کے جنوبی حصہ کا دورہ کیا جہاں پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے.دوران قیام آپ ان کے بڑے بڑے علماء سے ملے اور انہیں جماعت احمدیہ سے متعارف کرایا اور ان کے سوالات کے جوابات دیئے.وہاں قیام کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بعض عرب ممالک سے جماعت کے خلاف لٹریچر یوگوسلاویہ بھجوایا گیا تھا.آپ نے اس دورہ میں مختلف علماء سے مل کر اس لٹریچر میں لگائے گئے الزامات کی حقیقت سے ان علماء کو آگاہ کیا.دوسری بار آپ جولائی ۱۹۸۳ء میں یوگوسلاویہ گئے.وہاں آپ نے ایک خاندان سے ملاقات کی جنہوں نے سوئٹزر لینڈ میں احمدیت کو قبول کیا تھا.آپ کی تبلیغ سے جن افراد نے احمدیت قبول کی تھی ان میں سے Mr.Daut Dauti قابل ذکر تھے.انہوں نے ۱۹۸۳ء میں سوئٹزر لینڈ میں احمدیت قبول کی تھی اور پھر اپنے گاؤں Gilan میں آکر تبلیغ کی.اور آپ کی کاوشوں سے یہاں پر.تین گھرانوں کے ہیں افراد نے احمدیت قبول کی.اور اس مقام پر باقاعدہ جماعت قائم ہوگئی.آئیوری کوسٹ آئیوری کوسٹ میں جماعت کے قیام کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ یہاں پر جماعت کے مشن کے لئے زمین خریدی جائے.جماعت کے مبلغ مکرم قریشی محمد افضل صاحب نے اس ضمن میں کوششوں کا آغاز کیا.کئی مقامات کا جائزہ لینے کے بعد آجائے(Adjame) میں ایک پلاٹ پسند کیا گیا.اس پر ایک مکان پہلے سے تعمیر شدہ تھا.اس پر ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کر لی گئی.اکتوبر ۱۹۶۸ء میں تعلیم الاسلام احمد یہ فرینچ عریبک سکول کا آغاز کیا گیا.آئیوری کوسٹ سے ہمسایہ ممالک میں بھی تبلیغ کے کام کا آغاز کیا گیا.اور اپر ولٹا ( موجودہ برکینا فاسو) اور مالی میں تبلیغ کا کام کیا گیا.۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کے دورہ آئیوری کوسٹ کا ذکر پہلے آچکا ہے.۱۹۷۲ء میں ماریشس
702 کے مکرم شمشیر سوکیہ صاحب کو آئیوری کوسٹ میں امیر ومشنری انچارج مقرر کیا گیا اور انہوں نے مکرم قریشی محمد افضل صاحب سے چارج لیا.شمشیر سوکیہ صاحب نے فرنچ زبان میں 9 کتابچے شائع کئے.۱۹۷۷ء میں مکرم قریشی محمد افضل صاحب ایک بار پھر آئیوری کوسٹ کے امیر و مشنری انچارج مقرر ہوئے.جو مسجد پہلے بنائی گئی تھی وہ اب ضروریات سے چھوٹی ہوگئی تھی.اس لئے ۱۹۷۷ء میں اس میں توسیع کی گئی.۱۹۸۱ء میں عبد الرشید رازی صاحب کا تقر ر آئیوری کوسٹ کے امیر و مشنری انچارج کے طور پر کیا گیا.کسی بھی ملک میں تبلیغ کے کام کو بھر پور طریقے سے کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہاں کے مقامی احباب کو تبلیغ کے اہم کام کے لئے تیار کیا جائے.چنانچہ مکرم قریشی مقبول صاحب نے مالی کے رہنے والے ایک باشندے مکرم محمد غزالی جالی صاحب کو مقامی مبلغ کے طور پر تیار کیا.انہوں نے آئیوری کوسٹ کے علاوہ مالی میں بھی جا کر تبلیغ کی.مکرم قریشی محمد افضل صاحب نے بھی عربی اور دینیات کی کلاسوں کا اجراء کیا.ان کلاسوں سے استفادہ کرنے والے احباب میں سے جن کو خدمتِ دین کا شوق ہوتا تو ان سے مبلغ کے طور پر خدمات لی جاتیں.ان میں سے مکرم عبد الحمید صاحب بر کینافاسو کے باشندے تھے انہیں پہلے برکینا فاسو بھجوایا گیا پھر وہ آئیوری کوسٹ میں خدمات سرانجام دیتے رہے.ان کے علاوہ ان طلباء میں سے مکرم عبد الرحمن کو ناتے صاحب ،احمد تورے صاحب، سعید کو ناتے صاحب اور صدیق آدم صاحب نے آئیوری کوسٹ میں خدمات سرانجام دیں.اور ان کے علاوہ مالی کے عمر معاذ صاحب اور تیر و دریا صاحب نے بھی تبلیغی خدمات سرانجام دیں.پہلے ان احباب نے تو باقاعدہ کسی ادارے میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن ان میں سے مکرم عبد الرحمن کو ناتے صدیق آدم صاحب اور عمر معاذ صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ مرکز سلسلہ جا کر دین کا علم حاصل کریں گے.لیکن ہوائی سفر کی استعداد نہیں تھی.چنانچہ یہ تینوں احباب خشکی کے راستے اس سفر پر ربوہ کے لئے روانہ ہو گئے.۱۹۸۱ء میں یہ سفر شروع کیا گیا اور ۱۹۸۲ء کے آخر میں یہ احباب ربوہ پہنچ گئے.اور پھر اپنے تعلیم مکمل کر کے ۱۹۸۶ء میں یہ احباب واپس آئیوری کوسٹ پہنچے.ٹرینیڈاڈ
703 خلافت ثالثہ کے دوران ٹرینیڈاڈ میں ایک نئی مسجد کی تعمیر ہوئی اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۷۰ ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں اس کا ذکر بھی فرمایا.محمد حنیف یعقوب صاحب نے اپنی زمین کا ایک قطعہ جماعت کے لئے وقف کیا اور اس پر مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوا.۱۹۷۴ء میں اس مسجد کی تعمیر کا کام مکمل ہوا.یہاں پر جماعت احمدیہ کی رجسٹریشن کا مرحلہ طے ہونا باقی تھا.محمد حنیف یعقوب صاحب نے حکومت کو رجسٹریشن کے لئے درخواست دی.جب جون ۱۹۷۳ء میں سینٹ میں یہ بل پیش ہوا تو پانچ مسلمان ممبران نے مخالفت کی لیکن اکثریت نے اس بل کی حمایت میں ووٹ دیئے اور جماعت یہاں پر رجسٹر ہوگئی.لبنان خلافت ثانیہ کے اختتام پر لبنان میں مکرم مولوی نصیر احمد خان صاحب بطور مبلغ خدمات سرانجام دے رہے تھے.۱۹۶۲ء میں لبنان میں بغاوت ہو گئی اور ملکی حالات کی وجہ سے تبلیغی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئیں.مولوی نصیر احمد خان صاحب کی شکایت کی گئی کہ یہ تبلیغ کرتے ہیں.ان میں سے کئی شکایات عیسائیوں کی جانب سے بھی کی گئی تھیں.ان حالات میں دسمبر ۱۹۶۳ء میں آپ واپس پاکستان تشریف لے آئے.اس کے بعد مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب کو عربی زبان سیکھنے کے لئے لبنان بھجوایا گیا.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جو ہدایات اپنے قلم سے تحریر فرمائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ علم قرآن سیکھنے کے لئے ربوہ سے باہر جانے کی ضرورت نہیں آپ وہاں عربی زبان تحریر تقریر بول چال سیکھنے کے لئے جارہے ہیں پس پوری توجہ اس طرف دیں.آپ کو ہدایت دی گئی تھی کہ کھلم کھلا تبلیغ نہ کی جائے.تا ہم آپ حکمت کے ساتھ مختلف احباب ، اسا تذہ اور طلباء سے تبادلہ خیالات کرتے رہے اور ان تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کے معارف پہنچاتے رہے.اس عرصہ میں بیروت میں مرزا جمال احمد صاحب کے گھر پر نماز جمعہ کا اہتمام ہوتا تھا.لبنانی احمدیوں کی تربیت اور مرکز سے رابطہ کے لئے مکرم مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب گیمبیا جاتے ہوئے بیروت بھی رکے.آپ نے مفتی لبنان سے بھی ملاقات کی.
704 نظامِ جماعت کو قائم کرنے کے لئے لبنان میں مکرم جمال احمد صاحب کو صدر اور مکرم محمد در منانی صاحب کو سیکریٹری مال مقرر کیا گیا.۱۹۶۷ء میں مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب واپس ربوہ تشریف لے آئے.فلسطین خلافت ثالثہ کے آغاز میں محترم مولانا جلال الدین قمر صاحب فلسطین میں بطور مبلغ کام کر رہے تھے.اپنے قیام کے دوران آپ نے احباب جماعت کی تربیت ، مدرسہ احمدیہ میں تعلیم ،معززین سے ملاقاتوں کے ذریعہ اور اخبارات میں عربی اور عبرانی میں مضامین لکھ کر کام کو جاری رکھا.آپ کے دور میں مدرسہ احمدیہ پرائمری سے مڈل سکول ہو گیا.آپ نے بعض پمفلٹ بھی شائع کئے جو کہ عربی اور عبرانی زبانوں میں تھے.آپ نے مختلف دیہات اور قصبوں کے دورے بھی کئے.آپ نے ۱۹۷۷ء تک یہاں پر خدمات سرانجام دیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے حکم پر ۱۹۶۶ء میں مکرم فضل الہی بشیر صاحب فلسطین چلے گئے.جماعت کا عربی رسالہ البشرکی ایک عرصہ سے بند تھا، آپ نے دوبارہ اس کی اشاعت کا کام شروع کروایا.کشتی نوح کا عربی پیش لفظ جو کہ مکرم سید زین العابدین شاہ صاحب نے تحریر فرمایا تھا.وہ دوبارہ شائع کیا گیا.۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد آپ نے غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارہ پر تبلیغ کا کام شروع کیا گیا.جنوری ۱۹۶۸ء میں آپ کو ماریشس بھجوا دیا گیا اور آپ دوسری مرتبہ اکتوبر ۱۹۷۷ء میں کہا بیر فلسطین آئے اور ۱۹۸۱ ء تک یہیں پر مقیم رہے..آپ کے دور میں مندرجہ ذیل کتب شائع ہوئیں.انسال المسلمين و علماء هم ولقد جاء كم الحق المبين مصنفہ مکرم مولانا فضل البی بشیر صاحب، مقطعات القرآن ( از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب) تغییر کبیر میں سورۃ کہف کی تفسیر کا عربی ترجمہ مکرم السید عبد الله اسعد عودہ صاحب نے کیا اور یہ ترجمہ بھی شائع کیا گیا.۸ فروری ۱۹۶۸ء کو مکرم بشیر الدین عبید اللہ صاحب نے احباب کی تربیت کے ساتھ تبلیغ کے
705 کام کو بھی وسعت دی.آپ کی کوششوں سے غزہ میں ایک جماعت قائم ہوئی.علاقہ میں احمدیت کی مخالفت نے زور پکڑا لیکن پھر بھی لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف ہوئی.لوگوں کی شکایات کی وجہ سے ایک نواحمدی کو ایک ماہ جیل میں بھی رہنا پڑا.بیعت کرنے والوں میں بعض تعلیم یافتہ با اثر احباب مثلاً احمد حسن سردانی صاحب اور ہاشم نعمان صاحب بھی شامل تھے.۱۹۶۸ء میں کہا بیر کی جماعت نے اپنے قیام کے چالیس سال مکمل ہونے کی تقریبات بھی منائیں.مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب نے تقریباً چار سال یہاں پر خدمات سرانجام دیں.مرکز کی ہدایت پر ۱۹۷۲ء میں مکرم مولانا محمد منور صاحب بطور مبلغ کینیا سے کہا بیر تشریف لے گئے.اور ایک سال وہیں پر مقیم رہے.آپ نے احباب کی تربیت کے علاوہ عرب آبادی کے تمام شہروں کا دورہ کیا.اور یروشلم اور الخلیل جا کر وہاں پادریوں سے مذہبی گفتگو کی اور یہودی علماء سے بھی ملاقات کی.آپ نے غزہ کی جماعت کی رجسٹریشن بھی کرائی.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری جب یہاں پر کام کر رہے تھے اس وقت یہاں پر یوم التبلیغ منایا جاتا تھا لیکن پھر ایک عرصہ تک یہ سلسلہ بند رہا.یہ سلسلہ آپ نے دوبارہ جاری فرمایا.آپ نے اپنی یادداشت میں تحریر فرمایا ہے کہ اس وقت سنی ائمہ حکومت سے اپنی تنخواہیں لیتے تھے، ایک مرحلہ پر ان ائمہ نے حکومت کو دھمکی دی کہ ہماری تنخواہیں بڑھائی جائیں ورنہ ہم نماز پڑھانا بند کر دیں گے.چارو ناچار حکومت نے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے کام جاری رکھنے کو کہا.علي جب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی وفات ہوئی تو اس وقت حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی میں موجود تھے.آپ نے اس نازک موقع پر احباب جماعت مسجد فضل عمر سا مولا میں فجی نصائح فرمائیں.مئی ۱۹۶۶ ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے نجی کے لوگوں کے لئے اپنا ایک پیغام ریکارڈ کرایا.اس پیغام کے آخری الفاظ یہ تھے : ” پس اے میرے عزیز بھائیو! آپ جو دور دراز علاقوں ، جزائر فجی میں رہنے والے ہیں، آپ اپنی ذمہ داریوں کو کبھی نہ بھولیں.باہم پیار اور محبت سے رہیں اور اس مقصد کو
706 ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں جس مقصد کے لئے جماعت احمدیہ کا قیام ہوا ہے.“ مکرم شیخ عبدالوہاب صاحب فجی میں بطور مبلغ کام کر رہے تھے ، جماعتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں پر ایک دوسرا مبلغ بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا.چنانچہ مکرم نور الحق انور صاحب مارچ ۱۹۶۶ء میں بھی پہنچے.آپ نے بحیثیت امیر و مشنری انچارج تھی میں خدمات کا آغاز کیا.آپ کو مختلف مواقع پر ریڈیو پر بھی اظہار خیال کے ذریعہ تبلیغ کا موقع ملا.اس سے قبل سا ئیکلو ٹائل ہو کر جماعت کا ایک ماہانہ پرچہ ”اسلام“ کے نام سے نکلتا تھا.محترم مولانا نورالحق انور صاحب نے The Muslim Harbinger کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ نکالنا شروع کیا.اس میں نبی ، انگریزی اور ہندی تینوں زبانوں میں مضامین شائع ہوتے تھے.با (Ba) کے مقام پر جماعت قائم ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ یہاں پر ایک مکان لے کر دار التبلیغ بنایا گیا.لیکن اس کے ساتھ ہی مخالفین کا حسد بھی بھڑک اٹھا.اس مخالفت کا سرغنہ وہاں کا ایک نمایاں شخص ابوبکر کو یا تھا.اس نے اور دیگر مخالفین نے برملا شہر میں یہ کہنا شروع کیا کہ ہم احمدیوں کے مشن ہاؤس کو جلا کر راکھ کر دیں گے.احتیاطی تدابیر کے باوجود ایک رات فتنہ پروروں کو موقع مل گیا اور انہوں نے مٹی کا تیل چھڑک کر دار التبلیغ کو آگ لگادی لیکن یہ آگ جلد ہی ختم ہوگئی اور صرف چند لکڑیاں ہی جل پائیں.جب جماعت کے افراد نقصان کا جائزہ لے رہے تھے تو مکرم مولانا نورالحق صاحب نے آہ بھر کر کہا کہ جس نے اللہ کے دین اسلام کا یہ مرکز جلانے کی کوشش کی ہے، خدا اس کے اپنے گھر کو آگ لگا کر راکھ کر دے.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چند ہی روز کے بعد اس فتنہ کے سرغنہ ابوبکر کو یا کے گھر کو آگ لگ گئی اور باوجود کوششوں کے نہ بجھ سکی اور یہ گھر جل کر راکھ ہو گیا.فنجی میں سب سے پہلے واقف زندگی ہونے کا اعزاز بھی با (Ba) کے ایک احمدی دوست کے حصہ میں آیا.یہ دوست مکرم محمد حنیف کو یا صاحب تھے.انہوں نے کچھ عرصہ مکرم مولانا نورالحق انور صاحب سے دینی تعلیم حاصل کی اور پھر نبی میں خدمت دین میں مصروف ہو گئے.مئی ۱۹۶۸ء میں نجی کی کونسل آف چرچز کی دعوت پر پادری عبد الحق صاحب نبی آئے اور اسلام کے خلاف دل آزار تقاریر کا ایک سلسلہ شروع کر دیا.غیر احمدی مسلمانوں نے مکرم مولانا نورالحق انور صاحب سے درخواست کی کہ وہ ان پادری صاحب سے مناظرہ کریں.چنانچہ ایک سکول کی عمارت
707 میں یہ مباحثہ شروع ہوا.پہلے تو پادری صاحب نے اپنی علمیت کا تاثر بٹھانے کی کوشش کی لیکن جب مولانا صاحب نے دلائل پیش کئے تو ان کی حالت غیر ہونی شروع ہو گئی.جب ایک مرحلہ پر مولانا نور الحق صاحب نے ان سے کہا کہ اگر انہیں اپنے سچا ہونے کا یقین ہے تو اپنے ساتھیوں سمیت میدان میں آئیں اور مباہلہ کرلیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ بیچ اور جھوٹ کو ظاہر کر دے.یہ سن کر پادری صاحب کی حالت غیر ہو گئی اور وہ دشنام دہی پر اتر آئے.اور مناظرہ کی شرائط کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اُٹھ کر چلے گئے.جب شام کو مولانا نور الحق انور صاحب اپنا تحریر کردہ مضمون سنانا تھا تو پادری صاحب آگئے اور انہوں نے شور و غوغا شروع کر دیا.یہ ہنگامہ دیکھ کر صاحب صدر نے مناظرہ برخواست کر دیا.اگر چہ اس طرح یہ مباحثہ ادھورا رہا لیکن اس کے ذریعہ تبلیغ کا ایک دروازہ کھل گیا.نجی میں مقامی آبادی بھی موجود ہے اور برصغیر سے نقل مکانی کر کے آباد ہونے والے بھی وہاں کئی نسلوں سے رہ رہے ہیں.پہلے وہاں پر زیادہ تر امی ہندوستانی نسل کے تھے لیکن وقت کے ساتھ مقامی آبادی میں بھی احمدیت کا نفوذ شروع ہوا.چنانچہ حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے ۱۹۷۹ ء کے جلسہ سالانہ میں ارشاد فرمایا : ونجی میں جو آئی لینڈ ہیں وہاں کی مقامی آبادی میں احمدیت اثر ورسوخ قائم کر رہی ہے اور بہت سے مقامی لوگ جو ہیں وہ احمدی ہو چکے ہیں.(۱) (۱) خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء گیانا گیانا میں احمدیت کا تعارف کسی باقاعدہ مبلغ کے جانے سے قبل پہنچ چکا تھا.گیانا میں رہنے والے ایک صاحب مکرم محمد یوسف خان صاحب اور ان کے بھائی مکرم محمد ابراہیم خان صاحب گیانا میں سٹر ویلج کے رہنے والے تھے.یہ دونوں ۱۹۵۰ء سے قبل ہی لٹریچر کے مطالعہ کے نتیجے میں احمدیت قبول کر چکے تھے.اور ان کی مرکز سے باقاعدہ خط وکتابت بھی تھی.ان کے علاوہ ابتدائی احمدیوں میں ایک صاحب محمد شریف بخش صاحب بھی شامل تھے.انہوں نے مرکز سے خط و کتابت کر کے عہدیداران کی منظوری حاصل کی اور جماعت کو منظم کیا.انہیں پہلا پریذیڈنٹ اور مکرم یوسف خان
708 صاحب کو سیکریٹری مقرر کیا گیا.۱۹۵۹ ء تک یہاں پر احمدیوں کی تعداد ۳۴ تھی.یہاں کے احمدیوں میں سے ایک نوجوان رحیم بخش صاحب نے ۱۹۵۹ء میں چند سال ربوہ میں رہ کر دینی تعلیم حاصل کی.گی آنا میں پہلے مرکزی مبلغ مکرم بشیر آرچرڈ صاحب تھے جو ۱۹۶۰ء میں گیا نا پہنچے اور انہوں نے چھ سال یہاں پر خدمات سرانجام دیں.ان کے بعد غلام احمد نسیم صاحب ، مولا نا فضل الہی بشیر صاحب، مولا نا محمد صدیق صاحب اور محمد اسلم قریشی صاحب نے اس ملک میں بطور خدمات سرانجام دیں.
709 دور خلافت ثالثہ میں جماعت احمد یہ بھارت کی سرگرمیاں $ 1965 جب حضرت علیہ اسیع الثانی کا وصال ہوا اور تمام جماعت نے حضرت طلیلا امسح الثالث کی بیعت کی تو ۹ نومبر ۱۹۶۵ کو جماعت احمدیہ کے دائی مرکز قادیان میں صدر انجمن حمدیہ قادیان نے اپنے غیر معمولی اجلاس میں حضرت مصلح موعودؓ کے وصال پر تعزیت اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی بیعت اور کامل اطاعت کے عہد کی قرارداد منظور کی (۱).خلافت ثالثہ کے پہلے سال کے دوران ہی قادیان کی جماعت نے قرضہ حسنہ حاصل کر کے، جماعت احمدیہ کا تیار کیا ہوا انگریزی ترجمہ قرآن شائع کیا (۲).قادیان دارالامان میں 13,12,11 دسمبر 1965ء بروز ہفتہ، اتوار، پیر کو جماعت احمدیہ کا چوہترواں اور خلافت ثالثہ کے دوران قادیان کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا دور دراز علاقوں سے بڑی تعداد میں احباب جماعت نے اس مقدس جلسہ میں شرکت فرمائی.یوپی ، مدراس ، کیرالہ، بمبئی ،کشمیر جموں وغیرہ صوبوں سے شریک ہونے والے احباب کی تعداد گزشتہ سالوں سے دو چند تھی (۳).محترم صاحب صدر عبد الرحمن صاحب فاضل نے اپنی اختتامی تقریر کے بعد سید نا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثالث امام جماعت احمدیہ کا ایک روح پرور پیغام پڑھ کر سنایا جو حضور اقدس نے اس مقدس جلسہ کے لئے ارسال فرمایا.یہ پہلا پیغام احمد یہ مسلم مشن رنگون کے واسطہ سے قادیان پہنچا کیونکہ اس وقت ۱۹۶۵ کی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات منقطع تھے.اس پیغام کا پورا متن یہ تھا : ترجمہ :.اے ارضِ پاک کے رہنے والو! اور اے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے مشتاق زائرین! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ خدا کرے آپ ہمیشہ فرشتوں کی حفاظت میں رہیں اور خدا تعالیٰ کا رحم اور اس کا فضل ہمیشہ آپ پر ایک ٹھنڈے اور محافظ سایہ کی طرح قائم رہے.خدا تعالیٰ آپ تمام کو نیک اور دوسروں کے لئے قابل تقلید اعلیٰ نمونے بنائے.خدا کرے آپ کے دل ایسے بن جائیں
710 کہ ان سے ہمیشہ روحانی شعاعیں پھوٹتی رہیں.اور خدا تعالیٰ آپ کو ایسی دلکشی اور حسن عطا کرے کہ ساری دنیا آپ کی طرف کھنچی چلی آئے.خدا کرے آپ ہمیشہ مکمل امن اور اتحاد کے ساتھ رہیں.اور آپ کے دلوں میں انسانیت کے لئے ہمدردی ، بہبود اور پُر خلوص خدمت کا جذبہ موجزن رہے تاکہ دُنیا آپ کی ہمیشہ ممنون اور شکر گزار رہے.اللہ کرے آپ کو رحیم و کریم خدا کے دروازے کے سوا کسی اور کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت پیش نہ آئے.آمین.$1966 آپ ہمیشہ ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.خدا تعالیٰ آپ تمام کے ساتھ ہو.(حضرت) مرزا ناصر احمد (صاحب) خلیفہ اسیح الثالث - امام جماعت احمدیہ مورخہ 9 دسمبر 1965ء بھارت ایک وسیع ملک ہے اور اس میں جماعتیں بھی ایک وسیع علاقے پر بکھری ہوئی ہیں.اور بہت سی جماعتیں قادیان سے اتنے فاصلے پر ہیں کہ ان سے روابط میں مشکل پیدا ہوتی ہے.اس پس منظر میں ان جماعتوں کے دورہ جات کی ایک خاص اہمیت ہے.چنانچہ خلافت ثالثہ کے پہلے سال کے دوران بھارت کی جماعتوں میں بہت سے اہم دورے ہوئے.اس کے ذکر کے بعد ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ہونے والے اجتماعات اور جلسوں کا مختصر ذکر کریں گے.ان کے علاوہ ہر سال قادیان میں جلسہ سالانہ منعقد ہوتا رہا تھا.اور اس طرح درویشان قادیان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قائم ہونے والی اس روایت کو پوری شان کے ساتھ زندہ رکھا ہوا تھا.28 فروری 1966 ء کو مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی انچارج احمد یہ مسلم مشن کلکتہ نے مکرم شیخ عبد الرؤف صاحب ساقی کے ہمراہ مغربی بنگال کی جماعتوں مرشد آباد، تا لگرام ، کیتھا، انگار پور، بھرت پور وغیرہ کا کامیاب تبلیغی و تربیتی دورہ کیا.یہ دورہ اگر چہ مختصر تھا مگر 400 کلومیٹر کا سفر ہوا تین تبلیغی جلسے ہوئے اور تین بیعتیں ہوئیں اور ایک جگہ مسجد احمد یہ بنانے کے انتظامات شروع کئے گئے (۴).
711 نظارت دعوت و تبلیغ قادیان کے زیر اہتمام محترم الحاج سیٹھ معین الدین صاحب امیر جماعت ہائے حیدرآباد، سکندر آباد کی زیر امارت علماء کے ایک وفد کو جنوبی ہند کی جماعتوں تیما پور اور ویوورگ اور را بخور وغیرہ کے کامیاب تبلیغی اور تربیتی دورہ کی توفیق ملی (۵).حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے مع اہل و عیال 3 اپریل 1966 ء شمالی ہند کی جماعتوں کے دورے کا آغاز فرمایا اور مختلف جماعتوں کے تربیتی و تبلیغی دورے کئے (۶).ہر ملک میں بسنے والے احمدی ، جس ملک میں بس رہے ہوں اس کے وفادار ہوتے ہیں.24 اپریل 1966 ء کو ستمبر 1965ء کی جنگ میں جان بحق ہونے والوں کی یاد میں قادیان میں ایک تقریب منائی گئی جس میں وزیر خارجہ آنریبل سردار سورن سنگھ صاحب تشریف لائے.حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ قادیان کی قیادت میں ممبران صدر انجمن احمدیہ نے وزیر خارجہ کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور احمد یہ چوک میں استقبال کیا.مسجد مبارک میں استقبالیہ تقریب ہوئی اور معزز مہمان کی خدمت میں قرآن کریم کے تحفہ کی پیشکش کی.جماعت احمدیہ کی طرف سے شیخ عبدالحمید صاحب عاجز نے معزز مہمان کی خدمت میں ایڈریس پڑھ کر سنایا.(۷) 1966ء کے آغاز میں جنوبی ہند کی جماعتوں نے اپنا جلسہ منعقد کیا.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پیغام بھجوایا : وو آپکے خط مورخہ 66-3-9 سے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ جنوبی ہند میں مختلف مقامات پر تبلیغی جلسوں کا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ یہ اجتماعات مبارک کرے، علاقہ کے لوگوں کے دل کھول دے، انہیں احمدیت کی طرف مائل کر دے.اس طرح کہ اس علاقہ میں احمدیت سُرعت سے ترقی کرتی چلی جائے.یہاں تک کہ سارا علاقہ احمدی ہو جائے.اللھم آمین دوستوں کو میری طرف سے یہ پیغام دیں کہ اپنے اندر ایک نیک تغیر اور خدمتِ دین کیلئے دل میں ایک تڑپ پیدا کریں، اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو.آمین.(۸) اسی طرح جماعت احمدیہ کیرنگ اڑیسہ کے جلسہ سالانہ کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے یہ پیغام بھجوایا:
712 مجھے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ کیرنگ میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ مبارک کرے آمین.میری طرف سے دوستوں کی خدمت میں السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ پہنچا کر یہ پیغام عرض کریں کہ سیدنا حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں اسلام غالب آجائے اور ہم ناچیز بندوں نے احمدیت کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس مقصد کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کیلئے ہمیشہ تیار رہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب دوستوں کے اخلاص میں برکت دے.اور اس عظیم عہد کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.(۹) جماعت احمدیہ کیرنگ کا یہ دوسرا جلسہ تھا جو کہ اپریل ۱۹۶۶ میں منعقد ہوا.اس میں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور علمائے سلسلہ نے شمولیت فرمائی.اسلام اور احمدیت کی حقانیت کے متعلق پُر مغز تقاریر ہوئیں (۱۰).15, 16, 17 اپریل 1966ء کو علاقہ جنوبی ہند کا تبلیغی و تربیتی دوره نظارت دعوۃ وتبلیغ کی ہدایت کے مطابق علماء کے ایک وفد نے کیا اور شہر مدراس کے تین مختلف اطراف میں کامیاب جلسے ہوئے (۱۱).26.04.66 جنوبی ہند میں جماعت ہائے احمد یہ حیدر آباد، سکندر آباد کے زیر اہتمام سہ روزہ کامیاب جلسہ میں غیر از جماعت احباب نے شرکت کی اور مقامی اخباروں میں اس کا تذکرہ ہوا.(۱۲) 5 مئی 1966ء کو جماعت احمد یہ سونگڑہ اڑیسہ کا جلسہ سالا نہ ہوا جس میں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور علمائے سلسلہ نے شرکت فرمائی اور ایمان افروز تقاریر ہوئیں.(۱۳) 26,25 جون 1966ء جماعت ہائے احمد یہ اتر پردیش کی دوسری دوروزہ صوبائی کا نفرنس لکھنؤ میں ہوئی اور اہم جماعتی امور کے متعلق فیصلے کئے گئے.(۱۴) حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے لکھنو کی کانفرنس کے بارے پیغام بھیجا کہ اللہ تعالیٰ اس کانفرنس کو کامیاب کرے اور اس کے بہترین نتائج برآمد فرمادے.میرا پیغام یہ ہے کہ قرآن سیکھیں اس پر عمل کریں اور زیادہ سے زیادہ اس کی اشاعت کریں.‘ (۱۵) 20 اکتوبر 1966ء کو جماعت احمدیہ قادیان کی دعوت پر آنریبل گورنر پنجاب جناب دھرم ویر
713 صاحب بہادر قادیان تشریف لائے.احمدیہ محلہ میں ممبران جماعت احمدیہ اور معززین شہر نے پر تپاک استقبال کیا.جناب گورنر صاحب کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا گیا جس کے جواب میں گورنر صاحب نے شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ نے گورنر صاحب کی خدمت میں قرآن مجید انگریزی اور دیگر جماعتی لٹریچر کا تحفہ پیش کیا.(۱۶) مورخہ 13 نومبر ایک بجے کے قریب چیف منسٹر پنجاب جناب گیانی گورمکھ سنگھ صاحب جماعت احمدیہ کی دعوت پر ضلع گورداسپور کا سرکاری دورہ کرتے ہوئے قادیان بھی تشریف لائے.احمد یہ محلہ میں اُن کا پُر تپاک استقبال کیا گیا.(۱۷) 26اکتوبر 1966 ء مولوی عبدالحق صاحب فضل مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے وادی کشمیر کی جماعتوں سری نگر ، شورت اور کنی پورہ کا کامیاب تبلیغی اور تربیتی دورہ کیا.(۱۸) 16,5,4 دسمبر بروز اتوار ، پیر، منگل جماعت احمد یہ بھارت کا قادیان میں 75 واں جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں ہندو پاکستان اور غیر ممالک کے دور دراز علاقوں سے شمع احمدیت کے پروانوں نے شرکت کی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس جلسہ کیلئے یہ پیغام ارسال فرمایا :.آج آپ قادیان کی اس مقدس بستی میں اسلئے جمع ہوئے ہیں کہ اپنے رب کے حضور جھکیں عاجزانہ دعائیں کریں کہ وہ غلبہ اسلام واحمدیت کے متعلق اپنے وعدوں کو جلد اور ہماری زندگیوں میں ہی پورا کر دے اور ہماری غفلتیں اور کوتاہیاں اس میں تاخیر کا باعث نہ نہیں.اے میرے عزیز درویشو ! اے اس پاک اور مقدس بستی کے مکینو! رب عزیز نے اپنے بے پایاں فضل سے ان بیوت مرفوعہ کو آباد رکھنے کی ایک ایسی خدمت تمہارے سپرد کی ہے کہ اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ نباہ لو اور بشاشت کے ساتھ ادا ئیگی فرض کی تلخیاں برداشت کر لو تو قیامت تک تمہارا نام رشک اور احترام سے لیا جائے گا اور آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی.آج ہمارا رب تم سے انتہائی ایثار کا مطالبہ کر رہا ہے تا وہ اپنے انتہائی فضلوں اور رحمتوں کا تمہیں وارث بنائے.‘(۱۹) 1967 کے دوران تبلیغی مساعی کے تحت جماعت احمد یہ یاد گیر نے گلبرگہ شریف میں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے عرس کے موقع پر جو 15 ذی قعدہ کو شروع ہوتا ہے ایک تبلیغی سٹال لگایا.
714 عرس کے آغاز سے قبل ہی سٹال قائم کرنے کیلئے خواجہ بازار کے احاطہ میں جگہ کرایہ پر لی گئی جہاں ایک خوبصورت سٹال کھڑا کیا گیا اور جس کے اندرونی جانب ایک نقشہ کپڑے پر اتروا کر آویزاں کیا گیا.جس میں جماعت احمد یہ بھارت اور عالمگیر جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی، مساجد مشن ہاؤسز اور تراجم قرآن کو دلآویز انداز میں بتلایا گیا تھا.اس سٹال میں جماعت احمدیہ کا لٹریچر، حضرت مسیح موعود کی بعض تصانیف اور قرآن کریم انگریزی ترتیب سے رکھا گیا تھا.چونکہ اس عرس میں ہزار ہا عقیدت مند شرکت کرتے ہیں لہذا کثرت سے لٹریچر تقسیم کرنے کا موقع ملا.(۲۰) 31 مارچ کو ہندی مارٹن انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز میں مکرم مولوی سمیع اللہ صاحب انچارج احمد یہ مسلم مشن بمبئی کو وحی والہام کے موضوع پر ایک کامیاب تقریر کا موقع ملا اس جلسہ میں کثرت سے مختلف مذاہب کے اہل علم احباب نے شرکت کی.(۲۱) یکم اپریل 1967 کو جمشید پور بہار جماعت احمدیہ کی مقامی شاخ انجمن احمد یہ جمشید پور کے زیر اہتمام ایک دوروزه جلسه سیرت پیشوایان مذاہب منعقد ہوا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے علماء نے اپنے اپنے پیشواؤں کی سیرت کے بارے تقاریر کیں اور اسطرح قومی یکجہتی کے ساتھ ساتھ جماعتی و قار کو بھی تقویت ملی.10 اپریل 1967ء کو اڑیسہ کی جماعتوں بھدرک اور سورو میں دو کامیاب جلسے ہوئے نہایت پُر مغز تقاریر ہوئیں اور دو بیعتیں بھی اسی موقع پر ہوئیں.(۲۲) 23,22 اپریل 1967ء کو ٹیلی چری کیرلہ میں گیارہویں آل کیرلہ احمدیہ کا نفرنس کا کامیاب انعقاد ہوا.اگر چہ اس جگہ کی فضا احمدیت کی مخالفت میں ہمیشہ مکدر رہی ہے.لیکن امسال کامیاب کانفرنس کے انعقاد کا موقع ملا ذیلی تنظیموں نے ہزاروں کی تعداد میں لٹریچر ملیالم زبان میں شائع کروایا اور پھر اس کو تقسیم کا انتظام کیا.(۲۳) پوری دنیا میں جماعت احمدیہ نے قرآنِ کریم کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا ہے.بھارت میں نظارت دعوت وتبلیغ قادیان کے تحت مکرم مولوی خورشید احمد صاحب درویش پر بھا کرنے دن رات محنت کر کے قرآن کریم کا ہندی ترجمہ مکمل کیا.(۲۴) 27 اگست کو یاڑی پورہ کشمیر میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا اور دو افراد نے بیعت کی اگست میں
715 شورت کنی پورہ کشمیر میں ایک کامیاب تبلیغی جلسہ ہوا اور 5 افراد نے بیعت کی.(۲۵) 10 ستمبر کو چک ایمر چھ کشمیر میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا اور 16 افراد بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے.(۲۶) جولائی میں قادیان سے وادی کشمیر میں مرکزی وفد نے تبلیغی و تربیتی کامیاب دورہ کیا اور 32 افراد بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے.(۲۷) یکم اور 2اکتوبر 1967ء جماعت ہائے احمدیہ کشمیر کا کامیاب و عظیم الشان صوبائی جلسہ ہوا مرکزی نمائندوں نے شمولیت کی.(۲۸) جلسہ سالانہ قادیان 1967ء کیلئے حضرت خلیفتہ امسح الثالث کا پیغام وو اے میرے عزیزو! میرے پیار و جو آج قادیان کی مقدس بستی میں جمع ہوئے ہو اللہ تعالیٰ آپکو اور ہم جملہ احمدیوں کو ہمیشہ صحیح اعتقاد پر قائم رکھے اور ایسے صالح اعمال کی توفیق دیتا چلا جائے جن میں کسی قسم کا کوئی فسادنہ ہو.اگر ہم واقعہ میں اور حقیقی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے بن جائیں ، اگر ہم واقعہ میں اور بچے طور پر دنیا کے خادم ٹھہریں، اگر ہماری عملی زندگی میں دنیا فی الحقیقت اسلام کے احسان کے جلووں کو موجزن پائے اور دیکھے، اگر اور جب حقیقتاً ایسا ہو جائے ، تب ہی تو دنیا اپنے رب کو پہچان سکتی ہے اور اس کا احسان اور معرفت حاصل کر کے اپنے دل اور اپنی روح کے ساتھ اس کے آستانہ پر جھک سکتی ہے.اس کے غضب سے بچنے کے قابل ہوسکتی ہے.پس اٹھو اور بیدار ہو جاؤ سستیاں ترک کردو اور کمر ہمت کس لو اور اپنی دعاؤں، اپنے علم ، اپنے عمل ، اپنے حسن سلوک اور اپنے ہمدردی اور غمخواری سے دنیا پر اسلام کے حسن اور اس کے احسان کے جلوے ظاہر کرو اور دنیا کے دل اپنے رب کریم کیلئے جیت لو (ra)...اور اپنے ربّ کے محبوب بن جاؤ.وعليه توكلنا وبه التوفيق.......(٢٩) 1968ء 21 رمضان المبارک 24 /دسمبر 1967ء کوکلکتہ سے تقریباً 37 میل کے فاصلہ پر ایک پر فضا مقام ڈائمنڈ ہاربر میں ایک مسجد احمد یہ حاجی پور کا سنگ بنیاد رکھا گیا.اس کے علاوہ اسی رمضان میں کلکتہ کی جماعت کو دو تعلیم یافتہ نو جوانوں کی بیعت کروانے کا موقع ملا.(۳۰)
716 علاقہ مالا بار میں مبلغین سلسلہ نے کامیاب تبلیغی دورہ کیا.شنکرن کو تیل شہر میں مخالفت کے باوجود پانچ افراد نے احمدیت قبول کی.(۳۱) علاقہ کیرالہ میں مبلغین سلسلہ نے کامیاب تبلیغی دورہ کیا مختلف مقامات پر تبلیغی جلسے اور لٹریچر تقسیم کیا گیا.(۳۲) مدراس میں عیسائی مشن کی کانفرنس ہوئی جس میں جماعت احمدیہ کے خدام کولٹریچر کی تقسیم کا موقع ملا.(۳۳) ۱۹۶۸ میں چمبہ ہماچل پردیش میں مرزا وسیم احمد صاحب کا تبلیغی و تربیتی دورہ.(۳۴) اکتوبر ۱۹۶۸ میں مسجد احمد یہ ابراہیم پور علاقہ بھرت پور ضلع مرشد آباد کا افتتاح ہوا.(۳۵) ۱۹۶۸ کے آخر میں شاہ جہانپور (یوپی) میں دو روزہ احمد یہ صوبائی کا نفرنس بخیر و خوبی منعقد ہوئی، علاقہ یوپی کے سینکڑوں احمدی نمائندگان نے شرکت کی.ڈیڑھ ہزار کے مجمع کو علماء سلسلہ نے خطاب کیا اور تبلیغ کا موقع ملا.تین بیعتیں بھی ہوئیں.(۳۶) 1969ء گزشتہ سالوں کی طرح ۱۹۶۹ ء میں بھی جماعت احمد یہ بھارت کی ان جماعتوں کو تبلیغی و تربیتی اجتماع و جلسے کرنے کا موقع ملا.صوبہ بنگال و اڑیسہ، یاد گیر، کیرلہ، مالا بار ، کالیکٹ ، کیرنگ، رشی نگر، کشمیر میں آسنور، کوریل، یاڑی پورہ ، چک ایمر چھ ، راٹھ یو.پی ممبئی میں اس قسم کے جلسے منعقد کئے گئے.اسی سال کے دوران حضرت مرزا وسیم احمد صاحب نے اُڑیسہ، علاقہ جنوبی ہند، وغیرہ کی جماعتوں کا تبلیغی و تربیتی دورہ کیا.تبلیغی مساعی کے تحت جماعت کو آل ورلڈ گورو نانک کنوشن اور بابا نانک کی پانچ سوسالہ تقریب میں شرکت کا موقع ملا.شیموگہ (میسورسٹیٹ ) میں مسجد احمدیہ کا افتتاح ہوا.(۳۷) 1970 ء کے دوران بھارت کی کئی جماعتوں کو تبلیغی و تربیتی جلسوں کے انعقاد کا موقع ملا.جماعت احمدیہ کیرنگ اُڑیسہ کا چھٹا کا میاب جلسہ سالا نہ ہوا.صوبہ بہار کی جماعتوں کا تبلیغی دورہ ہوا.کشمیر کی جماعتوں کا تبلیغی و تربیتی دورہ ہوا.رڑ کی ضلع سہارنپور میں اتر پردیش صو بائی کا نفرنس ، سری نگر احمد یہ صوبائی کا نفرنس چنتہ کنٹے سہ روزہ آل انڈیا احمدیہ کا نفرنس، رڑ کی جماعت یو.پی میں دو روزہ کانفرنس منعقد ہوئی.(۳۸)
717 ۱۹۷۰ء کے دوران حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے وادی کشمیر کی مختلف جماعتوں کا تبلیغی اور تربیتی دورہ کیا (۳۹).اور اسی سال حیدر آباد مسجد احمد یہ چنتہ کنٹہ کا افتتاح ہوا اور آل انڈیا صلى الله احمدیہ کا نفرنس کا انعقاد بھی ہوا.(۴۰) 1971 کے دوران بھارت کی مختلف جماعتوں کو جلسے اور اجتماعات منعقد کرنے کا موقع ملا.ان جلسوں میں یوم مسیح موعود اور یوم مصلح موعودؓ کے جلسے بھی شامل تھے.پاسگھاٹ میں آل کیرلہ احمد یہ کانفرنس ہوئی.شاستان کوٹہ ( کیولا ) میں جملہ مذاہب کی عالمی کانفرنس ہوئی ، سرینگر میں دو روزہ کامیاب کنونشن یوم مسیح موعود کی تقریب ہوئی.علاقہ مالا بار میں تبلیغی جلسے، جماعت احمد یہ مدراس، صوبہ اڑیسہ وادی پونچھے جلسہ سیرت النبی ﷺ ، حیدرآباد سونگھڑہ ( اڑیسہ ) سالانہ کا نفرنس منعقد کی گئی مختلف مقامات پر جلسہ ہائے یوم خلافت منعقد کئے گئے.پاسگھاٹ میں تبلیغی نمائش ، کیرنگ میں جلسہ سالانہ اور کلکتہ شہر یوم تبلیغ منعقد کیا گیا.سرینگر میں آل کیرالہ کشمیر احمد یہ مسلم کانفرنس ، امروہہ (یو.پی ) میں دو روزہ سالانہ کا نفرنس بہوہ ضلع فتح پور (یو.پی) میں تبلیغی جلسہ کا اہتمام کیا گیا.(۴۱) ۱۹۷۱ ء کے دوران حضرت صاحبزادہ مرزا اوسیم احمد صاحب نے حیدر آباد کا دورہ فرمایا اور احمدیہ جوبلی ہال حیدر آباد کا سنگ بنیا درکھا.جماعت احمد یہ یاد گیر میں بھی دورہ کیا.(۴۲) $ 1972 ۱۹۷۲ء کے دوران مندرجہ ذیل جماعتوں کو تبلیغی اور تربیتی جلسے کرنے کا موقع ملا.مدراس ، کالی کٹ کیرلہ میں جلسہ یومِ پیشوایان مذاہب ہوا، متفرق مقامات پر یوم سیح موعود کی تقریبات ہوئیں، متفرق مقامات پر جلسہ ہائے یوم مصلح موعود ہوئے ،موگراں ( مالا بار ) میں دو روزہ کامیاب صوبائی کا نفرنس ہوئی ، متفرق مقامات پر جلسہ سیرت النبی ﷺ کا انعقاد ہوا، سرگوڑ (کیرلا) میں احمدیہ انٹر نیشنل نمائش کا انعقاد علاقہ مالا بار میں تبلیغی جلسے ہوئے.ضلع بارہ مولاکشمیر کی جماعتوں کا تبلیغی و تربیتی دورہ اور 16 بیعتیں ہوئیں.موسیٰ بنی مائنز ( بہار ) میں دوروزہ کانفرنس ہوئی.مختلف مقامات پر جلسہ ہائے یوم خلافت کا انعقاد، صوبہ اڑیسہ کا دورہ ہوا، کیرنگ ( اُڑیسہ) کا جلسہ سالا نہ ہوا، سری نگر کشمیر کی دوروزہ کانفرنس ہوئی.فتح پور شہر میں دو روزہ صوبائی کا نفرنس ہوئی.جماعت احمد یہ کیرلہ کے تبلیغی جلسے ہوئے (۴۳).حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو امسال بہار کی جماعتوں
718 اور حیدر آباد بنگلور، یادگیر، سری نگر کشمیر کی جماعتوں کے دورے کا موقع ملا (۴۴).لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے قیام پر پچاس سال پورے ہونے پر قادیان میں ایک خصوصی تقریب منائی گئی.(۴۵) 1973 ۱۹۷۳ء کے دوران علاقہ کیرلا کا تبلیغی دورہ ہوا.کیرنگ اُڑیسہ کا9 واں جلسہ سالانہ ہوا.رانچی (بہار) میں احمدیہ تبلیغی کا نفرنس ہوئی، موسیٰ بنی مائنز میں جلسہ پیشیویانِ مذاہب کا انعقاد ہوا، علاقہ تامل ناڈو میں تبلیغ، بہار اور یوپی کی جماعتوں کا تبلیغی اور تربیتی دورہ ہوا.یو پی کی آٹھویں کامیاب کا نفرنس ہوئی.سری نگر کشمیر میں کامیاب کانفرنس ہوئی اور جلسے پونچھ ، راجوری میں ہوئے.(۴۶) ۱۹۷۳ء کے دوران حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے یوپی ، مدراس ، کشمیر کی متفرق جماعتوں کا دورہ فرمایا.علاقہ گوری دیوی پیٹ میں 9 افراد نے احمدیت قبول کی اور نئی جماعت کا قیام ہوا.(۴۷) 1974 کے دوران پہلی میں تربیتی اور تبلیغی جلسہ ہوا.علاقہ مری پیڈا کا تبلیغی دورہ ہوا، 12 افراد نے احمدیت قبول کی ایک نئی مسجد کا افتتاح ہوا اور نئی جماعت کا قیام ہوا.میلا پالم میں کامیاب جلسے ہوئے اور 2 نئی بیعتیں ہوئیں.ضلع تر و نیلویلی ( تامل ناڈو ) میں کامیاب تبلیغ ہوئی.آندھرا پردیش کی جماعتوں کا تبلیغی دورہ ہوا، کیرنگ کا دسواں جلسہ سالا نہ ہوا.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد کی شمولیت ، مدراس میں وسیع پیمانہ پرلٹر پچر تقسیم کیا گیا.مالا بار میں آل کیرلا کا نفرنس کا انعقاد ہوا.صاحبزادہ وسیم احمد صاحب نے اڑیسہ کا کامیاب دورہ کیا.کشمیر کی جماعتوں کا تبلیغی دورہ ہوا.میلا پالم میں دو روزہ کامیاب جلسہ ہوا.(۴۸) 1975 کے دوران پونچھ شہر میں کامیاب تبلیغ ہوئی اور 18 افراد نے احمدیت قبول کی (۴۹).تامل ناڈو میں مذہب، سائنس ، دہریہ کا نفرنس میں جماعت کے وفد کی شمولیت میلا پالم ( تامل ناڈو) میں دو روزہ تبلیغی اور تربیتی جلسہ ہوا.پونچھ میں دو روزہ احمد یہ مسلم کا نفرنس ہوئی جس میں صاحبزادہ مرز وسیم احمد صاحب بھی شامل ہوئے.اتر پردیش مظفر نگر میں دوروزہ کامیاب کانفرنس ہوئی.کیرنگ کا 11 واں جلسہ سالانہ ہوا.میلا پالم ( تامل ناڈو) میں نئے مشن ہاؤس کا قیام ہوا.صوبہ بنگال، اڑیسہ اور یوپی کا کامیاب تبلیغی دورہ ہوا.وادی پونچھ میں دلچسپ مباحثہ ہوا.جزائر انڈیمان میں تبلیغ احمدیت ہوئی.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے یاد گیر، تیما پور، بھاگلپور اور کلکتہ کی مختلف جماعتوں کا
719 کامیاب دورہ فرمایا.ناصر آباد کشمیر میں خدام الاحمدیہ کا پہلا اجتماع ہوا.میلا پالم میں دو روزہ کامیاب جلسہ ہوا.مغربی بنگال میں ایک نئی جماعت قائم ہوئی.جزائر انڈیمان میں جماعت کو تبلیغ کا موقع ملا.(۵۰) متعدد 1976 میں صوبہ بنگال میں 42 افراد نے احمدیت قبول کی (۵۱).صوبہ یوپی کی جماعتوں کا تبلیغی دورہ ہوا.ارکھ سٹینہ ( اُڑیسہ ) کی مسجد کا افتتاح ہوا (۵۲).مدراس میں تبلیغ ہوئی.پریگاری ( مالا بار ) میں مسجد کا افتتاح ہوا.کیرلا کی سالانہ کا نفرنس ہوئی.پونچھ کی تیسری کا نفرنس ہوئی.کیرنگ اُڑیسہ کا12 واں کا میاب جلسہ ہوا.یوپی کی دسویں سالانہ کا نفرنس ہوئی.آسنور ( کشمیر ) میں خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع ہوا.آل کشمیر خدام الاحمدیہ کا دوسرا سالانہ اجتماع ہوا.وادی کشمیر کی مختلف جماعتوں میں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے دورہ فرمایا.جنوبی ہند اور رگوا کا تبلیغی دورہ ہوا.آل بنگال احمد یہ مسلم کا نفرنس ہوئی، علاقہ لداخ کا تبلیغی دورہ ہوا.موسیٰ بنی مائنز میں جماعت احمدیہ کا دوروزہ کامیاب جلسہ ہوا.(۵۳) 1977 کے آغاز میں حضرت الحاج مولا نا عبد الرحمن صاحب فاضل جو امیر مقامی و ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ قادیان تھے اچانک دل کا شدید دورہ پڑنے سے 20, 21 جنوری کی درمیانی رات وفات پاگئے.اِنَّا لِله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حضرت صاحبزادہ مرز وسیم احمد صاحب کو امیر مقامی و ناظر اعلیٰ مقررفرمایا (۵۴).۱۹۷۷ء میں متفرق جماعتوں میں یومِ مسیح موعود اور یوم مصلح موعود حسب سابق نہایت احترام سے منائے گئے.جلسہ سیرت النبی ﷺ بھی کثیر جماعتوں میں ہوئے.بنگال میں مجلس خدام الاحمدیہ صوبہ اُڑیسہ کا تیسرا اجتماع ہوا ، مدھیہ پردیش میں جماعت کی پہلی صوبائی کا نفرنس ہوئی.اٹاری میں بھی پہلی کانفرنس کا انعقاد ہوا.کیرنگ کا 13 واں جلسہ سالانہ ہوا.کیرالہ کی سالانہ کا نفرنس ہوئی.مختلف مقامات پر جلسہ ہائے یوم خلافت کا بھر پور طریق سے انعقاد ہوا.اطفال الاحمدیہ اُڑیسہ کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا.یاد گیر میں یوم تبلیغ اور تربیتی جلسہ ہوا.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے حیدر آباد کا دورہ فرمایا.لکھنو میں یو پی کی گیارھویں سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہوا.ایک امریکن عیسائی ڈاکٹر بلی گرام نے دورہ ہند کیا.صدر جماعت نے روحانی دعوت پیش کی.(۵۵) صلى الله
720 احمد یہ 1978 کے دوران اُڑیسہ خدام الاحمدیہ کا چوتھا کامیاب سالانہ اجتماع ہوا.اطفال الاحمدیہ کیرنگ کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا.ظہیر آباد ( آندھرا) میں تبلیغی جلسہ ہوا.کلکتہ میں دوسری آل بنگال احمد یہ مسلم کا نفرنس کا انعقاد ہوا.محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے بھی شرکت کی.صوبہ بہار کی یہ مسلم کا نفرنس بھاگلپور میں ہوئی.کیرلہ کی 21 ویں سالانہ کا نفرنس ہوئی.خدام الاحمد یہ صوبہ بہار کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا.آل اُڑیسہ اطفال الاحمد یہ دوسرا سالانہ اجتماع ہوا.کشمیر چارکوٹ میں دو روزہ کا نفرنس اور پونچھ میں تبلیغی جلسہ ہوا.آل کشمیر ساتویں کامیاب سالانہ کا نفرنس ہوئی.خدام الاحمدیہ مرکز یہ بھارت کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا.امروہہ میں یوپی کی بارھویں سالانہ کا نفرنس ہوئی مدراس میں احمد یہ دار التبلیغ کا افتتاح ہوا.جماعت احمد یہ چندا پور کا سالانہ اجتماع ہوا.1979 میں لجنہ اماءاللہ حیدر آباد و سکندر آباد کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا (۵۶).آل اُڑیسہ خدام الاحمدیہ کا پانچواں سالانہ اجتماع ہوا (۵۷).کلکتہ بک فیئر میں جماعت احمدیہ کا تبلیغی بک سٹال لگایا گیا اور اعلیٰ پیمانے پر تبلیغ واشاعت اسلام کا موقع ملا (۵۸).جماعت احمد یہ کیرنگ کا پندرھواں کا میاب جلسہ سالانہ ہوا (۵۹).آل بنگال احمد یہ مسلم کا نفرنس کا کلکتہ میں شاندار انعقاد ہوا.(۲۰) مسجد احمد یہ بھا گلپور میں توسیع ہوئی اور وسیم نئے دار التبلیغ کی تعمیر ہوئی (۲۱).سرینگر کشمیر میں آٹھویں سالانہ کا نفرنس ہوئی (۶۲).صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلی دورہ کیلئے حیدر آباد تشریف لے گئے (۶۳).صوبہ آسام کا پہلا کامیاب تبلیغی دورہ ہوا (۶۴).صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے علاقہ یاد گیر کا دورہ فرمایا (۶۵).خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ بھارت کا دوسرا مشتر کہ سہ روزہ سالانہ اجتماع ہو (۶۶).آل بہار احمد یہ مسلم کا نفرنس کا انعقاد ہوا (۶۷).محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے کلکتہ کا تبلیغی اور تربیتی دورہ فرمایا.(۶۸) 1980 کے دوران بھی یوم مصلح موعود، یوم مسیح موعود اور یوم خلافت مختلف مقامات پر جماعتوں نے نہایت عقیدت سے منائے (۶۹).اور اس سال کلکتہ، صوبہ اڑیسہ، آندھر پردیش، رومان (اندھرا) کیرنگ، مدراس ، شیموگہ، بہار بنگلور، گٹیاری شریف صوبہ بنگال، علاقہ پونچھ کشمیر، سرینگر میں مختلف اجتماعات اور جلسے منعقد ہوئے (۷۰).ذیلی تنظیموں انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ و ناصرات الاحمدیہ کے اجتماعات اور جلسے متفرق جماعتوں میں ہوئے.(۷۱)
اشاریہ جلد سوم (مرتبه: مکرم فهیم احمد خالد صاحب) 1 ------ ۱۷ M اسماء مقامات کتابیات
۶۹۱ ۳۶۶ ง ۷۹ ۳۴۷ ۵۴۷ ۱۳۸ ۵۰۳ ۶۸۷ ۳۵۸ اسماء ۳۹۷ ،۳۵۹ ،۱۱۸ ۸۷ ۵۵۵،۵۵۲ ۱۳۰ ۳۲۳ ابوبکر کو یا.فنی ابو جعفر ابولحسن علی ندوی.دیکھیں علی ندوی ، ابوالحسن اتالو کیوسی (اسپرانٹو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا ) اتالیق شاه احتشام الحق تھانوی احتشام نبی احمد بن حنبل ، حضرت ۶۸۹ ۵۱۶،۴۶۳ ،۴۳۳ احمد تورے احمد رضا خان بریلوی احمد حسن سردانی احمد خان ،سرسید آدم علیہ السلام ، حضرت آر اے.باری آفتاب احمد، جسٹس آفتاب احمد ، ڈاکٹر آفتاب احمد ابراہیم.کراچی کے پرائمری پاس مولوی ابراہیم علیہ السلام.حضرت ۳۲۱ ۳۹۸ ،۳۹۷ ،۳۱۹۷۲ ۴۲۶ ۷۵۲ ابراہیم ، حضرت.رسول کریم ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم سینفوما (Senfuma).یوگنڈا ابراہیم سیالکوٹی.مولوی ۵۸۹ ۶۳۰ ابراہیم کا نکلو (Kankoo) زائرے کے پہلے احمدی احمد رضا قصوری.رکن اسمبلی ابراہیم عباس فضل اللہ.سوڈانی احمدی ابراہیم ما.سنگا پور ۶۶۹ ،۴۱۰،۲۸۸،۲۸۷،۲۸۳ ۵۵۲،۵۱۱،۵۴۰،۵۲۳،۵۰۰،۴۲۰ ۴۳۶،۴۳۴ ،۷۸۸۸ ۲۵۹ ۲۸۲ ۵۲۰ ۳۷۲ 22 ۲۸۵ ۳۲۹ ۳۷۲ احمد شہید.حضرت سید احمد سعید احمد علی.قریشی اختر حسین ملک، جنرل اسحق علیہ السلام ، حضرت اسد اللہ خان.چوہدری اسرار احمد خان.شہید ٹوپی ۳۵۶ ۲۵۱ ۲۵۳ ابن تیمیہ، علامہ ابن رشید ابن عربی.حضرت محی الدین ابوالعطاء جالندھری.مولانا ۴۱،۳۵، ۱۶۱،۷۶،۵۳، ،۲۳۰ ۶۹۰،۶۷۲،۵۸۸ ،۳۳۰،۳۱۷ ،۳۰۸،۳۰۶ ابوبکر ، حضرت ۲۴۱، ۳۵۹، ۳۶۵، اسلم اسد اللہ خان قومی اسمبلی کے سیکریٹری ابوبکر ابو ڈو گے کو کوئی (Idogbe Kokoyi) ، الحاج ۶۴۱ اسلم قریشی کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ایک فورمین ابوبکر.تنزانیہ اسماعیل علیہ السلام، حضرت
امتہ الحفیظ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،صاحبزادی حضرت سیدہ ۷۱۸ ۲۶۱ ۲۵۸ ۵۱۵ ،۱۰۲ ۶۵۲،۱۰۳ ۲۳۷ امیر زید.عراق کے بادشاہ کے چھوٹے بھائی امیر حمزہ رضی اللہ عنہ امیر علی ،سید امین اللہ سالک لائبیریا کے امیر جماعت اور مشنری اندرا گاندھی.بھارت کی وزیر اعظم انڈریس فیبرکیسر ۴۳۶،۴۳۴ ۱۳۸ ۳۲۵ ۴۰۴ ۱۹۲ ۵۲۰،۳۹۴ ۹۲ انس، حضرت انس احمد.صاحبزادہ مرزا ۵۱۵ ۲۸۳ ۵۹۲ (Mr.Andreas Faber Kaiser) ۳۷۳ ۳۵۲ ۲۱۲ ،۱۲۱ ۲۸۳ ۶۳۷ انوار احمد خان.ڈاکٹر.گیمبیا میں نصرت جہاں سکیم کے تحت ۲۳۴ ٹی ٹی اینڈ میڈیکل سینٹر کا آغاز کیا انوار الحق جسٹس (چیف جسٹس) ۱۳۴ ۵۶۳ ۴۹۳ ۴۹۹ او بوٹے (Obote)، یوگنڈا کے وزیر اعظم ۵۷۱ ایودرمہ.انڈونیشیا کی ایک مخلص احمدی خاتون ۶۶۷ ایس.او.بکری.نائیجیر یا جماعت کے پریذیڈنٹ ۸۲،۸۱ اے.اے.ابیولا (Abiola) ، الحاج ۸۷ ۵۶۳ اے اے کیرے مینٹنگ (A.A.Kyere ۹۶ Mantang) یونیورسٹی کے چیئر مین ایس.اے.سعید.غانا میں پاکستان کے سفیر ۱۳۰ ایف ایم حسنین، پروفیسر.ہندوستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ ۵۹۱ ایف.ایم.سنگھاٹے.الحاج.گورنر جنرل گیمبیا ۱۰۵ ۵۲۷ ۶۷۵ ایما ڈنکن Emma Duncan ایم حسن.سری لنکا کے پریذیڈنٹ ایم ایم احمد دیکھیں مظفر احمد ، مرزا ۴۶۵ 17.۳۱۰ ۳۹۳ ۶۱۱ ۸۷ ۳۰۸ ۱۳۲ اسماعیل شہید ،مولوی اسمعیل و سیم اشرف علی اشرف علی تھانوی افتخار ستاری افتخار جنجوعہ، جنرل افریفا ، برگیڈیئر.غانا کے صدرمملکت افضال ربانی افضل.شہید گوجرانوالہ افضل سعید.وزیراعظم بھٹو کے سیکریٹری اقبال احمد ، رانا.حکومت کے ریو نیومنسٹر اقبال احمد غضنفر اقبال احمد ڈاکٹر.نشتر ہسپتال کے Casuality Medical Officer اقبال، ڈاکٹر ، بارایٹ لائی اقبال، علامہ اکتو دان مسٹر.ہالینڈ میں رہنے والے دس ہزار ترکوں کے امام اکرم، جسٹس اکمل.قاضی اللہ داد.گھوڑوں کے سائس اللہ وسایا الطاف قادر، لیفٹیننٹ جنرل الطاف قدير الیاس.الحاج الیاس قومی اسمبلی کے سیکریٹری جنرل امتیاز احمد.ڈاکٹر.ایک ماہر سرجن
۸۲ بکری.لیگوس کی جماعت کے پریذیڈنٹ ۷۲۰ اے وان اگٹ ،مسٹر.ہالینڈ کے وزیر اعظم ایوب علیہ السلام، حضرت ایوب ، میجر.رکن اسمبلی ایوب احمد خان.سکاٹ لینڈ ۳۸۵ ۱۹۷ ، ۱۹۶ ۱۹۵ ۶۷۳ بلوس ما مسٹر ہالینڈ میں بدھوں کے لیڈر بلی گرام ، ڈاکٹر بوسیری (Busari) از اجیبوا وڈے ایوب خان.سابق صدر پاکستان ۱۴۴، ۱۴۸ ، ۱۹۸ ، ۵۲۰ بنجا تیجان سی ، Banja Tejan Sie) جزل سیرالیون کے قائم مقام گورنر ۷۰۳ ۸۷ ۱۰۸ ہونگے.الحاج.مینڈے زبان میں حضور کی تقریر کا ترجمہ کیا.۱۱۳ بندہ نواز گیسو دراز ، حضرت خواجه ۶۹۷ بنگورا یمنی زبان میں حضور کی تقریر کا ترجمہ کیا ۱۱۳ بہادر شاہ ظفر ۵۴۳،۵۱۶،۴۶۴ بھٹو دیکھیں ذوالفقار علی بھٹو ے نظیر بھٹو ۵۶۷ بی.کے.آدما(B.K.Adama).غانا کے وزیر مملکت ۱۰۲ ،۹۲ ،۹۰ پاروجرز.بو.سیرالیون کے ایک پرانے احمدی ۱۱۴ پرسی کوکس (Percy Cox).برطانیہ کی نمائندہ ۲۵۰ ۱۱۹ ۵۶۶ تاثیر تا رایح ستا شیر مجتبی سید تجمل حسین ہاشمی.پاکستان کی طرف سے اوقاف کے فیڈرل سیکر یٹری ۲۵۷،۲۵۶،۲۴۸،۱۸۷ ۶۸۰ ۳۹۱،۳۹۰ تنویر احمد ڈار تیجا سنگھ ، جسٹس ۵۴۴ ۶۶۸ با یوروڈ (Byroade).امریکہ کے سفیر بشارت احمد امروہی ، مولوی بشارت احمد بشیر.مولانا ۹۵ ، ۱۱۲ ، ۶۵۱،۱۳۷، ۶۵۱،۶۰۲، ۶۶۴،۶۶۳ ۶۰۲ ۴۱۸ ،۱۶۲ ،۵۲ ۲۸۴ ۶۷۳،۶۷۲ ۶۳۵ ۶۸۰ ،۳۹۱،۳۹۰ ۱۷۹ بشارت الرحمن ،صوفی بشیر احمد.حضرت مرزا بشیر احمد.شہید گوجرانوالہ بشیر احمد آرچرڈ بشیر احمد اختر مشنری انچارج کینیا بشیر احمد شمس ، سابق مبلغ جرمنی بشیر احمد شیخ.جماعت احمدیہ کے نمائندہ بشیر احمد خان ، چو ہدری.مجلس صحت کے پہلے صدر ،۵۱۴ ،۱۶۱،۷۹ ۶۸۴ ،۵۹۲ ۱۳۰ ۶۸۹،۶۳۸ ۶۷۹ ۶۳۸ بشیر احمد خاں رفیق.مبلغ انگلستان بشیر احمد خان.ڈاکٹر بشیر الدین عبید اللہ ،حافظ، مربی سلسلہ بشری احمد نیشنل صدر سویڈن بشری حنیفہ اہلیہ داؤ داحمد حنیف - گیمبیا کی پہلی صدر لجنہ
۳۶۳ ۶۷۹،۶۷۸ ۳۲۸ ۹۹ حامد رضا خان حامد کریم حاکم علی فیکٹری ایریار بوہ حسن التہامی دیکھیں محمد حسن التهامی ۶۱۵،۴۶۴ ۴۰۳ ،۳۹۸،۳۹۷،۳۹۶،۳۹۵ ۲۷۵ ۵۶۳ ۲۵۸ ۳۹۳ ۳۷۳ ،۲۷۴ ،۲۳۰ ۶۸۴ ،۶۸۰ ¿ حسن عطا.الحاج حسن نظامی، خواجه حسین ،حضرت حفیظ کاردار حلیم،جسٹس حمزہ رضی اللہ عنہ ، امیر حمود الرحمن جسٹس حمید اللہ.چوہدری حیدر علی ظفر خالد قریشی ۶۸۰ خلیل الرحمن فردوسی.ڈاکٹر ۱۳۶ خورشید احمد.صاحبزادہ مرزا ۴۷۴ ،۳۳۳ ،۲۷۴ ، ۱۲۱ خورشید احمد صاحب درویش پر بھا کر ، مولوی ۶۹۸ ۶۸۶ ۴۱۳ ۵۷،۵۳ داوت دا وتی (Mr.Daut Dauti) داؤد علیہ السلام.حضرت داؤد احمد.میرسید تیجان با بوکرفون (Tijan Baboucarfoon) ۶۳۷ تیجانیا آکو بو (Tijania Akubuo) تیرو در یسا ٹ،ت طب مین.لائبیریا کے صدر ٹکا خان.جنرل ٹی ایچ ہاشمی دیکھئے تحمل حسین ہاشمی ٹی بی فون مسٹر ج ، ج ۶۴۱ ۶۸۷ ۱۰۳ ۲۸۰ ۱۰۵ ۲۶۲ ۵۸۱ ۱۵۳ ۱۵۹ ۳۶۳ جارڈن.مسٹر جان نو ووٹنے (Mr.John Novotnay) ۶۸۹،۵۷۳ ،۵۷۲ ۶۶۹ ۴۲۴ ۶۸۸ ۶۸۰ ۲۳۷ ۴۲۰،۳۶۰ ۳۱۰،۳۰۹ ۵۶۳ جانباز مرزا جاوید اقبال جماعت علی شاہ ، سید جلال الدین قمر ، مولانا جلال الدین شمس، مولانا جلال الدین السیوطی جمال احمد جواد علی شاہ ، سید جواہر لال نہرو.پنڈت جہانگیر علی ، چوہدری جے اے رحیم چوہان جسٹس
۳۲۷،۳۲۶ راشد حسین ۱۳۴ ،۱۰۵ ۵۷۷ رفیق احمد ثاقب کا نو میں سیکنڈری سکول کا آغاز کیا ۱۳۷ ۵۸۲ رشید احمد نیشنل پریذیڈنٹ امریکہ ۵۸۲ ۴۱۶،۴۱۱،۳۹۷،۳۶۴ ،۳۵۸ ۶۸ رشید احمد گنگوہی رشید الدین.چوہدری رضوان عبد اللہ ، سوڈان سے ایک طالب علم ۶۶۹ رفیع رضا.بھٹو کے دور میں وفاقی وزیر اور ان کے قریبی معتمد ۷ ۱۸، ۵۴۷،۵۴۶،۵۴۵۰۵۴۴،۵۴۳ ،۵۴۱ رفیع الدین، کرنل ۵۶۴،۵۶۳،۵۵۷،۵۵۶،۵۳۴،۵۲۰ روڈولف ٹیفس (Rudolf Tefs) رئیس احمد جعفری ریاض ۵۶۹،۵۶۵ ۵۴ ۲۶۰ ۳۲۶ ۵۷۳،۵۷۲ ۶۴۱ ۶۸۹ ۱۴۰ ۳۳۲ ۵۶۹ ۴۰۲ ۴۱۶،۴۱۵،۴۱۱ ۱۲۳ زکر یا کزیٹو زکریا، نائیجیریا کے مقامی مبلغ زین العابدین شاہ، سید س ۶۳۸،۶۳۷ ۵۶۳ داؤد کے جوارا.گیمبیا کے صدر داؤ د احمد.ڈاکٹر.لندن داؤد نامی شخص.امریکہ داؤ د احمد حنیف مبلغ سلسلہ گیمبیا دراب پٹیل، جسٹس دوست محمد شاہد، حضرت مولانا دولتانہ.دیکھیں ممتاز دولتانہ ، میاں“ دھرم ویر بہادر.گورنر پنجاب بھارت ۳۳۰،۳۱۷،۳۰۸،۳۰۶ ۶۹۷،۶۹۶ ۵۳۱،۴۹۰ ڈگلس ، ڈپٹی کمشنر ، حج ذوالفقار علی بھٹو ۱۸۶،۱۸۵،۱۵۶،۱۵۵،۱۵۴،۱۴۶،۱۴۵، ۲۴۱،۲۴۰،۲۳۷ ، ۱۹۹ ، ۱۹۳ ، ۱۹۲ ،۱۸۹ ،۱۸۸،۱۸۷ ،۲۹۲ ،۲۸۸،۲۸۶،۲۷۵،۲۷۳ ،۲۴۶،۲۴۵ ،۲۴۲ ،۳۱۳ ،۳۱۲،۳۱۱،۳۱۰،۳۰۴ ،۳۰۳ ،۳۰۰،۲۹۸ ،۲۹۳ ،۵۱۷،۵۱۱،۵۰۰،۴۵۸ ،۴۴۶،۳۴۴ ،۳۱۵،۳۱۴ ۵۳۱،۵۲۷،۵۲۶،۵۲۵،۵۲۴ ، ۵۲۳ ،۵۲۱،۵۲۰ ،۵۴۶،۵۴۵،۵۴۴ ،۵۴۳ ،۵۴۲ ،۵۴۱،۵۴۰،۵۳۳ ۷ ۵۵۴،۵۵۳،۵۵۲،۵۵۱،۵۵۰،۵۴۹،۵۴۸،۵۴، سائیکاسٹیونز ، ڈاکٹر ۵۵۸،۵۵۷۰۵۵۶،۵۵۵ ،۵۶۱،۵۶۰ تا ۶۱۷،۵۶۹ سپیٹ (spate) پروفیسر سجاد علی بخاری سردار محمد حکیم سعد اللہ لدھیانوی سعید ، ڈاکٹر.کا عور ( گیمبیا) ۵۱۵ ذیشان حیدر جوادی، سید
شاہ احمد نورانی.جمعیت العلماء پاکستان کے صدر ۱۸۶، ،۳۷۹،۳۵۹،۳۴۶،۳۴۱،۳۳۳ ،۳۰۱،۲۸۷ ،۱۹۹ ،۵۴۷،۵۲۵،۴۸۸،۴۸۷، ۴۰۸،۳۹۹ شاہ محمد قادری.سید ۲۶۵،۲۵۹ شبیر احمد چوہدری شبیر عثمانی مولوی ۳۷۰،۳۵۶،۲۶۱،۲۵۹،۲۵۸ شریف احمد ، امینی انچارج احمد یہ مسلم مشن کلکتہ ۶۹۴ شریف حسین.حجاز کے حاکم ۲۵۲،۲۵۱،۲۵۰،۲۳۸، ۴۹۸،۲۵۸ ٣٣١ ۱۳۶ ۲۶۰،۲۵۹ ۶۷۸ ،۶۷۷ شفیق.ونگ کمانڈر.اسلام آباد شکیل احمد منیر.ڈاکٹر شعیب قریشی شعیب موسیٰ شعیب.سویڈن شمشیر سوکیه ۶۸۶ شورش کاشمیری ، آغا.رسالہ چٹان کے ایڈیٹر ۱۵۳،۱۵۲، ۵۲۵،۲۷۳ ،۱۶۰،۱۵۹ ۳۰۱،۱۸۶ 21° ۲۵۹ ۳۰۱ شوکت حیات.سردار شوکت سید ، ڈاکٹر جنرل شوکت علی.مولانا شیر باز مزاری ۱۰۵ ۲۸۲ ۶۶۱،۶۶۰ سعید احمد.ڈاکٹر سعید احمد خان سعید عمر درویش سلطان احمد.حضرت مرزا سلطان احمد پیر کوئی.مولانا ۵۱۲ ،۴۹۱،۲۲،۲۱ ۶۸ سلطان احمد شاہد ۶۸ سلطان احمد ڈاکٹر مرزا (مصنف کتاب هذا) ۵۰۹،۴۴۶،۲۹۶، سلطان محمود انور.مولانا سلطان محمود شاہد.پروفیسر ڈاکٹر ۵۱۲،۵۱۱ ۱۶۳ ۵۱۴ سلمان تاثیر سلمان ندوی.سید سلیمان علیہ السلام، حضرت ،۵۶۹،۵۶۰ ،۲۶۴،۲۶۱،۲۶۰،۲۵۹ ۳۸۵،۱۸۱ ۵۷۲ سلیمان ، حاجی.مسلم سپریم کونسل کے چیئر مین سلیمان، ملک ممبر قومی اسمبلی سلیمان مو آنجے صاحب (Mwanje).یوگنڈا ۴۸۶ ۵۷۳ ۵۷۵،۵۷۴ ۵۷۲ ۱۴۱،۱۲۱ ۹۷۹ ۶۹۸ ۶۷۹ ۲۳۰،۲۶ سلیمان مولومبا (Mulumba).یوگنڈا سمیع اللہ سیال سوین ہنسن.ڈنمارک کے پہلے زعیم اعلیٰ سمیع اللہ ، مولوی.انچارج احمد یہ مسلم مشن بمبئی سمیع اللہ زاہد سیف الرحمن.ملک سیکر وداود (Sikirou Dauda) بینن کے ایک باشندے ش صالح یوسف اچھا.ماریش کے ایک احمدی دوست ۶۳۰ ۶۶۰ ۶۴۷
صدیق آدم.آئیوری کوسٹ صدیق حسن خان.نواب ۶۸۷ ۴۲۹،۴۲۸،۲۵۵ ۶۶۰ ۵۶۳ ،۵۶۰ صدیق احمد منور.مربی انچارج ماریشس صفدر شاہ ،جسٹس صدانی جسٹس.سابق حج پنجاب ہائی کورٹ جنہیں ۱۹۷۴ء طاہر نفیس.لندن طاہر احمد بخاری.کینیڈا کی جماعت کے پریذیڈنٹ ۲۱۲ ۸۳۳ طاہرہ صدیقہ سیدہ اہلیہ حضرت خلیفہ المسح الثالث ۷۱۱،۷۰۹ خلیفۃالمسیح 2112+9 طفیل محمد میاں.جماعت اسلامی کے امیر ۲۰۱،۱۹۹،۱۹۵، میں انکوائری ٹربیونل میں مقرر کیا گیا تھا.۱۸ ، ۲۷۵ طرزک.پولینڈ ۵۴۸،۲۹۷،۲۹۶،۲۹۵ ۶۸۵،۶۸۴ b ظفر انصاری ایم این اے، مولوی ۵۰۲،۴۷۰،۴۱۰،۳۳۱، ۵۰۷،۵۰۶،۵۰۴ ۵۹۱ ۲۶۱،۲۵۹ ظفر چوہدری ، ایئر مارشل ظفر علی خان ظہور احمد باجوہ، چوہدری ناظر امور عامه ۸۲، ۱۰۸،۱۰۳، ۴۷۴ ،۱۲۱ ۱۲۱ ظہور احمد چوہدری ناظر دیوان ظہور الہی چوہدری مسلم لیگ کے ممبر اسمبلی ۲۸۲، ۲۸۳ ،۴۲۴ ،۴۰۴ ۶۵۱ ۶۷۹ ۲۶ ۶۴۵ ۶۶۷ ۵۰۳ ۲۵۹ عائشہ ، حضرت ۲۸۱،۲۸۰ ض ،۲۷۹ ضیاء الحق.جنرل ۲۹۱، ۳۲۵، ۳۲۷، ۳۸۹،۳۳۲ ۵۶۵،۵۶۳ ،۵۵۶،۵۵۱ ،۱۰۴ ،۱۰۳ ،۸۶ ۳۲۵ ۱۵۳ ،۵۵۰ ضیاءالدین ڈاکٹر ضیاءالدین ڈاکٹر.کانو ( نائیجیریا) ضیاءالدین ارشد شہید.ماسٹر راجہ ضیاء القاسمی b طارق بن زیاد طارق محمود جاوید طاہراحمد.۶۸۴ ۵۱۴ عائشہ پٹ.جنوبی افریقہ عائشہ.ڈینش خاتون ، صدر لجنہ ڈنمارک عبدالباسط مبلغ تنزانیہ طاہر احمد حضرت مرزا خلیفہ مسیح الرابع ۵۳،۲۶، ۱۴۶،۱۳۵، عبدالباسط شاہد ۴۴۶۳۴۶۳۳ ۰۳۱۷۳۰۶۲۴۰۲۳۹۲۰۶۲۰۵ ۱۹۱ ۷۱۲،۶۱۱۷۶۰۹،۶۰۵،۶۰۱،۵۱۱، ۷۱۴ عبدالباسط انڈونیشین مبلغ طاہر محمود ڈاکٹر.مسنگبی (Masingbi) سیرالیون کے عبد التواب عبدالحلیم عبد الحفیظ پیرزاده ۱۸۵ ، ۷ ۱۸، ۱۸۹، ۳۰۰،۲۹۷، ۱۳۲ ۱۳۵ پہلے ڈاکٹر طاہر احمد ڈاکٹر.بھے گیمبیا کے بانی ڈاکٹر
۶۲۰،۹۸ ۵۷۲ 927 ۶۹۴ ۵۱۹ ۵۹۲،۵۹ 1+2 ۳۲۸ ۶۵۹ عبدالرحیم نیر، حضرت مولانا.غانا کے پہلے مبلغ عبد الرزاق موٹو وو (Matovu) شیخ.یوگینڈا کے چیف قاضی عبد الرؤف خان ، ڈاکٹر عبد الرؤف صاحب ساقی، شیخ عبد الستار نیازی عبدالسلام میڈیسن.ڈینش احمدی عبد السلام ( سیرالیون میں حضور نے ایک شخص کا نام رکھا) عبد السلام زرگر، میاں ربوہ عبد الرزاق محمد - ماریشش عبد الشکور، چوہدری عبدالشکور، ڈرائیور عبد الرشید رازی ۶۶۵،۶۶۳،۶۵۳ ،۶۳۸،۱۲۱ ۷۱۲ عبدالرشید چوہدری ، سابق پروفیسر انجینئر نگ یونیورسٹی عبدالعزیز بیولا.نائیجیریا کے نیشنل پریذیڈنٹ ۶۸۷ ۱۸۳ ۶۱۸ عبدالعزیز بن عبد الرحمن ابن سعود.۱۹۱۰ء میں مسجد کے فرمانروا ،۲۶۱،۲۵۹،۲۵۸،۲۵۲،۲۵۱۰۲۵۰، ۲۴۴ ،۲۴۳ ۲۶۴،۲۶۲ ۳۰۵ ،۵۵۶،۵۴۴ ،۵۴ ۱،۵۲۳ ،۵۲۲ ،۴۱۱،۳۳۳ ،۳۱۵ ،۵۶۸،۵۶۵،۵۶۴ ۶۹۱ ۶۹۷ ۶۷۲،۶۷۱ ۹۸ ۳۴۹ عبدالحق ، پادری عبد الحق فضل مولوی مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ - عبد الحکیم الکل عبد الحکیم جوزا عبد الحکیم خان عبد الحکیم ڈاکٹر عبد الحليم ۳۷۴ ،۳۷۳ ،۳۷۲ ۲۵۹ ۶۸۷،۶۴۹ ۶۳۲ ۶۴۵،۶۴۴ ،۶۴۳ ۴۸۸،۴۵۵،۴۰۱۳ ۱ ۶۹۵ ۵۱۵،۳۵۸ ۵۳۴ ۱۳۵ ۵۹۰ عبدالحمید.برکینا فاسو عبدالحمید، ڈیٹن کے مبلغ عبد الحمید میجر، مبلغ جاپان عبدالحمید جتوئی عبدالحمید عاجز، شیخ عبدالحی ، مولوی عبدالحی ،سید عبدالرحمن بھٹہ، ڈاکٹر عبد الرحمن قادیانی،حضرت بھائی عبد الرحمن جٹ ،حضرت مولوی.امیر جماعت قادیان ۷۷، عبد العزیز بھٹی ممبر قومی اسمبلی ۳۴۶، ۳۷۱،۳۴۷ ،۳۹۸ ۷۰۳ ،۶۹۷،۶۵۹،۶۹۳ عبد الرحمن تنکو.ملائیشیا عبد الرحمن قریشی عبد الرحمن کو ناتے ۲۴۶ ۶۷۵ YAZ عبدالرحیم بکری جسٹس.نائیجیریا کے ایک مخلص احمدی اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے جج عبدالرحیم درد ، مولانا ۱۳۵،۸۷،۸۱ ۲۶۲،۲۶۱ ۴۵۵،۴۱۰،۳۹۸،۳۴۶،۴۵۵ ،۴۱۰ ۶۴۷ عبد العزیز تاج الدین مبلغ بینن عبدالعزیز خلیفہ.کینیڈا جماعت کے نیشنل پریذیڈنٹ ۶۲۰ ۶۳۳ عبد العزیز دہلوی مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ، مولاناشاہ ۵۱۵
۵۱۵ عبد الماجد، شیخ عبدالمجید.حضرت شہزادہ.صادق لائبریری قادیان کے لائبریرین ۲۱ ۹ ۸۷ ۵۲۰ عبد العزیز ہبیرو (Habiru) از کانو عبد العلی ملک ، میجر جنرل عبد الغفور.جرمن احمدی عبدالغفور ، ڈاکٹر.سرگودھا ۵۶ ۳۲۸ عبد القادر.جماعت احمد یہ سری لنکا کے پریذیڈنٹ ۶۵۷ عبد القادر جیلانی ، حضرت شیخ ۵۰۴،۵۰۳ ،۴۰۴ عبد القادر ،صدر ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز ۵۲۵ عبدالقادر ، شیخ عبد القادر جنگنی.گیمبیا عبد القادر ضیغم صاحب مبلغ امریکہ عبد القدیر، میر ۲۶۳،۵۹۳ ۶۵۱،۶۳۸ ۶۳۲ ۶۷۹ ۶۳۰ 472 ۶۴۰ ۳۱۲ ۶۹۰ عبد المومن عبد الواحد.ابتدائی انڈونیشین احمدی عبد الوحید فلاویو (Flawiyo)، الحاج عبدالولی خان.نیپ کے لیڈر عبد الوہاب، شیخ عبد الوہاب ، مولوی عبدالوہاب بن آدم ۱۰۶،۹۸ ،۹۶،۹۵،۹۴ ،۹۱،۹۰ عبد الوہاب نجدی ۶۶۳،۶۶۲،۶۵۲،۲۲۴ ۲۵۸ عبدالقیوم خان.مسلم لیگ قیوم گروپ کے سر براہ ۱۴۷ عبد الوہاب شعرانی ، امام عبدالقیوم سردار کشمیر کے صدر عبد الکریم با ئنا سپینش احمدی عبد الکریم شرما عبد الکریم سیالکوٹی ، حضرت مولوی عبدالکریم ، مولوی عبدالکریم.پولیس انسپکٹر ۱۹۵ ۶۲۵ ۶۵۵،۶۵۴ ،۶۳۵۰۵۷۲ عبداللطیف.ہمبرگ میں جماعت کے مبلغ عبد اللہ آتھم عبد الله اسعد عودہ السید عبد اللہ بن عمر حضرت عبداللہ بن عمر و حضرت عبد اللہ بن مبارک حضرت عبد اللہ حسین جمعہ عبد اللہ غزنوی عبد اللہ کول ۵۸۷ ۱۰۳ عثمان ، حضرت عثمان بابن بانٹو.زائرے عثمان فاروق ، غانا کے ملٹری گورنرکمشنر ۴۲۶ ۲۴۱،۳۳ ۶۳۰ ۸۹ عثمان فود یو حضرت.نائیجیریا کے ایک بزرگ اور مجدد ۸۸ عرباض بن ساریہ ۵۱۵ عطاء اللہ کرنل.نائب صدر فضل عمر فاؤنڈیشن ۱۲۶،۱۷،۱۵ ۲۳۷ عطاء اللہ.کرنل ڈاکٹر ۴۹۱ ۶۸۹ ۱۸۰ ۲۵۶ ۱۲۲ عطاء اللہ میم، مولانا امیر جماعت غانا ۶۶۲،۱۰۱،۹۷،۹۰ ۵۳۲،۴۲۰،۳۴۵ عطاء اللہ، میاں ممبر قومی اسمبلی عطاء اللہ میاں کینیڈا جماعت کے پہلے پریذیڈنٹ ۶۳۲ عطاء المجیب راشد ، مولانا ۶۴۶۰۶۴۵ عطاء الکریم شاہد ، امیر و مبلغ انچارج لائبیر یا ۶۵۲، ۵۰۴ ۶۵۳ ۶۵۶ عطا محمد، مرزا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا ۵۰۴،۵۰۳ 111 عدیل احمد ، مرزا ۵۱۴ ،۱۸۷
عزیز احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز چوہدری، ڈاکٹر.اکارے نائیجیریا عزیز احمد.وزیر خارجہ پاکستان علا والدین علی المتقی ، علامہ علی ، حضرت علی ارشاد.پاکستان کے سفیر علی بن ابراہیم علی ندوی ،ابوالحسن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر معاذ عنایت اللہ، چوہدری شہید گوجرانوالہ عنایت اللہ احمدی ، چوہدری ۰۲۱۸،۲۸۱،۲۰۹،۲۰۶،۲۰۱۰ ۱۷۸ ، ۱۷۵ ، ۱۶۲ ،۱۲۳ ۳۳۶،۳۳۱ ،۳۲۰،۳۱۹،۳۰۲،۳۰۱،۳۰۰،۲۵۴ ۵۳ اله ۲۴۵،۲۳۹ ۲۵۶ ۲۴۱ ۹۱ ۳۶۶ ،۲۲۷ ۷۱۵،۳۵۹،۲۴۱ 7Vh ۲۸۴ ،۶۵۴،۶۵۳ عیسی علیہ السلام، حضرت ۴۰۵،۳۹۸،۳۹۵،۳۸۵،۲۵۴، ولد له ولد الله الله 7 ولد له ولد له له له له له ۳۳۷، ۳۴۷،۳۴۳ تا ۳۵۱، ۳۵۳ تا ۳۶۱،۳۵۷ ۳۷۲، ۳۷۶،۳۷۵،۳۷۳، ۳۷۹،۳۷۷، ۳۸۲تا ۳۹۵،۳۸۶ تا ۴۰۰،۳۹۸، ۴۰۳، ۴۰۵،۴۰۴، ۴۰۶، ۴۰۸ ۱۱۰ ۴ تا ۴۱۶، ۴۲۱،۴۱۹۰۴۱۸، ۴۲۳، ولد لد مالدا الدلمه بلد له ولد الله له ولد له الدلله.،۴۷۴ ،۴۷۳ ،۴۶۹ ،۴۶۶ ،۴۶۵،۴۶۱۰۴۵۴ ،۴۹۰،۴۸۸،۴۸۶،۴۸۵،۴۸۲ ،۴۸۱،۴۷۶ ،۵۳۱،۵۳۰،۵۱۳ ،۵۱۲ ،۵۰۶،۵۰۴ ،۵۰۱،۴۹۱ ،۵۸۹،۵۸۸،۵۸۷،۵۸۱،۵۷۷،۵۴۵۰۵۳۴ ،۶۲۳ ،۶۲۱،۶۰۳ ،۶۰۰ ، ۵۹۸ ،۵۹۶،۵۹۱،۵۹۰ ،۶۶۸ ،۶۵۹،۶۴۹۰۶۴۵۰۶۳۹،۶۳۶۰۶۲۹۰۶۲۵ ۷۱۸ ، ۱۲ ،۷۰۱۰۶۹۴ ،۶۸۸ ،۶۸۲ ،۲۷۷ ،۶۷۰ غلام احمد ،صاحبزادہ مرزا غلام احمد، برگیڈ بیئر ڈاکٹر غلام احمد ، ڈاکٹر غلام احمد نیم الد 7 الله ولد ولد غلام احمد اChrister Stah.سویڈش نومسلم عیدی امین ۲۴۱،۲۴۰، ۵۷۳،۵۷۱،۵۷۰،۲۴۴، غلام اللہ ، مولوی ۵۷۴ غ غلام باری سیف ، مولانا ۱۲۹ ۶۶۴ ۶۹۲ V7h ۴۹۳ VVh غلام غوث ہزاروی ، مولوی ممبر اسمبلی ۱۵۲، ۱۵۳، ۲۸۳، غلام فاروق غفور احمد، پروفیسر ۲۹۱،۲۹۰،۲۸۹،۲۸۵،۱۸۷،۱۸۵، غلام قادر گوجرانوالہ ۳۷۰،۳۶۸،۳۱۴، ۵۰۹،۴۵۰،۴۴۸،۴۴۷، غلام سرور شہید ٹوپی ۵۶۸،۵۲۵،۵۱۳،۵۱۰ | غلام مجتبی ،ڈاکٹرسید غلام محمد.شہید اوکاڑہ غلام احمد قادیانی ،حضرت مرزا.مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام غلام محمد ، حضرت صوفی ،۴۸،۴۰،۳۸،۳۷ ،۲۶،۲۱،۲۰،۱۹ ،۱۶،۱۴ ، ،۶۹،۶۸ ،۶۶،۶۵،۶۳ ،۶۲ ،۶۰،۵۵،۵۴،۵۲،۴۹ ،۱۱۳ ،۱۱۰،۹۹ ،۹۵،۸۱،۷۷ ، ۷۶ ،۷۵ ، ۷۴ ، ۷۱ ۷۰ ۴۴۰،۴۱۵،۳۷۹،۳۷۱ ۳۰۱ غلام مصطفیٰ کھر.پنجاب کے گورنر غلام نبی ، مولوی مبلغ کمای ۲۸۴ ۲۸۴ ۶۶۴ ، ۱۳۰،۱۲۹،۱۱۹ ۳۳۴ الله ۵۳۲،۱۸۸،۱۸۶ ۹۰
11 ف فاروق علی خان ، صاحبزادہ.سپیکر قومی اسمبلی ۲۷۳،۱۸۷ ،۳۹۱،۳۷۷ ،۳۷۶،۳۶۰،۳۳۵،۳۱۱،۳۱۰،۳۰۳ قمر الدین سیالوی ، خوا جہ.جمعیت العلماء پاکستان کے صدر ۱۵۳ کالیسا (Kalisa) ، شیخ ک ۴۳۶، ۴۴۶ ، ۵۵۱،۴۹۲،۴۷۰،۴۵۰،۴۴۷، کرم الہی صاحب ظفر مبلغ سلسلہ سپین فاطمه علی مخلص خاتون فاطمہ ، حضرت ۵۶۸،۵۳۳ ،۵۲۲ ۸۲ ،۴۰۴ ،۴۰۳ کر یو Crewe.انڈیا آفس کے ایک افسر کفایت اللہ مفتی ۷۵۳ ۶۷۳،۶۲۵،۶۲۴ ۲۳۸ ۲۵۹ کمال الدین خان تعلیم الاسلام احمد یہ کمرشل سیکنڈری فافانی کمار (Fafani Kumare) لائبیریا کے مسلمان گورنر ۱۰۲ سکول فومینہ کے پرنسپل فتح محمد ملک.ریلوے روڈ ر بوہ فرانکو، جنرل فنشو (H.K.A.Funsho) از کانو فضل الحق ، قریشی ۳۲۸ ۶۷۳ ،۸۷ ۳۵ ۱۳۶ کمال یوسف، سید ۶۸۰۶۷۹،۶۷۸،۶۶۵،۵۷۹،۵۸ کوثر تسنیمہ ،ڈاکٹر اہلیہ ڈاکٹر طاہر محمود.سیرالیون کوثر نیازی ۵۶۹،۵۶۸،۵۴۲ ، ۵۴۰ ، ۵۱۸،۱۹۵ ۱۳۳ فضل الہی انوری ، مولانا.جرمنی ۶۸۰،۶۳۹٬۸۲،۵۳، ،۶۸۴،۶۸۱،۶۸۰،۶۳۹،۶۸۱ ۶۹۲ ،۶۸۹ فضل الہی بشیر ،مولانا.فلسطین فیصل بن عبدالعزیز ،شاہ سعودی عرب کے فرمانروا ۲۳۷، ،۲۶۱،۲۴۵،۲۴۴ ،۲۴۳ ،۲۴۲ ،۲۴۱،۲۴۰،۲۳۹ ۷۵۴ ،۷۵۱،۲۹۶۰۲۹۵،۲۶۵،۲۶۴ ،۲۶۳ ،۲۶۲ ۲۶۱ گمانگا، چیف.جماعت سیرالیون کے پریذیڈنٹ گورمکھ سنگھ، گیانی.چیف منسٹر پنجاب بھارت ل لارنس.مشہور برطانوی ایجنٹ ۱۱۲ ۶۹۷ ،۲۵۱،۲۵۰ فیصل ،شاہ.عراق کے بادشاہ ق قامتہ صادقہ ، ڈاکٹر.لجنہ سویڈن کی پہلی صدر قاتہ مبشر لجنہ ناروے کی پہلی صدر قامتہ ، لجنہ جرمنی کی پہلی صدر قزاز.رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل ۶۷۹ ۶۸۰ ۶۸۱ ۲۴۶ لا وو نیا پیریمن ،مس(Miss Lavonia Perryman) لطف الرحمن ، مرزا لطف الرحمن ( ٹھیکیدار پہاڑی ) دار النصر ربوہ لئیق احمد منیر لیڈ سلاو فلپ، ڈاکٹر (Dr.Ladislav Filip) ۵۸۱ ۹۰ ۳۲۸ ۶۸۰ ۵۹۲
۱۲ ،۳۸۴ ،۳۸۳ ،۳۸۲ ،۳۷۹،۳۷۶،۳۷۳ ،۳۷۲ ،۴۲۱،۴۲۰،۴۱۹،۴۱۳ ،۴۰۴ ،۳۹۷،۳۹۵،۳۸۶ ،۴۲۹،۴۲۸،۴۲۷ ،۴۲۶،۴۲۵،۴۲۳ ،۴۲۲ ،۴۶۵،۴۵۳ ،۴۳۷ ،۴۳۶،۴۳۲ ،۴۳۱،۴۳۰ ،۴۸۳ ،۴۷۹،۴۷۸،۴۷۷ ، ۴ ،۴ ۷۴ ،۴۷۳ ،۵۳۰،۵۴۰،۵۱۳ ،۵۱۲ ،۵۰۴ ،۵۰۲،۵۰۱،۴۸۸ ۶۷۱،۶۵۵،۶۲۳،۵۷۸ ۹۱ ۱۸۳ ،۱۷۵،۱۷،۱۵ مبارک احمد ، مولانا شیخ م مبارک احمد سکینڈری سکول غانا آسوکورے کے پہلے پرنسپل ۱۳۷ مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا.وکیل اعلی و وکیل التبشیر ۹۵،۹۱،۸۲، ،۶۷۵،۶۶۷ ،۶۶۲ ،۶۴۶،۶۳۳ ،۶۳۲ ،۱۲۱،۱۰۸،۱۰۳ ۳۵ ۶۹۲ محمد آرتھر.جماعت غانا کے پریذیڈنٹ محمد ابراہیم ، چوہدری محمد ابراہیم خان.گیانا کے ابتدائی احمدی محمد ابراہیم ، حکیم.سابق مبلغ مشرقی افریقہ محمد احمد، مہتم دار العلوم دیوبند ۷۱۴ ۶۸ ۲۸۵ مبارک احمد ، ملک مبارک احمد خان.شہید بالاکوٹ مبارک احمد ساقی.لائبیریا کے مشنری انچارج مبار که بیگم ، حضرت نواب مبشر احمد ، ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مبشر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ.یکے از مولفین کتاب ہذ او اسیران ۱۹۷۴ئی ۶۵۲،۶۵۱ ،۵۸۸،۵۸۷ ۷۱۲ ،۱۱،۷۱۰ ۳۳۰ مبشر حسن، ڈاکٹر.پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر ۱۴۵، ۱۵۲ ، ،۲۹۷،۲۹۶،۲۵۷،۲۴۶،۲۴۵، ۱۸۹،۱۸ ۷ ، ۱۸۶ محمد احمد محمد احمد صاحب.لائبریرین تعلیم الاسلام کا لج ربوہ محمد احمد خان قصوری ، نواب محمد ارشد.کاتب محمد احمد مظهر، شیخ ۳۰۳، ۴۴۶،۴۴۵،۳۱۵،۳۱۴، ۴۵۰،۴۴۷، محمد اسماعیل ، حضرت ڈاکٹر میر ۵۶۸،۵۴۷،۵۳۳،۵۱۳ ،۵۱۱،۵۱۰،۵۰۹ ۲۵۳،۲۵۰،۲۴۸،۲۴۷ ۱۵۷ ۳۰۸ مجاہد الصواف، پروفیسر مجیب الرحمن.عوامی لیگ کے قائد مجیب الرحمن مجید احمد ، صاحبزادہ مرزا محاما ثانی.غانا کے نائب وزیر زراعت جو احمدی تھے محمد اسماعیل منیر، مولانا ۴۹۸ ۳۲۶ ۳۲۵ ۵۵۱،۵۴۰،۵۰۰ ۵۳۴ ۳۳۰،۳۰۶،۲۳۰ ۲۶۳ محمد اسلم جہانگیری ، ڈاکٹر.نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت سیرالیون میں پہلے ڈاکٹر ۱۲۱ ۱۳۱ ۶۶۴ ۱۳۰ محمد اشرف.شہید گوجرانوالہ ۲۸۱ محمد افضل ، قریشی.امیر و مشنری انچارج ایوری کوسٹ ۶۵۲،۶۴۹، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ۴، ۲۰،۱۲، ۳۶،۳۳، ۵۴، محمد افضل.شہید گوجرانوالہ ،۹۷ محمد افضل چیمہ.سیکریٹری قانون ۶۸۷،۶۸۶ ۲۸۱ ۲۲۷ ۶۸۵ محمد الخضر حسین شیخ محمد الدین، مولوی ،۲۲۳ ،۲۱۷،۲۰۱۰ ۱۸۱،۱۸۰۰ ۱۷۶ ۱۷۲ ،۱۶۰،۱۴۵ ،۳۵۶،۳۵۵،۳۴۹،۳۳۹،۳۳۲ ،۲۶۶،۲۵۵
۱۳ محمد الیاس عارف.شہید ٹیکسلا ۲۸۴ محمد شریف بخش.گیانا کے ایک ابتدائی احمدی ۶۹۲ محمد انوارالحسن شیر کوئی، پروفیسر محمد تقی عثمانی مفتی ۲۵۹ محمد شفیق قیصر ۵۱۵ محمد صادق ، حضرت مفتی ۲۱ محمد زمان خان.شہید بالاکوٹ محمد زبیر ، ڈاکٹر ۲۸۵ ۳۲۳ محمد صدیق ، مولوی ( تفسیر صغیر کے کام میں اعانت) ۱۱۴ ،۶۸ محمد صدیق، مولانا.گیانا ۶۹۲ محمد جعفر تھانیسری ،مولوی ۵۱۵ محمد جمیل احمد ۳۶۳ محمد حسن ، ڈاکٹر سر دار.روکو پورسیرالیون میں ڈاکٹر ۱۳۲ محمد صدیق گورداسپوری ، مولانا.امیر ومشنری انچارج سیرالیون وامریکہ محمد حسن التہامی.انفرنس کے سیکریٹری جنرل ۵۲۰،۲۴۶، محمد صدیق امرتسری ، مولوی ۵۲۵ محمد حسین صاحب بٹالوی ، مولوی ۴۳۴، ۴۹۱،۴۹۰،۴۶۴ محمد ظفر اللہ خان ، حضرت چوہدری سر ۱۵،۱۴، ۱۸، ۷۹،۶۲، ۶۶۳ ،۶۶۲،۶۲۹۰۵۸۶،۵۸۲ ،۶۲۹،۱۰۸ ۶۷۵ ،۳۲۵،۲۹۱،۲۹۰،۲۸۹،۲۷۴ ، ۱۸۶،۱۶۲ ، ۱۲۶،۱۱۸ ،۵۹۲،۵۹۱،۴۸۷ ،۴۵۴ ،۳۹۱،۳۸۹،۳۷۰،۳۶۱ ۷۱۵،۶۹۰،۶۷۳ ،۶۴۵،۶۴۴ ،۶۳۳ ۶۷۴ ۶۷۰،۶۶۹ محمد عثمان سنی.ایک سوڈانی عالم ۱۳۵،۱۳۴ ۴۰۹ محمد حفیظ خان ، ڈاکٹر.گیمبیا محمد حنیف خان محمد عثمان چینی محمد حنیف رامے.پنجاب کے وزیر اعلی ۲۷۳، ۲۷۵، ۲۹۱، محمد علی ، چوہدری.پرائیویٹ سیکریٹری ۶۱،۵۵، ۸۲، ۱۰۳، ۱۰۸ محمد علی جوہر ، مولانا ۲۶۵،۲۵۹،۲۶۴،۲۶۱،۲۶۰،۲۵۹، ۴۹۵ محمد علی جناح ، قائد اعظم محمد علی خان ، حضرت نواب محمد علی کا کرے.یوگینڈا ۴۹۷ ۵۸۸،۵۸۷ ۶۷۵،۵۷۵،۵۷۴ محمد عمر.مولوی محمد عبداللہ ،حضرت قاضی محمد عرفان ۶۷۶،۶۷۵ LL ۲۵۹ ۵۱۵ ۶۸۷ ۲۸۵،۲۸۴ ۵۲۵،۴۵۸ ۶۹۱ ۴۳۰ ۶۸۷ ZA ۶۸۸ ۲۵۵ ۳۰۱ محمد حنیف کو یا.نجی محمد حنیف ندوی محمد حنیف یعقوب.ٹرینیڈاڈ محمد خالد، چوہدری ابن حضرت چوہدری محمد شریف محمد درمنانی محمد سبطین السرسوی ، مولوی سید محمد سعید انصاری محمد شریف صاحب ، حضرت چوہدری 2^ محمد شریف ، مولا نا چو ہدری مشنری انچارج و امیر جماعت احمد یہ گیمبیا محمد عرفان علی ، مولوی محمد شریف، چوہدری ۶۸۸،۱۰۵ محمد غزالی جالی ۱۳۷ محمد فخرالدین بھٹی.شہیدا ایبٹ آباد
۲۸۷،۱۸۵ ۵۱۶،۵۱۵،۴۵۵،۳۰۸ محمود علی قصوری.وزیر قانون مجیب الرحمن، عوامی لیگ کے قائد مجیب الرحمن.ایڈووکیٹ ۱۴ ۳۶۳ ۶۹۰،۶۵۴ ،۶۳۱ ۱۰۸ محمد کرم دین محمد منور ، مولانا محمد نذیر محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی ، مولاناسید محمد یوسف ، حضرت قاضی ۴۶۴ ۳۳۰ محمد یوسف بنوری، مجلس عمل برائے ختم نبوت کے مولوی ۵۲۵ محمد یوسف خان.گیانا کے ایک احمدی محمود.مالی کے سفیر ۶۹۲ محموداحمد ، حضرت مرزا بشیر الدین مصلح موعود ۱ ، ۲، ۳، ۴، ۱۴، ܬܙ، ۹۱ مختار احمد صاحب ۳۲۵ مختار احمد گجراتی ہفتی.جمعیت العلماء پاکستان کے ایک لیڈر ۳۵۹ مدحت ابراہیم بیگو وچ سیکنڈے نیویا کے قائد مجلس خدام الاحمد یہ مریم صدیقہ ، حضرت سیدہ مریم علیہا السلام، حضرت ۶۷۸ ۵۸،۵۷ ۴۱۱،۳۹۶ ، ۱۳۷ ۶۲۰ ۱۶۱ ۶۸۰ مسرور احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا (خلیفة المسیح الخامس) مسعوداحمد، پروفیسر مسعود احمد، سید میر مسعود احمد میلمی ۷۱۲ ،۱۱،۱۰ ،۷۰۹ مسعود الحسن نوری ، ڈاکٹر مسعود محمود.فیڈرل سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل ۵۵۲،۵۱۱ مشتاق احمد باجوہ ، چوہدری ( سوئٹزرلینڈ میں جماعت کے مبلغ ) ۵۴ ، ۶۸۵،۶۸۰۰۷۹ مشرف خان.یورپ میں صوفی تحریک کے لیڈر مصطفی صادق صحافی جور روزنامہ وفاق کے ایڈیٹر بھی رہے ۱۸۶، ۱۸۷ مظفر احمد ڈوگر مربی سلسلہ ۱۸۷ مظفر احمد ، مرزا.ملک کی مرکزی کا بعینہ میں صدر کے اقتصادی مشیر مظفراحمد، مرزا ابن مرزا منور احمد مظفر احمد ظفر.امیر مڈویسٹ ریجن امریکہ ۵۹۳،۵۸۲،۵۸۰،۲۵۷ ، ۱۶۴ ، ۱۶۳ ،۱۶۲ ۲۷۰ ۵۸۳ ،۴۲،۳۲،۳۰،۲۶،۲۵ ،۲۴ ،۲۲ ، ۲۱ ، ۱۹ ، ۱۸ ، ۱۷ ،۱۶ ،۱۶۳ ،۱۴۴ ، ۱۴۳ ،۱۳۶،۲۱۵،۶۵،۶۴،۵۲،۴۵ ۳۰۲،۲۸۱،۲۶۲،۲۳۱،۲۱۵ ۲۱۴ ،۲۰۹،۱۸۳ ،۵۹۹،۴۶۲ ،۴۶۱،۴۵۴ ،۴۵۳ ،۴۱۹،۳۵۰،۳۳۲ ،۷۰۱،۶۹۳ ،۶۷۴ ،۶۷۳ ،۶۶۸۰۶۳۶۰۶۲ ۷۱۹،۷۱۸ ،۷۱۳،۷۰۵،۷۰۴ ،۷۰۳ ۲۸۲ ۶۵۷،۵۷۵،۵۷۱ ۶۶۸،۶۰۸ ۶۸۰ ۲۳۰ ۵۱۵ 2.9.171 ۶۵۳ ۴۹۸ ۲۳۵ محمود احمد ، چوہدری.شہید گوجرانوالہ محمود احمد (بیٹی)، چوہدری محمود احمد چیمہ مبلغ سلسلہ محمود احمد شاہ ،سید.ناروے محموداحمد ناصر ، سید میر محمود احمد محمود الحسن ، ڈاکٹر کرنل محمود بن بشیر.لائبیرین احمدی محمود حسن.مدرسہ کے ایک استاد محمود مجیب اصغر، انجینئر
منیر الدین شمس ، مربی سلسله ۶۳۴ ،۶۳۳ مودودی ، مولانا ابوالاعلی ۱۸۶،۱۵۹،۱۵۸،۱۵۲ ، ۱۸۷ ، ۱۵ ۵۶۷ ،۱۷۸ ۲۴۱ معراج محمد خان معمر القذافي معین الدین، الحاج سیٹھ.امیر جماعت ہائے حیدر آباد ۶۹۵ مغیرہ بن شعبہ ، حضرت ۴۲۴ مفتی محمود.قائد جمعیت العلماء اسلام ۱۵۳،۱۵۲، ۱۵۴، ۲۲۷ ،۴۸۳ ،۴۸۱،۴۵۰،۳۴۵ ،۳۴۴ ،۲۰۹،۲۹۸ ۵۴۷،۵۱۹،۵۱۸،۴۸۴ ۱۸۵، ۲۸۵، ۲۸۷، ۲۸۸، ۲۹۸، ۳۱۱،۳۰۱، ۳۷۰، مومن معلم.وا کے ابتدائی احمد یوں میں سے تھے ۹۷ ۲۸۲ ۵۷۷ ۵۸۷ ۵۰۴ منظور احمد، چوہدری منظور حسین ، ڈاکٹر منظور محمد، پیر موسیٰ علیہ السلام، حضرت ۶۰، ۳۹۸، ۴۰۵، ۴۲۲، ۵۷۳ ۵۲۶ ۴۲۰،۴۱۰،۳۴۷ ۲۸۵ ۱۰۲ ۱۳۷ ۴۱۲ ،۴۱۱ ۳۶۱ ۲۵ ۱۰۸ ۳۱۶ ۵۶۵ ۱۸۳ ،۴۲۵ موسی، کیپٹن موسیٰ خان جلال زئی ،۵۲۴،۵۱۸ ،۴۰۹ ،۴۰۸ ،۳۷۸ ،۳۷۲ ،۳۷۱ ۵۴۷،۵۴۴ ،۵۲۵ ۳۲۱ ۶۸۷ مقبول احمد سیٹھی از شہداء ۱۹۷۴ء مقبول، قریشی ممتاز دولتانہ ، میاں کونسل مسلم لیگ کے سر براہ ۱۴۷، ۵۶۸،۱۸۶،۱۵۹،۱۵۷ ۴۲۴ ،۱۴۸ ملا علی قاری منصور احمد ، صاحبزادہ حضرت مرز ا ۵۹،۵۳، ۱۱۹ ، ۱۲۰ ، مولا بخش سومر و ، سردار ۳۰۶ منصور احمد خان ،نواب ۷۱۴ ،۷۱۳ ،۴۷۰،۴۵۷،۳۰۷ ۵۷۹ مولود احمد بخاری ، سید.شہید کوئٹہ مہاما(Mohama) غانا کے وزیر زراعت مهدی آپا ، چیف منصورہ بیگم ، حضرت سیدہ اہلیہ حضرت خلیفہ امسح الثالث رحم الله تعالی مہر علی شاہ گولڑوی، پیر ۶۲۵،۵۸۲ ،۱۱۲ ،۹۷ ،۹۶،۹۴ ،۵۵ میکش، مولانا ۲۷۰،۱۶۱،۱۲۲ ۱۳۵ ۶۷۲ ناصر احمد شمس.سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن ناصر الدین گما نگا.احمدی پیراماؤنٹ چیف ۲۸۴ ناظم الدین ، خواجہ نتھارام نذیر احمد ، چوہدری.انجینئر ۵۷۵،۵۷۳،۵۷۱ ۶۷۹،۶۷۸،۶۷۷ منور احمد ، صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منوراحمد ، ڈاکٹر قاضی.نائیجیریا منور احمد.گلاسکو منور نعیم منیر احمد.شہید گوجرانوالہ منیر احمد منیب منیر الدین احمد، مربی سلسله
۳۹۷۶۴ ۵۰۴ ،۴۲۵،۴۲۳ نوح علیہ السلام،حضرت نواس بن سمعان نور احمد بوستاد.ناروے ۶۸۰ نورالدین، حضرت مولانا خلیفه امس الاول رضی از تعالی به ۲۰۱۲، ۶۱۵،۲۲،۲۱ ۶۸ ۶۹۲ ،۶۹۱،۶۹۰ ۱۶۸ نور الحق، مولانا ابوالمنیر نور الحق انور نیازی ، جنرل وسیم احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا ۷۰۱،۷۰۰،۶۹۶،۶۹۵، ۷۰۵،۷۰۴ ،۷۰۳ ۴۲۴ ۱۶ نذیر احمد، چوہدری.جماعت اسلامی کے وکیل ۳۵۴ ۴۷۹،۴۶۴ ۶۶۹،۶۴۹،۱۲۱۹۸ ۱۱۳ ۵۶۳ ۱۱۲ ۱۵۹ ۱۳۷ ۶۵۷ نذیر حسین صاحب دہلوی ، مولوی نذیر احمد مبشر ، مولانا نذیر احمد علی ، مولانا نسیم حسن شاہ ،جسٹس نسیم سیفی ،مولانا نصر اللہ خان ، نواب زادہ نصیر احمد چوہدری.سکول کے پہلے پرنسپل ،۶۵۱،۶۴۷،۶۳۹،۶۳۲،۶۳۱ ۶۸۸ ،۷۰۲ ۶۸۰ ولی اللہ دہلوی ، شاہ ۳۲۵ ۲۸۴ ✰✰✰ نصیر احمد، راجہ نصیر الدین احمد ، شیخ نصیر احمد خان ،مولوی نعیم الدین ، قاضی.جرمنی نعیم احمد صاحب ظفر نقاب شاہ مہمند.شہید پشاور
آجامے.آئیوری کوسٹ آسٹریا آسٹریلیا آسنور کشمیر آسوکورے.غانا آکسفورڈ.انگلستان آندھرا پردیش ۱۷ مقامات ۶۸۶ ۶۶۵،۶۱۲ ،۴۹۴ ۳۱ ++7'm+7 الله 7 والله م ۵۹۹،۲۶۱،۲۱۲ ،۱۷۸،۶۱ ۷۰۴ ،۷۰۲ انیجی تنزانیہ اجوکورو.نائیجیریا ۶۵۴ ۶۴۲ اجیبو اوڈے.نائیجیریا ۶۱۸،۳۸۰،۱۳۵،۸۷،۸۱، ارکھ سٹینہ.بھارت اروشا تنزانیہ اڑیسہ استنبول ۶۴۰،۶۱۹ ۷۰۳ ۶۵۴ ،۷۰۲ ،۷۱ ۷۰۰ ، ۶۹۸ ،۶۹۶۰۶۹۵ ۷۰۵،۷۰۴ ،۷۰۳ ۲۳۸،۷۸ اسار چر.غانا آئیوری کوسٹ ۱۰۱،۷۵، ۱۰۲ ، ۱۳۹،۱۰۷ ، ۲۳۳، ،۵۵۹ آئرلینڈ ۶۸۷،۶۸۶،۶۵۱۶۵۰،۶۴۹،۶۴۸ له له له ابادان.نائیجیریا ابراہیم پور.بھارت ۶۴۰،۶۱۹،۶۱۸۰۸۳ ،۸۲ ابی جان.آئیوری کوسٹ کا دارالحکومت ا پاپا (لیگوس) نائیجیریا اپروولٹا دیکھئے برکینا فاسو ++7 ۱۰۲ اُتر پردیش (یوپی) ۷۰۳،۷۰۲،۷۰۰،۶۹۶،۶۹۳، اٹاری.بھارت اٹلی الله 7 اسکینڈے نیویا ۶۷۹،۶۷۸،۶۱۵۰۵۸ اسرائیل اسلام آباد ۶۳۸،۴۷۳ ،۴۷۲ ،۲۴۷،۵۷ ،۳۳۰،۳۲۹،۳۲۸،۲۷۴ ،۱۶۳ اسمبو.کینیا ۷۱۲ ، ۱۰ ، ۷۰۹،۵۵۱ ۶۳۵ اشانی ریجن.غانا ۱۲۹ ،۹۶،۹۲ ،۹۱ افریقہ ۸، ۷۹،۷۸،۷۵،۱۸ ، ۷،۱۰۶،۱۰۰،۸۵ ۱۰ ، ،۱۴۴ ، ۱۴۳ ،۱۴۲ ، ۱۲۹، ۱۱۹ ، ۱۱۷ ، ۱۱۶ ،۱۱۵ ، ۱۱۴ ، ۱۱۰ ۱۳۵ ۷۰۵،۷۰۴ ۷۰۵،۷۰۳ ۴۹۴ ،۲۲۲،۲۱۷ ۲۱۳ ،۲۱۱،۳۰ +71' ،۲۴۰،۲۳۹،۲۳۴ ،۲۲۶،۲۲۴ ،۲۲۲ ،۲۱۶،۱۷۴ وله له له ،۶۱۷ ،۶۱۲ ،۵۹۸ ،۵۹۷ ، ۵۷۸ ،۲۴۷ ، ۲۴۶۰۲۴۴ ۶۶۹،۶۶۵،۶۶۲ ،۶۳۵،۶۲۸،۶۱۸
۱۸ افغانستان اکارے.نائیجیریا ۲۹۳، ۳۱۲، ۵۹۳ انجوارا.گیمبیا.سنیگال کی سرحد کے قریب ۱۳۴ ۱۳۹،۱۳۵ انڈونیشیا ۲۳۳،۵۶،۸،۷، ۶۶۶،۲۳۹،۲۳۴، ۶۶۷، اکرا.غانا ۹۱،۹۰، ۹۷، ۹۸، ۱۰۱،۹۹، ۱۲۹،۱۰۲، ۶۱۹، ۶۶۵،۶۲۰ اوسلو.ناروے ۶۲۰ اوسوسٹیٹ ، فانا ۶۴۰ اوشوگبو.نائیجیریا ۶۷۵،۶۶۸ ۶۱۵ ۶۱۹ ۶۴۰ ۶۸۳ ۳۳۴ ۶۴۱ ۶۱۸ ۶۴۱ ۶۳۲ ۶۴۱ ۲۸۵،۲۸۴ ۶۵۴ ۲۳۴ ۶۴۶ ۶۳۵ ۶۴۱ ۶۱۷،۵۷۷،۲۱۱۰ ۱۱۴ ۶۹۱ ۶۴۱،۶۱۹،۶۱۸،۶۰۴ اوفن باغ.جرمنی ۶۴۰ اوکاڑہ ۶۶۵ اوگبا گی.نائیجیریا ۶۳۶،۶۳۵ او گون سٹیٹ.نائیجیریا ۶۵۴ اونڈو.نائیجیریا اونٹاریو.کینیڈا ۷۰۴ ،۷۰۱ اکرافو غانا اکیروں.نائیجیریا الا رو.نائیجیریا الا با ٹا.نائیجیریا الجيريا امبالے.کینیا امبیا.تنزانیہ امروہہ.بھارت امریکہ ۱۲،۸ ، ۱۰۱،۱۰۰،۶۳، ۱۷۰ ، ۲۲۲،۲۱۷، اودیری.نائیجیریا ،۵۸۰،۵۷۸،۵۷۳،۵۵۷،۵۴۸،۵۴۴ ،۴۹۴ ،۶۱۲،۵۹۷،۵۹۴ ،۵۸۵،۵۸۴ ،۵۸۳ ،۵۸۲ ،۵۸۱ ۶۷۱۰۶۷۰،۶۴۳ ،۶۳۲ ،۶۲۴ ،۶۲۳ ،۶۲۲،۶۱۷ ۶۱۹ ۶۴۰ ۶۶۱ اموسون.نائیجیریا اموساں.نائیجیریا انجوان.کوموروز انڈیمان، جزائر انگار پور.بھارت ۷۰۳،۷۰۲ ۶۹۴ ایبٹ آباد ایبری تنزانیہ ایتھوپیا ایدو گا وا وارڈ.ٹوکیو ایران ایرنگا (Iringa) تنزانیہ ایلڈورو تنزانیہ ایلڈوریٹ.کینیا ).انگلستان ۱۷ ، ۱۸ ،۱۰۱،۱۰۰،۶۴،۵۰،۴۰، ۱۱۸،۱۱۷، ایمو.نائیجیریا ایمسٹر دیم.ہالینڈ با.نجی ،۱۱۹ ،۲۶۴،۲۶۳،۲۶۱،۲۲۴ ،۲۲۲ ،۲۱۳ ، ۲۱۱،۲۱۴ ۳۴۵ ،۷۱۰،۶۴۳،۶۲۴ ،۶۱۲ ،۵۹۷ ، ۵۹۵،۵۹۴ ،۵۷۷
19 باتھرسٹ (موجودہ بانجل ) - گیمبیا کا دارالحکومت ۱۰۵ بنگال، بنگلہ بارہ مولا.کشمیر با کادو.زائرے بالا کوٹ بانجل.سابقہ باتھرسٹ.گیمبیا بانڈونگ.انڈونیشیا باؤ چی سٹیٹ.نائیجیریا با ہیما.سیرالیون بٹ خیلہ الله له ۸۰۱ ۳۹۳،۱۷۰،۱۶۵ مغربی بنگال ۷۰۳،۷۰۲،۷۰۰،۶۹۴، ۷۰۵،۷۰۴، 201 بمبئی ممبئی ۶۳۰ ،۲۸۵،۲۸۴ الله الله له ۶۶۷ ۶۴۲ ۶۲۸ له الله بنگلہ دیش بو.سیرالیون بوآ جے بو.سیرالیون بو بوجلاسو.برکینا فاسو بوریوالہ ۷۰۵،۷۰۰،۶۹۸ ،۶۹۳ ،۴۹۷ ۷۰۵،۷۰۴ ،۷۰۲ لله الله حاله له له له الله الله الله ۶۲۷ ،۱۱۳ ،۱۱۲ ۶۲۷ ،۱۴۰۰،۱۳۱ ۶۴۹ ۳۲۱ بھارت ۱۲، ۱۸، ۱۶۶،۱۶۵ ، ۱۶۷، ۱۶۸، ۲۳۳، ۲۳۷، ،۶۹۴ ،۶۹۳ ،۵۹۳ ،۳۹۳ ،۳۸۹،۳۸۸ ،۳۱۲ ،۲۹۳ ۵۹۶ ۶۰۴ ،۷۰۱،۷۰۰،۶۹۸ ،۶۹ ۷۰۴ ،۷۰۲ ،۷۰ ، ۷۰۰ ، ۶۹۸ ،۱۲ ۷۰۴ ،۷۰۲ ۲۷۴ ۲۷۸ Vbh ،۷۰۰،۶۹۴ ۲۲۵ ۳۳۴ ۳۳۴ ،۳۲۱،۲۷۸،۲۰ 1+7 ۶۴۸،۶۴۷،۶۱۸ ): ۶۲۴ برلن.جرمنی برمنگھم.انگلستان برکینا فاسو ( پرانا اپروولٹا ) ۶۴۸،۶۴۹،۶۴۸،۲۳۳، بہار.بھارت بھاگلپور.بھارت ۶۸۷،۶۸۶،۶۵۰،۶۴۹ برونڈی.روانڈا بریڈ فورڈ.انگلستان بہاولپور ۶۲۴ بہاولنگر بھے.گیمبیا کے انتہائی شمال میں واقع شہر ۶۳۷،۱۳۵ بھدرک.بھارت بھرت پور.بھارت بھوپال بھو پال والا بھیرہ بہوہ.بھارت بکورو.نائیجیریا بلاما_Blama.سیرالیون کا ایک گاؤں ۱۳۵ ۱۳۲ (برطانیہ) یوکے ،۱۳۹،۱۱۸،۵۰،۴۰،۱۸،۱۷،۸ ،۲۶۲،۲۵۳ ۲۵۲ ،۲۵۱،۲۵۰، ۲۳۷ ،۲۳۴ ،۲۳۳ ۰۲۶۳ ،۵۷۳،۵۰۰،۴۹۹ ،۴۹۸ ، ۴۹۶ ،۴۹۵ ، ۴۹۴ ،۲۶۴ ۶۸۴ ،۶۳۱،۶۱۶،۵۹۴ ،۵۷۸،۵۷۷،۵۷۵ لد ۷۵ 'لد حاله ۶۵۴ بغداد عراق بکوبا.تنزانیہ
پاسگھاٹ.بھارت پاکپتن ،۲۸۱،۲۸۰،۲۷۹،۲۷۸ ،۲۷۵ ،۲۷۴ ، ۵۶۲ ، ۱۹۸ 2+1 ،۴۳۳ ،۳۹۳ ،۳۸۹،۳۸۸،۳۰۱،۲۹۲ ،۲۹۱،۲۸۴ ۳۲۱ پاکستان ۵ ، ۷، ۸، ۱۲ ، ۱۵، ۱۸،۱۷، ۴۰،۲۲، ۴۲ ، ۷ ۵ ، ۶۷، ۹۱،۸۸، ۹۲، ۹۶، ۱۱۲، ۱۱۸ تا ۱۲۱ ، ۱۲۴ ، ۱۲۵ ، ۱۳۹،۱۳۰،۱۲۷ ، ۱۴۲ تا ۱۴ ۱۴۹ ۱۵۱۰، ۱۶۲، ۱۶۴، لد خالد ولد حاله ولد حاله ولد 60 ولد ٧٥ ولد له ولد له پنجاب (بھارت) ۱۶۵، ۱۶۷ تا ۱۷۱ ، ۱۷۸ ، ۱۸۵ ، ۱۸۷، ۱۸۹، ۱۹۱،۱۹۰ ، پورٹ لائیں.ماریشش ۱۹۵ تا ۲۰۰ ، ۲۱۳، ۲۳۱،۲۲۱،۲۱۸، ۲۳۳، ۲۳۴، ۲۳۵، ۲۳۶ ، ۲۳۹، ۲۴۰، ۲۴۲، ۲۴۴ تا ۲۵۰، پولینڈ ،۲۸۰ ،۲۷۴ ،۲۷۳ ،۲۶۵ ،۲۵۸ ،۲۵۷ ،۲۵۶ ،۲۹۳ ،۲۹۱،۲۸۹،۲۸۸،۲۸۷،۲۸۵،۲۸۴ ،۲۸۳ ۲۹۵ تا ۳۰۰،۲۹۸، ۳۰۴،۳۰۲، ۳۱۵،۳۱۳تا۳۱۹ ،۳۶۵ ،۳۶۱ ،۳۵۹ ،۳۴۲ ،۳۴۱ ،۳۳۷ ،۳۳۴ له ۷۷ ولید ۷ ولحمد لله والحمد لله ولد ولد والله حلمه الله 17 ولد لدا ولد له ولد الله الله وله قاله له حاله له 16 له 6 ،۵۳۵،۵۳۲،۵۲۶،۵۲۵،۵۱۴ ،۵۱۵ ، ۴۹۹ ،۴۹۶ ۶۹۷،۵۹۶ ۶۶۰ ۶۸۵،۶۸۴،۵۹۴ ،۵۶۰ ۷۰۴ ،۷۰۳ ،۷۰۲ ،۷۰۱ ۲۹۵ ۶۲۶،۶۲۵،۶۲۴ ۷۰۳ ۵۳۶ پید رو آباد سپین پیگاری.بھارت پیگ دے.لائبیریا پھگلہ صوبہ سرحد ۶۵۲ تانگرام.بھارت تامل ناڈو.بھارت ثبت.چین ۶۹۴ ۷۰۵،۷۰۲ ۵۹۳ ترکی ۴۹۱،۲۵۰،۲۳۸،۲۳۷،۲۲۸، ۴۹۲، ۴۹۴، ۵۴۸،۴۹۹،۴۹۸ ،۴۹۶،۴۹۵ ۷۰۲ ۶۶۰ ۶۶۰،۶۵۸ نر ونیلویلی.بھارت ترافلے.ماریشش تریولی تنزانیہ ،۶۳۱،۶۳۰،۵۷۵ ،۲۳۴ ،۲۳۳ ،۴۰ ۶۵۶،۶۵۵،۶۵۴ ،۶۳۵،۶۳۴ ،۴۹۰ ،۴۸۷ ، ۴۸۵ ، ۴۷۶ ،۴۶۲ ،۴۵۷ ،۴۴۵ ،۵۲۲ ،۵۲۱،۵۲۰ ، ۵۱۸ ،۵۱۲ ،۴۹۹ ،۴۹۲ ،۴۹۱ ،۵۳۳ ،۵۳۲ ،۵۳۱ ،۵۲۹ ،۵۲۶ ،۵۲۵ ،۵۲۴ ،۵۴۶،۵۴۵ ،۵۴۴ ،۵۴۱ ، ۵۳۸ ،۵۳۷ ، ۵۳۵ ،۵۶۲،۵۶۱،۵۶۰، ۵۵۸،۵۵۶،۵۵۳،۵۵۰،۵۴۸ ،۶۰۳ ،۵۸۳ ،۵۷۷ ، ۵۷۶ ، ۵۷۲ ،۵۷۰ ، ۵۶۸ ،۶۶۸ ،۶۶۴ ،۶۹۵ ، ۶۳۸ ،۶۳۵ ،۶۱۳ ،۶۱۱ ، ۶۰۹ الد 7642 ،۶۹۳ ۲۸۴ ،۲۸۱،۲۷۸ پیشاور پلاسی.بھارت ۴۳۳ الله پلیٹو.نائیجیریا کی ایک سٹیٹ پنجاب (پاکستان) ۱۸۷،۱۸۶،۱۹۵،۱۴۸،۱۱۹،۲۲ء
۶۸۴ ،۶۸۳،۶۸۱،۶۸۰،۶۱۴ ،۶۱۳ ،۶۱۲ ،۵۹۷ ۷۰۵،۶۹۸ ،۶۹۳ ۵۷۴ ۶۵۱۶۵۰،۶۳۲،۳۳۸،۳۱ ۵۸۱،۲۳۳،۲۲۲،۲۱۷ ،۱۷۰ ۷۹،۷۸ ۱۴۰،۱۳۱ جمشید پور.بہار جموں جنجا.یوگینڈا جنوبی افریقہ جنوبی امریکہ جنیوا جورو.سیرالیون ۱۳۵ جوس.نائیجیریا کی پلیٹوسٹیٹ کا صدر مقام ،۴۹۶ ۲۳۳ ۲۹۵ ۲۷۴ ۲۹۵ ۵۳۷،۳۲۵،۲۹۴ ،۲۷۴ ،۲۲ ۵۲۰ ۵۹۲ چاؤ ۲۱ ۷۸،۵۳ ۴۰ ۷۰۵،۷۰۲،۶۹۵ ۶۵۵،۶۳۵ ۶۵۴ ۶۸۷،۵۸۲ ۱۳۸ تهران تھر پارکر تیما پور.بھارت ٹا ویٹا.کینیا طبورہ - تنزانیہ لڑکی دیکھیں ترکی ٹرینیڈاڈ ٹمبوڈوں.سیرالیون ٹوپی ٹورونٹو ٹوکیو ۲۸۴ ۶۳۳ ،۶۳۲،۶۲۱،۶۲۰ ، ۵۸۴ ،۵۸۲ ۶۴۶ ۲۳۳ ،۳۱ چک ۳۹ ڈی بی چک جھمره چک ۳۹ ڈی بی ۲۹۸ چک ایمر چھ کشمیر چمبہ.بھارت چنتہ کنٹہ.بھارت چنیوٹ چوہے.تنزانیہ چھمب جوڑیاں چیکوسلا و یکیا چیکولے(Chikole).تنزانیہ چیبومبو.یوگینڈا چین ۶۳۶ ۵۴۸،۵۲۹،۲۹۸،۲۹۷ ، ۱۲ ،۱۳۱،۱۳۰،۹۴ ،۹۱،۹۰ ۲۸۴ ،۵۹۷،۵۹۲ ٹو گولینڈ ٹیچیمان.غانا ٹیلی چری.بھارت ٹیکسلا ٹیورن.اٹلی ،۶۴۵،۶۴۴ ،۶۴۳ ،۵۹۶،۲۳۰،۳۱،۳۰ ۶۷۴،۶۶۸،۶۴۶ ۶۳۸ ۶۶۷ ،۲۳۳ ،۲۱۳،۲۱۱۰ ۱۳۴ ، ۵۶،۵۴ ،۵۳۸ ،۲۵۰،۲۳۷ ،۵۸۵،۴۹۹،۴۹۴ ،۴۹۲ ،۳۲۷،۳۲۵ جاپان جارج ٹاؤن جاوا، مشرقی جرمنی
۱۳۴ ۶۹۹ ۳۲۱،۲۹۵،۲۸۲ ۲۷۴ ڈاڈر ڈائمنڈ ہاربر کلکتہ ڈسکہ ڈنگا ضلع گجرات ڈنمارک ۵۰، ۶۱،۵۸ ، ۲۱۱ ، ۲۲۹،۲۱۳، ۳۶۶،۲۳۳، ۶۹۹ ۲۸۴،۲۷۸ حاجی پور.بھارت حافظ آباد حجاز ،۲۶۱،۲۶۰،۲۵۹،۲۵۸ ،۲۵۳ ،۲۵۲،۲۵۱،۲۵۰ ۲۶۴،۲۶۳،۲۶۲ ۷۰۱۶۹۶ ۲۴۷ ،۶۷۸،۶۱۴ ،۶۱۲ ،۵۹۷،۵۹۲ ،۵۸۵،۴۷۵ ،۳۶۹ ۶۸۰،۶۷۹ ۵۴۴ ۲۳۳ ۶۳۲،۵۸۳،۵۸۲ ۲۷۵،۲۷۴ ۱۰۵،۱۰۲ ۷۰۲ ڈوٹومی (Ndutumi) - تنزانیہ ڈھوڈک ڈھومی ڈیٹن.امریکہ ڈیرہ اسماعیل خان را برٹس فیلڈ.لائبیریا راٹھ.بھارت را جوری - کشمیر راولپنڈی را کچور.بھارت ۵۵۸،۵۵۶،۵۱۵،۴۵۵،۲۷۴ ،۲۶۹ ۶۹۵ ریوه ۱۵، ۱۶، ۱۷ ، ۲۲ ، ۲۴، ۵۳،۵۲،۵۱،۳۷،۳۵، ،۱۶۱،۱۶۰،۱۴۳ ، ۱۲۰،۱۱۹،۱۰۶،۷۶،۷۵،۶۷ ،۵۷ ۲۷۸ ۵۹۳،۵۹۱ ۳۳۴،۲۷۴ ۳۲۱،۲۹۵ ۶۸۹ ¿ ۲۷۸ ۵۴۳،۴۷۳ ،۲۶۲،۳۵۶ ۳۲۱ حیدرآباد حيفا خانپور خانیار، محلہ سرینگر خانیوال خوشاب دار السلام دریائے اردن کا مغربی کنارہ مشق دنیا پور دہلی دیپالپور دیو بند ۲۲۶ ، ۳۹۷، ۴۲۸ ، ۴۳۷، ۴۹۹،۴۹۸،۴۳۸
۲۳ ۱۷ تا ۱۸۰، ۱۸۲ ، ۱۸۳ ، ۱۸۷ ، ۱۹۲ ، ۱۹۹، ۲۰۸، ۲۱۳، ۲۲۴، ۲۶۶ ، ۲۶۹، ۲۷۰ تا ۲۷۳، ۲۷۵ ،۲۹۹،۲۹۳ ،۲۸۹،۲۸۸،۲۸۵،۲۸۴ ،۲۷۹،۲۷۷ ۳۲۵،۳۲۴ ،۳۲۲ ،۳۲۱،۳۱۳ ،۳۱۲ ،۳۰۹،۳۰۴ ۳۲۶ ۳۲۸ ۳۲۹ ۳۹۹ ،۵۳۵،۵۳۴،۵۲۷ ،۵۱۹ ،۵۱۷ ، ۴۶۰ ، ۴۵۹،۴۵۶ زائرے زیمبیا ۶۳۰ ۶۳۲،۶۳۱،۲۳۴ زیورک ، زیورچ ۵۸۵،۲۱۳،۷۹،۷۸،۵۵،۵۴، ۶۱۴ س سالٹ پانڈ (غانا) ۶۶۵،۶۶۲،۶۲۰۹۹٬۹۸،۹۷ ۶۹۰ ۶۲۲ ۲۷۸ ۲۸۲،۲۷۸ ۱۳۸ ۶۵۲ ۳۳۵،۲۸۴،۲۷۴ ۶۲۴ ،۵۸۶ ،۵۸۰ ، ۵۷۶،۵۵۱ ، ۵۳۸ ،۵۳۷ ،۵۳۶ ،۶۳۱،۶۲۶،۶۱۲ ،۶۱۱،۶۰۹ ،۶۰۵ ، ۶۰۲ ،۶۰۱ ،۵۹۰ سامبولا منجی سان فرانسکو سانگره سانگلہ ہل ۷۰۹ تا ۷۱۴ سانوے (لائیپر یا) سانو یا.لائبیریا ساہیوال ساؤتھ افریقہ دیکھئے جنوبی افریقہ ساؤتھ ہال - لندن سپین ۱۱۷ ، ۱۱۸ ، ۲۲۲، ۲۲۵، ۵۹۲، ۶۲۵،۶۲۳،۶۱۲، ۷۰۹،۶۸۳ ،۶۷۴،۶۷۳،۶۲۶ ۶۷۸ ۶۶۷ ۲۷۵،۲۷۴ 2+1 ۲۷۸ ۶۷۶۶۰۶۷۵،۵۴۵ ،۷۷۰،۶۹۷،۵۹۳،۵۹۱ ۷۰۵،۷۰۲ ،۷۰۱ سٹاک ہولم سرا ویلا.انڈونیشیا سرگود با سر گوڑ.بھارت سرحد سری لنکا سرینگر سری نگر سسلی، جزائر ،۶۸۸،۶۸۷،۶۸۵ ،۶۶۹ ،۶۵۷ ،۶۵۶۰۶۴۲ ،۶۳۹ ،۶۹۲ رحیم یارخان ۲۷۸ رڈ کی.بھارت رشی نگر.بھارت رگوا.رگوا 4..4..۷۰۳ روز ہل.ماریشش روس ۵۲۹،۴۹۵،۴۹۴ ،۲۵۹،۲۲۹،۶۳ ،۳۰،۱۰ روڈہ ضلع خوشاب ۲۹۵ روانڈا روکو پور ( سیرالیون ضلع کا مبیا) ،۱۴۰،۱۳۸،۱۳۲ ۴۳۴ روم رومان (اندھرا ).بھارت ۷۰۴ ۶۳۰،۲۳۴ ۶۶۰ زائر زا مچلی.ماریشش
۲۴ کاٹون کینیڈا سکاٹ لینڈ سکاچ کارنر ۶۳۳ ۶۷۳،۶۷۲،۵۷۵،۲۳۴ ، ۱۰۰ ۶۶ ،۱۴۰،۱۳۹،۱۳۸،۱۳۳ ،۱۳۲ ،۱۳۱،۱۱۶،۱۱۴ ، ۱۱۲ ۲۲۵ ۶۶۹،۶۶۲،۶۵۱،۶۲۹،۶۲۸ ،۶۲۷،۲۳۳ ۲۸۱،۲۷۸ سیتا گا یا وارڈ.ٹوکیو جاپان ۶۴۶ سکندر آباد ۶۰۴ ،۶۹۶۰۶۹۵ سینیگال ۲۳۳ ،۱۳۵،۱۳۴ سکینڈے نیویا دیکھئے اسکنڈے نیویا سلا گا.غانا ۱۳۷ ش 2+1 L..ΔΙ ۲۳۴ ۶۱۲،۵۸۱،۱۷۰ ۶۹۷ ۲۷۴ ۶۳۶ ۳۲۲ ۷۰۴ ،۷۰۰ ۲۷۴ ۵۷۰،۲۳۳ ط،ظ سعودی عرب ۲۲۶ ۲۲۸، ۷ ۲۳ ، ۲۳۹ ، ۲۴۲ ، ۲۴۲۴، شاستان کوٹہ.بھارت شاہ جہانپور.بھارت شگاموں.نائیجیریا شمالی آئرلینڈ شمالی امریکہ شنکرن کو تیل.بھارت شورت.بھارت شورکوٹ ،۳۱۹،۳۱۶،۳۱۵ ،۲۵۹۰۲۵۳ ۲۵۲،۲۵۰،۲۴۸ ۶۳۸،۵۷۵،۵۷۴ ،۵۷۳ ،۵۷۱،۲۴۸،۳۶۲ ۳۹۳،۳۶۲،۲۷۸،۱۵۹ ۶۷۵،۶۷۴ ۲۶۹ ۶۶۴ ۶۹۸ ۷۰۵،۷۰۱ ۶۲۰،۱۳۰ شینگا.یوگینڈا شیر شاہ کراچی شیموگہ.بھارت ۶۷۰،۶۶۹۰۸۱،۸۰ ५१५ ۶۱۲،۵۸۵،۷۹،۵۷،۵۵،۵۴ سندھ سنگاپور سوات سوالا.غانا سورو.بھارت سونگھڑا.بھارت سویڈ رو.غانا سوڈان سونگڑہ.اڑیسہ سونگیا.تنزانیہ سوئٹزرلینڈ سویڈ رو.غانا کے سینٹرل ریجن میں واقع ایک شہر صادق آباد سویڈن ۲۱۱، ۲۲۲، ۵۹۷،۵۸۵،۵۷۹،۲۳۰، ۶۱۲، صومالیہ ۶۸۵،۶۷۹،۶۷۸ ،۶۷۷ ،۶۶۵،۶۱۴ ۷۰۰ سہار نیور.بھارت سیرالیون ،۱۱۱،۱۰۹ ، ۱۰۸ ، ۱۰۷ ، ۱۰۶ ، ۱۰۱ ،۷۵،۸
۲۵ طائف سعودی عرب ظہیر آباد عارفوالہ ع ۴۷۳،۲۵۲ ۷۰۴ V7A عرب ممالک ۲۲۹، ۵۵۰،۵۴۹،۵۴۸،۴۹۸،۳۶۲، فلپائن ۳۱ فلسطین ۲۵۱،۲۳۸، ۲۵۲، ۴۸۶،۴۷۲، ۶۶۹،۵۹۲، bvh فیرافینی.گیمبیا فومینہ.خانا فیصل آباد دیکھئے لائلپور ۶۳۸ الله ق قادیان ۲۰ ، ۹۹،۲۲، ۳۸۹،۲۰۹، ۴۶۶،۴۶۲، ۴۹۲، ۶۸۶،۶۶۵ ،۷۰۳ ،۶۹۴ ،۶۹۳ ،۶۶۷ ، ۵۱۲ ،۵۰۷ ، ۵۰۰ ، ۴۹۹ ۷۱۲ غانا ۷۵،۸، ۹۱،۹۰،۸۸ ، ۹۲، ۹۴، ۹۹، ۹۷، ۹۸، ۹۹، ، ۱۲۹،۱۲۸،۱۱۹ ،۱۱۶،۱۰۷ ، ۱۰۶ ۱۰۲ ، ۱۰۱ ، ۱۰۰ ۲۹۵ ۶۲۴ ۶۶۰ ۶۴۲ ۱۲۳ ۶۴۲ ۷۰۵،۷۰۰ ۳۱ ۱۳۲ قائد آباد ضلع خوشاب قائد آباد قرطبہ.سپین کا تغ بورن.ماریشش کا ڈونا.نائیجیریا کا عور.گیمبیا کالا بار.نائیجیریا کالیکٹ.بھارت کانگو کا مبیا.سیرالیون والد والدا اله الله الله 7 الله الله ا الله.،۶۲۸،۶۲۰،۶۱۹۰۶۱۲ ،۲۴۱،۲۳۳،۲۲۵،۲۲۴ ،۶۶۲،۶۵۳،۶۵۲ ،۶۵۱،۶۵۰،۶۴۹،۶۴۸ ،۶۴۱ ۶۶۵،۶۶۴،۶۶۳ ،۶۶۲ bvh 1+7 ۲۹۵ ۶۹۲ ،۶۹۱،۶۹۰،۲۲۳ ،۸ ۵۴۸،۴۹۴،۲۳۳ ،۲۲۲،۲۱۷،۳۰ الدالله الدالله ٧٥٦ غزه فتح گڑھ فجی فرانس فرنگی محل فری ٹاؤن ۶۲۸،۱۳۹،۱۱۴ ، ۱۱۲ ، ۱۱۰ ، ۱۰۹ فرینکفورٹ ۵۹۷،۵۹۶،۲۱۳،۷۹،۵۴،۵۳، ۶۱۲، ۶۸۳ ،۶۸۱،۶۸۰،۶۱۳ کانو.نائیجیر یا ۸۶، ۱۳۵،۱۰۴،۸۷ ، ۱۳۷، ۱۳۸ ، ۶۴۰ کیا بیر فلسطین ۶۹۰،۶۸۹،۲۴۷
۶۳۰ کو نیگان.انڈونیشیا کیٹا نگا.زائرے ۲۶ ۱۳۸ ۶۴۲ کبالا.سیرالیون کراس ریور.نائیجیریا کشمیر ۱۹۵ ، ۱۹۶ ، ۱۹۷ ،۲۰۶،۲۰۲،۲۰۱،۲۰۰،۱۹۹، کیلگری.کینیڈا ،۵۹۳ ،۵۹۱،۵۲۰،۴۸۷، ۴۸۶،۳۸۸،۲۴۶ کینا گا.زائرے ۶۳۳۶۲۲،۶۲۱ ۶۳۰ کراچی ۶۶،۵۳،۵۲، ۴۲۶،۳۷۵،۳۲۱،۱۱۹،۷۸، کینیا ۱۸ ، ۶۵۶،۶۳۶،۶۳۵،۶۳۴،۵۷۰،۲۳۴، ۶۹۰ کینیڈا ۸، ۱۲، ۲۱۷، ۲۳۰،۲۲۲، ۵۸۲،۵۸۰،۲۳۳، ۶۳۴،۶۳۳ ،۶۳۲،۶۲۱۶۲۰۰۶۱۲ ،۵۸۵،۵۸۴ ۶۳۶ ۶۳۵ ۶۳۰ ۶۳۰ ۶۲۸ ۲۷۹،۲۷۸ ۶۵۱ ۶۹۴ ۶۵۶ کیتو بو.یوگینڈا کیسا.کینیا ۶۱۱،۵۸۰،۵۷۶۰۵۴۸ ،۵۱۶،۵۱۵،۴۵۱ ۶۳۵ ۲۷۸ ۶۵۷،۵۷۴،۵۷۱ ۶۹۷ ۵۵۶ کیسا نسانی.زائرے کسائی.زائرے ۲۸۴ کسوموں.کینیا کمالیہ کمپالا.یوگنڈا کنی پوره کوٹ لکھیت کوئٹہ کلکتہ ۴۹۶، ۷۰۱،۶۹۹،۶۹۴، ۷۰۲، ۷۰۵،۷۰۴ کوریل - کشمیر کماسی.غانا ۹۰، ۹۳۹۲، ۹۴، ۹۶، ۱۳۹،۱۱۱،۹۷ ،۶۱۹ کیلا ہوں.سیرالیون ۶۶۴ کمبل پور ۲۷۴ کیپ ماؤنٹ کا ؤنٹی.لائبیریا کیتھا.بھارت کیٹویو.تنزانیہ کیٹوگو کیرلہ ( کیرالہ ) بھارت ۶۹۳، ۷۰۱،۷۰۰،۶۹۸، ۷۰۵،۷۰۴ ۳۹۸ ۶۶۷ ۳۲۱ ،۷۰۳ ۲۵۰،۲۲۶،۵۶ ۶۱۵۸،۵۷ ۶۱۹،۱۲۹ ،۷۰۳ ۶۶۱،۶۶۰ کیرنگ.بھارت ۷۰۱،۷۰۰،۶۹۶،۶۹۵، ۷۰۲، ۷۰۵،۷۰۴ ۲۳۳ کیمرون ۶۷۶۰۶۷۵ کو ہاٹ کوه طور کو ہبہ.انڈونیشیا کوٹلی کوئیں.برکینا فاسو کویت کوپن ہیگن.ڈنمارک کو کوفو غانا کوموروز کولمبو
الله 7 ۳۷ ۶۹۲ ،۶۵۷ گوماپوٹسن.غانا گھوڑا گلی.مری گی آنا ، گیانا گیمبیا ۷۵ ، ۱۰۵، ۱۰۶، ۱۰۷ ، ۱۱۶،۱۱۴ ، ۱۱۷ ، ۱۲۲ ، ۲۷ ۵۸۱ 2 +1 واله لله الدله ،۶۲۹،۶۲۷ ،۲۴۶،۲۳۳ ، ۱۳۹، ۱۳۵، ۱۳۴ ، ۱۲۴ ۶۸۸،۶۶۲،۶۵۱،۶۳۸،۶۳۷ ۶۳۰ ۶۵۱ 중국 ۳۲۵ ل لار گو.لائبیریا لال قلعہ دہلی لالیاں لاہور ۲۲ ، ۱۱۹۷۷، ۱۵۹ ، ۲۳۹،۲۳۶،۲۳۰،۱۸۳، ،۲۸۶،۲۷۹،۲۶۱،۲۵۶،۲۴۷ ۲۴۴ ،۲۴۳ ،۲۴۱ ،۴۵۹،۴۲۴،۳۷۴ ،۳۳۵،۳۲۱،۳۰۹،۲۸۸ ۷۰۴ 7hh الله ۷ ۶۶۷ کینیا ۱۸، ۵۷۰،۲۳۴، ۶۵۶،۶۳۶،۶۳۵،۶۳۴، ۶۷۲،۶۶،۶۵ ۶۹۷ ۶۲۸،۶۲۷،۲۳۳ ،۸۱ ،۵۴۰،۵۳۹،۵۱۸،۵۱۵ ، ۴۹۹ ،۴۹۶،۴۹۴ ،۴۹۳ ۲۴۶ ،۵۷۱،۵۸۹،۵۶۰۰۵۵۶،۵۵۳،۵۵۲،۵۵۱،۵۴۳ ۷۱۲،۶۰۸ ،۶۰۷ ،۶۰۵ ،۵۹۹،۵۷۶ ۶۳۵ ، ۱۳۸،۱۲۱،۱۰۷ ، ۱۰۴ ، ۱۰۳ ، ۱۰۲ ،۷۵ ۶۶۲،۶۵۳،۶۵۲ ،۶۵۱،۶۴۹،۱۳۹ ،۳۲۱،۲۸۳ ،۲۸۲ ، ۲۷۴ ،۲۷۲ ۲۷۱ ۵۳۶،۵۳۵،۵۱۵،۳۲۳ ۷۰۳ ،۶۹۶ لاموں کینیا لائبیریا لائلپور لکھنو لندن ۷۹،۶۱،۵۰،۱۸ ، ۱۱۷، ۱۱۸، ۲۱۱،۱۱۹، ۲۱۲ ، وله الله ۶۸۵،۶۷۹،۶۱۴ ،۵۸۵ ۶۹۰ کیوبا کیولا.بھارت کیوتو.جاپان کیوں.زائرے گ گٹیاری شریف.بھارت گریسک.انڈونیشیا گساؤ.نائیجیریا گسلا دا.انڈونیشیا گلاسکو.انگلستان گلبرگہ شریف.بھارت گئی گنی بساؤ گوٹن برگ گوجرانوالہ ۲۸۱،۲۷۹،۲۷۸، ۲۸۴،۲۸۳،۲۸۲، ۶۰۷ ،۴۹۳ ،۳۶۶،۳۲۱،۲۹۴ له خالد ۲۷۴ ۶۹۷ ،۴۹۰،۳۹۱٬۳۸۹،۳۸۸ ۷۰۲ ،۲۸۷ گوجرخان گوجره گورداسپور گوری دیوی پیٹ.بھارت
۶۳۴،۶۳۲ ۶۲۴ ۲۸ ۲۶۱،۲۳۴، ۲۶۲، ۲۶۳، ۲۶۵، ۲۷۴، ۴۵۴، مانٹریال کینیڈا ۵۸۵،۵۸۰،۵۷۹،۵۷۸،۵۷۷،۵۷۶،۵۷۵، مانچسٹر.انگلستان ،۵۹۷،۵۹۴،۵۹۳ ،۵۹۲ ،۵۹۱،۵۹۰،۵۸۹،۵۸۶ ما ہوتا (Mahuta).تنزانیہ ،۶۵۹،۶۵۲ ،۶۳۸،۶۲۶،۶۲۴ ،۶۲۰،۶۱۷ ،۶۰۳ لنگی (Lungi).سیرالیون کا ایئر پورٹ لیٹر (Leister) فری ٹاؤن کا علاقہ لیک ڈسٹرکٹ.یو کے لیک ریجن.امریکہ 21.1+2 11.۲۱۲ ۵۸۳ متاما (Mtama) - تنزانیہ مڈویسٹ.واشنگٹن امریکہ محمود آباد مدراس ۵۸۳ ۴۹۷ ،۷۰۳،۷۰۲،۷۰۱،۷۰۰ ،۶۹۶۰۶۹۳ مدھیہ پردیش.بھارت مدینہ منورہ لیگوس ۸۱،۸۰،۷۹، ۱۳۹،۱۳۵،۸۹،۸۸،۸۶،۸۲، ۷۰۵،۷۰۴ ۷۰۳ ۲۳۷ ۶۲۸ ۶۵۹،۶۵۸،۶۳۰،۲۳۴ ۶۸۴ ۲۷۸ ۷۰۲ ۲۷۸ مدینہ ثانیہ.سیرالیون مڈغاسکر مرشد آباد.بھارت مری مری پیڑا.بھارت مرید کے مسا کا.یوگنڈا مسقط ۶۴۲ ،۶۳۹،۶۱۹،۶۱۸،۶۰۴ ۶۸۵ ۶۶۷ لیوبن.پولینڈ ما دورہ.انڈونیشیا ماریشس ۸، ۴۰،۱۸، ۲۳۳، ۶۳۰،۲۳۴، ،۶۵۷،۶۳۶ ۶۸۹،۶۸۶،۶۸۱۰۶۶۲ ،۶۶۱۶۶۰۰۶۵۹،۶۵۸ ۲۳۳ ۶۳۶ مسنگبی.سیرالیون ۶۵۶ مشرق وسطی ۱۳۲ ۲۳۷ مشرقی افریقہ ۲۱۷، ۲۲۲، ۲۲۳، ۵۷۳،۵۷۰،۲۳۳، ۶۵۶،۶۵۳،۶۵۰،۶۳۴ ،۶۳۰ ،۱۶۶،۱۶۵،۱۶۴ ، ۱۵۸ ، ۱۵۷ ، ۱۴۴ ۳۹۳،۱۷۰،۱۶۹،۱۶۸ ،۱۶۷ ۵۲۹ مشرقی پاکستان مشرقی یورپ ۵۹۸،۵۲۹،۲۹۳ ،۵۳ ۷۰۳،۷۰۲ ،۷۰۱،۷۰۰ ۶۸۶،۲۳۳ ،۹۱ ۲۷۸ ۲۷۴ ماریطانیه ماز و مالومے.یوگینڈا ماچے (Machame) تنزانیہ ماسکو مالا بار.بھارت مالی ماموں کانجن مانانوالا
1+7 ۶۵۴ ۷۰۳،۷۰۲ ،۷۰۱ ۳۳۴ ۵۸۴ ++7 ۵۸۱ ۷۰۲ موگراں.بھارت موروگور و تنزانیہ موزنبیق موسیٰ بنی مائنز.بھارت موہیزہ (Muheza).تنزانیہ ۲۹ ۶۶۹،۲۵۹،۲۲۶،۳۰ 7th مصرا.گیمبیا مکه مکرمه ۱۲، ۱۵۴، ۱۹۹ ، ۲۲۸،۲۲۷، ۷ ۲۳۸،۲۳، ،۲۵۹،۲۵۸،۲۵۲،۲۵۱،۲۵۰، ۲۴۹ ،۲۴۷ ۲۴۶ ،۲۸۵ ۲۹۴، ۳۳۹،۳۰۲، ۴۷۳، ۴۷۷ ، ۵۰۶،۴۹۸ میرک ضلع اوکاڑہ مظفر آباد مظفر نگر.بھارت ۲۷۸ ۷۰۲ میڈیسن ( نیوجرسی) میسور سٹیٹ.بھارت میکسیکو مغربی افریقہ ۷۵ ۸۶،۸۴،۸۰، ۸۷، ۱۰۱،۸۹، ۱۰۳، میلا پالم.بھارت ناروے ۵۹۷،۵۸۵،۲۳۰،۲۲۲، ۶۱۶،۶۱۵،۶۱۲، 77h3V7367h' Vh ۶۴۶ ۲۳۳ نا گویا.جاپان نامبولا وا پا سیالا.سری لنکا نائیجر نائیجیریا ۸۱،۸۰،۷۹،۷۵،۸، ۸۲، ۸۴،۸۴،۸۳، ، ۱۳۵،۱۱۶،۱۰۷ ، ۱۰۴ ، ۱۰۱ ،۹۰ ،۸۹ ،۸۸ ،۸۷ ،۸۶ ۰۵۷۹،۳۸۰،۲۳۳ ،۲۲۵ ، ۱۷۴ ، ۱۳۹،۱۳۸ ،۶۴۱،۶۴۰،۶۳۹،۶۱۹ ،۶۱۸ ،۶۱۷،۶۱۲،۶۰۴ ۶۶۲،۶۵۱،۶۴۸۰۶۴۷،۶۴۲ 6+7 ۲۶۳،۲۵۸،۲۵۰،۲۳۸ ۶۳۶ الله الله الله له الله ۷ الله له والله لله والله له الله الله ،۵۹۴ ،۲۳۳ ،۲۲۳ ،۲۲۲،۲۱۷ ، ۱۴۳ ،۱۴۲ ،۱۴۰ ،۶۵۱،۶۵۰،۶۴۹،۶۴۸ ،۶۳۹،۶۳۱،۶۱۸ ،۵۹۷ ۶۶۳ ،۶۶۲ ،۱۵۰،۱۴۹،۱۴۷ ۱۴۶ ۱۴۵،۳۶ ۳۹۳،۱۷۱،۱۶۹،۱۶۷ ،۱۵۸،۱۵۷ ۶۵۴ ۶۷۵،۶۷۴،۶۶۸،۲۴۶ مغربی پاکستان ملاوی ملائیشیا، ملیشیا ملتان ۲۷۱،۲۶۹ ، ۲۷۴، ۳۱۰، ۴۳۸،۳۲۳، ۴۴۴، ۴۹۶۴۴۵ ۶۳۶۰۶۳۵ ممباسہ منا.نائیجیریا منڈی بہاؤالدین الله ۷ ۵۱۵،۲۷۸ | نتھیا گلی نجد منروویا.لائبیریا کا دارالحکومت ۱۰۲، ۶۵۲،۶۵۱،۱۰۴ نزوئیا.یوگینڈا لله الله منگوره موائزہ.تنزانیہ
۷۱۰،۵۹۸،۵۸۴ ،۵۸۳ ،۵۸۲ ۵۳ ۶۴۸،۱۳۶،۹۷ ۶۸۵ نیو یارک نیورمبرگ.جرمنی ،۶۲۲،۵۸۵،۵۸۴ ،۵۸۲ ،۵۸۱،۵۸۰ ۶۷۰،۶۲۴ وا (غانا) وارسا.پولینڈ واشنگٹن ۳۲۱ ۶۳۳ ۶۵۴،۶۳۵ ۵۸۴ نصیر ضلع گجرات نمبو (Namtumbo) - تنزانیہ نواسکوشیا.کینیڈا نیرولی نیگومبو.سری لنکا نیوالا (Newala) - تنزانیہ نیوجرسی.امریکہ
۳۱ الدین قرآن کریم تفسیر کبیر - از حضرت الصلح الموعود - جلد ۸ کتابیات الدر المنثور في التفسير الماثور، مصنف جلال السيوطي، الجزء الخامس، دار الكتب العلمیہ.بیروت کتب حدیث فروع کافی کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام و روحانی خزائن جلد ۲، ۳، ۵، ۸، ۱۲، ۱۳، ۱۶، ملفوظات جلد پنجم ا مجموعہ اشتہارات جلد اول ۲۲ ،۱۹ ،۱۷ صحیح بخاری جامع ترمذی صحیح مسلم سنن ابی داؤد مسند امام احمد بن حنبل موطا امام مالک مشكوة مترجم، ناشر مکتبہ رحمانی اردو بازار.لاہور مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح للعلامة الفاضل والفهامة الكامل المرحوم برحمة ربه تذکرہ.ایڈیشن ۲۰۰۴ء فتاوی مسیح موعود ر انوار العلوم جلد ۶ و ۸ لله خطبات ناصر جلد او ۳تا۷ ہد مشعل راہ حصہ دوم شائع کردہ: مجلس خدام لا احمد یہ د محضر نامه، ناشر اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصرہ از حضرت امام جماعت احمدیہ، ناشر نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ حیات ناصر مصنفہ محمود مجیب اصغر الباري على بن سلطان محمد القارى الجزء الخامس شہدائے احمدیت.ناشر طا ہر فاؤنڈیشن ربوہ البيهقي في شعب الایمان اقبال اور احمدیت مصنفہ شیخ عبد الماجد كنز العمال في سنن الاقوال والافعال رپورٹس مجلس مشاروت تالیف علامہ علاؤالدین علی المتقى الجزء الثالث عشر، ناشر دار الكتب العلمیہ، بیروت لبنان رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء الموضوعات الكبير مصنفه ملاعلی قاری ناشر نور محمد اصح رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۵ء المطابع آرام باغ کراچی رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۶ء
۳۲ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۸ء رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۸ء رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۰ء رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمد یہ ۱۹۷۲ رپورٹ ہنگامی مجلس مشاورت جماعت احمد یہ مئی ۱۹۷۳ء رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۸۰ء دیگر کتب باسفورس یونیورسٹی، استنبول.ترجمہ ڈاکٹر نثار احمد اسرار سنگ میل پبلیکیشنز لاہور ۱۹۹۱ء تحریک ختم نبوت جلد سوم،مصنفہ اللہ وسایا صاحب، ناشر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان، جون ۱۹۹۵ء تحذیر الناس ، مصنفہ مولانا قاسم نانوتوی صاحب قاری پریس دیو بند آثار القيامة في حج الکرامہ مصنفہ نواب صدیق حسن خان ناشر احمد یه کتابستان حیدر آباد مطبع شاہجہان بھوپال الصراط السویٰ فی احوال المهدی مصنفہ مولوی سید محمد سبطین السرسوی ، ناشر مینجر البرہان بکڈ پولا ہور اقتراب الساعة ، مطبع مفید عام آگرہ، مصنفہ نواب صدیق حسن خان الجہاد فی الاسلام ، مصنفہ ابواعلیٰ مودودی صاحب، ناشر ادارہ ترجمان القرآن دسمبر ۲۰۰۷ ی تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان جائزہ مصنفہ خواجہ محمد احمد صمدانی، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور ۲۰۰۴ جائزہ ، مصنفہ جسٹس صدانی، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز ہ حسام الحرمين على منحر الكفر والمين ید حیات چہاردہ معصومین مولفه سید ذیشان حیدر جوادی حیات عثمانی ،مصنفہ پروفیسر محمد انوار احسن شیر کوئی، ناشر مکتبہ دار العلوم کراچی اليواقيت والجواهر فی بیان عقائد الاكابر الجزء ذوالفقار علی بھٹو ، ولادت سے شہادت تک ، الاول ناشر دار احياء التراث العربي موسسة مصنفہ سجاد علی بخاری ناشر فکشن ہاؤس ۱۹۹۴ء رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ التاريخ العربي بيروت اور لائن کٹ گئی ، مصنفہ کوثر نیازی ، جنگ پبلیکیشنز فروری ۱۹۸۷ء ی بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن ، مصنفہ کرنل رفیع الدین، ناشر جنگ پبلیکیشنز یه روز نامچه مرتبه افضال ربانی سرور غریزی.فتاوی عزیزی جلد اول.اردو ترجمہ باہتمام محمد فخر الدین.فخر المطابع لکھنو سزایافتہ سیاستدان ، مصنفہ مرتضی انجم، ناشر دار الشعور لاہور سوانح احمدی ، مولفہ مولوی محمد جعفر تھا میسری، جد تاریخی قومی دستاویز ۱۹۷۴ء ، ترتیب و تدوین اللہ وسایا، صوفی پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ مینی منڈی بہاؤالدین ناشر عالمی مجلس ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان.سیف چشتیائی مصنفہ مہر علی شاہ صاحب جنوری ۱۹۹۷ء تحریک خلافت تحریر ڈاکٹر میم کمال او کے، ہمدردسٹیم پریس راولپنڈی طبقات ابن سعد جلد اول، ناشر دار الاشاعت کراچی
۳۳ ۲۰۰۳ مد عرفان شریعت مرتبہ مولوی محمد عرفان علی صاحب افادات شیخ الحدیث مولاناسلیم اللہ خان مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی، ناشر مکتبہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی الناشر سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ ڈجکوٹ روڈ لائلپور کشف الباری عمانی صحیح البخاری جلد دوم ، افادات شیخ عقائد مجدديه المسمى به الصراط السوى ترجمہ عقائد تور بشی مصنفہ علامہ شہاب الدین تو ریشی ناشر اللہ والے کی قومی دوکان فتاوی رشید یه کامل مبوب، مصنفه رشید احمد گنگوہی، ناشر محمد سعید اینڈ سنز فتاوی نذیر یہ جلد سوم الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ناشر مکتبہ فاروقیہ کراچی مجموعه تقوية الايمان مع تذكير الاخوان مولفہ علامہ شاہ محمد اسمعیل رحمتہ اللہ علیہ، ناشر نور محمد اصح المطابع و کارخانه تجارت کتب آرام باغ کراچی مجموعة الفتاوی از مولوی عبد الحی فرنگی محلی ناشر سعید کمپنی کراچی مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم مصنفہ ابو الاعلیٰ فتاوی عثمانی از مفتی محمد تقی عثمانی ، ناشر مکتبہ معارف القرآن مودودی، ناشر دفتر ترجمان القرآن.در الاسلام.کراچی فتاوی عزیزی از مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، ناشر سعید کمپنی کراچی جمالپور متصل پٹھانکوٹ.بارسوئم مقالات سرسید حصہ نهم مقدمہ بہادر شاہ ظفر مصنفہ خواجہ حسن نظامی صاحب فتاوی هندیه ترجمه فتاوی عالمگیر یہ جلد سوم ترجمہ سید امیر علی * مرزائیت نئے زاویوں سے مصنفہ محمد حنیف ندوی ناشر سراج الدین اینڈ سنز لاہور فتویٰ مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خان بحوالہ رسالہ ردالرافضہ باہتمام محمد سعید احمد نقشبندی مکتوبات امام ربانی حضرت مجددالف ثانی، فتوحاتِ مکیه مصنفه محی الدین ابنِ مکتوبات امام ربانی ، حضرت مجددالف ثانی ، حصہ ششم عربی الله عار حمايه دفتر دویم ، باہتمام حافظ محمد رؤف مجددی المجلد الاول الثاني والثالث، ناشر دار صادر بیروت قرة العينين في تفضيل الشيخين مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی، المکتبۃ السلفیہ.شیش محل روڈ لاہور قلائد الجواهر، تالیف محمد بن یحیی التادفی الحنبلی، مطبع شركة مساهمة مصريه کتاب الایمان تصنیف احمد ابن تیمیه ناشر مطبع الانصاری، دہلی كشف الباری عمانی صحیح البخاری جلد اول، مولا نا محمد علی آب بیتی اور فکری مقالات مرتبہ سید شاہ محمد قادری ناشر تخلیقات انگریزی کتب A Book of Readings on the History of the Punjab 1799-1947 by Imran Ali Malik, Published by Research Society of the Punjab 1985 A Man of God, by lan Adamson, George Shepherd Publishers,
۳۴ War, published by Vanguard The Sunni Shia Conflict in Pakistan, by Musa Khan Jalalzai, published by Book Traders ,1998, Zulfikar Ali Bhutto and Pakistan1967-1977, by Rafi Raza, published by OXFORD University Press 1997 اخبارات ورسائل جماعتی اخبارت ورسائل روزنامه الفضل ربوہ مورخہ ۱۵ جولائی، ۱۶ را کتوبر ١٩٣٠ء ۲۸ رمئی ۱۹۴۴ء، ۲۶ / اپریل ۱۹۴۵ء ، ۱۳ نومبر ۱۹۴۶ء ۱۶ جنوری ۱۹۵۸ء ، ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء ۶ جنوری، ۳، ۲۳ مارچ ۱۹۶۶ء ، ۴، ۷، ۸ رمئی، ۳ جون، ۱۰،۲ اگست، ۲۸ رستمبر ، ۱۲ اکتوبر، ، ۱۶، ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ء ۲، ۸، ۱۱، ۱۵، ۲۲،۲۰،۱۹،۱۸، ۲۴، ۳۰،۲۷ جولائی ۲، ۳، ۶، ۱،۸، ۱۶، ۲۶، ۳۱ راگست، ۲، ۳/نومبر ۱۹۶۷ء ۲۲ فروری، ۱۵ / ا پریل، ۲۸ ستمبر، ۲۵ / دسمبر ۱۹۶۹ء ۷، ۹، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۲۱، ۲۲، ۲۴، ۲۵، ۲۶ را پریل ۱، ۵، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۲، ۲۳، ۲۶،۲۴ تا ۳۱ مئی ۲، ۴، ۹، ۲۰،۱۲ جون، ۱۵، ۱۷ جولائی، ۲۶،۲۳ ستمبر ۲، ۲۹، ۳۰، ۳۱ اکتوبر ۱۹۷۰ء ۲۳ ، ۲۴ ، ۲۶ جنوری، ۱۰ مارچ، ۱۶،۱۱، ۲۱، ۲۷، ۲۸ جولائی ۱۷، ۱۹ ء ستمبر، ۸، ۹، ۲۱، ۲۷ اکتوبر ۱۹۷۱ء ۱۱ فروری، ۷ مارچ، ۱/۲ پریل ۱۹۷۲ء ۱۲ جون ۱۵ جولائی ، ۳، ۹، ۲۵، ۲۸ اگست، ۹ ستمبر ۱۹۷۳ء ، ۱۲ جنوری ، ۵ فروری ۱۹۷۴ء Great Britian * Bhutto Trial and Execution, by Victoria Schofield, Published by Classic Mall Lahore * Bhutto Trial Documents, compiled by Syed Afzal Haider, National Comission on History and Culture * Breaking The Curfew, By Emma Duncan, published by Arrow books * If I am assasinated,by ZA Bhutto, published by Classic Lahore * Indian Muslims, A political History, 1858 - 1947, by Ram Gopal, Book Traders Lahore * The Indian Muslims, A Documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli * The late King Faisal, his life, personality and methods of Government by Mariane Alireza The National Assembly of Pakistan Debates, official report, Third seesion of 1974 The Report of Hamoodur Rehman commission of inquiry into 1971
۳۵ ۸ مارچ، ۶، ۵، ۱۸، ۲۰، ۲۱، ۲۳،۲۲، ۲۶ اگست اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۱۰ اکتوبر نومبر، اکتوبر نومبر ۱، ۲، ۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷ ستمبر، ۱۰۷۹/اکتوبر، ۱۷ را پریل ١٨٨٣ء ۱۹۷۶ء ۲۹ جون ۱۹۷۷ئ، ۱۰ مئی ۱۹۷۸ء ، ۵ جولائی ۱۹۷۸ء ۱۴ جون ۱۹۷۹ء ، ۸ /اگست ۱۹۷۹ء ۲۵ فروری ، ۱۲، ۲۸ جولائی ، ۱۱،۱۰، ۲۴، ۲۵ نومبر ١٩٨٠ء یکم نومبر ، ۱۲ دسمبر ۱۹۸۱ء ، جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۸۱ء ۲۱ مارچ ، ۱۸ را پریل ، ۱۲/جون، ۱۹رجون ۱۹۸۲ء ہفت روزہ بدر الحق (ماہنامہ) اپریل مئی ۱۹۷۳ء المنبر ۶ جولائی ۱۹۷۳ئی، یکم فروری ۱۹۷۴ئ، ا تا ۸ مارچ ۱۹۷۴ء، ۲۹ مارچ ۱۹۷۴ء امروز ۲/اکتوبر ۱۹۷۰ئی، ۱۶ ستمبر ۱۹۷۱ء، ۳۰/اپریل ۲۰۱۹۷۳ رستمبر ۱۹۷۴ی، ۵ اکتوبر ۱۹۷۸ ایشیا و راگست ۱۹۷۰ئی ، ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۰ء ۲۷ فروری ۱۹۰۸ ، ۱۱ نومبر، ۲۳ دسمبر ۱۹۶۵ئی ، جلسہ سالانہ نمبر جی ایکسپریس ۲۵ جنوری ۲۰۰۸ء ۱۹۶۵ ۳۱۰ مارچ ، ۷ ، ۱۴، ۲۸ را پریل، ۲۶،۱۲ رمئی، ۱۶۰۹۰۳ د پاکستان ٹائمز ۳۰ اپریل ۱۹۷۳ء ۱/۱۴ اکتوبر جون، ۱۸ راگست، ۱۵ ستمبر، ۲۷ /اکتوبر، ۱۷، ۲۴ نومبر، ۱۵ ۱۹۷۵ء دسمبر ۱۹۶۶ء چٹان ( ہفت روزه) ۲۸ جنوری ۱۹۷۴ئی، ۲۳ مارچ ، ۲۰، ۲۷ را پریل، ۱۸ مئی، ۲۷ جولائی ۲۱ ستمبر، ۲۰، ۷ ۲ جولائی ۱۰ائی ۱۷،۱۹۷۰ راگست ۱۹۷۰ء، ۳۰،۹،۵ نومبر،۷ دسمبر ۱۹۶۷ء ۲۱ دسمبر ۱۹۷۰ ، ۲۳ نومبر ۱۹۷۰ئی، ۲۷ رمئی ۴ جنوری ، ۲۷ جون، ۱۲،۵ ستمبر، ۱۲، ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۸ء ۱۹۷۴ء شمارہ جات جنوری تا دسمبر ۱۹۶۹ی ، ۱۹۷۰ئی، ۹۷۱ائی، ١٩٧٢ء ۱۹۷۳ ، ۱۹۷۴ئ، ۱۹۵۷ئ ، ۱۵ ی ۱۹۷۶ دسمبر ۱۹۷۷ء یکم فروری ۲۹ مارچ ، ۲۶،۱۲،۵ را پریل، ۲۸ جون، ۳، ۴ جون ۱۹۷۴ء قومی ڈائجسٹ جون ۱۹۸۴ء م مساوات ۱۶ ستمبر ۱۹۷۱ء ،۲۶ جنوری ۱۹۷۷ء ۲۶،۵ جولائی، ۲ راگست، ۱۸ اکتوبر ۸ نومبر، ۴ دسمبر ۱۹۷۹ء مشرق یکم مئی ۱۹۷۳ئی ، ۳۰ مئی ۱۹۷۴ئی ۱۵۰ جنوری تا دسمبر ۱۹۸۰ء،۱۹۸۱ئ، جنوری تا جون ۱۹۸۲ء رجولائی ۱۹۷۰ء ،۲۱، ۲۴، ۲۵، ۳۱،۲۷ اگست ۱۹۷۴ئی ، تحریک جدید ۵رستمبر ۱۹۷۴ء جنوری ۱۹۶۹ئی، جولائی ۱۹۷۳ء دسمبر ۱۹۷۹ء نوائے وقت ۸ جنوری ۱۹۷۷ئی ،۳۰،۱۱ پریل ما خالد نومبر، دسمبر ۱۹۸۰ء مصباح دسمبر ۲۸ جنوری ۱۹۷۹ء روزنامه ا ح ۱۱ / دسمبر ۱۹۵۳ء لمصلح، 1 دسمبر ۹۵۳ دیگر اخبارات ورسائل ١٩٧٣ء ۳۱،۳۰،۱۶،۵،۳ مئی ۱۹۷۳ء ، ۱۰،۵،۴، ۱۳، ۱۴، ،۸،۶ ۱۷ جون ائی ۱۱،۱۹۷۴، ۲۹،۲۴ جولائی ۱۹۷۴ئی ،۱، ۲، و ستمبر ۹۷۴ائی ، ۱۷، ۱۸، ۱۹ نومبر ۱۹۷۰ئی، ۳،
۳۶ 1, 2 July 1974,2 July 1974,20 Dec 1978 ✰ Pioneer, April 3, 1973 Plain Dealer, June 9 1974 Post, July 20, 1970 Sunday Times (Nigeria), 12 April Truth, 17,24, April 1970 Times, 19 Feb 1970, 4 July 1970 The Nation (Free Town) 14 June 1973 Unity, 5,14 May 1970 ۸ دسمبر ۱۹۷۰ء ہمدرد ۱۳ نومبر ۱۹۲۷ء انگریزی اخبارات ورسائل Daily Mail, May 5 1970, July 6, 1971 Daily Times, July 18, 1970 Dawn, May 30 1974, 14 June 1974, 1,2, 9, 14, 15 July 1974 Guidance, May& July 1970 Morning Post(Nigeria)14 April 1970 New Nigerian, 15 April 1970 Pakistan Times 31 May 1974,